Misbah Bushra Daud

Misbah Bushra Daud

حُور جہاں بشریٰ داؤد

مصباح نمبر
Author: Other Authors

Language: UR

UR
بزرگان جماعت احمدیہ

لجنہ اماء اللہ کراچی کی ایک سرگرم رکن جو مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نائب امیر کی بیٹی تھیں، 1946ء میں پیدا ہوئیں اور 1997ء میں اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوگئیں۔ سلسلہ کی بے لوث خدمت اور ساتھی لجنات کی تعلیم و تربیت کے معیار کو مزید اونچا کرنے کی شدیدلگن رکھنے والی اس خادمہ کے اوصاف حمیدہ پر مشتمل  مواد کومصباح کے خصوصی نمبر میں جمع کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

احمدی مستورات کی تعلیم و تربیت کیلئے ماہنامہ مصباح ریوه جلد فتح ۱۳۷۲ مش / دسمبر ۱۹۹۳ - شمارہ نمبر ۱۱ ۴۳ پبلشر: شیخ خورشید احمد محترمہ بشری داد تا نمبر ایڈیٹوع محمد اعظم الكثير پرنٹر : قاضی منیر احمد مطبع : ضیاء الاسلام پریس ریوی مقام اشاعت: دفت تا منام مصباح ربود ضلع جھنگ سالانه چنده پاکستان ہم روپے قیمت کی پر چبا هذا آٹھ روپے

Page 2

مصباح ریون جلد 46 ۴۳ 2 ومبر ۱۹۹۳ء ماہنامہ مصباح ربوه شماره راا فتح ۱۳۷۲ش/ دسمبر ۱۹۹۳ د قبولیت عامہ حضرت ابو ہر محمدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل سے کہتا ہے کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے، تو کبھی اس سے محبت کی.اس پہ جبرائیل بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے.پھر جبرائیل ساکنان فلک میں اعلان کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے.پس آسمان والے بھی اس سے محبت کر نے لگ جاتے ہیں.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اہل زمین میں بھی اسے قبولیت عامہ کا شرف بخشتا ہے.اور ہر ایک اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے." رسخالدی كتاب الادب باب المقط من الله ).کچھ عرصہ پہلے ہم سے بچھڑ جانے والی خور جہاں بشری داود بھی ان ہی میں سے ایک تھی جن سے ہر کوئی محبت کرتا ہے وہ اپنی زندگی میں شاید ان ہی حلقوں میں جانی پہچانی جاتی ہو جہاں وہ جماعتی فرائض سرانجام دیتی تھی یا ان جگہوں میں جہاں اس نے تقاریر وغیرہ کی ہوں گی.لیکن اس کی وفات پر تو ساری دنیا کے احمدی احباب ونعواتین نے اس کی وفات کو ایسے محسوس کیا جیسے ان کا اپنا کوئی عزیز ترین دیودان سے سمجھ گیا ہو اور یہ ایک مرنے والے کے لئے بہت عظیم خراج تحسین ہے اور یقیناً بشری اپنے اوصاف کی وجہ سے اس انتزانہ کی مستحق تھی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسے قبولیت عامہ کا شرف بخشا.اللہ تعالیٰ اسے اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل.اور ان کا ہر آن حافظ و ناصر ہو.موت تو بہر صورت ہر ایک کے لئے مقدر ہے لیکن بعض پیارے وجود اپنے پیچھے ٹیم کی ہی بری یادیں چھوڑ جاتے ہیں اور بشریٰ ان ہی میں سے ایک تھی جسے بے وفا زندگی نے ہم سب سے جدا کر دیا.ے پیار کتنا بھی ٹوٹ کر کیجئے.زندگی نے وفا نہیں سیکھی چھوڑ جاتی ہے راستہ میں کہیں > ) ) ) ) ) ) ) )

Page 3

مصباح دیوه لنڈن ۲۹ - ۸ - ۹۳ حضرت امام جماعت احمدیہ الترابع محور جہاں بشری داؤد کو خراج تحسیین عزیزه مکرمه امته الباری ناصر دسمبر ۱۹۹۳ء عزیزہ توری رحمہا اللہ تعالیٰ کے وصال پر آپ کا سسکتا بلکتا ہوا اظہارِ درد موصول ہوا جو اس مضمون پر حرف آخر ہے.اس اظہارِ درد میں کہے ہوئے عموں کے پیچھے ان کے غم بھی قطار در قطار کھڑے دکھائی دے رہے ہیں.اس میں وہ نخواہیں بھی ہیں جو نقطہ تعبیر تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر گئیں اور کچھ تعبیر کی حسرتیں بھی ہیں جیسے کھیل ختم ہونے سے پہلے بسا تھا اٹھائی جائے تو کیفیتیں بے کیفیوں اور بے چینی جھنجھناہٹوں میں تبدیل ہو جاتی ہے.کچھ ویسا ہی منظر حروف کی چلمن سے دکھائی دے رہا ہے.آپ نے تصور کی پریاں روشنائی کے شیشے میں اتار دی ہیں.کاش حوری بھی آپ کا یہ خط پڑھ سکتی.ہر فقرے کے جھونکے سے اس کی شروح احترازہ کہتی.پتہ ہے میں نے کیا دعا کی ہے ؟ اگر روحوں کو دلوں میں جھانکنے کی توفیق مل سکتی ہے تو اللہ اس کی روح کو یہ توفیق بخشے کہ اپنے سب پیاروں کے دلوں میں جھانکا کرے.دل ناصبور کی رگ رگ پھڑکتی ہوئی آپ کی وہ پچیخیں جو دل کے پردے پھاڑ کہ آسکیں کیسے یہ اعجا نہ دکھا گئیں کہ لگتا ہے جیسے فضاؤں کے سینے پر دیئے ہوں.صبر و رضا کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے نہیں اور بے اختیار یہ چیخیں جو ساتھ والے کمرے میں بھی سنائی نہ دیں یسے سات سمندر پار سنائی دینے لگیں.جس دوام پر پیچ و تاب کھاتی ہوئی بھرتی ، تڑپتی ، سر ٹپکتی اول کی آگ سے کیسے آپ نے اپنے عزم تسلیم و رضا کو بچا لیا کہ آنے تک نہ آنے دی.کیسے کی آنکھوں کے سامنے ہر شعلہ فغاں سسکیوں میں ڈھل ڈھل کر خون دل میں سنسنا ستنا مجھتا رہا.پاک اللہی الہی محبت ہو تو ایسی ہو.لیکن ایک آپ ہی تو نہیں جو حور شمائل خوری کی

Page 4

مصباح دیوه L دسمبر ۱۹۹۳ء دفعہ دلشکن جدائی سے ایسا تر ہی ہیں.شہر کراچی میں آپ جیسی ہزاروں ہوں گی لیکن نہ انہیں شعر کہنے کا ملکہ نصیب نہ تنثر میں اظہارِ درد کا سلیقہ.وہ تو فی الخصام " بھی " غیر مبین “ ہیں.ان کو بھی تو آپ ہی نے زبان دینی ہے.ان کی داستان غم بھی تو آپ ہی کو رقم کرتی ہے.جب دست قدرت گزرتے ہوئے وقت کی مرہم لگا کہ آپ کے جھلائے ہوئے صبر کو ذرا قرار بخش دے اور یہ متلاطم پانی ذرا ٹھہر جائے تو توری کی پاکیزہ یاد کو ایسا دلگداز خراج تحسین پیش کر یں کہ ہر پڑھنے والے کا دل پگھل پگھل کہ آستانہ الوہیت کی جانب دعائیں بن بن کر بہنے لگے.جانے والی کا خیال تو بہت دیر اُن کو بتاتا رہے گا.جو اُس کے ساتے رہیں.مجھے تو پیچھے رہنے والوں کا تم لگ گیا ہے.داؤد اور اُن معصوم بچوں کا غم جن کی بعض پیاری باتوں کا ذکر میری زبان سے سنتی تھیں تو حوری کا دل کھلکھلا اُٹھتا تھا.مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب کا غم تو ایسا دل میں آن بسا ہے جیسے اپنے گھر میں آبیٹھا ہو.ایک ادنی اسی بھی اجنبیت نہیں.آپ نے ٹھیک ہی یاد دلایا ہے کہ یہ فقیروں کے سے غم میرے محسن ہیں جو دل کو ایک شرف عطا کر جاتے ہیں.لیکن بعض تم یہ شرف عطا کر کے چلے نہیں بھاتے بلکہ وہیں ایک گوشے میں دھونی برما کہ بیٹھے رہتے ہیں.اور محض دھیان کی ہو گئیں ہی نہیں بلکہ بعض خطوں کی جو گنیں بھی راگنیں بن کر آتی ہیں اور رات بھر احساس کے دُکھتے ہوئے تار چھیڑتی ہیں اللہ سب پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور میر جمیل کا لامتناہی اجر بھی.والسلام ، خاکسار مرزا طاہر احمد اسیرانِ راہِ مولیٰ کیلئے درخواست کا احباب تمام اسیران را ہ مولی کو اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے آزمائش کی گھڑیاں ڈال دے.انہیں صحت و سلامتی رکھے اور جلد رہائی کے سامان پیدا فرما ( ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) )

Page 5

مصباح دیده 5 در ۱۹۹۳ء محترمہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ ربوہ مکرمہ خور جہاں کنٹری داؤ د صاحبہ بچپن میں ناصرات کے اجتماع پیچہ تقریری مقامون مجھ سے ملنے رات کے وقت آئیں.وہ ایسے وقت میں میں حصہ لیتے ہوئے کراچی سے آئی ہوئی ایک ناصرہ سے آنا چاہتی تھیں جب وہ آرام سے فصیلی گفتگو کر سکیں.میری دوستی ہو گئی.اجتماع کے بعد شام کچھ دیر کے لئے ان کے ذہنوں میں ایک ہلچل تھی.ایک بے قراری تھی.نہیں اس کے ساتھ دفتر مجنہ کے لان میں ٹھہر گئی.اور وہاں ایک تمنا تھی کہ کس طرح وہ لجنہ کے کاموں کو بہتر طور اُس دوست کی باجی سے میری ملاقات دوست کی وساطت پر کر سکیں اور نئی نسل کو دین کے کاموں میں صحیح خطوط سے ہوئی.انتہائی محبت کرنے والی چھوٹی بہن پھر چلا سکیں.اپنے پروگراموں اور کوششوں کا انہوں بہت شفقت کرنے والی.بہت نرمی سے بات کرنے نے ذکر کیا.اور مجھ سے مشورہ چاہتی تھیں میں نے والی ہستی تھی.ایسی کہ اس مختصر سی ملاقات میں بھی ان کی اپنی بساط کے مطابق اُن سے گفتگو کی لیکن حقیقت یہ بھتی محبت کے چشموں کو میں نے پھوٹ پھوٹ کر بہتے ہوئے کہ اُن دنوں ابھی تک میں ذہنی طور پر اپنے صدمے پر قابو محسوس کیا.اور یہی محبت و شفقت میرے دل کو اس نہ پاسکی تھی اور حقیقی معنوں میں پوری ذہنی قوت کے مسکراتے ہوئے چہرے کی طرف کھینچتی چلی گئی.مجھے ساتھے سوچ نہ سکتی تھی.بس لمنے والوں سے بڑی دوست سے بھی زیادہ اُس کی باحی اچھی لگیں.اتنی مشکل کے ساتھ ایک ظاہری تباہ کرتی تھی.چنانچہ ان کے کہ پھر ہمیشہ اُن کے ساتھ ہونے والی یہ ملاقات میرے چلے بجانے کے بعد دل پر ایک بوچھے سا رہا کہ نجانے ذہن میں تازہ رہتی.دوست کی وہ باجی " صور جہاں دہ کتنی امیدوں کے ساتھ آئی ہوں گی اور یہیں انہیں کچھ بھی نہیں دے سکتی تھی.بشری تھیں.بہت سال گذر گئے.میرے دل میں بچپن کی اور پھر جب بھی وہ ربوہ آنہیں ملنے کے لئے آئیں.ہر وقت ہنستا ہے کراتا ، بشاش چہرہ.لجنہ کے یہ نمرم یاد ہمیشہ محفوظ رہی.پھر ایک لیے عرصہ کے بعد بیشتری داؤد سے طاقاتوں کاموں کے لئے ہر وقت مستعد اور پھر جوش جذبہ ا دوسرا سلسلہ میری شادی کے بعد شروع ہوا اور یہ خدمت ان کی رگ رگ سے پھوٹ رہا ہوتا.اتیں اکثر لجنہ کے حوالہ سے ہوتی ہ ہیں.مجھے یاد ہے ا ان ملاقاتوں کے علاوہ لینٹری سے میری ملاقاتیں ڑ کے جلسے کی ایک رات بیشتری داؤد اور نگار ایک اور جگہ بھی ہوتی رہیں.جس کی یاد ہمیشہ مجھے اُن

Page 6

مصباح ربوه 6 دسمبر ۱۹۹۳ ء کے لئے گہرے تشکر کے جذبات کے ساتھ ممنون احسان تخھی تھی کلیوں کا ہار میری آنکھوں کے سامنے ہے کیونکہ رکھتی ہے.ملک سے باہر آتے جاتے کہ اچی ائیر پورٹ میں جانتی تھی کہ ان بے موسم کی کلیوں کو خدا جانے بشری نے کہاں سے اکثر میرا گذر ہوتا.میرا جہانہ آدھی دوپہر کو آنا ہوتا سے حاصل کر کے اپنے پر خلوص جذبات محبت کی عکاسی یا آدھی رات کو بیشتری اپنی کسی نہ کسی اور سائنتی کے کے لئے پر دیا ہوگا.ساتھ ضرور وہاں موجود ہوتیں.ہمیشہ خوشدلی کے ساتھے مسکراتے ہوئے.ایک آدھ دفعہ کسی مجبوری کے باعث د شاید شہر سے باہر تھیں) نہ آسکیں تو اس کے لئے بشری قادیان میں ملیں تو اسی اپنے مخصوص پر خلوص انداز میں ایک تحفہ مجھے دیا.میں بہت حیران ہوئی.اور شرمندہ بھی.یہاں بھی یہ میرے لئے تحفہ اُٹھا لائی ہیں.لیکن ان بہت اظہار افسوس کیا ، ایک مرتبہ مجھے یاد ہے میرا کے شدید جذبات محبت کے سامنے میں انہیں کچھ نہ کہ سکی.جہانہ آدھی رات کو پہنچنا تھا.بہتری کے ساتھ ان کی اور خاموش رہی.چھوٹی سی بیٹی عزیزہ طوبی بھی موجود تھی.کہنے لگیں کہ بشری کا بے لوث ، بے ریاء اور بے پناہ خدمت دین بہت ضد کر کے آئی ہے کہ میں نے ملنے جاتا ہے.رات کا کا جذبہ اور محض للہی جذبات محبت کی یاد ہمیشہ دل کو گداز وقت نیند سے برا حال لیکن صرف ملنے کے شوق میں وہاں کرتی ہے اور کرتی رہے گی.اور یہ یاد ان کے لئے موجود تھی.مجھے اُس پر بہت پیار آیا.اس کا نام بھی اور اُن کے بچوں کے لئے دُعا میں ڈھل جاتی ہے.مجھے پیارا تھا کیونکہ ایک اور طوبی بھی مجھے بہت پیاری ہے.نام سے یاد آیا ان کے پڑے دونوں بچوں عزیزم لجنات کیلئے لائحہ عمل ناصر اور عزیزیم طاہر کے نام بھی مجھے ہمیشہ محبت کے ساتھ یاد رہتے.اگرچہ ناموں کے معاملہ میں میری یادداشت بہت اچھی نہیں ہے لیکن بشری ہمیشہ کچھ اس طرح سے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان کے نام لے کر ان کے سلام بیایہ کے پیغامات دینیکی ارشاد پر عمل پیرا ہو کر اپنے بچوں میں پانچ بنیادی اخلاق پیدا کریں.کہ وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے.بشری کی پر خلوص محبت کی ایک گہری یاد بھی ہمیشہ ہر معاملہ میں سچائی کو اختیار کرنا.میرے دل کو گد گداتی ہے.ایک مرتبہ میں کراچی گئی.ہمیشہ نرم لہجہ اور پاک زبان استعمال کرنا.لجنہ کراچی نے اپنے ایک پروگرام میں بلایا.احمد یہ ہال میں ہمیشہ وسعت حوصلہ سے کام لینے اور ہر پروگرام تھا.وہاں گئی تو بشر کی نے چھوٹی چھوٹی موٹے کی نقصان سے بچنے کی کوشش کرنا.تھلیوں کا ہار مجھے دیا کہ یہ میں خود آپ کے لئے بنا کر لائی.دوسروں کی تکلیف کا احساس کمرہ کے ازالہ ہوں.وہ کلیاں اتنی چھوٹی تھیں کہ ان میں کھلتے کی سکت کی حتی المقدور سعی کرنا.بھی نہ تھی.لیکن ان کی یہی بات مجھے یاد رہ گئی.آج بھی ان ہمیشہ مضبوط عزم اور ہمت سے کام لینا.

Page 7

مصباح ریوه 7 دسمبر ۱۹۹۳ء منظوم کلام حضرت امام جماعت احمدیہ الثانی.بروفات حضرت سید ساره بیگم صاحبہ کر رحم اسے رحیم میرے حال زار پر زخم جگہ یہ درد دل بے قرار پر مجھ پر کہ ہوں عزیزوں کے حلقہ میں مشکل بغیر اس بے کس و نحیف و غریب الدیار پر جس کی حبات اک ورق سوز و ساز ھنی جیتی تھی جو غذائے تمنائے یار پر مقصود جس کا علم و تقی کا حصول تھا رکھتی تھی جو نگہ نگر لطف یار پر حقی ما حصل حیات کا اک سعی ناتمام کائی گئی غریب حوادث کی دھار پر دل کی امیدیں دل ہی میں سب دفن ہو گئیں پائے اُمید ثبت رہا انتظار پر ہاں اسے مغیث سُن لے میری التجا کو آج کر رحم اس وجود محبت شعار پر اُس کے گیارہ بادۂ الفت کی روح پر اس بوستان عشق و وفا کی مزار پر ہاں اُس شہید علم کی تربیت پر کر نیز دول خوشیوں کا باب کھول غموں کی شکار پر میری طرف سے اس کو جزا ہائے نیک دے کر رحم اسے رحیم دلِ سوگوار پر حاضر نہ تھا وفات کے وقت اسے میرے خدا بھاری ہے یہ خیال دل ریش و ندار پر کلام محمود

Page 8

مصباح ریوه سلیمہ میر شہد کی مکنیاں دسمبر ۱۹۹۳ء اگر کسی وقت فنڈز میں کمی کا احساس ہوتا تو عرصہ بارہ سال سے لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کی ٹیم جو ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کہ خپل اپنے عزیزوں اور مخیر حضرات سے عطیات لے کر وقت رہی ہے.حضور نے اسے " فہد کی پیہ خرچ کر نہیں.اسی طرح فنڈ نہ کی کمی سے ضرورت مندون لکھیوں کا خطاب عطا فرمایا.اور انہیں شفقت سے کی داد رسی میں کمی نہ آئی.اپنا محبت بھر اسلام بھجواتے ہیں اور عاجزانہ کوششوں عزیزہ بشری داؤد نے میرے ساتھ پہلے نیند کیٹی پر خوشنودی کا اظہار فرمایا کرتے ہیں اور ایک دفعہ کے پانچے سال ۱۹۸۱ ۰ تا ۱۹۸۶ ء بطور سیکرٹری جنرل دست مبارک سے تحریہ فرمایا.کام کیا مسلسل روڑ میں لگی رہی کہ کس طرح اپنے خدا مرٹیم ورک اور نیک کاموں میں استعمال کو اور حضور کو راضی کرلوں اور حقیقت اور نظم وضبط اس مجتہ کی خاص خوبیاں میں وہ جیت گئی حضرت صاحب نے عزیزہ امتہ الباری ناقر سیکرٹری اشاعت کے نام خط میں بشری دارد کا ذکر ہیں اور مجھے بطور خاص پسند ہیں.اسی فعال ٹیم کی تین پیاری پیاری کار کن ان الفاظ میں کیا ہے : یکے بعد دیگرے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے.- پاکباز ، خدائی احسن و احسان کی مرقع بینی مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں.حضور کے ان الفاظ کے بعد، جس کے حسن پر مر مٹنے کو جانے والی پاک کرو میں حقیقت میں...بھاری اتے دل چاہتا ہے ، کچھ اور لکھنا کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا.اور قائنات کی مکمل تصور تھیں.نظام جماعت کی آج کل بیشتری داؤ د سیکرٹری اصلاح و ارشاد کے طور پر پابندی ان کا شیوہ اور اطاعت و فرمانبرداری ان کا کام کر رہی تھیں.کام کیا کر رہی تھیں جگمگا رہی تھیں.زیور تھا.محترمہ امتہ النعیم حمید رانا صاحبہ اور محترمہ جب سے حضور ایدہ الودود نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ مبارکہ ملک صاحبہ کا تعلق شعبہ خدمت خلق سے تھا.وسلم کے جلسوں کی تحریک فرمائی تھی.مکمل طور پر اس دونوں نے احسن طور پر اس شعیہ کا حتی ادا کیا.ہر یلی جت گئی تھی.کراچی کے ہر کونے ہیں سیرت پاک پر ضرورت مند کی ضرورت کو ہر وقت پورا کرنے کی کما حقہ تقاریر کرتی تھیں اپنے پرائے سب اس کی تقریر کے مداح نتے.اس کی تقریبہ ان تصویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو کوشش کرتیں.

Page 9

مصباح دیوه 99 دسمبر ۱۹۹۳ء اس طرح احاطہ کرتی کہ خدا تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق پیدا ہوتا.اُس کی مہر ادا پر تقویٰ کا رنگ غالب نظر آتا تھا.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کا خوف اس کے اندر محترم یکجا تھا.اشرفی داور صاحبہ کا ایک خط وہ ایک سچی اور پکی داعی الی اللہ تھی.لجنہ کا بیچوں کے نام ٹارگٹ پورا کرنے میں جان کی بازی ہار دی.صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر لجنہ کراچی نے "میرے بے حد پیارے بچو! ناصر، طاہر اور طوبی کتب شائع کرنے کا جو پروگرام بنایا تھا اس میں بیشتر کی اللہ تعالیٰ تم کو ہمیشہ ہمیش اپنی حفظ وامان میں رکھے.داؤد کا ہاتھ نمایاں تھا.اپنے سائے میں پناہ دے.اپنی اطاعت و فرمانبرداری سے تم اسکی جینا شعیر اشاعت کی سیکر ٹر ی عزیزہ امتہ العبادی میں جھکے رہو.ہر آن اس کی سنا تم کو حاصل ہو.اسی کی قاطر ناصر (جو اپنے شعبہ کی آبیاری اپنے بہو سے کہتی ہیں) جیو اور اسی کی خاطر موت کو گلے لگاؤ.کا دست و بازو اور اس کی بہترین مشیر تھیں.سب کبھی بھی میری جان با اس رب کے در سے جدا نہ ہونا کہ سے پہلی کتاب " مقدس وراثہ " کے نام سے شائع ہوئی اس کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں.انتہائی یا نصیب ہیں جو اس کو تھی.وہ بشری داؤد کی تحریمہ کہ وہ تھی.جب تک یہ سلسلہ نہیں پاتے.بد بخت ہیں جو اس کی محبت کو حاصل نہیں کرتے.کتب کا چلتا رہے گا.اس کا کام اور اس کا نام زنده میرے پیارے سے خدا ! تجھ کو تیری عظمت و کبریائی رہے گا اور اس کے لئے صدقہ جاریہ رہے گا.کی قسم تو ان کو کبھی اپنے دامن سے جدا نہ کرنا.انہیں ۲۳ جولائی ۱۹۹۳ء کے خطبہ جمعہ میں پیارے توفیق نہ دینا کہ یہ کبھی بھی تجھ سے تیرے احکامات حضور نے جیسی پیار سے اس کا ذکرہ فرمایا ہے وہ ہمیشہ سے تیری اطاعت سے انحراف کر سکیں اور ان کو ہمیش کے لئے تاریخ احمدیت میں زندہ جاوید ہو گئی ہے.صرف اور صرف اپنے محبوب کی سچی محبت عطا خوش قسمت ہیں اور مبارک باد کے قابل ہیں وہ والدین کرنا.تا کہ یہ اس کونیا میں بھی جنت حاصل کر جنہیں ایسی بیٹی عطا ہوئی جو اپنا اور اپنے والدین کا نام سکیں اور تیری رضا کے عطر سے ممسوح ہوں.یہ دُنیا کے روشن ستارے ہوں اور نبی نوح روشن کی گئی.اس کا انجام بخیر ہوا.اللہ تعالی سے دعا ہے کہ لینہ کراچی کو نعم البدل انسان کے خادم عطا فرمائے.اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھیں اور انہیں نمازہ باجماعت کا عادی بنائیں.طالب دعا بشری دارد

Page 10

مصباح ربوه آنسه شهر ما 10 10 دسمبر ۱۹۹۳ء ما می حضرت امام جماعت احمدیہ الرابع عہد یدارای لجند رہی ہوتیں تو کبھی بیشتری باجی نظمیں اور تقریریں کراچی کو شہد کی مکھیوں کے خوبصورت نام سے یاد فرماتے یاد کروا رہی ہوتیں.قصیدہ اور چہل احادیث یاد ہیں جس پر ہم بجا طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے کروانے کی ایسی لگن اس کے دل میں تھی کہ ہمارے ہیں اور خوشی محسوس کرتے ہیں اگر لجنہ کو اچھی شہد کی حلقہ کی تمام بچیاں اس میں آگے آگے ہوتیں.مکھیاں ہیں تو بشری داؤد ملکہ مکھی تھی.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ناصرات کے یشر کی والدین کی پہلی اولاد ہونے کے ناطے گھر ایک اجتماع کے موقع پر فرمایا شوکت (شوکت گوہر میں خوشیوں کی نویز بنتی اور خوبصورت عادات کی وجہ سے دختر مولوی عبدالمالک خانصاحب) خور جہاں نے تمام خاندان کی آنکھ کا تارا بن گئی اور جاکتی قدمت کرکے بچیوں پر بہت محنت کی ہے " اللہ کے فضل سے جماعت میں بھی ہر دلعزیز ہوئیں.محنت کرنا اس کی فطرت تھی.اجلاس میں دینی ماحول میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے ابتدائی پڑھانے اور تربیت کرنے کے علاوہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ اثرات کے زیر اثر جو شخصیت بنی وہ ایسی بھر پور تھی ہنر سکھاتے اور ہاتھ سے چیزیں بنانے کی طرف کہ پانچویں جماعت میں ہی ناصرات الاحمدیہ کی سیکرٹری توجہ دلا یا کہتی.بہترین کام کرنے والی بچی کو انعام بنی اور اپنے وجود میں ناصرات کے لئے محبت لئے ضرور دینا.اور ہمارا انعام نانا جان کی اس کرسی پر خور جہاں باجی بن گئیں.چھوٹی سی خور جہاں مخفی بیٹھنا ہوتا تھا جو انگریزی حرف S کی شکل میں تھی نشی ناصرات کی قطار کو رام سوامی سے احمدیہ ہال جس پر دو کرسیاں مخالف سمت منہ کئے ہوئے تھیں.تک ہر سہ ہفتہ کا یا کرتی.والدہ یا حلقہ کی کوئی بزرگ ہمیں اُس پر بیٹھنے کی اجازت ملنے پر بہت خوشی ساتھ ہو نہیں اور حور جہاں کے ایک اشارہ پر تمام ہوتی.بیشتری باجی نصیحت کر نہیں.دیکھو بزرگوں نے بچیاں منتظم اور باوقار انداز میں احمدیہ ہال پہنچے محنت کی تھی تو ہم نے یہ سب کچھ پایا جو محنت کرے گا اور ان کے نقش قدم پر چلے گا وہ اس کو سی پر میٹھے گا.جاتیں.مر مفتنہ گھر میں ناصرات کا اجلاس ہوتا گھر ہفتہ کے باقی دن بھی بچیاں آپ کے گھر کسی نہ کسی ناصرات کے جیس مقابلہ میں آپ ہو تیں کسی کام سے آتی کہ ہیں.کبھی خالہ جان قرآن کریم شن دوسرے کے اول آنے کے بارے میں کوئی سوچ ہی

Page 11

مصباح ریده نہیں سکتا تھا.آپ ہمیشہ کہیں نہیں نے جمیلہ باجی دسمبر ۱۹۹۳ء ایران سے واپسی کے بعد آپ کے معاشی حالات رجمیلہ عرفانی صاحبہ اسے بہت کچھ سیکھا ہے.ہمیشہ اچھے نہ تھے ایک روز ناصر د بشری با جی کے بڑے فرزند) اپنے استادوں کا ذکر تعظیم اور پیار سے کیا کہ میں نے آکر پوچھا ! امی وہ با ہر فٹ پاتھ پر ایک مزدور اور کرتیں.اور جب ہم یہ کہتے کہ بشری باجی ہم آپ سے سیکھ بغیر لحاف کے سو رہا ہے اسے ہمیں اپنا کمیل دے آؤں؟.رہے ہیں تو نہایت عاجزی کا اظہار کرتیں.گردن جھکائی آپ نے فوراً اجازت دے دی اور یہ نہ سوچا کہ گھر جاتیں اور کہتیں." نہیں چندا تم میں ہی بہت صلاحیت ہیں تو پہلے ہی گرم کپڑوں کی کمی ہے.رات دونوں بھائی ہے ورنہ مجھے تو کچھ نہیں آتا یہ مکیں تو خود سیکھ رہی ایک کمیل میں سوئے اور آپ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی ہوں.یہ چاند جہاں بھی گیا چمکتا ہی رہا اور اپنے ماحول ر ہیں کہ میرے بچے کے دل میں ضرورت مندوں کی مدد کو منور کرنے میں خوشی محسوس کی.اپنی تمام صلاحیتوں کرنے کا جذبہ موجود ہے.کو خدا تعالیٰ کی عطا جاتا اور سید القوم خادمہم آپ ہمیشہ ہمیں ایسے واقعات سنایا کہ نہیں اور کے مصداق ہر عہدہ کو خدمت کا ذریعہ سمجھا.ہمیشہ تصیحت کرتی.دیکھو بچپن میں بچوں کے دل میں پیدا پھلدار درخت بن کمر زندگی گزاری.ہونے والے نیک جذبات کو ضرور ابھارا کرو.اس سے ایران سے آنے کے بعد جہاں حور جہاں باجی اور شادی کے بعد ایران گئیں تو وہاں جماعت احمدیہ بچہ اچھا انسان بن جاتا ہے ورنہ بڑے ہوتے پر ان لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی.نا مساعد حالات اور زبان اوصاف کا پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے.ناشناسی کے باوجود کام کی دھن میں رہنے کی فطرت نے حلقہ احباب میں بہت جلد اضافہ کیا اور آپ کو جماعت بہت سی باتوں میں معتبر ہو گئیں وہاں آپ کے دل احمدیہ کا موقف بہترین رنگ میں قوم فارس کو سمجھاتے نے عشق رسول اللہ کی تھی چنگاری کو روشن شمع کا موقع ملا شہ سے شنک آپ نے انجان لوگوں بنا لیا تھا.کو انجان ملک میں خدا کی پہچان کروانے کا فرض ادا کیا.پہلے کی خورجہاں کسی تلاش میں تھی مگرینش و وایم پر ایڈ کے پر انشوب حالات میں اپنا تمام سرمایہ اور کی میتری داد کو اپنی منزل پا چکی تھی.وہ بیچی جو کچھ گھر بار چھوڑ کر وطن واپس آئیں مگر ایک لفظ بھی شکوہ کرنا چاہتی تھی اس کی شخصیت نے ایک حقیقی تصویر کا زبان پہ نہ آیا.ہمیشہ کہتیں " میرے مولا تیرا شکر ہے کا رنگ اختیار کر لیا تھا.پھر خدمت کا موقع مل گیا ہے تو اسے قبول کر لے " ایران سے واپسی کے بعد تمدا تعالیٰ نے آپ کو آپ کا خاص وصف انسانیت کی خدمت کرنے کا بھر پور خدمت کا موقع فراہم کیا.حضرت امام جماعت احمدیہ جذبہ تھا ہمیشہ خدا کے حضور وہ چیز پیش کرتیں جس کی الثالث نے آپ کو پانچ رکنی کمیٹی کا ایک ممبر مقرر فرمایا سب سے زیادہ خود ضرورت مند ہوئیں یا جو بہترین چیز اور اپنے دست مبارک سے خوک جہاں بشری کو بشر کی آپ کے پاس ہوتی.داد و تحریر فرمایا.

Page 12

مصباح دیوه ۱۲ 12 دسمبر ۱۹۹۳ء آپ میں کام کرنے کی لگن اور نئے نئے منصوبوں تفسیر پڑھائی.کے ساتھ تربیت کرنے کا ایک خاص خوش تھا.ہر یہ کلاس بھی بعض حالات کی وجہ سے وقت کچھ کر نتے رہنا آپ کی فطرت تھی.ہمیشہ اہل علم ہمارے لئے جاری رکھنا ممکن نہ رہی.اس کلاس کے حضرات سے اسی سلسلہ میں مدد کی درخواست کیا کرہ ہیں.بند ہونے کا آپ کو اس قدر ملال تھا کہ بار بار مرمٹی ۹۸۲اد کو آپ نے میٹرک کے امتحان جب بھی کسی پروگرام کے بارے میں بات ہوتی آپ کے بعد ایک ماہ کے لئے طالبات کے لئے تمہ بلیتی کلاس کتایی میرا مولا ایسا سعیب پیدا کر دے کہ میرے ضلع کی سطح پر لگائی جس میں مکرم مولوی محمد اشرف ناصر آقا کے ہاتھ سے جاری ہونے والی کلاس پھر اپنی صاحب مربی سلسلہ ، مکرم حسین احمد صاحب اور کرم نعیم احمد افادیت سے نمبرات کو فائدہ پہنچا سکے.صاحب کے علاوہ کما چی کی صاحب علم خواتین نے اساتذہ آپ نے اپنی اس خواہش کو اپنے وسائل میں کا کے فرائض انجام دیئے.اس کلاس کا کورس آپ نے رہتے ہوئے یوں پورا کیا کہ عرصہ ایک سالی سے احمدیہ باقاعدہ مرکز سے منظور کروایا.حضور نے ہال میں ہرماہ ایک کلاس بزم امور طالبات کے تحت اس کورس کو بہت پسند فرمایا اور خاص طور پر پڑھانے جاری کر دی میں میں سیرة النبی آپ کا خاص موضوع اور پڑھنے والوں کو خطوط ارسال فرمائے.رہا.اس میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سلسلہ بعض حالات کی وجہ سے ہر سال جاری زندگی کے اُن پہلؤوں کو طالبات کے سامنے اجاگہ کیا نہ رہ سکا مگر بشری باجی کا لگایا ہوا یہ پورا یوں نم بار جو آجکل کے حالات کے مطابق تین جماعت کی ضرورت ہوا کہ اب ہر قیادت میں سال میں ایک بارہ اس کلاس ہیں.اس کلاس میں آپ طالبات کو فیلڈ میں کام کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں بہتری باجی خود بھی لیکچر ضرور دیا کہر میں.کرنے کے طریقے بتا یا کہر ہیں.طالبات کو اختلافی مسائل پر لیکچر دیئے جاتے.ان کے تمام سوالات کے اس کلاس کے کامیاب انعقاد کے بعد تو ہیں جوابات دیئے جاتے جو فیلڈ میں اُن سے کئے گئے تمام سال آنے والے وقت کے لئے آپ منصوبہ بندی ہوں.طالبات سے مختلف عناوین پر مضامین لکھوائے کرتی رہتیں اور خدا تعالیٰ نے ایسا فصل کیا کہ فروری جاتے اور بہترین مضمون کلاس میں شنایا جاتا.نامساعد ۱۹۲ء میں آپ نے حضور کی اجازت حالات کے با وجود حاضری ۶۵ طالبات سے کبھی کم نہیں سے مربی سلسلہ مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب کی ہوئی.اس کلاس میں کتب حضرت بانی سلسلہ پڑھائی مشاورت سے ایک پروگرام بنایا جس میں طالبات نے جاتیں اور آپ کے مشن کے بارے میں طالبات کو معلی ان سال کے لئے باقاعدہ کا لجز چھوڑ کر داخلے لئے.مہیا کی جائیں.آپ نے بچیوں سے الفضل، جماعتی حضور نے اس کا اس کا خود ۱۳ فروری رسائل اور دینی کتب کی لائیر تیری بنوائی.بشری باجی کی ۱۹۸۲ ء کو انت تاج فرمایا اور سورۃ الفاتحہ کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ طالبات کا لچ سے

Page 13

مصباح رین ۱۳ 13 دسمبر ۱۹۹۳ء سیدها احمدیہ ہال آنتیں جلد جلد منہ ہاتھ دھو کر کیسے کہ لیتے ہیں ؟.کہتیں." بچے وہ ذات ہی نہایت بشاشت سے کلاس اٹینڈ کرتیں اور اللہ ایسی ہے جس سے عشق کئے بغیر نہ زندگی زندگی ہی نہیں کیا کا فضل و کرم ہے کہ طالبات نے اس کلاس سے یہ عشق ہی تھا کہ بشر کی یا حیا کا شروع کیا ہوا اتنا کچھ سیکھا کہ اب وہ فیلڈ میں کام کرنے کے ہر عنوان سیرة النبی سے ضرور جا ملنا.جب بھی کوئی بات سمجھائیں.سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی قابل ہیں.یہ کلاس اب بھی جاری ہے.آپ کو سیرت پاک بیان کرتے میں ایک خاص حوالہ دیتین.مقام حاصل ہوا.یہ مقام آپ نے کس طرح اور کیوں اس عشق تے ہیں اس سورہ جہاں کی تقاریر میں حاصل کیا ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم جیسے بہت سوں وہ اثر پیدا کر دیا کہ اب جو بشری با جی جلسہ سیرة النبی باجی کے لئے سنخدا کی رحمتیں حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے.میں شریک ہوتیں جلد جلد چند نکات چھوٹے سے آپ نے سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرنا ہی اپنا کاغذ پر نوٹ کرتیں اور پھر اپنا دل کھول کر حاضرین مقصد حیات بنا لیا اور اس سے جو کچھ سیکھا اُس کے سامنے رکھ دیتیں.کئی بار کی شنی ہوئی بات کچھے پر خود عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ہمارے اس انداز میں حاضرین کے سامنے پیش کر نہیں کہ معلوم کرتیں لئے عملی نمونہ پیش کرنا شروع کیا.ہوتا ہم مکہ کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں.رسول خدا سیرت مبارکہ پر آپ ایک محققانہ نظر ڈالتے ہمارے ساتھ ہیں اور ایک ایک بات ہمارے سامنے ہوئے ہر لمحہ اس کوشش میں رہتیں کہ اس بہتے کی ہے.عموما جلسہ کے اختتام پر بغیر از جماعت دریا سے ہمیشہ نئے رنگ میں لوگ سیراب ہوتے رہیں.مہمان ملاقات پر کہتے آپ بہت اچھا وعظ کرتی ہیں.اس زندہ چشمہ کا فیض تمام عالم میں جاری ہو جائے.ہمارے میلاد میں آئیں گی ؟.کراچی میں آپ کی کوششوں سے ایک سال میں ۳۱۰ تک آپ نہایت بشاشت سے دعوت قبول کر لینی چھوٹے بڑے جلسہ ہائے سیرة النبی کا انعقاد کیا گیا.ہم اور ہم سے کہیں کو بھیٹی میں بھی مولود پڑھنے والی حیران ہوتے کہ ایک سال میں باہم بڑے جلسوں میں آپ بن گئی.پھر کہتیں " اگر مجھے اپنے آقا کی سیرت بیان شریک ہو گئیں اور نہ صرف شریک ہوئیں بلکہ جلسہ کے دوران کرنے کی تو کردی مل جائے تو کیا ہی اچھا احمد ہے اور ہی ایک کو نہ میں بیٹھی کچھ لکھ رہی ہیں اور پھر اختتامی کیسی خوبصورت غلامی ہے.آپ کی ہی وجہ سے ایسا خطاب کے طور پر سیرت النبی پر تقریر شروع کی تو تمام بھی ہوتا کہ جلسہ منعقد کرنے والی غیرانہ جماعت بہنیں سامعین محو حیرت کہ یہ کونسا عشق کا انداز ہے ؟.ہوتیں اور جلسہ کا پروگرام احمدی تعمیرات کی ٹیم کرتی.آواز پر جوش انداز کچھ درد، الفاظ پر اثر سخت ہماری کے ایام میں بھی کہیں سے جلسہ شخصیت پر وقار !!! سیرت میں شرکت کی دعوت ملتی تو ضرور جانے کی کوشش ہم سب رشک کرتے ہیں اکثر پوچھتی آپ ایسا کو نہیں خدا تعالی نے بھی آپ کی اس خواہش کو یوں

Page 14

محبان ربود in 14 پورا کیا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کو لکھ لیا کرتیں اور جب بھی کسی میٹنگ یا جلسہ یا جماعت احمدیہ لاہور لجنہ اماءاللہ نے نومبر ۱۹۹۲ ء میں لیکچر میں شرکت کرتی تو وہاں ضرور ڈائری میں وہ آپ کو جلسہ ہائے سیرۃ النبی میں شرکت کی دعوت دی.تمام باتیں نوٹ کرتیں اور پھر بار بار ان ہدایات کو ڈاکٹر نہ نے آپ کو BED REST کے لئے کہا مگر اپنے اس پڑھتیں.کوئی کاغذ ایسا نہ ہوتا جو مانگو اور فوراً نہ سنہری موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا.سو دعاؤں میں لگ مل جائے.ہمیشہ نائیات تیار کرنے پر زور دیتیں.گئی.تمام ماہ آپ کی طبیعت بہتر رہی.خدا کا کتا کہ ڈاکٹر آپ نے ایک وقت میں کئی کئی بہنوں کو کام کرنا سکھایا ہی اپنے کسی کام سے امریکہ چلی گئی.یوں آپ نے اپنی ہمیشہ کہتیں جب تم کہیں اور چلی جاؤ تو ضرور اپنے خوشی سے یہ فرض ادا کیا.پیچھے ایسی کار کسی چھوڑ جاتا کہ جماعت کا کام ایک لمحہ آپ نے لاہور میں چھے جلسوں میں سیرت آنحضرت کو بھی نہ رکے.اللہ میاں کسی اور سے کام لے لے صلی اللہ علیہ وسلم بیان کی جس میں ۷۸۷ مہمان خوآنہیں گا.لیکن اگر تمہاری تیارہ کی ہوئی کارکن ہوگی تو اجر نے شرکت کی.کراچی آکر آپ ہر لمحہ اپنے مولی کا شکر تمہیں بھی ملے گا ادا کر نہیں.ہم نے اس کامیاب دورہ پر مبارک دی آج آپ کی تیار کی ہوئی کارکنات تمام دنیا ہیں تو عاجزی سے کہنے لگیں." میرے آقا کا ذکر تھا اس نہ جانے کہاں کہاں کام کر رہی ہیں اور اس اخیر کا لئے دورہ کا میاب نہ ہا پھر میرے حضور حضرت امام جاتے کون کون سا حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہماری پیاری کی خواہش تھی اس لئے بشری باجی کے حصہ میں لکھ دیا ہے.احمديد الترابية w - خدا تعالیٰ نے بہترین نتائج نکالے آپ کی تیار کی ہوئی کارکنات آپ کے زیر تربیت آپ ایک دن میں دو دو جگہ سیرة آنحضرت رہنے کی وجہ سے جہاں بھی ہیں فعال کا رکن ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروگراموں میں شرکت کر نہیں.کا دیا ہوا اور کس خدمت عشق الہی اور حب رسول بیشتری با تجا ہیں حقیقی کارکن کی روح تھی ہمیشہ انسیسی دولت ہے جو آپ نے بہت خرچ کی اور جسے ہم کام اور بے لوث کام کبھی نہ صلہ کی خواہش نہ نام و نے خوب جمع کیا.نمود کی تمنا.جہاں لوگ کریسی کی خاطر ناراض ہوتے آپ کے نام سے منسوب ہوتا ہمارے لئے اعزانہ وہاں آپ چھپ کر بیٹھی ملتیں.ہم کبھی کہتے بھی کہ آپ ہے.۱۹۸۹ء کے سالانہ اجتماع ناصرات الاحمدیہ قیادت یہاں سامنے آکر بیٹھیں تو ہمیشہ کہنس کے ملی تھے نمبر کے موقع پر خالہ جان سلیمہ میر صاحبہ نے ہماری زیادہ آرام سے ہوں اور مجھے اوپر بیٹھنے میں شرم آتی قیادت کو پاکستان بھر میں سوم آنے پر مجھے مبارک ہے.میں نے ایسا کونسا کام کیا ہے کہ اوپر بیٹھ کر دی تو آپ نے فرمایا " اس قیادت کو جو سیکریٹری فخر کروں ؟ ناصرات میسر آئی ہے وہ مجھے اس لئے پیاری ہے آپ کا خاص اندازہ کام کرنے کا تھا.بہر کام کہ یہ میری بشری کی تیار کی ہوئی بچی ہے اور اپنے )

Page 15

مصباح دیوه ۱۵ 15 استاد کا خوب رنگ اپنے اندر رکھتی ہے.خدا تعالیٰ نے باجی نشری کو رنگ ہی انبیا دیا مسئلہ حل کرنے والی بشر کا باجی ! ومبر ۱۹۹۳ فر ہمہ وقت خدمت دین بجالانے والی بشری باجی کہ ہر ایک جو آپ کے قریب ہوا اس سرنگ و خوشبو کی خدمت دین بجالانے کی خواہش پیارے مولیٰ نے سے ضرور حقہ پانے والا بنا.آپ اپنے مولا ہر عاشق کسی کسی طرح پوری کی اس کا ایک نظاروہ جلسہ سالانہ تھیں ہمیشہ کہتیں کیسا پیارا موں ہے کہ مجھے جیسی ناچیز قادیان ۱۹۹۱ء کے دوران ہم نے دیکھا کہ اچھا سے مہستی کو بھی اپنے پیار سے ہر وقت نماز نا رہتا ہے.لاہور تک ایک ساتھ سفر کے دوران ہم تمام رات باتیں ہر خوشی کو خدا تعالیٰ کا انعام قرار دیتیں اور ہر تکلیف کرتے رہے.اپنی سیٹیں بزرگ خواتین کو دے دیں اور پر اپنی کوتاہیوں کو یاد کرتیں.حقیقی مومن کی طرح خود زمین پر بہتر ڈال کر بیٹھ گئے.باتیں کرتے رہے ، دونوں صورتوں میں خدا کے ہی آستانہ پر حاضر ہوتیں دعائیں کرتے رہے.جلسہ سالانہ ربوہ کے بعد بہت طویل خدمت دین کو ہی خدا کا انعام سمجھا اور زندگی کا عرصہ کے بعد اس طرح سفر کر ر ہے تھے.اس موقع کی مقصور جانا ایک واقف زندگی کی طرح دن رات خوشی تمام چہروں سے عیاں تھی.بشری باجی تو اس صبح و شام سب خدا کی راہ پر خرچ ہو رہے تھے.خوشی کے تصور سے ہی نہال ہو رہی تھیں کہ ہم اپنے عہد نامہ دہرایا اور اس پر عمل کر کے دکھایا.اپنی محبوب کی بستی کی طرف سفر کر رہے رہیں.اللہ کا کرم ذاتی ضرورتوں اور کاموں کو جماعت کے کاموں کے سامنے قادیان کی زمین پر قدم رکھا اور خدا تعالیٰ نے یوں رحمت یر سائی کہ جاتے ہیں لینہ کراچی کی ڈیوٹی سیکورٹی پر لگا کبھی نہ آنے دیا.شعیہ اصلاح و ارشاد کا یہ چلنا پھرنا دفتر دی گئی ہماری انچارج بشری باجی اور ہم ملکہ لکھی کی کارکنان صبح سات بجے جلسہ گاہ جانے رات آٹھ بجے احمدیہ ہال کی گیلری میں دری پر اپنی مخصوص جگہ پر براجمان اپنے گرد ملنے والوں کے جھرمٹ میں شمع کی واپسی ہوتی.ہمارے ہزار کہنے پر آپ کی طبیعت ٹھیک مانند روشن ہر ایک کی آنکھ کا تارا اور مسائل کا حل نہیں آپ بیٹھ جائیں ہم کہ لیں گے مگر خدمت کا جذبہ ان ہر وقت خدمت کو تیارہ بشری داؤد کا وجود کوئی رو رہا کو بیٹھنے ہی نہ دیا.وہ تمام اشیاء جو ہم مستورات ہے تو اُس کو تسلی مل جاتی اور ساتھ ہی صبر کی تلقین کوئی سے لے کہ جمع کہ لیتے جب تک واپس نہ ہو جاتیں آپ خوش ہے تو صدقہ کی تحریک کر نہیں اور ش کہ بجاں نے کیا گھر نہ جائیں.طرف توجہ دلائیں کوئی شکایت کرتا تو سن کر کہتیں اب.صبح تہجد ہیں سب سے پہلے بہت مبارک میں موجود سیڑھیوں پر سے جوتیاں اٹھا کر اسٹینڈ پر رکھ میں نے آپ کی بات سن لی ہے.اب آپ اپنا دل صاف کر لیں اور خدا سے اجمہ مانگیں.کہیں رشتہ ناطہ کا سلسلہ رہی ہوتیں اور سات بجے پھر جلسہ گاہ میں موجود.چل رہا ہے تو کہاں کتب تقسیم ہو رہی ہیں.کارکنات قیام قادیان میں طبیعت انتہائی خراب ہونے کے آپس کے مسائل یا قیادتوں کے مسائل کوئی شعیہ کوئی کے با وجود دارالضیافت میں قیام کیا.مہمان خانہ

Page 16

مصباح ریون 14 16 دسمبر ۱۹۹۳ء حضرت ہائی سلسلہ سے اچھی کوئی جگہ نہیں اور یہاں سے جب ڈاکٹر ملنے آئی تو کہنے لگی پورے ہسپتال پر مجھے کام کرتے اور رابطہ کرنے میں آساتی ہے.میں یہ ایک ہی مریضہ ہے کہ جب بھی حال پوچھو کہتی کی تحریکات پر جان نثار ہے کہ اللہ کا کرم ہے پہلے سے بہتر ہوں ! ہمیں ہمیشہ حضور کرنے والی بیشتری باجی BED REST پر تھیں کہ عالمی وقت کی قدر کرنے کی تلقین کرنے والی بشری نے جمعیت کی تحریک آگئی.بس پروانہ شمع سے کس طرح جدا رہتا تمام ڈاکٹری ہدایات ٹھکرا کہ احمدیہ بال اگئیں اپنا وقت یوں استعمال کیا کہ اگر میں نے کسی کام سے رات بارہ بجے بھی فون کیا تو پہلی گھنٹی پر رسیور اٹھا ہم حیران اور ناراض کہ آپ کو کس نے کہا تھا آئیں لیا، میں نے معذرت کی تو ہمیشہ یہ جواب ملا ئیں تو کہنے لگیں : میری جان آج میں بہت ٹھیک ہوں اور کیا جاگ رہی تھی کچھ پڑھنا تھا.ویسے بھی تم نے تو میرے میں اس موقع سے محروم رہوں کہ میرے آقا کی دعائیں ہی کام سے فون کیا تھا، میں نے جب بھی کہا بشری باجی میرے لئے بھی ہوں جو ہو گا دیکھا جائے گا ، تم سب ڈرنا آپ کو آرام کی ضرورت ہے کبھی اپنا خیال بھی رکھ لیا کرو اللہ ہمیں بھی سر سر و کرے اور جب میں اپنے کریں.ہمیشہ کہتیں جان میں بالکل ٹھیک ہوں چند موں کے حضور جاؤں تو شہر مندہ نہ ہوں.روز کی زندگی کے بعد تو آرام ہی کہنا ہے پھر کیوں نہ ہسپتال میں آپریشن کے بعد ہوش آنے پر میری پہلی ملاقات پر فورا پوچھا کیا خبر ہے.میں نے کہا.ے ہو چکی ہیں.چھوٹا سامنہ نکل آیا کچھ کام کر لوں.کام میں مصروف اس معتیر مہستی نے ۷۰ سے زیادہ کتابوں کے مسودات تیار کئے ہوئے ہیں.آنکھوں میں نہیں لئے کہنے لگیں.جان نکو کی خیر کیوں یوں لگتا ہے کہ تمام دنیا کو خدا تعالیٰ نے ۲۴ گھنٹوں نہیں سنائی نہیں نے تو بے ہوش ہوتے تک اپنے کا دن دیا ہے مگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ایس مولا سے یہ ہی دعا کی تھی کہ میرے مولا مجھے شرمندہ خادمہ کو آپ کے.....کے مطابق وقت نہ ضائع نہ کرتا.میں نے کہا ابھی تو تیرہ دن باقی ہیں.اگر چار کرنے والی بشری بنا کہ لا محدود وقت دے دیا ہو گئی ہیں تو کیا ۱۳ دن میں اور لافانی کام کروانے کے لئے لا محدود وقت ۳۰ نہ ہوں گی.کہنے لگیں ہاں ہاں ضرور ہوں گی.دے دیا.اور لافانی کام کروا کہ ہمارے دلوں میں میرا موں مجھے کبھی مایوس نہیں کرتا.وہ مجھے کبھی شرمنده ہمیشہ کے لئے زیادہ کر دیا.ہفتوں میں ستر نہیں کرے گا.زندگی کی پیمائش سالوں اور جہیتوں سے نہیں انتہائی علالت کی حالت میں بھی اپنا تمام لکھنے کاموں سے ہوتی ہے اور اس لحاظ سے ہماری تو جہاں پڑھنے کا سامان ہسپتال لے گئیں کہ لیٹے لیٹے رہی بشری زندہ تھیں، زندہ ہیں اور زندہ رہیں گی.کام کر لوں جو وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں کر پائی.پورے وارڈ میں سب کی دوست اور غمخوار بشری یا جا

Page 17

مصباح دیوه امتہ الباری ناصر - کراچی 17 ایک منی بشری سے ومبر ١٩٩٣ء محور جہاں بشریٰ کی تابعیت کا شہرہ اُسی معاملہ ہو گیا.بشری کی صحت کافی عرصے سے کسی ملاقات سے پہلے مجھ تک پہنچ چکا تھا.ربوہ کے سالانہ نہ کسی عارضے سے کمزور ہو رہی تھی اور اس کے اجتماعات میں ہر شہر کی چیدہ مقررات کے درمیان مقابلہ علاج پر مناسب توجہ نہ دینے کا موضوع اکثر زیر بحث ہوا کرتا تھا.کہ اچھی کی نمائندگی کرنے والی ٹیم میں انعامات رہتا.آپا سلیم، مستر بخشی، ہمی، برکت ناصر، نگار وصول کرنے والوں میں دو چوٹیوں والی سمارٹ سی لڑکی تعمیمہ سب ہی اسے حسب توفیق ڈانٹتے اور اصرار کرتے پیش پیش تھی.تقریر کا مقابلے لوٹ لینے کی اہمیت رکھنے کہ بشری ڈھنگ سے علاج کھو داد تا کہ زیادہ کام کر والی محمدی بہت تبلد معروف ہو گئی.۱۹۶۴ء میں خاکسار سکو.بیٹری کو کاموں سے فرصت نہ تھی.وہ حساب کیا چی آئی تو مرکز میں سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ ہونے کی لگاتی کہ کتنے دن نکل جائیں گے اور کتنا کام پڑارہ پا سے سعادت کی وجہ سے کراچی لجنہ نے پذیرائی کی استقبالیہ گا.اُسے اپنے عرصہ حیات کی تنگی کا علم نہ تھا ورنہ شاید دیا گیا جس میں بشرکا نے بڑی اچھی تقریہ کی ، جب اس نے وہ زندگی کرنے کی ضروریات جتنا وقت دیتی وہ اپنی آٹو گراف یک میری طرف بڑھائی تو اس میں بہت سی بھی جماعت کو دے ڈالتی.بال سخہ میرے اصرار سے وہ محترم ہستیوں کے دستخط اور دو کا یہ جملے پڑھ کر بچی کے آپریشن کروانے پر آمادہ ہو گئی.اپریل ہو گا جب ہم پہلی دفعہ ہولی فیملی ہسپتال اس مفید شوق سے بہت متاثر ہوئی.کراچی ، لاہور ، اسلام آباد میں کچھ کچھ سال گزار کر جیب ۱۹۸۰ ء میں کی او پی ڈی میں کھڑے تھے.ہر علاقے کی خواتین اپنی اپنی کراچی منتقل ہوئے تو خاکسار کو لینہ کا کام باقائدگی باری کے انتظار میں پہنچوں پر بیٹھی سنیں.بہتری اور میں سے کرنے کا موقع ملا.کسی شہر میں نیک مستعد ہم مزاج ساتھی ایک دیوار کے ساتھ لئے کھڑے تھے اور حسب معمول مختلف النوع مل جانا نعمت عظمی ہوتا ہے.ہماری کوئی رشتہ داری نہ موضوعات پر کعبہ کرنے کے لئے فرصت ہی فرصت تھی بہت تھی.یہی رفاقت نے یک جان و در قالب کر دیا.دیر تک تو اپنی قمر کی باتیں کرتی رہی.یہیں اس سے ذکر کر احمدیت کا رشتہ سب رشتوں سے قوی تر اور مبارک بیٹھی کہ چند دن پہلے جب تمہاری امی سے کہا کہ آپ بشری ہے.تنظیم کے مقومہ فرائض میں ہم آہنگی اور تعاون پر زور ڈالیں کہ وہ علاج کمر والے تو کسی طرح وہ بے اختیار کے علاوہ بے تکلف تعلقات میں دو گھراتے شریک ہو کر روئی خیلی کہ بشری اپنی صحت پر توجہ نہیں دیتی ہو گئے اس طرح میرا اور بیشترنی کا سگی بہنوں جیسا کہتی ہے ابھی بہت کام ہیں.اس بات سید اشتری کو اپنی

Page 18

مصباح دیوه 阅 د ممبر ١٩٩٣ ء امی پر ٹوٹ کے پیار آیا تھا وہ اپنے ماضی میں چلی گئی ہماری نظریں تو ڈاکٹر کے کمرے کے دروازے تھی.وہیں پر اس نے بتایا تھا.ایک دفعہ وہ کچھ کھیلنے پر تھیں کہ کب بلاوا آتا ہے مگر ماضی کو کھنگالنے میں میں مصروف تھی.گھی کھڑی کہ فراک بکری نے کھا لیا کیسے مصروف تھے.ایک نازک سی کم عمر بٹھاتی لڑکی جب بغیر وہ پیڑوں پر چڑھے کہ دھما چوکڑی مچا کہ کپڑے میلے کر کے باری کے ڈاکٹر کے کمرے میں گھسنے کی ناکام کوشش پھاڑ کر گھر آیا کرتی تھی.کیسے بہتہوں سے مل کر کھیلتے پر پسپا ہو کہ پیچھے ہٹتی تو اس کا ادھیڑ عمر موٹا تازہ اور جھگڑا کرتے تھے.گھر میں دادی اماں کی لاڈلی تھی وہ پٹھان شوہر اسے سرمہ لوکی آنکھوں سے اس طرح گھورتا کسی کو کچھ کہنے نہیں دیتی تھیں.امی جب کبھی ملول ہوئیں جیسے ہی چلے تو یہیں ذبح کر دے تیز قدموں سے آگہ تو بڑی خاموشی سے اُن کی آنکھوں سے آنسو بہتے اور اسے ڈانٹتا اور اندر گھسنے کی کوشش جاری رکھنے کی وہ یہ شعر پڑھا کرتیں.پشتو میں تلقین کر کے مونچھوں پر تاؤ دینے لگتا.بہت ہی حاجتیں پوری کریں گے کیا نمری عاجہ بشر مکرانی ، سندھی، پنجابی، بلوچی ، پٹھانی ، ان پڑھ یا کہ بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے کم تعلیم یافتہ عورتوں کو دیکھ کہ ہمارے دل درد مند ہو کبھی بیگ صاحب کا مزاج ٹھکانے نہ ہو تو بڑی رہے تھے.دنیا میں کتنے لوگ بیمار ہیں.انہیں غور سے ما چیزی سے کہتیں آپ خفا ہیں تو مجھے سے کھانے سے کیا دیکھتے ہوئے بشری نے کہا دیکھو ہمیں کتنا کام کہنا جھگڑا ہے.کھانا تو کھا لیجیے.بشری نے بتایا کہ کس طرح ہے.ان سب کو احمدیت کی تعلیم دیتی ہے.عورتیں اتنے سال کے بعد کالج سے کاش منی واپس ملنے پر خوشی سے دُکھ اس لئے اٹھاتی ہیں کہ نہ اُن کو علم ہے کہ ان کے پاؤں زمین پہ نہ ٹکتے اور یکمشت دس روپے خرچ کرتے حقوق کیا ہیں.فرائض کیا ہیں نہ مردوں کو پتہ ہے انسانیت کے لئے سب سے بہتر ترکیب امی کے لئے چیل خریدتا ہوتی اُن سے کیا تقاضا کہتی ہے.ہمیں اُس پیمانے پر امی بیگ صاحب کے پرانے کرتے رنگ کر کے انقلاب لانا ہے جیسے دور اول میں لایا گیا تھا.بشری کی آوازہ دھیمی تھی مگرہ تقریر کا سماں بندھ نہیں لیتیں.پھٹے ہوئے دوپٹے مچھی کہ اوڑھ لیتیں پھر جیوٹ کی یوریوں کو کسی کہ اُس پر اون سے کڑھائی چکا تھا.میرے پرس میں حضور پر نور کا تازہ مکتوب کر کے قالین بنانے کا قصہ بھی سُنایا.تھا جو ہم نے ابھی مل کہ نہیں پڑھا تھا.حضور کی یادوں سے ہم غیر محسوس طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر تک پہنچے.ہم دونوں عجیب جذباتی ہو رہی تھیں میرے بچپن کی یادوں میں بھی کچھ ہی کچھ تھا.میں نے بھی اسے بتایا کہ دوران تعلیم کتابوں کا پیوں کا مکمل ہوتا کبھی یکیں یہ بتاتی چلوں کہ بشریٰ کی سیرہ پر کتابیں ممکن نہ ہوا تھا.اس پر اسے اپنی اتنی کی کتابوں کی تھال لکھنے اور تقاریر کی تیاری میں ظاہر ہے.لان کا دل سے جلد بندی اور پرانی کاپیوں سے کاغذ نکال نکال کر محبت بھی شامل تھی.کثرت سے سیرت کی کتب کا مطالعہ کرتی اور مجھے عمومی طور پر مطالعہ کی عادت ہے.اس سینا یاد آیا.

Page 19

مصبات ربود 19 سمبر ۱۹۹۳ طرح ہمارا موضوع سيرة طبیہ ہی رہتا.ہم نے مکہ مدینہ درس پھر مغرب کی نمانہ ، پھر کھانا اور ذرا سا آرام اور کی مقدس ہستیوں کا خاکہ سا بنا رکھا تھا.مطالعہ سے جو عشاء اور تراویح پڑھے کہ گھر جاتی.گھر پانچویں منزل نٹے رنگ ملتے ہم اُس میں بھر تے چلے جانے حتی کہ پر تھا اور لفٹ نہیں تھی.آخری مہینوں میں ڈاکٹر نے ہمیں ایک جیتی جاگتی دنیا محسوس ہونے لگی تھی.سیڑھیاں اتر نے پڑھنے سے منع کیا تھا.ہمت بھی نہ یشتری کو ڈاکٹر صاحبہ نے دیکھ کر آپریشن کا تھی اس لئے پیر کے پیر ملاقات میں کمی آگئی.ڈاکٹر صاحبہ فیصلہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کہ وہ کچھ عرصے چھٹیاں کہ آئیں تو آٹھ جولائی ہسپتال میں داخل ہونے کے لئے چھٹی پر جارہی ہیں.بشری کے پاس اب معقول کی تاریخ دی.انہیں دنوں دعوت الی اللہ کا نیا ٹارگٹ بہانہ تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کی واپسی تک وہ دوا کھا کھا آگیا.پر ولولہ دیوانی اس ٹارگٹ کے لئے بے تاب ہو کر کے وقت گزار لے گی.بیشتری اپنی قوت ارادی اور کام کرنے لگی.محترمہ مبارکہ ملک سامنہ کی وفات حیرت جذبہ خدمت دین سے چل رہی تھی ورنہ اکثرا سے کوئی آیات پر ہم دونوں اکٹھے گئے تھے بھی خوشی بمیار پرسی نہ کوئی تکلیف رہتی.ایک دفعہ بہت عرصہ ہلکا ہلکا تعزیت وغیرہ میں عموما ساتھ رہتا مگر یہ ساتھ آخری بخار رہا.کبھی کبھی کھانسی بھی اٹھتی تھی.درد شقیقہ تھا.سارا رستہ باتیں پھر وہاں بھی ساتھ بیٹھے.واپسی سے بے حال ہو جاتی.گردے میں بھی درد محسوس کرتی پر بھی ساتھ تھے اور یہ میری پیاری بشری سے طویل اس کے علاوہ بھی اسے تکلیف تھی مگر وہ ہم سب سے ملاقات تھی جس میں تم کے آنسو بھی تھے.نئے احمدی زیادہ لینہ کا کام کرتی سب سے زیادہ گھر پر محنت بنانے کے عزائم بھی تھے اور..اور..اور بہت کچھ کرتی.جلسے تقاریر دورے بیٹا وقت لیتے.اس کے تھا.جولائی کے شروع میں فون پر باتوں کا رنگ کچھواں علاوہ فون شستنا اور فون کر تا بہت وقت طلب کام طرح تھا.میں نے سارے بستروں پر صاف چادریں بچھا دیں تھے.اُسے ملال رہتا کہ وہ بچوں کو اتنی توجہ نہیں ہیں تاکہ بچوں کو تکلیف نہ ہو.میں نے بہت سے کھانے دے سکتی جتنی دینی چاہئیے.داؤد بھائی کو قرار واقعی پیکا کو فریز کر دیئے ہیں.میرے بعد کام آئیں گے.آج وقت نہیں دے سکتی.امی آبا کو ملنے نہیں جاسکتی ڈھیر سارے کپڑے دھوئے ہیں تا کہ میرے بعد کچھ عرصہ باتی رشتے داروں سے ملنا، تقریبات پر جانا.سب کچھ تو نکل جائے.طولی کے کپڑے استری کمرہ کے لٹکا دیے لازمی تھا.گھر وقت اور ہمت میں کہاں سے گنجائش لاتی.ہیں.اب بالوں میں کنگھی کر رہی تھی ایک دن کہنے لگی دل گھبرا رہا ہے کبھی ایسے بھی وہ کبھی کبھی رات رات بھر بیٹھے کہ لکھنے کا کام کرتی وہ رات سارے کپڑے خود سیتی تھی.جمعہ، اجلاس، جلسہ کو " ہوتا ہے کہ آپریشن کے بعد کوئی واپس آ ہی نہ سکے ہیں کام پر ترجیح دیتی.رمضان المبارک میں دوپہر تک کھانا داؤد کو کہوں گی کہ اگر ایسا ہوا تو سارے کاغذ باندھ پکانے اور دیگر گھر کے کام کر کے کھانا ساتھ لیتی اور کہ تمہارے گھر دے آئیں.باقی کام تم کر لینا.ایک بچوں کے ساتھ احمدیہ بال آجاتی.عصر کی نمازہ ، پھر دن اللہ پاک کے غفور الرحیم ہونے پر بات ہوئی.

Page 20

مصباح ریوه 20 ومبر ۱۹۹۳ فر ہر دفعہ بات میں ٹارگٹ کے لئے دعا کرو.اس ہو کہ حال پوچھتے ہو اور چلے جاتے ہو.ادھر میرے کی دعائیں بھی عجیب ہوتیں.کہتی دُعا کرو.اللہ تعالیٰ قریب آؤ پھر اُس کا سر پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر مجھے اُس وقت اٹھا لے جب اس کی رضا کی نظریں مجھے پر بھینچ لیا اور بہت پیار کیا، بہت دُعائیں دیں.مہر پڑ رہی ہوں.پھر کہتی دُعا کرو.نسلوں تک نسلوں تک " وہاب صاحبہ اور میں اُس سے ملتے گئے.ہسپتال میں بستر مسز نسلاً بعد نسل ایمان کی دولت نصیب ہو.کبھی کہتی دُعا کرو پر میری بشری ہشاش بشاش لیٹی تھی زیادہ تر خدا تعالیٰ مجھے اس جماعت میں شامل کر لے جسے رسول کریم ٹارگٹ کی باتیں ہوئیں، واہمہ بھی نہ تھا کہ یہ آخری طاقات صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرایا جائے گا.کبھی کہتی وہ ہے.یہی نے کہا بیٹری پانچے سیڑھیاں پڑھ کر جاؤ گی.نظر نہیں آنا ملتا نہیں ہے ورنہ ہمیں اسے ایسا چیٹوں انہیں سیڑھیوں نے تمہیں بیمار کیا ہے.یہ گھر نیچے دو کہ کبھی نہ چھوڑوں.بس ایک دفعہ مل جائے تم دنا کرد کہیں نیچے لے لو.یہی کی طرف دیکھا اور بڑے سکون نہیں اسے پالوں میرے نفس میں اور مجھے میں اتنا بعد ہو جائے سے بولی.کہ اللہ تعالٰی کو میرا دل پسند آجائے." میرا اللہ بھی تو جانتا ہے وہ جب چاہے گا محب اللہ تعالیٰ اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے انتظام کر دے گا.جہاں چاہے گا وہیں رہ اس کی مانے کا محور تھا.اسی کی طاقت سے وہ چل رہی لوں گی وہ بڑا پیارا ہے.تھی.وہ اللہ والوں سے پیار کرتی تھی.وہ یا عمل عالم تھی.بچوں کو بہت یاد کیا.طاہر زیادہ لیے چین ہو وہ کبھی کسی کا دل نہ دکھاتی تھی.عجیب پیار بھرے انداز جاتا ہے.طوبی معصوم انتظار کر رہی ہوگی.ناصر خود میں تسلیاں دیتی.یہ جیسے طے شدہ بات تھی کہ مشورہ کرنا کو سنبھال لیتا ہے.مگر ظاہر...میں سلام کر کے ہو اُس سے کر لو.بہترین مشورہ طے گا.کوئی گھیرا جٹ ہاتھا چوم کے دُعا دے کے واپس آنے لگی تو آواز دے ہوا سے فون کر لو پیار سے کوئی حل بتائے گی اور اشتعال کر کہا....صاحب سے پوچھنا نہیں نے آخرہ کی دن ان کو کے شکر کی طرف رخ موڑ دے گی.کسی امر میں فیصلہ کرنا ہو دعوت حتی دی تھی.کیا سوچا ہے.میری خاطر پوچھ لینا تو وہ میری جلدی نتیجے پر پہنچ جاتی.اُس کی رائے موقر میرا نام لے کر پوچھ لینا...پھر میں نے بہتری کی اور فیصلہ وقیع ہوتا.آواز نہیں سنی - دس جولائی کو ہسپتال داخل ہوئی.تیرہ کو کامیاب ۲۰ جولائی سہ پہر ہسپتال سے ڈاکٹر صاحب آپریشن ہوا.وہاں مریضوں سے ہمدردی کر کے دل موہ کا فون آیا.آوانہ میں درد تھا.لیا پھر اپنا پیغام دیا.بہت جلد ہر دلعزیز ہو گئی.بہت آپ کی بیشتری ٹھیک ہو گئی تھی.آج اُسے چھٹی لوگ اُسے ملنے گئے.ہر ایک خوش باش آیا.نہیں وہ انتجا) ہو گئی تھی وہ سب سے ملیں مجھے بھی منہ چوم کے پیارے کرتی دکا کمر و ٹارگٹ پورا ہو جائے.ایک دن اپنے کیا.سب انہیں بہت پسند کرنے لگے تھے.مگر اچھی بھائی باسط کو کہا تم آتے ہو کھانا دیتے ہو.وہاں کھڑے شیر نہیں ہے.

Page 21

مصباح دیوه ۲۱ 21 دسمبر ۱۹۹۳ء کیوں کیا ہوا " یکی چیخ کر بولی.کچھ رہے ہوں گے.پھر آنکھ میں بند کر لیں.مجھے گھر لے ده خود چل کہ سب سے ملیں خود بل پر دستخط جائیں میں بالکل ٹھیک ہوں.پھر سٹریچر پر ایمر جنسی کئے.نیاہ ہوئیں.میں نے ہی پی لیا تھا ٹھیک تھا.پھر روم میں جاتے ہوئے کہا حضور کو فون کرا دیں پھر آنکھیں وہ لفٹ سے نیچے اتریں اور با ہر گاڑی کی انتظار میں بند کر لیں پھر ٹیبل پر دو دفعہ آہ آہ کی آواز آئی پھر کھڑی ہوئیں تو بے ہوش ہو گئیں.لمبی سی آواز کھنیچ کر اللہ کیا.اور اللہ کے حضور حاضر " پھر..ایمرجینسی روم میں ٹیبل پر جب میں ہو گئی (ہم سب خدا کے ہیں اور اسی کے پاس لوٹ کر نے اُن کو دیکھا تو نہ ہی پی تھما نہ قبض...مجھے خود بہت افسوس ہے.وہ بہت اچھی سنتے ہیں.آپ اُن کے گھر اطلاع دے دیں.اب اپنی کیفیت خود کیا لکھوں جس کو با علم ، هم مذاق ، هم جنون ساتھی کی تقریبی رفاقت ملی ہو وہی محسوس کر سکتا ہے کہ یوں اچانک یہ خبرشن کے کیا جان جاتا ہے.خدا حافظ - پیاری بیشتری اللہ تعالیٰ تم پر اور تمہارے بچوں پر بے پایاں فضل فرمائے.ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتداء ہو راحتی ہیں ہم اسی میں جس میں نشر کی رضا ہو بشری کی رحلت کی خبر آناً فاناً شہر میں بلکہ دنیا کی جماعتوں میں پھیل گئی.بیگ صاحب کے گھر آخری دیدار کے ہو سکتا ہے.ہسپتال پہنچی تو ایمبو لینس میں ڈالا جا چکا تھا.لئے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا.مجیب عالم تھا.کون داود بھائی اس کے مسکراتے چہرے کو بغیر پلک جھپکے کسی سے تعزیت کرتا ہر ایک دکھی تھا.آنکھوں سے آنسو رواں تھے.سیکیوں کی آوازیں تھیں.بشری مقبول ترین دیکھ رہے تھے اور ضعیف العمر عظیم ماں جس نے شریف جنم دیا تھا، پالا تھا ، بیاہا تھا، میاں اور بچوں کے ساتھ لاڈلی سب کی پیاری پرسکون سوئی ہوئی تھی.جو کسی کو خوش باش دیکھا تھا.ہسپتال میں خدمت کی تھی.آخری دکھی نہ دیکھ سکتی تھی.سب کو دکھی کر گئی شام تک آنے والوں کے لئے کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہ رہی بسٹرک لمحوں کی روداد سنا رہی تھیں.کمیں نے اُسے کہا تھا آہستہ چلو مگر وہ کہہ یک لوگ کھڑے تھے.عور نہیں ہی نہیں مرد بھی بشری کو مرہی تھی میں بالکل ٹھیک ہوں پھر ہم وہاں پول کے اشکوں کا ، دعاؤں کا نذرانہ دے رہے تھے.جنازہ پاس چبوترے پر مجھے تھے لیکں نے اُس کی کمر میں ہاتھ احمدیہ ہال میں ہوتا تھا.اس لئے لوگوں کو وہاں پہنچا دیا ڈالا ہوا تھا وہ آہستہ سے نیچے کو کھسکی اور لڑھک گیا.احمدیہ ہال نے کسی جنازے میں اتنی رات گئے کر گر گئی.بے ہوش ہوگئی.ناخن ہونٹ نیلے کالے ہو اس قدر خواتین و احباب نہ دیکھے ہوں گے.دروازے گئے.میری چیخ شی کر داؤد آئے.سٹریچر منگوایا اس کے سامنے بلیک بورڈ پر ۲۰ جولائی ۱۹۹۳ء کی نے آنکھیں کھولیں میں کہاں ہوں تم میرے پاس ہو تاریخ کے نیچے بیشتری داؤد کی رحلت کی خبر درج تھی.میری بچی.وہ بولی مجھے جلدی گھر لے جائیں بچے انتظار یہ ہال بیشتری داؤد کی جاندار آواز سے گونیا کرتا تھا.ریاقی پر )

Page 22

مصباح دیوه بشری داؤد ۲۲ 22 نعت سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم ہے سارے عالم کی بناء ، کون و مکاں میں اس کی شناء ، مسجود ملائک وہ ہوا دونوں جہاں کا شاہنشاہ ، تورانی حلے میں ملا، صل علی صلى على احمد المحمدام مصطفیٰ تو ہے حبیب کبریا ، شاہد ، میتر بر ملا وہ پیارا ابن آمنہ جس کو فرشتوں نے کہا صل علی صل علی اس کو ہوا عرفان عطا ، یاد خدا میں گم رہا ، وہ دین حق کا راہنما قرآن اُس کو مل گیا ، وہ ہو گیا قرآن نما صل علی صل علی جب ہو گئی جلوہ گری ، باطل کی صنف الٹی گئی ، آنے لگی حق کی صدا دین حق ته ندہ ہوا یہ تھا دعاؤں کا میلہ صل علی صل علی ہے ذات اس کی دلربا ، اسلام اس کا مدعا ، دعوت الی اللہ کہہ گیا وہ سب ہی کا تھا رہنما ، کامل یہ دین اس سے ہوا صل علی صل علی طائف کی وادی میں گیا.پیغام حق پہنچا دیا ، ظلم و ستم اُس پر ہوا زخمی ہوا ، گھائل ہوا ، پتھروں سے دی جزا حیل علی صل علی اس ظلم یہ بھڑ کا خدا، اپنے فرشتوں سے کہا.پوچھو کہ ان کو دوں سزا ؟ وہ رحمۃ للعالمیں تعود آٹے ان کی بن گیا ، میرے خدا یہ حوصلہ صلّ علی صل علی کوہ صفا سے دی صدا، آؤ سنو دیکھو ذرا ، دشمن کا لشکر آگیا یہ کہہ کے اُن سے پھر کہا.اس بات میں کچھ شک ہے کیا ؟ صل علی صل علی بالکل نہیں سب نے کہا ، تو سچا ہے انانیت راء ، تو ہے امین و با وفا تیری کسی بھی بات کا.ہم کو نہیں لگنا میرا کیا ہے تمہارا مدعا صلی علی اصیلی علی فرمایا ہم سب کا خدا ، جس نے ہمیں پیدا کیا، خالق ہے ہر اک خلق کا اس سے ہی رشتہ جوڑلو ، اس کے ہی در پہ تم چکور میرا تمہا را اک قد اصیل علی صل علی وہ ہے روف وباوفا، وہ ہے غفور و داورا، وہ خالق ارض و سماء ان میں سے اکثر نے کہا ، میں تین سو پینسٹھے خدا.اپنے ترا واحد خدا صل علی صل علی اُن کے لئے تڑپا دکھا ، ہر آن تھا محو دعا ، قلبوں کے در کھولے خدا پھر تیر گی چھٹتی گئی، وحدانیت آنے لگی، ملنے لگی راہ ہدی صیل علی صل علی مردوں کو زندہ کر دیا ، اخلاق اور کردار میں اللہ نے اعلیٰ کردیا حیوان سے انسان بنے، انسان کی جو باخدا ، اللہ کو ہے حمد و ثناء صل علی صل علی مبر ۱۹۹۳ء >> ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) )

Page 23

مصباح دیوہ ۲۳ 23 جرات سے ، استقلال سے ، وہ ہادی خیر الانبياء ، یسین ، مدثر ، طل شاہ جہان انبیاء، روحانیت کی انتہا ، جود و سخا کا منتہی صل علی صل علی تھا خلق جس کا بے بہا ، وہ ذات پاک و مه لقا ، کردار میں صدق و صفا وہ پہلے امام الانبیاء ، ہر بات اس کی دلربا، انسانیت کا منتہیٰ صل علی صل علی اس کی عنا جو دو سنجا ، ہے لطف جس کا بے بہا ، رحمت ہے اس کی ہر جگہ آئینها رب الورکی ، نشست گاہ تخت تعدا ، اعزاز اس کو ہی ملاصیل علی صل علی دنیا کو اک کلمہ ملا صورت حسین و دلربا، سیرت میں ثانی نہ ملا، قاب قوسین او ادنی صل علی صل علی وہ عکس شان کبریا ، اوصاف میں وہ حق تما، حکم و عدل کا بادشاہ وہ عظمتوں کا دیوتا ، رفعت ہے تاحد نگاہ ہے سب میں شامل پر جدا صل علی صل علی وہ شاہ بھی فقیر بھی ، وہ سادہ بھی رہنا بھی بھی بھوک میں بھی اک ادا ہر حال میں حمد و ثنا ، وہ راستہ دکھلا گیا ، رحمت کی ہے آیا جگاہ صل علی صل علی.عالم بھی وہ اُمتی بھی وہ ، کوثر عطا اس کو ہوا ، سیراب سب کو کر دیا کیا.شاہ مفلس کیا گیا، اس دور کے سب محتاج نہیں، قربان نہیں تجھ پر سر اصل علی صل علی دسمبر ۱۹۹۳ د اے میرے پیارے خدا - برکات ہوں اس پر سدا ، اس پر درود ہو تیرا بارش کے قطروں کی طرح سورج کی کرنوں کی طرح صل علی صل علی اے میرے پیارے دلیرا ، میں بھی ہوں تیرا گرا، بل بجائے بخشش کی روا مجھ کو بھی کر دے عطاء اپنے کرم کا آسرا تو ہی رحیم و باوفا صل علی صل علی تیرا کرم ہے کیبریا - گرویدہ مجھکو کر دیا.اپنے رسول پاک کا مجھ لیے کس و نادار کا، رحمت سے ناطہ ہو گیا، کیونکر کردن شکر و ثناء صل علی صل علی مجھ کو ختمہ یہ مل گیا، حب رسول پاک کا، کشکول خالی تھا مرا نورانیت سے بھر دیا.احسان ہے سارا تھا میں میں میرے کچھ بھی نہ تھا عیل علی صل علی تجھ کو تیرے محبوب کا ، دیتی ہوں مول واسطہ، کر دے کرم کی انتہار یہ ہے فقیروں کی صدا، جاری رہے تیری عطا ، اسے ذات باری کبریا صل علی میں علی نسلوں کو بھی کر دے عطا، قدمت دین کا مزا ، در کے ترے وه ہوں گیا ہو فصل ان پر بھی ترا تو ہی ہو ان کا آسرا نہیں ہوں غریب و بے تو ا صل علی صل علی خواہش ہے میری اک نہیں، بس پیار تیرا ہی ملے ، تو میرے دل میں آبسے قربت تری مجھکو ملے.آمین اے رب العالی آمین ذات کیریا ، صل علی صل علی

Page 24

مصباح ریوه 24 دسمبر ۱۹۹۳ء خرمہ نور جہاں صاحبہ یہ مضمون محترمہ بشری نے میرے اصرار پر لکھا تھا.وعدہ یہ تھا کہ میں مرتب کر لوں گی بیشتر کی کی اتنی ایسی خاموش مجاہدہ نہیں کہ حضور ایدہ الودود نے تعزیتی بیان میں فرمایا کہ معلوم نہیں وہ حیات بھی ہیں یا نہیں.دامتہ الباری ناصر کا محترمہ نورجہاں صاحبہ بیت حضرت حکیم عبدالمحمد جان نے اپنا نام بھی پیش کر دیا.اللہ تعالیٰ کا احسان صاحب دہلوی رفیق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ المیہ کیم ہے کہ پہلا قافلہ جو روانہ ہوا اس کے امیر مقرر ہوئے.مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب کراچی ہیں.جب اپنے والد صاحب سے اجازت طلب کی تو وہ چونکہ آپ یو پی کے معزز گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں.پورے خاندان میں تنہا احمدی تھے.ساری زندگی خدا تعالی بچپن میں والدہ محترمہ حضرت شادمانی بیگم صاعیہ رقیقہ کی خاطر قربانیاں دیتے گندی تھی اور اول دو کو بھی اس کی تلقین حضرت بانی سلسلہ کی وفات کے بعد میرٹھ سے قادیان کرتے رہے تھے.لیکن شاید پدری محبت نے خود اجازت اپنے خاندان کے ساتھ آگئیں.دینے کی بجائے مکر امی کی طرف موڑ دیا.کہ تم اپنی بیوی شادی کرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب کو اچھی ان سے پوچھ لو.ان کا خیال تھا کہ عمر میں کم حوصلہ ہوتی ہیں مکرم محترم عبد الحکیم صاحب کے ہاں ہوئی.تہذیب و تمدن اور یہ وقت تو تھا ہی ایسا کہ ہر طرف موت اور وحشت و کے فرق کے باوجود انتہائی وفا کے ساتھ زندگی گزاری.خوف کا بازار گرم تھا.اور ابھی شادی کو بھی کم عرصہ شادی کے وقت ابنا بجا ہے میٹرک پاس تھے.گزرا تھا.لیکن چوتھی بچی کی پیدائش کے بعد ائی کی توجہ دلانے جب امی سے ابا جان نے پوچھا تو انہوں نے کہا پر دوبارہ پڑھائی شروع کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضرور جائیں.اللہ آپ کی حفاظت کرے گا.اس پر اتنا جی فی اسے ایل ایل بی کیا.لیکن پریکٹس دیر سے شروع ( دادا جان ) نے ابا جان کے جانے کے بعد کہا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ تم منع کرو گی.کیا حالات کا بھی تم کو کی.امی بتاتی ہیں کہ دعا تو نہیں کرتی ہی تھی.لیکن زندگی کا سب سے اہم واتقدر تقسیم ہند و پاکستان اندازہ نہ تھا.کے وقت پیش آیا.جب حضرت فضل عمر کی تحریک پر که خدام مرکزہ کی حفاظت کے لئے قادیان جائیں، ایا اس بات کے بعد تو میں نے اپنے مولا کے دامن کو تھام

Page 25

مصباح دیوه ۲۵ 25 ومبر ۱۹۹۳ء لیا کہ خدایا ان کا پیڑا بٹیا ہے.اور اماں جی (وادی جان ) اور میرا ایمان پیچ گیا.احمدی نہیں رہیں.اگر کچھ ہوا تو میں کیا کہہ سکتی ہوں نہیں جب ہم بڑے ہوئے اور شادیوں کا وقت آیا نے تو خود ہی آگ اور خون کے حوالے کر دیا.ابا جان بتاتے تو بعض خواتین نے امی کو مشورہ دیا کہ اب آپ اپنا یہ ہیں کہ جب وہ واپس آئے تو اتی صحت کے لحاظ سے گھر بدل لیں.کوئی اچھا بڑا گھر لیں.ورنہ بچیوں کے اچھے رشتے نہیں آئیں گے.یہ تو صرف دو کمروں کا گھر بہت کمزور تھیں.دین کے لئے غیرت : ہمارے معاشرے میں جیسا ہے.اپنا STATUS بدلیں.کہ بچیوں کی پیدائش پر کچھ افسردگی کا احساس ہوتا ہے اتی نے ابا جان سے بات کی تو ابا جان نے بھیں اسی طرح تین بہنوں کے بعد چوتھی بچی کے وقت گمان ہوا کہ یہی بات بتائی کہ چند دوستوں نے بھی ایسی ہی بات کی پھر لڑکا نہ پیدا ہو جائے.کیونکہ ابھی بیٹا نہیں تھا چونکہ ہے.پھراتی سے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے.امی نے کہا کہ ابایی (دادا جان ) اپنے خاندان میں تنہا احمدی تھے اور یکیں تو سمجھتی ہوں کہ رشتے خدا کے فضل سے ہوتے ہیں اماں جی (دادی جان) ابھی احمدی نہیں ہو کیں تھیں.لیکن ظاہری چیزوں کی تو کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی ہم اپنے خاندان سے وہ بھی بہت مختلف تھیں.ظاہری چیزوں کے متمتی ہیں.صرف نیک متقی ، دین لیکن غیر از جماعت افراد خاندان کی خواتیں بضد سے محبت کرنے والے نظام سے وابستہ لڑکے ہوں.تھیں کہ منت مانی جائے.اور جب بیٹا پیدا ہو جائے محنتی، رزق تو خدا تعالٰی ہی دے گا.ابا جان نے کہا کہ تو ابا جی سے چھپ کر اس منت کو ادا کر دیا جائے.میرا بھی یہی خیال ہے.خدا پر بھروسہ رکھو.آخر امی کو بتائے بغیر خود ہی ان لوگوں نے منت مان لی.یہ ان کا تو کل ہی تھا کہ سب بہنوں کی شادی اللہ مزار پر بھی (عبد اللہ شاہ غاندی) اور نا نہ یہ کی بھی جب تعالی کے فضل سے نیک منتفی خاندانوں میں ہو گئی.اور وہاں سے جو چیزیں ملیں تو امی کو کہا گیا کہ یہ تم کھا لو سب اپنے گھروں میں خوش ہیں.دنیا کی بے شمار نعماء کچھ فرق نہیں پڑتا.لیکن اتنی بتاتی ہیں کہ کہیں نے دل میں بھی ملیں اور دعاؤں کے نتیجے میں بہو بھی خوبصورت کہا کہ ایسا نہیں ہوگا.اور کمرے میں آکر یوں لگا جیسے میرا خواب سیرت ، خدمت گزار ہے.دم نکل جائے گا.پھر جب حالت سنبھلی تو بے اختیار خدا ابا جان شادی کے بعد بھی والدین کے ساتھ تھے کے حضور خوف سے روتی جاتی تھیں کہ میرے مونا میرے اور مشترکہ خاندان میں جیسے خرچ اور آمدنی گھر کے بزرگ ایمان کو بچائے.اور اب اگر تو نے بیٹا دینا بھی ہے تو ہی چلاتے ہیں.اماں جی کو ہی اتبایجان تنخواہ دیتے تھے نہ دے.بیٹی ہی دے میں صبر اور شکر سے اس کو قبول پھر جب اتنی نیچے کے گھر میں منتقل ہو گئیں تب کھیرا ہیں کہوں گی کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر بٹیا ہو گیا تو زندگی طرح نظام چلتا رہا ابا جان اتما کو کبھی کہتے کہ آپ کو کے کسی لمحے یہ گمان نہ کرلوں کہ شاید منت کی وجہ سے پیسوں کی ضرورت ہو تو اماں سے لے لیا کریں تو اتی ہو ہے.اور اللہ کا بے پناہ شکر ہے کہ اُس نے بیٹی دی.ایک ہی جواب ہونا.بیگ صاحب آپ فکر نہ کریں میرا

Page 26

مصباح دریده دسمبر ۱۹۹۳ء ہر کا تو ہر ضرورت پوری ہو جاتی ہے.اور اگر مانگتا ہی ٹھہرا ہو جاتا.اسی طرح کھانے کی چیزوں میں بھی کبھی کوئی تو کیوں نہ اپنے مولا سے مانگوں.چیز ضائع ہوتی نہ دیکھی.حتی کہ لیموں کے موسم میں بھی سادگی اور قناعت سے ساری نہ زندگی گزارہ کیا.سلاد میں لیموں استعمال کے بعد اس کے چھلکے یا تو نمک گرمیوں میں دو جوڑے ابا جان کے لئے بنتے تھے چونکہ سفیر لگا کہ بوتل میں ڈال دیئے جاتے یا پھر انہیں سر کے میں ہوتے اس لئے اگلے موسم میں وہ اتنے اجلے بھی نہ رہتے ڈبو دیا جاتا تھا.اسی میں ادرک، ہری مرچ ، کلونجی وغیرہ اور کچھ بوسیدہ بھی ہو جاتے اس لئے امتی ان کو نوں ڈل جاتی.وہی چھلکے بعد میں پیاز کے ساتھ مچھلی میں کو گھر میں خود رنگ لیتیں.وہ امی کے نئے کپڑے ہوتے مسالحہ لگائے قیمے کے کبابوں میں استعمال ہوتے.جسے دیکھ کر کئی بارہ کہا جاتا کہ یہ تو ہر موسم میں نئے ہرے دھنیے کی موٹی ڈنڈیاں چٹنی میں اور پتے کرتے بنالیتی ہے.نہ تو کبھی تردید کی اور نہ بتایا کہ کیا سالی ہیں.کدو کے موٹے چھکے چنے کی دال یا صرف راز ہے.بڑے بچوں کے کپڑے چھوٹوں کے اور چھوٹوں مسالحے میں پک جاتے اور کو الگ.اسی طرح گوبھی کے کے ان سے چھوٹوں کے کام آجاتے.پرانی شلواروں کو پھول الگ یا پھر اس کی ڈنڈیاں پہلے گلا لیندیں اور پھول اکثر الٹ لیتی تھیں.پائنچے تو ہمیشہ ہی ادھیر کر نئے بعد میں دم پر ڈال دیتیں.گویا ہمارے گھر میں ہر چیز کا بنائے جاتے تھے.اور وہ شلواریں چین کے رنگ بھی استعمال موسجود تھا بچے ہوئے کھانوں کی شکلیں بدل خراب ہو جاتے تھے.ان کو دوبارہ ادھیڑ کر اور کندوں کہ دوبارہ کھا لیا جاتا.کو اریب سے جوڑ کر پھر سادہ کپڑا بنا لیا.انہیں رنگ ابا میان کا حلقہ احباب بھی وسیع ہے اور اکثرو کر رضائیوں کی گوتیں اور ولائیوں کی گوتیں بن جاتیں اور پیشتر دعوت کا اہتمام ہوتا.یہ دعوتیں آجکل کی طرح کی پرانے دوپٹے پرانی ملموں کے استروں کے ساتھ درمیان پر تکلف دعوتیں نہ تھیں ان میں بھی سادگی اور سلیقہ نمایاں کا حصہ تیار ہو جاتا تو سردیوں میں نئی کرمائیاں اور تھا لیکن جتنے افراد بتائے جاتے اکثر ان سے دگنے ہیں ولائیاں بن جائیں.قمیض کے دامن ہمیشہ مضبوط ہو جاتے بعض اوقات اس سے بھی بڑھ جاتے، اور امی رہتے ہیں.اس لئے ان سے چھوٹے بچوں کے کپڑے جان کا درود شریف پڑھ پڑھ کر دم کرنا اسی کھاتے ہیں یا پلیٹین کپڑا ہے تو نیکیوں کے کور چھوٹی میزوں کے برکت ڈال دیتا جو سب کو ہی پورا ہوتا تھا.بعد میں کو ربنالئے بھائے.چھوٹے بچوں کو تو کچھ مل جاتا لیکن ہم بڑے امی کے ہلکے رنگوں کے کپڑے اور دوپٹے آہستہ آہستہ ساتھ بچی ہوئی سلاد چٹنی وغیرہ کے ساتھ بڑی خوشی گہرے سے گہرے تم رنگوں میں بدل جاتے تھے.پرانے کے ساتھ کھالیتے.کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم نے سوئیٹر ادھیڑتے اور پھر یا تو رنگ کو یا پھر اون ملاکمہ دوبارہ نئے تیار ہو جاتے ہو اون بالکل بے کار ہو جاتی ان چیزوں میں سے نہیں کھانا.اسی طرح شاید ہی کوئی دن ہوتا کہ ہمارے ہاں اس سے ٹاٹ پر ڈیزائن بنا کر گھر میں فرشی قالین تیارہ ناشتہ دو پہر کے کھاتے ، شام اور رات کو کوئی مہمان

Page 27

مصباح ربوه دنمبر ۱۹۹۳ء ہمارے ساتھ شامل نہ ہو.کمال برکت تھی جو اسی مہینے جوزف کاپی یا اپنا بیا داشتی، معلومات، اچھے اشعار سبق آموز تحریریں، اقوال وغیرہ کے لئے بطور ڈائری کے رائش میں دکھائی دیتی تھی.ا یا جان کی صحت شروع سے ہی کمزور رہی ہے.استعمال ہوتی.یہیں موٹی سی کا پیاں جماعتی کا سرے کے اقی جان ان کے لئے الگ کھانے کا انتظام کرتی تھیں.نوٹس کے کام آتیں جو کسی بھی کوئی کوئی موجود ہے.آج لیکن کبھی کسی بچے نے اس میں سے لے لیا تو ان کے ہمارے بچپن میں بھی اور آج بھی ابا جان کی مصروفیت سمجھانے کا طریق یہ تھا کہ دیکھو تمہارے ابا جان صبح وہی ہے لیکن اب تو دوپہر میں گھر آجاتے ہیں جبکہ بچپن میں سے رات ایک کام کرتے ہیں.یہ اُن کے لئے ہے.میں کئی کئی دن ہو جاتے تھے ابا جان نظر نہیں آتے تھے.سال میں دو تھوڑے عید الفطر یہ نیتے تھے.ہوتا ہمارے اٹھنے سے پہلے چلے جانے اور سونے کے بعد آتے.= دہی اسکول والا.یہی کپڑے ہوتے ہر تقریب میں بڑی شان اتی صبح اذان کے وقت اٹھا دینی تھیں.اور اس سے پہنتے.اسکول کی کاپیاں کتابیں کبھی تحراب نہیں کیں.وقت تک امی کپڑے دھو چکی ہوتی.سب بچے وقت چہ ہرانے کورسی خود گھر میں امی جان جوڑ کہ سی کہ جلد ہیں نماز ادا کرتے.پھر قرآن پاک پڑھتے پھر ناشتہ تمھا.اس درست کر کے کو چڑھا کر دے دینیں کا یہاں لے کر میں رد و بدل کا امکان کم ہی تھا.اسی طرح نمازوں کی ان کے ہر پیچ پر نمبر لگوائیں.کتاب یا کاپی پھاڑنے کا تو بر وقت ادائیگی نہ کرنے پر سختی بھی ہوتی.اس پر معافی ممکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.پنسل ایک ملتی اور صحیح نہ تھی.دوپہر میں اسکول کے بعد تھوڑی دیر سلا دیتیں اور یا تو خود توانش که دوبیتی یا پھر جب بڑے ہو گئے تو چھوٹوں شام کو رات کھانے تک اسکول کی پڑھائی مکمل کہ لیتے کا یہ کام ہمارے ذمے لگ گیا.ریٹر، نٹ وغیرہ کبھی نہیں رات کھانے کے بعد عموما دینی باتوں کا پروگرام ہوتا.کبھی توڑے نہ ضائع ہوئے.اگر گم ہو جاتے یا ٹوٹ جاتے تو پھر بیت بازی کبھی سوال و جواب.رات سوتے ہوئے امی ان کا حساب دینا پڑتا.بڑے پیار سے سمجھا نہیں دیکھو بیچو کے ساتھ لیٹے لیٹے نماز، نماز با ترجمہ دعائیں نظمیلی وغیرہ ان چیزوں کا خدا تعالٰی احساب لیتا ہے.یہ ساری نعمتیں اس نے بار کا باری شناد یتے.پھر دعا میں دہرا کہ سونے کی تلقین کر ہیں.تم کو اس لئے نہیں دیں کہ خود ہی استعمال کرو بلکہ اس میں چھٹیوں کا پروگرام ذرا مختلف ہو جاتا.صبح سے دوسروں کا بھی حصہ ہے.اگر ضائع کر دیں تو ان کو کیسے دو دو برنز تک اسکول کا کام ، شام کو کوئی مشغلہ مٹی کے گے.اس لئے ان کی قدر وقیمت کا احساس کرد کا پیاں برتن ، فروٹ ، کھلونے وغیرہ.گڑیا کی شادی کی تیاریاں.پنسلیں، پن اریٹر نٹ وغیرہ سال کے شروع میں ابا جان رات کو وہی دینی پروگرام حضرت باقی سلسلہ کی کتب شروع ہوئیں اکٹھی ہول سیل سے لے کر آتے.اور کاپی بھرنے کے بعد باری باری اس کے چند صفحے سنائے جاتے.امی جو بات سمجھے اتی چیک کر کے دوسری کاپی دے دیتیں.میں نہیں آتی و بتاتی اور اردو بھی درست ہوتی اور شکل سال ختم ہونے پر پیرانی کا پہیوں کے سارے کا منہ الفاظ بھی سمجھ میں آتے ، معلومات کبھی بیڑے بھا نہیں، احادیث نکال لئے جاتے اور ان کو جوڑ کر الگ کا پیاں بنائی جانیں قرآن پاک کی سورتیں بھی باری باری دہرائی جاتیں چھوٹے بچوں

Page 28

مصباح ریوه کو سیرت کی کہانیاں، ہیمنگوان کے ایمان افروز واقعات ، f دسمبر ۱۹۹۳ء صبح کے ناشتہ کی تیاری جس میں آلو کی بھیجیا.پراٹھے یا گھی جرنیلوں کی باتیں وغیرہ بھی بتائی کیا تھیں اور رات کو امی کا کی روٹی کبھی انڈوں کا انڈے باناز کے طور پر قیمہ ہوتا معمول تھا کہ قرآن پاک کی تلاوت کریں اور سب بچے پاس جو رات کام کرنے والے خودام کے لئے تیارہ کیا جاتا تھا.ہی لیٹے ہوتے.اکثر سور نہیں اسی طرح کسی اکشن کم ہی اس میں ملائی اور وہی بھی شامل تھی.یاد ہو کہتیں.بچپن میں اکثر ہی قرآن پاک سنتے سنتے سو ہمارے ہاں دودھ کی کثرت ، دہی انڈے ، گھی وغیرہ جانا ہماری خوش قسمتی بھی سب بچوں کو قرآن پاک اقی پیچونکہ ابا جی در اداجان خود گائے ، مرغیاں پالتے تھے نے ہی پڑھایا سوائے باسط کے اس کے چند بارے رہ اور یہ سب انہوں نے بچوں کے لئے ہی کیا تھا.اس لئے گئے تھے وہ قابو نہیں آتا تھا.پھر استانی جی نے مکمل اس کی کبھی کمی نہیں ہوئی.ایک بات بڑی انوکھی تھی.اگر کبھی ابا جان کو غصہ آجاتا تو وہ ٹہل ٹہل کہ بات کروایا.اتی کو فارغ اوقات میں جو بہت ہی کم ہوا کرتے کرتے.امی جان باورچی خانے میں ہو ئیں تو دروازہ بھیر تھے.قرآن پاک ٹہل ٹہل کر پڑھتے دیکھا یا پھر دعائیں اور لیتی تھیں کہ جب میں نظر نہیں آؤں گی تو غصہ ٹھنڈا ہو نفل پڑھتے.دمہمانوں کی کثرت کے باوجوداتی کی کوشش جائے گا.اگر ہم میں سے کوئی کہتا کہ ابھی آپ ابا جان کو ہوتی کہ پیر نہ گہرام کے مطابق ہی دن رات بسر ہوں ).بتائیں کہ یہ بات ایسے نہیں ہے تو فورا کہہ دینیں بچے ابا جان جب خدام الاحمدیہ کے قائد تھے تو بعض پہلے وہ پریشان ہیں.یکیں اور انہیں دیکھ دوں.ان کے اوقات رات بھی گھر نہیں آتے تھے.اس وقت جب آنکھ پاس ان بے کار باتوں کا وقت نہیں ہے.انہیں کام کھلتی اور آیا جان کا پوچھتے تو جواب ملنا.کام سے گئے ہیں کرنے دو.ابھی نہیں آئے.دعا کر دو سو جاؤ اور خود نقل پڑھ رہی جب زیادہ غصہ ہوتا تو اتی کھانا سامنے رکھتیں ہوتیں.یہ امتی کے پسندیدہ مشاغل میں سے تھے.امتحان تو ابا جان کہتے کہ مجھے بھوک نہیں ہے.بڑے پیار سے کے دنوں میں تو جیب تک ہمارا پرچہ ہوتا.امی بات کم ہی کہتیں بیگ صاحب اس کھانے سے کیا ناراضنگی.آپ کا کرتیں.اکثر انہیں دم کرتے دیکھا.بیمار ہوں میں بھی یہی بلڈ پریشر لو رہتا ہے کھانا کھا لیں.حالت تھی.میری شادی کے بعد امی نے کہا کہ بیچھے بیشتری ایا جان کی قیادت کے زمانے میں جب پوسٹر لگا کرتے دیکھو گھروں میں مسائل تو ہو جاتے ہیں.عورتوں کے پاس شہر میں تو ساری رات لئی پکتی اور خدام آکر خالی دیکھا بیکار وقت ہوتا ہے تو ایسی باتیں ہو جاتی ہیں لیکن کبھی دے نیا تیار کیا ہوا لے جاتے گھر کے بھوتوں کے پرکشش، گھریلو مسائل اور جھگڑے داؤ کر کو نہ بتانا.انہیں باہر اسٹول وغیرہ سب ہی استعمال میں ہوتے اور کہیں مسئلہ کے بہت کام اور پریشانیاں ہوتی ہیں.اس طرح مرد کی ہوا تو کبھی دیکھے غائب.اسٹول ندار داور برش عمر کم ہو جاتی ہے.عوز میں تو ادھر ادھر بیٹھے کہ باتیں کہ تو کبھی واپس نہ آئے.جب لٹی کا کام ختم ہو جاتا تو لیتی ہیں.لیکن مرد اپنے دل پر بوجھ رکھ لیتے ہیں.ویسے

Page 29

مصباح دیوه ۲۹ 29 ومبر ۱۹۹۳ء اتی حیان نے کبھی خاندانی مسئلہ پر بچوں کو بولنے نہ دیا کہ دینی ہیں کہ میری فکر نہ کریں.ٹھیک ہو جاؤں گی.اور نہ ہی ایسی باتیں بچوں کے سامنے کر تھیں.کہتیں ہیں کہ آپ اپنے کام سے جائیں.ذہن خراب ہو جاتے ہیں اور عاقبت بگڑ جاتی ہے.اتھی ایک بار ایسا ہوا کہ ڈاکٹر محمودہ نذیر صاحبہ جان عادتاً ہاتھ سے کام کرتی رہتیں اور زبان سے دعائیں اللہ تعالی انہیں اپنا قرب عطا فرمائے.ڈاکٹر کو آپریشن.آیات یا پھر حضرت بانی سلسلہ کے اشعار پڑھنی رہ نہیں ہیں کے لئے ابا جان کے دستخط کی ضرورت پڑی اور ابا بیان اکثر ایک نہ ایک دن پیش ہو گا تو خدا کے سامنے والی انتہائی تلاش کے با وسجود نہ مل سکے.ڈاکٹر نے اتھی کی نظم پڑھتیں.اور جب ان اشعار پر پہنچتی کہ سائن کی کئی یا نہ تلاش ہوتی تو کسی میٹنگ میں مصروف بارگاه انمردی سے تو نہ یوں مایوس ہو ہوتے.ڈاکٹر صاحب نے ابا جان سے کہا کہ آپ کو معلوم مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے ہے کہ آپ کی بیوی کی کیا حالت ہے پھر بھی غائب ہو حاجتیں پوری کریں گے کیا تمہی عاجز بیشتر جاتے ہیں.کہنے لگے آپ میرا انتظار نہ کیا کریں جو کام کہ یہاں سب حاجتیں حاجت کروا کے سامنے کہنا ہو کہ لیں.ہمیں جس کام میں مصروف ہوں اس کی تو ان کی آنکھوں سے جھڑی لگی ہوتی اور بار بار دہراتی زیادہ اہمیت ہے ایہ ابا جان کی قیادت کا زمانہ تھا) میرے یہاں موجود رہنے سے تو کچھ نہیں ہو سکتا ،اللہ چلی جاتیں.اسی طرح اقبال کو بڑھانا.اب فضل لے کے آستا تعالیٰ خود فضل فرمائے گا.ہر رنگی سے بچانا، دُکھ درد سے چھڑانا ، خود میرے کام کرتا اتھی کو ہاتھہ سے کام کرنے کی عادت ہے.ہر چیز یا رب نہ آزمانا.یہ مصرعہ اتنا پڑھتیں کہ مجھے لگتا جیسے گھر میں ہی بنانے کا شوق ہے.کتنے ہی مہمان ہوں ، روٹی اتی کا کوئی کام بھی ایسا نہیں بچے گا جو خدا نہ کر دے.گھر پر ہی پکتی تھی.کبھی درزی سے نہ سلایا.اور حقیقتا ہوا بھی ایسے ہی.اب بھی یونہی ہوتا ہے کہ وسائی نہ ہونے کے باوجود ان کے کام نہیں رکھتے.اور فرشتوں کی مدد سے ہو جاتے ہیں.انی میں میرا حوصلہ تستحمیلی ، یہ دباندی بہت ہے.بقیه صفحه ۲۱ اور خدا کی ذات پر تو کل بے انتہاء کہتی ہیں کہ مجھے اپنے اس ہال سے اُس دلہن کی ڈولی رخصت ہو رہی تھی، وجود پر بھی اتنا اعتبار نہیں جتنا اپنے مولا کے فصلوں اور رحمتوں پر ہے.سخت محنتی حتی کہ شدید بیماریوں میں بھی جب تک چل سکتی تھیں کام جاری رہتا.اور ان بیماریوں میں ابا جان کے معمولات میں شاخہ ہی فرق آیا ہو.ہمیشہ سٹیل ٹاؤن کے شہر خموشاں کے لئے عمر اے خدا بر تربیت او ابر رحمت ہا پیار رامہ الباری ناصر - کراچی )

Page 30

مصباح زاده ۳۰ 30 بشری کی یاد میں خدا کا خاص احساس تھا رفاقت بیشتری خوری کی ادھورے ہوگا مشکل سے گزارادہ نہیں ہوگی وہ واپس آ نہیں سکتی مگر یہ مان لوں کیسے ؟ کہ جب ہو گا کہیں سیرت کا جلسہ وہ نہیں ہوگی ستاروں کی طرح چھکے گی وہ تاریخ عالم میں رہے گا خو بیوں کا اس کی پھر چا وہ نہیں ہوگی دیا ہے اُس کے بچے دین ودنیا میں پھیلیں بھولیں مگر میں ماں نے پیدا کر کے پالا وہ نہیں ہوگی پیاروں میں کھلیں گے پھول پھیل آئیں گے بانوں میں مگر ہاتھوں نے جس کے بیج ڈالا وہ نہیں ہوگی دعا تھی ، حوصلہ تھی اور سکینت اپنے شوہر کی لگے گی ان کو خالی ساری دنیا وہ نہیں ہو گی جہاں پر آنکھ کھولی تھی وہیں لیں آخری سانسیں بہت تڑپے گی اس کی ماں کی ممتا وہ نہیں ہوگی سمبر ١٩٩٣ء ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ))))) ) ) ) ) ) ) ) ) )))))))

Page 31

مصباح ریو ۳۱ 31 وہ اپنے باپ کی دمساز تھی، ہمدم تھی، طاقت تھی ضعیفی میں یہ غم کیسے کٹے گا وہ نہیں ہوگی چلیں گے کام سب لجنہ کے پہلے سے کہیں بہتر گر بنیاد میں جس کا لہو تھا وہ نہیں ہوگی ابھی رہیں گی رہتی دنیا تک کتابیں یادگارہ اس کی مگر جس نے کہ سوچا اور لکھا تھا وہ نہیں ہوگی ی تکمیل کی راہوں میں تھے کتنے ہی منصوبے خدا کھولے گا کوئی اور رستہ وہ نہ میں ہوگی میری آنکھ میں چمک اٹھتی تھیں اس کو سامنے پاکر نظر آئے گا ہر مانوس چہرہ ، وہ نہیں ہوگی کیا کرتے تھے ہم ایک دوسرے سے دل کی سب باتیں کسی سے اب نہیں کچھ کہنا سنتا، وہ نہیں ہوگی ہماری طرح کم ہو گا کوئی یک جان و یک قالب بھری دنیا میں رہنا ہو گا تنہا وہ نہیں ہوگی حقیقت میں بقا تو وجہ رب لم یزل کو ہے رہے گا گل من علیها فان زندہ وہ نہیں ہوگی وہ رخصت ہو گئی دُنیا سے جو دکھ سکھ کی ساتھی تھی خود ہی اب رو کے آنسو پونچھ لینا وہ نہیں ہوگی دیمیبر ۱۹۹۲ء امہ الباری ناصر

Page 32

مصباح ریوه واور احمد قریشی 32 من تو شدم تو من شدی ومبر ۱۹۹۳ء عزیمہ بہن ! میں آپ کے اصرار پر بھی آپ کے نے کہا بیٹا یہ باغ کا سب سے اچھا پھول ہے، بشری دیتے ہوئے موضوع پر قلم نہ اُٹھانا کیونکہ میرے لئے مکی نے دُور سے ایک پھول کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ دکھائیں ہی تهایی که تقریبا میں سال کی بھر پور پیار بھری ازدواجی وہ کتنا اچھا ہے ، انہوں نے کہا کہ چلو چل کر دیکھتے زندگی اور اب یکسر تنہائی اور محرومی کے شدید تکلیف دہ ہیں.نز دیک جا کر دیکھا تو ان کا دیا ہوا پھول اُس جذبات کے متعلق کچھ لکھ سکوں.مگر اب تو کچھ لکھنے پر آمادہ سے بہتر تھا.اس پر لینٹری نے کسی اور پھول کی طرف ہوا ہوں تو اس خیال سے کہ اپنے مولا کے حضور حاضر ہو اشارہ کیا وہ پھول بھی نزدیک جانے پر اتنا اچھا نہ نکالا جانے والی روح کے متعلق بحیثیت بیوی کے میرے علاوہ جس سے بیشری کو اطمینان ہو گیا کہ واقعی جو پھول اسے اور کوئی بھی نہیں بتا سکتا.چنانچہ میں اپنے سادہ سے دیا گیا ہے وہ باغ کا سب سے اچھا پھول ہے.الفاظ میں اس پہلو سے آپ کو کچھ نہ کچھ بتانے کی ایک دفعہ بشری کو خواب میں بتایا کہ تمہاری شادی کوشش کرتا ہوں.سمیع سے ہو گئی ہے (یعنی اس کی صفت بات سننے اور بشری اپنے دادا جان کو ابا جی کہتی تھیں ان ماننے والے کی طرح ہوگی.اور اللہ تعالٰی کا احسان ہے سے بہت پیار تھا.اپنی بچپن کی شوخیوں کا ذکر کرتی کہ ہم نے زندگی بھر کبھی ایک دوسرے کی مخالفت نہیں تھیں اور کہتی تھیں کہ جس دن ابا جی فوت ہوئے اس کی.یشتری کو اللہ پاک پر بے انتہا تو کل تھا.آنحضور صلی دن سے تمام شوخیاں رخصت ہو گئیں.بشری اکثرا با جی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا.میں اس کی پرانی ڈائریان کو خواب میں دیکھتی.ایران میں تو ان کی آہٹ اور کپڑوں دیکھ رہا تھا.197ء کی ڈائری میں بھی سیرت کے مضامین کی سرسراہٹ تک محسوس کرتی تھیں.انہیں کے ذریعے ہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ الرابع اللہ پاک مشرف کو مشکل حالات میں تسلی دیتا تھا.جب کی جدائی، وطن سے ڈوری اُس پر شاق تھی.ہماری شادی سے پہلے بشری نے انہیں تو اب میں دیکھا جب کبھی بہت سی باتیں جمع ہو جاتیں حضور کو خط وہ ایک باغ میں کھڑے تھے.انہوں نے بہتری کو ایک لکھنے بیٹھ جاتی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھتی کہ حضور آپ پھول توڑ کر دیا.منتشرنی نے کہا ابا جی یہ پھول تو اتنا اچھا میرے لئے دعا کر دیں بجواب دینے کی زحمت نہ کریں آپ نہیں ہے.مجھے اس سے اچھا پھول چاہئیے.جس پر انہوں کی مصروفیات بہت قیمتی ہیں خطوط میں اکثر پریشان

Page 33

: مصباح ربعه 33 ومبر ۱۹۹۳ء ہونے کے باوجود پریشانیوں کا ذکر نہ کرتی کہ آقا تھے.یہ ایک دوسرے کا بھی محاورہ لکھ دیا ہے ورنہ کو صرف خوش کن باتیں لکھنی چاہئیں.اُس کی ڈائریوں ہم دونوں کے ایک ہی کام تھے وہ رات رات بھر سے رسید یں ملی ہیں جن سے علم ہوا کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ لکھتی تو میں اُس کا موڈ دیکھ کر اُسے کچھ نہ کہا البتہ وسلم اپنے دادا جان اور خاکسار کی طرف سے از خود چندہ کبھی کبھی چائے کافی بنا دیتا کہ تھک گئی ہوگی تعریت دیا کرتی تھی.چندہ دے کر کسی کو بتائی نہ تھی معمولی سے کے لئے آنے والے جب اُس کی محبتوں کا ذکر کرتے ہیں معمولی کام ہو یا بڑے سے بڑا وہ صرف اپنے مولا کریم کا تو یکی سوچتا ہوں ان کو کیا اندازہ کہ دراصل اس کا دروازہ کھٹکھٹاتی.اپنے پیاروں کو بھی اپنی ضروریات دل کتنا حسین تھا.آپ سوچیں کہ گھر میں کام والی جو کے متعلق ہوا نہ لگنے دیتی.حتی کہ دُعا کے لئے بھی ایس صفائی کے لئے آتی تھی اس کو ہمیشہ گلے لگا کر پیار بھرے ڈر سے نہ کہتی کہ مبادا اس کے انداز سے کچھ ظاہر نہ ہو جملے کہ کہ رخصت کرتی تھیں.جائے اور کوئی مدد کے لئے اشارہ نہ سمجھے صرف رات پالتو جانور رکھنے کو جانوروں کو تکلیف دینا بھتی ہی کو نہیں دن کو بھی طویل سجدے کہتی.کسی کو مدد کی تختی.پودوں کا ایک ایک پتا صاف کرتی تھیں اور ساتھ ضرورت ہوتی تو بے چین ہو جاتی.دعائیں کرتی یہاں ساتھ ان سے باتیں کرتی تھیں کہ یہ بھی جاندار ہیں.بانی تک کہ اللہ تعالی کوئی صورت پیدا کر دیتا کہ مدد کر سکے.کشن کہ خوش ہوتے ہیں اور زیادہ پھلنے پھولنے لگتے اپنی ذات پر کبھی عمر چ نہ کرتی جبکہ دوسروں کے لئے عزیز سے عزیز چیز آسانی سے تحفہ دے دیتی.گھر کی سجاوٹ کا بہت خیال تھا.میرے کپڑوں کا ایران سے جب پاکستان آئی تھیں تو پہلے میرے بہت خیال رکھتی.گھر سے جاتے وقت ہمیشہ گیلیری سے امی ابو کے گھر جاتی تھیں.حالانکہ میرا دل چاہتا تھا کہ دیکھتی رہتی تھی.اگر چولہے پر کوئی چیز ہوتی تب بھی پہلے اپنے امی ابا جان کے گھر جاکہ ملے وہ لوگ کتنے آنچ ہلکی کر کے ضرور گیلری میں خدا حافظ کرنے آتیں مکیں منتظر ہوں گے اور فطری طور پر بشری کو وہاں زیادہ اب بھی گھر سے نکلتا ہوں تو عادتا اوپر نگاہ اُٹھ جاتی سکون ملے گا.مگر وہ پہلے سسرال جاتی.اسی طرح کوئی ہے اور خال گیلری دیکھے کہ دل کی گہرائی سے بشری کے چیز بھی اپنے ماں باپ یا بھائی بہن کو دیتی تو مجھے سے لئے دعا نکلتی ہے.اے اللہ تو اسے ہمیشہ خوش رکھنا.ضرور اجازت لیتی تھی.حالانکہ ہمیں نے ہمیشہ کہا کہ اس بشری جو بھی پہنتی اُسے سچ جانا.کھانے بہت کی ضرورت نہیں ہے.لیکن کبھی بھی اس نے بغیر مجھے اچھے پکاتی تھیں.وہ تیز تیز لکھتی تھی اس لئے عام دکھائے کوئی چیز نہیں دی اور نہ نہیں نے کبھی روکا.پین با بال پوائنٹ اس کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا.محبت کرنے کا سلیقہ جانتی تھی.میرے شوق اُس میں اُسے PILOT کا HITECH پیچ لا کر دیتا تو کے شوق ہو گئے تھے اور اُس کے شوق میرے شوق ہو گئے بہت پسند کرتیں.میرا بچین کئی ماہ چلنا جبکہ وہ بہت تھے اور ہم ایک دوسرے کا کام کر کے خوشی محسوس کرتے جلد کی خالی کر دیتیں.وہ صبح اٹھ کر مجھے اپنی خوا ہیں

Page 34

مصباح دیوه 34 شنایا کرتی.اُسے تعبیریں بھی بہت اچھی طرح سمجھہ آ جاتیں.ابن سیرین کی ایک کتاب سے دیکھتی.دیگر خواتین مس دسمبر ۱۹۹۴ء عبدالرحمن ناصر بھی اُس سے خوابوں کی تعمیر یں پوچھا کرتیں.ہماری امی اپنی لا تعداد جماعتی مصروفیات اور بیماری کی وجہ سے گذشتہ کئی سالوں سے اکثر مجھے کہتی تھیں کہ دوسری شادی کر لو.میں آپ کو کما حقہ وقت نہیں دے سکتی.ہماری امی ہم سے بہت پیار کرتی تھیں.اُن کی میں بہت پیار سے سمجھاتا کہ میں اپنی زندگی سے مطمئن تریمیت کا انداز بہت پیارا تھا.وہ بچوں کی نفسیات ہوں لیکن اُسے اکثر خیال رہتا کہ مجھے دینے کا وقت بھی سمجھتی تھیں.وہ جانتی تھیں کہ بچوں کو کس قدر پیار وہ جماعت کو دے رہی ہے آپریشن سے پہلے بھی اس اور تحفظ کی ضرورت ہے.کب حوصلہ افزائی کی ضرورت بات کو دہرایا اور جب میں نے ہمیشہ کی طرح یہی جواب ہے.وہ ہماری غلطی پر سزا بھی دیتی تھیں مگر اس کا دیا کہ تمہیں مطمئن ہوں.اُس نے تو وفات کے بعد بھی خیال رکھتی تھیں کہ عزت نفس مجروح نہ ہو اور بچے ہمارا خیال رکھا.بہت سے کھانے بنا کر رکھ گئی جو دیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ سزا کو ظلم نہ سمجھے.تک کام آتے رہے.طوبی کے اچھے خاصے بڑے بال ان کے چند اصول تھے جن پر وہ ہمیشہ کاربند رہتی کاٹ کر چھوٹے کہ دیئے کہ اُس کو چوٹی بنائی کہاں تھیں.وہ ہمیشہ ایک وقت میں ایک سے زائد کام آئے گی.اپنے بچوں پر بے حد محنت کر تی ترک تشکیل کرتی تھیں.اور میں بھی یہی سکھایا تھا.مثلاً ٹی وی کی سوچیں اللہ تعالی پر چھوڑ دیتی کہ وہی کرتے گا ہماری دیکھنے کے دوران جوتا پالش کرنا یا کوئی اور کام کرنا.اُن کی ہدایت ہوتی تھی کہ ہم اپنا سب کام خود کریں.کیا استی؟ - WIFE اُس کو یہ مقولہ بہت پسند تھا :.وہ خود بھی اس پر عمل کرتی تھیں.جب وہ دوروں پر پر جانیں یا سیرت کے جلسوں پر یا کلاستر میں پڑھانے جاتیں یا اجتماعات وغیرہ پہ جائیں تو ہم گھر کا سب کام خود کرتے مثلاً کھانا پکانا ، برتن دھونا ، گھر کی صفائی وغیرہ.اس طرح وہ ہمیں سب کاموں کی مشق کراگئیں، شاید YouR TREAT SHE FLOWER WILL you FRAGRANCE ALL LIFE IF you LIKE GIVE HER اس کے پریس میں تقریبا نہیں سال سے ایک قدرت ان سے یہ کام کروا رہی تھی کہ مہیں ان کے بغیر یہ سب کام تماشہ دکھا رہتا.لیکن آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تمام کرتے ہیں دشواری نہ ہو.اللہ پاک ہماری امی کو اعلیٰ درجات سے نوازے.زندگی وہ ان باتوں پر عمل کرتی رہی.اور ہمیں اپنے فضل و احسان سے ایسا بنا دے کہ جب ہم امی سے ملیں تو امی کو اپنی تربیت میں کوئی کمی نظر نہ آئے اور وہ اور ہمارا خدا ہم سے ہمارے حق میں بہت دعاؤں کی درخواست ہے.خوش رہے.اے خدا تو ایسا ہی کہ.

Page 35

مصباح ریده مریم اقبال ۳۵ 35 راضی ہیں ہم آہی ہیں جس میں تمری رضا ہو بچپن میں والدین کے فوت ہوتے ہر ہم بہنوں ور نہ کراچی آکیہ بہت ماروں گی.دسمبر ١٩٩٣ء کو آپا جان نورجہاں صاحبہ کے زیر سایہ تربیت و ہم تہران گئے تو بشری اور داؤد نے میزبانی پر ورکش ملی.اس طرح ہم اور بیشتری ایک ساتھ پہلے کا حق ادا کر دیا.بشری اپنے گھر میں بڑی تیری دعوتیں کی بڑے.آج اپنی اس پیاری بھانجی کے متعلق لکھنے کرتی اور وافر کھانا پکاتی کیونکہ اس کا شیر خرمہ اور سے ماضی کی ان گنت یادیں تازہ ہو گئیں.بچپن میں حلیم سب پسند کرتے اور کھانا کھانے کے بعد ساتھ بھی بہتری کا غیر معمولی اندازہ دل لبھانے والا تھا میبیست بھی نے جاتے تھے.دونوں میاں بیوی کے ایک سے چاق و چوبند، ہشیار مگر منکسر اور عاجزانہ طبیعت شوق تھے.خدمت خلق مہمان نوازی ، کھل کر خوش ہوتا.اللہ پاک نے بھی توب نوازا تھا.ایران میں اتنی کی مالک تھیں.تعلیم کے زمانے میں ہی وہ اکثر سچے خواب کشائش تھی کہ کسی چیز کی کمی نہ تھی.غرضیکہ مشرکی دیکھا کرتی تھی.حتی کہ امتحان کے پیچھے بھی خواب ہر قسم کی نیکیوں کو تلاش کمر کے عمل کو تی تھی.من دیکھ لیتی اور سہیلیوں کے پھلے کے لئے سوالات انہیں بتا دیتا.جب پرچہ بعینہ وہی آنا تو سیلیاں سمجھتیں کہ کسی ذریعے سے یہ بورڈ سے پرچہ نکلوالیتی تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں ہے.مگر جب کھوجنے پر ایسا کوئی ذریعہ ثابت نہ ہوتا کے گناہ بختوں کیونکہ شریر ہے وہ انسان تو حیران رہ جائیں کہ خدا تعالی سے زندہ تعلق اس حد کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں.وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.تک بھی ہو سکتا ہے.حور کی میرے اور میرے بچوں کے ساتھ بہت تم اپنی نفسانیت ہر پہلو سے چھوڑ دو اور پیار کرتی.پیار کے اس بندھن کا نتیجہ تھا کہ موب یا نہی ناراضگی بجانے اور سمجھے ہو کر تھوٹے ایران میں تھی میں نے ایک مرتبہ کسی غلطی پر اپنے کی طرح تذلل اختیار کرو تاکہ تم پخشے بیٹے جاوید کو تنبیہ کی اور مارا بھی...کچھ دن بعد بشری کا خط ملا کہ آپ نے شوری (جارید کا پیار کا نام ) کو مارا ہے.اور خفگی کے انداز میں لکھا کہ بانہ آجا جاؤ ر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ )

Page 36

مصباح ریوه فوزیہ بستہ 36 ۳۶ میری حوری باجی دیکھ لوصیل و محبت میں عجب تاثیر ہے ومبر ۱۹۹۳ء ہیں.ہم تو کلمہ توحید کے شیدائی ہیں.کلمہ رسالت کے لئے ایک دل کرتا ہے جھک کرد دسہر دل کو شکار ہم اپنی گردنیں کٹا دیتے ہیں.اگر چہ ہم دونوں میں کوئی خونی رشتہ نہیں تھا، لیکن نہ جانے کب اور کس طرح بڑی آہستگی کے ساتھ انہوں نے میری اس خالی جگہ کو یہ کیا جس کو صرف ایک یہ یا نہیں کرتے ہوئے ان کے چہرے پر ایک ایس نور ہوتا اور یہ ایک ایسا اعتماد ہوتا کہ اگلا پچھل کر پانی پانی ہو جاتا.خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ ان کے ساتھ.بہن ہی کچھ کر سکتی تھی.اس نئے کہ میری کوئی سگی بہن ان حالات کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی نہیں تھی.اور یوں چپکے چپکے ملتے جلتے پتہ ہی نہیں چلا کہ کس وقت انہوں نے میرے دل کو شکار کر لیا.اور میری محرومی کو یکسر ختم کر دیا.مجھے یاد ہے شروع شروع میں جب میں نے کہ کائش میں ان کے قریب تر ہوتی.لیکن مجھ میں ہمت نہیں تھی پر محبت کی اس دیوی نے مجھے اپنے سے اتنا قریب کر لیا کہ نہیں سوچ بھی نہیں سکتی تھی.وہ میری معمولی کاوشوں کو اس درجہ سرا نہیں کہ مسکراہٹوں میں ڈھکے چھپے اس شعلہ بیان مقررہ کو دیکھا میں شہرت ہو ہو جاتی اور پھر کوشش میری یہ ہوتی کہ میں کسی جس کی تقریر و تحریر نے اپنے پیرایوں میں ایک تہلکہ مچایا طرح ان کے معیار پر پوری اتروں گویا انسان کو آگے بڑھانے کا ایک بہت ہی فطری طریقہ کار انہوں نے ہوا تھا تو میں ان سے بے حد متاثر ہوئی.جہاں بھی غیر از جماعت خواتیں مدعو ہو نہیں.بشری اختیار کر نہ کھا تھا.باجی بطور خاص وہاں ضرور تقریر کے لئے موجود ہوتیں.اس پیارا اور محبت کے سرچشمہ نے نہ جانے کتنے اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب ملکہ تھا.انہیں جلسے کے بعد ہی بے آب و گیاہ صحراؤں کو اپنی محبت سے سیراب کر کے غیر از جماعت خواتین ان سے ملنے کو بے قرار ہوتیں.اور ہرا بھرا بنا دیا.اس کا اندازہ پیاری بہن کی وفات کے بعد بار بار یہی کہتیں کہ ہمیں تو یہ باتیں اس سے پہلے کسی ہوا.جب بلجنہ کی خواتین کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب اشکبار نے نہیں بنائیں.ہمیں تو آپ لوگوں کے بارے میں بہت غلط باتیں بتائی گئیں تھیں.اور بشر کی باجی مسکرا آنکھوں اور ہچکیوں کے ساتھ ان کی دائمی بھلائی سے نڈھال مسکرا کر سب کو یہی جواب دیتی ہیں کہ آپ سوچیں ، آپ اکیلی جان کے پاس پیالہ کا ایک بیکراں سمندر تھا.جس غور کریں.ہمارا تو خدا ہمارا رسول اور ہمارا قرآن سے سب سیراب ہوتے تھے.ہر کوئی اپنی جگہ یہی سمجھے بیٹھا تھا کہ بس بشرط حوری صرف اور صرف میری ہیں.سب رہی ہے جو آپ کا ہے.ہم کیسے کا فر ہو سکتے تھا اور اس وقت مجھ سمیت ہر کوئی یہی سوچ رہا تھا کہ اس

Page 37

مصباح دیوه ۳۷ 37 دسمبر ۱۹۹۳ء جیب بھی ان سے ملو بانہیں پھیلا کر اپنے وجود میں سما کے لئے کیسے کیسے انمول انعامات کے ختنہائی اپنے لئے لینا اور پھر کہنا...ارے میری جان میری چندا کہ کہ سمیٹ لئے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کا رخسار سے رخسار ملا دینا اور دیر تک اپنے وجود سے سایہ ہمیشہ ہی ان کے مہروں پہرے ہو.ہمیشہ اللہ تعالیٰ ان لگائے رکھنا.جیسے اپنے اندر کی نیکیاں اور پیار کا حامی و ناصر ہو نگہبان ہو.دوسرے کے وجود میں منتقل کر رہی ہوں.بچے ماں کا کپر تو نہیں.عشق حقیقی اور یمی بیان نہیں کر سکتی کہ اس وقت مجھے کیسا سکون عاشق رسول میں اپنی ماں کی شدت اور تڑپ سے بھی لتا اور میرا دل یہی چاہتا کہ کاش کوئی ایسی برتی ہو آگے نکل بھائیں.وہ ماں جو اپنے حبیب کا نام نامی ضرور ہوتی جو ان کے وجود کی نیکیاں ، سچائیاں ان زبان پر آتے ہی عجیب کیف و سرور کے عالم میں چلی جاتی.کے کردار کا تمام شمع ، تمام رعنائیاں میرے اندر منتقل اور حبیب کبریا کے لئے انتہائے محبت میں ڈوبا ہوا کر سکتا.کاش ہم بھی ان جیسے بن سکتے.اور جب میں ان ہر کلمہ دوسروں کو رہا جاتا.مُردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ کر سے کہتی بشری باجی دعا کہ ہیں کہ ہم بھی آپ جیسے بن جائیں رکھ دیتا کہ ہم دعویدار تو اس محسن انسانیت کے ہیں اور تو سنس کو کہتیں.تہیں میری جان ہیں تو کچھ بھی نہیں ہمارے اعمال کیا نمونہ پیش کر رہے ہیں.جبکہ بہتر کی باجی یکیں تو بہت گنہگار ہوں.اور میرا دل پہلے سے بڑھ کر کی آواز کا سحر اور بھادو اس حقیقت کا غماز تھا کہ ان کا معتقد ہو جاتا.قول و فعل میں پوری ہم آہنگی ہے کہ اس کے بغیر شخصیت خدا تعالی پیر کامل تو کل اور بھروسے کا عجب حال کا سحر اور جادو ممکن ہی نہ تھا.تھا.بڑی سے بڑی آزمائش اور شدید غم کے موقع پر بھی آخرمیں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ میر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتیں اور یہی کہتیں.وہ اس مجسم پیار ومحبت کے پیکر پر ہمیشہ پیار کی ہیں نہیں تو یہ میرا خدا ظالم ہر گتہ نہیں.اس نے یقینا نظر رکھے.اس کو اپنے قرب خاص میں جگہ دے کہ اسے کسی اور بڑے طوفان سے ہمیں بچا لیا ہے.اس کے تو بڑے اللہ وہ تیری شیدائی تھی.اپنی چادر رحمت میں اس کو کریم.بڑی عنایات ہیں ہم پر." میرا خدا ظالم نہیں.سمیٹ لینا اور اعلیٰ مدارج کی جنتوں کا حادث ٹھہرانا.اور آج ان کے مجازی خدا محترم داؤ د بھائی جان اور تین پیارے پیارے پھول.اپنی بیوی اور ماں کے اسی فلسفے کو سینے سے لگائے صبر و رضا کی انوکھی اور عظیم درخواست دعا داستان پیش کر رہے ہیں.اور ان کے لبوں پر بھی ہیں کلمہ ہے کہ "اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو ہم نہیں سمجھ سکتے.مکرم سید سجا واحمد مصابا بیمار ہیں.بعض پریشانیاں بھی تمہارا خدا ظالم نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم فرمائے اور شفائے کاملہ و اور میں سوچ رہی ہوں ان سب نے دنیا اور آخرت عاجلہ عطا فرمائے.

Page 38

مصباح ریده 38 مرسو تمبر ۱۹۹۳ء تقسیله مشهود پیارا ہے.پیاری باجی جبری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس ماں کو کہاں سے پر دنا رشتے میں عموما کچھ لگاوٹ ہوتی ہے مگر ہمارے درمیان شروع کروں اس کا ایک ایک موتی بہت خوبصورت اور ایسی کوئی بات نہ تھی.مجھے اکثر کہتیں تم تو مجھے بے بی کی طرح لگتی ہو ر بے بی آپ کی چھوٹی بہن کا نام ہے).سب کو میری جان میری جان کہنے والی بیشتری یا جی میں دل میں سوچتی کہ کیا واقعی ایسا ہی ہے پھر جب خود سب کی جان تھیں کیا میکہ ، کیا سسرال خاندان اپنے دل میں جھانکتی تو مجھے ایسا لگتا کہ اگر میری کوئی کے سب چھوٹے بڑے آپ سے محبت کرتے تھے بلکہ آپ بڑی بہن ہوتی تو مجھے اسی طرح پیاری ہوتی جیسے بشری خود ہر عمر کے فرد کی نفسیات سمجھتی تھیں.اور ہر ایک سے با جی.اس لئے ان کی بات پر یقین آجاتا.نہیں نے بشری پیار کرتی تھیں آپ کے منہ سے کبھی کوئی ایسی بات نہ با حیا سے بہت کچھ سیکھا جب سے میری شادی ہوئی نکلتی جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو.یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہر رنگ میں میری راہنمائی کی.ہر شخص آپ کی طرف کھینچتا چلا جاتا.جو ایک آدھ دفعہ اکثر باتوں میں ان سے مشورہ لیا کرتی اور وہ بھی بھی آپ سے ملا وہ آپ کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر ایسی ایمانداری اور خلوص سے مشورہ دیتیں کہ پوری نسلتی کمہ وا دیتیں.چونکہ ان کا علم بھی زیادہ تھا.اس لئے نہیں رہ سکا.بشری یا جی اچھی مصنفہ اور اچھی مقررہ تھیں.اس اکثر باتیں ان سے پوچھ کر تسلی ہوتی تھی.سے تو سب ہی واقف ہیں.ہمیں ان کی گھر یلو زندگی کے میری بڑی بیٹی کا فی شریر تھی نہیں اُس کے متعلق پریشان رہتی باجی کو دُعا کے لئے کہتی وہ ہمیشہ مجھے بارے میں کچھ لکھنا چاہوں گی.با جی سب سسرال والوں سے بہت محبت کرتی تھیں.تسلیاں دیتیں اور ساتھ تہمیت اور اصلاح کے طریقے اور ہم سب دیورا نیوں کو اپنی بہنوں کی طرح چاہتی تھیں اکثر بھی بتائیں.کہا کھوتی تھیں کہ جب سے میری شادی ہوئی میں نے کبھی گھر کو سجانے کا بہت شوق تھا.جب ہم لوگ نہیں سوچا کہ ہم پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں.بلکہ اُن کے گھر جاتے تو جو چیز نئی بنائی یا نخریدی ہوتی وہ رو پوروں اور نند کو ساتھ شامل کر کے کہتی کہ ہم بڑے شوق سے دکھائیں.مہمان نواز اتنی تھیں کہ جس وقت کچھ بہنیں اور چار بھائی ہیں.بھی چلے جاتے وقت بے وقت تو ہر طرح مہمان نوازی مجھ سے دیورانی جیٹھانی کا رشتہ تھا.اس کتریکی اور بے وقت آنے کا ذرا بھی برا نہ منائیں کبھی ان

Page 39

مصباح بوه ۳۹ 39 دسمبر ۱۹۹۳ء کی مصروفیات یا بیماری کو دیکھ کہ ہم گھر سے کوئی چیز جان بھی شہر سے باہر گئے ہوئے تھے.پھر بھی اتنی پکا کر لے جاتے تو بہت برا مناتیں اور کہتیں کہ میرا ہمت سے کام لے کر میرا اتنا خیال رکھا.پہلے بھی اکثر گھر کوئی پکنک پوائنٹ نہیں ہے.کھانا بہت اچھا اچھی اچھی چیزیں پکا کر بھیجتیں.پیکاتی تھیں نئی نئی ڈشز تیار کرنے کا بہت شوق تھا.یکیں اُن کے انسانوں کا کچھ بھی بدلہ نہیں دے پوروں سے بہت پیار کرتی تھیں.گھر کے اندر سکتی سوائے اس کے کہ دُعا کروں کہ خدا تعالیٰ باجی باہر ہر جگہ گلے سجائے ہوئے ہیں اور ان کا بہت کو ان کی نیکیوں کا بڑھ چڑھ کر اجر دے.اور ان کے خیال رکھا کرتی تھیں.رلیاں بنانے کا بھی بہت شوق تھا.بچوں کو دین و دنیا میں ہر طرح کا میاب بنائے جس کا مختلف کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سنبھال کر رکھتیں انہوں نے اپنی زندگی میں تصور کیا ہوگا.اور پھر اُن کو جوڑ جوڑ کر بڑی محنت سے ریلیاں تیار کر ہیں.سخت محنتی تھیں اتنے سارے جماعت کے کام کرتیں اور پھر گھر کو بھی پورا وقت دیتیں.ساری ساری رات واقفین بچوں کا جنرل نالج بڑھائیں جاگ جاگ کر کتابیں لکھتی تھیں.کپڑے بھی خود سیتی حضور نے فرمایا : "عام طور پر دینی مایا میں نہیں کمزوری تھیں.بیٹی کے کپڑوں پر خاص توجہ دیتی تھیں.بہت خوبصورت فراک بنائیں.ہر کسی کی ہمدرد تھیں.کسی کی دکھائی دیتی ہے کہ دین کے علم کے لحاظ سے تو ان کو علم کافی وسیع ضرورت کا پتہ چلتا تو فوراً اس کی ضرورت پوری کرنے اور گہرا بھی ہوتا ہے، لیکن دین کے دائرہ سے باہر دیگر دنیا کے دائروں میں وہ بالکل لاعلم ہوتے ہیں.اس لئے جماعت کی کوشش کرتی.دعوت الی اللہ کا اس قدر شوق تھا کہ گھر میں احمدیہ کو اس سے سبق سیکھنا یا ہیئے اور وسیع بنیاد پر قائم آنے والی ماسی اور دودھ والے کو بھی جماعت کی باتیں دینی علم کو فروغ دینا چاہئیے.یعنی پہلے بنیاد عام دنیاوی علم بتائیں.تین دنوں بیمار تھیں میں ملنے ہاسپٹل گئی تو کی وسیع ہو پھر اس پر دینی علم کا پیوند لگے تو بہت ہی خوبصورت مجھے بہت خوش ہو کہ بنانے لگیں کہ نہیں یہاں پر بھی اور بابرکت ایک شجرہ طیبہ پیدا ہو سکتا ہے تو اس لحاظ سے کافی دعوت الی اللہ کا موقع ملا ہے.سب ارد گرد کے بچپن ہی سے ان واقفین بچوں کو جنرل نالج بڑھانے کی طرف کمروں میں جو عورتیں مریض تھیں ان کا حال احوال پوچھتیں متوجہ کرنا چاہئیے.آپ خود متوجہ ہوں تو ان کا علم آپ میرے سامنے اپنی امی کو بھی بتا یا کہ خانہاں کمرے میں فلاں ی آپ بڑھے گا یعنی ماں باپ متوجہ ہوں اور بچوں کے لئے کے ہاں غالیا کرہ کا ہوا تھا اس کو جاکر مبارک باد ایسے رسائل، ایسے اخبارات لگوایا کریں.ایسی کتابیں پڑھنے کی ان کو عادت ڈالیں جس کے نتیجہ میں ان کا علم وسیع ہو.خطبه جمعه فرموده ۱۰ فروری ۱۹۸۹ ء ) دے آئیں.جب میرا چھوٹا بیٹا پیدا ہوا بشری باجی نے مجھے اچھی اچھی چیزیں پکا کر بھیجیں.حالانکہ ان دنوں بھائی.

Page 40

مصباح ریده 40 دسمبر ۱۹۹۳ء خور جہاں بشری داؤد بشری کی زندگی قابل رشک تھی اُس کی رحلت کبھی ایک لفظ بھی ان کے کردار کے خلاف نہیں بھی قابل رشک ہوگئی.پیارے آقا حضرت امام جماعت احمدیہ شنا محبت کے ساتھ لجنہ کے فرائض سرانجام تے ۲۳ تولائی ۱۹۹۳ ء کے خطبہ جمعہ میں اُس کا ذکر دینے والی لیکن جو حسین بیان کا ملکہ خدا تعالیٰ نے با این الفاظ فرمایا :- بخشا تھا وہ خصوصیت سے سیرت کے بیان پر آج نماز جمعہ کے بعد دو پا کیا نہ خواتین کی نماز جناز ایسے جلوے دکھاتا تھا کہ دور نزدیک ان کی شہرت پڑھائی جائے گی جو خدمت دین میں پیش پیش تھیں یا پھیلی ہوئی تھی اور جب بھی سیرت کے مضمون پر دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور عبادات میں زبان کھولتی تھیں تو ایسی متعصب خواتین بھی جو احمدیت اور لوگوں کی نیک تر سمیت کرنے میں انہوں نے اپنجا زندگی سے دشمنی رکھتی تھیں.اگر وہ اُس جلسے پر لوگوں کے صرف کی اُن میں سے ایک ہماری بیشتری داؤد حوری ہیں کہنے کہلانے پر حاضر ہو گئیں تو ایک ہی تقریریش جو مکرم محترم مرتد اعبد الرحیم بیگ صاحب نائب امیر کراچی کی کے اُن کی کایا پلٹ جایا کرتی تھی وہ کہا کرتی تھیں صاحبزادی ہیں.اکثر پہلوؤں سے اپنے باپ کے سب گئی کہ اس کے بعد ہمیں کوئی حق نہیں کہ جماعت احمدیہ انہوں نے اپنے وجود میں زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے پر یہ الزام لگائیں کہ ان کو حضور افارس محمد رسول اللہ اور بے لوث خدمت جس کے ساتھ کوئی دکھاوے کا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت نہیں ہے.تحریر عنصر نہیں اور انتھک خدمت جو مسلسل سالہا سال کا بلکہ بھی خدا نے عطا فرمایا تھا اور کئی کتا نہیں چھوٹی خدا کنانہیں تک رواں دواں رہتی ہے.یہ وہ دو خصوصیات ہیں چھوٹی سیرت کے موضوع پر لکھیں.ان کا آپریش جن میں مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نمایاں حیثیت وا تھا جس کے بعد گھر واپس آرہی تھیں کہ اچانک رکھتے ہیں.یہی دو خصوصیات پوری شان کے ساتھ عزیزہ دل کا دورہ پڑنے سے وفات ہو گئی.اللہ غریق رحمت جوری میں موجود تھیں اور حسین بیان کے ہلکے سے خدا نے فرمائے.ساری جماعت کراچی سے کیکی تربیت کرتا ایسا نوازا تھا کہ اپنے ہوں یا بغیر ہوں جو بھی اُن کی ہوں.مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب ان کے خاندان تقریریں سنتا تھا وہ ہمیشہ ان سے گہر ائر لیتا تھا ان کے میاں داؤد سے اور بچوں سے بلکہ میں سمجھتا اور رطب اللسان رہتا تھا ان کی تعریف ہیں.نہیں ہوں.ساری جماعت کماچی تعریت کی محتاج ہے اور لجند اما واللہ کراچی خصوصیت سے تعزیت کا حق نے کبھی کسی کو اچھ کی یا باہر سے آنے والی خاتون سے سے

Page 41

مصباح ریوہ دسمبر ۱۹۹۳ء رکھتی ہے.سب دنیا کی عالمگیر جماعتوں کی طرف سے میں دلچسپی تھی.جمیلہ عرفانی صاحبہ انقلابی پر و گرام سوچتی بہ تعزیت کا پیغام اُن کو پہنچاتا ہوں.اللہ اسے اور جواں عمر لڑکیاں تن من سے مصروف کار رہتیں.غریق رحمت فرمائے اور جیسی سیرت کے بیان پر انہوں کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی (باٹنی) کیا محترمہ نے اپنی زندگی صرف کی رخدا تعالیٰ اس سیرت کے فیض سیده حبيبية الرحمن قدسیہ صاحبہ اور محترم محمد سعود احمد سے ان کے بچوں کو صبر محمد کی عطا کرے.ان کے صاحب قریشی کے بیٹے دار واحد صاحب قریشی سے خاوند ان کے والد اور دوسرے عزیزوں کو ان کی ۱۹۷۲ ءریلی شادی ہوئی.شادی کے بعد امیران میں والدہ کو اور دوسرے عزیزوں کو سب کو خدا صبر بھی سلسلہ کی خدمت کی راہیں نکالیں.ایران میں بہتری محمد ی عطا فرمائے اور سیرت کا یہ فیض ان کے جیسی فعال اور متحرک احمدی خانوں کو یہ تاثر دیا گیا خاندان کو خصوصیت سے پہنچے کہ یہاں احمدیت کی شدید مخالفت ہے.اگر کسی کو معلوم یہ خوش نصیب خاتون اور جہاں بہتری وارد ہو جائے کہ کوئی احمدی ہے تو کسی بہانے گھر سے ہواتے محترمہ نور جہاں بیگ اور محترم مرزا عبدالرحیم بیگ ہیں اور پھر تا حیات خیر نہیں ملتی کہ وہ کہاں کھپا دیا ایڈووکیٹ نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی کی دختر گیا.اس لئے یہاں دستور زباں بندی پر کاربند رہنا نیک اختر تھیں.اس کے دادا محترم مرزا عبد الحکیم بیگ ہے مگر بشری کے لئے یہ احتیاط آمیز بندشیں نئے معنی صاحب کلیانہ ریاست جنید کے ایک معزز گھرانے تھیں.پہلے اُس نے احمدی گھرانوں سے روابط بڑھائے سے تعلق رکھتے تھے اور نانا حضرت حکیم عبدالصمد پھر اپنے گھر پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ و ستم کا جلسہ کیا صاحب دہلوی رفیق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تھے شرعی جس میں غیر از جماعت جہان بھی مدعو تھے اس کے ساتھ ۲۷ جنوری ۱۹۴۶ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں.پانچویں ہی باقاعدہ مجنہ قائم کی.عہدے دار مقرر کیں.بیٹری کے چھٹی کلاکس سے ناصرات الاحمدیہ کی سیکر ٹری کی حیثیت حسن سلوک سے دائرہ اثر میں اضافہ ہوتا رہا اور باد چونکہ سے کام شروع کیا.والدین کی تربیت کے جو ہر کھلنے لگے.حساس عہدوں پر فائز احباب کی بیگمات بھی شریک ہوتی والدہ حلقہ رام سوامی کی صدر تھیں.اس طرح گھر میں تھیں کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا.وہ لٹریچر بھی دیتیں.تنظیمی کاموں کی تربیت ملتی رہی.بچپن سے ہی ہر تقریریں بھی کرتی اگر کوئی خوف کا اظہار کر تا تو نے کام میں پیش پیش رہنے کا شوق تھا.شرارتیں بھی کیں.سے کہتی کہ نام تو میرا جاتا ہے اگر نقصان ہوگا تو مجھے تفصیل بھی کھیلے.تعلیم میں اچھے نتائج حاصل کئے سکول آپ کیوں ڈرتی ہیں مگر اللہ پاک نے اس شیرنی جیسی کالج اور پھر یونیورسٹی کے زمانے میں مثالی اخلاقی نمونے بہادر کی ہمیشہ استعانت فرمائی اس کا جتنا شکر کی وجہ سے تعظیم حاصل کرتی رہیں.کھل کر اپنے عقائد کیا جائے کم ہے.بیان کرنے کا شوق بھی پایا جاتا تھا.احمدیہ ہال گویا ایران میں ۱۹۷۹ ءر میں دگرگوں حالات پیدا ہوئے دوسرا گھر تھا.ناصرات اور لجنہ کے کاموں میں بے حد جس کے نتیجے میں بغیر ساندہ و سامان کے واپس کو اچی

Page 42

مصباح ريحة - 43 م دسمبر ۱۹۹۳ء آنا پڑا.ایران کی آسائشوں کے بعد تنگی ترشی کا زمانہ اب آمادہ ہوئی تو نئے افراد احمدیت میں شامل کرنے کا انتہائی صبر و استقامت سے گزارا.۱۹۸۱ء میں ٹارگٹ آگیا.اس نے بستر پر لیٹے لیٹے فون کو کر کے حضرت امام جماعت احمدیہ الثالث نے کہا اچھی لجنہ کی کام کروایا.تڑپ تڑپ کر دعائیں کیں.اتنی بے چین تنظیم توڑ کر ایک پانچ رکنی کمیٹی نامزد فرمانی معین کی تھی کہ اس کی حالت دیکھ کر دل کہتا تھا سب زیادہ ایک رکن یشرکی واڈو تھیں.حضور نے خاصی امور کی دعائیں کریں تا کہ منزل قریب نہ آجائے اُس نے ہسپتال طرف توجہ دلائی تھی اور پندرہ روزہ رپورٹ ارسال میں داخل ہو کر بھی کام جاری رکھا.ارد گرد کی خواتین فرمانے کی ہدایت فرمائی تھی.سب ممبرات کو انتھک نے اُس کی امی کو مبارک باد دی کہ آپ کی بیٹی وعظ جان توڑ کام کرنا پڑا.ہر حلقے میں دورے اور تربیتی کرتی ہے تو دل کرتا ہے.سب کام چھوڑ کے میں اس اجلاس کی وائے گئے.بشری نے طوفانی دورے کر کے کو سنتے جائیں.لیکن ہسپتال میں اُس سے ملی تھی کام کو بہت آگے بڑھا یا پھر قیادت نمیرہ کے کام میں ہشاش بشاش تھی.اپنے نئے احمدی بنانے کے کچھ بہتری لانے کے لئے بشری کو قیادت کا نگران بنا ٹارگٹ کی باتیں کہتی رہی.دیا گیا.عہدے سے انصاف کرنے کو جڑو ایمان ۲۰ جولائی کی سہ پہر کو ہولی فیملی سے ڈاکٹر سمجھنے والی نے اس ذمہ داری کو بھی با حسن پورا کیا کا فون آیا اور اُس نے یہ جانکاہ خبر سنائی کہ ہماری پھر سیکریٹری اصلاح و ارشاد بنا دی گئی.تادم آخر وہ پیاری بشری مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئی ہے.یہی فریضہ سر انجام دے رہی تھی.اتنی سرگرمی سے خدا کے ہیں خدا کے پاس سب کو لوٹ بھاتا ہے کام کرنے کی وجہ سے اپنی شرابی صحت کو ہمیشہ یہ دنیا عارضی ہے مستقل وہ ہی ٹھکانا ہے ٹالتی رہی.اُسے کئی عوار من لاحق تھے کبھی بالکل بے دم ہو جاتی مگر پھر کوئی کام آجاتا تو اپنا نفس بھلا کے گھر گھر رہتی پس پشت ڈال کے بچوں کو سے بڑے آرام سے جان دے دی.صبر کی تلقین کر کے کام میں محبت جاتی.پہرا ہم جیسے جین سعادت مندی سے وہ ساری عمر خدا تعالیٰ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کرتی تھی اسی معان و مندی اُس کے ضعیف العمر والدین کی ایسی بیٹی قصت پر مشکل ترین ڈیوٹی اس کو سونپ دی جاتی اور وہ ہو گئی جو کبھی صدیوں میں پیدا ہوتی ہے.لجنہ کہ اچھی ڈیوٹی ہو یا نہ ہو.ہلکان ہونے کی کوئی نہ کوئی صورت سے غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک عہدیدار رخصت ہو گئی.نکال لیتی.وہ جماعت کے کاموں کو ترجیح دیتی اور مجھے اب وہ بڑی کبھی نہیں ملے گی جو دکھ سکھ اور صحیح معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم رکھتی.کام میں ہمدم و رفیق تھی جو کہتی تھی تم سے تو میں اس کام اور میں کام تیزی سے ، جلدی سے مستعدی طرح بات کرتی ہوں جیسے انسان خود سے باتیں کرتا ہے.سے کرنے کی عادی تھی.تین چار سال سے اپنے ہم کوئی دو نہیں تھے.داؤد بھائی سے ان کی مجسم آپریشن کو کام ہی کی خاطر ٹالتی آرہی تھی حتی کہ سکیت با وفا جیون ساتھی اور عبد الرحمن ناصر العمر

Page 43

مصباح ریوه ۴۳ 43 ومبر ۱۹۹۳ء ۱۹ سال).سیف الاسلام طاہر (بعمر ساڑھے سولہ سال شدید احساس کے ساتھ ایک ڈیڑھ سال پہلے اس اور عطیۃ الحبیب طوبی (بعمر ساڑھے نو سال) سے نے ایک لیے ماں کی بیٹی کی شادی کا سامان تیار کیا اُن کا ٹھنڈا سایہ اُن کی ماں بچھڑ گئی.اس دلدوز نخود اپنے گھر سے بہت سی ضروری چیز ہیں لیں اور سانے سے بہت آنکھیں اشکبار ہوئیں.جس نے کچھ سہیلیوں کو تحریک کی.اس طرح بہت اچھا ضرورت شنا پہلے تو یقین نہیں کیا پھر اُس کے آخری دیدار کا سامان بہتا ہو گیا.بڑی خوش تھی کہتی تھی پتہ کے لئے لیکے کھڑے ہونے کو جگہ نہ تھی تمرینا موکشی نہیں طوبی کی شادی کے وقت میں ہوں گی یا نہیں سکیوں کیا ہوں اور آنسوؤں کے نذرانے کے اللہ کرے کوئی اسی طرح میری طولی کا کام بھی سوا سب نے بے حد مہر کا نمونہ دکھایا.احمد یہ حالی میں کرا دے.جنازے کے وقت بھی بے مثال حاضری تھی اور ہر ایک اسی طرح کے حسب سلوک ہے وہ کراچی میں مقبول ترین کی زبان پر تھا.وہ کتنی اچھی تھی.ہر ایک کو محسوس خاتون تھی.احمد یہ مال کا عملہ حتی کہ خاکم دب اور باہر ہو رہا تھا کہ اُس کے ساتھ بشریٰ کا سب سے زیادہ بریانی بیچنے والا سب اُس کی بے حد عزت کرتے اور تعلق تھا بیشتر کی اس قدر پیار سے بات کرنے کی عادی وہ سب کا حال چال پوچھتی رہتی.اس کا حلقہ احباب تھی کہ اپنے پرائے کا دل موہ لیتی.اس کا دل پیار کا بہت وسیع تھا.چھوٹے چھوٹے پیار بھرے تھے خزانہ تھا.خالہ جان ، آپا جان ، میری چاند، میری دینے کے لئے اُس کے پاس بہت کچھ ہوتا منکسر المزاج جان کہہ کر مخاطب کرتی ہر ایک کی تکریم کرتی.سب اور پیچھے رہ کر کام کرنے والی تھی.جتنا کام وہ بچوں کو اپنے بچے ، سب لڑکیوں کو اپنا ذمہ داری اور اکیلی ذات کہتی تھی اُس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا.سب بڑوں کو قابل احترام سمجھتی.اُس کا یہی جادو تھا.گہ یہ کام نام کے لئے نہیں ہوتا تھا.وہ پیدا ہی کہ وہ سب کو کام پہ آمادہ کر لیتی.اور صلاحیتوں کو کام کے لئے ہوئی تھی وہ تنظیم سپہ نثار ہوتی رہی اجا گر کر کے ، بڑھاوا دے کر، خود مدد کر کے دین اور بالآخری جان بھی دے دی.وہ راتوں کو جاگ جاگ کی خدمت کی راہوں پر ڈال دیتی.اُسے غریبوں سے کہ کام کرتی.کبھی رات گئے فون آتا تو زندگی سے بطور خاص محبت تھی.کسی کی مجبوری دیکھ کر دل بھر پور آواز میں خوشی خوشی بتائی.اس وقت عجیب تڑپ جاتا.ایثار و قربانی سے وہ دوسروں کی مدد کرتی چیز پڑھی.دل چاہا تمہیں بھی شریک کروں یہ او یہ اور پھر جس کا دوبارہ ذکر کرنا تو در کنار وه ہمیشہ شرمنده وہ بہت خوبصورت کوئی اقتباسی سناتی.فون پر ہماری سی رہتی کہ جس قدر چاہیے تھا کہ مد کی جاتی اتنی گفتگو دو پھلوں کی گفتگو ہوتی.عجیب بلند و بالا منصوبے ممکن نہ ہو سکی.اگر اس کا بس ہوتا دنیا میں کوئی سیرت پاک کے متعلق نئی نئی باتیں.حضور ایده الورود حاجت مند، بیمار ، مجبور، ہے بس ایسا نہ ہوتا جس کی یادیں، جماعت کی ترقی کے لئے تجویزیں خطبات کی کے پاس پہنچ کہ اس کی مدد نہ کرتی اور عزت نفس کے شیریتی، غرضیکہ ہمارے موضوع تمام خواتین کے مروجہ

Page 44

1 1 1 1 1 مصباح ربوه دسمبر ۱۹۹۳ء موضوعات سے یکسر مختلف تھے اور دوران گفتگو سامنے نظر آجانا تو میں اُس سے لپٹ جاتی پھر نہ بشری کی سلائی مشین چلنے کی آواز بھی آتی رہتی یا چھوڑتی.وہ کتنا پیارا ہوگا جس نے حضرت رسول کریم کسی دوسرے کام میں مصروف ہوتی کیونکہ ہم کو گھر صلی اللہ علیہ وسلم جیسی پیاری ہی تھی تخلیق کی.وہ کے روز مرہ کے کاموں سے فرصت پا کہ بلکہ کھینچ تان دعا کرتی کہ بخدا تعالیٰ اسے اس جماعت نہیں شامل کے فرصت نکال کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتا ہونا کرے جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا صبح شام دیدار کرایا جائے گا.اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اس ینٹری ہے بعد ملتی تھی خود سارا کام کرتی.1 بشری خدا کی رضا کے حصول کے لئے تیمی کی یہ اور سب دُعائیں قبول فرمائے.رہتی اور ایسی راہیں تلاش کرتی جس سے اللہ پاک بشری کے گھر جاؤ تو ہر طرف سلیقہ بولتا ہوا کی خوشنودی کی کوئی سبیل نکل آئے.وہ ہر بات کا دکھائی دیتا.پودوں کا بے حد شوق تھا.بیٹریوں رخ خدا تعالیٰ کی طرف موڑ دیتی.بہت دعائیں کرتی.میں دو منزل پہلے سے گملوں کی قطار بشری کے گھر اللہ پاک پر اُسے ایسا تو کل تھا کہ کبھی گھیراتی نہیں کے قریب کا پتہ بتا دیتی.ایک دفعہ ایک تھی.جب اُس کے ابا جان کو دل کا دورہ ہوا تو اس خاتون نے گھنٹی ہوا کہ دروازہ کھلنے پر کہا " اگر کی بے چینی اور بے قراری کا عالم دیدنی تھا مگر وہ آپ پسند کریں تو میں اندر سے آپ کا گھر دیکھنا اللہ پاک کی حمد وثنا کے ساتھ یہ دُعا کرتی یا پاک چاہتی ہوں.میں کا گھر یا ہر سے اتنا خوش نما ہے پروردگار جماعت کو ایسے وجودوں سے مالا مال رکھ اندر سے کیسا سجا سجا ہو گا.میرے ابا جان درویش تھے اور اس کے ابا جان در دیش صفت اور میرے آیا جان کے ہم نام ہونے کی وجہ کفایت شعاری کی عادت تھی.بے کار چیزوں سے سے بھی مجھے ان سے انتہائی عقیدت ہے.توکل علی کار آمد چیزیں بنانے کا ہنر رکھتی تھی.سندھی طرف اللہ کا درس اُسے گھر کی تمہ ہمیت سے ہا تھا.خدا تعالٰی کی رلیاں بڑی مہارت سے بنا لیتی.چھوٹے چھوٹے اُس کی غیر معمولی طور پر مدد کرتا ہے وہ تحدیث نعمت چوکور کپڑے کاٹ کاٹ کہ ہاتھوں پر گئے پڑ جاتے.کے طور پر کبھی بیان کرتی مگر زیادہ تر اُسے ایسے اسی طرح پرانے کھیلوں پر غلاف چڑھا کہ دوبارہ واقعات کا دہرانا پسند نہ تھا.اُس کی غیرت اور کارہ آمد بنا لیتی.سلائی کڑھائی بڑے سلیقے سے کرتی.حجاب کی وجہ سے نہیں بھی اُس پیار بھرے سلوک کپڑوں پر پینٹ بھی خوبصورتی سے کیا اُسے نت کا ذکر نہیں کرتی.اتنا لکھنا کافی ہوگا کہ وہ اپنی نئے ڈیزائن سوجھتے اور شدید خواہش رکھتی تھی ضرورت اور اختیارچ صرف اور صرف اپنے اللہ تعالیٰ کہ سب احمدی لڑکیاں ہر قسم کا کام سیکھیں.کھانا سے بیان کرتی اور وہ معجزانہ طریق پر اس کی مدد کم لاگت میں کئی قسم کا تیار کر لیتی.کھانا کھلانے کا کرتا کبھی کبھی نجیب انداز میں کہنی کاش اللہ تعالٰی شوق کھانے سے زیادہ تھا.رزق ضائع کرنے پر بہت

Page 45

مصباح ربوہ دیدہ زیب بنا لیتی.اس کی خوش قسمتی تھی کہ اُس مبر ١٩٩٣ ء غصہ آتا.پلیٹ میں کبھی کھانا نہ بچاتی اور ہر قسم وقت ہی نہ رہا صرف کاغذ پر نوٹس لے کر بہت کی سادہ سے سادہ چیز رغبت سے اللہ تعالی کا شکر اچھی تقریر کرتی.اکثر ہم لوگ علاقہ اور سامعات ادا کر کے کھاتی.مچھلی اور بریانی خاص طور پر انڈیز کا معیار دیکھے کہ موضوع منتخب کر تے مین جلسوں پکاتی تھی.اُس کا گھر ہمیشہ صاف ستھرا ہوتا.لباس میں اکٹھے جاتے راستے میں موضوع یہی رہتا.اگر بہت نفیس پہنتی.جن کا قیمتی لباس پہنے کو اصراف یکی ساتھ نہ بھاتی تو بھی ہم سامعات کے تاثرات سمجھتی.عام سے کپڑے کو سجا کی بیلیں وغیرہ ٹکا کر اور تقریر کی.ایسے پہلوؤں پر گفتگو کرتے جن کو زیادہ موثر بنایا جا سکتا تھا.کہیں کا غذ پر پوائنٹ پیر پر لباس سمجھا تھا.چار گنز کے چنے ہوئے بیل کے لکھتی رہتی جو بعد میں اُسے بتاتی تو وہ کبھی برا نہ ہوئے دوپٹے سلیقے سے اور حتی.اسی طرح بچوں کو مانتی.جلسہ سیرت النبی کے پروگرام میں بیشری کا نام بھی موقع کی مناسبت سے تیار کرتی.اُس کے گھر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسے کی کامیابی کی نوید بن بیانا.بچی بھی دھجیاں بھی ہے کار نہیں جاتی تھیں.عام جلسے کرنے کا شوق بھی اُسی کا پیارا کیا ہوا تھا.پھر استعمال کی معمولی ٹوکریوں پر جھالریں لگا کہ سجا لیتی.جیسوں پر غیرانہ جماعت بہنوں کی آمد سے دعوت الی الله ہر قسم کے بیگ خود تیار کرتی تھی.جن کو دیکھے یقین کا ایسا سلسلہ چل نکلا جس کا چسکا عام ہوتا گیا.بشری نہیں آتا تھا کہ گھر میں تیار کئے گئے ہیں کی طبیعت کشتی بھی شراب ہوئی جلسہ سیرت میں بلاوے اجلاس ، سالانہ احتجا جاتے ، جیسے خاص طور کو حتی المقدور نہ ٹالتی.اکثر اوقات دوا کھا کھا کے پر جلسہ ہائے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بہتری جلسوں میں جاتی.اُس کے موضوعات بھی بڑے منفرد کو خاص دلچسپی تھی.تقریم کی تمیمیت بچپن سے شروع ہوتے ایسا سماں بندھ بھاتا کہ عورتوں کی آنکھوں ہوئی تھی کئی مرتبہ ناصرات اور لجنہ کی نمائندگی میں دیوہ سے آنسو رواں ہو جاتے پھر وہ تقریر کو خاص میں اور کراچی میں تقریری مقابلوں میں اول انعامات نقطہ عروج پر پہنچا کر رخ عہد حاضر کی طرف موڑتی.لئے.اُس وقت کی سیکرٹری جنرل محترمہ جمیلہ عرفانی صاحبہ اور موجودہ دور کی قباحتوں سے بچ کو اسوہ محمدی نے تقریر کا فن سکھانے میں خصوصی دلچسپی لی.اور اپنانے کا درس دیتی.حضرت امام وقت کے اشعار بڑی محترم مولانا عبد المالک تھا تصاحب کے تقریبہ کے سٹائل روانی سے مناسب جگہ پر اچھے انداز میں پڑھتی خاص سے غیر شعوری تاثر کے ساتھ بہتری کا اپنا انداز تقریر طور پر یہ بند گہرا تاثر چھوڑتا مرتب ہوا.اُس کو قدرت نے خوشگوار بلند آوازدی اس رحمت عالم ابر کرم کے یہ کیسے متوالے ہیں تھی اردو کا تلفظ اچھا تھا سب سے بڑی بات اس وہ آگ بجھانے آیا تھا.یہ آگ لگانے والے ہیں کے اندر موجیں مارتا ہوا سر شار جذبہ تھا.پہلے لکھ وہ والی تھا مسکینوں کا ، بیواؤں اور یتیموں کا کہ مضمون پڑھا کرتی تھی.پھر اس کے پاس لکھنے کا یہ ماؤں بہنوں کے سر کی چادر کو سہلانے والے ہیں

Page 46

مصباح ریون NY 46 دسمبر ۱۹۹۳ء وہ مجود وسما کا شہزادہ تھا بھوک مٹانے آیا تھا لڑکیوں کو سمجھاتی.اچھی باتوں کا سرا مینا اُس کی عادت یہ بھوکوں کے ہاتھوں کی روٹی چھین کے کھانے والے ہیں میں شامل تھا غیرانہ جماعت بہنیں ایک خاص انداز کے میلاد بشری نے کراچی میں لمبا عرصہ کام کیا کئی صدروں کی عادی ہوتی ہیں " پڑھنے والی کا صی وضع کی خاتون کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا.وہ سب کے ساتھ ایک ہی سٹائل سے سیرت نبوی کے ایسے پہلوؤں کو انتہائی ادب اور محبت سے کام کرتی.محترمہ آیا نصیرہ بیان کرتی ہیں جن میں روایت ہے سے شروع کر کے بیگم صاحبہ کہا کرتی تھیں جب بیٹری کو ایسی جگہ غصہ یا جھوم جھوم کے ایک ہی قسم کی مبالغہ آمیز بغیر سند کی جوش آجاتا جہاں تحمل کی ضرورت ہوتی تو یکی اُس روایات شامل ہوتی ہیں.یہ خواتین جب ہمارے جلسوں کا ہاتھ پکڑ لیستی بیشتری سمجھ جاتی اور فوراً اطاعت میں میں آتی ہیں اور پڑھی لکھی خواتین سے پر مغز تقاریر خاموش بیٹھ جاتی.آیا سلیمہ میر صاحبہ بھی بشری کو سنتی ہیں.تو ایک ہی جلسے سے اُن کی کایا پلٹ بے حد پیار کرتی ہیں.اور اس کی صلاحیتوں کی معترف جاتی ہے.خاص طور پر خوش و ضع خوش لباس بشر کا ہیں اس کی صحت کا فکر ہوتا.بڑی دردمندی سے کہتے ہیں کا پُرکشش اندازه تقریر اور اس میں سیرت کا مبسوط ینٹری اپنا تو جہ سے علاج کرواؤ تمہارے بچوں کا بیان بہت بھلا لگنا.بشرکی جن جلسوں میں نظریں کرتی بھی تم پر حق ہے.عجیب انداز سے جواب دینجا." یہ ان کی حاضری میں اضافہ ہو جاتا.جلسے کا انتظام کرنے بچے میرے تھوڑا ہی ہیں.اللہ پاک کے ہیں وہ چاہے والی عمیر بھی جلسہ گاہ کی تیاری کے بعد بشری کے آنے پر گا کہ میں اچھی ہو کہ ان کی خدمت کروں تو مجھے اچھا سبکدوش ہو جاتی کہ اب وہ ہر طرح سنبھال لے گیا.کر دے گا " صدروں کے علاوہ مجلس عاملہ کی میرات ، بشری اپنے لئے نمایاں جگہ کبھی پسند نہ کرتی.فرش اپنے شعیر اصلاح و ارشاد کی عہدیداروں سے تعاون پر بیٹھتا اسے مرغوب تھا اسی طرح جلسوں پر بھانے اور قلبی تعلق رکھتی.لجنہ کراچی ، کا نام ہمیشہ اونچا کے لئے سواری طلب نہ کرتی.بس کے ذریعہ چلی جاتی.دیکھنا پسند کراتی - اتحاد اور یک جہتی کی برکت کو خوب اگر کوئی از خود انتظام کر دے تو اس سہولت سے سمجھتی تھی.کہیں انتظامی جھول دیکھتی تو نیک نیستی اور خلوص سے یہ ملا اصلاح کی کوشش کرتی اگر بھی فائدہ اُٹھاتی.اس کے شوق بے پایاں میں دوسری مقررات عملاً کچھ نہ کو سکتی تو دعا ضرور کرتی کہ ہماری تلاش کر کے ان کو تقریر کا فن سکھانا بھی شامل تھا.کمزوریوں کی پردہ پوشی ہوتی رہے.اُسے منافقت کئی دفعہ اپنے دوسرے کام میں مصروفیت کے دوران پر بڑا غصہ آتا.ہماری نجی محفلوں میں بشری کے تپ وہ لڑکیوں کی تقریریں درست کر رہی ہوتی.جب اجتماعات جانے کو " بشری میں پر اتر آنا کہتے تھے.میں اسے منصف بنایا جاتا وہ بڑی توجہ سے لڑکیوں کی بشری نے ۱۹۸۹ ء میں جلسہ سالانہ کراچی میں تقای پرش کہ اچھے اور کمزور نکات نوٹ کوتی اور پھر خطاب کیا.یہ کسی خاتون کا پہلا خطاب تھا جو مردوں

Page 47

مصباح ریوہ 47 ام دسمبر ۱۹۹۳ء میں ریلے کیا گیا.1991ء کے جلسہ قادیان کے موقع سرگر میوں اور تبلیغی لٹریچر کی تقسیم کی افراط کا نظارہ پر حضور پر نور نے بشری کو یاد فرمایا.اور جب بشری کرنے کے علاوہ یہ بھی محسوس کیا کہ جب وہ حضرت کو دیکھا تو فرمایا تم بالکل ویسی ہو جیسی سات سال عیسی علیہ السلام کی تعریف میں غلو کہتے ہیں تو پہلے تھیں اور لجنہ لاہور کو ارشاد فرمایا کہ آپ بھی سیرت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت مسیح کے جلسے کریں اور حوری کو بلائیں.یہ بہت اچھی تقریر کی برتری ثابت کرتے ہیں.جس کا مسلمان خواتین کے کرتی ہیں مگر ہائی ائیر بلائیں.چنانچہ حضور کے ارشاد پاس کوئی جواب نہیں ہوتا.کیونکہ کم علمی کے باعث ایسے کے مطابق لیہ لاہور نے انتظام کیا اور بشری کو کئی دلائل نہیں ہوتے کہ حکمت سے جواب دے کر خیرالوسیل جلسوں میں سیرت کے موضوعات پر تقاریر کا موقع ملا افضل الا نبیاد کی کل نبیوں کا سردار ہونے کی عظمت جو بے حد پسند کی گئیں.بشری کو ینگ بینہ کو آگے لانے ثابت کر سکیں.جب رسول سے ابلتا ہوا دل افسردہ کا بہت شوق تھا میں کے لئے وہ تربیتی کو ستر مرتب ہو جاتا اور نہاں خانہ دل میں یہ عزم جوان ہوتا رہا کہ کہ کے کلاسیں لگاتی اور خود پڑھاتی.دیگر بزرگوں کو خدا تعالی موقع عطا فرمائے تو ایسا لٹریچر بکثرت تیار کیا بھی لیکچر کی دعوت دیتی.چنانچہ آخری دن تک اس جائے جو کلمانوں کو اور غیر مسلموں کو اسی خیر البشر کی کی دعوت الی اللہ کی کلاسیں ہماری تھیں.وہ اس گیراتر بے مثال عظمتوں کا قائل کر دے.خواہشات دُعاؤں طریق پر پڑھاتی کہ لڑکیاں گرویدہ ہو جاتیں.وہ چاہتی میں ڈھلتی رہیں اور دعائیں در قبولیت پر دستک دیتی تھی کہ سب احمدی خواتین اپنی سب صلاحیتیں دین کی رہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایسے سامان ترقی میں جھونک دیں چنانچہ بہت سی خواتین جواب پیدا فرما دیئے جو اس تمنا کو عملی جامہ پہنانے کا سبب سرگرم عہدیدار ہیں.اس کی تیارہ کہ وہ ہیں جنہیں کچھ بنے.۱۹۸۷ ء کے اوائل میں ربوہ میں لجنہ کی ایک میٹنگ عرصہ انگلی سے پکڑ کر چلانے کے بعد جب وہ خود چلنا میں جیب حاضر نمائندگان سے صد سالہ جوبلی منانے کے سیکھ لیتیں تو بشری بہت خوشی اور طمانیت محسوس لئے پروگرام مانگا گیا تو بشری نے اللہ تعالیٰ پر توکل کہتی.کام کرنے میں بعض اوقات کسی کی باتیں بھی کرتے ہوئے بجھنہ کراچی کی طرف سے سو کتابیں شائع جنتا پڑتی ہیں ناگوار خاطر باتوں پر نہ صرف خود صبر کرنے کا پروگرام لکھوا دیا.اب اُس کے منصوبہ سیانے کہتی بلکہ دوسروں کو بھی تلقین کرتی.رقیق القلب دل و دماغ کی اڑانیں ہفت افلاک پر تھیں واپس تھی اس لئے آنسو تو آجاتے مگر زبان سے کچھ نہ کہتی آئی تو تنشانے پر عزم چیزے کے ساتھ اپنے پروگرام ہمارے شعیر اشاعت میں بعض مراحل بڑے دشوار گزار لکھواتے اور مختلف طریق پر روبہ عمل کا بنے پر دیر تک ہوتے ہیں.وہ ہمیشہ کہتی تعدا تعالی کے کام میں کبھی نہیں گفتگو کرتی.یوسف کو خریدنا تھا اور دامن نہیں سوت رکھتے.زیادہ دُعاؤں کے لئے ابتلا آتے ہیں.کی انٹی بھی نہ تھی.بشری باٹنی میں ایم ایس سی تھی ایران کے عرصہ قیام میں سیحی مشنریوں کی اور مضمون نگاری کا صرف اس حلقہ تک تجربہ تھا کہ اجتماعات

Page 48

مصباح زاده 48 دسمبر ۱۹۹۳ء کے موقع پر سلسلہ کے لٹریچر سے دیئے گئے موضوع پر نصاب کی فائنل ترتیب دے کو کام بانٹ لئے.سر او جمع کر لیتی.خاکسار کو بھی اہم اسے فائنل کے لئے اس نصاب میں کھیکی سیرت پر سوال جواب کا سارا کام ایک مقالہ لکھنے کے علاوہ بہت کم کبھی کبھارا خیاروں بشری نے کیا.ہمارا ایک منصوبہ یہ بھی تھا کہ وہی وغیرہ کے لئے لکھنے کا شوق تھا.دینی علم دونوں کا واجہی اُس کے مقرب ہیں " کے نام سے حضرت آدم سے حضرت تھا مگر ایک چیز دونوں کے پاکس وافر تھی اور وہ تھا بانی سلسلہ احمدیہ تک اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ جنون.مجھے یہ تسلیم کرتے میں ٹیری طمانیت ہو رہی ہے آج تک دو ادوار میں بندوں سے اللہ تعالیٰ کے پیار کہ ابتدا میں ہم نے ہجو پروگرام بنایا تھا اللہ تعالے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس پیار کا جواب دینے کے فضل سے آگے بڑھتا رہا.خاکسار صد سالہ تاریخ کے ایسے منتخب واقعات جمع کئے جائیں جو اخلاق مجلے المحراب اور دیگر کتب میں مصروف ہوگئی جبکہ کی اصلاح اور خدا تعالیٰ کے حصول کی تڑپ پیدا کر سکیں.بشرنی نے اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کا میدان پہلے حصے کا کام بشری نے کیا اور کثیر مطالعہ سے بڑے سنبھالا.سیرت پاک پر سر دستیاب معیاری کتاب ، رساله بے نظیر واقعات جمع کئے پھر عنوانات کے تحت ترتیب مضمون کا مطالعہ کرتی.نوٹس لیتی.عنوانات کی فہرست دے کی منظوری کے لئے بھجوائے.بعض بالا مصلحتوں تو سو تک تھی.تیاری کے مختلف مراحل میں ستر چھوٹی کی وجہ سے یہ کتاب منظوری حاصل نہ کر سکی مگر اس کے لئے بڑی کتابیں تھیں جن میں اُس کی حیات میں صرف چار شائع مطالعہ میں اولیاء اللہ کے واقعات نے اس کے قلب صافی ہو سکیں.چشمہ زمزم، اصحاب فیل ، مقدس ورثہ اور کو جلا دی اور اُس کے اندر بعض ایسے اوصاف پیدا پیاری مخلوق اور ان کتب کی افادیت و مقبولیت کا ہو گئے جو ہم جیسے سطح پر تیرنے والوں کی روز مرہ اندازہ میرے قارئین کو مجھ سے زیادہ ہے.اللہ پاک عادات سے بہت بلند تر تھے.توفیق دے تو اگر اللہ نے چاہا تو باقی کتب کو بھی تھی مخلوق ہمارا رکھا ہوا نام تھا.تربیتی فولڈرز شائع کریں گے.بچوں کے لئے نصاب کا ابتدائی تھا کہ کے لئے کو خوبصورت طریق پیہ آرٹ پیپر پر چھپوائے بھی بشری نے ہی تیار کیا تھا.تیار کر کے مرکز سے گئے تھے اور تحفہ دیئے جاتے تھے ان کی بھاری تیاری منظور کر وایا لیکن بعض نکات پر ساری مجلس عاملہ مشترکی نے کی تھی صرف نام پڑھ کر اندازہ لگائیے کہ کو متفق نہ کر پائی سخت دل برداشتہ ہوئی.رات دوسروں تک ترسیل کے لئے اُس کے ذہن میں کیا پروگرام کو میرے پاس آئی.آنکھیں بھنگ بھیگ جاتی تھیں.تھے.شرائط بیعت ، عشق خداوندی ، عشق رسول ) اپنا موقف اس شدت سے اور خلوص سے بیان کیا عشق قرآن حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک دعا کہ تھما کسار نے اس سے مکمل تعاون کا وعدہ کیا پھر کی غرض و غایت ، کشتی نوح میں کیوں کہ سوار ہوں ، ہم اللہ پاک کی دی ہوئی توفیق سے اُسی نشست میں اپنے خدا کو کیسے راحتی کریں ، شادی بیاہ کی رسومات ، ہم نے کو نیلی، نتیجہ، گلدستہ اور گلستان احمد کے داعی الی الله، تربیت اولاد کے چھٹیں گور، کلمہ طیبہ

Page 49

مصباح ریوه ۴۹ 49 مبر ۱۹۹۳ء زندہ مذہب، فنا سے بقا کی منزل، سچا اور زندہ مذہب ہوتا دیکھ نہ سکے گی مگر اُس کی یہ روحانی اول داس ہستی کا انقلاب ، نجات یافتہ کون ہے ؟.وہ میری کی دعاؤں اور جذبے کی طاقت سے اُس کاش زنده جماعت میں سے نہیں، کہکشاں اور تحریک جدید کے رکھے گی.اللہ کرے ایسا ہی ہو.مطالبات ، اور ابھی بہت سے زیر ترتیب تھے.خاکسار کے پاس بیشتری جیسی صلاحیت نہیں.یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے کہ بینہ کی جو خواتین مگر ہمارا کوئی کام کہیں لہ کا نہیں اللہ پاک ایسے خدمت میں مصروف ہیں اُن کو دین کے لئے وقت دینے کے لئے گھر والوں کا تعاون ضروری ہوتا ہے.بشریٰ بہت مدد گانه ضرور پیدا فرما دے گا جو اس مشن کو آگے بڑھانے میں اور پہلے سے بہتر طریق پر کام کرنے میں اپنا خون خوش نصیب تھی اُس کو اپنے شوہر اور بچوں کا مکمل شامل کرتے رہیں گے ہم نے اشاعت کے کام میں بیری تعاون حاصل تھا.اس کا سارا گھر خدمت دین کی ایک دولت پائی.مالا مال ہو گئے ہیں.پیارے آقا مشین تھا.ہم نے کو نیل" لکھی تو صاف صاف لکھوا حضرت امام جماعت احمدیہ الرابع کے کہ فوٹوسٹیٹ کروا کے پہنیں لگا کہ ماؤں کو دی گئی.دعاؤں بھرے مکتوب ہمیں نہال کر دیتے.ہمیں کہ بچوں کو یاد کروائیں.اس دن سے محترم داود بھائی دوسرے محترم بیمارگوں کے خطوط ملتے دعاؤں کا یہ صاحب اور بچوں نے کام کرنا شروع کیا اور ہر ممکن سرمایہ بشری ساتھ لے گئی اور فیضانِ جاریہ کی تعاون جاری رہا.طباعت کے مراحل ، تجربہ رکھنے والوں طرح ہمیشہ اُسے احمد پہنچتا رہے گا.ریخوبی علم ہوگا.بڑے محنت طلب اور میر آریا ہوتے مجھے علم ہے کہ بشری سے محبت کرنے والوں ہیں.اللہ پاک نے ان کو خدمت کی سعادت دی.جیب دمیرا یہ مضمون نشتہ اور بکھرا بکھرا سا لگے گا.شکریہ ادا کرت تو بڑے رسان سے کہتی " ہم یہ کام نگر ابھی دل و دماغ کو یکجا اور یکسو کرنا مشکل تمہارے لئے تو نہیں کرتے اپنے اللہ پاک کے لئے ہے.اللہ پاک کا شکر ہے.میں نے زندگی کا کچھ کرتے ہیں.دعا کرو وہ قبول کرے: کتابیں ہمیں حصہ اس جیسی پاکبانہ خاتون کے ساتھ گزارا.اپنی مشترک اولاد لگتیں.کیونکہ اولاد کی طرح پیا یہ نہ قارئین کرام سے ہم سب کے لئے صبر جمیل کی دعا کی کیا جائے تو کتا بیں چھاپنے کا کام ہو ہی نہیں سکتا.درخواست ہے.اللہ پاک بشری کو غریق رحمت ابتدا میں ہم اوپر گیلیری میں کھڑے ہو کہ دیکھتے کہ کوئی فرمائے.ہماری کتاب نہ برتا ہے یا نہیں اور جب کوئی کتاب خرید رہا ہوتا تو ہم بچوں کی طرح خوش ہو نہیں.اب جبکہ ہمارے سامنے کتابوں کے چار چار ایڈیشن آ دفتر سے خط و کتابت کرتے وقت چکے ہیں اور دنیا کی کئی جگہوں پر جارہی ہیں اور آئندہ اپنے خریداری نمبر کا حوالہ ضرور دیں.جائیں گی اگر اللہ نے چاہا تو تو بیشترین اس اولاد کو جوان

Page 50

مصباح ربوه محترمہ طاہر محمود صاحبہ - لا مجور ۵۰ 50 محترمہ بشری داؤد صاحبہ دسمبر ۱۹۹۳ء محترمہ بشری داؤد صاحبه محترم مرزا عبدالرحیم بیگ کہ وائیں.اور کراچھا کی سیکرٹری اصلاح و ارشاد محترمہ صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی کی صاحبزادی اور یشتری داؤد صاحبہ کو بلوا کر تقاریر کر دائیں چنانچہ حضور میری ہمشیرہ حبیبة الرحمن صاحبہ المیہ محترم قریشی کے ارشاد کے مطابق ۵ار نومبر تا ۲۱ ؍ نومبر ۱۹۹۲ ء سات مسعود احمد صاحب کے لڑکے داؤ د احمد قریشی کی اہلیہ تھیں.دن کے لئے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کا وہ ۲۰ جولائی ۹۹۳ام کو نے ہم سال کی عمر میں اپنے بوڑھے پروگرام بنا یا گیا اور لاہور کی چھے قیادتوں میں انہوں نے والدین اور تمام اعزاء و اقارب کو غمگین اور حمریں چھوڑ کر سیرت الہی کے موضوع پر نہایت پر مغز اور ٹوٹر اور دلوں اس دار فانی سے رحلت فرما کر اپنے مولا حقیقی سے پر گہرا اثر چھوڑنے والی تقاریر کیں.ان جلسوں میں قمبرات لحیتہ اباء اللہ لاہور کے علاوہ سات سو پچاس جہانوں نے آپ ایک عرصہ سے لجنہ اماءاللہ کراچی میں نمایاں شمولیت اختیار کی جنہوں نے تقاریر کو اعلیٰ پایہ کی اور خدمات سرانجام دیتی رہیں.آپ بہترین مقررہ ہونے موثر ہونے کا اعتراف کیا.بشری نے واقعی حضور کے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجہ کے اخلاق سے مزین تھیں.حسین خان کو سچ کر دکھایا.چنانچہ بیشری کی وفات پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر حضرت امام جماعت احمدیہ الربع ان کی تقریر ہمیشہ دل کی گہرائیوں تک پہنچ جاتی تھی.نے فرمایا :- جائیں.نفس مضمون شاندار، اسلوب بیان دلکش لب و لهجه اور انداز نہایت شیریں اور سامعین کو گرویدہ کر لینا تھا.آپ نہایت منکسر المزاج اور ہر ایک کو خندہ پیشانی سے ملتیں جس کی وجہ سے ہر ملنے والی یہی گمان کرتی تھی کہ وہ سب سے زیادہ مجھ سے پیار کرتی ہیں.جلسه سالانه قادیان 1991ء کے موقع پر حضرت امام جماعت احمد به الرابع نے اس نیک خاتون نے اپنے نیک باپ کی تمام نیکیاں حاصل کیں.بے لوث خدمت کی.انتھک محنت کی.ان کو سیرت کے بیان میں حسین تقریر کا خاص اور غیر معمولی ملکہ حاصل تھا کہ ایک تقریر سے ہی مخالفوں کی کایا پلٹ دیا کرتی تھیں " حضور کے یہ تعریفی کلمات سننے کے بعد میں سوچتی لاہور کی لجنہ اماءاللہ کی عہدیدار حمیرات کو ہدایت فرمائی کہ ر ہی کہ بستری کتنی خوش قسمت ہے کہ اس کی کارکردگی سیرت النبی صلی الہ علیہ وسلم کے جیسے بڑے پیمانے پر کے متعلق امام وقت کے کتنے اچھے تاثرات ہیں.وہ )

Page 51

مصباح دیوه * Si دسمبر ۱۹۹۳ء صرف اپنے آپ کو بھی زندہ جاوید نہیں کر گئی بلکہ اپنے لکھتی کہ نہیں.یہیں کہتی بشر کی جان ذرا سو جاؤ آرام لواحقین کے لئے بھی اس کا وجود منفعت بخش ثابت کر لو تو ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا کہ باجی میری فکریہ ہوا.اس کے کار ہائے نمایاں کے باعث ان کے والد صاب کم ہیں.آپ سو جائیں میرے پاس وقت کم ہے.جب نے بھی اپنی زندگی ہی میں اپنے متعلق حضور کے تعریقی بھی کسی نے کہا کہ اپنی جان کا بھی حق ہے اتنا کام نہ کلمات کس لئے.میرا قلم میرا ساتھ نہیں دے رہا بلکہ کیا کہ وہ تو اس کو یہی جواب ملتا کہ میرے پاس وقت میرا دل ابھی تک اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ وہ ہم تھوڑا ہے.میں حیران تھی کہ یہ مسلسل آٹھ راتوں کو سے دور بہت دور اپنے پیارے اللہ میاں کے بلاوے کیسے جاگ کر گزار لیتی ہے اور جو وقفہ دل کے پہ اس کے حضور حاضر ہو چکی ہے.وقت ملنا اس میں کچھ آرام کر لیتی.اور کبھی کسی بات بشری کچھ عرصہ اپنے میاں داؤ ر احمد صاحب کے پر ہنسی آتی تو کھیل کھلا کہ ہنستی.اس کے تینوں ساتھ ایران میں رہیں اور جب پاکستان آئی تو ضرور کی آواز آج بھی میرے کانوں میں گو شبح رہی ہے.ہر مجھے ملنے لاہور آتی.مجھے باجی کہہ کر مخاطب کرتی تھی.ناگوار بات کو بھی قہقہوں میں ڈیو لیتی تھیں.ساری رات اور کہتی کہ دیکھیں باجی چاہے دو دن کے لئے آؤں مگر جاگنے کی عادت طالب علمی کے زمانہ سے ہی تھی.جب آپ سے ملے بغیر جانے کو دل نہیں چاہتا.میں ہمیشہ یہ سب رات کو سو جاتے تو وہ اس خیال سے کہ میرے سمجھتی رہی کہ بشری کو میرے ساتھ خاص انس ہے مگر رات کو روشنی ملا کر پڑھنے سے والدین اور بھائی وفات کے روز جو دیکھا تو اپنی نادانی کا احساس ہوا کہ بہنوں کو تکلیف ہوگی وہ باورچی خانہ میں بیٹھ کر بشری تو سب کی بینری تھی.کیونکہ مر کسی کو یہی کہتے سنا مطالعہ کیا کہتی تھیں.کسی شاعر نے سچ کہا ہے.کہ بشری میرے ساتھ بہت پیار کرتی تھی اور حقیقت بِقَدْرِ الْكَدِ تَلْتَبُ الْمَعَالِي بھی یہی ہے کہ وہ منکسر المزاج - خوش اخلاق شیریں گفتار وَمَن طَلَبَ العُلى سَحَرَ الليالي غمگسار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ہر ایک کو خندہ پیشانی کہ جتنی کوئی شخص محنت کرتا ہے اس کے مطابق سے مسکراتے ہوئے نہایت پیار سے ملتی تھی.جس کی وجہ وہ بلندیوں کو حاصل کرتا ہے اور جو بلندیوں کو حاصل سے ہر ملنے والا اس کا گرویدہ ہو جاتا تھا.کہنا چاہتا ہے وہ راتوں کو جاگ کر گزارتا ہے.حضور کے ارشاد کے تحت بشر کی پندرہ تومیر اُس نے اپنا تن من دھن سب کچھ خدمت دین ۱۹۹۲ء کو لاہور تشریف لائیں اور جاتے جاتے لجنہ کے لئے وقف کر رکھا تھا.ہر وقت کسی نہ کسی خدمت میں سرگرداں رہتی.اپنے بچوں کی نہایت شاندار کو گئی.یہ ہفتہ آٹھ دن کا قیام میرے ہاں ہی تھا او را تربیت کی نظام سلسلہ کا احترام اور خدمت دین کا جذبہ کسی نہ کسی علقہ میں تقریر کرنی ہوتی تھی اس کا معمول ان کے دلوں میں بھر گئی.پورے کا پورا خاندان خدمت دیں تھا کہ رات تقریرہ لکھنے کے لئے بیٹھ جاتیں اور رات بھر کا ندائی اور شیدائی نظر آتا ہے.اس کی تھی کسی لڑکی بار اللہ لاہور کے لئے بھی اپنی یادوں کے چراغ زردش بورا

Page 52

مصباح زاده ۵۲ 52 ومبر ۱۹۹۳ء طوبی جس کی عمر ساڑھے نو سال ہے.اپنی نانی اماں کو خوبیوں کی مالک تھیں.کاش میری قلم ان فوجیوں کا دلاسہ دیتے ہوئے کہنے لگی کہ نانی اماں روئیں نہیں احاطہ کر سکتی.میں امی سے بھی اچھی بیٹی ہوں گی.اُن سے اچھی کتابیں یکن اس جگہ بشری کے شوہر داؤد احمد کا ذکر لکھوں گی اور تقریریں کروں گی.یہ بات بھی بیان کرنی کئے بغیر نہیں رہ سکتی، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ بشریٰ بے جا نہ ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کی خوبیوں اور اس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا عربی زبان میں قصیدہ بشریٰ اور ان کو اجاگر کرنے میں اس کا بھی بہت عمل دخل رہا نے اپنی تھی سی بیٹی کو حفظ کر وایا ہوا ہے.ہے.بشریٰ نے اگر اپنے آپ کو لجنہ اماءاللہ اور دین بشری نے تقاریر و مضامین کے علاوہ تیرہ کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا تھا تو اس کی گھر میں کتب بھی تصنیف کیں جن میں سے بعض تحقیقی مضامین غیر موجودگی کو داؤ د احمد نے بچوں کو محسوس نہیں ہونے پر بھی مشتمل ہیں.نہ صرف انہیں تقریر وتحریر میں ید طوبی دیا.نہ صرف یہ بلکہ لجنہ اماءاللہ کے کاموں کے سلسلہ حاصل تھا بلکہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ میں اسے لے جانا اور واپس لانا اور اس کے ذمہ جو ساتھ نہایت اعلیٰ اخلاق سے بھی مزین تھیں تھیں اخلاق کام ہوتے تھے ان میں ہاتھ بٹانا بھی اس کا شیوہ تھا.اور شیریں گفتار کا تو میں پہلے ذکر کر چکی ہوں وہ نہایت یہ بھی ایک وجہ تھی کہ بشری اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنے کام سر انجام دے گئی جن کا کہنا بظا ہر نا ممکن اور اعلیٰ درجہ کی مہمان توانہ بھی تھیں.کھانا پکانے میں بھی خوب ماہر تھیں.پلیٹوں کو سجانا اور نہایت عمدگی سے لگانا اور دلی جذبات کے ساتھ پیش کرنے کے ساتھ محالی نظر آتا ہے.آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس باتوں اور قہقہوں سے اس کھانے کی مجلس کو سجانا بھی میں اعلی وارفع مقام عطا فرما دے اور اس کے ان کو خوب آتا تھا.گزشتہ سال ماہ رمضان میں کراچی پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو اور انہیں صبر جمیل میں تھی وہ دن بھر لجنہ کا کام کرتیں اور پھر گھر آکر بجا لانے کی توفیق بخشے اور اپنی رضا کی راہوں پیر تیس تیس روزہ داروں کا کھانا پکا نہیں اور درسی چلنے کی سعادت عطا فرمائے.سننے کے لئے جاتے ہوئے افطار کروانے کے لئے ساتھ لے جائیں.رشتہ داروں اور بزرگوں کا احترام اس کے کہ دارہ کی نمایاں خصوصیت تھی.ہر ملنے والے کو به احمدی مستورات کا فرض ہے کہ دنیا پر حصہ دینا بھی سعادت سمجھتی تھیں.اگر اس کی کسی ثابت کر دیں کہ باوجود پردہ کی حدود کے اندر رہتے بات پر تعریف کی جاتی تو وہ ہمیشہ مزید انکساری اور ہوئے ہم کسی بھی طرح ترقی کرنے اور نیکیوں کے کرتے عاجزی کا اظہار کرتیں.انہیں کبھی شیخی بھگا رتے یا سے محروم نہیں رہے.بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے نہیں سنا.اللہ اللہ کتنی ا حضرت امام جماعت احمدیہ الرابع )

Page 53

مصباح ریون ۵۳ 5.3 د نمبر ۱۹۹۳ء روه مورود آه ! ہماری بشری داور ده سے شادی ہوئی تو وہ میری سب سے بڑی چھٹانی بنیں.ان کے ساتھ میری جو یادیں وابستہ ہیں بچپن کے دور سے شروع ہوتی ہیں.میری پھوپھی محترمہ شادی کے بعد شروع کے دنوں میں جب میرے میاں سب خورشید عطا صاحبه بشری باجی کی چھپی نہیں اور میری پھر بھی رشتہ داروں کے متعلق مجھے بتا رہے تھے تو بشری با جی کا گھر ہمارے گھر کے قریب ہے.اسی باعث بشرلی با حجا کا کا ذکر انہوں نے نہایت عقیدت اور احترام سے کیا.پھوپھی کے ہاں اور میرا بھی وہاں آنا جانا تھا.ان دنوں اس کی وجہ یہی تھی کہ باجی کی شادی کے وقت وہ چھوٹے بشری باجی یونیورسٹی کی طالبہ اور 5.6.M کی سٹوڈنٹ تھے اور باجی کی شفقت اور ان کا محبت بھرا سلوک ہی تھا تھیں.غالباً میری عمر ابھی اسکول جانے کی نہ میں تھی وہ کہ جس کی وجہ سے مودود صاحب کے دل میں ان کے مجھے اس وقت سے ہی بہت پیاری اور اچھی لگتی تھیں.لئے اتنا احترام اور پیار تھا.اور وہ بھی مجھے بہت پیار کرتی تھیں.مجھے یاد ہے وہ شادی کے بعد میری اور باجی کی رفاقت اور چاہتے مجھے معصوم کیوتر" کہا کرتی تھیں.انہیں بچوں کی میں مزید اضافہ ہوا.انہوں نے سسرال میں سب کے معصومانہ باتوں سے شروع سے ہی پیار تھا.ساتھ انتہائی شفقت اور خلوص کا رویہ رکھا ہم بالکل ایران سے واپس آکر وہ جس دلجمعی اور لگن کے دوستوں کی طرح بہنوں کی طرح ایک دوسرے سے اپنے ساتھ جماعت کے کاموں میں شامل ہو گئیں وہ سب پریٹیاں دکھ سکھ اور دیگر مسئلے مسائل بیان کرتے.میری انہوں ہے.ان کے انتہائی احساس ذمہ داری اور خوش اسلوبی نے شادی کے بعد بہت رہنمائی کی بعجیب ان کے ساتھ ہم سے ہر کام کو انجام دینے کی وجہ سے جب انہیں جماعت مل بیٹھنے تو دل چاہتا دیر تک ہم یونہی باتیں کرتے کی اہم ذمہ داری سونپی گئی یعنی انہیں اصلاح وارشاد کی ر ہیں.ان کا مخاطب کرنے کا انداز بھی بہت دلنیش سیکرٹری بنا دیا گیا تو انہوں نے تادم آخر اس طریق سے تھا.میری چاند، میری جان، بات کرنے سے پہلے وہ اس اپنی جملہ ذمہ داریوں کو نہایا.ان کا اپنے مولا سے ، طرح سے ہم سے بات کرتیں.جب بھی ملنا تو ضرور گلے امام وقت اور اپنی جماعت سے جنون کی حد تک عشق لگانا اور پیار کرنا، اپنے پاس بٹھانا.ہماری اس محبت اور خلوص تھا.انہوں نے اپنے آپ کو بے انتہا مصروف میں کبھی کوئی غلط فہمی نہ آئی.جب میرے محترم شهر مسعود احمد قریشی صاحب کی پچھلے سال وفات ہوئی تو جب میری ۱۹؍ دسمبر ۱۹۸۷ء کو مردود احمد قریشی دہ تین راتیں میرے کمرے میں ہی سوئیتیں بلکہ ہم سوتے کہاں رکھا.

Page 54

مصباح زیده ۵۴ 54 دیکمبر ۱۹۹۳ء تھے ساری ساری رات باتوں میں گنے جاتی تھی جس ہیں مگر مورود صاحب نے مجھے یہ بات نہ بتائی.جتنے دن ہم وہ خاص طور سے اس کی محبت و شفقت کا ذکر ضرور کرتی فرانس میں رہے وہ اکیلے ہی اس حادثہ کو برداشتت کرتے رہے.نہیں.کھینچتا چلا جائے.نے خطبہ جمعہ ہماری طلاقا نہیں کہ ہوتی تھیں مگر جب بھی ہوتیں ، ۲۷ جولائی ۱۹۹۳ء کو ہم جلسہ سالانہ لنڈن کے بھر پور انداز میں ہوتی تھیں.وہ ہم سب کی خیر خواہ لئے فرانس سے روانہ ہوئے HEATH ROW AIRPORT تھیں.بزرگوں کا نہایت احترام کرتی تھیں.بچوں سے پر جماعت کی دین ہمیں لینے آئی.دین میں میرے ساتھ ایک بہت پیار تھا.پھرے پر ہر وقت ایک دل آویز تقسیم جرمن اور ایک SPANISH نو عمر احمدی خواتین بیٹھی اپنی بہار دکھانا تھا کہ انسان خود بخود ان کی طرف تھیں.ان سے جماعت کے متعلق باتیں شہرونا ہو گئیں.یکی SPANISH خاتون کے خیالات، لگن اور جماعت بیمار تو وہ کافی عرصہ سے تھیں اور کافی سیریس کے ساتھ اُن کے اخلاص سے بہت متاثر ہوئی اور انہیں بیمار تھیں جس کا علاج ڈاکٹرز نے CPERATION تجویز بتا یا کہ میری ایک چھٹانی ہیں بشری وہ بھی ایک طویل کیا تھا مگر جماعت کے کاموں کی خاطر ہمیشہ اسے ٹالتی عرصے سے نہایت جانفشانی اور ذمہ داری کے ساتھ رہیں جس کی وجہ سے ان کی صحت دن بدن گرتی جا رہی جماعت کے امور سمیتھالے ہوئے ہیں.وہ کہنے لگیں وہ معنی اور وہ بہت کمزور ہو گئی تھیں.مگر مجال ہے جو ان بشری جن کی وفات پر حضور ہو کی کا ر کر دگی میں کوئی فرق پڑا اردو جماعت کے کام تندہی اور میں تعزیت کی ہے اور ان کا ذکر خیر کیا ہے " میں لگن سے جاری تھے.بے اختیار کہ اکٹھی نہیں نہیں وہ کوئی اور ہوں گی.ان ار جولائی ۱۹۹۳ء کو ئیں اور بچے مردو ر صاحب کا OPERATION ضرور ہوا ہے لیکن اب وہ خدا کے کے ساتھ FRANCE روانہ ہوئے جہاں مودود صاحب کی فضل سے خیریت ہیں.ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ OFFICIAL TRAINING تھی.اس دوران بیشتر کی میرے شوہر نے ان خواتین کو اس موضوع پر بات کرنے یا جی کے OPERATION کی تاریخ مقرر ہوئی.سے اشارہ منع کیا جس پر دہ SPANISH خاتون کہنے تشویش تو بہر حال تھی مگر یہ امید بھی تھی کہ ہم تھرا لگیں کہ وہ کوئی اور مشترکی ہوں گی.بعد میں میری غیر موجودگی کے فضل سے دوبارہ ایک صحت مند بشری باجی سے ملیں گے.میں جبکہ یہی بچوں کے ساتھ جس گھر میں ہمارا قیام تھا ہم فون کر کے ان کی OPERATION سے پہلے اور بعد میں داخل ہو چکی تھی اور مودود صاحب سامان اتار رہے تھے خیریت معلوم کرتے رہے.ایک دن اتفاق سے مور در صاحب ان خواتین نے باجی بشری کی تعزیت کی اور افسوس کا اکیلے ہی فون کرنے چلے گئے اور اس دن تن تنہا انہوں نے اظہار کیا کہ ہم ان کی 2005 کے حوالے سے انہیں جانتے K5 یہ روح فرسا خبرشتی کہ ہماری پیاری بیشتری با جی کو ہم سے تھے.بہت اچھی مصنفہ تھیں جس گھر میں ہمارا لندن میں ہمیشہ کے لئے بچھڑے ہوئے چار پانچ روز ہو چکے ہیں.قیام تھا اس کے اہل خانہ کو بھی منع کر دیا گیا کہ مجھ سے

Page 55

مصباع رایحه ۵۵ 55 ذکر نہ کریں.شام کو یہ خبر مجھے اس وقت سنائی گئی احساس محرومی کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا.7(7 بیشتری باجی کی ذات ، سیرت ، اعلیٰ اور قابل قدر جب ہم پاکستان اپنے بخیریت لندن پہنچنے کا قون کرتے گئے.اس شرح فرسا تیر کو شکر میں ایک بما عتی خدمات کو حضور تے میں شاندار الفاظ میں تماری تخیلی نا قابل بیان سی کیفیت میں میننی تھی.مگر یہ ایک تلخ پیش کیا وہ الفاظ انہیں رہتی دنیا تک زندہ جاوید حقیقت تھی.افسوس اور صدمے کے لیے اندازہ مید باستا کے ساتھ مجھے ہر حال اسے برداشت کرنا تھا.کیا اپنے رگئے.آج ان جیسی قابل قدر اور محبت کرنے والی سنتی کیا پیائے.جلسہ سالانہ لندن میں ہر کوئی بشر کی باجی کی ہم میں موجود نہیں مگر ان کی یادیں ، ان کی تصانیف، تقارید وفات کا دکھ محسوس کر رہا تھا.وہ اپنے پیچھے ایک نصائح ہماری رفیق رہیں گی.ایسا خلا چھوڑ گئیں کہ جسے یہ کرنا مشکل ہے.بہت سی اللہ تعالیٰ ان کی سچی خدمات اور پاکیزہ اعمال کو ایسی خواتین میں جو کہ پانی سے بھی نہ نہیں تھیں مگر ان اپنے فضل و رحم سے قبول فرمائے اور انہیں حیثیت کے کی شدید خواہش تھی کہ علم و فصل میں یکتا اس شخصیت اعلیٰ ترین درجات سے نوازے.سے ایک بار ضرور ملاقات ہو جائے مگر اب افسوس اور وقف عارضی لجنہ اماء الله کی خدمت میں ضروری گذارش جماعتی ترمیمیت اور اصلاح نفس کے لئے وقف عاریتی کی یا برکت تحریک نہایت ہی مفید اور موثر ثابت ہوئی ہے.آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ آپ اپنے حلقہ میں زیادہ سے زیادہ خوانی کو دو سے چھے ہفتہ تک خدمت دین کے لئے وقف عارضی کرنے کی بھر پور تحریک کریں.تا کہ جماعت کثیر تعداد میں اس روحانی سکیم کی برکتوں سے فائدہ اٹھا سکے.اس بارہ میں آپ مکرم صدر صاحب صدقہ و سیکرٹری صاحب تعلیم القرآن و وقف عارفتی سے بھی تعاون حاصل کر سکتے ہیں.وہ خواتین جو اس عظیم روحانی تحریک میں شمولیت کی توفیق رکھتی ہوں آپ ان سے قارم وقف عارضی میپر کروا کر نظارت کو ارسال فرمائیں.فارم وقف عارضی مقامی جماعت یا دفتر سے حاصل کر سکتے ہیں.اللہ تعالٰی آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو بہتر سے بہتر رنگ میں خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تعلیم القرآن و وقف ها رفتی ربود

Page 56

مصباح دیوه محمودہ امتہ السمیع وہاب 56 آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے دسمبر ۱۹۹۳ء پہلی مرتبہ بشری داؤد کو احمدیہ ہال میں جلسہ کی نہیں ہوتا کہ بشری کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں میں کمپیٹر نگ کرتے دیکھا.شخصیت پرکشش تھی.تعارف سے کوئی نہ کوئی باد سامنے آکر ہوش و حواس کار داشتند بعد میں ہوا.جب حضرت امام جماعت احمدیہ الثالث نے نہ روک لے.پھر ایک عالم نے سعودی میں ماضی میں پہنچ منتظمہ کمیٹی بنائی اور اس کی ایک ممبر بشری داؤد کو جاتی ہوں.کچھ حسین یادیں پیش کرتی ہوں کیونکہ اسی ناصرات نامزد فرمایا.میں اس وقت حلقہ ڈیفنس کی سیکریٹری انا رات کی باتیں دہرا کر دل کو سکون سا ملتا ہے.تھی.جب مجھے قیادت نمبر ایک کی سیکر ٹری بنایا گیا تو کام ۱۹۸۲ء میں جب حضور کراچی تشریف کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے بے حد گھیرائی.اس گھبراہٹ لائے تو مجلس عاملہ کی ایک میٹنگ کی صدارت فرمائی.ہم میں بشری نے بڑی اپنائیت سے حوصلہ بڑھایا اور مدد قالین پر بیٹھے تھے.پیشرفی نے ایک انقلابی پروگرام ترتیب کا وعدہ کیا.اس کے بعد جب بھی مجھے راہنمائی کی ضرورت دیا تھا جو حضور کی خدمت میں پیش کرنا تھا.مگر حال یہ تھا کہ ہوتی ہیں بشری کو فون کرتی یا ہال میں ملنے پر پو چھنی اور بشری جیسی بیان پر قادر لڑ کھڑا رہ ہی تھی اور خواہ مخواہ لفظ وہ ہمیشہ بے حد توجہ سے بات کی کہ اچھا مشورہ دیتی.غلط ادا ہو رہے تھے.حضور نے بڑی شفقت سے نسلی دی کم میں وہ مجھ سے چھوٹی تھی لیکن صلاحیت تسلیم شدہ تھی پھر وہ کچھ بہتر پڑھنے لگی.حضور نے اس پروگرام کو جس اور اُس کے مشوروں کو آخری فیصلہ سمجھ کر مان لیتی.اس میں کیسٹ ، ڈاکٹرز، ٹیچرز سٹوڈنٹس ایسوسی ایشنز کی ڈھال میں رہ کر کام کرنے کا سلسلہ آخری دم تک بنانے کا ذکر تھا بہت پسند فرمایا.جاری رہا.منتظمہ کمیٹی کے پانچ میں سے ایک رکن کے حضور ناصر آباد سے واپس تشریف لائے تو لحینہ پر لاہور منتقل ہوتے ہیں خاکسار کو رکن نامزد کر دیا گیا اور نے اس طرح دعوت کی کہ گھروں سے کھانے پکا کر پلائیں.عاملہ مرکزی ذمہ داری آپڑی.ایسے میں اللہ کے فضل وکرم کے کی ممبران کے خاوند بھی تھے.پیارے آقا نے از راہ شفقت ساتھ بشری داؤد کی ہمرا ہی حوصلہ دیتی رہی کیمسٹ پروگرام ہمارے کھانے چکھے.بشرکا کے چہرہ پر رونق کا عالم دیدنی کی انچارج بنی جب بھی اور جب کیسٹ پروگرام کو شعر اصلاح و تھا.حضور کے کراچی تشریف لاتے پر خوشیوں میں بے اندازہ ارشا د میں ختم کر دیا.ہم ایک ساتھ کام کرتے رہے.تادم افسانے کے ساتھ ذمہ داریوں اور ڈیوٹیوں میں بھی اضافہ آخر بیشتری اصلاح دار شاد کا کام کر رہی تھی.اس رفاقت ہو جاتا.ایک ملاقات کا انتظام کرانے میں چند بے پردہ نے صدمہ کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے.کوئی وقت ایسا خواتین کے اوپر جانے کے اصرار پر کچھ بدمزگی ہوئی حضور )

Page 57

مصباح ریوه ۵۷ 57 دسمبر ۱۹۹۳ د سے ملاقات میں بشری کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے.جس میں میٹرک کے بعد داخلہ دیا جانا تین چار سال حضور نے بڑی شفقت سے تسلی دی.بیشتری کو پیارے کا کورس میں میں تعلیم حاصل کر نے والیوں کو باقائدہ آنا کے محبت بھرے الفاظ سے نئی زندگی مل جاتی.وہ ہر انٹر اور بی اے کی طرح ڈگریاں دینے کا پسند گرام تھا دکھ درد بھول جاتی.پھر ڈیوٹی کے دوران سخت سے تکریم مولانا سلطان محمود انور صاحب نے امانت کی.سخت الفاظ برداشت کر تے کا جو سلمہ ہو جاتا.ڈیوٹی کافی با قاعدہ منصوبه حضور ایدہ الورود کی خدمت میں پیش کیا.مشکل تھی اور عالم یہ کہ بشری کی گود میں طولی اور میری گود کچھ زبانی گفتگو کے بعد پیارے آقا نے بشری کی فائل میں احسان ، برقع پہنا ہوا ، تن بدن کی ہوش نہیں.مگر پر منظور ہے تحریر فرما کہ اپنے دستخط ثبت کئے.، اس میں بھی ایک نہ روحانی تعلق ہے جس کے ذائقے کا بشری کو ایسا جنون سوار تھا کہ لوگوں کو قائل کیا.کئی لڑکیوں نے کالج چھوڑ کہ داخلہ لیا بہت کامیابی سے سلسلہ اب تک جاری ہے.کیسٹ پروگرام شروع کیا تو تحریک کی کہ اگر کلاس شروع ہو گئی.مگر بوجود اسے بند کر تا پڑا.شہری خواتین کچھ محنت کر کے اپنے ہاتھ سے چیزیں تا کہ فروخت کو اس کا اس کے بندہ ہونے کا بے حد دکھ تھا.آپس کے سے رقم جمع کمر کے کیسٹ خرید کر تحفہ دیں تو حضرت رابطوں کے انقطاع کے خدشہ کے پیش نظر بشری نے اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم کی روایت تازہ کی جا نیا راستہ نکان اور ایسے کور ستر مرتب کر ڈالے حسن کے سکتی ہے کافی خواتین نے اس پر عمل کیا.بیشتری نے ذریعے ایک منظم اوپن یونیورسٹی کی درس گور من گھروں شربت بنا کہ بیچا اور اس سے حاصل ہونے والی تیم کیسٹ تک پہنچائے جائیں.اس سلسلہ کو اس نے مجاہلیہ اور ماؤں، پروگرام کے لئے دی.بیشترٹی کو اس پر حضرت صاحب کا اور مجاہد بچوں کا نام دیا.یہی کو رمتر بعد میں کونسیل تعریفی خط بھی موصول ہوا تھا.نتیجہ اور گل کے نام سے شائع ہوئے.وہ خاند سالار ۱۹۸۳ درمیان منیر باری کا بند ٹوٹنے پیر سیلاب کی طرح بروم چاق و چوبند رہتی.ایسا قافلہ سالار جو میر آیا تو اس نے کراچی کی بعض نسبتا کم وسائی والی آبادی میں وقت حالت جنگ میں ہو.جہاں وہ انقلابی منصوبے تباہی مچادی.فوری طور پر خدمت خلق کی کارروائی کی گئی سوچتی وہاں دفتر مجنہ کے نالتو پنکھے آف کم ہی ہوتی بہتر کا نے اس میں یوں حصہ لیا کہ اپنے بزورگ نانا جان کا غذ سنبھال سنبھال کر رکھتی کہ اگر ہم اپنا سریا به اسن کاغذ کا مہینے سے بچاؤ کا ایک نسخہ نکالا اور کئی دن تک طرح ضائع کریں گے تو جماعت کی ترقی کے لئے کیسے خرچ کئی لیٹر دوا تیار کہتی رہی جو ضرورت مندوں تک کریں گے اس کو شوق ہوتا کہ دوا لئے اپنی توانا کیوں پہنچائی گئی.کم بر قشرہ جھونک دے.وہ شادی.میں خستہ عراقی بیٹری کو ینگ لجنہ کو فلیم دیں دینے کا شدید یکی یا کسی کو تحصہ دیں تو بہترین چیز وہی ایک دفعہ چند تھی.پندرہ روزہ کانوں سے اُس کا دل نہ بھرتا میری تحریک نایاب سکے اشرفیاں دیتیرہ جو عرصہ سے سنبھال کر رکھی پر اس نے جامعہ احمدیہ کی طرفہ پر ایک پروگرام ترتیب دیا.تھیں چندے میں دے دیں.

Page 58

مصباح دیوه ۵۸ 58 دسمبر ۱۹۹۳ء بچوں کی شفیق ماں جو ذرا ذرا سی ہماری پیر کام کے لئے نکل آئی.وہ نظام کی اطاعت اپنا فرض بھی بے چین ہو کہ بچوں کی تیمارداری میں رات دن سمجھتی.اُس نے اپنے سے بڑی عہدے داروں کی ایک کمرہ دیتی جیب بھی سلسلہ کے کام کے لئے کہا جاتا ہمیشہ اطاعت اور فرمانبرداری کی اور اپنے سے چھوٹی کسی حالت میں حتی الوسع انکار نہ کرتی.گھر میں کھانا عہدے داروں کی بے حد پیار سے راہنمائی.بشری ہر تیار ہے یا نہیں کوئی بچہ بیمار ہے یا کوئی اور نوری لحاظ سے عظیم تھی.ضرورت وہ سب نظر اندانہ کر کے فوری طور پر جماعتی عزیزه فیضیه مهدی عزیزه فیضیه مهدی رفیقہ حیات عزیزم نسیم مہدی صاحب مرتی سلسلہ کینیڈا و بنت برادرم مولوی عبد العزیز صاحب بھا میٹری) کی رحلت پر چند اشعار ارتجالاً.نیستیم مہدی کی نصف بہتر عزیز صاحب کی پیاری دختر بلا لیا ہے اُسی نے اس کو جو ہے خدائے بزرگ و برتر جو ہو سکا وہ کیا مداوا.مگر خدا کی مشیتوں سے نہیں کسی کو مفر کبھی بھی بڑا ہو چاہے یا ہو وہ کمتر، مقام اس کا بلند تر ہو ریاض خلد بریں میں دائم خُدا کی رحمت جو فیضیہ پر رضائے باری رہے میتر نستیم مهدی ! به آزمایش اگر چہ تجھ پہ کڑی ہے لیکن رضائے باری پہ ہم ہیں راضی نہیں ہے شکوہ کوئی زباں پر ہمیں سکھایا گیا یہی ہے ہر ایک حالت میں شکر کرنا بلا نے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اے دل تو جان فدا کر سید سجاد احمد

Page 59

مصباح ریوہ ۵۹ 59 سلیم شاہجہانپوری بیاد بیشتری داؤد اخلاق کی پہچان تھیں بشری داؤد اوصاف کی اک کان تھیں بشری داؤد توحید پر تھا جن کو یقین کامل وہ صاحب عرفان تھیں بشری داور نھیں یوں تو ایک انسان فرشتہ تو تھیں لیکن عجب انسان تھیں بشری داؤد کرتی تھیں بیاں سیرت ختم رسل اس نام یہ قربان تھیں بشری داؤد رخصت ہو میں آقا کی دعائیں لے کر خوش بخت وہ مہمان تھیں بشری داؤد تاریخ بھی اُن کی نکلی رخت حافظ" یک خادم قرآن تھیں بشری داور

Page 60

مصبات دیوه 60 دسمبر ۱۹۹۳ء خورشید عطار محبتوں کے قرض مجھے یاد ہے کہ جب میں بیاہ کر آئی تو مجھے کسی نے وادی بھان نے انتہائی پیار سے کالے کپڑے کی دو بیٹیاں مخاطب کر کے کہا" ہم نے آپ کو اللہ تعالیٰ سے بہت دُعاؤں کے بعد حاصل کیا ہے.ہم نے اللہ تعالٰی سے دعا کی تھی کہ ایسین چھی غلط کہ ناجیہ ہم سے پیار کرنے والی ہوا اور ہمارے پیارے عطو چچا کو ہم سے چھیننے والی نہ ہو.امید ہے کہ بلکہ نفلیں " سفید دھاگے سے سی کہہ بیگ کو لگا دیں.میرا منہس نہس کہ میرا حال ہوگیا کہ اماں جی یہ آپ نے کیا کیا.مجھے کہا ہوتا تو کم از کم دھا گا تو کالا سوئی میں ڈال دیتی.صبح دیکھا تو بیٹری وہی بیگ لئے یونیورسٹی جانے کے لئے تیار کھڑی ہے.کہ آپ ہم سے اسی طرح پیار کریں گی جیسی طرح ہمارے منطو نہیں نے لاکھ سمجھایا کہ بشری میرا جنگ کے بجاؤ.وہاں کوئی چچا ہم سے پیار کرتے رہے ہیں " میں نے کوشش کی کہ بات کرنے والی کو دیکھوں مگر اس وقت میں خود اپنے حواس میں نہ تھی کچھ نظر نہ آیا کہ کسی نے کہا ہے کیونکہ کیا کہے گا اس بیگ کو دیکھ کر کہنے لگی جب کوئی کچھ کہے گا یا ہنسے گا تو میں بتا دوں گی کہ یہ میری دادی نے مرمت کیا ہے.بزرگوں کی قدر دانی کی ایسی مثال کہاں ملے گا.کئی چہرے نہایت چاہت ومحبت سے مجھے دیکھ رہے تھے.اس زمانے میں تناعت کا عالم بھی آشکار ہوا کبھی اس کو یہ بشری تختی محبت کے خزانے لٹانے والی اور دو سروں کو ضرورت ہوتی تو انتہائی لجاجت سے یونیورسٹی جاتے ہوئے آٹے محبت کرنے پر مجبور کرنے والی.جو اس کو ملا وہ مجہو نہ ہو گیا.کہ وہ بنشرفا کی محبت کا اسیر ہو جائے.اس کی شخصیت کا آنے مانگتی.اس کے آٹھ آنے مانگنے پر مجھے بہت غصہ آتا.سحر ٹوٹنے دانا نہ تھا.پانچ کا نوٹ تو اس نے کبھی قبول ہی نہیں کیا.کہتی ضرورت ری نہیں پڑے گی.زائد رقم میں نے کیا کرتی ہے.تم یہ دینی ایک اپنی دادی کی سب سے چھنتی ہوتی تھی.وہ دن ہیں روپیہ بھی دو تو واپسی پر آٹھ آنے واپس کھاتا.صبیح بغیر اشتہ یاد گار ہیں جب وہ ایم ایس سی کے آخری سال کے دوران کے جاتی واپسی پہ اتنی نڈھال ہوتی کہ کھانا کھانے کی سکت ہمارے پاس آگئی.ان دنوں اس کی چچا سے محبت و عقیدت بھی اس میں باقی نہ رہتی.پلیٹ میں کھانا نکال کر دیتی تو آشکار ہوئی.دادی سے والہانہ پیار جس کا اندازہ اس سے امین ہو سکتا ہے کہ وہ کیا کرتی.اماں جی میں آپ کے پیٹ ؟ چند تو اسے کھا کر کہتی کہ اب بس باقی شام کو کھا لوں گی.اور گھس جاؤں اور پھر وہ ایک ننھی بچی کی طرح اپنا منہ شام کو اس کا بچا ہوا کھانا اس کے چچا نجھپٹ کر اُٹھا لیتے کہ یہ میں کھا لوں گا تم تازہ کھانا لو اس محبت بھری چھینا جھپٹی داری کے پیٹ میں چھپا لیتی.ایک وتعہ اس کا بیگ کثرت میں چند نوالے کھاتی.اپنی پسند کی چیزی بھی کبھی پیٹ بھر کچھ نہ استعمال سے بوسیدہ ہو گیا اور اس کے ہینڈل ٹوٹ گئے.کھاتی صرف چھلکنے پر اکتفا کرتی.قناعت و صبر کی انتہا تھی.

Page 61

مصباح دیوہ 61 مبر ١٩٩٣ء جس کام کا تہیہ کر لیتی وہ رات رات بھر جاگ کی مکمل کہتی کے ملے جلے جذبات سے جیسے لوز سی اٹھتی" خدا با نظر وہ زندگی سے بھر پور تھی.اور پھر بعد انداز سے نہ لگے ہمارے پیار کو میرے ساتھ یا اپنے چچا کے ساتھ زندگی گزاری.جس کا ہر پہلو مثبت تھا.یہی وجہ تھی کیونکہ چھپا کی ہی وساطت سے مجھ سے تعلق قائم ہوا کہ اس کی ہر بات پر یقین آجاتا تھا.تھا ایک انوکھا پیار کا اندازہ تھا جس میں ایک فدائیت دوسروں کی خاطر ہر وقت قربانی کے لئے تیار یقی ایک والہانہ پن تھا جس کا اظہار اس کی ایک تنظیم دلجوئی کے لئے پر کھلوص جذبات اور محبت بھرے الفاظ.قربانی سے ہوتا ہے.کم از کم میرے لئے اس قسم کی اور اس نے کٹھن حالات میں بھی حوصلہ نہ ہارنے دربار کس کس مثال پیش کرنی ممکن نہیں.کے لئے اس نے کیا کیا.اس کے لئے ایک دفتر چا ہیئے.شادی کے بعد جب اس کے ہاں ناصر کی پیدائش کی میاں بیوی کے جھگڑے اس نے نبٹائے.بگڑتے گھر اس امیدواری ہوئی تو اس نے اپنی اتھی اور اپنی ساس کو لکھا کہ یکن نے شادی سے قبل اپنے اللہ سے عہد کیا تھا کہ جب نے بتائے.نہ ڈالتی.صائب الرائے اس قدر کہ سسرال میں ، میکے میں تو مجھ کو اس قابل کرے گا تو نہیں اپنی پہلی چیز اپنے چچا لجنہ کے دفتر میں، اپنے حلقوں میں جہاں جہاں بھی وہ رہی چچی کو دے دوں گی.اور مجھے کو کوئی اس پیش کش سے اس سے مشورہ کیا جاتا اور اکثر اس کے مشورہ پر عمل کیا جانا.نہ روکے.کیونکہ یہ اس یہ عہد کے نتیجے میں ہے اور یہ تحریر و تقریر پر تبصرہ کرنا یہاں پر مقصور نہیں میرے پاس ان کی امانت ہے....اور قائل کرنے کی خاطر لیکن اس کے قلم میں ایک روانی ربط اور منطقی بہاؤ پایا اس نے خوب لمبا چوڑا خط لکھا.اماں جی اور میری خوشی جاتا.اور یہی خوبی اس کی تقریر میں تھی.بھری محفل میں وہ کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا مگر اس کے چچانے کہا کہ تم بھی بیٹھی تقریر تیار کر رہی ہوتی جو اس نے جلسہ کے اختتام ہماری بیٹی ہو.تمہارے بچے ہمارے بچے ہیں.تم نے پھر کسانی ہوتی.اس کے خیالات کے بہاؤ کہیں کوئی چیز خلل سنت ابراہیمی کی یاد کو تا نہ ہ کیا.اللہ تعالیٰ تمہاری اس قربانی کا اجر عظیم عطا فرمائے.ہمیں اللہ تعالی نے جس عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی امتیازی حال میں رکھا ہم اس میں بھی مطمئن ہیں.اگر اللہ تعالیٰ جگہ پر بیٹھنا اس کو بالکل پسند نہ تھا.لاکھ کوشش کرو کہ ہمیں اولاد کے قابل نہیں سمجھتا تو ہم اس کے ارادوں بشری اٹھو کہ کسی پر بیٹھو مگر اس کا کہنا ہی تھا کہ نہیں میں حالی نہیں ہونا چاہتے.اس کی رضا پر راضی ہیں.یہیں ٹھیک ہوں " ملتی تو بازو پھیلا کر میری جان کیسی اس کے جواب میں اس نے جو خط لکھا وہ آج بھی میرے ہو.میری چاند کہاں ہو.اس کا انداز پذیرائی کہاں سے لاؤں.پاس ہے.دل چاہتا ہے کہ سارا یہاں نقل کر دوں.وہ ہر پیر کہ احمدیہ ہال میں ملاقات پر وہ بازو پھیلا کر خوشی اب بھی " آپ کا ناصر" کہتی تھی.اور ناصر کو بھی خوب سے جیسے چیخ پڑتی اچھی جان عطر چا کیسے ہیں.باور کروا دیا ہوا ہے کہ وہ ہمارا بیٹا ہے.حالانکہ اور ذیلی دفتر میں اس کے اس انداز سے خوشی فخر اور جینی مجھے ناصر، طاہر دونوں یکساں طور پر عزیز ہیں کہ وہ

Page 62

مصباح ریون لان و نمبر ۱۹۹۳ء بشری کے بیٹے ہیں.طوبی کا خیال تو دل سے محو ہی ذرا ذرا سا کھانا جو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اس کو خود کھاتی نہیں ہوتا.تا کہ ضائع نہ ہو.بچوں کو بھی یہی عادت ڈالی کہ جتنا کھانا وضعداری اور رکھ رکھاؤ میں اپنی ہمت سے بڑھ ہے اتنا ہی والو.کو بھی عید الفطر پر اپنے چاہنے والوں کو ضرور یاد اپنے بچوں کی تربیت کے لئے اس کا عملی نمونہ ہیں رکھتی حتی المقدور سب کے گھروں پر عید ملنے چند بہت کافی ہے یوں بھی انہیں سمجھانے کا کوئی موقع ہاتھے منٹ کے لئے ہی سہی ضرور جاتی.آخری عیدہ پر شومی قسمت سے جانے نہ دیتی.ان سے کہتی کہ ہم حالت جنگ میں ہیں.کہ ہم گھر پر نہ ملے.ہم بھی عید ملنے نکلے ہوئے تھے.آگے ہمیں بہت کام کرتا ہے.گھر یلو مصروفیات کو اعلیٰ مقاصد آگے ہم تھے اور پیچھے پیچھے وہ.ملاقات نہ ہو سکی.البتہ میں حائل نہ ہونا چاہیے.شیر خرما کا حصہ ضرور پہنچ گیا.محبت کا دوسرا نام حوری ہے.اپنے والد صاحب صبر و شکر کا مجسمہ تھی.صبر کے دنوں میں مثالی سے محبت دمشق کے درجہ کو پہنچی ہوئی تھی.اگر کبھی بھا بھی صبر کھاتی.کسی کو علم بھی نہ ہوتا کہ کیا گزر رہی ہے.اور جان گھریلو معاملات کے لئے وقت نہ نکال سکنے پر توجہ جب شکر کا مقام آتا تو معلوم ہوتا کہ سب کو ہی یاد دلائیں تو شہری کہتی امی میرے معصوم ابا جان کو کچھ نہ کہا رکھتی.سب کچھ بانٹنے پیڈ نکل جاتی.کریں.آپ کو نہیں معلوم وہ کیا چیز ہیں.ان کے ابا جان تو کل بھی مثالی تھا.کبھی پریشانی کا اظہار نہ محترم بیگ صاحب نے ایک بار اپنے گھر میں ایک بھی محفل کرتی رایسے دنوں میں یوں سہنستی گویا کچھ کھو یا عوامل گیا میں ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے بعد دیگرے چار بیٹیاں دیں.ہے.بہتی میرا مولا جلد فضل کرے گا.جس نے پہلے فضل ہر بیٹی کی پیدائش پر فطری طور پر خواہش پیدا ہوئی کہ اگر کیا تھا اب بھی کرے گا.دیر سویر ہو ہی جاتی ہے آزمائش اللہ تعالی بیٹا دیتا تو میرا باز و بنتا.میری مد کہتا اور میری کے لئے میرا مولا مجھے پورا اتارے گا.ذمہ داریاں SHARE کرتا.مگر اب میں سمجھ گیا ہوں کہ باپ سلیقہ شعاری میں بھی وہ ایک مثال تھی.چھوٹے کا نام صرف بیٹے سے ہی روشن نہیں ہوتا بلکہ بیٹیاں چھوٹے ٹکڑوں سے کترنوں سے خالی اوقات میں رجب دل بھی خاندان کے نام کو روشن کرتی ہیں.میری بشری میری بہ یار ہوتا اور ہاتھ یہ کار ان کو جوڑ کر خوبصورت رلیاں ہمنوا.مددگار، مشیر اور میرے لئے قوت ہے.اس کی وفات بنائی.پرانے کپڑوں کو نئے انداز میں بدل دیتی.ساڑھیوں کے کے بعد یہ حقیقت پوری دنیا میں ایک گونج بن کر ابھری کہ سوٹ بتائی.کوئی چیز ضائع نہ کرتی.حضور نے باپ بیٹی کو ایک دوسرے سے مماثل قرار دیا.شادیوں میں کھانا ضائع کرنے والوں پر اسے بے بعد یہ کیسی موت تھی کہ جس پر چوری کی وفات کے تیرے غصہ آتا.اکثر کہتی کہ ایران کی بنیا ہی کی ذمہ داری اس بات دن جب عام لوگ سوئم کے لئے جمع ہوتے ہیں سارا کراچی پر بھی ہے کہ وہاں کے لوگ کھانا بہت ضائع کرتے تھے.ان کے گھر پر مبارک باد دینے اُمنڈ آیا.اور خاندان کا ہر فرد بچا ہوا کھانا کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتے.گھر میں فتر کے جذبات سے سرشار ہو گیا کہ پیارے آقا نے جو اس کو

Page 63

مصباح دیوه 63 سمبر ۱۹۹۳د خراج تحسین پیش کیا.اس پر کتنے ہی لوگوں نے اس شرط کی پیدائش کے بعد جب وہ بھابھی جان سے ملنے جانیں پر فورا مر جانے کی خواہش کی کہ اگر حضور ہمارے لئے اس تو بشر کی تورا جاوید کو سنبھال لینی اور کہتی کہ اب آپ سے آدھے الفاظ بھی فرما دیں.سوجائیں آپ بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہیں بھی اس میری بھتیجی عزیزه شکیلہ ظاہر نے پیاری بشری کے کو دیکھ لوں گی.وہ اطمینان سے سو جائیں اور تازہ دم گی.نماز جنازہ میں شمولیت کے بعد جب گھر آئی تو اپنی چھوٹی ہو کہ گھر ٹوٹتیں.نہ صرف یہ کہ خاندانی تعلق کی بناء پر وہ بہن مریم کو گھر پر اور ہال کا منظر بیان کیا.اور اس کے سب کی نہیں بلکہ وہ جس سے تعلق رکھتی اس سے روحانی چہرے پر اطمینان کے آثار تھے.مریم نے گفتگو کے دوران تعلق بھی رکھتی.مریم بتاتی ہیں جب وہ ایران میں تقلیلی اپنے کو ہے کا حال بیان کیا تو شکیلہ کہنے لگی کہ بشری باجی اور وہ کبھی اپنے بیٹے پر سختی کریمیں اور پیٹ و مینی تو کی وفات کا مجھے تو بالکل افسوس نہیں.اس کا انجام انتہائی بہتری کا فون آجاتا.مریم خالہ آج آپ نے پھر جاوید کو بخیر ہوا.اگر مجھے ایسا انجام ملے تو ہمیں فورا مر جاؤں.ایسی ہارا.وہ پوچھتیں تمہیں کیسے علم ہوا.بشر کی جواب دیتی خوبصورت شاندار موت ہر کسی کا مقدر نہیں ہو سکتی.کہ مکی نے خواب میں دیکھتا ہے.اسی طرح وہ فرماتی بہن بھائیوں سے عشق کی حد تک محبت کا اندازہ ہیں کہ وہ نہ صرف سچی خوا ہیں دیکھتی بلکہ تعبیر الیڈ یا کا اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے حصے کی ہر چیز اس بہے یا ملک بھی اس کو حاصل تھا.اس کی ایک سچی خواب سجو بھائی کی پلیٹ میں ڈال دیتی جس کی وہ پسندیدہ چیزیں ہوتی.اس نے اپنی زندگی کے بارہ میں ۲۳ جنوری ۱۹۷۳ء تہ مثل نصرت نے بتایا کہ وہ اپنے حصے کی مچھلی مجھے دے میں ایران میں دیکھی.جس کو پڑھ کر یکی سخت پریشان دیتی کہ تم کھا تو میرا دل نہیں چاہ رہا.گوشت کی بوٹی بھائی ہو گئی.مگر بعد میں وہ بھول گئی.آج اس کے اس خط کی پلیٹ میں ڈال دیتی کہ میرا موڈ نہیں ، میرے دانت ہیں سے لیکن وہ حصہ یہاں نقل کر رہی ہوں :.پھنس جاتی ہے.اپنے حصے کا فروٹ دوسری بہنوں کو یہاں اباجی راپنے دادا جان کو وہ پیار سے اباجی سے دے دیتی.کہتی تھی کے مزار پہ کوئی گیا کہ نہیں ، لیکں نے انہیں بہن بھائیوں میں بڑی ہونے کے ناطے اس نے ان پھر خواب میں دیکھا ہے.بہت اچھے ہو رہے ہیں.میں کہتی کی ترجیت کا یہی خیال رکھا.سرزنش بھی کہتی بسختی بھی کرتی ہوں کہ ابا جی اب نہیں نہیں جانے دوں گی.یا تو آپ میرے مگر یہ سب بھی محبت کے کرشمے ہی تو تھے کہ دوسروں کی ساتھ رہیں نہیں تو میں آپ کے ساتھ رہتی ہوں تو مان اصلاح کی طرف تربیت کی طرف توجہ دی جائے.کم سے کم جاتے ہیں کہ اچھا تم میرے ساتھ رہو.لیکن بیٹا میرے وسائل کے دور میں گزارے ہوئے دن اس کی شخصیت کو پاس بڑا گھر نہیں ہے.تو نہیں کہتی ہوں ابا جی مجھے کچھ نہیں نکھار گئے.آسائش کے دور میں بھی سلیقہ شعاری اس کا چاہیے.بس ہم چھوٹی سی جھونپڑی یا گھر بنا لیں گے اور بنائیں طرہ امتیاز رہی.مل کر رہیں گے.ہمیں آپ سے کچھ بھی نہیں مانگوں گی.بیس اب ان کی خالہ مریم بتاتی ہیں کہ ان کے پہلے بیٹے جاوید ہم دونوں اکٹھے رہیں گے اور یکیں ابا جی سے لیٹ جاتی ہوں.

Page 64

مصباح دیوه ۶۴ E4 و نمبر ۱۹۹۳ء اس دن سے میں بہت خوش ہوں کہ اب ہم ساتھ رہیں گے.تھی اور کہتی تھی " اللہ ہی سہارا ہے.اللہ ہی سہارا ہے" اس کے بعد لکھتی ہے.سب رشتہ داروں کو سلام.گویا دونوں بیٹریا کو اپنا ہمدرد پر خلوص دوست اور امان کے پیٹے میں میری جگہ ٹھس جائیں؟ یہ اس کا داری سہارا کھتی تھی.اپنے دیور محمود قریشی صاحب کے بارہ ہیں سے شدید پیار کا اظہار ہوتا تھا.یونیورسٹی سے آئی تو اکثر کہا کرتی محمود میں تو بزرگوں کا رنگ پایا جاتا ہے.کتا نہیں رکھے ہیں اماں جی کی گود میں سر رکھ کر پیٹ میں منہ عزیزم مشہور اور بشیر تو اس کے دیوانے تھے جیسے سگی گھسا کہ کافی دیر لیٹی رہتی اور وہ اس کے سر پر ہاتھے بہنوں سے الفت کا اظہار کیا جاتا ہے کرتے تھے.اپنی نہیں پھیرتی جاتیں اور ماں صدقے.ماں صدقے اٹھ منہ ہاتھے ایسہ اور بشری میں کوئی فرق نہ کرتے.ابھی پچھلے رمضانی دھو اور کھانا کھا :" سونے وقت بڑی باقائدگی کے ساتھ المبارک کی بات ہے.خطیہ کے بعد میں اس کی سانس آیا اس وقت تک جاگتی رہتیں جب تک بہتری پڑھتی رہتی.جب جیبیہ سے ملی تو رو رہی تھیں.یکی گلے ملی تو ہچکیاں پڑھ چکتی تو اسے روزانہ کہتی جاؤ اب ہاتھ روم جاؤ.بندھ گئی.میں نے پوچھا خیر تو ہے کیا ہوا تو بولیں میرا اب دودھ پی لو سجود وہ کبھی نہ پیتی.دودی میر اور دی ، اللہ اس کا گھر اجڑنے سے بچالے، اللہ خوابوں کی بات چل نکلی تو اپنے بارے میں بھی اس کا گھرا ہونے سے بچالے میرے پاؤں تلے سے زمین بتا دوں کہ جب بھی ہم پر یشان ہوتے وہ خواب میں دیکھے نکل گئی.اللہ خیر کرے کیا تھا.بولی میری بچھی، میری لیتی تھی.اور پھر پوچھتی کہ کیا بات ہے.اور بہت پریشان بچھی....بہت بیمار ہے " اور پھر رونے لگیں ہوتی.تسلی دینی سمجھاتی جیسے کہ وہ پیڑ کی ہے اور ہم چھوٹے.دلاسہ دیا کہ اللہ خیر کرے گا فکر نہ کریں.دعا کہیں بہتری یکیں تو اس کی چھنی ہونے کے ساتھ دوست بھی تھی کو فون کیا تو کہنے لگی کوئی نئی بات تو نہیں وہی ہماری اور رازدان بھی.اس نے کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا.اس جو بار بار ہوتی ہے پھر ہو گئی ہے.یکمی نے کہا اب تو پریشن کی وفات کے بعد ایک خاتون جو بشری کے سسرال سے کرواہی کو خون کی کمی زیادہ ہو گئی تو مشکل ہو جائے گی.قریبی تعلق رکھتی ہے تعزیت کے لئے آئی.اسے علم ہوا کہ اسے جیسے خبر تھی.اتنی بہادر نگہ اپریشن کے نام سے اس میری بھتیجی عزیزہ.ملہ میری کی دیورانی ہے تو بڑی حیران کی روح فنا ہوتی تھی.ہم سب جو اس کو مجبور کرتے تھے ہوئی.کہنے لگی.آپ نے پہلے شہری کا رشتہ دیا.پھر دوسرا کہ اپریشن کمر والو.آج اس کی روح کے سامنے شرمندہ اور بھی اسی گھر میں کر دیا.نہیں نے کہا اس میں کیا قباحت ہے چور بنے بیٹھے ہیں.پی بری حوری نہیں معاف کر دو.بشری نے کبھی اپنے سسرال کی کوئی بات ہی نہیں کی بشری کی وفات کے بعد بھائی صاحب (بیگ صاحب ) ہم تو ان کے گھر کو جنت ہی سمجھتے ہیں.تو وہ پھر خاموش فرمانے لگے مجھے افسوس ہے کہیں بیگم پر غصہ کہتا کہ بیٹری ہی رہی.اس کی چھوٹی دیورانیاں عزیزہ تقبیلہ اور عزیزہ سے اتنی لمبی لمبی گفتگو فون پر نہ کیا کرو.حالانکہ ان کے ریلہ کا ر دنا نہیں دیکھا جاتا تھا.ایسے لگتا تھا کہ ان لئے بشری سے باتیں کرنا ایک غذا تھی بلکہ دوا تھی.اس کی سگی بہنے جدا ہوئی ہو.اس کی وفات پر تقبیلہ موتی جاتی سے باتیں کر کے ان میں قوت آجاتی تھی.واقعی بہتر کی اپنی

Page 65

مصباح ربوه ۶۵ 65 ومبر ۱۹۹۳ء والدہ کے لئے کیا تھی.وہ کہتی ہیں کہ میری زبان کسی کی میں انہوں نے بھی بہت محنت کی بہت قربانی دی.انہوں سمجھ میں نہیں آتی تھی.بیگ صاحب سے کسی مسئلہ نے اس کی حقیقی معنوں میں قدر کی.اس کی شخصیت کو چنا بات کرنی ہوتی تو میں بشری سے کہلواتی - کسی بچے کو بخشی.آپس میں بے انتہا ہم آہنگی تھی.دونوں ایک کوئی نصیحت کرنی ہوتی تو میں بشری سے کہتی.کسی بچے دوسرے کی ضروریات کا بے انتہا خیال رکھتے.اگر بشری کو ڈانٹنا ہوتا تو میں بیٹری کو کہتی.اس کی زبان میں رات کے چار بجے تک کھتی.می ہو پھر عبادت سے تاریخ تاثیر رکھتی.جو بات میں نہ سمجھ سکوں وہ احسن سنگ میں سمجھا ہو کر سوتی تو ان کے شوہر نے ان کو صبح کبھی نہیں جگایا.دینی.اب میں کسی سے بات کر سکوں گی.کس طرح اپنا ماقی خود ہی بچوں کا ناشتہ تیارہ کر کے انہیں اٹھاتے کھاتے.الضمیر سمجھا سکوں گی.میرا سہارا تو اللہ تعالیٰ ہی تھا اور اور سکول بھجواتے.اس کی وفات سے کچھ قریہ قبیل نصرت ہے اور ہو گا مگر وہ ایک واسطہ تھی.جس کے ذریعہ میں ان کے ہاں گئی اور رات ٹھہر گئی.صبح اس کو بھی کچھ نہیں جی رہی تھی.یہ ان کی انکساری ہے.ہنٹری نے جو کچھ پایا، کرنے دیا اور اپنی ڈیوٹی ادا کی.عز منیزیم ما کہتا ہے سیکھا وہ والدہ کی تربیت ہی تو تھی.ہاں ہر بچے نے اپنے ہمارے ہاں دو بندوں کو زبر دستی کھلانا پڑتا ہے.ایک طرف کے مطابق سیکھا.اور سیرت کے موضوع نے اس کی طوبی کو دوسرے امی کو جو صرف اہا ہی کھلا سکتے ہیں.سیرت کو بھی نکھا نہ دیا.نیک فطرت - والدین کی تربیت مشرف کے مشن میں ہوں نے تجزیہ کا حصہ لیا.اور احمد بیت کی برکات ذیلی تنظیموں کے ذریعے اس میں دورے سے دفع پر پہنچانا ، لا، خندہ پیشانی سے محبت اس طرح رچ بس گئی تھیں کہ وہ ایک پلتا پھرتا نمونہ تھی.سے اس کی جماعت سرگرمیوں میں ساتھ دیا.شعبہ تاوت سیرت کے ایک جلسہ میں اس کی تقریریشن کمہ ایک غیرانہ کی ابتدا سے ہے کہ آج تک ہورنے ہے دنیا محنت کی.جماعت نے بڑے شوق سے فرمائش کی کہ میں اس خاتون اپنے کام کو پس پشت ڈال کر بلند کی.تاہمت کے کام کی والدہ سے ملنا چا ہتی ہوں.ان کو مبارک باد دینا چاہتی کی داغ بیل ڈالنے والی پس منظر میں چلی گئی کہ لکھنے ہوں.واقعی اس کی والت لائق صد مبارک باد ہیں کہ ان کی لکھانے کا کام اسی تند ہی سے کہتی رہیں.اکثر کی ہے.کوکھ سے بشری نے جنم لیا.اس کی وفات پر ان کا صبر کریں سوکھنا ہیں ہو جائیں.نہیں کہتی تم تو دیوانی ہو دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ واقعی وہ بشری بی کی والدہ وہ دیوانی ہی تھی.اپنے مشن کی تکمیل کی خاطر سے ہیں.اللہ تعالیٰ نے والدین کو صبہ کا اجمہ تو زندگی میں ہی عطا عافی کا یہاں یہ کام نہیں وہ لاکھور بھی بے فائدہ ہیں فرما دیا ہے پھر بھی بشری تقا منے کے تحت دل ناصبور مقصود میرا پورا ہو گزر جائیں مجھے دیوانے دو کی بے قراریاں کبھی کبھی تو تڑپا ہی جاتی ہیں.اللہ تعالٰی شعیہ اشناست کی دوریو کیوں سنتا پارت ناصر اور پیاری توری نے وہ ا نا رہ کر دکھایا کہ ان شعبہ اشاعت الاغا من حمایت بشری کی شخصیت جو کچھ آج بنیا ہے اس میں ان میں اس سلطان العلم کے صدقے تعارف و جینا ہے.اللہ تعالی بیان کے شوہر کا برابر کا ہاتھتے ہے.اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے باری کو نظر بد سے بچائے فضل فرمائے.

Page 66

مصباح ریوه امر الرشید غنی - کراچی 66 خور جہاں بشری ر ۱۹۹۳ء عزیزه بیشتری داؤد صاحبہ لمبند کرا چکا کی روح رواں.پہلے سے بہتر مہر ہی تھیں.میں ان کی امی سے فون سر گرم کار کے شہدمت دین سے سرشارہ ہمت و عظمت کا پہاڑ پر حال پوچھتی رہی.جمعہ کی نماز کے بعد بھائی مجید کے ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرنے والی محبت و شفقت کا محبتم ساتھ یکی اور بھابھی جان ہسپتال گئے.دیکھتے ہی عاتیزی و انکساری کا پیکیت ہر جلسے پر محفل کی رونق - کہنے لگیں.اچھی باچھا میں نے آپ کو کہلوایا بھی تحریر و تقریبہ کی دھتی.دل چاہتا تھا بیشتری بولتی جائیں تھا کہ آپ تکلیف نہ کریں.آپ پھر بھی آگئیں ہم تھوڑی اور ہم سنتے جائیں.والدین کی ہمدرد و غمگسار بہن دیر بیٹھے باتیں کرتی رہیں.دوسرے لوگ آرہے تھے.بھائیوں یہ جان چھڑکنے والی ، سسرال میں مہر و عزیز شوہر جگہ تنگ تھی.ہم آنے لگے.لیکں نے کہا بیشتری ! اب آپ کی چہیتی.بچوں کے لئے شفیق اور بہترین ترمیمیت کرتے گھر آجائیں گی تب ہی آؤں گی.کہا " اللہ آپ کو جزاء والی ماں شیریں زبان ، بڑوں کا عزت واحترام کرنے دعاؤں میں یاد رکھیے گا : اس کے بعد کبھی والی چھوٹوں سے بے حد پیار کرنے والی.احکام شریعت فون پر اور کبھی ان کے سسرال کے عزیزوں سے کی پابند.اللہ کے حضور بھی حاضر ہوئیں تو مرقع اوڑھے حال پوچھتی رہی.ہمیشہ تسلی بخش جواب ملتا کہ اللہ تعالی دے.عقایی - عزیزہ جبین نے بتایا کہ بیشتری با جی کو گھر لانے کے فضل سے بہتر ہو رہی ہیں.بس ایک دو دن ہیں کے بعد ہم نے ان کا یہ نفع اتارا ہے.سب کے لئے نیک نمونہ.یقین نہیں آتا کہ اتنی پیاری بشری اللہ کو پیاری ہو چکی ہے.گھر آنے والی ہیں.اگلی مشکل کو ڈاکٹروں نے ہر طرح تسلی کر نے بور چھٹی دے دیا.دوپہر دو بجے کے بعد تیار ہوئیں.بتری کو کئی سال سے تکلیف تھی.ڈاکٹر تریوں سے گلے مل کے سب کا شکریہ ادا کیا.اپنی اتنی آپریشن کے لئے کہتے تھے مگر ٹالتی جامہ ہی تھیں.جیسے کے ساتھ لفٹ سے نیچے آئیں.عزیز داؤد احمد گاڑی کوئی انجانا سا خوف ہو.اس دفعہ حضرت چھوٹی آپا جان نہ دیک لانے کے لئے گئے.اتنی سی دیر میں ہارٹ صاحبہ اپنے علاج کے لئے کہا اچھا تشریف لائیں تو انہوں اٹیک ہوا.فوراً ایمر جنسی میں سے گئے.وہاں دو سٹرائیک نے بھی سمجھایا کہ ہماری کو مت بڑھاؤ آپریشن کروا لو.ہوا.اونچی آوازہ سے " اللہ " کہا اور آنکھیں بند کر یشری کہتی تھیں کہ اب تو انکار کی گنجائش ہی نہیں لیں.اللہ تعالی غمزدہ والدین اور عزیز واقارب کو صبر جمیل تھی میں نے ہاں کر دی.آپریشن کامیاب ہوا.دن بادی عطا فرمائے.اس کے بچوں کا خود حافظ و ناصر ہو جمعہ والے..

Page 67

مصباح ربود 46 69 دسمبر ۱۹۹۳ء دن پیارے آقا ایدہ اللہ تعالٰی نہ عزیزہ بیشری کی نماز جنازہ غائب پڑھانے سے پہلے جس طرح محبت بھرے تقريتي قرارداد بروفات دعائیہ الفاظ میں ذکر کیا.ہر عورت کی آنکھ اشکبا تھی.اور ہر دل میں حسرت تھی کہ کاش ! آج میری کی بگه هم همه فیضیه مهدی صاحبہ نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ بشری سے بہت ہی پیار ، جگہ الحین اور بخشش کا سلوک فرمائے.اور محبت الفردوس اهليه میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.مکرم نسیم مهدی صاحب بہت دُعا کرو.اور رونا اور گڑ گڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر ہم میرات مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ پاکستان محترمه فیضیه مهدی صاحبہ اہلیہ مکرم نسیم مهدی صاحب رقم کیا جائے.سچائی اختیار کرو مرتی انچارچ کینیڈا کے سانحہ ارتحال پر ان کے سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا والدین ، ان کے شوہر اور جملہ عزیزوں کے ساتھ تعزیت کرتے ہوئے انتہائی رنج وغم کا اظہار کرتی ہیں.یقینا ہم سب اللہ تعالیٰ کے ہیں اور اسی ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.کیا انسان اس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے." و حضرت باقی سلسلہ عالیہ احمدیہ) مثلك پیشه کرمانی ه سانه یکی باب انور پر پارس مضبوفی یا یٹڈ کار کردگی میں کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں محترمه فیضیہ مہدی صاحبہ کی رحلت کے ساتھ لجنہ کے گلشن کا ایک اور کیل رعنا باد سموم کی نظر ہو گیا.ابھی تو محترمہ بشری داؤد صاحبہ کا غم تازہ تھا.کہ ایک اور چمکا لگ گیا.مگر جانے والوں کو کہاں بے مثال HER CLER لا جواب کوئی روک سکا ہے اور پھر بلانے والا بھی تو سب ہے پیارا ہے.ہماری بہن اُس خونش سخت گروپ میں شامل ہو گئی ہیں جن کی وفات کو امام وقت نے محسوس کیا.اُن کے اخلانی حسنہ، نیکی و پارسائی کا ذکر خیر فرما کہ انہیں زندہ و جاوید کر دیا.اور لندن میں www.ایسٹر میٹریل سے تیا ر شاری UFCASE میاں بھائی سنور کی جنبش پاریس اینشگری شود یا موکر نماز جمعہ کے بعد جنازہ غائب پڑھایا.ہم سب دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ فیضیہ مہدی ماہ کے فولی میر 223373 -223372 پسماندگان کو صبر کے ساتھ راضی بہ رضا ر ہنے کی توفیق بختے.مصدر لجنه پاکستان و جمله مرات مجلس عاملہ پاکستان

Page 68

مصباح ریده 68 47 قوم کی بیٹی جلسہ سالانہ کراچی ۱۹۸۹ء کے مواقع پر.اصغری نور الحق کراچی کی جماعت کو مبارک جلسہ سالانہ چلے آئے جہاں احباب سارے مثل پروانہ محمد اللہ قبول حق ہوئی خدام کی محنت یہ عجز و انکسار اطفال کا، انصار کی عظمت انہی کے دم سے دنیا میں اُجالا ہونے والا ہے محمدؐ کا جہاں میں بول بالا ہونے والا ہے مبارک ہو تجھے لجنہ تعین تیری مہستی کا کہ تو بھی نصف بہتر ہے یہاں انساں کی بسنتی کا تیری چھوٹی سی دنیا میں یہ کیا انقلاب آیا کہ مستورات کی جانب سے مردوں میں خطاب آیا امام وقت کے نائب نے جو اک خواب دیکھا تھا کتاب احمدیت کا حسیں اک باب دیکھا تھا انہیں خوابوں کی اک تعبیر ہے یہ قوم کی بیٹی کتاب حسن کی تفسیر ہے یہ قوم کی بیٹی ہزاروں بیٹیاں ایسی الہی ہم میں پیدا ہوں کہ جن پر فخر ہو ہم کو وہ تیرے دین پرشہیدا ہوں دسمبر ۱۹۹۳ء ( ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ))

Page 69

مصباح دیوه نعیمہ حمید 69 49 وقت کم ہے بہت ہیں کام چلو بشری سے میرا تعارف ہوئے بہت کم عرصہ ہوا سلیقہ آتا تھا.سارا کام خود عمل کر کرواتی.کام کا تھ تھا وہ بھی اس طرح کہ قیادتوں کی تشکیل نو کے سلسلے اسے جنون تھا اور پھر کرتی دیکھو تم یوں ہی گھبرا رہی کی ایک میٹنگ میں اعتدالرفیق نے بشری سے ملوایا نہیں تھی.کیسا اچھا کام کرنے لگی ہو.کہیں اپنے دل میں پہلے ہی اُس سے بے حد متاثر تھی.رفیق نے کہا کہ نعیمیہ شرمندہ ہوتی کہ سارا کام وہ کرتی ہے.مگر وہ ایک اب تمہاری قیادت نمیرہ میں آگئی ہے اس سے خوب کام خاص انداز سے کہتی " نہیں نعیمہ میں نے کب کہا ہے.لینا اچھا کام کرے گی.شری اتنے خلوص اور اپنائیت یہ تو اللہ تعالی کے کام ہیں وہ خوش نصیب ہے.سے ملی ، نہاں اتنی میٹھی اور لہجے ہیں اتنی شگفتگی کہ جس سے مولی کوئی کام لے لے " یکی اُس سے نہ مجھے علم ہی نہ ہو سکا کہ کب اُس نے مجھے تعلیم و تربیت صرف قیادت کے کاموں میں رہنمائی حاصل کرتی جبکہ کی سیکریٹری بننے پر آمادہ کر لیا.بعد میں میری گھیرا ایٹ بعض گھر بار امور میں بھی وہی میری استاد تھی.کو اپنی تسلیوں میں چھپا لیا.میری نا تجربہ کاری پر خود یکی تو یہاں تک کہہ سکتی ہوں کہ اُس سے ملنے کے کام میں ساتھ دے کر پردہ ڈال دیا.اُس میں کچھ بعد میرے ازدواجی تعلقات میں بھی بڑی آگئی.ایسا جادو تھا جس نے بتدریج فاصلے کم کر کے اپنے وہ ایسے مشورے دینی جو تیر بہدف ثابت ہوتے ساتھ ایسے چمٹا لیا کہ پھر اس سے الگ رہنے کا تصور اور دعائیں بھی بناتی خود بھی دُعائیں کرتی.ہی نہ کر سکی.حسن اتفاق کہ اُس کا گھر بھی ایسی جگہ بشری کو کام سکھاتے کا بھی جنون تھا.تقاریر پر تھا جہاں تک ہر آؤٹنگ ہیں رسائی ہوتی ہیں گاڑی نیا نہ کرنا سکھاتی.تفسیر کبیر سے مدد لے کر پوائنٹ خود چلاتی ہوں اس طرح اجتماعات ، جیکہوں ، نوٹ کرنا پھر مضمون کو پھیلانا اور پڑھنے کا انداز تقریبات ، شاپنگ پر ساتھ لے لینا اور واپسی پر بتانا اس کے محبوب مشغلے تھے.جب قیادت کی چھوڑتے ہوئے آنا میرے لئے خوشی کا باعث ہوتا میرا لڑکیاں اچھا مضمون لکھتیں تو ہمیں خوش ہو کہ کہتی فون سپیکر والا ہے اور اُسے گردن میں ریسیور دیا بشری یہ سب تمہاری محنت کا نتیجہ ہے.بڑی خاکساری کے بات کرنے کی بہت مشق تھی.اس طرح ہم بغیر کہتی ہیں تو کوئی بہتر نہیں ان میں بہت صلا حیت کام رو کے دیر تک باتیں کرتے.سیکرٹری تعلیم و تھی کبھی پتھر کو توانش کہ میرا بنتا ہے.یہ تو میرے تربیت سے نگران قیادت بنا دیا اسے کام لینے کا ہیں ذرا سا توانش دیں تو دسکتے لگتے ہیں

Page 70

مصباح رایده 70 د گمبر ۱۹۹۳د اُس کا دل ایسا ہمدردی سے بھرا تھا کہ کسی تحفوں سے بھرا ہوتا.عید مل کر کچھ نہ کچھ تحفہ دیتی.کو تکلیف میں دیکھنا اُسے گوارا نہ تھا.بازار میں اس دفعہ عید کے بعد کہا کہ کچھ تحصے پہنچ گئے ہیں.میں دفعہ چھوٹے چھوٹے مزدور بچے سامان اُٹھانے کے لئے کر میں درد کی وجہ سے زیادہ لوگوں سے مل نہیں سکی.ساتھ ساتھ بھاگتے تو انہیں پیار کرنے لگتی.نہیں گھر پر عید ملنے کے لئے آنے والوں کو بھی تحفہ ضرور میری جان میرے چاند میں خود اُٹھا سکتی ہوں اور ان دیتی.کو کچھ نہ کچھ دے دیتی.اور دیر تک گڑھتی رہتی یہ تا دیان گئی تو بہت سامان ساتھ لے گئی نا کافی بیچے نہ جانے کی گھروں کے چراغ ہوں گے اکھ ماؤں کے لیاس میں کوئی خاتون یا بچہ نظر آتا ساتھ لے آتی اور لاڈلے، کیسی کیسی ان میں صلاحیتیں ہوں گی.میرا لیس بڑے پیار سے ضرورت کی چیز کیا اُن کو دیتی.بعض چلے تو سب کو اپنے گھرے جاؤں پھر ان کی جسمانی اور خوانین تو زبان بھی نہیں سمجھتی تھیں ، انہیں اشاروں روحانی ضروریات پوری کریں.اور اس کے ساتھ بشری سے سمجھاتی کہ ہم اور تم بہتیں ہیں.جب اس مقصد سے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے.میرے ذاتی علم میں ہے لایا ہوا سارا سامان تقسیم کر لیا تو اپنے اور بچوں کے کہ وہ بہت سے لوگوں کی حتی المقدور مدد کرتی اور کپڑے تقسیم کرنے شروع کر دیئے کسی کسی فراک پر تو عزت نفس کے احساس کے ساتھ بڑے پیار اور دلار سے معصوم طوبی آہستہ سے بولتی اتی یہ تو ابھی ایک دفعہ دہ خدا تعالیٰ کی خاطر جو چیز دیتی وہ بطور خاص نمک ہی پہنا ہے یہ تو ابھی ایک واقعہ بھی نہیں پہنتا.مگر ہوتی.خدمت خلق کے لئے آنے والے کپڑوں میں بوسیدہ شہری بچی کو اس قدر پیار سے سمجھائی کہ وہ خوشی کپڑوں کو دیکھ کر اسے قصہ آتا اور سمجھایا کرتی اپنے محسوس کرنے لگتی.آتے وقت ہم نے تقریباً سر کپڑا اللہ کے لئے اچھی چیز نکالا کرو.وہ پسند کرتی.کہ بستر وغیرہ سب تقسیم کر دیے تھے.خراب کپڑوں کو دھو کر استری کر کے ٹوٹے ہوئے بٹن بشری اپنی ہندو ملازمہ سے بھی نہایت حسن سلوک وغیرہ ٹانک کو ضرورت مندوں کو دیئے جائیں.سے پیش آتی.اس کو بھی بانہیں کھول کر ملتی.یاسیری جب کسی کی آنکھ میں آنسو دیکھتی کہتی مت ضائع مسجد کے حادثے پر بندوں کی آبادی میں آگ لگا دی گئی.کر دیے کا نہ ان آنسوؤں کو خدا کے آگے بہاؤ ٹرکش گھروں کو گرا دیا گیا کبھی دن ملازمہ کے نہ آنے پر بہت ہلا کر رکھ دیں گے.سید با دل کا درد اس حد تک پڑھے کہ تکیہ مند ہو گئی.داؤد بھائی کے ساتھ غیریت معلوم کرنے کہ نہ آنکھیں آنسوؤں سے بیر نہ ہو جائیں تو ان لمحات کو بھی گئی.بہت ساراشن اور ضرورت کی اشیاء ساتھ لے خوش قسمتی سمجھو.میر کا پیمانہ چھلکے تو خدا کی رحمتوں کو گئی.بیٹری کی ہمدردی اور پیار پر بے اختیار ہو کہ کا نزول ہوتا ہے جو کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے.وہ بشری سے چمٹ گئی.عید پر دینے کے لئے تحفہ خریدتی تو خاص طور خدا نقاط پر خاص اندانہ کا تو کل تھا.اُس کی سب پر غریب بچوں کو سننے دیتی.عید پڑھنے جاتی تو بینگ ضروریات اللہ پاک اپنے فضل سے پوری فرما دینا.کبھی

Page 71

مصباح ربوہ شاپنگ کے لئے جانے کو کہتی تو بیشتری ملتوی کرنے کو کہتی.میں کہتی میتری چلو شاپنگ کہ آتے ہیں.پیسوں ومبر ۱۹۹۳ء نے ہوش آنے پر سب سے پہلے اللہ کا نام لیا ہے.صابر شاکر تو وہ بے مثال تھی.ایران سے کا کیا ہے بعد میں حساب ہوتا رہے گا.بہتری کہتی نعیمہ خالی ہاتھ آئی تو کئی قسم کی سنگیں پریشانیوں نے میرا محلا بہت پیارا ہے.کہیں اُس سے مانگتی ہوں تم یہ استقبال کیا.مگر وہ بتایا کرتی کہ نہیں تے کسی کو کچھ تو کہتی ہو کہ بعد میں حساب ہو جائے گا.یہ کیوں نہیں نہ بنایا.بس جائے نماز بچھاتی اور اپنے پیارے موں کہتی کہ خدا تعالی پہلے ہی بندوبست کر دے.میرا مولا تو کریم کو اپنے دکھ درد کہ دیتی.اسی سے فریاد کرتی.میری ضروریات ہی نہیں میرے شوق بھی پورے کر دیتا سسکتی اور رحم کی طرح طرح سے بھیک مانگتی تو تو ہے.اور واقعی میں دیکھنی اللہ تعالی عنیب سے سامان بہم ماں باپ سے زیادہ پیار کرنے والا ہے.حالات کو بدنی سکتا ہے.اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اُس کا ساتھ دیتا رہا.سادہ، نفیسی اور کم قیمت لباس پسند کرتی.ایک دفعہ ایسی ہی مالی تنگی تھی بچوں کی فیس دینے کے پہنچا دیا.کہتی مجھے مہنگا کپڑا پہننے اور مہنگا کھانا کھاتے ہوئے خدا سے بہت خوف آتا ہے.عالی شان بنگلے، قیمتی زیور نے لئے رقم نہیں تھی.اللہ پاک نے کچھ رقم کا انتظام کر دیا دل مطمئن ہو گیا کہ صبح فیس بھیج دیں گے مگر شام ہوئی کپڑے دیکھ کر کہتی میرا مولا کتنا پیارا ہے اُس کا کتنا تو ایک محترم خادم چندہ لینے کے لئے آگئے.پہلے خیال احسان ہے کہ مجھے اتنی عالی شان اور قیمتی چیز میں دیکھاتا آیا کہہ دوں آج نہیں دے سکتے مگر ساتھ ہی ندامت ہے.طبیعت میں قناعت تھی کبھی کسی کے مال و دولت ہوئی کہ اللہ تعالی نے آج ہی رقم دی ہے آج ہیں اللہ سے مرعوب نہ ہوئی مگر روحانی دولت میں سب پر کی خاطر چندہ دینے سے انکار کر دوں چنانچہ ساری رقم چندے ہیں ادا کر دی.اللہ تعالیٰ کو یہ تو کل اتنا پسند ہمینہ رشک کرتی." محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ؟ آیا کہ اُس خندانوں کے مالک نے اُس سے کئی گنا زیادہ کا سلوگن اس کی ذات میں حقیقی تفسیر بن جاتا.کوئی اور بھیج دیئے کتنا ہی پریشان ہو اسے اپنی دلربا باتوں سے نسلی دے طوبی کی آمین کا پروگرام بنایا تو نیت یہ مفتی کہ دیتی.کسی کو حکمت کا نسخہ بتائی کسی کو دعائیں بتاتی.گلے غیر از جماعت مہمانوں کو بلانے کی ایک صورت ہو جائے گی.لگا کہ منہ چوم کر پیار کرتی اُس کا وجود جسم پیار وجود جس پیمانے پر اپنے مہمانوں کی عزت افزائی کرنا چاہتی ایسا مغناطیسی تھا جو سب کو اس سے چھٹا دیتا.تھی اُس پر بہت تریچ اُٹھتا وہ دُعا کرتی رہی اور پروگرام آخری دنوں میں جب وہ ہسپتال میں بھی متعلقہ ڈاکٹرز اور سٹاف اُس کے گرویدہ ہو گئے تھے جب اُس بناتی رہی.طوبی کی آئین بڑی شاندار ہوئی.اوین ایر فضا میں جہاں شادیوں کے انتظامات کی سی جنگ لگ تھی.نے آپریشن کے بعد ہوش آنے پر اللہ کا شکر ادا کیا تو تھوڑا سا یا معنی سادہ سا پروگرام رکھا اور پھر کھانے ڈاکٹر بہت متاثر ہو کر کہنے لگا یہ پہلی مریضہ ہے جس کی دعوت دی.اگلے دن بتایا کہ جس قارہ خرچ ہوا بعینہ

Page 72

مصباح دیوه 4 72 د نمبر ۱۹۹۳ء اتنی رقم اللہ پاک نے بھیج دی.ہوتا یہ ہے کہ داؤد قادیان کا سفر کریں گے بشری کی یاد بہت تڑپائے گی.بھائی کہیں نہ کہیں کام کرتے رہتے ہیں.کوئی پل کی قیم وہ نماز عصر کے وقت احمد یہ ہال پہنچ جاتی.کافی کھانا جلدی دے دیتا ہے کوئی دیر سے دیتا ہے.دراصل اللہ پکا کر ساتھ لے لیتی.نماز عصر کے بعد درس پھر مغرب پاک اپنی محبوبیت کی شان دیکھاتا ہے اور جب ضرورت پھر کھانا پھر تراویح سب ہال میں ہوتا.درمیان میں پڑنے پر اس کا در کھٹکھٹایا جائے وہ ضرورت کی رقم ذراسی فرصت میں وہ سلائی کڑھائی بیلیں ٹانکنے عنایت فرما دیتا.اس وقت یہ احساس ہوا تھا کہ بشر کی کا کام کرتی یا کچھ لکھتی رہتی.نے چادر سے باہر تک پاؤں پھیلائے ہیں مگر اب طوبی قادیان جانے سے پہلے کثرت سے دُعا کی کہ کے دامن میں آمین کی تقریب کی حسین یاد بھی ماں کی وہاں ہر لمحہ سو نہ گزر ہے.خدمت کا کوئی موقع یادوں کے سرمائے میں سر فہرست ہوگی.ہاتھ سے جانے نہ پائے.سفر شروع ہوا.امیر قافلہ بچوں کی تربیت کا انداز بھی نرالا تھا.بظاہر محترمہ مبارکہ ملک صاحبہ تھیں.مگر عملی سان منصور بازی محسوس ہوتا تھا کہ سختی کرتی ہے.مگر جس طرح توپ کا بار بہتری نے خود اٹھایا.فہرستیں بنانا، جگہ بناکر تڑپ کر وہ اُن کے لئے دُعائیں کرتی اور تربیت کا دینا، ہر ایک کے آرام کا خیال رکھتا اور اس کے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی وہ اسی کا حصہ تھا.ساتھ شوق کا یہ عالم کہ خرابی صحت کے باوجود چہرہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عملی درس اُس کے گھرانے کھلا ہوا پر منطف شگفتہ باتوں کا سلسلہ جاری رہا.کو از بر تھا.جماعتی ڈیوٹی کے لئے سب بشاشت سے کبھی کبھی تکلیف کی بہری قابو سے باہر ہو جاتیں تو تیار رہتے اور صف اول میں کام کرنا پسند کرتے.اُسے زبر دستی لٹانا پڑتا.اس کی باتوں میں علمی رنگ بزرگوں کی خدمت اور عزت خوب اچھی طرح سکھائی.مامی بخشیں ، دعوت الی اللہ کے واقعات سیرة کے بچے گھر سے بہاتے یا گھر سے رخصت ہوتے چھٹا کر پیار جلسوں کا ذکر رہتا.اس کے علاوہ اسے بے حد دلچسپ کہ کے دُعاؤں سے رخصت کرتی.مطبقے یاد تھے جو وہ اپنے مخصوص انداز میں بیان تور جهان در حقیقت جنت کی حور تھی جسے کرتی تو ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑھاتے.یہ خدا تعالیٰ نے تھوڑی دیر کے لئے دنیا میں بھیج دیا تھا.لطیفے اُسے اُس کے بھائی باسط کے توسط سے محاصل وہ اپنے سجے سجائے گھر میں خود کی طرح یہ بہتی تھی.ہم ہوتے.مدرسہ احمدیہ میں قیام کے دوران بھی ذرا سا اس کی محنتوں کے نشے میں مگن تھے.یہ سوچا بھی نہ موقع ملنے پر شگفتہ محفل لگ جاتی جس کی ایک ایک تھا کہ اتنی جلدی وہ ہمیں چھوڑ کے دور دیس جا یاد اب بے قرارہ کہ رہی ہے.کمرے کے باہر دفتر بند کراچی کا لوڈو شہری نے لگایا اور منظم طریق پر..ہے گی.to یوں تو بشری زندگی میں ہر مرحلے پر یاد آئے تخدمت خلق ، سامان کو صحیح شخصوں تک پہنچانے ، گی.مگر جیب سبب بھی رمضان المبارک آیا کرے گا اور ڈیوٹیاں لگانے اور دیگر معلومات کا کام شروع کر دیا.

Page 73

مصباح ریوه 73 دسمبر ۱۹۹۳ء واپسی کا سفر بھی دکھاؤں میں گزرا یہ اجمین انت سب سے مشکل سیکیورٹی کی ڈیوٹی خود نی اور کراچی ٹھہرنے کی دعوت دی.کی ٹیم کے ساتھ جانفشانی سے ادا کی.صبح تہجد کے لئے بیت المبارک جانتے بیٹڑھیوں پر بھی جگہ ملنا رہا کہ قادیان کا قیام ہر لمحہ دعاؤں اور خدمت تخت شاہی سے بہتر لگتا.نما نہ فجر کے بعد بہشتی میں گزرا.مقرے جاتے.جانے والے تو چلے جاتے ہیں گھر اپنے پیچھے جس روز کو اچھا کی مستورات کی حضور انمٹ ، خوبصورت اور حسین یادیں چھوڑ جاتے ہیں.سے ملاقات تھی شناختی کارڈ نہ نہیں بنتے بشریا تو لینہ کراچی کے گلستان میں ایک ہوئے تھے.یہاں پھر بیٹری نے ایثار سے کام لیا.مجھے جھکتا ہوا تر و تازہ پھول تھیں جس کی خوشبو ہم بیت المبارک میں ڈیوٹی کے لئے بھیج دیا محمد کارڈ نہ سب کو معطر کئے ہوئے تھی.احمدی خواتین اور بنانے لگی.آقا کے دیدار کے لئے ترسی ہوئی بڑے بچیوں کی دینی ، علمی اور اخلاقی تربیت کے لئے ہر سکون سے بولی.میرے لئے آنا کی حفاظت مقدم وقت کوشاں رہتیں.دوسروں کی ہمدردی اور ہے.جب تاریخ ہو کر آئی تو ملاقات کا وقت ختم ہو خیر خواہی میں اپنی ذات کو یکسر مٹا دیتی.چکا تھا.ملاقات کے دوران حضور نے نام لے کہ یاد وہ لجنہ کے ہر فنکشن کی رونق اور روح روان بھی فرمایا تھا.ایک بشری کا اور دوسرا امتہ الباری تھیں.ہر محفل اس کے ساتھ سچ جاتی تھی.سب ہی کو اس کے آنے کا شدت سے انتظار رہتا.ہر محفل میں جس روز پاکستان کی خواتین کی ملاقات ہوئی ہر وقت ہنستی مسکراتی اور چہکتی ہی دکھائی دیتیں.ناقر کا تھی بشری ایک کونے میں بیٹھی تھی.پیارے آقا کی نظر پڑی تو فرمایا " سنا ہے تم بہت کام کرتی ہو" اور فرمایا سعودی تم تو بالکل ویسی ہی ہو جیسی نہیں آٹھ سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا.باقیوں میں پھر بھی وہ ہماری احمد یہ ہال کی گیلری کا زیور اور ترینیت تھیں.وہ مخلوق خدا سے بے انتہا محبت اور پیار کرنے والی تھیں وہ حسن بیت کے ساتھ حسن صورت کا کسی نہ کچھ تبدیجی دیکھتی ہے.اس کے بعد سیرت کے جالیوں مجمہ تھیں.وہ سرا با سیرت کے رنگ میں رنگی ہوئی تھیں کا ذکرہ فرمایا اور لجنہ لا ہور کو کہا کہ اس کو بلا کہ بے لوث خدمت دین پرده دم آخر تک قائم رہیں.حقیقت میں اس نے با عمل زندگی گزاری.وہ وقت نتظار برش نہیں.قادیان میں غیر مسلم خواتین سے پیار اور عزت کا صحیح مصرف جانتی تھیں اور ایک وقت میں کئی سے باتیں کرنے کی وجہ سے وہ بیٹری کی ایسی گردیدہ ہوہیں کام کرتی تھیں.کہ گھروں پر اصرار سے بلایا.ہم تحائف لے کر گئے سیرت کے جلسوں کے حوالے سے کون ان کو انہوں نے بھی تحائف دیئے اور آئندہ اپنے یہاں نہیں جانتا.سیرت کے موضوع پر تقریمہ میں ان کا

Page 74

معیاری دیده ۷۴ 74 د نمبر ۱۹۹۳ء کوئی ثانی نہیں تھا.ان کی تقریر سب سے منفرد و گا اور اتنا زیادہ وقت دے گا.کس کے پاس بیٹھے انو کسی طرز کی دلوں کو گداز کر دیتی.جیسا کہ کہ ہم زندگی سے بھر پور قہقہے لگائیں گے اور اپنے حضور نے فرمایا کہ خواہ کتنا ہی کوئی مخالف تم بھولیں گے.کیوں نہ ہو ان کی تقریریس کو اپنے خیالات بدلنے پر کس کی محبت بھری نگاہیں مسکراہٹیں اور قہقہے مجبور ہو جاتا اور اس روحانی محفل پر ایک وجد کا سا ہمیں اور سرور بخشیں گے.اب کسی سے ہماری محفلیں سماں پیدا ہو جاتا.سننے والے کبھی آنسو بہاتے اور اور سیرت کے جلسے سمجھیں گے.یہ خلا تو پُر ہوتا نظر.کبھی بھوم مفهوم کر داد دیتے.ہر کوئی ان کی تقریر نہیں آتا.خدا کا کام تو ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا چلا جائے شن کی دوبارہ سننے کا آرزو مند رہتا.ان کی گا گھر ماں باپ کو ایسی عظیم بیٹی.بہن بھائیوں کو ایسی تقریریں سیرت کے جلسے کی کامیابی کی ضمانت تھیں.محبت کرنے والی ہیں.شوہر کو ایسی وفاشعارہ ساتھی.جتنا بڑا مجمع ان کی نظروں کے سامنے ہوتا اتنی ہی بچوں کو ایسی پیار کرنے والی اور خدا ہونے والی ماں.پر جوش ان کی تقریر ہو جاتی کہ سننے والوں پر اور دوستوں کو ایسی پر خلوص اور محبت کرنے والی رقت طاری ہو جاتی.دوست کبھی نہیں ملے گی.ایسے قیمتی با فیض وجود کبھی کوئی بڑا مجمع یا بڑی بڑی خوبصورت تو صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں.عبادت گاہ لوگوں سے بھری ہوئی دیکھتیں تو حیرت آج بھی بشری کی پیاری آواز اور جنسی کی مسحورکی سے کہیں کہ کاش مجھے کوئی ان میں گھسنے کی اجازت کھنک سنائی دیتی ہے.ہر گھر اور ہر زبان پر کرنی دے تو نہیں سیرت پر تقریریں کروں.ان کو اپنے آقال - کاری تذکرہ جاری ہے اور نہ جانے کب تک تجاری پیاری پیاری باتیں بتاؤں جو یہ نہیں جانتے بخدا نے رہے گا.کب تک ہم اس کی بھلائی میں درد کے چاہا تو یہ سب ہماری ہی سو جائیں گی اور میں اپنا شوق فسانے لکھتے رہیں گے.قدم قدم پر تو بشری کی پورا کروں گی.وہ عاشیق رسول اور امامت کی خدائی.حسیں یادیں بکھری پڑی ہیں.اسے کیسے نہ یاد کریں ہم.به حضرت اپنے دل میں ہی لے کہ خیالی گئی.اس کا نام تو اس کی خدمات کے پیش نظر تاریخ احمدیت ینٹری ! تو ہم سے اتنی جلدی جدا ہو جائے گی.میں بھی ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گا.آئندہ آنے کبھی سوچا بھی نہ تھا.ابھی تو ہم نے تم سے بہت کچھ والی نسلیں بھی ان کے لئے دعا گو رہیں گی.ان کا نیک سیکھنا تھا.بہت کچھ پوچھنا تھا.قدم قدم پر نمونہ بھی آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بنا تمہار کی رہنمائی حاصل ہوتی تھی.اب کسی سے ہم اپنے دکھ درد اور پریشانیاں اے جانے والی پیاری بشری تجھے تیرے موئی بیان کریں گے کون ہمیں دلا سے دے کر مطمئن کرے کا بے حساب پیار نصیب ہو وہ تجھے اپنی رحمتوں اور گا.کون ہمیں مزے مزے کی باتیں کرنے کے لئے فون کرے فضلوں کے سائے میں رکھے.رہے گا.L

Page 75

مصباح دیده LD 75 مبر ۱۹۹۳ء 51995 بیشتری تو تو کمان کی پیابہ کرنے والی ہستی روج شاید ہم کو دیکھ رہی ہو کہ جن کی ذراسی تکلیف تھیں.اب بھلا کون ہیں آپ کا سا پیا یہ رہے گا.پر میں تڑپ اُٹھتی تھی اب کسی طرح تڑپ تڑپ کر اے خدا اس کے پیار کی کمی کو اب تو پورا کرہ تو ہمارا بے حال ہوئے جا رہے ہیں اس کا شیدائی میں آنسوؤں ہو جا اور ہم تیرے ہو جائیں.تو تو لانے وال ہے.کے دریا بہا دیئے ہیں.بلا شبہ اگر اجازت ہوتی تو ہمیں کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گا.زمین کا سینہ چیر کہ تجھ سے اکیٹتے.اس سے پیار اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ آپ کو جنت الفروں پر تو شرک کا گمان ہونے لگتا تھا.اے خدا تو تمہیں میں بلند سے بلند تر مقام عطا فرماتا چلا جائے جو شفقت مہر و بہت دے.ایسا نہ ہو کہ ہمارا غم بھی شرک اور پیار انہوں نے اس دنیا میں نہیں دیا.اللہ تعالی کی حدود کو چھونے لگے.اس سے بڑھے کہ اس سے پیارہ کا سلوک کرے.اس یہ ہم سب کے لئے ایک عظیم صدمہ ہے جو سے پیار کا اجر عظیم عطا فرمائے.ان کے والدین شوہر بھلایا جانے والا نہیں.مگر خدا تو ہر چیز پر قادر اور بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائے ، غمگین دلوں پر ہے.وہی اس عظیم خلا کو اپنی قدرت سے پر کرے اور اس صدمہ کو برداشت کرنے کی توفیق سکینت نازل فرمائے.اے خدا تو ماں کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں سے عطا فرمائے.محروم بچوں کو اپنی ٹھنڈی میٹھی آغوش میں پروان چڑھانا.وہ پھلیں پھولیں.دین ودنیا میں ترقی کریں.خوبی کو بستری ثانی بنا دیتا.جنم دینے والی ماں ہیں یدا ہوئی ہے.تخلیق کرنے والی اور ان سے بڑھ کچھ واقفین بچوں مں خوش مزاجی اور حمل پیدا کریں پیار کرنے والا خدا تو ہمیشہ زندہ رہے گا.چند روز قبل میں نے خواب میں دیکھا.بشری بچپن سے ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی میرے گھر آتی ہے.کہیں اس کو بہت پیار کہتی ہوں، یہی چاہیئے.ترش روئی وقف کے ساتھ ہیں پہلو بہ پہلو نہیں چل کے چہرے اور بالوں میں سے نہایت کمرہ خوشبو آرہی ہے.میں خوشیو سونگھنتی جا رہی ہوں اور پیار سکتی تریش تو واقفلی زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خط ناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں.اس نے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ مخمل کہتی جا رہی ہوں.وہ جنت کی ہی تو خوشبو تھی جو اس میں سے آ رہی تھی.اور حقیقت میں بھی وہ ہمیں اپنا بے انتہا پیار دے کر خود خوشبو بن کر ہمیں معتظر کرتی رہی اور اب بھی خوشبو کی طرح اس کی یا دیں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں.اس کی یعنی کسی کی بات کو سیرداشت کرنا ، یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری مین ( خطبه جمعه در سوده ۱۰ فروری ۱۹۸۹ م )

Page 76

دسمبر ۱۹۹۳ء 5 24 76 مصباح يرة غزل گھور اندھیرا ڈھلتے سائے ہو سے ہم نے دیئے جلائے کوئی تو روکو ، کیوں یہ دھڑکن چپ نگری میں شور مچائے آ کر گئی رتوں کی یاد نے آ کئی پرانے گیت سنائے دل بہلایا ، شام ڈھلے گھر آنا پنچھی !! اک انہونی آس دلائے دامن جھٹکا خواب پہ پہرے کون بٹھانے بن بادل برسات ہوئی تھی ہم نے چھپ کر نیر بہائے یوں ہے وجہ ہنسنا تیرا لگا تیرا اندر کتنے زخم لگائے پورے چاند کا زرد اُجالا پلکوں پر موتی بکھرائے شب کی سیا ہی ڈھل جائے گی رکھنا تم اُمید بندھائے طيب تیرے من کا الاؤ ظلمت میں کرتیں پھیلائے د طیبه منبر کراچی 905))) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ))))))

Page 77

مصباح ریوه محترمه طیبه منیر صاحبہ - کراچی 77 منتقد پر ہو تو اک سے پوچھوں کہ اے ٹیم 4 د نمبر ۱۹۹۳ د گذشته سال ہماری قیادت کے سالانہ اجتماع اس حوالے سے وہ مجھے ہمیشہ چھوٹے بھائیوں کی طرح کے موقع پر آنٹی بہتری کے ہاتھ میں ایک فائل دیکھی عزیز رہا.پھر پتہ چلا کہ وہ آنٹی بشری کا بیٹا ہے تو جس پر خیلی حروف میں NASIR لکھا ہوا تھا.اتنے یہ انسیت اور بڑھ گئی.میں میری دوست نے کہا ارے یہ تو ناصر کی اٹھی ہیں.جی ہاں ! وہی آنٹی بشری ، میری آئیڈیل شخصیت دیکھو کس قدر مشابہت ہے یکیں نے غور کیا تو یقین میری ہی کیا مجھ جیسی بہت سوں کی آئیڈیل جن کی ہو گیا.بصد احترام بشری آنٹی کے پاس گئی.پوچھا.ملکوتی مسکراہٹ یوں اثر کرتی کہ اس کپر نور چہرے آنٹی ناصر آپ ہی کا بیٹا ہے.انہوں نے مسکراتے ہوئے میں کھو جانے کو دل بچا ہتا اور جب ان کے لبوں سے کہا.جی بیٹا یکی تو بہت پہلے پہچان گئی تھی نہیں الفاظ کے پھول جھڑتے تو یوں محسوس ہوتا گویا وقت وہ طیبہ ہو جس کا ذکر ناصر کہتا ہے.لیکن تم نے کبھی تھم گیا ہو.میں نے آج تک اسی دلنشین پیرائے میں اس حوالے سے بات ہی نہ کی.پھر دوسرے دن کالج گفتگو کرنے والی خاتون نہیں ویکھیں جن کا چہرہ میں ناصر کی خوب خیر لی کہ تم نے پہلے کیوں نہ بتایا کہ تم مسکرا ہٹ ، لہجہ، شخصیت العرمن تمام وجود ہیں آنٹی بیٹری کے بیٹے ہو ؟ " آپ نے کبھی پوچھا ہی نہیں اپنے نام کا مکمل عکاس ہو."حور جہاں بشر کا " نہایت اطمینان سے موصوف نے جواب دیا.پینہ ہے.کیا نام تھا کہ وجود کا ہر حصہ اس حسین نام کی عکاسی ناصر آنٹی بشری تو میری آئیڈیل ہیں.بچپن ہی کرتا دکھائی دیتا تھا.سے ان کی شخصیت میرے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے..حوری آنٹی ، جن سے میرا کوئی خونی رشتہ جوایا ناصر صاحب اپنے کالمہ اکرانے لگے تو نہیں نے نہیں تھا لیکن کیا نام دیا جائے اس ان دیکھے رشتہ فورا کہا تم کیوں بھول رہے ہو.میں آنٹی کی بات کر کو، اس تعلق کو جس کے بظا ہر ٹوٹ جانے کا یقین رہی ہوں.تورا گویا ہوئے.امی تو میری ہی ہیں نا ! اب تک نہ دل کو ہے اور نہ ان آنکھوں کو جین کے سامنے ہر وقت وہ پیارا چہرہ مسکراتا ہے.آج ایک جیا نہیں تم مجھے سے چھوٹے ہو.اس لئے تمہاری امی بعد میں میری آنٹی پہلے.یہ بھی ٹھیک ہے.اس عرصہ ہو گیا ہے اس حسین وجود کو اس مادی دنیا سے نے ہار مان لی.ناصر دراصل اسی کالج کا سٹوڈنٹ تعلق توڑے ہوئے لیکن ہر کل نہیں احساس ہوتا ہے جس کے اسکول سیکشن میں نہیں پڑھاتی ہوں.ہے جیسے یہ سب ہوا ہی نہ ہو.

Page 78

مصیاج دیوه LA 78 دسمبر ۱۹۹۳ء بیٹری آئٹی کی شخصیت یوں تو اخلاق فاضلہ اس فانی دنیا سے اٹھ گئیں تو تمام دنیا نے جہاں جہاں سے پر تھی.خدمت خلق جماعتی امور میں انتھک حضرت امام جماعت احمدیہ کا خطبہ جمعہ دیکھا اور سنا مصروفیات ، سیرت نیومی پر ہے یہا علم جماعتی بنیادی جاتا ہے.یہ مظاہرہ دیکھا کہ امام وقت نے اس عقائد پر عبور لیکن ان کی حس خوبی نے دلوں کو تسخیر پاکیا نہ مستی کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا وہ انداز بیان اور کھنکتا ہوا خوبصورت لہجہ تھا.کیا.بچے ہے ہم جیسے گنا ہوگا.تو اس مقام کا بچپن میں جبکہ ہمیں ناصرات الاحمدیہ کی رکن بھی اجتماعات تصور بھی نہیں کر سکتے.واقعی وہ چہیتی تھیں اور جلسوں میں آنٹی سے ملاقات ہوتی رہی کو کہ یہ ملاقات سرسری سی ہوتی تھی لیکن ان کی شخصیت کا اپنے خاندان کی ، اپنی لجنہ کی، اپنے امام کی اور اپنے خدا کی ، تبھی تو اس قدر جلد اللہ کو پیاری ہو گئیں.اثر دکھانے کے لئے کافی ہوتی تھی.یعنی آپ نے صرف سلام کیا اور جواباً پورا سلام ، کیا حال ہے چاند د چہرے کو پیار سے تھپتھپاتے ہوئے) کیسے ہو؟ ٹھیک ٹھاک ہو ؟ یعنی کہ حد درجہ مصروفیت کے باوجود جواب ہمیشہ ایسا ہی دلنشیں ہوتا تھا کہ ہم جیسوں کی شوم سرشار ہو جاتی تھی.تصحیح مصباح ستمبر ۱۹۹۶ صفحہ ۴۳ پر نام اور عموما سالانہ اجتماعات کے موقع پر جو کہ صبح رشته غلط شائع ہو گیا ہے.اس کو اس طرح سے شام تک جاری رہتے ہیں.خواتین کچھ اپنی فطرت کی بناء پر اور کچھ بچوں کے ساتھ کی وجہ سے آخری ایک پڑھا جائے.محترمہ سعیدہ نصرت را تا صاحبہ المیہ مکرم آدھ گھنٹوں میں انتظامی مسائل پیدا کر دیتی ہیں یعنی را نا محمد سرور ارشد صاحب سول آفیسرز کالونی ادکاره جلسہ کی کارروائی میں کم اور خانی گفتگو میں زیادہ دلچسپی اپنی چھوٹی بہن طاہرہ پروین کا نکاح مکرم مرزا لینا شروع کر دیتی ہیں.ایسے مواقع پر آنٹی بشری کی تقریہ ذوالفقار احمد کے ساتھ ہونے پر رشتہ کے بابرکت شہروں ہوتے ہیں حاضرین پر مشتمل سکوت طاری ہو جانا اور ہونے کے لئے درخواست دعا کہتی ہیں.سب ہمہ تن گوش ہو کر ان کی پُر مغز گفتگو سُنتے پر مجبور ہو جاتے.انداز بیان کی دلکشی ، لہجہ کی نرمی ، کی بجائے مظفر احمد پاننا پڑھا جائے.الفاظ کی روانی اور سلاست.الغرض تمام خوبیوں سے اسی طرح صفحہ ۷ ۴ پر رضیہ بشیر کی بجائے پر وہ تقریہ تمام حاضرین کے دلوں میں اکثر نے لگتی.شبیر پڑھا جائے.کس قدر خوش قسمت تھیں وہ خاتون کہ جب تک زندہ رہ ہیں جماعت کی آنکھوں کا تارا بنی رہیں اور جب ه صفحه اہم سطر ۱۰ میں منظور احمد پاشا و اداره ) ) ) ) ) ) ) ) ) )))

Page 79

مصباح ریده برکت ناصر، کراچی 2979 آه بشری داؤد صاحبه ممبر ١٩٩٣ء میر کتنا بھی ہو لیکن چند لمحوں کے لئے کی سیکرٹری.بھر پور شخصیت کی مالک جس کی آوازہ وقعتا تاریک ہو جاتی ہے روشن کائنات میں جادو - بہترین مقرر ، سامعین پر چھا جانے والی ذ من قبول نہیں کر رہا.کہ تو ہمیں ہمیشہ وہ عاشق رسول سیرت کے کیس موضوع پر بھی کے لئے چھوڑ گئی ہے لیکن یقین کرنا ٹہرے گا کہ میری بولی نہیں کچھ اس طرح اس میں ڈوب جانتیں کہ سننے عزیز بہین امتہ الباری ناصر اور تو یک جان دو...والوں کو سحر زدہ کر دیتی.ایسے ہی ایک سیرت کے قالب....شعبہ اشاعت مبینہ کراچی کی ہانی...اس جلسہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عور توں پیر دن شام کے چھے بجے فون کی گھنٹی بجی.یہ کیا باری احسانات ہیں بعض بلوچ خواتین مہمانوں میں شامل آپا کی آواز لڑ کھڑا رہی تھی.گھبرا کے پوچھا خیر تو تھیں.بے اختیار بہنے والے آنسو گواہ تھے حق ہے.جو ایا یہ شنکر کہ اچھی خبر نہیں بیٹری چلی گئی ہیں ہمیشہ کیلیئے پہنچانے والی آواز نے دلوں کو گرانہ کر کے محمد چھوڑ کر چلی گئی میرے پاؤں لڑکھڑانے لگے.نہیں نہیں یہ انسانیت کے احسانات یاد دلا کر تشکر آنسو بہاتے سب کیسے ہو گیا.میرے بھائیوں اور بھابھی نے پر مجبور کر دیا.تقریر ختم ہو چکی لیکن انداز بیان تھے کہ کسی پر بیٹھا دیا.وہ بتا رہی تھیں.وہ جو تمہیں سب کے دلوں کو تسخیر کر گیا.پھر جب کسی کو پیاری تھی.اللہ میاں کو بھی بہت پیاری لگی ہسپتال بحیثیت مہمان بلاتے تو یہ سوال ضرور ہونا کہ بہتری ہفتہ بھر رہنے کے بعد گھر آنے کی اجازت ملنے پر کی تقر یہ ہے کہ نہیں....اور جب بھی اُس تک یہ اپنے پیاروں کے ساتھ لفٹ تک آئی.اور آنا فانا بات پہنچائی گئی تو کمال انکساری سے کہنا.اور میری اپنے گھر کا رُخ بدل لیا.ہارٹ اٹیک نے کچھ سوچتے بہن اس میں میرا کوئی کمال نہیں.یہ تو سب میرے موں کا سمجھنے کی ہمت ہی نہ دی.ایمر جینسی میں جاکر ایک مرتبہ آنکھیں کھولیں.آخری پیغام - حضور کو میرا بعمر ۴۷ سال مولائے حقیقی کی پیار بھری گود میں 100 احسان ہے.اکثر کہتیں کہ دیکھو یہ سب حضور کی دعائیں ہیں.ورنہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے سلام کہتا اور اپنے پیاروں کو الوداعی سلام بلکہ ہمیشہ ہی یہ ہوا کہ تقریرہ تیار کی.یہ خوش فہمی کہ کہتے ہوئے بروز منگل ۲۰ ، جولائی ۹۹۳ او کو آج کے جلسہ میں مشکل نہ ہوگی.لیکن اختتام تک دل غیر مطمئن ہی رہنا اور جس پروگرام میں طبیعت چلی گئیں.میں گھیرا ہٹ ہوتی.سارا زور دُعا پر ہوتا تو وہ تقریر وہ جو کہا چی کمینہ کی جان تھی.شبہ اصلاح وارشاد ایسی ہوتی اور بولنے کے دوران خدا تعالیٰ ایسے پوائنٹ

Page 80

مصباح دیوه A- 80 دسمبر ۱۹۹۳ء...دیتا چلا جاتا ہے کہ آخر میں دل اپنے مولا کے حضور آواز کی کالے بہت سخت تھی اور اس کا یہی انداز تشکر سے جھک جاتا ہے....کراچی کی ہر قیادت کے میرا دل لے اڑا.میٹنگ کے بعد ایک خاتون سے حلقوں میں تیری مدھ بھری آوانہ کی گونج ہر تمبر کو پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ پھر ہر پیر ایک دوسرے رلائے گی...ہمارے اجتماع تیرے آنے سے سج جاتے سے تعارف بڑھتا رہا.بے تکلفی بڑھتی چلی گئی تھے....انتخاب بہت خوش اسلوبی سے نسلی بخش پھر میرا وہ پہلا سفر تھا جو غالبا اجتماع با میٹنگ کرانا.تقاریر کی حج منٹ...حصہ لینے والوں میں آنے والی کراچی کی نمائندہ نمبرات کے ساتھ تھا.کی غلطیوں کی اصلاح اس طرح کمی تا کہ کسی کی دل آزاری ضلعی عاملہ میں سے آپا سلیمہ میر ، آپا شاقی ، بیشہ کی داؤد نہ ہو.وہ سراپا محبت تھی.ایک دفعہ ہو ملتا اس امتها المرفین ظفر، بشری حمید سب ہی تو تھیں.سارے کا گرویدہ بن جاتا....وہ عشق خدا اور عشق رسول راستے علمی مسائل ، رپورٹس کی باتیں.دوران سفر ہی میں ڈوبی ہوئی.امامت اور خاندان حضرت بانی سلسلہ بیشتری نے کچھ اس انداز سے میرے ذمے پہلی مرتبہ سے بے انتہا محبت اور غیرت رکھنے والی...میرا کراچی لجنہ کی شائع کردہ کتب پاکستان بھر سے آنے پہلا تعارف اسی حوالہ سے تھا.تقریبا سات سال فیل والی لجنات سے متعارف کرنے کی ڈیوٹی لگائی کہ ناں جب میں کراچی میں رہائشق کے لئے آتی.پہلے ہی اجلاس کرنے کی گنجائش ہی نہ تھی اور شعبہ اشاعت لجنہ میں حلقہ کس اسکوائر قیادت کی سیکرٹری مال بنا اما ء اللہ کراچی جن کے متعلق یہ کہنا بجا ہوگا کہ حضور دیا گیا.مہینے کے آخرہ میں بتایا گیا کہ احمدیہ ہال میں ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں اور شفقت کے چندہ جمع کرانا ہے کہ دفتر مال میں پچندہ جمع کیا یا طفیل اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا لیکن توسیکریٹری مال صاحبہ نے کہا کہ باہر نگرانوں کی اس کی پہلی تخلیق کو نیل “ جو تیار تو امتہ الباری ناصر میٹنگ ہو رہی ہے.اپنی نگران سے پوچھ لو کہ دوسری صاحبہ نے کی لیکن اس میں بشری کے دل کا کرب اور رسید یک اُن کے پاس ہے یا نہیں.عرض کی میرا یہ وہ آنسو بھی شامل ہیں جو اپنی قوم کے معصوم اور پہلا دن ہے میں کسی کے متعلق کچھ نہیں بھانتی جواب ننھے بچوں کے لئے کچھ اس درد سے بہائے کہ پاک کثیر عالی قیادت علی کی نگران امتہ الثانی سیال ہیں میں کو نیل تیار ہو گئی.اور ابھی بھی ایسی کراچی کی ممرات میٹینگ میں موجود ہوں گی کیونکہ میٹنگ جاری تھی ہوں گی.سین کو " مجاہد ماں بنا کر اپنے ہاتھوں سے میں گیلیری میں ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہوئی.لکھ کر فوٹواسٹیٹ کو ا کہ نصاب کی صورت میں دی بولنے والی کی پر جوش آواز کا یہ نقرہ دل کی اتھاہ پھر سلطان القلم کی یہ سپاہی میں نکلیں.کو نیل کا پہلا گہرائیوں میں اتر گیا " خاندان کی بات کرنے سے پہلے پہلا ایڈیشن پریس سے تیار ہو کہ آیا.پھر منچہ اور یہ سوچلین که حضرت باقی سلسلہ احمدیہ کا احسان ہم کل ان کی مشترکہ کوشش سے تیار کر کے عمر کے ساتھ کیا ہماری نسلیں بھی نہیں اتار سکتیں، اس کی بڑھتے بچوں کے لئے تیایہ ہوا.نہ صرف پاکستان سے

Page 81

مصباح ریوه Al 81 دسمبر ۱۹۹۳ء بلکه بیرون پاکستان سے بھی آڈر آنے لگے.کیونکہ دل پہ وہ چوٹ لگی ہے کہ دکھا بھی نہ سکوں یہ کورس ناصرات کے ساتھ وقف تو کے نصاب اور چاہوں کہ چھپا لوں تو چھپا بھی نہ سکوں میں بھی شامل ہو چکا ہے.اس کے ساتھ ساتھ وہ آشنا غیر نہیں اپنے غم پنہاں سے مقدس در شهر، چشمه زمزم، اصحاب الفیل تھے ضبط کر بھی نہ سکوں اشک بہا بھی بینکوں بچوں کے لئے سیرت نبوٹی کو آسان زبان میں کہانیوں نہیں تو عرصہ کے بعد بچوں کو چھٹیوں میں لے کی صورت دے کر اپنے اندر کے عشق رسول کو آنے کمہ ربوہ امتی کے پاس آئی.اب تو ہفتہ ہی تو رہ والی نسلوں میں منتقل کر رہی تھی.میرے مولا اس گیا تھا واپسی ہیں...وکالت وقف نو کا آرڈر کی روح پر ہزاروں رحمتیں نازل فرما.تھا کہ ان کو دی بھانے والی چھے کتب کا سٹاک اگر دیکھ لو بشری تیری یہ اچانک بھدائی کتنوں تی کتاب ۵۰۰ کی تعداد میں رکھوائی سما سکے تو مرکز کو خون کے آنسو رلا گئی.لجنہ مرکز یہ ربوہ جو حضرت آنے والے وفد کو دینے میں آسانی ہوگی.اس میں سیدہ چھوٹی آپا مریم صدیقہ صاحبہ صدر لمحبتہ پاکستان پانچ کتابیں تمہاری ہیں.سوچا تھا جانتے ہی تمہارے کی صحت یابی کی خوشی میں ۲۲ جولائی ۱۹۹۳ء سامنے رکھوں گی....تو حسب سابق تم بانہوں کی شام پر وگرام نیابہ کر چکے تھے.فوری طور پر میں لے لو گی.اسی پر بخوش انداز میں مبارک باد ملتوی کر دیا...تمہیں بھی تو آیا قوسی سے بہت پیار دیتے ہوئے ماتھا چومو گی اور پھر بڑی انکساری تھا.وہ بھی مجھے گلے لگائے کرد دیں.کہتی تو ٹھیک سے کہو گی.او میری بہن اس میں ہماری کوئی ہی ہیں کہ در اتنی محیت بڑھاتی ہی نہیں چائے باری بہادری نہیں یہ سب تو میرے پیارے آقا کی رات گفتار یا کہ دل کو کوئی نو پا رہا ہے.حضرت دُعائیں ہیں.میرے مولا کے احسان ہیں.ہم ہیں کیا سیدہ چھوٹی آپا نے فرمایا کراچی والے تو بشری چیز...واقعی ہم کچھ چیز بھی نہیں...ورنہ کہتے تھے.لیکن ہم اُسے خوری کے نام سے بھی کوئی تو تیری راہ روکتا تیرا وہ عظیم باپ.جانتے ہیں تحر صفیہ عزیمہ صاحبہ کو بھی وہ پر جوش تیری صایمہ ماں ، تیرا قدر دان شوہر جن کی مثالیں میٹنگ یاد آ رہی تھیں، جو لمینہ کراچی اور لبن مرکز میں تو بارہا دیا کرتی تھی.تیرا اکلوتا بھائی تجھے کی ہوا کرتی تھیں.سٹاف کی ہر عمیر کی آنکھ میں آنسو پیار کرنے والی تیری بھابھی مین کے تو کسی گایا ہیں.....گذشتہ سال ہی تو مجنہ لاہور کے میرت کرتی تھی.ہے ہی تیری چھوٹی بہن جو تجھے اپنے کے جلسوں کو تو نے رونق بخشی.وہاں بھی تو نے جگہ گوشوں طاہر اور ناصر کی طرح پیاری تھی اور اپنی آواز کا جادو جگایا...تیرے چاہنے والے وہ ننھی طوبی جو فون پر سلام سنتے ہی پکارتے تو جہاں جہاں بھی ہیں تجھے کبھی نہ بھول پائیں لگتی....امی آپ کا فون چاول والی آنٹی....اور تمہار اسلام کے ساتھ جاندار قہقہہ....کیسے.

Page 82

مصباح ریده AP 82 د تر ۱۹۹۳ ء چاول کھائے تھے کہ تمہاری شناخت ہی یہ بن تجھے حیات جادوائی دیتی رہیں گی.جو وقف تو گئی ہے.تو کتے اس کی خوشیوں میں بھی منفرد ان سے فیض پائیں گے.اُس کی جزا میرا مولا نے رنگ بھرے.طوبی کی آئین کے حوالے لان پیر جو تاقیامت تجھے دیتا رہے اور تیری نسلوں کو بھی فتکش کیا.ہلکا پھلکا سیرت کا جلسہ ہی بن گیا کبھی - تیرا یہ فقرہ سدا میرے کانوں میں گونجتا رہے طولی کی گڑیا کی شادی کے بہاتے اہل محلہ کو گھیر لیا.گا کہ میں تو ہمیشہ یہ دُعا کرتی ہوں.میرے تو اپنے آباء کا ذکر بھی جس عقیدت و احترام سے مولا تو مجھے اس وقت کہتے پاس بلا نا جب تو کرتی وہ تیرا ہی حصہ تھا.تجھے فخر تھا کہ تیرے مجھے سے راضی ہو.دادا جان کی قربانیاں بہت عظیم تھیں.چینی گلیوں میں م خدا کرے تیری طرح ہم بھی اپنے موں کی اُن کا ہو ا حمیت کے لئے بہا.اُس کا رنگ تیرے رضا کی راہوں پر چلنے والے ہوں.یہ یادیں تو لہو میں بھی تو شامل تھا.تو اپنے ہوش ، جذیہ اور بشری تقاضے اور کمزوریاں ہیں.یہ سب محبتیں عشق کا سہرا اپنے بزرگوں کی دعاؤں کے سر ہی بھی تو اُسی کی عطا کردہ ہیں.لہذا باندھنتی...ہاں ہاں اُن دعاؤں کی طاقت ہی تو اسے میری جاں ہم بندے ہیں اک آقا کے آزاد نہیں تھی.کراچی سے ریوہ تک کا طحہ بالی سفر کر کے بھی تو اور سنیچے بندے مالک کے ہر حکم پر قربان جاتے ہیں رات گئے جب سب آرام کے لئے لیٹ جاتے...سے حکم تمہیں گر جانے کا اور ہم کو ابھی کچھ ٹھہرنے کا تو بھی تو سب لائٹیں بجھا کر اپنے سر پر دیئے کی تم ٹھنڈے ٹھنڈے گھر جاؤ ہم بجھے بجھے آتے ہیں طرح ٹمٹمانے والا عجیب جلائے اپنا مسودہ مکمل کرنے کی فکر میں تھی.تو تب بھی مجھے بہت لگی تھی.سحری کے قریب آنکھ کھلنے پر دمت دین میں زندگی کا لطف تجھے کہا کہ خدا را کمر سیدھی کو ہے.تو جو ابا یہی کہا کہ وہ لوگ جن کو پہلے دین کی خدمت کی عادت نہیں.ہاں ہاں تھوڑا سا کام رہ گیا ہے.لیکن دیکھو میشنی میرے جب رفتہ رفتہ ان سے خدمت کی بھاتی ہے تو ان کے اندر جاتے ہوئے مجھے ضرور ساتھ لے لینا..رات دس سے ایک نیا شعور پیدا ہوتا ہے.وہ سمجھتے ہیں بیچے باری آپا سے پوچھا....کہ شاہد اب بھی تو بہشتی کہ ہمیں تو اب زندگی کا پتہ چلا ہے.اس سے مقبرہ آئے.لیکن تیری آخری آرام گاہ تیرے اپنے پہلے تو غفلت کی حالت میں وقت ضائع کیا.وطن ہی میں بنی...تو سب کے دلوں کو سوگوار و اور ان کو زندگی کا لطف آنے لگ جاتا ہے حضرت امام جماعت احمدیہ المرابع تہ خمی کر گئی.ہم تجھے کبھی نہ پھیلا سکیں گے ، تو نے میدان عمل میں جان دی....تو محنہ کی تاریخ احمدیت میں ہمیشہ زندہ رہے گی.تیری یہ تخلیق کہ وہ کتابیں ۲۲ نومبر ۱۹۹۱ء

Page 83

محبات دیده A 83 در ۱۹۹۳ء برکت ناصر ایک عالم ہے تیری یاد میں بیکل بشری ایک عالم ہے تیری یاد میں ہیکل بیٹر کی صرف یہیں ہی نہیں دُنیا تیری شیدائی ہے اب تو سوچا ہے کسی کو بھی نہ چاہا جائے دل کے سناٹے سے ایسی ہی صدا آئی ہے اب تو ہم لوگ ہیں اور یاد کی گھنگھور گھٹا اب کے برسات نے رنگ میں در آئی ہے دل کے بہلانے کی کوئی نہ میں صورت باقی تم سے جو رشتہ تھا اس میں بڑی گہرائی ہے تم نے تو بشری نئی دنیا بسا لی جا کہ مڑ کے دیکھا بھی نہیں کون تمنائی ہے کا سٹہ دل لئے چوکھٹ پر چلی آئی ہوں میری تو مولا کے در سے ہی شناسائی ہے

Page 84

مصباح ریون ۸۴ دسمبر ۱۹۹۳ء میاره که مسعود وہ امر اَمر ہوگئی میری بھانجی کا نام حضرت امام جماعت احمدیہ تیار کیا.باقاعدہ اجلاس ہونے لگے.حوری کی خوش اخلاقی الثانی نے نور جہاں رکھا.ہماری بڑی بہن بلقیس جہاں اور ملنساری میں مقناطیسی کشش تھی.اس کا حلقہ نے بشری رکھا.شروع میں وونوں نام چلتے تھے.مگر احباب وسیع تھا جس میں جماعت کی تخصیص نہ تھی.گھر جب حضرت امام جماعت احمدیہ الثالث نے بشر کی داؤد پریری و مونتی کمرتی مشکل کام خود اپنے ذمے لیتی اجلاس لکھا تو یہی نام زیادہ معروف ہو گیا.وغیرہ پر لانے لے جانے کے لئے کو دونوں میاں بیوی ہر دم تیار بشری بچپن سے ہی ہوشیار ، ہونہار اور رہتے.یہی نہیں بیماروں اور مسافروں کی خدمت کرنا بھی ، ذہین تھی.چار سال چار ماہ اور چار دن کی عمر میں دونوں کا شعار تھا.گھر پر رکھنا، کھلانا ، پلانا ، آرام دینا قاعدہ شروع کیا اور پونے چھ سال میں قرآن پاک شاپنگ کروانا تحفے تحائف دے کر رخصت کرنا معمولات مکمل پڑھ لیا.رام سوامی کے سکول میں ابتدائی تعلیم میں شامل تھا.حاصل کی.بی ایس سی گورنمنٹ کالج فار ویمین سے ایک واقعہ بطور خاص یاد آرہا ہے.ایک عمر رسیدہ کیا.ایم ایس سی بیالوجی کراچی یونیورسٹی سے کیا.خاتون پاکستان سے اپنے بیٹے کے پاس آئی ہوئی تھیں.تعلیم میں اچھے نتائج کے ساتھ ساتھ اُس نے گھرداری بشری کو بزرگوں کی خدمت کی حمص رہتی ضعیف خانوں کے سارے ہنر سیکھے اور سکھائے.ناصرات ولجینہ کو گھر لے آئی.نہلایا دھلایا ، گرم دودھ پلایا.اور اپنی کا کام سرگرمی سے کیا.گھر کے مرقمت وغیرہ کے کئی اتی کا بھیجا ہوا گرم کوٹے اسے پہنا دیا.میں نے کہا بشری یہ نو آپا جان نے بہت چاہت سے تمہارے لئے بھیجا تھا.کام وہ خود ہی کر لیتی.میں ایران میں تھی جب شادی کے بعد بشری ایران یشری نے میری طرف بڑے پیار سے دیکھا اور کہا، میری آئی ہم تہران میں رہتے تھے.بشری کے آنے پر پاس ہیمہ پیاری سی تعالہ جان اللہ تعالیٰ بہت دے گا.شادی صاحب صدور اینہ کراچی کا خط وہاں کے امیر صاحب کو ملا کہ کے کپڑوں کا بھرا ہوا اٹیچی کیس ضرورت مند بچیوں میں نٹری سے خوب کام لیں یہ با صلاحیت لڑکی ہے.چنانچہ تقسیم کے لئے دے دیا.وہاں لجنہ کی تنظیم قائم کی.جنگی امیر صاحب صدر بشری اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں جن کا ما حصل جنرل سیکرٹری اور خاکسار سیکریٹری تعلیم وتربیت مقرر یہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی دولت کو خدا تعالی کی خوشنودی ہوئیں.ہمارے پاس جماعتی کتب نہ تھیں.خود ہی نصاب حاصل کرنے کے لئے بغیر ملال کے شوق سے لٹا دیتی

Page 85

مصباح زاده تھی 85 حوری کی وفات سے تقریباً دو ماہ قبل یکیں نے خواب میں دیکھا کہ میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا ہے اور مجھے کئی دفعہ آواز آتی تھی وہ امر ہو گئی، طرح طرح کے وہم آئے مگر توری کی طرف دھیان بھی نہیں گیا کہ وہ فوت ہو جائے گی.اک دوست جواں سال ، جواں عریم کی رحلت لاریب اسی بات کا کہتی ہے تقاضا پل بھر کا بھروسہ نہ کریں صبح وہ ایسا ہم کیا جانے کہ آجائے گا کس وقت بلاوا ١٩٩٣ " حضرت امام جماعت احمدیہ التابع فرماتے ہیں :- الله تعالی بیان فرماتا ہے (-) اے سکون کے متلاشیو بشنو ، تمہیں کہیں طمانیت نہیں ملے گی سوائے اس کے کہ تم اپنے رب کے ذکر میں محو ہو بھاؤ اور اللہ کی یاد شروع کرو.اب اللہ کی یاد سے کیسے طمانیت حاصل ہو.اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے مختلف رنگ میں بیا نے فرمایا ہے (-) اس کی بہت تفصیل ملتی ہے کہ اس سے مراد محض ایک ایسا ذکر نہیں ہے جس کے نتیجہ میں انسان منہ سے اللہ اللہ کہنا شروع کر دے اور پھر سمجھے کہ اس کا دل تسکین پا جائے گا اور طمانیت حاصل کر لے گار بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا فلسفہ کار فرما ہے (-) ذکر الہی اور عبادت دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.جب تک انسان خدا کا عہد نہ بنے اس وقت تک اسے ذکر الہی کی توفیق نہیں مل سکتی.ان دونوں چیزوں کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے.اس (ہ) میں وہ ذکر الہی مراد ہے جو "عبد" کا ذکر ہو.یعنی سند کے ان بندوں کا ذکر ہو جن کو خدا تعالٰی اپنی اصطلاح میں عید شمار کرتا ہے جو کسی کو شمار کرتا ہے.وہ کون ہیں کہ جب وہ اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں تو پھر ان کا ذکر الہی کرنا ان کے لئے موجب تسکین بن جاتا ہے ان کے متعلق ( ) فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب یہ مر رہے ہوتے ہیں تو بستر مرگ پر ان کو یہ آواز سنائی دیتی ہے )) کہ اے میرے بندو ! تم اس دنیا میں مجھ سے راضی مہور کر رہے.نہیں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ جب تم مجھ سے راضی ہو گئے تھے تو تم مرضیہ بھی بن گئے.یعنی میں بھی تم سے راضی ہو گیا اور اسی کا نام عبودیت ہے.فرمایا اس حالت کے بعد ہم تمہیں یہ خوش خبری دینے ہیں (-) کہ اب تم حق رکھتے ہو کہ میرے بندے کہلاؤ.پس میرے بندوں کی صف میں داخل ہو جاؤ (-) جو کچھ میرے بندوں کا ہے وہ میرا ہے اور جو میرا ہے وہ میرے بندوں کا ہے (-) پس میری حقیقیں تمہاری جنتیں ہو گئیں.د از خطیه فرموده ۱۲۶/ نومبر ۶۱۹۸۲ )

Page 86

میباره دیده AY 86 دسمبر ۱۹۹۳ء امہ الباری نافر خطیبیوں کی دعا جستج نہ ہوتی اور مجھے فکر ہوتا کہ رات کو کچھے آرام کرلے صبح سے پھر گھر کے اور لجنہ کے کام شروع ہو جائیں گے.لکھنے جماعت احمدیہ صلح کر اچھا کے سالانہ جلسہ منعقدہ پڑھنے کا کام تو وہ میرے ہی کمرے میں کہتی تھی.میں گلشن مهران ۱۹۸۹ ء کے لئے بیشر کی وادر صاحبہ کی تقریر دیکھتا رہتا کہ ابھی موڈ طاری ہے.روکنے سے رکے گی رکھی گئی.کراچی کی جماعت کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا نہیں، مگر جب ڈرائینگ روم میں ہوتی تو اُٹھ اُٹھ کر کہ ایک خاتون کی تقریہ مردوں میں بھی سنوائی جائے.بشری دیکھنا کہ سجدے میں بلک بلک کر رو رو کر دعائیں تمام تر تجر بہے اور اعتماد کے باوجود فطری طور پر کچھ گھر ہی کر رہی ہوتی.طور تھی.اُس نے اللہ پاک سے استعانت طلب کی اور بزرگوں کو دعا کے لئے کہا خود بھی بڑے درد والحاج سے دُنا کرتی رہی.ہم بھی اُس کے لئے دعا کرتے رہے.اللہ پاک نے اس صاحب قلم اللہ پاک کا احسان ہے کہ گیشری کو یہ اعزاز حاصل کی دعاؤں کو سنا اور اس کی جمعیت خاطر کا سامان اس تھا کہ اُس کے پاس پیارے حضور ایدہ الودود کے طرح فرمایا کہ اُس نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مولانا عطا کر وہ کئی قلم موجود تھے.یہ قابل رشک ایوارڈ بجاطور عبد المالک خانصاحب اور محترم مولانا سلطان محمود انور پر یشتری کو صاحب قلم ثابت کرتا ہے.اور یہ اللہ تعالی صاحب اور دیگر کچھ بزرگ تشریف فرما ہیں اور بشری کے کا فضل ہے جس کو بچا ہے عطا فرماتا ہے.لئے دعا کر رہے ہیں اور دکانیں پڑھ پڑھ کر بشری کو پھونک رہے ہیں.خواب میں دیکھے گئے دونوں بزرگ گھوڑے پر سوار فن خطابت میں طاق ہیں.مشری کو یقین ہو گیا اللہ ۱۹۸۶ء کی بات ہو گی احمد یہ ہال میں سیرۃ النبی پاک غیر معمولی تائید و نصرت فرمائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ ہو رہا تھا ہال بھرا ہوا تھا.دعا میں شعف بشری سے پہلے میری تقریر تھی.بشری نے کہا جتنی زیر تم تقریر کردگی میں دُعا کہتی یہ ہوں گی پھر میری تقریر کے داور صاحب نے بتایا کہ بہتری کی طبیعت ٹھیک دوران تم دعا کرتی رہنا.یہ خوش گوارہ عہد نبھایا.بیشتر کی

Page 87

مصباح زیوه AL 87 دسمبر ۱۹۹۳ء تقریہ کہتی رہی.سامعات ساکت مسحور اور خاکسار دعا کا لکھا ہوا شعر ہے a میں مصروف رہی.تقریر کے دوران کبھی کبھی بہتری کی یا رب یہی دُعا ہے کہ انجام ہو بخیر او از شدت محبت سے بھرا جاتی.کبھی وہ اس طرح آنکھ ہیں ہر وقت عافیت رہے ہر کام ہو بخیر بند کر لیتی جیسے سرتا پا ڈوب گئی ہو.تقریر کے بعد اس نے بنایا آج عجیب واقعہ ہوا.اس کے ہاتھ ٹھنڈے چہرہ سجا سجایا گھر کرتے اور جسم پر کیاکیا ہٹ تھی.کچھ خوف زدہ بھی تھی.ایران میں قیام کا زمانہ کشائش کا زمانہ تھا گھر اُس نے بتایا کہ جب کیمیں تقریر کر رہی تھی تو مجھے بے حد خوبصورتی سے سجایا.داؤد صاحب کے ساتھ بہت ایسے محسوس ہونے لگا کہ ہال کے دروازے بڑے ہو رہے سے ملکوں کی سیر کی اور جگہ جگہ سے نوادر جمع کئے.بشری ہیں اتنے بڑے جیسے قلعوں وغیرہ میں ہاتھی سواروں اور داد و صاحب دونوں کا ذوق بہت نفیس ہے.مگر کے لئے ہوتے ہیں اور دروازے سے گھوڑے پر سوار جب اچانک بھرا بھرایا گھر چھوڑنا پڑا تو اللہ پاک سے پیارے آقا حضرت سیدنا امام جماعت احمدیه الرار و ایده دعا کی کہ یہ گھر یاد نہ آیا کرے سب درو دیوار پر ایک اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال میں تشریف لا رہے ہیں.نظر ڈالی اور گھر چھوڑ دیا.پھر کراچی آکر تنکا تنکا جمع یہ واقعی عجیب بات تھی اس لئے بشری اور میں خاموش کر کے آشیانہ بنایا.اور جبہ یہ آشیانہ بھی مثالی طویر ہی رہے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کیا.پر سج گیا تو اپنا سجا سجا یا گھر چھوڑ کر اپنے آخری ٹھکانے مولا کا کریم کی طرف پرواز کر گئی رہے نام اللہ کا.واشنگ مشین بشری کا تکیہ کلام تھا یہ میرے مولا کا کرم ہے.اور بے حد شکر کرتی.ایک دفعہ ہم ایک ساتھ سیرت کے داود بھائی صاحب پرانے سامان کی دکان کے پاس جلسے میں جا رہے تھے.سڑک کے دونوں طرف عالی شان سے گزر رہے تھے کہ ایک واشنگ مشین دیکھ کر ٹھنڈک رہائشی بنکے تھے.پھر انمند سے محل نما گھروں کی سچائیں گئے.وہی ماڈل تھا جو ایران میں بشری استعمال کرتی تھی.دیکھے کہ کچھ رشک سے ذکر کیا.شرکا نے کہا " مولا کا کرم اور وہیں رہ گئی تھی.داؤد بھائی کا دل چاہا، میرانی.ہے اس نے ہمیں اتنی خوبصورتیاں دکھا دیں.کئی تو یہ ہے تو کیا مرمت کروالیں گے.بشری دیکھ کر بہت خوش ہوگی قیمت پوچھی تو پانچ ہزار.اگر چہ مشین کی قیمت کے مقابلے میں پانچ ہزار میں تقریباً مفت لگی مگر پانچ ہزار موجود نہیں تھے.پھر کئی دفعہ ایسا ہوا سب دیکھ بھی نہیں سکتے " انجام بخیر بشری کی آٹو گراف بک میں حضرت سیدہ نواب کہ ادھر سے گزر ہوتا بشین پڑی دیکھتے اور گھر آ کر میاد که بیگم صاحبہ کے دست مبارک سے راگست ۱۹۶۳ء بشری کو بتاتے " بوشو وہ مشین ابھی تک نہیں پکی.

Page 88

مصباح ریوه ^^ 88 حتی کہ بیشری نے کہنا شروع کیا چھوڑیں اب مجھے چاہئیے کبھی نہیں ہاتھ سے آرام سے کپڑے دھولیتی ہوں جب کبھی مولا پیسے دے گا.نئی خرید لیں گے.دونوں علم کا نور دسمبر ۱۹۹۳ء آپریشن کے کچھ دن بعد جب ڈاکٹر ٹانکے جانتے تھے کہ مشین گھر کی ضرورت ہے مگر ایک دوسرے کھولنے لگیں تو بشری کے چہرے پر ہلکے سے درد کہ کو طفل تسلی دے رہے ہوتے ایک دن حسب معمول سہنے کے تاثرات دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا.آپ کو بالکل داؤد صاحب وہاں رک گئے مشین کو دیکھا اور چل درو نہ ہو گا.پتہ بھی نہیں چلے گا بس میں طرح دیئے ابھی دکان سے باہر نکلے ہی تھے کہ کندھے پر PLUCKING یا THREADING میں بالکل معمولی سا ایک بے تکلف ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا.قریبیٹی تم ! محسوس ہوتا ہے ایسے ہی ٹانکے نکل جائیں گے.بشرکی یکیں تو تمہیں تلاش کرتا کہ ہا.مجھے تمہاری کچھ رقم نے کہا میں نے ایسے جھنجھٹ کبھی نہیں پالے.کبھی دینی تھی.پھر جیب میں ہاتھ ڈالا بٹوا کھولا اور پانچ کچھ نہیں کیا.ڈاکٹر بشری کے چہرہ پر جھک آئیں غور ہزار روپے داود بھائی کو دے دیئے.داؤد صاحب سے اُس کے چڑیا کے پر جیسی قدرتی طور پر کمان بھنویں نے اُسی وقت مشین خرید لی اور اپنی بوشو کے لئے دیکھیں اور بے ساختہ کہا.خوشی حیرت اور مولا کے شکر کا موقع فراہم کر دیا.تو پھر آپ کے چہرے پر یہ سارا علم کا نور ہے.نقد انعام کا مصرف قصیدہ اور چہل احادیث کراچی کی ناصرات الاحمدیہ میں قصیدہ اور چہل ایک واقعہ صدر لجنہ اماءاللہ کراچی نے ہمیں کچھ احادیث حفظ کرنے کا شوق بشری کا پیدا کیا ہوا ہے.نقد انعام سے نوازا.بشری دفتر نہیں آئی تھی اُس وہ خود جب ناصرات میں تھی جب سے اُس نے بچیوں کا لفافہ بھی میرے پاس تھا.مجھے علم تھا کہ بشری کا کو قصیدہ یاد کرانا شروع کیا تھا اب تک وہ بچیاں ہا تھے تنگ ہے.دل میں خوش ہو رہی تھی اچھا ہے خوانین بن کر کئی بچوں کو حفظ کما چکی ہوں گی.صدسالہ بشر کا کا کوئی کام نکل جائے گا مگر جب گھر آ کر فون پر جش تشکر کے خصوصی پروگرام میں قصیدہ رکھا اور باد میں نے اُسے بنایا تو اس نے مجھے کہا اول تو اس کی کرنے والی حمیرات کو انعامات دیئے.طوبی کو قصیدہ ضرورت نہیں تاہم اگر انعام ملا ہے تو ایسے کرو کہ لفافہ یاد کروایا جو وہ بڑے پیارے اندازہ میں صحیح تلفظ کھولے بغیر تھر پارکر میں جو ہسپتال بن رہا ہے.اس کے ساتھ پڑھتی ہے.بچوں کو نظمیں یاد کروانے کے میں دے دو.لئے باؤں کو کتنی بار و ہرانا اور سننا پڑتا ہے.اس کا اندازہ کر کے سوچئے بشری کے گھر میں ہر وقت حمد و درود کا دور دورہ رہتا ہوگا.بصیرت عبد الصمد یہ ہماری بشر یا داؤد کا قلمی نام ہے.میں نے رکھا

Page 89

مصباح یوه 09.89 تھا.ہم دونوں نے ایک ایک قلمی نام رکھا تھا اور غیر جاگتی لگتا ہے سر پر سے ٹھنڈا سایہ رخصت ہو گیا.پنجابی کے سر اخبارات کے لئے قلمی نام سے لکھتے تھے.ذاتی خطوط چند اشعار یاد داشت سے لکھ رہی مون سجن کو پڑھ لکھے جاتے.دانشوروں کو دانش مناری سکھائی جاتی کہ اپنی اپنی مان ضرور یاد آئے گی براہ کرم بیشہ نئی کے بچوں کو دعاؤں میں یاد رکھئے بشری کو یہ نام بہت پسند تھا.مانواں ٹھنڈیاں چھانواں شہری بے شک مانواں ٹھنڈیاں چھانواں لاڈ ایڈاون سارے کوئی نہ کوئے یہاں تائیں آفرزند پیارے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ چھوٹی آیا صدر جھڑ کیں نہ یتیم کسے نوں جیسی دی مر گئی مائی بینہ پاکستان آپریشن کے بعد جب کراچی سے رخصت مانواں باج یتیمان تا یکی دل وچ حرص نہ کائی ہو رہی تھیں تو ایک تقریب میں چند قطعات پیش مانواں دالے نہر خوشی وچ وانگ بھتیجیاں کل دے کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی.بیشتری نے کئی مرتبہ رب دی آس یہاں تائیں جیوں رکھ جنگل سے کہا "ہاں" کے متعلق جو قطع کہے تھے وہ مجھے لکھوا مانواں والے مانواں دے دل سو فریاد بیادن دو.ہر دفعہ ایسا ہوتا کہ ڈائری سامنے نہ ہوتی.ہمیں کہتی رو رد موٹیاں مانواں والے آپے چپ کہ عبادت لکھوا دوں گی.شرکی کو نسا ہم کہیں جا رہے ہیں.مگر اچانک وہ اتنی دور چلی گئی کہ اب میں اسے قطعے کا ھوا نیلی محمل کے جوتے نہیں سکتی.اپنے دل کی تسلی کے لئے بشری کے نام دو قطع پیش کر دیتی ہوں.(1) تمین سال کی بشری گھر کے سامنے ریڑھی پر بکنے والے نیلی مخمل کے چھوٹے چھوٹے بوٹ دیکھ کو مچل گئی اور اپنی امی جان سے صدر کرنے لگی کہ مجھے کہاں ہم اور کہاں یہ ہستیاں پیر نور و با برکت نیلے نیلے ہوٹ دلا دیجئے.امی نے بڑے پیار سے ہماری خوش نصیبی ہے کہ ان کی دیدہ ہوتی ہے وعدہ کیا کہ ریڑھی واں تو روزہ آتا ہے جس دن مبارک آج کی یہ ساخت رنگیں مبارک ہو پیسے ہوں گے دلا دوں گی.بیٹری کو جب امی کی جبیب ہمارا چاند نکلا ہے ہماری عید ہوتی ہے سے فرمائش پوری ہونے کی کوئی امید نہ رہی تو است دادا جان کی طرف لپکی " ابا جی میلے تیلے جوتے ب (٢) امی کی جیب کا تھا.وعدہ کیا اور بہت پیار سے کہا " کر یہ سایہ رہے ماں کا تو سکوں ملتا ہے ہیں.ابا جی کی جیب کا بھی وہی حال تھا جو اُس کی میرے سر پر میری چھاؤں کو سلامت رکھنا تم کو ماں اتنی پیاری ہے دُعا کرتے ہیں کہ یہ جوتے تمہیں ضرور دلا دیں گے مگر اس وقت پیسے نہیں جب ادھر سے بھی توقع نہ رہی تو تھوڑی دیر مجلنے میرے مولا سب ہی ماؤں کو سلامت رکھنا کسی کی ماں کسی بھی عمر میں اکیلا چھوڑ جائے تو کے بعد گود سے اتر گئی اور آیا جی برابر کہتے رہے

Page 90

مصباح ریوه 9.90 دسمبر ۱۹۹۳ء کہ یہ جوتے نہیں تمہیں ضرور دلاؤں گا.چند لمحے خاموش تھا.ایک سیرت کانفرنس ملی بشری جانِ محفل رہنے کے بعد ابا جی کو دیکھنا اور کہا بن گئی.تقریر کے بعد جس کا موضوع تھا آنحصور اچھا ابا جی آپ ساتھ انشاء اللہ تو کہیئے.صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طبقہ نسواں پیمر ایا جی کو بچی پر اس قدر پیار آیا کہ اسی وقت گود احسانات “.سندھ کی روایات کی امیر خواتین میں اٹھایا اور جوتے دلا دیئے.پیسوں کا جو بھی خاص طور پر بیٹری کے ارد گرد جمع ہو گئیں اور نتظام ہوا یہ اُس ننھی جان کے اپنے خدا سے پیار بتایا کہ یہ تعلیم کسی قدر پیاری ہے.مگر ہمارے سے ہوا.جس نے ہر طرف سے نا امید ہو کہ انشاء اللہ علاقے میں عورت کی حیثیت بہت کمتر سمجھی جاتی ہے.بعض خواتین نے اپنے حالات بھی سنائے اور پھر سلسلہ چل نکلا کہ جو ایک دفعہ بشری سے مل لیتا اُسی کا ہو جاتا.بڑے دلچسپ کہلایا تھا.آل پاکستان ورکنگ ویمین ایسوسی ایشن ہم اس ایسوسی ایشن کے ممبر بنے اور اس کی تبصرے موصول ہوئے جن میں ایک یہ تھا کہ تقریبات میں شامل ہوئے حکمت سنوری صاحبہ کے کسی طرح آپ یہ تقریر ہمارے مردوں کے سامنے اعلیٰ عہدے داران کی بیگمات سے تعلقات محبت سے بھی کریں.کئی نئے راستے کھلے اور ہماری خواتین میٹنگ میں تعلیم یافتہ خواتین جمع ہو تیں.ان کے لئے کے دائرہ ائمر میں اضافہ ہوا.کار آمد پروگرام ترتیب دینے میں بشری کا بھی حقہ اخلاق حسنہ سیکھو ایک دوسرے کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آؤ.کسی کی غیبت نہ کرو کسی کے مال میں خیانت نہ کرو.کسی سے بغض اور کینہ نہ رکھو.عورتوں میں مچغلی اور غیبت کی مرض بہت پائی جاتی ہے.اگر کسی کے متعلق کوئی بات سُن لیں تو جب تک دوسری کے سامنے بیان نہ کر دیں.انہیں چین نہیں آتا.جو بات سُنتی ہیں جھٹ دوسری کے سامنے بیان کر دیتی ہیں.حالانکہ چاہیے یہ کہ اگر کوئی بھائی بہن کا نقص اور عیب بیان کرے تو اُسے منع کر دیا جائے.لیکن ایسا نہیں کیا جاتا.چغلی کرنا بہت بڑا عیب ہے.) الازهار لذوات الخمار )

Page 91

مصارح دیده 91.91 قرار داد تعزیت بروفات محترمہ بشری داؤد صاحبہ سیکرٹری اصلاح و ارشاد لجنہ اماء الله کراچی نومبر ۱۹۹۳ ء ہم اراکین مجلس عاملہ جماعت احمدیہ کراچی و مرتبیان سلسلہ عالیہ احمدیہ مقیم کراچھا آج کے اجلاس عاملہ منعقدہ ۲۱؍ جولائی ۱۹۹۳ء میں مکر مہ و محترمہ بشری دارد صاحبہ زوجہ محترم داؤد احمد قریشی صاحب اپرینٹنڈنٹ حلقه صدر) و بهت محترم مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب دنائب امیر جماعت احمدیہ کراچی) کی اچانک وفات پر اپنے دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں.موصوفہ لجنہ اماء اللہ کراچی کی ایک نہایت مخلص، فلائی اور بے لوث خدمت کرنے والی خاتون تھیں.آپ کینہ اماءاللہ کراچی کے شعبہ اصلاح و ارشاد کی سیکرٹری تھیں اور ایک لمبے عرصہ سے اپنے فرائض منصبی نہایت خوش اسلوبی اور احسن رنگ میں ادا کرتی چلی آرہی تھیں.موصوفہ کو اللہ تعالیٰ نے فن خطابت میں ایک خاص دل موہ لینے والا ملکہ عطا کیا ہوا تھا.آپ لجنہ میں بہت مقبول اور ہر دلعزیز تھیں.اور لجنہ کراچی کے لئے ایک عظیم سرمایہ تھیں.بشری داؤد صاحبہ کی اچانک وفات نہ صرف کراچی کی تمام لجنات کے لئے ایک عظیم صدمہ ہے بلکہ جماعت احمدیہ کراچی کے لئے بھی ایک سانحہ عظیم ہے.ہم قادر مطلق وخالق حقیقی کے حضور صرف یہی عرض کرتے ہوئے دُعا کرتے ہیں کہ :- کر بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اے دل تو جہاں ندا کو اللہ تعالٰی موصوفہ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے.اور ان کے بچوں کا خود کفیل ہو.ان کے شوہر محترم داؤد احمد قریشی صاحب ، موصوفہ کے والد محترم مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب ، والدہ محترمہ اور جملہ عزیزوں کو بھی صبر جمیل سے نوازے.اللہ تعالی جماعت احمدیہ کہ اچھی اور لجنہ اماء اللہ کراچی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور اس خلاء کو خود پورا کرنے کے سامان پیدا فرمائے.اس اجلاس نہیں یہ بھی قرار پایا کہ محترمہ داؤد بشری صاحبہ کے تمام قریبی عزیز و اقارب نیز صدر صاحبه لجنہ اماءاللہ کراچی اور ماہنامہ مصباح زیدہ کو بھی اس کی مغول ارسال کی جائیں.شریک غم اراکین عامله و مربیان جماعت احمد به کراچی

Page 92

مدیا کا دیوه ۹۲ 92 رکوه محمدرفیق احمد الا خوب بھی تقریر تیری دلنشیں حسن بیاں آه ! چل بسی بشری داؤد نُور جہاں چھوڑ کر سب کو حزیں قلب تپاں بلانے والا ہے سب سے پیارا ہو گئی بالآخر خدا اس یہ ہی جاں سب تھے گرویدہ تیرے اوصاف کے کس کو یقیں تھا موت کا کس کو گہاں بہت بلند اخلاق تھا ، سیرت حسیں ان گنت تھیں تجھے میں ایسی خوبیاں تھی فرشتہ تو مگر انسان کا ایک روپ تھا کہہ کر ہی ہے یہ زمیں، کہ رہا ہے آسماں دین کی خدمت کا اس قدر کچھ شوق تھا بن گئی لجنہ کراچی کی وہ اک رُوحِ رواں خوش تھیں عہد یدار سب ، خوش امام وقت تھے ایسی خوش بختی بھلا کسی کے بس میں ہے کہاں توحید کا پرچار تیرا کام تھا صبح و مسا خوب کی جی بھر کے تم نے خدمت قرآن خاص تھا موضوع تیرا سیرت ختم رسل خوب تھی تقریر تیری دلنشیں حسنِ بیاں بہت سی لکھیں کتا بیں کئی چھپے مضمون بھی دعاؤں سے حضور کی قلم تھا تیرا رواں موت سے گو مجھ گئی ہے تیری شمع زندگی رونق بزم جہاں میں قائم رہیں گی نیکیاں تاریخ میں وہ زندہ و جھاد بہ ایسی ہوگئی ہمت و عظمت کا اک کہلائے گی روشن نشاں ہانے والی پر سدا برسیں خدا کی رحمتیں سب کی دعا ہے جنت الفردوس ہو تیرا مکان د کمبر ۱۹۹۳ ء > ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) ) )

Page 93

مصباح ریده ۹۳ 93 دسمبر ۱۹۹۳ء بشری خطوط کے آئینے ہیں.میری بیوی بھی آپ سے اور دیگر عزیزان سے تعزیت حضرت سیدہ مریم صدفه مقاله صد لحنه پاکستان کا اظہار کر رہی ہیں.اگرچہ اس وفات پر جس طرح مکرمہ ہمشیرہ صاحبہ میری بیوی نے صدمہ محسوس کیا ہے اُس سے تو یہ لگتا عزیه خوری کی اچانک وفات کی خبر اسی طرح ملی ہے کہ خود اُن سے عزیزہ بشریٰ کی تعزیت کوئی چاہیے.جیسے کوئی ہم پھٹ جاتا ہے.یقین نہیں آرہا تھا.بار بار جگہ جگہ فون کریں.کراچی ملے ہی نہ.انتہائی صدمہ ہوا.آپ اللہ آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے آپ کو سب کا خیال آیا داؤد صاحب کا ، بچوں کا ، کسی کی خوشی اور دیگر تمام عزیزان کو خود نسلی اور سکینت بخشے بعزیزہ بھی نہ دیکھی.سلسلہ کی بہت خدمت کی.اس نے یا وجود کے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور براہ راست وہ کز در صحت کے تقریریں کرتی اور کام کرتے.اللہ کی نظروں کے سامنے پرورش پائیں.میں ممنون ہونگا اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے بہت اگر میری طرف سے اور میری بیوی کی طرف سے سب عزیزان پیار کا سلوک اس سے کرے.اس کے بچوں کا حافظ و سے تعزیت کا اظہار کر دیں.اس غم میں اپنے آپ کو تنہا ناصر رہے.آپ سب کو صبر عطا کرے معمولی زخم نہیں محسوس نہ کریں.سب جماعت آپ کے غم میں شریک اور لگا.مکہ مٹی بیگ صاحب کی تو صحت بھی کمزور ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے لئے دعاؤں میں مصروف ہیں.خاکسار - مرزا غلام احمد سب کا حافظ و ناصر ر ہے.تھا کسار مریم صدیقہ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صابها مکرم حافظ مظفر احمد صاحب مکرم بیگ صاحب کے نام اپنے خط میں تحریر کرتے ہیں.ربوہ میں دعوت الی اللہ کی کئی میٹنگز ہیں بزرگوارم مرزا صاحب عزیزہ بشری داؤد صاحبہ کی وفات بڑے صدمے خوب خوب تنجا ویز اور مشورے دیئے.آپ کے ساتھ کا باعث بنی.خصوصاً جب میری بیوی نے مجھے اُن کی بنگلہ دیش کے سفر میں ان کی لکھی تقاریہ (جو آپ ساتھ خوبیوں جماعت کے لئے اُن کی وابستگی اور جماعت کی لائے تھے ، دیکھ کر تو میں حیران ہی رہ گیا.اور جب خدمت کے لئے اُن کے جذبہ کے بارے میں تفصیل بتائی.حضور انور ان کی سیرت کی تقریر کا دلنشین تذکرہ فرما

Page 94

مصباح ریوه 9 94 دسمبر ۱۹۹۳ء رہے تھے تو میں نعود جو حدیث کا طالب علم اور سیرت میرا رکھتا.من بھاتا موضوع ہے حسرت سے سوچ رہا تھا کہ کاش ان کی کوئی تقریر سنی ہوئی.اگر چہ کراچی میں گذشتہ میٹنگ محترمہ المیه امام صا حیزاده مه طیب لطیف تاب میں مجھے لاہور میں اپنے دورہ اور تقاریر کا تذکرہ کیا بشری داؤد کی وفات کی در و ناک خبر سے دلی دکھ مگر مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ لکھنے کے ساتھ الیسا اچھا بولتی اور صدمہ ہوا.اللہ تعالیٰ عزیزہ کو بخشش کی چادر میں بھی ہیں.کراچی میں سیرت کے جلسوں کی وہ سرخیل تھیں.ڈھانپ کی درجات بلند سے بلند تر فرمانا چلا جاوے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے.دراصل ہم اپنی خوشی کو ہر وقت اپنے محبوب خدا تعالیٰ کی میں دلی طور پر آپ سے تعزیت کرتا ہوں اور خوشی پر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں، اسی لئے اتنا بھاری آپ کے غم میں شریک ہوں.ان کے شوہر کو میرے دلی صدمہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کے لئے آسان فرما دنیا جذبات پہنچا دیجئے.بلاشبہ یہ ایک جماعتی نقصان ہے.اللہ تعالیٰ پورا فرمائے.ہے.8 ہلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو یہاں ملا کو ملک مبشر احمد صاحب کے فون کے بعد چھوٹی آپا محترم شمیم احمد خالد صاحب بلجئیم کو جب اطلاع دی تو وہ بھی سکتے ہیں آگئیں.بشری موصوفہ کے بچے کتنے ہیں ؟ ان کو بہت پیار - خاکسار.حافظ مظفر احمد محترم سید حسین احمد صار مربی سلسله) اسلام آباد جواں سال اولاد کی وفات ایک ٹیرا سانحہ ہے نہیں تو الفاظ نہیں پا رہا جین سے ہمدردی کا اظہار کمروں اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور عمر کے اس حصہ میں آپ کو صدمات سے بچائے اور فعال زندگی عطا فرمائے.آپ کی پیاری بیٹی کی وفات کی خبر حضور پر نور کی آپ مجھے بہت عزیز ہیں.آپ کی تکلیف کا خیال زبان مبارک سے سن کر بھی یقین کرنا مشکل تھا لیکن جب کر کے دل کو علم ہے..حضور پر تو نے تفصیل بیان کی اور پھر توصیف کی تو ایک محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صحابہ فضیل عمر ہسپتال ریبوه سکون نصیب ہوا.میری اہلیہ امتہ الحمی کی طرف سے بھی تعزیت قبول کریں.محترمہ عطیہ امجد صاحبہ نیو جرسی جس دن سے یہ خبر سنی ہے آج تک ایک لمحے یرشن کو نہیں جہاں بیٹھی تھی وہیں منجمد ہو گئی.اس کا چہرہ اس کی باتیں ایسی حواسوں پر طاری ہیں کہ عبادت میں بھی توجہ قائم نہیں رکھ سکتی جانا تو سب نے ہے مگر ایسا انجام خود خطیہ سنتیں تو اچھل پڑیں.کے لئے دیکھی فراموش نہیں کر پائی.وہ تو اتنی پیاری کہتی خدا تعالیٰ نے خالو جان بیگ صاحب کو ایسا اعزاز عطا تھیں کہ میرا قلم ان کے بارے میں لکھنے کی طاقت نہیں فرمایا.گویا تمغہ دے دیا.آپ کو مبارک ہو.اس مبارک

Page 95

مصباح ریوه 9095 دسمبر ۱۹۹۳ء زبان نے ساری دنیا کے سامنے آپ کا اور آپ کی نصیب ہوا مبارک باد کے لائق ہے وہ وجود جس کی خوش شعیب صا حبزادی کا اتنا اعلی ذکرہ فرمایا.محترم ثاقب زیر و کا صاحب لاہور محبت اور خدمات کے تذکرہ نے خدا تعالیٰ کے محبوب امام کے دل میں یہ بجذبات غم و مضمون پیدا فرمائے جو مسلسل دعاؤں میں ڈھلتے چلے جا رہے تھے.اس موقع ۲۶ ستمبر کے الفصل سے یہ مضمون کھلا کہ یہ پر دلی جذبات تعزیت کے ساتھ اس مبارک انجام پر زخم تو میرے بھائی کو پہنچا ہے.اب سرتا پا قلق ہوں.اس قابل فخر بیٹی کے والد گرامی کی خدمت میں مبارک باد شرمندگی میں ڈوبا ہوا ہوں.روح کا ذرہ ذرہ انفعال بھی عرض کہتا ہوں.جذبات کے دودھارے بیک میں غرق ہے تقدیر الہی کے آڑے یقینا نہیں آسکتا تھا وقت ساتھ ساتھ جاری ہیں.بہت خواہش ہے کہ نہیں لیکن اپنے شقیق و خلیق بزرگ بھائی کے آنسوؤں میں آپ کی موصوفہ قابل فخر بیٹی کی زبانی سیرت نبوی کو مبارک اپنے آنسوؤں کے تار تو ملا سکتا تھا....الله عزیزہ کی تذکرہ کسی سکوں ، اگر ان کی تقاریر ٹیپ ریکارڈر میں محفوظ بال بال مغفرت فرمائے.میں حضور ہی کے الفاظ میں بانگاہ ہوں تو میری درخواست ہے کہ کسی موقع پر ارسال فرمائیں رب العزت میں التجا پرداز ہوں کہ تائیں بھی وہ آواز سن سکوں جو حضور انور کے ارشاد گرامی اللہ عزیزہ موصوفہ کو غریق رحمت فرمائے اور جس سیرت کے بیان پر انہوں نے اپنی زندگی صرف کی خط تعالی اس سیرت کے فیض سے ان کے بچوں کو صبر علی کو عطا کے بعد تاریخ احمدیت کا حصہ بن گئی ہے.محترم مرزا محمد صدیق مناسیکرٹری مال نیز نهم یو کے کرے.اُن کے خاوند اُن کے والد اور دوسرے آپ کی صاحبزادی عزیمہ میری دائو دو جوری عالیہ عزیزوں کو خدا صبر عطا فرمائے اور سیرت کا یہ قبض اُن کی اچانک وفات کا حضور کے خاندان کو خصوصیت سے پہنچے.کے خطبہ جمعہ سے علم ہوا.اور یہ بھی کہ موصوفہ بڑی نیک اور اعلی تعلیم یافتہ اور احمدیت کی شیدائی تھیں.آپ اور آپ کا خاندان محترم عطاء الحبيب مهار اند.بين الفضل لندن ایک لیے عرصے سے جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے جب حضور انور نے خطبہ جمعہ میں اللہ کی بے شمار ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی بے شمار پر کتوں سے نوازے.خوبیوں کا بھرائی ہوئی آواز میں ذکر فرمایا تو دل جذبات غنم محترمہ ناصرہ لطیف ہارون مصاحبه - U.SA U.S.A-' اور جذبات رشک سے بھر گیا.ایسا خوش انجام کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے عظیم مفضل واحسان واقعی زندگی کی کچھ حقیقت نہیں.خوش قسمت سے ہی ہوتا ہے.آپ کا اور آپ کے محبتین کا دل اس ہے وہ انسان جو جاتے وقت اپنے ساتھ اعمال کی دولت لائق ، ممنانہ تصادم دین ہستی کی بعدائی سے محزون تو لے کر جائے ، خوش نصیب ہے وہ انسان جس کی جدائی پر ہے لیکن کیا ہی بابرکت اور مبارک انجام ہے جو انہیں آنکھیں اشکبار اور دل افسردہ ہو جائیں.آج مجھے سمجھے

Page 96

مضان دیده 9496 دسمبر ۱۹۹۳ و آگیا ہے کہ کیوں باجی بیشتری آدھی آدھی رات تک دل، زبان اور آنکھیں ایک ساتھ بولتی ہوں وہ جماعتی کاموں میں مصروف رہیں.کیوں باجی بشری یوں خاموش ہو جائے.8 اپنی ذات ، اپنے گھر بار، بچوں سب سے بے نیاز ہو زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے کمہ ایک ہی لگی سے سرشار دیوانہ وار مصروف تھیں.اور وہ محترم محمود بٹ علامہ محترم حبیب اللہ بٹ صاب لاہور بہت ہی نیک، خوش خلقی، خوش مزاج در حقیقت ان کے پاس وقت بہت کم تھا اور میلد جلد بہت سے کام کرنا چاہتی تھیں.اے پیارے اللہ ! باحی بشری کی مغفرت فرما کہ ان کے درجات بلند ہنس لکھ ہر ایک سے محبت پیار سے ملنے والی.دین کی فرما اور اے میرے اللہ ! تیری اس بندی نے تیرا قرب سینچتی خادمہ ، ہر وقت جماعت کے کاموں کے لئے کمر بستہ ، حاصل کرنے کے لئے بہت محنت کی اس کو قبول فرما رہنے والی پیاری بیٹی کے درجات ، اللہ پاک بلند سے اور بے شمار درختوں کے سایہ میں اپنے قرب خاص میں بلند تر کرتا چلا جائے.لجنہ کی اچھی کے لئے نہ کیپر ہونے یاتی بیشری کو جگہ عطا فرما.والا خلا ہے.احلی محترمہ نورجہاں ماہ محترم عبد اللطیف خانصات الموسویان محترمہ بشری علیم صاحبہ.لاہور...چند دن قبل ایک خاتون کراچی سے بچوں وہ ہماری، سب لڑکیوں کی آئیڈیل تھیں بہت کے لئے کتب لائی تھیں جو بشری داؤد کی تحریر کردہ تمہیں کچھ ان سے سیکھا.جب سے احمد یہ ہال بجانا شروع کیا.یہ کتب اُن کی وفات کے بعد ملیں جس سے صدمہ کئی ان سے احترام محبت اور عقیدت کا تعلق بڑھتا ہی گنا زیادہ ہو گیا.اُن کی قابلیت اور علم دوستی انہیں گیا.ان کی تقریبہ کا اندازہ دل میں یہ پہر پیدا کرتا تھا کہ ایسی ہم بھی ایسے ہی بن جائیں.ہمیشہ زندہ رکھے گی.محترم حامد محمود صاب.لاہور محترم مرزا منصور احمد صاب - ربوہ بشری کی وفات پر بہت صدمہ ہوا.اللہ تعالیٰ باحی بیشتری کم عمری میں ہی جماعت میں بزرگی اور پاکبازی کا ایک مقام حاصل کر چکی تھیں اور ان کی جماعت اُس کی بخشش فرمائے اور آپ پر آپ کے خاندان سے والہانہ محبت اور خدمت جہاں ان کے درجات کی پر رحمت نازل فرمائے.بلندی کا باعث ہوگی وہاں اللہ تعالی پسماندگان کو بر جمیل کی عطا کریگا.محترم رسید اما محترمہ سعدیہ طاہر بٹ صاب - لاہور ابھی تک یقین نہیں آتا اتنا متحرک دیجو د شین کا ه و نصیر احمد صاحب وہ مور جہاں نہیں اب اور حیت ہو گئیں.

Page 96