Language: UR
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام نے اپنے آفاقی مشن اور دعاویٰ کی تشہیر و تبلیغ کے مفوضہ فرض کو ادا کرنے کے لئے جہاں سینکڑوں اشتہار شائع فرمائے اور ہزاروں خطوط بھیجے وہاں 80 سے زائد مستقل تصانیف بھی شائع کیں۔ بہت سے لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ یہ کتب پڑھ سکیں اسی قسم کے لوگوں کے لئے حضرت سید میر داؤد احمد صاحب نے کئی جلدوں پر مشتمل یہ تالیف مرتب کی ہے تاکہ وہ لوگ تھوڑے وقت میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی کی زبانی معلوم کر سکیں کہ آپ کے ذاتی سوانح کیا ہیں؟ آپ کا دعویٰ کیا ہے؟ آپ کے دعویٰ کے دلائل و براہین کیا ہیں؟ آپ اپنا مقام کیا بتاتے ہیں؟ آپ کی تعلیم کیا ہے؟ آپ نے اپنے ماننے والوں کو کیا نصائح فرمائیں؟ آپ کے مخالفین کا سلوک کیا تھا اور آپ کی طرف سے کیا رد عمل ظاہر ہوا؟ اور آپ نے اپنے سلسلہ کے انجام اور مستقبل کے بارے میں کیا پیش گوئیاں کیں؟ اس قابل قدر تالیف میں صرف حضر ت مسیح موعودعلیہ السلام کے اقتباسات ہی ہیں اپنی طرف سے کوئی مضمون نویسی یا حاشیہ آرائی نہیں کی گئی اور ہر اقتباس کے نیچے آپ کی اصل کتاب کا حوالہ درج کردیا گیا ہے۔
حترزا غلام احمد انیان اپنی تحریروں کی روک جلد دوم
۱۳ ۱۴ لا ۸۵ ۱۸۷ ۱۸۹ ۲۲۶ ۳۳۵ ۴۰۷ فہرست مضامین حصہ اوّل باب اول : ذاتی اور خاندانی حالات ر باب دوم : دعوی د - مقام ب.بعثت کا مقصد ج - تبلیغ اور ایک پاک جماعت کا قیام اور ان کو نصائح باب سوم : تعلیم وعقائد اصولی عقائد سچا اور زندہ مذہب اسلام اللہ تعالیٰ جل شانه و عزّ اسمه وحی الہام، کشوف اور رویا سید المطهرين خاتم النبین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید حدیث وسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ملائكة الله دعا ۵۱۳ ۶۰۹ पाट ۶۵۱
۶۸۳ ۶۹۲ ۷۲۳ ۷۳۳ ۷۵۶ ۷۶۴ 29.۸۳۴ ۸۳۵ ۸۴۴ ۸۶۹ ۹۴۷ ۹۵۷ ۹۶۹ ۹۹۰ 1+12 ۱۰۲۴ تو بہ واستغفار نجات بعث بعد الموت بهشت و دوزخ حصہ دوم مقصد پیدائش انسان کی طبعی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں ایمان ، یقین اور معرفت جذب وسلوک انبیاء کی ضرورت اسلام میں نبوت حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور نزولِ مسیح المسیح الدجال ذوالقرنین یا جوج و ماجوج ام الالسنه ارکان اسلام جہاد بالسیف قضاء وقدر تقوی
۱۰۲۹ ۱۰۳۴ ۱۰۴۵ ۱۰۵۵ ۱۰۶۰ 1+71 ۱۰۸۳ ۱۱۹۳ ۱۲۰۴ ۱۲۰۷ ۱۲۱۶ ۱۲۳۲ ۱۲۳۶ ۱۲۴۸ ۱۲۵۶ ۱۲۵۸ ۱۲۵۹ ۱۲۹۵ ན་ مظنی اس دنیا میں عذاب عورت پرده تربیت اولاد روح باب چہارم : بار بار دعوت مقابلہ باب پنجم : معجزات ، نشانات اور پیشگوئیاں شادی اور اولا دصالحہ جلسه اعظم مذاہب عبد اللہ آتھم لیکھرام طاعون فتح عظیم غیر معمولی نصرت اور شہرت زلازل اور جنگیں سلطان القلم خطبہ الہامیہ متفرق نشانات باب ششم : انجام سلسله
۶۸۳ توبه و استغفار ظاہر ہے کہ انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے اور خدا تعالیٰ کے صد با احکام کا اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے.پس اس کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بعض احکام کے ادا کرنے سے قاصر رہ سکتا ہے اور کبھی نفس امارہ کی بعض خواہشیں اس پر غالب آ جاتی ہیں.پس وہ اپنی کمزور فطرت کی رُو سے حق رکھتا ہے کہ کسی لغزش کے وقت اگر وہ تو بہ اور استغفار کرے تو خدا کی رحمت اس کو ہلاک ہونے سے بچالے.اس لئے یہ یقینی امر ہے کہ اگر خدا تو بہ قبول کرنے والا نہ ہوتا تو انسان پر یہ بوجھ صد ہا احکام کا ہر گز نہ ڈالا جاتا.اس سے بلاشبہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تو اب اور غفور ہے.اور تو بہ کے یہ معنے ہیں کہ انسان ایک بدی کو اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اس کے اگر وہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہر گز نہیں کرے گا.پس جب انسان اس صدق اور عزم محکم کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدا جو اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے وہ اس گناہ کی سزا معاف کر دیتا ہے.اور یہ خدا کی اعلیٰ صفات میں سے ہے کہ تو بہ قبول کر کے ہلاکت سے بچا لیتا ہے.اور اگر انسان کو تو بہ قبول کرنے کی امید نہ ہو تو پھر وہ گناہ سے باز نہیں آئے گا.عیسائی مذہب بھی تو بہ قبول کرنے کا قائل ہے مگر اس شرط سے کہ تو بہ قبول کرنے والا عیسائی ہولیکن اسلام میں تو بہ کے لئے کسی مذہب کی شرط نہیں ہے.ہر ایک مذہب کی پابندی کے ساتھ توبہ قبول ہو سکتی ہے اور صرف وہ گناہ باقی رہ جاتا ہے جو کوئی شخص خدا کی کتاب اور خدا کے رسول سے منکر رہے.اور یہ بالکل غیر ممکن ہے کہ انسان محض اپنے عمل سے نجات پا سکے بلکہ یہ خدا کا احسان ہے کہ کسی کی وہ تو بہ قبول کرتا ہے اور کسی کو اپنے فضل سے ایسی قوت عطا کرتا ہے کہ وہ گناہ کرنے سے محفوظ رہتا ہے.یا در ہے کہ تو بہ اور مغفرت سے انکار کرنا در حقیقت انسانی ترقیات کے دروازہ کو بند کرنا ہے کیونکہ یہ بات تو ہر ایک کے نزدیک واضح اور بدیہیات سے ہے کہ انسان کامل بالذات نہیں بلکہ تکمیل کا محتاج ہے اور جیسا کہ وہ اپنی ظاہری حالت میں پیدا ہو کر آہستہ آہستہ اپنے معلومات وسیع کرتا ہے.پہلے ہی چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۹۰،۱۸۹)
۶۸۴ عالم فاضل پیدا نہیں ہوتا.اسی طرح وہ پیدا ہو کر جب ہوش پکڑتا ہے تو اخلاقی حالت اس کی نہایت گری ہوئی ہوتی ہے.چنانچہ جب کوئی نو عمر بچوں کے حالات پر غور کرے تو صاف طور پر اس کو معلوم ہوگا کہ اکثر بچے اس بات پر حریص ہوتے ہیں کہ ادنی ادنی نزاع کے وقت دوسرے بچہ کو ماریں اور اکثر اُن سے بات بات میں جھوٹ بولنے اور دوسرے بچوں کو گالیاں دینے کی خصلت مترشح ہوتی ہے اور بعض کو چوری اور چغل خوری اور حسد اور بخل کی بھی عادت ہوتی ہے اور پھر جب جوانی کی مستی جوش میں آتی ہے تو نفس امارہ ان پر سوار ہو جاتا ہے اور اکثر ایسے نالائق اور نا گفتنی کام اُن سے ظہور میں آتے ہیں جو صریح فسق و فجور میں داخل ہوتے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ اکثر انسانوں کے لئے اول مرحلہ گندی زندگی کا ہے اور پھر جب سعید انسان اوائل عمر کے تند سیلاب سے باہر آ جاتا ہے تو پھر وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتا ہے اور سچی توبہ کر کے ناکردنی باتوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اپنی فطرت کے جامہ کو پاک کرنے کی فکر میں لگ جاتا ہے.یہ عام طور پر انسانی زندگی کے سوانح ہیں جو نوع انسان کو طے کرنے پڑتے ہیں.پس اس سے ظاہر ہے کہ اگر یہی بات سچ ہے کہ تو بہ قبول نہیں ہوتی تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدا کا ارادہ ہی نہیں کہ کسی کو نجات دے.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۹۲ ۱۹۳) اگر چہ خدائے تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ تم تو حید ہر ایک نفس میں موجود ہے لیکن ساتھ ہی اس کے یہ بھی کئی مقامات میں کھول کر بتلا دیا ہے کہ وہ تم سب میں مساوی نہیں بلکہ بعض کی فطرتوں پر جذبات نفسانی اُن کے ایسے غالب آگئے ہیں کہ وہ نور کا لمفقود ہو گیا ہے.پس ظاہر ہے کہ قوی بَهِيمِيه يا غضبه کا فطرتی ہونا وحدانیت الہی کے فطرتی ہونے کو منافی نہیں ہے.خواہ کوئی کیسا ہی ہوا پرست اور نفس امارہ کا مغلوب ہو پھر بھی کسی نہ کسی قدر نور فطرتی اُس میں پایا جاتا ہے.مثلاً جوشخص بوجہ غلبہ قولی شهوِيَّه يا غبيه چوری کرتا ہے یا خون کرتا ہے یا حرامکاری میں مبتلا ہوتا ہے تو اگر چہ یہ فعل اس کی فطرت کا مقتضا ہے لیکن بمقابلہ اس کے نور صلاحیت جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے وہ اس کو اُسی وقت جب اُس سے کوئی حرکت بے جا صادر ہو جائے ملزم کرتا ہے.جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوتها الجز نمبر ۳۰ یعنی ہر یک انسان کو ایک قسم کا خدا نے الہام عطا کر رکھا ہے جس کو نور قلب کہتے ہیں اور وہ یہ کہ نیک اور بد کام میں فرق کر لینا.جیسے کوئی چور یا خونی چوری یا خون کرتا ہے الشمس:
۶۸۵ تو خدا اس کے دل میں اُسی وقت ڈال دیتا ہے کہ تو نے یہ کام بُرا کیا اچھا نہیں کیا.لیکن وہ ایسے القاء کی کچھ پروا نہیں رکھتا کیونکہ اُس کا نور قلب نہایت ضعیف ہوتا ہے.اور عقل بھی ضعیف اور قوت بہیمیہ غالب اور نفس طالب.سو اس طور کی طبیعتیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں جن کا وجودروزمرہ کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے.اُن کے نفس کا شورش اور اشتعال جو فطرتی ہے کم نہیں ہوسکتا کیونکہ جو خدا نے لگا دیا اس کوکون دور کرے.ہاں خدا نے ان کا ایک علاج بھی رکھا ہے.وہ کیا ہے؟ تو بہ واستغفار اور ندامت یعنی جبکہ بُرا فعل جو ان کے نفس کا تقاضا ہے اُن سے صادر ہو یا حسب خاصۂ فطرتی کوئی بُرا خیال دل میں آوے تو اگر وہ تو بہ اور استغفار سے اس کا تدارک چاہیں تو خدا اس گناہ کو معاف کر دیتا ہے.جب وہ بار بار ٹھوکر کھانے سے بار بار نادم اور تائب ہوں تو وہ ندامت اور تو بہ اس آلودگی کو دھو ڈالتی ہے.یہی حقیقی کفارہ ہے جو اس فطرتی گناہ کا علاج ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے.وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ الله يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا الجز و نمبر ۵.یعنی جس سے کوئی بد عملی ہو جائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہو کر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفور و رحیم پائے گا.اس لطیف اور پُر حکمت عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس نا قصہ کا خاصہ ہے جو اُن سے سرزد ہوتا ہے اس کے مقابلہ پر خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت و رحم ہے اور اپنی ذات میں وہ غفور ورحیم ہے یعنی اس کی مغفرت سرسری اور اتفاقی نہیں بلکہ وہ اس کی ذات قدیم کی صفت قدیم ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے.اور جو ہر قابل پر اس کا فیضان چاہتا ہے.یعنی جب کبھی کوئی بشر بر وقت صدورِ لغزش و گناه به ندامت و تو بہ خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہو جاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے اور یہ رجوع الہی بندہ نادم اور تائب کی طرف ایک یا دومرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائمی ہے اور جب تک کوئی گناہ گار تو بہ کی حالت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ خاصہ اس کا ضرور اس پر ظاہر ہوتا رہتا ہے.پس خدا کا قانون قدرت یہ نہیں ہے کہ جو ٹھو کر کھانے والی طبیعتیں ہیں وہ ٹھوکر نہ کھاویں یا جو لوگ قوی بهیمیه یا غضبيه کے مغلوب ہیں ان کی فطرت بدل جاوے.بلکہ اس کا قانون جو قدیم سے بندھا چلا آتا ہے یہی ہے کہ ناقص لوگ جو بمقتضائے اپنے ذاتی نقصان کے گناہ کریں وہ تو بہ اور استغفار کر کے بخشے جائیں.النساء : ااا ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۸۵ تا ۱۸۷ حاشیہ نمبر۱۱)
۶۸۶ واضح ہو کہ تو بہ لغت عرب میں رجوع کرنے کو کہتے ہیں.اسی وجہ سے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا نام بھی تو اب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا.اس کے معنے یہ ہیں کہ جب انسان گناہوں سے دست بردار ہو کر صدق دل سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس سے بڑھ کر اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور یہ امر سراسر قانون قدرت کے مطابق ہے کیونکہ جب کہ خدا تعالیٰ نے نوع انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ جب ایک انسان سچے دل سے دوسرے انسان کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کا دل بھی اس کے لئے نرم ہو جاتا ہے.تو پھر عقل کیونکر اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بندہ تو سچے دل سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے مگر خدا اس کی طرف رجوع نہ کرے بلکہ خدا جس کی ذات نہایت کریم و رحیم واقع ہوئی ہے.وہ بندہ سے بہت زیادہ اُس کی طرف رجوع کرتا ہے.اسی لئے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا نام جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے تو اب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا.سو بندہ کا رجوع تو پشیمانی اور ندامت اور تذلل اور انکسار کے ساتھ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا رجوع رحمت اور مغفرت کے ساتھ.اگر رحمت خدا تعالیٰ کی صفات میں سے نہ ہو تو کوئی مخلصی نہیں پاسکتا.افسوس! کہ ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی صفات پر غور نہیں کی.اور تمام مدار اپنے فعل اور عمل پر رکھا ہے مگر وہ خدا جس نے بغیر کسی کے عمل کے ہزاروں نعمتیں انسان کے لئے زمین پر پیدا کیں.کیا اُس کا یہ خلق ہوسکتا ہے کہ انسان ضَعِيفُ البنيان جب اپنی غفلت سے متنبہ ہو کر اس کی طرف رجوع کرے اور رجوع بھی ایسا کرے کہ گویا مر جاوے اور پہلا ناپاک چولا اپنے بدن پر سے اُتار دے اور اُس کی آتشِ محبت میں جل جائے تو پھر بھی خدا اس کی طرف رحمت کے ساتھ توجہ نہ کرے.کیا اس کا نام خدا کا قانونِ قدرت ہے؟ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِين.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۳۳ ۱۳۴) یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ تو بہ کے لئے تین شرائط ہیں.بدوں ان کی تکمیل کے سچی تو بہ جسے تَوْبَةُ النُّصوح کہتے ہیں حاصل نہیں ہوتی.ان ہر سہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کر دیا جاوے جوان خصائل ردیہ کے محرک ہیں.اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثر پڑتا ہے.کیونکہ حیطۂ عمل میں آنے سے پیشتر ہر ایک فعل ایک تصوری صورت رکھتا ہے.پس تو بہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ان خیالات فاسد و تصورات بد کو چھوڑ دے.مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہو تو اُسے تو بہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قرار دے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے
۶۸۷ کیونکہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے تصورات کا اثر بہت زبر دست اثر ہے اور میں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے تصور کو یہاں تک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صورت میں دیکھا.غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصور کرتا ہے ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے.پس جو خیالات بد لذات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے.یہ پہلی شرط ہے.دوسری شرط ندم ہے.یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا.ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر بُرائی پر متنبہ کرتا ہے مگر بد بخت انسان اُس کو معطل چھوڑ دیتا ہے.پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پر پشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چند روزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حظ میں کمی ہوتی جاتی ہے.یہاں تک کہ بڑھاپے میں آکر جبکہ قومی بے کار اور کمزور ہو جاویں گے.آخر ان سب لذات دنیا کو چھوڑنا ہو گا پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب باتیں چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیا حاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو تو بہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اوّل اقلاع کا خیال پیدا ہو یعنی خیالات فاسدہ و تصورات بیہودہ کا قلع قمع کرے.جب یہ نجاست اور ناپا کی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پر پشیمان ہو.تیسری شرط عزم ہے یعنی آئندہ کے لئے مصمم ارادہ کر لے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کروں گا اور جب وہ مداومت کرے گا تو خدا تعالیٰ اُسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا یہاں تک کہ وہ سَيِّئَات اس سے قطعاً زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اُس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر.اس پر قوت اور طاقت بخشا اللہ تعالی کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے جیسے فرمایا اَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِيعًا رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۵۸،۱۵۷.ملفوظات جلد اول صفحه ۸۷، ۸۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے.یہ لفظ غَفَرَ سے لیا گیا ہے.جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں.سو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنی اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد لیا گیا کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہے ڈھانک لے لیکن اصل اور حقیقی معنے یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے البقرة: ١٦٦
۶۸۸ علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اُس کے تمام قومی اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے یعنی جو کچھ بنایا ہے اُس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے.پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قومیت کے ذریعہ سے بگڑنے سے بچاوے......پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے.اسی کی طرف قرآن شریف میں یہ اشارہ فرمایا گیا ہے.اللہ لَا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوم...سوده خدا خالق بھی ہے اور قیوم بھی.اور جب انسان پیدا ہو گیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے.اسی لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی.غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے اور استغفار صفت قومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے ہے.اسی کی طرف اشارہ سورہ فاتحہ کی اس آیت میں ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کرسکیں.اس تمام تفصیل سے ظاہر ہے کہ استغفار کی درخواست کے اصل معنے یہی ہیں کہ وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ کوئی حق فوت ہو گیا ہے بلکہ اس خواہش سے ہوتی ہے کہ کوئی حق فوت نہ ہو.اور انسانی فطرت اپنے تیں کمزور دیکھ کر طبعا خدا سے طاقت طلب کرتی ہے جیسا کہ بچہ ماں سے دودھ طلب کرتا ہے.پس جیسا کہ خدا نے ابتدا سے انسان کو زبان، آنکھ، دل، کان وغیرہ عطا کئے ہیں ایسا ہی استغفار کی خواہش بھی ابتدا سے ہی عطا کی ہے اور اس کو محسوس کرایا ہے کہ وہ اپنے وجود کے ساتھ خدا سے مدد پانے کا محتاج ہے.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا.وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ یعنی خدا سے درخواست کر کہ تیری فطرت کو بشریت کی کمزوری سے محفوظ رکھے اور اپنی طرف سے فطرت کو ایسی قوت دے کہ وہ کمزوری ظاہر نہ ہونے پاوے اور ایسا ہی ان مردوں اور ان عورتوں کے لئے جو تیرے پر ایمان لاتے ہیں بطور شفاعت کے دعا کرتارہ کہ تا جو فطرتی کمزوری سے اُن سے خطائیں ہوتی ہیں اُن کی سزا سے وہ محفوظ رہیں اور آئندہ زندگی اُن کی گناہوں سے بھی محفوظ ہو جائے.یہ آیت ال عمران: ۳ محمد : ۲۰
۶۸۹ معصومیت اور شفاعت کے اعلیٰ درجہ کی فلاسفی پر مشتمل ہے.اور یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان اعلیٰ درجہ کے مقام عصمت پر اور مرتبہ شفاعت پر تب ہی پہنچ سکتا ہے کہ جب اپنی کمزوری کے روکنے کے لئے اور نیز دوسروں کو گناہ کی زہر سے نجات دینے کے لئے ہر دم اور ہر آن دعا مانگتا رہتا ہے اور تضرعات سے خدا تعالیٰ کی طاقت کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس طاقت سے دوسروں کو بھی حصہ ملے جو بوسیلہ ایمان اس سے پیوند پیدا کرتے ہیں.معصوم انسان کو خدا سے طاقت طلب کرنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ انسانی فطرت اپنی ذات میں تو کوئی کمال نہیں رکھتی بلکہ ہر دم خدا سے کمال پاتی ہے.اور اپنی ذات میں کوئی قوت نہیں رکھتی بلکہ ہر دم خدا سے قوت پاتی ہے.اور اپنی ذات میں کوئی کامل روشنی نہیں رکھتی بلکہ خدا سے اس پر روشنی اُترتی ہے اس میں اصل راز یہ ہے کہ کامل فطرت کو صرف ایک کشش دی جاتی ہے تا وہ طاقت بالا کو اپنی طرف کھینچ سکے مگر طاقت کا خزانہ محض خدا کی ذات ہے اسی خزانہ سے فرشتے بھی اپنے لئے طاقت کھینچتے ہیں اور ایسا ہی انسانِ کامل بھی اسی سرچشمہ طاقت سے عبودیت کی نالی کے ذریعہ سے عصمت اور فضل کی طاقت کھینچتا ہے.لہذا انسانوں میں سے وہی معصوم کامل ہے جو استغفار سے الہی طاقت کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کشش کے لئے تضرع اور خشوع کا ہر دم سلسلہ جاری رکھتا ہے تا اس پر روشنی اُترتی رہے.پس استغفار کیا چیز ہے؟ یہ اس آلہ کی مانند ہے جس کی راہ سے طاقت اُترتی ہے.تمام راز توحید اسی اصول سے وابستہ ہے کہ صفت عصمت کو انسان کی ایک مستقل جائیداد قرار نہ دیا جائے بلکہ اس کے حصول کے لئے محض خدا کو سر چشمہ سمجھا جائے.ذات باری تعالیٰ کو تمثیل کے طور پر دل سے مشابہت ہے جس میں مصفا خون کا ذخیرہ جمع رہتا ہے اور انسان کامل کا استغفار ان شرائین اور عروق کی مانند ہے جو دل کے ساتھ پیوستہ ہیں اور خون صافی اس میں سے کھینچتی ہیں اور تمام اعضاء پر تقسیم کرتی ہیں جو خون کے محتاج ہیں.( عصمت انبیاء علیهم السلام.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۷۱ تا ۶۷۴ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن) استغفار اور تو بہ دو چیزیں ہیں.ایک وجہ سے استغفار کو تو بہ پر تقدم ہے کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے اور تو بہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے.عادت اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی جس کا نام تُوبُوا إِلَيْهِ ہے.اس لئے طبعی طور پر بھی یہی ترتیب ہے.غرض اس میں ایک طریق ہے جو سالکوں کے لئے رکھا ہے کہ سالک ہر حالت میں
۶۹۰ خدا سے استمداد چاہے.سالک جب تک اللہ تعالیٰ سے قوت نہ پائے گا کیا کر سکے گا.توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے.اگر استغفار نہ ہو تو یقیناً یا د رکھو کہ تو بہ کی قوت مرجاتی ہے.پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر تو بہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہو گا يُمَتَّعُكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى يَا سُنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور تو بہ کرو گے تو اپنے مراتب پا لو گے.ہر ایک شخص کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے.ہر ایک آدمی نبی، رسول، صدیق شہید نہیں ہوسکتا.الحکم مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ا کالم نمبر ۲.ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۳۴۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) وَ آنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ یاد رکھو کہ دو چیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں.ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے.دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے.قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں.صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اُٹھانے اور پھیر نے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے.اسی طرح پر روحانی مگدر استغفار ہے.اس کے ساتھ رُوح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے.جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے.الحکم مورخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۲ صفحہ ا کالم نمبر.ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۳۴۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا.انسان اگر سچے دل سے اخلاص لے کر رجوع کرے تو وہ غفور رحیم ہے اور تو بہ کو قبول کرنے والا ہے.یہ سمجھنا کہ کس کس گنہگار کو بخشے گا خدا تعالیٰ کے حضور سخت گستاخی اور بے ادبی ہے.اس کی رحمت کے خزانے وسیع اور لا انتہا ہیں.اس کے حضور کوئی کمی نہیں.اس کے دروازے کسی پر بند نہیں ہوتے.انگریزوں کی نوکریوں کی طرح نہیں کہ اتنے تعلیم یافتہ کو کہاں سے نوکریاں ملیں.خدا کے حضور جس قدر پہنچیں گے سب اعلیٰ مدارج پائیں گے.یہ یقینی وعدہ ہے.وہ انسان بڑا ہی بدقسمت اور بدبخت ہے جو خدا تعالیٰ سے مایوس ہو اور اس کی نزع کا وقت غفلت کی حالت میں اُس پر آجاوے.بے شک اُس وقت دروازہ بند ہو جاتا ہے.الحکم مورخه ، ار جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد دوم صفحه ۲۲۲ ۲۲۳ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ۲۱ هود:
۶۹۱ ہو خواہ باطن کا خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پانوں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے.آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے.رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخُسِرِينَ.یہ دعا اول ہی قبول ہو چکی ہے.غفلت سے زندگی بسر مت کرو.جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گذارتا ہر گز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو.کوئی بلا بغیر اذن کے نہیں آتی جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی ہے.” رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظُنِى وَانْصُرُنِي وَارْحَمْنِي.، ،، البدر مورخه ۲۶ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۶۶ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۷۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) غفلت غیر معلوم اسباب سے ہے.بعض وقت انسان نہیں جانتا اور ایک دفعہ ہی زنگ اور تیرگی اس کے قلب پر آ جاتی ہے.اس لئے استغفار ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ زنگ اور تیرگی نہ آوے.عیسائی لوگ اپنی بیوقوفی سے اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے سابقہ گناہوں کا ثبوت ملتا ہے.اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ گناہ صادر نہ ہوں ورنہ اگر استغفار سابقہ صادر شدہ گناہوں کی بخشش کے معنے رکھتا ہے تو وہ بتلا دیں کہ آئندہ گناہوں کے نہ صادر ہونے کے معنوں میں کونسا لفظ ہے.غـفر اور کفر کے ایک ہی معنے ہیں.تمام انبیاء اس کے محتاج تھے.جتنا کوئی استغفار کرتا ہے اُتنا ہی معصوم ہوتا ہے.اصل معنے یہ ہیں کہ خدا نے اُسے بچایا.معصوم کے معنے مُستغفر کے ہیں.البدر مورخہ یکم دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۲ کالم نمبر.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۶۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) پس اُٹھو! اور تو بہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو.اور یاد رکھو کہ اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور ہندو یا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہو گا لیکن جو شخص ظلم اور تعدی اور فسق و فجور میں حد سے بڑھتا ہے اس کو اسی جگہ سزا دی جاتی ہے.تب وہ خدا کی سزا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتا.سو اپنے خدا کو جلد راضی کر لو اور قبل اس کے کہ وہ دن آ وے جو خوفناک دن ہے یعنی طاعون کے زور کا دن جس کی نبیوں نے خبر دی ہے تم خدا سے صلح کر لو.وہ نہایت درجہ کریم ہے.ایک دم کے گداز کرنے والی تو بہ سے ستر برس کے گناہ بخش سکتا ہے.اور یہ مت کہو کہ تو بہ منظور نہیں ہوتی.یادرکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے.ہمیشہ فضل بچاتا ہے نہ اعمال.اے خدائے کریم و رحیم ! ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے اور تیرے آستانہ پر گرے ہیں.آمین.الاعراف: ۲۴ لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۴)
۶۹۲ نجات انسان اس دار الظلمات میں آ کر کبھی نجات نہیں پا سکتا بجز اس کے کہ خود خدا تعالیٰ کے مکالمات سے مشرف ہو کر یا کسی اہل مکالمہ یقینیہ اور اہل آیات بینہ کی صحبت میں رہ کر اس ضروری اور قطعی علم تک پہنچ جائے کہ اس کا ایک خدا ہے جو قادر اور کریم اور رحیم ہے اور یہ دین یعنی اسلام جس پر یہ قائم ہے در حقیقت یہ سچا ہے اور روز جزا اور بہشت اور دوزخ سب سچ ہے کیونکہ اگر چہ قصہ اور نقل کے طور پر تمام اہل اسلام اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا موجود ہے اور اس کا رسول برحق مگر یہ ایمان کوئی یقینی بنیاد نہیں رکھتا اس لئے ایسے ضعیف ایمان کے ذریعہ سے یقینی رنگ کے آثار ظاہر ہونا اور گناہ سے سچی نفرت کرنا غیر ممکن ہے.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۸۶،۴۸۵) افسوس کہ اکثر لوگ نجات کے حقیقی معنوں سے بے خبر اور غافل ہیں.عیسائیوں کے نزدیک نجات کے یہ معنے ہیں کہ گناہ کے مواخذہ سے رہائی ہو جائے لیکن دراصل نجات کے یہ معنے نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ ایک شخص نہ زنا کرے، نہ چوری کرے، نہ جھوٹی گواہی ، نہ خون کرے اور نہ کسی اور گناہ کا جہاں تک اس کو علم ہے ارتکاب کرے اور بایں ہمہ نجات کی کیفیت سے بے نصیب اور محروم ہو کیونکہ دراصل نجات اس دائمی خوشحالی کے حصول کا نام ہے جس کی بھوک اور پیاس انسانی فطرت کو لگا دی گئی ہے جو محض خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت اور اس کی پوری معرفت اور اس کے پورے تعلق کے بعد حاصل ہوتی ہے جس میں شرط ہے کہ دونوں طرف سے محبت جوش مارے.....طالب حق کے لئے جو قابل غور سوال ہے وہ یہی سوال ہے کہ سچی خوشحالی کیونکر حاصل ہو جو دانگی مسرت اور خوشی کا موجب ہو.اور درحقیقت سچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ وہ اس خوشحالی تک پہنچا دے.سو ہم قرآن شریف کی ہدایت سے اس دقیق در دقیق نکتہ تک پہنچتے ہیں کہ وہ ابدی خوشحالی خدا تعالیٰ کی صحیح معرفت اور پھر اس یگانہ کی پاک اور کامل اور ذاتی محبت اور کامل ایمان میں ہے جو دل میں عاشقانہ بے قراری پیدا کرے.یہ چند لفظ کہنے کو تو بہت تھوڑے ہیں لیکن ان کی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے ایک دفتر بھی متحمل نہیں ہو سکتا.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۰،۳۵۹)
۶۹۳ قرآن شریف میں جو خدا نے یہ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے بندو! مجھ سے نا امید مت ہو.میں رحیم و کریم اور ستار وغفار ہوں اور سب سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہوں اور اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرے گا جو میں کرتا ہوں.اپنے باپوں سے زیادہ میرے ساتھ محبت کرو کہ درحقیقت میں محبت میں اُن سے زیادہ ہوں.اگر تم میری طرف آؤ تو میں سارے گناہ بخش دوں گا اور اگر تم تو بہ کرو تو میں قبول کروں گا.اور اگر تم میری طرف آہستہ قدم سے بھی آؤ تو میں دوڑ کر آؤں گا.جو شخص مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے گا وہ میرے دروازہ کو کھلا پائے گا.میں تو بہ کرنے والے کے گناہ بخشتا ہوں خواہ پہاڑوں سے زیادہ گناہ ہوں.میرا رحم تم پر بہت زیادہ ہے اور غضب کم ہے کیونکہ تم میری مخلوق ہو.میں نے تمہیں پیدا کیا اس لئے میرا رحم تم سب پر محیط ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۵۶) اے معزز صاحبان! مجھے بہت سے غور کے بعد اور نیز خدا کی متواتر وحی کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اگر چہ اس ملک میں مختلف فرقے بکثرت پائے جاتے ہیں اور مذہبی اختلافات ایک سیلاب کی طرح حرکت کر رہے ہیں تا ہم وہ امر جو اس کثرت اختلافات کا موجب ہے وہ درحقیقت ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اکثر انسانوں کے اندر سے قوت روحانیت اور خدا ترسی کی کم ہوگئی ہے اور وہ آسمانی نور جس کے ذریعہ سے انسان حق اور باطل میں فرق کر سکتا ہے وہ قریباً بہت سے دلوں میں سے جاتا رہا ہے اور دنیا ایک دہریت کا رنگ پکڑتی جاتی ہے.یعنی زبانوں پر تو خدا اور پرمیشر ہے اور دلوں میں ناستک مت کے خیالات بڑھتے جاتے ہیں اس بات پر یہ امر گواہ ہے کہ عملی حالتیں جیسا کہ چاہئے درست نہیں ہیں.سب کچھ زبان سے کہا جاتا ہے مگر عمل کے رنگ میں دکھلایا نہیں جاتا.اگر کوئی پوشیدہ راستباز ہے تو میں اُس پر کوئی حملہ نہیں کرتا مگر عام حالتیں جو ثابت ہو رہی ہیں وہ یہی ہیں کہ جس غرض کے لئے مذہب کو انسان کے لازم حال کیا گیا ہے وہ غرض مفقود ہے.دل کی حقیقی پاکیزگی اور خدا تعالیٰ کی سچی محبت اور اس کی مخلوق کی سچی ہمدردی اور حلم اور رحم اور انصاف اور فروتنی اور دوسرے تمام پاک اخلاق اور تقویٰ اور طہارت اور راستی جو ایک رُوح مذہب کی ہے اس کی طرف اکثر انسانوں کو توجہ نہیں.مقام افسوس ہے کہ دنیا میں مذہبی رنگ میں تو جنگ و جدل روز بروز بڑھتے جاتے ہیں مگر روحانیت کم ہوتی جاتی ہے.مذہب کی اصلی غرض اُس بچے خدا کا پہچاننا ہے جس نے اس تمام عالم کو پیدا کیا ہے اور اس کی محبت میں اس مقام تک پہنچنا ہے جو غیر کی محبت کو جلا دیتا ہے اور اُس کی مخلوق سے ہمدردی کرنا ہے اور حقیقی پاکیزگی
۶۹۴ کا جامہ پہننا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ غرض اس زمانہ میں بالائے طاق ہے اور اکثر لوگ دہریہ مذہب کی کسی شاخ کو اپنے ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی شناخت بہت کم ہو گئی ہے.اسی وجہ سے زمین پر دن بدن گناہ کرنے کی دلیری بڑھتی جاتی ہے کیونکہ یہ بدیہی بات ہے کہ جس چیز کی شناخت نہ ہو نہ اس کا قدر دل میں ہوتا ہے اور نہ اس کی محبت ہوتی ہے اور نہ اس کا خوف ہوتا ہے.تمام اقسام خوف و محبت اور قدردانی کے شناخت کے بعد پیدا ہوتے ہیں.پس اس سے ظاہر ہے کہ آج کل دنیا میں گناہ کی کثرت بوجہ کی معرفت ہے اور بچے مذہب کی نشانیوں میں سے یہ ایک عظیم الشان نشانی ہے کہ خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کی پہچان کے وسائل بہت سے اس میں موجود ہوں.تا انسان گناہ سے رُک سکے اور تا وہ خدا تعالیٰ کے حسن و جمال پر اطلاع پا کر کامل محبت اور عشق کا حصہ لیوے اور تا وہ قطع تعلق کی حالت کو جہنم سے زیادہ سمجھے.یہ سچی بات ہے کہ گناہ سے بچنا اور خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو جانا انسان کے لئے ایک عظیم الشان مقصود ہے اور یہی وہ راحتِ حقیقی ہے جس کو ہم بہشتی زندگی سے تعبیر کر سکتے ہیں.تمام خواہشیں جو خدا کی رضا مندی کے مخالف ہیں دوزخ کی آگ ہیں اور ان خواہشوں کی پیروی میں عمر بسر کرنا ایک جہنمی زندگی ہے مگر اس جگہ سوال یہ ہے کہ اس جہنمی زندگی سے نجات کیونکر حاصل ہو.اس کے جواب میں جو علم خدا نے مجھے دیا ہے وہ یہی ہے کہ اس آتش خانہ سے نجات ایسی معرفتِ الہی پر موقوف ہے جو حقیقی اور کامل ہو.کیونکہ نفسانی جذبات جو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں وہ ایک کامل درجہ کا سیلاب ہے جو ایمان کو تباہ کرنے کے لئے بڑے زور سے بہ رہا ہے اور کامل کا تدارک بجز کامل کے غیر ممکن ہے.پس اسی وجہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک کامل معرفت کی ضرورت ہے.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۴۷ تا ۱۴۹) اے پیارو! یہ نہایت سچا اور آزمودہ فلسفہ ہے کہ انسان گناہ سے بچنے کے لئے معرفت تامہ کا محتاج ہے نہ کسی کفارہ کا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر نوح کی قوم کو وہ معرفت تامہ حاصل ہوتی جو کامل خوف کو پیدا کرتی ہے تو وہ کبھی غرق نہ ہوتی.اور اگر لوط کی قوم کو وہ پہچان بخشی جاتی تو ان پر پتھر نہ برستے اور اگر اس ملک کو ذات الہی کی وہ شناخت عطا کی جاتی جو بدن پر خوف سے لرزہ ڈالتی ہے تو اس پر طاعون سے وہ تباہی نہ آتی جو آ گئی.مگر ناقص معرفت کوئی فائدہ پہنچا نہیں سکتی اور نہ اس کا نتیجہ جو خوف اور محبت ہے کامل ہوسکتا ہے.ایمان جو کامل نہیں وہ بے سود ہے اور محبت جو کامل نہیں وہ بے سود ہے اور خوف جو کامل نہیں وہ بے سود ہے اور معرفت جو کامل نہیں وہ بے سود ہے اور ہر یک غذا اور شربت جو کامل نہیں وہ بے سود
۶۹۵ ہے کیا تم بھوک کی حالت میں صرف ایک دانہ سے سیر ہو سکتے ہو یا پیاس کی حالت میں صرف ایک قطرہ سے سیراب ہو سکتے ہو.پس اے سُست ہمتو ! اور طلب حق میں کا ہلو! تم تھوڑی معرفت سے، تھوڑی محبت سے اور تھوڑے خوف سے کیونکر خدا کے بڑے فضل کے اُمیدوار ہو سکتے ہو.گناہ سے پاک کرنا خدا کا کام ہے اور اپنی محبت سے دل کو پر کر دینا اسی قادر و توانا کا فضل ہے اور اپنی عظمت کا خوف کسی دل میں قائم کرنا اسی جناب کے ارادہ سے وابستہ ہے اور قانونِ قدرت قدیم سے ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ معرفت کا ملہ کے بعد ملتا ہے.خوف اور محبت اور قدردانی کی جڑھ معرفت کا ملہ ہے پس جس کو معرفت کاملہ دی گئی اُس کو خوف اور محبت بھی کامل دی گئی اور جس کو خوف اور محبت کامل دی گئی اس کو ہر ایک گناہ سے جو بیا کی سے پیدا ہوتا ہے نجات دی گئی.پس ہم اس نجات کے لئے نہ کسی خون کے محتاج ہیں اور نہ کسی صلیب کے حاجتمند اور نہ کسی کفارہ کی ہمیں ضرورت ہے بلکہ ہم صرف ایک قربانی کے محتاج ہیں جو اپنے نفس کی قربانی ہے جس کی ضرورت کو ہماری فطرت محسوس کر رہی ہے.ایسی قربانی کا دوسرے لفظوں میں نام اسلام ہے.اسلام کے معنے ہیں ذبح ہونے کے لئے گردن آگے رکھ دینا یعنی کامل رضا کے ساتھ اپنی روح کو خدا کے آستانہ پر رکھ دینا.یہ پیارا نام تمام شریعت کی روح اور تمام احکام کی جان ہے.ذبح ہونے کے لئے اپنی دلی خوشی اور رضا سے گردن آگے رکھ دینا کامل محبت اور کامل عشق کو چاہتا ہے اور کامل محبت کامل معرفت کو چاہتی ہے.پس اسلام کا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حقیقی قربانی کے لئے کامل معرفت اور کامل محبت کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کی ضرورت.اسی کی طرف خدا تعالی قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے.لَن يَنَالَ اللهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ یعنی تمہاری ( قربانیوں ) کے نہ تو گوشت میرے تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ خون بلکہ صرف یہ قربانی میرے تک پہنچتی ہے کہ تم مجھ سے ڈرو اور میرے لئے تقوی اختیار کرو.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۰ تا ۱۵۲) اگر یہ سوال پیش ہے کہ اگر خونِ مسیح گناہوں سے پاک نہیں کر سکتا جیسا کہ وہ واقعی طور پر پاک نہیں کر سکا تو پھر گناہوں سے پاک ہونے کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں؟ کیونکہ گندی زندگی در حقیقت مرنے سے بدتر ہے.تو میں اس سوال کے جواب میں نہ صرف پُر زور دعوی سے بلکہ اپنے ذاتی تجربہ سے اور اپنی حقیقت اس آزمائشوں سے دیتا ہوں کہ در حقیقت گناہوں سے پاک ہونے کے لئے اُس وقت سے الحج : ٣٨
۶۹۶ جو انسان پیدا ہوا آج تک جو آخری دن ہیں صرف ایک ہی ذریعہ گناہ اور نافرمانی سے بچنے کا ثابت ہوا ہے اور وہ یہ کہ انسان یقینی دلائل اور چمکتے ہوئے نشانوں کے ذریعہ سے اس معرفت تک پہنچ جائے کہ جو در حقیقت خدا کو دکھا دیتی ہے اور کھل جاتا ہے کہ خدا کا غضب ایک کھا جانے والی آگ ہے اور پھر حجتي حسن الہی ہو کر ثابت ہو جاتا ہے کہ ہر ایک کامل لذت خدا میں ہے یعنی جلالی اور جمالی طور پر تمام پردے اُٹھائے جاتے ہیں.یہی ایک طریق ہے جس سے جذبات نفسانی رکتے ہیں اور جس سے چار نا چا را یک تبدیلی انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے.اس جواب کے وقت کتنے لوگ بول اٹھیں گے کیا ہم خدا پر ایمان نہیں رکھتے ؟ کیا ہم خدا سے نہیں ڈرتے اور اس سے محبت نہیں رکھتے ؟ اور کیا تمام دنیا بجو تھوڑے افراد کے خدا کو نہیں مانتی ؟ اور پھر وہ طرح طرح کے گناہ بھی کرتے ہیں اور انواع واقسام کے فسق و فجور میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان اور چیز ہے اور عرفان اور چیز ہے اور ہماری تقریر کا یہ مدعا نہیں ہے کہ مومن گناہ سے بچتا ہے بلکہ یہ مدعا ہے کہ عارف کامل گناہ سے بچتا ہے.یعنی وہ کہ جس نے خوف الہی کا مزا بھی چکھا اور محبت الہی کا بھی.شائد کوئی کہے کہ شیطان کو معرفت کامل حاصل ہے پھر وہ کیوں نا فرمان ہے؟ اس کا یہی جواب ہے کہ اُس کو وہ معرفت کامل ہرگز حاصل نہیں ہے جو سعیدوں کو بخشی جاتی ہے.انسان کی یہ فطرت میں ہے کہ کامل درجہ کے علم سے ضرور وہ متاثر ہوتا ہے اور جب ہلاکت کی راہ اپنا ہیبت ناک منہ دکھاوے تو اس کے سامنے نہیں آتا.مگر ایمان کی حقیقت صرف یہ ہے کہ حسن ظن سے مان لے.لیکن عرفان کی حقیقت یہ ہے کہ اُس مانی ہوئی بات کو دیکھ بھی لے پس عرفان اور عصیان دونوں کا ایک ہی دل میں جمع ہونا محال ہے جیسا کہ دن اور رات کا ایک ہی وقت میں جمع ہو جانا محال ہے.تمہارا روز مرہ کا تجربہ ہے کہ ایک چیز کا مفید ہونا جب ثابت ہو جائے تو فی الفور اُس کی طرف ایک رغبت پیدا ہو جاتی ہے اور جب مضر ہونا ثابت ہو جائے تو فی الفور دل اس سے ڈرنے لگتا ہے.مثلاً جس کو یہ معلوم نہیں کہ یہ چیز جو میرے ہاتھ میں ہے یہ سم الفار ہے وہ اس کو طباشیر یا کوئی مفید دوا سمجھ کر ایک ہی وقت میں تولہ یا دو تولہ تک بھی کھا سکتا ہے.لیکن جس کو اس بات کا تجربہ ہو چکا ہے کہ یہ تو زہر قاتل ہے وہ بقدر ایک ماشہ بھی اس کو استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے کھانے کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہو جائے گا.اسی طرح جب انسان کو واقعی طور پر علم ہو جاتا ہے کہ بلاشبہ خدا موجود ہے اور درحقیقت تمام قسم کے گناہ اس کی نظر میں قابلِ سزا ہیں جیسے چوری، خونریزی، بدکاری، ظلم، خیانت،
۶۹۷ شرک، جھوٹ، جھوٹی گواہی دینا، تکبر ، ریا کاری ، حرام خوری، دغا ، دشنام دہی ، دھوکا دینا، بدعہدی ،غفلت اور بدمستی میں زندگی گذارنا، خدا کا شکر نہ کرنا.خدا سے نہ ڈرنا اُس کے بندوں کی ہمدردی نہ کرنا.خدا کو پر خوف دل کے ساتھ یاد نہ کرنا ، عیاشی اور دنیا کی لذات میں بکلی محو ہو جانا اور منعم حقیقی کو فراموش کر دینا، دعا اور عاجزی سے کچھ غرض اور واسطہ نہ رکھنا ، فروختنی چیزوں میں کھوٹ ملانا یا کم وزن کرنا یا نرخ بازار سے کم بیچنا، ماں باپ کی خدمت نہ کرنا.بیویوں سے نیک معاشرت نہ رکھنا ، خاوند کی پورے طور پر اطاعت نہ کرنا، نامحرم مردوں یا عورتوں کو نظر بد سے دیکھنا.قیموں، ضعیفوں، کمزوروں، در ماندوں کی کچھ پرواہ نہ کرنا.ہمسایہ کے حقوق کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھنا اور اس کو دُکھ دینا.اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لئے دوسرے کی توہین کرنا.کسی کو دل آزار لفظوں کے ساتھ ٹھٹھا کرنا یا تو ہین کے طور پر کوئی بدنی نقص اس کا بیان کرنا یا کوئی بُرا لقب اس کا رکھنا یا کوئی بے جا تہمت اس پر لگا نا یا خدا پر افترا کرنا اور نعوذ باللہ کوئی جھوٹا دعویٰ نبوت یا رسالت یا منجانب اللہ ہونے کا کر دینا.یا خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر ہو جانا یا ایک عادل بادشاہ سے بغاوت کرنا اور شرارت سے ملک میں فساد برپا کرنا تو یہ تمام گناہ اس علم کے بعد کہ ہر یک ارتکاب سے سزا کا ہونا ایک ضروری امر ہے خود بخو د ترک ہو جاتے ہیں.شائد پھر کوئی دھو کہ کھا کر یہ سوال پیش کر دے کہ باوجود اس کے کہ جانتے بھی ہیں کہ خدا موجود ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ گناہوں کی سزا ہو گی پھر بھی ہم سے گناہ ہوتا ہے اس لئے ہم کسی اور ذریعہ کے محتاج ہیں.تو ہم اس کا وہی جواب دیں گے جو پہلے دے چکے ہیں کہ ہر گز ممکن نہیں اور کسی طرح ممکن نہیں کہ تم اس بات کی پوری بصیرت حاصل کر کے کہ گناہ کرنے کے ساتھ ہی ایک بجلی کی طرح تم پر سزا کی آگ برسے گی پھر بھی تم گناہ پر دلیر ہو سکو گے.یہ ایسی فلاسفی ہے جو کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتی.سوچو اور خوب سوچو کہ جہاں جہاں سزا پانے کا پورا یقین تمہیں حاصل ہے وہاں تم ہرگز اس یقین کے برخلاف کوئی حرکت نہیں کر سکتے.بھلا بتلاؤ کیا تم آگ میں اپنا ہاتھ ڈال سکتے ہو.کیا تم پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اپنے تئیں گرا سکتے ہو؟ کیا تم کنوئیں میں گر سکتے ہو؟ کیا تم چلتی ہوئی ریل کے آگے لیٹ سکتے ہو؟ کیا تم شیر کے منہ میں اپنا ہاتھ دے سکتے ہو؟ کیا تم دیوانہ کتے کے آگے اپنا پیر کر سکتے ہو؟ کیا تم ایسی جگہ ٹھہر سکتے ہو جہاں بڑی خوفناک صورت سے بجلی گر رہی ہے؟ کیا تم ایسے گھر سے جلد باہر نہیں نکلتے جہاں شہتیر ٹوٹنے لگا ہے یا زلزلہ سے زمین نیچے کو دھسنے لگی ہے؟ بھلا تم میں سے کون ہے جو ایک زہریلہ سانپ کو اپنے پلنگ پر دیکھے اور جلد کو دکر نیچے نہ آ جائے.بھلا ایک ایسے شخص کا نام تو لو کہ جب اس کے
۶۹۸ کوٹھہ کو جس کے اندر وہ سوتا تھا آگ لگ جائے تو وہ سب کچھ چھوڑ کر باہر کو نہ بھاگے ؟ تو اب بتلاؤ کہ ایسا تم کیوں کرتے ہو اور کیوں ان تمام موذی چیزوں سے علیحدہ ہو جاتے ہو؟ مگر وہ گناہ کی باتیں جو ابھی میں نے لکھی ہیں ان سے تم علیحدہ نہیں ہوتے ؟ اس کا کیا سبب ہے؟ پس یاد رکھو کہ وہ جواب جو ایک عقلمند پوری سوچ اور عقل کے بعد دے سکتا ہے وہ یہی ہے کہ ان دونوں صورتوں میں علم کا فرق ہے یعنی خدا کے گناہوں میں اکثر انسانوں کا علم ناقص ہے اور وہ گناہوں کو بُرا تو جانتے ہیں مگر شیر اور سانپ کی طرح نہیں سمجھتے اور پوشیدہ طور پر ان کے دلوں میں یہ خیالات ہیں کہ یہ سزائیں یقینی نہیں ہیں.یہاں تک کہ خدا کے وجود میں بھی اُن کو شک ہے کہ وہ ہے یا نہیں اور اگر ہے تو پھر کیا خبر کہ رُوح کو بعد مرنے کے بقا ہے یا نہیں اور اگر بقا بھی ہے تو پھر کیا معلوم کہ ان جرائم کی کچھ سزا بھی ہے یا نہیں.بلاشبہ بہتوں کے دلوں کے اندر یہی خیال چھپا ہوا موجود ہے جس پر انہیں اطلاع نہیں لیکن وہ خوف کے تمام مقامات جن سے وہ پر ہیز کرتے ہیں جن کی چند نظیریں میں لکھ چکا ہوں ان کی نسبت سب کو یقین ہے کہ ان چیزوں کے نزدیک جا کر ہم ہلاک ہو جائیں گے اس لئے ان کے نزدیک نہیں جاتے بلکہ ایسی مہلک چیزیں اگر اتفاقاً سامنے بھی آجائیں تو چچنیں مار کر اُن سے دُور بھاگتے ہیں.سواصل حقیقت یہی ہے کہ ان چیزوں کے دیکھنے کے وقت انسان کو علم یقینی ہے کہ ان کا استعمال موجب ہلاکت ہے مگر مذہبی احکام میں علم یقینی نہیں ہے بلکہ محض ظن ہے اور اُس جگہ رؤیت ہے اور اُس جگہ محض کہانی ہے.سو مجرد کہانیوں سے گناہ ہرگز دُور نہیں ہو سکتے.میں اس لئے تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ایک مسیح نہیں ہزار مسیح بھی مصلوب ہو جائیں تو وہ تمہیں حقیقی نجات ہرگز نہیں دے سکتے کیونکہ گناہ سے یا کامل خوف چھڑاتا ہے یا کامل محبت اور مسیح کا صلیب پر مرنا اول خود جھوٹھ اور پھر اس کو گناہ کا جوش بند کرنے سے کوئی بھی تعلق نہیں.سوچ لو کہ یہ دعوی تاریکی میں پڑا ہوا ہے جس پر نہ تجربہ شہادت دے سکتا ہے اور نہ مسیح کی خود کشی کی حرکت کو دوسروں کے گناہ بخشے جانے سے کوئی تعلق پایا جاتا ہے.حقیقی نجات کی فلاسفی یہ ہے کہ اسی دنیا میں انسان گناہ کے دوزخ سے نجات پا جائے.مگر تم سوچ لو کہ کیا تم ایسی کہانیوں سے گناہ کے دوزخ سے نجات پاگئے؟ یا کبھی کسی نے ان بے ہودہ قصوں سے جن میں کچھ بھی سچائی نہیں اور جن کو حقیقی نجات کے ساتھ کوئی بھی رشتہ نہیں نجات پائی ہے؟ مشرق و مغرب میں تلاش کرو کبھی تمہیں ایسے لوگ نہیں ملیں گے جو ان قصوں سے اس حقیقی پاکیزگی تک پہنچ گئے ہوں جس سے خدا نظر آ جاتا ہے اور جس سے نہ صرف گناہ سے بے زاری ہوتی ہے بلکہ بہشت کی صورت پر سچائی کی لذتیں شروع ہو جاتی
۶۹۹ ہیں اور انسان کی رُوح پانی کی طرح بہہ کر خدا کے آستانہ پر گر جاتی ہے اور آسمان سے ایک روشنی اُترتی اور تمام نفسانی ظلمت کو دور کر دیتی ہے اسی طرح جب کہ تم روز روشن میں چاروں طرف کھڑکیاں کھول دو تو یہ طبعی قانون تمہیں نظر آ جائے گا کہ فی الفور سورج کی روشنی تمہارے اندر آ جائے گی لیکن اگر تم اپنی کھڑکیاں بند رکھو گے تو محض کسی قصہ یا کہانی سے وہ روشنی تمہارے اندر نہیں آ سکتی.تمہیں روشنی لینے کے لئے یہ ضرور کرنا پڑے گا کہ اپنے مقام سے اُٹھو اور کھڑکیاں کھول دو.تب خود بخو د روشنی تمہارے اندر آ جائے گی اور تمہارے گھر کو روشن کر دے گی.کیا کوئی صرف پانی کے خیال سے اپنی پیاس بجھا سکتا ہے؟ نہیں بلکہ اس کو چاہئے کہ افتان و خیزاں پانی کے چشمہ پر پہنچے اور اس زلال پر اپنی لہیں رکھ دے.تب اس آب شیر میں سے سیراب ہو جائے گا.سو وہ پانی جس سے تم سیراب ہو جاؤ گے اور گناہ کی سوزش اور جلن جاتی رہے گی.وہ یقین ہے.آسمان کے نیچے گناہ سے پاک ہونے کے لئے بجز اس کے کوئی بھی حیلہ نہیں.کوئی صلیب نہیں جو تمہیں گناہ سے چھڑا سکے کوئی خون نہیں جو تمہیں نفسانی جذبات سے روک سکے.ان باتوں کو حقیقی نجات سے کوئی رشتہ اور تعلق نہیں.حقیقوں کو سمجھو.سچائیوں پر غور کرو اور جس طرح دنیا کی چیزوں کو آزماتے ہو اس کو بھی آزماؤ تب تمہیں جلد سمجھ آ جائے گی کہ بغیر سچے یقین کے کوئی روشنی نہیں جو تمہیں نفسانی ظلمت سے چھڑا سکے اور بغیر کامل بصیرت کے مصفا پانی کے تمہاری اندرونی غلاظتوں کو کوئی بھی دھو نہیں سکتا اور بغیر رؤیت حق کی زلال کے تمہاری جلن اور سوزش کبھی دُور نہیں ہوسکتی.جھوٹا ہے وہ شخص جو اور اور تدبیریں تمہیں بتلاتا ہے اور جاہل ہے وہ انسان جو اور قسم کا علاج کرنا چاہتا ہے.وہ لوگ تمہیں روشنی نہیں دے سکتے بلکہ اور بھی ظلمت کے گڑھے میں ڈالتے ہیں اور تمہیں آب شیریں نہیں دیتے بلکہ وہ اور بھی جلن اور سوزش زیادہ کرتے ہیں.کوئی خون تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتا مگر وہ خون جو یقین کی غذا سے خود تمہارے اندر پیدا ہو اور کوئی صلیب تمہیں چھڑا نہیں سکتی مگر راہ راست کی صلیب یعنی سچائی پر صبر کرنا.سو تم آنکھیں کھو لو اور دیکھو کہ کیا یہ سچ نہیں کہ تم روشنی سے ہی دیکھ سکتے ہو نہ کسی اور چیز سے اور صرف سیدھی راہ سے منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہو نہ کسی اور راہ سے.دنیا کی چیزیں تم سے نزدیک ہیں اور دین کی چیزیں دور.پس جونز دیک ہیں انہی پر غور کرو اور ان کا قانون سمجھ لو اور پھر دور کو اس پر قیاس کر لو کیونکہ وہی ایک ہے جس نے یہ دونوں قانون بنائے ہیں....یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ تم بغیر روشنی حاصل کرنے کے محض اندھے رہ کر پھر کسی کے خون سے نجات پا جاؤ.نجات کوئی ایسی شے نہیں ہے جو اس دنیا کے بعد ملے گی.بچی اور حقیقی نجات اسی دنیا میں ملتی ہے.
وہ ایک روشنی ہے جو دلوں پر اُترتی ہے اور دکھا دیتی ہے کہ کون سے ہلاکت کے گڑھے ہیں.حق اور حکمت کی راہ پر چلو کہ اُس سے خدا کو پاؤ گے اور اپنے دلوں میں گرمی پیدا کرو تا سچائی کی طرف حرکت کر سکو.بدنصیب ہے وہ دل جو ٹھنڈا پڑا ہے اور بد بخت ہے وہ طبیعت جو افسردہ ہے اور مُردہ ہے وہ کانشنس جس میں چمک نہیں.پس تم اُس ڈول سے کم نہ رہو جو کنوئیں میں خالی گرتا اور بھر کر نکلتا ہے اور اُس چھانی کی صفت مت اختیار کرو جس میں کچھ بھی پانی نہیں ٹھہر سکتا اور ایک راہ سے آتا اور دوسری راہ سے چلا جاتا ہے.کوشش کرو کہ تندرست ہو جاؤ اور وہ دنیا طلبی کے تپ کی زہریلی گرمی دور ہو جائے جس کی وجہ سے نہ آنکھوں میں روشنی ہے نہ کان اچھی طرح سُن سکتے ہیں نہ زبان کا مزہ درست ہے اور نہ ہاتھوں میں زور اور نہ پیروں میں طاقت ہے.ایک تعلق کو قطع کرو تا دوسرا تعلق پیدا ہو.ایک طرف سے دل کو روکوتا دوسری طرف دل کو راہ مل جائے.زمین کا نجس کیڑا پھینک دو تا آسمان کا چمکیلا ہیرا تمہیں عطا ہو اور اپنے مبدا کی طرف رجوع کرو وہی مبدا جبکہ آدم اس خدائی رُوح سے زندہ کیا گیا تھا تا تمہیں تمام چیزوں پر بادشاہت ملے جیسا کہ تمہارے باپ کو ملی.( گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۴۱ تا ۶۴۸ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن) پھر معرفت کے بعد بڑی ضروری نجات کے لئے محبت الہی ہے.یہ بات نہایت واضح اور بد یہی ہے کہ کوئی شخص اپنے محبت کرنے والے کو عذاب دینا نہیں چاہتا بلکہ محبت محبت کو جذب کرتی اور اپنی طرف کھینچتی ہے.جس شخص سے کوئی سچے دل سے محبت کرتا ہے اُس کو یقین کرنا چاہئے کہ وہ دوسرا شخص بھی جس سے محبت کی گئی ہے اس سے دشمنی نہیں کر سکتا بلکہ اگر ایک شخص ایک شخص کو جس سے وہ اپنے دل سے محبت رکھتا ہے اپنی اس محبت سے اطلاع بھی نہ دے تب بھی اس قدر اثر تو ضرور ہوتا ہے کہ وہ شخص اس سے دشمنی نہیں کر سکتا.اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتا ہے.اور خدا کے نبیوں اور رسولوں میں جو ایک قوت جذب اور کشش پائی جاتی ہے اور ہزار ہا لوگ اُن کی طرف کھینچے جاتے اور ان سے محبت کرتے ہیں یہاں تک کہ اپنی جان بھی ان پر فدا کرنا چاہتے ہیں.اس کا سبب یہی ہے کہ بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی ان کے دل میں ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ ماں سے بھی زیادہ انسانوں سے پیار کرتے ہیں اور اپنے تئیں دُکھ اور درد میں ڈال کر بھی اُن کے آرام کے خواہشمند ہوتے ہیں.آخر ان کی سچی کشش سعید دلوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتی ہے.پھر جبکہ انسان باوجود یکہ وہ عالم الغیب نہیں دوسرے شخص کی مخفی محبت پر اطلاع پا لیتا ہے تو پھر کیونکر خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے کسی کی خالص محبت سے بے خبر رہ سکتا ہے
محبت عجیب چیز ہے اس کی آگ گناہوں کی آگ کو جلاتی اور معصیت کے شعلہ کو بھسم کر دیتی ہے.سچی اور ذاتی اور کامل محبت کے ساتھ عذاب جمع ہو ہی نہیں سکتا اور سچی محبت کے علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُس کی فطرت میں یہ بات منقوش ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کے قطع تعلق کا اس کو نہایت خوف ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ سے ادنیٰ قصور کے ساتھ اپنے تئیں ہلاک شدہ سمجھتا ہے اور اپنے محبوب کی مخالفت کو اپنے لئے ایک زہر خیال کرتا ہے اور نیز اپنے محبوب کے وصال کے پانے کے لئے نہایت بے تاب رہتا ہے اور بعد اور دوری کے صدمہ سے ایسا گداز ہوتا ہے کہ بس مر ہی جاتا ہے.اس لئے وہ صرف ان باتوں کو گناہ نہیں سمجھتا کہ جو عوام سمجھتے ہیں کہ قتل نہ کر، خون نہ کر ، زنانہ کر ، چوری نہ کر ، جھوٹی گواہی نہ دے بلکہ وہ ایک ادنی غفلت کو اور ادنی التفات کو جو خدا کو چھوڑ کر غیر کی طرف کی جائے ایک کبیرہ گناہ خیال کرتا ہے.اس لئے اپنے محبوب از لی کی جناب میں دوام استغفار اس کا ورد ہوتا ہے اور چونکہ اس بات پر اس کی فطرت راضی نہیں ہوتی کہ وہ کسی وقت بھی خدا تعالیٰ سے الگ رہے اس لئے بشریت کے تقاضا سے ایک ذرہ غفلت بھی اگر صادر ہو تو اُس کو ایک پہاڑ کی طرح گناہ سمجھتا ہے.یہی بھید ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک اور کامل تعلق رکھنے والے ہمیشہ استغفار میں مشغول رہتے ہیں کیونکہ یہ محبت کا تقاضا ہے کہ ایک محب صادق کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ اس کا محبوب اُس پر ناراض نہ ہو جائے اور چونکہ اس کے دل میں ایک پیاس لگا دی جاتی ہے کہ خدا کامل طور پر اُس سے راضی ہو.اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بھی کہے کہ میں تجھ سے راضی ہوں تب بھی وہ اس قدر پر صبر نہیں کر سکتا کیونکہ جیسا کہ شراب کے دور کے وقت ایک شراب پینے والا ہر دم ایک مرتبہ پی کر پھر دوسری مرتبہ مانگتا ہے اسی طرح جب انسان کے اندر محبت کا چشمہ جوش مارتا ہے تو وہ محبت طبعا یہ تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.پس محبت کی کثرت کی وجہ سے استغفار کی بھی کثرت ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا سے کامل طور پر پیار کرنے والے ہر دم اور ہر لحظہ استغفار کو اپنا ور در کھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر معصوم کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب سے زیادہ استغفار میں مشغول رہے اور استغفار کے حقیقی معنے یہ ہیں کہ ہر ایک لغزش اور قصور جو بوجہ ضعف بشریت انسان سے صادر ہو سکتی ہے اس امکانی کمزوری کو دور کرنے کے لئے خدا سے مدد مانگی جائے تا خدا کے فضل سے وہ کمزوری ظہور میں نہ آوے اور مستور مخفی رہے.پھر بعد اس کے استغفار کے معنے عام لوگوں کے لئے وسیع کئے گئے اور یہ امر بھی استغفار میں داخل ہوا کہ جو کچھ لغزش اور قصور صادر ہو چکا خدا تعالیٰ اس کے بدنتائج اور زہریلی تا شیروں سے دنیا اور آخرت میں محفوظ رکھے.
۷۰۲ پس نجات حقیقی کا سر چشمہ محبت ذاتی خدائے عز وجل کی ہے جو عجز و نیاز اور دائمی استغفار کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور جب انسان کمال درجے تک اپنی محبت کو پہنچاتا ہے اور محبت کی آگ سے اپنے جذبات نفسانیت کو جلا دیتا ہے تب یک دفعہ ایک شعلہ کی طرح خدا تعالیٰ کی محبت جو خدا تعالیٰ اُس سے کرتا ہے اُس کے دل پر گرتی ہے اور اس کو سفلی زندگی کے گندوں سے باہر لے آتی ہے.اور خدائے حتی وقیوم کی پاکیزگی کا رنگ اُس کے نفس پر چڑھ جاتا ہے بلکہ تمام صفات الہیہ سے ظلی طور پر اس کو حصہ ملتا ہے.تب وہ تجلیات الہیہ کا مظہر ہو جاتا ہے اور جو کچھ ربوبیت کے ازلی خزانہ میں مکتوم و مستور ہے اس کے ذریعہ سے وہ اسرار دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۸ تا ۳۸۰) یہ امید مت رکھو کہ کوئی اور منصو بہ انسانی نفس کو پاک کر سکے.جس طرح تاریکی کو صرف روشنی ہی ڈور کرتی ہے اسی طرح گناہ کی تاریکی کا علاج فقط وہ تجلیات الہیہ قولی وفعلی ہیں جو معجزانہ رنگ میں پُر زور شعاعوں کے ساتھ خدا کی طرف سے کسی سعید دل پر نازل ہوتی ہیں.اور اس کو دکھا دیتی ہیں کہ خدا ہے اور تمام ش مشکوک کی غلاظت کو دُور کر دیتی ہیں اور تسلی اور اطمینان بخشتی ہیں.پس اس طاقت بالا کی زبر دست کشش سے وہ سعید آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے.اس کے سوا جس قدر اور علاج پیش کئے جاتے ہیں سب فضول بناوٹ ہے.ہاں کامل طور پر پاک ہونے کے لئے صرف معرفت ہی کافی نہیں بلکہ اُس کے ساتھ پُر درد دعاؤں کا سلسلہ جاری رہنا بھی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے.اس کے فیوض کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایسی دعاؤں کی سخت ضرورت ہے جوگر یہ اور بکا اور صدق وصفا اور در ددل سے پُر ہوں.تم دیکھتے ہو کہ بچہ شیر خوار اگر چہ اپنی ماں کو خوب شناخت کرتا ہے اور اس سے محبت بھی رکھتا ہے اور ماں بھی اُس سے محبت رکھتی ہے مگر پھر بھی ماں کا دودھ اُترنے کے لئے شیر خوار بچوں کا رونا بہت کچھ دخل رکھتا ہے.ایک طرف بچہ درد ناک طور پر بھوک سے روتا ہے اور دوسری طرف اُس کے رونے کا ماں کے دل پر اثر پڑتا ہے اور دودھ اُترتا ہے.پس اسی طرح خدائے تعالیٰ کے سامنے ہر ایک طالب کو اپنی گریہ وزاری سے اپنی روحانی بھوک پیاس کا ثبوت دینا چاہئے تا وہ رُوحانی دودھ اترے اور اُسے سیراب کرے.غرض پاک وصاف ہونے کے لئے صرف معرفت کافی نہیں بلکہ بچوں کی طرح درد ناک گریہ وزاری بھی ضروری ہے اور نومید مت ہو اور یہ خیال مت کرو کہ ہمارا نفس گناہوں سے بہت آلودہ ہے.ہماری دعائیں کیا چیز ہیں اور کیا اثر رکھتی ہیں.کیونکہ انسانی نفس جو دراصل محبت الہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے
وہ اگر چہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے.پھر بھی اس میں ایک ایسی قوت تو بہ ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک پانی کو کیسا ہی آگ سے گرم کیا جائے مگر تا ہم جب آگ پر اس کو ڈالا جائے تو وہ آگ کو بجھا دے گا.یہی ایک طریق ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اسی طریق سے ان کے دل پاک وصاف ہوتے رہے ہیں.یعنی بغیر اس کے جو زنده خدا خود اپنی تحلیلی قولی و فعلی سے اپنی ہستی اور اپنی طاقت اور اپنی خدائی ظاہر کرے اور اپنا رُعب چمکتا ہوا دکھاوے اور کسی طریق سے انسان گناہ سے پاک نہیں ہوسکتا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۳ ۳۴) سکھلایا ہے خدا کے ساتھ جو روحانی اور کامل تعلق پیدا ہونے کا ذریعہ جو قرآن شریف نے ہمیں اسلام اور دعاء فاتحہ ہے.یعنی اول اپنی تمام زندگی خدا کی راہ میں وقف کر دینا اور پھر اس دعا میں لگے رہنا جو سورۃ فاتحہ میں مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے.تمام اسلام کا مغز یہ دونوں چیزیں ہیں اسلام اور دعاء فاتحہ.دنیا میں خدا تک پہنچنے اور حقیقی نجات کا پانی پینے کے لئے ایک یہی اعلیٰ ذریعہ ہے بلکہ یہی ایک ذریعہ ہے جو قانونِ قدرت نے انسان کی اعلیٰ ترقی اور وصالِ الہی کے لئے مقرر کیا ہے اور وہی خدا کو پاتے ہیں کہ جو اسلام کے مفہوم کی روحانی آگ میں داخل ہوں اور دعاء فاتحہ میں لگے رہیں.اسلام کیا چیز ہے وہی جلتی ہوئی آگ ہے جو ہماری سفلی زندگی کو بھسم کر کے اور ہمارے باطل معبودوں کو جلا کر سچے اور پاک معبود کے آگے ہماری جان اور ہمارے مال اور ہماری آبرو کی قربانی پیش کرتی ہے.ایسے چشمہ میں داخل ہو کر ہم ایک نئی زندگی کا پانی پیتے ہیں اور ہماری تمام روحانی قوتیں خدا سے یوں پیوند پکڑتی ہیں جیسا کہ ایک رشتہ دوسرے رشتہ سے پیوند کیا جاتا ہے.بجلی کی آگ کی طرح ایک آگ ہمارے اندر سے نکلتی ہے اور ایک آگ اوپر سے ہم پر اُترتی ہے.اِن دونوں شعلوں کے ملنے سے ہماری تمام ہوا و ہوس اور غیر اللہ کی محبت بھسم ہو جاتی ہے.اور ہم اپنی پہلی زندگی سے مر جاتے ہیں.اس حالت کا نام قرآن شریف کی رُو سے اسلام ہے.اسلام سے ہمارے نفسانی جذبات کو موت آتی ہے اور پھر دعا سے ہم از سرنو زندہ ہوتے ہیں.اس دوسری زندگی کے لئے الہام الہی ہونا ضروری ہے.اسی مرتبہ پر پہنچنے کا نام لقاء الہی ہے یعنی خدا کا دیدار اور خدا کا درشن.اِس درجہ پر پہنچ کر انسان کو خدا سے وہ اتصال ہوتا ہے کہ گویا وہ اس کو آنکھ سے دیکھتا ہے.اور اس کو قوت دی جاتی ہے اور اُس کے تمام حواس اور تمام اندرونی قوتیں روشن کی جاتی ہیں اور پاک زندگی کی کشش بڑے زور سے شروع ہو جاتی ہے.اسی درجہ
۷۰۴ پر آکر خدا انسان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور زبان ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ بولتا ہے اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ حملہ کرتا ہے اور کان ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور پیر ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ چلتا ہے.اسی درجہ کی طرف اشارہ ہے جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ یا یہ اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے اور ایسا ہی فرماتا ہے.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى T یعنی جو تو نے چلایا تو نے نہیں بلکہ خدا نے چلایا.غرض اس درجہ پر خدا تعالیٰ کے ساتھ کمال اتحاد ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی پاک مرضی رُوح کے رگ وریشہ میں سرایت کر جاتی ہے اور اخلاقی طاقتیں جو کمزور تھیں اس درجہ میں محکم پہاڑوں کی طرح نظر آتی ہیں.عقل اور فراست نہایت لطافت پر آ جاتی ہے.یہ معنے اس آیت کے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَأَيَّدَهُمْ بِرُوجٍ مِّنْہ کے اس مرتبہ میں محبت اور عشق کی نہریں ایسے طور سے جوش مارتی ہیں جو خدا کے لئے مرنا اور خدا کے لئے ہزاروں دکھ اُٹھانا اور بے آبرو ہونا ایسا آسان ہو جاتا ہے کہ گویا ایک ہلکا سا تنکا توڑنا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ کون کھینچ رہا ہے.ایک غیبی ہاتھ اُس کو اُٹھائے پھرتا ہے اور خدا کی مرضوں کو پورا کرنا اُس کی زندگی کا اصل الاصول ٹھہر جاتا ہے.اس مرتبہ میں خدا بہت ہی قریب دکھائی دیتا ہے جیسا کہ اُس نے فرمایا ہے وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ہے یعنی ہم اُس سے اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہیں.ایسی حالت میں اس مرتبہ کا آدمی ایسا ہوتا ہے کہ جس طرح پھل پختہ ہو کر خود بخود درخت پر سے گر جاتا ہے اسی طرح اس مرتبہ کے آدمی کے تمام تعلقات سفلی کا العدم ہو جاتے ہیں.اس کا اپنے خدا سے ایسا گہرا تعلق ہو جاتا ہے کہ وہ مخلوق سے دُور چلا جاتا اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات سے شرف پاتا ہے.اس مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے اب بھی دروازے کھلے ہیں جیسے کہ پہلے کھلے ہوئے تھے.اور اب بھی خدا کا فضل یہ نعمت ڈھونڈنے والوں کو دیتا ہے جیسا کہ پہلے دیتا تھا مگر یہ راہ محض زبان کی فضولیوں کے ساتھ حاصل نہیں ہوتی اور فقط بے حقیقت باتوں اور لافوں سے یہ دروازہ نہیں کھلتا.چاہنے والے بہت ہیں مگر پانے والے کم.اس کا کیا سبب ہے؟ یہی کہ یہ مرتبہ کچی سرگرمی، کچی جانفشانی پر موقوف ہے.باتیں قیامت تک کیا کرو کیا ہو سکتا ہے.صدق سے اس آگ پر قدم رکھنا جس کے خوف سے اور لوگ بھاگتے ہیں اس راہ کی پہلی شرط ہے.اگر عملی سرگرمی نہیں تو لاف زنی بیچ ہے.اس بارہ میں اللہ جل شانہ الفتح : اا الانفال: ۱۸ المجادلة :٢٣
۷۰۵ فرماتا ہے.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ لے یعنی اگر میرے بندے میری نسبت سوال کریں کہ وہ کہاں ہے؟ تو ان کو کہہ کہ وہ تم سے بہت ہی قریب ہے.میں دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں.پس چاہئے کہ وہ دعاؤں سے میرا وصل ڈھونڈیں اور مجھ پر ایمان لاویں تا کامیاب ہوں.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۹۴ تا ۳۹۶) غرض نجات کی فلاسفی یہی ہے کہ خدا سے پاک اور کامل تعلق پیدا کرنے والے اس لا زوال نور کا مظہر ہو جاتے ہیں اور اُس کی محبت کی آگ میں پڑ کر ایسے اپنی ہستی سے دُور ہو جاتے ہیں کہ جیسا کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ کی صورت ہی اختیار کر لیتا ہے مگر در حقیقت وہ آگ نہیں ہے لوہا ہے اور جیسا کہ خدا کی تجلیات سے اس کے عاشقوں میں ایک حیرت نما تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے ایسا ہی خدا بھی ان کے لئے ایک تبدیلی پیدا کرتا ہے.یہ سچ ہے کہ خدا غیر متبدل اور ہر ایک تبدیلی سے پاک ہے مگر ان کے لئے وہ ایسے عجائب کام دکھلاتا ہے کہ گویا وہ ایک نیا خدا ہے.وہ خدا نہیں ہے جو عام لوگوں کا خدا ہے کیونکہ جس قد رخدا کے راستباز بندے اپنے پاک اعمال اور صدق اور وفا کے ساتھ اس کی طرف حرکت کرتے ہیں یہاں تک کہ اپنی پہلی ہستی سے مر جاتے ہیں خدا بھی ان کی طرف اکرام اور نصرت کے ساتھ حرکت کرتا ہے یہاں تک کہ اپنی نصرت اور حمایت اور غیرت کو اُن کے لئے ایسے طور سے دکھاتا ہے کہ وہ معمولی طور پر نہیں بلکہ وہ نصرت خارق عادت طور پر ظاہر ہوتی ہے.یہ بالکل غیر ممکن اور خدا کی کریمانہ عادت کے برخلاف ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے بندہ کو جہنم میں ڈالے کہ جو اپنے سارے دل اور ساری جان اور کامل اخلاص سے اُس کی محبت میں محو ہے اور ایسا محو ہے کہ جیسا کہ سچی محبت کا تقاضا ہونا چاہئے.کسی کو اس کے برابر نہیں جانتا بلکہ ہر ایک کو اس کے مقابل پر کالعدم سمجھتا ہے اور اپنے وجود کو اس کی راہ میں فنا کرنے کو تیار ہے پھر ایسا شخص کیونکر مورد عذاب ہوسکتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کامل محبت ہی نجات ہے.بھلا تم سچ کہو کہ کیا تم اپنے ایک بچے کو جس سے تم بہت ہی محبت رکھتے ہو دانستہ آگ میں ڈال سکتے ہو؟ پھر خدا جو سراسر محبت ہے ان لوگوں کو جو اس سے پیار کرتے ہیں اور ذرہ ذرہ اُن کا اُس کی محبت میں مستغرق ہے کیونکر آگ میں ڈالے گا.پس کوئی قربانی اس سے بہتر قربانی نہیں ہے کہ انسان اس محبوب حقیقی سے اس قدر محبت کرے کہ خود وہ اس بات کو محسوس البقرة: ۱۸۷
2+Y کرے کہ در حقیقت اس کے سوا کوئی اس کا محبوب اور پیارا نہیں.اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس کے لئے خود اپنے نفس کی محبت بھی چھوڑ دے اور اس کے لئے تلخ زندگی اختیار کرے.جب اس نکتہ کمال تک پہنچ جائے گا تو بلاشبہ وہ نجات یافتہ ہے اور اس مرتبہ محبت پر نہ کسی تناسخ کے چکر کی اس کو حاجت ہے اور نہ اس کو اپنے لئے کسی کو صلیب دینے کی ضرورت ہے اور اس مرتبہ محبت پر انسان صرف خیالی طور پر اپنے تئیں نجات یافتہ قرار نہیں دیتا بلکہ اندر ہی اندر وہ محبت اس کو تعلیم دیتی ہے کہ خدا کی محبت تیرے ساتھ ہے اور پھر خدا کی محبت اس کے شامل حال ہو کر ایک سکینت اور شانتی اس کے دل پر نازل کرتی ہے اور خدا وہ معاملات اس سے شروع کر دیتا ہے جو خاص اپنے پیاروں اور مقبولوں سے کرتا آیا ہے.یعنی اس کی اکثر دعائیں قبول کر لیتا ہے اور معرفت کی باریک باتیں اس کو سکھلاتا ہے اور بہت سی غیب کی باتوں پر اس کو اطلاع دیتا ہے اور اس کے منشاء کے مطابق دنیا میں تصرفات کرتا ہے.اور عزت اور قبولیت کے ساتھ دنیا میں اُس کو شہرت دیتا ہے اور جو شخص اس کی دشمنی سے باز نہ آوے اور اس کے ذلیل کرنے کے در پے رہے آخر اس کو ذلیل کر دیتا ہے اور اُس کی خارق عادت طور پر تائید کرتا ہے اور لاکھوں انسانوں کے دلوں میں اُس کی اُلفت ڈال دیتا ہے اور عجیب و غریب کرامتیں اُس سے ظہور میں لاتا ہے اور محض خدا کے الہام سے لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف کشش ہو جاتی ہے.تب وہ انواع واقسام کے تحائف اور نقد اور جنس کے ساتھ اس کی خدمت کے لئے دوڑتے ہیں.اور خدا اس سے نہایت لذیذ اور پر شوکت کلام کے ساتھ مکالمہ مخاطبہ کرتا ہے جیسا کہ ایک دوست ایک دوست سے کرتا ہے.وہ خدا جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہے وہ اُس پر ظاہر ہو جاتا ہے اور ہر ایک غم کے وقت اپنی کلام سے اس کو تسلی دیتا ہے.وہ اُس سے سوال و جواب کے طور پر اپنے فصیح اور لذیذ اور پر شوکت کلام کے ساتھ باتیں کرتا ہے.اور سوال کا جواب دیتا ہے اور جو باتیں انسان کے علم اور طاقت سے باہر ہیں وہ اس کو بتلا دیتا ہے.مگر نہ نجومیوں کی طرح بلکہ ان مقتدر بادشاہوں کی طرح جن کی ہر ایک بات میں شاہانہ قدرت بھری ہوئی ہوتی ہے.وہ ایسی پیشگوئیاں اس پر ظاہر کرتا ہے جن میں اس کی عزت اور اُس کے دشمن کی ذلت ہو اور اُس کی فتح اور دشمن کی شکست ہو.غرض اسی طرح وہ اپنے کلام اور کام کے ساتھ اپنا وجود اس پر ظاہر کر دیتا ہے.تب وہ ہر ایک گناہ سے پاک ہو کر اس کمال تک پہنچ جاتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے.مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۸ تا ۴۲۱) نجات کے بارہ میں قرآن شریف نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ نجات ایک ایسا امر ہے جو اسی دنیا میں
۷۰۷ ↓ ظاہر ہو جاتا ہے.جیسا کہ اس نے فرمایا مَنْ كَانَ في هذه أعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہو گا یعنی خدا کے دیکھنے کے حواس اور نجات ابدی کا سامان اِسی دنیا سے انسان ساتھ لے جاتا ہے.اور بار بار اُس نے ظاہر فرمایا ہے کہ جس ذریعہ سے انسان نجات پاسکتا ہے.وہ ذریعہ بھی جیسا کہ خدا قدیم ہے قدیم سے چلا آتا ہے.یہ نہیں کہ ایک مدت کے بعد اُس کو یاد آیا کہ اگر اور کسی طرح بنی آدم نجات نہیں پا سکتے تو میں خود ہی ہلاک ہو کر ان کو نجات دوں.انسان کو حقیقی طور پر اس وقت نجات یافتہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اس کے تمام نفسانی جذبات جل جائیں اور اس کی رضا خدا کی رضا ہو جائے اور وہ خدا کی محبت میں ایسا محو ہو جائے کہ اس کا کچھ بھی نہ رہے سب خدا کا ہو جائے اور تمام قول اور فعل اور حرکات اور سکنات اور ارادات اس کے خدا کے لئے ہو جائیں.اور وہ دل میں محسوس کرے کہ اب تمام لذات اس کی خدا میں ہیں.اور خدا سے ایک لمحہ علیحدہ ہونا اس کے لئے موت ہے اور ایک نشہ اور شکر محبت الہی کا ایسے طور سے اس میں پیدا ہو جائے کہ جس قدر چیزیں اس کے ماسوا ہیں سب اس کی نظر میں معدوم نظر آئیں.اور اگر تمام دنیا تلوار پکڑ کر اُس پر حملہ کرے اور اس کو ڈرا کر حق سے علیحدہ کرنا چاہے تو وہ ایک مستحکم پہاڑ کی طرح اسی استقامت پر قائم رہے اور کامل محبت کی ایک آگ اس میں بھڑک اُٹھے اور گناہ سے نفرت پیدا ہو جائے اور جس طور سے اور لوگ اپنے بچوں اور اپنی بیویوں اور اپنے عزیز دوستوں سے محبت رکھتے ہیں اور وہ محبت اُن کے دلوں میں دھنس جاتی ہے کہ اُن کے مرنے کے ساتھ ایسے بے قرار ہو جاتے ہیں کہ گویا آپ ہی مرجاتے ہیں یہی محبت بلکہ اس سے بہت بڑھ کر اپنے خدا سے پیدا ہو جائے.یہاں تک کہ اس محبت کے غلبہ میں دیوانہ کی طرح ہو جائے اور کامل محبت کی سخت تحریک سے ہر ایک دکھ اور ہر ایک زخم اپنے لئے گوارا کرے تا کسی طرح خدا تعالیٰ راضی ہو جائے.جب انسان پر اس مرتبہ تک محبت الہی غلبہ کرتی ہے تب تمام نفسانی آلائشیں اُس آتش محبت سے خس و خاشاک کی طرح جل جاتی ہیں.اور انسان کی فطرت میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہو جاتا ہے اور اُس کو وہ دل عطا ہوتا ہے جو پہلے نہیں تھا اور وہ آنکھیں عطا ہوتی ہیں جو پہلے نہیں تھیں اور اس قدر یقین اس پر غالب آ جاتا ہے کہ اسی دنیا میں وہ خدا کو دیکھنے لگتا ہے اور وہ جلن اور سوزش جو دنیا داروں کی فطرت کو دنیا کے لئے جہنم کی طرح لگی ہوئی ہوتی ہے وہ سب دور ہو کر ایک آرام اور راحت اور لذت کی زندگی اس کومل جاتی ہے.تب اس کیفیت کا نام جو اس کو ملتی ہے نجات رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کی رُوح بنی اسرآئیل ۷۳
۷۰۸ خدا کے آستانہ پر نہایت محبت اور عاشقانہ تپش کے ساتھ گر کر لازوال آرام پالیتی ہے اور اس کی محبت کے ساتھ خدا کی محبت تعلق پکڑ کر اس کو اس مقام محویت پر پہنچا دیتی ہے کہ جو بیان کرنے سے بلند اور برتر ہے.( مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۶ ، ۴۱۷) نجات اپنی کوشش سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے ہوا کرتی ہے.اس فضل کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنا قانون ٹھہرایا ہوا ہے وہ کبھی باطل نہیں کرتا.وہ قانون یہ ہے کہ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبُكُمُ اللهُ اور مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ " اگر اس پر دلیل پوچھو تو یہ ہے کہ نجات ایسی شے نہیں ہے کہ اُس کے برکات اور ثمرات کا پتہ انسان کو صرف مرنے کے بعد ہی ملے بلکہ نجات تو وہ امر ہے کہ جس کے آثار اسی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں کہ نجات یافتہ آدمی کو ایک بہشتی زندگی اسی دنیا میں مل جاتی ہے دوسرے مذاہب کے پابند بکلی اس سے محروم ہیں.اگر کوئی کہے کہ اہل اسلام کی بھی یہی حالت ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ اسی لئے اس سے بے نصیب ہیں کہ کتاب اللہ کی پابندی نہیں کرتے.اگر ایک شخص کے پاس دوا ہو اور وہ اُسے استعمال نہ کرے اور لا پروائی سے نہ کھاوے تو وہ بہر حال اُس کے فوائد سے محروم رہے گا.یہی حال مسلمانوں کا ہے کہ اُن کے پاس قرآن جیسی پاک کتاب موجود ہے مگر وہ اس کے پابند نہیں ہیں.مگر جولوگ خدا کے کلام سے اعراض کرتے ہیں وہ تو ہمیشہ انوار و برکات سے محروم رہتے ہیں.پھر اعراض بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک صوری اور معنوی یعنی ایک تو یہ ہے کہ ظاہری اعمال میں اعراض ہو اور دوسرے یہ کہ اعتقاد میں اور ہو اور انسان کو انوار و برکات سے حصہ نہیں مل سکتا جب تک وہ اسی طرح عمل نہ کرے جس طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ البدر ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۱ کالم نمبرا.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۱۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) یہ بات بالکل سچ ہے کہ جس نے خدا کے رسولوں کو شناخت نہیں کیا اُس نے خدا کو بھی شناخت نہیں کیا.خدا کے چہرے کا آئینہ اس کے رسول ہیں.ہر ایک جو خدا کو دیکھتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے دیکھتا ہے.پس یہ کس قسم کی نجات ہے کہ ایک شخص دنیا میں تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذب اور منکر رہا اور قرآن شریف سے انکاری رہا.اور خدا تعالیٰ نے اس کو آنکھیں نہ بخشیں.اور دل نہ دیا اور وہ اندھا ہی رہا اور اندھا ہی مر گیا اور پھر نجات بھی پا گیا.یہ عجیب نجات ہے! اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جس شخص پر رحمت کرنا چاہتا ہے.پہلے اس کو آنکھیں بخشتا ہے اور اپنی طرف سے اس کو علم عطا ال عمران:۳۲ ال عمران: ۸۶ التوبة : ١١٩
2+9 کرتا ہے.صد ہا آدمی ہمارے سلسلہ میں ایسے ہوں گے کہ وہ محض خواب یا الہام کے ذریعہ سے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات وسیع الرحمۃ ہے.اگر کوئی ایک قدم اس کی طرف آتا ہے تو وہ دو قدم آتا ہے اور جو شخص اس کی طرف جلدی سے چلتا ہے تو وہ اس کی طرف دوڑ تا آتا ہے اور نابینا کی آنکھیں کھولتا ہے.پھر کیونکر قبول کیا جائے کہ ایک شخص اس کی ذات پر ایمان لایا اور سچے دل سے اُس کو وحدہ لاشریک سمجھا اور اس سے محبت کی اور اُس کے اولیاء میں داخل ہوا پھر خدا نے اس کو نا بینا رکھا اور ایسا اندھا رہا کہ خدا کے نبی کو شناخت نہ کر سکا.اس کی مؤید یہ حدیث ہے کہ مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةَ الجَاهِلِيَّة یعنی جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیت کی موت پر مر گیا اور صراط مستقیم سے بے نصیب رہا.(حقیقة الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۱) یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف دید ہی کا ایک ایسا مذ ہب ہے جو اپنے پر میشر کو پُر غضب اور کینہ ور قرار دیتا ہے اور اس بات کا سخت مخالف ہے کہ خدا تعالیٰ تو بہ اور استغفار سے اپنے بندوں کا گناہ بخش دیتا ہے.اور عجیب تریہ کہ اس مذہب میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ پر میشر تمام مخلوقات کا مالک ہے اور تمام مخلوق جانداروں کی قسمت اس کے ہاتھ میں ہے.اور وہی ایک ہے جس کے سامنے تمام گناہ گار پیش کئے جاتے ہیں لیکن انسانوں کی بدقسمتی کی وجہ سے اس میں یہ صفت غضب تو موجود ہے جو گناہ کو دیکھ کر اس کی سخت سے سخت سزا دیتا ہے لیکن اس میں یہ دوسری صفت موجود نہیں کہ کسی گنہگار کی تو بہ اور تضرع سے اس کا گناہ بھی بخش سکتا ہے.بلکہ جس سے ایک ذرہ بھی قصور ہو گیا پھر نہ اس کی توبہ قبول نہ تضرع عاجزی قابل التفات.حالانکہ یہ بات ظاہر ہے کہ انسان ضعیف البنیان بوجہ اپنی فطرتی کمزوریوں کے گناہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا اور قدم قدم پر ٹھوکر کھانا اُس کی فطرت کا خاصہ ہے.مگر وید نے انسان کی حالت پر رحم کر کے کوئی نجات کا طریق پیش نہیں کیا.بلکہ وید کو صرف ایک ہی نسخہ یاد ہے جو سراسر غضب اور کینہ سے بھرا ہوا ہے اور وہ یہ کہ ایک ذرہ سے گناہ کے لئے بھی ایک لمبا اور نا پیدا کنار سلسلہ جونوں کا تیار کر رکھا ہے.حالانکہ گناہ گار اس وجہ سے بھی قابلِ رحم ہے کہ اس کی کمزور قوتیں جن سے گناہ صادر ہوتا ہے اس کی طرف سے نہیں بلکہ اُسی خدا نے پیدا کی ہیں.پس اس حالت میں عاجز بندے اس بات کے مستحق تھے کہ اس مجبوری کا بھی ان کو فائدہ دیا جاتا مگر بقول آریہ صاحبان پر میشر نے ایسا نہیں کیا اور سزا دینے کے وقت یہ امر ملحوظ نہیں رکھا کہ آخر گناہ کے ارتکاب میں اس کا بھی تو کچھ دخل ہے اور وید نے مکتی دینے کے بارہ میں یہ شرط رکھی ہے کہ تب مکتی ملے گی کہ جب انسان گناہ
سے بالکل پاک ہو جاوے مگر اس شرط کو جب قانونِ قدرت کے معیار کے ساتھ آزمایا جاوے تو ثابت ہوگا کہ اس شرط سے عہدہ برآ ہونا بالکل انسان کے لئے غیر ممکن ہے کیونکہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کے تمام حقوق ادا نہ کر لے تب تک نہیں کہہ سکتا کہ اس نے فرمانبرداری کے تمام دقائق کو ادا کر دیا ہے.اور ظاہر ہے کہ قانون قدرت صاف یہ شہادت دے رہا ہے اور انسان کا صحیفہ فطرت اس شہادت پر اپنے دستخط کر رہا ہے اور بزبان حال بیان کر رہا ہے کہ انسان کسی مرتبہ ترقی اور کمال میں اس قصور سے مبر انہیں ہوسکتا کہ وہ بمقابل خدا کی نعمتوں اور اس کے حقوق کے شکر نہیں کر سکا اور اس کے احکام کی کامل پیروی اور پوری بجا آوری میں بہت قاصر رہا.پس اگر انسان کی نجات صرف اسی صورت میں ہے کہ جیسا کہ چاہئے تمام حقوق خدا تعالیٰ کے اس سے ادا ہو جاویں.اور کسی پہلو سے ایک ذرہ قصور باقی نہ رہے اور اطاعت کی راہ میں ایک ذرہ بھی لغزش اس سے صادر نہ ہو تو یہ طریق نجات تعلیق بالمحال ہے.نہ اس درجہ کی عہدہ بر آئی کسی کو حاصل ہوگی اور نہ وہ نجات پائے گا.پس ایسا حکم خدا کا حکم نہیں ہو سکتا جو محال سے وابستہ اور صریح قانونِ قدرت کے برخلاف اور صحیفہ فطرت کے منافی ہے.بھلا تم تمام مشرق و مغرب میں تلاش کر کے کوئی آدمی پیش تو کرو جو صغائر و کبائر اور کسی قسم کی غفلت سے بکلی پاک اور مبرا ہو اور جس نے تمام حقوق بندہ پروری ادا کر دیئے ہیں اور جس کا یہ دعویٰ ہو کہ وہ تمام دقائق فرمانبرداری اور شکر گذاری کے بجالا چکا ہے اور جب اس زمانہ میں کوئی موجود نہیں تو یقیناً سمجھو کہ ایسا آدمی کبھی دنیا میں ظہور پذیر نہیں ہوا اور نہ آئندہ اُس کے پیدا ہونے کی اُمید ہے اور جبکہ اپنے زور بازو سے تمام حقوق خدا تعالیٰ کے ادا کرنا اور ہر ایک نہج سے شکر گذاری کے طریقوں میں عہدہ برآ ہونا قانونِ قدرت اور صحیفہ فطرت کی رو سے غیر ممکن ہے اور خود تجربہ ہر ایک انسان کا اس پر گواہ ہے تو پھر مکتی کی بنا ایسے امر پر رکھنا کہ خود وہ محال اور ناشدنی ہے.کسی ایسی کتاب کے شان کے مناسب نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو مگر ممکن ہے کہ جیسا کہ اور کئی باتوں میں وید میں خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں یہ خرابی بھی کسی زمانہ میں پیدا ہوگئی ہو اور ممکن ہے کہ دراصل یہ وید کی تعلیم نہ ہو بلکہ محرف مبدل ہو.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۵۰ تا ۵۲) مسیحی صاحبوں کا اس پر اتفاق ہو چکا ہے کہ مسیح کے زمانہ کے بعد الہام اور وحی پر مہر لگ گئی ہے.اور اب یہ نعمت آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے.اور اب اس کے پانے کی کوئی بھی راہ نہیں اور قیامت تک نومیدی ہے اور فیض کا دروازہ بند ہے.اور شائد یہی وجہ ہوگی کہ نجات پانے کے لئے ایک نئی تجویز نکالی
گئی ہے اور ایک نیا نسخہ تجویز کیا گیا ہے جو تمام جہان کے اصول سے نرالا اور سراسر عقل اور انصاف اور رحم سے مخالف ہے اور وہ یہ ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تمام جہان کے گناہ اپنے ذمہ لے کر صلیب پر مرنا منظور کیا تا ان کی اس موت سے دوسروں کی رہائی ہو.اور خدا نے اپنے بے گناہ بیٹے کو مارا تا گنہگاروں کو بچاوے.لیکن ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قسم کی مظلومانہ موت سے دوسروں کے دل گناہ کی پلید خصلت سے کیونکر صاف اور پاک ہو سکتے ہیں.اور کیونکر ایک بے گناہ کے قتل ہونے سے دوسروں کو گذشتہ گناہوں کی معافی کی سند مل سکتی ہے.بلکہ اس طریق میں انصاف اور رحم دونوں کا خون ہے کیونکہ گنہگار کے عوض میں بے گناہ کو پکڑنا خلاف انصاف ہے اور نیز بیٹے کو اس طرح ناحق سخت دلی سے قتل کرنا خلاف رحم ہے اور اس حرکت سے فائدہ خاک نہیں.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۶۳) وہ مسئلہ جو انجیل میں نجات کے بارہ میں بیان کیا گیا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا مصلوب ہونا اور کفارہ.اس تعلیم کو قرآن شریف نے قبول نہیں کیا اور اگر چہ حضرت عیسی کو قرآن شریف ایک برگزیدہ نبی مانتا ہے اور خدا کا پیارا اور مقرب اور وجیہہ قرار دیتا ہے لیکن اس کو محض انسان بیان فرما تا ہے اور نجات کے لئے اس امر کو ضروری نہیں جانتا کہ ایک گنہ گار کا بوجھ کسی بے گناہ پر ڈال دیا جائے اور عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ گناہ تو زید کرے اور بکر پکڑا جائے.اس مسئلہ پر تو انسانی گورنمنٹوں نے بھی عمل نہیں کیا.افسوس کہ نجات کے بارہ میں جیسا کہ عیسائی صاحبوں نے غلطی کی ہے ایسا ہی آریہ صاحبوں نے بھی اس غلطی سے حصہ لیا ہے اور اصل حقیقت کو بھول گئے ہیں کیونکہ آریہ صاحبان کے.عقیدہ کی رو سے تو بہ اور استغفار کچھ بھی چیز نہیں اور جب تک انسان ایک گناہ کے عوض وہ تمام جوئیں نہ بھگت لے جو اس گناہ کی سزا مقررہ ہے تب تک نجات غیر ممکن ہے اور پھر بھی محدود اور پرمیشر اس بات پر قادر ہی نہیں کہ گناہ بخش دے اور سچی توبہ جو در حقیقت ایک روحانی موت ہے اور ایک آگ ہے جس میں انسان پر میشر کو خوش کرنے کے لئے جلنا قبول کرتا ہے وہ کچھ چیز ہی نہیں.اس سے نعوذ باللہ پر میشر کی تنگ ظرفی ثابت ہوتی ہے.اور جبکہ وہ اپنے بندوں کو ہدایت دیتا ہے کہ تم اپنے قصور واروں کو بخشو اور اپنے نافرمانوں کو معافی دو اور آپ اس بات کا پابند نہیں ہے تو گویا وہ اپنے بندوں کو وہ خلق سکھلانا چاہتا ہے جو خود اس میں موجود نہیں.اس صورت میں ایسے مذہب کے پابند جو لوگ ہیں ضرور ان کے دل میں یہ خیال آئے گا کہ جبکہ پر میشر کسی اپنے قصور وار کے گناہ نہیں بخشتا تو ہم کیونکر وہ کام کر سکتے ہیں
۷۱۲ جو پر میشر کے اخلاق کے برخلاف ہے اور اگر رعایا ایسے راجوں اور بادشاہوں کے ماتحت ہو جو پرمیشر کی طرح اپنے قصور واروں کی نسبت معافی کا نام نہیں لیتے تو اس بدقسمت رعیت کا کیا حال ہو گا.اور پھر تناسخ ثابت کہاں ہے.جس طرح ہم کسی شخص کی جان نکلتی دیکھتے ہیں کب ہمارے مشاہدہ میں یہ بات آتی ہے کہ وہی جان دوبارہ کسی اور جسم میں پڑ گئی ہے.اور اس طرح پر یہ سزا بھی بریکار ہے کیونکہ اگر دوبارہ آنے والی روح اس بات سے متنبہ نہیں اور اس کو علم نہیں دیا گیا کہ وہ فلاں گناہ کی پاداش میں کسی ناکارہ جون میں ڈالی گئی تو پھر وہ کیونکر اس گناہ سے دستکش رہے گی.یاد رہے کہ انسان کی فطرت میں اور بہت سی خوبیوں کے ساتھ یہ عیب بھی ہے کہ اُس سے بوجہ اپنی کمزوری کے گناہ اور قصور صادر ہو جاتا ہے.اور وہ قادر مطلق جس نے انسانی فطرت کو بنایا ہے اُس نے اس غرض سے گناہ کا مادہ اس میں نہیں رکھا کہ تا ہمیشہ کے عذاب میں اس کو ڈال دے بلکہ اس لئے رکھا ہے کہ جو گناہ بخشنے کا خلق اس میں موجود ہے اس کے ظاہر کرنے کے لئے ایک موقع نکالا جائے.گناہ بے شک ایک زہر ہے مگر تو بہ اور استغفار کی آگ اس کو تریاق بنا دیتی ہے.پس یہی گناہ تو بہ اور پشیمانی کے بعد ترقیات کا موجب ہو جاتا ہے اور اس جڑ کو انسان کے اندر سے کھو دیتا ہے کہ وہ کچھ چیز ہے اور عجب اور تکبر اور خود نمائی کی عادتوں کا استیصال کرتا ہے.اے دوستو! یاد رکھو! کہ صرف اپنے اعمال سے کوئی نجات نہیں پا سکتا محض فضل سے نجات ملتی ہے اور وہ خدا جس پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ نہایت رحیم و کریم خدا ہے.وہ قادر مطلق اور سرب شکتی مان ہے جس میں کسی طرح کی کمزوری اور نقص نہیں.وہ مبدء ہے تمام ظہورات کا اور سرچشمہ ہے تمام فیضوں کا اور خالق ہے تمام مخلوقات کا اور مالک ہے تمام جود و فضل کا اور جامع ہے تمام اخلاق حمیدہ اور اوصاف کا ملہ کا اور منبع ہے تمام نوروں کا اور جان ہے تمام جانوں کی اور قیوم ہے ہر ایک چیز کا.سب چیزوں سے نزدیک ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ عین اشیاء ہے اور سب سے بلند تر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اُس میں اور ہم میں کوئی اور چیز بھی حائل ہے.اُس کی ذات دقیق در دقیق اور نہاں در نہاں ہے مگر پھر بھی سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے.کچی لذت اور بچی راحت اُسی میں ہے اور یہی نجات کی حقیقی فلاسفی ہے.( مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۴ تا ۴۱۶) واضح ہو کہ عیسائیوں کا یہ اصول کہ خدا نے دنیا سے پیار کر کے دنیا کو نجات دینے کے لئے یہ انتظام کیا کہ نافرمانوں اور کافروں اور بدکاروں کا گناہ اپنے پیارے بیٹے یسوع پر ڈال دیا اور دنیا کو گناہ سے
۷۱۳ چھڑانے کے لئے اس کو لعنتی بنایا اور لعنت کی لکڑی سے لٹکایا.یہ اصول ہر ایک پہلو سے فاسد اور قابل شرم ہے.اگر میزان عدل کے لحاظ سے اس کو جانچا جائے تو صریح یہ بات ظلم کی صورت میں ہے کہ زید کا گناہ بکر پر ڈال دیا جائے.انسانی کانشنس اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ ایک مجرم کو چھوڑ کر اس مجرم کی سزا غیر مجرم کو دی جائے اور اگر روحانی فلاسفی کے رو سے گناہ کی حقیقت پر غور کی جائے تو اس تحقیق کے رو سے بھی یہ عقیدہ فاسد ٹھہرتا ہے کیونکہ گناہ در حقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پُر جوش محبت اور محبانہ یاد الہی سے محروم اور بے نصیب ہو.اور جیسا کہ ایک درخت جب زمین سے اکھڑ جائے اور پانی چوسنے کے قابل نہ رہے تو وہ دن بدن خشک ہونے لگتا ہے اور اس کی تمام سرسبزی برباد ہو جاتی ہے.یہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جس کا دل خدا کی محبت سے اکھڑا ہوا ہوتا ہے.پس خشکی کی طرح گناہ اُس پر غلبہ کرتا ہے.سو اس خشکی کا علاج خدا کے قانونِ قدرت میں تین طور سے ہے.(۱) ایک محبت (۲) استغفار جس کے معنے ہیں دبانے اور ڈھانکنے کی خواہش کیونکہ جب تک مٹی میں درخت کی جڑ جھی رہے تب تک وہ سرسبزی کا اُمیدوار ہوتا ہے.(۳) تیسرا علاج تو بہ ہے.یعنی زندگی کا پانی کھینچنے کے لئے تذلل کے ساتھ خدا کی طرف پھرنا اور اُس سے اپنے تئیں نزدیک کرنا اور معصیت کے حجاب سے اعمال صالحہ کے ساتھ اپنے تئیں باہر نکالنا اور تو بہ صرف زبان سے نہیں ہے بلکہ تو بہ کا کمال اعمال صالحہ کے ساتھ ہے.تمام نیکیاں تو بہ کی تکمیل کے لئے ہیں.کیونکہ سب سے مطلب یہ ہے کہ ہم خدا سے نزدیک ہو جائیں.دُعا بھی تو بہ ہے.کیونکہ اس سے بھی ہم خدا کا قرب ڈھونڈتے ہیں.اس لئے خدا نے انسان کی جان کو پیدا کر کے اس کا نام رُوح رکھا کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اس کی محبت اور اس کی اطاعت میں ہے اور اس کا نام نفس رکھا کیونکہ وہ خدا سے اتحاد پیدا کرنے والا ہے.خدا سے دل لگانا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ باغ میں وہ درخت ہوتا ہے جو باغ کی زمین سے خوب پیوستہ ہوتا ہے.یہی انسان کا جنت ہے.اور جس طرح درخت زمین کے پانی کو چوستا اور اپنے اندر کھینچتا اور اس سے اپنے زہر یلے بخارات باہر نکالتا ہے اسی طرح انسان کے دل کی حالت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی محبت کا پانی چوس کر زہریلے مواد کے نکالنے پر قوت پاتا ہے اور بڑی آسانی سے ان مواد کو دفع کرتا ہے اور خدا میں ہو کر پاک نشو و نما پاتا جاتا ہے اور بہت پھیلتا اور خوشنما سرسبزی دکھلاتا ہے.اور اچھے پھل لاتا ہے.مگر جو خدا میں پیوستہ نہیں وہ نشو ونما دینے والے پانی کو چوس نہیں سکتا.اس لئے دمبدم خشک ہوتا چلا جاتا ہے.آخر پتے بھی گر جاتے ہیں
۷۱۴ اور خشک اور بدشکل ٹہنیاں رہ جاتی ہیں.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۲۸ ، ۳۲۹) خدا کا قدیم سے قانون قدرت ہے کہ وہ تو بہ اور استغفار سے گناہ معاف کرتا ہے اور نیک لوگوں کی شفاعت کے طور پر دعا بھی قبول کرتا ہے.مگر یہ ہم نے خدا کے قانون قدرت میں کبھی نہیں دیکھا کہ زید اپنے سر پر پتھر مارے اور اس سے بکر کی درد سر جاتی رہے.پھر ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کی خودکشی سے دوسروں کی اندرونی بیماری کا دُور ہونا کس قانون پر مبنی ہے.اور وہ کون سا فلسفہ ہے جس سے ہم معلوم کر سکیں کہ مسیح کا خون کسی دوسرے کی اندرونی ناپاکی کو دور کر سکتا ہے بلکہ مشاہدہ اس کے برخلاف گواہی دیتا ہے.کیونکہ جب تک مسیح نے خود کشی کا ارادہ نہیں کیا تھا تب تک عیسائیوں میں نیک چلنی اور خدا پرستی کا مادہ تھا مگر صلیب کے بعد تو جیسے ایک بند ٹوٹ کر ہر ایک طرف دریا کا پانی پھیل جاتا ہے یہی عیسائیوں کے نفسانی جوشوں کا حال ہوا.کچھ شک نہیں کہ اگر یہ خود کشی مسیح سے بالا رادہ ظہور میں آئی تھی تو بہت بے جا کام کیا اگر وہی زندگی وعظ و نصیحت میں صرف کرتا تو مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا.اس بے جا حرکت سے دوسروں کو کیا فائدہ ہوا.ہاں اگر مسیح خود کشی کے بعد زندہ ہو کر یہودیوں کے رو برو آسمان پر چڑھ جاتا تو اس سے یہودی ایمان لے آتے.مگر اب تو یہودیوں اور تمام عقلمندوں کے نزدیک مسیح کا آسمان پر چڑھنا محض ایک فسانہ اور گپ ہے.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۷، ۳۴۸) مجھے خود اندیشہ تھا کہ آخر کوئی جھوٹا مقدمہ میرے پر بنایا جائے گا کیونکہ دشمن جب لا جواب ہو جاتا ہے تو پھر جان اور آبرو پر حملہ کرتا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آخر یہ خون کا مقدمہ میرے پر بنایا گیا....پادری صاحبوں کو سب سے زیادہ بڑھ کر جوش تھا.کیونکہ میری کارروائی میں ان کے کروڑہا روپیہ کا نقصان ہے اور علاوہ آسمانی نشانوں کے میرے اعتراضات نے بھی اُن کے مذہب کے تارو پود کو تو ڑ دیا ہے.چنانچہ وہ اعتراض جو ان کے اس عقیدہ پر کیا گیا تھا کہ تمام گنہگاروں کی لعنت مسیح پر آپڑی جس کا ماحصل یہ تھا کہ مسیح کا دل خدا تعالیٰ کی معرفت اور محبت سے بالکل خالی ہو گیا تھا اور درحقیقت وہ خدا کا دشمن ہو گیا تھا.یہ ایسا اعتراض تھا کہ عقیدہ کفارہ کو باطل کرتا تھا.کیونکہ جب کہ لعنت اپنے مفہوم کے رو سے مسیح جیسے راستباز انسان پر ہرگز جائز نہیں تو پھر کفارہ کی چھت جس کا شہتیر لعنت ہے کیونکر ٹھہر سکتی ہے.ایسا ہی وہ اعتراض کہ خدا کا کوئی فعل اس کی قدیم عادت سے مخالف نہیں اور عادت کثرت اور کلیت کو چاہتی ہے.پس اگر در حقیقت بیٹے کو بھیجنا خدا کی عادت میں داخل ہے تو خدا کے بہت سے بیٹے چاہئیں
۷۱۵ تا عادت کا مفہوم جو کثرت کو چاہتا ہے ثابت ہو اور تا بعض بیٹے جنات کے لئے مصلوب ہوں اور بعض انسانوں کے لئے اور بعض ان مخلوقات کے لئے جو دوسرے اجرام میں آباد ہیں.یہ اعتراض بھی ایسا تھا کہ ایک لحظہ کے لئے بھی اس میں غور کرنا فی الفور عیسائیت کی تاریکی سے انسان کو چھڑا دیتا ہے.ایسا ہی یہ اعتراض کہ کفارہ اس وجہ سے بھی باطل ہے کہ اس سے یا تو یہ مقصود ہوگا کہ گناہ بالکل سرزد نہ ہوں اور یا یہ مقصود ہوگا کہ ہر ایک قسم کے گناہ خواہ حق اللہ کی قسم میں سے اور خواہ حق العباد کی قسم میں سے ہوں کفارہ کے ماننے سے ہمیشہ معاف ہوتے رہتے ہیں.سو پہلی شق تو صریح البطلان ہے کیونکہ یورپ کے مردوں اور عورتوں پر نظر ڈال کر دیکھا جاتا ہے کہ وہ کفارہ کے بعد ہرگز گناہ سے بچ نہیں سکے.اور ہر ایک قسم کے گناہ یورپ کے خواص اور عوام میں موجود ہیں.بھلا یہ بھی جانے دو.نبیوں کے وجود کو دیکھو جن کا ایمان آوروں سے زیادہ مضبوط تھا.وہ بھی گناہ سے بچ نہ سکے.حواری بھی اس بلا میں گرفتار ہو گئے.پس اس میں کچھ شک نہیں کہ کفارہ ایسا بند نہیں ٹھہر سکتا کہ جو گناہ کے سیلاب سے روک سکے.رہی یہ دوسری بات کہ کفارہ پر ایمان لانے والے گناہ کی سزا سے مستثنیٰ رکھے جائیں گے خواہ وہ چوری کریں یا ڈاکہ ماریں.خون کریں یا بدکاری کی مکروہ حالتوں میں مبتلا رہیں تو خدا ان سے کچھ مؤاخذہ نہیں کرے گا.یہ خیال بھی سراسر غلط ہے جس سے شریعت کی پاکیزگی سب اُٹھ جاتی ہے اور خدا کے ابدی احکام منسوخ ہو جاتے ہیں.( کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰،۵۹) افسوس کہ عیسائیوں کو یہ دکھانا چاہئے تھا کہ یہ یقین ہستی باری جو انسان کو خدا ترسی کی آنکھ بخشتا ہے اور گنہ کے خس وخاشاک کو جلاتا ہے.اس کا سامان انجیل نے اُن کو کیا بخشا ہے؟ بے ہودہ طریقوں سے گنہ کیونکر دُور ہوسکتا ہے؟ افسوس کہ یہ لوگ نہیں سمجھے کہ یہ کیسا ایک بے حقیقت امر اور ایک فرضی نقشہ کھینچنا ہے کہ تمام دنیا کے گناہ ایک شخص پر ڈالے گئے اور گنہگاروں کی لعنت اُن سے لی گئی اور یسوع کے دل پر رکھی گئی.اس سے تو لازم آتا ہے کہ اس کا رروائی کے بعد بجز یسوع کے ہر ایک کو پاک زندگی اور خدا کی معرفت حاصل ہو گئی ہے.مگر نعوذ باللہ یسوع ایک ایسی لعنت کے نیچے دبایا گیا جو کروڑہا لعنتوں کا مجموعہ تھی لیکن جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک انسان کے گناہ اس کے ساتھ ہیں اور فطرت نے جس قدر کسی کو کسی جذ بہ نفسانی یا افراط اور تفریط کا حصہ دیا ہے وہ اس کے وجود میں محسوس ہو رہا ہے گو وہ یسوع کو مانتا ہے یا نہیں تو اس سے ثابت ہے کہ جیسا کہ لعنتی زندگی والوں کی لعنتی زندگی ان سے علیحدہ نہیں ہوسکی.ایسا ہی وہ یسوع پر بھی پڑ نہیں سکی کیونکہ جبکہ لعنت اپنے محل پر خوب چسپاں ہے تو وہ یسوع کی طرف کیونکر منتقل
ہو سکے گی اور یہ عجیب ظلم ہے کہ ہر ایک خبیث اور ملعون جو یسوع پر ایمان لاوے تو اس کی لعنت یسوع پر پڑے اور اس شخص کو بری اور پاکدامن سمجھا جائے.پس ایسا غیر منقطع سلسلہ لعنتوں کا جو قیامت تک ممتد رہے گا.اگر وہ ہمیشہ تازہ طور پر غریب یسوع پر ڈالا جائے تو کس زمانے میں اس کو لعنتوں سے سبکدوشی ہوگی....اس سے تو ماننا پڑتا ہے کہ یسوع کے لئے وہ دن پھر کبھی نہیں آئیں گے جو اس کو خدا کی محبت اور معرفت کے نور کے سایہ میں رکھنے والے ہوں پس ایسے عقیدہ سے اگر کچھ حاصل ہوا تو وہ یہی ہے کہ ان لوگوں نے ایک خدا کے مقدس کو ایک غیر منقطع ناپاکی میں ڈالنے کا ارادہ کیا ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۳ ۶۴) عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ خدا تعالیٰ کا عدل بغیر کفارہ کے کیونکر پورا ہو بالکل مہمل ہے کیونکہ ان کا یہ اعتقاد ہے کہ یسوع باعتبار اپنی انسانیت کے بے گناہ تھا مگر پھر بھی ان کے خدا نے یسوع پر ناحق تمام جہان کی لعنت ڈال کر اپنے عدل کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا.اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے خدا کو عدل کی کچھ بھی پروا نہیں.یہ خوب انتظام ہے کہ جس بات سے گریز تھا اسی کو یہ افتح طریق اختیار کر لیا گیا.واویلا تو یہ تھا کہ کسی طرح عدل میں فرق نہ آوے اور رحم بھی وقوع میں آ جائے مگر ایک بے گناہ کے گلے پر ناحق چھری پھیر کر نہ عدل قائم رہ سکا اور نہ رحم.لیکن یہ وسوسہ کہ عدل اور رحم دونوں خدا تعالیٰ کی ذات میں جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ عدل کا تقاضا ہے کہ سزا دی جائے اور رحم کا تقاضا ہے کہ در گذر کی جائے.یہ ایک ایسا دھوکا ہے کہ جس میں قلت تدبر سے کو نہ اندیش عیسائی گرفتار ہیں.وہ غور نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ کا عدل بھی تو ایک رحم ہے..یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اصل صفت رحم ہے اور عدل عقل اور قانون عطا کرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور حقیقت میں وہ بھی ایک رحم ہے جو اور رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.جب کسی انسان کو عقل عطا ہوتی ہے اور بذریعہ عقل وہ خدا تعالیٰ کے حدود اور قوانین سے واقف ہوتا ہے تب اس حالت میں وہ عدل کے مواخذہ کے نیچے آتا ہے لیکن رحم کے لئے عقل اور قانون کی شرط نہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ نے رحم کر کے انسانوں کو سب سے زیادہ فضیلت دینی چاہی اس لئے اس نے انسانوں کے لئے عدل کے قواعد اور حدود مرتب کئے سو عدل اور رحم میں تناقض سمجھنا جہالت ہے.ایک اعتراض جو میں نے پادریوں کے اصول پر کیا تھا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ” انسان اور تمام حیوانات کی موت آدم کے گناہ کا پھل ہے حالانکہ یہ خیال دو طور سے صحیح نہیں ہے اول یہ کہ کوئی محقق
212 اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ آدم کے وجود سے پہلے بھی ایک مخلوقات دنیا میں رہ چکی ہے اور وہ مرتے بھی تھے.اور اس وقت نہ آدم موجود تھا اور نہ آدم کا گناہ.پس یہ موت کیونکر پیدا ہوگئی.دوسرے یہ کہ اس میں شک نہیں کہ آدم بہشت میں بغیر ایک منع کئے ہوئے پھل کے اور سب چیزیں کھا تا تھا.پس کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ وہ گوشت بھی کھاتا ہوگا.اس صورت میں بھی آدم کے گناہ سے پہلے حیوانات کی موت ثابت ہوتی ہے اور اگر اس سے بھی درگذر کریں تو کیا ہم دوسرے امر سے بھی انکار کر سکتے ہیں کہ آدم بہشت میں ضرور پانی پیتا تھا کیونکہ کھانا اور پینا ہمیشہ سے ایک دوسرے سے لازم پڑے ہوئے ہیں اور طبعی تحقیقات سے ثابت ہے کہ ہر ایک قطرہ میں کئی ہزار کیڑے ہوتے ہیں.پس کچھ شک نہیں کہ آدم کے گناہ سے پہلے کروڑہا کیڑے مرتے تھے.پس اس سے بہر حال ماننا پڑتا ہے کہ موت گناہ کا پھل نہیں اور یہ امر عیسائیوں کے اصول کو باطل کرتا ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۲ تا ۷۴ ) عیسائی اپنے اصول کے موافق اعمال صالحہ کو کچھ چیز نہیں سمجھتے اور ان کی نظر میں یسوع کا کفارہ نجات پانے کے لئے ایک کافی تدبیر ہے.لیکن علاوہ اس بات کے کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یسوع کا کفارہ نہ تو عیسائیوں کو بدی سے بچا سکا اور نہ یہ بات صحیح ہے کہ کفارہ کی وجہ سے ہر ایک بدی اُن کو حلال ہو گئی.ایک اور امر منصفوں کے لئے قابل غور ہے اور وہ یہ کہ عقلی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ نیک کام بلاشبہ اپنے اندر ایک ایسی تاثیر رکھتے ہیں جو نیکو کار کو وہ تاثیر نجات کا پھل بخشتی ہے کیونکہ عیسائیوں کو بھی اس بات کا اقرار ہے کہ بدی اپنے اندر ایک ایسی تاثیر رکھتی ہے کہ اس کا مرتکب ہمیشہ کے جہنم میں جاتا ہے تو اس صورت میں قانون قدرت کے اس پہلو پر نظر ڈال کر یہ دوسرا پہلو بھی ماننا پڑتا ہے کہ علی ہذا القیاس نیکی بھی اپنے اندر ایک تاثیر رکھتی ہے کہ اس کا بجالانے والا وارث نجات بن سکتا ہے.اور منجملہ ہمارے اعتراضات کے ایک یہ اعتراض بھی تھا کہ جس فدیہ کو عیسائی پیش کرتے ہیں وہ خدا کے قدیم قانونِ قدرت کے بالکل مخالف ہے کیونکہ قانون قدرت میں کوئی اس بات کی نظیر نہیں کہ ادنی کے بچانے کے لئے اعلیٰ کو مارا جائے.ہمارے سامنے خدا کا قانون قدرت ہے.اس پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیشہ ادنی اعلیٰ کی حفاظت کے لئے مارے جاتے ہیں چنانچہ جس قدر دنیا میں جانور ہیں یہاں تک کہ پانی کے کیڑے وہ سب انسان کے بچانے کے لئے جو اشرف المخلوقات ہے کام میں آ رہے ہیں.پھر یسوع کے خون کا فدیہ کس قدر اس قانون کے مخالف ہے جو صاف صاف نظر آ رہا ہے اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جو زیادہ قابل قدر اور پیارا ہے اسی کے بچانے کے لئے ادنی کو اس اعلیٰ پر
ZIA قربان کیا جاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے انسان کی جان بچانے کے لئے کروڑہا حیوانوں کو بطور فدیہ کے دیا ہے اور ہم تمام انسان بھی فطرتاً ایسا ہی کرنے کی طرف راغب ہیں تو پھر خود سوچ لو کہ عیسائیوں کا فدیہ خدا کے قانونِ قدرت سے کس قدر دور پڑا ہوا ہے.ایک اور اعتراض ہے جو ہم نے کیا تھا اور وہ یہ ہے کہ یسوع کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ موروثی اور کسی گناہ سے پاک ہے.حالانکہ یہ صریح غلط ہے.عیسائی خود مانتے ہیں کہ یسوع نے اپنا تمام گوشت و پوست اپنی والدہ سے پایا تھا اور وہ گناہ سے پاک نہ تھی اور نیز عیسائیوں کا یہ بھی اقرار ہے کہ ہر ایک درد اور دکھ گناہ کا پھل ہے اور کچھ شک نہیں کہ یسوع بھوکا بھی ہوتا تھا اور پیاسا بھی اور بچپن میں قانون قدرت کے موافق خسرہ بھی اُس کو نکلا ہو گا اور چیچک بھی اور دانتوں کے نکلنے کے دُکھ بھی اٹھائے ہوں گے اور موسموں کے تپوں میں بھی گرفتار ہوتا ہوگا.اور بموجب اصول عیسائیوں کے یہ سب گناہ کے پھل ہیں پھر کیونکر اس کو پاک فدیہ سمجھا گیا.علاوہ اس کے جبکہ رُوح القدس کا تعلق صرف اسی حالت میں بموجب اصول عیسائیوں کے ہو سکتا تھا کہ جب کوئی شخص ہر ایک طرح سے گناہ سے پاک ہو تو پھر یسوع جو بقول ان کے موروثی گناہ سے پاک نہیں تھا اور نہ گناہوں کے پھل سے بیچ سکا اس سے کیونکر روح القدس نے تعلق کر لیا بظاہر اس سے زیادہ تر ملک صدق سالم کا حق تھا کیونکہ بقول عیسائیوں کے وہ ہر طرح کے گناہ سے پاک تھا.اور عیسائیوں کے اصول پر ایک ہمارا یہ اعتراض تھا کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ نجات کا اصل ذریعہ گناہوں سے پاک ہونا ہے اور پھر باوجود تسلیم اس بات کے گناہوں سے پاک ہونے کا حقیقی طریقہ بیان نہیں کرتے بلکہ ایک قابل شرم بناوٹ کو پیش کرتے ہیں جس کو گناہوں سے پاک ہونے کے ساتھ کوئی حقیقی رشتہ نہیں.یہ بات نہایت صاف اور ظاہر ہے کہ چونکہ انسان خدا کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس لئے اس کا تمام آرام اور ساری خوشحالی صرف اسی میں ہے کہ وہ سارا خدا کا ہی ہو جائے اور حقیقی راحت کبھی ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک انسان اس حقیقی رشتہ کو جو اس کو خدا سے ہے مکمن قوت سے حَيَّزِ فعل میں نہ لاوے لیکن جب انسان خدا سے منہ پھیر لیوے تو اس کی مثال ایسی ہو جاتی ہے جیسا کہ کوئی شخص اُن کھڑکیوں کو بند کر دیوے جو آفتاب کی طرف تھیں اور کچھ شک نہیں کہ اُن کے بند کرنے کے ساتھ ہی ساری کوٹھڑی میں اندھیرا پھیل جائے گا اور وہ روشنی جو محض آفتاب سے ملتی ہے یکلخت دور ہو کر ظلمت پیدا ہو جائے گی اور وہی ظلمت ہے جو ضلالت اور جہنم سے تعبیر کی جاتی ہے کیونکہ دکھوں کی
واء وہی جڑ ہے اور اس ظلمت کا دور ہونا اور اس جہنم سے نجات پانا اگر قانون قدرت کے طریق پر تلاش کی جائے تو کسی کے مصلوب کرنے کی حاجت نہیں.بلکہ وہی کھڑکیاں کھول دینی چاہئیں جو ظلمت کی باعث ہوئی تھیں.کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ ہم درحالیکہ نور پانے کی کھڑکیوں کے بند ر کھنے پر اصرار کریں کسی روشنی کو پا سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں.سو گناہ کا معاف ہونا کوئی قصہ کہانی نہیں جس کا ظہور کسی آئندہ زندگی پر موقوف ہو.اور یہ بھی نہیں کہ یہ امور محض بے حقیقت اور مجازی گورنمنغوں کی نافرمانیوں اور قصور بخشی کے رنگ میں ہیں بلکہ اس وقت انسان کو مجرم یا گنہ گار کہا جاتا ہے کہ جب وہ خدا سے اعراض کر کے اس روشنی کے مقابلہ سے پرے ہٹ جاتا اور اس چمک سے اِدھر اُدھر ہو جاتا ہے جو خدا سے اُترتی اور دلوں پر نازل ہوتی ہے.اس حالت موجودہ کا نام خدا کی کلام میں جُنَاخ ہے جس کو پارسیوں نے مبدل کر کے گناہ بنا لیا ہے اور جنح جو اس کا مصدر ہے اس کے معنے ہیں میل کرنا اور اصل مرکز سے ہٹ جانا.پس اس کا نام جُنَاحُ یعنی گناہ اس لئے ہوا کہ انسان اعراض کر کے اس مقام کو چھوڑ دیتا ہے جو الہی روشنی پڑنے کا مقام ہے اور اس خاص مقام سے دوسری طرف میل کر کے اُن نوروں سے اپنے تئیں دُور ڈالتا ہے جو اس سمت مقابل میں حاصل ہو سکتے ہیں.ایسا ہی جرم کا لفظ جس کے معنی بھی گناہ ہیں جرم سے مشتق ہے اور جرم عربی زبان میں کاٹنے کو کہتے ہیں.پس مجرم کا نام اس لئے جرم ہوا کہ جرم کا مرتکب اپنے تمام تعلقات خدا تعالیٰ سے کا تنا ہے اور باعتبار مفہوم کے جرم کا لفظ جناح کے لفظ سے سخت تر ہے کیونکہ جناح صرف میل کا نام ہے جس میں کسی طرح کا ظلم ہو مگر مجرم کا لفظ کسی گناہ پر اس وقت صادق آئے گا کہ جب ایک شخص عمد أخدا کے قانون کو تو ڑ کر اور اس کے تعلقات کی پرواہ نہ رکھ کر کسی ناکردنی امر کا دیدہ و دانستہ ارتکاب کرتا ہے.اب جبکہ حقیقی پاکیزگی کی حقیقت یہ ہوئی جو ہم نے بیان کی ہے تو اب اس جگہ طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ گم شدہ انوار جن کو انسان تاریکی سے محبت کر کے کھو بیٹھتا ہے کیا وہ صرف کسی شخص کو مصلوب ماننے سے مل سکتے ہیں؟ سو جواب یہ ہے کہ یہ خیال بالکل غلط اور فاسد ہے بلکہ اصل حقیقت یہی ہے کہ ان نوروں کے حاصل کرنے کے لئے قدیم سے قانون قدرت یہی ہے جو ہم اُن کھڑکیوں کو کھول دیں جو اس آفتاب حقیقی کے سامنے ہیں.تب وہ کرنیں اور شعائیں جو بند کرنے سے گم ہو گئی تھیں یک دفعہ پھر پیدا ہو جائیں گی.دیکھو خدا کا جسمانی قانون قدرت بھی یہی گواہی دے رہا ہے اور کسی ظلمت کو ہم ڈور نہیں کر سکتے جب تک ایسی کھڑکیاں نہ کھول دیں جن سے سیدھی شعائیں ہمارے گھر میں پڑ سکتی
۷۲۰ ہیں.سو اس میں کچھ شک نہیں کہ عقل سلیم کے نزدیک یہی صحیح ہے جو ان کھڑکیوں کو کھولا جائے تب ہم نہ صرف نور کو پائیں گے بلکہ اس مبدء انوار کو بھی دیکھ لیں گے.غرض گناہ اور غفلت کی تاریکی دور کرنے کے لئے نور کا پانا ضروری ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہو وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بدتر یعنی خدا کے دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس اسی جہان سے ملتے ہیں.جس کو اس جہان میں نہیں ملے اُس کو دوسرے جہان میں بھی نہیں ملیں گے.راستباز جو قیامت کے دن خدا کو دیکھیں گے وہ اسی جگہ سے دیکھنے والے حواس ساتھ لے جائیں گے اور جو شخص اس جگہ خدا کی آواز نہیں سنے گا وہ اس جگہ بھی نہیں سنے گا.خدا کو جیسا کہ خدا ہے بغیر کسی غلطی کے پہچاننا اور اسی عالم میں بچے اور صحیح طور پر اس کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل کرنا یہی تمام روشنی کا مبدء ہے.اسی مقام سے ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا یہ مذہب ہے کہ خدا پر بھی موت اور دُکھ اور مصیبت اور جہالت وارد ہو جاتی ہے اور وہ بھی ملعون ہو کر کچی پاکیزگی اور رحمت اور علوم حقہ سے محروم ہو جاتا ہے.ایسے لوگ گمراہی کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں اور سچے علوم اور حقیقی معارف جو درحقیقت مدار نجات ہیں ان سے وہ لوگ در حقیقت بے خبر ہیں.نجات کا مفت ملنا اور اعمال کو غیر ضروری ٹھہرانا جو عیسائیوں کا خیال ہے یہ اُن کی سراسر غلطی ہے.اُن کے فرضی خدا نے بھی چالیس روزے رکھے تھے.اور موسی نے کوہ سینا پر روزے رکھے.پس اگر اعمال کچھ چیز نہیں ہیں تو یہ دونوں بزرگ اس بے ہودہ کام میں کیوں پڑے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بدی سے سخت بے زار ہے تو ہمیں اس سے سمجھ آتا ہے کہ وہ نیکی کرنے سے نہایت درجہ خوش ہوتا ہے.پس اس صورت میں نیکی بدی کا کفارہ ٹھہرتی ہے.اور جب ایک انسان بدی کرنے کے بعد ایسی نیکی بجالایا جس سے خدا تعالیٰ خوش ہوا تو ضرور ہے کہ پہلی بات موقوف ہو کر دوسری بات قائم ہو جائے ورنہ خلاف ادب ہو گا.اسی کے مطابق اللہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ کے یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کر دیتی ہیں.ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بدی میں ایک زہریلی خاصیت ہے کہ وہ ہلاکت تک پہنچاتی ہے.اسی طرح ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ نیکی میں ایک تریاقی خاصیت ہے کہ وہ موت سے بچاتی ہے مثلاً گھر کے تمام دروازوں کو بند کر دینا یہ ایک ے بنی اسرآئیل ۷۳ هود: ۱۱۵
۷۲۱ بدی ہے جس کی لازمی تاثیر یہ ہے کہ اندھیرا ہو جائے.پھر اس کے مقابل پر یہ ہے کہ گھر کا دروازہ جو آفتاب کی طرف ہے کھولا جائے اور یہ ایک نیکی ہے جس کی لازمی خاصیت یہ ہے کہ گھر کے اندر گم شدہ روشنی واپس آ جائے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶ ۷ تا ۸۱ ) آپ کا یہ کہنا کہ حضرت مقدس نبوی کی تعلیم یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہنے سے گناہ دُور ہو جاتے ہیں.یہ بالکل سچ ہے اور یہی واقعی حقیقت ہے کہ جو محض خدا کو واحد لاشریک جانتا ہے اور ایمان لاتا ہے کہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسی قادر یکتا نے بھیجا ہے تو بے شک اگر اس کلمہ پر اس کا خاتمہ ہو تو نجات پا جائے گا.آسمانوں کے نیچے کسی کی خود کشی سے نجات نہیں.ہرگز نہیں.اور اس سے زیادہ کون پاگل ہو گا کہ ایسا خیال بھی کرے مگر خدا کو واحد لاشریک سمجھنا اور ایسا مہربان خیال کرنا کہ اس نے نہایت رحم کر کے دنیا کو ضلالت سے چھڑانے کے لئے اپنا رسول بھیجا جس کا نام محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے.یہ ایک ایسا اعتقاد ہے کہ اس پر یقین کرنے سے روح کی تاریکی دور ہوتی ہے اور نفسانیت دور ہو کر اس کی جگہ تو حید لے لیتی ہے.آخر تو حید کا زبردست جوش تمام دل پر محیط ہو کر اسی جہان میں بہشتی زندگی شروع ہو جاتی ہے جیسا تم دیکھتے ہو کہ نور کے آنے سے ظلمت قائم نہیں رہ سکتی ایسا ہی جب ALLA NAWAT E TANA الله کا نورانی پر تو دل پر پڑتا ہے تو نفسانی ظلمت کے جذبات کالمعدوم ہو جاتے ہیں.گناہ کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ سرکشی کی ملونی سے نفسانی جذبات کا شور وغوغا ہو جس کی متابعت کی حالت میں ایک شخص کا نام گنہگار رکھا جاتا ہے اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کے معنے جو لغت عرب کے موار داستعمال سے معلوم ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ لَا مَطْلُوبَ لِى وَلَا مَحْبُوبَ لِي وَلَا مَعْبُرُدَ لِى وَلَا مُطَاعَ لِى إِلَّا الله یعنی بجز اللہ کے اور کوئی میرا مطلوب نہیں اور محبوب نہیں اور معبود نہیں اور مطاع نہیں.اب ظاہر ہے کہ یہ معنے گناہ کی حقیقت اور گناہ کے اصل منبع سے بالکل مخالف پڑے ہیں.پس جو شخص ان معنی کو خلوص دل کے ساتھ اپنی جان میں جگہ دے گا تو بالضرورت مفہوم مخالف اس کے دل سے نکل جائے گا کیونکہ ضدین ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں.پس جب نفسانی جذبات نکل گئے تو یہی وہ حالت ہے جس کو کچی پاکیزگی اور حقیقی راستبازی کہتے ہیں اور خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان لانا جو دوسرے جز و کلمہ کا مفہوم ہے اس کی ضرورت یہ ہے کہ تا خدا کے کلام پر بھی ایمان حاصل ہو جائے کیونکہ جو شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ میں خدا کا فرمانبردار بننا چاہتا ہوں
۷۲۲ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے فرمانوں پر ایمان بھی لاوے اور فرمان پر ایمان لانا بجز اس کے ممکن نہیں کہ اُس پر ایمان لاوے جس کے ذریعہ سے دنیا میں فرمان آیا.پس یہ حقیقت کلمہ کی ہے.( نور القرآن نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۱۸ تا ۴۲۰)
۷۲۳ بعث بعد الموت شیطان کے وساوس بہت ہیں اور سب سے زیادہ خطرناک وسوسہ اور شبہ جو انسانی دل میں پیدا کر کے ا خَسِرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة کر دیتا ہے آخرت کے متعلق ہے کیونکہ تمام نیکیوں اور راستبازیوں کا بڑا بھاری ذریعہ منجملہ دیگر اسباب اور وسائل کے آخرت پر ایمان بھی ہے اور جب انسان آخرت اور اس کی باتوں کو قصہ اور داستان سمجھے تو سمجھ لو کہ وہ رڈ ہو گیا اور دونوں جہانوں سے گیا گذرا ہوا.اس لئے کہ آخرت کا ڈر بھی تو انسان کو خائف اور ترساں بنا کر اس کو معرفت کے نیچے چشمہ کی طرف کشاں کشاں لے آتا ہے اور کچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خدا ترسی کے حاصل نہیں ہوسکتی ہے.پس یاد رکھو! کہ آخرت کے متعلق وساوس کا پیدا ہونا ایمان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے اور خاتمہ بالخیر میں فتور آجاتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۶۴ - ملفوظات جلد اول صفحه ۳۴۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) واضح رہے کہ قرآنی تعلیم کی رو سے تین عالم ثابت ہوتے ہیں.اول یہ کہ دنیا جس کا نام عالم کسب اور نشاء اولی ہے.اسی دنیا میں انسان اکتساب نیکی کا یا بدی کا کرتا ہے اور اگر چہ عالم بعث میں نیکیوں کے واسطے ترقیات ہیں مگر وہ محض خدا کے فضل سے ہیں.انسان کے کسب کو اُن میں دخل نہیں.(۲) اور دوسرے عالم کا نام برزخ ہے.اصل میں لفظ برزخ لغت عرب میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو دو چیزوں کے درمیان واقع ہو.سو چونکہ یہ زمانہ عالم بحث اور عالم نشاء اولی میں واقع ہے اس لئے اس کا نام برزخ ہے لیکن یہ لفظ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا کی بنا پڑی عالم درمیانی پر بولا گیا ہے اس لئے اس لفظ میں عالم درمیانی کے وجود پر ایک عظیم الشان شہادت مخفی ہے.برزخ کی حالت وہ حالت ہے کہ جب یہ نا پائیدار ترکیب انسانی تفرق پذیر ہو جاتی ہے اور روح الگ اور جسم الگ ہو جاتا ہے..گوموت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہو جاتا ہے مگر عالم برزخ میں مستعار طور پر ہر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لئے جسم ملتا ہے.وہ جسم اس جسم کی قسم میں سے نہیں ہوتا بلکہ ایک نور سے یا ایک تاریکی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو جسم تیار ہوتا ہے گویا کہ اس عالم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں.ایسا ہی خدا کے کلام میں بار بار
۷۲۴ ذکر آیا ہے اور بعض جسم نورانی اور بعض ظلماتی قرار دیئے ہیں جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ظلمت سے تیار ہوتے ہیں.اگر چہ یہ راز ایک نہایت دقیق راز ہے مگر غیر معقول نہیں.انسانِ کامل اسی زندگی میں ایک نورانی وجود اس کیفیت جسم کے علاوہ پاسکتا ہے اور عالم مکاشفات میں اس کی بہت مثالیں ہیں.اگر چہ ایسے شخص کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے جو صرف ایک موٹی عقل کی حد تک ٹھہرا ہوا ہے لیکن جن کو عالم مکاشفات میں سے کچھ حصہ ہے وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے تیار ہوتا ہے تعجب اور استبعاد کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے بلکہ اس مضمون سے لذت اٹھائیں گے.غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے ملتا ہے یہی عالم برزخ میں نیک و بد کی جزا کا موجب ہو جاتا ہے.میں اس میں صاحب تجربہ ہوں.مجھے کشفی طور پر مین بیداری میں با رہا بعض مردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا ہے کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے.غرض میں اس کو چہ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں اور میں زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ایسا ہی ضرور مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک جسم ملتا ہے خواہ نورانی خواہ ظلماتی.انسان کی یہ غلطی ہوگی اگر وہ ان نہایت باریک معارف کو صرف عقل کے ذریعہ سے ثابت کرنا چاہے بلکہ جاننا چاہئے کہ جیسا کہ آنکھ شیریں چیز کا مزہ نہیں بتلا سکتی اور نہ زبان کسی چیز کو دیکھ سکتی ہے.ایسا ہی وہ علوم معاد جو پاک مکاشفات سے حاصل ہو سکتے ہیں صرف عقل کے ذریعہ سے ان کا عقدہ حل نہیں ہوسکتا.خدا نے اس دنیا میں مجہولات کے جاننے کے لئے علیحدہ علیحدہ وسائل رکھے ہیں.پس ہر ایک چیز کو اس کے وسیلہ کے ذریعہ سے ڈھونڈو تب اُسے پالو گے.ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدا نے ان لوگوں کو جو بدکاری اور گمراہی میں پڑ گئے اپنے کلام میں مردہ کے نام سے موسوم کیا ہے اور نیکو کاروں کو زندہ قرار دیا ہے.اس میں بھید یہ ہے کہ جو لوگ خدا سے غافل ہوئے ان کی زندگی کے اسباب جو کھانا پینا اور شہوتوں کی پیروی تھی منقطع ہو گئے اور روحانی غذا سے ان کو کچھ حصہ نہ تھا.پس وہ در حقیقت مر گئے اور وہ صرف عذاب اُٹھانے کے لئے زندہ ہوں گے.اسی بھید کی طرف اللہ جل شانہ نے اشارہ فرمایا ہے.جیسا کہ وہ کہتا ہے مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى لا یعنی جو شخص مجرم بن کر خدا کے پاس آئے گا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے وہ اس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا مگر جو لوگ خدا کے طه : ۷۵
۷۲۵ محبت ہیں وہ موت سے نہیں مرتے کیونکہ ان کا پانی اور ان کی روٹی ان کے ساتھ ہوتی ہے.پھر برزخ کے بعد وہ زمانہ ہے جس کا نام عالم بعث ہے.اس زمانہ میں ہر ایک روح نیک ہو یا بد، صالح ہو یا فاسق ایک کھلا کھلا جسم حاصل کرے گی اور یہ دن خدا کی اُن پوری تجلیات کے لئے مقرر کیا شخص گیا ہے جس میں ہر ایک انسان اپنے رب کی ہستی سے پورے طور پر واقف ہو جائے گا اور ہر ایک می اپنی جزا کے انتہائی نقطہ تک پہنچے گا.یہ تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ خدا سے یہ کیونکر ہو سکے گا کیونکہ وہ ہر ایک قدرت کا مالک ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے.اَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ - وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ.قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَاهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ...اَوَلَيْسَ الَّذِى خَلَقَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ بِقَدِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلْقُ الْعَلِيْمُ.إِنَّمَا أَمْرَةً إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُوْلَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ.فَسُبْحْنَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲ ۴۰ تا ۴۰۷) اسلام میں یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی فلاسفی ہے کہ ہر ایک کو قبر میں ہی ایسا جسم مل جاتا ہے کہ جو لذت اور عذاب کے ادراک کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے.ہم ٹھیک ٹھیک نہیں کہہ سکتے کہ وہ جسم کس مادہ سے تیار ہوتا ہے کیونکہ یہ فانی جسم تو کالعدم ہو جاتا ہے اور نہ کوئی مشاہدہ کرتا ہے کہ در حقیقت یہی جسم قبر میں زندہ ہوتا ہے.اس لئے کہ بسا اوقات یہ جسم جلایا بھی جاتا ہے اور عجائب گھروں میں لاشیں بھی رکھی جاتی ہیں اور مدتوں تک قبر سے باہر بھی رکھا جاتا ہے.اگر یہی جسم زندہ ہو جایا کرتا تو البتہ لوگ اس کو دیکھتے مگر بایں ہمہ قرآن سے زندہ ہو جانا ثابت ہے.لہذا یہ ماننا پڑتا ہے کہ کسی اور جسم کے ذریعہ سے جس کو ہم نہیں دیکھتے انسان کو زندہ کیا جاتا ہے اور غالباً وہ جسم اسی جسم کے لطائف جوہر سے بنتا ہے.تب جسم ملنے کے بعد انسانی قومی بحال ہوتے ہیں اور یہ دوسرا جسم چونکہ پہلے جسم کی نسبت نہایت لطیف ہوتا ہے اس لئے اس پر مکاشفات کا دروازہ نہایت وسیع طور پر کھلتا ہے اور معاد کی تمام حقیقتیں جیسی کہ وہ ہیں كَمَا هِی ہی نظر آ جاتی ہیں.تب خطا کرنے والوں کو علاوہ جسمانی عذاب کے ایک حسرت کا عذاب بھی ہوتا ہے.غرض یہ اصول متفق علیہ السلام میں ہے کہ قبر کا عذاب یا آرام بھی جسم کے ذریعہ يس : ۷۶ تا ۷۸ يس : ۸۲ تا ۸۴
سے ہی ہوتا ہے اور اسی بات کو دلائل عقلیہ بھی چاہتے ہیں.کیونکہ متواتر تجربہ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ انسان کے روحانی قومی بغیر جسم کے جوڑ کے ہرگز ظہور پذیر نہیں ہوتے.( کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۷۰-۷۱) جاننا چاہئے کہ عالم آخرت در حقیقت دنیوی عالم کا ایک عکس ہے اور جو کچھ دنیا میں روحانی طور پر ایمان اور ایمان کے نتائج اور کفر اور کفر کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں.وہ عالم آخرت میں جسمانی طور پر ظاہر ہو جائیں گے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ اغلی ا یعنی جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اُس جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا.ہمیں اس تمنلی وجود سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے اور ذرا سوچنا چاہئے کہ کیونکر روحانی امور عالم رؤیا میں متمثل ہو کر نظر آ جاتے ہیں اور عالم کشف تو اس سے بھی عجیب تر ہے کہ وجود عدم غیبت حس اور بیداری کے روحانی امور طرح طرح کے جسمانی اشکال میں انہیں آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ بسا اوقات عین بیداری میں اُن روحوں سے ملاقات ہوتی ہے جو اس دنیا سے گذر چکے ہیں اور وہ اسی دنیوی زندگی کے طور پر اپنے اصلی جسم میں اسی دنیا کے کپڑوں میں سے ایک پوشاک پہنے ہوئے نظر آتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں اور بسا اوقات اُن میں سے مقدس لوگ بازنہ تعالی آئندہ کی خبریں دیتے ہیں اور وہ خبریں مطابق واقعہ نکلتی ہیں.بسا اوقات عین بیداری میں ایک شربت یا کسی قسم کا میوہ عالم کشف سے ہاتھ میں آتا ہے اور وہ کھانے میں نہایت لذیذ ہوتا ہے.اور ان سب امور میں یہ عاجز خود صاحب تجربہ ہے.کشف کی اعلیٰ قسموں میں سے یہ ایک قسم ہے کہ بالکل بیداری میں واقع ہوتی ہے.اور یہاں تک اپنے ذاتی تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ ایک شیریں طعام یا کسی قسم کا میوہ یا شربت غیب سے نظر کے سامنے آ گیا ہے اور وہ ایک غیبی ہاتھ سے منہ میں پڑتا جاتا ہے اور زبان کی قوت ذائقہ اس کے لذیذ طعم سے لذت اٹھاتی جاتی ہے اور دوسرے لوگوں سے باتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حواس ظاہری بخوبی اپنا اپنا کام دے رہے ہیں.اور یہ شربت یا میوہ بھی کھایا جا رہا ہے اور اس کی لذت اور حلاوت بھی ایسی ہی کھلی کھلی طور پر معلوم ہوتی ہے بلکہ وہ لذت اس لذت سے نہایت الطف ہوتی ہے اور یہ ہرگز نہیں کہ وہ وہم ہوتا ہے یا صرف بے بنیاد تخیلات ہوتے ہیں بلکہ واقعی طور پر وہ خدا جس کی شان بِكُلّ خَلْقٍ علیم ہے ایک قسم کے خلق کا تماشا دکھا دیتا ہے.پس جبکہ اس قسم کے خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی نمونہ ا بنی اسرآئیل ۷۳
۷۲۷ دکھائی دیتا ہے اور ہر ایک زمانہ کے عارف اس کے بارے میں گواہی دیتے چلے آئے ہیں تو پھر وہ تمثلی خلق اور پیدائش جو آخرت میں ہوگی اور میزان اعمال نظر آئے گی اور پل صراط نظر آئے گا اور ایسا ہی بہت سے اور امور روحانی، جسمانی تشکل کے ساتھ نظر آئیں گے.اس سے کیوں عقلمند تعجب کرے.کیا جس نے یہ سلسلہ تمثلی خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی عارفوں کو دکھا دیا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید ہے کہ وہ آخرت میں بھی دکھاوے بلکہ ان تمثلات کو عالم آخرت سے نہایت مناسبت ہے کیونکہ جس حالت میں اس عالم میں جو کمال انقطاع کا تجتبی گاہ نہیں ہے یہ منگی پیدائش تزکیہ یافتہ لوگوں پر ظاہر ہو جاتی ہے تو پھر عالم آخرت میں اکمل اور اتم انقطاع کا مقام ہے کیوں نظر نہ آوے.یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہئے کہ انسان عارف پر اسی دنیا میں وہ تمام عجائبات کشفی رنگوں میں کھل جاتے ہیں کہ جو ایک محجوب آدمی قصہ کے طور پر قرآن کریم کی ان آیات میں پڑھتا ہے جو معاد کے بارے میں خبر دیتی ہیں.سو جس کی نظر حقیقت تک نہیں پہنچتی وہ ان بیانات سے تعجب میں پڑ جاتا ہے بلکہ بسا اوقات اس کے دل میں اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا عدالت کے دن تخت پر بیٹھنا اور ملائک کا صف باندھے کھڑے ہونا اور ترازو میں عملوں کا تلنا اور لوگوں کا پل صراط پر سے چلنا اور سزا جزا کے بعد موت کو بکرے کی طرح ذبح کر دینا اور ایسا ہی اعمال کا خوش شکل یا بد شکل انسانوں کی طرح لوگوں پر ظاہر ہونا اور بہشت میں دودھ اور شہد کی نہریں چلنا وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں صداقت اور معقولیت سے دور معلوم ہوتی ہیں.الحکم مورخہ ۷ ارجون ۱۹۰۳ء صفحہ ا ملفوظات جلد دوم صفحه ۴۳ ۴۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) موت کے بعد جو کچھ انسان کی حالت ہوتی ہے درحقیقت وہ کوئی نئی حالت نہیں ہوتی بلکہ وہی دنیا کی زندگی کی حالتیں زیادہ صفائی سے کھل جاتی ہیں.جو کچھ انسان کے عقائد اور اعمال کی کیفیت صالحہ یا غیر صالحہ ہوتی ہے وہ اس جہان میں مخفی طور پر اس کے اندر ہوتی ہے اور اس کا تریاق یا زہر ایک چھپی ہوئی تاثیر انسانی وجود پر ڈالتا ہے مگر آنے والے جہان میں ایسا نہیں رہے گا بلکہ وہ تمام کیفیات کھلا کھلا اپنا چہرہ دکھلا ئیں گی.اُس کا نمونہ عالم خواب میں پایا جاتا ہے کہ انسان کے بدن پر جس قسم کے مواد غالب ہوتے ہیں عالم خواب میں اسی قسم کی جسمانی حالتیں نظر آتی ہیں.جب کوئی تیز تپ چڑھنے کو ہوتا ہے تو خواب میں اکثر آگ اور آگ کے شعلے نظر آتے ہیں اور بلغمی تیوں اور ریزش اور زکام کے غلبہ میں انسان اپنے تئیں پانی میں دیکھتا ہے غرض جس طرح کی بیماریوں کے لئے بدن نے تیاری کی ہو وہ کیفیتیں تمثل کے طور پر خواب میں نظر آ جاتی ہیں.پس خواب کے سلسلہ پر غور کرنے سے ہر ایک انسان سمجھ سکتا
۷۲۸ ہے کہ عالم ثانی میں بھی یہی سنت اللہ ہے کیونکہ جس طرح خواب ہم میں ایک خاص تبدیلی پیدا کر کے روحانیات کو جسمانی طور پر تبدیل کر کے دکھلاتا ہے.اُس عالم میں بھی یہی ہوگا اور اس دن ہمارے اعمال اور اعمال کے نتائج جسمانی طور پر ظاہر ہوں گے اور جو کچھ ہم اس عالم سے مخفی طور پر ساتھ لے جائیں گے وہ سب اس دن ہمارے چہرہ پر نمودار نظر آئے گا اور جیسا کہ انسان جو کچھ خواب میں طرح طرح کے تمثلات دیکھتا ہے اور کبھی گمان نہیں کرتا کہ یہ تمثلات ہیں بلکہ انہیں واقعی چیزیں یقین کرتا ہے.ایسا ہی اس عالم میں ہو گا بلکہ خدا تمثلات کے ذریعہ سے اپنی نئی قدرت دکھائے گا.چونکہ وہ قدرت کامل ہے پس اگر ہم تمثلات کا نام بھی نہ لیں اور یہ کہیں کہ وہ خدا کی قدرت سے ایک نئی پیدائش ہے تو یہ تقریر بہت درست اور واقعی اور صحیح ہے.خدا فرماتا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ لا یعنی کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں.سوخدا نے اُن تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں سو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے.پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا اُس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۹۶ تا ۳۹۸) قاعدہ کلی کے طور پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ موت کے بعد جو حالتیں پیش آتی ہیں قرآن شریف نے انہیں تین قسم پر منقسم کیا ہے اور عالم معاد کے متعلق یہ تین قرآنی معارف ہیں جن کو ہم جدا جدا اس جگہ ذکر کرتے ہیں.پہلا دقیقہ معرفت اول یہ دقیقہ معرفت ہے کہ قرآن شریف بار بار یہی فرماتا ہے کہ عالم آخرت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کے تمام نظارے اسی دنیوی زندگی کے اظلال و آثار ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَكُلَّ إِنْسَانِ أَلْزَمْنَهُ طَبِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ كِتبًا يَلْقُهُ مَنْشُورًا یعنی ہم نے اسی دنیا میں ہر ایک شخص کے اعمال کا اثر اس کی گردن سے باندھ رکھا ہے اور انہیں پوشیدہ اثر وں کو ہم قیامت کے دن ظاہر کر دیں گے اور ایک کھلے کھلے اعمال نامہ کی شکل پر دکھا دیں گے.اس آیت میں جو طائر کا لفظ ہے تو واضح ہو کہ طائر اصل میں پرندہ کو کہتے ہیں.پھر استعارہ کے طور پر السجدة: ١٨ بنی اسرآئیل: ۱۴
۷۲۹ اس سے مراد عمل بھی لیا گیا ہے.کیونکہ ہر ایک عمل نیک ہو یا بد ہو وہ وقوع کے بعد پرندہ کی طرح پرواز کر جاتا ہے اور مشقت یا لذت اُس کی کالعدم ہو جاتی ہے اور دل پر اس کی کثافت یا لطافت باقی رہ جاتی ہے.یہ قرآنی اصول ہے کہ ہر ایک عمل پوشیدہ طور پر اپنے نقوش جماتا رہتا ہے جس طور کا انسان کا فعل ہوتا ہے اس کے مناسب حال ایک خدا تعالیٰ کا فعل صادر ہوتا ہے اور وہ فعل اس گناہ کو یا اس کی نیکی کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اس کے نقوش دل پر ، منہ پر، آنکھوں پر، کانوں پر، ہاتھوں پر، پیروں پر لکھے جاتے ہیں اور یہی پوشیدہ طور پر ایک اعمال نامہ ہے جو دوسری زندگی میں کھلے طور پر ظاہر ہو جائے گا.اور پھر ایک دوسری جگہ بہشتیوں کے بارے میں فرماتا ہے.يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ لا یعنی اس دن بھی ایمانی نور جو پوشیدہ طور پر مومنوں کو حاصل ہے کھلے کھلے طور پر اُن کے آگے اور اُن کے داہنے ہاتھ پر دوڑ تا نظر آئے گا.پھر ایک اور جگہ بدکاروں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اَلهُكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ.كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ نَتَرَوُنَ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ.ثُمَّ لَتَسْلُنَ يَوْمَيذِ عَنِ النَّعِيمِ یعنی دنیا کی کثرت حرص و ہوا نے تمہیں آخرت کی تلاش سے روک رکھا یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پڑے.دنیا سے دل مت لگاؤ تم عنقریب جان لو گے کہ دنیا سے دل لگانا اچھا نہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ عنقریب تم جان لو گے کہ دنیا سے دل لگانا اچھا نہیں.اگر تمہیں یقینی علم حاصل ہو تو تم دوزخ کو اسی دنیا میں دیکھ لو گے.پھر برزخ کے عالم میں یقین کی آنکھوں کے ساتھ دیکھو گے.پھر عالم حشر اجساد میں پورے مؤاخذہ میں آ جاؤ گے اور وہ عذاب تم پر کامل طور پر وارد ہو جائے گا اور صرف قال سے نہیں بلکہ حال سے تمہیں دوزخ کا علم حاصل ہو جائے گا.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۴۰۰ تا ۴۰۲) دوسرا دقیقہ معرفت جس کو عالم معاد کے متعلق قرآن شریف نے ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ عالم معاد میں وہ تمام امور جود نیا میں روحانی تھے جسمانی طور پر متمثل ہوں گے.خواہ عالم معاد میں برزخ کا درجہ ہو یا عالم بعث کا درجہ.اس بارے میں جو کچھ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اس میں سے ایک یہ آیت ہے مَنْ كَانَ فِي هَذه أعلى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلا ا یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہو گا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہو گا.اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس جہان کی روحانی الحديد: ١٣ التكاثر : ٩٢ بنی اسرآئیل :۷۳
۷۳۰ نابینائی اس جہان میں جسمانی طور پر مشہود اور محسوس ہو گی.ایسا ہی دوسری آیت میں فرماتا ہے.خُذُوهُ فَغُلُوهُ ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ یعنی اس جہنمی کو پکڑو.اس کی گردن میں طوق ڈالو.پھر دوزخ میں اس کو جلاؤ.پھر ایسی زنجیر میں جو پیمائش میں ستر گز ہے اس کو داخل کرو.جاننا چاہئے کہ ان آیات میں ظاہر فرمایا ہے کہ دنیا کا روحانی عذاب عالم معاد میں جسمانی طور پر نمودار ہو گا.چنانچہ طوق گردن دنیا کی خواہشوں کا جس نے انسان کے سر کو زمین کی طرف جھکا رکھا تھا وہ عالم ثانی میں ظاہری صورت میں نظر آ جائے گا اور ایسا ہی دنیا کی گرفتاریوں کی زنجیر پیروں میں پڑی ہوئی دکھائی دے گی اور دنیا کی خواہشوں کی سوزشوں کی آگ ظاہر بھڑ کی ہوئی نظر آئے گی.فاسق انسان دنیا کی زندگی میں ہوا و ہوس کا ایک جہنم اپنے اندر رکھتا ہے اور ناکامیوں میں اس جہنم کی سوزشوں کا احساس کرتا ہے.پس جبکہ اپنی فانی شہوات سے دور ڈالا جائے گا اور ہمیشہ کی نا امیدی طاری ہوگی تو خدا تعالیٰ ان حسرتوں کو جسمانی آگ کے طور پر اس پر ظاہر کرے گا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ ہے یعنی ان میں اور ان کی خواہشوں کی چیزوں میں جدائی ڈالی جائے گی اور یہی عذاب کی جڑھ ہو گی اور پھر جو فرمایا کہ سترگز کی زنجیر میں اس کو داخل کرو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک فاسق بسا اوقات ستر برس کی عمر پالیتا ہے.بلکہ کئی دفعہ اس دنیا میں اس کو ایسے ستر برس بھی ملتے ہیں کہ خوردسالی کی عمر اور پیر فرتوت ہونے کی عمر الگ کر کے پھر اس قدر صاف اور خالص حصہ عمر کا اس کو ملتا ہے جو عقلمندی اور محنت اور کام کے لائق ہوتا ہے لیکن وہ بد بخت اپنی عمدہ زندگی کے ستر برس دنیا کی گرفتاریوں میں گذارتا ہے اور اس زنجیر سے آزاد ہونا نہیں چاہتا.سو خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ وہی ستر برس جو اس نے گرفتاری دنیا میں گزارے تھے عالم معاد میں ایک زنجیر کی طرح مستمثل ہو جائیں گے جوستر گز کی ہوگی.ہر ایک گز بجائے ایک سال کے ہے.اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف سے بندہ پر کوئی مصیبت نہیں ڈالتا بلکہ وہ انسان کے اپنے ہی بُرے کام اُس کے آگے رکھ دیتا ہے.پھر اسی اپنی سنت کے اظہار میں خدا تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے.انطَلِقُوا إلى ظل ذِي ثَلْثِ شَعَبٍ لَّا ظَلِيْلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللهَبِ سے یعنی اے بدکارو، گرا ہو! سہ گوشہ سایہ کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں جو سایہ کا کام نہیں دے سکتیں اور نہ گرمی سے بچا سکتی ہیں.اس آیت میں تین شاخوں سے مراد قوت سبھی اور بہیمی الحاقة: ٣٢،٣١ سبا : ۵۵ المرسلات: ٣٢،٣١
۷۳۱ اور وہمی ہے.جو لوگ ان تینوں قوتوں کو اخلاقی رنگ میں نہیں لاتے اور ان کی تعدیل نہیں کرتے ان کی یہ قو تیں قیامت میں اس طرح پر نمودار کی جائیں گی کہ گویا تین شاخیں بغیر پتوں کے کھڑی ہیں اور گرمی سے بچا نہیں سکتیں اور وہ گرمی سے جلیں گے.پھر ایسا ہی خدا تعالیٰ اپنی اسی سنت کے اظہار کے لئے بہشتیوں کے حق میں فرماتا ہے.يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ یعنی اس روز تو دیکھے گا کہ مومنوں کا یہ نور جو دنیا میں پوشیدہ طور پر ہے ظاہر ظاہر ان کے آگے اور ان کی دا ہنی طرف دوڑتا ہو گا.اور پھر ایک اور آیت میں فرماتا ہے.يَوْمَ تَبْيَضُ وُجُوهٌ وَ تَسْوَدُّ وُجُوهٌ لا يعني أس ، یعنی دن بعض منہ سیاہ ہو جائیں گے اور بعض سفید اور نورانی ہو جائیں گے.اور پھر ایک اور آیت میں فرماتا ہے.مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهُرُ مِنْ مَّا غَيْرِ اسِنٍ وَأَنْهُرُ مِنْ نَبَن لَمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ وَأَنْهُرُ مِنْ خَمْرٍ لَذَةٍ لِلشَّرِبِيْنَ وَأَنْهُرٌ مِّنْ عَسَلٍ مصفی کے یعنی وہ بہشت جو پرہیز گاروں کو دی جائے گی اُس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک باغ ہے اس میں اس پانی کی نہریں ہیں جو کبھی متعفن نہیں ہوتا اور نیز اس میں اس دودھ کی نہریں ہیں جس کا کبھی مزہ نہیں بدلتا اور نیز اس میں اس شراب کی نہریں ہیں جو سراسر سُرور بخش ہے جس کے ساتھ خمار نہیں اور نیز اس میں اس شہد کی نہریں ہیں جو نہایت صاف ہے جس کے ساتھ کوئی کثافت نہیں.اس جگہ صاف طور پر فرمایا کہ اس بہشت کو مثالی طور پر یوں سمجھ لو کہ ان تمام چیزوں کی اس میں نا پیدا کنار نہریں ہیں.وہ زندگی کا پانی جو عارف دنیا میں روحانی طور پر پیتا ہے اس میں ظاہری طور پر موجود ہے اور وہ روحانی دودھ جس سے وہ شیر خوار بچہ کی طرح رُوحانی طور پر دنیا میں پرورش پاتا ہے بہشت میں ظاہر ظاہر دکھائی دے گا اور وہ خدا کی محبت کی شراب جس سے وہ دنیا میں روحانی طور پر ہمیشہ مست رہتا تھا اور اب بہشت میں ظاہر ظاہر اُس کی نہریں نظر آئیں گی.اور وہ حلاوت ایمانی کا شہد جو دنیا میں روحانی طور پر عارف کے منہ میں جاتا تھا وہ بہشت میں محسوس اور نمایاں نہروں کی طرح دکھائی دے گا اور ہر ایک بہشتی اپنی نہروں اور اپنے باغوں کے ساتھ اپنی روحانی حالت کا اندازہ برہنہ کر کے دکھلاوے گا اور خدا بھی اس دن بہشتیوں کے لئے حجابوں سے باہر آ جائے گا.غرض روحانی حالتیں مخفی نہیں رہیں گی بلکہ جسمانی طور پر نظر آئیں گی.تیسرادقیقہ معرفت کا یہ ہے کہ عالم معاد میں ترقیات غیر متناہی ہوں گی.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا الحديد : ١٣ ال عمران: ۱۶۰ ۳ محمد: ۱۶
۷۳۲ ہے.وَالَّذِينَ آمَنُوْا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر لے یعنی جو لوگ دنیا میں ایمان کا نور رکھتے ہیں اُن کا نور قیامت کو اُن کے آگے اور اُن کی داہنی طرف دوڑتا ہو گا.وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ اے خدا ہمارے نور کو کمال تک پہنچا اور اپنی مغفرت کے اندر ہمیں لے لے تو ہر چیز پر قادر ہے.اس آیت میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو کمال تک پہنچا یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک کمال نورانیت کا انہیں حاصل ہو گا.پھر دوسرا کمال نظر آئے گا.اس کو دیکھ کر پہلے کمال کو ناقص پائیں گے.پس کمال ثانی کے حصول کے لئے التجا کریں گے اور جب وہ حاصل ہو گا تو ایک تیسرا مرتبہ کمال کا اُن پر ظاہر ہو گا پھر اس کو دیکھ کر پہلے کمالات کو بیچ سمجھیں گے اور اس کی خواہش کریں گے.یہی ترقیات کی خواہش ہے جو اتمم کے لفظ سے سمجھی جاتی ہے.غرض اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا.تنزل کبھی نہیں ہوگا اور نہ کبھی بہشت سے نکالے جائیں گے بلکہ ہر روز آگے بڑھیں گے اور پیچھے نہ ہٹیں گے.اور یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ اپنی مغفرت چاہیں گے.اس جگہ سوال یہ ہے کہ جب بہشت میں داخل ہو گئے تو پھر مغفرت میں کیا کسر رہ گئی.اور جب گناہ بخشے گئے تو پھر استغفار کی کون سی حاجت رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغفرت کے اصل معنے یہ ہیں نا ملائم اور ناقص حالت کو نیچے دبانا اور ڈھانکنا.سو بہشتی اس بات کی خواہش کریں گے کہ کمال تام حاصل کریں اور سراسر نور میں غرق ہو جائیں.وہ دوسری حالت کو دیکھ کر پہلی حالت کو ناقص پائیں گے پس چاہیں گے کہ پہلی حالت نیچے دبائی جائے.پھر تیسرے کمال کو دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ دوسرے کمال کی نسبت مغفرت ہو یعنی وہ حالت ناقصہ نیچے دبائی جاوے اور مخفی کی جاوے.اسی طرح غیر متناہی مغفرت کے خواہش مند رہیں گے.یہ وہی لفظ مغفرت اور استغفار کا ہے جو بعض نادان بطور اعتراض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیش کیا کرتے ہیں.سو ناظرین نے اس جگہ سے سمجھ لیا ہو گا کہ یہی خواہش استغفار فخر انسان ہے.جو شخص کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے استغفار اپنی عادت نہیں پکڑتا وہ کیڑا ہے نہ انسان اور اندھا ہے نہ سو جا کھا اور نا پاک ہے نہ طیب.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۸ تا ۴۱۳) التحريم: 9
۷۳۳ بهشت و دوزخ مذہب سے غرض کیا ہے!! بس یہی کہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات کا ملہ پر یقینی طور پر ایمان حاصل ہو کر نفسانی جذبات سے انسان نجات پا جاوے اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا ہو کیونکہ درحقیقت وہی بہشت ہے جو عالم آخرت میں طرح طرح کے پیرایوں میں ظاہر ہو گا اور حقیقی خدا سے بے خبر رہنا اور اس سے دور رہنا اور سچی محبت اُس سے نہ رکھنا درحقیقت یہی جہنم ہے جو عالم آخرت میں انواع واقسام کے رنگوں میں ظاہر ہوگا.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۲) قرآن شریف نے بہشت اور دوزخ کی جو حقیقت بیان کی ہے کسی دوسری کتاب نے بیان نہیں کی.اُس نے صاف طور پر ظاہر کر دیا ہے کہ اسی دنیا سے یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے چنانچہ فرمایا.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتن ا یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے واسطے دو بہشت ہیں.یعنی ایک بہشت تو اسی دنیا میں مل جاتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اس کو برائیوں سے روکتا ہے.اور بدیوں کی طرف دوڑنا دل میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے جو بجائے خود ایک خطرناک جہنم ہے لیکن جو شخص خدا کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پر ہیز کر کے اس عذاب اور درد سے تو دم نقد بچ جاتا ہے جو شہوات اور جذبات نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے اور وہ وفا داری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے جس سے ایک لذت اور سرور اُسے دیا جاتا ہے اور یوں بہشتی زندگی اسی دنیا سے اس کے لئے شروع ہو جاتی ہے.الحکم مورخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ء صفحہیہ کالم نمبر ۲ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۱۱۳ ۱۱۴۰ جدید ایڈیشن) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَاللهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ یعنی انسانوں میں وہ اعلیٰ درجہ کے انسان ہیں جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لیتے ہیں.یہی وہی لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے.ایسا ہی وہ شخص جو روحانی حالت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے خدا کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان کو بیچ دیتا ہے اور الرحمن: ۴۷ ٢ البقرة : ۲۰۸
۷۳۴ جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعتِ خالق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے.اور پھر حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق ہیں ایسے شوق و ذوق و حضور دل سے بجالاتا ہے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہے.اور ارادہ اس کا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہم رنگ ہو جاتا ہے اور تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر جاتی ہے اور تمام اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذذ اور احظاظ کی کشش سے ظاہر ہونے لگتے ہیں.وہ نقد بہشت ہے جو روحانی انسان کو ملتا ہے.اور وہ بہشت جو آئندہ ملے گا وہ در حقیقت اسی کی اخلال و آثار ہے جس کو دوسرے عالم میں قدرتِ خداوندی جسمانی طور پر متمثل کر کے دکھلائے گی.اسی کی طرف اشارہ ہے.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتْنِ وَسَقْهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا.عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُوْنَهَا تَفْجِيْرًا وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَلْجَبِيلًا.عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلْسِلَا وَأَغْللًا وَسَعِيرًا وَ مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أعلى وَأَضَلُّ سَبِيلًا.یعنی جو شخص خدا تعالیٰ سے خائف ہے اور اُس کی عظمت و جلال کے مرتبہ سے حراساں ہے اس کے لئے دو بہشت ہیں.ایک یہی دنیا اور دوسری آخرت.اور ایسے لوگ جو خدا میں محو ہیں خدا نے ان کو وہ شربت پلایا ہے جس سے اُن کے دل اور خیالات اور ارادات کو پاک کر دیا.نیک بندے وہ شربت پی رہے ہیں جس کی ملونی کافور ہے.وہ اس چشمہ سے پیتے ہیں جس کو وہ آپ ہی چیرتے ہیں.اور میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ کافور کا لفظ اس واسطے اس آیت میں اختیار فرمایا گیا ہے کہ لغت عرب میں کفر دبانے کو اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں.سو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے ایسے خلوص سے انقطاع اور رجوع الی اللہ کا پیالہ پیا ہے کہ دنیا کی محبت بالکل ٹھنڈی ہو گئی ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ تمام جذبات دل کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں.اور جب دل نالائق خیالات سے بہت ہی دُور چلا جائے اور کچھ تعلقات ان سے باقی نہ رہیں تو وہ جذبات بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ نابود ہو جاتے ہیں.سو اس جگہ خدا تعالیٰ کی یہی غرض ہے اور وہ اس آیت میں یہی سمجھاتا الرحمن: ۴۷ الدهر : ٢٢ الدهر ، الدهر: ١٩،١٨ ه الدهر : ۵ بنی اسرآئیل: ۷۳
۷۳۵ ہے کہ جو اس کی طرف کامل طور سے جھک گئے وہ نفسانی جذبات سے بہت ہی دُور نکل گئے ہیں اور ایسے خدا کی طرف جھک گئے ہیں کہ دنیا کی سرگرمیوں سے اُن کے دل ٹھنڈے ہو گئے اور اُن کے جذبات ایسے دب گئے جیسا کہ کا فورزہر یلے مادوں کو دبا دیتا ہے.اور پھر فرمایا کہ وہ لوگ اس کا فوری پیالہ کے بعد وہ پیالے پیتے ہیں جن کی ملونی بجھیل ہے.اب جانتا چاہئے کہ زنجبیل دو لفظوں سے مرکب ہے یعنی زنا اور جَبَل سے اور زُنَا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو.اس کے ترکیبی معنے یہ ہیں کہ پہاڑ پر چڑھ گیا.اب جاننا چاہئے کہ انسان پر ایک زہریلی بیماری کے فرو ہونے کے بعد اعلیٰ درجہ کی صحت تک دو حالتیں آتی ہیں.ایک وہ حالت جبکہ زہریلے مواد کا جوش بکلّی جاتا رہتا ہے اور خطرناک مادوں کا جوش رو با صلاح ہو جاتا ہے اور ستمی کیفیات کا حملہ بخیر و عافیت گذر جاتا ہے اور ایک مہلک طوفان جو اُٹھا تھا نیچے دب جاتا ہے لیکن ہنوز اعضاء میں کمزوری باقی ہوتی ہے.کوئی طاقت کا کام نہیں ہو سکتا.ابھی مردہ کی طرح افتاں و خیزاں چلتا ہے اور دوسری وہ حالت ہے کہ جب اصلی صحت عود کر آتی اور بدن میں طاقت بھر جاتی ہے اور قوت کے بحال ہونے سے یہ حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ بلا تکلف پہاڑ کے اوپر چڑھ جائے اور نشاط خاطر سے اونچی گھاٹیوں پر دوڑتا چلا جائے.سوسلوک کے تیسرے مرتبہ میں یہ حالت میسر آتی ہے ایسی حالت کی نسبت اللہ تعالیٰ آیت موصوفہ میں اشارہ فرماتا ہے کہ انتہائی درجہ کے باخدا لوگ وہ پیالے پیتے ہیں جن میں زنجبیل ملی ہوئی ہے یعنی وہ روحانی حالت کی پوری قوت پا کر بڑی بڑی گھاٹیوں پر چڑھ جاتے ہیں اور بڑے مشکل کام اُن کے ہاتھ سے انجام پذیر ہوتے ہیں اور خدا کی راہ میں حیرت ناک جانفشانیاں دکھلاتے ہیں.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ علم طب کی رُو سے زنجبیل وہ دوا ہے جس کو ہندی میں سونٹھ کہتے ہیں.وہ حرارت غریزی کو بہت قوت دیتی ہے دستوں کو بند کرتی ہے.اور اس کا زنجبیل اسی واسطے نام رکھا گیا ہے کہ گویا وہ کمزور کو ایسا قوی کرتی ہے اور ایسی گرمی پہنچاتی ہے جس سے وہ پہاڑوں پر چڑھ سکے.ان متقابل آیتوں کے پیش کرنے سے جن میں ایک جگہ کافور کا ذکر ہے اور ایک جگہ زنجبیل کا.خدا تعالیٰ کی یہ غرض ہے کہ تا اپنے بندوں کو سمجھائے کہ جب انسان جذبات نفسانی سے نیکی کی طرف حرکت کرتا ہے تو پہلے پہل اس حرکت کے بعد یہ حالت پیدا ہوتی ہے کہ اُس کے زہریلے مواد نیچے دبائے جاتے ہیں اور نفسانی جذبات کو بھی ہونے لگتے ہیں.جیسا کہ کافور زہریلے مواد کو دبا لیتا ہے.اسی لئے وہ ہیضہ اور محرقہ تہوں میں مفید ہے.اور پھر جب زہریلے مواد کا جوش بالکل جاتا رہے اور ایک کمزور صحت جو ضعف
کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے حاصل ہو جائے تو پھر دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وہ ضعیف بیمار زنجیل کے شربت سے قوت پاتا ہے.اور زنجیلی شربت خدا تعالیٰ کے حسن و جمال کی جاتی ہے جو روح کی غذا ہے.جب اس تجلی سے انسان قوت پکڑتا ہے تو پھر بلند اور اونچی گھاٹیوں پر چڑھنے کے لائق ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسی حیرت ناک سختی کے کام دکھلاتا ہے کہ جب تک یہ عاشقانہ گرمی کسی کے دل میں نہ ہو ہرگز ایسے کام دکھلا نہیں سکتا.سوخدا تعالیٰ نے اس جگہ ان دو حالتوں کے سمجھانے کے لئے عربی زبان کے دو لفظوں سے کام لیا ہے ایک کافور سے جو نیچے دبانے والے کو کہتے ہیں اور دوسرے زنجبیل سے جو اوپر چڑھنے والے کو کہتے ہیں اور اس راہ میں بھی دو حالتیں سالکوں کے لئے واقع ہیں.باقی حصہ آیت کا یہ ہے.اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلْكُفِرِينَ سَلْسِلَا وَأَغْللًا وَسَعِيرًا لا یعنی ہم نے منکروں کے لئے جو سچائی کو قبول کرنا نہیں چاہتے زنجیر میں تیار کر دی ہیں اور طوق گردن اور ایک افروختہ آگ کی سوزش.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ سچے دل سے خدا تعالیٰ کو نہیں ڈھونڈتے اُن پر خدا کی طرف سے رجعت پڑتی ہے.وہ دنیا کی گرفتاریوں میں ایسے مبتلا رہتے ہیں کہ گویا پا بہ زنجیر ہیں اور زمینی کاموں میں ایسے نگونسار ہوتے ہیں کہ گویا اُن کی گردن میں ایک طوق ہے جو ان کو آسمان کی طرف سر نہیں اُٹھانے دیتا اور اُن کے دلوں میں حرص و ہوا کی ایک سوزش لگی ہوئی ہوتی ہے کہ یہ مال حاصل ہو جائے اور یہ جائیدا دل جائے اور فلاں ملک ہمارے قبضہ میں آ جائے.اور فلاں دشمن پر ہم فتح پا جائیں.اس قدر روپیہ ہو.اتنی دولت ہو.سو چونکہ خدائے تعالیٰ ان کو نالائق دیکھتا ہے اور بُرے کاموں میں مشغول پاتا ہے اس لئے یہ تینوں بلائیں ان کو لگا دیتا ہے.اور اس جگہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب انسان سے کوئی فعل صادر ہوتا ہے تو اُسی کے مطابق خدا بھی اپنی طرف سے ایک فعل صادر کرتا ہے.مثلاً انسان جس وقت اپنی کو ٹھڑی کے تمام دروازوں کو بند کر دے تو انسان کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہو گا کہ وہ اس کو ٹھڑی میں اندھیرا پیدا کر دے گا کیونکہ جو امور خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں ہمارے کاموں کے لئے بطور ایک نتیجہ لازمی کے مقدر ہو چکے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے فعل ہیں.وجہ یہ کہ وہی علت العلل ہے.ایسا ہی اگر مثلاً کوئی شخص زہر قاتل کھالے تو اُس کے اِس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل صادر ہو گا کہ اُسے ہلاک کر دے گا.ایسا ہی اگر کوئی ایسا بے جافعل کرے جو کسی متعدی بیماری کا موجب ہو تو اس کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہو گا کہ وہ متعدی بیماری الدهر : ۵
۷۳۷ اس کو پکڑ لے گی.پس جس طرح ہماری دنیوی زندگی میں صریح نظر آتا ہے کہ ہمارے ہر ایک فعل کے لئے ایک ضروری نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے.ایسا ہی دین کے متعلق بھی یہی قانون ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ ان دو مثالوں میں صاف فرماتا ہے.الَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ہے یعنی جو لوگ اس فعل کو بجالائے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی جستجو میں پوری پوری کوشش کی تو اس فعل کے لئے لازمی طور پر ہمارا یہ فعل ہوگا کہ ہم ان کو اپنی راہ دکھاویں گے اور جن لوگوں نے کبھی اختیار کی اور سیدھی راہ پر چلنا نہ چاہا تو ہمارا فعل ان کی نسبت یہ ہوگا کہ ہم اُن کے دلوں کو سچ کر دیں گے اور پھر اس حالت کو زیادہ توضیح دینے کے لئے فرمایا.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا کے یعنی جو شخص اس جہان میں اندھار ہاوہ آنے والے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بدتر.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نیک بندوں کو خدا کا دیدار اسی جہان میں ہو جاتا ہے اور وہ اسی جگ میں اپنے اس پیارے کا درشن پالیتے ہیں جس کے لئے وہ سب کچھ کھوتے ہیں.غرض مفہوم اس آیت کا یہی ہے کہ بہشتی زندگی کی بنیاد اسی جہان سے پڑتی ہے اور جہنمی نابینائی کی جڑھ بھی اسی جہان کی گندی اور کورانہ زیست ہے.اور پھر فرمایا وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ یعنی جو لوگ ایمان لاتے اور اچھے عمل بجالاتے ہیں وہ اُن باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ایمان کو باغ کے ساتھ مشابہت دی جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں.پس واضح رہے کہ اس جگہ ایک اعلیٰ درجہ کی فلاسفی کے رنگ میں بتلایا گیا ہے کہ جو رشتہ نہروں کا باغ کے ساتھ ہے وہی رشتہ اعمال کا ایمان کے ساتھ ہے.پس جیسا کہ کوئی باغ بغیر پانی کے سرسبز نہیں رہ سکتا ایسا ہی کوئی ایمان بغیر نیک کاموں کے زندہ ایمان نہیں کہلا سکتا.اگر ایمان ہو اور اعمال نہ ہوں تو وہ ایمان پیچ ہے اور اگر اعمال ہوں اور ایمان نہ ہو تو وہ اعمال ریا کاری ہیں.اسلامی بہشت کی یہی حقیقت ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظل ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آکر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر ہی سے نکلتی ہے اور ہر ایک کی بہشت اُسی کا ایمان اور اُسی کے اعمال صالحہ ہیں جن کی اسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہیں اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ نظر آتے ہیں اور نہریں بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے.خدا کی پاک تعلیم ہمیں یہی العنكبوت:٧٠ الصف: ۶ ۳ بنی اسرآئیل ۷۳ البقرة : ٢٦
۷۳۸ بتلاتی ہے کہ سچا اور پاک اور مستحکم اور کامل ایمان جو خدا اور اس کی ذات اور اس کی صفات اور اس کے ارادوں کے متعلق ہو وہ بہشت خوش نما اور بار آور درخت ہے اور اعمال صالحہ اس بہشت کی نہریں ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے.ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ.تُؤْتِي أَكُلَهَا كُلَّ حِينٍ یعنی وہ ایمانی کلمہ جو ہر ایک افراط تفریط اور نقص اور خلل اور کذب اور ہنرل سے پاک اور من کل الوجوہ کامل ہو اس درخت کے ساتھ مشابہ ہے جو ہر ایک عیب سے پاک ہو جس کی جڑ زمین میں قائم اور شاخیں آسمان میں ہوں اور اپنے پھل کو ہمیشہ دیتا ہو.اور کوئی وقت اس پر نہیں آتا کہ اس کی شاخوں میں پھل نہ ہوں.اس بیان میں خدائے تعالیٰ نے ایمانی کلمہ کو ہمیشہ پھلدار درخت سے مشابہت دے کر تین علامتیں اس کی بیان فرمائیں.(۱) اوّل یہ کہ جڑھ اس کی جو اصل مفہوم سے مُراد ہے انسان کے دل کی زمین میں ثابت ہو یعنی انسانی فطرت اور انسانی کانشنس نے اس کی حقانیت اور اصلیت کو قبول کر لیا ہو.(۲) دوسری علامت یہ ہے کہ اس کلمہ کی شاخیں آسمان میں ہوں یعنی معقولیت اپنے ساتھ رکھتا ہو اور آسمانی قانون قدرت جو خدا کا فعل ہے اس فعل کے مطابق ہو.مطلب یہ کہ اُس کی صحت اور اصلیت کے دلائل قانون قدرت سے مستنبط ہو سکتے ہوں اور نیز یہ کہ وہ دلائل ایسے اعلیٰ ہوں کہ گویا آسمان میں ہیں جن تک اعتراض کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا.(۳) تیسری علامت یہ ہے کہ وہ پھل جو کھانے کے لائق ہے دائگی اور غیر منقطع ہو.یعنی عملی مزاولت کے بعد اُس کی برکات و تاثیرات ہمیشہ اور ہر زمانہ میں مشہود اور محسوس ہوتی ہوں یہ نہیں کہ کسی خاص زمانہ تک ظاہر ہوکر پھر آگے بند ہو جائیں.اور پھر فرمایا مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةِ اجْتَمَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارِ کے یعنی پلید کلمہ اس درخت کے ساتھ مشابہ ہے جو زمین میں سے اُکھڑا ہوا ہو یعنی فطرت انسانی اس کو قبول نہیں کرتی اور کسی طور سے وہ قرار نہیں پکڑتا.نہ دلائل عقلیہ کی رو سے نہ قانون قدرت کی رو سے اور نہ کانشنس کی رو سے صرف قصہ اور کہانی کے رنگ میں ہوتا ہے اور جیسا کہ قرآن شریف نے عالم آخرت میں ایمان کے پاک درختوں کو انگور اور انار اور عمدہ عمدہ میووں سے مشابہت دی ہے اور بیان فرمایا ہے کہ اس روز وہ ان میووں کی صورت میں متمثل ہوں گے اور دکھائی دیں گے.ایسا ہی بے ایمانی کے خبیث درخت کا نام عالم آخرت میں زقوم رکھا ہے.جیسا کہ وہ ابراهیم: ۲۶،۲۵ ابراهیم: ۲۷
فرماتا ہے.۷۳۹ اذلِكَ خَيْرٌ نُزُ لَّا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُوْمِ.إِنَّا جَعَلْنَهَا فِتْنَةٌ لِلظَّلِمِينَ إِنَّهَا شَجَرَةً تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ.طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيْطِيْنِ إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُوْمِ.طَعَامُ الْآثِيْمِ.كَالْمُهْلِ يَغْلِى فِي الْبُطُونِ.كَغَلِي الْحَمِيمِ.ذق إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ یعنی تم بتلاؤ کہ بہشت کے باغ اچھے ہیں یا زقوم کا درخت جو ظالموں کے لئے ایک بلا ہے.وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑھ میں سے نکلتا ہے یعنی تکبر اور خود بینی سے پیدا ہوتا ہے.یہی دوزخ کی جڑھ ہے.اس کا شگوفہ ایسا ہے جیسا کہ شیطان کا سر.شیطان کے معنے ہیں ہلاک ہونے والا.یہ لفظ شیط سے نکلا ہے.پس حاصل کلام یہ ہے کہ اس کا کھانا ہلاک ہونا ہے اور پھر فرمایا کہ زقوم کا درخت اُن دوزخیوں کا کھانا ہے جو عمد ا گناہ کو اختیار کر لیتے ہیں.وہ کھانا ایسا ہے جیسا کہ تانبا گلا ہوا کھولتے ہوئے پانی کی طرح پیٹ میں جوش مارنے والا.پھر دوزخی کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اس درخت کو چکھ تو عزت والا اور بزرگ ہے یہ کلام نہایت غضب کا ہے.اس کا ماحصل یہ ہے کہ اگر تو تکبر نہ کرتا اور اپنی بزرگی اور عزت کا پاس کر کے حق سے منہ نہ پھیرتا تو آج یہ تلخیاں تجھے اٹھائی نہ پڑتیں.یہ آیت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ دراصل یہ لفظ زقوم کا دق اور آم سے مرکب ہے اور ام إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيمُ کا لشخص ہے جس میں ایک حرف پہلے کا اور ایک حرف آخر کا موجود ہے اور کثرتِ استعمال نے ذال، زا کے ساتھ بدل دیا ہے.اب حاصل کلام یہ ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی دنیا کے ایمانی کلمات کو بہشت کے ساتھ مشابہت دی ہے ایسا ہی اسی دنیا کے بے ایمانی کے کلمات کو زقوم کے ساتھ مشابہت دی اور اس کو دوزخ کا درخت ٹھہرایا اور ظاہر فرما دیا کہ بہشت اور دوزخ کی جڑھ اسی دنیا سے شروع ہوتی ہے جیسا کہ دوزخ کے باب میں ایک اور جگہ فرماتا ہے.نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ یعنی دوزخ وہ آگ ہے جو خدا کا غضب اس کا منبع ہے اور گناہ سے بھڑکتی ہے اور پہلے دل پر غالب ہوتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس آگ کی اصل جڑھ وہ غم اور حسرتیں اور درد ہیں جو دل کو پکڑتے ہیں کیونکہ تمام روحانی عذاب پہلے دل سے ہی شروع ہوتے ہیں اور پھر تمام بدن پر محیط ہو جاتے ہیں اور پھر ایک جگہ فرمایا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ کے یعنی جہنم کی آگ کا ایندھن جس الصفت: ۶۶۲۶۳ ۲ الدخان :۵۰۲۴۴ ۳ الهمزة: ۸،۷ البقرة: ۲۵
۷۴۰ سے وہ آگ ہمیشہ افروختہ رہتی ہے دو چیزیں ہیں.ایک وہ انسان جو حقیقی خدا کو چھوڑ کر اور اور چیزوں کی پرستش کرتے ہیں یا اُن کی مرضی سے اُن کی پرستش کی جاتی ہے.جیسا کہ فرمایا إِنَّكُمْ وَمَا إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ یا یعنی تم اور تمہارے باطل معبود جوانسان ہو کر خدا کہلاتے رہے جہنم میں ڈالے جائیں گے.(۲) دوسرا ایندھن جہنم کا بت ہیں.مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا وجود نہ ہوتا تو جہنم بھی نہ ہوتا.سو ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاک کلام میں بہشت اور دوزخ اس جسمانی دنیا کی طرح نہیں ہے بلکہ ان دونوں کا مبدء اور منبع روحانی امور ہیں.ہاں وہ چیزیں دوسرے عالم میں جسمانی شکل پر نظر آئیں گی مگر اس جسمانی عالم سے نہیں ہوں گی.اسلامی اصول کی فلاسفی - روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۸۵ تا ۳۹۳) جنت میں داخل ہونے کے لئے جسم ضروری ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ جسم عنصری ہو بلکہ ایسا جسم چاہئے جو عصری نہ ہو کیونکہ جنت کے پھل وغیرہ بھی عصری نہیں بلکہ وہ خلق جدید ہے اس لئے جسم بھی خلق جدید ہو گا جو پہلے جسم کے مغائر ہوگا.مگر مومنوں کے لئے مرنے کے بعد جسم کا ملنا ضروری ہے اور اس پر نہ صرف جنتی کا لفظ دلالت کرتا ہے بلکہ معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کی صرف روحیں نہیں دیکھیں بلکہ سب کے جسم دیکھے اور حضرت عیسی کا جسم اُن سے الگ طور کا نہ تھا.بلکہ کے ہم دیکھے سے الگ طورکا نہ تھا.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۸۷ حاشیہ) ہم نے عیسائیوں کی یہ غلطی بھی ظاہر کر دی ہے کہ ان کا یہ خیال کہ بہشت صرف ایک امر روحانی ہو گا ٹھیک نہیں ہے.ہم ثابت کر چکے ہیں کہ انسان کی ایک ایسی فطرت ہے کہ اس کے روحانی قوی بوجہ اکمل و اتم صادر ہونے کے لئے ایک جسم کے محتاج ہیں.مثلاً ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ سر کے کسی حصہ پر چوٹ لگنے سے قوت حافظہ جاتی رہتی ہے اور کسی حصہ کے صدمہ سے قوت متفکرہ رخصت ہوتی ہے اور منبت اعصاب میں خلل پیدا ہونے سے بہت سے روحانی قویٰ میں خلل پیدا ہو جاتا ہے پھر جبکہ رُوح کی یہ حالت ہے کہ وہ جسم کے ادنی خلل سے اپنے کمال سے فی الفور نقصان کی طرف عود کرتی ہے تو ہم کس طرح امید رکھیں کہ جسم کی پوری پوری جدائی سے وہ اپنی حالت پر قائم رہ سکے گی.اس لئے اسلام میں یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی فلاسفی ہے کہ ہر ایک کو قبر میں ہی ایسا جسم مل جاتا ہے کہ جو لذت اور عذاب کے ادراک کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے.ہم ٹھیک ٹھیک نہیں کہہ سکتے کہ وہ جسم کس مادہ سے تیار ہوتا ہے کیونکہ یہ فانی جسم تو کالعدم ہو جاتا ہے اور نہ کوئی مشاہدہ کرتا ہے کہ در حقیقت یہی جسم قبر میں زندہ ہوتا ہے.الانبياء: ٩٩
۷۴۱ اس لئے کہ بسا اوقات یہ جسم جلایا بھی جاتا ہے اور عجائب گھروں میں لاشیں بھی رکھی جاتی ہیں اور مدتوں تک قبر سے باہر بھی رکھا جاتا ہے.اگر یہی جسم زندہ ہو جایا کرتا تو البتہ لوگ اُس کو دیکھتے مگر بایں ہمہ قرآن سے زندہ ہو جانا ثابت ہے لہذا یہ ماننا پڑتا ہے کہ کسی اور جسم کے ذریعہ سے جس کو ہم نہیں دیکھتے انسان کو زندہ کیا جاتا ہے اور غالباً وہ جسم اسی جسم کے لطائف جوہر سے بنتا ہے.تب جسم ملنے کے بعد انسانی قومی بحال ہوتے ہیں اور یہ دوسرا جسم چونکہ پہلے جسم کی نسبت نہایت لطیف ہوتا ہے.اس لئے اس پر مکاشفات کا دروازہ نہایت وسیع طور پر کھلتا ہے اور معاد کی تمام حقیقتیں جیسی کہ وہ ہیں كَمَاهِی ہی نظر آ جاتی ہیں تب خطا کرنے والوں کے علاوہ جسمانی عذاب کے ایک حسرت کا عذاب بھی ہوتا ہے.غرض یہ اصول متفق علیہ اسلام میں ہے کہ قبر کا عذاب یا آرام بھی جسم کے ذریعہ سے ہی ہوتا ہے.اور اسی بات کو دلائل عقلیہ بھی چاہتے ہیں کیونکہ متواتر تجربہ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ انسان کے رُوحانی قومی بغیر جسم کے جوڑ کے ہرگز ظہور پذیر نہیں ہوتے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۷۱۷۰) عاقبت کی سزا اپنے اندر ایک فلسفیانہ حقیقت رکھتی ہے جس کو کوئی مذہب بجز اسلام کے کامل طور پر بیان نہیں کر سکا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى وَ أَضَلُّ سَبِيلًا لا یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہو وہ اُس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بھی بدتر.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس اسی جہان سے انسان اپنے ساتھ لے جاتا ہے.جو یہاں ان حواس کو نہیں پاتا وہاں وہ ان حواس سے بہرہ ور نہیں ہو گا.یہ ایک دقیق راز ہے جس کو عام لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے.اگر اس کے یہ معنے نہیں تو یہ تو پھر بالکل غلط ہے کہ اندھے اس جہان میں بھی اندھے ہوں گے.اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالی کو بغیر کسی غلطی کے پہنچانا اور اس دنیا میں صحیح طور پر اس کی صفات واسماء کی معرفت حاصل کرنا آئندہ کی تمام راحتوں اور روشنیوں کی کلید ہے اور یہ آیت اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہے کہ اسی دنیا سے ہم عذاب اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس دنیا کی کورانہ زیست اور ناپاک افعال ہی اُس دوسرے عالم میں عذاب جہنم کی صورت میں نمودار ہو جائیں گے اور وہ کوئی نئی بات نہ ہوں گے.جیسے ایک شخص گھر کے دروازے بند کر لینے سے روشنی سے محروم ہو جاتا ہے اور تازہ اور زندگی بخش ہوا اُسے نہیں مل سکتی یا کسی زہر کھا لینے سے اس کی زندگی باقی نہیں رہ سکتی اسی طرح پر جب ایک آدمی خدا بنی اسرآئیل :۷۳
۷۴۲ کی طرف سے ہٹتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو وہ ایک ظلمت کے نیچے آ کر عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے.گناہ اصل میں جناح تھا جس کے معنے میل کرنے اور اصل مرکز سے ہٹ جانے کے ہیں.پس جب انسان خدا سے اعراض کرتا ہے اور اس کے نور کے مقابل سے ہٹ جاتا ہے اور اس روشنی سے دور ہو جاتا ہے جوصرف خدا کی طرف سے اترتی اور دلوں پر نازل ہوتی ہے تو وہ ایک تاریکی میں مبتلا ہوتا ہے جو اس کے لئے عذاب کا موجب ہو جاتی ہے.پھر جس قسم کا یہ اعراض ہوا سی قسم کا عذاب اُسے دُکھ دیتا ہے.لیکن اگر انسان پھر اس مرکز کی طرف آنا چاہے اور اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچا وے جو الہی روشنی کے پڑنے کا مقام ہے تو وہ پھر اس گمشدہ نور کو پالیتا ہے.کیونکہ جیسے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے کمرہ میں روشنی کو ایسے وقت پاسکتے ہیں جب اس کی کھڑکیاں کھول دیں.ویسے ہی روحانی نظام میں مرکز اصلی کی طرف بازگشت کرنا ہی راحت کا موجب ہو سکتا ہے اور اس دکھ درد سے بچاتا ہے جو اس مرکز کو چھوڑنے سے پیدا ہوا تھا.اسی کا نام تو بہ ہے.اور یہی ظلمت جو اس طرح پر پیدا ہوتی ہے ضلالت اور جہنم کہلاتی ہے اور مرکز اصلی کی طرف رجوع کرنا جو راحت پیدا کرتا ہے جنت سے تعبیر ہوتا ہے.اور گناہ سے ہٹ کر پھر نیکی کی طرف آنا جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جاوے اس بدی کا کفارہ ہو کر اُسے دُور کر دیتا ہے اور اس کے نتائج کو بھی ساب کر دیتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ لے یعنی نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں.چونکہ بدی میں ہلاکت کی زہر ہے اور نیکی میں زندگی کا تریاق اس لئے بدی کے زہر کو دور کرنے کا ذریعہ نیکی ہی ہے.یا اسی کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں عذاب راحت کی نفی کا نام ہے اور نجات راحت اور خوشحالی کے حصول کا نام ہے.اسی طرح پر جیسے بیماری اس حالت کا نام ہے جب حالت بدن مجری طبیعت پر نہ رہے اور صحت وہ حالت ہے کہ امور طبعیہ اپنی اصل حالت پر قائم ہوں اور جیسے کسی ہاتھ پاؤں یا کسی عضو کے اپنے مقامِ خاص سے ذرا ادھر اُدھر کھسک جانے سے درد شروع ہو جاتا ہے اور وہ عضو نکما ہو جاتا ہے اور اگر چندے اسی حالت پر رہے تو پھر نہ خود بالکل بے کار ہو جاتا ہے بلکہ دوسرے اعضاء پر بھی اپنا بُرا اثر ڈالنے لگتا ہے.بعینہ یہی حالت روحانی ہے کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے سامنے سے جو اس کی زندگی کا اصل موجب اور مایۂ حیات ہے ہٹ جاتا ہے اور فطرتی دین کو چھوڑ بیٹھتا ہے تو عذاب شروع ہو جاتا ہے اور اگر قلب مردہ نہ ہو گیا ہو اور اس میں احساس کا مادہ باقی ہو تو وہ اُس عذاب کو خوب محسوس کرتا ہے اور اگر هود: ۱۱۵
۷۴۳ اس بگڑی ہوئی حالت کی اصلاح نہ کی جاوے تو اندیشہ ہوتا ہے کہ پھر ساری روحانی قو تیں رفتہ رفتہ نکمی اور بیکار ہو جائیں اور ایک شدید عذاب شروع ہو جاوے.پس اب کیسی صفائی کے ساتھ یہ امر سمجھ میں آ جاتا ہے کہ کوئی عذاب باہر سے نہیں آتا بلکہ خود انسان کے اندر ہی سے نکلتا ہے.ہم کو اس سے انکار نہیں کہ عذاب خدا کا فعل ہے.بے شک اسی کا فعل ہے مگر اسی طرح جیسے کوئی زہر کھائے تو خدا اُسے ہلاک کر دے پس خدا کا فعل انسان کے اپنے فعل کے بعد ہوتا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے.نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ ا یعنی خدا کا عذاب وہ آگ ہے جس کو خدا بھڑ کاتا ہے.اور اس کا شعلہ انسان کے دل ہی سے اٹھتا ہے.اس کا مطلب صاف لفظوں میں یہی ہے کہ عذاب کا اصل پیج اپنے وجود ہی کی ناپاکی ہے جو عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے.اسی طرح بہشت کی راحت کا اصل سرچشمہ بھی انسان کے اپنے ہی افعال ہیں.اگر وہ فطرتی دین کو نہیں چھوڑتا.اگر وہ مرکز اعتدال سے ادھر ادھر نہیں ہٹتا اور عبودیت الوہیت کے محاذ میں پڑی ہوئی اُس کے انوار سے حصہ لے رہی ہے تو پھر یہ اس عضو صحیح کی طرح ہے جو مقام سے ہٹ نہیں گیا اور برابر اس کام کو دے رہا ہے جس کے لئے خدا نے اس کو پیدا کیا ہے اور اسے کچھ بھی درد نہیں بلکہ راحت ہے.قرآن شریف میں فرمایا ہے.وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّةٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ سے یعنی جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے ہیں اُن کو خوشخبری دے دو کہ وہ اُن باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے ندیاں بہ رہی ہیں.اس آیت میں ایمان کو اللہ تعالیٰ نے باغ سے مثال دی ہے اور اعمال صالحہ کو نہروں سے.جو رشتہ اور تعلق نہر جار یہ اور درخت میں ہے وہی رشتہ اور تعلق اعمال صالحہ کو ایمان سے ہے.پس جیسے کوئی باغ ممکن ہی نہیں کہ پانی کی بدوں سرسبز اور ثمر دار ہو سکے اسی طرح پر کوئی ایمان جس کے ساتھ اعمال صالحہ نہ ہوں مفید اور کارگر نہیں ہوسکتا پس بہشت کیا ہے وہ ایمان اور اعمال ہی کے مجسم نظارے ہیں وہ بھی دوزخ کی طرح کوئی خارجی چیز نہیں ہے بلکہ انسان کا بہشت بھی اس کے اندر ہی سے نکلتا ہے.یاد رکھو کہ اُس جگہ پر جو راحتیں ملتی ہیں وہ وہی پاک نفس ہوتا ہے جو دنیا میں بنایا جاتا ہے پاک ایمان پودا سے مماثلت رکھتا ہے اور اچھے اچھے اعمال اخلاق فاضلہ یہ اُس پودا کی آبپاشی کے لئے بطور نہروں کے ہیں جو اس کی سرسبزی اور شادابی کو بحال رکھتے ہیں.اس دنیا میں تو یہ ایسے ہیں جیسے خواب میں دیکھے الهمزة: ۸۷ ٢ البقرة: ٢٦
۷۴۴ جاتے ہیں مگر اس عالم میں محسوس اور مشاہد ہوں گے.یہی وجہ ہے کہ لکھا ہے کہ جب بہشتی ان انعامات سے بہرہ ور ہوں گے تو یہ کہیں گے هذَا الَّذِی رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأَتُوْا بِهِ مُتَشَابِهَا ، اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ دنیا میں جو دودھ یا شہر یا انگور انار وغیرہ چیزیں ہم کھاتے پیتے ہیں وہی وہاں ملیں گی.نہیں! وہ چیزیں اپنی نوعیت اور حالت کے لحاظ سے بالکل اور کی اور ہوں گی.ہاں صرف نام کا اشتراک پایا جاتا ہے اور اگر چہ ان تمام نعمتوں کا نقشہ جسمانی طور پر دکھایا گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت پیدا کرنے والی ہیں ان کا سر چشمہ روح اور راستی ہے.رُزِقْنَا مِن قَبْلُ سے یہ مراد لینا کہ وہ دنیا کی جسمانی نعمتیں ہیں.بالکل غلط ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اس آیت میں یہ ہے کہ جن مومنوں نے اعمال صالحہ کئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک بہشت بنایا جس کا پھل وہ اُس دوسری زندگی میں بھی کھائیں گے اور وہ پھل چونکہ روحانی طور پر دنیا میں بھی کھا چکے ہوں گے.اس لئے اُس عالم میں اس کو پہچان لیں گے اور کہیں گے یہ تو وہی پھل معلوم ہوتے ہیں اور یہ وہی روحانی ترقیاں ہوتی ہیں جو دنیا میں کی ہوتی ہیں اس لئے وہ عابد و عارف اُن کو پہچان لیں گے.میں پھر صاف کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ جہنم اور بہشت میں ایک فلسفہ ہے جس کا رابط با ہم اسی طرح پر قائم ہوتا ہے جو میں نے ابھی بتایا ہے مگر اس بات کو کبھی بھی بھولنا نہیں چاہئے کہ دنیا کی سزائیں تنبیہ اور عبرت کے لئے انتظامی رنگ کی حیثیت سے ہیں.سیاست اور رحمت دونوں باہم ایک رشتہ رکھتی ہیں اور اسی رشتہ کے اظلال یہ سزائیں اور جزا ئیں ہیں.انسانی افعال اور اعمال اسی طرح پر محفوظ اور بند ہوتے جاتے ہیں جیسے فونوگراف میں آواز بند کی جاتی ہے.جب تک انسان عارف نہ ہو اس سلسلہ پر غور کر کے کوئی لذت اور فائدہ نہیں اٹھا سکتا.الحکم مورخه ارجنوری ۱۹۰۲ء صفحه ۴ تا ۶ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۱۹ تا ۲۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) عذاب ایک سلبی چیز ہے کیونکہ راحت کی نفی کا نام عذاب ہے اور نجات ایک ایجابی چیز ہے یعنی راحت اور خوشحالی کے دوبارہ حاصل ہو جانے کا نام نجات ہے.پس جیسا کہ ظلمت عدم وجود روشنی کا نام ہے ایسا ہی عذاب عدم وجود خوشحالی کا نام ہے.مثلاً بیماری اس حالت کا نام ہے کہ جب حالت بدن مجری طبیعت پر نہ رہے اور صحت اس حالت کا نام ہے کہ جب امور طبعیہ اپنی اصلی حالات کی طرف عود کر یں.سو جب انسان کی روحانی حالت مجری طبیعی سے ادھر اُدھر کھسک جائے اسی اختلال کا نام عذاب ہے اور البقرة: ٢٦
۷۴۵ جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی عضو مثلاً ہاتھ یا پیر اپنے محل سے اتر جائے تو اسی وقت درد شروع ہو جاتا ہے اور وہ عضو اپنی خدمات مفوضہ کو بجا نہیں لا سکتا.اور اگر اسی حالت پر چھوڑا جائے تو رفتہ رفتہ بے کاریا متعفن ہو کر گر جاتا ہے اور بسا اوقات اُس کی ہمسائیگی سے دوسرے اعضاء کے بگڑنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے.اور یہ درد جو اس عضو میں پیدا ہوتا ہے یہ باہر سے نہیں آتا بلکہ فطرتا اس کی اس خراب حالت کو لازم پڑا ہوا ہے.ایسا ہی عذاب کی حالت ہے کہ جب فطرتی دین سے انسان الگ ہو جائے اور حالت استقامت سے گر جائے تو عذاب شروع ہو جاتا ہے گو ایک جاہل جو غفلت کی بے ہوشی میں پڑا ہوا ہے اس عذاب کا احساس نہ کرے اور ایسی حالت میں ایسا بگڑا ہوا نفس روحانی خدمات کے لائق نہیں رہتا.اور اگر اسی حالت میں ایک مدت تک رہے تو بالکل بے کار ہو جاتا ہے اور اس کی ہمسائیگی دوسروں کو بھی معرض خطر میں ڈالتی ہے اور وہ عذاب جو اس پر وارد ہوتا ہے باہر سے نہیں آتا بلکہ وہی حالت اُس کی اس عذاب کو پیدا کرتی ہے.بے شک عذاب خدا کا فعل ہے مگر اس طرح کا مثلاً جبکہ ایک انسان سم الفار کو وزن کافی تک کھا لے تو خدا تعالیٰ اس کو مار دیتا ہے.یا مثلاً جب ایک انسان اپنی کوٹھڑی کے تمام دروازے بند کر دے تو خدا تعالیٰ اس گھر میں اندھیرا پیدا کر دیتا ہے یا اگر مثلاً ایک انسان اپنی زبان کو کاٹ ڈالے تو خدا تعالی قوت گویائی اس سے چھین لیتا ہے.یہ سب خدا تعالیٰ کے فعل ہیں جو انسان کے فعل کے بعد پیدا ہوتے ہیں.ایسا ہی عذاب دینا خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو انسان کے اپنے ہی فعل سے پیدا ہوتا ہے اور اسی میں جوش مارتا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے.نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ ا یعنی خدا کا عذاب ایک عذاب ہے جس کو خدا بھڑ کاتا ہے اور پہلا شعلہ اس کا انسان کے اپنے دل پر سے ہی اٹھتا ہے یعنی جڑ اُس کی انسان کا اپنا ہی دل ہے اور دل کے ناپاک خیالات اس جہنم کے ہیزم ہیں.پس جبکہ عذاب کا اصل تختم اپنے وجود کی ہی ناپاکی ہے جو عذاب کی صورت پر متمثل ہوتی ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ وہ چیز جو اس عذاب کو دور کرتی ہے وہ راستبازی اور پاکیزگی ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۲٬۸۱) انسان کی عملی اور اعتقادی غلطیاں ہی عذاب کی جڑھ ہیں.وہی درحقیقت خدا تعالیٰ کے غضب سے آگ کی صورت پر متمثل ہوں گی اور جس طرح پتھر پر سخت ضرب لگانے سے آگ نکلتی ہے.اسی طرح غضب الہی کی ضرب انہیں بد اعتقادیوں اور بدعملیوں سے آگ کے شعلے نکالے گی اور وہی آگ بدا اعتقادوں الهمزة: ۸،۷
اور بدکاروں کو کھا جائے گی جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ بجلی کی آگ کے ساتھ خود انسان کی اندرونی آگ شامل ہو جاتی ہے تب دونوں مل کر اس کو بھسم کر دیتی ہیں.اسی طرح غضب الہی کی آگ بد اعتقادی اور بداعمالی کی آگ کے ساتھ ترکیب پا کر انسان کو جلا دے گی.اسی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے.نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْآفَدَةِ لا یعنی جہنم کیا چیز ہے.وہ خدا کے غضب کی آگ ہے جو دلوں پر بھڑ کے گی یعنی وہ دل جو بد اعمالی اور بداعتقادی کی آگ اپنے اندر رکھتے ہیں وہ غضب الہی کی آگ سے اپنے آگ کے شعلوں کو مشتعل کریں گے.تب یہ دونوں قسم کی آگ باہم مل کر ایسا ہی اُن کو بھسم کرے گی جیسا کہ صاعقہ گرنے سے انسان بھسم ہو جاتا ہے.تبلیغ رسالت جلد چہارم صفحه ۵۵- مجموعه اشتہارات جلد اول صفحه ۵۲۶ جدید ایڈیشن) قولہ :.مرزا صاحب اپنا اعتقاد یاد کریں کہ انہوں نے مانا ہوا ہے کہ انسان بعد مرنے کے نجات پا کر ایک مکان بہشت میں رہے گا.جہاں عمدہ باغ خدا نے لگایا ہوا ہے اچھی اچھی عورتیں یا حور میں موجود ہیں.نہریں شراب وغیرہ کی جاری ہیں.غرض نجات کی حالت میں بھی دنیاوی سامان موجود ہے.اس سے زیادہ کچھ نہیں بلکہ واں وہ باتیں بھی موجود ہوں گی جو یاں ممنوع ہیں.مثلاً شراب اور بہت سی عورتیں.مگر ایسا نہیں بلکہ نجات شدہ لوگ بڑے انند اور خود مختاری کی حالت میں رہیں گے.اقول: بھلا جب حسب اصول آپ کے نجات یافتہ لوگ ایک مدت مقررہ کے بعد مکتی خانہ سے کان پکڑ کر باہر نکال دیئے جائیں گے اور اُن کے رونے چلانے پر کچھ رحم نہیں کیا جائے گا بلکہ بڑی سختی سے خلاف مرضی اُن کے حکم اخراج عمل میں آئے گا اور بڑی ذلت اور رسوائی سے بقول شخصے کہ ( پا بدست دگرے دست بدست دگرے) مکتی خانہ سے باہر پھینکے جائیں گے تو کیا اس وقت اُن کے لئے وہ سرگ نرگ کا نمونہ بلکہ اس سے بدتر نہیں ہو جائے گا؟ تو پھر اس مجبورا نہ مصیبت کے وقت خود مختاری کہاں رہے گی اور انند کیسا ہو گا ؟ آپ کہتے ہیں کہ نجات شدہ لوگ بڑی خوشی اور انند میں رہیں گے.افسوس ہے آپ کی سمجھ پر کیا ایسے مقام میں بھی کوئی کامل خوشی میسر آ سکتی ہے جس میں نکالے جانے اور پھر دو ہری مرتبہ کروڑ ہا برسوں کی مصیبتوں کا دغدغہ در پیش ہے اور ہر دم یہی فکر جان کو کھا رہا ہے کہ اب تھوڑے عرصہ کے بعد بے شمار ذلتوں اور رسوائیوں کا منہ دیکھنا ہو گا.پھر کیڑے مکوڑے کتے بلے بننا ہوگا.آپ کے مکتی خانہ سے خدا کی پناہ.اگر ایسا ہی پر میشر اور ایسا ہی اس کا مکتی خانہ ہے تو پھر بد قسمت زاہدوں عابدوں کے لئے اس جگہ بھی رونا اور اُس جگہ بھی رونا ہی ہوگا.الهمزة: ۸،۷
۷۴۷ رہا آپ کا یہ اعتراض کہ مسلمانوں کی بہشت میں دنیوی نعمتیں بھی موجود ہوں گی تو یہ کچھ اعتراض کی بات نہیں بلکہ اس سے تو آپ کو اور آپ کے پر میشر کو بہت شرمندہ ہونا چاہئے کیونکہ مسلمانوں کے خداوند قادر اور غنی مطلق نے تو دائگی اور جاودانی طور پر سب کچھ اپنے بے انتہا خزانوں سے عالم آخرت میں قرآن شریف پر ایمان لانے والوں کو عطا کیا ہے اور روحانی اور جسمانی دونوں طور کی نعمتیں مرحمت فرمائیں کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے سچے پرستار اس دنیا میں صرف روح ہی سے اس کی بندگی اور اطاعت نہیں کرتے بلکہ روح اور جسم دونوں سے کرتے ہیں اور خلقت انسانی کا کمال صرف روح ہی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ روح اور جسم دونوں کے امتزاج و اختلاط سے پیدا ہوتا ہے.سو اس نے فرمان برداروں کو سعادتِ تامہ تک پہنچانے کے لئے اور اُن کو پورا پورا اجر دینے کے لئے نجات جاودانی کی لذات کو دو قسم پر مشتمل کیا.اپنے محبوبانہ دیدار کی لذتیں بھی دیں اور اپنی دوسری نعمتیں بھی بارش کی طرح ان پر برسائیں.غرض وہ کام کر دکھلایا جو اس قادر عظیم الشان کی قدرتوں اور عظمتوں اور بے انتہا رحمتوں کے لائق ہے.لیکن آپ کا پر میشر تو مفلس اور دیوالیہ ہی نکلا اور اپنی عاجزی اور درویشی اور مفلسی اور ناطاقتی اور بے اختیاری کے باعث سے آپ لوگوں کو کسی ٹھکانہ نہ لگا سکا اور نہ کوئی مستقل خوشی پہنچا سکا.غرض کچھ بھی نہ کر سکا.نہ روحانی نعمتیں ہمیشہ کے لئے دے سکا نہ جسمانی اور دونوں طور سے آپ کو نا کام اور نامراد اور محروم اور بے نصیب رکھا اور جس کے لئے مرتے تھے اور جان شاری کرتے تھے وہ ایسا نا منصف اور بے سمجھ اور مور کھ اور بے خبر نکلا کہ اُس نے تمہاری رُوحانی اور بدنی مشقتوں کا کچھ بھی قدر نہ کیا اور اپنی الٹی سمجھ سے عاشقانہ وفاداریوں اور جان نثاریوں کو چند روزہ مزدوری خیال کر لیا.کیا ایسے بخیل اور ناطاقت اور بے سمجھ پر میشر سے محبتیں بڑھ سکتی ہیں؟ اور صفائی کامل سے کوئی دل رجوع ہو سکتا ہے ہرگز نہیں بلکہ اس کی قدرت اور سخاوت اور قدر شناسی کی حقیقت کھلنے سے جپ تپ کرنے والوں کی روحیں بہت ہی افسوسناک اور نادم ہوں گی کہ اگر یہی پر میشر اور یہی اس کی مکتی تھی تو ہم نے خواہ مخواہ کی ٹکریں کیوں ماریں..رہا یہ اعتراض کہ شراب جو دنیا میں بھی ممنوعات اور محرمات میں سے ہے وہ کیونکر بہشت میں روا ہو جائے گی.اس کا جواب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے کہ بہشتی شراب کو اس دنیا کی فساد انگیز شرابوں سے کچھ مناسبت نہیں.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَسَقْهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا عَيْنًا تَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ ۲۲: الدهر : ٢٢
۷۴۸ اللهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرا.یعنی جو لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اُن کا خدا اُن کو ایک ایسی پاک شراب پلائے گا جو ان کو کامل طور پر پاک کر دے گی.نیک لوگ وہ جام پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہے.یعنی ان کے دل وہ شراب پی کر غیر کی محبت سے بکلی ٹھنڈے ہو جاویں گے.وہ کافوری شراب ایک چشمہ ہے جس کو اسی دنیا میں خدا کے بندے پینا شروع کرتے ہیں وہ اس چشمہ کو ایسا رواں کر دیتے ہیں کہ نہایت آسانی سے بہنے لگتا ہے اور وسیع اور فراخ نہریں ہو جاتی ہیں یعنی ریاضات عشقیہ سے سب روکیں اُن کی دور ہو جاتی ہیں اور نشیب و فراز بشریت کا صاف اور ہموار ہو جاتا ہے اور جناب الہی کی طرف انقطاع کلی میسر آ کر معارف الہیہ میں وسعت تامہ پیدا ہو جاتی ہے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے.وَكَأْسِ مِنْ مَّعِينٍ لَا يُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُونَ لَا يَسْمَعُوْنَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا.إِلَّا قِيلًا سَلْمًا سَلَمَّا وُجُوهٌ يَوْمَذٍ نَاضِرَةٌ.إلى رَبَّهَا نَاظِرَةٌ وَمَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سبیلا اور شراب صافی کے پیالے جو آب زلال کی طرح مصفی ہوں گے بہشتیوں کو دیئے جائیں گے.وہ شراب ان سب عیبوں سے پاک ہوگی کہ دردسر پیدا کرے یا بے ہوشی اور بدمستی اس سے طاری ہو.بہشت میں کوئی لغو اور بے ہودہ بات سننے میں نہیں آئے گی اور نہ کوئی گناہ کی بات سنی جائے گی بلکہ ہر طرف سلام سلام جو رحمت اور محبت اور خوشی کی نشانی ہے سننے میں آئے گا.اس دن مومنوں کے منہ تر و تازہ اور خوبصورت ہوں گے اور وہ اپنے رب کو دیکھیں گے.اور جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بھی گیا گذرا.اب ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ وہ بہشتی شراب دنیا کی شرابوں سے کچھ مناسبت اور مشابہت نہیں رکھتی بلکہ وہ اپنی تمام صفات میں ان شرابوں سے مبائن اور مخالف ہے اور کسی جگہ قرآن شریف میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ وہ دنیوی شرابوں کی طرح انگور سے یا قند سیاہ اور کیکر کے چھلکوں سے یا ایسا ہی کسی اور دنیوی مادہ سے بنائی جائے گی بلکہ بار بار کلام الہی میں یہی بیان ہوا ہے کہ اصل تخم اس شراب کا محبت اور معرفت الہی ہے جس کو دنیا سے ہی بندہ مومن ساتھ لے جاتا ہے اور یہ بات کہ وہ روحانی امر کیونکر شراب کے طور پر نظر آ جائے گا.یہ خدائے تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے جو عارفوں پر مکاشفات کے ذریعہ سے کھلتا ہے اور عظمند لوگ دوسری علامات و آثار سے اس کی حقیقت تک پہنچتے ہیں.روحانی امور کا جسمانی طور پر متمثل ہو جانا کئی مقامات قرآن شریف میں بیان کیا گیا ہے.الدهر : ۶، الواقعة : ۲۰۱۹ ۳ الواقعة: ۲۶، ۲۷ ، القيامة : ۲۳ ۲۴ ۵ بنی اسرآئیل :۷۳
۷۴۹ جیسا کہ یہ بھی لکھا ہے کہ تسبیح اور تقدیس الہی کی باتیں پھل دار درختوں کی طرح متمثل ہوں گی اور نیک اعمال پاک اور صاف نہروں کی طرح دکھلائی دیں گے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۰ ۱۵ تا ۱۵۷) قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کے غضب کو اس طور سے بیان نہیں کیا جو وید بیان کرتا ہے بلکہ وہ غضب ایک روحانی فلسفہ اپنے اندر رکھتا ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ سزا دہی کی کیفیت کے بارہ میں ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ ا یعنی دوزخ کیا چیز ہے؟ دوزخ وہ آگ ہے جو دلوں پر بھڑکائی جاتی ہے.یعنی انسان جب فاسد خیال اپنے دل میں پیدا کرتا ہے اور وہ ایسا خیال ہوتا ہے کہ جس کمال کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے وہ اس کے مخالف ہوتا ہے تو جیسا کہ ایک بھوکا یا پیاسا بوجہ نہ ملنے غذا اور پانی کے آخر مر جاتا ہے ایسا ہی وہ شخص بھی جو فساد میں مشغول رہا اور خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت کی غذا اور پانی کو نہ پایا وہ بھی مر جاتا ہے.پس بموجب تعلیم قرآن شریف کے بندہ ہلاکت کا سامان اپنے لئے آپ تیار کرتا ہے خدا اس پر کوئی جبر نہیں کرتا.اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی اپنے حجرہ کے تمام دروازے بند کر دے اور روشنی داخل ہونے کے لئے کوئی کھڑ کی کھلی نہ رکھے تو اس میں شک نہیں کہ اس حجرے کے اندر اندھیرا ہو جائے گا.سوکھڑکیوں کا بند کرنا تو اُس شخص کا فعل ہے مگر اندھیرا کر دینا یہ خدا تعالیٰ کا فعل اس کے قانون قدرت کے موافق ہے.پس اسی طرح جب کوئی شخص خرابی اور گناہ کا کام کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنے قانون قدرت کی رُو سے اس کے اس فعل کے بعد کوئی اپنا فعل ظاہر کر دیتا ہے جو اس کی سزا ہو جاتا ہے لیکن بایں ہمہ تو بہ کا دروازہ بند نہیں کرتا.مثلاً جب ایک شخص نے اپنے ایسے حجرہ کی کھڑکی کھول دی جس کو اس نے بند کر دیا تھا تو معا خدا تعالیٰ اس گھر میں روشنی داخل کرے گا.پس قرآن شریف کی رو سے خدا کے غضب کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ انسان کی طرح اپنی حالت میں ایک مکروہ تغیر پیدا کر کے خشمناک ہو جاتا ہے کیونکہ انسان تو غضب کے وقت میں ایک رنج میں پڑ جاتا ہے اور اپنی حالت میں ایک دُکھ محسوس کرتا ہے اور اس کا سرور جاتا رہتا ہے مگر خدا ہمیشہ سرور میں ہے اس کی ذات پر کوئی رنج نہیں ہوتا بلکہ اس کے غضب کے یہ معنی ہیں کہ وہ چونکہ پاک اور قدوس ہے اس لئے نہیں چاہتا کہ لوگ اس کے بندے ہو کر ناپاکی کی راہیں اختیار کریں اور تقاضا فرماتا ہے کہ ناپا کی کو درمیان سے اٹھا دیا جاوے.پس جو شخص ناپا کی پر اصرار کرتا ہے آخر کار وہ خدائے قدوس اپنے فیض کو جو مدار حیات اور راحت اور آرام ہے اُس سے منقطع کر لیتا ہے اور یہی حالت اس الهمزة: ۸،۷
۷۵۰ نافرمان کے لئے موجب عذاب ہو جاتی ہے.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک باغ ہے جو ایک نہر کے پانی سے سرسبز اور شاداب ہوتا تھا اور جب باغ والوں نے نہر کے مالک کی اطاعت چھوڑ دی تو مالک نہر نے اس باغ کو اپنے نہر کے پانی سے محروم کر دیا اور بند لگا دیا.تب باغ خشک ہو گیا.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۶۲ ۶۳) یہ بات نہایت نامعقول اور خدائے عزّ و جلّ کے صفات کاملہ کے برخلاف ہے کہ دوزخ میں ڈالنے کے بعد ہمیشہ اس کی صفات قہر یہ ہی جلوہ گر ہوتی رہیں اور کبھی صفت رحم اور عفو کی جوش نہ مارے اور صفات کرم اور رحم کے ہمیشہ کے لئے معطل کی طرح رہیں بلکہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مدت دراز تک جس کو انسانی کمزوری کے مناسب حال استعارہ کے رنگ میں ابد کے نام سے موسوم کیا گیا ہے دوزخی دوزخ میں رہیں گے اور پھر صفت رحم اور کرم تجلی فرمائے گی اور خدا اپنا ہاتھ دوزخ میں ڈالے گا اور جس قد ر خدا کی مٹھی میں آجائیں گے سب دوزخ سے نکالے جائیں گے.پس اس حدیث میں بھی آخر کا رسب کی نجات کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خدا کی مٹھی خدا کی طرح غیر محدود ہے جس سے کوئی بھی باہر نہیں رہ سکتا.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۶۹) بہت سے مقامات ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ارواح طیبیین مطہرین کے بجر دفوت ہونے کے بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں.ایسا ہی بہت سی احادیث سے یہی مطلب ثابت ہوتا ہے اور ارواح شہداء کا بہشت کے میودے کھانا یہ تو ایسی مشہور حدیثیں ہیں کہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں اور خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے.وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَا عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ے یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں اُن کی نسبت یہ گمان مت کرو کہ وہ مُردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں.خدائے تعالیٰ سے ان کو رزق ملتا ہے اور کتب سابقہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے.پس جبکہ ارواح طیبین مطہرین کا بہشت میں داخل ہونا ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ بہشت وہ مقام ہے جس میں انواع اقسام کی جسمانی نعماء بھی ہوں گی اور طرح طرح کے میوے ہوں گے اور بہشت میں داخل ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وہ نعمتیں کھاوے اس صورت میں صرف روح کا بہشت میں داخل ہونا بے معنی اور بے سود ہے.کیا وہ بہشت میں داخل ہو کر ایک محروم کی طرح بیٹھی رہے گی اور بہشت کی نعمتوں سے فائدہ نہیں اُٹھائے گی ؟ پس آیت وَادْخُلِی جَنَّتی صاف بتلا رہی ہے کہ مومن کو يس : ۲۷ الفجر: ٣١
۷۵۱ مرنے کے بعد ایک جسم ملتا ہے.اسی وجہ سے تمام ائمہ اور اکابر متصوفین اس بات کے قائل ہیں کہ مومن جو طیب اور مطہر ہوتے ہیں وہ بجر دفوت ہونے کے ایک پاک اور نورانی جسم پاتے ہیں جس کے ذریعہ سے وہ نعماء جنت سے لذت اُٹھاتے ہیں اور بہشت کو صرف شہیدوں کے لئے مخصوص کرنا ایک ظلم ہے بلکہ ایک کفر ہے.کیا کوئی سچا مومن یہ گستاخی کا کلمہ زبان پر لاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ابھی تک بہشت سے باہر ہیں جن کے روضہ کے نیچے بہشت ہے مگر وہ لوگ جنہوں نے آپ کے ذریعہ سے ایمان اور تقویٰ کا مرتبہ حاصل کیا وہ شہید ہونے کی وجہ سے بہشت میں داخل ہیں اور بہشتی میوے کھا رہے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو وقف کر دیا وہ شہید ہو چکا.پس اس صورت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اول الشہداء ہیں.ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۸ تا ۳۹۰) اس جگہ بظاہر یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ جب کہ ہر ایک مومن طیب اور طاہر جن کی گردن پر کوئی بوجھ گناہ اور معاصی کا نہیں بلا تو قف بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں حشر اجساد اور اس کے تمام لوازم متعلقہ سے انکار لازم آتا ہے کیونکہ جبکہ بہشت میں داخل ہو چکے تو پھر بموجب آیت وَمَاهُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِینَ لے ان کا بہشت سے نکلنا ممتنع ہے.پس اس سے تمام کارخانہ حشر اجساد و واقعات معاد کا باطل ہوا.اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عقیدہ جو مومنین مطہرین بلا تو قف بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں یہ میری طرف سے نہیں بلکہ یہی عقیدہ ہے جس کی قرآن شریف نے تعلیم دی ہے اور دوسری تعلیم جو قرآن شریف میں ہے جو حشر اجساد ہوگا اور مردے زندہ ہوں گے وہ بھی حق ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ یہ بہشت میں داخل ہونا صرف اجمالی رنگ میں ہے اور اس صورت میں جو مومنوں کو مرنے کے بعد بلا توقف اجسام دیئے جاتے ہیں وہ اجسام ابھی ناقص ہیں مگر حشر اجساد کا دن تجلی اعظم کا دن ہے.اس دن کامل اجسام ملیں گے اور بہشتیوں کا تعلق کسی حالت میں بہشت سے الگ نہیں ہوگا.من وجہ وہ بہشت میں ہوں گے اور من وجہ خدا تعالیٰ کے سامنے آئیں گے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۸۷ حاشیہ) جنت اور جہنم تین درجوں پر منقسم ہے.پہلا درجہ جو ایک ادنیٰ درجہ ہے اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب انسان اس عالم سے رخصت ہو کر اپنی خواب گاہ قبر میں جا لیٹتا ہے.اور اس درجہ ضعیفہ کو استعارہ کے طور پر احادیث نبویہ میں کئی الحجر : ۴۹
۷۵۲ پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے.منجملہ ان کے ایک یہ بھی پیرا یہ ہے کہ میت عبد صالح کے لئے قبر میں جنت کی طرف ایک کھڑ کی کھولی جاتی ہے جس کی راہ سے وہ جنت کی باغ و بہار دیکھتا ہے اور اس کی دلر ہا ہوا سے متمتع ہوتا ہے اور اس کھڑکی کی کشادگی بحسب مرتبہ ایمان و عمل اس میت کے ہوتی ہے لیکن ساتھ اس کے یہ بھی لکھا ہے کہ جو لوگ ایسے فنا فی اللہ ہونے کی حالت میں دنیا سے جُدا ہوتے ہیں کہ اپنی جان عزیز کو محبوب حقیقی کی راہ میں فدا کر دیتے ہیں جیسے شہداء یا وہ صدیق لوگ جو شہداء سے بھی بڑھ کر آگے قدم رکھتے ہیں اُن کے لئے اُن کی موت کے بعد صرف بہشت کی طرف کھڑ کی ہی نہیں کھولی جاتی بلکہ وہ اپنے سارے وجود اور تمام قومی کے ساتھ بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی قیامت کے دن سے پہلے اکمل اور اتم طور پر لذات جنت حاصل نہیں کر سکتے.ایسا ہی اس درجہ میں میت خبیث کے لئے دوزخ کی طرف قبر میں ایک کھڑ کی کھولی جاتی ہے جس کی راہ سے دوزخ کی ایک جلانے والی بھاپ آتی رہتی ہے اور اس کے شعلوں سے ہر وقت وہ خبیث روح جلتی رہتی ہے.لیکن ساتھ اس کے یہ بھی ہے کہ جو لوگ اپنی کثرت نافرمانی کی وجہ سے ایسے فنافی الشیطان ہونے کی حالت میں دنیا سے جدا ہوتے ہیں کہ شیطان کی فرمانبرداری کی وجہ سے بکلّی تعلقات اپنے مولی حقیقی سے توڑ دیتے ہیں اُن کے لئے اُن کی موت کے بعد صرف دوزخ کی طرف کھڑکی ہی نہیں کھولی جاتی بلکہ وہ اپنے سارے وجود اور تمام قومی کے ساتھ خاص دوزخ میں ڈال دیئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.مِمَّا خَطَيَّتِهُم أُغْرِقُوا فَادْ خِلُوا نَارًا - سورة نوح - مگر پھر بھی وہ لوگ قیامت کے دن سے پہلے اکمل اور اتم طور پر عقوبات جہنم کا مزہ نہیں چکھتے.دوسرا درجہ.پھر اس درجہ سے اوپر جو ابھی ہم نے بہشتیوں اور دوزخیوں کے لئے بیان کیا ہے ایک اور درجہ دخول جنت.دخول جہنم ہے جس کو درمیانی درجہ کہنا چاہئے اور وہ حشر اجساد کے بعد جنت عظمی یا جہنم کبری میں داخل ہونے سے پہلے حاصل ہوتا ہے اور بوجہ تعلق جسد کامل قومی میں ایک اعلیٰ درجہ کی تیزی پیدا ہو کر اور خدائے تعالیٰ کی تجلی رحم یا تجلی قہر کا حسب حالت اپنے کامل طور پر مشاہدہ ہو کر اور جنت عظمیٰ کو بہت قریب پا کر یا جہنم کبری کو بہت ہی قریب دیکھ کر وہ لذات یا عقوبات ترقی پذیر ہو جاتے ہیں.جیسا کہ اللہ جل شانہ آپ فرماتا ہے.وَاز لِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ.وَبُرِزَتِ الْجَحِيم لِلْغُوِينَ وَجُوهٌ يَوْمَبِذٍ مُسْفِرَةٌ.ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ.وَوُجُوهٌ يَوْمَبِذٍ عَلَيْهَا نوح: ۲۶ الشعراء: ۹۲۹۱
۷۵۳ غَبَرَةٌ تَرْهَقُهَا قَتَرَةُ.أُولَيْكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ ے اس دوسرے درجہ میں بھی لوگ مساوی نہیں ہوتے بلکہ اعلیٰ درجہ کے بھی ہوتے ہیں جو بہشتی ہونے کی حالت میں بہشتی انوار اپنے ساتھ رکھتے ہیں.انہیں کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے.نُوْرُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمُ وَبِأَيْمَانِھم کے ایسا ہی دوزخی ہونے کی حالت میں اعلیٰ درجہ کے کفار ہوتے ہیں کہ قبل اس کے جو کامل طور پر دوزخ میں پڑیں اُن کے دلوں پر دوزخ کی آگ بھڑکائی جاتی ہے.جیسا کہ اللہ جل شانهٔ فرماتا ہے.نَارُ اللهِ الْمَوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ پھر اس درجہ کے اوپر جو آخری درجہ ہے تیسرا درجہ ہے جو منتہائے مدارج ہے.جس میں یوم الحساب کے بعد لوگ داخل ہوں گے.اور اکمل اور اتم طور پر سعادت یا شقاوت کا مزہ چکھ لیں گے.اب حاصل کلام یہ ہے کہ ان تینوں مدارج میں انسان ایک قسم کی بہشت یا ایک قسم کی دوزخ میں ہوتا ہے.اور جبکہ یہ حال ہے تو اس صورت میں صاف ظاہر ہے کہ ان مدارج میں سے کسی درجہ پر ہونے کی حالت میں انسان بہشت یا دوزخ میں سے نکالا نہیں جاتا.ہاں جب اس درجہ سے ترقی کرتا ہے تو ادنی درجہ سے اعلیٰ درجہ میں آجاتا ہے.اس ترقی کی ایک یہ بھی صورت ہے کہ جب مثلاً ایک شخص ایمان اور عمل کی ادنیٰ حالت میں فوت ہوتا ہے تو تھوڑی سی سوراخ بہشت کی طرف اس کے لئے نکالی جاتی ہے کیونکہ بہشتی تجلی کی اسی قدر اس میں استعداد موجود ہوتی ہے.پھر بعد اس کے اگر وہ اولا د صالح چھوڑ کر مرا ہے جو جد و جہد سے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور صدقات و خیرات اس کی مغفرت کی نیت سے مساکین کو دیتے ہیں یا ایسے کسی اہل اللہ سے اس کی محبت تھی جو تضرعات سے جناب الہی سے اس کی بخشش چاہتا ہے یا کوئی ایسا خلق اللہ کے فائدہ کا وہ کام دنیا میں کر گیا ہے جس سے بندگانِ خدا کو کسی قسم کی مدد یا آرام پہنچتا ہے تو اس خیر جاری کی برکت سے وہ کھڑ کی اس کی جو بہشت کی طرف کھولی گئی دن بدن اپنی کشادگی میں زیادہ ہوتی جاتی ہے اور سَبَقَتْ رَحْمَتِی عَلى غَضَبِی کا منشاء اور بھی اس کو زیادہ کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ کھڑ کی ایک بڑا وسیع دروازہ ہو کر آخر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ شہیدوں اور صدیقوں کی طرح وہ بہشت میں ہی داخل ہو جاتا ہے...یا درکھنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ نے اس کھڑکی کے کھولنے کے لئے پہلے سے اس قدر سامان کر رکھے ا عبس: ۳۹ تا ۴۳ التحريم: ٣ الهمزة: ۸،۷
۷۵۴ ہیں جن سے بتصریح معلوم ہوتا ہے کہ اس کریم کا دراصل منشاء ہی یہی ہے کہ اگر ایک ذرہ ایمان و عمل لے کر بھی اس کی طرف کوئی سفر کرے تو وہ ذرہ بھی نشو ونما کرتا رہے گا اور اگر کسی اتفاق سے تمام سامان اس خیر کے جو میت کو اس عالم کی طرف سے پہنچتی ہے نا پیدا رہیں تاہم یہ سامان کسی طرح نا پیدا اور گم نہیں ہوسکتا کہ جو تمام مومنوں اور نیک بختوں اور شہیدوں اور صدیقوں کے لئے تاکیدی طور پر یہ کا فرمایا گیا کہ وہ اپنے ان بھائیوں کے لئے بدل و جان دعائے مغفرت کرتے رہیں جو ان سے پہلے اس عالم میں گذر چکے ہیں اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے لئے ایک لشکر مومنوں کا دعا کر رہا ہے وہ دعا ہرگز ہرگز خالی نہیں جائے گی بلکہ وہ ہر روز کام کر رہی ہے اور گنہگار ایماندار جو فوت ہو چکے ہیں ان کی اس کھڑکی کو جو بہشت کی طرف تھی بڑے زور سے کھول رہی ہے.ان دعاؤں نے اب تک بے شمار کھڑکیوں کو اس حد تک کشادہ کر دیا ہے کہ بے انتہا ایسے لوگ بہشت میں پہنچ چکے ہیں جن کو اول دنوں میں صرف ایک چھوٹی سی کھڑ کی بہشت کے دیکھنے کے لئے عطا کی گئی تھی.اس زمانہ کے ان تمام مسلمانوں کو جو موحد کہلاتے ہیں یہ دھوکا بھی لگا ہوا ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد بہشت میں داخل ہونے والے صرف شہید لوگ ہیں اور باقی تمام مومنین یہاں تک کہ انبیاء اور رسول بھی یوم الحساب تک بہشت سے باہر رکھے جائیں گے صرف ایک کھڑ کی ان کے لئے بہشت کی طرف کھولی جائے گی مگر اب تک انہوں نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ کیا انبیاء اور تمام صدیق روحانی طور پر شہیدوں سے بڑھ کر نہیں ہیں اور کیا بہشت سے دور رہنا ایک قسم کا عذاب نہیں جو مغفورین کے حق میں تجویز نہیں ہو سکتا جس کے حق میں خدائے تعالیٰ یہ کہے کہ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجت ے کیا ایسا شخص سعادت اور فوز مرام میں شہیدوں کے پیچھے رہ سکتا ہے! افسوس کہ ان لوگوں نے اپنی نامنہمی سے شریعت غرا کو الٹا دیا ہے.اُن کے زعم میں سب سے پہلے بہشت میں داخل ہونے والے شہید ہیں.اور شائد کہیں بے شمار برسوں کے بعد نبیوں اور صدیقوں کی بھی نوبت آوے.اس کسر شان کا الزام ان لوگوں پر بڑا بھاری ہے جو بودے عذروں سے دور نہیں ہوسکتا.بے شک یہ بات سب کے فہم میں آ سکتی ہے کہ جو لوگ ایمان اور عمل میں سابقین ہیں وہی لوگ دخول فی الجحت میں بھی سابقین چاہیئے نہ یہ کہ ان کے لئے صرف ضعیف الایمان لوگوں کی طرح کھڑ کی کھولی جائے اور شہید لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہی ہر یک پھل بہشت کا چن چن کر کھانے لگیں.اگر بہشت میں داخل ہونا البقرة : ۲۵۴
۷۵۵ کامل ایمان کامل اخلاص کامل جانفشانی پر موقوف ہے تو بلاشبہ نبیوں اور صدیقوں سے اور کوئی بڑھ کر نہیں جن کی تمام زندگی خدائے تعالیٰ کے لئے وقف ہو جاتی ہے اور جو خدائے تعالیٰ کی راہ میں ایسے فدا ہوتے ہیں کہ بس مرہی رہتے ہیں اور تمنا رکھتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں شہید کئے جائیں اور پھر زندہ ہوں اور پھر شہید کئے جائیں اور پھر زندہ ہوں اور پھر شہید کئے جائیں.اب ہماری اس تمام تقریر سے بخوبی ثابت ہو گیا کہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے ایسے زبر دست اسباب موجود ہیں کہ قریبا تمام مومنین یوم الحساب سے پہلے اس میں پورے طور پر داخل ہو جائیں گے.اور یوم الحساب ان کو بہشت سے خارج نہیں کرے گا بلکہ اس وقت اور بھی بہشت نزدیک ہو جائے گا.کھڑکی کی مثال سے سمجھ لینا چاہئے کہ کیونکر بہشت قبر سے نزدیک کیا جاتا ہے.کیا قبر کے متصل جو زمین پڑی ہے اُس میں بہشت آ جاتا ہے؟ نہیں بلکہ روحانی طور پر نزدیک کیا جاتا ہے.اسی طرح روحانی طور پر بہشتی لوگ میدانِ حساب میں بھی ہوں گے اور بہشت میں بھی ہوں گے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری قبر کے نیچے روضہ بہشت ہے.اس پر خوب غور کرو کہ یہ کس بات کی طرف اشارہ ہے؟ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۲ تا ۷ ۲۸)
۷۵۶ مقصد پیدائش اگر چہ مختلف الطبائع انسان اپنی کوتاہ منہمی یا پست ہمتی سے مختلف طور کے مدعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں اور فقط دنیا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کر آگے ٹھہر جاتے ہیں مگر وہ مدعا جو خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے وہ یہ ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ لے یعنی میں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں.پس اس آیت کی رُو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا کے لئے ہو جانا ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے اسے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قومی اس کو عنایت کئے اُسی نے اس کی زندگی کا ایک مد عا ٹھہرا رکھا ہے خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلا شبہ خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا میں فانی ہو جانا ہی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحہ ۴ ۴۱ ) إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ہے یعنی ہم نے اپنی امانت کو جس سے مراد عشق و محبت الہی اور مورد ابتلاء ہو کر پھر پوری اطاعت کرنا ہے آسمان کے تمام فرشتوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور پہاڑوں پر پیش کیا جو بظاہر قوی ہیکل چیزیں تھیں سو اُن سب چیزوں نے اس امانت کو اٹھانے سے انکار کر دیا اور اُس کی عظمت کو دیکھ کر ڈر گئیں مگر انسان نے اس کو اُٹھا لیا کیونکہ انسان میں یہ دو و بیاں تھیں.ایک یہ کہ وہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس پر ظلم کر سکتا تھا.دوسری یہ خوبی کہ وہ خدائے تعالیٰ کی محبت میں اس درجہ تک پہنچ سکتا تھا جو غیر اللہ کو بکلی فراموش کر دے.توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۶،۷۵) انسان کو جو کچھ اندرونی اور بیرونی اعضاء دیئے گئے ہیں یا جو کچھ قو تیں عنایت ہوئی ہیں اصل مقصودان الذريت: ۲۵۷ الاحزاب:۷۳
۷۵۷ سے خدا کی معرفت اور خدا کی پرستش اور خدا کی محبت ہے.اسی وجہ سے انسان دنیا میں ہزاروں شغلوں کو اختیار کر کے پھر بھی بجز خدا کے اپنی بچی خوشحالی کسی میں نہیں پاتا بڑا دولتمند ہو کر بڑا عہدہ پا کر بڑا تاجر بن کر بڑی بادشاہی تک پہنچ کر بڑا فلاسفر کہلا کر آخران دنیوی گرفتاریوں سے بڑی حسرتوں کے ساتھ جاتا ہے اور ہمیشہ دل اس کا دنیا کے استغراق سے اس کو ملزم کرتا رہتا ہے اور اس کے مکروں اور فریبوں اور نا جائز کاموں میں کبھی اس کا کانشنس اس سے اتفاق نہیں کرتا.ایک دانا انسان اس مسئلہ کو اس طرح بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس چیز کے قومی ایک اعلیٰ سے اعلیٰ کام کر سکتے ہیں اور پھر آگے جا کر ٹھہر جاتے ہیں وہی اعلیٰ کام اس کی پیدائش کی علت غائی سمجھی جاتی ہے مثلاً بیل کا کام اعلیٰ سے اعلیٰ قلبہ رانی یا آب پاشی یا بار برداری ہے اس سے زیادہ اس کی قوتوں میں کچھ ثابت نہیں ہوا.سو بیل کی زندگی کا مدعا یہی تین چیزیں ہیں اس سے زیادہ کوئی قوت اس میں پائی نہیں جاتی مگر جب ہم انسان کی قوتوں کو ٹو لتے ہیں کہ اُن میں اعلیٰ سے اعلیٰ کون سی قوت ہے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ خدائے اعلیٰ برتر کی اُس میں تلاش پائی جاتی ہے.یہاں تک کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا کی محبت میں ایسا گداز اور محو ہو کہ اُس کا اپنا کچھ بھی نہ رہے سب خدا کا ہو جائے.وہ کھانے اور سونے وغیرہ طبعی امور میں دوسرے حیوانات کو اپنا شریک غالب رکھتا ہے.صنعت کاری میں بعض حیوانات اس سے بہت بڑھے ہوئے ہیں بلکہ شہد کی مکھیاں بھی ہر ایک پھول کا عطر نکال کر ایسا شہد نفیس پیدا کرتی ہیں کہ اب تک اس صنعت میں انسان کو کامیابی نہیں ہوئی پس ظاہر ہے کہ انسان کا اعلیٰ کمال خدا تعالیٰ کا وصال ہے لہذا اس کی زندگی کا اصل مدعا یہی ہے کہ خدا کی طرف اس کے دل کی کھڑ کی کھلے.ہاں اگر یہ سوال ہو کہ یہ مدعا کیونکر اور کس طرح حاصل ہوسکتا ہے اور کن وسائل سے انسان اس کو پا سکتا ہے؟ پس واضح ہو کہ سب سے بڑا وسیلہ جو اس مدعا کے پانے کے لئے شرط ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو صحیح طور پر پہچانا جائے اور نچے خدا پر ایمان لایا جائے کیونکہ اگر پہلا قدم ہی غلط ہے اور کوئی شخص مثلاً پرند یا چرند یا عناصر یا انسان کے بچہ کو خدا سمجھ بیٹھا ہے تو پھر دوسرے قدموں میں اُس کے راہ راست پر چلنے کی کیا امید ہے.سچا خدا اس کے ڈھونڈنے والوں کو مدد دیتا ہے مگر مُردہ مُردہ کو کیونکر مدد دے سکتا ہے.اس میں اللہ جل شانہ نے خوب تمثیل فرمائی ہے اور وہ یہ ہے.لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيْبُونَ لَهُمُ بِشَئُ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهَ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ وَمَا دُعَاءُ الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَللٍ يا یعنی دعا کرنے کے لائق وہی سچا خدا ہے جو الرعد: ۱۵
۷۵۸ ہر ایک بات پر قادر ہے اور جو لوگ اس کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں وہ کچھ بھی ان کو جواب نہیں دے سکتے.اُن کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی پانی کی طرف ہاتھ پھیلا دے کہ اے پانی میرے منہ میں آ جا تو کیا وہ اس کے منہ آ جائے گا؟ ہر گز نہیں سو جو لوگ بچے خدا سے بے خبر ہیں اُن کی تمام دعا ئیں باطل ہیں.دوسرا وسیلہ خدا تعالیٰ کے اُس حسن و جمال پر اطلاع پانا ہے جو باعتبار کمال تام کے اُس میں پایا جاتا ہے کیونکہ حسن ایک ایسی چیز ہے جو بالطبع دل اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اُس کے مشاہدہ سے طبعا محبت پیدا ہوتی ہے.تو حسن باری تعالیٰ اس کی وحدانیت اور اُس کی عظمت اور بزرگی اور صفات ہیں.جیسا کہ قرآن شریف نے یہ فرمایا ہے.قُل هُوَ اللهُ اَحَدٌ.اللهُ الصَّمَدُ.لَمْ يَلِدْ وَلَم يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدُلے یعنی خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں.سب اس کے حاجت مند ہیں.ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے.وہ کل چیزوں کے لئے مبدء فیض ہے اور آپ کسی سے فیضیاب نہیں.وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ.اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں.قرآن نے بار بار خدا کا کمال پیش کر کے اور اس کی عظمتیں دکھلا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو ایسا خدا دلوں کا مرغوب ہے نہ کہ مردہ اور کمزور اور کم رحم اور کم قدرت.تیسرا وسیلہ جو مقصود حقیقی تک پہنچنے کے لئے دوسرے درجہ کا زینہ ہے خدا تعالیٰ کے احسان پر اطلاع پانا ہے کیونکہ محبت کی محرک دو ہی چیزیں ہیں حسن یا احسان اور خدا تعالیٰ کی احسانی صفات کا خلاصہ سورۃ فاتحہ میں پایا جاتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ مُلِكِ يَوْمِ الدِينِ ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ احسان کامل اس میں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو محض نابود سے پیدا کرے اور پھر ہمیشہ اُس کی ربوبیت ان کے شامل حال ہو اور وہی ہر ایک چیز کا آپ سہارا ہو اور پھر اس کی تمام قسم کی رحمتیں اس کے بندوں کے لئے ظہور میں آئی ہوں اور اس کا احسان بے انتہا ہو جس کا کوئی شمار نہ کر سکے.سو ایسے احسانوں کو خدا تعالیٰ نے بار بار جتلایا ہے جیسا کہ ایک اور جگہ فرماتا ہے.وان تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا کے یعنی اگر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ہر گز گن نہ سکو گے.چوتھا وسیلہ خدا تعالیٰ نے اصل مقصود کو پانے کے لئے دعا کو ٹھہرایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اُدعُوتی اسْتَجِبْ لَكُمْ ہے یعنی تم دعا کرو میں قبول کروں گا اور بار بار دعا کے لئے رغبت دلائی ہے تا انسان اپنی طاقت سے نہیں بلکہ خدا کی طاقت سے پاوے.الاخلاص: ۲ تا ۵ الفاتحة: ۲ تام ابراهیم: ۳۵ المؤمن: ٦١
۷۵۹ پانچواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے یعنی اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو اور جو کچھ ہم نے عقل اور علم اور فہم اور ہنر وغیرہ تم کو دیا ہے وہ سب کچھ خدا کی راہ میں لگاؤ.جولوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش بجالاتے ہیں.ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں.چھٹا وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے استقامت کو بیان فرمایا گیا ہے یعنی اس راہ میں درماندہ اور عاجز نہ ہو اور تھک نہ جائے اور امتحان سے ڈر نہ جائے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ اَولِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہو گئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین ہو اور خوش ہو اور خوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہو گئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں.اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ استقامت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے.کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں.اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے اُس وقت نامردی نہ دکھلا دیں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں.ذلّت پر خوش ہو جائیں.موت پر راضی ہو جا ئیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے.نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے التوبة:ام البقرة: العنكبوت: ٧٠ م حم السجدة: ٣٢،٣١
طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بے کس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلّی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور ہر چہ بادا باد کہہ کر گردن کو آگے رکھ دیں.اور قضاء وقدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہرگز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلا دیں.جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے.یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اِس دعا میں اشارہ فرماتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یا یعنی اے ہمارے خدا ہمیں استقامت کی راہ دکھلا وہی راہ جس پر تیرا انعام و اکرام مترتب ہوتا ہے اور تو راضی ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف اس دوسری آیت میں اشارہ فرمایا.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ے اے خدا! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آ جائے اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو.جاننا چاہئے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نورا تارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوتِ ایمانی سے اُن زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں.جب باخدا آدمی پر بلا ئیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے ربّ کریم سے خواہ نخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا کیونکہ اُس وقت عافیت کی دعا میں اصرار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی اور موافقت تامہ کے مخالف ہے بلکہ سچا محب بلاء کے اترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے اور ایسے وقت میں جان کو نا چیز سمجھ کر اور جان کی محبت کو الوداع کہہ کر اپنے مولیٰ کی مرضی کا بکلی تابع ہو جاتا ہے اور اس کی رضا چاہتا ہے.اسی کے حق میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِكْ نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ ابْتِغَاءَ اللهِ وَاللهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ سے یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت خاص کے مورد ہیں.غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے.اُس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی جس کو سمجھنا ہو سمجھ لے.ساتواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے راستبازوں کی صحبت اور اُن کے کامل نمونوں کو دیکھنا ہے.پس جاننا چاہئے کہ انبیاء کی ضرورتوں میں سے ایک یہ بھی ضرورت ہے کہ انسان طبعا کامل نمونہ کا محتاج ہے اور کامل نمونہ شوق کو زیادہ کرتا ہے اور ہمت کو بڑھاتا ہے اور جو نمونہ کا پیرو نہیں وہ سُست ہو الفاتحة: ٦، الاعراف: ۱۲۷ البقرة: ٢٠٨
241 جاتا ہے اور بہک جاتا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی تم ان لوگوں کی صحبت اختیار کرو جو راستباز ہیں ان لوگوں کی راہیں سیکھو جن پر تم سے پہلے فضل ہو چکا ہے.آٹھواں وسیلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے پاک کشف اور پاک الہام اور پاک خوابیں ہیں چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سفر کرنا ایک نہایت دقیق در دقیق راہ ہے اور اس کے ساتھ طرح طرح کے مصائب اور دُکھ لگے ہوئے ہیں اور ممکن ہے کہ انسان اس نادیدہ راہ میں بھول جاوے یا نا امیدی طاری ہو اور آگے قدم بڑھانا چھوڑ دے.اس لئے خدا تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ اپنی طرف سے اس سفر میں ساتھ ساتھ اس کو تسلی دیتی رہے اور اس کی دلد ہی کرتی رہے اور اس کی کمر ہمت باندھتی رہے.اور اس کے شوق کو زیادہ کرے سواس کی سنت اس راہ کے مسافروں کے ساتھ اس طرح پر واقع ہے کہ وہ وقتا فوقتا اپنے کلام اور الہام سے اُن کو تسلی دیتا اور اُن پر ظاہر کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.تب وہ قوت پا کر بڑے زور سے اس سفر کو طے کرتے ہیں.چنانچہ اس بارے میں وہ فرماتا ہے.لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَفِي الأخيرة سے اسی طرح اور بھی کئی وسائل ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے ہیں مگر افسوس ہم اندیشہ طول کی وجہ سے اُن کو بیان نہیں کر سکتے.( اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰صفحه ۴۱۵ تا ۴۲۲ ) قول.سوائے اس کے خداوند کریم نہایت دیالوکر پالو ہے اُس کی یہ ہدایت کہ پرستش کرنی چاہئے انسان کی بہتری کے لئے ہے نہ کہ خود خدا کی اس میں کوئی عزت بڑھتی ہے.اقول.میں کہتا ہوں کہ گو بندگی و عبادت کرنے سے انسان کی اپنی ہی بہتری متصور ہے مگر پھر بھی خدائے تعالیٰ کی ربوبیت تقاضا کرتی ہے اور جوش مارتی ہے کہ لوگ اس کی سیدھی راہ پر قدم مار کر اور ناکردنی کاموں سے بچ کر اور اس کی پرستش و اطاعت میں محو ہو کر اپنی سعادت مطلوبہ کو پالیں اور اگر اس راہ پر چلنا نہ چاہیں تو پھر نہ اپنے لئے بلکہ انہیں کے لئے اس کا غضب بھڑکتا ہے اور طرح طرح کی تنیہوں میں انہیں مبتلا کرتا ہے اور جو لوگ پھر بھی نہ سمجھیں وہ بعد اور حرمان کی آگ میں جلتے ہیں.یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص اس کو یہ کہہ سکے کہ تجھے میرے نفع یا نقصان کی کیا فکر پڑی ہے اور کیوں بار بار ہم کو نصیحتیں کرتا ہے اور الہامی کتابیں بھیجتا ہے اور سزائیں دیتا ہے.اگر ہم عبادت کریں گے تو اپنے لئے اور اگر نہیں کریں گے تو آپ نقصان اُٹھا ئیں گے تجھے کیوں ناحق کا جوش و خروش ہے اور اگر ل التوبة: ١١٩ الفاتحة: یونس : ۶۵
کوئی شخص ایسا کہے بھی بلکہ اگر سب دنیا اور تمام آدم زاد متفق ہو کر اُس کی خدمت میں یہ گذارش کریں کہ ہم کو آپ اپنی نصیحتوں اور حکموں اور الہامی کتابوں سے معاف رکھیں ہم آپ کا بہشت یا یوں کہو کہ مکتی خانہ لینا نہیں چاہتے ہم اسی دنیا میں گزارہ کر لیں گے آپ مہربانی فرما کر اسی جگہ ہمیشہ کے لئے ہمیں رہنے دیں آخرت کی ہم بڑی بڑی نعمتوں سے باز آئے آپ ہمارے اعمال میں ذرا دخل دیا نہ کریں اور جزا وسزا وغیرہ تجویزیں جو ہمارے واسطے آپ کرتے رہتے ہیں ان سب سے آپ دست بردار رہیں ہمارے نفع یا نقصان سے آپ کچھ تعلق نہ رکھیں تو یہ عرض اُن کی ہرگز قبول نہیں ہو سکتی اگر چہ اس کے قبول کرانے کے لئے تمام عمر روتے پیٹتے رہیں.پس اس سے صاف ثابت ہے کہ صرف یہی بات نہیں کہ بندہ اپنی حالت میں آزاد ہے اور اپنے لئے بندگی کرتا ہے اور پر میشر کو اس سے کچھ تعلق نہیں بلکہ جلال اور عظمت الہی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بندہ شرط بندگی بجا لاوے اور نیک راہوں کو اختیار کرے اور اس کی الوہیت بالطبع تقاضا کرتی ہے کہ اس کے آگے عبودیت کے آثار ظاہر ہوں اور اس کی کاملیت ذاتی جوش سے یہ چاہتی ہے کہ جو نقصان سے خالی نہیں ہے اس کے آگے تذلیل کرے.یہی وجہ ہے کہ نافرمانوں اور سرکشوں اور ان سب کو جو شرارتوں پر ضد کرتے ہیں انجام کار اس کا عذاب پکڑتا ہے.ورنہ اس بات پر کوئی وجہ قابل اطمینان پیدا نہیں ہوتی کہ بغیر پائے جانے کسی ذاتی قوت کے جو سزا جزا دینے کے لئے اس کی ذات بابرکات ازل سے رکھتی ہو کیوں خواہ نخواہ وہ اس فکر میں لگا رہتا ہے کہ نیکی کرنے والوں کو نیک پاداش اور بدی کرنے والوں کو بد پاداش پہنچا دے بلکہ اگر کوئی قوت ذاتی جو جزا سزا دینے کے لئے محرک ہو اس میں نہ پائی جائے تو یہ چاہئے تھا کہ خاموشی اختیار رکھتا اور جزا سزا کی چھیڑ چھاڑ سے بکلی دستکش رہتا.سواگر چہ یہ بات تو صحیح ہے کہ انسان کے اعمال کا نفع نقصان اسی کی طرف عائد ہوتا ہے.خدائے تعالیٰ کی عظمت وسلطنت نہ اس سے کچھ بڑھتی ہے نہ گھٹتی ہے مگر یہ بات بھی نہایت صحیح و محکم صداقت ہے کہ ربوبیت کا تقاضا بندوں کو ان کی حیثیت بندگی پر قائم رکھنا چاہتا ہے اور جو شخص ذرا تکبر سے سر اونچا کرے تو اُس کا سر فی الفور کچلا جاتا ہے.غرض خدائے تعالیٰ کی ذات میں اپنی عظمت اپنی خدائی اپنی کبریائی اپنا جلال اپنی بادشاہی ظاہر کرنے کا ایک تقاضا پایا جاتا ہے اور سزا و جزا اور مطالبہ اطاعت و عبودیت و پرستش اسی تقاضا کی فرع پڑا ہوا ہے.اسی اظہار ربوبیت اور خدائی کی غرض سے یہ انواع اقسام کا عالم اُس نے پیدا کر رکھا ہے ورنہ اگر اُس کی ذات میں یہ جوش اظہار نہ پایا جاتا تو پھر وہ کیوں پیدا کرنے کی طرف ناحق متوجہ ہوتا.اور کس نے اُس کے سر پر بوجھ ڈالا تھا کہ ضرور یہ عالم پیدا
کرے اور ارواح کو اجسام کے ساتھ تعلق دے کر اس مسافر خانہ کو جو دنیا کے نام سے موسوم ہے اپنی عجائب قدرتوں کی جگہ بناوے.آخر اس میں کوئی قوت اقتضائی تھی جو اس بنا ڈالنے کی محرک ہوئی.اسی کی طرف اُس کے پاک کلام میں جو قرآن شریف ہے اشارات پائے جاتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے کل عالم کو اس غرض سے پیدا کیا کہ تا وہ اپنی خالقیت کی صفت سے شناخت کیا جائے اور پھر پیدا کرنے کے بعد اپنی مخلوقات پر رحم اور کرم کی بارشیں کیں تا وہ رحیمی اور کریمی کی صفت سے شناخت کیا جائے.ایسا ہی اس نے سزا اور جزا دی تا اس کا منتقم اور منعم ہونا شناخت کیا جائے.اسی طرح وہ مرنے کے بعد پھر اٹھائے گا تا اُس کا قادر ہونا شناخت کیا جائے.غرض وہ اپنے سب عجیب کاموں سے یہی مدعا رکھتا ہے کہ تا وہ پہچانا جائے اور شناخت کیا جائے.سو جبکہ دنیا کے پیدا کرنے اور جزا سزا وغیرہ سے اصل غرض معرفت الہی ہے جو لب لباب پرستش و عبادت ہے تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ خود تقاضا فرماتا ہے کہ تا اُس کی معرفت جس کی حقیقت کاملہ پرستش و عبادت کے ذریعہ سے کھلتی ہے اُس کے بندوں سے حاصل ہو جائے.جیسا کہ ایک خوبصورت اپنے کمال خوبصورتی کی وجہ سے اپنے حسن کو ظاہر کرنا چاہتا ہے.سو خدائے تعالیٰ جس پر حسن حقیقی کے کمالات ختم ہیں وہ بھی اپنے ذاتی جوش سے چاہتا ہے کہ وہ کمالات لوگوں پر کھل جائیں.پس اس تحقیق سے ثابت ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنی عبادت جو مدار و ذریعہ شناخت ہے ضرور اپنے بندوں سے چاہتا ہے اور جو شخص اُس کی اس خواہش کا مقابلہ کرے اور اس کی پرستش سے منکر اور منحرف ہو تو ایسے شخص کو نابود کرنے کے لئے اُس کی کبریائی متوجہ ہوتی ہے.اگر تم صفحہ دنیا پر غور کر کے دیکھو اور جو کچھ خدائے تعالیٰ نے اب تک سرکشوں اور بے ایمانوں سے کیا ہے اور جو کچھ وہ قدیم سے جفا کاروں اور ستم کاروں سے کرتا چلا آیا ہے اس پر عمیق نگاہ سے نظر ڈالو تو تم پر نہایت صفائی سے کھل جائے گا کہ بلاشبہ یہ ثابت شدہ صداقت ہے کہ بالضرور خدائے تعالیٰ اپنے ذاتی تقاضا سے نیکی سے دوستی اور بدی سے نفرت اور عداوت رکھتا ہے اور یہی چاہتا ہے کہ لوگ بدی کو چھوڑ دیں اور نیکی کو اختیار کریں.گو نیکی اور بدی کو جو انسان سے ظہور میں آتی ہے اس کے کارخانہ سلطنت میں کوئی مفید یا مضر دخل نہیں ہے لیکن ذاتی تقاضا اس کا یہی ہے.اب ظاہر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ نے روحوں کو پیدا نہیں کیا تو وہ کسی روح سے اس مطالبہ کرنے کا مستحق نہیں ہے کہ وہ کمال درجہ کی پرستش جو اپنے پیدا کنندہ کے لئے چاہئے کیوں اُس سے صادر نہیں ہوئی.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۶۳ تا ۲۶۸)
۷۶۴ انسان کی طبعی اخلاقی اور روحانی حالتیں یہ قرآن نے ہی دنیا پر احسان کیا کہ طبعی حالتوں اور اخلاق فاضلہ میں فرق کر کے دکھلایا اور جب طبعی حالتوں سے نکال کر اخلاق فاضلہ کے محل عالی تک پہنچایا.تو فقط اسی پر کفایت نہ کی بلکہ اور مرحلہ جو باقی تھا یعنی روحانی حالتوں کا مقام اس تک پہنچنے کے لئے پاک معرفت کے دروازے کھول دیئے اور نہ صرف کھول دیئے بلکہ لاکھوں انسانوں کو اس تک پہنچا بھی دیا.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده صفحه ۳۶۷، ۳۶۸) واضح ہو کہ پہلا سوال انسان کی طبعی اور اخلاقی اور روحانی حالتوں کے بارے میں ہے.سو جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف نے اِن تین حالتوں کی اس طرح پر تقسیم کی ہے کہ ان تینوں کے علیحدہ علیحدہ تین مبداء ٹھہرائے ہیں یا یوں کہو کہ تین سرچشمے قرار دیئے ہیں جن میں سے جدا جدا یہ حالتیں نکلتی ہیں.پہلا سر چشمہ جو تمام طبعی حالتوں کا مورد اور مصدر ہے اُس کا نام قرآن شریف نے نفس امارہ رکھا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوء لے یعنی نفس امارہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو بدی کی طرف جو اُس کے کمال کے مخالف اور اس کی اخلاقی حالتوں کے برعکس ہے جھکاتا ہے اور نا پسندیدہ اور بد راہوں پر چلانا چاہتا ہے.غرض بے اعتدالیوں اور بدیوں کی طرف جانا انسان کی ایک حالت ہے جو اخلاقی حالت سے پہلے اُس پر طبعاً غالب ہوتی ہے اور یہ حالت اس وقت تک طبعی حالت کہلاتی ہے جب تک کہ انسان عقل اور معرفت کے زیر سایہ نہیں چلتا بلکہ چار پایوں کی طرح کھانے پینے سونے جاگنے یا غصہ اور جوش دکھلانے وغیرہ امور میں طبعی جذبات کا پیرو رہتا ہے اور جب انسان عقل اور معرفت کے مشورہ سے طبعی حالتوں میں تصرف کرتا اور اعتدال مطلوب کی رعایت رکھتا ہے اُس وقت ان تینوں حالتوں کا نام طبعی حالتیں نہیں رہتا بلکہ اُس وقت یہ حالتیں اخلاقی حالتیں کہلاتی ہیں جیسا کہ آگے بھی کچھ ذکر اِس کا آئے گا.یوسف:۵۴
اور اخلاقی حالتوں کے دوسرے سرچشمہ کا نام قرآن شریف میں نفس لوامہ ہے.جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے.وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ التَّوَّامَةِ لے یعنی میں اس نفس کی قسم کھاتا ہوں جو ہدی کے کام اور ہر ایک بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے.یہ فس لوامہ انسانی حالتوں کا دوسرا سر چشمہ ہے جس سے اخلاقی حالتیں پیدا ہوتی ہیں.اور اس مرتبہ پر انسان دوسرے حیوانات کی مشابہت سے نجات پاتا ہے.اور اس جگہ نفس لوامہ کی قسم کھانا اس کو عزت دینے کے لئے ہے.گویا وہ نفس امارہ سے نفس لوامہ بن کر بوجہ اس ترقی کے جناب الہی میں عزت پانے کے لائق ہو گیا اور اس کا نام لوامہ اس لئے رکھا کہ وہ انسان کو بدی پر ملامت کرتا ہے اور اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ انسان اپنے طبعی لوازم میں شتر بے مہار کی طرح چلے اور چار پایوں کی زندگی بسر کرے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ اس سے اچھی حالتیں اور اچھے اخلاق صادر ہوں اور انسانی زندگی کے تمام لوازم میں کوئی بے اعتدالی ظہور میں نہ آوے اور طبعی جذبات اور طبعی خواہشیں عقل کے مشورہ سے ظہور پذیر ہوں.پس چونکہ وہ بری حرکت پر ملامت کرتا ہے اس لئے اس کا نام نفس لوامہ ہے یعنی بہت ملامت کرنے والا اور نفس لوامہ اگر چہ طبعی جذبات پسند نہیں کرتا بلکہ اپنے تئیں ملامت کرتا رہتا ہے لیکن نیکیوں کے بجالانے پر پورے طور سے قادر بھی نہیں ہوسکتا اور کبھی نہ کبھی طبعی جذبات اُس پر غلبہ کر جاتے ہیں.تب گر جاتا ہے اور ٹھوکر کھاتا ہے.گویا وہ ایک کمزور بچہ کی طرح ہوتا ہے جو گرنا نہیں چاہتا ہے مگر کمزوری کی وجہ سے گرتا ہے.پھر اپنی کمزوری پر نادم ہوتا ہے.غرض یہ نفس کی وہ اخلاقی حالت ہے جب نفس اخلاق فاضلہ کو اپنے اندر جمع کرتا ہے اور سرکشی سے بے زار ہوتا ہے مگر پورے طور پر غالب نہیں آ سکتا.پھر ایک تیسرا سر چشمہ ہے جس کو روحانی حالتوں کا مبداء کہنا چاہئے اس سر چشمہ کا نام قرآن شریف نے نفسِ مطمئنہ رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.یايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِى وَادْخُلِي جَنَّتِی ہے یعنی اے نفس آرام یافته جو خدا سے آرام پا گیا.اپنے خدا کی طرف واپس چلا آ.تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر آ جا.یہ وہ مرتبہ ہے جس میں نفس تمام کمزوریوں سے نجات پا کر روحانی قوتوں سے بھر جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ سے ایسا پیوند کر لیتا ہے کہ بغیر اس کے جی بھی نہیں سکتا اور جس طرح پانی اوپر سے نیچے کی طرف بہتا اور القيمة : الفجر : ۲۸ تا ۳۱
بسبب اپنی کثرت کے اور نیز روکوں کے دور ہونے سے بڑے زور سے چلتا ہے اسی طرح وہ خدا کی طرف بہتا چلا جاتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ نفس جو خدا سے آرام پا گیا اُس کی طرف واپس چلا آ.پس وہ اسی زندگی میں نہ موت کے بعد ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کرتا ہے اور اسی دنیا میں نہ دوسری جگہ ایک بہشت اُس کو ملتا ہے.اور جیسا کہ اس آیت میں لکھا ہے کہ اپنے رب کی طرف یعنی پرورش کرنے والے کی طرف واپس آ.ایسا ہی اُس وقت یہ خدا سے پرورش پاتا ہے اور خدا کی محبت اس کی غذا ہوتی ہے اور اسی زندگی بخش چشمہ سے پانی پیتا ہے.اس لئے موت سے نجات پاتا ہے.جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَ سهَا لِے یعنی جس نے ارضی جذبات سے اپنے نفس کو پاک کیا وہ بچ گیا.اور نہیں ہلاک ہو گا مگر جس نے ارضی جذبات میں جو طبعی جذبات ہیں اپنے تئیں چھپا دیا وہ زندگی سے ناامید ہو گیا.غرض یہ تین حالتیں ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں طبعی اور اخلاقی اور روحانی حالتیں کہہ سکتے ہیں.اور چونکہ طبعی تقاضے افراط کے وقت بہت خطرناک ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات اخلاق اور روحانیت کا ستیا ناس کر دیتے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ کی پاک کتاب میں اُن کو نفس امارہ کی حالتوں سے موسوم کیا گیا.اگر یہ سوال ہو کہ انسان کی طبعی حالتوں پر قرآن شریف کا کیا اثر ہے اور وہ اُن کی نسبت کیا ہدایت دیتا ہے اور عملی طور پر کس حد تک اُن کو رکھنا چاہتا ہے تو واضح ہو کہ قرآن شریف کے رُو سے انسان کی طبعی حالتوں کو اُس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے نہایت ہی شدید تعلقات واقع ہیں.یہاں تک کہ انسان کے کھانے پینے کے طریقے بھی انسان کے اخلاقی اور روحانی حالتوں پر اثر کرتے ہیں.اور اگر ان طبعی حالتوں سے شریعت کی ہدایتوں کے موافق کام لیا جائے تو جیسا کہ نمک کی کان میں پڑ کر ہر ایک چیز نمک ہی ہو جاتی ہے ایسا ہی یہ تمام حالتیں اخلاقی ہی ہو جاتی ہیں اور روحانیت پر نہایت گہرا اثر کرتی ہیں.اسی واسطے قرآن شریف نے تمام عبادات اور اندرونی پاکیزگی کی اغراض کو خشوع اور خضوع کے مقاصد میں جسمانی طہارتوں اور جسمانی آداب اور جسمانی تعدیل کو بہت ملحوظ رکھا ہے اور غور کرنے کے وقت یہی فلاسفی نہایت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جسمانی اوضاع کا روح پر بہت قومی اثر ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طبعی افعال کو بظاہر جسمانی ہیں مگر ہماری روحانی حالتوں پر ضرور اُن کا اثر ہے.مثلاً جب ہماری آنکھیں رونا شروع کریں اور گو تکلف سے ہی رو ویں مگر فی الفور اُن آنسوؤں الشمس: ١٠،اا
272 کا ایک شعلہ اُٹھ کر دل پر جا پڑتا ہے.تب دل بھی آنکھوں کی پیروی کر کے غمگین ہو جاتا ہے.ایسا ہی جب ہم تکلف سے ہنسنا شروع کریں تو دل میں بھی ایک انبساط پیدا ہو جاتا ہے.یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جسمانی سجدہ بھی روح میں خشوع اور عاجزی کی حالت پیدا کرتا ہے.اس کے مقابل پر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب ہم گردن کو اونچی کھینچ کر اور چھاتی کو اُبھار کر چلیں تو یہ وضع رفتار ہم میں ایک قسم کا تکبر اور خود بینی پیدا کرتی ہے تو ان نمونوں سے پورے انکشاف کے ساتھ کھل جاتا ہے کہ بے شک جسمانی اوضاع کا روحانی حالتوں پر اثر ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۶ ۳۱ تا ۳۲۰) طبعی حالتیں جن کا سر چشمہ اور مبدء نفس امارہ ہے خدا تعالیٰ کے پاک کلام کے اشارات کے موافق اخلاقی حالتوں سے کوئی الگ چیز نہیں ہے.کیونکہ خدا کے پاک کلام نے تمام نیچرل قومی اور جسمانی خواہشوں اور تقاضوں کو طبعی حالات کی مد میں رکھا ہے اور وہی طبعی حالتیں ہیں جو بالا رادہ ترتیب اور تعدیل اور موقع بینی اور محل پر استعمال کرنے کے بعد اخلاق کا رنگ پکڑ لیتی ہیں.ایسا ہی اخلاقی حالتیں روحانی حالتوں سے کوئی الگ باتیں نہیں ہیں بلکہ وہی اخلاقی حالتیں ہیں جو پورے فنافی اللہ اور تزکیہ نفس اور پورے انقطاع الی اللہ اور پوری محبت اور پوری محویت اور پوری سکینت اور اطمینان اور پوری موافقت باللہ سے روحانیت کا رنگ پکڑ لیتی ہیں.طبعی حالتیں جب تک اخلاقی رنگ میں نہ آئیں کسی طرح انسان کو قابلِ تعریف نہیں بنا تیں کیونکہ وہ دوسرے حیوانات بلکہ جمادات میں بھی پائی جاتی ہیں.ایسا ہی مجرد اخلاق کا حاصل کرنا بھی انسان کو روحانی زندگی نہیں بخشتا بلکہ ایک شخص خدا تعالیٰ کے وجود سے بھی منکر رہ کر اچھے اخلاق دکھلا سکتا ہے.دل کا غریب ہونا یا دل کا حلیم ہونا یا صلح کا ر ہونا یا ترک شر کرنا اور شریر کے مقابلہ پر نہ آنا یہ تمام طبعی حالتیں ہیں اور ایسی باتیں ہیں جو ایک نااہل کو بھی حاصل ہو سکتی ہیں جو اصل سرچشمہ نجات سے بے نصیب اور نا آشنا محض ہے اور بہت سے چار پائے غریب بھی ہوتے ہیں اور پلنے اور خو پذیر ہونے سے صلح کاری بھی دکھلاتے ہیں.سونٹے پر سونٹا مارنے سے کوئی مقابلہ نہیں کرتے مگر پھر بھی ان کو انسان نہیں کہہ سکتے چہ جائیکہ ان خصلتوں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان بن سکیں.ایسا ہی بد سے بد عقیدہ والا بلکہ بعض بدکاریوں کا مرتکب ان باتوں کا پابند ہو سکتا ہے.ممکن ہے کہ انسان رحم میں اس حد تک پہنچ جائے کہ اگر اُس کے اپنے ہی زخم میں کیڑے پڑیں اُن کو بھی قتل کرنا روا نہ رکھے اور جانداروں کی پاسداری اس قدر کرے کہ جوئیں جو سر میں پڑتی ہیں یا وہ کیڑے جو پیٹ اور انتڑیوں میں اور دماغ میں پیدا ہوتے ہیں اُن کو بھی آزار دینا نہ چاہے بلکہ میں قبول کر سکتا ہوں کہ
۷۶۸ کسی کا رحم اس حد تک پہنچے کہ وہ شہد کھانا ترک کر دے کیونکہ وہ بہت سی جانوں کے تلف ہونے اور غریب لکھیوں کو اُن کے استھان سے پراگندہ کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے.اور میں مانتا ہوں کہ کوئی مُشک سے بھی پر ہیز کرے کیونکہ وہ غریب ہرن کا خون ہے اور اس غریب کو قتل کرنے اور بچوں سے جدا کرنے کے بعد میسر آ سکتا ہے.ایسا ہی مجھے اس سے بھی انکار نہیں کہ کوئی موتیوں کے استعمال کو بھی چھوڑ دے اور ابریشم کو پہننا بھی ترک کرے کیونکہ یہ دونوں غریب کیڑوں کے ہلاک کرنے سے ملتے ہیں.بلکہ میں یہاں تک مانتا ہوں کہ کوئی شخص دُکھ کے وقت جونکوں کے لگانے سے بھی پر ہیز کرے اور آپ دکھ اُٹھالے اور غریب جونک کی موت کا خواہاں نہ ہو.بالآخر اگر کوئی مانے یا مانے مگر میں مانتا ہوں کہ کوئی شخص اس قدر رحم کو کمال کے نقطہ تک پہنچا دے کہ پانی پینا چھوڑ دے اور اس طرح پانی کے کیٹروں کے بچانے کے لئے اپنے تئیں ہلاک کرے.میں یہ سب کچھ قبول کرتا ہوں لیکن میں ہرگز قبول نہیں کر سکتا کہ یہ تمام طبعی حالتیں اخلاق کہلا سکتی ہیں یا صرف انہی سے وہ اندرونی گند دھوئے جا سکتے ہیں جن کا وجود خدا کے ملنے کی روک ہے.میں کبھی باور نہیں کروں گا کہ اس طرح کا غریب اور بے آزار بنتا جس میں بعض چار پائیوں اور پرندوں کا کچھ نمبر زیادہ ہے اعلیٰ انسانیت کے حصول کا موجب ہو سکتا ہے.بلکہ میرے نزدیک یہ قانون قدرت سے لڑائی ہے اور رضا کے بھاری خلق کے برخلاف اور اس نعمت کو رڈ کرنا ہے جو قدرت نے ہم کو عطا کی ہے بلکہ وہ روحانیت ہر ایک خلق کو محل اور موقعہ پر استعمال کرنے کے بعد اور پھر خدا کی راہوں میں وفاداری کے ساتھ قدم مارنے سے اور اسی کا ہو جانے سے ملتی ہے.جو اُس کا ہو جاتا ہے اُس کی یہی نشانی ہے کہ وہ اُس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا.عارف ایک مچھلی ہے جو خدا کے ہاتھ سے ذبح کی گئی اور اُس کا پانی خدا کی محبت ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۲۵ تا ۳۲۷) انسانی حالتوں کے سرچشمے تین ہیں یعنی نفس امارہ، نفس لوامہ ،نفس مطمئنہ اور طریق اصلاح کے بھی تین ہیں.اول یہ کہ بے تمیز وحشیوں کو اس ادنیٰ خلق پر قائم کیا جائے کہ وہ کھانے پینے اور شادی وغیرہ تمدنی امور میں انسانیت کے طریقے پر چلیں.نہ ننگے پھریں اور نہ کتوں کی طرح مُردار خور ہوں اور نہ کوئی اور بے تمیزی ظاہر کریں.یہ طبعی حالتوں کی اصلاحوں میں سے ادنی درجہ کی اصلاح ہے یہ اس قسم کی اصلاح ہے کہ اگر مثلاً پورٹ بلیر کے جنگلی آدمیوں میں سے کسی آدمی کو انسانیت کے لوازم سکھانا ہو تو پہلے
۷۶۹ ادنی ادنی اخلاق انسانیت اور طریق ادب کی ان کو تعلیم دی جائے گی.دوسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جب کوئی ظاہری آداب انسانیت کے حاصل کر لیوے تو اس کو بڑے بڑے اخلاق انسانیت کے سکھلائے جائیں اور انسانی قولی میں جو کچھ بھرا پڑا ہے اُن سب کو محل اور موقعہ پر استعمال کرنے کی تعلیم دی جائے.تیسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جو لوگ اخلاق فاضلہ سے متصف ہو گئے ہیں ایسے خشک زاہدوں کو شربت محبت اور وصل کا مزہ چکھایا جائے.یہ تین اصلاحیں ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰صفحه ۳۲۷، ۳۲۸) عوام الناس خیال کرتے ہیں کہ خلق صرف حلیمی اور نرمی اور انکسار ہی کا نام ہے.یہ ان کی غلطی ہے بلکہ جو کچھ بمقابلہ ظاہری اعضاء کے باطن میں انسانی کمالات کی کیفیتیں رکھی گئی ہیں ان سب کیفیتوں کا نام خلق ہے.مثلاً انسان آنکھ سے روتا ہے اور اُس کے مقابل پر دل میں ایک قوت رقت ہے وہ جب بذریعہ عقل خداداد کے اپنے محل پر مستعمل ہو تو وہ ایک خلق ہے ایسا ہی انسان ہاتھوں سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو شجاعت کہتے ہیں.جب انسان محل پر اور موقع کے لحاظ سے اس قوت کو استعمال میں لاتا ہے تو اس کا نام بھی خلق ہے اور ایسا ہی انسان کبھی ہاتھوں کے ذریعہ سے مظلوموں کو ظالموں سے بچانا چاہتا ہے یا ناداروں اور بھوکوں کو کچھ دینا چاہتا ہے یا کسی اور طرح سے بنی نوع کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو رحم بولتے ہیں اور کبھی انسان اپنے ہاتھوں کے ذریعہ سے ظالم کو سزا دیتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو انتقام کہتے ہیں اور کبھی انسان حملہ کے مقابل پر حملہ کرنا نہیں چاہتا اور ظالم کے ظلم سے در گذر کرتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو عفو اور صبر کہتے ہیں اور کبھی انسان بنی نوع کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے کام لیتا ہے یا پیروں سے یا دل اور دماغ سے اور ان کی بہبودی کے لئے اپنا سرمایہ خرچ کرتا ہے تو اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو سخاوت کہتے ہیں.پس جب انسان ان تمام قوتوں کو موقع اور محل کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے تو اُس وقت اُن کا نام خلق رکھا جاتا ہے.اللہ جل شانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ لا یعنی تو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے.القلم : ۵ اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۳۲ ۳۳۳)
طبعی حالات اخلاقی حالات سے کچھ الگ چیز نہیں بلکہ وہی حالات ہیں جو تعدیل اور موقعہ اور محل پر استعمال کرنے سے اور عقل کی تجویز اور مشورہ سے کام میں لانے سے اخلاقی حالات کا رنگ پکڑ لیتے ہیں.اور قبل اس کے کہ وہ عقل اور معرفت کی اصلاح اور مشورہ سے صادر ہوں گو وہ کیسے ہی اخلاق سے مشابہ ہوں.درحقیقت اخلاق نہیں ہوتے بلکہ طبیعت کی ایک بے اختیار رفتار ہوتی ہے.جیسا کہ اگر ایک کتے یا ایک بکری سے اپنے مالک کے ساتھ محبت اور انکسار ظاہر ہو تو اس کتے کو خلیق نہیں کہیں گے اور نہ اس بکری کا نام مہذب الاخلاق رکھیں گے.اسی طرح ہم ایک بھیڑئیے یا شیر کو اُن کی درندگی کی وجہ سے بدخلق نہیں کہیں گے بلکہ جیسا کہ ذکر کیا گیا اخلاقی حالت محل اور سوچ اور وقت شناسی کے بعد شروع ہوتی ہے اور ایک ایسا انسان جو عقل و تدبیر سے کام نہیں لیتا وہ اُن شیر خوار بچوں کی طرح ہے جن کے دل اور دماغ پر ہنوز قوت عقلیہ کا سایہ نہیں پڑا یا ان دیوانوں کی طرح جو جوہر عقل اور دانش کو کھو بیٹھتے ہیں.ظاہر ہے کہ جو شخص بچہ شیر خوار اور دیوانہ ہو وہ ایسی حرکات بعض اوقات ظاہر کرتا ہے کہ جو اخلاق کے ساتھ مشابہ ہوتی ہیں مگر کوئی عقلمند ان کا نام اخلاق نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ حرکتیں تمیز اور موقع بینی کے چشمہ سے نہیں نکلتیں بلکہ وہ طبعی طور پرتحریکوں کے پیش آنے کے وقت صادر ہوتی جاتی ہیں جیسا کہ انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف رُخ کرتا ہے اور ایک مرغ کا بچہ پیدا ہوتے ہی دانہ چگنے کے لئے دوڑتا ہے.جونک کا بچہ جونک کی عادتیں اپنے اندر رکھتا ہے اور سانپ کا بچہ سانپ کی عادتیں ظاہر کرتا ہے اور شیر کا بچہ شیر کی عادتیں دکھلاتا ہے.بالخصوص انسان کے بچہ کو غور سے دیکھنا چاہئے کہ وہ کیسے پیدا ہوتے ہی انسانی عادتیں دکھلانا شروع کر دیتا ہے اور پھر جب برس ڈیڑھ برس کا ہوا تو وہ عادات طبعیہ بہت نمایاں ہو جاتی ہیں.مثلاً پہلے جس طور سے روتا تھا اب رونا بہ نسبت پہلے کے کسی قدر بلند ہو جاتا ہے.ایسا ہی ہنسنا قہقہہ کی حد تک پہنچ جاتا ہے.اور آنکھوں میں بھی عمداد یکھنے کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں اور اس عمر میں یہ ایک اور امرطبعی پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی رضا مندی یا نا رضا مندی حرکات سے ظاہر کرتا ہے اور کس کو مارتا اور کسی کو کچھ دینا چاہتا ہے مگر یہ تمام حرکات دراصل طبعی ہوتی ہیں.پس ایسے بچہ کی مانند ایک وحشی آدمی بھی جس کو انسانی تمیز سے بہت ہی کم حصہ ملا ہے.وہ بھی اپنے ہر ایک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں طبعی حرکات ہی دکھلاتا ہے اور اپنی طبیعت کے جذبات کا تابع رہتا ہے کوئی بات اس کے اندرونی قوی کے تدبر اور تفکر سے نہیں نکلتی بلکہ جو کچھ طبعی طور پر اس کے اندر پیدا ہوا ہے وہ خارجی تحریکوں کے مناسب حال نکلتا چلا جاتا ہے.یہ ممکن ہے کہ اس کے طبعی جذبات جو
اس کے اندر سے کسی تحریک سے باہر آتے ہیں وہ سب کے سب بُرے نہ ہوں بلکہ بعض اُن کے نیک اخلاق سے مشابہ ہوں لیکن عاقلانہ تدبر اور موشگافی کو اُن میں دخل نہیں ہوتا اور اگر کسی قدر ہو بھی تو وہ بوجہ غلبہ جذبات طبعی کے قابل اعتبار نہیں ہوتا بلکہ جس طرف کثرت ہے اسی طرف کو معتبر سمجھا جائے گا.غرض ایسے شخص کی طرف حقیقی اخلاق منسوب نہیں کر سکتے جس پر جذبات طبعیہ حیوانوں اور بچوں اور دیوانوں کی طرح غالب ہیں اور جو اپنی زندگی کو قریب قریب وحشیوں کے بسر کرتا ہے بلکہ حقیقی طور پر نیک یا بد اخلاق کا زمانہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب انسان کی عقل خدا داد پختہ ہو کر اس کے ذریعہ سے نیکی اور بدی یا دو بدیوں یا دو نیکیوں کے درجہ میں فرق کر سکے.پھر اچھے راہ کے ترک کرنے سے اپنے دل میں ایک حسرت پاوے اور بُرے کام کے ارتکاب سے اپنے تئیں نادم اور پشیمان دیکھے یہ انسان کی زندگی کا دوسرا زمانہ ہے جس کو خدا کے پاک کلام قرآن شریف میں نفس لوامہ کے نام سے تعبیر کیا ہے مگر یاد رہے کہ ایک وحشی کو نفس لوامہ کی حالت تک پہنچانے کے لئے صرف سرسری نصائح کافی نہیں ہوتیں بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کو خدا شناسی کا اس قدر حصہ ملے جس سے وہ اپنی پیدائش بے ہودہ اور عبث خیال نہ کرے تا معرفت الہی سے بچے اخلاق اُس میں پیدا ہوں اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ساتھ ساتھ بچے خدا کی معرفت کے لئے توجہ دلائی ہے اور یقین دلایا ہے کہ ہر ایک عمل اور خلق ایک نتیجہ رکھتا ہے جو اُس زندگی میں روحانی راحت یا روحانی عذاب کا موجب ہوتا ہے اور دوسری زندگی میں گھلے گھلے طور پر اپنا اثر دکھائے گا.غرض نفس لوامہ کے درجہ پر انسان کو عقل اور معرفت اور پاک کانشنس سے اِس قد رحصہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ بُرے کام پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے اور نیک کام کا خواہشمند اور حریص رہتا ہے.یہ وہی درجہ ہے کہ جس میں انسان اخلاق فاضلہ حاصل کرتا ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۳۰ تا ۳۳۲) اللہ جل شانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ یعنی تو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے.سو اسی تشریح کے مطابق اس کے معنے ہیں.یعنی یہ کہ تمام قسمیں اخلاق کی سخاوت، شجاعت، عدل، رحم، احسان، صدق، حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں.غرض جس قدر انسان کے دل میں قو تیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ادب، حیا، دیانت، مروت، غیرت، استقامت، عفت، زہادت ، اعتدال، مواسات یعنی ہمدردی ایسا ہی شجاعت، سخاوت ،عفو، صبر، احسان، صدق وفا وغیرہ القلم: ۵
۷۷۲ جب یہ تمام طبعی حالتیں عقل اور تدبر کے مشورہ سے اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہوگا اور یہ تمام اخلاق در حقیقت انسان کی طبعی حالتیں اور طبعی جذبات ہیں اور صرف اس وقت اخلاق کے نام سے موسوم ہوتے ہیں کہ جب محل اور موقعہ کے لحاظ سے بالا رادہ اُن کو استعمال کیا جائے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۳۳) جاننا چاہئے کہ اخلاق دو قسم کے ہیں.اول وہ اخلاق جن کے ذریعہ سے انسان ترک شر پر قادر ہوتا ہے.دوسرے وہ اخلاق جن کے ذریعہ سے انسان ایصال خیر پر قادر ہوتا ہے اور ترک شہر کے مفہوم میں وہ اخلاق داخل ہیں جن کے ذریعہ سے انسان کوشش کرتا ہے کہ تا اپنی زبان یا اپنے ہاتھ یا اپنی آنکھ یا اپنے کسی اور عضو سے دوسرے کے مال یا عزت یا جان کو نقصان نہ پہنچاوے یا نقصان رسانی اور کسر شان کا ارادہ نہ کرے اور ایصالِ خیر کے مفہوم میں تمام وہ اخلاق داخل ہیں جن کے ذریعے سے انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنی زبان یا اپنے ہاتھ یا اپنے مال یا اپنے علم یا کسی اور ذریعہ سے دوسرے کے مال یا عزت کو فائدہ پہنچا سکے.یا اس کے جلال یا عزت ظاہر کرنے کا ارادہ کر سکے یا اگر کسی نے اس پر کوئی ظلم کیا تھا تو جس سزا کا وہ ظالم مستحق تھا اُس سے در گزر کر سکے اور اِس طرح اُس کو دُکھ اور عذاب بدنی اور تاوان مالی سے محفوظ رہنے کا فائدہ پہنچا سکے یا اس کو ایسی سزا دے سکے جو حقیقت میں اس کے لئے سراسر رحمت ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۳۹ ،۳۴۰) واضح ہو کہ وہ اخلاق جو ترک شر کے لئے صانع حقیقی نے مقرر فرمائے ہیں وہ زبان عربی میں جو تمام انسانی خیالات اور اوضاع اور اخلاق کے اظہار کے لئے ایک ایک مفرد لفظ اپنے اندر رکھتی ہے.چار ناموں سے موسوم ہیں.چنانچہ پہلا خلق احصان کے نام سے موسوم ہے اور اس لفظ سے مراد خاص وہ پاکدامنی ہے جو مرد اور عورت کی قوت تناسل سے علاقہ رکھتی ہے اور مُحْصِنُ یا مُحْصِنَہ اس مرد یا اس عورت کو کہا جائے گا جو حرام کاری یا اس کے مقدمات سے مجتنب رہ کر اس ناپاک بدکاری سے اپنے تئیں روکیں جس کا نتیجہ دونوں کے لئے اس عالم میں ذلت اور لعنت اور دوسرے جہان میں عذاب آخرت اور متعلقین کے لئے علاوہ بے آبروئی نقصان شدید ہے.اس جگہ یادر ہے کہ یہ خلق جس کا نام احصان یا عفت ہے یعنی پاکدامنی یہ اُسی حالت میں خلق کہلائے گا جبکہ ایسا شخص جو بد نظری یا بدکاری کی استعداد اپنے اندر رکھتا ہے.یعنی قدرت نے وہ قومی اس کو دے رکھے ہیں جن کے ذریعہ سے اس جرم کا ارتکاب ہو سکتا ہے.
۷۷۳ اس فعل شنیع سے اپنے تئیں بچائے اور اگر باعث بچہ ہونے یا نامرد ہونے یا خوجہ ہونے یا پیر فرتوت ہونے کے یہ قوت اس میں موجود نہ ہو تو اس صورت میں ہم اس کو اس خلق سے جس کا نام اخصان یا عفت ہے موصوف نہیں کر سکتے.خدا تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلی تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلا دیئے ہیں یعنی یہ کہ (۱) اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا.(۲) کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا.(۳) نامحرموں کے قصے نہ سننا (۴) اور دوسری تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اپنے تئیں بچانا.(۵) اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ.اس جگہ ہم بڑے دعوی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلی تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام سے ہی خاص ہے.دوسری قسم ترک شر کے اقسام میں سے وہ خُلق ہے جس کو امانت و دیانت کہتے ہیں یعنی دوسرے کے مال پر شرارت اور بد نیتی سے قبضہ کر کے اس کو ایذا پہنچانے پر راضی نہ ہونا.سو واضح ہو کہ دیانت اور امانت انسان کی طبعی حالتوں میں سے ایک حالت ہے.اسی واسطے ایک بچہ شیر خوار بھی جو بوجہ کم سنی اپنی طبعی سادگی پر ہوتا ہے اور نیز باعث صغرسنی ابھی بُری عادتوں کا عادی نہیں ہوتا.اس قدر غیر کی چیز سے نفرت رکھتا ہے کہ غیر عورت کا دودھ بھی مشکل سے پیتا ہے.اگر بے ہوشی کے زمانہ میں کوئی اور دا یہ مقرر نہ ہو تو ہوش کے زمانہ میں اس کو دوسرے کا دودھ پلانا نہایت مشکل ہو جاتا ہے اور اپنی جان پر بہت تکلیف اٹھاتا ہے اور ممکن ہے اس تکلیف سے مرنے کے قریب ہو جائے مگر دوسری عورت کے دودھ سے طبعا بیزار ہوتا ہے اس قدر نفرت کا کیا بھید ہے؟ بس یہی کہ وہ والدہ کو چھوڑ کر غیر کی چیز کی طرف رجوع کرنے سے طبعا متنفر ہے.اب ہم جب ایک گہری نظر سے بچہ کی اس عادت کو دیکھتے اور اس پر غور کرتے ہیں اور فکر کرتے کرتے اس کی اس عادت کی تہ تک چلے جاتے ہیں تو ہم پر صاف کھل جاتا ہے کہ یہ عادت جو غیر کی چیز سے اس قدر نفرت کرتا کہ اپنے اوپر مصیبت ڈال لیتا ہے یہی جڑھ دیانت اور امانت کی ہے اور دیانت کے خلق میں کوئی شخص راستباز نہیں ٹھہر سکتا جب تک بچہ کی طرح غیر کے مال کے بارے میں بھی بچی نفرت اور کراہت اس کے دل میں پیدا نہ ہو جائے لیکن بچہ اس عادت کو اپنے محل پر استعمال نہیں کرتا اور اپنی بے وقوفی کے سبب سے بہت کچھ تکلیفیں اٹھا لیتا ہے.لہذا اس کی یہ عادت صرف ایک حالت طبعی ہے جس کو وہ بے اختیار ظاہر کرتا ہے.اس لئے وہ حرکت اُس کے خلق میں
223 داخل نہیں ہو سکتی گوانسانی سرشت میں اصل جڑھ خلق دیانت اور امانت کی وہی ہے جیسا کہ بچہ اس غیر معقول حرکت سے متدین اور امین نہیں کہلا سکتا.ایسا ہی وہ شخص بھی اس خلق سے متصف نہیں ہوسکتا جو اس طبعی حالت کو محل پر استعمال نہیں کرتا.امین اور دیانت دار بننا بہت نازک امر ہے جب تک انسان اس کے تمام پہلو بجا نہ لاوے.امین اور دیانت دار نہیں ہو سکتا.اس میں اللہ تعالیٰ نے نمونہ کے طور پر آیات مفصلہ ذیل میں امانت کا طریق سمجھایا ہے.اور وہ طریق امانت یہ ہے.وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللهُ لَكُمْ قِيماً وَ ارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوالَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا وَابْتَلُوا الْيَتْلَى حَتَّى إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ أَنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَنْ يَكْبَرُوا وَ مَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمُ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبًا.- وَلْيَخْشَ الَّذِيْنَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعْفًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللهَ وَلْيَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيدًا اِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَ سَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا.ان تمام آیات میں خدا تعالیٰ نے تمام طریقے بددیانتی کے بیان فرما دیئے اور ایسا کلام کلّی کے طور پر فرمایا جس میں کسی بددیانتی کا ذکر باہر نہ رہ جائے.صرف یہ نہیں کہا کہ تو چوری نہ کر تا ایک نادان یہ نہ سمجھ لے کہ چوری تو میرے لئے حرام ہے مگر دوسرے ناجائز طریقے سب حلال ہیں.اس کلمہ جامع کے سامنے تمام ناجائز طریقوں کو حرام ٹھہرانا یہی حکمت بیانی ہے.غرض اگر کوئی اس بصیرت سے دیانت اور امانت کا خلق اپنے اندر نہیں رکھتا اور ایسے تمام پہلوؤں کی رعایت نہیں کرتا وہ اگر دیانت وامانت کو بعض امور میں دکھلائے بھی تو یہ حرکت اس کی خُلق دیانت میں داخل نہیں سمجھی جائے گی بلکہ ایک طبعی حالت ہوگی جو عقلی تمیز اور بصیرت سے خالی ہے.تیسری قسم ترک شر کی اخلاق میں سے وہ قسم ہے کہ جس کو عربی میں هــذنــه اور ھون کہتے ہیں یعنی دوسرے کو ظلم کی راہ سے بدنی آزار نہ پہنچانا اور بے شر انسان ہونا اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا.پس بلا شبہ صلح کاری اعلیٰ درجہ کا ایک خلق ہے اور انسانیت کے لئے از بس ضروری اور اس خُلق کے النساء:۷،۶ النساء : ١١،١٠
۷۷۵ مناسب حال طبعی قوت جو بچہ میں ہوتی ہے جس کی تعدیل سے یہ خلق بنتا ہے الفت یعنی خوگرفتگی ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان صرف طبعی حالت میں یعنی اس حالت میں کہ جب انسان عقل سے بے بہرہ ہو صلح کے مضمون کو سمجھ نہیں سکتا اور نہ جنگ جوئی کے مضمون کو سمجھ سکتا ہے پس اُس وقت جو ایک عادت موافقت کی اس میں پائی جاتی ہے وہی صلح کاری کی عادت کی ایک جڑھ ہے لیکن چونکہ وہ عقل اور تدبر اور خاص ارادہ سے اختیار نہیں کی جاتی اس لئے خلق میں داخل نہیں بلکہ خلق میں تب داخل ہوگی کہ جب انسان بالا رادہ اپنے تئیں بے شر بنا کر صلح کاری کے خلق کو اپنے محل پر استعمال کرے اور بے محل استعمال کرنے سے مجتنب رہے.اس میں اللہ جل شانہ یہ تعلیم فرماتا ہے.وَاَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَالصُّبحُ خَيْرٌ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا : ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلي حَمِيمٌ.چوتھی قسم ترک شر کے اخلاق میں سے رفق اور قول حسن ہے اور یہ خلق جس حالت طبعی سے پیدا ہوتا ہے اُس کا نام طلاقت یعنی کشادہ روئی ہے.بچہ جب تک کلام کرنے پر قادر نہیں ہوتا بجائے رفق اور قول حسن کے طلاقت دکھلاتا ہے.یہی دلیل اس بات پر ہے کہ رفق کی جڑھ جہاں سے یہ شاخ پیدا ہوتی ہے طلاقت ہے.طلاقت ایک قوت ہے اور رفق ایک خلق ہے جو اس قوت کو محل پر استعمال کرنے سے پیدا ہو جاتا ہے.اس میں خدا تعالیٰ کی تعلیم یہ ہے.وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِنْ نِّسَاءِ عَلَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۵ اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمُ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا..وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابُ رَّحِيمُ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَبِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا.اب ترک شر کے اقسام ختم ہو چکے اور اب ہم ایصالِ خیر کے اقسام بیان کرتے ہیں.الانفال : ٢ النساء:۱۲۹ ۳ الانفال: ۶۲ ۴ :الفرقان:۵۶۴ الفرقان :۷۳ حم السجدة: ۳۵ - البقرة : ۸۴ الحجرات : ۱۲ و الحجرات ۱۲ ۱۰ بنی اسراءیل : ۳۷
دوسری قسم ان اخلاق کی جو ایصال خیر سے تعلق رکھتے ہیں.پہلا خلق اُن میں سے عفو ہے یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا.اس میں ایصالِ خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اُس کو بھی ضرر پہنچایا جائے.سزا دلائی جائے.قید کرایا جائے.جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے.پس اُس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصالِ خیر ہے.اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے.وَالْكُظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ لا جَزْؤُا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَاَجْرُهُ عَلَى اللهِ ل یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے حل پر گناہ کو بخشتے ہیں.بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین عفو کے محل پر ہو نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقعہ گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا ہے.پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقعہ بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے.بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے تو بہ کرتا ہے اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح صرف گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو بلکہ غور سے دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں.پس جوامر محل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو.افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں پر دادوں کے کینوں کو یا د رکھتے ہیں ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگذر کی عادت کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور بسا اوقات اس عادت کے افراط سے دیوٹی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسے قابل شرم حلم اور عفو اور در گذر اُن سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیت اور غیرت اور عفت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک چلنی پر داغ لگاتے ہیں اور ایسے عفو اور در گذر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ تو بہ تو بہ کر اُٹھتے ہیں.انہی خرابیوں کے لحاظ سے قرآن شریف میں ہر ایک خلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگا دی ہے اور ایسے خُلق کو منظور نہیں رکھا جو بے محل صادر ہو.ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ حقیقی خلق اور ال عمران: ۱۳۵ ۲ الشوری: ۴۱
LLL طبعی حالتوں میں یہ فرق ہے کہ خلق ہمیشہ محل اور موقع کی پابندی اپنے ساتھ رکھتا ہے اور طبعی قوت بے محل بھی ظاہر ہو جاتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۴۰ تا ۳۵۲) تمام م محققین کا اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اخلاق کا کامل مرتبہ صرف اس میں منحصر نہیں ہوسکتا کہ ہر جگہ و ہر محل میں عفو اور درگز رکو اختیار کیا جائے.اگر انسان کو صرف عفو اور درگذر کا ہی حکم دیا جاتا تو صد ہا کام کہ جو غضب اور انتقام پر موقوف ہیں فوت ہو جاتے.انسان کی صورت فطرت کہ جس پر قائم ہونے سے وہ انسان کہلاتا ہے یہ ہے کہ خدا نے اس کی سرشت میں جیسا عفو اور درگذر کی استعداد رکھی ہے ایسا ہی غضب اور انتقام کی خواہش بھی رکھی ہے.اور ان تمام قوتوں پر عقل کو بطور افسر کے مقرر کیا ہے.پس انسان اپنی حقیقی انسانیت تک تب پہنچتا ہے کہ جب فطرتی صورت کے موافق یہ دونوں طور کی قوتیں عقل کی تابع ہو کر چلتی رہیں یعنی یہ قوتیں مثل رعایا کے ہوں اور عقل مثل بادشاہ عادل ان کی پرورش اور فیض رسانی اور رفع تنازعہ اور مشکل کشائی میں مشغول رہے.مثلاً ایک وقت غضب نمودار ہوتا ہے اور حقیقت میں اس وقت حلم کے ظاہر ہونے کا موقعہ ہوتا ہے.پس ایسے وقت میں عقل اپنی فہمائش سے غضب کو فرو کرتی ہے اور حلم کو حرکت دیتی ہے اور بعض وقت غضب کرنے کا وقت ہوتا ہے اور حلم پیدا ہو جاتا ہے اور ایسے وقت میں عقل غضب کو مشتعل کرتی ہے اور حلم کو درمیان سے اٹھا لیتی ہے.خلاصہ یہ کہ تحقیق عمیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان اس دنیا میں بہت سی مختلف قوتوں کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور اس کا کمال فطرتی یہ ہے کہ ہر یک قوت کو اپنے اپنے موقعہ پر استعمال میں لاوے.غضب کی جگہ پر غضب.رحم کی جگہ پر رحم.یہ نہیں کہ نرا حلم ہی حلم ہو اور دوسری تمام قوتوں کو معطل اور بیکار چھوڑ دے.ہاں منجملہ تمام اندرونی قوتوں کے ، قوت حلم کو بھی اپنے موقعہ پر ظاہر کرنا ایک انسان کی خوبی ہے مگر انسان کی فطرت کا درخت جس کو خدا نے کئی شاخوں پر جو اس کی مختلف قوتیں ہیں منقسم کیا ہے.صرف ایک شاخ کے سرسبز ہونے سے کامل نہیں کہلا سکتا بلکہ وہ اسی حالت میں کامل کہلائے گا کہ جب ساری شاخیں اس کی سرسبز و شاداب ہوں اور کوئی شاخ حد موزونیت سے کم یا زیادہ نہ ہو.یہ بات بداہت عقل ثابت ہے کہ ہمیشہ اور ہر جگہ یہی خلق اچھا نہیں ہو سکتا کہ شریر کی شرارت سے در گزر کی جائے بلکہ خود قانون فطرت ہی اس خیال کا ناقص ہونا ظاہر کرتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مدبر حقیقی نے انتظام عالم اسی میں رکھا ہے جو کبھی نرمی اور کبھی درشتی کی جائے اور کبھی عفو اور کبھی سزا دی جائے اور اگر صرف نرمی ہی ہو یا صرف درشتی ہی ہو
227 تو پھر نظام عالم کی گل ہی بگڑ جاتی ہے.پس اس سے ثابت ہے کہ ہمیشہ اور ہرمحل میں عفو کر ناحقیقی نیکی نہیں ہے بلکہ ایسی تعلیم کو کامل تعلیم سمجھنا ایک غلطی ہے جو ان لوگوں کو لگی ہوئی ہے جن کی نگاہیں انسان کی فطرت کے پورے گہراؤ تک نہیں پہنچتیں اور جن کی نظر ان تمام قوتوں کے دیکھنے سے بند رہتی ہے جو انسان کو اپنے اپنے محل پر استعمال کرنے کے لئے عطا کی گئی ہیں جو شخص لگے تار جا بیجا ایک ہی قوت کو استعمال کئے جاتا ہے اور دوسری تمام اخلاقی قوتوں کو بیکار چھوڑ دیتا ہے وہ گویا اس فطرت کو جو خدا نے عطا کی ہے منقلب کرنا چاہتا ہے اور فعل حکیم مطلق کو اپنی کوتاہ فہمی سے قابل اعتراض ٹھہراتا ہے.کیا یہ کچھ خوبی کی بات ہے کہ ہم ہر یک وقت بغیر لحاظ موقعہ ومصلحت اپنے گناہگاروں کے گناہوں سے درگذر کیا کریں اور کبھی اس قسم کی ہمدردی نہ کریں جس میں شریر کی شرارت کا علاج ہو کر آئندہ کو اس کی طبیعت سدھر جائے.ظاہر ہے کہ جیسے بات بات میں سزا دینا اور انتقام لینا مذموم و خلاف اخلاق ہے اسی طرح یہ بھی خیر خواہی حقیقی کے برخلاف ہے کہ ہمیشہ یہی اصول ٹھہرایا جاوے کہ جب کبھی کسی سے کوئی مجرمانہ حرکت صادر ہو تو جھٹ پٹ اس کے جرم کو معاف کیا جائے.جو شخص ہمیشہ مجرم کو سزا کے بغیر چھوڑ دیتا ہے وہ ایسا ہی نظام عالم کا دشمن ہے جیسے وہ شخص کہ ہمیشہ اور ہر حالت میں انتقام اور کینہ کشی پر مستعد رہتا ہے.نادان لوگ ہر محل میں عفو اور درگذر کرنا پسند کرتے ہیں.یہ نہیں سوچتے کہ ہمیشہ در گذر کرنے سے نظام عالم میں ابتری پیدا ہوتی ہے.اور یہ فعل خود مجرم کے حق میں بھی مضر ہے کیونکہ اس سے اس کی بدی کی عادت پکتی جاتی ہے اور شرارت کا ملکہ راسخ ہوتا جاتا ہے.ایک چور کو سزا کے بغیر چھوڑ دو.پھر دیکھو کہ دوسری مرتبہ کیا رنگ دکھاتا ہے.اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے اپنی اس کتاب میں جو حکمت سے بھری ہوئی ہے فرمایا.وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيُوةٌ يَأُولِي الْأَلْبَابِ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ، یعنی اے دانشمند و ! قاتل کے قتل کرنے اور موذی کی اسی قدر ایذا دینے میں تمہاری زندگی ہے جس نے ایک انسان کو ناحق بے موجب قتل کر دیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا.اور ایسا ہی فرمایا.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَائِ ذِي الْقُرْبى ہے یعنی خدا حکم فرماتا ہے کہ تم عدل اور احسان اور ایتائے ذی القربیٰ اپنے اپنے محل پر کرو.سو جاننا چاہئے کہ انجیل کی تعلیم اس کمال کے مرتبہ سے جس سے نظامِ عالم مربوط و مضبوط ہے تنزل و فروتر ہے اور اس تعلیم کو کامل خیال کرنا بھی بھاری غلطی ہے.ایسی تعلیم البقرة: ١٨٠ المآئدة: ٣٣ التحل: ۹۱
ہرگز کامل نہیں ہو سکتی بلکہ یہ ان ایام کی تدبیر ہے کہ جب قوم بنی اسرائیل کا اندرونی رحم بہت کم ہو گیا تھا اور بے رحمی اور بے مروتی اور سنگدلی اور قساوت قلبی اور کینہ کشی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی اور خدا کو منظور تھا کہ جیسا وہ لوگ مبالغہ سے کینہ کشی کی طرف مائل تھے ایسے ہی بمبالغہ تمام رحم اور درگذر کی طرف مائل کیا جاوے لیکن یہ رحم اور درگزر کی تعلیم ایسی تعلیم نہ تھی کہ جو ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتی کیونکہ حقیقی مرکز پر اس کی بنیاد نہ تھی.بلکہ اس قانون کی طرح جو مختص المقام ہوتا ہے صرف سرکش یہودیوں کی اصلاح کے لئے ایک خاص مصلحت تھی اور صرف چند روزہ انتظام تھا اور مسیح کو خوب معلوم تھا کہ خدا جلد تر اس عارضی تعلیم کو نیست و نابود کر کے اس کامل کتاب کو دنیا کی تعلیم کے لئے بھیجے گا کہ جو حقیقی نیکی کی طرف تمام دنیا کو بلائے گی اور بندگان خدا پر حق اور حکمت کا دروازہ کھول دے گی.اس لئے اس کو کہنا پڑا کہ ابھی بہت سی باتیں قابل تعلیم باقی ہیں جن کی تم ہنوز برداشت نہیں کر سکتے.مگر میرے بعد ایک دوسرا آنے والا ہے وہ سب باتیں کھول دے گا اور علم دین کو بمرتبہ کمال پہنچائے گا.سو حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے اور ایک عرصہ تک وہی ناقص کتاب لوگوں کے ہاتھ میں رہی.اور پھر اسی نبی معصوم کی پیشین گوئی کے بموجب قرآن شریف کو خدا نے نازل کیا اور ایسی جامع شریعت عطا فرمائی جس میں نہ توریت کی طرح خواہ نخواہ ہر جگہ اور ہر محل میں دانت کے عوض دانت نکالنا ضروری لکھا اور نہ انجیل کی طرح یہ حکم دیا کہ ہمیشہ اور ہر حالت میں دست دراز لوگوں کے طمانچے کھانے چاہیے بلکہ وہ کامل کلام عارضی خیالات سے ہٹا کر حقیقی نیکی کی طرف ترغیب دیتا ہے اور جس بات میں واقعی طور پر بھلائی پیدا ہو خواہ وہ بات درشت ہو خواہ نرم اسی کے کرنے کے لئے تاکید فرماتا ہے جیسا فرمایا ہے.وَ جَزَ وَ اسَيْئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ل (الجزو نمبر ۲۵) یعنی بدی کی پاداش میں اصول انصاف تو یہی ہے کہ بد کن آدمی اسی قدر بدی کا سزاوار ہے جس قد ر اس نے بدی کی ہے پر جو شخص عفو کر کے کوئی اصلاح کا کام بجالائے یعنی ایسا عفو نہ ہو جس کا نتیجہ کوئی خرابی ہو سو اس کا اجر خدا پر ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۰۹ تا ۴۳۴ حاشیه در حاشیه نمبر۳) دوسرا خلق اخلاق ایصال خیر میں سے عدل ہے اور تیسرا احسان اور چوتھا ایتاء ذی القربی جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْي ے یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ نیکی کے الشورى: النحل: ٩١
۷۸۰ مقابل پر نیکی کرو.اور اگر عدل سے بڑھ کر احسان کا موقعہ اور محل ہو تو وہاں احسان کرو اور اگر احسان سے بڑھ کر قریبیوں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرنے کا محل ہو تو وہاں طبعی ہمدردی سے نیکی کرو.اور اس سے خدا تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ تم حدود اعتدال سے آگے گزر جاؤ یا احسان کے بارے میں منکرانہ حالت تم سے صادر ہو جس سے عقل انکار کرے یعنی یہ کہ تم بے محل احسان کرو یا برمحل احسان کرنے سے دریغ کرو.یا یہ کہ تم محل پر ایتاء ذی القربی کے خلق میں کچھ کمی اختیار کرو.یا حد سے زیادہ رحم کی بارش کرو.اس آیت کریمہ میں ایصال خیر کے تین درجوں کا بیان ہے.اول یہ درجہ کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کی جائے.یہ تو کم درجہ ہے اور ادنی درجہ کا بھلا مانس آدمی بھی یہ خلق حاصل کر سکتا ہے کہ اپنے نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرتا رہے.دوسرا درجہ اس سے مشکل ہے اور وہ یہ کہ ابتداء آپ ہی نیکی کرنے اور بغیر کسی کے حق کے احسان کے طور پر اس کو فائدہ پہنچانا اور یہ خلق اوسط درجہ کا ہے.اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں ایک میخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا ہے اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے عوض میں شکریہ یاد عا چاہتا ہے اور اگر کوئی ممنون منت اس کا مخالف ہو جائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتا ہے.بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے اور اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے.جیسا کہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ متنبہ کرنے کے لئے فرماتا ہے.لَا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمُ بِالمَنِ وَالْأَذَى لا یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو.یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے.پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ ایک ریا کاری کی حرکت ہوتی ہے.تیسرا درجہ ایصال خیر کا خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بالکل احسان کا خیال نہ ہو اور نہ شکر گزاری پر نظر ہو بلکہ ایک ایسی ہمدردی کے جوش سے نیکی صادر ہو جیسا کہ ایک نہایت قریبی مثلاً والدہ محض ہمدردی کے جوش سے اپنے بیٹے سے نیکی کرتی ہے.یہ وہ آخری درجہ ایصال خیر کا ہے جس سے آگے ترقی کرنا ممکن نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان تمام ایصال خیر کی قسموں کو محل اور موقعہ سے وابستہ کر دیا ہے اور آیت موصوفہ میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر یہ نیکیاں اپنے اپنے محل پر مستعمل نہیں ہوں گی تو پھر یہ بدیاں ہو جائیں گی.بجائے عدل البقرة: ۲۶۵
فحشا بن جائے گا یعنی حد سے اتنا تجاوز کرنا کہ نا پاک صورت ہو جائے اور ایسا ہی بجائے احسان کے منکر کی صورت نکل آئے گی یعنی وہ صورت جس سے عقل اور کانشنس انکار کرتا ہے اور بجائے ایتاء ذی القربی کے بغی بن جائے گا یعنی وہ بے محل ہمدردی کا جوش ایک بُری صورت پیدا کرے گا.اصل میں بغی اس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اور کھیتوں کو تباہ کر دے اور حق واجب میں کمی رکھنے کو بغی کہتے ہیں اور یا حق واجب سے افزونی کرنا بھی بغی ہے.غرض ان تینوں میں سے جو محل پر صادر نہیں ہوگا وہی خراب سیرت ہو جائے گی.اسی لئے ان تینوں کے ساتھ موقع اور محل کی شرط لگا دی ہے.اس جگہ یاد رہے کہ مجرد عدل یا احسان یا ہمدردی ذی القربیٰ کو خلق نہیں کہہ سکتے بلکہ انسان میں یہ سب طبعی حالتیں اور طبعی قو تیں ہیں کہ جو بچوں میں بھی وجود عقل سے پہلے پائی جاتی ہیں مگر خلق کے لئے عقل شرط ہے اور نیز یہ شرط ہے کہ ہر ایک طبعی قوت محل اور موقع پر استعمال ہو.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳ ۳۵ ۳۵۴) منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے وہ حالت ہے جو شجاعت سے مشابہ ہوتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ بھی اسی قوت کی وجہ سے کبھی آگ میں ہاتھ ڈالنے لگتا ہے کیونکہ انسان کا بچہ باعث فطرتی جو ہر غلبہ انسانیت کے ڈرانے والے نمونوں سے پہلے کسی چیز سے بھی نہیں ڈرتا.اس حالت میں انسان نہایت بے باکی سے شیروں اور دوسرے جنگلی درندوں کا بھی مقابلہ کرتا ہے اور تن تنہا مقابلہ کے لئے کئی آدمیوں کے لڑنے کے لئے نکلتا ہے اور لوگ جانتے ہیں کہ بڑا بہادر ہے لیکن یہ صرف ایک طبعی حالت ہے کہ جس طرح اور درندوں میں پیدا ہوتی ہے بلکہ کتوں میں بھی پائی جاتی ہے ایسا ہی انسانوں میں پائی جاتی ہے اور حقیقی شجاعت جو محل اور موقع کے ساتھ خاص ہے اور جو اخلاق فاضلہ میں سے ایک خلق ہے وہ ان محل اور موقع کے امور کا نام ہے جن کا ذکر خدا تعالیٰ کے پاک کلام میں اس طرح پر آیا ہے.والصبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ الَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمُ إِيْمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا و رِئَاءَ النَّاسِ ہے یعنی بہادر وہ ہیں کہ جب لڑائی کا موقعہ آ پڑے یا ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو بھاگتے نہیں ان کا صبر لڑائی اور سختیوں کے وقت میں خدا کی رضا مندی کے لئے ہوتا ہے اور اس کے چہرہ کے طالب ہوتے ہیں نہ کہ بہادری دکھلانے کے.ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ لوگ تمہیں سزا البقرة: ۱۷۸ الرعد: ٢٣ ال عمران : ۱۷۴ الانفال: ۴۸
۷۸۲ دینے کے لئے اتفاق کر گئے ہیں سو تم لوگوں سے ڈرو.پس ڈرانے سے اور بھی ان کا ایمان بڑھتا ہے.اور کہتے ہیں کہ خدا ہمیں کافی ہے.یعنی ان کی شجاعت کتوں اور درندوں کی طرح نہیں ہوتی جو صرف طبعی جوش پر مبنی ہو جس کا ایک ہی پہلو پر میل ہو بلکہ ان کی شجاعت دو پہلو رکھتی ہے.کبھی تو وہ اپنی ذاتی شجاعت سے اپنے نفس کے جذبات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس پر غالب آتے ہیں اور کبھی جب دیکھتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ قرین مصلحت ہے تو نہ صرف جوش نفس سے بلکہ سچائی کی مدد کے لئے دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں مگر نہ اپنے نفس پر بھروسہ کر کے بلکہ خدا پر بھروسہ کر کے بہادری دکھاتے ہیں اور ان کی شجاعت میں ریا کاری اور خود بینی نہیں ہوتی اور نہ نفس کی پیروی بلکہ ہر ایک پہلو سے خدا کی رضا مقدم ہوتی ہے.ان آیات میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ حقیقی شجاعت کی جڑھ صبر اور ثابت قدمی ہے اور ہر ایک جذ بہ نفسانی یا بلا جو دشمنوں کی طرح حملہ کرے.اس کے مقابلہ پر ثابت قدم رہنا اور بزدل ہو کر بھاگ نہ جانا یہی شجاعت ہے.سوانسان اور درندہ کی شجاعت میں بڑا فرق ہے.درندہ ایک ہی پہلو پر جوش اور غضب سے کام لیتا ہے اور انسان جو حقیقی شجاعت رکھتا ہے وہ مقابلہ اور ترک مقابلہ میں جو کچھ قرین مصلحت ہو وہ اختیار کر لیتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۵۸ تا ۳۶۰) منجملہ انسان کے طبعی امور کے ایک صبر ہے جو اس کو ان مصیبتوں اور بیماریوں اور دکھوں پر کرنا پڑتا ہے جو اس پر ہمیشہ پڑتے رہتے ہیں اور انسان بہت سے سیاپے اور جزع فزع کے بعد صبر اختیار کرتا ہے.لیکن جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب کے رو سے وہ صبر اخلاق میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ ایک حالت ہے جو تھک جانے کے بعد ضرور تا ظاہر ہو جاتی ہے.یعنی انسان کی طبعی حالتوں میں سے یہ بھی ایک حالت ہے کہ وہ مصیبت کے ظاہر ہونے کے وقت پہلے روتا چیختا سر پیٹتا ہے.آخر بہت سا بخار نکال کر جوش تھم جاتا ہے اور انتہا تک پہنچ کر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے.پس یہ دونوں حرکتیں طبعی حالتیں ہیں.ان کو خلق سے کچھ تعلق نہیں بلکہ اس کے متعلق خلق یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے تو اس چیز کو خدا تعالی کی امانت سمجھ کر کوئی شکایت منہ پر نہ لاوے اور یہ کہہ کر کہ خدا کا تھا خدا نے لے لیا اور ہم اس کی رضا کے ساتھ راضی ہیں.اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا پاک کلام قرآن شریف ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے:.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا
۷۸۳.إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ أُولَيْكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ہے یعنی اے مومنو! ہم تمہیں اس طرح پر آزماتے رہیں گے کہ کبھی کوئی خوفناک حالت تم پر طاری ہوگی اور کبھی فقر و فاقہ تمہارے شامل حال ہو گا اور کبھی تمہارا مالی نقصان ہو گا اور کبھی جانوں پر آفت آئے گی.اور کبھی اپنی محنتوں میں ناکام رہو گے اور حسب المراد نتیجے کوششوں کے نہیں نکلیں گے.اور کبھی تمہاری پیاری اولا د مرے گی.پس ان لوگوں کو خوشخبری ہو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کی چیزیں اور اس کی امانتیں اور اس کے مملوک ہیں.پس حق یہی ہے کہ جس کی امانت ہے اس کی طرف رجوع کرے.یہی لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہیں جو خدا کی راہ کو پا گئے.غرض اس خلق کا نام صبر اور رضا برضائے الہی ہے اور ایک طور سے اس خلق کا نام عدل بھی ہے.کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ انسان کی تمام زندگی میں اس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور نیز ہزار ہا باتیں اس کی مرضی کے موافق ظہور میں لاتا ہے اور انسان کی خواہش کے مطابق اس قدر نعمتیں اس کو دے رکھی ہیں کہ انسان شمار نہیں کر سکتا تو پھر یہ شرط انصاف نہیں کہ اگر وہ کبھی اپنی مرضی بھی منوانا چاہے تو انسان منحرف ہو اور اس کی رضا کے ساتھ راضی نہ ہو.اور چون و چرا کرے یا بے دین اور بے راہ ہو جائے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۶۲،۳۶۱) نماز اور استغفار دل کی غفلت کے عمدہ علاج ہیں.نماز میں دعا کرنی چاہئے کہ مجھ میں اور میرے گناہ میں دوری ڈال.صدق سے انسان دعا کرتا رہے تو یہ یقینی بات ہے کہ کسی وقت منظور ہو جاوے.جلدی کرنی اچھی نہیں ہوتی.زمیندار ایک کھیت ہوتا ہے تو اسی وقت نہیں کاٹ لیتا.بے صبری کرنے والا بے نصیب ہوتا ہے.نیک انسان کی یہ علامت ہے کہ وہ بے صبری نہیں کرتا.بے صبری کرنے والے بڑے بڑے بد نصیب دیکھے گئے ہیں.اگر ایک انسان کنو آں کھو دے اور ہیں ہاتھ کھودے اور ایک ہاتھ رہ جائے تو اس وقت بے صبری سے چھوڑ دے تو اپنی ساری محنت کو برباد کرتا ہے.اور اگر صبر سے ایک ہاتھ اور بھی کھود لے تو گوہر مقصود پالیوے.یہ خدا کی عادت ہے کہ ذوق اور شوق اور معرفت کی نعمت ہمیشہ دکھ کے بعد دیا کرتا ہے.اگر ہر ایک نعمت آسانی سے مل جاوے تو اس کی قدر نہیں ہوا کرتی.سعدیؒ نے کیا عمدہ کہا ہے.البقرة: ۱۵۶ تا ۱۵۸
۷۸۴ گر نه باشد بدوست راه بردن شرط عشق است در طلب مُردن (البدر مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵۰ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۵۵۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کا خاصہ ہے سچائی ہے انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محرک نہ ہو جھوٹ بولنا نہیں چاہتا اور جھوٹ کے اختیار کرنے میں ایک طرح کی نفرت اور قبض اپنے دل میں پاتا ہے.اسی وجہ سے جس شخص کا صریح جھوٹ ثابت ہو جائے اس سے ناخوش ہوتا ہے اور اس کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے لیکن صرف یہی طبعی حالت اخلاق میں داخل نہیں ہو سکتی بلکہ بچے اور دیوانے بھی اس کے پابند رہ سکتے ہیں.سواصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ان نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا.کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں حرج نہیں اور اپنی عزت یا مال یا جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اس کو دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے؟ کیا پاگل اور نابالغ لڑکے بھی ایسا سچ نہیں بولتے ؟ دنیا میں ایسا کوئی بھی نہیں ہو گا کہ جو بغیر کسی تحریک کے خواہ نخواہ جھوٹ بولے.پس ایسا سچ جو کسی نقصان کے وقت چھوڑا جائے حقیقی اخلاق میں ہرگز داخل نہیں ہوگا، سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو.اس میں خدا کی یہ تعلیم ہے.فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ النُّورِ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمُهَا فَإِنَّةَ أَثِم قَلْبُهُ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قَرَ بي " كُونُوا قَوْ مِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِينَ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا وَالصَّدِقِينَ وَالدِقْتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ لَا يَشْهَدُونَ الزُّوْرَ اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۶۰، ۳۶۱) حکماء کے تبدیل اخلاق پر دو مذہب ہیں.ایک تو وہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ انسان تبدیل اخلاق پر قادر الحج: ٢٣١ البقرة :٢٨٣ البقرة: ۲۸۴ الانعام: ۱۵۳ ه النساء: ١٣٦ المآئدة: 9 ك الاحزاب: ٣٦ العصر : الفرقان: ۷۳
۷۸۵ ہے اور دوسرے وہ ہیں جو مانتے ہیں کہ وہ قادر نہیں.اصل بات یہ ہے کہ کسل اور سستی نہ ہو اور ہاتھ پیر ہلا وے تو تبدیل ہوسکتی ہے.مجھے اس مقام پر ایک حکایت یاد آئی ہے اور وہ یہ ہے.کہتے ہیں کہ یونانیوں کے مشہور فلاسفر افلاطون کے پاس ایک آدمی آیا اور دروازہ پر کھڑے ہو کر اندر اطلاع کرائی.افلاطون کا قاعدہ تھا کہ جب تک وہ آنے والے کا حلیہ اور نقوش چہرہ کو معلوم نہ کر لیتا تھا اندر نہیں آنے دیتا تھا اور وہ قیافہ سے استنباط کر لیتا تھا کہ شخص مذکور کیسا ہے کیسا نہیں.نوکر نے آ کر اس شخص کا حلیہ حسب معمول بتلا یا.افلاطون نے جواب دیا کہ اس شخص کو کہہ دو کہ چونکہ تم میں اخلاق رذیلہ بہت ہیں میں ملنا نہیں چاہتا.اس آدمی نے جب افلاطون کا یہ جواب سنا تو نوکر سے کہا کہ تم جا کر کہہ دو کہ جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ٹھیک ہے مگر میں نے اپنی عادات رذیلہ کا قلع قمع کر کے اصلاح کر لی ہے.اس پر افلاطون نے کہا ہاں یہ ہو سکتا ہے.چنانچہ اس کو اندر بلایا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ اس سے ملاقات کی.جن حکماء کا یہ خیال ہے کہ تبدیل اخلاق ممکن نہیں وہ غلطی پر ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ملازمت پیشہ لوگ جو رشوت لیتے ہیں جب وہ بچی تو بہ کر لیتے ہیں پھر اگر ان کو کوئی سونے کا پہاڑ بھی دے تو اس پر نگاہ بھی نہیں کرتے.تو به دراصل حصول اخلاق کے لئے بڑی محرک اور مؤید چیز ہے اور انسان کو کامل بنا دیتی ہے یعنی جو شخص اپنے اخلاق سینہ کی تبدیلی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ سچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ تو بہ کرے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۱۵۶، ۱۵۷ - ملفوظات جلد اول صفحه ۸۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اسلامی تعلیم میں غیر مذہب والوں سے محبت کرنا کسی جگہ حکم نہیں آیا بلکہ حکم ہے کہ بجز مسلمان کے کسی سے محبت نہ کرو.اما الجواب:.پس واضح ہو کہ یہ تمام ناقص اور ادھوری انجیل کی خوستیں ہیں کہ عیسائی لوگ حق اور حقیقت سے دور جا پڑے ورنہ اگر ایک گہری نظر سے دیکھا جائے کہ محبت کیا چیز ہے اور کس کس محل پر اس کو استعمال کرنا چاہئے اور بغض کیا چیز ہے اور کن کن مقامات میں برتنا چاہئے تو فرقان کریم کا سچا فلسفہ نہ صرف سمجھ میں ہی آتا ہے بلکہ روح کو اس سے معارف حقہ کی ایک کامل روشنی ملتی ہے.اب جاننا چاہئے کہ محبت کوئی تصنع اور تکلف کا کام نہیں بلکہ انسانی قومی میں سے یہ بھی ایک قوت ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ دل کا ایک چیز کو پسند کر کے اس کی طرف کھنچے جانا اور جیسا کہ ہر یک چیز کے اصل خواص اس کے کمال کے وقت بدیہی طور پر محسوس ہوتے ہیں یہی محبت کا حال ہے کہ اس کے جو ہر
ZAY اس وقت کھلے کھلے ظاہر ہوتے ہیں کہ جب اتم اور اکمل درجہ پر پہنچ جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجل لا یعنی انہوں نے گوسالہ سے ایسی محبت کی کہ گویا ان کو گوسالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا در حقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اسے پی لیتا ہے یا کھا لیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے.اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے.یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے.پس جبکہ محبت کی حقیقت یہ ہے تو پھر کیونکر ایک کچی کتاب جو منجانب اللہ ہے اجازت دے سکتی ہے کہ تم شیطان سے وہ محبت کرو جو خدا سے کرنی چاہئے اور شیطان کے جانشینوں سے وہ پیار کرو جو رحمن کے جانشینوں سے کرنا چاہئے.افسوس کہ پہلے تو انجیل کے باطل ہونے پر ہمارے پاس یہی ایک دلیل تھی کہ وہ ایک عاجز مشت خاک کو خدا بناتی ہے.اب یہ دوسری دلائل بھی پیدا ہو گئیں کہ اس کی دوسری تعلیمیں بھی گندی ہیں.کیا یہ پاک تعلیم ہو سکتی ہے کہ شیطان سے ایسی ہی محبت کرو جیسا کہ خدا سے.اور اگر یہ عذر کیا جائے کہ یسوع کے منہ سے سہوا یہ باتیں نکل گئیں کیونکہ وہ الہیات کے فلسفہ سے ناواقف تھا تو یہ عذر نکما اور فضول ہو گا.کیونکہ اگر وہ ایسا ہی نا واقف تھا تو کیوں اس نے قوم کے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا ؟ کیا وہ بچہ تھا؟ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہوتا اپنے محبوب میں ہو کر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے.سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کھا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہو کر اور اس کے رنگ میں رنگین ہو کر اور اس کے ساتھ ہوکر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے.محبت ایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پر ہو جانا ہے.چنانچہ عرب میں یہ مثل مشہور ہے کہ تَحَبَّبَ الحِمَارُ.یعنی جب عربوں کو یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ گدھے کا پیٹ پانی سے بھر گیا تو کہتے ہیں کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ.اور جب یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ اونٹ البقرة : ۹۴
نے اتنا پانی پیا کہ وہ پانی سے پُر ہو گیا تو کہتے ہیں شَرِبَتِ الإِبِلُ حَتَّى تَحَبَّبَتْ اور حب جو دانہ کو کہتے ہیں وہ بھی اسی سے نکلا ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا اور اسی بنا پر احباب سونے کو بھی کہتے ہیں کیونکہ جو دوسرے سے بھر جائے گا وہ اپنے وجود کوکھو دے گا.گویا سو جائے گا اور اپنے وجود کی کچھ حس اس کو باقی نہیں رہے گی.پھر جب کہ محبت کی یہ حقیقت ہے تو ایسی انجیل جس کی یہ تعلیم ہے کہ شیطان سے بھی محبت کرو اور شیطانی گروہ سے بھی پیار کرو دوسرے لفظوں میں اس کا ماحصل یہی نکلا کہ ان کی بدکاری میں تم بھی شریک ہو جاؤ.خوب تعلیم ہے.ایسی تعلیم کیونکر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے بلکہ وہ تو انسان کو شیطان بنانا چاہتی ہے.خدا انجیل کی اس تعلیم سے ہر ایک کو بچادے.اگر یہ سوال ہو کہ جس حالت میں شیطان اور شیطانی رنگ و روپ والوں سے محبت کرنا حرام ہے تو کس قسم کا خُلق ان سے برتنا چاہئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا پاک کلام قرآن شریف یہ ہدایت کرتا ہے کہ ان پر کمال درجہ کی شفقت چاہئے جیسا کہ ایک رحیم دل آدمی جذامیوں اور اندھوں اور کولوں اور لنگڑوں وغیرہ دکھ والوں پر شفقت کرتا ہے اور شفقت اور محبت میں یہ فرق ہے کہ محبت اپنے محبوب کے تمام قول اور فعل کو بنظر استحسان دیکھتا ہے اور رغبت رکھتا ہے کہ ایسے حالات اس میں بھی پیدا ہو جائیں.مگر مشفق شخص مشفق علیہ کے حالات بنظر خوف و عبرت دیکھتا ہے اور اندیشہ کرتا ہے کہ شائد وہ شخص اس تباہ حال میں ہلاک نہ ہو جائے.اور حقیقی مشفق کی یہ علامت ہے کہ وہ شخص مشفق علیہ سے ہمیشہ نرمی سے پیش نہیں آتا بلکہ اس کی نسبت محل اور موقعہ کے مناسب حال کارروائی کرتا ہے اور کبھی نرمی اور کبھی درشتی سے پیش آتا ہے.بعض وقت اس کو شربت پلاتا ہے اور بعض اوقات ایک حاذق ڈاکٹر کی طرح اس کا ہاتھ یا پیر کاٹنے میں اس کی زندگی دیکھتا ہے.اور بعض اوقات اس کے کسی عضو کو چیرتا ہے اور بعض اوقات مرہم لگاتا ہے.اگر تم ایک دن ایک بڑے شفا خانہ میں جہاں صدہا بیمار اور ہر یک قسم کے مریض آتے ہوں بیٹھ کر ایک حاذق تجربہ کار ڈاکٹر کی کارروائیوں کو مشاہدہ کرو تو امید ہے کہ مشفق کے معنے تمہاری سمجھ میں آ جائیں گے سو تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.عَزِيزُ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ یا یعنی اے کا فرو! یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پا جاؤ.پھر فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِینَ کے یعنی کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جائے گا کہ یہ لوگ کیوں التوبة: ١٢٨ الشعراء:
۷۸۸ ایمان نہیں لاتے.مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو ان کے غم میں ہلاک ہونے کے قریب ہے اور پھر ایک مقام میں فرماتا ہے.تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ل یعنی مومن وہی ہیں جو ایک دوسرے کو صبر اور مرحمت کی نصیحت کرتے ہیں.یعنی یہ کہتے ہیں کہ شدائد پر صبر کرو اور خدا کے بندوں پر شفقت کرو.اس جگہ بھی مرحمت سے مراد شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں پر مستعمل ہوتا ہے پس قرآنی تعلیم کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت جس کی حقیقت محبوب کے رنگ سے رنگین ہو جانا ہے بجز خدا تعالیٰ اور صلحاء کے اور کسی سے جائز نہیں بلکہ سخت حرام ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ آمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلهِ ہے اور فرماتا ہے.يَآتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَرَى اَوْلِيَاء سے اور پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ ہے یعنی یہود اور نصاری سے محبت مت کرو.اور ہر ایک شخص جو صالح نہیں اس سے محبت مت کرو.ان آیتوں کو پڑھ کر نادان عیسائی دھوکا کھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ عیسائی وغیرہ بے دین فرقوں سے محبت نہ کریں لیکن نہیں سوچتے کہ ہر یک لفظ اپنے محل پر استعمال ہوتا ہے.جس چیز کا نام محبت ہے وہ فاسقوں اور کافروں سے اسی صورت میں بجالا نا متصور ہے کہ جب ان کے کفر اور فسق سے کچھ حصہ لے لیوے.نہایت سخت جاہل وہ شخص ہو گا جس نے یہ تعلیم دی کہ اپنے دین کے دشمنوں سے پیار کرو.ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ پیار اور محبت اسی کا نام ہے کہ اس شخص کے قول اور فعل اور عادت اور خُلق اور مذہب کو رضا کے رنگ میں دیکھیں اور اس پر خوش ہوں اور اس کا اثر اپنے دل پر ڈالیں اور ایسا ہونا مومن سے کافر کی نسبت ہرگز ممکن نہیں.ہاں مومن کافر پر شفقت کرے گا.اور تمام دقائق ہمدردی بجالائے گا اور اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب ملت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو.بھوکوں کو کھلاؤ.غلاموں کو آزاد کرو.قرضداروں کے قرض دو.اور زیر باروں کے بار اٹھاؤ.اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو.اور فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ اِيْتَائِ ذِي الْقُرْبی ہے یعنی خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عدل کرو.اور عدل سے بڑھ کر یہ کہ احسان کرو.جیسے بچہ سے اس کی والدہ یا کوئی اور شخص محض قرابت کے جوش سے کسی کی ہمدردی کرتا ہے.اور پھر فرماتا ہے.لَا يَنْهُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ البلد: ۱۸ البقرة: ١٦٦ المآئدة: ۵۲ ال عمران: ۱۱۹ ۵ النحل: ۹۱
۷۸۹ يُخْرِجُوكُم مِّنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّ وَهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ لا یعنی نصاری وغیرہ سے جو خدا نے محبت کرنے سے ممانعت فرمائی تو اس سے یہ نہ سمجھو کہ وہ نیکی اور احسان اور ہمدردی کرنے سے تمہیں منع کرتا ہے.نہیں بلکہ جن لوگوں نے تمہارے قتل کرنے کے لئے لڑائیاں نہیں کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نہیں نکالا وہ اگر چہ عیسائی ہوں یا یہودی ہوں بے شک ان پر احسان کرو.ان سے ہمدردی کر و انصاف کرو کہ خدا ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے.اور پھر فرماتا ہے.اِنَّمَا يَنْهكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَاَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظُهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ ہے یعنی خدا نے جو تمہیں ہمدردی اور دوستی سے منع کیا ہے تو صرف ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے دینی لڑائیاں تم سے کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نکالا اور بس نہ کیا جب تک باہم مل کر تمہیں نکال نہ دیا.سوان کی دوستی حرام ہے.کیونکہ یہ دین کو مٹانا چاہتے ہیں.اس جگہ یاد رکھنے کے لائق ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تولی عربی زبان میں دوستی کو کہتے ہیں جس کا دوسرا نام موڈت ہے.اور اصل حقیقت دوستی اور مودت کی خیر خواہی اور ہمدردی ہے.سومومن نصاری اور یہود اور ہنود سے دوستی اور ہمدردی اور خیر خواہی کر سکتا ہے.احسان کر سکتا ہے.مگر ان سے محبت نہیں کر سکتا.یہ ایک باریک فرق ہے اس کو خوب یا درکھو.( نور القرآن نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۲۹ تا ۴۳۶) الممتحنة: ١٠٩ ۲۱
۷۹۰ ایمان یقین اور معرفت جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ اور عالم مجازات اور دیگر امور مبدء اور معاد کے ماننے میں فلسفیوں کا طریقہ انبیاء علیہم السلام کے طریقہ سے بہت مختلف ہے.نبیوں کے طریق کا اصل اعظم یہ ہے کہ ایمان کا ثواب تب مترتب اور بارور ہو گا کہ جب غیب کی باتوں کو غیب ہی کی صورت میں قبول کیا جائے اور ظاہری حواس کی کھلی کھلی شہادتیں یا دلائل ہندسیہ کے یقینی اور قطعی ثبوت طلب نہ کئے جائیں.کیونکہ تمام وکمال مدار ثواب اور استحقاق قرب و توصل الہی کا تقویٰ پر ہے اور تقویٰ کی حقیقت وہی شخص اپنے اندر رکھتا ہے جو افراط آمیز تفتیشوں اور لمبے چوڑے انکاروں اور ہر ہر جزئی کی موشگافی سے اپنے تئیں بچاتا ہے اور صرف دوراندیشی کے طور سے ایک راہ کی سچائی کا دوسری راہوں پر غلبہ اور رحجان دیکھ کر بحسن ظن قبول کر لیتا ہے.اسی بات کا نام ایمان ہے.اور اسی ایمان پر فیوض الہی کا دروازہ کھلتا ہے اور دنیا و آخرت میں سعادتیں حاصل ہوتی ہیں.جب کوئی نیک بندہ ایمان پر محکم قدم مارتا ہے.اور پھر دعا اور نماز اور فکر اور نظر سے اپنی حالت علمی میں ترقی چاہتا ہے تو خدائے تعالیٰ خود اس کا متولی ہو کر اور آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر درجہ ایمان سے درجہ عین الیقین تک اس کو پہنچا دیتا ہے.مگر یہ سب کچھ بعد استقامت و مجاہدات و ریاضات و تزکیہ و تصفیہ نفس ملتا ہے پہلے نہیں.اور جو شخص پہلے ہی تمام جزئیات کی بکلی صفائی کرنا چاہتا ہے اور قبل از صفائی اپنے بدعقائد اور بد اعمال کو کسی حالت میں چھوڑنا نہیں چاہتا وہ اس ثواب اور اس رہ کے پانے سے محروم ہے.کیونکہ ایمان اسی حد تک ایمان ہے جب تک وہ امور جن کو مانا گیا ہے کسی قدر پردہ غیب میں ہیں یعنی ایسی حالت پر واقع ہیں جو ابھی تک عقلی ثبوت نے ان پر احاطہ تام نہیں کیا اور نہ کسی کشفی طور پر وہ نظر آئی بلکہ ان کا ثبوت صرف غلبہ نظن تک پہنچا ہے وبس.یہ تو انبیاء کا سچا فلسفہ ہے جس پر قدم مارنے سے کروڑ ہا بندگان خدا آسمانی برکتیں پاچکے ہیں اور جس پر ٹھیک ٹھیک چلنے سے بے شمار خلق اللہ معرفت تامہ کے درجہ تک پہنچ چکی ہیں اور ہمیشہ پہنچتی ہیں.اور جن اعلیٰ درجہ کی تعیینوں کو شوخی اور جلدی سے فلسفی لوگوں نے ڈھونڈا اور نہ پایا وہ سب مراتب ان ایماندار بندوں کو بڑی آسانی سے مل گئے.اور اس سے بھی بڑھ کر اس میں معرفت تامہ کے درجہ تک پہنچ گئے کہ
۷۹۱ جو کسی فلسفی کے کانوں نے اس کو نہیں سنا اور نہ اس کی آنکھ نے دیکھا اور نہ کبھی اس کے دل میں گذرا.لیکن اس کے مقابلہ پر خشک فلاسفروں کا جھوٹا اور مغشوش فلسفہ جس پر آج کل کے نو تعلیم یافتہ لوگ فریفتہ ہو رہے ہیں اور جس کے بد نتائج کی بے خبری نے بہت سے سادہ لوحوں کو برباد کر دیا ہے.یہ ہے کہ جب تک کسی اصل یا فرع کا قطعی طور پر فیصلہ نہ ہو جائے اور بکلی اس کا انکشاف نہ ہو جائے تب تک اس کو ہرگز مانا نہیں چاہئے گو خدا ہو یا کوئی اور چیز ہو.ان میں سے اعلیٰ درجہ کے اور کامل فلاسفر جنہوں نے ان اصولوں کی سخت پابندی اختیار کی تھی انہوں نے اپنا نام محققین رکھا جن کا دوسرا نام دہر یہ بھی ہے.ان کامل فلاسفروں کا بہ پابندی اپنے اصول قدیمہ کے یہ مذہب رہا ہے کہ چونکہ خدائے تعالیٰ کا وجود قطعی طور پر بذریعہ عقل ثابت نہیں ہو سکتا اور نہ ہم نے اس کو بچشم خود دیکھا اس لئے ایسے خدا کا ماننا ایک امر مظنون اور مشتبہ کا مان لینا ہے جو اصول مقررہ فلسفہ سے بکلی بعید ہے.سو انہوں نے پہلے ہی خدائے تعالیٰ کو درمیان سے اڑایا.پھر فرشتوں کا یوں فیصلہ کیا کہ یہ بھی خدائے تعالی کی طرح نظر نہیں آتے چلو یہ بھی درمیان سے اٹھاؤ.پھر روحوں کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ رائے ظاہر کی کہ ہم کوئی ثبوت قابل اطمینان اس بات پر نہیں دیکھتے کہ بعد مرنے کے روح باقی رہ جاتی ہے نہ کوئی روح نظر آتی ہے اور نہ واپس آکر کچھ اپنا قصہ سناتی ہے بلکہ سب روحیں مفارقت بدن کے بعد خدا اور فرشتوں کی طرح بے اثر اور بے نشان ہیں سو ان کا بھی وجود ماننا خلاف دلیل و برہان ہے.ان سب فیصلوں کے بعد ان کی نظر عمیق نے تکالیف شرعیہ کی مشقت اور حلال حرام کا فرق اصول فلسفہ کا سخت مخالف سمجھا اس لئے انہوں نے صاف صاف اپنی رائے ظاہر کر دی کہ ماں اور بہن اور جو رو میں فرق کرنا یا اور چیزوں میں سے بلا ثبوت ضرر طبعی بعض چیزوں کو حرام سمجھ لینا یہ سب بناوٹی باتیں ہیں جن پر کوئی فلسفی دلیل قائم نہیں ہو سکتی.اسی طرح انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ نگا رہنے میں کوئی شناعت عقلی ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس میں طبی قواعد کی رو سے فوائد ہیں.اسی طرح ان فلاسفروں کے اور بھی مسائل ہیں اور خلاصہ ان کے مذہب کا یہی ہے کہ وہ بجز دلائل قطعیہ عقلیہ کے کسی چیز کو نہیں مانتے اور ان کی فلسفیانہ نگاہ میں گوکیسی کوئی بد عملی ہو جب تک براہین قطعیہ فلسفیہ سے اس کا بد ہونا ثابت نہ ہولے یعنی جب تک اس میں کوئی طبی ضرر یا دنیوی بدانتظامی متصور نہ ہو تب تک اس کا ترک کرنا بے جا ہے مگر جو دوسرے درجہ کے فلاسفر ہیں انہوں نے لوگوں کے لعن طعن سے اندیشہ کر کے اپنے فلاسفری اصولوں کو کچھ نرم کر دیا ہے اور قوم کے خوف اور ہم جنسوں کی شرم سے خدا اور عالم جزا اور دوسری کئی باتوں کو ظنی طور پر تسلیم کر بیٹھے ہیں لیکن یہ اعلیٰ درجہ کے فلاسفران کو
۷۹۲ سخت نالائق اور بد فہم اور نبی الطبع اور بزدل اور اپنی سوسائٹی کے بدنام کنندہ خیال کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے فلاسفر ہونے کا دعویٰ تو کیا لیکن اصول فلسفہ پر جیسا کہ حق چلنے کا تھا نہیں چلے.اس لئے اول درجہ کے فلاسفر اس بات سے عار رکھتے ہیں کہ ان ناقصوں کو فلاسفر کے باعزت لفظ سے مخاطب یا موسوم کیا جائے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۸۳ تا ۸۸ حاشیہ ) میں ان خشک فلسفیوں کو جو عشق الہی اور اس کی بزرگ ذات کی قدر شناسی سے غافل ہیں جہاں تک مجھے طاقت عقلی دی گئی ہے بدلائل شافیہ راہ راست کی طرف پھیرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کی روحانی زندگی بہت ہی کمزور ہو گئی ہے اور ان کی بے جا آزادی اور ضعف ایمان نے بہت ہی برا اثر ان کے ارادت باطنی اور ان کی دینی اولوالعزمی اور ان کی اندرونی حالت پر ڈالا ہے اور عجیب طور پر انہوں نے ضلالت کو صداقت کے ساتھ ملا دیا ہے.مذہب وہ چیز ہے جس کی برکات کی اصل جڑھ ایمان و اعتبار و حسن اعتقاد و حسن ظن و اطاعت و اتباع مخبر صادق و کلام الہی ہے لیکن وہ لوگ اپنے غلط فلسفہ کی وجہ سے مذہب کی حقیقت کچھ اور ہی سمجھ رہے ہیں.سو انہیں لازم ہے کہ تعصب اور خود پسندی کے شور و غوغا سے اپنے تئیں الگ کر کے سیدھی نظر اور سیدھے خیال سے اس سوال پر غور کریں کہ ایمان کیا شئے ہے اور اس پر ثواب مترتب ہونے کی کیوں امید کی جاتی ہے؟ سو جاننا چاہئے کہ ایمان اس اقرار لسانی و تصدیق قلبی سے مراد ہے جو تبلیغ و پیغام کسی نبی کی نسبت محض تقویٰ اور دوراندیشی کے لحاظ سے صرف نیک فنی کی بنیاد پر یعنی بعض وجوہ کو معتبر سمجھ کر اور اس طرف غلبہ اور رجحان پا کر بغیر انتظار کامل اور قطعی اور واشگاف ثبوت کے دلی انشراح سے قبولیت و تسلیم ظاہر کی جائے.لیکن جب ایک خبر کی صحت پر وجوہ کاملہ قیاسیہ اور دلائل کا فیہ عقلیہ مل جائیں تو اس بات کا نام ایقان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں علم الیقین بھی کہتے ہیں.اور جب خدائے تعالیٰ خود اپنے خاص جذبہ اور موہبت سے خارق عادت کے طور پر انوار ہدایت کھولے اور اپنے آلاء ونعماء سے آشنا کرے.اور لدنی طور پر عقل اور علم عطا فرمادے اور ساتھ اس کے ابواب کشف اور الہام بھی منکشف کر کے عجائبات الوہیت کا سیر کرا دے اور اپنے محبوبانہ حسن و جمال پر اطلاع بخشے تو اس مرتبہ کا نام عرفان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں عین الیقین اور ہدایت اور بصیرت کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے.اور جب ان تمام مراتب کی شدت اثر سے عارف کے دل میں ایک ایسی کیفیت حالی عشق اور محبت کے باز نہ تعالیٰ پیدا ہو جائے کہ تمام وجود عارف کا اس کی لذت سے بھر جائے اور آسمانی انوار اس کے دل پر بکلی احاطہ کر کے ہر یک ظلمت و قبض و تنگی کو
۷۹۳ درمیان سے اٹھا دیں یہاں تک کہ بوجہ کمال رابطه عشق و محبت و بباعث انتہائی جوش صدق وصفا کے بلا اور مصیبت بھی محسوس اللذت و مدرک الحلاوت ہو تو اس کا درجہ کا نام اطمینان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں حق الیقین اور فلاح اور نجات سے بھی تعبیر کرتے ہیں.مگر یہ سب مراتب ایمانی مرتبہ کے بعد ملتے ہیں اور اس پر مترتب ہوتے ہیں جو شخص اپنے ایمان میں قوی ہوتا ہے وہ رفتہ رفتہ ان سب مراتب ا کو پالیتا ہے.لیکن جو شخص ایمانی طریق کو اختیار نہیں کرتا اور ہر یک صداقت کے قبول کرنے سے اول قطعی اور یقینی اور نہایت واشگاف ثبوت مانگتا ہے اس کی طبیعت کو اس راہ سے کچھ مناسبت نہیں اور وہ اس لائق ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اس قادر غنی بے نیاز کے فیوض حاصل کرے.عادت اللہ قدیم سے اسی طرح پر جاری ہے اور یہ اس فن علم الہی کا نہایت باریک نکتہ ہے جس پر سعادت مندوں کو غور کرنی چاہئے کہ ہمیشہ ثواب اور فیضان سماوی ایمان پر ہی مترتب ہوتا ہے.اس راہ کا سچا فلسفہ یہی ہے کہ انسان دین قبول کرنے کی ابتدائی حالت میں اس بے نیاز مطلق اور اس کی قدرت اور اس کے وعد و وعید اور اس کے اخبار و اسرار کے ماننے میں لمبے لمبے انکاروں سے مجتنب رہے.کیونکہ ایمانی صورت کے قائم رکھنے کے لئے (جس پر تمام ثواب وابستہ ہے ) ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ امور ایمانیہ کو ایسا منکشف نہ کرتا کہ وہ دوسرے بدیہات کی طرح ہر یک عام اور خاص کی نظر میں مسلّم الوجود ہو جاتی.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۰ تا ۸۰) ایمان اس بات کو کہتے ہیں کہ اس حالت میں مان لینا کہ جبکہ ابھی علم کمال تک نہیں پہنچا اور شکوک و شبہات سے ہنوز لڑائی ہے.پس جو شخص ایمان لاتا ہے یعنی با وجود کمزوری اور نہ مہیا ہونے کل اسباب یقین کے اس بات کو اغلب احتمال کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے وہ حضرت احدیت میں صادق اور راستباز شمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کو موہبت کے طور پر معرفت تامہ حاصل ہوتی ہے اور ایمان کے بعد عرفان کا جام اس کو پلایا جاتا ہے.اسی لئے ایک مرد تقی رسولوں اور نبیوں اور مامورین من اللہ کی دعوت کوسن کر ہر ایک پہلو پر ابتداء امر میں ہی حملہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ حصہ جو کسی مامور من اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر بعض صاف اور کھلے کھلے دلائل سے سمجھ آ جاتا ہے اسی کو اپنے اقرار اور ایمان کا ذریعہ ٹھہرا لیتا ہے اور وہ حصہ جو سمجھ نہیں آتا اس میں سنت صالحین کے طور پر استعارات اور مجازات قرار دیتا ہے اور اس طرح تناقض کو درمیان سے اٹھا کر صفائی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لے آتا ہے.تب خدا تعالیٰ اس کی حالت پر رحم
۷۹۴ کر کے اور اس کے ایمان پر راضی ہو کر اور اس کی دعاؤں کو سن کر معرفت تامہ کا دروازہ اس پر کھولتا ہے اور الہام اور کشوف کے ذریعہ سے اور دوسرے آسمانی نشانوں کے وسیلہ سے یقین کامل تک اس کو پہنچاتا ہے.( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۶۱) خدا تعالیٰ کا کلام ہمیں یہی سکھلاتا ہے کہ تم ایمان لاؤ تب نجات پاؤ گے.یہ ہمیں ہدایت نہیں دیتا کہ تم ان عقائد پر جو نبی علیہ السلام نے پیش کئے دلائل فلسفیہ اور براہین یقینیہ کا مطالبہ کرو.اور جب تک علوم ہندسہ اور حساب کی طرح وہ صداقتیں کھل نہ جائیں تب تک ان کو مت مانو.ظاہر ہے کہ اگر نبی کی باتوں کو علوم حسیہ کے ساتھ وزن کر کے ہی ماننا ہے تو وہ نبی کی متابعت نہیں بلکہ ہر یک صداقت جب کامل طور پر کھل جائے خود واجب التسلیم ٹھہرتی ہے خواہ اس کو ایک نبی بیان کرے خواہ غیر نبی بلکہ اگر ایک فاسق بھی بیان کرے تب بھی ماننا ہی پڑتا ہے.جس خبر کو نبی کے اعتبار پر اس کی صداقت کو مسلم رکھ کر ہم قبول کریں گے کہ وہ چیز ضرور ایسی ہونی چاہئے کہ گو عند العقل صدق کا بہت زیادہ احتمال رکھتی ہو مگر کذب کی طرف بھی کسی قدر نادانوں کا وہم جا سکتا ہوتا ہم صدق کی شق کو اختیار کر کے اور نبی کو صادق قرار دے کر اپنی نیک فنی اور اپنی فراست دقیقہ اور اپنے ادب اور اپنے ایمان کا اجر پالیویں.یہی لب لباب قرآن کریم کی تعلیم کا ہے جو ہم نے بیان کر دیا ہے.لیکن حکماء اور فلاسفر اس پہلو پر چلے ہی نہیں اور وہ ہمیشہ ایمان سے لا پرواہ رہے اور ایسے علم کو ڈھونڈتے رہے جس کا فی الفور قطعی اور یقینی ہونا ان پر کھل جائے.مگر یادر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا حکم فرما کرمومنوں کو یقینی معرفت سے محروم رکھنا نہیں چاہا بلکہ یقینی معرفت کے حاصل کرنے کے لئے ایمان ایک زینہ ہے جس زمینہ پر چڑھنے کے بغیر کچی معرفت کو طلب کرنا ایک سخت غلطی ہے.لیکن اس زینہ پر چڑھنے والے معارف صافیہ اور مشاہدات شافیہ کا ضرور چہرہ دیکھ لیتے ہیں.جب ایک ایمان دار بحیثیت ایک صادق مومن کے احکام اور اخبار الہی کو محض اس جہت سے قبول کر لیتا ہے کہ وہ اخبار اور احکام ایک مخبر صادق کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائے ہیں تو عرفان کا انعام پانے کے لئے مستحق ٹھہر جاتا ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے یہی قانون ٹھہرا رکھا ہے کہ پہلے وہ امور غیبیہ پر ایمان لا کر فرمانبرداروں میں داخل ہوں اور پھر عرفان کا مرتبہ عطا کر کے سب عقدے ان کے کھولے جائیں لیکن افسوس کہ جلد باز انسان ان راہوں کو اختیار نہیں کرتا.خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص ایمانی طور پر نبی کریم کی دعوت کو مان لیوے تو وہ اگر مجاہدات کے ذریعہ سے ان کی حقیقت دریافت کرنا چاہے وہ اس پر بذریعہ کشف اور الہام
۷۹۵ کے کھولے جائیں گے اور اسی کے ایمان کو عرفان کے درجہ تک پہنچایا جائے گا.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۵۱ تا ۲۵۳ حاشیه ) میں بار بار کہتا ہوں اور زور سے کہتا ہوں کہ اگر عقائد دینیہ فلسفہ کے رنگ پر اور ہندسہ اور حساب کی طرح عام طور پر بدیہی الثبوت ہوتے تو وہ ہر گز نجات کا ذریعہ نہ ٹھہر سکتے.بھائیو یقیناً سمجھو کہ نجات ایمان سے وابستہ ہے اور ایمان امور مخفیہ سے وابستہ ہے.اگر حقائق اشیاء مستور نہ ہوتی تو ایمان نہ ہوتا.اور اگر ایمان نہ ہوتا تو نجات کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا.ایمان ہی ہے جو رضائے الہی کا وسیلہ اور مراتب قرب کا زینہ اور گناہوں کا زنگ دھونے کے لئے ایک چشمہ ہے اور ہمیں جو خدا تعالیٰ کی طرف حاجت ہے اس کا ثبوت ایمان ہی کے ذریعہ سے ملتا ہے کیونکہ ہم اپنی نجات کے لئے اور ہر ایک دکھ سے راحت پانے کے لئے خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں.اور وہ نجات صرف ایمان سے ہی ملتی ہے.کیا دنیا کا عذاب اور کیا آخرت کا دونوں کا علاج ایمان ہے.جب ہم ایمان کی قوت سے ایک مشکل کا حل ہو جانا غیر ممکن نہیں دیکھتے تو وہ مشکل ہمارے لئے حل کی جاتی ہے.ہم ایمان ہی کی قوت سے خلاف قیاس اور بعید از عقل مقاصد کو بھی پالیتے ہیں.ایمان ہی کی قوت سے کرامات ظاہر ہوتی ہیں اور خوارق ظہور میں آتے ہیں.اور انہونی باتیں ہو جاتی ہیں.پس ایمان ہی سے پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے.خدا فلسفیوں سے پوشیدہ رہا اور حکیموں کو اس کا کچھ پتہ نہ لگا.مگر ایمان ایک عاجز دلق پوش کو خدا تعالیٰ سے ملا دیتا ہے اور اس سے باتیں کرا دیتا ہے.مومن اور محبوب حقیقی میں قوت ایمانی دلالہ ہے.یہ قوت ایک مسکین.ذلیل.خوار.مردود خلائق کو قصر مقدس تک جو عرش اللہ ہے پہنچا دیتی ہے.اور تمام پردوں کو اٹھاتی اٹھاتی دلارام از لی کا چہرہ دکھا دیتی ہے.سو اٹھو ایمان کو ڈھونڈو اور فلسفہ کے خشک اور بے سود ورقوں کو جلاؤ کہ ایمان سے تم کو برکتیں ملیں گی.ایمان کا ایک ذرہ فلسفہ کے ہزار دفتر سے بہتر ہے اور ایمان سے صرف آخری نجات نہیں بلکہ ایمان دنیا کے عذابوں اور لعنتوں سے بھی چھڑا دیتا ہے اور روح کے تحلیل کرنے والے غموں سے ہم ایمان ہی کی برکت سے نجات پاتے ہیں.وہ چیز ایمان ہی ہے جس سے مومن کامل سخت گھبراہٹ اور قلق اور کرب اور غموں کے طوفان کے وقت اور اس وقت کہ جب نا کامی کے چاروں طرف سے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں اور اسباب عادیہ کے تمام دروازے مقفل اور مسدود نظر آتے ہیں مطمئن اور خوش ہوتا ہے.ایمان کامل سے سارے استبعاد جاتے رہتے ہیں اور ایمان کو کوئی چیز ایسا نقصان نہیں پہنچاتی جیسا کہ استبعاد اور کوئی ایسی دولت نہیں جیسا کہ ایمان.دنیا میں ہر یک ماتم زدہ ہے
۷۹۶ مگر ایماندار.دنیا میں ہر ایک سوزش اور حرفت اور جلن میں گرفتار ہے مگر مومن.اے ایمان کیا ہی تیرے ثمرات شیریں ہیں.کیا ہی تیرے پھول خوشبو دار ہیں.سبحان اللہ کیا عجیب تجھ میں برکتیں ہیں.کیا ہی خوش نور تجھ میں چمک رہے ہیں.کوئی ثریا تک پہنچ نہیں سکتا مگر وہی جس میں تیری کششیں ہیں خدا تعالیٰ کو یہی پسند آیا کہ اب تو آوے اور فلسفہ جاوے.وَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهِ.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷۰ تا ۲۷۳ حاشیه ) ظاہر ہے کہ امر مقدم اور ایک بھاری مرحلہ جو ہمیں طے کرنا چاہئے وہ خدا شناسی ہے اور اگر ہماری خدا شناسی ہی ناقص اور مشتبہ اور دھندلی ہو تو ہمارا ایمان ہرگز منور اور چمکیلا نہیں ہوسکتا.اور یہ خدا شناسی جب تک کہ رحیمیت کی صفت کے ذریعہ سے ہمارا چشم دید واقعہ نہ بن جائے تب تک ہم کسی طرح سے اپنے رب کریم کی حقیقی معرفت کے چشمہ سے آب زلال نہیں پی سکتے.اگر ہم اپنے تئیں دھوکہ نہ دیں تو ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ ہم تکمیل معرفت کے لئے اس بات کے محتاج ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ذریعہ سے تمام شکوک و شبہات ہمارے دور ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل اور قدرت کی صفات تجربہ میں آکر ہمارے دل پر ایسا قومی اثر پڑے کہ ہمیں ان نفسانی جذبات سے چھوڑ ائے جو محض کمزوری ایمان اور یقین کی وجہ سے ہمارے پر غالب آتے اور دوسری طرف رخ کر دیتے ہیں کیا یہ سچ نہیں کہ انسان اس چند روزہ دنیا میں آکر بوجہ اس کے کہ خدا شناسی کی پُر زور کر نہیں اس کے دل پر نہیں پڑتیں ایک خوفناک تاریکی میں مبتلا ہو جاتا ہے.اور جس قدر دنیا اور دنیا کی املاک اور دنیا کی ریاستیں اور حکومتیں اور دولتیں اس کو پیاری معلوم ہوتی ہیں اس قدر عالم معاد کی لذات اور خوشحالی حقیقی کی جستجو اس کو نہیں ہوتی.اور اگر کوئی نسخہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کا نکلے تو اپنے منہ سے اس بات کے کہنے کے لئے طیار ہے کہ میں بہشت اور عالم آخرت کی نعمتوں کی خواہش سے باز آیا.پس اس کا کیا سبب ہے یہی تو ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت اور رحمت اور وعدوں پر حقیقی ایمان نہیں پس حق کے طالب کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اس حقیقی ایمان کی تلاش میں لگا رہے اور اپنے تئیں یہ دھوکا نہ دے کہ میں مسلمان ہوں اور خدا اور رسول پر ایمان لاتا ہوں قرآن شریف پڑھتا ہوں.شرک سے بیزار ہوں.نماز کا پابند ہوں اور ناجائز اور بد باتوں سے اجتناب کرتا ہوں.کیونکہ مرنے کے بعد کامل نجات اور سچی خوشحالی اور حقیقی سرور کا وہ شخص مالک ہو گا جس نے وہ زندہ اور حقیقی نور اس دنیا میں حاصل کر لیا ہے جو انسان کے منہ کو اس کے تمام قوتوں اور طاقتوں اور ارادوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف پھیر دیتا ہے
۷۹۷ اور جس سے اس سفلی زندگی پر ایک موت طاری ہو کر انسانی روح میں ایک سچی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے.وہ زندہ اور حقیقی نور کیا چیز ہے؟ وہی خدا داد طاقت ہے جس کا نام یقین اور معرفت تامہ ہے.یہ وہی طاقت ہے جو اپنے زور آور ہاتھ سے ایک خوفناک اور تاریک گڑھے سے انسان کو باہر لاتی اور نہایت روشن اور پر امن فضا میں بٹھا دیتی ہے اور قبل اس کے جو یہ روشنی حاصل ہو تمام اعمال صالحہ رسم اور عادت کے رنگ میں ہوتے ہیں اور اس صورت میں ادنی ادنیٰ ابتلاؤں کے وقت انسان ٹھوکر کھا سکتا ہے بجز اس مرتبہ یقین کے خدا سے معاملہ صافی کس کا ہو سکتا ہے؟ جس کو یقین دیا گیا ہے وہ پانی کی طرح خدا کی طرف بہتا ہے اور ہوا کی طرح اس کی طرف جاتا ہے اور آگ کی طرح غیر کو جلا دیتا ہے اور مصائب میں زمین کی طرح ثابت قدمی دکھلاتا ہے.خدا کی معرفت دیوانہ بنا دیتی ہے مگر لوگوں کی نظر میں دیوانہ اور خدا کی نظر میں عقلمند اور فرزانہ.یہ شربت کیا ہی شیریں ہے کہ حلق سے اترتے ہی تمام بدن کو شیر میں کر دیتا ہے اور یہ دودھ کیا ہی لذیذ ہے کہ ایک دم میں تمام نعمتوں سے فارغ اور لا پرواہ کر دیتا ہے مگر ان دعاؤں سے حاصل ہوتا ہے جو جان کو ہتھیلی پر رکھ کر کی جاتی ہیں اور کسی دوسرے کے خون سے نہیں بلکہ اپنی کچی قربانی سے حاصل ہوتا ہے.کیسا مشکل کام ہے آہ صد آہ.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۴۴ تا ۲۴۶) جولوگ سچے دل سے خدا کے طالب ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ خدا کی معرفت خدا کے ذریعہ سے ہی میسر آ سکتی ہے اور خدا کو خدا کے ساتھ ہی شناخت کر سکتے ہیں اور خداپنی حجت آپ ہی پوری کر سکتا ہے انسان کے اختیار میں نہیں اور انسان کبھی کسی حیلہ سے گناہ سے بیزار ہو کر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ معرفت کا ملہ حاصل نہ ہو اور اس جگہ کوئی کفارہ مفید نہیں اور کوئی طریق ایسا نہیں جو گناہ سے پاک کر سکے بجز اس کامل معرفت کے جو کامل محبت اور کامل خوف کو پیدا کرتی ہے اور کامل محبت اور کامل خوف یہی دونوں چیزیں ہیں جو گناہ سے روکتی ہیں کیونکہ محبت اور خوف کی آگ جب بھڑکتی ہے تو گناہ کے خس و خاشاک کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے اور یہ پاک آگ اور گناہ کی گندی آگ دونوں جمع ہو ہی نہیں سکتیں.غرض انسان نہ بدی سے رک سکتا ہے اور نہ محبت میں ترقی کر سکتا ہے جب تک کہ کامل معرفت اس کو نصیب نہ ہو اور کامل معرفت نہیں ملتی جب تک کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے زندہ برکات اور معجزات نہ دیئے جائیں.(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۷ ) ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بیج کے ہے اور پھر لغو باتوں کے چھوڑنے سے ایمان اپنا نرم نرم
۷۹۸ سبزہ نکالتا ہے اور پھر اپنا مال بطور ز کوۃ دینے سے ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں جو اس کو کسی قدر مضبوط کرتی ہیں.اور پھر شہوات نفسانیہ کا مقابلہ کرنے سے ان ٹہنیوں میں خوب مضبوطی اور سختی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر اپنے عہد اور امانتوں کی تمام شاخوں کی محافظت کرنے سے درخت ایمان کا اپنے مضبوط تنہ پر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر پھل لانے کے وقت ایک اور طاقت کا فیضان اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس طاقت سے پہلے نہ درخت کو پھل لگ سکتا ہے نہ پھول.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۰۹ حاشیہ) یا درکھو کہ گناہ سے پاک ہونا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.فرشتوں کی سی زندگی بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.دنیا کی بے جا عیاشیوں کو ترک کرنا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لینا اور خدا کی طرف ایک خارق عادت کشش سے کھینچے جانا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.زمین کو چھوڑنا اور آسمان پر چڑھ جانا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.خدا سے پورے طور پر ڈرنا بجر یقین کے کبھی ممکن نہیں.تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا اور اپنے عمل کو ریا کاری کی ملونی سے پاک کر دینا بجز یقین کے کبھی ممکن نہیں.ایسا ہی دنیا کی دولت اور حشمت اور اس کی کیمیا پر لعنت بھیجنا اور بادشاہوں کے قرب سے بے پروا ہو جانا اور صرف خدا کو اپنا ایک خزانہ مجھنا جو یقین کے ہرگز مکن نہیں.( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴۷۰،۴۶۹) خدا تعالی کی اطاعت کرنے والے در حقیقت تین قسم پر منقسم ہیں.اوّل وہ لوگ جو باعث مجو بیت اور رویت اسباب کے احسان الہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے اور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے جو احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو حسن کی عنایات عظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کرتی ہے بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالیٰ کے حقوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کر لیتے ہیں اور احسان الہی کی ان تفصیلات کو جن پر ایک بار یک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے ہرگز مشاہدہ نہیں کرتے.کیونکہ اسباب پرستی کا گرد و غبار مسبب حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے روک دیتا ہے.اس لئے ان کو وہ صاف نظر میسر نہیں آتی جس سے کامل طور پر معطی حقیقی کا جمال مشاہدہ کر سکتے.سو ان کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے جو وہ خدا کے احسانات کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتے.خود بھی اس کی طرف وہ التفات نہیں کرتے جو احسانات کے مشاہدہ کے وقت کرنی پڑتی ہے جس سے محسن کی شکل نظر کے سامنے آ جاتی ہے بلکہ ان
۷۹۹ کی معرفت ایک دھندلی سی ہوتی ہے.وجہ یہ کہ وہ کچھ تو اپنی محنتوں اور اپنے اسباب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور کچھ تکلف کے طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حق خالقیت اور رزاقیت ہمارے سر پر واجب ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کے وسعت فہم سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اس لئے ان سے جب تک کہ وہ اس حالت میں ہیں یہی چاہتا ہے کہ اس کے حقوق کا شکر ادا کریں اور آیت إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ میں عدل سے مراد یہی اطاعت برعایت عدل ہے.مگر اس سے بڑھ کر ایک اور مرتبہ انسان کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں انسان کی نظر رویت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہو کر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہے اور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آ جاتا ہے اور یہ مقولہ کہ مثلاً میری اپنی ہی آبپاشی سے میری کھیتی ہوئی اور یا میرے اپنے ہی بازو سے یہ کامیابی مجھے ہوئی یا زید کی مہربانی سے فلاں مطلب میرا پورا ہوا اور بکر کی خبر گیری سے میں تباہی سے بچ گیا.یہ تمام باتیں بیچ اور باطل معلوم ہونے لگتی ہیں اور ایک ہی ہستی اور ایک ہی قدرت اور ایک ہی محسن اور ایک ہی ہاتھ نظر آتا ہے.تب انسان ایک صاف نظر سے جس کے ساتھ ایک ذرہ شرک فی الاسباب کی گرد و غبار نہیں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتا ہے اور یہ رویت اس قسم کی صاف اور یقینی ہوتی ہے کہ وہ ایسے محسن کی عبادت کرنے کے وقت اس کو غائب نہیں سمجھتا بلکہ یقیناً اس کو حاضر خیال کر کے اس کی عبادت کرتا ہے اور اس عبادت کا نام قرآن شریف میں احسان ہے اور صحیح بخاری اور مسلم میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہی معنے بیان فرمائے ہیں.اور اس درجہ کے بعد ایک اور درجہ ہے جس کا نام اِیتَاءِ ذِی الْقُرُبی ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احسانات الہی کو بلا شرکت اسباب دیکھتا رہے اور اس کو حاضر اور بلاواسطہ محسن سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے تو اس تصور اور تخیل کا آخری نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جناب الہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی کیونکہ متواتر احسانات کا دائمی ملاحظہ بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے جس کے غیر محدود احسانات اس پر محیط ہو گئے.پس اس صورت میں وہ صرف احسانات کے تصور سے اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی ذاتی محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے.جیسا کہ بچہ کو ایک ذاتی محبت اپنی ماں سے ہوتی ہے.پس اس مرتبہ پر وہ عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں بلکہ دیکھ کر سچے عشاق کی طرح لذت النحل: ۹
بھی اٹھاتا ہے اور تمام اغراض نفسانی معدوم ہو کر ذاتی محبت اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ ایتاءِ ذِی الْقُرُبی سے تعبیر کیا ہے اور اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا غرض آیت اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ ايْتَآئِ ذِي الْقُرنی یے کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں.اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے.اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے.ومن النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ اللهِ وَاللهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ سے یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاء الہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں.اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے.اور پھر فرمایا بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ہے یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں.سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں.اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وے کچھ غم کرتے ہیں.یعنی ان کا مدعا خدا اور خدا کی محبت ہو جاتی ہے.اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے.اور پھر ایک جگہ فرمایا.يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا.إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گزاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے.ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے.اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت الہی اور رضائے الہی کی طلب بچے دل سے ظہور میں آوے مگر اس جگہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمدہ تعلیم جو نہایت صفائی سے بیان کی گئی ہے انجیل میں بھی موجود ہے.ہم ہر ایک کو یقین دلاتے ہیں کہ اس صفائی اور تفصیل سے انجیل نے ہرگز بیان نہیں کیا.خدا تعالیٰ نے تو اس دین کا نام اسلام اس غرض سے رکھا ہے کہ تا انسان خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض البقرة: ٢٠١ النحل: ۹۱ البقرة: ٢٠٨ البقرة :١١٣ ه الدهر: 9
۸۰۱ سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے کرے کیونکہ اسلام تمام اغراض کے چھوڑ دینے کے بعد رضا بقضا کا نام ہے.دنیا میں بجز اسلام ایسا کوئی مذہب نہیں جس کے یہ مقاصد ہوں بے شک خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت جتلانے کے لئے مومنوں کو انواع اقسام کی نعمتوں کے وعدے دیئے ہیں مگر مومنوں کو جو اعلیٰ مقام کے خواہش مند ہیں یہی تعلیم دی ہے کہ وہ محبت ذاتی سے خدا تعالیٰ کی عبادت کریں.( نورالقرآن نمبر ۲.روحانی خزائن جلد نمبر ۹ صفحه ۴۳۷ تا ۴۴۱ ) اس جگہ یہ نکتہ بھی یادر ہے کہ آیت موصوفہ بالا یعنی بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ لے سعادت تامہ کے تینوں ضروری در جوں یعنی فنا اور بقا اور لقا کی طرف اشارت کرتی ہے کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلہ کا فقرہ یہ تعلیم کر رہا ہے کہ تمام قولی اور اعضا اور جو کچھ اپنا ہے خدا تعالیٰ کو سونپ دینا چاہئے اور اس کی راہ میں وقف کر دینا چاہئے اور یہ وہی کیفیت ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں فنا ہے.وجہ یہ کہ جب انسان نے حسب مفہوم اس آیت مدوحہ کے اپنا تمام وجود معہ اس کی تمام قوتوں کے خدا تعالیٰ کوسونپ دیا اور اس کی راہ میں وقف کر دیا اور اپنی نفسانی جنبشوں اور سکونوں سے بکلی باز آ گیا تو بلاشبہ ایک قسم کی موت اس پر طاری ہو گئی اور اسی موت کو اہل تصوف فنا کے نام سے موسوم کرتے ہیں.پھر بعد اس کے وَهُوَ مُحْسِنُ کا فقرہ مرتبہ بقا کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ جب انسان بعد فنا اکمل واتم وسلب جذبات نفسانی الہی جذبہ اور تحریک سے پھر جنبش میں آیا اور بعد منقطع ہو جانے تمام نفسانی حرکات کے پھر ربانی تحریکوں سے پر ہو کر حرکت کرنے لگا تو یہ وہ حیات ثانی ہے جس کا نام بقا رکھنا چاہئے.پھر بعد اس کے یہ فقرات فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ جو اثبات اور ایجاب اجر و نفی و سلب خوف و حزن پر دلالت کرتی ہیں یہ حالت لقا کی طرف اشارہ ہے.کیونکہ جس وقت انسان کے عرفان اور یقین اور توکل اور محبت میں ایسا مرتبہ عالیہ پیدا ہو جائے کہ اس کے خلوص اور ایمان اور وفا کا اجر اس کی نظر میں وہمی اور خیالی اور ظنی نہ رہے بلکہ ایسا یقینی اور قطعی اور مشہود اور مرئی اور محسوس ہو کہ گویا وہ اس کومل چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود پر ایسا یقین ہو جائے کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور ہر یک آئندہ کا خوف اس کی نظر سے اٹھ جاوے اور ہر یک گذشتہ اور موجودہ غم کا نام ونشان نہ رہے اور ہر یک روحانی تنظم موجود الوقت نظر آ وے تو یہی حالت جو ہر یک قبض اور البقرة :١١٣
۸۰۲ کدورت سے پاک اور ہر یک دغدعہ اور شک سے محفوظ اور ہر یک درد انتظار سے منزہ ہے لقا کے نام سے موسوم ہے.اور اس مرتبہ لقا پر حسن کا لفظ جو آیت میں موجود ہے نہایت صراحت سے دلالت کر رہا ہے کیونکہ احسان حسب تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت کاملہ کا نام ہے کہ جب انسان اپنی پرستش کی حالت میں خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کرے کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے.اور یہ لقا کا مرتبہ تب سالک کے لئے کامل طور پر متحقق ہوتا ہے کہ جب ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بو کو بتمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متواری اور پوشیدہ کر دیوے جس طرح آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسا چھپالیتی ہے کہ نظر ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا.یہ وہی مقام ہے جس پر پہنچ کر بعض سالکین نے لغزشیں کھائی ہیں اور شہودی پیوند کو وجودی پیوند کے رنگ میں سمجھ لیا ہے.اس مقام میں جو اولیاء اللہ پہنچے ہیں یا جن کو اس میں سے کوئی گھونٹ میسر آ گیا ہے بعض اہل تصوف نے ان کا نام اطفال اللہ رکھ دیا ہے اس مناسبت سے کہ وہ لوگ صفات الہی کے کنارِ عاطفت میں بکلی جا پڑے ہیں اور جیسے ایک شخص کا لڑکا اپنے خلیہ اور خط و خال میں کچھ اپنے باپ سے مناسبت رکھتا ہے ویسا ہی ان کو بھی ظلمی طور پر جه خلق با خلاق اللہ خدا تعالیٰ کی صفات جمیلہ سے کچھ مناسبت پیدا ہوگئی ہے.ایسے نام اگر چہ کھلے کھلے طور پر بزبان شرع مستعمل نہیں ہیں مگر در حقیقت عارفوں نے قرآن کریم سے ہی اس کو استنباط کیا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسے تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو.اور ظاہر ہے کہ اگر مجازی طور پر ان الفاظ کا بولنا منہیات بوجہ ہے.شرع سے ہوتا تو خدا تعالیٰ ایسی طرز سے اپنی کلام کو منزہ رکھتا جس سے اس اطلاق کا جواز مستنبط ہوسکتا.اور اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو شق القمر ہے اسی الہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا.کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی.کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الہی طاقت البقرة: ٢٠١
۸۰۳ سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آ گیا تھا اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی.اب ان تحریرات سے ہماری غرض اس قدر ہے کہ لقا کا مرتبہ جب کسی انسان کو میسر آتا ہے تو اس مرتبہ کی تموج کے اوقات میں الہی کام ضرور اس سے صادر ہوتے ہیں اور ایسے شخص کی گہری صحبت میں جو شخص ایک حصہ عمر کا بسر کرے تو ضرور کچھ نہ کچھ یہ اقتداری خوارق مشاہدہ کرے گا کیونکہ اس تموج کی حالت میں کچھ الہی صفات کا رنگ ظلی طور پر انسان میں آ جاتا ہے.یہاں تک کہ اس کا رحم خدا تعالیٰ کا رحم اور اس کا غضب خدا تعالیٰ کا غضب ہو جاتا ہے.اور بسا اوقات وہ بغیر کسی دعا کے کہتا ہے کہ فلاں چیز پیدا ہو جائے تو وہ پیدا ہو جاتی ہے اور کسی پر غضب کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس پر کوئی وبال نازل ہو جاتا ہے.اور کسی کو رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مورد رحم ہو جاتا ہے.اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کا من دائی طور پر نتیجہ مقصودہ کو بلا تخلف پیدا کرتا ہے ایسا ہی اس کا محسن بھی اس تموج اور مد کی حالت میں خطا نہیں جاتا.اور جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ان اقتداری خوارق کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ شخص شدت اتصال کی وجہ سے خدائے عزو جل کے رنگ سے ظلی طور پر رنگین ہو جاتا ہے اور تجلیات الہیہ اس پر دائمی قبضہ کر لیتے ہیں.اور محبوب حقیقی حجب حائلہ کو درمیان سے اٹھا کر نہایت شدید قرب کی وجہ سے ہم آغوش ہو جاتا ہے.اور جیسا کہ وہ خود مبارک ہے ایسا ہی اس کے اقوال و افعال و حرکات اور سکنات اور خوراک اور پوشاک اور مکان اور زمان اور اس کے جمیع لوازم میں برکت رکھ دیتا ہے.تب ہر یک چیز جو اس سے مس کرتی ہے بغیر اس کے جو یہ دعا کرے برکت پاتی ہے.اس کے مکان میں برکت ہوتی ہے.اس کے دروازوں کے آستانے برکت سے بھرے ہوتے ہیں.اس کے گھر کے دروازوں پر برکت برستی ہے جو ہر دم اس کو مشاہدہ ہوتی ہے.اور اس کی خوشبو اس کو آتی ہے.جب یہ سفر کرے تو خدا تعالیٰ معہ اپنی تمام برکتوں کے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب یہ گھر میں آوے تو ایک دریا نور کا ساتھ لاتا ہے.غرض یہ عجیب انسان ہوتا ہے جس کی کند بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ فنا فی اللہ کے درجہ کی تحقیق کے بعد یعنی اس درجہ کے بعد جو اسلم وَجْهَهُ لِلهِ کے مفہوم کو لازم ہے جس کو صوفی فنا کے نام سے اور قرآن کریم استقامت کے اسم سے موسوم کرتا ہے درجہ بقا اور لقا کا بلا توقف پیچھے آنے والا ہے یعنی جب کہ انسان خلق اور ہوا اور ارادہ سے بکلی خالی ہو کر فنا کی حالت کو پہنچ گیا تو اس حالت کے راسخ ہونے کے ساتھ ہی بقا کا درجہ شروع ہو جاتا
۸۰۴ ہے مگر جب تک یہ حالت راسخ نہ ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف بکلی جھک جانا ایک طبعی امر نہ ٹھہر جائے تب تک مرتبہ بقا کا پیدا نہیں ہو سکتا بلکہ وہ مرتبہ صرف اسی وقت پیدا ہوگا کہ جب ہر یک اطاعت کا تصنع درمیان سے اٹھ جائے اور ایک طبعی روئیدگی کی طرح فرمانبرداری کی سرسبز اور لہراتی ہوئی شاخیں دل سے جوش مار کر نکلیں اور واقعی طور پر سب کچھ جو اپنا سمجھا جاتا ہے خدا تعالیٰ کا ہو جائے اور جیسے دوسرے لوگ ہوا پرستی میں لذت اٹھاتے ہیں اس شخص کی تمام کامل لذتیں پرستش اور یاد الہی میں ہوں اور بجائے نفسانی ارادوں کے خدا تعالیٰ کی مرضیات جگہ پکڑ لیں.پھر جب یہ بقا کی حالت بخوبی استحکام پکڑ جائے اور سالک کے رگ وریشہ میں داخل ہو جائے اور اس کا جز و وجود بن جائے اور ایک نور آسمان سے اتر تا ہوا دکھائی دے جس کے نازل ہونے کے ساتھ ہی تمام پر دے دور ہو جائیں اور نہایت لطیف اور شیریں اور حلاوت سے ملی ہوئی ایک محبت دل میں پیدا ہو جو پہلے نہیں تھی اور ایک ایسی خنکی اور اطمینان اور سکینت اور سرور دل کو محسوس ہو کہ جیسے ایک نہایت پیارے دوست مدت کے بچھڑے ہوئے کی یک دفعہ ملنے اور بغلگیر ہونے سے محسوس ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے روشن اور لذیذ اور مبارک اور سرور بخش اور فصیح اور معطر اور مبشرانہ کلمات اٹھتے اور بیٹھے اور سوتے اور جاگتے اس طرح پر نازل ہونے شروع ہو جائیں کہ جیسے ایک ٹھنڈی اور دلکش اور پر خوشبو ہوا ایک گلزار پر گذر کر آتی اور صبح کے وقت چلنی شروع ہوتی اور اپنے ساتھ ایک سکر اور سرور لاتی ہے اور انسان خدا تعالیٰ کی طرف ایسا کھینچا جائے کہ بغیر اس کی محبت اور عاشقانہ تصور کے جی نہ سکے اور نہ یہ کہ مال اور جان اور عزت اور اولاد اور جو کچھ اس کا ہے قربان کرنے کے لئے تیار ہو بلکہ اپنے دل میں قربان کر ہی چکا ہو اور ایسی ایک زبر دست کشش سے کھینچا گیا ہو جو نہیں جانتا کہ اسے کیا ہو گیا اور نورانیت کا بشدت اپنے اندر انتشار پاوے جیسا کہ دن چڑھا ہوا ہوتا ہے اور صدق اور محبت اور وفا کی نہریں بڑے زور سے چلتی ہوئی اپنے اندر مشاہدہ کرے اورلمحہ بہ لحہ ایسا احساس کرتا ہو کہ گویا خدا تعالیٰ اس کے قلب پر اترا ہوا ہے جب یہ حالت اپنی تمام علامتوں کے ساتھ محسوس ہو تب خوشی کرو اور محبوب حقیقی کا شکر بجا لاؤ کہ یہی وہ انتہائی مقام ہے جس کا نام لقا رکھا گیا ہے.اس آخری مقام میں انسان ایسا احساس کرتا ہے کہ گویا بہت سے پاک پانیوں سے اس کو دھو کر اور نفسانیت کا بکتی رگ وریشہ اس سے الگ کر کے نئے سرے اس کو پیدا کیا گیا.اور پھر رب العالمین کا تخت اس کے اندر بچھایا گیا اور خدائے پاک و قدوس کا چمکتا ہوا چہرہ اپنے تمام دلکش حسن و جمال کے اندر کا )
۸۰۵ ساتھ ہمیشہ کے لئے اس کے سامنے موجود ہو گیا ہے.مگر ساتھ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دونوں آخری درجہ بقا اور لقا کے کسی نہیں ہیں بلکہ وہی ہیں اور کسب اور جد و جہد کی حد صرف فنا کے درجہ تک ہے اور اسی حد تک تمام راستباز سالکوں کا سیر و سلوک ختم ہوتا ہے اور دائرہ کمالات انسانیہ کا اپنے استدارت تامہ کو پہنچتا ہے.اور جب اس درجہ فنا کو پاک باطن لوگ جیسا کہ چاہئے طے کر چکتے ہیں تو عادت الہیہ اسی طرح پر جاری ہے کہ بیک دفعہ عنایت الہی کی نیم چل کر بقا اور لقا کے درجہ تک انہیں پہنچادیتی ہے.اب اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ اس سفر کی تمام صعوبتیں اور مشقتیں فنا کی حد تک ہی ہیں اور پھر اس سے آگے گزر کر انسان کی سعی اور کوشش اور مشقت اور محنت کو دخل نہیں بلکہ وہ محبت صافیہ جو فنا کی حالت میں خدا وند کریم وجلیل سے پیدا ہوتی ہے الہی محبت کا خود بخود اس پر ایک نمایاں شعلہ پڑتا ہے جس کو مرتبہ بقا اور لقا سے تعبیر کرتے ہیں.اور جب محبت الہی بندہ کی محبت پر نازل ہوتی ہے تب دونوں محبتوں کے ملنے سے روح القدس کا ایک روشن اور کامل سایہ انسان کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے اور لقا کے مرتبہ پر اس روح القدس کی روشنی نہایت ہی نمایاں ہوتی ہے اور اقتداری خوارق جن کا ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں اسی وجہ سے ایسے لوگوں سے صادر ہوتے ہیں کہ یہ روح القدس کی روشنی ہر وقت اور ہر حال میں ان کے شامل حال ہوتی ہے.اور ان کے اندر سکونت رکھتی ہے اور وہ اس روشنی سے کبھی اور کسی حال میں جدا نہیں ہوتے اور نہ وہ روشنی ان سے جدا ہوتی ہے.وہ روشنی ہر دم ان کے تنفس کے ساتھ نکلتی ہے اور ان کی نظر کے ساتھ ہر ایک چیز پر پڑتی ہے اور ان کے کلام کے ساتھ اپنی نورانیت لوگوں کو دکھلاتی ہے.اسی روشنی کا نام روح القدس ہے مگر یہ حقیقی روح القدس نہیں.حقیقی روح القدس وہ ہے جو آسمان پر ہے.یہ روح القدس اس کا ظل ہے جو پاک سینوں اور دلوں اور دماغوں میں ہمیشہ کے لئے آباد ہو جاتا ہے اور ایک طرفۃ العین کے لئے بھی ان سے جدا نہیں ہوتا.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۳ تا ۷۲ ) اس جگہ ہر ایک بچے طالب کے دل میں بالطبع یہ سوال پیدا ہو گا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے کہ تا یہ مرتبہ عالیہ مکالمہ الہیہ حاصل کر سکوں.پس اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک نئی ہستی ہے جس میں نئی قوتیں نئی طاقتیں نئی زندگی عطا کی جاتی ہے اور نئی ہستی پہلی ہستی کی فنا کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اور جب پہلی ہستی ایک کچی اور حقیقی قربانی کے ذریعہ سے جو فدائے نفس اور فدائے عزت و مال اور ودیگر لوازم نفسانیہ سے مراد ہے بکلی جاتی رہے تو یہ دوسری ہستی فی الفور اس کی جگہ لے لیتی ہے.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ پہلی ہستی کے دور ہونے کے نشان کیا ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب پہلے خواص اور
۸۰۶ جذبات دور ہو کر نئے خواص اور نئے جذبات پیدا ہوں اور اپنی فطرت میں ایک انقلاب عظیم نظر آوے.اور تمام حالتیں کیا اخلاقی اور کیا ایمانی اور کیا تعبدی ایسی ہی بدلی ہوئی نظر آدیں کہ گویا ان پر اب رنگ ہی اور ہے.غرض جب اپنے نفس پر نظر ڈالے تو اپنے تئیں ایک نیا آدمی پاوے اور ایسا ہی خدا تعالیٰ بھی نیا ہی دکھائی دے اور شکر اور صبر اور یاد الہی میں نئی لذتیں پیدا ہو جائیں جن کی پہلے کچھ بھی خبر نہیں تھی اور بدیہی طور پر محسوس ہو کہ اب اپنا نفس اپنے رب پر بلکلی متوکل اور غیر سے بکلی لا پروا ہے اور تصور وجود حضرت باری اس قدر اس کے دل پر استیلاء پکڑ گیا ہے کہ اب اس کی نظر شہود میں وجود غیر بکلی معدوم ہے اور تمام اسباب بیچ اور ذلیل اور بے قد ر نظر آتے ہیں اور صدق اور وفا کا مادہ اس قدر جوش میں آ گیا ہے کہ ہر یک مصیبت کا تصور کرنے سے وہ مصیبت آسان معلوم ہوتی ہے اور نہ صرف تصور بلکہ مصائب کے وارد ہونے سے بھی ہر یک درد برنگ لذت نظر آتا ہے تو جب یہ تمام علامات پیدا ہو جا ئیں تو سمجھنا چاہئے کہ اب پہلی ہستی پر بکلی موت آ گئی.اس موت کے پیدا ہو جانے سے عجیب طور کی قوتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں پیدا ہو جاتی ہیں وہ باتیں جو دوسرے کہتے ہیں پر کرتے نہیں.اور وہ راہیں جو دوسرے دیکھتے ہیں پر چلتے نہیں اور وہ بوجھ جو دوسرے جانچتے ہیں پر اٹھاتے نہیں ان سب امور شاقہ کی اس کو توفیق دی جاتی ہے کیونکہ وہ اپنی قوت سے نہیں بلکہ ایک زبر دست الہی طاقت اس کی اعانت اور امداد میں ہوتی ہے جو پہاڑوں سے زیادہ اس کو استحکام کی رو سے کر دیتی ہے.اور ایک وفادار دل اس کو بخشتی ہے تب خدا تعالیٰ کے جلال کے لئے وہ کام اس سے صادر ہوتے ہیں اور وہ صدق کی باتیں ظہور میں آتی ہیں کہ انسان کیا چیز ہے اور آدم زاد کیا حقیقت ہے کہ خود بخود ان کو انجام دے سکے وہ بکلی غیر سے منقطع ہو جاتا ہے اور ماسوا اللہ سے دونوں ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور سب تفاوتوں اور فرقوں کو درمیان سے دور کر دیتا ہے اور وہ آزمایا جاتا ہے اور دکھ دیا جاتا ہے اور طرح طرح کے امتحانات اس کو پیش آتے ہیں اور ایسی مصائب اور تکالیف اس پر پڑتی ہیں کہ اگر وہ پہاڑوں پر پڑتیں تو انہیں نابود کر دیتیں.اور اگر وہ آفتاب اور ماہتاب پر وارد ہوتیں تو وہ بھی تاریک ہو جاتے.لیکن وہ ثابت قدم رہتا ہے.اور وہ تمام سختیوں کو بڑی انشرح صدر سے برداشت کر لیتا ہے اور اگر وہ ہاونِ حوادث میں پیسا بھی جائے اور غبار سا کیا جائے تب بھی بغیر انّی مَعَ اللہ کے اور کوئی آواز اس کے اندر سے نہیں آتی.جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے تو اس کا معاملہ اس عالم سے وراء الوراء ہو جاتا ہے.اور ان تمام ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلمی طور پر پا لیتا ہے جو اس سے پہلے
۸۰۷ نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے.اور انبیاء اور رسل کا وارث اور نائب ہو جاتا ہے.(آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۳۳ تا ۲۳۷) تیسرا حصہ یعنی یہ کہ روحانی حالتیں کیا ہیں؟ واضح رہے کہ ہم پہلے اس سے بیان کر چکے ہیں کہ بموجب ہدایت قرآن شریف کے روحانی حالتوں کا منبع اور سر چشمہ نفس مطمئنہ ہے جو انسان کو با اخلاق ہونے کے مرتبہ سے باخدا ہونے کے مرتبہ تک پہنچاتا ہے.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِى.وَادْخُلِي جَنَّتی ہے یعنی اے نفس خدا کے ساتھ آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی.پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت کے اندر آ جا.اس جگہ بہتر ہے کہ ہم روحانی حالتوں کے بیان کرنے کے لئے اس آیت کریمہ کی تفسیر کسی قدر توضیح سے بیان کریں.پس یا درکھنا چاہئے کہ اعلیٰ درجہ کی روحانی حالت انسان کی اس دنیوی زندگی میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ آرام پا جائے اور تمام اطمینان اور سرور اور لذت اس کی خدا میں ہی ہو جائے.یہی وہ حالت ہے جس کو دوسرے لفظوں میں بہشتی زندگی کہا جاتا ہے اس حالت میں انسان اپنے کامل صدق اور صفا اور وفا کے بدلہ میں ایک نقد بہشت پالیتا ہے اور دوسرے لوگوں کی بہشت موعود پر نظر ہوتی ہے.اور یہ بہشت موجود میں داخل ہوتا ہے.اسی درجہ پر پہنچ کر انسان سمجھتا ہے کہ وہ عبادت جس کا بوجھ اس کے سر پر ڈالا گیا ہے درحقیقت وہی ایک ایسی غذا ہے جس سے اس کی روح نشو و نما پاتی ہے اور جس پر اس کی روحانی زندگی کا بڑا بھاری مدار ہے اور اس کے نتیجہ کا حصول کسی دوسرے جہان پر موقوف نہیں ہے.اسی مقام پر یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ وہ ساری علامتیں جو نفس لوامہ انسان کا اس کی ناپاک زندگی پر کرتا ہے اور پھر بھی نیک خواہشوں کو اچھی طرح ابھار نہیں سکتا اور بُری خواہشوں سے حقیقی نفرت نہیں دلا سکتا اور نہ نیکی پر ٹھہرنے کی پوری قوت بخش سکتا ہے اس پاک تحریک سے بدل جاتی ہے جو نفس مطمئنہ کے نشو ونما کا آغاز ہوتی ہے اور اس درجہ پر پہنچ کر وقت آ جاتا ہے کہ انسان پوری فلاح حاصل کرے.اور اب تمام نفسانی جذبات خود بخود افسردہ ہونے لگتے ہیں اور روح پر ایک ایسی طاقت افزا ہوا چلنے لگتی ہے جس سے انسان پہلی کمزوریوں کو ندامت کی نظر سے دیکھتا ہے اس وقت انسانی سرشت پر ایک بھاری انقلاب آتا ہے اور عادت میں ایک تبدل عظیم پیدا ہوتا ہے اور انسان اپنی پہلی حالتوں سے بہت ہی دور الفجر: ۲۸ تا ۳۱
۸۰۸ جا پڑتا ہے.دھویا جاتا ہے اور صاف کیا جاتا ہے اور خدا نیکی کی محبت کو اپنے ہاتھ سے اس کے دل میں لکھ دیتا ہے اور بدی کا گند اپنے ہاتھ سے اس کے دل سے باہر پھینک دیتا ہے.سچائی کی فوج سب کی سب دل کے شہرستان میں آجاتی ہے اور فطرت کے تمام برجوں پر راستبازی کا قبضہ ہو جاتا ہے.اور حق کی فتح ہوتی ہے اور باطل بھاگ جاتا ہے اور اپنے ہتھیار پھینک دیتا ہے.اس شخص کے دل پر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہر ایک قدم خدا کے زیر سایہ چلتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ آیات ذیل میں انہی امور کی طرف اشارہ فرماتا ہے:.أُوليك كَتَبَ فِي قُلُوْبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوجٍ مِّنْهُ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَزَهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَيْكَ هُمُ الرُّشِدُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَنِعْمَةً وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ : جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا.یہ تمام اشارات اس روحانی حالت کی طرف ہیں جو تیسرے درجہ پر انسان کو حاصل ہوتی ہے.اور سچی بینائی انسان کو کبھی نہیں مل سکتی جب تک یہ حالت اس کو حاصل نہ ہو اور یہ جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ایمان ان کے دل میں اپنے ہاتھ سے لکھا اور روح القدس سے ان کی مدد کی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو سچی طہارت اور پاکیزگی کبھی حاصل نہیں ہوسکتی جب تک آسمانی مدد اس کے شامل حال نہ ہو.نفس لوامہ کے مرتبہ پر انسان کا یہ حال ہوتا ہے کہ بار بار تو بہ کرتا اور بار بار گرتا ہے بلکہ بسا اوقات اپنی صلاحیت سے نا امید ہو جاتا ہے اور اپنے مرض کو نا قابل علاج سمجھ لیتا ہے اور ایک مدت تک ایسا ہی رہتا ہے اور پھر جب وقت مقدر پورا ہو جاتا ہے تو رات یا دن کو یکدفعہ ایک نو ر اس پر نازل ہوتا ہے اور اس نور میں الہی قوت ہوتی ہے.اس نور کے نازل ہونے کے ساتھ ہی ایک عجیب تبدیلی اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اور غیبی ہاتھ کا ایک قوی تصرف محسوس ہوتا ہے اور ایک عجیب عالم سامنے آ جاتا ہے.اس وقت انسان کو پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے اور آنکھوں میں وہ نور آ جاتا ہے جو پہلے نہیں تھا لیکن اس راہ کو کیونکر حاصل کریں اور اس روشنی کو کیونکر پاویں.سو جاننا چاہئے کہ اس دنیا میں جو دارالاسباب ہے ہر ایک معلول کے لئے ایک علت ہے اور ہر ایک حرکت کے لئے ایک محرک ہے اور ہر ایک علم حاصل کرنے کے لئے ایک راہ ہے جس کو صراط مستقیم کہتے ہیں.دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو بغیر پابندی ان قواعد کے مل سکے جو قدرت نے ابتدا سے اس کے لئے مقرر کر رکھے ہیں.قانون قدرت بتلا رہا ہے المجادلة: ٢٣ الحجرات: ٩،٨ بنی اسراءیل ۸۲
1+9 کہ ہر ایک چیز کے حصول کے لئے ایک صراط مستقیم ہے اور اس کا حصول اسی پر قدرتاً موقوف ہے مثلاً اگر ہم ایک اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھے ہوں اور آفتاب کی روشنی کی ضرورت ہو تو ہمارے لئے یہ صراط مستقیم ہے کہ ہم اس کھڑکی کو کھول دیں جو آفتاب کی طرف ہے تب یکدفعہ آفتاب کی روشنی اندر آ کر ہمیں منور کر دے گی.سوظاہر ہے کہ اسی طرح خدا کے بچے اور واقعی فیوض پانے کے لئے کوئی کھڑکی اور پاک روحانیت کے حاصل کرنے کے لئے کوئی خاص طریق ہوگا اور وہ یہ ہے کہ روحانی امور کے لئے صراط مستقیم کی تلاش کریں جیسا کہ ہم اپنی زندگی کے تمام امور میں اپنی کامیابیوں کے لئے صراط مستقیم کی تلاش کرتے رہتے ہیں.مگر کیا وہ یہ طریق ہے کہ ہم صرف اپنی ہی عقل کے زور سے اور اپنی ہی خود تراشیدہ باتوں سے خدا کے وصال کو ڈھونڈیں.کیا محض ہماری ہی اپنی منطق اور فلسفہ سے اس کے وہ دروازے ہم پر کھلتے ہیں جن کا کھلنا اس کے قومی ہاتھ پر موقوف ہے.یقینا سمجھو کہ یہ بالکل صحیح نہیں ہے ہم اُس حی و قیوم کو محض اپنی ہی تدبیروں سے ہرگز نہیں پا سکتے بلکہ اس راہ میں صراط مستقیم صرف یہ ہے کہ پہلے ہم اپنی زندگی معہ اپنی تمام قوتوں کے خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے پھر خدا کے وصال کے لئے دعا میں لگے رہیں تا خدا کو خدا ہی کے ذریعہ سے پاویں.اور سب سے زیادہ پیاری دعا جو عین محل اور موقع سوال کا ہمیں سکھاتی ہے اور فطرت کے روحانی جوش کا نقشہ ہمارے سامنے رکھتی ہے وہ دعا ہے جو خدائے کریم نے اپنی پاک کتاب قرآن شریف میں یعنی سورہ فاتحہ میں ہمیں سکھائی ہے اور وہ یہ ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے تمام پاک تعریفیں جو ہو سکتی ہیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا اور قائم رکھنے والا ہے.الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ یہ وہی خدا جو ہمارے اعمال سے پہلے ہمارے لئے رحمت کا سامان میسر کرنے والا ہے.اور ہمارے اعمال کے بعد رحمت کے ساتھ جزا دینے والا ہے.مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے وہ خدا جو جزا کے دن کا وہی ایک مالک ہے کسی اور کو وہ دن نہیں سونپا گیا.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے اے وہ جو ان تعریفوں کا جامع ہے ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور ہم ہر ایک کام میں تو فیق تجھ ہی سے چاہتے ہیں.اس جگہ ہم کے لفظ سے پرستش کا اقرار کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمارے تمام قومی تیری پرستش میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے آستانہ پر جھکے ہوئے ہیں کیونکہ انسان باعتبار اپنے اندرونی قومی کے ایک جماعت اور ایک تاج الفاتحة: ۱تا۵
۸۱۰ امت ہے اور اس طرح پر تمام قویٰ کا خدا کو سجدہ کرنا یہی وہ حالت ہے جس کو اسلام کہتے ہیں.اھدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یا ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا اور اس پر ثابت قدم کر کے ان لوگوں کی راہ دکھلا جن پر تیرا انعام واکرام ہے اور تیرے مورد فضل وکرم ہو گئے ہیں.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ ہے اور ہمیں ان لوگوں کی راہوں سے بچا جن پر تیرا غضب ہے اور جو تجھ تک نہیں پہنچ سکے اور راہ کو بھول گئے.آمین.اے خدا ایسا ہی کر.یہ آیات سمجھا رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے انعامات جو دوسرے لفظوں میں فیوض کہلاتے ہیں انہی پر نازل ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کی خدا کی راہ میں قربانی دے کر اور اپنا تمام وجود اس کی راہ میں وقف کر کے اور اس کی رضا میں محو ہو کر پھر اس وجہ سے دعا میں لگے رہتے ہیں کہ تا جو کچھ انسان کو روحانی نعمتوں اور خدا کے قرب اور وصال اور اس کے مکالمات اور مخاطبات میں سے مل سکتا ہے وہ سب ان کو ملے.اور اس دعا کے ساتھ اپنے تمام قومی سے عبادت بجالاتے ہیں اور گناہ سے پر ہیز کرتے اور آستانہ الہی پر پڑے رہتے ہیں اور جہاں تک ان کے لئے ممکن ہے اپنے تئیں بدی سے بچاتے ہیں اور غضب الہی کی راہوں سے دور رہتے ہیں.سوچونکہ وہ ایک اعلیٰ ہمت اور صدق کے ساتھ خدا کو ڈھونڈتے ہیں اس لئے اس کو پالیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی پاک معرفت کے پیالوں سے سیراب کئے جاتے ہیں.اس آیت میں جو استقامت کا ذکر فرمایا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچا اور کامل فیض جو روحانی عالم تک پہنچا تا ہے کامل استقامت سے وابستہ ہے اور کامل استقامت سے مراد ایک ایسی حالت صدق و وفا ہے جس کو کوئی امتحان ضرر نہ پہنچا سکے.یعنی ایسا پیوند ہو جس کو نہ تلوار کاٹ سکے نہ آگ جلا سکے اور نہ کوئی دوسری آفت نقصان پہنچا سکے.عزیزوں کی موتیں اس سے علیحدہ نہ کر سکیں پیاروں کی جدائی اس میں خلل انداز نہ ہو سکے.بے آبروئی کا خوف کچھ رعب نہ ڈال سکے.ہولناک دکھوں سے مارا جانا ایک ذرہ دل کو نہ ڈرا سکے.سو یہ دروازہ نہایت تنگ ہے اور یہ راہ نہایت دشوار گزار ہے.کس قدر مشکل ہے آہ! صد آہ!! اسی کی طرف اللہ جلّ شانه ان آیات میں اشارہ فرماتا ہے کہ قُلْ اِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَابْنَاؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ في سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ...الفاتحة: ٧،٦ التوبة: ٢٤
All ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ خدا کی مرضی کو چھوڑ کر اپنے عزیزوں اور اپنے مالوں سے پیار کرتے ہیں وہ خدا کی نظر میں بدکار ہیں وہ ضرور ہلاک ہوں گے کیونکہ انہوں نے غیر کو خدا پر مقدم رکھا.یہی وہ تیسرا مرتبہ ہے جس میں وہ شخص با خدا بنتا ہے جو اس کے لئے ہزاروں بلائیں خریدے اور خدا کی طرف ایسے صدق اور اخلاص سے جھک جائے کہ خدا کے سوا کوئی اس کا نہ رہے گویا سب مر گئے.پس سچ تو یہ ہے کہ جب تک ہم خود نہ مریں زندہ خدا نظر نہیں آ سکتا خدا کے ظہور کا دن وہی ہوتا ہے کہ جب ہماری جسمانی زندگی پر موت آوے.ہم اندھے ہیں جب تک غیر کے دیکھنے سے اندھے نہ ہو جائیں.ہم مردہ ہیں جب تک خدا کے ہاتھ میں مردہ کی طرح نہ ہو جائیں.جب ہمارا منہ ٹھیک ٹھیک اس کے محاذات میں پڑے گا تب وہ واقعی استقامت جو تمام نفسانی جذبات پر غالب آتی ہے ہمیں حاصل ہوگی.اس سے پہلے نہیں اور یہی وہ استقامت ہے جس سے نفسانی زندگی پر موت آجاتی ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۷۷ تا ۳۸۳) آسمانی نشانوں سے حصہ لینے والے تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں.اول وہ جو کوئی ہنر اپنے اندر نہیں رکھتے اور کوئی تعلق خدا تعالیٰ سے ان کا نہیں ہوتا.صرف دماغی مناسبت کی وجہ سے ان کو بعض سچی خوا ہیں آ جاتی ہیں اور بچے کشف ظاہر ہو جاتے ہیں جن میں کوئی مقبولیت اور محبوبیت کے آثار ظاہر نہیں ہوتے اور ان سے کوئی فائدہ ان کی ذات کو نہیں ہوتا.اور ہزاروں شریر اور بدچلن اور فاسق و فاجر ایسی بدبودار خوابوں اور الہاموں میں ان کے شریک ہوتے ہیں.اور اکثر دیکھا جاتا ہے کہ باوجود ان خوابوں اور کشفوں کے ان کا چال چلن قابل تعریف نہیں ہوتا.کم سے کم یہ کہ ان کی ایمانی حالت نہایت کمزور ہوتی ہے اس قدر کہ ایک سچی گواہی بھی نہیں دے سکتے.اور جس قدر دنیا سے ڈرتے ہیں خدا سے نہیں ڈرتے اور شریر آدمیوں سے قطع تعلق نہیں کر سکتے.اور کوئی ایسی سچی گواہی نہیں دے سکتے جس سے بڑے آدمی کے ناراض ہو جانے کا اندیشہ ہو اور دینی امور میں نہایت درجہ کسل اور ستی ان میں پائی جاتی ہے.اور دنیا کے ہموم و عموم میں دن رات غرق رہتے ہیں اور دانستہ جھوٹ کی حمایت کرتے اور سچ کو چھوڑتے ہیں.اور ہر ایک قدم میں خیانت پائی جاتی ہے اور بعض میں اس سے بڑھ کر یہ عادت بھی پائی گئی ہے کہ وہ فسق و فجور سے بھی پر ہیز نہیں کرتے اور دنیا کمانے کے لئے ہر ایک ناجائز کام کر لیتے ہیں.اور بعض کی اخلاقی حالت بھی نہایت خراب ہوتی ہے اور حسد اور بخل اور عجب اور تکبر اور غرور کے پتلے ہوتے ہیں اور ہر ایک کمینگی کے کام ان سے صادر ہوتے ہیں اور طرح طرح کی قابل شرم خباثتیں ان میں پائی جاتی
۸۱۲ ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ بعض ان میں ایسے ہیں کہ ہمیشہ بدخوا میں ہی ان کو آتی ہیں اور وہ بچی بھی ہو جاتی ہیں.گویا ان کے دماغ کی بناوٹ صرف بد اور منحوس خوابوں کے لئے مخلوق ہے.نہ اپنے لئے کوئی بہتری کے خواب دیکھ سکتے ہیں جس سے ان کی دنیا درست ہو اور ان کی مرادیں حاصل ہوں اور نہ اوروں کے لئے کوئی بشارت کی خواب دیکھتے ہیں.ان لوگوں کے خوابوں کی حالت اقسام ثلاثہ میں اس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جبکہ ایک شخص دور سے صرف ایک دھواں آگ کا دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی نہیں دیکھتا اور نہ آگ کی گرمی محسوس کرتا ہے کیونکہ یہ لوگ خدا سے بالکل بے تعلق ہیں اور روحانی امور سے صرف ایک دھواں ان کی قسمت میں ہے جس سے کوئی روشنی حاصل نہیں ہوتی.پھر دوسری قسم کے خواب بین یا ملہم وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ سے کسی قدر تعلق ہے مگر کامل تعلق نہیں.ان لوگوں کی خوابوں یا الہاموں کی حالت اس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جبکہ ایک شخص اندھیری رات اور شَدِيدُ الْبَرد رات میں دور سے ایک آگ کی روشنی دیکھتا ہے.اس دیکھنے سے اتنا فائدہ تو اسے حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی راہ پر چلنے سے پر ہیز کرتا ہے جس میں بہت سے گڑھے اور کانٹے اور پتھر اور سانپ اور درندے ہیں.مگر اس قدر روشنی اس کو سردی اور ہلاکت سے بچا نہیں سکتی.پس اگر وہ آگ کے گرم حلقہ تک پہنچ نہ سکے تو وہ بھی ایسا ہی ہلاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اندھیرے میں چلنے والا ہلاک ہو جاتا ہے.پھر تیسری قسم کے مہم اور خواب بین وہ لوگ ہیں جن کے خوابوں اور الہاموں کی حالت اس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جب کہ ایک شخص اندھیری اور شدید البردرات میں نہ صرف آگ کی کامل روشنی ہی پاتا ہے اور اس میں چلتا ہے بلکہ اس کے گرم حلقہ میں داخل ہو کر بکلی سردی کے ضرر سے محفوظ ہو جاتا ہے.اس مرتبہ تک وہ لوگ پہنچتے ہیں جو شہوات نفسانیہ کا چولہ آتش محبت الہی میں جلا دیتے ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں جو آگے موت ہے اور دوڑ کر اس موت کو اپنے لئے پسند کر لیتے ہیں.وہ ہر ایک درد کو خدا کی راہ میں قبول کرتے ہیں اور خدا کے لئے اپنے نفس کے دشمن ہوکر اور اس کے برخلاف قدم رکھ کر ایسی طاقت ایمانی دکھلاتے ہیں کہ فرشتے بھی ان کے اس ایمان سے حیرت اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں.وہ روحانی پہلوان ہوتے ہیں اور شیطان کے تمام حملے ان کی روحانی قوت کے آگے بیچ ٹھہرتے ہیں.وہ بچے وفادار اور صادق مرد ہوتے ہیں کہ نہ دنیا کے لذات کے نظارے انہیں گمراہ کر سکتے ہیں اور نہ اولاد کی محبت اور نہ بیوی کا تعلق ان کو اپنے محبوب حقیقی سے
۸۱۳ برگشتہ کر سکتا ہے.غرض کوئی تلخی ان کو ڈرا نہیں سکتی اور کوئی نفسانی لذت ان کو خدا سے روک نہیں سکتی.اور کوئی تعلق خدا کے تعلق میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتا.یہ تین روحانی مراتب کی حالتیں ہیں جن میں سے پہلی حالت علم الیقین کے نام سے موسوم ہے اور دوسری حالت عین الیقین کے نام سے نامزد ہے اور تیسری مبارک اور کامل حالت حق الیقین کہلاتی ہے اور انسانی معرفت کامل نہیں ہو سکتی اور نہ کدورتوں سے پاک ہو سکتی ہے جب تک حق الیقین تک نہیں پہنچتی کیونکہ حق الیقین کی حالت صرف مشاہدات پر موقوف نہیں بلکہ یہ بطور حال کے انسان کے دل پر وارد ہو جاتی ہے اور انسان محبت الہی کی بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کر اپنے نفسانی وجود سے بالکل نیست ہو جاتا ہے اور اس مرتبہ پر انسانی معرفت پہنچ کر قال سے حال کی طرف انتقال کرتی ہے اور سفلی زندگی بالکل جل کر خاک ہو جاتی ہے اور ایسا انسان خدا تعالیٰ کی گود میں بیٹھ جاتا ہے اور جیسا کہ ایک لوہا آگ میں پڑ کر بالکل آگ کی رنگ میں آ جاتا ہے اور آگ کی صفات اس سے ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہیں ایسا ہی اس درجہ کا آدمی صفات الہیہ سے ظلی طور پر متصف ہو جاتا ہے اور اس قدر طبعا مرضات الہیہ میں فنا ہو جاتا ہے کہ خدا میں ہو کر بولتا ہے اور خدا میں ہو کر دیکھتا ہے اور خدا میں ہو کر سنتا ہے اور خدا میں ہو کر چلتا ہے.گویا اس کے جبہ میں خدا ہی ہوتا ہے اور انسانیت اس کی تجلیات الہیہ کے نیچے مغلوب ہو جاتی ہے چونکہ یہ مضمون نازک ہے اور عام فہم نہیں اس لئے ہم اس کو اسی جگہ چھوڑتے ہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲ تا ۲۵) ان آیات میں چھ جگہ اَفْلَحَ کا لفظ ہے.پہلی آیت میں صریح طور پر جیسا کہ فرمایا ہے.قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ اے اور بعد کی آیتوں میں عطف کے ذریعہ سے معلوم ہوتا ہے اور اَفْلَحَ کے لغت میں یہ معنے ہیں کہ اُصِیرَ إِلَى الْفَلَاحِ یعنی فوز مرام کی طرف پھیرا گیا اور حرکت دیا گیا.پس ان معنوں کی رو سے مومن کا نماز میں خشوع اختیار کرنا فوز مرام کے لئے پہلی حرکت ہے جس کے ساتھ تکبر اور عجب وغیرہ چھوڑنا پڑتا ہے اور اس میں فوز مرام یہ ہے کہ انسان کا نفس خشوع کی سیرت اختیار کر کے خدائے تعالیٰ سے تعلق پکڑنے کے لئے مستعد اور طیار ہو جاتا ہے.دوسرا کام مومن کا یعنی وہ کام جس سے دوسرے مرتبہ تک قوت ایمانی پہنچتی ہے اور پہلے کی نسبت ایمان کچھ قوی ہو جاتا ہے عقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ مومن اپنے دل کو جو خشوع کے مرتبہ تک پہنچ چکا ا المؤمنون: ٣،٢
۸۱۴ ہے لغو خیالات اور لغو شغلوں سے پاک کرے.کیونکہ جب تک مومن یہ ادنی قوت حاصل نہ کر لے کہ خدا کے لئے لغو باتوں اور لغو کاموں کو ترک کر سکے جو کچھ بھی مشکل نہیں اور صرف گناہ بے لذت ہے.اس وقت تک یہ طمع خام ہے کہ مومن ایسے کاموں سے دست بردار ہو سکے جن سے دست بردار ہونا نفس پر بہت بھاری ہے اور جن کے ارتکاب میں نفس کو کوئی فائدہ یا لذت ہے.پس اس سے ثابت ہے کہ پہلے درجہ کے بعد کہ ترک تکبر ہے دوسرا درجہ ترک لغویات ہے.اور اس درجہ پر وعدہ جو لفظ افلح سے کیا گیا ہے یعنی فوز مرام اس طرح پر پورا ہوتا ہے کہ مومن کا تعلق جب لغو کاموں اور لغوشغلوں سے ٹوٹ جاتا ہے تو ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے اس کو ہو جاتا ہے اور قوت ایمانی بھی پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور خفیف تعلق اس لئے ہم نے کہا کہ لغویات سے تعلق بھی خفیف ہی ہوتا ہے.پس خفیف تعلق چھوڑنے سے خفیف تعلق ہی ملتا ہے.پھر تیسرا کام مومن کا جس سے تیسرے درجہ تک قوت ایمانی پہنچ جاتی ہے عقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف لغو کاموں اور لغو باتوں کو ہی خدا تعالیٰ کے لئے نہیں چھوڑ تا بلکہ اپنا عزیز مال بھی خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑتا ہے.اور ظاہر ہے کہ لغو کاموں کے چھوڑنے کی نسبت مال کا چھوڑ نا نفس پر زیادہ بھاری ہے.کیونکہ وہ محنت سے کمایا ہوا اور ایک کارآمد چیز ہوتی ہے جس پر خوش زندگی اور آرام کا مدار ہے.اس لئے مال کا خدا کے لئے چھوڑنا بہ نسبت لغو کاموں کے چھوڑنے کے قوت ایمانی کو زیادہ چاہتا ہے اور لفظ افلح کا جو آیات میں وعدہ ہے اس کے اس جگہ یہ معنے ہوں گے کہ دوسرے درجہ کی نسبت اس مرتبہ میں قوت ایمانی اور تعلق بھی خدا تعالیٰ سے زیادہ ہو جاتی ہے اور نفس کی پاکیزگی اس سے پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اپنے ہاتھ سے اپنا محنت سے کمایا ہوا مال محض خدا کے خوف سے نکالنا بجر نفس کی پاکیزگی کے ممکن نہیں.پھر چوتھا کام مومن کا جس سے چوتھے درجہ تک قوت ایمانی پہنچ جاتی ہے عقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ترک نہیں کرتا بلکہ وہ چیز جس سے وہ مال سے بھی بڑھ کر پیار کرتا ہے یعنی شہوات نفسانیہ ان کا وہ حصہ جو حرام کے طور پر ہے چھوڑ دیتا ہے.ہم بیان کر چکے ہیں کہ ہر ایک انسان اپنی شہوات نفسانیہ کو طبعا مال سے عزیز سمجھتا ہے اور مال کو ان کی راہ میں فدا کرتا ہے.پس بلاشبہ مال کے چھوڑنے سے خدا کے لئے شہوات کو چھوڑنا بہت بھاری ہے اور لفظ افلح جو اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے اس کے اس جگہ یہ معنی ہیں کہ جیسے شہوات نفسانیہ سے انسان کو طبعا شدید تعلق ہوتا ہے ایسا ہی ان کے چھوڑنے کے بعد وہی شدید تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے کیونکہ جو شخص کوئی چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں کھوتا ہے
۸۱۵ اس سے بہتر پالیتا ہے لطف او ترک طالبان نه کند کس به کار رہش زیان نه کند ! هر که آن راه جست یافته است تافت آن رو که سر نتافته است ۲ پھر پانچواں کام مومن کا جس سے پانچویں درجہ تک قوت ایمانی پہنچ جاتی ہے عند العقل یہ ہے کہ صرف ترک شہوات نفس ہی نہ کرے بلکہ خدا کی راہ میں خود نفس کو ہی ترک کر دے.اور اس کے فدا کرنے پر طیار رہے یعنی نفس جو خدا کی امانت ہے اسی مالک کو واپس دے دے اور نفس سے صرف اس قدر تعلق رکھے جیسا کہ ایک امانت سے تعلق ہوتا ہے.اور دقائق تقویٰ ایسے طور پر پورے کرے کہ گویا اپنے نفس اور مال اور تمام چیزوں کو خدا کی راہ میں وقف کر چکا ہے.اسی طرف یہ آیات اشارہ فرماتی ہیں.وَالَّذِينَ هُمُ لاَ مُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ ے پس جبکہ انسان کے جان و مال اور تمام قسم کے آرام خدا کی امانت ہے جس کو واپس دینا امین ہونے کے لئے شرط ہے لہذا ترک نفس وغیرہ کے یہی معنے ہیں کہ یہ امانت خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے اس طور سے یہ قربانی ادا کر دے.اور دوسرے یہ کہ جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ایمان کے وقت اس کا عہد تھا اور جو عہد اور امانتیں مخلوق کی اس کی گردن پر ہیں ان سب کو ایسے طور سے تقویٰ کی رعایت سے بجا لاوے کہ وہ بھی ایک سچی قربانی ہو جاوے کیونکہ دقائق تقوی کو انتہا تک پہنچانا یہ بھی ایک قسم کی موت ہے اور لفظ افلح کا جو اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے اس کے اس جگہ یہ معنی ہیں کہ جب اس درجہ کا مومن خدا تعالیٰ کی راہ میں بذل نفس کرتا ہے اور تمام دقائق تقومی بجا لاتا ہے تب حضرت احدیت سے انوار الہیہ اس کے وجود پر محیط ہو کر روحانی خوبصورتی اس کو بخشتے ہیں جیسے کہ گوشت ہڈیوں پر چڑھ کر ان کو خوبصورت بنا دیتا ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں ان دونوں حالتوں کا نام خدا تعالیٰ نے لباس ہی رکھا ہے.تقویٰ کا نام بھی لباس ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِبَاسُ التَّقوی ہے اور جوگ گوشت ہڈیوں پر چڑھتا ہے وہ بھی لباس ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَكَسَوْنَا الْعِظُمَ لَحْمًا کیونکہ گسوت جس سے كَسَوْنَا کا لفظ نکلا ہے لباس کو ہی کہتے ہیں.لے اس کی مہربانی چاہنے والوں کو ترک نہیں کرتی اور کوئی اس کی راہ میں خسارہ نہیں اٹھاتا.سے جو شخص بھی اس کی راہ کا متلاشی ہوا اس نے اسے پالیا اور وہ سرخرو نہ ہوا کہ جس نے اس کی نافرمانی کی.المؤمنون: 9 الاعراف: ۲۷ المؤمنون: ۱۵
۸۱۶ اب یادر ہے کہ منتہی سلوک کا پنجم درجہ ہے اور جب پنجم درجہ کی حالت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو اس کے بعد چھٹا درجہ ہے جو محض ایک موہبت کے طور پر ہے اور جو بغیر کسب اور کوشش کے مومن کو عطا ہوتا ہے اور کسب کا اس میں ذرہ دخل نہیں اور وہ یہ ہے کہ جیسے مومن خدا کی راہ میں اپنی روح کھوتا ہے ایک روح اس کو عطا کی جاتی ہے کیونکہ ابتدا سے یہ وعدہ ہے کہ جو کوئی خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ کھوئے گا وہ.اسے پائے گا.اس لئے روح کو کھونے والے روح کو پاتے ہیں.پس چونکہ مومن اپنی محبت ذاتیہ سے خدا کی راہ میں اپنی جان وقف کرتا ہے اس لئے خدا کی محبت ذاتیہ کی روح کو پاتا ہے جس کے ساتھ روح القدس شامل ہوتا ہے.خدا کی محبت ذاتیہ ایک روح ہے اور روح کام مومن کے اندر کرتی ہے.اس لئے وہ خود روح ہے اور روح القدس اس سے جدا نہیں کیونکہ اس محبت اور روح القدس میں کبھی انفکاک ہو ہی نہیں سکتا.اسی وجہ سے ہم نے اکثر جگہ صرف محبت ذاتیہ الہیہ کا ذکر کیا ہے اور روح القدس کا نام نہیں لیا.کیونکہ ان کا باہم تلازم ہے اور جب روح کسی مومن پر نازل ہوتی ہے تو تمام بوجھ عبادات کا اس کے سر پر سے ساقط ہو جاتا ہے اور اس میں ایک ایسی قوت اور لذت آ جاتی ہے جو وہ قوت تکلف سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے یاد الہی اس سے کراتی ہے اور عاشقانہ جوش اس کو بخشتی ہے.پس ایسا مومن جبرائیل علیہ السلام کی طرح ہر وقت آستانہ الہی کے آگے حاضر رہتا ہے اور حضرت عزت کی دائمی ہمسائیگی اس کو نصیب ہو جاتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ اس درجہ کے بارے میں فرماتا ہے.وَالَّذِينَ هُمُ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ہے یعنی مومن کامل وہ لوگ ہیں کہ ایسا دائمی حضور ان کو میسر آتا ہے کہ ہمیشہ وہ اپنی نماز کے آپ نگہبان رہتے ہیں.یہ اس حالت کی طرف اشارہ ہے کہ اس درجہ کا مومن اپنی روحانی بقا کے لئے نماز کو ایک ضروری چیز سمجھتا ہے اور اس کو اپنی غذا قرار دیتا ہے جس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتا.یہ درجہ بغیر اس روح کے حاصل نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مومن پر نازل ہوتی ہے کیونکہ جب کہ مومن خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان کو ترک کر دیتا ہے تو ایک دوسری جان پانے کا مستحق ہوتا ہے.اس تمام تقریر سے ثابت ہے کہ یہ مراتب ستہ عقل سلیم کے نزدیک اس مومن کی راہ میں پڑے ہیں جو اپنے وجود روحانی کو کمال تک پہنچانا چاہتا ہے.اور ہر ایک انسان تھوڑے سے غور کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ضرور مومن پر اس کے سلوک کے وقت چھ حالتیں آتی ہیں.وجہ یہ ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ سے کامل تعلق نہیں پکڑتا تب تک اس کا نفس ناقص پانچ خراب حالتوں سے پیار کرتا ہے اور ہر ایک حالت ل المؤمنون: ١٠
MZ کا پیار دور کرنے کے لئے ایک ایسے سبب کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس پیار پر غالب آ جائے اور نیا پیار پہلے پیار کا علاقہ توڑ دے.چنانچہ پہلی حالت جس سے وہ پیار کرتا ہے یہ ہے کہ وہ ایک غفلت میں پڑا ہوتا ہے اور اس کو بالکل خدا تعالیٰ سے بعد اور دوری ہوتی ہے اور نفس ایک کفر کے رنگ میں ہوتا ہے اور غفلت کے پردے تکبر اور لا پرواہی اور سنگدلی کی طرف اس کو کھینچتے ہیں اور خشوع اور خضوع اور تواضع اور فروتنی اور انکسار کا نام ونشان اس میں نہیں ہوتا.اور اسی اپنی حالت سے وہ محبت کرتا ہے اور اس کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے.اور پھر جب عنایت الہیہ اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرتی ہے تو کسی واقعہ کے پیدا ہونے سے یا کسی آفت کے نازل ہونے سے خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت اور جبروت کا اس کے دل پر اثر پڑتا ہے اور اس اثر سے اس پر ایک حالت خشوع پیدا ہو جاتی ہے جو اس کے تکبر اور گردن کشی اور غفلت کی عادت کو کالعدم کر دیتی ہے اور اس سے علاقہ محبت تو ڑ دیتی ہے.یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر وقت دنیا میں مشاہدہ میں آتی رہتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ جب ہیبت الہی کا تازیانہ کسی خوفناک لباس میں نازل ہوتا ہے تو بڑے بڑے شریروں کی گردن جھکا دیتا ہے اور خواب غفلت سے جگا کر خشوع اور خضوع کی حالت بنا دیتا ہے.یہ وہ پہلا مرتبہ رجوع الی اللہ کا ہے جو عظمت اور ہیبت الہی کے مشاہدہ کے بعد یا کسی اور طور سے ایک سعید الفطرت کو حاصل ہو جاتا ہے اور گو وہ پہلے اپنی غافلانہ اور بے قید زندگی سے محبت ہی رکھتا تھا مگر جب مخالف اثر اس پہلے اثر سے قوی تر پیدا ہوتا ہے تو اس حالت کو بہر حال چھوڑنا پڑتا ہے.پھر اس کے بعد دوسری حالت یہ ہے کہ ایسے مومن کو خدا تعالیٰ کی طرف کچھ رجوع تو ہو جاتا ہے مگر اس رجوع کے ساتھ لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو شغلوں کی پلیدی رہتی ہے جس سے وہ انس اور محبت رکھتا ہے.ہاں کبھی نماز میں خشوع کے حالات بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں لیکن دوسری طرف لغو حرکات بھی اس کے لازم حال رہتی ہیں اور لغو تعلقات اور لغو مجلسیں اور لغو ہنسی ٹھٹھا اس کے گلے کا ہار رہتا ہے.گویا وہ دورنگ رکھتا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ واعظان کین جلوه بر محراب و منبر می کنند چون بخلوت مے روند آن کار دیگر می کنند 1 پھر جب عنایت الہیہ اس کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تو پھر ایک اور جلوہ عظمت اور ہیبت اور جبروت الہی کا اس کے دل پر نازل ہوتا ہے جو پہلے جذبہ سے زیادہ تیز ہوتا ہے اور قوت ایمانی اس سے تیز ہو جاتی لے وہ واعظ جومحراب و منبر پر دکھائی دیتے ہیں جب خلوت میں جاتے ہیں تو اس کے الٹ کام کرتے ہیں
ΔΙΑ ہے اور ایک آگ کی طرح مومن کے دل پر پڑ کر تمام خیالات لغو اس کے ایک دم میں بھسم کر دیتی ہے.اور یہ جلوہ عظمت اور جبروت الہی کا اس قدر حضرت عزت کی محبت اس کے دل میں پیدا کرتا ہے کہ لغو کاموں اور لغوشغلوں کی محبت پر غالب آ جاتا ہے اور ان کو دفع اور دور کر کے ان کی جگہ لے لیتا ہے اور تمام بے ہودہ شغلوں سے دل کو سرد کر دیتا ہے.تب لغو کاموں سے دل کو ایک کراہت پیدا ہو جاتی ہے.پھر لغوشغلوں اور لغو کاموں کے دور ہونے کے بعد ایک تیسری خراب حالت مومن میں باقی رہ جاتی ہے جس سے وہ دوسری حالت کی نسبت بہت محبت رکھتا ہے یعنی طبعا مال کی محبت اس کے دل میں ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی اور آرام کا مدار مال کو ہی سمجھتا ہے اور نیز اس کے حاصل ہونے کا ذریعہ صرف اپنی محنت اور مشقت خیال کرتا ہے.پس اس وجہ سے اس پر خدا تعالیٰ کی راہ میں مال کا چھوڑنا بہت بھاری اور تلخ ہوتا ہے.پھر جب عنایت الہیہ اس ورطۂ عظیمہ سے اس کو نکالنا چاہتی ہے تو رازقیت الہیہ کا علم اس کو عطا کیا جاتا ہے اور تو کل کا بیج اس میں بویا جاتا ہے اور ساتھ اس کے ہیت الہیہ بھی کام کرتی ہے اور دونوں تجلیات جمالی اور جلالی اس کے دل کو اپنے قابو میں لے آتی ہیں تب مال کی محبت بھی دل میں سے بھاگ جاتی ہے اور مال دینے والے کی محبت کا تم دل میں بویا جاتا ہے اور ایمان قوی کیا جاتا ہے اور یہ قوت ایمانی درجہ سوم کی قوت سے بڑھ کر ہوتی ہے کیونکہ اس جگہ مومن صرف لغو باتوں کو ہی ترک نہیں کرتا بلکہ اس مال کو ترک کرتا ہے جس پر اپنی خوش زندگی کا سارا مدار سمجھتا ہے اور اگر اس کی ایمان کو قوت تو کل عطا نہ کی جاتی اور رازق حقیقی کی طرف آنکھ کا دروازہ نہ کھولا جاتا تو ہرگز ممکن نہ تھا کہ بخل کی بیماری دور ہو سکتی.پس یہ قوت ایمانی نہ صرف لغو کاموں سے چھوڑاتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے رازق ہونے پر ایک قوی ایمان پیدا کر دیتی ہے اور نور تو کل دل میں ڈال دیتی ہے.تب مال جو ایک پارہ جگر سمجھا جاتا ہے بہت آسانی اور شرح صدر سے مومن اس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے اور وہ ضعف جو بخل کی حالت میں نو امیدی سے پیدا ہوتا ہے اب خدا تعالیٰ پر بہت سی امیدیں ہو کر وہ تمام ضعف جاتا رہتا ہے اور مال دینے والے کی محبت مال کی محبت سے زیادہ ہو جاتی ہے.پھر بعد اس کے چوتھی حالت ہے جس سے نفس امارہ بہت ہی پیار کرتا ہے اور جو تیسری حالت سے بدتر ہے کیونکہ تیسری حالت میں تو صرف مال کا اپنے ہاتھ سے چھوڑنا ہے مگر چوتھی حالت میں نفس امارہ کی شہوات محرمہ کو چھوڑنا ہے اور ظاہر ہے کہ مال کا چھوڑنا بہ نسبت شہوات کے چھوڑنے کے انسان پر طبعا سہل ہوتا ہے اس لئے یہ حالت بہ نسبت حالات گذشتہ کے بہت شدید اور خطرناک ہے اور فطرتا انسان کو
۸۱۹ شہوات نفسانیہ کا تعلق بہ نسبت مال کے تعلق کے بہت پیارا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ مال کو جو اس کے نزد یک مدار آسائش ہے بڑی خوشی سے شہوات نفسانیہ کی راہ میں فدا کر دیتا ہے اور اس حالت کے خوفناک جوش کی شہادت میں یہ آیت کافی ہے.وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ بُرْهَانَ ربه لا یعنی یہ ایسا منہ زور جوش ہے جو اس کا فرو ہونا کسی برہان قوی کا محتاج ہے.پس ظاہر ہے کہ درجہ چہارم پر قوت ایمانی بہ نسبت درجہ سوم کے بہت قوی اور زبردست ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت اور جبروت کا مشاہدہ بھی پہلے کی نسبت اس میں زیادہ ہوتا ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ یہ بھی اس میں نہایت ضروری ہے کہ جس لذت ممنوعہ کو دور کیا گیا ہے اس کے عوض میں روحانی طور پر کوئی لذت بھی حاصل ہو اور جیسا کہ بخل کے دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی رازقیت پر قوی ایمان درکار ہے اور خالی جیب ہونے کی حالت میں ایک قوی تو کل کی ضرورت ہے تا بخل بھی دور ہو اور غیبی فتوح پر امید بھی پیدا ہو جائے ایسا ہی شہوات ناپاک نفسانیہ کے دور کرنے کے لئے اور آتش شہوت سے مخلصی پانے کے لئے اس آگ کے وجود پر قومی ایمان ضروری ہے جو جسم اور روح دونوں کو عذاب شدید میں ڈالتی ہے اور نیز ساتھ اس کے اس روحانی لذت کی ضرورت ہے جو ان کثیف لذتوں سے بے نیاز اور مستغنی کر دیتی ہے.جو شخص شہوات نفسانیہ محرمہ کے پنجہ میں اسیر ہے وہ ایک اثر دہا کے منہ میں ہے جو نہایت خطرناک زہر رکھتا ہے.پس اس سے ظاہر ہے کہ جیسا کہ لغو حرکات کی بیماری سے بخل کی بیماری بڑھ کر ہے.اسی طرح بخل کی بیماری کے مقابل پر شہوات نفسانیہ محرمہ کے پنجہ میں اسیر ہونا سب بلاؤں سے زیادہ بلا ہے جو خدائے تعالیٰ کے ایک خاص رحم کی محتاج ہے اور جب خدا تعالیٰ کسی کو اس بلا سے نجات دینا چاہتا ہے تو اپنی عظمت اور ہیبت اور جبروت کی ایسی تجلی اس پر کرتا ہے جس سے شہوات نفسانیہ محرمہ پارہ پارہ ہو جاتی ہیں اور پھر جمالی رنگ میں اپنی لطیف محبت کا ذوق اس کے دل میں ڈالتا ہے اور جس طرح شیر خوار بچہ دودھ چھوڑنے کے بعد صرف ایک رات تلخی میں گزارتا ہے بعد اس کے اس دودھ کو ایسا فراموش کر دیتا ہے کہ چھاتیوں کے سامنے بھی اگر اس کے منہ کو رکھا جائے تب بھی دودھ پینے سے نفرت کرتا ہے.یہی نفرت شہوات محرمہ نفسانیہ سے اس راستباز کو ہو جاتی ہے جس کو نفسانی دودھ چھڑا کر ایک روحانی غذا اس کے عوض میں دی جاتی ہے.پھر چوتھی حالت کے بعد پانچویں حالت ہے جس کے مفاسد سے نہایت سخت اور شدید محبت يوسف: ۲۵
۸۲۰ نفس امارہ کو ہے کیونکہ اس مرتبہ پر صرف ایک لڑائی باقی رہ جاتی ہے اور وہ وقت قریب آ جاتا ہے کہ حضرت عزت جل شانہ کے فرشتے اس وجود کی تمام آبادی کو فتح کر لیں اور اس پر اپنا پورا تصرف اور دخل کر لیں اور تمام نفسانی سلسلہ کو درہم برہم کر دیں اور نفسانی قویٰ کے قریہ کو ویران کر دیں اور اس کے نمبرداروں کو ذلیل اور پست کر کے دکھلا دیں اور پہلی سلطنت پر ایک تباہی ڈال دیں.اور انقلاب سلطنت پر ایسا ہی ہوا کرتا ہے.اِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا اَذِلَّةٌ وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ ے اور یہ مومن کے لئے ایک آخری امتحان اور آخری جنگ ہے جس پر اس کے تمام مراتب سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور اس کا سلسلہ ترقیات جو کسب اور کوشش سے ہے انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور انسانی کوششیں اپنے اخیر نقطہ تک منزل طے کر لیتی ہیں.پھر بعد اس کے صرف موہبت اور فضل کا کام باقی رہ جاتا ہے جو خلق آخر کے متعلق ہے.اور یہ پانچویں حالت چوتھی حالت سے مشکل تر ہے کیونکہ چوتھی حالت میں تو صرف مومن کا کام یہ ہے کہ شہوات محرمہ نفسانیہ کو ترک کرے مگر پانچویں حالت کے مومن کا کام یہ ہے کہ نفس کو بھی ترک کر دے اور اس کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر خدا تعالیٰ کی طرف واپس کرے اور خدا کے کاموں میں اپنے نفس کو وقف کر کے اس سے خدمت لے اور خدا کی راہ میں بذل نفس کرنے کا ارادہ رکھے اور اپنے نفس کی نفی وجود کے لئے کوشش کرے کیونکہ جب تک نفس کا وجود باقی ہے گناہ کرنے کے لئے جذبات بھی باقی ہیں جو تقویٰ کے برخلاف ہیں اور نیز جب تک وجود نفس باقی ہے ممکن نہیں کہ انسان تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مار سکے یا پورے طور پر خدا کی امانتوں اور عہدوں یا مخلوق کی امانتوں اور عہدوں کو ادا کر سکے.لیکن جیسا کہ بخل بغیر تو کل اور خدا کی رازقیت پر ایمان لانے کے ترک نہیں ہوسکتا اور شہوات نفسانیہ محرمہ بغیر استیلاء ہیبت اور عظمت الہی اور لذات روحانیہ کے چھوٹ نہیں سکتیں ایسا ہی یہ مرتبہ عظمیٰ کے ترک نفس کر کے تمام امانتیں خدا تعالیٰ کی اس کو واپس دی جائیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک تیز آندھی عشق الہی کی چل کر کسی کو اس کی راہ میں دیوانہ نہ بناوے یہ تو در حقیقت عشق الہی کے مستوں اور دیوانوں کے کام ہیں.دنیا کے عقلمندوں کے کام نہیں ؎ آسمان بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانه زدند سے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے.اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ النمل: ۳۵ فرشتے اس امانت کا بوجھ نہ اٹھا سکے آخر قرعہ فال مجھ دیوانہ کے نام ہی نکلا.
۸۲۱ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُوْمًا جھولا ہم نے اپنی امانت کو جو امانت کی طرح واپس دینی چاہئے تمام زمین و آسمان کی مخلوق پر پیش کیا.پس سب نے اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈرے کہ امانت کے لینے سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو مگر انسان نے اس امانت کو اپنے سر پر اٹھا لیا کیونکہ وہ ظلوم اور جھول تھا.یہ دونوں لفظ انسان کے لئے محل مدح میں ہیں نہ محل مذمت میں اور ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں ایک صفت تھی کہ وہ خدا کے لئے اپنے نفس پر ظلم اور نتی کر سکتا تھا.اور ایسا خدا تعالیٰ کی طرف جھک سکتا تھا کہ اپنے نفس کو فراموش کر دے.اس لئے اس نے منظور کیا کہ اپنے تمام وجود کو امانت کی طرح پاوے اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کر دے.اور اس پانچویں مرتبہ کے لئے یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَالَّذِينَ هُمْ لا مُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمُ رعون ہے یعنی مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں.یعنی ادائے امانت اور ایفائے عہد کے بارے میں کوئی دقیقہ تقوی اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے یہ اس امانت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا نفس اور اس کے تمام قومی اور آنکھ کی بینائی اور کانوں کی شنوائی اور زبان کی گویائی اور ہاتھوں پیروں کی قوت یہ سب خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں جو اس نے دی ہیں اور جس وقت وہ چاہے اپنی امانتوں کو واپس لے سکتا ہے.پس ان تمام امانتوں کا رعایت رکھنا یہ ہے کہ بار یک در بار یک تقومی کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی خدمت میں نفس اور اس کے تمام قومی اور جسم اور اس کے تمام قومی اور جوارح کو لگایا جائے اس طرح پر کہ گویا یہ تمام چیزیں اس کی نہیں بلکہ خدا کی ہو جائیں اور اس کی مرضی سے نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے موافق ان تمام قومی اور اعضاء کا حرکت اور سکون ہو اور اس کا ارادہ کچھ بھی نہ رہے بلکہ خدا کا ارادہ ان میں کام کرے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اس کا نفس ایسا ہو جیسا کہ مردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور یہ خود رائی سے بے دخل ہو اور خدا تعالیٰ کا پورا تصرف اس کے وجود پر ہو جائے.یہاں تک کہ اسی سے دیکھے اور اسی سے سنے اور اسی سے بولے اور اسی سے حرکت یا سکون کرے اور نفس کی دقیق در دقیق آلائشیں جو کسی خورد بین سے بھی نظر نہیں آ سکتیں دور ہو کر فقط روح رہ جائے.غرض مھیمنت خدا کی اس پر احاطہ کر لے اور اپنے وجود سے اس کو کھو دے اور اس کی حکومت اپنے وجود پر کچھ نہ رہے اور سب حکومت خدا کی ہو جائے اور نفسانی جوش سب مفقود ہو جائیں الاحزاب : ۷۳ المؤمنون: ٩
۸۲۲ اور الوہیت کے ارادے اس کے وجود میں جوش زن ہو جائیں.پہلی حکومت بالکل اٹھ جائے اور دوسری حکومت دل میں قائم ہو اور نفسانیت کا گھر ویران ہو اور اس جگہ پر حضرت عزت کے خیمے لگائے جائیں اور ہیبت اور جبروت الہی تمام ان پودوں کو جن کی آبپاشی گندے چشمہ نفس سے ہوتی تھی اس پلید جگہ سے اکھیڑ کر رضا جوئی حضرت عزت کی پاک زمین میں لگا دیئے جائیں اور تمام آرزوئیں اور تمام ارادے اور تمام خواہشیں خدا میں ہو جائیں اور نفس امارہ کی تمام عمارتیں منہدم کر کے خاک میں ملا دی جائیں اور ایک ایسا پاک محل تقدس اور تطہر کا دل میں طیار کیا جاوے جس میں حضرت عزت نازل ہو سکے اور اس کی روح اس میں آباد ہو سکے اس قدر تکمیل کے بعد کہا جائے گا کہ وہ امانتیں جو منعم حقیقی نے انسان کو دی تھیں وہ واپس کی گئیں.تب ایسے شخص پر یہ آیت صادق آئے گی وَالَّذِينَ هُمْ لِاَ مُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رعون کے اس درجہ پر صرف ایک قالب تیار ہوتا ہے.اور تجلی الہی کی روح جس سے مراد محبت ذاتیہ حضرت عزت ہے بعد اس کے مع روح القدس ایسے مومن کے اندر داخل ہوتی اور نئی حیات اس کو بخشتی ہے اور ایک نئی قوت اس کو عطا کی جاتی ہے اور اگر چہ یہ سب کچھ روح کے اثر سے ہی ہوتا ہے لیکن ہنوز روح مومن سے صرف ایک تعلق رکھتی ہے اور ابھی مومن کے دل کے اندر آباد نہیں ہوتی.پھر بعد اس کے وجود روحانی کا مرتبہ ششم ہے.یہ وہی مرتبہ ہے جس میں مومن کی محبت ذاتیہ اپنے کمال کو پہنچ کر اللہ جل شانہ کی محبت ذاتیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے.تب خدا تعالیٰ کی وہ محبت ذاتی مومن کے اندر داخل ہوتی اور اس پر احاطہ کرتی ہے جس سے ایک نئی اور فوق العادت طاقت مومن کو ملتی ہے.اور وہ ایمانی طاقت ایمان میں ایک ایسی زندگی پیدا کرتی ہے جیسے ایک قالب بے جان میں روح داخل ہو جاتی ہے بلکہ وہ مومن میں داخل ہو کر در حقیقت ایک روح کا کام کرتی ہے.تمام قویٰ میں اس سے ایک نور پیدا ہوتا ہے اور روح القدس کی تائید ایسے مومن کے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ باتیں اور وہ علوم جو انسانی طاقت سے برتر ہیں وہ اس درجہ کے مومن پر کھولے جاتے ہیں.اور اس درجہ کا مومن ایمانی ترقیات کے تمام مراتب طے کر کے ان ظلی کمالات کی وجہ سے جو حضرت عزت کے کمالات سے اس کو ملتے ہیں آسمان پر خلیفہ اللہ کا لقب پاتا ہے کیونکہ جیسا کہ ایک شخص جب آئینہ کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے تو تمام نقوش اس کے منہ کے نہایت صفائی سے آئینہ میں منعکس ہو جاتے ہیں.ایسا ہی اس درجہ کا مومن جو نہ صرف ترک نفس کرتا ہے بلکہ نفی وجود اور ترک نفس کے کام کو اس درجہ کے کمال تک پہنچاتا ہے کہ اس ل المؤمنون: 9
۸۲۳ کے وجود میں سے کچھ بھی نہیں رہتا اور صرف آئینہ کے رنگ میں ہو جاتا ہے تب ذات الہی کے تمام نقوش اور تمام اخلاق اس میں مندرج ہو جاتے ہیں.اور جیسا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آئینہ جو ایک سامنے کھڑے ہونے والے منہ کے تمام نقوش اپنے اندر لے کر اس منہ کا خلیفہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مومن بھی ظلمی طور پر اخلاق اور صفات الہیہ کو اپنے اندر لے کر خلافت کا درجہ اپنے اندر حاصل کرتا اور ظلی طور پر الہی صورت کا مظہر ہو جاتا ہے اور جیسا کہ خدا غیب الغیب ہے اور اپنی ذات میں وراء الوراء ہے ایسا ہی یہ مومن کامل اپنی ذات میں غیب الغیب اور وراء الوراء ہوتا ہے.دنیا اس کی حقیقت تک پہنچ نہیں سکتی کیونکہ وہ دنیا کے دائرہ سے بہت ہی دور چلا جاتا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ خدا جو غیر متبدل اور حی و قیوم ہے وہ مومن کامل کی اس پاک تبدیلی کے بعد جبکہ مومن خدا کے لئے اپنا وجود بالکل کھو دیتا ہے اور ایک نیا چولہ پاک تبدیلی کا پہن کر اس میں سے اپنا سر نکالتا ہے تب خدا بھی اس کے لئے اپنی ذات میں ایک تبدیلی کرتا ہے.مگر یہ نہیں کہ خدا کی ازلی ابدی صفات میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے.نہیں بلکہ وہ قدیم سے اور ازل سے غیر متبدل ہے.لیکن یہ صرف مومن کامل کے لئے جلوہ قدرت ہوتا ہے اور ایک تبدیلی جس کی ہم گنہ نہیں سمجھ سکتے مومن کی تبدیلی کے ساتھ خدا میں بھی ظہور میں آ جاتی ہے مگر اس طرح پر کہ اس کی غیر متبدل ذات پر کوئی گرد و غبار حدوث کا نہیں بیٹھتا.وہ اسی طرح غیر متبدل ہوتا ہے جس طرح وہ قدیم سے ہے لیکن یہ تبدیلی جو مومن کی تبدیلی کے وقت ہوتی ہے یہ اس قسم کی ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ جب مومن خدائے تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو خدا اس کی نسبت تیز حرکت کے ساتھ اس کی طرف آتا ہے.اور ظاہر ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ تبدیلیوں سے پاک ہے ایسا ہی وہ حرکتوں سے بھی پاک ہے لیکن یہ تمام الفاظ استعارہ کے رنگ میں بولے جاتے ہیں اور بولنے کی اس لئے ضرورت پڑتی ہے کہ تجربہ شہادت دیتا ہے کہ جیسے ایک مومن خدائے تعالیٰ کی راہ میں نیستی اور فنا اور استہلاک کر کے اپنے تیں ایک نیا وجود بناتا ہے اس کی ان تبدیلیوں کے مقابل پر خدا بھی اس کے لئے ایک نیا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ معاملات کرتا ہے جو دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں کرتا اور اس کو اپنے ملکوت اور اسرار کا وہ سیر کراتا ہے جو دوسرے کو ہرگز نہیں دکھلاتا اور اس کے لئے وہ کام اپنے ظاہر کرتا ہے جو دوسروں کے لئے ایسے کام کبھی ظاہر نہیں کرتا اور اس قدر اس کی نصرت اور مدد کرتا ہے کہ لوگوں کو تعجب میں ڈالتا ہے.اس کے لئے خوراق دکھلاتا ہے اور معجزات ظاہر کرتا اور ہر ایک پہلو سے اس کو غالب کر دیتا ہے اور اس کی ذات میں ایک قوت کشش رکھ دیتا ہے جس سے ایک جہان اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور وہی
۸۲۴ باقی رہ جاتے ہیں جن پر شقاوت ازلی غالب ہے.پس ان تمام باتوں سے ظاہر ہے کہ مومن کامل کی پاک تبدیلی کے ساتھ خدا تعالیٰ بھی ایک نئی صورت کی تجلی سے اس پر ظاہر ہوتا ہے.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے انسان کو اپنے لئے پیدا کیا ہے کیونکہ جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا شروع کرے تو اسی دن سے بلکہ اسی گھڑی سے بلکہ اسی دم سے خدا تعالیٰ کا رجوع اس کی طرف شروع ہو جاتا ہے اور وہ اس کا متولی اور متکفل اور حامی اور ناصر بن جاتا ہے اور اگر ایک طرف تمام دنیا ہو اور ایک طرف مومن کامل تو آخر غلبہ اسی کو ہوتا ہے کیونکہ خدا اپنی محبت میں صادق ہے اور اپنے وعدوں میں پورا.وہ اس کو جو درحقیقت اس کا ہو جاتا ہے ہرگز ضائع نہیں کرتا.ایسا مومن آگ میں ڈالا جاتا ہے اور گلزار میں سے نکلتا ہے.وہ ایک گرداب میں دھکیل دیا جاتا اور ایک خوشنما باغ میں سے نمودار ہو جاتا ہے.دشمن اس کے لئے بہت منصو بے کرتے اور اس کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں لیکن خدا ان کے تمام مکروں اور منصوبوں کو پاش پاش کر دیتا ہے کیونکہ وہ اس کے ہر قدم کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے آخر اس کی ذلت چاہنے والے ذلت کی مار سے مرتے ہیں اور نامرادی ان کا انجام ہوتا ہے لیکن وہ جو اپنے تمام دل اور تمام جان اور تمام ہمت کے ساتھ خدا کا ہو گیا ہے وہ نامراد ہرگز نہیں مرتا اور اس کی عمر میں برکت دی جاتی ہے اور ضرور ہے کہ وہ جیتا رہے جب تک اپنے کاموں کو پورا نہ کر لے.تمام برکتیں اخلاص میں ہیں اور تمام اخلاص خدا کی رضا جوئی میں اور تمام خدا کی رضا جوئی اپنی رضا کے چھوڑنے میں.یہی موت ہے جس کے بعد زندگی ہے.مبارک وہ جو اس زندگی میں سے حصہ لے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۳۰ تا ۲۴۳) مردان خدا جو خدا تعالیٰ سے محبت اور مودت کا تعلق رکھتے ہیں وہ صرف پیشگوئیوں تک اپنے کمالات کو محدود نہیں رکھتے ان پر حقائق اور معارف کھلتے ہیں اور دقائق و اسرار شریعت اور دلائل لطیفہ حقانیت ملت ان کو عطا ہوتے ہیں اور اعجازی طور پر ان کے دل پر دقیق در دقیق علوم قرآنی اور لطائف کتاب ربانی اتارے جاتے ہیں اور وہ ان فوق العادت اسرار اور سماوی علوم کے وارث کئے جاتے ہیں جو بلاواسطہ موہبت کے طور پر محبوبین کو ملتے ہیں اور خاص محبت ان کو عطا کی جاتی ہے اور ابراہیمی صدق وصفا ان کو دیا جاتا ہے اور روح القدس کا سایہ ان کے دلوں پر ہوتا ہے.وہ خدا کے ہو جاتے ہیں اور خدا ان کا ہو جاتا ہے.ان کی دعائیں خارق عادت طور پر آثار دکھاتی ہیں.ان کے لئے خدا غیرت رکھتا ہے.وہ ہر میدان میں اپنے مخالفوں پر فتح پاتے ہیں.ان کے چہروں پر محبت الہی کا نور چمکتا ہے.ان کے درودیوار پر خدا کی
۸۲۵ رحمت برستی ہوئی معلوم ہوتی ہے.وہ پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں ہوتے ہیں.خدا ان کے لئے اس شیر مادہ سے زیادہ غصہ ظاہر کرتا ہے جس کے بچے کو کوئی لینے کا ارادہ کرے.وہ گناہ سے معصوم.وہ دشمنوں کے حملوں سے معصوم وہ تعلیم کی غلطیوں سے بھی معصوم ہوتے ہیں.وہ آسمان کے بادشاہ ہوتے ہیں.خدا عجیب طور پر ان کی دعائیں سنتا ہے اور عجیب طور پر ان کی قبولیت ظاہر کرتا ہے یہاں تک کہ وقت کے بادشاہ ان کے دروازوں پر آتے ہیں.ذوالجلال کا خیمہ ان کے دلوں میں ہوتا ہے اور ایک رعب خدائی ان کو عطا کیا جاتا ہے اور شاہانہ استغنا ان کے چہروں سے ظاہر ہوتا ہے.وہ دنیا اور اہل دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی کمتر سمجھتے ہیں.فقط ایک کو جانتے ہیں اور اس ایک کے خوف کے نیچے ہر دم گداز ہوتے رہتے ہیں.دنیا ان کے قدموں پر گری جاتی ہے گویا خدا انسان کا جامہ پہن کر ظاہر ہوتا ہے.وہ دنیا کا نور اور اس نا پائیدار عالم کا ستون ہوتے ہیں.وہی سچا امن قائم کرنے کے شہزادے اور ظلمتوں کے دُور کرنے کے آفتاب ہوتے ہیں.وہ نہاں در نہاں اور غیب الغیب ہوتے ہیں.کوئی ان کو پہچانتا نہیں مگر خدا اور کوئی خدا کو پہچانتا نہیں مگر وہ.وہ خدا نہیں ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ خدا سے الگ ہیں.وہ ابدی نہیں ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ کبھی مرتے ہیں.پس کیا ایک نا پاک اور خبیث آدمی جس کا دل گنده ، خیالات گندے، زندگی گندی ہے ان سے مشابہت پیدا کر سکتا ہے.ہرگز نہیں مگر وہی مشابہت جو کبھی ایک چمکیلے پتھر کو ہیرے کے ساتھ ہو جاتی ہے.مردان خدا جب دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں تو ان کی عام برکات کی وجہ سے آسمان سے ایک قسم کا انتشار روحانیت ہوتا ہے اور طبائع میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے اور جن کے دل اور دماغ کچی خوابوں سے کچھ مناسب رکھتے ہیں ان کو کچی خوا ہیں آنی شروع ہو جاتی ہیں لیکن در پردہ یہ تمام انہی کے وجود با وجود کی تاثیر ہوتی ہے.جیسا کہ مثلاً جب برسات کے دنوں میں پانی برستا ہے تو کنوؤں کا پانی بھی بڑھ جاتا ہے اور ہر ایک قسم کا سبزہ نکلتا ہے لیکن اگر آسمان کا پانی چند سال تک نہ بر سے تو کنوؤں کا پانی بھی خشک ہو جاتا ہے.سو وہ لوگ در حقیقت آسمان کا پانی ہوتے ہیں اور ان کے آنے سے زمین کے پانی بھی اپنا سیلاب دکھلاتے ہیں.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۱۷۰ تا ۱۷۲) پانچواں لطیفہ سورۃ فاتحہ میں یہ ہے کہ وہ اس اتم اور اکمل تعلیم پر مشتمل ہے کہ جو طالب حق کے لئے ضروری ہے اور جو ترقیات قربت اور معرفت کے لئے کامل دستور العمل ہے کیونکہ ترقیات قربت کا شروع اس نقطۂ سیر سے ہے کہ جب سالک اپنے نفس پر ایک موت قبول کر کے اور سختی اور آزار کشی کو روا رکھ کر
۸۲۶ ان تمام نفسانی خواہشوں سے خالص اللہ دست کش ہو جائے کہ جو اس میں اور اس کے مولیٰ کریم میں جدائی ڈالتے ہیں اور اس کے منہ کو خدا کی طرف سے پھیر کر اپنی نفسانی لذات اور جذبات اور عادات اور خیالات اور ارادات اور نیز مخلوق کی طرف پھیرتے ہیں اور ان کے خوفوں اور امیدوں میں گرفتار کرتے ہیں اور ترقیات کا اوسط درجہ وہ ہے کہ جو جو ابتدائی درجہ میں نفس کشی کے لئے تکالیف اٹھائی جاتی ہیں اور حالت معتادہ کو چھوڑ کر طرح طرح کے دکھ سہنے پڑتے ہیں وہ سب آلام صورتِ انعام میں ظاہر ہو جائیں اور بجائے مشقت کے لذت اور بجائے رنج کے راحت اور بجائے تنگی کے انشراح اور بشاشت نمودار ہو اور ترقیات کا اعلیٰ درجہ وہ ہے کہ سالک اس قدر خدا اور اس کے ارادوں اور خواہشوں سے اتحاد اور محبت اور یکجہتی پیدا کر لے کہ اس کا تمام اپنا عین واثر جاتا رہے اور ذات اور صفات الہیہ بلا شائبہ ظلمت اور بلا تو ہم حالیت و محلیت اس کے وجود آئینہ صفت میں منعکس ہو جا ئیں.اور فنا اتم کے آئینہ کے ذریعہ سے جس نے سالک میں اور اس کی نفسانی خواہشوں میں غایت درجہ کا بعد ڈال دیا ہے انعکاس ربانی ذات اور صفات کا نہایت صفائی سے دکھائی دے.اس تقریر میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں وجود یوں یا ویدانتوں کے باطل خیال کی تائید ہو کیونکہ انہوں نے خالق اور مخلوق میں جو ابدی امتیاز ہے شناخت نہیں کیا.اور اپنے کشوف مشتبہ کے دھوکا سے کہ جو سلوک نا تمام کی حالت میں اکثر پیش آ جاتے ہیں یا جو سودا انگیز ریاضتوں کا ایک نتیجہ ہوتا ہے سخت مغالطات کے بیچ میں پڑ گئے یا کسی نے سکر اور بے خودی کی حالت میں جو ایک قسم کا جنون ہے اس فرق کو نظر سے ساقط کر دیا کہ جو خدا کی روح اور انسان کی روح میں باعتبار طاقتوں اور قوتوں اور کمالات اور تقدسات کے ہے.ورنہ ظاہر ہے کہ قادر مطلق کہ جس کے علم قدیم سے ایک ذرہ مخفی نہیں اور جس کی طرف کوئی نقصان اور خسران عائد نہیں ہوسکتا اور جو ہر ایک قسم کے جہل اور آلودگی اور ناتوانی اور غم اور حزن اور درد اور رنج اور گرفتاری سے پاک ہے وہ کیونکر اس چیز کا عین ہوسکتا ہے کہ جو ان سب بلاؤں میں مبتلا ہے.کیا انسان جس کی روحانی ترقیات کے لئے اس قدر حالات منتظرہ ہیں جن کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا وہ اس ذات صاحب کمالِ نام سے مشابہ یا اس کا عین ہو سکتا ہے جس کے لئے کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں ؟ کیا جس کی ہستی فانی اور جس کی روح میں صریح مخلوقیت کے نقصان پائے جاتے ہیں وہ باوجود اپنی تمام آلائشوں اور کمزوریوں اور ناپاکیوں اور عیبوں اور نقصانوں کے اس ذات جلیل الصفات سے برابر ہو سکتا ہے جو اپنی خوبیوں اور پاک صفتوں میں ازلی ابدی طور پر اتم اور اکمل ہے.سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَصِفُونَ بلکہ اس تیسرے قسم کی ترقی
۸۲۷ سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ سالک خدا کی محبت ایسا فانی اور مستہلک ہو جاتا ہے اور اس قدرت ذات بے چون و بے چاگون اپنی تمام صفات کا ملہ کے ساتھ اس سے قریب ہو جاتی ہے کہ الوہیت کے تجلیات اس کے نفسانی جذبات پر ایسے غالب آ جاتے ہیں اور ایسے اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جو اس کو اپنے نفسانی جذبات سے بلکہ ہر یک سے جو نفسانی جذبات کا تابع ہو مغائرت کلی اور عداوت ذاتی پیدا ہو جاتی ہے.اور اس میں اور قسم دویم کی ترقی میں فرق یہ ہے کہ گوشتم دوریم میں بھی اپنے رب کی مرضی سے موافقت تامہ پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا ایلام بصورت انعام نظر آتا ہے مگر ہنوز اس میں ایسا تعلق باللہ نہیں ہوتا کہ جو ماسوی اللہ کے ساتھ عداوت ذاتی پیدا ہو جانے کا موجب ہو اور جس سے محبت الہی صرف دل کا مقصد ہی نہ رہے بلکہ دل کی سرشت بھی ہو جائے.غرض قسم دویم کی ترقی میں خدا سے موافقت تامہ کرنا اور اس کے غیر سے عداوت رکھنا سالک کا مقصد ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول سے وہ لذت پاتا ہے لیکن قسم سوم کی ترقی میں خدا سے موافقت تامہ اور اس کے غیر سے عداوت خود سالک کی سرشت ہو جاتی ہے.جس سرشت کو وہ کسی حالت میں چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ انفکاک الشئ عن نفسه محال ہے برخلاف قسم دوم کے کہ اس میں انفکاک جائز ہے اور جب تک ولایت کسی ولی کی قسم سوم تک نہیں پہنچتی عارضی ہے اور خطرات سے امن میں نہیں.وجہ یہ کہ جب تک انسان کی سرشت میں خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت داخل نہیں تب تک کچھ رگ وریشہ ظلم کا اس میں باقی ہے کیونکہ اس نے حق ربوبیت کو جیسا کہ چاہئے تھا ادا نہیں کیا اور لقاء تام حاصل کر نے سے ہنوز قاصر ہے لیکن جب اس کی سرشت میں محبت الہی اور موافقت باللہ بخوبی داخل ہو گئی یہاں تک کہ خدا اس کے کان ہو گیا جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہو گیا جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہو گیا جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہو گیا جس سے وہ چلتا ہے تو پھر کوئی ظلم اس میں باقی نہ رہا اور ہر ایک خطرہ سے امن میں آ گیا.اسی درجہ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَيْك لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُونَ اب سمجھنا چاہئے کہ یہ ترقیات ثلاثہ کہ جو تمام علوم و معارف کا اصل الاصول بلکہ تمام دین کا لب لباب ہے سورۃ فاتحہ میں بتمامتر خوبی و رعایت ایجاز و خوش اسلوبی بیان کئے گئے ہیں.چنانچہ پہلی ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے اول قدم ہے اس آیت میں تعلیم کی گئی ہے.جو فرمایا ہے الانعام: ۸۳
۸۲۸ اهْدِنَا القِصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ یا کیونکہ ہر ایک قسم کی کجی اور بے راہی سے باز آکر اور بالکل رو بخدا ہو کر راہ راست کو اختیار کرنا یہ وہی سخت گھائی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں فنا سے تعبیر کیا گیا ہے.کیونکہ امور مالوفہ اور معتادہ کو یک لخت چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشوں کو جو ایک عمر سے عادت ہو چکی ہے یک دفعہ ترک کرنا.اور ہر یک ننگ اور ناموس اور عجب اور ریا سے منہ پھیر کر اور تمام ماسوی اللہ کو کالعدم سمجھ کر سیدھا خدا کی طرف رخ کر لینا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو موت کے برابر ہے اور یہ موت روحانی پیدائش کا مدار ہے اور جیسے دانہ جب تک خاک میں نہیں ملتا اور اپنی صورت کو نہیں چھوڑ تا تب تک نیا دانہ وجود میں آنا غیر ممکن ہے.اسی طرح روحانی پیدائش کا جسم اس فنا سے طیار ہوتا ہے.جوں جوں بندہ کا نفس شکست پکڑتا جاتا ہے اور اس کا فعل اور ارادت اور رو خلق ہونا فنا ہوتا جاتا ہے توں توں پیدائش روحانی کے اعضاء بنتے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب فنا اتم حاصل ہو جاتی ہے تو وجود ثانی کی خلعت عطا کی جاتی ہے اور ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ ے کا وقت آ جاتا ہے اور چونکہ یہ فناء اتم بغیر نصرت و توفیق و توجہ خاص قادر مطلق کے ممکن نہیں اس لئے یہ دعا تعلیم کی یعنی اِهْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے جس کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا ہم کو راہ راست پر قائم کر اور ہر یک طور کی کجی اور بے راہی سے نجات بخش اور یہ کامل استقامت اور راست روی جس کو طلب کرنے کا حکم ہے نہایت سخت کام ہے اور اوّل دفعہ میں اس کا حملہ سالک پر ایک شیر ببر کی طرح ہے جس کے سامنے موت نظر آتی ہے.پس اگر سالک ٹھہر گیا اور اس موت کو قبول کر لیا تو پھر بعد اس کے کوئی اسے سخت موت نہیں اور خدا اس سے زیادہ تر کریم ہے کہ پھر اس کو یہ جلتا ہوا دوزخ دکھاوے.غرض یہ کامل استقامت وہ فنا ہے کہ جس سے کارخانہ وجود بندہ کو بکلی شکست پہنچتی ہے اور ہوا اور شہوت اور ارادت اور ہر یک خودروی کے فعل سے بیک بارگی دست کش ہونا پڑتا ہے اور یہ مرتبہ سیر وسلوک کے مراتب میں سے وہ مرتبہ ہے جس میں انسانی کوششوں کا بہت کچھ دخل ہے اور بشری مجاہدات کی بخوبی پیش رفت ہے اور اسی حد تک اولیاء اللہ کی کوششیں اور سالکین کی محنتیں ختم ہو جاتی ہیں اور پھر بعد اس کے خاص مواہب سماوی ہیں جن میں بشری کوششوں کو کچھ دخل نہیں بلکہ خود خدائے تعالی کی طرف سے عجائبات سماوی کی سیر کرانے کے لئے غیبی سواری اور آسمانی براق عطا ہوتا ہے.اور دوسری ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے دوسرا قدم ہے اس آیت میں تعلیم کی گئی الفاتحة: ٦ ٢ المؤمنون: ۱۵ ۳ الفاتحة: ۶
۸۲۹ ہے جو فرمایا ہے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم یا یعنی ہم کو ان لوگوں کا راہ دکھلا جن پر تیرا انعام اکرام ہے.اس جگہ واضح رہے کہ جو لوگ منعم علیہم ہیں اور خدا سے ظاہری و باطنی نعمتیں پاتے ہیں شدائد سے خالی نہیں ہیں بلکہ اس دار الابتلاء میں ایسی ایسی شدتیں اور صعوبتیں ان کو پہنچتی ہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے کو پہنچتیں تو مدد ایمانی اس کی منقطع ہو جاتی لیکن اس جہت سے ان کا نام منعم علہیم رکھا گیا ہے کہ وہ باعث غلبہ محبت آلام کو برنگ انعام دیکھتے ہیں اور ہر یک رنج یا راحت جو دوست حقیقی کی طرف سے ان کو پہنچتی ہے بوجہ مستی عشق اس سے لذت اٹھاتے ہیں.پس یہ ترقی فی القرب کی دوسری قسم ہے جس میں اپنے محبوب کے جمیع افعال سے لذت آتی ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے پہنچے انعام ہی انعام نظر آتا ہے.اور اصل موجب اس حالت کا ایک محبت کامل اور تعلق صادق ہوتا ہے جو اپنے محبوب سے ہو جاتا ہے اور یہ ایک موہبت خاص ہوتی ہے جس میں حیلہ اور تدبیر کو کچھ دخل نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے آتی ہے.اور جب آتی ہے تو پھر سالک ایک دوسرا رنگ پکڑ لیتا ہے اور تمام بوجھ اس کے سر سے اتارے جاتے ہیں اور ہر یک ایلام انعام ہی معلوم ہوتا ہے اور شکوہ اور شکایت کا نشان نہیں ہوتا.پس یہ حالت ایسی ہوتی ہے کہ گویا انسان بعد موت کے زندہ کیا گیا ہے کیونکہ ان تلخیوں سے بکلی نکل آتا ہے جو پہلے درجہ میں تھیں.جن سے ہر ایک وقت موت کا سامنا معلوم ہوتا تھا.مگر اب چاروں طرف سے انعام ہی انعام پاتا ہے اور اسی جہت سے اس کی حالت کے مناسب حال یہی تھا کہ اس کا نام منعم علیہ رکھا جاتا اور دوسرے لفظوں میں اس حالت کا نام بقا ہے کیونکہ سالک اس حالت میں اپنے تئیں ایسا پاتا ہے کہ گویا وہ مرا ہوا تھا اور اب زندہ ہو گیا اور اپنے نفس میں بڑی خوشحالی اور انشراح صدر دیکھتا ہے اور بشریت کے انقباض سب دور ہو جاتے ہیں اور الوہیت کے مربیانہ انوار نعمت کی طرح برستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.اسی مرتبہ میں سالک پر ہر یک نعمت کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور عنایات الہیہ کامل طور پر متوجہ ہوتی ہیں اور اس مرتبہ کا نام سیر فی اللہ ہے کیونکہ اس مرتبہ میں ربوبیت کے عجائبات سالک پر کھولے جاتے ہیں اور جو ربانی نعمتیں دوسروں سے مخفی ہیں ان کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے.کشوف صادقہ سے متمتع ہوتا ہے اور مخاطبات حضرت احدیت سے سرفرازی پاتا ہے اور عالم ثانی کے بار یک بھیدوں سے مطلع کیا جاتا ہے اور علوم اور معارف سے وافر حصہ دیا جاتا ہے.غرض ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہت کچھ اس کو عطا کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس درجہ یقین کامل تک پہنچتا ہے کہ گویا الفاتحة:
۸۳۰ مدبر حقیقی کو بچشم خود دیکھتا ہے سو اس طور کی اطلاع کامل جو اسرار سماوی میں اس کو بخشے جاتے ہیں اس کا نام سیر فی اللہ ہے لیکن یہ وہ مرتبہ ہے جس میں محبت الہی انسان کو دی تو جاتی ہے لیکن بطریق طبیعت اس میں قائم نہیں کی جاتی یعنی اس کی سرشت میں داخل نہیں ہوتی بلکہ اس میں محفوظ ہوتی ہے.اور تیسری ترقی جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے انتہائی قدم ہے اس آیت میں تعلیم کی گئی ہے جو فرمایا ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالین یا یہ وہ مرتبہ ہے جس میں انسان کو خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت سرشت میں داخل ہو جاتی ہے اور بطریق طبعیت اس میں قیام پکڑتی ہے اور صاحب اس مرتبہ کا اخلاق الہیہ سے ایسا ہی بالطبع پیار کرتا ہے کہ جیسے وہ اخلاق حضرت احدیت میں محبوب ہیں اور محبت ذاتی حضرت خداوند کریم کی اس قدر اس کے دل میں آمیزش کر جاتی ہے کہ اس کے دل سے محبت الہی کا منفک ہونا ستحیل اور ممتنع ہوتا ہے اور اگر اس کے دل کو اور اس کی جان کو بڑے بڑے امتحانوں اور ابتلاؤں کے سخت صدمات کے بیچ میں دے کر کوفتہ کیا جائے اور نچوڑا جائے تو بجز محبت الہیہ کے اور کچھ اس کے دل اور جان سے نہیں نکلتا.اسی کے درد سے لذت پاتا ہے اور اسی کو واقعی اور حقیقی طور پر اپنا دل آرام سمجھتا ہے.یہ وہ مقام ہے جس میں تمام ترقیات قرب ختم ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے اس انتہائی کمال کو پہنچ جاتا ہے کہ جو فطرت بشری کے لئے مقدر ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار قصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۶ ۵۸ تا ۶۲۴ حاشیہ نمبر۱۱) جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہے جو شخص اس کی طرف صدق اور صفا سے رجوع کرتا ہے وہ اس سے بڑھ کر اپنا صدق وصفا اس سے ظاہر کرتا ہے.اس کی طرف صدق دل سے قدم اٹھانے والا ہرگز ضائع نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ میں بڑے بڑے محبت اور وفاداری اور فیض اور احسان اور کرشمہ خدائی دکھلانے کے اخلاق ہیں مگر وہی ان کو پورے طور پر مشاہدہ کرتا ہے جو پورے طور پر اس کی محبت میں محو ہو جاتا ہے.اگر چہ وہ بڑا کریم ورحیم ہے مگر غنی اور بے نیاز ہے.اس لئے جو شخص اس کی راہ میں مرتا ہے وہی اس سے زندگی پاتا ہے اور جو اس کے لئے سب کچھ کھوتا ہے اس کو آسمانی انعام ملتا ہے.خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنے والے اس شخص سے مشابہت رکھتے ہیں جو اول دور سے آگ کی روشنی دیکھے اور پھر اس سے نزدیک ہو جائے یہاں تک کہ اس آگ میں اپنے تئیں داخل کر دے اور تمام جسم جل جائے اور صرف آگ ہی باقی رہ جائے.اسی طرح کامل تعلق والا دن بدن خدا تعالیٰ کے الفاتحة:
۸۳۱ نزدیک ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ محبت الہی کی آگ میں تمام وجود اس کا پڑ جاتا ہے اور شعلہ نور سے قالب نفسانی جل کر خاک ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ آگ لے لیتی ہے.یہ انتہا اس مبارک محبت کا ہے جو خدا سے ہوتی ہے.یہ امر کہ خدا تعالیٰ سے کسی کا کامل تعلق.اس کی بڑی علامت یہ ہے کہ صفات الہیہ اس میں پیدا ہو جاتی ہیں اور بشریت کے رذائل شعلہ نور سے جل کر ایک نئی ہستی پیدا ہوتی ہے اور ایک نئی زندگی نمودار ہوتی ہے جو پہلی زندگی سے بالکل مغائر ہوتی ہے.اور جیسا کہ لوہا جب آگ میں ڈالا جائے اور آگ سے اس کے تمام رگ وریشہ میں پورا غلبہ کر لے تو وہ لوہا بالکل آگ کی شکل پیدا کر لیتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ آگ ہے گو خواص آگ کے ظاہر کرتا ہے.اسی طرح جس کو شعلۂ محبت الہی سر سے پیر تک اپنے اندر لیتا ہے وہ بھی مظہر تجلیات الہیہ ہو جاتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا ہے بلکہ ایک بندہ ہے جس کو اس آگ نے اپنے اندر لے لیا ہے.اور اس آگ کے غلبہ کے بعد ہزاروں علامتیں کامل محبت کی پیدا ہو جاتی ہیں.کوئی ایک علامت نہیں ہے تا وہ ایک زیرک اور طالب حق پر مشتبہ ہو سکے بلکہ وہ تعلق صد با علامتوں کے ساتھ شناخت کیا جاتا ہے.منجملہ ان علامات کے یہ بھی ہے کہ خدائے کریم اپنا فصیح اور لذیذ کلام وقتاً فوقتاً اس کی زبان پر جاری کرتا رہتا ہے جو الہی شوکت اور برکت اور غیب گوئی کی کامل طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک نور اس کے ساتھ ہوتا ہے جو بتلاتا ہے کہ یہ یقینی امر ہے ظنی نہیں ہے اور ایک ربانی چمک اس کے اندر ہوتی ہے.اور کدورتوں سے پاک ہوتا ہے.اور بسا اوقات اور اکثر اور اغلب طور پر وہ کلام کسی زبر دست پیشگوئی پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی پیشگوئیوں کا حلقہ نہایت وسیع اور عالمگیر ہوتا ہے.اور وہ پیشگوئیاں کیا باعتبار کمیت اور کیا باعتبار کیفیت بے نظیر ہوتی ہیں.کوئی ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتا اور بیت الہی ان میں بھری ہوئی ہوتی ہے اور قدرت تامہ کی وجہ سے خدا کا چہرہ ان میں نظر آتا ہے.اور اس کی پیشگوئیاں نجومیوں کی طرح نہیں ہوتیں بلکہ ان میں محبوبیت اور قبولیت کے آثار ہوتے ہیں اور ربانی تائید اور نصرت سے بھری ہوئی ہوتی ہیں اور بعض پیشگوئیاں اس کے اپنے نفس کے متعلق ہوتی ہیں اور بعض اپنی اولاد کے متعلق اور بعض اس کے دوستوں کے متعلق اور بعض اس کے دشمنوں کے متعلق اور بعض عام طور پر تمام دنیا کے لئے اور بعض اس کی بیویوں اور خویشوں کے متعلق ہوتی ہیں اور وہ امور اس پر ظاہر ہوتے ہیں جو دوسروں پر ظاہر نہیں ہوتے اور وہ غیب کے دروازے اس کی پیشگوئیوں پر کھولے جاتے ہیں جو دوسروں پر نہیں کھولے جاتے.خدا کا کلام اس پر اسی طرح نازل ہوتا ہے جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے اور وہ ظن سے پاک اور یقینی
۸۳۲ ہوتا ہے یہ شرف تو اس کی زبان کو دیا جاتا ہے کہ کیا با اعتبار کمیت اور کیا باعتبار کیفیت ایسا بے مثل کلام اس کی زبان پر جاری کیا جاتا ہے کہ دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اس کی آنکھ کو کشفی قوت عطا کی جاتی ہے جس سے وہ مخفی درمخفی خبروں کو دیکھ لیتا ہے اور بسا اوقات لکھی ہوئی تحریریں اس کی نظر کے سامنے پیش کی جاتی ہیں.اور مردوں سے زندوں کی طرح ملاقات کر لیتا ہے اور بسا اوقات ہزاروں کوس کی چیزیں اس کی نظر کے سامنے ایسی آجاتی ہیں گویا وہ پیروں کے نیچے پڑی ہیں.ایسا ہی اس کے کان کو بھی مغیبات کے سننے کی قوت دی جاتی ہے اور اکثر اوقات وہ فرشتوں کی آواز کوسن لیتا ہے اور بے قراریوں کے وقت ان کی آواز سے تسلی پاتا ہے.اور عجیب تر یہ کہ بعض اوقات جمادات اور نباتات اور حیوانات کی آواز بھی اس کو پہنچ جاتی ہے..فلسفی کو منکر حنانه است از حواس انبیاء بیگانه است ! اسی طرح اس کی ناک کو بھی غیبی خوشبو سونگھنے کی ایک قوت دی جاتی ہے اور بسا اوقات وہ بشارت کے امور کو سونگھ لیتا ہے اور مکروہات کی بد بو اس کو آ جاتی ہے علی ہذا القیاس اس کے دل کو قوت فراست عطا کی جاتی ہے اور بہت سی باتیں اس کے دل میں پڑ جاتی ہیں اور وہ صحیح ہوتی ہیں.علی ھذا القیاس شیطان اس پر تصرف کرنے سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں شیطان کا کوئی حصہ نہیں رہتا اور باعث نہایت درجہ فنافی اللہ ہونے کے اس کی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہوتی ہے اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور اگر چہ اس کو خاص طور پر الہام بھی نہ ہو تب بھی جو کچھ اس کی زبان پر جاری ہوتا ہے وہ اس کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے کیونکہ نفسانی ہستی اس کی بکلی جل جاتی ہے اور سفلی ہستی پر ایک موت طاری ہو کر ایک نئی اور پاک زندگی اس کوملتی ہے جس پر ہر وقت انوار الہیہ منعکس ہوتے رہتے ہیں.اسی طرح اس کی پیشانی کو ایک نور عطا کیا جاتا ہے جو بجر عشاق الہی کے اور کسی کو نہیں دیا جا تا اور بعض خاص وقتوں میں وہ نور ایسا چمکتا ہے کہ ایک کافر بھی اس کو محسوس کر سکتا ہے بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ وہ لوگ ستائے جاتے اور نصرت الہی حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں.پس وہ اقبال علی اللہ کا وقت ان کے لئے ایک خاص وقت ہوتا ہے اور خدا کا نور ان کی پیشانی میں اپنا جلوہ ظاہر کرتا ہے.ایسا ہی ان کے ہاتھوں میں اور پیروں میں اور تمام بدن میں ایک برکت دی جاتی ہے.جس کی وجہ سے ان کا پہنا ہوا کپڑا بھی متبرک ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات کسی شخص کو چھونا یا اس کو ہاتھ لگا نا اس کے کے وہ فلسفی جو رونے والے ستون کا منکر ہے وہ انبیاء کی باطنی حسوں سے بے خبر ہے.
۸۳۳ امراض روحانی یا جسمانی کے الزام کا موجب ٹھہرتا ہے.اسی طرح ان کے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عزوجل ایک برکت رکھ دیتا ہے.وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے.خدا کے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں.اسی طرح ان کے شہر یا گاؤں میں بھی ایک برکت اور خصوصیت دی جاتی ہے.اسی طرح اس خاک کو بھی کچھ برکت دی جاتی ہے جس پر ان کا قدم پڑتا ہے.اسی طرح اس درجہ کے لوگوں کی تمام خواہشیں بھی اکثر اوقات پیشگوئی کا رنگ پیدا کر لیتی ہیں یعنی جب کسی چیز کے کھانے یا پینے یا پہننے یا دیکھنے کی بشدت ان کے اندر خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ خواہش ہی پیشگوئی کی صورت پکڑ لیتی ہے اور جب قبل از وقت اضطرار کے ساتھ ان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ چیز میسر آ جاتی ہے.اسی طرح ان کی رضامندی اور ناراضگی بھی پیشگوئی کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے پس جس شخص پر وہ شدت سے راضی اور خوش ہوتے ہیں اس کے آئندہ اقبال کے لئے یہ بشارت ہوتی ہے اور جس پر وہ بشدت ناراض ہوتے ہیں اس کے آئندہ ادبار اور تباہی پر دلیل ہوتی ہے کیونکہ باعث فنا فی اللہ ہونے کے وہ سرائے حق میں ہوتے ہیں اور ان کی رضا اور غضب خدا کا رضا اور غضب ہوتا ہے اور نفس کی تحریک سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے یہ حالات ان میں پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح ان کی دعا اور ان کی توجہ بھی معمولی دعاؤں اور تو جہات کی طرح نہیں ہوتی بلکہ اپنے اندر ایک شدید اثر رکھتی ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ اگر قضاء مبرم اور ائل نہ ہو اور ان کی توجہ اپنی تمام شرائط کے ساتھ اس بلا کے دور کرنے کے لئے مصروف ہو جائے تو خدا تعالیٰ اس بلا کو دور کر دیتا ہے گو ایک فرد واحد یا چند کس پر وہ بلا نازل ہو یا ایک ملک پر وہ بلا نازل ہو یا ایک بادشاہ وقت پر وہ بلا نازل ہو.اس میں اصل یہ ہے کہ وہ اپنے وجود سے فانی ہوتے ہیں.اس لئے اکثر اوقات ان کے ارادہ کا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے توارد ہو جاتا ہے.پس جب شدت سے ان کی توجہ کسی بلا کے دور کرنے کے لئے مبذول ہو جاتی ہے اور جیسا کہ درد دل کے ساتھ اقبال علی اللہ چاہئے میسر آ جاتا ہے تو سنت الہیہ اسی طرح پر واقع ہے کہ خدا ان کی سنتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ خدا ان کی دعا کو رد نہیں کرتا اور کبھی ان کی عبودیت ثابت کرنے کے لئے دعاسنی نہیں جاتی تا جاہلوں کی نظر میں خدا کے شریک نہ ٹھہر جائیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶ تا ۲۰)
۸۳۴ جذب وسلوک بعض اشخاص ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے مدارج میں کسب اور سلوک اور مجاہدہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ ان کی شکم مادر میں ہی ایک ایسی بناوٹ ہوتی ہے کہ فطرتاً بغیر ذریعہ کسب اور سعی اور مجاہدہ کے وہ خدا سے محبت کرتے ہیں اور اس کے رسول یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ ایسا ان کو روحانی تعلق ہو جاتا ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور پھر جیسا جیسا ان پر زمانہ گزرتا ہے وہ اندرونی آگ عشق اور محبت الہی کی بڑھتی جاتی ہے اور ساتھ ہی محبت رسول کی آگ ترقی پکڑتی ہے.اور ان تمام امور میں خدا ان کا متولی اور متکفل ہوتا ہے اور جب وہ محبت اور عشق کی آگ انتہا تک پہنچ جاتی ہے تب وہ نہایت بے قراری اور دردمندی سے چاہتے ہیں کہ خدا کا جلال زمین پر ظاہر ہو اور اسی میں ان کی لذت اور یہی ان کا آخری مقصد ہوتا ہے.تب ان کے لئے زمین پر خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کسی کے لئے اپنے عظیم الشان نشان ظاہر نہیں کرتا اور کسی کو آئندہ زمانہ کی عظیم الشان خبریں نہیں دیتا مگر انہیں کو جو اس کے عشق اور محبت میں محو ہوتے ہیں اور اس کی توحید اور جلال کے ظاہر ہونے کے ایسے خواہاں ہوتے ہیں جیسا کہ وہ خود ہوتا ہے یہ بات انہیں سے مخصوص ہے کہ حضرت الوہیت کے خاص اسرار ان پر ظاہر ہوتے ہیں اور غیب کی باتیں کمال صفائی سے ان پر منکشف کی جاتی ہیں اور یہ خاص عزت دوسرے کو نہیں دی جاتی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۸) صوفیوں نے ترقیات کی دو راہیں لکھی ہیں ایک سلوک.دوسرا جذب سلوک وہ ہے جو لوگ آپ عقل مندی سے سوچ کر اللہ و رسول کی راہ اختیار کرتے ہیں جیسے فرمایا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحِبُكُمُ اللهُ (ال عمران : (۳۲) یعنی اگر تم اللہ کے پیارے بننے چاہتے ہو تو رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کرو.وہ ہادی کامل وہی رسول ہیں جنہوں نے وہ مصائب اٹھائے کہ دنیا اپنے اندر نظیر نہیں رکھتی.ایک دن بھی آرام نہ پایا.اب پیروی کرنے والے بھی حقیقی طور سے وہی ہوں گے جو اپنے متبوع کے ہر قول و فعل کی پیروی پوری جدوجہد سے کریں.متبع وہی ہے جو سب طرح پیروی کرے گا.سہل انگار اور سخت گزار کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے غضب میں آوے گا.یہاں جو
۸۳۵ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا حکم دیا تو سالک کا کام یہ ہوگا کہ اوّل رسول اکرم کی کل تاریخ دیکھے اور پھر پیروی کرے.اسی کا نام سلوک ہے.اس راہ میں بہت مصائب و شدائد ہوتے ہیں.ان سب کو اٹھانے کے بعد ہی انسان سالک ہوتا ہے.اہل جذ بہ کا درجہ سالکوں سے بڑھا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں سلوک پر ہی نہیں رکھتا بلکہ خود ان کو مصائب میں ڈالتا اور جاذبہ ازلی سے اپنی طرف کھینچتا ہے.کل انبیاء مجذوب ہی تھے جس وقت انسانی روح کو مصائب کا مقابلہ ہوتا ہے.ان سے فرسودہ کار اور تجربہ کار ہو کر روح چمک اٹھتی ہے.جیسے لوہایا شیشہ اگر چہ چمک کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے لیکن صیقلوں کے بعد ہی محبی ہوتا ہے حتی کہ اس میں منہ دیکھنے والے کا نظر آ جاتا ہے.مجاہدات بھی صیقل کا ہی کام کرتے ہیں.دل کا صیقل یہاں تک ہونا چاہئے کہ اس میں سے بھی منہ نظر آ جاوے.منہ کا نظر آنا کیا ہے؟ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ الله کا مصداق ہونا.سالک کا دل آئینہ ہے جس کو مصائب شدائد اس قدر صیقل کر دیتے ہیں کہ اخلاق النبی اس میں منعکس ہو جاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بہت مجاہدات اور تزکیوں کے بعد اس کے اندر کسی قسم کی کدورت یا کثافت نہ رہے تب یہ درجہ نصیب ہوتا ہے.ہر ایک مومن کو ایک حد تک ایسی صفائی کی ضرورت ہے.کوئی مومن بلا آئینہ ہونے کے نجات نہ پائے گا.سلوک والا خود یہ صیقل کرتا ہے اپنے کام سے مصائب اٹھاتا ہے لیکن جذب والا مصائب میں ڈالا جاتا ہے.خدا خود اس کا مصقل ہوتا ہے اور طرح طرح کے مصائب شدائد سے صیقل کر کے اس کو آئینہ کا درجہ عطا کر دیتا ہے.دراصل سالک و مجذوب دونوں کا ایک ہی نتیجہ ہے.سو تقی کے دو حصے ہیں سلوک و جذ بہ.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۴۳ ۴۴ - ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۷، ۱۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) انبیاء کی ضرورت خدا نے اپنی ذات پر ایمان لانا رسولوں پر ایمان لانے سے وابستہ کیا ہے.اس میں راز یہ ہے کہ انسان میں تو حید قبول کرنے کی استعداد اس آگ کی طرح رکھی گئی ہے جو پتھر میں مخفی ہوتی ہے اور رسول کا وجود چقماق کی طرح ہے جو اس پتھر پر ضرب توجہ لگا کر اس آگ کو باہر نکالتا ہے پس ہرگز ممکن نہیں کہ بغیر رسول کی چقماق کے تو حید کی آگ کسی دل میں پیدا ہو سکے.تو حید کوصرف رسول زمین پر لاتا ہے اور اسی کی معرفت یہ حاصل ہوتی ہے.خدا مخفی ہے اور وہ اپنا چہرہ رسول کے ذریعہ دکھلاتا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۱)
۸۳۶ بعض نادانوں کو جو یہ وہم گزرتا ہے کہ گویا نجات کے لئے صرف تو حید کافی ہے.نبی پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں.گویا وہ روح کو جسم سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں.یہ وہم سراسر دلی کوری پر مبنی ہے.صاف ظاہر ہے کہ جبکہ تو حید حقیقی کا وجود ہی نبی کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور بغیر اس کے ممتنع اور محال ہے تو وہ بغیر نبی پر ایمان لانے کے میسر کیونکر آ سکتی ہے اور اگر نبی کو جو جڑ تو حید کی ہے ایمان لانے میں علیحدہ کر دیا جائے تو تو حید کیونکر قائم رہے گی.توحید کا موجب اور توحید کا پیدا کرنے والا اور توحید کا باپ اور توحید کا سر چشمہ اور توحید کا مظہر اتم صرف نبی ہی ہوتا ہے.اسی کے ذریعہ سے خدا کا مخفی چہرہ نظر آتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے.بات یہ ہے کہ ایک طرف تو حضرت احدیت جلّ شانہ کی ذات نہایت درجہ استغنا اور بے نیازی میں پڑی ہے.اس کو کسی ہدایت اور ضلالت کی پروا نہیں اور دوسری طرف وہ بالطبع یہ بھی تقاضا فرماتا ہے کہ وہ شناخت کیا جائے اور اس کی رحمت از لی سے لوگ فائدہ اٹھاویں.پس وہ ایسے دل پر جو اہل زمین کے تمام دلوں میں سے محبت اور قرب اوسبحانہ کا حاصل کرنے کے لئے کمال درجہ پر فطرتی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے.اور نیز کمال درجہ کی ہمدردی بنی نوع کی اس کی فطرت میں ہے تجلی فرماتا ہے.اور اس پر اپنی ہستی اور صفات از لیہ ابدیہ کے انوار ظاہر کرتا ہے.اور اس طرح وہ خاص اور اعلیٰ فطرت کا آدمی جس کو دوسرے لفظوں میں نبی کہتے ہیں اس کی طرف کھینچا جاتا ہے.پھر وہ نبی بوجہ اس کے کہ ہمدردی بنی نوع کا اس کے دل میں کمال درجہ پر جوش ہوتا ہے اپنی روحانی تو جہات اور تضرع اور انکسار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ خدا جو اس پر ظاہر ہوا ہے دوسرے لوگ بھی اس کو شناخت کریں اور نجات پاویں.اور وہ دلی خواہش سے اپنے وجود کی قربانی خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس تمنا سے کہ لوگ زندہ ہو جائیں کئی موتیں اپنے لئے قبول کر لیتا ہے اور بڑے مجاہدات میں اپنے تئیں ڈالتا ہے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ تب اگر چہ خدا مخلوق سے بے نیاز اور مستغنی ہے مگر اس کے دائی غم اور حزن اور کرب وقلق اور تذلل اور نیستی اور نہایت درجہ کے صدق اور صفا پر نظر کر کے مخلوق کے مستعد دلوں پر اپنے نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کر دیتا ہے اور اس کی پر جوش دعاؤں کی تحریک سے جو آسمان پر ایک صعبناک شور ڈالتی ہے خدا تعالیٰ کے نشان زمین پر بارش کی طرح برستے ہیں اور عظیم الشان خوارق دنیا کے لوگوں کو دکھلائے جاتے ہیں جن سے دنیا دیکھ لیتی ہے کہ خدا ہے اور خدا کا چہرہ نظر آ جاتا ہے لیکن اگر وہ پاک نبی اس قدر ل الشعراء:
۸۳۷ دعا اور تضرع اور ابتہال سے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کرتا اور خدا کے چہرہ کی چمک دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے اپنی قربانی نہ دیتا اور ہر ایک قدم میں صدہا موتیں قبول نہ کرتا تو خدا کا چہرہ دنیا پر ہرگز ظاہر نہ ہوتا کیونکہ خدا تعالی بوجه استغناء ذاتی کے بے نیاز ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ اور وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ل یعنی خدا تو تمام دنیا سے بے نیاز ہے اور جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور ہماری طلب میں کوشش کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں انہیں کے لئے ہمارا یہ قانون قدرت ہے کہ ہم ان کو اپنی راہ دکھلا دیا کرتے ہیں.سوخدا کی راہ میں سب سے اوّل قربانی دینے والے نبی ہیں.ہر ایک اپنے لئے کوشش کرتا ہے مگر انبیاءعلہیم السلام دوسروں کے لئے کوشش کرتے ہیں.لوگ سوتے ہیں اور وہ ان کے لئے جاگتے ہیں اور لوگ ہنستے ہیں اور وہ ان کے لئے روتے ہیں اور دنیا کی رہائی کے لئے ہر ایک مصیبت کو بخوشی اپنے پر وارد کر لیتے ہیں.یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ تا خدا تعالیٰ کچھ ایسی تجلی فرما دے کہ لوگوں پر ثابت ہو جاوے کہ خدا موجود ہے اور مستعد دلوں پر اس کی ہستی اور اس کی توحید منکشف ہو جاوے تا کہ وہ نجات پائیں.پس وہ جانی دشمنوں کی ہمدردی میں مر رہتے ہیں اور جب انتہا درجہ پر ان کا درد پہنچتا ہے اور ان کی درد ناک آہوں سے ( جو مخلوق کی رہائی کے لئے ہوتی ہیں ) آسمان پر ہو جاتا ہے تب خدا تعالیٰ اپنے چہرہ کی چمک دکھلاتا ہے اور زبر دست نشانوں کے ساتھ اپنی ہستی اور اپنی توحید لوگوں پر ظاہر کرتا ہے.پس اس میں شک نہیں کہ تو حید اور خدا دانی کے متاع رسول کے دامن سے ہی دنیا کو ملتی ہے بغیر اس کے ہرگز نہیں مل سکتی اور اس امر میں سب سے اعلیٰ نمونہ ہمارے نبی ﷺ نے دکھایا کہ ایک قوم جو نجاست پر بیٹھی ہوئی تھی ان کو نجاست سے اٹھا کر گلزار میں پہنچا دیا اور وہ جو روحانی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے تھے ان کے آگے روحانی اعلیٰ درجہ کی غذا ئیں اور شیریں شربت رکھ دیئے.ان کو وحشیانہ حالت سے انسان بنایا پھر معمولی انسان سے مہذب انسان بنایا.پھر مہذب انسان سے کامل انسان بنایا اور اس قدر ان کے لئے نشان ظاہر کئے کہ ان کو خدا دکھلا دیا اور ان میں ایسی تبدیلی پیدا کر دی کہ انہوں نے فرشتوں سے ہاتھ جا ملائے.یہ تاخیر کسی اور نبی سے اپنی امت کی نسبت ظہور میں نہ آئی کیونکہ ان کے صحبت یاب ناقص رہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۶ تا ۱۱۸) یادر ہے کہ خدا کے وجود کا پتہ دینے والے اور اس کے واحد لاشریک ہونے کا علم لوگوں کو سکھلانے ال عمران: ۹۸ العنكبوت:۷٠
۸۳۸ لے صرف انبیاء علیہم السلام ہیں اور اگر یہ مقدس لوگ دنیا میں نہ آتے تو صراط مستقیم کا یقینی طور پر پانا ایک ممتنع اور محال امر تھا.اگر چہ زمین و آسمان پر غور کر کے اور ان کی ترتیب ابلغ اور محکم پر نظر ڈال کر ایک صحیح الفطرت اور سلیم العقل انسان دریافت کر سکتا ہے کہ اس کا رخانہ پُر حکمت کا بنانے والا کوئی ضرور ہونا چاہئے لیکن اس فقرہ میں کہ ضرور ہونا چاہئے اور اس فقرہ میں کہ واقعی وہ موجود ہے بہت فرق ہے.واقعی وجود پر اطلاع دینے والے صرف انبیاء علیہم السلام ہیں جنہوں نے ہزار ہا نشانوں اور معجزات سے دنیا پر ثابت کر دکھایا کہ وہ ذات جو مخفی در مخفی اور تمام طاقتوں کی جامع ہے درحقیقت موجود ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس قدر عقل بھی کہ نظام عالم کو دیکھ کر صانع حقیقی کی ضرورت محسوس ہو یہ مرتبہ عقل بھی نبوت کی شعاعوں سے ہی مستفیض ہے.اگر انبیاء علہیم السلام کا وجود نہ ہوتا تو اس قدر عقل بھی کسی کو حاصل نہ ہوتی.اس کی مثال یہ ہے کہ اگر چہ زمین کے نیچے پانی بھی ہے مگر اس پانی کا بقا اور وجود آسمانی پانی سے وابستہ ہے.جب کبھی ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نہیں برستا تو زمینی پانی بھی خشک ہو جاتے ہیں.اور جب آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین میں بھی پانی جوش مارتا ہے اسی طرح انبیاء علہیم السلام کے آنے سے عقلیں تیز ہو جاتی ہیں.اور عقل جو زمینی پانی ہے اپنی حالت میں ترقی کرتی ہے.اور پھر جب ایک مدت دراز اس بات پر گزرتی ہے کہ کوئی نبی مبعوث نہیں ہوتا تو عقلوں کا زمینی پانی گندہ اور کم ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور دنیا میں بت پرستی اور شرک اور ہر ایک قسم کی بدی پھیل جاتی ہے.پس جس طرح آنکھ میں ایک روشنی ہے اور وہ باوجود اس روشنی کے پھر بھی آفتاب کی محتاج ہے.اسی طرح دنیا کی عقلیں جو آنکھ سے مشابہ ہیں ہمیشہ آفتاب نبوت کی محتاج رہتی ہیں اور جبھی کہ وہ آفتاب پوشیدہ ہو جائے ان میں فی الفور کدورت اور تاریکی پیدا ہو جاتی ہے.کیا تم صرف آنکھ سے کچھ دیکھ سکتے ہو؟ ہرگز نہیں.اسی طرح تم بغیر نبوت کی روشنی کے بھی کچھ نہیں دیکھ سکتے.پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے.اس لئے یہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نبی کے توحید مل سکے.نبی خدا کی صورت دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے.اس آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے.جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں بھیجتا ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دکھلاتا ہے تب دنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۴ تا ۱۱۶)
۸۳۹ یاد رکھو کہ نبیوں کا وجود اس لئے دنیا میں نہیں آتا کہ وہ محض ریاء کاری اور نمود کے طور پر ہو.اگر ان سے کوئی فیض جاری نہیں ہوتا اور مخلوق کو روحانی فائدہ نہیں پہنچتا تو پھر یہی مانا پڑے گا کہ وہ صرف نمائش کے لئے ہیں اور ان کا عدم وجود معاذ اللہ برابر ہے مگر ایسا نہیں ہے.وہ دنیا کے لئے بہت سی برکات اور فیوض باعث بنتے ہیں اور ان سے ایک خیر جاری ہوتی ہے جس طرح پر آفتاب سے ساری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے اور اس کا فائدہ کسی خاص حد تک جا کر بند نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے اسی طرح پر آنحضرت ﷺ کے فیوض و برکات کا آفتاب ہمیشہ چمکتا ہے اور سعادت مندوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ یا یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ تو میری اطاعت کرو.اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا.آپ کی سچی اطاعت اور اتباع انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنادیتی ہے اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہوتی ہے.الحکم مورخہ ۳۱ رمئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱.ملفوظات جلد دوم صفحه ۳۹، ۴۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) سوال (۸) اگر چہ ہمارا ایمان ہے کہ نری خشک توحید مدار نجات نہیں ہو سکتی اور آنحضرت علی کی پیروی سے علیحدہ ہو کر کوئی عمل کرنا انسان کو نا جی نہیں بنا سکتا لیکن طمانیت قلب کے لئے عرض پرداز ہیں کہ عبدالحکیم خان نے جو آیات لکھی ہیں ان کا کیا مطلب ہے؟ مثلاً : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا والنصرى والبِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ہے اور جیسا کہ یہ آیت بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَرَ به سے اور جیسا کہ یہ آیت تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ الجواب.واضح ہو کہ قرآن شریف میں ان آیات کے ذکر کرنے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر اس کے جو رسول پر ایمان لایا جائے نجات ہو سکتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ خدائے واحد لاشریک اور یوم آخرت پر ایمان لایا جاوے نجات نہیں ہوسکتی اور اللہ پر پورا ایمان تبھی ہوسکتا ہے کہ اس کے رسولوں پر ایمان لاوے.وجہ یہ کہ وہ اس کی صفات کے مظہر ہیں اور کسی چیز کا وجود بغیر وجود اس کی صفات کے بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا.لہذا بغیر علم صفات باری تعالیٰ کے معرفت باری تعالی ناقص رہ جاتی ہے کیونکہ مثلاً یہ صفات اللہ تعالیٰ کے کہ وہ بولتا ہے سنتا ہے پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے.رحمت یا عذاب کرنے پر قدرت ال عمران:۳۲ البقرة: ٦٣ البقرة :١١٣ ال عمران: ۶۵
۸۴۰ رکھتا ہے بغیر اس کے کہ رسول کے ذریعہ سے ان کا پتہ لگے کیونکر ان پر یقین آ سکتا ہے.اور اگر یہ صفات مشاہدہ کے رنگ میں ثابت نہ ہوں تو خدا تعالیٰ کا وجود ہی ثابت نہیں ہوتا تو اس صورت میں اس پر ایمان لانے کے کیا معنے ہوں گے؟ اور جو شخص خدا پر ایمان لاوے ضرور ہے کہ اس کے صفات پر بھی ایمان لاوے اور یہ ایمان اس کو نبیوں پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرے گا کیونکہ مثلاً خدا کا کلام کرنا اور بولنا بغیر ثبوت خدا کی کلام کے کیونکر سمجھ آ سکتا ہے اور اس کلام کو پیش کرنے والے مع اس کے ثبوت کے صرف نبی ہیں.پھر یہ بھی واضح ہو کہ قرآن شریف میں دو قسم کی آیات ہیں.ایک محکمات اور بینات جیسا کہ یہ آیت اِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ تُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا.أوليكَ هُمُ الْكَفِرُونَ حَقًّا وَاعْتَدُنَا لِلْكُفِرِينَ عَذَابًا مُهِيِّنًا یعنی جو لوگ ایسا ایمان لانا نہیں چاہتے جو خدا پر بھی ایمان لاویں اور اس کے رسولوں پر بھی اور چاہتے ہیں کہ خدا کو اس کے رسولوں سے علیحدہ کر دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں.یعنی خدا پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں پر نہیں یا بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں اور ارادہ کرتے ہیں که بین بین راہ اختیار کر لیں یہی لوگ واقعی طور پر کافر اور پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے.یہ تو آیات محکمات ہیں جن کی ہم ایک بڑی تفصیل ابھی لکھ چکے ہیں.دوسری قسم کی آیات متشابہات ہیں جن کے معنے باریک ہوتے ہیں اور جو لوگ راسخ فی العلم ہیں ان لوگوں کو ان کا علم دیا جاتا ہے اور جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ آیات محکمات کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور محکمات کی علامت یہ ہے کہ محکمات آیات خدا تعالیٰ کے کلام میں بکثرت موجود ہیں اور خدا تعالیٰ کا کلام ان سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور ان کے معنے کھلے کھلے ہوتے ہیں اور ان کے نہ ماننے سے فساد لازم آتا ہے.مثلاً اسی جگہ دیکھ لو کہ جو شخص محض خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کے رسولوں پر ایمان نہیں لاتا اس کو خدا تعالیٰ کی صفات سے منکر ہونا پڑتا ہے.مثلاً ہمارے زمانہ میں برہمو جو ایک نیا فرقہ ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر نبیوں کو نہیں مانتے وہ خدا تعالیٰ کے کلام سے منکر ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ سنتا ہے تو بولتا بھی ہے.پس اگر اس کا بولنا ثابت نہیں تو سننا بھی ثابت نہیں.اس طرح پر ایسے لوگ صفات باری سے انکار کر کے دہریوں کے رنگ میں ہو جاتے ل النساء: ۱۵۲،۱۵۱
۸۴۱ ہیں اور صفات باری جیسے ازلی ہیں ویسے ابدی بھی ہیں اور ان کو مشاہدہ کے طور پر دکھلانے والے محض انبیاء علہیم السلام ہیں اور نفی صفات باری نفی وجود باری کو مستلزم ہے.اس تحقیق سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لئے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا کس قدر ضروری ہے کہ بغیر ان کے خدا پر ایمان لانا ناقص اور نا تمام رہ جاتا ہے اور نیز آیات محکمات کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ ان کی شہادت نہ محض کثرت آیات سے بلکہ عملی طور پر بھی ملتی ہے یعنی خدا کے نبیوں کی متواتر شہادت ان کے بارہ میں پائی جاتی ہے جیسا کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف اور دوسرے نبیوں کی کتابوں کو دیکھے گا اس کو معلوم ہوگا کہ نبیوں کی کتابوں میں جس طرح خدا پر ایمان لانے کی تاکید ہے ایسا ہی اس کے رسولوں پر بھی ایمان لانے کی تاکید ہے اور متشابہات کی یہ علامت ہے کہ ان کے ایسے معنے ماننے سے جو مخالف محکمات ہیں فساد لا زم آتا ہے.اور نیز دوسری آیات سے جو کثرت کے ساتھ ہیں مخالف پڑتی ہیں.خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض ممکن نہیں اس لئے جو قلیل ہے بہر حال کثیر کے تابع کرنا پڑتا ہے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اوّل..سے آخر تک اللہ کے لفظ کو انہی معنوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ وہ رسولوں اور نبیوں اور کتابوں کا بھیجنے والا اور زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والا اور فلاں فلاں صفت سے متصف اور واحد لاشریک ہے ہاں جن لوگوں کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں پہنچا اور وہ بالکل بے خبر ہیں ان سے ان کے علم اور عقل اور فہم کے موافق مواخذہ ہوگا لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں کہ وہ ان مدارج اور مراتب کو پالیں جو رسول کریم کی پیروی سے لوگوں کو ملیں گے.کیونکہ جن منازل تک باعث پیروی نور رسالت پیروی کرنے والے پہنچ سکتے ہیں محض اندھے نہیں پہنچ سکتے اور یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے.پھر اس ظلم کو تو دیکھو کہ باوجود اس کے کہ قرآن شریف کی صد ہا آیتیں بلند آواز سے کہہ رہی ہیں کہ نری تو حید موجب نجات نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے ساتھ رسول کریم پر ایمان لانا شرط ہے پھر بھی میاں عبدالحکیم خان ان آیات کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے اور یہودیوں کی طرح ایک دو آیت جو مجمل طور پر واقع ہیں ان کے الٹے معنے کر کے بار بار پیش کرتے ہیں.ہر ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ اگر ان آیات کے یہی معنی ہیں جو عبدالحکیم پیش کرتا ہے تب اسلام دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور جو کچھ نبی کریم علے نے احکام مثل نماز روزہ وغیرہ کے سکھلائے ہیں وہ سب کچھ بے ہودہ اور لغو اور عبث ٹھہرتا ہے کیونکہ اگر یہی بات ہے کہ ہر ایک شخص اپنی خیالی توحید سے نجات پاسکتا ہے تو پھر نبی کی تکذیب کچھ بھی گناہ نہیں اور نہ مرتد ہونا کسی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے.پس یادر ہے کہ قرآن شریف میں کوئی بھی ایسی آیت
۸۴۲ نہیں کہ جو نبی کریم کی اطاعت سے لا پروا کرتی ہو.اور اگر بالفرض وہ دو تین آیتیں ان صد ہا آیتوں کے مخالف ہو تیں تب بھی چاہئے تھا کہ قلیل کو کثیر کے تابع کیا جاتا.نہ کہ کثیر کو بالکل نظر انداز کر کے ارتداد کا جامہ پہن لیں.اور اس جگہ آیات کلام اللہ میں کوئی تناقض بھی نہیں صرف اپنے فہم کا فرق اور اپنی طبیعت کی تاریکی ہے.ہمیں چاہئے کہ اللہ کے لفظ کے وہ معنے کریں جو خدا تعالیٰ نے خود کئے ہیں نہ کہ اپنی طرف سے یہودیوں کی طرح اور معنے بناویں.ماسوا اس کے خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے رسولوں کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ وہ ہر ایک سرکش اور سخت منکر کو اس پیرایہ سے بھی ہدایت کیا کرتے ہیں کہ تم صحیح اور خالص طور پر خدا پر ایمان لاؤ اور اس سے محبت کرو اور اس کو واحد لاشریک سمجھو تب تمہاری نجات ہو جائے گی اور اس کلام سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ پورے طور سے خدا پر ایمان لائیں گے تو خدا ان کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دے گا.قرآن شریف کو یہ لوگ نہیں پڑھتے اس میں صاف لکھا ہے کہ خدا پر سچا ایمان لانا اس کے رسول پر ایمان لانے کے لئے موجب ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کا سینہ اسلام کو قبول کرنے کے لئے کھولا جاتا ہے اس لئے میرا بھی یہی دستور ہے کہ جب کوئی آریہ یا برہمو یا عیسائی یا یہودی یا سکھ یا اور منکر اسلام کج بحثی کرتا ہے اور کسی طرح باز نہیں آتا تو آخر کہ دیا کرتا ہوں کہ تمہاری اس بحث سے تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہو گا تم خدا پر پورے اخلاص سے ایمان لاؤ اس سے وہ تمہیں نجات دے گا مگر اس کلمہ سے میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بغیر متابعت نبی کریم کے نجات مل سکتی ہے بلکہ میرا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو شخص پورے صدق سے خدا پر ایمان لائے گا خدا اس کو توفیق بخش دے گا اور اپنے رسول پر ایمان لانے کے لئے اس کا سینہ کھول دے گا..یادر ہے کہ اول تو تو حید بغیر پیروی نبی کریم کے کامل طور پر حاصل نہیں ہو سکتی جیسا کہ ابھی ہم بیان کر آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات جو اس کی ذات سے الگ نہیں ہوسکتیں.بغیر آئینہ وحی نبوت کے مشاہدہ میں آ نہیں سکتیں.ان صفات کو مشاہدہ کے رنگ میں دکھلانے والا محض نبی ہوتا ہے.علاوہ اس کے اگر بفرض محال حصول ان کا ناقص طور پر ہو جائے تو وہ شرک کی آلائش سے خالی نہیں جب تک کہ خدا اس مغشوش مطاع کو قبول کر کے اسلام میں داخل نہ کرے کیونکہ جو کچھ انسان کو خدا تعالیٰ سے اس کے رسول کی معرفت ملتا ہے وہ ایک آسمانی پانی ہے.اس میں اپنے فخر اور عجب کو کچھ دخل نہیں لیکن انسان اپنی کوشش سے جو کچھ حاصل کرتا ہے اس میں ضرور کوئی شرک کی آلائش پیدا ہو جاتی ہے.پس یہی حکمت تھی
۸۴۳ کہ تو حید کو سکھلانے کے لئے رسول بھیجے گئے اور انسانوں کی محض عقل پر نہیں چھوڑا گیا تا توحید خالص رہے اور انسانی معجب کا شرک اس میں مخلوط نہ ہو جائے اور اسی وجہ سے فلاسفہ ضالہ کو تو حید خالص نصیب نہیں ہوئی کیونکہ وہ رعونت اور تکبر اور تحجب میں گرفتار رہے اور توحید خالص نیستی کو چاہتی ہے اور وہ نیستی جب تک انسان سچے دل سے یہ نہ سمجھے کہ میری کوشش کا کچھ دخل نہیں یہ محض انعام الہی ہے حاصل نہیں ہوسکتی.مثلاً ایک شخص تمام رات جاگ کر اور اپنے نفس کو مصیبت میں ڈال کر اپنے کھیت کی آبپاشی کر رہا ہے اور دوسرا شخص تمام رات سوتا رہا اور ایک بادل آیا اور اس کے کھیت کو پانی سے بھر دیا.اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا وہ دونوں خدا کا شکر کرنے میں برابر ہوں گے.ہرگز نہیں بلکہ وہ زیادہ شکر کرے گا جس کی کھیت کو بغیر اس کی محنت کے پانی دیا گیا.اسی لئے خدا تعالیٰ کے کلام میں بار بار آیا ہے کہ اس خدا کا شکر کرو جس نے رسول بھیجے اور تمہیں تو حید سکھائی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۷۲ تا ۱۷۹) میں یہاں ایک ضروری امر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کوضرورتیں کیوں لاحق ہوتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ ان کو کوئی ضرورت پیش نہ آوے مگر یہ ضرور تیں اس لئے لاحق ہوتی ہیں تا کہ یہی وقف کے نمونے مثال کے طور پر قائم ہوں اور ابوبکر کی زندگی کا وقف ثابت ہو اور دنیا میں خدائے مقتدر کی ہستی پر ایمان پیدا ہو اور ایسے لیہی وقف کرنے والے دنیا کے لئے بطور آیات اللہ کے ٹھہریں اور اس مخفی محبت اور لذت پر دنیا کو اطلاع ملے جس کے سامنے مال و دولت جیسی محبوب و مرغوب شے بھی آسانی اور خوشی کے ساتھ قربان ہو سکتی ہے اور پھر مال و دولت کے خرچ کے بعد الہی وقف کو مکمل کرنے کے واسطے وہ قوت اور شجاعت ملے کہ انسان جان جیسی شے کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے میں دریغ نہ کرے.غرض انبیاء علہیم السلام کی ضرورتوں کی اصل غرض دنیا کی جھوٹی محبتوں اور فانی چیزوں سے منہ موڑنے کی تعلیم دینے.اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لذیذ ایمان پیدا کرنے اور ابنائے جنس کی بہتری اور خیر خواہی کے لئے ایثار کی قوت پیدا کرنے کے واسطے ہوتا ہے.ورنہ یہ پاک گروہ خزائن السماوات والارض کے مالک کی نظر میں چلتا ہے ان کو کسی چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے؟ وہ ضرورتیں تعلیم کو کامل اور انسان کے اخلاق اور ایمان کے رسوخ کے لئے پیش آتی ہیں.الحکم مورخہ ۲۴ اگست ۱۹۰۰ء صفحه ۴ کالم نمبر ۲.ملفوطات جلد اول صفحہ ۳۶۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
۸۴۴ اسلام میں نبوت اسلام میں اس نبوت کا دروازہ تو بند ہے جو اپنا سکہ جماتی ہو.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد۴ اصفحہ ۳۰۸) خوب یاد رکھنا چاہئے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت علیہ کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے.بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۱ حاشیه ) میرے پر یہی کھولا گیا ہے کہ حقیقی نبوت کے دروازے خاتم النبین ﷺ کے بعد بکلی بند ہیں.اب نہ کوئی جدید نبی حقیقی معنوں کے رو سے آ سکتا ہے اور نہ کوئی قدیم نبی مگر ہمارے ظالم مخالف ختم نبوت کے دروازوں کو پورے طور پر بند نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک مسیح اسرائیلی نبی کے واپس آنے کے لئے ابھی ایک کھڑ کی کھلی ہے.(سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶،۵) نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو.اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو.پس ایک امتی کو ایسا نبی قرار دینے سے کوئی محذور لازم نہیں آتا.بالخصوص اس حالت میں کہ وہ امتی اپنے اسی نبی متبوع سے فیض پانے والا ہو بلکہ فساد اس حالت میں لازم آتا ہے کہ اس امت کو آنحضرت ﷺ کے بعد قیامت تک مکالمات الہیہ سے بے نصیب قرار دیا جائے.وہ دین دین نہیں ہے اور نہ وہ نبی نبی ہے جس کی متابعت سے انسان خدا تعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہوسکتا کہ مکالمات الہیہ سے مشرف ہو سکے.وہ دین لعنتی اور قابل نفرت ہے جو یہ سکھلاتا ہے کہ صرف چند منقولی باتوں پر انسانی ترقیات کا انحصار ہے اور وحی الہی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے اور خدائے حی و قیوم کی آواز سننے اور اس کے مکالمات سے قطعی نا امیدی ہے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۰۶)
۸۴۵ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے معنے صرف پیشگوئی کرنے والے کے ہیں جو خدا تعالیٰ سے الہام پا کر پیشگوئی کرے پس جبکہ قرآن شریف کی رو سے ایسی نبوت کا دروازہ بند نہیں ہے جو بتوسط فیض و اتباع آنحضرت علی کسی انسان کو خدا تعالیٰ سے شرف مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہو اور وہ بذریعہ وحی الہی کے مخفی امور پر اطلاع پاوے تو پھر ایسے نبی اس امت میں کیوں نہیں ہو نگے اس پر کیا دلیل ہے.ہمارا مذہب نہیں ہے کہ ایسی نبوت پر مہر لگ گئی ہے صرف اس نبوت کا دروازہ بند ہے جو احکام شریعت جدیدہ ساتھ رکھتی ہو یا ایسا دعویٰ ہو جو آنحضرت ﷺ کی اتباع سے الگ ہو کر دعوی کیا جائے لیکن ایسا شخص جو ایک طرف اس کو خدا تعالیٰ اس کی وحی میں امتی بھی قرار دیتا ہے پھر دوسری طرف اس کا نام نبی بھی رکھتا ہے یہ دعویٰ قرآن شریف کے احکام کے مخالف نہیں ہے کیونکہ یہ نبوت بباعث امتی ہونے کے دراصل آنحضرت معہ کی نبوت کا ایک ظل ہے کوئی مستقل نبوت نہیں ہے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۵۲،۳۵۱) یا درکھنا چاہئے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے.ہم جس قوت یقین معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی وہ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے.وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں.انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے اور اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں.وہ نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ؟ مگر ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرت ﷺ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں.دنیا کی مثالوں میں سے ہم ختم نبوت کی مثال اس طرح پر دے سکتے ہیں کہ جیسے چاند ہلال سے شروع ہوتا ہے اور چودھویں تاریخ پر آکر اس کا کمال ہو جاتا ہے جبکہ اسے بدر کہا جاتا ہے.اسی طرح پر آنحضرت ﷺ پر آ کر کمالات نبوت ختم ہو گئے.جو یہ مذہب رکھتے ہیں کہ نبوت زبر دستی ختم ہوگئی اور آنحضرت کو یونس بن متی پر بھی ترجیح نہیں دینی چاہئے.انہوں نے اس حقیقت کو سمجھا ہی نہیں اور آنحضرت ﷺ کے فضائل اور کمالات کا کوئی علم ہی ان کو نہیں ہے.باوجود اس کمزوری فہم اور کمی علم
۸۴۶ کے ہم کو کہتے ہیں کہ ہم ختم نبوت کے منکر ہیں.میں ایسے مریضوں کو کیا کہوں اور ان پر کیا افسوس کروں.الحکم مورخہ ۷ ار مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۴.ملفوظات جلد اول صفحه ۲۲۷، ۲۲۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ختم نبوت کے متعلق میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ خاتم النبیین کے بڑے معنے یہی ہیں کہ نبوت کے امور کو آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت علی پر ختم کیا.یہ تو موٹے اور ظاہر معنے ہیں.دوسرے یہ معنے ہیں کہ کمالات نبوت کا دائرہ آنحضرت عے پر ختم ہو گیا.یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ قرآن نے ناقص باتوں کا کمال کیا اور نبوت ختم ہو گئی اس لئے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کا مصداق اسلام ہو گیا.غرض یہ نشانات نبوت ہیں.ان کی کیفیت اور کنہ پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.اصول صاف اور روشن ہیں اور وہ ثابت شدہ صداقتیں کہلاتی ہیں.ان باتوں میں پڑنا مومن کو ضروری نہیں ایمان لانا ضروری ہے.اگر کوئی مخالف اعتراض کرے تو ہم اس کو روک سکتے ہیں.اگر وہ بند نہ ہو تو ہم اس کو کہہ سکتے ہیں کہ پہلے اپنے جزئی مسائل کا ثبوت دے.الغرض مہر نبوت آنحضرت علیہ کے نشان نبوت میں سے ایک نشان ہے جس پر ایمان لانا ہر مسلمان مومن کو ضروری ہے.الحکم مورخه ار جنوری ۱۸۹۹ صفحه ۹۰۸ - ملفوظات جلد اول صفحه ۱۸۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اس کی نظر محدود نہ تھی اور اس کی عام غمخواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی اس لئے قدرت کی تجلیات کا پورا اور کامل حصہ اس کو ملا اور وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کی اُمت کیلئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کیلئے امتی ہونا لازمی ہے اور اس کی ہمت اور ہمدردی نے امت کو ناقص حالت پر چھوڑ نا نہیں چاہا اور ان پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا.ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کیلئے یہ چاہا کہ فیض وحی آپ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص امتی نہ ہو اس پر وحی الہی کا دروازہ بند ہو.سو خدا نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھیرایا.لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا اُمتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہوسکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت المآئدة:
۸۴۷ آنحضرت ﷺ پر ختم ہوگئی ہے مگر ظلی نبوت جس کے معنے ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت عے کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفت الہیہ جو مدار نجات ہے مفقود نہ ہو جائے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰،۲۹) اس جگہ یہ سوال طبعا ہو سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی اُمت میں بہت سے نبی گزرے ہیں پس اس حالت میں موسیٰ کا افضل ہونا لازم آتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ جس قدر نبی گزرے ہیں ان سب کو خدا نے براہ راست چن لیا تھا.حضرت موسیٰ کا اس میں کچھ بھی دخل نہیں تھا لیکن اس اُمت میں آنحضرت عمے کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیا ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی.اس کثرت فیضان کی کسی نبی میں نظیر نہیں مل سکتی.اسرائیلی نبیوں کو الگ کر کے باقی تمام لوگ اکثر موسوی امت میں ناقص پائے جاتے ہیں.رہے انبیاء سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے حضرت موسیٰ سے کچھ نہیں پایا بلکہ وہ براہ راست نبی کئے گئے مگر اُمت محمدیہ میں سے ہزار ہا لوگ محض پیروی کی وجہ سے ولی کئے گئے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰ حاشیہ ) مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب جب قادیان میں آئے تو صرف ان کو یہی فائدہ نہ ہوا کہ انہوں نے مفصل طور پر میرے دعوے کے دلائل سنے بلکہ ان چند مہینوں کے عرصہ میں جو وہ قادیان میں میرے پاس رہے اور ایک سفر جہلم تک بھی میرے ساتھ کیا بعض آسمانی نشان بھی میری تائید میں انہوں نے مشاہدہ کئے.ان تمام براہین اور انوار اور خوارق کے دیکھنے کی وجہ سے وہ فوق العادت یقین سے بھر گئے اور طاقت بالا ان کو کھینچ کر لے گئی.میں نے ایک موقعہ پر ایک اعتراض کا جواب بھی ان کو سمجھایا تھا جس سے وہ بہت خوش ہوئے تھے اور وہ یہ کہ جس حالت میں آنحضرت علیے مثیل موسی ہیں اور آپ کے خلفاء مثیل انبیاء بنی اسرائیل ہیں تو پھر کیا وجہ کہ مسیح موعود کا نام احادیث میں نبی کر کے پکارا گیا ہے مگر دوسرے تمام خلفاء کو یہ نام نہیں دیا گیا سو میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ جبکہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تھا.اس لئے اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امرختم نبوت مشتبہ ہو جاتا.اور اگر کسی ایک فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتا کیونکہ موسیٰ کے خلفاء نبی ہیں.اس لئے حکمت الہی نے یہ تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو بر عایت ختم نبوت بھیجا جائے اور ان کا نام نبی نہ رکھا جائے اور یہ مرتبان کو نہ دیا جائے تاختم نبوت پر یہ
۸۴۸ نشان ہو.پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود کو نبی کے نام سے پکارا جائے تا خلافت کے امر میں دونوں سلسلوں کی مشابہت ثابت ہو جائے اور ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ مسیح موعود کی نبوت ظلمی طور پر ہے کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز کامل ہونے کی وجہ سے نفس نبی سے مستفیض ہو کر نبی کہلانے کا مستحق ہو گیا ہے جیسا کہ ایک وحی میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ یا اَحْمَدُ جُعِلْتَ مُرْسَلًا.اے احمد تو مرسل بنایا گیا.یعنی جیسے کہ تو بروزی رنگ میں احمد کے نام کا مستحق ہوا.حالانکہ تیرا نام غلام احمد تھا سواسی طرح بروز کے رنگ میں نبی کے نام کا مستحق ہے کیونکہ احمد نبی ہے.نبوت اس سے منفک نہیں ہوسکتی.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۶،۴۵) وان قال قائل كيف يكون نبى من هذه الامة وقد ختم الله على النبوة.فالجواب انّه عزّ و جلّ ما سمى هذا الرجل نبيًّا الا لاثبات كمال نبوّة سيدنا خير البريّة.فان ثبوت كمال النبى لا يتحقق الا بثبوت كمال الامة و من دون ذالک ادعاء محض لا دليل عليه عند اهل الفطنة.ولا معنى لختم النبوّة على فرد من غير ان تختتم كـمـالات الـنبـوة على ذالك الفرد.ومن الكمالات العظمي كمال النبي في الافاضة وهو لا يثبت من غير نموذج يوجد فى الامة.ثم مع ذالك ذكرت غير مرّةٍ ان الله ما اراد من نبوّتى الاكثرة المكالمة والمخاطبة و هو مسلّم عند اكابر اهل السنة.فالنزاع ليس الا نزاعًا لفظيًّا فلا تستعجلوا يا اهل العقل والفطنة و لعنة الله على من ادعى خلاف ذالک مثقال ذرّةٍ و معها لعنة الناس والملئكة ( الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۳۷ حاشیه ) لے اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ اس اُمت میں سے کوئی نبی کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اللہ نے نبوت پر مہر لگا دی ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ اللہ عز وجل نے اس شخص کا نام نبی صرف اور صرف اس لئے رکھا تا کہ وہ ہمارے سید ومولیٰ خیر الوریٰ علیہ کی نبوت کے کمال کو ثابت کرے کیونکہ آنحضرت عمﷺ کی نبوت کا کمال امت کے کمال کے ثبوت کے بغیر متحقق نہیں ہوتا.اس کے بغیر یہ محض دعویٰ ہے جس پر اہل عقل کے نزدیک کوئی دلیل نہیں.کسی فرد پر نبوت کے ختم ہونے کے اس کے سوا کوئی معنی نہیں کہ اس فرد پر نبوت کے کمالات اپنی انتہا کو پہنچیں اور نبی کا فیض رسانی کا کمال نبوت سے عظیم کمالات میں سے ہے اور یہ کمال امت میں موجود نمونے کے بغیر ثابت نہیں ہوسکتا اور اس کے ساتھ ساتھ میں نے بار بار ذکر کیا ہے کہ میری نبوت سے اللہ کی مراد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ ہے (اس کے سوا کچھ نہیں) اور یہ اہل سنت کے اکابرین کے ہاں مسلم ہے.پس یہ نزاع محض لفظی نزاع ہے.لہذا اے اہل عقل و دانش ! جلد بازی سے کام نہ لواور اللہ کی لعنت ہو اس پر جو ذرہ بھر اس کے خلاف دعوی کرے اور اس کے ساتھ تمام لوگوں اور فرشتوں کی لعنت بھی ہو.
۸۴۹ یہ وحی الہی کہ خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آ گیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت علی کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمتی ہے اور ایک پہلو سے نبی.کیونکہ اللہ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا.یعنی آپ کو افاضہ کمال کیلئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے.اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانَبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيل یعنی میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہو نگے اور بنی اسرائیل میں اگر چہ بہت نبی آئے مگر ان کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں.حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرہ کچھ دخل نہ تھا.اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست ان کو منصب نبوت ملا اور ان کو چھوڑ کر جب اور بنی اسرائیل کا حال دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں کو رشد اور صلاح اور تقویٰ سے بہت ہی کم حصہ ملا تھا اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کی اُمت اولیاء اللہ کے وجود سے عموماً محروم رہی تھی اور کوئی شاذ و نادران میں ہوا تو وہ حکم معدوم کا رکھتا ہے بلکہ اکثر ان میں سرکش، فاسق ، فاجر ، دنیا پرست ہوتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی نسبت حضرت موسیٰ یا حضرت عیسی کی قوت تاثیر کا توریت اور انجیل میں اشارہ تک نہیں ہے.توریت میں جابجا حضرت موسیٰ کے صحابہ کا نام ایک سرکش اور سخت دل اور مرتکب معاصی اور مفسد قوم لکھا ہے جن کی نافرمانیوں کی نسبت قرآن شریف میں بھی یہ بیان ہے کہ ایک لڑائی کے موقع کے وقت میں انہوں نے حضرت موسیٰ کو یہ جواب دیا تھا کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ إِنَّا هُهُنَا قَعِدُونَ ہے یعنی تو اور تیرا رب دونوں جا کر دشمنوں سے لڑائی کرو ہم تو اسی جگہ بیٹھیں گے.یہ حال تھا ان کی فرمانبرداری کا.مگر آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے دلوں میں وہ جوش عشق الہی پیدا ہوا اور توجہ قدسی آنحضرت علیہ کی وہ تاثیر ان کے دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں بھیٹروں اور بکریوں کی طرح سر کٹائے.کیا کوئی پہلی امت میں ہمیں دکھا سکتا ہے یا نشان دے سکتا ہے کہ انہوں نے بھی صدق اور صفا دکھلایا.یہ تو حضرت موسیٰ کے صحابہ کا حال تھا.اب حضرت مسیح کے المآئدة: ۲۵
۸۵۰ صحابہ کا حال سنو کہ ایک نے تو جس کا نام یہودا اسکر یوطی تھا میں روپے لے کر حضرت مسیح کو گرفتار کرا دیا.اور پطرس حواری جس کو بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں اس نے حضرت مسیح کے رو بروان پر لعنت بھیجی اور باقی جس قدر حواری تھے وہ مصیبت کا وقت دیکھ کر بھاگ گئے اور ایک نے بھی استقامت نہ دکھلائی اور ثابت قدم نہ رہے اور بزدلی ان پر غالب آ گئی اور ہمارے نبی ﷺ کے صحابہ نے تلواروں کے سایہ کے نیچے وہ استقامتیں دکھلائیں اور اس طرح مرنے پر راضی ہوئے جن کی سوانح پڑھنے سے رونا آتا ہے.پس وہ کیا چیز تھی جس نے ایسی عاشقانہ روح ان میں پھونک دی.اور وہ کون سا ہاتھ تھا جس نے ان میں اس قدر تبدیلی پیدا کر دی.یا تو جاہلیت کے زمانہ میں وہ حالت ان کی تھی کہ وہ دنیا کے کیڑے تھے اور کوئی معصیت اور ظلم کی قسم نہیں تھی جو ان سے ظہور میں نہیں آئی تھی.اور یا اس نبی کی پیروی کے بعد ایسے خدا کی طرف کھینچے گئے کہ گویا خدا ان کے اندر سکونت پذیر ہو گیا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وہی توجہ اس پاک نبی کی تھی جو ان لوگوں کو سفلی زندگی سے ایک پاک زندگی کی طرف کھینچ کر لے آئی اور جو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اس کا سبب تلوار نہیں تھی بلکہ وہ اس تیرہ سال کی آہ وزاری اور دعا اور تضرع کا اثر تھا جو مکہ میں آنحضرت عمیل کرتے رہے اور مکہ کی زمین بول اٹھی کہ میں اس مبارک قدم کے نیچے ہوں جس کے دل نے اس قدر توحید کا شور ڈالا جو آسمان اس کی آہ و زاری سے بھر گیا.خدا بے نیاز ہے اس کو کسی ہدایت یا ضلالت کی پرواہ نہیں.پس یہ نور ہدایت جو خارق عادت طور پر عرب کے جزیرہ میں ظہور میں آیا اور پھر دنیا میں پھیل گیا یہ آنحضرت عمﷺ کی دلی سوزش کی تاثیر تھی.ہر ایک قوم توحید سے دور اور مجبور ہو گئی مگر اسلام میں چشمہ توحید جاری رہا.یہ تمام برکتیں آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنینَ ہے یعنی کیا تو اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دیگا جو یہ لوگ ایمان نہیں لاتے.پس پہلے نبیوں کی اُمت میں جو اس درجہ کی صلاح و تقویٰ پیدا نہ ہوئی اس کی یہی وجہ تھی کہ اس درجہ کی توجہ اور دلسوزی اُمت کیلئے ان نبیوں میں نہیں تھی.افسوس کہ حال کے نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی مکرم کا کچھ قدر نہیں کیا اور ہر ایک بات میں ٹھوکر کھائی.وہ ختم نبوت کے ایسے معنے کرتے ہیں جس سے آنحضرت ﷺ کی ہجو نکلتی ہے نہ تعریف.گویا آنحضرت علی اللہ کے نفس پاک میں افاضہ اور تکمیل نفوس کیلئے کوئی قوت نہ تھی اور وہ صرف خشک شریعت کو سکھلانے آئے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس اُمت کو یہ دعا ل الشعراء: الفاتحة: ٦، المؤمنون: ۵۱
۸۵۱ سکھلاتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ا پس اگر یہ امت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے ان کو کچھ حصہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی.افسوس کہ تعصب اور نادانی کے جوش سے کوئی اس آیت میں غور نہیں کرتا.بڑا شوق رکھتے ہیں کہ حضرت عیسے آسمان سے نازل ہوں مگر خدا کا کلام قرآن شریف گواہی دیتا ہے کہ وہ مرگیا اور اس کی قبر سری نگر کشمیر میں ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ و مَحِيْنِ " یعنی ہم نے عیسی اور اس کی ماں کو یہودیوں کے ہاتھ سے بچا کر ایک ایسے پہاڑ میں پہنچا دیا جو آرام اور خوشحالی کی جگہ تھی اور مصفی پانی کے چشمے اس میں جاری تھے سو وہی کشمیر ہے.اسی وجہ سے حضرت مریم کی قبر زمین شام میں کسی کو معلوم نہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بھی حضرت عیسی کی طرح مفقود ہے.یہ کس قدر ظلم ہے جو نادان مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت مکالمه مخاطبہ الہیہ سے بے نصیب ہے اور خود حدیثیں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں اسرائیلی نبیوں کے مشابہ لوگ پیدا ہونگے اور ایک ایسا ہوگا کہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے امتی.وہی مسیح موعود کہلائے گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۹ تا ۱۰۴ حاشیه ) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اسلام ایسے بدیہی طور پر سچا ہے کہ اگر تمام کفار روئے زمین دعا کرنے کیلئے ایک طرف کھڑے ہوں اور ایک طرف صرف میں اکیلا اپنے خدا کے جناب میں کسی امر کیلئے رجوع کروں تو خدا میری ہی تائید کرے گا مگر نہ اس لئے کہ سب سے میں ہی بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے.مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہر ہے اور اسی سے فیض یاب ہے.خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی پیروی نہیں کرتا بلکہ آپ کچھ بنا چاہتا ہے.مگر خدا اس شخص سے پیار کرتا ہے جو اس کی کتاب قرآن شریف کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اس کے رسول حضرت محمد علی کو در حقیقت خاتم الانبیاء سمجھتا ہے اور اس کے فیض کا اپنے تئیں محتاج جانتا ہے.پس ایسا شخص خدا تعالیٰ کی جناب میں الفاتحة ، المؤمنون: ۵۱
۸۵۲ پیارا ہو جاتا ہے اور خدا کا پیار یہ ہے کہ اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کرتا ہے اور اس کی حمایت میں اپنے نشان ظاہر کرتا ہے.اور جب اس کی پیروی کمال کو پہنچتی ہے تو ایک ظلمی نبوت اس کو عطا کرتا ہے جو نبوت محمدیہ کا حل ہے.یہ اس لئے کہ تا اسلام ایسے لوگوں کے وجود سے تازہ رہے اور تا اسلام ہمیشہ مخالفوں پر غالب رہے.نادان آدمی جو دراصل دشمن دین ہے اس بات کو نہیں چاہتا کہ اسلام میں سلسلہ مکالمات مخاطبات الہیہ کا جاری رہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اسلام بھی اور مردہ مذہبوں کی طرح ایک مردہ مذہب ہو جائے مگر خدا نہیں چاہتا.نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صد ہا مرتبہ استعمال کیا ہے مگر اس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبات الہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں اس سے بڑھ کر کچھ نہیں.ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے.لِكُلِّ اَنْ يُصْطَلِحَ سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں.اور لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرت ﷺ کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے.مگر یہ نبوت آنحضرت علی کی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت.اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پر ظاہر کی جائے اور آنحضرت ﷺ کی سچائی دکھلائی جائے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۹ تا ۳۴۱) ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيَّن لے اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت عے کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے.نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنا فی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے.اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے ، اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو.پس یہ آیت کہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ الاحزاب: ام
۸۵۳ اس کے معنے یہ ہیں کہ ليْسَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِ الدُّنْيَا وَ لَكِنْ هُوَ ابٌ لِرِجَالِ الْآخِرَةِ لِأَنَّهُ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَلَا سَبِيلَ إلى فَيُوضِ اللَّهِ مِنْ غَيْرِ تَوَسُّطه.غرض میری نبوت اور رسالت با اعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت فنافی الرسول مجھے ملا ہے لہذا خاتم النبیین کے مفہوم میں فرق نہ آیا لیکن عیسی کے اترنے سے ضرور فرق آئے گا اور یہ بھی یادر ہے کہ نبی کے معنے لغت کی رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیب مصفی کی خبر اس کو مل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رسُول ا اب اگر آنحضرت علی کے بعد ان معنوں کے رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات ومخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہونگے بالضرور اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اسی کو ہم رسول کہیں گے.فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا نبی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجناب اور ایسی فنا فی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمد اور احمد رکھا جائے یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے.وَمَنْ اِدْعَى فَقَدْ كَفَرَ اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغائرت باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہوگا جو خاتم النبیین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین میں ایسا گم ہو کہ باعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا کیونکہ وہ محمد ہے گوظلی طور پر.پس با وجود اس شخص کے دعوی نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا.پھر بھی سید نا محمد خاتم النبین ہی رہا کیونکہ یہ محمد ثانی اسی محمد علیہ کی تصویر اور اسی کا نام ہے مگر عیسی بغیر مہر توڑنے کے آ نہیں سکتا کیونکہ اس کی نبوت ایک الگ نبوت ہے اور اگر بروزی معنوں کے رو سے بھی کوئی شخص نبی اور رسول نہیں ہوسکتا تو پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے سویا د رکھنا چاہئے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوت اور رسالت الجن: ۲۸،۲۷ الفاتحة: ٧،٦
۸۵۴ سے انکار نہیں ہے اس لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا.اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے؟ اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں ہے.مگر نبوت کے معنے اظہار امر غیب ہے اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے.یعنی عبرانی میں اس لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنے ہیں خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا.اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں.ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۷ تا ۲۱۰) تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے اور تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جو پہلے گزر چکیں ان کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی.کیونکہ نبوت محمد یہ ان سب پر مشتمل اور حاوی ہے اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں.تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اسی کے اندر ہیں.نہ اس کے بعد کوئی نئی سچائی آئے گی اور نہ اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں.اس لئے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے.اور ہونا چاہئے تھا.کیونکہ جس چیز کیلئے ایک آغاز ہے اس کے لئے ایک انجام بھی ہے لیکن یہ نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے.اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا مگر اس کا کامل پیر وصرف نبی نہیں کہلا سکتا کیونکہ نبوت کا ملہ تامہ محمدیہ کی اس میں ہتک ہے.ہاں اُمتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اس پر صادق آ سکتے ہیں.کیونکہ اس میں نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کی ہتک نہیں بلکہ اس نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ تر ظاہر ہوتی ہے اور جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پرمشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے.پس یہ ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایا گیا کہ كُنْتُمُ خَيْرَ اُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ لِے اور جن کیلئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اِهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یے ان کے تمام افراد اس مرتبہ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا.اور ال عمران: ااا الفاتحة : ٧،٦
۸۵۵ ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ امت محمدیہ ناقص اور نا تمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کی طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ آنحضرت علیہ کی قوت فیضان پر داغ لگتا تھا اور آپ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہر تی تھی.اور ساتھ اس کے وہ دعا جس کا پانچ وقت نماز میں پڑھنا تعلیم کیا گیا تھا اس کا سکھلانا بھی عبث ٹھہرتا تھا.مگر اس کے دوسری طرف یہ خرابی بھی تھی کہ اگر یہ کمال کسی فردامت کو براہ راست بغیر پیروی نور نبوت محمدیہ کے مل سکتا تو ختم نبوت کے معنے باطل ہوتے تھے.پس ان دونوں خرابیوں سے محفوظ رکھنے کیلئے خدا تعالیٰ نے مکالمہ مخاطبہ کاملہ تامہ مطہرہ مقدسہ کا شرف ایسے بعض افراد کو عطا کیا جو فنا فی الرسول کی حالت تک اتم درجہ تک پہنچ گئے اور کوئی حجاب درمیان نہ رہا اور امتی ہونے کا مفہوم اور پیروی کے معنے اتم اور اکمل درجہ پر ان میں پائے گئے.ایسے طور پر کہ ان کا وجود اپنا وجود نہ رہا بلکہ ان کے محویت کے آئینہ میں آنحضرت ﷺ کا وجود منعکس ہو گیا اور دوسری طرف اتم اور اکمل طور پر مکالمہ مخاطبہ الہیہ نبیوں کی طرح ان کو نصیب ہوا.پس اس طرح پر بعض افراد نے باوجود اُمتی ہونے کے نبی ہونے کا خطاب پایا کیونکہ ایسی صورت کی نبوت نبوت محمدیہ سے الگ نہیں بلکہ اگر غور سے دیکھو تو خود وہ نبوت محمد یہ ہی ہے جو ایک پیرا یہ جدید میں جلوہ گر ہوئی.یہی معنے اس فقرہ کے ہیں جو آنحضرت علی ہے نے مسیح موعود کے حق میں فرمایا کہ نَبِيُّ اللهِ وَ اِمَامُكُمُ مِنكُم یعنی وہ نبی بھی ہے اور امتی بھی ہے.ورنہ غیر کو اس جگہ قدم رکھنے کی جگہ نہیں.مبارک وہ جو اس نکتہ کو سمجھے تا ہلاک ہونے سے بچ جائے.رسالہ الوصیت - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۲۳۱۱) عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد علیہ اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے.اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمدیت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی پیچ سے جدا ہے.پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہوا اگر چہ بظاہر دونظر آتے ہیں.صرف ظل اور اصل کا فرق ہے.سو ایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا.یہی بھید ہے کہ آنحضرت علیہ فرماتے ہیں که مسیح موعود میری قبر میں دفن ہو گا یعنی وہ میں ہی ہوں اور اس میں دورنگی نہیں آئی.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۶،۱۵) اس نکتہ کو یا د رکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعوئی اور نئے نام
۸۵۶ کے.اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیت کاملہ کے.میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے.اگر میں کوئی علیحدہ شخص نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہوتا تو خدا تعالیٰ میرا نام محمد اور احمد اور مصطفیٰ اور مجتبی نہ رکھتا اور نہ خاتم الانبیاء کی طرح خاتم الاولیاء کا مجھ کو خطاب دیا جاتا بلکہ میں کسی علیحدہ نام سے آتا.لیکن خدا تعالیٰ نے ہر ایک بات میں وجود محمدی میں مجھے داخل کر دیا یہاں تک کہ یہ بھی نہ چاہا کہ یہ کہا جائے کہ میرا کوئی الگ نام ہو یا کوئی الگ قبر ہو کیونکہ ظل اپنے اصل سے الگ ہو ہی نہیں سکتا اور ایسا کیوں کہا گیا ؟ اس میں راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آنحضرت علیہ کو اس نے خاتم الانبیاء پھہرایا ہے اور پھر دونوں سلسلوں کا تقابل پورا کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ موسوی مسیح کے مقابل پر محمدی مسیح بھی شان نبوت کے ساتھ آوے تا اس نبوت عالیہ کی کسرشان نہ ہو.اس لئے خدا تعالیٰ نے میرے وجود کو ایک کامل ظلیت کے ساتھ پیدا کیا اور ظلی طور پر نبوت محمدی اس میں رکھ دی تا ایک معنے سے مجھ پر نبی اللہ کا لفظ صادق آوے اور دوسرے معنوں سے ختم نبوت محفوظ رہے.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحه ۳۸۲٬۳۸۱ حاشیه ) جاہل، لوگوں کو بھڑ کانے کیلئے کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.حالانکہ یہ ان کا سراسر افتراء ہے بلکہ جس نبوت کا دعوی کرنا قرآن شریف کے رو سے منع معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا.صرف یہ دعوی ہے کہ ایک پہلو سے میں اُمتی ہوں اور ایک پہلو سے میں آنحضرت اللہ کے فیض نبوت کی وجہ سے نبی ہوں اور نبی سے مراد صرف اس قدر ہے کہ خدا تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ و مخاطبہ پاتا ہوں.بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگر چہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ ومخاطبہ الہیہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے.اب واضح ہو کہ احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسی اور ابن مریم کہلائے گا اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا یعنی اس کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف اس کو حاصل ہوگا اور اس کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہونگے کہ بجز نبی کے کسی پر ظاہر نہیں ہو سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ ہے یعنی خدا اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں بخشتا جو کثرت الجن: ۲۸،۲۷
۸۵۷ اور صفائی سے حاصل ہو سکتا ہے بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو.اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی.اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے.غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کیلئے میں ہی مخصوص کیا گیا.اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں.کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے.اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۶ ، ۴۰۷) معترض صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی ہے اور پھر اعتراض کیا ہے کہ جبکہ دین کمال کو پہنچ چکا ہے اور نعمت پوری ہو چکی تو پھر نہ کسی مجدد کی ضرورت ہے نہ کسی نبی کی.مگر افسوس کہ معترض نے ایسا خیال کر کے خود قرآن کریم پر اعتراض کیا ہے.کیونکہ قرآن کریم نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے.جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے وقتوں میں دین استحکام پکڑے گا اور تزلزل اور تذبذب دور ہوگا اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا.پھر اگر تکمیل دین کے بعد کوئی بھی کارروائی درست نہیں تو بقول معترض کے جو تمہیں سال کی خلافت ہے وہ بھی باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ جب دین کامل ہو چکا تو پھر کسی دوسرے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ معترض بے خبر نے ناحق آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کو پیش کر دیا.ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آ کر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کیلئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں.نہ معلوم کہ بے چارہ معترض نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ مجد داور روحانی خلیفے دنیا میں آکر دین کی کچھ ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں.نہیں وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں اور معترض کا یہ خیال کہ ان کی ل المآئدة:
۸۵۸ ضرورت ہی کیا ہے صرف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ معترض کو اپنے دین کی پروا نہیں.اور کبھی اس نے غور نہیں کی کہ اسلام کیا چیز ہے اور اسلام کی ترقی کس کو کہتے ہیں.اور حقیقی ترقی کیونکر اور کن راہوں سے ہوسکتی ہے اور کس حالت میں کسی کو کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی طور پر مسلمان ہے.یہی وجہ ہے کہ معترض صاحب اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ قرآن موجود ہے اور علماء موجود ہیں اور خود بخو دا کثر لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف حرکت ہے پھر کسی مجدد کی کیا ضرورت ہے.لیکن افسوس کہ معترض کو یہ سمجھ نہیں کہ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس اُمت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیا کی ضرورت پیش آتی رہی ہے.اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی مرسل تھے اور ان کی توریت بنی اسرائیل کی تعلیم کے لئے کامل تھی اور جس طرح قرآن کریم میں آیت اليَوم اَكْمَلْتُ لَكُمْ ہے اس طرح تو ریت میں بھی آیات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک کامل اور جلالی کتاب دی گئی ہے جس کا نام تو ریت ہے.چنانچہ قرآن کریم میں بھی توریت کی یہی تعریف ہے لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم تو ریت سے دور پڑ گئے ہوں پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں اور جن کے دلوں میں کچھ شکوک اور دہریت اور بے ایمانی ہوگئی ہو ان کو پھر زندہ ایمان بخشیں چنانچہ اللہ جل شانہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے تا توریت کی تعلیم کی تائید اور تصدیق کریں.اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے.ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کے لئے ضرور انبیاء بھیجا کرتا ہے.چنانچہ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آیا جن کے آنے پر اب تک بائبل شہادت دے رہی ہے.اس کثرت ارسال رسل میں اصل بھید یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عہد مؤکد ہو چکا ہے کہ جو اس کی سچی کتاب کا انکار کرے تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِايْتِنَا أُولبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ کے یعنی جو لوگ کافر ہوئے اور البقرة: ٨٨ المؤمنون: ۴۵ ۳ البقرة: ۴۰
۸۵۹ ہماری آیتوں کی تکذیب کی وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے.اب جبکہ سزائے انکار کتاب الہی میں ایسی سخت تھی اور دوسری طرف یہ مسئلہ نبوت اور وحی الہی کا نہایت دقیق تھا بلکہ خود خدا تعالیٰ کا وجود بھی ایسا دقیق در دقیق تھا کہ جب تک انسان کی آنکھ خدا دا دنور سے منور نہ ہو ہرگز ممکن نہ تھا کہ سچی اور پاک معرفت اس کی حاصل ہو سکے چہ جائیکہ اس کے رسولوں کی معرفت اور اس کی کتاب کی معرفت حاصل ہو.اس لئے رحمانیت الہی نے تقاضا کیا کہ اندھی اور نابینا مخلوق کی بہت ہی مدد کی جائے اور صرف اس پر اکتفا نہ کیا جائے کہ ایک مرتبہ رسول اور کتاب بھیج کر پھر باوجود امتداد از منہ طویلہ کے ان عقائد کے انکار کی وجہ سے جن کو بعد میں آنے والے زیادہ اس سے سمجھ نہیں سکتے کہ وہ ایک پاک اور عمدہ منقولات ہیں ہمیشہ کی جہنم میں منکروں کو ڈال دیا جائے.اور در حقیقت سوچنے والے کیلئے یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ وہ خدا جس کا نام رحمن اور رحیم ہے اتنی بڑی سزا دینے کیلئے کیونکر یہ قانون اختیار کر سکتا ہے کہ بغیر پورے طور پر اتمام حجت کے مختلف بلاد کے ایسے لوگوں کو جنہوں نے صدہا برسوں کے بعد قرآن اور رسول کا نام سنا اور پھر وہ عربی سمجھ نہیں سکتے.قرآن کی خوبیوں کو دیکھ نہیں سکتے دائی جہنم میں ڈال دے اور کس انسان کی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بغیر اس کے کہ قرآن کریم کا منجانب اللہ ہونا اس پر ثابت کیا جائے یونہی اس پر چھری پھیر دی جائے.پس یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دائی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ ظلمی طور پر انوار نبوت پا کر دنیا کو ملزم کریں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی پاک برکات لوگوں کو دکھلا دیں.یہ بھی یادر ہے کہ ہر یک زمانہ کیلئے اتمام حجت بھی مختلف رنگوں سے ہوا کرتا ہے اور مجدد وقت ان قوتوں اور ملکوں اور کمالات کے ساتھ آتا ہے جو موجودہ مفاسد کا اصلاح پانا ان کمالات پر موقوف ہوتا ہے.سو ہمیشہ خدا تعالیٰ اسی طرح کرتا رہے گا جب تک کہ اس کو منظور ہے کہ آثار رشد اور اصلاح کے دنیا میں باقی رہیں.اور یہ باتیں بے ثبوت نہیں بلکہ نظائر متواترہ اس کے شاہد ہیں اور مختلف بلاد کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو چھوڑ کر اگر صرف بنی اسرائیل کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں پر ہی نظر ڈالی جائے تو ان کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چودہ سو برس کے عرصہ میں یعنی حضرت موسیٰ سے حضرت مسیح تک ہزار ہا نبی اور محدث ان میں پیدا ہوئے جو خادموں کی طرح کمر بستہ ہو کر تو ریت کی خدمت میں مصروف رہے.چنانچہ ان تمام بیانات پر قرآن شاہد ہے اور بائیبل شہادت دے رہی ہے.اور وہ نبی کوئی نئی کتاب نہیں لاتے تھے کوئی نیا دین نہیں سکھاتے تھے صرف توریت کے خادم تھے.اور جب بنی اسرائیل میں دہریت
۸۶۰ اور بے ایمانی اور بد چلنی اور سنگدلی پھیل جاتی تھی تو ایسے وقتوں میں وہ ظہور کرتے تھے.اب کوئی سوچنے والا سوچے کہ جس حالت میں موسیٰ کی ایک محدود شریعت کے لئے جو زمین کی تمام قوموں کے لئے نہیں تھی اور نہ قیامت تک اس کا دامن پھیلا ہوا تھا خدا تعالیٰ نے یہ احتیاطیں کیں کہ ہزار ہانبی اس شریعت کی تجدید کیلئے بھیجے اور بارہا آنے والے نبیوں نے ایسے نشان دکھلائے کہ گویا بنی اسرائیل نے نئے سرے خدا کو دیکھ لیا تو پھر یہ اُمت جو خیر الامم کہلاتی ہے اور خیر الرسل عمل کے دامن سے لٹک رہی ہے کیونکر ایسی بدقسمت مجھی جائے کہ خدا تعالیٰ نے صرف تیں برس اس کی طرف نظر رحمت کر کے اور آسمانی انوار دکھلا کر پھر اس سے منہ پھیر لیا.اور پھر اس اُمت پر اپنے نبی کریم کی مفارقت میں صد ہا برس گزرے اور ہزار ہا طور کے فتنے پڑے اور بڑے بڑے زلزلے آئے اور انواع اقسام کی دجالیت پھیلی اور ایک جہان نے دین متین پر حملے کئے اور تمام برکات و معجزات سے انکار کیا گیا اور مقبول کو نا مقبول ٹھہرایا گیا.لیکن خدا تعالیٰ نے پھر کبھی نظر اٹھا کر اس امت کی طرف نہ دیکھا اور اس کو کبھی اس امت پر رحم نہ آیا اور کبھی اس کو یہ خیال نہ آیا کہ یہ لوگ بھی تو بنی اسرائیل کی طرح انسان ضعیف البنیان ہیں اور یہودیوں کی طرح ان کے پودے بھی آسمانی آبپاشی کے ہمیشہ محتاج ہیں.کیا اس کریم خدا سے ایسا ہوسکتا ہے جس نے اس نبی کریم ﷺ کو ہمیشہ کے مفاسد کے دور کرنے کے لئے بھیجا تھا.کیا ہم یہ گمان کر سکتے ہیں کہ پہلی اُمتوں پر تو خدا تعالیٰ کا رحم تھا اس لئے اس نے توریت کو بھیج کر پھر ہزار ہا رسول اور محدث توریت کی تائید کیلئے اور دلوں کو بار بار زندہ کرنے کیلئے بھیجے.لیکن یہ امت مورد غضب تھی اس لئے اس نے قرآن کریم کو نازل کر کے ان سب باتوں کو بھلا دیا اور ہمیشہ کیلئے علماء کو ان کی عقل اور اجتہاد پر چھوڑ دیا.اور حضرت موسیٰ کی نسبت تو صاف فرمایا.وَكَلَّمَ اللهُ مُوسَى تَكْلِيمًا رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا لا یعنی خدا موسیٰ سے ہمکلام ہوا اور اس کی تائید اور تصدیق کے لئے رسول بھیجے جو مبشر اور منذر تھے تا کہ لوگوں کے لئے کوئی حجت باقی نہ رہے اور نبیوں کا مسلسل گروہ دیکھ کر توریت پر دلی صدق سے ایمان لاویں.اور فرمایا.وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ا یعنی ہم نے بہت سے رسول بھیجے اور بعض کا تو ہم نے ذکر کیا اور بعض کا ذکر بھی نہیں کیا.لیکن دین اسلام کے طالبوں کے لئے وہ انتظام نہ کیا.گویا جو رحمت اور عنایت باری حضرت موسیٰ کی قوم پر تھی وہ اس امت پر نہیں ل النساء : ۱۶۶،۱۶۵ النساء: ۱۶۵
۸۶۱ ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ ہمیشہ امتداد زمانہ کے بعد پہلے معجزات اور کرامات قصہ کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور پھر آنے والی نسلیں اپنے گروہ کو ہر یک امر خارق عادت سے بے بہرہ دیکھ کر آخر گزشتہ مجزات کی نسبت شک پیدا کرتی ہیں.پھر جس حالت میں بنی اسرائیل کے ہزار ہا انبیا کا نمونہ آنکھوں کے سامنے ہے تو اس سے اور بھی بے دلی اس امت کو پیدا ہوگی اور اپنے تئیں بدقسمت پا کر بنی اسرائیل کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں گے یا بد خیالات میں گرفتار ہو کر ان کے قصوں کو بھی صرف افسانجات خیال کرینگے.اور یہ قول کہ پہلے اس سے ہزار ہا انبیا ہو چکے اور معجزات بھی بکثرت ہوئے اس لئے اس امت کو خوارق اور کرامات اور برکات کی کچھ ضرورت نہیں تھی لہذا خدا تعالیٰ نے ان کو سب باتوں سے محروم رکھا یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں جنہیں وہ لوگ منہ پر لاتے ہیں جن کو ایمان کی کچھ بھی پروا نہیں.ورنہ انسان نہایت ضعیف اور ہمیشہ تقویت ایمان کا محتاج ہے اور اس راہ میں اپنے خود ساختہ دلائل کبھی کام نہیں آ سکتے جب تک تازہ طور پر معلوم نہ ہو کہ خدا موجود ہے.ہاں جھوٹا ایمان جو بدکاریوں کو روک نہیں سکتا نفلی اور عقلی طور پر قائم رہ سکتا ہے.اور اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ دین کی تعمیل اس بات کو مستلزم نہیں جو اس کی مناسب حفاظت سے بکلی دست بردار ہو جائے.مثلاً اگر کوئی گھر بناوے اور اس کے تمام کمرے سلیقہ سے تیار کرے اور اس کی تمام ضرورتیں جو عمارت کے متعلق ہیں باحسن وجہ پوری کر دیوے اور پھر مدت کے بعد اندھیریاں چلیں اور بارشیں ہوں اور اس گھر کے نقش و نگار پر گردوغبار بیٹھ جاوے اور اس کی خوبصورتی چھپ جاوے اور پھر اس کا کوئی وارث اس گھر کو صاف اور سفید کرنا چاہے مگر اس کو منع کر دیا جاوے کہ گھر تو مکمل ہو چکا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ منع کرنا سراسر حماقت ہے.افسوس کہ ایسے اعتراضات کرنے والے نہیں سوچتے کہ تکمیل شے دیگر ہے اور وقتا فوقتا ایک مکمل عمارت کی صفائی کرنا یہ اور بات ہے.یہ یاد رہے کہ مسجد دلوگ دین میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتے.ہاں گمشدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجد دوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَيْكَ هُمُ الْفُسِقُونَ لا یعنی بعد اس کے جو خلیفے بھیجے جائیں پھر جو شخص ان کا منکر رہے وہ فاسقوں میں سے ہے.اب خلاصہ اس تمام تقریر کا کسی قدر اختصار کے ساتھ ہم ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ دلائل مندرجہ ذیل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بعد وفات رسول اللہ علیہ اس امت النور : ۵۶
۸۶۲ میں فساد اور فتنوں کے وقتوں میں ایسے مصلح آتے رہیں جن کو انبیاء کے کئی کاموں میں سے یہ ایک کام سپرد ہو کہ وہ دین حق کی طرف دعوت کریں اور ہر یک بدعت جو دین سے مل گئی ہو.اس کو دور کریں اور آسمانی روشنی پا کر دین کی صداقت ہریک پہلو سے لوگوں کو دکھلا دیں اور اپنے پاک نمونہ سے لوگوں کو سچائی اور محبت اور پاکیزگی کی طرف کھینچیں اور وہ دلائل یہ ہیں :.اول یہ کہ اس بات کو عقل ضروری تجویز کرتی ہے کہ چونکہ الہیات اور امور معاد کے مسائل نہایت باریک اور نظری ہیں گویا تمام امور غیر مرئی اور فوق العقل پر ایمان لانا پڑتا ہے.نہ خدا تعالیٰ کبھی کسی کو نظر آیا.نہ کبھی کسی نے بہشت دیکھی اور نہ دوزخ کا ملاحظہ کیا اور نہ ملائک سے ملاقات ہوئی.اور علاوہ اس کے احکام الہی مخالف جذبات نفس ہیں اور نفس امارہ جن باتوں میں لذت پاتا ہے احکام الہی ان سے منع کرتے ہیں لہذا عند العقل یہ بات نہ صرف احسن بلکہ واجب ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاک نبی جو شریعت اور کتاب لے کر آتے ہیں اور اپنے نفس میں تاثیر اور قوت قدسیہ رکھتے ہیں یا تو وہ ایک لمبی عمر لے کر آویں اور ہمیشہ اور ہر صدی میں ہر ایک اپنی نئی امت کو اپنی ملاقات اور صحبت سے شرف بخشیں اور اپنے زیر سایہ رکھ کر اور اپنے پر فیض پروں کے نیچے ان کو لے کر وہ برکت اور نور اور روحانی معرفت پہنچاویں جو انہوں نے ابتدائے زمانہ میں پہنچائی تھی اور اگر ایسا نہیں تو پھر ان کے وارث جو انہیں کے کمالات اپنے اندر رکھتے ہوں اور کتاب الہی کے دقائق اور معارف کو وحی اور الہام سے بیان کر سکتے ہیں اور منقولات کو مشہودات کے پیرا یہ میں دکھلا سکتے ہوں اور طالب حق کو یقین تک پہنچا سکتے ہوں ہمیشہ فتنہ اور فساد کے وقتوں میں ضرور پیدا ہونے چاہئے تا انسان جو مغلوب شبہات ونسیان ہے ان کے فیض حقیقی سے محروم نہ رہے کیونکہ یہ بات نہایت صاف اور بدیہی ہے کہ جب زمانہ ایک نبی کا اپنے خاتمہ کو پہنچتا ہے اور اس کی برکات کے دیکھنے والے فوت ہو جاتے ہیں تو وہ تمام مشہورات منقولات کے رنگ میں آ جاتے ہیں.پھر دوسری صدی کے لوگوں کی نظر میں اس نبی کے اخلاق اور اس نبی کی عبادات اور اس نبی کا صبر اور استقامت اور صدق اور صفا اور وفا اور تمام تائیدات الہیہ اور خوارق اور معجزات جن سے اس کی صحت نبوت اور صداقت دعوئی پر استدلال ہوتے تھے نئی صدی کے لوگوں کو کچھ قصے سے معلوم ہوتے ہیں اور اس وجہ سے وہ انشراح ایمانی اور جوش اطاعت جو نبی کے دیکھنے والوں میں ہوتا ہے دوسروں میں وہ بات پائی نہیں جاتی اور صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ صحابہ آنحضرت ﷺ نے ایمانی صدق دکھلایا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنی آبروؤں کو اسلام کی راہوں میں نہایت اخلاص سے قربان کیا اس کا نمونہ اور
۸۶۳ صدیوں میں تو کجا خود دوسری صدی کے لوگوں یعنی تابعین میں بھی نہیں پایا گیا.اس کی کیا وجہ تھی ؟ یہی تو تھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس مرد صادق کا منہ دیکھا تھا جس کے عاشق اللہ ہونے کی گواہی کفار قریش کے منہ سے بھی بے ساختہ نکل گئی.اور روز کی مناجاتوں اور پیار کے سجدوں کو دیکھ کر اور فنا فی الاطاعت کی حالت اور کمال محبت اور دلدادگی کے منہ پر روشن نشانیاں اور اس پاک منہ پر نور الہی برستا مشاہدہ کر کے کہتے تھے عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلى رَبِّهِ.کہ محمد اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے.اور پھر صحابہ نے صرف وہ صدق اور محبت اور اخلاص ہی نہیں دیکھا بلکہ اس پیار کے مقابل پر جو ہمارے سید محمد ہے کے دل سے ایک دریا کی طرح جوش مارتا تھا خدا تعالیٰ کے پیار کو بھی تائیدات خارق عادت کے رنگ میں مشاہدہ کیا.تب ان کو پتہ لگ گیا کہ خدا ہے اور ان کے دل بول اٹھے کہ وہ خدا اس مرد کے ساتھ ہے.انہوں نے اس قدر عجائبات الہیہ دیکھے اور اس قدر نشان آسمانی مشاہدہ کئے کہ ان کو کچھ بھی اس بات میں شک نہ رہا کہ فی الحقیقت ایک اعلی ذات موجود ہے جس کا نام خدا ہے اور جس کے قبضہ قدرت میں ہر یک امر ہے اور جس کے آگے کوئی بات بھی انہونی نہیں.اسی وجہ سے انہوں نے وہ کام صدق وصفا کے دکھلائے اور وہ جانفشانیاں کیں کہ انسان کبھی کر نہیں سکتا جب تک اس کے تمام شک وشبہ دور نہ ہو جائیں اور انہوں نے بچشم خود دیکھ لیا کہ وہ ذات پاک اسی میں راضی ہے کہ انسان اسلام میں داخل ہو اور اس کے رسول کریم کی بدل و جان متابعت اختیار کرے تب اس حق الیقین کے بعد جو کچھ انہوں نے متابعت دکھلائی اور جو کچھ انہوں نے متابعت کے جوش سے کام کئے اور جس طرح پر اپنی جانوں کو اپنے برگزیدہ ہادی کے آگے پھینک دیا یہ وہ باتیں ہیں کہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ انسان کو حاصل ہوسکیں جب تک کہ وہی بہار اس کی نظر کے سامنے نہ ہو جو صحابہ پر آئی تھی اور جبکہ ان کمالات کو پیدا کرنا بغیر وجود ان وسائل کے محالات میں سے ہے اور نجات کا یقینی طور پر حاصل ہونا بھی بغیر ذریعہ ان کمالات کے از قبیل محال تو ضروری ہوا کہ وہ خدا وند کریم جس نے ہر ایک کو نجات کیلئے بلایا ہے ایسا ہی انتظام ہر یک صدی کے لئے رکھے تا اس کے بندے کسی زمانہ میں حق الیقین کے مراتب سے محروم نہ رہیں.اور یہ کہنا کہ ہمارے لئے قرآن اور احادیث کافی ہیں اور صحبت صادقین کی ضرورت نہیں یہ خود مخالفت تعلیم قرآن ہے کیونکہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ ے اور صادق وہ ہیں جنہوں نے صدق کو علی وجہ البصیرت شناخت کیا اور پھر اس پر دل و جان سے قائم ہو گئے.اور یہ اعلیٰ درجہ التوبة: ١١٩
۸۶۴ بصیرت کا بجز اس کے ممکن نہیں کہ سماوی تائید شامل حال ہو کر اعلیٰ مرتبہ حق الیقین تک پہنچا دیوے.پس ان معنوں کر کے صادق حقیقی انبیاء اور رسل اور محدث اور اولیاء کاملین مکملین ہیں جن پر آسمانی روشنی پڑی اور جنہوں نے خدا تعالیٰ کو اسی جہان میں یقین کی آنکھوں سے دیکھ لیا.اور آیت موصوفہ بالا بطور اشارت ظاہر کر رہی ہے کہ دنیا صادقوں کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتی کیونکہ دوام حکم وَكُوْنُوْا مَعَ الصدِقِينَ دوام وجودصادقین کو مستلزم ہے.علاوہ اس کے مشاہدہ صاف بتلا رہا ہے کہ جو لوگ صادقوں کی صحبت سے لا پروا ہو کر عمر گزارتے ہیں ان کے علوم وفنون جسمانی جذبات سے ان کو ہرگز صاف نہیں کر سکتے اور کم سے کم اتنا ہی مرتبہ اسلام کا کہ دلی یقین اس بات پر ہو کہ خدا ہے ان کو ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا.اور جس طرح وہ اپنی اس دولت پر یقین رکھتے ہیں جو ان کے صندوقوں میں بند ہو یا اپنے ان مکانات پر جو ان کے قبضہ میں ہوں ہرگز ان کو ایسا یقین خدا تعالیٰ پر نہیں ہوتا.وہ سم الفار کھانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ یقیناً جانتے ہیں کہ وہ ایک زہر مہلک ہے لیکن گناہوں کی زہر سے نہیں ڈرتے.حالانکہ ہر روز قرآن میں پڑھتے ہیں إِنَّهُ مَنْ يَاتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيى ا پس سچ تو یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالی کو نہیں پہچانتا وہ قرآن کو بھی نہیں پہچان سکتا.ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے مگر قرآن کی ہدایتیں اس شخص کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں جس پر قرآن نازل ہوا.یا وہ شخص جو منجانب اللہ اس کا قائم مقام ٹھہرایا گیا.اگر قرآن اکیلا ہی کافی ہوتا تو خدا تعالیٰ قادر تھا کہ قدرتی طور پر درختوں کے پتوں پر قرآن لکھا جاتا یا لکھا لکھا یا آسمان سے نازل ہو جاتا.مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ قرآن کو دنیا میں نہیں بھیجا جب تک معلم القرآن دنیا میں نہیں بھیجا گیا.قرآن کریم کو کھول کر دیکھو کتنے مقام میں اس مضمون کی آیتیں ہیں کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ سے یعنی وہ نبی کریم عمل ہے قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں کو سکھلاتا ہے اور پھر ایک جگہ اور فرماتا ہے.لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ سے یعنی قرآن کے حقائق ودقائق ان ہی پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں.پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے سمجھنے کے لئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو.اگر قرآن کے سیکھنے کیلئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتداء زمانہ میں بھی نہ ہوتی اور یہ کہنا کہ ابتداء میں تو حل مشکلات قرآن کیلئے ایک معلم کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہو گئیں تو اب کیا ضرورت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہو جاتی ہیں.ماسوا اس کے امت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو طه: ۷۵ الجمعة: الواقعة: ٨٠
۸۶۵ پیش آتی ہیں اور قرآن جامع جمیع علوم تو ہے.لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہو جائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہر یک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کو پاتے ہیں اور جس مجدد کی کارروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کارروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں وہ عند اللہ اسی رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے.اب نئے معلموں کی اس وجہ سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ بعض حصے تعلیم قرآن شریف کے از قبیل حال ہیں نہ از قبیل قال.اور آنحضرت م ﷺ نے جو پہلے معلم اور اصل وارث اس تخت کے ہیں حالی طور پر ان دقائق کو اپنے صحابہ کو سمجھایا ہے.مثلاً خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ میں عالم الغیب ہوں اور میں مجیب الدعوات ہوں اور میں قادر ہوں اور میں دعاؤں کو قبول کرتا ہوں اور طالبوں کو حقیقی روشنی تک پہنچاتا ہوں اور میں اپنے صادق بندوں کو الہام دیتا ہوں اور جس پر چاہتا ہوں اپنے بندوں میں سے اپنی روح ڈالتا ہوں.یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جب تک معلم خود ان کا نمونہ بن کر نہ دکھلا دے تب تک یہ کسی طرح سمجھ ہی نہیں آ سکتیں.پس ظاہر ہے کہ صرف ظاہری علماء جو خود اندھے ہیں ان تعلیمات کو سمجھا نہیں سکتے بلکہ وہ تو اپنے شاگردوں کو ہر وقت اسلام کی عظمت سے بدظن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ باتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں اور ان کے ایسے بیانات سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا اسلام اب زندہ مذہب نہیں اور اس کی حقیقی تعلیم پانے کے لئے اب کوئی بھی راہ نہیں لیکن ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا اپنی مخلوق کے لئے یہ ارادہ ہے کہ وہ ہمیشہ قرآن کریم کے چشمہ سے ان کو پانی پلا وے تو بے شک وہ اپنے ان قوانین قدیمہ کی رعایت کرے گا جو قدیم سے کرتا آیا ہے.اور اگر قرآن کی تعلیم صرف اسی حد تک محدود ہے جس حد تک ایک تجربہ کار اور لطیف الفکر فلاسفر کی تعلیم محدود ہو سکتی ہے اور آسمانی تعلیم جو محض حال کے نمونہ سے سمجھائی جاتی ہے اس میں نہیں تو پھر نعوذ باللہ قرآن کا آنا لا حاصل ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اگر کوئی ایک دم کے واسطے بھی اس مسئلہ میں فکر کرے کہ انبیاء کی تعلیم اور حکیموں کی تعلیم میں بصورت فرض کرنے صحت ہر دو تعلیم کے مابہ الامتیاز کیا ہے تو بجز اس کے اور کوئی ما بہ الامتیاز قرار نہیں دے سکتا کہ انبیاء کی تعلیم کا بہت سا حصہ فوق العقل ہے جو بجز حالی تفہیم اور تعلیم کے اور کسی راہ سے سمجھ ہی نہیں آ سکتا.اور اس حصہ کو وہی لوگ دلنشین کرا سکتے ہیں جو صاحب حال ہوں...اگر اللہ جل شانہ نے اپنے بندوں کے لئے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس کی کتاب کا یہ حصہ تعلیم ابتدائی زمانہ تک محدود نہ رہے تو بے شک اس نے یہ بھی انتظام کیا ہو گا کہ اس حصہ تعلیم کے معلم بھی ہمیشہ آتے رہیں کیونکہ حصہ حالی تعلیم کا بغیر
۸۶۶ توسط ان معلموں کے جو مرتبہ کال پر پہنچ گئے ہوں ہر گز سمجھ نہیں آسکتا.اور دنیا ذرہ ذرہ بات پر ٹھوکریں کھاتی ہے.پس اگر اسلام میں بعد آنحضرت صلعم ایسے معلم نہیں آئے جن میں ظلی طور پر نور نبوت تھا تو گویا خدا تعالیٰ نے عمداً قرآن کو ضائع کیا کہ اس کے حقیقی اور واقعی طور پر سمجھنے والے بہت جلد دنیا سے اٹھا لئے مگر یہ بات اس کے وعدہ کے برخلاف ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ ہے یعنی ہم نے ہی قرآن کو اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے رہیں گے.اب میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر قرآن کے سمجھنے والے ہی باقی نہ رہے اور اس پر یقینی اور حالی طور پر ایمان لانے والے زاویہ عدم میں مختفی ہو گئے تو پھر قرآن کی حفاظت کیا ہوئی.کیا حفاظت سے یہ حفاظت مراد ہے کہ قرآن بہت سے خوشخط نسخوں میں تحریر ہو کر قیامت تک صندوقوں میں بند رہے گا جیسے بعض مدفون خزانے گوکسی کے کام نہیں آتے مگر زمین کے نیچے محفوظ پڑے رہتے ہیں کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اس آیت سے خدا تعالی کا یہی منشا ہے اگر یہی منشا ہے تو ایسی حفاظت کوئی کمال کی بات نہیں بلکہ یہ تو جنسی کی بات ہے اور ایسی حفاظت کا منہ پر لانا دشمنوں سے ٹھٹھا کرانا ہے کیونکہ جبکہ علت غائی مفقود ہو تو ظاہری حفاظت سے کیا فائدہ.ممکن ہے کہ کسی گڑھے میں کوئی نسخہ انجیل یا توریت کا بھی ایسا ہی محفوظ پڑا ہواور دنیا میں تو ہزار ہا کتا ہیں اس قسم کی پائی جاتی ہیں کہ جو یقینی طور پر بغیر کسی کمی بیشی کے کسی مؤلف کی تالیف سمجھی گئی ہیں تو اس میں کمال کیا ہوا.اور امت کو خصوصیت کے ساتھ فائدہ کیا پہنچا گو اس سے انکار نہیں کہ قرآن کی حفاظت ظاہری بھی دنیا کی تمام کتابوں سے بڑھ کر ہے اور خارق عادت بھی لیکن خدا تعالیٰ جس کی روحانی امور پر نظر ہے ہر گز اس کی ذات کی نسبت یہ گمان نہیں کر سکتے کہ اتنی حفاظت سے مراد صرف الفاظ اور حروف کا محفوظ رکھنا ہی مراد لیا ہے حالانکہ ذکر کا لفظ بھی صریح گواہی دے رہا ہے کہ قرآن بحیثیت ذکر ہونے کے قیامت تک محفوظ رہے گا اور اس کے حقیقی ذاکر ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور اس پر ایک اور آیت بھی بین قرینہ ہے اور وہ یہ ہے.بَلْ هُوَ ايَتٌ بَيْنَتُ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ کے یعنی قرآن آیات بینات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں.پس ظاہر ہے کہ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ مومنوں کو قرآن کریم کا علم اور نیز اس پر عمل عطا کیا گیا ہے اور جبکہ قرآن کی جگہ مومنوں کے سینے ٹھہرے تو پھر یہ آیت کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ بجز اس کے اور کیا معنے رکھتی ہے کہ قرآن سینوں سے محو نہیں کیا جائے گا..الحجر : ١٠ العنكبوت:۵۰
۸۶۷ دوم جس طرح پر کہ عقل اس بات کو واجب اور مختم ٹھہراتی ہے کہ کتب الہی کی دائی تعلیم اور تفہیم کیلئے ضروری ہے کہ ہمیشہ انبیاء کی طرح وقتا فوقتا ملہم اور محکم اور صاحب علم لدنی پیدا ہوتے رہیں.اسی طرح جب ہم قرآن پر نظر ڈالتے ہیں اور غور کی نگہ سے اس کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی بآواز بلند یہی فرما رہا ہے کہ روحانی معلموں کا ہمیشہ کیلئے ہونا اس کے ارادہ قدیمہ میں مقرر ہو چکا ہے.دیکھو اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ یا الجز ونمبر۱۳ یعنی جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے اب ظاہر ہے کہ دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچانے والے گروہ انبیاء ہیں کہ جو خوارق سے معجزات سے، پیشگوئیوں سے، حقائق سے ، معارف سے، اپنی راستبازی کے نمونے سے انسانوں کے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور حق کے طالبوں کو دینی نفع پہنچاتے ہیں.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بہت مدت تک نہیں رہتے بلکہ تھوڑی سی زندگی بسر کر کے اس عالم سے اٹھائے جاتے ہیں لیکن آیت کے مضمون میں خلاف نہیں اور ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام خلاف واقعہ ہو.پس انبیاء کی طرف نسبت دے کر معنے آیت کے یوں ہونگے کہ انبیاء من حيث الظل باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالی ظلمی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کو ان کی نظیر اور مثیل پیدا کر دیتا ہے جوانہی کے رنگ میں ہو کر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے اور اسی ظلمی وجود کے قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور نہ صرف دعا کے لئے حکم کیا بلکہ ایک آیت میں وعدہ بھی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہماری راہ میں جو صراط مستقیم ہے مجاہدہ کریں گے تو ہم ان کو اپنی راہیں بتلا دینگے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہیں وہی ہیں جو انبیاء کو دکھلائی گئیں تھیں.پھر بعض اور آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور خدا وند کریم نے یہی ارادہ فرمایا ہے کہ روحانی معلم جو انبیاء کے وارث ہیں ہمیشہ ہوتے رہیں اور وہ یہ ہیں.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُمُ بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةً أَوْ تَحُلُ قَرِيبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللهِ اِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ الجز نمبر ١٣ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا..الرعد: ١٨ الفاتحة: ٢، ٣ العنكبوت: ۷۰ ۲ النور : ۵۶ ۵ الرعد:۳۲ ا بنی اسراءیل : ۱۶
۸۶۸ ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالی اس امت کے لئے خلافت دائی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہ دینا کیا معنے رکھتا تھا.خلیفه در حقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے.اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف واولی ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے.پس جو شخص خلافت کو صرف تمیں برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہرگز نہیں تھا کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے.پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہو جائے کچھ پرواہ نہیں.اب یادر ہے کہ اگر چہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں کہ جو اس امت میں خلافت دائگی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارہ میں بہت سی بھری پڑی ہیں لیکن بالفعل اس قدر لکھنا ان لوگوں کیلئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمی سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بد اندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جاوے.کیا وہ کتاب جو ہمیشہ کی سعادتوں کا دروازہ کھولتی ہے وہ ایسی پست ہمتی کا سبق دیتی ہے کہ کوئی برکت اور خلافت آگے نہیں بلکہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے.نبی تو اس امت میں آنے کو رہے.اب اگر خلفائے نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلا دیں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے..در حقیقت فقط ایسے سوال سے ہی کہ کیا اسلام اب ہمیشہ کیلئے ایک مذہب مردہ ہے جس میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جن کی کرامات معجزات کے قائم مقام اور جن کے الہامات وحی کے قائم مقام ہوں بدن کانپ اٹھتا ہے چہ جائیکہ کسی مسلمان کا نعوذ باللہ ایسا عقیدہ بھی ہو.خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت کرے جو ان ملحدانہ خیالات میں اسیر ہیں.( شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۹ تا ۳۵۶)
۸۶۹ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور نزول مسیح میں حضرت مسیح علیہ السلام کو فوت شدہ اور داخل موتی ایمان و یقیناً جانتا ہوں اور ان کے مرجانے پر یقین رکھتا ہوں اور کیوں یقین نہ رکھوں جبکہ میرا مولیٰ میرا آقا اپنی کتاب عزیز اور قرآن کریم میں ان کو متوفیوں کی جماعت میں داخل کر چکا ہے اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق عادت زندگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں بلکہ ان کو صرف فوت شدہ کہہ کر پھر چپ ہو گیا.لہذا ان کا زندہ بجسده العنصری ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنے ہی الہام کی رو سے خلاف واقعہ سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیات مسیح کو نصوص بینہ قطعیہ یقینیہ قرآن کریم کی رو سے لغو اور باطل جانتا ہوں.(آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۱۵) واضح ہو کہ اکثر مسلمانوں اور عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ چلے گئے ہیں اور یہ دونوں فرقے ایک مدت سے یہی گمان کرتے چلے آئے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور کسی وقت آخری زمانہ میں پھر زمین پر نازل ہونگے اور ان دونوں فریق یعنی اہل اسلام اور مسیحیوں کے بیان میں فرق صرف اتنا ہے کہ عیسائی تو اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر جان دی اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ گئے اور اپنے باپ کے دائیں ہاتھ جا بیٹھے اور پھر آخری زمانہ میں دنیا کی عدالت کے لئے زمین پر آئیں گے اور کہتے ہیں کہ دنیا کا خدا اور خالق اور مالک وہی یسوع مسیح ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں وہی ہے جو دنیا کے اخیر میں سزا جزا دینے کے لئے جلالی طور پر نازل ہوگا.تب ہر ایک آدمی جس نے اس کو یا اس کی ماں کو بھی خدا کر کے نہیں مانا پکڑا جائے گا اور جہنم میں ڈالا جائے گا جہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا.مگر مسلمانوں کے مذکورہ بالا فرقے کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ صلیب پر مرے بلکہ اس وقت جبکہ یہودیوں نے ان کو مصلوب کرنے کیلئے گرفتار کیا خدا کا فرشتہ ان کو مع جسم عنصری آسمان پر لے گیا اور اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور مقام ان کا دوسرا آسمان ہے جہاں حضرت بی نبی یعنی یوحنا ہیں.اور نیز مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام خدا کا بزرگ نبی ہے مگر نہ خدا ہے
۸۷۰ دیں.اور نہ خدا کا بیٹا.اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دمشق کے منارہ کے قریب یا کسی اور جگہ اتریں گے اور امام محمد مہدی کے ساتھ مل کر جو پہلے سے بنی فاطمہ میں سے دنیا میں آیا ہوا ہوگا دنیا کی تمام غیر قوموں کو قتل کر ڈالیں گے اور بجز ایسے شخص کے جو بلا توقف مسلمان ہو جائے اور کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.غرض مسلمانوں کا وہ فرقہ جو اپنے تئیں اہل سنت یا اہل حدیث کہتے ہیں جن کو عوام وہابی کے نام سے پکارتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ زمین پر نازل ہونے سے اصل مقصد یہ قرار دیتے ہیں کہ تا وہ ہندوؤں کے مہادیو کی طرح تمام دنیا کو فنا کر ڈالیں.اول یہ دھمکی دیں کہ مسلمان ہو جائیں اور اگر پھر بھی لوگ کفر پر قائم رہیں تو سب کو تہ تیغ کر بالخصوص عیسائیوں کی نسبت بڑے زور سے فرقہ مذکورہ کے عالم یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے تو وہ دنیا کی تمام صلیبیوں کو توڑ دیں گے اور تلوار کے ساتھ سخت بے رحمی کی کارروائیاں کرینگے اور دنیا کو خون میں غرق کر دینگے اور گو حضرت عیسی علیہ السلام..بھی بجائے خود ایک مہدی ہیں بلکہ بڑے مہدی وہی ہیں لیکن اس سبب سے کہ خلیفہ وقت قریش میں سے ہونا چاہئے اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام خلیفہ وقت نہیں ہونگے بلکہ خلیفہ وقت وہی محمد مہدی ہوگا.اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں مل کر زمین کو انسانوں کے خون سے بھر دیں گے اور اس قدر خونریزی کرینگے جس کی نظیر ابتدائے دنیا سے اخیر تک کسی جگہ نہیں پائی جائے گی.اور آتے ہی خون ریزی ہی شروع کر دیں گے اور کوئی وعظ وغیرہ نہیں کرینگے اور نہ کوئی نشان دکھا ئیں گے اور کہتے ہیں کہ اگر چہ حضرت عیسی علیہ السلام امام محمد مہدی کے لئے بطور مشیر یا وزیر کے ہونگے اور عنان حکومت صرف مہدی کے ہاتھ میں ہوگی لیکن حضرت مسیح تمام دنیا کے قتل کرنے کیلئے حضرت امام محمد مہدی کو ہر وقت اکسائیں گے اور تیز مشورے دیتے رہیں گے گویا اس اخلاقی زمانہ کی کسر نکالیں گے جبکہ آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ کسی شر کا مقابلہ مت کرو اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری گال بھی پھیر دو.“ (مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵ تا ۷ )
۸۷۱ میرا اور میری جماعت کا عقیدہ مہدی کی نسبت مہدی اور مسیح موعود کے بارے میں جو میرا عقیدہ اور میری جماعت کا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اس قسم کی تمام حدیثیں جو مہدی کے آنے کے بارے میں ہیں ہرگز قابل وثوق اور قابل اعتبار نہیں ہیں.میرے نزدیک ان پر تین قسم کا جرح ہوتا ہے یا یوں کہو کہ وہ تین قسم سے باہر نہیں.(۱) اول وہ حدیثیں کہ موضوع اور غیر صحیح اور غلط ہیں.اور ان کے راوی خیانت اور کذب سے متہم ہیں اور کوئی دیندار مسلمان ان پر اعتماد نہیں کر سکتا.(۲) دوسری وہ حدیثیں ہیں جو ضعیف اور مجروح ہیں اور باہم تناقض اور اختلاف کی وجہ سے پایۂ اعتبار سے ساقط ہیں اور حدیث کے نامی اماموں نے یا تو ان کا قطعاً ذکر ہی نہیں کیا اور یا جرح اور بے اعتباری کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور توثیق روات نہیں کی یعنی راویوں کے صدق اور دیانت پر شہادت نہیں دی.(۳) تیسری وہ حدیثیں ہیں جو در حقیقت صحیح تو ہیں اور طرق متعددہ سے ان کی صحت کا پتا ملتا ہے.لیکن یا تو وہ کسی پہلے زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں اور مدت ہوئی کہ ان لڑائیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں اور یا یہ بات ہے کہ ان میں ظاہری خلافت اور ظاہری لڑائیوں کا کچھ بھی ذکر نہیں صرف ایک مہدی یعنی ہدایت یافتہ انسان کے آنے کی خوشخبری دی گئی ہے اور اشارات سے بلکہ صاف لفظوں میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس کی ظاہری بادشاہت اور خلافت نہیں ہوگی اور نہ وہ لڑے گا اور نہ خون ریزی کریگا اور نہ اس کی کوئی فوج ہو گی اور روحانیت اور دلی توجہ کے زور سے دلوں میں دوبارہ ایمان قائم کر دیگا.جیسا کہ حدیث لَا مَهْدِيَّ إِلَّا عِیسی جو ابن ماجہ کی کتاب میں جو اسی نام سے مشہور ہے اور حاکم کی کتاب مستدرک میں انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے.اور یہ روایت محمد بن خالد جندی نے ابان بن صالح سے اور ابان بن صالح نے حسن بصری سے اورحسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نے جناب رسول اللہ علیہ سے کی ہے اور اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ بجز اس شخص کے جو عیسی کی خو اور طبیعت پر آئے گا اور کوئی بھی مہدی نہیں آئے گا یعنی وہی مسیح موعود ہوگا اور
۸۷۲ وہی مہدی ہوگا جو حضرت عیسی علیہ السلام کی خواور طبیعت اور طریق تعلیم پر آئے گا.یعنی بدی کا مقابلہ نہ کرے گا اور نہ لڑے گا اور پاک نمونہ اور آسمانی نشانوں سے ہدایت کو پھیلائے گا.اور اسی حدیث کی تائید وہ حدیث ہے جو امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں لکھی ہے جس کے لفظ یہ ہیں کہ يَضَعُ الْحَرُب یعنی وہ مہدی جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے دینی لڑائیوں کو قطعاً موقوف کر دیگا اور اس کی یہ ہدایت ہوگی کہ دین کے لئے لڑائی مت کرو بلکہ دین کو بذریعہ سچائی کے نوروں اور اخلاقی معجزات اور خدا کے قرب کے نشانوں کے پھیلاؤ سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص اس وقت دین کے لئے لڑائی کرتا ہے یا کسی لڑنے والے کی تائید کرتا ہے یا ظاہر یا پوشیدہ طور پر ایسا مشورہ دیتا ہے یا دل میں ایسی آرزوئیں رکھتا ہے وہ خدا اور رسول کا نا فرمان ہے.ان کی وصیتوں اور حدود اور فرائض سے باہر چلا گیا ہے.اور میں اس وقت اپنی محسن گورنمنٹ کو اطلاع دیتا ہوں کہ وہ مسیح موعود خدا سے ہدایت یافتہ اور مسیح علیہ السلام کے اخلاق پر چلنے والا میں ہی ہوں.ہر ایک کو چاہیے کہ ان اخلاق میں مجھے آزمادے اور خراب ظن اپنے دل سے دور کرے.میری ہیں برس کی تعلیم جو براہین احمدیہ سے شروع ہو کر راز حقیقت تک پہنچ چکی ہے.اگر غور سے دیکھا جائے تو اس سے بڑھ کر میری باطنی صفائی کا اور کوئی گواہ نہیں.میں اپنے پاس ثبوت رکھتا ہوں کہ میں نے ان کتابوں کو عرب اور روم اور شام اور کابل وغیرہ ممالک میں پھیلا دیا ہے اور اس امر سے قطعاً منکر ہوں کہ آسمان سے اسلامی لڑائیوں کیلئے مسیح نازل ہوگا اور کوئی شخص مہدی کے نام سے جو بنی فاطمہ سے ہوگا بادشاہ وقت ہوگا اور دونوں مل کر خونریزیاں شروع کر دیں گے.خدا نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ یہ باتیں ہرگز صحیح نہیں ہیں.مدت ہوئی کہ حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے.کشمیر میں محلہ خانیار میں آپ کا مزار موجود ہے.سو جیسا کہ مسیح کا آسمان سے اتر نا باطل ثابت ہوا اور ایسا ہی کسی مہدی غازی کا آنا باطل ہے.اب جو شخص سچائی کا بھوکا ہے وہ اس کو قبول کرے.فقط (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۹ تا ۴۳۳) میرا بیان مسیح موعود کی نسبت جس کی آسمان سے اتر نے اور دوبارہ دنیا میں آنے کی انتظار کی جاتی ہے جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میرے پر کھول دیا ہے یہ ہے کہ مسیح کے دوبارہ دنیا میں آنے کا قرآن شریف میں تو کہیں ذکر نہیں.قرآن شریف تو ہمیشہ کیلئے اس کو دنیا سے رخصت کرتا ہے.البتہ بعض حدیثوں میں جو استعارات سے پر ہیں مسیح کے دوبارہ دنیا میں آنے کے لئے بطور پیشگوئی بیان
۸۷۳ کیا گیا ہے.سو ان حدیثوں کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ اس جگہ در حقیقت مسیح ابن مریم کا ہی دوبارہ دنیا میں آجانا ہرگز مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک لطیف استعارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسے زمانہ میں جو مسیح ابن مریم کے زمانہ کا ہمرنگ ہو گا.ایک شخص اصلاح خلائق کے لئے دنیا میں آئے گا جو طبع اور قوت اور اپنے منصبی کام میں مسیح بن مریم کا ہمرنگ ہوگا اور جیسا کہ مسیح بن مریم نے حضرت موسیٰ کے دین کی تجدید کی اور وہ حقیقت اور مغز توریت کا جس کو یہودی لوگ بھول گئے تھے ان پر دوبارہ کھول دیا ایسا ہی وہ مسیح ثانی مثیل موسیٰ کے دین کو جو جناب خاتم الانبیاء ہے میں تجدید کریگا اور یہ مثیل موسیٰ کا مسیح اپنی سوانح میں اور دوسرے تمام نتائج میں جو قوم پر ان کی اطاعت یا ان کی سرکشی کی حالت میں مؤثر ہوں گے اس مسیح سے بالکل مشابہ ہوگا جو موسیٰ کو دیا گیا تھا.اب جو امر کہ خدائے تعالیٰ نے میرے پر منکشف کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں.مسلمانوں کا پرانے خیالات کے موافق جو ان کے دلوں میں جمے ہوئے چلے آتے ہیں یہ دعوی ہے که مسیح بن مریم سچ مچ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ دھرے ہوئے آسمان سے اتریگا اور منارہ مشرقی دمشق کے پاس آ ٹھہر یگا.اور بعض کہتے ہیں کہ منارہ پر اترے گا.اور وہاں سے مسلمان لوگ زینہ کے ذریعہ سے اس کو نیچے اتاریں گے اور فرشتے اسی جگہ سے رخصت ہو جائیں گے اور عمدہ پوشاک پہنے ہوئے اتریگا یہ نہیں کہ نگا ہو اور پھر مہدی کے ساتھ ملاقات اور مزاج پرسی ہوگی اور باوجود اس قدر مدت گزرنے کے وہی پہلی عمر بتیس یا تینتیس برس کی ہوگی اس قدر گردش ماہ وسال نے اس کے جسم و عمر پر کچھ اثر نہ کیا ہوگا.اس کے ناخن اور بال وغیرہ اس قدر سے نہ بڑھے ہونگے جو آسمان پر اٹھائے جانے کے وقت موجود تھے اور کسی قسم کا تغیر اس کے وجود میں نہ آیا ہوگا.لیکن زمین پر اتر کر پھر سلسلۂ تغیرات کا شروع ہو گا.وہ کسی قسم کا جنگ و جدل نہیں کرے گا بلکہ اس کی منہ کی ہوا میں ہی ایسی تاثیر ہوگی کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچے گی کافر مرتے جائیں گے.یعنی اس کے دم میں ہی یہ خاصیت ہوگی کہ زندوں کو مارے جیسی پہلے یہ خاصیت بھی کہ مردوں کو زندہ کرے.پھر ہمارے علماء اپنے اس پہلے قول کو فراموش کر کے یہ دوسرا قول جو اس کا نقیض ہے پیش کرتے ہیں کہ وہ جنگ اور جدل بھی کر یگا اور دجال یک چشم اس کے ہاتھ سے قتل ہوگا.یہودی بھی اس کے حکم سے مارے جائیں گے.پھر ایک طرف تو یہ اقرار ہے کہ مسیح موعود وہی مسیح بن مریم نبی اللہ ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی.جس پر حضرت جبریل اترا کرتا تھا.جو خدائے تعالیٰ کے بزرگ پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ
۸۷۴ دوبارہ زمین پر آکر اپنی نبوت کا نام بھی نہیں لے گا بلکہ منصب نبوت سے معزول ہو کر آئے گا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہو کر عام مسلمانوں کی طرح شریعت قرآنی کا پابند ہوگا.نماز اوروں کے پیچھے پڑھے گا.جیسے عام مسلمان پڑھا کرتے ہیں.بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ حنفی ہوگا امام اعظم صاحب کو اپنا امام سمجھے گا مگر اب تک اس بارہ میں تصریح سے بیان نہیں کیا گیا کہ چار سلسلوں میں سے کس سلسلہ میں داخل ہوگا.آیا وہ قادری ہوگا یا چشتی یا سہروردی یا حضرت مجد دسر ہندی کی طرح نقشبندی.غرض ان لوگوں نے عنوان میں نبوت کا خطاب جما کر جس درجہ پر پھر اس کا تنزل کیا ہے کوئی قائم الحواس ایسا کام کبھی نہیں کر سکتا.پھر بعد اس کے اس کے خاص کام استعارات کو حقیقت پر حمل کر کے یہ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ صلیب کو توڑے گا.خنزیروں کو قتل کرے گا.اب جائے تعجب ہے کہ صلیب کو توڑنے سے اس کا کونسا فائدہ ہے؟ اور اگر اس نے مثلاً دس میں لاکھ صلیب تو ڑ بھی دی تو کیا عیسائی لوگ جن کو صلیب پرستی کی دھن لگی ہوئی ہے اور صلیبیں بنوا نہیں سکتے ؟ اور دوسرا فقرہ جو کہا گیا ہے کہ خنزیروں کو قتل کرے گا یہ بھی اگر حقیقت پر محمول ہے تو عجیب فقرہ ہے.کیا حضرت مسیح کا زمین پر اترنے کے بعد عمدہ کام یہی ہوگا کہ وہ خنزیروں کا شکار کھیلتے پھریں گے اور بہت سے کتے ساتھ ہوں گے اگر یہی سچ ہے تو پھر سکھوں اور چماروں اور سانسیوں اور گنڈیلوں وغیرہ کو جو خنزیر کے شکار کو دوست رکھتے ہیں خوشخبری کی جگہ ہے کہ ان کی خوب بن آئے گی مگر شاید عیسائیوں کو ان کی اس خنر سر کشی سے کچھ چنداں فائدہ نہ پہنچ سکے کیونکہ عیسائی قوم نے خنزیر کے شکار کو پہلے ہی کمال تک پہنچا رکھا ہے.بالفعل خاص لنڈن میں خنزیر کا گوشت فروخت کرنے کیلئے ہزار دوکان موجود ہے اور بذریعہ معتبر خبروں کے ثابت ہوا ہے کہ صرف یہی ہزار دوکان نہیں بلکہ پچیس ہزار اور خنزیر ہر روزلنڈن میں سے مفضلات کے لوگوں کیلئے باہر بھیجا جاتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ کیا نبی اللہ کی یہی شان ہونی چاہیے؟ کہ وہ دنیا میں اصلاح خلق کے لئے تو آوے مگر پھر اپنی اوقات عزیز ایک مکروہ جانور خنزیر کے شکار میں ضائع کرے.حالانکہ توریت کے رو سے خنزیر کو چھونا بھی سخت معصیت میں داخل ہے.پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اول تو شکار کھیلنا ہی کار بیکاراں ہے اور اگر حضرت مسیح کو شکار ہی کی طرف رغبت ہو گی اور دن رات یہی کام پسند آئے گا تو پھر کیا یہ پاک جانور جیسے ہرن اور گورخر اور خرگوش دنیا میں کچھ کم ہیں تا ایک نا پاک جانور کے خون سے ہاتھ آلودہ کریں.تا اب میں نے وہ تمام خا کہ جو میری قوم نے مسیح کے ان سوانح کا کھینچ رکھا ہے جو دوبارہ زمین پر اترنے کے
۸۷۵ بعد ان پر گزریں گے پیش کر دیا ہے.عقلمند لوگ اس پر غور کریں کہ کہاں تک اس میں خلاف قانون قدرت باتیں ہیں.کہاں تک اس میں اجتماع نقیضین موجود ہے کہاں تک یہ شان نبوت سے بعید ہے لیکن اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ یہ تمام ذخیرہ رطب ویابس کا صحیحین میں نہیں ہے.امام محمد اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے اس بارہ میں اشارہ تک بھی نہیں کیا کہ یہ مسیح آنے والا در حقیقت اور سچ سچ وہی پہلا مسیح ہوگا بلکہ انہوں نے دو حدیثیں آنحضرت ﷺ کی طرف سے ایسی لکھی ہیں جنہوں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ مسیح اول اور ہے اور مسیح ثانی اور کیونکہ ایک حدیث کا مضمون یہ ہے کہ ابن مریم تم میں اترے گا اور پھر بیان کے طور پر کھول دیا ہے کہ وہ ایک تمہارا امام ہوگا جو تم میں سے ہی ہوگا.پس ان لفظوں پر خوب غور کرنی چاہیے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لفظ ابن مریم کی تصریح میں فرماتے ہیں کہ وہ ایک تمہارا امام ہوگا جو تم میں سے ہی ہوگا اور تم میں سے ہی پیدا ہوگا.گویا آنحضرت علی نے اس وہم کو دفع کرنے کے لئے جو ابن مریم کے لفظ سے دلوں میں گزرسکتا تھا ما بعد کے لفظوں میں بطور تشریح فرما دیا کہ اس کو سچ سچ ابن مریم ہی نہ سمجھ لو بَلْ هُوَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور دوسری حدیث جو اس بات کا فیصلہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح اول کا حلیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور طرح کا فرمایا ہے اور مسیح ثانی کا حلیہ اور طور کا ذکر کیا ہے جو اس عاجز کے حلیہ سے بالکل مطابق ہے.اب سوچنا چاہیے کہ ان دونوں حلیوں میں تناقض صریح ہونا کیا اس بات پر پختہ دلیل نہیں ہے کہ در حقیقت مسیح اول اور ہے اور مسیح ثانی اور.(ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲۱ تا ۱۲۴) اس جگہ اس بات کا لکھنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ میرا یہ دعویٰ کہ میں مسیح موعود ہوں ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے ظہور کی طرف مسلمانوں کے تمام فرقوں کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں اور احادیث نبویہ کی متواتر پیشگوئیوں کو پڑھ کر ہر ایک شخص اس بات کا منتظر تھا کہ کب وہ بشارتیں ظہور میں آتی ہیں.بہت سے اہل کشف نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر خبر دی تھی کہ وہ مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا اور یہ پیشگوئی اگر چه قرآن شریف میں صرف اجمالی طور پر پائی جاتی ہے مگر احادیث کے رو سے اس قدر تواتر تک پہنچی ہے کہ جس کا کذب عند العقل ممتنع ہے.اگر تو اتر کچھ چیز ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی پیشگوئیوں میں سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلیں کوئی ایسی پیشگوئی نہیں جو اس درجہ تو اتر پر ہو جیسا کہ اس پیشگوئی میں پایا جاتا ہے لیکن افسوس ہے کہ باوجود اس تواتر کے ہمارے زمانہ فیج اعوج کے علماء نے اس پیشگوئی کے صحیح صحیح معنے سمجھنے میں بڑا دھوکا کھایا ہے اور بباعث سخت غلط انہی کے اپنے عقیدہ میں قابل شرم
تناقضات جمع کر لئے ہیں.یعنی ایک طرف تو قرآن شریف پر ایمان لا کر اور احادیث صحیحہ کو تسلیم کر کے ان کو یہ ماننا پڑا کہ حضرت عیسی در حقیقت فوت ہو گئے ہیں اور دوسری طرف یہ عقیدہ بھی انہوں نے رکھا کہ کسی زمانہ میں خود حضرت عیسی علیہ السلام آخر زمانہ میں نازل ہونگے اور وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں فوت نہیں ہوئے اور پھر ایک طرف آنحضرت لعل اللہ کو خاتم الانبیاء قرار دیا اور دوسری طرف یہ عقیدہ بھی رکھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی ایک نبی آنے والا ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام جو کہ نبی ہیں اور ایک طرف یہ عقیدہ رکھا کہ مسیح موعود دجال کے وقت آئے گا اور دجال کا تمام روئے زمین پر بجز حرمین شریفین تسلط ہو جائے گا اور دوسری طرف بموجب حدیث صحیح مرفوع متصل صحیح بخاری اس بات کو بھی انہیں ماننا پڑا کہ مسیح موعود صلیب کے غلبہ کے وقت آئے گا یعنی اس وقت جبکہ عیسائی مذہب دنیا میں زور کے ساتھ پھیلا ہوا ہوگا اور عیسائی طاقت اور دولت سب طاقتوں اور دولتوں سے بڑھی ہوئی ہوگی.اور پھر ایک طرف یہ عقیدہ رکھنا پڑا کہ مسیح اپنے وقت کا حاکم اور امام اور مہدی ہوگا اور پھر دوسری طرف یہ عقیدہ رکھا کہ میسیج مہدی اور امام نہیں بلکہ مہدی کوئی اور ہو گا جو بنی فاطمہ میں سے ہوگا.غرض اس قسم کے بہت سے تناقضات جمع کر کے اس پیشگوئی کی صحت کی نسبت لوگوں کو تذبذب اور شک میں ڈال دیا کیونکہ جوا مرکئی تناقضات کا مجموعہ ہو ممکن نہیں کہ وہ صحیح ہو.پھر اہل عقل لوگ کیونکر اس کو قبول کر سکیں اور کیونکر اپنے جو ہر عقل کو پیروں کے نیچے کچل کر اس ٹیڑھے طریق پر قدم ماریں.اسی وجہ سے حال کے ان نو تعلیم یافتہ لوگوں کو جو نیچر اور قانون قدرت اور عقلی نظام کو واقعات کی صحت یا عدم صحت کیلئے ایک معیار قرار دیتے ہیں اس پیشگوئی سے باوجود اعلیٰ درجہ کے تواتر کے جو اس میں ہے انکار کرنا پڑا اور در حقیقت اگر اس کے یہی معنے کئے جائیں کہ جو اس قدر تناقضات کو اپنے اندر رکھتے ہیں تو انسانی عقل ان تناقضات کی تطبیق سے عاجز آ کر آخر اس پریشانی سے رہائی اسی میں دیکھتی ہے کہ اس پیشگوئی کی صحت سے بھی انکار کرے.سو یہی سبب تھا کہ نیچر اور عقل کے دلدادہ با وجود پیشگوئی کے اس قدر تواتر کے اس عظیم الشان پیشگوئی سے انکاری ہو گئے لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے بھی انکار کرنے میں بڑی شتاب کاری سے کام لیا ہے کیونکہ اخبار متواترہ سے کوئی عظمند انکار نہیں کر سکتا اور جو خبر تو اتر کے درجہ پر پہنچ جائے ممکن نہیں کہ اس میں کذب کا شائبہ ہو.پس طریق انصاف اور حق پرستی یہ تھا کہ خبر متواتر کورد نہ کرتے.ہاں ان معنوں کو رد کر دیتے جو نادان مولویوں نے کئے جن سے کئی قسم کے تناقض لازم آئے اور کئی تناقض جمع بھی کر لئے اور در حقیقت یہ ناقص الفہم مولویوں کا قصور ہے جو انہوں نے ایک سیدھی
ALL اور صاف پیشگوئی کے ایسے معنے کر کے جو تناقضات کا مجموعہ تھے محقق طبع لوگوں کو بڑی پریشانی اور سرگردانی میں ڈال دیا.اب خدا تعالیٰ نے اس کے بچے اور صحیح معنے کھول کر جو تناقضات اور نامعقولیت سے بالکل پاک ہیں ہر ایک انصاف پسند محقق کو یہ موقعہ دیا ہے کہ وہ اس خبر متواتر کو مان کر اس کے مصداق کی تلاش میں لگ جائے اور خدا تعالیٰ کی صریح پیشگوئی سے انکار کر کے مکذبین میں داخل نہ ہو.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۰۵ تا ۲۱۱ حاشیه ) اس پیشگوئی کو صرف ظاہری الفاظ تک محدود رکھنے میں بڑی بڑی مشکلات ہیں.قبل اس کے جو مسیح آسمان سے اترے صد ہا اعتراض پہلے ہی سے اتر رہے ہیں.ان مشکلات میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے.اور ہمیں اس بات کی کیا حاجت کہ ابن مریم کو آسمان سے اتارا جائے اور ان کا نبوت سے الگ ہونا تجویز کیا جائے اور ان کی اس طرح پر تحقیر کی جائے کہ دوسرا شخص امامت کرے اور وہ پیچھے مقتدی بنیں اور دوسرا شخص ان کے رو برولوگوں سے بیعت امامت و خلافت لے اور وہ بدیدۂ حسرت دیکھتے رہیں اور احد المسلمین بن کر اپنی نبوت کا دم نہ مار سکیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴ ۱۷) اس پیشگوئی کے سمجھنے میں اہل عقل اور تدبر کرنے والوں کے لئے کچھ بھی دقت نہ تھی کیونکہ رسول کریم ﷺ کے الفاظ مقدسہ ایسے صاف تھے کہ خود اس مطلب کی طرف رہبری کرتے تھے کہ ہرگز اس پیشگوئی میں نبی اسرائیلی کا دوبارہ دنیا میں آنا مراد نہیں ہے اور آنحضرت ﷺ نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لَا نَبِيَّ بَعْدِی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت کریمہ وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النبينَ اے سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ فی الحقیقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو چکی ہے.پھر کیونکر ممکن تھا کہ کوئی نبی نبوت کے حقیقی معنوں کے رو سے آنحضرت ﷺ کے بعد تشریف لاوے.اس سے تو تمام تارو پود اسلام درہم برہم ہو جاتا تھا اور یہ کہنا کہ ”حضرت عیسیٰ نبوت سے معطل ہو کر آئیگا نہایت بے حیائی اور گستاخی کا کلمہ ہے.کیا خدا تعالیٰ کے مقبول اور مقرب نبی حضرت عیسی علیہ السلام جیسے اپنی نبوت سے معطل ہو سکتے ہیں.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۱۸،۲۱۷ حاشیه ) نزول سے مراد در حقیقت مسیح بن مریم کا نزول نہیں بلکہ استعارہ کے طور پر ایک مثیل مسیح کے آنے کی الاحزاب: ام
خبر دی گئی ہے جس کا مصداق حسب اعلام و الہام الہی یہی عاجز ہے اور مجھے یقیناً معلوم ہے کہ میری اس رائے کے شائع ہونے کے بعد جس پر میں بینات الہام سے قائم کیا گیا ہوں بہت سی قلمیں مخالفانہ طور پر اٹھیں گی اور ایک تعجب اور انکار سے بھرا ہوا شور عوام میں پیدا ہوگا.بائیبل اور ہماری احادیث اور اخبار کی کتابوں کے رو سے جن نبیوں کا اسی وجود عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا تصور کیا گیا ہے وہ دو نبی ہیں.ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اور اور میں سا بھی ہے.دوسرے مسیح بن مریم جن کو عیسی اور یسوع بھی کہتے ہیں.ان دونوں نبیوں کی نسبت عہد قدیم اور جدید کے بعض صحیفے بیان کر رہے ہیں کہ وہ دونوں آسمان کی طرف اٹھائے گئے اور پھر کسی زمانہ میں زمین پر اتریں گے اور تم ان کو آسمان سے آتے دیکھو گے.انہی کتابوں سے کسی قدر ملتے جلتے الفاظ احادیث نبویہ میں بھی پائے جاتے ہیں.لیکن حضرت اور میں نے کی نسبت جو بائیل میں یوحنا یا ایلیا کے نام سے پکارے گئے ہیں انجیل میں یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ یحیی بن زکریا کے پیدا ہونے سے ان کا آسمان سے اترنا وقوع میں آ گیا ہے چنانچہ حضرت مسیح صاف صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ یوحنا جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو سو ایک نبی کے محکمہ سے ایک آسمان پر جانے والے اور پھر کسی وقت اترنے والے یعنی یوحنا کا مقدمہ تو انفصال پا گیا اور دوبارہ اترنے کی حقیقت اور کیفیت معلوم ہوگئی.چنانچہ تمام عیسائیوں کا متفق علیہ عقیدہ جوانجیل کے رو سے ہونا چاہیے یہی ہے کہ یوحنا جس کے آسمان سے اترنے کا انتظار تھا وہ حضرت مسیح کے وقت میں آسمان سے اس طرح پر اتر آیا کہ ذکریا کے گھر میں اسی طبع اور خاصیت کا بیٹا ہوا جس کا نام بیچی تھا.البتہ یہودی اس کے اترنے کے اب تک منتظر ہیں.ان کا بیان ہے کہ وہ سچ سچ آسمان سے اترے گا.بہر حال آسمان سے اترنے کا لفظ جو تاویل رکھتا ہے مسیح کے بیان سے اس کی حقیقت ظاہر ہوئی اور انہی کے بیان سے یوحنا کے آسمان سے اترنے کا جھگڑا طے ہوا اور یہ بات کھل گئی کہ آخر اترے تو کس طرح اُترے مگر مسیح کے اترنے کے بارے میں اب تک بڑے جوش سے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ عمدہ اور شاہانہ پوشاک قیمتی پار چات کی پہنے ہوئے فرشتوں کے ساتھ آسمان سے اتریں گے.مگر ان دو قوموں کا اس پر اتفاق نہیں کہ کہاں اتریں گے.آیا مکہ معظمہ میں یا لندن کے کسی گرجا میں یا ماسکو کے شاہی کلیسیا میں.اگر عیسائیوں کو پرانے خیالات کی تقلید رہزن نہ ہو تو وہ مسلمانوں کی نسبت بہت جلد سمجھ سکتے ہیں کہ میسج کا اتر نا اسی تشریح کے موافق چاہئے جو خود حضرت مسیح کے بیان سے صاف لفظوں میں معلوم ہو چکی لے ۲۰ الیاس پڑھا جائے کشمس
۸۷۹ عیسائی لوگ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ حضرت مسیح اٹھائے جانے کے بعد بہشت میں داخل ہو گئے.لوکا کی انجیل میں خود حضرت مسیح ایک چور کو تسلی دے کر کہتے ہیں کہ آج تو میرے ساتھ بہشت میں داخل ہوگا.اور عیسائیوں کا یہ عقیدہ بھی متفق علیہ ہے کہ کوئی شخص بہشت میں داخل ہو کر پھر اس سے نکالا نہیں جائیگا گو کیسا ہی ادنیٰ درجہ کا آدمی ہو.چنانچہ یہی عقیدہ مسلمانوں کا بھی ہے.اللہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.وَمَاهُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَا یعنی جو لوگ بہشت میں داخل کئے جائیں گے پھر اس سے نکالے نہیں جائیں گے اور قرآن شریف میں اگر چہ حضرت مسیح کے بہشت میں داخل ہونے کا بہ تصریح کہیں ذکر نہیں لیکن ان کی وفات پا جانے کا تین جگہ ذکر ہے.اور مقدس بندوں کے لئے وفات پانا اور بہشت میں داخل ہونا ایک ہی حکم میں ہے کیونکہ برطبق آیت قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ، وَادْخُلِي جَنَّتِی کے وہ بلا توقف بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں.اب مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں گروہ پر واجب ہے کہ اس امر کو غور سے جانچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک مسیح جیسا مقرب بندہ بہشت میں داخل کر کے پھر اس سے باہر نکال دیا جائے؟ کیا اس میں خدائے تعالیٰ کے اس وعدہ کا تخلف نہیں جو اس کی تمام پاک کتابوں میں بتواتر و تصریح موجود ہے؟ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ یہی معجزہ کفار مکہ نے ہمارے سید و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تھا کہ آسمان پر ہمارے رو برو چڑھیں اور روبرو ہی اتریں.اور انہیں جواب ملا تھا کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبّی ہے یعنی خدا تعالیٰ کی حکیمانہ شان اس سے پاک ہے کہ ایسے کھلے کھلے خوارق اس دار الابتلاء میں دکھاوے اور ایمان بالغیب کی حکمت کو تلف کرے.اب میں کہتا ہوں کہ جو امر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو افضل الانبیاء تھے جائز نہیں اور سنت اللہ سے باہر سمجھا گیا وہ حضرت مسیح کے لئے کیونکر جائز ہو سکتا ہے.؟ یہ کمال بے ادبی ہو گی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک کمال کو مستبعد خیال کریں اور پھر وہی کمال حضرت مسیح کی نسبت قرین قیاس مان لیں.کیا کسی سچے مسلمان سے ایسی گستاخی ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.اب ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہادی اور سید مولی جناب ختم المرسلین نے مسیح اول اور مسیح ثانی میں ما بہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے صرف یہی نہیں فرمایا کہ مسیح ثانی ایک مرد مسلمان ہوگا اور شریعت قرآنی کے موافق عمل کرے گا اور مسلمانوں کی طرح صوم وصلوٰۃ وغیرہ احکام فرقانی کا پابند ہوگا اور مسلمانوں الحجر : ۴۹ يس : ۲۷ الفجر: ٣١ بنی اسراءیل: ۹۴
۸۸۰ میں پیدا ہوگا اور ان کا امام ہوگا اور کوئی جدا گانہ دین نہ لائیگا اور کسی جدا گانہ نبوت کا دعویٰ نہیں کرے گا بلکہ یہ بھی ظاہر فرمایا ہے کہ مسیح اول اور مسیح ثانی کے حلیہ میں بھی فرق بین ہوگا.چنانچہ مسیح اول کا حلیہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کی رات میں نظر آیا وہ یہ ہے کہ درمیانہ قد اور سرخ رنگ اور گھنگھر والے بال اور سینہ کشادہ ہے دیکھو صحیح بخاری ص ۴۸۹.لیکن اسی کتاب میں مسیح ثانی کا حلیہ جناب ممدوح نے یہ فرمایا ہے کہ وہ گندم گوں ہے اور اس کے بال گھنگھر والے نہیں ہیں اور کانوں تک لٹکتے ہیں.اب ہم سوچتے ہیں کہ کیا یہ دونوں ممیز علامتیں جو مسیح اول اور ثانی میں آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہیں کافی طور پر یقین نہیں دلاتیں کہ مسیح اول اور ہے اور مسیح ثانی اور.ان دونوں کو ابن مریم کے نام سے پکارنا ایک لطیف استعارہ ہے جو باعتبار مشابہت طبع اور روحانیت خاصیت کے استعمال کیا گیا ہے.توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱تا۵۹) واقعات موجودہ کو نظر انداز مت کرو تا تم پر کھل جائے کہ یہ تمام ضلالت وہی سخت دجالیت ہے جس سے ہر یک نبی ڈراتا آیا ہے جس کی بنیاد اس دنیا میں عیسائی مذہب اور عیسائی قوم نے ڈالی.جس کے لئے ضرور تھا کہ مجد دوقت مسیح کے نام پر آوے کیونکہ بنیاد فساد مسیح کی ہی امت ہے.اور میرے پر کشفا یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ زہر ناک ہوا جو عیسائی قوم سے دنیا میں پھیل گئی حضرت عیسی کو اس کی خبر دی گئی.تب ان کی روح روحانی نزول کے لئے حرکت میں آئی اور اس نے جوش میں آ کر اور اپنی امت کو ہلاکت کا مفسده پرداز پا کر زمین پر اپنا قائم مقام اور شبیہ چاہا جو اس کا ایسا ہم طبع ہو کہ گویا وہی ہو.سو اس کو خدائے تعالیٰ نے وعدہ کے موافق ایک شبیہ عطا کی اور اس میں مسیح کی ہمت اور سیرت اور روحانیت نازل ہوئی اور اس میں اور مسیح میں بشدت اتصال کیا گیا گویا وہ ایک ہی جوہر کے دوٹکڑے بنائے گئے اور مسیح کی تو جہات نے اس کے دل کو اپنا قرار گاہ بنایا اور اس میں ہو کر اپنا تقاضا پورا کرنا چاہا.پس ان معنوں سے اس کا وجود مسیح کا وجود ٹھہرا اور مسیح کے پر جوش ارادات اس میں نازل ہوئے جن کا نزول الہامی استعارات میں مسیح کا نزول قرار دیا گیا.یادر ہے کہ یہ ایک عرفانی بھید ہے کہ بعض گزشتہ کاملوں کا ان بعض پر جوز مین پر زندہ موجود ہوں عکس توجہ پڑ کر اور اتحاد خیالات ہو کر ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ وہ ان کے ظہور کو اپنا ظہور سمجھ لیتے ہیں اور ان کے ارادات جیسے آسمان پر ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ویسا ہی باذنہ تعالیٰ اس کے دل میں جو زمین پر ہے پیدا ہو جاتے ہیں اور ایسی روح جس کی حقیقت کو اس آدمی سے جو زمین پر ہے متحد کیا جاتا ہے ایک ایسا ملکہ رکھتی ہے کہ جب چاہے پورے طور پر اپنے ارادات اس میں ڈالتی رہے اور ان ارادات
ΑΔΙ کو خدا تعالیٰ اس دل سے اس دل میں رکھ دیتا ہے.غرض یہ سنت اللہ ہے کہ کبھی گزشتہ انبیاء و اولیاء اس طور سے نزول فرماتے ہیں اور ایلیا نبی نے بیٹی نبی میں ہو کر اسی طور سے نزول کیا تھا.سو مسیح کے نزول کی سچی حقیقت یہی ہے جو اس عاجز پر ظاہر کی گئی اور اگر اب بھی کوئی باز نہ آوے تو میں مباہلہ کے لئے طیار ہوں.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴ ۲۵ تا ۲۵۶) اگر یہ کہا جائے کہ احادیث صاف اور صریح لفظوں میں بتلا رہی ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے اترے گا اور دمشق کے منارہ شرقی کے پاس اس کا اترنا ہوگا اور دو فرشتوں کے کندھوں پر اس کے ہاتھ ہونگے تو اس مصرح اور واضح بیان سے کیونکر انکار کیا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان سے اترنا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ بیچ بیچ خاکی وجود آسمان سے اترے بلکہ صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں ہے.اور یوں تو نزول کا لفظ عام ہے جو شخص ایک جگہ سے چل کر دوسری جگہ ٹھہرتا ہے اس کو بھی یہی کہتے ہیں کہ اس جگہ اترا ہے.جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ لشکر اترا ہے یا ڈیرہ اترا ہے.کیا اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ لشکر یا وہ ڈیرہ آسمان سے اترا ہے؟ ما سوائے اس کے خدائے تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی آسمان سے ہی اترے ہیں بلکہ ایک جگہ فرمایا ہے کہ لوہا بھی ہم نے آسمان سے اتارا ہے.پس صاف ظاہر ہے کہ یہ آسمان سے اتر نا اس صورت اور رنگ کا نہیں ہے جس صورت پر لوگ خیال کر رہے ہیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۳۳۱۳۲) ناحق نزول کے لفظ کے الٹے معنے کرتے ہیں.خدا کی کتابوں کا یہ قدیم محاورہ ہے کہ جو خدا کی طرف سے آتا ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوا.دیکھو انجیل یوحنا باب اآیت ۳۸ اور اسی راز کی طرف اشارہ ہے سورۃ اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ے میں اور نیز آیت ذِكْرًار سُولاً میں لیکن عوام جو جسمانی خیال کے ہوتے ہیں وہ ہر ایک بات کی جسمانی طور پر سمجھ لیتے ہیں.یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ جیسے حضرت مسیح ان کے زعم میں فرشتوں کے ساتھ آسمان سے اتریں گے.ایسا ہی.ان کا یہ بھی تو عقیدہ ہے کہ آنحضرت یہ بھی فرشتوں کے ساتھ آسمان پر گئے تھے بلکہ اس جگہ تو ایک براق بھی ساتھ تھا مگر کس نے آنحضرت کا چڑھنا اور اترنا دیکھا.اور نیز فرشتوں اور براق کو دیکھا؟ ظاہر ہے کہ منکر لوگ معراج کی رات میں نہ دیکھ سکے کہ فرشتے آنحضرت علی کو آسمان پر لے گئے اور نہ اتر تے دیکھ سکے اسی لئے انہوں نے شور مچادیا کہ معراج جھوٹ ہے.اب یہ لوگ جو ایسے مسیح کے منتظر القدر : ٢ الطلاق: ۱۲،۱۱
۸۸۲ ہیں جو آسمان سے فرشتوں کے ساتھ اتر تا نظر آئے گا.یہ کس قدر خلاف سنت اللہ ہے.سید الرسل تو آسمان پر چڑھتایا اتر تا نظر نہ آیا ، تو کیا مسیح اترتا نظر آ جائے گا.لعنة اللہ علی الکاذبین.کیا ابوبکر صدیق نے سید المرسلین محمد مصطفی عملے کو مع فرشتوں کے معراج کی رات میں آسمان پر چڑھتے یا اتر تے دیکھا؟ یا عمر فاروق نے اس مشاہدہ کا فخر حاصل کیا؟ یا علی مرتضیٰ نے اس نظارہ سے کچھ حصہ لیا ؟ پھر تم کون اور تمہاری حیثیت کیا کہ مسیح موعود کو آسمان سے مع فرشتوں کے اترتے دیکھو گے! ! خود قرآن ایسی تبلیغ رسالت جلد نم صفحه ۶۶ - مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۳۹ بار دوم ) رویت کا مکذب ہے.مسلمانوں کو حضرت عیسی کے نزول کے بارے میں اسی خطرناک انجام سے ڈرنا چاہیئے کہ جو یہودیوں کو ایلیا کے بارے میں ظاہر نص پر زور دینے سے پیش آیا.جس بات کی پہلے زمانوں میں کوئی بھی نظیر نہ ہو بلکہ اس کے باطل ہونے پر نظیریں موجود ہوں اس بات کے پیچھے پڑ جانا نہایت درجہ کے بیوقوف کا کام ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَسْتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ا یعنی خدا کی سنتوں اور عادات کا نمونہ یہود اور نصاری سے پوچھ لو اگر تمہیں معلوم نہیں.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۳) جاننا چاہیئے کہ دمشق کا لفظ جو مسلم کی حدیث میں وارد ہے یعنی صحیح مسلم میں یہ جو لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید شرقی کے پاس اتریں گے یہ لفظ ابتداء سے محقق لوگوں کو حیران کرتا چلا آیا ہے کیونکہ بظاہر کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کو دمشق سے کیا مناسبت ہے اور دمشق کو مسیح سے کیا خصوصیت ؟..صرف تھوڑی سی توجہ کرنے سے ایک لفظ کی تشریح یعنی دمشق کے لفظ کی حقیقت میرے پر کھولی گئی اور نیز ایک صاف اور صریح کشف میں مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ ایک شخص حارث نام یعنی حراث آنے والا جو ابو داؤد کی کتاب میں لکھا ہے یہ خبر صحیح ہے اور یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی در حقیقت یہ دونوں اپنے مصداق کی رو سے ایک ہی ہیں یعنی ان دونوں کا مصداق ایک ہی شخص ہے جو یہ عاجز ہے.سواوّل میں دمشق کے لفظ کی تعبیر جو الہام کے ذریعہ مجھ پر کھولی گئی بیان کرتا ہوں.پھر بعد اس کے ابوداؤ د والی پیشگوئی جس طور سے مجھے سمجھائی گئی ہے بیان کروں گا.پس واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور النحل : ۴۴
۸۸۳ خیالات کے پیرو ہیں.جن کے دلوں میں اللہ اور رسول کی کچھ محبت نہیں اور احکام الہی کی کچھ عظمت نہیں جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اپنے نفس امارہ کے حکموں کے ایسے مطیع ہیں کہ مقدسوں اور پاکوں کا خون بھی ان کی نظر میں سہل اور آسان امر ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور خدائے تعالیٰ کا موجود ہونا ان کی نگاہ میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو انہیں سمجھ نہیں آتا اور چونکہ طبیب کو بیماروں ہی کی طرف آنا چاہیئے اس لئے ضرور تھا کہ مسیح ایسے لوگوں میں ہی نازل ہو.غرض مجھ پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دمشق کے لفظ سے دراصل وہ مقام مراد ہے جس میں یہ دمشق والی مشہور خاصیت پائی جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ نے مسیح کے اترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو اپنی روحانی حالت کی رو سے مسیح سے اور نیز امام حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے.دمشق کا لفظ صاف طور پر بیان کر رہا ہے کہ مسیح جو اتر نے والا ہے وہ بھی دراصل مسیح نہیں ہے.بلکہ جیسا کہ یزیدی لوگ مثیل یہود ہیں ایسا ہی مسیح جو اتر نے والا ہے وہ بھی مثیل مسیح ہے اور حسینی الفطرت ہے.یہ نکتہ ایک نہایت لطیف نکتہ ہے جس پر غور کرنے سے صاف طور پر کھل جاتا ہے کہ دمشق کا لفظ محض استعارہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے.چونکہ امام حسین کا مظلومانہ واقعہ خدائے تعالیٰ کی نظر میں بہت عظمت اور وقعت رکھتا ہے اور یہ واقعہ حضرت مسیح کے واقعہ سے ایسا ہمرنگ ہے کہ عیسائیوں کو بھی اس میں کلام نہیں ہوگی.اس لئے خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ آنے والے زمانہ کو بھی اس کی عظمت سے اور مسیحی مشابہت سے متنبہ کرے اس وجہ سے دمشق کا لفظ بطور استعارہ لیا گیا تا پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آ جائے جس میں لخت جگر رسول اللہ علیہ حضرت مسیح کی طرح کمال درجہ کے ظلم اور جورو جفا کی راہ سے دمشقی اشقیاء کے محاصرہ میں آ کر قتل کئے گئے.سوخدائے تعالیٰ نے اس دمشق کو جس سے ایسے پر ظلم حکام نکلتے تھے اور جس میں ایسے سنگدل اور سیاہ درون لوگ پیدا ہو گئے تھے اس غرض سے نشانہ بنا کر لکھا کہ اب مثیل دمشق عدل اور ایمان پھیلانے کا ہیڈ کوارٹر ہوگا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۳۴ تا ۱۳۷ حاشیه ) اب میں وہ حدیث جو ابو داؤد نے اپنی صحیح میں لکھی ہے ناظرین کے سامنے پیش کر کے اس کے مصداق کی طرف ان کو توجہ دلاتا ہوں.سو واضح ہو کہ یہ پیشگوئی جو ابوداؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حراث ماورائے نہر سے یعنی سمرقند کی طرف سے نکلے گا جو آل رسول کو تقویت دے
۸۸۴ گا.جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہوگی.الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہوگا دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے.مسیح کے نام پر جو پیشگوئی ہے اس کی علامات خاصه در حقیقت دو ہی ہیں.ایک یہ کہ جب وہ صیح آئیگا تو مسلمانوں کی اندرونی حالت کو جو اس وقت بغایت درجہ بگڑی ہوئی ہوگی اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دیگا اور ان کے روحانی افلاس اور باطنی ناداری کو بکلی دور فرما کر جواہرات علوم و حقائق و معارف ان کے سامنے رکھ دے گا یہاں تک کہ وہ لوگ اس دولت کو لیتے لیتے تھک جائیں گے اور ان میں سے کوئی طالب حق روحانی طور پر مفلس اور نا دار نہیں رہے گا بلکہ جس قدر سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کو بکثرت طیب غذا صداقت کی اور شربت شیریں معرفت کا پلایا جائے گا اور علوم حقہ کے موتیوں سے ان کی جھولیاں پُر کر دی جائیگی اور جو مغز اور لب لباب قرآن شریف کا ہے اس عطر کے بھرے ہوئے شیشے ان کو دیئے جائیں گے.دوسری علامت خاصہ یہ ہے کہ جب وہ مسیح موعود آئیگا تو صلیب کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کریگا اور دجال یک چشم کو قتل کر ڈالے گا اور جس کا فرتک اس کے دم کی ہوا پہنچے گی وہ فی الفور مر جائے گا.سو اس علامت کی اصل حقیقت جو روحانی طور پر مراد رکھی گئی ہے یہ ہے کہ مسیح دنیا میں آ کر صلیبی مذہب کی شان وشوکت کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالے گا اور ان لوگوں کو جن میں خنزیروں کی بے حیائی اور خوکوں کی بے شرمی اور نجاست خواری ہے ان پر دلائل قاطعہ کا ہتھیار چلا کر ان سب کا کام تمام کرے گا.اور وہ لوگ جو صرف دنیا کی آنکھ رکھتے ہیں مگر دین کی آنکھ بکلی ندارد بلکہ ایک بدنما ٹینٹ اس میں نکلا ہوا ہے ان کو بین حجتوں کی سیف قاطعہ سے ملزم کر کے ان کی منکرانہ ہستی کا خاتمہ کر دیگا اور نہ صرف ایسے یک چشم لوگ بلکہ ہر ایک کافر جو دین محمدی کو بنظر استحقار دیکھتا ہے مسیحی دلائل کے جلالی دم سے روحانی طور پر مارا جائے گا.غرض یہ سب عبارتیں استعارہ کے طور پر واقعہ ہیں جو اس عاجز پر بخوبی کھولی گئی ہیں اب چاہے کوئی اس کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن آخر کچھ مدت اور انتظار کر کے اور اپنی بے بنیا دا میدوں سے پاس کلی کی حالت میں ہو کر ایک دن سب لوگ اس طرف رجوع کرینگے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۱ تا ۱۴۳ حاشیه) صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اترینگے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا.اس لفظ کو ظاہری لباس پر حمل کرنا کیسا لغو خیال ہے.زردرنگ پہننے کی کوئی وجہ معلوم
۸۸۵ نہیں ہوتی لیکن اگر اس لفظ کو ایک کشفی استعارہ قرار دے کر معبرین کے مذاق اور تجارب کے موافق اس کی تعبیر کرنا چاہیں تو یہ معقول تعبیر ہوگی کہ حضرت مسیح اپنے ظہور کے وقت یعنی اس وقت میں کہ جب وہ مسیح ہونے کا دعوی کریں گے کسی قدر بیمار ہونگے اور حالت صحت اچھی نہیں رکھتے ہونگے کیونکہ کتب تعبیر کی رو سے زردرنگ پوشاک پہنے کی یہی تاویل ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۳٬۱۴۲) حضرت بخاری صاحب نے اپنی صحیح میں معراج کی حدیث میں جو ہمارے سید مولی آنحضرت ﷺ صلى الله کی ملاقات کا حال دوسرے انبیاء سے آسمانوں پر لکھا ہے تو اس جگہ حضرت عیسی کا کوئی خاص طور پر مجسم ہونا ہرگز بیان نہیں کیا بلکہ جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت موسی کی روح سے آنحضرت علی کی ملاقات کا ذکر کیا ہے ایسا ہی بغیر ایک ذرہ فرق کے حضرت عیسی کی روح سے ملاقات ہونا بیان کیا ہے بلکہ حضرت موسی کی روح کا کھلے کھلے طور پر آنحضرت علی سے گفتگو کرنا مفصل طور پر لکھا ہے.پس اس حدیث کو پڑھ کر کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ اگر حضرت مسیح جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں تو پھر ایسا ہی حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ وغیرہ انبیاء بھی اس جسم کے ساتھ اٹھائے گئے ہونگے کیونکہ معراج کی رات میں وہ سب نبی آنحضرت عمے کو ایک ہی رنگ میں آسمانوں پر نظر آئے ہیں.یہ نہیں کہ کوئی خاص وردی یا کوئی خاص علامت مجسم اٹھائے جانے کی حضرت مسیح میں دیکھی ہو اور دوسرے نبیوں میں وہ علامت نہ پائی گئی ہو.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۵۴۱۵۳) قرآن شریف کے کسی مقام سے ثابت نہیں کہ حضرت مسیح اسی خا کی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے گئے بلکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں مسیح کے فوت ہو جانے کا صریح ذکر ہے اور ایک جگہ خود مسیح کی طرف سے فوت ہو جانے کا اقرار موجود ہے اور وہ یہ ہے.كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَاَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شهید یا اب جبکہ فوت ہو جانا ثابت ہوا تو اس سے ظاہر ہے کہ ان کا جسم ان سب لوگوں کی طرح جو مرجاتے ہیں زمین میں دفن کیا گیا ہوگا.کیونکہ قرآن شریف بصراحت ناطق ہے کہ فقط ان کی روح آسمان پر گئی نہ کہ جسم.تب ہی تو حضرت مسیح نے آیت موصوفہ بالا میں اپنی موت کا صاف اقرار کر دیا.اگر وہ زندوں کی شکل پر خا کی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف پرواز کرتے تو اپنے مرجانے کا ہرگز ذکر نہ کرتے اور ایسا ہر گز نہ کہتے کہ میں وفات پا کر اس جہاں سے رخصت کیا گیا ہوں.اب ظاہر ہے کہ جبکہ المائدة: ١١٨
۸۸۶ اگر آسمان پر ان کی روح ہی گئی تو پھر نازل ہونے کے وقت جسم کہاں سے ساتھ آ جائے گا..ہم فرض محال کے طور پر قبول کر لیں کہ حضرت مسیح اپنے جسم خاکی کے سمیت آسمان پر پہنچ گئے تو اس بات کے اقرار سے ہمیں چارہ نہیں کہ وہ جسم جیسا کہ تمام حیوانی و انسانی اجسام کے لئے ضروری ہے آسمان پر بھی تاثیر زمانہ سے ضرور متاثر ہوگا اور بمرور زمانہ لا بدی اور لازمی طور پر ایک دن ضرور اس کے لئے موت واجب ہوگی.پس اس صورت میں اول تو حضرت مسیح کی نسبت یہ ماننا پڑتا ہے کہ اپنی عمر کا دورہ پورا کر کے آسمان پر ہی فوت ہو گئے ہوں.اور کواکب کی آبادی جو آج کل تسلیم کی جاتی ہے اسی کے کسی قبرستان میں دفن کئے گئے ہوں.اور اگر پھر فرض کے طور پر اب تک زندہ رہنا ان کا تسلیم کر لیں تو کچھ شک نہیں کہ اتنی مدت گزرنے پر پیر فرتوت ہو گئے ہونگے اور اس کام کے ہرگز لائق نہیں ہونگے کہ کوئی خدمت دینی ادا کر سکیں پھر ایسی حالت میں ان کا دنیا میں تشریف لانا بجز ناحق کی تکلیف کے اور کچھ فائدہ بخش معلوم نہیں ہوتا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲۵ تا ۱۲۷) مسیح ابن مریم کے فوت ہو جانے کے بارہ میں ہمارے پاس اس قدر یقینی اور قطعی ثبوت ہیں کہ ان کے مفصل لکھنے کے لئے اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں.پہلے قرآن شریف پر نظر غور ڈالو اور ذرہ آنکھ کھول کر دیکھو کہ کیونکر وہ صاف اور بین طور پر عیسی بن مریم کے مرجانے کی خبر دے رہا ہے جس کی ہم کوئی بھی تاویل نہیں کر سکتے.مثلاً یہ جو خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت عیسی کی طرف سے فرماتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ لے کیا ہم اس جگہ توفی سے نیند مراد لے سکتے ہیں؟ کیا یہ معنے اس جگہ موزوں ہونگے کہ جب تو نے مجھے سلا دیا اور میرے پر نیند غالب کر دی تو میرے سونے کے بعد تو ان کا نگہبان تھا ، ہر گز نہیں بلکہ توفی کے سید ھے اور صاف معنے جوموت ہے وہی اس جگہ چسپاں ہیں لیکن موت سے مراد وہ موت نہیں جو آسمان سے اترنے کے بعد پھر وارد ہو کیونکہ جو سوال ان سے کیا گیا ہے یعنی ان کی امت کا بگڑ جانا.اس وقت کی موت سے اس سوال کا کچھ علاقہ نہیں.کیا نصاری اب صراط مستقیم پر ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ جس امر کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے عیسی بن مریم سے سوال کیا ہے وہ امر تو خود آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک ہی کمال کو پہنچ چکا ہے.ماسوا اس کے حدیث کی رو سے بھی حضرت عیسی علیہ السلام کا فوت ہو جانا ثابت ہے چنانچہ تفسیر معالم کے صفحہ ۱۶۲ میں زیر تفسیر آیت يعيسَى اِنّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ انت لکھا ہے کہ علی بن طلحہ ابن المائدة: ١١٨
۸۸۷ عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اِنِّی مُمِیتُکَ یعنی میں تجھ کو مارنے والا ہوں.اس پر دوسرے اقوال اللہ تعالیٰ کے دلالت کرتے ہیں.قُلْ يَتَوَ فُكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِينَ تَتَوَفهُمُ الْمَلَيْكَةُ طَيِّبِينَ الَّذِيْنَ تَتَوَفَّهُمُ الْمَلَبِكَةُ ظَالِمِي ، اَنفُسِهِمْ ، غرض حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اعتقاد یہی تھا کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں اور ناظرین پر واضح ہوگا کہ حضرت ابن عباس قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں سے ہیں اور اس بارے میں ان کے حق میں آنحضرت علیہ کی ایک دعا بھی ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲۴، ۲۲۵) امام بخاری رحمہ اللہ اسی غرض سے آیہ کریمہ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عليهم لے کو کتاب التفسیر میں لایا ہے.اور اس ایراد سے اس کا منشاء یہ ہے کہ تا لوگوں پر ظاہر کرے تَوَفَّيْتَنِيْ کے لفظ کی صحیح تفسیر وہی ہے جس کی طرف آنحضرت ﷺ اشارہ فرماتے ہیں یعنی مار دیا اور وفات دیدی.اور حدیث یہ ہے.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِّنْ أُمَّتِى فَيُؤْخَذُ بِـ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أَصَيْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَ كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ صفحه ۶۶۵ بخاری ۶۹۳ بخاری یعنی قیامت کے دن میں بعض لوگ میری امت میں سے آگ کی طرف لائے جائیں گے.تب میں کہوں گا کہ اے میرے رب ! یہ تو میرے اصحاب ہیں.تب کہا جائے گا کہ تجھے ان کاموں کی خبر نہیں جو تیرے پیچھے ان لوگوں نے کئے.سواس وقت میں وہی بات کہوں گا جو ایک نیک بندہ نے کہی تھی یعنی مسیح ابن مریم نے جب کہ اس کو پوچھا گیا تھا کہ کیا یہ تو نے تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے ماننا اور وہ بات جو میں ابن مریم کی طرح کہوں گا ) یہ ہے کہ میں جب تک ان میں تھا ان پر گواہ تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تو اس وقت تو ہی ان کا نگہبان اور محافظ اور نگران تھا.اس حدیث میں آنحضرت علی نے اپنے قصہ اور مسیح ابن مریم کے قصہ کو ایک ہی رنگ کا قصہ قرار دے کر وہی لفظ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کا اپنے حق میں استعمال کیا ہے جس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی سے وفات ہی مراد لی ہے.السجدة: ١٢ النحل:٣٣ النحل : ٢٩ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۸۶،۵۸۵) المائدة: ١١٨ یہ بخاری مجتبائی کے صفحات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس موجود تھی.(ناشر )
۸۸۸ ہم نے اپنے مخالف الرائے مولوی صاحبوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ممات کے بارے میں صرف ایک ہی سوال کیا تھا.اگر ایمانداری سے اس سوال میں غور کرتے تو ان کی ہدایت کیلئے ایک ہی سوال کافی تھا مگر کسی کو ہدایت پانے کی خواہش ہوتی تو غور بھی کرتا.سوال یہ تھا کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت دو جگہ توفی کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ لفظ ہمارے نبی ﷺ کے حق میں بھی قرآن کریم میں آیا ہے اور ایسا ہی حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا میں بھی یہ لفظ اللہ جلشانہ نے ذکر فرمایا ہے اور کتنے اور مقامات میں بھی موجود ہے اور ان تمام مقامات پر نظر ڈالنے سے ایک منصف مزاج آدمی پورے اطمینان سے سمجھ سکتا ہے کہ توفی کے معنے ہر جگہ قبض روح اور مارنے کے ہیں نہ اور کچھ.کتب حدیث میں بھی یہی محاورہ بھرا ہوا ہے.کتب حدیث میں توفی کے لفظ کو صدہا جگہ پاؤ گے.مگر کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ بجز مارنے کے کسی اور معنے پر بھی استعمال ہوا ہے؟ ہر گز نہیں.بلکہ اگر ایک امی آدمی عرب کو کہا جائے کہ تُوفِّيَ زَيْدٌ تو وہ اس فقرہ سے یہی سمجھے گا کہ زید وفات پا گیا.خیر عربوں کا عام محاورہ بھی جانے دو.خود آنحضرت عہ کے ملفوظات مبارکہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب کوئی صحابی یا آپ کے عزیزوں میں سے فوت ہوتا تو آپ توفی کے لفظ سے ہی اس کی وفات ظاہر کرتے تھے.اور جب آنجناب عہ نے وفات پائی تو صحابہ نے بھی توفی کے لفظ سے ہی آپ کی وفات ظاہر کی.اسی طرح حضرت ابو بکر کی وفات حضرت عمر کی وفات غرض تمام صحابہ کی وفات توفی کے لفظ سے ہی تقریر تحریر بیان ہوئی اور مسلمانوں کی وفات کے لئے یہ لفظ ایک عزت کا قرار پایا تو پھر جب مسیح پر یہی وارد ہوا تو کیوں اس کے خود تراشیدہ معنے لئے جاتے ہیں.( اتمام الحجة_روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۹۳٬۲۹۲) عموم محاوره قرآن شریف کا توفی کے لفظ کے استعمال میں یہی واقعہ ہوا ہے کہ وہ تمام مقامات میں اول سے آخر تک ہر ایک جگہ جو سو فی کا لفظ آیا ہے اس کو موت اور قبض روح کے معنے میں لاتا ہے.اور جب عرب کے قدیم وجدید اشعار وقصائد ونظم و نثر کا جہاں تک ممکن تھا تتبع کیا گیا اور عمیق تحقیقات سے دیکھا گیا تو یہ ثابت ہوا کہ جہاں جہاں توفی کے لفظ کا ذوی الروح سے یعنی انسانوں سے علاقہ ہے اور فاعل اللہ جل شانہ کو ٹھہرایا گیا ہے ان تمام مقامات میں توفی کے معنے موت و قبض روح کے کئے گئے ہیں اور اشعار قدیمہ اور جدیدہ عرب میں اور ایسا ہی ان کی نثر میں بھی ایک بھی لفظ توفی کا ایسا نہیں ملے گا جو ذوی الروح میں مستعمل ہو اور جس کا فاعل لفظاً یا معناً خدائے تعالیٰ ٹھہرایا گیا ہو یعنی فعل عبد کا قرار نہ دیا گیا ہو اور
۸۸۹ محض خدائے تعالیٰ کا فعل سمجھا گیا ہو اور پھر اس کے معنے بجر قبض روح کے اور مرادر کھے گئے ہوں.لغات کی کتابوں قاموس صحاح صراح وغیرہ پر نظر ڈالنے والے بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ ضرب المثل کے طور پر بھی کوئی فقرہ عرب کے محاورات کا ایسا نہیں ملا جس میں توفی کے لفظ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اور ذوی الروح کے بارہ میں استعمال میں لا کر پھر اس کے اور بھی معنے کئے ہوں بلکہ برابر ہر جگہ یہی معنے موت اور قبض روح کے کئے گئے ہیں اور کسی دوسرے احتمال کا ایک ذرہ راہ کھلا نہیں رکھا پھر بعد اس کے اس عاجز نے حدیثوں کی طرف رجوع کیا تا معلوم ہو کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں صحابہ اور خود آنحضرت صلعم اس لفظ توفی کو ذوی الروح کی طرف منسوب کر کے کن کن معنوں میں استعمال کرتے تھے.آیا یہ لفظ اس وقت ان کے روز مرہ محاورات میں کئی معنوں پر استعمال ہوتا تھا یا صرف ایک ہی معنے قبض روح اور موت کے لئے مستعمل تھا.سو اس تحقیقات کے لئے مجھے بڑی محنت کرنی پڑی اور ان تمام کتابوں صحیح بخاری، صحیح مسلم ، ترمذی، ابن ماجہ، ابو داؤد، نسائی ، دارمی ، مؤطا، شرح السنہ وغیرہ وغیرہ کا صفحہ صفحہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان تمام کتابوں میں جو داخل مشکوۃ ہیں تین سو چھالیس مرتبہ مختلف مقامات میں توفی کا لفظ آیا ہے اور ممکن ہے کہ میرے شمار کرنے میں بعض توفی کے لفظ رہ بھی گئے ہوں لیکن پڑھنے اور زیر نظر آ جانے سے ایک بھی لفظ باہر نہیں رہا.اور جس قدر وہ الفاظ توفی کے ان کتابوں میں آئے ہیں خواہ وہ ایسا لفظ ہے جو آنحضرت ﷺ کے منہ سے نکلا ہے یا ایسا ہے جو کسی صحابی نے منہ سے نکالا ہے تمام جگہ وہ الفاظ موت اور قبض روح کے معنے میں ہی آئے ہیں اور چونکہ میں نے ان کتابوں کو بڑی کوشش اور جانکا ہی سے سطر سطر پر نظر ڈال کر دیکھ لیا ہے اس لئے میں دعویٰ سے اور شرط کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہر ایک جگہ جو توفی کا لفظ ان کتابوں کی احادیث میں آیا ہے اس کے بج موت اور قبض روح کے اور کوئی معنے نہیں اور ان کتابوں سے بطور استنقراء کے ثابت ہوتا ہے کہ بعد بعثت اخیر عمر تک جو آنحضرت ﷺ زندہ رہے کبھی آنحضرت ﷺ نے توفی کا لفظ بغیر معنی موت اور قبض روح کے کسی دوسرے معنی کے لئے ہرگز استعمال نہیں کیا اور نہ کبھی دوسرے معنی کا لفظ زبان مبارک پر جاری ہوا.....امام محمد اسماعیل بخاری نے اس جگہ اپنی صحیح میں ایک لطیف نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کم سے کم سات ہزار مرتبہ توفی کا لفظ آنحضرت ﷺ کے منہ سے بعثت کے بعدا خیر عمر تک نکلا ہے اور ہر یک لفظ توفی کے معنے قبض روح اور موت تھی.سو یہ نکتہ بخاری کا منجملہ ان نکات کے ہے جن سے حق کے طالبوں کو امام بخاری کا مشکور و ممنون ہونا چاہئے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳ ۵۸ تا ۵۸۵)
190 اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلحم سے یا اشعار وقصائد ونظم ونثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بحجر قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنوں پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کر لوں گا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۳) قرآن شریف ہی بتصریح ذکر کر چکا ہے جبکہ اس نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ کوئی نبی نہیں آیا جو فوت نہ ہوا ہو.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرِ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ وَمَا جَعَلْتهم جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَلِدِينَ اب ظاہر ہے کہ باوجود ان تمام آیات کے جو بآواز بلند مسیح کی موت پر شہادت دے رہی ہیں پھر بھی مسیح کو زندہ خیال کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ برخلاف مفہوم آیت وَمَا جَعَلْتُهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطعام کے مسیح جسم خاکی کے ساتھ دوسرے آسمان میں بغیر حاجت طعام کے یونہی فرشتوں کی طرح زندہ ہے درحقیقت خدائے تعالی کی پاک کلام سے روگردانی ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر مسیح اسی جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر زندہ ہے تو خدا تعالیٰ کا آیت ممدوحہ بالا میں یہ دلیل پیش کرنا کہ یہ نبی ﷺ اگر فوت ہو گیا تو اس کی نبوت پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ ابتداء سے سارے نبی مرتے ہی آئے ہیں بالکل نکمی اور لغو بلکہ خلاف واقعہ ٹھہر جائیگی اور خدا تعالیٰ کی شان اس سے بلند ہے کہ جھوٹھ بولے یا خلاف واقعہ کہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۷۸،۲۷۷) وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ.اَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (سورة النحل الجز و نمبر ۱۴) یعنی جولوگ بغیر اللہ کے پرستش کئے جاتے اور پکارے جاتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ ہیں.مرچکے ہیں زندہ بھی تو نہیں ہیں اور نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے.ال عمران: ۱۴۵ ۳ الانبیاء: ۳۵ الانبياء: 9 الانبياء : ۲۲ ۵ النحل : ۲۱،۲۰
۸۹۱ دیکھو یہ آمیتیں کس قدر صراحت سے مسیح اور ان سب انسانوں کی وفات پر دلالت کر رہی ہیں جن کو یہود اور نصاریٰ اور بعض فرقے عرب کے اپنا معبود ٹھہراتے تھے اور ان سے دعائیں مانگتے تھے.اگر اب بھی آپ لوگ مسیح ابن مریم کی وفات کے قائل نہیں ہوتے تو سیدھے یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہمیں قرآن کریم کے ماننے میں کلام ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۱) سوال.قرآن شریف سے اگر چہ مسیح کی موت ثابت ہوتی ہے مگر اس موت کا کوئی وقت خاص تو ثابت نہیں ہوتا.پس تعارض حدیث اور قرآن کا دور کرنے کیلئے بجز اس کے اور کیا راہ ہے کہ اس موت کا زمانہ وہ قرار دیا جائے کہ جب پھر حضرت مسیح نازل ہونگے.اما الجواب پس واضح ہو کہ قرآن شریف کی نصوص بعینہ اسی بات پر بصراحت دلالت کر رہی ہیں کہ مسیح اپنے اسی زمانہ میں فوت ہو گیا ہے جس زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کے مفسد فرقوں کی اصلاح کے لئے آیا تھا جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.يُحِيْنَى اِنّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ القِيمة اب اس جگہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اِنِّي مُتَوَفِّيكَ پہلے لکھا ہے اور رافِعُكَ بعد اس کے بیان فرمایا ہے.جس سے ثابت ہوا کہ وفات پہلے ہوئی اور رفع بعد از وفات ہوا.اور پھر اور ثبوت یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ میں تیری وفات کے بعد تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر جو یہودی ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا.اب ظاہر ہے اور تمام عیسائی اور مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح کے بعد اسلام کے ظہور تک بخوبی پوری ہو گئی کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو ان لوگوں کی رعیت اور ماتحت کر دیا جو عیسائی یا مسلمان ہیں اور آج تک صدہا برسوں سے وہ ماتحت چلے آتے ہیں.یہ تو نہیں کہ حضرت مسیح کے نزول کے بعد پھر ماتحت ہونگے.ایسے معنے تو بہ بداہت فاسد ہیں.دیکھنا چاہئے کہ قرآن شریف میں یہ بھی آیت ہے جو حضرت مسیح کی زبان سے اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَأَوْطَنِى بِالصَّلوةِ وَالزَّكُوةِ مَا دُمْتُ حَيَّاقَ بَرا بِوَالِدَتِي لا یعنی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے نماز پڑھتارہ اور زکوۃ دیتا رہ اور اپنی والدہ پر احسان کرتا رہ جب تک تو زندہ ہے.اب ظاہر ہے کہ ان تمام تکلیفات شرعیہ کا آسمان پر بجالا نا محال ہے اور جو ال عمران: ۲۵۶ مریم: ۳۳۳۲
۸۹۲ شخص مسیح کی نسبت یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ زندہ مع جسدہ آسمان کی طرف اٹھایا گیا اس کو اس آیت موصوفہ بالا کے منشا کے موافق یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تمام احکام شرعی جو انجیل اور توریت کی رو سے انسان پر واجب العمل ہوتے ہیں وہ حضرت مسیح پر اب بھی واجب ہیں.حالانکہ یہ تکلیف مالا يطاق ہے.عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ یہ حکم دیوے کہ اے عیسی جب تک تو زندہ ہے تیرے پر واجب ہے کہ تو اپنی والدہ کی خدمت کرتا رہے اور پھر آپ ہی اس کے زندہ ہونے کی حالت میں ہی اس کو والدہ سے جدا کر دیوے.اور تابحیات زکوۃ کا حکم دیوے اور پھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی ایسی جگہ پہنچا وے جس جگہ نہ وہ آپ زکوۃ دے سکتے ہیں اور نہ زکوۃ کیلئے کسی دوسرے کو نصیحت کر سکتے ہیں اور صلوٰۃ کے لئے تاکید کرے اور جماعت مومنین سے دور پھینک دیوے جن کی رفاقت صلوۃ کی تکمیل کیلئے ضروری تھی.کیا ایسے اٹھائے جانے سے بجز بہت سے نقصان عمل اور ضائع ہونے حقوق عباد اور فوت ہونے خدمت امر معروف اور نہی منکر کے کچھ اور بھی فائدہ ہوا؟ اگر یہی اٹھارہ سوا کا نوے برس زمین پر زندہ رہتے تو ان کی ذات جامع البرکات سے کیا کیا نفع خلق اللہ کو پہنچتا.لیکن ان کے اوپر تشریف لے جانے سے بجز اس کے اور کونسا نتیجہ نکلا کہ ان کی امت بگڑ گئی اور وہ خدمات نبوت کے بجالانے سے بکلی محروم رہ گئے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۰ تا ۳۳۲) ہم بخوبی ثابت کر چکے ہیں کہ یہ عقیدہ کہ مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر چلا گیا تھا قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا.صرف بیہودہ اور بے اصل اور متناقض روایات پر اس کی بنیاد معلوم ہوتی ہے مگر اس فلسفی الطبع زمانہ میں جو عقلی شائستگی اور ذہنی تیزی اپنے ساتھ رکھتا ہے ایسے عقیدوں کے ساتھ دینی کامیابی کی امید رکھنا ایک بڑی بھاری غلطی ہے.اگر افریقہ کے ریگستان یا عرب کے صحرا نشین امیوں اور بدوؤں میں یا سمندر کے جزیروں کے اور وحشی لوگوں کی جماعتوں میں یہ بے سروپا باتیں پھیلائیں تو شائد آسانی سے پھیل سکیں لیکن ہم ایسی تعلیمات کو جو عقل اور تجربہ اور طبعی اور فلسفہ سے بکلی مخالف اور نیز ہمارے نبی ﷺ کی طرف سے ثابت نہیں ہوسکتیں بلکہ ان کے مخالف حدیثیں ثابت ہو رہی ہیں تعلیم یافتہ لوگوں میں ہرگز پھیلا نہیں سکتے اور نہ یورپ امریکہ کے محقق طبع لوگوں کی طرف جو اپنے دین کے لغویات سے دست برادر ہو رہے ہیں بطور ہدیہ و تحفہ بھیج سکتے ہیں.جن لوگوں کے دل اور دماغ کو نئے علوم کی روشنی نے انسانی قوتوں میں ترقی دیدی ہے وہ ایسی باتوں کو کیونکر تسلیم کر لیں گے جن میں سراسر خدائے تعالیٰ کی توہین اور اس کی توحید کی اہانت اور اس کے قانون قدرت کا ابطال اور
۸۹۳ اس کے کتابی اصول کی تنسیخ پائی جاتی ہے.اس جگہ یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان سے اتر نا اس کے جسم کے ساتھ چڑھنے کی فرع ہے لہذا یہ بحث بھی ( کہ مسیح اسی جسم کے ساتھ آسمان سے اترے گا جو دنیا میں اس کو حاصل تھا ) اس دوسری بحث کی فرع ہوگی جو مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھایا گیا تھا جبکہ یہ بات قرار پائی تو اول ہمیں اس عقیدہ پر نظر ڈالنی چاہئے جو اصل قرار دیا گیا ہے کہ کہاں تک وہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے کیونکہ اگر اصل کا کما حقہ تصفیہ ہو جائے گا تو پھر اس کی فرع ماننے میں کچھ تامل نہیں ہوگا اور کم سے کم امکانی طور پر ہم قبول کر سکیں گے کہ جبکہ ایک شخص کا جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر چلے جانا ثابت ہو گیا ہے تو پھر اسی جسم کے ساتھ واپس آنا اس کا کیا مشکل ہے لیکن اگر اصل بحث قرآن اور حدیث سے ثابت نہ ہو سکے بلکہ حقیقت امر اس کے مخالف ثابت ہو تو ہم فرع کو کسی طرح سے تسلیم نہیں کر سکتے.اگر فرع کی تائید میں بعض حدیثیں بھی ہونگی تو ہم پر فرض ہو گا کہ ان کو اصل سے تطبیق دینے کیلئے کوشش کریں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۳۶،۲۳۵) زمانہ حال کے مسلمان ایک طرف تو ہمارے نبی علیہ کی وفات اور زمین میں مدفون ہونے کا اقرار کر کے پھر اس بات کے بھی اقراری ہو کر کہ مسیح اب تک زندہ ہے عیسائیوں کے ہاتھ میں ایک تحریری اقرار اپنا دے دیتے ہیں کہ مسیح اپنے خواص میں عام انسانوں کے خواص بلکہ تمام انبیاء کے خواص سے مستثنیٰ اور نرالا ہے.کیونکہ جبکہ ایک افضل البشر جو مسیح سے چھ سو برس پیچھے آیا تھوڑی سی عمر پا کر فوت ہو گیا اور تیرہ سو برس اس نبی کریم کے فوت ہونے پر گزر بھی گئے مگر مسیح اب تک فوت ہونے میں نہیں آیا تو کیا اس سے یہی ثابت ہوا یا کچھ اور کہ مسیح کی حالت لوازم بشریت سے بڑھی ہوئی ہے.پس حال کے علماء اگر چہ بظاہر صورت شرک سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں مگر مشرکوں کو مدد دینے میں کوئی دقیقہ انہوں نے اٹھا نہیں رکھا.غضب کی بات ہے کہ اللہ جل شانہ تو اپنی پاک کلام میں حضرت مسیح کی وفات ظاہر کرے اور یہ لوگ اب تک اس کو زندہ سمجھ کر ہزار ہا اور بے شمار فتنے اسلام کے لئے برپا کر دیں اور مسیح کو آسمان کا حی و قیوم اور سید الانبیاء ﷺ کو زمین کا مردہ ٹھہرا دیں.حالانکہ مسیح کی گواہی قرآن کریم میں اس طرح پر لکھی ہے کہ مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِی اسْمُةَ أَحْمَدُ ے یعنی میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد یعنی میرے مرنے کے بعد آئے گا اور نام اس کا احمد ہوگا.پس الصف:
۸۹۴ اگر مسیح اب تک اس عالم جسمانی سے گزر نہیں گیا تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہمارے نبی عہ بھی اب تک اس عالم میں تشریف فرما نہیں ہوئے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۱ ۴۲۰) یہ بات بالکل غیر ممکن ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں کیونکہ اس کا ثبوت نہ تو قرآن شریف سے ملتا ہے اور نہ حدیث سے اور نہ عقل اس کو باور کر سکتی ہے بلکہ قرآن اور حدیث اور عقل متینوں اس کے مکذب ہیں کیونکہ قرآن شریف نے کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور معراج کی حدیث نے ہمیں بتلا دیا ہے کہ وہ فوت شدہ انبیاء علیہم السلام کی روحوں میں جا ملے ہیں اور اس عالم سے بکلی انقطاع کر گئے.اور عقل ہمیں بتلا رہی ہے کہ اس جسم فانی کے لئے یہ سنت اللہ نہیں کہ آسمان پر چلا جائے اور باوجود زندہ مع الجسم ہونے کے کھانے پینے اور تمام لوازم حیات سے الگ ہو کر ان روحوں میں جا ملے جو موت کا پیالہ پی کر دوسرے جہان میں پہنچ گئے ہیں.عقل کے پاس اس کا کوئی نمونہ نہیں.پھر ماسوا اس کے جیسا کہ یہ عقیدہ حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر چڑھنے کا قرآن شریف کے بیان سے مخالف ہے ایسا ہی ان کے آسمان سے اترنے کا عقیدہ بھی قرآن کے بیان سے منافات کلی رکھتا ہے کیونکہ قرآن شریف جیسا کہ آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي ا اور آیت قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ہے میں حضرت عیسی کو مار چکا ہے ایسا ہی آیت اليوم اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُم سے اور آیت وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ ے میں صریح نبوت کو آنحضرت ﷺ پر ختم کر چکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت علی خاتم الانبیاء ہیں جیسا کہ فرمایا ہے وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ لیکن وہ لوگ جو حضرت عیسی علیہ السلام کو دوبارہ دنیا میں واپس لاتے ہیں ان کا یہ عقیدہ کہ وہ بدستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیں گے اور برابر پینتالیس برس تک ان پر جبرائیل علیہ السلام وحی نبوت لے کر نازل ہوتا رہے گا.اب بتلاؤ کہ ان کے عقیدہ کے موافق ختم نبوت اور ختم وحی نبوت کہاں باقی رہا بلکہ ماننا پڑا کہ خاتم الانبیاء حضرت عیسیٰ ہیں.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۷۳ ۱۷۴) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس آیت سے استدلال کرنا کہ وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ شے صاف دلالت کرتا ہے کہ اُن کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے تھے کیونکہ اگر اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ پہلے نبیوں میں سے بعض نبی تو جناب خاتم الانبیاء المائدة: ۱۱۸ ۵۲ ال عمران: ۱۴۵ المائدة: الاحزاب: ام
۸۹۵ کے عہد سے پیشتر فوت ہو گئے ہیں مگر بعض اُن میں سے زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک فوت نہیں ہوئے تو اس صورت میں یہ آیت قابل استدلال نہیں رہتی کیونکہ ایک ناتمام دلیل جو ایک قاعدہ کلیہ کی طرح نہیں اور تمام افراد گذشتہ پر دائرہ کی طرح محیط نہیں وہ دلیل کے نام سے موسوم نہیں ہو سکتی پھر اس سے حضرت ابوبکر کا استدلال لغو ٹھہرتا ہے.اور یادر ہے کہ یہ دلیل جو حضرت ابو بکر نے تمام گذشتہ نبیوں کی وفات پر پیش کی کسی صحابی سے اس کا انکار مروی نہیں.حالانکہ اس وقت سب صحابی موجود تھے اور سب سُن کر خاموش ہو گئے.اس سے ثابت ہے کہ اس پر صحابہ کا اجماع ہو گیا تھا اور صحابہ کا اجماع حجت ہے جو کبھی ضلالت پر نہیں ہوتا.سو حضرت ابوبکر کے احسانات میں سے جو اس امت پر ہیں ایک یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے اس غلطی سے بچنے کے لئے جو آئندہ زمانہ کے لئے پیش آنے والی تھی اپنی خلافت حقہ کے زمانہ میں سچائی اور حق کا دروازہ کھول دیا.اور ضلالت کے سیلاب پر ایک ایسا مضبوط بند لگا دیا کہ اگر اس زمانہ کے مولویوں کے ساتھ تمام جنیات بھی شامل ہو جائیں تب بھی وہ اس بند کو تو ڑنہیں سکتے.سو ہم دُعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت ابوبکر کی جان پر ہزاروں رحمتیں نازل کرے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے پاک الہام پا کر اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ مسیح فوت ہو گیا ہے.( تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۵ اصفحہ ۴۶۱ ۴۶۲ حاشیہ) قرآن شریف نے صاف صاف لفظوں میں فرما دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں دیکھو آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی یا صاف ظاہر کر رہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور نیز حدیث نبوی سے اس بات کا ثبوت دے دیا ہے کہ اس جگہ توفی کے معنے مار دینے کے ہیں اور یہ کہنا بے جا ہے کہ یہ لفظ تَوَفَّيْتَنِی“ جو ماضی کے صیغہ میں آیا ہے دراصل اس جگہ مضارع کے معنے دیتا ہے یعنی ابھی نہیں مرے بلکہ آخری زمانہ میں جا کر مریں گئے“ کیونکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام جناب الہی میں عرض کرتے ہیں کہ میری اُمت کے لوگ میری زندگی میں نہیں بگڑے بلکہ میری موت کے بعد بگڑے ہیں.پس اگر فرض کیا جائے کہ اب تک حضرت عیسی علیہ السلام فوت نہیں ہوئے تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ اب تک نصاری بھی نہیں بگڑے کیونکہ آیت میں صاف طور پر بتلایا گیا کہ نصاریٰ کا بگڑنا حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کے بعد ہے اور اس سے زیادہ اور کوئی سخت بے ایمانی نہیں ہوگی کہ ایسی نص صریح سے انکار کیا جائے.المائدة : ١١٨
۸۹۶ اب جس حالت میں قرآن شریف کے صاف لفظوں سے حضرت عیسی علیہ السلام کی موت ہی ثابت ہوتی ہے اور دوسری طرف قرآن شریف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین رکھتا ہے اور حدیث ان دونوں باتوں کی مصدق ہے اور ساتھ ہی حدیث نبوی یہ بھی بتلا رہی ہے کہ آنے والا مسیح اس امت میں سے ہو گا گوکسی قوم کا ہو تو اس جگہ طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ باوجود نصوص صریح کے جو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات اور آنے والے مسیح کے امتی ہونے پر دلالت کرتی تھیں پھر کیوں اس بات پر اجماع ہو گیا کہ در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام آخری زمانہ میں آسمان سے اتر آئیں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس امر میں جو شخص اجتماع کا دعوی کرتا ہے وہ سخت نادان یا سخت خیانت پیشہ اور دروغ گو ہے.کیونکہ صحابہ کو اس پیشگوئی کی تفاصیل کی ضرورت نہ تھی.وہ بلاشبہ بموجب آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی اس بات پر ایمان لاتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.تبھی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اس بات کا احساس کر کے کہ بعض لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں شک رکھتے ہیں زور سے یہ بیان کیا کہ کوئی بھی نبی زندہ نہیں ہے سب فوت ہو گئے.اور یہ آیت پڑھی کہ قدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اور کسی نے اُن کے اس بیان پر انکار نہ کیا پھر ماسوا اس کے امام مالک جیسا امام عالم حدیث و قرآن و متقی اس بات کا قائل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.ایسا ہی امام ابن حزم جن کی جلالت شان محتاج بیان نہیں قائل وفات مسیح ہیں.اسی طرح امام بخاری جن کی کتاب بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے وفات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں.ایسا ہی فاضل و محدّث ومفسر ابن تیمیہ وابن قیم جو اپنے اپنے وقت کے امام ہیں حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں.ایسا ہی رئیس المتصوفين شیخ محی الدین ابن العربی صریح اور صاف لفظوں سے اپنی تفسیر میں وفات حضرت عیسی علیہ السلام کی تصریح فرماتے ہیں.اسی طرح اور بڑے بڑے فاضل اور محدث اور مفسر برابر یہی گواہی دیتے آئے ہیں اور فرقہ معتزلہ کے تمام اکابر اور امام یہی مذہب رکھتے ہیں.پھر کس قدر افترا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا زندہ آسمان پر جانا اور پھر واپس آنا اجماعی عقیدہ قرار دیا جائے بلکہ یہ اس زمانہ کے عوام الناس کے خیالات ہیں جبکہ ہزار ہا بدعات دین میں پیدا ہو گئی تھیں اور یہ وسط کا زمانہ تھا جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے اور فیج اعوج کے لوگوں کی نسبت فرمایا ہے کہ ليسوا منی و لست منهم....ان لوگوں نے یہ عقیدہ اختیار کر کے چار طور سے قرآن شریف کی مخالفت
۸۹۷ کی ہے اور پھر اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے ؟ تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں مگر یادر ہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وارد شہر کو پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اترے ہیں اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اُترا ہے.اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا کوئی وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے.اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں اور تو بہ کرنا اور تمام اپنی کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہو گا.جس طرح چاہیں تسلی کر لیں.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۱۹ تا۲۶ حاشیه) یہ خیال کہ تناسخ کے طور پر حضرت مسیح بن مریم دنیا میں آئیں گے سب سے زیادہ رڈی اور شرم کے لائق ہے.تناسخ کے ماننے والے تو ایسے شخص کا دنیا میں دوبارہ آنا تجویز کرتے ہیں جس کے تزکیہ نفس میں کچھ کسر رہ گئی ہو لیکن جو لوگ بکلی مراحل کمالات طے کر کے اس دنیا سے سفر کرتے ہیں وہ بزعم ان کے ایک مدت دراز کے لئے مکتی خانہ میں داخل کئے جاتے ہیں.ماسوائے اس کے ہمارے عقیدہ کے موافق خدائے تعالیٰ کا بہشتیوں کے لئے یہ وعدہ ہے کہ وہ کبھی اُس سے نکالے نہیں جائیں گے.پھر تعجب کہ ہمارے علماء کیوں حضرت مسیح کو اس فردوس بریں سے نکالنا چاہتے ہیں.آپ ہی یہ قصے سناتے ہیں کہ حضرت اور لیں جب فرشتہ ملک الموت سے اجازت لے کر بہشت میں داخل ہوئے تو ملک الموت نے چاہا کہ پھر باہر آویں لیکن حضرت ادریس نے باہر آنے سے انکار کیا اور یہ آیت سنادی.وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ ا اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا حضرت مسیح اس آیت سے فائدہ حاصل کرنے کے مستحق نہیں ہیں؟ کیا یہ آیت اُن کے حق میں منسوخ کا حکم رکھتی ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴۷، ۱۴۸) میں حضرت عیسی علیہ السلام کی شان کا منکر نہیں گو خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے لیکن تاہم میں مسیح ابن مریم کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ میں روحانیت کی رو سے اسلام میں الحجر : ۴۹
۸۹۸ خاتم الخلفاء ہوں جیسا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا.موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں.سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہمنام ہوں.اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں.نہ صرف اسی قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۷، ۱۸) اس بات کو ناظرین یاد رکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اسی طرز سے کلام کرنا ضروری تھا جیسا کہ وہ ہمارے مقابل پر کرتے ہیں.عیسائی لوگ در حقیقت ہمارے اس عیسی علیہ السلام کو نہیں مانتے جو اپنے تئیں صرف بندہ اور نبی کہتے تھے اور پہلے نبیوں کو راستباز جانتے تھے اور آنے والے نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے.اور آنحضرت کے بارے میں پیشگوئی کی تھی بلکہ ایک شخص یسوع نام کو مانتے ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا اور پہلے نبیوں کو بٹ مار وغیرہ ناموں سے یاد کرتا تھا.یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت مکذب تھا اور اُس نے یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے.سو آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف نے ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے ہمیں تعلیم نہیں دی بلکہ ایسے لوگوں کے حق میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر کوئی انسان ہو کر خدائی کا دعویٰ کرے تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے اسی سبب سے ہم نے عیسائیوں کے یسوع کے ذکر کرنے کے وقت اس ادب کا لحاظ نہیں رکھا جو بچے آدمی کی نسبت رکھنا چاہئے.ایسا آدمی اگر نابینا نہ ہوتا تو یہ نہ کہتا کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے.اور اگر نیک اور ایماندار ہوتا تو خدائی کا دعویٰ نہ کرتا.پڑھنے والوں کو چاہئے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسی علیہ السلام کو نہ سمجھ لیں بلکہ وہ کلمات اس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن وحدیث میں نام ونشان نہیں.تبلیغ رسالت جلد پنجم صفحه ۸۰) ہم اس بات کو افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کے مقابل پر یہ نمبر نور القرآن کا جاری ہوا ہے جس نے بجائے مہذبانہ کلام کے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت گالیوں سے کام لیا ہے اور اپنی ذاتی خباثت سے اس امام الطیبین وسید المطہرین پر سراسر افترا سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک
۸۹۹ پاک دل انسان کا ان کے سننے سے بدن کانپ جاتا ہے.لہذا محض ایسے یا وہ لوگوں کے علاج کے لئے جواب ترکی بہ ترکی دینا پڑا.ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدائے تعالیٰ کے سچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر دل و جان سے ایمان لائے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے صد ہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے.پس ہم اُن کی حیثیت کے موافق ہر طرح اُن کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعوی کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اولین آخرین کو عنتی سمجھتا تھا.یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سز العنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں.قرآن نے ہمیں اس گستاخ اور بد زبان یسوع کی خبر نہیں دی.اُس شخص کی چال چلن پر ہمیں نہایت حیرت ہے جس نے خدا پر مرنا جائز رکھا اور آپ خدائی کا دعویٰ کیا اور ایسے پاکوں کو جو ہزار ہا درجہ اس سے بہتر تھے گالیاں دیں.سو ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے.اور خدائے تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسی بن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں.اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سُن کر اختیار کیا ہے.بعض نادان مولوی جن کو اندھے اور نابینا کہنا چاہئے عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بیچارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے لیکن یاد رہے کہ در حقیقت پادری صاحبان تحقیر اور توہین اور گالیاں دینے میں اول نمبر پر ہیں.ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صد ہا گالیوں سے بھر دیا ہے.جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لیوے.اور یادر ہے کہ آئندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آویں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر آپ حملہ کر رہے ہیں کہ کسی طرح سب وشتم سے باز ہی نہیں آتے.ہم سنتے سنتے تھک گئے.اگر کوئی کسی کے باپ کو گالی دے تو کیا اس مظلوم کا حق نہیں ہے کہ اُس کے باپ کو بھی گالی دے اور ہم نے تو جو کچھ کہا واقعی کہا.وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.خاکسار غلام احمد ۲۰ ؍دسمبر ۱۸۹۵ء ( نور القرآن نمبر ۲ ٹائٹل پیج.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴ ۳۷، ۳۷۵)
۹۰۰.حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں بدبخت یہودیوں نے یہ چاہا کہ اُن کو ہلاک کریں.اور نہ صرف ہلاک بلکہ اُن کی پاک رُوح پر صلیبی موت سے لعنت کا داغ لگا دیں کیونکہ توریت میں لکھا تھا کہ جو شخص لکڑی پر یعنی صلیب پر مارا جائے وہ لعنتی ہے.یعنی اس کا دل پلید اور نا پاک اور خدا کے قرب سے دُور جا پڑتا ہے.اور راندہ درگاہ الہی اور شیطان کی مانند ہو جاتا ہے اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے.اور یہ نہایت بد منصوبہ تھا کہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت سوچا گیا تھا تا اس سے وہ نالائق قوم یہ نتیجہ نکالے کہ یہ شخص پاک دل اور سچا نبی اور خدا کا پیارا نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ لعنتی ہے جس کا دل پاک نہیں ہے.اور جیسا کہ مفہوم لعنت کا ہے وہ خدا سے بجان و دل بیزار اور خدا اس سے بیزار ہے.لیکن خدائے قادر قیوم نے بدنیت یہودیوں کو اس ارادہ سے ناکام اور نامراد رکھا اور اپنے پاک نبی علیہ السلام کو نہ صرف صلیبی موت سے بچایا بلکہ اس کو ایک سو بیس برس تک زندہ رکھ کر تمام دشمن یہودیوں کو اس کے سامنے ہلاک کیا ہاں خدا تعالیٰ کی اس قدیم سنت کے موافق کہ کوئی اوالو العزم نبی ایسا نہیں گذرا جس نے قوم کی ایذاء کی وجہ سے ہجرت نہ کی ہو.حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی تین برس کی تبلیغ کے بعد صلیبی فتنہ سے نجات پا کر ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور یہودیوں کی دوسری قوموں کو جو بابل کے تفرقہ کے زمانہ سے ہندوستان اور کشمیر اور تبت میں آئے ہوئے تھے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر آخر کار خاک کشمیر جنت نظیر میں انتقال فرمایا اور سری نگر خانیار کے محلہ میں باعزاز تمام دفن کئے گئے.آپ کی قبر بہت مشہور ہے.راز حقیقت.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۵۵،۱۵۴) یہود تو حضرت عیسی کے معاملہ میں اور اُن کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قومی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی اُن کا جواب دینے میں حیران ہیں.بغیر اس کے کہ یہ کہہ دیں کہ ضرور عیسی نبی ہے کیونکہ قرآن نے اُس کو نبی قرار دیا ہے اور کوئی دلیل اُن کی نبوت پر قائم نہیں ہو سکتی.بلکہ ابطال نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں.یہ احسان قرآن کا اُن پر ہے کہ اُن کو بھی نبیوں کے دفتر میں لکھ دیا.اسی وجہ سے ہم اُن پر ایمان لائے کہ وہ بچے نبی ہیں اور برگزیدہ ہیں اور اُن تہمتوں سے معصوم ہیں جو اُن پر اور اُن کی ماں پر لگائی گئی ہیں.قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ بڑی تہمتیں اُن پر دو تھیں.(۱) ایک یہ کہ ان کی پیدائش نعوذ باللہ لعنتی ہے یعنی وہ ناجائز طور پر پیدا ہوئے.(۲) دوسری یہ کہ ان کی موت بھی لعنتی ہے کیونکہ وہ صلیب کے ذریعہ سے مرے ہیں اور توریت میں لکھا تھا کہ جو ولد الزنا ہو وہ ملعون ہے وہ ہرگز بہشت میں داخل نہیں ہو گا اور اس کا خدا کی طرف رفع نہیں
۹۰۱ ہوگا اور ایسا ہی یہ بھی لکھا تھا کہ جو لکڑی پر لٹکایا جائے یعنی جس کی صلیب کے ذریعہ سے موت ہو وہ بھی لعنتی ہے اور اس کا بھی خدا کی طرف رفع نہیں ہوگا.یہ دونوں اعتراض بڑے سخت تھے.خدا نے قرآن شریف میں ان دونوں اعتراضات کا ایک ہی جگہ جواب دیا ہے اور وہ یہ ہے.وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِـ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمُ يا (الجزو ٦ سورة نساء) اس آیت میں دونوں جملوں کا جواب ہے اور خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ نہ تو عیسی کی ناجائز ولادت ہے اور نہ وہ صلیب پر مرا بلکہ دھو کے سے سمجھ لیا گیا کہ مر گیا ہے اس لئے وہ مقبول ہے اور اس کا اور نبیوں کی طرح خدا کی طرف رفع ہو گیا ہے.اب کہاں ہیں وہ مولوی جو آسمان پر حضرت عیسی کا جسم پہنچاتے ہیں.یہاں تو سب جھگڑا اُن کی روح کے متعلق تھا جسم سے اس کو کچھ علاقہ نہیں.غرض قرآن شریف نے حضرت مسیح کو سچا قرار دیا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُن کی پیشگوئیوں پر یہود کے سخت اعتراض ہیں جو ہم کسی طرح ان کو دفع نہیں کر سکتے صرف قرآن کے سہارے سے ہم نے مان لیا ہے اور سچے دل سے قبول کیا ہے اور بجز اس کے اُن کی نبوت پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں.عیسائی تو اُن کی خدائی کو روتے ہیں مگر یہاں نبوت بھی اُن کی ثابت نہیں ہوسکتی.اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲۰، ۱۲۱) اگر ظاہر پر فیصلہ کریں تو بے شک حضرت مسیح کی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ کذب اور افترا ثابت ہوتا ہے اور کذب بھی ایسا کہ جس کو ایلیا قرار دیا گیا وہ خود ایلیا ہونا منظور نہیں کرتا اور مدعی سست اور گواہ پست کا معاملہ نظر آتا ہے.مگر چونکہ قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کر دی ہے اس لئے ہم بہر حال حضرت مسیح کو سچا نبی کہتے اور مانتے ہیں.اور اُن کی نبوت سے انکار کرنا کفر صریح قرار دیتے ہیں.( ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۰۴،۳۰۳) حضرت عیسی علیہ السلام تو عجیب طور پر جاہلوں کا نشانہ ہوئے ہیں.ان کی زندگی کے زمانہ میں تو یہود بے دین نے ان کا نام کافر اور کذاب اور مکار اور مفتری رکھا اور ان کے رفع روحانی سے انکار کیا.اور پھر جب وہ فوت ہو گئے تو ان لوگوں نے جن پر انسان پرستی کی سیرت غالب تھی ان کو خدا بنا دیا.اور یہودی تو رفع روحانی سے ہی انکار کرتے تھے اب بمقابل ان کے رفع جسمانی کا اعتقاد ہوا اور یہ بات مشہور کی گئی کہ وہ مع جسم آسمان پر چڑھ گئے ہیں.گویا پہلے نبی تو روحانی طور پر بعد موت آسمان پر ل النساء: ۱۵۸،۱۵۷
۹۰۲ چڑھتے تھے مگر حضرت عیسی زندہ ہونے کی حالت میں ہی مع جسم مع لباس مع تمام لوازم جسمانی کے آسمان پر جا بیٹھے.گویا یہ یہودیوں کی ضد اور انکار کا جو رفع روحانی سے منکر تھے نہایت مبالغہ کے ساتھ ایک جواب تراشا گیا اور یہ جواب سراسر نا معقول تھا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۵۷) ایک صاحب ہدایت اللہ نام جنہوں نے انکار معجزات عیسوی کا الزام اس عاجز کو دے کر ایک رسالہ بھی شائع کیا ہے.وہ اپنے زعم میں ہماری کتاب ازالہ اوہام کی بعض عبارتوں سے یہ نکالتے ہیں کہ گویا ہم نعوذ باللہ سرے سے حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات سے منکر ہیں.مگر واضح رہے کہ ایسے لوگوں کی اپنی نظر اور فہم کی غلطی ہے.ہمیں حضرت مسیح علیہ السلام کے صاحب معجزات ہونے سے انکار نہیں.بیشک اُن سے بھی بعض معجزات ظہور میں آئے ہیں اور گوانجیل کے دیکھنے سے اُن کے معجزات پر بہت کچھ دھبہ لگتا ہے جیسا کہ تالاب کے قصہ اور خود اُن کے بار بار کے انکار سے کہ میں صاحب معجزات نہیں مگر ہمیں انجیل سے کیا کام قرآن کریم سے بہر حال ثابت ہوتا ہے کہ بعض نشان ان کو دیئے گئے تھے.ہاں ہمارے کم توجہ علماء کی یہ غلطی ہے کہ اُن کی نسبت وہ گمان کرتے ہیں کہ گویا وہ بھی خالق العالمین کی طرح کسی جانور کا قالب تیار کر کے پھر اُس میں پھونک مارتے تھے اور وہ زندہ ہو کر اڑ جاتا اور مُردہ پر ہاتھ رکھتے تھے اور وہ زندہ ہو کر چلنے پھرنے لگتا تھا.اور غیب دانی کی بھی اُن میں طاقت تھی اور اب تک مرے بھی نہیں مع جسم آسمان پر موجود ہیں.اور اگر یہ باتیں جو ان کی طرف نسبت دی گئی ہیں صحیح ہوں تو پھر اُن کے خالق العالم اور عالم الغیب اور محی اموات ہونے میں کیا شک رہا؟ پس اگر اس صورت میں کوئی عیسائی اُن کی الوہیت پر استدلال کرے اس بنا پر کہ لوازم شے کا پایا جان وجو د شے کو مستلزم ہے تو ہمارے بھائی مسلمانوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ اگر کہیں کہ دعا سے ایسے معجزات ظہور میں آتے تھے تو یہ کلام الہی پر زیادت ہے کیونکہ قرآن کریم سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مثلاً پھونک مارنے سے وہ چیز جو ہیئت طیر کی طرح بنائی جاتی تھی اُڑنے لگتی تھی.دعا کا تو قرآن کریم میں کہیں بھی ذکر نہیں اور نہ یہ ذکر ہے کہ اس ہیئت طیر میں در حقیقت جان پڑ جاتی تھی.یہ تو نہیں چاہئے کہ اپنی طرف سے کلام الہی پر کچھ زیادت کریں.یہی تو تحریف ہے جس کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت ہوئی.پھر جس حالت میں جان پڑنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ معالم التنزیل اور بہت سی اور تفسیروں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہیئت طیر تھوڑی دیرا ڑ کر پھر مٹی کی طرح زمین پر گر پڑتی تھی تو بجز اس کے اور کیا سمجھا جائے کہ وہ دراصل مٹی کی مٹی ہی تھی
۹۰۳ اور جس طرح مٹی پر گر پڑتی تھی اور جس طرح مٹی کے کھلونے انسانی کلوں سے چلتے پھرتے ہیں وہ ایک نبی کی روح کی سرائت سے پرواز کرتے تھے.ورنہ حقیقی خالقیت کے ماننے سے عظیم الشان فساد اور شرک لازم آتا ہے غرض تو معجزہ سے ہے اور بے جان کا با وجود بے جان ہونے کے پرواز یہ بڑا معجزہ ہے.ہاں اگر قرآن کریم کی کسی قراءت میں اس موقعہ پر فَيَكُونُ حَيًّا کا لفظ موجود ہے یا تاریخی طور پر ثابت ہے کہ در حقیقت وہ زندہ ہو جاتے تھے اور انڈے بھی دیتے تھے اور اب تک اُن کی نسل سے بھی بہت سے پرندے موجود ہیں تو پھر ان کا ثبوت دینا چاہیے.اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ اگر تمام دنیا چاہے کہ ایک مکھی بنا سکے تو نہیں بن سکتی کیونکہ اس سے تشابہ فی خلق اللہ لازم آتا ہے.اور یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ نے آپ ان کو خالق ہونے کا اذن دے رکھا تھا.یہ خدا تعالیٰ پر افتراء ہے کلام الہی میں تناقض نہیں.خدا تعالیٰ کسی کو ایسے اذن نہیں دیا کرتا.اللہ تعالیٰ نے سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکھی بنانے کا بھی اذن نہ دیا.پھر مریم کے بیٹے کو یہ اذن کیونکر حاصل ہوا؟ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور مجاز کو حقیقت پر حمل نہ کرو.( شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۷۲ تا ۴ ۳۷ حاشیه ) بعض لوگ موحدین کے فرقہ میں سے بحوالہ آیت قرآنی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح ابن مریم انواع و اقسام کے پرندے بنا کر اور اُن میں پھونک مار کر زندہ کر دیا کرتے تھے.چنانچہ اسی بنا پر اس عاجز پر اعتراض کیا ہے کہ جس حالت میں مثیل مسیح ہونے کا دعوی ہے تو پھر آپ بھی کوئی مٹی کا پرندہ بنا کر پھر اس کو زندہ کر کے دکھلائیے کیونکہ جس حالت میں حضرت مسیح کے کروڑ ہا پرندے بنائے ہوئے اب تک موجود ہیں جو ہر طرف پرواز کرتے نظر آتے ہیں تو پھر مثیل مسیح بھی کسی پرندہ کا خالق ہونا چاہئے.ان تمام اوہام باطلہ کا جواب یہ ہے کہ وہ آیات جن میں ایسا لکھا ہے متشابہات میں سے ہیں.اور اُن کے یہ معنے کرنا کہ گویا خدائے تعالیٰ نے اپنے ارادہ اور اذن سے حضرت عیسی کو صفات خالقیت میں شریک کر رکھا تھا صریح الحاد اور سخت بے ایمانی ہے کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ اپنی صفات خاصہ والوہیت بھی دوسروں کو دے سکتا ہے تو اس سے اس کی خدائی باطل ہوتی ہے اور موحد صاحب کا یہ عذر کہ ہم ایسا اعتقاد تو نہیں رکھتے کہ اپنی ذاتی طاقت سے حضرت عیسی خالق طیور تھے بلکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ طاقت خدائے تعالیٰ نے اپنے اذن اور ارادہ سے ان کو دے رکھی تھی اور اپنی مرضی سے ان کو اپنی خالقیت کا حصہ دار بنا دیا تھا اور یہ اس کو اختیار ہے کہ جس کو چاہے اپنا مثیل بنا دیوے قادر مطلق جو ہوا.یہ سراسر مشرکانہ باتیں ہیں اور کفر سے بدتر.اس موحد کو یہ بھی کہا گیا کہ کیا تم اب شناخت کر سکتے ہو کہ ان پرندوں میں سے کون سے ایسے پرندے
۹۰۴ ہیں جو خدائے تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور کون سے ایسے پرندے ہیں جو ان پرندوں کی نسل ہیں جن کے حضرت عیسی خالق ہیں تو اس نے اپنے ساکت رہنے سے یہی جواب دیا کہ میں شناخت نہیں کر سکتا.اب واضح رہے کہ اس زمانہ کے بعض موحدین کا یہ اعتقاد کہ پرندوں کے نوع میں سے کچھ تو خدائے تعالیٰ کی مخلوق اور کچھ حضرت عیسیٰ کی مخلوق ہے سراسر فاسد اور مشرکانہ خیال ہے اور ایسا خیال رکھنے والا بلا شبہ دائرہ اسلام سے خارج ہے.سو واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) ایک وہ جو محض سماوی امور ہوتے ہیں جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا.جیسے شق القمر جو ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور خدائے تعالیٰ کی غیر محدود قدرت نے ایک راستباز اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس کو دکھایا تھا.(۲) دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارق عادت عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو الہام الہی سے ملتی ہے جیسے حضرت سلیمان کا وہ معجزہ جو صَرْحُ مُّمَرِّدُ مِنْ قَوَارِيرَ ہے جس کو دیکھ کر بلقیس کو ایمان نصیب ہوا.اب جاننا چاہئے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح کا معجزہ حضرت سلیمان کے معجزہ کی طرح صرف عقلی تھا.تاریخ سے ثابت ہے کہ ان دنوں میں ایسے امور کی طرف لوگوں کے خیالات مُجھکے ہوئے تھے کہ جو شعبدہ بازی کی قسم میں سے اور دراصل بے سود اور عوام کو فریفتہ کرنے والے تھے.وہ لوگ جو فرعون کے وقت میں مصر میں ایسے ایسے کام کرتے تھے جو سانپ بنا کر دکھلا دیتے تھے.اور کئی قسم کے جانور طیار کر کے ان کو زندہ جانوروں کی طرح چلا دیتے تھے.وہ حضرت مسیح کے وقت میں عام طور پر یہودیوں کے ملکوں میں پھیل گئے تھے اور یہودیوں نے اُن کے بہت سے ساحرانہ کام سیکھ لئے تھے.جیسا کہ قرآن کریم بھی اس بات کا شاہد ہے.سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے.یا اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو.کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کا کام در حقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کی ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے اور جیسے انسان میں قومی موجود ہوں انہی کے موافق النمل: ۴۵
اعجاز کے طور پر بھی مددملتی ہے.جیسے ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی قومی جو دقائق اور معارف تک پہنچنے میں نہایت تیز و قوی تھے.سو انہی کے موافق قرآن شریف کا معجزہ دیا گیا جو جامع جمیع دقائق و معارف الہیہ ہے.پس اس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح نے اپنے دادا سلیمان کی طرح اس وقت کے مخالفین کو یہ عقلی معجزہ دکھلایا ہو.اور ایسا معجزہ دکھانا عقل سے بعید بھی نہیں.کیونکہ حال کے زمانہ میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اکثر صناع ایسی ایسی چڑیاں بنا لیتے ہیں کہ وہ بولتی بھی ہیں اور ہلتی بھی ہیں اور دُم بھی ہلاتی ہیں.اور میں نے سنا ہے کہ بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز بھی کرتی ہیں.بمبئی اور کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں اور یوروپ اور امریکہ کے ملکوں میں بکثرت ہیں اور ہر سال نئے نئے نکلتے آتے ہیں اور چونکہ قرآن شریف اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لئے ان آیات کے روحانی طور پر معنی بھی کر سکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ اُمی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسی نے اپنا رفیق بنایا گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خاکہ کھینچا.پھر ہدایت کی روح اُن میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے.ماسوا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل الترب یعنی مسمریز می طریق سے بطور لہو ولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں کیونکہ عمل الترب میں جس کو زمانہ حال میں مسمریزم کہتے ہیں ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر اُن چیزوں کو زندہ کے موافق کر دکھاتے ہیں.انسان کی روح میں کچھ ایسی خاصیت ہے کہ وہ اپنی زندگی کی گرمی ایک جماد پر جو بالکل بے جان ہے ڈال سکتی ہے تب جماد سے وہ بعض حرکات صادر ہوتی ہیں جو زندوں سے صادر ہوا کرتی ہیں.راقم رسالہ ہذا نے اس علم کے بعض مشق کرنے والوں کو دیکھا ہے جو انہوں نے ایک لکڑی کی تپائی پر ہاتھ رکھ کر ایسا اپنی حیوانی روح سے اسے گرم کیا کہ اس نے چار پایوں کی طرح حرکت کرتا شروع کر دیا.اور کتنے آدمی گھوڑے کی طرح اس پر سوار ہوئے اور اس کی تیزی اور حرکت میں کچھ کمی نہ ہوئی.مگر یا د رکھنا چاہئے کہ ایسا جانور جومٹی یا لکڑی وغیرہ سے بنایا جاوے اور عمل الترب سے اپنی رُوح کی گرمی اس کو پہنچائی جائے وہ درحقیقت زندہ نہیں ہوتا.بلکہ بدستور بے جان اور جماد ہوتا ہے صرف عامل کے رُوح کی گرمی بارود کی طرح اس کو جنبش میں لاتی ہے.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان پرندوں کا پرواز کرنا قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ ان کا ہلنا اور جنبش کرنا بھی بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا اور نہ در حقیقت ان کا زندہ ہو جانا ثابت ہوتا ہے.اس جگہ یہ بھی
۹۰۶ جاننا چاہئے کہ سلب امراض کرنا یا اپنی رُوح کی گرمی جماد میں ڈال دینا درحقیقت یہ سب علم الترب کی شاخیں ہیں.ہر یک زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو اس روحانی عمل کے ذریعہ سے سلب امراض کرتے رہے ہیں اور مفلوج ، مبروص.مدقوق وغیرہ ان کی توجہ سے اچھے ہوتے رہے ہیں...اور اب یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم باذن و حکم الہی الیسع نبی کی طرح اس عمل الترب میں کمال رکھتے تھے گوالیسع کے درجہ کاملہ سے کم رہے ہوئے تھے کیونکہ البیع کی لاش نے بھی وہ معجزہ دکھلایا کہ اُس کی ہڈیوں کے لگنے سے ایک مُردہ زندہ ہو گیا.مگر چوروں کی لاشیں مسیح کے جسم کے ساتھ لگنے سے ہرگز زندہ نہ ہو سکیں.یعنی وہ دو چور مسیح کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے.بہر حال مسیح کی یہ تربی کارروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے تھیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں.اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدائے تعالیٰ کے فضل و توفیق سے اُمید قوی رکھتا تھا کہ ان مجو بہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا.لیکن مجھے وہ روحانی طریق پسند ہے جس پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم مارا ہے اور حضرت مسیح نے بھی اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوز تھے باذن و حکم الہی اختیار کیا تھا ورنہ دراصل مسیح کو بھی یہ عمل پسند نہ تھا.واضح ہو کہ اس عمل جسمانی کا ایک نہایت بُرا خاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے اور جسمانی مرضوں کے رفع دفع کرنے کے لئے اپنی دلی و دماغی طاقتوں کو خرچ کرتا رہے.وہ اپنی ان روحانی تا شیروں میں جو روح پر اثر ڈال کر روحانی بیماریوں کو دُور کرتی ہیں بہت ضعیف اور نکما ہو جاتا ہے اور امر تنویر باطن اور تزکیہ نفس کا جو اصل مقصد ہے اس کے ہاتھ سے بہت کم انجام پذیر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ گو حضرت مسیح جسمانی بیماروں کو اس عمل کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے مگر ہدایت اور توحید اور دینی استقامتوں کے کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارے میں اُن کی کارروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب نا کام کے رہے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ ان جسمانی امور کی طرف توجہ نہیں فرمائی اور تمام زور اپنی روح کا دلوں میں ہدایت پیدا ہونے کے لئے ڈالا اسی وجہ سے تکمیل نفوس میں سب سے بڑھ کر رہے اور ہزار ہا بندگانِ خدا کو کمال کے درجہ تک پہنچا دیا اور اصلاح خلق اور اندرونی تبدیلیوں میں وہ ید بیضا دکھلایا کہ جس کی ابتدائے دنیا سے آج تک نظیر نہیں پائی جاتی.حضرت مسیح کے عمل الترب سے وہ مُردے جو زندہ ہوتے تھے یعنی وہ قریب الموت آدمی جو گویا نئے سرے
9+2 زندہ ہو جاتے تھے وہ بلا توقف چند منٹ میں مرجاتے تھے کیونکہ بذریعہ عمل الترب روح کی گرمی اور زندگی صرف عارضی طور پر اُن میں پیدا ہو جاتی تھی مگر جن کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور یہ جو میں نے مسمریزی طریق کا عمل الترب نام رکھا جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک مشق رکھتے تھے یہ الہامی نام ہے اور خدائے تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ عمل الترب ہے اور اس عمل کے عجائبات کی نسبت یہ بھی الہام ہوا " هَذَا هُوَ التِّرْبُ الَّذِى لَا يَعْلَمُونَ “ یعنی یہ وہ عمل الترب ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں ورنہ خدائے تعالیٰ اپنی ہر یک صفت میں واحد لاشریک ہے اپنی صفات الوہیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا.فرقان کریم کی آیات بینات میں اس قدر اس مضمون کی تائید پائی جاتی ہے جو کسی پر مخفی نہیں جیسا کہ وہ عزاسمہ فرماتا ہے.الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِةٍ أَلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا قَ هُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتَا وَلَا حَيَوةً وَلَا نُشُورًا.....اب دیکھو خدائے تعالیٰ صاف صاف طور پر فرما رہا ہے کہ بجز میرے کوئی اور خالق نہیں بلکہ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ تمام جہان مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتا اور صاف فرماتا ہے کہ کوئی شخص موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں ہوسکتا.اس جگہ ظاہر ہے کہ اگر کسی مخلوق کو موت اور حیات کا مالک بنا دینا اور اپنی صفات میں شریک کر دینا اس کی عادت میں داخل ہوتا تو وہ بطور استثناء ایسے لوگوں کو ضرور باہر رکھ لیتا اور ایسی اعلیٰ توحید کی ہمیں ہرگز تعلیم نہ دیتا.اگر یہ وسواس دل میں گذرے کہ پھر اللہ جل شانہ نے مسیح ابن مریم کی نسبت اس قصہ میں جہاں پرندہ بنانے کا ذکر ہے تَخْلُقُ کا لفظ کیوں استعمال کیا جس کے بظاہر یہ معنے ہیں کہ تو پیدا کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ حضرت عیسی کو خالق قرار دینا بطور استعارہ ہے جیسا کہ اس دوسری آیت میں فرمایا ہے فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِينَ ہے بلاشبہ حقیقی اور سچا خالق خدائے تعالیٰ ہے اور جو لوگ مٹی یا لکڑی کے کھلونے بناتے ہیں وہ بھی خالق ہیں مگر جھوٹے خالق جن کے فعل کی اصلیت کچھ بھی نہیں.اور اگر یہ کہا جائے کہ کیوں بطور معجزہ جائز نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام اذن اور ارادہ الہی سے حقیقت میں پرندے بنا لیتے ہوں اور وہ پرندے ان کی اعجازی پھونک سے پرواز کر جاتے ہوں تو اس کا الفرقان: ۴۳ ۲ المؤمنون: ۱۵
۹۰۸ جواب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا نبی لوگ دعا اور تضرع سے معجزہ مانگتے ہیں.معجزہ نمائی کی ایسی قدرت نہیں رکھتے جیسا کہ انسان کو ہاتھ پیر ہلانے کی قدرت ہوتی ہے.غرض معجزہ کی حقیقت اور مرتبہ سے یہ امر بالاتر اور ان صفات خاصہ خدائے تعالیٰ میں سے ہے جو کسی حالت میں بشر کومل نہیں سکتیں.معجزہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ ایک امر خارق عادت یا ایک امر خیال اور گمان سے باہر اور امید سے بڑھ کر ایک اپنے رسول کی عزت و صداقت ظاہر کرنے کے لئے اور اس کے مخالفین کی عجز اور مغلوبیت جتلانے کی غرض سے اپنے ارادہ خاص سے یا اس رسول کی دعا اور درخواست سے آپ ظاہر فرماتا ہے مگر ایسے طور سے جو اس کی صفات وحدانیت و تقدس و کمال کے منافی و مغائر نہ ہو اور کسی دوسرے کی وکالت یا کارسازی کا اس میں کچھ دخل نہ ہو.اب ہر یک دانشمند سوچ سکتا ہے کہ یہ صورت ہرگز معجزہ کی صورت نہیں کہ خدائے تعالی دائمی طور پر ایک شخص کو اجازت اور اذن دیدے کہ تو مٹی کے پرندے بنا کر پھونک مارا کر، وہ حقیقت میں جانور بن جایا کریں گے اور ان میں گوشت اور ہڈی اور خون اور تمام اعضاء جانوروں کے بن جائیں گے.ظاہر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ پرندوں کے بنانے میں اپنی خالقیت کا کسی کو وکیل ٹھہراسکتا ہے تو تمام امور خالقیت میں وکالت تامہ کا عہدہ بھی کسی کو دے سکتا ہے.اس صورت میں خدائے تعالیٰ کی صفات میں شریک ہونا جائز ہو گا گو اس کے حکم اور اذن سے ہی سہی اور نیز ایسے خالقوں کے سامنے اور فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمُ کی مجبوری سے خالق حقیقی کی معرفت مشتبہ ہو جائے گی.غرض یہ اعجاز کی صورت نہیں یہ تو خدائی کا حصہ دار بنانا ہے.بعض دانشمند شرک سے بچنے کے لئے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح جو پرندے بناتے تھے وہ بہت دیر تک جیتے نہیں تھے ان کی عمر چھوٹی ہوتی تھی.تھوڑی مسافت تک پرواز کر کے پھر گر کر مر جاتے تھے لیکن یہ عذر بالکل فضول ہے اور صرف اس حالت میں ماننے کے لائق ہے کہ جب یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اُن پرندوں میں واقعی اور حقیقی حیات پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ صرف ظلی اور مجازی اور جھوٹی حیات جو عمل الترب کے ذریعہ سے پیدا ہو سکتی ہے.ایک جھوٹے جھلک کی طرح اُن میں نمودار ہو جاتی تھی.قرآن شریف کی آیات بھی بآواز بلند یہی پکار رہی ہیں کہ مسیح کے ایسے عجائب کاموں میں اس کو طاقت بخشی گئی تھی اور خدائے تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ ایک فطرتی طاقت تھی جو ہر یک فرد بشر کی فطرت
۹۰۹ میں مودع ہے.مسیح سے اس کی کچھ خصوصیت نہیں.چنانچہ اس بات کا تجر بہ اسی زمانہ میں ہو رہا ہے.مسیح کے معجزات تو اس تالاب کی وجہ سے بے رونق اور بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے بھی پہلے مظہر عجائبات تھا جس میں ہر قسم کے بیمار اور تمام مجزوم ، مفلوج ، مبروص وغیرہ ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہو جاتے تھے.لیکن بعد کے زمانوں میں جو لوگوں نے اس قسم کے خوارق دکھلائے اس وقت تو کوئی تالاب بھی موجود نہیں تھا.غرض یہ اعتقاد بالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ میسیج مٹی کے پرندے بنا کر اور اُن میں پھونک مار کر انہیں سچ سچ کے جانور بنا دیتا تھا.نہیں بلکہ صرف عمل الترب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیر ہو گیا تھا.یہ بھی ممکن ہے کہ مسیح ایسے کام کے لئے اس تالاب کی مٹی لاتا تھا جس میں روح القدس کی تاثیر رکھی گئی تھی.بہر حال یہ معجزہ صرف ایک کھیل کی قسم میں سے تھا.اور وہ مٹی در حقیقت ایک مٹی ہی رہتی تھی جیسے سامری کا گوسالہ فَتَدَبَّرُ فَإِنَّهُ نُكْتَةٌ جَلِيلَةٌ مَا يُلَقَّهَا إِلَّا ذُوحَظْ عَظِيمٍ.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۱ تا ۲۶۳ حاشیه ) فرضی معجزات کے ساتھ جس قدر حضرت عیسی علیہ السلام متہم کئے گئے ہیں اس کی نظیر کسی اور نبی میں نہیں پائی جاتی.یہاں تک کہ بعض جاہل خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ہزاروں بلکہ لاکھوں مُردے زندہ کر ڈالے تھے.یہاں تک کہ انجیلوں میں بھی یہ مبالغہ آمیز باتیں لکھی ہیں کہ ایک مرتبہ تمام گورستان جو ہزاروں برسوں کا چلا آتا تھا سب کا سب زندہ ہو گیا تھا اور تمام مردے زندہ ہو کر شہر میں آگئے تھے.اب عظمند قیاس کر سکتا ہے کہ باجود یکہ کروڑہا انسان زندہ ہو کر شہر میں آگئے اور اپنے بیٹوں پوتوں کو آکر تمام قصے سنائے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی سچائی کی تصدیق کی مگر پھر بھی یہودی ایمان نہ لائے.اس درجہ کی سنگدلی کو کون باور کرے گا؟ اور درحقیقت اگر ہزاروں مُردے زندہ کرنا حضرت عیسی کا پیشہ تھا تو جیسا کہ عقل کے رو سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ تمام مردے بہرے اور گونگے تو نہیں ہوں گے اور جن لوگوں کو ایسے معجزات دکھلائے جاتے تھے کوئی ان مردوں میں سے ان کا بھائی ہو گا اور کوئی باپ اور کوئی بیٹا اور کوئی ماں اور کوئی دادی اور کوئی دادا اور کوئی دوسرا قریبی اور عزیز رشتہ دار.اس لئے حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے تو کافروں کو مومن بنانے کی ایک وسیع راہ کھل گئی تھی.کئی مُردے یہودیوں کے رشتہ دار ان کے ساتھ ساتھ پھرتے ہوں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام نے کئی شہروں میں
۹۱۰ اُن کے لیکچر دلائے ہوں گے.ایسے لیکچر نہایت پر بہار اور شوق انگیز ہوتے ہوں گے.جب ایک مُردہ کھڑا ہو کر حاضرین کو سناتا ہوگا کہ اے حاضرین آپ لوگوں میں بہت ایسے اس وقت موجود ہیں جو مجھے شناخت کرتے ہیں.جنہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے دفن کیا تھا.اب میں خدا کے منہ سے سن کر آیا ہوں کہ عیسی مسیح سچا ہے اور اسی نے مجھے زندہ کیا تو عجب لطف ہوتا ہو گا.اور ظاہر ہے کہ ایسے مُردوں کے لیکچروں سے یہودی قوم کے لوگوں کے دلوں پر بڑے بڑے اثر ہوتے ہوں گے.اور ہزاروں لاکھوں یہودی ایمان لاتے ہوں گے.پر قرآن شریف اور انجیل سے ثابت ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رد کر دیا تھا اور اصلاح مخلوق میں تمام نبیوں سے ان کا گرا ہوا نمبر تھا اور تقریباً تمام یہودی ان کو ایک مکار اور کاذب خیال کرتے تھے.اب عقلمند سوچے کہ کیا ایسے بزرگ اور فوق العادت معجزات کا یہی نتیجہ ہونا چاہیئے تھا؟ جبکہ ہزاروں مُردوں نے زندہ ہو کر حضرت عیسی علیہ السلام کی سچائی کی گواہی بھی دے دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم بہشت کو دیکھ آئے ہیں.اسمیں صرف عیسائی ہیں جو حضرت عیسی کے ماننے والے ہیں اور دوزخ کو دیکھا تو اس میں یہودی ہیں جو حضرت عیسی سے منکر ہیں تو ان سب باتوں کے بعد کس کی مجال تھی کہ حضرت عیسی کی سچائی میں ذرہ بھی شک کرتا.اور اگر کوئی شک کرتا تو اُن کے باپ دادا جو زندہ ہو کر آئے تھے ان کو جان سے مارتے کہ اے ناپاک لوگو! ہماری گواہی اور پھر بھی شک.پس یقینا سمجھو کہ ایسے معجزات محض بناوٹ ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۴۷، ۴۸) اور خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے اور اس سے باتیں کر کے اس کے اصل دعوی اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے.یہ ایک بڑی بات ہے جو توجہ کے لائق ہے کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفارہ اور تثلیث اور ابنیت ہے ایسے متنفر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری افتراء جوان پر کیا گیا ہے وہ یہی ہے.یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی لے سکتا ہے کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے.( تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۳)
۹۱۱ میں نے بارہا عیسی علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور بار ہا کشفی حالت میں ملاقات ہوئی اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اُس نے کھایا اور ایک دفعہ میں نے اس کو دیکھا اور اس فتنہ کے بارے میں پوچھا جس میں اس کی قوم مبتلا ہوگئی ہے.پس اس پر دہشت غالب ہو گئی اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اس نے ذکر کیا اور اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگ گیا اور زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں تو صرف خا کی ہوں اور ان تہمتوں سے بری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں پس میں نے اس کو ایک متواضع اور کسر نفسی کرنے والا آدمی پایا.نور الحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۷،۵۶) جب میں دیکھتا ہوں کہ عیسائی مذہب میں خدا شناسی کے تینوں ذریعے مفقود ہیں تو مجھے تعجب آتا ہے کہ کس بات کے سہارے سے یہ لوگ یسوع پرستی پر زور مار رہے ہیں.کیسی بدنصیبی ہے کہ آسمانی دروازے ان پر بند ہیں.معقولی دلائل ان کو اپنے دروازے سے دھکے دیتے ہیں اور منقولی دستاویزیں جو گذشتہ نبیوں کی مسلسل تعلیموں سے پیش کرنی چاہئے تھیں وہ ان کے پاس موجود نہیں مگر پھر بھی ان لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف نہیں.انسان کی عظمندی یہ ہے کہ ایسا مذہب اختیار کرے کہ جس کے اصول خدا شناسی پر سب کا اتفاق ہو اور عقل بھی شہادت دے اور آسمانی دروازے بھی اس مذہب پر بند نہ ہوں.سوغور کر کے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں صفتوں سے عیسائی مذہب بے نصیب ہے.اس کا خداشناسی کا طریق ایسا نرالہ ہے کہ نہ اس پر یہودیوں نے قدم مارا اور نہ دنیا کی اور کسی آسمانی کتاب نے وہ ہدایت کی.اور عقل کی شہادت کا یہ حال ہے کہ خود یورپ میں جس قدر لوگ علوم عقلیہ میں ماہر ہوتے جاتے ہیں وہ عیسائیوں کے اس عقیدے پر ٹھٹھا اور جنسی کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ عقلی عقیدے سب کلیت کے رنگ میں ہوتے ہیں کیونکہ قواعد کلیہ سے ان کا استخراج ہوتا ہے.لہذا ایک فلاسفر اگر اس بات کو مان جائے کہ یسوع خدا ہے تو چونکہ دلائل کا حکم کلیت کا فائدہ بخشا ہے اس کو ماننا پڑتا ہے کہ پہلے بھی ایسے کروڑ ہا خدا گزرے ہیں اور آگے بھی ہو سکتے ہیں اور یہ باطل ہے.اور آسمانی نشانوں کی شہادت کا یہ حال ہے کہ اگر تمام پادری مسی مسیح کرتے مر بھی جائیں تا ہم ان کو آسمان سے کوئی نشان مل نہیں سکتا کیونکہ مسیح خدا ہو تو ان کو شان دے وہ تو بیچارہ اور عاجز اور ان کی فریاد سے بے خبر ہے.اور اگر خبر بھی ہو تو کیا کر سکتا ہے.اگر قیامت کے دن حضرت مسیح نے کہ دیا کہ میں تو خدا نہیں تھا تم نے کیوں خواہ نخواہ میرے ذمہ خدائی لگا دی تو پھر کہاں جائیں گے اور کس کے پاس جا کر روئیں گے!!؟
۹۱۲ خدا تعالیٰ نے عیسائیوں کو ملزم کرنے کے لئے چار گواہ ان کے ابطال پر کھڑے کئے ہیں.اوّل یہودی کہ جو تخمینا ساڑھے تین ہزار برس سے گواہی دے رہے ہیں کہ ہمیں ہرگز ہرگز تثلیث کی تعلیم نہیں ملی اور نہ کوئی ایسی پیشگوئی کسی نبی نے کی کہ کوئی خدا یا حقیقی طور پر ابن اللہ زمین پر ظاہر ہونے والا ہے.دوم حضرت بیٹی کی اُمت یعنی یوحنا کی امت جواب تک بلا دشام میں موجود ہے جو حضرت مسیح کو اپنی قدیم تعلیم کے رو سے صرف انسان اور نبی اور حضرت یحی کا شاگرد جانتے ہیں.تیسرے فرقہ موحدہ عیسائیوں کا جن کا بار بار قرآن شریف میں بھی ذکر ہے جن کی بحث روم کے تیسری صدی کے قیصر نے تثلیث والوں سے کرائی تھی اور فرقہ موحدہ غالب رہا تھا اور اسی وجہ سے قیصر نے فرقہ موحد کا مذہب اختیار کر لیا تھا.چوتھے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف جنہوں نے گواہی دی کہ مسیح ابن مریم ہرگز خدا نہیں ہے اور نہ خدا کا بیٹا ہے.بلکہ خدا کا نبی ہے.اور علاوہ اس کے ہزاروں راستباز خدا تعالیٰ کا الہام پا کر اب تک گواہی دیتے چلے آئے ہیں کہ مسیح ابن مریم ایک عاجز بندہ ہے اور خدا کا نبی.چنانچہ اس زمانہ کے عیسائیوں پر گواہی دینے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ابن مریم کو خدا ٹھہرانا ایک باطل اور کفر کی راہ ہے اور مجھے اس نے اپنے مکالمات اور مخاطبات سے مشرف فرمایا ہے...اے عیسائیو یاد رکھو کہ مسیح بن مریم ہرگز ہرگز خدا نہیں ہے.تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو.خدا کی عظمت مخلوق کومت دو.ان باتوں کے سننے سے ہمارا دل کا نپتا ہے کہ تم ایک مخلوق ضعیف درماندہ کو خدا کر کے پکارتے ہو.سچے خدا کی طرف آجاؤ.تا تمہارا بھلا ہو اور تمہاری عاقبت بخیر ہو.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳ ۵ تا ۵۵) یہ سخت ظلم کیا گیا ہے جو ابن مریم کو خدا بنایا گیا.وہ صرف ایک انسان ہے اور موسوی شریعت کے خادموں میں سے ایک نبی.تم نے اُس کو نہیں دیکھا.مگر میں نے بارہا اس کو دیکھا ہے.تم میں سے کوئی بھی اس کو نہیں جانتا مگر میں جانتا ہوں.وہ ایک سعادتمند انسان ہے جو موسیٰ کی عظمت کا قائل اور ہماری سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگیوں پر بدل و جان ایمان لایا ہے اور ہماری طرح اس راہ میں فدا ہے.اگر وہ اس وقت دنیا میں آتا اور دیکھتا کہ مجھے خدا بنایا گیا اور میرا کفارہ گھڑا گیا تو وہ
۹۱۳ اپنی ناچیز ہستی اور اس بیجا تعریف کو خیال میں لا کر مارے شرم کے مرنے کو قبول کرتا اور خدا سے اپنی مغفرت چاہتا.پھر جتلاؤ اس کی خدائی پر کون سی دلیل تمہارے پاس ہے؟ کیا اسی کی باتوں یا حواریوں کی باتوں سے اس کی خدائی ظاہر ہوتی ہے.اگر ہم مان بھی لیں کہ اس کی یا اس کے دوستوں کی باتوں سے خدائی کا دعوی پایا جاتا ہے تو یہ نزا دعویٰ ہوگا جو بغیر ثبوت ایک کوڑی کی قیمت نہیں رکھتا.حالانکہ انجیل کی رو سے یہ دعوئی بھی ثابت نہیں ہو سکتا.انجیل یہ کہیں بیان نہیں کرتی کہ مریم کے صاحبزادہ نے کبھی مردِ میدان بن کر خدائی کا دعویٰ کیا تھا بلکہ جب یہودیوں نے ایک دفعہ اسے ڈانٹا تو یسوع نے اپنی خدائی سے انکار کیا.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۱۱.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۹ بار دوم ) حضرت مسیح یوحنا باب ۱۰/۳۰ میں ۳۷ تک صاف طور پر فرما رہے ہیں کہ مجھ میں اور دوسرے مقربوں اور مقدسوں میں ان الفاظ کے اطلاق میں جو بائبل میں اکثر انبیا وغیرہ کی نسبت بولے گئے ہیں جو ابن اللہ ہیں یا خدا ہیں کوئی امتیاز اور خصوصیت نہیں ذرہ سوچ کر دیکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح پر یہودیوں نے یہ بات سن کر کہ وہ اپنے تئیں ابن اللہ کہتے ہیں یہ الزام لگایا تھا کہ تو کفر کہتا ہے یعنی کافر ہے اور پھر انہوں نے اس الزام کے لحاظ سے ان کو پتھراؤ کرنا چاہا اور بڑے افروختہ ہوئے.اب ظاہر ہے کہ ایسے موقعہ پر کہ جب حضرت مسیح یہودیوں کی نظر میں اپنے ابن اللہ کہلانے کی وجہ سے کافر معلوم ہوتے تھے اور انہوں نے اس کو سنگسار کرنا چاہا تو ایسے موقعہ پر کہ اپنی بریت یا اثبات دعوی کا موقعہ تھا مسیح کا فرض کیا تھا؟ عظمند سوچ سکتا ہے کہ اس موقعہ پر کہ کافر بنایا گیا حملہ کیا گیا.سنگسار کرنے کا ارادہ کیا گیا.دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنا مسیح کا کام تھا.اوّل یہ کہ اگر حقیقت میں حضرت مسیح خدا تعالی کے بیٹے ہی تھے تو یوں جواب دیتے کہ یہ میرا دعویٰ حقیقت میں سچا ہے اور میں واقعی طور پر خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں.اور اس دعویٰ کے ثابت کرنے کے لئے میرے پاس دو ثبوت ہیں ایک یہ کہ تمہاری کتابوں میں میری نسبت لکھا ہے کہ مسیح در حقیقت خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے بلکہ خود خدا ہے.قادر مطلق ہے عالم الغیب ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے اگر تم کو شبہ ہے تو لاؤ کتابیں پیش کرو میں ان کتابوں سے اپنی خدائی کا ثبوت تمہیں دکھلا دوں گا.یہ تمہاری غلط نہی اور کم تو جہی اپنی کتابوں کی نسبت ہے کہ تم مجھ کو کافر ٹھہراتے ہو.تمہاری کتابیں ہی تو مجھے خدا بنا رہی ہیں اور قادر مطلق بتلا رہی ہیں.پھر میں کافر کیونکر ہوا ؟ بلکہ تمہیں تو چاہئے کہ اب میری پرستش اور پوجا شروع کر دو کہ میں خدا ہوں.ہر ایک
۹۱۴ پھر دوسرا ثبوت یہ دینا چاہیئے تھا کہ آؤ خدائی کی علامتیں مجھ میں دیکھ لو جیسے خدا تعالیٰ نے آفتاب ماہتاب سیارے زمین وغیرہ پیدا کیا ہے.ایک قطعہ زمین کا یا کوئی ستارہ یا کوئی اور چیز میں نے بھی پیدا کی ہے اور اب بھی پیدا کر کے دکھلا سکتا ہوں اور نبیوں کے معمولی معجزات سے بڑھ کر مجھ میں قوت اور قدرت حاصل ہے.اور مناسب تھا کہ اپنے خدائی کے کاموں کی ایک مفصل فہرست ان کو دیتے کہ دیکھو آج تک یہ یہ کام میں نے خدائی کے کئے ہیں.کیا حضرت موسیٰ سے لے کر تمہارے کسی آخری نبی تک ایسے کام کسی اور نے بھی کئے ہیں ؟ اگر ایسا ثبوت دیتے تو یہودیوں کے منہ بند ہو جاتا اور اسی وقت تمام فقیہی اور فریسی آپ کے سامنے سجدہ میں گرتے کہ ہاں حضرت ! ضرور آپ خدا ہی ہیں.ہم بھولے ہوئے تھے.آپ نے اس آفتاب کے مقابل پر جو ابتدا سے چمکتا ہوا چلا آتا ہے اور دن کو روشن کرتا ہے اور اس ماہتاب کے مقابل پر جو ایک خوبصورت روشنی کے ساتھ رات کو طلوع کرتا ہے اور رات کو منور کر دیتا ہے آپ نے ایک آفتاب اور ایک ماہتاب اپنی طرف سے بنا کر ہم کو دکھلا دیا ہے اور کتا بیں کھول کر اپنی خدائی کا ثبوت ہماری مقبولہ مسلمہ کتابوں سے پیش کر دیا ہے.اب ہماری کیا مجال ہے کہ بھلا آپ کو خدا نہ کہیں.جہاں خدا نے اپنی قدرتوں کے ساتھ تجلی کی وہاں عاجز بندہ کیا کر سکتا ہے لیکن حضرت مسیح نے ان دونوں ثبوتوں میں سے کسی ثبوت کو بھی پیش نہ کیا اور پیش کیا تو ان عبارتوں کو پیش کیا سن لیجئے.تب یہودیوں نے پھر پتھر اٹھائے کہ اس پر پتھراؤ کریں.یسوع نے انہیں جواب دیا کہ میں نے اپنے باپ کے بہت سے اچھے کام تمہیں دکھائے ہیں ان میں سے کس کام کے لئے تم مجھے پتھراؤ کرتے ہو؟ یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ ہم تجھے اچھے کام کے لئے نہیں بلکہ اس لئے تجھے پتھراؤ کرتے ہیں کہ تو کفر کہتا ہے اور انسان ہو کے اپنے تئیں خدا بناتا ہے.یسوع نے انہیں جواب دیا کہ کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو جبکہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں.اب منصفین سوچ لیں کہ کیا الزام کفر کا دور کرنے کے لئے اپنے آپ کو حقیقی طور پر بیٹا اللہ تعالیٰ کا ثابت کرنے کے لئے یہی جواب تھا کہ اگر میں نے خدا کا بیٹا کہلایا تو کیا ہرج ہو گیا تمہارے بزرگ بھی خدا کہلاتے رہے ہیں.ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب اس جگہ فرماتے ہیں کہ گویا حضرت مسیح ان کے بلوے سے خوفناک ہو کر ڈر گئے
۹۱۵ اور اصل جواب کو چھپا لیا اور تقیہ اختیار کیا مگر میں کہتا ہوں کہ کیا یہ ان نبیوں کا کام ہے کہ اللہ جلشانہ کی راہ میں ہر وقت جان دینے کو تیار رہتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے.الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسالتِ اللهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا إِلَّا الله لا یعنی اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر جو اس کے پیغام پہنچاتے ہیں وہ پیغام رسانی میں کسی سے نہیں ڈرتے.پس حضرت مسیح قادر مطلق کہلا کر کمزور یہودیوں سے کیونکر ڈر گئے.اب اس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے حقیقی طور پر ابن اللہ ہونے کا یا خدا ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا.اور اس دعوئی میں اپنے تئیں ان تمام لوگوں کا ہمرنگ قرار دیا اور اس بات کا اقرار کیا کہ انہی کے موافق یہ دعوی بھی ہے.پھر حضرت مسیح نے صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ آپ نے کئی مقامات انجیل میں اپنی انسانی کمزوریوں کا اقرار کیا.جیسا کہ جب قیامت کا پتہ ان سے پوچھا گیا تو آپ نے اپنی لاعلمی ظاہر فرمائی اور کہا کہ بجز اللہ تعالیٰ کے قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا.اب صاف ظاہر ہے کہ علم روح کی صفات میں سے ہے نہ جسم کی صفات میں سے.اگر ان میں اللہ تعالیٰ کا روح تھا اور یہ خود اللہ تعالیٰ ہی تھے تو لاعلمی کے اقرار کی کیا وجہ؟ کیا خدا تعالی بعد علم کے نادان بھی ہو جایا کرتا ہے.پھر منتی ۱۹ باب ۱۶.میں لکھا ہے.”دیکھو ایک نے آ کے اُسے (یعنی مسیح سے ) کہا اے نیک اُستاد میں کون سا نیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں.اُس نے اسے کہا تو کیوں نیک مجھے کہتا ہے.نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.پھر متی ۲۰/ ۲۰ میں لکھا ہے کہ زبدی کے بیٹوں کی ماں نے اپنے بیٹوں کے حضرت مسیح کے دائیں بائیں بیٹھنے کی درخواست کی تو فرمایا اس میں میرا اختیار نہیں.اب فرمائیے قادر مطلق ہونا کہاں گیا.قادر مطلق بھی کبھی بے اختیار ہو جایا کرتا ہے؟ اور جبکہ اس قدر تعارض صفات میں واقع ہو گیا کہ حضرات حواری تو آپ کو قادر مطلق خیال کرتے ہیں اور آپ قادر مطلق ہونے سے انکار کر رہے ہیں تو ان پیش کردہ پیشگوئیوں کی کیا عزت اور کیا وقعت باقی رہی جس کے لئے یہ پیش کی جاتی ہیں.وہی انکار کرتا ہے کہ میں قادر مطلق نہیں.یہ خوب بات ہے.پھر متی ۳۸/ ۲۶ میں لکھا ہے کہ جس کا ماحصل یہ ہے کہ مسیح نے تمام رات اپنے بچنے کے لئے دعا کی اور نہایت غمگین اور دلگیر ہو کر اور رو رو کر اللہ جل شانہ سے التماس کی کہ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گزر جائے اور نہ صرف آپ بلکہ اپنے حواریوں سے بھی اپنے لئے دعا کرائی.ل الاحزاب:۴۰ یگر
۹۱۶ پھر بھی وہ دعا منظور نہ ہوئی اور جو تقدیر میں لکھا تھا وہ ہو ہی گیا.اب دیکھو اگر وہ قادر مطلق ہوتے تو چاہئے تھا کہ یہ اقتدار اور یہ قدرت کاملہ پہلے اُن کو اپنے نفس کے لئے کام آتا.جب اپنے نفس کے لئے کام نہ آیا تو غیروں کو اُن سے توقع رکھنا ایک طمع خام ہے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۳۳ تا ۱۳۶) پہلی کتابوں میں جو کامل راستبازوں کو خدا کے بیٹے کر کے بیان کیا گیا ہے اس کے بھی یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ درحقیقت خدا کے بیٹے ہیں.کیونکہ یہ تو کفر ہے اور خدا بیٹوں اور بیٹیوں سے پاک ہے بلکہ یہ معنے ہیں کہ ان کامل راستبازوں کے آئینہ صافی میں عکسی طور پر خدا نازل ہوا تھا.اور ایک شخص شخص کا عکس جو آئینہ میں ظاہر ہوتا ہے استعارہ کے رنگ میں گویا وہ اس کا بیٹا ہوتا ہے کیونکہ جیسا کہ بیٹا باپ سے پیدا ہوتا ہے ایسا ہی عکس اپنے اصل سے پیدا ہوتا ہے.پس جبکہ ایسے دل میں جو نہایت صافی ہے اور کوئی کدورت اس میں باقی نہیں رہی تجلیات الہیہ کا انعکاس ہوتا ہے تو وہ عکسی تصویر استعارہ کے رنگ میں اصل کے لئے بطور بیٹے کے ہو جاتی ہے.اسی بناء پر توریت میں کہا گیا ہے کہ یعقوب میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا بیٹا ہے اور عیسی ابن مریم کو جو انجیلوں میں بیٹا کہا گیا اگر عیسائی لوگ اسی حد تک کھڑے رہتے کہ جیسے ابراہیم اور اسحاق اور اسمعیل اور یعقوب اور یوسف اور موسیٰ اور داؤد اور سلیمان وغیرہ خدا کی کتابوں میں استعارہ کے رنگ میں خدا کے بیٹے کہلائے ہیں.ایسا ہی عیسی بھی ہے تو اُن پر کوئی اعتراض نہ ہوتا.کیونکہ جیسا کہ استعارہ کے رنگ میں ان نبیوں کو پہلے نبیوں کی کتابوں میں بیٹا کر کے پکارا گیا ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض پیشگوئیوں میں خدا کر کے پکارا گیا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ نہ وہ تمام نبی خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا ہیں بلکہ یہ تمام استعارات ہیں محبت کے پیرا یہ میں.ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کی کلام میں بہت ہیں.جب انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسا محو ہوتا ہے جو کچھ بھی نہیں رہتا تب اسی فنا کی حالت میں ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ اس حالت میں ان کا وجود درمیان نہیں ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا یعنی ان لوگوں کو کہہ کہ اے میرے بندو! خدا کی رحمت سے نومید مت ہو.خدا تمام گناہ بخش دے گا.اب دیکھو اس جگہ يَا عِبَادَ اللہ کی جگہ يَا عِبَادِی کہہ دیا گیا حالانکہ لوگ خدا کے بندے ہیں نہ الزمر: ۵۴
۹۱۷ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے مگر یہ استعارہ کے رنگ میں بولا گیا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۶،۶۵) عیسائیوں کے خدا کا حلیہ یہ ہے کہ وہ ایک اسرائیلی آدمی مریم بنت یعقوب کا بیٹا ہے جو ۳۲ برس کی عمر پا کر اس دار الفنا سے گذر گیا.جب ہم سوچتے ہیں کہ کیونکر وہ گرفتار ہونے کے وقت ساری رات دعا کر کے پھر بھی اپنے مطلب سے نامراد رہا اور ذلت کے ساتھ پکڑا گیا اور بقول عیسائیوں کے سولی پر کھینچا گیا اور ایلی ایلی کرتا مر گیا تو ہمیں یکدفعہ بدن پر لرزہ پڑتا ہے کہ کیا ایسے انسان کو جس کی دعا بھی جناب الہی میں قبول نہ ہو سکی اور نہایت ناکامی اور نامرادی سے ماریں کھاتا کھاتا مر گیا قادر خدا کہہ سکتے ہیں.ذرا اس وقت کے نظارہ کو آنکھوں کے سامنے لاؤ جبکہ یسوع مسیح حوالات میں ہو کر پلاطوس کی عدالت سے ہیرو دوس کی طرف بھیجا گیا.کیا یہ خدائی کی شان ہے کہ حوالات میں ہو کر ہتھکڑی ہاتھ میں زنجیر پیروں میں چند سپاہیوں کی حراست میں چالان ہو کر جھڑ کیاں کھا تا ہوا گلیل کی طرف روانہ ہوا اور اس حالت پر ملالت میں ایک حوالات سے دوسری حوالات میں پہنچا.پلاطوس نے کرامت دیکھنے پر چھوڑنا چاہا.اس وقت کوئی کرامت دکھلا نہ سکا.ناچار پھر حراست میں واپس کر کے یہودیوں کے حوالہ کیا گیا اور انہوں نے ایک دم میں اس کی جان کا قصہ تمام کر دیا.اب ناظرین خود سوچ لیں کہ کیا اصلی اور حقیقی خدا کی یہی علامتیں ہوا کرتی ہیں؟ کیا کوئی پاک کانشنس اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ وہ جو زمین و آسمان کا خالق اور بے انتہا قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے وہ اخیر پر ایسا بد نصیب اور کمزور اور ذلیل حالت میں ہو جائے کہ شریر انسان اس کو اپنے ہاتھوں میں مل ڈالیں.اگر کوئی ایسے خدا کو پوجے اور اُس پر بھروسہ کرے تو اُسے اختیار ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر آریوں کے پر میشر کے مقابل پر بھی عیسائیوں کے خدا کو کھڑا کر کے اس کی طاقت اور قدرت کو وزن کیا جائے تب بھی اس کے مقابل پر بھی یہ بیچ محض ہے کیونکہ آریوں کا فرضی پر میشر اگر چہ پیدا کرنے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا لیکن کہتے ہیں کہ پیدا شدہ چیزوں کو کسی قدر جوڑ سکتا ہے مگر عیسائیوں کے یسوع میں تو اتنی بھی طاقت ثابت نہ ہوئی.جس وقت یہودیوں نے صلیب پر کھینچ کر کہا تھا کہ اگر تو اب اپنے آپ کو بچائے تو ہم تیرے پر ایمان لاویں گے تو وہ ان کے سامنے اپنے تئیں بچا نہ سکا.ورنہ اپنے تئیں بچانا کیا کچھ بڑا کام تھا؟ صرف اپنے روح کو اپنے جسم کے ساتھ جوڑ نا تھا.سو اس کمزور کو جوڑنے کی بھی طاقت نہ ہوئی.پیچھے سے پردہ داروں نے باتیں بنالیں کہ وہ قبر میں زندہ ہو گیا تھا مگر افسوس کہ انہوں
۹۱۸ نے نہ سوچا کہ یہودیوں کا تو یہ سوال تھا کہ ہمارے روبرو ہمیں زندہ ہو کر دکھلا دے پھر جبکہ اُن کے روبرو زندہ نہ ہو سکا اور نہ قبر میں زندہ ہو کر اُن سے آکر ملاقات کی تو یہودیوں کے نزدیک بلکہ ہر یک محقق کے نزدیک اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حقیقت میں زندہ ہو گیا تھا.( معیار المذاہب.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۶۸ تا ۴۷۰) ظاہر ہے کہ اگر ابن مریم کے واقعات کو فضول اور بے ہودہ تعریفوں سے الگ کر لیا جائے تو انجیلوں سے اس کے واقعی حالات کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ وہ ایک عاجز اور ضعیف اور ناقص بندہ یعنے جیسے کہ بندے ہوا کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک نبی تھا اور اس بزرگ اور عظیم الشان رسول کا ایک تابع اور پس رو تھا اور خود اس بزرگی کو ہرگز نہیں پہنچا تھا.یعنے اس کی تعلیم ایک اعلی تعلیم کی فرع تھی مستقل تعلیم نہ تھی اور وہ خود انجیلوں میں اقرار کرتا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ عالم الغیب ہوں نہ قادر ہوں بلکہ ایک بندہ عاجز ہوں اور انجیل کے بیان سے ظاہر ہے کہ اُس نے گرفتار ہونے سے پہلے کئی دفعہ رات کے وقت اپنے بچاؤ کے لئے دعا کی اور چاہتا تھا کہ دعا اس کی قبول ہو جائے مگر اس کی وہ دعا قبول نہ ہوئی اور نیز جیسے عاجز بندے آزمائے جاتے ہیں وہ شیطان سے آزمایا گیا.پس اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہر طرح عاجز ہی عاجز تھا.مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کا مبرز ہے تولد پاکر مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دُکھ اُٹھاتا رہا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ بھوک کے دُکھ سے ایک انجیر کے نیچے گیا.مگر چونکہ انجیر پھلوں سے خالی پڑی ہوئی تھی اس لئے محروم رہا اور یہ بھی نہ ہو سکا کہ دو چار انجیریں اپنے کھانے کے لئے پیدا کر لیتا.غرض ایک مدت تک ایسی ایسی آلودگیوں میں رہ کر اور ایسے ایسے دُکھ اٹھا کر باقرار عیسائیوں کے مر گیا اور اس جہان سے اُٹھایا گیا.اب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا خداوند قادر مطلق کی ذات میں ایسی ہی صفات ناقصہ ہونی چاہئیے.کیا وہ اسی سے قدوس اور ذوالجلال کہلاتا ہے کہ وہ ایسے عیبوں اور نقصانوں سے بھرا ہوا ہے اور کیا ممکن ہے کہ ایک ہی ما یعنی مریم کے پیٹ میں سے پانچ بچے پیدا ہو کر ایک بچہ خدا کا بیٹا بلکہ خدا بن گیا اور چار باقی جو ر ہے ان بیچاروں کو خدائی سے کچھ بھی حصہ نہ ملا بلکہ قیاس یہ چاہتا تھا کہ جبکہ کسی مخلوق کے پیٹ سے خدا بھی پیدا ہوسکتا ہے یہ نہیں کہ ہمیشہ آدمی سے آدمی اور گدھی سے گدھا پیدا ہوتو جہاں کہیں کسی عورت کے پیٹ سے خدا پیدا ہو تو پھر اس پیٹ سے کوئی مخلوق پیدا نہ ہو بلکہ جس قدر بچے پیدا ہوتے جائیں وہ سب خدا ہی ہوں تا وہ پاک رحم مخلوق کے شرکت سے منزہ رہے اور فقط خداؤں ہی کے پیدا ہونے کی ایک من
۹۱۹ کان ہو.پس قیاس متذکرہ بالا کے رو سے لازم تھا کہ حضرت مسیح کے دوسرے بھائی اور بہن بھی کچھ نہ کچھ خدائی میں سے بحرہ پاتے اور ان پانچوں حضرات کی والدہ تو رَبُّ الارباب ہی کہلاتی کیونکہ یہ پانچوں حضرات رُوحانی اور جسمانی قوتوں میں اُسی سے فیضیاب ہیں عیسائیوں نے ابن مریم کی بے جا تعریفوں میں بہت سا افترا بھی کیا مگر پھر بھی اس کے نقصانوں کو چھپا نہ سکے اور اس کی آلودگیوں کا آپ اقرار کر کے پھر خواہ نخواہ اس کو خدائے تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا.یوں تو عیسائی اور یہودی اپنی عجیب کتابوں کے رُو سے سب خدا کے بیٹے ہی ہیں بلکہ ایک آیت کے رُو سے آپ ہی خدا ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بدھ مت والے اپنے افترا اور اختراع میں ان سے اچھے رہے کیونکہ انہوں نے بدھ کو خدا ٹھہرا کر پھر ہرگز اس کے لئے یہ تجویز نہیں کیا کہ اُس نے پلیدی اور ناپاکی کی راہ سے تولد پایا تھا یا کسی قسم کی نجاست کھائی تھی بلکہ ان کا بدھ کی نسبت یہ اعتقاد ہے کہ وہ مونہہ کے راستہ سے پیدا ہوا تھا.پر افسوس عیسائیوں نے بہت سی جعل سازیاں تو کیں مگر یہ جعل سازی نہ سوجھی کہ مسیح کو بھی مونہہ کے راستہ سے ہی پیدا کرتے اور اپنے خدا کو پیشاب اور پلیدی سے بچاتے اور نہ یہ سوجھی کہ موت جو حقیقت الوہیت سے بکلی منافی ہے اُس پر وارد نہ کرتے.اور نہ یہ خیال آیا کہ جہاں مریم کے بیٹے نے انجیلوں میں اقرار کیا ہے کہ میں نہ نیک ہوں اور نہ دانا مطلق ہوں نہ خود بخود آیا ہوں.نہ عالم الغیب ہوں.نہ قادر ہوں نہ دعا کی قبولیت میرے ہاتھ میں ہے میں صرف ایک عاجز بندہ اور مسکین آدم زاد ہوں کہ جو ایک مالک رب العالمین کا بھیجا ہوا آیا ہوں.ان سب مقاموں کو انجیل سے نکال ڈالنا چاہئے.براہین احمدیہ ہر چہار تخصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۴۱ تا ۴۴۳ حاشیہ نمبر۱۱) ہم نے بار بار سمجھایا کہ عیسی پرستی بت پرستی اور رام پرستی سے کم نہیں اور مریم کا بیٹا گشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا مگر کیا کبھی آپ لوگوں نے توجہ کی ؟ یوں تو آپ لوگ تمام دنیا کے مذہبوں پر حملہ کر رہے ہیں مگر کبھی اپنے اس مثلث خدا کی نسبت بھی کبھی غور کی.کبھی یہ خیال آیا کہ وہ جو تمام عظمتوں کا مالک ہے اُس پر انسان کی طرح کیونکر دُکھ کی مار پڑ گئی ؟ کبھی یہ بھی سوچا کہ خالق نے اپنی ہی مخلوق سے کیونکر مارکھا لی؟ کیا یہ سمجھ آ سکتا ہے کہ بندے ناچیز اپنے خدا کو کوڑے ماریں.اُس کے منہ پر تھوکیں.اس کو پکڑیں.اس کو سولی دیں اور وہ مقابلہ سے عاجز رہ جائے بلکہ خدا کہلا کر پھر اُس پر موت بھی آ جائے؟ کیا یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ تین مجسم خدا ہوں ایک وہ مجسم جس کی شکل پر آدم ہوا.دوسرا یسوع.تیسرا کبوتر.اور تینوں میں سے ایک بچہ والا اور دولا ولد ؟ کیا یہ سمجھ آ سکتا ہے کہ خدا شیطان کے پیچھے پیچھے
۹۲۰ چلے اور شیطان اُس سے سجدہ چاہے اور اس کو دنیا کی طمع دے؟ کیا یہ مجھ میں آ سکتا ہے کہ وہ شخص جس کی ہڈیوں میں خدا گھسا ہوا تھا ساری رات رو رو کر دعا کرتا رہا اور پھر بھی استجابت دعا سے محروم اور بے نصیب ہی رہا؟ کیا یہ بات تعجب میں نہیں ڈالتی کہ خدائی کے ثبوت کے لئے یہود کی کتابوں کا حوالہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہود اس عقیدہ پر ہزار لعنت بھیجتے ہیں اور سخت انکاری ہیں اور کوئی ان میں ایسا فرقہ نہیں جو تثلیت کا قائل ہو.اگر یہود کو موسیٰ سے آخری نبیوں تک یہی تعلیم دی جاتی تو کیونکر ممکن تھا کہ وہ لاکھوں آدمی جو بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اس تعلیم کو سب کے سب بھول جاتے کیا یہ بات سوچنے کے لائق نہیں کہ عیسائیوں میں قدیم سے ایک فرقہ موحد بھی ہے جو قرآن شریف کے وقت میں بھی موجود تھا.اور وہ فرقہ بڑے زور سے اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ تثلیث کا گندہ مسئلہ صرف تیسری صدی کے بعد نکلا ہے اور اب بھی اس فرقہ کے لاکھوں انسان یورپ اور امریکہ میں موجود ہیں اور ہزار ہا کتا بیں ان کی شائع ہو رہی ہیں.پس جبکہ اس قدر ملزم ہو کر پھر بھی پادری صاحبان اپنی بدزبانیوں سے باز نہیں آتے تو کیا اس وقت خدا کے فیصلہ کی حاجت نہیں؟ ضرور حاجت ہے تا جو جھوٹھا ہے ہلاک ہو جائے.جو گروہ جھوٹا ہوگا اب بلاشبہ بھاگ جائے گا.اور جھوٹے بہانوں سے کام لے گا.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۴۲،۴۱) بچے نبی کی سچائی پر یہ بھاری دلیل ہوتی ہے کہ وہ کامل اصلاح کا ایک بھاری نمونہ دکھلاوے.پس جب ہم اس نمونہ کو حضرت مسیح کی زندگی میں غور کرتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کون سی اصلاح کی اور کتنے لاکھ یا ہزار آدمی نے ان کے ہاتھ پر تو بہ کی تو یہ خانہ بھی خالی پڑا ہوا نظر آتا ہے.ہاں باراں حواری ہیں مگر جب ان کا اعمال نامہ دیکھتے ہیں تو دل کانپ اٹھتا ہے اور افسوس آتا ہے کہ یہ لوگ کیسے تھے کہ اس قدر اخلاص کا دعوی کر کے پھر ایسی ناپاکی دکھلا دیں جس کی نظیر دنیا میں نہیں.کیا ے روپے لیکر ایک بچے نبی اور پیارے رہنما کو خونیوں کے حوالہ کرنا حواری کہلانے کی یہی حقیقت تھی؟ کیا لازم تھا کہ پطرس جیسا حواریوں کا سردار حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہو کر ان پر لعنت بھیجے اور چند روزہ زندگی کے لئے اپنے مقتداء کو اس کے منہ پر گالیاں دے؟ کیا مناسب تھا کہ حضرت مسیح کے پکڑے جانے کے وقت میں تمام حواری اپنا اپنا راہ لیں اور ایک دم کے لئے بھی صبر نہ کریں؟ کیا جن کا پیارا نبی قتل کرنے کے لئے پکڑا جائے ایسے لوگوں کے صدق وصفا کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں جو حواریوں نے
۹۲۱ اس وقت دکھلائے ؟ اُن کے گذر جانے کے بعد مخلوق پرستوں نے باتیں بنائیں اور آسمان پر چڑھا دیا.مگر جو کچھ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنا ایمان دکھلایا وہ باتیں تو اب تک انجیلوں میں موجود ہیں.غرض وہ دلیل جو نبوت اور رسالت کے مفہوم سے ایک سچے نبی کے لئے قائم ہوتی ہے وہ حضرت مسیح کے لئے قائم نہیں ہوسکی.اگر قرآن شریف ان کی نبوت کا بیان نہ کرتا تو ہمارے لئے کوئی بھی راہ کھلی نہیں تھی کہ ہم اُنکو سچے نبیوں کے سلسلہ میں داخل کر سکیں.کیا جس کی یہ تعلیم ہو کہ میں ہی خدا ہوں اور خدا کا بیٹا اور بندگی اور فرمانبرداری سے آزاد اور جس کی عقل اور معرفت صرف اس قدر ہو کہ میری خودکشی سے لوگ گناہ سے نجات پا جائیں گے ایسے آدمی کو ایک دم کے لئے بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ دانا اور راہِ راست پر ہے.مگر الحمدللہ کہ قرآنی تعلیم نے ہم پر یہ کھول دیا کہ ابن مریم پر یہ سب الزام جھوٹے ہیں.انجیل میں تثلیث کا نام ونشان نہیں ایک عام محاورہ لفظ ابن اللہ کا جو پہلی کتابوں میں آدم سے لیکر اخیر تک ہزارہا لوگوں پر بولا گیا تھا وہی عام لفظ حضرت مسیح کے حق میں انجیل میں آگیا.پھر بات کا بتنگڑ بنایا گیا یہاں تک کہ حضرت مسیح اسی بات کی بنیاد پر خدا بھی بن گئے.حالانکہ نہ کبھی مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا اور نہ کبھی خود کشی کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسا کرتا تو راستبازوں کے دفتر سے اُس کا نام کا ٹا جاتا.یہ بھی مشکل سے یقین ہوتا ہے کہ ایسے شرمناک جھوٹ کی بنیا د حواریوں کے خیالات کی برگشتگی نے پیدا کی ہو کیونکہ گو ان کی نسبت جیسا کہ انجیل میں بیان کیا گیا ہے یہ صحیح بھی ہو کہ وہ موٹی عقل کے آدمی اور جلد تر غلطی کھانے والے تھے لیکن ہم اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ وہ ایک نبی کے صحبت یافتہ ہو کر ایسے بیہودہ خیالات کی جنس کو اپنی ہتھیلی پر لئے پھرتے تھے.مگر انجیل کے حواشی پر نظر غور کرنے سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ساری چالبازی حضرت پولس کی ہے جس نے پولیٹیکل چالبازوں کی طرح عمیق مکروں سے کام لیا ہے.غرض جس ابن مریم کی قرآن شریف نے ہم کو خبر دی ہے وہ اُسی ازلی ابدی ہدایت کا پابند تھا جو ابتدا سے بنی آدم کے لئے مقرر کی گئی ہے.لہذا اس کی نبوت کے لئے قرآنی ثبوت کافی ہے گوانجیل کے رُو سے کتنے ہی شکوک وشبہات اس کی نبوت کے وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى بارے میں پیدا ہوں.( نور القرآن نمبر ا.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۷۰ تا ۳۷۲) تثلیث کا عقیدہ بھی ایک عجیب عقیدہ ہے.کیا کسی نے سنا ہے کہ مستقل طور پر اور کامل طور پر تین بھی
۹۲۲ ہوں اور ایک بھی ہو اور ایک بھی کامل خدا اور تین بھی کامل خدا ہو.عیسائی مذہب بھی عجیب مذہب ہے کہ ہر ایک بات میں غلطی اور ہر ایک امر میں لغزش ہے اور پھر باوجو دان تمام تاریکیوں کے آئندہ زمانہ کے لئے وحی اور الہام پر مہر لگ گئی ہے اور اب ان تمام اناجیل کی غلطیوں کا فیصلہ حسب اعتقاد عیسائیوں کے وحی جدید کی رُو سے تو غیر ممکن ہے کیونکہ ان کے عقیدہ کے موافق اب وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے.اب تمام مدار صرف اپنی اپنی رائے پر ہے جو جہالت اور تاریکی سے مبرا نہیں اور ان کی انجیلیں اس قدر بے ہودگیوں کا مجموعہ ہیں جو ان کا شمار کرنا غیر ممکن ہے مثلاً ایک عاجز انسان کو خدا بنانا اور دوسروں کے گناہوں کی سزا میں اس کے لئے صلیب تجویز کرنا اور تین دن تک اس کو دوزخ میں بھیجنا اور پھر ایک طرف خدا بنانا اور ایک طرف کمزوری اور دروغ گوئی کی عادت کو اس کی طرف منسوب کرنا.چنانچہ انجیلوں میں بہت سے ایسے کلمات پائے جاتے ہیں جن سے نعوذ باللہ حضرت مسیح کا دروغ گو ہونا ثابت ہوتا ہے.مثلاً وہ ایک چور کو وعدہ دیتے ہیں کہ آج بہشت میں تو میرے ساتھ روزہ کھولے گا اور ایک طرف وہ خلاف وعدہ اُسی دن دوزخ میں جاتے ہیں اور تین دن دوزخ میں ہی رہتے ہیں.ایسا ہی انجیلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ شیطان آزمائش کے لئے مسیح کو کئی جگہ لئے پھرا.یہ عجیب بات ہے کہ مسیح خدا بن کر بھی شیطان کی آزمائش سے نہ بچ سکا اور شیطان کو خدا کی آزمائش کی جرات ہوگئی.یہ انجیل کا فلسفہ تمام دنیا سے نرالا ہے اگر در حقیقت شیطان مسیح کے پاس آیا تھا تو مسیح کے لئے بڑا عمدہ موقع تھا کہ یہودیوں کو شیطان دکھلا دیتا کیونکہ یہودی حضرت مسیح کی نبوت کے سخت انکاری تھے.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۸، ۳۴۹) یقیناً سمجھو کہ سچا خدا وہی خدا ہے جس کی طرف قرآن شریف بلاتا ہے.اس کے سوا سب انسان پرستیاں یا سنگ پرستیاں ہیں.بیشک مسیح ابن مریم نے بھی اس چشمہ سے پانی پیا ہے جس سے ہم پیتے ہیں اور بلا شبہ اُس نے بھی اُس پھل میں سے کھایا ہے جس سے ہم کھاتے ہیں لیکن ان باتوں کو خدائی سے کیا تعلق اور ابنیت سے کیا علاقہ ہے.عیسائیوں نے مسیح کو ایک مقید خدا بنانے کا ذریعہ بھی خوب نکالا ہے یعنی لعنت.اگر لعنت نہ ہو تو خدائی بے کا ر اور ابنیت لغو.لیکن با تفاق تمام اہل لغت ملعون ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ خدا سے دل برگشتہ ہو جائے.بے ایمان ہو جائے.مرتد ہو جائے.خدا کا دشمن ہو جائے.سیاہ دل ہو جائے.کتوں اور سوروں اور بندروں سے بدتر ہو جائے جیسا کہ توریت بھی گواہی دے رہی ہے.پس کیا یہ مفہوم بھی ایک سیکنڈ کے لئے مسیح کے حق میں تجویز کر سکتے ہیں.کیا اس پر ایسا
۹۲۳ زمانہ آیا تھا کہ وہ خدا کا پیارا نہیں رہا تھا ؟ کیا اس پر وہ وقت آیا تھا کہ اُس کا دل خدا سے برگشتہ ہو گیا تھا ؟ کیا کبھی اُس نے بے ایمانی کا ارادہ کیا تھا.کیا کبھی ایسا ہوا کہ وہ خدا کا دشمن اور خدا اس کا دشمن تھا؟ پس اگر ایسا نہیں ہوا تو اُس نے اس لعنت میں سے کیا حصہ لیا جس پر نجات کا تمام مدار ٹھہرایا گیا ہے.کیا تو ریت گواہی نہیں دیتی کہ مصلوب لعنتی ہے؟ پس اگر مصلوب لعنتی ہوتا ہے تو بے شک وہ لعنت جو عام طور پر مصلوب ہونے کا نتیجہ ہے صیح پر پڑی ہو گی.لیکن لعنت کا مفہوم دنیا کے اتفاق کی رو سے خدا سے دور ہونا اور خدا سے برگشتہ ہونا ہے.فقط کسی پر مصیبت پڑنا یہ لعنت نہیں ہے بلکہ لعنت خدا سے دوری اور خدا سے نفرت اور خدا سے دشمنی ہے اور لعین لغت کی رُو سے شیطان کا نام ہے.اب خدا کے لئے سوچو کہ کیا روا ہے کہ ایک راستباز کو خدا کا دشمن اور خدا سے برگشتہ بلکہ شیطان نام رکھا جائے اور خدا کو اس کا دشمن ٹھہرایا جائے.بہتر ہوتا کہ عیسائی اپنے لئے دوزخ قبول کر لیتے مگر اس برگزیدہ انسان کو ملعون اور شیطان نہ ٹھہراتے.ایسی نجات پر لعنت ہے جو بغیر اس کے جو راستبازوں کو بے ایمان اور شیطان قرار دیا جائے مل نہیں سکتی.قرآن شریف نے یہ خوب سچائی ظاہر کی کہ مسیح کو صلیبی موت سے بچا کر لعنت کی پلیدی سے بری رکھا اور انجیل بھی یہی گواہی دیتی ہے کیونکہ مسیح نے یونس کے ساتھ اپنی تشبیہہ پیش کی ہے اور کوئی عیسائی اس سے بے خبر نہیں کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا.پھر اگر یسوع قبر میں مُردہ پڑا رہا تو مُردہ کو زندہ سے کیا مناسبت اور زندہ کو مُردہ سے کونسی مشابہت.پھر یہ بھی معلوم ہے کہ یسوع نے صلیب سے نجات پا کر شاگردوں کو اپنے زخم دکھائے.پس اگر اس کو دوبارہ زندگی جلالی طور پر حاصل ہوئی تھی تو اس پہلی زندگی کے زخم کیوں باقی رہ گئے.کیا جلال میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی ؟ اور اگر کسر رہ گئی تھی تو کیونکر اُمید رکھیں کہ وہ زخم پھر کبھی قیامت تک مل سکیں گے.یہ بیہودہ قصے ہیں جن پر خدائی کا شہتیر رکھا گیا ہے مگر وقت آتا ہے بلکہ آگیا کہ جس طرح روئی کو دھنکا جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ ان تمام قصوں کو ذرہ ذرہ کر کے اُڑا دے گا.(سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۵،۶۴) عیسائیوں کا یہ ایک متفق علیہ عقیدہ ہے کہ یسوع مصلوب ہو کر تین دن کے لئے لعنتی ہو گیا تھا.اور تمام مدار نجات کا اُن کے نزدیک اسی لعنت پر ہے.تو اس لعنت کے مفہوم کی رو سے ایک ایسا سخت اعتراض وارد ہوتا ہے جس سے تمام عقیدہ تثلیث اور کفارہ اور نیز گناہوں کی معافی کا مسئلہ کالعدم ہو کر اس کا باطل ہونا بدیہی طور پر ثابت ہو جاتا ہے.اگر کسی کو اس مذہب کی حمایت منظور ہے تو جلد جواب
۹۲۴ دے.ورنہ دیکھو یہ ساری عمارت گر گئی اور اس کا گرنا ایسا سخت ہوا کہ سب عیسائی عقیدے اس کے نیچے کچلے گئے.نہ تثلیث رہی نہ کفارہ نہ گناہوں کی معافی.خدا کی قدرت دیکھو کہ کیسا کسر صلیب ہوا !!! اب ہم صفائی اعتراض کے لئے پہلے لغت کی رو سے لعنت کے لفظ کے معنے کرتے ہیں اور پھر اعتراض کو بیان کر دیں گے.سو جانا چاہیئے کہ لسان العرب میں کہ جو لغت کی ایک پرانی کتاب اسلامی تالیفات میں سے ہے اور ایسا ہی قطر المحیط اور محیط اور اقرب الموارد میں جو دو عیسائیوں کی تالیفات ہیں جو حال میں بمقام بیروت چھپ کر شائع ہوئی ہیں اور ایسا ہی کتب لغت کی تمام کتابوں میں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں لعنت کے معنے یہ لکھے ہیں:.اللَّعُنُ : الإِبْعَادُ وَالطَّرَدُ مِنَ الْخَيْرِ وَ مِنَ اللهِ وَ مِنَ الْخَلْقِ وَ مَنْ أَبْعَدَهُ اللَّهُ لَمْ تَلْحَقْهُ رَحْمَتُهُ وَخَلَّدَ فِي الْعَذَابِ وَاللَّعِيْنُ : الشَّيْطَانُ وَالْمَمْسُوحُ وَقَالَ الشَّمَّاحُ مَقَامُ الذَّنْبِ كَالرَّجُلِ اللَّعِيْن.یعنی لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ لعنتی اس کو کہتے ہیں جو ہر یک خیر و خوبی اور ہر قسم کی ذاتی صلاحیت اور خدا کی رحمت اور خدا کی معرفت سے بگلی بے بہرہ اور بے نصیب ہو جائے اور ہمیشہ کے عذاب میں پڑے.یعنی اس کا دل بگلی سیاہ ہو جائے اور بڑی نیکی سے لے کر چھوٹی نیکی تک کوئی خیر کی بات اس کے نفس میں باقی نہ رہے اور شیطان بن جائے اور اس کا اندر مسخ ہو جائے یعنی کتوں اور سوروں اور بندروں کی خاصیت اس کے نفس میں پیدا ہو جائے.اور شماخ نے ایک شعر میں لعنتی انسان کا نام بھیٹر یا رکھا ہے.اس مشابہت سے کہ لعنتی کا باطن مسخ ہو جاتا ہے.تمَّ كَلَامُهُم.ایسا ہی عرف عام میں بھی جب یہ بولا جاتا ہے کہ فلاں شخص پر خدا کی لعنت ہے تو ہر یک ادنی اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ وہ شخص خدا کی نظر میں واقعی طور پر پلید باطن اور بے ایمان اور شیطان ہے اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے روگردان ہے.......اس وقت ہم حضرات پادری صاحبوں سے بکمال ادب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ در حقیقت یہ لعنت اپنے تمام لوازم کے ساتھ جیسا کہ ذکر کیا گیا یسوع پر خدا تعالیٰ کی طرف سے پڑ گئی تھی.اور وہ خدا کی لعنت اور غضب کے نیچے آ کر سیاہ دل اور خدا سے روگردان ہو گیا تھا ؟ میرے نزدیک تو ایسا شخص خود لعنتی ہے کہ ایسے برگزیدہ کا نام لعنتی رکھتا ہے جو دوسرے لفظوں میں سیاہ دل اور خدا سے برگشتہ اور شیطان سیرت کہنا چاہئے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسا پیارا در حقیقت اس لعنت کے نیچے آ گیا تھا جو پوری پوری خدا کی دشمنی کے بغیر متحقق نہیں ہو سکتی.خدا کے کسی پیارے کو ایک دم کے لئے بھی شیطان کہنا کسی شیطان کا کام ہے نہ انسان کا.پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ
۹۲۵ کوئی شریف آدمی ایک سیکنڈ کے لئے بھی یسوع کے لئے یہ تمام نام جائز رکھے جو لعنت کی حقیقت اور روح ہیں.پس اگر جائز نہیں تو دیکھو کہ کفارہ کی تمام عمارت گر گئی اور تکلیفی مذہب ہلاک ہو گیا.اور صلیب ٹوٹ گیا.کیا کوئی دنیا میں ہے جو اس کا جواب دے؟ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۳۳ تا ۳۵ - مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۰ تا ۴۲ بار دوم ) جاننا چاہے کہ اگر چہ عیسائیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ حضرت عیسی یہودا اسکر یوطی کی شرارت سے گرفتار ہو کر مصلوب ہو گئے اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے لیکن انجیل شریف پر غور کرنے سے یہ اعتقادسراسر باطل ثابت ہوتا ہے.متی باب ۱۲ آیت ۴۰ میں لکھا ہے کہ جیسا کہ یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.اب ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہیں تھا.اور اگر زیادہ سے زیادہ کچھ ہوا تھا تو صرف بے ہوشی اور غخشی تھی.اور خدا کی پاک کتا ہیں یہ گواہی دیتی ہیں کہ یونس خدا کے فضل سے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا اور زندہ نکلا اور آخر قوم نے اس کو قبول کیا پھر اگر حضرت مسیح علیہ السلام زمین کے پیٹ میں مر گئے تھے تو مُردہ کو زندہ سے کیا مشابہت اور زندہ کو مُردہ سے کیا مناسبت؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ مسیح ایک نبی صادق تھا اور جانتا تھا کہ وہ خدا جس کا وہ پیارا تھا لعنتی موت سے اُس کو بچائے گا اس لئے اُس نے خدا سے الہام پا کر پیشگوئی کے طور پر یہ مثال بیان کی تھی اور اس مثال میں جتلا دیا تھا کہ وہ صلیب پر نہ مرے گا اور نہ لعنت کی لکڑی پر اس کی جان نکلے گی بلکہ یونس نبی کی طرح صرف غشی کی حالت ہوگی اور مسیح نے اس مثال میں یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ وہ زمین کے پیٹ سے نکل کر پھر قوم سے ملے گا اور یونس کی طرح قوم میں عزت پائے گا.سو یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی کیونکہ مسیح زمین کے پیٹ میں سے نکل کر اپنی ان قوموں کی طرف گیا جو کشمیر اور تبت وغیرہ مشرقی ممالک میں سکونت رکھتی تھیں یعنے بنی اسرائیل کے وہ دین فرقے جن کو شالمنذرشاہ اسور سامریہ سے مسیح سے سات سو اکیس برس پیشتر اسیر کر کے لے گیا.آخر وہ ہندوستان کی طرف آ کر اس ملک کے متفرق مقامات میں سکونت پذیر ہو گئے تھے اور ضرور تھا کہ مسیح اس سفر کو اختیار کرتا کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہی اس کی نبوت کی علت غائی تھی کہ وہ اُن گمشدہ یہودیوں کو ملتا جو ہندوستان کے مختلف مقامات میں سکونت پذیر ہو گئے تھے.وجہ یہ کہ در حقیقت وہی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں تھیں جنہوں نے ان ملکوں میں آکر اپنے باپ دادے کا مذہب بھی ترک کر دیا تھا اور اکثر اُن کے بدھ مذہب میں داخل ہو گئے تھے اور پھر رفتہ رفتہ بت پرستی تک نوبت پہنچی تھی..
۹۲۶ ماسوا اس کے صلیب کی موت سے نجات پانا اس کو اسی لئے بھی ضروری تھا کہ مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ جو کوئی کا ٹھ پر لٹکایا گیا سو عنتی ہے اور لعنت کا ایک ایسا مفہوم ہے کہ جو عیسی مسیح جیسے برگزیدہ پر ایک دم کے لئے بھی تجویز کرنا سخت ظلم اور نا انصافی ہے کیونکہ با تفاق تمام اہل زبان لعنت کا مفہوم دل سے تعلق رکھتا ہے اور اس حالت میں کسی کو ملعون کہا جائیگا جبکہ حقیقت میں اُس کا دل خدا سے برگشتہ ہو کر سیاہ ہو جائے اور خدا کی رحمت سے بے نصیب اور خدا کی محبت سے بے بہرہ اور خدا کی معرفت سے بگلی تہی دست اور خالی اور شیطان کی طرح اندھا اور بے بہرہ ہو کر گمراہی کے زہر سے بھرا ہوا ہو.اور خدا کی محبت اور معرفت کا نور ایک ذرہ اُس میں باقی نہ رہے اور تمام تعلق مہر و وفا کا ٹوٹ جائے.اور اس میں اور خدا میں باہم بغض اور نفرت اور کراہت اور عداوت پیدا ہو جائے.یہاں تک کہ خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے.غرض ہر ایک صفت میں شیطان کا وارث ہو جائے اور اسی وجہ سے لعین شیطان کا نام ہے.کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسیح پر کبھی ایسا زمانہ آیا تھا کہ اُس کا دل در حقیقت خدا سے برگشتہ اور خدا کا منکر اور خدا سے بیزار اور خدا کا دشمن ہو گیا تھا ؟ کیا ہم گمان کر سکتے ہیں کہ مسیح کے دل نے کبھی یہ محسوس کیا تھا کہ وہ اب خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن اور کفر اور انکار کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے؟ پھر اگر مسیح کے دل پر کبھی ایسی حالت نہیں آئی بلکہ وہ ہمیشہ محبت اور معرفت کے نور سے بھرا رہا تو اے دانشمند و! یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیونکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسیح کے دل پر نہ ایک لعنت بلکہ ہزاروں خدا کی لعنتیں اپنی کیفیت کے ساتھ نازل ہوئی تھیں.معاذ اللہ ہرگز نہیں تو پھر ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ وہ لعنتی ہوا؟.یہ بھی یادر ہے کہ ایسا خیال صرف حضرت مسیح علیہ السلام کی شان نبوت اور مرتبہ رسالت کے ہی مخالف نہیں بلکہ اُن کے اس دعوئی کمال اور پاکیزگی اور محبت اور معرفت کے بھی مخالف ہے جو انہوں نے جابجا انجیل میں ظاہر کیا ہے.انجیل کو پڑھ کر دیکھو کہ حضرت عیسی علیہ السلام صاف دعوی کرتے ہیں کہ میں جہان کا نور ہوں.میں بادی ہوں اور میں خدا سے اعلیٰ درجہ کی محبت کا تعلق رکھتا ہوں اور میں نے اس سے پاک پیدائش پائی ہے اور میں خدا کا پیارا بیٹا ہوں.پھر باوجود ان غیر منفک اور پاک تعلقات کے لعنت کا ناپاک مفہوم کیونکر مسیح کے دل پر صادق آ سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.پس بلاشبہ یہ بات ثابت ہے کہ میسج مصلوب نہیں ہوا یعنے صلیب پر نہیں مرا کیونکہ اُس کی ذات صلیب کے نتیجہ سے پاک ہے اور جبکہ مصلوب نہیں ہوا تو لعنت کی ناپاک کیفیت سے بے شک اس کے دل کو بچایا گیا اور بلاشبہ اس سے یہ
۹۲۷ نتیجہ بھی نکلا کہ وہ آسمان پر ہرگز نہیں گیا کیونکہ آسمان پر جانا اس منصوبہ کی ایک جز تھی اور مصلوب ہونے کی ایک فرع تھی.پس جبکہ ثابت ہوا کہ وہ نہ لعنتی ہوا اور نہ تین دن کے لئے دوزخ میں گیا اور نہ مرا تو پھر یہ دوسری جز آسمان پر جانے کی بھی باطل ثابت ہوئی اور اس پر اور بھی دلائل ہیں جو انجیل سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں.چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ قول ہے جو مسیح کے منہ سے نکلا.لیکن میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے آگے جلیل کو جاؤں گا.دیکھو متی باب ۲۶ آیت ۳۲.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح قبر سے نکلنے کے بعد جلیل کی طرف گیا تھا نہ آسمان کی طرف اور مسیح کا یہ کلمہ کہ اپنے جی اٹھنے کے بعد اس سے مرنے کے بعد جینا مراد نہیں ہو سکتا بلکہ چونکہ یہودیوں اور عام لوگوں کی نظر میں وہ صلیب پر مر چکا تھا اس لئے مسیح نے پہلے سے اُن کے آئندہ خیالات کے موافق یہ کلمہ استعمال کیا اور در حقیقت جس شخص کو صلیب پر کھینچا گیا اور اُس کے پیروں اور ہاتھوں میں کیل ٹھونکے گئے یہاں تک کہ وہ اس تکلیف سے غشی میں ہو کر مُردہ کی سی حالت میں ہو گیا اگر وہ ایسے صدمہ سے نجات پا کر پھر ہوش کی حالت میں آ جائے تو اس کا یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ میں پھر زندہ ہو گیا.غرض یہ آیت جس کو ابھی ہم نے لکھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح قبر سے نکل کر گلیل کی طرف گیا.اور مرقس کی انجیل میں لکھا ہے کہ وہ قبر سے نکل کر جلیل کی سڑک پر جا تا ہوا دکھائی دیا.اور آخران گیا راں حواریوں کو ملا جبکہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور اپنے ہاتھ اور پاؤں جو زخمی تھے دکھائے اور انہوں نے گمان کیا کہ شائد یہ روح ہے تب اس نے کہا کہ مجھے چھوؤ اور دیکھو کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو اور اُن سے ایک بھونی ہوئی مچھلی کا ٹکڑہ اور شہد کا ایک چھتہ لیا اور ان کے سامنے کھایا.دیکھو مرقس باب ۱۶ آیت ۱۴ اور لوقا باب ۲۴ آیت ۳۹ اور ۴۰ اور ۴۱ اور ۴۲.ان آیات سے یقیناً معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ہر گز آسمان پر نہیں گیا بلکہ قبر سے نکل کر جلیل کی طرف گیا اور معمولی جسم اور معمولی کپڑوں میں انسانوں کی طرح تھا اگر وہ مر کر زندہ ہوتا تو کیونکر ممکن تھا کہ جلالی جسم میں صلیب کے زخم باقی رہ جاتے اور اس کو روٹی کھانے کی کیا حاجت تھی؟ اور اگر تھی تو پھر اب بھی روٹی کھانے کا محتاج ہوگا.ناظرین کو اس دھو کے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ یہودیوں کی صلیب اس زمانہ کی پھانسی کی طرح ہوگی جس سے نجات پانا قریباً محال ہے کیونکہ اس زمانہ کی صلیب میں کوئی رستہ گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا اور نہ تختہ پر سے گرا کر لٹکایا جاتا تھا بلکہ صرف صلیب پر کھینچ کر ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکے جاتے
۹۲۸ تھے اور یہ بات ممکن ہوتی تھی کہ اگر صلیب پر کھینچنے اور کیل ٹھونکنے کے بعد ایک دو دن تک کسی کی جان بخشی کا ارادہ ہو تو اسی قدر عذاب پر کفایت کر کے ہڈیاں توڑنے سے پہلے اس کو زندہ اتار لیا جائے اور اگر مارنا ہی منظور ہوتا تھا تو کم سے کم تین دن تک صلیب پر کھنچا ہوا رہنے دیتے تھے اور پانی اور روٹی نزدیک نہ آنے دیتے تھے اور اسی طرح دھوپ میں تین دن یا اس سے زیادہ چھوڑ دیتے تھے اور پھر اس کے بعد اسکی ہڈیاں توڑتے تھے اور پھر آخر ان تمام عذابوں کے بعد وہ مرجاتا تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل وکرم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اس درجہ کے عذاب سے بچا لیا جس سے زندگی کا خاتمہ ہو جاتا.انجیلوں کو ذرہ غور کی نظر سے پڑھنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نہ تین دن تک صلیب پر رہے اور نہ تین دن کی بھوک اور پیاس اُٹھائی اور نہ ان کی ہڈیاں توڑی گئیں.بلکہ قریباً دو گھنٹہ تک صلیب پر رہے اور خدا کے رحم اور فضل نے اُن کے لئے یہ تقریب قائم کر دی کہ دن کے اخیر حصے میں صلیب دینے کی تجویز ہوئی اور وہ جمعہ کا دن تھا اور صرف تھوڑا سا دن باقی تھا اور اگلے دن سبت اور یہودیوں کی عید فسح تھی اور یہودیوں کیلئے یہ حرام اور قابل سزا جرم تھا کہ کسی کو سبت یا سبت کی رات میں صلیب پر رہنے دیں اور مسلمانوں کی طرح یہودی بھی قمری حساب رکھتے تھے اور رات دن پر مقدم سمجھی جاتی تھی.پس ایک طرف تو یہ تقریب تھی کہ جو زمینی اسباب سے پیدا ہوئی اور دوسری طرف آسمانی اسباب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیدا ہوئے کہ جب چھٹا گھنٹہ ہوا تو ایک ایسی آندھی آئی کہ جس سے ساری زمین پر اندھیرا چھا گیا اور وہ اندھیرا تین گھنٹے برابر رہا.دیکھو مرقس باب ۱۵ آیت ۳۳.یہ چھٹا گھنٹہ بارہ بجے کے بعد تھا یعنے وہ وقت جو شام کے قریب ہوتا ہے.اب یہودیوں کو اس شدت اندھیرے میں یہ فکر پڑی کہ مبادا سبت کی رات آجائے اور وہ سبت کے مجرم ہو کر تا وان کے لائق ٹھہریں اس لئے انہوں نے جلدی سے مسیح کو اور اس کے ساتھ کے دو چوروں کو بھی صلیب پر سے اتارلیا اور اس کے ساتھ ایک اور آسمانی سبب یہ پیدا ہوا کہ جب پلاطوس کچہری کی مسند پر بیٹھا تھا اُس کی جورو نے اُسے کہلا بھیجا کہ تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ (یعنی اس کے قتل کرنے کے لئے سعی نہ کر ) کیونکہ میں نے آج رات خواب میں اس کے سبب سے بہت تکلیف پائی.دیکھومتی باب ۲۷ آیت ۱۹.سو یہ فرشتہ جو خواب میں پلاطس کی جورو کو دکھایا گیا اس سے ہم اور ہر ایک منصف یقینی طور پر یہ سمجھے گا کہ خدا کا ہرگز یہ منشا نہ تھا کہ مسیح صلیب پر وفات پاوے اور منجملہ اُن شہادتوں کے جو انجیل سے ہمیں مسیح ابن مریم کی صلیبی موت سے محفوظ رہنے پر ملتی ہیں
۹۲۹ اُس کا وہ سفر دور دراز ہے جو قبر سے نکل کر جلیل کی طرف اس نے کیا.چنانچہ اتوار کی صبح کو پہلے وہ مریم مگر لینی کو ملا.مریم نے فی الفور حواریوں کو خبر کی کہ مسیح تو جیتا ہے لیکن وہ یقین نہ لائے.پھر وہ حواریوں میں سے دو کو جبکہ وہ دیہات کی طرف جاتے تھے دکھائی دیا.آخر وہ گیاروں کو جبکہ وہ کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور اُن کی بے ایمانی اور سخت دلی پر ملامت کی دیکھو انجیل مرقس باب ۱۶ آیت ۹ سے آیت ۱۴ تک اور جب مسیح کے حواری سفر کرتے ہوئے اس بستی کی طرف جارہے تھے جس کا نام املوس ہے جو یوروشلم سے پونے چار کوس کے فاصلے پر ہے.تب مسیح اُن کو ملا.اور جب وہ اس بستی کے نزدیک پہنچے تو مسیح نے آگے بڑھ کر چاہا کہ اُن سے الگ ہو جائے تب انہوں نے اُس کو جانے سے روک لیا کہ آج رات ہم اکٹھے رہیں گے اور اُس نے اُن کے ساتھ بیٹھ کر روٹی کھائی اور وہ سب مع مسیح کے املوس نام ایک گاؤں میں رات رہے.دیکھو لوقا باب ۲۴ آیت ۱۳ سے ۳۱ تک.اب ظاہر ہے کہ ایک جلالی جسم کے ساتھ جو موت کے بعد خیال کیا گیا ہے مسیح سے فانی جسم کے عادات صادر ہونا اور کھانا اور پینا اور سونا اور جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کرنا جو یروشلم سے تقریباً ستر کوس کے فاصلے پر تھا بالکل غیر ممکن اور نا معقول بات ہے اور باوجود اس کے کہ خیالات کے میلان کی وجہ سے انجیلوں کے ان قصوں میں بہت کچھ تغیر ہو گیا ہے تا ہم جس قدر الفاظ پائے جاتے ہیں اُن سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مسیح اس فانی اور معمولی جسم سے اپنے حواریوں کو ملا اور پیادہ پا جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کیا اور حواریوں کو اپنے زخم دکھلائے اور رات اُن کے پاس روٹی کھائی اور سویا اور آگے چل کر ہم ثابت کریں گے کہ اُس نے اپنے زخموں کا ایک مرہم کے استعمال سے علاج کیا.اب یہ مقام ایک سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ایک جلالی اور ابدی جسم پانے کے بعد یعنی اس غیر فانی جسم کے بعد جو اس لائق تھا کہ کھانے پینے سے پاک ہو کر ہمیشہ خدائے تعالے کے دائیں ہاتھ بیٹھے اور ہر ایک داغ اور درد اور نقصان سے منزہ ہو.اور ازلی ابدی خدا کے جلال کا اپنے اندر رنگ رکھتا ہوا بھی اس میں یہ نقص باقی رہ گیا کہ اُس پر صلیب اور کیلوں کے تازہ زخم موجود تھے جن سے خون بہتا تھا اور درد اور تکلیف اُن کے ساتھ تھی جن کے واسطے ایک مرہم بھی تیار کی گئی تھی اور جلالی اور غیر فانی جسم کے بعد بھی جو ابد تک سلامت اور بے عیب اور کامل اور غیر متغیر چاہئیے تھا کئی قسم کے نقصانوں سے بھرا رہا اور خود مسیح نے حواریوں کو اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھلائیں.پس بلا شبہ یہ بات سچ ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور نہ کوئی نیا جلالی جسم پایا بلکہ ایک غشی کی حالت
۹۳۰ ہو گئی تھی جو مرنے سے مشابہ تھی اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے یہ اتفاق ہوا کہ جس قبر میں وہ رکھا گیا وہ اس ملک کی قبروں کی طرح نہ تھی بلکہ ایک ہوا دار کو ٹھہ تھا جس میں ایک کھڑ کی تھی اور اس زمانہ میں یہودیوں میں یہ رسم تھی کہ قبر کو ایک ہوادار اور کشادہ کوٹھہ کی طرح بناتے تھے اور اس میں ایک کھڑ کی رکھتے تھے اور ایسی قبریں پہلے سے موجود رہتی تھیں اور پھر وقت پر میت اس میں رکھی جاتی تھیں.اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں پلاطس کا وہ قول ہے جو انجیل مرقس میں لکھا ہے اور وہ یہ ہے.اور جبکہ شام ہوئی اس لئے کہ تیاری کا دن تھا جو سبت سے پہلے ہوتا ہے یوسف آرمیتیہ جو نامور مشیر اور وہ خود خدا کی بادشاہت کا منتظر تھا آیا اور دلیری سے پلاطس کے پاس جا کے یسوع کی لاش مانگی اور پلاطس نے متعجب ہو کر شبہ کیا کہ وہ یعنی مسیح ایسا جلد مر گیا.دیکھو مرقس باب ۱۵ آیت ۴۲ سے ۴۴ تک.اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عین صلیب کی گھڑی میں ہی یسوع کے مرنے پر شبہ ہوا اور شبہ بھی ایسے شخص نے کیا جس کو اس بات کا تجربہ تھا کہ اس قدر مدت میں صلیب پر جان نکلتی ہے.آکر اور منجملہ اُن شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں انجیل کی وہ عبارت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں.پھر یہودیوں نے اس لحاظ سے کہ لاشیں سبت کے دن صلیب پر نہ رہ جائیں کیونکہ وہ دن تیاری کا تھا بلکہ بڑا ہی سبت تھا پلا طوس سے عرض کی کہ ان کی ٹانگیں توڑی اور لاشیں اتاری جائیں.تب سپاہیوں نے لر پہلے اور دوسرے کی ٹانگیں جو اس کے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے توڑیں.لیکن جب انہوں نے یسوع کی طرف آ کے دیکھا کہ وہ مر چکا ہے.تو اس کی ٹانگیں نہ توڑیں.پر سپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اسکی پہلی چھیدی اور فی الفور اس سے لہو اور پانی نکلا.دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱ سے آیت ۳۴ تک.ان آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کسی مصلوب کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے یہ دستور تھا کہ جو صلیب پر کھینچا گیا ہو اُس کو کئی دن صلیب پر رکھتے تھے اور پھر اس کی ہڈیاں توڑتے تھے.لیکن مسیح کی ہڈیاں دانستہ نہیں توڑی گئیں اور وہ ضرور صلیب پر سے ان دو چوروں کی طرح زندہ اتارا گیا.اسی وجہ سے پہلی چھیدنے سے خون بھی نکلا.مُردہ کا خون جم جاتا ہے اور اس جگہ یہ بھی صریح معلوم ہوتا ہے کہ اندرونی طور پر یہ کچھ سازش کی بات تھی.پلاطوس ایک خدا ترس اور نیک دل آدمی تھا.کھلی کھلی رعایت سے قیصر سے ڈرتا تھا.کیونکہ یہودی مسیح کو باغی ٹھہراتے تھے.مگر وہ خوش
۹۳۱ قسمت تھا کہ اُس نے مسیح کو دیکھا.لیکن قیصر نے اس نعمت کو نہ پایا.اُس نے نہ صرف دیکھا بلکہ بہت رعایت کی اور اُس کا ہر گز منشانہ تھا کہ مسیح صلیب پاوے.چنانچہ انجیلوں کے دیکھنے سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ پلا طوس نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ مسیح کو چھوڑ دے لیکن یہودیوں نے کہا کہ اگر تو اس مرد کو چھوڑ دیتا ہے تو تو قیصر کا خیر خواہ نہیں.اور منجملہ اُن شہادتوں کے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے محفوظ رہنے کے بارے میں ہمیں انجیل سے ملتی ہیں وہ شہادت ہے جو انجیل متی باب ۲۶ میں یعنی آیت ۳۶ سے آیت ۴۶ تک مرقوم ہے.جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام گرفتار کئے جانے کا الہام پا کر تمام رات جناب الہی میں رو رو کر اور سجدے کرتے ہوئے دُعا کرتے رہے اور ضرور تھا کہ ایسی تفرع کی دعا جس کے لئے مسیح کو بہت لمبا وقت دیا گیا تھا قبول کی جاتی کیونکہ مقبول کا سوال جو بیقراری کے وقت کا سوال ہو ہرگز رد نہیں ہوتا.پھر کیوں مسیح کی ساری رات کی دُعا اور دردمند دل کی دعا اور مظلومانہ حالت کی دعا رڈ ہو گئی.حالانکہ مسیح دعوی کرتا ہے کہ باپ جو آسمان پر ہے میری سنتا ہے.پس کیونکر باور کیا جائے کہ خدا اُس کی سنتا تھا.جب کہ ایسی بیقراری کی دعاسنی نہ گئی اور انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دلی یقین تھا کہ اس کی وہ دعا ضرور قبول ہو گئی اور اس دُعا پر اس کو بہت بھروسہ تھا.اسی وجہ سے جب وہ پکڑا گیا اور صلیب پر کھینچا گیا اور ظاہری علامات کو اُس نے اپنی اُمید کے موافق نہ پایا تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا کہ ایلی ایلی لما سبقتانی‘ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا.یعنی مجھے یہ امید ہر گز نہیں تھی کہ میرا انجام یہ ہو گا اور میں صلیب پر مروں گا.اور میں یقین رکھتا تھا کہ تو میری دعا سنے گا.بلاشبہ خدائے تعالی دعاوں کو سنتا ہے بالخصوص جبکہ اُس پر بھروسہ کرنے والے مظلوم ہونے کی حالت میں اُس کے آستانہ پر گرتے ہیں تو وہ اُن کی فریاد کو پہنچتا ہے اور ایک عجیب طور پر اُن کی مدد کرتا ہے اور ہم اس بات کے گواہ ہیں تو پھر کیا باعث اور کیا سبب کہ مسیح کی ایسی بیقراری کی دُعا منظور نہ ہوئی؟ نہیں بلکہ منظور ہوئی اور خدا نے اسکو بچا لیا.خدا نے اُس کے بچانے کے لئے زمین سے بھی اسباب پیدا کئے اور آسمان سے بھی.یوحنا یعنی سیکی نبی کو خدا نے دُعا کرنے کے لئے مہلت نہ دی کیونکہ اس کا وقت آپ کا تھا مگر مسیح کو دُعا کرنے کے لئے تمام رات مہلت دی گئی.اور وہ ساری رات سجدہ میں اور قیام میں خدا کے آگے کھڑا رہا کیونکہ خدا نے چاہا کہ وہ بیقراری ظاہر کرے اور اس خدا سے جس کے آگے کوئی
۹۳۲ بات انہونی نہیں اپنی مخلصی چاہے.سو خدا نے اپنی قدیم سنت کے موافق اُس کی دُعا کو سُنا.یہودی اس بات میں جھوٹے تھے جنہوں نے صلیب دے کر یہ طعنہ مارا کہ اُس نے خدا پر توکل کیا تھا کیوں خدا نے اُس کو نہ چھڑایا.کیونکہ خدا نے یہودیوں کے تمام منصوبے باطل کئے اور اپنے پیارے مسیح کو صلیب اور اس کی لعنت سے بچالیا اور یہودی نا مرادر ہے.اور منجملہ انجیلی شہادتوں کے جو ہم کو ملی ہیں انجیل متی کی وہ آیت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں.”ہاہل راستباز کے خون سے برخیاہ کے بیٹے زکریا کے خون تک جسے تم نے ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آوے گا.“ دیکھومتی باب ۲۳ آیت ۳۵ و ۳۶.اب ان آیات پر اگر نظر غور کرو تو واضح ہوگا کہ ان میں حضرت مسیح علیہ السلام نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یہودیوں نے جس قدر نبیوں کے خون کئے ان کا سلسلہ ذکر یا نبی تک ختم ہو گیا اور بعد اس کے یہودی لوگ کسی نبی کے قتل کرنے کے لئے قدرت نہیں پائیں گے.یہ ایک بڑی پیشگوئی ہے اور اس سے نہایت صفائی کے ساتھ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کے ذریعہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ صلیب سے بچ کر نکل گئے اور آخر طبعی موت سے فوت ہوئے.کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی زکریا کی طرح یہودیوں کے ہاتھ سے قتل ہونے والے تھے تو ان آیات میں حضرت مسیح علیہ السلام ضرور اپنے قتل کئے جانے کی طرف بھی اشارہ کرتے.( مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶ تا ۳۴) کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ یہودی اس بات کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ کیونکر حضرت مسیح علیہ السلام کی جان بغیر ہڈیاں توڑنے کے صرف دو تین گھنٹہ میں نکل گئی ؟ اسی وجہ سے بعض یہودیوں نے ایک اور بات بنائی ہے کہ ہم نے مسیح کو تلوار سے قتل کر دیا تھا حالانکہ یہودیوں کی پُرانی تاریخ کے رو سے مسیح کو تلوار کے ذریعہ سے قتل کرنا ثابت نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ مسیح کے بچانے کے لئے اندھیرا ہوا.بھونچال آیا.پلا طوس کی بیوی کو خواب آئی سبت کے دن کی رات قریب آ گئی جس میں مصلوبوں کو صلیب پر رکھنا روا نہ تھا.حاکم کا دل بوجہ ہولناک خواب کے مسیح کے چھڑانے کیلئے متوجہ ہوا.یہ تمام واقعات خدا نے اس لئے ایک ہی دفعہ پیدا کر دیئے کہ تا مسیح کی جان بچ جائے اس کے علاوہ مسیح کو ششی کی حالت میں کر دیا کہ تا ہر ایک کو مردہ معلوم ہو.اور یہودیوں پر اُس وقت ہیبت ناک نشان بھونچال وغیرہ کے دکھلا کر بزدلی اور خوف اور عذاب کا اندیشہ طاری کر دیا اور یہ دھڑ کا
۹۳۳ اس کے علاوہ تھا کہ سبت کی رات میں لاشیں صلیب پر نہ رہ جائیں.پھر یہ بھی ہوا کہ یہودیوں نے مسیح کوششی میں دیکھ کر سمجھ لیا کہ فوت ہو گیا ہے.اندھیرے اور بھونچال اور گھبراہٹ کا وقت تھا.گھروں کا بھی ان کو فکر پڑا کہ شائد اس بھونچال اور اندھیرے سے بچوں پر کیا گذرتی ہو گی اور یہ دہشت بھی دلوں پر غالب ہوئی کہ اگر یہ شخص کا ذب اور کافر تھا جیسا کہ ہم نے دل میں سمجھا ہے تو اُس کے اس دُکھ دینے کے وقت ایسے ہولناک آثار کیوں ظاہر ہوئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے لہذا اُن کے دل بے قرار ہو کر اس لائق نہ رہے کہ وہ مسیح کو اچھی طرح دیکھتے کہ آیا مر گیا ہے یا کیا حال ہے ، مگر در حقیقت یہ سب امور مسیح کے بچانے کے لئے خدائی تدبیریں تھیں.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وَلكِن شُبّه لَهُمُ لا یعنی یہود نے مسیح کو جان سے مارا نہیں ہے لیکن خدا نے ان کو شبہ میں ڈال دیا کہ گویا جان سے مار دیا ہے.اس سے راستباوں کو خدائے تعالیٰ کے فضل پر بڑی امید بڑھتی ہے کہ جس طرح اپنے بندوں کو چاہے بچالے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ اصفحہ ۵۲۵۱) ممکن ہے کہ بعض دلوں میں یہ اعتراض پیدا ہو کہ انجیلوں میں یہ بھی تو بار بار ذکر ہے کہ حضرت مسیح السلام صلیب پر فوت ہو گئے اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے.ایسے اعتراضات کا جواب میں پہلے بطور اختصار دے چکا ہوں اور اب بھی اس قدر بیان کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیبی واقعہ کے بعد حواریوں کو ملے اور تکلیل تک سفر کیا اور روٹی کھائی اور کباب کھائے اور اپنے زخم دکھلائے اور ایک رات بمقام املوس حواریوں کے ساتھ رہے اور خفیہ طور پر پلاطوس کے علاقہ سے بھاگے اور نبیوں کی سنت کے موافق اس ملک سے ہجرت کی اور ڈرتے ہوئے سفر کیا تو یہ تمام واقعات اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے اور فانی جسم کے تمام لوازم ان کے ساتھ تھے اور کوئی نئی تبدیلی اُن میں پیدا نہیں ہوئی تھی اور آسمان پر چڑھنے کی کوئی عینی شہادت انجیل سے نہیں ملتی اور اگر ایسی شہادت ہوتی بھی تب بھی لائق اعتبار نہ تھی کیونکہ انجیل نویسوں کی یہ عادت معلوم ہوتی ہے کہ وہ بات کا بتونگڑا بنا لیتے ہیں اور ایک ذرہ سی بات پر حاشیے چڑھاتے چڑھاتے ایک پہاڑ اُس کو کر دیتے ہیں.مثلا کسی انجیل نویس کے منہ سے نکل گیا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے.اب دوسرا انجیل نویس اس فکر میں پڑتا ہے کہ اُس کو پورا خدا بنا دے اور تیسر ا تمام زمین آسمان کے اختیار اس کو دیتا ہے اور چوتھا ل النساء : ۱۵۸
۹۳۴ واشگاف کہہ دیتا ہے کہ وہی ہے جو کچھ ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں.غرض اس طرح پر کھینچتے کھنچتے کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں.دیکھو وہ رویا جس میں نظر آیا تھا کہ گویا مردے قبروں میں سے اٹھ کر شہر میں چلے گئے.اب ظاہری معنوں پر زور دے کر یہ جتلایا گیا کہ حقیقت میں مردے قبروں میں سے باہر نکل آئے تھے اور یروشلم شہر میں آکر اور لوگوں سے ملاقاتیں کی تھیں.اس جگہ غور کرو کہ کیسے ایک پر کا کوا بنایا گیا.پھر وہ ایک کوا نہ رہا بلکہ لاکھوں کو لے اُڑائے گئے.جس جگہ مبالغہ کا یہ حال ہو اس جگہ حقیقتوں کا کیونکر پتہ لگے.غور کے لائق ہے کہ ان انجیلوں میں جو خدا کی کتابیں کہلاتی ہیں ایسے ایسے مبالغات بھی لکھے گئے کہ مسیح نے وہ کام کئے کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جاتے تو وہ کتابیں جن میں وہ لکھے جاتے دنیا میں سما نہ سکتیں.کیا اتنا مبالغہ طریق دیانت وامانت ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر مسیح کے کام ایسے ہی غیر محدود اور حد بندی سے باہر تھے تو تین برس کی حد میں کیونکر آ گئے؟ پھر اسی انجیل متی باب ۲۸ آیت ۱۲ و ۱۳ میں ہے.تب انہوں نے یعنی یہودیوں نے بزرگوں کے ساتھ اکٹھے ہو کر صلاح کی اور اُن پہرہ والوں کو بہت روپیہ دیئے اور کہا کہ تم کہو کہ رات کو جب ہم سوتے تھے اُس کے شاگر د یعنی مسیح کے شاگرد آ کر اُسے چرا کر لے گئے.دیکھو یہ کیسی کچی اور نامعقول باتیں ہیں اگر اس سے مطلب یہ ہے کہ یہودی اس بات کو پوشیدہ کرنا چاہتے تھے کہ یسوع مُردوں میں سے جی اٹھا ہے اس لئے انہوں نے پہرہ والوں کو رشوت دی تھی کہ تا یہ عظیم الشان معجزہ ان کی قوم میں مشہور نہ ہو تو کیوں یسوع نے جس کا یہ فرض تھا کہ اپنے اس معجزہ کی یہودیوں میں اشاعت کرتا اس کو مخفی رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اُس کے ظاہر کرنے سے منع کیا.اگر یہ کہو کہ اس کو پکڑے جانے کا خوف تھا تو میں کہتا ہوں کہ جب ایک دفعہ خدائے تعالیٰ کی تقدیر اُس پر وارد ہوچکی اور وہ مر کر پھر جلالی جسم کے ساتھ زندہ ہو چکا تو اب اس کو یہودیوں کا کیا خوف تھا ؟ کیونکہ اب یہودی کسی طرح اس پر قدرت نہیں پا سکتے تھے.اب تو وہ فانی زندگی سے ترقی پا چکا تھا.افسوس کہ ایک طرف تو اُس کا جلالی جسم سے زندہ ہونا اور حواریوں کو ملنا اور جلیل کی طرف جانا اور پھر آسمان پر اٹھائے جانا بیان کیا گیا ہے اور پھر بات بات میں اُس جلالی جسم کے ساتھ بھی یہودیوں کا خوف ہے اس ملک سے پوشیدہ طور پر بھاگتا ہے کہ تا کوئی یہودی دیکھ نہ لے اور جان بچانے کے لئے ستر کوس کا سفر جلیل کی طرف کرتا ہے.بار بار منع کرتا ہے کہ یہ واقعہ کسی کے پاس بیان نہ کرو.کیا یہ جلالی جسم کے لچھن اور علامتیں ہیں ؟ نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی جلالی اور نیا جسم نہ تھا وہی زخم آلودہ جسم تھا جو جان نکلنے سے بچایا گیا اور چونکہ یہودیوں کا پھر بھی
۹۳۵ اندیشہ تھا اس لئے برعایت ظاہر اسباب مسیح نے اس ملک کو چھوڑ دیا.اور اس کے مخالف جس قدر با تیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب بے ہودہ اور خام خیال ہیں.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۶ تا ۴۹) ایک اعلیٰ درجہ کی شہادت جو حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے پر ہم کو ملی ہے اور جو ایسی شہادت ہے کہ بجز ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا وہ ایک نسخہ ہے جس کا نام مرہم عیسی ہے جو طب کی صد ہا کتابوں میں لکھا ہوا پایا جاتا ہے.ان کتابوں میں سے بعض ایسی ہیں جو عیسائیوں کی تالیف ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ جن کے مؤلف مجوسی یا یہودی ہیں اور بعض کے بنانے والے مسلمان ہیں اور اکثر اُن میں بہت قدیم زمانہ کی ہیں.تحقیق سے ایسا معلوم ہوا ہے کہ اول زبانی طور پر اس نسخہ کا لاکھوں انسانوں میں شہرہ ہو گیا.اور پھر لوگوں نے اس نسخہ کو قلمبند کر لیا.پہلے رومی زبان میں حضرت مسیح کے زمانہ میں ہی کچھ تھوڑا عرصہ واقعہ صلیب کے بعد ایک قرابا دین تالیف ہوئی جس میں یہ نسخہ تھا اور جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے یہ نسخہ بنایا گیا تھا.پھر وہ قرابا دین کئی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئی یہاں تک کہ مامون رشید کے زمانہ میں عربی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا.اور یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ہر ایک مذہب کے فاضل طبیب نے کیا عیسائی، کیا یہودی اور کیا مجوسی اور کیا مسلمان سب نے اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور سب نے اس نسخہ کے بارے میں یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے ان کے حواریوں نے طیار کیا تھا اور جن کتابوں میں ادویہ مفردہ کے خواص لکھے ہیں ان کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ ان چوٹوں کے لئے نہایت مفید ہے جو کسی ضربہ یا سقطہ سے لگ جاتی ہیں اور چوٹوں سے جو خون رواں ہوتا ہے وہ فی الفور اس سے خشک ہو جاتا ہے.اور چونکہ اُس میں مر بھی داخل ہے اس لئے زخم کیڑا پڑنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور یہ دوا طاعون کے لئے بھی مفید ہے اور ہر قسم کے پھوڑے پھنسی کو اس سے فائدہ ہوتا ہے.یہ معلوم نہیں کہ یہ دوا صلیب کے زخموں کے بعد خود ہی حضرت عیسی علیہ السلام نے الہام کے ذریعہ سے تجویز فرمائی تھی یا کسی طبیب کے مشورہ سے تیار کی گئی تھی.اس میں بعض دوائیں اکسیر کی طرح ہیں خاص کر مر جس کا ذکر توریت میں بھی آیا ہے.بہر حال اس دوا کے استعمال سے حضرت مسیح علیہ السلام کے زخم چند روز میں ہی اچھے ہو گئے اور اس قدر طاقت آ گئی کہ آپ تین روز میں پیروشلم سے جلیل کی طرف ستر کوس تک پیادہ پاگئے.پس اس دوا کی تعریف میں اس قدر کافی ہے کہ مسیح تو اوروں کو اچھا کرتا تھا مگر اس دوا نے مسیح کو اچھا کیا.اور جن طب
۹۳۶ کی کتابوں میں یہ نسخہ لکھا گیا وہ ہزار کتاب سے بھی زیادہ ہیں جن کی فہرست لکھنے سے بہت طول ہو غرض مرہم عیسی حق کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان شہادت ہے اگر اس شہادت کو قبول نہ گا.کیا جائے تو پھر دنیا کے تمام تاریخی ثبوت اعتبار سے گر جاویں گے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶ ۵ تا ۶۱) واضح ہو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اُن کے فرض رسالت کے رو سے ملک پنجاب اور اس کے نواح کی طرف سفر کرنا نہایت ضروری تھا.کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے جن کا نام انجیل میں اسرائیل کی گمشدہ بھیٹر میں رکھا گیا ہے ان ملکوں میں آگئے تھے.جن کے آنے سے کسی مؤرخ کو انکار نہیں ہے اس لئے ضروری تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس ملک کی طرف سفر کرتے اور ان گم شدہ بھیڑوں کا پتہ لگا کر خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچاتے.اور جب تک وہ ایسا نہ کرتے تب تک اُن کی رسالت کی غرض بے نتیجہ اور نامکمل تھی کیونکہ جس حالت میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن گمشدہ بھیڑوں کی طرف بھیجے گئے تھے تو پھر بغیر اس کے کہ وہ ان بھیڑوں کے پیچھے جاتے اور ان کو تلاش کرتے اور ان کو طریق نجات بتلاتے یونہی دنیا سے کوچ کر جانا ایسا تھا کہ جیسا کہ ایک شخص ایک بادشاہ کی طرف سے مامور ہو کہ وہ فلاں بیابانی قوم میں جا کر ایک کنواں کھودے اور اس کنوئیں سے اُن کو پانی پلاوے لیکن یہ شخص کسی دوسرے مقام میں تین چار برس رہ کر واپس چلا جائے اور اس قوم کی تلاش میں ایک قدم بھی نہ اٹھائے تو کیا اُس نے بادشاہ کے حکم کے موافق تعمیل کی ؟ ہر گز نہیں بلکہ اُس نے محض اپنی آرام طلبی کی وجہ سے اس قوم کی کچھ پرواہ نہ کی.(مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۴٬۹۳) قرآن شریف میں ایک آیت میں صریح کشمیر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسیح اور اس کی والدہ صلیب کے واقعہ کے بعد کشمیر کی طرف چلے گئے.جیسا کہ فرماتا ہے وَ أَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِيْنِ یے یعنی ہم نے عیسی اور اس کی والدہ کو ایک ایسے ٹیلے پر جگہ دی جو آرام کی جگہ تھی اور پانی صاف یعنی چشموں کا پانی وہاں تھا.سو اس میں خدا تعالیٰ نے کشمیر کا نقشہ کھینچ دیا ہے.اور اوی کا لفظ لغت عرب میں کسی مصیبت یا تکلیف سے پناہ دینے کے لئے آتا ہے اور صلیب سے پہلے عیسی اور اُس کی والدہ پر کوئی زمانہ مصیبت کا نہیں گذرا جس سے پناہ دی جاتی پس متعین ہوا کہ خدا تعالیٰ نے عیسی اور اس کی والدہ کو واقعہ صلیب کے بعد اس ٹیلے پر پہنچایا تھا.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۷ حاشیہ) ل المؤمنون:۵۱
۹۳۷ یہ عاجز خدا کے اُس پاک اور مقدس بندہ کی طرز پر دلوں میں حقیقی پاکیزگی کی تخم ریزی کے لئے کھڑا کیا گیا ہے جو آج سے قریبا انیس سو برس پہلے رومی سلطنت کے زمانہ میں گلیل کی بستیوں میں حقیقی نجات پیش کرنے کے لئے کھڑا ہوا تھا اور پھر پیلا طوس کی حکومت میں یہودیوں کی بہت سی ایذا کے بعد اس کو خدا کی قدیم سنت کے موافق ان ملکوں سے ہجرت کرنی پڑی اور وہ ہندوستان میں تشریف لائے تا ان یہودیوں کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا ویں جو بابل کے تفرقہ کے وقت ان ملکوں میں آئے تھے اور آخر ایک سو بیس برس کی عمر میں اس نا پائیدار دنیا کو چھوڑ کر اپنے محبوب حقیقی کو جاملے اور کشمیر کے خطہ کو اپنے پاک مزار سے ہمیشہ کے لئے فخر بخشا.کیا ہی خوش قسمت ہے سری نگر اور انموزہ اور خان یار کا محلہ جس کی خاک پاک میں اس ابدی شہزادہ خدا کے مقدس نبی نے اپنا مطہر جسم ودیعت کیا اور بہت سے کشمیر کے رہنے والوں کو حیات جاودانی اور حقیقی نجات سے حصہ دیا.ہمیشہ خدا کا جلال اس کے ساتھ ہو.آمین.( کشف الغطاء.روحانی خزائن جلد ۴ اصفحه ۱۹۱ ۱۹۲) واقعی اور سچی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس بد بخت قوم کے ہاتھ سے نجات پا کر جب ملک پنجاب کو اپنی تشریف آوری سے فخر بخشا تو اس ملک میں خدائے تعالیٰ نے اُن کو بہت عزت دی اور بنی اسرائیل کی وہ دس قو میں جو گم تھیں اس جگہ آکر اُن کو مل گئیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اس ملک میں آ کر اکثر اُن میں سے بدھ مذہب میں داخل ہو گئے تھے اور بعض ذلیل قسم کی بت پرستی میں پھنس گئے تھے.سو اکثر ان کے حضرت مسیح کے اس ملک میں آنے سے راہ راست پر آ گئے اور چونکہ حضرت مسیح کی دعوت میں آنے والے نبی کے قبول کرنے کے لئے وصیت تھی اس لئے وہ دس فرقے جو اس ملک میں آ کر افغان اور کشمیری کہلائے آخر کا ر سب کے سب مسلمان ہو گئے.غرض اس ملک میں حضرت مسیح کو بڑی وجاہت پیدا ہوئی.اور حال میں ایک سکہ ملا ہے جو اسی ملک پنجاب میں سے برآمد ہوا ہے.اُس پر حضرت عیسی علیہ السلام کا نام پالی تحریر میں درج ہے اور اُسی زمانہ کا سکہ ہے جو حضرت مسیح کا زمانہ تھا.اس سے یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس ملک میں آ کر شاہانہ عزت پائی اور غالبا یہ سکہ ایسے بادشاہ کی طرف سے جاری ہوا ہے جو حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تھا.ایک اور سکہ برآمد ہوا ہے اُس پر ایک اسرائیلی مرد کی تصویر ہے.قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی حضرت مسیح کی تصویر ہے.قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے کہ مسیح کو خدا نے ایسی برکت دی ہے کہ جہاں جائے گا وہ مبارک ہو گا.سو ان سکوں سے ثابت ہے کہ اُس نے خدا سے بڑی برکت پائی
۹۳۸ اور وہ فوت نہ ہوا جب تک اُس کو ایک شاہانہ عزت نہ دی گئی.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۳) حضرت عیسی علیہ السلام افغانستان سے ہوتے ہوئے پنجاب کی طرف آئے اس ارادہ سے کہ پنجاب اور ہندوستان دیکھتے ہوئے پھر کشمیر کی طرف قدم اٹھاویں.یہ تو ظاہر ہے کہ افغانستان اور کشمیر کی حد فاصل چترال کا علاقہ اور کچھ حصہ پنجاب کا ہے.اگر افغانستان سے کشمیر میں پنجاب کے رستے سے آویں تو تقریباً اسی کوس یعنی ۱۳۰ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے.اور چترال کی راہ سے سوکوس کا فاصلہ ہے.لیکن حضرت مسیح نے بڑی عقلمندی سے افغانستان کا راہ اختیار کیا تا اسرائیل کی کھوئی بھیڑیں جو افغان تھے فیضیاب ہو جائیں اور کشمیر کی مشرقی حد ملک تبت سے متصل ہے.اس لئے کشمیر میں آ کر بآسانی تبت میں جاسکتے تھے اور پنجاب میں داخل ہو کر ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ قبل اس کے جو کشمیر اور تبت کی طرف آویں ہندوستان کے مختلف مقامات کا سیر کریں.سوجیسا کہ اس ملک کی پرانی تاریخیں بتلاتی ہیں یہ بات بالکل قرین قیاس ہے کہ حضرت مسیح نے نیپال اور بنارس وغیرہ مقامات کا سیر کیا ہو گا اور پھر جموں سے یا راولپنڈی کی راہ سے کشمیر کی طرف گئے ہوں گے.چونکہ وہ ایک سرد ملک کے آدمی تھے اس لئے یہ یقینی امر ہے کہ ان ملکوں میں غالبا وہ صرف جاڑے تک ہی ٹھہرے ہوں گے اور اخیر مارچ یا اپریل کے ابتدا میں کشمیر کی طرف کوچ کیا ہوگا.اور چونکہ وہ ملک بلا د شام سے بالکل مشابہ ہے اس لئے یہ بھی یقینی ہے کہ اس ملک میں سکونت مستقل اختیار کر لی ہو گی.اور ساتھ اس کے یہ بھی خیال ہے کہ کچھ حصہ اپنی عمر کا افغانستان میں بھی رہے ہوں گے اور کچھ بعید نہیں کہ وہاں شادی بھی کی ہو.افغانوں میں ایک قوم عیسی خیل کہلاتی ہے کیا تعجب ہے کہ وہ حضرت عیسی کی ہی اولاد ہوں مگر افسوس کہ افغانوں کی قوم کا تاریخی شیرازہ نہایت درہم برہم ہے اس لئے اُن کے قومی تذکروں کے ذریعہ سے کوئی اصلیت پیدا کرنا نہایت مشکل امر ہے.بہر حال اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ افغان بنی اسرائیل میں سے ہیں جیسا کہ کشمیری بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں.( مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۷۰،۶۹ ) تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صلیبی واقعہ سے نجات پا کر ضرور ہندوستان کا سفر کیا ہے اور نیپال سے ہوتے ہوئے آخر تبت تک پہنچے اور پھر کشمیر میں ایک مدت تک ٹھہرے اور وہ بنی اسرائیل جو کشمیر میں بابل کے تفرقہ کے وقت میں سکونت پذیر ہوئے تھے ان کو ہدایت
۹۳۹ کی اور آخر ایک سو بیس برس (۱۲۰) کی عمر میں سری نگر میں انتقال فرمایا اور محلہ خانیار میں مدفون ہوئے اور عوام کی غلط بیانی سے یوز آسف نبی کے نام سے مشہور ہو گئے.راز حقیقت.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۱ حاشیہ ) اور جو مزار حضرت عیسی علیہ السلام کا کشمیر میں ہے جس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ قریباً انیس سو برس سے ہے یہ اس امر کے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کا ثبوت ہے.غالبا اس مزار کے ساتھ کچھ کتنے ہوں گے جواب مخفی ہیں.( راز حقیقت.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۳ حاشیه ) واضح ہو کہ بدھ مذہب کی کتابوں میں سے انواع اقسام کی شہادتیں ہم کو دستیاب ہوئی ہیں جن کو یکجائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ضرور اس ملک پنجاب و کشمیر وغیرہ میں آئے تھے.ان شہادتوں کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں.اول وہ خطاب جو بدھ کو دیئے گئے مسیح کے خطابوں سے مشابہ ہیں.اور ایسا ہی وہ واقعات جو بدھ کو پیش آئے مسیح کی زندگی کے واقعات سے ملتے ہیں.مگر بدھ مذہب سے مراد ان مقامات کا مذہب ہے جو تبت کی حدود یعنی لیہ اور لاسہ اور گلگت اور ہمس وغیرہ میں پایا جاتا ہے جن کی نسبت ثابت ہوا ہے کہ حضرت مسیح ان مقامات میں گئے تھے.خطابوں کی مشابہت میں یہ ثبوت کافی ہے کہ مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی تعلیموں میں اپنا نام نور رکھا ہے.ایسا ہی گوتم کا نام بدھ رکھا گیا ہے.جو سنسکرت میں نور کے معنوں پر آتا ہے.اور انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نام استاد بھی ہے.ایسا ہی بدھ کا نام ساستا یعنی استاد ہے.ایسا ہی حضرت مسیح کا نام انجیل میں مبارک رکھا گیا ہے اسی طرح بدھ کا نام بھی سکت ہے یعنی مبارک ہے.ایسا ہی حضرت مسیح کا نام شہزادہ رکھا گیا ہے اور بدھ کا نام بھی شہزادہ ہے.اور ایک نام مسیح کا انجیل میں یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آنے کے مدعا کو پورا کرنے والا ہے.ایسا ہی بدھ کا نام بھی بدھ کی کتابوں میں سردار تھا رکھا گیا ہے یعنی اپنے آنے کا مدعا پورا کرنے والا.اور انجیل میں حضرت مسیح کا ایک نام یہ بھی ہے کہ وہ چھکوں ماندوں کو پناہ دینے والا ہے.ایسا ہی بدھ کی کتابوں میں بدھ کا نام ہے اسرن سرن یعنی بے پناہوں کو پناہ دینے والا.اور انجیل میں حضرت مسیح بادشاہ بھی کہلائے ہیں گو آسمان کی بادشاہت مراد لے لی.ایسا ہی بدھ بھی بادشاہ کہلایا ہے.اور واقعات کی مشابہت کا یہ ثبوت ہے کہ مثلاً جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام شیطان سے آزمائے گئے اور شیطان نے ان کو کہا کہ اگر تو مجھے سجدہ کرے تو تمام دنیا کی دولتیں اور بادشاہتیں تیرے لئے ہوں گی.یہی آزمائش بدھ کی
۹۴۰ بھی کی گئی اور شیطان نے اس کو کہا کہ اگر تو میرا یہ حکم مان لے کہ ان فقیری کے کاموں سے باز آ جائے اور گھر کی طرف چلا جائے تو میں تجھ کو بادشاہت کی شان و شوکت عطا کروں گا لیکن جیسا کہ مسیح نے شیطان کی اطاعت نہ کی ایسا ہی لکھا ہے کہ بدھ نے بھی نہ کی.....اور پھر ایک اور مشابہت بدھ کی حضرت مسیح سے پائی جاتی ہے کہ بدھ ازم میں لکھا ہے کہ بدھ اُن ایام میں جو شیطان سے آزمایا گیا روزے رکھتا تھا اور اس نے چالیس روزے رکھے.اور انجیل پڑھنے والے جانتے ہیں کہ حضرت مسیح نے بھی چالیس روزے رکھے تھے.اور جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے بدھ اور مسیح کی اخلاقی تعلیم میں اس قدر مشابہت اور مناسبت ہے کہ ہر ایک ایسا شخص تعجب کی نظر سے دیکھے گا جو دونوں تعلیموں پر اطلاع رکھتا ہوگا..اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح نے مختلف ملکوں کی طرف اپنے شاگردوں کو روانہ کیا اور آپ بھی ایک ملک کی طرف سفر اختیار کیا یہ باتیں بدھ کے سوانح میں بھی پائی جاتی ہیں.چنانچہ بدھ ازم مصنفہ سر مونیر ولیم میں لکھا ہے کہ بدھ نے اپنے شاگردوں کو دنیا میں تبلیغ کے لئے بھیجا اور ان کو اس طرح پر خطاب کیا.”باہر جاؤ اور ہر طرف پھر نکلو.اور دنیا کی غم خواری اور دیوتاؤں اور آدمیوں کی بہتری کے لئے ایک ایک ہو کر مختلف صورتوں میں نکل جاؤ اور یہ منادی کرو کہ کامل پر ہیز گار بنو.پاک دل بنو.برہم چاری یعنی تنہا اور مجرد رہنے کی خصلت اختیار کرو.اور کہا کہ ”میں بھی اس مسئلہ کی منادی کے لئے جاتا ہوں.“ اور بدھ بنارس کی طرف گیا اور اس طرف اس نے بہت معجزات دکھائے اور اس نے ایک نہایت مؤثر وعظ ایک پہاڑی پر کیا.جیسا کہ مسیح نے پہاڑی پر وعظ کیا تھا.اور پھر اسی کتاب میں لکھا ہے کہ بدھ اکثر مثالوں میں وعظ کیا کرتا تھا اور ظاہری چیزوں کو لے کر رُوحانی امور کو اُن میں پیش کیا کرتا تھا بدھ کا بینہ حضرت مسیح کی طرح مثالوں میں اپنے شاگردوں کو سمجھانا خاص کر وہ مثالیں جو انجیل میں آ چکی ہیں نہایت حیرت انگیز واقعہ ہے.بدھ مذہب کی کتابوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گوتم بدھ نے ایک اور آنے والے بدھ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جس کا نام متیا بیان کیا تھا.یہ پیشگوئی بدھ کی کتاب لگاوتی ستنا میں ہے جس کا حوالہ کتاب اولڈن برگ صفحہ ۱۴۲ میں دیا گیا ہے.اس پیشگوئی کی عبارت یہ ہے کہ متیا لاکھوں مریدوں کا پیشوا ہو گا جیسا کہ میں اب سینکڑوں کا ہوں.اس جگہ یادر ہے کہ جو لفظ عبرانی میں مشیحا ہے وہی پالی زبان میں منیا کر کے بولا گیا ہے وہ آنے والا متیا جس کی بدھ نے پیشگوئی کی تھی وہ در حقیقت مسیح ہے اور کوئی وہ نہیں.اس بات پر بڑا پختہ قرینہ یہ ہے کہ بدھ نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ جس مذہب کی اُس نے بنیا د رکھی
۹۴۱ ہے وہ زمین پر پانچ سو برس سے زیادہ قائم نہیں رہے گا اور جس وقت ان تعلیموں اور اصولوں کا زوال ہو گا تب متیا اس ملک میں آکر دوبارہ ان اخلاقی تعلیموں کو دنیا میں قائم کرے گا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح پانسو برس بعد بدھ کے ہوئے ہیں اور جیسا کہ بدھ نے اپنے مذہب کے زوال کی مدت مقرر کی تھی.ایسا ہی اس وقت بدھ کا مذہب زوال کی حالت میں تھا.تب حضرت مسیح نے صلیب کے واقعہ سے نجات پا کر اس ملک کی طرف سفر کیا اور بدھ مذہب والے ان کو شناخت کر کے بڑی تعظیم سے پیش آئے.یا د رکھنا چاہئے کہ متیا کا نام جو بدھ کی کتابوں میں جابجا مذکور ہے بلاشبہ وہ مسیحا ہے.کتاب تبت تا تار مو مایا بائی ایچ.ٹی پر نسب کے صفحہ ۱۴ میں متیا بدھ کی نسبت جو دراصل مسیحا ہے یہ لکھا ہے کہ جو حالات ان پہلے مشنریوں (عیسائی واعظوں) نے تبت میں جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سنے اُن حالات پر غور کرنے سے وہ اس نتیجہ تک پہنچ گئے کہ لاموں کی قدیم کتب میں عیسائی مذہب کے آثار موجود ہیں اور پھر اسی صفحہ میں لکھا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ متقدمین یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کے حواری ابھی زندہ ہی تھے کہ جب کہ عیسائی دین کی تبلیغ اس جگہ پہنچ گئی تھی.اور پھر اے اصفحہ میں لکھا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس وقت عام انتظار ایک بڑے منجی کے پیدا ہونے کی لگ رہی تھی جس کا ذکر ٹے سے ٹس نے اس طرح پر کیا ہے کہ اس انتظار کا مدار نہ صرف یہودی تھے بلکہ خود بدھ مذہب نے ہی اس انتظار کی بنیاد ڈالی تھی.یعنی اس ملک میں متیا کے آنے کی پیشگوئی کی تھی اور پھر اس کتاب انگریزی پر مصنف نے ایک نوٹ لکھا ہے اس کی یہ عبارت ہے.کتاب پتاکتیان اور اتھا کتھا میں ایک اور بدھ کے نزول کی پیشگوئی بڑی واضح طور پر درج ہے جس کا ظہور گوتم یا ساکھی منی سے ایک ہزار سال بعد لکھا گیا ہے.گوتما بیان کرتا ہے کہ میں پچیسواں بدھ ہوں اور بگو امتیا نے ابھی آنا ہے یعنی میرے بعد اس ملک میں وہ آئے گا جس کا نام متیا ہو گا اور وہ سفید رنگ ہو گا.یہی وجہ تھی کہ اس کے مذہب کے لوگ ہمیشہ اس انتظار میں تھے کہ ان کے ملک میں مسیحا آئے گا.اور بدھ نے اپنی پیشگوئی میں اس آنے والے بدھ کا نام بگو امتی اس لئے رکھا کہ بگو اسنسکرت زبان میں سفید کو کہتے ہیں اور حضرت مسیح چونکہ بلادشام کے رہنے والے تھے اس لئے وہ بگوا یعنی سفید رنگ تھے.جس ملک میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی یعنی مگدھ کا ملک جہاں راجہ گر یہا واقع تھا اس ملک کے لوگ سیاہ رنگ تھے اور گوتم بدھ خود سیاہ رنگ تھا اس لئے بدھ نے آنے والے بدھ کی قطعی علامت ظاہر کرنے کے لئے دو باتیں اپنے مریدوں کو بتلائی تھیں ایک یہ کہ وہ بگوا ہو گا دوسرے یہ کہ وہ متیا ہو گا یعنی سیر کرنے والا ہوگا اور باہر سے آئے گا.
۹۴۲ ہم یورپ کے محققوں کی اس طرز تحقیق کو ہرگز پسند نہیں کر سکتے کہ وہ اس بات کی تفتیش میں ہیں کہ کسی طرح یہ پتہ لگ جائے کہ بدھ مذہب مسیح کے زمانہ میں فلسطین میں پہنچ گیا تھا.مجھے افسوس آتا ہے کہ جس حالت میں بدھ مذہب کی پُرانی کتابوں میں حضرت مسیح کا نام اور ذکر موجود ہے تو کیوں یہ محقق ایسی ٹیڑھی راہ اختیار کرتے ہیں کہ فلسطین میں بدھ مذہب کا نشان ڈھونڈتے ہیں اور کیوں وہ حضرت مسیح کے قدم مبارک کو نیپال اور تبت اور کشمیر کے پہاڑوں میں تلاش نہیں کرتے.لیکن میں جانتا ہوں کہ اتنی بڑی سچائی کو ہزاروں تاریک پردوں میں سے پیدا کرنا ان کا کام نہیں تھا بلکہ یہ اُس خدا کا کام تھا جس نے آسمان سے دیکھا کہ مخلوق پرستی حد سے زیادہ زمین پر پھیل گئی اور صلیب پرستی اور انسان کے ایک فرضی خون کی پرستش نے کروڑہا دلوں کو بچے خدا سے دور کر دیا.تب اس کی غیرت نے اُن عقائد کے توڑنے کے لئے جو صلیب پر مبنی تھے ایک کو اپنے بندوں میں سے دنیا میں مسیح ناصری کے نام پر بھیجا اور وہ جیسا کہ قدیم سے وعدہ تھا مسیح موعود ہو کر ظاہر ہوا.تب کسر صلیب کا وقت آ گیا یعنی وہ وقت کہ صلیبی عقائد کی غلطی کو ایسی صفائی سے ظاہر کر دینا جیسا کہ ایک لکڑی کو دوٹکڑے کر دیا جائے.سواب آسمان نے کسر صلیب کی ساری راہ کھول دی تا وہ شخص جو سچائی کا طالب ہے اب اُٹھے اور تلاش کرے.مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان پر جانا گو ایک غلطی تھی تب بھی اس میں ایک راز تھا اور وہ یہ کہ جو سیحی سواخ کی حقیقت گم ہو گئی تھی اور ایسی نابود ہوگئی تھی جیسا کہ قبر میں مٹی ایک جسم کو کھا لیتی ہے وہ حقیقت آسمان پر ایک وجود رکھتی تھی اور ایک مجسم انسان کی طرح آسمان میں موجود تھی اور ضرور تھا کہ آخری زمانہ میں وہ حقیقت پھر نازل ہو.سو وہ حقیقت مسیحیہ ایک مجسم انسان کی طرح اب نازل ہوئی اور اُس نے صلیب کو توڑا اور دروغ گوئی اور ناحق پرستی کی بُری خصلتیں جن کو ہمارے پاک نبی نے صلیب کی حدیث میں خنزیر سے تشبیہہ دی ہے صلیب کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ایسی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں جیسا کہ ایک خنزیر تلوار سے کاٹا جاتا ہے.اس حدیث کے یہ معنے صحیح نہیں ہیں کہ مسیح موعود کا فروں کو قتل کرے گا اور صلیبیوں کو توڑے گا بلکہ صلیب تو ڑنے سے مراد یہ ہے کہ اس زمانہ میں آسمان اور زمین کا خدا ایک ایسی پوشیدہ حقیقت ظاہر کر دے گا کہ جس سے تمام صلیبی عمارت یکدفعہ ٹوٹ جائے گی.اور خنزیروں کے قتل کرنے سے نہ انسان مراد ہیں نہ خنزیر بلکہ خنزیروں کی عادتیں مراد ہیں یعنی جھوٹ پر ضد کرنا اور بار بار اس کو پیش کرنا جو ایک قسم کی نجاست خوری ہے.پس جس طرح مرا ہوا خنزیر نجاست نہیں کھا سکتا اسی طرح وہ زمانہ آتا ہے بلکہ آ گیا کہ بُری خصلتیں اس قسم کی نجاست خوری سے روکی جائیں گی.پس یہ خیال مت کرو کہ میں تلوار چلانے آیا ہوں.نہیں بلکہ تمام تلواروں کومیان میں کرنے کے لئے بھیجا
۹۴۳ گیا ہوں.دنیا نے بہت کچھ اندھیرے میں گشتی کی.بہتوں نے اپنے بچے خیر خواہوں پر حربے چلائے اور اپنے دردمند دوستوں کے دلوں کو دکھایا اور عزیزوں کو زخمی کیا.مگر اب اندھیرا نہیں رہے گا.رات گذری.دن چڑھا.اور مبارک وہ جواب محروم نہ رہے !! مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۷۲ تا ۸۸) یہ ایک سر اسرار الہیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اس کی اصل تعلیموں اور ہدایتوں کو بدلا کر بے ہودہ اور بے جا باتیں اُس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ناحق کا جھوٹ افترا کر کے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تو اس نبی کے دل میں ان فسادوں اور تہمتوں کے دُور کرنے کے لئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے تب اُس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پیدا ہو.اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کوسنو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دومرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ اُن کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا.اوّل جبکہ اُن کے فوت ہونے پر چھ سو برس گذر گیا.اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ باللہ مکار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر تولد تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا.اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اُس نے صلیب پر جان دی.پس جبکہ مسیح علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اور بموجب توریت کی اس آیت کے جو کتاب استثنا میں ہے کہ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے نعوذ باللہ حضرت مسیح علیہ السلام کو لعنتی قرار دیا اور مُتَفَنِّی اور کاذب اور نا پاک پیدائش والا ٹھہرایا اور عیسائیوں نے اُن کی مدح میں اطراء کر کے ان کو خدا ہی بنا دیا اور اُن پر یہ تہمت لگائی کہ یہ تعلیم انہی کی ہے تب بہ اعلام الہی مسیح کی روحانیت جوش میں آئی اور اس نے اُن تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خدا تعالیٰ سے اپنا قائم مقام چاہا.تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے جن کی بعثت کی اغراض کثیرہ میں سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ ان تمام بے جا الزاموں سے مسیح کا دامن پاک ثابت کریں اور اس کے حق میں صداقت کی گواہی دیں.یہی وجہ ہے کہ خود مسیح نے یوحنا کی انجیل کے ۱۶ باب میں کہا کہ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو تسلی دینے والا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پاس نہ
۹۴۴ آئے گا.پھر اگر میں جاؤں تو اُسے تم پاس بھیج دوں گا.اور وہ آکر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا.گناہ سے اس لئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے.راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے.جب وہ رُوح حق آئے گی تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی.وہ رُوح حق میری بزرگی کرے گی اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پائے گی.(یوحنا :۱۴) وہ تسلی دینے والا جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا.(لوقا باب ۱۳ آیت ۳۵) ” میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو نہ دیکھو گے اس وقت تک کہ تم کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر (یعنی مسیح علیہ السلام کے نام پر ) آتا ہے.ان آیات میں مسیح کا یہ فقرہ’ میں اُسے تم پاس بھیج دوں گا اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ مسیح کی روحانیت اس کے آنے کے لئے تقاضا کرے گی اور یہ فقرہ کہ باپ اُس کو میرے نام سے بھیجے گا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ آنے والا مسیح کی تمام روحانیت پائے گا اور اپنے کمالات کی ایک شاخ کی رُو سے وہ مسیح ہو گا جیسا کہ ایک شاخ کی رو سے وہ موسیٰ ہے..آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” میری مسیح سے بشدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہوا ہے.پس اس حدیث میں حضرت مسیح کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا.سوالیسا ہی ہوا کہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اُس نے مسیح ناصری کے نا تمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کے لئے گواہی دی اور اُن تہمتوں سے اُس کو بری قرار دیا جو یہود اور نصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں.اور مسیح کی رُوح کو خوشی پہنچائی.یہ مسیح ناصری کی رُوحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ.پھر دوسری مرتبہ مسیح کی روحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجالیت کی صفت اتم اور اکمل طور پر آ گئی اور جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعوی بھی کرے گا اور خدائی کا بھی.ایسا ہی انہوں نے کیا.نبوت کا دعوی اس طرح پر کیا کہ کلام الہی میں اپنی طرف سے وہ دخل دیئے وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ ترمیم کی جو ایک نبی کا کام تھا.جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے اور عبادت کے طریقے گھڑ لئے اور ایسی آزادی سے مداخلت بے جا کی کہ گویا ان باتوں کے لئے وحی الہی ان پر نازل ہو گئی.سوالہی کتابوں میں اس قدر بے جا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کا دعویٰ ہے.اور خدائی کا دعوی اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ دانوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے
۹۴۵ قبضہ میں آ جائیں جیسا کہ اُن کے خیالات اس ارادہ پر شاہد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم ہی مینہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اور رحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پیدا کر لیں.اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کی تقدیر کچھ چیز نہیں.بلکہ ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے.اور جو کچھ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر یک چیز کے طبعی اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی حد انتہا کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا.اب علل طبعیہ کا سلسلہ جب بکلّی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خود بخو ددور ہو جائیں گے.پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا.اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی روحانیت کا نمونہ تھا.وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کا روپ بن کر مسیح موعود کہلایا.کیونکہ حقیقت عیسویہ کا اُس میں حلول تھا یعنی حقیقت عیسویہ اس سے متحد ہو گئی تھی اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پیدا ہوا تھا.پس حقیقت عیسو یہ اُس میں ایسی منعکس ہو گئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھا.اس لئے وہ عیسی کے نام سے موسوم کیا گیا کیونکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق عزب اسمہ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہ چاہی اور چاہا کہ حقیقت عیسو یہ اس شبیہ میں رکھی جائے تا اس شبیہ کا نزول ہو.پس ایسا ہی ہو گیا.اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کے لئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا.یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہوگا یا ابراہیم نازل ہوگا یا داؤد نازل ہو گا.کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجالیت پھیلی تھی.اس لئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا.یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پر کھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانہ کے گذرنے کے بعد کہ خیر اور صلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہوگا.پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا.اور بعض بعض کو کیٹروں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش شروع ہو جائے گی اور مخلوق کو خدا بنانے کی جہالت بڑے زور سے پھیلے گی.اور یہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں
۹۴۶ پھیلیں گے.تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آ کر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب ایک قہری شبیہہ میں اس کا نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا.تب آخر ہوگا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی.اس سے معلوم ہوا کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو.( آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۱ تا ۳۴۶)
۹۴۷ المسيح الدجال واضح ہو کہ دجال کے لفظ کی دو تعبیریں کی گئی ہیں.ایک یہ کہ دجال اُس گروہ کو کہتے ہیں جو جھوٹ کا حامی ہو اور مکر اور فریب سے کام چلا دے.دوسری یہ کہ دجال شیطان کا نام ہے جو ہر ایک جھوٹ اور (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۲۶) فساد کا باپ ہے.قرآن شریف اُس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال ہے شیطان قرار دیتا ہے جیسا کہ وہ شیطان کی طرف سے حکایت کر کے فرماتا ہے.قَالَ انْظُرْنِی إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ إِنَّكَ مِنَ المنظرِينَ لا یعنی شیطان نے جناب الہی میں عرض کی کہ میں اس وقت تک ہلاک نہ کیا جاؤں جب تک کہ وہ مُردے جن کے دل مر گئے ہیں دوبارہ زندہ ہوں خدا نے کہا کہ میں نے تجھے اس وقت تک مہلت دی.سو وہ دجال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہی ہے جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا.جیسا کہ دانیال نے بھی یہی لکھا ہے اور بعض حدیثیں بھی یہی کہتی ہیں اور چونکہ مظہر اتم شیطان کا نصرانیت ہے اس لئے سورہ فاتحہ میں دجال کا تو کہیں ذکر نہیں مگر نصاری کے شر سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا حکم ہے.اگر دجال کوئی الگ مفسد ہوتا تو قرآن شریف میں بجائے اِس کے کہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا وَلَا الضَّالِّينَ " یہ فرمانا چاہئے تھا کہ وَلَا الدَّجال اور آیت اِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ سے مراد جسمانی بعث نہیں کیونکہ شیطان صرف اس وقت تک زندہ ہے جب تک کہ بنی آدم زندہ ہیں.ہاں شیطان اپنے طور سے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ بذریعہ اپنے مظاہر کے کرتا ہے.سو وہ مظاہر یہی انسان کو خدا بنانے والے ہیں.اور چونکہ وہ گروہ ہے اس لئے اُس کا نام دجال رکھا گیا ہے.کیونکہ عربی زبان میں دجال گروہ کو بھی کہتے ہیں.اور اگر دجال کو نصرانیت کے گمراہ واعظوں سے الگ سمجھا جائے تو ایک محذور لازم آتا ہے وہ یہ کہ جن حدیثوں سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ آخری دنوں میں دجال تمام زمین پر محیط ہو جائے گا انہیں حدیثوں سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آخری دنوں میں کلیسیا کی طاقت تمام مذاہب پر غالب آجائے گی.پس یہ تناقض بجز اس کے کیونکر دور ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں.الاعراف: ۱۵ ۲ الفاتحة: ۷ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۱ )
۹۴۸ دجال ایک شخص کا نام نہیں ہے.لغت عرب کے رو سے دجال اُس گروہ کو کہتے ہیں جو اپنے تئیں امین اور متدین ظاہر کرے مگر دراصل نہ امین ہو اور نہ متدین ہو بلکہ اس کی ہر ایک بات میں دھوکا دہی اور فریب دہی ہو.سو یہ صفت عیسائیوں کے اس گروہ میں ہے جو پادری کہلاتے ہیں.اور وہ گروہ جو طرح طرح کی کلوں اور صنعتوں اور خدائی کاموں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں جو یورپ کے فلاسفر ہیں وہ اس وجہ سے دجال ہیں کہ خدا کے بندوں کو اپنے کاموں سے اور نیز اپنے بلند دعووں سے اس دھوکا میں ڈالتے ہیں کہ گویا کارخانہ خدائی میں ان کو دخل ہے.اور پادریوں کا گر وہ اس وجہ سے نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ لوگ اصل آسمانی انجیل کو گم کر کے محترف اور مغشوش مضمون بنام نہاد تر جمہ انجیل کے دنیا میں پھیلاتے ہیں.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۳ ۲۴۴ حاشیه ) دراصل یہی لوگ دجال ہیں جن کو پادری یا یوروپین فلاسفر کہا جاتا ہے.یہ پادری اور یوروپین فلاسفر دجال معہود کے دو جبڑے ہیں جن سے وہ ایک اثر دھا کی طرح لوگوں کے ایمان کو کھاتا جاتا ہے.اول تو احمق اور نادان لوگ پادریوں کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور اگر کوئی شخص اُن کے ذلیل اور جھوٹے خیالات سے کراہت کر کے اُن کے پنجے سے بچا رہتا ہے تو وہ یورپین فلاسفروں کے پنجے میں ضرور آ جاتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ عوام کو پادریوں کے دجل کا زیادہ خطرہ ہے اور خواص کو فلاسفروں کے دجل کا زیادہ خطرہ.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۲ ۲۵۳ حاشیه ) دجال بہت گذرے ہیں اور شاید آگے بھی ہوں.مگر وہ دجال اکبر جن کا دجل خدا کے نزدیک ایسا مکروہ ہے کہ قریب ہے جو اس سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.یہی گروہ مُشتِ خاک کو خدا بنانے والا ہے.خدا نے یہودیوں اور مشرکوں اور دوسری قوموں کے طرح طرح کے دجل قرآن شریف میں بیان فرمائے مگر یہ عظمت کسی کے دجل کو نہیں دی کہ اس دجل سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتے ہیں.پس جس گروہ کو خدا نے اپنے پاک کلام میں دجال اکبر ٹھہرایا ہے.ہمیں نہیں چاہئے کہ اس کے سوا کسی اور کا نام دجال اکبر رکھیں.نہایت ظلم ہو گا کہ اس کو چھوڑ کر کوئی اور دجال اکبر تلاش کیا جائے.یہ بات کسی پہلو سے درست نہیں ٹھہر سکتی کہ حال کے پادریوں کے سوا کوئی اور بھی دجال ہے جوان سے بڑا ہے کیونکہ جب کہ خدا نے اپنی پاک کلام میں سب سے بڑا یہی دجال بیان فرمایا ہے تو نہایت
۹۴۹ بے ایمانی ہوگی کہ خدا کی کلام کی مخالفت کر کے کسی اور کو بڑا دجال ٹھہرایا جائے.اگر کسی ایسے دجال کا کسی وقت وجود ہوسکتا تو خدا تعالیٰ جس کا علم ماضی اور حال اور مستقبل پر محیط ہے اسی کا نام دجال اکبر رکھتا نہ ان کا نام.پھر یہ نشان دجال اکبر کا جو حدیث بخاری کے صریح اس اشارہ سے نکلتا ہے کہ يَكْسِرُ الصَّلِيبَ صاف بتلا رہا ہے کہ اس دجال اکبر کی شان میں سے یہ ہوگا کہ وہ مسیح کو خدا ٹھہرائے گا اور مدار نجات صلیب پر رکھے گا.یہ بات عارفوں کے لئے نہایت خوشی کا موجب ہے کہ اس جگہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا تظاہر ہو گیا ہے.جس سے تمام حقیقت اس متنازعہ فیہ مسئلہ کی کھل گئی.کیونکہ قرآن نے تو اپنے صریح لفظوں میں دجال اکبر پادریوں کو ٹھہرایا اور ان کے دجل کو ایسا عظیم الشان دجل قرار دیا کہ قریب ہے جو اس سے زمین و آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.اور حدیث نے مسیح موعود کی حقیقی علامت یہ بتلائی کہ اس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہوگا اور وہ دجال اکبر کو قتل کرے گا.ہمارے نادان مولوی نہیں سوچتے کہ جب کہ مسیح موعود کا خاص کام کسر صلیب اور قتل دجال اکبر ہے اور قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ بڑا دجل اور بڑا فتنہ جس سے قریب ہے کہ نظام اس عالم کا درہم برہم ہو جائے اور خاتمہ اس دنیا کا ہو جائے وہ پادریوں کا فتنہ ہے تو اس سے صاف طور پر کھل گیا کہ پادریوں کے سوا اور کوئی دجال اکبر نہیں ہے اور جو شخص اب اس فتنہ کے ظہور کے بعد اور کی انتظار کرے وہ قرآن کا مکذب ہے.اور نیز جبکہ لغت کی رُو سے بھی دجال ایک گروہ کا نام ہے جو اپنے دجل سے زمین کو پلید کرتا ہے.اور حدیث کی رُو سے نشان دجال اکبر کا حمایت صلیب ٹھہرا تو باوجود اس کھلی کھلی تحقیق کے وہ شخص نہایت درجہ کور باطن ہے کہ جواب بھی حال کے پادریوں کو دجال اکبر نہیں سمجھتا.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ا اصفحہ ۴۶ تا ۴۸ ) پھر ذکر کیا کہ آخری زمانہ میں غلبہ نصاریٰ کا ہوگا اور اُن کے ہاتھ سے طرح طرح کے فساد پھیلیں گے اور ہر طرف سے امواج فتن اُٹھیں گی اور وہ ہر یک بلندی سے دوڑیں گی یعنی ہریک طور سے وہ اپنی قوت اور اپنا عروج اور اپنی بلندی دکھلائیں گی.ظاہری طاقت اور سلطنت میں بھی اُن کی بلندی ہوگی کہ اور حکومتیں اور ریاستیں اُن کے مقابل پر کمزور ہو جائیں گی اور علوم وفنون میں بھی اُن کو بلندی حاصل ہوگی کہ طرح طرح کے علوم وفنون ایجاد کریں گے اور نادر اور عجیب صنعتیں نکالیں گے اور مکائد اور تدابیر اور حسنِ انتظام میں بھی بلندی ہوگی اور دنیوی مہمات میں اور ان کے حصول کے لئے اُن کی ہمتیں بھی بلند ہوں گی اور اشاعت مذہب کی جدو جہد اور کوشش میں بھی وہ سب سے فائق
اور بلند ہوں گے اور ایسا ہی تدابیر معاشرت اور تجارت اور ترقی کا شتکاری غرض ہر یک بات میں ہر یک قوم پر فائق اور بلند ہو جائیں گی.یہی معنے ہیں مِن كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ کے کیونکہ حَدَب بالتحریک زمین بلند کو کہتے ہیں اور نسل کے معنے ہیں سبقت لے جانا اور دوڑ نا یعنی ہر قوم سے ہر ایک بات میں جو شرف اور بلندی کی طرف منسوب ہو سکتی ہے سبقت لے جائیں گے اور یہی بھاری علامت اس آخری قوم کی ہے جس کا نام یا جوج ماجوج ہے اور یہی علامت پادریوں کے اس گروہ پُرفتن کی ہے جس کا نام دجال معہود ہے.اور چونکہ حدب زمین بلند کو کہتے ہیں.اس سے یہ اشارہ ہے کہ تمام زمینی بلندیاں ان کو نصیب ہوں گی مگر آسمانی بلندی سے بے نصیب ہوں گے.اور اس مقام سے ثابت ہوتا ہے کہ یہی قوم یا جوج و ماجوج باعتبار اپنے ملکی عروج کے یا جوج ماجوج سے موسوم ہے اور اسی قوم میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ضلالت کے پھیلانے میں اپنی کوششیں انتہا کو پہنچائی ہیں اور دجال اکبر سے موسوم ہو گئے اور خدا تعالیٰ نے ضلالت کے عروج کے ذکر کے وقت فرمایا کہ اس وقت نفخ صور ہو گا اور تمام فرقے ایک ہی جگہ پر اکٹھے کئے جائیں گے.شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۲۳۶۱) یاد رہے کہ نبی کریم نے جن بد باتوں کے پھیلنے کی آخری زمانہ میں خبر دی ہے اسی مجموعہ کا نام دجالیت ہے جس کی تاریں یا یوں کہو کہ جس کی شاخیں صدر ہا قسم کی آنحضرت نے بیان فرمائی ہیں چنانچہ اُن میں سے وہ مولوی بھی دجالیت کے درخت کی شاخیں ہیں جنہوں نے لکیر کو اختیار کیا اور قرآن کو چھوڑ دیا.قرآن کریم کو پڑھتے تو ہیں مگر ان کے حلقوں کے نیچے نہیں اترتا.غرض دجالیت اس زمانہ میں عنکبوت کی طرح بہت سی تاریں پھیلا رہی ہے.کافر اپنے کفر سے اور منافق اپنے نفاق سے اور مے خوار مے خواری سے اور مولوی اپنے شیوہ گفتن و نا کر دن اور سیہ دلی سے دجالیت کی تاریں بن رہے ہیں.ان تاروں کو اب کوئی کاٹ نہیں سکتا بجز اس حربہ کے جو آسمان سے اُترے اور کوئی اس حربہ کو چلا نہیں سکتا بجز اُس عیسی کے جو اسی آسمان سے نازل ہو.سو عیسی نازل ہو گیا.وَ كَانَ وَعْدُ اللهِ مَفْعُولًا.(نشان آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۶۹) دراصل مسیح اُس صدیق کو کہتے ہیں جس کے مسح یعنی چھونے میں خدا نے برکت رکھی ہو اور اُس کے انفاس اور وعظ اور کلام زندگی بخش ہوں اور پھر یہ لفظ خصوصیت کے ساتھ اُس نبی پر اطلاق پا گیا جس نے الانبياء: ۹۷
۹۵۱ جنگ نہ کیا اور محض روحانی برکت سے اصلاح خلائق کی.اور اس کے مقابل پر مسیح اُس معہود دجال کو بھی کہتے ہیں جس کی خبیث طاقت اور تاثیر سے آفات اور دہریت اور بے ایمانی پیدا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ سچائی کے نابود کرنے کے لئے کوئی اور جابرانہ وسائل استعمال کرے صرف اس کی توجہ باطنی یا تقریر یا تحریر یا مخالفت سے محض شیطانی روح کی تاثیر سے نیکی اور محبت الہی ٹھنڈی ہوتی چلی جائے اور بدکاری شراب خوری دروغ گوئی اباحت دنیا پرستی مگر ظلم تعدی قحط اور وبا پھیلے.یہی معنے ہیں جو لسان العرب وغیرہ اعلیٰ درجہ کی لغت کی کتابوں سے اُن کے بیان کو یکجائی نظر سے دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں اور یہی معنے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں القاء کئے ہیں.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۹۴) یادر ہے کہ جس مسیح یعنی روحانی برکات والے کی مسلمانوں کو آخری زمانہ میں بشارت دی گئی ہے اسی کی نسبت یہ بھی لکھا ہے کہ وہ دجال معہود کو قتل کرے گا لیکن یقتل تلوار یا بندوق سے نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دجالی بدعات اس کے زمانہ میں نابود ہو جائیں گی.حدیثوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل دجال شیطان کا نام ہے پھر جس گروہ سے شیطان اپنا کام لے گا اس گروہ کا نام بھی استعارہ کے طور پر دجال رکھا گیا کیونکہ وہ اُس کے اعضاء کی طرح ہے.قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے لَخَلْقُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ لا یعنی انسانوں کی صنعتوں سے خدا کی صنعتیں بہت بڑی ہیں.یہ اشارہ ان انسانوں کی طرف ہے جن کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ آخری زمانہ میں بڑی بڑی صنعتیں ایجاد کریں گے اور خدائی کاموں میں ہاتھ ڈالیں گے.اور مفسرین نے لکھا ہے کہ اس جگہ انسانوں سے مراد دجال ہے.اور یہ قول دلیل اس بات پر ہے کہ دجال معہود ایک شخص نہیں ہے ورنہ ناس کا نام اس پر اطلاق نہ پاتا اور اس میں کیا شک ہے کہ ناس کا لفظ صرف گروہ پر بولا جاتا ہے.سو جو گر وہ شیطان کے وساوس کے نیچے چلتا ہے وہ دجال کے نام سے موسوم ہوتا ہے.اسی کی طرف قرآن شریف کی اس ترتیب کا اشارہ ہے کہ وہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ یا سے شروع کیا گیا اور اس آیت پر ختم کیا گیا ہے.الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ کے پس لفظ ناس سے مراد اس جگہ بھی دجال ہے اور اخیر میں اس گروہ کے ذکر سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ المؤمن: ۵۸ الفاتحة: ٢ الناس : ٧،٦
۹۵۲ آخری زمانے میں اس گروہ کا غلبہ ہوگا جن کے ساتھ نَفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ہوں گی یعنی ایسی عیسائی عورتیں جو گھروں میں پھر کر کوشش کریں گی کہ عورتوں کو خاوندوں سے علیحدہ کریں اور عقدِ نکاح کو توڑیں.خوب یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تینوں سورتیں قرآن شریف کی دجالی زمانہ کی خبر دے رہی ہیں اور حکم ہے کہ اس زمانہ سے خدا کی پناہ مانگو تا اس شر سے محفوظ رہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرور صرف آسانی انوار اور برکات سے دور ہوں گے جن کو آسمانی مسیح اپنے ساتھ لائے گا.اتیام اصلح.روحانی خزائن جلد۴ اصفحه ۲۹۶، ۲۹۷) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم کشف میں دجال کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور وہ طواف چوروں کی طرح اس نیت سے تھا کہ تا موقع پا کر خانہ کعبہ کو منہدم کرے..کون کہہ سکتا ہے کہ دجال فی الحقیقت مسلمان ہو جائے گا اور خانہ کعبہ کا طواف کرے گا بلکہ ہر ایک دانا اس وحی کے یہی معنے لے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر عالم کشف میں دجال کی روحانیت منکشف ہوئی اور یہ تمثیل کشفی نظر میں آنکھوں کے سامنے آئی کہ گویا دجال ایک شخص کی صورت میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہے اور اس کی تاویل یہ تھی کہ دجال دین اسلام کا سخت دشمن ہوگا اور اس کی نظر بد نیتی سے خانہ کعبہ کے گرد پھر تی رہے گی جیسا کہ کوئی اس کا طواف کرتا ہے.ظاہر ہے کہ جیسا کہ رات کے وقت چوکیدار گھروں کا طواف کرتا ہے ویسا ہی چور بھی کرتا ہے لیکن چوکیدار کی نیت گھر کی حفاظت اور چوروں کا گرفتار کرنا ہوتا ہے.ایسا ہی چور کی نیت نقب زنی اور نقصان رسانی ہوتی ہے.سو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کشف میں دجال کی روحانیت جو طواف کعبہ میں پائی گئی اس سے یہی مطلب تھا کہ دجال اس فکر میں لگا رہے گا کہ خانہ کعبہ کی عزت کو دور کرے اور مسیح موعود جو خانہ کعبہ کا طواف کرتا دیکھا گیا.اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح موعود کی روحانیت بیت اللہ کی حفاظت اور دجال کی گرفتاری میں مصروف پائی گئی.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴ ۲۷، ۲۷۵) یہ امر کہ مسیح موعود دجال کے مقابل پر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا یعنی دجال بھی خانہ کعبہ کا طواف کرے گا اور مسیح موعود بھی.اس کے معنے خود ظاہر ہیں کہ اس طواف سے ظاہری طواف مراد نہیں ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ دجال خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا یا یہ کہ مسلمان ہو جائے گا.یہ دونوں باتیں خلاف نصوص حدیثیہ ہیں.پس بہر حال یہ حدیث قابل تاویل ہے اور اس کی وہ تاویل جو خدا نے میرے پر ظاہر فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہو گا جس کا نام دجال ہے.وہ اسلام کا سخت
۹۵۳ دشمن ہو گا.اور وہ اسلام کو نابود کرنے کے لئے جس کا مرکز خانہ کعبہ ہے چور کی طرح اس کے گرد طواف کرے گا تا اسلام کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دے اور اس کے مقابل پر مسیح موعود بھی مرکز اسلام کا طواف کرے گا جس کی تمثیلی صورت خانہ کعبہ ہے اور اس طواف سے مسیح موعود کی غرض یہ ہوگی کہ اُس چور کو پکڑے جس کا نام دجال ہے اور اس کی دست درازیوں سے مرکز اسلام کو محفوظ رکھے.یہ بات ظاہر ہے کہ رات کے وقت چور بھی گھروں کا طواف کرتا ہے اور چوکیدار بھی.چور کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ نقب لگاوے اور گھر والوں کو تباہ کرے اور چوکیدار کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ چور کو پکڑے اور اس کو سخت عقوبت کے زندان میں داخل کرا دے تا اُس کی بدی سے لوگ امن میں آجائیں.پس اس حدیث میں اسی مقابلہ کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں وہ چور جس کو دجال کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ناخنوں تک زور لگائے گا کہ اسلام کی عمارت کو منہدم کر دے.اور مسیح موعود بھی اسلام کی ہمدردی میں اپنے نعرے آسمان تک پہنچائے گا اور تمام فرشتے اس کے ساتھ ہو جائیں گے تا اس آخری جنگ میں اس کی فتح ہو.وہ نہ تھکے گا اور نہ درماندہ ہو گا.اور نہ سُست ہو گا اور ناخنوں تک زور لگائے گا کہ تا اس چور کو پکڑے.اور جب اس کی تضرعات انتہا تک پہنچ جائیں گی.تب خدا اُس کے دل کو دیکھے گا کہ کہاں تک وہ اسلام کے لئے پکھل گیا.تب وہ کام جو ز مین نہیں کر سکتی آسمان کرے گا.اور وہ فتح جو انسانی ہاتھوں سے نہیں ہو سکتی وہ فرشتوں کے ہاتھوں سے میسر آجائے گی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۲۳) اگر خدانخواستہ سچ سچ فرقان کریم میں لکھا ہوتا کہ مسیح برخلاف اس سنت اللہ کے جو تمام بنی آدم کے لئے جاری ہے زندہ آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور قیامت کے قریب تک زندہ ہی رہے گا تو عیسائیوں کو بڑے بڑے سامان بہکانے کے ہاتھ آ جاتے.سو بہت ہی خوب ہوا کہ عیسائیوں کا خدا فوت ہو گیا اور یہ حملہ ایک برچھی کے حملہ سے کم نہیں جو اس عاجز نے خدائے تعالی کی طرف سے مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہو کر اُن دجال سیرت لوگوں پر کیا ہے جن کو پاک چیزیں دی گئیں تھیں مگر انہوں نے ساتھ اس کے پلید چیزیں ملا دیں اور وہ کام کیا جو دجال کو کرنا چاہئے تھا.اب یہ سوال بھی قابل حل ہے کہ مسیح ابن مریم تو دجال کے لئے آئے گا آپ اگر مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہو کر آئے ہیں تو آپ کے مقابل پر دجال کون ہے؟ اس سوال کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ گومیں اس بات کو تو مانتا ہوں کہ ممکن ہے کہ میرے بعد کوئی اور مسیح ابن مریم بھی آوے اور بعض
۹۵۴ احادیث کی رو سے وہ موعود بھی ہو اور کوئی ایسا دجال بھی آوے جو مسلمانوں میں فتنہ ڈالے مگر میرا مذہب یہ ہے کہ اس زمانہ کے پادریوں کی مانند کوئی اب تک دجال پیدا نہیں ہوا.اور نہ قیامت تک پیدا ہو گا.مسلم کی حدیث میں ہے.وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَابَيْنَ خَلْقِ ادَمَ إِلى قِيَامِ السَّاعَةِ أَمْرٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ.........میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ مطابق منشاء مسلم کی حدیث کے جو ابھی میں بیان کر آیا ہوں اگر ہم حضرت آدم کی پیدائش سے آج تک بذریعہ ان تمام تحریری وسائل کے جو ہمیں ملے ہیں دنیا کے تمام ایسے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالیں جنہوں نے دجالیت کا اپنے ذمہ کام لیا تھا تو اس زمانہ کے پادریوں کی دجالیت کی نظیر ہرگز ہم کو نہیں ملے گی.انہوں نے ایک موہومی اور فرضی مسیح اپنی نظر کے سامنے رکھا ہوا ہے جو بقول ان کے زندہ ہے اور خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے.سو حضرت مسیح ابن مریم نے خدائی کا دعویٰ ہرگز نہیں کیا.یہ لوگ خود اس کی طرف سے وکیل بن کر خدائی کا دعوی کر رہے ہیں.اور اس دعوے کے سرسبز کرنے کے لئے کیا کچھ انہوں نے تحریفیں نہیں کیں اور کیا کچھ تلیس کے کام استعمال میں نہیں لائے.اور مکہ اور مدینہ چھوڑ کر اور کون سی جگہ ہے جہاں یہ لوگ نہیں پہنچے.کیا کوئی دھوکا دینے کا کام یا گمراہ کرنے کا منصوبہ یا بہکانے کا کوئی طریقہ ایسا بھی ہے جو ان سے ظہور میں نہیں آیا.کیا یہ سچ نہیں کہ یہ لوگ اپنے دجالا نہ منصوبوں کی وجہ سے ایک عالم پر دائرہ کی طرح محیط ہو گئے ہیں.جہاں یہ لوگ جائیں اور جہاں اپنا مشن قائم کریں ایک عالم کو تہ و بالا کر دیتے ہیں.دولتمند اس قدر ہیں کہ گویا دنیا کے تمام خزانے ان کے ساتھ ساتھ پھرتے ہیں.اگر چہ گورنمنٹ انگریزی کو مذاہب سے کچھ سروکار نہیں اپنے شاہانہ انتظام سے مطلب ہے مگر در حقیقت پادری صاحبوں کی بھی ایک الگ گورنمنٹ ہے جو بے شمار روپے کی مالک اور گویا تمام دنیا میں اپنا تار و پود پھیلا رہی ہے اور ایک قسم کا جنت اور جہنم اپنے ساتھ ساتھ لئے پھرتے ہیں.جو شخص ان کے مذہب میں آنا چاہتا ہے اس کو وہ جنت دکھلایا جاتا ہے اور جو شخص ان کا اشد مخالف ہو جائے اس کے لئے جہنم کی دھمکی ہے.ان کے گھر میں روٹیاں بہت ہیں گویا ایک پہاڑ روٹیوں کا جس جگہ رہیں ساتھ رہتا ہے.اور اکثر شکم بندہ لوگ اُن کی سفید سفید روٹیوں پر مفتون ہو کر رَبُّنَا الْمَسِیح کہنا شروع کر دیتے ہیں.مسیح دجال کی کوئی بھی ایسی علامت نہیں جو ان میں عمران بن حصین روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ پیدائش آدم سے قیامت کے قیام تک دجال سے بڑا فتنہ کوئی نہیں.
۹۵۵ نہ پائی جائے.ایک وجہ سے یہ مردوں کو بھی زندہ کرتے ہیں اور زندوں کو مارتے ہیں.( سمجھنے والا سمجھ لے ) اور اس میں تو شک نہیں کہ ان کی آنکھ ایک ہی ہے جو بائیں ہے.اگر ان کی دائیں آنکھ موجود ہوتی تو یہ لوگ خدائے تعالیٰ سے ڈرتے اور خدائی کے دعوے سے باز آتے بے شک یہ بھی سچ ہے کہ پہلی کتابوں میں اس قوم دجال کا ذکر ہے.حضرت مسیح ابن مریم نے بھی انجیل میں بہت ذکر کیا ہے اور پہلے صحیفوں میں بھی جا بجا ان کا ذکر پایا جاتا ہے.بلاشبہ ایسا ہی چاہئے تھا کہ ہر یک نبی اس مسیح دجال کے آنے کی پہلے سے خبر دیتا.سو ہر ایک نے تَصْرِيحًا یا اجمالًا.اشارہ یا کنایہ خبر دی ہے.حضرت نوح سے لے کر ہمارے سید و مولی خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک اس مسیح دجال کی خبر موجود ہے جس کو میں دلائل کے ساتھ ثابت کر سکتا ہوں.اور جس قدر اسلام کو ان لوگوں کے ہاتھ سے ضرر پہنچا ہے اور جس قد رانہوں نے سچائی اور انصاف کا خون کیا ہے ان تمام خرابیوں کا کون اندازہ کر سکتا ہے.ہجرت مقدسہ کی تیرھویں صدی سے پہلے ان تمام فتنوں کا نام ونشان نہ تھا.اور جب تیرھویں صدی کچھ نصف سے زیادہ گذرگئی تو یکدفعہ اس دجالی گروہ کا خروج ہوا اور پھر ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ اس صدی کے اواخر میں بقول پادری ہیکر صاحب پانچ لاکھ تک صرف ہندوستان میں ہی کرسٹان شدہ لوگوں کی نوبت پہنچ گئی اور اندازہ کیا گیا کہ قریبا بارہ سال میں ایک لاکھ آدمی عیسائی مذہب میں داخل ہو جاتا ہے جو ایک عاجز بندہ کو خدا خدا کر کے پکارتا ہے.اس بات سے کوئی دانا بے خبر نہیں کہ ایک جماعت کثیر اسلام کی یا یوں کہو کہ اسلام کے بھوکوں ننگوں کا ایک گروہ پادری صاحبوں نے صرف روٹیاں اور کپڑے دکھلا کر اپنے قبضہ میں کر لیا ہے اور جو روٹیوں کے ذریعہ سے قابو نہ آئے وہ عورتوں کے ذریعہ سے اپنے پنجہ میں کئے گئے اور جو اس طرح بھی دام میں نہ پھنس سکے اُن کے لئے ملحد اور بے دین کرنے والا فلسفہ پھیلایا گیا جس میں آج لاکھوں نو خیز بچے مسلمانوں کے گرفتار اور مبتلا پائے جاتے ہیں جو نما ز پر ہنتے اور روزہ کو ٹھٹھے سے یاد کرتے اور وحی الہی کو ایک خواب پریشان خیال کرتے ہیں.اور جو لوگ اس لائق بھی نہیں تھے کہ انگریزی فلسفہ کی تعلیم پاویں ان کے لئے بہت سے بناوٹی قصے جو محض پادری صاحبوں کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا جن میں کسی تاریخ یا کہانی کے پیرا یہ میں ہجو اسلام درج تھی عام طور پر شائع کر دیئے گئے اور پھر اسلام کے رد میں اور ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب میں بے شمار کتابیں تالیف کر کے ان لوگوں نے ایک دنیا میں مفت تقسیم کیں اور اکثر کتابوں کے بہت سی زبانوں میں ترجمے کر کے شائع کئے.
۹۵۶ اللہ اکبر.اگر اب بھی ہماری قوم کی نظر میں یہ لوگ اول درجہ کے دجال نہیں اور ان کے الزام کے لئے ایک سچے مسیح کی ضرورت نہیں تو پھر اس قوم کا کیا حال ہوگا ؟ دیکھو! اے غافلود دیکھو!! کہ اسلامی عمارت کے مسمار کرنے کے لئے کس درجہ کی یہ کوشش کر رہے ہیں.اور کس کثرت سے ایسے وسائل مہیا کئے گئے ہیں اور ان کے پھیلانے میں اپنی جانوں کو بھی خطرہ میں ڈال کر اور اپنے مال کو پانی کی طرح بہا کر وہ کوششیں کی ہیں کہ انسانی طاقتوں کا خاتمہ کر دیا ہے یہاں تک کہ نہایت شرمناک ذریعے اور پاکیزگی کے برخلاف منصوبے اس راہ میں ختم کئے گئے اور سچائی اور ایمانداری کے اُڑانے کے لئے طرح طرح کی سرنگیں طیار کی گئیں.اور اسلام کے مٹادینے کے لئے جھوٹ اور بناوٹ کی تمام باریک با تیں نہایت درجہ کی جانکا ہی سے پیدا کی گئیں.ہزار ہا قصے اور مباحثات کی کتابیں محض افترا کے طور پر اور محض اس غرض سے بنائی گئیں تا اگر اور طریق سے نہیں تو اسی طریق سے دلوں پر بد اثر پڑے.کیا کوئی ایسار ہرنی کا طریق ہے جو ایجاد نہیں کیا گیا؟ کیا کوئی ایسی سبیل گمراہ کرنے کی باقی ہے جس کے یہ موجد نہیں؟ پس ظاہر ہے کہ یہ کرسچن قوموں اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کارروائیاں ہیں اور سحر کے اس کامل درجہ کا نمونہ ہے جو بجز اول درجہ کے دجال کے جو دجال معہود ہے اور کسی سے ظہور پذیر نہیں ہوسکتیں.لہذا انہی لوگوں کو جو پادری صاحبوں کا گروہ ہے.دجال معہود ماننا پڑا اور جبکہ ہم دنیا کے اس اکثر حصہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں جو گذر چکا تو ہماری نظر اس استقرائی شہادت کو ساتھ لے کر عود کرتی ہے کہ زمانہ کے سلسلہ گذشتہ میں جہاں تک پتہ مل سکتا ہے دجالیت کی صفت اور اس کی کامیابیوں میں کوئی ان لوگوں کا نظیر نہیں اور ان کے ان ساحرانہ کاموں میں کوئی ان کے مساوی نہیں اور چونکہ احادیث صحیحہ میں دجال معہود کی یہی علامت لکھی ہے کہ وہ ایسے فتنے برپا کرے گا کہ جہاں تک اس وقت سے ابتدائے دنیا کے وقت تک نظر ڈالیں اس کا نظیر نہیں ملے گا.لہذا اس بات پر قطع اور یقین کرنا چاہئے کہ وہ مسیح دجال جو گر جا سے نکلنے والا ہے یہی لوگ ہیں جن کے سحر کے مقابل پر معجزہ کی ضرورت تھی اور اگر انکار ہے تو پھر زمانہ گذشتہ کے دجالین میں سے ان کی نظیر پیش کرو.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۶۱ تا ۳۶۶)
۹۵۷ ذو القرنين جو کچھ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کی ان آیتوں کی نسبت جو سورہ کہف میں ذوالقرنین کے قصہ کے بارے میں ہیں میرے پر پیشگوئی کے رنگ میں معنے کھولے ہیں میں ذیل میں ان کو بیان کرتا ہوں.مگر یادر ہے کہ پہلے معنوں سے انکار نہیں ہے وہ گذشتہ سے متعلق ہیں اور یہ آئندہ کے متعلق اور قرآن شریف صرف قصہ گو کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے ہر ایک قصہ کے نیچے ایک پیشگوئی ہے اور ذوالقرنین کا قصہ مسیح موعود کے زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتا ہے.جیسا کہ قرآن شریف کی عبارت یہ ہے.وَيَتَلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُوا عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا یعنی یہ لوگ تجھے سے ذوالقرنین کا حال دریافت کرتے ہیں.ان کو کہو کہ میں ابھی تھوڑا سا تذکرہ ذوالقرنین کا تم کو سناؤں گا.اور پھر بعد اس کے فرمایا.اِنَّا مَكَنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَأَتَيْنَهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سببا لے یعنی ہم اُس کو یعنی مسیح موعود کو جو ذ والقر نین بھی کہلائے گا روئے زمین پر ایسا مستحکم کریں گے کہ کوئی اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا.اور ہم ہر طرح سے ساز و سامان اس کو دے دیں گے اور اس کی کارروائیوں کو سہل اور آسان کر دیں گے.یاد رہے کہ یہ وحی براہین احمدیہ قصص سابقہ میں بھی میری نسبت ہوئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمُ نَجْعَل لَّكَ سَهُولَةٌ فِي كُلِّ أَمْرٍ یعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیرے لئے آسانی نہیں کر دی یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیرے لئے میسر نہیں کر دیئے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لئے ضروری تھے جیسا کہ ظاہر ہے کہ اُس نے میرے لئے وہ سامان تبلیغ اور اشاعت حق کے میٹر کر دیئے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے.تمام قوموں کی آمدو رفت کی راہیں کھولی گئیں طے مسافرت کے لئے وہ آسانیاں کر دی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں اور خبر رسانی کے وہ ذریعے پیدا ہوئے کہ ہزاروں کوس کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں ہر ایک قوم کی وہ کتابیں شائع ہوئیں جو مخفی اور مستور تھیں.اور ہر ایک چیز کے بہم پہنچانے کے لئے ایک سبب پیدا کیا گیا.کتابوں کے لکھنے میں جو جو دقتیں تھیں وہ چھاپہ خانوں سے دفع اور دُور ہو گئیں.یہاں تک کہ ایسی ایسی مشینیں نکلی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دس دن میں کسی مضمون کو اس کثرت سے چھاپ سکتے ہیں کہ الكهف : ۸۴ ۲ الکهف : ۸۵
۹۵۸ پہلے زمانوں میں دس سال میں بھی وہ مضمون قید تحریر میں نہیں آ سکتا تھا اور پھر اُن کے شائع کرنے کے اس قدر حیرت انگیز سامان نکل آئے ہیں کہ ایک تحریر صرف چالیس دن میں تمام دنیا کی آبادی میں شائع ہو سکتی ہے اور اس زمانہ سے پہلے ایک شخص بشر طیکہ اس کی عمر بھی لمبی ہو.سو برس تک بھی اس وسیع اشاعت پر قادر نہیں ہو سکتا تھا.پھر بعد اس کے اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَاتَّبَعَ سَبَبًا ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِيَّةٍ وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا اَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِم حُسْنًا.قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ تُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا وَآفَا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاء الْحُسْنَى وَسَقُوْلُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا یعنی جب ذوالقرنین کو جو مسیح موعود ہے ہر ایک طرح کے سامان دیے جائیں گے.پس وہ ایک سامان کے پیچھے پڑے گا.یعنی وہ مغربی ممالک کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا اور وہ دیکھے گا کہ آفتاب صداقت اور حقانیت ایک کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہو گیا اور اس غلیظ چشمہ اور تاریکی کے پاس ایک قوم کو پائے گا جو مغربی قوم کہلائے گی.یعنی مغربی ممالک میں عیسائیت کے مذہب والوں کو نہایت تاریکی میں مشاہدہ کرے گا.نہ اُن کے مقابل پر آفتاب ہو گا جس سے وہ روشنی پاسکیں اور نہ ان کے پاس پانی صاف ہوگا جس کو وہ پیو یں.یعنی ان کی علمی اور عملی حالت نہایت خراب ہوگی.اور وہ روحانی روشنی اور روحانی پانی سے بے نصیب ہوں گے.تب ہم ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کو کہیں گے کہ تیرے اختیار میں ہے چاہے تو ان کو عذاب دے یعنی عذاب نازل ہونے کے لئے بددعا کرے ( جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مروی ہے ) یا اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کا شیوہ اختیار کرے.تب ذوالقرنین یعنی مسیح موعود جواب دے گا کہ ہم اُسی کو سزا دلانا چاہتے ہیں جو ظالم ہو وہ دنیا میں بھی ہماری بددعا سے سزا یاب ہوگا اور پھر آخرت میں سخت عذاب دیکھے گا.لیکن جو شخص سچائی سے منہ نہیں پھیرے گا اور نیک عمل کرے گا اس کو نیک بدلا دیا جائے گا.اور اس کو انہیں کاموں کی بجا آوری کا حکم ہوگا جو سہل ہیں اور آسانی سے ہو سکتے ہیں.غرض یہ مسیح موعود کے حق میں پیشگوئی ہے کہ وہ ایسے وقت میں آئے گا جبکہ مغربی ممالک کے لوگ نہایت تاریکی میں پڑے ہوں گے اور آفتاب صداقت اُن کے سامنے سے بالکل ڈوب جائے گا اور ایک گندے اور بد بو دار چشمہ میں ڈوبے گا یعنی بجائے سچائی کے بدبودار عقائد اور اعمال اُن میں پھیلے ہوئے ہوں گے اور وہی اُن کا پانی ہو الكهف: ۸۹۸۶
۹۵۹ گا جس کو وہ پیتے ہوں گے اور روشنی کا نام ونشان نہیں ہو گا.تاریکی میں پڑے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہی حالت عیسائی مذہب کی آج کل ہے.جیسا کہ قرآن شریف نے ظاہر فرمایا ہے اور عیسائیت کا بھاری مرکز ممالک مغربیہ ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتْرًا كَذَلِكَ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خبرا یعنی پھر ذوالقرنین جو مسیح موعود ہے جس کو ہر ایک سامان عطا کیا جائے گا ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا.یعنی ممالک مشرقیہ کے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالے گا اور وہ جگہ جس سے سچائی کا آفتاب نکلتا ہے اس کو ایسا پائے گا کہ ایک ایسی نادان قوم پر آفتاب نکلا ہے جن کے پاس دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی بھی سامان نہیں یعنی وہ لوگ ظاہر پرستی اور افراط کی دھوپ سے جلتے ہوں گے اور حقیقت سے بے خبر ہوں گے اور ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کے پاس حقیقی راحت کا سامان سب کچھ ہو گا جس کو ہم خوب جانتے ہیں مگر وہ لوگ قبول نہیں کریں گے اور وہ لوگ افراط کی دھوپ سے بچنے کے لئے کچھ بھی پناہ نہیں رکھتے ہوں گے.نہ گھر نہ سایہ دار درخت نہ کپڑے جو گرمی سے بچا سکیں.اس لئے آفتاب صداقت جو طلوع کرے گا ان کی ہلاکت کا موجب ہو جائے گا.یہ ان لوگوں کے لئے ایک مثال ہے جو آفتاب ہدایت کی روشنی تو ان کے سامنے موجود ہے اور اس گروہ کی طرح نہیں ہیں جن کا آفتاب غروب ہو چکا ہے لیکن ان لوگوں کو اس آفتاب ہدایت سے بجز اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ دھوپ سے چمڑا ان کا جل جائے اور رنگ سیاہ ہو جائے اور آنکھوں کی روشنی بھی جاتی رہے.اس تقسیم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے کے لئے تین قسم کا دورہ ہو گا.اول اس قوم پر نظر ڈالے گا جو آفتاب ہدایت کو کھو بیٹھے ہیں اور ایک تاریکی اور کیچڑ کے چشمہ میں بیٹھے ہیں.دوسرا دورہ اس کا ان لوگوں پر ہو گا جو ننگ دھڑنگ آفتاب کے سامنے بیٹھے ہیں یعنی ادب سے اور حیا سے اور تواضع سے اور نیک ظن سے کام نہیں لیتے.نرے ظاہر پرست ہیں.گویا آفتاب کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں، سو وہ بھی فیض آفتاب سے بے نصیب ہیں اور ان کو آفتاب سے بجز جلنے کے اور کوئی حصہ نہیں.یہ اُن مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے جن میں مسیح موعود ظاہر تو ہوا مگر وہ انکار اور مقابلہ سے پیش آئے اور حیا اور ادب اور حسن ظن سے کام نہ لیا اس لئے سعادت سے محروم الكهف : ۹۰ تا ۹۲
۹۶۰ رہ گئے.بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلًا.قَالُوا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى اَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا.قَالَ مَا مَكَنِّي فِيهِ رَبِّ خَيْرٌ فَاعِيْنُونِ بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا أَتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ اتُونِي أَفْرِغْ عَلَيْهِ قِطرًا فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْباً.قَالَ هُذَا رَحْمَةٌ مِّن رَّبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبُّي حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَذِيَّمُوجُ فِى بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْتُهُمْ جَمْعًا.وَعَرَضُنَا جَهَنَّمَ يَوْمَبِذٍ لِلْكُفِرِينَ عَرُضَا الَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاءُ عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا.أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِى مِنْ دُونِى اَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكُفِرِينَ نُزُلا پھر ذوالقرنین یعنی مسیح موعود ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا اور جب وہ ایک ایسے موقع پر پہنچے گا یعنی جب وہ ایک ایسا نازک زمانہ پائے گا جس کو بَینَ السَّدین کہنا چاہئیے یعنی دو پہاڑوں کے بیچ.مطلب یہ کہ ایسا وقت پائے گا جب کہ دوطرفہ خوف میں لوگ پڑے ہوں گے اور ضلالت کی طاقت حکومت کی طاقت کے ساتھ مل کر خوفناک نظارہ دکھائے گی تو ان دونوں طاقتوں کے ماتحت ایک قوم کو پائے گا جو اس کی بات کو مشکل سے سمجھیں گے.یعنی غلط خیالات میں مبتلا ہوں گے.اور باعث غلط عقائد مشکل سے اس ہدایت کو سمجھیں گے جو وہ پیش کرے گا لیکن آخر کار سمجھ لیں گے.اور ہدایت پالیں گے.اور یہ تیسری قوم ہے جو مسیح موعود کی ہدایات سے فیضیاب ہوں گے.تب وہ اُس کو کہیں گے کہ اے ذوالقرنین یا جوج اور ماجوج نے زمین پر فساد مچا رکھا ہے.پس اگر آپ کی مرضی ہو تو ہم آپ کے لئے چندہ جمع کر دیں تا آپ ہم میں اور ان میں کوئی روک بنا دیں.وہ جواب میں کہے گا کہ جس بات پر خدا نے مجھے قدرت بخشی ہے.وہ تمہارے چندوں سے بہتر ہے.ہاں اگر تم نے کچھ مدد کرنی ہو تو اپنی الكهف : ۹۳ تا ۱۰۳
۹۶۱ طاقت کے موافق کرو تا میں تم میں اور ان میں ایک دیوار کھینچ دوں.یعنی ایسے طور پر ان پر حجت پوری کروں کہ وہ کوئی طعن تشنیع اور اعتراض کا تم پر حملہ نہ کر سکیں.لوہے کی سلیں مجھے لا دو تا آمد ورفت کی را ہوں کو بند کیا جائے.یعنی اپنے تئیں میری تعلیم اور دلائل پر مضبوطی سے قائم کرو اور پوری استقامت اختیار کرو اور اس طرح پر خود لوہے کی سل بن کر مخالفانہ حملوں کو روکو.اور پھر سلوں میں آگ پھونکو جب تک کہ وہ خود آگ بن جائیں.یعنی محبت الہی اس قدر اپنے اندر بھڑکاؤ کہ خود الہی رنگ اختیار کرو.پھر آیات متذکرہ بالا کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذوالقرنین یعنی مسیح موعود اس قوم کو جو یا جوج ماجوج سے ڈرتی ہے کہے گا کہ مجھے تا نبالا دو کہ میں اس کو پگھلا کر اس دیوار پر انڈیل دوں گا.پھر بعد اس کے یا جوج ماجوج طاقت نہیں رکھیں گے کہ ایسی دیوار پر چڑھ سکیں یا اس میں سوراخ کر سکیں.یادر ہے کہ لو ہا اگرچہ بہت دیر تک آگ میں رہ کر آگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے مگر مشکل سے لوہا پکھلتا ہے.مگر تا با جلد پکھل جاتا ہے اور سالک کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں پگھلنا بھی ضروری ہے پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے مستعد دل اور نرم طبیعتیں لاؤ جو خدا تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھ کر پگھل جائیں.کیونکہ سخت دلوں پر خدا تعالیٰ کے نشان کچھ اثر نہیں کرتے لیکن انسان شیطانی حملے سے تب محفوظ ہوتا ہے کہ اوّل استقامت میں لوہے کی طرح ہو اور پھر وہ لو ہا خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ سے آگ کی صورت پکڑ لے اور پھر دل پکھل کر اُس لو ہے پر پڑے اور اس کو منتشر اور پراگندہ ہونے سے تھام لے.سلوک تمام ہونے کے لئے یہ تین ہی شرطیں ہیں جو شیطانی حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے د سکندری ہیں اور شیطانی رُوح اس دیوار پر چڑھ نہیں سکتی اور نہ اس میں سوراخ کر سکتی ہے.اور پھر فرمایا کہ یہ خدا کی رحمت سے ہو گا.اور اس کا ہاتھ یہ سب کچھ کرے گا.انسانی منصوبوں کا اس میں دخل نہیں ہوگا.اور جب قیامت کے دن نزدیک آجائیں گے تو پھر دوبارہ فتنہ برپا ہو جائے گا.یہ خدا کا وعدہ ہے.اور پھر فرمایا کہ ذوالقرنین کے زمانہ میں جو مسیح موعود ہے ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اُٹھے گی.اور جس طرح ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے ایک دوسرے پر حملہ کریں گے.اتنے میں آسمان پر کرنا پھونکی جائے گی.یعنی آسمان کا خدا مسیح موعود کو مبعوث فرما کر ایک تیسری قوم پیدا کر دے گا اور اُن کی مدد کے لئے بڑے بڑے نشان دکھلائے گا.یہاں تک کہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر یعنی اسلام پر جمع کر دے گا اور وہ مسیح کی آواز سنیں گے اور اس کی طرف دوڑیں گے.تب ایک ہی سید
۹۶۲ چوپان اور ایک ہی گلہ ہوگا اور وہ دن بڑے سخت ہوں گے اور خدا ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کر دے گا اور جو لوگ کفر پر اصرار کرتے ہیں.وہ اسی دنیا میں بباعث طرح طرح کی بلاؤں کے دوزخ کا منہ دیکھ لیں گے خدا فرماتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی آنکھیں میری کلام سے پردہ میں تھیں اور جن کے کان میرے حکم کو سن نہیں سکتے تھے.کیا ان منکروں نے یہ گمان کیا تھا کہ یہ امرسہل ہے کہ عاجز بندوں کو خدا بنا دیا جائے اور میں معطل ہو جاؤں اس لئے ہم اُن کی ضیافت کے لئے اسی دنیا میں جہنم کو نمودار کر دیں گے یعنی بڑے بڑے ہولناک نشان ظاہر ہوں گے اور یہ سب نشان اس کے مسیح موعود کی سچائی پر گواہی دیں گے.اُس کریم کے فضل کو دیکھو کہ یہ انعامات اس مُشت خاک پر ہیں جس کو مخالف کا فر اور دجال کہتے ہیں.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۶) مجھ سے ایک صاحب حکیم مرزا محمود ایرانی نام نے آج ۲ ستمبر ۱۹۰۲ء کو بذریعہ ایک خط کے دریافت کیا ہے کہ اس آیت کے کیا معنے ہیں.وَجَدَهَا تَخْرُبُ فِي عَيْنِ حَمِيَّةٍ لا پس واضح ہو کہ آیت قرآنی بہت سے اسرار اپنے اندر رکھتی ہے جس کا احاطہ نہیں ہو سکتا اور جس کے ظاہر کے نیچے ایک باطن بھی ہے لیکن وہ معنے جو خدا نے میرے پر ظاہر فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ آیت مع اپنے سابق اور لاحق کے مسیح موعود کے لئے ایک پیشگوئی ہے اور اس کے وقت ظہور کو مشخص کرتی ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ مسیح موعود بھی ذوالقرنین ہے کیونکہ قرون عربی زبان میں صدی کو کہتے ہیں اور آیت قرآنی میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ وعدہ کا مسیح جو کسی وقت ظاہر ہو گا.اس کی پیدائش اور اس کا ظاہر ہونا دوصدیوں پر مشتمل ہو گا.چنانچہ میرا وجود اسی طرح پر ہے.میرے وجود نے مشہور ومعروف صدیوں میں خواہ ہجری ہیں خواہ مسیحی خواہ بکرما جیتی اس طور پر اپنا ظہور کیا ہے کہ ہر جگہ دوصدیوں پر مشتمل ہے صرف کسی ایک صدی تک میری پیدائش اور ظہور ختم نہیں ہوئے.غرض جہاں تک مجھے علم ہے میری پیدائش اور میرا ظہور ہر ایک مذہب کی صدی میں صرف ایک صدی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ دوصدیوں میں اپنا قدم رکھتا ہے.پس ان معنوں سے میں ذوالقرنین ہوں.چنانچہ بعض احادیث میں بھی مسیح موعود کا نام ذوالقرنین آیا ہے.ان حدیثوں میں بھی ذوالقرنین کے یہی معنے ہیں جو میں نے بیان کئے ہیں.اب باقی آیت کے معنے پیشگوئی کے لحاظ سے یہ ہیں کہ الكهف: ۸۷
۹۶۳ دنیا میں دو قو میں بڑی ہیں جن کو مسیح موعود کی بشارت دی گئی ہے اور مسیحی دعوت کے لئے پہلے انہی کا حق ٹھہرایا گیا ہے.سو خدا تعالیٰ ایک استعارے کے رنگ میں اس جگہ فرماتا ہے کہ مسیح موعود جو ذوالقرنین ہے اپنی سیر میں دو قوموں کو پائے گا.ایک قوم کو دیکھے گا کہ وہ تاریکی میں ایک ایسے بد بودار چشمے پر بیٹھی ہے کہ جس کا پانی پینے کے لائق نہیں اور اس میں سخت بد بودار کیچڑ ہے اور اس قدر ہے کہ اب اس کو پانی نہیں کہہ سکتے.یہ عیسائی قوم ہے جو تاریکی میں ہے.جنہوں نے مسیحی چشمہ کو اپنی غلطیوں سے بد بو دار کیچڑ میں ملا دیا ہے.دوسری سیر میں مسیح موعود نے جو ذوالقرنین ہے ان لوگوں کو دیکھا جو آفتاب کی جلتی ہوئی دھوپ میں بیٹھے ہیں اور آفتاب کی دھوپ اور ان میں کوئی اوٹ نہیں اور آفتاب سے انہوں نے کوئی روشنی تو حاصل نہیں کی اور صرف یہ حصہ ملا ہے کہ اُس سے بدن اُن کے جل رہے ہیں اور اوپر کی جلد سیاہ ہو گئی ہے.اس قوم سے مراد مسلمان ہیں جو آفتاب کے سامنے تو ہیں مگر بجز جلنے کے اور کچھ ان کو فائدہ نہیں ہوا یعنی اُن کو توحید کا آفتاب دیا گیا مگر بجز جلنے کے آفتاب سے انہوں نے کوئی حقیقی روشنی حاصل نہیں کی.یعنی دینداری کی سچی خوبصورتی اور سچے اخلاق وہ کھو بیٹھے اور تعصب اور کینہ اور اشتعال طبع اور درندگی کے چلن اُن کے حصہ میں آگئے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیرایہ میں فرماتا ہے کہ ایسے وقت میں مسیح موعود جو ذوالقرنین ہے آئے گا جبکہ عیسائی تاریکی میں ہوں گے اور اُن کے حصہ میں صرف ایک بد بو دار کیچڑ ہوگا جس کو عربی میں حما کہتے ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف خشک تو حید ہوگی جو تعصب اور درندگی کی دھوپ سے جلے ہوں گے اور کوئی روحانیت صاف نہیں ہو گی.اور پھر مسیح جو ذوالقرنین ہے ایک تیسری قوم کو پائیں گے جو یا جوج ماجوج کے ہاتھ سے بہت تنگ ہوگی اور وہ لوگ بہت دیندار ہوں گے اور اُن کی طبیعتیں سعادت مند ہوں گی اور وہ ذوالقرنین سے جو مسیح موعود ہے مدد طلب کریں گے تا یا جوج ماجوج کے حملوں سے بچ جائیں اور تا وہ ان کے لئے سدِ روشن بنا دے گا یعنی ایسے پختہ دلائل اسلام کی تائید میں ان کو تعلیم دے گا.یا جوج ماجوج کے حملوں کو قطعی طور پر روک دے گا اور اُن کے آنسو پونچھے گا اور ہر ایک طور سے ان کی مدد کرے گا اور اُن کے ساتھ ہو گا.یہ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قبول کرتے ہیں.یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے اور اس میں صریح طور پر میرے ظہور اور میرے وقت اور میری جماعت
۹۶۴ کی خبر دی گئی ہے.پس مبارک وہ جو ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھے.قرآن شریف کی یہ سنت ہے کہ اس قسم کی پیشگوئیاں بھی کیا کرتا ہے کہ ذکر کسی اور کا ہوتا ہے اور اصل منشاء آئندہ زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی ہوتی ہے.جیسا کہ سورۃ یوسف میں بھی اسی قسم کی پیشگوئی کی گئی ہے.یعنی بظاہر تو ایک قصہ بیان کیا گیا ہے مگر اس میں یہ خفی پیشگوئی ہے کہ جس طرح یوسف کو اؤل بھائیوں نے حقارت کی نظر سے دیکھا مگر آخر وہی یوسف اُن کا سردار بنایا گیا.اس جگہ بھی قریش کے لئے ایسا ہی ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کورڈ کر کے مکہ سے نکال دیا مگر وہی جورڈ کیا گیا تھا ان کا پیشوا اور سردار بنایا گیا.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۰،۱۹۹)
۹۶۵ یا جوج ماجوج یا جوج ماجوج دو تو میں ہیں جن کا پہلی کتابوں میں ذکر ہے اور اس نام کی یہ وجہ ہے کہ وہ اجیج سے یعنی آگ سے بہت کام لیں گی اور زمین پر ان کا بہت غلبہ ہو جائے گا اور ہر ایک بلندی کی مالک ہو جائیں گی.تب اسی زمانہ میں آسمان سے ایک بڑی تبدیلی کا انتظام ہوگا اور صلح اور آشتی کے دن ظاہر ہوں گے.لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۱۱) میں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مسیح موعود کا یا جوج ماجوج کے وقت میں آنا ضروری ہے اور چونکہ اجیج آگ کو کہتے ہیں جس سے یا جوج ماجوج کا لفظ مشتق ہے.اس لئے جیسا کہ خدا نے مجھے سمجھایا ہے یا جوج ماجوج وہ قوم ہے جو تمام قوموں سے زیادہ دنیا میں آگ سے کام لینے میں استاد بلکہ اس کام کی موجد ہے اور ان ناموں میں یہ اشارہ ہے کہ ان کے جہاز ان کی ریلیں ان کی کلیں آگ کے ذریعہ سے چلیں گی.اور ان کی لڑائیاں آگ کے ساتھ ہوں گی اور وہ آگ سے خدمت لینے کے فن میں تمام دنیا کی قوموں سے فائق ہوں گے اور اسی وجہ سے وہ یا جوج ماجوج کہلائیں گے.سو وہ یورپ کی قومیں ہیں جو آگ کے فنوں میں ایسے ماہر اور چابک اور یکتائے روزگار ہیں کہ کچھ بھی ضرور نہیں کہ اس میں زیادہ بیان کیا جائے.پہلی کتابوں میں بھی جو بنی اسرائیل کے نبیوں کو دی گئیں یورپ کے لوگوں کو ہی یا جوج ماجوج ٹھہرایا ہے بلکہ ماسکو کا نام بھی لکھا ہے.جو قدیم پایۂ تخت روس تھا.سو مقرر ہو چکا تھا کہ مسیح موعود یا جوج ماجوج کے وقت میں ظاہر ہوگا.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۲۴، ۴۲۵) قرآن شریف میں ایک اور بھی پیشگوئی ہے جو جسمانی اجتماع کے بعد روحانی اجتماع پر دلالت کرتی ہے.اور وہ یہ ہے.وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَذِيَّمُوجُ فِي بَعْضٍ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْتُهُمْ جَمْعًا لا یعنی ان آخری دنوں میں جو یا جوج ماجوج کا زمانہ ہو گا دنیا کے لوگ مذہبی جھگڑوں اور لڑائیوں میں مشغول ہو جائیں گے اور ایک قوم دوسری قوم پر مذہبی رنگ میں ایسے حملے کرے گی جیسے ایک موج دریا دوسری موج پر پڑتی ہے اور دوسری لڑائیاں بھی ہوں گی.اور اس طرح پر الكهف: ١٠٠
۹۶۶ دنیا میں بڑا تفرقہ پھیل جائے گا.اور بڑی پھوٹ اور بغض اور کینہ لوگوں میں پیدا ہو جائے گا اور جب یہ باتیں کمال کو پہنچ جائیں گی تب خدا آسمان سے اپنی قرنا میں آواز پھونک دے گا یعنی مسیح موعود کے ذریعہ سے جو اس کی قرنا ہے ایک ایسی آواز دنیا کو پہنچائے گا جو اس آواز کے سننے سے سعادت مند لوگ ایک ہی مذہب پر اکٹھے ہو جائیں گے اور تفرقہ دور ہو جائے گا اور مختلف قومیں دنیا کی ایک ہی قوم بن جائیں گی اور پھر دوسری آیت میں فرمایا وَ عَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَبِذٍ لِلْكَفِرِينَ عَرِّضَا ہے اور اُس دن جو لوگ مسیح موعود کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے ان کے سامنے ہم جہنم کو پیش کریں گے یعنی طرح طرح.کے عذاب نازل کریں گے جو جہنم کا نمونہ ہوں گے اور پھر فرمایا.اَلَّذِينَ كَانَتْ أَعْيُنُهُمْ فِي غِطَاء عَنْ ذِكْرِى وَكَانُوا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا لا یعنی وہ ایسے لوگ ہوں گے کہ مسیح موعود کی دعوت اور تبلیغ سے اُن کی آنکھیں پردہ میں رہیں گی اور وہ اس کی باتوں کوسُن بھی نہیں سکیں گے اور سخت بیزار ہوں گے.اس لئے عذاب نازل ہو گا.اس جگہ صور کے لفظ سے مُراد مسیح موعود ہے کیونکہ خدا کے نبی اُس کی صور ہوتے ہیں یعنی قرنا.جن کے دلوں میں وہ اپنی آواز پھونکتا ہے.یہی محاورہ پہلی کتابوں میں بھی آیا ہے کہ خدا کے نبیوں کو خدا کے قرنا قرار دیا گیا ہے یعنی جس طرح قرنا بجانے والا قرنا میں اپنی آواز پھونکتا ہے.اسی طرح خدا ان کے دلوں میں آواز پھونکتا ہے اور یا جوج ماجوج کے قرینہ سے قطعی طور سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ قرنا مسیح موعود ہے کیونکہ احادیث صحیحہ سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ یا جوج ماجوج کے زمانہ میں ظاہر ہونے والا مسیح موعود ہی ہوگا.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جبکہ ایک طرف بائبل سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ یورپ کے عیسائی فرقے ہی یا جوج ماجوج ہیں اور دوسری طرف قرآن شریف نے یا جوج ماجوج کی وہ علامتیں مقرر کی ہیں جوصرف یورپ کی سلطنتوں پر ہی صادق آتی ہیں.جیسا کہ یہ لکھا ہے کہ وہ ہر ایک بلندی پر سے دوڑیں گے یعنی سب طاقتوں پر غالب ہو جائیں گے اور ہر ایک پہلو سے دنیا کا عروج اُن کو مل جائے گا.اور حدیثوں میں بھی یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ کسی سلطنت کو اُن کے ساتھ تاب مقابلہ نہیں ہوگی.پس یہ تو قطعی فیصلہ ہو چکا ہے کہ یہی تو میں یا جوج ماجوج ہیں اور اس سے انکار کرنا سراسر تحکم اور خدا تعالیٰ کے فرمودہ کی مخالفت ہے.اس میں کس کو کلام ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قول کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کے موافق یہی قومیں ہیں جو اپنی دنیوی طاقت میں تمام قوموں پر فوقیت لے گئی ہیں.جنگ اور الكهف: ١٠١ الكهف: ١٠٢
۹۶۷ لڑائی کے داؤ پیچ اور ملکی تدابیر کے امور میں دنیا میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا اور انہیں کی کلوں اور ایجادوں نے کیا لڑائیوں میں اور کیا کسی قسم کے دنیا کے آرام کے سامانوں میں ایک نیا نقشہ دنیا کا ظاہر کر دیا ہے اور انسان کی تمدنی حالت کو ایک حیرت انگیز انقلاب میں ڈال دیا ہے اور تدبیر امور سیاست اور درستی سامان رزم بزم میں وہ ید طولی دکھلایا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی زمانہ میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی.پس خدا کے بزرگ نبی کی پیشگوئی سے صد ہا سال بعد جو واقعہ اس پیشگوئی کی مقرر کردہ علامتوں کے موافق ظہور میں آیا ہے وہ یہی واقعہ یورپین طاقتوں کا ہے.سو جس طور سے خدا نے یا جوج ماجوج کے معنی ظاہر کر دیئے اور جس قوم کو موجودہ واقعہ نے ان علامات کا مصداق ٹھہرا دیا اس کو قبول نہ کرنا ایک کھلے کھلے حق سے انکار کرنا ہے.یوں تو انسان جب انکار پر اصرار کرے تو اس کا منہ کون بند کر سکتا ہے لیکن ایک منصف مزاج آدمی جو طالب حق ہے وہ ان تمام امور پر اطلاع پا کر پورے اطمینان اور شلج صدر سے گواہی دے گا کہ بلاشبہ یہی تو میں یا جوج ماجوج ہیں.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۳ تا ۸۸) حدیثوں میں بظاہر یہ تناقض پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود کے مبعوث ہونے کے وقت ایک طرف تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ یا جوج ماجوج تمام دنیا میں پھیل جائیں گے اور دوسری طرف یہ بیان ہے کہ تمام دنیا میں عیسائی قوم کا غلبہ ہوگا جیسا کہ حدیث یکسر الصلیب سے بھی سمجھا جاتا ہے کہ صلیبی قوم کا اس زمانہ میں بڑا عروج اور اقبال ہو گا.ایسا ہی ایک دوسری حدیث سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ اس زمانہ میں رومیوں کی کثرت اور قوت ہوگی یعنی عیسائیوں کی.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں رومی سلطنت عیسائی تھی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن شریف میں فرماتا ہے.غُلِبَتِ الرُّوم فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ لے اس جگہ بھی روم سے مراد عیسائی سلطنت ہے.اور پھر بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت دجال کا تمام زمین پر غلبہ ہو گا اور تمام زمین پر بغیر مکہ معظمہ کے دجال محیط ہو جائے گا.اب کوئی مولوی صاحب بتلاویں کہ یہ تناقض کیونکر دُور ہو سکتا ہے.اگر دقبال تمام زمین پر محیط ہو جائے گا تو عیسائی سلطنت کہاں ہو گی.ایسا ہی یا جوج ماجوج جن کی عام سلطنت کی قرآن شریف خبر دیتا الروم :٤٣
۹۶۸ ہے وہ کہاں جائیں گے.سو یہ غلطیاں ہیں جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں.جو ہمارے مکفر اور مکذب ہیں.واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ دونوں صفات یا جوج ماجوج اور دجال ہونے کے یورپین قوموں میں موجود ہیں کیونکہ یا جوج ماجوج کی تعریف حدیثوں میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اُن کے ساتھ لڑائی میں کسی کو طاقت مقابلہ نہیں ہو گی اور مسیح موعود بھی صرف دُعا سے کام لے گا.اور یہ صفت کھلے کھلے طور پر یورپ کی سلطنتوں میں پائی جاتی ہے اور قرآن شریف بھی اس کا مصدق ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ ، اور دجال کی نسبت حدیثوں میں یہ بیان ہے کہ وہ دجل سے کام لے گا اور مذہبی رنگ میں دنیا میں فتنہ ڈالے گا.سو قرآن شریف میں یہ صفت عیسائی پادریوں کی بیان کی گئی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِام کے اس تقریر سے ظاہر ہے کہ یہ تینوں ایک ہی ہیں.اسی وجہ سے سورۃ الفاتحہ میں دائمی طور پر یہ دعا سکھلائی گئی کہ تم عیسائیوں کے فتنہ سے پناہ مانگو.یہ نہیں کہا کہ تم دجال سے پناہ مانگو.پس اگر کوئی اور دجال ہوتا جس کا فتنہ پادریوں سے زیادہ ہوتا تو خدا کی کلام میں بڑا فتنہ چھوڑ کر قیامت تک یہ دعا نہ سکھلائی جاتی کہ تم عیسائیوں کے فتنہ سے پناہ مانگو.اور یہ نہ فرمایا جا تا کہ عیسائی فتنہ ایسا ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں.پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں بلکہ یہ کہا جاتا کہ دجالی فتنہ ایسا ہے جس سے قریب ہے کہ زمین و آسمان پھٹ جائیں.بڑے فتنے کو چھوڑ کر چھوٹے فتنہ سے ڈرانا بالکل غیر معقول ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۵ تا ۷ ۸ حاشیه) الانبياء: ۹۷ النساء : ۴۷
۹۶۹ أُمُّ الْأَلْسِنَةِ یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ ہر یک بولی انسان کی ہی ایجاد ہے بلکہ بکمال تحقیق ثابت ہے کہ موجد اور خالق انسان کی بولیوں کا وہی خدائے قادر مطلق ہے جس نے اپنی قدرت کاملہ سے انسان کو پیدا کیا اور اُس کو اسی غرض سے زبان عطا فرمائی کہ تا وہ کلام کرنے پر قادر ہو سکے.اگر بولی انسان کی ایجاد ہوتی تو اس صورت میں کسی بچہ نوزاد کو تعلیم کی کچھ بھی حاجت نہ ہوتی بلکہ بالغ ہو کر آپ ہی کوئی بولی ایجاد کر لیتا لیکن بہ بداہت عقل ظاہر ہے کہ اگر کسی بچہ کو بولی نہ سکھائی جائے تو وہ کچھ بول نہیں سکتا اور خواہ تم اس بچہ کو یونان کے کسی جنگل میں پرورش کرو یا انگلینڈ کے جزیرہ میں چھوڑ دو.خواہ تم اس کو خط استوا کے نیچے لے جاؤ تب بھی وہ بولی سیکھنے میں تعلیم کا محتاج ہو گا اور بغیر سکھانے کے بے زبان رہے گا.اور اس خیال کی تائید میں یہ وہم پیش کرنا کہ ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ بولیوں میں ہمیشہ صد ہا طرح کے تغیر و تبدل خود بخود ہوتے رہتے ہیں جن سے بولیوں میں انسانی تصرف کا ثبوت ملتا ہے سو واضح ہو کہ یہ و ہم سراسر دھوکا ہے.تغیرات کہ جو ہمیشہ بولیوں کو لگے ہوئے ہیں یہ انسان کے ارادہ اور اختیار سے ظہور میں نہیں آتے اور نہ یہ کچھ قاعدہ مقرر ہو سکتا ہے کہ خود انسان کی طبیعت کسی خاص خاص وقتوں میں بولیوں میں تغیر تبدل کرتی رہتی ہے بلکہ عمیق نظر سے معلوم ہوگا کہ یہ تغییرات بھی اس علت العلل کے ارادہ اور اختیار سے وقوع میں آتے رہتے ہیں جیسے تمام تغییرات سماوی و ارضی اس کے خاص ارادہ سے ظہور پذیر ہیں.یہ امرکبھی ثابت نہیں ہو سکتا کہ کبھی انسانوں نے متفق ہو کر یا الگ الگ ان تمام بولیوں کو ایجاد کیا تھا جو دنیا میں بولی جاتی ہیں.اور اگر کوئی یہ وہم پیش کرے کہ جس طرح طبعی طور پر خدا تعالیٰ بولیوں میں ہمیشہ تغیر تبدل کرتا رہتا ہے کیوں جائز نہیں کہ ابتدا میں بھی اسی طور پر بولیاں ایجاد ہو گئی ہوں اور کوئی خاص الہام نہ ہوا ہو.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابتداءِ زمانہ کے لئے عام قانونِ قدرت یہی ہے کہ خدا نے ہر یک چیز کو اپنی قدرت محض سے پیدا کیا تھا.آسمان اور زمین اور سورج اور چاند اور خود انسان کی فطرت پر نظر کرنے سے معلوم ہوگا کہ وہ ابتدائی زمانہ محض قدرت نمائی کا زمانہ تھا جس میں اسباب معتادہ
۹۷۰ کی ذرہ آمیزش نہ تھی اور اس زمانہ میں جو کچھ خدا نے پیدا کیا وہ ایسی اعلیٰ قدرت سے کیا جس میں عقل انسان حیران ہے...اس زمانہ کی نظیر میں اس زمانہ کے حالات پیش کرنا درست نہیں ہے.مثلاً اب کوئی بچہ انسان کا بغیر ذریعہ ما اور باپ کے پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر اس ابتدائی زمانہ میں بھی انسان کا پیدا ہونا والدین کے وجود پر ہی موقوف ہوتا تو پھر کیونکر یہ دنیا پیدا ہو سکتی؟ علاوہ اس کے جو تغیرات بولیوں میں طبعی طور پر ہوتے رہتے ہیں ان تغیرات میں اور اس دوسری صورت میں کہ جب بولی عدم محض سے پیدا کی جائے بڑا فرق ہے.کسی موجودہ بولی میں کچھ تغیر ہونا شئے دیگر ہے اور عدم محض سے ایک بولی کا من کل الوجوہ پیدا ہو جانا یہ اور بات ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحہ ۳۵۸ تا ۴۰۴) بعض نادان آریہ ایک سنسکرت کو پر میشر کی بولی ٹھہرا کر دوسری تمام بولیاں جو صد ہا عجائب اور غرائب صنع باری سے بھری ہوئی ہیں انسان کا ایجاد قرار دیتے ہیں.گویا انسان کے ہاتھ میں بھی ایک قسم کی خدائی ہے کہ پر میشر نے تو صرف ایک بولی ظاہر کی مگر آدمیوں نے وہ قوت دکھلائی کہ بیسیوں بولیاں اس سے بہتر ایجاد کر لیں.بھلا ہم آریہ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر یہی سچ ہے کہ سنسکرت ہی پر میشر کے منہ سے نکلی ہے اور دوسری زبانیں انسانوں کی صنعت ہیں اور پرمیشر کے منہ سے دور رہی ہوئی ہیں تو ذرا بتلاؤ تو سہی کہ وہ کون سے کمالات خاصہ ہیں جو سنسکرت میں پائے جاتے ہیں اور دوسری زبانیں اُن سے عاری ہیں.کیونکہ پر میشر کی کلام کو انسان کے مصنوع پر ضرور فضیلت ہونی چاہئے.کیونکہ وہ اسی سے خدا کہلاتا ہے کہ اپنی ذات میں اپنی صفات میں اپنے کاموں میں سب سے افضل اور بے مثل و مانند ہے.اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ سنسکرت پر میشر کا کلام ہے جو ہندوؤں کے باپ دادوں پر نازل ہوا ہے اور دوسری زبانیں دوسرے لوگوں کے باپ دادوں نے بوجہ اس کے کہ وہ ہندوؤں کے باپ دادوں سے زیادہ زیرک اور دانا تھے آپ بنالی ہیں مگر کیا ہم یہ بھی فرض کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ ہندوؤں کے پرمیشر سے بھی کچھ بڑھ کر تھے جن کی قدرت کاملہ نے صد با عمدہ زبانیں بنا کر دکھلا دیں اور پر میشر صرف ایک ہی بولی بنا کر رہ گیا.جن لوگوں کی تار و پود میں شرک گھسا ہوا ہے انہوں نے اپنے پر میشر کو بہت سی باتوں میں ایک برابر درجہ کا شخص سمجھ رکھا ہے.کیوں نہ ہوا نادی جو ہوئے.خدا کے شریک جو ٹھہرے.اور اگر کسی کے دل میں یہ وہم پیدا ہو کہ خدا نے ایک بولی پر کفایت کیوں نہ کی یہ وہم بھی قلت تدبیر سے ناشی ہے.اگر کوئی دانا اقالیم مختلفہ کے اوضاع متفاوتہ اور طبائع متفرقہ پر نظر کرے تو یہ یقین کامل اس کو
۹۷۱ معلوم ہوگا کہ ایک ہی بولی ان سب کے مناسب حال نہیں تھی.بعض ملکوں کے لوگ بعض طور کے حروف اور الفاظ کے بولنے پر بہ آسانی قادر ہیں اور بعض ملکوں کے لوگوں کو ان حروف اور الفاظ کا بولنا ایک مصیبت ہے.پس کیونکر ممکن تھا کہ حکیم مطلق صرف ایک ہی بولی سے پیار کر کے قاعدہ وَضْعُ الشَّيْءٍ فِى مَوْضِعِہ کی رعایت نہ کرتا اور طبائع مختلفہ کے لئے جو مصلحت عامہ تھی اس کو ترک کر دیتا.کیا مناسب تھا کہ وہ جدا جدا طبیعتوں کے لوگوں کو ایک ہی بولی کے تنگ پنجرہ میں قید کر دیتا.علاوہ اس کے انواع و اقسام کی بولیوں کے بنانے میں خدا وند تعالیٰ کی زیادت قدرت ثابت ہوتی اور عاجز بندوں کا مختلف زبانوں میں اُس کی تعریف کرنا عبودیت کے بازار کی ایک رونق ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۴۴۷ تا ۴۵۶) اشتهار کتاب من الرحمن یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے جس کی طرف قرآن شریف کی بعض پر حکمت آیات نے ہمیں توجہ دلائی.سو قرآن عظیم نے یہ بھی دنیا پر ایک بھاری احسان کیا ہے جو اختلاف لغات کا اصل فلسفہ بیان کر دیا.اور ہمیں اس دقیق حکمت پر مطلع فرمایا کہ انسانی بولیاں کس منبع اور معدن سے نکلی ہیں.اور کیسے وہ لوگ دھوکا میں رہے جنہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا جو انسانی بولی کی جڑ خدا تعالیٰ کی تعلیم ہے.اور واضح ہو کہ اس کتاب میں تحقیق الالسنہ کی رُو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں نازل ہوا ہے جو اُم الالسنہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ الہی کتاب کی تمام تر زینت اور فضیلت اسی میں ہے جو ایسی زبان میں ہو جو خدا تعالیٰ کے منہ سے اور اپنی خوبیوں میں تمام زبانوں سے بڑھی ہوئی اور اپنے نظام میں کامل ہو.اور جب ہم کسی زبان میں وہ کمال پاویں جس کے پیدا کرنے سے انسانی طاقتیں اور بشری بناوٹیں عاجز ہوں اور وہ خوبیاں دیکھیں جو دوسری زبانیں ان سے قاصر اور محروم ہوں اور وہ خواص مشاہدہ کریں جو بجز خدا تعالیٰ کے قدیم اور صحیح علم کے کسی مخلوق کا ذہن ان کا موجد نہ ہو سکے تو ہمیں مانا پڑتا ہے کہ وہ زبان خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.سو کامل اور عمیق تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ زبان عربی ہے.اگر چہ بہت سے لوگوں نے ان باتوں کی تحقیقات میں اپنی عمریں گزاری ہیں اور بہت کوشش کی ہے جو اس بات کا پتہ لگا ویں جو ام الالسنہ کون سی زبان ہے مگر چونکہ اُن کی کوششیں خط مستقیم پر نہیں تھیں اور نیز خدا تعالیٰ سے توفیق یافتہ نہ تھے اس لئے وہ کامیاب نہ ہو سکے.اور یہ بھی وجہ تھی کہ عربی زبان کی طرف
۹۷۲ اُن کی پوری توجہ نہیں تھی بلکہ ایک بجل تھا.لہذا وہ حقیقت شناسی سے محروم رہ گئے.اب ہمیں خدا تعالیٰ کی مقدس اور پاک کلام قرآن شریف سے اس بات کی ہدایت ہوئی کہ وہ الہامی زبان اور اُم الالسنه جس کے لئے پارسیوں نے اپنی جگہ اور عبرانی والوں نے اپنی جگہ اور آریہ قوم نے اپنی جگہ دعوے کئے کہ انہیں کی وہ زبان ہے وہ عربی مبین ہے اور دوسرے تمام دعویدار غلطی پر اور خطا پر ہیں.عربی کے الفاظ کے مقابل پر ان زبانوں کے الفاظ لنگڑوں، ٹولوں، اندھوں، بہروں ، مبر وصوں، مجز وموں کے مشابہ ہیں جو فطری نظام کو بکلی کھو بیٹھے ہیں اور کافی ذخیرہ مفردات کا جو کامل زبان کے لئے شرط ضروری ہے اپنے ساتھ نہیں رکھتے.اگر کسی آریہ صاحب یا کسی اور مخالف کو یہ تحقیقات ہماری منظور نہیں تو اُن کو ہم بذریعہ اس اشتہار کے اطلاع دیتے ہیں کہ ہم نے زبان عربی کی فضیلت اور کمال اور فوق الالسنہ ہونے کے دلائل اپنی اس کتاب میں مبسوط طور پر لکھ دیئے ہیں جو تفصیل ذیل ہیں.(۱) عربی کی مفردات کا نظام کامل ہے.(۲) عربی اعلی درجہ کی علمی وجوہ تسمیہ پر مشتمل ہے جو فوق العادت ہیں.(۳) عربی کا سلسلہ اطرادمواد اتم و اکمل ہے (۴) عربی کی تراکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں.(۵) عربی زبان انسانی ضمائر کا پورا نقشہ کھینچنے کے لئے پوری پوری طاقت اپنے اندر رکھتی ہے.اب ہر ایک کو اختیار ہے کہ ہماری کتاب کے چھپنے کے بعد اگر ممکن ہو تو یہ کمالات سنسکرت یا کسی اور زبان میں ثابت کرے.(ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۵۰ وصفحه ۳۲۱،۳۲۰) چونکہ قرآن مجید ایک ایسا لعلِ تاباں اور مہر درخشاں ہے کہ اس کی سچائی کی کرنیں اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی چمکیں نہ کسی ایک یا دو پہلو سے بلکہ ہزار ہا پہلوؤں سے ظاہر ہو رہی ہیں اور جس قدر مخالف دین متین کوشش کر رہے ہیں کہ اس ربانی نور کو بجھا دیں اُسی قدر وہ زور سے ظاہر ہوتا اور اپنے حسن اور جمال سے ہر یک اہل بصیرت کے دل کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اس لئے اس تاریک زمانہ میں بھی جبکہ پادریوں اور آریوں نے توہین اور تحقیر کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑا اور اپنی نابینائی کی وجہ سے اس نور پر وہ تمام حملے کئے جو ایک سخت جاہل اور سخت متعصب کر سکتا ہے اس از ملی نور نے آپ اپنے منجانب اللہ
۹۷۳ ہونے کا ہر یک پہلو سے ثبوت دیا ہے.اس میں یہ ایک عظیم الشان خاصیت ہے کہ وہ اپنی تمام ہدایات اور کمالات کی نسبت آپ ہی دعوی کرتا اور آپ ہی اس دعوی کا ثبوت دیتا ہے.اور یہ عظمت کسی اور کتاب کو نصیب نہیں اور منجملہ اُن دلائل اور براہین کے جو اُس نے اپنے منجانب اللہ ہونے پر اور اپنے اعلیٰ درجہ کی فضیلت پر پیش کئے ہیں ایک بزرگ دلیل وہ ہے جس کی بسط اور تفصیل کے لئے ہم نے اس کتاب کو تالیف کیا ہے جو اُم الالسنہ کے پاک چشمہ سے پیدا ہوتی ہے جس کا آب زلال ستاروں کی طرح چمکتا اور ہر یک معرفت کے پیاسے کو یقین کے پانی سے سیراب کرتا اور شکوک و شبہات کی میلوں سے صاف کر دیتا ہے.یہ دلیل کسی پہلی کتاب نے اپنی سچائی کی تائید میں پیش نہیں کی.اور اگر دید یا کسی اور کتاب نے پیش کی ہے تو واجب ہے کہ اُس کے پیرو مقابلہ کے وقت پہلے اس وید کے مقام کو پیش کریں اور خلاصہ مطلب اس دلیل کا یہ ہے کہ زبانوں پر نظر ڈالنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں کا باہم اشتراک ہے.پھر ایک دوسری عمیق اور گہری نظر سے یہ بات پایہ ثبوت پہنچتی ہے جوان تمام مشترک زبانوں کی ماں زبان عربی ہے جس سے یہ تمام زبانیں نکلی ہیں اور پھر ایک کامل اور نہایت محیط تحقیقات سے یعنی جبکہ عربی کی فوق العادت کمالات پر اطلاع ہو یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ یہ زبان نہ صرف اُم الالسنہ ہے بلکہ الہی زبان ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص ارادہ اور الہام سے پہلے انسان کو سکھائی گئی اور کسی انسان کی ایجاد نہیں.اور پھر اس بات کا نتیجہ کہ تمام زبانوں میں سے الہامی زبان صرف عربی ہی ہے یہ ماننا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی اکمل اور اتم وحی نازل ہونے کے لئے صرف عربی زبان ہی مناسبت رکھتی ہے کیونکہ یہ نہایت ضروری ہے کہ کتاب الہی جو تمام قوموں کی ہدایت کے لئے آئی ہے وہ الہامی زبان میں ہی نازل ہو اور ایسی زبان میں ہو جو اُم الالسنہ ہوتا اس کو ہر یک زبان اور اہلِ زبان سے ایک فطری مناسبت ہو اور تا وہ الہامی زبان ہونے کی وجہ سے وہ برکات اپنے اندر رکھتی ہو جو ان چیزوں میں ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے مبارک ہاتھ سے نکلتی ہیں.لیکن چونکہ دوسری زبانیں بھی انسانوں نے عمد ا نہیں بنا ئیں بلکہ وہ تمام اسی پاک زبان سے بحکم رب قدیر نکل کر بگڑ گئی ہیں اور اسی کے ذریات ہیں اس لئے یہ کچھ نا مناسب نہیں تھا کہ ان زبانوں میں بھی خاص خاص قوموں کے لئے الہامی کتابیں نازل ہوں.ہاں یہ ضروری تھا کہ اقومی اور اعلیٰ کتاب عربی زبان میں ہی نازل ہو کیونکہ وہ اُم الالسنه اور اصل الہامی زبان اور خدا تعالیٰ کے منہ سے نکلی ہے اور چونکہ یہ دلیل قرآن نے ہی بتلائی اور قرآن نے ہی دعویٰ کیا اور عربی زبان میں کوئی دوسری کتاب مدعی بھی نہیں اس لئے یہ بداہت قرآن
۹۷۴ کا منجانب اللہ ہونا اور سب کتابوں پر میمن ہونا مانا پڑا ور نہ دوسری کتابیں بھی باطل ٹھہریں گی.لہذا میں نے اسی غرض سے اس کتاب کو لکھا ہے کہ تا اول بعونه تعالی تمام زبانوں کا اشتراک ثابت کروں اور پھر بعد ازاں زبان عربی کے اُم الالسنہ اور اصل الہامی ہونے کے دلائل سُناؤں اور پھر عربی کی اس خصوصیت کی بنا پر کہ کامل اور خالص اور الہامی زبان صرف وہی ہے اس آخری نتیجہ کا قطعی اور یقینی ثبوت دوں کہ الہی کتابوں میں سے اعلیٰ اور ارفع اور اتم اور اکمل اور خاتم الکتب صرف قرآن کریم ہی ہے اور وہی اُتم الکتب ہے جیسا کہ عربی اُم الالسنہ ہے اور اس سلسلۂ تحقیقات میں ہمارے ذمہ تین مرحلوں کا طے کرنا ضروری ہوگا.پہلا مرحلہ زبانوں کا اشتراک ثابت کرنا.دوسرا مرحلہ عربی کا اُم الالسنہ ہونا بپایہ ثبوت پہنچانا.تیسرا مرحلہ عربی کا بوجہ کمالات فوق العادت کے الہامی ثابت کرنا.تنقیح کے تین امروں سے پہلا امر جو اشتراک السنہ ہے اس کا فیصلہ ہماری اس کتاب میں ایسی صفائی سے ہو گیا ہے جو اس سے بڑھ کر کسی اعلیٰ تحقیقات کے لئے کوئی کارروائی متصور نہیں.دوسرا امر تنقیح کے امروں میں سے یہ ہے کہ مشترکہ زبانوں میں سے صرف عربی ہی اُم الالسنہ ہے.چنانچہ اس کی وجوہ بجائے خود مفصل لکھی گئی ہیں.اور ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ عربی کے کمالات خاصہ میں سے یہ ہے کہ وہ فطری نظام اپنے ساتھ رکھتی ہے اور الہی صنعت کی خوبصورتی اسی رنگ سے دکھلاتی ہے جس رنگ سے خدا تعالیٰ کے اور کام دنیا میں پائے جاتے ہیں.اور یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ باقی تمام زبانیں زبان عربی کا ایک ممسوخ شدہ خاکہ ہے جس قدر یہ مبارک زبان ان زبانوں میں اپنی ہیئت میں قائم رہی ہے وہ حصہ تو لعل کی طرح چمکتا ہے اور اپنے حسن دلربا کے ساتھ دلوں پر اثر کرتا ہے.اور جس قدر کوئی زبان بگڑ گئی ہے اسی قدر اس کی نزاکت اور دلکش صورت میں فرق آ گیا ہے.یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہر یک چیز جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے نکلی ہے جب تک وہ اپنی اصلی صورت میں ہے تب تک اس میں خارق عادت شمائل ضرور ہوتے ہیں اور اُس کی نظیر بنانے پر انسان قادر نہیں ہوتا.اور جونہی وہ چیز اپنی اصلی حالت سے گر جاتی ہے تو معا اُس کی شکل اور حسن میں فرق ظاہر ہو جاتا ہے..زبان عربی اس لطیف طبع اور زیرک انسان کی طرح کام دیتی ہے جو مختلف ذرائع سے اپنے مدعا کو سمجھا سکتا ہے.مثلاً ایک نہایت ہوشیار اور زیرک انسان کبھی ابر و یا ناک یا ہاتھ سے وہ کام لے لیتا ہے
۹۷۵ جو زبان نے کرنا تھا.یعنی اس بات پر قادر ہوتا ہے کہ باریک باریک اشارات سے مخاطب کو سمجھاوے.یہی طریق زبان عربی کے عادات میں سے ہے.یعنی یہ زبان کبھی الف لام تعریف سے وہ کام نکالتی ہے جس میں دوسری زبانیں چند لفظوں کی محتاج ہوتی ہیں اور کبھی صرف تنوین سے ایسا کام لیتی ہے جو دوسری زبانیں طولانی فقروں سے بھی پورا نہیں کر سکتیں.ایسا ہی زیر و زبر و پیش بھی الفاظ کا ایسا کام دے جاتے ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی دوسری زبان بغیر چند فضول فقروں کے ان کا مقابلہ کر سکے.اس کے بعض لفظ بھی با وجود بہت چھوٹے ہونے کے ایسے لمبے معنے رکھتے ہیں کہ نہایت حیرت ہوتی ہے کہ یہ معنے کہاں سے نکلے.مثلاً عَرَضْتُ کے یہ معنے ہیں کہ میں مکہ اور مدینہ اور جو ان کے گردد یہات ہیں سب دیکھ آیا.اور طَهْفَلْتُ کے یہ معنے ہیں کہ میں چینے کی روٹی کھاتا ہوں اور ہمیشہ چینے کی روٹی کھانے کا عہد کر چکا ہوں.اور عربی کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اور متفرق زبانوں میں جس قدر خواص ہیں اس میں وہ سب جمع ہیں.پس جبکہ غور کرنے اور پوری پوری خوض اور عمیق تحقیقات کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت زبان عربی تمام زبانوں کے خواص متفرقہ کی جامع ہے تو اس سے بالضرورت ماننا پڑتا ہے کہ تمام زبانیں عربی کی ہی فروعات ہیں.بعض لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اگر تمام زبانوں کی جڑ اور اصل ایک ہی زبان کو تسلیم کیا جائے تو عقل اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ صرف تین چار ہزار برس تک ایسی زبانوں میں جو ایک ہی اصل سے نکلی تھیں اس قدر فرق ظاہر ہو گیا ہو.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض در حقیقت از قبیل بنیاد فاسد بر فاسد ہے ورنہ یہ بات قطعی طور پر طے شدہ نہیں کہ عمر دنیا کی صرف چار یا پانچ ہزار برس تک گذری ہے اور پہلے اس سے زمین و آسمان کا نام ونشان نہ تھا.بلکہ نظر عمیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا ایک مدت دراز سے آباد ہے.ماسوا اس کے اختلاف السنہ کے لئے صرف باہمی بعد زماں یا مکاں سبب نہیں بلکہ اس کا ایک قوی سبب یہ بھی ہے کہ خط استوا کے قُرب یا بعد اور ستاروں کی ایک خاص وضع کی تاثیر اور دوسرے نامعلوم اسباب سے ہر یک قسم کی زمین اپنے باشندوں کی فطرت کو ایک خاص حلق اور لہجہ اور صورت تلفظ کی طرف میلان دیتی ہے اور وہی محرک رفتہ رفتہ ایک خاص وضع کلام کی طرف لے آتا ہے.اسی وجہ سے دیکھا جاتا ہے کہ بعض ملک کے لوگ حرف زا بولنے پر قادر نہیں ہو سکتے اور بعض را بولنے پر
قادر نہیں ہو سکتے جیسے انسانوں میں ملکوں کے اختلاف سے رنگوں کا اختلاف، عمروں کا اختلاف، اخلاق کا اختلاف، امراض کا اختلاف ایک ضروری امر ہے.ایسا ہی یہ اختلاف بھی ضرور ہے.کیونکہ انہیں مؤثرات کے نیچے زبانوں کا بھی اختلاف ہے.پس یہ خیال ایک دھوکا ہے کہ یہ اختلاف کیوں ہزا رہا برس سے ایک ہی حد تک رہا.اس سے آگے نہ بڑھا.کیونکہ مؤثرات نے جس قدر اختلاف کو چاہا اسی قدر ہوا اس سے زیادہ کیونکر ہو سکتا.یہ ایسا ہی سوال ہے جیسا کہ کوئی کہے کہ اختلاف امکنہ میں رنگوں اور عمروں اور مرضوں اور اخلاق کا اختلاف ہو گیا.یہ کیوں نہ ہوا کہ کسی جگہ ایک آنکھ کی جگہ دس آنکھ ہو جاتیں.سو ایسے وہم کا بجز اس کے ہم کیا جواب دے سکتے ہیں کہ یہ اختلاف یوں ہی بے قاعدہ نہیں تھا.بلکہ ایک طبیعی قاعدہ کے نیچے تھا.سو جس قدر قاعدہ نے تقاضا کیا اُسی قدر اختلاف بھی ہوا.غرض جو کچھ مؤثرات سماوی ارضی کی وجہ سے انسان کی بناوٹ خلق یا خیالات کی طبیعی رفتار میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے وہ تبدیلی بالضرورت سلسلہ کلمات میں تبدیلی ڈالتی ہے.لہذا وہ طبعا اختلاف پیدا کرنے کے لئے مجبور ہوتی ہیں.اور اگر کوئی دوسری زبان کا لفظ ان کے زبان میں پہنچے تو وہ عمداً اس میں بہت کچھ تبدیلی کر دیتے ہیں.پس یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی دلیل اس بات پر ہے کہ وہ اپنی خلقت کے لحاظ سے جو مؤثرات ارضی سماوی سے متاثر ہے فطرتا تبدیل کے محتاج ہیں.ماسوا اس کے عیسائیوں اور یہودیوں کو تو ضرور یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ اُم الالسنہ عربی ہے کیونکہ توریت کی نص صریح سے یہ بات ثابت ہے کہ ابتداء میں بولی ایک ہی تھی.اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ زبان عربی جو اُم الالسنہ قرار دی گئی ہے اس کی نسبت تمام زبانوں کی نسبت مساوی نہیں ہے بلکہ بعض سے کم اور بعض سے زیادہ ہے.مثلاً عبری زبان پر ادنیٰ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تھوڑے سے تغیر کے بعد عربی زبان ہی ہے لیکن سنسکرت یا یورپ کی زبانوں کے ساتھ وہ تعلق پایا نہیں جاتا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ گو عبری اور دوسری شاخیں اس کی درحقیقت عربی کے تھوڑے سے تغیر سے پیدا ہوئی ہیں اور سنسکرت وغیرہ دنیا کی کل زبانیں تغیرات بعیدہ سے نکلی ہیں تاہم کامل غور کرنے اور قواعد پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ان زبانوں کے کلمات اور الفاظ مفردہ عربی سے ہی بدلا کر طرح طرح کے قالبوں میں لائے گئے ہیں.اور عربی کے فضائل خاصہ سے جو اسی زبان سے خصوصیت رکھتے ہیں جن کی ہم انشا اللہ اپنے اپنے محل پر تشریح کریں گے اور جو اس کے اُم الالسنہ اور کامل اور الہامی زبان ہونے پر قطعی دلیل ہے
۹۷۷ پانچ خوبیاں ہیں.جو مفصلہ ذیل ہیں :.پہلی خوبی.عربی کے مفردات کا نظام کامل ہے.یعنی انسانی ضرورتوں کو وہ مفردات پوری مدد دیتے ہیں.دوسرے لغات اس سے بے بہرہ ہیں.دوسری خوبی عربی میں اسماء باری و اسماء ارکان عالم و نباتات و حیوانات و جمادات و اعضائے انسان اپنی اپنی وجہ تسمیہ میں بڑے بڑے علوم حکمیہ پر مشتمل ہیں.دوسری زبانیں ہرگز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.تیسری خوبی عربی کا اطراد مواد الفاظ بھی پورا نظام رکھتا ہے اور اس نظام کا دائرہ تمام افعال اور اسماء کو جو ایک ہی مادہ کے ہیں.ایک سلسلہ حکمیہ میں داخل کر کے اُن کے باہمی تعلقات دکھلاتا ہے اور یہ بات اس کمال کے ساتھ دوسری زبانوں میں پائی نہیں جاتی.چوتھی خوبی عربی کے تراکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں یعنی زبان عربی الف لام اور تنو مینوں اور تقدیم تاخیر سے وہ کام نکالتی ہے جس میں دوسری زبانیں کئی فقروں کے جوڑنے کی محتاج ہوتی ہیں.پانچویں خوبی عربی زبان ایسے مفردات اور تراکیب اپنے ساتھ رکھتی ہے جو انسان کے تمام باریک در بار یک ضمائر اور خیالات کا نقشہ کھینچنے کے لئے کامل وسائل ہیں.اب چونکہ یہ بھاری ثبوت ہمارے ذمہ ہے کہ ہم عربی کے مفردات کا ایسا نظام کامل ثابت کریں جو دوسری کتا بیں اس کے مقابلہ سے عاجز رہیں اور نیز اس کی باقی چار خوبیوں کو بھی اسی طرح بپایہ ثبوت پہنچاویں.لہذا ہمارے لئے ضروری ہوا کہ ہم ان مباحث کو عربی زبان میں ہی لکھیں.کیونکہ ہمارا یہ فرض ہے کہ یہ تمام خوبیاں مخالف کو دکھلا دیں اور اگر وہ کسی اور زبان کو الہامی اور اُم الالسنہ قرار دیتا ہے تو اس سے ان خوبیوں کا مطالبہ کریں..اگر ہم اس دعوے میں کا ذب ہیں کہ عربی میں وہ پانچ فضائل خصوصیت کے ساتھ موجود ہیں جو ہم لکھ چکے ہیں اور کوئی سنسکرت دان وغیرہ اس بات کو ثابت کر سکتا ہے کہ ان کی زبان بھی ان فضائل میں عربی کی شریک و مساوی ہے یا اس پر غالب ہے تو ہم اس کو پانچ ہزار روپیہ بلا توقف دینے کے لئے قطعی اور حتمی وعدہ کرتے ہیں..اس وقت ہم غیر زبان والوں سے کیا مانگتے ہیں.صرف یہی کہ وہ یہ خوبیاں جو ہم نے زبان عربی میں ثابت کی ہیں اپنی زبان میں ثابت کر کے دکھلاویں.مثلاً یہ بات ظاہر ہے کہ کامل زبان کے لئے مفردات کا کامل نظام ضروری ہے.یعنی یہ واجبات سے ہے کہ کامل زبان جو الہامی اور ام الالسنہ کہلاتی ہے
۹۷۸ انسانی خیالات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کے وقت پورا ذخیرہ مفردات کا اپنے اندر رکھتی ہو ایسے طور سے کہ جب انسان مثلاً ایک توحید کے مضمون کے متعلق یا شرک کے مضمون کے متعلق یا حقوق اللہ کے متعلق یا حقوق عباد کے متعلق یا عقائد دینیہ کے متعلق یا ان کے دلائل کے متعلق یا محبت اور مخالطت کے متعلق یا بغض اور نفرت کے متعلق یا خدا تعالیٰ کی مدح اور ثناء اور اس کے اسماء مطہرہ کے متعلق یا مذاہب باطلہ کے رڈ کے متعلق یا فقص اور سوانح کے متعلق یا احکام اور حدود کے متعلق یا علم معاد کے متعلق یا تجارت اور زراعت اور نوکری کے متعلق یا نجوم اور ہیئت کے متعلق یا طبعی اور طبابت اور منطق وغیرہ کے متعلق کوئی مبسوط کلام کرنا چاہے تو اس زبان کے مفردات اس کو ایسے طور سے مدد دے سکیں کہ ہر یک خیال کے مقابل پر جو دل میں پیدا ہو ایک لفظ مفرد موجود ہو تا یہ امر اس بات پر دلیل ہو کہ جس ذات کامل نے انسان اور اس کے خیالات کو پیدا کیا اُسی نے ان خیالات کے ادا کرنے کے لئے قدیم سے وہ مفردات بھی پیدا کر دیے.اور ہمارا دلی انصاف اس بات کے قبول کرنے کے لئے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اگر یہ خصوصیت کسی زبان میں پائی جائے کہ وہ زبان انسانی خیالات کے قد و قامت کے موافق مفردات کا خوبصورت پیرا یہ اپنے اندر طیار رکھتی ہے اور ہر یک باریک فرق جو افعال میں پایا جاتا ہے وہی باریک فرق اقوال کے ذریعہ سے دکھاتی ہے اور اس کے مفردات خیالات کے تمام حاجتوں کے متکفل ہیں تو وہ زبان بلاشبہ الہامی ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو اس نے انسان کو ہزار ہا طور کے خیالات ظاہر کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا ہے.پس ضرور تھا کہ انہیں خیالات کے اندازہ کے موافق اس کو ذخیرہ قولی مفردات بھی دیا جاتا تا خدا تعالیٰ کا قول اور فعل ایک ہی مرتبہ پر ہولیکن حاجت کے وقت ترکیب سے کام لینا یہ بات کسی خاص زبان سے خصوصیت نہیں رکھتی.ہزار ہا زبانوں پر یہ عام آفت اور نقص در پیش ہے کہ وہ مفردات کی جگہ مرکبات سے کام لیتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ضرورتوں کے وقت وہ مرکبات انسانوں نے خود بنالئے ہیں.پس جو زبان ان آفتوں سے محفوظ ہوگی اور اپنی ذات میں مفردات سے کام نکالنے کی خصوصیت رکھے گی اور اپنے اقوال کو خدا تعالیٰ کے فعل کے مطابق یعنی خیالات کے جوشوں کے مطابق اور ان کے ہموزن دکھلائے گی بلاشبہ وہ ایک خارق العادات مرتبہ پر ہو کر اور تمام زبانوں کی نسبت ایک خصوصیت پیدا کر کے اس لائق ہو جائے گی کہ اس کو اصل الہامی زبان اور فطرت اللہ کہا جائے اور جو زبان اس مرتبہ عالیہ سے مخصوص ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کے منہ سے نکلی اور فوق العادات کمالات سے مختص اور اُم الالسنہ ہے اس کی نسبت یہ کہنا ایمانداری کا فرض ہوگا
۹۷۹ کہ وہی ایک زبان ہے جو حقیقی طور پر اس لائق ٹھہرائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کا اعلیٰ اور اکمل الہام اسی میں نازل ہو اور دوسرے الہام اس الہام کی ایسی ہی فرع ہیں جیسا کہ دوسری بولیاں اس بولی کی فرع ہیں.الہذا ہم اس بحث کے بعد اس بحث کو لکھیں گے کہ وہ حقیقی اور کامل اور اتم اور اکمل وحی جو دنیا میں آنے والی تھی وہ صرف قرآن شریف ہے.اور انہیں مقدمات سے اس نتیجہ کو بہ تفصیل ظاہر کریں گے کہ عربی کو ام الالسنہ اور الہامی ماننے سے نہ صرف یہی ماننا پڑتا ہے کہ قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے بلکہ یہ بھی ضروری طور پر ماننا پڑتا ہے کہ صرف قرآن ہی ہے جس کو حقیقی وحی اور اکمل اور اتم اور خاتم الکتب کہنا چاہئے اور اب ہم مفردات کا نظام دکھلانے کے لئے اور نیز دوسری خوبیوں کے لحاظ سے اس کتاب کا عربی حصہ شروع کریں گے.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيم منن الرحمن.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۲۸ تا۱۴۲) اس نہایت مفید قاعدہ کا لکھنا واجبات سے ہے کہ صحیفہ قدرت پر نظر ڈالنے سے یہ بات ضروری طور پر ماننی پڑتی ہے کہ جو چیزیں خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پیدا ہوئیں یا اس سے صادر ہوئیں ان کی اوّل علامت یہی ہے کہ اپنے اپنے مرتبہ کے موافق خدا شناسی کے راہوں کے خادم ہوں.اور اپنے وجود کی اصلی غرض بزبانِ قال یا حال یہی ظاہر کریں کہ وہ معرفت باری کا ذریعہ اور اسی کے راہ کے خادم ہیں.کیونکہ تمام مخلوقات کی افراد پر نظر غور ڈالنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کائنات کا تمام سلسلہ انواع اقسام کے پیرائیوں میں اسی کام میں لگا ہوا ہے کہ تا وہ خدا تعالیٰ کے پہچاننے اور اس کی راہوں کے جاننے میں ایک ذریعہ ہو پس چونکہ عربی زبان خدا تعالیٰ سے صادر ہوئی اور اس کے منہ سے نکلی ہے لہذا ضرور تھا کہ اس میں بھی یہ علامت موجود ہوتا یقینی طور پر شناخت کیا جائے کہ وہ فی الواقعہ ان چیزوں میں سے ہے کہ جو بغیر ذریعہ انسانی کوششوں کے محض خدائے تعالیٰ سے ظہور پذیر ہوئی ہیں.سو الحمد لله و المنه کہ عربی زبان میں یہ علامت نہایت بدیہی اور صاف طور پر پائی جاتی ہے.اور جیسا کہ انسان کی اور قویٰ کی نسبت مضمون آیت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ا ثابت ومتحقق ہے.اسی طرح عربی زبان میں جو انسان کی اصلی زبان اور اُس کی جز وخلقت ہے یہی حقیقت ثابت ہے.اس میں کیا شک ہے کہ انسان کی خلقت اُسی حالت میں اتم اور اکمل ٹھہر سکتی ہے کہ جب کلام کی خلقت بھی اس میں داخل ہو کیونکہ وہ چیز جو انسانیت کے جوہر کی چہرہ نما ہے وہ کلام ہی ہے اور کچھ مبالغہ نہ ہوگا اگر ہم یہ کہیں کہ انسانیت سے مراد یہی نطق اپنے تمام لوازم کے ساتھ ہے.پس خدا تعالی کا یہ فرمانا کہ الذريت: ۵۷
۹۸۰ میں نے انسان کو اپنی عبادت اور معرفت کے لئے پیدا کیا ہے در حقیقت دوسرے لفظوں میں یہ بیان ہے کہ میں نے انسانی حقیقت کو جو نطق اور کلام ہے مع اس کے تمام قومی اور افعال کے جو اُس کے زیر حکم چلتے ہیں اپنے لئے بنایا ہے.کیونکہ جب ہم سوچتے ہیں کہ انسان کیا چیز ہے تو صریح یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک جاندار ہے کہ جو اپنی کلام سے دوسرے جانوروں سے تمیز کھلی رکھتا ہے.پس اس سے ثابت ہوا کہ کلام انسان کی اصل حقیقت ہے اور باقی قومی اس حقیقت کی تابع اور خادم ہیں.پس اگر یہ کہیں کہ انسان کا کلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ انسان کی انسانیت خدا تعالیٰ کی طرف نہیں لیکن ظاہر ہے کہ خدا انسان کا خالق ہے اس لئے زبان کا معلم بھی وہی ہے اور اس جھگڑے کے فیصلہ کے لئے کہ وہ کس زبان کا معلم ہے ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ اُس کی طرف سے وہی زبان ہے کہ جو بموجب منطوق وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ے اسی طرح معرفت الہی کی خادم ہو سکتی ہے جیسا کہ انسان کے وجود کی دوسری بناوٹ اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ ان صفات سے موصوف صرف عربی ہی ہے.اور اس کی خدمت یہ ہے کہ وہ معرفتِ باری تک پہنچانے کے لئے اپنے اندر ایک ایسی طاقت رکھتی ہے جو الہیات کے ایک معنوی تقسیم کو جو قانون قدرت میں پائی جاتی ہے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے مفردات میں دکھاتی ہے.اور صفات الہیہ کے نازک اور باریک فرقوں کو جو صحیفہ فطرت میں نمودار ہیں اور ایسا ہی توحید کے دلائل کو جو اسی صحیفہ سے مترشح ہیں اور خدا تعالیٰ کے انواع اقسام کے ارادوں کو جو اس کے بندوں سے متعلق اور صحیفہ قدرت میں نمایاں ہیں ایسے طور سے ظاہر کر دیتی ہے کہ گویا اُن کا ایک نہایت لطیف نقشہ کھینچ کر آگے رکھ دیتی ہے اور ان دقیق امتیازوں کو جو خدا تعالیٰ کے اسماء اور صفات اور افعال اور ارادوں میں واقع ہیں جن کی شہادت اس کا قانونِ قدرت دے رہا ہے ایسی صفائی سے دکھا دیتی ہے کہ گویا ان کی تصویر کو آنکھوں کے سامنے لے آتی ہے.چنانچہ یہ بات بہداہت معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے صفات اور افعال اور ارادوں کی چہرہ نمائی اور نیز اپنے فعل اور قول کے تطبیق کے لئے زبان عربی کو ایک متکفل خادم پیدا کیا ہے اور ازل سے یہی چاہا ہے کہ الہیات کے ہر مکتوم اور مقفل کے لئے یہی زبان کنجی ہو اور جب ہم اس نکتہ تک پہنچتے ہیں اور یہ عجیب عظمت اور خصوصیت عربی کی ہم پر کھلتی ہے تو دوسری تمام زبانیں سخت تاریکی اور نقصان میں پڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں کیونکہ جس طرح زبان عربی صفات الہیہ اور اس کی تمام تعلیموں کے لئے مرایا ل الذريت:۵۷
۹۸۱ متقابلہ کی طرح واقع ہے اور الہیات کے قدرتی نقشہ کا ایک سیدھا انعکاسی خط عربی میں پڑا ہوا دکھائی دیتا ہے.یہ صورت کسی دوسری زبان میں ہرگز موجود نہیں اور جب ہم عقل سلیم اور فہم مستقیم سے صفات الہیہ کی اس تقسیم پر نظر ڈالتے ہیں جو قدیم سے اور ازل سے صحیفہ عالم میں قدرتی طور پر پائی جاتی ہے تو وہی تقسیم عربی کے مفردات میں ہمیں ملتی ہے.مثلاً جب ہم غور کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا رحم عقلی تحقیق کی رو سے اپنی ابتدائی تقسیم میں کتنے حصوں پر مشتمل ہو سکتا ہے تو اس قانون قدرت کو دیکھ کر جو ہماری نظر کے سامنے ہے صاف طور پر ہمیں سمجھ آ جاتا ہے کہ وہ رحم دو قسم پر ہے یعنی قبل از عمل و بعد از عمل کیونکہ بندہ پروری کا نظام بآواز بلند گواہی دے رہا ہے کہ رحمت الہی نے دو قسم سے اپنی ابتدائی تقسیم کے لحاظ سے بنی آدم پر ظہور و بروز فرمایا ہے.اوّل وہ رحمت جو بغیر وجود عمل کسی عامل کے بندوں کے ساتھ شامل ہوئی.جیسا کہ زمین اور آسمان اور شمس اور قمر اور ستارے اور پانی اور ہوا اور آگ اور وہ تمام نعمتیں جن پر انسان کی بقا اور حیات موقوف ہے کیونکہ بلا شبہ یہ تمام چیزیں انسان کے لئے رحمت ہیں جو بغیر کسی استحقاق کے محض فضل اور احسان کے طور سے اس کو عطا ہوئے ہیں اور یہ ایسا فیض خاص ہے جو انسان کے سوال کو بھی اس میں دخل نہیں بلکہ اس کے وجود سے بھی پہلے ہے.....دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جو انسان کے اعمال حسنہ پر مترتب ہوتی ہے کہ جب وہ تضرع سے دعا کرتا ہے تو قبول کی جاتی ہے اور جب وہ محنت سے تخم ریزی کرتا ہے.تو رحمت الہی اس تخم کو بڑھاتی ہے یہاں تک کہ ایک بڑا ذخیرہ اناج کا اس سے پیدا ہوتا ہے.اسی طرح اگر غور سے دیکھو تو ہمارے ہر یک عمل صالح کے ساتھ خواہ وہ دین سے متعلق ہے یا دنیا سے رحمت الہی لگی ہوئی ہے اور جب ہم ان قوانین کے لحاظ سے جو الہی سنتوں میں داخل ہیں کوئی محنت دنیا یا دین کے متعلق کرتے ہیں تو فی الفور رحمت الہی ہمارے شامل حال ہو جاتی ہے اور ہماری محنتوں کو سرسبز کر دیتی ہے.یہ دونوں رحمتیں اس قسم کی ہیں کہ ہم اُن کے بغیر جی ہی نہیں سکتے کیا ان کے وجود میں کسی کو کلام ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو اجلی بدیہیات میں سے ہیں جن کے ساتھ ہماری زندگی کا تمام نظام چل رہا ہے.پس جبکہ ثابت ہو گیا کہ ہماری تربیت اور تحمیل کے لئے دو رحمتوں کے دو چشمے قادر کریم نے جاری کر رکھے ہیں اور وہ اس کی دو صفتیں ہیں جو ہمارے درخت وجود کی آبپاشی کے لئے دورنگوں میں ظاہر ہوئے ہیں.تو اب دیکھنا چاہئے کہ وہ دو چشمے زبان عربی میں منعکس ہو کر کس کس نام سے پکارے گئے ہیں.پس واضح ہو کہ پہلی قسم کی رحمت کے لحاظ.
۹۸۲ سے زبان عربی میں خدا تعالیٰ کو رحمن کہتے ہیں اور دوسری قسم کی رحمت کے لحاظ سے زبان موصوف میں اس کا نام رحیم ہے.اسی خوبی کے دکھلانے کے لئے ہم عربی خطبہ کے پہلی ہی سطر میں رحمان کا لفظ لائے ہیں.اب اس نمونہ سے دیکھ لو کہ چونکہ یہ رحم کی صفت اپنی ابتدائے تقسیم کے لحاظ سے الہی قانون قدرت کے دو قسم پر مشتمل تھی لہذا اس کے لئے زبان عربی میں دو مفرد لفظ موجود ہیں اور یہ قاعدہ طالب حق کے لئے نہایت مفید ہو گا کہ ہمیشہ عربی کے باریک فرقوں کے پہچاننے کے لئے صفات اور افعال الہیہ کو جو صحیفہ قدرت میں نمایاں ہیں معیار قرار دیا جائے.اور ان کے اقسام کو جو قانون قدرت سے ظاہر ہوں عربی کے مفردات میں ڈھونڈا جائے.اور جہاں کہیں عربی کے ایسے مترادف لفظوں کا باہمی فرق ظاہر کرنا مقصود ہو جو صفات یا افعالِ الہی کے متعلق ہیں تو صفات یا افعال الہی کی اس تقسیم کی طرف متوجہ ہوں جو نظام قانون قدرت دکھلا رہا ہے.کیونکہ عربی کی اصل غرض النہیات کی خدمت ہے.جیسا کہ انسان رہا کے وجود کی اصل غرض معرفت باری تعالیٰ ہے اور ہر یک چیز جس غرض کے لئے پیدا کی گئی ہے.اُسی غرض کو سامنے رکھ کر اس کے عقدے کھل سکتے ہیں اور اس کے جو ہر معلوم ہو سکتے ہیں.مثلاً بیل صرف کل بہ رانی اور بارکشی کے لئے پیدا کیا گیا ہے پس اگر اس غرض کو نظر انداز کر کے اس سے وہ کام لینا چاہیں جو شکاری کتوں سے لیا جاتا ہے تو بے شک وہ ایسے کام سے عاجز آ جائے گا اور نہایت نکما اور ذلیل ثابت ہو گا.لیکن اگر اصلی کام کے ساتھ اُس کی آزمائش کریں تو وہ بہت جلد اپنے وجود کی نسبت ثابت کرے گا کہ سلسلہ وسائل معیشت دنیوی کا ایک بھاری بوجھ اس کے سر پر ہے.غرض ہر یک چیز کا ہنر اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب اس کا اصلی کام اس سے لیا جائے.سوعربی کے ظہور اور بروز کا اصلی مقصود الہیات کا روشن چہرہ دکھلانا ہے.مگر چونکہ اس نہایت باریک اور دقیق کام کا ٹھیک ٹھیک انجام دینا اور غلطی سے محفوظ رہنا انسانی طاقتوں سے بڑھ کر تھا.لہذا خداوند کریم اور رحیم نے قرآن کریم کو عربی زبان کی بلاغت و فصاحت دکھلانے کے لئے اور مفردات کی نازک فرق اور مرکبات کا خارق عادت اعجاز ظاہر کرنے کے لئے بطور ایسے اعجاز کے بھیجا کہ تمام گردنیں اس کی طرف جھک گئیں اور عربی کی بلاغت کو اس کے مفردات اور مرکبات کی نسبت جو کچھ قرآن نے ظاہر کیا اس کو اس وقت کے اعلیٰ درجہ کے زبان دانوں نے نہ صرف قبول ہی کیا بلکہ مقابلہ سے عاجز آ کر یہ بھی ثابت کر دیا کہ انسانی قوتیں ان حقائق اور معارف کے بیان کرنے اور زبان کا سچا اور حقیقی حسن دکھلانے سے عاجز ہیں.اسی مقدس کلام سے رحمان اور رحیم کا بھی فرق معلوم ہوا.جس کو ہم نے بطور نمونہ خطبہ مذکورہ میں لکھا ہے.اور یہ
۹۸۳ بات ظاہر ہے کہ ہر یک زبان میں بہت سے مترادف الفاظ پائے جاتے ہیں.لیکن جب تک آنکھ کھول کر اُن کے باہمی فرقوں پر اطلاع نہ پاویں اور وہ الفاظ علم الہی اور دینی تعلیم میں سے نہ ہوں تب تک ان کو علمی مد میں شمار نہیں کر سکتے.مشتمل یہ بات بھی یاد رہے کہ انسان اپنی طرف سے ایسے مفردات پیدا نہیں کر سکتا.ہاں اگر قدرت قادر سے پیدا شدہ ہیں تو ان میں غور کر کے اُن کے باریک فرق اور محل استعمال معلوم کر سکتا ہے.مثلاً صرف اور نحو کے بانیوں کو دیکھو کہ انہوں نے کوئی نئی بات نہیں نکالی اور نہ نئے قواعد بنا کر کسی کو اُن پر چلنے کے لئے مجبور کیا بلکہ اسی طبیعی بولی کو ایک بیدار نظر کے ساتھ دیکھ کر تاڑ گئے کہ یہ بول چال قواعد کے اندر آ سکتی ہے.تب مشکلات کے سہل کرنے کے لئے قواعد کی بنا ڈالی.سوقر آن کریم نے ہر یک لفظ کو اپنے محل پر رکھ کر دنیا کو دکھلا دیا کہ عربی کے مفردات کس کس محل پر استعمال پاتے ہیں.اور کیسے وہ الہیات کے خادم اور نہایت دقیق امتیاز با ہمی رکھتے ہیں.اب ہم اسی پر اکتفاء کر کے ایک اور لفظ کی چند خوبیاں بیان کرتے ہیں.سو وہ لفظ رب کا ہے جو قرآنی الفاظ میں سے ہم نے لیا ہے.یہ لفظ قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ اور پہلی ہی آیت میں آتا ہے.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ ا لسان العرب اور تاج العروس میں جو لغت کی نہایت معتبر کتابیں ہیں لکھا ہے کہ زبان عرب میں رب کا لفظ سات معنوں پر ہے.اور وہ یہ ہیں.مالک ، سید، مدیر، مربی، قیم ، منعلم ، متمم.چنانچہ ان سات معنوں میں سے تین معنی خدا تعالیٰ کی ذاتی عظمت پر دلالت کرتے ہیں.منجملہ ان کے مالک ہے اور مالک لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامہ ہو اور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لا سکتا ہو اور بلا اشتراک غیر اس پر حق رکھتا ہو اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خدا تعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پاسکتا کیونکہ قبضہ تا مہ اور تصرف تام اور حقوق تامہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے لئے مسلم نہیں.اور سید لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کے تابع ایک ایسا سوادِ اعظم ہو جو اپنے دلی جوش اور اپنی طبعی اطاعت سے اس کے حلقہ بگوش ہوں.سو بادشاہ اور سید میں یہ فرق ہے کہ بادشاہ سیاست قہری اور اپنے قوانین کی سختی سے لوگوں کو مطیع بناتا ہے اور سید کے تابعین اپنی دلی محبت اور دلی جوش اور دلی تحریک الفاتحة : ٢
۹۸۴ سے خود بخو د متابعت کرتے ہیں اور سچی محبت سے اس کو سید نا کر کے پکارتے ہیں اور ایسی متابعت بادشاہ کی اس وقت کی جاتی ہے کہ جب وہ بھی لوگوں کی نظر میں سید قرار پاوے.غرض سید کا لفظ بھی حقیقی طور پر بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خدا تعالیٰ کے کسی دوسرے پر بولا نہیں جاتا.کیونکہ حقیقی اور واقعی جوش سے اطاعت جس کے ساتھ کوئی شائبہ اغراض نفسانیہ کا نہ ہو بجز خدا تعالیٰ کے کسی کے لئے ممکن نہیں.وہی ایک ہے جس کی سچی اطاعت روحیں کرتی ہیں کیونکہ وہ ان کی پیدائش کا حقیقی مبدا ہے اس لئے طبعاً ہر یک روح اس کو سجدہ کرتی ہے.بت پرست اور انسان پرست بھی اس کی اطاعت کے لئے ایسا ہی جوش رکھتے ہیں جیسا کہ ایک موحد راستباز.مگر انہوں نے اپنی غلطی سے اور قصور طلب سے اس زندگی کے بچے چشمے کو شناخت نہیں کیا بلکہ نابینائی کی وجہ سے اس اندرونی جوش کو غیر محل پر وضع کر دیا.تب کسی نے پتھروں کو اور کسی نے رامچندر کو اور کسی نے کرشن کو اور کسی نے نعوذ باللہ ابن مریم کو خدا بنا لیا لیکن اس دھوکہ سے بنایا کہ شائد وہ جو مطلوب ہے یہ وہی ہے.سو یہ لوگ مخلوق کو حق اللہ دے کر ہلاک ہو گئے.ایسا ہی اس حقیقی محبوب اور سید کی روحانی طلب میں ہوا پرستوں نے دھو کے کھائے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں بھی ایک محبوب اور ایک حقیقی سید کی طلب تھی مگر انہوں نے اپنے دلی خیالات کو اچھی طرح شناخت نہ کر کے یہ خیال کیا کہ وہ حقیقی محبوب اور سید جس کو روھیں طلب کر رہی ہیں اور جس کی اطاعت کے لئے جانیں اچھل رہی ہیں وہ دنیا کے مال اور دنیا کے املاک اور دنیا کی لذات ہی ہیں.مگر یہ اُن کی غلطی تھی بلکہ روحانی خواہشوں کا محرک اور پاک جذبات کا باعث وہی ایک ذات ہے جس نے فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ لے یعنی جن اور انس کی پیدائش اور ان کی تمام قویٰ کا میں ہی مقصود ہوں.وہ اسی لئے میں نے پیدا کئے کہ تا مجھے پہچانیں اور میری عبادت کریں.سو اُس نے اس آیت میں اشارہ کیا کہ جن و انس کی خلقت میں اُس کی طلب و معرفت اور اطاعت کا مادہ رکھا گیا ہے.اگر انسان میں یہ مادہ نہ ہوتا تو نہ دنیا میں ہوا پرستی ہوتی نہ بت پرستی نہ انسان پرستی کیونکہ ہر یک خطا صواب کی تلاش میں پیدا ہوا ہے.غرض سیادت حقیقی اسی ذات کے لئے مسلّم ہے اور وہی واقعی طور پر سید ہے.اور منجملہ ان تین ناموں کے جو خدا تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں مدبر بھی ہے اور تدبیر کے معنے ہیں کہ کسی کام کے کرنے کے وقت تمام ایسا سلسلہ نظر کے سامنے حاضر ہو جو گذشتہ واقعات کے الدريت : ۵۷
۹۸۵ متعلق یا آئندہ نتائج کے متعلق ہے اور اس سلسلہ کے لحاظ سے وَضْعُ شَيْءٍ فِي مَحَلِّهِ اور کوئی کارروائی حکمت عملی سے باہر نہ ہو.اور یہ نام بھی اپنے حقیقی معنوں کی رُو سے بجز خدا تعالیٰ کے کسی غیر پر اطلاق نہیں پاسکتا.کیونکہ کامل تدبیر غیب دانی پر موقوف ہے اور وہ بجز خدا تعالیٰ کے کسی کے لئے مسلم نہیں.اور چار باقی نام یعنی مُرَبِّى قَيِّمُ.مُنْعِمُ.مُتَمِّم خدا تعالیٰ کے ان فیوض پر دلالت کرتے ہیں جو بلحاظ اس کی کامل ملکیت اور کامل سیادت اور کامل تدبیر کے اس کے بندوں پر جاری ہیں.چنانچہ مربّی کا لفظ بظاہر معنے پرورش کرنے والے کو کہتے ہیں.اور کامل طور پر تربیت کی حقیقت یہ ہے کہ جس قدر خلقت انسان کے شعبے باعتبار جسم اور رُوح اور تمام طاقتوں اور قوتوں کے پائے جاتے ہیں ان تمام شاخوں کی پرورش ہو اور جہاں تک بشریت کی جسمانی اور روحانی ترقیات اس پرورش کے کمال کو چاہتے ہیں ان تمام مراتب تک پرورش کا سلسلہ ممتد ہو.ایسا ہی جس نقطہ سے بشریت کا نام اور اسم یا اس کے مبادی شروع ہوتے ہیں اور جہاں سے بشری نقش یا کسی دوسری مخلوق کا نقش وجود عدم سے ہستی کی طرف حرکت کرتا ہے اس اظہار اور ابراز کا نام بھی پرورش ہے.پس اس سے معلوم ہوا کہ لغت عرب کے رُو سے ربوبیت کے معنے نہایت ہی وسیع ہیں اور عدم کے نقطہ سے مخلوق کے کمال تام کے نقطہ تک ربوبیت کا لفظ ہی اطلاق پاتا ہے.اور خالق وغیرہ الفاظ رب کے اسم کی فرع ہیں.اور قیم کے معنے ہیں نظام کو محفوظ رکھنے والا اور منعم کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک قسم کا انعام اکرام جو انسان یا کوئی دوسری مخلوق اپنی استعداد کی رو سے پاسکتی ہے اور بالطبع اس نعمت کے خواہاں ہے وہ انعام اس کو عطا کرے تاہر یک مخلوق اپنے کمال تام کو پہنچ جائے جیسا کہ اللہ جل شانہ ایک جگہ فرماتا ہے.رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْ خَلَقَهُ ثُمَّ هَدی اے یعنی وہ خدا جس نے ہر یک چیز کو اس کے مناسب حال کمال خلقت بخشا اور پھر اس کو دوسرے کمالات مطلوبہ کے لئے رہنمائی کی.پس یہ انعام ہے کہ ہر یک چیز کو اول اس کے وجود کی رو سے وہ تمام قومی وغیرہ عنایت ہوں جن کی وہ چیز محتاج ہے پھر اس کے حالات مترقبہ کے حصول کے لئے اس کو راہیں دکھائی جائیں اور متمم کے یہ معنی ہیں کہ سلسلہ فیض کو کسی پہلو سے بھی ناقص نہ چھوڑا جائے اور ہر ایک پہلو سے اس کو کمال تک پہنچایا جائے.سورت کا اسم جو قرآن کریم میں آیا ہے جس کو ہم اقتباس کے طور پر اس خطبہ کے اول میں لائے ہیں ان وسیع معنوں پر مشتمل ہے جن کو ہم نے بطور اختصار اس مضمون میں ذکر کیا ہے.طه: ۵۱
۹۸۶ اب ہم نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ ایک نا سمجھ انگریز عیسائی نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ اسلام پر عیسائی مذہب کو یہ فضیلت ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کا نام باپ بھی آیا ہے اور یہ نام نہایت پیارا اور دلکش ہے.اور قرآن میں یہ نام نہیں آیا.مگر ہمیں تعجب ہے کہ اس معترض نے اس تحریر کے وقت پر یہ خیال نہیں کیا کہ لغت نے کہاں تک اس لفظ کی عزت اور عظمت ظاہر کی ہے.کیونکہ ہر ایک لفظ کو حقیقی عزت اور بزرگی لغت سے ہی ملتی ہے اور کسی انسان کو یہ اختیار نہیں کہ اپنی طرف سے کسی لفظ کو وہ عزت دے جو لغت اس کو دے نہیں سکی.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ کا کلام بھی لغت کے التزام سے باہر نہیں جاتا اور تمام اہل عقل اور نقل کے اتفاق سے کسی لفظ کی عزت اور عظمت ظاہر کرنے کے وقت اول لغت کی طرف رجوع کرنا چاہئے کہ اس زبان نے جس زبان کا وہ لفظ ہے یہ خلعت کہاں تک اس کو عطا کی ہے.اب اس قاعدہ کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر جب سوچیں کہ اب یعنی باپ کا لفظ لغت کی رُو سے کس پایہ کا لفظ ہے تو بجز اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ جب مثلاً ایک انسان فی الحقیقت دوسرے انسان کے نطفہ سے پیدا ہو مگر پیدا کرنے میں اس نطفہ انداز انسان کا کچھ بھی دخل نہ ہو تب اس حالت میں کہیں گے کہ یہ انسان فلاں انسان کا اب یعنی باپ ہے اور اگر ایسی صورت ہو کہ خدائے قادر مطلق کی یہ تعریف کرنی منظور ہو جو مخلوق کو اپنے خاص ارادہ سے خود پیدا کرنے والا خود کمالات تک پہنچانے والا اور خود رحم عظیم سے مناسب حال اُس کے انعام کرنے والا اور خود حافظ اور قیوم ہے تو لغت ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ اس مفہوم کو اب یعنی باپ کے لفظ سے ادا کیا جائے بلکہ لغت نے اس کے لئے ایک دوسرا لفظ رکھا ہے جس کو رب کہتے ہیں.جس کی اصل تعریف ابھی ہم لغت کی رُو سے بیان کر چکے ہیں اور ہم ہرگز مجاز نہیں کہ اپنی طرف سے لغت تراشیں بلکہ ہمیں انہیں الفاظ کی پیروی لازم ہے جو قدیم سے خدا تعالیٰ کی طرف سے چلے آئے ہیں.پس اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ اب یعنی باپ کا لفظ خدا تعالیٰ کی نسبت استعمال کرنا ایک سوء ادب اور ہجو میں داخل ہے اور جن لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت یہ الزام گھڑا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو اب کر کے پکارتے تھے.اور در حقیقت جناب الہی کو اپنا باپ ہی یقین رکھتے تھے.انہوں نے نہایت مکروہ اور جھوٹا الزام ابن مریم پر لگایا ہے.کیا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح ایسی نادانی کے مرتکب ہوئے کہ جو لفظ اپنے لغوی معنوں کی رُو سے ایسا حقیر اور ذلیل ہو جس میں ناطاقتی اور کمزوری اور بے اختیاری ہر ایک پہلو سے پائی جائے وہی لفظ حضرت مسیح اللہ جل شانہ کی نسبت
۹۸۷ اختیار کریں.اب کا لفظ ایک ایسا حقیر اور ذلیل لفظ ہے کہ اوس میں کوئی حصہ پرورش یا ارادہ یا محبت کا شرط نہیں.مثلاً ایک بکرا جو بکری پر جست کر کے نطفہ ڈال دیتا ہے یا ایک سانڈ بیل جو گائے پر جست کر کے اور اپنی شہوات کا کام پورا کر کے پھر اُس سے علیحدہ بھاگ جاتا ہے جس کے یہ خیال میں بھی نہیں ہوتا ہے کہ کوئی بچہ پیدا ہو.یا ایک سور جس کو شہوات کا نہایت زور ہوتا ہے اور بار بار وہ اسی کام میں لگا رہتا ہے اور کبھی اُس کے خیال میں بھی نہیں ہوتا کہ اس بار بار کے شہوانی جوش سے یہ مطلب ہے کہ بہت سے بچے پیدا ہوں اور خنزیر زادے زمین پر کثرت سے پھیل جائیں اور نہ اس کو فطرتی طور پر یہ شعور دیا گیا ہے تاہم اگر بچے پیدا ہو جائیں تو بلاشبہ سور وغیرہ اپنے اپنے بچوں کے باپ کہلائیں گے.اب جبکہ اب کے لفظ یعنی باپ کے لفظ میں دنیا کی تمام لغتوں کی رُو سے یہ معنے ہرگز مراد نہیں کہ وہ باپ نطفہ ڈالنے کے بعد پھر بھی نطفہ کے متعلق کچھ کار گذاری کرتا رہے تا بچہ پیدا ہو جائے یا ایسے کام کے وقت میں یہ ارادہ بھی اس کے دل میں ہو اور نہ کسی مخلوق کو ایسا اختیار دیا گیا ہے.بلکہ باپ کے لفظ میں بچہ پیدا ہونے کا خیال بھی شرط نہیں اور اس کے مفہوم میں اس سے زیادہ کوئی امر ماخوذ نہیں کہ وہ نطفہ ڈال دے بلکہ وہ اسی ایک ہی لحاظ سے جو نطفہ ڈالتا ہے لغت کی رُو سے اب یعنی باپ کہلاتا ہے تو کیونکر جائز ہو کہ ایسا نا کارہ لفظ جس کو تمام زبانوں کا اتفاق ناکارہ ٹھہراتا ہے اس قادر مطلق پر بولا جائے جس کے تمام کام کامل ارادوں اور کامل علم اور قدرت کاملہ سے ظہور میں آتے ہیں.اور کیونکر درست ہو کہ وہی ایک لفظ جو بکرا پر بولا گیا، بیل پر بولا گیا، سو ر پر بولا گیا وہ خدا تعالیٰ پر بھی بولا جائے.یہ کیسی بے ادبی ہے جس سے نادان عیسائی باز نہیں آتے.نہ ان کو شرم باقی رہی، نہ حیا باقی رہی، نہ انسانیت کی سمجھ باقی رہی، کفارہ کا مسئلہ کچھ ایسا اُن کی انسانی قوتوں پر فالج کی طرح گرا کہ بالکل نکما اور بے حس کر دیا.اس جگہ ہم میکس ملر کے بعض شبہات اور وساوس کو بھی دور کرنا قرین مصلحت سمجھتے ہیں جو اوس نے اپنی کتاب لیکچر جلد اول علم اللسان کی بحث کے نیچے لکھے ہیں.چنانچہ بطرز قولہ واقول کے ذیل میں تحریر ہیں.قولہ.ترقی علم کے موانعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض قوموں نے دوسری قوموں کو استخفاف اور تحقیر کی نگہ سے دیکھنے کے لئے اُن کی نسبت حقارت آمیز القاب تراشے.اس لئے وہ ان محقر قوموں کی لغات کے سیکھنے سے قاصر رہے اور جب تک یہ الفاظ جنگلی اور عجمی کہنے کے انسان کی لغات اور فرہنگ
۹۸۸ سے نہ نکالے گئے اور بجائے اس کے لفظ برادر قائم نہ ہوا.ایسا ہی جب تک تمام قوموں کا یہ استحقاق تسلیم نہ کیا گیا کہ وہ ایک ہی نوع یا جنس کے ہیں اس وقت تک ہمارے اس علم اللسان کا آغاز نہ ہوا.اقول صاحب راقم کی اس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل اُن کو اہل عرب پر اعتراض ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ عرب کے لوگ جو دوسری زبان والوں کو بھی بولتے ہیں یہ لفظ محض بخل اور تعصب کے راہ سے دوسری قوموں کی تحقیر کی غرض سے تراشا گیا ہے.لیکن یہ غلطی محض اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ اُن کی عیسائیت کا بخل ان کو اس بات کی دریافت سے مانع ہوا کہ آیا عجم اور عرب کا لفظ انسان کی طرف سے یا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.حالانکہ وہ اپنی کتاب میں خود اقرار کر چکے ہیں کہ مفردات زبان کا اپنی طرف سے بنا لینا کسی انسان کا کام نہیں.اب ہم ان پر اور اُن کے ہم خیالوں پر واضح کرتے ہیں کہ زبان عرب میں دو لفظ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل پر واقع ہیں.ایک تو عرب جس کے معنے فصیح اور بلیغ کے ہیں اور دوسرا مجم جو اس کے مقابل پر واقع ہے جس کے معنے غیر فصیح اور بستہ زبان ہے.اگر میکس ملر صاحب کے خیال میں یہ دو لفظ قدیم نہیں ہیں اور اسلام نے ہی بخل کے راہ سے ان کو ایجاد کیا ہے تو ان کو ان لفظوں کا نشان دینا چاہئے جو ان کی رائے میں اصلی لفظ تھے کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ کسی قوم کا قدیم سے کوئی بھی نام نہ ہو.اور جب قدیم ماننا پڑا تو ثابت ہوا کہ یہ انسانی بناوٹ نہیں بلکہ وہ قادر عالم الغیب جس نے مختلف استعدادوں کے ساتھ انسانوں کو پیدا کیا ہے اُس نے مختلف لیا قتوں کے لحاظ سے یہ دو نام آپ مقرر کر دیئے ہیں.پھر دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ دو نام عرب اور عجم کسی انسان نے محض تعصب اور تحقیر کے لحاظ سے آپ ہی گھڑ لئے ہیں تو بلاشبہ یہ واقعات کے برخلاف ہوں گے اور محض دروغ بے فروغ ہوگا.لیکن ہم اس کتاب میں ثابت کر چکے ہیں کہ عرب کا لفظ در حقیقت اسم باسمی ہے اور واقعی طور پر یہ بات سچ ہے کہ زبان عربی اپنے نظام مفردات اور لطافت ترکیب اور دیگر عجائب وغرائب کے لحاظ سے ایسے اعلیٰ مقام کے مرتبہ پر ہے کہ یہی کہنا پڑتا ہے کہ دوسری زبانیں اس کے مقابل پر گونگے کی طرح ہیں.اور نہ صرف یہی بلکہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری تمام زبانیں جمادات کی طرح بے حس و حرکت پڑی ہیں اور اطراد مواد کی حرکت ایسی اُن سے مفقود ہے کہ گویا وہ بالکل بے جان ہیں تو ہمیں بمجبوری یہ ماننا پڑتا ہے کہ درحقیقت وہ زبانیں نہایت تنزل کی حالت میں ہیں.اور عربی زبان میں یہ بات نہایت نرم لفظوں میں کہی گئی ہے کہ عرب کے مقابل کے لوگوں کا نام عجم ہے ورنہ اس نام کا استحقاق بھی ان زبانوں
۹۸۹ اور ان لوگوں کو حاصل نہ تھا.اور اگر ٹھیک ٹھیک ان کے تنزل کا حال ظاہر کیا جاتا تو یہ لفظ نہایت موزوں تھا کہ ان زبانوں کا نام مُردہ زبانیں رکھا جاتا.من الرحمن.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۴۵ تا ۱۶۱ حاشیه) فَواهَا لِلعَرَبية مَا اَحْسَنَ وَجُهُهَا فى الحلل المنيرة الكاملة.أشرقتِ الارض بانوارها التامة.وتحقق بها كمال الهويّة البشريّة.توجد فيها عجائب الصانع الحكيم القدير.كما توجد في كلّ شيء صدر من البديع الكبير.واكمل الله.جميع اعضائها.و ما غادَرَ شيئًا من حسنها و بهائها.فَلا جَرَمَ تجدها كاملة في البيان.محيطة على اغراض نوع الانسان.فَمَا من عمل يبدو الى انقراض الزمان.ولا من صفة من صفات الله الديان.وما من عقيدة من عقايد البرية.الا ولها لفظ مفرد فى العربية فاختبر ان كنت من المرتابين.ترجمه عربی عبارت ”منن الرحمن ( من الرحمن.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۹۳ ۱۹۴) پس عربی زبان کیا ہی عمدہ ہے اور کیا اچھا اس کا چہرہ ہے جو چمکیلے اور کامل پیرا یہ میں نظر آتا ہے.زمین اس کے پورے نوروں سے چمک اٹھی ہے اور بشری ماہیت کا کمال اُس سے ثابت ہو گیا ہے.اس میں عجائب کام خدائے صانع حکیم قادر کے ظاہر ہیں جیسا کہ ان تمام چیزوں میں پائے جاتے ہیں جو اس بزرگ بے مثل پیدا کنندہ سے صادر ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے اس کے تمام اعضا کو کامل کیا ہے اور اس کے حسن اور خوبی سے کوئی چیز اٹھا نہیں رکھی.پس اسی وجہ سے تو اس کو بیان میں کامل پائے گا اور دیکھے گا کہ وہ انسان کی تمام غرضوں پر محیط ہے پس ایسا کوئی بھی عمل ان عملوں میں سے نہیں کہ جو زمانہ کے اخیر تک ظاہر ہوں اور نہ ایسی کوئی صفت خدا تعالیٰ میں پائی جاتی ہے اور نہ کوئی ایسا عقیدہ لوگوں کے عقائد میں سے ہے جس کے لئے عربی میں لفظ مفرد موضوع نہ ہو.پس تو آزما لے اگر تجھے شک ہے.
۹۹۰ ارکانِ اسلام میں کئی بار ظاہر کر چکا ہوں کہ تمہیں صرف اتنے پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور لا إله إلا الله کے قائل ہیں.قرآن شریف کے پڑھنے والے اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف زبان پر راضی نہیں ہوتا.قرآن شریف میں یہودیوں کے قصے درج ہیں.اُن پر خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے فضل پہلے ہوئے لیکن جب اُن پر ایسا زمانہ آیا کہ اُن کی باتیں صرف زبان تک محدود رہ گئیں اور اُن کے دل دغا اور خیانت اور خیالات بد سے پُر ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے عذاب اُن پر وارد کئے اور یہاں تک کہ اُن میں سے بعض کو بندر اور سو رلکھا گیا ہے حالانکہ توریت اور زبور اُن کے پاس تھی اور وہ اس پر اپنا ایمان ظاہر کرتے تھے اور سارے نبیوں کو مانتے تھے لیکن خدا نے اُن کو پسند نہ کیا کیونکہ ان کی باتیں صرف زبان پر تھیں اور ان کے دلوں میں کچھ نہ تھا.کلمہ کے معنے کی طرف غور کرو.لا الہ الا الله انسان زبان سے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کرتا ہے کہ میرا معبود بجز خدا کے اور کوئی نہیں.اللہ ایک عربی لفظ ہے اور اس کے معنے معبود اور محبوب اور اصل مقصود کے ہیں.یہ کلمہ قرآن شریف کا خلاصہ ہے جو مسلمانوں کو سکھلایا گیا ہے.اکثر لمبی کتابوں کا یاد کرنا ہر ایک کے واسطے مشکل ہے اللہ تعالیٰ حکیم ہے.اُس نے ایک مختصر سا کلمہ سُنا دیا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک خدا کو مقدم نہ کیا جاوے.جب تک خدا کو معبود نہ بنایا جاوے.جب تک خدا کو مقصود نہ ٹھہرایا جاوے انسان کو نجات حاصل نہیں ہو سکتی.حدیث شریف میں آیا ہے.مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ بہشت میں داخل ہوا.لوگوں نے اس حدیث کا مفہوم سمجھنے میں دھوکا کھایا ہے.وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف زبان سے یہ کلمہ پڑھ لینا کافی ہے اور صرف اتنے سے انسان بہشت میں داخل ہو سکے گا.خدا تعالیٰ الفاظ سے تعلق نہیں رکھتا وہ دلوں سے تعلق رکھتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ در حقیقت اس کلمہ کے مفہوم کو اپنے دل میں داخل کر لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عظمت پورے رنگ کے ساتھ اُن کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے وہ جنت میں داخل ہو جاتے ہیں.جب کوئی شخص بچے طور پر کلمہ کا قائل ہو جاتا ہے تو بجز خدا کے اور کوئی اس کا پیارا نہیں رہتا.بجز
۹۹۱ خدا کے کوئی اس کا معبود نہیں رہتا اور بجز خدا کے کوئی اس کا مطلوب باقی نہیں رہتا.وہ مقام جو ابدال کا مقام ہے اور وہ جو قطب کا مقام ہے اور وہ جو غوث کا مقام ہے.وہ یہی ہے کہ کلمہ لا إِلهَ إِلَّا الله پر دل سے ایمان ہو.یہ کلمہ شریف ایک اللہ کے سوائے تمام الہوں کی نفی کرتا ہے.تمام انفسی اور آفاقی الہ باہر نکال کر اپنے دل کو ایک اللہ کے واسطے پاک صاف کرنا چاہئے.بعض بت ظاہر ہیں.مگر بعض بت بار یک ہیں.مثلاً خدا تعالیٰ کے سوائے اسباب پر توکل کرنا بھی ایک بت ہے مگر یہ ایک بار یک بت ہے وہ باریک بت جو لوگ اپنی بغلوں کے اندر دبائے پھرتے ہیں ان کا نکالنا ایک مشکل امر ہے.بڑے بڑے فلسفی اور حکیم ان کو اپنے اندر سے نکال نہیں سکتے.وہ نہایت باریک کیڑے ہیں جو کہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کی خوردبین کے سوائے نظر نہیں آ سکتے.وہ بڑا ضرر انسان کو پہنچاتے ہیں.وہ بت جذبات نفسانی کے ہیں جو کہ انسان کو خدا تعالیٰ اور اپنے ہم جنسوں کی حقوق تلفی میں حد سے باہر لے جاتے ہیں.بہت سے پڑھے لکھے جو کہ عالم کہلاتے ہیں اور فاضل کہلاتے ہیں اور مولوی کہلاتے ہیں اور حدیثیں پڑھتے ہیں اپنے آپ میں ان بتوں کی شناخت نہیں کر سکتے اور ان کی پوجا کرتے ہیں.ان بتوں سے بچنا بڑے بہادر آدمی کا کام ہے.جولوگ ان بتوں کے پیچھے لگتے ہیں وہ آپس میں نفاق رکھتے ہیں.ایک دوسرے کے حقوق تلف کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک شکار مارا ہے.حد سے زیادہ اسباب پر زور مارتے ہیں اور ان کا تمام بھروسہ ان اسباب ہی پر ہوتا ہے.جب تک ان باتوں کا قلع قمع نہ کیا جاوے تو حید قائم نہیں ہو سکتی.(البدر، مورخہ ۱۰ار جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱ کالم نمبر ۱ تا ۳) مفهوم لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کے سننے کے بعد نماز کی طرف توجہ کرو جس کی پابندی کے واسطے بار بار قرآن شریف میں تاکید کی گئی ہے.لیکن ساتھ ہی اس کے یہ فرمایا گیا ہے کہ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلَّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمُ سَاهُونَ یے ویل ہے ان نمازیوں کے واسطے جو کہ نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں.سو سمجھنا چاہئے کہ نماز ایک سوال ہے جو کہ انسان جدائی کے وقت درد اور حرقت کے ساتھ اپنے خدا کے حضور میں کرتا ہے کہ اس کو لقا اور وصال ہو کیونکہ جب تک خدا کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا اور جب تک وہ خود وصال عطا نہ کرے کوئی وصال کو حاصل نہیں کر سکتا.طرح طرح کے طوق اور قسماقسم کے زنجیر انسان کی گردن میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بہتیرا چاہتا ہے کہ یہ دور ہو جاویں پر وہ دور نہیں الماعون: ۶،۵
۹۹۲ ہوتے.باوجود انسان کی خواہش کے کہ وہ پاک ہو جاوے نفس تو امہ کی لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں.گناہوں سے پاک کرنا خدا کا کام ہے.اُس کے سوائے کوئی طاقت نہیں جو زور کے ساتھ تمہیں پاک کر دے.پس پاک جذبات کے پیدا کرنے کے واسطے خدا تعالیٰ نے نماز رکھی ہے.نماز کیا ہے ایک دُعا جو درد، سوزش اور حرفت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے طلب کی جاتی ہے تا کہ یہ بد خیالات اور بُرے ارادے دفع ہو جاویں.اور پاک محبت اور پاک تعلق حاصل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے احکام کے ماتحت چلنا نصیب ہو.صلوٰۃ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دعا صرف زبان سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ سوزش اور جلن اور حرقت کا ہونا بھی ضروری ہے.خدا تعالیٰ دعا کو قبول نہیں کرتا جب تک انسان حالت دعا میں ایک موت تک نہیں پہنچتا....نماز بڑے بھارے درجہ کی دعا ہے مگر لوگ اس کی قدر نہیں کرتے.اس زمانہ میں مسلمان ورد وظائف کی طرف متوجہ ہیں.کئی ایک فرقے ہیں جیسا کہ نوشاہی اور نقشبندی وغیرہ افسوس ہے کہ ان میں سے کوئی بدعات کی آمیزش سے خالی نہیں.یہ لوگ نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں.احکام الہی کی ہجو کرتے ہیں.طالب کے واسطے نماز کے ہوتے ہوئے ان بدعات میں سے کسی کی ضرورت نہیں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ مشکلات کے وقت میں وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے اور نماز میں دُعا کرتے تھے.ہمارا تجربہ ہے کہ خدا کے قریب لے جانے والی کوئی چیز نماز سے زیادہ نہیں.نماز کے اجزاء اپنے اندر ادب خاکساری اور انکساری کا اظہار رکھتے ہیں.قیام میں نمازی دست بستہ کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ ایک غلام اپنے آقا اور بادشاہ کے سامنے طریق ادب سے کھڑا ہوتا ہے.رکوع میں انسان انکسار کے ساتھ جھک جاتا ہے.سب سے بڑا انکسار سجدہ میں ہے جو بہت ہی عاجزی کی حالت کو ظاہر کرتا ہے.(البدر، مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحه ۱۲ کالم ۱ تا ۳) نمازوں کو باقاعدہ التزام سے پڑھو.کبھی لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں.نمازیں معاف نہیں ہوتیں.پیغمبروں کو بھی معاف نہیں ہوئیں.ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نئی جماعت آئی انہوں نے نماز کی معافی چاہی.آپ نے فرمایا کہ جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں.(رسالہ الانذار صفحہ اے.ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۷۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند
۹۹۳ ہو جاؤ اور ایسے کاربند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح ، تمہاری روح کے ارادے اور جذ بے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں.الحکم ۱۲ را پریل ۱۸۹۹ء صفحہ سے کالم ۲.ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۰۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) نماز کیا چیز ہے؟ نماز اصل میں رب العزت سے دُعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے.جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اُس وقت اُسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی.اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزہ آتا ہے اسی طرح پھر گریہ و بکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پیدا ہو جائے گی.اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تا کہ صحت حاصل ہو اسی طرح اس بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں.اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے کہ.”اے اللہ ! تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مُردہ حالت میں ہوں.میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آ جاؤں گا اُس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے.تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے.تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اُٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں.“ جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اُس پر آئے گا کہ اسی بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اُس پر گرے گی جو رقت پیدا کر دے گی.الحکم مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ا کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۶۱۵ ،۶۱۶ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ہے یعنی چھٹے درجہ کے مومن جو پانچویں درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو اپنی نمازوں پر آپ محافظ اور نگہبان ہیں یعنی وہ کسی دوسرے کی تذکیر اور یاددہانی کے محتاج نہیں رہے بلکہ کچھ ایسا تعلق ان کو خدا سے پیدا ہو گیا ہے اور خدا کی یاد کچھ اس قسم کی محبوب طبع اور مدار آرام اور مدار زندگی ان کے لئے ہو گئی ہے وہ ہر وقت اُس کی نگہبانی میں لگے رہتے ہیں اور ہر دم ان کا یاد الہی میں گذرتا ہے اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی خدا کے ذکر سے الگ ہوں.ل المؤمنون: ١٠
۹۹۴ اب ظاہر ہے کہ انسان اسی چیز کی محافظت اور نگہبانی میں تمام تر کوشش کر کے ہر دم لگا رہتا ہے جس کے گم ہونے میں اپنی ہلاکت اور تباہی دیکھتا ہے.جیسا کہ ایک مسافر جو ایک بیابان بے آب و دانہ میں سفر کر رہا ہے.جس کے صدہا کوس تک پانی اور روٹی ملنے کی کوئی امید نہیں وہ اپنے پانی اور روٹی کی جو ساتھ رکھتا ہے بہت محافظت کرتا ہے اور اپنی جان کے برابر اس کو سمجھتا ہے کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے ضائع ہونے میں اس کی موت ہے.پس وہ لوگ جو اس مسافر کی طرح اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں اور گو مال کا نقصان ہو یا عزت کا نقصان ہو یا نماز کی وجہ سے کوئی ناراض ہو جائے نماز کو نہیں چھوڑتے اور اس کے ضائع ہونے کے اندیشہ میں سخت بے تاب ہوتے اور پیچ و تاب کھاتے گویا مر ہی جاتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی یاد الہی سے الگ ہوں وہ درحقیقت نماز اور یاد الہی کو اپنی ایک ضروری غذا سمجھتے ہیں جس پر ان کی زندگی کا مدار ہے اور یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے اور اُس کی محبتِ ذاتیہ کا ایک افروختہ شعلہ جس کو روحانی وجود کے لئے ایک روح کہنا چاہئے اُن کے دل پر نازل ہوتا ہے اور ان کو حیات ثانی بخش دیتا ہے اور وہ روح اُن کے تمام وجود روحانی کو روشنی اور زندگی بخشتی ہے.تب وہ نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے خدا کی یاد میں لگے رہتے ہیں بلکہ وہ خدا جس نے جسمانی طور پر انسان کی زندگی روٹی اور پانی پر موقوف رکھی ہے وہ ان کی روحانی زندگی کو جس سے وہ پیار کرتے ہیں اپنی یاد کی غذا سے وابستہ کر دیتا ہے.اس لئے وہ اس روٹی اور پانی کو جسمانی روٹی اور پانی سے زیادہ چاہتے ہیں اور اس کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہیں اور یہ اس رُوح کا اثر ہوتا ہے جو ایک شعلہ کی طرح اُن میں ڈالی جاتی ہے جس سے عشق الہی کی کامل مستی اُن میں پیدا ہو جاتی ہے اس لئے وہ یاد الہی سے ایک دم الگ ہونا نہیں چاہتے وہ اس کے لئے دُکھ اُٹھاتے اور مصائب دیکھتے ہیں مگر اس سے ایک لحظہ بھی جدا ہونا نہیں چاہتے.اور پاس انفاس کرتے ہیں اور اپنی نمازوں کے محافظ اور نگہبان رہتے ہیں.اور یہ امران کے لئے طبعی ہے کیونکہ درحقیقت خدا نے اپنی محبت سے بھری ہوئی یاد کو جس کو دوسرے لفظوں میں نماز کہتے ہیں ان کے لئے ایک ضروری غذا مقرر کر دیا ہے اور اپنی محبت ذاتیہ سے اُن پر تجلی فرما کر یاد الہی کی ایک دلکش لذت ان کو عطا کی ہے.پس اس وجہ سے یاد الہی جان کی طرح بلکہ جان سے بڑھ کر ان کو عزیز ہو گئی ہے اور خدا کی ذاتی محبت ایک نئی روح ہے جو شعلہ کی طرح اُن کے دلوں پر پڑتی اور اُن کی نماز اور یاد الہی کو ایک غذا کی طرح اُن کے لئے بنا دیتی ہے.پس وہ یقین رکھتے ہیں کہ اُن کی زندگی روٹی اور پانی سے نہیں بلکہ نماز اور یا دالہی سے جیتے ہیں.
۹۹۵ غرض محبت سے بھری ہوئی یاد الہی جس کا نام نماز ہے وہ در حقیقت ان کی غذا ہو جاتی ہے جس کے درحق بغیر وہ جی ہی نہیں سکتے.اور جس کی محافظت اور نگہبانی بعینہ اس مسافر کی طرح وہ کرتے رہتے ہیں جو ایک دشت بے آب و دانہ میں اپنی چند روٹیوں کی محافظت کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں اور اپنے کسی قدر پانی کو جان کے ساتھ رکھتا ہے جو اس کی مشک میں ہے.واہب مطلق نے انسان کی روحانی ترقیات کے لئے یہ بھی ایک مرتبہ رکھا ہوا ہے جو محبت ذاتی اور عشق کے غلبہ اور استیلاء کا آخری مرتبہ ہے اور در حقیقت اس مرتبہ پر انسان کے لئے محبت سے بھری ہوئی یاد الہی جس کا شرعی اصطلاح میں نماز نام ہے غذا کے قائم مقام ہو جاتی ہے بلکہ وہ بار بار جسمانی روح کو بھی اس غذا پر فدا کرنا چاہتا ہے.وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جیسا کہ مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی.اور خدا سے علیحدہ ایک دم بھی بسر کرنا اپنی موت سمجھتا ہے اور اس کی روح آستانہ الہی پر ہر وقت سجدہ میں رہتی ہے اور تمام آرام اُس کا خدا ہی میں ہو جاتا ہے.اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ میں اگر ایک طرفتہ العین بھی یا دالہی سے الگ ہوا تو بس میں مرا.اور جس طرح روٹی سے جسم میں تازگی اور آنکھ اور کان وغیرہ اعضاء کی قوتوں میں توانائی آجاتی ہے اسی طرح اس مرتبہ پر یاد الہی جو عشق اور محبت کے جوش سے ہوتی ہے مومن کی روحانی قوتوں کو ترقی دیتی ہے.یعنی آنکھ میں قوت کشف نہایت صاف اور لطیف طور پر پیدا ہو جاتی ہے اور کان خدا تعالیٰ کے کلام کو سنتے ہیں.اور زبان پر وہ کلام نہایت لذیذ اور اجلی اور اصنفی طور پر جاری ہو جاتا ہے.اور رویا صادقہ بکثرت ہوتے ہیں جو فلق صبح کی طرح ظہور میں آ جاتے ہیں.اور بباعث علاقہ صافیہ محبت جو حضرت عزت سے ہوتا ہے مبشر خوابوں سے بہت سا حصہ ان کو ملتا ہے.یہی وہ مرتبہ ہے جس مرتبہ پر مومن کو محسوس ہوتا ہے کہ خدا کی محبت اس کے لئے روٹی اور پانی کا کام دیتی ہے.یہ نئی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب پہلے رُوحانی قالب تمام تیار ہو چکتا ہے.اور پھر وہ رُوح جو محبت ذاتیہ الہیہ کا ایک شعلہ ہے ایسے مومن کے دل پر آپڑتا ہے اور یک دفعہ طاقت بالا نشیمن بشریت سے بلند تر اس کو لے جاتی ہے.اور یہ مرتبہ وہ ہے جس کو روحانی طور پر خلق آخر کہتے ہیں.اس مرتبہ پر خدا تعالیٰ اپنی ذاتی محبت کا ایک افروختہ شعلہ جس کو دوسرے لفظوں میں روح کہتے ہیں مومن کے دل پر نازل کرتا ہے اور اس سے تمام تاریکیوں اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دُور کر دیتا ہے.اور اس روح کے پھونکنے کے ساتھ کر دیا ہی وہ حسن جواد نی مرتبہ پر تھا کمال کو پہنچ جاتا ہے اور ایک رُوحانی آب و تاب پیدا ہو جاتی ہے اور گندی زندگی کی کبودگی بکلی دور ہو جاتی ہے.اور مومن اپنے اندر محسوس کر لیتا ہے کہ ایک نئی روح اس کے اندر
۹۹۶ داخل ہوگئی ہے جو پہلے نہیں تھی.اس روح کے ملنے سے ایک عجیب سکینت اور اطمینان مؤمن کو حاصل ہو جاتی ہے.اور محبت ذاتیہ ایک فوارہ کی طرح جوش مارتی اور عبودیت کے پودہ کی آبپاشی کرتی ہے اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی اس درجہ پر وہ تمام و کمال افروختہ ہو جاتی ہے اور انسانی وجود کے تمام خس و خاشاک کو جلا کر الوہیت کا قبضہ اس پر کر دیتی ہے اور وہ آگ تمام اعضاء پر احاطہ کر لیتی ہے.تب اس لوہے کی مانند جو نہایت درجہ آگ میں تپایا جائے یہاں تک کہ سُرخ ہو جائے اور آگ کے رنگ پر ہو جائے اس مومن سے الوہیت کے آثار اور افعال ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ لوہا بھی اس درجہ پر آگ کے آثار اور افعال ظاہر کرتا ہے.مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خدا ہو گیا ہے بلکہ محبت الہیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو اپنے رنگ میں ظاہر وجود کو لے آتی ہے.اور باطن میں عبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے.اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہوتا ہے جس کے پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے اور اس کی ٹھنڈی ہوا بھی خدا ہی ہوتا ہے جس سے اس کے دل کو راحت پہنچتی ہے اور اس مقام پر استعارہ کے رنگ میں یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ خدا اس مرتبہ کے مومن کے اندر داخل ہوتا اور اس کے رگ وریشہ میں سرائت کرتا اور اس کے دل کو اپنا تخت گاہ بنا لیتا ہے.تب وہ اپنی روح سے نہیں بلکہ خدا کی روح سے دیکھتا اور خدا کی رُوح سے سنتا اور خدا کی رُوح سے بولتا اور خدا کی رُوح سے چلتا اور خدا کی رُوح سے دشمنوں پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ اس مرتبہ پر نیستی اور استہلاک کے مقام میں ہوتا ہے اور خدا کی رُوح اس پر اپنی محبت ذاتیہ کے ساتھ تجلی فرما کر حیات ثانی اس کو بخشتی ہے.پس اس وقت روحانی طور پر اس پر یہ آیت صادق آتی ہے.ثُمَّ انْشَأْنَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخُلِقِينَ ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۱۲ تا ۲۱۶) نماز کی ظاہری صورت پر اکتفا کرنا نادانی ہے.اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک نا واجب ٹیکس لگا ہوا ہے جلدی گلے سے اتر جاوے.بعض لوگ نماز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دعا اس قدر لمبی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دُگنا تنگنا وقت لے لیتے ہیں حالانکہ نماز تو خود دعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دُعا کرے اس کی نماز ہی نہیں.چاہئے کہ اپنی نماز کو دعا سے مثل کھانے اور سرد پانی کے لذیذ اور مزیدار کر لو.ایسا نہ ہو کہ اس پر ویل ا المؤمنون: ۱۵
۹۹۷ ہو.نماز خدا کا حق ہے اُسے خوب ادا کرو.(البدر مورخہ ۸/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۷.ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۹۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) انسان کی زاہدانہ زندگی کا بڑا بھاری معیار نماز ہے.وہ شخص جو خدا کے حضور نماز میں گریاں رہتا ہے امن میں رہتا ہے.جیسے ایک بچہ اپنی ما کی گود میں چیخ چیخ کر روتا ہے اور اپنی ما کی محبت اور شفقت کو محسوس کرتا ہے.اسی طرح پر نماز میں تضرع اور ابتہال کے ساتھ خدا کے حضور گڑ گڑانے والا اپنے آپ کو ربوبیت کی عطوفت کی گود میں ڈال دیتا ہے.یاد رکھو اُس نے ایمان کا حظ نہیں اُٹھایا جس نے نماز میں لذت نہیں پائی.نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے.بعض لوگ نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ٹھونگیں مارتی ہے ختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دعا شروع کرتے ہیں حالانکہ وہ وقت جو اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے کے لئے ملا تھا اس کو صرف ایک رسم اور عادت کے طور پر جلد جلد ختم کرنے میں گزار دیتے ہیں.اور حضور الہی سے نکل کر دعا مانگتے ہیں.نماز میں دعا مانگو.نماز کو دعا کا ایک وسیلہ اور ذریعہ سمجھو.الحکم مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ ء صفحہ ا کالم ۲ ۳.ملفوظات جلد اول صفحه ۴۰۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے.نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے.ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا حال عرض کرنے کا موقع بھی ہولیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے.اسے کیا فائدہ.ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے.تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدعا کو ملحوظ رکھو.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی دعا کے آداب بھی بتا دیئے ہیں.سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے.الحکم مورخہ ۲۴ جون ۱۹۰۲ء صفحہ ۲ کالم نمبر۲.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۹۲،۱۹۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) نماز اپنی زبان میں نہیں پڑھنی چاہئے.خدا تعالیٰ نے جس زبان میں قرآن شریف رکھا ہے اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے.ہاں اپنی حاجتوں کو اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے سامنے بعد مسنون طریق اور اذکار کے بیان کر سکتے ہیں مگر اصل زبان کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے.عیسائیوں نے اصل زبان کو چھوڑ کر کیا
۹۹۸ پھل پایا.کچھ بھی باقی نہ رہا.الحکم، مورخہ ۳۱ رمئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۸ کالم نمبر ۲.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۲۱۶ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) نماز کیا چیز ہے؟ وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجر بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کروتا ہو کہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۶۹،۶۸) پانچ وقت اپنی نمازوں میں دُعا کرو.اپنی زبان میں بھی دعا کرنی منع نہیں ہے.نماز کا مزہ نہیں آتا جب تک حضور نہ ہو اور حضور قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عاجزی نہ ہو.عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آ جاوے کہ کیا پڑھتا ہے.اس لئے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کے لئے جوش اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے مگر اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہئے کہ نماز کو اپنی زبان ہی میں پڑھو.نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ مسنون ادعیہ اور اذکار کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو.ورنہ نماز کے ان الفاظ میں خدا نے ایک برکت رکھی ہوئی ہے.نماز دعا ہی کا نام ہے اس لئے اس میں دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر ہو.اپنی بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرو.نیک انسان بنو اور ہر قسم کی بدی سے بچتے رہو.الحکم، مورخہ ۱۷ را کتوبر۱۹۰۳ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد سوم صفحه ۴۳۴، ۴۳۵ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں؟ وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے.تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لئے ان کا وارد ہونا ضروری ہے.(۱).پہلے جبکہ تم مطلع کئے جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا.یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلی اور خوش حالی میں خلل ڈالا.سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا.اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے.(۲).دوسرا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے جبکہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہو.مثلاً جبکہ تم
۹۹۹ بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے.سو یہ حالت تمہاری اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اُس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی.(۳).تیسرا تغیر تم پر اس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکنی امید منقطع ہو جاتی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لئے گذر جاتے ہیں.یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے.(۴).چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اُس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے مثلاً جبکہ فر قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کو سنایا جاتا ہے اور قید کے لئے ایک پولس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہو.سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جبکہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیر پڑھ جاتا ہے.اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے.(۵).پھر جبکہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اس تاریکی سے نجات دیتا ہے.مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے.سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لئے ہیں.پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو تم پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہاری اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظل ہیں.نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے.تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضاء وقدرتمہارے لئے لائے گا.پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۹ اصفحہ ۷۰،۶۹) نماز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے.نماز کی یہ صفت ہے کہ یہ انسان کو گناہ اور بدکاری سے ہٹا دیتی ہے.سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو.اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو.نما ز نعمتوں کی
جان ہے.اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نماز کے ذریعہ سے آتے ہیں.سو اس کو سنوار کر ادا کرو.تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو.الحکم، مورخہ، ار مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۸ کالم نمبر۲.ملفوظات جلد سوم صفحه ۰۳ اجدید ایڈیشن) نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا.کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں گر جانا.اس سے اپنی حاجات کا مانگنا یہی نماز ہے.ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے، تو ایسا ہے.اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کر کے اس کی رحمت کو جنبش دلانا اور پھر اُس سے مانگتا.پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے خدا کی محبت اُسی کا خوف اُسی کی یاد میں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے.اور یہی دین ہے.پھر جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اُس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا ؟ وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سور ہنا یہ تو دین ہرگز نہیں یہ سیرت کفار ہے.جو شخص خدا سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے دربار میں پہنچنے کی خواہش رکھتا ہے.اس کے واسطے نماز ایک گاڑی ہے جس پر سوار ہو کر وہ جلد تر پہنچ سکتا ہے اور جس نے نماز ترک کر دی وہ کیا پہنچے گا.اصل میں مسلمانوں نے جب سے نماز کو ترک کیا یا اُسے دل کی تسکین آرام اور محبت سے اس کی حقیقت سے غافل ہو کر پڑھنا ترک کیا ہے تب ہی سے اسلام کی حالت بھی معرض زوال میں آئی ہے.وہ زمانہ جس میں نمازیں سنوار کر پڑھی جاتی تھیں غور سے دیکھ لو کہ اسلام کے واسطے کیسا تھا.ایک دفعہ تو اسلام نے تمام دنیا کو زیر پا کر دیا تھا.جب سے اُسے ترک کیا وہ خود متروک ہو گئے ہیں.درد دل سے پڑھی ہوئی نماز ہی ہے کہ تمام مشکلات سے انسان کو نکال لیتی ہے.ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ اکثر کسی مشکل کے وقت دعا کی جاتی ہے ابھی نماز میں ہی ہوتے ہیں کہ خدا نے اس امر کوحل اور آسان کر دیا ہوا ہوتا ہے.نماز میں کیا ہوتا ہے یہی کہ عرض کرتا ہے التجاء کے ہاتھ بڑھاتا ہے اور دوسرا اس کی عرض کو اچھی طرح سنتا ہے.پھر ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ جو سنتا ہے وہ بولتا ہے اور گذارش کرنے والے کو جواب دیتا ہے.نمازی کا یہی حال ہے.خدا کے آگے سر بیجھ درہتا ہے اور خدا کو اپنے مصائب اور حوائج سناتا ہے.پھر آخر کچی اور حقیقی نماز کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت جلد آ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے جواب کے
1001 واسطے بولتا اور اس کو جواب دے کر تسلی دیتا ہے.بھلا یہ بجر حقیقی نماز کے ممکن ہے؟ (الحکم، مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۷، ۸.ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۸۸ تا ۱۹۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) نماز اس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلق ہو.اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اطاعت میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پر مقدم کر لے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مرنے کے لئے تیار ہو جائے.جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے اس وقت کہا جائے گا کہ اس کی نماز نماز ہے.مگر جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتی اور سچا اخلاص اور وفاداری کا نمونہ نہیں دکھاتا اس وقت تک اس کی نمازیں اور دوسرے اعمال بے اثر ہیں.(الحکم، مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۳ کالم نمبر.ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۰۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) نماز ایسے نہ ادا کرو جیسے مرغی دانے کے لئے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوز و گداز سے ادا کرو.اور دعائیں بہت کیا کرو.نماز مشکلات کی کنجی ہے.ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوا اپنی مادری زبان میں بہت دُعا کیا کروتا اس سے سوز گداز کی تحریک ہو اور جب تک سوز و گداز نہ ہوا سے ترک مت کرو کیونکہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے.چاہیئے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو.اگر جسمانی طور پر کھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لئے ویسے ہی کھڑا ہو.اگر جھکو تو دل بھی ویسے ہی جھکے.اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے.دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حال میں خدا کو نہ چھوڑے جب یہ حالت ہوگی تو گناہ دُور ہونے شروع ہو جاویں گے.البدر مورخہ ۸/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ ، ۷.ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۹۰،۵۸۹ جدید ایڈیشن) قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے.ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے.اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے.جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے.جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگر اُن کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.دروازہ بند کر کے دعا کرنی چاہئے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہو.جو تعلق عبودیت کا ربوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پُر ہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے.اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا.لیکن جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ
أعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى البدر مورخہ ۸/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ کے کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۹۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) استغفار کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خدا سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اور ملے اسی کی تحصیل کے لئے پنجگانہ نماز بھی ہے تا کہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا سے مانگ لیوے.جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دُعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پاسکتا ہے.البدر مورخه ۸/ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۴،۳.ملفوظات جلد چہارم صفحه ۹۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) جب کبھی ایسی حالت ہو کہ اُنس اور ذوق جو نماز میں آتا تھا وہ جاتا رہا ہے تو چاہئے کہ تھک نہ جاوے اور بے حوصلہ ہو کر ہمت نہ ہارے بلکہ بڑی مستعدی کے ساتھ اس گمشدہ متاع کو حاصل کرنے کی فکر کرے.اور اس کا علاج ہے.توبہ استغفار، تضرع، بے ذوقی سے ترک نماز نہ کرے بلکہ نماز کی اور کثرت کرے.جیسے ایک نشہ باز کو جب نشہ نہیں آتا تو وہ نشہ کو چھوڑ نہیں دیتا بلکہ جام پر جام پیا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر اس کو لذت اور سرور آ جاتا ہے.پس جس کو نماز میں بے ذوقی پیدا ہو اس کو کثرت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئے اور تھکنا مناسب نہیں.آخر اسی بے ذوقی میں ایک ذوق پیدا ہو جاوے گا.دیکھو پانی کے لئے کس قدر زمین کو کھودنا پڑتا ہے.جو لوگ تھک جاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں جو تھکتے نہیں وہ آخر نکال ہی لیتے ہیں.اس لئے اس ذوق کو حاصل کرنے کے لئے استغفار، کثرت نماز و دعا مستعدی اور صبر کی ضرورت ہے.الحکم، مورخہ ۳۱ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۹ کالم نمبر ۲ ،۳.ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۱۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا کی عظمت کو مدنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا.نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے.جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الہی کے متعلق ہو خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو بچو.(البدر مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۷ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد سوم صفحه ۲۲۲،۲۲۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) انسان کی خدا ترسی کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتا ہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں بنی اسراءیل :۷۳
1005 اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خدائے تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے.مگر یہ ایمان غریبوں کو دیا گیا.دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں.(ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۴۰) روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور رُوح پر ہے.نماز سے ایک سوز و گداز پیدا ہوتا ہے.اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں.(البدر مورخه ۱۸ جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۲.ملفوظات جلد چہارم صفحه ۲۹۳٬۲۹۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ لے بھی ایک فقرہ ہے جس سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے.کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں.صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم ( روزہ) تجلی قلب کرتا ہے.تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جاوے.اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اُس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لیوے.البدر مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۲ کالم نمبر۲.ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۱ ۵۶۲٬۵ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ یہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تا کہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو.خدا ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا ہی سے طلب کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے.وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے.تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہوتا ہے.پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دُعا کرے کہ الہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا.اگر خدا چاہتا تو دوسری اُمتوں کی طرح اس اُمت میں کوئی قید نہ رکھتا.مگر اُس نے قید میں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں.میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ تو خدا اُسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جاوے تو یہ بیماری اُس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر البقرة: ١٨٦
1005 ہے.مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کر دے.جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت دردِ دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گر یاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جو نہ ہو تو خدا تعالیٰ اُسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا.یہ ایک بار یک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر اپنے نفس کے کسل کی وجہ سے ) روزہ گراں ہے اور وہ اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا آدمی جو خدا کی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے کب اس ثواب کا مستحق ہوگا.ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور اس کا میں منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے.اس دنیا میں بہت لوگ بہانہ جو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جیسے اہل دنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں.بہانہ جو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان وسائل کو صحیح گردانتے ہیں.لیکن خدا کے نزدیک وہ صحیح نہیں تکلفات کا باب بہت وسیع ہے اگر انسان خدا چاہے تو اس کے روح سے ساری عمر بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے اور رمضان کے روزے بالکل ہی نہ رکھے مگر خدا اس کی نیت اور ارادہ کو جانتا ہے جو صدق اور اخلاص رکھتا ہے.خدا جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا اُسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے.کیونکہ درد دل ایک قابل قدر شے ہے.حیلہ جو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شے نہیں جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے ملا ( کشف میں ) اور انہوں نے کہا کہ تو نے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے.اس سے باہر نکل.اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کر کے اُسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے.(البدر مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۲ کالم نمبر ۳ صفحه ۵۳ کالم نمبر.ملفوظات جلد دوم صفحه ۵۶۴٬۵۶۳ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) صلوٰۃ کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.اس کے بعد روزے کی عبادت ہے.افسوس ہے کہ اس زمانہ میں بعض مسلمان کہلانے والے ایسے بھی ہیں جو کہ ان عبادات میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں.وہ اندھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی حکمت کاملہ سے آگاہ نہیں ہیں.تزکیہ نفس کے واسطے یہ عبادات لازمی پڑی ہوئی ہیں.یہ لوگ جس عالم میں داخل نہیں ہوئے اس کے معاملات میں بے ہودہ دخل دیتے ہیں اور جس
۱۰۰۵ ملک کی انہوں نے سیر نہیں کی اس کی اصلاح کے واسطے جھوٹی تجویزیں پیش کرتے ہیں.ان کی عمریں دنیوی دھندوں میں گذرتی ہیں.دینی معاملات کی ان کو کچھ خبر ہی نہیں.کم کھانا اور بھوک برداشت کرنا بھی تزکیہ نفس کے واسطے ضروری ہے اس سے کشفی طاقت بڑھتی ہے انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا بالکل ابدی زندگی کا خیال چھوڑ دینا اپنے اوپر قہر الہی کا نازل کرنا ہے مگر روزہ دار کو خیال رکھنا چاہئے کہ روزے سے صرف یہ مطلب نہیں کہ انسان بھوکا رہے بلکہ خدا کے ذکر میں بہت مشغول رہنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے.ان ایام میں کھانے پینے کے خیالات سے فارغ ہو کر اور ان ضرورتوں سے انقطاع کر کے تبتل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے.بدنصیب ہے وہ شخص جس کو جسمانی روٹی ملی مگر اُس نے روحانی روٹی کی پرواہ نہیں کی.جسمانی روٹی سے جسم کو قوت ملتی ہے ایسا ہی روحانی روٹی رُوح کو قائم رکھتی ہے اور اس سے روحانی قولی تیز ہوتے ہیں.خدا سے فتحیاب ہونا چاہو کہ تمام دروازے اس کی توفیق سے کھلتے ہیں.ایسا ہی ایک عبادت حج کی ہے مگر حج ایسا نہیں چاہئے کہ حرام حلال کا جو روپیہ جمع ہوا ہو اس کو لے کر انسان سمندر کو چیرتا ہوا رسمی طور پر حج کو پورا کر آوے اور اس جگہ کے کہلانے والے جو کچھ منہ سے کہلاتے جاویں وہ کہہ کر واپس آ جاوے اور ناز کرے کہ میں حج کر آیا ہوں.خدا تعالیٰ کا جو مطلب حج سے ہے وہ اس طرح پورا نہیں ہوتا.اصل بات یہ ہے کہ سالک کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ وہ انقطاع نفس کر کے تعشق باللہ اور محبت الہی میں غرق ہو جاوے.عاشق اور محب جو سچا ہوتا ہے وہ اپنی جان اور اپنا دل قربان کر دیتا ہے اور بیت اللہ کا طواف اس قربانی کے واسطے ایک ظاہری نشان ہے جیسا کہ ایک بیت اللہ نیچے زمین پر ہے ایسا ہی ایک آسمان پر بھی ہے.جب تک آدمی اُس کا طواف نہ کرے اس کا طواف بھی نہیں ہوتا.اس کا طواف کرنے والا تو تمام کپڑے اتار کر ایک کپڑا بدن پر رکھ لیتا ہے لیکن اُس کا طواف کرنے والا بالکل نزع ثیاب کر کے خدا کے واسطے بنگا ہو جاتا ہے.طواف عشاق الہبی کی ایک نشانی ہے.عاشق اس کے گرد گھومتے ہیں گویا ان کی اپنی مرضی باقی نہیں رہی.وہ اس کے گردا گر د قربان ہو رہے ہیں.ایسا ہی زکوۃ ہے.بعض لوگ زکوۃ تو دیتے ہیں مگر اس بات کا کچھ خیال نہیں رکھتے کہ یہ روپیہ حلال کی کمائی سے ہے یا حرام کی کمائی سے ہے.دیکھو اگر ایک کتا ذبح کیا جاوے اور اُس کے ذبح کرنے کے وقت اللہ اکبر بھی کہا جاوے.ایسا ہی ایک سؤر لوازمات ذبح کے ساتھ مارا جائے تو وہ کیا کتا یا سؤر حلال ہو جاوے گا ؟ وہ تو بہر حال حرام ہی ہے.زکوۃ تو تزکیہ سے نکلی ہے.اس کے
1004 ذریعہ سے مال پاک ہو جاتا ہے کہ انسان حلال کی روزی حاصل کرتا ہے اور پھر اس کو دین کے راہ میں خرچ کرتا ہے.انسانوں میں اس قسم کی غلطیاں ہیں کہ اصل حقیقت کو نہیں پہچانتے.ایسی باتوں سے دست بردار ہونا چاہئے.ارکانِ اسلام نجات دینے کے واسطے ہیں مگر اپنی غلطیوں سے لوگ کہیں کے کہیں چلے جاتے ہیں.انسان کو اپنے اعمال پر فخر نہیں کرنا چاہئے اور نہ خوش ہونا چاہئے.جب تک ایسا ایمان خالص حاصل نہ ہو جاوے کہ انسان کی عبادت میں خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو اور اس کو اعمال صالح حاصل نہ ہو جائے.(البدر مورخه ، ارجنوری ۱۹۰۷ء صفحه ۱۵ کالم نمبر ۳۲)
1006 جہاد بالسیف جہاد کے مسئلہ کی فلاسفی اور اس کی اصل حقیقت ایسا ایک پیچیدہ امر اور دقیق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ایسا ہی درمیانی زمانہ کے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائی ہیں اور ہمیں نہایت شرم زدہ ہو کر قبول کرنا پڑتا ہے کہ ان خطرناک غلطیوں کی وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئینہ اور زندہ خدا کا جلال ظاہر کرنے والا ہے مورد اعتراض ٹھہراتے ہیں.جاننا چاہئے کہ جہاد کا لفظ جہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کوشش کرنا.اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا...اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کو جہاد کی کیوں ضرورت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے؟ سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا تھا اور تمام قو میں اس کی دشمن ہو گئی تھیں.جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے.بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں...اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آ گئے ہیں اور اُن کے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہیں ان کے دل کی قصور وار حالت کو اُن پر ظاہر کرتے رہتے ہیں.مگر پھر بھی حسد کی آگ کا تیز انجن عداوت کے گڑھوں کی طرف اُن کو کھینچے لئے جاتا ہے.یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا.لہذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحہ دنیا سے مٹا دیں.اور چونکہ مسلمان
1++1 اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن کے مخالفوں نے باعث اس تکبر کے جو فطرتا ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں.مال میں.کثرت جماعت میں.عزت میں.مرتبہ میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو.بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اٹھا نہیں رکھا تھا.اور ان کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے.سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا.نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں.اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا.اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی ان کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخران شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے.اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شر کا ہرگز مقابلہ نہ کرو.چنانچہ ان برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا.ان کے خونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا.وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بارہا پھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا.مگر اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا.تب اس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اس کا غضب شریروں پر بھڑ کا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں.میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے.أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ
10+9 لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۳ تا ۶ ) دوسری نصیحت اگر پادری صاحبان سنیں تو یہ ہے کہ وہ ایسے اعتراض سے پر ہیز کریں جو خود ان کی کتب مقدسہ میں بھی پایا جاتا ہے.مثلاً ایک بڑا اعتراض جس سے بڑھ کر شاید اُن کی نظر میں اور کوئی اعتراض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے وہ لڑائیاں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باذن اللہ ان کفار سے کرنی پڑیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں تیرہ برس تک انواع اقسام کے ظلم کئے اور ہر یک طریق سے ستایا اور دکھ دیا اور پھر قتل کا ارادہ کیا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ اپنے اصحاب کے مکہ چھوڑنا پڑا اور پھر بھی باز نہ آئے.اور تعاقب کیا اور ہر ایک بے ادبی اور تکذیب کا حصہ لیا اور جو مکہ میں ضعفاء مسلمانوں میں سے رہ گئے تھے ان کو غایت درجہ دکھ دینا شروع کیا.لہذا وہ لوگ خدا تعالیٰ کی نظر میں اپنے ظالمانہ کاموں کی وجہ سے اس لائق ٹھہر گئے کہ اُن پر موافق سنت قدیمہ الہیہ کے کوئی عذاب نازل ہو اور اس عذاب کی وہ تو میں بھی سزا وار تھیں جنہوں نے مکہ والوں کو مدد دی اور نیز وہ قومیں بھی جنہوں نے اپنے طور سے ایذاء اور تکذیب کو انتہا تک پہنچایا.اور اپنی طاقتوں سے اسلام کی اشاعت سے مانع آئے.سو جنہوں نے اسلام پر تلواریں اٹھا ئیں وہ اپنی شوخیوں کی وجہ سے تلواروں سے ہی ہلاک کئے گئے.اب اس صورت کی لڑائیوں پر اعتراض کرنا اور حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی لڑائیوں کو بھلا دینا جن میں لاکھوں شیر خوار بچے قتل کئے گئے کیا یہ دیانت کا طریق ہے یا ناحق کی شرارت اور خیانت اور فساد انگیزی ہے.اس کے جواب میں حضرات عیسائی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائیوں میں بہت ہی نرمی پائی جاتی ہے کہ اسلام لانے پر چھوڑا جاتا تھا اور شیر خوار بچوں کو قتل نہیں کیا اور نہ عورتوں کو نہ بوڑھوں کو اور نہ فقیروں اور مسافروں کو مارا اور نہ عیسائیوں اور یہودیوں کے گر جاؤں کو مسمار کیا.لیکن اسرائیلی نبیوں نے ان سب باتوں کو کیا.یہاں تک کہ تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ شیر خوار بچے قتل کئے گئے.گویا حضرات پادریوں کی نظر میں اس نرمی کی وجہ سے اسلام کی لڑائیاں قابل اعتراض ٹھہریں کہ اُن میں وہ سختی نہیں جو حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کی لڑائیوں میں تھی.اگر اس درجہ کی تختی پر یہ لڑائیاں بھی ہو ئیں تو قبول کر لیتے کہ در حقیقت یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اب ہر یک عقلمند کے سوچنے کے لائق ہے کہ کیا یہ جواب ایمانداری کا الحج : ۴۱،۴۰
1+1+ جواب ہے؟ حالانکہ آپ ہی کہتے ہیں کہ خدا رحم ہے اور اس کی سزا رحم سے خالی نہیں.پھر جب موسیٰ کی لڑائیاں باوجود اس سختی کے قبول کی گئیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ٹھہریں تو کیوں اور کیا وجہ کہ یہ لڑائیاں جو الہی رحم کی خوشبو ساتھ رکھتی ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوئیں؟ اور ایسے لوگ کہ ان باتوں کو بھی خدا تعالیٰ کے احکام سمجھتے ہیں کہ شیر خوار بچے اُن کی ماؤں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں اور ماؤں کو اُن کے بچوں کے سامنے بے رحمی سے مارا جاوے وہ کیوں ان لڑائیوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ سمجھیں جن میں یہ شرط ہے کہ پہلے مظلوم ہو کر پھر ظالم کا مقابلہ کرو.(آریہ دھرم.روحانی خزائن جلده اصفحه ۸۱ تا ۸۳ حاشیه ) اگر تلوار کے ذریعہ سے خدا کا عذاب نازل ہونا خدا کی صفات کے مخالف ہے تو کیوں نہ یہ اعتراض اول موسیٰ سے ہی شروع کیا جائے جس نے قوموں کو قتل کر کے خون کی نہریں بہادیں اور کسی کی تو بہ کو بھی قبول نہ کیا.قرآنی جنگوں نے تو تو بہ کا دروازہ بھی کھلا رکھا جو عین قانونِ قدرت اور خدا کے رحم کے موافق ہے کیونکہ اب بھی جب خدا تعالیٰ طاعون اور ہیضہ وغیرہ سے اپنا عذاب دنیا پر نازل کرتا ہے تو ساتھ ہی طبیبوں کو ایسی ایسی بوٹیاں اور تدبیروں کا بھی علم دے دیتا ہے جس سے اس آتش وباء کا انسداد ہو سکے.سو یہ موسیٰ کے طریق جنگ پر اعتراض ہے کہ اس میں قانون قدرت کے موافق کوئی طریق بچاؤ قائم نہیں کیا گیا.ہاں بعض بعض جگہ قائم بھی کیا گیا ہے مگر کلی طور پر نہیں.الغرض جبکہ یہ سنت اللہ یعنی تلوار سے ظالم منکروں کو ہلاک کرنا قدیم سے چلی آتی ہے تو قرآن شریف پر کیوں خصوصیت کے ساتھ اعتراض کیا جاتا ہے؟ کیا موسیٰ کے زمانہ میں خدا کوئی اور تھا؟ اور اسلام میں کوئی اور ہو گیا؟ یا خدا کو اُس وقت لڑائیاں پیاری لگتی تھیں اور اب بُری دکھائی دیتی ہیں؟ اور یہ بھی فرق یا درہے کہ اسلام نے صرف ان لوگوں کے مقابل پر تلوار اٹھانا حکم فرمایا ہے کہ جو اوّل آپ تلوار اُٹھا ئیں اور انہیں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو اول آپ قتل کریں.یہ حکم ہرگز نہیں دیا کہ تم ایک کافر بادشاہ کے تحت میں ہو کر اور اس کے عدل اور انصاف سے فائدہ اٹھا کر پھر اسی پر باغیانہ حملہ کرو.قرآن کے رو سے یہ بدمعاشوں کا طریق ہے نہ نیکوں کا لیکن توریت نے یہ فرق کسی جگہ کھول کر بیان نہیں فرمایا.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف اپنے جلالی اور جمالی احکام میں اس خط مستقیم عدل اور انصاف اور رحم اور احسان پر چلتا ہے.جس کی نظیر دنیا میں کسی کتاب میں موجود نہیں.( انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۷) یادر ہے کہ ہمارے مخالفین کی یہ بڑی زبردستی ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ الہامی ہدایت ایسی ہونی
11+1 چاہئے جس کے کسی مقام اور کسی محل میں دشمنوں کے مقابلہ کی تعلیم نہ ہواور ہمیشہ حلم اور نرمی کے پیرا یہ میں اپنی محبت اور رحمت کو ظاہر کرے.ایسے لوگ اپنی دانست میں خدائے عز و جل کی بڑی تعظیم کر رہے ہیں کہ جو اس کی تمام صفات کا ملہ کو صرف نرمی اور ملائمت پر ہی ختم کرتے ہیں.لیکن اس معاملہ میں فکر اور غور کرنے والوں پر بآسانی کھل سکتا ہے کہ یہ لوگ بڑی موٹی اور فاش غلطی میں مبتلا ہیں.خدا کے قانون قدرت پر نظر ڈالنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے لئے وہ رحمت محض تو ضرور ہے مگر وہ رحمت ہمیشہ اور ہر حال میں نرمی اور ملائمت کے رنگ میں ظہور پذیر نہیں ہوتی بلکہ وہ سراسر رحمت کے تقاضا سے طبیب حاذق کی طرح کبھی شربت شیریں ہمیں پلاتا ہے اور کبھی دوائی تلخ دیتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحہ ۴۵۱) تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گذرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۶۷ حاشیه) قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا.کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی.مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا.(ستارہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۲۰، ۱۲۱) میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کی زور سے پھیلا ہے.خدا تو قرآن شریف میں فرماتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ ہے یعنی دین اسلام میں جبر نہیں.تو پھر کس نے جبر کا حکم دیا.اور جبر کے کون سے سامان تھے ؟ اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمن کو شکست دے دیں اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے بھیٹروں بکریوں کی طرح سر کٹا دیں اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں البقرة: ۲۵۷
١٠١٢ کر دیں اور خدا کی توحید کے پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اٹھا کر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلا دیں اور پھر ہر ایک قسم کی صعوبت اٹھا کر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوتِ اسلام کریں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہو جائیں اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کر دیں اور یورپ کی حدود تك لا إله إلا الله کی آواز پہنچا دیں.تم ایمانا کہو کہ کیا یہ کام ان لوگوں کا ہے جو جبر ا مسلمان کئے جاتے ہیں.جن کا دل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے.نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نور ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے.پیغام صلح.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۶۹،۴۶۸) مسیح موعود دنیا میں آیا ہے تاکہ دین کے نام سے تلوار اٹھانے کے خیال کو دور کرے اور اپنے حجج اور براہین سے ثابت کر دکھائے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مدد کا ہرگز محتاج نہیں بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اس کے حقائق و معارف و حجج و براہین اور خدا تعالیٰ کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں.اس لئے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام کے بزور شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعوی میں جھوٹے ہیں.اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں.اگر کسی کو شک ہے تو وہ میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ اسلام اپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتا ہے.اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور اس نے ارادہ فرمایا ہے کہ ان تمام اعتراضوں کو اسلام کے پاک وجود سے دور کر دے جو خبیث آدمیوں نے اس پر کئے ہیں.تلوار کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے اب سخت شرمندہ ہوں گے.(الحکم، مورخه ۳۰ را پریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۵ کالم ۳ صفحہ ۶ کالم ۱.ملفوظات جلد دوم صفحه ۱۲۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اما العقيدة المشهورة اعنى قول بعض العلماء أنّ المسيح الموعود ينزل من السماء و يقاتل الكفّار ولا يقبل الجزية بل امّا القتل و اما الاسلام فَاعْلَمُوا انّها باطلة و مملوّة من انواع ا عقیدہ مشہورہ یعنی قول بعض علماء کا جو مسیح موعود آسمان سے نازل ہوگا اور کفار سے لڑے گا اور جز یہ قبول نہیں کرے گا بلکہ دو باتوں میں سے ایک ہوگی یا قتل یا اسلام.پس جاننا چاہیے کہ یہ عقیدہ سراسر باطل ہے اور طرح طرح کے خطاؤں
الخطاء والزلة و من امور تخالف نصوص القرآن وما هي الا تلبيسات المفترين نور الحق حصہ اوّل.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۶۷) اسلام میں جبر کو دخل نہیں.اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں :.(1) دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری.(۲) بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون.(۳) بطور آزادی قائم کرنے کے.یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے.پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی شخص کو جبر اور قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو پھر کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کی انتظار کرنا سراسر لغو اور بے ہودہ ہے.کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے برخلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے.مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۲) سوچنا چاہئے کہ اگر مثلاً ایک شخص ایک بچے مذہب کو اس وجہ سے قبول نہیں کرتا کہ وہ اس کی سچائی اور اس کی پاک تعلیم اور اس کی خوبیوں سے ہنوز نا واقف اور بے خبر ہے تو کیا ایسے شخص کے ساتھ یہ برتاؤ مناسب ہے کہ بلا توقف اس کو قتل کر دیا جائے بلکہ ایسا شخص قابل رحم ہے اور اس لائق ہے کہ نرمی اور خلق سے اس مذہب کی سچائی اور خوبی اور روحانی منفعت اُس پر ظاہر کی جائے.نہ یہ کہ اس کے انکار کا تلوار یا بندوق سے جواب دیا جائے.لہذا اس زمانہ کے ان اسلامی فرقوں کا مسئلہ جہاد اور پھر اس کے ساتھ یہ تعلیم کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک خونی مہدی پیدا ہو گا جس کا نام امام محمد ہو گا اور مسیح اس کی مدد کے لئے آسمان سے اترے گا اور وہ دونوں مل کر دنیا کی تمام غیر قوموں کو اسلام کے انکار پر قتل کر دیں گے نہایت درجہ اخلاقی مسئلہ کے مخالف ہے.کیا یہ وہ عقیدہ نہیں ہے کہ جو انسانیت کے تمام پاک قوی کو معطل کرتا اور درندوں کی طرح جذبات پیدا کر دیتا ہے.اور ایسے عقائد والوں کو ہر ایک قوم سے منافقانہ زندگی بسر کرنی پڑتی ہے.( مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ اصفحہ ۹،۸) یا در ہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ بجز اور لغزشوں سے بھرا ہوا ہے.اور قرآن کی نصوص صریحہ سے مخالف پڑا ہوا ہے سو وہ صرف مفتریوں کا افتراء ہے.
1+12 اس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُر جوش و عظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بنادیں اور انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کر دیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون ان نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی ان سب کا گناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں.جن کا نتیجہ درد ناک خونریزیاں ہیں.یہ لوگ جب حکام وقت کو ملتے ہیں تو اس قد ر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے تیار ہیں.اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارالحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں.اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں.یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے برخلاف ہو اس کا نام دخال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں.چنانچہ میں بھی مدت سے اسی فتوے کے نیچے ہوں مگر وہ یاد رکھیں کہ در حقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ ان کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے.اور اس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرنا ہے.یہ خیال ان کا ہرگز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روا رکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ کہ اب حرام ہو جائے.اس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز اُن لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پر ہیز گار مردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا.اور ایسے دردانگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی اُن قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے.دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تاہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اُس کی دُعا اُس کا حربہ ہو گا اور اُس کی عقدِ ہمت اُس کی تلوار ہو گی.وہ صلح کی بنیاد ڈالے گا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا.اور اس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہوگا.ہائے افسوس کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مونہہ سے کلمہ يضع الحرب جاری ہو چکا ہے..
۱۰۱۵ اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو! میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے.خدا کے پاک نبی کے نافرمان مت بنو.مسیح موعود جو آنے والا تھا آپکا اور اس نے حکم بھی دیا کہ آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کشت و خون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آ جاؤ.تو اب بھی خون ریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے مُنہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے.جس نے مجھے قبول کیا ہے وہ نہ صرف ان وعظوں سے منہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضب الہی جانے گا.غرض اب جب مسیح موعود آ گیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے.اگر میں نہ آیا ہوتا تو شائد اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا.مگر اب تو میں آگیا اور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا.اس لئے اب مذہبی طور پر تلوار اٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں.جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا اور قرآن کو دیکھتا ہے.وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی کار بند ہو رہے ہیں یہ اسلامی جہاد نہیں ہے.بلکہ یہ نفس امارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں.جاہل مولویوں نے خدا ان کو ہدایت دے عوام کا لانعام کو بڑے دھو کے دیئے ہیں.اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قرار دے دیا ہے.جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے برخلاف ہے.کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے.اور ہم اس قدر اس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تا ہم ہم نے اس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے.کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجالانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں.سبحان اللہ وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگر چہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ.پس وہ اس حکم کو پا کر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے.گویا نہ ان کے ہاتھوں میں زور ہے نہ ان کے بازوؤں میں طاقت.افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے.اور ہم نے بے وجہ بے تعلق اس پر پستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا.یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم
1+17 ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے! نادانوں نے جہاد کا نام سُن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۷ تا۱۳) دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں.وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے.مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے.اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے.صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو.جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ يَضَعُ الحَرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا.سومیں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں.دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور در دمندوں کے ہمدرد نہیں.زمین پر صلح پھیلا دیں کہ اسی سے ان کا دین پھیلے گا اور اس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا.کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ رُوحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا.بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۱۵)
1+12 قضاء وقدر یادر ہے کہ اگر چہ قضاء و قدر میں سب کچھ مقرر ہو چکا ہے مگر قضاء وقدر نے علوم کو ضائع نہیں کیا.سو جیسا که با وجود تسلیم مسئلہ قضا و قدر کے ہر ایک کو علمی تجارب کے ذریعہ سے ماننا پڑتا ہے کہ بے شک دواؤں میں خواص پوشیدہ ہیں اور اگر مرض کے مناسب حال کوئی دوا استعمال ہو تو خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے بے شک مریض کو فائدہ ہوتا ہے.سو ایسا ہی علمی تجارب کے ذریعہ سے ہر ایک عارف کو ماننا پڑا ہے کہ دُعا کا قبولیت کے ساتھ ایک رشتہ ہے.ہم اس راز کو معقولی طور پر دوسروں کے دلوں میں بٹھا سکیں یا نہ بٹھا سکیں مگر کروڑ ہا راستبازوں کے تجارب نے اور خود ہمارے تجربہ نے اس مخفی حقیقت کو ہمیں دکھلا دیا ہے کہ ہمارا دعا کرنا ایک قوت مقناطیسی رکھتا ہے.اور فضل اور رحمت الہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۴۰ ۲۴۱) قضاء وقدر در حقیقت ایک ایسی چیز ہے جس کے احاطہ سے باہر نکل جانا انسان کے اختیار میں نہیں ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳) انسان تقدیر الہی کے ماتحت ہے.اگر خدا کا ارادہ انسان کے ارادہ کے مطابق نہ ہو تو انسان ہزار جدو جہد کرے اپنے ارادہ کو پورا نہیں کر سکتا.لیکن جب خدا کے ارادہ کا وقت آ جاتا ہے تو وہی امور جو بہت مشکل نظر آتے تھے نہایت آسانی سے میسر آ جاتے ہیں.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳) تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے.ایک کا نام معلق ہے اور دوسری کو مبرم کہتے ہیں.اگر کوئی تقدیر معلق ہو تو دعا اور صدقات اس کو ٹلا دیتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس تقدیر کو بدل دیتا ہے اور مبرم ہونے کی صورت میں وہ صدقات اور دعا اس تقدیر کے متعلق کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے.ہاں وہ عبث اور فضول بھی نہیں رہتی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے.وہ اُس دُعا اور صدقات کا اثر اور نتیجہ کسی دوسرے پیرائے میں اس کو پہنچا دیتا ہے.بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالی کسی تقدیر میں ایک وقت تک توقف اور تاخیر ڈال دیتا ہے.قضائے معلق اور مبرم کا ماخذ اور پستہ قرآن کریم سے ملتا ہے.الحکم مورخہ ۱۲ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۳ کالم نمبرا.ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۰۰ اجدید ایڈیشن )
۱۰۱۸ قرآن شریف نے ان امور کو جن سے احمق معترضوں نے جبر کی تعلیم نکالی ہے محض اس عظیم الشان اصول کو قائم کرنے کے لئے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور ہر ایک امر کا مبدء اور مرجع وہی ہے.وہی علت العلل اور مُسبب الاسباب ہے.یہ غرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض درمیانی وسائط اُٹھا کر اپنے علت العلل ہونے کا ذکر فرمایا ہے.ورنہ قرآن شریف کو پڑھو اس میں بڑی صراحت کے ساتھ ان اسباب کو بھی بیان فرمایا جس کی وجہ سے انسان مکلف ہو سکتا ہے.علاوہ بریں قرآن شریف جس حال میں اعمال بد کی سزا ٹھہراتا ہے اور حدود قائم کرتا ہے اگر قضاء وقدر میں کوئی تبدیلی ہونے والی نہ تھی اور انسان مجبور مطلق تھا تو ان حدود اور شرائع کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پس یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف دہریوں کی طرح تمام امور کو اسباب طبعیہ تک محدود رکھنا نہیں چاہتا بلکہ خالص تو حید پر پہنچانا چاہتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے دعا کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ قضاء وقدر کے تعلقات کو جو دعا کے ساتھ ہیں تدبر کی نگاہ سے دیکھا ہے.جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے لئے راہ کھول دیتا ہے.وہ دعا کو رد نہیں کرتا.ایک طرف دعا ہے دوسری طرف قضاء وقدر.خدا نے ہر ایک کے لئے اپنے رنگ میں اوقات مقرر کر دیئے ہیں.اور ربوبیت کے حصہ کو عبودیت میں دیا گیا ہے اور فرمایا ہے اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمْ.مجھے پکارو میں جواب دوں گا.میں اسی لئے ہی کہا کرتا ہوں کہ ناطق خدا مسلمانوں کا ہے.لیکن جس خدا نے کوئی ذرہ پیدا نہیں کیا یا جو خود یہودیوں سے طمانچے کھا کر مر گیا وہ کیا جواب دے گا.تو کار زمین را نکو ساختی که با آسمان نیز پرداختی سے جبر اور قدر کے مسئلہ کو اپنی خیالی اور فرضی منطق کے معیار پر کسنا دانشمندی نہیں ہے اس سر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنا بیہودہ ہے.الوہیت اور ربوبیت کا کچھ تو ادب بھی چاہئے اور یہ راہ تو ادب کے خلاف ہے کہ الوہیت کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی جاوے.الطَّرِيقَةُ كُلُّهَا اَدَبٌ.قضا و قدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے.دعا کے ساتھ معلق تقدیر مل جاتی ہے.جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دعا ضرور اثر کرتی ہے.جو لوگ دعا سے منکر ہیں اُن کو ایک دھوکا لگا ہوا ہے.قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں.ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور المؤمن: ٦١ ے کیا تو نے زمینی کاموں کو درست کر لیا ہے کہ آسمانی کاموں کی طرف بھی متوجہ ہو گیا ہے.
1+19 ہے وہ دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمُ بِشَيْ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ ے میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے.نون ثقیلہ کے ذریعہ سے جو اظہار تاکید کیا ہے اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ قضاء مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ ہ ہی ہے.اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ سے میں ظاہر کیا ہے.پس مومن کو ان دونوں مقامات کا پورا علم ہونا چاہئے.صوفی کہتے ہیں کہ فقر کامل نہیں ہوتا جب تک محل اور موقعہ کی شناخت حاصل نہ ہو.بلکہ کہتے ہیں کہ صوفی دعا نہیں کرتا جب تک کہ وقت کو شناخت نہ کرے.سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا کے ساتھ شقی سعید کیا جاتا ہے بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شَدِيدُ الْاِخْتِفَاءِ امور مُشَبَّهُ بِالْمُبْرَم بھی دُور کئے جاتے ہیں.الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی وہ مان لیتا ہے.یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں.چنانچہ آپ کے گیارہ بچے مر گئے مگر آپ نے کبھی سوال نہ کیا کہ کیوں؟ (الحکم، مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۳ کالم ۲ ،۳، صفحہیہ کالم ۱.ملفوظات جلد دوم صفحه ۱۶۶ تا ۱۶۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) عادۃ اللہ یہ ہے کہ جب ایک فعل یا عمل انسان سے صادر ہوتا ہے تو جو کچھ اس میں اثر مخفی یا کوئی خاصیت چھپی ہوئی ہوتی ہے خدا تعالیٰ ضرور اس کو ظاہر کر دیتا ہے.مثلاً جس وقت ہم کسی کوٹھڑی کے چاروں طرف سے دروازے بند کر دیں گے تو یہ ہمارا ایک فعل ہے جو ہم نے کیا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر اثر یہ مترتب ہو گا کہ ہماری کوٹھڑی میں اندھیرا ہو جائے گا.اور اندھیرا کرنا خدا کا فعل ہے جو قدیم سے اس کے قانون قدرت میں مندرج ہے.ایسا ہی جب ہم ایک وزن کافی تک زہر کھا لیں گے تو کچھ شک نہیں کہ یہ ہمارا فعل ہوگا.پھر بعد اس کے ہمیں مار دینا یہ خدا کا فعل ہے جو قدیم سے اس کے قانونِ قدرت میں مندرج ہے.غرض ہمارے فعل کے ساتھ ایک فعل خدا کا ضرور ہوتا ہے جو ہمارے فعل کے بعد ظہور میں آتا اور اس کا نتیجہ لازمی ہوتا ہے.سو یہ انتظام جیسا کہ ظاہر سے متعلق ہے ایسا ہی باطن سے بھی متعلق ہے.ہر ایک ہمارا نیک یا بد کام ضرور اپنے ساتھ ایک اثر رکھتا ہے جو ہمارے فعل البقرة: ۱۵۶ البقرة: ۱۵۷ المؤمن: ٦١
۱۰۲۰ کے بعد ظہور میں آتا ہے اور قرآن شریف میں جو خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ یا آیا ہے اُس میں خدا کے مہر لگانے کے یہی معنے ہیں کہ جب انسان بدی کرتا ہے تو بدی کا نتیجہ اثر کے طور پر اس کے دل پر اور منہ پر خدا تعالیٰ ظاہر کر دیتا ہے.اور یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ہے یعنی جبکہ وہ حق سے پھر گئے تو خدا تعالیٰ نے اُن کے دل کو حق کی مناسبت سے ڈور ڈال دیا.اور آخر کو معاندانہ جوش کے اثروں سے ایک عجیب کا یا پلٹ اُن میں ظہور میں آئی.اور ایسے بگڑے کہ گویا وہ وہ نہ رہے اور رفتہ رفتہ نفسانی مخالفت کے زہر نے اُن کے انوار فطرت کو دبا لیا.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۷، ۴۸) آپ نے جبر قدر کا اعتراض پیش کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ قرآن سے جبر ثابت ہوتا ہے.اس کے جواب میں واضح ہو کہ شاید آپ کی نظر سے یہ آیات نہیں گذریں جو انسان کے کسب و اختیار پر صریح دلالت کرتی ہیں اور یہ ہیں.وَاَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعی (س) ۲۷.(۷) کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو سعی کرتا ہے.جو اُس نے کوشش کی ہو.یعنی عمل کرنا اجر پانے کے لئے ضروری ہے.پھر فرماتا ہے وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ (س ) یعنی خدا اگر لوگوں کے اعمال پر جو اپنے اختیار سے کرتے ہیں اُن کو پکڑتا تو کوئی زمین پر چلنے والا نہ چھوڑتا.اور پھر فرماتا ہے لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ (س۳.(۸) اس کے لئے جو اس نے اچھے کام کئے اور اُس پر جو اُس نے بُرے کام کئے.پھر فرماتا ہے.مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِه له (س۲۴ - (۶) جو شخص اچھا کام کرے سو اس کے لئے اور جو بُرا کرے وہ اس کے لئے.پھر فرماتا ہے فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ - (س) ۹ - (1) یعنی کس طرح جس وقت پہنچے ان کو مصیبت بوجہ ان اعمال کے جو ان کے ہاتھ کر چکے ہیں.اب دیکھیے ان تمام آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے کاموں میں اختیار بھی رکھتا ہے اور اس جگہ ڈپٹی صاحب نے جو یہ آیت پیش کی ہے يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ البقرة: ٨ الصف: ۶ لحم السجدة: ۴۷ ك النساء : ٦٣ النجم ۴۰ فاطر : ۴۶ ۵ البقرة: ۲۸۷ ال عمران:۱۵۵
۱۰۲۱ اور اس سے اُن کا مدعا یہ ہے کہ اس سے جبر ثابت ہوتا ہے.یہ اُن کی غلط فہمی ہے.دراصل بات یہ ہے کہ امر کے معنے حکم اور حکومت کے ہیں اور یہ بعض ان لوگوں کا خیال تھا جنہوں نے کہا کہ کاش اگر حکومت میں ہمارا دخل ہوتا تو ہم ایسی تدابیر کرتے جس سے یہ تکلیف جو جنگ اُحد میں ہوئی ہے پیش نہ آتی.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ اِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ لا یعنی تمام امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں.تمہیں اپنے رسول کریم کا تابع رہنا چاہئے.اب دیکھنا چاہئے کہ اس آیت کو قدر سے کیا تعلق ہے.سوال تو صرف بعض آدمیوں کا اتنا تھا کہ اگر ہماری صلاح اور مشورہ لیا جاوے تو ہم اس کے مخالف صلاح دیں.تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو منع فرمایا کہ اس امر کی اجتہاد پر بنا نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.پھر بعد اس کے واضح رہے کہ تقدیر کے معنے صرف اندازہ کرنا ہے.جیسے کہ اللہ جل شانه فرماتا ہے.وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (س ۱۸ - ۱۶) یعنی ہر ایک چیز کو پیدا کیا تو پھر اس کے لئے ایک مقرر اندازہ ٹھہرا دیا.اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے اختیارات سے روکا گیا ہے.بلکہ وہ اختیارات بھی اُسی اندازہ میں آگئے.جب خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت اور انسانی قوی کا اندازہ کیا تو اس کا نام تقدیر رکھا اور اسی میں یہ مقرر کیا کہ فلاں حد تک انسان اپنے اختیارات برت سکتا ہے.یہ بہت بڑی غلط نہی ہے کہ تقدیر کے لفظ کو ایسے طور پر سمجھا جائے کہ گویا انسان اپنے خدا داد قولی سے محروم رہنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے.اس جگہ تو ایک گھڑی کی مثال ٹھیک آتی ہے کہ گھڑی کا بنانے والا جس حد تک اس کا دور مقرر کرتا ہے اس حد سے وہ زیادہ چل نہیں سکتی.یہی انسان کی مثال ہے کہ جو قومی اس کو دیئے گئے ہیں اُن سے زیادہ وہ کچھ کر نہیں سکتا.اور جو عمر دی گئی ہے اس سے زیادہ جی نہیں سکتا.اور یہ سوال کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں جبر کے طور پر بعضوں کو جہنمی ٹھہرا دیا ہے اور خواہ نخواہ شیطان کا تسلط اُن پر لازمی طور پر رکھا گیا ہے.یہ ایک شرمناک غلطی ہے.اللہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.اِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ کہ اے شیطان ! میرے بندوں پر تیرا کچھ بھی تسلط نہیں.دیکھئے کس طرح پر اللہ تعالیٰ انسان کی آزادی ظاہر کرتا ہے.منصف کے لئے اگر کچھ دل میں انصاف رکھتا ہو تو یہی آیت کافی ہے لیکن انجیل متی سے تو اس کے برخلاف ثابت ہوتا ہے.کیونکہ انجیل متی سے یہ بات پایہ ثبوت پر پہنچتی ہے کہ شیطان حضرت مسیح کو آزمائش کے لئے لے گیا تو یہ ایک قسم کی حکومت شیطان کی ٹھہری کہ ایک مقدس نبی ال عمران: ۱۵۵ ۲ الفرقان: ۳ الحجر : ۴۳
۱۰۲۲ پر اُس نے اِس قدر جبر کیا کہ وہ کئی جگہ اس کو لئے پھرا.یہاں تک کہ بے ادبی کی راہ سے اُسے یہ بھی کہا کہ تو مجھے سجدہ کر.اور ایک بڑے اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی ساری بادشاہتیں اور اُن کی شان و شوکت اُسے دکھلا ئیں.دیکھومتی ۴/۸.پھر غور کر کے دیکھو کہ اس جگہ پر شیطان کیا بلکہ خدائی جلوہ دکھلایا گیا ہے کہ اوّل وہ بھی اپنی مرضی سے مسیح کے خلاف مرضی ایک پہاڑ پر اس کو لے گیا.اور دنیا کی بادشاہتیں دکھا دینا خدا تعالی کی طرح اس کی قوت میں ٹھہرا.اور بعد اس کے واضح ہو کہ یہ بات جو آپ کے خیال میں جم گئی ہے کہ گویا قرآن شریف نے خواہ نخواہ بعض لوگوں کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے یا خواہ نخواہ دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے یہ اس بات پر دلیل ہے کہ آپ لوگ کبھی انصاف کی پاک نظر کے ساتھ قرآن کریم کو نہیں دیکھتے دیکھو اللہ جل شانہ کیا فرماتا ہے.لَا مُلَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ (س) ۲۳ - (۵) یعنی شیطان کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان لوگوں سے جو تیری پیروی کریں بھروں گا.دیکھیئے اس آیت سے صاف طور پر کھل گیا اللہ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کو جبر کے طور پر جہنم میں ڈالے.بلکہ جو لوگ اپنی بداعمالیوں سے جہنم کے لائق ٹھہریں اُن کو جہنم میں گرایا جاوے گا.اور پھر فرماتا ہے.يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِةٍ إِلَّا الْفُسِقِينَ یعنی بہتوں کو اس کلام سے گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو یہ ہدایت دیتا ہے مگر گمراہ اُن کو کرتا ہے جو گمراہ ہونے کے کام کرتے ہیں اور فاسقانہ چالیں چلتے ہیں.یعنی انسان اپنے ہی افعال کا نتیجہ خدا تعالیٰ سے پالیتا ہے.جیسے کہ ایک شخص آفتاب کے سامنے کی کھڑکی جب کھول دیتا ہے تو یہ ایک قدرتی اور فطرتی امر ہے کہ آفتاب کی روشنی اور اُس کی کرنیں اس کے منہ پر پڑتی ہیں لیکن جب وہ اس کھڑکی کو بند کر دیتا ہے تو اپنے ہی فعل سے اپنے لئے اندھیرا پیدا کر لیتا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ علت العلل ہے بوجہ اپنے علت العلل ہونے کے ان دونوں فعلوں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے.لیکن اپنی پاک کلام میں اس نے بار ہا تصریح سے فرما دیا ہے کہ جو ضلالت کے اثر کسی کے دل میں پڑتے ہیں وہ اُسی کی بد اعمالی کا نتیجہ ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ظلم نہیں کرتا.جیسا کہ فرماتا ہے فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (س) ۲۸.(۹) پس جبکہ وہ سنج ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو سچ کر دیا.پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے.فِي قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ ص:۸۶ البقرة: ۲۷ الصف: ۶ البقرة: اا النساء:۱۵۶
الله مَرَضًا ل اُن کے دلوں میں مرض تھی.خدا تعالیٰ نے اس مرض کو زیادہ کیا یعنی امتحان میں ڈال کر اس کی حقیقت ظاہر کر دی.پھر فرماتا ہے.بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ لا یعنی خدا تعالیٰ نے بباعث اُن کی بے ایمانیوں کے اُن کے دلوں پر مُمبر میں لگا دیں لیکن یہ جبر کا اعتراض اگر ہوسکتا ہے تو آپ کی کتب مقدسہ پر ہو گا.دیکھو خروج ۴/۲۱ خدا نے موسیٰ کو کہا.میں فرعون کا دل سخت کروں گا اور جب دل سخت ہوا تو اس کا نتیجہ جہنم ہے یا کچھ اور ہے.دیکھو خروج ۷/۳، امثال باب ۱۶/۴ پھر خروج ۱۰/۳- استثنا ۲۹/۴.خدا نے تم کو وہ دل جو سمجھے اور وہ آنکھیں جو دیکھیں اور وہ کان جو سنیں آج تک نہ دیئے.اب دیکھیے کیسے جبر کی صاف مثال ہے.پھر دیکھوز بور ۶۰ / ۱۴۸.اُس نے ایک تقدیر مقدر کی جوٹل نہیں سکتی.رومیاں ۹/۱۸ کاریگری کا کاریگر پر اعتراض نہیں کر سکتے.اب ان تمام آیات سے آپ کا اعتراض اُلٹ کر آپ ہی پر پڑا.البقرة: النساء: ۱۵۶ جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۱ تا ۲۳۴)
۱۰۲۴ تقویٰ قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے.وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے.ایک منتقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے.جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں.اور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقعہ دیتے ہیں.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۴۲) تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.محجب، خود پسندی، مال حرام سے پر ہیز اور بد اخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے.جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اُس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۸۳ - ملفوظات جلد اول صفحه ۵۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کر لے.اور بدقسمت وہ ہے جو ٹھو کر کھا کر اس کی طرف نہ جھکے.الحکم، مورخہ ۲۴ جون ۱۹۰۱ء صفحہ ۲ کالم ۳.ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۹۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.تقویٰ کی باریک را ہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قو تیں اور اخلاق ہیں.ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور نا جائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام
۱۰۲۵ سے موسوم کیا ہے.چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوای قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رُوحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۱۰،۲۰۹) حقیقی تقومی کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی.حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیسا کہ الله جلّ شانۀ فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فَرْقَانَا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَّاتِكُمْ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ ا یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالی کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا.وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آ جائے گا.تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قومی کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نو ر سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۷ ۱۷۸،۱۷) علوم ظاہری اور علوم قرآنی کے حصول کے درمیان ایک عظیم الشان فرق ہے.دنیوی اور رسمی علوم کے حاصل کرنے کے واسطے تقویٰ شرط نہیں ہے.صرف و نحو طبعی.فلسفہ.ہیئت و طبابت پڑھنے کے واسطے یہ ضروری امر نہیں ہے کہ وہ صوم وصلوٰۃ کا پابند ہو اور امر الہی اور نواہی کو ہر وقت مد نظر رکھتا ہو.اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالٰی کے احکام کی حکومت کے نیچے رکھے بلکہ بسا اوقات عموما دیکھا گیا ہے کہ دنیوی علوم کے ماہر اور طلبگار دہریہ منش ہو کر ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں.آج دنیا کے سامنے ایک زبر دست تجر بہ موجود ہے.یورپ اور امریکہ باوجود یکہ وہ لوگ ارضی علوم میں بڑی بڑی ترقیاں کر رہے ہیں اور آئے دن نئی ایجادات کرتے رہتے ہیں لیکن اُن کی روحانی اور اخلاقی حالت بہت ہی قابل شرم الانفال: ٣٠ الحديد: ٢٩
١٠٢٦ ہے.لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے حالات جو کچھ شائع ہوئے ہیں ہم تو ان کا ذکر بھی نہیں کر سکتے مگر علوم آسمانی اور اسرار قرآنی کی واقفیت کے لئے تقویٰ پہلی شرط ہے.اس میں توبۃ النصوح کی ضرورت ہے.جب تک انسان پوری فروتنی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہ اٹھا لے اور اس کے جلال و جبروت سے لرزاں ہو کر نیاز مندی کے ساتھ رجوع نہ کرے قرآنی علوم کا دروازہ نہیں کھل سکتا.اور رُوح کے ان خواص اور قومی کی پرورش کا سامان اس کو قرآن شریف سے نہیں مل سکتا جس کو پا کر رُوح میں ایک لذت اور تسلی پیدا ہوتی ہے قرآن شریف اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے علوم خدا کے ہاتھ میں ہیں.پس اس کے لئے تقومی بطور نردبان کے ہے.پھر کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ بے ایمان شریر خبیث النفس ارضی خواہشوں کے اسیر اُن سے بہرہ ور ہوں.اس واسطے اگر ایک مسلمان مسلمان کہلا کر خواہ وہ صرف ونحو، معانی و بدیع وغیرہ علوم کا کتنا ہی بڑا فاضل کیوں نہ ہو دنیا کی نظر میں شيخ الكُلّ في الكُل بنا بیٹھا ہو لیکن اگر تزکیہ نفس نہیں کرتا تو قرآن شریف کے علوم سے اس کو حصہ نہیں دیا جاتا.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی توجہ ارضی علوم کی طرف بہت جھکی ہوئی ہے اور مغربی روشنی نے تمام عالم کو اپنی نئی ایجادوں اور صنعتوں سے حیران کر رکھا ہے.مسلمانوں نے بھی اگر اپنی فلاح اور بہتری کی کوئی راہ سوچی تو بد قسمتی سے یہ سوچی ہے کہ وہ مغرب کے رہنے والوں کو اپنا امام بنالیں اور یورپ کی تقلید پر فخر کریں.یہ تو نئی روشنی کے مسلمانوں کا حال ہے جو لوگ پرانے فیشن کے مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو حامی دین متین سمجھتے ہیں اُن کی ساری عمر کی تحصیل کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ صرف ونحو کے جھگڑوں اور الجھیڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ضالین کے تلفظ پر مرمٹے ہیں.قرآن شریف کی طرف بالکل توجہ ہی نہیں.اور ہو کیونکر جبکہ وہ تزکیہ نفس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.( ملفوظات جلد اول صفحه ۲ ۲۸ ۲۸۳ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا.چوری.تلف حقوق.ریا.مجب، حقارت ، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پر ہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے.لوگوں سے مروت خوش خلقی ہمدردی سے پیش آوے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ کچی وفا اور صدق دکھلا دے.خدمات کے مقام محمود تلاش کرے.ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں وہی اصل متقی ہوتے ہیں.( یعنی اگر ایک ایک خلق فرڈ ا فرڈ ا کسی میں ہوں تو اُسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں ) اور ایسے ہی
۱۰۲۷ شخصوں کے لئے لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ لے ہے.اور اس کے بعد اُن کو کیا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِينَ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں.اُن کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں.ان کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں اُن کے پاؤں ہو جاتا ہے.جن سے وہ چلتے ہیں اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے.میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو.ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے.الحکم، مورخه ۱۳ / فروری ۱۹۰۱ء صفحه ۲۸ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۸۰ ، ۶۸۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ہمیں اُس یار سے تقویٰ عطا ہے نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے کرو کوشش اگر صدق و صفا ہے کہ یہ حاصل ہو جو شرط لقا ہے ہے یہی اک جوہر سیف دعا ہے یہی آئینہ خالق نما ہر اگر اک نیکی کی جڑ جڑ رہی کچھ رہا یہی اک فخر شانِ اولیاء ہے بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے اگر سوچو یہی دارالجزاء ہے مجھے تقویٰ سے اُس نے یہ جزا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ سنو! ہے حاصل اسلام تقویٰ خدا کا عشق کے اور جام تقویٰ بناؤ تام تقوی کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ مسلمانو! دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي در یمین اردو شائع کردہ نظارت اشاعت ربوه صفحه ۴۹٬۴۸ زیر عنوان بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ) البقرة: ٦٣ الاعراف: ۱۹۷ الہامی مصرعه
۱۰۲۸ زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں مقبول بن کے اُس کے عزیز وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں ہر دم اسیر نخوت و تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبر و غرور و ہیں کبر و غرور ہیں بخل کی عادت کو چھوڑ دو رہ عشرت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اس یار کے لئے لعنت کی ہے یہ راه سو لعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیال حضرت عزت کو چھوڑ سے قبول دو تلخی کی زندگی کو کرو صدق تا تم ہو ملا نگہ عرش کا نزول (براہین احمدیہ حصہ پنجم ( نصرت الحق).روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۸،۱۷)
۱۰۲۹ تكبّر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلانہیں یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے.خدا تعالیٰ کا رحم ہر یک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں.شیطان بھی موحد ہونے کا دم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا جب اُس نے تو ہین کی نظر سے دیکھا اور اُس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا.سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کے لئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۸) میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے.پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتا ہوں.ہر ایک شخص جو اپنے بھائی کو اس لئے حقیر جانتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ عالم یا زیادہ عقلمند یا زیادہ ہنر مند ہے وہ متکبر ہے کیونکہ وہ خدا کو سر چشمہ عقل اور علم کا نہیں سمجھتا اور اپنے تئیں کچھ چیز قرار دیتا ہے.کیا خدا قادر نہیں کہ اس کو دیوانہ کر دے اور اس کے اس بھائی کو جس کو وہ چھوٹا سمجھتا ہے اس سے بہتر عقل اور علم اور ہنر دے دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنے کسی مال یا جاہ وحشمت کا تصور کر کے اپنے بھائی کو حقیر سمجھتا ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ یہ جاہ وحشمت خدا نے ہی اس کو دی تھی اور وہ اندھا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ خدا قادر ہے کہ اُس پر ایک ایسی گردش نازل کرے کہ وہ ایکدم میں اَسْفَلُ السَّافِلِین میں جا پڑے اور اس کے اُس بھائی کو جس کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس سے بہتر مال و دولت عطا کر دے.ایسا ہی وہ شخص جو اپنی صحت بدنی پر غرور کرتا ہے یا اپنے حسن اور جمال اور قوت اور طاقت پر نازاں ہے اور اپنے بھائی کا ٹھٹھے اور استہزاء سے حقارت امیز نام رکھتا ہے اور اس کے بدنی عیوب لوگوں کو سناتا ہے وہ بھی متکبر ہے اور وہ اس خدا سے بے خبر ہے کہ ایکدم میں اس پر ایسے بدنی عیوب نازل کرے کہ اس بھائی سے اُس کو بدتر کر دے اور وہ جس کی تحقیر کی گئی ہے
۱۰۳۰ ایک مدت دراز تک اُس کے قومی میں برکت دے کہ وہ کم نہ ہوں اور نہ باطل ہوں کیونکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.ایسا ہی وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اُس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے.سو تم اے عزیز و ! ان تمام باتوں کو یا درکھو.ایسا نہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبر ٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو.ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سنتا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اُس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے.ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے اور ہنسی سے دیکھتا ہے اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اُس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے.سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ.خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو اور جس قدر دنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو.پاک دل ہو جاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو.( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲ ۴۰ ۴۰۳۰) میرا یہ مسلک نہیں کہ میں ایسا تند خو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں اور میں بت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں.میں تو بت پرستی کو رڈ کرنے آیا ہوں نہ یہ کہ میں خود بت بنوں اور لوگ میری پوجا کریں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا.میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بت پرست اور خبیث نہیں.متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے.یادر ہے کہ تکبر کو جھوٹ لازم پڑا ہوا ہے بلکہ نہایت پلید جھوٹ وہ ہے جو تکبر کے ساتھ مل کر ظاہر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ جلّ شانہ متکبر کا سب سے پہلے سرتوڑتا ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحه ۳۱۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۹) انسان موٹی موٹی بدیوں کو تو آسانی سے چھوڑ بھی دیتا ہے لیکن بعض بدیاں ایسی باریک اور مخفی ہوتی ہیں
۱۰۳۱ کہ اول تو انسان مشکل سے انہیں معلوم کرتا ہے اور پھر اُن کا چھوڑنا اسے بہت ہی مشکل ہوتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ محرقہ بھی گو سخت تپ ہے مگر اس کا علاج کھلا کھلا ہوسکتا ہے.لیکن تپ دق جواندر ہی کھا رہا ہے اس کا علاج بہت ہی مشکل ہے.اسی طرح پر یہ باریک اور مخفی بدیاں ہوتی ہیں جو انسان کو فضائل کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں.یہ اخلاقی بدیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ اور معاملات میں پیش آتی ہیں اور ذراذراسی بات اور اختلاف رائے پر دلوں میں بغض.کینہ.حسد.ریا.تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور اپنے بھائی کو حقیر سمجھنے لگتا ہے.چند روز اگر نماز سنوار کر پڑھی ہے اور لوگوں نے تعریف کی تو ریا اور نمود پیدا ہو گیا اور وہ اصل غرض جو اخلاص تھی جاتی رہی اور اگر خدا تعالیٰ نے دولت دی ہے یا علم دیا ہے یا کوئی خاندانی وجاہت حاصل ہے تو اس کی وجہ سے اپنے بھائی کو جس کو یہ باتیں نہیں ملی ہیں حقیر اور ذلیل سمجھتا ہے اور اپنے بھائی کی عیب چینی کے لئے حریص ہوتا ہے اور تکبر مختلف رنگوں میں ہوتا ہے.کسی میں کسی رنگ اور کسی میں کسی طرح سے.علماء علم کے رنگ میں اسے ظاہر کرتے ہیں اور علمی طور پر نکتہ چینی کر کے اپنے بھائی کو گرانا چاہتے ہیں.غرض کسی نہ کسی طرح عیب چینی کر کے اپنے بھائی کو ذلیل کرنا اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.رات دن اس کے عیبوں کی تلاش میں رہتے ہیں.اس قسم کی باریک بدیاں ہوتی ہیں جن کا دور کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور شریعت ان باتوں کو جائز نہیں رکھتی ہے.ان بدیوں میں عوام ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ جو متعارف اور موٹی موٹی بدیاں نہیں کرتے ہیں اور خواص سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اکثر مبتلا ہو جاتے ہیں.ان سے خلاصی پانا اور مرنا ایک ہی بات ہے.اور جب تک ان بدیوں سے نجات حاصل نہ کر لے تزکیہ نفس کامل طور پر نہیں ہوتا اور انسان ان کمالات اور انعامات کا وارث نہیں بنتا جو تزکیہ نفس کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں.بعض لوگ اپنی جگہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان اخلاقی بدیوں سے ہم نے خلاصی پالی ہے لیکن جب کبھی موقعہ آپڑتا ہے اور کسی سفیہ سے مقابلہ ہو جاوے تو انہیں بڑا جوش آتا ہے.پھر وہ گند اُن سے ظاہر ہوتا ہے جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.اس وقت پتہ لگتا ہے کہ ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا.اور وہ تزکیہ نفس جو کامل کرتا ہے میسر نہیں.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تزکیہ جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.اس فضل کے جذب کرنے کے لئے بھی وہی تین پہلو ہیں اوّل مجاہدہ اور تدبیر دوم دعا.سوم صحبت صادقین.الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۲۴ / جنوری ۱۹۰۵ء صفہ ۲.ملفوظات جلد ۴ صفحه ۲۱۱،۲۱۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے.جب تک انسان اس سے دور نہ ہو یہ قبول حق اور فیضان الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے.کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے.نہ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے مواد رڈیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی.کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے.اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا.شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور کہ دیا أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِين ے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور سے مردود ہو گیا.الحکم مورخہ ۲۴ / جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۴.ملفوظات جلد ۴ صفحه ۲۱۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) تکبر اور شرارت بُری بات ہے.ایک ذراسی بات سے ستر برس کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں.لکھا ہے کہ ایک شخص عابد تھا وہ پہاڑ پر رہا کرتا تھا اور مدت سے وہاں بارش نہ ہوئی تھی.ایک روز بارش ہوئی تو پتھروں پر اور روڑیوں پر بھی ہوئی تو اس کے دل میں اعتراض پیدا ہوا کہ ضرورت تو بارش کی کھیتوں اور باغات کے واسطے ہے.یہ کیا بات ہے کہ پتھروں پر ہوئی.یہی بارش کھیتوں پر ہوتی تو کیا اچھا ہوتا.اس پر خدا نے اُس کا ساراولی پنا چھین لیا.آخر وہ بہت ساغمگین ہوا اور کسی اور بزرگ سے استمداد کی تو آخر اس کو پیغام آیا کہ تو نے اعتراض کیوں کیا تھا تیری اس خطا پر عتاب ہوا ہے.(احکم مورخہ ۷ ار جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ کال ۲.ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۷۲۳۷۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) تکبر کئی قسم کا ہوتا ہے.کبھی یہ آنکھ سے نکلتا ہے جبکہ دوسرے کو گھور کر دیکھتا ہے.تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے.کبھی زبان سے نکلتا ہے اور کبھی اس کا اظہار سر سے ہوتا ہے اور کبھی ہاتھ اور پاؤں سے بھی ثابت ہوتا ہے.غرضیکہ تکبر کے کئی چشمے ہیں اور مومن کو چاہئے کہ ان تمام چشموں سے بچتا رہے اور اس کا کوئی عضو ایسا نہ ہوجس سے تکبر کی بوآ دے اور وہ تکبر ظاہر کرنے والا ہو.صوفی کہتے ہیں کہ انسان کے اندرا خلاق رذیلہ کے بہت سے جن ہیں اور جب یہ نکلنے لگتے ہیں تو نکلتے رہتے ہیں مگر سب سے آخری جسن تکبر کا ہوتا ہے جو اُس میں رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل اور الاعراف: ۱۳
انسان کے سچے مجاہدہ اور دعاؤں سے نکلتا ہے.بہت سے آدمی اپنے آپ کو خاکسار سمجھتے ہیں لیکن ان میں بھی کسی نہ کسی نوع کا تکبر ہوتا ہے اس لئے تکبر کی بار یک در بار یک قسموں سے بچنا چاہئے.بعض وقت یہ تکبر دولت سے پیدا ہوتا ہے.دولتمند متکبر دوسروں کو کنگال سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے.بعض اوقات خاندان اور ذات کا تکبر ہوتا ہے.سمجھتا ہے کہ میری ذات بڑی ہے اور یہ چھوٹی ذات کا ہے.بعض وقت تکبر علم سے بھی پیدا ہوتا ہے.ایک شخص غلط بولتا ہے تو یہ جھٹ اُس کا عیب پکڑتا ہے اور شور مچاتا ہے کہ اس کو تو ایک لفظ بھی صحیح بولنا نہیں آتا.غرض مختلف قسمیں تکبر کی ہوتی ہیں اور یہ سب کی سب انسان کو نیکیوں سے محروم کر دیتی ہیں اور لوگوں کو نفع پہنچانے سے روک دیتی ہیں.ان سب سے بچنا چاہئے مگر ان سب سے بچنا ایک موت کو چاہتا ہے جب تک انسان اس موت کو قبول نہیں کرتا خدا تعالیٰ کی برکت اُس پر نازل نہیں ہو سکتی اور نہ خدا تعالیٰ اس کا متکفل ہو سکتا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه ۶۱۴،۶۱۳ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش پیئے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اِس رہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے اے کرم خاک چھوڑ دے کبر و غرور کو زیبا ہے کبر حضرت رپ غیور کو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولیٰ اسی میں ہے تقویٰ کی جڑ خدا کے لئے خاکساری ہے عفت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے (براہین احمدیہ حصہ پنجم ( نصرت الحق ).روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۸)
۱۰۳۴ بدظنی بطنی ایک ایسا مرض ہے اور ایسی بُری بلا ہے جو انسان کو اندھا کر کے ہلاکت کے ایک تاریک کنوئیں میں گرا دیتی ہے.بدظنی ہی ہے جس نے ایک مُردہ انسان کی پرستش کرائی.بدظنی ہی تو ہے جو لوگوں کو خدائے تعالیٰ کی صفات خلق.رحم.راز قیت وغیرہ سے معطل کر کے نعوذ باللہ ایک فرد معطل اور کئے بیکار بنادیتی ہے.الغرض اسی بدظنی کے باعث جہنم کا بہت بڑا حصہ اگر کہوں کہ سارا حصہ بھر جائے گا تو مبالغہ نہیں.جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ماموروں سے بدظنی کرتے ہیں وہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۷، ۹۸ - ملفوظات جلد اول صفحه ۶۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) بدظنی ایک سخت بلا ہے جو ایمان کو ایسی جلدی جلا دیتی ہے جیسا کہ آتشِ سوزاں خس و خاشاک کو اور وہ جو خدا کے مرسلوں پر بدظنی کرتا ہے خدا اس کا خود دشمن ہو جاتا ہے اور اس کی جنگ کے لئے کھڑا ہوتا ہے.اور وہ اپنے برگزیدوں کے لئے اس قدر غیرت رکھتا ہے جو کسی میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی.میرے پر جب طرح طرح کے حملے ہوئے تو وہی خدا کی غیرت میرے لئے افروختہ ہوئی.(رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۷ حاشیہ) میں سچ کہتا ہوں کہ یہ بدظنی بہت ہی بُری بلا ہے انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے اور صدق اور راستی سے دور پھینک دیتی ہے دوستوں کو دشمن بنا دیتی ہے.صدیقوں کے کمال کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان بدظنی سے بہت ہی بچے اور اگر کسی کی نسبت کوئی سوء ظن پیدا ہو تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے تا کہ اس معصیت اور اس کے بُرے نتیجہ سے بچ جاوے جو اس بدظنی کے پیچھے آنے والا ہے اس کو کبھی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہئے.یہ بہت ہی خطرناک بیماری ہے جس سے انسان بہت جلد ہلاک ہو جاتا ہے.الحکم، مورخہ ۲۴ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم ۴.ملفوظات جلد اول صفحه ۲۴۶، ۲۴۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) غرض بدظنی انسان کو تباہ کر دیتی ہے.یہاں تک کہ جب دوزخی جہنم میں ڈالے جاویں گے تو
۱۰۳۵ اللہ تعالیٰ ان کو یہی فرمائے گا کہ تمہارا یہ گناہ ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ سے بدظنی کی.احکم ، مورخہ، ارمئی ۱۹۰۵ء صفحہ۲ کالم نمبر.ملفوظات جلد اول صفحه ۲۴۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنونِ فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے.اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے.جب پہلی ہی منزل پر خطا کی تو پھر منزل مقصود پر پہنچنا مشکل ہے.بدظنی بہت بُری چیز ہے.انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنی شروع کر دیتا ہے.الحکم، مورخہ یکم راکتو بر ۱۹۰۰ء صفحہ ۲ کالم نمبر.ملفوظات جلد اول صفحه ۳۷۵ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ہے ہے جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی اک دم میں اس علیم کو بیزار کرتی اک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں پھر شوخیوں کا بیج ہر ایک وقت ہوتے ہیں کچھ ایسے سو گئے ہیں ہمارے یہ ہم وطن اُٹھتے نہیں ہیں ہم نے تو سو سو کئے جتن سب عضوسُست ہو گئے غفلت ہی چھا گئی قوت تمام نوک زباں میں ہی آ گئی! یا بد زباں دکھاتے ہیں یا ہیں وہ بدگماں باقی خبر نہیں ہے کہ اسلام ہے کہاں تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بد گمان ڈرتے رہو عقار خدائے جہان سے شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ بد نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بدنما شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو آزمائش رب غفور ہو پھر تم تو بدگمانی سے اپنی ہوئے ہلاک خود سر پہ اپنے لے لیا خشم خدائے پاک گر ایسے تم دلیریوں میں بے حیا ہوئے پھر اتقاء کے سوچو کہ معنے ہی کیا ہوئے موسیٰ بھی بدگمانی سے شرمندہ ہو گیا قرآں میں خضر نے جو کیا تھا پڑھو ذرا بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار (براہین احمدیہ حصہ پنجم ( نصرت الحق ).روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۹،۱۸) شاید وہ
١٠٣٦ اس دنیا میں عذاب قدیم سے الہی سنت اسی طرح پر ہے کہ جب تک کوئی کافر اور منکر نہایت درجہ کا بے باک اور شوخ ہو کر اپنے ہاتھ سے اپنے لئے اسباب ہلاکت پیدا نہ کرے تب تک خدا تعالیٰ تعذیب کے طور پر اس کو ہلاک نہیں کرتا.اور جب کسی منکر پر عذاب نازل ہونے کا وقت آتا ہے تو اس میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے اس پر حکم ہلاکت لکھا جاتا ہے.عذاب الہی کے لئے یہی قانونِ قدیم ہے اور یہی سنت مستمرہ اور یہی غیر متبدل قاعدہ کتاب الہی نے بیان کیا ہے.(انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳) قرآن کریم اور دوسری الہی کتابوں میں معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر لوگوں پر اسی دنیا میں عذاب کے طور پر موت اور ہلاکت وارد ہوئی وہ صرف اس لئے نہیں وارد ہوئی کہ وہ لوگ حیثیت مذہب کی وجہ سے ناحق پر تھے مثلاً بت پرست تھے یا ستارہ پرست یا آتش پرست یا کسی اور مخلوق کی پرستش کرتے تھے.کیونکہ مذہبی ضلالت کا محاسبہ قیامت پر ڈالا گیا ہے اور صرف ناحق پر ہونے اور کافر ٹھہرانے سے اس دنیا میں کسی پر عذاب وارد نہیں ہو سکتا.اس عذاب کے لئے جہنم اور دار آخرت بنایا گیا ہے.بلکہ کافروں کے لئے یہ دنیا بطور بہشت کے ہے.اور مومن ہی اکثر اس میں دُکھ اور درد اٹھاتے ہیں.الدُّنْيَا جَنَّةُ الْكَافِرِ وَسِجُنُ الْمُؤْمِنِ.پس اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس حالت میں دنیا جَنَّةُ الْكَافِر ہے اور مشاہدہ بھی اس پر شہادت دے رہا ہے کہ کفار ہر یک دنیوی نعمت اور دولت میں سبقت لے گئے ہیں اور قرآن کریم میں جا بجا اسی بات کا اظہار ہے کہ کافروں پر ہر یک دنیوی نعمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں تو پھر بعض کا فرقوموں پر عذاب کیوں نازل ہوئے اور خدا تعالیٰ نے ان کو پتھر اور آندھی اور طوفان اور وباء سے کیوں ہلاک کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام عذاب محض کفر کی وجہ سے نہیں ہوئے بلکہ جن پر یہ عذاب نازل ہوئے وہ تکذیب مرسل اور استہزاء اور ٹھٹھے اور ایذاء میں حد سے بڑھ گئے تھے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں ان کا فساد اور فسق اور ظلم اور آزار نہایت کو پہنچ گیا تھا اور انہوں نے اپنی ہلاکت کے لئے آپ سامان پیدا
۱۰۳۷ کئے.تب غضب الہی جوش میں آیا اور طرح طرح کے عذابوں سے اُن کو ہلاک کیا.اس سے معلوم ہوا کہ دنیوی عذاب کا موجب کفر نہیں ہے بلکہ شرارت ہے اور تکبر میں حد سے زیادہ بڑھ جانا موجب ہے.اور ایسا آدمی خواہ مومن ہی کیوں نہ ہو.جب ظلم اور ایذاء اور تکبر میں حد سے بڑھے گا اور عظمت الہی کو کھلا دے گا تو عذاب الہی ضرور اس کی طرف متوجہ ہو گا اور جب ایک کا فرمسکین صورت رہے گا اور اس کو خوف دامن گیر ہوگا تو گو وہ اپنی مذہبی ضلالت کی وجہ سے جہنم کے لائق ہے مگر عذاب دنیوی اس پر نازل نہیں ہوگا.پس دنیوی عذاب کے لئے یہی ایک قدیم اور مستحکم فلاسفی ہے اور یہی وہ سنت اللہ ہے جس کا ثبوت خدا کی تمام کتابوں سے ملتا ہے.جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ تُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَهَا تَدْمِيرًا یعنی جب ہمارا ارادہ اس بات کی طرف متعلق ہوتا ہے کہ کسی بستی کے لوگوں کو ہلاک کریں تو ہم بستی کے منعم اور عیاش لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی بدکاریوں میں حد اعتدال سے نکل جاتے ہیں پس ان پر سنت اللہ کا قول ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ظلموں میں انتہا تک پہنچ جاتے ہیں.تب ہم اُن کو ایک سخت ہلاکت کے ساتھ ہلاک کر دیتے ہیں.اور پھر ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے.وَمَا كُنَّا مُهْلِكي الْقُرَى إِلَّا وَأَهْلُهَا ظُلِمُونَ ے یعنی ہم نے کبھی کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر صرف ایسی حالت میں کہ جب اس کے رہنے والے ظلم پر کمر بستہ ہوں.یادر ہے کہ اگر چہ شرک بھی ایک ظلم بلکہ ظلم عظیم ہے مگر اس جگہ ظلم سے مراد وہ سرکشی ہے جو حد سے گذر جائے اور مفسدانہ حرکات انتہا تک پہنچ جائیں.ورنہ اگر مجرد شرک ہو جس کے ساتھ ایذاء اور تکبر اور فساد منضم نہ ہو اور ایسا تجاوز از حد نہ ہو جو واعظوں پر حملہ کریں اور ان کے قتل کرنے پر آمادہ ہوں یا معصیت پر پورے طور پر سرنگوں ہو کر بالکل خوف خدا دل سے اٹھا دیں.تو ایسے شرک یا کسی اور گناہ کے لئے وعدہ عذاب آخرت ہے اور دنیوی عذاب صرف اعتداء اور سرکشی اور حد سے زیادہ بڑھنے کے وقت نازل ہوتا ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرماتا ہے.وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ سے یعنی پہلے بھی رسولوں پر ٹھٹھا کیا گیا.پس ہم نے ان کافروں جو ٹھٹھا کرتے ہیں مہلت دی.پھر جب وہ اپنے ٹھٹھے ا بنی اسراءیل : ۷ القصص: ٢٠ الرعد : ٣٣
۱۰۳۸ میں کمال تک پہنچ گئے تب ہم نے اُن کو پکڑ لیا اور لوگوں نے دیکھ لیا کہ کیونکر ہمارا عقاب اُن پر وارد ہوا.اور پھر فرماتا ہے.وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرُنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ لا یعنی کافروں نے اسلام کے مٹانے کے لئے ایک مکر کیا.اور ہم نے بھی ایک مکر کیا.یعنی یہ کہ اُن کو اپنی مکاریوں میں بڑھنے دیا تا وہ ایسے درجہ شرارت پر پہنچ جائیں کہ جو سنت اللہ کے موافق عذاب نازل ہونے کا درجہ ہے.ان تمام آیات سے ثابت ہوا کہ عذاب الہی جو دنیا میں نازل ہوتا ہے وہ بھی کسی پر نازل ہوتا ہے کہ جب وہ شرارت اور ظلم اور تکبر اور علو اور غلو میں نہایت کو پہنچ جاتا ہے.یہ نہیں کہ ایک کا فرخوف سے مرا جاتا ہے اور پھر بھی عذاب الہی کے لئے اُس پر صاعقہ پڑے اور ایک مشرک اندیشہ عذاب سے جاں بلب ہو اور پھر بھی اس پر پتھر برسیں.خداوند تعالیٰ نہایت درجہ کا رحیم اور حلیم ہے.عذاب کے طور پر صرف اسی کو اس دنیا میں پکڑتا ہے جو اپنے ہاتھ سے عذاب کا سامان تیار کرے.(انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۴ تا ۱۶ حاشیہ نمبرا) خدا تعالیٰ کا اپنے مجرموں سے دو قسم کا معاملہ ہے.اور مجرم دو قسم کے ہیں.(۱) ایک وہ مجرم ہے جو حد سے زیادہ نہیں بڑھتے.اور گو نہایت درجہ کے تعصب سے ضلالت کو نہیں چھوڑتے.مگر وہ ظلم اور ایذاء کے طریقوں میں ایک معمولی درجہ تک رہتے ہیں.اپنے جور و ستم اور بے باکی کو انتہا تک نہیں پہنچاتے.پس وہ تو اپنی سزا قیامت کو پائیں گے اور خدائے حلیم ان کو اس جگہ نہیں پکڑتا کیونکہ ان کی روش میں حد سے زیادہ سختی نہیں.لہذا ایسے گناہوں کی سزا کے لئے صرف ایک ہی دن مقرر ہے جو یوم المجازات اور یوم الدین اور یوم الفصل کہلاتا ہے.(۲) دوسری قسم کے وہ مجرم ہیں جو ظلم اور ستم اور شوخی اور بے با کی میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا کے ماموروں اور رسولوں اور راستبازوں کو درندوں کی طرح پھاڑ ڈالیں.اور دنیا پر سے ان کا نام ونشان مٹا دیں اور ان کو آگ کی طرح بھسم کر ڈالیں.ایسے مجرموں کے لئے جن کا غضب انتہا تک پہنچ جاتا ہے سنت اللہ یہی ہے کہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کا غضب اُن پر بھڑکتا ہے اور اسی دنیا میں وہ سزا پاتے ہیں اور علاوہ اس سزا کے جو قیامت کو ملے گی.اس لئے قرآنی اصطلاح میں اُن کا نام مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہے.یہ نکتہ یاد رہے کہ بلاؤں کے ٹلنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ لوگ مسلمان ہو جائیں کیونکہ مذہبی النمل: ۵۱ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۲۱۳ ۲۱۴)
۱۰۳۹ غلطیوں کے مواخذہ کے لئے قیامت کا دن مقرر ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ لوگ ہر ایک قسم کی بدچلنی سے باز آویں اور خدا کے پاک نبیوں کی نسبت بد زبانی سے پیش نہ آویں اور غریبوں پر ظلم نہ کریں.اور صدقہ خیرات بہت کریں اور خدا کے ساتھ کسی کو برابر نہ کریں.نہ پتھر کو نہ آگ کو نہ انسان کو.نہ پانی کو نہ سورج کو نہ چاند کو اور تکبر اور شرارت کی راہوں کو چھوڑ دیں.( مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۰۴) یہ بات مسلمانوں کو بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ گو ایک شخص کا انجام خدائے تعالیٰ کے علم میں کفر ہو مگر عادت اللہ قدیم سے یہی ہے کہ اس کی تضرع اور خوف کے وقت عذاب کو دوسرے وقت پر ٹال دیا جاتا ہے.اسی وجہ سے اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ وعید میں خدا کے ارادہ عذاب کا تختلف جائز ہے مگر بشارت میں جائز نہیں.جیسا کہ قوم یونس کی وعید میں نزول عذاب کی قطعی تاریخ بغیر کسی شرط کے بتلا کر پھر اس قوم کی تضرع پر وہ عذاب موقوف رکھا گیا اور قرآن شریف اور توریت کے اتفاق سے یہ بھی ثابت ہے کہ فرعون کے ایمان کے وعدہ پر خدا تعالیٰ بار بار عذاب کو اُس سے ٹالتا رہا حالانکہ جانتا تھا کہ فرعون کا خاتمہ کفر پر ہے مگر اس بات کا ستر کہ وعید میں تخلف ارادہ عذاب کا کیوں اور کس وجہ سے بعض اوقات میں ہو جاتا ہے حالانکہ بظاہر تخلف وعید میں بھی رائحہ کذب ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی کو سزا دینا دراصل خدا تعالیٰ کے ذاتی ارادہ میں داخل نہیں ہے.اس کے صفاتی نام جو اصل الاصول تمام صفاتی ناموں کے ہیں چار ہیں.اور چاروں جو د اور کرم پر نت مشتمل ہیں.یعنی وہی نام جو سورۃ فاتحہ کی پہلی تین آیتوں میں مذکور ہیں.یعنی رب العالمین اور رحمن اور رحیم اور مالک یوم الدین یعنی مالک یوم جزا.ان ہر چہار صفات میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لئے سراسر نیکی کا ارادہ کیا گیا ہے یعنی پیدا کرنا.پرورش کرنا جس کا نام ربوبیت ہے.اور بے استحقاق آرام کے اسباب مہیا کرنا جس کا نام رحمانیت ہے اور تقویٰ اور خدا ترسی اور ایمان پر انسان کے لئے وہ اسباب مہیا کرنا جو آئندہ دُکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھیں جس کا نام رحیمیت ہے.اور اعمال صالحہ کے بجالانے پر جو عبادت اور صوم اور صلوٰۃ اور بنی نوع کی ہمدردی اور صدقہ اور ایثار وغیرہ ہے.وہ مقام صالح عطا کرنا جو دائگی سرور اور راحت اور خوشحالی کا مقام ہے جس کا نام جزاء خیر از طرف مالک یوم الجزاء ہے.سوخدا نے ان ہر چہار صفات میں سے کسی صفت میں بھی انسان کے لئے بدی کا ارادہ نہیں کیا.سراسر خیر اور بھلائی کا ارادہ کیا ہے.لیکن جو شخص اپنی بدکاریوں اور بے اعتدالیوں سے ان صفات کے
۱۰۴۰ پر توہ کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور فطرت کو بدل ڈالے اُس کے حق میں اسی کی شامت اعمال کی وجہ سے وہ صفات بجائے خیر کے شر کا حکم پیدا کر لیتے ہیں.چنانچہ ربوبیت کا ارادہ فنا اور اعدام کے ارادہ کے ساتھ مبدل ہو جاتا ہے.اور رحمانیت کا ارادہ غضب اور سخط کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے.اور رحیمیت کا ارادہ انتقام اور سخت گیری کے رنگ میں جوش مارتا ہے اور جزاء خیر کا ارادہ سزا اور تعذیب کی صورت میں اپنا ہولناک چہرہ دکھاتا ہے.سو یہ تبدیلی خدا کی صفات میں انسان کی اپنی حالت کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.غرض چونکہ سزا دینا یا سزا کا وعدہ کرنا خدائے تعالیٰ کی ان صفات میں داخل نہیں جو اُمّ الصفات ہیں کیونکہ دراصل اس نے انسان کے لئے نیکی کا ارادہ کیا ہے.اس لئے خدا کا وعید بھی جب تک انسان زندہ ہے اور اپنی تبدیلی کرنے پر قادر ہے فیصلہ ناطقہ نہیں ہے.لہذا اس کے بر خلاف کرنا کذب یا عہد شکنی میں داخل نہیں.اور گو بظاہر کوئی وعید شروط سے خالی ہو مگر اس کے ساتھ پوشیدہ طور پر ارادہ الہی میں شروط ہوتی ہیں بجز ایسے الہام کے جس میں ظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ شروط نہیں ہیں.پس ایسی صورت میں وہ قطعی فیصلہ ہو جاتا ہے اور تقدیر مبرم قرار پا جاتا ہے.یہ نکتہ معارف الہیہ میں سے نہایت قابل قدر اور جلیل الشان نکتہ ہے جو سورۃ فاتحہ میں مخفی رکھا گیا ہے.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۷ تا ۱۰ حاشیہ ) یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مکہ والوں نے آپ کی نری تکذیب نہیں کی تھی.نری تکذیب سے جو محض سادگی کی بنا پر ہوتی ہے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ سزا ئیں نہیں دیتا ہے.لیکن جب مکذب شرافت اور انسانیت کی حدود سے نکل کر بے حیائی اور دریدہ دہنی سے اعتراض کرتا ہے اور اعتراضوں ہی کی حد تک نہیں رہتا بلکہ ہر قسم کی ایذاء دہی اور تکلیف رسانی کے منصوبے کرتا ہے اور پھر اس کو حد تک پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور اپنے مامور ومرسل کے لئے وہ ان ظالموں کو ہلاک کر دیتا ہے.جیسے نوح کی قوم کو ہلاک کیا یا لوط کی قوم کو.اس قسم کے عذاب ہمیشہ ان شرارتوں اور مظالم کی وجہ سے آتے ہیں جو خدا کے ماموروں اور ان کی جماعت پر کئے جاتے ہیں.ورنہ نری تکذیب کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور اس نے ایک اور عالم عذاب کے لئے رکھا ہے.عذاب جو آتے ہیں وہ تکذیب کو ایڈا کے درجہ تک پہنچانے سے آتے ہیں اور تکذیب کو استہزا اور ٹھٹھے کے رنگ میں کر دینے سے آتے ہیں.اگر نرمی اور شرافت سے یہ کہا جاوے کہ میں نے اس معاملہ کو سمجھا نہیں اس لئے مجھے اس کے ماننے میں تامل ہے تو یہ انکار عذاب کو بھینچ لانے والا نہیں ہے
۱۰۴۱ کیونکہ یہ تو صرف سادگی اور کمی علم کی وجہ سے ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر نوح کی قوم کا اعتراض شریفانہ رنگ میں ہوتا تو اللہ تعالیٰ نہ پکڑتا.ساری قو میں اپنی کرتوتوں کی پاداش میں سزا پاتی ہیں.خدا تعالیٰ نے تو یہاں تک بھی فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن سننے کے لئے آتے ہیں اُن کو امن کی جگہ تک پہنچا دیا جاوے خواہ وہ مخالف اور منکر ہی ہوں.اس لئے کہ اسلام میں جبر اور اکراہ نہیں جیسے فرمایا.لا إكْرَاهَ فِي الدِّينِ لے لیکن اگر کوئی قتل کرے گا یا قتل کے منصوبے کرے گا اور شرارتیں اور ایذا رسانی کی سعی کرتا ہے تو ضرور ہے کہ وہ سزا پاوے.الحکم، مورخہ ۱۰ را پریل ۱۹۰۲ء صفحیہ کالم ۲ ،۳.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۱۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) قرآن شریف میں صدہا جگہ اس بات کو پاؤ گے کہ خدا تعالیٰ مفتری علی اللہ کو ہر گز سلامت نہیں چھوڑتا اور اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ ایک موقع میں فرماتا ہے کہ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَری.یعنے مفتری نامراد مرے گا.اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ كَذِبًا اَوْ كَذَبَ بِالتِہ کے یعنے اس شخص سے ظالم ترکون ہے جو خدا پر افتراء کرتا ہے یا خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتا ہے.اب ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے خدا کے نبیوں کے ظاہر ہونے کے وقت خدا کی کلام کی تکذیب کی خدا نے اس کو زندہ نہیں چھوڑا اور بُرے بُرے عذابوں سے ہلاک کر دیا.دیکھو نوح کی قوم اور عاد و ثمود اور لوط کی قوم اور فرعون اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن مکہ والے ان کا کیا انجام ہوا.پس جبکہ تکذیب کرنے والے اسی دنیا میں سزا پا چکے تو پھر جو شخص خدا پر افترا کرتا ہے جس کا نام اس آیت میں پہلے نمبر پر ذکر کیا گیا ہے وہ کیونکر بیچ سکتا ہے.کیا خدا کا صادقوں اور کاذبوں سے معاملہ ایک ہوسکتا ہے اور کیا افتراء کرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا میں کوئی سزا نہیں.مَالَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ہے اور پھر ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُه وَ اِنْ يَّكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَذَّابٌ ہے یعنے اگر یہ نبی جھوٹا ہے تو اپنے جھوٹ سے ہلاک ہو جائے گا اور اگر سچا ہے تو ضرور ہے کہ کچھ عذاب تم بھی چکھو کیونکہ زیادتی کرنے والے خواہ افترا کریں خواہ تکذیب کریں خدا سے مدد نہیں پائیں گے.اب دیکھو اس سے زیادہ تصریح کیا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بار بار البقرة: ۲۵۷ طه: ۶۲ الانعام:۲۲ الصفت : ۱۵۵ المومن: ٢٩
۱۰۴۲ فرماتا ہے کہ مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہو گا.اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۳۳ ۴۳۴) ہمارے مخالف مولوی اس بات کو جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایسے شخص سے کس قدر بیزاری ظاہر کی ہے جو خدائے تعالیٰ پر افتراء باندھے یہاں تک کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے کہ اگر وہ بعض قول میرے پر افترا کرتا تو میں فی الفور پکڑ لیتا اور رگ جان کاٹ دیتا.غرض خدا تعالیٰ پر افترا کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں فلاں الہام مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے.حالانکہ کچھ بھی نہیں ہوا ایک ایسا سخت گناہ ہے کہ اس کی سزا میں صرف جہنم کی ہی وعید نہیں بلکہ قرآن شریف کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اسی دنیا میں دست بدست سزا پالیتا ہے اور خدائے قادر و غیور کبھی اس کو امن میں نہیں چھوڑتا اور اس کی غیرت اس کو کچل ڈالتی ہے اور جلد ہلاک کرتی ہے.اگر ان مولویوں کا دل تقویٰ کے رنگ سے کچھ بھی رنگین ہوتا اور خدا تعالیٰ کی عادتوں اور سنتوں سے ایک ذرہ بھی واقف ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ ایک مفتری کا اس قدر دراز عرصہ تک افترا میں مشغول رہنا بلکہ روز بروز اس میں ترقی کرنا اور خدا تعالیٰ کا اس کے افتراء پر اس کو نہ پکڑ نا بلکہ لوگوں میں اُس کو عزت دینا دلوں میں اُس کی قبولیت ڈالنا.اور اُس کی زبان کو چشمۂ حقائق و معارف بنانا ایک ایسا امر ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے دنیا کی بنیاد ڈالی ہے اس کی نظیر ہرگز نہیں پائی جاتی.افسوس کہ کیوں یہ منافق مولوی خدا تعالیٰ کے احکام اور مواعید کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھتے کیا ان کے پاس حدیث یا قرآن شریف سے کوئی نظیر موجود ہے کہ ایک ایسے خبیث طبع مفتری کو خدا تعالیٰ نہ پکڑے جو اس پر افترا پر افترا باندھے اور جھوٹے الہام بنا کر اپنے تئیں خدا کا نہایت ہی پیارا ظاہر کرے اور محض اپنے دل سے شیطانی با تیں تراش کر اس کو عمداً خدا کی وحی قرار دیوے اور کہے کہ خدا کا حکم ہے کہ لوگ میری پیروی کریں.اور کہے کہ خدا مجھے اپنے الہام میں فرماتا ہے کہ تو اس زمانہ میں تمام مومنوں کا سردار ہے حالانکہ اس کو کبھی الہام نہ ہوا ہو اور نہ کبھی خدا نے اس کو مومنوں کا سردار ٹھہرایا ہو.اور کہے کہ مجھے خدا مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو ہی مسیح موعود ہے جس کو میں کسر صلیب کے لئے بھیجتا ہوں حالانکہ خدا نے کوئی ایسا حکم اس کو نہیں دیا.اور نہ اس کا نام عیسی رکھا.اور کہے کہ خدائے تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ مجھ سے تو ایسا ہے کہ جیسا کہ میری توحید.تیرا مقام قرب مجھ سے وہ ہے جس سے لوگ بے خبر ہیں حالانکہ خدا اس کو مفتری جانتا ہے اس پر لعنت بھیجتا ہے اور مردودوں اور مخذولوں کے ساتھ اس کا حصہ قرار دیتا ہے.
۱۰۴۳ پھر کیا یہی خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذاب اور بے باک مفتری کو جلد نہ پکڑے یہاں تک کہ اس افترا پر بیس برس سے زیادہ عرصہ گذر جائے.کون اس کو قبول کر سکتا ہے کہ وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے ملہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے اس لمبے عرصہ تک اس جھوٹے کو چھوڑ دے جس کی نظیر دنیا کے صفحہ میں مل ہی نہیں سکتی.اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا یعنی اُس سے زیادہ تر ظالم اور کون ہے جو خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھے.بے شک مفتری خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ پر افترا کرنے والا جلد مارا جاتا ہے.سو ایک تقوی شعار آدمی کے لئے یہ کافی تھا کہ خدا نے مجھے مفتریوں کی طرح ہلاک نہیں کیا.بلکہ میرے ظاہر اور میرے باطن اور میرے جسم اور میری روح پر وہ احسان کئے جن کو میں شمار نہیں کر سکتا.میں جوان تھا جب خدا کی وحی اور الہام کا دعویٰ کیا اور اب میں بوڑھا ہو گیا اور ابتدائے دعوی پر بیس برس سے بھی زیادہ عرصہ گذر گیا.بہت سے میرے دوست اور عزیز جو مجھ سے چھوٹے تھے فوت ہو گئے اور مجھے اُس نے عمر دراز بخشی اور ہر یک مشکل میں میرا متکفل اور متولی رہا.پس کیا ان لوگوں کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر افتری باندھتے ہیں.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴۹ تا ۵۱) یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے کہ وہ نبوت کے جھوٹا دعویٰ کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا بلکہ ایسا شخص جلد پکڑا جاتا اور اپنی سزا کو پہنچ جاتا ہے.اس قاعدہ کے لحاظ سے ہمیں چاہیے کہ ہم ان تمام لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کو سچا سمجھیں جنہوں نے کسی زمانہ میں نبوت کا دعوی کیا اور پھر وہ دعویٰ ان کا جڑ پکڑ گیا اور اُن کا مذہب دنیا میں پھیل گیا اور استحکام پکڑ گیا اور ایک عمر پا گیا.اور اگر ہم اُن کے مذہب کی کتابوں میں غلطیاں پائیں یا اس مذہب کے پابندوں کو بد چلنیوں میں گرفتار مشاہدہ کریں تو ہمیں نہیں چاہیے کہ وہ سب داغ ملالت اُن کے مذہب کے بانیوں پر لگاویں کیونکہ کتابوں کا محرف ہو جانا ممکن ہے.اجتہادی غلطیوں کا تفسیروں میں داخل ہو جانا ممکن ہے لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص کھلا کھلا خدا پر افترا کرے اور کہے کہ میں اس کا نبی ہوں اور اپنا کلام پیش کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کلام ہے“ حالانکہ وہ نہ نبی ہو اور نہ اس کا کلام خدا کا کلام ہو اور پھر خدا اس کو بچوں کی طرح مہلت دے اور بچوں کی طرح اس کی قبولیت پھیلائے.تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۵۸) الانعام:۲۲
۱۰۴۴ کیا کبھی خدا پر افترا کرنے والے کو مفتریات کے پھیلانے کے لئے وہ مہلت ملی جو سچے ملہموں کو خدا تعالی کی طرف سے ملی ؟ کیا خدا نے نہیں کہا کہ الہام کا افتر ا کے طور پر دعویٰ کرنے والے ہلاک کئے جائیں گے اور خدا پر جھوٹ باندھنے والے پکڑے جائیں گے؟ یہ توریت میں بھی ہے کہ جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا اور انجیل میں بھی ہے کہ جھوٹا جلد فنا ہو گا اور اس کی جماعت متفرق ہو جائے گی.کیا کوئی ایک نظیر بھی ہے کہ جھوٹے ملہم نے جو خدا پر افترا کرنے والا تھا ایام افترا میں وہ عمر پائی جو اس عاجز کو ایام دعوت الہام الہی میں ملی ؟ بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو پیش تو کرو.میں نہایت پر زور دعوے سے کہتا ہوں کہ دنیا کی ابتداء سے آج تک ایک نظیر بھی نہیں ملے گی.پس کیا کوئی ایسا ہے کہ اس محکم اور قطعی دلیل سے فائدہ اٹھاوے اور خدا تعالیٰ سے ڈرے؟ میں نہیں کہتا کہ بت پرست عمر نہیں پاتے یا دہر یہ اور انا الحق کہنے والے جلد پکڑے جاتے ہیں کیونکہ ان غلطیوں اور ان ضلالتوں کی سزا دینے کے لئے دوسرا عالم ہے لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص خدا تعالیٰ پر الہام کا افترا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ الہام مجھ کو ہوا حالانکہ جانتا ہے کہ وہ الہام اس کو نہیں ہوا وہ جلد پکڑا جاتا ہے اور اُس کی عمر کے دن بہت تھوڑے ہوتے ہیں.قرآن اور انجیل اور توریت نے یہی گواہی دی ہے.عقل بھی یہی گواہی دیتی ہے اور اس کے مخالف کوئی منکر کسی تاریخ کے حوالہ سے ایک نظیر بھی پیش نہیں کر سکتا.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ اصفحہ ۲۶۷، ۲۶۸)
۱۰۴۵ عورت عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں.قرآن شریف میں لکھا ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لے مگر اب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے.دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں.ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خَلِيعُ الرَّسَن کر دیا ہے کہ دین کا کوئی اثر ہی اُن پر نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی اُن سے نہیں پوچھتا اور بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیج الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا اور کنیز کوں اور بہائم سے بھی بدتر اُن سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت ہی بُری طرح سلوک کرتے ہیں.یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتار دی دوسری پہن لی.یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بُزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کا مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے باوجود یکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے.(الحکم، مورخہء اراپریل ۱۹۰۳ صفحہ ۲ کالم ا ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۸۷ ایڈیشن ۲۰۰۳) یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جاوے.نہیں نہیں ! ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.خَيْرُ كُمُ خَيْرُ كُمْ لَا هُلِهِ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں! دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو نہ یہ کہ ہر ادنی بات پر زدوکوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں ل النساء : ٢٠
۱۰۴۶ کہ بعض وقت ایک غصہ میں بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مرگئی ہے.اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کے ہاں اگر وہ بیجا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے.انسان کو چاہئے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جمادے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین اور بدعت کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا.خاوند عورت کے لئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے.پس مرد میں جلالی اور جمالی دونوں رنگ موجود ہونے چاہئیں.الحکم مورخه ۲۳ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۲ کالم نمبر ۲ ۳.ملفوظات جلد اول صفحه ۳ ۴۰ ۴۰۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں.ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور یہ در حقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں.الحکم مورخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۰ء صفحه ۳ کالم ۲.ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۳۰۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور با ایں ہمہ کوئی دلآزار اور درشت کلمہ مُنہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے.دو الحکم مورخہ ۷ ار جنوری ۱۹۰۰ء صفحہ کالم نمبر.ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۳۰۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) یہ طریق اچھا نہیں اِس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۵) اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں.وہ اُن کی کنیز کیں نہیں ہیں.در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے.پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہر و.اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے وَ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ہے یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اور ا النساء: ٢٠
۱۰۴۷ حدیث میں ہے خَيْرُ كُمُ خَيْرُ كُمْ لِاَهْلِهِ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو اُن کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پر ہیز کرو.کیونکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندہ برتن کی طرح جلد مت توڑو.(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۷۵ حاشیہ ) مضمون پڑھنے والے نے ایک یہ اعتراض قرآن شریف پر پیش کیا کہ خاوند کی مرضی پر طلاق رکھی ہے.اس سے شاید اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ عقل کی رو سے مرد اور عورت درجہ میں برابر ہیں تو پھر اس صورت میں طلاق کا اختیار محض مرد کے ہاتھ میں رکھنا بلاشبہ قابل اعتراض ہو گا.پس اس اعتراض کا یہی جواب ہے کہ مرد اور عورت درجہ میں ہرگز برابر نہیں.دنیا کے قدیم تجربہ نے یہی ثابت کیا ہے کہ مرد اپنی جسمانی اور علمی طاقتوں میں عورتوں سے بڑھ کر ہیں اور شاذ و نادر حکم معدوم کا رکھتا ہے.پس جب مرد کا درجہ باعتبار اپنے ظاہری اور باطنی قوتوں کے عورت سے بڑھ کر ہے تو پھر یہی قرین انصاف ہے کہ مرد اور عورت کے علیحدہ ہونے کی حالت میں عنان اختیار مرد کے ہاتھ میں ہی رکھی جائے مگر تعجب ہے کہ یہ اعتراض ایک آریہ نے کیوں پیش کیا ؟ کیونکہ آریوں کے اصول کی رو سے تو مرد کا درجہ عورت سے اس قدر بڑھ کر ہے کہ بغیر لڑ کا پیدا ہونے کے نجات ہی نہیں ہو سکتی.بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ اگر ایک آریہ کی چالیس لڑکیاں بھی ہوں یا فرض کرو کہ سولر کی ہو تب بھی وہ اپنی نجات کے لئے فرزند نرینہ کا خواہشمند ہوتا ہے اور اس کے مذہب کی رو سے سولڑ کیاں بھی ایک لڑکے کے برابر نہیں ہوسکتیں.ماسوا اس کے منوشاستر کو پڑھ کر دیکھ لو کہ اس میں بھی صاف لکھا ہے کہ اگر عورت مرد کی دشمن ہو جائے یا زہر دینا چاہے یا اور کوئی ایسا سبب ہو تو مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے.اور عملی طور پر تمام شریف ہندوؤں کا یہی طریق ہے کہ اگر عورت کو بد کار اور بدچلن پاویں تو اس کو طلاق دے دیتے ہیں.اور تمام دنیا میں انسانی فطرت نے یہی پسند کیا ہے کہ ضرورتوں کے وقت میں مرد عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اور مرد کا عورت پر ایک حق زائد بھی ہے کہ مرد عورت کی زندگی کے تمام اقسام آسائش کا متکفل ہو جاتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِوَتُهُنَّ البقرة: ٢٠
۱۰۴۸.یعنی یہ بات مردوں کے ذمہ ہے کہ جو عورتوں کو کھانے کے لئے ضرورتیں ہوں یا پہننے کے لئے ضرورتیں ہوں وہ سب اُن کے لئے مہیا کریں.اس سے ظاہر ہے کہ مرد عورت کا مربی اور محسن اور ذمہ وار آسائش کا ٹھہرایا گیا ہے اور وہ عورت کے لئے بطور آ قا اور خداوند نعمت کے ہے.اسی طرح مرد کو بہ نسبت عورت کے فطرتی قومی زبر دست دیئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے مرد عورت پر حکومت کرتا چلا آیا ہے اور مرد کی فطرت کو جس قدر باعتبار کمال قوتوں کے انعام عطا کیا گیا ہے وہ عورت کی قوتوں کو عطا نہیں کیا گیا اور قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگر مرد اپنی عورت کو مروت اور احسان کی رو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے.ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے اور بہر حال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لا یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عظمند معلوم کر سکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آتے ہو.علاوہ اس کے شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تو اسلامی اصطلاح میں اس کا نام ضلع ہے.جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے نا قابل برداشت بدسلو کی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے ناموافقت ہو یا وہ مرد در اصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اس کے گھر میں آبادرہنا نا گوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اس کے کسی ولی کو چاہئے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہو گا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کر دے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اس کی عورت کو اس سے علیحدہ کیا جائے.اب دیکھو یہ کس قدر انصاف کی بات ہے کہ جیسا کہ اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اس کا باپ یا بھائی اور یا کوئی عزیز ہو خود بخود اپنا نکاح کسی سے کر لے ایسا ہی یہ بھی پسند نہیں کیا کہ ل النساء: ٢٠
۱۰۴۹ عورت خود بخود مرد کی طرح اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جائے بلکہ جدا ہونے کی حالت میں نکاح سے بھی زیادہ احتیاط کی ہے کہ حاکم وقت کا ذریعہ بھی فرض قرار دیا ہے تا عورت اپنے نقصان عقل کی وجہ سے اپنے تئیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸۶ تا ۲۸۹) پھر مضمون پڑھنے والے نے بیان کیا کہ قرآن میں لکھا ہے کہ عورتیں کھیتوں کی مانند صرف شہوت رانی کا ذریعہ ہیں.اب دیکھنا چاہئے کہ یہ ناپاک طبع ہند و افترا میں کہاں تک بڑھتا جاتا ہے اور کیسے اپنی طرف سے الفاظ تراش کر قرآن شریف کی طرف منسوب کرتا ہے.ایسے مفتری کے مقابل پر بجز اس کے ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ لعنة الله علی الکاذبین.قرآن شریف میں صرف یہ آیت ہے نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ لا یعنی تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں.پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آؤ.صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھو یعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو.ہاں اگر عورت بیمار ہو اور یقین ہو کہ حمل ہونے سے اس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحت نیت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستقلی ہیں.ورنہ عند الشرع ہرگز جائز نہیں کہ اولاد ہونے سے روکا جائے.غرض جبکہ خدا تعالیٰ نے عورت کا نام کھیتی رکھا تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسی واسطے اس کا نام کھیتی رکھا کہ اولاد پیدا ہونے کی جگہ اس کو قرار دیا.اور نکاح کے اغراض میں سے ایک یہ بھی غرض رکھی کہ تا اس نکاح سے خدا کے بندے پیدا ہوں جو اس کو یاد کریں.دوسری غرض خدا تعالیٰ نے یہ بھی قرار دی ہے کہ تا مرد اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے خاوند کے ذریعہ سے بدنظری اور بدعملی سے محفوظ رہے.تیسری غرض یہ بھی قرار دی کہ تا با ہم انس پیدا ہو کر تنہائی کے رنج سے محفوظ رہیں.یہ سب آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں ہم کہاں تک کتاب کو طول دیتے جائیں.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۹۳٬۲۹۲) مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدد ازواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا.اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کے لئے ایک ہی بیوی ہو مگر مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خواہ نخواہ مداخلت کرتے ہیں جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے مگر جبر کسی پر نہیں.اور ہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخو بی خبر ہے تو یہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب البقرة: ٢٢٤
۱۰۵۰ کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرا لیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا.اور اگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بے شک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جرم نقض عہد کا مرتکب ہوگا.لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھا وے اور حکم شرع پر راضی ہووے تو اس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بے جا ہو گا اور اس جگہ یہ مشل صادق آئے گی کہ ”میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تو تعدد ازواج فرض واجب نہیں کیا ہے.خدا کے حکم کی رُو سے صرف جائز ہے.پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رو سے ہے اور اس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تو اس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے اور اگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو تو اس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دے دے کسی پر جبر تو نہیں لیکن اگر وہ دونوں عورتیں اس نکاح پر راضی ہو جاویں تو اس صورت میں کسی آریہ کو خواہ نخواہ دخل دینے اور اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ کیا اس مرد نے اُن عورتوں سے نکاح کرنا ہے یا اس آریہ سے جس حالت میں خدا نے تعد دازواج کو کسی موقعہ پر انسانی ضرورتوں میں جائز رکھا ہے اور ایک عورت اپنے خاوند کے دوسرے نکاح میں رضا مندی ظاہر کرتی ہے اور دوسری عورت بھی اس نکاح پر خوش ہے تو کسی کا حق نہیں ہے کہ اُن کے اس باہمی فیصلہ کو منسوخ کر دے اور اس جگہ یہ بحث پیش کرنا کہ ایک سے زیادہ بیوی کرنا پہلی بیوی کے حق میں ظلم ہے اور طریق اعتدال کے برخلاف ہے یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کی تعصب سے عقل ماری گئی ہے.ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ حقوق عباد کے متعلق ہے.اور جو شخص دو بیویاں کرتا ہے.اس میں خدا تعالیٰ کا حرج نہیں.اگر حرج ہے تو اس بیوی کا جو پہلی بیوی ہے یا دوسری بیوی کا پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پا سکتی ہے.اور اگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکم وقت وہ خلع کرا سکتی ہے.اور اگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھتی ہے.پس یہ اعتراض کرنا کہ اس طور سے اعتدال ہاتھ سے جاتا ہے خواہ نخواہ کا دخل ہے.اور با ایں ہمہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو وصیت فرمائی ہے کہ اگر ان کی چند بیویاں ہوں تو ان میں اعتدال رکھیں ورنہ ایک ہی بیوی پر قناعت کریں.اور یہ کہنا کہ تعد دازواج شہوت پرستی سے ہوتا ہے یہ بھی سراسر جاہلانہ اور متعصبانہ خیال ہے.ہم نے تو اپنی آنکھوں کے تجربہ سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر شہوت پرستی غالب ہے.اگر وہ تعد دازواج کی مبارک رسم کے
۱۰۵۱ پابند ہو جائیں تب تو وہ فسق و فجور اور زنا کاری اور بدکاری سے رُک جاتے ہیں.اور یہ طریق اُن کو متقی اور پر ہیز گار بنا دیتا ہے.ورنہ نفسانی شہوات کا ئند اور تیز سیلاب بازاری عورتوں کے دروازہ تک ان کو پہنچا دیتا ہے آخر آتشک اور سوزاک خرید تے اور کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوتے ہیں.اور وہ کام فسق و فجور کے چھپے چھپے اور کھلے کھلے ان سے صادر ہوتے ہیں جن کی نظیر ان لوگوں میں ہرگز نہیں پائی جاتی جن کی دو دو تین تین دل پسند بیویاں ہوتی ہیں.یہ لوگ تھوڑی مدت تک تو اپنے تئیں روکتے ہیں آخر اس قدر یکدفعہ ان کی ناجائز شہوات جوش میں آتی ہے کہ جیسے ایک دریا کا بند ٹوٹ کر وہ دریا دن کو یا رات کو تمام اردگرد کے دیہات کو تباہ کر دیتا ہے.سچ تو یہ ہے کہ تمام کام نیت پر موقوف ہیں.جو لوگ اپنے اندر یہ محسوس کرتے ہیں کہ دوسری بیوی کرنے سے اُن کے تقویٰ کا سامان پورا ہو جائے گا اور وہ فسق و فجور سے بچ جائیں گے یا یہ کہ وہ اس ذریعہ سے اپنی صالح اولاد چھوڑ جائیں گے تو ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ضرور اس بابرکت کام سے حصہ لیں.خدا کی جناب میں بدکاری اور بدنظری ایسے ناپاک گناہ ہیں جن سے نیکیاں باطل ہو جاتی ہیں اور آخر اسی دنیا میں جسمانی عذاب نازل ہو جاتے ہیں.پس اگر کوئی تقویٰ کے محکم قلعہ میں داخل ہونے کی نیت سے ایک سے زیادہ بیویاں کرتا ہے اس کے لئے صرف جائز ہی نہیں بلکہ یہ عمل اس کے لئے موجب ثواب ہے جو شخص اپنے تئیں بدکاری سے روکنے کے لئے تعد دازواج کا پابند ہوتا ہے وہ گویا اپنے تئیں فرشتوں کی طرح بنانا چاہتا ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ یہ اندھی دنیا صرف جھوٹی منطقوں اور جھوٹی شیخیوں میں گرفتار ہے وہ لوگ جو تقویٰ کی تلاش میں لگے نہیں رہتے کہ کیونکر حاصل ہو اور تقویٰ کے حصول کے لئے کوئی تدبیر نہیں کرتے اور نہ دُعا کرتے ہیں اُن کی حالتیں اُس پھوڑے کی مانند ہیں جو اوپر سے بہت چمکتا ہے مگر اس کے اندر بجز پیپ کے اور کچھ نہیں اور خدا کی طرف جھکنے والے جو کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتے وہ تقویٰ کی راہوں کو یوں ڈھونڈتے پھرتے ہیں جیسا کہ ایک گدا روٹی کو اور جولوگ خدا کی راہ میں مصیبتوں کی آگ میں پڑتے ہیں جن کا دل ہر وقت مغموم رہتا ہے اور خدا کی راہ میں بڑے مقاصد مگر دشوار گذار ان کی رُوح کو تحلیل کرتے اور کمر کو توڑتے رہتے ہیں اُن کے لئے خدا خود تجویز کرتا ہے کہ وہ اپنے دن یا رات میں سے چند منٹ اپنی مانوس بیویوں کے ساتھ بسر کریں اور اس طرح پر اپنے کوفتہ اور شکتہ نفس کو آرام پہنچا دیں اور پھر سرگرمی سے اپنے دینی کام میں مشغول ہو جاویں.ان باتوں کو کوئی نہیں سمجھتا مگر وہ جو اس راہ میں مذاق رکھتے ہیں.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۶ ۲۴ تا ۲۴۸)
۱۰۵۲ محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے مثلاً پار چہ جات ،خرچ خوراک.معاشرت حتی کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے.یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈ وا رہنا پسند کرے.خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی ان کی بجا آواری کا دم بھر سکتا ہے.ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالی کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے.تعدد ازواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لئے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بیچار ہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لئے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے.تورات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اُس کے ساتھ ہوتا ہے.پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے.ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کا منشا زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش واقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا.اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے.دل دکھانا بڑا گناہ ہے.اور لڑکیوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہیں.جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالہ کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امید میں اُن کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یے کے حکم سے ہی کر سکتا ہے...النساء: ٢٠
۱۰۵۳ خدا کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہیں برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے.یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے.خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو.( البدر مورخہ ۸/ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ۲ کالم ۱ تا ۳.ملفوظات جلد چہارم صفحه ۵۰،۴۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعا نہیں کی.مختصر الفاظ میں بیان فرما دیا ہے.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِ یے کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.بعض لوگوں کا حال سُنا جاتا ہے کہ ان بے چاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں.گالیاں دیتے ہیں.حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں.اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُ كُم لاهله تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے.(البدر مورخه ۲۲ رمئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳۷ کالم ۲ ،۳.ملفوظات جلد سوم صفحه ۳۰۰ ،۳۰۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پر ہیز گاری کے لئے عورتوں کو پر ہیز گاری سکھاویں ورنہ وہ گنہگار ہوں گے اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلاں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی.جب تقویٰ نہ ہو تو ایسی حالت میں اولا د بھی پلید پیدا ہوتی ہے اولاد کا طیب ہونا تو طیبات کا سلسلہ چاہتا ہے.اگر یہ نہ ہو تو پھر اولا دخراب ہوتی.اس لئے چاہئے کہ سب تو بہ کریں اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں.عورت خاوند کی جاسوس ہوتی ہے.وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا.نیز عورتیں چھپی ہوئی دانا ہوتی ہیں.یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ احمق ہیں.وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثر وں کو حاصل کرتی ہیں.جب خاوند سیدھے رستہ پر ہوگا تو وہ اس سے بھی ڈرے گی اور خدا سے بھی.سب انبیاؤں اولیاؤں کی عورتیں نیک تھیں اس لئے کہ اُن پر نیک اثر پڑتے تھے.جب مرد بدکار اور فاسق ہوتے ہیں تو اُن کی عورتیں بھی ویسی ہی ہوتی ہیں.ایک چور کی البقرة: ٢٢٩
۱۰۵۴ بیوی کو یہ خیال کب ہوسکتا ہے کہ میں تہجد پڑھوں.خاوند تو چوری کرنے جاتا ہے تو کیا وہ پیچھے تہجد پڑھتی ہے.الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ ے اس لئے کہا ہے کہ عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں.جس حد تک خاوند صلاحیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی.ویسے ہی اگر وہ بدمعاش ہو گا تو بدمعاشی سے وہ حصہ لیں گی.(البدر مورخہ ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ہے کالم ۳، صفحہ ۷۵ کالم نمبر ا.ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۶۳ ۱۶۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ بھی لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کرو.عورتوں میں بت پرستی کی جڑ ہے کیونکہ اُن کی طبائع کا میلان زینت پرستی کی طرف ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بت پرستی کی ابتدا انہی سے ہوئی ہے.بزدلی کا مادہ بھی ان میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذراسی تختی پر اپنے جیسی مخلوق کے آگے ہاتھ جوڑنے لگ جاتی ہیں.اس لئے جو لوگ زن پرست ہوتے ہیں رفتہ رفتہ اُن میں بھی یہ عادتیں سرایت کر جاتی ہیں.پس بہت ضروری ہے کہ ان کی اصلاح کی طرف متوجہ رہو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ ہے اور اسی لئے مرد کو عورتوں کی نسبت قوی زیادہ دیئے گئے ہیں.اس وقت جونئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں اُن کی عقلوں پر تعجب آتا ہے وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتیں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف؟ ایک طرف تو اُسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی ؟ غرضیکہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قومی کمزور ہیں اور کم بھی ہیں اس لئے مرد کو چاہئے کہ عورت کو اپنے ماتحت رکھے.البدر مورخه ۱۸ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ کالم ۳،۲.ملفوظات جلد چہارم صفحه ۱۰۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا.مگر تا ہم آپ کی بیویاں سب کام کر لیا کرتی تھیں.جھاڑو بھی دے لیا کرتی تھیں.اور ساتھ اس کے عبادت بھی کرتی تھیں چنانچہ ایک بیوی نے اپنی حفاظت کے واسطے ایک رسہ لٹکا رکھا تھا کہ عبادت میں اونگھ نہ آئے عورتوں کے لئے ایک ٹکڑا عبادت کا خاوندوں کا حق ادا کرنا ہے اور ایک ٹکڑا عبادت کا خدا کا شکر بجالانا ہے.البدر مورخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۱۰ کالم نمبر ا.ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۶۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ۲۰۱ النساء : ۳۵
۱۰۵۵ پرده آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ جانتے نہیں کہ اسلامی پردہ سے مراد زنداں نہیں بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے.جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے.ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد وعورت اکٹھے بلا تامل اور بے محابا مل سکیں.سیر میں کریں کیونکر جذبات نفس سے اضطرار ا ٹھو کر نہ کھا ئیں گے.بسا اوقات سننے، دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قو میں غیر مرد عورت کے ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں یہ گویا تہذیب ہے.انہیں بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے ہی کی اجازت نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں.ایسے موقع میں یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح دو غیر محرم مرد و عورت جمع ہوں تیسرا اُن میں شیطان ہوتا ہے.اُن ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیج الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے.بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفا نہ زندگی بسر کی جارہی ہے.یہ انہی تعلیموں کا نتیجہ ہے.اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو.لیکن اگر حفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی.اسلامی تعلیم کیا پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس سے یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کشیاں دیکھیں.بعض شریف عورتوں کا طوائفا نہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۸ - ملفوظات جلد اول صفحه ۲۱ ۲۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے.قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں.وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں.جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے ، وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے.( ملفوظات جلد اول صفحه ۲۹۷، ۲۹۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ساتھ ہی میں ایک اور عرض کے لئے جرات کرتا ہوں کہ گو آریہ صاحبوں کو اس زمانہ میں مسلمانوں سے کیسی ہی نفرت ہے اور اسلام کے عقائد سے کیسی ہی بیزاری ہے مگر برائے خدا پردہ کی رسم کو بلکلی الوداع
نہ کہ دیں کہ اس میں بہت سی خرابیاں ہیں جو بعد میں معلوم ہوں گی.یہ بات ہر ایک فہیم انسان سمجھ سکتا ہے کہ بہت سا حصہ انسانوں کا نفس امارہ کے ماتحت چل رہا ہے اور وہ اپنے نفس کے ایسے قابو ہیں کہ اُس کے جوشوں کے وقت کچھ بھی خدا تعالیٰ کی سزا کا دھیان نہیں رکھتے.جوان اور خوبصورت عورتوں کو دیکھ کر بدنظری سے باز نہیں آتے.اور ایسے ہی بہت سی عورتیں ہیں کہ خراب دلی سے بیگانہ مردوں کی طرف نگاہیں کرتی ہیں اور جب فریقین کو باوجود ان کی اس خراب حالت میں ہونے کے پوری آزادی دی جائے تو یقیناً ان کا وہی انجام ہو گا جیسا کہ یورپ کے بعض حصوں سے ظاہر ہے.ہاں جب یہ لوگ در حقیقت پاک دل ہو جائیں گے اور ان کی امارگی جاتی رہے گی اور شیطانی روح نکل جائے گی اور ان کی آنکھوں میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے گا اور ان کے دلوں میں خدا کی عظمت قائم ہو جائے گی اور وہ ایک پاک تبدیلی کر لیں گے اور خدا ترسی کا ایک پاک چولا پہن لیں گے.تب جو چاہیں سوکر یں.کیونکہ اس وقت وہ خدا کے ہاتھ کے خوجے ہوں گے گویا وہ مرد نہیں ہیں اور اُن کی آنکھیں اس بات سے اندھی ہوں گی کہ نامحرم عورت کو بدنظری سے دیکھ سکیں یا ایسا بد خیال دل میں لاسکیں.مگر اے پیارو! خدا آپ تمہارے دلوں میں الہام کرے ابھی وہ وقت نہیں کہ تم ایسا کرو.اور اگر ایسا کرو گے تو ایک زہرناک بیج قوم میں پھیلاؤ گے.یہ زمانہ ایک ایسا نازک زمانہ ہے کہ اگر کسی زمانہ میں پردہ کی رسم نہ ہوتی تو اس زمانہ میں ضرور ہونی چاہئے تھی کیونکہ کل جنگ ہے اور زمین پر بدی اور فسق و فجور اور شراب خوری کا زور ہے اور دلوں میں دہریہ پن کے خیالات پھیل رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے احکام کی دلوں میں سے عظمت اُٹھ گئی ہے.زبانوں پر سب کچھ ہے اور لیکچر بھی منطق اور فلسفہ سے بھرے ہوئے ہیں مگر دل روحانیت سے خالی ہیں.ایسے وقت میں کب مناسب ہے کہ اپنی غریب بکریوں کو بھیڑیوں کے بنوں میں چھوڑ دیا جائے.لیکچر لا ہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۷۴۱۷۳) یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی یہ لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں.یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے.ذرا اُن کی اخلاقی حالت کو اندازہ کرو.اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے اُن کی عفت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو اُن کے تعلقات کس قدر خطر ناک ہوں گے.بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے.پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں
۱۰۵۷ ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہو گا.مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے.دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے.پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو.اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم از کم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہو سکیں تو اُس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے.ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے.کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ اُن کے سامنے رکھا جاوے.قرآن شریف نے (جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے) کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ ہے کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہیں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں.یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا.اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے.اس سے غرض یہ ہے کہ نفس انسان پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچا رہے کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذراسی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر.یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے.(البدر ۸ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۳ و صفحہ کے کالم نمبر ۲.ملفوظات جلد چهارم صفحه ۱۰۴، ۱۰۵ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) خدا تعالیٰ نے خُلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلا دیئے ہیں یعنی یہ کہ (۱) اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا.(۲) کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا.(۳) نامحرموں کے قصے نہ سننا(۴) اور دوسری تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اپنے تئیں بچانا.(۵) اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ.اس جگہ ہم بڑے دعوی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں لى النور: ٣١
۱۰۵۸ کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں.صرف اسلام سے ہی خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقعہ پا کر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور اُن کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کر لیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگا نہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور اُن کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور اُن کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں.نہ پاک نظر سے اور نہ نا پاک نظر سے اور اُن کی خوش الحانی کی آوازیں اور اُن کے حسن کے قصے نہ سنیں.نہ پاک خیال سے اور نہ نا پاک خیال سے بلکہ ہمیں چاہیے کہ اُن کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مُردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکر میں پیش آویں.سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اُس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے.اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر اُمید رکھیں کہ اُس کتے کے دل میں خیال تک اُن روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں.سوخدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قوی کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقعہ بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں.اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے.خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے.یہ اُن نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے.بالآ خر یا د ر ہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچالینا اور دوسری جائز انظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غَضِ بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پر ہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اُس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اُس کے لئے اس تمدنی زندگی
۱۰۵۹ میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا.یہی وہ خلق ہے جس کو احصان اور عفت کہتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۴۳ ۳۴۴۰) پردہ کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوئی ہے.یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلید سے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں.حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہا دیا ہے اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے.غرض ہم دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کر رہے ہیں.(الحکم، مورخہ ۱۷ار فروری ۱۹۰۴ء صفحه ۵ - ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۵۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
تربیت اولاد میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے.گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے.ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے.اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور بُردبار اور باسکون اور باوقار ہو تو اُسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے مگر مغلوب الغضب اور سبک سر اور طائش العقل ہرگز سزا وار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو.جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب مقرر ٹھہرالیں اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے.(الحکم، مورخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۱ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۰۹،۳۰۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ہدایت اور تربیت حقیقی خدا کا فعل ہے.سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرنا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے.یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے اس سے ہماری جماعت کو پر ہیز کرنا چاہئے.ہم تو اپنے بچوں کے لئے دُعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آداب تعلیم کی پابندی کراتے ہیں.بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں جیسا کسی میں سعادت کا تم ہو گا وقت پر سرسبز ہو جائے گا.الحکم مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ء صفحہ کالم نمبر ۲.ملفوظات جلد اول صفحه ۳۰۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
1+71 رُوح آریہ صاحبوں کا اعتقاد ہے کہ پر میشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی بلکہ کل ارواح انادی اور قدیم غیر مخلوق ہیں.ایسا ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مکتی یعنی نجات ہمیشہ کے لئے انسان کو نہیں مل سکتی بلکہ ایک مدت مقررہ تک مکتی خانہ میں رکھ کر پھر اس سے باہر نکالا جاتا ہے.اب ہمارا اعتراض یہ ہے کہ یہ دونوں اعتقاد ایسے ہیں کہ ایک کے قائم ہونے سے تو خدائے تعالیٰ کی توحید بلکہ اُس کی خدائی ہی دُور ہوتی ہے اور دوسرا اعتقاد ایسا ہے کہ بندہ وفادار پر ناحق کی سختی ہوتی ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر تمام ارواح کو اور ایسا ہی اجزاء صغار اجسام کو قدیم اور انادی مانا جائے تو اس میں کئی قباحتیں ہیں.منجملہ اُن کے ایک تو یہ کہ اس صورت میں خدائے تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ جس حالت میں بقول آریہ صاحبان ارواح یعنی جیو خود بخود موجود ہیں اور ایسا ہی اجزاء صغار اجسام بھی خود بخود ہیں تو پھر صرف جوڑنے جاڑنے کے لئے ضرورت صانع کی ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ ایک دہر یہ جو خدائے تعالیٰ کا منکر ہے عذر پیش کر سکتا ہے کہ جس حالت میں تم نے کل چیزوں کا وجود خود بخود بغیر ایجاد پر میشر کے آپ ہی مان لیا ہے تو پھر اس بات پر کیا دلیل ہے کہ ان چیزوں کے باہم جوڑنے جاڑنے کے لئے پر میشر کی حاجت ہے؟ دوسری یہ قباحت کہ ایسا اعتقاد خود خدائے تعالیٰ کو اُس کی خدائی سے جواب دے رہا ہے.کیونکہ جو لوگ علم نفس اور خواص ارواح سے واقف ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ جس قد ر ارواح میں عجائب وغرائب خواص بھرے ہوئے ہیں وہ صرف جوڑنے جاڑنے سے پیدا نہیں ہو سکتے.مثلاً رُوحوں میں ایک قوت کشفی ہے جس سے وہ پوشیدہ باتوں کو بعد مجاہدات دریافت کر سکتے ہیں اور ایک قوت ان میں عقلی ہے جس سے وہ امور عقلیہ کو معلوم کر سکتے ہیں.ایسا ہی ایک قوت محبت بھی ان میں پائی جاتی ہے جس سے وہ خدائے تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں.اگر ان تمام قوتوں کو خود بخود بغیر ایجاد کسی موجد کی مان لیا جائے تو پر میشر کی اس میں بڑی ہتک عزت ہے گویا یہ کہنا پڑے گا کہ جو عمدہ اور اعلیٰ کام تھا وہ تو خود بخود ہے اور جو ادنی اور ناقص کام تھاوہ پر میشر کے ہاتھ سے ہوا ہے.اور اس بات کا اقرار کرنا ہو گا کہ جو خود بخود عجائب حکمتیں پائی جاتی ہیں وہ پر میشر کے کاموں سے کہیں بڑھ کر ہیں.ایسا کہ پر میشر بھی اُن
سے حیران ہے.غرض اس اعتقاد سے آریہ صاحبوں کے خدا کی خدائی پر بڑا صدمہ پہنچے گا.یہاں تک کہ اُس کا ہونا نہ ہونا برابر ہو گا اور اس کے وجود پر کوئی عقلی دلیل قائم نہ ہو سکے گی.اور نیز وہ مبداء کل فیوض کا نہیں ہو سکے گا بلکہ اس کا صرف ایک ناقص کام ہو گا اور جو اعلیٰ درجہ کے عجائب کام ہیں اُن کی نسبت یہی کہنا پڑے گا کہ وہ سب خود بخود ہیں.لیکن ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر فی الحقیقت ایسا ہی ہے تو اس سے اگر فرضی طور پر پر میشر کا وجود مان بھی لیا جائے تب بھی وہ نہایت ضعیف اور نکما ساوجود ہو گا جس کا عدم وجود مساوی ہوگا یہاں تک کہ اگر اُس کا مرنا بھی فرض کیا جائے تو روحوں کا کچھ بھی حرج نہ ہو گا اور وہ اس لائق ہرگز نہیں ہو گا کہ کوئی روح اُس کی بندگی کرنے کے لئے مجبور کی جائے کیونکہ ہر یک روح اس کو جواب دے سکتی ہے کہ جس حالت میں تم نے مجھے پیدا ہی نہیں کیا اور نہ میری طاقتوں اور قوتوں اور استعدادوں کو تم نے بنایا تو پھر آپ کس استحقاق سے مجھ سے اپنی پرستش چاہتے ہیں؟ اور نیز جب کہ پر میشر روحوں کا خالق ہی نہیں تو اُن پر محیط بھی نہیں ہو سکتا.اور جب احاطہ نہ ہوسکا تو پر میشر اور روحوں میں حجاب ہو گیا.اور جب حجاب ہوا تو پر میشر سرب گیانی نہ ہو سکا یعنی علم غیب پر قادر نہ ہوا اور جب قادر نہ رہا تو اس کی سب خدائی درہم برہم ہوگئی تو گویا پر میشر ہی ہاتھ سے گیا اور یہ بات ظاہر ہے کہ علم کامل کسی شئے کا اس کے بنانے پر قادر کر دیتا ہے.اسی لئے حکماء کا مقولہ ہے کہ جب علم اپنے کمال تک پہنچ جائے تو وہ عین عمل ہو جاتا ہے.اس حالت میں بالطبع سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پر میشر کو روحوں کی کیفیت اور کنہ کا پورا پورا علم بھی ہے یا نہیں؟ اگر اس کو پورا پورا علم ہے تو پھر کیا وجہ کہ با وجود پورا پورا علم ہونے کے پھر ایسی ہی رُوح بنا نہیں سکتا؟ سو اس سوال پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ پر میشر روحوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں بلکہ ان کی نسبت پورا پورا علم بھی نہیں رکھتا.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۱) آریہ صاحبوں کا وید ایک ایسا خدا بتا رہا ہے جس سے حق جو آدمی ضرور ہے کہ نفرت کرے وہ اپنے پر میشر کو اپنی بادشاہی کا خود موجب نہیں سمجھتے بلکہ ایسا خیال کرتے ہیں کہ وہ بادشاہت کسی بخت و اتفاق سے اُس کو ملی ہے یعنی اس کی خوش قسمتی سے چند ارواح اور اجسام بنے بنائے اُس کو مل گئے ہیں اور شاید ابھی ارواح اور اجسام کا کوئی اور دفینہ بھی کسی جگہ پوشیدہ ہو جس کی ہنوز پر میشر کو اطلاع نہیں ہوئی مگر کیا یہ ایسا اعتقاد ہے جو عظمت و قدرت و شان کبریائی حضرت اللہ جل شانہ کے مطابق کہہ سکتے ہیں.خدائے تعالیٰ وہ کامل ذات ہے جو تمام فیوض کا مبدء اور تمام انوار کا سر چشمہ اور تمام چیزوں کا قیوم اور
تمام خوبیوں کا جامع اور تمام کمالات کا متجمع اور بجز اور نقص اور احتیاج الی الخیر سے پاک ہے لیکن تم سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ میچ نہیں ہے کہ ارواح اور اجسام کی غیر مخلوق اور خود بخود ماننے سے ان تمام صفات کاملہ الہیہ میں سے کوئی بات بھی قائم نہیں رہ سکتی اور ایک ایسا سخت صدمہ اس کی شان خدائی پر پہنچتا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا.ایک ادنی درجہ کی عقل بھی سمجھ سکتی ہے کہ خدائے تعالیٰ کے ایک ہونے کے یہی معنے ہیں کہ در حقیقت وجود اس کا وجود ہے اور باقی سب چیزیں اُس سے نکلی ہیں اور اسی کے ساتھ قائم اور اسی کے رشحات فیض سے اپنے کمالات مطلوبہ تک پہنچتی ہیں.مگر افسوس کہ آریوں کا علم الہی اس کے برخلاف بتلا رہا ہے.ان کی کتابیں انہی واو میلوں سے پر ہیں کہ ہم بھی پر میشر کی طرح قدیم اور غیر مخلوق اور انادی اور اس کی مشابہ اور اپنے اپنے وجود کے آپ خدا ہیں.نہیں سوچتے کہ اگر وہ بھی قدیم الذات اور قائم بذاتہ اور واجب الوجود ہیں تو پھر خدا جیسے ہو کر اس کی ماتحت کیوں ہو گئے ؟ اور کس نے درمیان میں ہو کر دونوں میں تعلق پیدا کر دیا..یہ بات ایک لڑکا بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر سب ارواح اور اجسام خود بخود پر میشر کی طرح قدیم اور انادی ہیں اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی خدا ہیں تو پر میشر اس دعوی کا ہرگز مجاز نہیں رہا کہ میں ان چیزوں کا رب اور پیدا کنندہ ہوں کیونکہ جبکہ ان چیزوں نے پر میشر کے ہاتھ سے وجود ہی نہیں لیا تو پھر ایسا پر میشران کا رب اور مالک کیونکر ہو سکتا ہے.مثلاً اگر کوئی بچہ بنا بنایا آسمان سے گرے یا زمین کے خمیر سے خود پیدا ہو جائے تو کسی عورت کو یہ دعویٰ ہرگز نہیں پہنچتا کہ یہ میرا بچہ ہے بلکہ اس کا بچہ وہی ہوگا جو اس کے پیٹ سے نکلا ہے.سو جو خدا کے ہاتھ سے نکلا ہے وہی خدا کا ہے.اور جو اس کے ہاتھ سے نہیں نکلا وہ اس کا کسی طور سے نہیں ہو سکتا.کوئی صالح اور بھلا مانس ایسی چیزوں پر ہرگز قبضہ نہیں کرتا جو اس کے نہ ہوں تو پھر کیوں کر آریوں کے پرمیشر نے ایسی چیزوں پر قبضہ کر لیا جن پر قبضہ کرنے کا اس کو کوئی استحقاق نہیں.سو سوچنا چاہئے کہ یہ بات کس قدر مکروہ اور دور از حقانیت ہے کہ مالک الخلق اور رب العالمین کو اُس کی مخلوقات سے جواب دیا جاتا ہے اور جو اصل حقیقت خدائی کی تھی اس سے اس کو الگ کیا جاتا ہے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۴۴ تا ۱۴۶) بعض آریہ سماج والے ارواح کے غیر مخلوق اور اپنے وجود کے آپ خدا ہونے کے بارے میں یہ دلیل پیش کیا کرتے ہیں کہ اگر ارواح کسی وقت معدوم تھی اور پھر خدائے تعالیٰ کے پیدا کرنے سے موجود ہوئی تو
گویا نیست سے ہست ہو گیا.اور نیستی سے ہستی ہونا ایسی دور از فہم بات ہے کہ کو ئی عقلمند اس کو نہیں مانے گا مگر میں کہتا ہوں کہ یوں تو فاسد اور ناقص عقل کے مارے ہوئے خدائے تعالیٰ کو بھی نہیں مانتے لیکن جس شخص کی عقل سلیم ہے اس کو تو خدائے تعالیٰ کے ماننے کے ساتھ ہی اس کی وہ تمام صفات بھی ماننے پڑیں گے جو مدار اس کی خدائی اور الوہیت کے ہیں اور جو شخص خدائے تعالیٰ کی اس نہایت ضروری صفت کو مان لے گا کہ وہ قادر مطلق اور بے انتہا طاقتوں کا مالک ہے تو پھر ہر گز اس کی قدرتوں کو اپنی عقل ناقص کے ساتھ موازنہ نہیں کرے گا اور خدائے غیر محدود کی قادرانہ قوتوں کو کسی حد خاص میں محدود نہیں جانے گا اور نیز جب ایک منظمند دیکھے گا کہ خدائے تعالیٰ ایسا اپنی ذات میں مظہر العجائب و بلند تر از احاطۂ فکر وقیاس ہے جو بغیر اسباب آنکھوں کے دیکھتا ہے اور بغیر اسباب کانوں کے سنتا ہے اور بغیر اسباب زبان کے بولتا ہے اور بغیر حاجت معماروں و مزدوروں اور نجاروں و آلات عمارت سازی و فراہمی اینٹوں و پتھروں وغیرہ کے صرف اپنے ارادہ اور حکم کے اشارہ سے ایک طرفہ العین میں زمین و آسمان بنا سکتا ہے تو بے شک اس بات کا یقین بھی کرے گا کہ وہ قادر خدا نیستی سے ہستی بھی کر سکتا ہے.یہی تو خدائی ہے اسی وجہ سے تو وہ سرب شکتی مان اور قادر مطلق اور غیر متناہی قدرتوں کا مالک کہلاتا ہے.اگر اس کے کام بھی انسانی کاموں کی طرح محتاج با سباب و مواد و اوقات ضرور یہ ہوں تو پھر وہ کا ہے کا خدا ہو.اور اس کی خدائی کیونکر چل سکے؟ کیا اس کے تمام کام بالا تر از عقل نہیں ہیں؟ کیا اس کی عجائب قدرتیں ایسی نہیں ہیں کہ ان پر نظر ڈال کر عقل ناقص انسانی خیرہ رہ جاتی ہے؟ تو پھر کیسی جہالت ہے کہ جو بات اس کی خدائی کا مدار اور اُس کی الوہیت کی حقیقت ہے اسی پر اعتراض کیا جائے..ایسا پر میشر کس بات کا پر میشر ہے کہ اگر وہ کسی اپنے امر متخیل کو کہے کہ ہو جا تو کچھ بھی نہ ہو.خدا تو اسی ذات عجیب القدرت کا نام ہے کہ جو اس کے ارادہ سے سب کچھ ہو جاتا ہے.جب وہ اپنے کسی امر مقصود کو کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ فی الفور اس کی قدرت کاملہ سے نقش وجود پکڑ جاتا ہے.یہ راز نہایت دقیق معرفت کا نکتہ ہے کہ سب مخلوقات کلمات الہیہ ہیں.عیسائیوں نے جب اپنی نادانی سے یہ کہنا شروع کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کلمتہ اللہ ہیں یعنی ان کی روح کلمہ الہی ہے جو متشکل بروح ہوگئی ہے تو خدائے تعالیٰ نے اس کا یہ حقانی جواب دیا کہ کوئی بھی ایسی روح نہیں جو کلمتہ اللہ نہ ہو اور مجرد الہی حکم سے نہ نکلی ہو قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَنِی یا اسی کی طرف اشارہ ہے اور یہ بات جو کلمات اللہ ے بنی اسرائیل: ۸۶
بصورت ارواح و دیگر مخلوق جلوہ گر ہو جاتی ہیں یہ خالقیت کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے اور اسرار الہیہ میں سے ایک بار یک نکتہ ہے جس کی طرف کسی انسانی عقل کو خیال نہیں آیا اور خدائے تعالیٰ کے پاک اور کامل کلام نے اس کو اپنے الہی نور سے منکشف کیا ہے اور اگر ایسا نہ مانا جائے کہ خدائے تعالیٰ اپنے ہی کلمہ اور امر سے ارواح اور اجسام کو وجود پذیر کر لیتا ہے تو پھر آخر یہ ماننا پڑے گا کہ جب تک باہر سے اجسام اور روح نہ آویں پر میشر کچھ بھی نہیں کر سکتا مگر کیا ایسا کمبخت پر میشر ہو سکتا ہے کہ جو درحقیقت اپنے گھر سے تو دیوالیہ اور مفلس اور تمہیدست ہے لیکن کسی عارضی اتفاق سے اس کی خدائی کا دھندا چل رہا ہو.اگر پر میشر ایسا ہی ہے تو سب اُمیدیں خاک میں مل گئیں اور ایسے پر میشر پر بھروسہ کرنا بھی بڑا معرض خطر ہو گا.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۶۳ تا ۱۶۵) قرآن شریف کہتا ہے کہ روحیں انادی اور غیر مخلوق نہیں اور دو نطفوں کی ایک خاص ترکیب سے وہ پیدا ہوتی ہیں اور یا دوسرے کیڑے مکوڑوں میں ایک ہی مادہ سے پیدا ہو جاتی ہیں اور یہی سچ ہے کیونکہ مشاہدہ اس پر گواہی دیتا ہے جس کے ماننے کے بغیر چارہ نہیں اور امور محسوسہ مشہودہ سے انکار کرنا سراسر جہالت ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ روح نیست سے ہست ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اوّل وہ کچھ بھی نہیں تھا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کے لئے کوئی ایسا مادہ نہیں تھا کہ انسان اپنی قوت سے اس میں سے روح نکال سکتا اور اس کی پیدائش صرف اس طور سے ہے کہ محض الہی قوت اور حکمت اور قدرت کسی مادہ میں سے اس کو پیدا کر دیتی ہے.اسی واسطے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ روح کیا چیز ہے تو خدا نے فرمایا کہ تو ان کو جواب دے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے.اس بارے میں آیت قرآنی یہ ہے کہ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا لے یعنی یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ روح کیا چیز ہے اور کیونکر پیدا ہوتی ہے ان کو جواب دے کہ روح میرے رب کے امر سے پیدا ہوتی ہے یعنے وہ ایک راز قدرت ہے اور تم لوگ روح کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے مگر تھوڑا سا یعنی صرف اس قدر کہ تم روح کو پیدا ہوتے دیکھ سکتے ہو اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ ہم بچشم خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری آنکھ کے سامنے کسی مادہ میں سے کیڑے مکوڑے پیدا ہو جاتے ہیں.اور انسانی روح کے پیدا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کا قانون قدرت یہ ہے کہ دونطفوں کے ملنے کے بنی اسرائیل: ۸۶
بعد جب آہستہ آہستہ قالب تیار ہو جاتا ہے تو جیسے چند ادویہ کے ملنے سے اُس مجموعہ میں ایک خاص مزاج پیدا ہو جاتی ہے کہ جو ان دواؤں میں فرد فرد کے طور پر پیدا نہیں ہوتی.اسی طرح اس قالب میں جو خون اور دو نطفوں کا مجموعہ ہے ایک خاص جو ہر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ایک فاسفرس کے رنگ میں ہوتا ہے.اور جب مجتبی الہی کی ہوائحسن کے امر کے ساتھ اُس پر چلتی ہے تو یکدفعہ وہ افروختہ ہو کر اپنی تاثیر اس قالب کے تمام حصوں میں پھیلا دیتا ہے تب وہ جنین زندہ ہو جاتا ہے.پس یہی افروختہ چیز جو جنین کے اندر سجتی رہی سے پیدا ہو جاتی ہے اُسی کا نام رُوح ہے اور وہی کلمۃ اللہ ہے.اور اس کو امر ربی سے اس لئے کہا جاتا ہے کہ جیسے ایک حاملہ عورت کی طبیعت مدبرہ بحکم قادر مطلق تمام اعضاء کو پیدا کرتی ہے.اور عنکبوت کے جالے کی طرح قالب کو بناتی ہے.اس رُوح میں اس طبیعت مد برہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ روح محض خاص تجلی الہی سے پیدا ہوتی ہے.اور گوروح کا فاسفرس اس ماڈہ سے ہی پیدا ہوتا ہے مگر وہ روحانی آگ جس کا نام رُوح ہے وہ بجز مس نسیم آسمانی کے پیدا نہیں ہو سکتی.یہ سچا علم ہے جو قرآن شریف نے ہمیں بتلایا ہے.تمام فلاسفروں کی عقلیں اس علم تک پہنچنے سے بیکار ہیں.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۵۸ تا ۱۶۰) نجات کا تمام مدار خدا تعالیٰ کی محبت ذاتیہ پر ہے اور محبت ذاتیہ اُس محبت کا نام ہے جو روحوں کی فطرت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مخلوق ہے پھر جس حالت میں ارواح پر میشر کی مخلوق ہی نہیں ہیں تو پھر ان کی فطرتی محبت پر میشر سے کیونکر ہو سکتی ہے اور کب اور کس وقت پر میشر نے ان کی فطرت کے اندر ہاتھ ڈال کر یہ محبت اس میں رکھ دی.یہ تو غیر ممکن ہے.وجہ یہ کہ فطرتی محبت اس محبت کا نام ہے جو فطرت کے ساتھ ہمیشہ سے لگی ہوئی ہو اور پیچھے سے لاحق نہ ہو.جیسا کہ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ اس کا یہ قول اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی یا یعنی میں نے روحوں سے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا پیدا کنندہ نہیں ہوں تو روحوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں.اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسانی روح کی فطرت میں یہ شہادت موجود ہے کہ اس کا خدا پیدا کنندہ ہے.پس رُوح کو اپنے پیدا کنندہ سے طبعا وفطرتا محبت ہے.اس لئے کہ وہ اُسی کی پیدائش ہے.اور اسی کی طرف اس دوسری آیت میں اشارہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ل یعنی رُوح کا خدائے واحد لاشریک کا طلبگار ہونا اور بغیر خدا کے وصال کے ل الاعراف :۱۷۳ الروم: ٣١
۱۰۶۷ کسی چیز سے کچی خوشحالی نہ پانا یہ انسانی فطرت میں داخل ہے.یعنی خدا نے اس خواہش کو انسانی روح میں پیدا کر رکھا ہے جو انسانی روح کسی چیز سے تسلی اور سکینت بجز وصال الہی کے نہیں پاسکتی.پس اگر انسانی روح میں یہ خواہش موجود ہے تو ضرور ماننا پڑتا ہے کہ روح خدا کی پیدا کردہ ہے جس نے اس میں یہ خواہش ڈالدی مگر یہ خواہش تو در حقیقت انسانی روح میں موجود ہے.اس سے ثابت ہوا کہ انسانی روح درحقیقت خدا کی پیدا کردہ ہے.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۴،۳۶۳) واضح رہے کہ ارواح کا حادث اور مخلوق ہونا قرآن شریف میں بڑی بڑی قوی اور قطعی دلائل سے بیان کیا گیا ہے چنانچہ برعایت ایجاز و اجمال چند دلائل ان میں سے نمونہ کے طور پر اس جگہ لکھے جاتے ہیں.اول یہ بات بہ بداہت ثابت ہے کہ تمام روحیں ہمیشہ اور ہر حال میں خدائے تعالیٰ کی ماتحت اور زیر حکم ہیں اور بجز مخلوق ہونے کے اور کوئی وجہ موجود نہیں جس نے روحوں کو ایسے کامل طور پر خدائے تعالیٰ کے ماتحت اور زیرحکم کر دیا ہو.سو یہ روحوں کے حادث اور مخلوق ہونے پر اول دلیل ہے.دوم یہ بات بھی بہ بداہت ثابت ہے کہ تمام روحیں خاص خاص استعدادوں اور طاقتوں میں محدود اور محصور ہیں.جیسا کہ بنی آدم کے اختلاف روحانی حالات و استعدادات پر نظر کر کے ثابت ہوتا ہے اور یہ تحدید ایک محدّد کو چاہتی ہے جس سے ضرورت محدث کی ثابت ہوکر ( جو محدّد ہے ) حدوث روحوں کا بپایہ ثبوت پہنچتا ہے.سوم یہ بات بھی کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ تمام روحیں عجز و احتیاج کے داغ سے آلودہ ہیں اور اپنی تکمیل اور بقا کے لئے ایک ایسی ذات کی محتاج ہیں جو کامل اور قادر اور عالم اور فیاض مطلق ہو اور یہ امران کی مخلوقیت کو ثابت کرنے والا ہے.چہارم یہ بات بھی ایک ادنیٰ غور کرنے سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری روحیں اجمالی طور پر ان سب متفرق الہی حکمتوں اور صنعتوں پر مشتمل ہیں جو اجرام علوی وسفلی میں پائے جاتے ہیں.اسی وجہ سے دنیا باعتبار اپنے جزئیات مختلفہ کے عالم تفصیلی ہے اور انسان عالم اجمالی کہلاتا ہے.یا یوں کہو کہ یہ عالم صغیر اور وہ عالم کبیر ہے.پس جبکہ ایک جزئی عالم کے بوجہ پائے جانے پر حکمت کاموں کے ایک صانع حکیم کی صنعت کہلاتی ہے تو خیال کرنا چاہئے کہ وہ چیز کیونکر صنعت الہی نہ ہوگی جس کا وجود اپنے عجائبات ذاتی کے رو سے گویا تمام جزئیات عالم کی عکسی تصویر ہے اور ہر یک جزئی کے خواص عجیبہ اپنے اندر رکھتی ہے اور حکمت بالغہ ایزدی پر بوجہ اتم مشتمل ہے.
۱۰۶۸ ایسی چیز جو مظہر جمیع عجائبات صنعت الہی ہے مصنوع اور مخلوق ہونے سے باہر نہیں رہ سکتی بلکہ وہ سب چیزوں سے اول درجہ پر مصنوعیت کی مُہر اپنے وجود پر رکھتی ہے اور سب سے زیادہ تر اور کامل تر صانع قدیم کے وجود پر دلالت کرتی ہے.سو اس دلیل سے روحوں کی مخلوقیت صرف نظری طور پر ثابت نہیں بلکہ در حقیقت اجلی بدیہات ہے.ماسوا اس کے دوسری چیزوں کو اپنی مخلوقیت کا علم نہیں مگر رُوحیں فطرتی طور پر اپنی مخلوقیت کا علم رکھتی ہیں.ایک جنگلی آدمی کی روح بھی اس بات پر راضی نہیں ہو سکتی کہ وہ خود بخود ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی لے لینے روحوں سے میں نے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب (پیدا کنندہ نہیں ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں.یہ سوال و جواب حقیقت میں اس پیوند کی طرف اشارہ ہے جو مخلوق کو اپنے خالق سے قدرتی طور پر متحقق ہے جس کی شہادت رُوحوں کی فطرت میں نقش کی گئی ہے.پنجم جس طرح بیٹے میں باپ اور ماں کا کچھ کچھ حلیہ اور خو بو پائی جاتی ہے.اسی طرح روحیں جو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے نکلی ہیں اپنے صانع کی سیرت وخصلت سے اجمالی طور پر کچھ حصہ رکھتے ہیں.اگر چہ مخلوقیت کی ظلمت و غفلت غالب ہو جانے کی وجہ سے بعض نفوس میں وہ رنگ الہی کچھ پھیکا سا ہو جاتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ہر یک روح کسی قدر وہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہے.اور پھر بعض نفوس میں وہ رنگ بد استعمالی کی وجہ سے بدنما معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس رنگ کا قصور نہیں بلکہ طریقہ استعمال کا قصور ہے.انسان کی اصلی قوتوں اور طاقتوں میں سے کوئی بھی بُری قوت نہیں صرف بد استعمالی سے ایک نیک قوت بُری معلوم ہونے لگتی ہے.اگر وہی قوت اپنے موقع پر استعمال کی جائے تو وہ سراسر نفع رساں اور خیر محض ہے اور حقیقت میں انسان کو جس قدر قو تیں دی گئی ہیں وہ سب الہی قوتوں کے اظلال و آثار ہیں.جیسے بیٹے کی صورت میں کچھ کچھ باپ کے نقوش آ جاتے ہیں ایسا ہی ہماری روحوں میں اپنے رب کے نقوش اور اس کی صفات کے آثار آگئے ہیں جن کو عارف لوگ خوب شناخت کرتے ہیں اور جیسے بیٹا جو باپ سے نکلا ہے اس سے ایک طبعی محبت رکھتا ہے نہ بناوٹی.اسی طرح ہم بھی جو اپنے رب سے نکلے ہیں اس سے فی الحقیقت طبعی محبت رکھتے ہیں نہ بناوٹی اور اگر ہماری روحوں کو اپنے رب سے یہ طبعی و فطرتی تعلق نہ ہوتا تو پھر سالکین کو اس تک پہنچنے کے لئے کوئی صورت اور سبیل نہ تھی..سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۶۷ تا ۱۶۹) الاعراف: ۱۷۳
۱۰۶۹ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَی ا یعنی میں نے روحوں کو پوچھا کہ کیا میں تمہارے پیدا کرنے والا نہیں تو تمام روحوں نے یہی جواب دیا کہ کیوں نہیں.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ روحوں کی فطرت میں یہی منقش اور مرکوز ہے کہ وہ اپنے پیدا کنندہ کی قائل ہیں اور پھر بعض انسان غفلت کی تاریکی میں پڑ کر اور پلید تعلیموں سے متاثر ہو کر کوئی دہریہ بن جاتا ہے اور کوئی.آریہ اور اپنی فطرت کے مخالف اپنے پیدا کنندہ سے انکار کرنے لگتے ہیں.ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنے باپ اور ماں کی محبت رکھتا ہے یہاں تک کہ بعض بچے ماں کے مرنے کے بعد مر جاتے ہیں.پھر اگر انسانی روحیں خدا کے ہاتھ سے نہیں نکلیں اور اس کی پیدا کردہ نہیں تو خدا کی محبت کا نمک کس نے ان کی فطرت پر چھڑک دیا ہے اور کیوں انسان جب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور پردہ غفلت دُور ہوتا ہے تو دل اس کا خدا کی طرف کھینچا جاتا ہے اور محبت الہی کا دریا اس کے صحن سینہ میں بہنے لگتا ہے.آخر ان روحوں کا خدا سے کوئی رشتہ تو ہوتا ہے جو اُن کو محبت الہی میں دیوانہ کی طرح بنا دیتا ہے.وہ خدا کی محبت میں ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ تمام چیزیں اس کی راہ میں قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ وہ عجیب تعلق ہے.ایسا تعلق نہ ماں کا ہوتا ہے نہ باپ کا.پس اگر بقول آریوں کے روحیں خود بخود ہیں تو یہ تعلق کیوں پیدا ہو گیا اور کس نے یہ محبت اور عشق کی قوتیں خدا تعالیٰ کے ساتھ روحوں میں رکھ دیں.یہ مقام سوچنے کا مقام ہے اور یہی مقام ایک کچی معرفت کی کنجی ہے.(چشمۂ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۶۷) خدا نے جو انسان کو اپنی طرف بلایا ہے تو اسی لئے اس نے پہلے سے پرستش اور عشق کے مناسب حال قو تیں اس میں رکھ دی ہیں.پس وہ قو تیں جو خدا کی طرف سے ہیں.خدا کی آواز کوسن لیتی ہیں.اسی طرح جب خدا نے چاہا کہ انسان خدا کی معرفت میں ترقی کرے تو اُس نے پہلے سے ہی انسانی روح میں معرفت کے حواس پیدا کر رکھے ہیں اگر وہ پیدا نہ کرتا تو پھر کیونکر انسان اس کی معرفت حاصل کر سکتا تھا.انسان کی روح میں جو کچھ ہے دراصل خدا سے ہے اور وہ خدا کی صفات ہیں جو انسانی آئینہ میں ظاہر ہیں.ان میں سے کوئی صفت بُری نہیں بلکہ ان کی بد استعمالی اور اُن میں افراط تفریط کرنا بُرا ہے.شاید کوئی جلدی سے یہ اعتراض کرے کہ انسان میں حسد ہے بغض ہے اور دوسری صفات ذمیمہ ہوتے ہیں پھر وہ کیونکر خدا کی طرف سے ہو سکتے ہیں.پس واضح رہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں دراصل تمام انسانی اخلاق الہبی اخلاق کا ظل ہیں کیونکہ انسانی روح خدا سے ہے لیکن کمی یا زیادتی یا الاعراف :۱۷۳
بد استعالی کی وجہ سے وہ صفات ناقص انسانوں میں مکروہ صورت میں دکھائی دیتے ہیں.مثلاً حسد انسان میں ایک بہت بُرا خلق ہے جو چاہتا ہے کہ ایک شخص سے ایک نعمت زائل ہو کر اس کو مل جائے لیکن اصل کیفیت حسد کی صرف اس قدر ہے کہ انسان اپنے کسی کمال کے حصول میں یہ روا نہیں رکھتا کہ اس کمال میں اس کا کوئی شریک بھی ہو.پس در حقیقت یہ صفت خدا تعالیٰ کی ہے جو اپنے تئیں ہمیشہ وحدہ لاشریک دیکھنا چاہتا ہے پس ایک قسم کی بد استعمالی سے یہ عمدہ صفت قابل نفرت ہوگئی ہے.ورنہ اس طرح پر یہ صفت مذموم نہیں کہ کمال میں سب سے زیادہ سبقت چاہے اور روحانیت میں تفرد اور یکتائی کے درجہ پر اپنے تئیں دیکھنا چاہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۹۰،۳۸۹) اور یہ کہنا کہ اگر روح مخلوق ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ فنا بھی ہو جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ روح بے شک فنا پذیر ہے.اس پر دلیل یہ ہے کہ جو چیز اپنی صفات کو چھوڑتی ہے اس حالت میں اس کو فانی کہا جاتا ہے.اگر کسی دوا کی تاثیر بالکل باطل ہو جائے تو اس حالت میں ہم کہیں گے کہ وہ دوا مر گئی.ایسا ہی روح میں یہ امر ثابت ہے کہ بعض حالات میں وہ اپنی صفات کو چھوڑ دیتی ہے بلکہ اُس پر جسم سے بھی زیادہ تغیرات وارد ہوتے ہیں.انہی تغیرات کے وقت کہ جب وہ رُوح کو اُس کی صفات سے دُور ڈال دیتے ہیں کہا جاتا ہے کہ رُوح مرگئی.کیونکہ موت اسی بات کا نام ہے کہ ایک چیز اپنی لازمی صفات کو چھوڑ دیتی ہے تب کہا جاتا ہے کہ وہ چیز مرگئی اور یہی بھید ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فقط انہیں انسانی روحوں کو بعد مفارقت دنیا زندہ قرار دیا ہے جن میں وہ صفات موجود تھے جو اصل غرض اور علت غائی ان کی پیدائش کی تھی.یعنی خدا تعالیٰ کی کامل محبت اور اُس کی کامل اطاعت جو انسانی روح کی جان ہے.اور جب کوئی روح خدا تعالیٰ کی محبت سے پُر ہو کر اور اس کی راہ میں قربان ہو کر دنیا سے جاتی ہے تو اُسی کو زندہ روح کہا جاتا ہے.باقی سب مُردہ روحیں ہوتی ہیں.غرض رُوح کا اپنی صفات سے الگ ہونا یہی اُس کی موت ہے.چنانچہ حالت خواب میں بھی جب جسم انسانی مرتا ہے تو روح بھی ساتھ ہی مرجاتی ہے یعنی اپنی صفات موجودہ کو جو بیداری کی حالت میں تھیں چھوڑ دیتی ہے اور ایک قسم کی موت اُس پر وارد ہو جاتی ہے کیونکہ خواب میں وہ صفات اس میں باقی نہیں رہتیں جو بیداری میں اس کو حاصل ہوتی ہیں.سو یہ بھی ایک قسم موت کی ہے کیونکہ جو چیز اپنی صفات سے الگ ہو جائے اس کو زندہ نہیں کہہ سکتے.اکثر لوگ موت کے لفظ پر بہت دھو کہ کھاتے ہیں موت صرف معدوم ہونے کا نام نہیں
1+21 بلکہ اپنی صفات سے معطل ہونے کا نام بھی موت ہے.ورنہ جسم جو مرجاتا ہے بہر حال مٹی اس کی تو موجود رہتی ہے.اسی طرح رُوح کی موت سے بھی یہی مراد ہے کہ وہ اپنی صفات سے معطل کی جاتی ہے.جیسا کہ عالم خواب میں دیکھا جاتا ہے کہ جیسے جسم اپنے کاموں سے بیکار ہو جاتا ہے.ایسا ہی رُوح بھی اپنی ان صفات سے جو بیداری میں رکھتے تھے بکلی معطل ہو جاتی ہے.مثلاً ایک زندہ کی رُوح کسی میت سے خواب میں ملاقات کرتی ہے اور نہیں جانتی کہ وہ میت ہے اور سونے کے ساتھ ہی بکلی اس دنیا کو بھول جاتی ہے اور پہلا چولا اُتار کر نیا چولا پہن لیتی ہے اور تمام علوم جو رکھتی تھی سب کے سب به یکبارگی فراموش کر دیتی ہے اور کچھ بھی اس دنیا کا یاد نہیں رکھتی بجز اس صورت کے کہ خدا یاد دلاوے اور اپنے تصرفات سے بکلی معطل ہو جاتی ہے اور سچ مچ خدا کے گھر میں جا پہنچتی ہے اور اس وقت تمام حرکات اور کلمات اور جذبات اس کے خدا تعالیٰ کے تصرفات کے نیچے ہوتے ہیں اور اس طور سے خدا تعالیٰ کے تصرفات کے نیچے وہ مغلوب ہوتی ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ جو کچھ عالم خواب میں کرتی یا کہتی یا سنتی یا حرکت کرتی ہے وہ اپنے اختیار سے کرتی ہے بلکہ تمام اختیاری قوت اس کی مسلوب ہو جاتی ہے.اور کامل طور پر موت کے آثار اس پر ظاہر ہو جاتے ہیں.سو جس قدر جسم پر موت آتی ہے اس سے بڑھ کر روح پر موت وارد ہو جاتی ہے.مجھے ایسے لوگوں سے سخت تعجب آتا ہے کہ وہ اپنی حالت خواب پر بھی غور نہیں کرتے اور نہیں سوچتے کہ اگر رُوح موت سے مستثنیٰ رکھی جاتی تو وہ ضرور عالم خواب میں بھی مستثنیٰ رہتی.ہمارے لئے خواب کا عالم موت کے عالم کی کیفیت سمجھنے کے لئے ایک آئینہ کے حکم میں ہے.جو شخص رُوح کے بارے میں سچی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ خواب کے عالم پر بہت غور کرے کہ ہر ایک پوشیدہ راز موت کا خواب کے ذریعہ سے کھل سکتا ہے.اگر تم عالم خواب کے اسرار پر جیسا کہ چاہئے توجہ کرو گے اور جس طور سے عالم خواب میں روح پر ایک موت وارد ہوتی ہے اور اپنے علوم اور صفات سے وہ الگ ہو جاتی ہے اس طور پر نظر تدبر ڈالو گے تو تمہیں یقین ہو جائے گا کہ موت کا معاملہ خواب کے معاملہ سے ملتا جلتا ہے.پس یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ رُوح مفارقت بدن کے بعد اسی حالت پر قائم رہتی ہے جو حالت دنیا میں وہ رکھتی تھی بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ایسی ہی موت اس پر وارد ہو جاتی ہے جیسا کہ خواب کی حالت میں وارد ہوئی تھی.بلکہ وہ حالت اس سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور ہر ایک صفت اس کی نیستی کی چکی کے اندر پیسی جاتی ہے اور وہی رُوح کی موت ہوتی ہے.اور پھر جولوگ زندہ ہونے کے کام کرتے تھے وہی زندہ کئے جاتے ہیں.کسی روح کی مجال نہیں کہ آپ زندہ رہ سکے.
۱۰۷۲ کیا تم اختیار رکھتے ہو کہ نیند کی حالت میں تم اپنی ان صفات اور حالات اور علوم کو اپنے قبضہ میں رکھ سکو جو بیداری میں تم کو حاصل ہیں؟ نہیں بلکہ آنکھ بند کرنے کے ساتھ ہی رُوح کی حالت بدل جاتی ہے.اور ایک ایسی نیستی اس پر وارد ہوتی ہے کہ تمام کارخانہ اس کی ہستی کا الٹ پلٹ ہو جاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ رُوح کی موت کے بارے میں قرآن شریف میں فرماتا ہے.اللَّهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَهُ تَمَّتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الجز و ۲۴ سورة الزمر ) ( ترجمہ ) خدا جانوں کو جب ان کی موت کا وقت آجاتا ہے اپنے قبضہ میں کر لیتا ہے یعنی وہ جانیں بے خود ہو کر الہی تصرف اور قبضہ میں اپنی موت کے وقت آ جاتی ہیں اور زندگی کی خود اختیاری اور خود شناسی ان سے جاتی رہتی ہے اور موت اُن پر وارد ہو جاتی ہے.یعنی بکلی وہ روحیں نیست کی طرح ہو جاتی ہیں اور صفات حیات زائل ہو جاتی ہیں اور ایسی رُوح جو دراصل مرتی نہیں مگر مرنے کے مشابہ ہوتی ہے وہ رُوح کی وہ حالت ہے کہ جب انسان سوتا ہے تب وہ حالت پیدا ہوتی ہے اور ایسی حالت میں بھی رُوح خدا تعالیٰ کے قبضہ اور تصرف میں آجاتی ہے.اور ایسا تغیر اس پر وارد ہو جاتا ہے کہ کچھ بھی اس کی دنیوی شعور اور ادراک کی حالت اس کے اندر باقی نہیں رہتی.غرض موت اور خواب دونوں حالتوں میں خدا کا قبضہ اور تصرف رُوح پر ایسا ہو جاتا ہے کہ زندگی کی علامت جو خود اختیاری اور خود شناسی ہے بکلی جاتی رہتی ہے.پھر خدا ایسی رُوح کو جس پر در حقیقت موت وارد کر دی ہے واپس جانے سے روک رکھتا ہے اور وہ رُوح جس پر اُس نے در حقیقت موت وارد نہیں کی اس کو پھر ایک مقرر وقت تک دنیا کی طرف واپس کر دیتا ہے.اس ہمارے کاروبار میں ان لوگوں کے لئے نشان ہیں جو فکر اور سوچ کرنے والے ہیں.یہ ہے ترجمہ مع شرح آیت مدوحہ بالا کا اور یہ آیت موصوفہ بالا دلالت کر رہی ہے کہ جیسی جسم پر موت ہے.روحوں پر بھی موت ہے لیکن قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ ابرار اور اخیار اور برگزیدوں کی روحیں چند روز کے بعد پھر زندہ کی جاتی ہیں کوئی تین دن کے بعد کوئی ہفتہ کے بعد کوئی چالیس دن کے بعد اور یہ حیات ثانی نہایت آرام اور آسائش اور لذت کی اُن کو ملتی ہے.یہی حیات ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے نیک بندے اپنی پوری قوت اور پوری کوشش اور پورے صدق وصفا الزمر :٤٣
۱۰۷۳ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور نفسانی تاریکیوں سے باہر آنے کے لئے پورا زور لگاتے ہیں اور خدا کی رضا جوئی کے لئے تلخ زندگی اختیار کرتے ہیں گویا مر ہی جاتے ہیں.غرض جیسا کہ آیت موصوفہ بالا بیان فرما رہی ہے.روح کو بھی موت ہے جیسا جسم کو اگر چہ اس عالم کی نہایت مخفی کیفیتیں اس تاریک دنیا میں ظاہر نہیں ہوتیں لیکن بلا شبہ عالم رویا یعنی خواب کا عالم اس عالم کے لئے ایک نمونہ ہے.اور جوموت اس عالم میں رُوح پر وارد ہوتی ہے اس موت کا نمونہ عالم خواب میں بھی پایا جاتا ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ معا آنکھ بند ہونے کے ساتھ ہی ہماری رُوح کی تمام صفات الٹ پلٹ ہو جاتی ہیں.اور اس بیداری کا تمام سلسلہ فراموش ہو جاتا ہے اور تمام روحانی صفات اور تمام علوم جو ہماری روح میں تھے کالعدم ہو جاتے ہیں اور حالت خواب میں وہ نظارے رُوح کے ہمارے پیش نظر آجاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اب وہ ہماری رُوح کچھ اور ہی ہے اور تمام صفات اس کے جو بیداری میں تھے کھوئے گئے ہیں اور یہ ایک ایسی حالت ہے جو موت سے مشابہ بلکہ ایک قسم کی موت ہے اور یہ قطعی اور یقینی دلیل اس بات پر ہے کہ وہ موت جو جسم کی موت کے ساتھ رُوح پر وارد ہوتی ہے وہ ایسی موت کے ساتھ مشابہ ہے جو نیند کی حالت میں روح پر وارد ہوتی ہے مگر وہ موت اس موت کی نسبت بہت بھاری ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۰ تا ۱۶۴) وہ اعتقاد جو قرآن شریف نے سکھایا ہے یہ ہے کہ جیسا کہ خدا نے ارواح کو پیدا کیا ہے ایسا ہی وہ ان کے معدوم کرنے پر بھی قادر ہے اور انسانی روح اُس کی موہبت اور فضل سے ابدی حیات پاتی ہے نہ اپنی ذاتی قوت سے.یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنے خدا کی پوری محبت اور پوری اطاعت اختیار کرتے ہیں اور پورے صدق اور وفاداری سے اس کے آستانہ پر جھکتے ہیں ان کو خاص طور پر ایک کامل زندگی بخشی جاتی ہے اور ان کے فطرتی حواس میں بھی بہت تیزی عطا کی جاتی ہے اور اُن کی فطرت کو ایک نور بخشا جاتا ہے.جس نور کی وجہ سے ایک فوق العادت روحانیت ان میں جوش مارتی ہے اور تمام روحانی طاقتیں جو دنیا میں رکھتے تھے موت کے بعد بہت وسیع کی جاتی ہیں اور نیز مرنے کے بعد وہ اپنی خداداد مناسبت کی وجہ سے جو حضرت عزت سے رکھتے ہیں آسمان پر اُٹھائے جاتے ہیں.جس کو شریعت کی اصطلاح میں رفع کہتے ہیں لیکن جو مومن نہیں ہیں اور جو خدا تعالیٰ سے صاف تعلقات نہیں رکھتے یہ زندگی اُن کو نہیں ملتی اور نہ یہ صفات اُن کو حاصل ہوتی ہیں اس لئے وہ لوگ مُردہ کے حکم میں ہوتے ہیں.پس اگر خدا تعالیٰ روحوں کا پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو وہ اپنے قادرانہ تصرف سے مومن اور غیر مومن
۱۰۷۴ میں یہ فرق دکھلا نہ سکتا.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۲ حاشیه ) قوله.مرزا صاحب اور سب اہل اسلام کا یہی اعتقاد ہے اور قرآن میں آیا ہے کہ جب آنحضرت ( محمد صاحب) سے لوگوں نے پوچھا کہ روح کیا چیز ہے تو آپ کچھ نہ بتلا سکے اور اس وقت آیت نازل ہوئی کہ اے محمد کہہ دے کہ روح ایک امر ربی ہے.سو مسلمانوں نے تو روح کو کیا سمجھا ہو گا خدا نے اُن کے ہادی پر بھی روح کی کیفیت ظاہر نہیں کی اور خدا کا بھی کیا جواب عمدہ ہے کہ روح امر رہی ہے کیا اور چیزیں امر ربی نہیں؟ اقول.لالہ صاحب میں آپ کی غلطیوں کی کہاں تک اصلاح کرتا جاؤں.آپ نے یہ کس سے سن لیا کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائے تعالی کی طرف سے علم روح نہیں دیا گیا تھا اور آپ نے قرآن شریف میں کس جگہ اور کہاں دیکھ لیا کہ حضرت ممدوح روح کے علم سے بے خبر تھے میں جانتا ہوں کہ آپ کو اپنی عقل نا تمام کی شامت سے اس آیت کے سمجھنے میں دھو کا لگا ہے جو قرآن شریف میں وارد ہے اور وہ یہ ہے وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيَتُمْ مِنَ الْعِلْمِ منَ الْعِلْم يه (الجزو ۱۵ سورۃ بنی اسرائیل) اور کفار تجھ سے (اے محمد) پوچھتے ہیں کہ روح کیا ہے اور کس چیز سے اور کیونکر پیدا ہوئی ہے ان کو کہہ دے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے اور تم کو اے کافر و علم روح اور علم اسرار الہی نہیں دیا گیا مگر کچھ تھوڑا سا.سو اس جگہ اے ماسٹر صاحب آپ کو اپنے نقصان فہم سے یہ غلطی لگی کہ آپ نے اس عبارت کا مخاطب ( کہ تم کو علم روح نہیں دیا گیا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لیا.حالانکہ لفظ مَا أُوتِيتُم جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم کو نہیں دیا گیا جمع کا صیغہ ہے جو صاف دلالت کر رہا ہے جو اس آیت کے مخاطب کفار ہیں...کفار کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا کہ روح کیا چیز ہے.تب ایسی جماعت کو جیسا کہ صورت موجودہ تھی بصیغہ جمع مخاطب کر کے جواب دیا گیا کہ روح عالم امر میں سے ہے یعنی کلمتہ اللہ یاظل کلمہ ہے جو بحکمت و قدرت الہی روح کی شکل پر وجود پذیر ہو گیا ہے اور اس کو خدائی سے کچھ حصہ نہیں بلکہ وہ درحقیقت حادث اور بندہ خدا ہے اور یہ قدرت ربانی کا ایک بھید دقیق ہے جس کو تم اے کا فرد سمجھ نہیں سکتے مگر کچھ تھوڑا سا جس کی وجہ سے تم مکلف بایمان ہو.تمہاری عقلیں بھی دریافت کر سکتی ہیں..بنی اسرائیل: ۸۶
۱۰۷۵ یہ جو خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روح عالم امر میں سے ہے جس پر ماسٹر صاحب نے اپنی خوش فہمی سے جھٹ پٹ اعتراض بھی کر دیا.یہ ایک بڑی بھاری صداقت کا بیان ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ربوبیت الہی دوطور سے نا پیدا چیزوں کو پیدا کرتی ہے اور دونوں طور کے پیدا کرنے میں پیدا شدہ چیزوں کے الگ الگ نام رکھے جاتے ہیں.جب خدائے تعالیٰ کسی چیز کو اس طور سے پیدا کرے کہ پہلے اس چیز کا کچھ بھی وجود نہ ہو تو ایسے پیدا کرنے کا نام اصطلاح قرآنی میں امر ہے اور اگر ایسے طور سے کسی چیز کو پیدا کرے کہ پہلے وہ چیز کسی اور صورت میں اپنا وجود رکھتی ہو تو اس طرز پیدائش کا نام خلق ہے.خلاصہ کلام یہ کہ بسیط چیز کا عدم محض سے پیدا کرنا عالم امر میں سے ہے اور مرکب چیز کو کسی شکل یا ہیئت خاص سے متشکل کرنا عالم خلق سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ دوسرے مقام میں قرآن شریف میں فرماتا ہے الالَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمرُ یعنی بسائط کا عدم محض سے پیدا کرنا اور مرکبات کو ظہور خاص میں لانا دونوں خدا کا فعل ہیں اور بسیط اور مرکب دونوں خدائے تعالیٰ کی پیدائش ہے.اب ماسٹر صاحب! دیکھا کہ یہ کیسی اعلیٰ اور عمدہ صداقت ہے جس کو ایک مختصر آیت اور چند محدود لفظوں میں خدائے تعالیٰ نے ادا کر دیا.اس کے مقابلہ پر اگر آپ وید کے عقیدہ کو سوچیں تو جتنا شرمندہ ہوں اتنا ہی تھوڑا ہے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۷۱ تا ۱۷۷) میں سچ سچ کہتا ہوں بالکل سچ جس میں ذرا مبالغہ کی آمیزش نہیں کہ قرآن شریف نے جس قدر خوبی اور عمدگی اور صفائی اور سچائی سے رُوحوں کے خواص اور اُن کی قوتیں اور طاقتیں اور استعداد میں اور ان کے دیگر کوائف عجیبہ بیان کئے ہیں اور پھر ان سب بیانات کا ثبوت دیا ہے وہ ایسا عالی اور باریک اور پر حکمت بیان ہے اور ایسے کامل درجہ کی وہ صداقتیں ہیں کہ اگر وید کے چاروں رشی دوبارہ جنم لے کر بھی دنیا میں آویں اور جہاں تک ممکن ہو خوض اور فکر سے زور لگا دیں تب بھی یہ مقام وسعت علمی اور یہ معارف عالیہ انہیں میسر نہیں آسکتے اگر چہ فکر کرتے کرتے مر ہی جاویں.سرمه چشم آرید روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۳۴) روحوں میں بہت سے خواص اور عجیب طاقتیں اور استعداد میں پائی جاتی ہیں جن کو قرآن شریف نے استیفاء سے ذکر کیا ہے.مثلاً اُن میں چند قو تیں اور استعداد میں یہ ہیں جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں :.(۱) علوم اور معارف کی طرف شائق ہونے کی ایک قوت الاعراف: ۵۵
1.29 (۲) علوم کو حاصل کرنے کی ایک قوت (۳) علوم حاصل کردہ کے محفوظ رکھنے کی ایک قوت (۴) محبت الہی کی ایک قوت (۵) لذت وصال الہی اٹھانے کی ایک قوت (۶) مکاشفات کی ایک قوت (۷) مؤثر اور متاثر ہونے کے یا یوں کہو کہ با ہم عامل اور معمول ہونے کی ایک قوت (۸) تعلق اجسام قبول کرنے کی ایک قوت (۹) تخلق باخلاق اللہ کی ایک قوت (۱۰) مورد الہام الہی ہونے کی ایک قوت (۱۱) بسطی اور قبضی حالت پیدا ہونے کی ایک قوت (۱۲) معارف غیر متناہیہ کے قبول کرنے کی ایک قوت (۱۳) رنگین برنگ تجلی الوہیت ہونے کی ایک قوت (۱۴) عقلی قوت جس سے امتیا ز حسن و فتح اُن پر ظاہر ہوتا ہے (۱۵) ابقائے اثر وقبول اثر کی ایک قوت بمقابلہ اپنے اجسام متعلقہ کے (۱۶) اقرار بوجود خالق حقیقی کی ایک قوت (۱۷) اجسام کے ساتھ اور ان کے اشکال خاصہ کے ساتھ مل کر بعض نئے خواص کے ظاہر کرنے کی قوت (۱۸) ایک قوت کشش با ہمی جس کو مقناطیسی قوت کہنا چاہئے.(۱۹) ابدی طور پر قائم رہنے کی ایک قوت (۲۰) جسم مفارق کی خاک سے ایک خاص تعلق رکھنے کی قوت جو کشفی طور پر ارباب کشف قبور پر ظاہر ہوتی ہے.ایسا ہی اور بھی بہت سی ایسی قوتیں ہیں جن کا مفصل بیان نہایت لطافت اور خوبی سے قرآن شریف سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۴۵ تا ۲۴۷) تناسخ کے مسئلہ جیسا اور کوئی جھوٹا مسئلہ نہیں کیونکہ اس کی بنیاد بھی غلط ہے اور آزمائش کے طور پر بھی یہ غلط ثابت ہوتا ہے اور انسانی پاکیزگی کے لحاظ سے بھی غلط ٹھہرتا ہے اور خدا کی قدرت میں رخنہ انداز میں مندرج ہے.
۱۰۷۷ ہونے کی وجہ سے بھی ہر ایک عارف کا فرض ہے جو اس کو غلط سمجھے.اس کی بنیاد اس طرح پر غلط ہے کہ ستیارتھ پر کاش میں بتلایا گیا ہے کہ رُوح عورت کے پیٹ میں اس طرح آتی ہے کہ شبنم کے ساتھ کسی ساگ پات پر پڑتی ہے اور اس ساگ پات کے کھانے سے رُوح بھی ساتھ کھائی جاتی ہے.پس اس سے تو لازم آتا ہے کہ رُوح دوٹکڑے ہو کر زمین پر پڑتی ہے ایک ٹکڑے کو اتفاقاً مرد کھا لیتا ہے اور دوسرے ٹکڑے کو عورت کھاتی ہے.کیونکہ یہ ثابت شدہ مسئلہ ہے کہ بچہ کوروحانی قوتیں اور روحانی اخلاق مرد اور عورت دونوں سے ملتے ہیں نہ کہ صرف ایک سے.پس دونوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے ساگ پات کو کھا وہیں جس میں روح ہو اور صرف ایک کا کھانا کافی نہیں.پس یہ بداہت یہ امر ستلزم تقسیم رُوح ہے اور تقسیم رُوح باطل ہے.اس لئے تناسخ باطل ہے.اور آزمائش کے طور پر یہ مسئلہ اس طرح پر غلط ٹھہرتا ہے کہ جس طرح ہر قسم کی روحیں پیدا ہوتی رہی ہیں ان تمام صورتوں میں ممکن ہی نہیں کہ شبنم کے ساتھ وہ روحیں پیدا ہوتی ہوں.مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ بالوں میں جوئیں پڑ جاتی ہیں.وہ روحیں کس شبنم کے ساتھ کھائی جاتی ہیں؟ ایسا ہی کنک کے کھاتوں میں سری پڑ جاتی ہے.وہ کروڑ ہا ر ھیں جو کھاتہ کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں وہ کس شبنم کے ساتھ کھاتہ کے اندر اترتی ہیں اور کون ان کو کھاتا ہے؟ ایسا ہی ہم دیکھتے ہیں کہ پیٹ میں کدو دانے پیدا ہوتے ہیں اور کبھی کبھی دماغ میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور طبعی علم کے تجربہ سے پانی کے ہر ایک قطرے میں ہزار ہا کیڑے ثابت ہوتے ہیں.یہ کس شبنم سے پڑتے ہیں؟ تجربہ بتلا رہا ہے کہ ہر ایک چیز میں ایک قسم کے کیرہ کا مادہ موجود ہے.پشمینہ میں بھی ایک قسم کا کیڑہ لگ جاتا ہے.لکڑی میں بھی ، اناج میں بھی، پھلوں میں بھی اور بعض پھلوں میں پھل کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ہی کیڑہ پیدا ہوتا ہے جیسا کہ گولر کا درخت وہ کس شبنم سے کیڑے آتے ہیں.دیکھو پاکیزگی کے لحاظ سے بھی تناسخ کا مسئلہ کیسا خراب ہے.کیا جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے اس کے ساتھ کوئی فہرست بھی اندر سے نکلتی ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ لڑ کی فلاں مرد کی ماں یا دادی یا ہمشیرہ ہے اس سے وہ شادی کرنے سے پر ہیز کرے.اور یہ تناسخ کا مسئلہ پر میشر کی قدرت میں بھی سخت رخنہ انداز ہے.خدا وہ خدا ہے کہ چاہے تو ایک لکڑی میں جان ڈال دے.جیسا کہ حضرت موسیٰ کا عصا ایک دم میں لکڑی اور ایک دم میں سانپ بن جاتا تھا مگر رُوحوں کے انادی ہونے کی حالت میں ہندوؤں کا پر میشر ہرگز پر میشر نہیں رہ سکتا کیونکہ جو محض.
۱۰۷۸ دوسروں کے سہارے سے اپنی خدائی چلا رہا ہے اس کی خدائی کی خیر نہیں وہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں اور یہ کہنا کہ تناسخ کا چکر جو کئی ارب سال سے بموجب آریہ صاحبوں کے عقیدہ کے جاری ہے اس کا باعث گذشتہ پیدائشوں کے گناہ ہیں.یہ خیال طبعی علم کے تجربہ کے ذریعہ سے نہایت فضول اور لچر اور باطل ثابت ہوتا ہے.یہ ظاہر ہے کہ رُوحوں کی پیدائش میں بھی خدا تعالیٰ کا ایک نظام ہے جو کبھی پیش و پس نہیں ہوتا.مثلاً برسات کے دنوں میں ہزار ہا کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور گرمی کے دنوں میں بکثرت لکھیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو کیا انہی دنوں میں ہمیشہ دنیا میں پاپ زیادہ ہوتے ہیں اور نہایت سخت گناہ کی وجہ سے انسانوں کو کھیاں اور برسات کے کیڑے بنایا جاتا ہے؟ اس طرح کے ہزار ہا دلائل ہیں جن سے تناسخ باطل ہوتا ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۴۱ تا ۴۴۴ حاشیه ) یہ بات نہایت درست اور صحیح ہے کہ روح ایک لطیف نور ہے جو اس جسم کے اندر ہی سے پیدا ہو جاتا ہے جو رحم میں پرورش پاتا ہے.پیدا ہونے سے مراد یہ ہے کہ اول مخفی اور غیر محسوس ہوتا ہے پھر نمایاں ہو جاتا ہے اور ابتدا سے اس کا خمیر نطفہ میں موجود ہوتا ہے بے شک وہ آسمانی خدا کے ارادہ سے اور اس کے اذن اور اُس کی مشیت سے ایک مجہول الکنہ علاقہ کے ساتھ نطفہ سے تعلق رکھتا ہے اور نطفہ کا وہ ایک روشن اور نورانی جوہر ہے.نہیں کہہ سکتے کہ وہ نطفہ کی ایسی جزو ہے جیسا کہ جسم جسم کی جزو ہوتا ہے مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر سے آتا ہے.یا زمین پر گر کر نطفہ کے مادہ سے آمیزش پاتا ہے بلکہ وہ ایسا نطفہ میں مخفی ہوتا ہے جیسا کہ آگ پتھر کے اندر ہوتی ہے.خدا کی کتاب کا یہ منشا نہیں ہے کہ روح الگ طور پر آسمان سے نازل ہوتی ہے یا فضا سے زمین پر گرتی ہے اور پھر کسی اتفاق سے نطفہ کے ساتھ مل کر رحم کے اندر چلی جاتی ہے بلکہ یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہر سکتا.اگر ہم ایسا خیال کریں تو قانون قدرت ہمیں باطل پر ٹھہراتا ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۰ اصفحه ۳۲۲ ،۳۲۳) ثابت شدہ واقعات یقینی اور قطعی طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ خود نطفہ مرد اور عورت کا بغیر اس کے کہ اُس پر شبنم کی طرح آسمان کی فضا سے روح گرے رُوح پیدا ہونے کی اپنے اندر استعداد رکھتا ہے.پھر جب مرد اور عورت کا نطفہ باہم مل جاتا ہے تو وہ استعداد بہت قوی ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ استعداد بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ جب بچہ کا پورا قالب تیار ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی قدرت اور امر سے اُسی قالب میں سے رُوح پیدا ہو جاتی ہے یہ وہ واقعات ہیں جو مشہود اور محسوس ہیں.اسی کو ہم کہتے ہیں کہ نیستی سے ہستی ہوئی کیونکہ ہم رُوح کو جسم اور جسمانی نہیں کہہ سکتے اور یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ
۱۰۷۹ رُوح اسی مادہ میں سے پیدا ہوتی ہے جو بعد اجتماع دونوں نطفوں کے رحم مادہ میں آہستہ آہستہ قالب کی صورت پیدا کرتا ہے اور اس مادہ کے لئے ضروری نہیں کہ ساگ پات کی کسی قسم پر رُوح شبنم کی طرح گرے اور اس سے رُوح کا نطفہ پیدا ہو بلکہ وہ مادہ گوشت سے بھی پیدا ہوسکتا ہے خواہ وہ گوشت بکرہ کا ہو یا مچھلی کا یا ایسی مٹی ہو جو زمین کی عمیق نہ کے نیچے ہوتی ہے.جس سے مینڈ کیس وغیرہ کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے ہیں.ہاں بلاشبہ یہ خدا کی قدرت کا ایک راز ہے کہ وہ جسم میں سے ایک ایسی چیز پیدا کرتا ہے کہ وہ نہ جسم ہے اور نہ جسمانی.پس واقعات موجودہ مشہودہ محسوسہ ظاہر کر رہے ہیں کہ آسمان سے روح نہیں گرتی بلکہ یہ ایک نئی روح ہوتی ہے جو ایک مرکب نطفہ میں سے بقدرت قادر پیدا ہو جاتی ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخُلِقِينَ لا یعنی جب رحم میں قالب انسانی تیار ہو جاتا ہے تو پھر ہم ایک نئی پیدائش سے اُس کو مکمل کرتے ہیں یعنی ہم اس مادہ کے اندر سے جس سے قالب تیار ہوا ہے رُوح پیدا کر دیتے ہیں.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۴،۱۲۳) یہ بھی طبعی تحقیقا توں سے ثابت ہے کہ تین سال تک انسان کا پہلا جسم تحلیل پا جاتا ہے اور اس کے قائم مقام دوسرا جسم پیدا ہو جاتا ہے اور یہ یقینی امر ہے.جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ جب انسان کسی بیماری کی وجہ سے نہایت درجہ لاغر ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ایک مشت استخوان رہ جاتا ہے تو صحت یابی کے بعد آہستہ آہستہ پھر وہ ویسا ہی جسم تیار ہو جاتا ہے.سو اسی طرح ہمیشہ پہلے اجزاء جسم کے تحلیل پاتے جاتے ہیں اور دوسرے اجزاء اُن کی جگہ لیتے ہیں.پس جسم پر گویا ہر آن ایک موت ہے اور ایک حیات ہے.ایسا ہی جسم کی طرح رُوح پر بھی تغیرات وارد ہوتے رہتے ہیں اور اُس پر بھی ہر آن ایک موت اور ایک حیات ہے.صرف یہ فرق ہے کہ جسم کے تغیرات ظاہر اور کھلے کھلے ہیں مگر جیسا کہ رُوح مخفی ہے ایسا ہی اُس کے تغیرات بھی مخفی ہیں اور رُوح کے تغیرات غیر متناہی ہیں.جیسا کہ قرآن شریف سے ظاہر ہے کہ رُوح کے تغیرات غیر محدود ہیں یہاں تک کہ بہشت میں بھی وہ تغیرات ہوں گے.مگر وہ تغیرات رو بہ ترقی ہوں گے اور رُوحیں اپنی روحانی صفات میں آگے سے آگے بڑھتی جائیں گی اور پہلی حالت سے دوسری حالت ایسی ڈور اور بلند تر ہو جائے گی گویا پہلی حالت بہ نسبت دوسری حالت کے موت کے مشابہ ہوگی.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۷، ۱۶۸) ل المؤمنون: ۱۵
1+1+ جسمانی صدمات بھی عجیب نظارہ دکھاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ روح اور جسم کا ایک ایسا تعلق ہے کہ اس راز کوکھولنا انسان کا کام نہیں اس سے زیادہ یہ بات ہے کہ غور سے معلوم ہوتا ہے کہ روح کی ماں جسم ہی ہے.حاملہ عورتوں کے پیٹ میں روح کبھی اوپر سے نہیں گرتی بلکہ وہ ایک نور ہے جو نطفہ میں ہی پوشیدہ طور پر مخفی ہوتا ہے اور جسم کی نشوونما کے ساتھ چمکتا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کا پاک کلام ہمیں سمجھا تا ہے کہ رُوح اس قالب میں سے ہی ظہور پذیر ہو جاتی ہے جو نطفہ سے رحم میں تیار ہوتا ہے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.ثُمَّ انْشَأْنَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَلِقِينَ یعنی پھر ہم اس جسم کو جو رحم میں تیار ہوا تھا ایک اور پیدائش کے رنگ میں لاتے ہیں اور ایک اور خلقت اس کی ظاہر کرتے ہیں جو روح کے نام سے موسوم ہے اور خدا بہت برکتوں والا ہے اور ایسا خالق ہے کہ کوئی اس کے برابر نہیں اور یہ جو فرمایا کہ ہم اسی جسم میں سے ایک اور پیدائش ظاہر کرتے ہیں.یہ ایک گہرا راز ہے جو روح کی حقیقت دکھلا رہا ہے اور ان نہایت مستحکم تعلقات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو روح اور جسم کے درمیان واقع ہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد۰ اصفحہ ۳۲۱) سوال:.روح کا جو تعلق قبور سے بتلایا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے؟ فرمایا:.اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ارواح کے تعلق قبور کے متعلق احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے وہ بالکل سچ اور درست ہے.ہاں یہ دوسرا امر ہے کہ اس تعلق کی کیفیت اور کہنہ کیا ہے؟ جس کے معلوم کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں.البتہ یہ ہمارا فرض ہوسکتا ہے کہ ہم یہ ثابت کر دیں کہ اس قسم کا تعلق قبور کے ساتھ ارواح کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی محال عقلی لازم نہیں آتا.اور اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت میں ایک نظیر پاتے ہیں.در حقیقت یہ امر اسی قسم کا ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض امور کی سچائی اور حقیقت صرف زبان ہی سے معلوم ہوتی ہے اور اس کو ذرا وسیع کر کے ہم یوں کہتے ہیں کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقے رکھے ہیں بعض خواص آنکھ کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں اور بعض صداقتوں کا پتہ صرف کان لگاتا ہے اور بعض ایسی ہیں کہ حس مشترک سے اُن کا سراغ چلتا ہے اور کتنی ہی سچائیاں ہیں کہ وہ مرکز قوت یعنی دل سے معلوم ہوتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے صداقت کے معلوم کرنے کے لئے مختلف طریق اور ذریعے رکھے ہیں.انسان بڑے قومی لے کر آیا ہے اور طرح طرح کی خدمتیں اس کی تکمیل کے لئے ہر ایک.
۱۰۸۱ قوت کے سپرد ہیں.نادان فلسفی ہر بات کا فیصلہ اپنی عقل خاص سے چاہتا ہے.حالانکہ یہ بات غلط محض ہے.تاریخی امور تو تاریخ ہی سے ثابت ہوں گے اور خواص الاشیاء کا تجربہ بدوں تجربہ صحیحہ کے کیونکر لگ سکے گا.امور قیاسیہ کا پتہ عقل دے گی.اسی طرح پر متفرق طور پر الگ الگ ذرائع ہیں انسان دھو کہ میں مبتلا ہو کر حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے سے تب ہی محروم ہو جاتا ہے جب کہ وہ ایک ہی چیز کو مختلف امور کی تکمیل کا ذریعہ قرار دے لیتا ہے.میں اس اصول کی صداقت پر زیادہ کہنا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ ذرا سی فکر سے یہ بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے اور روز مرہ ہم ان باتوں کی سچائی کو دیکھتے ہیں.پس جب روح جسم سے مفارقت کرتی ہے یا تعلق پکڑتی ہے تو ان باتوں کا فیصلہ عقل سے نہیں ہوسکتا.اگر ایسا ہوتا تو فلسفی اور حکماء ضلالت میں مبتلا نہ ہوتے.اسی طرح پر قبور کے ساتھ جو تعلق ارواح کا ہوتا ہے یہ ایک صداقت تو ہے مگر اس کا پتہ دینا اس آنکھ کا کام نہیں یہ کشفی آنکھ کا کام ہے کہ وہ دکھلاتی ہے.اگر محض عقل سے اس کا پتہ لگانا چاہو تو کوئی عقل کا پتلا اتنا ہی بتلائے کہ رُوح کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ ہزار اختلاف اس مسئلہ پر موجود ہیں اور ہزار ہافلا سفر د ہر یہ مزاج موجود ہیں جو منکر ہیں.اگر نری عقل کا یہ کام تھا تو پھر اختلاف کا کیا کام؟ کیونکہ جب آنکھ کا کام دیکھنا ہے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ زید کی آنکھ تو سفید چیز کو دیکھے اور بکر کی ویسی ہی آنکھ اس سفید چیز کا ذائقہ بتلائے.میرا مطلب یہ ہے کہ نری عقل روح کا وجود بھی یقینی طور پر نہیں بتلا سکتی.چہ جائیکہ اس کی کیفیت اور تعلقات کا علم پیدا کر سکے.فلاسفر تو رُوح کو ایک سبز لکڑی کی طرح مانتے ہیں اور روح فی الخارج اُن کے نزدیک کوئی چیز ہی نہیں.یہ تفاسیر روح کے وجود اور اس کے تعلق وغیرہ کی چشمۂ نبوت سے ملی ہیں اور نرے عقل والے تو دعوی ہی نہیں کر سکتے.اگر کہو کہ بعض فلاسفروں نے کچھ لکھا ہے.تو یا د رکھو کہ انہوں نے منقولی طور پر چشمہ نبوت سے کچھ لے کر کہا ہے.پس جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ روح کے متعلق علوم چشمہ نبوت سے ملتے ہیں تو یہ امر کہ ارواح کا قبور کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اسی چشم سے دیکھنا چاہئے اور کشفی آنکھ نے بتلایا ہے کہ اس تو دہ خاک سے رُوح کا ایک تعلق ہوتا ہے.اور السَّلَامُ عَلَيْكُمُ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ کہنے سے جواب ملتا ہے.پس جو آدمی ان قومی سے کام لے جن سے کشف قبور ہوسکتا ہے وہ ان تعلقات کو دیکھ سکتا ہے.قبور کے ساتھ تعلق ارواح کے دیکھنے کے لئے کشفی قوت اور حس کی ضرورت ہے.اگر کوئی کہے یہ ٹھیک نہیں ہے تو وہ غلط کہتا ہے.انبیاء علیہم السلام کی ایک کثیر تعداد کروڑ ہا اولیاء وصلحاء کا سلسلہ دنیا میں گذرا ہے اور مجاہدات کرنے والے بے شمار لوگ ہو گزرے ہیں.اور وہ سب اس امر کی زندہ شہادت المؤمنون: ۱۵
۱۰۸۲ ہیں.گو اس کی سمیت اور تعلقات کی وجہ عقلی طور پر ہم معلوم کر سکیں یا نہ.مگر نفس تعلق سے انکار نہیں ہو سکتا.غرض کشفی دلائل ان ساری باتوں کا فیصلہ کئے دیتے ہیں.کان اگر دیکھ نہ سکیں تو ان کا کیا قصور؟ وہ اور قوت کا کام ہے.ہم اپنے ذاتی تجربہ سے گواہ ہیں کہ روح کا تعلق قبر کے ساتھ ضرور ہوتا ہے.انسان میت سے کلام کر سکتا ہے.روح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے جہاں اس کے لئے ایک مقام ملتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے.ہندوؤں کی کتابوں میں بھی اس کی گواہی موجود ہے.یہ مسئلہ عام طور پر مسلمہ مسئلہ ہے بجز اس فرقہ کے جو نفی بقائے روح کرتا ہے اور یہ امر کہ کس جگہ تعلق ہے کشفی قوت خود ہی بتلا دے گی.الحکم مورخه ۲۳ جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ ۳۲.ملفوظات جلد اوّل صفحه ۱۸۹ تا ۱۹۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) روح کوئی مکانی چیز نہیں ہے اس کے تعلقات مجهول الکنہ ہوتے ہیں.مرنے کے بعد ایک تعلق روح کا قبر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور کشف قبور کے وقت ارباب مکاشفات پر وہ تعلق ظاہر ہوتا ہے کہ صاحب قبور اپنی اپنی قبروں میں بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ ان سے صاحب کشف کے مخاطبات و مکالمات بھی واضح ہو جاتے ہیں.یہ بات احادیث صحیحہ سے بھی بخوبی ثابت ہے.صلوۃ فی القبر کی حدیث مشہور ہے اور احادیث سے ثابت ہے کہ مُردے جوتی کی آواز بھی سن لیتے ہیں اور السلام علیکم کا جواب دیتے ہیں.باوجود اس کے ایک تعلق اُن کا آسمان سے بھی ہوتا ہے اور اپنے نفسی نقطہ کے مکان پر اُن کا تمثل مشاہدہ میں آتا ہے اور ان کا رفع مختلف درجات سے ہوتا ہے.بعض پہلے آسمان تک رہ جاتے ہیں.بعض دوسرے تک بعض تیسرے تک لیکن موت کے بعد رفع رُوح بھی ضرور ہوتا ہے جیسا کہ حدیث صحیح اور آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ ا صریح اشارہ کر رہی ہے لیکن ان کا آسمان پر ہونا یا قبروں میں ہونا ایک مَجْهُولُ الْكُنَہ امر ہے.الحق مباحثہ دہلی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۲۱۵) الاعراف ام
۱۰۸۳ کوئی زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے" باب چهارم بار بار دعوتِ مقابله میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی مخالف کے مقابل پر مجھے مغلوب نہیں کرے گا کیونکہ میں اُس کی طرف سے ہوں اور اُس کے دین کی تجدید کے لئے اُسی کے حکم سے آیا ہوں.“
۱۰۸۴ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو ان نوروں سے خاص کیا ہے جو برگزیدہ بندوں کو ملتے ہیں جن کا دوسرے لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے.پس اگر تم کو شک ہو تو مقابلہ کے لئے آؤ اور یقینا سمجھو کہ تم ہرگز مقابلہ نہیں کرسکو گے.تمہارے پاس زبانیں ہیں مگر دل نہیں.جسم ہے مگر جان نہیں.آنکھوں کی پتلی ہے مگر اس میں نور نہیں.خدا تعالیٰ تمہیں نور بخشے تا تم دیکھ لو.(فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۴ حاشیہ ) خدا تعالیٰ اس زمانہ میں بھی اسلام کی تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کرتا ہے اور جیسا کہ اس بارہ میں میں خود صاحب تجربہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اگر میرے مقابل پر تمام دنیا کی قومیں جمع ہو جائیں اور اس بات کا بالمقابل امتحان ہو کہ کس کو خدا غیب کی خبریں دیتا ہے اور کس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور کس کی مدد کرتا ہے اور کس کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی غالب رہوں گا.کیا کوئی ہے؟ کہ اس امتحان میں میرے مقابل پر آوے ہزار ہانشان خدا نے محض اس لئے مجھے دیئے ہیں کہ تا دشمن معلوم کرے کہ دین اسلام سچا ہے.میں اپنی کوئی عزت نہیں چاہتا بلکہ اس کی عزت چاہتا ہوں جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۸۲۱۸۱) جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں چار عظیم الشان آسمانی تائیدوں کا کامل متقیوں اور کامل مومنوں کے لئے وعدہ دیا ہے اور وہی کامل مومن کے شناخت کے لئے کامل علامتیں ہیں اور وہ یہ ہیں.اول یہ کہ مومن کامل کو خدائے تعالیٰ سے اکثر بشارتیں ملتی ہیں یعنی پیش از وقوع خوش خبریاں جو اس کی مرادات یا اس کے دوستوں کے مطلوبات ہیں اس کو بتلائی جاتی ہیں.دوم یہ کہ مومن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اس کی ذات یا اس کے واسطے داروں سے متعلق ہوں بلکہ جو کچھ دُنیا میں قضا و قدر نازل ہونے والی ہے یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر کچھ تغیرات آنے والے ہیں ان سے برگزیدہ مومن کو اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے.سیوم یہ کہ مومن کامل کی اکثر دعائیں قبول کی جاتیں ہیں اور اکثر ان دعاؤں کی قبولیت کی پیش از وقت اطلاع دی جاتی ہے.چہارم یہ کہ مومن کامل پر قرآن کریم کے دقائق و معارف جدیدہ و لطائف و خواص عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں.ان چاروں علامتوں میں مومن کامل نسبتی طور پر دوسروں پر غالب رہتا ہے اور اگر چہ دائمی طور پر یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ ہمیشہ مومن کامل کو منجانب اللہ بشارتیں ہی ملتی رہیں یا ہمیشہ بلا تخلف ہر ایک دُعا اس کی منظور ہی ہو جایا
۱۰۸۵ کرے اور نہ یہ کہ ہمیشہ ہر ایک حادثہ زمانہ سے اس کو اطلاع دی جائے اور نہ یہ کہ ہر وقت معارف قرآنی اس پر کھلتے رہیں لیکن غیر کے مقابلہ کے وقت ان چاروں علامتوں میں کثرت مومن ہی کی طرف رہتی ہے.اگر چہ ممکن ہے کہ غیر کو بھی مثلاً جو مومن ناقص ہے شاذ و نادر کے طور پر ان نعمتوں سے کچھ حصہ دیا جاوے مگر اصلی وارث ان نعمتوں کا مومن کامل ہی ہوتا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ یہ مرتبہ کاملہ مومن کا بغیر مقابلہ کے ہر ایک بلید و غیبی اور کوتاہ نظر پر کھل نہیں سکتا.لہذا نہایت صاف اور سہل طریق حقیقی اور کامل مومن کی شناخت کے لئے مقابلہ ہی ہے کیونکہ اگر چہ یہ تمام علامات بطور خود بھی مومن کامل سے صادر ہوتی رہتی ہیں لیکن یکطرفہ طور پر بعض وقتیں بھی ہیں مثلاً بسا اوقات مومن کامل کی خدمت میں دعا کرانے کے لئے ایسے لوگ بھی آ جاتے ہیں جن کی تقدیر میں قطعاً کامیابی نہیں ہوتی اور قلم ازل مبرم طور پر اُن کے مخالف چلی ہوئی ہوتی ہے.سو وہ لوگ اپنی ناکامی کی وجہ سے مومن کامل کی اس علامت قبولیت کو شناخت نہیں کر سکتے بلکہ اور بھی شک میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے محروم رہنے کی وجہ سے مومن کامل کے کمالات قبولیت پر مطلع نہیں ہو سکتے.اور اگر چہ مومن کامل کا خدائے تعالیٰ کے نزدیک بڑا درجہ اور مرتبہ ہوتا ہے اور اس کی خاطر سے اور اس کی تضرع اور دُعا سے بڑے بڑے پیچیدہ کام درست کئے جاتے ہیں اور بعض ایسی تقدیریں جو تقدیر مبرم کے مشابہ ہوں بدلائی بھی جاتی ہیں.مگر جو تقدیر حقیقی اور واقعی طور پر مبرم ہے وہ مومن کامل کی دعاؤں سے ہرگز بدلائی نہیں جاتی اگر چہ وہ مومن کامل نبی یا رسول کا ہی درجہ رکھتا ہو.غرض نسبتی طور پر مومن کامل ان چاروں علامتوں میں اپنے غیر سے بہداہت ممیز ہوتا ہے اگر چہ دائمی طور پر قادر اور کامیاب نہیں ہو سکتا.پس جبکہ یہ امر ثابت ہو چکا کہ نسبتی طور پر حقیقی اور کامل مومن کو کثرتِ بشارات اور کثرت استجابت دعا اور کثرت انکشاف مغیبات اور کثرت انکشاف معارف قرآنی سے وافر حصہ ہے تو مومن کامل اور اس کے غیر کے آزمانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہ ہوگا کہ بذریعہ مقابلہ ان دونوں کو جانچا اور پرکھا جاوے.یعنی اگر یہ امر لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہو کہ دو شخصوں میں سے کون عند اللہ مومن کامل اور کون اس درجہ سے گرا ہوا ہے تو انہی چاروں علامتوں کے ساتھ مقابلہ ہونا چاہئے یعنی ان چاروں علامتوں کو محک اور معیار ٹھہرا کر مقابلہ کے وقت دیکھا جاوے کہ اس معیار اور ترازو کی رُو سے کون شخص پورا اُترا ہے اور کس کی حالت میں کمی اور نقصان ہے.اب خلق اللہ گواہ رہے کہ میں خالصًا لِلهِ اور إِظْهَارًا لِلْحَقِّ اس مقابلہ کو بدل و جان منظور کرتا ہوں اور مقابلہ کے لئے جو صاحب میرے سامنے آنا چاہیں اُن میں سے سب سے اول نمبر میاں نذیر حسین دہلوی
1+17 جنہوں نے پچاس سال سے زیادہ قرآن اور حدیث پڑھا کر پھر اپنے علم اور عمل کا یہ نمونہ دکھایا کہ بلا تفتیش و تحقیق اس عاجز کے کفر پر فتویٰ لکھ دیا اور ہزار ہا وحشی طبع لوگوں کو بدظن کر کے اُن سے گندی گالیاں دلائیں اور بٹالوی کو ایک مجنون درندہ کی طرح تکفیر اور لعنت کی جھاگ ممہ سے نکالنے کے لئے چھوڑ دیا اور آپ مومن کامل اور شیخ الکل اور شیخ العرب والحجم بن بیٹھے.لہذا مقابلہ کے لئے سب سے اول انہی کو دعوت دی جاتی ہے.ہاں ان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے ساتھ بٹالوی کو بھی کہ اب تو خواب بینی کا بھی دعویٰ رکھتا ہے ملا لیں بلکہ ان کو میری طرف سے اختیار ہے کہ وہ مولوی عبدالجبار صاحب خلف عبد صالح مولوی عبداللہ صاحب مرحوم اور نیز مولوی عبد الرحمن لکھو والے کو جو میری نسبت ابدی گمراہ ہونے کا الہام مشتہر کر چکے ہیں اور کفر کا فتویٰ دے چکے ہیں اور نیز مولوی محمد بشیر صاحب بھو پالوی کو جو ان کے متبعین میں سے ہیں اس مقابلہ میں اپنے ساتھ ملالیں اور اگر میاں صاحب موصوف اپنی عادت کے موافق گریز کر جائیں تو یہی حضرات مذکورہ بالا میرے سامنے آویں اور اگر یہ سب گریز اختیار کریں تو پھر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اس کام کے لئے ہمت کریں کیونکہ مقلدوں کی پارٹی کے تو وہی رکن اول ہیں اور ان کے ساتھ ہر ایک ایسا شخص بھی شامل ہو سکتا ہے کہ جو نامی اور مشاہیر صوفیوں اور پیرزادوں اور سجادہ نشینوں میں سے ہو اور انہی حضرات علماء کی طرح اس عاجز کو کافر اور مفتری اور کذاب اور مکار سمجھتا ہو.اور اگر یہ سب کے سب مقابلہ سے منہ پھیر لیں اور کچے عذروں اور نامعقول بہانوں سے میری اس دعوت کے قبول کرنے سے منحرف ہو جائیں تو خدائے تعالیٰ کی حجت ان پر تمام ہے.میں مامور ہوں اور فتح کی مجھے بشارت دی گئی ہے لہذا میں حضرات مذکورہ بالا کو مقابلہ کے لئے بلاتا ہوں.کوئی ہے جو میرے سامنے آوے؟.یہ ہر چہار محک امتحان جو میں نے لکھی ہیں یہ ایسی سیدھی اور صاف ہیں کہ جو شخص غور کے ساتھ ان کو زیر نظر لائے گا وہ بلاشبہ اس بات کو قبول کر لے گا کہ متخاصمین کے فیصلہ کے لئے اس سے صاف اور سہل تر اور کوئی رُوحانی طریق نہیں.اور میں اقرار کرتا ہوں اور اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں اس مقابلہ میں مغلوب ہو گیا تو اپنے ناحق پر ہونے کا خود اقرار شائع کروں گا اور پھر میاں نذیر حسین صاحب اور شیخ بٹالوی کی تکفیر اور مفتری کہنے کی حاجت نہیں رہے گی اور اس صورت میں ہر ایک ذلت اور توہین اور تحقیر کا مستوجب وسزا وار ٹھہروں گا اور اسی جلسہ میں اقرار بھی کروں گا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور میرے تمام دعاوی باطل ہیں اور بخدا میں یقین رکھتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ میرا خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا
۱۰۸۷ اور کبھی مجھے ضائع ہونے نہیں دے گا.آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۳ تا ۳۳۰) نشانوں کا سلسلہ تو ابتدا سے جاری ہے اور ہر یک صحبت میں رہنے والا بشرطیکہ صدق اور استقامت سے رہے کچھ نہ کچھ دیکھ سکتا ہے اور آئندہ بھی خدائے تعالیٰ اس سلسلہ کو بے نشان نہیں چھوڑے گا اور نہ اپنی تائید سے دستکش ہوگا بلکہ جیسا کہ اس کے پاک وعدے ہیں وہ ضرور اپنے وقتوں پر نشان تازہ بتازہ دکھاتا رہے گا جب تک کہ وہ اپنی حجت کو پوری کرے اور خبیث اور طیب میں فرق کر کے دکھلاوے.اُس نے آپ اپنے مکالمہ میں اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا اور میں کبھی امید نہیں کرسکتا کہ وہ حملے بغیر ہونے کے رہیں گے گواُن کا ظہور میرے اختیار میں نہیں.میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں سچا ہوں.پیارو! یقیناً سمجھو کہ جب تک آسمان کا خدا کسی کے ساتھ نہ ہوا یسی شجاعت کبھی نہیں دکھا تا کہ ایک دنیا کے مقابل پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور ان باتوں کا دعویٰ کرے جو اُس کے اختیار سے باہر ہیں.جو شخص قوت اور استقامت کے ساتھ ایک دنیا کے مقابل پر کھڑا ہو جاتا ہے.کیا وہ آپ سے کھڑا ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.بلکہ وہ اس ذات قدیر کی پناہ سے اور ایک غیبی ہاتھ کے سہارے کھڑا ہوتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں تمام زمین و آسمان اور ہر ایک روح اور جسم ہے سو آنکھیں کھولو اور سمجھ لو کہ اس خدا نے مجھ عاجز کو یہ قوت اور استقامت دی ہے جس کے مکالمہ سے مجھے عزت حاصل ہے.اسی کی طرف سے اور اسی کے کھلے کھلے ارشاد سے مجھے یہ جرات ہوئی کہ میں ان لوگوں کے مقابل پر بڑی دلیری اور دلی استقامت سے کھڑا ہو گیا جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم مقتدا اور شیخ العرب و انجم اور مقرب اللہ ہیں جن میں وہ جماعت بھی موجود ہے جو لہم کہلاتی ہے اور الہی مکالمہ کا دعوی کرتی ہے اور اپنے زعم میں الہامی طور پر مجھے کافر اور جہنمی ٹھہرا چکے ہیں.سو میں ان سب کے مقابل پر باذنہ تعالیٰ میدان میں آیا ہوں تا خدائے تعالیٰ صادق اور کا ذب میں فرق کر کے دکھاوے اور تا اس کا ہاتھ جھوٹے کو تحت الٹرکی تک پہنچاوے اور تا وہ اس شخص کی نصرت اور تائید کرے جس پر اس کا فضل وکرم ہے.سو بھائیو دیکھو کہ یہ دعوت جس کی طرف میں میاں نذیرحسین صاحب اور اُن کی جماعت کو بلاتا ہوں یہ در حقیقت مجھ میں اور اُن میں کھلا کھلا فیصلہ کرنے والا طریق ہے سو میں اس راہ پر کھڑا ہوں.اب اگر ان علماء کی نظر میں ایسا ہی کافر اور دجال اور مفتری اور شیطان کا رہ زدہ ہوں تو میرے مقابل پر انہیں کیوں تامل کرنا چاہئے کیا انہوں نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا کہ عند المقابلہ نصرت الہی مومنوں
۱۰۸۸ کے ہی شامل حال ہوتی ہے.اللہ جل شانہ قرآن کریم میں مومنوں کو فرماتا ہے.وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ ا یعنی اے مومنو مقابلہ سے ہمت مت ہارو اور کچھ اندیشہ مت کرو اور انجام کار غلبہ تمہیں کا ہے اگر تم واقعی طور پر مومن ہو.اور فرماتا ہے لَنْ يَجْعَلَ اللهُ لِلْكَفِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا لے یعنی خدا تعالیٰ ہرگز کافروں کو مومنوں پر راہ نہیں دے گا.آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۳۲ تا ۳۳۴) مسیح موعود جو آنے والا ہے اس کی علامت یہ کھی ہے کہ وہ نبی اللہ ہوگا یعنی خدائے تعالیٰ سے وحی پانے والا لیکن اس جگہ نبوت تامہ کاملہ مراد نہیں کیونکہ نبوت تامہ کاملہ پر مہر لگ چکی ہے بلکہ وہ نبوت مراد ہے جو محد ثیت کے مفہوم تک محدود ہے جو مشکوۃ نبوت محمدیہ سے نور حاصل کرتی ہے سو یہ نعمت خاص طور پر اس عاجز کو دی گئی ہے اور اگر چہ ہر یک کو رویا صحیحہ اور مکاشفات میں سے کسی قدر حصہ ہے مگر مخالفین کے دل میں اگر گمان اور شک ہو تو وہ مقابلہ کر کے آزما سکتے ہیں کہ جو کچھ اس عاجز کو رویا صالحہ اور مکاشفہ اور استجابت دعا اور الہامات صحیحہ صادقہ سے حصہ وافرہ نبیوں کے قریب قریب دیا گیا ہے وہ دوسروں کو تمام حال کے مسلمانوں میں سے ہرگز نہیں دیا گیا اور یہ ایک بڑا محک آزمائش ہے کیونکہ آسمانی تائید کی مانند صادق کے صدق پر اور کوئی گواہ نہیں.جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے بے شک خدائے تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور ایک خاص طور پر مقابلہ کے میدانوں میں اس کی دستگیری فرماتا ہے.چونکہ میں حق پر ہوں اور دیکھتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اس لئے میں بڑے اطمینان اور یقین کامل سے کہتا ہوں کہ اگر میری ساری قوم کیا پنجاب کے رہنے والے اور کیا ہندوستان کے باشندے اور کیا عرب کے مسلمان اور کیا رُوم اور فارس کے کلمہ گو اور کیا افریقہ اور دیگر بلاد کے اہل اسلام اور اُن کے علما اور اُن کے فقراء اور اُن کے مشائخ اور اُن کے صلحا اور اُن کے مرد اور اُن کی عورتیں مجھے کا ذب خیال کر کے پھر میرے مقابل پر دیکھنا چاہیں کہ قبولیت کے نشان مجھ میں ہیں یا اُن میں اور آسمانی دروازے مجھ پر کھلتے ہیں یا اُن پر اور وہ محبوب حقیقی اپنی خاص عنایات اور اپنے علوم لدنیہ اور معارف روحانیہ کے القا کی وجہ سے میرے ساتھ ہے یا اُن کے ساتھ.تو بہت جلد اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ خاص فضل اور خاص رحمت جس سے دل مورد فیوض کیا جاتا ہے اس عاجز پر اس کی قوم سے زیادہ ہے.کوئی شخص اس بیان کو تکبر کے رنگ میں نہ سمجھے بلکہ یہ تحدیث نعمت کی قسم میں سے ہے.وَ ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ.اس کی طرف اشارہ ان الہامات میں ہے.قُل اِنى ال عمران: ۱۴۰ النساء:۱۴۲
1+19 أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَذْهَبَ عَنِى الْحُزْنَ وَاتَانِى مَالَمْ يُؤْتَ اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ - اَحَدًا مِّنَ العَلَمِین سے مراد زمانہ حال کے لوگ یا آئندہ زمانہ کے ہیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۷۹،۴۷۸) میں کمال دعوے سے کہتا ہوں کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے میری ہمت اور توجہ اور دُعا سے لوگوں پر برکات ظاہر کی ہیں اس کی نظیر دوسروں میں ہرگز نہیں ملے گی اور عنقریب خدا تعالیٰ اور بھی بہت سے نمونے ظاہر کرے گا یہاں تک کہ دشمن کو بھی سخت ناچار ہو کر ماننا پڑے گا.میں بار بار یہی کہتا ہوں کہ یہ دو قسم کی برکتیں جن کا نام عیسوی برکتیں اور محمدی برکتیں ہیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں.میں خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پا کر اس بات کو جانتا ہوں کہ جو دُنیا کی مشکلات کے لئے میری دعائیں قبول ہوسکتی ہیں دوسروں کی ہرگز نہیں ہوسکتیں اور جو دینی اور قرآنی معارف حقائق اور اسرار مع لوازم بلاغت اور فصاحت کے میں لکھ سکتا ہوں دوسرا ہرگز نہیں لکھ سکتا.اگر ایک دنیا جمع ہو کر میرے اس امتحان کے لئے آوے تو مجھے غالب پائے گی اور اگر تمام لوگ میرے مقابل پر اُٹھیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا ہی پلہ بھاری ہو گا.دیکھو میں صاف صاف کہتا ہوں اور کھول کر کہتا ہوں کہ اس وقت اے مسلمانو تم میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو مفسر اور محدث کہلاتے ہیں اور قرآن کے معارف اور حقائق جاننے کے مدعی ہیں اور بلاغت اور فصاحت کا دم مارتے ہیں اور وہ لوگ بھی موجود ہیں جو فقراء کہلاتے ہیں اور چشتی اور قادری اور نقشبندی اور سہروردی وغیرہ کے ناموں سے اپنے تئیں موسوم کرتے ہیں.اُٹھو! اور اس وقت اُن کو میرے مقابلہ پر لاؤ.پس اگر میں اس دعوے میں جھوٹا ہوں کہ یہ دونوں شانیں یعنی شانِ عیسوی اور شان محمدی مجھ میں جمع ہیں اور اگر میں وہ نہیں ہوں جس میں یہ دونوں شانیں جمع ہوں گی اور ذ والبروزین ہو گا تو میں اس مقابلہ میں مغلوب ہو جاؤں گا ورنہ غالب آ جاؤں گا.مجھے خدا کے فضل سے توفیق دی گئی ہے کہ میں شانِ عیسوی کی طرز سے دنیوی برکات کے متعلق کوئی نشان دکھاؤں یا شانِ محمدی کی طرز سے حقائق معارف اور نکات اور اسرارِ شریعت بیان کروں اور میدانِ بلاغت میں قوتِ ناطقہ کا گھوڑا دوڑاؤں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اور محض اسی کے ارادے سے زمین پر بجز میرے ان دونوں نشانوں کا جامع اور کوئی نہیں ہے اور پہلے سے لکھا گیا تھا کہ ان دونوں نشانوں کا جامع ایک ہی شخص ہو گا جو آخر زمانہ میں پیدا ہوگا اور اس کے وجود کا آدھا حصہ عیسوی شان کا ہو گا اور آدھا حصہ محمدی شان کا.سو وہی میں ہوں جس نے دیکھنا ہو دیکھے.جس نے پرکھنا ہو پر کھے.
۱۰۹۰ مبارک وہ جواب نخل نہ کرے اور نہایت بد بخت وہ جو روشنی پا کرتاریکی کو اختیار کرے.ایام الصلح - روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۶ ۴۰ ،۴۰۷) میں محض نصیحتا للہ مخالف علماء اور اُن کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی.لیکن اگر مجھے آپ لوگ کا ذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددعا ئیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں.پھر اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی.اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں.جو شخص میرے پر بددعا کرے گا وہ بددعا اُسی پر پڑے گی.جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر لعنت ہو وہ لعنت اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اس کو بر نہیں اور جو شخص میرے ساتھ اپنی کشتی قرار دے کر یہ دُعائیں کرتا ہے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے اس کا نتیجہ وہی ہے جو مولوی غلام دستگیر قصوری نے دیکھ لیا.کوئی زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے.میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے.کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا.مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں.میں وہ پودا نہیں ہوں کہ اُن کے ہاتھ سے اُکھڑ سکوں.اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لئے دعائیں کریں تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو لعنت کی شکل پر بنا کر ان کے منہ پر مارے گا دیکھو صد ہا دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے.بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو.وہ تمام مکر و فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگاؤ.اتنی بد دعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ.پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو.خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بدقسمت انسان دور سے اعتراض کرتے
1+91 ہیں.جن دلوں پر مہریں ہیں اُن کا ہم کیا علاج کریں.اے خدا ! تو اس اُمت پر رحم کر.آمین المشتهر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۲۹ / دسمبر ۱۹۰۰ء (ضمیہ اربعین نمبر ۳ ۴.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۴۷۱ تا ۴۷۳) اس عاجز غلام احمد قادیانی کی آسمانی گواہی طلب کرنے کے لئے ایک دعا اور حضرت عزت سے اپنی نسبت آسمانی فیصلہ کی درخواست اے میرے حضرت اعلیٰ ذوالجلال قادر قدوس حتی وقیوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے.تیرا نام ابدال آبادمبارک ہے.تیرے قدرت کے کام کبھی رُک نہیں سکتے.تیراقوی ہاتھ ہمیشہ عجیب کام دکھلاتا ہے.تو نے ہی اس چودھویں صدی کے سر پر مجھے مبعوث کیا اور فرمایا کہ اُٹھ کہ میں نے تجھے اس زمانہ میں اسلام کی حجت پوری کرنے کے لئے اور اسلامی سچائیوں کو دُنیا میں پھیلانے کے لئے اور ایمان کو زندہ اور قوی کرنے کے لئے چنا اور تو نے ہی مجھے کہا کہ ” تو میری نظر میں منظور ہے میں اپنے عرش پر تیری تعریف کرتا ہوں اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ تو وہ مسیح موعود ہے جس کے وقت کو ضائع نہیں کیا جائے گا“ اور تو نے ہی مجھے مخاطب کر کے کہا کہ ” تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ ” میں نے لوگوں کی دعوت کے لئے تجھے منتخب کیا.اُن کو کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں اور سب سے پہلا مومن ہوں“ اور تو نے ہی مجھے کہا کہ ”میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا اسلام کو تمام قوموں کے آگے روشن کر کے دکھلاؤں اور کوئی مذہب ان تمام مذہبوں میں سے جو زمین پر ہیں برکات میں.معارف میں تعلیم کی عمدگی میں.خدا کی تائیدوں میں.خدا کے عجائب غرائب نشانوں میں اسلام سے ہمسری نہ کر سکے اور تو نے ہی مجھے فرمایا کہ تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.میں نے اپنے لئے تجھے اختیار کیا مگر اے میرے قادر خدا.تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا اور مجھے مفتری سمجھا اور میرا نام کافر اور کذاب اور دجال رکھا گیا.مجھے گالیاں دی گئیں اور طرح طرح کی دل آزار باتوں سے مجھے ستایا گیا اور میری نسبت یہ بھی کہا گیا کہ حرام خور.لوگوں کا مال کھانے والا.وعدوں
۱۰۹۲ کا تخلف کرنے والا.حقوق کو تلف کرنے والا.لوگوں کو گالیاں دینے والا.عہدوں کو توڑنے والا.اپنے نفس کے لئے مال جمع کرنے والا اور شریر اور خونی ہے یہ وہ باتیں ہیں جو خود ان لوگوں نے میری نسبت کہیں جو مسلمان کہلاتے اور اپنے تئیں اچھے اور اہل عقل اور پر ہیز گار جانتے ہیں.اور ان کا نفس اس بات کی طرف مائل ہے کہ در حقیقت جو کچھ وہ میری نسبت کہتے ہیں سچ کہتے ہیں.اور انہوں نے صد ہا آسمانی نشان تیری طرف سے دیکھے مگر پھر بھی قبول نہیں کیا.وہ میری جماعت کو نہایت تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں.ہر ایک اُن میں سے جو بد زبانی کرتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ بڑے ثواب کا کام کر رہا ہے.سواے میرے مولا قادر خدا! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا نشان ظاہر فرما.جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طور پر یقین کریں کہ میں تیرا مقبول ہوں اور جس سے اُن کا ایمان قوی ہو اور وہ تجھے پہچانیں اور تجھ سے ڈریں اور تیرے اس بندے کی ہدایتوں کے موافق ایک پاک تبدیلی اُن کے اندر پیدا ہو اور زمین پر پاکی اور پر ہیز گاری کا اعلیٰ نمونہ دکھلا دیں اور ہر ایک طالب حق کو نیکی کی طرف کھینچیں اور اس طرح پر تمام قو میں جو زمین پر ہیں تیری قدرت اور تیرے جلال کو دیکھیں اور سمجھیں کہ تو اپنے اس بندے کے ساتھ ہے اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے نام کی روشنی اس بجلی کی طرح دکھلائی دے کہ جو ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب تک اپنے تئیں پہنچاتی اور شمال و جنوب میں اپنی چمکیں دکھلاتی ہے.لیکن اگر اے پیارے مولا میری رفتار تیری نظر میں اچھی نہیں ہے تو مجھ کو اس صفحہ دنیا سے مٹادے تا میں بدعت اور گمراہی کا موجب نہ ٹھہروں.میں اس درخواست کے لئے جلدی نہیں کرتا تا میں خدا کے امتحان کرنے والوں میں شمار نہ کیا جاؤں.لیکن میں عاجزی سے اور حضرت ربوبیت کے ادب سے یہ التماس کرتا ہوں کہ اگر میں اس عالی جناب کا منظور نظر ہوں تو تین سال کے اندر کسی وقت میری اس دعا کے موافق میری تائید میں کوئی ایسا آسمانی نشان ظاہر ہو جس کو انسانی ہاتھوں اور انسانی تدبیروں سے کچھ بھی تعلق نہ ہو جیسا کہ آفتاب کے طلوع اور غروب کو انسانی تدبیروں کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں.اگر چہ اے میرے خداوند یہ سچ ہے کہ تیرے نشان انسانی ہاتھوں سے بھی ظہور میں آتے ہیں لیکن اس وقت میں اسی بات کو اپنی سچائی کا معیار قرار دیتا ہوں کہ وہ نشان انسانوں کے تصرفات سے بالکل بعید ہوتا کوئی دشمن اس کو انسانی منصوبہ قرار نہ دے سکے.سواے میرے خدا تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اگر تو چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے.تو میرا ہے جیسا کہ میں تیرا ہوں.تیری جناب میں الحاج سے دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور اگر یہ سچ ہے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے تو تو میری تائید میں اپنا کوئی ایسا نشان دکھلا کہ جو پبلک کی نظر میں انسانوں
۱۰۹۳.وہ کے ہاتھوں اور انسانی منصوبوں سے برتریقین کیا جائے تالوگ سمجھیں کہ میں تیری طرف سے ہوں.اے میرے قادر خدا! اے میرے توانا اور سب قوتوں کے مالک خداوند! تیرے ہاتھ کے برابر کوئی ہاتھ نہیں اور کسی جن اور بھوت کو تیری سلطنت میں شرکت نہیں.دُنیا میں ہر ایک فریب ہوتا ہے اور انسانوں کو شیاطین بھی اپنے جھوٹے الہامات سے دھوکہ دیتے ہیں مگر کسی شیطان کو یہ قوت نہیں دی گئی کہ وہ تیرے نشانوں اور تیرے ہیبت ناک ہاتھ کے آگے ٹھہر سکے یا تیری قدرت کی مانند کوئی قدرت دکھلا سکے کیونکہ تو وہ ہے جس کی شان لا الہ الا اللہ ہے اور جو العلی العظیم ہے.جولوگ شیطان سے الہام پاتے ہیں اُن کے الہاموں کے ساتھ کوئی قادرانہ غیب گوئی کی روشنی نہیں ہوتی جس میں الوہیت کی قدرت اور عظمت اور ہیبت بھری ہوئی ہو وہ تو ہی ہے جس کی قوت سے تمام تیرے نبی تحدی کے طور پر اپنے معجزانہ نشان دکھلاتے رہے ہیں اور بڑی بڑی پیشگوئیاں کرتے رہے ہیں جن میں اپنا غلبہ اور مخالفوں کی در ماندگی پہلے سے ظاہر کی جاتی تھی.تیری پیشگوئیوں میں تیرے جلال کی چمک ہوتی ہے اور تیری الوہیت کی قدرت اور عظمت اور حکومت کی خوشبو آتی ہے اور تیرے مُرسلوں کے آگے فرشتہ چلتا ہے تا اُن کی راہ میں کوئی شیطان مقابلہ کے لئے ٹھہر نہ سکے.مجھے تیری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے تیرا فیصلہ منظور ہے.پس اگر تو تین برس کے اندر جو جنوری ۱۹۰۰ عیسوی سے شروع ہو کر دسمبر ۱۹۰۲ عیسوی تک پورے ہو جائیں گے میری تائید میں اور میری تصدیق میں کوئی آسمانی نشان نہ دکھلاوے اور اپنے اس بندہ کو ان لوگوں کی طرح رڈ کر دے جو تیری نظر میں شریر اور پلید اور بے دین اور کذاب اور دجال اور خائن اور مفسد ہیں تو میں تجھے گواہ کرتا ہوں کہ میں اپنے تئیں صادق نہیں سمجھوں گا اور ان تمام تہمتوں اور الزاموں اور بہتانوں کا اپنے تئیں مصداق سمجھ لوں گا جو میرے پر لگائے جاتے ہیں.دیکھ ! میری روح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے.سو میں تیری قدرت کے نشان کا خواہشمند ہوں لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں اور جس کو تو نے بھیجا ہے اس کی تکذیب کر کے ہدایت سے دور نہ پڑ جائیں.میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے مجھے بھیجا ہے اور میری تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں.ضمیمه تریاق القلوب نمبر ۵ روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۰۷ تا ۵۱۱) اے قدیر و خالق ارض و سما اے رحیم و مهربان و رہنما 1 لے اے قادر اور آسمان زمین کے پیدا کرنے والے اے رحیم ، مہربان اور رستہ دکھانے والے.
۱۰۹۴ اے کہ میداری تو بر دلها نظر اے کہ از تو نیست چیزے مُستر اے گر تو می بینی مرا پُر فسق و شر گر تو دیداتی که هستم بد گهر سے ے پاره پاره کن من بدکار را شاد کن این زمرہ اغیار را ۳ بر دل شاں ابر رحمت ہا بیار ہر مراد شاں بفضل خود برآر ۴ آتش افشان بر در و دیوار من دشمنم باش ته کن کار من ۵ آستانت یافتی ۲ ور مرا از بندگانت یافتی قبلہ در من و تبه دل من آں محبت دیدہ کر جہاں آں راز را پوشیده که با من از روئے محبت کار گن اند کے افشاء آں اسرار گن 2 اے کہ آئی سُوئے ہر 스 جوئندہ واقفی از سوز ہر سوزنده 2 زاں تعلق با که با تو داشتم زاں محبت با که در دل کاشتم ۱۰ خود بروں آ بیٹے ابراء من اے تو کہف و ملجاء و ما وائے من ال دلم افروختی و زدم آن غیر خود را سوختی ۱۲ آتش کاندر ے اے وہ جو کہ دلوں پر نظر رکھتا ہے اے وہ کہ تجھ سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں.اگر تو مجھے نافرمانی اور شرارت سے بھرا ہوا دیکھتا ہے اور اگر تو نے دیکھ لیا ہے کہ میں بدذات ہوں.سے تو مجھے بد کار کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈال اور میرے ان دشمنوں کے گروہ کو خوش کر دے.ے ان کے دلوں پر اپنی رحمت کا بادل برسا اور اپنے فضل سے ان کی ہر مراد پوری کر.۵ میرے درد و یوار پر آگ برسا میرا دشمن ہو جا اور میرا کاروبار تباہ کر دے.لیکن اگر تو نے مجھے اپنا فرمانبردار پایا ہے اور اپنی بارگاہ کو میرا قبلہ مقصود پایا ہے.کے اور میرے دل میں وہ محبت دیکھی ہے جس کا بھید تو نے دنیا سے پوشیدہ رکھا ہے.تو محبت کی رو سے مجھ سے پیش آ اور ان اسرار کو تھوڑا سا ظاہر کر دے.اے وہ کہ تو ہر متلاشی کے پاس آتا ہے اور ہر جلنے والے کے سوز سے واقف ہے.ملے تو اس تعلق کے باعث جو میں تجھ سے رکھتا ہوں اور اس محبت کی وجہ سے جو میں نے اپنے دل میں ہوئی ہے.تو آپ میری بریت کے لیے باہر نکل.تو ہی میرا حصار اور جائے پناہ اور ٹھکانا ہے.وہ آگ جو تو نے میرے دل میں روشن کی ہے اور اس کے شعلوں سے تو نے اپنے غیر کو جلا دیا ہے.
۱۰۹۵ ہم ازاں آتش رُخ من برفروز ویں شب تارم مبدل کن بروز 1 (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۳۴) قوت ایمانی کے انوار جو تائیدات غیبیہ کے پیرایہ میں بطور خارق عادت ظاہر ہوتے ہیں جو خدائے تعالیٰ کے فضل و رحم اور قرب پر دلالت کرتے ہیں اُن کے بارے میں بھی انہی اشتہارات میں لکھا گیا ہے جو باعث قوت ایمانی و قدم بر صراط مستقیم یہ سب نعمتیں اس عاجز کو خاص طور پر عطا کی گئی ہیں.کسی مخالف مذہب کو یہ مرتبہ ہر گز حاصل نہیں.اگر ہے تو وہ مقابلہ کے لئے کھڑا ہو دے اور اپنی روحانی برکات کا جو اپنے مذہب کے اتباع سے اس کو حاصل ہوں اس عاجز سے موازنہ کرے لیکن آج تک کوئی مقابل پر نہیں اُٹھا اور نہ انسان ضعیف اور بیچ کی یہ طاقت ہے کہ صرف اپنی مکاری اور شرارتوں کے منصوبہ سے یا متعصبانہ ہٹ سے اس سلسلہ کے سامنے کھڑا ہو سکے جس کو خدائے تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے.اور میں سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی اس سلسلہ کے سامنے اپنی برکات نمائی کی رو سے کھڑا ہو تو نہایت درجہ کی ذلت سے گرا دیا جائے گا کیونکہ یہ کام اور یہ سلسلہ انسان کی طرف سے نہیں بلکہ اس ذات زبر دست اور قوی کی طرف سے ہے جس کے ہاتھوں نے آسمانوں کو اُن کے تمام اجرام کے ساتھ بنایا اور زمین کو اس کے باشندوں کے لئے بچھا دیا.افسوس کہ ہماری قوم کے مولوی اور علماء یوں تو تکفیر کے لئے بہت جلد کاغذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن ذرہ سوچتے نہیں کہ کیا یہ ہیبت اور رعب باطل میں ہوا کرتا ہے کہ تمام دنیا کو مقابلہ کے لئے کہا جائے اور کوئی سامنے نہ آسکے.کیا وہ شجاعت اور استقامت جھوٹوں میں بھی کسی نے دیکھی ہے جو ایک عالم کے سامنے اس جگہ ظاہر کی گئی.اگر انہیں شک ہے تو مخالفین اسلام کے جس قدر پیشوا اور واعظ اور معلم ہیں ان کے دروازہ پر جائیں اور اپنے ظنون فاسدہ کا سہارا دے کر انہیں میرے مقابلہ پر روحانی امور کے موازنہ کے لئے کھڑا کریں.پھر دیکھیں کہ خدائے تعالے میری حمایت کرتا ہے یا نہیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۵۶ ۱۵۷ حاشیه ) ے اُسی آگ سے میرے چہرہ کو بھی روشن کر دے اور میری اس اندھیری رات کو دن سے بدل دے.
١٠٩٦ اے شک کرنے والو ! آسمانی فیصلہ کی طرف آجاؤ ! اے بزرگو! اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے.غیظ اور غضب میں آکر حد سے مت بڑھو.میری اس کتاب کے دونوں حصوں کو غور سے پڑھو کہ اُن میں نور اور ہدایت ہے.خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی زبانوں کو تکفیر سے تھام لو.خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں.آمَنْتُ بِاللهِ وَ مَلئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.وَاَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تَقُولُوا لَسْتَ مُسْلِمًا وَاتَّقُوا الْمَلِكَ الَّذِي إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ اور اگر اب بھی اس کتاب کے پڑھنے کے بعد شک ہے تو آؤ آزما لو.خدا کس کے ساتھ ہے.اے میرے مخالف الرائے مولویو! اور صوفیو! اور سجادہ نشینو!!! جو مکفر اور مکذب ہو.مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ لوگ مل جل کر یا ایک ایک آپ میں سے ان آسمانی نشانوں میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں جو اولیاء الرحمن کے لازم حال ہوا کرتے ہیں تو خدائے تعالی تمہیں شرمندہ کرے گا اور تمہارے پردوں کو پھاڑ دے گا اور اس وقت تم دیکھو گے کہ وہ میرے ساتھ ہے کیا کوئی تم میں ہے کہ اس آزمائش کے لئے میدان میں آوے اور عام اعلان اخباروں کے ذریعہ سے دے کر ان تعلقات قبولیت میں جو میرا رب میرے ساتھ رکھتا ہے اپنے تعلقات کا موازنہ کرے.یاد رکھو کہ خدا صادقوں کا مددگار ہے وہ اسی کی مدد کرے گا جس کو وہ سچا جانتا ہے.چالاکیوں سے باز آجاؤ کہ وہ نزدیک ہے.کیا تم اس سے لڑو گے؟ کیا کوئی متکبرانہ اچھلنے سے درحقیقت اونچا ہو سکتا ہے.کیا صرف زبان کی تیزیوں سے سچائی کو کاٹ دو گے؟ اس ذات سے ڈرو جس کا غضب سب غضوں سے بڑھ کر ہے.مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى النَّاصِح خاکسار غلام احمد قادیانی از لود بیانہ محلہ اقبال گنج طه: ۷۵ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۲)
1.92 قرآن شریف ایسی حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور رطب و یابس کا ذخیرہ اس کے اندر نہیں.ہر ایک چیز کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اس کے اندر موجود ہے وہ ہر پہلو سے نشان اور آیت ہے.اگر کوئی انکار کرے تو ہم ہر پہلو سے اس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۴ ۸.ملفوظات جلد اوّل صفحه ۵۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) میرے معجزات اور دیگر دلائل نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے طلب ثبوت کے لئے بعض منتخب علماء ندوہ کے قادیان میں آویں اور مجھ سے معجزات اور دلائل یعنی نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا ثبوت لیں.پھر اگر سنت انبیاء علیہم السلام کے مطابق میں نے پورا ثبوت نہ دیا تو میں راضی ہوں کہ میری کتابیں جلائی جائیں لیکن اس قدر محنت اٹھانا بڑے باخدا کا کام ہے.ندوہ کو کیا ضرورت جو اس قدر سر درد اٹھاوے اور کون سا فکر آخرت ہے تا خدا سے ڈرے مگر ندوہ کے علماء ایک ایک کر کے یا درکھیں کہ وہ ہمیشہ اس دنیا میں نہیں رہ سکتے.موتیں پکار رہی ہیں اور جس لہو و لعب میں وہ مشغول ہو رہے ہیں جس کا نام وہ دین رکھتے ہیں خدا آسمان پر دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے کہ وہ دین نہیں ہے.وہ ایک چھلکے پر راضی ہیں اور مغز سے بے خبر ہیں یہ اسلام کی خیر خواہی نہیں بلکہ بدخواہی ہے.کاش اگر اُن کی آنکھیں ہوتیں تو وہ سمجھتے کہ دنیا میں بڑا گناہ کیا گیا کہ خدا کے مسیح کورڈ کر دیا گیا.اس بات کا ہر ایک کو مرنے کے بعد پتہ لگے گا.(تحفۃ الندوہ.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۰۱) اور مکالمہ الہیہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نبیوں کی طرح اس شخص کو جو فنافی النبی ہے اپنے کامل مکالمہ کا شرف بخشے.اس مکالمہ میں وہ بندہ جو کلیم اللہ ہو خدا سے گویا آمنے سامنے باتیں کرتا ہے وہ سوال کرتا ہے خدا اس کا جواب دیتا ہے گو ایسا سوال جواب پچاس (۵۰) دفعہ واقعہ ہو یا اس سے زیادہ بھی.خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ کے ذریعہ سے تین نعمتیں اپنے کامل بندہ کو عطا فرماتا ہے.اوّل ان کی اکثر دعائیں قبول ہوتی ہیں اور قبولیت سے اطلاع دی جاتی ہے.دوم اس کو خدا تعالیٰ بہت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے سوم اس پر قرآن شریف کے بہت سے علوم حکمیہ بذریعہ الہام کھولے جاتے ہیں.پس جو شخص اس عاجز کا مکذب ہو کر پھر یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ ہنر مجھ میں پایا جاتا ہے میں اس کو خدا تعالے کی قسم دیتا ہوں کہ ان تینوں باتوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے اور فریقین میں قرآن شریف کے کسی مقام کی سات آیتیں تفسیر کے لئے بالا تفاق منظور ہو کر ان کی تفسیر دونوں فریق لکھیں یعنی فریق مخالف اپنے الہام سے اس کے معارف لکھے اور میں اپنے الہام سے لکھوں اور چند ایسے الہام قبل از وقت وہ
1.97 پیش کرے جن میں قبولیت دعا کی بشارت ہو اور وہ دعا فوق الطاقت ہو.ایسا ہی میں بھی پیش کروں اور چند امور غیبیہ جو آنے والے زمانہ سے متعلق ہیں وہ قبل از وقت ظاہر کرے اور ایسا ہی میں بھی ظاہر کروں اور دونوں فریق کے یہ بیان اشتہارات کے ذریعہ سے شائع ہو جائیں.تب ہر ایک کا صدق و کذب کھل جائے گا مگر یاد رکھنا چاہئیے کہ ہر گز ایسا نہیں کر سکیں گے.مکذبین کے دلوں پر خدا کی لعنت ہے.خدا اُن کو نہ قرآن کا نور دکھلائے گا نہ بالمقابل دعا کی استجابت جو اعلام قبل از وقت کے ساتھ ہو اور نہ امور غیبیہ پر اطلاع دے گا.لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ ہے.پس اب میں نے یہ اشتہار دے دیا ہے جو شخص اس کے بعد اس سیدھے طریق سے میرے ساتھ مقابلہ نہ کرے اور نہ تکذیب سے باز آوے وہ خدا کی لعنت فرشتوں کی لعنت اور تمام صلحاء کی لعنت کے نیچے ہے.وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلاغ - (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۰۳ حاشیہ ) ناظرین کو معلوم ہوگا کہ میں نے مخالف مولویوں اور سجادہ نشینوں کی ہر روز کی تکذیب اور زبان درازیاں دیکھ کر اور بہت سی گالیاں سن کر اُن کی اس درخواست کے بعد کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جائے.ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں ان لوگوں میں سے مخاطب خاص پیر مہر علی شاہ صاحب تھے.اس اشتہار کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ اب تک مباحثات مذہبی بہت ہو چکے جن سے مخالف مولویوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھایا اور چونکہ وہ ہمیشہ آسمانی نشانوں کو درخواست کرتے رہتے ہیں کچھ تعجب نہیں کہ کسی وقت ان سے فائدہ اُٹھا لیں.اس بنا پر یہ امر پیش کیا گیا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جو علاوہ کمالات پیری کے علمی تو غل کا بھی دم مارتے ہیں اور اپنے علم کے بھروسہ پر جوش میں آکر انہوں نے میری نسبت فتویٰ تکفیر کو تازہ کیا اور عوام کو بھڑ کانے کے لئے میری تکذیب کے متعلق ایک کتاب لکھی.......چونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس الہام سے مشرف فرمایا ہے کہ اَلرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرآن کہ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا.اس لئے میرے لئے صدق یا کذب کے پر کھنے کے لئے یہ نشان کافی ہوگا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب میرے مقابل پر کسی سورۃ قرآن شریف کی عربی فصیح بلیغ میں تفسیر لکھیں اگر وہ فائق اور غالب رہے تو پھر ان کی بزرگی ماننے میں مجھ کو کچھ کلام نہیں ہو گا.پس میں نے اس امر کو قرار دے کر ان کی دعوت میں اشتہار شائع کیا جس میں سراسر نیک نیتی سے کام لیا گیا تھا لیکن اس کے جواب میں انہوں نے صاف گریز کی راہ اختیار لہذا آج میرے دل میں ایک تجویز خدا تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی جس کو میں اتمام حجت الجن: ۲۷، ۲۸
۱۰۹۹ کے لئے پیش کرتا ہوں اور یقین ہے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کی حقیقت اس سے کھل جائے گی کیونکہ تمام دنیا اندھی نہیں ہے.انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو کچھ انصاف رکھتے اور وہ تدبیر یہ ہے کہ آج میں ان متواتر اشتہارات کا جو پیر مہر علی شاہ صاحب کی تائید میں نکل رہے ہیں یہ جواب دیتا ہوں کہ اگر در حقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب علم معارف قرآن اور زبان عربی کی ادب اور فصاحت بلاغت میں یگانہ روزگار ہیں تو یقین ہے کہ اب تک وہ طاقتیں ان میں موجود ہوں گی کیونکہ لاہور آنے پر ابھی کچھ بہت زمانہ نہیں گزرا.اس لئے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ میں اس جگہ بجائے خود سورۃ فاتحہ کی عربی فصیح میں تفسیر لکھ کر اس سے اپنے دعوے کو ثابت کروں اور اس کے متعلق معارف اور حقائق سورہ ممدوحہ کے بھی بیان کروں اور حضرت پیر صاحب میرے مخالف آسمان سے آنے والے مسیح اور خونی مہدی کا ثبوت اس سے ثابت کریں اور جس طرح چاہیں سورۃ فاتحہ سے استنباط کر کے میرے مخالف عربی فصیح بلیغ میں براہین قاطعہ اور معارف ساطعہ تحریر فرماویں.یہ دونوں کتابیں دسمبر ۱۹۰۰ء کی پندرہ تاریخ سے ستر دن تک چھپ کر شائع ہو جانی چاہئیں.تب اہل علم لوگ خود مقابلہ اور موازنہ کر لیں گے اور اگر اہل علم میں سے تین کس جو ادیب اور اہل زبان ہوں اور فریقین سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور فصاحت کے رو سے اور کیا معارف قرآنی کے رو سے فائق ہے تو میں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانسو روپیہ نقد بلا توقف پیر صاحب کی نذر کروں گا.ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور محمد حسن بھیں وغیرہ کو بلا لیں بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں.فریقین کی تفسیر چارجز سے کم نہیں ہونی چاہئیے اور اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵ فروری ۱۹۰۱ء تک جوستر دن ہیں فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کے کا ذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعِ الْهُدَى - المشتهر میرزا غلام احمد از قادیان ۱۵ دسمبر ۱۹۰۰ء (ضمیمه اربعین نمبر ۳ و ۴ - روحانی خزائن جلد ۷ ۱ صفحه ۴۷۹ تا ۴۸۴) مجھے ایک دفعہ یہ الہام ہوا.اَلرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرانِ.يَا أَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْکَ.یعنی خدا نے تجھے اے احمد قرآن سکھلایا اور تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی.اور اس
11++ الہام کی تفہیم مجھے اس طرح پر ہوئی کہ کرامت اور نشان کے طور پر قرآن اور زبان قرآن کی نسبت دو طرح کی نعمتیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں.(۱) ایک یہ کہ معارف عالیہ فرقان حمید بطور خارق عادت مجھ کو سکھلائے گئے جن میں دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا.(۲) دوسرے یہ کہ زبان قرآن یعنی عربی میں وہ بلاغت اور فصاحت مجھے دی گئی کہ اگر تمام علماء مخالفین با ہم اتفاق کر کے بھی اس میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں تو نا کام اور نامراد رہیں گے اور وہ دیکھ لیں گے جو حلاوت اور بلاغت اور فصاحت لسان عربی مع التزام حقائق و معارف ونکات میری کلام میں ہے وہ ان کو اور ان کے دوستوں اور ان کے اُستادوں اور اُن کے بزرگوں کو ہرگز حاصل نہیں.اس الہام کے بعد میں نے قرآن شریف کے بعض مقامات اور بعض سورتوں کی تفسیریں لکھیں اور نیز عربی زبان میں کئی کتا بیں نہایت بلیغ وفصیح تالیف کیں اور مخالفوں کو اُن کے مقابلہ کے لئے بلایا بلکہ بڑے بڑے انعام ان کے لئے مقرر کئے اگر وہ مقابلہ کر سکیں اور ان میں سے جو نامی آدمی تھے جیسا کہ میاں نذیر حسین دہلوی اور ابو سعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنة ان لوگوں کو بار بار اس امر کی طرف دعوت کی گئی کہ اگر کچھ بھی ان کو علم قرآن میں دخل ہے یا زبان عربی میں مہارت ہے یا مجھے میرے دعوی مسیحیت میں کا ذب سمجھتے ہیں تو ان حقائق و معارف پر از بلاغت کی نظیر پیش کریں جو میں نے کتابوں میں اس دعوے کے ساتھ لکھے ہیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بالا تر اور خدا تعالیٰ کے نشان ہیں مگر وہ لوگ مقابلہ سے عاجز آگئے نہ تو وہ ان حقائق و معارف کی نظیر پیش کر سکے جن کو میں نے بعض قرآنی آیات اور سورتوں کی تفسیر لکھتے وقت اپنی کتابوں میں تحریر کیا تھا اور نہ ان بلیغ اور فصیح کتابوں کی طرح دو سطر بھی لکھ سکے جو میں نے عربی میں تالیف کر کے شائع کی تھیں.چنانچہ جس شخص نے میری کتاب نور الحق اور کرامات الصادیقین اور سر الخلافة اور اتمام الحجة وغيره رسائل عربیہ پڑھے ہوں گے اور نیز میرے رسالہ انجام آتھم اور نجم الھدی کی عربی عبارت کو دیکھا ہوگا وہ اس بات کو بخوبی سمجھ لے گا کہ ان کتابوں میں کس زور شور سے بلاغت فصاحت کے لوازم کو نظم ونثر میں بجا لایا گیا ہے.اور پھر کس زور شور سے تمام مخالف مولویوں سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ علم قرآن اور بلاغت سے کچھ حصہ رکھتے ہیں تو ان کتابوں کی نظیر پیش کریں ورنہ میرے اس کاروبار کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر میری حقیت کا نشان اس کو قرار دیں.لیکن افسوس کہ ان مولویوں نے نہ تو انکار کو چھوڑا اور نہ میری کتابوں کی نظیر بنانے پر قادر ہو سکے.بہر حال ان پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو گئی اور وہ اس الزام کے نیچے آگئے جس کے نیچے تمام وہ منکرین ہیں جنہوں نے خدا کے مامورین
11+1 سے سرکشی کی.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۳۰ ۲۳۱) عوام کا یہ غلط خیال دور کرنے کے لئے کہ گویا میاں محمد حسین بطالوی یا دوسرے مخالف مولوی جو اس بزرگ کے ہم مشرب ہیں علم ادب اور حقائق تفسیر کلام الہی میں یدطولیٰ رکھتے ہیں قرین مصلحت سمجھا گیا ہے کہ اب آخری دفعہ اتمام حجت کے طور پر بطالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب دوسرے علماء کی عربی دانی اور حقائق شناسی کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے یہ رسالہ شائع کیا جائے اور واضح رہے کہ اس رسالہ میں چہار قصائد اور ایک تفسیر سورۃ فاتحہ کی ہے.اور اگر چہ یہ قصائد صرف ایک ہفتہ کے اندر بنائے گئے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ چند ساعت میں لیکن بطالوی صاحب اور اُن کے ہم مشرب مخالفوں کے لئے محض اتمام حجت کی غرض سے پوری ایک ماہ کی مہلت دے کر یہ اقرار شرعی قانونی شائع کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اس رسالہ کی اشاعت سے ایک ماہ کے عرصہ تک اس کے مقابل پر اپنا فصیح بلیغ رسالہ شائع کر دیں جس میں اسی تعداد کے مطابق اشعار عربیہ ہوں جو ہمارے اس رسالہ میں ہیں.اور ایسے ہی حقائق اور معارف اور بلاغت کے التزام سے سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہو جو اس رسالہ میں لکھی گئی ہے تو ان کو ایک ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا اور نیز یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ بعد بالمقابل قصائد اور تفسیر شائع کرنے کے اگر ان کے قصائد اور ان کی تفسیر نحوی وصرفی اور علم بلاغت کی غلطیوں سے مبرا نکلے اور میرے قصائد اور تفسیر سے بڑھ کر نکلے تو پھر باوصف اپنے اس کمال کے اگر میرے قصائد بالمقابل کے کوئی غلطی نکالیں گے تو فی غلطی پانچ روپیہ انعام بھی دوں گا مگر یادر ہے کہ نکتہ چینی آسان ہے ایک جاہل بھی کر سکتا ہے مگر نکتہ نمائی مشکل.تفسیر لکھنے کے وقت یہ یادر ہے کہ کسی دوسرے شخص کی تفسیر کی نقل منظور نہیں ہوگی بلکہ وہی تفسیر لائق منظوری ہوگی جس میں حقائق ومعارف جدیدہ ہوں بشرطیکہ کتاب اللہ اور فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالف نہ ہوں.کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۴۷ تا ۴۹) بعض اسلام کے مخالف یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ اگر چہ عقلی طور پر یہی واجب معلوم ہوتا ہے کہ کلامِ خدا بے مثل چاہیے لیکن ایسا کلام کہاں ہے جس کا بے مثل ہونا کسی صریح دلیل سے ثابت ہو.اگر قرآن بے نظیر ہے تو اس کی بے نظیری کسی واضح دلیل سے ثابت کرنی چاہیے کیونکہ اس کی بے مثل بلاغت پر صرف وہی شخص مطلع ہو سکتا ہے جس کی اصل زبان عربی ہو اور لوگوں پر اس کی بے نظیری حجت نہیں ہوسکتی اور نہ وہ اس سے منتفع ہو سکتے ہیں.اما الجواب واضح ہو کہ یہ عذر خام انہی لوگوں کا ہے
١١٠٢ جنہوں نے دلی صدق سے کبھی اس طرف توجہ نہیں کی کہ قرآن کی بے نظیری کو کسی صاحب علم سے معلوم کریں بلکہ فرقانی نوروں کو دیکھ کر دوسری طرف منہ پھیر لیتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کسی قدر پر تو ہ اس نور کا ان پر پڑ جائے ورنہ قرآن شریف کی بے نظیری حق کے طالبوں کے لئے ایسی ظاہر اور روشن ہے کہ جو آفتاب کی طرح اپنی شعاعوں کو ہر طرف پھیلا رہی ہے.جس کے سمجھنے اور جاننے کے لئے کوئی دقت اور اشتباہ نہیں اور اگر تعصب اور عناد کی تاریکی درمیان میں نہ ہو تو وہ کامل روشنی ادنی التفات سے معلوم ہوسکتی ہے.یہ سچ ہے کہ فرقان مجید کی بے نظیری کی بعض وجوہ ایسی ہیں کہ ان کے جاننے کے لئے کسی قدر علم عربی درکار ہے.مگر یہ بڑی غلطی اور جہالت ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ اعجاز قرآن کی تمام وجوه عربی دانی پر ہی موقوف ہیں یا تمام عجائبات قرآنیہ اور جمیع خواص عظمی فرقانیہ صرف عربوں پر ہی کھل سکتے ہیں اور دوسرں کے لئے تمام راہیں ان کے دریافت کرنے کی مسدود ہیں.ہرگز نہیں ہرگز نہیں.یہ بات ہر ایک اہل علم پر واضح ہے کہ اکثر وجوہ بے نظیری فرقان کی ایسی سہل اور سریع الفہم ہیں کہ جن کے جاننے اور معلوم کرنے کے لئے کچھ بھی لیاقت عربی در کار نہیں بلکہ اس درجہ پر بد یہی اور واضح ہیں کہ ادنی عقل جو انسانیت کے لئے ضروری ہے ان کے سمجھنے کے لئے کفایت کرتی ہے.مثلاً ایک یہ وجہ بے نظیری کہ وہ با وجود اس قدر ایجاز کلام کے کہ اگر اس کو متوسط قلم سے لکھیں تو پانچ چار جز میں آسکتا ہے.پھر تمام دینی صداقتوں پر کہ جو بطور متفرق پہلی کتابوں میں اور انبیائے سلف کے صحیفوں میں پراگندہ اور منتشر تھیں مشتمل ہے اور نیز اس میں یہ کمال ہے کہ جس قدر انسان محنت اور کوشش اور جانفشانی کر کے علم دین کے متعلق اپنے فکر اور ادراک سے کچھ صداقتیں نکالے یا کوئی بار یک دقیقہ پیدا کرے یا اسی علم کے متعلق کسی قسم کے اور حقائق اور معارف یا کسی نوع کے دلائل اور براہین اپنی قوت عقلیہ سے پیدا کر کے دکھلا دے یا ایسا ہی کوئی نہایت دقیق صداقت جس کو حکمائے سابقین نے مدت دراز کی محنت اور جانفشانی سے نکالا ہو معرض مقابلہ میں لاوے یا جس قدر مفاسد باطنی اور امراض روحانی ہیں جن میں اکثر افراد مبتلا ہوتے ہیں ان میں سے کسی کا ذکر یا علاج قرآن شریف سے دریافت کرنا چاہے تو وہ جس طور سے اور جس باب میں آزمائش کرنا چاہتا ہے آزما کر دیکھ لے کہ ہر یک دینی صداقت اور حکمت کے بیان میں قرآن شریف ایک دائرہ کی طرح محیط ہے جس سے کوئی صداقت دینی باہر نہیں بلکہ جن صداقتوں کو حکیموں نے باعث نقصانِ علم و عقل غلط طور پر بیان کیا ہے قرآن شریف ان کی تکمیل و اصلاح فرماتا ہے اور جن دقائق کا بیان کرنا کسی حکیم و فلاسفر کو میسر نہیں آیا
١١٠٣ اور کوئی ذہن ان کی طرف سبقت نہیں لے گیا.ان کو قرآن شریف بکمال صحت و راستی بیان اور ظاہر فرماتا ہے اور ان دقائق علیم الہی کو جو صد ہا دفتروں اور طول طویل کتابوں میں لکھے گئے تھے اور پھر بھی ناقص اور نا تمام تھے باستیفا تمام لکھتا ہے اور آئندہ کسی عاقل کے لئے کسی نئے دقیقہ کے پیدا کرنے کی جگہ نہیں چھوڑتا حالانکہ وہ اس قدر قليل الحجم کتاب ہے کہ جو بتحر یرمیا نہ چالیس ورق سے زیادہ نہیں.اب ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی وجہ بے نظیری ہے جس کی صداقت میں ایک ادنی عقل کے آدمی کو بھی شک نہیں رہ سکتا کیونکہ ہر یک عقل سلیم پر روشن ہے کہ ہر یک نوع کی دینی سچائیاں اور الہیات کے تمام حقائق اور معارف اور اصول حقہ کے جمیع دلائل اور وسائل اور تمام اولین آخرین کا مغز ایک قلیل المقدار کتاب میں اس احاطہ تام سے درج کرنا جس کے مقابلہ پر کسی ایسی صداقت کا نشان نہ مل سکے کہ جو اس سے باہر رہ گئی ہو یہ انسان کا کام نہیں اور کسی مخلوق کی حد قدرت میں داخل نہیں اور اس کے آزمانے کے لئے بھی ہر یک خواندہ اور ناخواندہ پر صاف اور سیدھا راستہ کھلا ہے کیونکہ اگر اس امر میں شک ہو کہ قرآن شریف کیونکہ تمام حقائق الہیات پر حاوی ہے تو اس بات کا ہم ہی ذمہ اُٹھاتے ہیں کہ اگر کوئی صاحب طالب حق بن کر یعنی اسلام قبول کرنے کا تحریری وعدہ کر کے کسی کتاب عبرانی، یونانی، لاطینی، انگریزی، سنسکرت وغیرہ سے کسی قدر دینی صداقتیں نکال کر پیش کریں یا اپنی ہی عقل کے زور سے کوئی الہیات کا نہایت بار یک دقیقہ پیدا کر کے دکھلاویں تو ہم اس کو قرآن شریف میں سے نکال دیں گے.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۴۷ تا ۲۷۷) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مولوی اس ملک کے تمام مولویوں میں سے معارف قرآنی میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہے اور کسی سورت کی ایک تفسیر میں لکھوں اور ایک کوئی اور مخالف لکھے تو وہ نہایت ذلیل ہوگا اور مقابلہ نہیں کر سکے گا اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اصرار کے مولویوں نے اس طرف رُخ نہیں کیا.پس یہ ایک عظیم الشان نشان ہے مگر اُن کے لئے جو انصاف اور ایمان رکھتے ہیں.ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ا اصفحہ ۲۹۳،۲۹۲) میں عربوں کے دعوئی ادب و فصاحت و بلاغت کو بالکل تو ڑنا چاہتا ہوں یہ لوگ جو اخبار نویس ہیں اور چند سطریں لکھ کر اپنے آپ کو اہل زبان اور ادیب قرار دیتے ہیں وہ اس اعجاز کے مقابلہ میں قلم اٹھا کر دیکھ لیں اُن کے قلم توڑ دیئے جاویں گے اور اگر ان میں کچھ طاقت ہے اور قوت ہے تو وہ اکیلے اکیلے یا سب کے سب مل کر اس کا مقابلہ کریں.پھر انہیں معلوم ہو جائے گا اور یہ راز بھی کھل جائے گا جو یہ
۱۱۰۴ نا واقف کہا کرتے ہیں کہ عربوں کو ہزار ہا روپے کے نوٹ دے کر کتا ہیں لکھائی جاتی ہیں.اب معلوم ہو جائے گا کہ کون عرب ہے جو ایسی فصیح بلیغ کتاب اور ایسے حقائق ومعارف سے پر لکھ سکتا ہے جو کتا ہیں یہ ادب وانشاء کا دعوی کر نے والے لکھتے ہیں ان کی مثال پتھروں کی سی ہے کہ سخت ، نرم ، سیاہ ، سفید پتھر جمع کر کے رکھے جائیں مگر یہ تو ایک لذیذ اور شیریں چیز ہے جس میں حقائق اور معارف قرآنی کے اجزاء ترکیب دیئے گئے ہیں.غرض جو بات رُوح القدس کی تائید سے لکھی جاوے اور جو الفاظ اس کے القاء سے آتے ہیں وہ اپنے ساتھ ایک حلاوت رکھتے ہیں اور اس حلاوت میں ملی ہوئی شوکت اور قوت ہوتی ہے جو دوسروں کو اس پر قادر نہیں ہونے دیتی.یہ غرض بہت بڑا نشان ہوگا.(الحکم، مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد اول صفحه ۵۶۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) یادر ہے کہ اگر چہ میں اب تک عربی میں سترہ کے قریب بے مثل کتابیں شائع کر چکا ہوں جن کے مقابل میں اس دس برس کے عرصہ میں ایک کتاب بھی مخالفوں نے شائع نہیں کی مگر آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ وہ کتا بیں صرف عربی فصیح و بلیغ میں ہی نہیں بلکہ ان میں بہت سے قرآنی حقائق معارف ہیں.اس لئے ممکن ہے کہ وہ لوگ یہ جواب دیں کہ ہم حقائق معارف سے نا آشنا ہیں اگر صرف عربی فصیح میں نظم ہوتی.جیسے عام قصائد ہوتے ہیں تو ہم بلاشبہ اس کی نظیر بناسکتے اور نیز یہ بھی خیال آیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب سے اگر صرف کتاب اعجاز مسیح کی نظیر طلب کی جائے تو وہ ضرور اس میں کہیں گے کہ کیونکر ثابت ہو کہ ستر دن کے اندر یہ کتاب تالیف کی گئی ہے اور اگر وہ حجت پیش کریں کہ یہ کتاب دو برس میں بنائی گئی ہے اور ہمیں بھی دو برس کی مہلت ملے تو مشکل ہوگا کہ ہم صفائی سے ان کو ستر دن کا ثبوت دے سکیں.ان وجوہات سے مناسب سمجھا گیا کہ خدا تعالیٰ سے یہ درخواست کی جائے کہ ایک سادہ قصیدہ بنانے کے لئے رُوح القدس سے مجھے تائید فرما دے جس میں مباحثہ مد کا ذکر ہوتا اس بات کے سمجھنے کے لئے دقت نہ ہو کہ وہ قصیدہ کتنے دن میں طیار کیا گیا ہے.سو میں نے دعا کی کہ اے خدائے قدیر مجھے نشان کے طور پر توفیق دے کہ ایسا قصیدہ بناؤں اور وہ دعا میری منظور ہوگئی اور روح القدس سے ایک خارق عادت مجھے تائید ملی اور قصیدہ پانچ دن میں ہی میں نے ختم کر لیا.کاش اگر کوئی اور شغل مجبور نہ کرتا تو وہ قصیدہ ایک دن میں ہی ختم ہو جاتا.کاش اگر چھپنے میں کسی قدر دیر نہ لگتی تو 9 نومبر ۱۹۰۲ء تک وہ قصیدہ شائع ہوسکتا تھا.یہ ایک عظیم الشان نشان ہے جس کے گواہ خود مولوی ثناء اللہ صاحب ہیں کیونکہ قصیدہ سے خود ثابت ہے کہ یہ ان کے مباحثہ کے بعد بنایا گیا ہے اور مباحثہ ۲۹ اور ۳۰ / اکتو بر ۱۹۰۲ء کو ہوا تھا اور ہمارے
۱۱۰۵ دوستوں کے واپس آنے پر ۸ نومبر ۱۹۰۲ء کو اس قصیدہ کا بنانا شروع کیا گیا اور ۱۲ نومبر ۱۹۰۲ء کو مع اس اردو عبارت کے ختم ہو چکا تھا کیونکہ میں یقین دل سے جانتا ہوں کہ خدا کی تائید کا یہ ایک بڑا نشان ہے تا وہ مخالف کو شرمندہ اور لاجواب کرے.اس لئے میں اس نشان کو دس ہزار روپیہ کے انعام کے ساتھ مولوی ثناء اللہ اور اس کے مددگاروں کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ اگر وہ اسی میعاد میں یعنے پانچ دن میں ایسا قصیده مع اسی قدر اردو مضمون کے جواب کے جو وہ بھی ایک نشان ہے بنا کر شائع کر دیں تو میں بلا تو قف دس ہزار روپیہ ان کو دے دوں گا.چھپوانے کے لئے ایک ہفتہ کی اُن کو اور مہلت دیتا ہوں.یہ کل باراں دن ہیں اور دو دن ڈاک کے لئے بھی ان کا حق ہے.پس اگر اس تاریخ سے کہ یہ قصیدہ اور اردو عبارت ان کے پاس پہنچے چوداں دن تک اسی قدر اشعار بلیغ فصیح جو اس مقدار اور تعداد سے کم نہ ہوں شائع کر دیں تو میں دس ہزار روپیہ ان کو انعام دے دوں گا.اُن کو اختیار ہو گا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے مدد لیں یا کسی اور صاحب سے مدد لے لیں اور نیز اس وجہ سے بھی ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ میرے اشتہار میں پیشگوئی کے طور پر خبر دی گئی ہے کہ اخیر دسمبر ۱۹۰۲ ء تک کوئی خارق عادت نشان ظاہر ہو گا اور گو وہ نشان اور صورتوں میں بھی ظاہر ہو گیا ہے لیکن اگر مولوی ثناء اللہ اور دوسرے مخاطبین نے اس معیاد کے اندر اس قصیدہ اور اس اردو مضمون کا جواب نہ لکھا نہ لکھوایا تو یہ نشان اُن کے ذریعہ سے پورا ہو جائے گا.سوا نہیں لازم ہے کہ اگر وہ میرے کاروبار کو انسان کا منصوبہ خیال کرتے ہیں تو مقابلہ کر کے اس نشان کو کسی طرح روک دیں اور دیکھو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ اکیلے یا دوسروں کی مدد سے میعاد معینہ کے اندر میرے قصیدہ اور اردو عبارت کے مطابق اور اُن کی تعداد کے مطابق قصیدہ چھپوا کر شائع کرینگے اور تاریخ وصولی سے بارہ دن کے اندر بذریعہ ڈاک میرے پاس بھیج دیں گے تو صرف میں یہی نہیں کروں گا کہ دس ہزار روپیہ اُن کو انعام دوں گا بلکہ اس غلبہ سے میرا جھوٹا ہونا ثابت ہوگا.اس صورت میں مولوی ثناء اللہ صاحب اور اُن کے رفیقوں کو ناحق کے افتراؤں کی حاجت نہیں رہے گی اور مفت میں اُن کی فتح ہو جائے گی ورنہ اُن کا حق نہیں ہوگا کہ پھر کبھی مجھے جھوٹا کہیں یا میرے نشانوں کی تکذیب کریں.دیکھو میں آسمان اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے اس نشان پر حصر رکھتا ہوں.اگر میں صادق ہوں اور خدا تعالے جانتا ہے کہ میں صادق ہوں تو کبھی ممکن نہیں ہو گا کہ مولوی ثناء اللہ اور ان کے تمام مولوی پانچ دن میں ایسا قصیدہ بنا سکیں اور اُردو مضمون کا رڈ لکھ سکیں کیونکہ خدا تعالیٰ اُن کی قلموں کو توڑ دے گا اور اُن کے دلوں کو نبی کر دے گا اور مولوی ثناء اللہ کو اس بدگمانی کی طرف راہ نہیں ہے کہ
11.7 وہ یہ کہے کہ قصیدہ پہلے سے بنا رکھا تھا کیونکہ وہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھے کہ مباحثہ مد کا اس میں ذکر ہے.پس اگر میں نے پہلے بنایا تھا تب تو انہیں ماننا چاہیئے کہ میں عالم الغیب ہوں.بہر صورت یہ بھی ایک نشان ہوا.اس لئے اب ان کو کسی طرف فرار کی راہ نہیں اور آج وہ الہام پورا ہوا جو خدا نے فرمایا تھا قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴۵ تا ۱۴۸) کیا یہ خدا تعالے کا نشان نہیں کہ وہی شخص جس کی نسبت کہا گیا تھا کہ جاہل ہے اور ایک صیغہ تک اس کو معلوم نہیں وہ ان تمام مکفروں کو جو اپنا نام مولوی رکھتے ہیں بلند آواز سے کہتا ہے کہ میری تفسیر کے مقابل پر تفسیر بناؤ تو ہزار روپے انعام لو اور نور الحق کے مقابل پر بناؤ تو پانچ ہزار روپیہ پہلے رکھا لو اور کوئی مولوی دم نہیں مارتا.خیال کرنا چاہیے کہ ہم نے کس قدر تاکید سے اُن کو میدان میں بلایا اور کن کن الفاظ سے اُن کو غیرت دلانا چاہا مگر انہوں نے اس طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا.ہم نے صرف اس خیال سے کہ شیخ صاحب کی عربی دانی کا دعوی بھی فیصلہ پا جائے.رسالہ نورالحق میں یہ اشتہار دے دیا کہ اگر شیخ صاحب عرصہ تین ماہ میں اسی قدر کتاب تحریر کر کے شائع کر دیں اور وہ کتاب در حقیقت جميع لوازم بلاغت و فصاحت والتزام حق اور حکمت میں نورالحق کے ثانی ہو تو تین ہزار روپیہ نقد بطور انعام شیخ صاحب کو دیا جائے گا اور نیز الہام کے جھوٹا ٹھہرانے کے لئے بھی ایک سہل اور صاف راستہ ان کومل جائے گا اور ہزار لعنت کے داغ سے بھی بچ جائیں گے ورنہ وہ نہ صرف مغلوب بلکہ الہام کے مصدق ٹھہریں گے مگر شیخ صاحب نے ان باتوں میں سے کسی کی بھی پرواہ نہ کی اور کچھ بھی غیرت مندی نہ دکھلائی.اس کا کیا سبب تھا؟ بس یہی کہ یہ مقابلہ شیخ صاحب کی طاقت سے باہر ہے.......خدا تعالی نے چاہا کہ اس متکبر کا غرور توڑے اور اس گردن کش کی گردن کو مروڑے اور اس کو دکھلاوے کہ کیونکر وہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے سو اس کی توفیق اور مدد اور خاص اس کی تعلیم اور تفہیم سے یہ کتابیں تالیف ہوئیں اور ہم نے کرامات الصادقین اور نورالحق کے لئے آخری تاریخ درخواست مقابلہ کی اس مولوی اور تمام مخالفوں کے لئے اخیر جون ۱۸۹۴ء مقرر کی تھی جو گذرگئی.سرالخلافہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۹۸ تا ۴۰۰) اگر حضرت سید مولوی محمد نذیر حسین صاحب یا جناب مولوی ابومحمد عبد الحق صاحب مسئلہ وفات مسیح میں
11+2 مجھے مخطی خیال کرتے ہیں یا ملحد اور ماول تصور فرماتے ہیں اور میرے قول کو خلاف قال اللہ قال الرسول گمان کرتے ہیں تو حضرات موصوفہ پر فرض ہے کہ عامہ خلائق کو فتنہ سے بچانے کے لئے اس مسئلہ میں اسی شہر دہلی میں میرے ساتھ بحث کر لیں.بحث میں صرف تین شرطیں ہوں گی.(۱) اوّل یہ کہ امن قائم رہنے کے لئے وہ خود سرکاری انتظام کراویں.کیونکہ میں مسافر ہوں اور اپنی عزیز قوم کا مورد عتاب اور ہر طرف سے اپنے بھائیوں مسلمانوں کی زبان سے سب اور لعن وطعن اپنی نسبت سنتا ہوں.(۲) دوسرے یہ کہ فریقین کی بحث تحریری ہو.ہر ایک فریق مجلس بحث میں اپنے ہاتھ سے سوال لکھ کر اور اس پر اپنے دستخط کر کے پیش کرے اور ایسا ہی فریق ثانی لکھ کر جواب دیوے کیونکہ زبانی بیانات محفوظ نہیں رہ سکتے.(۳) تیسری شرط یہ کہ بحث وفات حیات مسیح میں ہو اور کوئی شخص قرآن کریم اور کتب حدیث سے باہر نہ جائے.مگر صحیحین کو تمام کتب حدیث پر مقدم رکھا جائے اور بخاری کو مسلم پر کیونکہ وہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مسیح ابن مریم کی حیات طریقہ مذکورہ بالا سے جو واقعات صحیحہ کے معلوم کرنے کے لئے خیر الطرق ہے ثابت ہو جائے تو میں اپنے الہام سے دست بردار ہو جاؤں گا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ قرآن کریم سے مخالف ہو کر کوئی الہام صحیح نہیں ٹھہر سکتا.تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۲۴ - ۲۵ - مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۲۱۷ بار دوم ) الله جَلَّ شَانُه کی قسم دے کر مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب کی خدمت میں بحث حیات و ممات مسیح ابن مریم کے لئے درخواست ندارد کسے باتو ناگفتہ کار و لیکن چو گفتی دلیلش بیار کے اے مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب آپ نے اور آپ کے شاگردوں نے دنیا میں شور ڈال دیا ہے کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز دعوی مسیح موعود ہونے میں مخالف قرآن وحدیث بیان کر رہا ہے اور ایک نیا مذہب و نیا عقیدہ نکالا ہے جو سراسر مغائر تعلیم اللہ ورسول اور بہ بداہت باطل ہے کیونکہ قرآن اور حدیث سے یہ لے اور تجھ سے تیرے نا گفتہ پر کوئی سروکار نہیں لیکن جو تو نے کہا اس پر تو دلیل لا.
11+A ثابت ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام زندہ بجسده العصری آسمان پر اُٹھائے گئے اور پھر کسی وقت آسمان پر سے زمین پر تشریف لائیں گے اور ان کا فوت ہو جانا مخالف نصوص قرآنیہ واحادیث صحیحہ ہے.سو چونکہ آپ نے مجھے اس دعوے میں مخالف قرآن و حدیث قرار دے دیا ہے جس کی وجہ سے ہزار ہا مسلمانوں میں بدظنی کا فتنہ برپا ہو گیا ہے لہذا آپ پر فرض ہے کہ مجھ سے اس بات کا تصفیہ کر لیں کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے میں میں نے قرآن اور حدیث کو چھوڑ دیا ہے یا آپ ہی چھوڑ بیٹھے ہیں.اگر آپ یا حضرت!! ایک جلسہ بحث مقرر کر کے میرے دلائل پیش کردہ جو صرف قرآن اور احادیث صحیحہ کی رُو سے بیان کروں گا توڑ دیں اور ان سے بہتر دلائل حیات مسیح ابن مریم پر پیش کریں اور آیات صریحہ بینہ قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے منطوق سے حضرت مسیح ابن مریم کا بجسده العنصری زندہ ہونا ثابت کر دیں تو میں آپ کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.اور تمام کتابیں جو اس مسئلہ کے متعلق تالیف کی ہیں جس قدر میرے گھر میں موجود ہیں سب جلا دوں گا اور بذریعہ اخبارات اپنی تو بہ اور رجوع کے بارے میں عام اطلاع دے دوں گا وَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى كَاذِبِ يَخْفى فِي قَلْبِهِ مَا يَخَافُ بَيَانَ لِسَانِهِ گریہ بھی یادر کھئے کہ اگر آپ ہی مغلوب ہو گئے اور کوئی صریحۃ الدلالة آیت اور حدیث صحیح مرفوع متصل پیش نہ کر سکے تو آپ کو بھی اپنے اس انکار شدید سے تو بہ کرنی پڑے گی.والـلـه يـحـب التوابين - اب میں یا حضرت !! آپ کو اس رب جلیل تعالی و تقدس کی قسم دیتا ہوں جس نے آپ کو پیدا کر کے اپنی بے شمار نعمتوں سے ممنون فرمایا کہ اگر آپ کا یہی مذہب ہے کہ قرآن کریم میں مسیح ابن مریم کی زندگی کے بارے میں آیات صریحہ بینہ قطعیۃ الدلالت موجود ہیں اور اُن کی تائید میں احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ اپنے منطوق سے شہادت دیتی ہیں جن کی وجہ سے آپ کو میرے الہامی دعوی کی نسبت مومنانہ حسن ظن کو الوداع کہہ کر سخت انکار کرنا پڑا تو اس خدا وند کریم سے ڈر کر جس کی میں نے ابھی آپ کو قسم دی ہے میرے ساتھ اِظْهَارًا لِلْحَقِّ بحث کیجئے.اب میں یا حضرت !! پھر اللہ جل شانہ کی آپ کو قسم دے کر اس بحث کے لئے بلاتا ہوں.جس جگہ چاہیں حاضر ہو جاؤں.اگر آپ اس مسئلہ میں بحث کرنے کیلئے نہ آئے اور مفسد طبع ملانوں پر بھروسہ رکھ کر کوٹھری میں چھپ گئے تو یا درکھو کہ تمام ہندوستان و پنجاب میں ذلت اور بدنامی کے ساتھ آپ مشہور ہو جائیں گے اور شیخ الکل ہونے کی تمام رونق جاتی رہے گی.
11+9 با لآخر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی طرح سے بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل وفات مسیح سن کر اللہ جل شانہ کی تین مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دیجئے کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زندہ بجسده العنصری آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں اور آیات قرآنی اپنی صریح دلالت سے اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ اپنے کھلے کھلے منطوق سے اسی پر شہادت دیتی ہیں اور میرا عقیدہ یہی ہے.تب میں آپ کی اس گستاخی ، حق پوشی اور بد دیانتی اور جھوٹی گواہی کے فیصلہ کے لئے جناب الہی میں تضرع اور ابتہال کروں گا اور چونکہ میری توجہ پر مجھے ارشاد ہو چکا ہے کہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ اور مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ تقوی کا طریق چھوڑ کر ایسی گستاخی کریں گے اور آیت لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم کو نظر انداز کر دیں گے تو ایک سال تک اس گستاخی کا آپ پر ایسا کھلا کھلا اثر پڑے گا جو دوسروں کے لئے بطور نشان کے ہو جائے گا.لہذا مظہر ہوں کہ اگر بحث سے کنارہ ہے تو اسی طور سے فیصلہ کر لیجئے تا وہ لوگ جو نشان نشان کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کوئی نشان دکھا دیوے ـ وهو على كل شيءٍ قدير و آخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العالمين - تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۳۰ تا ۳۸.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۲۲۲ تا ۲۲۷ بار دوم ) میں نے ان کی طرف (یعنی مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی.ناقل ) کئی دفعہ لکھا کہ میں کسی اور عقیدہ میں آپ کا مخالف نہیں.صرف اس بات میں مخالف ہوں کہ میں آپ کی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی جسمانی حیات کا قائل نہیں بلکہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کو فوت شدہ اور داخل موتی ایمانا و یقیناً جانتا ہوں.اور اُن کے مرجانے پر یقین رکھتا ہوں اور کیوں یقین نہ رکھوں جبکہ میرا مولیٰ میرا آقا اپنی کتاب عزیز اور قرآن کریم میں ان کو متوفیوں کی جماعت میں داخل کر چکا ہے.اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق عادت زندگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں بلکہ ان کو صرف فوت شدہ کہہ کر پھر چپ ہو گیا لہذا ان کا زندہ بجسده العنصری ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنے ہی الہام کی رُو سے خلاف واقعہ سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیات مسیح کو نصوص پینہ قطعیہ یقینیہ قرآن کریم کی رُو سے لغو اور باطل جانتا ہوں.اگر یہ میرا بیان کلمہ کفر ہے یا جھوٹ ہے تو آئیے اس امر میں مجھ سے بحث کیجئے.پھر اگر آپ نے قرآن اور حدیث سے حیات جسمانی حضرت عیسی علیہ السلام کی ثابت کر کے دکھلا دی تو میں اس قول سے رجوع کروں گا بلکہ وہ اپنی کتابیں جن میں یہ مضمون ہے جلا دوں گا.اگر بحث
111+ نہیں کر سکتے تو آؤ اس بارہ میں اس مضمون کی قسم ہی کھاؤ کہ قرآن کریم میں مسیح کی وفات کا کچھ ذکر نہیں بلکہ حیات کا ذکر ہے یا کوئی اور حدیث صحیح مرفوع متصل موجود ہے جس نے توفی کے لفظ کی کوئی مخالفانہ تفسیر کر کے مسیح کی حیات جسمانی پر گواہی دی ہے.پھر اگر ایک سال تک خدائے تعالی کی طرف سے اس بات کا کوئی کھلا نشان ظاہر نہ ہوا کہ آپ نے جھوٹی قسم کھائی ہے یعنی کسی وبال عظیم میں آپ مبتلا نہ ہوئے تب بلا توقف میں آپ کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا.مگر افسوس کہ ہر چند بار بار میاں صاحب سے یہ درخواست کی گئی لیکن نہ انہوں نے بحث کی اور نہ قسم کھائی اور نہ کافر کافر کہنے سے باز آئے..اور اسی مطلب کے لئے میں حرج اور خرچ اُٹھا کر ایک ماہ برابر دہلی میں رہا تو پھر ایک حقیقت رس آدمی سمجھ سکتا ہے کہ اگر میاں صاحب بحث کے لئے سیدھے دل سے مستعد ہوتے تو میں کیوں ان سے بحث نہ کرتا.نقل مشہور ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں.میں اسی طرح بحث وفات مسیح کے لئے اب پھر حاضر ہوں جیسا کہ پہلے حاضر تھا.اگر میاں صاحب لاہور میں آکر بحث منظور کریں تو میں اُن کی خاص ذات کا کرایہ آنے جانے کا خود دے دوں گا اگر آنے پر راضی ہوں تو میں ان کی تحریر پر بلا توقف کرایہ پہلے روانہ کر سکتا ہوں اگر وہ حاضر ہونے سے روگردان ہیں تو میں یہ بھی اجازت دیتا ہوں کہ وہ اپنی جگہ پر ہی بذریعہ تحریرات اظہار حق کے لئے بحث کر لیں.غرض میں ہر طرح سے حاضر ہوں اور میاں صاحب کے جواب باصواب کا منتظر ہوں مگر یہ پیشگوئی بھی یاد رکھو کہ وہ ہرگز بحث نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو ایسے رسوا ہوں گے کہ منہ دکھانے کی جگہ نہیں رہے گی..آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۱۶،۳۱۵) تمام مسلمانوں پر واضح ہو کہ کمال صفائی سے قرآن کریم اور حدیث رسول اللہ علیہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ در حقیقت حضرت مسیح ابن مریم علیه السّلام بر طبق آیت فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ لا زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے دن بسر کر کے فوت ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کی سولہ آیتوں اور بہت سی حدیثوں بخاری اور مسلم اور دیگر صحاح سے ثابت ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر آباد ہونے اور بسنے کے لئے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے اور نہ حقیقی اور واقعی طور پر دو موتیں کسی پر واقع ہوتی ہیں اور نہ قرآن کریم میں واپس آنے والوں کے لئے کوئی قانون وراثت موجود ہے.بایں ہمہ بعض علماء وقت کو اس بات پر سخت غلو ہے کہ مسیح ابن مریم فوت نہیں ہوا.بلکہ زندہ ہی آسمان کی طرف اُٹھایا گیا اور حیات جسمانی الاعراف: ٢٦
TIFF دنیوی کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اور نہایت بے باکی اور شوخی کی راہ سے کہتے ہیں کہ توفی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے.اس کے معنے وفات دینا نہیں بلکہ پورا لینا ہے یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا مگر ایسے معنے کرنا ان کا سراسر افتراء ہے.قرآن کریم کا عموماً التزام کے ساتھ اس لفظ کے بارے میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض روح اور وفات دے دینے کے معنوں پر ہر یک جگہ اس کو استعمال کرتا ہے.یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا ہے.جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے.کسی قول قدیم یا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ توفی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو بلکہ جہاں کہیں تو فی کے لفظ کو خدائے تعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ قبض جسم کے معنوں میں.کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں.کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں.غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں.اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلعم سے یا اشعار وقصائد و نظم و نثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجر قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنے پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالاتِ حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۰۳،۶۰۲) واضح ہو کہ حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار نہر نے اپنے نافہم اور غلط کا رمولویوں کی تعلیم سے ایک مجلس میں بمقام لا ہور..بڑے اصرار سے یہ بیان کیا کہ اگر کوئی نبی یا رسول یا اور کوئی مامور من اللہ ہونے کا جھوٹا دعوی کرے اور اس طرح پر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہے تو وہ ایسے افتراء کے ساتھ تمیس برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے.یعنی افتراء علی اللہ کے بعد اس قدر عمر پانا اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہوسکتی اور بیان کیا کہ ایسے کئی لوگوں کے نام میں نظیراً پیش کرسکتا ہوں جنہوں نے نبی یا رسول یا مامور من اللہ ہونے کا دعوی کیا اور تئیس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کو سناتے رہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہمارے پر نازل ہوتا ہے حالانکہ وہ کا ذب تھے....سو ہم اس اشتہار میں حافظ محمد یوسف صاحب سے وہ نظیر طلب کرتے ہیں جس کے پیش کرنے کا انہوں نے اپنی دستخطی تحریر
١١١٢ میں وعدہ کیا ہے.ہم یقینا جانتے ہیں کہ قرآنی دلیل کبھی ٹوٹ نہیں سکتی.یہ خدا کی پیش کردہ دلیل ہے نہ کسی انسان کی اسی جہت سے میں نے اس اشتہار کو پانچ سوروپے کے انعام کے ساتھ شائع کیا ہے.اور اگر تسلی نہ ہو تو میں یہ روپیہ کسی سرکاری بنک میں جمع کراسکتا ہوں.اگر حافظ محمد یوسف صاحب اور اُن کے دوسرے ہم مشرب جن کے نام میں نے اس اشتہار میں لکھے ہیں اپنے اس دعویٰ میں صادق ہیں یعنی اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامور من اللہ ہونے کا دعوی کر کے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سنا کر پھر باوجود مفتری ہونے کے برابر تیمیس برس تک جو زمانہ وحی آنحضرت ﷺ ہے زندہ رہا ہے تو میں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے جو مجھے میرے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے، پانسو روپیہ نقد دے دوں گا اور اگر ایسے لوگ کئی ہوں تو اُن کو اختیار ہو گا کہ وہ روپیہ باہم تقسیم کر لیں.اس اشتہار کے نکلنے کی تاریخ سے پندرہ روز تک ان کو مہلت ہے کہ دنیا میں تلاش کر کے ایسی نظیر پیش کریں.اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۸۷ تا ۴۰۲) اے حضرات مولوی صاحبان ! آپ لوگوں کا یہ خیال کہ ہم مومن ہیں اور یہ شخص کافر اور ہم صادق ہیں اور یہ شخص کا ذب اور ہم متبع اسلام ہیں اور یہ شخص ملحد اور ہم مقبول البہی ہیں اور یہ شخص مردود اور ہم جنتی ہیں اور یہ شخص جہنمی.اگر چہ غور کرنے والوں کی نظر میں قرآن کریم کی رُو سے بخوبی فیصلہ پاچکا ہے اور اس رسالہ کے پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون.لیکن ایک اور بھی طریق فیصلہ ہے جس کی رُو سے صادقوں اور کا ذبوں اور مقبولوں اور مردودوں میں فرق ہو سکتا ہے.عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر مقبول اور مردود اپنی اپنی جگہ پر خدائے تعالیٰ سے کوئی آسمانی مدد چاہیں تو وہ مقبول کی ضرور مدد کرتا ہے اور کسی ایسے امر سے جو انسان کی طاقت سے بالا تر ہے اس مقبول کی مقبولیت ظاہر کر دیتا ہے.سوچونکہ آپ لوگ اہل حق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور آپ کی جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو مہم ہونے کے مدعی ہیں جیسے مولوی محی الدین وعبد الرحمن صاحب لکھو کے والے اور میاں عبدالحق غزنوی جو اس عاجز کو کافر اور جہنمی ٹھہراتے ہیں لہذا آپ پر واجب ہے کہ اس آسمانی ذریعہ سے بھی دیکھ لیں کہ آسمان پر مقبول کس کا نام ہے اور مردود کس کا نام.میں اس بات کو منظور کرتا ہوں کہ آپ دس ہفتہ تک اس بات کے فیصلہ کے لئے احکم الحاکمین کی طرف توجہ کریں تا اگر آپ سچے ہیں تو آپ کی سچائی کا کوئی نشان یا کوئی اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی جو راستبازوں کو ملتی ہے آپ کو دی جائے.ایسا ہی
١١١٣ دوسری طرف میں بھی توجہ کروں گا.اور مجھے خدا وند کریم و قدیر کی طرف سے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ نے اس طور سے میرا مقابلہ کیا تو میری فتح ہو گی.جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا شکراللہ مل گیا ہم کو وہ لعلِ بے بدل کیا ہوا گر قوم کا دل سنگِ خارا ہو گیا (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۵۷ ، ۴۵۸) جولوگ مسلمانوں میں سے فقراء کہلاتے ہیں اور مشائخ اور صوفی بنے بیٹھے ہیں اگر وہ اب بھی اس باطل عقیدہ سے باز نہ آویں اور ہمارے دعوی مسیحیت کے مصدق نہ ہو جائیں تو طریق سہل یہ ہے کہ ایک مجمع مقرر کر کے کوئی ایسا شخص جو میرے دعوئی مسیحیت کو نہیں مانتا اور اپنے تئیں ملہم اور صاحب الہام جانتا ہے مجھے مقام بٹالہ یا امرتسر یا لاہور میں طلب کرے اور ہم دونوں جناب الہی میں دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جناب الہی میں سچا ہے ایک سال میں کوئی عظیم الشان نشان جو انسانی طاقتوں سے بالاتر اور معمولی انسانوں کے دسترس سے بلند تر ہو اس سے ظہور میں آوے.ایسا نشان کہ جو اپنی شوکت اور طاقت اور چمک میں عام انسانوں اور مختلف طبائع پر اثر ڈالنے والا ہو خواہ وہ پیشگوئی ہو یا اور کسی قسم کا اعجاز ہو جو انبیاء کے معجزات سے مشابہ ہو.پھر اس دعا کے بعد ایسا شخص جس کی کوئی خارق عادت پیشگوئی یا اور کوئی عظیم الشان نشان ایک برس کے اندر ظہور میں آ جائے اور اس عظمت کے ساتھ ظہور میں آئے جو اس مرتبہ کا نشان حریف مقابل سے ظہور میں نہ آسکے تو وہ شخص سچا سمجھا جائے گا جس سے ایسا نشان ظہور میں آیا اور پھر اسلام میں سے تفرقہ دور کرنے کے لئے شخص مغلوب پر لازم ہو گا کہ اس شخص کی مخالفت چھوڑ دے اور بلا توقف اور بلا تامل اس کی بیعت کر لے اور اس خدا سے جس کا غضب کھا جانے والی آگ ہے ڈرے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۰) مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی اور الہامی علوم میں غالب ہوں ان کے ملہموں کو چاہیے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الہی میں اور فیض سماوی میں اور آسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رڈ سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہو تو کفر کے فتوے دینے والے جو الہا ما میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہام الہی مجھ کو ہو گیا ہے پہلے لکھ دیں اور شائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلا چون و چرا دعویٰ کو منظور کر لیں.میں اس کام کے لئے بھی حاضر ہوں اور میرا خدا وند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم
۱۱۱۴ ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف ائمۃ الکفر سے کروں.اُنہیں سے مباہلہ کروں اور انہی سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہر گز مقابلہ نہیں کریں گے کیونکہ حقانیت کے ان کے دلوں پر رعب ہیں اور وہ اپنے ظلم اور زیادتی کو خوب جانتے ہیں وہ ہرگز مباہلہ بھی نہیں کریں گے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۸، ۳۴۹) اشتہار قطعی فیصلہ کے لئے یہ خدا کی قدرت ہے کہ جس قدر مخالف مولویوں نے چاہا کہ ہماری جماعت کو کم کریں وہ اور بھی زیادہ ہوئی اور جس قدر لوگوں کو ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہاوہ اور بھی داخل ہوئے یہاں تک کہ ہزار ہا تک نوبت پہنچ گئی.اب ہر روز سرگرمی سے یہ کارروائی ہورہی ہے اور خدا تعالیٰ اچھے پودوں کو اس طرف سے اُکھاڑتا اور ہمارے باغ میں لگاتا جاتا ہے کیا منقول کی رُو سے اور کیا معقول کی رُو سے اور کیا آسمانی شہادتوں کی رُو سے دن بدن خدا تعالیٰ ہماری تائید میں ہے.اب بھی اگر مخالف مولوی یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور یہ لوگ باطل پر اور خدا ہمارے ساتھ ہے اور ان لوگوں پر لعنت اور غضب الہی ہے تو باوجود اس کے کہ ہماری حجت ان پر پوری ہو چکی ہے پھر دوبارہ ہم ان کو حق اور باطل پر کھنے کے لئے موقع دیتے ہیں.اگر وہ فی الواقع اپنے تئیں حق پر سمجھتے ہیں اور ہمیں باطل پر اور چاہتے ہیں کہ حق کھل جائے اور باطل معدوم ہو جائے تو اس طریق کو اختیار کر لیں اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ پر اور میں اپنی جگہ پر خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کریں.اُن کی طرف سے یہ دعا ہو کہ یا الہی اگر یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تیرے نزدیک جھوٹا اور کاذب اور مفتری ہے اور ہم اپنی رائے میں سچے اور حق پر اور تیرے مقبول بندے ہیں تو ایک سال تک کوئی فوق العادت امرغیب بطور نشان ہم پر ظاہر فرما اور ایک سال کے اندر ہی اس کو پورا کر دے اور میں اس کے مقابل پر یہ دعا کروں گا کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور در حقیقت مسیح موعود ہوں تو ایک اور نشان پیشگوئی کے ذریعہ سے میرے لئے ظاہر فرما اور اس کو ایک سال کے اندر پورا کر.پھر اگر ایک سال کے اندران کی تائید میں کوئی نشان ظاہر ہوا اور میری تائید میں کچھ ظاہر نہ ہوا تو میں جھو ٹا ٹھہروں گا اور اگر میری تائید میں کچھ ظاہر ہو اگر اس کے مقابل پر ان کی تائید میں بھی ویسا ہی کوئی نشان ظاہر ہو گیا تب بھی
۱۱۱۵ میں جھوٹا ٹھیروں گا لیکن اگر میری تائید میں ایک سال کے عرصہ تک کھلا کھلا نشان ظاہر ہو گیا اور ان کی تائید میں نہ ہوا تو اس صورت میں میں سچا ٹھہروں گا اور شرط یہ ہوگی کہ اگر تصریحات متذکرہ بالا کی رُو سے فریق مخالف سچا نکلا تو میں ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا اور جہاں تک ممکن ہو گا میں اپنی وہ کتا ہیں جلا دوں گا جن میں ایسے دعوی یا الہامات ہیں.کیونکہ اگر خدا نے مجھے جھوٹا کیا تو پھر میں ایسی کتابوں کو پاک اور مقدس خیال نہیں کر سکتا.اگر خدا کی مرضی مجھے عزت دینے کی نہیں تو میرے پر لعنت ہے اگر میں اس کے برخلاف کروں لیکن اگر تصریحات بالا کی رُو سے خدا نے مجھے سچا کر دیا تو چاہئے کہ محد حسین بٹالوی اور عبد الحق غزنوی اور عبدالجبار غزنوی اور رشید احمد گنگوہی میرے ہاتھ پر تو بہ کریں اور میرے دعوئی کی تصدیق کر کے میری جماعت میں داخل ہوں تا یہ تفرقہ دور ہو جائے.اندرونی تفرقہ نے مسلمانوں کو تباہ کر دیا ہے.یہ خدا کا سیدھا سادھا فیصلہ ہو گا.جس میں کسی فریق کی چون چرا پیش نہیں جائے گی..تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۰۹ تا ۱۱۲.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۰۱،۱۰۰ بار دوم ) بنام مسلمانانِ ہند یعنی ان سب کی طرف جو مختلف مذاہب کے اسلامی فرقے ملک ہند میں موجود ہیں.اے اخوان دین و تبعین خاتم النبین ہے اگر چہ میں نے علماء اور فقراء کی خدمت میں بہت کچھ لکھا اور اتمام حجت کا حق ادا کر دیا.مگر آج میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ ایک اشتہار عام طور پر آپ لوگوں پر حجت پوری کرنے کے لئے شائع کروں تا میں اس امر تبلیغ میں ہریک پہلو سے سرخرو ہو جاؤں.سو بھائیو! میں آپ لوگوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ وہ جو چودھویں صدی کے سر پر ایک مسجد دموعود آنے والا تھا جس کی نسبت بہت سے راستباز ملہموں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ مسیح موعود ہو گا.وہ میں ہی ہوں اور اگر اس عاجز کے بارے میں شک ہو تو ایک فیصلہ نہایت آسان ہے کہ ہر ایک شخص آپ لوگوں میں سے جس کا مرید ہے اس کو اس عاجز کے مقابل پر کھڑا کرے تا صداقت کے نشان دکھلانے میں وہ میرے ساتھ مقابلہ کر سکے اور یقیناً سمجھو کہ اگر وہ مقابل پر آیا تو اس سے زیادہ اس کی رسوائی ہوگی جو حضرت موسیٰ کے مقابل پر بلعم کی ہوئی اور اگر وہ مقابلہ منظور نہ کرے اور حق کا طالب ہو تو خدا تعالیٰ اس کی درخواست پر اور اس کے حاضر ہونے سے نشان دکھلائے گا.بشرطیکہ وہ اس جماعت میں داخل ہونے کے لئے مستعد ہو اور اگر اس اشتہار کے جاری ہونے کے بعد آپ لوگوں کے پیر اور مشائخ اور
١١١٦ مجہتد بدگوئی اور تکفیر سے باز نہ آویں اور اس عاجز کی صداقت کو قبول نہ کریں اور مقابلہ سے روپوش رہیں تو دیکھو کہ میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ خدا انہیں رسوا کرے گا.تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۶۳ تا ۶۵ - مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۳۵۸،۳۵۷ بار دوم ) اے حاضرین اس وقت اپنے کانوں کو میری طرف متوجہ کرو کہ میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر حضرت مولوی محمد حسین صاحب چالیس دن تک میرے مقابل پر خدا تعالی کی طرف توجہ کر کے وہ آسمانی نشان یا اسرار غیب دکھلا سکیں جو میں دکھلا سکوں تو میں قبول کرتا ہوں کہ جس ہتھیار سے چاہیں مجھے ذبح کریں اور جو تاوان چاہیں میرے پر لگا دیں.دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.الحق مباحثہ لدھیانہ روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۲۴) مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے دلوں کو صاف کر کے کوئی اور نشان خدا کا دیکھنا چاہیں تو وہ خدا وند قدیر بغیر اس کے کہ آپ لوگوں کے کسی اقتراح کا تابع ہو اپنی مرضی اور اختیا ر سے نشان دکھلانے پر قادر ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ سچے دل سے تو بہ کی نیت کر کے مجھ سے مطالبہ کریں اور خدا کے سامنے یہ عہد کر لیں کہ اگر کوئی فوق العادت امرجو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے ظہور میں آ جائے تو ہم یہ تمام بغض اور شھنا چھوڑ کر محض خدا کو راضی کرنے کے لئے سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں گے تو ضرور خدا تعالیٰ کوئی نشان دکھائے گا کیونکہ وہ رحیم وکریم ہے لیکن میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میں نشان دکھلانے کے لئے دو تین دن مقرر کر دوں یا آپ لوگوں کی مرضی پر چلوں.یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ جو چاہے تاریخ مقرر کرے اور اس طریق میں یہ ضروری ہوگا کہ کم سے کم چالیس نامی مولوی جیسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی ثم امرتسری اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور مولوی پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی ایک تحریری اقرار نامه به ثبت شہادت پچاس معزز مسلمانان کے اخبار کے ذریعہ سے شائع کر دیں کہ اگر ایسا نشان جو درحقیقت فوق العادت ہو.ظاہر ہو گیا تو ہم حضرت ذوالجلال سے ڈر کر مخالفت چھوڑ دیں گے اور بیعت میں داخل ہو جائیں گے اور اگر یہ طریق آپ کو منظور نہ ہو.تو ایک اور سہل طریق ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی سہل طریق نہیں.اور وہ یہ کہ آپ لوگ محض خدا تعالیٰ سے خوف کر کے اور اس امت محمدیہ پر
رحم فرما کر بٹالہ یا امرتسر یا لاہور میں ایک جلسہ کریں اس جلسہ میں جہاں تک ممکن ہو اور جس قدر ہو سکے معزز علماء اور دنیا دار جمع ہوں اور میں بھی اپنی جماعت کے ساتھ حاضر ہو جاؤں تب وہ سب یہ دعا کریں کہ یا الہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ شخص مفتری ہے اور تیری طرف سے نہیں ہے اور نہ مسیح موعود ہے اور نہ مہدی ہے تو اس فتنہ کو مسلمانوں میں سے دور کر اور اس کے شر سے اسلام اور اہل اسلام کو بچالے.جس طرح تو نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو دنیا سے اٹھا کر مسلمانوں کو ان کے شر سے بچالیا اور اگر یہ تیری طرف سے ہے اور ہماری ہی عقلوں اور فہموں کا قصور ہے تو اے قادر ہمیں سمجھ عطا فرما.تا ہم ہلاک نہ ہو جائیں اور اس کی تائید میں کوئی ایسے امور اور نشان ظاہر فرما کہ ہماری طبیعتیں قبول کر جائیں کہ یہ تیری طرف سے ہے اور جب یہ تمام دعا ہو چکے تو میں اور میری جماعت بلند آواز سے آمین کہیں اور پھر بعد اس کے میں دعا کروں گا اور اس وقت میرے ہاتھ میں وہ تمام الہامات ہوں گے جو ابھی لکھے گئے ہیں.....اوردعا کا یہ مضمون ہوگا کہ یا الہی اگر یہ الہامات جو اس رسالہ میں درج ہیں جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے جن کی رُو سے میں اپنے تئیں مسیح موعود اور مہدی معہود سمجھتا ہوں اور حضرت مسیح کو فوت شدہ قرار دیتا ہوں تیرا کلام نہیں ہے اور میں تیرے نزدیک کاذب اور مفتری اور دجال ہوں جس نے امت محمدیہ میں فتنہ ڈالا ہے اور تیرا غضب میرے پر ہے تو میں تیری جناب میں تضرع سے دعا کرتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے ایک سال کے اندر زندوں میں سے میرا نام کاٹ ڈال اور میرا تمام کاروبار درہم برہم کر دے اور دنیا میں سے میرا نشان مٹا ڈال اور اگر میں تیری طرف سے ہوں اور یہ الہامات جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہیں تیری طرف سے ہیں اور میں تیرے فضل کا مورد ہوں.تو اے قادر کریم اسی آئندہ سال میں میری جماعت کو ایک فوق العادت ترقی دے اور فوق العادت برکات شامل حال فرما اور میری عمر میں برکت بخش اور آسمانی تائیدات نازل کر اور جب یہ دعا ہو چکے تو تمام مخالف جو حاضر ہوں آمین کہیں.اور مناسب ہے کہ اس دعا کے لئے تمام صاحبان اپنے دلوں کو صاف کر کے آویں.کوئی نفسانی جوش وغضب نہ ہو اور ہار وجیت کا معاملہ نہ سمجھیں اور نہ اس دعا کو مباہلہ قرار دیں کیونکہ اس دعا کا نفع نقصان گل میری ذات تک محدود ہے.اور کوشش کریں کہ حضور دل سے دعا ئیں ہوں اور گریہ و بکا کے ساتھ ہوں.خدا مخلصین کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.پس اگر یہ کاروبار اس کی طرف سے نہیں ہیں اور انسانی افتراء اور بناوٹ ہے تو امت مرحومہ کی دعا جلد عرش تک پہنچے گیا ور اگر میرا سلسلہ آسمانی ہے اور
۱۱۱۸ خدا کے ہاتھ سے برپا ہے تو میری دعا سنی جائے گی.پس اے بزرگو! برائے خدا اس بات کو تو قبول کرو.زیادہ مجمع کی ضرورت نہیں.علماء میں سے چالیس آدمی جمع ہو جائیں.اس سے کم بھی نہیں چاہیئے کہ چالیس کے عدد کو قبولیت دعا کے لئے ایک بابرکت دخل ہے.تا اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۳۷۴ تا ۳۷۸) بالآخر اس قدر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ان نشانوں سے کسی کا دل تسلی پذیر نہ ہو.اور ایسا شخص ان لوگوں میں سے ہو جو الہام اور وحی کا دعوی کرتے ہیں تو اس کے لئے یہ دوسری راہ کھلی ہے کہ وہ میرے مقابل پر اپنے الہام اپنی قوم کے دو اخباروں میں ایک سال تک شائع کرتا رہے اور دوسری طرف میں وہ تمام امور غیبیہ جو مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوں اپنی جماعت کے دو اخباروں میں شائع کروں اور دونوں فریقوں کے لئے شرط یہ ہے کہ جو الہام اخباروں میں درج کرائے جائیں وہ ایسے ہوں کہ ہر ایک اُن میں سے امور غیبیہ پرمشتمل ہو اور ایسے امور غیب ہوں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہوں اور پھر ایک سال کے بعد چند منصفوں کے ذریعہ سے دیکھا جائے گا کہ کس طرف غلبہ اور کثرت ہے اور کس فریق کی پیشگوئیاں پوری ہو گئی ہیں اور اس امتحان کے بعد اگر فریق مخالف کا غلبہ رہا اور میرا غلبہ نہ ہوا تو میں کاذب ٹھہروں گا.ورنہ قوم پر لازم ہوگا کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر آئندہ طریق تکذیب اور انکار کو چھوڑ دیں اور خدا کے مرسل کا مقابلہ کر کے اپنی عاقبت خراب نہ کریں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۱،۴۰۰) میں پھر ہر ایک طالب حق کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ دین حق کے نشان اور اسلام کی سچائی کے آسمانی گواہ جس سے ہمارے نابینا علماء بے خبر ہیں وہ مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.مجھے بھیجا گیا ہے تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے اور وہ کرامات مجھے عطا کئے گئے ہیں جن کے مقابلہ سے تمام غیر مذہب والے اور ہمارے اندرونی اندھے مخالف بھی عاجز ہیں.میں ہر یک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علوم حکمیہ اور اپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رُو سے معجزہ ہے موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسی کے معجزات سے صد ہا درجہ زیادہ.میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم علے سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیا ر کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے اور اسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا چنانچہ
1119 میں اس میں صاحب تجربہ ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مُردے اُن کے خدائر دے اور خود وہ تمام پیر ومر دے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ، ہر گز ممکن نہیں.اے نادانو تمہیں مُردہ پرستی میں کیا مزہ ہے اور مردار کھانے میں کیا لذت !!! آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے.وہ اسلام کے ساتھ ہے.اسلام اس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے.وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے.کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں؟ کہ اس بات کو پر کھے.پھر اگر حق کو پاوے تو قبول کر لیوے.تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ کیا ایک مُردہ کفن میں لپٹا ہوا پھر کیا ہے؟ کیا ایک مشت خاک.کیا یہ مُردہ خدا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ تمہیں کچھ جواب دے سکتا ہے؟ ذرا آؤ ! ہاں ! لعنت ہے تم پر اگر نہ آؤ اور اس سڑے گلے مُردہ کا میرے خدا کے ساتھ مقابلہ نہ کرو.دیکھو میں تمہیں کہتا ہوں کہ چالیس دن نہیں گزریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا.ناپاک ہیں وہ دل جو بچے ارادہ سے نہیں آزماتے اور پھر انکار کرتے ہیں اور پلید ہیں وہ طبیعتیں جو شرارت کی طرف جاتی ہیں نہ طلب حق کی طرف.او میرے مخالف مولویو! اگر تم میں شک ہو تو آؤ ، چند روز میری صحبت میں رہو، اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آؤ.میں اتمام حجت کر چکا.اب جب تک تم اس حجت کو نہ تو ڑ لو تمہارے پاس کوئی جواب نہیں.خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں.کیا تم میں سے کوئی نہیں جو سچا دل لے کر میرے پاس آوے.کیا ایک بھی نہیں؟ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.وَالسّلام على من اتبع الهدى (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ا اصفحہ ۳۴۵ تا ۳۴۷) بعد ما وجب گذارش ضروری یہ ہے کہ عاجز مولف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے اور ان لوگوں کو جو راہ راست سے بے خبر ہیں صراط مستقیم (جس پر چلنے سے حقیقی نجات حاصل ہوتی ہے اور اسی عالم میں بہشتی زندگی کے آثار اور قبولیت اور محبوبیت کے انوار
۱۱۲۰ دکھائی دیتے ہیں ) دکھاوے.اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے.چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط شائع کیا جائے اور اس کی ایک ایک کاپی بخدمت معز ز پادری صاحبان پنجاب و هندوستان و انگلستان وغیرہ بلاد جہاں تک ارسال خط ممکن ہو جو اپنی قوم میں خاص طور پر مشہور اور معزز ہوں اور بخدمت برہموں صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان جو وجود خوارق و کرامات سے منکر ہیں اور اس وجہ سے اس عاجز پر بدظن ہیں ارسال کی جاوے.یہ تجویز نہ اپنے فکر و اجتہاد سے قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب ( جو خط پہنچنے پر رجوع بحق نہ کریں گے ) ملزم و لا جواب ومغلوب ہو جائیں گے.بناء بر علیہ یہ خط چھپوا کر آپ کی خدمت میں اس نظر سے کہ آپ اپنی قوم میں معزز اور مشہور و مقتداء ہیں.ارسال کیا جاتا ہے اور آپ کے کمال علم اور بزرگی کی نظر سے امید ہے کہ آپ حسبةً لِلہ اس خط کے مضمون کی طرف توجہ فرما کر طلب حق میں کوشش کریں گے.اگر آپ نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو آپ پر حجت تمام ہو گی اور اس کارروائی کی ( کہ آپ کو رجسٹری شدہ خط ملا.پھر آپ نے اس کی طرف توجہ کو مبذول نہ فرمایا) حصہ پنجم کتاب میں پوری تفصیل سے اشاعت کی جائے گی.اصل مدعا خط جس کے ابلاغ سے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے اور کتاب حقانی جو منجانب اللہ محفوظ اور واجب العمل ہے صرف قرآن ہے.اس دین کی حقانیت اور قرآن کی سچائی پر عقلی دلائل کے سوا آسمانی نشانوں (خوارق و پیشین گوئیوں) کی شہادت بھی پائی جاتی ہے جس کو طالب صادق اس خاکسار ( مؤلف براہین احمدیہ ) کی صحبت اور صبر اختیار کرنے سے بمعائنہ چشم تصدیق کر سکتا ہے.آپ کو اس دین کی حقانیت یا ان آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر ان آسمانی نشانوں کا بچشم خود مشاہدہ کر لیں ولیکن اس شرط نیست سے ( جو طلب صادق کی نشانی ہے ) کہ بمجرد معائنہ آسمانی نشانوں کے اسی جگہ ( قادیان میں ) شرف اظہار اسلام یا تصدیق خوارق سے مشرف ہو جائیں گے.اس شرط نیت سے آپ آویں گے تو ضرور انشاء اللہ تعالیٰ آسمانی نشان مشاہدہ کریں گے اس امر کا خدا کی طرف سے وعدہ ہو چکا ہے جس میں تخلف کا امکان نہیں.اب آپ تشریف نہ لا ئیں تو آپ پر خدا کا مؤاخذہ رہا اور بعد انتظار تین ماہ کے
۱۱۲۱ آپ کی عدم توجہی کا حال درج حصہ پنجم کتاب ہوگا اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دوسو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہرجانہ یا جرمانہ دیا جائے گا.اس دوسو روپیہ ماہوار کو آپ اپنے شایانِ شان نہ سمجھیں تو اپنے حرج اوقات کا عوض یا ہماری وعدہ خلافی کا جرمانہ جو آپ اپنی شان کے لائق قرار دیں گے ہم اس کو بشرط استطاعت قبول کریں گے.طالبانِ ہرجانہ یا جرمانہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ تشریف آوری سے پہلے بذریعہ رجسٹری ہم سے اجازت طلب کر یں اور جو لوگ ہر جانہ یا جرمانہ کے طالب نہیں ان کو اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں.اگر آپ بذات خود تشریف نہ لا سکیں تو آپ اپنا وکیل جس کے مشاہدہ کو آپ معتبر اور اپنا مشاہدہ سمجھیں روانہ فرما دیں مگر اس شرط سے کہ بعد مشاہدہ اس شخص کے آپ اظہار اسلام یا ( تصدیق خوارق میں ) توقف نہ فرما ئیں.آپ اپنی شرط اظہار اسلام یا ( تصدیق خوارق ) ایک سادہ کاغذ پر جس پر چند ثقات مختلف مذاہب کی شہادتیں ہوں تحریر کر دیں جس کو متعدد اردو انگریزی اخباروں میں شائع کیا جائے گا.ہم سے اپنی شرط دوسو روپیہ ماہوار جرمانہ یا حرجانہ (یا جو آپ پسند کریں اور ہم اس کی ادائیگی کی طاقت بھی رکھیں ) عدالت میں رجسٹری کرالیں اور اس کے ساتھ ایک حصہ جائداد بھی بقدر شرط رجسٹری کرالیں.تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۱۱ تا ۱۳.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۲۵، ۲۶ بار دوم ) میں جو مصنف اس کتاب براہین احمدیہ کا ہوں یہ اشتہا را اپنی طرف سے بوعدہ انعام دس ہزار روپیہ بمقابلہ جمیع ارباب مذہب اور ملت کے جو حقانیت فرقان مجید اور نبوت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں اتماماً للحجة شائع کر کے اقرار صحیح قانونی اور عہد جائز شرعی کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب منکرین میں سے مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے ان سب براہین اور دلائل میں جو ہم نے دربارہ حقیت فرقان مجید اور صدق رسالت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اسی کتاب مقدس سے اخذ کر کے کی ہیں اپنی الہامی کتاب میں ثابت کر کے دکھلاوے یا اگر تعداد میں ان کے برابر پیش نہ کر سکے تو نصف ان سے یا ثلث ان سے یا ربع ان سے یا شمس ان سے نکال کر پیش کرے یا اگر بکلی پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے ہی دلائل کو نمبر وار توڑ دے تو ان سب صورتوں میں بشرطیکہ تین منصف مقبولہ فریقین بالا تفاق یہ رائے ظاہر کر دیں کہ ایفائے شرط جیسا کہ چاہیئے تھا ظہور میں آ گیا میں مشتہر ایسے مجیب کو بلا عذرے و حیلے اپنی جائداد قیمتی دس ہزار روپیہ پر قبض و دخل دیدوں گا.مگر واضح رہے کہ اگر اپنی کتاب کی دلائل معقولہ پیش کرنے سے عاجز اور قاصر رہیں یا بر طبق شرط اشتہار کی شمس تک پیش نہ کر سکیں
۱۱۲۲ تو اس حالت میں بصراحت تمام تحریر کرنا ہو گا جو بوجہ نا کامل یا غیر معقول ہونے کتاب کے اس شق کے پورا کرنے سے مجبور اور معذور ہے اور اگر دلائل مطلوبہ پیش کریں تو اس بات کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جو ہم نے شمس دلائل تک پیش کرنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس سے ہماری یہ مراد نہیں ہے کہ اس تمام مجموعہ دلائل کا بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے نصف یا ثلث یا ربع یا خمس پیش کر دیا جائے بلکہ یہ شرط ہر یک صنف کی دلائل سے متعلق ہے اور ہر صنف کے براہین میں سے نصف یا ثلث یا ربع یا شمس پیش کرنا ہوگا.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۴ تا ۳۱ ) آج کی تاریخ تک جو گیارہ ربیع الاول ۱۳۱۱ھ مطابق بائیس ستمبر ۱۸۹۳ء اور نیز مطابق ہشتم اسوج سمت ۱۹۵۰ء اور روز جمعہ ہے.اس عاجز سے تین ہزار سے کچھ زیادہ ایسے نشان ظاہر ہو چکے ہیں کہ جن کے صد ہا آدمی گواہ بلکہ بعض پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے تو ہزار ہا ہندو اور عیسائی اور دوسرے مخالف مذہب گواہ ہیں...اور ایسے بھی سولہ ہزار کے قریب لوگ ہندوستان اور انگلستان اور جرمن اور فرانس اور روس اور روم میں پنڈتوں اور یہودیوں کے فقیہوں اور مجوسیوں کے پیشروؤں اور عیسائیوں کے پادریوں اور قسمیسوں اور بشپوں میں سے موجود ہیں جن کو رجسٹری کرا کر اس مضمون کے خط بھیجے گئے.کہ درحقیت دنیا میں دین اسلام ہی سچا ہے اور دوسرے تمام دین اصلیت اور حقانیت سے دور جاپڑے ہیں کسی کو مخالفوں میں سے اگر شک ہو تو ہمارے مقابل پر آوے اور ایک سال تک رہ کر دین اسلام کے نشان ہم سے ملاحظہ کرے اور اگر ہم خطا پر نکلیں تو ہم سے بحساب دوسور و پیہ ماہواری ہرجانہ اپنے ایک برس کا لے لے ورنہ ہم اس سے کچھ نہیں مانگتے صرف دین اسلام قبول کرے اور اگر چاہے تو اپنی تسلی کے لئے روپیہ کسی بنک میں جمع کرالے لیکن کسی نے اس طرف رخ نہ کیا امتحان کے طور پر اس زمانہ کے کسی پادری صاحب وغیرہ کو پوچھ کر دیکھو کہ کیا دعوتِ اسلام کے لئے رجسٹری شدہ خط اُن کے پاس نہیں پہنچا نہ صرف اس قدر بلکہ پارلیمنٹ لنڈن اور شہزادہ ولیعہد مکہ معظمہ اور شہزادہ بسمارک کی خدمت میں بھی دعوت اسلام کے اشتہار اور خطوط بھیجے گئے جن کی رسیدیں اب تک موجود ہیں..(شہادۃ القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۹ تا ۳۷۱) مجھے یہ قطعی طور پر بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہو گا.پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اور میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے کسی پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے.کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ
۱۱۲۳ یه شخص در حقیقت مفتری ہے.اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ وار ہیں.پھر خدا تعالے خود فیصلہ کر دے گا.میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس قدر دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور وراثت میرے قبضہ میں آئی ہے بحالت دروغگو نکلنے کے وہ سب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا.اگر وہ دروغگو نکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا.یہ بات میں نے اپنے جی میں جز ما ٹھہرائی ہے اور تہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس مقابلہ کے لئے طیار ہوں اور اشتہار دینے کے لئے مستعد بلکہ میں نے تو بارہ ہزار اشتہار شائع کر دیا ہے.بلکہ میں بلاتا بلاتا تھک گیا.کوئی پنڈت، پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آیا.میری سچائی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کے لئے ہر وقت حاضر ہوں اور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعوی نہ کرے تو ایسا پنڈت یا پادری صرف اخبار کے ذریعے سے یہ شائع کر دے کہ میں صرف یک طرفہ کوئی امر خارق عادت دیکھنے کو طیار ہوں اور اگر امر خارق عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کروں گا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے.کوئی مسلمانوں میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کافر بیدین کہتے ہیں اور دجال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس کا امتحان کر لیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۸) قرآن شریف کی زبر دست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دیئے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.چنانچہ میں یہی دعویٰ رکھتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کے تمام مخالف کیا مشرق کے اور کیا مغرب کے ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور نشانوں اور خوارق میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اور توفیق سے سب پر غالب رہوں گا اور یہ غلبہ اس وجہ سے نہیں ہو گا کہ میری روح میں کچھ زیادہ طاقت ہے بلکہ اس وجہ سے ہوگا کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس کے کلام قرآن شریف کی زبر دست طاقت اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوت اور اعلیٰ مرتبت کا میں ثبوت دوں اور اس نے محض اپنے فضل سے نہ میرے کسی ہنر سے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اس کے عظیم الشان نبی اور اس کے قومی الطاقت کلام کی پیروی کرتا ہوں اور اس سے محبت رکھتا ہوں اور وہ خدا کا کلام جس کا نام قرآن شریف ہے جو ربانی طاقتوں کا مظہر ہے میں اس پر ایمان لاتا ہوں
۱۱۲۴ اور قرآن شریف کا یہ وعدہ ہے کہ لَهُمُ الْبُشْرى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا اور یہ وعدہ ہے کہ أَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِّنْهُ ہے اور یہ وعدہ ہے کہ وَيَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا تے اس وعدہ کے موافق خدا نے یہ سب مجھے عنایت کیا ہے.( مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۰،۴۰۹) اگر میرے مقابل پر تمام دنیا کی تو میں جمع ہو جائیں اور اس بات کا بالمقابل امتحان ہو کہ کس کو خدا غیب کی خبریں دیتا ہے اور کس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور کس کی مدد کرتا ہے اور کس کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی غالب رہوں گا.کیا کوئی ہے؟ کہ اس امتحان میں میرے مقابل پر آوے.ہزار ہانشان خدا نے محض اس لئے مجھے دیئے ہیں کہ تا دشمن معلوم کرے کہ دین اسلام سچا ہے.میں اپنی کوئی عزت نہیں چاہتا بلکہ اس کی عزت چاہتا ہوں جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۸۲۱۸۱) زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے.زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ ہم کو دیکھ سکیں.سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.وہ مُردے ہیں نہ خدا جن سے اب کوئی ہمکلام نہیں ہو سکتا.اس کے نشان نہیں دیکھ سکتا.سچا مذہب کبھی خشک قصہ نہیں بن سکتا.سو اسلام سچا ہے میں ہر ایک کو کیا عیسائی کیا آریہ اور کیا یہودی اور کیا بر ہمواس سچائی کے دکھلانے کے لئے بلاتا ہوں کیا کوئی ہے جو زندہ خدا کا طالب ہے.ہم مُردوں کی پرستش نہیں کرتے.ہمارا زندہ خدا ہے.وہ ہماری مدد کرتا ہے.وہ اپنے الہام اور کلام اور آسمانی نشانوں سے ہمیں مدد دیتا ہے.اگر دنیا کے اس سرے سے اُس سرے تک کوئی عیسائی طالب حق ہے تو ہمارے زندہ خدا اور اپنے مُردہ خدا کا مقابلہ کر کے دیکھ لے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس باہم امتحان کے لئے چالیس دن کافی ہیں.اگر میں جھوٹا نکلوں تو ہر ایک سزا کا مستوجب ہوں لیکن دعا کے ذریعہ سے مقابلہ ہو گا.جس کا سچا خدا ہے بلا شبہ وہ سچا رہے گا.اس باہمی مقابلہ میں بے شک خدا مجھے غالب کرے گا.....جو معقول شرط چاہیں مجھ سے کر لیں.میں میدان میں کھڑا ہوں اور صاف صاف کہتا ہوں کہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.عیسائیوں کے ہاتھ میں ایک مُردہ ہے جس کو امتحان کرنا ہو میرے مقابلہ میں آوے.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۵ ۱۶- مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۲ ۱۳ بار دوم ) یونس : ۶۵ المجادلة: ٢٣ الانفال: ٣٠
۱۱۲۵ ایک مشترک کا رروائی جس سے تمام مخالف مذہبوں پر حجت پوری ہوگئی ہے.میری طرف سے یہ ہے کہ میں نے عام اعلان دیا ہے کہ آسمانی نشان اور برکات اور پر میشر کے شکتی کے کام صرف اسلام میں ہی پائے جاتے ہیں اور دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں کہ ان نشانوں میں اسلام کا مقابلہ کر سکے.اس بات کے لئے خدا تعالیٰ نے تمام مخالفین کو ملزم اور لاجواب کرنے کے لئے مجھے پیش کیا ہے اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ ہندوؤں اور عیسائیوں اور سکھوں میں ایک بھی نہیں کہ جو آسمانی نشانوں اور قبولیتوں اور برکتوں میں میرا مقابلہ کر سکے.یہ بات ظاہر ہے کہ زندہ مذہب وہی مذہب ہے جو آسمانی نشان ساتھ رکھتا ہو اور کامل امتیاز کا نور اس کے سر پر چمکتا ہو.سو وہ اسلام ہے.کیا عیسائیوں میں یا سکھوں میں یا ہندوؤں میں کوئی ایسا ہے کہ اس میں میرا مقابلہ کر سکے ؟ سو میری سچائی کے لئے یہ کافی حجت ہے کہ میرے مقابل پر کسی قدم کو قرار نہیں.اب جس طرح چاہو اپنی تسلی کرلو.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۴۹،۲۴۸) یہ کتاب یعنی رسالہ سرمه چشم آریہ تقریب مباحثہ لالہ مرلی دھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر ہوشیار پور جو عقائد باطلہ وید کی بکلی بیخ کنی کرتی ہے اس دعوئی اور یقین سے لکھی گئی ہے کہ کوئی آریہ اس کتاب کا رڈ نہیں کرسکتا کیونکہ سچ کے مقابل پر جھوٹ کی کچھ پیش نہیں جاتی اور اگر کوئی آریہ صاحب ان تمام وید کے اصولوں اور اعتقادوں کو جو اس کتاب میں رد کئے گئے ہیں سچ سمجھتا ہے اور اب بھی دید اور اس کے ایسے اصولوں کو ایشر کرت ہی خیال کرتا ہے تو اس کو اس ایشر کی قسم ہے کہ اس کتاب کا رڈ لکھ کر دکھلاوے اور پانسور و پیر انعام پاوے.یہ پانسو روپیہ بعد تصدیق کسی ثالث کے جو کوئی پادری یا بر ہمو صاحب ہوں گے دیا جائے گا اور ہمیں یاں تک منظور ہے کہ اگر منشی جیون داس صاحب سکرٹری آریہ سماج لاہور جو اس گردو نواح کے آریہ صاحبوں کی نسبت سلیم الطبع اور معزز اور شریف آدمی ہیں بعد درد چھپ جانے اور عام طور پر شائع ہو جانے مجمع عام علماء مسلمانوں اور آریوں اور معزز عیسائیوں وغیرہ میں مع اپنے عزیز فرزندوں کے حاضر ہوں اور پھر اُٹھ کر قسم کھا لیں کہ ہاں میرے دل نے یہ یقین کامل قبول کر لیا ہے کہ سب اعتراضات رسالہ سرمہ چشم آریہ جن کو میں نے اوّل سے آخر تک بغور دیکھ لیا ہے اور خوب توجہ کر کے سمجھ لیا ہے اس تحریر سے رد ہو گئے ہیں.اور اگر میں دلی اطمینان اور پوری سچائی سے یہ بات نہیں کہتا تو اس کا ضرر اور وبال اسی دنیا میں مجھ پر اور میری اولاد پر جو اس وقت حاضر ہے پڑے.تو بعد ایسی قسم کھا لینے کے صرف منشی صاحب موصوف کی شہادت سے پانسو روپیہ نقد رد کنندہ کو اسی مجمع میں بطور
انعام دیا جائے گا اور اگر منشی صاحب موصوف عرصہ ایک سال تک ایسے قسم کے بداثر سے محفوظ رہے تو آریوں کے لئے بلاشبہ یہ حجت ہو گی کہ صاحب موصوف نے اپنی دلی صداقت سے اپنے علم اور فہم کے مطابق مقسم کھائی تھی.والسلام علی من اتبع الهدی.المشتهر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب سرمه چشم آریہ نائٹل پیچ آخری ورق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۲ ۳۲۲۰)
۱۱۲۷ اشتہار صداقت انوار بغرض دعوت مقابلہ چہل روزہ گرچہ ہر کس زره لاف بیانی دارد صادق آنست که از صدق نشانی دارد لا ہمارے اشتہارات گذشتہ کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے یہ اشتہار دیا تھا کہ جو معزز آریہ صاحب یا پادری صاحب یا کوئی اور صاحب مخالف اسلام ہیں اگر ان میں سے کوئی صاحب ایک سال تک قادیان میں ہمارے پاس آکر ٹھہرے تو در صورت نہ دیکھنے کسی آسمانی نشان کے چوہیں سو روپیہ انعام پانے کا مستحق ہوگا سو ہر چند ہم نے تمام ہندوستان و پنجاب کے پادری صاحبان وآریہ صاحبان کی خدمت میں اسی مضمون کے خط رجسٹری کرا کر بھیجے مگر کوئی صاحب قادیان میں تشریف نہ لائے بلکہ منشی اندر من صاحب کے لئے تو مبلغ چوبیس سو روپیہ نقد لاہور میں بھیجا گیا تو وہ کنارہ کر کے فرید کوٹ کی طرف چلے گئے.ہاں ایک صاحب پنڈت لیکھرام نام پشاوری قادیان میں ضرور آئے تھے اور ان کو بار بار کہا گیا کہ اپنی حیثیت کے موافق بلکہ اس تنخواہ سے دو چند جو پشاور میں نوکری کی حالت میں پاتے تھے ہم سے بحساب ماہواری لینا کر کے ایک سال تک ٹھہرو اور اخیر پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر ایک سال تک منظور نہیں تو چالیس دن تک ہی ٹھہر و تو انہوں نے ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت کو منظور نہیں کیا اور خلاف واقعہ سراسر دروغ بے فروغ اشتہارات چھپوائے سو ان کے لئے تو رسالہ سُرمہ چشم آریہ میں دوبارہ یہی چالیس دن تک اس جگہ رہنے کا پیغام تحریر کیا گیا ہے.ناظرین اس کو پڑھ لیں لیکن یہ اشتہار اتمام حجت کی غرض سے بمقابل منشی جیوند اس صاحب جو سب آریوں کی نسبت شریف اور سلیم الطبع معلوم ہوتے ہیں اور لالہ مرلی دھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار پور جو وہ بھی میری دانست میں آریوں میں سے غنیمت ہیں اور منشی اندر من صاحب مراد آبادی جو گویا دوسرا مصرع سورستی صاحب کا ہیں اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب سابق اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر رئیس امرتسر جو حضرات عیسائیوں میں سے شریف اور سلیم المزاج آدمی ہیں اور پادری عمادالدین لاہر صاحب امرتسری اور پادری ٹھاکر داس صاحب مولف کتاب اظہار عیسوی شائع کیا جاتا ہے کہ اب ہم بجائے ایک سال کے صرف چالیس روز اس شرط سے مقرر کرتے ہیں کہ جو صاحب آزمائش و مقابلہ کرنا چاہیں وہ برابر چالیس دن تک ہمارے لے اگر چہ ہر کوئی لاف و گزاف کی راہ سے بیان کر سکتا ہے لیکن صادق وہ ہے کہ جو اپنے صدق کی نشانی رکھتا ہے.
۱۱۲۸ پاس قادیان میں یا جس جگہ اپنی مرضی سے ہمیں رہنے کا اتفاق ہو رہیں اور برابر حاضر رہیں.پس اس عرصہ میں اگر ہم کوئی امر پیشگوئی جو خارق عادت ہو پیش نہ کریں یا پیش تو کریں مگر بوقت ظہور وہ جھوٹا نکلے یا وہ جھوٹا تو نہ ہومگر اسی طرح صاحب متحن اس کا مقابلہ کر کے دکھلا دیں تو مبلغ پانسور و پیہ نقد بحالت مغلوب ہونے کے اسی وقت بلا توقف ان کو دیا جائے گا لیکن اگر وہ پیشگوئی وغیرہ بپا یہ صداقت پہنچ گئی تو صاحب مقابل کو بشرف اسلام مشرف ہونا پڑے گا.اگر وہ پیشگوئی صاحب مقابل کی رائے میں کچھ ضعف یا شک رکھتی ہے یا ان کی نظر میں قیافہ وغیرہ سے مشابہ ہے تو اسی عرصہ چالیس روز میں وہ بھی ایسی پیشگوئی ایسے ہی ثبوت سے ظاہر کر کے دکھلاویں اور اگر مقابلہ سے عاجز رہیں تو پھر حجت اُن پر تمام ہو گی اور بحالت سچے نکلنے پیشگوئی کے بہر حال انہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور یہ تحریریں پہلے سے جانبین میں تحریر ہو کر انعقاد پا جائیں گی.چنانچہ اس رسالہ کے شائع ہونے کے وقت سے یعنی ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء سے ٹھیک تین ماہ کی مہلت صاحبان موصوف کو دی جاتی ہے اگر اس عرصہ میں ان کی طرف سے اس مقابلہ کے لئے کوئی منصفانہ تحریک نہ ہوئی تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ گریز کر گئے.والسلام على من اتبع الهدى المشتهر خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۱۰،۳۰۹) محال است سعدی که راه صفا تواں یافت جز در پیئے مصطفے یے سردار راج اندرسنگھ صاحب متوجہ ہو کر سنیں آپ کا رسالہ جس کا نام آپ نے خبط قادیانی کا علاج رکھا ہے میرے پاس پہنچا.اس میں جس قدر آپ نے ہمارے سید و مولیٰ جناب محمد مصطفے و احمد مجتبی ﷺ کو گالیاں دیں اور نہایت بے باکی سے بے ادبیاں کیں اور بے اصل تہمتیں لگائیں.اس کا ہم کیا جواب دیں اور کیا لکھیں.سو ہم اس معاملہ کو اس قادر توانا کے سپرد کرتے ہیں جو اپنے پیاروں کے لئے غیرت رکھتا ہے.ہما را افسوس اور بھی آپ کی نسبت ہوتا ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کس ادب اور تہذیب سے ہم نے ست بچن کو تالیف کیا تھا اور لے اے سعدی یہ ممکن نہیں کہ صدق وصفا کا راستہ محمد مصطفی کی پیروی کے بغیر اختیار کیا جاسکے.
۱۱۲۹ کیسے نیک الفاظ سے آپ کے بابا صاحب کو یاد کیا تھا اور اس کا عوض آپ نے یہ دیا.خدا کا وہ مقدس پیارا جس نے اس کی عزت اور جلال کے لئے اپنی جان کو ایک کیڑے کی جان کے برابر بھی عزت نہیں دی اور اس کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کیا.اس کو آپ نے گندی گالیاں دیں اور اس کی پاک شان میں طرح طرح کی بے باکیاں اور شوخیاں کیں.میرا خیال اب تک نہ تھا کہ سکھ صاحبوں میں ایسے لوگ بھی ہیں.آفتاب آپ کی نظر میں ایک نا چیز خس و خاشاک دکھائی دیا.اے غافل ! وہی ایک نور ہے جس نے دنیا کو تاریکی میں پایا اور روشن کیا اور مُردہ پایا اور جان بخشی.تمام نبوتیں اس سے ثابت ہوئیں.........دیکھو! میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ روشن مذہب اسلام ہے جس کے ساتھ خدا کی تائیدیں ہر وقت شامل ہیں.کیا ہی بزرگ قدر وہ رسول ہے جس سے ہم ہمیشہ تازہ بتازہ روشنی پاتے ہیں اور کیا ہی برگزیدہ وہ نبی ہے جس کی محبت سے رُوح القدس ہمارے اندر سکونت کرتی ہے.تب ہماری دعائیں قبول ہوتی ہیں اور عجائب کام ہم سے صادر ہوتے ہیں.زندہ خدا کا مزا ہم اسی راہ میں دیکھتے ہیں.باقی سب مُردہ پرستیاں ہیں.کہاں ہیں مردہ پرست کیا وہ بول سکتے ہیں؟ کہاں ہیں مخلوق پرست کیا وہ ہمارے آگے ٹھہر سکتے ہیں؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو شرارت سے کہتے تھے جو ہمارے نبی ﷺ سے کوئی پیشگوئی نہیں ہوئی اور نہ کوئی نشان ظاہر ہوا ؟ دیکھو! میں کہتا ہوں وہ شرمندہ ہوں گے اور عنقریب وہ چھپتے پھریں گے! اور وہ وقت آتا ہے بلکہ آگیا کہ اسلام کی سچائی کا نورمنکروں کے منہ پر طمانچے مارے گا ! اور انہیں نہیں دکھائی دے گا کہ کہاں چھپیں.یہ بھی یاد رہے کہ میں نے دو مرتبہ باوانا تک صاحب کو کشفی حالت میں دیکھا ہے اور اُن کو اس بات کا اقراری پایا ہے کہ انہوں نے اسی نور سے روشنی حاصل کی ہے.فضولیاں اور جھوٹ بولنا مردار خواروں کا کام ہے.میں وہی کہتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا ہے اسی وجہ سے میں باوا نانک صاحب کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ اس چشمہ سے پانی پیتے تھے جس سے ہم پیتے ہیں اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس معرفت سے بات کر رہا ہوں کہ جو مجھے عطا کی گئی ہے.اب اگر آپ کو اس بات سے انکار ہے کہ باوا صاحب مسلمان تھے اور نیز آپ کو اس بات پر اصرار ہے کہ بقول آپ کے ہمارے نبی ﷺ نعوذ باللہ بدکار آدمی تھے تو میں آپ پر صرف منقول استدلال سے اتمام حجت کرنا نہیں چاہتا بلکہ ایک اور طریق سے آپ پر خدا کی حجت پوری کرنا چاہتا ہوں...اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ آپ اگر اپنے اس عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں تو ایک مجلس عام میں اس مضمون کی قسم فیصلہ
کھاویں کہ در حقیقت باوا نانک دین اسلام سے بیزار تھے اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کو برا سمجھتے تھے اور نیز در حقیقت پیغمبر اسلام نعوذ باللہ فاسق اور بدکار تھے اور خدا کے سچے نبی نہیں تھے اور اگر یہ دونوں باتیں خلاف واقعہ ہیں تو اے قادر کرتار مجھے ایک سال تک اس گستاخی کی سخت سزا دے اور ہم آپ کی قسم پر پانسور و پیہ ایک جگہ پر جہاں آپ کی اطمینان ہو جمع کرا دیتے ہیں.پس اگر آپ در حقیقت سچے ہوں گے تو سال کے عرصہ تک آپ کے ایک بال کا نقصان بھی نہیں ہو گا بلکہ مفت پانسور و پیہ آپ کو ملے گا اور ہماری ذلت اور روسیاہی ہوگی اور اگر آپ پر کوئی عذاب نازل ہو گیا تو تمام سکھ صاحبان درست ہو جائیں گے.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۹۲ تا ۹۷.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۷ ۸ تا ۹۰ بار دوم ) میں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں.ہاں جہاں تک ممکن ہے.ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہماراشکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اور عدالت میں.اور بائیں ہمہ نوع انسان کی ہمدردی ہمارا حق ہے.ہم اس وقت کیونکر اور کن الفاظ سے آریہ صاحبوں کے دلوں کو تسلی دیں کہ بد معاشی کی چالیں ہمارا طریق نہیں ہیں.ایک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں.کیوں خوش ہیں؟ صرف قوموں کی بھلائی کے لئے.کاش وہ سوچیں اور سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے.ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے درد بھی ہے اور خوشی بھی.درد اس لئے کہ اگر لیکھر ام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بد زبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہو جاتا.وہ خدا جس کو میں جانتا ہوں.اس سے کوئی بات انہونی نہیں اور خوشی اس بات کی ہے کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی.اور اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہو سکتا اور مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے جیسا کہ ہندو اخباروں نے ظاہر کیا ہے تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ ” میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے پس اگر یہ صیح نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک عذاب ہو مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس
۱۱۳۱ تک میری بد دعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اُس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کو ہونی چاہیئے.اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار کرے.یہ طریق نہایت سادہ اور راستی کا فیصلہ ہے.(سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۹٬۲۸) عیسائیوں کو بھی ایمان اور پاک زندگی کا دعوی ہے اور مسلمانوں کو بھی.اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے خدا کے نزدیک کس کا ایمان مقبول اور کس کی واقعی پاک زندگی ہے اور کس کا ایمان صرف شیطانی خیالات اور پاک زندگی کا دعویٰ صرف نابینائی کا دھوکہ ہے.پس میرے نزدیک جو ایمان اپنے ساتھ آسمانی گواہیاں رکھتا ہے اور قبولیت کے آثار اس میں پائے جاتے ہیں.وہی ایمان صحیح اور مقبول ہے اور ایسا ہی پاک زندگی وہی واقعی طور پر ہے جو اپنے ساتھ آسمانی نشان رکھتی ہے وجہ یہ کہ اگر صرف دعوی ہی قبول کرنا ہے تو دنیا کی تمام قومیں یہی دعویٰ کر رہی ہیں کہ ہم میں بڑے بڑے لوگ پاک زندگی والے گذرے ہیں اور موجود ہیں بلکہ ان کے اعمال اور افعال بھی پیش کرتے ہیں.جن کی اندرونی حقیقت کا فیصلہ کرنا مشکل ہے.سواگر عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ کفارہ سے پاک ایمان اور پاک زندگی ملتی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اب میدان میں آئیں اور دعا کے قبول ہونے اور نشانوں کے ظہور میں میرے ساتھ مقابلہ کر لیں.اگر آسمانی نشانوں کے ساتھ ان کی زندگی پاک ثابت ہو جائے.تو میں ہر ایک سزا کا مستوجب ہوں اور ہر ایک ذلت کا سزاوار ہوں.میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ روحانیت کے رو سے عیسائیوں کی نہایت گندی زندگی ہے اور وہ پاک خدا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے ان کی اعتقادی حالتوں سے ایسا متنفر ہے جیسا کہ ہم نہایت گندے اور سڑے ہوئے مُردار سے متنفر ہوتے ہیں.اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں اور اگر اس قول میں میرے ساتھ خدا نہیں ہے.تو نرمی اور آہستگی سے مجھ سے فیصلہ کر لیں.میں پھر کہتا ہوں کہ ہرگز وہ پاک زندگی عیسائیوں میں موجود نہیں ہے جو آسمان سے اُترتی اور دلوں کو روشن کرتی ہے.بلکہ جیسا کہ میں بیان کر آیا ہوں بعضوں میں فطرتی بھلا مانس ہونا اور عام قوموں کی طرح پایا جاتا ہے.سو فطرتی شرافت سے میری بحث نہیں.اس غربت اور شرافت کے لوگ ہر ایک قوم میں کم و بیش پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ بھنگی اور چمار بھی اس سے باہر نہیں.لیکن میرا کلام آسمانی پاک زندگی میں ہے جو خدا کی زندہ کلام سے حاصل ہوتی اور آسمان سے اُترقی اور اپنے ساتھ آسمانی نشان رکھتی ہے.سو یہ عیسائیوں میں موجود نہیں.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۴۲ تا ۳۴۴ )
دیکھو ہم حضرات پادری صاحبوں کو نہ تلوار سے بلکہ ملائم الفاظ سے بار بار اس طرف بلاتے ہیں کہ آؤ ہم سے مقابلہ کرو کہ دونوں شخص یعنی حضرت مسیح اور حضرت سید نا محمد مصطفی علیہ سے روحانی برکات اور افاضات کے رو سے زندہ کون ہے اور جس طرح خدا کے نبی پاک نے قرآنِ شریف میں کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے تو میں سب سے پہلے اس کی پرستش کروں گا.ایسا ہی میں کہتا ہوں کہ اے یورپ اور امریکہ کے پادریو! کیوں خواہ نخواہ شور ڈال رکھا ہے.تم جانتے ہو کہ میں ایک انسان ہوں جو کروڑ ہا انسانوں میں مشہور ہوں.آؤ میرے ساتھ مقابلہ کرو مجھ میں اور تم میں ایک برس کی مہلت ہو.اگر اس مدت میں خدا کے نشان اور خدا کی قدرت نما پیشگوئیاں تمہارے ہاتھ سے ظاہر ہوئیں اور میں تم سے کمتر رہا تو میں مان لوں گا کہ مسیح ابن مریم خدا ہے لیکن اگر اس بچے خدا نے جس کو میں جانتا ہوں اور آپ لوگ نہیں جانتے مجھے غالب کیا اور آپ لوگوں کا مذہب آسمانی نشانوں سے محروم ثابت ہوا تو تم پر لازم ہوگا کہ اس دین کو قبول کرو.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۶۰) میں دعویٰ سے کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس میں سچا ہوں اور تجربہ اور نشانات کی ایک کثیر تعداد نے میری سچائی کو روشن کر دیا ہے کہ اگر یسوع مسیح ہی زندہ خدا ہے اور وہ اپنے صلیب برداروں کی نجات کا باعث ہوا ہے اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے باوجود یکہ اس کی خود دعا قبول نہیں ہوئی تو کسی پادری یا راہب کو میرے مقابلہ پر پیش کرو کہ وہ یسوع مسیح سے مدد اور توفیق پا کر کوئی خارق عادت نشان دکھائے.میں اب میدان میں کھڑا ہوں اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں اپنے خدا کو دیکھتا ہوں.وہ ہر وقت میرے سامنے اور میرے ساتھ ہے.میں پکار کر کہتا ہوں میسیج کو مجھ پر زیادت نہیں کیونکہ میں نور محمدی کا قائمقام ہوں جو ہمیشہ اپنی روشنی سے زندگی کے نشان قائم کرتا ہے اس سے بڑھ کر اور کس چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے.الحکم مورخہ ۷ رفروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۵ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۹۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) جس قدران پادری صاحبان نے اہل اسلام پر مختلف قسم کے اعتراضات کر کے اور بار بار ٹھوکریں کھا کر اپنے خیالات میں پلٹے کھائے ہیں اور طرح طرح کی ندامتیں اٹھا کر پھر اپنے اقوال سے رجوع کیا ہے یہ بات اس شخص کو بخوبی معلوم ہوگی کہ جو اُن کے اور فضلاء اسلام کے باہمی مباحثات کی کتابوں پر ایک محیط نظر ڈالے.ان کے اعتراضات تین قسم سے باہر نہیں یا تو ایسے ہیں کہ جو سراسر افترا اور بہتان ہے جن کی اصلیت کسی جگہ پائی نہیں جاتی اور یا ایسے ہیں کہ فی الحقیقت وہ باتیں ثابت تو ہیں
لیکن محل اعتراض نہیں.محض سادہ لوحی اور کور باطنی اور قلت تدبر کی وجہ سے ان کو جائے اعتراض سمجھ لیا ہے اور یا بعض ایسے امور ہیں کہ کسی قدر تو سچ ہیں جو ایک ذرہ جائے اعتراضات نہیں ہو سکتی اور باقی سب بہتان اور افترا ہیں جو ان کے ساتھ ملائے گئے ہیں.بعض آریہ ایسے بھی ہیں کہ وہ قرآن شریف کا ترجمہ کسی جگہ سے ادھورا سا دیکھ کر یا کوئی قصہ بے سروپا کسی جاہل یا مخالف سے سن کر جھٹ پٹ اس کو بنائے اعتراض قرار دے دیتے ہیں.سواسی خیال سے یہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس قدر اصول اور تعلیمیں قرآن شریف کی ہیں وہ سراسر حکمت اور معرفت اور سچائی سے بھری ہوئی ہیں اور کوئی بات ان میں ایک ذرہ مواخذہ کے لائق نہیں اور چونکہ ہر ایک مذہب کے اصولوں اور تعلیموں میں صد با جزئیات ہوتی ہیں اور ان سب کی کیفیت کا معرض بحث میں لانا ایک بڑی مہلت کو چاہتا ہے.اس لئے ہم اس بارہ میں قرآن شریف کے اصولوں کے منکرین کو ایک نیک صلاح دیتے ہیں کہ اگر ان کو اصول اور تعلیمات قرآنی پر اعتراض ہو تو مناسب ہے کہ وہ اوّل بطور خود خوب سوچ کر دو تین ایسے بڑے سے بڑے اعتراض بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں جو ان کی دانست میں سب اعتراضات سے ایسی نسبت رکھتے ہوں جو ایک پہاڑ کو ذرہ سے نسبت ہوتی ہے یعنی ان کے سب اعتراضوں سے ان کی نظر میں اقویٰ واشد اور انتہائی درجہ کے ہوں جن پر ان کی نکتہ چینی کی پر زور نگاہیں ختم ہو گئی ہوں اور نہایت شدت سے دوڑ دوڑ کر انہیں پر جا ٹھہری ہوں سو ایسے دو یا تین اعتراض بطور نمونہ پیش کر کے حقیقت حال کو آزما لینا چاہیئے کہ اس سے تمام اعتراضات کا بآسانی فیصلہ ہو جائے گا کیونکہ اگر بڑے اعتراض بعد تحقیق نا چیز نکلے تو پھر چھوٹے اعتراض ساتھ ہی نابود ہو جائیں گے اور اگر ہم ان کا کافی و شافی جواب دینے سے قاصر رہے اور کم سے کم یہ ثابت نہ کر دکھایا کہ جن اصولوں اور تعلیموں کو فریق مخالف نے بمقابلہ ان اصولوں اور تعلیموں کے اختیار کر رکھا ہے وہ ان کے مقابل پر نہایت درجہ رذیل اور ناقص اور دور از صداقت خیالات ہیں تو ایسی حالت میں فریق مخالف کو در حالت مغلوب ہونے کے فی اعتراض پچاس روپیہ بطور تاوان دیا جائے گا لیکن اگر فریق مخالف انجام کار جھوٹا نکلا اور وہ تمام خوبیاں جو ہم اپنے ان اصولوں یا تعلیموں میں ثابت کر کے دکھلا دیں بمقابل ان کے وہ اپنے اصولوں میں ثابت نہ کر سکا تو پھر یاد رکھنا چاہیئے کہ اسے بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا اور اسلام لانے کے لئے اول حلف اٹھا کر اسی عہد کا اقرار کرنا ہوگا اور پھر بعد میں ہم اس کے اعتراضات کا جواب ایک رسالہ مستقلہ میں شائع کرا دیں گے اور جو اس کے بالمقابل اصولوں پر ہماری طرف سے حملہ ہو گا
۱۱۳۴ اس حملہ کی مدافعت میں اس پر لازم ہو گا کہ وہ بھی ایک مستقل رسالہ شائع کرے اور پھر دونوں رسالوں کے چھپنے کے بعد کسی ثالث کی رائے پر یا خود فریق مخالف کے حلف اٹھانے پر فیصلہ ہو گا.جس طرح وہ راضی ہو جائے لیکن شرط یہ ہے کہ فریق مخالف نامی علماء میں سے ہو اور اپنے مذہب کی کتاب میں مادہ علمی بھی رکھتا ہو اور بمقابل ہمارے حوالہ اور بیان کے اپنا بیان بھی بحوالہ اپنی کتاب کے تحریر کر سکتا ہوتا ناحق ہماری اوقات کو ضائع نہ کرے.بالآخر واضح رہے کہ اس اشتہار کے جواب میں ۲۰ ستمبر ۱۸۸۶ء سے تین ماہ تک کسی پنڈت یا پادری جواب دہندہ کا انتظار کیا جائے گا اور اگر اس عرصہ میں علماء آریہ وغیرہ خاموش رہے تو انہیں کی خاموشی ان پر حجت ہو گی.(اشتہار مفید الا خیار مسلکہ سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۱۲ تا ۳۱۴) اس اشتہار کی تحریر سے یہ غرض ہے کہ ہم نے بڑے لمبے تجربے سے یہ آزما لیا ہے کہ یہ لوگ بار بار ملزم اور لا جواب ہو کر پھر بھی نیش زنی سے باز نہیں آتے..اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں نہایت ناپاک اور رنجدہ تھیٹر نکالتے ہیں اور نہایت بُری تصویروں میں اس پاک وجود کو دکھلاتے ہیں.اب ایسے کذابوں سے زبانی مباحثات سے کیونکر فیصلہ ہو.ہم جھوٹے کو دندان شکن جواب سے ملزم تو کر سکتے ہیں مگر اس کا منہ کیونکر بند کریں.اس کی پلید زبان پر کون سی تھیلی چڑھاویں؟ اس کے گالیاں دینے والے منہ پر کونسا قفل لگاویں؟ کیا کریں؟ ان ظالم پادریوں نے لاکھوں گالیاں ہمارے نبی کریم کو دے کر ہمارے دلوں کو زخمی کر دیا..پس یہ روز افزوں جھگڑے کیونکر فیصلہ پاویں.مباحثات کے نیک نتیجہ سے تو نو میدی ہو چکی بلکہ جیسے جیسے مباحثات بڑھتے جاتے ہیں.ویسے ہی کینے بھی ساتھ ساتھ ترقی پکڑتے جاتے ہیں سو اس نومیدی کے وقت میں میرے نزدیک ایک نہایت سهل و آسان طریق فیصلہ ہے.اگر پادری صاحبان قبول کر لیں اور وہ یہ ہے کہ اس بحث کا جو حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے.خدا تعالیٰ سے فیصلہ کرایا جائے.اول مجھے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ایسا خدائی فیصلہ کرانے کے لئے سب سے زیادہ مجھے جوش ہے اور میری دلی مراد ہے کہ اس طریق سے یہ روز کا جھگڑا انفصال پا جائے.اگر میری تائید میں خدا کا فیصلہ نہ ہو تو میں اپنی گل املاک منقولہ و غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کی قیمت سے کم نہیں ہوں گی عیسائیوں کو دے دوں گا اور بطور پیشگی تین ہزار روپیہ تک ان کے پاس جمع بھی کر سکتا ہوں.اس قدر مال کا میرے ہاتھ سے نکل جانا میرے لئے کافی سزا ہوگی.علاوہ اس کے یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے دستخطی
۱۱۳۵ اشتہار سے شائع کر دوں گا کہ عیسائی فتحیاب ہوئے اور میں مغلوب ہوا.اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اس اشتہار میں کوئی بھی شرط نہ ہو گی.لفظا نہ معناً.اور ربانی فیصلہ کے لئے طریق یہ ہوگا کہ میرے مقابل پر ایک معزز پادری صاحب جو پادری صاحبان مندرجہ ذیل میں سے منتخب کئے جائیں میدان مقابلہ کے لئے جو تراضی طرفین سے مقرر کیا جائے طیار ہوں پھر بعد اس کے ہم دونوں معہ اپنی اپنی جماعتوں کے میدان مقررہ میں حاضر ہو جائیں اور خدائے تعالیٰ سے دعا کے ساتھ یہ فیصلہ چاہیں کہ ہم دونوں میں سے جو شخص درحقیقت خدا تعالیٰ کی نظر میں کا ذب اور مور دغضب ہے.خدا تعالیٰ ایک سال میں اس کاذب پر وہ قہر نازل کرے جو اپنی غیرت کے رو سے ہمیشہ کا ذب اور مکذب قوموں پر کیا کرتا ہے جیسا کہ اس نے فرعون پر کیا.نمرود پر کیا اور نوح کی قوم پر کیا اور یہود پر کیا.حضرات پادری صاحبان یہ بات یاد رکھیں کہ اس باہمی دعا میں کسی خاص فریق پر نہ لعنت ہے نہ بد دعا ہے بلکہ اس جھوٹے کو سزا دلانے کی غرض سے ہے جو اپنے جھوٹھ کو چھوڑنا نہیں چاہتا.ایک جہان کے زندہ ہونے کے لئے ایک کا مرنا بہتر ہے.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۸ تا ۴۱) پادری وائٹ بر سخٹ صاحب پر اتمام حجت اس اشتہار کے جاری کرنے سے یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی معزز یورپین عیسائی صاحب ملهم ہونے کا دعوی کرتے ہوں تو انہیں بصد رغبت ہماری طرف سے اجازت ہے کہ بمقام بٹالہ جہاں آخر رمضان تک انشاء اللہ ہم رہیں گے کوئی جلسہ مقرر کر کے ہمارے مقابل پر اپنی الہامی پیشگوئیاں پیش کریں بشرطیکہ فتح مسیح کی طرح اپنی دروغگوئی کا اقرار کر کے میدان مقابلہ سے بھا گنا نہ چاہیں اور نیز ☆ میاں فتح مسیح عیسائی واعظ نے دعوی کیا تھا کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے اور میں بھی پیش از وقوع الهامی پیشگوئیاں بالمقابل بتلا سکتا ہوں چنانچہ اس دعوئی کے پر کھنے کے لئے ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کو بروز دوشنبہ اس عاجز کے مکان فرودگاہ پر ایک بھارا جلسہ ہوا اور بہت سے مسلمان اور ہندو معزز اور رئیس شہر کے رونق افروز جلسہ ہوئے اور سب کو اس بات کے دیکھنے کا شوق تھا کہ کونسی پیشگوئیاں بالمقابل پیش کی جاتی ہیں.آخر دس بجے کے بعد میاں فتح مسیح معہ چند دوسرے عیسائیوں کے جلسہ میں تشریف لائے اور بجائے اس کے کہ پیشگوئیاں پیش کرتے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میری طرف سے دعوئی الہام نہیں ہے اور جو کچھ میرے منہ سے نکلا تھا میں نے یونہی فریق ثانی کے دعوے کے مقابل پر ایک دعوی کر دیا تھا.تبلیغ رسالت جلد اول صفحه ۱۰۶،۱۰۵ - مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۲۸ بار دوم )
اس اشتہار میں پادری وائٹ بریخٹ صاحب کہ جو اس علاقہ کے ایک معزز یورپین پادری ہیں ہمارے بالتخصیص مخاطب ہیں.اور ہم پادری صاحب کو یہ بھی اجازت دیتے ہیں کہ اگر وہ صاف طور پر جلسہ عام میں اقرار کر دیں کہ یہ الہامی طاقت عیسائی گروہ سے مسلوب ہے تو ہم ان سے کوئی پیشگوئی بالمقابل طلب نہیں کریں گے.بلکہ حسب درخواست ان کی ایک جلسہ مقرر کر کے فقط اپنی طرف سے ایسی الہامی پیشگوئیاں پیش از وقوع پیش کریں گے جن کی نسبت ان کو کسی طور کا شک وشبہ کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی اور اگر ہماری طرف سے اس جلسہ میں کوئی ایسی قطعی ویقینی پیشگوئی پیش نہ ہوئی کہ جو عام ہندوؤں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی نظر میں انسانی طاقتوں سے بالاتر متصور ہو تو ہم اسی جلسہ میں دوسور و پیہ نقد پادری صاحب موصوف کو بطور ہرجانہ یا تاوان تکلیف دہی کے دیدیں گے.چاہیں تو وہ دوسو روپیہ کسی معزز ہندو صاحب کے پاس پہلے ہی جمع کرا کر اپنی تسلی کرا لیں لیکن اگر پادری صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ حقیقت میں یہ پیشگوئی انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے تو پھر ان پر واجب و لازم ہوگا کہ اس کا جھوٹ یا سچ پر کھنے کے لئے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور اخبار نورافشاں میں جوان کی مذہبی اخبار ہے اس پیشگوئی کو درج کرا کر ساتھ اس کے اپنا اقرار بھی چھپوا ئیں کہ میں نے اس پیشگوئی کو من کل الوجوہ گوانسانی طاقتوں سے بالا تر قبول کر لیا اسی وجہ سے تسلیم کر لیا ہے کہ اگر یہ پیشگوئی سچی ہے تو بلا شبہ قبولیت اور محبوبیت الہی کے چشمہ سے نکلی ہے نہ کسی اور گندے چشمہ سے جو انکل اور اندازہ وغیرہ ہے اور اگر بالآخر اس پیشگوئی کا مضمون صحیح اور بچ نکلا تو میں بلا توقف مسلمان ہو جاؤں گا کیونکہ جو پیشگوئی محبوبیت کے چشمہ سے نکلی ہے وہ اس دین کی سچائی کو ثابت کرنے والی ہے جس دین کی پیروی سے یہ مرتبہ محبوبیت کا ملتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ محبوبیت کو نجات یافتہ ہونا ایک امر لازمی ہے.اور اگر پیشگوئی کا مضمون صحیح نہ نکلا یعنی بالآخر جھوٹی نکلے وہ تو دوسو روپیہ جو جمع کرایا گیا ہے پادری صاحب کو دیا جائے گا.تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۱۰۶ تا ۱۰۸ - مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۲۹ بار دوم )
اعلان پادری وائٹ بر سخٹ صاحب پر اتمام حجت اور میاں فتح مسیح کی دروغگوئی کی کیفیت میاں فتح مسیح نے نے جون ۱۸۸۸ء کے اخبار نور افشاں میں چھپوا دیا ہے کہ ہم اس طور پر تحقیق الہامات کے لئے جلسہ کر سکتے ہیں کہ ایک جلسہ منعقد ہو کر چارسوال بند کاغذ میں حاضرین جلسہ میں سے کسی کے ہاتھ میں دیدیں گے وہ ہمیں الہاماً بتلائے جائیں.اس کے جواب میں اول تو یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ جیسا کہ ہم اپنے اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۸۸ء میں لکھ چکے ہیں.فتح مسیح جس کی طینت میں دروغ ہی دروغ ہے ہرگز مخاطب ہونے کے لائق نہیں اور اس کو مخاطب بنانا اور اس کے مقابل پر جلسہ کرنا ہر ایک راستباز کے لئے عار وننگ ہے.ہاں اگر پادری وائٹ بریخٹ صاحب ایسی درخواست کریں کہ جونور افشاں ۷ جون ۱۸۸۸ء کے صفحہ ے میں درج ہے تو ہمیں بسر و چشم منظور ہے.ہمارے ساتھ وہ خدائے قادر و علیم ہے جس سے عیسائی لوگ ناواقف ہیں.وہ پوشیدہ بھیدوں کو جانتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے جو اس کے خالص بندے ہیں لیکن لہو و لعب کے طور پر اپنا نام لینا پسند نہیں کرتا.پس اگر پادری وائٹ بر یخٹ صاحب ایک عام جلسہ بٹالہ میں منعقد کر کے اس جلسہ میں حلفا اقرار کریں کہ اگر مضمون کسی بند لفافہ کا جو میری طرف سے پیش ہو.دس ہفتہ تک مجھ کو بتلایا جاوے تو میں بلا توقف دین مسیحی سے بیزار ہو کر مسلمان ہو جاؤں گا اور اگر ایسا نہ کروں تو ہزار روپیہ جو پہلے سے کسی ثالث منظور کردہ کے پاس جمع کرادوں گا بطور تاوان انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخل کیا جاوے گا.اس تحریری اقرار کے پیش ہونے کے اور نیز نورافشاں میں چھپنے کے بعد اگر دس ہفتہ تک ہم نے لفافہ بند کا مضمون بتلا دیا.تو ایفاء شرط کا پادری صاحب پر لازم ہوگا ورنہ ان کے روپیہ کی ضبطی ہو گی اور اگر ہم بتلا نہ سکے تو ہم دعویٰ الہام سے دستبردار ہو جائیں گے اور نیز جو سزا زیادہ سے زیادہ ہمارے لئے تجویز ہو وہ بخوشی خاطر اٹھا لیں گے.فقط المعلن خاکسار غلام احمد قادیانی ۹/ جون ۱۸۸۸ء تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۱۱۱۱۱۰ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۳۲ بار دوم )
۱۱۳۸ کیا کسی پادری میں یہ پاک روح یا یوں کہو کہ روح القدس پائی جاتی ہے.ہم تمام دنیا کے پادریوں کو بلاتے بلاتے تھک بھی گئے.کسی نے آواز تک نہیں دی.نور افشاں میں بعض پادریوں نے چھپوایا تھا کہ ہم ایک جلسہ میں ایک لفافہ بند پیش کریں گے.اس کا مضمون الہام کے ذریعہ سے ہمیں بتلایا جائے لیکن جب ہماری طرف سے مسلمان ہونے کی شرط سے یہ درخواست منظور ہوئی.تو پھر پادریوں نے اس طرف رخ بھی نہ کیا.پادری لوگ مدت سے الہام پر مہر لگائے بیٹھے تھے.اب جب مہر ٹوٹی اور فیض روح القدس مسلمانوں پر ثابت ہوا تو پادریوں کے اعتقاد کی قلعی کھل گئی.(جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۱۳۸) تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۱۱۴.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۳۵ بار دوم ) اب میں اس مجلس میں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کی خدمت میں اور دوسرے تمام حضرات عیسائی صاحبوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ ایک سیدھا اور آسان فیصلہ ہے جو میں زندہ اور کامل خدا سے کسی نشان کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ حضرت مسیح سے دعا کریں.آپ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قادر مطلق ہے.پھر اگر وہ قادر مطلق ہے تو ضرور آپ کامیاب ہو جاویں گے.اور میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں بالمقابل نشان بتانے میں قاصر رہا تو ہر ایک سزا اپنے پر اٹھا لوں گا اور اگر آپ نے مقابل پر کچھ دکھلایا تب بھی سزا اٹھالوں گا.توریت اور انجیل قرآن کا کیا مقابلہ کریں گی اگر صرف قرآن شریف کی پہلی سورت کے ساتھ ہی مقابلہ کرنا چاہیں یعنی سورۃ فاتحہ کے ساتھ جو فقط سات آیتیں ہیں اور جس ترتیب انسب اور ترکیب محکم اور نظام فطرتی سے اس سورۃ میں صد ہا حقائق اور معارف دینیہ اور روحانی حکمتیں درج ہیں.ان کو موسیٰ کی کتاب یا یسوع کے چند ورق انجیل سے نکالنا چاہیں تو گو ساری عمر کوشش کریں تب بھی یہ کوشش لا حاصل ہوگی...بھلا اگر وہ اپنی تو ریت یا انجیل کو معارف اور حقائق کے بیان کرنے اور خواص کلام الوہیت ظاہر کرنے میں کامل سمجھتے ہیں تو ہم بطور انعام پانسو روپیہ نقدان کو دینے کے لئے طیار ہیں اگر وہ اپنی کل مضخیم کتابوں میں سے جو ستر کے قریب ہوں گی.وہ حقائق اور معارف شریعت اور مرتب اور منتظم ڈرر حکمت و جواہر معرفت و خواص کلام الوہیت دکھلا سکیں جو سورہ فاتحہ میں سے ہم پیش کریں اور اگر یہ روپیہ تھوڑا ہو تو جس قدر ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم ان کی درخواست پر بڑھا دیں گے اور ہم صفائی فیصلہ کے لئے پہلے سورۃ فاتحہ کی ایک تفسیر طیار کر کے اور چھاپ کر پیش کریں گے اور اس میں وہ تمام حقائق و معارف و خواص کلام الوہیت به تفصیل بیان کریں گے جو سورہ فاتحہ میں مندرج ہیں اور
۱۱۳۹ پادری صاحبوں کا یہ فرض ہو گا کہ توریت اور انجیل اور اپنی تمام کتابوں میں سے سورہ فاتحہ کے مقابل پر حقائق اور معارف اور خواص کلام الوہیت جس سے مراد فوق العادت عجائبات ہیں جن کا بشری کلام میں پایا جانا ممکن نہیں پیش کر کے دکھلائیں اور اگر وہ ایسا مقابلہ کریں اور تین منصف غیر قوموں میں سے کہدیں کہ وہ لطائف اور معارف اور خواص کلام الوہیت جو سورہ فاتحہ میں ثابت ہوئے ہیں وہ ان کی پیش کردہ عبارتوں میں بھی ثابت ہیں تو ہم پانسو روپیہ جو پہلے سے ان کے لئے ان کی اطمینان کی جگہ پر جمع کرایا جائے گا دے دیں گے اب کیا کسی پادری کا حوصلہ ہے جو ایسا مقابلہ کرے؟ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۶۰، ۳۶۱) انجیل کے کلمات سے یسوع کی خدائی ہرگز ثابت نہیں ہوسکتی..اگر ایسے کلمات سے خدائی ثابت ہو سکتی ہے تو یہ میرے الہامات یسوع کے الہامات سے بہت زیادہ میری خدائی پر دلالت کرتے ہیں اور اگر خود پادری صاحبان سوچ نہیں سکتے تو کسی دوسری قوم کے تین منصف مقرر کر کے میرے الہامات اور انجیل میں سے یسوع کے وہ کلمات جن سے اس کی خدائی سمجھی جاتی ہے.ان منصفوں کے حوالہ کریں.پھر اگر منصف لوگ پادریوں کے حق میں ڈگری دیں اور حلفاً یہ بیان کر دیں کہ یسوع کے کلمات میں سے یسوع کی خدائی زیادہ تر صفائی سے ثابت ہوسکتی ہے.تو میں تاوان کے طور پر ہزار روپیہ ان کو دے سکتا ہوں اور میں منصفوں سے یہ چاہتا ہوں کہ اپنی شہادت سے پہلے یہ قسم کھا لیویں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ ہمارا یہ بیان صحیح ہے اور اگر صحیح نہیں ہے تو خدا تعالیٰ ایک سال تک ہم پر وہ عذاب نازل کرے جس سے ہماری تباہی اور ذلت اور بربادی ہو جائے اور میں خوب جانتا ہوں کہ پادری صاحبان ہرگز اس طریق فیصلہ کو قبول نہیں کریں گے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۰۶) میرا یہ بھی دعوی ہے کہ یسوع کی پیشگوئیوں کی نسبت میری پیشگوئیاں اور میرے نشان زیادہ ثابت ہیں.اگر کوئی پادری میری پیشگوئیوں اور میرے نشانوں کی نسبت یسوع کی پیشگوئیاں اور نشان ثبوت کے رو سے قوی تر دکھلا سکے تو میں اس کو ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا.میرزا غلام احمد تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۱۷.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۴ بار دوم ) یہ بھی مناسب دیکھتا ہوں کہ چونکہ عیسائیوں کا مذہبی عناد بہت بڑھ گیا ہے اس لئے نہایت ضروری
۱۱۴۰ ہے کہ روز کا جھگڑا طے کرنے کے لئے ساتھ ہی اسلام اور عیسائیت کا مباہلہ بھی میرے ساتھ کرلیں.اگر عیسائی لعنت کے لفظ سے متنفر ہیں تو اس لفظ کو جانے دیں بلکہ دونوں فریق یہ دعا کریں کہ یا اللہ العالمین اسلام تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ تثلیث کی تعلیم سراسر جھوٹی اور شیطانی طریق ہے اور مریم کا بیٹا ہرگز خدا نہیں تھا بلکہ ایک انسان تھا اور نبی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے بچے پیغمبر اور رسول اور خاتم الانبیاء تھے اور قرآن خدا کا پاک کلام ہے جو ہر ایک غلطی اور ضلالت سے پاک ہے اور عیسائی اس تعلیم کو پیش کرتے ہیں کہ مریم کا بیٹا یسوع در حقیقت خدا تھا.وہی تھا جس نے زمین و آسمان پیدا کیا.اسی کے خون سے دنیا کی نجات ہوگئی اور خدا تین اقنوم ہیں.باپ، بیٹا ، روح القدس اور یسوع تینوں کا مجموعہ کامل خدا ہے اب اے قادر ان دونوں گروہ میں اس طرح فیصلہ کر کہ جو ہم دوفریق میں سے جو اس وقت مباہلہ کے میدان میں حاضر ہیں.جو فریق جھوٹے اعتقاد کا پابند ہے اس کو ایک سال کے اندر بڑے عذاب سے ہلاک کر کیونکہ تمام دنیا کی نجات کے لئے چند آدمی کا مرنا بہتر ہے.غرض ہر ایک فریق ہم میں سے اور عیسائیوں میں سے دعا کرے اس طرح پر کہ اول ایک فریق یہ دعا کرے اور دوسرا فریق آمین کہے اور پھر دوسرا فریق دعا کرے اور پہلا فریق آمین کہے.اور پھر ایک سال تک خدا کے حکم کے منتظر رہیں اور میں اس وقت اقرار صالح شرعی کرتا ہوں کہ ان دونوں مباہلوں میں دو ہزار روپیہ ان عیسائیوں کے لئے جمع کرادوں گا جو میرے مقابل پر مباہلہ کے میدان میں آویں گے.یہ کام نہایت ضروری ہے.جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ زندہ اور قادر خدا ہمارے ساتھ ہے، عیسائی بھی کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہے.اب اس مباہلہ سے بڑا فائدہ ہوگا کہ پبلک کو معلوم ہو جائے گا کہ کس قوم کے ساتھ خدا ہے اور اگر عیسائی قبول نہ کریں تو لعنت کا ذخیرہ ان کے لئے آسمان پر جمع ہوگا اور لوگ سمجھ جا ئیں گے کہ وہ جھوٹے ہیں.ہمارے مخاطب ڈاکٹر کلارک، پادری عماد الدین، حسام الدین ایڈیٹر کشف الحقائق منشی صفدر علی بھنڈارہ ، پادری فتح مسیح اور ہر ایک ایسا شخص جو پادری اور معاند اسلام ہو درخواست کرے.یہ طریق فیصلہ بہتر ہے.تا دنیا روز کے جھگڑوں سے نجات پاوے.تا سیاہ روئے شود ہر کہ در دفش باشد.والسلام على من اتبع الهدى المشتهر مرزا غلام احمد از قادیان انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۳)
اللہ جلشانہ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہ جل شانہ نے اپنے الہام سے فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلا تفاوت ایسا ہی انسان تھا جس طرح اور انسان ہیں مگر خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور اس کا مُرسل اور برگزیدہ ہے اور مجھ کو یہ بھی فرمایا کہ جو مسیح کو دیا گیا وہ بمتابعت نبی علیہ السلام تجھ کو دیا گیا ہے اور تو مسیح موعود ہے اور تیرے ساتھ ایک نورانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کرے گا اور یکسر الصلیب کا مصداق ہو گا.پس جبکہ یہ بات ہے تو میری سچائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ میری طرف سے بعد مباہلہ ایک سال کے اندر ضرور نشان ظاہر ہو اور اگر نشان ظاہر نہ ہو تو پھر میں خدا تعالی کی طرف سے نہیں ہوں اور نہ صرف وہی سزا بلکہ موت کی سزا کے لائق ہوں.سو آج میں ان تمام باتوں کو قبول کر کے اشتہار دیتا ہوں.اب بعد شائع ہونے اس اشتہار کے مناسب اور واجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی اس قدر اشتہار دے دیں کہ اگر بعد مباہلہ مرزا غلام احمد کی تائید میں ایک سال کے اندر کوئی نشان ظاہر ہو جائے جس کے مقابل پر اسی سال کے اندر ہم نشان دکھانے سے عاجز آجائیں تو بلا توقف دین اسلام قبول کر لیں گے ورنہ اپنی تمام جائیداد کا نصف حصہ دین اسلام کی امداد کی غرض سے فریق غالب کو دیدیں گے اور آئندہ اسلام کے مقابل پر کبھی کھڑے نہیں ہوں گے.ڈاکٹر صاحب اس وقت سوچ لیویں کہ میں نے اپنی نسبت بہت زیادہ سخت شرائط رکھی ہیں اور اُن کی نسبت شرطیں نرم رکھی گئی ہیں یعنی اگر میرے مقابل پر وہ نشان دکھلا ئیں اور میں بھی دکھلاؤں تب بھی بموجب اس شرط کے وہی بچے قرار پائیں گے اور اگر نہ میں نشان دکھلا سکوں اور نہ وہ ایک سال تک نشان دکھلا سکیں تب بھی وہی بچے قرار پائیں گے اور میں صرف اس حالت میں سچا قرار پاؤں گا کہ میری طرف سے ایک سال کے اندر ایسا نشان ظاہر ہو جس کے مقابلہ سے ڈاکٹر صاحب عاجز رہیں اور اگر ڈاکٹر صاحب بعد اشاعت اس اشتہار کے ایسے مضمون کا اشتہار بالمقابل شائع نہ کریں تو پھر صریح ان کی گریز متصور ہوگی اور ہم پھر بھی ان کی منقولی و معقولی بحث کے لئے حاضر ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس بارے میں یعنی نشان نمائی کے امر میں اپنا اور اپنی قوم کا اسلام کے مقابل پر عاجز ہو نا شائع کر دیں یعنی یہ لکھ دیں کہ یہ اسلام ہی کی شان ہے کہ اس سے آسمانی نشان ظاہر ہوں اور عیسائی مذہب ان برکات سے خالی ہے.( حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۵۰،۴۹) واضح ہو کہ وہ پیشگوئی جو امرتسر کے عیسائیوں کے ساتھ مباحثہ ہوکر ٫۵ جون ۱۸۹۳ء میں کی گئی تھی جس کی آخری تاریخ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ تھی وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور حکم کے موافق ایسے طور سے اور ایسی
۱۱۴۲ صفائی سے میعاد کے اندر پوری ہوگئی کہ ایک منصف اور دانا کو بجز اس کے ماننے اور قبول کرنے کے کچھ بن نہیں پڑتا.اگر عیسائی صاحبان اب بھی جھگڑیں اور اپنی مکارانہ کارروائیوں کو کچھ چیز سمجھیں یا کوئی اور شخص اس میں شک کرے تو اس بات کے تصفیہ کے لئے کہ فتح کس کو ہوئی.آیا اہل اسلام کو جیسا کہ درحقیقت ہے یا عیسائیوں کو جیسا کہ وہ ظلم کے راہ سے خیال کرتے ہیں تو میں ان کی پردہ دری کے لئے مباہلہ کے لئے طیار ہوں.اگر وہ درونگوئی اور چالاکی سے باز نہ آئیں تو مباہلہ اس طور پر ہوگا کہ ایک تاریخ مقرر ہو کر ہم فریقین ایک میدان میں حاضر ہوں اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کھڑے ہو کر تین مرتبہ ان الفاظ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رعب ایک طرفہ العین کے لئے بھی میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کو نا حق پر سمجھتا رہا اور سمجھتا ہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسی کی ابنیت اور الوہیت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتا ہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروسٹنٹ کے عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلاف واقعہ کہا ہے اور حقیت کو چھپایا ہے تو اے خدائے قادر مجھ پر ایک برس میں عذاب موت نازل کر.اس دعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان کے دیں گے.تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۹۶ تا ۱۰۲.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۸۵ تا ۳۹۰ بار دوم ) ہم مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو یہ تکلیف نہیں دیتے ہیں کہ وہ امرتسر میں ہمارے مکان پر آویں بلکہ ہم ان کے بلانے کے بعد معہ ہزار روپیہ کے ان کے مکان پر آویں گے.اور ان کو کسی قدم رنجہ کی تکلیف نہ دیں گے.ہم ان کو اتنی بھی تکلیف نہیں دیں گے کہ اس اقرار کے لئے کھڑے ہو جائیں یا بیٹھ جائیں بلکہ وہ بخوشی اپنے بستر پر ہی لیٹے رہیں اور تین مرتبہ وہ اقرار کر دیں جو لکھ دیا گیا ہے.تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه ۱۲۴، ۱۲۵- مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۴۰۵، ۴۰۶ بار دوم ) اگر اب بھی بعض متعصب یا ناقص الفہم لوگ شک رکھتے ہیں تو اب ہم یہ دوسرا اشتہار دو ہزار روپیہ انعام کی شرط سے نکالتے ہیں.اگر آتھم صاحب جلسہ عام میں تین مرتبہ قسم کھا کر کہہ دیں کہ میں نے پیشگوئی کی مدت کے اندر عظمت اسلامی کو اپنے دل پر جگہ ہونے نہیں دی اور برابر دشمن اسلام رہا اور حضرت عیسی کی ابنیت اور الوہیت اور کفارہ پر مضبوط ایمان رکھا تو اسی وقت نقد دو ہزار روپیران کو
۱۱۴۳ به شرائط قرار داده اشتها ر 9 ستمبر ۱۸۹۴ ء بلا توقف دیا جائے گا.اگر اب بھی آتھم صاحب باوجود اس قدر انعام کثیر کے قسم کھانے سے منہ پھیر لیں تو تمام دشمن و دوست یاد رکھیں کہ انہوں نے محض عیسائیوں سے خوف کھا کر حق کو چھپایا ہے اور اسلام غالب اور فتحیاب ہے.ہمارے مخالف یا درکھیں کہ اب بھی آتھم صاحب ہرگز فتم نہیں کھائیں گے.کیوں نہیں کھائیں گے اپنے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اور یہ کہنا کہ شاید ان کو یہ دھڑ کا ہو کہ ایک برس میں مرنا ممکن ہے.پس ہم کہتے ہیں کہ کون مارے گا ؟ کیا اُن کا خداوند مسیح یا کوئی اور؟ پس جبکہ یہ دو خداؤں کی لڑائی ہے ایک سچا خدا جو ہمارا خدا ہے اور ایک مصنوعی خدا جو عیسائیوں نے بنا لیا ہے تو پھر اگر آتھم صاحب حضرت مسیح کی خدائی اور اقتدار پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ آزما بھی چکے ہیں تو پھر اُن کی خدمت میں عرض کر دیں کہ اب اس قطعی فیصلہ کے وقت میں مجھ کو ضرور زندہ رکھیو.یوں تو موت کی گرفت سے کوئی بھی باہر نہیں.اگر آتھم صاحب چونسٹھ برس کے ہیں تو عاجز قریباً ساٹھ برس کا ہے.اور ہم دونوں پر قانون قدرت یکساں مؤثر ہے لیکن اگر اسی طرح قسم کسی راستی کی آزمائش کے لئے ہم کو دی جائے تو ہم ایک برس کیا دس برس تک اپنے زندہ رہنے کی قسم کھا سکتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ دینی بحث کے وقت میں ضرور خدا تعالیٰ ہماری مدد کرے گا.حضرت یہ تو دو خداؤں کی لڑائی ہے.اب وہی غالب ہوگا جو سچا خدا ہے.جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے خدا کی ضرور یہ قدرت ظاہر ہوگی کہ اس قسم والے برس میں ہم نہیں مریں گے لیکن اگر آتھم صاحب نے جھوٹی قسم کھالی تو ضرور فوت ہو جائیں گے تو جائے انصاف ہے کہ آتھم صاحب کے خدا پر کیا حادثہ نازل ہوگا کہ وہ ان کو بچانہیں سکے گا اور منجی ہونے سے استعفیٰ دیدے گا.غرض اب گریز کی کوئی وجہ نہیں.یا تو مسیح کو قادر خدا کہنا چھوڑیں اور یا قسم کھا لیں.ہاں اگر عام مجلس میں یہ اقرار کر دیں کہ ان کے مسیح ابن اللہ کو برس تک زندہ رکھنے کی تو قدرت نہیں مگر برس کے تیسرے حصہ یا تین دن تک البتہ قدرت ہے اور اس مدت تک اپنے پرستار کو زندہ رکھ سکتا ہے تو ہم اس اقرار کے بعد چار مہینہ یا تین ہی دن تسلیم کر لیں گے.تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ ۱۳۰ تا ۱۳۶ مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۴۱۰ تا ۴۱۴ بار دوم ) از طرف عبدالله الاحد احمد عافاه الله و اید.آتھم صاحب کو معلوم ہو کہ میں نے آپ کا وہ خط پڑھا جو آپ نے نور افشاں ۲۱ ستمبر ۱۸۹۴ء کے صفحہ ۱۰ میں چھپوایا ہے مگر افسوس کہ آپ اس خط میں دونوں
۱۱۴۴ ہاتھ سے کوشش کر رہے ہیں کہ حق ظاہر نہ ہو.میں نے خدا تعالیٰ سے سچا اور پاک الہام پا کر یقینی اور قطعی طور پر جیسا کہ آفتاب نظر آتا ہے معلوم کر لیا ہے کہ آپ نے میعاد پیشگوئی کے اندر اسلامی عظمت اور صداقت کا سخت اثر اپنے دل پر ڈالا اور اسی بناء پر پیشگوئی کے وقوع کا ہم و غم کمال درجہ پر آپ کے دل پر غالب ہوا.میں اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بالکل صحیح ہے اور خدا تعالیٰ کے مکالمہ سے مجھ کو یہ اطلاع ملی ہے اور اس پاک ذات نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ جو انسان کے دل کے تصورات کو جانتا اور اسکے پوشیدہ خیالات کو دیکھتا ہے اور اگر میں اس بیان میں حق پر نہیں تو خدا مجھ کو آپ سے پہلے موت دے.پس اسی وجہ سے میں نے چاہا کہ آپ مجلس عام میں قسم غلیظ مؤکد بعذ اب موت کھاویں ایسے طریق سے جو میں بیان کر چکا ہوں تا میرا اور آپ کا فیصلہ ہو جائے اور دنیا تاریکی میں نہ رہے اور اگر آپ چاہیں گے تو میں بھی ایک برس یا دو برس یا تین برس کیلئے قسم کھالوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ سچا ہرگز برباد نہیں ہوسکتا بلکہ وہی ہلاک ہو گا جس کو جھوٹ نے پہلے سے ہلاک کر دیا ہے.اگر صدق الہام اور صدق اسلام پر مجھے قسم دی جائے تو میں آپ سے ایک پیسہ نہیں لیتا لیکن آپ کی قسم کھانے کے وقت تین ہزار کے بدرے پہلے پیش کئے جائیں گے.تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ ۱۵۸.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۴۳۰ ، ۴۳۱ بار دوم ) یہ بوجھ آتھم صاحب کی گردن پر ہے کہ اپنے اقرار کو بے ثبوت نہ چھوڑیں بلکہ قسم کے طریق سے جو سہل طریق ہے اور جو ہمارے نزدیک قطعی اور یقینی ہے ہمیں مطمئن کر دیں کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرے بلکہ وہ فی الحقیقت ہمیں ایک خونی انسان یقین کرتے اور ہماری تلواروں کی چمک دیکھتے تھے اور ہم انہیں کچھ بھی تکلیف نہیں دیتے بلکہ اس قسم پر چار ہزار روپیہ بشرائط اشتہار ۹ ستمبر ۱۸۹۴ء و ۲۰ ستمبر ۱۸۹۴ ء ان کی نذر کریں گے اور ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کا یہ عذر کہ مسیحیوں کو قسم کھانے کی ممانعت ہے.سخت ہٹ دھرمی اور بے ایمانی ہے کیا پطرس اور پولس اور بہت سے عیسائی راستباز جو اوّل زمانہ میں گذر چکے مسیحی نہیں تھے یا وہ بے ایمان تھے.اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر تم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا.جس نے حق کا اخفاء کر کے دنیا کو دھوکہ دینا چاہا.تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ ۱۷۵ تا ۱۷۷.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۴۴۲ تا ۴۴۵ بار دوم )
۱۱۴۵.جانا چاہیئے کہ اللہ جل شانہ نے نجات کے بارہ میں قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے.وَقَالُوا لَنُ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا اَوْ نَطَرى تِلْكَ اَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ.بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةً أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ے اور کہا انہوں نے کہ ہرگز بہشت میں داخل نہیں ہو گا یعنی نجات نہیں پائے گا مگر وہی شخص جو یہودی ہوگا یا نصرانی ہو گا.یہ ان کی بے حقیقت آرزوئیں ہیں.کہو لاؤ برہان اپنی اگر تم سچے ہو یعنی تم دکھلاؤ کہ تمہیں کیا نجات حاصل ہوگئی ہے بلکہ نجات اس کو ملتی ہے جس نے اپنا سارا وجود اللہ کی راہ میں سونپ دیا یعنی اپنی زندگی کو خدا تعالے کی راہ میں وقف کر دیا اور اس کی راہ میں لگا دیا اور وہ بعد وقف کرنے اپنی زندگی کے نیک کاموں میں مشغول ہو گیا اور ہر ایک قسم کے اعمال حسنہ بجالانے لگا.پس وہی شخص ہے جس کو اس کا اجر اس کے رب کے پاس سے ملے گا اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ ڈر ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے.یعنی وہ پورے اور کامل طور پر نجات پا جائیں گے.اس مقام میں اللہ جل شانہ نے عیسائیوں اور یہودیوں کی نسبت فرما دیا کہ جو وہ اپنی اپنی نجات یابی کا دعویٰ کرتے ہیں.وہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں اور ان آرزوؤں کی حقیقت جو زندگی کی روح ہے ان میں ہرگز پائی نہیں جاتی بلکہ اصلی اور حقیقی نجات وہ ہے جو اسی دنیا میں اس کی حقیقت نجات یا بندہ کو محسوس ہو جائے اور وہ اس طرح پر ہے کہ نجات یا بندہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تو فیق عطا ہو جائے کہ وہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دے اس طرح پر کہ اس کا مرنا اور جینا اور اس کے تمام اعمال خدا تعالے کے لئے ہو جائیں اور اپنے نفس سے وہ بالکل کھو یا جائے اور اس کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی ہو جائے اور پھر نہ صرف دل کے عزم تک یہ بات محدود ر ہے بلکہ اس کی تمام جوارح اور اس کے تمام قومی اور اس کی عقل اور اس کا فکر اور اس کی تمام طاقتیں اسی راہ میں لگ جائیں تب اس کو کہا جائے گا کہ وہ حسن ہے یعنی خدمت گاری کا اور فرماں برداری کا حق بجالایا.جہانتک اس کی بشریت سے ہوسکتا تھا سو ایسا شخص نجات یاب ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں اللہ فرماتا ہے.قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَ نُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (س ۸ سوره انعام رکوع ۷ ) کہ نماز میری اور عبادتیں میری اور زندگی میری اور موت میری تمام اس اللہ کے واسطے ہیں جو رب ہے عالموں کا جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی درجہ کے حاصل البقرة: ١١٣،١١٢ الانعام: ۱۶۳ ۱۶۴
۱۱۴۶ کرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اول مسلمانوں کا ہوں.پھر بعد اس کے اللہ جلشانہ اس نجات کی علامات اپنی کتاب کریم میں لکھتا ہے کیونکہ گو جو کچھ فرمایا گیا وہ بھی ایک حقیقی ناجی کے لئے مابہ الامتیاز ہے.لیکن چونکہ دنیا کی آنکھیں اس باطنی نجات اور وصول الی اللہ کو دیکھ نہیں سکتیں اور دنیا پر واصل اور غیر واصل کا امر مشتبہ ہو جاتا ہے اس لئے اس کی نشانیاں بھی بتلا دیں کیونکہ یوں تو دنیا میں کوئی بھی فرقہ نہیں کہ اپنے تئیں غیر ناجی اور جہنمی قرار دیتا ہے کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں بلکہ ہر ایک قوم کا آدمی جس کو پوچھو اپنی قوم کو اور اپنے مذہب کے لوگوں کو اوّل درجہ کا نجات یافتہ قرار دے گا.اس صورت میں فیصلہ کیونکر ہو تو اس فیصلہ کے لئے خدا تعالیٰ نے حقیقی اور کامل ایمانداروں اور حقیقی اور کامل نجات یافتہ لوگوں کے لئے علامتیں مقرر کر دی ہیں اور نشانیاں قرار دے دی ہیں تا دنیا شبہات میں مبتلا نہ رہے.چنانچہ منجملہ ان نشانیوں کے بعض نشانیوں کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.اَلَا اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ.لَهُمُ البُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ الله ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ا س ۱۱ ۱۲ سورہ یونس.یعنی خبر دار ہو تحقیق وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دوست ہیں ان پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے وہ وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے یعنی اللہ ، رسول کے تابع ہو گئے اور پھر پرہیز گاری اختیار کی.ان کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا کی زندگی اور نیز آخرت میں بشریٰ ہے.یعنی خدا تعالیٰ خواب اور الہام کے ذریعہ سے اور نیز مکاشفات سے ان کو بشارتیں دیتا رہے گا.خدا تعالیٰ کے وعدوں میں تخلف نہیں اور یہ بڑی کامیابی ہے جو ان کے لئے مقرر ہو گئی.یعنی اس کامیابی کے ذریعہ سے ان میں اور غیروں میں فرق ہو جائے گا اور جو بچے نجات یافتہ نہیں ان کے مقابل میں دم نہیں مار سکیں گے.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ.نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُوْنَ.نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (س ۲۴ رکوع ۱۸) یعنی جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت اختیار کی.ان کی یہ نشانی ہے کہ ان پر فرشتے اترتے ہیں.یہ کہتے ہوئے کہ تم مت ڈرو اور کچھ غم نہ کرو اور خوشخبری سنو اس بہشت ا یونس : ۶۳ تا ۶۵ حم السجدة: ۳۱ تا ۳۳
۱۱۴۷ کی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا.ہم تمہارے دوست اور متولی اس دنیا کی زندگی میں ہیں اور نیز آخرت سے.میں اور تمہارے لئے اس بہشت میں وہ سب کچھ دیا گیا جوتم مانگو.یہ مہمانی ہے غفور رحیم سے اب دیکھئے اس آیت میں مکالمہ الہیہ اور قبولیت اور خدا تعالیٰ کا متولی اور متکفل ہونا اور اسی دنیا میں بہشتی زندگی کی بناء ڈالنا اور ان کا حامی اور ناصر ہونا بطور نشان کے بیان فرمایا گیا.اور پھر اس آیت میں جس کا کل ہم ذکر کر چکے ہیں یعنی یہ کہ تُوتِی اُكُلَهَا كُلَّ حِين اس نشانی کی طرف اشارہ ہے کہ کچی نجات کا پانے والا ہمیشہ اچھے پھل لاتا ہے اور آسمانی برکات کے پھل اس کو ہمیشہ ملتے رہتے ہیں اور پھر ایک اور مقام میں فرماتا ہے وَاِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ " ( س۲ ر۷ ) اور جب میرے بندے میرے بارہ میں سوال کریں تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں.یعنی جب وہ لوگ جو اللہ ، رسول پر ایمان لائے ہیں یہ پتہ پوچھنا چاہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا عنایات رکھتا ہے جو ہم سے مخصوص ہوں اور غیروں میں نہ پائی جاویں.تو انکو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی تم میں اور تمہارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ تم میرے مخصوص اور قریب ہو اور دوسرے مہجور اور دور ہیں.جب کوئی دعا کرنے والوں میں سے جو تم میں سے دعا کرے، دعا کرتے ہیں تو میں اس کا جواب دیتا ہوں یعنی میں اس کا ہمکلام ہو جاتا ہوں اور اس سے باتیں کرتا ہوں اور اس کی دعا کو پایہ قبولیت میں جگہ دیتا ہوں.پس چاہیے کہ قبول کریں حکم میرے کو اور ایمان لاویں تا کہ بھلائی پاویں.ایسا ہی اور کئی مقامات میں اللہ جل شانہ نجات یافتہ لوگوں کے نشان بیان فرماتا ہے اگر وہ تمام لکھے جاویں تو طول ہو جائے گا جیسا کہ اُن میں سے ایک یہ بھی آیت ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمُ فُرْقَانًا (س ٩ سورۃ انفال ) کہ اے ایمان والو اگر تم خدا تعالیٰ سے ڈرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں مابہ الامتیاز رکھ دے گا.اب میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب سے بادب دریافت کرتا ہوں کہ اگر عیسائی مذہب میں طریق نجات کا کوئی لکھا ہے اور وہ طریق آپ کی نظر میں صحیح اور درست ہے اور اس طریق پر چلنے والے نجات پا جاتے ہیں تو ضرور اس نجات یابی کی علامات بھی اس کتاب میں لکھی ہوں گی اور بچے ایماندار جو نجات پا کر اس دنیا کی ظلمت سے مخلصی پا جاتے ہیں.ان کی نشانیاں ضرور انجیل میں کچھ لکھی ہوں گی.آپ براہ ابراهیم: ۲۶ البقرة: ۱۸۷ الانفال: ٣٠
۱۱۴۸ مہربانی مجھ کو مختصر جواب دیں کہ کیا وہ نشانیاں آپ صاحبوں کے گروہ میں یا بعض ایسے صاحبوں میں جو بڑے بڑے مقدس اور اس گروہ کے سردار اور پیشوا اور اول درجہ پر ہیں پائی جاتی ہیں.اگر پائی جاتی ہیں تو ان کا ثبوت عنایت ہو اور اگر نہیں پائی جاتیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس چیز کی صحت اور درستی کی نشانی نہ پائی جائے تو کیا وہ چیز اپنے اصل پر محفوظ اور قائم کبھی جائے گی.مثلاً اگر تر بد یا ستمو نیا یاساء میں خاصہ اسہال کا نہ پایا جائے کہ وہ دست آور ثابت نہ ہو تو کیا اس تربد کو تر بد موصوف یا سقمونیا خالص کہہ سکتے ہیں اور ماسوا اس کے جو آپ صاحبوں نے طریق نجات شمار کیا ہے جس وقت ہم اس طریق کو اس دوسرے طریق کے ساتھ جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے مقابل کر کے دیکھتے ہیں تو صاف طور پر آپ کے طریق کا تصنع اور غیر طبعی ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ بات بپایہ ثبوت پہنچتی ہے کہ آپ کے طریق میں کوئی صحیح راہ نجات کا قائم نہیں کیا گیا.مثلاً دیکھئے کہ اللہ جلشانہ قرآن کریم میں جو طریق پیش کرتا ہے وہ تو یہ ہے کہ انسان جب اپنے تمام وجود کو اور اپنی تمام زندگی کو خدا تعالیٰ کے راہ میں وقف کر دیتا ہے تو اس صورت میں ایک سچی اور پاک قربانی اپنے نفس کے قربان کرنے سے وہ ادا کر چکتا ہے اور اس لائق ہو جاتا ہے کہ موت کے عوض میں حیات پاوے.اب مختصر بیان یہ ہے کہ آپ کے نزدیک یہ طریق نجات کا جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے صحیح نہیں ہے تو اول آپ کو چاہیے کہ اس طریق کے مقابل پر جو حضرت مسیح کی زبان سے ثابت ہوتا ہے اس کو ایسا ہی مدلل اور معقول طور پر ان کی تقریر کے حوالہ سے پیش کریں پھر بعد اس کے انہیں کے قول مبارک سے اس کی نشانیاں بھی پیش کریں تا کہ تمام حاضرین جو اس وقت موجود ہیں ،ابھی فیصلہ کر لیں.ڈپٹی صاحب! کوئی حقیقت بغیر نشانوں کے ثابت نہیں ہو سکتی.دنیا میں بھی ایک معیار حقائق شناسی کا ہے کہ اُن کو ان کی نشانیوں سے پرکھا جائے.سو ہم نے تو وہ نشانیاں پیش کر دیں اور ان کا دعوی بھی اپنی نسبت پیش کر دیا.اب یہ قرضہ ہمارا آپ کے ذمہ ہے.اگر آپ پیش نہیں کریں گے اور ثابت کر کے نہیں دکھلائیں گے کہ یہ طریق نجات جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کس وجہ سے سچا اور صحیح اور کامل ہے تو اس وقت تک آپ کا یہ دعویٰ ہرگز صحیح نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ صحیح اور سچا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے صرف بیان ہی نہیں کیا بلکہ کر کے بھی دکھا دیا اور اس کا ثبوت میں پیش کر چکا ہوں.آپ براہ مہربانی اب اس نجات کے قصہ کو بے دلیل اور بے وجہ صرف دعویٰ کے طور پر پیش نہ کریں.کوئی صاحب آپ میں سے کھڑے ہو کر اس وقت بولیں کہ میں بموجب فرمودہ
۱۱۴۹ حضرت مسیح کے نجات پا گیا ہوں اور وہ نشانیاں نجات کی اور کامل ایمانداری کی جو حضرت مسیح نے مقرر کی تھیں وہ مجھ میں موجود ہیں.پس ہمیں کیا انکار ہے.ہم تو نجات ہی چاہتے ہیں.لیکن زبان کی لستانی کو کوئی قبول نہیں کر سکتا.میں آپ کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں کہ قرآن کا نجات دینا میں نے بچشم خود دیکھ لیا ہے.اور میں پھر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں بالمقابل اس بات کو دکھلانے کو حاضر ہوں.لیکن اول آپ دو حرفی مجھے جواب دیں کہ آپ کے مذہب میں کچی نجات معہ اس کی علامات کے پائی جاتی ہے یا نہیں.اگر پائی جاتی ہے تو دکھلاؤ.پھر اس کا مقابلہ کرو.اگر نہیں پائی جاتی تو آپ صرف اتنا کہہ دو کہ ہمارے مذہب میں نجات نہیں پائی جاتی.پھر میں یکطرفہ ثبوت دینے کے لئے مستعد ہوں.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۴۳ تا ۱۴۹) آتھم صاحب ہرگز قسم نہیں کھا ئیں گے.اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے اُن کو ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لئے ہرگز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی.میری سچائی کے لئے یہ نمایاں دلیل کافی ہے کہ آتھم صاحب میرے مقابل پر میرے مواجہ میں ہر گز قسم نہیں اٹھا ئیں گے.اگر چہ عیسائی لوگ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اگر وہ قسم کھا لیں تو یہ پیشگوئی بلاشبہ دوسرے پہلو پر پوری ہو جائے گی.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.تبلیغ رسالت جلد چہارم صفحہ ۷۰.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۵۳۹ بار دوم ) ۲ رمئی ۱۹۰۶ ء کی ڈاک میں مجھے دہلی کے اندھے عیسائی احمد مسیح کا وہ اشتہار ملا تھا جس میں عیسائی مذکور نے اسلام اور عیسائیت کے درمیان آخری فیصلہ کرنے کے واسطے مجھے مباہلہ کے واسطے طلب کیا.اس کے جواب میں پانچ مئی کے اشتہار میں میں نے اس دعوت کو قبول کیا بدیں شرط کہ لاہور ، کلکتہ ، مدراس اور بمبئی چار مقامات کے بشپ صاحبان اس مباہلہ میں شامل ہوں اور اس شمولیت کے واسطے ان کے لئے تکلیف سفر برداشت کرنے اور کسی ایک جگہ جمع ہونے کی بھی شرط قرار نہیں دی.کیونکہ میرے نزدیک مباہلہ تحریری بھی ہو سکتا ہے.آج مجھے خیال آیا ہے کہ اس مباہلہ میں عیسائی صاحبان کو اور بھی سہولت دی جاوے تا کہ ان کا کوئی جھوٹا عذر بھی باقی نہ رہے.اس واسطے میں اعلان کرتا ہوں کہ میں مباہلہ کے واسطے خود احمد مسیح نابینا کے بالمقابل ہی طیار ہوں.بشپ صاحبان اگر پسند نہیں کرتے تو وہ بالمقابل اپنا نام پیش نہ کریں بلکہ اپنی تحریری سند دے کر بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے اخبار پایونیر یا سول میں صرف یہ شائع کر دیں کہ احمد مسیح کا مغلوب ہونا ہر چہار بشپ صاحبان کا مغلوب
۱۱۵۰ ہونا سمجھا جاوے گا.یہ بات بھی ہم اس واسطے کہتے ہیں کہ احمد مسیح ایک گمنام آدمی ہے اور جب تک بشپ صاحبان اس کو اپنا قائم مقام نہ بناویں قوم پر کچھ اثر نہیں ہو سکتا.لیکن اب معاملہ بہت صاف کر دیا گیا ہے.امید ہے کہ بشپ صاحبان پورے غور وفکر کے بعد اس مباہلہ کو منظور کر لیں گے.مکررا یہ کہ اگر ہر چہار بشپ منظور نہ کریں تو صرف لاہور کے بشپ صاحب کی ہی تحریر کافی سمجھی جائے گی.والسّلام على من اتبع الهدى خاکسار میرزا غلام احمد مسیح موعود قادیان - ارمئی ۱۹۰۶ء تبلیغ رسالت جلد دہم صفحه ۱۱۲ ۱۱۳.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۷۱ بار دوم ) میرے بچے ہونے کی یہی نشانی ہے جو مجھ سے وہ نشان ظاہر ہوتے ہیں جو انسانی طاقتوں سے برتر ہیں.اگر حضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند و انگلستان توجہ کریں تو میرا خدا قادر ہے کہ ان کی تسلی کے لئے بھی کوئی نشان دکھاوے جو بشارت اور خوشی کا نشان ہو بشرطیکہ نشان دیکھنے کے بعد میرے پیغام کو قبول کر لیں اور میری سفارت جو یسوع مسیح کی طرف سے ہے اس کے موافق ملک میں عملدرآمد کرایا جائے.مگر نشان خدا کے ارادہ کے موافق ہوگا نہ انسان کے ارادہ کے موافق.ہاں فوق العادت ہوگا اور عظمت الہی اپنے تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۶) اگر حضور ملکہ معظمہ میرے تصدیق دعوئی کے لئے مجھ سے نشان دیکھنا چاہیں تو میں یقین رکھتا ہوں اندر رکھتا ہوگا.کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہو کہ وہ نشان ظاہر ہو جائے اور نہ صرف یہی بلکہ دعا کر سکتا ہوں کہ یہ تمام زمانہ عافیت اور صحت سے بسر ہو.لیکن اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا میں راضی ہوں کہ حضور ملکہ معظمہ کے پائیہ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں.یہ سب الحاح اس لئے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کو اس آسمان کے خدا کی طرف خیال آجائے جس سے اس زمانہ میں عیسائی مذہب بے خبر ہے.تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۶ حاشیہ) اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا بر ہمو یا کوئی اور ہے اس کے لئے یہ خوب موقعہ ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے.اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تو میں اللہ جلشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ
۱۱۵۱ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہوگی اس کے حوالے کر دوں گا یا جس طور سے اس کی تسلی ہو سکے اسی طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلی دوں گا.میرا خدا واحد شاہد ہے کہ میں ہرگز فرق نہیں کروں گا اور اگر سزائے موت بھی ہو تو بدل و جان روا رکھتا ہوں.میں دل سے یہ کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچ کہتا ہوں اور اگر کسی کو شک ہو اور میری اس تجویز پر اعتبار نہ ہو تو وہ آپ ہی کوئی احسن تجویز تاوان کی پیش کرے میں اس کو قبول کرلوں گا.میں ہرگز عذر نہیں کروں گا.اگر میں جھوٹا ہوں تو بہتر ہے کہ کسی سخت سزا سے ہلاک ہو جاؤں اور اگر میں سچا ہوں تو چاہتا ہوں کہ کوئی ہلاک شدہ میرے ہاتھ سے بچ جائے.اے حضرات پادری صاحبان جو اپنی قوم میں معزز اور ممتاز ہو ، آپ لوگوں کو اللہ جل شانہ کی قسم ہے جو اس طرف متوجہ ہو جاؤ.اگر آپ لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ اس صادق انسان کی محبت ہے جس کا نام عیسی مسیح ہے تو میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ ضرور میرے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جاؤ.آپ کو اس خدا کی قسم ہے جس نے مسیح کو مریم صدیقہ کے پیٹ سے پیدا کیا.جس نے انجیل نازل کی جس نے مسیح کو وفات دے کر پھر مُردوں میں نہیں رکھا بلکہ اپنی زندہ جماعت ابراہیم اور موسیٰ اور سکی اور دوسرے نبیوں کے ساتھ شامل کیا اور زندہ کر کے انہی کے پاس آسمان پر بلا لیا.جو پہلے اس سے زندہ کئے گئے تھے کہ آپ لوگ میرے مقابلہ کے لئے ضرور کھڑے ہو جائیں.اگر حق تمہارے ہی ساتھ ہے اور بیچ بیچ مسیح خدا ہی ہے تو پھر تمہاری فتح ہے اور اگر وہ خدا نہیں ہے اور ایک عاجز اور نا تو ان انسان ہے.اور حق اسلام میں ہے تو خدا تعالے میری سنے گا اور میرے ہاتھ پر وہ امرظاہر کر دے گا جس پر آپ لوگ قادر نہیں ہو سکیں گے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷۶ - ۲۷۷) ایک وہ زمانہ تھا کہ پادری لوگ محض اپنے تعصب سے یہ بکواس کرتے تھے کہ قرآن شریف میں کوئی پیشگوئی نہیں اور علماء اسلام جواب تو دیتے تھے مگر سچ بات تو یہ ہے کہ پیشگوئیوں اور خوارق کے منکر کا جواب دینا اس شخص کا کام ہے جو پیشگوئی دکھلا بھی سکے.ورنہ محض باتوں سے یہ تنازعہ فیصلہ پاتا نہیں.پس جبکہ پادریوں کی تکذیب انتہا تک پہنچ گئی تو خدا نے حجت محمد یہ پوری کرنے کے لئے مجھے بھیجا.اب کہاں ہیں پادری تا میرے مقابل پر آدیں.میں بے وقت نہیں آیا.میں اس وقت آیا کہ جب اسلام عیسائیوں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا.اے آنکھوں کے اندھو! تمہیں سچائی کا مخالف بننا کس نے سکھلایا ؟ دین تباہ ہو گیا اور بیرونی حملوں اور اندرونی بدعات نے تمام اعضاء دین کے زخمی کر دیئے اور صدی میں سے بھی تئیس برس گذر گئے اور کئی لاکھ مسلمان مرتد ہو کر خدا اور رسول کے دشمن ہو گئے مگر تم کہتے ہو کہ اس وقت کوئی خدا کی
۱۱۵۲ طرف سے تو نہیں مگر دجال آیا.بھلا اب کوئی پادری تو میرے سامنے لاؤ جو یہ کہتا ہو کہ آنحضرت ﷺ نے کوئی پیشگوئی نہیں کی.یاد رکھو کہ وہ زمانہ مجھ سے پہلے ہی گذر گیا.اب وہ زمانہ آگیا جس میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربی جس کو گالیاں دی گئی تھیں.جس کے نام کی بے عزتی کی گئی جس کی تکذیب میں بدقسمت پادریوں نے کئی لاکھ کتابیں اس زمانہ میں لکھ کر شائع کر دیں.وہی سچا اور بچوں کا سردار ہے.اس کے قبول میں حد سے زیادہ انکار کیا گیا.مگر آخر اسی رسول کو تاج عزت پہنایا گیا.اس کے غلاموں اور خادموں میں سے ایک میں ہوں جس سے خدا مکالمہ ومخاطبہ کرتا ہے اور جس پر خدا کے غیوں اور نشانوں کا دروازہ کھولا گیا ہے.اے نادانو ! تم کفر کہو یا کچھ کہو، تمہاری تکفیر کی اس شخص کو کیا پر وا ہے جو خدا کے حکم کے موافق دین کی خدمت میں مشغول ہے اور اپنے پر خدا کی عنایات کو بارش کی طرح دیکھتا ہے.وہ خدا جو مریم کے بیٹے کے دل پر اُتر ا تھا وہی میرے دل پر بھی اُترا ہے مگر اپنی تجلی میں اس سے زیادہ.وہ بھی بشر تھا اور میں بھی بشر ہوں اور جس طرح دھوپ دیوار پر پڑتی ہے اور دیوار نہیں کہہ سکتی کہ میں سورج ہوں اس لئے ہم دونوں ان تجلیات سے اپنے نفس کی کوئی ذاتی عزت نہیں نکال سکتے کیونکہ وہ حقیقی آفتاب کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے الگ ہوکر پھر دیکھ کہ تجھ میں کونسی عزت ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۸۵ تا ۲۸۷) مجھے خدا نے اپنی طرف سے قوت دی ہے کہ میرے مقابل پر مباحثہ کے وقت کوئی پادری ٹھہر نہیں سکتا اور میرا رعب عیسائی علماء پر خدا نے ایسا ڈال دیا ہے کہ ان کو طاقت نہیں رہی کہ میرے مقابلہ پر آ سکیں.چونکہ خدا نے مجھے روح القدس سے تائید بخشی ہے اور اپنا فرشتہ میرے ساتھ کیا ہے اس لئے کوئی پادری میرے مقابل پر آ ہی نہیں سکتا یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا، کوئی پیشگوئی ظہور میں نہیں آئی.اور اب بلائے جاتے ہیں پر نہیں آتے.اس کا یہی سبب ہے کہ ان کے دلوں میں خدا نے ڈال دیا ہے کہ اس شخص کے مقابل پر ہمیں بجز شکست کے اور کچھ نہیں.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۱۵۰،۱۴۹) اور مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے کہ اگر کوئی سخت دل عیسائی یا ہندو یا آریہ میرے ان گذشتہ نشانوں سے جو روز روشن کی طرح نمایاں ہیں انکار بھی کر دے اور مسلمان ہونے کے لئے کوئی نشان چاہے اور اس بارے میں بغیر کسی بیہودہ حجت بازی کے جس میں بدنیتی کو بو پائی جائے ،سادہ طور پر یہ اقرار بذریعہ کسی اخبار کے شائع کر دے کہ وہ کسی نشان کے دیکھنے سے گوگوئی نشان ہو لیکن انسانی
۱۱۵۳ طاقتوں سے باہر ہو اسلام کو قبول کرے گا تو میں امید رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہوگا کہ وہ نشان کو دیکھ لے گا کیونکہ میں اس زندگی میں سے نور لیتا ہوں جو میرے نبی متبوع کو ملی ہے.کوئی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے.اب اگر عیسائیوں میں کوئی طالب حق ہے یا ہندوؤں اور آریوں میں سے سچائی کا متلاشی ہے تو میدان میں نکلے اور اگر اپنے مذاہب کو سچا سمجھتا ہے تو بالمقابل نشان دکھلانے کے لئے کھڑا ہو جائے لیکن میں پیشگوئی کرتا ہوں کہ ہرگز ایسا نہ ہوگا بلکہ بدنیتی سے پیچ در پیچ شرطیں لگا کر بات کو ٹال دیں گے کیونکہ ان کا مذہب مردہ ہے اور کوئی اُن کے لئے زندہ فیض رساں موجود نہیں جس سے وہ روحانی فیض پاسکیں اور نشانوں کے ساتھ چمکتی ہوئی زندگی حاصل کر سکیں.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴۱،۱۴۰) اول دنوں میں میرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمانوں سے کیونکر مباہلہ کیا جائے کیونکہ مباہلہ کہتے ہیں ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا اور مسلمان پرعہ بھیجا جائز نہیں مگر اب چونکہ وہ لوگ بڑے اصرار سے مجھ کو کا فرٹھہراتے ہیں اور حکم شرع یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر ٹھہرادے اگر وہ شخص درحقیت کافر نہ ہو تو وہ کفر الٹ کر اسی پر پڑتا ہے جو کافر ٹھہراتا ہے.اسی بناء پر مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ جولوگ تجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور ابناء اور نساء رکھتے ہیں اور فتویٰ کفر کے پیشوا ہیں ، ان سے مباہلہ کی درخواست کر.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۳۲) پہلے صرف اس وجہ سے میں نے مباہلہ سے اعراض کیا تھا کہ میں جانتا تھا کہ مسلمانوں سے ملاعنہ جائز نہیں.مگر اب مجھ کو بتلایا گیا کہ جو مسلمان کو کافر کہتا ہے اور اس کو اہل قبلہ اور کلمہ گو اور عقائد اسلام کا معتقد پا کر پھر بھی کافر کہنے سے باز نہیں آتا وہ خود دائرہ اسلام سے خارج ہے.سو میں مامور ہوں کہ ایسے لوگوں سے جو آئمۃ التکفیر ہیں اور مفتی اور مولوی اور محدث کہلاتے ہیں اور ابناء اور نساء بھی رکھتے ہیں، مباہلہ کروں اور پہلے ایک عام مجلس میں ایک مفصل تقریر کے ذریعہ سے ان کو اپنے دلائل سمجھا دوں اور اسی مجلس میں ان کے تمام الزامات اور شبہات کا جو ان کے دل میں خلجان کرتے ہیں جواب بھی دے دوں اور پھر اگر کافر کہنے سے باز نہ آویں تو ان سے مباہلہ کروں.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶ ۲۵ - ۲۵۷) ان تمام مولویوں اور مفتیوں کی خدمت میں جو اس عاجز کو جزئی اختلافات کی وجہ سے یا اپنی نافہمی کے باعث سے کافر ٹھہراتے ہیں.عرض کیا جاتا ہے کہ اب میں خدا تعالیٰ سے مامور ہو گیا ہوں کہ تا میں آپ
۱۱۵۴ لوگوں سے مباہلہ کرنے کی درخواست کروں.اس طرح پر کہ اول آپ کو مجلس مباہلہ میں اپنے عقائد کے دلائل از روئے قرآن اور حدیث کے سناؤں.اگر پھر بھی آپ لوگ تکفیر سے باز نہ آویں تو اسی مجلس میں مباہلہ کروں.سو میرے پہلے مخاطب میاں نذیر حسین دہلوی ہیں اور اگر وہ انکار کریں تو پھر شیخ محمد حسین بطالوی اور اگر وہ انکار کریں تو پھر بعد اس کے تمام وہ مولوی صاحبان جو مجھ کو کافر ٹھہراتے اور مسلمانوں میں سرگروہ سمجھے جاتے ہیں اور میں ان تمام بزرگوں کو آج کی تاریخ سے جو دہم دسمبر ۱۸۹۲ء ہے ، چار ماہ تک مہلت دیتا ہوں.اگر چار ماہ تک ان لوگوں نے مجھ سے بشرائط متذکرہ بالا مباہلہ نہ کیا اور نہ کافر کہنے سے باز آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی حجت ان پر پوری ہوگی.میں اول یہ چاہتا تھا کہ وہ تمام بے جا الزامات جو میری نسبت ان لوگوں نے قائم کر کے موجب کفر قرار دیے ہیں اس رسالہ میں ان کا جواب شائع کروں لیکن بباعث بیمار ہو جانے کا تب اور حرج واقعہ ہونے کے ابھی تک وہ حصہ طبع نہیں ہوسکا.سو میں مباہلہ کی مجلس میں وہ مضمون بہر حال سنادوں گا.اگر اس وقت طبع ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو.لیکن یاد رہے کہ ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تکفیر کا فتویٰ لکھنے والوں نے جو کچھ سمجھا ہے اوّل اس تحریر کی غلطی ظاہر کی جائے اور اپنی طرف سے دلائل شافیہ کے ساتھ اتمام حجت کیا جائے اور پھر اگر باز نہ آویں تو اسی مجلس میں مباہلہ کیا جائے.اور مباہلہ کی اجازت کے بارہ میں جو کلام الہی میرے پر نازل ہوا وہ یہ ہے:.نَظَرَ اللهُ إِلَيْكَ مُعَطَّرًا.وَقَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ.قَالُوا كِتَابٌ مُمْتَلِيٌّ مِّنَ الْكُفْرِ والْكِذَبِ.قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَا وَنَا وَابْنَا وَ كُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَ كُمْ وَأَنْفُسَنَا وَانْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ - یعنی خدا تعالیٰ نے ایک معطر نظر سے تجھ کو دیکھا اور بعض لوگوں نے اپنے دلوں میں کہا کہ اے خدا کیا تو زمین پر ایک ایسے شخص کو قائم کر دے گا کہ جو دنیا میں فساد پھیلاوے.تو خدا تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور ان لوگوں نے کہا کہ اس شخص کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جو کذب اور کفر سے بھری ہوئی ہے سو اُن کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم مع اپنی عورتوں اور بیٹوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں.پھر ان پر لعنت کریں جو کا ذب ہیں.یہ وہ اجازت مباہلہ ہے جو اس عاجز کو دی گئی.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۱ تا ۲۶۶) اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینوں !! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور اگر چہ یہ جماعت به نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فیہ قلیلہ ہے اور شاید اس وقت تک چار ہزار
۱۱۵۵ پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی.تاہم یقینا سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہو گا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گر داحاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا.کیا تم نے کچھ کم زور لگایا.پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہتا.اسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں.تا جوراستی کا دشمن ہے وہ تباہ ہو جائے اور جو اندھیرے کو پسند کرتا ہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے پہلے میں نے کبھی ایسے مباہلہ کی نیت نہیں کی اور نہ چاہا کہ کسی پر بددعا کروں.عبدالحق غزنوی ثم امرتسری نے مجھ سے مباہلہ چاہا مگر میں مدت تک اعراض کرتا رہا.آخر اس کے نہایت اصرار سے مباہلہ ہوا.مگر میں نے اس کے حق میں کوئی بددعا نہیں کی لیکن اب میں بہت ستایا گیا اور دکھ دیا گیا.مجھے کافر ٹھہرایا گیا.مجھے دجال کہا گیا.میرا نام شیطان رکھا گیا.مجھے کذاب اور مفتری سمجھا گیا.میں ان کے اشتہاروں میں لعنت کے ساتھ یاد کیا گیا.میں ان کی مجلسوں میں نفرین کے ساتھ پکارا گیا.میری تکفیر پر آپ لوگوں نے ایسی کمر باندھی کہ گویا آپ کو کچھ بھی شک میرے کفر میں نہیں.ہر ایک نے مجھے گالی دینا اجر عظیم کا موجب سمجھا اور میرے پر لعنت بھیجنا اسلام کا طریق قرار دیا.پر ان سب تلخیوں اور دکھوں کے وقت خدا میرے ساتھ تھا.ہاں وہی تھا جو ہر یک وقت مجھ کو تسکی اور اطمینان دیتا رہا.کیا ایک کیڑا ایک جہان کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے؟ کیا ایک ذرہ تمام دنیا کا مقابلہ کرے گا ؟ کیا ایک دروغگو کی ناپاک روح یہ استقامت رکھتی ہے؟ کیا ایک نا چیز مفتری کو یہ طاقتیں حاصل ہوسکتی ہیں؟ سویقیناً سمجھو کہ تم مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے لڑ رہے ہو.کیا تم خوشبو اور بد بو میں فرق نہیں کر سکتے.کیا تم سچائی کی شوکت کو نہیں دیکھتے.بہتر تھا کہ تم خدا تعالیٰ کے سامنے روتے اور ایک ترساں اور ہراساں دل کے ساتھ اس سے میری نسبت ہدایت طلب کرتے اور پھر یقین کی پیروی کرتے نہ شک اور وہم کی.سواب اُٹھو اور مباہلہ کے لئے طیار ہو جاؤ.تم سن چکے ہو کہ میرا دعویٰ دو باتوں پر مبنی تھا.اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر.دوسرے الہامات الہیہ پر.سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کی کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا توڑ کر پھینک دے.اب میرے بناء دعویٰ کا دوسراشق باقی رہا.سو میں اس ذات قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایمان دار رد نہیں کر سکتا، کہ اب اس دوسری بناء کی تصفیہ کے لئے مجھ سے مباہلہ کرلو.
ܪܩܙܙ اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جولکھ چکا ہوں، اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گا اور دعا کروں گا کہ یا الہی ! اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افتراء ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آ جائے تا میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے.لیکن اے خدائے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں.ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب میں یہ دعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہر یک شخص جو مباہلہ کے لئے حاضر ہو جناب البی میں یہ دعا کرے کہ اے خدائے علیم وخبیر ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے ، در حقیقت کذاب اور مفتری ہے اور کافر جانتے ہیں.پس اگر یہ شخص در حقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افترا ہے تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کر دے تالوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی پاک باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں، دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اندر نازل کر اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجزوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین اور یاد رہے کہ اگر کوئی شخص مجھے کذاب اور مفتری تو جانتا ہے مگر کافر کہنے سے پر ہیز رکھتا ہے تو اس کو اختیار ہوگا کہ اپنی دعائے مباہلہ میں صرف کذاب اور مفتری کا لفظ استعمال کرے جس پر اس کو یقین دلی ہے.اور اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں
۱۱۵۷ جاں بری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے.اور میں ہمیشہ کی لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں گا اور میں ابھی لکھ دیتا ہوں کہ اس صورت میں مجھے کا ذب مورد لعنت الہی یقین کرنا چاہیئے اور پھر اس کے بعد میں دجال یا ملعون یا شیطان کہنے سے ناراض نہیں اور اس لائق ہوں گا کہ ہمیشہ کے لئے لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں اور اپنے مولا کے فیصلہ کو فیصلہ ناطق سمجھوں گا اور میری پیروی کرنے والا یا مجھے اچھا اور صادق سمجھنے والا خدا کے قہر کے نیچے ہوگا.پس اس صورت میں میرا انجام نہایت ہی بد ہو گا جیسا کہ بدذات کا ذبوں کا انجام ہوتا ہے.لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بچالیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر یک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہوگئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا.میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نے پہلے اس سے کبھی کلمہ گو کے حق میں بددعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا مگر اس روز خدا سے فیصلہ چاہوں گا اور اس کی عصمت اور عزت کا دامن پکڑوں گا کہ تاہم میں سے فریق ظالم اور دروغگو کو تباہ کر کے اس دین متین کو شریروں کے فتنہ سے بچائے.میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ، ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا اگر چہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا اور اگر میں مر گیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈ اور آرام ہو جائے گا.میرے مباہلہ میں یہ شرط ہے کہ اشخاص مندرجہ ذیل میں سے کم سے کم دس آدمی حاضر ہوں.اس سے کم نہ ہوں اور جس قدر زیادہ ہوں میری خوشی اور مراد ہے.کیونکہ بہتوں پر عذاب الہی کا محیط ہو جانا ایک ایسا کھلا کھلا نشان ہے جو کسی پر مشتبہ نہیں رہ سکتا.گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر اور تو ہین کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو.اور اے مومنو! برائے خدا تم سب کہو کہ آمین.مجھے افسوس سے یہ بھی لکھنا پڑا کہ آج تک ان ظالم مولویوں نے اس صاف اور سیدھے فیصلے کی طرف رخ ہی نہیں کیا تا اگر میں اُن کے خیال میں کاذب تھا تو احکم الحاکمین کے حکم سے اپنی سزا کو پہنچ جاتا.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۶۴ تا ۶۷)
۱۱۵۸ میں کافی مقدار د یکھنے کے بعد مباہلہ کی رسم کو اپنی طرف سے ختم کر چکا ہوں لیکن ہر ایک جو مجھے کذاب سمجھتا ہے اور ایک مکار اور مفتری خیال کرتا ہے اور میرے دعوی مسیح موعود کے بارہ میں میرا مکذب ہے اور جو کچھ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی اس کو میرا افتراء خیال کرتا ہے وہ خواہ مسلمان کہلا تا ہو یا ہندو یا آریہ یا کسی اور مذہب کا پابند ہو اس کو بہر حال اختیار ہے کہ اپنے طور پر مجھے مقابل پر رکھ کر تحریری مباہلہ شائع کرے.یعنی خدا تعالیٰ کے سامنے یہ اقرار چند اخباروں میں شائع کرے کہ میں خدا تعالے کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے یہ بصیرت کامل طور پر حاصل ہے کہ یہ شخص (اس جگہ تصریح سے میرا نام لکھے ) جو سیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے درحقیقت کذاب ہے اور یہ الہام جن میں سے بعض اس نے اس کتاب میں لکھے ہیں یہ خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ سب اس کا افتراء ہے اور میں اس کو درحقیقت اپنی کامل بصیرت اور کامل غور کے بعد اور یقین کامل کے ساتھ مفتری اور کذاب اور دجال سمجھتا ہوں.پس اے خدائے قادر اگر تیرے نزدیک یہ شخص صادق ہے اور کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین نہیں ہے تو میرے پر اس تکذیب اور توہین کی وجہ سے کوئی عذاب شدید نازل کر ورنہ اس کو عذاب میں مبتلا کر.آمین.ہر ایک کے لئے کوئی تازہ نشان طلب کرنے کے لئے یہ دروازہ کھلا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر اس دعائے مباہلہ کے بعد جس کو عام طور پر مشتہر کرنا ہوگا اور کم سے کم تین نامی اخباروں میں درج کرنا ہوگا.ایسا شخص جو اس تصریح کے ساتھ قسم کھا کر مباہلہ کرے اور آسمانی عذاب سے محفوظ رہے تو پھر میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.اس مباہلہ میں کسی میعاد کی ضرورت نہیں.یہ شرط ہے کہ کوئی ایسا امر نازل ہو جس کو دل محسوس کر لیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۱-۷۲) جب سے خدا نے مجھے مسیح موعود اور مہدی معہود کا خطاب دیا ہے میری نسبت جوش اور غضب ان لوگوں کا جو اپنے تئیں مسلمان قرار دیتے ہیں اور مجھے کا فر کہتے ہیں انتہاء تک پہنچ گیا ہے.پہلے میں نے صاف صاف ادلہ کتاب اللہ اور حدیث سے اپنے دعوی کو ثابت کیا.مگر قوم نے دانستہ ان دلائل سے منہ پھیر لیا اور پھر میرے خدا نے بہت سے آسمانی نشان میری تائید میں دکھلائے مگر قوم نے ان سے بھی کچھ فائدہ نہ اٹھایا اور پھر ان میں سے کئی لوگ مباہلہ کے لئے اٹھے اور بعض نے علاوہ مباہلہ کے الہام کا دعویٰ کر کے یہ پیشگوئی کی کہ فلاں سال یا کچھ مدت تک ان کی زندگی میں ہی یہ عاجز ہلاک ہو جائے گا مگر آخر کار وہ میری زندگی میں خود ہلاک ہو گئے.مگر نہایت افسوس ہے کہ قوم کی پھر بھی آنکھ نہ کھلی اور انہوں
۱۱۵۹ نے یہ خیال نہ کیا کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ہر ایک پہلو سے وہ مغلوب نہ ہوتے.قرآن شریف ان کو جھوٹا ٹھہراتا ہے.معراج کی حدیث اور حدیث اِمَامُكُم مِنكُم ان کو جھوٹا ٹھہراتی ہے.مباہلوں کا انجام ان کو جھوٹا ٹھہراتا ہے.پھر ان کے ہاتھ میں کیا ہے جو اس خدا کے اس فرستادہ کی دلیری سے تکذیب کر رہے ہیں جو تقریباً چھبیس برس سے ان کو حق اور راستی کی طرف بلا رہا ہے.کیا اب تک انہوں نے آیت کریمہ يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْلے کا مزہ نہیں چکھا.کہاں ہے مولوی غلام دستگیر جس نے اپنی کتاب فیض رحمانی میں میری ہلاکت کے لئے بددعا کی تھی اور مجھے مقابل پر رکھ کر جھوٹے کی موت چاہی تھی ؟ کہاں ہے مولوی چراغ دین جموں والا جس نے الہام کے دعوے سے میری موت کی خبر دی تھی اور مجھ سے مباہلہ کیا تھا ؟ کہاں ہے فقیر مرزا جو اپنے مریدوں کی ایک بڑی جماعت رکھتا تھا جس نے بڑے زور شور سے میری موت کی خبر دی تھی.اور کہا تھا کہ عرش پر سے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ شخص مفتری ہے آئندہ رمضان تک میری زندگی میں ہلاک ہو جائیگا لیکن جب رمضان آیا تو پھر آپ ہی طاعون سے ہلاک ہو گیا.کہاں ہے سعد اللہ لو دھانوی ؟ جس نے مجھ سے مباہلہ کیا تھا اور میری موت کی خبر دی تھی.آخر میری زندگی میں ہی طاعون سے ہلاک ہو گیا.کہاں ہے مولوی محی الدین لکھو کے والا ؟ جس نے مجھے فرعون قرار دیکر اپنی زندگی میں ہی میری موت کی خبر دی تھی اور میری تباہی کی نسبت کئی اور الہام شائع کئے تھے.آخر وہ بھی میری زندگی میں ہی دنیا سے گذر گیا.کہاں ہے با بو الہی بخش صاحب مؤلف عصائے موسیٰ اکونٹ لاہور؟ جس نے اپنے تئیں موسیٰ قرار دیکر مجھے فرعون قرار دیا تھا اور میری نسبت اپنے زندگی میں ہی طاعون سے ہلاک ہونے کی پیشگوئی کی تھی اور میری تباہی کی نسبت اور بھی بہت سی پیشگوئیاں کی تھیں آخر وہ بھی میری زندگی میں ہی اپنی کتاب عصائے موسیٰ پر جھوٹ اور افتراء کا داغ لگا کر طاعون کی موت سے بصد حسرت مرا.اور ان تمام لوگوں نے چاہا کہ میں اس آیت کا مصداق ہو جاؤں کہ اِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُہ کے لیکن وہ آپ ہی اس آیت ممدوحہ کا مصداق ہو کر ہلاک ہو گئے اور خدا نے انکو ہلاک کر کے مجھ کو اس آیت کا مصداق بنایا.وَاِنْ يَّكَ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ کے کیا ان تمام دلائل سے خدا تعالیٰ کی حجت پوری نہیں ہوئی مگر ضرور تھا کہ مخالف لوگ انکار سے پیش آتے.کیونکہ پہلے سے یعنی آج سے چھبیس برس پہلے براہین احمدیہ میں خدا کی یہ پیشگوئی موجود ہے.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے ا المؤمن: ٢٩
117.اسے قبول نہ کیا لیکن خدا سے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.سو ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خدا اپنے حملوں کو نہیں روکے گا اور نہ بس کرے گا جب تک کہ دنیا پر میری سچائی ظاہر نہ ہو جائے.لیکن آج ۱۵ رمئی ۱۹۰۸ء کو میرے دل میں ایک خیال آیا ہے کہ ایک اور طریق فیصلہ کا ہے.شاید کوئی خدا ترس اس سے فائدہ اٹھا دے اور انکار کے خطرناک گرداب سے نکل آوے اور وہ طریق یہ ہے کہ میرے مخالف منکروں میں سے جو شخص اشد مخالف ہو اور مجھ کو کافر اور کذاب سمجھتا ہو.وہ کم سے کم دس نامی مولوی صاحبوں یا دس نامی رئیسوں کی طرف سے منتخب ہو کر اس طور سے مجھ سے مقابلہ کرے جو دو سخت بیماروں پر ہم دونوں اپنے صدق و کذب کی آزمائش کریں.یعنی اس طرح پر کہ دو خطر ناک بیمار لے کر جو جدا جدا بیماری کی قسم میں مبتلا ہوں قرعہ اندازی کے ذریعے سے دونوں بیماروں کو اپنی اپنی دعا کے لئے تقسیم کر لیں.پھر جس فریق کا بیمار بکلی اچھا ہو جاوے یا دوسرے بیمار کے مقابل پر اس کی عمر زیادہ کی جاوے، وہی فریق سچا سمجھا جاوے.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اور میں پہلے سے اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر بھروسہ کر کے یہ خبر دیتا ہوں کہ جو بیمار میرے حصہ میں آوے گا یا تو خدا اسے بکلی صحت دے گا اور یا بہ نسبت دوسرے بیمار کے اس کی عمر بڑھا دے گا اور یہی امر میری سچائی کا گواہ ہو گا.اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ سمجھو کہ میں خدا تعالے کی طرف سے نہیں.لیکن یہ شرط ہوگی کہ فریق مخالف جو میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ خود اور ایسا ہی دس اور مولوی یا دس رئیس جو اس کے ہم عقیدہ ہوں یہ شائع کر دیں کہ در حالت میرے غلبہ کے وہ میرے پر ایمان لائیں گے اور میری جماعت میں داخل ہوں گے اور یہ اقرار تین نامی اخباروں میں شائع کرانا ہو گا.ایسا ہی میری طرف سے بھی یہی شرائط ہوں گی.اس قسم کے مقابلہ سے فائدہ یہ ہو گا کہ کسی خطرناک بیمار کی جو اپنی زندگی سے نومید ہو چکا ہے.خدا تعالیٰ جان بچائے گا اور احیائے موتی کے رنگ میں ایک نشان ظاہر کرے گا اور دوسرے یہ کہ اس طور سے یہ جھگڑا بڑے آرام اور سہولت سے فیصلہ ہو جائے گا.والسلام على من اتبع الهدى المشتهر مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ۱۵ رمئی ۱۹۰۸ء چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲ تا ۴)
میں نے حضرت شیخ الکل صاحب اور ان کے شاگردوں کی زبان درازیوں پر بہت صبر کیا اور ستایا گیا اور آپ کو روکتا رہا.اب میں مامور ہونے کی وجہ سے اس دعوت الی اللہ کی طرف شیخ الکل صاحب اور ان کی جماعت کو بلاتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اس نزاع کا آپ فیصلہ کر دے گا.وہ دلوں کے خیالات کو جانچتا اور سینوں کے حالات کو پرکھتا ہے اور کسی سے دل آزار زیادتی اور جہر بالشو ء پسند نہیں کرتا.وہ لا پرواہ ہے.متقی وہی ہے جو اس سے ڈرے اور میری اس میں کیا کسر شان ہے کہ اگر کوئی مجھے کتا کہے یا کافر کافر اور دجال کر کے پکارے.درحقیقت حقیقی طور پر انسان کی کیا عزت ہے صرف اس کے نور کے پر توہ کے پڑنے سے عزت حاصل ہوتی ہے.اگر وہ مجھ پر راضی نہیں اور میں اس کی نگاہ میں بُرا ہوں تو پھر کتے کی طرح کیا ہزار درجہ کتوں سے بدتر ہوں.گر خدا از بنده خوشنود نیست بیچ حیوانی چو او مردود نیست ! گر سگ نفس دنی را پروریم اے خدا اے طالبان را رہنما ایکہ مہر تو حیات روح ما ۳ از سگان کوچہ ہا ہم کمتریم سے 2 بر رضائے خویش گن انجام ما تا برآید در دو عالم کام ما خلق و عالم جمله در شور و شراند طالبانت مقام در دیگراند بگل دم آں یکے را نور بخشی بدل واں دگر را میگذاری پا و گوش و دل ز تو گیرد ضیاء ذات تو سرچشمہ فیض و بدی کے غرض خدا وند قا در قدوس میری پناہ ہے اور میں تمام کام اپنا اسی کو سونپتا ہوں اور گالیوں کے عوض میں گالیاں دینا نہیں چاہتا اور نہ کچھ کہنا چاہتا ہوں.ایک ہی ہے جو کہے گا.افسوس کہ ان لوگوں نے لے اگر خدا بندہ سے خوش نہیں ہے تو اس جیسا کوئی حیوان بھی مردود نہیں.سے اگر ہم اپنے ذلیل نفس کو پالنے میں لگے رہیں تو ہم گلیوں کے کتوں سے بھی بدتر ہیں.اے خدا.اے طالبوں کے رہنما.اے وہ کہ تیری محبت ہماری روح کی زندگی ہے.تو ہمارا خاتمہ اپنی رضا پر کر کہ دونوں جہان میں ہماری مراد پوری ہو.دنیا اور اس کے لوگ سب شور و شر میں مصروف ہیں.مگر تیرے طالب اور ہی مقام پر ہیں.ان میں سے ایک کے دل کو تو نور بخشتا ہے اور دوسرے کو کیچڑ میں پھنسا ہوا چھوڑ دیتا ہے.کے آنکھ ، کان اور دل تجھ سے ہی روشنی حاصل کرتے ہیں.تیری ذات ہدایت اور فیض کا سر چشمہ ہے.
١١٦٢ تھوڑی سی بات کو بہت دور ڈال دیا اور خدائے تعالیٰ کو اس بات پر قادر نہ سمجھا کہ جو چاہے کرے اور جس کو چاہے مامور کر کے بھیجے.کیا انسان اس سے لڑ سکتا ہے یا آدم زاد کو اس پر اعتراض کرنے کا حق پہنچتا ہے کہ تو نے ایسا کیوں کیا ، ایسا کیوں نہیں کیا.آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۳۴، ۳۳۵) افسوس ان لوگوں کی حالتوں پر ان لوگوں نے خدا اور اس کے رسول کے فرمودہ کی کچھ بھی عزت نہ کی.اور صدی پر بھی سترہ برس گزر گئے.مگر ان کا مجد داب تک کسی غار میں پوشیدہ بیٹھا ہے.مجھ سے یہ لوگ کیوں بخل کرتے ہیں.اگر خدا نہ چاہتا تو میں نہ آتا.بعض دفعہ میرے دل میں یہ بھی خیال آیا کہ میں درخواست کروں کہ خدا مجھے اس عہدہ سے علیحدہ کرے اور میری جگہ کسی اور کو اس خدمت سے ممتاز فرمائے.پر ساتھ ہی میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ اس سے زیادہ اور کوئی سخت گناہ نہیں کہ میں خدمت سپردکردہ میں بزدلی ظاہر کروں.جس قدر میں پیچھے ہٹنا چاہتا ہوں.اسی قدر خدا تعالے مجھے کھینچ کر آگے لے آتا ہے.میرے پر ایسی رات کو ئی کم گذرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلی نہیں دی جاتی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں اگر چہ جولوگ دل کے پاک ہیں مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے لیکن مجھے اس کے منہ کی قسم ہے کہ میں اب بھی اس کو دیکھ رہا ہوں.دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکر یوطی اور ابوجہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے.میں ہر روز اس بات کے لئے چشم پر آب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے.پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے مگر میدان میں نکلنا کسی محنت کا کام نہیں.ہاں غلام دستگیر ہمارے ملک پنجاب میں کفر کے لشکر کا ایک سپاہی تھا جو کام آیا.اب ان لوگوں میں سے اس کی مثل بھی کوئی نکلنا محال اور غیر ممکن ہے.اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں.یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہرگز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے.اور اگر انسانوں
١١۶٣ میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کاذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افتراء کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے.وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے پیدا کیا ہے ہرگز ممکن نہیں کہ میں اس میں ستی کروں اگر چہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر کچلنا چاہیں.انسان کیا ہے محض ایک کیڑا اور بشر کیا ہے محض ایک مضغہ پس کیونکر میں حی و قیوم کے حکم کو ایک کیڑے یا ایک مضغہ کے لئے ٹال دوں.جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا.اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۵۰،۴۹)
۱۱۶۴ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ الصُّلْحُ خَيْر اے علمائے قوم جو میرے مکذب اور مکفر ہیں یا میری نسبت متذبذب ہیں آج پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک مرتبہ پھر آپ صاحبوں کی خدمت میں مصالحت کے لئے درخواست کروں.مصالحت سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ میں آپ صاحبوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کے لئے مجبور کروں یا اپنے عقیدہ کی نسبت اس بصیرت کے مخالف کوئی کمی بیشی کروں جو خدا نے مجھ کو عطا فرمائی ہے بلکہ اس جگہ مصالحت سے صرف یہ مراد ہے کہ فریقین ایک پختہ عہد کریں کہ وہ اور تمام وہ لوگ جو ان کے زیر اثر ہیں، ہر ایک قسم کی سخت زبانی سے بازر ہیں اور کسی تحریر یا تقریر یا اشارہ کنایہ سے فریق مخالف کی عزت پر حملہ نہ کریں اور اگر دونوں فریق میں سے کوئی صاحب اپنے فریق مخالف کی مجلس میں جائیں تو جیسا کہ شرط تہذیب اور شائستگی ہے، فریق ثانی مدارات سے پیش آئیں..اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں ہے تو خود یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور اگر خدا کی طرف سے ہے تو کوئی دشمن اس کو تباہ نہیں کر سکتا.اس لئے محض قلیل جماعت خیال کر کے تحقیر کے درپے رہنا طریق تقویٰ کے برخلاف ہے.یہی تو وقت ہے کہ ہمارے مخالف علماء اپنے اخلاق دکھلا ئیں.ورنہ جب یہ احمدی فرقہ دنیا میں چند کروڑ انسانوں میں پھیل جائے گا اور ہر ایک طبقہ کے انسان اور بعض ملوک بھی اس میں داخل ہو جائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے تو اس زمانہ میں تو یہ کینہ اور بغض خود بخود دلوگوں کے دلوں سے دور ہو جائے گا لیکن اس وقت کی مخالطت اور مدارات خدا کے لئے نہیں ہوگی اور اس وقت مخالف علماء کا نرمی اختیار کرنا تقویٰ کی وجہسے نہیں سمجھا جائے گا.تقوی دکھلانے کا آج ہی دن ہے جب کہ یہ فرقہ دنیا میں بجز چند ہزار انسان کے زیادہ نہیں ہے.بالفعل اس اندرونی تفرقہ کے مٹانے کے لئے اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں.آئندہ جس فریق کے ساتھ خدا ہوگا وہ خود غالب ہوتا جائے گا.دنیا میں سچائی اول چھوٹے سے تخم کی طرح آتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک عظیم الشان
۱۱۶۵ درخت بن جاتا ہے جو پھل اور پھول لاتا ہے اور حق جوئی کے پرندے اس میں آرام کرتے ہیں.المشتهر میرزاغلام احمد از قادیان ۵ / مارچ ۱۹۰۱ء تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۶ تا ۸ - مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۹۸، ۴۹۹ بار دوم ) میں دوبارہ حق کے طالبوں کے لئے عام اعلان دیتا ہوں کہ اگر وہ اب بھی نہیں سمجھے تو نئے سرے اپنی تسلی کر لیں اور یا درکھیں کہ خدا تعالیٰ سے چھ طور کے نشان میرے ساتھ ہیں:.اول.اگر کوئی مولوی عربی کی بلاغت فصاحت میں میری کتاب کا مقابلہ کرنا چاہے گا تو وہ ذلیل ہوگا.میں ہر ایک متکبر کو اختیار دیتا ہوں کہ اسی عربی مکتوب کے مقابل پر طبع آزمائی کرے.اگر وہ اس عربی کے مکتوب کے مقابل پر کوئی رسالہ بالتزام مقدار نظم ونثر بنا سکے اور ایک مادری زبان والا جوعربی ہو قسم کھا کر اس کی تصدیق کر سکے تو میں کا ذب ہوں.دوم.اور اگر یہ نشان منظور نہ ہو تو میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بناویں یعنی روبرو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جائے اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں.ان کی تفسیر میں بھی عربی میں لکھوں اور میر امخالف بھی لکھے.پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں.سوم.اور اگر یہ نشان بھی منظور نہ ہو تو ایک سال تک کوئی مولوی نامی مخالفوں میں سے میرے پاس رہے.اگر اس عرصہ میں انسان کی طاقت سے برتر کوئی نشان مجھ سے ظاہر نہ ہو تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں گا.چہارم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو ایک تجویز یہ ہے کہ بعض نامی مخالف اشتہار دے دیں کہ اس تاریخ کے بعد ایک سال تک اگر کوئی نشان ظاہر ہو تو ہم تو بہ کریں گے اور مصدق ہو جائیں گے پس اس اشتہار کے بعد اگر ایک سال تک مجھ سے کوئی نشان ظاہر نہ ہوا جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو خواہ پیشگوئی ہو یا اور تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں.پنجم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو شیخ محمد حسین بطالوی اور دوسرے نامی مخالف مجھ سے مباہلہ کرلیں.پس اگر مباہلہ کے بعد میری بددعا کے اثر سے ایک بھی خالی رہا تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں.یہ طریق فیصلہ ہیں جو میں نے پیش کئے ہیں اور میں ہر ایک کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اب سچے دل
سے ان طریقوں میں سے کسی طریق کو قبول کر لیں یعنی یا تو میعاد دو ماہ میں جو مارچ ۱۸۹۷ء کی دس تاریخ تک مقرر کرتا ہوں.اس عربی رسالہ کا ایسا ہی فصیح و بلیغ جواب چھاپ کر شائع کریں یا بالمقابل ایک جگہ بیٹھ کر زبان عربی میں میرے مقابل میں سات آیت قرآنی کی تفسیر لکھیں اور یا ایک سال تک میرے پاس نشان دیکھنے کیلئے رہیں اور یا اشتہار شائع کر کے اپنے ہی گھر میں میرے نشان کی ایک برس تک انتظار کریں اور یا مباہلہ کر لیں.ششم.اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں تو مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کر لیں کہ تکفیر و تکذیب اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں اور قہر الہی سے ڈر کر ملاقاتوں میں مسلمانوں کی عادت کے طور پر پیش آویں.ہر ایک قسم کی شرارت اور خباثت کو چھوڑ دیں.پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائے اور عیسائیت کا باطل معبو دفنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کا ذب خیال کرلوں گا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں ہرگز کاذب نہیں.یہ سات برس کچھ زیادہ سال نہیں ہیں اور اس قدر انقلاب اس تھوڑی مدت میں ہو جانا انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں.پس جبکہ میں سچے دل سے اور خدا تعالے کی قسم کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں اور تم سب کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلاتا ہوں.تو اب تم خدا سے ڈرو.اگر میں خدا تعالے کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جاؤں گا ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کرسکتا.(ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۰۴ تا ۳۱۹) اب ہمارا اور مخالفوں کا جھگڑا انتہا تک پہنچ گیا ہے اور اب یہ مقدمہ وہ خود فیصلہ کرے گا جس نے مجھے بھیجا ہے.اگر میں صادق ہوں تو ضرور ہے کہ آسمان میرے لئے ایک زبردست گواہی دے جس سے بدن کانپ جائیں اور اگر میں پچیس سالہ مجرم ہوں جس نے اس مدت دراز تک خدا پر افتراء کیا تو میں کیونکر بچ سکتا ہوں.اس صورت میں اگر تم سب میرے دوست بھی بن جاؤ تب بھی میں ہلاک شدہ ہوں کیونکہ خدا کا ہاتھ میرے مخالف ہے.اے لوگو ! تمہیں یاد رہے کہ میں کاذب نہیں بلکہ مظلوم ہوں
1172 اور مفتری نہیں بلکہ صادق ہوں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۹۰،۱۸۹) میری نسبت جو کچھ ہمدردی قوم نے کی ہے وہ ظاہر ہے اور غیر قوموں کا بغض ایک طبعی امر ہے ان لوگوں نے کونسا پہلو میرے تباہ کرنے کا اُٹھا رکھا.کونسا ایڈا کا منصوبہ ہے جو انتہا تک نہیں پہونچایا.کیا بد دعاؤں میں کچھ کسر رہی یاقتل کے فتوے نامکمل رہے یا ایذا اور توہین کے منصوبے کما حقہ ظہور میں نہ آئے.پھر وہ کونسا ہاتھ ہے جو مجھے بچاتا ہے.اگر میں کاذب ہوتا تو چاہئیے تو یہ تھا کہ خدا خود میرے ہلاک کرنے کے لئے اسباب پیدا کرتا نہ یہ کہ وقتا فوقتا لوگ اسباب پیدا کریں اور خدا ان اسباب کو معدوم کرتا رہے.کیا یہی کاذب کی نشانیاں ہوا کرتی ہیں کہ قرآن بھی اس کی گواہی دے اور آسمانی نشان بھی اس کی تائید میں نازل ہوں اور عقل بھی اسی کی مؤید ہو اور جو اس کی موت کے شائق ہوں وہی مرتے جائیں.میں ہرگز یقین نہیں کرتا کہ زمانہ نبوی کے بعد کسی اہل اللہ اور اہل حق کے مقابل پر کبھی کسی مخالف کو ایسی صاف اور صریح شکست اور ذلت پہونچی ہو جیسا کہ میرے دشمنوں کو میرے مقابل پر پہنچی ہے.اگر انہوں نے میری عزت پر حملہ کیا تو آخر آپ ہی بے عزت ہوئے اور اگر میری جان پر حملہ کر کے یہ کہا کہ اس شخص کے صدق اور کذب کا معیار یہ ہے کہ وہ ہم سے پہلے مرے گا تو پھر آپ ہی مر گئے.(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۶،۴۵) وہ خدا جس کا قومی ہاتھ زمینوں اور آسمانوں اور ان سب چیزوں کو جو اُن میں ہیں ، تھامے ہوئے ہے وہ کب انسان کے ارادوں سے مغلوب ہو سکتا ہے اور آخر ایک دن آتا ہے جو وہ فیصلہ کرتا ہے.پس صادقوں کی یہی نشانی ہے کہ انجام انہی کا ہوتا ہے.خدا اپنی تجلیات کے ساتھ ان کے دل پر نزول کرتا ہے.پس کیونکر وہ عمارت منہدم ہو سکے جس میں وہ حقیقی بادشاہ فروکش ہے ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو.گالیاں دو جس قدر چاہو اور ایذا تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو اور میرے استیصال کے لئے ہر ایک قسم کی تدبیریں اور مکر سوچو جس قدر چاہو.پھر یا درکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دکھلا دے گا کہ اس کا ہاتھ غالب ہے.نادان کہتا ہے کہ میں اپنے منصوبوں سے غالب ہو جاؤں گا.مگر خدا کہتا ہے کہ اے لعنتی دیکھ.میں تیرے سارے منصوبے خاک میں ملا دوں گا.اگر خدا چاہتا تو ان مخالف مولویوں اور اُن کے پیروؤں کو آنکھیں بخشا اور وہ ان وقتوں اور موسموں کو پہچان لیتے جن میں خدا کے مسیح کا آنا ضروری تھا.لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوتیں جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود
۱۱۶۸ جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے گا وہ اس کو کافر قرار دیں گے اور اس کے قتل کے لئے فتوے دیئے جائیں گے اور اس کی سخت تو ہین کی جائے گی اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج اور دین کا نباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا.(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۵۳) خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کر چکا اور اسی کی ذات کی مجھے قسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گا جب تک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کردے.پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو.اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتا اور اس تمام کاروبار کا نام ونشان نہ رہتا.مگر تم نے دیکھا کہ کیسی خدا تعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہو رہی ہے اور اس قدر نشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں.دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کر کے ہلاک ہو گئے.اے بندگان خدا! کچھ تو سوچو کیا خدا تعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے؟ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۵۴)
کرامت گرچه بے نام و نشان است بیا بنگر ز غلمان محمد باب پنجم معجزات، نشانات اور پیشگوئیاں وو خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت 66 ہو سکتی ہے.“ لے اگر چہ کر امت اب مفقود ہے مگر تو آ اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے.
112.خدا نے اپنی زندہ کلام سے بلا واسطہ مجھے یہ اطلاع دی ہے اور مجھے اس نے کہا ہے کہ اگر تیرے لئے یہ مشکل پیش آوے کہ لوگ کہیں کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ تو خدا کی طرف سے ہے تو انہیں کہہ دے کہ اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ اس کے آسمانی نشان میرے گواہ ہیں.دعا ئیں قبول ہوتی ہیں.پیش از وقت غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں اور وہ اسرار جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں وہ قبل از وقت ظاہر کئے جاتے ہیں.اور دوسرا یہ نشان ہے کہ اگر کوئی ان باتوں میں مقابلہ کرنا چاہے مثلاً کسی دعا کا قبول ہونا اور پھر پیش از وقت اس قبولیت کا علم دیئے جانایا اور غیبی واقعات معلوم ہونا جو انسان کی حد علم سے باہر ہیں تو اس مقابلہ میں وہ مغلوب رہے گا گو وہ مشرقی ہو یا مغربی.یہ وہ دونشان ہیں جو مجھ کو دیئے گئے ہیں.ضمیمہ رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۲۹ ۳۰٫) مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ نشان جو میرے لئے ظاہر کئے گئے اور میری تائید میں ظہور میں آئے اگر ان کے گواہ ایک جگہ کھڑے کئے جائیں تو دنیا میں کوئی بادشاہ ایسا نہ ہوگا جو اس کی فوج ان گواہوں سے زیادہ ہو.تاہم اس زمین پر کیسے کیسے گناہ ہور ہے ہیں کہ ان نشانوں کی بھی لوگ تکذیب کر رہے ہیں.آسمان نے بھی میرے لئے گواہی دی اور زمین نے بھی.( اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۰۸) میں زور سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی عیسائی میری صحبت میں رہے تو ابھی برس نہیں گزرے گا کہ وہ کئی نشان دیکھے گا.خدا کے نشانوں کی اس جگہ بارش ہو رہی ہے.اور وہ خدا جس کولوگوں نے بھلا دیا اور اس کی جگہ مخلوق کو دی وہ اس وقت اس عاجز کے دل پر تجلی کر رہا ہے.وہ دکھانا چاہتا ہے.کیا کوئی دیکھنے کے لئے راغب ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه (۱۰۸) اگر یہ اعتراض ہو کہ اس جگہ وہ معجزات کہاں ہیں تو میں صرف یہی جواب نہیں دونگا کہ میں معجزات دکھلا سکتا ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میرا جواب یہ ہوگا کہ اس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں جنہوں نے اس قدر معجزات دکھائے ہوں.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اس قدر معجزات کا دریا رواں کر دیا ہے کہ باستثناء ہمارے نبی ﷺ کے باقی تمام انبیاء علیہم السلام میں ان کا ثبوت اس کثرت کے ساتھ قطعی اور یقینی طور پر محال
ہے اور خدا نے اپنی حجت پوری کر دی ہے اب چاہے کوئی قبول کرے یا نہ کرے.( تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۷۴) میری تائید میں اس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ آج کی تاریخ سے جو ۱۶ / جولائی ۱۹۰۶ ء ہے اگر میں ان کو فرداً فرداً شمار کروں تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو میں اس کو ثبوت دے سکتا ہوں.بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ جن میں خدا تعالیٰ نے ہر ایک محل پر اپنے وعدہ کے موافق مجھ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں ہر محل میں اپنے وعدہ کے موافق میری ضرورتیں اور حاجتیں اس نے پوری کیں.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں اس نے بموجب اپنے وعدہ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَگ کے میرے پر حملہ کرنے والوں کو ذلیل اور رسوا کیا اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو مجھ پر مقدمات دائر کرنے والوں پر اس نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق مجھ کو فتح دی.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری مدت بعث سے پیدا ہوتے ہیں.کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے یہ مدت دراز کسی کا ذب کو نصیب نہیں ہوئی اور بعض نشان زمانہ کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ زمانہ کسی امام کے پیدا ہونے کی ضرورت تسلیم کرتا ہے.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں دوستوں کے حق میں میری دعائیں منظور ہوئیں.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو شریر دشمنوں پر میری بددعا کا اثر ہوا.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری دعا سے بعض خطر ناک بیماروں نے شفا پائی اور اُن کی شفا کی پہلے خبر دی گئی.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میرے لئے اور میری تصدیق کے لئے عام طور پر خدا نے حوادث ارضی یا سماوی ظاہر کئے.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوا ہیں آئیں اور آنحضرت علی ہے کو خواب میں دیکھا.جیسے سجادہ نشین صاحب العلم سندھ جن کے مرید ایک لاکھ کے قریب تھے اور جیسے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب میں اُن کو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور بعض نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور یہ خدا کا آخری خلیفہ اور مسیح موعود ہے.اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو بعض اکابر نے میری پیدائش یا بلوغ سے پہلے میرا نام لے کر میرے مسیح موعود ہونے کی خبر دی.جیسے نعمت اللہ ولی اور میاں گلاب شاہ
۱۱۷۲ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۱,۷۰ ) ساکن جمال پورضلع لدھیانہ.خدا نے میرے لئے آسمان پر رمضان میں سورج اور چاند کا خسوف کسوف کیا اور ایسا ہی زمین پر بہت سے نشان ظہور میں آئے اور سنت اللہ کے موافق حجت پوری ہوگئی.اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے دلوں کو صاف کر کے کوئی اور نشان خدا کا دیکھنا چاہیں تو وہ خداوند قدیر بغیر اس کے کہ آپ لوگوں کے کسی اقتراح کا تابع ہو اپنی مرضی اور اختیار سے نشان دکھلانے پر قادر ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ سچے دل سے توبہ کی نیت کر کے مجھ سے مطالبہ کریں اور خدا کے سامنے یہ عہد کر لیں کہ اگر کوئی فوق العادت امر جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے ظہور میں آ جائے تو ہم یہ تمام بغض اور شحناء چھوڑ کر محض خدا کو راضی کرنے کے لئے سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں گے تو ضرور خدا تعالیٰ کوئی نشان دکھائے گا کیونکہ وہ رحیم اور کریم ہے لیکن میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میں نشان دکھلانے کے لئے دو تین دن مقرر کر دوں یا آپ لوگوں کی مرضی پر چلوں.یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ جو چاہے تاریخ مقرر کرے.( اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۳۷۵،۳۷۴) اگر کوئی تلاش کرتا کرتا مر بھی جائے تو ایسی کوئی پیشگوئی جو میرے منہ سے نکلی ہو اس کو نہیں ملے گی جس کی نسبت وہ کہہ سکتا ہو کہ خالی گئی مگر بے شرمی سے یا بے خبری سے جو چاہے کہے اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہزار ہا میری ایسی کھلی کھلی پیشگوئیاں ہیں جو نہایت صفائی سے پوری ہوگئیں جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں.ان کی نظیر اگر گذشتہ نبیوں میں تلاش کی جائے تو بجز آنحضرت عہ کے کسی اور جگہ ان کی مثل نہیں ملے گی.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس زمانہ میں جس طرح خدا تعالیٰ قریب ہو کر ظاہر ہو رہا ہے اور صدہا امور غیب اپنے بندہ پر کھول رہا ہے اس زمانہ کی گذشتہ زمانوں میں بہت ہی کم مثال ملے گی.لوگ عنقریب دیکھ لیں گے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا چہرہ ظاہر ہوگا.گویا وہ آسمان سے اترے گا.اُس نے بہت مدت تک اپنے تئیں چھپائے رکھا اور انکار کیا گیا اور چپ رہا لیکن وہ اب نہیں چھپائے گا اور دنیا اس کی قدرت کے وہ نمونے دیکھے گی کہ کبھی ان کے باپ دادوں نے نہیں دیکھے تھے.یہ اس لئے ہو گا کہ زمین بگڑ گئی اور آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے پر لوگوں کا ایمان نہیں رہا.ہونٹوں پر اس کا ذکر ہے لیکن دل اس سے پھر گئے ہیں.اس لئے خدا نے کہا کہ اب میں نیا آسمان اور نئی زمین بناؤں گا.اس کا مطلب یہی ہے کہ زمین مرگئی.یعنی زمینی لوگوں کے دل سخت ہو گئے گویا مر گئے
۱۱۷۳ کیونکہ خدا کا چہرہ ان سے چھپ گیا اور گذشتہ آسمانی نشان سب بطور قصوں کے ہو گئے.سوخدا نے ارادہ کیا کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بناوے.وہ کیا ہے نیا آسمان اور کیا ہے نئی زمین ؟ نئی زمین وہ پاک دل ہیں جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا ان سے ظاہر ہوگا.اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اس کے بندے کے ہاتھ سے اُسی کے اذن سے ظاہر ہورہے ہیں.لیکن افسوس کہ دنیا نے خدا کی اس نئی تجلی سے دشمنی کی.ان کے ہاتھ میں بجو قصوں کے اور کچھ نہیں اور ان کا خدا ان کے اپنے ہی تصورات ہیں.دل ٹیڑھے ہیں اور ہمتیں تھکی ہوئی ہیں اور آنکھوں پر پردے ہیں.(کشتی نوح - روحانی خزائن جلد 9 صفحه ۷،۶) سچ اور واقعی یہی بات ہے کہ میری کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کہ جو پوری نہیں ہوگئی.اگر کسی کے دل میں شک ہو تو وہ سیدھی نیت سے ہمارے پاس آجائے اور بالمواجہ کوئی اعتراض کر کے اگر شافی کافی جواب نہ سنے تو ہم ہر ایک تاوان کے سزاوار ٹھہر سکتے ہیں.حقیقت یہی ہے کہ ایسے لوگ بخل سے اعتراض کرتے ہیں نہ انصاف سے.اگر یہ لوگ انبیاء علیھم السلام کے وقتوں میں ہوتے تو ان پر بھی ایسے ہی اعتراض کرتے جو مجھ پر کرتے ہیں.جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اس کو ہم راہ دکھلا سکتے ہیں مگر جو بخل اور خود غرضی اور تکبر سے اندھا ہو گیا ہو اس کو کیا دکھا سکتے ہیں.تین ہزار یا اس سے بھی زیادہ اس عاجز کے الہامات کی مبارک پیشگوئیاں جو امن عامہ کے مخالف نہیں پوری ہو چکی ہیں.صدہا نیک دل انسان گواہ ہیں.بہت سی تحریریں پیش از وقت شائع ہو چکی ہیں.پھر بھی اگر کوئی بخل کی راہ سے خوانخواہ شکوک اور اعتراضات پیش کرتا ہے اور سیدھے طور پر صحبت میں رہ کر تجربہ نہیں کرتا اور نہ اہل تجربہ سے دریافت کرتا ہے اور دجل اور خیانت کی راہ سے دھوکہ دینے والے اعتراضات مشہور کرتا ہے اور خیانت اور دروغگوئی سے باز نہیں آتا وہ اُن منکرین کا وارث ہے جو اس سے پہلے خدا کے پاک نبیوں کے مقابل پر گذر چکے ہیں.خدا اپنے بندوں کو ایسے منصوبہ باز لوگوں کے بہتانوں سے اپنی پناہ میں رکھے.اس بات کا کیا سبب ہے کہ یہ لوگ چوروں کی طرح دور دور سے اعتراض کرتے ہیں اور صاف باطن لوگوں کی طرح بالمقابل آکر اعتراض نہیں کرتے اور نہ جواب سننا چاہتے ہیں.اس کا یہی سبب ہے کہ یہ لوگ اپنے دجل اور بددیانتی سے واقف ہیں اور ان کا دل ان کو ہر وقت جتلاتا ہے کہ اگر تم نے ایسے بیہودہ اور جہالت اور خیانت سے بھرے ہوئے اعتراض رو برو پیش کئے تو اس صورت میں تمہاری سخت پردہ دری ہوگی اور تمہاری دھو کہ دینے والی باتیں میکد فعہ کا لعدم ہو جائیں گی.تب اس وقت ندامت اور خجالت اور رسوائی رہ جائے گی اور
۱۱۷۴ اعتراض کا نام ونشان نہ رہے گا.خوب یا د رکھنا چاہیئے کہ میری پیشگوئیوں میں کوئی بھی امرایسا نہیں ہے جس کی نظیر پہلے انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں میں نہیں ہے.یہ جاہل اور بے تمیز لوگ چونکہ دین کے بار یک علوم اور معارف سے بے بہرہ ہیں اس لئے قبل اس کے جو عادت اللہ سے واقف ہوں بخل کے جوش سے اعتراض کرنے کے لئے دوڑتے ہیں.اور ہمیشہ بموجب آیت کریمہ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَابِرَ میری کسی گردش کے منتظر ہیں اور عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوْءِ لے کے مضمون سے بے خبر.(حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۴۴۲٬۴۴۱) خدا تعالیٰ کا معاملہ ہر ایک شخص سے بقدر تعلق ہوتا ہے اور گومحبو بین الہی پر مصائب بھی پڑتی ہیں مگر نصرت الہی نمایاں طور پر ان کے شامل حال ہوتی ہے اور غیرت الہی ہرگز ہرگز گوارا نہیں کرتی کہ ان کو ذلیل اور رسوا کرے اور اس کی محبت گوارا نہیں کرتی کہ ان کا نام دنیا سے مٹاوے اور کرامات کی اصل بھی یہی ہے کہ جب انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا کا ہوجاتا ہے اور اس میں اور اس کے رب میں کوئی حجاب باقی نہیں رہتا اور وہ وفا اور صدق کے تمام ان مراتب کو پورے کر کے دکھلاتا ہے جو حجاب سوز ہیں تب وہ خدا کا اور اس کی قدرتوں کا وارث ٹھہرایا جاتا ہے اور خدا تعالی طرح طرح کے نشان اس کے لئے ظاہر کرتا ہے جو بعض بطور دفع شر ہوتے ہیں اور بعض بطور افاضہ خیر اور بعض اس کی ذات کے متعلق ہوتے ہیں اور بعض اس کے اہل وعیال کے متعلق اور بعض اس کے دشمنوں کے متعلق اور بعض اس کے دوستوں کے متعلق اور بعض اس کے اہل وطن کے متعلق اور بعض عالمگیر اور بعض زمین سے اور بعض آسمان سے.غرض کوئی نشان ایسا نہیں ہوتا جو اس کے لئے دکھایا نہیں جاتا اور یہ مرحلہ دقت طلب نہیں اور کسی بحث کی اس جگہ ضرورت نہیں کیونکہ اگر در حقیقت کسی شخص کو یہ تیسرا درجہ نصیب ہو گیا ہے جو بیان ہو چکا ہے تو دنیا ہرگز اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.ہر ایک جو اس پر گرے گاوہ پاش پاش ہو جائے گا اور جس پر وہ گرے گا اس کو ریزہ ریزہ کر دے گا کیونکہ اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ اور اس کا منہ خدا کا منہ ہے اور اس کا وہ مقام ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا.جاننا چاہیے کہ معجزہ عادات الہیہ میں سے ایک ایسی عادت یا یوں کہو کہ اس قادر مطلق کے افعال میں سے ایک ایسا فعل ہے جس کو اضافی طور پر خارق عادت کہنا چاہیے.پس امر خارق عادت کی حقیقت صرف ال التوبة: ٩٨ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۳)
۱۱۷۵ اس قدر ہے کہ جو پاک نفس لوگ عام طریق و طرز انسانی سے ترقی کر کے اور معمولی عادات کو پھاڑ کر قرب الہی کے میدانوں میں آگے قدم رکھتے ہیں تو خدائے تعالیٰ حسب حالت ان کے ایک ایسا عجیب معاملہ ان سے کرتا ہے کہ وہ عام حالات انسانی پر خیال کرنے کے بعد ایک امر خارق عادت دکھائی دیتا ہے اور جس قدر انسان اپنی بشریت کے وطن کو چھوڑ کر اور اپنے نفس کے حجابوں کو پھاڑ کر عرصات عشق ومحبت میں دور تر چلا جاتا ہے اسی قدر یہ خوارق نہایت صاف اور شفاف اور روشن و تاباں ظہور میں آتے ہیں.جب تزکیہ نفس انسانی کمال تام کی حالت پر پہنچتا ہے اور اس کا دل غیر اللہ سے بالکل خالی ہو جاتا ہے اور محبت الہی سے بھر جاتا ہے تو اس کے تمام اقوال و افعال و اعمال و حرکات و سکنات وعبادات ومعاملات و اخلاق جو انتہائی درجہ پر اس سے صادر ہوتے ہیں وہ سب خارق عادت ہی ہو جاتے ہیں.سو بمقابل اس کے ایسا ہی معاملہ باری تعالیٰ کا بھی اس مبدل تام سے بطور خارق عادت ہی ہوتا ہے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۹،۶۸ حاشیہ ) معجزہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ معجزہ ایسے امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریق مخالف اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آ جائے.خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو.جیسا کہ قرآن شریف کا معجزہ جو ملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا.پس وہ اگر چہ بنظر سرسری انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آگئے.پس معجزہ کی حقیقت سمجھنے کے لئے قرآن شریف کا کلام نہایت روشن مثال ہے کہ بظاہر وہ بھی ایک کلام ہے جیسا کہ انسان کا کلام ہوتا ہے لیکن وہ اپنی فصیح تقریر کے لحاظ سے اور نہایت لذیذ اور مصفی اور رنگین عبارت کے لحاظ سے جو ہر جگہ حق اور حکمت کی پابندی کا التزام رکھتی ہے اور نیز روشن دلائل کے لحاظ سے جو تمام دنیا کے مخالفانہ دلائل پر غالب آگئیں اور نیز ز بر دست پیشگوئیوں کے لحاظ سے ایک ایسا لا جواب معجزہ ہے جو با وجود گذر نے تیرہ سو برس کے اب تک کوئی مخالف اس کا مقابلہ نہیں کر سکا.اور نہ کسی کو طاقت ہے جو کرے.قرآن شریف کو تمام دنیا کی کتابوں سے یہ امتیا ز حاصل ہے کہ وہ معجزانہ پیشگوئیوں کو بھی معجزانہ عبارات میں جو اعلیٰ درجہ کی بلاغت اور فصاحت سے پر اور حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہیں بیان فرماتا ہے.غرض اصلی اور بھاری مقصد معجزہ سے حق اور باطل یا صادق اور کاذب میں ایک امتیاز دکھلانا ہے.اور ایسے امتیازی امر کا نام معجزہ یا دوسرے لفظوں میں نشان ہے.نشان ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اس کے بغیر خدائے تعالیٰ کے وجود پر بھی پورا یقین کرنا ممکن نہیں اور نہ وہ ثمرہ حاصل
1127 ہونا ممکن ہے کہ جو پورے یقین سے حاصل ہو سکتا ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ مذہب کی اصلی سچائی خدائے تعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے.بچے مذہب کے ضروری اور اہم لوازم میں سے یہ امر ہے کہ اس میں ایسے نشان پائے جائیں جو خدائے تعالی کی ہستی پر قطعی اور یقینی دلالت کریں.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۵۹-۶۰) اس جگہ اس بات کا جواب دینا بھی مناسب ہے کہ اگر سب امور قوانین از لیہ وابد یہ میں داخل ہیں یعنی پہلے ہی سے بندھے ہوئے چلے آتے ہیں تو پھر معجزات کیا شئے ہیں.سو جاننا چاہیے کہ بیشک یہ تو سیچ ہے کہ قوانین از لیہ وابد یہ سے یا یوں کہو کہ خدائے تعالیٰ کے ازلی ارادہ اور اس کے قضاء و قدر سے کوئی چیز باہر نہیں گو ہم اس پر اطلاع پاویں یا نہ پاویں جَفَّ القَلَمُ بِمَاهُوَ كَائِنٌ مگر اس عادت الہیہ نے جو دوسرے لفظوں میں قانون قدرت سے موسوم ہو سکتی ہے بعض چیزوں کے ظہور کو بعض کیسا تھ مشروط کر رکھا ہے.پس جو امور ازلی ابدی ارادہ نے مقدسوں کی دعاؤں اور ان کی برکات انفاس اور ان کی توجہ اور اُن کی عقد ہمت اور ان کے اقبال ایام سے وابستہ کر رکھے ہیں اور ان کے تضرعات اور ابتہالات پر مترتب کی جاتی ہیں وہ امور جب انہیں شرائط اور انہیں وسائل سے ظہور میں آتے ہیں تب ان امور کو اس خاص حالت میں معجزہ یا کرامت یا نشان یا خارق عادت کے نام سے موسوم کرتے ہیں.اور اس جگہ خارق عادت کے لفظ سے اس شبہ میں نہیں پڑنا چاہیئے کہ وہ کونسا امر ہے جو عادتِ الہیہ سے باہر ہے کیونکہ اس محل میں خارق عادت کے قول سے ایک مفہوم اضافی مراد ہے یعنی یوں تو عادات از لیہ وابد یہ خدائے کریم جلشانہ سے کوئی چیز باہر نہیں مگر اس کی عادات جو بنی آدم سے تعلق رکھتی ہیں دوطور کی ہیں.ایک عادات عامہ جو روپوش اسباب ہو کر سب پر مؤثر ہوتی ہیں.دوسری عادات خاصہ جو بتوسط اسباب اور بلاتوسط اسباب خاص ان لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں جو اس کی محبت اور رضا میں کھوئی جاتی ہیں.یعنی جب انسان بکلی خدائے تعالیٰ کی طرف انقطاع کر کے اپنی عادات بشریہ کو استرضاء حق کے لئے تبدیل کر دیتا ہے تو خدائے تعالیٰ اُس کی اس حالت مبدلہ کے موافق اس کے ساتھ ایک خاص معاملہ کرتا ہے جو دوسروں سے نہیں کرتا.یہ خاص معاملہ نسبتی طور پر گویا خارق عادت ہے جس کی حقیقت انہی پرکھلتی ہے جو عنایات الہی سے اس طرف کھینچے جاتے ہیں.جب انسان اپنی بشری عادتوں کو جو اس میں اور اس کے رب میں حائل ہیں شوق توصل الہی میں توڑتا ہے تو خدائے تعالیٰ بھی اپنی عام عادتوں کو اس کے لئے تو ڑ دیتا ہے.یہ توڑنا بھی عادات ازلیہ میں سے ہے کوئی امر مستحدث نہیں ہے جو مورد اعتراض ہو سکے.گویا
قدیم قانون حضرت احدیت جلشانہ اسی طور پر چلا آتا ہے کہ جیسے جیسے انسان کا بھروسہ خدائے تعالیٰ پر بڑھتا ہے ایسا ہی اس طرف سے الوہیت کی قدرتوں کے چکار اور اس کی کرنیں زیادہ زیادہ اس پر پڑتی ہیں اور جیسے جیسے اس طرف سے ایک پاک اور کامل تعلق ہوتا جاتا ہے ایسا ہی اس طرف سے بھی کامل اور طیب برکتیں ظاہر و باطن پر اترتی ہیں.اور جیسی جیسی محبت الہی کی موجیں عاشق صادق کے دل سے اٹھتی ہیں ایسا ہی اس طرف سے بھی ایک نہایت صاف اور شفاف دریائے محبت کا زور شور سے چھوٹتا ہے اور دائرہ کی طرح اس کو اپنے اندر گھیر لیتا ہے اور اپنے الہی زور سے کھینچ کر کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے اور جیسا یہ امر صاف صاف ہے ویسا ہی ہمارے نیچر کے مطابق بھی ہے.ہم تم بھی جیسے جیسے دوستی اور محبت اور اخلاص میں بڑھتے ہیں تو اس دو طرفہ صفائی محبت کی یہی نشانی ہوا کرتی ہے کہ دونوں طرف سے آثار خلوص و اتحاد و یگانگت کے ظاہر ہوں نہ صرف ایک طرف سے ہو.ہر یک دوست اپنے دوست کے ساتھ عوام الناس کی نسبت معاملہ خارق عادت رکھتا ہے.جب انسان اپنی پہلی زندگی کی نسبت ایک ایسی نئی زندگی حاصل کرتا ہے جس کو نسبتی طور پر خارق عادت کہہ سکتے ہیں تو اسی دم سے وہی قدیم خدا اپنی تجلیات نادرہ کے رُو سے ایک نیا خدا اس کے لئے ہو جاتا ہے.اور وہ عادتیں اس کے ساتھ ظہور میں لاتا ہے جو پہلی زندگی کی حالت میں کبھی خیال میں بھی نہیں آئی تھیں.خوارق کی کل جس سے عجائبات قدرتیہ حرکت میں آتی ہیں انسان کی تبدیلی یافتہ روح ہے اور وہ کچی تبدیلی یاں تک آثار نمایاں دکھاتی ہے کہ بعض اوقات ایک ایسے طور سے شور محبت دل پر استیلاء پکڑتا ہے کہ عشق الہی کے پر زور جذبات اور صدق اور یقین کی سخت کششیں ایسے مقام پر انسان کو پہنچا دیتی ہیں کہ اس عجیب حالت میں اگر وہ آگ میں ڈالا جائے تو آگ اس پر کچھ اثر نہیں کرسکتی.اگر وہ شیروں اور بھیڑیوں اور ریچھوں کے آگے پھینک دیا جائے تو وہ اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتے.کیونکہ اس وقت وہ صدق اور عشق کے کامل اور قوی تجلیات سے بشریت کے خواص کو پھاڑ کر کچھ اور ہو جاتا ہے.اور جس طرح لوہے کے ظاہر و باطن پر آگ مستولی ہوکر اس کو اپنے رنگ میں لے آتی ہے اسی طرح یہ بھی آتش محبت الہی کے ایک سخت استیلاء سے کچھ کچھ اس طاقتِ عظمی کے خواص ظاہر کرنے لگتا ہے جو اس پر محیط ہوگئی ہے.سو یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کہ عبودیت پر ربوبیت کا کامل اثر پڑنے سے اس سے ایسے خوارق ظاہر ہوں بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ ایسے اثر کے بعد بھی عبودیت کی معمولی حالت میں کچھ فرق پیدا نہ ہو کیونکہ اگر لوہا آگ میں تپانے سے کسی قدر خاصہ آگ کا ظاہر کرنے لگے تو یہ امر سراسر مطابق قانون قدرت ہے لیکن اگر سخت تپانے کے بعد بھی اسی پہلی حالت پر
۱۱۷۸ رہے اور کوئی خاصیت جدید اس میں پیدا نہ ہو تو یہ عند العقل صریح باطل ہے.سو فلاسفی تجارب بھی ان خوارق کے ضروری ہونے پر شہادت دے رہے ہیں.یہ افسانہ نہیں اس پر عارفانہ روح لے کر غور کرو.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۰۵ تا ۱۰۷) یا در ہے کہ معجزہ صرف حق اور باطل میں فرق دکھلانے کے لئے اہل حق کو دیا جاتا ہے اور معجزہ کی اصل غرض صرف اس قدر ہے کہ عقلمندوں اور منصفوں کے نزدیک سچے اور جھوٹے میں ایک مابہ الامتیاز قائم ہو جائے اور اسی حد تک معجزہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو ما بہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے کافی ہو اور یہ اندازہ ہرایک زمانہ کی حاجت کے مناسب حال ہوتا ہے اور نیز نوعیت معجزہ بھی حسب حال زمانہ ہی ہوتی ہے.یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ ہر ایک متعصب اور جاہل اور بدطبع گو کیسا ہی مصلحت الہیہ کے برخلاف اور قدر ضرورت سے بڑھ کر کوئی معجزہ مانگے تو وہ بہر حال دکھلانا ہی پڑے.یہ طریق جیسا کہ حکمت الہیہ کے برخلاف ہے ایسا ہی انسان کی ایمانی حالت کو بھی مضر ہے کیونکہ اگر معجزات کا حلقہ ایسا وسیع کر دیا جائے کہ جو کچھ قیامت کے وقت پر موقوف رکھا گیا ہے وہ سب دنیا میں ہی بذریعہ معجزہ ظاہر ہو سکے تو پھر قیامت اور دنیا میں کوئی فرق نہ ہو گا حالانکہ اسی فرق کی وجہ سے جن اعمال صالحہ اور عقائد صحیحہ کا جو دنیا میں اختیار کئے جائیں ثواب ملتا ہے وہی عقائد اور اعمال اگر قیامت کو اختیار کئے جائیں تو ایک رتی بھی ثواب نہیں ملے گا.جیسا کہ تمام نبیوں کی کتابوں اور قرآن شریف میں بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن کسی بات کا قبول کرنا یا کوئی عمل کرنا نفع نہیں دے گا اور اس وقت ایمان لانا محض بے کار ہوگا.کیونکہ ایمان اسی حد تک ایمان کہلاتا ہے جبکہ کسی مخفی بات کو ماننا پڑے.لیکن جبکہ پردہ ہی کھل گیا اور روحانی عالم کا دن چڑھ گیا اور ایسے امور قطعی طور پر ظاہر ہو گئے کہ خدا پر اور روز جزا پر شک کرنے کی کوئی بھی وجہ نہ رہی تو پھر کسی بات کو اس وقت ماننا جس کو دوسرے لفظوں میں ایمان کہتے ہیں محض تحصیل حاصل ہوگا.غرض نشان اس درجہ پر کھلی کھلی چیز نہیں ہے جس کے ماننے کے لئے تمام دنیا بغیر اختلاف اور بغیر عذر اور بغیر چون و چرا کے مجبور ہو جائے اور کسی طبیعت کے انسان کو اس کے نشان ہونے میں کلام نہ رہے.اور کسی نجی سے نبی انسان پر بھی وہ امر مشتبہ نہ رہے.غرض نشان اور معجزہ ہر ایک طبیعت کے لئے ایک بدیہی امر نہیں جو دیکھتے ہی ضروری التسلیم ہو بلکہ نشانوں سے وہی عظمند اور منصف اور راستباز اور راست طبع فائدہ اٹھاتے ہیں جو اپنی فراست اور دُور بینی اور باریک نظر اور انصاف پسندی اور خدا ترسی اور تقویٰ شعاری سے دیکھ لیتے ہیں کہ وہ ایسے امور ہیں جو
1129 دنیا کی معمولی باتوں میں سے نہیں ہیں.اور نہ ایک کا ذب ان کے دکھلانے پر قادر ہو سکتا ہے.اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ امور انسانی بناوٹ سے بہت دور ہیں.اور بشری دسترس سے برتر ہیں اور ان میں ایک ایسی خصوصیت اور امتیازی علامت ہے جس پر انسان کی معمولی طاقتیں اور پر تکلف منصو بے قدرت نہیں پاسکتے.اور وہ اپنے لطیف فہم اور نور فراست سے اس تہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے اندر ایک نور ہے اور خدا کے ہاتھ کی ایک خوشبو ہے جس پر مکر اور فریب یا کسی چالا کی کا شبہ نہیں ہوسکتا.پس جس طرح سورج کی روشنی پر یقین لانے کے لئے صرف وہ روشنی ہی کافی نہیں بلکہ آنکھ کے نور کی بھی ضرورت ہے تا اس روشنی کو دیکھ سکے اسی طرح معجزہ کی روشنی پر یقین لانے کے لئے فقط معجزہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ نورفر است کی بھی ضرورت ہے اور جب تک معجزہ دیکھنے والے کی سرشت میں فراست صحیحہ اور عقل سلیم کی روشنی نہ ہو تب تک اس کا قبول کرنا غیر ممکن ہے مگر بد بخت انسان جس کو یہ نور فر است عطا نہیں ہوا وہ ایسے معجزات سے جوصرف امتیازی حد تک ہیں تسلی نہیں پاتا اور بار بار یہی سوال کرتا ہے کہ بجز ایسے معجزہ کے میں کسی معجزہ کو قبول نہیں کر سکتا کہ جونمونہ قیامت ہو جائے.مثلاً کوئی شخص میرے رُوبرو آسمان پر چڑھ جائے اور پھر روبرو ہی آسمان سے اترے اور اپنے ساتھ کوئی ایسی کتاب لائے جو اتر نے کے وقت اس کے ہاتھ میں ہو اور صرف اسی پر کفایت نہیں بلکہ تب مانیں گے کہ ہم اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر دیکھ لیں اور پڑھ لیں.یا چاند کا ٹکڑایا سورج کا ٹکڑا اپنے ساتھ لائے جو زمین کو روشن کر سکے یا فرشتے اس کے ساتھ آسمان سے اتریں.جو فرشتوں کی طرح خارق عادت کام کر کے دکھلا ئیں.یا دس ہیں مُردے اس کی دعا سے زندہ ہو جائیں اور وہ شناخت کئے جائیں کہ فلاں فلاں شخص کے باپ دادا ہیں جو فلاں تاریخ مر گئے تھے اور صرف اسی قدر کافی نہیں بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عام شہروں میں مجلسیں منعقد کر کے لیکچر دیں اور بلند آواز سے کہہ دیں کہ در حقیقت ہم مُردے ہیں جو دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آئے ہیں اور ہم اس لئے آئے ہیں کہ تا گواہی دیں کہ فلاں مذہب سچا ہے یا فلاں شخص جو دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں وہ سچ کہتا ہے اور ہم خدائے تعالیٰ کے منہ سے سُن کر آئے ہیں کہ وہ سچا ہے.یہ وہ خود تراشیدہ معجزات ہیں جو اکثر جاہل لوگ جو ایمان کی حقیقت سے بکلی بے خبر ہیں مانگا کرتے ہیں یا ایسے ہی اور بیہودہ خوارق جو خدائے تعالیٰ کی اصل منشاء سے بہت دور ہیں طلب کیا کرتے ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۴ تا ۴۶) در حقیقت معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو
۱۱۸۰ مگر وہ شخص جو شب کو رہو جو رات کو کچھ نہیں دیکھ سکتا اس کے لئے یہ چاندنی کچھ مفید نہیں.ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا کہ اس دنیا کے معجزات اسی رنگ سے ظاہر ہوں جس رنگ سے قیامت میں ظہور ہوگا.مثلاً دو تین سومر دے زندہ ہو جا ئیں اور بہشتی پھل ان کے پاس ہوں اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں بھی پاس رکھتے ہوں اور شہر بشہر دورہ کریں اور ایک نبی کی سچائی پر جو قوم کے درمیان ہو گواہی دیں اور لوگ ان کو شناخت کر لیں کہ در حقیقت یہ لوگ مر چکے تھے اور اب زندہ ہو گئے ہیں اور وعظوں اور لیکچروں سے شور مچادیں کہ درحقیقت یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے سچا ہے.سویا درہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر نہیں ہوئے اور نہ آئندہ قیامت سے پہلے کبھی ظاہر ہوں گے.اور جو شخص دعوی کرتا ہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر ہو چکے ہیں وہ محض بے بنیاد قصوں سے فریب خوردہ ہے اور اس کو سنت اللہ کا علم نہیں.اگر ایسے معجزات ظاہر ہوتے تو دنیا دنیا نہ رہتی اور تمام پر دے کھل جاتے اور ایمان لانے کا ایک ذرہ بھی ثواب باقی نہ رہتا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۴۳ ۴۴) بیان ڈپٹی مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب جناب کے کل کے مباہلہ کا جواب یہ ہے کہ ہم مسیحی تو پرانی تعلیمات کے لئے نئے معجزات کی کچھ ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ ہم اس کی استطاعت اپنے اندر دیکھتے ہیں.بجز اس کے کہ ہم کو وعدہ یہ ہوا ہے کہ جو درخواست بمطابق رضاء الہی کے تم کرو گے وہ تمہارے واسطے حاصل ہو جائے گی.اور نشانات کا وعدہ ہم سے نہیں لیکن جناب کو اس کا بہت ساناز ہے.ہم بھی دیکھنے معجزہ سے انکار نہیں کرتے.اگر اسی میں مہربانی خلق اللہ کے اوپر ہے کہ نشان دکھلا کر فیصلہ کیا جائے تو ہم نے تو اپنا بجز بیان کیا.جناب ہی کوئی معجزہ دکھلا دیں.اور اسوقت آپ نے اپنے آخری مضمون دیروزہ میں کہا تھا اور کچھ آج بھی اس پر ایماء ہے.اب زیادہ گفتگو کی اس میں کیا ضرورت ہے.ہم دونوں عمر رسیدہ ہیں آخر قبر ہمارا ٹھکانہ ہے.خلق اللہ پر رحم کرنا چاہیئے کہ آؤ کسی نشان آسمانی سے فیصلہ کر لیں اور یہ بھی آپ نے کہا کہ مجھے خاص الہام ہوا ہے کہ اس میدان میں تجھے فتح ہے اورضرور خدائے راست ان کے ساتھ ہو گا جو راستی پر ہیں.ضرور ضرور ہی ہو گا.آپ کی اس تحریر کے خلاصہ کا یہ جواب ہے جیسا کہ ہم آگے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہم آپ کو کوئی پیغمبر یا رسول یا شخص ملہم جان کر آپ سے مباحثہ نہیں کرتے.آپ کے ذاتی خیالات اور وجوہات اور الہامات سے ہمارا کچھ سروکار نہیں ہم فقط آپ کو ایک محمدی شخص فرض کر کے دین
۱۱۸۱ عیسوی اور محمدیت کے بارہ میں بموجب ان قواعد و اسناد کے جوان ہر دو میں عام مانی جاتی ہیں آپ سے گفتگو کر رہے ہیں.خیر تاہم چونکہ آپ کو ایک خاص قدرت الہی دکھانے پر آمادہ ہو کے ہم کو برائے مقابلہ بلاتے ہیں تو ہمیں دیکھنے سے گریز بھی نہیں یعنی معجزہ یا نشانی پس ہم یہ تین شخص پیش کرتے ہیں جن میں ایک اندھا ایک ٹانگ کٹا اور ایک گونگا ہے.ان میں سے جس کسی کو صحیح سالم کر سکو کر دو اور جو اس معجزہ سے ہم پر فرض و واجب ہوگا ہم ادا کرینگے.آپ بقول خود ایسے خدا کے قائل ہیں جو گفتہ قادر نہیں لیکن درحقیقت قادر ہے تو وہ ان کو تندرست بھی کر سکے گا.پھر اس میں تامل کی کیا ضرورت ہے اور ضرور بقول آپ کے راستباز کے ساتھ ہوگا.ضرور ہو گا.آپ خلق اللہ پر رحم فرمائیے جلد فرمائیے اور آپ کو خبر ہوگی کہ آج یہ معاملہ پڑتا ہے.جس خدا نے الہام سے آپ کو خبر دے دی کہ اس جنگ و میدان میں تجھے فتح ہے اس نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہو گا کہ اندھے و دیگر مصیبت زدوں نے بھی پیش ہونا ہے.سوسب عیسائی صاحبان و محمدی صاحبان کے روبرو اسی وقت اپنا چیلنج پورا کیجیے.بیان حضرت مرزا صاحب واضح ہو کہ میں نے ڈپٹی عبداللہ صاحب کی خدمت میں یہ تحریر کیا تھا کہ جیسا کہ آپ دعوی کرتے ہیں کہ نجات صرف مسیحی مذہب میں ہے.ایسا ہی قرآن میں لکھا ہے کہ نجات صرف اسلام میں ہے اور آپ کا تو صرف اپنے لفظوں کے ساتھ دعوئی اور میں نے وہ آیات بھی پیش کر دی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ دعوئی بغیر ثبوت کے کچھ عزت اور وقعت نہیں رکھتا.سو اس بناء پر دریافت کیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں تو نجات یا بندہ کی نشانیاں لکھی ہیں جن نشانوں کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ اس مقدس کتاب کی پیروی کرنے والے نجات کو اسی زندگی میں پالیتے ہیں مگر آپ کے مذہب میں حضرت عیسی نے جو نشانیاں نجات یا بندوں یعنی حقیقی ایمانداروں کی لکھی ہیں وہ آپ میں کہاں موجود ہیں.مثلاً جیسے کہ مرقس ۱۶-۱۷ میں لکھا ہے:.اور وے جو ایمان لائیں گے ان کے ساتھ یہ علامتیں ہوں گی کہ وہ میرے نام سے دیووں کو نکالیں گے اور نئی زبانیں بولیں گے.سانپوں کو اٹھا لیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پیئیں گے انہیں کچھ نقصان نہ ہوگا.وے بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو چنگے ہو جائیں گے.،، تواب میں بادب التماس کرتا ہوں اور اگر ان الفاظ میں کچھ درشتی یا مرارت ہو تو اس کی معافی
۱۱۸۲ چاہتا ہوں کہ یہ تین بیمار جو آپ نے پیش کئے ہیں یہ علامت تو بالخصوصیت مسیحیوں کے لئے حضرت عیسی قرار دے چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم بچے ایماندار ہو تو تمہاری یہی علامت ہے کہ بیمار پر ہاتھ رکھو گے تو وہ چنگا ہو جائے گا.اب گستاخی معاف اگر آپ بچے ایماندار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس وقت تین بیمار آپ ہی کے پیش کردہ موجود ہیں آپ ان پر ہاتھ رکھ دیں اگر وہ چنگے ہو گئے تو ہم قبول کر لیں گے کہ بیشک آپ سچے ایمان دار اور نجات یافتہ ہیں.ورنہ کوئی قبول کرنے کی راہ نہیں کیونکہ حضرت مسیح تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہوتا تو اگر تم پہاڑ کو کہتے کہ یہاں سے چلا جا تو وہ چلا جاتا.مگر خیر میں اس وقت پہاڑ کی نقل مکانی تو آپ سے نہیں چاہتا کیونکہ وہ ہماری اس جگہ سے دور ہیں.لیکن یہ تو بہت اچھی تقریب ہوگئی کہ بیمار تو آپ نے ہی پیش کر دئیے.اب آپ ان پر ہاتھ رکھو اور چنگا کر کے دکھلاؤ.ورنہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہاتھ سے جاتا رہے گا.مگر آپ پر یہ واضح رہے کہ یہ الزام ہم پر عائد نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں ہماری یہ نشانی نہیں رکھی کہ بالخصوصیت تمہاری یہی نشانی ہے کہ جب تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے تو اچھے ہو جائیں گے.ہاں یہ فرمایا ہے کہ میں اپنی رضا اور مرضی کے موافق تمہاری دعائیں قبول کروں گا اور کم سے کم یہ کہ اگر ایک دعا قبول کرنے کے لائق نہ ہو اور مصلحت الہی کے مخالف ہو تو اس میں اطلاع دی جائے گی یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تم کو یہ اقتدار دیا جائے گا کہ تم اقتداری طور پر جو چاہو وہی کر گزرو گے مگر حضرت مسیح کا تو یہ حکم معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیماروں وغیرہ کے چنگا کرنے میں اپنے تابعین کو اختیار بخشتے ہیں جیسا کہ متی دس باب ایک میں لکھا ہے.” پھر اس نے بارہ شاگردوں کو پاس بلا کر انہیں قدرت بخشی کہ ناپاک روحوں کو نکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور دکھ درد کو دور کریں.“ اب یہ آپ کا فرض اور آپ کی ایمان داری کا ضرور نشان ہو گیا کہ آپ ان بیماروں کو چنگا کر کے دکھلا دیں یا یہ اقرار کریں کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ہم میں ایمان نہیں.اور آپ کو یادر ہے کہ ہر ایک شخص اپنی کتاب کے موافق مواخذہ کیا جاتا ہے ہمارے قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا کہ تمہیں اقتدار دیا جائے گا بلکہ صاف فرما دیا کہ قُلْ إِنَّمَا الأيتُ عِنْدَ اللہ کے یعنی ان کو کہہ دو کہ نشان اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جس نشان کو چاہتا ہے اس نشان کو ظاہر کرتا ہے بندہ کا اس پر زور نہیں ہے کہ جبر کے ساتھ الانعام: ١١٠
۱۱۸۳ اس سے ایک نشان لیوے.یہ جبر اور اقتدار تو آپ ہی کی کتابوں میں پایا جاتا ہے.بقول آپ کے مسیح اقتداری معجزات دکھلاتا تھا اور اُس نے شاگردوں کو بھی اقتدار بخشا اور آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اب بھی حضرت مسیح زنده حتی، قیوم، قادر مطلق عالم الغیب دن رات آپ کے ساتھ ہے جو چاہو وہی دے سکتا ہے.پس اب حضرت مسیح سے درخواست کریں کہ ان تینوں بیماروں کو آپ کے ہاتھ رکھنے سے اچھا کر دیویں تا نشانی ایمانداری کی آپ میں باقی رہ جاوے.ورنہ یہ تو مناسب نہیں کہ ایک طرف اہل حق کے ساتھ بحیثیت بچے عیسائی ہونے کے مباحثہ کریں اور جب بچے عیسائی کے نشان مانگے جائیں تب کہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں.اس بیان سے تو آپ اپنے پر ایک اقبالی ڈگری کراتے ہیں کہ آپ کا مذہب اس وقت زندہ مذہب نہیں ہے.لیکن ہم جس طرح پر خدا تعالیٰ نے ہمارے بچے ایماندار ہونے کے نشان ٹھہرائے ہیں اس التزام سے نشان دکھلانے کو تیار ہیں.اگر نشان نہ دکھلا سکیں تو جو سزا چاہیں دے دیں اور جس طرح کی چھری چاہیں ہمارے گلے میں پھیر دیں اور وہ طریق نشان نمائی کا جس کے لئے ہم مامور ہیں وہ یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے جو ہمارا سچا اور قادر خدا ہے.اس مقابلہ کے وقت جو ایک سچے اور کامل نبی کا انکار کیا جاتا ہے تضرع سے کوئی نشان مانگیں تو وہ اپنی مرضی سے نہ ہمارا محکوم اور تابع ہو کر جس طرح سے چاہے گا نشان دکھلائے گا.میرا دعوی نہ خدائی کا ہے اور نہ اقتدار کا اور میں ایک مسلمان آدمی ہوں جو قرآن شریف کی پیروی کرتا ہوں اور قرآن شریف کی تعلیم کی رو سے اس موجودہ نجات کا مدعی ہوں.میرا نبوت کا کوئی دعوی نہیں یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں.کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہو جائے.میں تو محمدی اور کامل طور پر اللہ و رسول کا متبع ہوں اور ان نشانوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمارے مذہب کے رو سے ان نشانوں کا نام کرامات ہے جو اللہ رسول کی پیروی سے دیئے جاتے ہیں.تو پھر میں دعوت حق کی غرض سے دوبارہ اتمام حجت کرتا ہوں کہ یہ حقیقی نجات اور حقیقی نجات کے برکات اور ثمرات صرف انہی لوگوں میں موجود ہیں جو حضرت محمد مصطفے علم کی پیروی کرنے والے اور قرآن کریم کے احکام کے نیچے تابعدار ہیں.اور میرا دعویٰ قرآن کریم کے مطابق صرف اتنا ہے کہ اگر کوئی حضرت عیسائی صاحب اس نجات حقیقی کے منکر ہوں جو قرآن کریم کے وسیلے سے مل سکتی ہے تو انہیں اختیار ہے کہ وہ میرے مقابل پر نجات حقیقی کی آسمانی نشانیاں اپنے مسیح سے مانگ کر پیش کریں اور اس طرف میرے پر لازم ہوگا کہ میں سچا ایماندار ہونے کی نشانیاں قرآن کریم کے رُو سے اپنے وجود میں.
۱۱۸۴ ثابت کروں.مگر اس جگہ یادر ہے کہ قرآن کریم ہمیں اقتدار نہیں بخشتا بلکہ ایسے کلمہ سے ہمارے بدن پر لرزہ آتا ہے.ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کا نشان دکھلائے گا.وہی خدا ہے.سوا اسکے اور کوئی خدا نہیں.ہاں یہ ہماری طرف سے اس بات کا عہد پختہ ہے.جیسا کہ اللہ جل شانہ نے میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ ضرور مقابلہ کے وقت میں فتح پاؤں گا مگر یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالے کس طور سے نشان دکھلائے گا.اصل مدعا تو یہ ہے کہ نشان ایسا ہو کہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو.یہ کیا ضرور ہے کہ ایک بندہ کو خدا ٹھہرا کر اقتدار کے طور پر اس سے نشان مانگا جائے.ہمارا یہ مذہب نہیں اور نہ ہمارا یہ عقیدہ ہے.اللہ جل شانہ ہمیں صرف عموم اور کلی طور پر نشان دکھلانے کا وعدہ دیتا ہے.اگر اس میں میں جھوٹا نکلوں تو جو سز ا آپ تجویز کریں خواہ سزائے موت ہی کیوں نہ ہو مجھے منظور ہے لیکن اگر آپ حد اعتدال وانصاف کو چھوڑ کر مجھ سے ایسے نشان چاہیں گے جس طرز سے حضور مسیح بھی دکھلا نہیں سکے بلکہ سوال کرنے والوں کو ایک دو گالیاں سنا دیں تو ایسے نشان دکھلانے کا دم مارنا بھی میرے نزدیک کفر ہے.جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۵۰ تا ۱۵۷) قرآن شریف میں اقتراحی نشانوں کے مانگنے والوں کو یہ جواب دیا گیا تھا کہ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً لا یعنی خدا تعالیٰ کی شان اس تہمت سے پاک ہے کہ کسی اس کے رسول یا نبی یا ملہم کو یہ قدرت حاصل ہو کہ جو الوہیت کے متعلق خارق عادت کام ہیں ان کو وہ اپنی قدرت سے دکھلائے اور فرمایا کہ ان کو کہدے کہ میں تو صرف آدمیوں میں سے ایک رسول ہوں جو اپنی طرف سے کسی کام کے کرنے کا مجاز نہیں ہوں محض امرالہی کی پیروی کرتا ہوں.پھر مجھ سے یہ درخواست کرنا کہ یہ نشان دکھلا اور یہ نہ دکھلا سراسر حماقت ہے.جو کچھ خدا نے کہا وہی دکھلا سکتا ہوں نہ اور کچھ.تحفہ غزنویہ.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۰) بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت ﷺ نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی.کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا.اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں، پیاسوں کا ان سے شکم سیر کر دیا.اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنی لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس بنی اسرائیل: ۹۴
۱۱۸۵ سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کر دیا اور بعض اوقات سخت مجروحوں کو اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جاپڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا.ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الہی مخلو تھی...لیکن یہ بات اس جگہ یا در کھنے کے لائق ہے کہ اس قسم کے اقتداری خوارق گو خدا تعالے کی طرف سے ہی ہوتے ہیں.مگر پھر بھی خدا تعالیٰ کے ان خاص افعال سے جو بلا توسط ارادہ غیری ظہور میں آتے ہیں کسی طور سے برابری نہیں کر سکتے اور نہ برابر ہونا ان کا مناسب ہے.اسی وجہ سے جب کوئی نبی یا ولی اقتداری طور پر بغیر توسط کسی دعا کے کوئی ایسا امر خارق عادت دکھلاوے جو انسان کو کسی حیلہ اور تدبیر اور علاج سے اس کی قوت نہیں دی گئی تو نبی کا وہ فعل خدا تعالیٰ کے ان افعال سے کم رتبہ پر رہے گا جو خود خدا تعالٰی علانیہ اور بالجہر اپنی قوت کا ملہ سے ظہور میں لاتا ہے.یعنی ایسا اقتداری معجزہ بہ نسبت دوسرے الہی کاموں کے جو بلا واسطہ اللہ جلشانہ سے ظہور میں آتے ہیں ضرور کچھ نقص اور کمزوری اپنے اندر موجود رکھتا ہوگا تا سرسری نگاہ والوں کی نظر میں تشابہ فی الخلق واقع نہ ہو.اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا باوجود اس کے کہ کئی دفعہ سانپ بنا لیکن آخر عصا کا عصا ہی رہا.اور حضرت مسیح کی چڑیاں باوجود یکہ معجزہ کے طور پر اُن کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے مگر پھر بھی مٹی کی مٹی ہی تھے اور کہیں خدا تعالے نے یہ نہ فرمایا کہ وہ زندہ بھی ہوگئیں.اور ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے اقتداری خوارق میں چونکہ طاقت الہی سب سے زیادہ بھری ہوئی تھی کیونکہ وجود آنحضرت ﷺ کا تجلیات الہیہ کے لئے اتم و اعلیٰ وارفع و اکمل نمونہ تھا اس لئے ہماری نظریں آنحضرت ﷺ کے اقتداری خوارق کو کسی درجہ بشریت پر مقرر کرنے سے قاصر ہیں.مگر تا ہم ہمارا اس پر ایمان ہے کہ اس جگہ بھی اللہ جل شانہ اور اس کے رسول کریم کے فعل میں مخفی طور پر کچھ فرق ضرور ہو گا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۶ تا ۶۸) یہ سچی بات ہے کہ خدائے تعالے غیر معمولی طور پر کوئی کام نہیں کرتا اصل بات یہ ہے کہ وہ خلق اسباب کرتا ہے خواہ ہم کو ان اسباب پر اطلاع ہو یا نہ ہو.الغرض اسباب ضرور ہوتے ہیں اس لئے شق القمر يا ينارُ كُونِی بَرُدَا وَ سَلْمالے کے معجزات بھی خارج از اسباب نہیں بلکہ وہ بھی بعض ا الانبياء: ٠
۱۱۸۶ مخفی در مخفی اسباب کے نتائج ہیں اور بچے اور حقیقی سائنس پر مبنی ہیں.کوتاہ اندیش اور تاریک فلسفہ کے دلدادہ اسے نہیں سمجھ سکتے.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷، صفحہ ۱۳۷- ملفوظات جلد اول صفحہ ۷۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اس جگہ ایک اور سر یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ اولیاء سے جو خوارق کبھی اس قسم کے ظہور میں آتے ہیں کہ پانی ان کو ڈ یو نہیں سکتا اور آگ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی اس میں بھی دراصل یہی بھید ہے کہ حکیم مطلق جس کے بے انتہا اسرار پر انسان حاوی نہیں ہوسکتا اپنے دوستوں اور مقربوں کے توجہ کے وقت کبھی یہ کرشمہ قدرت دکھلاتا ہے کہ وہ توجہ عالم میں تصرف کرتی ہے اور جن ایسے مخفی اسباب کے جمع ہونے سے مثلاً آگ کی حرارت اپنے اثر سے رک سکتی ہے خواہ وہ اسباب اجرام علوی کی تا شیریں ہوں یا خود مثلاً آگ کی کوئی مخفی خاصیت یا اپنے بدن کی ہی کوئی مخفی خاصیت یا ان تمام خاصیتوں کا مجموعہ ہو وہ اسباب اس توجہ اور اس دعا سے حرکت میں آتی ہیں.تب ایک امر خارق عادت ظاہر ہوتا ہے.مگر اس سے حقائق اشیاء کا اعتبار نہیں اٹھتا اور نہ علوم ضائع ہوتے ہیں بلکہ یہ تو علوم الہیہ میں سے خود ایک علم ہے اور یہ اپنے مقام پر ہے اور مثلاً آگ کا محرک بالخاصیت ہونا اپنے مقام پر بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ روحانی مواد ہیں جو آگ پر غالب آکر اپنا اثر دکھاتے ہیں اور اپنے وقت اور اپنے محل سے خاص ہیں.اس دقیقہ کو دنیا کی عقل نہیں سمجھ سکتی کہ انسان کامل خدا تعالے کے روح کا جلوہ گاہ ہوتا ہے اور جب کبھی کامل انسان پر ایک ایسا وقت آجاتا ہے کہ وہ اس جلوہ کا عین وقت ہوتا ہے تو اس وقت ہر یک چیز اس سے ایسی ڈرتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ سے.اس وقت اس کو درندہ کے آگے ڈال دو، آگ میں ڈال دو وہ اس سے کچھ بھی نقصان نہیں اٹھائے گا.کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کی روح اس پر ہوتی ہے اور ہر یک چیز کا عہد ہے کہ اس سے ڈرے.یہ معرفت کا ایک اخیری بھید ہے جو بغیر صحبت کا ملین سمجھ میں نہیں آسکتا.چونکہ یہ نہایت دقیق اور پھر نہایت درجہ نادر الوقوع ہے اس لئے ہر ایک فہم اس فلاسفی سے آگاہ نہیں.مگر یاد رکھو کہ ہر یک چیز خدا تعالیٰ کی آواز سنتی ہے.ہر یک چیز پر خدا تعالیٰ کا تصرف ہے اور ہر ایک چیز کی تمام دوریاں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.اس کی حکمت ایک بے انتہا حکمت ہے جو ہر یک ذرہ کی جڑھ تک پہنچی ہوئی ہے اور ہر یک چیز میں اتنی ہی خاصیتیں ہیں جتنی اس کی قدرتیں ہیں.جو شخص اس بات پر ایمان نہیں لاتا وہ اس گروہ میں داخل ہے جو مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِةٍ کے مصداق ہیں.اور چونکہ انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے.اس لئے تمام عالم اس کی طرف وقتاً الانعام: ۹۲
۱۱۸۷ فوقتاً کھینچا جاتا ہے.وہ روحانی عالم کا ایک عنکبوت ہوتا ہے اور تمام عالم اس کی تاریں ہوتی ہیں اور خوارق کا یہی سر ہے بر کاروبار ہستی اثری ست عارفان را ز جہاں چہ دید آن کس کہ ندید ایں جہاں را لے برکات الدعا.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹ تا ۳۱ حاشیه ) واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں (۱) نشان تخویف وتعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں.(۲) نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کر سکتے ہیں.تخویف کے نشان سخت کافروں اور کنج دلوں اور نافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں تاوہ ڈریں اور خدائے تعالیٰ کی قہری اور جلالی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو.اور تبشیر کے نشان ان حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی کے متلاشیوں کے لئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلبگار ہیں اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے ان مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور اُن کے مضطرب سینہ پر دست شفقت و تسلی رکھنا مقصود ہوتا ہے.سو مومن قرآن شریف کے وسیلے سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتارہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے.تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتاً انسان میں ہے جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے.مومن بہ برکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پاتا رہتا ہے اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے.اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن ان کے نزول سے یقین اور معرفت اور قوت ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ آلاء ونعماء الہی واحسانات ظاہرہ و باطنہ وجلیہ وخفیہ حضرت باری عز اسمہ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں محبت و عشق میں بھی دن بدن بڑھتا جاتا ہے.سو حقیقت میں عظیم الشان اور قوی الاثر اور مبارک اور موصل الی المقصو د تبشیر کے نشان ہی ہوتے ہیں جو سالک کو معرفت کاملہ اور محبت ذاتیہ کی اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جو اولیاء اللہ کے لئے منتہی المقامات ہے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.روحانی خزائن جلدہ صفحہ ۴۳۶ ، ۴۳۷ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن) لے اس دنیا کے کاروبار پر خدا رسیدہ لوگوں کا اثر ہے.جس نے یہ کیفیت نہیں دیکھی اس نے اس دنیا سے کیا دیکھا.
۱۱۸۸ عقلمند کے لئے یہ ایک نکتہ نہایت ہدایت بخش ہے کہ پیشگوئیوں میں استعارات اور مجازات بھی ہوتے ہیں.مگر تعلیم کے لئے تصریح اور تفصیل ضروری ہوتی ہے.اس لئے جہاں کہیں تعلیم اور پیشگوئی کا تناقض معلوم ہو تو یہ لازم ہوتا ہے کہ تعلیم کو مقدم رکھا جائے اور پیشگوئی کو اگر اس کے مخالف ہو ظاہر الفاظ سے پھیر کر تعلیم کے مطابق اور موافق کر دیا جائے تا رفع تناقض ہو.بہر حال تعلیمی مضمون کا لحاظ مقدم چاہیئے.کیونکہ تعلیم علاوہ تصریح اور تفصیل کے اکثر معارض افادہ اور استفادہ میں آتی رہتی ہے لہذا اس کے مقاصد اور مدعا کسی طرح مخفی نہیں رہ سکتے برخلاف پیشگوئیوں کے کہ وہ اکثر گوشئہ گمنامی میں پڑی رہتی ہیں.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱) واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں (۱) ایک وہ جو محض سماوی امور ہوتے ہیں جن میں انسان کی تدبیر اور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا.جیسے شق القمر جو ہمارے سید ومولی نبی ﷺ کا مجزہ تھا اور خدائے تعالیٰ کی غیر محدود قدرت نے ایک راستباز اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس کو دکھایا تھا.(۲) دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارق عادت عقل کے ذریعہ ظہور پذیر ہوتے ہیں جو الہام الہی سے ملتی ہے.جیسے حضرت سلیمان کا وہ معجزہ جو صرح مُّمَرَّدُ مِنْ قَوَارِيرَ ہے جس کو دیکھ کر بلقیس کو ایمان نصیب ہوا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۳-۲۵۴ حاشیه ) جس معجزہ کو عقل شناخت کر کے اس کے منجانب اللہ ہونے پر گواہی دے وہ ان معجزات سے ہزا رہا درجہ افضل ہوتا ہے کہ جو صرف بطور کتھا یا قصہ کے مد منقولات میں بیان کئے جاتے ہیں.اس ترجیح کے دو باعث ہیں.ایک تو یہ کہ منقولی معجزات ہمارے لئے جو صد ہا سال اس زمانہ سے پیچھے پیدا ہوئے ہیں جب معجزات دکھلائے گئے تھے مشہود اور محسوس کا حکم نہیں رکھتے اوراخبارمنقولہ ہونے کے باعث سے وہ درجہ ان کو حاصل بھی نہیں ہو سکتا جو مشاہدات اور مرئیات کو حاصل ہوتا ہے.دوسرے یہ کہ جن لوگوں نے منقولی معجزات کو جو تصرف عقل سے بالاتر ہیں مشاہدہ کیا ہے اُن کے لئے بھی وہ تسلی تام کا موجب نہیں ٹھہر سکتی کیونکہ بہت سے ایسے عجائبات بھی ہیں کہ ارباب شعبدہ بازی ان کو دکھلاتے پھرتے ہیں گو وہ مکر اور فریب ہی ہیں مگر اب مخالف بد اندیش پر کیونکر ثابت کر کے دکھلاویں کہ انبیاء سے جو عجائبات اس قسم کے ظاہر ہوئے ہیں کہ کسی نے سانپ بنا کر دکھلا دیا اور کسی نے مردہ کو زندہ کر کے دکھلا دیا.یہ اس قسم کی النمل: ۴۵
۱۱۸۹ دست بازیوں سے منزہ ہیں جو شعبدہ باز لوگ کیا کرتے ہیں.یہ مشکلات کچھ ہمارے ہی زمانہ میں پیدا نہیں ہوئیں بلکہ ممکن ہے کہ انہی زمانوں میں یہ مشکلات پیدا ہوگئی ہوں.مثلاً جب ہم یوحنا کی انجیل کے 66 پانچویں باب کی دوسری آیت سے پانچویں آیت تک دیکھتے ہیں تو اس میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں:.اور اورشلیم میں باب الضان کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت حسدا کہلاتا ہے.اس کے پانچ اُسارے ہیں ان میں ناتوانوں اور اندھوں اور لنگڑوں اور پژمردوں کی ایک بڑی بھیڑ پڑی تھی جو پانی کے ملنے کی منتظر تھی کیونکہ ایک فرشتہ بعض وقت اس حوض میں اتر کر پانی کو ہلا تا تھا اور پانی ملنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اُتر تا کیسی ہی بیماری میں کیوں نہ ہو اس سے چنگا ہو جاتا تھا.اب ظاہر ہے کہ وہ شخص جو حضرت عیسی کی نبوت کا منکر ہے اور ان کے معجزات کا انکاری ہے جب یوحنا کی یہ عبارت پڑھے گا اور ایسے حوض کے وجود پر اطلاع پائے گا کہ جو حضرت عیسی کے ملک میں قدیم سے چلا آتا تھا اور جس میں قدیم سے یہ خاصیت تھی کہ اس میں ایک ہی غوطہ لگانا ہر یک قسم کی بیماری کو گودہ کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو دور کر دیتا تھا تو خوانخوہ اس کے دل میں ایک قومی خیال پیدا ہوگا کہ اگر حضرت مسیح نے کچھ خوارق عجیبہ دکھلائے ہیں تو بلا شبہ ان کا یہی موجب ہوگا کہ حضرت ممدوح اسی حوض کے پانی میں کچھ تصرف کر کے ایسے ایسے خوارق دکھلاتے ہوں گے کیونکہ اس قسم کے اقتباس کی ہمیشہ دنیا میں بہت سی نظیریں پائی گئی ہیں اور اب بھی ہیں اور عند العقل یہ بات نہایت صحیح اور قرین قیاس ہے کہ اگر حضرت عیسی کے ہاتھ سے اندھوں لنگڑوں وغیرہ کو شفا حاصل ہوئی ہے تو بالیقین یہ نسخہ حضرت مسیح نے اسی حوض سے اڑایا ہوگا اور پھر نادانوں اور سادہ لوحوں میں کہ جو بات کی تہ تک نہیں پہنچتے اور اصل حقیقت کو نہیں شناخت کر سکتے یہ مشہور کر دیا کہ ایک روح کی مدد سے ایسے ایسے کام کرتا ہوں.بالخصوص جبکہ یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت مسیح اسی حوض پر اکثر جایا بھی کرتے تھے تو اس خیال کو اور بھی قوت حاصل ہوتی ہے غرض مخالف کی نظر میں ایسے معجزوں سے جو کہ قدیم سے حوض دکھلاتا رہا ہے حضرت عیسی کی نسبت بہت سے شکوک اور شبہات پیدا ہوتے ہیں اور اس بات کے ثبوت میں بہت سی مشکلات پڑتی ہیں کہ یہودیوں کی رائے کے موافق مسیح مکار اور شعبدہ باز نہیں تھا اور نیک چلن آدمی تھا.جس نے اپنے عجائبات کے دکھلانے میں اس قدیمی حوض سے کچھ مدد نہیں لی اور سچ سچ معجزات ہی دکھائے ہیں.اور اگر چہ قرآن شریف پر ایمان لانے کے بعد ان وساوس سے نجات حاصل ہو جاتی ہے مگر جو شخص ابھی قرآن شریف پر ایمان نہیں لایا اور یہودی یا ہندو یا عیسائی ہے وہ کیونکر ایسے وساوس سے نجات پاسکتا ہے
1190 اور کیونکر اس کا دل اطمینان پکڑ سکتا ہے عوام الناس کو جوا کثر چار پائیوں کی طرح ہوتے ہیں اس طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ لمبی چوڑی تفتیش کریں اور بات کی تہ تک پہنچ جائیں.اور ایسے تماشوں کے دکھلانے کا عرصہ بھی نہایت ہی تھوڑا ہوتا ہے جس میں غور اور فکر کرنے کے لئے کافی فرصت نہیں مل سکتی اس لئے مکاروں کے لئے دست بازی کی بہت گنجائش رہتی ہے اور ان کے پوشیدہ بھیدوں پر اطلاع پانے کا کم موقعہ ملتا ہے.علاوہ اس کے عوام بیچارے علوم طبعی وغیرہ فنون فلاسفہ سے کچھ خبر نہیں رکھتے اور جو کائنات میں حکیم مطلق نے طرح طرح کے عجیب خواص رکھے ہیں ان خواص کی انہیں کچھ بھی خبر نہیں ہوتی.پس وہ ہر یک وقت اور ہر زمانہ میں دھوکا کھانے کو تیار ہیں اور کیونکر دھو کہ نہ کھاویں خواص اشیاء کے ایسے ہی حیرت افزاء ہیں اور بے خبری کی حالت میں موجب زیادت حیرت ہوتے ہیں مثلاً مکھی اور دوسرے بعض جانوروں میں یہ خاصیت ہے کہ اگر ایسے طور پر مر جائیں کہ ان کے اعضاء میں کچھ زیادہ تفرق اتصال واقع نہ ہو اور اعضاء اپنی اصلی ہیئت اور وضع پر سلامت رہیں اور متعفن ہونے بھی نہ پائیں بلکہ ابھی تازہ ہی ہوں اور موت پر دو تین گھنٹے سے زیادہ عرصہ نہ گذرا ہو جیسے پانی میں مری ہوئی لکھیاں ہوتی ہیں تو اس صورت میں اگر نمک باریک پیس کر اس لکھی وغیرہ کو اس کے نیچے دبایا جاوے اور پھر اسی قدر خاکستر بھی اس پر ڈالی جاوے تو وہ کبھی زندہ ہو کر اڑ جاتی ہے اور یہ خاصیت مشہور ومعروف ہے جس کو اکثر لڑ کے بھی جانتے ہیں لیکن اگر کسی سادہ لوح کو اس نسخے پر اطلاع نہ ہو اور کوئی مکار اس نادان اور بے خبر کے سامنے مگس مسیح ہونے کا دعویٰ کرے اور اسی حکمت عملی سے مکھیوں کو زندہ کرے اور بظا ہر کوئی منتر جنتر پڑھتار ہے جس سے یہ جتلانا منظور ہو کہ گویا وہ اسی منتر کے ذریعہ سے مکھیوں کو زندہ کرتا ہے تو پھر اس سادہ لوح کو اس قدر عقل اور فرصت کہاں ہے کہ تحقیقا تیں کرتا پھرے.کیا تم دیکھتے نہیں کہ مکار لوگ اسی زمانہ میں دنیا کو ہلاک کر رہے ہیں.کوئی سونا بنا کر دکھلاتا ہے اور کیمیا گری کا دعوی کرتا ہے اور کوئی آپ ہی زمین کے نیچے پتھر دبا کر پھر ہندوؤں کے سامنے دیوی نکالتا ہے.بعض نے ایسا بھی کیا ہے کہ جمال گوٹہ کا روغن اپنی دوات کی سیاہی میں ملایا اور پھر اس سیاہی سے کسی سادہ لوح کو تعویذ لکھ کر دیا تا دست آنے پر تعویذ کا اثر ظاہر ہو ایسے ہی ہزاروں اور مکر اور فریب ہیں کہ جو اسی زمانہ میں ہو رہے ہیں اور بعض مکر ایسے عمیق ہیں جن سے بڑے بڑے دانشمند دھوکا کھا جاتے ہیں اور علوم طبعی کے دقائق عمیقہ اور جسمی تراکیب اور قوتوں کے خواص عجیبہ جو حال کے زمانہ میں نئے تجارب کے ذریعہ سے روز بروز پھیلتے جاتے ہیں.یہ جدید باتیں ہیں جن سے جھوٹے معجزے دکھلانے والے نئے نئے مکر
1191 اور فریب دکھا سکتے ہیں.سو اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ جو معجزات بظاہر صورت ان مکروں سے متشابہ ہیں گو وہ سچے بھی ہوں تب بھی مجوب الحقیقت ہیں اور ان کے ثبوت کے بارے میں بڑی بڑی وقتیں ہیں.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۱ تا ۵۵۷) جو امر خارق عادت کسی ولی سے صادر ہوتا ہے وہ حقیقت میں اسی نبی متبوع کا معجزہ ہے جس کی وہ امت ہے.اور یہ بدیہی اور ظاہر ہے کیونکہ جب کسی امر کا ظاہر ہونا کسی شخص اور کسی خاص کتاب کی متابعت سے وابستہ ہے اور بدوں متابعت کے وہ ظہور میں آہی نہیں سکتا تو بہ بداہت ثابت ہے کہ اگر چہ وہ امر بظاہر صورت کسی تابع سے ظہور میں آیا ہو لیکن در حقیقت مظہر اس امر کا نبی متبوع ہے جس کی متابعت سے ظہور اس کا مشروط ہے.اور سر اس بات کا کہ کیوں معجزہ نبی کا دوسرے کے توسط سے ظہور پذیر ہو جاتا ہے یہ ہے کہ جب ایک شخص وہی امر بجالاتا ہے کہ جو اس کے شارع نے فرمایا ہے اور اس امر سے پر ہیز کرتا ہے کہ جو اس کے شارع نے منع کیا ہے اور اسی کتاب کا پابند رہتا ہے جو اس کے شارع نے دی ہے تو وہ اس صورت میں بالکل اپنے نفس سے محو ہو کر اپنے شارع کی ذمہ واری میں جا پڑتا ہے پس اگر شارع طبیب حاذق کی طرح ٹھیک ٹھیک صراط مستقیم کا رہنما ہے اور وہ مبارک کتاب لایا ہے جس میں شخص پیرو کی امراض روحانی کا علاج ہے اور اس کی علمی اور عملی تکمیل کے لئے پورا سامان موجود ہے اور پھر اس کے پیرو نے بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے ان تعلیمات کو بصدق دل قبول کر لیا ہے تو جو کچھ انوار و آثار بعد متابعت کامل کے مترتب ہونگے وہ حقیقت میں اس نبی متبوع کے فیوض ہیں.سواسی جہت سے اگر ولی سے کوئی امر خارق عادت ظاہر ہو تو اس نبی متبوع کا معجزہ ہوگا.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۹۳ تا ۶۰۹) میں نے بار ہا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار قسم کے نشان مجھے دیئے ہیں.اور جن کو میں نے بڑے دعویٰ کے ساتھ متعدد مرتبہ لکھا اور شائع کیا ہے.اول عربی دانی کا نشان ہے اور یہ اس وقت سے مجھے ملا ہے جب سے کہ محمد حسین ( بٹالوی صاحب) نے یہ لکھا کہ یہ عاجز عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا.حالانکہ ہم نے کبھی دعوی بھی نہیں کیا تھا کہ عربی کا صیغہ آتا ہے.جولوگ عربی املاء اور انشاء میں پڑے ہیں وہ اسکی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیں اور اس کی خوبیوں کا لحاظ رکھ سکتے ہیں.بڑی مشکل آکر پڑتی ہے جب ٹھیٹھ زبان کا لفظ مناسب موقع پر نہیں ملتا.اُس وقت خدا تعالیٰ وہ
۱۱۹۲ الفاظ القا کرتا ہے.نئی اور بناوٹی زبان بنا لینا آسان ہے مگر ٹھیٹھ زبان مشکل ہے.پھر ہم نے ان تصانیف کو بیش قرار انعامات کے ساتھ شائع کیا ہے اور کہا ہے کہ تم جس سے چاہو مدد لے لو.اور خواہ اہل زبان بھی ملا لو.مجھے خدا تعالیٰ نے اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ وہ ہرگز قادر نہیں ہو سکتے.کیونکہ نشان قرآن کریم کے خوارق میں سے ظلی طور پر مجھے دیا گیا ہے.دوم دعاؤں کا قبول ہونا.میں نے عربی تصانیف کے دوران میں تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ کس قدر کثرت سے میری دعائیں قبول ہوئی ہیں.ایک ایک لفظ پر دعا کی ہے اور میں رسول اللہ علیہ کو تو مستی کرتا ہوں ( کیونکہ ان کی طفیل اور اقتداء سے تو یہ سب کچھ ملا ہی ہے ) اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میری دعا ئیں اس قدر قبول ہوئی ہیں کہ کسی کی نہیں ہوئی ہوں گی.میں نہیں کہہ سکتا دس ہزار یا دولاکھ یا کتنی اور بعض نشانات قبولیت کے تو ایسے ہیں کہ ایک عالم ان کو جانتا ہے.تیسرانشان پیشگوئیوں کا ہے.یعنی اظہار علی الغیب.یوں تو نجومی اور رمال لوگ بھی انکل بازیوں سے بعض باتیں ایسی کہہ دیتے ہیں کہ ان کا کچھ نہ کچھ حصہ ٹھیک ہوتا ہے.اور ایسا ہی تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی کا ہن لوگ تھے جو غیب کی خبریں بتلاتے تھے.چنانچہ شیح بھی ایک کا ہن تھا.مگر ان انکل باز رمالوں اور کاہنوں کی غیب دانی اور مامور من اللہ اور مہم کے اظہار غیب میں یہ فرق ہوتا ہے..چوتھا نشان قرآن کریم کے دقائق اور معارف کا ہے.کیونکہ معارف قرآن اس شخص کے سوا اور کسی پر نہیں کھل سکتے جس کی تطہیر ہو چکی ہو.لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (پ۲۷) میں نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ میرے مخالف بھی ایک سورۃ کی تفسیر کریں اور میں بھی تفسیر کرتا ہوں پھر مقابلہ کر لیا جاوے.مگر کسی نے جرات نہیں کی.(الحکم مورخه ۲۰ تا ۲۷ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحه ۴،۳.ملفوظات جلد اول صفحه ۱۸۳٬۱۸۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) یہ پیشگوئیاں ایسی ہیں کہ ایک راستباز کے ان کو سنکر آنسو جاری ہو جائیں گے مگر پھر بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.یہ خیال نہیں کرتے کہ آخر ہم نے بھی ایک دن مرنا ہے.وہ نشان جوان کو دکھلائے گئے اگر نوح کی قوم کو دکھلائے جاتے تو وہ غرق نہ ہوتی اور اگر لوط کی قوم ان سے اطلاع اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۱۰) پاتی تو ان پر پتھر نہ برستے.الواقعة: ٨٠
۱۱۹۳ شادی اور اولا دصالحہ قَدْ اَخْبَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ يَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُلَهُ فَفِي هذَا إِشَارَةٌ إِلى اَنَّ اللهَ يُعْطِيهِ وَلَدًا صَالِحًا يُشَابِهُ آبَاهُ وَلَا يَأْبَاهُ وَيَكُونُ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ الْمُكَرَّمِينَ وَالسِّرُّ فِى ذَالِكَ أَنَّ اللَّهَ لَا يُبَشِّرُ الْأَنْبِيَاءَ وَالْأَوْلِيَاءَ بِذُرِّيَّةٍ إِلَّا إِذَا قَدَّرَ تَولِيُدَ الصَّالِحِينَ ( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۷۸ حاشیہ ) جناب رسول اللہ علیہ نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ يَتَزَوَّجُ وَ يُولَدُ لَهُ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا.اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں کیونکہ عام طور پر ہر ایک) شادی کرتا ہے اور اولا د بھی ہوتی ہے اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے.گویا اس جگہ رسول اللہ ﷺ ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی.(ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ا ا صفحہ ۳۳۷ حاشیہ) تخمیناً سولہ برس کا عرصہ گذرا ہے کہ میں نے شیخ حامد علی اور لالہ شرمیت کھتری ساکن قادیان اور لالہ ملا وامل کھتری ساکن قادیان اور جان محمد مرحوم ساکن قادیان اور بہت سے اور لوگوں کو یہ خبر دی تھی کہ خدا نے اپنے الہام سے مجھے اطلاع دی ہے کہ ایک شریف خاندان میں وہ میری شادی کرے گا اور وہ قوم کے سیڈ ہوں گے اور اس بیوی کو خدا مبارک کرے گا اور اس سے اولا د ہوگی.اور یہ خواب ان ایام میں آئی تھی کہ جب میں بعض اعراض اور امراض کی وجہ سے بہت ہی ضعیف اور کمزور تھا بلکہ قریب ہی وہ زمانہ گذر چکا تھا جب کہ مجھے دق کی بیماری ہو گئی تھی اور بباعث گوشہ گزینی اور ترک دنیا کے اہتمامات تابل سے دل سخت کارہ تھا اور عیالداری کے بوجھ سے طبیعت متنفر تھی تو اس حالت پر ملامت کے تصور کے لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کا ایک مہتم بالشان بیٹا ہوگا.پس اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک صالح بیٹا عطا کرے گا جو اپنے باپ سے مشابہ ہوگا اور اس سے ہٹ کر نہ ہوگا.اور وہ اللہ کے مکرم بندوں میں سے ہوگا.اور اس خبر میں یہ بھید ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو اولاد کی بشارت صرف اس صورت میں دیتا ہے جب اس نے صالح اولاد کی پیدائش مقدر کی ہو.
۱۱۹۴ وقت یہ الہام ہوا تھا ہر چہ باید نوعرو سے راہمہ ساماں کنم یعنی اس شادی میں تجھے کچھ فکر نہیں کرنا چاہیئے.ان تمام ضروریات کا رفع کرنا میرے ذمہ رہے گا.سو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے وعدہ کے موافق اس شادی کے بعد ہر ایک بار شادی سے مجھے سبکدوش رکھا اور مجھے بہت آرام پہنچا.کوئی باپ دنیا میں کسی بیٹے کی پرورش نہیں کرتا جیسا کہ اس نے میری کی اور کوئی والدہ پوری ہشیاری سے دن رات اپنے بچہ کی ایسی خبر نہیں رکھتی جیسا کہ اس نے میری رکھی اور جیسا کہ اس نے بہت عرصہ پہلے براہین احمدیہ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ " يَا اَحْمَدُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ “ ایسا ہی وہ بجا لایا.معاش کا غم کرنے کے لئے کوئی گھڑی اس نے میرے لئے خالی نہ رکھی.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۰۱ تا ۲۰۳) أَشْكُرُ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيُجَتِى (براہین احمدیہ صفحہ 558) ترجمہ:.میرا شکر کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پایا.یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا جس سے بفضلہ تعالیٰ چارلڑ کے پیدا ہوئے اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے.جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا اور نیز بیہ اس طرف اشارہ تھا کہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہوگی.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۸ اصفه۵۲۵،۵۲۴) قریباً اٹھارہ برس سے ایک یہ پیشگوئی ہے.اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَالنَّسَبَ.ترجمہ:.وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکب ہے اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے.یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیا گیا تھا جو دہلی ہے اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سُنائی گئی تھی.اور جیسا کہ لکھا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا.کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہوگئی.اور یہ خاندان خواجہ میر درد کی لڑکی کی اولاد میں سے ہے جو مشا ہیرا کابر سادات دہلی میں سے ہے...چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہو گا اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لا دے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جوان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے
۱۱۹۵ تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہاں کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲ ۲۷ تا ۲۷۵) خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے (جـل شـانـه و عزّ اسمه ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سُنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپا یہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو ( جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے ) تیرے لئے مبارک کر دیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں.جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفے کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل سے ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے )
١١٩٦ دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الاَوَّلِ وَ الْآخِرِ - مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ كَاَنَّ الله نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ - جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَ كَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا.تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ ۵۸ تا ۶۰ - مجموعه اشتہارات جلد اوّل صفحه ۹۵ ۹۶ بار دوم ) پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ ” تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی.نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا.تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کائی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہو جائے گی.اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا.یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے.اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا.تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے در پے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور نا کامی اور نا مرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور اُن میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلی طور پر اُن سے مشابہت رکھتا ہے ) تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری
۱۱۹۷ توحید.تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دل میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اے منکر و اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو.اگر تمہیں اس کے فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم بچے ہو اور اگر تم پیش نہ کر سکو تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے.“ فقط الراقم خاکسار غلام احمد مؤلف براہین احمدیہ ہوشیار پور.طویلہ شیخ مہر علی صاحب رئیس.۲۰ فروری ۱۸۸۶ء تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحه ۶۰ تا ۶۲ - مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۹۶ ۹۷ بار دوم ) اس عاجز کے اشتہار مورخہ ۲۰ فروری ۱۸۸۶ میں ایک پیشگوئی درباره تولد ایک فرزند صالح ہے جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا.ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی 9 برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے.بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا.یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطف علی کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلے واولی واکمل وافضل واتم ہے.تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۷۲ تا ۷۴.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۹۹٬۹۸ بار دوم ) خدائے عز و جل نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ ء واشتہار دسمبر ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے اپنے لطف وکرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہو گا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہو گا اور حسن واحسان میں تیرا نظیر ہوگا وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.سو آج ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں مطابق 9 جمادی الاول ۱۳۰۶ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہو گیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اور ہے لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین
۱۱۹۸ سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا.اور اگر مدت مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدائے عز وجل اس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرے مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا.دیر آمده ز راه اے فخر رُسل قرب تو معلومم شد دور آمده اے پس اگر حضرت باری جل شانہ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاؤل بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعو دلڑکا ہو.ورنہ وہ بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آئے گا اور ہمارے بعض حاسدین کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہماری کوئی ذاتی غرض اولاد کے متعلق نہیں اور نہ کوئی نفسانی راحت ان کی زندگی سے وابستہ ہے.پس یہ ان کی بڑی غلطی ہے کہ جو انہوں نے بشیر احمد کی وفات پر خوشی ظاہر کی اور بغلیں بجائیں.انہیں یقیناً یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر ہماری اتنی اولاد ہو جس قدر درختوں کے تمام دنیا میں پتے ہیں اور وہ سب فوت ہو جائیں تو ان کا مرنا ہماری سچی اور حقیقی لذت اور راحت میں کچھ خلل انداز نہیں ہو سکتا.میت کی محبت میت کی محبت سے اس قدر ہمارے دل پر زیادہ تر غالب ہے کہ اگر وہ محبوب حقیقی خوش ہو تو ہم خلیل اللہ کی طرح اپنے کسی پیارے بیٹے کو بدست خود ذبح کرنے کو تیار ہیں.کیونکہ واقعی طور پر بجز اس ایک کے ہمارا کوئی پیارا نہیں جَلَّ شَانُهُ وَ عَزَّ اِسْمُهُ - فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى إِحْسَانِهِ.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۶۰ ، ۱۶۱ حاشیه بار دوم ) مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے.(سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۷ حاشیہ ) میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود.تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر ۱۸۸۸ ء ہے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۱۴) لے اے فخر رسل مجھے تیرے قرب الہی کا (بلند مرتبہ ) معلوم ہو گیا ہے تو اس لئے دیر سے پہنچا ہے کہ بہت دور سے آیا ہے.
١١٩٩ بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کروں گا دُور اس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي در نمین صفحه ۵۰.شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ).میرا دوسرا لڑکا جس کا نام بشیر احمد ہے اُس کے پیدا ہونے کی پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں.يَأْتِي قَمَرُ الْأَنْبِيَاءِ وَ اَمْرُكَ يَتَأَتَى يَسُرُّ اللَّهُ وَجْهَكَ وَيُنِيرُ بُرْهَانَكَ.سَيُولَدُلَكَ الْوَلَدُ وَيُدْنِي مِنْكَ الْفَضْلُ.إِنَّ نُورِى قَرِيبٌ.یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام بن جائے گا.تیرے لئے ایک لڑکا پیدا کیا جائے گا اور فضل تجھ سے نزدیک کیا جائے گا.یعنی خدا کے فضل کا موجب ہوگا...راپریل ۱۸۹۳ء کو جیسا کہ اشتہار ۲۰ اپریل ۱۸۹۳ء سے ظاہر ہے اس ۲۰۰ پیشگوئی کے مطابق وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۰) میرا تیسرا لڑکا جس کا نام شریف احمد ہے.اس کے پیدا ہونے کی پیشگوئی میرے رسالہ انوار الاسلام صفحہ ۳۹ کے حاشیہ پر درج ہے اور یہ رسالہ تمبر ۱۸۹۴ء میں شائع ہوا تھا اور ستمبر ۱۸۹۴ء کو یہ پیشگوئی رسالہ مذکورہ کے صفحہ ۳۹ کے حاشیہ پر چھاپی گئی تھی اور پھر جیسا کہ رسالہ ضیاء الحق کے اخیر ورق ٹائٹل پیج پر شائع کیا گیا ہے یہ لڑکا یعنی شریف احمد ۲۴ رمئی ۱۸۹۵ء کو مطابق ۲۷ ذیقعد ۱۳۱۲ھ پیدا ہوا.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۰، ۲۲۱) میرا چوتھا لڑکا جس کا نام مبارک احمد ہے اس کی نسبت پیشگوئی اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں کی گئی اور پھر انجام آتھم کے صفحہ ۱۸۳ میں بتاریخ ۱۴ ستمبر ۱۸۹۶ء یہ پیشگوئی کی گئی اور رسالہ انجام آتھم بماہ ستمبر ۱۸۹۶ء بخوبی ملک میں شائع ہو گیا.اور پھر یہ پیشگوئی ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۵۸ میں اس شرط کے ساتھ کی گئی کہ عبدالحق غزنوی جو امرتسر میں مولوی عبدالجبار غزنوی کی جماعت میں رہتا ہے نہیں مرے گا جب تک یہ چوتھا بیٹا پیدا نہ ہولے اور اس صفحہ ۵۸ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر عبدالحق غزنوی ہماری مخالفت میں حق پر ہے اور جناب الہی میں قبولیت رکھتا ہے تو اس پیشگوئی کو دعا کر کے ٹال دے اور پھر یہ پیشگوئی ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۱۵ میں کی گئی.سو خدا تعالیٰ نے میری تصدیق کے لئے اور تمام مخالفوں کی تکذیب کے لئے اور عبد الحق غزنوی کو متنبہ کرنے کے لئے اس پسر چہارم کی پیشگوئی کو
۱۲۰۰ ۱۴ر جون ۱۸۹۹ء میں جو مطابق ۴ رصفر ۱۳۱۷ ھ تھی بروز چہارشنبہ پورا کر دیا.یعنی وہ مولود مسعود چوتھا لڑکا تاریخ مذکورہ میں پیدا ہو گیا.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۲۱) خدا تعالیٰ نے حمل کے ایام میں ایک لڑکی کی بشارت دی اور اُس کی نسبت فرمایاتُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ یعنی زیور میں نشو و نما پائے گی.یعنی نہ خوردسالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی.چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا..مجھے وحی الہی سے بتلایا گیا کہ ایک اور لڑکی پیدا ہوگی مگر وہ فوت ہو جائے گی.چنانچہ وہ الہام قبل از وقت بہتوں کو بتلایا گیا.بعد اس کے وہ لڑکی پیدا ہوئی اور چند ماہ بعد فوت ہوگئی.اس لڑکی کے بعد ایک اور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ دخت کرام.چنانچہ وہ الہام الحکم اور البدر اخباروں میں اور شائد ان دونوں میں سے ایک میں شائع کیا گیا اور پھر اس کے بعد لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امتہ الحفیظ رکھا گیا اور وہ اب تک زندہ ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲۷-۲۲۸) یہ چار لڑ کے ہیں جن کی پیدائش سے پہلے اُن کے پیدا ہونے کے بارے میں خدا تعالیٰ نے ہر ایک دفعہ پر مجھے خبر دی اور یہ ہر چہار پیشگوئی نہ صرف زبانی طور پر لوگوں کو سنائی گئیں بلکہ پیش از وقت اشتہاروں اور رسالوں کے ذریعہ سے لاکھوں انسانوں میں مشتہر کی گئیں اور پنجاب اور ہندوستان بلکہ تمام دنیا میں اس عظیم الشان غیب گوئی کی نظیر نہیں ملے گی اور کسی کی کوئی پیشگوئی ایسی نہیں پاؤ گے کہ اوّل تو خدا تعالیٰ نے چار لڑکوں کے پیدا ہونے کی اکٹھی خبر دی اور پھر ہر ایک لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے الہام سے اطلاع کر دی کہ وہ پیدا ہونے والا ہے اور پھر وہ تمام پیشگوئیاں لاکھوں انسانوں میں شائع کی جائیں.تمام دنیا میں پھرو.اگر اس کی کہیں نظیر ہے تو پیش کرو انسان کو جرات نہیں ہو سکتی کہ یہ منصوبہ سوچے کہ اول تو مشترک طور پر چارلڑکوں کے پیدا ہونے کی پیشگوئی کرے.جیسا کہ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں کی گئی.اور پھر ہر ایک لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے اُس کے پیدا ہونے کی پیشگوئی کرتا جائے اور اس کے مطابق لڑکے پیدا ہوتے جائیں.یہاں تک کہ چار کا عدد جو پہلی پیشگوئیوں میں قرار دیا تھا وہ پورا ہو جائے حالانکہ یہ پیشگوئی اس کی طرف سے ہو کہ جو محض افترا سے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کا مامور قرار دیتا ہے.کیا ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ مفتری کی ایسی مسلسل طور پر مدد کرتا جائے کہ ۱۸۸۶ء سے لغایت سن ۱۸۹۹ء چودہ سال تک برابر وہ مدد جاری رہے.کیا کبھی
مفتری کی تائید خدا نے ایسی کی یا صفحہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر بھی ہے؟ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۱۸ تا ۲۲۲) خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد خبر مجھ کو یہ تونے بارہا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي میری اولاد سب تیری عطا ہے ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے یہ پانچوں جو کہ نسل سیّدہ ہے یہی ہیں پنجتن جن پر بناء ہے یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي در همین صفحه ۴۹ - شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
جلسہ اعظم مذاہب وہ جلسہ مذاہب جو لاہور میں ہوا تھا اس کی نسبت مجھے پہلے سے خبر دی گئی کہ وہ مضمون جو میری طرف سے پڑھا جائے گا وہ سب مضمونوں پر غالب رہے گا.چنانچہ میں نے قبل از وقت اس بارے میں اشتہار دے دیا جو حاشیہ میں لکھا جاتا ہے.اور اس الہام کے موافق میرے اس مضمون کی جلسہ مذاہب میں ایسی قبولیت ظاہر ہوئی کہ مخالفوں نے بھی اقرار کیا ہے کہ وہ مضمون سب سے اول رہا ہے.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۲۹۹ تا ۳۰۱) سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری اعظم مذاہب جو لا ہور ٹاؤن ہال میں ۲۶ ۲۷ ۲۸ / دسمبر ۱۸۸۶ء کو ہو گا اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارہ میں پڑھا جائے گا یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے.اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ در حقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سُنے گامیں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو جائے گا اور ایک نیا نوراُس میں چمک اُٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آ جائے گی.یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہے.مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں.اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور اس نور سے نفرت رکھتے ہیں.مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو
اول سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی اور ہرگز قادر نہیں ہوں گے کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں.خواہ وہ عیسائی ہوں، خواہ آریہ، خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اُس کی پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جو اردگرد پھیل گیا.اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی پڑی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا.اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ.اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نور قرآنی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹھ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے.پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا.اِنّ اللهَ مَعَكَ.إِنَّ اللهَ يَقُومُ أَيْنَمَا قُمْتَ.یعنی خدا تیرے ساتھ ہے.خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو.یہ حمایت الہی کے لئے ایک استعارہ ہے.اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج بھی کر کے ان معارف کے سننے کے لئے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ ان کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کر سکتے ہوں گے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.خاکسار غلام احمد از قادیان - ۲۱ / دسمبر ۱۸۹۶ء انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ا اصفحه ۲۹۹ تا ۳۰۱ حاشیه ) میں نے جناب الہی میں دعا کی کہ وہ مجھے ایسے مضمون کا القاء کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے.میں نے دُعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت میرے اندر پھونک دی گئی ہے میں نے اس آسمانی قوت کی ایک حرکت اپنے اندر محسوس کی اور میرے دوست جو اس وقت حاضر تھے جانتے ہیں کہ میں نے اس مضمون کا کوئی مسودہ نہیں لکھا جو کچھ لکھا صرف قلم برداشتہ لکھا تھا اور ایسی تیزی اور جلدی سے میں لکھتا جاتا تھا کہ نقل کرنے والے کے لئے مشکل ہو گیا کہ اس قدر جلدی سے اس کی نقل لکھے.
۱۲۰۴ جب میں مضمون ختم کر چکا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا.خلاصہ کلام یہ کہ جب وہ مضمون اس مجمع میں پڑھا گیا تو اس کے پڑھنے کے وقت سامعین کے لئے ایک عالم وجد تھا اور ہر ایک طرف سے تحسین کی آواز تھی یہاں تک کہ ایک ہندو صاحب جو صدرنشین اس مجمع کے تھے ان کے منہ سے بھی بے اختیار نکل گیا کہ یہ مضمون تمام مضامین سے بالا رہا.اور سول اینڈ ملٹری گزٹ جو لاہور سے انگریزی میں ایک اخبار نکلتا ہے اس نے بھی شہادت کے طور پر شائع کیا کہ یہ مضمون بالا رہا اور شائد ہیں کے قریب ایسے اردو اخبار بھی ہوں گے جنہوں نے یہی شہادت دی.اور اس مجمع میں بجز بعض متعصب لوگوں کے تمام زبانوں پر یہی تھا کہ یہی مضمون فتحیاب ہوا اور آج تک صد ہا آدمی ایسے موجود ہیں جو یہی گواہی دے رہے ہیں.غرض ہر ایک فرقہ کی شہادت اور نیز انگریزی اخباروں کی شہادت سے میری پیشگوئی پوری ہوگئی کہ مضمون بالا رہا.یہ مقابلہ اس مقابلہ کی مانند تھا جو موسیٰ نبی کو ساحروں کے ساتھ کرنا پڑا تھا.کیونکہ اس مجمع میں مختلف خیالات کے آدمیوں نے اپنے اپنے مذہب کے متعلق تقریریں سنائی تھیں جن میں سے بعض عیسائی تھے اور بعض سناتن دھرم کے ہندو اور بعض آریہ سماج کے ہندو اور بعض بر ہمو اور بعض سکھ اور بعض ہمارے مخالف مسلمان تھے اور سب نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سانپ بنائے تھے لیکن جب کہ خدا نے میرے ہاتھ اسلامی راستی کا عصا ایک پاک اور پُر معارف تقریر کے پیرا یہ میں ان کے مقابل پر چھوڑا تو وہ اثر رہا بن کر سب کو نگل گیا.اور آج تک قوم میں میری اس تقریر کا تعریف کے ساتھ چر چا ہے جو میرے منہ سے نکلی تھی.فالحمد للہ علی ذالک.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۹۱-۲۹۲) عبد اللہ آتھم منجملہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان نشانوں کے وہ نشان ہے جو اس خدائے قادر نے ڈپٹی عبداللہ آتھم عیسائی کی نسبت ظاہر فرمایا اور اس کے لئے یہ تقریب پیش آئی کہ مئی اور جون ۱۸۹۳ء میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کی تحریک سے اسلام اور عیسائیت میں ایک مباحثہ قرار پایا.اس مباحثہ میں عیسائیوں کی طرف سے ڈپٹی عبداللہ آ نقم انتخاب کیا گیا اور مسلمانوں کی طرف سے میں پیش ہوا اور عبداللہ آتھم نے مباحثہ سے کچھ دن پہلے اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دجال کا لفظ
۱۲۰۵ لکھا تھا جیسا کہ کتاب جنگ مقدس کے آخری صفحہ میں اس کا ذکر ہے.وہ شرارت اور شوخی اس کی مجھے تمام ایام بحث میں یاد ہے اور میں دل و جان سے چاہتا تھا کہ اس کی سرزنش کی نسبت کوئی پیشگوئی خدائے تعالیٰ سے پاؤں.چنانچہ میں نے آتھم سے ایک دستخطی تحریر بھی اسی غرض سے لے لی تھی تا وہ پیشگوئی کے وقت عام عیسائیوں کی طرح میری آزار دہی کے لئے کسی عدالت کی طرف نہ دوڑے.سو میں پندرہ دن تک بحث میں مشغول رہا اور پوشیدہ طور پر آتھم کی سرزنش کے لئے دعا مانگتا رہا.جب بحث کے دن ختم ہو گئے تو میں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اطلاع پائی کہ اگر آتھم اس شوخی و گستاخی سے تو بہ اور رجوع نہیں کرے گا جو اُس نے دجال کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اپنی کتاب میں لکھا تو وہ ہادیہ میں پندرہ مہینے کے اندر گرایا جائے گا.سو یہ امر الہی پا کر بحث کے خاتمے کے دن ایک جماعت کثیر کے رو بروجس میں عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر مارٹن کلارک اور تمہیں کے قریب اور عیسائی تھے اور میری جماعت کے لوگ بھی تھیں یا چالیس کے قریب تھے جن میں سے اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب اور اخویم مولوی عبد الکریم اور اخویم شیخ رحمت اللہ صاحب اور اخویم منشی تاج الدین صاحب اکوئنٹنٹ دفتر ریلوے لا ہور اور اخویم عبدالعزیز خاں صاحب کلارک دفتر اگر یمینز ریلوے لا ہور اور اخویم خلیفہ نورالدین صاحب وغیرہ احباب موجود تھے.میں نے ڈپٹی عبد اللہ آتھم کو کہا کہ آج یہ مباحثہ منقولی اور معقولی رنگ میں تو ختم ہو گیا مگر ایک اور رنگ کا مقابلہ باقی رہا جو خدا کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب اندرونہ بائیل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کے نام سے پکارا ہے اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور سچا رسول جانتا ہوں اور دین اسلام کو منجانب اللہ یقین رکھتا ہوں.پس یہ وہ مقابلہ ہے کہ آسمانی فیصلہ اس کا تصفیہ کرے گا اور وہ آسمانی فیصلہ یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے جو شخص اپنے قول میں جھوٹا ہے اور ناحق رسول صادق کو کا ذب اور دجال کہتا ہے اور حق کا دشمن ہے وہ آج کے دن سے پندرہ مہینے تک اس شخص کی زندگی میں ہی جو حق پر ہے ہادیہ میں گرے گا.بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے یعنی راستباز اور صادق نبی کو دجال کہنے سے باز نہ آوے اور بے باکی اور بد زبانی نہ چھوڑے.یہ اس لئے کہا گیا کہ صرف کسی مذہب کا انکار کرنا دنیا میں مستوجب سزا نہیں ٹھہراتا بلکہ بے باکی اور شوخی اور بد زبانی مستوجب سزا ٹھہراتی ہے.غرض جب آتھم کو اسی مجلس میں جس میں ستر سے زیادہ آدمی ہوں گے یہ پیشگوئی سنائی گئی تو اُس کا رنگ فق اور چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کا پنپنے لگے.تب اس نے بلا تو قف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر دھر لئے اور ہاتھوں کو مع
سر کے ہلانا شروع کیا جیسا کہ ایک ملزم خائف ایک الزام سے سخت انکار کر کے تو بہ اور انکسار کے رنگ میں اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے اور بار بار لرزتے ہوئے زبان سے کہتا تھا کہ تو بہ تو بہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز ہرگز دجال نہیں کہا اور کانپ رہا تھا.اس نظارہ کو نہ صرف مسلمانوں نے دیکھا بلکہ ایک جماعت کثیر عیسائیوں کی بھی اس وقت موجود تھی جو اس عجز و نیاز کو بھی دیکھ رہی تھی.اس انکار سے اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا تھا کہ میری اس عبارت کے جومیں نے اندرونہ بائبل میں لکھی ہے اور معنے ہیں.بہر حال اس نے اس مجلس میں تقریب ستر آدمی کے روبرو دجال کہنے کے کلمہ سے رجوع کر لیا اور یہی وہ کلمہ تھا جو اصل موجب اس پیشگوئی کا تھا.اس لئے وہ پندرہ مہینے کے اندر مرنے سے بچ رہا کیونکہ جس گستاخی کے کلمہ پر پیشگوئی کا مدار تھا وہ کلمہ اس نے چھوڑ دیا اور ممکن نہ تھا کہ خدا اپنی شرط کو یاد نہ کرے اور اگر چہ رجوع کی شرط سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسی قدر کافی تھا مگر آتھم نے صرف یہی نہیں کیا کہ اپنے قول دجال کہنے سے باز آیا بلکہ اُسی دن سے جو اس نے پیشگوئی کو سُنا اسلام پر حملہ کرنا اُس نے بکلی چھوڑ دیا اور پیشگوئی کا خوف اس کے دل پر روز بروز بڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ مارے ڈر کے سراسیمہ ہو گیا اور اس کا آرام اور قرار جاتا رہا اور یہاں تک اس نے اپنی حالت میں تبدیلی کی کہ اپنے پہلے طریق کو جو ہمیشہ مسلمانوں سے مذہبی بحث کرتا تھا اور اسلام کے رد میں کتابیں لکھتا تھا بالکل چھوڑ دیا اور ہر یک کلمہ تو ہین اور استخفاف سے اپنا منہ بند کر لیا بلکہ اس کے منہ پر مہر لگ گئی اور خاموش اور غمگین رہنے لگا اور اس کا غم اس درجہ تک پہنچ گیا کہ آخر وہ زندگی سے نومید ہوکر بے قراری کے ساتھ اپنے عزیزوں کی آخری ملاقات کے لئے شہر بشہر دیوانہ پن کی حالت میں پھرتا رہا اور اسی مسافرانہ حالت میں انجام کار فیروز پور میں فوت ہو گیا.اور یہ سوال کہ باوجود اس کے کہ اس نے اپنی بے باکی کے لفظ سے عام مجلس میں رجوع کر لیا اور بار بار عجز و نیاز سے دجال کہنے کے کلمہ سے بیزاری ظاہر کی تو پھر کیوں وہ پکڑا گیا اور کیوں جلد انہی دنوں میں فوت ہو گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ وہ مباہلہ کا نشانہ ہو چکا تھا لہذا ان پیشگوئیوں کے موافق جو کتاب انجام آتھم کے پہلے صفحہ میں موجود ہیں جو آتھم کی زندگی میں ہی پندرہ مہینے گذرنے کے بعد کی گئی تھیں اس کا مرنا ضروری تھا کیونکہ ان پیشگوئیوں میں صاف لفظوں میں لکھا گیا تھا کہ آتھم انکار قسم اور اختفاء شہادت اور اعادہ بے باکی کے بعد جلد تر فوت ہو جائے گا.پس جبکہ اس نے ارتکاب ان جرائم کا کیا تو ہمارے آخری اشتہار سے سات مہینے بعد فوت ہو گیا اور نیز اس لئے اس کا مرنا بہر حال ضروری تھا
۱۲۰۷ کہ پیشگوئی کے مضمون میں یہ بات داخل تھی کہ جو جھوٹا ہے وہ صادق سے پہلے مرے گا.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۴۱ تا ۵۴۵) اگر اب تک کسی عیسائی کو آتھم کے اس افتراء پر شک ہو تو آسمانی شہادت سے رفع شک کرالیوے.آتھم تو پیشگوئی کے مطابق فوت ہو گیا.اب وہ اپنے تئیں اس کا قائم مقام ٹھہرا کر آتھم کے مقدمہ میں قسم کھا لیوے.اس مضمون سے کہ آتھم پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا بلکہ اس پر یہ چار حملے ہوئے تھے.اگر یہ قسم کھانے والا بھی ایک سال تک بچ گیا تو دیکھو میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھ سے شائع کردوں گا کہ میری پیشگوئی غلط نکلی.اس قسم کے ساتھ کوئی شرط نہ ہو گی.یہ نہایت صاف فیصلہ ہو جائے گا.اور جو شخص خدا کے نزدیک باطل پر ہے اس کا بطلان کھل جائے گا.اگر عیسائی لوگ سچے دل سے یقین رکھتے ہیں کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی تو اس طریق امتحان سے کون سی چیز ان کو مانع ہے.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۱۵.۱۲) لیکھرام واضح ہو کہ منجملہ ہیبت ناک اور عظیم الشان نشانوں کے پنڈٹ لیکھرام کی موت کا نشان ہے جس کی بنیادی پیشگوئی کا سر چشمہ میری کتابیں برکات الدعاء اور کرامات الصادقین اور آئینہ کمالات اسلام ہیں جن میں قبل از وقوع خبر دی گئی تھی کہ لیکھر ام قتل کے ذریعہ سے چھ سال کے اندر اس دنیا سے کوچ کر جائے گا.اور اس کے قتل کئے جانے کا دن عید سے دوسرا دن ہوگا یعنی شنبہ کا دن اور یہ اس لئے مقرر کیا گیا کہ تا عید کا دن جو جمعہ تھا اس بات پر دلالت کرے کہ جس دن مسلمانوں کے گھر میں دو عید میں ہوں گی اس سے دوسرے دن آریوں کے گھر میں دو ماتم ہوں گے.اور یہ پیشگوئی نہ صرف میری کتابوں میں درج ہے بلکہ لیکھرام نے خود اپنی کتاب میں نقل کر کے اپنی قوم میں اس پیشگوئی کی قبل از وقوع شہرت دے دی تھی اور اس پیشگوئی کے مقابل پر اس نے اپنی کتاب میں میری نسبت یہ لکھا کہ میرے پر میشر نے مجھے یہ الہام کیا ہے کہ یہ شخص (یعنی یہ خاکسار ) تین سال کے اندر ہیضہ سے مر جائے گا کیونکہ کذاب ہے..میں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ لیکھرام گوسالہ سامری کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا.اور اس میں یہ اشارہ تھا کہ جیسا کہ گوسالہ سامری شنبہ کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا.یہی لیکھرام کا حال ہوگا.اور یہ
۱۲۰۸ اس کے قتل کی طرف اشارہ تھا.چنانچہ لیکھر ام شنبہ کے دن قتل کیا گیا اور ان دنوں میں شنبہ سے پہلے جمعہ کے دن مسلمانوں کی عید ہوئی تھی.ایسا ہی گوسالہ سامری بھی شنبہ کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور وہ یہود کی عید کا دن تھا اور گوسالہ سامری ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد جلایا گیا تھا، ایسا ہی لیکھرام بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد جلایا گیا.کیونکہ اول قاتل نے اس کی انتریوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور پھر ڈاکٹر نے اُس کے زخم کو زیادہ کھولا اور بالآ خر جلایا گیا.اور پھر گوسالہ سامری کی طرح اس کی ہڈیاں دریا میں ڈالی گئیں.اور خدا تعالیٰ نے گوسالہ سامری سے اس لئے اس کو تشبیہ دی کہ وہ گوسالہ محض بے جان تھا اور اس زمانہ کے ان کھلونے کی طرح تھا جن کی کل دبانے سے آواز نکلتی ہے.اسی طرح اس گوسالہ میں سے ایک آواز نکلتی تھی.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ در اصل لیکھرام بے جان تھا اور اس میں روحانی زندگی نہیں آئی تھی.اور اس کی آواز محض گوسالہ سامری کی طرح تھی اور سچا علم اور سچا گیان اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق اور سچی محبت اس کو نصیب نہیں تھی.یہ آریوں کا قصور تھا کہ اس بے جان کو جس میں روحانیت کی جان نہ تھی اور محض مُردہ تھا اس مقام پر کھڑا کر دیا جس پر کوئی زندہ کھڑا ہونا چاہئے تھا.اس لئے اس کا گوساله سامری کی طرح انجام ہوا...میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ خون ان کی گردن پر ہے.وہ باوجود اس قدر جوش کے اپنی طبیعت میں ایک سادگی بھی رکھتا تھا کیونکہ شریر لوگوں کی باتوں سے بغیر تفتیش اور تشخص کے متاثر ہو جاتا تھا اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو ایک گوسالہ سے مشابہت دی.بہر حال ہم اس کی ناگہانی موت سے بغیر افسوس کے نہیں رہ سکتے.مگر کیا کیا جائے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر تھا وہ پورا ہونا ضروری تھا.اس امر کو خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ مجھے کسی سے بغض نہیں ہے.اگر چہ میں لیکھرام کے معاملہ میں اس بات سے تو خوش ہوں کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہوئی مگر دوسرے پہلو سے میں غمگین ہوں کہ وہ عین جوانی کی حالت میں مرا.اگر وہ میری طرف رجوع کرتا تو میں اس کے لئے دُعا کرتا تا یہ بلائل جاتی.اس کے لئے ضروری نہ تھا کہ اس بلا کے رڈ کرانے کے لئے وہ مسلمان ہو جاتا بلکہ صرف اس قدر ضروری تھا کہ گالیوں اور گندہ زبانی سے اپنے منہ کو روک لیتا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴ ۲۹ تا ۳۰۲) اب ہم لیکھرام کی پیشگوئی کو مفصل طور پر مع اصل عبارات ان کتابوں کے اس جگہ درج کرتے ہیں جن میں یہ پیشگوئی موجود ہے.اور ناظرین کو توجہ دلاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا خوف کر کے ان مقامات کو
۱۲۰۹ غور سے پڑھیں اور پھر سوچیں کہ کیا یہ انسان کا کام ہے یا اس خدا کا جو زمین و آسمان کا مالک اور تمام طاقتوں کا خداوند ہے.اس جگہ ایک ضروری بات جو یا درکھنے کے لائق ہے اور جو ہماری اس کتاب کی روح اور علت غائی ہے وہ یہ ہے کہ پیشگوئی ایک بڑے مقصد کے ظاہر کرنے کے لئے کی گئی تھی.یعنی اس بات کا ثبوت دینے کے لئے کہ آریہ مذہب بالکل باطل اور وید خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور ہمارے سید و مولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے پاک رسول اور برگزیدہ نبی اور اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے سچا ہب ہے.اور یہی بار بار لکھا گیا تھا.اور اسی مقصد کے پورا کرنے کے لئے دعائیں کی گئی تھیں.سو اس پیشگوئی کونری ایک پیشگوئی خیال نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک آسمانی فیصلہ ہے.کچھ مدت سے ہندوؤں میں تیزی بڑھ گئی تھی.خاص کر کہ یہ لیکھرام تو گویا اس بات پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا کہ خدا بھی ہے.سوخدا نے ان لوگوں کو چمکتا ہوا نمونہ دکھلایا.چاہئے کہ ہر ایک شخص اس سے عبرت پکڑے.جو شخص خدا کے مقدس نبیوں کی اہانت میں زبان کھولتا ہے کبھی اس کا انجام اچھا نہیں ہوسکتا.لیکھرام اپنی موت سے آریوں کو ہمیشہ کی عبرت کا سبق دے گیا ہے.چاہئے کہ ان شرارتوں سے دست بردار ہوں جو دیا نند نے ملک میں پھیلائیں اور نرمی اور لطف اور سچی محبت اور تعظیم کے ساتھ اسلام سے برتاؤ کریں.آئندہ انہیں اختیار ہے.بعض احمق جو مسلمان کہلا کر آریوں کی طرف جھکے تھے اب ان کی تو بہ کا وقت ہے.انہیں دیکھنا چاہئے کہ اسلام کا خدا کیسا غالب ہے.آریوں کو اس پیشگوئی کے وقت بذریعہ چھپے ہوئے اشتہاروں کے اطلاع دی گئی تھی کہ اگر تمہارا دین سچا ہے اور اسلام باطل تو اس کی یہی نشانی ہے کہ اس پیشگوئی کے اثر سے اپنے وکیل لیکھر ام کو بچا لو.اور جہاں تک ممکن ہے اس کے لئے دعائیں کرو اور دعاؤں کے لئے مہلت بہت تھی.لیکن خدا کے قہری ارادہ کو وہ لوگ بدل نہ سکے یقیناً سمجھنا چاہئے کہ جو چھری لیکھرام پر چلائی گئی یہ وہی چھری تھی جو وہ کئی برس تک ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی میں چلاتا رہا.پس وہی زبان کی تیزی چھری کی شکل پر متمثل ہو کر اس کے پیٹ میں گھس گئی.جب تک آسمان پر چھری نہ چلے زمین پر ہرگز چل نہیں سکتی.لوگ سمجھتے ہوں گے کہ لکھر ام اب مارا گیا لیکن میں تو اس وقت سے مقتول سمجھتا تھا جب میرے پاس ایک فرشتہ خونی شکل میں آیا اور اُس نے پوچھا کہ لیکھر ام کہاں ہے؟ چنانچہ یہ سب مضمون ان پیشگوئیوں میں پڑھو گے جو
۱۲۱۰ ذیل میں لکھی جاتی ہیں.اول (اشتہار ۲۰ / فروری ۱۸۸۶ء میں پنڈت لیکھرام کی نسبت صرف اس قدر صفحہ ۴ میں پیشگوئی ہے کہ لیکھرام صاحب پشاوری کی قضا و قدر وغیرہ کے متعلق غالبا اس رسالہ میں بقید وقت و تاریخ کچھ تحریر ہوگا.اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گزرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے اور موجب دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جائے اور کسی کو اس کے وقت ظہور سے خبر نہ دی جائے.پھر بعد اس کے پنڈت لیکھرام کا کارڈ پہنچا کہ میں اجازت دیتا ہوں کہ میری موت کی نسبت پیشگوئی کی جائے مگر میعاد مقرر ہونی چاہئے.دوم الہام مندرجہ رساله کرامات الصادقین مطبوعه صفر ۱۳۱۱ ہجری وَعَدَنِي رَبِّي وَ اسْتَجَابَ دُعَائِي فِي رَجُلٍ مُفْسِدِ عَدُوَّ اللَّهِ وَ رَسُوْلِهِ الْمُسَمَّى ليكهرَامِ الْفَشَاوَرِى وَ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ مِنَ الْهَالِكِينَ إِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ نَبِيَّ اللهِ وَ يَتَكَلَّمُ فِي شَانِهِ بِكَلِمَاتٍ خَبِيثَةٍ فَدَعَوْتُ عَلَيْهِ فَبَشَّرَنِي رَبِّي بِمَوْتِهِ فِي سِتَّةِ سَنَةٍ إِنَّ فِي ذَالِكَ لَآيَاتٍ لِلطَّالِبِينَ.“ یعنی خدا تعالیٰ نے ایک دشمن اللہ اور رسول کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے اور نا پاک کلمے زبان پر لاتا ہے.جس کا نام لیکھرام ہے مجھے وعدہ دیا اور میری دُعاسنی اور جب میں نے اس پر بددعا کی تو خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ چھ سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا.یہ ان کے لئے نشان ہے جو بچے مذہب کو ڈھونڈتے ہیں.سوم الهام مندرجہ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء مشموله کتاب آئینہ کمالات اسلام.یکھرام بشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی واضح ہو کہ اس عاجز نے اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں جو اس کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا تھا.اندر من مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو ان کی قضاء و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں کی جائیں.سو اس اشتہار کے بعد اندرمن نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہو گیا.لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو.میری طرف سے اجازت ہے.سو اس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو
۱۲۱۱ اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا.عِجُلٌ جَسَدٌ لَهُ خُوَارٌ لَهُ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل رہے گا.اور اس کے بعد آج جو ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء روز دوشنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو ہیں فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.سواب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہر یک سزا کے بھگتنے کے لئے میں طیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے.اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے.زیادہ اس سے کیا لکھوں.واضح رہے کہ اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبیاں کی ہیں جن کے تصور سے بھی بدن کانپتا ہے.اس کی کتابیں عجیب طور کی تحقیر اور تو ہین اور دشنام دہی سے بھری ہوئی ہیں.کون مسلمان ہے جو ان کتابوں کو سنے اور اس کا دل اور جگر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو.بایں ہمہ شوخی و خیر گی.یہ شخص سخت جاہل ہے.عربی سے ذرا مست نہیں بلکہ دقیق اردو لکھنے کا بھی مادہ نہیں اور یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ اس عاجز نے خاص اسی مطلب کے لئے دعا کی جس کا یہ جواب ملا.اور یہ پیشگوئی مسلمانوں کے لئے بھی نشان ہے.کاش وہ حقیقت کو سمجھتے اور اُن کے دل نرم ہوتے.اب میں اسی خدائے عز وجل کے نام پر ختم کرتا ہوں جس کے نام سے شروع کیا تھا.وَالحَمدُ لِلَّهِ وَ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِهِ مُحَمَّدُنَا لَمُصْطَفَى اَفْضَلُ الرُّسُلِ وَ خَيْرُ الْوَرى سَيِّدِنَا وَ سَيْدِ كُلُّ مَا فِي الْأَرْضِ وَ السَّمَاءِ خاکسار مرزا غلام احمد از قا دیان ضلع گورداسپور ۰ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء چہارم.جواب اعتراض مندرجہ ٹائٹل پیج برکات الدعاء معه خبر مندرجہ حاشیہ صفحہ ۴ ٹائٹل پیچ
۱۲۱۲ نمونہ دعائے مستجاب انہیں ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی پر اعتراض اس اخبار کا پرچہ مطبوعہ ۲۵ مارچ ۱۸۹۳ ء جس میں میری اس پیشگوئی کی نسبت جو لیکھر ام پشاوری کے بارے میں میں نے شائع کی تھی کچھ نکتہ چینی ہے مجھ کو ملا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض اور اخباروں پر بھی یہ کلمۃ الحق شاق گذرا ہے اور حقیقت میں میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ یوں خود مخالفوں کے ہاتھوں اس کی شہرت اور اشاعت ہو رہی ہے.سو میں اس وقت اس نکتہ چینی کے جواب میں صرف اس قدر لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خدا تعالیٰ نے چاہا اسی طور سے کیا میرا اس میں دخل نہیں ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہوگی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے.اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے.میں اس بات کا خود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخر کار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہو گئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی.اور بلاشبہ ایک مکر اور فریب ہوگا کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں.پس اس صورت میں میں بلاشبہ اس سزا کے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے.لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئی کی ذاتی عظمت اور ہیبت دنوں اور وقتوں کے مقرر کرنے کی محتاج نہیں اس بارے میں تو زمانہ نزول عذاب کی ایک حد مقرر کر دینا کافی ہے.پھر اگر پیشگوئی فی الواقعہ ایک عظیم الشان ہیبت کے ساتھ ظہور پذیر ہو تو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.اور یہ سارے خیالات اور یہ تمام نکتہ چینیاں جو پیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی معدوم ہو جاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں سے رجوع کرتے ہیں.ماسوا اس کے یہ عاجز بھی تو قانون قدرت کے تحت میں ہے.اگر میری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اسی قدر ہے کہ میں نے
۱۲۱۳ صرف یاوہ گوئی کے طور پر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کر اور انکل سے کام لے کر یہ پیشگوئی شائع کی ہے تو جس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی تو ایسا کر سکتا ہے کہ انہی اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کر دے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں میعاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس برس لکھ دے.لیکھرام کی عمر اس وقت شائد زیادہ سے زیادہ نہیں برس کی ہوگی اور وہ ایک جوان قوی ہیکل عمدہ صحت کا آدمی ہے.اور اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے.اور ضعیف اور دائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے.پھر با وجود اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون سی بات انسان کی طرف سے ہے اور کون سی بات خدا تعالیٰ کی طرف سے.اور معترض کا یہ کہنا کہ ایسی پیشگوئیوں کا اب زمانہ نہیں ہے ایک معمولی فقرہ ہے جو ا کثر لوگ منہ سے بول دیا کرتے ہیں.میری دانست میں تو مضبوط اور کامل صداقتوں کے قبول کرنے کے لئے یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ شائد اس کی نظیر پہلے زمانوں میں کوئی بھی مل نہ سکے.ہاں اس زمانہ سے کوئی فریب اور مکر مخفی نہیں رہ سکتا مگر یہ تو راستبازوں کے لئے اور بھی خوشی کا مقام ہے کیونکہ جو شخص فریب اور سچ میں فرق کرنا جانتا ہے وہی سچائی کی دل سے عزت کرتا ہے.اور بخوشی اور دوڑ کر سچائی کو قبول کر لیتا ہے.اور سچائی میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ آپ قبول کر ا لیتی ہے.ظاہر ہے کہ زمانہ صد ہا ایسی نئی باتوں کو قبول کرتا جاتا ہے جو لوگوں کے باپ دادوں نے قبول نہیں کی تھیں.اگر زمانہ صداقتوں کا پیاسا نہیں تو پھر کیوں ایک عظیم الشان انقلاب اس میں شروع ہے؟ زمانہ بے شک حقیقی صداقتوں کا دوست ہے نہ دشمن.اور یہ کہنا کہ زمانہ عقلمند ہے اور سیدھے سادے لوگوں کا وقت گذر گیا ہے یہ دوسرے لفظوں میں زمانہ کی مذمت ہے.آریوں کا اختیار ہے کہ میرے اس مضمون پر بھی اپنی طرف سے جس طرح چاہیں حاشیے چڑھائیں مجھے اس بات پر کچھ بھی نظر نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس پیشگوئی کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا دونوں برابر ہیں.اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اُسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہوگا اور دلوں کو ہلا دے گا اور اگر اس کی طرف سے نہیں تو پھر میری ذلت ظاہر ہو گی.اور اگر میں اس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہو گا.وہ ہستی قدیم اور وہ پاک و قدوس جو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ کاذب کو کبھی عزت نہیں دیتا.یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے.مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے.
۱۲۱۴ بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا تو ہین سے یاد کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہر کرے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى.لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر (مندرجہ حاشیہ انکل ہی برکات الدعاء) آج جو ۲ را پریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شداد غلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی.اور میں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھر ام کہاں ہے؟ اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے.تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھر ام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے.ہاں یہ یقینی طور پر یا د رہا ہے کہ وہ دوسرا شخص انہیں چند آدمیوں میں سے تھا جن کی نسبت میں اشتہار دے چکا ہوں اور یہ یکشنبہ کا دن اور ۴ بجے صبح کا وقت تھا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.اس تمام پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ یہ ایک ہیبت ناک واقعہ ہو گا جو چھ سال کے اندر وقوع میں آئے گا اور وہ دن عید کے دن سے ملا ہوا ہو گا یعنی دوسری شوال کی ہوگی.اب سوچو کیا یہ انسان کا کام ہے کہ تاریخ بتلائی گئی.دن بتلایا گیا.سبب موت بتلایا گیا اور اس حادثہ کا وقوعہ ہیبت ناک طرز سے ظہور میں آنا بتلایا گیا.اس کا تمام نقشہ برکات الدعاء کے مضمون میں کھینچ کر دکھلایا گیا.کیا یہ کسی منصوبہ باز کا کام ہو سکتا ہے کہ چھ برس پہلے ایسے صریح نشانوں کے ساتھ خبر دے دے.وہ خبر پوری ہو جائے.توریت گواہی دیتی ہے کہ جھوٹھے نبی کی پیشگوئی کبھی پوری نہیں ہو سکتی.خدا اس کے مقابل پر کھڑا ہو جاتا ہے تا دنیا تباہ نہ ہو.جیسا کہ لیکھرام نے بھی ایک دنیوی چالا کی سے انہیں دنوں میں میری نسبت یہ اشتہار دیا تھا کہ تم تین برس کے عرصہ تک مر جاؤ گے.پس کیوں وہ کسی قاتل سے سازش نہ کر سکا تا اس کی بات پوری ہوتی.
۱۲۱۵ ایک اور بات سوچنے کے لائق ہے کہ یہ بدگمانی کہ اُن کے کسی مرید نے مار دیا ہوگا یہ شیطانی خیال ہے.ہر یک دانا سمجھ سکتا ہے کہ مریدوں کا مرشد کے ساتھ ایک نازک تعلق ہوتا ہے اور اعتقاد کی بناء تقویٰ اور طہارت اور نیکو کاری پر ہوتی ہے.لوگ جو کسی کے مرید ہوتے وہ اسی نیت سے مرید ہوتے ہیں کہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ شخص باخدا ہے اس کے دل میں کوئی فریب اور فساد کی بات نہیں.پس اگر وہ ایک ایسا بد کار اور لعنتی شخص ہے کہ کسی کی موت کی جھوٹی پیشگوئی اپنی طرف سے بناتا ہے اور پھر جب اس کی میعاد ختم ہونے پر ہوتی ہے تو کسی مرید کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے کہ اب میری عزت رکھ لے اور اپنے گلے میں رسہ ڈال اور مجھے سچا کر کے دکھلا.اب میں منصفوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسے پلید اور لعنتی انسان کا یہ چال چلن دیکھ کر اور یہ شیطانی منصو بہ سن کر کوئی مرید اس کا معتقد رہ سکتا ہے؟ کیا وہ مرشد کو ایک بد کار ملعون اور فاسق فاجر خیال نہیں کرے گا ؟ اور کیا وہ اُس کو یہ نہیں کہے گا کہ اے بدکار ہمارے ایمان کو خراب کرنے والے کیا تیری پیشگوئیوں کی اصلیت یہی تھی؟ کیا تیرا یہ منشا ہے کہ جھوٹ تو تو بولے اور رشتہ دوسرے کے گلے میں پڑے اور اس طرح تیری پیشگوئی پوری ہو..ہم بآواز بلند کہتے ہیں کہ ہماری جماعت نہایت نیک چلن اور مہذب اور پر ہیز گار لوگ ہیں.کہاں ہے کوئی ایسا پلید اور لعنتی ہمارا مرید جس کا یہ دعوی ہو کہ ہم نے اس کو لیکھرام کے قتل کے لئے مامور کیا تھا؟ ہم ایسے مرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کو کتوں سے بدتر اور نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیشگوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے، اپنے مکر سے، اپنے فریب سے اُن کے پوری ہونے کے لئے کوشش کرے اور کرا دے..اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دُور نہیں ہو سکتا اور مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے جیسا کہ ہندو اخباروں نے ظاہر کیا ہے تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے سارا قصہ فیصلہ ہو جائے.اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ ”میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے.پس اگر یہ صحیح نہیں ہے تو اے قادر خدا! ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک عذاب ہو مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصور ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بددعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہئے.اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار
۱۲۱۶ کرے.یہ طریق نہایت سادہ اور راستی کا فیصلہ ہے شائد اس طریق سے ہمارے مخالف مولویوں کو بھی فائدہ پہنچے.میں نے سچے دل سے یہ لکھا ہے.مگر یادر ہے کہ ایسی آزمائش کرنے والا خود قادیان میں آوے.اس کا کرایہ میرے ذمہ ہو گا.جانبہین کی تحریرات چھپ جائیں گی اگر خدا نے اس کو ایسے عذاب سے ہلاک نہ کیا جس میں انسان کے ہاتھوں کی آمیزش نہ ہو تو میں کاذب ٹھہروں گا اور تمام دنیا گواہ رہے کہ اس صورت میں میں اسی سزا کے لائق ٹھہروں گا جو مجرم قتل کو دینی چاہئے.سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۱ تا ۲۹) جب میری پیشگوئی کے مطابق لیکھرام کے قتل ہو جانے پر آریوں میں میری نسبت بہت شور مچا اور میرے قتل یا گرفتار ہونے کے لئے سازشیں کیں.چنانچہ بعض اخبار والوں نے ان باتوں کو اپنی اخباروں میں بھی درج کیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوا.سلامت بر تو اے وو مرد سلامت“ چنانچہ یہ الہام بذریعہ اشتہار کے شائع کیا گیا.اور اس وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجھے مخالفین کے مکر و فریب اور منصوبوں سے محفوظ رکھا.طاعون (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ا۵۷) اس مرض نے جس قدر بمبئی اور دوسرے شہروں اور دیہات پر حملے کئے اور کر رہی ہے ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں.دو سال کے عرصہ میں ہزاروں بچے اس مرض سے یتیم ہو گئے اور ہزار ہا گھر ویران ہو گئے.دوست اپنے دوستوں سے اور عزیز اپنے عزیزوں سے ہمیشہ کے لئے جدا کئے گئے اور ابھی انتہا نہیں.کچھ شک نہیں کہ ہماری گورنمنٹ محسنہ نے کمال ہمدردی سے تدبیریں کیں اور اپنی رعایا پر نظر شفقت کر کے لکھوکھا روپیہ کا خرچ اپنے ذمہ ڈال لیا اور قواعد طبیہ کے لحاظ سے جہاں تک ممکن تھا ہدایتیں شائع کیں مگر اس مرض مہلک سے اب تک بکلی امن حاصل نہیں ہوا بلکہ بمبئی میں ترقی پر ہے.اور کچھ شک نہیں کہ ملک پنجاب بھی خطرہ میں ہے.ہر ایک کو چاہئے کہ اس وقت اپنی اپنی سمجھ اور بصیرت کے موافق نوع انسان کی ہمدردی میں مشغول ہو کیونکہ وہ شخص انسان نہیں جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو..اور ایک اور ضروری امر ہے جس کے لکھنے پر میرے جوش ہمدردی نے مجھے آمادہ کیا ہے اور میں
۱۲۱۷ خوب جانتا ہوں کہ جو لوگ روحانیت سے بے بہرہ ہیں اس کو ہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھیں گے مگر میرا فرض ہے کہ میں اس کو نوع انسان کی ہمدردی کے لئے ظاہر کروں اور وہ یہ ہے کہ آج جو ۶ رفروری ۱۸۹۸ء روز یک شنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں.اور وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اُس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد جاڑے میں پھیلے گا.لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا اور مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا اور وہ یہ ہے ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم.أنّه اوى القرية.یعنی جب تک دلوں کی وباء معصیت دور نہ ہو تب تک ظاہری وباء بھی دور نہیں ہو گی.اور درحقیقت دیکھا جاتا ہے کہ ملک میں بدکاری کثرت سے پھیل گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو کر ہوا و ہوس کا ایک طوفان برپا ہو رہا ہے.اکثر دلوں سے اللہ جل شانہ کا خوف اٹھ گیا ہے اور وباؤں کو ایک معمولی تکلیف سمجھا گیا ہے جو انسانی تدبیروں سے دُور ہو سکتی ہے.ہر ایک قسم کے گناہ بڑی دلیری سے ہو رہے ہیں.اور قوموں کا ہم ذکر نہیں کرتے وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں ان میں سے جو غریب اور مفلس ہیں اکثر اُن میں سے چوری اور خیانت اور حرام خوری میں نہایت دلیر پائے جاتے ہیں.جھوٹ بہت بولتے ہیں اور کئی قسم کے خسیس اور مکروہ حرکات اُن سے سرزد ہوتے ہیں اور وحشیوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں نماز کا تو ذکر کیا کئی کئی دنوں تک منہ بھی نہیں دھوتے اور کپڑے بھی صاف نہیں کرتے.اور جولوگ امیر اور رئیس اور نواب یا بڑے بڑے تاجر اور زمیندار اور ٹھیکیدار اور دولت مند ہیں وہ اکثر عیاشیوں میں مشغول ہیں اور شراب خوری اور زنا کاری اور بداخلاقی اور فضول خرچی ان کی عادت ہے اور صرف نام کے مسلمان ہیں اور دینی امور میں اور دین کی ہمدردی میں سخت لاپر واہ پائے جاتے ہیں.اب چونکہ اس الہام سے جو ابھی میں نے لکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقدیر معلق ہے اور تو بہ اور استغفار اور نیک عملوں اور ترک معصیت اور صدقات اور خیرات اور پاک تبدیلی سے دور ہو سکتی ہے لہذا تمام بندگانِ خدا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ بچے دل سے نیک چلنی اختیار کریں اور بھلائی میں مشغول ہوں اور ظلم اور بدکاری کے تمام طریقوں کو چھوڑ دیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ سچے دل سے خدا تعالیٰ کے احکام
۱۲۱۸ بجالا ویں.نماز کے پابند ہوں.ہر ایک فسق و فجور سے پر ہیز کریں.تو بہ کریں اور نیک بختی اور خدا ترسی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوں.غریبوں اور ہمسائیوں اور یتیموں اور بیواؤں اور مسافروں اور در ماندوں کے ساتھ نیک سلوک کریں اور صدقہ اور خیرات دیں اور جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھیں اور نماز میں اس بلا سے محفوظ رہنے کے لئے رو رو کر دعا کریں.پچھلی رات اٹھیں اور نماز میں دعائیں کریں.غرض ہر قسم کے نیک کام بجالائیں اور ہر قسم کے ظلم سے بچیں اور اس خدا سے ڈریں جو اپنے غضب سے ایک دم میں ہی دنیا کو ہلاک کر سکتا ہے.یا درکھو کہ سخت خطرہ کے دن ہیں اور بلا دروازہ پر ہے.نیکی اختیار کرو اور نیک کام بجالاؤ.خدا تعالیٰ بہت حلیم ہے لیکن اس کا غضب بھی کھا جانے والی آگ ہے اور نیک کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرتا.مَايَفْعَلُ اللهُ بِعَدَ ابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمُ بترسید از خدائے بے نیاز و سخت تمہارے نه پندارم که بد بیند خدا ترسے نکوکارے لے مرا باور نمی آید که رسوا گردد آن مردی که می ترسد ازاں بارے کہ غفارست وستارے سے گر آں چیزے کہ می بینم عزیزان نیز دیدند از دنیا تو به کردند بچشم زار و خونبارے سے خور تاباں سیه گشت ست از بدکاری مردم زمیں طاعون ہمی آرد پئے تخویف و انذارے کے به تشویش قیامت ماند ایں تشویش گر بینی علاجے نیست بہر دفع آن جز حسن کردارے ۵ نشاید تافتن سرزاں جناب عزت و غیرت که گر خواہد کشد در یکدمے چوں کرم بریکاری 1 من از همدردی است گفتم تو خود ہم فکر کن بارے خرد از بہر ایں روزست اے دانا و ہشیارے کے تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۲ ، ۷.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۱۸۳ تا ۱۸۷ بار دوم ).لے لوگو! بے نیاز اور فناء خدا سے ڈرو.میں نہیں سمجھتا کہ متقی اور نیک آدمی کبھی نقصان اٹھاتا ہو.مجھے تو یقین نہیں آتا کہ وہ شخص کبھی رسوا ہوا ہو جو اس یار سے ڈرتا ہے جو غفا روستا ر ہے.اگر وہ چیز جسے میں دیکھ رہا ہوں دوست بھی دیکھتے تو حصول دنیا سے رو رو کر تو بہ کرتے.ے لوگوں کی بدکاریوں سے چمکتا ہوا سورج بھی سیاہ ہو گیا اور زمین بھی ڈرانے کی خاطر طاعون لا رہی ہے.یہ مصیبت قیامت کی مانند ہے اگر تو غور کرے اور اس کے دور کرنے کا علاج سوائے نیک اعمال کے اور کچھ نہیں.اس بارگاہ عالی سے سرکشی نہیں کرنی چاہیے اگر وہ چاہے تو ایک دم میں نکھے کیڑے کی طرح تجھے فنا کر دے.کے میں نے ہمدردی سے یہ بات کی ہے اب تو خود غور کر لے اسے سمجھ دار انسان ، عقل اسی دن کے لیے ہوا کرتی ہے.
۱۲۱۹ چو آمد از خدا طاعون به بیس از چشم اکرامش تو خود ملعونی اے فاسق چرا ملعوں نہی نامش 1 زمان تو به و وقت صلاح و ترک خبث است این کسے کو بربدی چسپد نہ بینم نیک انجامش ہے اس ہولناک مرض کے بارے میں جو ملک میں پھیلتی جاتی ہے لوگوں کی مختلف رائیں ہیں.ڈاکٹر لوگ جن کے خیالات فقط جسمانی تدابیر تک محدود ہیں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمین میں محض قدرتی اسباب سے ایسے کیڑے پیدا ہو گئے ہیں کہ اول چوہوں پر اپنا بد اثر پہنچاتے ہیں اور پھر انسانوں میں سلسلہ موت کا جاری ہو جاتا ہے اور مذہبی خیالات سے اس بیماری کو کچھ تعلق نہیں بلکہ چاہئے کہ اپنے گھروں اور نالیوں کو ہر ایک قسم کی گندگی اور عفونت سے بچاویں اور صاف رکھیں اور فینائل وغیرہ کے ساتھ پاک کرتے رہیں.اور مکانوں کو آگ سے گرم رکھیں اور ایسا بنادیں جن میں ہوا بھی پہنچ سکے اور روشنی بھی اور کسی مکان میں اس قدر لوگ نہ رہیں کہ اُن کے منہ کی بھاپ اور پاخانہ پیشاب وغیرہ سے کیڑے بکثرت پیدا ہو جائیں.اور رڈی غذا ئیں نہ کھائیں.اور سب سے بہتر علاج یہ ہے کہ ٹیکا کرالیں.اور اگر مکانوں میں چوہے مُردہ پاویں تو ان مکانوں کو چھوڑ دیں.اور بہتر ہے کہ باہر کھلے میدانوں میں رہیں اور میلے کچیلے کپڑوں سے پر ہیز کریں.اور اگر کوئی شخص کسی متاثر اور آلودہ مکان سے اُن کے شہر یا گاؤں میں آوے تو اس کو اندر نہ آنے دیں اور اگر کوئی ایسے گاؤں یا شہر کا اس مرض سے بیمار ہو جائے تو اس کو باہر نکالیں اور اس کے اختلاط سے پر ہیز کریں.پس طاعون کا علاج اس کے نزدیک جو کچھ ہے یہی ہے.یہ تو دانشمند ڈاکٹروں اور طبیبوں کی رائے ہے جس کو ہم نہ تو ایک کافی اور مستقل علاج کے رنگ میں سمجھتے ہیں اور نہ محض بے فائدہ قرار دیتے ہیں.اور کافی اور مستقل علاج اس لئے نہیں سمجھتے کہ تجربہ بتلا رہا ہے کہ بعض لوگ باہر نکلنے سے بھی مرے ہیں اور بعض صفائی کا التزام رکھتے رکھتے بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے.اور بعض نے بڑی امید سے ٹیکا لگوایا اور پھر قبر میں جا پڑے.پس کون کہہ سکتا ہے یا کون ہمیں تسلی دے سکتا ہے کہ یہ تمام تدبیریں کافی علاج ہیں.بلکہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ گو یہ تمام طریقے کسی حد تک مفید ہیں.لیکن یہ ایسی تدبیر نہیں ہے جس کو طاعون کو ملک سے دفع کرنے کے لئے پوری کامیابی کہہ سکیں.ا جب خدا کی طرف سے طاعون کا عذاب نازل ہوا تو اس کو اکرام کی نظر سے دیکھ کیونکہ اے فاسق تو خود ملعون ہے اس کا نام ملعون کیوں رکھتا ہے.یہ زمانہ تو بہ اور اصلاح اور خبائث کے ترک کرنے کا وقت ہے.اور جو اس کو بدی پر اطلاق کرتا ہے میں اس کا نیک انجام نہیں دیکھتا.
۱۲۲۰ اسی طرح یہ تدبیریں محض بے فائدہ بھی نہیں ہیں کیونکہ جہاں جہاں خدا کی مرضی ہے وہاں وہاں اس کا فائدہ بھی محسوس ہو رہا ہے.مگر وہ فائدہ کچھ بہت خوشی کے لائق نہیں.مثلا گو سچ ہے کہ اگر مثلاً سو آدمی نے ٹیکا لگوایا ہے اور دوسرے اسی قدر لوگوں نے ٹیکا نہیں لگوایا ہے تو جنہوں نے ٹیکہ نہیں لگوایا ان میں موتیں زیادہ پائی گئیں اور ٹیکا والوں میں کم لیکن چونکہ ٹیکے کا اثر غایت کار دو مہینے یا تین مہینے تک ہے اس لئے ٹیکہ والا بھی بار بار خطرہ میں پڑے گا جب تک اس دنیا سے رخصت نہ ہو جائے.صرف اتنا فرق ہے کہ جو لوگ ٹیکہ نہیں لگواتے وہ ایک ایسے مرکب پر سوار ہیں کہ جو مثلاً چوبیس گھنٹہ تک ان کو دارالفنا تک پہنچا سکتا ہے اور جو لوگ ٹیکا لگواتے ہیں وہ گویا ایسے آہستہ روٹو پر چل رہے ہیں کہ جو چوبیس دن تک اسی مقام میں پہنچا دے گا بہر حال یہ تمام طریقے جو ڈاکٹری طور پر اختیار کئے گئے ہیں نہ تو کافی اور پورے تسلی بخش ہیں اور نہ محض لکھے اور بے فائدہ ہیں.اور چونکہ طاعون جلد جلد ملک کو کھاتی جاتی ہے.اس لئے بنی نوع کی ہمدردی اسی میں ہے کہ کسی اور طریق کو سوچا جائے جو اس تباہی سے بچا سکے.اور مسلمان لوگ جیسا کہ میاں شمس الدین سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور کے اشتہار سے سمجھا جاتا ہے جس کو انہوں نے ماہ حال یعنی اپریل ۱۹۰۲ء میں شائع کیا ہے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تمام فرقے مسلمانوں کے شیعہ سنی مقلد اور غیر مقلد میدانوں میں جا کر اپنے اپنے طریقہ مذہب میں دعا ئیں کریں اور ایک ہی تاریخ میں اکٹھے ہو کر نماز پڑھیں تو بس یہ ایسا نسخہ ہے کہ معاً اس سے طاعون دُور ہو جائے گی.مگر اکٹھے کیونکر ہوں.اس کی کوئی تدبیر نہیں بتلائی گئی.ظاہر ہے کہ فرقہ وہابیہ کے مذہب کے رو سے تو بغیر فاتحہ خوانی کے نماز درست ہی نہیں.پس اس صورت میں ان کے ساتھ حنفیوں کی نماز کیونکر ہو سکتی ہے.کیا باہم فساد نہیں ہو گا ؟ ماسوا اس کے اس اشتہار کے لکھنے والے نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ ہندو اس مرض کے دفع کے لئے کیا کریں.کیا ان کو اجازت ہے یا نہیں کہ وہ بھی اس وقت اپنے بتوں سے مدد مانگیں اور عیسائی کس طریق کو اختیار کریں.اور جو فرقے حضرت حسین یا علی رضی اللہ عنہ کو قاضی الحاجات سمجھتے ہیں اور محرم میں تازیوں پر ہزاروں درخواستیں مرادوں کے لئے گزارا کرتے ہیں.اور یا جو مسلمان سید عبدالقادر جیلانی کی پوجا کرتے ہیں یا جو شاہ مدار یا سخی سرور کو پوجتے ہیں.وہ کیا کریں؟ اور کیا اب یہ تمام فرقے دعا ئیں نہیں کرتے ؟ بلکہ ہر ایک فرقہ خوف زدہ ہو کر اپنے اپنے معبود کو پکار رہا ہے.شیعوں کے محلوں کی سیر کرو.کوئی ایسا گھر نہیں ہوگا جس کے دروازہ پر یہ شعر چسپاں نہیں ہوگا.
۱۲۲۱ لِي خَمْسَةٌ أُطْفِي بِهَا حَرَّ الوَبَاءِ الحَاطِمَه الْمُصْطَفَى وَ الْمُرْتَضَى وَ ابْنَاهُمَا وَ الْفَاطِمَه میرے استاد ایک بزرگ شیعہ تھے ان کا مقولہ تھا کہ وباء کا علاج فقط تولا اور تیری ہے یعنی ائمہ اہل بیت کی محبت کو پرستش کی حد تک پہنچا دینا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیتے رہنا.اس سے بہتر کوئی علاج نہیں.اور میں نے سنا ہے کہ بمبئی میں جب طاعون شروع ہوئی ہے تو پہلے لوگوں میں یہی خیال پیدا ہوا تھا کہ یہ امام حسین کی کرامت ہے کیونکہ جن ہندوؤں نے شیعہ سے کچھ تکرار کیا تھا ان میں طاعون شروع ہو گئی تھی.پھر جب اسی مرض نے شیعہ میں بھی قدم رنجہ فرمایا تب تو یا حسین کے نعرے کم ہو گئے.یہ تو مسلمانوں کے خیالات ہیں جو طاعون کے دُور کرنے کے لئے سوچے گئے ہیں.اور عیسائیوں کے خیالات کے اظہار کے لئے ابھی ایک اشتہار پادری وائٹ بریخت صاحب اور ان کی انجمن کی طرف سے نکلا ہے اور وہ یہ کہ طاعون کے دور کرنے کے لئے اور کوئی تدبیر کافی نہیں بجز اس کے کہ حضرت مسیح کو خدامان لیں اور ان کے کفارہ پر ایمان لے آویں.اور ہندوؤں میں سے آریہ دھرم کے لوگ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ بلائے طاعون وید کے ترک کرنے کی وجہ سے ہے.تمام فرقوں کو چاہئے کہ ویدوں کی ست وڈ یا پر ایمان لاویں اور تمام نبیوں کو نعوذ باللہ مفتری قرار دے دیں تب اس تدبیر سے طاعون دُور ہو جائے گی.اور ہندوؤں میں سے جو سناتن دھرم فرقہ ہے اس فرقہ میں دفع طاعون کے بارے میں جو رائے ظاہر کی گئی ہے اگر ہم پر چہ اخبار عام نہ پڑھتے تو شائد اس عجیب رائے سے بے خبر رہتے اور وہ رائے یہ ہے کہ یہ بلائے طاعون گائے کی وجہ سے آئی ہے.اگر گورنمنٹ یہ قانون پاس کر دے کہ اس ملک میں گائے ہرگز ہرگز ذبح نہ کی جائے تو پھر دیکھیئے کہ طاعون کیونکر دفع ہو جاتی ہے بلکہ اسی اخبار میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک شخص نے گائے کو بولتے سنا کہ وہ کہتی ہے کہ میری وجہ سے ہی اس ملک میں طاعون آیا ہے.اب اے ناظرین خود سوچ لو کہ اس قدر متفرق اقوال اور دعاوی سے کس قول کو دنیا کے آگے صریح اور بدیہی طور پر فروغ ہو سکتا ہے؟ یہ تمام اعتقادی امور ہیں اور اس نازک وقت میں جب تک کہ دنیا ان عقائد کا فیصلہ کرے خود دنیا کا فیصلہ ہو جائے گا.اس لئے وہ بات قبول کے لائق ہے جو جلد تر سمجھ میں
۱۲۲۲ آ سکتی ہے.اور جو اپنے ساتھ کوئی ثبوت رکھتی ہے.سوئیں وہ بات مع ثبوت پیش کرتا ہوں.چار سال ہوئے کہ میں نے ایک پیشگوئی شائع کی تھی کہ پنجاب میں سخت طاعون آنے والی ہے اور میں نے اس ملک میں طاعون کے سیاہ درخت دیکھے ہیں جو ہر ایک شہر اور گاؤں میں لگائے گئے ہیں.اگر لوگ تو بہ کریں تو یہ مرض دو جاڑہ سے بڑھ نہیں سکتی خدا اس کو رفع کر دے گا مگر بجائے تو بہ کے مجھ کو گالیاں دی گئیں اور سخت بد زبانی کے اشتہار شائع کئے گئے جس کا نتیجہ طاعون کی یہ حالت ہے جواب دیکھ رہے ہو.خدا کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی اس کی یہ عبارت ہے.إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ.أَنَّهُ اوَى الْقَرْيَةَ.یعنی خدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس بلائے طاعون کو ہرگز دُور نہیں کرے گا جب تک لوگ ان خیالات کو دور نہ کرلیں جو ان کے دلوں میں ہیں.یعنی جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دور نہیں ہوگی اور وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تا تم سمجھو کہ قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا.اب دیکھو تین برس سے ثابت ہو رہا ہے کہ وہ دونوں پہلو پورے ہو گئے.یعنی ایک طرف تمام پنجاب میں طاعون پھیل گئی اور دوسری طرف باوجود اس کے کہ قادیان کے چاروں طرف دو دو میل کے فاصلہ پر طاعون کا زور ہو رہا ہے مگر قادیان طاعون سے پاک ہے بلکہ آج تک جو شخص طاعون زدہ باہر سے قادیان میں آیا وہ بھی اچھا ہو گیا.کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور ثبوت ہوگا کہ جو باتیں آج سے چار برس پہلے کہی گئی تھیں وہ پوری ہوگئیں.بلکہ طاعون کی خبر آج سے بائیس برس پہلے براہین احمدیہ میں بھی دی گئی ہے اور یہ علم غیب بجز خدا کے کسی اور کی طاقت میں نہیں.پس اس بیماری کے دفع کے لئے وہ پیغام جو خدا نے مجھے دیا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ مجھے بچے دل سے مسیح موعود مان لیں.اگر میری طرف سے بھی بغیر کسی دلیل کے صرف دعوئی ہوتا جیسا کہ میاں شمس الدین سیکرٹری حمایت اسلام لاہور نے اپنے اشتہار میں یا پادری وائٹ بریخت صاحب نے اپنے اشتہار میں کیا ہے تو میں بھی اُن کی طرح ایک فضول گوٹھہرتا لیکن میری وہ باتیں ہیں جن کو میں نے قبل از وقت بیان کیا اور آج وہ پوری ہو گئیں اور پھر اس کے بعد ان دنوں میں بھی خدا نے مجھے خبر دی چنانچہ وہ عزّ و جلّ فرماتا ہے.مَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ إِنَّهُ أوَى الْقَرْيَةَ.لَوْلَا الْإِكْرَامُ لَهَلَكَ الْمُقَامُ.لے خدا ایسا نہیں کہ قادیان کے لوگوں کو عذاب دے حالانکہ تو ان میں رہتا ہے.وہ اس گاؤں کو طاعون کی دست برد اور اس کی تباہی سے بچالے گا.اگر تیرا پاس مجھے نہ ہوتا اور تیرا اکرام مد نظر نہ ہوتا تو میں اس گاؤں کو ہلاک کر دیتا.
۱۲۲۳ إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ دَافِعُ الْأَذَى إِنِّى لَايَخَافُ لَدَى الْمُرْسَلُونَ إِنِّي حَفِيظٌ إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ أَقُومُ.وَ الْوُمُ مَنْ يَلُومُ.أَفْطِرُ وَ اَصُومُ.غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِيدًا.اَلْأَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوسُ تُضَاعُ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُوْلَئِكَ لَهُمُ الْآمُنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ إِنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا.إِنِّي أَجَهْزُ الْجَيْشَ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ.سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَ فِي أَنْفُسِهِمْ.نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ مُّبِينٌ.إِنِّي بَايَعْتُكَ بَايَعَنِيُّ رَبِّى.اَنْتَ مِنِّى بِمَنْزِلَةِ اَوْلَادِى.أَنْتَ مِنِّى وَ أَنَا مِنْكَ.عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا.الْفَوقَ مَعَكَ وَ التَّحْتُ مَعَ أَعْدَاءِ كَ فَاصْبِرُ حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِاَمْرِهِ.يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَّيْسَ فِيْهَا أَحَدٌ.اب اس تمام وحی سے تین باتیں ثابت ہوئی ہیں.(۱) اول یہ کہ طاعون دنیا میں اس لئے آئی ہے کہ خدا کے مسیح موعود سے نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ اس کو دکھ دیا گیا اور اس کے قتل کرنے کے لئے منصوبے کئے گئے.اس کا نام کا فر اور دجال رکھا گیا.پس خدا نے نہ چاہا کہ اپنے رسول کو بغیر گواہی چھوڑ...(۲) دوسری بات جو اس وجی سے ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ یہ طاعون اس حالت میں فرو میں رحمان ہوں جو دکھ کو دور کرنے والا ہے.میرے رسولوں کو میرے پاس کچھ خوف اور غم نہیں.میں نگہ رکھنے والا ہوں.میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس کو ملامت کروں گا جو میرے رسول کو ملامت کرتا ہے.میں اپنے وقتوں کو تقسیم کر دوں گا کہ کچھ حصہ برس کا تو میں افطار کروں گا یعنی طاعون سے لوگوں کو ہلاک کروں گا اور کچھ حصہ برس کا میں روزہ رکھوں گا یعنی امن رہے گا اور طاعون کم ہو جائے گی یا بالکل نہیں رہے گی.میرا غضب بھڑک رہا ہے.بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی مگر وہ لوگ جو ایمان لائیں گے اور ایمان میں کچھ نقص نہیں ہوگا.وہ امن میں رہیں گے اور ان کو مخلصی کی راہ ملے گی.یہ خیال مت کرو کہ جرائم پیشہ بچے ہوئے ہیں.ہم ان کی زمین کے قریب آتے جاتے ہیں.میں اندر ہی اندر اپنا لشکر طیار کر رہا ہوں یعنی طاعونی کیڑوں کو پرورش دے رہا ہوں.پس وہ اپنے گھروں میں ایسے ہو جائیں گے جیسا کہ ایک اونٹ مرا رہ جاتا ہے ہم ان کو اپنے نشان پہلے تو دور دور کے لوگوں میں دکھا ئیں گے اور پھر خود انہی میں ہمارے نشان ظاہر ہوں گے.یہ دن خدا کی مدد اور فتح کے ہوں گے میں نے تجھ سے ایک خرید وفروخت کی ہے یعنی ایک چیز میری تھی جس کا تو مالک بنایا گیا اور ایک چیز تیری تھی جس کا میں مالک بن گیا تو بھی اس خرید و فروخت کا اقرار کر اور کہہ دے کہ خدا نے مجھ سے خرید و فروخت کی.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولاد.تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں.وہ وقت قریب ہے کہ میں ایسے مقام پر تجھے کھڑا کروں گا کہ دنیا تیری حمد و ثناء کرے گی.فوق تیرے ساتھ ہے اور تحت تیرے دشمنوں کے ساتھ.پس صبر کر جب تک کہ وعدہ کا دن آجائے.طاعون پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ کوئی بھی اس میں گرفتار نہیں ہوگا یعنی انجام کار خیر و عافیت ہے
۱۲۲۴.ہو گی جب کہ لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کر لیں گے.اور کم سے کم یہ کہ شرارت اور ایذا اور بد زبانی سے باز آ جائیں گے (۳) تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ بہر حال جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے گوستر برس تک رہے قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے.اور یہ تمام امتوں کے لئے نشان ہے.اب اگر خدا تعالیٰ کے اس رسول اور اس نشان سے کسی کو انکار ہو اور خیال ہو کہ فقط رسمی نمازوں اور دعاؤں سے یا مسیح کی پرستش سے یا گائے کے طفیل سے یا ویدوں کے ایمان سے باوجود مخالفت اور دشمنی اور نافرمانی اس رسول کے طاعون دُور ہو سکتی ہے تو یہ خیال بغیر ثبوت کے قابل پذیرائی نہیں.پس جو شخص ان تمام فرقوں میں سے اپنے مذہب کی سچائی کا ثبوت دینا چاہتا ہے تو اب بہت عمدہ موقع ہے.گویا خدا کی طرف سے تمام مذاہب کی سچائی یا کذب پہچاننے کے لئے ایک نمائش گاہ مقرر کیا گیا ہے اور خدا نے سبقت کر کے اپنی طرف سے پہلے قادیان کا نام لے دیا ہے.اب اگر آریہ لوگ وید کو سچا سمجھتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ بنارس کی نسبت جو وید کے درس کا اصل مقام ہے ایک پیشگوئی کر دیں کہ اُن کا پر میشر بنارس کو طاعون سے بچالے گا.اور سناتن دھرم والوں کو چاہئے کہ کسی ایسے شہر کی نسبت جس میں گائیاں بہت ہوں مثلاً امرتسر کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ گئو کے طفیل اس میں طاعون نہیں آئے گی.اگر اس قدر گنوا اپنا معجزہ دکھا دے تو کچھ تعجب نہیں کہ اس معجزہ نما جانور کی گورنمنٹ جان بخشی کر دے.اسی طرح عیسائیوں کو چاہئے کہ کلکتہ کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ اس میں طاعون نہیں پڑے گی کیونکہ بڑا بشپ برٹش انڈیا کا کلکتہ میں رہتا ہے.اسی طرح میاں شمس الدین اور ان کی انجمن حمایت اسلام کے ممبروں کو چاہئے کہ لاہور کی نسبت پیشگوئی کر دیں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گا اور منشی الہی بخش اکونٹنٹ جو الہام کا دعوی کرتے ہیں اُن کے لئے بھی یہی موقع ہے کہ اپنے الہام سے لاہور کی نسبت پیشگوئی کر کے انجمن حمایت اسلام کو مدد دیں اور مناسب ہے کہ عبدالجبار اور عبدالحق شہر امرتسر کی نسبت پیشگوئی کر دیں.اور چونکہ فرقہ وہابیہ کی اصل جڑ دتی ہے اس لئے مناسب ہے کہ نذیر حسین اور محمد حسین دتی کی نسبت پیشگوئی کریں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہے گی.پس اس طرح سے گویا تمام پنجاب اس مہلک مرض سے محفوظ ہو جائے گا اور گورنمنٹ کو بھی مفت میں سبکدوشی ہو جائے گی.اور اگر ان لوگوں نے ایسا نہ کیا تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا.اور بالآخر یادر ہے کہ اگر یہ تمام لوگ جن میں مسلمانوں کے ملہم اور آریوں کے پنڈت اور عیسائیوں
۱۲۲۵ کے پادری داخل ہیں چپ رہے تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ سب لوگ جھوٹے ہیں اور ایک دن آنے والا ہے جو قادیان سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے.بالآ خر میاں شمس الدین صاحب کو یاد رہے کہ آپ نے جو اپنے اشتہار میں آیت أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَر کے لکھی ہے اور اس سے قبولیت دعا کی امید کی ہے.یہ امید صحیح نہیں ہے کیونکہ کلام الہی میں لفظ مضطر سے وہ ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلاء کے طور پر ضرر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر لیکن جو لوگ سزا کے طور پر کسی ضرر کے تختہ مشق ہوں وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں ورنہ لازم آتا ہے کہ قوم نوح اور قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ کی دعائیں اس اضطرار کے وقت میں قبول کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا اور خدا کے ہاتھ نے ان قوموں کو ہلاک کر دیا اور اگر میاں شمس الدین کہیں کہ پھر ان کے مناسب حال کون سی آیت ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ آیت مناسب حال ہے کہ مَا دُعَوُا الْكُفِرِيْنَ إِلَّا فِي ضَللٍ : اور چونکہ احتمال ہے کہ بعض نبی الطبع اس اشتہار کا اصل منشاء سمجھنے میں غلطی کھا ئیں اس لئے ہم مکررا اپنے فرض دعوت کا اظہار کر دیتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ یہ طاعون جو ملک میں پھیل رہی ہے.کسی اور سبب سے نہیں بلکہ ایک ہی سبب ہے اور وہ یہ کہ لوگوں نے خدا کے اس موعود کے ماننے سے انکار کیا ہے جو تمام نبیوں کی پیشگوئی کے موافق دنیا کے ساتویں ہزار میں ظاہر ہوا ہے.اور لوگوں نے نہ صرف انکار بلکہ خدا کے اس مسیح کو گالیاں دیں.کافر کہا اور قتل کرنا چاہا اور جو کچھ چاہا اس سے کیا اس لئے خدا کی غیرت نے چاہا کہ ان کی اس شوخی اور بے ادبی پر اُن پر تنبیہہ نازل کرے.اور خدا نے پہلے پاک نوشتوں میں خبر دی تھی کہ لوگوں کے انکار کی وجہ سے ان دنوں میں جب مسیح ظاہر ہو گا ملک میں سخت طاعون پڑے گی.سوضرور تھا کہ طاعون پڑتی.اور طاعون کا نام طاعون اس لئے رکھا گیا کہ یہ طعن کرنے والوں کا جواب ہے.اور بنی اسرائیل میں ہمیشہ طعن کے وقت میں ہی پڑا کرتی تھی.اور طاعون کے لغت عرب میں معنے ہیں.بہت طعن کرنے والا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ طاعون طعن و تشنیع کی ابتدائی حالت میں نہیں پڑتی بلکہ جب خدا کے مامور اور مرسل کو حد سے زیادہ ستایا جاتا ہے اور توہین کی جاتی ہے تو اُس وقت پڑتی ہے.سواے عزیز و! اس کا بجز اس کے کوئی بھی علاج نہیں کہ اس مسیح کو سچے دل اور اخلاص سے قبول کر لیا جاوے.یہ تو یقینی علاج ہے اور اس سے کمتر درجہ کا یہ علاج ہے کہ اس کے انکار سے منہ بند کر لیا جائے اور زبان کو بد گوئی سے روکا جائے اور دل میں اس کی النمل: ۶۳ ۲ المؤمن: ۵۱
عظمت بٹھائی جائے.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ لوگ یہ کہتے ہوئے کہ يَا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدْوَ انا میری طرف دوڑیں گے.یہ جو میں نے ذکر کیا ہے یہ خدا کا کلام ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ اے جو خلقت کے لئے مسیح کر کے بھیجا گیا ہے ہماری اس مہلک بیماری کے لئے شفاعت کر.تم یقینا سمجھو کہ آج تمہارے لئے بجز اس مسیح کے اور کوئی شفیع نہیں باستثناء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.اور یہ شفیع آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہے بلکہ اس کی شفاعت در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی شفاعت ہے.اے عیسائی مشنریو! اب رَبُّنَا الْمَسِيحَ مت کہو.اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے جو اس مسیح سے بڑھ کر ہے.اور اے قوم شیعہ! اس پر اصرارمت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں سے ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے.اور اگر میں اپنی طرف سے یہ باتیں کہتا ہوں تو میں جھوٹا ہوں لیکن اگر میں ساتھ اس کے خدا کی گواہی رکھتا ہوں تو تم خدا سے مقابلہ مت کرو.ایسا نہ ہو کہ تم اس سے لڑنے والے ٹھہر و.اب میری طرف دوڑو کہ وقت ہے.جو شخص اس وقت میری طرف دوڑتا ہے میں اس کو اس سے تشبیہ دیتا ہوں کہ جو عین طوفان کے وقت جہاز پر بیٹھ گیا لیکن جو شخص مجھے نہیں مانتا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ طوفان میں اپنے تیں ڈال رہا ہے اور کوئی بچنے کا سامان اس کے پاس نہیں.سچا شفیع میں ہوں جو اُس بزرگ شفیع کا سایہ ہوں اور اس کا ظل جس کو اس زمانہ کے اندھوں نے قبول نہ کیا اور اس کی بہت ہی تحقیر کی یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.اس لئے خدا نے اس وقت اس گناہ کا ایک ہی لفظ کے ساتھ پادریوں سے بدلہ لے لیا.کیونکہ عیسائی مشنریوں نے عیسی بن مریم کو خدا بنایا اور ہمارے سید ومولی حقیقی شفیع کو گالیاں دیں اور بد زبانی کی.کتابوں سے زمین کو نجس کر دیا.اس لئے اس مسیح کے مقابل پر جس کا نام خدا رکھا گیا خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا تا یہ اشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمد کے ادنی غلام سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.یعنی وہ کیسا مسیح ہے جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے.اے عزیز و! یہ بات غصہ کرنے کی نہیں.اگر اس احمد کے غلام کو جو مسیح موعود کر کے بھیجا گیا ہے تم اس پہلے مسیح سے بزرگ تر نہیں سمجھتے اور اس کو شفیع اور منجی قرار دیتے ہو تو اب اپنے اس دعوی کا ثبوت دو.اور جیسا کہ اس احمد کے غلام کی نسبت خدا نے فرمایا اِنهُ اوَى الْقَرْيَةَ لَوَلَا الْإِكْرَامُ لَهَلَكَ
۱۲۲۷ الْمُقَامُ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے اس شفیع کی عزت ظاہر کرنے کے لئے اس گاؤں قادیان کو طاعون سے محفوظ رکھا جیسا کہ دیکھتے ہو کہ وہ پانچ چھ برس سے محفوظ چلی آتی ہے اور نیز فرمایا کہ اگر میں اس احمد کے غلام کی بزرگی اور عزت ظاہر نہ کرنا چاہتا تو آج قادیان میں بھی تباہی ڈال دیتا.ایسا ہی آپ بھی اگر مسیح ابن مریم کو در حقیقت سچا شفیع اور نجی قرار دیتے ہیں تو قادیان کے مقابل پر آپ بھی کسی اور شہر کا پنجاب کے شہروں میں سے نام لے دیں کہ فلاں شہر ہمارے خداوند مسیح کی برکت اور شفاعت سے طاعون سے پاک رہے گا.اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر آپ سوچ لیں کہ جس شخص کی اسی دنیا میں شفاعت ثابت نہیں وہ دوسرے جہان میں کیونکر شفاعت کرے گا.اس جگہ مولوی احمد حسن صاحب امروہی کو ہمارے مقابلہ کے لئے خوب موقع مل گیا ہے.ہم نے سنا ہے کہ وہ بھی دوسرے مولویوں کی طرح اپنے مشرکانہ عقیدہ کی حمایت میں کہ تا کسی طرح حضرت مسیح ابن مریم کو موت سے بچالیں اور دوبارہ اتار کر خاتم الانبیاء بنادیں بڑی جانکا ہی سے کوشش کر رہے ہیں.....اگر مولوی احمد حسن صاحب کسی طرح باز نہیں آتے تو اب وقت آ گیا ہے کہ آسمانی فیصلہ سے ان کو پتہ لگ جائے.یعنی اگر وہ در حقیقت مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں اور میرے الہامات کو انسان کا افتراء خیال کرتے ہیں نہ خدا کا کلام تو سہل طریق یہ ہے کہ جس طرح میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر کہا ہے اِنه اوى الْقَرْيَةَ لَوَلَا الْإِكْرَامُ لَهَلَكَ الْمُقَامُ إِنَّهُ اوَى اَمْرُوهَه لکھ دیں.مومنوں کی دُعا تو خدا سنتا ہے.وہ شخص کیسا مومن ہے کہ ایسے شخص کی دُعا اس کے مقابل پر تو سنی جاتی ہے جس کا نام اس نے دجال اور بے ایمان اور مفتری رکھا ہے مگر اُس کی اپنی دُعا نہیں سنی جاتی.اگر انہوں نے اپنے فرضی مسیح کی خاطر دعا قبول کرا کر خدا سے یہ بات منوالی کہ امروہہ میں طاعون نہیں پڑے گی تو اس صورت میں نہ صرف اُن کو فتح ہوگی بلکہ تمام امروہہ پر ان کا ایسا احسان ہو گا کہ لوگ اس کا شکر نہیں کر سکیں گے اور مناسب ہے کہ ایسے مباہلہ کا مضمون اس اشتہار کے شائع ہونے سے پندرہ دن تک بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے دنیا میں شائع کر دیں جس کا یہ مضمون ہو کہ میں یہ اشتہار مرزا غلام احمد کے مقابل پر شائع کرتا ہوں جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہے اور میں جو مومن ہوں دعا کی قبولیت پر بھروسہ کر کے یا الہام پا کر یا خواب دیکھ کر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ امروہہ ضرور بالضرور طاعون کی دست برد سے محفوظ رہے گا لیکن قادیان میں تبا ہی پڑے گی کیونکہ مفتری کے رہنے کی جگہ ہے.اس اشتہار سے غالباً آئندہ جاڑے تک فیصلہ ہو جائے گا یا حد دوسرے تیسرے جاڑے تک.
۱۲۲۸ چونکہ مسیح موعود کی رہائش کے قریب تر پنجاب ہے اور مسیح موعود کی نظر کا پہلا محل پنجابی ہیں اس لئے اول یہ کارروائی پنجاب میں شروع ہوئی.لیکن امروہہ بھی مسیح موعود کی محیط ہمت سے دُور نہیں ہے اس لئے اس مسیح کا کافرکش دم ضرور امروہہ تک بھی پہنچے گا یہی ہماری طرف سے دعوی ہے.اگر مولوی احمد حسن اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد جس کو وہ قسم کے ساتھ شائع کرے گا امروہہ کو طاعون سے بچا سکا اور کم سے کم تین جاڑے امن سے گذر گئے تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.پس اس سے بڑھ کر اور کیا فیصلہ ہوگا اور میں بھی خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں مسیح موعود ہوں.اور وہی ہوں جس کا نبیوں نے وعدہ دیا ہے اور میری نسبت اور میرے زمانہ کی نسبت توریت اور انجیل اور قرآن شریف میں خبر موجود ہے کہ اس وقت آسمان پر خسوف کسوف ہو گا.اور زمین پر سخت طاعون پڑے گی اور میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اُس نے خدا تعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی.دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۲۱ تا ۲۳۸) چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ملک میں عام طاعون پڑے گی اور کسی کم مقدار کی حد تک قادیان بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گی.اس لئے اس نے آج کے دنوں سے تیئیس برس پہلے فرما دیا کہ جو شخص اس مسجد اور اس گھر میں داخل ہو گا یعنی اخلاص اور اعتقاد سے وہ طاعون سے بچایا جائے گا.اسی کے مطابق ان دنوں میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا :- إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِى الدَّارِ إِلَّا الَّذِينَ عَلَوُا مِنْ اِسْتِكْبَارٍ.وَ أَحَافِظُكَ خَاصَّةً.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيم.یعنی میں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہو گا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کریں اور میں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا.خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام.جاننا چاہئے کہ خدا کی وحی نے اس ارادہ کو جو قادیان کے متعلق ہے دوحصوں پر تقسیم کر دیا ہے.(۱) ایک وہ ارادہ جو عام طور پر گاؤں کے متعلق ہے اور وہ ارادہ یہ ہے کہ یہ گاؤں اس شدت طاعون سے جو افراتفری اور تباہی ڈالنے والی اور ویران کرنے والی اور تمام گاؤں کو منتشر کرنے والی ہو محفوظ
۱۲۲۹ رہے گا.(۲) دوسرے یہ ارادہ کہ خدائے کریم خاص طور پر اس گھر کی حفاظت کرے گا اور اس تمام عذاب سے بچائے گا جو گاؤں کے دوسرے لوگوں کو پہنچے گا اور اس وحی اللہ کا اخیر فقرہ ان لوگوں کے لئے منذر ہے جن کے دلوں میں بے جا تکبر ہے.اس لئے میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے.مگر تم شاید نہیں سمجھو گے کہ تکبر کیا چیز ہے پس مجھ سے سمجھ لو کہ میں خدا کی روح سے بولتا ہوں.( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۱ ۴۰۲) میں ایک اور رویا لکھتاہوں جو طاعون کی نسبت مجھے ہوئی.اور وہ یہ کہ میں نے ایک جانور دیکھا جس کا قد ہاتھی کے قد کے برابر تھا مگر منہ آدمی کے منہ سے ملتا تھا اور بعض اعضاء دوسرے جانوروں سے مشابہ تھے.اور میں نے دیکھا کہ وہ یونہی قدرت کے ہاتھ سے پیدا ہو گیا اور میں ایک ایسی جگہ پر بیٹھا ہوں جہاں چاروں طرف بن ہیں جن میں بیل.گدھے.گھوڑے.کتے.سور.بھیڑئیے.اونٹ وغیرہ ہر ایک قسم کے موجود ہیں.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ سب انسان ہیں جو بد عملوں سے ان صورتوں میں ہیں.اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ضخامت کا جانور جو مختلف شکلوں کا مجموعہ ہے جو محض قدرت سے زمین میں سے پیدا ہو گیا ہے وہ میرے پاس آبیٹھا ہے اور قطب کی طرف اس کامنہ ہے.خاموش صورت ہے.آنکھوں میں بہت حیا ہے اور بار بار چند منٹ کے بعد ان بنوں میں سے کسی بن کی طرف دوڑتا ہے اور جب بن میں داخل ہوتا ہے تو اُس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی شور قیامت اٹھتا ہے اور ان جانوروں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ہڈیوں کے چاہنے کی آواز آتی ہے.تب وہ فراغت کر کے پھر میرے پاس آ بیٹھتا ہے اور شاید دس منٹ کے قریب بیٹھا رہتا ہے اور پھر دوسرے بن کی طرف جاتا ہے اور وہی صورت پیش آتی ہے جو پہلے آئی تھی اور پھر میرے پاس آ بیٹھتا ہے.آنکھیں اس کی بہت لمبی ہیں اور میں اس کو ہر ایک دفعہ جو میرے پاس آتا ہے خوب نظر لگا کر دیکھتا ہوں اور وہ اپنے چہرہ کے اندازہ سے مجھے یہ بتلاتا ہے کہ میرا اس میں کیا قصور ہے.میں مامور ہوں اور نہایت شریف اور پر ہیز گار جانور معلوم ہوتا ہے.اور کچھ اپنی طرف سے نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اس کو حکم ہوتا ہے.تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دَابَّةُ الاَرض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ
۱۲۳۰ دَابَّةَ مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِايْتِنَا لَا يُوقِنُوْنَ.اور پھر آگے فرمایا ہے.وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ تُكَذِّبُ بِايْتِنَا فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ.حَتَّى إِذَا جَاءُ وَقَالَ أَكَذَّبْتُمْ بِأَيْتِي وَلَمْ تُحِيْطُوا بِهَا عِلْمًا أَمَاذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوا فَهُمْ لَا يَنْطِقُونَ..خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہی دابۃ الارض جو ان آیات میں مذکور ہے جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتداء سے مقرر ہے یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے جو مجھے عالم کشف میں نظر آیا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دَابَّةُ الأَرض رکھا.کیونکہ زمین کے کیڑوں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے.اسی لئے پہلے چوہوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے.اور جیسا کہ انسان کو ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہوسکتی ہے.اسی لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۱۵ تا ۴۱۷) شکر کا مقام ہے کہ گورنمنٹ عالیہ انگریزی نے اپنی رعایا پر رحم کر کے دوبارہ طاعون سے بچانے کے لئے ٹیکا کی تجویز کی اور بندگانِ خدا کی بہبودی کے لئے کئی لاکھ روپیہ کا بوجھ اپنے سر پر ڈال لیا.در حقیقت یہ وہ کام ہے جس کا شکر گذاری سے استقبال کرنا دانشمند رعایا کا فرض ہے.اور سخت نادان اور اپنے نفس کا وہ شخص دشمن ہے کہ جو ٹیکا کے بارے میں بدظنی کرے.کیونکہ یہ بار ہا تجر بہ میں آچکا ہے کہ یہ محتاط گورنمنٹ کسی خطرناک علاج پر عملدرآمد کرانا نہیں چاہتی بلکہ بہت سے تجارب کے بعد ایسے امور میں جو تد بیر فی الحقیقت مفید ثابت ہوتی ہے اسی کو پیش کرتی ہے.سو یہ بات اہلیت اور انسانیت سے بعید ہے کہ جس کچی خیر خواہی کے لئے لکھوکھا روپیہ گورنمنٹ خرچ کرتی ہے اور کر چکی ہے اُس کی یہ داد دی جائے کہ گویا گورنمنٹ کو اس سر دردی اور صرف زر سے اپنا کوئی خاص مطلب ہے.وہ رعایا بدقسمت ہے کہ بدظنی میں اس درجہ تک پہنچ جائے.کچھ شک نہیں کہ اس وقت تک جو تد بیر اس عالم اسباب میں اس گورنمنٹ عالیہ کے ہاتھ آئی وہ بڑی سے بڑی اور اعلیٰ سے اعلیٰ یہ تدبیر ہے کہ ٹیکا کرایا جائے.اس سے کسی طرح انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ تدبیر مفید پائی گئی ہے اور یہ پابندی رعایت اسباب تمام رعایا کا فرض ہے کہ اس پر کار بند ہو کر وہ غم جو گورنمنٹ کو ان کی جانوں کے لئے ہے اس سے اس کو سبکدوش کر یں.لیکن ہم بڑے ادب سے اس محسن گورنمنٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے ایک النمل : ۲۸۳ النمل: ۸۴ تا ۸۶
۱۲۳۱ آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکا کراتے اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے.سو اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہو گا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور بچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے.اس کے لئے مت دیگر ہو.یہ حکم الہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چار دیوار میں رہتے ہیں ٹیکا کی کچھ ضرورت نہیں.کیونکہ جیسا میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ آج سے ایک مدت پہلے وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے جس کے علم اور تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں اس نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ میں ہر یک ایسے شخص کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو اس گھر کی چار دیوار میں ہو گا بشرطیکہ وہ اپنے تمام مخالفانہ ارادوں سے دست کش ہو کر پورے اخلاص اور اطاعت اور انکسار سے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور خدا کے احکام اور اس کے مامور کے سامنے کسی طور سے متکبر اور سرکش اور مغرور اور غافل اور خودسر اور خود پسند نہ ہو اور عملی حالت موافق تعلیم رکھتا ہو اور اس نے مجھے مخاطب کر کے یہ بھی فرما دیا کہ عموماً قادیان میں سخت بر بادی افگن طاعون نہیں آئے گی.جس سے لوگ کتوں کی طرح مریں اور مارے غم اور سرگردانی کے دیوانہ ہو جا ئیں.اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے مگر ایسے لوگ ان میں سے جو اپنے عہد پر پورے طور پر قائم نہیں یا ان کی نسبت اور کوئی وجہ مخفی ہو جو خدا کے علم میں ہوان پر طاعون ارد ہوسکتی ہے.مگر انجام کار لوگ تعجب کی نظر سے اقرار کریں گے کہ نسبتا اور مقابلہ خدا کی حمایت اس قوم کے ساتھ ہے اور اس نے خاص رحمت سے ان لوگوں کو ایسا بچایا ہے جس کی نظیر نہیں.اس بات پر بعض نادان چونک پڑیں گے اور بعض ہنسیں گے.اور بعض مجھے دیوانہ قرار دیں گے اور بعض حیرت میں آئیں گے کہ کیا ایسا خدا موجود ہے جو بغیر رعایت اسباب کے بھی رحمت نازل کر سکتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ہاں بلاشبہ ایسا قادر خدا موجود ہے.اور اگر وہ ایسا نہ ہوتا تو اس سے تعلق رکھنے والے زندہ ہی مر جاتے.وہ عجیب قادر ہے اور اس کی پاک قدرتیں عجیب ہیں.ایک طرف نادان مخالفوں کو اپنے دوستوں پر کتوں کی طرح مسلط کر دیتا ہے.اور ایک طرف فرشتوں کو حکم کرتا ہے کہ ان کی خدمت کریں.ایسا ہی جب دنیا پر اس کا غضب مستولی ہوتا ہے اور اس کا قہر ظالموں پر جوش مارتا ہے تو اس کی
۱۲۳۲ آنکھ اس کے خاص لوگوں کی حفاظت کرتی ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو اہل حق کا کارخانہ درہم برہم ہو جا تا اور کوئی ان کو شناخت نہ کر سکتا.اُس کی قدرتیں بے انتہا ہیں مگر بقدر یقین لوگوں پر ظاہر ہوتی ہیں.جن کو یقین اور محبت اور اس کی طرف انقطاع عطا کیا گیا ہے اور نفسانی عادتوں سے باہر کئے گئے ہیں انہی کے لئے خارق عادت قدرتیں ظاہر ہوتی ہیں.خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر خارق عادت قدرتوں کے دکھلانے کا انہی کے لئے ارادہ کرتا ہے جو خدا کے لئے اپنی عادتوں کو پھاڑتے ہیں.اس زمانہ میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو اس کو جانتے ہیں اور اس کی عجائب قدرتوں پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ ایسے لوگ بہت ہیں جن کو ہرگز اس قادر خدا پر ایمان نہیں جس کی آواز کو ہر یک چیز سنتی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اس جگہ یادر ہے کہ اگر چہ طاعون وغیرہ امراض میں علاج کرنا گناہ نہیں ہے بلکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ کوئی ایسی مرض نہیں جس کے لئے خدا نے دوا پیدا نہیں کی لیکن میں اس بات کو معصیت جانتا ہوں کہ خدا کے اس نشان کو ٹیکا کے ذریعہ سے مشتبہ کر دوں جس نشان کو وہ ہمارے لئے زمین پر صفائی سے ظاہر کرنا چاہتا ہے اور میں اس کے بچے نشان اور سچے وعدہ کی ہتک عزت کر کے ٹیکہ کی طرف رجوع کرنا نہیں چاہتا اور اگر میں ایسا کروں تو یہ گناہ میرا قابل مواخذہ ہو گا کہ میں خدا کے اس وعدہ پر ایمان نہ لایا جو مجھ سے کیا گیا.اور اگر ایسا ہو تو پھر تو مجھے شکر گذار اس طبیب کا ہونا چاہئے جس نے یہ نسخہ ٹیکا کا نکالا نہ خدا کا شکر گذار جس نے مجھے وعدہ دیا کہ ہر یک جو اس چار دیوار کے اندر ہے میں اُسے بچاؤں گا.میں بصیرت کی راہ سے کہتا ہوں کہ اس قادر خدا کے وعدے بچے ہیں اور میں آنے والے دنوں کو ایسے دیکھتا ہوں کہ گویا وہ آچکے ہیں.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱ تا ۳) فتح عظیم ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی امریکہ کا جھوٹا نہیں میری پیشگوئی کے مطابق مر گیا واضح ہو کہ یہ شخص جس کا نام عنوان میں درج ہے اسلام کا سخت درجہ پر دشمن تھا اور علاوہ اس کے اُس نے جھوٹا پیغمبری کا دعوی کیا اور حضرت سید النبیین و اصدق الصادقين وخير المرسلين و امام الطيبين جناب
۱۲۳۳ تقدس مآب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو کا ذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور مخش کلمات سے آنجناب کو یاد کیا کرتا تھا.غرض بعض دین متین کی وجہ سے اس کے اندر سخت ناپاک خصلتیں موجود تھیں.اور جیسا کہ خنزیروں کے آگے موتیوں کا کچھ قدر نہیں ایسا ہی وہ تو حید اسلام کو بہت ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا.اور اس کا استیصال چاہتا تھا.اور حضرت عیسی کو خدا جانتا تھا اور تثلیث کو تمام دنیا میں پھیلانے کے لئے اتنا جوش رکھتا تھا کہ میں نے باوجود اس کے کہ صد ہا کتابیں پادریوں کی دیکھیں مگر ایسا جوش کسی میں نہ پایا.میں اس کا پرچہ اخبار لیوز آف ہیلنگ لیتا تھا اور اس کی بد زبانی پر ہمیشہ مجھے اطلاع ملتی تھی.جب اس کی شوخی انتہا تک پہنچی تو میں نے انگریزی میں ایک چٹھی اس کی طرف روانہ کی اور مباہلہ کے لئے اس سے درخواست کی تا خدا تعالیٰ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اُس کو بچے کی زندگی میں ہلاک کرے.یہ درخواست دو مرتبہ یعنی ۱۹۰۲ء اور پھر ۱۹۰۳ء میں اس کی طرف بھیجی گئی تھی.اور امریکہ کے چند نامی اخباروں میں بھی شائع کی گئی تھی.خدا کا فضل ہے کہ باوجودیکہ ایڈیٹر ان اخبارات امریکہ عیسائی تھے اور اسلام کے مخالف تھے تاہم انہوں نے نہایت مد وشدّ سے میرے مضمون مباہلہ کو ایسی کثرت سے شائع کر دیا کہ امریکہ اور یورپ میں اس کی دھوم مچ گئی اور ہندوستان تک اس مباہلہ کی خبر ہوگئی.اور میرے مباہلہ کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ اسلام سچا ہے اور عیسائی مذہب کا عقیدہ جھوٹا ہے.اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی مسیح ہوں جو آخری زمانہ میں آنے والا تھا اور نبیوں کے نوشتوں میں اس کا وعدہ تھا.اور نیز میں نے اس میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر ڈوئی اپنے دعویٰ رسول ہونے اور تثلیث کے عقیدہ میں جھوٹا ہے اگر وہ مجھ سے مباہلہ کرے تو میری زندگی میں ہی بہت سی حسرت اور دکھ کے ساتھ مرے گا.اور اگر مباہلہ بھی نہ کرے تب بھی وہ خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتا.اس کے جواب میں بد قسمت ڈوئی نے ڈسمبر ۱۹۰۳ ء کے کسی پر چہ میں اور نیز ۲۶ ستمبر ۱۹۰۳ء وغیرہ کے اپنے پر چوں میں اپنی طرف سے یہ چند سطر میں انگریزی میں شائع کیں جن کا ترجمہ ذیل میں ہے:- ”ہندوستان میں ایک بیوقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ مسیح یسوع کی قبر کشمیر میں ہے.اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا اور کہ تو کیوں اس شخص کا جواب نہیں دیتا.مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا.اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا.“
۱۲۳۴ اور پھر پر چہ ۱۹ دسمبر ۱۹۰۲ء میں لکھتا ہے کہ ” میرا کام یہ ہے کہ میں مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں.اور مسیحیوں کو اس شہر اور دوسرے شہروں میں آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آ جائے کہ مذہب محمدی دنیا سے مٹایا جائے.اے خدا ہمیں وہ وقت دکھلا.“ غرض یہ شخص میرے مضمون مباہلہ کے بعد جو یورپ اور امریکہ اور اس ملک میں شائع ہو چکا تھا بلکہ تمام دنیا میں شائع ہو گیا تھا شوخی میں روز بروز بڑھتا گیا.اور اس طرف مجھے یہ انتظار تھی کہ جو کچھ میں نے اپنی نسبت اور اس کی نسبت خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا ہے.ضرور خدا تعالیٰ سچا فیصلہ کرے گا اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ کا ذب اور صادق میں فرق کر کے دکھلا دے گا اور میں ہمیشہ اس بارہ میں خدا تعالیٰ سے دُعا کرتا تھا اور کاذب کی موت چاہتا تھا.چنانچہ کئی دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تو غالب ہوگا اور دشمن ہلاک کیا جائے گا.اور پھر ڈوئی کے مرنے سے قریباً پندرہ دن پہلے خدا تعالیٰ نے اپنی کلام کے ذریعہ سے مجھے میری فتح کی اطلاع بخشی اب ظاہر ہے کہ ایسا نشان ( جو فتح عظیم کا موجب ہے ) جو تمام دنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ہندوستان کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہو سکتا ہے وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ہے.کیونکہ اور نشان جو میری پیشگوئیوں سے ظاہر ہوئے ہیں وہ تو پنجاب اور ہندوستان تک ہی محدود تھے اور امریکہ اور یورپ کے کسی شخص کو اُن کے ظہور کی خبر نہ تھی لیکن یہ نشان پنجاب سے بصورت پیشگوئی ظاہر ہوکر امریکہ میں جا کر ایسے شخص کے حق میں پورا ہوا جس کو امریکہ اور یورپ کا فرد فرد جانتا تھا اور اُس کے مرنے کے ساتھ ہی بذریعہ تاروں کے اس ملک کے انگریزی اخباروں کو خبر دی گئی چنانچہ پائیونیر نے ( جوالہ آباد سے نکلتا ہے ) پر چہ ا ار مارچ ۱۹۰۷ء میں اور سول اینڈ ملٹری گزٹ نے ( جو لا ہور سے نکلتا ہے) پر چہ ۱۲ مارچ ۱۹۰۷ ء میں اور انڈین ڈیلی ٹیلی گراف نے (جو لکھنؤ سے نکلتا ہے) پر چہ ۱۲ مارچ ۱۹۰۷ء میں اس خبر کو شائع کیا ہے.پس اس طرح پر قریباً تمام دنیا میں یہ خبر شائع کی گئی اور خود یہ شخص اپنی دنیوی حیثیت کی رُو سے ایسا تھا کہ عظیم الشان نوابوں اور شاہزادوں کی طرح مانا جاتا تھا.اور با وجود اس عزت اور شہرت کے جو امریکہ اور یورپ میں اُس کو حاصل تھی خُدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ہوا کہ میرے مباہلہ کا مضمون اُس کے مقابل پر امریکہ کے بڑے بڑے نامی اخباروں نے جو روزانہ ہیں شائع کر دیا اور تمام امریکہ اور یورپ میں مشہور کر دیا اور پھر اس عام اشاعت کے بعد جس ہلاکت اور تباہی کی
۱۲۳۵ اُس کی نسبت پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہوئی کہ جس سے بڑھ کر اکمل اور اتم طور پر ظہور میں آنا متصور نہیں ہو سکتا.اُس کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی.اس کا خائن ہونا ثابت ہوا.اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا.مگر اُس کا شراب خوار ہونا ثابت ہو گیا.اور وہ اُس اپنے آباد کردہ شہر میون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا جس کو اُس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کر کے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اُس کے قبضہ میں تھا اُس کو جواب دیا گیا اور اُس کی بیوی اور اس کا بیٹا اُس کے دشمن ہو گئے اور اُس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولد الزنا ہے پس اس طرح پر وہ قوم میں ولدالزنا ثابت ہوا اور یہ دعوئی کہ میں بیماروں کو معجزہ سے اچھا کرتا ہوں.یہ تمام لاف و گزاف اُس کی محض جھوٹی ثابت ہوئی اور ہر ایک ذلّت اُس کو نصیب ہوئی اور آخر کار اس پر فالج رگرا اور ایک تختہ کی طرح چند آدمی اُس کو اُٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہو گیا اور حواس بجا نہ رہے اور یہ دعویٰ اُس کا کہ میری ابھی بڑی عمر ہے اور میں روز بروز جوان ہوتا جاتا ہوں اور لوگ بڑھے ہوتے جاتے ہیں محض فریب ثابت ہوا.آخر کار مارچ ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور درد اور دُکھ کے ساتھ مر گیا.اب ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہوگا چونکہ میرا اصل کام کسر صلیب ہے سو اُس کے مرنے سے ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا.کیونکہ وہ تمام دنیا سے اول درجہ پر حامي صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دُعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا.سوخدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اُس کو ہلاک کیا.میں جانتا ہوں کہ اس کی موت سے پیشگوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہو گئی.کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطر ناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے کہ اُس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے بلکہ بیچ یہ ہے کہ مسلیمہ کذاب اور اسود عنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا.نہ اس کی طرح شہرت اُن کی تھی اور نہ اس کی طرح کروڑ ہا روپیہ کے وہ مالک تھے پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا.اگر میں اُس کو مباہلہ کے لئے نہ بلا تا اور اگر میں اُس پر بد دعا نہ کرتا اور اُس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقیت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا لیکن چونکہ میں نے صد با اخباروں میں پہلے سے شائع کرا دیا تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی
۱۲۳۶ ہلاک ہو گا.میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا.اس سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو سچا کرتا ہے اور کیا ہو گا؟ اب وہی اس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہوگا.والسلام على من اتبع الهدى الشتر میر از غلام احمد مسیح موعود از مقام قادیان ضلع گورداسپور پنجاب.۷ اپریل ۱۹۰۷ء تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۴ تا ۵۱۶) غیر معمولی نصرت اور شہرت من در حریم قدس چراغ صداقتم دستش محافظ است ز هر بادِ صرصرم (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۸۵) واضح ہو کہ براہین احمدیہ میری تالیفات میں سے وہ کتاب ہے جو ۱۸۸۰ء عیسوی میں یعنی ۱۲۹۷ ہجری میں چھپ کر شائع ہوئی تھی.اس کتاب کی تالیف کے زمانہ میں جیسا کہ خود کتاب سے ظاہر ہوتا ہے میں ایک ایسی گمنامی کی حالت میں تھا کہ بہت کم لوگ ہوں گے جو میرے وجود سے بھی واقف ہوں گے غرض اس زمانے میں میں اکیلا انسان تھا جس کے ساتھ کسی دوسرے کو کچھ تعلق نہ تھا اور میری زندگی ایک گوشتہ تنہائی میں گزرتی تھی اور اسی پر میں راضی اور خوش تھا کہ نا گہاں عنایت ازلی سے مجھے یہ واقعہ پیش آیا کہ یکدفعہ شام کے قریب اسی مکان میں اور ٹھیک ٹھیک اسی جگہ کہ جہاں اب ان چند سطروں کے لکھنے کے وقت میرا قدم ہے مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے کچھ خفیف سی غنودگی ہو کر یہ وحی ہوئی :.يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيْكَ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أُنْذِرَ آبَاءُ هُمْ.وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيْلَ الْمُجْرِمِينَ.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.یعنی اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی.جو کچھ تو نے چلایا تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا.وہ خدا ہے جس نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اس کے حقیقی معنوں پر تجھے اطلاع دی تا کہ تو ان لوگوں کو ے میں حریم قدس میں صداقت کا چراغ ہوں.مخالفت کی سخت ہواؤں سے بچانے کے لئے اس کا ہاتھ میرا محافظ ہے.
۱۲۳۷ ڈرائے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور تیرے انکار کی وجہ سے ان پر حجت پوری ہو جائے.ان لوگوں کو کہہ دے کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہوں اور میں وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان لایا.اس وحی کے نازل ہونے پر مجھے ایک طرف تو خدائے تعالیٰ کی بے نہایت عنایات کا شکر ادا کرنا پڑا کہ ایک میرے جیسے انسان کو جو کوئی بھی لیاقت اپنے اندر نہیں رکھتا اس عظیم الشان خدمت سے سرفراز فرمایا اور دوسری طرف بجر داس وحی الہی کے مجھے یہ فکر دامنگیر ہوا کہ ہر ایک مامور کے لئے سنت الہیہ کے موافق جماعت کا ہونا ضروری ہے تا وہ اس کا ہاتھ بٹائیں اور اس کے مددگار ہوں اور مال کا ہونا ضروری ہے تا دینی ضرورتوں میں جو پیش آتی ہیں خرچ ہو اور سنت اللہ کے موافق اعداء کا ہونا بھی ضروری ہے اور پھر ان پر غلبہ بھی ضروری ہے تا ان کے شر سے محفوظ رہیں اور امر دعوت میں تاثیر بھی ضروری ہے تا سچائی پر دلیل ہو اور تا اِس خدمت مفوضہ میں نا کامی نہ ہو.ان امور میں جیسا کہ تصور کیا گیا بڑی مشکلات کا سامنا نظر آیا اور بہت خوفناک حالت دکھائی دی.کیونکہ جبکہ میں نے اپنے تئیں دیکھا تو نہایت درجہ گمنام اور اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ پایا وجہ یہ کہ نہ تو میں کوئی خاندانی پیرزادہ اور کسی گدی سے تعلق رکھتا تھا تا میرے پر ان لوگوں کا اعتقاد ہو جاتا اور وہ میرے گرد جمع ہو جاتے جو میرے باپ دادے کے مرید تھے اور کام سہل ہو جاتا اور نہ میں کسی مشہور عالم، فاضل کی نسل میں سے تھا تا صد ہا آبائی شاگردوں کا میرے ساتھ تعلق ہوتا اور نہ میں کسی عالم فاضل سے با قاعدہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ تھا تا مجھے اپنے سرمایہ علمی پر ہی بھروسہ ہوتا اور نہ میں کسی جگہ کا بادشاہ یا نواب یا حاکم تھا تا میرے رعب حکومت سے ہزاروں لوگ میرے تابع ہو جاتے بلکہ میں ایک غریب ایک ویرانہ گاؤں کا رہنے والا اور بالکل ان ممتاز لوگوں سے الگ تھا جو مرجع عالم ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں.غرض کسی قسم کی ایسی عزت اور شہرت اور ناموری مجھے حاصل نہ تھی جس پر میں نظر رکھ کر اس بات کو اپنے لئے سہل سمجھتا کہ یہ کام تبلیغ دعوت کا مجھ سے ہو سکے گا.پس طبعا یہ کام مجھے نہایت مشکل اور بظاہر صورت غیر ممکن اور محالات سے معلوم ہوا.اور علاوہ اس کے اور مشکلات یہ معلوم ہوئے کہ بعض امور اس دعوت میں ایسے تھے کہ ہر گز امید نہ تھی کہ قوم ان کو قبول کر سکے اور قوم پر تو اس قدر بھی امید نہ تھی کہ وہ اس امر کو بھی تسلیم کرسکیں کہ بعد زمانہ نبوت وحی غیر تشریعی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور قیامت تک باقی ہے بلکہ صریح معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طرف سے وحی کے دعوے پر تکفیر کا انعام ملے گا اور سب علماء متفق ہو کر
۱۲۳۸ در پے ایذاء و بیخ کنی ہو جائیں گے کیونکہ اُن کے نزدیک بعد سید نا جناب ختمی پناہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی الہی پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے اور بالکل غیر ممکن ہے کہ اب کسی سے مکالمہ و مخاطبہ الہیہ ہو اور اب قیامت تک امت مرحومہ اس قسم کے رحم سے بے نصیب کی گئی ہے کہ خدائے تعالیٰ ان کو اپنا ہم کلام کر کے ان کی معرفت میں ترقی بخشے اور براہ راست اپنی ہستی پر ان کو مطلع فرمائے بلکہ وہ صرف تقلیدی طور پر گلے پڑا ڈھول بجا رہے ہیں.اور شہودی طور پر ایک ذرہ معرفت ان کو حاصل نہیں.ہاں اس قدر محض لغو طریق پر بعض کا ان میں سے اعتقاد ہے کہ الہام تو نیک بندوں کو ہوتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ الہام رحمانی ہے یا شیطانی ہے.لیکن ظاہر ہے کہ ایسا الہام جو شیطان کی طرف بھی منسوب ہو سکتا ہے خدا کے ان انعامات میں شمار نہیں ہو سکتا جو انسان کے ایمان کو مفید ہو سکتے ہیں.بلکہ مشتبہ ہونا اور شیطانی کلام سے مشابہ ہونا اس کے ساتھ ایک ایسا لعنت کا داغ ہے جو جہنم تک پہنچا سکتا ہے.اور اگر خدا نے کسی بندہ کے لئے صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا قبول کی ہے اور اس کو منعمین میں داخل فرمایا ہے تو ضرور اپنے وعدہ کے مطابق اس روحانی انعام سے حصہ دیا ہے جو یقینی طور پر مکالمہ ومخاطبہ الہیہ ہے.غرض یہ ہی وہ امر تھا کہ اس اندھی دنیا میں قوم کے لئے ایک جوش اور غضب دکھلانے کا محل تھا.پس میرے جیسے بیکس تنہا کے لئے ان تمام امور کا جمع ہونا بظاہر نا کامی کی ایک علامت تھی بلکہ ایک سخت نا کامی کا سامنا تھا.کیونکہ کوئی پہلو بھی درست نہ تھا.اوّل مال کی ضرورت ہوتی ہے سو اس وحی الہی کے وقت تمام ملکیت ہماری تباہ ہو چکی تھی اور ایک بھی ایسا آدمی ساتھ نہ تھا جو مالی مدد کر سکتا.دوسرے میں کسی ایسے ممتاز خاندان میں سے نہیں تھا جو کسی پر میرا اثر پڑ سکتا.ہر ایک طرف سے بال و پر ٹوٹے ہوئے تھے.پس جس قدر مجھے اس وحی الہی کے بعد سرگردانی ہوئی وہ میرے لئے ایک طبعی امر تھا اور میں اس بات کا محتاج تھا کہ میری زندگی کو قائم رکھنے کے لئے خدائے تعالیٰ عظیم الشان وعدوں سے مجھے تسلی دیتا تا میں غموں کے ہجوم سے ہلاک نہ ہو جاتا.پس میں کس منہ سے خداوند کریم وقدیم کا شکر کروں کہ اس نے ایسا ہی کیا اور میری بے کسی اور نہایت بے قراری کے وقت میں مجھے مبشرانہ پیشگوئیوں کے ساتھ تھام لیا اور پھر بعد اس کے اپنے تمام وعدوں کو پورا کیا.اگر وہ خدائے تعالیٰ کی تائید میں اور نصرتیں بغیر سبقت پیشگوئیوں کے یونہی ظہور میں آتیں تو بخت اور اتفاق پر حمل کی جاتیں.لیکن اب وہ ایسے خارق عادت وہ نشان ہیں کہ ان سے وہی انکار کرے گا جو شیطانی خصلت اپنے اندر رکھتا ہوگا.اور پھر اس کے بعد خدا نے اپنے ان تمام وعدوں کو پورا کیا جو ایک زمانہ دراز پہلے پیشگوئی کے طور پر
۱۲۳۹ کئے تھے اور طرح طرح کی تائید میں اور طرح طرح کی نصرتیں کیں اور جن مشکلات کے تصور سے قریب تھا کہ میری کمر ٹوٹ جائے اور جن عموں کی وجہ سے مجھے خوف تھا کہ میں ہلاک ہو جاؤں ان تمام مشکلات اور تمام غموں کو دور فرمایا اور جیسا کہ وعدہ کیا تھا ویسا ہی ظہور میں لایا.اگر چہ وہ بغیر سبقت پیشگوئیوں کے بھی میری نصرت اور تائید کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہ کیا بلکہ ایسے زمانہ اور ایسی نومیدی کے وقت میں میری تائید اور نصرت کے لئے پیشگوئیاں فرمائیں کہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زمانہ سے مشابہ تھا جبکہ آپ مکہ معظمہ کی گلیوں میں اکیلے پھرتے تھے اور کوئی آپ کے ساتھ نہ تھا کوئی صورت کامیابی کی ظاہر نہیں تھی.اسی طرح وہ پیشگوئیاں جو میرے گمنامی کے زمانہ میں کی گئیں اس زمانہ کی نگاہ میں ہنسی کے لائق اور دُور از قیاس تھیں اور ایک دیوانہ کی بڑ سے مشابہ تھیں.کس کو معلوم تھا کہ جیسا کہ ان پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا گیا ہے سچ سچ کسی زمانہ میں ہزار ہا انسان میرے پاس قادیان میں آئیں گے اور کئی لاکھ انسان میری بیعت میں داخل ہو جائیں گے.اور میں اکیلا نہیں رہوں گا جیسا کہ اس زمانہ میں اکیلا تھا.اور خدا نے گمنامی اور تنہائی کے زمانہ میں یہ خبریں دیں تا وہ ایک دانشمند اور طالب حق کی نظر میں عظیم الشان نشان ہوں اور تا سچائی کے ڈھونڈ نے والے یقین دل سے سمجھ لیں کہ یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ممکن ہے کہ انسان کی طرف سے ہو.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۵ تا ۷۰ ) ہم نے طاعون کے بارے میں جو رسالہ دافع البلاء لکھا تھا اس سے یہ غرض تھی کہ تا لوگ متنبہ ہوں اور اپنے سینوں کو پاک کریں اور اپنی زبانوں اور آنکھوں اور کانوں اور ہاتھوں کو نا گفتنی اور نادیدنی اور ناشنیدنی اور ناکردنی سے روکیں اور خدا سے خوف کریں تا خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے.اور وہ خوفناک وباء جوان کے ملک میں داخل ہوگئی ہے دُور فرما دے.مگر افسوس کہ شوخیاں اور بھی زیادہ ہوگئیں اور زبانیں اور بھی دراز ہو گئیں.انہوں نے ہمارے مقابل پر اپنے اشتہاروں میں کوئی بھی دقیقہ ایذاء اور سب وشتم کا اٹھا نہیں رکھا اور کسی قسم کی ایذاء سے دستکش نہیں ہوئے مگر اسی سے جس تک ہاتھ نہیں پہنچ سکا.لعنت اور سب وشتم میں وہ ترقی کی کہ شیعہ مذہب کے لوگوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا.کیونکہ شیعہ نے تو اپنے خیال میں لعنت بازی کے فن کو حرف الف سے شروع کر کے حرف یا ء تک پہنچا دیا تھا.یعنی ابوبکر سے یزید تک مگر یہ لوگ جو اہل حدیث اور حنفی کہلاتے ہیں انہوں نے اس کارروائی کو نا مکمل سمجھ کر لعنت بازی کے دائرہ کو اس طرح پر پورا کیا کہ جس شخص کو خدا نے آدم سے لے کر یسوع مسیح تک مظہر جمیع انبیاء قرار دیا
۱۲۴۰ تھا یعنی الف سے حرف یاء تک اور پھر تکمیل دائرہ کی غرض سے الف آدم سے لے کر الف احمد تک صرف مظہریت کا خاتم بنایا تھا اس پر لعنتوں کی مشق کی.وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ ينْقَلِبُونَ اے لیکن یاد رکھیں کہ یہ گالیاں جو ان کے منہ سے نکلتی ہیں اور یہ تحقیر اور یہ توہین کی باتیں جو ان کے ہونٹوں پر چڑھ رہی ہیں اور یہ گندے کا غذ جو حق کے مقابل پر وہ شائع کر رہے ہیں یہ اُن کے لئے ایک روحانی عذاب کا سامان ہے جس کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے طیار کیا ہے.دروغ گوئی کی زندگی جیسی کوئی لعنتی زندگی نہیں.کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے منصوبوں سے اور اپنے بے بنیاد جھوٹوں سے اور اپنے افتراؤں سے اور اپنی ہنسی ٹھٹھے سے خدا کے ارادے کو روک دیں گے یا دنیا کو دھوکا دے کر اس کام کو معرض التواء میں ڈال دیں گے جس کا خدا نے آسمان پر ارادہ کیا ہے.اگر کبھی پہلے بھی حق کے مخالفوں کو ان طریقوں سے کامیابی ہوئی ہے تو وہ بھی کامیاب ہو جائیں گے.لیکن اگر یہ ثابت شدہ امر ہے کہ خدا کے مخالف اور اس کے ارادہ کے مخالف جو آسمان پر کیا گیا ہو ہمیشہ ذلت اور شکست اٹھاتے ہیں تو پھر ان لوگوں کے لئے بھی ایک دن ناکامی اور نامرادی اور رسوائی در پیش ہے.خدا کا فرمودہ کبھی خطا نہیں گیا اور نہ جائے گا.وہ فرماتا ہے:.كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي یعنی خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے.پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اُسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پا کر اور اسی میں ہوکر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے.ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا.کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ جس زمانہ میں ان مولویوں اور ان کے چیلوں نے میرے پر تکذیب اور بد زبانی کے حملے شروع کئے.اس زمانہ میں میری بیعت میں ایک آدمی بھی نہیں تھا.گو چند دوست جوانگلیوں پر شمار ہو سکتے تھے میرے ساتھ تھے اور اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے ستر ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ گیا ہے کہ جو نہ میری کوشش سے بلکہ اس ہوا کی تحریک سے جو آسمان سے چلی ہے میری طرف دوڑے ہیں.اب یہ لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلہ کے برباد کرنے کے لئے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جان کا ہی ل الشعراء: ۲۲۸ المجادلة:٢٢
۱۲۴۱ کے ساتھ ہر ایک قسم کے مکر کئے یہاں تک کہ حکام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں.خون کے جھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایا.اور ہزار ہا اشتہار اور رسالے لکھے اور کفر اور قتل کے فتوے میری نسبت دیئے.اور مخالفانہ منصوبوں کے لئے کمیٹیاں کیں مگران تمام کوششوں کا نتیجہ بجز نامرادی کے اور کیا ہوا؟ پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جان توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا.کیا کوئی نظیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے.اور صفحہ ہستی پر اس کا نام ونشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دُور دُور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرندے اس پر آرام کر رہے ہیں.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحه ۳۷۹ تا ۳۸۴) براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے.يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِه وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ یعنی مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نورِ خدا کو اپنے مُنہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر خدا اپنے نور کو پورا کرے گا اگر چہ منکر لوگ کراہت ہی کریں.یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ کوئی مخالف نہ تھا بلکہ کوئی میرے نام سے بھی واقف نہ تھا.پھر بعد اس کے حسب بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی اور ہزاروں نے مجھے قبول کیا.تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہل مکہ کے پاس خلاف واقعہ باتیں بیان کر کے میرے لئے کفر کے فتوے منگوائے گئے اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالا گیا.قتل کے فتوے دیئے گئے.حکام کو اکسایا گیا.عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بیزار کیا گیا.غرض ہر ایک طرح سے میرے نابود کرنے کے لئے کوشش کی گئی.مگر خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور ان کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نامراد اور ناکام رہے.افسوس کس قدر مخالف اندھے ہیں.ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانہ کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوری ہوئیں.کیا بجز خدا تعالیٰ کے یہ کسی اور کا کام ہے؟ اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو.نہیں سوچتے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نامراد نہ رہتے.کس نے ان کو نامراد رکھا؟ اسی خدا نے جو میرے ساتھ ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۱ ۲۴۲)
۱۲۴۲ براہین احمدیہ میں ایک یہ بھی پیشگوئی ہے يَعْصِمُكَ اللهُ مِنْ عِنْدِهِ وَلَوْلَمْ يَعْصِمُكَ النَّاسُ.یعنی خدا تجھے تمام آفات سے بچائے گا اگر چہ لوگ نہیں چاہیں گے کہ تو آفات سے بچ جائے.یہ اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ میں ایک زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا اور کوئی مجھ سے نہ تعلق بیعت رکھتا تھا نہ عداوت.بعد اس کے جب مسیح موعود ہونے کا دعوی میں نے کیا تو سب مولوی اور ان کے ہم جنس آگ کی طرح ہو گئے.ان دنوں میں میرے پر ایک پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک نام نے خون کا مقدمہ کیا.اس مقدمہ میں مجھے یہ تجربہ ہو گیا کہ پنجاب کے مولوی میرے خون کے پیاسے ہیں اور مجھے ایک عیسائی سے بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے اور گالیاں نکالتا ہے بدتر سمجھتے ہیں کیونکہ بعض مولویوں نے اس مقدمہ میں میرے مخالف عدالت میں حاضر ہو کر اس پادری کے گواہ بن کر گواہیاں دیں اور بعض اس دعا میں لگے رہے کہ پادری لوگ فتح پاویں.میں نے معتبر ذریعہ سے سُنا ہے کہ وہ مسجدوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا اس پادری کی مدد کر، اس کو فتح دے مگر خدائے علیم نے ان کی ایک نہ سنی.نہ گواہی دینے والے اپنی گواہی میں کامیاب ہوئے اور نہ دعا کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوئیں.یہ علماء ہیں دین کے حامی اور یہ قوم ہے جس کے لئے لوگ قوم قوم پکارتے ہیں.ان لوگوں نے میرے پھانسی دلانے کے لئے اپنے تمام منصوبوں سے زور لگایا اور ایک دشمن خدا اور رسول کی مدد کی.اور اس جگہ طبعاً دلوں میں گذرتا ہے کہ جب یہ قوم کے تمام مولوی اور ان کے پیرو میرے جانی دشمن ہو گئے تھے پھر کس نے مجھے اس بھڑکتی ہوئی آگ سے بچایا ؟ حالانکہ آٹھ نو گواہ میرے مجرم بنانے کے لئے گذر چکے تھے.اس کا جواب یہ ہے کہ اُسی نے بچایا جس نے پچیس برس پہلے یہ وعدہ دیا تھا کہ تیری قوم تو تجھے نہیں بچائے گی اور کوشش کرے گی کہ تو ہلاک ہو جائے مگر میں تجھے بچاؤں گا.جیسا کہ اس نے پہلے سے فرمایا تھا جو براہین احمدیہ میں آج سے پچیس برس پہلے درج ہے اور وہ یہ ہے.فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَ كَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِيْها.یعنی خدا نے اس الزام سے اس کو بری کیا جو اس پر لگایا گیا تھا.اور وہ خدا کے نزدیک وجیہ ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۲ ۲۴۳) منجملہ میرے نشانوں کے جو میری تائید میں خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ایک عظیم الشان نشان جو سلسلہ نبوت سے مشابہ ہے یہ ہے کہ براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی تھی يَعْصِمُكَ اللهُ وَ اِنْ لَّمُ يَعْصِمُكَ النَّاسُ وَ اِنْ لَّمُ يَعْصِمُكَ النَّاسُ يَعْصِمُكَ الله.اس پیشگوئی میں اس زمانہ بلا اور فتنہ کی طرف اشارہ تھا جبکہ ہر ایک انسان مجھ سے منہ پھیر لے گا اور تباہ کرنے یا قتل کرنے کے منصوبے
۱۲۴۳ سوچیں گے.سو میرے دعویٰ مسیح موعود و مہدی موعود کے بعد ایسا ہی ظہور میں آیا.تمام لوگ یکدفعہ برسر آزار ہو گئے اور انہوں نے اول یہ زور لگایا کہ کسی طرح نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے مجھے ملزم کر سکیں.پھر جبکہ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے بلکہ برخلاف اس کے نصوص صریحہ اور قویہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ فی الواقعہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تو پھر مولویوں نے قتل کے فتوے لکھے اور اپنے رسالوں اور کتابوں میں عام لوگوں کو اکسایا کہ اگر اس شخص کو قتل کر دیں تو بڑا ہی ثواب ہوگا.ان لوگوں نے جس قدر دشمنی کے جوش میں وہ سب تدبیریں سوچیں جو انسان اپنے مخالف کے تباہ کرنے کے لئے سوچ سکتا ہے اور جس قدر شدت عداوت کے وقت میں دنیا دار لوگ اندر ہی اندر منصوبے بنایا کرتے ہیں وہ سب بنائے اور زور لگانے میں کچھ بھی فرق نہ کیا.اور میرے ذلیل اور ہلاک کرنے کے لئے ناخنوں تک زور لگایا اور مکہ کے بے دینوں کی طرح کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھی لیکن خدا تعالیٰ نے اس وقت سے ہیں برس پہلے پیشگوئی مذکورہ بالا میں صاف لفظوں میں فرما دیا تھا کہ میں تجھے دشمنوں کے شر سے بچاؤں گا لہذا اس نے اپنے اس سچے وعدہ کے موافق مجھ کو بچایا.سوچنے کے لائق ہے کہ کیونکر انواع اقسام کی تدبیروں سے میرے پر حملے کئے گئے تھے حتی کے قتل کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے...خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ ان لوگوں نے میرے ہلاک کرنے کے لئے تدبیریں تو ہر ایک قسم کی کیں ۵۱۰۰ مگر کچھ بھی پیش نہ گئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو پورا کیا جو براہین احمدیہ کے صفحہ پانسورس میں درج تھا یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ مجھے دشمنوں کی ہر ایک بداندیشی سے بچائے گا.اگر چہ لوگ تجھے ہلاک کرنا چاہیں.سو یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ جو منہاج نبوت پر واقع ہوئی کیونکہ مجھ سے پہلے جس قدر رسول اور نبی گذرے ہیں سب کو یہ بلا پیش آئی تھی کہ شریر لوگ کتوں کی طرح اُن کے گرد ہو گئے تھے اور صرف ہنسی اور ٹھٹھے پر ہی کفایت نہیں کی تھی بلکہ چاہا تھا کہ ان کو پھاڑ ڈالیں اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیں مگر خدا تعالیٰ کے ہاتھ نے ان کو بچا لیا.ایسا ہی میرے ساتھ ہوا کہ ان مولویوں نے باہم ایسا اتفاق کر لیا کہ میری مخالفت کے جوش میں ان کو باہمی اختلافات بھی بھول گئے اور انہوں نے دوسری قوموں کے پنڈتوں اور پادریوں کو بھی حتی الوسع اپنے ساتھ ملا لیا اور زمین میری دشمنی کے جوش سے یوں بھر گئی جیسا کہ کوئی برتن زہر سے بھرا جائے لیکن خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے حملوں سے میری عزت کو محفوظ رکھا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے پاک نبیوں کو محفوظ رکھتا رہا ہے سو یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ جو آج سے ہیں برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع کی گئی تھی اور اب بڑے زور شور سے پوری ہوئی.جس کی آنکھیں ہیں
۱۲۴۴ دیکھے کہ کیا یہ خدا کے کام ہیں یا انسان کے؟ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۵۱ تا ۴۶۴) براہین احمدیہ میں جو آج سے پچیس برس پہلے تمام ممالک میں شائع ہو چکی ہے یعنی ہر حصہ پنجاب اور ہندوستان اور بلا دعرب اور شام اور کابل اور بخارا غرض تمام بلاد اسلامیہ میں پہنچائی گئی ہے اس میں یہ ایک پیشگوئی ہے رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ.یعنی خدا کی وحی میں میری طرف سے یہ دعا تھی کہ اے میرے خدا! مجھے اکیلا مت چھوڑ جیسا کہ اب میں اکیلا ہوں اور تجھ سے بہتر کون وارث ہے.یعنی اگر چہ میں اس وقت اولا د بھی رکھتا ہوں اور والد بھی اور بھائی بھی لیکن روحانی طور پر ابھی میں اکیلا ہی ہوں اور تجھ سے ایسے لوگ چاہتا ہوں جو روحانی طور پر میرے وارث ہوں.یہ دعا اس آئندہ امر کے لئے پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ روحانی تعلق والوں کی ایک جماعت میرے ساتھ کر دے گا جو میرے ہاتھ پر تو بہ کریں گے.سوخدا کا شکر ہے کہ یہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی.پنجاب اور ہندوستان سے ہزار ہا سعید لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ایسا ہی سرزمین ریاست امیر کابل سے بہت سے لوگ میری بیعت میں داخل ہوئے ہیں اور میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزار ہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے تو بہ کی ہے اور ہزار ہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہرگز ایسا صاف نہیں ہوسکتا اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فردان میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے.اگر چہ یہ درست ہے کہ اُن کی فطرت میں پہلے ہی سے ایک مادہ رشد اور سعادت کا مخفی تھا مگر وہ کھلے طور پر ظاہر نہیں ہوا جب تک انہوں نے بیعت نہیں کی.غرض خدا کی شہادت سے ثابت ہے کہ پہلے میں اکیلا تھا اور میرے ساتھ کوئی جماعت نہ تھی.اور اب کوئی مخالف اس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ اب ہزار ہا لوگ میرے ساتھ ہیں.پس خدا کی پیشگوئیاں اس قسم کی ہوتی ہیں جن کے ساتھ نصرت اور تائید الہی ہوتی ہے.کون اس بات میں مجھے جھٹلا سکتا ہے کہ جب یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ نے فرمائی اور براہین احمدیہ میں درج کر کے شائع کی گئی اس وقت جیسا کہ خدا نے فرمایا میں اکیلا تھا اور بجز خدا کے میرے ساتھ کوئی نہ تھا.میں اپنے خویشوں کی نگاہ میں بھی حقیر تھا کیونکہ اُن کی راہیں اور تھیں اور میری راہ اور تھی.اور قادیان کے تمام ہندو بھی باوجود سخت مخالفت کے اس گواہی کے دینے کے لئے مجبور ہوں گے کہ میں در حقیقت اس زمانہ میں ایک گمنامی کی حالت میں بسر کرتا تھا.اور کوئی نشان اس بات کا موجود نہ تھا کہ اس قدر ارادت اور محبت اور جانفشانی کا
۱۲۴۵ تعلق رکھنے والے میرے ساتھ شامل ہو جائیں گے.اب کہو کہ کیا یہ پیشگوئی کرامت نہیں ہے.کیا انسان اس پر قادر ہے اور اگر قادر ہے تو زمانہ حال یا سابق زمانہ میں سے اس کی کوئی نظیر پیش کرو.فَانُ لمُ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۸ تا ۲۵۰) سووال نشان براہین احمدیہ کی وہ پیشگوئی ہے جو اس کے صفحہ ۲۴۱ میں درج ہے اور پیشگوئی کی عبارت یہ ہے.لَا تَيُسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ.أَلَا إِنَّ رَوْحَ اللهِ قَرِيبٌ.أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ.يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.يَنْصُرُكَ اللَّهُ مِنْ عِنْدِهِ.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ.وَلَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمُ مِّنَ النَّاسِ.(ترجمہ) خدا کے فضل سے نومیدمت ہو.اور یہ بات سُن رکھ کہ خدا کا فضل قریب ہے.خبر دار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے.وہ مدد ہر ایک راہ سے تجھے پہنچے گی.اور ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور اس کثرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں جن پر وہ چلیں گے عمیق ہو جائیں گی.خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا.تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ القاء کریں گے.مگر چاہئے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گے بدخلقی نہ کرے اور چاہئے کہ تو ان کی کثرت دیکھ کر ملاقاتوں سے تھک نہ جائے.اس پیشگوئی کو آج تک پچیس برس گزر گئے جب یہ براہین احمدیہ میں شائع ہوئی تھی اور یہ اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ میں زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا اور ان سب میں سے جو آج میرے ساتھ ہیں مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا اور میں ان لوگوں میں سے نہیں تھا جن کا کسی وجاہت کی وجہ سے دنیا میں ذکر کیا جاتا ہے.غرض کچھ بھی نہیں تھا.اور میں صرف ایک احد من الناس تھا اور محض گمنام تھا اور ایک فرد بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا مگر شاذ و نادر ایسے چند آدمی جو میرے خاندان سے پہلے ہی سے تعارف رکھتے تھے اور یہ وہ واقعہ ہے کہ قادیان کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی اس کے برخلاف شہادت نہیں دے سکتا.بعد اس کے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے اپنے بندوں کو میری طرف رجوع دلایا اور فوج در فوج لوگ قادیان میں آئے اور آ رہے ہیں اور نقد اور جنس اور ہر ایک قسم کے تحائف اس کثرت سے لوگوں نے دیئے اور دے رہے ہیں جن کا میں شمار نہیں کر سکتا اور ہر چند مولویوں کی طرف سے روکیں ہوئیں اور انہوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ رجوع خلائق نہ ہو.
۱۲۴۶ یہاں تک کہ مکہ تک بھی فتوے منگوائے گئے اور قریباً دو سو مولویوں نے میرے پر کفر کے فتوے دیئے بلکہ واجب القتل ہونے کے بھی فتوے شائع کئے گئے لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں نامرادر ہے اور انجام یہ ہوا کہ میری جماعت پنجاب کے تمام شہروں اور دیہات میں پھیل گئی اور ہندوستان میں بھی جا بجا یہ تخم ریزی ہو گئی بلکہ یورپ اور امریکہ کے بعض انگریز بھی مشرف باسلام ہو کر اس جماعت میں داخل ہوئے اور اس قدر فوج در فوج قادیان میں لوگ آئے کہ میکوں کی کثرت سے کئی جگہ سے قادیان کی سڑک ٹوٹ گئی.اس پیشگوئی کو خوب سوچنا چاہئے اور خوب غور سے سوچنا چاہئے کہ اگر یہ خدا کی طرف سے پیشگوئی نہ ہوتی تو یہ طوفانِ مخالفت جو اٹھا تھا اور تمام پنجاب اور ہندوستان کے لوگ مجھ سے ایسے بگڑ گئے تھے جو مجھے پیروں کے نیچے کچلنا چاہتے تھے ضرور تھا کہ وہ لوگ اپنی جان تو ڑ کوششوں میں کامیاب ہو جاتے اور مجھے تباہ کر دیتے لیکن وہ سب کے سب نامرادر ہے اور میں جانتا ہوں کہ ان کا اس قدرشور اور میرے تباہ کرنے کے لئے اس قدر کوشش اور یہ پر زور طوفان جو میری مخالفت میں پیدا ہوا یہ اس لئے نہیں تھا کہ خدا نے میرے تباہ کرنے کا ارادہ کیا تھا بلکہ اس لئے تھا کہ تا خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوں اور تا خدائے قادر جو کسی سے مغلوب نہیں ہو سکتا ان لوگوں کے مقابل پر اپنی طاقت اور قوت دکھلاوے اور اپنی قدرت کا نشان ظاہر کرے.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا.کون جانتا تھا اور کس کے علم میں یہ بات تھی کہ جب میں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح بویا گیا اور بعد اس کے ہزاروں پیروں کے نیچے کچلا گیا اور آندھیاں چلیں اور طوفان آئے اور ایک سیلاب کی طرح شور بغاوت میرے اس چھوٹے سے تم پر پھر گیا پھر بھی میں ان صدمات سے بچ جاؤں گا؟ سو وہ تم خدا کے فضل سے ضائع نہ ہوا بلکہ بڑھا اور پھولا اور آج وہ ایک بڑا درخت ہے جس کے سایہ کے نیچے تین لاکھ انسان آرام کر رہا ہے.یہ خدائی کام ہیں جن کے ادراک سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں.وہ کسی سے مغلوب نہیں ہو سکتا.اے لوگو! کبھی تو خدا سے شرم کرو! کیا اس کی نظیر کسی مفتری کی سوانح میں پیش کر سکتے ہو.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۱ ۲ تا ۲۶۳) تم دیکھتے ہو کہ باوجود تمہاری سخت مخالفت اور مخالفانہ دُعاؤں کے اس نے مجھے نہیں چھوڑا.اور ہر میدان میں وہ میرا حامی رہا.ہر ایک پتھر جو میرے پر چلایا گیا اس نے اپنے ہاتھوں پر لیا.ہر ایک تیر جو مجھے مارا گیا اس نے وہی تیر دشمنوں کی طرف لوٹا دیا.میں بے کس تھا اُس نے مجھے پناہ دی.میں اکیلا تھا اُس نے مجھے اپنے دامن میں لے لیا.میں کچھ بھی چیز نہ تھا.مجھے اُس نے عزت کے ساتھ شہرت دی اور لاکھوں انسانوں کو میرا ارادت مند کر دیا پھر وہ اسی مقدس وحی میں فرماتا ہے کہ جب میری مدد تمہیں
۱۲۴۷ پہنچے گی اور میرے منہ کی باتیں پوری ہو جائیں گی یعنی خلق اللہ کا رجوع ہو جائے گا اور مالی نصرتیں ظہور میں آئیں گی تب منکروں کو کہا جائے گا کہ دیکھو کیا وہ باتیں پوری نہیں ہو گئیں جن کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے.چنانچہ آج وہ سب باتیں پوری ہو گئیں.اس بات کے بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ خدا نے اپنے عہد کو یاد کر کے لاکھوں انسانوں کو میری طرف رجوع دے دیا اور وہ مالی نصرتیں کیں جو کسی کے خواب و خیال میں نہ تھیں.پس اے مخالفو! خدا تم پر رحم کرے اور تمہاری آنکھیں کھولے ذرا وچو کہ کیا یہ انسانی مکر ہو سکتے ہیں؟ یہ وعدے تو براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانے میں کئے گئے تھے جبکہ قوم کے سامنے ان کا ذکر کرنا بھی ہنسی کے لائق تھا اور میری حیثیت کا اس قدر بھی وزن نہ تھا جیسا کہ رائی کے دانہ کا وزن ہوتا ہے.تم میں سے کون ہے کہ جو مجھے اس بیان میں ملزم کر سکتا ہے؟ تم میں سے کون ہے کہ یہ ثابت کر سکتا ہے کہ اس وقت بھی ان ہزار ہا لوگوں میں سے کوئی میری طرف رجوع رکھتا تھا.میں تو براہین احمدیہ کے چھپنے کے وقت ایسا گمنام شخص تھا کہ امرتسر ایک پادری کے مطبع میں جس کا نام رجب علی تھا میری کتاب براہین احمدیہ چھپتی تھی اور میں اس کے پروف دیکھنے کے لئے اور کتاب کے چھپوانے کے لئے اکیلا امرتسر جاتا اور اکیلا واپس آتا تھا اور کوئی مجھے آتے جاتے نہ پوچھتا کہ تو کون ہے اور نہ مجھ سے کسی کو تعارف تھا اور نہ میں کوئی حیثیت قابل تعظیم رکھتا تھا.میری اس حالت کے قادیان کے آریہ بھی گواہ ہیں جن میں سے ایک شخص شرمیت نام اب تک قادیان میں موجود ہے جو بعض دفعہ میرے ساتھ امرتسر میں پادری رجب علی کے پاس مطبع میں گیا تھا جس کے مطبع میں میری کتاب براہین احمدیہ چھپتی تھی اور تمام یہ پیشگوئیاں اس کا کا تب لکھتا تھا.اور وہ پادری خود حیرانی سے پیشگوئیوں کو پڑھ کر باتیں کرتا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسے معمولی انسان کی طرف ایک دنیا کا رجوع ہو جائے گا.پر چونکہ وہ باتیں خدا کی طرف سے تھیں.میری نہیں تھیں اس لئے وہ اپنے وقت میں پوری ہو گئیں اور پوری ہو رہی ہیں ایک وقت میں انسانی آنکھ نے اُن سے تعجب کیا اور دوسرے وقت میں دیکھ بھی لیا.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۷۹ ۸۰) دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا گمنام پا کے شہرہ عالم بنا دیا جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا میں اک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا دنیا کی نعمتوں کوئی بھی نہیں رہی جو اس نے مجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی
۱۲۴۸ اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا میں تھا غریب و بیکس و گمنام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی اب دیکھتے ہو کیا رجوع جہاں ہوا اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۰۱۹) زلازل اور جنگیں پانچ زلزلوں کے آنے کی نسبت خدا تعالی کی پیشگوئی دو جس کے الفاظ یہ ہیں چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشاں کی پنج بار اس وحی الہی کا یہ مطلب ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کے لئے اور محض اس غرض سے کہ تا لوگ سمجھ لیں کہ میں اس کی طرف سے ہوں پانچ دہشتناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلہ سے آئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں اور ہر ایک میں اُن میں سے ایک ایسی چمک ہو گی کہ اس کے دیکھنے سے خدا یاد آ جائے گا اور دلوں پر ان کا ایک خوفناک اثر پڑے گا اور وہ اپنی قوت اور شدت اور نقصان رسانی میں غیر معمولی ہوں گے جن کے دیکھنے سے انسانوں کے ہوش جاتے رہیں گے.یہ سب کچھ خدا کی غیرت کرے گی کیونکہ لوگوں نے وقت کو شناخت نہیں کیا.اور خدا فرماتا ہے کہ میں پوشیدہ تھا مگر اب میں اپنے تئیں ظاہر کروں گا اور میں اپنی چپکار دکھاؤں گا اور اپنے بندوں کو رہائی دوں گا.اسی طرح جس طرح فرعون کے ہاتھ سے موسیٰ نبی اور اس کی جماعت کو رہائی دی گئی اور یہ معجزات اسی طرح ظاہر ہوں گے کہ جس طرح موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے.اور خدا فرماتا ہے کہ میں صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلاؤں گا اور میں اُسے مدد دوں گا جو میری
۱۲۴۹ طرف سے ہے اور میں اس کا مخالف ہو جاؤں گا جو اس کا مخالف ہے.سواے سُننے والو! تم سب یا درکھو کہ اگر یہ پیشگوئیاں صرف معمولی طور پر ظہور میں آئیں تو تم سمجھ لو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں لیکن ان پیشگوئیوں نے اپنے پورے ہونے کے وقت دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیا اور شدت گھبراہٹ سے دیوانہ سا بنا دیا اور اکثر مقامات میں عمارتوں اور جانوں کو نقصان پہنچایا تو تم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لئے یہ سب کچھ کر دکھایا وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے.وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا.یعنی کسی جوتشی یا ملہم یا خواب بین کو اس وقت کی خبر نہیں دی جائے گی بجز اس قدر خبر کے کہ جو اُس نے اپنے مسیح موعود کو دے دی یا آئندہ اس پر کچھ زیادہ کرے.ان نشانوں کے بعد دنیا میں ایک تبدیلی پیدا ہو گی اور اکثر دل خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اور اکثر سعید دلوں پر دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور غفلت کے پردے درمیان سے اٹھا دیئے جائیں گے اور حقیقی اسلام کا شربت انہیں پلایا جائے گا.جیسا کہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے.چو دور خسروی آغاز کردند مسلمان را مسلمان باز کردند ! دور خسروی سے مراد اس عاجز کا عہد دعوت ہے.مگر اس جگہ دنیا کی بادشاہت مراد نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت مراد ہے جو مجھ کو دی گئی.خلاصہ معنی اس الہام کا یہ ہے کہ جب دور خسروی یعنی دور مسیحی جو خدا کے نزد یک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ششم ہزار کے آخر میں شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے.جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں اور میرے لئے یہ شکر کی جگہ ہے کہ میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنے معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کی اور ایک جماعت ہندوؤں اور انگریزوں کی بھی مشرف باسلام ہوئی.چنانچہ کل کے دن ہی ایک ہندو میرے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوا جس کا نام محمد اقبال رکھا گیا اور میں کل کے دن چند دفعہ اس الہام الہی کو پڑھ رہاتھا کہ یکدفعہ میری روح میں یہ عبارت پھونکی گئی جو پہلے الہام کے بعد میں ہے:.مقام او مبیں از راه تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند ۲ ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اس وحی الہی میں جولکھی جاتی ہے میرے ہاتھ پر دین اسلام کے پھیلانے کی خوشخبری دی جیسا کہ اس نے فرمایا.يَاقَمَرُ يَاشَمُسُ أَنْتَ مِنْهُ وَاَنَا مِنْكَ یعنی اے چاند اور اے سورج! تو مجھ جب ( ہمارا ) شاہی زمانہ شروع ہوا تو مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیا گیا.اس کے درجہ کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھ.کہ رسولوں نے اس کے زمانے پر ناز کیا ہے.
۱۲۵۰ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں.اس وحی الہی میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور اپنا نام سورج رکھا.اس سے یہ مطلب ہے کہ جس طرح چاند کا نور سورج سے فیضیاب اور مستفاد ہوتا ہے.اسی طرح میرا نور خدا تعالیٰ سے فیضیاب اور مستفاد ہے.پھر دوسری دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنا نام چاند رکھا اور مجھے سورج کر کے پکارا.اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا وہ پوشیدہ تھا اب میرے ہاتھ سے ظاہر ہو جائے گا اور اس کی چمک سے دنیا بے خبر تھی مگر اب میرے ذریعہ سے اس کی جلالی چمک دنیا کی ہر ایک طرف پھیل جائے گی.اور جس طرح تم بجلی کو دیکھتے ہو کہ ایک طرف سے روشن ہو کر ایک دم میں تمام سطح آسمان کا روشن کر دیتی ہے اسی طرح اس زمانہ میں بھی ہو گا.خدا تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تیرے لئے میں زمین پر اُترا.اور تیرے لئے میرا نام چپکا اور میں نے تجھے تمام دنیا میں سے چن لیا.اور فرماتا ہے.قَالَ رَبُّكَ إِنَّهُ نَازِلٌ مِّنَ السَّمَاءِ مَا يُرْضِيْكَ.یعنی تیرا خدا کہتا ہے کہ آسمان سے ایسے زبر دست معجزات اُتریں گے جن سے تو راضی ہو جائے گا.سوان میں سے اس ملک میں ایک طاعون اور دو سخت زلزلے تو آچکے جن کی پہلے سے میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر خبر دی تھی مگر اب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پانچ زلزلے اور آئیں گے اور دنیا ان کی غیر معمولی چمک کو دیکھے گی.اور ان پر ثابت کیا جائے گا کہ یہ خدا تعالیٰ کے نشان ہیں جو اس کے بندے مسیح موعود کے لئے ظاہر ہوئے.افسوس اس زمانہ کے منجم اور جوتشی ان پیشگوئیوں میں میرا ایسا ہی مقابلہ کرتے ہیں جیسا کہ ساحروں نے موسیٰ نبی کا مقابلہ کیا تھا.اور بعض نادان ملہم جو تاریکی کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں وہ بلغم کی طرح میرے مقابلہ کے لئے حق کو چھوڑتے اور گمراہوں کو مدد دیتے ہیں مگر خدا فرماتا ہے کہ میں سب کو شرمندہ کروں گا اور کسی دوسرے کو یہ اعزاز ہرگز نہیں دوں گا.ان سب کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے نجوم یا الہام سے میرا مقابلہ کریں.اور اگر کسی حملہ کو اب اٹھا رکھیں تو وہ نامرد ہیں.اور خدا فرماتا ہے کہ میں ان سب کو شکست دوں گا اور میں اس کا دشمن بن جاؤں گا جو تیرا دشمن ہے اور وہ فرماتا ہے کہ اپنے اسرار کے اظہار کے لئے میں نے تجھے ہی برگزیدہ کیا ہے اور زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ میرے ساتھ ہے اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میرا عرش.اسی کے مطابق قرآن شریف میں یہ آیت ہے جو خدا کے برگزیدہ رسولوں کو غیروں سے ممتاز کرتی ہے اور وہ یہ ہے.لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ لا یعنی کھلا کھلا غیب الجن : ۲۸،۲۷
۱۲۵۱ صرف برگزیدہ رسول کو عطا کیا جاتا ہے غیر کو اس میں حصہ نہیں.سو ہماری جماعت کو چاہئے جو ٹھوکر نہ کھاویں اور ان غیروں کو جو میرے مقابل پر ہیں اور میری بیعت کرنے والوں میں داخل نہیں ہیں کچھ بھی چیز نہ سمجھیں ورنہ خدا کے غضب کے نیچے آئیں گے.ہر ایک بیہودہ گو جو پیشگوئی کرتا ہے خدا ایسے لوگوں سے بچے ایمانداروں کو آزماتا ہے کہ کیا وہ غیر کو وہ وقعت اور عزت دیتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول کو دینی چاہئے.اور دیکھتا ہے کہ کیا وہ اس سچائی پر قائم ہیں یا نہیں جو ان کو دی گئی.اور یادر ہے کہ جب یہ پانچ زلزلے آ چکیں گے اور جس قدر خدا نے تباہی کا ارادہ کیا ہے وہ پورا ہو چکے گا تب خدا کا رحم پھر جوش مارے گا اور پھر غیر معمولی اور دہشتناک زلزلوں کا ایک مدت تک خاتمہ ہو جائے گا اور طاعون بھی ملک میں سے جاتی رہے گی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيهَا أَحَدٌ.یعنی اس جہنم پر جو طاعون اور زلزلوں کا جہنم ہے ایک دن ایسا زمانہ آئے گا کہ اس جہنم میں کوئی فرد بشر بھی نہیں ہو گا یعنی اس ملک میں.اور جیسا کہ نوح کے وقت میں ہوا کہ ایک خلق کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا.ایسا ہی اس جگہ بھی ہو گا.اور پھر اس الہام کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ يُغَاتُ النَّاسُ وَ يَعْصِرُونَ.یعنی پھر لوگوں کی دعائیں سنی جائیں گی اور وقت پر بارشیں ہوں گی اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آ جائے گا اور غیر معمولی آفتیں دُور ہو جائیں گی تا لوگ یہ خیال نہ کریں کہ خدا صرف قہار ہے رحیم نہیں ہے اور تا اس کے میسیج کو منحوس قرار نہ دیں.یادر ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں موتوں کی کثرت ضروری تھی اور زلزلوں اور طاعون کا آنا ایک مقدر امر تھا.یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے دم سے لوگ مریں گے اور جہاں تک مسیح کی نظر جائے گی اس کا قاتلانہ دم اثر کرے گا.پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس حدیث میں مسیح موعود کو ایک ڈائن قرار دیا گیا ہے جو نظر کے ساتھ ہر ایک کا کلیجہ نکالے گا بلکہ معنی حدیث کے یہ ہیں کہ اس کے نفحات طیبات یعنی کلمات اس کے جہاں تک زمین پر شائع ہوں گے تو چونکہ لوگ ان کا انکار کریں گے اور تکذیب سے پیش آئیں گے اور گالیاں دیں گے اس لئے وہ انکار موجب عذاب ہو جائے گا.یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ مسیح موعود کا سخت انکار ہو گا جس کی وجہ سے ملک میں مری پڑے گی اور سخت سخت زلزلے آئیں گے اور امن اُٹھ جائے گا ورنہ یہ غیر معقول بات ہے کہ خواہ نخواہ نیکو کار اور نیک چلن آدمیوں پر طرح طرح کے عذاب کی قیامت آوے.یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانوں میں بھی
۱۲۵۲ نادان لوگوں نے ہر ایک نبی کو منحوس قدم سمجھا ہے اور اپنی شامت اعمال ان پر تھاپ دی ہے.مگر اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا.بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتا ہے اور اس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے اور سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ے پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھا رہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے ؟ اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے جس کی تم تکذیب کر رہے ہو.اب ہجری صدی کا بھی چوبیسواں سال ہے.بغیر قائم ہونے کسی مرسل الہی کے یہ وبال تم پر کیوں آ گیا جو ہر سال تمہارے دوستوں کو تم سے جدا کرتا اور تمہارے پیاروں کو تم سے علیحدہ کر کے داغ جدائی تمہارے دلوں پر لگاتا ہے.آخر کچھ بات تو ہے کیوں تلاش نہیں کرتے.اگر خدا نے مجھے یہ تمام خبریں پہلے سے نہیں دیں تو میں جھوٹا ہوں لیکن اگر یہ خبریں پچیس برس سے میری کتابوں میں مندرج ہیں اور متواتر میں قبل از وقت خبر دیتا رہا ہوں تو تمہیں ڈرنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ تم خدا کے الزام کے نیچے آ جاؤ.تم سُن چکے ہو کہ ۴ را پریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کی پیشگوئی ایک برس پہلے میں نے اخباروں میں شائع کی تھی.اور اس میں صرف یہی لفظ نہیں تھا کہ زلزلہ کا دھکا بلکہ یہ الہام بھی تھا کہ عَفَتِ الدِّيَارُ مَحَلُّهَا وَ مُقَامُهَا یعنی ملک پنجاب کے بعض حصوں کی عمارتیں تباہ اور نا پدید ہو جائیں گی.سواب مجھے اس بات کے لکھنے کی ضرورت نہیں کہ کس صفائی سے وہ پیشگوئی پوری ہوگئی.پھر بعد اس کے اسی اپریل کے مہینہ میں یہ دوسری پیشگوئی خدا تعالیٰ کی وحی سے میں نے شائع کی تھی کہ جیسا کہ یہ زلزله ۴ را پریل ۱۹۰۵ ء کا موسم بہار میں آیا ایسا ہی ایک دوسرا زلزلہ موسم بہار میں ہی آئے گا اور اس سے پہلے نہیں آئے گا اور ضروری ہے کہ ۲۵ فروری ۱۹۰۶ ء تک وہ زلزلہ نہ آوے.سو گیارہ مہینے تک کوئی زلزلہ نہ آیا اور جب ۲۵ فروری ۱۹۰۶ء گزرگئی تب ۲۷ فروری ۱۹۰۶ء کی رات کو عین وسط بہار میں ایک بجے کے وقت ایسا سخت زلزلہ آیا کہ انگریزی اخبارات سول و غیرہ کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ یہ زلزله ۴ را پریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے برابر تھا.اور رام پور شہر علاقہ شملہ اور بہت سے اور مقامات میں جانوں اور عمارتوں کا نقصان ہوا.یہ وہی زلزلہ تھا جس کی نسبت گیارہ مہینے پہلے خدا تعالیٰ کی وحی نے یہ خبر دی تھی کہ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی بنی اسرائیل: ۱۶
۱۲۵۳ سواسی کے مطابق موسم بہار میں یہ زلزلہ آیا.اب سوچ کر دیکھ لو کہ یہ بجز خدا کے کس کی طاقت ہے کہ اس تصریح کے ساتھ پیشگوئی کر سکے.میرے ہاتھ میں تو زمین کے طبقات نہیں تھے کہ میں گیارہ مہینے تک ان کو تھام رکھتا اور پھر ۲۵ / فروری ۱۹۰۶ ء کے بعد ایک زور کا دھکا دے کر زمین کو ہلا دیتا.سواے عزیز! جبکہ تم نے یہ دونوں زلزلے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے تو اب تمہیں اس بات کا سمجھنا سہل ہے کہ آئندہ پنج زلزلوں کی خبر بھی کوئی گپ نہیں.کوئی علم طبقات الارض کا اس تصریح اور تفصیل کو بتلا نہیں سکتا بلکہ وہ خدا جو زمین اور آسمان کا خدا ہے وہ اپنے خاص رسولوں کو یہ اسرار بتلاتا ہے نہ ہر ایک کو تا دنیا کے لوگ کفر اور انکار سے بچ جائیں اور تا وہ ایمان لائیں اور جہنم کے عذاب سے نجات پائیں.سو دیکھو میں زمین و آسمان کو گواہ کرتا ہوں کہ آج میں نے وہ پیشگوئی جو پانچ زلزلوں کے بارے میں ہے تفریح بیان کر دی ہے تا تم پر حجت ہو اور تا تمہاری گمراہی پر موت نہ ہو.اے عزیز! خدا سے مت لڑو کہ اس لڑائی میں تم ہرگز فتحیاب نہیں ہو سکتے.خدا کسی قوم پر ایسے سخت عذاب نازل نہیں کرتا اور نہ کبھی اس نے کئے جب تک اس قوم میں اس کی طرف سے کوئی رسول نہ آیا ہو یعنی جب تک اس کا بھیجا ہوا اُن میں ظاہر نہ ہوا ہو.سو تم خدا کے قانون قدیم سے فائدہ اٹھاؤ اور تلاش کرو کہ وہ کون ہے جس کے لئے تمہاری آنکھوں کے روبرو آسمان پر رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہوا اور زمین پر طاعون پھیلی اور زلزلے آئے اور یہ پیشگوئیاں قبل از وقت کس نے تم کو سنا ئیں اور کس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں مسیح موعود ہوں.اس شخص کو تلاش کرو کہ وہ تم میں موجود ہے اور وہ یہی ہے کہ جو بول رہا ہے.وَلَا تَايْنَسُوا مِنْ رَّوحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَايُسُ مِنْ زَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۹۵ تا ۴۰۴) یادر ہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے.اور اس قدر موت ہو گی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے.اور زمین پر اس قد رسخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی.اور اکثر مقامات زیروز بر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی يوسف: ۸۸
۱۲۵۴ آبادی نہ تھی.اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی.یہاں تک کہ ہر ایک عظمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی.اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتہ نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہو گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی.اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں.انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا.مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں.پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی.اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۹،۲۶۸) سونے والو! جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے جو خبر دی وحی حق نے اُس سے دل بے تاب ہے بنی اسرائیل: ۱۶
۱۲۵۵ زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمین زیر وزبر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے ہے سر رہ پر کھڑا نیکیوں کی وہ مولا کریم نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اس سیل سے حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے (اشتہار النداء مِن وحي السَّماءِ مطبوعه اخبار بدر ۴ رمئی ۱۹۰۵ء صفحه ۴) اک نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے گردش کھا ئیں گے دیہات و شہر اور مرغزار آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب اک برہنہ سے نہ یہ ہو گا کہ تا باندھے ازار یک بیک اک زلزلے سے سخت جنبش کھائیں گے کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیروزبر نالیاں خون کی چلیں گی جیسے آب رودبار رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمن صبح کر دے گی انہیں مثل درختان چنار ہوش اڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی راہ کو بھولیں گے ہو کر مست و بےخود راہوار خون سے مُردوں کے کوہستان کے آب رواں سُرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار مضمحل ہو جا ئیں گے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہوگا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار اک نمونہ قہر کا ہو گا وہ ربانی نشاں آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہ ناشناس اس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دار و مدار وجی حق کی بات ہے ہو کر رہے گی بے خطا کچھ دنوں کر صبر ہو کر متقی اور بُردبار یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۲٬۱۵۱) یہ نشان زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن وہ تو اک لقمہ تھا جو تم کو کھلایا ہے نہار اک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد جس کی دیتا ہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار خوب کھل جائے گا لوگوں پر کہ دیں کس کا ہے دیں پاک کر دینے کا تیرتھ کعبہ ہے یا ہردوار پہ وحی حق کے ظاہری لفظوں میں ہے وہ زلزلہ لیک ممکن ہے کہ ہو کچھ اور ہی قسموں کی مار کچھ ہی ہو پر وہ نہیں رکھتا زمانہ میں نظیر فوق عادت ہے کہ سمجھا جائے گا روز شمار
۱۲۵۶ وہ تباہی آئے گی شہروں پہ اور دیہات پر جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار ایک دم میں غمکدے ہو جائیں گے عشرت کدے شادیاں کرتے تھے جو پیٹیں گے ہو کر سوگوار وہ جو تھے اونچے محل اور وہ جو تھے قصر بریں پست ہو جائیں گے جیسے پست ہواک جائے غار ایک ہی گردش سے گھر ہو جائیں گے مٹی کا ڈھیر جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں اُن کا شمار پر خدا کا رحم ہے کوئی بھی اس سے ڈر نہیں اُن کو جو جھکتے ہیں اس درگہ پر ہو کر خاکسار یہ خوشی کی بات ہے سب کام اس کے ہاتھ ہے وہ جو ہے دھیما غضب میں اور ہے آمرزگار کب یہ ہو گا؟ یہ خدا کو علم ہے پر اس قدر دی خبر مجھ کو کہ وہ دن ہوں گے ایامِ بہار پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی یہ خدا کی وحی ہے اب سوچ لو اے ہوشیار یاد کر فرقاں سے لفظ زُلْزِلَتْ زِلْزَالَهَا ایک دن ہو گا وہی جو غیب سے پایا قرار سخت ماتم کے وہ دن ہوں گے مصیبت کی گھڑی ایک وہ دن ہوں گے نیکوں کے لئے شیر میں ثمار آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار انبیاء سے بغض بھی اے غافلو اچھا نہیں دور تر ہٹ جاؤ اس سے ہے یہ شیروں کی کچھار در همین صفحه ۱۵۴۱۵۳ از بر عنوان پیشگوئی جنگ عظیم شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ) " خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہو گا جو نمونہ قیامت ہوگا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہئے جس کی طرف سورۃ اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا اشارہ کرتی ہے لیکن میں ابھی تک اس زلزلے کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا.ممکن ہے یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلاوے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں میں کاذب ٹھہروں گا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۱ حاشیہ) سُلْطَانُ القلم اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سُلْطَانُ القَلَم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷ار جون ۱۹۰۱ء صفحه ۲)
۱۲۵۷ ید بیضا که با او تابنده باز با ↓ ذوالفقار می بینم ! یعنی اس کا وہ روشن ہاتھ جو اتمام کے حجت کی رو سے تلوار کی طرح چمکتا ہے.پھر میں اس کو ذوالفقار کے ساتھ دیکھتا ہوں.یعنی ایک زمانہ ذوالفقار کا تو وہ گذر گیا کہ جب ذوالفقار علی کرم اللہ وجھہ کے ہاتھ میں تھی.مگر خدا تعالیٰ پھر ذوالفقار اس امام کو دے دے گا.اس طرح پر کہ اس کا چمکنے والا ہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں ذوالفقار کرتی تھی.سو وہ ہاتھ ایسا ہو گا کہ گویا وہ ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ ہے جو پھر ظاہر ہو گئی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ امام سُلْطَانُ الْقَلَم ہوگا.اور اس کی قلم ذوالفقار کا کام دے گی.یہ پیشگوئی بعینہ اس عاجز کے اس الہام کا ترجمہ ہے جو اس وقت سے دس برس پہلے براہین احمدیہ میں چھپ چکا ہے اور وہ یہ ہے:.كِتَابُ الْوَلِي ذُو الْفَقَارِ عَلِيّ يعنی کتاب اس ولی کی ذوالفقار علی کی ہے.یہ اس عاجز کی طرف اشارہ ہے.اسی بناء پر بارہا اس عاجز کا نام مکاشفات میں غازی رکھا گیا ہے.نشان آسمانی روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۷۵) میں خاص طور پر خدائے تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشا پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں.کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گوعربی ہو یا اردو یا فارسی دو حصہ پر منقسم ہوتی ہے.(۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور میں اس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اس تحریر میں مجھے کوئی مشقت اٹھانی نہیں پڑتی.مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا.یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر ان مضامین کو میں لکھ سکتا.وَ اللَّهُ أَعْلَمُ.(۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے.اور وہ یہ ہے کہ جب میں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح روح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے اور اس وقت میں اپنی حس سے غائب ہوتا ہوں.مثلاً عربی.لے اس کا وہ روشن ہاتھ جو تمام کے حجت کی رو سے تلوار کی طرح چمکتا ہے پھر میں اس کو ذوالفقار کے ساتھ دیکھتا ہوں یعنی ( وہ امام سلطان القلم ہوگا اور اس کی قلم ذوالفقار کا کام دے گی )
۱۲۵۸ عبارت کے سلسلہ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیاری عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سلسلہ عبارت اس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلو کی طرح لفظ ضفف ڈالا گیا.جس کے معنے ہیں بسیاری عیال.یا مثلاً سلسلہ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہوئی جس کے معنے ہیں غم و غصہ سے چپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دل پر وحی ہوئی کہ وجوم.ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے.عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے بنائے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا ان کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرف سے اور بعض اوقات کچھ مدت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلو القاء ہوا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے.یہ تو زبان عربی کے متعلق بیان ہے.مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں.جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ.جیسا کہ براہین احمدیہ میں کچھ نمونہ ان کا لکھا گیا ہے اور مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اللہ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کے قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جو مختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القا ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو.کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سے توریت کے قصے بیان کر کے ان کو علم غیب میں داخل کیا ہے کیونکہ وہ قصے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علم غیب تھا گو یہودیوں کے لئے وہ غیب نہ تھا.پس یہی راز ہے جس کی وجہ سے میں ایک دنیا کو معجزہ عربی بلیغ کی تفسیر نویسی میں بالمقابل بلاتا ہوں ورنہ انسان کیا چیز اور ابن آدم کیا حقیقت کہ غرور اور تکبر کی راہ سے ایک دنیا کو اپنے مقابل پر بلاوے.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۴ تا ۴۳۶) خطبه الهاميه ار اپریل ۱۹۰۰ ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں
۱۲۵۹ قوت دی گئی.اور نیز یہ الہام ہوا.كَلامٌ أُفُصِحَتْ مِنْ لَّدُنُ رَبِّ كَرِيمٍ.یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے.چنانچہ اس الہام کو اُسی وقت اخویم مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی اے اور حافظ عبدالعلی صاحب اور بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی.تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا.اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی.اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الہی کے بیان کر سکے.جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو کے قریب ہوگی سبحان اللہ.اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا.مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا.کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبات الہامیہ ہے.اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہہ بیان کر سکے.یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۷۶،۳۷۵) متفرق نشانات میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضیٰ مرحوم اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے.گورنمنٹ انگریزی میں وہ پنشن پاتے تھے.اور اس کے علاوہ چار سو روپیہ انعام ملتا تھا اور چار گاؤں زمینداری کے تھے.پینشن اور انعام ان کی ذات تک وابستہ تھے اور زمینداری کے دیہات کے متعلق شرکاء کے مقدمات شروع ہونے کو تھے.اتنے میں وہ قریباً پچاسی برس کی عمر میں بیمار ہو گئے اور پھر بیماری سے شفا بھی ہو گئی.کچھ خفیف سی زحیر باقی تھی.ہفتہ کا روز تھا اور دو پہر کا وقت تھا کہ مجھے کچھ غنودگی ہو کر خدا تعالیٰ کی
طرف سے یہ الہام ہوا.وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ.جس کے معنے مجھے یہ سمجھائے گئے کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی کہ غروب آفتاب کے بعد پڑے گا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ پیشگوئی میرے والد کے متعلق ہے اور وہ آج ہی غروب آفتاب کے بعد وفات پائیں گے اور یہ قول خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور ماتم پرسی کے ہے.اس وحی الہی کے ساتھ ہی میرے دل میں بمقتضائے بشریت یہ گذرا کہ ان کی وفات سے مجھے بڑا ابتلا ء پیش آئے گا.کیونکہ جو وجوہ آمدنی ان کی ذات سے وابستہ ہیں وہ سب ضبط ہو جائیں گی اور زمینداری کا حصہ کثیرہ شرکاء لے جائیں گے اور پھر نہ معلوم ہمارے لئے کیا کیا مقدر ہے.میں اس خیال میں ہی تھا کہ پھر یکدفعہ غنودگی آئی اور یہ الہام ہوا.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ.یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں.پھر اس کے بعد میرے دل میں سکینت نازل کی گئی.اور نماز ظہر کے بعد میں نیچے اترا اور جون کا مہینہ اور سخت گرمی کے دن تھے.اور میں نے جا کر دیکھا کہ میرے والد صاحب تندرست کی طرح بیٹھے تھے اور نشست برخاست اور حرکت میں کسی سہارے کے محتاج نہ تھے.اور حیرت تھی کہ آج واقعہ وفات کیونکر پیش آئے گا.لیکن جب غروب آفتاب کے قریب وہ پاخانہ میں جا کر واپس آئے تو آفتاب غروب ہو چکا تھا.اور پلنگ پر بیٹھتے کے ساتھ ہی غرغرہ نزع شروع ہو گیا.شروع غرغرہ میں مجھے انہوں نے کہا.دیکھا یہ کیا حالت ہے اور پھر آپ ہی لیٹ گئے اور بعد اس کے کوئی کلام نہ کی اور چند منٹ میں ہی اس نا پائیدار دنیا سے گذر گئے.آج تک جو دس اگست ۱۹۰۲ء ہے مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو اٹھائیس برس ہو چکے ہیں.بعد اس کے میں نے مرزا صاحب کی تجہیز و تکفین سے فراغت کر کے وہ وحی الہی جو تکفل الہی کے بارے میں ہوئی تھی یعنی أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَۀ اس کو ایک نگینہ پر کھدوا کر وہ مُہر اپنے پاس رکھی اور مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ خارق عادت طور پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور نہ صرف میں بلکہ ہر یک شخص جو میرے اس زمانہ کا واقف ہے جبکہ میں اپنے والد صاحب کے زیر سایہ زندگی بسر کرتا تھا وہ گواہی دے سکتا ہے کہ مرزا صاحب مرحوم کے وقت میں کہ کوئی مجھے جانتا بھی نہیں تھا.ان کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے اس طور سے میری دستگیری کی اور ایسا میرا متکفل ہوا کہ کسی شخص کے وہم اور خیال میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہونا ممکن ہے.ہر یک پہلو سے وہ میرا ناصر اور معاون ہوا.مجھے صرف اپنے دستر خوان اور روٹی کی فکر تھی مگر اب تک اس نے کئی لاکھ آدمی کو میرے دستر خوان پر روٹی کھلائی.ڈاکخانہ والوں کو خود پوچھ لو کہ کس
۱۲۶۱ قدر اس نے روپیہ بھیجا.میری دانست میں دس لاکھ سے کم نہیں.اب ایما کا کہو کہ یہ مجزہ ہے یا نہیں؟ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴ ۴۹ تا ۴۹۶) ا خدا تعالیٰ نے ایک عام طور پر مجھے مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ انسى مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَا نَتَكَ یعنی میں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت کا ارادہ کرے گا.صد ہا دشمن اس پیشگوئی کے مصداق ہو گئے ہیں.اس رسالہ میں مفصل لکھنے کی گنجائش نہیں.ان میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے میری نسبت یہ کہا کہ یہ مفتری ہے طاعون سے ہلاک ہو گا.خدا کی قدرت کہ وہ خود طاعون سے ہلاک ہو گئے اور اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اپنا یہ الہام پیش کرتے تھے کہ ہمیں خدا نے بتلایا کہ یہ شخص جلد مر جائے گا.خدا کی شان کہ وہ اپنے ایسے الہاموں کے بعد خود جلد مر گئے اور بعض نے میرے پر بددعائیں کی تھیں کہ وہ جلد ہلاک ہو جائے.وہ خود جلد ہلاک ہو گئے.مولوی محی الدین لکھو کے والے کا الہام لوگوں کو یاد ہو گا.جنہوں نے مجھے کا فرٹھہرایا اور فرعون سے تشبیہ دی اور میرے پر عذاب نازل ہونے کی نسبت الہام شائع کئے آخر آپ ہی ہلاک ہو گئے.اور کئی سال ہو گئے کہ وہ اس دنیا سے گذر گئے.ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری بھی مجھے گالیاں دینے میں حد سے بڑھ گیا تھا.جس نے ملکہ سے میرے پر کفر کے فتوے منگوائے تھے وہ بھی بیٹھتے اٹھتے میرے پر بددعا کرتا تھا اور لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ اس کا ورد تھا لیکن چونکہ میں صادق تھا اس لئے غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی وَحِي إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ کا شکار ہو گیا اور وہ دائمی ذلت جو میرے لئے اُس نے چاہی تھی اسی پر پڑ گئی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۴۳۵۳) واضح ہو کہ مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کے بعد جو کچھ کا بل میں ظہور میں آیا وہ بھی میرے لئے خدا کی طرف سے ایک نشان ہے کیونکہ مظلوم شہید مرحوم کے قتل سے میری سخت اہانت کی گئی.اس لئے خدا کے قہر نے کابل پر غضب کی تلوار کھینچی.اس مظلوم شہید کے قتل کئے جانے کے بعد سخت ہیضہ کا بل میں پھوٹا اور وہ لوگ جو مشورہ شہید مظلوم کے قتل میں شریک تھے اکثر ہیضہ کے شکار ہو گئے اور خود امیر کابل کے گھروں میں بعض موتوں سے ماتم برپا ہو گیا اور کئی ہزار انسان جو اس قتل سے خوش تھے شکار مرگ ہو گئے اور وبائے ہیضہ کا ایسا سخت طوفان آیا کہ کہتے ہیں کہ کابل میں ایسا ہیضہ گذشتہ زمانوں میں بہت کم دیکھنے میں آیا ہے اور الہامِ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ اس جگہ بھی پورا ہوا.
۱۲۶۲ بنگر که خونِ ناحق پروانه شمع را چنداں اماں نداد که شب را سحر کنند لا (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۶۴) یہ نشان چراغ دین کے مباہلہ کا نشان ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جبکہ چراغ دین کو بار بار یہ شیطانی الہام میری نسبت ہوئے کہ یہ شخص دجال ہے اور اپنی نسبت یہ الہام ہوا کہ وہ اس دجال کو نابود کرنے کے لئے خدا تعالی کی طرف سے آیا ہے اور حضرت عیسی نے اس کو اپنا عصا دیا ہے تا اس عصا سے اس د بال کوقتل کرے تو اس کا تکبر بہت بڑھ گیا اور اس نے ایک کتاب بنائی اور اس کا نام منارہ مسیح رکھا اور اس میں بار بار اسی بات پر زور دیا کہ گویا میں حقیقت میں موعود دجال ہوں.اور پھر جب منارۃ اُمسیح کی تالیف پر ایک برس گذر گیا تو اس نے مجھے دجال ثابت کرنے کے لئے ایک اور کتاب بنائی اور بار بار لوگوں کو یاد دلایا کہ یہ وہی دجال ہے جس کے آنے کی خبر احادیث میں ہے اور چونکہ غضب الہی کا وقت اُس کے لئے قریب آ گیا تھا اس لئے اس نے اس دوسری کتاب میں مباہلہ کی دعا لکھی اور جناب البی میں دعا کر کے میری ہلاکت چاہی اور مجھے ایک فتنہ قرار دے کر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ تو اس فتنہ کو دنیا سے اٹھا دے.یہ عجیب قدرت حق اور عبرت کا مقام ہے کہ جب مضمون مباہلہ اُس نے کاتب کے حوالے کیا تو وہ کا پیاں ابھی پتھر پر نہیں جمی تھیں کہ دونوں لڑکے اس کے جوصرف دو ہی تھے طاعون میں مبتلا ہو کر مر گئے اور آخر۴ را پریل ۱۹۰۶ء کو لڑکوں کی موت سے دو تین روز بعد طاعون میں مبتلا ہو کر اس جہان کو چھوڑ گیا اور لوگوں پر ظاہر کر گیا کہ صادق کون ہے اور کاذب کون.جولوگ اس وقت حاضر تھے ان کی زبانی سنا گیا ہے کہ وہ اپنی موت کے قریب کہتا تھا کہ اب خدا بھی میرا دشمن ہو گیا ہے.“ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۸۷) صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں.اِنَّ لِمَهْدِينَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لَاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَ تَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ.ترجمه یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دونشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اُس کی اول رات میں ہوگا یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہو گا یعنے اسی رمضان کے مہینہ کی ے دیکھئے پروانہ کے خونِ ناحق نے شمع کو اتنی مہلت نہ دی کہ رات کو صبح میں بدل دے.
۱۲۶۳ اٹھائیسویں تاریخ کو اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا.صرف مہدی معہود کے وقت اس کا ہونا مقدر ہے.اب تمام انگریزی اور اردو اخبار اور جملہ ماہرین ہلیت اس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ سال کا گذر چکا ہے اسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۲) ۱۸۶۸ ء یا ۱۸۶۹ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میں ہوا تھا.جس کو اسی جگہ لکھنا مناسب ہے.اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے جب نئے نئے مولوی ہو کر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو ان کے خیالات گراں گذرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا چنانچہ اس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو معہ اُن کے والد صاحب کے مسجد میں پایا.پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کوسن کر معلوم کر لیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو.اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسے ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ پھر بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے.چونکہ خالصا خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار اور تذلل اختیار کیا گیا اس لئے اس محسنِ مطلق نے نہ چاہا کہ اس کو بغیر اجر کے چھوڑے.( براہین احمدیہ ہر چہار تحص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۱ ۶۲۲ حاشیه در حاشیه نمبر۳) ایک دفعہ خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ نے اپنے کسی اضطراب اور مشکل کے وقت میری طرف خط لکھا کہ میرے لئے دعا کریں.چونکہ انہوں نے کئی دفعہ ہمارے سلسلہ میں خدمت کی تھی اس لئے اُن کے لئے دعا کی گئی.تب من جانب اللہ الہام ہوا.چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیجئے قبول ہے آج اس دعا کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ مشکلات ان کے دُور کر دیئے.اور انہوں نے شکر
۱۲۶۴ گذاری کا خط لکھا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۹۳-۳۹۴) بعض نشان اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان کے وقوع میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں ہوتی کہ فی الفور واقع ہو جاتے ہیں اور ان میں گواہ کا پیدا ہونا کم میسر آتا ہے.اسی قسم کا یہ ایک نشان ہے کہ ایک دن بعد نماز صبح میرے پر کشفی حالت طاری ہوئی اور میں نے اس وقت اس کشفی حالت میں دیکھا کہ میرا لڑکا مبارک احمد باہر سے آیا ہے اور میرے قریب جو ایک چٹائی پڑتی ہوئی تھی اس کے ساتھ پیر پھسل کر گر پڑا ہے اور اس کو بہت چوٹ لگی ہے اور تمام گر تہ خون سے بھر گیا ہے.میں نے اس وقت مبارک احمد کی والدہ کے پاس جو اس وقت میرے پاس کھڑی تھیں یہ کشف بیان کیا تو ابھی میں بیان ہی کر چکا تھا کہ مبارک احمد ایک طرف سے دوڑا آیا جب چٹائی کے پاس پہنچا تو چٹائی سے پیر پھسل کر گر پڑا اور سخت چوٹ آئی اور تمام گر تہ خون سے بھر گیا.اور ایک منٹ کے اندر ہی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.ایک نادان کہے گا کہ اپنی بیوی کی گواہی کا کیا اعتبار ہے اور نہیں جانتا کہ ہر ایک شخص طبعاً اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر پھر جھوٹ بولے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۹۹،۳۹۸) شیخ حامد علی ساکن تصہ غلام نبی ضلع گورداسپورہ جو ایک مدت تک میرے پاس رہا ہے اور بہت سے نشانوں کا گواہ ہے ایک یہ نشان اس کے روبر و ظہور میں آیا کہ ظہر کی نماز کا وقت تھا کہ یکدفعہ مجھے الہام ہوا کہ تَرى فَخِذًا اَلِيماً یعنے تو ایک درد ناک ران دیکھے گا.تب میں نے یہ الہام اس کو سنایا اور پھر بعد اس کے بلا توقف میں نماز کے لئے مسجد کی طرف روانہ ہونے لگا اور وہ بھی میرے ساتھ ہی زینہ پر سے اُترا.جب ہم زینہ پر سے اُتر آئے.تو دو گھوڑوں پر دولڑ کے سوار دکھائی دیئے جن کی عمر بیس برس کے اندر اندر ہوگی.ایک کچھ چھوٹا اور ایک بڑا.وہ سوار ہونے کی حالت میں ہی ہمارے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور ایک نے ان میں سے مجھ کو کہا کہ یہ دوسرا سوار میرا بھائی ہے اور اس کی ران میں سخت درد ہو رہا ہے اس کا کوئی علاج پوچھنے آئے ہیں.تب میں نے حامد علی کو کہہ دیا کہ گواہ رہ کہ یہ پیشگوئی دو تین منٹ میں ہی پوری ہوگئی.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۹۶، ۱۹۷) جبکہ دلیپ سنگھ کی پنجاب میں آنے کی خبر مشہور تھی تب مجھے دکھلایا گیا کہ دلیپ سنگھ اپنے اس ارادہ میں ناکام رہے گا اور وہ ہرگز ہندوستان میں قدم نہیں رکھے گا.چنانچہ میں نے اس کشف کو لالہ شرمیت ساکن قادیان کو جو آریہ ہے اور کئی ہندو مسلمانوں کو بتلا دیا اور ایک اشتہار بھی شائع کر دیا جو فروری
۱۲۶۵ ۱۸۸۲ء میں چھپ کر تقسیم کر دیا تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ دلیپ سنگھ عدن سے واپس ہوا اور اس کی عزت و آسائش میں بہت خطرہ پڑا جیسا کہ میں نے صد ہا آدمیوں کو خبر دی تھی.( نزول اصیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۰۴) ہمارے ایک مخلص دوست مرزا محمد یوسف بیگ صاحب ہیں جو سامانہ علاقہ ریاست پٹیالہ کے رہنے والے ہیں اور ایک مدت دراز سے ہمارے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اسی تعلق میں تمام عمر رہیں گے اور اسی میں اس دنیا سے گذریں گے.ایک دفعہ ان کا لڑکا مرزا ابراہیم بیگ مرحوم بیمار ہوا تو انہوں نے میری طرف دعا کے لئے خط لکھا.ہم نے دُعا کی تو کشف میں دیکھا کہ ابراہیم ہمارے پاس بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بہشت سے سلام پہنچا دو.جس کے معنے یہی دل میں ڈالے گئے کہ اب ان کی زندگی کا خاتمہ ہے.اگر چہ دل نہیں چاہتا تھا تا ہم بہت سوچنے کے بعد مرزا محمد یوسف بیگ صاحب کو اس حادثہ سے اطلاع دی گئی اور تھوڑے دنوں کے بعد وہ جوان غریب مزاج فرمانبردار بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے اس جہان فانی سے چل بسا.نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۰) ہماری ایک لڑکی عصمت بی بی نام تھی.ایک دفعہ اس کی نسبت الہام ہوا کہ كَرَمُ الْجَنَّةِ دَوْحَةُ الْجَنَّةِ تفہیم یہ تھی کہ وہ زندہ نہیں رہے گی.سو ایسا ہی ہوا.ہم اس خیال سے کہ مبادا کسی ناعاقبت اندیش کے دل میں ایسے نشانات کی نسبت کچھ اعتراض پیدا ہو کہ عمر بڑھانے کے لئے دعا کیوں نہ کی گئی اور کی گئی ہو تو وہ قبول کیوں نہ ہوئی.یہ امر واضح کر دیتے ہیں کہ ایسے الہامات کے بعد ملہم لوگوں کو فطرتاً دو قسم کی حالتیں پیش آتی ہیں.کبھی تو دعا کی طرف غیب سے توجہ اور جوش دیا جاتا ہے اور وہ اس بات کا نشان ہوتا ہے کہ خدا نے ارادہ فرمایا ہے کہ دعا قبول کرے اور کبھی خدا دعا کو قبول کرنا نہیں چاہتا اور اپنی مرضی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تب دُعا کرنے والے کی طبیعت پر قبض پیدا کر دیتا ہے اور دعا کے اسباب اور حضور اور جوش کو ظہور میں نہیں آنے دیتا.( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۹۳) ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء میں ابتداء اور ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء میں ثانیاً یعنی بذریعہ اشتہار ایک پیشگوئی شائع کی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سید احمد خان صاحب کے سی.ایس.آئی کو کئی قسم کی بلائیں اور مصائب پیش آئیں گی.چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا کہ اول تو اخیر عمر میں سید صاحب کو ایک جوان بیٹے کی موت کا جانکاہ صدمہ پہنچا اور پھر قوم مسلمانان کا ڈیڑھ لاکھ روپیہ جو ان کی امانت میں تھا ان کا ایک معتمد علیہ شریر
ہند و خیانت سے غبن کر کے اُن کو ایسا صدمہ اور ہم و غم پہنچا گیا جس سے ان کی تمام اندرونی طاقتیں اور قو تیں یکدفعہ سلب ہوگئیں اور جلد انہوں نے راہ عدم دیکھا.( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۶۹) خداوند علیم وخبیر سے خبر پا کر میں نے اپنے اشتہار ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء میں اس امر کو ظاہر کر دیا تھا کہ اب سید احمد خان صاحب کے سی ایس آئی کی موت کا وقت قریب ہے.افسوس ہے کہ ایک نظر دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا.سید صاحب غور سے پڑھیں کہ اب ملاقات کے عوض میں یہی اشتہار ہے.چنانچہ اس اشتہار کے ایک سال بعد سید صاحب وفات پاگئے.نزول مسیح - روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۷۰،۵۲۹) مرزا اعظم بیگ سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے ہمارے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے ہماری جائیداد کی ملکیت میں حصہ دار بننے کے لئے ہم پر نالش دائر کی اور ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنی فتحیابی کا یقین رکھ کر جواب دہی میں مصروف ہوئے.میں نے جب اس بارہ میں دُعا کی تو خدائے علیم کی طرف سے مجھے الہام ہوا کہ اُجِيْبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَكَائِكَ پس میں نے سب عزیزوں کو جمع کر کے کھول کر سُنا دیا کہ خدائے علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ تم اس مقدمہ میں ہرگز فتحیاب نہ ہو گے اس لئے اس سے دستبردار ہو جانا چاہئے.لیکن انہوں نے ظاہری وجوہات اور اسباب پر نظر کر کے اپنی فتحیابی کو تین خیال کر کے میری بات کی قدر نہ کی اور مقدمہ کی پیروی شروع کر دی اور عدالت ماتحت میں میرے بھائی کو فتح بھی ہو گئی.لیکن خدائے عالم الغیب کی وحی کے برخلاف کس طرح ہو سکتا تھا.بالآخر چیف کورٹ میں میرے بھائی کو شکست ہوئی اور اس طرح اس الہام کی صداقت سب پر ظاہر ہوگئی.( نزول مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۹۱،۵۹۰) ایسا اتفاق دو ہزار مرتبہ سے بھی زیادہ گذرا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری حاجت کے وقت مجھے اپنے الہام یا کشف سے یہ خبر دی کہ عنقریب کچھ روپیہ آنے والا ہے اور بعض وقت آنے والے روپیہ کی تعداد سے بھی خبر دے دی.اور بعض وقت یہ خبر دی کہ اس قدر روپیہ فلاں تاریخ میں اور فلاں شخص کے بھیجنے سے آنے والا ہے اور ایسا ہی ظہور میں آیا اور اس بات کے گواہ بھی بعض قادیان کے ہندو اور کئی سو مسلمان ہوں گے جو حلفاً بیان کر سکتے ہیں.اور اس قسم کے نشان دو ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہیں اور یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کیونکر خدا تعالیٰ حاجات کے وقت میں میرا متولی اور متکفل ہوتا رہا ہے.اور
اکثر عادت الہی مجھ سے یہی ہے کہ وہ پیش از وقت مجھے بتلا دیتا ہے کہ وہ دنیا کے انعامات میں سے کسی قسم کا انعام مجھ پر کرنا چاہتا ہے اور اکثر وہ مجھے بتلا دیتا ہے کہ کل تو یہ کھائے گا اور یہ پئے گا اور یہ تجھے دیا جائے گا اور ویسا ہی ظہور میں آ جاتا ہے کہ جو وہ مجھے بتلاتا ہے اور ان باتوں کی تصدیق چند ہفتہ میرے پاس رہنے سے ہر ایک شخص کر سکتا ہے.( تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۵ صفحه ۲۰۰،۱۹۹) ایک دفعہ مجھے قطعی طور پر الہام ہوا کہ آج ایسے روپے آئیں گے آنہ کم نہ زیادہ.چنانچہ قادیان کے آریوں کو ملزم کرنے کے لئے اس روپیہ کے آنے کی اطلاع دی گئی.تب تفتیش کے لئے ایک آریہ گیا اور ہنستا ہوا آیا کہ صرف پانچ روپیہ آئے ہیں.پھر الہام ہوا کہ اکیس روپیہ آئے ہیں.ایک اور آریہ پھر ڈاکخانہ میں گیا اور وہ خبر لایا کہ دراصل عنہ روپیہ آئے ہیں ڈاکخانہ والے نے غلطی سے پانچ روپے کہے تھے اور اسی موقعہ پر ایک شخص وزیر سنگھ نامی نے علاج کرانے کی غرض سے ایک روپیہ دے دیا.اس طرح پر پورے اکیس روپے ہو گئے.یہ ہیں رو پے منشی الہی بخش صاحب اکو نٹنٹ نے مجھے بھیجے تھے.اور جب ایسی صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور آریہ اس کے گواہ ہو گئے تب میں نے ایک روپیہ کی شیرینی آریوں کو کھلا دی تا ہمیشہ اس پیشگوئی کو یا درکھیں.( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۱۲ ) ایک دفعہ یہ وحی الہی میری زبان پر جاری ہوئی کہ عبداللہ خان ڈیرہ اسماعیل خان.وہ صبح کا وقت تھا اور اتفاقاً چند ہندو اس وقت موجود تھے.ان میں سے ایک ہندو کا نام بشند اس تھا.میں نے سب کو اطلاع دی کہ خدا نے مجھے یہ سمجھایا ہے کہ آج اس نام کے ایک شخص کی طرف سے کچھ روپیہ آئے گا.بشند اس بول اٹھا کہ میں اس بات کا امتحان کروں گا اور میں ڈاکخانہ میں جاؤں گا چونکہ قادیان میں ڈاک اُن دنوں میں دو پہر کے بعد دو بجے آتی تھی.وہ اسی وقت ڈاکخانہ میں گیا اور جواب لایا کہ ڈاک منشی کی زبانی معلوم ہوا کہ در حقیقت ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک شخص عبداللہ خان نے جوا کسٹرا اسٹنٹ ہے یہ بھیجا ہے.اور پھر اس نے بہت متعجب اور حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ یہ کیونکر معلوم ہو گیا.میں نے جواب دیا کہ وہ خدا جس کو تم لوگ نہیں پہچانتے اس نے یہ خبر دی ہے.روپیه ( نزول اسیح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۳۷، ۵۳۸) ایک دفعہ ہمیں اتفاقات پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل فقر اور تو کل پر کبھی کبھی ایسی حالت گذرتی ہے.اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا.سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے تو
اس ضرورت کے خیال نے ہم کو یہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دعا کریں.پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جا کر اس نہر کے کنارہ پر دُعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے.جب ہم دعا کر چکے تو دُعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا.جس کا ترجمہ یہ ہے دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں.تب ہم خوش ہو کر قادیان کی طرف واپس آئے اور بازار کا رخ کیا تاکہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں.چنانچہ ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالباً وہ روپیہ اسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۱۲ ) ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے.چنانچہ میں نے دو آریہ شرمپت اور ملاوامل ساکنان قادیان کو صبح کے وقت یعنی ڈاک آنے کے وقت سے بہت پہلے یہ پیشگوئی بتلا دی.مگر ان دونوں آریوں نے بوجہ مخالفت مذہبی کے اس بات پر ضد کی.کہ ہم تب مانیں گے کہ جب ہم میں سے کوئی ڈاکخانہ میں جاوے اور اتفاقاً ڈاکخانہ کا سب پوسٹ ماسٹر بھی ہندو ہی تھا.تب میں نے ان کی اس درخواست کو منظور کیا.اور جب ڈاک آنے کا وقت ہوا تو ان دونوں میں سے ملا وامل آریہ ڈاک لینے کے لئے گیا.اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ سرور خاں نے مبلغ غلط ( اروپے) بھیجے ہیں.اب یہ نیا جھگڑا پیش آیا کہ سرور خاں کون ہے.کیا وہ محمد لشکر خاں کا کوئی قرابتی ہے یا نہیں اور آریوں کا حق تھا کہ اس کا فیصلہ کیا جاوے تا اصل حقیقت معلوم ہو.تب منشی الہی بخش صاحب اکونٹنٹ مصنف عصائے موسیٰ کی طرف جو اس وقت ہوتی مردان میں تھے اور ابھی مخالف نہیں تھے خط لکھا گیا کہ اس جگہ یہ بحث در پیش ہے اور دریافت طلب یہ امر ہے کہ سرور خان کی محمد لشکر خان سے کچھ قرابت ہے یا نہیں.چند روز کے بعد منشی الہی بخش صاحب کا ہوتی مردان سے جواب آیا جس میں لکھا تھا که سرور خان ارباب لشکر خان کا بیٹا ہے.تب دونوں آریہ لاجواب رہ گئے.اب دیکھو یہ اس قسم کا علم غیب ہے کہ عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ بجز خدا کے کوئی اس پر قادر ہو سکے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۶۰) عرصہ گذرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا اور یہ بھی ان کو خوب معلوم تھا کہ بظاہر کوئی ایسی تقریب پیش نہیں ہے جو جائے امید ہو سکے بلکہ اس معاملہ میں ان کو ذاتی طور پر واقفیت تھی جس کی وہ شہادت دے سکتے ہیں.پس جبکہ
١٢٦٩ وہ ایسے مشکل اور فقدانِ اسباب حل مشکل سے کامل طور پر مطلع تھے اس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرت احدیت میں دعا کی جائے تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہو جائے اور دوسرے مخالفین کے لئے تائید الہی کا نشان پیدا ہو.ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہو جائیں.سو اسی دن دُعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے.تب یہ الہام ہوا.دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں.اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ فِي شَائِلِ مِقْيَاسِ.دن دل یو گوٹو امرتسر.“ یعنی دس دن کے بعد روپیہ آئے گا.خدا کی مددنزدیک ہے.اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دم اُٹھاتی ہے تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے.ایسا ہی مدد الہی بھی قریب ہے.اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرتسر بھی جاؤ گے.تو جیسا اس پیشگوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورہ بالا کے روبرو وقوع میں آیا.یعنی حسب منشاء پیشگوئی دس دن تک ایک خرمہرہ نہ آیا اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست را ولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہو گیا جس کی امید نہ تھی.اور اسی روز کہ جب دس دن کے گذرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب وغیرہ کا روپیہ آیا امرتسر بھی جانا پڑا.کیونکہ عدالت خفیفہ امرتسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اسی روز ایک سمن آ گیا.سو یہ وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی مفصل حقیقت پر اس جگہ کے چند آریوں کو بخوبی اطلاع ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۵۹ تا ۶۱ ۵ حاشیه در حاشیه نمبر۳) ایک دفعہ نواب علی محمد خان مرحوم رئیس لودھیانہ نے میری طرف خط لکھا کہ میرے بعض امور معاش بند ہو گئے ہیں آپ دعا کریں کہتا وہ کھل جائیں.جب میں نے دُعا کی تو مجھے الہام ہوا کہ کھل جائیں گے.میں نے بذریعہ خط اُن کو اطلاع دے دی.پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کھل گئے.اور ان کو بشدت اعتقاد ہو گیا.پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض اپنے پوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا.اور جس گھڑی انہوں نے خط ڈاک میں ڈالا اس گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس مضمون کا خط اُن کی طرف سے آنے والا ہے.تب میں نے بلا توقف ان کی طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط
۱۲۷۰ آپ روانہ کریں گے.دوسرے دن وہ خط آ گیا.جب میرا خط ان کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی کیونکہ میرے اس راز کی خبر کسی کو نہ تھی اور ان کا اعتقاد اس قدر بڑھا کہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہو گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یادداشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان متذکرہ بالا درج کر دیئے اور ہمیشہ ان کو پاس رکھتے تھے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۵۸،۲۵۷) ایک وکیل صاحب سیالکوٹ میں ہیں جن کا نام لالہ بھیم سین ہے.ایک مرتبہ جب انہوں نے اس ضلع میں وکالت کا امتحان دیا تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے ان کو بتلایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا مقدر ہے کہ اس ضلع کے کل اشخاص جنہوں نے وکالت یا مختاری کا امتحان دیا ہے ، فیل ہو جائیں گے مگر سب میں سے صرف تم ایک ہو کہ وکالت میں پاس ہو جاؤ گے.اور یہ خبر میں نے تمہیں کے قریب اور لوگوں کو بھی بتلائی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیالکوٹ کی تمام جماعت کی جماعت جنہوں نے وکالت یا مختار کاری کا امتحان دیا تھا فیل کئے گئے اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہو گئے اور اب تک وہ سیالکوٹ میں زندہ موجود ہیں.اور جو کچھ میں نے بیان کیا وہ حلفاً اس کی تصدیق کر سکتے ہیں.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ اصفحہ ۲۵۶) اس ملک پنجاب میں جب دیانند بانی مبانی آریہ مذہب نے اپنے خیالات پھیلائے اور سفلہ طبع ہندوؤں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر اور ایسے ہی دوسرے انبیاء کی تو ہین پر چالاک کر دیا اور خود بھی قلم پکڑتے ہی اپنی شیطانی کتابوں میں جابجا خدا کے تمام پاک اور برگزیدہ نبیوں کی تحقیر اور تو ہین شروع کی اور خاص اپنی کتاب ستیارتھ پر کاش میں بہت کچھ جھوٹ کی نجاست کو استعمال کیا اور بزرگ پیغمبروں کو گندی گالیاں دیں.تب مجھے اس کی نسبت الہام ہوا کہ :.خدا تعالیٰ ایسے موذی کو جلد تر دنیا سے اٹھالے گا.اور یہ بھی الہام ہوا سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرُ.یعنی آریہ مذہب کا انجام یہ ہوگا کہ خدا ان کو شکست دے گا اور آخر وہ آریہ مذہب سے بھاگیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے اور آخر کا لعدم ہو جائیں گے.یہ الہام مدت دراز کا ہے جس پر قریباً تیس برس کا عرصہ گذرا ہے.جس سے اس جگہ کے ایک آریہ یعنی لالہ شرمیت کو اطلاع دی گئی تھی اور اس کو کھلے طور پر کہا گیا تھا کہ ان کا بد زبان پنڈت دیا نند اب جلد تر فوت ہو جائے گا.چنانچہ ابھی ایک سال نہیں گذرا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اس پنڈت بد زبان سے اپنے دین کو نجات دی.( تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۰۷)
۱۲۷۱ میں نے اپنے اشتہار مورخہ ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ رومی سلطنت کے ارکان دولت بکثرت ایسے ہیں جن کا چال و چلن سلطنت کو مضر ہے اور جیسا اسی اشتہار میں درج ہے اس امر کی اشاعت کا یہ باعث ہوا تھا کہ ایک شخص مسلمی حسین بک کامی وائس قونصل مقیم کراچی جو سفیر روم کہلاتا تھا قادیان میں میرے پاس آیا.اور وہ خیال رکھتا تھا کہ وہ اور اس کے باپ سلطنت ٹرکی کے بڑے خیر خواہ اور امین اور دیانت دار ہیں مگر جب وہ میرے پاس آیا تو میری فراست نے گواہی دی کہ یہ شخص امین اور پاک باطن نہیں اور ساتھ ہی میرے خدا نے مجھے القا کیا کہ رومی سلطنت انہی لوگوں کے شامت اعمال کے سبب خطرہ میں ہے.سو میں اس سے بیزار ہوا لیکن اُس نے خلوت میں کچھ باتیں کرنے کے لئے درخواست کی چونکہ وہ مہمان تھا اس لئے اخلاقی حقوق کی وجہ اس کی درخواست کو رد نہ کیا گیا.پس خلوت میں اُس نے دعا کے لئے درخواست کی.تب اس کو وہی جواب دیا گیا جو اشتہا ر ۲۴ رمئی ۱۸۹۷ء میں درج کیا گیا تھا.اور اس تقریر میں دو پیشگوئیاں تھیں.(۱) ایک یہ کہ تم لوگوں کا چال چلن اچھا نہیں اور دیانت اور امانت کے نیک صفات سے تم محروم ہو (۲) دوم یہ کہ اگر تیری یہی حالت رہی تو تجھے اچھا پھل نہیں ملے گا اور تیرا انجام بد ہو گا.پھر اسی اشتہار میں یہ لکھا تھا کہ بہتر تھا کہ یہ میرے پاس نہ آتا.میرے پاس سے ایسی بدگوئی سے واپس جانا اس کی سخت بد قسمتی ہے.یہی وجہ تھی کہ میری نصیحت اُس کو بُری لگی اور اس نے جا کر میری بدگوئی کی.پھر اشتہار ۲۵ / جون ۱۸۹۷ء میں یہ لکھا گیا تھا کہ کیا ممکن نہ تھا کہ جو کچھ میں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ دراصل صحیح ہو اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں.یہ تو میرے الہامات تھے جو لاکھوں انسانوں میں بذریعہ اشتہارات شائع کئے گئے تھے.مگر افسوس کہ ہزار ہا مسلمان اور اسلامی ایڈیٹر مجھ پر جوش کے ساتھ ٹوٹ پڑے اور حسین کامی کی نسبت لکھا کہ وہ نائب خلیفۃ اللہ سلطان روم ہے اور پاک باطنی سے سراپا نور ہے.اور میری نسبت لکھا کہ یہ واجب القتل ہے.سو واضح ہو کہ اس واقعہ کے دو سال بعد یہ پیشگوئیاں ظہور میں آئیں اور حسین کامی کی خیانت اور غبن کا ہندوستان میں شور مچ گیا.چنانچہ ہم اخبار نیر آصفی مدراس مورخہ ۱۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء میں سے تھوڑا سا نقل کرتے ہیں.حسین کامی نے بڑی بے شرمی کے ساتھ (چندہ مظلومان کریٹ جو ہند میں جمع ہوا تھا اس کے تمام) روپیہ کو بغیر ڈکار لینے کے ہضم کر لیا.اور کارکن کمیٹی نے بڑی فراست اور عرق ریزی سے اگلوایا.یہ روپیہ ایک ہزار چھ سو کے قریب تھا جو کہ حسین کامی کی اراضیات مملو کہ کو نیلام
۱۲۷۲ کرا کر وصول کیا گیا اور اس غبن کے سبب حسین کامی کو موقوف کیا گیا.“ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۶۶،۵۶۵) عرصہ تخمینا بارہ برس کا ہوا ہے کہ ایک ہند و صاحب کہ جواب آریہ سماج قادیان کے ممبر اور صیح وسلامت موجود ہیں حضرت خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آنجناب کی پیشین گوئیوں سے سخت منکر تھا اور اس کا پادریوں کی طرح شدّت عناد سے یہ خیال تھا کہ یہ سب پیشگوئیاں مسلمانوں نے آپ بنالی ہیں ورنہ آنحضرت پر خدا نے کوئی امر غیب ظاہر نہیں کیا اور ان میں یہ علامت نبوت موجود ہی نہیں تھی.مگر سبحان اللہ کیا فضل خدا کا اپنے نبی پر ہے اور کیا بلندشان اس معصوم اور مقدس نبی کی ہے کہ جس کی صداقت کی شعاعیں اب بھی ایسی ہی چمکتی ہیں کہ جیسی قدیم سے چمکتی آئی ہیں.کچھ تھوڑے دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اس ہندو صاحب کا ایک عزیز کسی ناگہانی بیچ میں آ کر قید ہو گیا.اور اس کے ہمراہ ایک اور ہندو بھی قید ہوا.اور ان دونوں کا چیف کورٹ میں اپیل گذرا.اس حیرانی اور سرگردانی کی حالت میں ایک دن اس آریہ صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی کہ غیبی خبر اسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلا سکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے.تب میں نے جواب دیا کہ غیب تو خاصہ خدا کا ہے اور خدا کے پوشیدہ بھیدوں سے نہ کوئی نجومی واقف ہے نہ رمال نہ فال گیر نہ اور کوئی مخلوق.ہاں خدا جو آسمان و زمین کی ہر یک شدنی سے واقف ہے اپنے کامل اور مقدس رسولوں کو اپنے ارادہ اور اختیار سے بعض اسرار غیبیہ پر مطلع کرتا ہے اور نیز کبھی کبھی جب چاہتا ہے تو اپنے بچے رسول کے کامل تابعین پر جو اہلِ اسلام ہیں ان کی تابعداری کی وجہ سے اور نیز اس باعث سے کہ وہ اپنے رسول کے علوم کے وارث ہیں بعض اسرار پوشیدہ ان پر بھی کھولتا ہے تا اُن کے صدق مذہب پر ایک نشان ہو لیکن دوسری قو میں جو باطل پر ہیں جیسے ہندو اور ان کے پنڈت اور عیسائی اور ان کے پادری وہ سب ان کامل برکتوں سے بے نصیب ہیں.میرا یہ کہنا ہی تھا کہ وہ شخص اس بات پر اصراری ہو گیا کہ اگر اسلام کے متبعین کو دوسری قوموں پر ترجیح ہے تو اسی موقع پر اس ترجیح کو دکھلانا چاہئے اس کے جواب میں ہر چند کہا گیا کہ اس میں خدا کا اختیار ہے انسان کا اس پر حکم نہیں مگر اس آریہ نے اپنے انکار پر بہت اصرار کیا.غرض جب میں نے دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور دین اسلام کی عظمتوں سے سخت منکر ہے تب میرے دل میں خدا کی طرف سے بھی جوش ڈالا گیا کہ خدا اس کو اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لا جواب کرے اور میں نے دُعا کی کہ اے خداوند کریم تیرے نبی کریم کی عزت اور عظمت سے یہ شخص
۱۲۷۳ سخت منکر ہے اور تیرے نشانوں اور پیشین گوئیوں سے جو تو نے اپنے رسول پر ظاہر فرما ئیں سخت انکاری ہے اور اس مقدمہ کی آخری حقیقت کھلنے سے یہ لا جواب ہو سکتا ہے اور تو ہر بات پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی امر تیرے علم محیط سے مخفی نہیں.تب خدا نے جو اپنے نیچے دین اسلام کا حامی ہے اور اپنے رسول کی عزت اور عظمت چاہتا ہے رات کے وقت رؤیا میں کل حقیقت مجھ پر کھول دی اور ظاہر کیا کہ تقدیر الہی میں یوں مقدر ہے کہ اس کی مسل چیف کورٹ سے عدالت ماتحت میں پھر واپس آئے گی اور پھر اس عدالت ماتحت میں نصف قید اس کی تخفیف ہو جائے گی مگر بری نہیں ہو گا.اور جو اس کا دوسرا رفیق ہے وہ پوری قید بھگت کر خلاصی پائے گا.اور بری وہ بھی نہیں ہو گا.پس میں نے اس خواب سے بیدار ہو کر اپنے خدا وند کریم کا شکر کیا جس نے مخالف کے سامنے مجھ کو مجبور ہونے نہ دیا اور اسی وقت میں نے یہ رویا ایک جماعت کثیر کو سنا دیا اور اس ہند و صاحب کو بھی اسی دن خبر کر دی.اب مولوی صاحب !! آپ خود یہاں آ کر اور خود اس جگہ پہنچ کر جس طرح سے جی چاہے اس ہند و صاحب سے جو اس جگہ قادیان میں موجود ہے اور نیز دوسرے لوگوں سے دریافت کر سکتے ہیں کہ یہ خبر جو میں نے بیان کی ہے یہ ٹھیک درست ہے یا اس میں کچھ کمی بیشی ہے؟ براہین احمدیہ ہر چہار تحصص - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۷۷ تا ۲۷۹ حاشیه در حاشیہ نمبرا) ایک دفعہ مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے فرش کو آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کو اس عاجز نے بار بار پانی ڈال کر بجھایا ہے.اسی وقت میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہ یقین کامل یہ تعبیر ڈالی گئی کہ شیخ صاحب پر اور ان کی عزت پر سخت مصیبت آوے گی اور وہ مصیبت اور بلاصرف میری دعا سے دُور کی جاوے گی.میں نے اس خواب سے شیخ صاحب موصوف کو بذریعہ ایک مفضل خط کے اطلاع دے دی تھی.چنانچہ اس کے چھ ماہ بعد شیخ مہر علی صاحب ایک ایسے الزام میں پھنس گئے کہ انہیں پھانسی کا حکم دیا گیا ایسے نازک وقت میں اس کے بیٹے کی درخواست سے دعا کی گئی اور رہائی کی بشارت اُن کے بیٹے کو لکھی گئی چنا نچہ اس کے بعد وہ بالکل رہا ہو گئے.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۷۹) چند سال ہوئے ہیں کہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب تاجر مدراس جو اول درجہ کے مخلص جماعت میں سے ہیں قادیان میں آئے تھے.اور ان کی تجارت کے امور میں کوئی تفرقہ اور پریشانی واقعہ ہو گئی تھی.انہوں نے دُعا کے لئے درخواست کی تب یہ الہام ہوا جو ذیل میں درج ہے.
۱۲۷۴ قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے اس الہامی عبارت کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ ٹوٹا ہوا کام بنادے گا.مگر پھر کچھ عرصے کے بعد بنا بنایا توڑ دے گا.چنانچہ یہ الہام قادیان میں ہی سیٹھ صاحب کو سُنایا گیا.اور تھوڑے دن ہی گذرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے تجارتی امور میں رونق پیدا کر دی اور ایسے اسباب غیب سے پیدا ہوئے کہ فتوحات مالی شروع ہو گئے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ بنا بنایا کام ٹوٹ گیا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۰،۲۵۹) عرصہ قریباً پچیس برس کا گذر گیا ہے کہ مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے کہ جو کئی کوس تک چلی جاتی ہے.اور اس نالی پر ہزار ہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سرنالی کے کنارہ پر ہے.اس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت ان کا خون نالی میں پڑے.اور باقی حصہ اُن کے وجود کا نالی سے باہر ہے اور نالی شرقاً غرباً واقع ہے اور بھیڑوں کے سر نالی پر جنوب کی طرف سے رکھے گئے ہیں اور ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے.اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے گویا خدا تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں.اور میں اس میدان میں شمالی طرف پھر رہا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبح کرنے کے لئے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے.تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ لا یعنے ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو.اور میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے سمجھ لیا کہ ہمیں اجازت ہوگئی.گویا میرے منہ کے لفظ خدا کے لفظ تھے.تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے فی الفور اپنی بھیڑوں پر چھر میں پھیر دیں.اور چھریوں کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک دردناک طور پر تڑپنا شروع کیا.تب ان فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں.اور کہا کہ تم چیز کیا ہو.گوہ کھانے والی بھیٹر میں ہی ہو.میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ ایک سخت و باء ہوگی اور اس سے بہت لوگ اپنی شامت اعمال سے مریں الفرقان: ۷۸
۱۲۷۵ گے.اور میں نے یہ خواب بہتوں کو سُنا دی جن میں سے اکثر لوگ اب تک زندہ ہیں اور حلفاً بیان کر سکتے ہیں.پھر ایسا ہی ظہور میں آیا اور پنجاب اور ہندوستان اور خاص کر امرتسر اور لاہور میں اس قدر ہیضہ پھوٹا کہ لاکھوں جانیں اس سے تلف ہوئیں.اور اس قدرموت کا بازار گرم ہوا کہ مُردوں کو گاڑیوں پر لاد کر لے جاتے تھے اور مسلمانوں کا جنازہ پڑھنا مشکل ہو گیا.( تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۴،۲۶۳) یہ خدا کا قول ہے کہ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہو گی.روحانی اور جسمانی دونوں قسم پر مشتمل ہے.روحانی طور پر اس لئے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزار ہا لوگ کے مریضوں پر بیعت کرنے والے ایسے ہیں کہ پہلے ان کی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد اُن کے عملی حالات درست ہو گئے اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور میں صد ہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہوگئی ہے کہ کس طرح وہ جذبات نفسانیہ سے پاک ہوں.اور جسمانی امراض کی نسبت میں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ اکثر خطرناک امراض والے میری دعا اور توجہ سے شفایاب ہوئے ہیں.میرا لڑ کا مبارک احمد قریباً دو برس کی عمر میں ایسا بیمار ہوا کہ حالت یاس ظاہر ہو گئی.اور ابھی میں دعا کر رہا تھا کہ کسی نے کہا کہ لڑکا فوت ہو گیا ہے.یعنی اب بس کرو دعا کا وقت نہیں.مگر میں نے دعا کرنا بس نہ کیا اور جب میں نے اسی حالت توجہ الی اللہ میں لڑکے کے بدن پر ہاتھ رکھا تو معا مجھے اس کا دم آنا محسوس ہوا.اور ابھی میں نے ہاتھ اس سے علیحدہ نہیں کیا تھا کہ صریح طور پر لڑ کے میں جان محسوس ہوئی اور چند منٹ کے بعد ہوش میں آکر بیٹھ گیا.اور پھر طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا.جس سے لڑکا بالکل بے ہوش ہو گیا اور بے ہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا.مجھے خیال آیا کہ اگر چہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اس پاک وہی کی تکذیب کریں گے جو اُس نے فرمایا ہے اِنّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِى الدَّارِ.یعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا.اس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا.قریباً رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہوگئی اور دل میں خوف پیدا
ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اور ہی بلا ہے.تب میں کیا بیان کروں کہ میرے دل کی کیا حالت تھی کہ خدانخواستہ اگر لڑ کا فوت ہو گیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کے لئے بہت کچھ سامان ہاتھ آ جائے گا.اسی حالت میں میں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا.اور معاً کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسر آ گئی جو استجابت دعا کے لئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی میں شائد تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے.تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چار پائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے.اور میں چار رکعت پوری کر چکا تھا.فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام ونشان نہیں اور ہذیان اور بے تابی اور بے ہوشی بالکل دُور ہو چکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی.مجھے اس خدا کی قدرت کے نظارہ نے الہی طاقتوں اور دعا قبول ہونے پر ایک تازہ ایمان بخشا.پھر ایک مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ نواب سردار محمد علی خان رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا قادیان میں سخت بیمار ہو گیا اور آثار یاس اور نومیدی کے ظاہر ہو گئے.انہوں نے میری طرف دعا کے لئے التجا کی میں نے اپنے بیت الدعا میں جا کر اُن کے لئے دعا کی.اور دعا کے بعد معلوم ہوا کہ گویا تقدیر مبرم ہے اور اس وقت دعا کرنا عبث ہے.تب میں نے کہا کہ یا الہی اگر دعا قبول نہیں ہوتی تو میں شفاعت کرتا ہوں کہ میرے لئے اس کو اچھا کر دے.یہ لفظ میرے منہ سے نکل گئے مگر بعد میں میں بہت نادم ہوا کہ ایسا میں نے کیوں کہا اور ساتھ ہی مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی.مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِه یعنی کس کو مجال ہے کہ بغیر اذنِ الہی شفاعت کرے.میں اس وحی کوشن کر چپ ہو گیا.اور ابھی ایک منٹ نہیں گذرا ہوگا کہ پھر یہ وحی الہی ہوئی کہ " اِنَّكَ اَنتَ الْمَجَازِ یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی.بعد میں پھر میں نے دعا پر زور دیا اور مجھے محسوس ہوا کہ اب یہ دعا خالی نہیں جائے گی.چنانچہ اسی دن بلکہ اُسی وقت لڑکے کی حالت رو بصحت ہوگئی.گویا وہ قبر میں سے نکلا.میں یقیناً جانتا ہوں کہ معجزات احیاء موتی حضرت عیسی علیہ السلام اس سے زیادہ نہ تھے.میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس قسم کے احیائے موتی بہت سے میرے ہاتھ سے ظہور میں آچکے ہیں اور ایک دفعہ بشیر احمد میرالڑکا آنکھوں کی بیماری سے بیمار ہو گیا.اور مدت تک علاج ہوتا رہا کچھ فائدہ نہ ہوا.تب اس کی اضطراری حالت دیکھ کر میں نے جناب الہی میں دُعا کی تو یہ الہام ہوا " بَرَّقَ طِفْلِی بَشِیر“ یعنی میرے لڑکے
۱۲۷۷ بشیر نے آنکھیں کھول دیں.تب اُسی دن خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اُس کی آنکھیں اچھی ہوگئیں.اور ایک مرتبہ میں خود بیمار ہو گیا.یہاں تک کہ قرب اجل سمجھ کر تین مرتبہ مجھے سورۃ یس سُنائی گئی.مگر خدا تعالیٰ نے میری دُعا کو قبول فرما کر بغیر ذریعہ کسی دوا کے مجھے شفا بخشی.اور جب میں صبح اٹھا تو بالکل شف تھی اور ساتھ ہی یہ وحی الہی ہوئی وَ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِشِفَاءٍ مِّنْ مثله یعنی اگر تم اس رحمت کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کی تو اس شفاء کی کوئی نظیر پیش کرو.اسی طرح بہت سی ایسی صورتیں پیش آئیں جو محض دعا اور توجہ سے خدا تعالیٰ نے بیماروں کو اچھا کر دیا جن کا شمار کرنا مشکل ہے.ابھی ۱۸ جولائی ۱۹۰۶ ء کے دن سے جو پہلی رات تھی میرا لڑکا مبارک احمد خسرہ کی بیماری سے سخت گھبراہٹ اور اضطراب میں تھا.ایک رات تو شام سے صبح تک تڑپ تڑپ کر اُس نے بسر کی اور ایک دم نیند نہ آئی اور دوسری رات میں اس سے سخت تر آثار ظاہر ہوئے اور بے ہوشی میں اپنی بوٹیاں تو ڑتا تھا اور ہذیان کرتا تھا اور ایک سخت خارش بدن میں تھی.اس وقت میرا دل دردمند ہوا اور الہام ہوا.اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُم تب معادعا کے ساتھ مجھے کشفی حالت میں معلوم ہوا کہ اس کے بستر پر چوہوں کی شکل پر بہت سے جانور پڑے ہیں اور وہ اس کو کاٹ رہے ہیں اور ایک شخص اٹھا اور اُس نے تمام وہ جانور اکٹھے کر کے ایک چادر میں باندھ دیئے اور کہا کہ اس کو باہر پھینک آؤ اور پھر وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نہیں جانتا کہ پہلے وہ کشفی حالت دور ہوئی یا پہلے مرض دور ہو گئی.اور لڑ کا آرام سے فجر تک سویا رہا.اور چونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے یہ خاص معجزہ مجھے کو عطا فرمایا ہے اس لئے میں یقینا کہتا ہوں کہ اس معجزہ شفاء الا مراض کے بارے میں کوئی شخص روئے زمین پر میرا مقابلہ نہیں کرسکتا اور اگر مقابلہ کا ارادہ کرے تو خدا اس کو شرمندہ کرے گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶ ۸ تا ۹۱ حاشیه) میں نے کئی دفعہ ایسی منذر خواہیں دیکھیں جن میں صریح طور پر یہ بتلایا گیا تھا کہ میر ناصر نواب جو میرے خسر ہیں ان کے عیال کے متعلق کوئی مصیبت آنے والی ہے...غرض جب اس قدر مجھے الہام ہوئے جن سے یقیناً میرے پر کھل گیا کہ میر صاحب کے عیال پر کوئی مصیبت در پیش ہے تو میں دُعا میں لگ گیا.اور وہ اتفاقاً مع اپنے بیٹے اسحاق اور اپنے گھر کے لوگوں کے لاہور جانے کو تھے.میں نے ان کو یہ خواہیں سُنا دیں اور لاہور جانے سے روک دیا.اور انہوں نے کہا کہ میں آپ کی اجازت کے بغیر ہرگز نہیں جاؤں گا.جب دوسرے دن کی صبح ہوئی تو میر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ چڑھ
۱۲۷۸ گیا اور سخت گھبراہٹ شروع ہو گئی.اور دونوں طرف بن ران میں گلٹیاں نکل آئیں اور یقین ہو گیا کہ طاعون ہے.کیونکہ اس ضلع کے بعض مواضع میں طاعون پھوٹ پڑی ہے.تب معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا خوابوں کی تعبیر یہی تھی.اور دل میں سخت غم پیدا ہوا.اور میں نے میر صاحب کے گھر کے لوگوں کو کہہ دیا کہ میں تو دعا کرتا ہوں آپ تو بہ واستغفار بہت کریں کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ نے دشمن کو اپنے گھر میں بلایا ہے اور یہ کسی لغزش کی طرف اشارہ ہے.اور اگر چہ میں جانتا تھا کہ موت فوت قدیم سے ایک قانون قدرت ہے.لیکن یہ خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ ہمارے گھر میں کوئی طاعون سے مر گیا تو ہماری تکذیب میں ایک شور قیامت برپا ہو جائے گا.اور پھر گومیں ہزار نشان بھی پیش کروں تب بھی اس اعتراض کے مقابل پر کچھ بھی ان کا اثر نہیں ہو گا.کیونکہ میں صد ہا مرتبہ لکھ چکا ہوں اور شائع کر چکا ہوں اور ہزار ہا لوگوں میں بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے گھر کے تمام لوگ طاعون کی موت سے بچے رہیں گے.غرض اس وقت جو کچھ میرے دل کی حالت تھی میں بیان نہیں کر سکتا.میں فی الفور دعا میں مشغول ہو گیا.اور بعد دُعا کے عجیب نظارہ قدرت دیکھا کہ دو تین گھنٹہ میں خارق عادت کے طور پر اسحاق کا تپ اُتر گیا.اور گلٹیوں کا نام ونشان نہ رہا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا.اور نہ صرف اس قدر بلکہ پھر نا چلنا کھیلنا دوڑنا شروع کر دیا گویا کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی تھی.یہی ہے احیائے موتی.میں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت عیسی کے احیائے موتی میں اس سے ذرہ کچھ زیادہ نہ تھا.اب لوگ جو چاہیں ان کے معجزات پر حاشیے چڑھا ئیں مگر حقیقت یہی تھی.جو شخص حقیقی طور پر مر جاتا ہے اور اس دنیا سے گذر جاتا ہے اور ملک الموت اس کی رُوح کو قبض کر لیتا ہے وہ ہرگز واپس نہیں آتا.دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۰ تا ۳۴۲) ایک دفعہ میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی نسبت مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ان کی زندگی کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں.جو زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہیں.بعد میں وہ یکدفعہ سخت بیمار ہو گئے یہاں تک کہ صرف استخوان باقی رہ گئیں اور اس قدر دبلے ہو گئے کہ چار پائی پر بیٹھے ہوئے نہیں معلوم ہوتے تھے کہ کوئی اس پر بیٹھا ہوا ہے یا خالی چار پائی ہے.پاخانہ پیشاب اوپر ہی نکل جاتا تھا.اور بے ہوشی کا عالم رہتا تھا.میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضی مرحوم بڑے حاذق طبیب تھے.انہوں الزمر :٤٣
۱۲۷۹ نے کہہ دیا کہ اب یہ حالت یاس اور نومیدی کی ہے صرف چند روز کی بات ہے.مجھ میں اُس وقت جوانی کی قوت موجود تھی اور مجاہدات کی طاقت تھی اور میری فطرت ایسی واقع ہے کہ میں ہر ایک بات پر خدا کو قادر جانتا ہوں اور درحقیقت اس کی قدرتوں کا کون انتہا پا سکتا ہے اور اس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں بجز ان امور کے جو اس کے وعدہ کے برخلاف یا اس کی پاک شان کے منافی اور اس کی توحید کی ضد ہیں.اس لئے میں نے اس حالت میں بھی ان کے لئے دعا کرنی شروع کی.اور میں نے دل میں یہ مقرر کر لیا کہ اس دُعا میں میں تین باتوں میں اپنی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہوں.ایک یہ کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا میں حضرت عزت میں اس لائق ہوں کہ میری دُعا قبول ہو جائے.دوسری یہ کہ کیا خواب اور الہام جو وعید کے رنگ میں آتے ہیں اُن کی تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ تیسری یہ کہ کیا اس درجہ کا بیمار جس کے صرف استخوان باقی ہیں دُعا کے ذریعہ سے اچھا ہو سکتا ہے یا نہیں؟ غرض میں نے اس بنا پر دعا کرنی شروع کی پس قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ دعا کے ساتھ ہی تغیر شروع ہو گیا.اور اس اثنا میں ایک دوسرے خواب میں میں نے دیکھا کہ وہ گویا اپنے دالان میں اپنے قدموں سے چل رہے ہیں.اور حالت یہ تھی کہ دوسرا شخص کروٹ بدلتا تھا.جب دعا کرتے کرتے پندرہ دن گزرے تو ان میں صحت کے ایک ظاہری آثار پیدا ہو گئے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند قدم چلوں.چنانچہ وہ کسی قدر سہارے سے اٹھے اور سوٹے کے سہارے سے چلنا شروع کیا اور پھر سوٹا بھی چھوڑ دیا.چند روز تک پورے تندرست ہو گئے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۵ ۲۶۶) پانچواں نشان جو ان دنوں میں ظاہر ہوا وہ ایک دُعا کا قبول ہونا ہے جو درحقیقت احیائے موتی میں داخل ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عبدالکریم نام ولد عبدالرحمن ساکن حیدر آباد دکن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے.قضاء و قدر سے اُسے سگ دیوانہ کاٹ گیا.ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا.چند روز تک اس کا کسولی میں علاج ہوتا رہا.پھر وہ قادیان میں واپس آیا.تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کتے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں اور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہو گئی.تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل
۱۲۸۰ سخت بے قرار ہوا اور دُعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہوگئی.ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مر جائے گا.ناچار اس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اس حالت میں اس کا کوئی علاج بھی ہے؟ اس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں.مگر اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہو گئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا.کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا.اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مر گیا تو ایک بُرے رنگ میں اس کی موت شماتت اعداء کا موجب ہو گی.تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بے قراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے.اور اگر پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مردہ زندہ ہو جائے.غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آ گئی.اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلط میرے دل پر کر لیا.تب اس بیمار پر جو درحقیقت مُردہ تھا اس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے.اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یک دفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رُخ کیا اور اُس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا.تب اس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا.بلکہ پانی سے وضو کر کے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہا.اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی.یہاں تک کہ چند روز تک بکلّی صحت یاب ہو گیا.میرے دل میں فی الفور ڈالا گیا کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پیدا ہوگئی تھی یہ اس لئے نہیں تھی کہ وہ دیوانگی اس کو ہلاک کرے بلکہ اس لئے تھی کہ تا خدا کا نشان ظاہر ہو.تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۸۰ - ۴۸۱) مجھے دماغی کمزوری اور دوران سر کی وجہ سے بہت سی ناطاقتی ہو گئی تھی یہاں تک کہ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اب میری حالت بالکل تالیف تصنیف کے لائق نہیں رہی اور ایسی کمزوری تھی کہ گویا بدن میں رُوح نہیں تھی.اس حالت میں مجھے الہام ہوا.تُرَدَّ إِلَيْكَ اَنْوَارُ الشَّبَابِ.“ یعنی جوانی کے نور تیری طرف واپس کئے.بعد اس کے چند روز میں ہی مجھے محسوس ہوا کہ میری گم شدہ قوتیں پھر واپس آتی جاتی ہیں اور تھوڑے دنوں کے بعد مجھ میں اس قدر طاقت ہو گئی کہ میں ہر روز دو دو جز نو تالیف کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھ سکتا ہوں اور نہ صرف لکھنا بلکہ سوچنا اور فکر کرنا جونئی تالیف کے لئے ضروری ہے پورے طور پر
۱۲۸۱ میتر آ گیا.ہاں دو مرض میرے لاحق حال ہیں.ایک بدن کے اوپر کے حصہ میں اور دوسری بدن کے نیچے کے حصہ میں.اوپر کے حصہ میں دوران سر ہے اور نیچے کے حصہ میں کثرت پیشاب ہے اور یہ دونوں مرضیں اسی زمانہ سے ہیں.جس زمانہ سے میں نے اپنا دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا شائع کیا ہے.میں نے ان کے لئے دعائیں بھی کیں مگر منع میں جواب پایا.اور میرے دل میں القاء کیا گیا کہ ابتداء سے مسیح موعود کے لئے یہ نشان مقرر ہے کہ وہ دو زرد چادروں کے ساتھ دوفرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اُترے گا.سو یہ وہی دو زرد چادریں ہیں جو میری جسمانی حالت کے ساتھ شامل کی گئیں.انبیاء علیہم السلام کے اتفاق سے زرد چادر کی تعبیر بیماری ہے اور دو زرد چادر میں دو بیماریاں ہیں مشتمل ہیں.اور میرے پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی کھولا گیا ہے کہ دو زرد چادروں سے مراد دو بیماریاں ہیں.اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ پورا ہوتا.جو دو حصّہ بدن پر (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۱۹-۳۲۰) ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا.یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ یاسین سُنائی.جب تیسری مرتبہ سورہ یسین سُنائی گئی تو میں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جو اب وہ دنیا سے گذر بھی گئے دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار دمبدم حاجت ہو کر خون آتا تھا.سولہ دن برابر ایسی حالت رہی اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا.وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہو گیا.حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری.جب بیماری کو سولہواں دن چڑھا تو اس دن بکلی حالات یاس ظاہر ہو کر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یسین سنائی گئی.اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہو گا.تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ.اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اس سے تو شفا پائے گا.چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا اور میں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن
۱۲۸۲ میں درد ناک جلن تھی اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اس حالت سے نجات ہومگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلی مجھے چھوڑ گئی اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا.جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا.وَإِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِشِفَاءٍ مِّنْ مِثْلِهِ یعنی اگر تمہیں اس نشان میں شک ہو جو شفاء دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفاء پیش کرو.یہ واقعہ ہے جس کی پچاس آدمی سے زیادہ لوگوں کو خبر ہے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ اصفحه ۲۰۹،۲۰۸) ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی ایکدم قرار نہ تھا.کسی شخص سے میں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے اُس نے کہا کہ علاج دندان اخراج دندان اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا.تب اس وقت مجھے غنودگی آگئی اور میں زمین پر بے تابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چار پائی پاس بچھی تھی.میں نے بے تابی کی حالت میں اس چار پائی کی پائینتی پر اپنا سر رکھ دیا اور تھوڑی سی نیند آ گئی.جب میں بیدار ہوا تو درد کا نام ونشان نہ تھا اور زبان پر یہ الہام جاری تھا.اِذَا مَرِضْتَ فَهُوَ يَشْفِی.یعنی جب تو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۶ ۲۴۷) ۲۷ جنوری ۱۹۰۵ء کو حضرت اقدس کے دائیں رخسارہ مبارک پر اماس سا نمودار ہوا جس سے تکلیف محسوس ہوئی.حضور نے دعا فرمائی تو ذیل کے فقرات الہام ہوئے.دم کرنے سے فورا صحت ہو گئی.بِسمِ اللهِ الْكَافِى.بِسْمِ اللهِ الشَّافِى.بِسْمِ اللهِ الغَفُورِ الرَّحِيمِ.بِسْمِ اللهِ الْبَرِّ الْكَرِيمِ.يَا حَفِيظُ يَا عَزِيزُ يَا رَفِيُقُ يَا وَلِيُّ اشْفِنِي - الحکم جلد ۹ نمبر ۴ مورخه ۳۱ / جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۸.تذکره صفحه ۴۴۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء) میں نے بعض بیماریوں میں آزمایا ہے اور دیکھا ہے کہ محض دعا سے اس کا فضل ہوا اور مرض جاتا رہا
۱۲۸۳ ہے.ابھی دو چار دن ہوئے ہیں کثرت پیشاب اور اسہال کی وجہ سے میں مضمحل ہو گیا تھا.میں نے دُعا کی تو الہام ہوا.دُعَاءُ كَ مُسْتَجَابٌ.اس کے بعد ہی دیکھا کہ وہ شکایت جاتی رہی.خدا ایک ایسا نسخہ ہے جو سارے نسخوں سے بہتر ہے اور چھپانے کے قابل ہے مگر پھر دیکھتا ہوں کہ یہ بخل ہے اس لئے ظاہر کرنا پڑتا ہے.الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶.تذکرہ صفحہ ۳۸۵ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) ایک دفعہ قادیان کا ایک آریہ جو سر گرم آریہ ہے ملا وامل نام مرض دق میں مبتلا ہو گیا اور تپ پیچھا نہیں چھوڑتا تھا اور آثار نومیدی ظاہر ہوتے جاتے تھے.چنانچہ وہ ایک دن میرے پاس آکر علاج کا طلبگار ہوا اور پھر اپنی زندگی سے نومید ہو کر بے قراری سے رویا اور میں نے اس کے حق میں دعا کی.خدا تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا.قُلْنَا يَا نَارُ كُوْنِي بَرْدًا وَّ سَلَامًا یعنے ہم نے کہا کہ اے تپ کی آگ سرد اور سلامتی ہو جا.چنانچہ بعد اس کے اُسی ہفتہ میں وہ ہندو اچھا ہو گیا اور اب تک زندہ موجود ہے.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۵۳۸) میاں عبداللہ سنوری جو علاقہ پٹیالہ میں پٹواری ہیں ایک مرتبہ ان کو ایک کام پیش آیا جس کے ہونے کے لئے انہوں نے ہر طرح سے کوشش کی اور بعض وجوہ سے ان کو اس کام کے ہو جانے کی امید بھی ہو گئی تھی.پھر انہوں نے دعا کے لئے ہماری طرف التجا کی.ہم نے جب دعا کی تو بلا توقف الہام ہوا.”اے بسا آرزو کہ خاک شدہ تب میں نے ان کو کہہ دیا کہ یہ کام ہرگز نہیں ہو گا اور وہ الہام سنا دیا اور آخر کار ایسا ظہور میں آیا اور کچھ ایسے موانع پیش آئے کہ وہ کام ہوتا ہوتا رہ گیا.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحه ۶۱۲ ) منجملہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کے جو میری تائید میں ظاہر ہوئے نواب صدیق حسن خان وزیر ریاست بھوپال کے بارہ میں نشان ہے اور وہ یہ ہے کہ نواب صدیق حسن خان نے بعض اپنی کتابوں میں لکھا تھا کہ جب مہدی معہود پیدا ہو گا تو غیر مذاہب کے سلاطین گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور یہ ذکر کرتے کرتے یہ بھی بیان کر دیا کہ چونکہ اس ملک میں سلطنت برطانیہ ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کے ظہور کے وقت اس ملک کا عیسائی بادشاہ اسی طرح مہدی کے روبرو پیش کیا جائے گا.یہ الفاظ تھے جو اونہوں نے اپنی کتاب میں شائع کئے تھے جواب تک ان کی کتابوں میں موجود ہیں اور یہی موجب بغاوت سمجھے گئے.
۱۲۸۴ چونکہ نواب صدیق حسن خان کے دل میں خشک وہابیت کا خمیر تھا اس لئے انہوں نے غیر قوموں کو صرف مہدی کی تلوار سے ڈرایا اور آخر پکڑے گئے.اور نواب ہونے سے معطل کئے گئے.اور بڑی انکسار سے میری طرف خط لکھا کہ میں اُن کے لئے دعا کروں.تب میں نے اس کو قابلِ رحم سمجھ کر اس کے لئے دُعا کی تو خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سرکوبی سے اُس کی عزت بچائی گئی.“ میں نے یہ اطلاع بذریعہ خط اُن کو دے دی اور کئی اور لوگوں کو بھی جو ان دنوں میں مخالف تھے یہی اطلاع دی.چنانچہ منجملہ ان کے حافظ محمد یوسف ضلع دار نہر حال پیشتر ساکن امرتسر اور مولوی محمد حسین بٹالوی ہیں.آخر کچھ مدت کے بعد اُن کی نسبت گورنمنٹ کا حکم آگیا کہ صدیق حسن خان کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے.گویا یہ سمجھا گیا کہ جو کچھ اس نے بیان کیا ایک مذہبی پورا نا خیال ہے جو ان کے دل میں تھا بغاوت کی نیت نہیں تھی.لے نوٹ بر حاشیہ ) نواب صدیق حسن خان پر جو یہ ابتلا پیش آیا وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے.انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کر کے واپس بھیج دیا تھا.میں نے دعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے.سوایسا ہی ظہور میں آیا.( تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۶۷ تا ۴۷۰) ۱۹۰۰ء میں ایسا اتفاق ہوا کہ میرے چچا زاد بھائیوں میں سے امام الدین نام ایک سخت مخالف تھا.اُس نے یہ ایک فتنہ برپا کیا کہ ہمارے گھر کے آگے ایک دیوار کھینچ دی اور ایسے موقع پر دیوار کھینچی کہ مسجد میں آنے جانے کا راستہ رک گیا.اور جو مہمان میری نشست کی جگہ پر میرے پاس آتے تھے یا مسجد میں آتے تھے وہ بھی آنے سے رُک گئے اور مجھے اور میری جماعت کو سخت تکلیف پہنچی گویا ہم محاصرہ میں آگئے.ناچار دیوانی میں منشی خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ حج کے محکمہ میں نالش کی گئی.جب نالش ہو چکی تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مقدمہ نا قابل فتح ہے اور اس میں یہ مشکلات ہیں کہ جس زمین پر دیوار کھینچی گئی ہے اس کی نسبت کسی پہلے وقت کی مسل کے رو سے ثابت ہوتا ہے کہ مدعا علیہ یعنی امام الدین قدیم سے اس کا قابض ہے اور یہ زمین دراصل کسی اور شریک کی تھی جس کا نام غلام جیلانی تھا اور اس کے قبضہ میں سے نکل گئی تھی.تب اس نے امام الدین کو اس زمین کا قابض خیال کر کے گورداسپور میں بصیغۂ دیوانی نالش کی تھی اور بوجہ ثبوت مخالفانہ قبضہ کے وہ نالش خارج ہو گئی تھی تب سے امام الدین کا اُس پر قبضہ چلا آتا
۱۲۸۵ ہے.اب اسی زمین پر امام الدین نے دیوار کھینچ دی ہے کہ یہ میری زمین ہے.غرض نالش کے بعد ایک پرانی مسل کے ملاحظہ سے یہ ایسا عقدہ کا نیل ہمارے لئے پیش آ گیا تھا جس سے صریح معلوم ہوتا تھا کہ ہمارا دعوئی خارج کیا جائے گا کیونکہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے ایک پورانی مسل سے یہی ثابت ہوتا تھا کہ اس زمین پر قبضہ امام الدین کا ہے.اس سخت مشکل کو دیکھ کر ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین نے ہمیں یہ بھی صلاح دی تھی کہ بہتر ہو گا کہ اس مقدمہ میں صلح کی جائے.یعنی امام الدین کو بطور خود کچھ روپیہ دے کر راضی کر لیا جائے.لہذا میں نے مجبوراً اس تجویز کو پسند کر لیا تھا.مگر وہ ایسا انسان نہیں تھا جو راضی ہوتا.اس کو مجھ سے بلکہ دین اسلام سے ایک ذاتی بغض تھا اور اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ مقدمہ چلانے کا ان پر قطعا دروازہ بند ہے.لہذا وہ اپنی شوخی میں اور بھی بڑھ گیا.آخر ہم نے اس بات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا.مگر جہاں تک ہم نے اور ہمارے وکیل نے سوچا کوئی بھی صورت کامیابی کی نہیں تھی کیونکہ پورانی مسل سے امام الدین کا ہی قبضہ ثابت ہوتا تھا.اور امام الدین کی یہاں تک بدنیت تھی کہ ہمارے گھر کے آگے جو صحن تھا جس میں آکر ہماری جماعت کے یکے ٹھہرتے تھے وہاں ہر وقت مزاحمت کرتا اور گالیاں نکالتا تھا.اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اس نے یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ ہمارا مقدمہ خارج ہونے کے بعد ایک لمبی دیوار ہمارے گھر کے دروازوں کے آگے کھینچ دے تا ہم قیدیوں کی طرح محاصرہ میں آجائیں اور گھر سے باہر نکل نہ سکیں.اور نہ باہر جاسکیں.یہ دن بڑی تشویش کے تھے یہاں تک کہ ہم ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ کا مصداق ہو گئے اور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی.اس لئے جناب الہی میں دُعا کی گئی اور اس سے مدد مانگی گئی.تب بعد دُعا مندرجہ ذیل الہام ہوا اور یہ الہام علیحدہ علیحدہ وقت کے نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ ایک ہی وقت میں ہوا.مجھے یاد ہے کہ اس وقت سید فضل شاہ صاحب لاہوری برادر سید ناصر شاہ صاحب او در سیر متعین بارہ مولا کشمیر میرے پیر دبارہا تھا اور دو پہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا.میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں.چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ لے لیا.پس ایسا ہوا کہ ہر ایک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الہی کا جیسا کہ سنت اللہ ہے زبان پر نازل ہوتا تھا اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دوسرا فقرہ وحی الہی کا زبان پر جاری ہوتا تھا.یہاں تک کہ کل وحی الہی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہوری کی قلم سے لکھی گئی اور اس میں تفہیم ہوئی کہ یہ اس
دیوار کے متعلق ہے جو امام الدین نے کھینچی ہے جس کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے اور یہ تفہیم ہوئی کہ انجام کار اس مقدمہ میں فتح ہو گی.چنانچہ میں نے اپنی ایک کثیر جماعت کو یہ وحی الہی سنادی اور اس کے معنی اور شان نزول سے اطلاع دے دی اور اخبار الحکم میں چھپوا دیا اور سب کو کہہ دیا کہ اگر چہ مقدمہ اب خطر ناک اور صورت نومیدی کی ہے مگر آخر خدا تعالیٰ کچھ ایسے اسباب پیدا کر دے گا جس میں ہماری فتح ہوگی کیونکہ وحی الہی کا خلاصہ مضمون یہی تھا.اب ہم اس وحی الہی کو معہ ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے.الرُّحَى تَدُورُ وَ يَنْزِلُ الْقَضَاءُ إِنَّ فَضْلَ اللهِ لَاتٍ ولَيْسَ لَاحَدٍ أَنْ يَّرُدَّ مَا أَتَى قُلْ إِى وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقِّ لَا يَتَبَدَّلُ وَلَا يَخْفى.وَيَنْزِلُ مَا تَعُجِبُ مِنْهُ.وَحُيِّ مِّنْ رَّبِّ السَّمَاوَاتِ الْعُلَى.إِنَّ رَبِّي لَا يَضِلُّ وَلَا يَنْسى ظَفَرٌ مُّبِينٌ.وَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى أَنْتَ مَعِي وَأَنَا مَعَكَ قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْهُ فِي غَيْهِ يَتَمَطَّى.إِنَّهُ مَعَكَ وَ إِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَ مَا أَخْفَى لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ.يَعْلَمُ كُلَّ شَيْءٍ وَّ يَرَى إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوُا وَ الَّذِينَ هُمْ يُحْسِنُونَ الْحُسُنِي إِنَّا اَرْسَلْنَا أَحْمَدَ إِلَى قَوْمِهِ فَاَعْرَضُوا وَ قَالُوا كَذَّابٌ اَشِرٌّ وَ جَعَلُوا يَشْهَدُونَ عَلَيْهِ وَ يَسِيلُونَ إِلَيْهِ كَمَاءٍ مُنْهَمِرٍ.إِنَّ حِبّى قَريبٌ.إِنَّهُ قَريبٌ مُّسْتَتِرٌ لے چکی پھرے گی اور قضا و قدر نازل ہوگی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی.یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اس کو رد کر سکے.کہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی.یہ اس خدا کی وجی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے.میرا رب اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں.سو تمہیں اس مقدمہ میں کھی کھلی فتح ہوگی مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقرر کر رکھا ہے.تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں تو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اور ناز اور تکبر میں چھوڑ دے.وہ قادر تیرے ساتھ ہے اس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں وہ بھی اس کو معلوم ہیں.وہی خدا حقیقی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں.وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے اور جو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے اور وہ خدان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام بار یک لوازم کو ادا کرتے ہیں.سطحی طور پر نیکی نہیں کرتے.ہم نے احمد کو چھپنے اس عاجز کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس قوم اس سے روگرداں ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذاب ہے دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے اور انہوں نے عدالتوں میں اس پر گواہیاں دیں تا اس کو گرفتار کرا دیں.اور وہ ایک تند سیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں.مگر وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے.
۱۲۸۷ یہ پیشگوئی ہے جو اس وقت کی گئی تھی جبکہ مخالف دعویٰ سے کہتے تھے کہ بالیقین مقدمہ خارج ہو جائے گا اور میری نسبت کہتے تھے کہ ہم ان کے گھر کے تمام دروازوں کے سامنے دیوار کھینچ کر وہ دکھ دیں گے کہ گویا وہ قید میں پڑ جائیں گے اور جیسا کہ میں ابھی لکھا چکا ہوں خدا نے اس پیشگوئی میں خبر دی کہ میں ایک ایسا امر ظاہر کروں گا جس سے جو مغلوب ہے وہ غالب اور جو غالب ہے وہ مغلوب ہو جائے گا.اور یہ پیشگوئی اس قدر شائع کی گئی تھی کہ بعض ہماری جماعت کے لوگوں نے اس کو حفظ کر لیا تھا.اور صد ہا آدمی اس سے اطلاع رکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے کہ یہ کیونکر ہوگا.غرض کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ پیشگوئی قبل از وقت بلکہ کئی مہینے فیصلہ سے پہلے عام طور پر شائع ہو چکی تھی اور الحکم اخبار میں درج ہو کر دور دراز ملک کے لوگوں تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی.پھر فیصلہ کا دن آیا.اس دن ہمارے مخالف بہت خوش تھے کہ آج اخراج مقدمہ کا حکم سنایا جائے گا اور کہتے تھے کہ آج سے ہمارے لئے ہر ایک قسم کی ایذاء کا موقعہ ہاتھ آ جائے گا.وہی دن تھا جس میں پیشگوئی کے اس بیان کے معنے کھلنے تھے کہ وہ ایک امر مخفی ہے جس سے مقدمہ پلٹا کھائے گا اور آخر میں وہ ظاہر کیا جائے گا.سوالیسا اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین کو خیال آیا کہ پُرانی مسل کا انڈکس دیکھنا چاہئے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے.جب وہ دیکھا گیا تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام الدین ہے بلکہ میرزا غلام مرتضی یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں.تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہو گیا.حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا.اس نے فی الفور وہ انڈکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اس پر حقیقت کھل گئی اس لئے اُس نے بلا توقف امام الدین پر ڈگری زمین کی بمعہ خرچہ کر دی.اگر وہ کاغذ پیش نہ ہوتا تو حاکم مجوز بجز اس کے کیا کر سکتا تھا کہ مقدمہ کو خارج کرتا اور دشمن بدخواہ کے ہاتھ سے ہمیں تکلیفیں اٹھانی پڑتیں.یہ خدا کے کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۷۸ تا ۲۸۴) میں نے اپنے رسالہ انجام آتھم میں بہت سے مخالف مولویوں کا نام لے کر مباہلہ کی طرف ان کو بلایا تھا اور صفحہ ۶۶ رسالہ مذکور میں یہ لکھا تھا کہ اگر کوئی ان میں سے مباہلہ کرے تو میں یہ دُعا کروں گا کہ اُن میں سے کوئی اندھا ہو جائے اور کوئی مفلوج اور کوئی دیوانہ اور کسی کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہو اور کوئی بے وقت موت سے مر جائے اور کوئی بے عزت ہو اور کسی کو مال کا نقصان پہنچے.پھر اگر چہ تمام
۱۲۸۸ مخالف مولوی مرد میدان بن کر مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوئے مگر پس پشت گالیاں دیتے رہے اور تکذیب کرتے رہے.چنانچہ ان میں سے رشید احمد گنگوہی نے صرف لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِین نہیں کہا بلکہ اپنے ایک اشتہار میں مجھے شیطان کے نام سے پکارا ہے.آخر نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ تمام بالمقابل مولویوں میں سے جو باون تھے آج تک صرف ہیں زندہ ہیں اور وہ بھی کسی نہ کسی بلا میں گرفتار باقی سب فوت ہو گئے.مولوی رشید احمد اندھا ہوا اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مر گیا جیسا کہ مباہلہ کی دعا میں تھا.مولوی شاہ دین دیوانہ ہو کر مر گیا.مولوی غلام دستگیر خود اپنے مباہلہ سے مر گیا اور جو زندہ ہیں اُن میں سے کوئی بھی آفات متذکرہ بالا سے خالی نہیں حالانکہ ابھی انہوں نے مسنون طور پر مباہلہ نہیں کیا تھا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۱۳) قادیان کے آریوں نے محض مجھے دکھ دینے اور بد زبانی کرنے کے لئے ایک اخبار قادیان میں نکالا تھا جس کا نام شجھ چپتک رکھا تھا اور ایڈیٹر اور منتظم اس کے تین آدمی تھے.ایک کا نام سومراج دوسرے کا نام اچھر چند تیسرے کا نام بھگت رام تھا.ان تینوں کی موت سے خدا کے تین نشان ظاہر ہوئے.یہ تینوں نہایت درجہ موذی اور ظالم تھے..جس شخص نے ان کے اخبار شبھ چتک کے چند پرچے دیکھے ہوں گے وہ اس بات کا اقرار کرے گا کہ یہ تمام پرچے بدزبانی اور گند اور افترا سے بھرے ہوے ہیں.میری نسبت لکھا ہے کہ یہ شخص خود پرست ہے نفس پرست ہے فاسق ہے فاجر ہے اس واسطے گندی اور ناپاک خواہیں اس کو آتی ہیں مرزا قادیانی بد اخلاق شہرت کا خواہان شکم پرور ہے.کمبخت کمانے سے عار رکھنے والا مکر اور فریب اور جھوٹھ میں مشاق.ہم ان کی چالاکیوں کو ضرور طشت از بام کریں گے اور ہمیں امید بھی ہے کہ ہم اپنے ارادہ میں ضرور کامیاب ہوں گے.مرزا مکار اور جھوٹھ بولنے والا ہے.ہوں مرزا کی جماعت کے لوگ بدچلن اور بدمعاش ہیں.غرض ہر ایک پر چہ ان کا ناپاک گالیوں سے بھرا ہوا نکلتا رہا ہے.میں نے کئی مرتبہ جناب الہی میں دعائیں کیں کہ خدا اس اخبار کے کارکنوں کو نابود کر کے اس فتنہ کو درمیان سے اٹھا دے چنانچہ کئی مرتبہ مجھے یہ خبر دی گئی کہ خدا تعالیٰ ان کی بیخ کنی کرے گا زیادہ تر میرے پر ناگوار یہ امر تھا کہ چونکہ یہ لوگ قادیان میں رہتے تھے اس لئے ان کے قرب مکانی کی وجہ سے ان کے جھوٹھ کو بطور سچ کے دیکھا جاتا تھا.جب اخبار شجھ چٹک کے ایڈیٹر اور منتظم گالیاں دینے میں حد سے بڑھ گئے اور خدا نے
۱۲۸۹ میرے پر ظاہر کیا کہ اب وہ ہلاک ہونے کو ہیں.چنانچہ اکثر وہ الہام اخبار بدر اور الحکم میں بھی شائع ہو گئے.تب بعد اس کے ان بدقسمتوں کی سزا کا وقت آ گیا.اور یہ تین آدمی تھے.ایک کا نام سومراج تھا دوسرے کا نام اچھر چند تھا تیسرے کا نام بھگت رام تھا.پس خدا کے قہری طمانچہ نے تین دن کے اندر ہی ان کا کام تمام کر دیا اور تینوں طاعون کے شکار ہو گئے اور اُن کی بلا ان کی اولاد اور اہل وعیال پر بھی پڑی.چنانچہ سومراج نہ مراجب تک اُس نے اپنی عزیز اولاد کی موت طاعون سے نہ دیکھ لی.یہ ہے پاداش شرارتوں اور شوخیوں کی مگر ابھی میں نہیں باور کر سکتا کہ باقی ماندہ رفیق ان لوگوں کے جو قادیان میں موجود ہیں شرارتوں سے باز آ جائیں گے.برگزیدہ نبیوں کی روحیں ان کی بدزبانی اور توہین کی وجہ سے اپنے خدائے قدیر کے آگے فریاد کر رہی ہیں پس وہ پاک روحیں بلاشبہ یہ عزت رکھتی ہیں کہ خدا کی غیرت اُن کے لئے بھڑ کے.اس لئے یقیناً سمجھو کہ یہ قوم اپنے ہاتھ سے فنا کا بیج بورہی ہے.یادر ہے کہ نا پاک طبع لوگ ہرگز سرسبز نہیں ہو سکتے اور جو درخت خشک بھی ہو اور پھر زہر یلا وہ کیوں کر محفوظ رکھنے کے لائق ٹھہر سکتا ہے بلکہ وہ سب سے پہلے کاٹا جائے گا.تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۹۰ تا ۵۹۴) تخمیناً تیرہ برس ہوئے کہ جب مجھے سعد اللہ نو مسلم اودھانوی کی نسبت الہام ہوا تھا إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الابتر.دیکھو انوار الاسلام در اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ صفحہ۱۲.اُس وقت ایک بیٹا سعد اللہ کا بعمر سولہ یا پندرہ برس کا موجود تھا.بعد اس وحی کے باوجود گذر نے تیرہ برس کے ایک بچہ بھی اس کے گھر میں نہیں ہوا اور پہلالڑ کا اس کا بموجب الہام موصوف کے اس قابل نہیں کہ اس سے نسل جاری ہو سکے.پس ابتر کی پیشگوئی کا ثبوت ظاہر ہے اور قطع نسل کی علامات موجود ہے.لے (نوٹ برحاشیہ) اگر سعد اللہ کا پہلالڑ کا نامرد نہیں ہے جو الہام إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرِ سے پہلے پیدا ہو چکا تھا جس کی عمر تخمیناً تمیں برس کی ہے تو کیا وجہ کہ باوجود اس قدر عمر گذر نے اور استطاعت کے اب تک اس کی شادی نہیں ہوئی اور نہ اس کی شادی کا کچھ فکر ہے.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے.سعد اللہ پر فرض ہے کہ اس پیشگوئی کی تکذیب کے لئے یا تو اپنے گھر اولاد پیدا کر کے دکھلاوے اور یا پہلے لڑکے کی شادی کر کے اور اولاد حاصل کرا کر اس کی مردی ثابت کرے اور یاد رکھے کہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات اس کو ہرگز حاصل نہیں ہو گی کیونکہ خدا کے کلام نے اس کا نام ابتر رکھا ہے اور ممکن نہیں کہ خدا کا کلام باطل ہو.یقیناً وہ ابتر ہی مرے گا جیسا کہ
۱۲۹۰ آثار نے ظاہر بھی کر دیا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۷۸،۳۷۷) صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف کی شہادت بھی میری سچائی پر ایک نشان ہے.کیونکہ جب سے خدا نے دنیا کی بنیا دڈالی ہے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ کوئی شخص دیدہ و دانستہ ایک جھوٹے مکارمفتری کے لئے اپنی جان دے اور اپنی بیوی کو بیوہ ہونے کی مصیبت میں ڈالے اور اپنے بچوں کا یتیم ہونا پسند کرے اور اپنے لئے سنگساری کی موت قبول کرے.یوں تو صد ہا آدمی ظلم کے طور پر قتل کئے جاتے ہیں مگر میں جو اس جگہ صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کی شہادت کو ایک عظیم الشان نشان قرار دیتا ہوں وہ اس وجہ سے نہیں کہ ظلم سے قتل کئے گئے اور شہید کئے گئے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ شہید ہونے کے وقت انہوں نے وہ استقامت دکھائی کہ اس سے بڑھ کر کوئی کرامت نہیں ہو سکتی.اُن کو تین مرتبہ امیر نے مختلف وقتوں میں نرمی سے سمجھایا کہ جو شخص قادیان میں مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے اس کی بیعت تو ڑ دو تو آپ کو چھوڑ دیا جائے گا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کی عزت ہو گی ورنہ سنگسار کئے جاؤ گے.انہوں نے ہر ایک مرتبہ میں یہی جواب دیا کہ میں اہل علم ہوں اور زمانہ دیدہ ہوں.میں نے بصیرت کی راہ سے بیعت کی ہے.میں اس کو تمام دنیا سے بہتر سمجھتا ہوں.اور کئی دن ان کو حراست میں رکھا گیا اور سخت دکھ دیا گیا اور ایک بھارا زنجیر ڈالا گیا جو سر سے پانو تک تھا اور بار بار سمجھایا اور ترک بیعت پر عزت افزائی کا وعدہ کیا کیونکہ ان کو ریاست کابل سے پرانے تعلقات تھے اور ریاست میں اُن کے حقوق خدمات تھے مگر انہوں نے بار بار کہا کہ میں دیوانہ نہیں.میں نے حق پا لیا ہے.میں نے بخوبی دیکھ لیا ہے کہ مسیح آنے والا یہی ہے جس کے ہاتھ پر میں نے بیعت کی ہے.تب نومید ہو کر ناک میں اُن کے رسی ڈال کر پابہ زنجیر سنگساری کے میدان میں لے گئے اور سنگسار کرنے سے پہلے پھر امیر نے ان کو سمجھایا کہ اب بھی وقت ہے آپ بیعت توڑ دیں اور انکار کر دیں.تب انہوں نے کہا کہ یہ ہرگز نہیں ہو گا.اب میرا وقت قریب ہے.میں دنیا کی زندگی کو دین پر ہرگز مقدم نہیں کروں گا.کہتے ہیں کہ ان کی اس استقامت کو دیکھ کر صد با آدمیوں کے بدن پر لرزہ پڑ گیا اور ان کے دل کانپ اُٹھے کہ یہ کیسا مضبوط ایمان ہے ایسا ہم نے کبھی نہیں دیکھا.اور بہتوں نے کہا کہ اگر وہ شخص جس سے بیعت کی گئی ہے خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو صاحبزادہ عبداللطیف یہ استقامت ہرگز دکھلا نہ سکتا.تب اس مظلوم کو پتھروں کے ساتھ شہید کیا گیا.اور اُس نے آہ نہ کی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۶۰،۳۵۹)
۱۲۹۱ إِنِّي رَأَيْتُ فِي مُبَشِّرَةِ أُرِيتُهَا جَمَاعَةً مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ الْمُخْلِصِينَ وَالْمُلُوكَ الْعَادِلِينَ الصَّالِحِينَ بَعْضُهُم مِّنْ هَذَا الْمُلْكِ وَبَعْضُهُم مِّنَ الْعَرَبِ وَ بَعْضُهُم مِّنْ فَارِسٍ وَبَعْضُهُمْ مِّنْ بِلَادِ الشَّامِ وَ بَعْضُهُمْ مِّنْ اَرْضِ الرُّومِ وَ بَعْضُهُم مِّنْ بِلادٍ لَا أَعْرِفُهَا ثُمَّ قِيْلَ لِى مِنْ حَضْرَةِ الْغَيْبِ إِنَّ هَؤُلَاءِ يُصَدَقُوْنَكَ وَ يُؤْمِنُونَ بِكَ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكَ وَيَدْعُونَ لَكَ وَ أُعْطِى لَكَ بَرَكَاتٍ حَتَّى يَتَبَرَّكُ الْمُلُوكَ بِثِيَابِكَ وَاَدْخِلُهُمْ فِي الْمُخْلِصِينَ.هَذَا رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ الْهِمُتُ مِنَ اللَّهِ الْعَلَّامِ لجة النور - روحانی خزائن جلد ۶ اصفحه ۳۴۰،۳۳۹) برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۳۵) مجھے الله جل شانہ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا.اور مجھے اُس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور کہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جو آ اٹھا ئیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا.(تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹ حاشیه ) وَإِنِّي مَعَكُمْ يَانُجَبَاءَ الْعَرَبِ بِالْقَلْبِ وَ الرُّوحِ.وَإِنَّ رَبِّي قَدْ بَشَّرَنِي فِي الْعَرَبِ وَ الْهَمَنِى أَنْ أَمُونَهُمْ وَأُرِيهِمْ طَرِيقَهُمْ وَ أَصْلِحُ لَهُمْ شُيُونَهُمْ وَسَتَجِدُونِي فِى هَذَا الْاَمْرِ إِنْشَاءَ اللَّهُ مِنَ الْفَائِزِينَ.حمامة البشری.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۱۸۲) لے میں نے خواب میں مومنین مخلصین کی ایک جماعت اور عدل کرنے والے اور صالح بادشاہوں کو دیکھا ان میں سے کچھ کا تعلق اس سرزمین سے تھا اور کچھ کا تعلق سرزمین عرب سے تھا اور بعض کا تعلق شام کے علاقوں سے تھا اور بعض کا تعلق سرزمین روم سے تھا اور بعض ایسے علاقوں سے تھے جن کو میں نہیں جانتا.پھر مجھے غیب سے یہ کہا گیا یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے.تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود و سلام بھیجیں گے اور تیرے لئے دعائیں کریں گے اور میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور میں انہیں تیرے مخلص بندوں میں داخل کروں گا.یہ وہ نظارہ ہے جو میں نے خواب میں دیکھا اور وہ الفاظ ہیں جو مجھے خدائے علام کی طرف سے الہام کیے گئے.اور اے عرب کے شریفو! میں دل و جان سے تمہارے ساتھ ہوں اور میرے رب نے عرب کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہام کیا ہے کہ میں ان کی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور ان کا حال درست کروں.اور انشاء اللہ تم مجھے اس بارہ میں کامیاب پاؤ گے.
۱۲۹۲ يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَ عِبَادُ اللهِ مِنَ الْعَرَبِ یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دُعا کرتے ہیں.خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو.واللہ اعلم بالصواب.از مکتوب مورخه ۶ را پریل ۱۸۸۵ء مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۶۰۷، ۶۰۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) إِنِّى أَرى أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ يَدْخُلُونَ أَفْوَاجًا فِي حِزْبِ اللَّهِ الْقَادِرِ الْمُخْتَارِ وَ هَذَا مِنْ رَّبِّ السَّمَاءِ وَ عَجِيْبٌ فِي أَعْيُنِ اَهْلِ الْأَرْضِينَ.میں دیکھتا ہوں کہ اہل مکہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہو جائیں گے اور یہ آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی لوگوں کی آنکھوں میں عجیب.نور الحق حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۱۹۷) فرمایا:.میں نے دیکھا کہ زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آ گیا ہے وہ بڑا لمبا اور خوبصورت ہے.پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بندوق ہے بلکہ اُس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں گویا بظاہر سونٹا معلوم ہوتا ہے اور وہ بندوق بھی ہے.اور پھر دیکھا کہ خوارزم بادشاہ جو بوعلی سینا کے وقت میں تھا.اس کی تیر کمان میرے ہاتھ میں ہے.بوعلی سینا بھی پاس ہی کھڑا ہے.اور اس تیر کمان سے میں نے ایک شیر کو بھی شکار کیا.الحکم مورخه ۳۱ /جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۵) فرمایا.”میں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں.“ (رجسٹر روایات صحا بہ جلد ۲ صفحه ۱۱۴ روایت شیخ عبدالکریم صاحب جلد ساز کراچی.تذکرہ صفحه ۶۹ مطبوعه ۲۰۰۴ء) مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا.(اشتہار ۱۲ مارچ ۱۸۹۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۳۴۱.تذکره صفحه ۲۴۷ مطبوعه ۲۰۰۴ء) یہ خیال مت کرو کہ آریہ یعنی ہندو د یا نندی مذہب والے کچھ چیز ہیں.وہ صرف اس زنبور کی طرح ہیں جس میں بجر نیش زنی کے اور کچھ نہیں.وہ نہیں جانتے کہ توحید کیا چیز ہے اور روحانیت سے سراسر بے نصیب ہیں.عیب چینی کرنا اور خدا کے پاک رسولوں کو گالیاں دینا ان کا کام ہے اور بڑا کمال ان کا یہی ہے کہ شیطانی وساوس سے اعتراضات کے ذخیرے جمع کر رہے ہیں اور تقویٰ اور طہارت کی رُوح ان میں نہیں.یا درکھو کہ بغیر روحانیت کے کوئی مذہب چل نہیں سکتا.اور مذہب بغیر رُوحانیت کے کچھ بھی چیز نہیں.جس مذہب میں روحانیت نہیں اور جس مذہب میں خدا کے ساتھ مکالمہ کا تعلق نہیں اور صدق و
۱۲۹۳ صفا کی رُوح نہیں اور آسمانی کشش اس کے ساتھ نہیں اور فوق العادت تبدیلی کا نمونہ اس کے پاس نہیں وہ مذہب مُردہ ہے.اس سے مت ڈرو.ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب کو نابود ہوتے دیکھ لو گے کیونکہ یہ مذہب آریہ کا زمین سے ہے نہ آسمان سے.اور زمین کی باتیں پیش کرتا ہے نہ آسمان کی.پس تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اُترے گی اور رُوح القدس سے مدد دیے جاؤ گے.اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو گالیاں سنو اور چُپ رہو.ماریں کھاؤ اور صبر کرو.اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پر ہیز کرو تا آسمان پر تمہاری قبولیت لکھی جاوے.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۸،۶۷) رویا :.صبح کے وقت لکھا ہوا دکھایا گیا.آہ نادر شاہ کہاں گیا.“ الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۵ء صفحه ا.تذکرہ صفحہ ۴۶۱ مطبوعه ۲۰۰۴ء) الہام ہوا: ” پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب اُن کی دلجوئی ہوگی.“ ( الحکم جلد نمبر ۶ مورخہ ۷ ار فروری ۱۹۰۶ء صفحہا.تذکرہ صفحہ ۵۰۸ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے خبر دے دی.سلطنت برطانیه تا هشت سال بعد ازاں ضعف و فساد و اختلاله الفضل جلد ۱۶ نمبر ۷۸ مورخه ۱/۵ پریل ۱۹۲۹ء صفحه ۵.تذکره صفحه ۶۵۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء) ہزار ہزار خدائے ذوالجلال کا شکر ہے کہ محض اس نے اپنے فضل وکرم سے میری تائید میں یہ نشان دکھلائے اور مجھے طاقت نہیں تھی کہ ایک ذرہ بھی زمین سے یا آسمان سے اپنی شہادت میں کچھ پیش کر سکتا مگر اُس نے جو زمین و آسمان کا مالک ہے جس کی اطاعت کا ذرہ ذرہ اس عالم کا جوا اٹھا رہا ہے میری تائید میں ایک دریا نشانوں کا بہا دیا اور وہ تائید دکھلائی جو میرے خیال اور گمان میں بھی نہیں تھی.میں اقرار کرتا ہوں کہ میں اس لائق نہ تھا کہ میری یہ عزت کی جائے مگر خدائے عز وجل نے محض اپنی نا پیدا کنار رحمت سے میرے لئے یہ معجزات ظاہر فرمائے.مجھے افسوس ہے کہ میں اس کی راہ میں وہ طاعت اور تقویٰ کا حق بجا نہیں لا سکا جو میری مراد تھی اور اس کے دین کی وہ خدمت نہیں کر سکا جو لے سلطنت برطانیہ آٹھ سال تک ( مضبوط ) ہے اس کے بعد کمزوری اورا فرا تفری کا زمانہ
۱۲۹۴ میری تمنا تھی.میں اس درد کو ساتھ لے جاؤں گا کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہئے تھا میں کر نہیں سکا.لیکن اس خدائے کریم نے میرے لئے اور میری تصدیق کے لئے وہ عجائب کام اپنی قدرت کے دکھلائے جو اپنے خاص برگزیدوں کے لئے دکھلاتا ہے.اور میں خوب جانتا ہوں کہ میں اس عزت اور اکرام کے لائق نہ تھا جو میرے خداوند نے میرے ساتھ معاملہ کیا.جب مجھے اپنے نقصانِ حالت کی طرف خیال آتا ہے تو مجھے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ میں کیڑا ہوں نہ آدمی اور مردہ ہوں نہ زندہ مگر اس کی کیا عجیب قدرت ہے کہ میرے جیسا نیچ اور نا چیز اس کو پسند آ گیا اور پسندیدہ لوگ تو اپنے اعمال سے کسی درجہ تک پہنچتے ہیں مگر میں تو کچھ بھی نہیں تھا.یہ کیا شان رحمت ہے کہ میرے جیسے کو اُس نے قبول کیا.میں اس رحمت کا شکر ادا نہیں کرسکتا.تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۹۲ ۴۹۳) خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کر چکا اور اسی کی ذات کی مجھے قسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گا جب تک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کر دے.پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو.اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتا اور اس تمام کاروبار کا نام ونشان نہ رہتا مگر تم نے دیکھا کہ کیسی خدا تعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہو رہی ہے اور اس قدرنشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں.دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کر کے ہلاک ہو گئے.اے بندگان خدا! کچھ تو سوچو کیا خدا تعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے؟ تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۵۴)
۱۲۹۵ باب ششم میں بصیرت کی راہ سے کہتا ہوں کہ اُس خدا قادر کے وعدے سچے ہیں اور میں آنے والے دنوں کو ایسے دیکھتا ہوں کہ گویا وہ آچکے ہیں“ انجام سلسله ئیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا.اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار
۱۲۹۶
۱۲۹۷ ہم کو تو خدا تعالیٰ کے اس کلام پر جو ہم پر وحی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے اس قدر یقین اور علی وجہ البصیرۃ یقین ہے کہ بیت اللہ میں کھڑا کر کے جس قسم کی چاہو قسم دے دو.بلکہ میرا تو یقین یہاں تک ہے کہ اگر میں اس بات کا انکار کروں یا وہم بھی کروں کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں تو معا کا فر ہو جاؤں.الحکم مورخہ ۰ ار دسمبر ۱۹۰۰ ء صفحہ ۶.ملفوظات جلد اوّل صفحه ۴۰۰ جدید ایڈیشن ) اگر مجھ سے سوال کیا جاوے کہ تم نے کیونکر پہچانا اور یقین کیا کہ وہ کلمات جو تمہاری زبان پر جاری کئے جاتے ہیں وہ خدا کا کلام ہے.حدیث النفس یا شیطانی القاء نہیں تو میری رُوح اس سوال کا مندرجہ ذیل جواب دیتی ہے :- (۱) اوّل جو کلام مجھ پر نازل ہوتا ہے اس کے ساتھ ایک شوکت اور لذت اور تاثیر ہے.وہ ایک فولادی میخ کی طرح میرے دل کے اندر دھنس جاتا ہے اور تاریکی کو دور کرتا ہے اور اس کے ورود سے مجھے ایک نہایت لطیف لذت آتی ہے.کاش اگر میں قادر ہو سکتا تو میں اس کو بیان کرتا.مگر رُوحانی لذتیں ہوں خواہ جسمانی اُن کی کیفیات کا پورا نقشہ کھینچ کر دکھلانا انسانی طاقت سے بڑھ کر ہے.ایک شخص ایک محبوب کو دیکھتا ہے اور اس کی ملاحت حسن سے لذت اُٹھاتا ہے مگر وہ بیان نہیں کرسکتا کہ وہ لذت کیا چیز ہے.اسی طرح وہ خدا جو تمام ہستیوں کا علت العلل ہے جیسا کہ اس کا دیدار اعلیٰ درجہ کی لذت کا سرچشمہ ہے ایسا ہی اس کی گفتار بھی لذات کا سرچشمہ ہے.اگر ایک کلام انسان سُنے یعنی ایک آواز اس کے دل پر پہنچے اور اس کی زبان پر جاری ہو اور اس کو شبہ باقی رہ جاوے کہ شاید یہ شیطانی آواز ہے یا حدیث النفس ہے تو درحقیقت وہ شیطانی آواز ہو گی یا حدیث النفس ہو گی کیونکہ خدا کا کلام جس قوت اور برکت اور روشنی اور تاثیر اور لذت اور خدائی طاقت اور چمکتے ہوئے چہرہ کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے خود یقین دلا دیتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور ہرگز مردہ آوازوں سے مشابہت نہیں رکھتا بلکہ اس کے اندر ایک جان ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک طاقت ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک کشش ہوتی ہے اور اس کے اندر یقین بخشنے کی ایک خاصیت ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک لذت ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک روشنی ہوتی ہے.اور اُس کے اندر ایک خارق عادت تجلی ہوتی ہے اور
۱۲۹۸.اس کے ساتھ ذرہ ذرہ وجود پر تصرف کرنے والے ملائک ہوتے ہیں اور علاوہ اس کے اس کے ساتھ خدائی صفات کے اور بہت سے خوارق ہوتے ہیں اس لئے ممکن ہی نہیں ہوتا کہ ایسی وحی کے مورد کے دل میں شبہ پیدا ہو سکے بلکہ وہ شبہ کو کفر سمجھتا ہے اور اگر اس کو کوئی اور معجزہ نہ دیا جاوے تو وہ اس وحی کو جو ان صفات پر مشتمل ہے بجائے خود ایک معجزہ قرار دیتا ہے.ایسی وحی جس شخص پر نازل ہوتی ہے اس شخص کو خدا کی راہ میں اور خدا کی محبت میں ایسے عاشق زار کی طرح بنا دیتی ہے جو اپنے تئیں صدق و ثبات کے کمال کی وجہ سے دیوانہ کی طرح بنا دیتا ہے.اس کا یقین اس کے دل کو شہنشاہ کر دیتا ہے وہ میدان کا بہادر اور استغناء کے تخت کا مالک بن جاتا ہے.یہی میرا حال ہے جس کو دنیا نہیں جانتی.قبل اس کے جو میں معجزات دیکھوں.اور آسمانی تائیدوں کا مشاہدہ کروں میں اس کی کلام سے ہی اُس کی طرف ایسا کھینچا گیا کہ کچھ انکل نہیں آتی کہ مجھے کیا ہو گیا.تیز تلواریں میرے اس پیوند کو چھڑا نہیں سکتیں.کوئی آگ مجھے ڈرا نہیں سکتی.وہ کشش جس نے میرے دل پر کام کیا وہ دلائل سے باہر ہے اور بیان سے بلند تر اور براہین سے بالاتر.ابتداء میں کلام تھا اس کلام نے جو کچھ کیا سو کیا.وہ خدا جو نہاں در نہاں ہے اس نے میری روح پر ابتداء میں محض کلام کے ساتھ تحجتی کی اور اپنے مکالمات کا دروازہ میرے پر کھولا.پس وہی ایک بات تھی جو بالخصوص میرے لئے کافی کشش ہوئی اور حضرت احدیت کے طرف مجھے کھینچ کر لے گئی اور یہ کہ کلام کی طاقت نے میرے دل پر کیا کیا اثر ڈالے اور مجھے کہاں تک پہنچا دیا.اور کیا کیا تبدیلیاں کیں اور کیا میرے دل میں سے لے لیا اور کیا دے دیا.ان باتوں کو میں کن لفظوں میں ادا کروں اور کس پیرایہ میں دلوں پر بٹھا دوں.جن خارق عادت عنایات کے ساتھ وہ مجھ سے نزدیک ہوا کوئی نہیں جانتا مگر میں.اور جس محبت کے مقام پر میرا قدم ہے کوئی نہیں جانتا مگر وہ.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ابتداء اس ترقی اور تعلق کا خدا کا کلام ہے جس کی ناگہانی کشش نے مجھے ایسا اٹھا لیا جیسا کہ ایک زبر دست بگولا ایک تنکے کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیتا ہے..خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا اور ہوتا ہے وہ میری روحانی والدہ ہے جس سے میں پیدا ہوا.اُس نے مجھے ایک وجود بخشا ہے جو پہلے نہ تھا اور ایک رُوح عطا کی ہے جو پہلے نہ تھی.میں نے ایک بچے کی طرح اس کی گود میں پرورش پائی اور اس نے مجھے ہر ایک ٹھوکر سے سنبھالا.اور ہر ایک گرنے کی جگہ سے بچالیا.وہ کلام ایک شمع کی طرح میرے آگے آگے چلا یہاں تک
۱۲۹۹ کہ میں منزل مقصود تک پہنچ گیا.اس سے زیادہ کوئی بدذاتی نہیں ہوگی کہ میں یہ کہوں کہ وہ خدا کا کلام نہیں.میں اُسی طرح اس کو خدا کا کلام جانتا ہوں جس طرح میں یقین رکھتا ہوں کہ میں زبان سے بولتا ہوں اور کانوں سے سنتا ہوں اور میں کیونکر اس سے انکار کروں.اُس نے تو مجھے خدا دکھلایا اور چشمہ شیریں کی طرح معارف کا پانی مجھے پلاتا رہا اور ایک ٹھنڈی ہوا کی طرح ہر ایک جبس کے وقت میں مجھے راحت بخش ہوا.وہ ان زبانوں میں بھی مجھ پر نازل ہوا جن زبانوں کو میں نہیں جانتا تھا.جیسا کہ زبان انگریزی اور سنسکرت اور عبرانی.اُس نے بڑی بڑی پیشگوئیوں اور عظیم الشان نشانوں سے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کا کلام ہے اور اس نے حقائق و معارف کا ایک خزانہ میرے پر کھول دیا جس سے میں اور میری تمام قوم بے خبر تھی.کیا یہ باتیں پھینک دینے کے لائق ہیں کہ ایک کلام جس نے معجزہ کی طاقت دکھلائی.اور اپنی قوی کشش ثابت کی اور غیب کے بیان کرنے میں وہ بخیل نہیں نکلا بلکہ ہزار ہا امور غیبیہ اس نے ظاہر کئے اور ایک باطنی کمند سے مجھے اپنی طرف کھینچا اور ایک کمند دنیا کے سعید دلوں پر ڈالا اور میری طرف ان کو لایا اور ان کو آنکھیں دیں جن سے وہ دیکھنے لگے اور کان دیئے جن سے وہ سننے لگے اور صدق و ثبات بخشا جس سے وہ اس راہ میں قربانی ہونے کے لئے موجود ہو گئے تو کیا یہ تمام کاروبار شیطانی یا وسوسہ نفسانی ہے.کیا شیطان خدا کے برابر ہو سکتا ہے؟ تو پھر کیوں وہ تمہاری مدد نہیں کرتا ؟ سنو ! وہ جس نے یہ کلام نازل کیا وہ کیا کہتا ہے.اس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.سو ضرور ہے کہ یہ زمانہ گذر نہ جائے اور ہم اس دنیا سے کوچ نہ کریں جب تک خدا کے وہ تمام وعدے پورے نہ ہوں.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۳ تا ۴۶۷) میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کی تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے.اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں
دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے.اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پتلی کی طرح اس مُشت خاک کو کھڑا کر دیا ہے.ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں.کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں؟ کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں؟ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۳) اس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہو رہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہئے کہ اب کیا کریں.یقیناً سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی رُوحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے.یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہو گا اور اسلام فتح پائے گا.حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں.کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے.میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھے کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کر دے گا.اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں.اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.یہ اقبال رُوحانی ہے اور فتح بھی روحانی تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الہی طاقت ایسا ضعیف کرے کہ کالعدم کر دیوے.میں متعجب ہوں کہ آپ نے کس سے اور کہاں سے سُن لیا اور کیونکر سمجھ لیا کہ جو باتیں اس زمانہ کے فلسفہ اور سائنس نے پیدا کی ہیں وہ اسلام پر غالب ہیں.حضرت خوب یاد رکھو کہ اس فلسفہ کے پاس تو صرف عقلی استدلال کا ایک ادھورا سا ہتھیار ہے اور اسلام کے پاس یہ بھی کامل طور پر اور دوسرے کئی آسمانی ہتھیار ہیں پھر اسلام کو اس حملہ سے کیا خوف؟ پھر نہ معلوم آپ اس قدر فلسفہ سے کیوں ڈرتے ہیں اور کیوں اس کے قدموں کے نیچے گرے جاتے ہیں اور کیوں قرآنی آیات کو تاویلات کے شکنجہ پر چڑھا رہے ہیں.
آپ کو یادر ہے کہ قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اولین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا.وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کرے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہو جائے گا.پھر آپ کو دب کر صلح کرینگے کیوں فکر پڑ گئی.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴ ۲۵ تا ۲۵۷ حاشیه ) الْإِشْتِهَارِ مُسْتَيْقِناً بِوَحُى اللهِ الْقَهَّار دوستو اک نظر خدا کے لئے سید الخلق مصطف کے لئے میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مُردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے اور اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مُشتِ خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جا تا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر توانا مجھے تسکی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنے خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قا در فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سواب اس نے چاہا ہے کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کوموت کا مزہ چکھاوے.سو اب دونو مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعداد یں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا.اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہو گا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جا ئیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں.اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی کچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں
پھیلے گی.اُس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سد تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نورا تارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی.( تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۹۷۸- مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۷، ۸ بار دوم ) یہ لوگ یا د رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا.کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا.خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلا دے.اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی بک بک سے رُک نہیں سکتیں.خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے.اَنَا الْفَتَّاحُ اَفْتَحُ لَكَ.تَرَى نَصْرًا عَجِيْبًا وَ يَخِرُّونَ عَلَى الْمَسَاجِدِ.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ.جَلَابِيبُ الصِّدْقِ.فَاسْتَقِمُ كَمَا أُمِرُتَ الْخَوَارِقُ تَحْتَ مُنْتَهَى صِدْقِ الْأَقْدَامِ.كُنْ لِّلَّهِ جَمِيعًا وَّ مَعَ اللهِ جَمِيعًا عَسَى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا.یعنی میں فتاح ہوں تجھے فتح دوں گا.ایک عجیب مدد تو دیکھے گا اور منکر یعنی بعض ان کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدر ہے اپنے سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش ہم خطا پر تھے.یہ صدق کے جلابیب ہیں جو ظاہر ہوں گے.سوجیسا کہ تجھے حکم کیا گیا ہے استقامت اختیار کر.خوارق یعنی کرامات اس محل پر ظاہر ہوتی ہیں جو انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے.تو سارا خدا کے لئے ہو جا.تو سارا خدا کے ساتھ ہو جا.خدا تجھے اس مقام پر اٹھائے گا جس میں تو تعریف کیا جائے.اور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں.برکت ڈھونڈیں گے.اب اے مولویو! اے بخل کی سرشت والو! اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلاؤ.ہر ایک قسم کے فریب کام میں لاؤ اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو.پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى الْمُنَبِّهُ النَّاصِحُ - مرزا غلام احمد قادیانی.جنوری ۱۸۹۲ء تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۹۲ ۹۳ - مجموعه اشتہارات جلد اول صفحه ۲۵۵ بار دوم )
نادان مولوی اگر اپنی آنکھیں دیدہ و دانستہ بند کرتے ہیں تو کریں.سچائی کو ان سے کیا نقصان.لیکن وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ بہتیرے فرعون طبع ان پیشگوئیوں پر غور کرنے سے غرق ہونے سے بچ جائیں گے.خدا فرماتا ہے کہ میں حملہ پر حملہ کروں گا یہاں تک کہ میں تیری سچائی دلوں میں بٹھا دوں گا.پس اے مولویو! اگر تمہیں خدا سے لڑنے کی طاقت ہے تو لڑو.مجھ سے پہلے ایک غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اس کو سولی دے دی.مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا.اور یا تو وہ زمانہ تھا کہ اس کو صرف ایک مکار اور کذاب خیال کیا جاتا تھا اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر اس کی عظمت دلوں میں پیدا ہو گئی کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو خدا کر کے مانتا ہے.اگر چہ ان لوگوں نے کفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے کہ جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پیروں کے نیچے کچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو سجدہ کرتے ہیں.اور بادشاہوں کی گردنیں اس کے نام کے آگے جھکتی ہیں.سوئیں نے اگر چہ یہ دعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا میں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسے ہی کرے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا.یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آ ئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اُٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سنے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشت خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا
۱۳۰۴ عجب دارم از لطفت اے کردگار پذیرفته پسندید گانے بجائے رسند ز ما کهترانت خاکسار نے چون من آمد پسند چو از قطره خلق پیدا کنی ہمیں عادت اینجا ہویدا کنی سے تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۸ تا ۴۱۰) چند روز ہوئے کہ خدا وند کریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا.قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ إِنِّى مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ إِلَيَّ.وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.وَ قَالُوا أَنَّى لَكَ هَذَا.قُلْ هُوَ اللَّهُ عَجِيْبٌ.يَجْتَبِي مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ اور یہ آیت کہ وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.بار بار الهام ہوئے اور اس قدرمتواتر ہوئے کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے اور اس قدر زور سے ہوئے کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہو گئے.اس سے یقیناً معلوم ہوا کہ خداوند کریم ان سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی ایسا مقبول آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے اور جو مخالف قدم مارے گا.اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہو گی.یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہر گز تخلف نہیں کرے گا.(الحکم ۵ رمئی ۱۸۹۹ء صفحہ ۷.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۳۴ مطبوعه ۲۰۰۸ء) لے اے پروردگار میں تیری مہربانیوں پر حیران ہوں کہ تُو نے میرے جیسے نا چیز کو قبول کر لیا ہے.پسندیدہ لوگ تو کسی مرتبہ تک پہنچ سکتے ہیں.ہم جیسے حقیروں کی کون سی چیز پسند آ گئی.چونکہ تو ایک قطرہ سے ایک جہاں پیدا کر دیتا ہے یہی عادت یہاں بھی ظاہر کرتا ہے.کہا اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے.میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور میں تیرے تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا.لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا؟ کہہ وہ خدا عجیب ہے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چن لیتا ہے.اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں.
۱۳۰۵ ہمارا انجام کیا ہوگا ؟ بجز خدا کے انجام کون بتلا سکتا ہے.اور بجز اس غیب دان کے آخری دنوں کی کس کو خبر ہے دشمن کہتا ہے کہ بہتر ہو کہ یہ شخص ذلت کے ساتھ ہلاک ہو جائے.اور حاسد کی تمنا ہے کہ اس پر کوئی ایسا عذاب پڑے کہ اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے.لیکن یہ سب لوگ اندھے ہیں اور عنقریب ہے کہ اُن کے بدخیالات اور بد ارادے انہی پر پڑیں.اس میں شک نہیں کہ مفتری بہت جلد تباہ ہو جاتا ہے اور جو شخص کہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں حالانکہ نہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے نہ اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہے وہ بہت بُری موت سے مرتا ہے اور اس کا انجام نہایت ہی بد اور قابل عبرت ہوتا ہے.لیکن جو صادق اور اس کی طرف سے ہیں وہ مر کر بھی زندہ ہو جایا کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کا ہاتھ اُن پر ہوتا ہے اور سچائی کی رُوح ان کے اندر ہوتی ہے.اگر وہ آزمائشوں سے کچلے جائیں اور پیسے جائیں اور خاک کے ساتھ ملائے جائیں اور چاروں طرفوں سے اُن پر لعن طعن کی بارشیں ہوں اور ان کے تباہ کرنے کے لئے سارا زمانہ منصو بے کرے تب بھی وہ ہلاک نہیں ہوتے.کیوں نہیں ہوتے؟ اس بچے پیوند کی برکت سے جو ان کو محبوب حقیقی کے ساتھ ہوتا ہے.خدا ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں.ہر یک جو ہر قابل کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ اوّل صدمات کا تختہ مشق ہوتا ہے.مثلاً اس زمین کو دیکھو جب کسان کئی مہینے تک اپنی قلبہ رانی کا تختہ مشق رکھتا ہے اور ہل چلانے سے اس کا جگر پھاڑتا رہتا ہے.اسی طرح وہ حقیقی کسان کبھی اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے اور لوگ اُن کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں اور ہر یک طرح سے اُن کی ذلّت ظاہر ہوتی ہے.تب تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانے سبزہ کی شکل پر ہو کر نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور آب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے.یہی قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطۂ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں لیکن غرق کرنے کے لئے نہیں.بلکہ اس لئے کہ تا ان موتیوں کے وارث ہوں کہ جو دریائے وحدت کے نیچے ہیں اور وہ آگ
میں ڈالے جاتے ہیں لیکن اس لئے نہیں کہ جلائے جائیں بلکہ اس لئے کہ تا خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں اور اُن سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور لعنت کی جاتی ہے اور وہ ہر طرح سے ستائے جاتے اور دُکھ دیئے جاتے اور طرح طرح کی بولیاں ان کی نسبت بولی جاتی ہیں اور بدظنیاں بڑھ جاتی ہیں یہاں تک کہ بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ بچے ہیں بلکہ جو شخص اُن کو دُکھ دیتا اور لعنتیں بھیجتا ہے وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ بہت ہی ثواب کا کام کر رہا ہے.پس ایک مدت تک ایسا ہی ہوتا رہتا ہے اور اگر اس برگزیدہ پر بشریت کے تقاضہ سے کچھ قبض طاری ہو تو خدا تعالیٰ اس کو ان الفاظ سے تسلی دیتا ہے کہ صبر کر جیسا کہ پہلوں نے صبر کیا اور فرماتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.پس وہ صبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ امر مقد راپنے مدت مقررہ تک پہنچ جاتا ہے.تب غیرت الہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے.اور ایک ہی تحتی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے.سو اؤل نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور اخیر میں اس کی نوبت آتی ہے.اسی طرح خداوند کریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ ہنسی ہو گی اور ٹھٹھا ہو گا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے لیکن آخر نصرت الہی تیرے شامل ہوگی اور خدا دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا.چنانچہ براہین احمدیہ میں بھی بہت سا حصہ الہامات کا انہی پیشگوئیوں کو بتلا رہا ہے اور مکاشفات بھی یہی بتلا رہے ہیں.چنانچہ ایک کشف میں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور وہ کہتا ہے کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں.تب میں نے اس کو کہا کہ تم کہاں سے آئے تو اس نے عربی زبان میں جواب دیا اور کہا کہ جِئْتُ مِنْ حَضْرَةِ الْوِتْرِ.یعنی میں اس کی طرف سے آیا ہوں جو اکیلا ہے.تب میں اس کو ایک طرف خلوت میں لے گیا.اور میں نے کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں مگر کیا تم بھی پھر گئے تو اس نے کہا کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں.تب میں اس حالت سے منتقل ہو گیا.لیکن یہ سب امور درمیانی ہیں اور جو خاتمہ امر پر مقدر ہو چکا ہے وہ یہی ہے کہ بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو ہزار ہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا.اور ہر یک الزام سے تیری بریت ظاہر کر دوں گا اور تجھے غلبہ ہو گا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب رہے گی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا اور یادر ہے کہ یہ الہامات اس واسطے نہیں لکھے گئے کہ ابھی کوئی ان کو قبول کر لے بلکہ اس واسطے کہ ہر یک چیز کے لئے ایک
۱۳۰۷ موسم اور وقت ہے.پس جب ان الہامات کے ظہور کا وقت آئے گا اس وقت یہ تحریر مستعد دلوں کے لئے زیادہ تر ایمان اور تسلی اور یقین کا موجب ہو گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعِ الْهُدَى.(انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۵۲ تا۵۴) ہمیشہ یہ امر واقع ہوتا ہے کہ جو خدا کے خاص حبیب اور وفا دار بندے ہیں ان کا صدق خدا کے ساتھ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ دنیا دار اندھے اس کو دیکھ نہیں سکتے.اس لئے ہر ایک سجادہ نشینوں اور مولویوں میں سے ان کے مقابلہ کے لئے اٹھتا ہے اور وہ مقابلہ اُس سے نہیں بلکہ خدا سے ہوتا ہے.بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جس شخص کو خدا نے ایک عظیم الشان غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے خدا چاہتا ہے کہ ایک بڑی تبدیلی دنیا میں ظاہر کرے ایسے شخص کو چند جاہل اور بُو دل اور خام اور نا تمام اور بے وفا زاہدوں کی خاطر سے ہلاک کر دے.اگر دو کشتیوں کا باہم ٹکراؤ ہو جائے جن میں سے ایک ایسی ہے کہ اس میں بادشاہ وقت جو عادل اور کریم الطبع اور فیاض اور سعید النفس ہے مع اپنے خاص ارکان کے سوار ہے.اور دوسری کشتی ایسی ہے جس میں چند چوہڑے یا چهار یا سائنسی بد معاش بد وضع بیٹھے ہیں اور ایسا موقع آپڑا ہے کہ ایک کشتی کا بچاؤ اس میں ہے کہ دوسری کشتی معہ اس کے سواروں کے تباہ کی جائے تو اب بتلاؤ کہ اس وقت کون سی کا رروائی بہتر ہوگی.کیا اس بادشاہ عادل کی کشتی تباہ کی جائے گی یا ان بد معاشوں کی کشتی کہ جو حقیر و ذلیل ہیں تباہ کر دی جائے گی ؟ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ بادشاہ کی کشتی بڑے زور اور حمایت سے بچائی جائے گی اور ان چوہڑوں چماروں کی کشتی تباہ کر دی جائے گی اور وہ بالکل لا پرواہی سے ہلاک کر دئیے جائیں گے.اور ان کے ہلاک ہونے میں خوشی ہوگی.کیونکہ دنیا کو بادشاہ عادل کے وجود کی بہت ضرورت ہے اور اس کا مرنا ایک عالم کا مرنا ہے.اگر چند چوہڑے اور چمار مر گئے تو ان کی موت سے کوئی خلل دنیا کے انتظام میں نہیں آ سکتا.پس خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب اس کے مرسلوں کے مقابل پر ایک اور فریق کھڑا ہو جاتا ہے تو گو وہ اپنے خیال میں کیسے ہی اپنے تئیں نیک قرار دیں اُنہیں کو خدا تعالی تباہ کرتا ہے اور انہیں کی ہلاکت کا وقت آ جاتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ جس غرض کے لئے اپنے کسی مرسل کو مبعوث فرماتا ہے اس کو ضائع کرے.کیونکہ اگر ایسا کرے تو پھر وہ خود اپنی غرض کا دشمن ہو گا اور پھر زمین پر اس کی کون عبادت کرے گا.دنیا کثرت کو دیکھتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ یہ فریق بہت بڑا ہے سو یہ اچھا ہے اور نادان خیال کرتا ہے کہ یہ لوگ ہزاروں
۱۳۰۸ لاکھوں مساجد میں جمع ہوتے ہیں کیا یہ بُرے ہیں؟ مگر خدا کثرت کو نہیں دیکھتا.وہ دلوں کو دیکھتا ہے.خدا کے خاص بندوں میں محبت الہی اور صدق اور وفا کا ایک ایسا خاص نور ہوتا ہے کہ اگر میں بیان کر سکتا تو بیان کرتا لیکن میں کیا بیان کروں جب سے دنیا ہوئی اس راز کو کوئی نبی یا رسول بیان نہیں کر سکا.خدا کے باوفا بندوں کی اس طور سے آستانہ الہی پر روح گرتی ہے کہ کوئی لفظ ہمارے پاس نہیں کہ اس کیفیت کو دکھلا سکے.تذكرة الشهادتين - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ا۷ ۷۲ ) مخالف چاہتے ہیں کہ میں نابود ہو جاؤں اور ان کا کوئی ایسا داؤ چل جائے کہ میرا نام ونشان نہ رہے مگر وہ ان خواہشوں میں نا مرا در ہیں گے اور نامرادی سے مریں گے.اور بہتیرے ان میں سے ہمارے دیکھتے دیکھتے مر گئے اور قبروں میں حسرت لے گئے مگر خدا تمام میری مرادیں پوری کرے گا یہ نادان نہیں جانتے کہ جب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے اس جنگ میں مشغول ہوں تو میں کیوں ضائع ہونے لگا اور کون ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے.یہ بھی ظاہر ہے کہ جب کوئی کسی کا ہو جاتا ہے تو اس کو بھی اس کا ہونا ہی پڑتا ہے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۵) چونکہ خدائے عز و جل نے متواتر وحی سے مجھے خبر دی ہے کہ میرا زمانہ وفات نزدیک ہے.اور اس بارے میں اس کی وحی اس قدر تواتر سے ہوئی کہ میری ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا اور زندگی کو میرے پر سرد کر دیا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے دوستوں اور ان تمام لوگوں کے لئے جو میرے کلام سے فائدہ اٹھانا چاہیں چند نصائح لکھوں.سو پہلے میں اس مقدس وحی سے اطلاع دیتا ہوں جس نے مجھے میری موت کی خبر دے کر میرے لئے یہ تحریک پیدا کی.اور وہ یہ ہے جو عربی زبان میں ہوئی اور بعد میں اردو کی وحی بھی لکھی جائے گی.قَرُبَ اَجَلُكَ الْمُقَدَّرُ وَلَا تُبْقِى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا قَلَّ مِيْعَادُ رَبِّكَ وَلَا نُبُقِي لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ شَيْئًا.وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ.تَمُوتُ وَ أَنَا رَاضِ مِنكَ.جَاءَ وَقْتُكَ وَ نُقِی لَكَ الْآيَاتِ بَاهِرَاتٍ جَآءَ وَقْتُكَ وَنُبْقِی لَكَ الْآيَاتِ بَيِّنَاتٍ.قَرُبَ مَا تُوعَدُونَ.وَ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ.إِنَّهُ مَنْ يُتَّقِ اللَّهَ وَيَصْبِر فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.
۱۳۰۹ (ترجمہ) تیری اجل قریب آگئی ہے اور ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام و نشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رسوائی کا موجب ہو.تیری نسبت خدا کی میعاد مقررہ تھوڑی رہ گئی ہے اور ہم ایسے تمام اعتراض دور اور دفع کر دیں گے اور کچھ بھی اُن میں سے باقی نہیں رکھیں گے.جن کے بیان سے تیری رسوائی مطلوب ہو.اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ مخالفوں کی نسبت ہماری پیشگوئیاں ہیں ان میں سے تجھے کچھ دکھاویں یا تجھے وفات دے دیں تو اس حالت میں فوت ہو گا جو میں تجھ سے راضی ہوں گا.اور ہم کھلے کھلے نشان تیری تصدیق کے لئے ہمیشہ موجود رکھیں گے.جو وعدہ کیا گیا وہ قریب ہے اپنے رب کی نعمت کا جو تیرے پر ہوئی لوگوں کے پاس بیان کر.جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو خدا ایسے نکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا.اس جگہ یادر ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ہم تیری نسبت ایسے ذکر باقی نہیں چھوڑیں گے جو تیری رسوائی اور ہتک عزت کا موجب ہوں اس فقرہ کے دو معنے ہیں (۱) اول یہ کہ ایسے اعتراضات کو جو رسوا کرنے کی نیت سے شائع کئے جاتے ہیں ہم دُور کر دیں گے.اور اُن اعتراضات کا نام ونشان نہ رہے گا.(۲) دوسرے یہ کہ ایسے شکایت کرنے والوں کو جو اپنی شرارتوں کو نہیں چھوڑتے اور بدذکر سے باز نہیں آتے دنیا سے اٹھا لیں گے اور صفحہ ہستی سے معدوم کر دیں گے تب ان کے نابود ہونے کی وجہ سے ان کے بے ہودہ اعتراض بھی نابود ہو جائیں گے.پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ نے میری وفات کی نسبت اردو زبان میں مندرجہ ذیل کلام کے ساتھ مجھے مخاطب کر کے فرمایا:.بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اُس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.یہ ہو گا.یہ ہو گا.یہ ہو گا.بعد اس کے تمہارا واقعہ ہو گا.تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا.حوادث کے بارے میں جو مجھے علم دیا گیا وہ یہی ہے کہ ہر ایک طرف دنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے اور شدت سے آئیں گے اور قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کو تہ و بالا کر دیں گے اور بہتوں کی زندگی تلخ ہو جائے گی.پھر وہ جو تو بہ کریں گے اور گناہوں سے دستکش ہو جائیں گے خدا ان پر رحم کرے گا.جیسا کہ ہر ایک نبی نے اس زمانہ کی خبر دی تھی ضرور ہے کہ وہ سب کچھ واقع ہو لیکن وہ جو اپنے دلوں کو درست کر لیں گے اور ان راہوں کو اختیار کریں گے جو خدا کو پسند ہیں.
۱۳۱۰ ان کو کچھ خوف نہیں اور نہ کچھ غم.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو میری طرف سے نذیر ہے.میں نے تجھے بھیجا تا مجرم نیکو کاروں سے الگ کئے جائیں اور فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.میں تجھے اس قدر برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور آئندہ زلزلہ کی نسبت جو ایک سخت زلزلہ ہوگا مجھے خبر دی اور فرمایا :.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.اس لئے ایک شدید زلزلہ کا آنا ضروری ہے.لیکن راستباز اس سے امن میں ہیں.سوراستباز بنو! اور تقویٰ اختیار کرو! تا بیچ جاؤ.آج خدا سے ڈرو تا اس دن کے ڈر سے امن میں رہو.ضرور ہے کہ آسمان کچھ دکھاوے اور زمین کچھ ظاہر کرے لیکن خدا سے ڈرنے والے بچائے جائیں گے.خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اتریں گی.کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آجائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی.اور وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ آنَا وَ رُسُلِی اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا.بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے.اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا المجادلة: ٢٢
۱۳۱۱ ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت کبھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے.اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا.اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا.وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمنا لے یعنی خوف کے بعد پھر ہم اُن کے پیر جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسیٰ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں اُن کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک اُن میں سے مرتد بھی ہو گیا.سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات النور : ۵۶
۱۳۱۲ کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے.جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے.پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سوتم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دُعا کرتے رہو اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دُعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو.اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.اپنی موت کو قریب سمجھو.تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی.یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا.اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی.اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے اچھا تھا.مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے.( رساله الوصیت - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه (۳۰۱ تا ۳۰۹) میں اُمید رکھتا ہوں کہ قبل اس کے جو میں اس دنیا سے گذر جاؤں میں اپنے اس حقیقی آقا کے سوا دوسرے کا محتاج نہیں ہوں گا اور وہ ہر ایک دشمن سے مجھے اپنی پناہ میں رکھے گا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ أَوَّلًا وَ
۱۳۱۳ اخِرًا وَّ ظَاهِرًا وَّ بَاطِئًا هُوَ وَلِي فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَهُوَ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے گا اور وہ مجھے ہرگز ہرگز ضائع نہیں کرے گا.اگر تمام دنیا میری مخالفت میں درندوں سے بدتر ہو جائے تب بھی وہ میری حمایت کرے گا.میں نامرادی کے ساتھ ہرگز قبر میں نہیں اتروں گا کیونکہ میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں میرے اندرون کا جو اس کو علم ہے کسی کو بھی علم نہیں.اگر سب لوگ مجھے چھوڑ دیں تو خدا ایک اور قوم پیدا کرے گا جو میرے رفیق ہوں گے.نادان مخالف خیال کرتا ہے کہ میرے مکروں اور منصوبوں سے یہ بات بگڑ جائے گی اور سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا.مگر یہ نادان نہیں جانتا کہ جو آسمان پر قرار پا چکا ہے.زمین کی طاقت میں نہیں کہ اس کو محو کر سکے.میرے خدا کے آگے زمین و آسمان کا نپتے ہیں.خدا وہی ہے جو میرے پر اپنی پاک وحی نازل کرتا ہے اور غیب کے اسرار سے مجھے اطلاع دیتا ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں اور ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ کو چلا دے اور بڑھا دے اور ترقی دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق کر کے دکھلاوے.ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگا وے اور پھر دیکھے کہ انجام کار وہ غالب ہوا یا خدا.پہلے اس سے ابو جہل اور ابولہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لئے کیا کیا زور لگائے تھے مگر اب وہ کہاں ہیں؟ وہ فرعون جو موسیٰ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اس کا کچھ پتہ ہے؟ پس یقیناً سمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہوسکتا.وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے.بدقسمت وہ جو اس کو شناخت نہ کرے.( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۹۵،۲۹۴) اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشے گا وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہے کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد ر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی.اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم
۱۳۱۴ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ہے پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اُترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں اس سے کون ٹھٹھا کرے گا.پس اس دلیل سے بھی عظمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے انتر نا محض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اتر تے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی.اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا دمرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی.مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تختم بویا گیا.اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(تذکرة الشهادتين.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۶، ۶۷) تَمَّتُ بِالْخَير الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى اِحْسَانِهِ وَ تَوْفِيقِهِ جَلَّ شَانُهُ وَ عَزَّ اِسْمُهُ وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلى نَبِيِّهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ یس: ۳۱