Hazrat Mirza Ghulam Ahmad Qadiani Apni Tehreeron Ki Roo Se Volume 1

Hazrat Mirza Ghulam Ahmad Qadiani Apni Tehreeron Ki Roo Se Volume 1

حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ اپنی تحریروں کی رو سے (جلد اوّل)

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام نے اپنے آفاقی مشن اور دعاویٰ کی تشہیر و تبلیغ کے مفوضہ فرض کو ادا کرنے کے لئے جہاں سینکڑوں اشتہار شائع فرمائے اور ہزاروں خطوط بھیجے وہاں 80 سے زائد مستقل تصانیف بھی شائع کیں۔ بہت سے لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ یہ کتب پڑھ سکیں اسی قسم کے لوگوں کے لئے حضرت سید میر داؤد احمد صاحب نے کئی جلدوں پر مشتمل یہ تالیف مرتب کی ہے تاکہ وہ لوگ تھوڑے وقت میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی کی زبانی معلوم کر سکیں کہ آپ کے ذاتی سوانح کیا ہیں؟ آپ کا دعویٰ کیا ہے؟ آپ کے دعویٰ کے دلائل و براہین کیا ہیں؟ آپ اپنا مقام کیا بتاتے ہیں؟ آپ کی تعلیم کیا ہے؟ آپ نے اپنے ماننے والوں کو کیا نصائح فرمائیں؟ آپ کے مخالفین کا سلوک کیا تھا اور آپ کی طرف سے کیا رد عمل ظاہر ہوا؟ اور آپ نے اپنے سلسلہ کے انجام اور مستقبل کے بارے میں کیا پیش گوئیاں کیں؟ اس قابل قدر تالیف میں صرف حضر ت مسیح موعودعلیہ السلام کے اقتباسات ہی ہیں اپنی طرف سے کوئی مضمون نویسی یا حاشیہ آرائی نہیں کی گئی اور ہر اقتباس کے نیچے آپ کی اصل کتاب کا حوالہ درج کردیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

عيد الصلوة والسلامة قادیانی حنت مرزا غلام احمدة اپنی تحریریوں کی روک جلد اوّل

Page 2

چند روز کا ذکر ہے کہ ایسے عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الآیات بعد الماتين ہے ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخلہ ہے تو مجھے کشفی طور پر این مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ ہی صیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا.پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی ۱۳۰۰ اس نام کے عدد پور ہے تیرہ سو ہیں اور ایک قصبہ قادیان میں بجر اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نام نہیں بلکہ یہ دال میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں"

Page 3

بحضُور سيد المطر ييض امام الطيبين فم المرسلين خاتم النبيين سرور کائنا تے فخر موجودات محبوب حضریقے احدیت حضرت ي مصطفى صلى الله علة على الم اس التجا کے ساتھ انظر إلى برَحْمَةٍ وَتَمَتَّي يَا سَيدِي أَنا أَحْقَرُ الْقِلْمَانِي يَا حِب إِنَّكَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّةٌ فِي مُهْجَتِي وَ مَدَارِكِي وَجَنَانِي جِسْمِ يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلا يَا لَيْتَ كَانَتْ تُوةُ الطَّيران غلام ابن غلام ابن غلام

Page 4

تعارف از حضرت سید میر داؤ د احمد صاحب) کسی شخص کا یہ دعوی کرنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور اُس نے مجھے اپن برگزیدہ مامور ٹھہرایا ہے اور مجھے علم لدنی سے سرفراز فرمایا ہے اور مجھے تمام دنیا پر فضلیت عطا فرمائی ہے اور اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کی طرف سے رسول ہو کر تمام مخلوق کو اس کی طرف بلاؤں اتنا غیر معمولی اور حجرات مندانہ دعوی ہے کہ کوئی عقلمند انسان اس سے عدم توجہی نہیں برت سکتا.دُنیا کی ادنی ادنی حکومتیں جب کسی کو اپنا نمائندہ یا سفیر بنا کر کسی دوسرے ملک کو بھیجتی ہیں تو بڑی بڑی جابر حکومتیں بھی اس کی بات سننے اور اس کی طرف توجہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کجا یہ کہ تمام کائنات کے خالق و مالک کی طرف سے جس کی مٹھی میں یہ سارا جہان ہے.جو ہر چیز کو نیست سے ہست میں لایا اور جب چاہے اسے ایک طرفۃ العین میں پھر ہستی سے نیستی کی طرف کو ٹاسکتا ہے آنے والے پیغامبر سے لا پرواہی اور عدم توجہی کا حق جائز سمجھا جائے.جو شخص خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہیں ہے وہ بھی یہ موقف اختیار نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی عقل مجبور کرتی ہے کہ جس طرح وہ اور دنیوی صداقتوں کے پیش کرنے والوں کے دعوی کی چھان بین کرتا ہے اسی طرح وہ مدعی ماموریت کے دعوی کی بھی پوری سنجیدگی سے چھان بین کرے اور اس کے پیش کردہ دلائل کو زیر غور لائے پھر اگر اس کی سمجھ میں آ جائے تو قبول کرلے ورنہ ر ذکر دے لیکن وہ یہ موقف تو کسی طرح بھی اختیار نہیں کر سکتا کہ مجھے ان دعاوی پر غور کرنے یا اس کی جانچ پڑتال کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں.اور جو شخص کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہے اور یقین رکھتا ہے کہ از منہ سابقہ میں وقتا فوقتا اللہ تعالیٰ اپنے پیغامبر مبعوث کرتا رہا ہے.اس کی مقدس کتا بیں اُسے بتاتی ہیں کہ جب سے یہ دنیا پیدا ہوئی ہے یا دنیا کی تاریخ محفوظ ہے واقعی اللہ تعالیٰ کے ہزاروں ہزار ایسے مامور اس دُنیا

Page 5

میں آئے جن کا مقصد خالق اور مخلوق کے رشتہ کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنا تھا وہ تو کسی طرح بھی ایسے مدعی سے اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتا.بعث بعد الموت کا عقیدہ ہر مذہب میں پایا جاتا ہے اور ہر مذہبی آدمی یقین رکھتا ہے کہ اُسے ایک نہ ایک دن موت ضرور آتی ہے.اور مرنے کے ساتھ ہی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش ہوگا اور پھر اسے اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے مامور کی آواز کا کیا جواب دیا.اسلام میں تو اس پر خاص زور دیا گیا ہے.صحیح بخاری میں فتنة القبر کا تفصیلی ذکر ہے.جب قبر میں منافق سے سوال کیا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے تو وہ جواب میں کہے گا لا أَدْرِى سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ، یعنی میری ذاتی تحقیق تو کوئی نہیں ہے البتہ لوگوں سے بہت سی باتیں سنی تھیں جو کچھ لوگ سُنی سُنائی کہتے رہے میں بھی کہتا رہا اور یہ جواب ہرگز قابل قبول نہیں ٹھہرایا جائے گا.اس سے ظاہر ہے کہ ہر شخص پر یہ واجب قراردیا گیا ہے کہ وہ ایسے مدعی کے دعوای کی بذات خود چھان بین کرے اور پھر دیانتداری سے کسی نتیجہ پر پہنچے عدم مصروفیت کا بہانہ کسی کام نہیں آئے گا.ہمارے اس زمانہ میں بھی ایک مدعی ماموریت کی صدا پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں قادیان سے بلند ہوئی ہے جس نے اعلان کیا:.میں نے بار بار بیان کر دیا ہے کہ یہ کلام جوئیں سنا تا ہوں یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے جیسا کہ قرآن اور توریت خدا کا کلام ہے اور میں خدا کا ظلمی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور مسیح موعود ماننا واجب ہے اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے وہ آسمان پر قابل مواخذہ ہے کیونکہ جس امر کو اس نے وقت پر قبول کرنا تھا اس کو ر ڈ کر دیا.“ یہ دعوئی اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ خواہ کوئی شخص کیسے ہی خیالات کیوں نہ رکھتا ہود ہر یہ ہو.یہودی ہو، عیسائی ہو، ہندو ہو یا اور کسی مذہب کا پیر وہو اس دعوای سے آنکھیں بند کر لینے کا حق نہیں رکھتا کیونکہ اگر یہ دعوی سچا نکلا تو مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے مواخذہ سے رہائی کیسے ہوگی؟

Page 6

حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسّلام نے اپنے اس دعوای کی تشہیر اور تبلیغ کے مفوضہ فرض کو ادا کرنے کے لئے جہاں سینکڑوں اشتہار شائع کئے اور ہزاروں خطوط لکھے وہاں اتنی کے قریب مستقل تصانیف بھی شائع کیں.بہت سے لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ یہ کتب پڑھ سکیں اسی قسم کے لوگوں کے لئے یہ تألیف مرتب کی گئی ہے تا کہ وہ تھوڑے سے وقت میں حضرت مرزا صاحب ہی کی زبانی معلوم کر سکیں کہ آپ کے ذاتی سوانح کیا ہیں؟ آپ کا دعوی کیا ہے؟ اس کے دلائل اور براہین کیا ہیں؟ آپ اپنا کیا مقام بتاتے ہیں؟ آپ کی تعلیم کیا ہے؟ آپ نے اپنے ماننے والوں کو کیا نصائح فرما ئیں؟ آپ کے مخالفین کا سلوک کیا تھا اور آپ کی طرف سے کیا رد عمل ظاہر ہوا؟ اور پھر یہ کہ آپ نے اپنے سلسلہ کے انجام کے بارے میں کیا پیشگوئیاں کیں؟.....آئندہ صفحات میں آپ ان سب باتوں کا جواب حضرت مرزا صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ کریں گے.اس تالیف میں صرف حضرت مرزا صاحب کے اقتباسات ہی ہیں اپنی طرف سے کوئی مضمون نویسی یا حاشیہ آرائی نہیں کی گئی اور ہر اقتباس کے نیچے آپ کی اصل کتاب کا حوالہ درج کر دیا گیا ہے.جن دوستوں کو آپ کی کتب دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ان کی خدمت میں عرض ہے کہ حقیقی لطف اصل کتب دیکھنے ہی سے حاصل ہوگا یہ اقتباسات تو صرف نمونہ کے طور پر پیش کئے جار ہے ہیں.یا در ہے کہ صرف عناو نین جو فہرست میں بھی درج کئے گئے ہیں میں نے اپنی طرف سے قائم کئے ہیں لیکن یہ بھی دراصل حضور ہی کی تحریروں سے منتخب شدہ ہیں.یہ وضاحت شاید ضروری نہیں کہ عناونین والے صفحات پر اُوپر یا نیچے جو مختصر سے اقتباس دیئے گئے ہیں وہ بھی من و عن حضور ہی کے الفاظ ہیں اور اس باب کے مضمون کو بطور خلاصہ بیان کرتے ہیں.یہ بات بیان کرنا نہایت ضروری ہے کہ مختلف الموضوع کتب میں سے عنوان وارا اقتباسات نکالنا آسان کام نہیں ہے اس سے مفہوم خبط ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے.مثلاً اللہ تعالٰی ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید، ان تینوں کے بارے میں آپ کی تحریر میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ مینوں کے لئے علیحدہ علیحدہ اقتباس نکالنا سخت مشکل ہے.بہر حال کوشش کی گئی ہے کہ حوالے جوڑتے ہوئے یا درمیان سے مضمون

Page 7

چھوڑتے ہوئے ترتیب اور تسلسل قائم رہے اور مفہوم خبط نہ ہو.اگر کہیں پیچیدگی یا الجھن پیدا ہو یا مضمون نا تمام معلوم ہوتو میری سمجھ کا قصور ہو گا اصل کتاب دیکھنے سے اُلجھن فور اوور ہو جائے گی.حوالہ جات کے بارے میں عرض ہے کہ جلد گیارہ تک کی کتب کے حوالے تو رُوحانی خزائن والے ایڈیشن سے دیئے گئے ہیں باقی ان ایڈیشنوں میں سے ہیں جو مجھے میٹر تھے.اگر با وجود تلاش کے کوئی حوالہ نہ ملے تو خاکسار تلاش کر کے دینے کا ذمہ دار ہے انشاء اللہ ایسا کوئی حوالہ نہیں ہو گا جو سرے سے اس کتاب میں ہی موجود نہ ہو.کتابت کی اغلاط کس کتاب میں نہیں ہوتیں ایڈیشن در ایڈیشن اور نقل در نقل میں تو مزید بڑھ جاتی ہیں ان کی درستی بعد ہی میں کی جاسکتی ہے.میرا دل اپنی رفیقہ حیات کے لئے ممنونیت کے جذبات سے لبریز ہے جنہوں نے اقتباسات کی تلاش نقل تصحیح اور پھر کا پی پڑھنے میں مسلسل بڑے حو صلے اور محنت سے میرا ہاتھ بٹایا.فَجَزَاهَـا اللـه أَحْسَنَ الْجَزَاء نوٹ: پہلی دفعہ یہ کتاب ایک جلد میں اَلْجَمْعِيَّةُ الْعِلْمِيَّةُ لِلْجَامِعَةِ الْاَحْمَدِيَّةِ ربوہ کی طرف سے شائع ہوئی تھی.یں موجود کمپیوٹرائز ڈایڈیشن میں نظارت اشاعت ربوہ نے تمام حوالہ جات روحانی خزائن ، ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام، اشتہارات اور مکتوبات احمد کے جدید ایڈیشنز کے مطابق دیئے ہیں.

Page 8

۱۳ ۱۴ لا ۸۵ ۱۸۷ ۱۸۹ ۲۲۶ ۳۳۵ ۴۰۷ فہرست مضامین حصہ اوّل باب اول : ذاتی اور خاندانی حالات ر باب دوم : دعوی د - مقام ب.بعثت کا مقصد ج - تبلیغ اور ایک پاک جماعت کا قیام اور ان کو نصائح باب سوم : تعلیم وعقائد اصولی عقائد سچا اور زندہ مذہب اسلام اللہ تعالیٰ جل شانه و عزّ اسمه وحی الہام، کشوف اور رویا سید المطهرين خاتم النبین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید حدیث وسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ملائكة الله دعا ۵۱۳ ۶۰۹ पाट ۶۵۱

Page 9

۶۸۳ ۶۹۲ ۷۲۳ ۷۳۳ ۷۵۶ ۷۶۴ 29.۸۳۴ ۸۳۵ ۸۴۴ ۸۶۹ ۹۴۷ ۹۵۷ ۹۶۹ ۹۹۰ 1+12 ۱۰۲۴ تو بہ واستغفار نجات بعث بعد الموت بهشت و دوزخ حصہ دوم مقصد پیدائش انسان کی طبعی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں ایمان ، یقین اور معرفت جذب وسلوک انبیاء کی ضرورت اسلام میں نبوت حضرت مسیح ناصری علیہ السلام اور نزولِ مسیح المسیح الدجال ذوالقرنین یا جوج و ماجوج ام الالسنه ارکان اسلام جہاد بالسیف قضاء وقدر تقوى

Page 10

۱۰۲۹ ۱۰۳۴ ۱۰۴۵ ۱۰۵۵ ۱۰۶۰ 1+71 ۱۰۸۳ ۱۱۹۳ ۱۲۰۴ ۱۲۰۷ ۱۲۱۶ ۱۲۳۲ ۱۲۳۶ ۱۲۴۸ ۱۲۵۶ ۱۲۵۸ ۱۲۵۹ ۱۲۹۵ ན་ مظنی اس دنیا میں عذاب عورت پرده تربیت اولاد روح باب چہارم : بار بار دعوت مقابلہ باب پنجم : معجزات ، نشانات اور پیشگوئیاں شادی اور اولا دصالحہ جلسه اعظم مذاہب عبد اللہ آتھم لیکھرام طاعون فتح عظیم غیر معمولی نصرت اور شہرت زلازل اور جنگیں سلطان القلم خطبہ الہامیہ متفرق نشانات باب ششم : انجام سلسله

Page 11

باب اوّل ذاتی اور خاندانی حالات

Page 12

Page 13

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم ہمارا شجرہ نسب اس طرح پر ہے میرا نام غلام احمد ابن مرزا غلام مرتضی صاحب ابن مرزا عطا محمد صاحب ابن مرزا گل محمد صاحب ابن مرزا فیض محمد صاحب ابن مرزا محمد قائم صاحب ابن مرزا محمد اسلم صاحب ابن مرزا محمد دلاور صاحب ابن مرزا الہ دین صاحب ابن مرزا جعفر بیگ صاحب ابن مرزا محمد بیگ صاحب ابن مرزا عبدالباقی صاحب ابن مرزا محمد سلطان صاحب ابن میرزا ہادی بیگ صاحب مورث اعلیٰ.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷۲ حاشیه در حاشیه ) میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضی اور دادا صاحب کا نام عطا محمد اور میرے پر دادا صاحب کا نام گل محمد تھا.اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل بر لاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جواب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے تھے اور اُن کے ساتھ قریباً دو سو آدمی اُن کے توابع اور خدام اور اہل وعیال میں سے تھے.اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے اور اس قصبہ کی جگہ میں جو اُس وقت ایک جنگل پڑا ہوا تھا جو لاہور سے تخمینا بفاصلہ پچاس کوس بگوشئہ شمال مشرق واقع ہے فروکش ہو گئے.جس کو انہوں نے آباد کر کے اس کا نام اسلام پور رکھا جو پیچھے سے اسلام پور قاضی ماجھی کے نام سے مشہور ہوا اور رفتہ رفتہ اسلام پور کا لفظ لوگوں کو بھول گیا اور قاضی ماجھی کی جگہ پر قاضی رہا اور پھر آخر قادی بنا.اور پھر اس سے بگڑ کر قادیاں بن گیا.اور قاضی ماجھی کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ علاقہ جس کا طولانی حصہ قریباً ساٹھ کوس ہے ان دنوں میں سب کا سب ماجھہ کہلاتا تھا.غالبا اس وجہ سے اس کا نام ماجھہ تھا کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی تھیں اور ماجھ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں اور چونکہ ہمارے بزرگوں کو علاوہ دیہات جاگیرداری کے اس تمام علاقہ کی حکومت بھی ملی تھی اس لئے قاضی کے نام سے مشہور ہوئے.مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمر قند سے اس ملک میں آئے مگر کاغذات سے یہ پتہ ملتا ہے کہ اُس ملک میں بھی وہ معزز امراء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا.پھر

Page 14

اس ملک میں آ کر بادشاہ وقت کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جا گیر اُن کو ملے.چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست اُن کی ہو گئی.سکھوں کے ابتدائی زمانہ میں میرے پردادا صاحب میرزا گل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے جن کے پاس اس وقت ریشے گا نو تھے اور بہت سے گانوسکھوں کے متواتر حملوں کی وجہ سے اُن کے قبضہ سے نکل گئے تاہم اُن کی جوانمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گاؤں انہوں نے مروّت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دے دیئے تھے جواب تک اُن کے پاس ہیں.غرض وہ اس طوائف الملو کی کے زمانہ میں اپنے نواح میں ایک خود مختار رئیس تھے.ہمیشہ قریب پانسو آدمی کے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ اُن کے دستر خوان پر روٹی کھاتے تھے.اور ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآن شریف کے اُن کے پاس رہتے تھے جن کے کافی وظیفے مقرر تھے اور اُن کے دربار میں اکثر قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر بہت ہوتا تھا.اور تمام ملازمین اور متعلقین میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو تارک نماز ہو.یہاں تک کہ چکی پینے والی عورتیں بھی پنجوقتہ نماز اور تہجد پڑھتی تھیں اور گرد و نواح کے معزز مسلمان جو اکثر افغان تھے قادیاں کو جو اس وقت اسلام پور کہلاتا تھا مکہ کہتے تھے.کیونکہ اُس پر آشوب زمانہ میں ہر ایک مسلمان کے لئے یہ قصبہ مبارکہ پناہ کی جگہ تھی اور دوسری اکثر جگہ میں کفر اور فسق اور ظلم نظر آتا تھا.اور قادیاں میں اسلام اور تقویٰ اور طہارت اور عدالت کی خوشبو آتی تھی.میں نے خود اس زمانہ سے قریب زمانہ پانے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ اس قدر قادیاں کی عمدہ حالت بیان کرتے تھے کہ گویا وہ اس زمانہ میں ایک باغ تھا جس میں حامیانِ دین اور ور صلحاء اور علماء اور نہایت شریف اور جوانمرد آدمیوں کے صدہا پودے پائے جاتے تھے.اور اس نواح میں یہ واقعات نہایت مشہور ہیں کہ میرزا گل محمد صاحب مرحوم مشائخ وقت کے بزرگ لوگوں میں سے اور صاحب خوارق اور کرامات تھے.جن کی صحبت میں رہنے کے لئے بہت سے اہل اللہ اور صلحاء اور فضلاء قادیاں میں جمع ہو گئے تھے.اور عجیب تریہ کہ کئی کرامات اُن کی ایسی مشہور ہیں جن کی نسبت ایک گروہ کثیر مخالفان دین کا بھی گواہی دیتا رہا ہے.غرض وہ علاوہ ریاست اور امارت کے اپنی دیانت اور تقویٰ اور مردانہ ہمت اور اولوالعزمی اور حمایت دین اور ہمدردی مسلمانوں کی صفت میں نہایت مشہور تھے اور اُن کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے اور فسق و فجور سے دُور رہنے والے اور بہادر اور بارعب آدمی تھے.چنانچہ میں نے کئی دفعہ اپنے والد صاحب مرحوم سے

Page 15

سنا ہے کہ اس زمانہ میں ایک دفعہ ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا قادیاں میں آیا جو غیاث الدولہ کے نام سے مشہور تھا اور اس نے میرزا گل محمد صاحب کے مدبرانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولوالعزمی اور استقلال اور عقل اور فہم اور حمایت اسلام اور جوشِ نصرت دیں اور تقویٰ اور طہارت اور دربار کے وقار کو دیکھا اور ان کے اس مختصر دربار کو نہایت متین اور عظمند اور نیک چلن اور بہادر مردوں سے پر پایا تب وہ چشم پر آب ہو کر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفاتِ ضرور یہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایام کسل اور نالیاقتی اور بد وضعی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے.اس جگہ اس بات کا لکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ میرے پردادا صاحب موصوف یعنی میرزا گل محمد نے چکی کی بیماری سے جس کے ساتھ اور عوارض بھی تھے وفات پائی تھی.بیماری کے غلبہ کے وقت اطباء نے اتفاق کر کے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کو استعمال کرایا جائے تو غالبا اس سے فائدہ ہو گا مگر جرات نہیں رکھتے تھے کہ اُن کی خدمت میں عرض کریں.آخر بعض نے اُن میں سے ایک نرم تقریر میں عرض کر دیا.تب انہوں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کو شفا دینا منظور ہو تو اس کی پیدا کردہ اور بھی بہت سی دوائیں ہیں.میں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا کے قضا و قدر پر راضی ہوں.آخر چند روز کے بعد اسی مرض سے انتقال فرما گئے.موت تو مقدر تھی مگر یہ اُن کا طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یادگار رہا کہ موت کو شراب پر اختیار کر لیا.موت سے بچنے کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا.لیکن انہوں نے معصیت کرنے سے موت کو بہتر سمجھا.افسوس اُن بعض نوابوں اور امیروں اور رئیسوں کی حالت پر کہ اس چند روزہ زندگی میں اپنے خدا اور اس کے احکام سے بکلی لا پرواہ ہو کر اور خدا تعالیٰ سے سارے علاقے تو ڑ کر دل کھول کر ارتکاب معصیت کرتے ہیں اور شراب کو پانی کی طرح پیتے ہیں.اور اس طرح اپنی زندگی کو نہایت پلید اور نا پاک کر کے اور عمر طبعی سے بھی محروم رہ کر اور بعض ہولناک عوارض میں مبتلا ہو کر جلد تر مر جاتے ہیں اور آئندہ نسلوں کے لئے نہایت خبیث نمونہ چھوڑ جاتے ہیں.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میرے پردادا صاحب فوت ہوئے تو بجائے اُن کے میرے دادا صاحب یعنی مرزا عطا محمد فرزند رشید ان کے گدی نشین ہوئے.اُن کے وقت میں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی میں سکھ غالب آئے.دادا صاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت

Page 16

تدبیریں کیں مگر جبکہ قضا و قدر ان کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے ناکام رہے اور کوئی تدبیر پیش نہ گئی اور روز بروز سکھ لوگ ہماری ریاست کے دیہات پر قبضہ کرتے گئے یہاں تک کہ دادا صاحب مرحوم کے پاس صرف ایک قادیاں رہ گئی اور قادیاں اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر قصبہ تھا اور اُس کے چار بُرج تھے اور بُر جوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے اور چند تو ہیں تھیں اور فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اس قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل اُس پر جا سکتے تھے.اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا جو رام گڑھیہ کہلاتا تھا اول فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیاں میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا.اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کے مال و متاع سب لوٹی گئی.کئی مسجد میں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا اور بعض مسجد میں جن میں سے اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا.اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا جس میں سے پانسونسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا اور آخرسکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا.چنانچہ تمام مردوزن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزین ہوئے.تھوڑے عرصہ کے بعد ان ہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے دادا صاحب کو زہر دی گئی.پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضی قادیاں میں واپس آئے اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گانو واپس ملے کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی.سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لودھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا.غرض ہماری پورانی ریاست خاک میں مل کر آخر پانچ گاؤں ہاتھ میں رہ گئے پھر بھی بلحاظ پورانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضی اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے....چنانچہ سرلیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ان کا تذکرہ کیا ہے.غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہر دلعزیز تھے اور بسا اوقات اُن کی دلجوئی کے لئے حکام وقت، ڈپٹی کمشنر، کمشنر اُن کے مکان پر آ کر اُن کی ملاقات کرتے تھے.یہ مختصر میرے خاندان کا حال ہے.میں ضروری نہیں دیکھتا کہ اس کو بہت طول دوں.

Page 17

اب میرے ذاتی سوانح یہ ہیں کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے.اور میں ۱۸۵۷ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا اور ابھی ریش و بردت کا آغاز نہیں تھا.میری پیدائش سے پہلے میرے والد صاحب نے بڑے بڑے مصائب دیکھے.ایک دفعہ ہندوستان کا پیادہ پا سیر بھی کیا.لیکن میری پیدائش کے دنوں میں اُن کی تنگی کا زمانہ فراضی کی طرف بدل گیا تھا.اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ میں نے ان کے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا.اور نہ اپنے دوسرے بزرگوں کی ریاست اور ملک داری سے کچھ حصہ پایا بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح جن کے ہاتھ میں صرف نام کی شہزادگی بوجہ داؤد کی نسل سے ہونے کے تھی اور ملک داری کے اسباب سب کچھ کھو بیٹھے تھے ایسا ہی میرے لئے بھی بگفتن یہ بات حاصل ہے کہ ایسے رئیسوں اور ملک داروں کی اولاد میں سے ہوں.شاید یہ اس لئے ہوا کہ یہ مشابہت بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ پوری ہو.اگر چہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میرے لئے سر رکھنے کی جگہ نہیں مگر تا ہم میں جانتا ہوں کہ وہ تمام صف ہمارے اجداد کی ریاست اور ملک داری کی لپیٹی گئی اور وہ سلسلہ ہمارے وقت میں آ کر بالکل ختم ہو گیا اور ایسا ہوا تا کہ خدا تعالیٰ نیا سلسلہ قائم کرے جیسا کہ براہین احمدیہ میں اس سبحانہ کی طرف سے یہ الہام ہے.سُبْحَانَ اللهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى زَادَ مَجْدَكَ.يَنْقَطِعُ ابَاءُ كَ وَيُبْدَءُ مِنْكَ.یعنی خدا جو بہت برکتوں والا اور بلند اور پاک ہے اُس نے تیری بزرگی کو تیرے خاندان کی نسبت زیادہ کیا.اب سے تیرے آبا کا ذکر قطع کیا جائے گا اور خدا تجھ سے شروع کرے گا.اور ایسا ہی اس نے مجھے بشارت دی کہ :.و میں تجھے برکت دوں گا اور بہت برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ پھر میں پہلے سلسلہ کی طرف عود کر کے لکھتا ہوں کہ بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھا ئیں اور اُس بزرگ کا نام فضل الہی تھا.اور جب میری عمر قریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا.میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں

Page 18

کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا.مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو اُن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا ان کا نام گل علی شاہ تھا.ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے.اور اُن دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا.میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے اور نیز اُن کا یہ بھی مطلب تھا کہ میں اس شغل سے الگ ہو کر اُن کے عموم و ہموم میں شریک ہو جاؤں.آخر ایسا ہی ہوا.میرے والد صاحب اپنے بعض آباء اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے.انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بے ہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا.میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا.اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا رہا.ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیا داروں کی طرح مجھے رو بہ خلق بناویں اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بے زار تھی.ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیاں میں آنا چاہا.میرے والد صاحب نے بار بار مجھ کو کہا کہ اُن کی پیشوائی کے لئے دو تین کوس جانا چاہئے مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جا سکا.پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا اور وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا.مگر تا ہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور اُن کے لئے دُعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترخم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی

Page 19

۹ دین کی طرف صحیح اور سچ بات یہی ہے ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں.ایسا ہی ان کے زیر سایہ ہونے کے ایام میں چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی.آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گران تھا اس لئے اُن کے حکم سے جو عین میری منشا کے موافق تھا میں نے استعفا دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا.اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں.ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو پورے طور پر صوم اور صلوٰۃ کے پابند ہوں اور جوان نا جائز حظوظ سے اپنے تئیں بچا سکیں جو ابتلاء کے طور پر ان کو پیش آتے رہتے ہیں.میں ہمیشہ اُن کے مُنہ دیکھ کر حیران رہا اور اکثر کو ایسا پایا کہ ان کی تمام دلی خواہشیں مال و متاع تک خواہ حلال کی وجہ سے ہو یا حرام کے ذریعہ سے محدود تھیں اور بہتوں کی دن رات کی کوششیں صرف اسی مختصر زندگی کی دنیوی ترقی کے لئے مصروف پائیں.میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے اخلاق فاضلہ علم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی مخلوق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پر ہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں بلکہ بہتوں کو تکبر اور بد چلنی اور لا پروائی دین اور طرح طرح کے اخلاق رذیلہ میں شیطان کے بھائی پایا.اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ ہر ایک قسم اور ہر ایک نوع کے انسانوں کا مجھے تجربہ حاصل ہو اس لئے ہر ایک صحبت میں مجھے رہنا پڑا اور بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے.من پہر جمعیت نالاں شدم شدم جفت خوش حالاں و بدحالاں کسی از ظن خود شد یار من ہر و از درون من نخست اسرار من سے اور جب میں حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا تو بدستور انہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گیا.مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں (بنسری کہتی ہے) میں نے ہر مجلس میں اپنا رونا رویا اور برے بھلے ہر قسم کے لوگوں کی صحبت میں رہی.ہر شخص اپنے ظن کی بنا پر ہی میرا دوست بنا لیکن کسی نے میرے دل کے بھیدوں کے جانے کی کوشش نہ کی.

Page 20

1.صرف ہوتا تھا اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سُنایا بھی کرتا تھا اور میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے.انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار روپیہ کے قریب خرچ کیا تھا جس کا انجام آخر نا کا می تھی.کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور اُن کا واپس آنا ایک خیالِ خام تھا.اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے.اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا.کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیوی کدورتوں سے پاک ہے.اگر چہ حضرت مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سر کار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ بیچ تھا.اسی وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے.اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شاید آج قطب وقت یا غوث وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے..عمر بگذشت و نماند ست جز آیا می چند که در یاد کسے صبح کنم شامے چند اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے.از در تو اے کس بے کسے امیدم روم نا امید نیست اور کبھی درد دل سے یہ شعر اپنا پڑھا کرتے تھے.؎ باب دیده عشاق و خاک پائے کیسے مرا دلے ست که در خوں تپد بجائے کسے حضرت عزت جل شانہ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں اُن پر غلبہ کرتی گئی تھی.بار ہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بے ہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر ناحق ضائع کر دی.ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا عمر گزرگئی اور بہت تھوڑی باقی ہے بہتر ہے کہ کسی کی یاد میں چند شاموں کو صبح کریں.ے تیرے در سے کوئی بھی بے کس نہیں ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ میں بھی نا امید نہیں جاؤں گا.سے عشاق دیدہ تر اور معشوق کی خاک پا ہونے کی حالت لئے ہوئے میرا دل بھی کسی محبوب کے لئے تڑپتا ہے.

Page 21

کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے تو میں اس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا.جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے یہ دیکھ کر میں چشم پر آب ہو گیا.اور پھر آنکھ کھل گئی.“ اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیا داری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی طرح ہے.اور فرمایا کرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخری حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں ہی گزرا.اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر نا کا می تھی اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پردادا صاحب کا ایک شعر بھی سُنایا کرتے تھے.جس کا ایک مصرعہ راقم کو بھول گیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ع ”جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے“ اور یہ غم اور درد اُن کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا.اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہوتا خدائے عز وجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو.چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت ہمہ وجوہ مکمل ہو گئی اور شاید فرش کی چند منٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہو گئے اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے.اللَّهُمَّ ارْحَمُهُ وَ اَدْخِلُهُ الْجَنَّةَ.آمین.قریباً اسی یا پچاشی برس کے عمر پائی.ان کی یہ حسرت کی باتیں کہ میں نے کیوں دنیا کے لئے وقت عزیز کھو یا اب تک میرے دل پر درد ناک اثر ڈال رہی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو دنیا کا طالب ہو گا آخر اس حسرت کو ساتھ لے جائے گا.جس نے سمجھنا ہو سمجھے.میری عمر قریباً چونتیس یا پینتیس برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا.مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے.میں اس وقت لاہور میں تھا جب مجھے یہ خواب آیا تھا تب میں جلدی سے قادیاں میں پہنچا اور ان کو مرض زیر میں مبتلا پایا لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہو گئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے.دوسرے دن شدت دو پہر کے وقت ہم سب عزیز ان کی خدمت میں حاضر تھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرہ آرام کر لو کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی.میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا اور ایک نوکر

Page 22

۱۲ پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہو اؤ السَّمَاءِ وَ الطَّارِق یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضا و قدر کا مبدء ہے اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا.سبحان اللہ ! کیا شان خدا وند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہونے پر حسرت کرتا ہوا فوت ہوا ہے اُس کی وفات کو عزا پرسی کے طور پر بیان فرماتا ہے.اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گے کہ خدا تعالیٰ کی عزا پر سی کیا معنی رکھتی ہے.مگر یاد رہے کہ حضرت عزت جل شانہ جب کسی کو رحمت سے دیکھتا ہے تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کا ہنسنا بھی جو حدیثوں میں آیا ہے.انہی معنوں کے لحاظ سے ہے.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف سے یہ الہام ہوا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو بشریت کی وجہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلاء ہمیں پیش آئے گا.تب اُسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا.أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے اور اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا.پس مجھے اس خدائے عز وجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے اس مبشر انہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر کے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا.میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفل نہیں ہو گا.میرے پر اس کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ بالکل محال ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں.اور میرے والد صاحب اُسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہو گئے یہ ایک پہلا دن تھا جو میں نے بذریعہ خدا کے الہام کے ایسا رحمت کا نشان دیکھا.جس کی نسبت میں خیال نہیں کر سکتا کہ میری زندگی میں کبھی منقطع ہو.میں نے اس الہام کو انہی دنوں میں ایک نگینہ میں کھدوا کر اُس کی انگشتری بنائی جو بڑی حفاظت سے اب تک رکھی ہوئی ہے.غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گزری.ایک طرف اُن کا دنیا سے اٹھایا جانا تھا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الہیہ کا مجھ سے شروع ہوا.) کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۶۲ تا ۱۹۵ حاشیه)

Page 23

۱۳ مقام باب دوم دعویٰ بعثت کا مقصد ج.تبلیغ اور اپنی جماعت کو نصائح مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو.جس کسی کے کان سننے کے ہوں سنے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور لوگوں کی نظروں میں عجیب !

Page 24

۱۴ مقام امروز قوم من نه شناسد مقام روزے بگرید یاد کند وقت خوشترم ! لے آج کے دن میری قوم میرا درجہ نہیں پہچانتی لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ رو رو کر میرے مبارک وقت کو یا دکرے گی.

Page 25

۱۵ خداوند کریم نے اُسی رسول مقبول کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے.اور علوم لد قبیہ سے سرفراز فرمایا ہے اور بہت سے اسرار مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پُر کر دیا ہے اور بار ہا بتلا دیا ہے کہ یہ سب عطیات اور عنایات اور یہ سب تفـــضـلات اور احسانات اور یہ سب تلطفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیمنِ متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جمال ہم نشین در من وگرنه من ہمان اثر کرد خاکم که هستم ( براہین احمدیہ ہر چہار ص.روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۴۶،۶۴۵ حاشیہ نمبر ۱۱) میں خدا تعالیٰ کے ان تمام الہامات پر جو مجھے ہو رہے ہیں ایسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن مقدس پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اس خدا تعالیٰ کو جانتا اور پہچانتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے...سومیں اس وحی پاک سے ایسا ہی کامل حصہ رکھتا ہوں جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کامل قرب کی حالت میں انسان رکھ سکتا ہے.جب انسان ایک پُر جوش محبت کی آگ میں ڈالا جاتا ہے جیسا کہ تمام نبی ڈالے گئے تو پھر اس کی وحی کے ساتھ اضغاث احلام نہیں رہتے بلکہ جیسا کہ خشک گھاس تنور میں جل جاتا ہے ویسا ہی وہ تمام اوہام اور نفسانی خیالات جل جاتے ہیں اور خالص خدا کی وحی رہ جاتی ہے.اور یہ وحی صرف انہی کو ملتی ہے جو دنیا میں کمال صفا، محبت اور محویت کی وجہ سے نبیوں کے رنگ میں ہو جاتے ہیں جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۰۴ اٹھارہویں سطر میں یہ الہام میری نسبت ہے "جرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ“ یعنی خدا کا فرستادہ نبیوں کے حلہ میں.سو میں شکی اور ظنی الہام کے ساتھ نہیں بھیجا گیا بلکہ یقینی اور قطعی وحی کے ساتھ بھیجا گیا ہوں..مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے دلائل قاطعہ سے یہ علم دیا گیا ہے اور ہر ایک وقت میں دیا جاتا ہے کہ جو کچھ مجھے القاء ہوتا ہے اور جو وحی لے میرے ساتھی کا حسن مجھ میں سرایت کر گیا ہے ورنہ میں وہی مٹی کی مٹی ہوں.

Page 26

۱۶ میرے پر نازل ہوتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے نہ شیطان کی طرف سے.میں اس پر ایسا ہی یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آفتاب اور ماہتاب کے وجود پر یا جیسا کہ اس بات پر کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں.ہاں جب میں اپنی طرف سے کوئی اجتہاد کروں یا اپنی طرف سے کسی الہام کے معنے کروں تو ممکن ہے کہ کبھی اس معنی میں غلطی بھی کھاؤں.مگر میں اس غلطی پر قائم نہیں رکھا جاتا.اور خدا کی رحمت جلد تر مجھے حقیقی انکشاف کی راہ دکھا دیتی ہے اور میری روح خدا کے فرشتوں کی گود میں پرورش پاتی ہے.تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۶۴ ، ۶۵ - مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۰۶، ۳۰۷ بار دوم ) وجذ بني ربي اليه و احسن مثواى واسبغ عَلَيَّ من نعماء الدين و قادني من تدنّسات الـدنـيـا الـى حظيرة قدسه و اعطانى ما اعطانى وجعلنى من الملهمين المحدثين.فما كان عندى من مال الدنيا و خيلها وأفراسها غير أنى أعطيتُ جياد الاقلام و رُزقت جواهر الكلام وأعطيتُ من نورٍ يؤمننى العثار و يبين لي الآثار.فهذه الدولة الالهية السماوية وقد أغنتني و جبرت عيلتی و اضاء تنی و نورت لیلتی و ادخلتني في المُنْعَمِین.اور میرے رب نے اپنی طرف مجھے کھینچ لیا اور مجھے نیک جگہ دی.اور اپنی نعمتوں کو مجھ پر کامل کیا.اور مجھے دنیا کی آلودگیوں اور مکروہات سے نکال کر اپنی مقدس جگہ میں لے آیا اور مجھے اُس نے دیا جو کچھ دیا اور مجھے ملہموں اور محدثوں میں سے کر دیا.سو میرے پاس دنیا کا مال اور دنیا کے گھوڑے اور دنیا کے سوار تو نہیں تھے بجز اس کے کہ عمدہ گھوڑے قلموں کے مجھ کو عطا کئے گئے اور کلام کے جواہر مجھ کو دیئے گئے اور وہ نور مجھ کو عطا ہوا جو مجھے لغزش سے بچاتا اور راست روی کے آثار مجھ پر ظاہر کرتا ہے.پس اس الہی اور آسمانی دولت نے مجھے غنی کر دیا اور میرے افلاس کا تدارک کیا اور مجھے روشن کیا.اور میری رات کو منور کر دیا اور مجھے منعموں میں داخل کیا.(نور الحق حصّہ اوّل.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۹،۳۸) میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۴۵) میں کچھ بیان نہیں کر سکتا کہ میرا کون ساعمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الہی شامل حال ہوئی.صرف اپنے اندر یہ احساس کرتا ہوں کہ فطرتا میرے دل کو خدا تعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے

Page 27

۱۷ جو کسی چیز کے روکنے سے رُک نہیں سکتی.سو یہ اسی کی عنایت ہے.میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی.اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا جو انواع اقسام کے بدعات میں مبتلا ہیں.ہاں حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جب کہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اُس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنتِ خاندانِ نبوت ہے.“ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنتِ اہل بیت رسالت کو بجالاؤں.سومیں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا.مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجا لانا بہتر ہے.پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگوا تا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا تھا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گزارتا اور بجز خدا تعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی.پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں سو میں اُس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام رات دن میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی.غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا.اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اُس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ حسنین وعلی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا.اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی.غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں.جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز وسرخ ایسے دلکش و دلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے.وہ نورانی ستون جوسید ھے آسمان کی

Page 28

۱۸ طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سُرخ تھے اُن کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور رُوح کو لذت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی.یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دُور ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو اِن امور سے خبر ملتی ہے.غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے.ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں.میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے.اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہو سکتا.لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا.میں نے کئی جاہل درویش ایسے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے شدید ریاضتیں اختیار کیں اور آخر یبوست دماغ سے وہ مجنون ہو گئے اور بقیہ عمر اُن کی دیوانہ پن میں گذری یا دوسرے امراض سل اور دق وغیرہ میں مبتلا ہو گئے.انسانوں کے دماغی قومی ایک طرز کے نہیں ہیں.پس ایسے اشخاص جن کے فطرتاً قومی ضعیف ہیں اُن کو کسی قسم کا جسمانی مجاہدہ موافق نہیں پڑ سکتا اور جلد ترکسی خطرناک بیماری میں پڑ جاتے ہیں.سو بہتر ہے کہ انسان اپنی نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے.ہاں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی الہام ہو اور شریعتِ غزاء اسلام سے منافی نہ ہو تو اس کو بجالانا ضروری ہے لیکن آجکل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں اُن کا انجام اچھا نہیں ہوتا.پس ان سے پر ہیز کرنا چاہئے.یادر ہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجا لانا چھوڑ دیا.

Page 29

۱۹ اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا.یہ تو سب کچھ ہوا لیکن روحانی سختی کشی کا حصہ ہنوز باقی تھا.سو وہ حصہ ان دنوں میں مجھے اپنی قوم کے مولویوں کی بد زبانی اور بد گوئی اور تکفیر اور تو ہین اور ایسا ہی دوسرے جہلاء کے دشنام اور دل آزاری سے مل گیا.اور جس قدر یہ حصہ بھی مجھے ملا میری رائے ہے کہ تیرہ سو برس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کم کسی کو ملا ہو گا.میرے لئے تکفیر کے فتوے طیار ہو کر مجھے تمام مشرکوں اور عیسائیوں اور دہریوں سے بدتر ٹھہرایا گیا اور قوم کے سفہاء نے اپنے اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ سے مجھے وہ گالیاں دیں کہ اب تک مجھے کسی دوسرے کے سوانح میں ان کی نظیر نہیں ملی.سومیں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ دونوں قسم کی سختی سے میرا امتحان کیا گیا.توہین ہے.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۵ تا ۲۰۱ حاشیه) خدا تعالیٰ اس بات کو جانتا ہے اور وہ ہر ایک امر پر بہتر گواہ ہے کہ وہ چیز جو اس کے راہ میں مجھے سب سے پہلے دی گئی وہ قلب سلیم تھا یعنی ایسا دل کہ حقیقی تعلق اس کا بجز خدائے عز و جل کے کسی چیز کے ساتھ نہ تھا.میں کسی زمانہ میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہو انگر میں نے کسی حصہ عمر میں بجز خدائے عز وجل کسی کے ساتھ اپنا حقیقی تعلق نہ پایا اور اسی تپش محبت کی وجہ سے میں ہرگز کسی ایسے مذہب پر راضی.نہیں ہوا جس کے عقائد خدا تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت کے برخلاف تھے یا کسی قسم کی توہین کو مستلزم تھے.یہی وجہ ہے کہ عیسائی مذہب مجھے پسند نہ آیا کیونکہ اس کے ہر ایک قدم میں خدائے عز و جل کی اسی طرح ہندو مذہب جس کی ایک شاخ آریہ مذہب ہے وہ سچائی کی حالت سے بالکل گرا ہوا ہے.ان کے نزدیک اس جہان کا ذرہ ذرہ قدیم ہے جن کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں.پس ہندوؤں کو اس خدا پر ایمان نہیں جس کے بغیر کوئی چیز ظہور میں نہیں آئی اور جس کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.غرض میں نے خوب غور سے دیکھا کہ یہ دونوں مذہب راستبازی کے مخالف ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جس قدر ان مذاہب میں روکیں اور نو میدی پائی جاتی ہے میں سب کو اس رسالہ میں لکھ نہیں سکتا صرف بطور خلاصہ لکھتا ہوں کہ وہ خدا جس کو پاک روحیں تلاش کرتی ہیں اور جس کو پانے سے انسان اسی زندگی میں بچی نجات پاسکتا ہے اور اس پر انوار الہی کے دروازے کھل سکتے ہیں اور اس کی کامل معرفت کے ذریعہ سے کامل محبت پیدا ہو سکتی ہے اُس خدا کی طرف یہ دونوں مذہب رہبری نہیں کرتے اور ہلاکت کے گڑھے میں ڈالتے ہیں.ایسا ہی ان کے مشابہ دنیا میں اور مذاہب بھی پائے جاتے ہیں مگر یہ سب مذاہب خدائے واحد لا شریک تک نہیں پہنچا سکتے اور طالب کو تاریکی میں چھوڑتے ہیں.

Page 30

۲۰ یہ وہ تمام مذاہب ہیں جن میں غور کرنے کے لئے میں نے ایک بڑا حصہ عمر کا خرچ کیا.اور نہایت دیانت اور تدبر سے ان کے اصول میں غور کی مگر سب کو حق سے دُور اور مہجور پایا.ہاں یہ مبارک مذہب جس کا نام اسلام ہے وہی ایک مذہب ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچا تا ہے.اور وہی ایک مذہب ہے جو انسانی فطرت کے پاک تقاضاؤں کو پورا کرنے والا ہے...اسلام کا خدا کسی پر اپنے فیض کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ اور جولوگ پورے زور سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اُن کے لئے دروازہ کھولا جاتا ہے.سوئیں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے.جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.اور میرے لئے اس نعمت کا پا نا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولی فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۹ تا ۶۵) بعض نادانوں کا یہ خیال کہ گویا میں نے افترا کے طور پر الہام کا دعویٰ کیا ہے غلط ہے بلکہ در حقیقت یہ کام اس قادر خدا کا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اس جہان کو بنایا ہے.جس زمانہ میں لوگوں کا ایمان خدا پر کم ہو جاتا ہے اس وقت میرے جیسا ایک انسان پیدا کیا جاتا ہے اور خدا اس سے ہمکلام ہوتا ہے.اور اس کے ذریعہ سے اپنے عجائب کام دکھلاتا ہے.یہاں تک کہ لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا ہے.میں عام اطلاع دیتا ہوں کہ کوئی انسان خواہ ایشیائی ہو خواہ یوروپین اگر میری صحبت میں رہے تو وہ ضرور کچھ عرصہ کے بعد میری ان باتوں کی سچائی معلوم کر لے گا.(اشتہار واجب الاظہار ۲۰ ستمبر ۱۸۹۷ء کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸) جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ :.الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَ ابَاءُ هُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلَ الْمُجْرِمِينَ.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ “ یعنی خدا نے تجھے قرآن سکھلایا اور اُس کے صحیح معنے تیرے پر کھول دیئے.یہ اس لئے ہوا کہ تا تو ان لوگوں کو بد انجام سے ڈراوے کہ جو باعث پشت در پشت کی

Page 31

۲۱ غفلت اور نہ متنبہ کئے جانے کے غلطیوں میں پڑ گئے اور تا ان مجرموں کی راہ کھل جائے کہ جو ہدایت پہنچنے کے بعد بھی راہ راست کو قبول کرنا نہیں چاہتے.ان کو کہہ دے کہ میں مامور من اللہ اور اول المومنین ہوں.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۰۱ ۲۰۲ حاشیه ) اما بعد واضح ہو کہ موافق اس سنت غیر متبدلہ کے ہر یک غلبہ تاریکی کے وقت خدا تعالیٰ اس امتِ مرحومہ کی تائید کے لئے توجہ فرماتا ہے اور مصلحت عامہ کے لئے کسی اپنے بندہ کو خاص کر کے تجدید دین متین کے لئے مامور فرما دیتا ہے.یہ عاجز بھی اس صدی کے سر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجد د کا خطاب پاکر مبعوث ہوا.اور جس نوع اور قسم کے فتنے دنیا میں پھیل رہے تھے.ان کے رفع اور دفع اور قلع قمع کے لئے وہ علوم اور وسائل اس عاجز کو عطا کئے گئے کہ جب تک خاص عنایت الہی ان کو عطا نہ کرے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتے.کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۴۵) جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے.تب میں نے اس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اُس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو صلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں.اور اُن کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دُور کروں اور پھر جب اس پر چند سال گزرے تو بذریعہ وحی الہی میرے پر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس اُمت کے لئے ابتداء سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہِ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ میں ہی ہوں اور مکالمات الہیہ اور مخاطبات رحمانیہ اس صفائی اور تواتر سے اس بارے میں ہوئے کہ شک وشبہ کی جگہ نہ رہی.ہر ایک وحی جو ہوتی تھی ایک فولادی میخ کی طرح دل میں دھنستی تھی اور یہ تمام مکالمات الہیہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے تھے کہ

Page 32

۲۲ روز روشن کی طرح وہ پوری ہوتی تھیں اور اُن کے تو اتر اور کثرت اور اعجازی طاقتوں کے کرشمہ نے مجھے اس بات کے اقرار کے لئے مجبور کیا کہ یہ اُسی وحدہ لاشریک خدا کا کلام ہے جس کا کلام قرآن شریف ہے.اور میں اس جگہ توریت اور انجیل کا نام نہیں لیتا کیونکہ توریت اور انجیل تحریف کرنے والوں کے ہاتھوں سے اس قدر محرف و مبدل ہو گئی ہیں کہ اب ان کتابوں کو خدا کا کلام نہیں کہہ سکتے.غرض وہ خدا کی وحی جو میرے پر نازل ہوئی ایسی یقینی اور قطعی ہے کہ جس کے ذریعہ سے میں نے اپنے خدا کو پایا اور وہ وحی نہ صرف آسانی نشانوں کے ذریعہ مرتبہ حق الیقین تک پہنچی بلکہ ہر ایک حصہ اس کا جب خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر پیش کیا گیا تو اس کے مطابق ثابت ہوا اور اس کی تصدیق کے لئے بارش کی طرح نشان آسمانی بر سے.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳ ۴۰) بخدمت امراء در یکسان و منعمان ذی مقدرت و والیان ارباب حکومت و منزلت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اے بزرگان اسلام ! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کا سچا خادم بناوے.میں اس وقت محض اللہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کر کے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پر آشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتیں ظاہر کروں اور ان تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں ان نوروں اور برکات اور خوارق اور علومِ لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.( بركات الدعاء.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴) اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجددِ وقت ہے اور روحانی طور پر اُس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشر ت مناسبت ومشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء ورسل کے نمونہ پر محض بہ برکت متابعت حضرت خیر البشر وافضل الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 33

۲۳ ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں.اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بعد وحرمان ہے.(اشتہار منسلکہ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۵۷) ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں.یعنی ارادہ الہی احیائے دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیسی کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی اس لئے وہ اختلاف میں ہے.اس اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا.هذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُولَ اللهِ » " یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے.اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار ص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۹۸ حاشیه در حاشیه نمبر۳) یہ زمانہ جس میں ہم ہیں یہ وہی زمانہ ہے جس میں دشمنوں کی طرف سے ہر یک قسم کی بدزبانی کمال کو پہنچ گئی ہے اور بدگوئی اور عیب گیری اور افترا پردازی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور ساتھ اس کے مسلمانوں کی اندرونی حالت بھی نہایت خطرناک ہوگئی ہے صد ہا بدعات اور انواع اقسام کے شرک اور الحاد اور انکار ظہور میں آرہے ہیں.اس لئے قطعی یقینی طور پر اب یہ وہی زمانہ ہے جس میں پیشگوئی مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِینَ کے مطابق عظیم الشان مصلح پیدا ہو.سوالحمد للہ کہ وہ میں ہوں.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۵۳ حاشیه ) میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیبیتا کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے.اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اسی لئے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصہ پاؤ.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں.کیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں ایک مجد د کھلے کھلے دعوئی کے ساتھ آتا.سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کرو گے ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اس وقت کے علماء کی نا سمجھی اس کی سد راہ ہوئی.آخر

Page 34

۲۴ جب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا کہ تلخ درخت شیریں پھل نہیں لاسکتا اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتا جو خاصوں کو دی جاتی ہیں.اے لوگو! اسلام نہایت ضعیف ہو گیا ہے اور اعداء دین کا چاروں طرف سے محاصرہ ہے اور تین ہزار سے زیادہ مجموعہ اعتراضات کا ہو گیا ہے.ایسے وقت میں ہمدردی سے اپنا ایمان دکھاؤ.اور مردانِ خدا میں جگہ پاؤ.والسلام على من اتبع الهدى.برکات الدعاء.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶، ۳۷) اس زمانہ کے مجد دکا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجد د کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ تو ڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور اُن پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کے لئے جو بغیر تائید الہی دُور نہیں ہو سکتی عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں جن کے دُور کرنے کے لئے ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے.آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۱) مسلمانوں اور عیسائیوں کا کسی قدر اختلاف کے ساتھ یہ خیال ہے کہ ” حضرت مسیح بن مریم اسی عنصری وجود سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور پھر وہ کسی زمانہ میں آسمان سے اُتریں گے.‘میں اس خیال کا غلط ہونا اپنے اسی رسالہ میں لکھ چکا ہوں اور نیز یہ بھی بیان کر چکا ہوں کہ اس نزول سے مراد در حقیقت مسیح بن مریم کا نزول نہیں بلکہ استعارہ کے طور پر ایک مثیل مسیح کے آنے کی خبر دی گئی ہے جس کا مصداق حسب اعلام و الہام الہی یہی عاجز ہے.توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱) میں ان تمام امور پر ایمان رکھتا ہوں جو قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں درج ہیں اور مجھے مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ میں تناسخ کا قائل ہوں بلکہ مجھے تو فقط مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے.جس طرح محد ثیت نبوت سے مشابہ ہے ایسا ہی میری روحانی حالت مسیح ابن مریم کی روحانی حالت سے اشد درجہ کی مناسبت رکھتی ہے غرض میں ایک مسلمان ہوں.ايُّهَا الْمُسْلِمُونَ أَنَا مِنْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ بِأَمْرِ اللهِ تَعَالی - خلاصہ کلام یہ کہ میں محدث اللہ ہوں اور مامور من اللہ ہوں اور بایں ہمہ مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں جو صدی چار دہم کے لئے مسیح ابن مریم کی خصلت اور رنگ میں لے اے مسلمانو ! میں تمہیں لوگوں میں سے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے تم میں سے تمہارا امام ہوں.

Page 35

۲۵ مجدد دین ہو کر رب السماوات والارض کی طرف سے آیا ہوں.میں مفتری نہیں ہوں وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرى خدا تعالیٰ نے دنیا پر نظر کی اور اس کو ظلمت میں پایا اور مصلحت عباد کے لئے ایک اپنے عاجز بندہ کو خاص کر دیا.کیا تمہیں اس سے کچھ تعجب ہے کہ وعدہ کے موافق صدی کے سر پر ایک مجدد بھیجا گیا اور جس نبی کے رنگ میں چاہا خدا تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا.کیا ضرور نہ تھا کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی ؟ بھائیو! میں مصلح ہوں بدعتی نہیں.اور معاذ اللہ میں کسی بدعت کے پھیلانے کے لئے نہیں آیا.حق کے اظہار کے لئے آیا ہوں اور ہر ایک بات جس کا اثر اور نشان قرآن اور حدیث میں پایا نہ جائے اور اس کے برخلاف ہو وہ میرے نزدیک الحاد اور بے ایمانی ہے.مگر ایسے لوگ تھوڑے ہیں جو کلام الہی کی تہہ تک پہنچتے اور ربانی پیشگوئیوں کے باریک بھیدوں کو سمجھتے ہیں.میں نے دین میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں کی.بھائیو! میرا وہی دین ہے جو تمہارا دین ہے اور وہی رسول کریم میرا مقتدا ہے جو تمہارا مقتدا ہے اور وہی قرآن شریف میرا ہادی ہے اور میرا پیارا اور میری دستاویز ہے جس کا ماننا تم پر بھی فرض ہے.ہاں یہ بیچ اور بالکل سچ ہے کہ میں حضرت مسیح ابن مریم کو فوت شدہ اور داخل موتی یقین رکھتا ہوں اور جو آنے والے مسیح کے بارے میں پیشگوئی ہے وہ اپنے حق میں یقینی اور قطعی طور پر اعتقاد رکھتا ہوں لیکن اے بھائیو! یہ اعتقاد میں اپنی طرف سے اور اپنے خیال سے نہیں رکھتا بلکہ خدا وند کریم جل شانہ نے اپنے الہام و کلام کے ذریعہ سے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ مسیح ابن مریم کے نام پر آنے والا تو ہی ہے اور مجھ پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے وہ دلائل یقینیہ کھول دیئے ہیں جن سے تمام یقین وقطع حضرت عیسی ابن مریم رسول اللہ کا فوت ہو جانا ثابت ہوتا ہے اور مجھے اس قادر مطلق نے بار بار اپنے کلام خاص سے مشرف اور مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ کی یہودیت دُور کرنے کے لئے تجھے عیسی بن مریم کے رنگ اور کمال میں بھیجا گیا ہے.سو میں استعارہ کے طور پر ابن مریم موعود ہوں جس کا یہودیت کے زمانہ اور تنصر کے غلبہ میں آنے کا وعدہ تھا جو غربت اور روحانی قوت اور روحانی اسلحہ کے ساتھ ظاہر ہوا.تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه ۲۱ ۲۲ - مجموعه اشتہارات جلد اول صفحه ۲۱۵، ۲۱۶ بار دوم ) جب تم مسیح کا مردوں میں داخل ہونا ثابت کر دو گے اور عیسائیوں کے دلوں میں نقش کر دو گے تو اس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا.یقیناً سمجھو کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہو ان کا مذہب بھی فوت نہیں ہوسکتا.اور دوسری تمام بحثیں اُن کے ساتھ عبث ہیں.ان کے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.اس ستون کو پاش پاش کرو پھر

Page 36

۲۶ نظر اُٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے.چونکہ خدائے تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اس ستون کو ریزہ ریزہ کرے اور یوروپ اور ایشیا میں توحید کی ہوا چلا دے.اِس لئے اُس نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے.چنانچہ اس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَكَانَ وَعْدُ اللهِ مَفْعُولًا.اَنْتَ مَعِى وَ اَنْتَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ.اَنْتَ مُصِيبٌ وَّ مُعِينَ لِلْحَقِّ میں نے اس کتاب میں نہایت زبر دست ثبوتوں سے مسیح کا فوت ہو جانا اور اموات میں داخل ہونا ثابت کر دیا ہے اور میں نے بداہت کی حد تک اس بات کو پہنچا دیا ہے کہ مسیح زندہ ہو کر جسم عصری کے ساتھ ہرگز آسمان کی طرف اٹھایا نہیں گیا بلکہ اور نبیوں کی موت کی طرح اس پر بھی موت آئی اور دائمی طور پر وہ اس جہان سے رخصت ہوا.اگر کوئی مسیح کا ہی پرستار ہے تو سمجھ لے کہ وہ مر گیا اور مرنے والوں کی جماعت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہو گیا سو تم تائید حق کے لئے اس کتاب سے فائدہ اٹھاؤ اور سرگرمی کے ساتھ پادریوں کے مقابل پر کھڑے ہو جاؤ.چاہئے کہ یہی ایک مسئلہ ہمیشہ تمہارے زیر توجہ اور پورا بھروسہ کرنے کے لائق ہو جو درحقیقت مسیح ابن مریم فوت شدہ گروہ میں داخل ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲ ۴۰۳۴۰) یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کا ر اوس کی رُوحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا.جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا.کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ موسیٰ نے وہ متاع پائی جس کو قرونِ اولیٰ کھو چکے تھے.اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ متاع پائی جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھو چکا تھا اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے مگرشان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر.مثیل موسیٰ ، موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ، ابن مریم سے بڑھ کر اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا جیسا کہ مسیح ابن مریم موسی کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا لے اور اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا.تو میرے ساتھ ہے اور تو روشن حق پر قائم ہے.تو راہ صواب پر ہے اور حق کا مددگار ہے.

Page 37

۲۷ جبکہ مسلمانوں کا وہی حال تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم کے ظہور کے وقت یہودیوں کا حال تھا.سو وہ میں ہی ہوں.خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.نادان ہے وہ جو اس سے لڑے اور جاہل ہے وہ جو اس کے مقابل پر یہ اعتراض کرے کہ یوں نہیں بلکہ یوں چاہئے تھا اور اُس نے مجھے چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۴) اگر یہ استفسار ہو کہ جس خاصیت اور قوت روحانی میں یہ عاجز اور مسیح بن مریم مشابہت رکھتے ہیں.وہ کیا شے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک مجموعی خاصیت ہے جو ہم دونوں کے روحانی قویٰ میں ایک خاص طور پر رکھی گئی ہے جس کے سلسلہ کی ایک طرف نیچے کو اور ایک طرف اوپر کو جاتی ہے.نیچے کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی دلسوزی اور غم خواری خلق اللہ ہے جو داعی الی اللہ اور اس کے مستعد شاگردوں میں ایک نہایت مضبوط تعلق اور جوڑ بخش کر نورانی قوت کو جو داعی الی اللہ کے نفس پاک میں موجود ہے ان تمام سرسبز شاخوں میں پھیلاتی ہے.اوپر کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی محبت قوی ایمان سے ملی ہوئی ہے جو اول بندہ کے دل میں بارادہ الہی پیدا ہو کر رب قدیر کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور پھر ان دونوں محبتوں کے ملنے سے جو در حقیقت نر اور مادہ کا حکم رکھتی ہیں ایک مستحکم رشتہ اور ایک شدید مواصلت خالق اور مخلوق میں پیدا ہو کر الہی محبت کے چمکنے والی آگ سے جو مخلوق کی ہیزم مثال محبت کو پکڑ لیتی ہے ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جس کا نام روح القدس ہے.توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۱ ۶۲) خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں مگر مسیح ایک اور بھی ہے جو اس وقت بول رہا ہے.خدا کی غیرت دکھلا رہی ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں مگر انسان کا ثانی موجود ہے.اُس نے مجھے بھیجا تا میں اندھوں کو آنکھیں دوں.جو نہ چند سال سے بلکہ انیس سو برس سے برابر اندھے چلے آتے ہیں.(الاشتهار مستيقنا بوحى الله القهار مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۸ بار دوم ) اس زمانہ میں گندی تحریروں کے ذریعہ سے اس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی توہین کی گئی ہے کہ کبھی کسی زمانہ میں کسی نبی کی تو ہین نہیں ہوئی اور درحقیقت یہ ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ...شیطان اپنے تمام ذریات کے ساتھ ناخنوں تک زور لگا رہا ہے کہ اسلام کو نابود کر دیا جاوے اور چونکہ بلاشبہ سچائی کا جھوٹ کے ساتھ یہ آخری جنگ ہے.اس لئے یہ زمانہ بھی اس بات کا حق رکھتا تھا کہ اس

Page 38

۲۸ کی اصلاح کے لئے کوئی خدا کا مامور آوے.پس وہ مسیح موعود ہے جو موجود ہے.اور زمانہ حق رکھتا تھا کہ اس نازک وقت میں آسمانی نشانوں کے ساتھ خدا تعالی کی دنیا پر محبت پوری ہو.سو آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور آسمان جوش میں ہے کہ اس قدر آسمانی نشان ظاہر کرے کہ اسلام کی فتح کا نقارہ ہر ایک ملک میں اور ہر ایک حصہ دنیا میں بج جائے.اے قادر خدا! تو جلد وہ دن لا کہ جس فیصلہ کا تُو نے ارادہ کیا ہے وہ ظاہر ہو جائے اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے دین اور تیرے رسول کی فتح ہو.آمین ثم آمین.(چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفر ۹۵،۹۴) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاقی قوتوں کی تربیت کروں.چونکہ یہ سارا سلسلہ اور ساری کارروائی مسیحی رنگ اپنے اندر رکھتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرا نام مسیح موعود رکھا.اب جبکہ میں نے اس حد تک بات کو پہونچایا ہے تو میں جانتا ہوں کہ مسیحی بھی میرے مخالف ہوں گے لیکن میں کسی کی مخالفت سے کب ڈرسکتا ہوں جب کہ خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے.اگر یہ دعویٰ میری اپنی تراشی ہوئی بات ہوتی تو مجھے ایک ادنی اسی مخالفت بھی تھکا کر بٹھا دیتی.مگر یہ میرے اپنے اختیار کی بات نہیں ہے ہر سلیم الفطرت کو جس طرح وہ چاہے سمجھانے کے لئے میں طیار ہوں اور اُس کی تسلی کے لئے ہر جائز اور مسنون راہ میں اختیار کر سکتا ہوں.میں سچ کہتا ہوں کہ یہی وہ زمانہ ہے جس کے لئے مسلمان اپنے اعتقاد کے موافق اور عیسائی اپنے خیال پر منتظر تھے.یہی وہ وقت تھا جس کا وعدہ تھا.اب آنے والا آ گیا.خواہ کوئی قبول کرے یا نہ کرے.خدا تعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے لوگوں کی تائید میں زبر دست نشان ظاہر کیا کرتا ہے اور دلوں کو منوا دیتا ہے.جو کچھ مسیح موعود کے لئے مقدر تھا وہ ہو گیا.اب کوئی مانے نہ مانے مسیح موعود آ گیا اور وہ میں ہوں.الحکم مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۱ء صفحہم کا لم نمبر ۲ ،۳.ملفوظات جلد اول صفحه ۴۹۹ جدید ایڈیشن ) میں نہیں چاہتا کہ ایک بت کی طرح میری پوجا کی جائے.میں صرف اس خدا کا جلال چاہتا ہوں جس کی طرف سے میں مامور ہوں.جو شخص مجھے بے عزتی سے دیکھتا ہے وہ اس خدا کو بے عزتی سے دیکھتا ہے جس نے مجھے مامور کیا ہے.اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ اس خدا کو قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.انسان میں اس سے زیادہ کوئی خوبی نہیں کہ تقویٰ کی راہ کو اختیار کر کے مامور من اللہ کی لڑائی سے پر ہیز کرے اور اس شخص کی جلدی سے تکذیب نہ کرے جو کہتا ہے کہ میں مامور من اللہ ہوں اور محض تجدید دین کے لئے صدی کے سر پر بھیجا گیا ہوں.ایک متقی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اس چودہویں صدی کے سر پر جس میں ہزاروں حملے اسلام پر ہوئے ایک ایسے مجدد کی ضرورت تھی کہ اسلام

Page 39

۲۹ کی حقیت ثابت کرے.ہاں اس مجد د کا نام اس لئے مسیح ابن مریم رکھا گیا کہ وہ کسر صلیب کے لئے آیا ہے اور خدا اس وقت چاہتا ہے کہ جیسا کہ مسیح کو پہلے زمانہ میں یہودیوں کی صلیب سے نجات دی تھی اب عیسائیوں کی صلیب سے بھی اس کو نجات دے.چونکہ عیسائیوں نے انسان کو خدا بنانے کے لئے بہت کچھ افترا کیا ہے اس لئے خدا کی غیرت نے چاہا کہ مسیح کے نام پر ہی ایک شخص کو مامور کر کے اس افترا کو نیست و نابود کرے.یہ خدا کا کام ہے اور لوگوں کی نظر میں عجیب.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۳۲۱،۳۲۰) چونکہ میں مسیح موعود ہوں اور خدا نے عام طور پر میرے لئے آسمان سے نشان ظاہر کئے ہیں پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا ہے اور میرے دعوئی پر وہ اطلاع پا چکا ہے.وہ قابل مواخذہ ہو گا.کیونکہ خدا کے فرستادوں سے دانستہ منہ پھیرنا ایسا امر نہیں ہے کہ اس پر کوئی گرفت نہ ہو.اس گناہ کا داد خواہ میں نہیں ہوں.بلکہ ایک ہی ہے جس کی تائید کے لئے میں بھیجا گیا.یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ میر انہیں بلکہ اس کا نافرمان ہے جس نے میرے آنے کی پیشگوئی کی.ایسا ہی عقیدہ میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بارہ میں بھی یہی ہے کہ جس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچ چکی ہے اور وہ آپ کی بعثت سے مطلع ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارہ میں اس پر اتمام حجت ہو چکا ہے وہ اگر کفر پر مر گیا تو ہمیشہ کی جہنم کا سزا وار ہوگا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۸۵،۱۸۴) اگر چہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسی رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی.مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسی آسمان پر سے نازل ہوں گے اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تأویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا.لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صد ہانشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے.اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کر کے مجھے اس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ

Page 40

میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں.ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا.اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کر کے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیات قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہوا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اسی امت میں سے آئے گا.اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتا ہے تو کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی اسی طرح صد ہا نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود مان لوں.میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو.مجھے اس بات کی ہرگز تمنا نہ تھی.میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اس نے گوشہ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا.میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں.مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دوں گا.پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایسا تو نے کیوں کیا ؟ میرا اس میں کیا قصور ہے.اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جوئی فضلیت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا.اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی.اور جیسا کہ میں نے نمونہ کے طور پر بعض عبارتیں خدا تعالیٰ کی وحی کی اس رسالہ میں بھی لکھی ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم کے مقابل پر خدا تعالیٰ میری نسبت کیا فرماتا ہے.میں خدا تعالیٰ کی تنیس برس کی متواتر وحی کو کیونکر رڈ کرسکتا ہوں.میں اس کی اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ اُن تمام خدا کی وجیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہو چکی ہیں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مسیح ابن مریم آخری خلیفہ موسیٰ علیہ السلام کا ہے.اور میں آخری خلیفہ اس نبی کا ہوں جو خیر الرسل ہے اس لئے خدا نے چاہا کہ مجھے اس سے کم نہ رکھے.میں خوب جانتا ہوں کہ یہ الفاظ میرے ان لوگوں کو گوارا نہ ہوں گے جن کے دلوں میں حضرت مسیح کی محبت پرستش کی حد تک پہنچ گئی ہے مگر میں اُن کی پروا نہیں کرتا.میں کیا کروں کس طرح خدا کے حکم کو چھوڑ سکتا ہوں اور کس طرح اس روشنی سے جو مجھے دی گئی تاریکی میں آ سکتا ہوں.خلاصہ یہ کہ میری کلام میں کچھ تناقض نہیں.میں تو خدا تعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا ہوں.جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا میں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم

Page 41

۳۱ ہوا تو میں نے اس کے مخالف کہا.میں انسان ہوں مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں.بات یہی ہے جو چاہے قبول کرے یا نہ کرے.میں نہیں جانتا کہ خدا نے ایسا کیوں کیا.ہاں میں اس قدر جانتا ہوں کہ آسمان پر خدا تعالیٰ کی غیرت عیسائیوں کے مقابل پر بڑا جوش مار رہی ہے.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مخالف وہ توہین کے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ قریب ہے کہ ان سے آسمان پھٹ جائیں.پس خدا دکھلاتا ہے کہ اس رسول کے ادنیٰ خادم اسرائیلی مسیح ابن مریم سے بڑھ کر ہیں.جس شخص کو اس فقرہ سے غیظ و غضب ہو اس کو اختیار ہے کہ وہ اپنے غیظ سے مر جائے مگر خدا نے جو چاہا ہے کیا اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.کیا انسان کا مقدور ہے کہ وہ اعتراض کرے کہ ایسا تو نے کیوں کیا؟ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۴٬۱۵۳) مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کرسکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا.اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں وہ ہرگز دکھلا نہ سکتا اور خدا کا فضل اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا.جبکہ میں ایسا ہوں تو اب سوچو کہ کیا مرتبہ ہے اس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف میں منسوب کیا گیا.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ - کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۹ اصفه۶۰) اور حضرت عیسی کے نام پر اس عاجز کے آنے کا ستر یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس عیسائی فتنہ کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح کو دکھایا.یعنی ان کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دے دی کہ تیری قوم اور تیری امت نے اس طوفان کو برپا کیا ہے تب وہ اپنی قوم کی خرابی کو کمال فساد پر دیکھ کر نزول کے لئے بے قرار ہوا اور اس کی رُوح سخت جنبش میں آئی اور اُس نے زمین پر اپنی ارادات کا ایک مظہر چاہا.تب خدا تعالیٰ نے اس وعدہ کے موافق جو کیا گیا تھا مسیح کی روحانیت اور اس کے جوش کو ایک جوہر قابل میں نازل کیا.سوان معنوں کر کے وہ آسمان سے اترا.اُسی کے موافق جو ایلیا نبی یوحنا کے رنگ میں اُتر ا تھا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۹،۲۶۸ حاشیه ) جیسا کہ وہ نبی شہزادہ دنیا میں غربت اور مسکینی سے آیا اور غربت اور مسکینی اور حلم کا دنیا کو نمونہ دکھلایا.اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ اس کے نمونہ پر مجھے بھی جو امیری اور حکومت کے خاندان سے ہوں اور ظاہری طور پر بھی اس شہزادہ نبی اللہ کے حالات سے مشابہت رکھتا ہوں.ان لوگوں میں کھڑا کرے جو ملکوتی اخلاق سے بہت دُور جا پڑے ہیں.سو اس نمونہ پر میرے لئے خدا نے یہی چاہا ہے کہ میں غربت اور

Page 42

۳۲ مسکینی سے دنیا میں رہوں.خدا کے کلام میں قدیم سے وعدہ تھا کہ ایسا انسان دنیا میں پیدا ہو.اسی لحاظ سے خدا نے میرا نام مسیح موعود رکھا.یعنی ایک شخص جو عیسی مسیح کے اخلاق کے ساتھ ہم رنگ ہے.( کشف الغطاء.روحانی خزائن جلد۴ اصفحہ ۱۹۲) مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں.بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶۱) اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے.اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت با ہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دوٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی بار یک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا.اور اس کی انجیل تو ریت کی فرع ہے.اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے.اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم.(براہین احمدیہ ہر چہار قصص - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۴٬۵۹۳ حاشیه در حاشیه نمبر۳) عیسائیوں نے شور مچارکھا تھا کہ مسیح بھی اپنے قرب اور وجاہت کے رُو سے واحد لاشریک ہے.اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اس سے بھی بہتر ہے جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام.زندگی بخش جام احمد ہے کیا ہی پیارا نام احمد ہے би ہوں انبیاء بخدا بڑھ کر مقام احمد ہے باغ احمد ہم نے پھل کھایا میرا بستان کلام ہے ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس ނ ا بہتر غلام احمد ہے

Page 43

۳۳ یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں.اور اگر تجربہ کے رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں.خدا نے ایسا کیا نہ میرے لئے بلکہ اپنے نبی مظلوم کے لئے.دافع البلاء فی معیار اہل الاصطفاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۴۱،۲۴۰) آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا.اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا.سومیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفتر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے.پس یہی مهدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۴) سوال: - مسیح ابن مریم نے تو بہت سے معجزات سے اپنے من جانب اللہ ہونے کا ثبوت دیا تھا.آپ نے کیا ثبوت دیا.کیا کوئی مُردہ زندہ کر دیا یا کوئی مادر زاد اندھا آپ سے اچھا ہوا.اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ آپ مثیل مسیح ہیں تو ہمیں آپ کے وجود سے کیا فائدہ ہوا؟ اما الجواب:.پس واضح ہو کہ انجیل کو پڑھ کر دیکھ لو کہ یہی اعتراض ہمیشہ مسیح پر رہا کہ اس نے کوئی معجزہ تو دکھایا ہی نہیں یہ کیسا مسیح ہے کیونکہ ایسا مردہ تو کوئی زندہ نہ ہوا کہ وہ بولتا اور اُس جہان کا سب حال سُنا تا اور اپنے وارثوں کو نصیحت کرتا کہ میں تو دوزخ میں سے آیا ہوں.تم جلد ایمان لے آؤ.اگر مسیح صاف طور پر یہودیوں کے باپ دادے زندہ کر کے دکھا دیتا اور ان سے گواہی دلوا تا تو بھلا کس کو انکار کی مجال تھی.غرض پیغمبروں نے نشان تو دکھائے مگر پھر بھی بے ایمانوں سے مخفی رہے.ایسا ہی یہ عاجز بھی خالی نہیں آیا بلکہ مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بہت سا آب حیات خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کو بھی دیا ہے.بے شک جو شخص اس میں سے پئے گا زندہ ہو جائے گا.بلاشبہ میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر میرے کلام سے مُردے زندہ نہ ہوں اور اندھے آنکھیں نہ کھولیں اور مجز دم صاف نہ ہوں تو میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے آپ اپنے پاک کلام میں میری طرف اشارہ کر کے فرمایا ہے.نبی ناصری کے نمونہ پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ بندگانِ خدا کو بہت صاف کر رہا ہے اس سے زیادہ کہ کبھی جسمانی بیماریوں کو صاف کیا گیا ہو.یقینا سمجھو کہ روحانی حیات کا تخم ایک رائی کے بیج کی طرح بویا گیا ہے مگر قریب ہے ہاں بہت

Page 44

۳۴ قریب ہے کہ ایک بڑا درخت ہو کر نظر آئے گا.جسمانی خیالات کا انسان جسمانی باتوں کو پسند کرتا ہے اور اُن کو بڑی چیز سمجھتا ہے مگر جس کو کچھ روحانیت کا حصہ دیا گیا ہے وہ رُوحانی زندگی کا طالب ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے راستباز بندے دنیا میں اس لئے نہیں آتے کہ لوگوں کو تماشے دکھلا ئیں بلکہ اصل مطلب اُن کا جذب الی اللہ ہوتا ہے اور آخر کار وہ اسی قوت قدسیہ کی وجہ سے شناخت کئے جاتے ہیں.وہ نور جو اُن کے اندر قوت جذب رکھتا ہے اگر چہ کوئی شخص امتحان کے طور سے اس کو دیکھ نہیں سکتا بلکہ ٹھوکر کھا تا ہے مگر وہ نور آپ ہی ایک ایسی جماعت کو اپنی طرف کھینچ کر جو کھینچے جانے کے لائق ہے.اپنا خارق عادت اثر ظاہر کر دیتا ہے.(1) خدائے تعالیٰ کے خالص دوستوں کی یہ علامتیں ہیں کہ ایک خالص محبت اُن کو عطا کی جاتی ہے جس کا اندازہ کرنا اس جہان کے لوگوں کا کام نہیں.(۲) ان کے دلوں پر ایک خوف بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ دقائق اطاعت کی رعایت رکھتے ہیں ایسا نہ ہو کہ یار قدیم آزردہ ہو جائے.(۳) اُن کو خارق عادت استقامت دی جاتی ہے کہ اپنے وقت پر دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی ہے.(۴) جب ان کو کوئی بہت ستاتا ہے اور باز نہیں آتا تو اُن کے لئے غضب اس ذات قوی کا جوان کا متوتی ہے ایک دفعہ بھڑکتا ہے.(۵) جب ان سے کوئی بہت دوستی کرتا ہے اور کچی وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اُن کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے تو خدائے تعالیٰ اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس پر ایک خاص رحمت نازل کرتا ہے.(1) اُن کی دعا ئیں بہ نسبت اوروں کے بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں یہاں تک کہ وہ شمار نہیں کر سکتے کہ کس قدر قبول ہوئیں.(۷) اُن پر اکثر اسرار غیب ظاہر کئے جاتے ہیں اور وہ باتیں جو ابھی ظہور میں نہیں آئیں اُن پر کھولی جاتی ہیں.اگر چہ اور مومنوں کو بھی بچی خوا ہیں اور سچے مکاشفات معلوم ہو جاتے ہیں مگر یہ لوگ تمام دنیا سے نمبر اول پر ہوتے ہیں.(۸) خدائے تعالیٰ خاص طور پر ان کا متولی ہو جاتا ہے اور جس طرح اپنے بچوں کی کوئی پرورش کرتا ہے اس سے بھی زیادہ نگاہِ رحمت ان پر رکھتا ہے.(۹) جب ان پر کوئی بڑی مصیبت کا وقت آتا ہے تو اس وقت دوطور میں سے ایک طور کا اُن سے

Page 45

۳۵ معاملہ ہوتا ہے یا خارق عادت طور پر اس مصیبت سے رہائی دی جاتی ہے اور یا ایک ایسا صبر جمیل عطا کیا جاتا ہے جس میں لذت اور سرور اور ذوق ہو.(۱۰) ان کی اخلاقی حالت ایک ایسے اعلیٰ درجہ کی کی جاتی ہے جو تکبر اور نخوت اور کمینگی اور خود پسندی اور ریا کاری اور حسد اور بخل اور تنگ دلی سب دور کی جاتی ہے اور انشراح صدر اور بشاشت عطا کی جاتی ہے.(11) ان کی تو کل نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اور اس کے ثمرات ظاہر ہوتے رہتے ہیں.(۱۲) ان کو ان اعمال صالحہ کے بجالانے کی قوت دی جاتی ہے جو دوسرے اُن میں کمزور ہوتے ہیں.(۱۳) ان میں ہمدردی خلق اللہ کا مادہ بہت بڑھایا جاتا ہے اور بغیر توقع کسی اجر اور بغیر خیال کسی ثواب کے انتہائی درجہ کا جوش اُن میں خلق اللہ کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے.اور خود بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اس قدر جوش کس غرض سے ہے کیونکہ یہ امر فطرتی ہوتا ہے.(۱۴) خدائے تعالیٰ کے ساتھ ان لوگوں کو نہایت کامل وفاداری کا تعلق ہوتا ہے اور ایک عجیب مستی جانفشانی کی اُن کے اندر ہوتی ہے.اور اُن کی رُوح کو خدائے تعالی کی روح کے ساتھ وفاداری کا ایک راز ہوتا ہے جس کو کوئی بیان نہیں کر سکا.اس لئے حضرت احدیت میں اُن کا ایک مرتبہ ہوتا ہے جس کو خلقت نہیں پہچانتی.وہ چیز جو خاص طور پر اُن میں زیادہ ہے اور جو سر چشمہ تمام برکات کا ہے اور جس کی وجہ سے یہ ڈوبتے ہوئے پھر نکل آتے ہیں اور موت تک پہنچ کر پھر زندہ ہو جاتے ہیں اور ذلتیں اوٹھا کر پھر تاج عزت دکھا دیتے ہیں اور مہجور اور اکیلے ہو کر پھر نا گہاں ایک جماعت کے ساتھ نظر آتے ہیں وہ یہی راز وفاداری ہے جس کے رشتہ محکم کو نہ تلواریں قطع کر سکتی ہیں اور نہ دنیا کا کوئی بلوہ اور خوف اور مفسدہ اس کو ڈھیلا کر سکتا ہے.اَلسَّلَامُ عَلَيْهِمْ مِّنَ اللَّهِ وَ مَلَائِكَتِهِ وَ مِنَ الصُّلَحَاءِ أَجْمَعِين - (۱۵) پندرھویں علامت اُن کی علم قرآن کریم ہے.قرآن کریم کے معارف اور حقائق ولطائف جس قدر ان لوگوں کو دیئے جاتے ہیں دوسرے لوگوں کو ہرگز نہیں دیئے جاتے.یہ لوگ وہی مطهرون ہیں جن کے حق میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے.لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (۱۶) ان کی تقریر و تحریر میں اللہ جلشانہ ایک تاثیر رکھ دیتا ہے جو علماء ظاہری کی تحریروں و تقریروں سے نرالی ہوتی ہے اور اس میں ایک ہیبت اور عظمت پائی جاتی ہے.اور بشرطیکہ حجاب نہ ہو دلوں کو پکڑ لیتی ہے.الواقعة :

Page 46

۳۶ (۱۷) ان میں ایک ہیبت بھی ہوتی ہے جو خدائے تعالیٰ کی ہیبت سے رنگین ہوتی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ ایک خاص طور پر اُن کے ساتھ ہوتا ہے اور اُن کے چہروں پر عشق الہی کا ایک نور ہوتا ہے.جو شخص اُس کو دیکھ لے اُس پر نارِ جہنم حرام کی جاتی ہے.اُن سے ذنب اور خطا بھی صادر ہو سکتا ہے مگر اُن کے دلوں میں ایک آگ ہوتی ہے جو ذنب اور خطا کو بھسم کر دیتی ہے.اور اُن کا خطا ٹھہر نے والی چیز نہیں بلکہ اس چیز کی مانند ہے جو ایک تیز چلنے والے پانی میں بہتی ہوئی چلی جاتی ہے.سوان کا نکتہ چین ہمیشہ ٹھوکر کھاتا ہے.(۱۸) خدائے تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرتا اور ذلت اور خواری کی مار اُن پر نہیں مارتا.کیونکہ وہ اس کے عزیز اور اس کے ہاتھ کے پودے ہیں.اُن کو اس لئے بلندی سے نہیں گرا تا کہ تا ہلاک کرے بلکہ اس لئے گراتا ہے کہ تا اُن کا خارق عادت طور پر بچ جانا دکھاوے.اُن کو اس لئے آگ میں دھکا نہیں دیتا تا اُن کو جلا کر خاکستر کر دیوے بلکہ اس لئے دھکا دیتا ہے تا لوگ دیکھ لیویں کہ پہلے تو آگ تھی مگر اب کیسا خوشنما گلزار ہے.(۱۹) ان کو موت نہیں دیتا جب تک کہ وہ کام پورا نہ ہو جائے جس کے لئے وہ بھیجے گئے ہیں اور جب تک پاک دلوں میں اُن کی قبولیت نہ پھیل جائے تب تک البتہ سفر آخرت اُن کو پیش نہیں آتا.(۲۰) ان کے آثار خیر باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کئی پشتوں تک اُن کی اولاد اور اُن کے جانی دوستوں کی اولاد پر خاص طور پر نظر رحمت رکھتا ہے اور ان کا نام دنیا سے نہیں مٹاتا.یہ آثار اولیاء الرحمن ہیں.اور ہر یک قسم اُن میں سے اپنے وقت پر جب ظاہر ہوتی ہے تو بھاری کرامت کی طرح جلوہ دکھاتی ہے.مگر اس کا ظاہر کرنا خدائے تعالیٰ کے ہی اختیار میں ہوتا ہے.اب یہ عاجز بحكم وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ سے اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خدا وند کریم و رحیم نے محض فضل و کرم سے ان تمام امور سے اس عاجز کو حصہ وافرہ دیا ہے اور اس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامور کیا بلکہ یہ تمام نشان دیئے ہیں جو ظاہر ہو رہے ہیں اور ہوں گے اور خدائے تعالیٰ جب تک کھلے طور پر حجت قائم نہ کر لے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتا جائے گا اور یہ جو کہا کہ تمہارے وجود سے ہمیں کیا فائدہ ، تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ جو شخص مامور ہو کر آسمان سے آتا ہے اس کے وجود سے علی حسب مراتب سب کو بلکہ تمام الضحى: ۱۲

Page 47

۳۷ دنیا کو فائدہ ہوتا ہے اور درحقیقت وہ ایک روحانی آفتاب نکلتا ہے جس کی کم و بیش دُور دُور تک روشنی پہنچتی ہے اور جیسی آفتاب کی مختلف تاثیریں حیوانات و نباتات و جمادات اور ہر یک قسم کے جسم پر پڑ رہی ہیں اور بہت کم لوگ ہیں جو ان تاثیروں پر باستیفا علم رکھتے ہیں.اسی طرح وہ شخص جو مامور ہو کر آتا ہے تمام طبائع اور اطراف اکناف عالم پر اس کی تاثیریں پڑتی ہیں اور جب ہی سے کہ اس کا پُر رحمت تعین آسمان پر ظاہر ہوتا ہے آفتاب کی کرنوں کی طرح فرشتے آسمان سے نازل ہونے شروع ہوتے ہیں.اور دنیا کے دُور دُور کناروں تک جو لوگ راستبازی کی استعداد رکھتے ہیں.اُن کو سچائی کی طرف قدم اٹھانے کی قوت دیتے ہیں اور پھر خود بخود نیک نہاد لوگوں کی طبیعتیں سچ کی طرف مائل ہوتی جاتی ہیں.سو یہ سب اس ربانی آدمی کی صداقت کے نشان ہوتے ہیں جس کے عہد ظہور میں آسمانی قوتیں تیز کی جاتی ہیں.کچی وحی کا خدائے تعالیٰ نے یہی نشان دیا ہے کہ جب وہ نازل ہوتی ہے تو ملائک بھی اس کے ساتھ ضرور اُترتے ہیں اور دنیا دن بدن راستی کی طرف پلٹا کھاتی جاتی ہے.سو یہ عام علامت اس مامور کی ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور خاص علامتیں وہ ہیں جو بھی ہم ذکر کر چکے ہیں.(ازالہ اوہام حصہ دوم.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۴۰ تا ۳۳۹) مسیح موعود کا دعوی اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ مخالفانہ اثر پہنچتا تو بے شک ایک ہولناک بات تھی لیکن دیکھنا چاہئے کہ میں نے اس دعوی کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کردیا ہے.کون سے احکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کر دیا ہے.ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنے کئے گئے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں اور قرآن کریم ان معنوں کی صحت کے لئے گواہ ہے اور احادیث صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتی ہیں پھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور وغوغا ہے! ہاں طالب حق ایک سوال بھی اس جگہ کر سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود کا دعوی تسلیم کرنے کے لئے کون سے قرائن موجود ہیں کیونکہ کسی مدعی کی صداقت ماننے کے لئے قرائن تو چاہئے خصوصا آج کل کے زمانہ میں جو مکر اور فریب اور بددیانتی سے بھرا ہوا ہے اور دعاوی باطلہ کا بازار گرم ہے.اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ ذیل امور طالب حق کے لئے بطور علامات اور قرائن کے ہیں.(1) اوّل وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ

Page 48

ہے کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر یک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو دین کو پھر تازہ کر دے گا اور اس کی کمزوریوں کو دُور کر کے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آوے گا اس پیشگوئی کی رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودھویں صدی پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتا اور موجود خرابیوں کی اصلاح کے لئے پیش قدمی دکھلاتا.سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا.اس سے پہلے صد ہا اولیا نے اپنے الہام سے گواہی دی تھی کہ چودھویں صدی کا مجد دمسیح موعود ہوگا اور احادیث صحیحہ نبویہ پکار پکار کہتی ہیں کہ تیرھویں صدی کے بعد ظہور مسیح ہے.پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت عین اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ فرمودہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خطا جاوے.میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اگر فرض کیا جاوے کہ چودھویں صدی کے سر پر مسیح موعود پیدا نہیں ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیاں خطا جاتی ہیں اور صد ہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں.(۲) اس بات کو بھی سوچنا چاہئے کہ جب علماء سے یہ سوال کیا جائے کہ چودھویں صدی کا مجدد ہونے کے لئے بجز اس احقر کے اور کس نے دعوی کیا ہے اور کس نے منجانب اللہ آنے کی خبر دی ہے اور ملہم ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو اس کے جواب میں وہ بالکل خاموش ہیں اور کسی شخص کو پیش نہیں کر سکتے جس نے ایسا دعویٰ کیا ہو..(۳) تیسری علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ بعض اہل اللہ نے اس عاجز سے بہت سے سال پہلے اس عاجز کے آنے کی خبر دی ہے یہاں تک کہ نام اور سکونت اور عمر کا حال بتصریح بتلایا ہے.جیسا کہ نشان آسمانی میں لکھ چکا ہوں.(۴) چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہ ہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کے لئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہا ہو گا جس کی طرف خط رجسٹری کر کے نہ بھیجا ہومگر سب پر حق کا رعب چھا گیا.اب جو ہماری قوم کے ملا مولوی لوگ اس دعوت میں نکتہ چینی کرتے ہیں پرو در حقیقت یہ ان کی دروغ گوئی اور نجاست خواری ہے.مجھے یہ قطعی طور پر بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا.

Page 49

۳۹ (۵) پانچویں علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی اور الہامی علوم میں غالب ہوں.ان کے ملہموں کو چاہئے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الہی میں اور فیض سماوی میں اور آسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رد سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۰ تا ۳۴۸) میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو نیچر اور صحیفہ قدرت کے پیرو بننا چاہتے ہوں اُن کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ نہایت عمدہ موقع دیا ہے کہ وہ میرے دعوے کو قبول کریں کیونکہ وہ لوگ ان مشکلات میں گرفتار نہیں ہیں جن میں ہمارے دوسرے مخالف گرفتار ہیں.کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے اور پھر ساتھ اس کے انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کی نسبت جو پیشگوئی احادیث میں موجود ہے وہ ان متواترات میں سے ہے جن سے انکار کرنا کسی عقلمند کا کام نہیں.پس اس صورت میں یہ بات ضروری طور پر انہیں قبول کرنی پڑتی ہے کہ آنے والا مسیح اسی اُمت میں سے ہوگا.البتہ یہ سوال کرنا ان کا حق ہے کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا قبول کریں؟ اور اس پر دلیل کیا ہے کہ وہ مسیح موعود تم ہی ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانہ اور جس ملک اور جس قصبہ میں مسیح موعود کا ظاہر ہونا قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور جن افعال خاصہ کو مسیح کے وجود کی علت غائی ٹھہرایا گیا ہے اور جن حوادث ارضی اور سماوی کو مسیح موعود کے ظاہر ہونے کی علامات بیان فرمایا گیا ہے اور جن علوم اور معارف کو مسیح موعود کا خاصہ ٹھہرایا گیا ہے وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانہ میں اور میرے ملک میں جمع کر دی ہیں اور پھر زیادہ تر اطمینان کے لئے آسمانی تائیدات میرے شامل حال کی ہیں.چوں مرا حکم از پئے قوم مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند آسمان بارد نشاں الوقت مے گوید زمیں این دو شاہد از پئے تصدیق من استاده اند کے ے جب مجھے عیسائی قوم کی اصلاح کیلئے حکم دیا گیا ہے تو اسی مصلحت سے میرا نام بھی ابن مریم رکھا گیا ہے.آسمان نشان برساتا ہے اور زمین الوقت کہتی ہے.یہ دونوں گواہ میری تصدیق کے لئے کھڑے ہیں.

Page 50

اب تفصیل اس کی یہ ہے کہ اشارات نص قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں اور آپ کا سلسلہ خلافت حضرت موسیٰ کے سلسلہ خلافت سے بالکل مشابہ ہے اور جس طرح حضرت موسیٰ کو وعدہ دیا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں یعنی جبکہ سلسلہ اسرائیلی نبوت کا انتہا تک پہونچ جائے گا اور بنی اسرائیل کئی فرقے ہو جائیں گے.اور ایک دوسرے کی تکذیب کرے گا.یہاں تک کہ بعض بعض کو کافر کہیں گے تب اللہ تعالیٰ ایک خلیفہ حامی دین موسیٰ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کرے گا اور وہ بنی اسرائیل کی مختلف بھیڑوں کو اپنے پاس اکٹھی کرے گا اور بھیٹر یے اور بکری کو ایک جگہ جمع کر دے گا.اور سب قوموں کے لئے ایک حکم بن کر اندرونی اختلاف کو درمیان سے اُٹھا دے گا اور بغض اور کینوں کو دور کر دے گا.یہی وعدہ قرآن میں بھی دیا گیا تھا جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعة: (۴) اور حدیثوں میں اس کی بہت تفصیل ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ یہ امت بھی اسی قدر فرقے ہو جائیں گے جس قدر کہ یہود کے فرقے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کی تکذیب اور تکفیر کرے گا اور یہ سب لوگ عناد اور بغض با ہمی میں ترقی کریں گے.اس وقت تک کہ مسیح موعود حگم ہو کر دنیا میں آوے اور جب وہ حکم ہو کر آئے گا تو بغض اور شحناء کوڈ ور کر دے گا اور اُس کے زمانہ میں بھیڑیا اور بکری ایک جگہ جمع ہو جائیں گے.چنانچہ یہ بات تمام تاریخ جاننے والوں کو معلوم ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایسے ہی وقت میں آئے تھے کہ جب اسرائیلی قوموں میں بڑا تفرقہ پیدا ہو گیا تھا اور ایک دوسرے کے مکفر اور مکذب ہو گئے تھے.اسی طرح یہ عاجز بھی ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب اندرونی اختلافات انتہا تک پہونچ گئے اور ایک فرقہ دوسرے کو کافر بنانے لگا.اس تفرقہ کے وقت میں اُمت محمدیہ کو ایک حکم کی ضرورت تھی.سوخدا نے مجھے حکم کر کے بھیجا ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴ ۲۵ تا ۲۵۷ حاشیه ) میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سُننِ انبیاء کی سی حیثیت ہے.مجھے ایک سماوی آدمی ما نو پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزا ئیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں، ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں.جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حکم بن کر آیا ہے جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے.اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح حدیث ہو گی.الحکم مورخہ ۷ار نومبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۲.ملفوظات جلد اول صفحه ۳۹۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)

Page 51

۴۱ واضح ہو کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کرے اُس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے.سو بموجب اس نبوی وصیت کے ضروری ہوا کہ ہر ایک حق کا طالب امام صادق کی تلاش میں لگا رہے.اب ایک ضروری سوال یہ ہے کہ امام الزمان کس کو کہتے ہیں اور اس کی علامات کیا ہیں اور اُس کو دوسرے ملہموں اور خواب بینوں اور اہل کشف پر ترجیح کیا ہے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام الزمان اُس شخص کا نام ہے کہ جس شخص کی روحانی تربیت کا خدا تعالیٰ متولی ہو کر اُس کی فطرت میں ایک ایسی امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے کہ وہ سارے جہان کے معقولیوں اور فلسفیوں سے ہر ایک رنگ میں مباحثہ کر کے ان کو مغلوب کر لیتا ہے.وہ ہر ایک قسم کے دقیق در دقیق اعتراضات کا خدا سے قوت پا کر ایسی عمدگی سے جواب دیتا ہے کہ آخر مانا پڑتا ہے کہ اس کی فطرت دنیا کی اصلاح کا پورا سامان لے کر اس مسافر خانہ میں آئی ہے.اس لئے اس کو کسی دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا نہیں پڑتا.وہ روحانی طور پر محمدی فوجوں کا سپہ سالار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر دین کی دوبارہ فتح کرے اور وہ تمام لوگ جو اس کے جھنڈے کے نیچے آتے ہیں اُن کو بھی اعلیٰ درجہ کے قومی بخشے جاتے ہیں.اور وہ تمام شرائط جو اصلاح کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور وہ تمام علوم جو اعتراضات کے اٹھانے اور اسلامی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے ضروری ہیں اس کو عطا کئے جاتے ہیں.(ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۷۲ تا ۴۷۷) یہ سوال باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے جس کی پیروی تمام عام مسلمانوں اور زاہدوں اور خواب بینوں اور ملہموں کو کرنی خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے.سوئیں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان میں ہوں اور مجھ میں خدا تعالیٰ نے وہ تمام علامتیں اور تمام شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے.( ضرورة الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۴۹۵) یادر ہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی ، رسول ، محدّث ، مجد دسب داخل ہیں.مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کے لئے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات اُن کو دیئے گئے وہ گو ولی ہوں یا ابدال ہوں امام الزمان نہیں کہلا سکتے.( ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۵)

Page 52

۴۲ چونکہ یہ عاجز راستی اور سچائی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لئے تم صداقت کے نشان ہر ایک طرف سے پاؤ گے.وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اُترتی اور ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے.یہ تم قرآن شریف سے معلوم کر چکے ہو کہ خلیفتہ اللہ کے نزول کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا ضروری ہے تا دلوں کو حق کی طرف پھیریں.سو تم اس نشان کے منتظر رہو.اگر فرشتوں کا نزول نہ ہوا اور ان کے اترنے کی نمایاں تاثیر میں تم نے دنیا میں نہ دیکھیں اور حق کی طرف دلوں کی جنبش کو معمول سے زیادہ نہ پایا تو تم نے یہ سمجھنا کہ آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوا.لیکن اگر یہ سب باتیں ظہور میں آگئیں تو تم انکار سے باز آؤ تا تم خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک سرکش قوم نہ ٹھہرو.(فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۳ ۱۴ حاشیہ) پس میں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پا کر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں اور جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیونکر رڈ کر دوں یا کیونکر اُس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں.مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اُس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے.اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی.جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا تھا.میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی.اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ میں خلیفہ اللہ ہوں مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا.اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے.کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر سکے.ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۸ اصفحہ ۲۱۰) چونکہ میں ایک ایسے نبی کا تابع ہوں جو انسانیت کے تمام کمالات کا جامع تھا اور اُس کی شریعت اکمل اور اتم تھی اور تمام دنیا کی اصلاح کے لئے تھی اس لئے مجھے وہ قو تیں عنایت کی گئیں جو تمام دنیا کی

Page 53

۴۳ اصلاح کے لئے ضروری تھیں تو پھر اس امر میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ فطرتی طاقتیں نہیں دی گئیں جو مجھے دی گئیں کیونکہ وہ ایک خاص قوم کے لئے آئے تھے اور اگر وہ میری جگہ ہوتے تو اپنی اس فطرت کی وجہ سے وہ کام انجام نہ دے سکتے جو خدا کی عنایت نے مجھے انجام دینے کی قوت دی.وهذا تحديث نعمة الله و لا فخر.جیسا کہ ظاہر ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ آتے تو اس کام کو انجام نہ دے سکتے اور اگر قرآن شریف کی جگہ توریت نازل ہوتی تو اس کام کو ہرگز انجام نہ دے سکتی جو قرآن شریف نے دیا.انسانی مراتب پردہ غیب میں ہیں.اس بات میں بگڑنا اور منہ بنانا اچھا نہیں.کیا جس قادر مطلق نے حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کیا وہ ایسا ہی ایک اور انسان یا اس سے بہتر پیدا نہیں کر سکتا ؟ اگر قرآن شریف کی کسی آیت سے ثابت ہوتا ہے تو وہ آیت پیش کرنی چاہئے.سخت مردود وہ شخص ہو گا جو قرآنی آیت سے انکار کرے.ورنہ میں اس پاک وحی کے مخالف کیونکر خلاف واقعہ کہ سکتا ہوں جو قریباً تئیس برس سے مجھ کو تسلی دے رہی ہے اور ہزار ہا خدا کی گواہیاں اور فوق العادت نشان اپنے ساتھ رکھتی ہے.خدا تعالیٰ کے کام مصلحت اور حکمت سے خالی نہیں.اُس نے دیکھا کہ ایک شخص کو محض بے وجہ خدا بنایا گیا ہے جس کی چالیس کروڑ آدمی پرستش کر رہے ہیں.تب اُس نے مجھے ایسے زمانہ میں بھیجا کہ جب اس عقیدہ پر غلو انتہا تک پہنچ گیا تھا.اور تمام نبیوں کے نام میرے نام رکھے مگر مسیح ابن مریم کے نام سے خاص طور پر مجھے مخصوص کر کے وہ میرے پر رحمت اور عنایت کی گئی جو اس پر نہیں کی گئی تا لوگ سمجھیں کہ فضل خدا کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے.اگر میں اپنی طرف سے یہ باتیں کرتا ہوں تو جھوٹا ہوں لیکن اگر خدا میری نسبت اپنے نشانوں کے ساتھ گواہی دیتا ہے.تو میری تکذیب تقومی کے برخلاف ہے.(حقیقۃ الوحی حصہ اول.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۸،۱۵۷) خدا تعالیٰ کے الہام اور وحی سے میں کہتا ہوں کہ وہ جو آنے والا تھا وہ میں ہوں.قدیم سے خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پر جو طریق ثبوت کا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے.الحکم مورخہ ۲۱ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد دوم صفحه ۳۸۳ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اپنے خدائے پاک کے یقینی اور قطعی مکالمہ سے مشرف ہوں اور قریباً ہر روز مشرف ہوتا ہوں اور وہ خدا جس کو یسوع مسیح کہتا ہے کہ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.میں دیکھتا ہوں کہ اُس نے مجھے نہیں چھوڑا اور مسیح کی طرح میرے پر بھی بہت

Page 54

۴۴ حملے ہوئے مگر ہر ایک حملہ میں دشمن ناکام رہے.اور مجھے پھانسی دینے کے لئے منصوبہ کیا گیا مگر میں مسیح کی طرح صلیب پر نہیں چڑھا بلکہ ہر ایک بلا کے وقت میرے خدا نے مجھے بچایا اور میرے لئے اس نے بڑے بڑے معجزات دکھلائے اور بڑے بڑے قومی ہاتھ دکھلائے.اور ہزار ہانشانوں سے اُس نے مجھ پر ثابت کر دیا کہ خدا وہی خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا اور جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.اور میں عیسی مسیح کو ہرگز ان امور میں اپنے پر کوئی زیادت نہیں دیکھتا یعنی جیسے اُس پر خدا کا کلام نازل ہوا ایسا ہی مجھ پر بھی ہوا اور جیسے اُس کی نسبت معجزات منسوب کئے جاتے ہیں میں یقینی طور پر اُن معجزات کا مصداق اپنے نفس کو دیکھتا ہوں بلکہ اُن سے زیادہ اور یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے یعنی سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.یہ عجیب ظلم ہے کہ جاہل اور نادان لوگ کہتے ہیں کہ عیسی آسمان پر زندہ ہے حالانکہ زندہ ہونے کے علامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پاتا ہوں.وہ خدا جس کو دنیا نہیں جانتی ہم نے اس خدا کو اس کے نبی کے ذریعہ سے دیکھ لیا اور وہ وحی الہی کا دروازہ جو دوسری قوموں پر بند ہے ہمارے پر محض اس نبی کی برکت سے کھولا گیا اور وہ معجزات جو غیر قو میں صرف قصوں اور کہانیوں کے طور پر بیان کرتی ہیں ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے وہ معجزات بھی دیکھ لئے اور ہم نے اس نبی کا وہ مرتبہ پایا جس کے آگے کوئی مرتبہ نہیں.مگر تعجب کہ دنیا اس سے بے خبر ہے.مجھے کہتے ہیں کہ مسیح موعود ہونے کا کیوں دعویٰ کیا مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس نبی کی کامل پیروی سے ایک شخص عیسی سے بڑھ کر بھی ہو سکتا ہے.اندھے کہتے ہیں یہ کفر ہے.میں کہتا ہوں کہ تم خود ایمان سے بے نصیب ہو.پھر کیا جانتے ہو کہ کفر کیا چیز ہے.کفر خود تمہارے اندر ہے.اگر تم جانتے کہ اس آیت کے کیا معنے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو ایسا کفر منہ پر نہ لاتے.خدا تو تمہیں یہ ترغیب دیتا ہے کہ تم اس رسول کی کامل پیروی کی برکت سے تمام رسولوں کے متفرق کمالات اپنے اندر جمع کر سکتے ہو.اور تم صرف ایک نبی کے کمالات حاصل کرنا کفر جانتے ہو.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۳ تا ۳۵۵) میں اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحاق سے اور اسمعیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی

Page 55

۴۵ اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا.مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمد کی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں.شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.پس اسی بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی.اور میری نبوت یعنی مکالمه مخاطبه البهية آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں.وہی نبوت محمد یہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے.تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲۰۴۱۱) میں نے بار بار بیان کر دیا ہے کہ یہ کلام جو میں سناتا ہوں یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے جیسا کہ قرآن اور توریت خدا کا کلام ہے اور میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور مسیح موعود مانا واجب ہے اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے وہ آسمان پر قابل مواخذہ ہے کیونکہ جس امر کو اس نے اپنے وقت پر قبول کرنا تھا اُس کو رڈ کر دیا.میں صرف یہ نہیں کہتا کہ میں اگر جھوٹا ہوتا تو ہلاک کیا جاتا بلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ موسیٰ اور عیسی اور داؤد اور آنحضرت صلعم کی طرح میں سچا ہوں اور میری تصدیق کے لئے خدا نے دس ہزار سے بھی زیادہ نشان دکھلائے ہیں.قرآن نے میری گواہی دی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گواہی دی ہے.(تحفۃ الندوة - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۹۶٬۹۵) چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لئے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی یعنی شبہ گذرتا تھا کہ آپ کا زمانہ وہیں تک ختم ہو گیا.کیونکہ جو آخری کام آپ کا تھا وہ اسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا.اس لئے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قو میں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں.زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے.اور اس تکمیل کے لئے اسی اُمت میں سے ایک نائب

Page 56

۴۶ مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے.اور اس کا نام خاتم الخلفاء ہے پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اُس کے آخر میں مسیح موعود ہے.اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہولے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے.اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الذِيْنِ كُلِّهِ (الصف: ١٠) یعنی خداوہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطا کرے...اس آیت کی نسبت ان سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا.چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۱،۹۰) میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُسی نے مجھے بھیجا ہے.اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اُسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اُس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں.جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں.(تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۳) مجھے خدا تعالیٰ نے میری وحی میں بار بار امتی کر کے بھی پکارا ہے اور نبی کر کے بھی پکارا ہے اور ان دونوں ناموں کے سننے سے میرے دل میں نہایت لذت پیدا ہوتی ہے اور میں شکر کرتا ہوں کہ اس مرکب نام سے مجھے عزت دی گئی.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۵۵) اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے دو نام میں نے پائے.ایک میرا نام امتی رکھا گیا جیسا کہ میرے نام غلام احمد سے ظاہر ہے.دوسرے میرا نام ظلمی طور پر نبی رکھا گیا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے حصص سابقہ براہین احمدیہ میں میرا نام احمد رکھا اور اسی نام سے بار بار مجھ کو پکارا اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں ظلمی طور پر نبی ہوں.پس میں اُمتی بھی ہوں اور ظلمی طور پر نبی بھی ہوں.اسی کی طرف وہ وحی الہی بھی اشارہ کرتی ہے جو حصص سابقہ براہین احمدیہ میں ہے.كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ.یعنی ہر ایک برکت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے.پس بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے تعلیم کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.اور پھر بعد اس کے بہت برکت والا وہ ہے جس نے تعلیم پائی یعنی یہ عاجز.پس اتباع کامل کی وجہ سے میرا نام امتی ہوا اور پورا

Page 57

۴۷ عکس نبوت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہو گیا.پس اس طرح پر مجھے دو نام حاصل ہوئے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۶۰) جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.سواب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا اور میرا یہ قول کہ من نیستم رسول و نیا ورده ام کتاب“ اس کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں.ہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.اس واسطہ کوملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی اور اس طور سے خاتم النبیین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاسی اور ظلی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا.اگر کوئی شخص اس وحی الہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی.ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۱،۲۱۰) خدا تعالیٰ نے آج سے چھبیس برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز مجھے قرار دیا ہے اسی وجہ سے براہین احمدیہ میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرما دیا ہے.قُل اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اور نیز فرمایا ہے كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ.اور اگر کوئی یہ کہے کہ کس طرح معلوم ے کہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے.ے ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے.پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی.

Page 58

۴۸ ہوا کہ حدیث لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مَعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسِ اس عاجز کے حق میں ہے اور کیوں جائز نہیں کہ امت محمدیہ میں سے کسی اور کے حق میں ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ براہین احمدیہ میں بار بار اس حدیث کا مصداق وحی الہی نے مجھے ٹھیرایا ہے.اور بتصریح بیان فرمایا کہ وہ میرے حق میں ہے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا.ومن ينكر به فليبارز للمباهلة ولعنة الله على من كذب الحق او افترای على حضرة العزة.اور یہ دعوی امت محمدیہ میں سے آج تک کسی اور نے ہرگز نہیں کیا کہ خدا تعالیٰ نے میرا یہ نام رکھا ہے اور خدا تعالیٰ کی وحی سے صرف میں اس نام کا مستحق ہوں اور یہ کہنا کہ نبوت کا دعوی کیا ہے کس قدر جہالت کس قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے.اے نادانو ! میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں.وَلِكُلِّ اَنْ يُصْطَلِحَ - تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۳٬۵۰۲) و انّى على مقام الختم من الولاية كما كان سيدى المصطفى على مقام الختم من النبوّة و انه خاتم الانبياء و انا خاتم الاولياء لاولى بعدى الا الذي هو منى و على عهدى.و انّى أُرْسِلْتُ من ربّى بِكُلّ قُوّة وبركة و عزّة.وان قدمى هذه على منارة ختم عليها كل رفعة ".(خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۶ اصفحہ ۷۰،۶۹ ) میں وہی ہوں جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا.ہاں! میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی ا اگر ایمان ثریا پر بھی معلق ہوا تو اسے ابناء فارس میں سے ایک شخص لا زمین پر قائم کرے گا.اور جو میرے الہامات کا انکار کرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ مباہلہ کے لئے آئے اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو حق کو جھٹلاتا ہے یا اللہ رب العزت کے بارہ میں افترا سے کام لیتا ہے.ے اور میں ولایت کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں جیسا کہ ہمارے سید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے تھے اور وہ خاتم الانبیاء ہیں اور میں خاتم الاولیاء ہوں.میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہوگا اور میرے عہد پر ہوگا.اور میں اپنے خدا کی طرف سے تمام تر قوت اور برکت اور عزت کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور یہ میرا قدم ایک ایسے منارہ پر ہے جو اس پر ہر ایک بلندی ختم کی گئی ہے.

Page 59

۴۹ زبان پر وعدہ ہوا.الحکام ۲۴ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲ کالم ۲ ملفوظات جلد دوم صفحه ۴۶ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) خدا تعالیٰ نے میرا نام عیسی ہی نہیں رکھا بلکہ ابتداء سے انتہا تک جس قدر انبیاء علیہم السلام کے نام تھے وہ سب میرے نام رکھ دیئے ہیں.چنانچہ براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام آدم رکھا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادَمَ...اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام نوح بھی رکھا ہے اور میری نسبت فرمایا ہے.وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ.او خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا.اصْبَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم بھی رکھا گیا ہے جیسا کہ فرمایا.سَلَامٌ عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِيمُ (دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸) یعنی اے ابراہیم تجھ پر سلام.ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بہت برکتیں دی تھیں اور وہ ہمیشہ دشمنوں کے حملوں سے سلامت رہا.پس میرا نام ابراہیم رکھ کر خدا تعالیٰ یہ اشارہ کرتا ہے کہ ایسا ہی اس ابراہیم کو برکتیں دی جائیں گی اور مخالف اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکیں گے......اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام یوسف بھی رکھا گیا ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام موسیٰ رکھا گیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تَلَطَّفُ بِالنَّاسِ وَ تَرَحَمُ عَلَيْهِمْ اَنْتَ فِيْهِمْ بِمَنْزِلَةِ مُوسَى وَاصْبِرُ عَلَى مَايَقُولُونَ اسی طرح خدا نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام داؤد بھی رکھا جس کی تفصیل عنقریب اپنے موقع پر آئے گی.ایسا ہی براہین احمدیہ حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام سلیمان بھی رکھا اور اس کی تفصیل بھی عنقریب آئے گی.ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام احمد اور محمد بھی رکھا اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم نبوت ہیں ویسا ہی یہ عاجز خاتم ولایت ہے.اور بعد اس کے میری نسبت براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ بھی فرمایا.ے میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا ارادہ کیا سو میں نے آدم کو پیدا کیا.ے اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کر وہ تو ایک غرق شدہ قوم ہے.سے ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے کشتی بنا.جولوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ ( تیری نہیں بلکہ ) خدا کی بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے.۵ لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر.تو ان میں بمنزلہ موسی کے ہے.اور ان کی باتوں پر صبر کر.

Page 60

جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْاَنْبِيَاءِ یعنی رسول خدا تمام گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے پیرائیوں میں.اس وحی الہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے.اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گذرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا.ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے.اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی.اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گزر چکے ہیں ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں.سو وہ میں ہوں...اسی طرح خدا تعالیٰ نے میرا نام ذوالقرنین بھی رکھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی میری نسبت یہ وحی مقدس که جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ.جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کا رسول تمام نبیوں کے پیرائیوں میں.یہ چاہتی ہے کہ مجھ میں ذوالقرنین کی بھی صفات ہوں کیونکہ سورہ کہف سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین بھی صاحب وحی تھا.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۲تا ۱۱۸) خدا نے جو ہر ایک کام نرمی سے کرتا ہے اس زمانہ کے لئے سب سے پہلے میرا نام عیسی ابن مریم رکھا کیونکہ ضرور تھا کہ میں اپنے ابتدائی زمانہ میں ابن مریم کی طرح قوم کے ہاتھ سے دُکھ اٹھاؤں اور کافر اور ملعون اور دجال کہلاؤں اور عدالتوں میں کھینچا جاؤں سو میرے لئے ابن مریم ہونا پہلا زینہ تھا مگر میں خدا کے دفتر میں صرف عیسی ابن مریم کے نام سے موسوم نہیں بلکہ اور بھی میرے نام ہیں جو آج سے چھبیس برس کی برس پہلے خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرے ہاتھ سے لکھا دیئے ہیں اور دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا.سو جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایا ہے.میں آدم ہوں.میں نوح ہوں.میں ابراہیم ہوں.میں اسحاق ہوں.میں یعقوب ہوں.میں اسمعیل ہوں.میں موسی ہوں.میں داؤد ہوں.میں عیسی ابن مریم ہوں.میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یعنی بُروزی طور پر جیسا کہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دیئے اور میری نسبت جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ فرمایا یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں.سوضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے.اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو.مگر خدا نے یہی پسند کیا کہ سب سے پہلے ابن مریم کے صفات مجھ میں ظاہر کرے.سو میں نے اپنی قوم سے وہ سب دکھ اُٹھائے جو ابن مریم نے یہود سے اٹھائے بلکہ تمام قوموں سے اٹھائے.یہ سب کچھ ہوا مگر پھر خدا نے کسر صلیب کے لئے میرا نام مسیح قائم

Page 61

۵۱ ۲۰۰۰ رکھا تا جس صلیب نے مسیح کو تو ڑا تھا اور اس کو زخمی کیا تھا دوسرے وقت میں مسیح اس کو تو ڑے.مگر آسمانی نشانوں کے ساتھ نہ انسانی ہاتھوں کے ساتھ.کیونکہ خدا کے نبی مغلوب نہیں رہ سکتے.سوسنہ عیسوی کی بنیسویں صدی میں پھر خدا نے ارادہ فرمایا کہ صلیب کو مسیح کے ہاتھ سے مغلوب کرے لیکن جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں مجھے اور نام بھی دیئے گئے ہیں اور ہر ایک نبی کا مجھے نام دیا گیا ہے.چنانچہ جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گذرا ہے جس کو ر و ڈر گوپال بھی کہتے ہیں ( یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا ) اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے.پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا اِن دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں.اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے.آریوں کا بادشاہ آریہ ورت کے محقق پنڈت بھی کرشن اوتار کا زمانہ یہی قرار دیتے ہیں اور اس زمانہ میں اس کے آنے کے منتظر ہیں گو وہ لوگ ابھی مجھ کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ مجھے شناخت کر لیں گے کیونکہ خدا کا ہاتھ انہیں دکھائے گا کہ آنے والا یہی ہے.تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱ ۵ تا ۵۲۳) خدا تعالیٰ نے کشفی حالت میں بارہا مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ آریہ قوم میں کرشن نام ایک شخص جو گزرا ہے.وہ خدا کے برگزیدوں اور اپنے وقت کے نبیوں میں سے تھا.اور ہندوؤں میں اوتار کا لفظ در حقیقت نبی کے ہم معنی ہے.اور ہندؤں کی کتابوں میں ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ کہ آخری زمانہ میں ایک اوتار آئے گا جو کرشن کے صفات پر ہو گا اور اُس کا بروز ہو گا اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ میں ہوں.کرشن کی دوصفت میں ایک روڈ ریعنی درندوں اور سؤروں کو قتل کرنے والا یعنی دلائل اور نشانوں سے.دوسرے گوپال یعنی گائیوں کو پالنے والا یعنی اپنے انفاس سے نیکیوں کا مددگار.اور یہ دونوں صفتیں مسیح موعود کی صفتیں ہیں اور یہی دونوں صفتیں خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں.تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۳۱۷ حاشیہ در حاشیہ ) میں ان گناہوں کے دور کرنے کے لئے جن سے زمین پر ہوگئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا.یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانی حقیقت کی رُو سے میں وہی ہوں.یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے

Page 62

۵۲ بتلایا ہے کہ تو ہندؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے.(لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۸) قَدْ الْبَأَنِي رَبِّيَ انَّنِي كَسَفِينَةِ نُوحٍ لِلْخَلْقِ فَمَنْ أَتَانِي وَ دَخَلَ فِي الْبَيْعَةِ فَقَدْ نَجَا مِنَ الضَّيْعَةِ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۸۶) وَإِنِّي أَنَا الْخِضَرُ فِي بَعْضِ صِفَاتِي لَا تُحَاطُ اَسْرَارِى.کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نمبر امشتمل بر الہامات ۱۲ جنوری ۱۹۰۳ تا ۱۹ار اپریل ۱۹۰۶ صفحه ۶ قلمی ) خدائے حکیم علیم نے وضع دنیا دوری رکھی ہے یعنی بعض نفوس بعض کے مشابہ ہوتے ہیں نیک نیکوں کے مشابہ اور بد بدوں کے مشابہ مگر با ایں ہمہ یہ امر مخفی ہوتا ہے اور زور شور سے ظاہر نہیں ہوتا لیکن آخری زمانہ کے لئے خدا نے مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ ایک عام رجعت کا زمانہ ہوگا تا یہ امت مرحومہ دوسری اُمتوں سے کسی بات میں کم نہ ہو.پس اُس نے مجھے پیدا کر کے ہر ایک گذشتہ نبی سے مجھے اُس نے تشبیہ دی کہ وہی میرا نام رکھ دیا.چنانچہ آدم، ابراہیم، نوح، موسیٰ، داؤد سلیمان، یوسف، یحیی عیسی وغیرہ یہ تمام نام براہین احمدیہ میں میرے رکھے گئے اور اس صورت میں گویا تمام انبیاء گذشتہ اس امت میں دوبارہ پیدا ہو گئے.یہاں تک کہ سب کے آخر مسیح پیدا ہو گیا اور جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا.چنانچہ قرآن شریف میں اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ - وَلَا الضَّالِّينَ.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۸۲ حاشیه) میرا انکار میرا انکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرا لیتا ہے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ الحمد سے لے کر والناس تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا.پھر سوچو! کہ کیا میری.مجھے میرے رب نے اس بات سے آگاہ فرمایا ہے کہ میں مخلوق کے لئے کشتی نوح کی طرح ہوں پس جو میرے پاس آیا اور میری بیعت میں داخل ہوا تو وہ ہلاکت سے نجات پا گیا.کے اور یقیناً میں اپنی بعض صفات میں خضر ہوں میرے اسرار کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا.یہ کاپی خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے.

Page 63

۵۳ تکذیب کوئی آسان امر ہے.یہ میں از خود نہیں کہتا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اُس نے سارے قرآن کی تکذیب کر دی اور خدا کو چھوڑ دیا.الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱ ۲.ملفوظات جلد دوم صفحه ۳۶۵،۳۶۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) جن نا پاک طبع لوگوں نے تکفیر پر کمر باندھی ہے ان کے مقابل پر ایسے لوگ بھی بہت ہیں جن کو عالم رؤیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عاجز کی نسبت دریافت کیا اور آپ نے فرمایا کہ وہ شخص در حقیقت منجانب اللہ ہے اور اپنے دعوی میں صادق ہے.چنانچہ ایسے لوگوں کی بہت سی شہادتیں ہمارے پاس موجود ہیں.جس شخص کو اس تحقیق کا شوق ہے وہ ہم سے اس کا ثبوت لے سکتا ہے.ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحه ۳۴۳) مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک رُوح پر غلبہ دیا گیا ہے.اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کے لئے بار باران کو بلایا تو خدا اس کو ذلیل اور شرمندہ کرتا.سوفہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا یہ اللہ جلّ شانہ کا ایک نشان ہے.میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب دنیا دیکھے گی کہ میں اس بیان میں سچا ہوں.(سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۱) خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا.وہ کاٹا جائے گا.بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ.(اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۰۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) میں حضرت قدس کا باغ ہوں جو مجھے کاٹنے کا ارادہ کرے گا وہ خود کاٹا جائے گا مخالف روسیاہ ہو گا اور منکر شرمسار.نشان آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۹۷) پس پھر میں کھول کر کہتا ہوں کہ میری تکذیب آسان امر نہیں.مجھے کافر کہنے سے پہلے خود کافر بننا ہوگا.مجھے بے دین اور گمراہ کہنے میں دیر ہو گی مگر پہلے اپنی گمراہی اور روسیا ہی کو مان لینا پڑے گا.

Page 64

۵۴ مجھے قرآن وحدیث کا چھوڑنے والا کہنے سے پہلے خود قرآن اور حدیث کو چھوڑ دینا پڑے گا اور پھر بھی وہی چھوڑے گا.میں قرآن وحدیث کا مصدق و مصداق ہوں میں گمراہ نہیں بلکہ مہدی ہوں.میں کافر نہیں بلکہ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِین کا مصداق صحیح ہوں اور یہ جو کچھ میں کہتا ہوں خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ سچ ہے.جس کو خدا پر یقین ہے جو قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق مانتا ہے اُس کے لئے یہی حجت کافی ہے کہ میرے منہ سے سُن کر خاموش ہو جائے لیکن جو دلیر اور بے باک ہے اس کا کیا علاج؟ خدا خود اس کو سمجھائے گا.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ خدا کے واسطے اس امر پر غور کریں اور اپنے دوستوں کو بھی وصیت کریں کہ وہ میرے معاملہ میں جلدی سے کام نہ لیں.بلکہ نیک نیتی اور خالی الذہن ہو کر سوچیں.الحکم مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۲.ملفوظات جلد دوم صفحه ۳۶۶،۳۶۵ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ایک دفعہ کشفی رنگ میں میں نے دیکھا کہ میں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا.اور پھر میں نے کہا کہ آؤ اب انسان کو پیدا کریں.اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدائی کا دعوی کیا حالانکہ اُس کشف سے یہ مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحه ۳۷۶،۳۷۵ حاشیه) اس زمانہ میں جس طرح خدا تعالیٰ قریب ہو کر ظاہر ہو رہا ہے اور صد ہا امور غیب اپنے بندہ پر کھول رہا ہے اس زمانہ کی گذشتہ زمانوں میں بہت ہی کم مثال ملے گی.لوگ عنقریب دیکھ لیں گے کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ کا چہرہ ظاہر ہو گا گویا وہ آسمان سے اترے گا.اس نے بہت مدت تک اپنے تئیں چھپائے رکھا اور انکار کیا گیا اور چپ رہا لیکن وہ اب نہیں چھپائے گا اور دنیا اس کی قدرت کے وہ نمونے دیکھے گی کہ کبھی ان کے باپ دادوں نے نہیں دیکھے تھے یہ اس لئے ہو گا کہ زمین بگڑ گئی اور آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے پر لوگوں کا ایمان نہیں رہا.ہونٹوں پر اس کا ذکر ہے لیکن دل اس سے پھر گئے ہیں اس لئے خدا نے کہا کہ اب میں نیا آسمان اور نئی زمین بناؤں گا.اس کا مطلب یہی ہے کہ زمین مرگئی.یعنی زمینی لوگوں کے دل سخت ہو گئے گویا مر گئے کیونکہ خدا کا چہرہ اُن سے چھپ گیا.اور گذشتہ آسمانی نشان سب بطور قصوں کے ہو گئے.سوخدا نے ارادہ کیا کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بناوے.وہ کیا ہے

Page 65

۵۵ نیا آسمان؟ اور کیا ہے نئی زمین؟ نئی زمین وہ پاک دل ہیں جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا اُن سے ظاہر ہوگا.اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اس کے بندے کے ہاتھ سے اُسی کے اذن سے ظاہر ہورہے ہیں لیکن افسوس کہ دنیا نے خدا کی اس نئی تجلی سے دشمنی کی.ان کے ہاتھ میں بجز قصوں کے اور کچھ نہیں اور ان کا خدا ان کے اپنے ہی تصورات ہیں.دل ٹیڑھے ہیں اور ہمتیں تھکی ہوئی ہیں اور آنکھوں پر پردے ہیں.(۱) خدا نے مجھے قرآنی معارف بخشے ہیں.(۲) خدا نے مجھے قرآن کی زبان میں اعجاز عطا فرمایا ہے.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۷ ) (۳) خدا نے میری دعاؤں میں سب سے بڑھ کر قبولیت رکھی ہے.(۴) خدا نے مجھے آسمان سے نشان دیئے ہیں.(۵) خدا نے مجھے زمین سے نشان دیئے ہیں.(۶) خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ تجھ سے ہر ایک مقابلہ کرنے والا مغلوب ہوگا.(۷) خدا نے مجھے بشارت دی ہے کہ تیرے پیرو ہمیشہ اپنے دلائل صدق میں غالب رہیں گے.اور دنیا میں اکثر وہ اور اُن کی نسل بڑی بڑی عزتیں پائیں گے تا اُن پر ثابت ہو کہ جو خدا کی طرف آتا ہے وہ کچھ نقصان نہیں اٹھاتا.(۸) خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ قیامت تک اور جب تک کہ دنیا کا سلسلہ منقطع ہو جائے میں تیری برکات ظاہر کرتا رہوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.(۹) خدا نے آج سے میں برس پہلے مجھے بشارت دی ہے کہ تیرا انکار کیا جائے گا اور لوگ تجھے قبول نہیں کریں گے پر میں تجھے قبول کروں گا اور بڑے زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کر دوں گا.(۱۰) اور خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا جس میں میں روح القدس کی برکات پھونکوں گا.وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہو گا اور مظہر الحق والعلا ہو گا گویا خدا آسمان سے نازل ہوا.وَ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ.دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت کچھ پھلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں

Page 66

۵۶ اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا.یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں.یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۱۸۱ ۱۸۲) یہ عاجز اپنے ذاتی تجربہ سے بیان کرتا ہے کہ فی الحقیقت سورۂ فاتحہ مظہر انوار الہی ہے.اس قدر عجائبات اس سورۃ کے پڑھنے کے وقت دیکھے گئے ہیں کہ جن سے خدا کے پاک کلام کا قدر و منزلت معلوم ہوتا ہے.اس سورہ مبارکہ کی برکت سے اور اس کی تلاوت کے التزام سے کشف مغیبات اس درجہ تک پہنچ گیا کہ صد با اخبار غیبیہ قبل از وقوع منکشف ہوئیں اور ہر یک مشکل کے وقت اس کے پڑھنے کی حالت میں عجیب طور پر رفع حجاب کیا گیا.اور قریب تین ہزار کے کشف صحیح اور رویا صادقہ یاد ہے کہ جواب تک اس عاجز سے ظہور میں آچکے.اور صبح صادق کے کھلنے کی طرح پوری بھی ہو چکی ہیں اور دوسو جگہ سے زیادہ قبولیت دعا کے آثار نمایاں ایسے نازک موقعوں پر دیکھے گئے جن میں بظاہر کوئی صورت مشکل کشائی کی نظر نہیں آتی تھی اور اسی طرح کشف قبور اور دوسرے انواع اقسام کے عجائبات اسی سورہ کے التزام ورد سے ایسے ظہور پکڑتے گئے کہ اگر ایک ادنی پر تو ہ ان کا کسی پادری یا پنڈت کے دل پر پڑ جائے تو یکدفعہ حُبّ دُنیا سے قطع تعلق کر کے اسلام کے قبول کرنے کے لئے مرنے پر آمادہ ہو جائے.اسی طرح بذریعہ الہامات صادقہ کے جو پیشگوئیاں اس عاجز پر ظاہر ہوتی رہی ہیں جن میں سے بعض پیشگوئیاں مخالفوں کے سامنے پوری ہو گئی ہیں اور پوری ہوتی جاتی ہیں اس قدر ہیں کہ اس عاجز کے خیال میں دو انجیلوں کی ضخامت سے کم نہیں.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۴۲ تا ۶۴۵ حاشیہ نمبر ۱۱) واني انا موت الزور و حرز المذعور.وانا حربة المولى الرحمن وحجة الله الديان.وانا النهار والشمس و السبيل.و فى نفسى تحققت الاقاويل.وبي ابطلت الاباطيل.وانا الواصف والموصوف.وانا ساق الله المكشوف.و انا قدم الرسول التي تحشر عليها الاموات.وتُمحى بها الضلالات لجة النور - روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۴۷۴،۴۷۳) لے یقیناً میں جھوٹ کی موت ہوں اور گڑ گڑانے والے کے لئے پناہ گاہ ہوں.میں رب رحمن کا نیزہ ہوں.اور مالک روز جزا سزا اللہ کی حجت ہوں.اور میں دن ہوں ، سورج ہوں اور صراط مستقیم ہوں.اور میری ذات میں ( گزشتہ بزرگوں) کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں.اور مجھ سے جھوٹی باتیں باطل ٹھہری ہیں.میں تعریف کرنے والا ہوں اور تعریف کیا گیا ہوں.میں خدا کی نگی پنڈلی ہوں.( یعنی میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنی تجلیات کا اظہار فرماتا ہے ) اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ نقش پا ہوں جس پر مُردوں کو زندہ کیا جائے گا اور جس سے گمراہیاں دور کی جائیں گی.

Page 67

۵۷ میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے میرے نفس کو گندی سے گندگی گالی دیتا ر ہے آخر وہی شرمندہ ہو گا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا.الحکم مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ء صفحه ۸،۷ - ملفوظات جلد اوّل صفحه ۳۰۲ ایڈیشن ۲۰۰۳) میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تفہیم الہی میرے شامل حال ہے اور وہ عزّ اسمہ جس وقت چاہتا ہے بعض معارف قرآنی میرے پر کھولتا ہے اور اصل منشاء بعض آیات کا معہ ان ثبوت کے میرے پر ظاہر فرماتا ہے اور میخ آہنی کی طرح میرے دل کے اندر داخل کر دیتا ہے.اب میں اس خدا داد نعمت کو کیونکر چھوڑ دوں اور جو فیض بارش کی طرح میرے پر ہو رہا ہے کیونکر اس سے انکار کروں! الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۱) ید بیضا که با او تابنده باز با ذوالفقار ے بینم را یعنی اس کا وہ روشن ہاتھ جو تمام کے حجت کی رُو سے تلوار کی طرح چمکتا ہے پھر میں اُس کو ذوالفقار کے ساتھ دیکھتا ہوں یعنی ایک زمانہ ذوالفقار کا تو وہ گزر گیا کہ جب ذوالفقار علی كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ کے ہاتھ میں تھی مگر خدا تعالیٰ پھر ذوالفقار اس امام کو دے دے گا.اس طرح پر کہ اس کا چمکنے والا ہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں ذوالفقار کرتی تھی.سو وہ ہاتھ ایسا ہو گا کہ گویاذ والفقار علی كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ ہے جو پھر ظاہر ہوگئی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ امام سلطان القلم ہوگا اور اُس کی قلم ذوالفقار کا کام دے گی.یہ پیش گوئی بعینہ اس عاجز کے اُس الہام کا ترجمہ ہے جو اس وقت سے دس برس پہلے براہین میں چھپ چکا ہے اور وہ یہ ہے كِتَابُ الْوَلِيِّ ذُو الْفَقَارِ عَلِيٍّ یعنی کتاب اس ولی کی ذوالفقار علی کی ہے.یہ اس عاجز کی طرف اشارہ ہے.اسی بنا پر بارہا اس عاجز کا نام مکاشفات میں غازی رکھا گیا ہے.(نشان آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۷۵) اگر میں خود دعویٰ کرتا ہوں تو بے شک مجھے جھوٹا سمجھو لیکن اگر خدا کا پاک نبی اپنی پیشگوئیوں کے ذریعہ سے میری گواہی دیتا ہے اور خود خدا میرے لئے نشان دکھلاتا ہے تو اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو.یہ مت کہو کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں کسی مسیح وغیرہ کے قبول کرنے کی کیا ضرورت ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا لے یعنی اس کا وہ روشن ہاتھ جو تمام کے حجت کی رو سے تلوار کی طرح چمکتا ہے پھر میں اس کو ذوالفقار کے ساتھ دیکھتا ہوں.

Page 68

۵۸ ہوں کہ جو مجھے قبول کرتا ہے وہ اسے قبول کرتا ہے جس نے میرے لئے آج سے تیرہ سو برس پہلے لکھا ہے اور میرے وقت اور زمانہ اور میرے کام کے نشان بتلائے ہیں اور جو مجھے رڈ کرتا ہے وہ اسے رڈ کرتا ہے جس نے حکم دیا ہے کہ اسے مانو “ ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ اصفحہ ۳۲۸، ۳۲۹) حدیثوں کو پڑھو کہ وہ آخری زمانہ میں آنے والا اور اُس زمانہ میں آنے والا کہ جب قریش سے بادشا ہی جاتی رہے گی اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک تفرقہ اور پریشانی میں پڑی ہوئی ہوگی زمیندار ہی ہو گا اور مجھ کو خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ میں ہوں.احادیث نبویہ میں صاف لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک مؤید دین و ملت پیدا ہو گا اور اس کی یہ علامت ہوگی کہ وہ حارث ہو گا یعنی زمیندار ہو گا.اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر یک مسلمان کو چاہئے کہ اس کو قبول کر لیوے اور اُس کی مدد کرے.آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۰۳) جو شخص مجھے قبول کرتا ہے وہ تمام انبیاء اور اُن کے معجزات کو بھی نئے سرے قبول کرتا ہے.اور جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا اس کا پہلا ایمان بھی کبھی قائم نہیں رہے گا.کیونکہ اس کے پاس نرے قصے ہیں نہ مشاہدات.خدا نمائی کا آئینہ میں ہوں جو شخص میرے پاس آئے گا اور مجھے قبول کرے گا وہ نئے سرے اُس خدا کو دیکھ لے گا جس کی نسبت دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں صرف قصے باقی ہیں.میں اس خدا پر ایمان لایا ہوں جس کو میرے منکر نہیں پہچانتے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جس پر وہ ایمان لاتے ہیں اُن کے وہ خیالی بت ہیں نہ خُدا.اسی وجہ سے وہ بُت اُن کی کچھ مدد نہیں کر سکتے.اُن کو کچھ قوت نہیں دے سکتے اُن میں کوئی پاک تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.ان کے لئے کوئی تائیدی نشان نہیں دکھلا سکتے.( نزول امسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۳،۴۶۲) اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں.جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں.مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو بچے خدا کی طرف رہبری کروں اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کر دوں.اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلی پانے کے لئے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں اور میری تائید میں اپنے عجیب کام دکھلائے ہیں.اور غیب کی باتیں اور آئندہ کے بھید جو خدائے تعالیٰ کی پاک کتابوں کے رُو سے صادق کی شناخت کے لئے اصل معیار ہے میرے پر کھولے ہیں.اور پاک

Page 69

۵۹ معارف اور علوم مجھے عطا فرمائے ہیں اس لئے اُن روحوں نے مجھ سے دشمنی کی جو سچائی کو نہیں چاہتیں اور تاریکی سے خوش ہیں مگر میں نے چاہا کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے نوع انسان کی ہمدردی کروں.(مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۳) دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جو خواہ مخواہ بلا کسی قسم کے استحقاق کے اپنے تئیں محامد، مناقب اور صفات محمودہ سے موصوف کرنا چاہتے ہیں گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کبریائی کی چادر آپ اوڑھ لیں.ایسے لوگ لعنتی ہوتے ہیں.دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو طبعا ہر قسم کی مدح و ثنا اور منقبت سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں اور اگر وہ اپنے اختیار پر چھوڑ دئیے جاویں تو دل سے پسند کرتے ہیں کہ گوشتہ گمنامی میں زندگی گزار دیں.مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور بار یک حکمتوں کی بنا پر ان کی تعریف اور تمجید کرتا ہے اور در حقیقت ہونا بھی اسی طرح چاہئے.کیونکہ جن لوگوں کو وہ مامور کر کے بھیجتا ہے.اُن کی ماموریت سے اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ اس کی حمد و ثنا اور جلال دنیا میں ظاہر ہو.اگر ان ماموروں کی نسبت وہ یہ کہے کہ فلاں مامور جسے میں نے مبعوث کیا ہے ایسا نکما ، بُزدل نالائق ، کمینہ ، سفلہ اور ہر قسم کے فضائل سے عاری اور بیگانہ ہے تو کیا خدا تعالیٰ کی اس کے ذریعہ سے کوئی صفت قائم ہو سکے گی؟ حقیقت میں خدا کا ان کی تمجید اور مدارج اور فضائل بیان کرنا اپنے ہی جلال اور عظمت کی تمہید کے لئے ہوتا ہے.وہ تو اپنے نفس سے بالکل خالی ہوتے ہیں اور ہر قسم کے مدح و ذتم سے بے پروا ہوتے ہیں.چنانچہ سالہا سال اس سے پہلے جبکہ نہ کوئی مقابلہ تھا نہ گرد و پیش میں کوئی مجمع تھا نہ یہ مجلس اور اس کی کوئی تمہید تھی اور نہ دنیا میں کوئی شہرت تھی خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میری نسبت یہ فرمایا کہ:- يحمد الله من عرشه نحمدک و نصلی کنتم خير امة اخرجت للناس وافتخارًا للمؤمنين.يا احمد فاضت الرّحمة على شفتیک انگ باعيننا.يرفع الله ذكرك ويتم نـعـمـتـه علیک فی الدنيا والآخرة..يا احمدی انت مرادی و معی ے خدا عرش پر سے تیری تعریف کر رہا ہے.سے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.سے تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے نکالے گئے ہو.تم مومنوں کا فخر ہو.ہے اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی.تو میری آنکھوں کے سامنے ہے.۵ خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تیرے پر پوری کرے گا.1 اے میرے احمد ! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.

Page 70

۶۰ غرست کرامتک بیدی یا احمدیتم اسمک ولایتم اسمى بــرکت یا احمد و كان ما بارک الله فیک حقًّافیک : شانک عـجـیـب و اجـرک قریب.انی جاعلک للناس اماما.انت وجیه فی حضرتی، اخترتك لنفسي الارض و السماء معک کماهو معی و سرک سرى انت منی بمنزلة توحيدى و تفريدى سبحان الله تبارک و تعالی زاد مجدک سلام علیک جعلت مبارگا.وانی فضلتک علی العالمين..و لقد كرمنا بنی آدم و فضلنا بعضهم على بعض دنی فتدلى فكان قاب قوسین او ادنی.وان علیک رحمتی فی الدنیا والدین.والقيت عليك محبة منى ولتصنع على عينى.يحمد الله و یمشی الیک کا خلق ادم فاكرمه جرى الله في حلل الانبياء انت معى و انا معک خلقت لک لیلا و نهارا اعمل ماشئت فانی قد غفرت لك انت منى بمنزلة لا يعلمها الخلق.ویعصمک الله ولولم یعصمک الناس ، ولولم يعصمك الناس یعصمک الله..انت المسيح الذي لا يضاع ۱۸ ۲۲.وقته کمثلک در لایيضاع..انت الشيخ المسيح و انی معک و مع انصارک لے میں نے تیری کرامت کو اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.ہے اے احمد تیرا نام پورا ہو جائے گا اور میرا نام پورا نہیں ہوگا.سے اے احمد! تو برکت دیا گیا اور جو کچھ تجھے برکت دی گئی وہ تیرا ہی حق تھا.ہے تیری شان عجیب ہے اور تیرا اجر قریب ہے.میں تجھے لوگوں کے لئے پیش رو بناؤں گا.1- تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.کے میں نے تجھے اپنے لئے چنا.زمین اور آسمان تیرے ساتھ ایسے ہی ہیں جیسا کہ میرے ساتھ ، تیرا بھید میرا بھید ہے.9 تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید.نا وہ خدا بہت پاک اور بہت مبارک اور بہت اونچا ہے جس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا.تیرے پر سلام تو مبارک کیا گیا.۱۲ اور جس قدر لوگ تیرے زمانہ میں ہیں سب پر میں نے تجھے فضیلت دی.۱۳ اور ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور بعض کو بعض پر فضیلت بخشی.۱۴ وہ خدا سے نزدیک ہوا اور آگے سے آگے بڑھا یہاں تک کہ دو قوسوں کے درمیان کھڑا ہو گیا.۱۵ اور تیرے پر دنیا اور دین میں میری رحمت ہے.14 اور اپنی محبت تیرے پر ڈال دی اور تو نے میرے آنکھوں کے سامنے پرورش پائی.کے خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے.اس نے اس آدم کو یعنی تجھ کو پیدا کیا اور اس کو عزت دی.یہ خدا کا رسول ہے نبیوں کے حلوں میں.19 تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.۲۰ تیرے لئے میں نے رات اور دن پیدا کیا.۲۱ جو چاہے کر کہ تو مغفور ہے.۲۲ تو مجھ سے وہ نسبت رکھتا ہے جس کی دنیا کو خبر نہیں.۲۳ اور اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا اگر چہ لوگ تیری حفاظت نہ کریں.۲۴ اور اگر لوگ تیری حفاظت نہ کریں تو اللہ تیری حفاظت کرے گا.۲۵ تو وہ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.۲۶ تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاسکتا.سے تو برگزیدہ صیح ہے اور میں تیرے ساتھ اور تیرے انصار کے ساتھ ہوں.

Page 71

۶۱ وانت اسمـى الاعـلـى وانت منی بمنزلة توحیدی و تفریدی و انت منی بمنزلة المحبوبین علیک برکات و سلام سلام قولا من رب رحيم مظهر الحى و انت منى مبدء الامر.وما ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى فرمایا :.میں اپنے قلب کو دیکھ کر یقین کرتا ہوں کہ کل انبیاء علیہم السلام طبعا ہر قسم کی تعریف اور مدح و ثنا سے کراہت کرتے تھے.مگر جو کچھ خدا تعالیٰ نے ان کے حق میں بیان فرمایا ہے اپنے مصالح کی بنا پر فرمایا ہے.اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ الفاظ میرے الفاظ نہیں خدا تعالیٰ کے الفاظ ہیں اور یہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی عزت اور جلال اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عظمت اور جلال خاک میں ملا دیا گیا ہے اور حضرت عیسیٰ اور حضرت حسین کے حق میں ایسا غلو اور اطرا کیا گیا ہے کہ اس سے خدا کا عرش کا نپتا ہے.اب جب کہ کروڑ ہا آدمی حضرت عیسی کی مدح و ثناء سے گمراہ ہو چکے ہیں اور ایسا ہی بے انتہا مخلوق حضرت حسین کی نسبت غلو اور اطرا کر کے ہلاک ہو چکی ہے تو خدا کی مصلحت اور غیرت اس وقت یہی چاہتی ہے کہ وہ تمام عزتوں کے کپڑے جو بے جا طور پر ان کو پہنائے گئے تھے اُن سے اتار کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کو پہنائے جاویں.پس ہماری نسبت یہ کلمات درحقیقت خدا تعالی کی اپنی عزت کے اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے ہیں.فرمایا:.میں حلفاً کہتا ہوں کہ میرے دل میں اصلی اور حقیقی جوش یہی ہے کہ تمام محامد اور مناقب اور تمام صفات جمیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کروں.میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم ہو.میں یقیناً جانتا ہوں کہ میری نسبت جس قدر تعریفی کلمات اور تجیدی باتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں یہ بھی در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف راجع ہیں اس لئے کہ میں آپ کا ہی غلام ہوں اور آپ ہی کے مشکوۃ نبوت سے نور حاصل کرنے والا ہوں اور مستقل طور پر ہمارا کچھ بھی نہیں.اسی سبب سے میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لے اور تو میرا اسم اعلیٰ ہے، تو مجھے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید تو میرے تمام محبوبوں کا قائم مقام ہے.تجھ پر برکات اور سلامتی ہو.سے تم پر اس خدا کا سلام جو رحیم ہے.ہے.زندہ خدا کا مظہر.۵.اور تو مجھ سے امیر مقصود کا مبدء ہے.1 اور وہ اپنی خواہش کے ماتحت نہیں بولتا بلکہ وحی کا تابع ہے جو نازل کی جاتی ہے.

Page 72

۶۲ یہ دعوی کرے کہ میں مستقل طور پر بلا استفاضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مامور ہوں اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہوں تو وہ مردود اور مخذول ہے.خدا تعالیٰ کی ابدی مہر لگ چکی ہے اس بات پر کہ کوئی شخص وصول الی اللہ کے دروازے سے آ نہیں سکتا بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے.الحکم مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۲ء صفحه ۷، ۸ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۲۱۳ تا ۲۱۵ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) ان دونوں منصبوں کا مدعی میں ہوں جو تم میں اس وقت پچیس سال سے موجود ہوں پس میرے بعد کس کا انتظار کرو گے؟ ان تمام علامتوں کا مصداق تو وہ ہے جو ان نشانوں کے ظہور کے وقت موجود ہے.نہ وہ کہ جس کا ابھی دنیا میں نام ونشان نہیں.یہ عجیب سخت دلی ہے جو سمجھ میں نہیں آتی جب کہ میرے دعوی کے ساتھ سب نشان ظاہر ہو چکے اور میری مخالفت میں کوششیں بھی ہو کر ان میں نامرادی اور نا کامی رہی مگر پھر بھی انتظار کسی اور کی ہے ؟ ہاں یہ سچ ہے کہ میں نہ جسمانی طور پر آسمان سے اترا ہوں اور نہ میں دنیا میں جنگ اور خونریزی کرنے کے لئے آیا ہوں بلکہ صلح کے لئے آیا ہوں مگر میں خدا کی طرف سے ہوں.میں یہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ میرے بعد قیامت تک کوئی ایسا مہدی نہیں آئے گا جو جنگ اور خونریزی سے دنیا میں ہنگامہ برپا کرے اور خدا کی طرف سے ہو.اور نہ کوئی ایسا مسیح آئے گا جو کسی وقت آسمان سے اترے گا.ان دونوں سے ہاتھ دھولو.یہ سب حسرتیں ہیں جو اس زمانہ کے تمام لوگ قبر میں لے جائیں گے.نہ کوئی مسیح اُترے گا اور نہ کوئی خونی مہدی ظاہر ہو گا.جو شخص آنا تھا وہ آچکا وہ میں ہی ہوں جس سے خدا کا وعدہ پورا ہوا.جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا وہ خدا سے لڑتا ہے کہ تو نے کیوں ایسا کیا.( تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۷۷، ۷۸.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۳۲ ۶۳۳ بار دوم ) کیوں عجب کرتے ہو گر میں آ گیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار آسماں پر دعوتِ حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ توحید پر از جاں ثار

Page 73

۶۳ باغ میں ملت کے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادِ صبا گلزار مستانه وار آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اُس کا انتظار اسمعوا صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار آسماں بارد نشاں الوقت مے گوید زمیں این دو شاہد از پیئے من نعرہ زن چوں بے قرار اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آئیں یہ دن اور غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے بہار وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار نیز ابراہیم ہوں اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب پر گر احمد جس میرا سب مدار نہ ہوتا نام (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۱ تا ۱۳۳) مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار

Page 74

۶۴ ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمین کو کیا کریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۴۱) روضہ آدم کہ تھا وہ نامکمل آب تلک میرے آنے سے ہوا کامل بجمله برگ و بار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۴۴) وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے آب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۴۷) کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم یہی خطاب خوبوں کو بھی تم نے مسیحا بنا دیا ٹائٹل پیج فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳) یه سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تُو نے اے مرے حاجت برار پینه اے مرے یار یگانہ اے مری جاں کی تو میرے لئے مجھے کو نہیں تجھ بن بکار ہے میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار

Page 75

اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار نسل انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے غمگسار تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر یا گیا در گہ میں بار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے تا روز قیامت ہو شمار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۲۷) اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا کون ہوں تا رڈ کروں حکم شہ ذی الاقتدار اب تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتوان و دلفگار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۲۸)

Page 76

Page 77

۶۷ بعثت کا مقصد میں یقین رکھتا ہوں کہ جو صبر اور صدق دل سے میرے پیچھے آتا ہے وہ ہلاک نہ کیا جاوے گا.بلکہ وہ اس زندگی سے حصہ لے گا جس کو کبھی فنا نہیں.“ 66

Page 78

۶۸ انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں.حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد اُن کے آگے ہوتا ہے.پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اُس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی.یعنی میں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں.الحکم مورخہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱.ملفوظات جلد دوم صفحه ۹،۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے تو ہزار ہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں اور آسمان میں ایک صورت انبساطی پیدا ہو جاتی ہے اور انتشار روحانیت اور نورانیت ہو کر نیک استعداد میں جاگ اٹھتی ہیں.پس جو شخص جو الہام کی استعداد رکھتا ہے اس کو سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے اور جو شخص فکر اور غور کے ذریعہ سے دینی تفقہ کی استعداد رکھتا ہے اس کے تدبر اور سوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اور جس کو عبادات کی طرف رغبت ہو اس کو تعبد اور پرستش میں لذت عطا کی جاتی ہے اور جو شخص غیر قوموں کے ساتھ مباحثات کرتا ہے اس کو استدلال اور اتمام حجت کی طاقت بخشی جاتی ہے اور یہ تمام باتیں درحقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتا ہے جو امام الزمان کے ساتھ آسمان سے اترتی اور ہر ایک مستعد کے دل پر نازل ہوتی ہے.اور یہ ایک عام قانون اور سنت الہی ہے جو ہمیں قرآن کریم اور احادیث کی رہنمائی سے معلوم ہوا اور ذاتی تجارب نے اس کا مشاہدہ کرایا ہے.مگر مسیح موعود کے زمانے کو اس سے بھی بڑھ کر ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ پہلے نبیوں کی کتابوں اور احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہوگا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا اور نابالغ بچے نبوت کریں گے.اور عوام الناس رُوح القدس سے بولیں گے اور یہ سب کچھ مسیح موعود کی روحانیت کا پر تو ہو گا.جیسا کہ دیوار پر آفتاب کا سایہ پڑتا ہے تو دیوار منور ہو جاتی ہے اور اگر چونہ اور قلعی سے سفید کی گئی ہو تو پھر تو اور بھی زیادہ چمکتی ہے اور اگر اس میں آئینے نصب کئے گئے ہوں تو ان کی روشنی اس قدر بڑھتی

Page 79

۶۹ ہے کہ آنکھ کو تاب نہیں رہتی.مگر دیوار دعوی نہیں کر سکتی کہ یہ سب کچھ ذاتی طور پر مجھ میں ہے.کیونکہ سورج کے غروب کے بعد پھر اس روشنی کا نام و نشان نہیں رہتا.پس ایسا ہی تمام الہامی انوار امام الزمان کے انوار کا انعکاس ہوتا ہے.(ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴ ۴۷ ، ۴۷۵ ) میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ ومراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں.زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے.حضرت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا.اور جیسا کہ ضعف ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہوگئی تھی.اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے.سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو.سو یہی افعال میرے وجود کی علت غائی ہیں.مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین سے نزدیک ہو گا بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا.سوئیں ان ہی باتوں کا مجدد ہوں اور یہی کام ہیں جن کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.) کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۹۱ تا ۲۹۴ حاشیه ) اب اتمام حجت کے لئے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اُسی کے موافق جو ابھی میں نے ذکر کیا ہے خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے تاکہ وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت ( نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۵۱) وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور

Page 80

خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے اُن کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی تو حید جو ہر ایک قسم کے شرک کی آمیزش سے خالی ہے جواب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۸۰) خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں.انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل اُس کو ملیں جن کے رو سے اس کو یقین آجائے کہ خدا ہے کیونکہ ایک بڑا حصہ دنیا کا اسی راہ سے ہلاک ہو رہا ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی الہامی ہدایتوں پر ایمان نہیں ہے.اور خدا کی ہستی کے ماننے کے لئے اس سے زیادہ صاف اور قریب الفہم اور کوئی راہ نہیں کہ وہ غیب کی باتیں اور پوشیدہ واقعات اور آئندہ زمانہ کی خبر میں اپنے خاص لوگوں کو بتلاتا ہے اور وہ نہاں در نہاں اسرار جن کا دریافت کرنا انسانی طاقتوں سے بالا تر ہے اپنے مقربوں پر ظاہر کر دیتا ہے کیونکہ انسان کے لئے کوئی راہ نہیں جس کے ذریعہ سے آئندہ زمانہ کی ایسی پوشیدہ اور انسانی طاقتوں سے بالا تر خبریں اس کو مل سکیں.اور بلا شبہ یہ بات سچ ہے کہ غیب کے واقعات اور غیب کی خبر میں بالخصوص جن کے ساتھ قدرت اور حکم ہے ایسے امور ہیں جن کے حاصل کرنے پر کسی طور سے انسانی طاقت خود بخود قادر نہیں ہو سکتی.سوخدا نے میرے پر یہ احسان کیا ہے جو اس نے تمام دنیا میں سے مجھے اس بات کے لئے منتخب کیا ہے کہ تا وہ اپنے نشانوں سے گمراہ لوگوں کو راہ پر لاوے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے آسمان سے دیکھا ہے کہ عیسائی مذہب کے حامی اور پیرو یعنی پادری سچائی سے بہت دُور جاپڑے ہیں اور وہ ایک ایسی قوم ہے کہ نہ صرف آپ صراط مستقیم کوکھو بیٹھے ہیں بلکہ ہزار ہا کوس تک خشکی تری کا سفر کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اوروں کو بھی اپنے جیسا کر لیں.وہ نہیں جانتے کہ حقیقی خدا کون ہے بلکہ اُن کا خدا انہی کی ایک ایجاد ہے.اس لئے خدا کے اس رحم نے جو انسانوں کے لئے وہ رکھتا ہے تقاضا کیا کہ اپنے بندوں کو ان کے دام تزویر سے چھڑائے اس لئے اس نے اپنے اس مسیح کو بھیجا تا وہ دلائل کے حربہ سے اُس صلیب کو توڑے جس نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بدن کو تو ڑا تھا اور زخمی کیا تھا.تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴۴۱۴۳)

Page 81

یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا وے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے.اور دار النجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہے.( حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵۳٬۵۲) اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکر کے سجدات بجا لاؤ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئے اور بے شمار روحیں اس کے شوق میں ہی سفر کر گئیں وہ وقت تم نے پالیا آب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے.میں اس کو بار بار بیان کروں گا اور اس کے اظہار سے میں رُک نہیں سکتا کہ میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے.میں اُس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مرد خدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیروڈلیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی.سو جب دوسرا کلیم اللہ جو حقیقت میں سب سے پہلا اور سید الانبیاء ہے دوسرے فرعونوں کی سرکوبی کے لئے آیا جس کے حق میں ہے.اِنَّا اَرُ سَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمُ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا لے تو اس کو بھی جو اپنی کارروائیوں میں کلیم اول کا مثیل مگر رتبہ میں اُس سے بزرگ تر تھا ایک مثیل لمسیح کا وعدہ دیا گیا اور وہ مثیل المسیح قوت اور طبع اور خاصیت مسیح ابن مریم کی پاکر اُسی زمانہ کی مانند اور اسی مدت کے قریب قریب جو کلیم اول کے زمانہ سے مسیح ابن مریم کے زمانہ تک تھی یعنی چودھویں صدی میں آسمان سے اترا.اور وہ اتر نا روحانی طور پر تھا جیسا کہ مکمل لوگوں کا صعود کے بعد خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نزول ہوتا ہے اور سب باتوں میں اُسی زمانہ کے ہم شکل زمانہ میں اترا جو مسیح ابن مریم کے اترنے کا زمانہ تھا تا سمجھنے والوں کے لئے نشان ہو.پس ہر ایک کو چاہئے کہ اس سے انکار کرنے میں جلدی نہ کرے تا خدا تعالیٰ سے لڑنے والا نہ ٹھہرے.دنیا کے لوگ جو تاریک خیال اور اپنے پرانے تصورات پر جمے ہوئے ہیں وہ اس کو قبول نہیں کریں گے مگر عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جو اُن کی غلطی ان پر ظاہر کر دے گا.دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اُس کو قبول نہیں کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر المزمل : ١٦

Page 82

۷۲ دے گا.“ یہ انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور رب جلیل کا کلام ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان حملوں کے دن نزدیک ہیں.مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوں گے اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد اُترے گی اور یہودیوں سے سخت لڑائی ہوگی.وہ کون ہیں؟ اس زمانہ کے ظاہر پرست لوگ جنہوں نے بالا تفاق یہودیوں کے قدم پر قدم رکھا ہے.اُن سب کو آسمانی سیف اللہ دوٹکڑے کرے گی اور یہودیت کی خصلت مٹا دی جائے گی.اور ہر ایک حق پوش دجال دنیا پرست یک چشم جو دین کی آنکھ نہیں رکھتا حجت قاطعہ کی تلوار سے قتل کیا جائے گا.اور سچائی کی فتح ہو گی اور اسلام کے لئے پھر اُس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خوں نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے.اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا.سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا.چنانچہ منجملہ ان شاخوں کے ایک شاخ تالیف اور تصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اس عاجز کے سپرد کیا گیا اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خدا تعالے کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں.اور انسانی تکلف سے نہیں بلکہ رُوح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کر دیئے گئے.دوسری شاخ اس کارخانہ کی اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکم الہی اتمام حجت کی غرض سے جاری ہے اور اب تک ہیں ہزار سے کچھ زیادہ اشتہارات اسلامی حجتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لئے شائع ہو چکے ہیں اور آئندہ ضرورت کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے.تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں جو اس آسمانی کارخانے کی خبر پا کر اپنی اپنی نیتیوں کی تحریک سے

Page 83

۷۳ ۳۰۰ ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں یہ شاخ بھی برابر نشو ونما میں ہے..چوتھی شاخ اس کارخانہ کی وہ مکتوبات ہیں جو حق کے طالبوں یا مخالفوں کی طرف لکھے جاتے ہیں.چنانچہ اب تک عرصہ مذکورہ بالا میں تو نے ہزار سے بھی کچھ زیادہ خط آئے ہوں گے جن کا جواب لکھا گیا ہر اک مہینے میں غالبا تین سو سے سات سو یا ہزار تک خطوط کی آمد ورفت کی نوبت پہنچتی ہے.پانچویں شاخ اس کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ نے اپنی خاص وحی اور الہام سے قائم کی مریدوں اور بیعت کرنے والوں کا سلسلہ ہے.چنانچہ اس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفانِ ضلالت بر پا ہے.تو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی طیار کر.جو شخص اس کشتی میں سوار ہو گا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گا.اور جو انکار میں رہے گا.اس کے لئے موت در پیش ہے اور فرمایا کہ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا اُس نے تیرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اُس خدا وند خدا نے مجھے بشارت دی کہ میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھا لوں گا مگر تیرے سے متبعین اور محبین قیامت کے دن تک رہیں گے اور ہمیشہ منکرین پر انہیں غلبہ رہے گا.فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷ تا ۲۵) بیس برس کا عرصہ ہوا ہے کہ مجھے یہ الہام ہوا.قل جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل كان زهوقًا.كل بركة من محمّد صلى الله عليه وسلم فتبارك من علم و تعلّم.قل ان افتريتهُ فَعَلَيَّ اجرامی.هو الذی ارسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهرة على الدين كله لا مبدل لكلمات الله.ظلموا وان الله على نصرهم لقدير - بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد.پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا.اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں.جناب الہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اس کی پاک رحمتیں اس طرح متوجہ ہیں.وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا.وہ خدا جو ذ والجلال اور زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والا ہے.“ ترجمہ: حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے ایک دن بھاگنا ہی تھا.ہر ایک برکت ( جو تجھ کوملی ہے ) وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہے.دو انسان بڑی برکت والے ہیں جن کی برکتیں کبھی اور کسی زمانہ میں منقطع نہیں ہوں گی.ایک وہ یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جس کی طرف سے اور جس کے فیضان سے یہ تمام برکتیں تجھ پر اتاری گئی ہیں.اور دوسرا وہ انسان جس پر یہ ساری برکتیں نازل ہوئیں (یعنی یہ عاجز) کہہ اگر میں

Page 84

۷۴ نے افترا کیا ہے اور خدا کے الہام سے نہیں بلکہ یہ بات خود بنائی ہے تو اس کا وبال میرے پر ہوگا اور میں اس جرم کی سزا پاؤں گا.نہیں بلکہ حق یہ بات ہے کہ خدا نے اس رسول کو یعنی تجھ کو بھیجا ہے اور اس کے ساتھ زمانہ کی ضرورت کے موافق ہدایت یعنی راہ دکھلانے کے علم اور تسلی دینے کے علم اور ایمان قوی کرنے کے علم اور دشمن پر حجت پوری کرنے کے علم بھیجے ہیں اور اس کے ساتھ دین کو ایسی چمکتی ہوئی شکل کے ساتھ بھیجا ہے جس کا حق ہونا اور خدا کی طرف سے ہونا بدیہی طور پر معلوم ہو رہا ہے.خدا نے اس رسول کو یعنی کامل مجدد کو اس لئے بھیجا ہے که تا خدا اس زمانہ میں یہ ثابت کر کے دکھلا دے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام تعلیمیں بیچ ہیں اور اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام دینوں پر ہر ایک برکت اور دقیقہ معرفت اور آسمانی نشانوں میں غالب ہے.یہ خدا کا ارادہ ہے کہ اس رسول کے ہاتھ پر ہر ایک طرح پر اسلام کی چمک دکھلاوے.کون ہے جو خدا کے ارادوں کو بدل سکے.خدا نے مسلمانوں کو اور ان کے دین کو اس زمانہ میں مظلوم پا یا اور وہ آیا ہے کہ تا ان لوگوں اور ان کے دین کی مدد کرے یعنی روحانی طور پر اس دین کی سچائی اور چمک اور قوت دکھلاوے اور آسمانی نشانوں سے اس کی عظمت اور حقیت دلوں پر ظاہر کرے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اپنی قوت اور اُمنگ کے ساتھ زمین پر چل یعنی لوگوں پر ظاہر ہو کہ تیرا وقت آ گیا.اور تیرے وجود سے مسلمانوں کا قدم ایک محکم اور بلند مینار پر جا پڑا.محمدی غالب ہو گئے.وہی محمد جو پاک اور برگزیدہ اور نبیوں کا سردار ہے.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.وہ جو فوجوں کا مالک ہے وہ اس طرف توجہ کرے گا یعنی آسمان سے تیری بڑی مدد کی جائے گی اور تمام فرشتے تیری مدد میں لگیں گے اور ایک بڑا نشان آسمان سے ظاہر ہو گا.اس نشان سے اصل غرض یہ ہے کہ تا لوگوں کو معلوم ہو کہ قرآن کریم خدا کا کلام اور میرے منہ کی باتیں ہیں یعنی وہ کلام میرے منہ سے نکلا ہے.خدا کے احسان کا دروازہ تیرے پر کھولا گیا ہے اور اس کی پاک رحمتیں تیری طرف متوجہ ہو رہی ہیں اور وہ دن آتے ہیں (بلکہ قریب ہیں.ان تمام الہامات میں یہ پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے اور میرے ہی ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور تمام مخالف دینوں کا باطل ہونا ثابت کر دے گا.سو آج وہ پیش گوئی پوری ہوئی کیونکہ میرے مقابل پر کسی مخالف کو تاب و تواں نہیں کہ اپنے دین کی سچائی ثابت کر سکے میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور میرے قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں.اُٹھو اور تمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اور حقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے.میں

Page 85

۷۵ وہی ہوں جس کی نسبت یہ حدیث صحاح میں موجود ہے کہ اس کے عہد میں تمام ملتیں ہلاک ہو جائیں گی مگر اسلام کہ وہ ایسا چپکے گا جو درمیانی زمانوں میں کبھی نہیں چمکا ہوگا.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۵ تا ۲۶۸) خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کر کے اور صد ہانشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صد با دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرما دے اور اپنی حجت اُن پر پوری کرے.اور اسی ارادہ کی وجہ سے خداوند کریم نے اس عاجز کو یہ توفیق دی کہ اتماماً للحجة دس ہزار روپیہ کا اشتہار کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا اور دشمنوں اور مخالفوں کی شہادت سے آسمانی نشانی پیش کی گئی اور ان کے معارضہ اور مقابلہ کے لئے تمام مخالفین کو مخاطب کیا گیا تا کوئی دقیقہ اتمام حجت کا باقی نہ رہے اور ہر یک مخالف اپنے مغلوب اور لاجواب ہونے کا آپ گواہ ہو جائے غرض خداوند کریم نے جو اسباب اور وسائل اشاعت دین کے اور دلائل اور براہین اتمام حجت کے محض اپنے فضل اور کرم سے اس عاجز کو عطا فرمائے ہیں وہ امم سابقہ میں سے آج تک کسی کو عطا نہیں فرمائے.اور جو کچھ اس بارے میں توفیقات غیبیہ اس عاجز کو دی گئی ہیں وہ اُن میں سے کسی کو نہیں دی گئیں.وَ ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَآءُ سوچونکہ خداوند کریم نے اسباب خاصہ سے اس عاجز کو مخصوص کیا ہے اور ایسے زمانہ میں اس خاکسار کو پیدا کیا ہے کہ جو اتمام خدمت تبلیغ کے لئے نہایت ہی معین و مددگار ہے اس لئے اُس نے اپنے تـفـضـلات و عنایات سے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ روز ازل سے یہی قرار یافتہ ہے کہ آیت کریمہ متذکرہ بالا اور نیز آیت وَاللهُ مته تورم کا روحانی طور پر مصداق یہ عاجز ہے اور خدائے تعالیٰ ان دلائل و براہین کو اور اُن سب باتوں کو کہ جو اس عاجز نے مخالفوں کے لئے لکھی ہیں خود مخالفوں تک پہنچا دے گا اور ان کا عاجز اور لا جواب اور مغلوب ہونا دنیا میں ظاہر کر کے مفہوم آیت متذکرہ بالا کا پورا کر دے گا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِک (براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۶، ۵۹۷ حاشیه در حاشیہ نمبر۳) میں اس جگہ کچھ گزشتہ قصوں کو بیان نہیں کرتا بلکہ میں وہی باتیں کرتا ہوں جن کا مجھے ذاتی علم ہے.میں نے قرآن شریف میں ایک زبر دست طاقت پائی ہے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ایک عجیب خاصیت دیکھی ہے جو کسی مذہب میں وہ خاصیت اور طاقت نہیں اور وہ یہ کہ سچا پیرو اس کا الصف : ٩

Page 86

24 مقامات ولایت تک پہنچ جاتا ہے.خدا اس کو نہ صرف اپنے قول سے مشرف کرتا ہے بلکہ اپنے فعل سے اس کو دکھلاتا ہے کہ میں وہی خدا ہوں جس نے زمین و آسمان پیدا کیا تب اس کا ایمان بلندی میں دُور دُور کے ستاروں سے بھی آگے گزر جاتا ہے.چنانچہ میں اس امر میں صاحب مشاہدہ ہوں خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور ایک لاکھ سے بھی زیادہ میرے ہاتھ پر اُس نے نشان دکھلائے ہیں سواگر چہ میں دنیا کے تمام نبیوں کا ادب کرتا ہوں اور ان کی کتابوں کا بھی ادب کرتا ہوں مگر زندہ دین صرف اسلام کو ہی مانتا ہوں کیونکہ اس کے ذریعہ سے میرے پر خدا ظاہر ہوا جس شخص کو میرے اس بیان میں شک ہو اس کو چاہئے کہ ان باتوں کی تحقیق کے لئے کم سے کم دو ماہ کے لئے میرے پاس آ جائے.میں اس کے تمام اخراجات کا جو اس کے لئے کافی ہو سکتے ہیں اس مدت تک متکفل رہوں گا.میرے نزدیک مذہب وہی ہے جو زندہ مذہب ہو اور زندہ اور تازہ قدرتوں کے نظارہ سے خدا کو دکھلا وے ورنہ صرف دعویٰ صحت مذہب پیچ اور بلا دلیل ہے.( مضمون جلسہ لاہور صفحہ ۶۰ منسلکہ چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۲۸) اگر چہ میں نے اپنی بہت سی کتابوں میں اس بات کی تشریح کر دی ہے کہ میری طرف سے یہ دعویٰ کہ میں عیسی مسیح ہوں اور نیز محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہیں کہ میں در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام ہوں اور نیز درحقیقت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہوں.مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے غور سے میری کتا ہیں نہیں دیکھیں وہ اس شبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ گویا میں نے تناسخ کے طور پر اس دعوے کو پیش کیا ہے اور گویا میں اس بات کا مدعی ہوں کہ سچ مچ ان دو بزرگ نبیوں کی روحیں میرے اندر حلول کر گئی ہیں لیکن واقعی امرایسا نہیں ہے.بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ آخری زمانہ کی نسبت پہلے نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک ایسا زمانہ ہوگا کہ جو دو قسم کے ظلم سے بھر جائے گا ایک ظلم مخلوق کے حقوق کی نسبت ہوگا اور دوسرا ظلم خالق کے حقوق کی نسبت.مخلوق کے حقوق کی نسبت یہ ظلم ہوگا کہ جہاد کا نام رکھ کر نوع انسان کی خونریزیاں ہوں گی یہاں تک کہ جو شخص ایک بے گناہ کو قتل کرے گا وہ خیال کرے گا کہ گویا وہ ایسی خونریزی سے ایک ثواب عظیم کو حاصل کرتا ہے اور اس کے سوا اور بھی کئی قسم کی ایذا ئیں محض دینی غیرت کے بہانہ پر نوع انسان کو پہونچائی جائیں گی..اور دوسری قسم ظلم کی جو خالق کی نسبت ہے وہ اس زمانہ کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت

Page 87

LL کمال غلو تک پہنچ گیا ہے.اس میں تو کچھ شک نہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسی مسیح خدا کا پیارا خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کار بند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے.لیکن بائیں یہ سخت غلطی اور کفر ہے کہ اس برگزیدہ کو خدا بنایا جائے...اصل بات یہ ہے کہ جب روحانی اور آسمانی باتیں عوام کے ہاتھ میں آتی ہیں تو وہ ان کی جڑ تک پہونچ نہیں سکتے آخر کچھ بگاڑ کر اور کچھ مجاز کو حقیقت پر حمل کر کے سخت غلطی اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.سو اسی غلطی میں آجکل کے علماء مسیحی بھی گرفتار ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنا دیا جائے.سو یہ حق تلفی خالق کی ہے اور اس حق کے قائم کرنے کے لئے اور توحید کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک بزرگ نبی ملک عرب میں گذرا ہے جس کا نام محمد اور احمد تھا.خدا کے اُس پر بے شمار سلام ہوں.شریعت دو حصوں پر منقسم تھی.بڑا حصہ یہ تھا کہ إِلهَ إِلَّا الله یعنی توحید.اور دوسرا حصہ یہ کہ ہمدردی نوع انسان کرو اور ان کے لئے وہ چاہو جو اپنے لئے.سو ان دوحصوں میں سے حضرت مسیح نے ہمدردی نوع انسان پر زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی زور کو چاہتا تھا.اور دوسرا حصہ جو بڑا حصہ ہے یعنی لا إله إلا الله جو خدا کی عظمت اور توحید کا سر چشمہ ہے اُس پر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی قسم کے زور کو چاہتا تھا.پھر بعد اس کے ہمارا زمانہ آیا جس میں اب ہم ہیں.اس زمانہ میں یہ دونوں قسم کی خرابیاں کمال درجہ تک پہونچ گئی تھیں یعنی حقوق عباد کا تلف کرنا اور بے گناہ بندوں کا خون کرنا مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہو گیا تھا اور اس غلط عقیدہ کی وجہ سے ہزار ہا بے گنا ہوں کو وحشیوں نے نہ تیغ کر دیا تھا اور پھر دوسری طرف حقوق خالق کا تلف کرنا بھی کمال کو پہونچ گیا تھا اور عیسائی عقیدہ میں یہ داخل ہو گیا تھا.سو اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھا اور مجھے خو اور بو اور رنگ اور روپ کے لحاظ سے حضرت عیسی مسیح کا اوتار کر کے بھیجا ایسا ہی اُس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد رکھا.اور مجھے توحید پھیلانے کے لئے تمام خو اور بو اور رنگ اور روپ اور جامعہ محمدی پہنا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اوتار بنا دیا.سو میں ان معنوں کر کے عیسی مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی.مسیح ایک لقب ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو دیا گیا تھا جس کے معنی ہیں خدا کو چھونے والا اور خدائی انعام میں سے کچھ لینے والا اور اس کا خلیفہ اور

Page 88

ZA صدق اور راستبازی کو اختیار کرنے والا.اور مہدی ایک لقب ہے جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں کہ فطرتا ہدایت یافتہ اور تمام ہدایتوں کا وارث اور اسم ہادی کے پورے عکس کا محل.سو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا.اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے.سوئیں ان معنوں کے رو سے عیسی مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں.سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں.بروز عیسی و بروز محمد.غرض میرا وجود ان دونوں نبیوں کے وجود سے بروزی طور پر ایک معجون مرکب ہے.عیسی مسیح ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خونریزیوں سے روک دوں جیسا کہ حدیثوں میں صریح طور سے وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا.سو ایسا ہی ہوتا جاتا ہے......اور محمد مہدی ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی تو حید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں کیونکہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے محض آسمانی نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی.سوایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے.(ضمیمہ رسالہ جہاد ملحقہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۳ تا ۲۹) تکمیل اشاعت ہدایت کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اتمام نعمت اور اکمال الدین ہوا تو اس کی دوصورتیں ہیں.اول تکمیل ہدایت.دوسری تکمیل اشاعت ہدایت تکمیل ہدایت مِنْ كُلّ الوُجُوُہ آپ کی آمد اوّل سے ہوئی اور تکمیل اشاعت ہدایت آپ کی آمد ثانی سے ہوئی کیونکہ سورۃ جمعہ میں جو أُخَرِيْنَ مِنْهُم والی آیت آپ کے فیض اور تعلیم سے ایک اور قوم کے تیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ایک بعثت اور ہے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے جو اس وقت ہو رہی ہے.پس یہ وقت تعمیل اشاعت ہدایت کا ہے.الحکم ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳.ملفوظات جلد دوم صفحه ۳۶۱ ۳۶۲۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) سواس عاجز کو اور بزرگوں کی فطرتی مشابہت سے علاوہ جس کی تفصیل براہین احمدیہ میں یہ بسط تمام مندرج ہے حضرت مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے اور اسی فطرتی مشابہت کی وجہ سے مسیح الجمعة :

Page 89

۷۹ کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا.تاصلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے.سو میں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں.میں آسمان سے اترا ہوں اُن پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چُپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رُکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اُترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور اُن کے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کے ہیکل کچلنے کے لئے دیئے گئے ہیں.فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ احاشیہ) اس زمانہ کے عیسائیوں پر گواہی دینے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ابن مریم کو خدا ٹھہرانا ایک باطل اور کفر کی راہ ہے اور مجھے اس نے اپنے مکالمات اور مخاطبات سے مشرف فرمایا ہے اور مجھے اس نے بہت سے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے اور میری تائید میں اُس نے بہت سے خوارق ظاہر فرمائے ہیں.اور درحقیقت اس کے فضل وکرم سے ہماری مجلس خدا نما مجلس ہے جو شخص اس مجلس میں صحت نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے تو میں یقین کرتا ہوں کہ اگر وہ دہر یہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے گا اور ایک عیسائی جس کو خدا تعالیٰ کا خوف ہو اور جو بچے خدا کی تلاش کی بھوکھ اور پیاس رکھتا ہو اس کو لازم ہے کہ بے ہودہ قصے اور کہانیاں ہاتھ سے پھینک دے اور چشم دید ثبوتوں کا طالب بن کر ایک مدت تک میری صحبت میں رہے پھر دیکھے کہ وہ خدا جو زمین اور آسمان کا مالک ہے کس طرح اپنے آسمانی نشان اُس پر ظاہر کرتا ہے.مگر افسوس کہ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں جو در حقیقت خدا کو ڈھونڈنے والے اور اس تک پہونچنے کے لئے دن رات سرگرداں ہیں.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۵۵) چونکہ میں تثلیث کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں اس لئے یہ درد ناک نظارہ کہ ایسے لوگ دنیا میں چالیس کروڑ سے بھی کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا سمجھ رکھا ہے میرے دل پر اس قدر صدمہ پہونچاتا رہا ہے کہ میں گمان نہیں کر سکتا کہ مجھ پر میری تمام زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی غم گذرا ہو بلکہ اگر ہم و غم سے مرنا میرے لئے ممکن ہوتا تو یہ غم مجھے ہلاک کر دیتا کہ کیوں یہ لوگ خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کی پرستش کر رہے ہیں.اور کیوں یہ

Page 90

لوگ اس نبی پر ایمان نہیں لاتے جو سچی ہدایت اور راہ راست لے کر دنیا میں آیا ہے.ہر ایک وقت مجھے یہ اندیشہ رہا ہے کہ اس غم کے صدمات سے میں ہلاک نہ ہو جاؤں.......اور میرا اس درد سے یہ حال رہا ہے کہ اگر دوسرے لوگ بہشت چاہتے ہیں تو میرا بہشت یہی ہے کہ میں اپنی زندگی میں اس شرک سے انسانوں کو رہائی پاتے اور خدا کا جلال ظاہر ہوتے دیکھ لوں اور میری روح ہر وقت دعا کرتی ہے کہ اے خدا! اگر میں تیری طرف سے ہوں اور اگر تیرے فضل کا سایہ میرے ساتھ ہے تو مجھے یہ دن دکھلا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے سر سے یہ تہمت اٹھا دی جائے کہ گویا نعوذ باللہ انہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا.ایک زمانہ گزر گیا کہ میرے پنجوقت کی یہی دعائیں ہیں کہ خدا ان لوگوں کو آنکھ بخشے اور وہ اس کی وحدانیت پر ایمان لاویں اور اس کے رسول کو شناخت کرلیں اور تثلیث کے اعتقاد سے تو بہ کریں.تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحه ۷۲،۷۱.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۱۳۰۳۱۲ بار دوم ) مسیح موعود کے وجود کی علت غائی احادیث نبویہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عیسائی قوم کے دجل کو دُور کرے گا اور ان کے صلیبی خیالات کو پاش پاش کر کے دکھلا دے گا.چنانچہ یہ امر میرے ہاتھ پر خدا تعالیٰ نے ایسا انجام دیا کہ عیسائی مذہب کے اصول کا خاتمہ کر دیا.میں نے خدا تعالیٰ سے بصیرت کاملہ پا کر ثابت کر دیا کہ وہ لعنتی موت کہ جو نعوذ باللہ حضرت مسیح کی طرف منسوب کی جاتی ہے جس پر تمام مدار صلیبی نجات کا ہے وہ کسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی اور کسی طرح لعنت کا مفہوم کسی راستباز پر صادق نہیں آ سکتا.چنانچہ فرقہ پادرمیان اس جدید طرز کے سوال سے جو حقیقت میں اُن کے مذہب کو پاش پاش کرتا ہے ایسے لاجواب ہو گئے کہ جن جن لوگوں نے اس تحقیق پر اطلاع پائی ہے وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی تحقیق نے صلیبی مذہب کو توڑ دیا ہے بعض پادریوں کے خطوط سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اس فیصلہ کرنے والی تحقیق سے نہایت درجہ ڈر گئے ہیں.اور وہ سمجھ گئے ہیں کہ اس سے ضرور صلیبی مذہب کی بنیا د گرے گی اور اس کا گرنا نہایت ہولناک ہوگا.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۲ ۲۶۳ حاشیه ) جیسا کہ ہم نے اس فارسی قصیدہ میں جو اوپر لکھا گیا ہے یہ بتلایا ہے کہ خدا کے کامل مامورین کی علامتوں میں سے ایک یہ علامت ہے کہ اُن سے آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں ایسا ہی ہم اس جگہ ہزار ہزار شکر کے ساتھ لکھتے ہیں کہ وہ تمام علامتیں اس بندہ حضرت احدیت میں پوری ہوئیں اس زمانہ میں پادریوں کا متعصب فرقہ جو سراسر حق پوشی کی راہ سے کہا کرتا تھا کہ گویا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے

Page 91

ΔΙ کوئی معجزہ ظہور میں نہیں آیا ان کو خدا تعالیٰ نے سخت شرمندہ کرنے والا جواب دیا اور کھلے کھلے نشان اس اپنے بندہ کی تائید میں ظاہر فرمائے.ایک وہ زمانہ تھا کہ انجیل کے واعظ بازاروں اور گلیوں اور کوچوں میں نہایت دریدہ دہانی سے اور سراسر افترا سے ہمارے سید و مولیٰ خاتم الانبیاء اور افضل الرسل والاصفیاء اور سید المعصومین والاتقیاء حضرت محبوب جناب احدیت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ قابل شرم جھوٹ بولا کرتے تھے کہ گویا آنجناب سے کوئی پیش گوئی یا معجزہ ظہور میں نہیں آیا.اور اب یہ زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے علاوہ ان ہزار ہا معجزات کے جو ہمارے سرور و مولی شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف اور احادیث میں اس کثرت سے مذکور ہیں جو اعلیٰ درجہ کے تو اتر پر ہیں تازہ بتازہ صد ہا نشان ایسے ظاہر فرمائے ہیں کہ کسی مخالف اور منکر کو اُن کے مقابلہ کی طاقت نہیں.ہم نہایت نرمی اور انکسار سے ہر ایک عیسائی صاحب اور دوسرے مخالفوں کو کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ در حقیقت یہ بات سچ ہے کہ ہر ایک مذہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو کر اپنی سچائی پر قائم ہوتا ہے اُس کے لئے ضرور ہے کہ ہمیشہ اُس میں ایسے انسان پیدا ہوتے رہیں کہ جو اپنے پیشوا اور ہادی اور رسول کے نائب ہو کر یہ ثابت کریں کہ وہ نبی اپنی روحانی برکات کے لحاظ سے زندہ ہے فوت نہیں ہوا کیونکہ ضرور ہے کہ وہ نبی جس کی پیروی کی جائے جس کو شفیع اور منجی سمجھا جائے وہ اپنے روحانی برکات کے لحاظ سے ہمیشہ زندہ ہو اور عزت اور رفعت اور جلال کے آسمان پر اپنے چمکتے ہوئے چہرہ کے ساتھ ایسا بدیہی طور پر مقیم ہو اور خدائے ازلی ابدی حَي قيوم ذُو الْاِقتدار کے دائیں طرف بیٹھنا اُس کا ایسے پر زور الہی ٹوروں سے ثابت ہو کہ اس سے کامل محبت رکھنا اور اس کی کامل پیروی کرنا لازمی طور پر اس نتیجہ کو پیدا کرتا ہو کہ پیروی کرنے والا روح القدس اور آسمانی برکات کا انعام پائے.اور اپنے پیارے نبی کے نوروں سے نور حاصل کر کے اپنے زمانہ کی تاریکی کو دور کرے.اور مستعد لوگوں کو خدا کی ہستی پر وہ پختہ اور کامل اور درخشاں اور تاباں یقیں بخشے جس سے گناہ کی تمام خواہشیں اور سفلی زندگی کے تمام جذبات جل جاتے ہیں.یہی ثبوت اس بات کا ہے کہ وہ نبی زندہ اور آسمان پر ہے.سو ہم اپنے خدائے پاک ذوالجلال کا کیا شکر کریں کہ اس نے اپنے پیارے نبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی کی توفیق دے کر اور پھر اس محبت اور پیروی کے روحانی فیضوں سے جو سچی تقوی اور بچے آسمانی نشان ہیں کامل حصہ عطا فرما کر ہم پر ثابت کر دیا کہ وہ ہمارا پیارا برگزیدہ نبی فوت نہیں ہوا بلکہ وہ بلند تر آسمان پر اپنے ملیک مقتدر

Page 92

۸۲ کے دائیں طرف بزرگی اور جلال کے تخت پر بیٹھا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَ بَارِک وَسَلَّمُ اِنَّ اللهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوْا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا - تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۷ تا ۱۳۹) سواسی بنا پر یہ عاجز اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے اور چاہتا ہے کہ صحبت میں رہنے والوں کا سلسلہ اور بھی زیادہ وسعت سے بڑھا دیا جائے اور ایسے لوگ دن رات صحبت میں رہیں کہ جو ایمان اور محبت اور یقین کے بڑھانے کے لئے شوق رکھتے ہوں اور ان پر وہ انوار ظاہر ہوں کہ جو اس عاجز پر ظاہر کئے گئے ہیں.اور وہ ذوق ان کو عطا ہو جو اس عاجز کو عطا کیا گیا ہے تا اسلام کی روشنی عام طور پر دنیا میں پھیل جائے اور حقارت اور ذلت کا سیاہ داغ مسلمانوں کی پیشانی سے دھویا جائے.اسی کی بشارت دے کر خداوند نے مجھے بھیجا.اور کہا کہ بخرام که وقت تو نزد یک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد لے فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۲ ۲۳۰) خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے.اور جب تک کوئی خدا سے رُوح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو.(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶ ، ۳۰۷) اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقینا سمجھ لوسیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے.ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کئے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکاید کی رو سے اللہ تعالیٰ کے نیچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے.اُس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھاؤں.میں کب اس میدان کے قابل ہوسکتا تھا یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایت ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اُس کے دین کی عزت ظاہر ہو.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۶۸، ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آ گیا اور اب وہ وقت آ رہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا.

Page 93

۸۳ دعوت حق قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعُبِدِينَ.یہ اشتہار پادری صاحبوں کی خدمت میں نہایت عجز اور ادب اور انکسار سے لکھا جاتا ہے کہ اگر یہ سیچ ہوتا کہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام در حقیقت خدا کا فرزند ہوتا یا خدا ہوتا تو سب سے پہلے میں اس کی پرستش کرتا اور میں تمام ملک میں اُس کی خدائی کی اشاعت کرتا اور اگر چہ میں دکھ اٹھاتا اور مارا جاتا.اور قتل کیا جاتا اور اس کی راہ میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا تب بھی میں اس دعوت اور منادی سے باز نہ آتا.لیکن اے عزیز و! خدا تم پر رحم کرے اور تمہاری آنکھیں کھولے حضرت عیسی علیہ السلام خدا نہیں وہ صرف ایک نبی ہے.ایک ذرہ اس سے زیادہ نہیں اور بخدا میں وہ سچی محبت اس سے رکھتا ہوں جو تمہیں ہرگز نہیں اور جس نور کے ساتھ میں اسے شناخت کرتا ہوں تم ہر گز اسے شناخت نہیں کر سکتے.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کا ایک پیارا اور برگزیدہ نبی تھا اور ان میں سے تھا جن پر خدا کا ایک خاص فضل ہوتا ہے اور جو خدا کے ہاتھ سے پاک کئے جاتے ہیں مگر خدا نہیں تھا.اور نہ خدا کا بیٹا تھا.میں نے یہ باتیں اپنی طرف سے نہیں کیں بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خالق ہے میرے پر ظاہر ہوا اور اُسی نے اس آخری زمانہ کے لئے مجھے مسیح موعود کیا.اس نے مجھے بتلایا کہ سچ یہی ہے کہ یسوع ابن مریم نہ خدا ہے نہ خدا کا بیٹا ہے.اور اُسی نے میرے ساتھ ہمکلام ہو کر مجھے یہ بتلایا کہ وہ نبی جس نے قرآن پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا وہ سچا نبی ہے.اور وہی ہے جس کے قدموں کے نیچے نجات ہے اور بجز اس کی متابعت کے ہرگز ہرگز کسی کو کوئی ٹو ر حاصل نہیں ہو گا.اور جب میرے خدا نے اس نبی کی وقعت اور قدر اور عظمت میرے پر ظاہر کی تو میں کانپ اُٹھا اور میرے بدن پر لرزہ پڑ گیا.کیونکہ جیسا کہ حضرت عیسی مسیح کی تعریف میں لوگ حد سے بڑھ گئے یہاں تک کہ ان کو خدا بنا دیا اسی طرح اس مقدس نبی کا لوگوں نے قدر شناخت نہیں کیا جیسا کہ حق شناخت کرنے کا تھا اور جیسا کہ چاہئے لوگوں کو اب تک اُس کی عظمتیں معلوم نہیں.وہی ایک نبی ہے جس نے توحید کا تم ایسے طور پر بویا جو آج تک ضائع نہیں ہوا.وہی ایک نبی ہے جو ایسے وقت میں آیا جب تمام دنیا بگڑ گئی تھی اور ایسے وقت میں گیا جب ایک سمندر کی طرح توحید کو دنیا میں پھیلا گیا.اور وہی ایک نبی ہے جس کے لئے ہر ایک زمانہ میں خدا اپنی غیرت الزخرف :٨٢

Page 94

دکھلاتا رہا ہے اور اس کی تصدیق اور تائید کے لئے ہزار ہا معجزات ظاہر کرتا رہا.اسی طرح اس زمانہ میں بھی اس پاک نبی کی بہت توہین کی گئی اس لئے خدا کی غیرت نے جوش مارا اور سب گزشتہ زمانوں سے زیادہ جوش مارا اور مجھے اس نے مسیح موعود کر کے بھیجا تا کہ میں اُس کی نبوت کے لئے تمام دنیا میں گواہی دوں اگر میں بے دلیل یہ دعوی کرتا ہوں تو جھوٹا ہوں لیکن اگر خدا اپنے نشانوں کے ساتھ اس طور سے میری گواہی دیتا ہے کہ اس زمانہ میں مشرق سے مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک اس کی نظیر نہیں تو انصاف اور خدا ترسی کا مقتضا یہی ہے کہ مجھے میری اس تمام تعلیم کے ساتھ قبول کریں.خدا نے میرے لئے وہ نشان دکھائے کہ اگر وہ ان امتوں کے وقت نشان دکھلائے جاتے جو پانی اور آگ اور ہوا سے ہلاک کی گئیں تو وہ ہلاک نہ ہوتیں مگر اس زمانے کے لوگوں کو میں کس سے تشبیہہ دوں وہ اُس بدقسمت کی طرح ہیں جس کی آنکھیں بھی ہیں پر دیکھتا نہیں اور کان بھی ہیں پر سنتا نہیں اور عقل بھی ہے پر سمجھتا نہیں.میں اُن کے لئے روتا ہوں اور وہ مجھ پر ہنستے ہیں اور میں ان کو زندگانی کا پانی دیتا ہوں اور وہ مجھ پر آگ برساتے ہیں.خدا میرے پر نہ صرف اپنے قول سے ظاہر ہوا ہے بلکہ اپنے فعل کے ساتھ بھی اس نے میرے پر تجلی کی اور میرے لئے وہ کام دکھلائے اور دکھلائے گا کہ جب تک کسی پر خدا کا خاص فضل نہ ہو اس کے لئے یہ کام دکھلائے نہیں جاتے.لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا لیکن خدا نے مجھے قبول کیا.کون ہے جو ان نشانوں کے دکھلانے میں میرے مقابل پر آ سکتا ہے.میں ظاہر ہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو.وہ ایک مخفی خزانہ کی طرح تھا مگر اب اُس نے مجھے بھیج کر ارادہ کیا کہ تمام دہریوں اور بے ایمانوں کا منہ بند کرے جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں.مگر اے عزیز و! تم جو خدا کی طلب میں لگے ہوئے ہو.میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ سچا خدا وہی ہے جس نے قرآن نازل کیا.وہی ہے جس نے میرے پر تجلتی کی اور جو ہر دم میرے ساتھ ہے.(اشتہار منسلکہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۱۹ ۶۲۰)

Page 95

۸۵ وو الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ، تبلیغ اور ایک پاک جماعت کا قیام اور اُن کو نصائح ( الہام الہی) لے جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں بلکہ خدا سے بیعت کریں گے.خدا کا ہاتھ ہوگا جو ان کے ہاتھوں پر ہوگا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۶۵)

Page 96

۸۶ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں“ اے ناظرین ! فَاكُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالدِّينِ آج یہ عاجز ایک مدت مدید کے بعد اس الہی کارخانہ کے بارے میں جو خدا تعالیٰ نے دین اسلام کی حمایت کے لئے میرے سپرد کیا ہے ایک ضروری مضمون کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہے.اور میں اس مضمون میں جہاں تک خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے مجھے تقریر کرنے کا مادہ بخشا ہے اس سلسلہ کی عظمت اور اس کارخانہ کی نصرت کی ضرورت آپ صاحبوں پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں تا وہ حق تبلیغ جو مجھ پر واجب ہے اُس سے میں سبکدوش ہو جاؤں.پس اس مضمون کے بیان کرنے میں مجھے اس سے کچھ غرض نہیں کہ اس تحریر کا دلوں پر کیا اثر پڑے گا.صرف غرض یہ ہے کہ جو بات مجھ پر فرض ہے اور جو پیغام پہنچانا میرے پر قرضہ لازمہ کی طرح ہے وہ جیسا کہ چاہئے مجھ سے ادا ہو جائے خواہ لوگ اس کو بسمع رضائنیں اور خواہ کراہت اور قبض کی نظر سے دیکھیں اور خواہ میری نسبت نیک گمان رکھیں اور یا بدنی کو اپنے دلوں میں جگہ دیں.وَ أُفَوِّضُ أَمْرِى إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ اب میں ذیل میں وہ مضمون جس کا اوپر وعدہ دیا ہے لکھتا ہوں.اے حق کے طالبو اور اسلام کے نیچے محبو ! آپ لوگوں پر واضح ہے کہ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں یہ ایک ایسا تاریک زمانہ ہے کہ کیا ایمانی اور کیا عملی جس قدرا مور ہیں سب میں سخت فساد واقع ہو گیا ہے اور ایک تیز آندھی ضلالت اور گمراہی کی ہر طرف سے چل رہی ہے.وہ چیز جس کو ایمان کہتے ہیں اس کی جگہ چند لفظوں نے لے لی ہے جن کا محض زبان سے اقرار کیا جاتا ہے اور وہ امور جن کا نام اعمالِ صالحہ ہے اُن کا مصداق چند رسوم یا اسراف اور ریا کاری کے کام سمجھے گئے ہیں اور جو حقیقی نیکی ے اللہ تعالیٰ تم کو دنیا اور آخرت میں خیریت سے رکھے.سے میں اپنا معاملہ اللہ کے سپر د کرتا ہوں اللہ اپنے بندوں پر نظر رکھے ہوئے ہے.

Page 97

۸۷.ہے اس سے بکلی بیخبری ہے.اس زمانہ کا فلسفہ اور طبیعی بھی روحانی صلاحیت کا سخت مخالف پڑا ہے اُس کے جذبات اُس کے جاننے والوں پر نہایت بد اثر کرنے والے اور ظلمت کی طرف کھینچنے والے ثابت ہوتے ہیں.وہ زہریلے مواد کو حرکت دیتے اور سوئے ہوئے شیطان کو جگا دیتے ہیں.ان علوم میں دخل رکھنے والے دینی امور میں اکثر ایسی بد عقیدگی پیدا کر لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اصولوں اور صوم وصلوۃ وغیرہ کے عبادت کے طریقوں کو تحقیر اور استہزاء کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں.اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے وجود کی بھی کچھ وقعت اور عظمت نہیں بلکہ اکثر اُن میں سے الحاد کے رنگ سے رنگین اور دہریت کے رگ وریشہ سے پُر اور مسلمانوں کی اولاد کہلا کر پھر دشمن دین ہیں.جو لوگ کالجوں میں پڑھتے ہیں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہنوز وہ اپنے علوم ضرور یہ کی تحصیل سے فارغ نہیں ہوتے کہ دین اور دین کی ہمدردی سے پہلے ہی فارغ اور مستعفی ہو چکتے ہیں.یہ میں نے صرف ایک شاخ کا ذکر کیا ہے.جو حال کے زمانہ میں ضلالت کے پھلوں سے لدی ہوئی ہے.مگر اس کے سوا صد ہا اور شاخیں بھی ہیں جو اس سے کم نہیں ! عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ دنیا سے امانت اور دیانت ایسی اُٹھ گئی ہے کہ گویا بکلی مفقود ہوگئی ہے.دنیا کمانے کے لئے مکر اور فریب حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں.جو شخص سب سے زیادہ شریر ہو وہی سب سے زیادہ لائق سمجھا جاتا ہے.طرح طرح کی ناراستی، بد دیانتی ، حرامکاری، دغا بازی، دروغ گوئی اور نہایت درجہ کی رو بہ بازی اور لالچ سے بھرے ہوئے منصوبے اور بدذاتی سے بھری ہوئی خصلتیں پھیلتی جاتی ہیں اور نہایت بے رحمی سے ملے ہوئے کینے اور جھگڑے ترقی پر ہیں اور جذبات بہیمیہ اور سبعیہ کا ایک طوفان اٹھا ہوا ہے.اور جس قدر لوگ ان علوم اور قوانین مروّجہ میں چست و چالاک ہوتے جاتے ہیں اُسی قدر نیک گوہری اور نیک کرداری کی طبعی خصلتیں اور حیا اور شرم اور خدا ترسی اور دیانت کی فطرتی خاصیتیں اُن میں کم ہوتی جاتی ہیں.عیسائیوں کی تعلیم بھی سچائی اور ایمان داری کے اڑانے کے لئے کئی قسم کی سرنگیں طیار کر رہی ہے اور عیسائی لوگ اسلام کے مٹا دینے کے لئے جھوٹ اور بناوٹ کی تمام باریک باتوں کو نہایت درجہ کی جانکا ہی سے پیدا کر کے ہر ایک رہزنی کے موقع اور محل پر کام میں لا رہے ہیں اور بہکانے کے نئے نئے نسخے اور گمراہ کرنے کی جدید جدید صورتیں تراشی جاتی ہیں اور اُس اِنسان کامل کی سخت تو ہین کر رہے ہیں جو تمام مقدسوں کا فخر اور تمام مقربوں کا سرتاج اور تمام بزرگ رسولوں کا سردار تھا.یہاں تک کہ ناٹک کے تما شاؤں میں نہایت شیطنت کے ساتھ اسلام اور ہادی پاک اسلام کی بُرے بُرے پیرائیوں میں تصویر میں

Page 98

۸۸ دکھلائی جاتی ہیں اور سوانگ نکالے جاتے ہیں اور ایسی افترائی تہمتیں تھیٹر کے ذریعہ سے پھیلائی جاتی ہیں جن میں اسلام اور نبی پاک کی عزت کو خاک میں ملا دینے کے لئے پوری حرم زدگی خرچ کی گئی ہے.اب اے مسلمانوسنو! اور غور سے سنو! کہ اسلام کی پاک تا شیروں کے روکنے کے لئے جس قدر پیچیدہ افترا اس عیسائی قوم میں استعمال کئے گئے اور پُر مکر حیلے کام میں لائے گئے اور اُن کے پھیلانے میں جان تو ڑ کر اور مال کو پانی کی طرح بہا کر کوششیں کی گئیں یہاں تک کہ نہایت شرمناک ذریعے بھی جن کی تصریح سے اس مضمون کو منزہ رکھنا بہتر ہے اسی راہ میں ختم کئے گئے.یہ کر سچن قوموں اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کارروائیاں ہیں کہ جب تک اُن کے اس سحر کے مقابل پر خدا تعالیٰ وہ پُر زور ہاتھ نہ دکھا دے جو معجزہ کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہو اور اس معجزہ سے اس طلسم سحر کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادوئے فرنگ سے سادہ لوح دلوں کو مخلصی حاصل ہونا بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے.سوخدا تعالیٰ نے اس جادو کے باطل کرنے کے لئے اس زمانہ کے سچے مسلمانوں کو یہ معجزہ دیا کہ اپنے اس بندہ کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی برکات خاصہ سے مشرف کر کے اور اپنی راہ کے باریک علوم سے بہرہ کامل بخش کر مخالفین کے مقابل پر بھیجا اور بہت سے آسمانی تحائف اور علوی عجائبات اور روحانی معارف و دقائق ساتھ دیئے تا اس آسمانی پتھر کے ذریعہ سے وہ موم کا بت توڑ دیا جائے جو سحر فرنگ نے طیار کیا ہے.سواے مسلمانوں! اِس عاجز کا ظہور ساحرانہ تاریکیوں کے اٹھانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے.کیا ضرور نہیں تھا کہ سحر کے مقابل پر معجزہ بھی دنیا میں آتا.کیا تمہاری نظروں میں یہ بات عجیب اور ان ہونی ہے کہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ کے مکروں کے مقابلہ پر جو سحر کی حقیقت تک پہنچ گئے ہیں ایک ایسی حقانی چمکار دکھاوے جو معجزہ کا اثر رکھتی ہو.( فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳ تا ۶) اس جگہ میں بعض ان لوگوں کا وسوسہ بھی دُور کرنا چاہتا ہوں جو ذی مقدرت لوگ ہیں اور اپنے تئیں بڑا فیاض اور دین کی راہ میں فدا شدہ خیال کرتے ہیں لیکن اپنے مالوں کو محل پر خرچ کرنے سے بکلی منحرف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم کسی صادق مؤید من اللہ کا زمانہ پاتے جو دین کی تائید کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوتا تو ہم اُس کی نصرت کی راہ میں ایسے جھکتے کہ قربان ہی ہو جاتے.مگر کیا کریں ہر طرف فریب اور مکر کا بازار گرم ہے.مگر اے لوگو! تم پر واضح ہے کہ دین کی تائید کے لئے ایک شخص بھیجا گیا لیکن تم نے اسے شناخت نہیں کیا وہ تمہارے درمیان ہے اور یہی ہے جو بول رہا ہے پر تمہاری

Page 99

۸۹ آنکھوں پر بھاری پردے ہیں.اگر تمہارے دل سچائی سے طلب گار ہوں تو جو شخص خدا تعالیٰ کے ہمکلام ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا آزمانا بہت سہل ہے.اُس کی خدمت میں آؤ اس کی صحبت میں دو تین ہفتے رہو تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو اُن برکات کی بارشیں جو اُس پر ہو رہی ہیں اور وہ حقانی وحی کے انوار جواس پر اتر رہے ہیں اُن میں سے تم بچشم خود دیکھ لو.جو ڈھونڈتا ہے وہی پاتا ہے جو کھٹکھٹاتا ہے اسی کے لئے کھولا جاتا ہے.اگر تم آنکھیں بند کر کے اور اندھیری کوٹھری میں چُھپ کر یہ کہو کہ آفتاب کہاں ہے تو یہ تمہاری عبث شکایت ہے.اے نادان ! اپنی کوٹھری کے کواڑ کھول اور اپنی آنکھوں پر سے پردہ اُٹھا تا تجھے آفتاب نہ صرف نظر آوے بلکہ اپنی روشنی سے تجھے منور بھی کرے.بعض کہتے ہیں کہ انجمنیں قائم کرنا اور مدارس کھولنا ہی تائید دین کے لئے کافی ہے مگر وہ نہیں سمجھتے کہ دین کس چیز کا نام ہے اور اس ہماری ہستی کی انتہائی اغراض کیا ہیں اور کیونکر اور رکن راہوں سے وہ اغراض حاصل ہو سکتے ہیں.سو انہیں جاننا چاہئے کہ انتہائی غرض اس زندگی کی خدا تعالیٰ سے وہ سچا اور یقینی پیوند حاصل کرنا ہے جو تعلقات نفسانیہ سے چھڑا کر نجات کے سرچشمہ تک پہنچاتا ہے سو اس یقین کامل کی را ہیں انسانی بناوٹوں اور تدبیروں سے ہرگز کھل نہیں سکتیں.اور انسانوں کا گھڑا ہوا فلسفہ اس جگہ کچھ فائدہ نہیں پہنچاتا بلکہ یہ روشنی ہمیشہ خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ سے ظلمت کے وقت میں آسمان سے نازل کرتا ہے اور جو آسمان سے اتر اوہی آسمان کی طرف لے جاتا ہے.سواے وے لوگو! جو ظلمت کے گڑھے میں دبے ہوئے اور شکوک و شبہات کے نتیجہ میں اسیر اور نفسانی جذبات کے غلام ہو صرف اسمی اور رسمی اسلام پر نازمت کرو اور اپنی کچی رفاہیت اور اپنی حقیقی بہبودی اور اپنی آخری کامیابی انہی تدبیروں میں نہ سمجھو جو حال کی انجمنوں اور مدارس کے ذریعہ سے کی جاتی ہیں.یہ اشغال بنیا دی طور پر فائدہ بخش تو ہیں اور ترقیات کا پہلا زینہ متصور ہو سکتے ہیں مگر اصل مدعا سے بہت دُور ہیں.شاید ان تدبیروں سے دماغی چالاکیاں پیدا ہوں یا طبیعت میں پرفتنی اور ذہن میں تیزی اور خشک منطق کی مشق حاصل ہو جائے یا عالمیت اور فاضلیت کا خطاب حاصل کر لیا جائے اور شاید مدت دراز کی تحصیل علمی کے بعد اصل مقصود کے کچھ مد بھی ہو سکیں مگر تا تریاق از عراق آورده شود مارگزیده مرده شود.سو جاگو اور ہوشیار ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ.مبادا سفر آخرت ایسی صورت میں پیش آوے جو درحقیقت الحاد اور بے ایمانی کی صورت ہو.یقیناً سمجھو کہ فلاح عاقبت کی امیدوں کا تمام مدار و انحصاران رسمی علوم کی تحصیل پر ہرگز نہیں ہوسکتا اور اس آسمانی نور کے اترنے کی ضرورت ہے جو شکوک و شبہات کی آلائشوں

Page 100

۹۰ کو دُور کرتا اور ہوا و ہوس کی آگ کو بجھاتا اور خدا تعالیٰ کی سچی محبت اور سچے عشق اور سچی اطاعت کی طرف کھینچتا ہے اگر تم اپنی کانشنس سے سوال کرو تو یہی جواب پاؤ گے کہ وہ بچی تسلی اور سچا اطمینان کہ جو ایک دم میں روحانی تبدیلی کا موجب ہوتا ہے وہ ابھی تک تم کو حاصل نہیں.پس کمال افسوس کی جگہ ہے کہ جس قدرتم رسمی باتوں اور رسمی علوم کی اشاعت کے لئے جوش رکھتے ہو اس کا عشر عشیر بھی آسمانی سلسلہ کی طرف تمہارا خیال نہیں.تمہاری زندگی اکثر ایسے کاموں کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ اوّل تو وہ کام کسی قسم کا دین سے علاقہ ہی نہیں رکھتے اور اگر ہے بھی تو وہ علاقہ ایک ادنیٰ درجہ کا اور اصل مدعا سے بہت پیچھے رہا ہوا ہے.اگر تم میں وہ حواس ہوں اور وہ عقل جو ضروری مطلب پر جا ٹھہرتی ہے تو تم ہرگز آرام نہ کرو جب تک وہ اصل مطلب تمہیں حاصل نہ ہو جائے.اے لوگو! تم اپنے سچے خداوند خدا اپنے حقیقی خالق اپنے واقعی معبود کی شناخت اور محبت اور اطاعت کے لئے پیدا کئے گئے ہو.پس جب تک یہ امر جو تمہاری خلقت کی علت غائی ہے بین طور پر تم میں ظاہر نہ ہو تب تک تم اپنی حقیقی نجات سے بہت دُور ہو اگر تم انصاف سے بات کرو تو تم اپنی اندرونی حالت پر آپ ہی گواہ ہو سکتے ہو کہ بجائے خدا پرستی کے ہر دم دنیا پرستی کا ایک قوی ہیکل بت تمہارے دل کے سامنے ہے جس کو تم ایک ایک سکنڈ میں ہزار ہزار سجدہ کر رہے ہو اور تمہارے تمام اوقات عزیز دنیا کی جق جق بک بک میں ایسی مستغرق ہور ہے ہیں کہ تمہیں دوسری طرف نظر اٹھانے کی فرصت نہیں کبھی تمہیں یاد بھی ہے کہ انجام اس ہستی کا کیا ہے! کہاں ہے تم میں انصاف ! کہاں ہے تم میں امانت ! کہاں ہے تم میں وہ راست بازی اور خدا ترسی اور دیانت داری اور فروتنی جس کی طرف تمہیں قرآن بلاتا ہے تمہیں کبھی بھولے بسرے برسوں میں بھی تو یاد نہیں آتا کہ ہمارا کوئی خدا بھی ہے.کبھی تمہارے دل میں نہیں گزرتا کہ اس کے کیا کیا حقوق تم پر ہیں.سچ تو یہ ہے کہ تم نے کوئی غرض کوئی واسطہ کوئی تعلق اُس قیوم حقیقی سے رکھا ہوا ہی نہیں.اور اس کا نام تک لینا تم پر مشکل ہے.اب چالاکی سے تم لڑو گے کہ ہرگز ایسا نہیں لیکن خدا تعالیٰ کا قانون قدرت تمہیں شرمندہ کرتا ہے جبکہ وہ تمہیں جتلاتا ہے کہ ایمانداروں کی نشانیاں تم میں نہیں.اگر چہ تم اپنی دنیوی فکروں اور سوچوں میں بڑے زور سے اپنی دانشمندی اور متانت رائے کے مدعی ہو.مگر تمہاری لیاقت تمہاری نکتہ رسی تمہاری دور اندیشی صرف دنیا کے کناروں تک ختم ہو جاتی ہے.اور تم اپنی اس عقل کے ذریعہ سے اُس دوسرے عالم کا ایک ذرہ سا گوشہ بھی نہیں دیکھ سکتے جس کی سکونت ابدی کے لئے تمہاری روحیں پیدا کی گئی ہیں.تم دنیا کی زندگی پر ایسے مطمئن بیٹھے ہو جیسے کوئی شخص ایک چیز ہمیشہ رہنے والی پر مطمئن ہوتا ہے.مگر

Page 101

۹۱ وہ دوسرا عالم جس کی خوشیاں بچے اطمینان کے لائق اور دائگئی ہیں.وہ ساری عمر میں ایک مرتبہ بھی تمہیں یاد نہیں آتا.کیا بدقسمتی ہے کہ ایک بڑے امر اہم سے تم قطعاً غافل اور آنکھیں بند کئے بیٹھے ہو اور جو گزشتنی گزاشتنی امور ہیں اُن کی ہوس میں دن رات سرپٹ دوڑ رہے ہو.تمہیں خوب خبر ہے کہ بلاشبہ وہ وقت تم پر آنے والا ہے جو ایک دم میں تمہاری زندگی اور تمہاری ساری آرزوؤں کا خاتمہ کر دے گا.مگر یہ عجیب شقاوت ہے کہ باوجود اس علم کے پھر اپنے تمام اوقات دنیا طلبی میں ہی برباد کر رہے ہو اور دنیا طلبی بھی صرف وسائل جائزہ تک محدود نہیں بلکہ تمام نا جائز وسیلے جھونٹھ اور دغا سے لے کر ناحق کے خون تک تم نے حلال کر رکھے ہیں اور ان تمام شرمناک جرائم کے ساتھ جو تم میں پھیلے ہوئے ہیں کہتے ہو کہ آسمانی نور اور آسمانی سلسلہ کی ہمیں ضرورت نہیں بلکہ اس سے سخت عداوت رکھتے ہو اور تم نے خدا تعالیٰ کے آسمانی سلسلہ کو بہت ہلکا سمجھ رکھا ہے یہاں تک کہ اس کے ذکر کرنے میں بھی تمہاری زبانیں کراہت سے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ اور بڑی رعونت اور ناک چڑھانے کی حالت میں ہجو کا حق ادا کرتی ہیں اور تم بار بار کہتے ہو کہ ہمیں کیونکر یقین آوے کہ یہ سلسلہ منجانب اللہ ہے.میں ابھی اس کا جواب دے چکا ہوں کہ اس درخت کو اُس کے پھلوں سے اور اس نیر کو اس کی روشنی سے شناخت کرو گے.میں نے ایک دفعہ یہ پیغام تمہیں پہنچا دیا ہے اب تمہارے اختیار میں ہے کہ اس کو قبول کردیا نہ کرو اور میری باتوں کو یاد رکھو یا لوح حافظہ سے بھلا دو.جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارو یاد آئیں گے تمہیں میرے سخن میرے بعد ے خاتمه مشتمل بر مرثیہ تفرقہ حالتِ اسلام سزد گرخوں ببارد دیدہ ہر اہل دیں قحط المسلمین بر پریشاں حالی اسلام و و قحط دین حق را، گردش آمد، صعبناک و سهمگیں سخت شورے اوفتاد، اندر جہاں از کفروکیں سے ے مناسب ہے کہ ہر دیندار کی آنکھ خون کے آنسو روئے.اسلام کی پریشان حالی اور قحط المسلمین پر.ے خدا کے دین پر نہایت خوفناک اور پُر خطر گردش آگئی.کفر و شقاوت کی وجہ سے دنیا میں سخت فساد برپا ہوگیا.

Page 102

۹۲ آنکه، نفس اوست، از هر خیروخوبی بے نصیب می تراشد عیبها در ذات خير المرسلیں ! آنکه در زندان ناپاکی ست محبوس و اسیر بست در شان امام پاک بازاں نکتہ چیں ہے تیر بر معصوم آسمان را ے سزد بارد جیسے بد گہر گر سنگ بارد بر زمین سے پیش چشمان شما اسلام در خاک افتاد ہے چیست عذرے پیش حق اے مجمع المتنقمی ہر طرف کفر است جوشاں ہیچو افواج یزید دین حق بیمار و بے کس ہنچو زین العابدین ھے مردم ذی مقدرت مشغول عشرت ہائے خویش کرم خندان و نشسته با بُتان نازنیں 1 عالمان را روز و شب باہم فساد از جوش نفس زاہدان غافل سراسر از ضرورت ہائے دیں کے ہر کسے از بهر نفس دون خود طرفے گرفت طرف دیں خالی شد و هر دشمنے جست از کمیں ۵ فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۱ تا ۴۵) لے وہ شخص جس کا نفس ہر ایک خیر و خوبی سے محروم ہے وہ بھی حضرت خیر الرسل کی ذات میں عیب نکالتا ہے.سے وہ جو خود ناپاکی کے قید خانے میں اسیر و گرفتار ہے وہ بھی پاکبازوں کے سردار کی شان میں نکتہ چینی کرتا ہے.بداصل اور خبیث انسان اس معصوم پر تیر چلاتا ہے آسمان کو مناسب ہے کہ زمین پر پتھر برسائے.تمہاری آنکھوں کے سامنے اسلام خاک میں مل گیا.پس اے گروہ امراء تمہارا خدا کے حضور میں کیا عذر ہے.افواج یزید کی مانند ہر طرف کفر (جوش میں) ہے اور دین حق زین العابدین کی طرح بیمار و بیکس ہے.امراء عیش و عشرت میں مشغول ہیں اور حسین عورتوں کے ساتھ خرم و خنداں بیٹھے ہیں.کے علماء دن رات نفسانی جوشوں کے باعث آپس میں لڑ رہے ہیں اور زاہد ضروریات دین سے بالکل غافل ہیں.ہر شخص نے اپنے ذلیل نفس کی خاطر ایک پہلو اختیار کر لیا.اس لیے دین کا پہلو خالی ہے اور ہر دشمن کمین گاہ میں سے کود پڑا.

Page 103

۹۳ b ایسا ہی یہ عاجز بھی اسی کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا قرآن شریف کے احکام بوضاحت بیان کر دیوے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مسیح موسیٰ کو دیا گیا تھا اور یہ مسیح مثیل موسیٰ کو عطا کیا گیا.سو یہ تمام مشابہت تو ثابت ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پیئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا.وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی تو تمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس کے سرچشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا.زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا.سو تم مقابلہ کے لئے جلدی نہ کرو اور دیدہ و دانستہ اس الزام کے نیچے اپنے تئیں داخل نہ کرو جو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَبِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا - بدظنی اور بدگمانی میں حد سے زیادہ مت بڑھو ایسا نہ ہو کہ تم اپنی باتوں سے پکڑے جاؤ اور پھر اس دکھ کے مقام میں تمہیں یہ کہنا پڑے کہ مَالَنَا لَا نَرى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ.اے مسلمانوں! اگر تم سچے دل سے حضرت خداوند تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہو اور نصرت الہی کے منتظر ہو تو یقینا سمجھو کہ نصرت کا وقت آ گیا اور یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبہ نے اس کی بنا ڈالی بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہو گئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی.خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جا پڑتے مگر اُس کے با شفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اُٹھا لیا سو شکر کرو اور خوشی سے اچھلو جو آج تمہاری تازگی کا دن آ گیا.خدائے تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو جس میں موجودہ برکت کچھ بھی نہ ہو وہ ظلمت کے کامل غلبہ کے وقت اپنی طرف سے نور پہنچاتا ہے.کیا اندھیری رات کے بعد نئے چاند کے چڑھنے کی انتظار نہیں ہوتی ؟ کیا تم مسلخ کی رات کو جو ظلمت کی آخری رات ہے دیکھ کر حکم نہیں کرتے کہ کل نیا چاند نکلنے والا ہے.افسوس کہ تم اس دنیا کے ظاہری قانونِ قدرت کو تو خوب سمجھتے مِنَ الْأَشْرَارِ بنی اسرائیل: ۳۷ ص:۶۳

Page 104

۹۴ ہومگر اس روحانی قانونِ فطرت سے جو اسی کا ہمشکل ہے بکلی بے خبر ہو.اے نفسانی مولویو! اور خشک زاہدو! تم پر افسوس کہ تم آسمانی دروازوں کا گھلنا چاہتے ہی نہیں بلکہ چاہتے ہو کہ ہمیشہ بند ہی رہیں اور تم پیر مغاں بنے رہو.اپنے دلوں پر نظر ڈالو اور اپنے اندر کو ٹولو کیا تمہاری زندگی دنیا پرستی سے منزہ ہے؟ کیا تمہارے دلوں پر وہ زنگار نہیں جس کی وجہ سے تم ایک تاریکی میں پڑے ہو؟ کیا تم ان فقیہوں اور فریسیوں سے کچھ کم ہو جو حضرت مسیح کے وقت میں دن رات نفس پرستی میں لگے ہوئے تھے پھر کیا یہ سچ نہیں کہ تم مثیل مسیح کے لئے مسیحی مشابہت کا ایک گونہ سامان اپنے ہاتھ سے ہی پیش کر رہے ہو تا خدائے تعالیٰ کی حجت ہر ایک طور سے تم پر وارد ہو.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک کافر کا مومن ہو جانا تمہارے ایمان لانے سے زیادہ تر آسان ہے.بہت سے لوگ مشرق اور مغرب سے آئیں گے اور اس خوانِ نعمت سے حصہ لیں گے لیکن تم اسی زنگ کی حالت میں ہی مرو گے.کاش تم نے کچھ سوچا ہوتا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰۳ تا ۱۰۵) کیا ابھی اس آخری مصیبت کا وہ وقت نہیں آیا جو اسلام کے لئے دنیا کے آخری دنوں میں مقد ر تھا؟ کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور حدیث کی رو سے اِن موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہو گا؟ سو بھائیو! تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور خوب سوچ لو کہ وقت آ گیا اور بیرونی اور اندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے.اگر تم ان تمام فتنوں کو ایک پلہ میزان میں رکھو اور دوسرے پلّہ کے لئے تمام حدیثوں اور سارے قرآن کریم میں تلاش کرو تو ان کے برابر کیا ان کا ہزارم حصہ بھی وہ فتنے قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہوں گے.پس وہ کون سا فساد کا زمانہ اور کس بڑے دجال کا وقت ہے جو اس زمانہ کے بعد آئے گا اور فتنہ اندازی کے رُو سے اس سے بدتر ہو گا.کیا تم ثابت کر سکتے ہو کہ ان فتنوں سے بڑھ کر قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ایسے اور فتنوں کا پتہ ملتا ہے جن کا اب نام و نشان نہیں یقیناً یا د رکھو کہ اگر تم ان فتنوں کی نظیر تلاش کرنے کے لئے کوشش کرو یہاں تک کہ اسی کوشش میں مر بھی جاؤ تب بھی قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ہرگز ثابت نہیں ہو گا کہ کبھی کسی زمانہ میں ان موجودہ فتنوں سے بڑھ کر کوئی اور فتنے بھی آنے والے ہیں.صاحبو! یہاں وہ دجالیتیں پھیل رہی ہیں جو تمہارے فرضی دجال کے باپ کو بھی یاد نہیں ہوں گی.یہ کارروائیاں خلق اللہ کے اغوا کے لئے ہزار ہا پہلو سے جاری کی گئی ہیں جن کے لکھنے کے لئے بھی ایک دفتر چاہئے اور ان میں مخالفین کو کامیابی بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی ہوئی ہے کہ دلوں کو ہلا دیا ہے اور ان کے

Page 105

۹۵ مکروں نے عام طور پر دلوں پر سخت اثر ڈالا ہے اور ان کی طبیعی اور فلسفہ نے ایسی شوخی اور بے باکی کا تخم پھیلا دیا ہے کہ گویا ہر ایک شخص اس کے فلسفہ دانوں میں سے انا الرب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.پس جا گو اور اٹھو اور دیکھو کہ یہ کیسا وقت آ گیا اور سوچو یہ موجودہ خیالات توحید محض کے کس قدر مخالف ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا خیال بھی ایک بڑی نادانی کا طریق سمجھا جاتا ہے.اور تقدیر کے لفظ کو مُنہ پر لانے والا بڑا بیوقوف کہلاتا ہے.اور فلسفی دماغ کے آدمی دہریت کو پھیلاتے جاتے ہیں.اور اس فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ تمام گل الوہیت کی کسی طرح ہمارے ہاتھ میں ہی آ جاوے.ہم ہی جب چاہیں وباؤں کو دُور کر دیں.موتوں کو ٹال دیں اور جب چاہیں بارش برسا دیں.کھیتی اُگا لیں.اور کوئی چیز ہمارے قبضہ قدرت سے باہر نہ ہو.سوچو کہ اس زمانہ میں ان بے راہیوں کا کچھ انتہا بھی ہے.ان آفتوں نے اسلام کے دونوں بازؤں پر تبر رکھ دیا ہے.اےسونے والو بیدار ہو جاؤ.اے غافلو اُٹھ بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آ گیا.یہ رونے کا وقت ہے نہ سونے کا اور تضرع کا وقت ہے نہ ٹھٹھے اور جنسی اور تکفیر بازی کا.دُعا کرو کہ خداوند کریم تمہیں آنکھیں بخشے تا تم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو اور نیز اس نور کو بھی جو رحمتِ الہیہ نے اس ظلمت کے مٹانے کے لئے تیار کیا ہے.پچھلی راتوں کو اُٹھو اور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو اور ناحق حقانی سلسلہ کے مٹانے کے لئے بد دعا ئیں مت کرو اور نہ منصوبے سوچو.خدا تعالیٰ تمہاری غفلت اور بُھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا.وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بیوقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا.اور اپنے بندہ کا مددگار ہو گا.اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اُس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے کیا کوئی تم میں سے اپنے اس پودہ کو کاٹ سکتا ہے جس کے پھل لانے کی اس کو توقع ہے.پھر وہ جو دانا و بینا اور ارحم الراحمین ہے وہ کیوں اپنے اس پودہ کو کاٹے جس کے پھلوں کے مبارک دنوں کی وہ انتظار کر رہا ہے.جبکہ تم انسان ہو کر ایسا کام کرنا نہیں چاہتے.پھر وہ جو عالم الغیب ہے جو ہر ایک دل کی تہ تک پہنچا ہوا ہے کیوں ایسا کام کرے گا.پس تم خوب یاد رکھو کہ تم اس لڑائی میں اپنے ہی اعضاء پر تلواریں مار رہے ہو سو تم ناحق آگ میں ہاتھ مت ڈالو ایسا نہ ہو کہ وہ آگ بھڑ کے اور تمہارے ہاتھ کو بھسم کر ڈالے.یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو بہتیرے اس کے نابود کرنے والے پیدا ہو جاتے اور نیز یہ اس اپنی عمر تک بھی ہرگز نہ پہنچتا جو بارہ برس کی مدت اور بلوغ کی عمر ہے.کیا تمہاری نظر میں کبھی کوئی ایسا مفتری گزرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ پر ایسا افترا کر کے کہ وہ مجھ سے ہمکلام ہے پھر اس مدت مدید کے

Page 106

۹۶ سلامتی کو پا لیا ہو.افسوس کہ تم کچھ بھی نہیں سوچتے اور قرآن کریم کی ان آیتوں کو یاد نہیں کرتے جو خود نبی کریم کی نسبت اللہ جل شانہ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو ایک ذرہ مجھ پر افترا کرتا تو میں تیری رگِ جان کاٹ دیتا.پس نبی کریم سے زیادہ ترکون عزیز ہے کہ جو اتنا بڑا افترا کر کے اب تک بچا رہے بلکہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال بھی ہو.سو بھائیو! نفسانیت سے باز آؤ اور جو باتیں خدائے تعالیٰ کے علم سے خاص ہیں اُن میں حد سے بڑھ کر ضد مت کرو اور عادت کے سلسلہ کو تو ڑ کر اور ایک نئے انسان بن کر تقویٰ کی راہوں میں قدم رکھو تا تم پر رحم ہو اور خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دیوے سوڈرو اور باز آجاؤ.کیا تم میں ایک بھی رشید نہیں ؟ وَإِن لَّمْ تَنْتَهُوا فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِنُصْرَةٍ مِّنْ عِنْدِهِ وَ يَنْصُرُ عَبْدَهُ وَيُمَزِّقُ أَعْدَاءَهُ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا.(آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲ ۵ تا ۵۵) اے وے لوگو! جو نیکی اور راستبازی کے لئے بلائے گئے ہو.تم یقیناً سمجھو کہ خدا کی کشش اس وقت تم میں پیدا ہو گی اور اسی وقت تم گناہ کے مکروہ داغ سے پاک کئے جاؤ گے جب کہ تمہارے دل یقین سے بھر جائیں گے.شائد تم کہو گے کہ ہمیں یقین حاصل ہے.سو یا د رہے کہ یہ تمہیں دھوکا لگا ہوا ہے.یقین تمہیں ہرگز حاصل نہیں کیونکہ اس کے لوازم حاصل نہیں وجہ یہ کہ تم گناہ سے باز نہیں آتے.تم ایسا قدم آگے نہیں اٹھاتے جو اٹھانا چاہئے.تم ایسے طور سے نہیں ڈرتے جو ڈرنا چاہئے.خود سوچ لو کہ جس کو یقین ہے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے وہ اس سوراخ میں کب ہاتھ ڈالتا ہے اور جس کو یقین ہے کہ اس کے کھانے میں زہر ہے وہ اس کھانے کو کب کھاتا ہے.اور جو یقینی طور پر دیکھ رہا ہے کہ اس فلاں بن میں ایک ہزار خونخوار شیر ہے اس کا قدم کیونکر بے احتیاطی اور غفلت سے اس بن کی طرف اُٹھ سکتا ہے.سو تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں اور تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں کیونکر گناہ پر دلیری کر سکتی ہیں اگر تمہیں خدا اور جزا سزا پر یقین ہے.گناہ یقین پر غالب نہیں ہوسکتا اور جبکہ تم ایک بھسم کرنے اور کھا جانے والی آگ کو دیکھ رہے ہو تو کیونکر اُس آگ میں اپنے تئیں ڈال سکتے ہو اور یقین کی دیواریں آسمان تک ہیں شیطان اُن پر چڑھ نہیں سکتا.ہر ایک جو پاک ہوا وہ یقین سے پاک ہوا یقین دُکھ اُٹھانے کی قوت دیتا ہے.یہاں تک کہ ایک بادشاہ کو تخت سے اُتارتا ہے اور فقیری جامہ پہناتا ہے.یقین ہر ایک دکھ کو سہل کر دیتا ہے یقین خدا کو دکھاتا ہے.ہر ایک کفارہ جھوٹا ہے اور ہر ایک فدیہ باطل لے اور اگر تم باز نہیں آؤ گے تو عنقریب اللہ اپنی نصرت کے ساتھ آئے گا اور اپنے بندے کی مدد کرے گا اور اس کے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور تم اسے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکو گے.

Page 107

۹۷ ہے اور ہر ایک پاکیزگی یقین کی راہ سے آتی ہے.وہ چیز جو گناہ سے چھڑاتی اور خدا تک پہنچاتی اور فرشتوں سے بھی صدق اور ثبات میں آگے بڑھا دیتی ہے وہ یقین ہے.ہر ایک مذہب جو یقین کا سامان پیش نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے.ہر ایک مذہب جو یقینی وسائل سے خدا کو دکھا نہیں سکتا وہ جھوٹا ہے.ہر ایک مذہب جس میں بجز پُرانے قصوں کے اور کچھ نہیں وہ جھوٹا ہے.خدا جیسے پہلے تھا وہ اب بھی ہے اور اس کی قدرتیں جیسی پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں.اور اس کا نشان دکھلانے پر جیسا کہ پہلے اقتدار تھا وہ اب بھی ہے.پھر تم کیوں صرف قصوں پر راضی ہوتے ہو.وہ مذہب ہلاک شدہ ہے جس کے معجزات صرف قصے ہیں.جس کی پیشگوئیاں صرف قصے ہیں.اور وہ جماعت ہلاک شدہ ہے جس پر خدا نازل نہیں ہوا اور جو یقین کے ذریعہ سے خدا کے ہاتھ سے پاک نہیں ہوئی..کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۶۸،۶۷) اس جگہ یہ بھی بطور تبلیغ کے لکھتا ہوں کہ حق کے طالب جو مواخذہ الہی سے ڈرتے ہیں وہ بلا تحقیق اس زمانہ کے مولویوں کے پیچھے نہ چلیں اور آخری زمانہ کے مولویوں سے جیسا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے ویسا ہی ڈرتے رہیں اور اُن کے فتووں کو دیکھ کر حیران نہ ہو جاویں کیونکہ یہ فتوے کوئی نئی بات نہیں.اور اگر اس عاجز پر شک ہو اور وہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیا ہے اس کی صحت کی نسبت دل میں شبہ ہو تو میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلاتا ہوں جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اول تو یہ نصوح کر کے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں جس کی پہلی رکعت میں سورۃ ٹیسٹ اور دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورۃ اخلاص اور پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ درود شریف اور تین سومرتبہ استغفار پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے قادر کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے اور مقبول اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا.پس ہم عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیرے نزدیک کہ جو مسیح موعود اور مہدی اور مجد والوقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا حال ہے.کیا صادق ہے یا کاذب اور مقبول ہے یا مردود.اپنے فضل سے یہ حال رویا یا کشف یا الہام سے ہم پر ظاہر فرما تا اگر مردود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہو جائیں.ہمیں ہر ایک قسم کے فتنہ سے بچا کہ ہر ایک قوت تجھ کو ہی ہے.آمین.یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتہ کر لیں لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر.کیونکہ جو شخص پہلے ہی بغض سے بھرا ہوا ہے اور بدظنی اس پر

Page 108

۹۸ غالب آ گئی ہے اگر وہ خواب میں اُس شخص کا حال دریافت کرنا چاہے جس کو وہ بہت ہی بُرا جانتا ہے تو شیطان آتا ہے اور موافق اس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اور پر ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے.پس اس کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہوتا ہے.سواگر تو خدائے تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چاہے تو اپنے سینے کو بکلی بغض اور عناد سے دھو ڈال اور اپنے تئیں بکلی خالی النفس کر کے اور دونوں پہلوؤں بغض اور محبت سے الگ ہو کر اس سے ہدایت کی روشنی مانگ کہ وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دُخان نہیں ہوگا.سواے حق کے طالبو! ان مولویوں کی باتوں سے فتنہ میں مت پڑو اٹھو اور کچھ مجاہدہ کر کے اس قومی اور قدیر اور علیم اور ہادی مطلق سے مدد چاہو اور دیکھو کہ اب میں نے یہ روحانی تبلیغ بھی کر دی ہے.آئندہ تمہیں اختیار ہے.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى المبلغ غلام احمد عفى عنه (نشان آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۰۱،۴۰۰) یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا.وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کے لئے مستعد ہیں اُن کے لئے ذلت اور خواری مقد رہے.انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر یہ انسان کا افترا ہوتا تو کب کا ضائع ہو جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں.وہ بیوقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرات کسی کذاب میں ہو سکتی ہے؟ وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہی اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور ہیبت ہو اور یہ اُسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے.یقیناً منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن روسیاہ ہوگا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے.کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کر دیا ہے کہ گویا اس نے ہزار ہا نشان دیکھ لئے ہیں.سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی.اور مجھے غمگین دیکھا اور میرے غمخوار ہوئے اور ناشناسا ہو کر پھر آشناؤں کا سا ادب بجالائے خدا تعالیٰ کی اُن پر رحمت ہو.

Page 109

۹۹ اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا.مجھے در حقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں کو وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میری کلام کو سُنا اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے خدا تعالیٰ نے اُن کے سینوں کو کھول دیا.اور میرے ساتھ ہو گئے.میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اور اپنے نفس کے ترک اور اخذ کے لئے مجھے حکم بناتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اور اطاعت میں فانی ہے اور انانیت کی جلد سے باہر آ گیا ہے.مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اور عزت کے لائق مرتبے میرے خداوند کی جناب میں نہیں پاسکتے جو ان راستبازوں کو ملیں گے جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہچان لیا اور جو اللہ جل شانہ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہوا بندہ تھا اس کی خوشبو ان کو آ گئی.انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ و جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کرے با کمال وہ آدمی ہے جو گداؤں کے پیرا یہ میں اس کو پاوے اور شناخت کر لیوے.مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیر کی کسی کو دوں.ایک ہی ہے جو دیتا ہے وہ جس کو عزیز رکھتا ہے ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے.انہی باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں اُن کے لئے جن کے دلوں میں کبھی ہے زیادہ تر کمی کا موجب ہو جاتی ہیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۰،۳۴۹) میرے ساتھ آپ کا مقابلہ تقویٰ سے بعید ہے کیونکہ آپ لوگوں کی دستاویز صرف وہ حدیثیں ہیں جن میں سے کچھ موضوع اور کچھ ضعیف اور کچھ ان میں سے ایسی ہیں جن کے معنے آپ لوگ سمجھتے نہیں مگر آپ کے مقابل پر میرا دعویٰ علی وجہ البصیرت ہے اور جس وجی نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور آنے والا مسیح موعود یہی عاجز ہے اس پر میں ایسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ میں قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہوں اور یہ ایمان صرف حسن اعتقاد سے نہیں بلکہ وحی الہی کی روشنی نے جو آفتاب کی طرح میرے پر چکی ہے یہ ایمان مجھے عطا فرمایا ہے.جس یقین کو خدا نے خارق عادت نشانوں کے تواتر اور معارف یقینیہ کی کثرت سے اور ہر روزہ یقینی مکالمہ اور مخاطبہ سے انتہا تک پہنچا دیا ہے اس کو میں کیونکر اپنے دل میں سے باہر نکال دوں؟ کیا میں اس نعمت معرفت اور علم صحیح کو رڈ کر دوں جو مجھ کو دیا گیا ہے؟ یا وہ آسمانی نشان جو مجھے دکھائے جاتے ہیں میں اُن سے منہ پھیر لوں یا میں اپنے

Page 110

آقا اور اپنے مالک کے حکم سے سرکش ہو جاؤں.کیا کروں مجھے ایسی حالت سے ہزار دفعہ مرنا بہتر ہے کہ وہ جو اپنے حسن و جمال کے ساتھ میرے پر ظاہر ہوا ہے میں اُس سے برگشتہ ہو جاؤں.یہ دنیا کی زندگی کب تک اور یہ دنیا کے لوگ مجھ سے کیا وفاداری کریں گے تا میں اُن کے لئے اُس یار عزیز کو چھوڑ دوں.میں خوب جانتا ہوں کہ میرے مخالفوں کے ہاتھ میں محض ایک پوست ہے جس میں کیڑا لگ گیا ہے.وہ مجھے کہتے ہیں کہ میں مغز کو چھوڑ دوں اور ایسے پوست کو میں بھی اختیار کر لوں.مجھے ڈراتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں لیکن مجھے اسی عزیز کی قسم ہے جس کو میں نے شناخت کر لیا ہے کہ میں ان لوگوں کی دھمکیوں کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا مجھے اس کے ساتھ تم بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دوسرے کے ساتھ خوشی ہو.مجھے اس کے ساتھ موت بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ اس کو چھوڑ کر لمبی عمر ہو.جس طرح آپ لوگ دن کو دیکھ کر اس کو رات نہیں کہہ سکتے.اسی طرح وہ نور جو مجھ کو دکھایا گیا میں اس کو تاریکی نہیں خیال کر سکتا اور جب کہ آپ اپنے ان عقائد کو چھوڑ نہیں سکتے جو صرف شکوک اور تو ہمات کا مجموعہ ہے تو میں کیونکر اُس راہ کو چھوڑ سکتا ہوں جس پر ہزار آفتاب چمکتا ہوا نظر آتا ہے.کیا میں مجنوں یا دیوانہ ہوں کہ اس حالت میں جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے روشن نشانوں کے ساتھ حق دکھا دیا ہے.پھر بھی میں حق کو قبول نہ کروں.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزار ہا نشان میرے اطمینان کے لئے میرے پر ظاہر ہوئے ہیں جن میں سے بعض کو میں نے لوگوں کو بتایا اور بعض کو بتایا بھی نہیں اور میں نے دیکھا کہ یہ نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور کوئی دوسرا بجز اس وَحْدَهُ لا شَریک کے اُن پر قادر نہیں.اور مجھ کو ماسوا اس کے علیم قرآن دیا گیا اور احادیث کے صحیح معنے میرے پر کھولے گئے.پھر میں ایسی روشن راہ کو چھوڑ کر ہلاکت کی راہ کیوں اختیار کروں؟ جو کچھ میں کہتا ہوں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں اور جو کچھ آپ لوگ کہتے ہیں وہ صرف ظن ہے.اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا اور اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک اندھا ایک اونچی نیچی زمین میں تاریکی میں چلتا ہے اور نہیں جانتا کہ کہاں قدم پڑتا ہے سوئیں اس روشنی کو چھوڑ کر جو مجھ کو دی گئی ہے تاریکی کو کیونکر لے لوں جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا میری دُعائیں سنتا اور بڑے بڑے نشان میرے لئے ظاہر کرتا اور مجھ سے ہم کلام ہوتا اور اپنے غیب کے اسرار پر مجھے اطلاع دیتا ہے اور دشمنوں کے مقابل پر اپنے قومی ہاتھ کے ساتھ میری مدد کرتا ہے اور ہر میدان میں مجھے فتح بخشتا ہے اور قرآن شریف کے معارف اور حقائق کا مجھے علم دیتا ہے تو میں ایسے النجم : ٢٩

Page 111

1+1 قادر اور غالب خدا کو چھوڑ کر اس کی جگہ کس کو قبول کرلوں.میں اپنے پورے یقین سے جانتا ہوں کہ خدا وہی قادر خدا ہے جس نے میرے پر تجلی فرمائی اور اپنے وجود سے اور اپنے کلام اور اپنے کام سے مجھے اطلاع دی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ قدرتیں جو میں اس سے دیکھتا ہوں اور وہ علم غیب جو میرے پر ظاہر کرتا ہے.اور وہ قوی ہاتھ جس سے میں ہر خطرناک موقع پر مدد پاتا ہوں.وہ اُسی کامل اور بچے خدا کی صفات ہیں جس نے آدم کو پیدا کیا اور جو نوح پر ظاہر ہوا اور طوفان کا معجزہ دکھلایا.وہ وہی ہے جس نے موسیٰ کو مدد دی جبکہ فرعون اس کو ہلاک کرنے کو تھا.وہ وہی ہے جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سید الرسل کو کافروں اور مشرکوں کے منصوبوں سے بچا کر فتح کامل عطا فرمائی.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۹۶ تا ۲۹۸) حقیقی نور کیا ہے؟ وہ جو تسلی بخش نشانوں کے رنگ میں آسمان سے اترتا اور دلوں کو سکینت اور اطمینان بخشتا ہے.اُس نور کی ہر ایک نجات کے خواہشمند کو ضرورت ہے.کیونکہ جس کو شبہات سے نجات نہیں اس کو عذاب سے بھی نجات نہیں.جو شخص اس دنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت میں بھی تاریکی میں گرے گا.خدا کا قول ہے کہ مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْى اور خدا نے اپنی کتاب میں بہت جگہ اشارہ فرمایا ہے کہ میں اپنے ڈھونڈنے والوں کے دل نشانوں.منور کروں گا یہاں تک کہ وہ خدا کو دیکھیں گے اور میں اپنی عظمت انہیں دکھلا دوں گا.یہاں تک کہ سب عظمتیں اُن کی نگاہ میں بیچ ہو جائیں گی.یہی باتیں ہیں جو میں نے براہ راست خدا کے مکالمات سے بھی سنیں.پس میری روح بول اُٹھی کہ خدا تک پہنچنے کی یہی راہ ہے اور گناہ پر غالب آنے کا یہی طریق ہے حقیقت تک پہنچنے کے لئے ضرور ہے کہ ہم حقیقت پر قدم ماریں.فرضی تجویز ہیں اور خیالی منصوبے ہمیں کام نہیں دے سکتے.ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا.ہم نے اُس خدا کی آواز سنی اور اُس کے پر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا.سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے.ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے.سو ہم بصیرت کی راہ سے ا بنی اسرائیل :۷۳

Page 112

اُس دین اور اُس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں.ہم نے اس نور حقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلمانی پر دے اُٹھ جاتے ہیں اور غیر اللہ سے در حقیقت دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے.یہی ایک راہ ہے جس سے انسان نفسانی جذبات اور ظلمات سے ایسا با ہر آ جاتا ہے جیسا کہ سانپ اپنی کینچلی ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۵) آج میں نے اتمام حجت کے لئے یہ ارادہ کیا ہے کہ مخالفین اور منکرین کی دعوت میں چالیس اشتہار شائع کروں.تا قیامت کو میری طرف سے حضرت احدیت میں یہ حجت ہو کہ میں جس امر کے لئے بھیجا گیا تھا اس کو میں نے پورا کیا.سواب میں بکمال ادب و انکسار حضرات علماء مسلمانان و علماء عیسائیان و پنڈتان و هندوان و آریان یہ اشتہار بھیجتا ہوں اور اطلاع دیتا ہوں کہ میں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور میرا قدم حضرت عیسی علیہ السلام کے قدم پر ہے انہی معنوں سے میں مسیح موعود کہلاتا ہوں.کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ محض فوق العادت نشانوں اور پاک تعلیم کے ذریعہ سے سچائی کو دنیا میں پھیلاؤں.میں اس بات کا مخالف ہوں کہ دین کے لئے تلوار اٹھائی جائے اور مذہب کے لئے خدا کے بندوں کے خون کئے جائیں.اور میں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں سے دُور کر دوں اور پاک اخلاق اور بُردباری اور حلم اور انصاف اور راستبازی کی راہوں کی طرف اُن کو بلاؤں.میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور نا انصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول.میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر میں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا.اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اُس سے تعلق پیدا کرنا اور کچی برکات اُس سے پانا.پس اس

Page 113

۱۰۳ قدر دولت پا کر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھو کے مریں اور میں عیش کروں.یہ مجھ سے ہرگز نہیں ہو گا.میرا دل ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے.ان کی تاریکی اور تنگ گزرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے ان کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ اُن کے دامنِ استعداد پر ہو جائیں.ظاہر ہے کہ ہر ایک چیز اپنے نوع سے محبت کرتی ہے یہاں تک کہ چیونٹیاں بھی اگر کوئی خود غرضی حائل نہ ہو.پس جو شخص کہ خدا تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے اس کا فرض ہے کہ سب سے زیادہ محبت کرے سو میں نوع انسان سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں.ہاں اُن کی بدعملیوں اور ہر ایک قسم کے ظلم اور فسق اور بغاوت کا دشمن ہوں کسی کی ذات کا دشمن نہیں.اس لئے وہ خزانہ جو مجھے ملا ہے جو بہشت کے تمام خزانوں اور نعمتوں کی کنجی ہے وہ جوش محبت سے نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہوں اور یہ امر کہ وہ مال جو مجھے ملا ہے وہ حقیقت میں از قسم ہیرا اور سونا اور چاندی ہے.کوئی کھوٹی چیزیں نہیں ہیں بڑی آسانی سے دریافت ہوسکتا ہے.اور وہ یہ کہ ان تمام دراہم اور دینار اور جواہرات پر سلطانی سکہ کا نشان ہے.یعنی وہ آسمانی گواہیاں میرے پاس ہیں جو کسی دوسرے کے پاس نہیں ہیں.مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دین اسلام ہی سچا ہے.مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے.مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلی نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں.یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے مجھے مشرف فرمایا.اور پھر خدا نے اپنے بلا واسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا.اور پھر زمانہ کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو.غرض میرے ان ناموں پر یہ تین گواہ ہیں.میرا خدا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے.میں اس کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور وہ اپنے نشانوں سے میری گواہی دیتا ہے.اگر آسمانی نشانوں میں کوئی میرا مقابلہ کر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر دعاؤں کے قبول ہونے میں کوئی میرے برابر اُتر سکے تو میں جھوٹا ہوں اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلہ ٹھہر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر غیب کی پوشیدہ باتیں

Page 114

۱۰۴ اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از وقت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں اُن میں کوئی میری برابری کر سکے تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.اب کہاں ہیں وہ پادری صاحبان جو کہتے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت سید نا وسیّد الوریٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی یا اور کوئی امر خارق عادت ظہور میں نہیں آیا.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان کامل گزرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا ایک ایسا امر ہے جو اب تک امت کے نیچے پیروؤں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے بجز اسلام وہ مذہب کہاں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے.اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں.اگر انسان صرف ایسے مذہب کا پیر و ہو جس میں آسمانی روح کی کوئی ملاوٹ نہیں تو وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے.مذہب وہی مذہب ہے جو زندہ مذہب ہوا اور زندگی کی روح اپنے اندر رکھتا ہو اور زندہ خدا سے ملا تا ہو اور میں صرف یہی دعویٰ نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی سے غیب کی باتیں میرے پر کھلتی ہیں اور خارق عادت امر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ جو شخص دل کو پاک کر کے اور خدا اور اس کے رسول پر سچی محبت رکھ کر میری پیروی کرے گا وہ بھی خدا تعالیٰ سے یہ نعمت پائے گا.مگر یا د رکھو کہ تمام مخالفوں کے لئے یہ دروازہ بند ہے اور اگر دروازہ بند نہیں ہے تو کوئی آسمانی نشانوں میں مجھ سے مقابلہ کرے اور یاد رکھیں کہ ہرگز نہیں کر سکیں گے.پس یہ اسلامی حقیقت اور میری حقانیت کی ایک زندہ دلیل ہے.والسلام على من اتبع الهدی ۲۳ جولائی ۱۹۰۰ء المشتهر مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیاں اربعین نمبر ا.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۳۴۳ تا ۳۴۶) تو بہ کرو اور خدا سے ڈرو اور حد سے مت بڑھو.اگر دل سخت نہیں ہو گئے تو اس قدر کیوں دلیری ہے کہ خواہ نخواہ ایسے شخص کو کافر بنایا جاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی معنوں کی رُو سے خاتم الانبیاء سمجھتا ہے اور قرآن کو خاتم الکتب تسلیم کرتا ہے.تمام نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اہلِ قبلہ ہے اور شریعت کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتا ہے.اے مفتری لوگو ! میں نے کسی نبی کی تو ہین نہیں کی.میں نے کسی عقیدہ صحیحہ کے برخلاف نہیں کہا پر اگر تم خود نہ سمجھو تو میں کیا کروں.تم تو قائل ہو کہ جزئی فضیلت ایک ادنیٰ شہید کو ایک بڑے نبی پر ہو سکتی

Page 115

۱۰۵ ہے.اور یہ سچ ہے کہ میں خدا کا فضل اپنے پر مسیح سے کم نہیں دیکھتا مگر یہ کفر نہیں.یہ خدا کی نعمت کا شکر ہے.تم خدا کے اسرار کو نہیں جانتے اس لئے کفر سمجھتے ہو.اُس کو کیا کہو گے جو کہہ گیا هُوَ أَفْضَلُ مِنْ بَعْضِ الْأَنْبِيَاء اگر میں تمہاری نظر میں کافر ہوں تو بس ایسا ہی کا فرجیسا کہ ابن مریم یہودی فقیہوں کی نظر میں کافر تھا.میرے پاس خدا کے فضل کی اس سے بھی بڑھ کر باتیں ہیں.مگر تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے.خوب یا درکھو کہ مجھ کو کافر کہنا آسان نہیں.تم نے ایک بھاری بوجھ سر پر اٹھایا ہے.اور تم سے ان سب باتوں کا جواب پوچھا جائے گا.!! اے بدقسمت لوگو! تم کہاں گرے.کون سی چھپی ہوئی بد اعمالیاں تھیں جو تمہیں پیش آ گئیں.اگر تم میں ایک ذرہ بھی نیکی ہوتی تو خدا تمہیں ضائع نہ کرتا.ابھی کچھ تھوڑا وقت ہے اور بہت سا ثواب کھو چکے ہو باز آ جاؤ.کیا خدا سے اس بیوقوف کی طرح لڑائی کرو گے جو زور آور کے آگے سے نہیں ہٹ جاتا یہاں تک کہ مار سے پیسا جاتا اور کچلا جاتا ہے اور آخر ہڈیاں چور ہو کر اور مُردہ سا بن کر زمین پر گر پڑتا ہے.یہودیوں نے لڑائی سے کیا لیا اور تم کیا لو گے؟ هَذَا وَ بَعْدَ الْمَوْتِ نَحْنُ نُخَاصِمُ.بہت کچھ صوفیوں نے بھی انسانی کمالات کا اقرار کیا تھا کہ کہاں تک انسان پہونچتا ہے.آج وہ بھی سو گئے اے عقلمند و! میرے کاموں سے مجھے پہچانو.اگر مجھ سے وہ کام اور وہ نشان ظاہر نہیں ہوتے جو خدا کے تائید یافتہ سے ظاہر ہونے چاہئیں تو تم مجھے مت قبول کرو.لیکن اگر ظاہر ہوتے ہیں تو اپنے تئیں دانستہ ہلاکت کے گڑھے میں مت ڈالو.بدظنیاں چھوڑو.بدگمانیوں سے باز آ جاؤ کہ ایک پاک کی توہین کی وجہ سے آسمان سُرخ ہو رہا ہے اور تم نہیں دیکھتے.اور فرشتوں کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے اور تمہیں نظر نہیں آتا.خدا اپنے جلال میں ہے اور در و دیوار لرزہ میں.کہاں ہے وہ عقل جو سمجھ سکتی ہے.کہاں ہیں وہ آنکھیں جو وقتوں کو پہچانتی ہیں.آسمان پر ایک حکم لکھا گیا.کیا تم اس سے ناراض ہو؟ کیا تم رب العزت سے پوچھو گے کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اے نادان انسان! باز آجا کہ صاعقہ کے سامنے کھڑا ہونا تیرے لئے اچھا نہیں!!! (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷،۶ ) اے عزیز و ! اے پیارو! کوئی انسان خدا کے ارادوں میں اُس سے لڑائی نہیں کر سکتا.یقینا سمجھ لو کہ ے وہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہوگا.امر واقعہ ایسے ہی ہے اور موت کے بعد ہم جھگڑیں گے.

Page 116

کامل علم کا ذریعہ خدا تعالیٰ کا الہام ہے جو خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کو ملا.پھر بعد اس کے اُس خدا نے جو دریائے فیض ہے یہ ہرگز نہ چاہا کہ آئندہ اس الہام کو مُہر لگا دے اور اس طرح پر دنیا کو تباہ کرے بلکہ اس کے الہام اور مکالمے اور مخاطبے کے ہمیشہ دروازے کھلے ہیں.ہاں اُن کو اُن کی راہوں سے ڈھونڈو تب وہ آسانی سے تمہیں ملیں گے.وہ زندگی کا پانی آسمان سے آیا اور مناسب مقام پر ٹھہرا.اب تمہیں کیا کرنا چاہئے تا تم اس پانی کو پی سکو.یہی کرنا چاہئے کہ افتاں و خیزاں اُس چشمہ تک پہنچو.پھر اپنا منہ اس چشمہ کے آگے رکھ دوتا اس زندگی کے پانی سے سیراب ہو جاؤ.انسان کی تمام سعادت اسی میں ہے کہ جہاں روشنی کا پتا ملے.اُسی طرف دوڑے اور جہاں اُس گم گشتہ دوست کا نشان پیدا ہو اُسی راہ کو اختیار کرے.دیکھتے ہو کہ ہمیشہ آسمان سے روشنی اُترتی اور زمین پر پڑتی ہے.اسی طرح ہدایت کا سچا نور آسمان سے ہی اُترتا ہے.انسان کی اپنی ہی باتیں اور اپنی ہی انکلیں سچا گیان اس کو نہیں بخش سکتیں کیا تم خدا کو بغیر خدا کی تجلی کے پاسکتے ہو کیا تم بغیر اس آسمانی روشنی کے اندھیرے میں دیکھ سکتے ہو؟ اگر دیکھ سکتے ہو تو شائد اس جگہ بھی دیکھ لو.مگر ہماری آنکھیں گو بینا ہوں تا ہم آسمانی روشنی کی محتاج ہیں.اور ہمارے کان گوشنوا ہوں تا ہم اس ہوا کے حاجت مند ہیں جو خدا کی طرف سے چلتی ہے.وہ خدا سچا خدا نہیں ہے جو خاموش ہے اور سارا مدار ہماری انکلوں پر ہے بلکہ کامل اور زندہ خدا وہ ہے جو اپنے وجود کا آپ پتا دیتا رہا ہے اور اب بھی اُس نے یہی چاہا ہے کہ آپ اپنے وجود کا پتا دیوے.آسمانی کھڑکیاں کھلنے کو ہیں.عنقریب صبح صادق ہونے والی ہے.مبارک وہ جو اُٹھ بیٹھیں اور اب بچے خدا کو ڈھونڈیں.وہی خدا جس پر کوئی گردش اور مصیبت نہیں آتی جس کے جلال کی چمک پر کبھی حادثہ نہیں پڑتا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ یعنی خدا ہی ہے جو ہر دم آسمان کا نور اور زمین کا نور ہے.اُسی سے ہر ایک جگہ روشنی پڑتی ہے.آفتاب کا وہی آفتاب ہے.زمین کے تمام جانداروں کی وہی جان ہے.سچا زندہ خدا وہی ہے.مبارک وہ جو اس کو قبول کرے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۴۴۳ ۴۴۴) اے امیر و اور بادشا ہو! اور دولتمند و! آپ لوگوں میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو خدا سے ڈرتے اور اُس کی تمام راہوں میں راستباز ہیں.اکثر ایسے ہیں کہ دنیا کے ملک اور دنیا کے املاک سے دل لگائے النور : ٣٦

Page 117

1+6 ہیں اور پھر اسی میں عمر بسر کر لیتے ہیں اور موت کو یاد نہیں رکھتے.ہر ایک امیر جو نما ز نہیں پڑھتا اور خدا سے لا پروا ہے اُس کے تمام نوکروں چاکروں کا گناہ اس کی گردن پر ہے.ہر ایک امیر جو شراب پیتا ہے اُس کی گردن پر ان لوگوں کا بھی گناہ ہے جو اس کے ماتحت ہو کر شراب میں شریک ہیں.اے عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں.تم سنبھل جاؤ.تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو.ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو.انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون ، گانجا، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے سو تم اس سے بچو.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہر ایک سال ہزار ہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں اور آخرت کا عذاب الگ ہے.پر ہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ.حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے.حد سے زیادہ بد خلق اور بے مہر ہونا لعنتی زندگی ہے.حد سے زیادہ خدا یا اس کے بندوں کی ہمدردی سے لا پروا ہونا لعنتی زندگی ہے.ہر ایک امیر خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق سے ایسا ہی پوچھا جائے گا جیسا کہ ایک فقیر بلکہ اس سے زیادہ.پس کیا بد قسمت وہ شخص ہے جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کر کے بکلی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے اور خدا کے حرام کو ایسی بے باکی سے استعمال کرتا ہے کہ گویا وہ حرام اس کے لئے حلال ہے.غصہ کی حالت میں دیوانوں کی طرح کسی کو گالی کسی کو زخمی اور کسی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور شہوات کے جوش میں بے حیائی کے طریقوں کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے سو وہ سچی خوشحالی کو نہیں پائے گا یہاں تک کہ مرے گا.اے عزیز و! تم تھوڑے دنوں کے لئے اس دنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت کچھ گزر چکے.سو اپنے مولا کو ناراض مت کرو.ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبر دست ہو اگر تم سے ناراض ہو تو وہ تمہیں تباہ کر سکتی ہے.پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکر تم بچ سکتے ہو.اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا اور وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا اور دشمن جو تمہاری جان کے درپے ہے تم پر قابو نہیں پائے گا ورنہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں اور تم دشمنوں سے ڈر کر یا اور آفات میں مبتلا ہو کر بے قراری سے زندگی بسر کرو گے اور تمہاری عمر کے آخری دن بڑے غم اور غصہ کے ساتھ گزریں گے.خدا اون لوگوں کی پناہ ہو جاتا ہے جو اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں.سوخدا کی طرف آجاؤ اور ہر ایک مخالفت اس کی چھوڑ دو اور اس کے فرائض میں سستی نہ کرو اور اُس کے بندوں پر زبان

Page 118

سے یا ہاتھ سے ظلم مت کرو.اور آسمانی قہر اور غضب سے ڈرتے رہو کہ یہی راہ نجات کی ہے.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۷۰ تا ۷۲ ) انسان خدا کی پرستش کا دعوی کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیر نے والے پر ستار الہی کہلا سکتے ہیں؟ بلکہ پرستش اس سے ہوسکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے.اوّل خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو.اور پھر اس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزش محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو.اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو.اور اسی کی درد میں لذت ہو.اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو.اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے.مگر یہ حالت بجز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو.اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حق پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو.خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اُس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں.مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا.اس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اسی پر توکل کرے اور اُسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اس کو اختیا ر کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اُسی کی یاد کو سمجھے اور اگر ابراہیم کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی عزیز اولاد کے ذبح کرنے کا حکم ہو یا اپنے تئیں آگ میں ڈالنے کا اشارہ ہو تو ایسے سخت احکام کو بھی محبت کے جوش سے بجالائے اور رضا جوئی اپنے آقائے کریم میں اس حد تک کوشش کرے کہ اس کی اطاعت میں کوئی کسر باقی نہ رہے.یہ بہت تنگ دروازہ ہے اور یہ شربت بہت ہی تلخ شربت ہے.تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ میں سے داخل ہوتے اور اس شربت کو پیتے ہیں.زنا سے بچنا کوئی بڑی بات نہیں اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنا بڑا کام نہیں اور جھوٹی گواہی نہ دینا کوئی بڑا ہنر نہیں مگر ہر ایک چیز پر خدا کو اختیار کر لینا اور اس کے لئے سچی محبت اور بچے جوش سے دنیا کی تمام تلخیوں کو اختیار کرنا بلکہ اپنے ہاتھ سے تلخیاں پیدا کر لینا یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز صدیقوں کے کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا.یہی وہ عبادت ہے جس کے ادا کرنے کے لئے انسان مامور ہے اور جو شخص یہ عبادت بجالاتا ہے تب تو اس کے اس فعل پر خدا کی

Page 119

۱۰۹ طرف سے بھی ایک فعل مترتب ہوتا ہے جس کا نام انعام ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی یہ دعا سکھلاتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحه : ۶، ۷ ) یعنی اے ہمارے خدا ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا.ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ہے اور اپنی خاص عنایات سے مخصوص فرمایا ہے.حضرت احدیت میں یہ قاعدہ ہے کہ جب خدمت مقبول ہو جاتی ہے تو اُس پر ضرور کوئی انعام مترتب ہوتا ہے.چنانچہ خوارق اور نشان جن کی دوسرے لوگ نظیر پیش نہیں کر سکتے یہ بھی خدا تعالیٰ کے انعام ہیں.جو خاص بندوں پر ہوتے ہیں.اے گرفتار ہوا در ہمہ اوقات حیات با چنین نفس سیه چون رسدت زو عونے لے گر تو آن صدق بورزی که بورزید نیست اگر غرق شود فرعونی ۲ عجب (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۵،۵۴) خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا.اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے.تب میں نے اُس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں.اور خدا سے قوت پا کر اُسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو صلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دُور کروں اور پھر جب اس پر چند سال گذرے تو بذریعہ وحی الہی میرے پر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس امت کے لئے ابتداء سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزّل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الہی میں مقرر کیا گیا تھا.جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لے اے وہ جو ہمیشہ ہوا و ہوس کا قیدی ہے ایسے سیہ باطن نفس کے ہوتے تجھے خدا کی مدد کیونکر پہنچ سکتی ہے.ے ہاں اگر تو وہ صدق اختیار کرے جو موسیٰ نے اختیار کیا تھا تو پھر تعجب نہیں کہ کوئی فرعون غرق ہو جائے.

Page 120

11 + دی تھی وہ میں ہی ہوں اور مکالمات الہیہ اور مخاطبات رحمانیہ اس صفائی اور تواتر سے اس بارے میں ہوئے کہ شک وشبہ کی جگہ نہ رہی.ہر ایک وحی جو ہوتی تھی ایک فولادی میخ کی طرح دل میں دھنستی تھی اور یہ تمام مکالمات الہیہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے تھے کہ روز روشن کی طرح پوری ہوتی تھیں اور ان کے تواتر اور کثرت اور اعجازی طاقتوں کے کرشمہ نے مجھے اس بات کے اقرار کے لئے مجبور کیا کہ یہ اُسی وحدہ لاشریک کا کلام ہے جس کا کلام قرآن شریف ہے.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۳) ہم نے حضرت مسیح کی موت اور ان کے رفع روحانی کو ثابت کر دیا ہے.فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الملل اب موت مسیح کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ مسیح موعود کا اسی امت میں سے آنا کن نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ اور دیگر قرائن سے ثابت ہے سو وہ دلائل ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں.غور سے سُنو شائد خدائے رحیم ہدایت کرے.منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں جو آنے والا مسیح جس کا اس اُمت کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ اس امت میں سے ایک شخص ہو گا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں اِمَامُكُمُ مِنْكُمْ اور اَمَّكُم مِنكُمْ لکھا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا اور تم ہی میں سے ہو گا چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسی کی نسبت ہے اور اس کی تعریف میں اس حدیث میں حکم اور عدل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لئے امام کا لفظ بھی اس کے حق میں ہے اور اس میں شک نہیں کہ اس جگہ مِنكُمُ کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے اور وہی مخاطب تھے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے منکم کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں قائم مقام صحابہ ہے اور وہ وہی ہے جس کو اس آیت مفصلہ ذیل میں قائم مقام صحابہ کیا گیا ہے یعنی یہ کہ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یے کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ رسول کی روحانیت سے تربیت یافتہ ہے.اور اسی معنے کے رو سے صحابہ میں داخل ہے اور اس آیت کی تشریح میں یہ حدیث ہے.لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مَعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے جو مسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی ا یونس : ۳۳ الجمعة : ۴

Page 121

زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پُر کرنا لہذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں اور جس طرح کسی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پر نہیں ہوا ایسا ہی تیرہ سو برس کے عرصہ میں کسی نے خدا تعالیٰ کے الہام سے علم پا کر یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس پیشگوئی لَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ کا مصداق میں ہوں.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۱۱۵،۱۱۴) اور منجملہ ان دلائل کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہو گا قرآن شریف کی یہ آیت ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس یا اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم بہترین امت ہو جو اس لئے نکالی گئی ہو کہ تا تم تمام دجالوں اور دجال معہود کا فتنہ فروکر کے اور اُن کے شر کو دفع کر کے مخلوق خدا کو فائدہ پہونچاؤ یادر ہے کہ ہر ایک اُمت سے ایک خدمت دینی لی جاتی ہے اور ایک قسم کے دشمن کے ساتھ اس کا مقابلہ پڑتا ہے سو مقدر تھا کہ اس امت کا دجال کے ساتھ مقابلہ پڑے گا جیسا کہ حدیث نافع بن عقبہ سے مسلم میں صاف لکھا ہے کہ تم دجال کے ساتھ لڑو گے اور فتح پاؤ گے.اگر چہ صحابہ دجال کے ساتھ نہیں لڑے مگر حسب منطوق آخَرِيْنَ مِنْهُمْ مسیح موعود اور اس کے گروہ کو صحا بہ قرار دیا.اب دیکھو اس حدیث میں بھی لڑنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو جو امت ہیں قرار دیا اور یہ نہ کہا کہ مسیح بنی اسرائیلی لڑے گا اور نزول کا لفظ محض اجلال اور اکرام کے لئے ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چونکہ اُس پر فساد زمانہ میں ایمان ثریا پر چلا جائے گا اور تمام پیری مریدی اور شاگردی استادی اور افادہ استفادہ معرض زوال میں آجائے گا اس لئے آسمان کا خدا ایک شخص کو اپنے ہاتھ سے تربیت دے کر بغیر توسط زمینی سلسلوں کے زمین پر بھیجے گا جیسے کہ بارش آسمان سے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے نازل ہوتی ہے.اور منجملہ دلائل قویہ قطعیہ کے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں جو مسیح موعود اسی امت محمدیہ میں سے ہو گا قرآن شریف کی یہ آیت ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ الخ یعنی خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جو ایمان دار ہیں اور نیک کام کرتے ہیں وعدہ فرمایا ہے جو ان کو زمین پر انہی خلیفوں کی مانند جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں خلیفے مقرر فرمائے گا.اس آیت میں پہلے خلیفوں سے مراد ال عمران: ااا النور : ۵۶

Page 122

۱۱۲ حضرت موسیٰ کی امت میں سے خلیفے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی شریعت کو قائم کرنے کے لئے پے در پے بھیجا تھا اور خاص کر کسی صدی کو ایسے خلیفوں سے جو دین موسوی کے مجد د تھے خالی نہیں جانے دیا تھا.اور قرآن شریف نے ایسے خلیفوں کا شمار کر کے ظاہر فرمایا ہے کہ وہ باراں ہیں اور تیرھواں حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو موسوی شریعت کا مسیح موعود ہے اور اس مماثلت کے لحاظ سے جو آیت ممدوحہ میں كَمَا کے لفظ سے مستنبط ہوتی ہے ضروری تھا کہ محمدی خلیفوں کو موسوی خلیفوں سے مشابہت اور مماثلت ہو سو اسی مشابہت کے ثابت اور محقق کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بارہ موسوی خلیفوں کا ذکر فرمایا جن میں سے ہر ایک حضرت موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور تیرھواں حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر فرمایا جو موسیٰ کی قوم کا خاتم الانبیاء تھا مگر در حقیقت موسی" کی قوم میں سے نہیں تھا اور پھر خدا نے محمدی سلسلہ کے خلیفوں کو موسوی سلسلہ کے خلیفوں سے مشابہت دے کر صاف طور پر سمجھا دیا کہ اس سلسلہ کے آخر میں بھی ایک مسیح ہے اور درمیان میں باراں خلیفے ہیں تا موسوی سلسلہ کے مقابل پر اس جگہ بھی چوداں کا عدد پورا ہو.ایسا ہی سلسلہ محمدی خلافت کے مسیح موعود کو چودھویں صدی کے سر پر پیدا کیا کیونکہ موسوی سلسلہ کا مسیح موعود بھی ظاہر نہیں ہوا تھا جب تک کہ سن موسوی کے حساب سے چودھویں صدی نے ظہور نہیں کیا تھا.ایسا کیا گیا تا دونوں مسیحوں کا مبدء سلسلہ سے فاصلہ باہم مشابہ ہو..اگر در حقیقت وہی عیسی علیہ السلام ہے جو دوبارہ آنے والا ہے تو اس سے قرآن شریف کی تکذیب لازم آتی ہے.کیونکہ قرآن جیسا کہ گما کے لفظ سے مستنبط ہوتا ہے دونوں سلسلوں کے تمام خلیفوں کو من وجہ مغائر قرار دیتا ہے اور یہ ایک نَصِ قطعی ہے کہ اگر ایک دنیا اس کے مخالف اکٹھی ہو جائے تب بھی وہ اس نَص واضح کو رد نہیں کر سکتے کیونکہ جب پہلے سلسلہ کا عین ہی نازل ہو گیا تو وہ مغائرت فوت ہوگئی اور لفظ گما کا مفہوم باطل ہو گیا.پس اس صورت میں تکذیب قرآن شریف لازم ہوئی.وَهــذا بَاطِلٌ وَكُلُّ مَا يَسْتَلْزِمُ الْبَاطِلَ فَهُوَ بَاطِلٌ.یادر ہے کہ قرآن شریف نے آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ میں وہی كَمَا استعمال کیا ہے جو آیت كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا میں ہے.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۱۲۰ تا ۱۲۷) ایسا ہی قرآن شریف کی رو سے سلسلہ محمد یہ سلسلہ موسویہ سے ہر یک نیکی اور بدی میں مشابہت رکھتا ہے.اسی کی طرف ان آیتوں میں اشارہ ہے کہ ایک جگہ یہود کے حق میں لکھا ہے فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ کے دوسری جگہ مسلمانوں کے حق میں لکھا ہے.لِتَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ان الاعراف : ١٣٠ یونس : ۱۵

Page 123

۱۱۳ دونوں آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ خدا تمہیں خلافت اور حکومت عطا کر کے پھر دیکھے گا کہ تم راستبازی پر قائم رہتے ہو یا نہیں.ان آیتوں میں جو الفاظ یہود کے لئے استعمال کئے ہیں وہی مسلمانوں کے لئے یعنی ایک ہی آیت کے نیچے ان دونوں کو رکھا ہے.پس ان آیتوں سے بڑھ کر اس بات کے لئے اور کون سا ثبوت ہوسکتا ہے کہ خدا نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دے دیا ہے اور صاف اشارہ کر دیا ہے کہ جن بدیوں کے یہود مرتکب ہوئے تھے یعنی علماء ان کے.اس امت کے علماء بھی انہی بدیوں کے مرتکب ہوں گے اور اسی مفہوم کی طرف آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم لے میں بھی اشارہ ہے کیونکہ اس آیت میں باتفاق کل مفسرین مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ یہود ہیں جن پر حضرت عیسی علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے غضب نازل ہوا تھا.اور احادیث صحیحہ میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ یہود ہیں جو مور د غضب الہی دنیا میں ہی ہوئے تھے اور قرآن شریف یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہود کو مَغْضُوبِ عَلَيْهِم ٹھیرانے کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان پر لعنت جاری ہوئی تھی.پس یقینی اور قطعی طور پر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ سے مراد وہ یہود ہیں جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی پر ہلاک کرنا چاہا تھا.اب خدا تعالیٰ کا یہ دُعا سکھلانا کہ خدایا ایسا کر کہ ہم وہی یہودی نہ بن جائیں جنہوں نے عیسی کو قتل کرنا چاہا تھا صاف بتلا رہا ہے کہ امت محمدیہ میں بھی ایک عیسی پیدا ہونے والا ہے ور نہ اس دُعا کی کیا ضرورت تھی؟ اور نیز جبکہ آیات مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں بعض علماء مسلمان بالکل علماء یہود سے مشابہ ہو جائیں گے اور یہود بن جائیں گے پھر یہ کہنا کہ ان یہودیوں کی اصلاح کے لئے اسرائیلی عیسی آسمان سے نازل ہوگا بالکل غیر معقول بات ہے.کیونکہ اول تو باہر سے ایک نبی کے آنے سے مُہر ختم نبوت ٹوٹتی ہے اور قرآن شریف صریح طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھیراتا ہے.ماسوا اس کے قرآن شریف کے رُو سے یہ امت خیر الام کہلاتی ہے.پس اس کی اس سے زیادہ بے عزتی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ یہودی بننے کے لئے تو یہ امت ہو مگر عیسی باہر سے آوے.اگر یہ سچ ہے کہ کسی زمانہ میں اکثر علماء اس امت کے یہودی بن جائیں گے یعنی یہود خصلت ہو جائیں گے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ ان یہود کے درست کرنے کے لئے عیسی باہر سے نہیں آئے گا بلکہ جیسا کہ بعض افراد کا نام یہود رکھا گیا ہے ایسا ہی اس کے مقابل پر ایک فرد کا نام عیسی بھی رکھا جائے گا.اس بات کا انکار نہیں ہوسکتا کہ قرآن اور حدیث دونوں نے بعض افراد اس امت کا نام یہود رکھا ہے جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ سے بھی ظاہر ہے کیونکہ اگر بعض افراد اس امت کے یہودی بننے الفاتحة :

Page 124

۱۱۴ والے نہ ہوتے تو دعا مذکورہ بالا ہر گز نہ سکھلائی جاتی.جب سے دنیا میں خدا کی کتابیں آئی ہیں خدا تعالیٰ کا اُن میں یہی محاورہ ہے کہ جب کسی قوم کو ایک بات سے منع کرتا ہے کہ مثلاتم زنا نہ کرو یا چوری نہ کرو یا یہودی نہ بنو تو اس منع کے اندر یہ پیشگوئی مخفی ہوتی ہے کہ بعض اُن میں سے ارتکاب ان جرائم کا کریں گے.دنیا میں کوئی شخص ایسی نظیر پیش نہیں کر سکتا کہ ایک جماعت یا ایک قوم کو خدا تعالیٰ نے کسی ناکردنی کام سے منع کیا ہو اور پھر وہ سب کے سب اس کام سے باز رہے ہوں.بلکہ ضرور بعض اس کام کے مرتکب ہو جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے توریت میں یہودیوں کو یہ حکم دیا کہ تم نے توریت کی تحریف نہ کرنا.سو اس حکم کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض یہود نے توریت کی تحریف کی.مگر قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو کہیں حکم نہیں دیا کہ تم نے قرآن شریف کی تحریف نہ کرنا بلکہ یہ فرمایا کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ یعنی ہم نے ہی قرآن شریف کو اتارا اور ہم ہی اس کی محافظت کریں گے.اسی وجہ سے قرآن شریف تحریف سے محفوظ رہا.غرض یہ قطعی اور یقینی اور مسلم سنت الہی ہے کہ جب خدائے تعالیٰ کسی کتاب میں کسی قوم یا جماعت کو ایک بُرے کام سے منع کرتا ہے یا نیک کام کے لئے حکم فرماتا ہے تو اوس کے علم قدیم میں یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ اس کے حکم کی مخالفت بھی کریں گے.پس خدا تعالیٰ کا سورہ فاتحہ میں یہ فرمانا کہ تم دُعا کیا کرو کہ تم وہ یہودی نہ بن جاؤ جنہوں نے عیسی علیہ السلام کو سولی دینا چاہا تھا جس سے دنیا میں ہی ان پر غضب الہی کی مار پڑی.اس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ مقدر تھا کہ بعض افراد اس امت کے جو علماء امت کہلائیں گے اپنی شرارتوں اور تکذیب مسیح وقت کی وجہ سے یہودیوں کا جامہ پہن لیں گے ورنہ ایک لغو دعا کے سکھلانے کی کچھ ضرورت نہ تھی.یہ تو ظاہر ہے کہ علماء اس امت کے اس طرح کے یہودی نہیں بن سکتے کہ وہ اسرائیل کے خاندان میں سے بن جائیں اور پھر اُس عیسی بن مریم کو جو مدت سے اس دنیا سے گذر چکا ہے سولی دینا چاہیں کیونکہ اب اس زمانہ میں نہ وہ یہودی اس زمین پر موجود ہیں نہ وہ عیسی موجود ہے.پس ظاہر ہے کہ اس آیت میں ایک آئندہ واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور یہ بتلا نا منظور ہے کہ اس امت میں عیسی مسیح کے رنگ میں آخری زمانہ میں ایک شخص مبعوث ہوگا اور اس کے وقت کے بعض علماء اسلام ان یہودی علماء کی طرح اُوس کو دُکھ دیں گے جو عیسی علیہ السلام کو دُکھ دیتے تھے اور ان کی شان میں بدگوئی کریں گے بلکہ احادیث صحیحہ سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہودی بننے کے یہ معنی ہیں کہ یہودیوں کے الحجر : ١٠

Page 125

۱۱۵ بد اخلاق اور بد عادات علمائے اسلام میں پیدا ہو جائیں گی اور گو بظاہر مسلمان کہلائیں گے مگر اُن کے دل مسخ ہو کر ان یہودیوں کے رنگ سے رنگین ہو جائیں گے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو دُکھ دے کر مور دغضب الہی ہوئے تھے.پس جبکہ یہودی یہی لوگ بنیں گے جو مسلمان کہلاتے ہیں تو کیا یہ اس امت مرحومہ کی بے عزتی نہیں کہ یہودی بننے کے لئے تو یہ مقرر کئے جائیں مگر مسیح جو ان یہودیوں کو درست کرے گا وہ باہر سے آوے...جو شخص قرآن شریف کو ایک تقوی اور ایمان اور انصاف اور تدبیر کی نظر سے دیکھے گا اُس پر روز روشن کی طرح کھل جائے گا کہ خداوند قادر کریم نے اس امت محمدیہ کو موسوی امت کے بالکل بالمقابل پر پیدا کیا ہے.ان کی اچھی باتوں کے بالمقابل پر اچھی باتیں دی ہیں اور ان کی بُری باتوں کے مقابل پر بُری باتیں.اس امت میں بعض ایسے ہیں جو انبیاء بنی اسرائیل سے مشابہت رکھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو مغضوب علیہم یہود سے مشابہت رکھتے ہیں.اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گھر ہے جس میں عمدہ عمدہ آراستہ کمرے موجود ہیں جو عالیشان اور مہذب لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہیں اور جس کے بعض حصے میں پائخانے بھی ہیں اور بدر رو بھی اور گھر کے مالک نے چاہا کہ اس محل کے مقابل پر ایک اور محل بناوے کہ تا جو جو سامان اس پہلے محل میں تھا اس میں بھی موجود ہو.سو یہ دوسر احل اسلام کا محل ہے اور پہلا محل موسوی سلسلہ کا محل تھا.یہ دوسرا محل پہلے محل کا کسی بات میں محتاج نہیں.قرآن شریف توریت کا محتاج نہیں اور یہ امت کسی اسرائیلی نبی کی محتاج نہیں.ہر ایک کامل جو اس اُمت کے لئے آتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے پرورش یافتہ ہے اور اس کی وحی محمدی وحی کی ظل ہے.یہی ایک نکتہ ہے جو سمجھنے کے لائق ہے.افسوس ہمارے مخالف حضرت عیسی کو دوبارہ لاتے ہیں، نہیں سمجھتے کہ مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کو فخر مشابہت حاصل ہو.نہ یہ ذلت کہ کوئی اسرائیلی نبی آوے تا اُمت اصلاح پاوے.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۳ تا ۱۷) تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ آیا یہ امر ثابت ہے یا نہیں کہ آنے والا مسیح موعود اسی زمانہ میں آنا چاہئے جس میں ہم ہیں.سو دلائلِ مفصلہ ذیل سے صاف طور پر کھل گیا ہے کہ ضرور ہے کہ وہ اسی زمانہ میں آوے.(۱) اول دلیل یہ ہے کہ صحیح بخاری میں جو اَصَحُ الكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللهِ کہلاتی ہے لکھا ہے کہ مسیح موعود کسر صلیب کے لئے آئے گا اور ایسے وقت میں آئے گا کہ جب ملک میں ہر ایک پہلو سے بے اعتدالیاں قول اور فعل میں پھیلی ہوئی ہوں گی.سو اب اس نتیجہ تک پہنچنے کے لئے غور سے دیکھنے

Page 126

117 کی بھی حاجت نہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ عیسائیت کا اثر لاکھوں انسانوں کے دلوں پر پڑ گیا ہے اور ملک اباحت کی تعلیموں سے متاثر ہوتا جاتا ہے.صدہا آدمی ہر ایک خاندان میں سے نہ صرف دین اسلام سے ہی مرتد ہو گئے ہیں بلکہ جناب سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن بھی ہو گئے ہیں اور اب تک صد ہا کتا بیں دین اسلام کے رد میں تالیف بھی ہو چکی ہیں.اور اکثر وہ کتا بیں تو ہین اور گالیوں سے پر ہیں اور اس مصیبت کے وقت جب ہم گذشتہ زمانہ کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک قطعی فیصلہ کے طور پر یہ رائے ظاہر کرنی پڑتی ہے کہ تیرہ سو برس کی بارہ صدیوں میں سے کوئی بھی ایسی صدی اسلام کے مضر نہیں گزری کہ جیسے تیرھویں صدی گزری ہے اور یا جواب گذر رہی ہے.لہذا عقلِ سلیم اس بات کی ضرورت کو مانتی ہے کہ ایسے پُر خطر زمانہ کے لئے جس میں عام طور پر زمین میں بہت جوش مخالفت کا پھوٹ پڑا ہے اور مسلمانوں کی اندرونی زندگی بھی نا گفتہ بہ حالت تک پہونچ گئی ہے.کوئی مصلح صلیبی فتنوں کا فروکر نے والا اور اندرونی حالت کو پاک کرنے والا پیدا ہو.اور تیرھویں صدی کے پورے سو برس کے تجربہ نے ثابت کر دیا ہے کہ ان زہریلی ہواؤں کی اصلاح جو بڑے زور شور سے چل رہی ہیں اور عام وباء کی طرح ہر ایک شہر اور گانو سے کچھ کچھ اپنے قبض میں لا رہی ہیں.ہر ایک معمولی طاقت کا کام نہیں کیونکہ یہ مخالفانہ تاثیرات اور ذخیرہ اعتراضات خود ایک معمولی طاقت نہیں بلکہ زمین نے اپنے وقت پر ایک جوش مارا ہے اور اپنے تمام زہروں کو بڑی قوت کے ساتھ اگلا ہے اس لئے اس زہر کی مدافعت کے لئے آسمانی طاقت کی ضرورت ہے کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے سو اس دلیل سے روشن ہو گیا کہ یہی زمانہ مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ ہے.(۲) دوسری دلیل وہ بعض احادیث اور کشوف اولیاء کرام و علمائے عظام ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی معہود چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا.چنانچہ حدیث الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِاتَيْنِ کی تشریح بہت سے متقدمین اور متاخرین نے یہی کی ہے جو ماتین کے لفظ سے وہ ماتین مراد ہیں جو الف کے بعد ہیں یعنی ہزار کے بعد.اس طرح پر معنے اس حدیث کے یہ ہوئے کہ مہدی اور مسیح کی پیدائش جو آیات کبری میں سے ہے تیرھویں صدی میں ہوگی.اور چودھویں صدی میں اس کا ظہور ہو گا.یہی معنے محققین علماء نے کئے ہیں اور انہی قرائن سے انہوں نے حکم کیا ہے کہ مہدی معہود کا تیرھویں صدی میں پیدا ہو جانا ضروری ہے تا چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہو سکے.چنانچہ اسی بناء پر اور نیز کئی اور قرائن کے رو سے بھی مولوی نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم اپنی کتاب حجج الکرامہ میں لکھتے ہیں

Page 127

112 کہ میں بلحاظ قرائن قوتیہ گمان کرتا ہوں کہ چودھویں صدی کے سر پر مہدی معہود کا ظہور ہوگا.دارقطنی کی ایک حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مہدی معہود چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا.وہ حدیث یہ ہے کہ اِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْن الخ ترجمہ تمام حدیث کا یہ ہے کہ ہمارے مہدی کے لئے دونشان ہیں.جب سے زمین و آسمان کی بنیاد ڈالی گئی وہ نشان کسی مامور اور مرسل اور نبی کے لئے ظہور میں نہیں آئے.اور وہ نشان یہ ہیں کہ چاند کا اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج کا اپنے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں رمضان کے مہینہ میں گرہن ہوگا.یعنی انہی دنوں میں جبکہ مہدی اپنا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور دنیا اس کو قبول نہیں کرے گی.آسمان پر اُس کی تصدیق کے لئے ایک نشان ظاہر ہو گا اور وہ یہ کہ مقررہ تاریخوں میں جیسا کہ حدیث مذکورہ میں درج ہیں سورج چاند کا رمضان کے مہینہ میں جو نزول کلام الہی کا مہینہ ہے گرہن ہو گا.اور ظلمت کے دکھلانے سے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اشارہ ہو گا کہ زمین پر ظلم کیا گیا اور جو خدا کی طرف سے تھا اس کو مفتری سمجھا گیا.اب اس حدیث سے صاف طور پر چودھویں صدی متعین ہوتی ہے کیونکہ کسوف خسوف جو مہدی کا زمانہ جتلاتا ہے اور مکذبین کے سامنے نشان پیش کرتا ہے وہ چودھویں صدی میں ہی ہوا ہے.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۱۲۸ تا ۱۳۳) چوتھا امر اس بات کا ثابت کرنا ہے کہ وہ مسیح موعود جس کا آنا چودھویں صدی کے سر پر مقدر تھا وہ میں ہی ہوں.سواس امر کا ثبوت یہ ہے کہ میرے ہی دعوے کے وقت میں آسمان پر خسوف کسوف ہوا ہے اور میرے ہی دعویٰ کے وقت میں صلیبی فتنے پیدا ہوئے اور میرے ہی ہاتھ پر خدا نے اس بات کا ثبوت دیا کہ مسیح موعود اس امت میں سے ہونا چاہئے اور مجھے خدا نے اپنی طرف سے قوت دی ہے کہ میرے مقابل پر مباحثہ کے وقت کوئی پادری نہیں ٹھہر سکتا اور میرا رعب عیسائی علماء پر خدا نے ایسا ڈال دیا ہے کہ ان کو طاقت نہیں رہی کہ میرے مقابلہ پر آ سکیں.چونکہ خدا نے مجھے رُوح القدس سے تائید بخشی ہے اور اپنا فرشتہ میرے ساتھ کیا ہے اس لئے کوئی پادری میرے مقابل پر آ ہی نہیں سکتا.یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ نہیں ہوا کوئی پیشگوئی ظہور میں نہیں آئی اور اب بلائے جاتے ہیں پر نہیں آتے.اس کا یہی سبب ہے کہ ان کے دلوں میں خدا نے ڈال دیا ہے کہ اس شخص کے مقابل پر ہمیں بجز شکست کے اور کچھ نہیں.دیکھوا ایسے وقت میں جب حضرت مسیح کے خدا بنانے پر سخت غلو کیا جاتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روح القدس کی تائید سے خالی خیال کرتے

Page 128

۱۱۸ تھے اور معجزات اور پیشگوئیوں سے انکار تھا ایسے وقت میں پادریوں کے مقابل پر کون کھڑا ہوا؟ کس کی تائید میں خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے معجزے دکھلائے؟ کتاب تریاق القلوب کو پڑھو اور پھر انصاف سے کہو کہ اگر چہ صد ہا با تیں قصوں کے رنگ میں بیان کی جاتی ہیں مگر یہ نشان اور پیشگوئیاں جو رؤیت کی شہادت سے ثابت ہیں جن کے بچشم خود دیکھنے والے اب تک لاکھوں انسان دنیا میں موجود ہیں یہ کس سے ظہور میں آئے.کون ہے جو ہر ایک نئی صبح کو مخالفین کو ملزم کر رہا ہے کہ آؤ! اگر تم میں روح القدس سے کچھ قوت ہے تو میرا مقابلہ کرو؟ عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں میں کون ہے جو اس وقت میرے سامنے کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا؟ سو یہ خدا کی حجت ہے جو پوری ہوئی.سچائی سے انکار کرنا طریق دیانت اور ایمان نہیں ہے.بلاشبہ ہر ایک قوم پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی ہے.آسمان کے نیچے اب کوئی نہیں کہ جوڑوح القدس کی تائید میں میرا مقابلہ کر سکے.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۱۴۸ تا ۱۵۰) منجملہ ان دلائل کے جو میرے مسیح موعود ہونے پر دلالت کرتے ہیں وہ ذاتی نشانیاں ہیں جو مسیح موعود کی نسبت بیان فرمائی گئی ہیں اور اُن میں سے ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ مسیح موعود کے لئے ضروری ہے کہ وہ آخری زمانہ میں پیدا ہو جیسا کہ یہ حدیث ہے يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ عِنْدَ تَظَاهُرٍ مِّنَ الْفِتَنِ وَ انْقِطَاعِ مِّنَ الزَّمَنِ اور اس بات کے ثبوت کے لئے کہ در حقیقت یہ آخری زمانہ ہے جس میں مسیح ظاہر ہو جانا چاہئے دوطور کے دلائل موجود ہیں.(۱) اول وہ آیات قرآنیہ اور آثار نبو یہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اور پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ خسوف کسوف کا ایک ہی مہینہ میں یعنی رمضان میں ہونا جس کی تصریح آیت وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُے میں کی گئی ہے اور اونٹوں کی سواری کا موقوف ہو جانا جس کی تشریح آیت وَإِذَا الْعِشَارُ عَلَتْ سے ظاہر ہے اور ملک میں نہروں کا بکثرت نکلنا جیسا کہ آیت وَإِذَا الْبِحَارُ فَجَرَتْ " سے ظاہر ہے اور ستاروں کا متواتر ٹوٹنا جیسا کہ آیت وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَت کے سے ظاہر ہے اور قحط پڑنا اور وباء پڑنا اور امساک باراں ہونا جیسا کہ آیت وَإِذَا السَّمَاءِ انْفَطَرَتْ سے منکشف ہے اور سخت قسم کا کسوف شمس واقع ہونا جس سے تاریکی پھیل جائے جیسا کہ آیت اِذَا الشَّمْسُ كُوّرَتْ سے ظاہر ہے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے اٹھا دینا وہ آخری زمانہ میں جبکہ دنیا کی انتہا ہونے والی ہوگی اور فتنے برپا ہور ہے ہوں گے ظاہر ہوگا.القيامة : ١٠ ل التكوير : ۵ ۳ الانفطار ۴ ۴ الانفطار ۳ ۵ الانفطار : ٢ ٦ التكوير : ٢

Page 129

۱۱۹ جیسا کہ آیت وَإِذَا الْجِبَالُ سُیّرَتْ سے سمجھا جاتا ہے.اور جولوگ وحشی اور اراذل اور اسلامی شرافت سے بے بہرہ ہیں اُن کا اقبال چمک اٹھنا جیسا کہ آیت وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ " مترشح ہو رہا ہے.اور تمام دنیا میں تعلقات اور ملاقاتوں کا سلسلہ گرم ہو جانا اور سفر کے ذریعہ سے ایک کا دوسرے کو ملنا سہل ہو جانا جیسا کہ بدیہی طور پر آیت وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ سے سے سمجھا جاتا ہے اور کتابوں اور رسالوں اور خطوط کا ملکوں میں شائع ہو جانا جیسا کہ آیت وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ " سے ظاہر ہو رہا ہے اور علماء کی باطنی حالت کا جو نجوم اسلام میں مکدر ہو جانا جیسا کہ وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ سے صاف معلوم ہوتا ہے اور بدعتوں اور ضلالتوں اور ہر قسم کے فسق و فجور کا پھیل جانا " جیسا کہ آیت إِذَا السَّمَاءِ انْشَقَّتْ سے مفہوم ہوتا ہے.یہ تمام علامتیں قرب قیامت کی ظاہر ہو چکی ہیں اور دنیا پر ایک انقلاب عظیم آ گیا ہے...پھر ما سوا اس کے سورہ مرسلات میں ایک آیت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرب قیامت کی ایک بھاری علامت یہ ہے کہ ایسا شخص پیدا ہو جس سے رسولوں کی حد بست ہو جائے یعنی سلسلہ است خلاف محمدیہ کا آخری خلیفہ جس کا نام مسیح موعود اور مہدی معہود ہے ظاہر ہو جائے اور وہ آیت یہ ہے وَ اِذَا الرُّسُلُ اقْتَتُ یعنی وہ آخری زمانہ جس سے رسولوں کے عدد کی تعیین ہو جائے گی یعنی آخری خلیفہ کے ظہور سے قضا و قدر کا اندازہ جو مرسلین کی تعداد کی نسبت مخفی تھا ظہور میں آ جائے گا.یہ آیت بھی اس بات پر نص صریح ہے کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۲۴۱ تا ۲۴۴) سولہ خصوصیتیں ہیں جو موسوی سلسلہ میں حضرت عیسی علیہ السلام میں رکھی گئی تھیں.پھر جبکہ خدا تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو ہلاک کر کے محمدی سلسلہ قائم کیا جیسا کہ نبیوں کے صحیفوں میں وعدہ دیا گیا تھا تو اس حکیم وعلیم نے چاہا کہ اس سلسلہ کے اول اور آخر دونوں میں مشابہت نامہ پیدا کرے تو پہلے اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر مثیل موسیٰ قرار دیا جیسا کہ آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا سے ظاہر ہے مگر ضروری تھا کہ سلسلہ محمدی کے آخری خلیفہ میں بھی سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ سے مشابہت ہوتا خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ سلسلہ محمدیہ با اعتبار امام سلسلہ اور خلفاء سلسلہ کے سلسلہ موسویہ سے مشابہ ہے التكوير : ٤ - التكوير ٢ ٣ التكوير : ٨ التكوير التكوير : 1 الانشقاق :٢ ١٦ المرسلات ۱۲ A المزمل : ۱۶ :

Page 130

۱۲۰ ٹھیک ہو اور ہمیشہ مشابہت اول اور آخر میں دیکھی جاتی ہے اور درمیانی زمانہ جو ایک طویل مدت ہوتی ہے گنجائش نہیں رکھتا کہ پوری پوری نظر سے اس کو جانچا جائے.مگر اوّل اور آخر کی مشابہت سے یہ قیاس پیدا ہو جاتا ہے کہ درمیان میں بھی ضرور مشابہت ہو گی گو نظر عقلی اس کی پوری پڑتال سے قاصر رہے اور ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام میں مذہبی پہلو کے رو سے سولہ خصوصیتیں تھیں جن کا اسلام کے آخری خلیفہ میں پایا جانا ضروری ہے تا اس میں اور حضرت عیسی میں مشابہت تامہ ثابت ہو.پس اوّل موعود ہونے کی خصوصیت ہے.اسلام میں اگر چہ ہزار ہاولی اور اہل اللہ گذرے ہیں مگر اُن میں کوئی موعود نہ تھا لیکن وہ جو مسیح کے نام پر آنے والا تھا وہ موعود تھا.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے پہلے کوئی نبی موعود نہ تھا صرف مسیح موعود تھا.دوم خصوصیت سلطنت کے برباد ہو چکنے کی ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسی بن مریم سے کچھ دن پہلے اس ملک سے اسرائیلی سلطنت جاتی رہی تھی.ایسا ہی آخری مسیح کی پیدائش سے پہلے اسلامی سلطنت بباعث طرح طرح کی بد چلنیوں کے ملک ہندوستان سے اُٹھ گئی تھی اور انگریزی سلطنت اس کی جگہ قائم ہو گئی تھی.سوم خصوصیت جو پہلے میچ میں پائی گئی وہ یہ ہے کہ اُس کے وقت میں یہو دلوگ بہت سے فرقوں پر منقسم ہو گئے تھے اور بالطبع ایک حکم کے محتاج تھے تا ان میں فیصلہ کرے.ایسا ہی آخری مسیح کے وقت میں مسلمانوں میں کثرت سے فرقے پھیل گئے تھے.چهارم خصوصیت جو پہلے مسیح میں تھی وہ یہ ہے کہ وہ جہاد کے لئے مامور نہ تھا.ایسا ہی آخری مسیح جہاد کے لئے مامور نہیں ہے اور کیونکر مامور ہو زمانہ کی رفتار نے قوم کو متنبہ کر دیا ہے کہ تلوار سے کوئی دل تسلی نہیں پا سکتا اور اب مذہبی امور کے لئے کوئی مہذب تلوار نہیں اٹھاتا.پنجم خصوصیت جو پہلے مسیح میں تھی وہ یہ ہے کہ اُس کے زمانہ میں یہودیوں کا چال چلن بگڑ گیا تھا بالخصوص اکثر اُن کے جو علماء کہلاتے تھے وہ سخت مگار اور دنیا پرست اور دنیا کے لالچوں میں اور دنیوی عزتوں کی خواہش میں غرق ہو گئے تھے.ایسا ہی آخری مسیح کے وقت میں عام لوگوں اور اکثر علمائے اسلام کی حالت ہو رہی ہے مفصل لکھنے کی کچھ حاجت نہیں.چھٹی خصوصیت یعنی یہ کہ حضرت مسیح قیصر روم کے ماتحت مبعوث ہوئے تھے.سواس خصوصیت میں آخری مسیح کا بھی اشتراک ہے کیونکہ میں بھی قیصر کی عملداری کے تحت مبعوث ہوا ہوں.یہ قیصر اس قیصر سے

Page 131

۱۲۱ بہتر ہے جو مسیح کے وقت میں تھا.ساتویں خصوصیت یہ کہ مذہب عیسائی آخر قیصری قوم میں گھس گیا.سو اس خصوصیت میں بھی آخری مسیح کا اشتراک ہے.کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ یورپ اور امریکہ میں میرے دعوئی اور دلائل کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے اور ان لوگوں نے خود بخود صد ہا اخبار میں میرے دعوئی اور دلائل کو شائع کیا ہے اور میری تائید اور تصدیق میں ایسے الفاظ لکھتے ہیں کہ ایک عیسائی کے قلم سے ایسے الفاظ کا نکلنا مشکل ہے یہاں تک کہ بعض نے صاف لفظوں میں لکھ دیا ہے کہ یہ شخص سچا معلوم ہوتا ہے.آٹھویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ اس کے وقت میں ایک ستارہ نکلا تھا.اس خصوصیت میں بھی میں آخری مسیح بننے میں شریک کیا گیا ہوں کیونکہ وہی ستارہ جو مسیح کے وقت میں نکلا تھا وہ دوبارہ میرے وقت میں نکلا ہے.اس بات کی انگریزی اخباروں نے بھی تصدیق کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مسیح کے ظہور کا وقت نزدیک ہے.نویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ جب اس کو صلیب پر چڑھایا گیا تو سورج کو گرہن لگا تھا.سو اس واقعہ میں بھی خدا نے مجھے شریک کیا ہے کیونکہ جب میری تکذیب کی گئی تو اس کے بعد نہ صرف ا سورج بلکہ چاند کو بھی ایک ہی مہینہ میں جو رمضان کا مہینہ تھا گرہن لگا تھا اور نہ ایک دفعہ بلکہ حدیث کے مطابق دو دفعہ یہ واقعہ ہوا اور ان دونوں گرہنوں کی انجیلوں میں بھی خبر دی گئی ہے اور قرآن شریف میں بھی یہ خبر ہے اور حد یثوں میں بھی جیسا کہ دارقطنی میں.دسویں خصوصیت یہ ہے کہ یسوع مسیح کو دُکھ دینے کے بعد یہودیوں میں سخت طاعون پھیلی تھی سو میرے وقت میں بھی سخت طاعون پھیل گئی.گیارھویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ یہودیوں کے علماء نے کوشش کی کہ وہ باغی قرار پاوے اور اُس پر مقدمہ بنایا گیا اور زور لگایا گیا کہ اس کو سزائے موت دی جائے.سو اس قسم کے مقدمہ میں بھی قضاء وقد رالہی نے مجھے شریک کر دیا کہ ایک خون کا مقدمہ مجھ پر بنایا گیا.اور اسی کے ضمن میں مجھے باغی بنانے کی کوشش کی گئی.یہ وہی مقدمہ ہے جس میں فریق ثانی کی طرف سے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی گواہ بن کر آئے تھے.بارھویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ جب وہ صلیب پر چڑھایا گیا تو اس کے ساتھ ایک چور بھی صلیب پر لٹکایا گیا.سو اس واقعہ میں بھی میں شریک کیا گیا ہوں کیونکہ جس دن مجھ کو خون کے مقدمہ سے

Page 132

۱۲۲ خدا تعالیٰ نے رہائی بخشی اور اس پیشگوئی کے موافق جو میں خدا سے وحی یقینی پا کر صد ہا لوگوں میں شائع کر چکا تھا مجھ کو بری فرمایا.اُس دن میرے ساتھ ایک عیسائی چور بھی عدالت میں پیش کیا گیا تھا.یہ چور عیسائیوں کی مقدس جماعت مکتی فوج میں سے تھا جس نے کچھ روپیہ پچرالیا تھا.اس چور کو صرف تین مہینے کی سزا ملی.پہلے مسیح کے رفیق چور کی طرح سزائے موت اس کو نہیں ہوئی.تیرھویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ جب وہ پیلاطوس گورنر کے سامنے پیش کیا گیا اور سزائے موت کی درخواست کی گئی تو پیلاطوس نے کہا کہ میں اس کا کوئی گناہ نہیں پاتا جس سے یہ سزا دوں.ایسا ہی کپتان ڈگلس صاحب ضلع مجسٹریٹ نے میرے ایک سوال کے جواب میں مجھ کو کہا کہ میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتا.میرے خیال میں ہے کہ کپتان ڈگلس اپنی استقامت اور عادلانہ شجاعت میں پیلاطوس سے بہت بڑھ کر تھا.کیونکہ پیلا طوس نے آخر کار بُزدلی دکھائی اور یہودیوں کے شریر مولویوں سے ڈر گیا مگر ڈنگلس ہرگز نہ ڈرا...یہ نیک اخلاق اس ہمارے وقت کے پیلاطوس کے ہمیشہ ہمیں اور ہماری جماعت کو یا در ہیں گے اور دنیا کے اخیر تک اس کا نام عزت سے لیا جائے گا.چودھویں خصویت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ وہ باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں سے نہ تھا مگر بایں ہمہ موسوی سلسلہ کا آخری پیغمبر تھا جو موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوا.ایسا ہی میں بھی خاندان قریش میں سے نہیں ہوں اور چودھویں صدی میں مبعوث ہوا ہوں اور سب سے آخر ہوں.پندرھویں خصوصیت حضرت مسیح میں یہ تھی کہ اُن کے عہد میں دنیا کی وضع جدید ہوگئی تھی.سڑکیں ایجاد ہوگئی تھیں.ڈاک کا عمدہ انتظام ہو گیا تھا.فوجی انتظام میں بہت صلاحیت پیدا ہو گئی تھی اور مسافروں کے آرام کے لئے بہت کچھ باتیں ایجاد ہوگئی تھیں اور پہلے کی نسبت قانون معدلت نہایت صاف ہو گیا تھا.ایسا ہی میرے وقت میں دنیا کے آرام کے اسباب بہت ترقی کر گئے ہیں.یہاں تک کہ ریل کی سواری پیدا ہو گئی جس کی خبر قرآن شریف میں پائی جاتی ہے.باقی امور کو پڑھنے والا خود سمجھ لے.سولہویں خصوصیت حضرت مسیح میں یہ تھی کہ بن باپ ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے وہ مشابہ تھے.ایسا ہی میں بھی تو ام پیدا ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے مشابہ ہوں اور اس قول کے مطابق جو حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ خاتم الخلفاء حسینی الاصل ہو گا یعنی مغلوں میں سے اور وہ جوڑہ یعنی توام پیدا ہو گا.پہلے لڑکی نکلے گی بعد اس کے وہ پیدا ہو گا.ایک ہی وقت میں اسی طرح میری پیدائش ہوئی

Page 133

۱۲۳ کہ جمعہ کی صبح کو بطور تو ام میں پیدا ہوا.اوّل لڑکی اور بعدہ میں پیدا ہوا.نہ معلوم یہ پیشگوئی کہاں سے ابن عربی صاحب نے لی تھی جو پوری ہوگئی.اُن کی کتابوں میں اب تک یہ پیشگوئی موجود ہے.یہ سولہ مشابہتیں ہیں جو مجھ میں اور مسیح میں ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو مجھے میں اور مسیح ابن مریم میں اس قدر مشابہت ہر گز نہ ہوتی.یوں تو تکذیب کرنا قدیم سے ان لوگوں کا کام ہے جن کے حصہ میں سعادت نہیں مگر اس زمانہ کے مولویوں کی تکذیب عجیب ہے.میں وہ شخص ہوں جو عین وقت پر ظاہر ہوا جس کے لئے آسمان پر رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو قرآن اور حدیث اور انجیل اور دوسرے نبیوں کی خبروں کے مطابق گرہن لگا.اور میں وہ شخص ہوں جس کے زمانہ میں تمام نبیوں کی خبر اور قرآن شریف کی خبر کے موافق اس ملک میں خارق عادت طور پر طاعون پھیل گئی.اور میں وہ شخص ہوں جو حدیث صحیح کے مطابق اس کے زمانہ میں حج روکا گیا.اور میں وہ شخص ہوں جس کے عہد میں وہ ستارہ نکلا جو مسیح ابن مریم کے وقت میں نکلا تھا.اور میں وہ شخص ہوں جس کے زمانہ میں اس ملک میں ریل جاری ہو کر اونٹ بے کار کئے گئے اور عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ بہت نزدیک ہے جبکہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہو کر وہ تمام اونٹ بے کار ہو جائیں گے جو تیرہ سو برس سے یہ سفر مبارک کرتے تھے.تب اس وقت ان اونٹوں کی نسبت وہ حدیث جو صحیح مسلم میں موجود ہے صادق آئے گی.یعنی یہ کہ لَیتُرَ كَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا.یعنی مسیح کے وقت میں اونٹ بے کار کئے جائیں گے اور کوئی اُن پر سفر نہیں کرے گا.ایسا ہی میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صد ہانشان ظاہر ہوئے.کیا زمین پر کوئی ایسا انسان زندہ ہے کہ جو نشان نمائی میں میرا مقابلہ کر کے مجھ پر غالب آ سکے.مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اب تک دو لاکھ سے زیادہ میرے ہاتھ پر نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور شاید دس ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ لوگوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ نے میری تصدیق کی اور اس ملک میں جو بعض نامی اہل کشف تھے جن کا تین تین چار چار لاکھ مرید تھا اُن کو خواب میں دکھلایا گیا کہ یہ انسان خدا کی طرف سے ہے...اب با وجود ان تمام شہادتوں اور معجزات اور زبردست نشانوں کے مولوی لوگ میری تکذیب کرتے ہیں اور ضرور تھا کہ ایسا ہی کرتے تا پیشگوئی آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ لے کی پوری ہو جاتی.یاد رہے کہ اصل جڑ اس مخالفت کی ایک حماقت ہے اور وہ یہ کہ مولوی لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ان کے پاس الفاتحة : 2

Page 134

۱۲۴ رطب و یابس کا ذخیرہ ہے وہ سب علامتیں مسیح موعود میں ثابت ہونی چاہئیں اور ایسے مدعی مسیحیت یا مہدویت کو ہرگز نہیں مانا چاہئے کہ ان کی تمام حدیثوں میں سے گو ایک حدیث اس پر صادق نہ آوے.حالانکہ قدیم سے یہ امر غیر ممکن چلا آیا ہے.یہود نے جو جو علامتیں حضرت عیسی کے لئے اپنی کتابوں میں تراش رکھی تھیں وہ پوری نہ ہوئیں.پھر انہی بد بخت لوگوں نے ہمارے سید و مولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو جو علامتیں تراشی تھیں اور مشہور کر رکھی تھیں وہ بھی بہت ہی کم پوری ہوئیں.اُن کا خیال تھا کہ یہ آخری نبی بنی اسرائیل سے ہوگا مگر...آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو توریت میں لکھ دیتا کہ اس نبی کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا اور باپ کا نام عبداللہ اور دادا کا نام عبدالمطلب اور مکہ میں پیدا ہو گا اور مدینہ اس کی ہجرت گاہ ہوگی.مگر خدا تعالیٰ نے یہ نہ لکھا.کیونکہ ایسی پیشگوئیوں میں کچھ امتحان بھی منظور ہوتا ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ مسیح موعود کے لئے پہلے سے خبر دی گئی ہے کہ وہ اسلام کے مختلف فرقوں کے لئے بطور حکم کے آئے گا.اب ظاہر ہے کہ ہر ایک فرقہ کی جداجدا حدیثیں ہیں.پس یہ کیونکر ممکن ہو کہ سب کے خیالات کی وہ تصدیق کرے.اگر اہلحدیث کی تصدیق کرے تو حنفی ناراض ہوں گے.اگر حنفیوں کی تصدیق کرے تو شافعی بگڑ جائیں گے.اور شیعہ جُدا یہ اصول ٹھہرا ئیں گے کہ اُن کے عقیدہ کے موافق وہ ظاہر ہو.اس صورت میں وہ کیونکر سب کو خوش کر سکتا ہے.علاوہ اس کے خود حَكَمُ کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ ایسے وقت میں آئے گا کہ جب تمام فرقے کچھ نہ کچھ حق سے دُور جا پڑیں گے.اس صورت میں اپنی اپنی حدیثوں کے ساتھ اس کو آزمانا سخت غلطی ہے بلکہ قاعدہ یہ ہے کہ جو نشان اور قرار دادہ علامتیں اس کے وقت میں ظاہر ہو جائیں اُن سے فائدہ اٹھائیں اور باقی کو موضوع اور انسانی افتراء سمجھیں.یہی قاعدہ ان نیک بخت یہودیوں نے برتا جو مسلمان ہو گئے تھے.کیونکہ جو جو باتیں مقرر کردہ احادیث یہود وقوع میں آگئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آگئیں ان حدیثوں کو انہوں نے صحیح سمجھا اور جو پوری نہ ہوئیں اُن کو موضوع قرار دیا.اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر نہ حضرت عیسی کی نبوت یہودیوں کے نزدیک ثابت ہو سکتی نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت.جولوگ مسلمان ہوئے تھے انہیں یہود کی صد ہا جھوٹی حدیثوں کو چھوڑنا پڑا.جب انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف بعض علامات قرار داده پوری ہوگئیں اور ایک طرف تائیدات الہیہ کا خدا کے رسول میں ایک دریا جاری ہے تو انہوں نے اُن حدیثوں سے فائدہ اٹھایا جو پوری ہو گئیں.اگر ایسا نہ کرتے تو ایک شخص بھی اُن میں سے مسلمان نہ ہو سکتا.اب رہا میرا دعویٰ سو میرے دعوی کے ساتھ اس قدر دلائل ہیں کہ کوئی انسان را بے حیا نہ ہو تو اس کے لئے

Page 135

۱۲۵ اس سے چارہ نہیں ہے کہ میرے دعوی کو اسی طرح مان لے جیسا کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مانا ہے.کیا یہ دلائل میرے دعوی کے ثبوت کے لئے کم ہیں کہ میری نسبت قرآن نے اس قدر پورے پورے قرائن اور علامات کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ ایک طور سے میرا نام بتلا دیا ہے اور حدیثوں میں کدعہ کے لفظ سے میرے گاؤں کا نام موجود ہے اور حد یثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مسیح موعود کی تیرھویں صدی میں پیدائش ہو گی اور چودھویں صدی میں اس کا ظہور ہو گا اور صحیح بخاری میں میرا تمام حلیہ لکھا ہے اور پہلے مسیح کی نسبت جو میرے حلیہ میں فرق ہے وہ ظاہر کر دیا ہے اور ایک حدیث میں صریح یہ اشارہ ہے کہ وہ مسیح موعود ہند میں ہوگا کیونکہ دجال کا بڑا مرکز مشرق یعنی ہند قرار دیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود دمشق سے مشرق کی طرف ظاہر ہو گا.سوقا دیان دمشق سے مشرق کی طرف ہے اور پھر دعویٰ کے وقت میں اور لوگوں کی تکذیب کے دنوں میں آسمان پر رمضان کے مہینے میں کسوف خسوف ہونا.زمین پر طاعون کا پھیلنا.حدیث اور قرآن کے مطابق ریل کی سواری پیدا ہو جانا.اونٹ بے کار ہو جانے.حج روکا جانا.صلیب کے غلبہ کا وقت ہونا میرے ہاتھ پر صد ہانشانوں کا ظاہر ہونا.نبیوں کے مقرر کردہ وقت مسیح موعود کے لئے یہی وقت ہونا.صدی کے سر پر میرا مبعوث ہونا.ہزار ہا نیک لوگوں کا میری تصدیق کے لئے خوابیں دیکھنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ وہ مسیح موعود میری اُمت میں سے پیدا ہو گا اور خدا تعالیٰ کی تائیدات کا میرے شاملِ حال ہونا.اور ہزار ہا لوگوں کا دو لاکھ کے قریب میرے ہاتھ پر بیعت کر کے راستبازی اور پاک دلی اختیار کرنا اور میرے وقت میں عیسائی مذہب میں ایک عام تزلزل پڑنا یہاں تک کہ تثلیث کی طلسم کا برف کی طرح گداز ہونا شروع ہو جانا اور میرے وقت میں مسلمانوں کا بہت سے فرقوں پر منقسم ہو کر تنزل کی حالت میں ہونا اور طرح طرح کی بدعات اور شرک اور میخواری اور حرام کاری اور خیانت اور دروغ گوئی دنیا میں شائع ہوکر ایک عام تغییر دنیا میں پیدا ہو جانا اور ہر ایک پہلو سے انقلاب عظیم اس عالم میں پیدا ہو جانا اور ہر ایک دانشمند کی شہادت سے دنیا کا ایک مصلح کا محتاج ہونا.اور میرے مقابلہ سے خواہ وہ اعجازی کلام میں خواہ آسمانی نشانوں میں تمام لوگوں کا عاجز آ جانا اور میری تائید میں خدا تعالیٰ کی لاکھوں پیشگوئیاں پوری ہونا یہ تمام نشان اور علامات اور قرائن ایک خدا ترس کے لئے میرے قبول کرنے کے لئے کافی ہیں.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰ تا ۴۱) اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعوے میں غلطی پر ہے تو پھر آپ لوگ کچھ کوشش کریں کہ مسیح موعود

Page 136

۱۲۶ جو آپ کے خیال میں ہے انہی دنوں میں آسمان سے اُتر آوے کیونکہ میں تو اس وقت موجود ہوں مگر جس کے انتظار میں آپ لوگ ہیں وہ موجود نہیں اور میرے دعوے کا ٹوٹنا صرف اسی صورت میں متصور ہے کہ اب وہ آسمان سے اتر ہی آوے تا میں ملزم ٹھہر سکوں.آپ لوگ اگر سچ پر ہیں تو سب مل کر دُعا کریں کہ مسیح بن مریم جلد آسمان سے اترتے دکھائی دیں.اگر آپ حق پر ہیں تو یہ دُعا قبول ہو جائے گی کیونکہ اہل حق کی دُعا مبطلین کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی ہے لیکن آپ یقینا سمجھیں کہ یہ دعا ہرگز قبول نہیں ہوگی کیونکہ آپ غلطی پر ہیں.مسیح تو آپکا لیکن آپ نے اس کو شناخت نہیں کیا.اب یہ امید موہوم آپ کی ہرگز پوری نہیں ہو گی.یہ زمانہ گذر جائے گا اور کوئی ان میں سے مسیح کو اُترتے نہیں دیکھے گا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۷۹) یادر ہے کہ جو شخص اتر نے والا تھا وہ عین وقت پر اُتر آیا اور آج تمام نوشتے پورے ہو گئے.تمام نبیوں کی کتابیں اسی زمانہ کا حوالہ دیتی ہیں.اب ان تمام نشانوں کے بعد جو شخص مجھے رڈ کرتا...ہے وہ مجھے نہیں بلکہ تمام نبیوں کو رڈ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے جنگ کر رہا ہے اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے بہتر تھا.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۵،۲۴)

Page 137

۱۲۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي پنجاب اور ہندوستان کے مشائخ اور صلحاء اور اہل اللہ باصفا سے حضرت عزت اللہ جلشانہ کی قسم دے کر ایک درخواست اے بزرگانِ دین وعباد اللہ الصالحین ! میں اس وقت اللہ جل شانہ کی قسم دے کر ایک ایسی درخواست آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس پر توجہ کرنا آپ صاحبوں پر رفع فتنہ وفساد کے لئے فرض ہے کیونکہ آپ لوگ فراست اور بصیرت رکھتے ہیں.اور نہ صرف انکل سے بلکہ نور اللہ سے دیکھتے ہیں اور اگر چہ ایسے ضروری امر میں جس میں تمام مسلمانوں کی ہمدردی ہے اور اسلام کے ایک بڑے بھاری تفرقہ کو مٹانا ہے قسم کی کچھ بھی ضرورت نہیں تھی مگر چونکہ بعض صاحب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اپنے بعض مصالح کی وجہ سے خاموش رہنا پسند کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ سچی شہادت میں عام لوگوں کی ناراضگی متصور ہے اور جھوٹ بولنے میں معصیت ہے اور نہیں سمجھتے کہ اخفاء شہادت بھی ایک معصیت ہے ان لوگوں کو توجہ دلانے کے لئے قسم دینے کی ضرورت پڑی.اے بزرگان دین ! وہ امر جس کے لئے آپ صاحبوں کو اللہ جل شانہ کی قسم دے کر اس کے کرنے کے لئے آپ کو مجبور کرتا ہوں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے عین ضلالت اور فتنہ کے وقت میں اس عاجز کو چودھویں صدی کے سر پر اصلاح خلق اللہ کے لئے مجدد کر کے بھیجا.اور چونکہ اس صدی کا بھارا فتنہ جس نے اسلام کو نقصان پہنچایا تھا عیسائی پادریوں کا فتنہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس عاجز کا نام مسیح موعود اور اس عاجز کو چودھویں صدی کے سر پر بھیجا اور وہ آسمانی حربہ مجھے عطا کیا جس سے رکھا..میں صلیبی مذہب کو تو ڈسکوں مگر افسوس کہ اس ملک کے کو تہ اندیش علماء نے مجھے قبول نہیں کیا اور نہایت بیہودہ عذرات پیش کئے جن کو ہر ایک پہلو سے توڑا گیا...اور میرے بیان کے صدق پر اللہ جلّ شانہ نے کئی طرح کے نشان ظاہر فرمائے اور چاند سورج کو میری تصدیق کے لئے خسوف کسوف

Page 138

۱۲۸ کی حالت میں رمضان میں جمع کیا اور مخالفین سے کشتی کی طرح مقابلہ کر ا کے آخر ہر ایک میدان میں اعجازی طور پر مجھے فتح دی اور دوسرے بہت سے نشان دکھلائے جن کی تفصیل رسالہ سراج منیر اور دوسرے رسالوں میں درج ہے.لیکن باوجود نصوص قرآنیہ و حدیثیہ وشواہد عقلیہ و آیات سادیہ پھر بھی ظالم طبع مخالف اپنے ظلم سے باز نہ آئے اور طرح طرح کے افتراؤں سے مدد لے کر محض ظلم کے رو سے تکذیب کر رہے ہیں.لہذا اب مجھے اتمام حجت کے لئے ایک اور تجویز خیال میں آئی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے اور یہ تفرقہ جس نے ہزار ہا مسلمانوں میں سخت عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے.رو با صلاح ہو جائے.اور وہ یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے تمام مشائخ اور فقراء اور صلحاء اور مردانِ باصفا کی خدمت میں اللہ جلّ شانہ کی قسم دے کر التجا کی جائے کہ وہ میرے بارے میں اور میرے دعویٰ بارے میں دُعا اور تضرع اور استخارہ سے جناب الہی میں توجہ کریں.پھر اگر اُن کے الہامات اور کشوف اور رویا صادقہ سے جو حلفاً شائع کریں کثرت اس طرف نکلے کہ گویا یہ عاجز کذاب اور مفتری ہے تو بے شک تمام لوگ مجھے مردود اور مخذول اور ملعون اور مفتری اور کذاب خیال کر لیں اور جس قدر چاہیں لعنتیں بھیجیں اُن کو کچھ بھی گناہ نہیں ہوگا اور اس صورت میں ہر ایک ایماندار کو لازم ہو گا کہ مجھ سے پر ہیز کرے اور اس تجویز سے بہت آسانی کے ساتھ مجھ پر اور میری جماعت پر و بال آجائے گا لیکن اگر کشوف اور الہامات اور رؤیا ء صادقہ کی کثرت اس طرف ہو کہ یہ عاجز من جانب اللہ اور اپنے دعوی میں سچا ہے تو پھر ہر ایک خدا ترس پر لازم ہو گا کہ میری پیروی کرے اور تکفیر اور تکذیب سے باز آوے.ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص کو آخر ایک دن مرنا ہے پس اگر حق کے قبول کرنے کے لئے اس دنیا میں کوئی ذلت بھی پیش آئے تو وہ آخرت کی ذلت سے بہتر ہے لہذا میں تمام مشائخ اور فقراء اور صلحاء پنجاب اور ہندوستان کو اللہ جل شانہ کی قسم دیتا ہوں جس کے نام پر گردن رکھ دینا بچے دینداروں کا کام ہے کہ وہ میرے بارے میں جناب الہی میں کم سے کم اکیس روز توجہ کریں یعنی اس صورت میں کہ اکیس روز سے پہلے کچھ معلوم نہ ہو سکے اور خدا سے انکشاف اس حقیقت کا چاہیں کہ میں کون ہوں؟ آیا کذاب ہوں یا من جانب اللہ.میں بار بار بزرگانِ دین کی خدمت میں اللہ جل شانہ کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ ضرور اکیس روز تک اگر اس سے پہلے معلوم نہ ہو سکے اس تفرقہ کے دُور کرنے کے لئے دُعا اور توجہ کریں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی قسم

Page 139

۱۲۹ سُن کر پھر التفات نہ کرنا راستبازوں کا کام نہیں اور میں جانتا ہوں کہ اس قسم کوسُن کر ہر ایک پاک دل اور خدا تعالیٰ کی عظمت سے ڈرنے والا ضرور توجہ کرے گا.پھر ایسی الہامی شہادتوں کے جمع ہونے کے بعد جس طرف کثرت ہوگی وہ امر من جانب اللہ سمجھا جاوے گا.اگر میں حقیقت میں کذاب اور دجال ہوں تو اس اُمت پر بڑی مصیبت ہے کہ ایسی ضرورت کے وقت میں اور فتنوں اور بدعات اور مفاسد کے طوفان کے زمانہ میں بجائے ایک مصلح اور مجدد کے چودھویں صدی کے سر پر دجال پیدا ہوا.یادر ہے کہ ایسا ہر ایک شخص جس کی نسبت ایک جماعت اہلِ بصیرت مسلمانوں کی صلاح اور تقویٰ اور پاک دلی کا ظن رکھتی ہے وہ اس اشتہار میں میرا مخاطب ہے اور یہ بھی یادر ہے کہ جو صلحاء شہرت کے لحاظ سے کم درجہ پر ہیں میں اُن کو کم نہیں دیکھتا ممکن ہے کہ وہ شہرت یافتہ لوگوں سے خدا کی نظر میں زیادہ اچھے ہوں.اسی طرح میں صالحہ عفیفہ عورتوں کو بھی مردوں کی نسبت تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھتا ممکن ہے کہ بعض شہرت یافتہ صالح مردوں سے بھی اچھی ہوں لیکن ہر ایک صاحب جو میری نسبت کوئی رویا یا کشف یا الہام لکھیں اُن پر ضروری طور پر واجب ہو گا کہ وہ حلفا اپنی دستخطی تحریر سے مجھے کو اطلاع دیں تا ایسی تحریریں ایک جگہ جمع ہوتی جائیں اور پھر حق کے طالبوں کے لئے شائع کی جائیں اس تجویز سے انشاء اللہ بندگان خدا کو بہت فائدہ ہو گا اور مسلمانوں کے دل کثرت شواہد سے ایک طرف تسلی پا کر فتنہ سے نجات پا جائیں گے.اور آثار نبویہ میں بھی اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اوّل مہدی آخر الزمان کی تکفیر کی جائے گی اور لوگ اس سے دشمنی کریں گے اور نہایت درجہ کی بدگوئی سے پیش آئیں گے اور آخر خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو اس کی سچائی کی نسبت بذریعہ رویا والهام وغیرہ اطلاع دی جائے گی اور دوسرے آسمانی نشان بھی ظاہر ہوں گے.تب علماءِ وقت طوعاً و کرہا اس کو قبول کریں گے.سواے عزیز و اور بزرگو! برائے خدا عالم الغیب کی طرف توجہ کرو.آپ لوگوں کو اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میرے اس سوال کو مان لو.اس قدیر ذوالجلال کی تمہیں سوگند ہے کہ اس عاجز کی یہ درخواست رد مت کرو.عزیزان مے دہم صد بار سوگند بروئے حضرت دادار سوگند که در کارم جواب از حق بجوئید به محبوب دل ابرار سوگند لے اے دوستو میں تمہیں سینکڑوں قسمیں دیتا ہوں اور جناب الہی کی ذات کی قسمیں دیتا ہوں.کہ میرے معاملہ میں خدا سے ہی جواب مانگو.میں تمہیں نیکوں کے دلوں کے محبوب کی قسم دیتا ہوں.

Page 140

هذا ما اردنا لازالة الدجى والسلام عــلــى مــن اتبع الهدى الملتمس خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ پنجاب.۱۵؍ جولائی ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۴۴ تا ۱۵۱ - مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۵۱ تا ۱۵۷ بار دوم ) واضح ہو کہ یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ جنہوں نے اس عاجز کا مسیح موعود ہونا مان لیا ہے وہ لوگ ہر یک خطرہ کی حالت سے محفوظ اور معصوم ہیں اور کئی طرح کے ثواب اور اجر اور قوت ایمانی کے وہ مستحق ٹھہر گئے ہیں.اول یہ کہ انہوں نے اپنے بھائی پر حسن ظن کیا ہے.اور اس کو مفتری یا کذاب نہیں ٹھہرایا اور اس کی نسبت کسی طرح کے شکوک فاسدہ کو دل میں جگہ نہیں دی اس وجہ سے اس ثواب کا انہیں استحقاق حاصل ہوا کہ جو بھائی پر نیک ظن رکھنے کی حالت میں ملتا ہے.دوسری یہ کہ وہ حق کے قبول کرنے کے وقت کسی ملامت کنندہ کی ملامت سے نہیں ڈرے اور نہ نفسانی جذبات اُن پر غالب ہو سکے اس وجہ سے وہ ثواب کے مستحق ٹھہر گئے کہ انہوں نے دعوت حق کو پا کر ایک ربانی مناد کی آواز سُن کر پیغام کو قبول کر لیا اور کسی طرح کی روک سے رُک نہیں سکے.تیسری یہ کہ پیشگوئی کے مصداق پر ایمان لانے کی وجہ سے وہ ان تمام وساوس سے مخلصی پاگئے کہ جو انتظار کرتے کرتے ایک دن پیدا ہو جاتے ہیں اور آخریاس کی حالت میں ایمان دُور ہو جانے کا موجب ٹھہرتے ہیں اور ان سعید لوگوں نے نہ صرف خطرات مذکورہ بالا سے مخلصی پائی بلکہ خدائے تعالیٰ کا ایک نشان اور اس کے نبی کی پیشگوئی اپنی زندگی میں پوری ہوتی دیکھ کر ایمانی قوت میں بہت ترقی کر گئے اور ان کے سماعی ایمان پر ایک معرفت کا رنگ آ گیا.اب وہ ان تمام حیرتوں سے چھوٹ گئے جو ان پیشگوئیوں کے بارے میں دلوں میں پیدا ہوا کرتی ہیں جو پوری ہونے میں نہیں آتیں.چوتھی یہ کہ وہ خدائے تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بندہ پر ایمان لا کر اُس شخط اور غضب الہی سے بچ گئے جوان نافرمانوں پر ہوتا ہے کہ جن کے حصہ میں بجز تکذیب وانکار کے اور کچھ نہیں.پانچویں یہ کہ وہ ان فیوض اور برکات کے مستحق ٹھہر گئے جو ان مخلص لوگوں پر نازل ہوتے ہیں جو حسن ظن سے اُس شخص کو قبول کر لیتے ہیں کہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.

Page 141

۱۳۱ یہ تو وہ فوائد ہیں کہ جو انشاء اللہ الکریم ان سعید لوگوں کو بفضلہ تعالی ملیں گے جنہوں نے اِس عاجز کو قبول کر لیا ہے لیکن جو لوگ قبول نہیں کرتے وہ اُن تمام سعادتوں سے محروم ہیں اور اُن کا یہ وہم بھی لغو ہے کہ قبول کرنے کی حالت میں نقصان دین کا اندیشہ ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ نقصان دین کس وجہ سے ہوسکتا ہے؟ نقصان تو اس صورت میں ہوتا کہ اگر یہ عاجز بر خلاف تعلیم اسلام کے کسی اور نئی تعلیم پر چلنے کے لئے انہیں مجبور کرتا مثلاً کسی حلال چیز کوحرام یا حرام کو حلال بتلاتا یا ان ایمانی عقائد میں جونجات کے لئے ضروری ہیں کچھ فرق ڈالتا یا یہ کہ صوم وصلوٰۃ و حج و زکوۃ وغیرہ اعمال شرعیہ میں کچھ بڑھاتا یا گھٹا دیتا.مثلاً پانچ وقت کی نماز کی جگہ دس وقت کی نماز کر دیتا یا دو وقت ہی رہنے دیتا یا ایک مہینہ کی جگہ دو مہینے کے روزے فرض کر دیتا یا اس سے کم کی طرف توجہ دلاتا تو بے شک سراسر نقصان بلکہ کفر وخسران تھا لیکن جس حالت میں یہ عاجز بار بار یہی کہتا ہے کہ اے بھائیو! میں کوئی نیا دین یا نئی تعلیم لے کر نہیں آیا بلکہ میں بھی تم میں سے اور تمہاری طرح ایک مسلمان ہوں اور ہم مسلمانوں کے لئے بجز قرآن شریف اور کوئی دوسری کتاب نہیں جس پر عمل کریں یا عمل کرنے کے لئے دوسروں کو ہدایت دیں اور بجز جناب ختم المرسلین احمد عربی صلعم کے اور کوئی ہمارے لئے ہادی اور مقتد انہیں جس کی پیروی ہم کریں یا دوسروں سے کرانا چاہیں تو پھر ایک متدین مسلمان کے لئے میرے اس دعوے پر ایمان لانا جس کی الہام الہی پر بنا ہے کون سی اندیشہ کی جگہ ہے.بفرض محال اگر میرا یہ کشف اور الہام غلط ہے اور جو کچھ مجھے حکم ہو رہا ہے اس کے سمجھنے میں میں نے دھو کہ کھایا ہے تو ماننے والے کا اس میں ہرج ہی کیا ہے.کیا اس نے کوئی ایسی بات مان لی ہے جس کی وجہ سے اس کے دین میں کوئی رخنہ پیدا ہوسکتا ہے.اگر ہماری زندگی میں سچ سچ حضرت مسیح ابن مریم ہی آسمان سے اتر آئے تو دل ما شاد و چشم ما روشن ہم اور ہمارا گر وہ سب سے پہلے ان کو قبول کر لے گا..ورنہ دوسری صورت میں ایمان سلامت رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.کیونکہ اگر اخیر زندگی تک کوئی آدمی آسمان سے اتر تا انہیں دکھائی نہ دیا بلکہ اپنی ہی طیاری آسمان کی طرف جانے کے لئے ٹھہر گئی تو ظاہر ہے کہ کیا کیا شکوک و شبہات ساتھ لے جائیں گے اور نبی صادق کی پیشگوئی کے بارہ میں کیا کیا وساوس دل میں پڑیں گے اور قریب ہے کہ کوئی ایسا سخت وسوسہ پڑ جائے کہ جس کے ساتھ ایمان ہی برباد ہو کیونکہ یہ وقت انجیل اور احادیث کے اشارات کے مطابق وہی وقت ہے جس میں مسیح اترنا چاہئے.اسی وجہ سے سلف صالح میں سے بہت سے صاحب مکاشفات مسیح کے آنے کا وقت چودھویں صدی کا شروع سال بتلا گئے ہیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۶ تا ۱۸۹)

Page 142

۱۳۲ کیا وہ جو خدا کی طرف سے ہے لوگوں کی بد گوئی اور سخت عداوت سے ضائع ہوسکتا ہے؟ تا دل مرد خدا نامد بدرد بیچ قومی را خدا رُسوا نکرد یہ کچھ قضا و قدر کی بات ہے کہ بداندیش لوگوں کو اپنے پوشیدہ کینوں کے ظاہر کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ ہاتھ آجاتا ہے.چنانچہ آج کل ہمارے مخالفوں کو گالیاں دینے کے لئے یہ نیا بہانہ ہاتھ آ گیا ہے کہ انہوں نے ہمارے ایک اشتہار کے اُلٹے معنے کر کے یہ مشہور کر دیا ہے کہ گویا ہم سلطان روم اور اس کی سلطنت اور دولت کے سخت مخالف ہیں اور اس کا زوال چاہتے ہیں اور انگریزوں کی حد سے زیادہ خوشامد کرتے ہیں اور انگریزی سلطنت کی دولت اور اقبال کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب اور ہندوستان کے اکثر حصوں میں بعض پر افترا اشتہاروں اور اخباروں کے ذریعہ سے یہ خیال بہت پھیلایا گیا ہے اور عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ہمارے اشتہار کی بعض عبارتیں محرف اور مبدل کر کے لکھی گئی ہیں اور اس طرح پر بیوقوفوں کے دلوں کو جوش دلانے اور اُبھارنے کے لئے کارروائی کی گئی ہے.اور ہم اگر چہ جعلسازوں اور دروغگوؤں کا منہ تو بند نہیں کر سکتے اور نہ اُن کی بد زبانی اور گالیوں اور ڈوموں کی طرح تمسخر اور ٹھٹھے کا مقابلہ کر سکتے ہیں تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی ظالمانہ بد زبانی کو خدا تعالیٰ کی غیرت کے حوالہ کر کے اُن کے اصل مدعا کو جو دھوکا دہی ہے نادانوں پر اثر ڈالنے سے روکا جائے.پس اسی غرض سے یہ اشتہار شائع کیا جاتا ہے.ہر ایک مسلمان عظمند بھلا مانس نیک فطرت جو اپنی شرافت سے سچی بات کو قبول کرنے کے لئے طیار ہوتا ہے اس بات کو متوجہ ہو کر سُنے کہ ہم کسی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کلمہ گو سے بھی کینہ نہیں رکھتے چہ جائیکہ ایسے شخص سے کینہ ہو جس کی ظل حمایت میں کروڑ ہا اہل قبلہ زندگی بسر کرتے ہیں اور جس کی حفاظت کے نیچے خدا تعالیٰ نے اپنے مقدس مکانوں کو سپرد کر رکھا ہے.سلطان کی شخصی حالت اور اس کی ذاتیات کے متعلق نہ ہم نے کبھی کوئی بحث کی اور نہ اب ہے.بلکہ اللہ جل شانہ جانتا ہے کہ ہمیں اس موجود سلطان کے بارے میں اُس کے باپ دادے کی نسبت زیادہ حسنِ ظن ہے.ہاں ہم نے گذشتہ اشتہارات میں ترکی گورنمنٹ پر بلحاظ اس کے بعض عظیم الدخل اور خراب اندرون ارکان اور عمائد اور وزراء کے نہ بلحاظ سلطان کی ذاتیات کے ضرور اس خدا داد نور اور فراست اور الہام کی تحریک سے جو ہمیں جب تک کسی اللہ والے کا دل نہیں کڑھتا.خدا کسی قوم کو ذلیل نہیں کرتا.

Page 143

۱۳۳ ما ہوا ہے چند ایسی باتیں لکھی ہیں جو خود ان کے مفہوم کے خوفناک اثر سے ہمارے دل پر ایک عجیب رقت اور درد طاری ہوتی ہے.سو ہماری وہ تحریر جیسا کہ گندے خیال والے سمجھتے ہیں کسی نفسانی جوش پر مبنی نہ تھی بلکہ اس روشنی کے چشمہ سے نکلی تھی جو رحمت الہی نے ہمیں بخشا ہے.اگر ہمارے تنگ ظرف مخالف بدظنی پر سرنگوں نہ ہوتے تو سلطان کی حقیقی خیر خواہی اس میں نہ تھی کہ وہ چوہڑوں اور چماروں کی طرح گالیوں پر کمر باندھتے بلکہ چاہئے تھا کہ آیت وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمُ ا ر عمل کر کے اور نیز آیت اِنَّ بَعْضَ النِ الم سے کو یاد کر کے سلطان کی خیر خواہی اس میں دیکھتے کہ اس کے لئے صدق دل سے دُعا کرتے.میرے اشتہار کا بجز اس کے کیا مطلب تھا کہ رومی لوگ تقویٰ اور طہارت اختیار کریں کیونکہ آسمانی قضاء و قدر اور عذاب سماوی کے روکنے کے لئے تقویٰ اور تو بہ اور اعمال صالحہ جیسی اور کوئی چیز قوی تر نہیں.مگر سلطان کے نادان خیر خواہوں نے بجائے اس کے مجھے گالیاں دینی شروع کر دیں.اور بعضوں نے کہا کہ کیا سارے گناہ سلطان پر ٹوٹ پڑے اور یورپ مقدس اور پاک ہے جس کے عذاب کے لئے کوئی پیشگوئی نہیں کی جاتی مگر وہ نادان نہیں سمجھتے کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ کفار کے فسق و فجور اور بت پرستی اور انسان پرستی کی سزا دینے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک دوسرا عالم رکھا ہوا ہے جو مرنے کے بعد پیش آئے گا.اور ایسی قوموں کو جو خدا پر ایمان نہیں رکھتیں اسی دنیا میں مورد عذاب کرنا خدا تعالیٰ کی عادت نہیں ہے بجز اس صورت کے کہ وہ لوگ اپنے گناہ میں حد سے زیادہ تجاوز کریں اور خدا کی نظر میں سخت ظالم اور موذی اور مفسد ٹھہر جائیں.جیسا کہ قومِ نوح اور قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ مفسد قو میں متواتر بے باکیاں کر کے مستوجب سزا ہو گئی تھیں لیکن خدا تعالیٰ مسلمانوں کی بے باکی کی سزا کو دوسرے جہان پر نہیں چھوڑتا بلکہ مسلمانوں کو ادنی ادنیٰ قصور کے وقت اسی دنیا میں تنبیہ کی جاتی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے آگے اُن بچوں کی طرح ہیں جن کی والدہ ہر دم جھڑ کیاں دے کر انہیں ادب سکھاتی ہے اور خدا تعالیٰ اپنی محبت سے چاہتا ہے کہ وہ اس نا پائیدار دنیا سے پاک ہو کر جائیں یہی باتیں تھیں کہ میں نے نیک نیتی سے سفیر روم پر ظاہر کی تھیں مگر افسوس کہ بے وقوف مسلمانوں نے ان باتوں کو اور طرف کھینچ لیا.ان نادانوں کی ایسی مثال ہے کہ جیسے ایک حاذق ڈاکٹر کہ جو شخص امراض اور قواعد حفظ ما تقدم کو بخوبی جانتا ہے وہ کسی شخص کی نسبت کمال نیک نیتی سے یہ رائے ظاہر کرے کہ اس کے پیٹ میں ایک قسم کی رسولی نے بڑھنا شروع کر دیا ہے اور اگر ابھی وہ بنی اسرائیل: ۳۷ الحجرات:١٣

Page 144

۱۳۴ رسولی کاٹی نہ جائے تو ایک عرصہ کے بعد اس شخص کی زندگی اس کے لئے وبال ہو جائے گی تب اس بیمار کے وارث اس بات کو سُن کر اُس ڈاکٹر پر سخت ناراض ہوں اور اس ڈاکٹر کے قتل کر دینے کے درپے ہو جائیں مگر رسولی کا کچھ بھی فکر نہ کریں یہاں تک کہ وہ رسولی بڑھے اور پھو لے اور تمام پیٹ میں پھیل جائے اور اس بیچارے بیمار کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے سو یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو اپنی دانست میں سلطان کے خیر خواہ کہلاتے ہیں.پھر یہ بھی سوچو کہ جس حالت میں میں وہ شخص ہوں جو اُس مسیح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتا ہوں جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ وہ تمہارا امام اور خلیفہ ہے اور اُس پر خدا اور اس کے نبی کا سلام ہے اور اُس کا دشمن لعنتی اور اس کا دوست خدا کا دوست ہے اور وہ تمام دنیا کے لئے حگم ہو کر آئے گا اور اپنے تمام قول اور فعل میں عادل ہو گا “.تو کیا یہ تقویٰ کا طریق تھا کہ میرے دعوی کوسُن کر اور میرے نشانوں کو دیکھ کر اور میرے ثبوتوں کا مشاہدہ کر کے مجھے یہ صلہ دیتے کہ گندی گالیاں اور ٹھٹھے اور ہنسی سے پیش آتے ؟ کیا نشان ظاہر نہیں ہوئے؟ کیا آسمانی تائید میں ظہور میں نہیں آئیں؟ کیا اُن سب وقتوں اور موسموں کا پتہ نہیں لگ گیا جو احادیث اور آثار میں بیان کی گئی تھیں؟ تو پھر اس قدر کیوں بے باکی دکھلائی گئی؟ ہاں اگر میرے دعوے میں اب بھی شک تھایا میرے دلائل اور نشانوں میں کچھ شبہ تھا تو غربت اور نیک نیتی اور خدا ترسی سے اُس شبہ کوڈ ور کرایا ہوتا مگر انہوں نے بجائے تحقیق اور تفتیش کے اس قدر گالیاں اور لعنتیں بھیجیں کہ شیعوں کو بھی پیچھے ڈال دیا.کیا یہ ممکن نہ تھا کہ جو کچھ میں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ دراصل صحیح ہو اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں.پھر ماسوا اس کے میرے مخالف اپنے دلوں میں آپ ہی سوچیں کہ اگر میں درحقیقت وہی مسیح موعود ہوں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک بازو قرار دیا ہے اور جس کو سلام بھیجا ہے اور جس کا نام حکم اور عدل اور امام اور خلیفہ اللہ رکھا ہے تو کیا ایسے شخص پر ایک معمولی بادشاہ کے لئے لعنتیں بھیجنا، اُس کو گالیاں دینا جائز تھا؟ ذرا اپنے جوش کو تھام کے سوچیں نہ میرے لئے بلکہ اللہ اور رسول کے لئے کہ کیا ایسے مدعی کے ساتھ ایسا کرنا روا تھا ؟ میں زیادہ کہنا نہیں چاہتا کیونکہ میرا مقدمہ تم سب کے ساتھ آسمان پر ہے.اگر میں وہی ہوں جس کا وعدہ نبیؐ کے پاک لبوں نے دیا تھا تو تم نے نہ میرا بلکہ خدا کا گناہ کیا ہے اور اگر پہلے سے آثار صحیحہ میں یہ وارد نہ ہوتا کہ اس کو دُ کھ دیا جائے گا اور اس پر لعنتیں بھیجی

Page 145

۱۳۵ جائیں گی تو تم لوگوں کی مجال نہ تھی جو تم مجھے وہ دُکھ دیتے جو تم نے دیا.پر ضرور تھا کہ وہ سب نوشتے پورے ہوں جو خدا کی طرف سے لکھے گئے تھے اور اب تک تمہیں ملزم کرنے کے لئے تمہاری کتابوں میں موجود ہیں جن کو تم زبان سے پڑھتے اور پھر تکفیر اور لعنت کر کے مُہر لگا دیتے ہو کہ وہ بد علماء اور ان کے دوست جو مہدی کی تکفیر کریں گے اور مسیح سے مقابلہ سے پیش آئیں گے وہ تم ہی ہو.میں نے بار بار کہا کہ آؤ اپنے شکوک مثالو.پر کوئی نہیں آیا.میں نے فیصلہ کے لئے ہر ایک کو بلایا پر کسی نے اس طرف رُخ نہیں کیا.میں نے کہا کہ تم استخارہ کرو اور رو رو کر خدا تعالیٰ سے چاہو کہ وہ تم پر حقیقت کھولے پر تم نے کچھ نہ کیا اور تکذیب سے بھی باز نہ آئے.خدا نے میری نسبت سچ کہا کہ ”دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص در حقیقت سچا ہو اور ضائع کیا جائے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خدا کی طرف سے ہو اور برباد ہو جائے ؟ پس اے لوگو! تم خدا سے مت لڑو.یہ وہ کام ہے جو خدا تمہارے لئے اور تمہارے ایمان کے لئے کرنا چاہتا ہے اس کے مزاحم مت ہو.اگر تم بجلی کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہو مگر خدا کے سامنے تمہیں ہرگز طاقت نہیں.اگر یہ کاروبار انسان کی طرف سے ہوتا تو تمہارے حملوں کی کچھ بھی حاجت نہ تھی خدا اس کے نیست و نابود کرنے کے لئے خود کافی تھا.افسوس کہ آسمان گواہی دے رہا ہے اور تم نہیں سنتے اور زمین ” ضرورت ضرورت بیان کر رہی ہے اور تم نہیں دیکھتے ! اے بد بخت قوم! اُٹھ اور دیکھ کہ اس مصیبت کے وقت میں جو اسلام پیروں کے نیچے کچلا گیا اور مجرموں کی طرح بے عزت کیا گیا.وہ جھوٹوں میں شمار کیا گیا وہ ناپاکوں میں لکھا گیا.تو کیا خدا کی غیرت ایسے وقت میں جوش نہ مارتی.اب سمجھ کہ آسمان جھکتا چلا آتا ہے اور وہ دن نزدیک ہیں کہ ہر ایک کان کو ”انا الموجود“ کی آواز آئے.ہم نے کفار سے بہت کچھ دیکھا.اب خدا بھی کچھ دکھلانا چاہتا ہے.سواب تم دیدہ و دانستہ اپنے تئیں مور دغضب مت بناؤ.کیا صدی کا سر تم نے نہیں دیکھا جس پر چودہ برس اور بھی گذر گئے؟ کیا خسوف کسوف رمضان میں تمہاری آنکھوں کے سامنے نہیں ہوا.کیا ستارہ ذوالسنین کے طلوع کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی؟ کیا تمہیں اس ہولناک زلزلہ کی کچھ خبر نہیں جو مسیح کی پیشگوئی کے مطابق ان ہی دنوں میں وقوع میں آیا اور بہت سی بستیوں کو برباد کر گیا.اور خبر دی گئی تھی کہ اسی کے متصل مسیح بھی آئے گا ؟ کیا تم نے آتھم کی نسبت وہ نشان نہیں دیکھا جو ہمارے سید و مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے

Page 146

۱۳۶ مطابق ظہور میں آیا جس کی خبر سترہ برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں دی گئی تھی ؟ کیا لیکھرام کی نسبت پیشگوئی اب تک تم نے نہیں سنی ؟ کیا کبھی اس سے پہلے کسی نے دیکھا تھا کہ پہلوانوں کی کشتی کی طرح مقابلہ ہو کر اور لاکھوں انسانوں میں شہرت پا کر اور صدہا اشتہارات اور رسائل میں چھپ کر ایسا کھلا کھلا نشان ظاہر ہوا ہو جیسا کہ لیکھرام کی نسبت ظاہر ہوا ؟ کیا تمہیں اس خدا سے کچھ بھی شرم نہیں آتی جس نے تمہاری تیرھویں صدی کے غم اور صدمے دیکھ کر چودھویں صدی کے آتے ہی تمہاری تائید کی؟ کیا ضرور نہ تھا کہ خدا کے وعدے عین وقت میں پورے ہوتے ؟ بتلاؤ کہ ان سب نشانوں کو دیکھ کر پھر تمہیں کیا ہو گیا ؟ کس چیز نے تمہارے دلوں پر مُہر لگا دی.اے سج دل قوم ! خدا تیری ہر ایک تسلی کر سکتا ہے.اگر تیرے دل میں صفائی ہو خدا تجھے کھینچ سکتا ہے اگر تو کھینچے جانے کے لئے طیار ہو.دیکھو یہ کیسا وقت ہے.کیسی ضرورتیں ہیں جو اسلام کو پیش آگئیں.کیا تمہارا دل گواہی نہیں دیتا کہ یہ وقت خدا کے رحم کا وقت ہے؟ آسمان پر بنی آدم کی ہدایت کے لئے ایک جوش ہے اور توحید کا مقدمہ حضرت احدیت کی پیشی میں ہے.مگر اس زمانہ کے اندھے اب تک بے خبر ہیں.آسمانی سلسلہ کی اُن کی نظر میں کچھ بھی عزت نہیں.کاش اُن کی آنکھیں کھلیں اور دیکھیں کہ کس کس قسم کے نشان اُتر رہے ہیں اور آسمانی تائید ہو رہی ہے اور نور پھیلتا جاتا ہے.مبارک وہ جو اُس کو پاتے ہیں.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۵ تا ۳۳۱)

Page 147

۱۳۷ الوصيت قال الله عزّ وجلّ.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ.یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگر تم بندگی نہ کرو اور دعاؤں میں مشغول نہ رہو.دوستو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے حال پر رحم کرے.آپ صاحبوں کو معلوم ہوگا کہ میں نے آج سے قریباً نو ماہ پہلے الحکم اور البدر میں جو قادیان سے اخبار میں نکلتی ہیں خدا تعالی کی طرف سے اطلاع پا کر یہ وحی الہی شائع کرائی تھی کہ عَفَتِ الدِّيَارُ مَحِلُّهَا وَ مَقَامُهَا.یعنی یہ ملک عذاب الہی سے مٹ جانے کو ہے.نہ مستقل سکونت امن کی جگہ رہے گی اور نہ عارضی سکونت امن کی جگہ یعنی طاعون کی وبا ہر جگہ عام طور پر پڑے گی اور سخت پڑے گی اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت بہت قریب آ گیا ہے.میں نے اس وقت جو آدھی رات کے بعد چار بج چکے ہیں بطور کشف دیکھا ہے کہ دردناک موتوں سے عجیب طرح پر شور قیامت برپا ہے.میرے منہ پر یہ الہام الہی تھا کہ موتا موتی لگ رہی ہے کہ میں بیدار ہو گیا اور اسی وقت جوا بھی کچھ حصہ رات کا باقی ہے میں نے یہ اشتہار لکھنا شروع کیا.دوستو ! اٹھو اور ہشیار ہو جاؤ کہ اس زمانہ کی نسل کے لئے نہایت مصیبت کا وقت آ گیا ہے.اب اس دریا سے پار ہونے کے لئے بجز تقویٰ کے اور کوئی کشتی نہیں.مومن خوف کے وقت خدا کی طرف جھکتا ہے کہ بغیر اس کے کوئی امن نہیں.اب دُکھ اٹھا کر اور سوز و گداز اختیار کر کے اپنا کفارہ آپ دو اور راستی میں محو ہو کر اپنی قربانی آپ ادا کرو اور تقویٰ کی راہ میں پورے زور سے کام لے کر اپنا بوجھ آپ اٹھاؤ کہ ہمارا خدا بڑا رحیم وکریم ہے کہ رونے والوں پر اوس کا غصہ تھم جاتا ہے.مگر وہی جو قبل از وقت روتے ہیں نہ مُردوں کی لاشوں کو دیکھ کر.وہ خوف کرنے والوں کے سر پر سے عذاب کی پیشگوئی ٹال سکتا ہے.سو نیکی کرو اور خدا کے رحم کے امیدوار ہو جاؤ.خدا تعالیٰ کی طرف پوری قوت کے ساتھ حرکت کرو اور اگر یہ نہیں تو بیمار کی طرح افتان و خیزاں اس کی رضا کے دروازہ تک اپنے تئیں پہنچاؤ.اور اگر یہ بھی نہیں تو مُردہ کی طرح اپنے اوٹھائے جانے کا ذریعہ صدقہ خیرات کے راہ سے پیدا کرو.نہایت تنگی کے دن ہیں.اور آسمان پر خدا کا غضب بھڑک رہا ہے.آج محض زبانی لاف و گزاف سے تم پار نہیں ہو سکتے.ایسی حالت بناؤ اور ایسی تبدیلی اپنے اندر پیدا کرو اور ایسے تقویٰ کی راہ پر قدم مارو کہ وہ رحیم و کریم خوش ہو جائے.اپنی خلوت گاہوں کو ذکر الہی کی جگہ بناؤ.اپنے دلوں پر سے ناپاکیوں کے زنگ دُور کرو بے جا کینوں اور الفرقان : ۷۸

Page 148

۱۳۸ بخلوں اور بدزبانیوں سے پر ہیز کرو اور قبل اس کے کہ وہ وقت آ وے کہ انسانوں کو دیوانہ سا بنا دے بے قراری کی دعاؤں سے خود دیوانے بن جاؤ.عجب بدبخت وہ لوگ ہیں کہ جو مذہب صرف اس بات کا نام رکھتے ہیں کہ محض زبان کی چالاکیوں پر سارا دارو مدار ہو اور دل سیاہ اور ناپاک اور دنیا کا کیڑا ہو.پس اگر تم اپنی خیر چاہتے ہو تو ایسے مت بنو.عجب بد قسمت وہ شخص ہے کہ جو اپنے نفس امارہ کی طرف ایک نظر بھی اٹھا کر نہیں دیکھتا اور بد بودار تعصب سے دوسروں کو بد زبانی سے پکارتا ہے.پس ایسے شخص پر ہلاکت کی راہ کھلی ہے.سوتقویٰ سے پورا حصہ لو اور خداترسی کا کامل وزن اختیار کرو اور دعاؤں میں لگے رہوتا تم پر تم ہو....دیکھو میں اس وقت اپنا فرض ادا کر چکا ہوں اور قبل اس کے کہ تنگی کے دن آویں میں نے اطلاع دے دی ہے.تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۷۲ تا ۷۵.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۶۲۸ تا ۶۳۰ بار دوم ) چونکہ میرا کام دعوت اور تبلیغ ہے اس لئے میں دوبارہ ظاہر کرتا ہوں اور میں قسم حضرت احدیت جلّ شانهٔ کی کھا کر کہتا ہوں کہ میرے پر خدا نے اپنی وحی کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا ہے کہ میرا غضب زمین پر بھڑ کا ہے کیونکہ اس زمانہ میں اکثر لوگ معصیت اور دنیا پرستی میں ایسے غرق ہو گئے ہیں کہ خدائے تعالیٰ پر بھی ایمان نہیں رہا اور وہ جو اس کی طرف سے اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا ہے اُس سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور یہ ٹھٹھا اور لعن طعن حد سے گذر گیا ہے.پس خدا فرماتا ہے کہ میں ان سے جنگ کروں گا اور میرے وہ حملے ان پر ہوں گے جو ان کے خیال و گمان میں نہیں کیونکہ انہوں نے جھوٹ سے اس قدر دوستی کی کہ سچائی کو اپنے پاؤں کے نیچے پامال کرنا چاہا.پس خدا فرماتا ہے کہ میں نے اب ارادہ کیا ہے کہ اپنے غریب گروہ کو ان درندوں کے حملوں سے بچاؤں اور سچائی کی حمایت میں کئی نشان ظاہر کروں.اور وہ فرماتا ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۷۵ ۷۶.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۶۳۱ بار دوم ) خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی کر کے اپنے تئیں بچا لو قبل اس کے کہ جو وہ ہولناک دن آ وے جو ایک دم میں تباہ کر دے گا اور فرماتا ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے جو نیکی کرتے ہیں اور بدی سے بچتے ہیں اور پھر اُس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میر افضل تیرے نزدیک آ گیا.یعنی وہ وقت آ گیا کہ تو کامل طور پر شناخت کیا جاوے.حق آگیا اور باطل بھاگ گیا.حاصل مطلب یہ ہے کہ جو کچھ نشان ظاہر ہوا اور ہو گا اس سے یہ غرض ہے کہ لوگ بدی سے باز آویں

Page 149

۱۳۹ اور اس خدا کے فرستادہ کو جو اُن کے درمیان ہے شناخت کر لیں.پس اے عزیز و! جلد ہر ایک بدی سے پر ہیز کرو کہ پکڑے جانے کا دن نزدیک ہے ہر ایک جو شرک کو نہیں چھوڑتا وہ پکڑا جائے گا.ہر ایک جو فسق و فجور میں مبتلا ہے وہ پکڑا جاوے گا.ہر ایک جو دنیا پرستی میں حد سے گذر گیا ہے اور دنیا کے غموں میں مبتلا ہے وہ پکڑا جائے گا.ہر ایک جو خدا کے وجود سے منکر ہے وہ پکڑا جائے گا..ہر ایک جو خدا کے مقدس نبیوں اور رسولوں اور مرسلوں کو بد زبانی سے یاد کرتا ہے اور باز نہیں آتا وہ پکڑا جائے گا.دیکھو! آج میں نے بتلا دیا زمین بھی سنتی ہے اور آسمان بھی.کہ ہر ایک جو راستی کو چھوڑ کر شرارتوں پر آمادہ ہو گا اور ہر ایک جو زمین کو اپنی بدیوں سے ناپاک کرے گا وہ پکڑا جائے گا.خدا فرماتا ہے کہ قریب ہے جو میرا قہر زمین پر اُترے کیونکہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر گئی ہے.پس اُٹھو! اور ہوشیار ہو جاؤ کہ وہ آخری وقت قریب ہے جس کی پہلے نبیوں نے بھی خبر دی تھی.مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا کہ یہ سب باتیں اس کی طرف سے ہیں ، میری طرف سے نہیں ہیں.کاش یہ باتیں نیک ظنی سے دیکھی جاویں.کاش ! میں ان کی نظر میں کا ذب نہ ٹھہرتا تا دنیا ہلاکت سے بچ جاتی.یہ میری تحریر معمولی تحریر نہیں دلی ہمدردی سے بھرے ہوئے نعرے ہیں.اگر اپنے اندر تبدیلی کرو گے اور ہر ایک بدی سے اپنے تئیں بچا لو گے تو بچ جاؤ گے کیونکہ خدا حلیم ہے جیسا کہ وہ قہار بھی ہے اور تم سے اگر ایک حصہ بھی اصلاح پذیر ہو گا تب بھی رحم کیا جائے گا ورنہ وہ دن آتا ہے کہ انسانوں کو دیوانہ کر دے گا.نادان بدقسمت کہے گا کہ یہ باتیں جھوٹ ہیں.ہائے وہ کیوں اس قد رسوتا ہے آفتاب تو نکلنے کو ہے.تبلیغ رسالت جلد دہم صفحه ۸۰ ۸۱ - مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۳۵ ، ۶۳۶ بار دوم ) ۹ / اپریل ۱۹۰۵ء کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے ایک سخت زلزلہ کی خبر دی ہے جو نمونہ قیامت اور ہوش رہا ہوگا.چونکہ دو مرتبہ مکر رطور پر اس علیم مطلق نے اُس آئندہ واقعہ پر مجھے مطلع فرمایا ہے.اس لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ عظیم الشان حادثہ جو محشر کے حادثہ کو یاد دلا وے گا دُور نہیں ہے.مجھے خدائے عز و جل نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ دونوں زلزلے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے دو نشان ہیں.انہیں نشانوں کی طرح جو موسی نے فرعون کے سامنے دکھلائے تھے.اور اس نشان کی طرح جو نوح نے اپنی قوم کو دکھلایا تھا.اور یاد رہے کہ ان نشانوں کے بعد ابھی بس نہیں ہے بلکہ کئی نشان ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے.یہاں تک کہ انسان کی آنکھ کھلے گی اور حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے.ہر ایک دن سخت اور پہلے سے بدتر آئے گا.خدا فرماتا ہے کہ میں حیرت ناک کام دکھلاؤں گا.اور بس نہیں کروں گا جب تک

Page 150

۱۴۰ کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کر لیں اور جس طرح یوسف نبی کے وقت میں ہوا کہ سخت کال پڑا یہاں تک کہ کھانے کے لئے درختوں کے پتے بھی نہ رہے.اسی طرح ایک آفت کا سامنا موجود ہو گا اور جیسا کہ یوسف نے اناج کے ذخیرے سے لوگوں کی جان بچائی اسی طرح جان بچانے کے لئے خدا نے اس جگہ بھی مجھے ایک روحانی غذا کا مہتم بنایا ہے جو شخص اس غذا کو کچے دل سے پورے وزن کے ساتھ کھائے گا میں یقین رکھتا ہوں کہ ضرور اس پر رحم کیا جائے گا.تبلیغ رسالت جلد دہم صفحه ۸۴۸۳..مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۳۷ ، ۶۳۸ بار دوم ) آج ۲۹ / اپریل ۱۹۰۵ء کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے دوسری مرتبہ کے زلزلہ شدیدہ کی نسبت اطلاع دی ہے.سو میں محض ہمدردی مخلوق کے لئے عام طور پر تمام دنیا کو اطلاع دیتا ہوں کہ یہ بات آسمان پر قرار پاچکی ہے کہ ایک شدید آفت سخت تباہی ڈالنے والی دنیا پر آوے گی جس کا نام خدا تعالیٰ نے بار بار زلزلہ رکھا ہے.میں نہیں جانتا کہ وہ قریب ہے یا کچھ دنوں کے بعد خدا تعالیٰ اس کو ظاہر فرمادے گا.مگر بار بار خبر دینے سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ بہت دُور نہیں.یہ خدا تعالیٰ کی خبر اور اس کی خاص وحی ہے جو عالم الاسرار ہے.اس کے مقابل پر جو لوگ یہ شائع کر رہے ہیں کہ ایسا کوئی سخت زلزلہ آنے والا نہیں ہے وہ اگر منجم ہیں یا کسی اور علمی طریق سے اٹکلیں دوڑاتے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں.در حقیقت یہ بیچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ وہ زلزلہ اس ملک پر آنے والا ہے جو پہلے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا اور نہ کسی دل میں گزرا.بجز تو بہ اور دل کے پاک کرنے کے کوئی اس کا علاج نہیں.کوئی ہے جو ہماری اس بات پر ایمان لائے؟ اور کوئی ہے جو اس آواز کو دل لگا کر سُنے ؟ یہ بھی ملک کی بدقسمتی ہے جو خدا کے کلام کو ٹھٹھے اور جنسی سے دیکھتے ہیں اور اُن کے دل ڈرتے نہیں.خدا فرماتا ہے کہ میں چُھپ کر آؤں گا.میں اپنی فوجوں کے ساتھ اُس وقت آؤں گا کہ کسی کو گمان بھی نہ ہو گا کہ ایسا حادثہ ہونے والا ہے.غالباً وہ صبح کا وقت ہو گا یا کچھ حصہ رات میں سے یا ایسا وقت ہو گا جو اس سے قریب ہے.پس اے عزیز و ! تم جو خدا تعالیٰ کی وحی پر ایمان لاتے ہو ہشیار ہو جاؤ اور اپنے تو بہ کے جامہ کو خوب پاک اور صاف کرو کہ خدا تعالیٰ کا غضب آسمان پر بھڑ کا ہے.وہ چاہتا ہے کہ دنیا کو اپنا چہرہ دکھاوے بجز تو بہ کے کوئی پناہ نہیں.ہلاک ہو گئے وہ لوگ جن کا کام ٹھٹھا اور جنسی ہے جو گناہ اور معصیت کا سے باز نہیں آتے اور اُن کی مجلسیں ناپا کی اور غفلت سے بھری ہوئی ہیں اور اُن کی زبانیں مُردار سے بدتر ہیں وہ بار بار کی شوخیوں سے خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتے ہیں.وہ دلوں کے اندھے ہیں اور خدا تعالیٰ

Page 151

۱۴۱ فرماتا ہے کہ اس روز میں اُن پر رحم کروں گا جن کے دل مجھ سے ترساں اور ہراساں ہیں.جو نہ بدی کرتے ہیں اور نہ بدی کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں اور خدا نے یہ بھی فرمایا کہ اس روز تیرے لئے فتح نمایاں ظاہر ہو گی.کیونکہ خدا اس روز وہ سب کچھ دکھلائے گا جو قبل از وقت دنیا کو سنایا گیا.خوش قسمت وہ جو اب بھی سمجھ جائے.المشتهر میرزا غلام احمد قادیانی تبلیغ رسالت جلد دہم صفحه ۹۳ ۹۴.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۴۵ ،۶۴۶ بار دوم ) اے عزیز و! آپ لوگوں نے اُس زلزلہ کو دیکھ لیا ہو گا جو ۲۸ فروری ۱۹۰۶ ء کی رات کو ایک بجے کے بعد آیا تھا.یہ وہی زلزلہ تھا جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں فرمایا تھا.” پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.“ سو یہ وہ زلزلہ تھا جس کا موسم بہار میں آنا خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق ضروری تھا سو آ گیا اور ممکن ہے کہ وہ موعود زلزلہ قیامت کا نمونہ بھی موسم بہار میں ہی آوے.اس لئے میں مگر را طلاع دیتا ہوں اور متنبہ کرتا ہوں کہ جہاں تک میرا خیال ہے وہ دن دور نہیں ہے.تو بہ کرو اور پاک اور کامل ایمان اپنے دلوں میں پیدا کرو اور ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں میں مت بیٹھوتا تم پر رحم ہو.یہ مت خیال کرو کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر یک جو بچایا جائے گا اپنے کامل ایمان سے بچایا جائے گا.کیا تم ایک دانہ سے سیر ہو سکتے ہو؟ یا ایک قطرہ پانی کا تمہاری پیاس بجھا سکتا ہے؟ اسی طرح ناقص ایمان تمہاری روح کو کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا.آسمان پر وہی مومن لکھے جاتے ہیں جو وفاداری سے اور صدق سے اور کامل استقامت سے اور فی الحقیقت خدا کو سب چیز پر مقدم رکھنے سے اپنے ایمان پر مہر لگاتے ہیں.میں سخت دردمند ہوں کہ میں کیا کروں اور کس طرح ان باتوں کو تمہارے دل میں داخل کر دوں اور کس طرح تمہارے دلوں میں ہاتھ ڈال کر گند نکال دوں.ہمارا خدا نہایت کریم ورحیم اور وفادار خدا ہے لیکن اگر کوئی شخص کوئی حصہ خباثت کا اپنے دل میں رکھتا ہے اور عملی طور پر اپنا پورا صدق نہیں دکھلاتا تو وہ خدا کے غضب سے بچ نہیں سکتا.سو تم اگر پوشیدہ بیج خیانت کا اپنے اندر رکھتے ہو تو تمہاری خوشی عبث ہے.اور میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم بھی ان لوگوں کے ساتھ ہی پکڑے جاؤ گے جو خدا تعالیٰ کی نظر کے سامنے نفرتی کام کرتے ہیں.بلکہ خدا تمہیں پہلے ہلاک کرے گا اور بعد میں ان کو.تمہیں آرام کی زندگی دھوکا نہ دے کہ بے آرامی کے دن نزدیک ہیں اور ابتدا سے جو کچھ خدا تعالیٰ کے پاک نبی کہتے آئے ہیں وہ سب ان دنوں میں پورا ہوگا.کیا خوش نصیب وہ شخص

Page 152

۱۴۲ ہے جو میری بات پر ایمان لاوے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے.تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۱۰۶، ۱۰۷.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۵۶، ۶۵۷ بار دوم ) میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں اور بشارت پہنچاتا ہوں کہ اس ناخدا نے جو آسمان اور زمین کا خدا ہے زمین کے طوفان زدوں کی فریاد سُن لی اور جیسا کہ اُس نے اپنی پاک کلام میں طوفان کے وقت اپنے جہاز کو بچانے کا وعدہ کیا ہوا تھا وہ وعدہ پورا کیا.اور اپنے ایک بندہ کو یعنی اس عاجز کو جو بول رہا ہے اپنی طرف سے مامور کر کے وہ تدبیریں سمجھا دیں جو طوفان پر غالب آویں اور مال و متاع کے صندوقوں کو دریا میں پھینکنے کی حاجت نہ پڑے.اب قریب ہے جو آسمان سے یہ آواز آوے کہ قِيْلَ يَارُضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيُسَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءِ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيّ مگر ابھی تو طوفان زور میں ہے.اسی طوفان کے وقت خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو مامور کیا اور فرمایا.واضعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا یعنی تو ہمارے حکم سے اور ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی تیار کر اُس کشتی کو اس طوفان سے کچھ خطرہ نہ ہوگا.اور خدائے تعالیٰ کا ہاتھ اس پر ہو گا.سو وہ خالص اسلام کی کشتی یہی ہے جس پر سوار ہونے کے لئے میں لوگوں کو بلاتا ہوں.اگر آپ جاگتے ہو تو اُٹھو اور اس کشتی میں جلد سوار ہو جاؤ کہ طوفان زمین پر سخت جوش کر رہا ہے اور ہر یک جان خطرہ میں ہے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۶۲۲۶۱ حاشیه) تبلیغ میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصا پہنچا تا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولی کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غذا رانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں.پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں اُن کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے.یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے.اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے.إِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ هود : ۴۵ ۲ جب تو پختہ ارادہ کر لے تو تو کل علی اللہ سے کام لے.

Page 153

۱۴۳ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللهِ فَوْق أَيْدِيهِمْ والسلام على من اتبع الهدى المبلغ خاکسار غلام احمد عفى عنه ( یکم دسمبر ۱۸۸۸ء) (سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۷۰) رہی حقیقت بیعت کی سو وہ یہ ہے کہ بیعت کا لفظ بیچ سے مشتق ہے اور بیج اس باہمی رضامندی کے معاملہ کو کہتے ہیں جس میں ایک چیز دوسری چیز کے عوض میں دی جاتی ہے.سو بیعت سے غرض یہ ہے کہ بیعت کرنے والا اپنے نفس کو مع اس کے تمام لوازم کے ایک رہبر کے ہاتھ میں اس غرض سے بیچے کہ تا اس کے عوض میں وہ معارفِ حقہ اور برکات کا ملہ حاصل کرے جو موجب معرفت اور نجات اور رضا مندی باری تعالیٰ ہوں.اس سے ظاہر ہے کہ بیعت سے صرف تو به منظور نہیں کیونکہ ایسی تو بہ تو انسان بطور خود بھی کر سکتا ہے بلکہ وہ معارف اور برکات اور نشان مقصود ہیں جو حقیقی توبہ کی طرف کھینچتے ہیں.بیعت سے اصل مدعا یہ ہے کہ اپنے نفس کو اپنے رہبر کی غلامی میں دے کر وہ علوم اور معارف اور برکات اس کے عوض میں لیوے جن سے ایمان قوی ہو اور معرفت بڑھے اور خدا تعالیٰ سے صاف تعلق پیدا ہو اور اسی طرح دنیوی جہنم سے رہا ہو کر آخرت کے دوزخ سے مخلصی نصیب ہو اور دنیوی نابینائی سے شفا پا کر آخرت کی نابینائی سے بھی امن حاصل ہو.( ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۹۸) تکمیل تبلیغ مضمون تبلیغ جو اس عاجز نے اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں شائع کیا ہے جس میں بیعت کے لئے حق کے طالبوں کو بلایا ہے.اس کی مجمل شرائط کی تشریح یہ ہے:.اول بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر یک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت لے تو ہمارے حکم سے ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی تیار کر.جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ دراصل خدا کی بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر خدا کا ہاتھ ہے.

Page 154

ママ کے طریقوں سے بچتا رہے گا.اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگر چہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.سوم یہ کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا.حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا.اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اُس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا.چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.پنجم یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور گیسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا اور ہر ایک ذلت اور دُکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرلے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.ہفتم یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِله مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض الله باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.یہ وہ شرائط ہیں جو بیعت کرنے والوں کے لئے ضروری ہیں..جو لوگ اس ابتلاء کی حالت میں اس دعوت بیعت کو قبول کر کے اس سلسلہ مبارکہ میں داخل ہو جائیں وہی ہماری جماعت سمجھے جائیں

Page 155

۱۴۵ اور وہی ہمارے خالص دوست متصوّ رہوں اور وہی ہیں جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں انہیں اُن کے غیروں پر قیامت تک فوقیت دوں گا اور برکت اور رحمت اُن کے شامل حال رہے گی اور مجھے فرمایا کہ تو میری اجازت سے اور میری آنکھوں کے رو برو یہ کشتی تیار کر.جولوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ خدا سے بیعت کریں گے.خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہو گا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ حاضر ہو جاؤ اور اپنے رب کریم کو اکیلا مت چھوڑو.جو شخص اُسے اکیلا چھوڑتا ہے وہ اکیلا چھوڑا جائے گا.سوحسب فرموده ایزدی دعوت بیعت کا عام اشتہار دیا جاتا ہے اور مُتَحَمّلینِ شرائط متذکرہ بالا کو عام اجازت ہے کہ بعد ادائے استخارہ مسنونہ اس عاجز کے پاس بیعت کرنے کے لئے آویں.خدا تعالیٰ ان کا مددگار ہو اور ان کی زندگی میں پاک تبدیلی کرے اور ان کو سچائی اور پاکیزگی اور محبت اور روشن ضمیری کی روح بخشے.آمین ثم آمین.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين المبلغ خاکسار احقر عباد اللہ غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور پنجاب ( مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۵۹ تا ۶۱ بار دوم ) اگر کوئی عمدا ان شرائط کی خلاف ورزی کرے جو اشتہار ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں مندرج ہیں اور اپنی بے باکانہ حرکات سے باز نہ آوے تو وہ اس سلسلہ سے خارج شمار کیا جاوے گا.یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے.اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آ سکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ اور نا انصافی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں.یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش

Page 156

۱۴۶ اس بات کے لئے کریں کہ اُن کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دُعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہر اوے اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگی کے ازالہ کے لئے رات دن کوشش کرتا رہوں اور ان کے لئے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خدائے تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور ان کے لئے وہ روح قدس طلب کروں جور بوبیت تامہ اور عبودیت خالصہ کے جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اور اس رُوح خبیث کی تکفیر سے ان کی نجات چاہوں کہ جو نفس امارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے.سو میں بتوفیقہ تعالیٰ کاہل اور سست نہیں رہوں گا اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کر لیا ہے غافل نہیں ہوں گا بلکہ ان کی زندگی کے لئے موت تک دریغ نہیں کروں گا اور ان کے لئے خدائے تعالیٰ سے وہ روحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادہ کی طرح اُن کے تمام وجود میں دوڑ جائے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لئے جو داخلِ سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہو گا.کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الہی اور تو به نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی رُوح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشین گوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے کہ اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشو و نما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر ایک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک اُن میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی.اُس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.ہر یک طاقت اور قدرت اس کو ہے.فَالْحَمْدُ لَهُ أَوَّلًا وَاخِرًا وَظَاهِرًا وَ بَاطِئًا أَسْلَمْنَا لَهُ هُوَ

Page 157

۱۴۷ مَوْلَانَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِير - خاکسار غلام احمد لودھیانه ۴۰۰۰۰۰ / مارچ ۱۸۸۹ء (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۰ ۵ تا ۵۶۳) عزیزان بے خلوص و صدق نکشایند را ہے را مصفا قطره باید که تا گوہر شود پیدا اے میرے دوستو ! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو خدا ہمیں اور تمہیں ان باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے.آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کا وقت تم پر ہے.اسی سنت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے ہر یک طرف سے کوشش ہو گی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سنی پڑیں گی.اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دُکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے اور کچھ آسانی ابتلاء بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ سو تم اس وقت سُن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو یا گالی کے مقابل پر گالی دو.کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے سوتم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی.یقیناً یا درکھو کہ لوگوں کی لعنت اگر خدائے تعالیٰ کی لعنت ساتھ نہ ہو کچھ بھی چیز نہیں اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے.لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہو جائے تو کوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا.ہم کیونکر خدائے تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو اس کا اُس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقوی سے.سواے میرے پیارے بھائیو! کوشش کرو تا متقی بن جاؤ بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں.سوتقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے.اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی اور ایسا ہی لے اے عزیز و بغیر اخلاص اور سچائی کے کوئی راہ نہیں کھل سکتی.مصفا قطرہ چاہیے تا کہ موتی پیدا ہو.

Page 158

۱۴۸ تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء.ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور رڈی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کورڈی پاؤ اس کو کاٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو نا پاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ.پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدائے تعالیٰ سے قوت اور ہمت مانگو کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے اور پاک خیالات اور پاک جذبات اور پاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قومی کے ذریعہ سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیر ہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں کیونکہ جو بات دل سے نکلے اور دل تک ہی محدود ر ہے وہ تمہیں کسی مرتبہ تک نہیں پہنچا سکتی خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کے جلال کو اپنی آنکھ کے سامنے رکھو اور یاد رکھو کہ قرآن کریم میں پانسو کے قریب حکم ہیں اور اُس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اور ہر یک وضع اور ہر یک حالت اور ہر ایک عمر اور ہر یک مرتبہ فہم اور مرتبہ فطرت اور مرتبہ سلوک اور مرتبہ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو.جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہو گا.اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جُوا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہو گا.اور سرکش جہنم میں گرایا جائے گا پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا.دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھا در پیش ہے بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے.چاہیے پرستش ہی تمہاری زندگی ہو جاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہو کہ وہ محبوب حقیقی اور محسن حقیقی راضی ہو جاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے.خدا بڑی دولت ہے اس کے پانے کے لئے مصیبتوں کے لئے تیار ہو جاؤ.وہ بڑی مراد ہے اُس کے حاصل کرنے کے لئے جانوں کو فدا کرو.عزیز و!! خدائے تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے ایک بچہ کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو.نماز پڑھو نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی نجی ہے اور جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کر رہا

Page 159

۱۴۹ ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہری وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو اور اپنے اعضا کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور نماز میں بہت دُعا کرو اور رونا اور گڑ گڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیا جائے.سچائی اختیار کر وسچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.کیا انسان اُس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے؟ کیا اُس کے آگے بھی مکاریاں پیش جاتی ہیں؟ نہایت بد بخت آدمی اپنے فاسقانہ افعال اس حد تک پہنچاتا ہے کہ گویا خدا نہیں تب وہ بہت جلد ہلاک کیا جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ کو اس کی کچھ پروانہیں ہوتی.عزیز و! اس دنیا کی مُجر ومنطق ایک شیطان ہے اور اس دنیا کا خالی فلسفہ ایک ابلیس ہے جو ایمانی نور کو نہایت درجہ گھٹادیتا ہے اور بے باکیاں پیدا کرتا ہے اور قریب قریب دہریت کے پہنچاتا ہے سوئم اس سے اپنے تئیں بچاؤ اور ایسا دل پیدا کرو جو غریب اور مسکین ہو اور بغیر چون چرا کے حکموں کو ماننے والے ہو جاؤ جیسا کہ بچہ اپنی والدہ کی باتوں کو مانتا ہے.قرآن کریم کی تعلیمیں تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچانا چاہتی ہیں ان کی طرف کان دھرو اور ان کے موافق اپنے تئیں بناؤ.قرآن شریف انجیل کی طرح تمہیں صرف یہ نہیں کہتا کہ نامحرم عورتوں یا ایسوں کو جو عورتوں کی طرح محل شہوت ہو سکتی ہیں شہوت کی نظر سے مت دیکھو بلکہ اس کی کامل تعلیم کا یہ منشا ہے کہ تو بغیر ضرورت نامحرم کی طرف نظرمت اُٹھا.نہ شہوت سے اور نہ بغیر شہوت بلکہ چاہئے کہ تو آ نکھیں بند کر کے اپنے تئیں ٹھوکر سے بچاوے تا تیری دلی پاکیزگی میں کچھ فرق نہ آوے سو تم اپنے مولیٰ کے اس حکم کو خوب یا درکھو اور آنکھوں کے زنا سے اپنے تئیں بچاؤ اور اس ذات کے غضب سے ڈرو جس کا غضب ایک دم میں ہلاک کر سکتا ہے.قرآن شریف یہ بھی فرماتا ہے کہ تو اپنے کانوں کو بھی نامحرم عورتوں کے ذکر سے بچا اور ایسا ہی ہر یک ناجائز ذکر سے.مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو.کیونکہ بج، نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ نا انصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو.حق کو قبول کر لو اگر چہ ایک بچہ سے اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤ تو پھر فی الفور اپنی خشک منطق چھوڑ دو.سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِن

Page 160

۱۵۰ الْأَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوا قول الر یعنی بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹھ سے بھی کہ وہ بت سے کم نہیں.جو چیز قبلہ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بہت ہے.سچی گواہی دو اگر چہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یا دوستوں پر ہو.چاہئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.باہم بخل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ.قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں.ایک تو حید و محبت و اطاعت باری عزّ اسمۀ دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۴۶ تا ۵۵۰) میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہے یا اپنے مقامات میں بود و باش رکھتے ہیں اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک نیتی اور تقوی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے.وہ پنجوقت نماز جماعت کے پابند ہوں.وہ جھوٹ نہ بولیں.وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں.وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں.اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور نا کر دنی اور نا گفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں اور کوئی زہریلا خمیر اُن کے وجود میں نہ رہے.گورنمنٹ برطانیہ جس کے زیر سایہ اُن کے مال اور جانیں اور آبرو ئیں محفوظ ہیں بصدق دل اُس کے وفادار تابعدار رہیں اور تمام انسانوں کی ہمدردی اون کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک نا پاک اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاویں اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اور غبن اور رشوت اور اتلاف حقوق اور بے جا طرف داری سے باز رہیں اور کسی بد صحبت میں نہ بیٹھیں اور اگر بعد میں ثابت ہو کہ ایک شخص جو اون کے ساتھ آمد ورفت رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے احکام کا پابند نہیں ہے یا اس گورنمنٹ محسنہ کا خیر خواہ نہیں ہے یا حقوق عباد کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج اور بد چلن آدمی ہے اور یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت اور ارادت ہے اس کی نسبت ناحق اور بے وجہ بد گوئی اور زبان درازی اور بد زبانی اور بہتان اور افترا کی عادت جاری رکھ کر خدا تعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہوگا کہ اس بدی کو اپنے الحج: ٣١

Page 161

۱۵۱ درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پر ہیز کرو جو خطرناک ہے اور چاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو اور ہر ایک کے لئے بچے ناصح بنو اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گذر نہ ہو اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے.یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتدا سے کہتا چلا آیا ہوں.میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی نا پا کی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو.اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگذر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو.اور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اُٹھ جاؤ.اگر تم ستائے جاؤ اور گالیاں دیئے جاؤ اور تمہارے حق میں بُرے بُرے لفظ کہے جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاہت کا سفاہت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیسا کہ وہ ہیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہر وسو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے.جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیز گاری اور علم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جُدا ہو جائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقیناً وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا.سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ.تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا.چاہئے کہ تمہارے دل فریب سے پاک اور تمہارے ہاتھ ظلم سے بری اور تمہاری آنکھیں ناپاکی سے منزہ ہوں اور تمہارے اندر بجز راستی اور ہمدردی خلائق کے اور کچھ نہ ہو.میرے دوست جو میرے پاس قادیان میں رہتے ہیں میں اُمید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے تمام انسانی قومی میں اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں گے.میں نہیں چاہتا کہ اس نیک جماعت میں کبھی کوئی ایسا آدمی مل کر رہے جس کے حالات مشتبہ ہوں یا جس کے چال چلن پر کسی قسم کا اعتراض ہو سکے یا اس کی طبیعت میں کسی قسم کی مفسدہ پردازی ہو یا کسی اور قسم کی

Page 162

۱۵۲ ناپا کی اُس میں پائی جائے لہذا ہم پر یہ واجب اور فرض ہوگا کہ اگر ہم کسی کی نسبت کوئی شکایت سنیں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرائض کو عمد ا ضائع کرتا ہے یا کسی ٹھٹھے اور بیہودگی کی مجلس میں بیٹھا ہے یا کسی اور قسم کی بد چلنی اس میں ہے تو وہ فی الفور اپنی جماعت سے الگ کر دیا جائے گا اور پھر وہ ہمارے ساتھ اور ہمارے دوستوں کے ساتھ نہیں رہ سکے گا..اصل بات یہ ہے کہ ایک کھیت جو محنت سے طیار کیا جاتا اور پکایا جاتا ہے اس کے ساتھ خراب بوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو کاٹنے اور جلانے کے لائق ہوتی ہیں.ایسا ہی قانون قدرت چلا آیا ہے جس سے ہماری جماعت باہر نہیں ہو سکتی اور میں جانتا ہوں کہ وہ لوگ جو حقیقی طور پر میری جماعت میں داخل ہیں اُن کے دل خدا تعالیٰ نے ایسے رکھے ہیں کہ وہ طبعا بدی سے متنفر اور نیکی سے پیار کرتے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کا بہت اچھا نمونہ لوگوں کے لئے ظاہر کریں گے.تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحه ۴۲ تا ۴۵ - مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۲۲۰ تا ۲۲۲ بار دوم ) دنیا جائے گذشتنی گذاشتی ہے اور جب انسان ایک ضروری وقت میں ایک نیک کام کے بجالانے میں پوری کوشش نہیں کرتا تو پھر وہ گیا ہوا وقت ہاتھ نہیں آتا.اور خود میں دیکھتا ہوں کہ بہت سا حصہ عمر کا گزار چکا ہوں اور الہام الہی اور قیاس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ باقی ماندہ تھوڑا سا حصہ ہے.پس جو کوئی میری موجودگی اور میری زندگی میں میری منشا کے مطابق میری اغراض میں مدد دے گا میں امید رکھتا ہوں کہ وہ قیامت میں بھی میرے ساتھ ہوگا اور جو شخص ایسی ضروری مہمات میں مال خرچ کرے گا میں اُمید نہیں رکھتا کہ اس مال کے خرچ سے اُس کے مال میں کچھ کمی آ جائے گی بلکہ اس کے مال میں برکت ہوگی.پس چاہئے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور جوش اور ہمت سے کام لیں کہ یہی وقت خدمت گزاری کا ہے.پھر بعد اس کے وہ وقت آتا ہے کہ ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے پیسہ کے برابر نہیں ہو گا.یہ ایک ایسا مبارک وقت ہے کہ تم میں وہ خدا کا فرستادہ موجود ہے جس کا صد ہا سال سے اُمتیں انتظار کر رہی تھیں.اور ہر روز خدا تعالیٰ کی تازہ وحی تازہ بشارتوں سے بھری ہوئی نازل ہو رہی ہے.اور خدا تعالیٰ نے متواتر ظاہر کر دیا ہے کہ واقعی اور قطعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے گا.مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر

Page 163

۱۵۳ کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اِس خدمت کے لئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو.اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے.تھوڑے دن ہوئے کہ بمقام گورداسپور مجھ کو الہام ہوا تھا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّخِذْنِي وَكِيلاً.یعنی میں ہی ہوں کہ ہر ایک کام میں کارساز ہوں.پس تو مجھے کو ہی وکیل یعنی کارساز سمجھ لے اور دوسروں کا اپنے کاموں میں بھی دخل مت سمجھ جب یہ الہام مجھ کو ہوا تو میرے دل پر ایک لرزہ پڑا اور مجھے خیال آیا کہ میری جماعت ابھی اس لائق نہیں کہ خدا تعالیٰ ان کا نام بھی لے اور مجھے اس سے زیادہ کوئی حسرت نہیں کہ میں فوت ہو جاؤں اور جماعت کو ایسی نا تمام اور خام حالت میں چھوڑ جاؤں.میں یقیناً سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے.میں تم میں بہت دیر تک نہیں رہوں گا اور وہ وقت چلا آتا ہے کہ تم پھر مجھے نہیں دیکھو گے.اور بہتوں کو حسرت ہوگی کہ کاش ہم نے نظر کے سامنے کوئی قابل قدر کام کیا ہوتا.سو اس وقت ان حسرات کا جلد تدارک کرو.جس طرح پہلے نبی رسول اپنی اُمت میں نہیں رہے میں بھی نہیں رہوں گا.سو اس وقت کا قدر کرو.اور اگر تم اس قدر خدمت بجا لاؤ کہ اپنی غیر منقولہ جائدادوں کو اس راہ میں بیچ دو پھر بھی ادب سے دُور ہو گا کہ تم خیال کرو کہ ہم نے کوئی خدمت کی ہے.تمہیں معلوم نہیں کہ اس وقت رحمت الہی اس دین کی تائید میں جوش میں ہے اور اُس کے فرشتے دلوں پر نازل ہورہے ہیں.ہر ایک عقل اور فہم کی بات جو تمہارے دل میں ہے وہ تمہاری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے.آسمان سے عجیب سلسلہ انوار جاری اور نازل ہو رہا ہے.پس میں بار بار کہتا ہوں کہ خدمت میں جان تو ڑ کر کوشش کرو مگر دل میں مت لاؤ کہ ہم نے کچھ کیا ہے اگر تم ایسا کرو گے ہلاک ہو جاؤ گے.یہ تمام خیالات ادب سے دور ہیں.اور جس قدر بے ادب جلد تر ہلاک ہو جاتا ہے ایسا جلد کوئی ہلاک نہیں ہوتا.تبلیغ رسالت جلد دهم صفحه ۳ ۵ تا ۵۶ - مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۱۲ تا ۶۱۴ بار دوم ) واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو.پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا

Page 164

۱۵۴ ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے " انى أحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ “ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے میں اُوس کو بچاؤں گا.اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے خاک وخشت کے گھر میں بود و باش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں.پیروی کرنے کے لئے یہ باتیں ہیں کہ وہ یقین کریں کہ ان کا ایک قادر اور قیوم اور خالق الکل خدا ہے جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے.نہ وہ کسی کا بیٹا نہ کوئی اس کا بیٹا.وہ دُکھ اُٹھانے اور صلیب پر چڑھنے اور مرنے سے پاک ہے.وہ ایسا ہے کہ باوجود دُور ہونے کے نزدیک ہے اور باوجود نزدیک ہونے کے وہ دُور ہے اور باوجود ایک ہونے کے اس کی تجلیات الگ الگ ہیں.انسان کی طرف سے جب ایک نئے رنگ کی تبدیلی ظہور میں آوے تو اس کے لئے وہ ایک نیا خدا بن جاتا ہے.اور ایک نئی تجلی کے ساتھ اس سے معاملہ کرتا ہے.اور انسان بقدر اپنی تبدیلی کے خدا میں بھی تبدیلی دیکھتا ہے مگر یہ نہیں کہ خدا میں کچھ تغییر آ جاتا ہے بلکہ وہ ازل سے غیر متغیر اور کمال نام رکھتا ہے لیکن انسانی تغیرات کے وقت جب نیکی کی طرف انسان کے تغیر ہوتے ہیں تو خدا بھی ایک نئی تجلی سے اس پر ظاہر ہوتا ہے.اور ہر ایک ترقی یافتہ حالت کے وقت جو انسان سے ظہور میں آتی ہے خدا تعالیٰ کی قادرانہ تجلی بھی ایک ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے.وہ خارق عادت قدرت اسی جگہ دکھلاتا ہے جہاں خارق عادت تبدیلی ظاہر ہوتی ہے.خوارق اور معجزات کی یہی جڑ ہے.یہ خدا ہے جو ہمارے سلسلہ کی شرط ہے اس پر ایمان لاؤ اور اپنے نفس پر اور اپنے آراموں پر اور اس کے کل تعلقات پر اوس کو مقدم رکھو اور عملی طور پر بہادری کے ساتھ اس کی راہ میں صدق و وفا دکھلاؤ.دنیا اپنے اسباب اور اپنے عزیزوں پر اس کو مقدم نہیں رکھتی مگر تم اس کو مقدم رکھو تا تم آسمان پر اُس کی جماعت لکھے جاؤ.رحمت کے نشان دکھلا نا قدیم سے خدا کی عادت ہے مگر تم اس حالت میں اس عادت سے حصہ لے سکتے ہو کہ تم میں اور اس میں کچھ جدائی نہ رہے اور تمہاری مرضی اس کی مرضی اور تمہاری خواہشیں اُس کی خواہشیں ہو جائیں.اور تمہارا سر ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت مراد یابی اور نامرادی میں اُس کے آستانہ پر پڑا ر ہے تا جو چاہے سو کرے.اگر تم ایسا کرو گے تو تم میں وہ خدا ظاہر ہوگا جس نے مدت سے اپنا چہرہ چھپا لیا ہے.کیا کوئی تم میں ہے جو اس پر عمل کرے اور اس کی رضا کا طالب ہو جائے اور اس کی قضاء و قدر پر ناراض نہ ہو.سو تم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو کہ یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے اور اُس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اس کے

Page 165

بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کر وگو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.بہت ہیں جو علم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑئیے ہیں.بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں.سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو.بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خود نمائی سے اُن کی تذلیل.اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے مولی کی طرف منقطع ہو جاؤ.اور دنیا سے دل برداشتہ رہو.اور اُسی کے ہو جاؤ اور اُسی کے لئے زندگی بسر کرو.اور اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے.چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی.اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں.اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی اور جس پر پڑتی ہے اُس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی ہے.تم ریا کاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اُس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے.کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو؟ پس تم سیدھے ہو جاؤ.اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ.اگر ایک ذرہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو ڈور کر دے گی.اور اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو.ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھو کہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے.کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا.تم آپس میں جلد صلح کرو.اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا.کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے.تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور نیچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلیل کرو تا تم بخشے جاؤ.نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہواس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا.کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے

Page 166

۱۵۶ منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں.تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم با ہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی.تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں.خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے.بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.خائن اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.اور ہر ایک جو اس کے نام کے لئے غیرت مند نہیں اُس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.وہ جو دنیا پر گتوں یا چیونٹیوں یا گڑھوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.ہر ایک نا پاک آنکھ اُس سے دُور ہے.ہر ایک نا پاک دل اُس سے بے خبر ہے وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا.وہ جو اُس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا.وہ جو اس کے لئے دنیا سے تو ڑتا ہے وہ اُس کو ملے گا.تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے.تم ماتختوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو.تم سچ سچ اُس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جاوے.دنیا ہزاروں بلاؤں کی جگہ ہے جن میں سے ایک طاعون بھی ہے سو تم خدا سے صدق کے ساتھ پنجہ ماروتا وہ یہ بلائیں تم سے دُور رکھے.کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو.سو تمہاری عقل مندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر اون پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہوگا جو خدا کا ارادہ ہوگا.اگر کوئی طاقت رکھے تو تو کل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے.اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُون کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو

Page 167

۱۵۷ خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۰ تا ۱۴) ان سب باتوں کے بعد پھر میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے.ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اوس کو مت کھاؤ.خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو.دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دُعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجز وعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں.جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بدعملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بدنظری سے اور خیانت سے رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا جو اوس پر بداثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعتمد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنی ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گنہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ا ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اُس عہد کو جو اُس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے تو ڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور

Page 168

۱۵۸ جو شخص امور معروفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے طیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.اور جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ہر ایک زانی، فاسق، شرابی ، خونی، چور، قمار باز، خائن ، مرتشی ، غاصب، ظالم، دروغ گو، جعلساز اور اُن کا ہم نشین اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی.ہر ایک جو پیچ در پیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے وہ اس برکت کو ہرگز نہیں پاسکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے.کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے.ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا.وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے.احمق ہے وہ دشمن جو ان کا قصد کرے کیونکہ وہ خدا کی گود میں ہیں اور خدا ان کی حمایت میں.کون خدا پر ایمان لایا؟ صرف وہی جو ایسے ہیں.ایسا ہی وہ شخص بھی احمق ہے جو ایک بے باک گنہگار اور بد باطن اور شریر النفس کے فکر میں ہے کیونکہ وہ خود ہلاک ہو گا جب سے خدا نے آسمان اور زمین کو بنایا کبھی ایسا اتفاق نہ ہوا کہ اس نے نیکوں کو تباہ اور ہلاک اور نیست و نابود کر دیا ہو.بلکہ وہ ان کے لئے بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے اور اب بھی دکھلائے گا وہ خدا نہایت وفادار خدا ہے اور وفاداروں کے لئے اس کے عجیب کام ظاہر ہوتے ہیں.دنیا چاہتی ہے کہ اُن کو کھا جائے اور ہر ایک دشمن اُن پر دانت پیتا ہے مگر وہ جو ان کا دوست ہے ہر ایک ہلاکت کی جگہ سے اون کو بچاتا ہے اور ہر ایک میدان میں اون کو فتح بخشتا ہے.کیا ہی نیک طالع وہ شخص ہے جو اُس خدا کا دامن نہ چھوڑے.ہم اس پر ایمان لائے.ہم نے اس کو شناخت کیا.تمام دنیا کا وہی خدا ہے جس نے میرے پر وحی نازل کی.جس نے میرے لئے زبردست نشان دکھلائے جس نے مجھے اس زمانے کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا.اس کے سوا کوئی خدا نہیں نہ آسمان میں نہ زمین میں.جو شخص اس پر ایمان نہیں لاتا وہ سعادت سے محروم اور خذلان میں گرفتار ہے.ہم نے اپنے خدا کی آفتاب کی طرح روشن وحی پائی.ہم نے اُسے دیکھ لیا کہ دنیا کا وہی خدا ہے.اس کے سوا کوئی نہیں.کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا.کیا ہی زبر دست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا.سچ تو یہ ہے کہ اُس کے آگے کوئی بات

Page 169

۱۵۹ ان ہونی نہیں.مگر وہی جو اس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے.سو جب تم دعا کرو تو اُن جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانونِ قدرت بنا بیٹھے ہیں جس پر خدا کی کتاب کی مُہر نہیں کیونکہ وہ مردود ہیں.اُن کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی.وہ اندھے ہیں نہ سوجا کھے.وہ مردے ہیں نہ زندے.خدا کے سامنے اپنا تراشیدہ قانون پیش کرتے ہیں.اور اُس کی بے انتہا قدرتوں کی حد بست ٹھہراتے ہیں اور اس کو کمزور سمجھتے ہیں.سو اُن سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا جیسا کہ اُن کی حالت ہے لیکن جب تو دُعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہو گی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں.اور ہماری گواہی رویت سے ہے نہ بطور قصہ کے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۸ تا ۲۱) اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا.تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں.اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتا کہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہو جاتے.ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے؟ پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے ؟ خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے.تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیں.اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں.غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں.میں تمہیں حد اعتدال تک رعایت اسباب سے منع نہیں کرتا بلکہ اس سے منع کرتا ہوں کہ غیر قوموں کی طرح نرے اسباب کے بندے ہو جاؤ اور اس خدا کو فراموش کر دو جو اسباب کو بھی وہی مہیا کرتا ہے.اگر تمہیں آنکھ ہو تو تمہیں نظر آ جائے کہ خدا ہی خدا ہے اور سب پیچ ہے.تم نہ ہاتھ لمبا کر سکتے ہو اور نہ اکٹھا کر سکتے ہومگر اوس کے اذن سے.ایک مُردہ اس پر ہنسی کرے گا مگر کاش اگر وہ مر جاتا تو اس ہنسی سے اس کے لئے بہتر تھا.خبر دار !!! تم غیر قوموں کو دیکھ کر اُن کی ریس مت کرو کہ انہوں نے دنیا کے منصوبوں میں بہت ترقی کر لی ہے آؤ ہم بھی انہی کے قدم پر چلیں.سنو اور سمجھو کہ وہ اس خدا سے سخت بیگا نہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے.اُن کا خدا کیا چیز ہے؟

Page 170

170 صرف ایک عاجز انسان.اس لئے وہ غفلت میں چھوڑے گئے.میں تمہیں دنیا کے کسب اور حرفت سے نہیں روکتا مگر تم ان لوگوں کے پیرومت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے.چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے.لیکن نہ صرف خشک ہونٹوں سے بلکہ چاہئے کہ تمہارا سچ سچ یہ عقیدہ ہو کہ ہر ایک برکت آسمان سے ہی اُترتی ہے تم راستباز اس وقت بنو گے جب کہ تم ایسے ہو جاؤ کہ ہر ایک کام کے وقت ہر ایک مشکل کے وقت قبل اس کے جو تم کوئی تدبیر کرو اپنا دروازہ بند کرو اور خدا کے آستانہ پر گرو کہ ہمیں یہ مشکل پیش ہے اپنے فضل سے مشکل کشائی فرما تب رُوح القدس تمہاری مدد کرے گی.اور غیب سے کوئی راہ تمہارے لئے کھولی جائے گی.اپنی جانوں پر رحم کرو اور جو لوگ خدا سے بکلی علاقہ توڑ چکے ہیں اور ہمہ تن اسباب پر گر گئے ہیں یہاں تک کہ طاقت مانگنے کے لئے وہ منہ سے انشاء اللہ بھی نہیں نکالتے اُن کے پیرومت بن جاؤ.خدا تمہاری آنکھیں کھولے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں؟ نہیں بلکہ یک دفعہ گریں گی اور احتمال ہے کہ ان سے کئی خون بھی ہو جائیں.اسی طرح تمہاری تدابیر بغیر خدا کی مدد کے قائم نہیں رہ سکتیں.اگر تم اس سے مدد نہیں مانگو گے اور اس سے طاقت مانگنا اپنا اصول نہیں ٹھہراؤ گے تو تمہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوگی.آخر بڑی حسرت سے کرو گے.یہ مت خیال کرو کہ پھر دوسری قومیں کیونکر کامیاب ہو رہی ہیں حالانکہ وہ اوس خدا کو جانتی بھی نہیں جو تمہارا کامل اور قادر خدا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ وہ خدا کو چھوڑنے کی وجہ سے دنیا کے امتحان میں ڈالی گئی ہیں.خدا کا امتحان کبھی اس رنگ میں ہوتا ہے کہ جو شخص اُسے چھوڑتا ہے اور دنیا کی مستیوں اور لذتوں سے دل لگاتا ہے اور دنیا کی دولتوں کا خواہشمند ہوتا ہے تو دنیا کے دروازے اُس پر کھولے جاتے ہیں اور دین کے رو سے وہ نرا مفلس اور ننگا ہوتا ہے اور آخر دنیا کے خیالات میں ہی مرتا اور ابدی جہنم میں ڈالا جاتا ہے.اور کبھی اس رنگ میں بھی امتحان ہوتا ہے کہ دنیا سے بھی نامراد رکھا جاتا ہے.مگر مؤخر الذکر امتحان ایسا خطرناک نہیں جیسا کہ پہلا.کیونکہ پہلے امتحان والا زیادہ مغرور ہوتا ہے.بہر حال یہ دونوں فریق مغضوب علیہم ہیں.کچی خوشحالی کا سر چشمہ خدا ہے.پس جبکہ اس حي و قيوم خدا سے یہ لوگ بے خبر ہیں بلکہ لاپر واہیں اور اس سے منہ پھیر رہے ہیں تو سچی خوشحالی ان کو کہاں نصیب ہو سکتی ہے.مبار کی ہو اس انسان کو جو اس راز کو سمجھ لے اور ہلاک ہو گیا وہ شخص جس نے اس راز کو نہیں سمجھا.اسی طرح تمہیں چاہئے کہ اس دنیا کے فلسفیوں کی پیروی مت کرو اور ان کو عزت کی

Page 171

۱۶۱ نگہ سے مت دیکھو کہ یہ سب نادانیاں ہیں.سچا فلسفہ وہ ہے جو خدا نے تمہیں اپنی کلام میں سکھلایا ہے.ہلاک ہو گئے وہ لوگ جو اس دنیوی فلسفہ کے عاشق ہیں اور کامیاب ہیں وہ لوگ جنہوں نے سچے علم اور فلسفہ کو خدا کی کتاب میں ڈھونڈا.نادانی کی راہیں کیوں اختیار کرتے ہو؟ کیا تم خدا کو وہ باتیں سکھلاؤ گے جو اُسے معلوم نہیں ؟ کیا تم اندھوں کے پیچھے دوڑتے ہو کہ وہ تمہیں وہ راہ دکھلا دیں ؟ اے نادانو ! وہ جو خود اندھا ہے وہ تمہیں کیا راہ دکھائے گا ؟ بلکہ سچا فلسفہ رُوح القدس سے حاصل ہوتا ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.تم رُوح کے وسیلہ سے ان پاک علوم تک پہنچائے جاؤ گے جن تک غیروں کی رسائی نہیں.اگر صدق سے مانگو تو آخر تم اُسے پاؤ گے تب سمجھو گے کہ یہی علم ہے جو دل کو تازگی اور زندگی بخشتا ہے اور یقین کے مینار تک پہنچا دیتا ہے.وہ جو خود مُردار خوار ہے وہ کہاں سے تمہارے لئے پاک غذا لائے گا؟ وہ جو خود اندھا ہے وہ کیونکر تمہیں دکھاوے گا ؟ ہر ایک پاک حکمت آسمان سے آتی ہے پس تم زمینی لوگوں سے کیا ڈھونڈتے ہو؟ جن کی روحیں آسمان کی طرف جاتی ہیں وہی حکمت کے وارث ہیں.جن کو خود تسلی نہیں وہ کیونکر تمہیں تسلی دے سکتے ہیں.مگر پہلے دلی پاکیزگی ضروری ہے.پہلے صدق و صفا ضروری ہے پھر بعد اس کے یہ سب کچھ تمہیں ملے گا.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۲ تا ۲۴) اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حکم عدل مانا ہے تو اس کے ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کی فکر کرو.وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہوگا ، لیکن اگر تم نے بچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اُس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو.اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہر و.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے.وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا.وہ حکم عدل ہوگا اگر اس پر تسلی نہیں ہوتی تو پھر کب ہوگی.(الحکم ۱۰ر دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ نمبر ۱.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی

Page 172

۱۶۲ حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو لیکن اس غرض کے حصول کے لئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دُور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے سو اس بات کے لئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی.اطلاع منسلکہ آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۵۱) قلب انسانی بھی حجر اسود کی طرح ہے اور اس کا سینہ بیت اللہ سے مشابہت رکھتا ہے ماسوی اللہ کے خیالات وہ بت ہیں جو اس کعبہ میں رکھے گئے ہیں.مکہ معظمہ کے بتوں کا قلع قمع اُس وقت ہوا تھا جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کی جماعت کے ساتھ وہاں جا پڑے تھے اور مکہ فتح ہو گیا تھا.پس ماسوی اللہ کے بتوں کی شکست اور استیصال کے لئے ضروری ہے کہ ان پر اسی طرح سے چڑھائی کی جائے.غرض اس خانہ خدا کو بتوں سے پاک وصاف کرنے کے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے اور اس جہاد کی راہ میں تمہیں بتاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں اگر تم اس پر عمل کرو گے تو ان بتوں کو توڑ ڈالو گے.اور یہ راہ میں اپنی خود تراشیدہ نہیں بتا تا بلکہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں بتاؤں.اور وہ راہ کیا ہے؟ میری پیروی کرو اور میرے پیچھے چلے آؤ.یہ آواز نئی آواز نہیں ہے.مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کہا تھا قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله ای طرح پر اگر تم میری پیروی کرو گے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہو جاؤ گے.اور اس طرح پر سینہ کو جو طرح طرح کے بتوں سے بھرا پڑا ہے پاک کرنے کے لائق ہو جاؤ گے.تزکیہ نفس کے لئے چلہ کشیوں کی ضرورت نہیں ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے چلہ کشیاں نہیں کی تھیں.اڑہ اور نفی واثبات وغیرہ کے ذکر نہیں کئے تھے بلکہ اُن کے پاس ایک اور ہی چیز تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں محو تھے.جونور آپ میں تھا وہ اُس اطاعت کی نالی میں سے ہو کر صحابہ کے قلب پر گرتا تھا اور ماسوی اللہ کے خیالات کو پاش پاش کرتا جاتا تھا.تاریکی کے بجائے اُن سینوں میں ٹور بھرا جاتا تھا.اس وقت بھی خوب یاد رکھو وہی حالت ا ال عمران: ۳۲

Page 173

۱۶۳ ہے.جب تک کہ وہ ٹور جو خدا کی نالی میں سے آتا ہے تمہارے قلب پر نہیں گرتا تزکیہ نفس نہیں ہوسکتا انسان کا سینہ مهبط الانوار ہے اور اسی وجہ سے وہ بیت اللہ کہلاتا ہے.بڑا کام یہی ہے کہ اس میں جو بت ہیں وہ توڑے جائیں اور اللہ ہی اللہ رہ جائے.الحکم مورخہ ۷ ار اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۲ ،۳.ملفوظات جلد اول صفحه ۲۱،۱۲۰ جدید ایڈیشن ) اگر چہ ہمارا گر وہ ابھی بکثرت دنیا میں نہیں پھیلا لیکن پشاور سے لے کر بمبئی اور کلکتہ اور حیدر آباد دکن اور بعض دیار عرب تک ہمارے پیرو دنیا میں پھیل گئے.پہلے یہ گروہ پنجاب میں بڑھتا پھولتا گیا اور اب میں دیکھتا ہوں کہ ہندوستان کے اکثر حصوں میں ترقی کر رہا ہے.ہمارے گروہ میں عوام کم اور خواص زیادہ ہیں..اللہ تعالیٰ کے فضل اور قدرت نے مولویوں کو ان کے ارادوں سے نامراد ر کھ کر ہماری جماعت کو فوق العادت ترقی دی ہے اور دے رہا ہے.وہ لوگ جو درحقیقت پارسا طبع اور خدا ترس اور نوع انسان سے ہمدردی کرنے والے اور دین کی ترقی کے لئے بدل و جان کوشش کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں بٹھانے والے اور عقلمند اور ذی فہم اور او الوالعزم اور خدا اور رسول سے سچی محبت رکھنے والے ہیں وہ اس جماعت میں بکثرت پائے جائیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ خداوند کریم اس بات کا ارادہ کر رہا ہے کہ اس جماعت کو بڑہا وے اور برکت دے اور زمین کے کناروں تک سعادت مند انسانوں کو کھینچ کر اس میں داخل کرے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۰۴، ۲۰۵ حاشیه ) سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا؟ اس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا.وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا.وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دل آزاری اور بد زبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مدددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی.بہتیرے اُن میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے.بہتیرے ان میں ایسے ہیں جن کو سچی خوا ہیں آتی اور الہام الہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے.بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ

Page 174

۱۶۴ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے.ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یا درکھتے اور دلوں کے نرم اور کچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی.وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا.غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں.جو اخَرِينَ مِنْهُمْ کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا !!!.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۰ ، ۳۰۷) وہ خدا جو آنکھوں سے پوشیدہ مگر سب چیزوں سے زیادہ چمک رہا ہے جس کے جلال سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں وہ شوخی اور چالا کی کو پسند نہیں کرتا اور ڈرنے والوں پر رحم کرتا ہے سو اس سے ڈرو اور ہر ایک بات سمجھ کر کہو.تم اس کی جماعت ہو جن کو اُس نے نیکی کا نمونہ دکھانے کے لئے چنا ہے سو جو شخص بدی نہیں چھوڑتا اور اس کے کب جھوٹھ سے اور اس کا دل نا پاک خیالات سے پر ہیز نہیں کرتا وہ اس جماعت سے کاٹا جائے گا.اے خدا کے بندو! دلوں کو صاف کرو اور اپنے اندرونوں کو دھو ڈالو.تم نفاق اور دورنگی سے ہر ایک کو راضی کر سکتے ہو مگر خدا کو اس خصلت سے غضب میں لاؤ گے.اپنی جانوں پر رحم کرو اور اپنی ذریت کو ہلاکت سے بچاؤ کبھی ممکن ہی نہیں کہ خدا تم سے راضی ہو حالانکہ تمہارے دل میں اس سے زیادہ کوئی اور عزیز بھی ہے.اس کی راہ میں فدا ہو جاؤ اور اس کے لئے محو ہو جاؤ اور ہمہ تن اس کے ہو جاؤ.اگر چاہتے ہو کہ اسی دنیا میں خدا کو دیکھ لو.راز حقیقت.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۵۶، ۱۵۷) خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے.عام طور پر تکبر کا لفظ دنیا میں پھیلا ہوا ہے.علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبر میں گرفتار ہیں.فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے.ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا.ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے.اس لئے اون کے مجاہدہ اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کے ہیں.جیسے ذکر اڑہ وغیرہ جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا.میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی

Page 175

۱۶۵ نہیں صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے جس میں روحانیت کا کوئی نام ونشان نہیں.یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں پس یہ زمانہ بالکل خالی ہے.نبوی طریق جو پاک ہونے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو بھلا دیا ہے.اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آجاوے اور تقویٰ و طہارت پھر قائم ہو اور اس کو اس نے اس جماعت کے ذریعہ سے چاہا ہے.پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے.الحکم مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۳ کالم ۲،۱) اے لوگو! خدا سے ڈرو اور درحقیقت اس سے صلح کر لو اور سچ مچ صلاحیت کا جامہ پہن لو اور چاہئے کہ ہر ایک شرارت تم سے دُور ہو جائے.خدا میں بے انتہا عجیب قدرتیں ہیں.خدا میں بے انتہا طاقتیں ہیں.خدا میں بے انتہا رحم اور فضل ہے.وہی ہے جو ایک ہولناک سیلاب کو ایک دم میں خشک کر سکتا ہے.وہی ہے جو مہلک بلاؤں کو ایک ہی ارادے سے اپنے ہاتھ سے اُٹھا کہ دور پھینک دیتا ہے.مگر اس کی یہ عجیب قدرتیں انہی پر کھلتی ہیں جو اُس کے ہی ہو جاتے ہیں اور وہی یہ خوارق دیکھتے ہیں جو اس کے لئے اپنے اندر ایک پاک تبدیلی کرتے ہیں اور اس کے آستانے پر گرتے ہیں.اور اس قطرے کی طرح جس سے موتی بنتا ہے صاف ہو جاتے ہیں.اور محبت اور صدق اور صفا کی سوزش سے پگھل کر اس کی طرف بہنے لگتے ہیں تب وہ مصیبتوں میں اُن کی خبر لیتا ہے اور عجیب طور پر دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں سے انہیں بچا لیتا ہے اور ذلت کے مقاموں سے انہیں محفوظ رکھتا ہے.وہ ان کا متولی اور متعہد ہو جاتا ہے.وہ ان مشکلات میں جبکہ کوئی انسان کام نہیں آ سکتا ان کی مدد کرتا ہے اور اس کی فوجیں اس کی حمایت کے لئے آتی ہیں.کس قدر شکر کا مقام ہے کہ ہمارا خدا کریم اور قادر خدا ہے.پس کیا تم ایسے عزیز کو چھوڑو گے؟ کیا اپنے نفس نا پاک کے لئے اس کی حدود کو توڑ دو گے؟ ہمارے لئے اس کی رضا مندی میں مرنا نا پاک زندگی سے بہتر ہے.تیام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۴۲٬۳۴۱) اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی.اپنا آرام.اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے.اور جہاں تک تمہاری

Page 176

۱۶۶ طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں.میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے.مجھے کون پہنچانتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں اور مجھے اس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں.دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا.مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں.جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے.ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی.مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے.اور بھی کو چھوڑتا اور راستی پر قتم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ مطیع بن جاتا ہے.ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اُس میں ہوں.مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مرگی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے.تب وہ اس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پیر رکھ دیتا ہے تو وہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اس میں کبھی آگ نہیں تھی.تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالی کی رُوح اس میں سکونت کرتی ہے اور ایک تجلی خاص کے ساتھ رب العالمین کا استولی اُس کے دل پر ہوتا ہے.تب پورانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اس کو عطا کی جاتی ہے اور خدا تعالی بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اسی عالم میں اس کومل جاتا ہے.( فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴ ، ۳۵) اے میری جماعت خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفر آخرت کے لئے ایسا طیار کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طیار کئے گئے تھے خوب یا درکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے.لعنتی ہے وہ زندگی جو محض دنیا کے لئے ہے اور بدقسمت ہے وہ جس کا تمام ہم وغم دنیا

Page 177

۱۶۷ کے لئے ہے.ایسا انسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عبث طور میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو پھل نہیں لائے گی.اے سعادت مند لوگو! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے.تم خدا کو واحد لاشریک سمجھو.اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو نہ آسمان میں سے نہ زمین میں سے.خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا.لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے.قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں.سوتم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ.انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلید یاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے.اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا.سو تم دل کے مسکین بن جاؤ.عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو.جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو.سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں اُن کی بدخواہی کرو.خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجالاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے.نمازوں میں بہت دُعا کرو کہ تا تمہیں خدا اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے.کیونکہ انسان کمزور ہے.ہر ایک بدی جو دُور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دُور ہوتی ہے اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دُور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا.اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رُو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جا ئیں.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۳) میری طرف سے جماعت کے لئے بار بار وہی نصیحت ہے جو کہ میں کئی دفعہ اس جگہ اور دوسرے مقامات میں کر چکا ہوں کہ انسان کی عمر نا پائیدار ہے اس کا کچھ بھروسہ نہیں ہے اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خاتمہ بالخیر ہو جاوے.یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس کے حاصل کرنے کے لئے راستہ میں بہت سے کانٹے ہیں.جب انسان دنیا میں آتا ہے تو اس کا اول حصہ تو بیہوشی میں گذر جاتا ہے کیونکہ بچہ ہوتا ہے اور اسے کسی قسم کا علم ہر گز نہیں ہوتا.پھر دوسرا زمانہ اس پر آتا ہے کہ اگر چہ بچوں جیسی بیہوشی تو نہیں ہوتی مگر جوانی کی مستی کی ایک بے ہوشی ضرور ہوتی ہے.پس دوزمانے تو اس طرح مارے جاتے ہیں.پھر تیسرا زمانہ آتا ہے جو کہ پیرانہ سالی کا زمانہ ہوتا ہے کہ علم کے بعد پھر لا علم ہو جاتا ہے.حواس میں

Page 178

۱۶۸ فرق آجاتا ہے.اور بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ پیرانہ سالی میں قدم رکھتے ہی اُن میں جنون کے آثار شروع ہو جاتے ہیں اور مخبوط الحواس نظر آتے ہیں اور بچپن کے سے خواص اُن میں پائے جاتے ہیں.(البدر.یکم جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۱۰) ایسے بہت سے خاندان ہیں کہ اُن میں ۶۰ یا ۷۰ سال کے بعد انسان کے حواس میں فتور آ جاتا ہے.غرض اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی قومی کی کمزوری اور طاقتوں کے ضائع ہو جانے سے انسان ہوش میں بیہوش ہوتا ہے اور ضعف و تکامل اپنا اثر کرنے لگتا ہے.انسان کی عمر کی تقسیم انہی تین زمانوں پر ہے اور یہ تینوں ہی خطرات اور مشکلات میں ہیں.پس اندازہ کرو کہ خاتمہ بالخیر کے لئے کس قدر مشکل مرحلہ ہے.الحکم مورخه ۱۰، جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۲) اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے (جیسا کہ میں پہلے کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں ) اول ضروری ہے کہ انسان دیدہ دانستہ اپنے آپ کو گناہ کے گڑھے میں نہ ڈالے ورنہ وہ ضرور ہلاک ہو گا.جو شخص دیدہ دانسته بد راه اختیار کرتا ہے یا کنوئیں میں گرتا ہے اور زہر کھاتا ہے وہ یقیناً ہلاک ہو گا.ایسا شخص نہ دنیا کے نزدیک اور نہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل رحم ٹھہر سکتا ہے.اس لئے یہ ضروری اور بہت ضروری ہے خصوصاً ہماری جماعت کے لئے (جس کو اللہ تعالیٰ نمونہ کے طور پر انتخاب کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے) کہ جہاں تک ممکن ہے بدصحبتوں اور بد عادتوں سے پر ہیز کریں اور اپنے آپ کو نیکی کی طرف لگا ئیں.اس مقصد کے حاصل کرنے کے واسطے جہاں تک تدبیر کا حق ہے تدبیر کرنی چاہئے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہئے.یاد رکھو تد بیر بھی ایک مخفی عبادت ہے اس کو حقیر مت سمجھو اسی سے وہ راہ کھل جاتی ہے جو بدیوں سے نجات پانے کی راہ ہے جولوگ بدیوں سے بچنے کی تجویز اور تدبیر نہیں کرتے ہیں وہ گویا بدیوں پر راضی ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر خدا تعالیٰ اُن سے الگ ہو جاتا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جب انسان نفس امارہ کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے باوجود بھی تدبیروں میں لگا ہوا ہوتا ہے تو اس کا نفس امارہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تو امہ ہو جاتا ہے اور ایسی قابل قدر تبدیلی پالیتا ہے کہ یا تو وہ امارہ تھا جو لعنت کے قابل تھا اور یا تدبیر اور تجویز کرنے سے وہی قابل لعنت نفس امارہ ، لوامہ ہو جاتا ہے جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اس کی قسم کھاتا ہے.(الحکم مورخه، ارجنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۳) سواے دے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اُس وقت میری جماعت

Page 179

۱۶۹ شمار کئے جاؤ گے جب سچ سچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو.ہر ایک جو ز کوۃ کے لائق ہے وہ زکوۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے.نیکی کوسنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.یقیناً یا درکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہو.ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے.جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا.ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے.سو خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ.زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے.جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے.اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو.اور ضرور ہے کہ تم دکھ دیئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ.سوان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں.اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو.تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھلا ؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو.ہر ایک جو تم میں سست ہو جائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا.دیکھو میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا در حقیقت موجود ہے.اگر چہ سب اسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اُس کو چُنتا ہے.وہ اُس کے پاس آ جاتا ہے جو اُس کے پاس جاتا ہے.جو اس کو عزت دیتا ہے وہ اُس کو بھی عزت دیتا ہے.تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آ جاؤ کہ وہ تمہیں قبول کرے گا.عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمد یت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی پیج سے جُدا ہے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۵، ۱۶)

Page 180

۱۷۰ حقیقی مسلمان اللہ تعالیٰ سے پیار کرتا ہے یہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ میرا محبوب ومولی پیدا کرنے والا اور محسن ہے اس لئے اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتا ہے.سچے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کی پاداش میں کچھ بھی نہیں ملے گا اور نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے اور نہ آرام ہیں نہ لذات ہیں تو وہ اپنے اعمال صالحہ اور محبت الہی کو ہرگز ہرگز چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ اس کی عبادات اور خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی فرمانبرداری اور اطاعت میں فنا کسی پاداش یا اجر کی بناء اور امید پر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے وجود کو ایسی چیز سمجھتا ہے کہ وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ ہی کی شناخت ، اس کی محبت اور اطاعت کے لئے بنائی گئی ہے اور کوئی غرض اور مقصد اس کا ہے ہی نہیں.اسی لئے وہ اپنی خدا دا د قوتوں کو جب ان اغراض اور مقاصد میں صرف کرتا ہے تو اس کو اپنے محبوب حقیقی ہی کا چہرہ نظر آتا ہے.بہشت و دوزخ پر اس کی اصلا نظر نہیں ہوتی.میں کہتا ہوں کہ اگر مجھے اس امر کا یقین دلا دیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کی اطاعت میں سخت سے سخت سزادی جاوے گی تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری فطرت ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ ان تکلیفوں اور بلاؤں کو ایک لذت اور محبت کے جوش اور شوق کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہے اور باوجود ایسے یقین کے جو عذاب اور دُکھ کی صورت میں دلایا جاوے کبھی خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لا انتہا موت سے بڑھ کر اور دکھوں اور مصائب کا مجموعہ قرار دیتی ہے.الحکم مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۲ء صفحه ۵ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۱۳۳ ۱۳۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ہماری جماعت کو واجب ہے کہ اب تقویٰ سے کام لیوے اور اولیاء بنے کی کوشش کرے.اس وقت زمینی اسباب کچھ کام نہ آوے گا اور نہ منصوبہ اور نہ حجت بازی کام آوے گی.دنیا سے کیا دل لگانا ہے اور اس پر کیا بھروسہ کرنا ہے.یہی امر غنیمت ہے کہ خدا سے صلح کی جاوے اور اس کا یہی وقت ہے ان کو یہی فائدہ اٹھانا چاہئے کہ خدا سے اسی کے ذریعہ سے صلح کر لیں.بہت مرضیں ایسی ہوتی ہیں کہ دلالہ کا کام کرتی ہیں اور انسان کو خدا سے ملا دیتی ہیں خاص ہماری جماعت کو اس وقت وہ تبدیلی یک مرتبہ ہی کرنی چاہئے جو کہ اس نے دس برس میں کرنی تھی.اور کوئی اور جگہ نہیں ہے جہاں ان کو پناہ مل سکتی ہے.اگر وہ خدا پر بھروسہ کر کے دعائیں کریں تو ان کو بشارتیں بھی ہو جاویں گی.صحابہ پر جیسے سکینت اتری تھی ویسے ان پر اُترے گی.صحابہ کو انجام تو معلوم نہ ہوتا تھا کہ کیا ہوگا مگر دل میں یہ تسلی ہو جاتی تھی کہ خدا ہمیں ضائع نہ کرے گا اور سکینت اسی تسلّی کا نام ہے.جیسے میں اگر طاعون زدہ ہو جاؤں اور گلے ،

Page 181

121 تک میری جان آ جاوے تو مجھے ہرگز یہ وہم تک نہیں ہو گا کہ میں ضائع ہو جاؤں گا.اس کی کیا وجہ ہے؟ صرف وہی تعلق جو میرا خدا کے ساتھ ہے وہ بہت قوی ہے.انسان کے لئے ٹھیک ہونے کا یہ مفت کا موقع ہے.راتوں کو جا گو.دعائیں کرو.آرام کرو.جو کسل اور سُستی کرتا ہے وہ اپنے گھر والوں اور اولاد پر ظلم کرتا ہے کیونکہ وہ تو مثل جڑھ کے ہے اور اہل وعیال اُس کی شاخیں ہیں.تھوڑے ابتلا کا ہونا ضروری ہے جیسے لکھا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک طرف تو مکہ میں فتح کی خبر میں دی جاتی تھیں اور ایک طرف اُن کو جان کی بھی خیر نظر نہ آتی تھی.اگر نبوت کا دل نہ ہوتا تو خدا جانے کیا ہوتا.یہ اسی دل کا حوصلہ تھا.بعض ابتلا صرف تبدیلی کے واسطے ہوتے ہیں.عملی نمونے ایسے اعلیٰ درجہ کہ ہوں کہ اُن سے تبدیلیاں ہوں اور ایسی تبدیلی ہو کہ خود انسان محسوس کرے کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو کہ میں پہلے تھا بلکہ اب میں ایک اور انسان ہوں.اس وقت خدا کو راضی کر وحتی کہ تم کو بشارتیں ہوں.کل لکھتے ہوئے ایک پرانا الہام نظر پڑا.أَيَّامُ غَضَبِ اللَّهِ.غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِيدًا، نُنْجِي أَهْلَ السَّعَادَةِ یہاں اہل سعادت سے مراد وہ شخص ہے جو عملی طور پر صدق دکھلاتا ہے.خالی زبان تک ایمان کا ہونا کوئی فائدہ نہیں دیتا جیسے صحابہ نے صدق دکھلایا کہ تھیلی پر جانیں رکھ لیں اور بال بچوں تک کو قربان کیا.مگر ہم آج ایک شخص کو اگر کہیں کہ سوکوس چلا جا تو وہ عذر کرتا ہے حتی کہ آبر وعزت کا معاملہ پیش کرتا ہے اور کاروبار کا ذکر کرتا ہے کہ کسی طرح جانے سے رہ جاوے مگر انہوں (صحابہ) نے جان، مال، آبرو، عزت سب کچھ خاک میں ملا دیا.بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر فلاں فلاں آفت آئی حالانکہ ہم نے بیعت کی تھی مگر ہم نے بار بار جماعت کو کہا ہے کہ نری بیعت اور صرف زبان سے ماننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.چاہئے کہ خدا میں گداز ہو کر ایک نیا وجود بن جائے.سارا قرآن دیکھو کہ کہیں بھی صرف امنوا نہیں لکھا ہے ہر جگہ عمل صالح کا ساتھ ہی ذکر ہے غرضیکہ خدا ایک موت چاہتا ہے اور میرا تجربہ ہے کہ خدا مومن پر دو موتیں ہرگز جمع نہیں کرتا کہ ایک موت تو اُس کی خدا کے واسطے ہو اور دوسری دنیا کی لعن طعن کے واسطے.ایسے نازک وقت میں چاہئے کہ جماعت سمجھ جاوے اور ایک تیر کی طرح سیدھی ہو جاوے.اگر ہزاروں العنكبوت: ٣ ۲ تذکره مطبوعه ۲۰۰۲ صفحه ۳۳۳ پر اس الہام کے الفاظ بحوالہ الحکم یوں مندرج ہیں "أَيَّامُ غَضَبِ اللَّهِ.غَضِبْتُ ،، غَضَبًا شَدِيدًا.إِنَّهُ يُنْجِي أَهْلَ السَّعَادَةِ.(ناشر)

Page 182

۱۷۲ آدمی بھی طاعون سے مر جائیں تو میں ہرگز خدا کو ملزم نہ کروں گا اور یہی کہوں گا کہ انہوں نے احسان کا پہلو چھوڑ دیا.اِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ - ( البدر مورخه ۲۶ / دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۶۷، ۶۸ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۵۸۲٬۵۸۱ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی.اور نفسانی جذبات کو بکلی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جُدا کرتی ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو.درد جس سے خدا راضی ہو اس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الہی ہو.اس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے.اگر تم صاف دل ہو کر اس کی طرف آ جاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر اپنی لذات چھوڑ کر اپنی عزت چھوڑ کر اپنا مال چھوڑ کر اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے لیکن اگر تم تلخی اٹھا لو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آ جاؤ گے اور تم اُن راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں.خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے.وہی پانی جس سے تقویٰ پرورش پاتی ہے تمام باغ کو سیراب کر دیتا ہے.تقویٰ ایک ایسی جڑھ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ بیچ ہے اور اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے.انسان کو اس فضولی سے کیا فائدہ جو زبان سے خدا طلبی کا دعوی کرتا ہے لیکن قدم صدق نہیں رکھتا.دیکھو میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ آدمی ہلاک شدہ ہے جو دین کے ساتھ کچھ دنیا کی ملونی رکھتا ہے اور اس نفس سے جہنم بہت قریب ہے جس کے تمام ارادے خدا کے لئے نہیں ہیں بلکہ کچھ خدا کے لئے اور کچھ دنیا کے لئے.پس اگر تم دنیا کی ایک ذرہ بھی ملونی اپنے اغراض میں رکھتے ہو تو تمہاری تمام عبادتیں عبث ہیں.اس صورت میں تم خدا کی پیروی نہیں کرتے بلکہ شیطان کی پیروی کرتے ہو.تم ہرگز توقع نہ کرو کہ ایسی حالت میں خدا تمہاری مدد کرے گا بلکہ تم اس حالت میں زمین کے کیڑے ہو اور تھوڑے ہی دنوں تک تم اس طرح ہلاک ہو جاؤ گے جس التوبة: ١٢٠

Page 183

۱۷۳ طرح کہ کیڑے ہلاک ہوتے ہیں اور تم میں خدا نہیں ہوگا بلکہ تمہیں ہلاک کر کے خدا خوش ہوگا لیکن اگر تم اپنے نفس سے در حقیقت مر جاؤ گے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤ گے اور خدا تمہارے ساتھ ہو گا.اور وہ گھر بابرکت ہوگا جس میں تم رہتے ہو گے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہو گی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں.اور وہ شہر بابرکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا.اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی محض خدا کے لئے ہو جائے گی اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں تو ڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے.تم بھی انسان ہو جیسا کہ میں انسان ہوں اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے.پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو.اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو میں خدا کے منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے.خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے.کینہ وری سے پر ہیز کرو اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ.ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ.تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کے لئے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں.( رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۷ تا ۳۰۹) یاد رکھو کہ بچے اور پاک اخلاق راستبازوں کا معجزہ ہے جن میں کوئی غیر شریک نہیں کیونکہ وہ جو خدا میں محو نہیں ہوتے وہ اوپر سے قوت نہیں پاتے اس لئے ان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پاک اخلاق حاصل کر سکیں سو تم اپنے خدا سے صاف ربط پیدا کرو.ٹھٹھا، ہنسی، کینہ وری، گندہ زبانی، لالچ، جھوٹھ ، بدکاری، بدنظری، بدخیالی، دنیا پرستی، تکبر، غرور، خود پسندی، شرارت، کج بحثی سب چھوڑ دو.پھر یہ سب کچھ آسمان سے تمہیں ملے گا.جب تک وہ طاقت بالا جو تمہیں اوپر کی طرف کھینچ کر لے جائے تمہارے شامل حال نہ ہو اور رُوح القدس جو زندگی بخشتا ہے تم میں داخل نہ ہو تب تک تم بہت ہی کمزور اور تاریکی میں پڑے ہوئے ہو بلکہ ایک مُردہ ہو جس میں جان نہیں.اس حالت میں نہ تو تم کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہو.نہ اقبال اور دولتمندی کی حالت میں کبر اور غرور سے بچ سکتے ہو اور ہر ایک پہلو سے تم شیطان اور نفس کے

Page 184

۱۷۴ مغلوب ہو.سو تمہارا علاج تو در حقیقت ایک ہی ہے کہ رُوح القدس جو خاص خدا کے ہاتھ سے اُترتی ہے تمہارا منہ نیکی اور راستبازی کی طرف پھیر دے.سوتم ابناء السماء بنونہ ابناء الارض اور روشنی کے وارث بنو نہ تاریکی کے عاشق تا تم شیطان کی گزر گاہوں سے امن میں آ جاؤ.کیونکہ شیطان کو ہمیشہ رات سے غرض ہے.دن سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ پورانا چور ہے جو تاریکی میں قدم رکھتا ہے.کشتی نوح.روحانی خزائی جلد ۹ صفحه ۴۵) اے عزیز و! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کے لئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی.اس لئے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو اپنے دلوں کو پاک کرو اور اپنے مولیٰ کو راضی کر و.دوستو ! تم اس مسافر خانہ میں محض چند روز کے لئے ہو.اپنے اصلی گھروں کو یاد کرو.تم دیکھتے ہو کہ ہر ایک سال کوئی نہ کوئی دوست تم سے رخصت ہو جاتا ہے.ایسا ہی تم بھی کسی سال اپنے دوستوں کو داغ جدائی دے جاؤ گے.سو ہوشیار ہو جاؤ اور اس پر آشوب زمانہ کی زہر تم میں اثر نہ کرے.اپنی اخلاقی حالتوں کو بہت صاف کرو کینہ اور بغض اور نخوت سے پاک ہو جاؤ اور اخلاقی معجزات دنیا کو دکھلاؤ.اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۷ ۱ صفحه ۴۴۲ ۴۴۳ ) یقیناً یاد رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا.جس جس قدر انسان متقی ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اور ایڈا کو پسند نہیں کرتا.مسلمان کبھی کینہ ور نہیں ہوسکتا.ہم خود دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے.کوئی دکھ اور تکلیف جو وہ پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچایا ہے.لیکن پھر بھی اُن کی ہزاروں خطائیں بخشنے کو اب بھی تیار ہیں.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو.اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو.الحکم مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۴ کالم ۳) ہمارا یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرو.اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اُٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے.اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے.میں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں ہاں جہاں تک ممکن ہے اُن کے

Page 185

۱۷۵ عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہمارا شکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اور عدالت میں اور بائیں ہمہ نوع انسان کی ہمدردی ہمارا حق ہے.(سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۸) اور میں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھا تا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پر ہیز کریں.مجھے خدا نے جو مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پر ہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجالاؤ.اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے.کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے.سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے.کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں بلکہ مذہب اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے.اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں.خدا کے لئے سب پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو.آؤ میں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نو ر تمام ٹوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدرد نوع انسان ہو جاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اُترتے ہیں.مگر یہ ایک دن کا کام نہیں ترقی کرو تر قی کرو اس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اول بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیر میں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہیں.تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے.تب وہ میل جو کپڑوں کے اندر تھی اور اُن کا جزو بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اُٹھا کر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مار کھا کر یکدفعہ جُدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں جیسے ابتدا میں تھے.یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے.اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے.یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۱۴، ۱۵) الشمس: ١٠

Page 186

ہر وقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان ہر دو حقوق کی پوری تعمیل نہ کرے بات نہیں بنتی جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں ایک حقوق اللہ دوسرے حقوق عباد.اور حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ ہے یا بیٹا مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی.اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اُسی کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اُس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہیئے کوئی فرق نہ آوے.اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے.بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دُعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا.اُدعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمْ اے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دُعا کرو تو قبول نہیں کروں گا بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسی سے مسلمان ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے.اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور حقیقی موذی نہیں ہونا چاہئے.شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دُعا نہ کی ہو.ایک بھی ایسا نہیں.اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں.خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہونچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاوے.ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا.یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے.اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے.اور ہمت بلند ہوتی ہے.اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی اُس میں اور اُس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے.میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کا ہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے اور اُن سے محبت کرنی چاہئے کیونکہ خدا کی یہ شان ہے.بے بدال را به نیکان به بخشد کریم ۲ پس جو تم میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہئے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے فَإِنَّهُمْ قَوْمٌ المؤمن : ٦١ ے خدائے کریم نیکوں کی وجہ سے بدوں کو بھی بخش دیتا ہے.

Page 187

122 لَا يَشْقَى جَلِيْسُهُمْ یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم جلیس بد بخت نہیں ہوتا.یہ خلاصہ ہے الہی تعلیم کا جو تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ اللهِ میں پیش کی گئی ہے.( الحکم ۷ ار اگست ۱۹۰۲ء صفحه ۵ ۶ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۹،۶۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) واضح ہو کہ آج آریہ سماج قادیان کی طرف سے میری نظر سے ایک اشتہار گذرا جس پر سات فروری ۱۹۰۳ء تاریخ لکھی ہے اور مطبع چشمہ نور پریس امرتسر میں چھپا ہے جس کا عنوان اشتہار پر یہ لکھا ہے ” کا دیانی پوپ کے چیلوں کی ایک ڈینگ کا جواب“ اس اشتہار میں ہمارے سید و مولیٰ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور میری نسبت اور میرے معزز احباب جماعت کی نسبت اس قدر سخت الفاظ اور گالیاں استعمال کی ہیں کہ بظاہر یہی دل چاہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو مخاطب نہ کیا جاوے مگر خدا تعالیٰ نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس تحریر کا جواب لکھ اور میں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں تب مجھے اس مبشر وحی سے بہت خوشی پہنچی کہ جواب دینے میں میں اکیلا نہیں.سوئیں اپنے خدا سے قوت پا کر اٹھا اور اُس کی رُوح کی تائید سے میں نے اس رسالہ کو لکھا اور جیسا کہ خدا نے مجھے تائید دی میں نے یہی چاہا کہ ان تمام گالیوں کو جو میرے نبی مطاع کو اور مجھے دی گئیں نظر انداز کر کے نرمی سے جواب لکھوں اور پھر یہ کاروبار خدا تعالیٰ کے سپرد کر دوں.مگر قبل اس کے کہ میں اس اشتہار کا جواب لکھوں اپنی جماعت کے لوگوں کو صیحا کہتا ہوں کہ جو کچھ اس اشتہار کے لکھنے والوں اور اُن کی جماعت نے محض دل دُکھانے اور توہین کی نیت سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اعتراضات کے پیرا یہ میں سخت الفاظ لکھے ہیں یا میری نسبت مال خور اور ٹھگ اور کاذب اور نمک حرام کے لفظ کو استعمال میں لائے ہیں اور مجھے لوگوں کا دغا بازی سے مال کھانے والا قرار دیا ہے اور یا جو خود میری جماعت کی نسبت سور اور کتے اور مردار خوار اور گدھے اور بندر وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور ملیچھ ان کا نام رکھا ہے ان تمام دُکھ دینے والے الفاظ پر وہ صبر کریں اور میں اُس جوش اور اشتعال طبع کو خوب جانتا ہوں کہ جو انسان کو اس حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ نہ صرف اس کو گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ اس کے رسول اور پیشوا اور امام کو تو ہین اور تحقیر کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور سخت اور غضب پیدا کرنے والے الفاظ سُنائے جاتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر تم ان گالیوں اور بد زبانیوں پر صبر نہ کرو تو پھر تم میں اور دوسرے لوگوں میں کیا فرق ہوگا ؟ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ تمہارے ساتھ ہوئی اور پہلے کسی سے نہیں ہوئی ہر ایک سچا سلسلہ جو دنیا میں قائم ہوا ضر ور دنیا نے

Page 188

KA اس سے دشمنی کی ہے سو چونکہ تم سچائی کے وارث ہو ضرور ہے کہ تم سے بھی دشمنی کریں.سو خبر دار رہو.نفسانیت تم پر غالب نہ آوے.ہر ایک سختی کی برداشت کرو.ہر ایک گالی کا نرمی سے جواب دو تا آسمان پر تمہارے لئے اجر لکھا جاوے.تمہیں چاہئے کہ آریوں کے رشیوں اور بزرگوں کی نسبت ہر گز سختی کے الفاظ استعمال نہ کرو تا وہ بھی خدائے قدوس اور اس کے رسول پاک کو گالیاں نہ دیں کیونکہ ان کو معرفت نہیں دی گئی اس لئے وہ نہیں جانتے کہ کس کو گالیاں دیتے ہیں.یاد رکھو کہ ہر ایک جو نفسانی جوشوں کا تابع ہے ممکن نہیں کہ اس کے لبوں سے حکمت اور معرفت کی بات نکل سکے بلکہ ہر ایک قول اس کا فساد کے کیڑوں کا ایک انڈہ ہوتا ہے بجز اس کے اور کچھ نہیں.پس اگر تم رُوح القدس کی تعلیم سے بولنا چاہتے ہو تو تمام نفسانی جوش اور نفسانی غضب اپنے اندر سے باہر نکال دوتب پاک معرفت کے بھید تمہارے ہونٹوں پر جاری ہوں گے.اور آسمان پر تم دنیا کے لئے ایک مفید چیز سمجھے جاؤ گے اور تمہاری عمر میں بڑھائی جائیں گی.تمسخر سے بات نہ کرو اور ٹھٹھے سے کام نہ لو.اور چاہئے کہ سفلہ پن اور او باش پن کا تمہارے کلام پر کچھ رنگ نہ ہو تا حکمت کا چشمہ تم پر کھلے.حکمت کی باتیں دلوں کو فتح کرتی ہیں لیکن تمسخر اور سفاہت کی باتیں فساد پھیلاتی ہیں.جہاں تک ممکن ہو سکے سچی باتوں کو نرمی کے لباس میں بتاؤ تا سامعین کے لئے موجب ملال نہ ہوں.جو شخص حقیقت کو نہیں سوچتا اور نفس سرکش کا بندہ ہو کر بد زبانی کرتا ہے اور شرارت کے منصوبے جوڑتا ہے وہ ناپاک ہے.اوس کو کبھی خدا کی طرف راہ نہیں ملتی اور نہ کبھی حکمت اور حق کی بات اس کے منہ پر جاری ہوتی ہے.پس اگر تم چاہتے ہو کہ خدا کی راہیں تم پر کھلیں تو نفسانی جوشوں سے دور رہو اور کھیل بازی کے طور پر بخشیں مت کرو کہ یہ کچھ چیز نہیں اور وقت ضائع کرنا ہے.بدی کا جواب بدی کے ساتھ مت دو نہ قول سے نہ فعل سے تا خدا تمہاری حمایت کرے اور چاہیئے کہ دردمند دل کے ساتھ سچائی کو لوگوں کے سامنے پیش کرو نہ ٹھٹھے اور ہنسی سے.کیونکہ مردہ ہے وہ دل جو ٹھٹھا نسی اپنا طریق رکھتا ہے.اور ناپاک ہے وہ نفس جو حکمت اور سچائی کے طریق کو نہ آپ اختیار کرتا ہے اور نہ دوسرے کو اختیار کرنے دیتا ہے سو تم اگر پاک علم کے وارث بننا چاہتے ہو تو نفسانی جوش سے کوئی بات منہ سے مت نکالو کہ ایسی بات حکمت اور معرفت سے خالی ہوگی اور سفلہ اور کمینہ لوگوں اور اوباشوں کی طرح نہ چا ہو کہ دشمن کو خواہ نخواہ ہتک آمیز اور تمسخر کا جواب دیا جاوے بلکہ دل کی راستی سے سچا اور پر حکمت جواب دو تا تم آسمانی اسرار کے وارث ٹھہرو.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۶۳ تا ۳۶۶) تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے.اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو

Page 189

129 فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکیت تم پر اترے گی اور رُوح القدس سے مدد دئیے جاؤ گے اور خدا ہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہو گا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو.گالیاں سنو اور چپ رہو.ماریں کھاؤ اور صبر کرو.اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پر ہیز کروتا آسمان پر تمہاری مقبولیت لکھی جاوے.یقیناً یا د رکھو کہ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور دل اُون کے خدا کے خوف سے پکھل جاتے ہیں اورنہیں کے ساتھ خدا ہوتا ہے اور وہ اون کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے.دنیا صادق کو نہیں دیکھتی پر خدا جو علیم و خبیر ہے وہ صادق کو دیکھ لیتا ہے پس اپنے ہاتھ سے اوس کو بچاتا ہے.کیا وہ شخص جو بچے دل سے تم سے پیار کرتا ہے اور بچ بچ تمہارے لئے مرنے کو بھی طیار ہوتا ہے اور تمہارے منشاء کے موافق تمہاری اطاعت کرتا ہے.اور تمہارے لئے سب کچھ چھوڑتا ہے کیا تم اوس سے پیار نہیں کرتے ؟ اور کیا تم اس کو سب سے عزیز نہیں سمجھتے ؟ پس جبکہ تم انسان ہو کر پیار کے بدلہ میں پیار کرتے ہو پھر کیونکر خدا نہیں کرے گا.خدا خوب جانتا ہے کہ واقعی اوس کا وفادار دوست کون ہے اور کون غدار اور دنیا کو مقدم رکھنے والا ہے.سو تم اگر ایسے وفادار ہو جاؤ گے تو تم میں اور تمہارے غیروں میں خدا کا ہاتھ ایک فرق قائم کر کے دکھلائے گا.( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۸) میں اس جگہ اس بات کا اظہار بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ جس قدر لوگ میرے سلسلہ ء بیعت میں داخل ہیں وہ سب کے سب ابھی اس بات کے لائق نہیں کہ میں ان کی نسبت کوئی عمدہ رائے ظاہر کر سکوں بلکہ بعض خشک ٹہنیوں کی طرح نظر آتے ہیں جن کو میرا خداوند جو میرا متولی ہے مجھ سے کاٹ کر جلنے والی لکڑیوں میں پھینک دے گا.بعض ایسے بھی ہیں کہ اوّل اُن میں دلسوزی اور اخلاص بھی تھا مگر اب اُن پر سخت قبض وارد ہے اور اخلاص کی سرگرمی اور مریدانہ محبت کی نورانیت باقی نہیں رہی بلکہ صرف بلعم کی طرح مکاریاں باقی رہ گئی ہیں.اور بوسیدہ دانت کی طرح اب بجز اس کے کسی کام کے نہیں کہ منہ سے اُکھاڑ کر پیروں کے نیچے ڈال دیئے جائیں.وہ تھک گئے اور درماندہ ہو گئے اور نابکار دنیا نے اپنے دام تزویر کے نیچے انہیں دبا لیا سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عنقریب مجھ سے کاٹ دیئے جائیں گے بجز اس شخص کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل نئے سرے سے اس کا ہاتھ پکڑ لیوے.ایسے بھی بہت ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے مجھے دیا ہے اور وہ میرے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہیں.فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰) یہ عاجز اگر چہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ بھی

Page 190

۱۸۰ ایمان ہے کہ اگر چہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذاء اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا.مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے.میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا.دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لا حاصل ہیں.اے نادانو اور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا.کس بچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا.یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ بیچ ہیں.میں کسی کی پروا نہیں رکھتا.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں.کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا؟ کبھی نہیں چھوڑے گا.کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا ؟ کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا.میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے.کوئی چیز ہمارا پیوند تو ڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو.اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو.کسی ابتلاء سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگر چہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہوں.ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے.سے من نه آنستم کہ روزے جنگ بینی پشت من آں منم کاندرمیان خاک و خوں بینی سرے پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے.مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پُر خار باد یہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے.پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں.جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر میں ایسا شخص نہیں ہوں کہ لڑائی کے وقت تو میری پیٹھ دیکھے.میں وہ ہوں کہ تجھے خاک اور خون میں پڑا ایک سر دکھائی دے گا.

Page 191

۱۸۱ ہوگا.کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں؟ کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے؟ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ہو سکتے.مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے پس جو جُدا ہونے والے ہیں جُدا ہو جائیں اُن کو وداع کا سلام.لیکن یا درکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عند اللہ ایسی عزت نہیں ہو گی جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں.کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے.اکنون ہزار عذر بیاری گناه را مرشوئے کرده را نبود زیب دختری له (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۴،۲۳) میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اُٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں.اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعا ئیں خدا تعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے میں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں لیکن وہ لوگ جن کی آنکھیں زنا کرتی ہیں اور جن کے دل پاخانہ سے بدتر ہیں اور جن کو مرنا ہرگز یاد نہیں ہے.میں اور میرا خدا اُن سے بیزار ہیں.میں بہت خوش ہوں گا اگر ایسے لوگ اس پیوند کو قطع کر لیں کیونکہ خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونہ سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہولیکن وہ مفسد لوگ جو میرے ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور یہ کہہ کر کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا پھر وہ اپنے گھروں میں جا کر ایسے مفاسد میں مشغول ہو جاتے ہیں کہ صرف دنیا ہی دنیا اُن کے دلوں میں ہوتی ہے.نہ ان کی نظر پاک ہے.نہ ان کا دل پاک ہے اور نہ ان کے ہاتھوں سے کوئی نیکی ہوتی ہے اور نہ ان کے پیر کسی نیک کام کرنے کے لئے حرکت کرتے ہیں.اور وہ اس چوہے کی طرح ہیں جو تاریکی میں ہی پرورش پاتا ہے اور اُسی میں رہتا اور اُسی میں مرتا ہے.وہ آسمان پر ہمارے سلسلہ میں سے کاٹے گئے ہیں.وہ عبث کہتے ہیں کہ ہم اس جماعت میں داخل ہیں کیونکہ آسمان پر وہ داخل نہیں سمجھے جاتے.جو شخص میری اس وصیت کو نہیں مانتا کہ در حقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم کرے اور درحقیقت ایک پاک انقلاب اس کی ے اب تو اپنی غلطی پر ہزاروں عذر پیش کرے لیکن شادی شدہ عورت کے لئے کنوار پن کا دعوئی زیب نہیں دیتا.

Page 192

۱۸۲ ہستی پر آ جائے اور درحقیقت وہ پاک دل اور پاک ارادہ ہو جائے اور پلیدی اور حرام کاری کا تمام چولہ اپنے بدن پر سے پھینک دے.اور نوع انسان کا ہمدرد اور خدا کا سچا تابعدار ہو جائے اور اپنی تمام خود روی کو الوداع کہہ کر میرے پیچھے ہولے.میں اُس شخص کو اس کتے سے مشابہت دیتا ہوں جو ایسی جگہ سے الگ نہیں ہوتا جہاں مردار پھینکا جاتا ہے اور جہاں سڑے گلے مُردوں کی لاشیں ہوتی ہیں.کیا میں اس بات کا محتاج ہوں کہ وہ لوگ زبان سے میرے ساتھ ہوں اور اس طرح پر دیکھنے کے لئے ایک جماعت ہو.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام لوگ مجھے چھوڑ دیں اور ایک بھی میرے ساتھ نہ رہے تو میرا خدا میرے لئے ایک اور قوم پیدا کرے گا جو صدق اور وفا میں اُن سے بہتر ہو گی.یہ آسمانی کشش کام کر رہی ہے جو نیک دل لوگ میری طرف دوڑتے ہیں.کوئی نہیں جو آسمانی کشش کو روک سکے.بعض لوگ خدا سے زیادہ اپنے مکر اور فریب پر بھروسہ رکھتے ہیں.شاید ان کے دلوں میں یہ بات پوشیدہ ہو کہ نبوتیں اور رسالتیں سب انسانی مکر ہیں اور اتفاقی طور پر شہر تیں اور قبولتیں ہو جاتی ہیں.اس خیال سے کوئی خیال پلید تر نہیں اور ایسے انسان کو اُس خدا پر ایمان نہیں جس کے ارادہ کے بغیر ایک پتا بھی گر نہیں سکتا.لعنتی ہیں ایسے دل اور ملعون ہیں ایسی طبیعتیں.خدا ان کو ذلت سے مارے گا کیونکہ وہ خدا کے کارخانہ کے دشمن ہیں.ایسے لوگ در حقیقت دہریہ اور خبیث باطن ہوتے ہیں.وہ جہنمی زندگی کے دن گزارتے ہیں اور مرنے کے بعد بجر جہنم کی آگ کے اُن کے حصہ میں کچھ نہیں.تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۶۱ ۶۲.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۱۹ ، ۶۲۰ بار دوم ) میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے.پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دُکھ ہو گا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رُک نہیں سکتا.اس لئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہونچا دوں، آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سُنے کہ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری

Page 193

۱۸۳ زندگی ، میری موت ، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اس کی رُوح بول اٹھے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ.جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا.خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نئی زندگی پانہیں سکتا.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل اور غرض سمجھتا ہوں.پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں...( الحکم مورخه ۳۱ راگست ۱۹۰۰، صفه ۳ ۴.ملفوظات جلد اول صفحه ۳۷۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) وہ نام جو اس سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمد یہ ہے.اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں اور اس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمد یہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسم محمد جلالی نام تھا.اور اس میں میخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا.لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے.سوخدا نے ان دوناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا.اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا اور مخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا.پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جائے.تا اس نام کو سُنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کو کچھ سروکار نہیں.( تبلیغ رسالت جلد نهم صفحه ۹۰ ۹۱ - مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه۴۷۳۴۷۲ بار دوم ) ۰۹۱۰ لوگوں نے جو اپنے نام حنفی شافعی وغیرہ رکھے ہیں یہ سب بدعت ہیں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہی نام تھے محمد اور احد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی نے آنحضرت کا نام محمد بتلایا.صلی اللہ البقرة :١٣٢

Page 194

۱۸۴ علیہ وسلم.کیونکہ حضرت موسی خود بھی جلالی رنگ میں تھے.اور حضرت عیسی نے آپ کا نام احمد بتلایا کیونکہ وہ خود بھی ہمیشہ جمالی رنگ میں تھے.اب چونکہ ہمارا سلسلہ بھی جمالی رنگ میں ہے اس واسطے اس کا نام احمدی ہوا.الحکم مورخه ۳۱ /جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۱.ملفوظات جلد اول صفحه ۴۴۳ ۴۴۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) بحث کرنے والوں کے لئے یہ بہتر طریق ہو گا کہ کسی مذہب پر بیہودہ طور پر اعتراض نہ کریں بلکہ اُن کی مسلم اور معتبر کتابوں کی رو سے ادب کے ساتھ اپنے شبہات پیش کریں اور ٹھٹھے اور ہنسی اور تو ہین سے اپنے تئیں بیچاویں اور مباحثات میں حکیمانہ طرز اختیار کریں اور ایسے اعتراض بھی نہ کریں جو ان کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں.غرض ایسے اعتراض جن میں معقول تقریر کے ساتھ کسی فرقہ کے عقائد کی غلطی کا اظہار ہو ہر ایک محقق کا حق ہے جو نرمی اور ادب کے ساتھ پیش کرے.اور حتی الوسع یہ کوشش ہو کہ وہ تمام اعتراضات علمی رنگ میں ہوں تا لوگوں کو اُن سے فائدہ پہنچ سکے.اور کوئی مفسدہ اور اشتعال پیدا نہ ہو.(اشتہا ر واجب الاظہار ، مندرجہ کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۶،۱۵) میں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں.وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں.اُن کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بدظن اور گمراہ کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضاد چیزیں ہیں.چونکہ خود فلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں.اُن کی رُوح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے.مگر وہ سچا فلسفہ اُن کو نہیں ملا جو الہام الہی سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے وہ اُن کو اور صرف انہیں کو دیا جاتا ہے جو نہایت تذلل اور نیستی سے اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کے دروازے پر پھینک دیتے ہیں.جن کے دل اور دماغ سے متکبرانہ خیالات کا تعفن نکل جاتا ہے اور جو اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے گوگڑا کر سچی عبودیت کا اقرار کرتے ہیں.پس ضرورت ہے کہ آج کل دین کی خدمت اور اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدو جہد سے حاصل کرو.لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم ہی میں یکطرفہ پڑ گئے اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہل دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا اُن کو موقعہ نہ ملا اور خود اپنے اندر الہی نور نہ رکھتے تھے وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دُور جا

Page 195

۱۸۵ پڑے اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے اُلٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفل بن گئے.مگر یا درکھو کہ یہ کام وہی کرسکتا ہے یعنی دینی خدمت وہی بجالا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو.( ملفوظات جلد اول صفحه ۴۳ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) میں یہ بھی اپنی جماعت کو نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ وہ عربی سیکھیں کیونکہ عربی کی تعلیم کے بدوں قرآن کریم کا مزا نہیں آتا.پس ترجمہ پڑھنے کے لئے ضروری اور مناسب ہے کہ تھوڑا تھوڑا عربی زبان کو سیکھنے کی کوشش کریں.آج کل تو آسان آسان طریق عربی پڑھنے کے نکل آئے ہیں.قرآن شریف کا پڑھنا جبکہ ہر مسلمان کا فرض ہے پھر اس کے کیا معنے ہیں کہ عربی زبان سیکھنے کی کوشش نہ کی جاوے اور ساری عمر انگریزی اور دوسری زبانوں کے حاصل کرنے میں کھودی جاوے.( الحکم مورخہ ۱۲ مئی ۱۸۹۹ء صفحہ ۴.ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۹۶ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) میں بڑی تاکید سے اپنی جماعت کو جہاں کہیں وہ ہیں منع کرتا ہوں کہ وہ کسی قسم کا مباحثہ مقابلہ اور مجادلہ نہ کریں.اگر کہیں کسی کو کوئی درشت اور نا ملائم بات سننے کا اتفاق ہو تو اعراض کرے.میں بڑے وثوق اور سچے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری تائید میں آسمان پر خاص تیاری ہو رہی ہے.ہماری طرف سے ہر پہلو کے لحاظ سے لوگوں پر حجت پوری ہو چکی ہے.اس لئے اب خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے اس کارروائی کے کرنے کا ارادہ فرمایا ہے جو وہ اپنی سنت قدیم کے موافق اتمام حجت کے بعد کیا کرتا ہے.مجھے خوف ہے کہ اگر ہماری جماعت کے لوگ بد زبانیوں اور فضول بحثوں سے باز نہ آئیں گے تو ایسا نہ ہو کہ آسمانی کارروائی میں کوئی تاخیر اور روک پیدا ہو جاوے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ ہمیشہ اس کا عتاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اس کے فضل اور عطایات بے شمار ہوں اور جنہیں وہ اپنے نشانات دکھا چکا ہوتا ہے وہ ان لوگوں کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتا کہ انہیں عتاب یا خطاب یا ملامت کرے جن کے خلاف اس کا آخری فیصلہ نافذ ہونا ہوتا ہے.چنانچہ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتا ہے.فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلُ لَّهُمْ اور فرماتا ہے وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوْتِ اور فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ " الآية.یہ حجت آمیز عتاب اس بات پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم الاحقاف: ۳۶ القلم: ۴۹ ۳ الانعام: ۳۶

Page 196

JAY بہت جلد فیصلہ کفار کے حق میں چاہتے تھے مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سُنن کے لحاظ سے بڑے تو قف اور حلم کے ساتھ کام کرتا ہے.لیکن آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ اُن کا نام ونشان مٹا دیا.اسی طرح پر ممکن ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ طرح طرح کی گالیاں ، افترا پردازیاں اور بد زبانیاں خدا تعالیٰ کے بچے سلسلے کی نسبت سُن کر اضطراب اور استعجال میں پڑیں مگر انہیں خدا تعالیٰ کی اس سنت کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برتی گئی ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے.اس لئے میں پھر اور بار بار بتاکید حکم کرتا ہوں کہ جنگ وجدال کے مجمعوں تحریکوں اور تقریبوں سے کنارہ کشی کرو.اس لئے کہ جو کام تم کرنا چاہتے ہو یعنی دشمنوں پر حجت پوری کرنا وہ اب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادت الہی اور تزکیہ و تصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ.اس طرح اپنے تئیں مستحق بناؤ.خدا تعالیٰ کی ان عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے اگر چہ خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے اور پیشگوئیاں ہیں جن کی نسبت یقین ہے کہ وہ پوری ہوں گی مگر تم خواہ نخواہ اُن پر مغرور نہ ہو جاؤ ہر قسم کے حسد، کینہ بغض ، غیبت اور کبر اور رعونت اور فستق و فجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یا درکھو کہ انجام کار ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ اس لئے متقی بنے کی فکر کرو.الحکم مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۲ء صفحه ۵ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۲۱ ۲۱۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) راک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا رنج وغم یاس و الم فکر و بلا کے سامنے بارگاہِ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی سر جھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے چاہئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے روزنامه الفضل مورخه ۱۳ / جنوری ۱۹۲۸ء.در مشین اردو صفحه ۱۵۷) الاعراف: ١٢٩

Page 197

۱۸۷ باب سوم تعلیم وعقائد " مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دین اسلام ہی سچا ہے.مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے.مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا و مولا نا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.“

Page 198

VVI

Page 199

۱۸۹ اصولی عقائد ”انسان کے وجود کی اصل غرض معرفتِ باری تعالیٰ ہے.“

Page 200

۱۹۰ ن عشاق فرقاں و پیغمبریم بدین آمدیم و بدین بگذریم لا ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا الله محمد رسول الله - ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالی اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین وخير المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے.اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو.اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتدا اس امام الرسل کے حاصل ہوسکیں.کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت و قرب کا بجز بچی اور کامل متابعت اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے اور ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ جو راستباز اور کامل لوگ شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہو کر تکمیل منازل سلوک کر چکے ہیں اُن کے کمالات کی نسبت بھی ہمارے کمالات اگر ہمیں حاصل ہوں بطور ظل کے واقع ہیں اور ان میں بعض ایسے جزئی فضائل ہیں جو اب ہمیں کسی طرح سے حاصل نہیں ہو سکتے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۷۰،۱۶۹) جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حَسْبُنَا كِتَابُ اللهِ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں.بالخصوص قصوں میں جو بالا تفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں اور ہم اس بات پر لے ہم قرآن اور آنحضرت کے عاشقوں میں سے ہیں.اس پر ہم آئے ہیں اور اس پر ہم گزر جائیں گے.

Page 201

۱۹۱ ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روز حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالاحق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اور اِس پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں.غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۳) مجھے اللہ جلشانہ کی قسم کہ میں کافر نہیں لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ مرا عقیدہ ہے اور لكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ ل پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے.میں اپنے اس بیان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں.اور جس قدر قرآن کریم کے حرف ہیں.اور جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں.کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں.اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اس کی غلط نہی ہے اور جو شخص مجھے اب بھی کا فرسمجھتا ہے اور تکفیر سے باز نہیں آتا وہ یقیناً یا در کھے کہ مرنے کے بعد اس کو پو چھا جائے گا.میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خدا اور رسول پر وہ یقین ہے کہ اگر اس زمانہ کے تمام ایمانوں کو ترازو کے ایک پلہ میں رکھا جائے اور میرا ایمان دوسرے پلّہ میں تو بفضلہ تعالیٰ یہی پلہ بھاری ہوگا.کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلدے صفحہ ۶۷) الاحزاب : ۴۱

Page 202

۱۹۲.میں اپنی تعلیم کو قریباً انیس برس سے شائع کر رہا ہوں.اس تعلیم کا خلاصہ یہی ہے کہ خدا کو.واحد لاشریک سمجھو اور خدا کے بندوں سے ہمدردی اختیار کرو اور نیک چلن اور نیک خیال انسان بن جاؤ.ایسے ہو جاؤ کہ کوئی فساد اور شرارت تمہارے دل کے نزدیک نہ آ سکے.جھوٹ مت بولو ، افتراء مت کرو اور زبان اور ہاتھ سے کسی کو ایذا مت دو اور ہر ایک قسم کے گناہ سے بچتے رہو اور نفسانی جذبات سے اپنے تئیں رو کے رکھو.کوشش کرو کہ تا تم پاک دل اور بے شر ہو جاؤ.وہ گورنمنٹ یعنی گورنمنٹ برطانیہ جس کے زیر سایہ تمہارے مال اور آبروئیں اور جانیں محفوظ ہیں بصدق اس کے وفادار تابعدار رہو اور چاہئے کہ تمام انسانوں کی ہمدردی تمہارا اصول ہو.اور اپنے ہاتھوں اور اپنی زبانوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک نا پاک منصو بہ اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاؤ.خدا سے ڈرو اور پاک دلی سے اُس کی پرستش کرو اور ظلم اور تعدی اور غین اور رشوت اور حق تلفی اور بے جا طرفداری سے باز رہو اور بد صحبت سے پر ہیز کرو.اور آنکھوں کو بدنگاہوں سے بچاؤ اور کانوں کو غیبت سننے سے محفوظ رکھو اور کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو بدی اور نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو.اور ہر ایک کے لئے نیچے ناصح بنو.اور چاہئے کہ فساد انگیز لوگوں اور شریر اور بدمعاشوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گذر نہ ہو.ہر ایک بدی سے بچو اور ہر ایک نیکی کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو اور چاہئے کہ تمہارے دل فریب سے پاک اور تمہارے ہاتھ ظلم سے بری اور تمہاری آنکھیں ناپا کی سے منزہ ہوں.اور تم میں کبھی بدی اور بغاوت کا منصوبہ نہ ہونے پاوے.اور چاہئے کہ تم اُس خدا کے پہچاننے کے لئے بہت کوشش کرو جس کا پا نا عین نجات اور جس کا ملنا عین رستگاری ہے.وہ خدا اسی پر ظاہر ہوتا ہے جو دل کی سچائی اور محبت سے اس کو ڈھونڈتا ہے وہ اُسی پر تجلی فرماتا ہے جو اُسی کا ہو جاتا ہے.وہ دل جو پاک ہیں وہ اس کا تخت گاہ ہیں اور وہ زبانیں جو جھوٹ اور گالی اور یاوہ گوئی سے منزہ ہیں وہ اس کی وحی کی جگہ ہیں.اور ہر ایک جو اس کی رضا میں فنا ہوتا ہے اس کی اعجازی قدرت کا مظہر ہو جاتا ہے.( کشف الغطاء - روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۷ ۱۸، ۱۸۸) یادر ہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحب شریعت ہو یا بلا واسطہ متابعت آنحضرت صلعم وحی پاسکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے.اور متابعت نبوی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں.وہ وجی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہو گی مگر نبوت شریعت والی یا نبوت مستقلہ

Page 203

۱۹۳ منقطع ہو چکی ہے.وَلَا سَبِيلَ إِلَيْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.وَ مَنْ قَالَ إِنِّي لَسْتُ مِنْ أُمَّةٍ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَادَّعَى أَنَّهُ نَبِيٌّ صَاحِبُ الشَّرِيعَةِ أَوْ مِنْ دُونِ الشَّرِيعَةِ وَلَيْسَ مِنَ الْأُمَّةِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ غَمَّرَهُ السَّيْلُ الْمُنْهَمِرُ فَالْقَاهُ وَرَاءَهُ وَلَمْ يُغَادِرُ حَتَّى مَاتَ.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اسی جگہ یہ اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رو سے اُن صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الہی اور شرف مکالمات کا اُن کو بخشا جاتا ہے جیسا کہ وہ جَلَّ شَانُۂ قرآن شریف میں فرماتا ہے.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے.اب ظاہر ہے کہ لکن کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک مافات کے لئے سو اس آیت کے پہلے حصہ میں جو امرفوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نفی کی گئی تھی وہ جسمانی طور سے کسی مرد کا باپ ہونا تھا سو لکن کے لفظ کے ساتھ ایسے فوت شدہ امر کا اس طرح تدارک کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوت منقطع ہو گئے اور اب کمال نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مُہر رکھتا ہو گا اور اس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہو گا.غرض اس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکر آیت اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ میں ہے دُور کیا جائے.ماحصل اس آیت کا یہ ہوا کہ نبوت گو بغیر شریعت ہو اس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہ راست مقامِ نبوت حاصل کر سکے لیکن اس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتسب اور مستفاض ہو یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو امتی ہو اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوار محمد یہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اگر اس طور سے بھی تکمیل نفوس مستعدہ امت کی نفی کی جائے تو الاحزاب : ۴۱ الكوثر : ۴

Page 204

۱۹۴ اس سے نعوذ باللہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طور سے ابتر ٹھہرتے ہیں نہ جسمانی طور پر کوئی فرزند نہ روحانی طور پر کوئی فرزند اور معترض سچا ٹھہرتا ہے جو آنحضرت صلعم کا نام ابتر رکھتا ہے.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۳ ۲۱۴) اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعوی نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے لیکن وہ مکالمات اور مخاطبات جو اللہ جل شانہ کی طرف سے مجھ کو ملے ہیں جن میں یہ لفظ نبوت اور رسالت کا بکثرت آیا ہے.اُن کو میں بوجہ مامور ہونے کے مخفی نہیں رکھ سکتا لیکن بار بار کہتا ہوں کہ ان الہامات میں جو لفظ مرسل یا رسول یا نبی کا میری نسبت آیا ہے وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں ہے اور اصل حقیقت جس کی میں علی رؤس الاشہاد گواہی دیتا ہوں یہی ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا - وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُولِنَا وَ سَيِّدِنَا إِنِّي نَبِيٌّ أَوْ رَسُولٌ عَلَى وَجُهِ الْحَقِيقَةِ وَالْإِفْتِرَاءِ وَتَرُكِ الْقُرْآنِ وَاحْكَامِ الشَّرِيعَةِ الْغَرَّاءِ فَهُوَ كَافِرٌ كَذَّابٌ.غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن فیوض سے اپنے تئیں الگ کر کے اور اس پاک سرچشمہ سے جُدا ہو کر آپ ہی براہ راست نبی اللہ بنا چاہے تو وہ ملحد بے دین ہے اور غالبا ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا.اور عبادات میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا.اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کر دے گا.پس بلاشبہ وہ مسیلمہ کذاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں.ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے.لیکن یا درکھنا چاہئے کہ جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے بعض اوقات خدائے تعالیٰ کے الہامات میں ایسے الفاظ استعارہ اور مجاز کے طور پر اُس کے بعض اولیاء کی نسبت استعمال ہو جاتے ہیں اور وہ حقیقت پر محمول نہیں ہوتے.سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کر لے گئے ہیں.آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبوی سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الہیہ کا ہے.ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا؟ انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۲۷، ۲۸ حاشیہ )

Page 205

۱۹۵ ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدام ختم المرسلین شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں خاک راه احمد مختار ہیں سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربان ہے دے چکے دل اب تن خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا (ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱۴) خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصہ ء دنیا پر محیط ہو گئے ہیں اور ایک عمر پاگئے ہیں اور ایک زمانہ اُن پر گذر گیا ہے اُن میں سے کوئی مذہب بھی اپنی اصلیت کے رو سے جھوٹا نہیں.اور نہ ان نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے.کیونکہ خدا کی سنت ابتدا سے اسی طرح پر واقع ہے کہ وہ ایسے نبی کے مذہب کو جو خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں آیا بلکہ دلیری سے اپنی طرف سے باتیں بناتا ہے کبھی سرسبز ہونے نہیں دیتا.اور ایسا شخص جو کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں حالانکہ خدا خوب جانتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے نہیں ہے.خدا اُس بے باک کو ہلاک کرتا ہے اور اس کا تمام کاروبار درہم برہم کیا جاتا ہے اور اُس کی تمام جماعت متفرق کی جاتی ہے اور اُس کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہوتا ہے کیونکہ اس نے خدا پر جھوٹ بولا اور دلیری سے خدا پر افتراء کیا.پس خدا اس کو وہ عظمت نہیں دیتا جو راستبازوں کو دی جاتی ہے اور نہ وہ قبولیت اور استحکام بخشتا ہے جو صادق نبیوں کے لئے مقرر ہے.( تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۵۶ ، ۲۵۷) یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے.خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں اُن کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا.یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا.اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آ گئی ہیں عزت کی نگہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے.مگر افسوس کہ ہمارے مخالف ہم سے یہ برتاؤ نہیں کر سکتے.اور خدا کا یہ پاک اور غیر متبدل قانون اُن کو یاد نہیں کہ وہ جھوٹے نبی کو وہ برکت اور

Page 206

۱۹۶ عزت نہیں دیتا جو بچے کو دیتا ہے اور جھوٹے نبی کا مذہب جڑا نہیں پکڑتا اور نہ عمر پاتا ہے جیسا کہ بچے کا جڑ پکڑتا ہے اور عمر پاتا ہے.پس ایسے عقیدہ والے لوگ جو قوموں کے نبیوں کو کاذب قرار دے کر بُرا کہتے رہتے ہیں ہمیشہ صلح کاری اور امن کے دشمن ہوتے ہیں کیونکہ قوموں کے بزرگوں کو گالیاں نکالنا اس سے بڑھ کر فتنہ انگیز اور کوئی بات نہیں.بسا اوقات انسان مرنا بھی پسند کرتا ہے مگر نہیں چاہتا کہ اس کے پیشوا کو بُرا کہا جائے.اگر ہمیں کسی مذہب کی تعلیم پر اعتراض ہو تو ہمیں نہیں چاہئے کہ اس مذہب کے نبی کی عزت پر حملہ کریں اور نہ یہ کہ اس کو بُرے الفاظ سے یاد کریں بلکہ چاہئے کہ صرف اس قوم کے موجوده دستورالعمل پر اعتراض کریں.اور یقین رکھیں کہ وہ نبی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کروڑ ہا انسانوں میں عزت پا گیا اور صدہا برسوں سے اس کی قبولیت چلی آتی ہے یہی پختہ دلیل اس کے منجانب اللہ ہونے کی ہے.اگر وہ خدا کا مقبول نہ ہوتا تو اس قدر عزت نہ پاتا.مفتری کو عزت دینا اور کروڑ ہا بندوں میں اس کے مذہب کو پھیلانا اور زمانہ دراز تک اُس کے مفتریا نہ مذہب کو محفوظ رکھنا خدا کی عادت نہیں ہے.سو جو مذہب دنیا میں پھیل جائے اور جم جائے اور عزت اور عمر پا جائے وہ اپنی اصلیت کے رُو سے ہرگز جھوٹا نہیں ہوسکتا.تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۶۰،۲۵۹) یہ بات فی الواقع صحیح اور درست ہے کہ ابتدائے آفرینش میں بھی ایک الہامی کتاب نوع انسان کو ملی تھی مگر وہ وید ہر گز نہیں ہے اور موجودہ وید کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا اُس پاک ذات کی توہین ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷۴ ) موجودہ وید بلاشبہ ایک گمراہ کرنے والی کتاب ہے جس میں پر میشر کا بھی پتہ نہیں لگتا اور اس قدر مخلوق چیزوں کی اس میں پرستش کی تعلیم ہے کہ گویا وہ مخلوق پرستی کی ایک دوکان ہے.پس جس جگہ ہم وید پر کوئی حملہ کرتے ہیں یا اس کی تکذیب کے دلائل پیش کرتے ہیں اس جگہ یہی موجودہ وید مراد ہے جو سراسر محرف مبدل ہے.نہ وہ اصل دید کہ جو کسی زمانہ میں خدا کی طرف سے آیا تھا.اور ہم خدا کی تمام کتابوں پر ایمان لاتے ہیں.اور ایسا ہی اس وید پر جو کسی زمانہ میں ملک ہند کے کسی نبی پر نازل ہوا ہوگا.مگر موجودہ وید کی نسبت ہم اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کہ جس قدر گندے فرقے مخلوق پرستوں کے اس ملک میں پھیلے ہوئے ہیں یہ سب وید کی ہی مہربانی ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۱۴)

Page 207

۱۹۷ واضح ہو کہ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا.جس پر خدا کی طرف سے رُوح القدس اترتا تھا.وہ خدا کی طرف سے فتح مند اور با اقبال تھا.جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا.وہ اپنے زمانہ کا در حقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیا گیا.وہ خدا کی محبت سے پر تھا.اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا.خدا کا وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اس کا بروز یعنی اوتار پیدا کرے سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا.مجھے منجملہ اور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہوا تھا کہ ہے کرشن روڈر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.سو میں کرشن سے محبت کرتا ہوں کیونکہ میں اس کا مظہر ہوں.لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۹،۲۲۸) ایک نبی کی سچائی تین طریقوں سے پہچانی جاتی ہے.اول عقل سے یعنی دیکھنا چاہئے کہ جس وقت وہ نبی یا رسول آیا ہے عقل سلیم گواہی دیتی ہے یا نہیں کہ اس وقت اس کے آنے کی ضرورت بھی تھی یا نہیں اور انسانوں کی حالت موجودہ چاہتی تھی یا نہیں کہ ایسے وقت میں کوئی مصلح پیدا ہو؟.دوسرے پہلے نبیوں کی پیشگوئی یعنی دیکھنا چاہئے کہ پہلے کسی نبی نے اُس کے حق میں یا اس کے زمانے میں کسی کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی کی ہے یا نہیں تیسرے نصرت الہی اور تائید آسمانی یعنی دیکھنا چاہئے کہ اس کے شامل حال کوئی تائید آسمانی بھی ہے یا نہیں؟.یہ تین علامتیں بچے مامور من اللہ کی شناخت کے لئے قدیم سے مقرر ہیں.اب اے دوستو! خدا نے تم پر رحم کر کے یہ تینوں علامتیں میری تصدیق کے لئے ایک ہی جگہ جمع کر دی ہیں.اب چاہو تم قبول کرو یا نہ کرو.(لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۴۱) اتمام حجت کا علم محض خدا تعالیٰ کو ہے ہاں عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ چونکہ لوگ مختلف استعداد اور مختلف فہم پر مجبول ہیں اس لئے اتمام حجت بھی صرف ایک ہی طرز سے نہیں ہو گا پس جو لوگ بوجہ علمی استعداد کے خدا کی براہین اور نشانوں اور دین کی خوبیوں کو بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور شناخت کر سکتے ہیں وہ اگر خدا کے رسول سے انکار کریں تو وہ کفر کے اول درجہ پر ہوں گے اور جو لوگ اس قد رفہم اور علم نہیں رکھتے مگر خدا کے نزدیک اُن پر بھی اُن کے فہم کے مطابق حجت پوری ہو چکی ہے اُن سے بھی رسول کے انکار کا مواخذہ ہو گا مگر نسبت پہلے منکرین کے کم.بہر حال کسی کے کفر اور اس پر اتمام حجت

Page 208

۱۹۸ کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے یہ اس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور خدا کے نزدیک جومنکر ٹھیر چکا ہے وہ مواخذہ کے لائق ہو گا.ہاں چونکہ شریعت کی بنیاد ظاہر پر ہے اس لئے ہم منکر کو مومن نہیں کہہ سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مواخذہ سے بری ہے اور کافر منکر کو ہی کہتے ہیں کیونکہ کافر کا لفظ مومن کے مقابل پر ہے اور کفر دو قسم پر ہے.(اول) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا ( دوم ) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے.اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے.پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں.کیونکہ جو شخص با وجود شناخت کر لینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا.اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہو گا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے تو گوشریعت نے (جس کی بنا ظاہر پر ہے ) اس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا، قابل مواخذہ نہیں ہو گا.ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم اس کی نسبت نجات کا حکم دیں.اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں یہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اس کے نزدیک باوجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمام حجت نہیں ہوا.ہمیں دعویٰ سے کہنا نہیں چاہئے کہ فلاں شخص پر اتمام حجت نہیں ہوا.ہمیں کسی کے باطن کا علم نہیں ہے اور چونکہ ہر ایک پہلو کے دلائل پیش کرنے اور نشانوں کے دکھلانے سے خدا تعالیٰ کے ہر ایک رسول کا یہی ارادہ رہا ہے کہ وہ اپنی حجت لوگوں پر پوری کرے.اور اس بارے میں خدا بھی اس کا موید رہا ہے.اس لئے جوشخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھ پر جت پوری نہیں ہوئی وہ اپنے انکار کا ذمہ وار آپ ہے اور اس بات کا بار ثبوت البقرة : ۲۸۷

Page 209

۱۹۹ اُسی کی گردن پر ہے اور وہی اس بات کا جواب دہ ہوگا کہ باوجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں اور ہر ایک قسم کی رہنمائی کے کیوں اس پر حجت پوری نہیں ہوئی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۸۵ تا ۱۸۷) یہ نکتہ یا درکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعوے کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف اُن نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکامِ جدیدہ لاتے ہیں لیکن صاحب الشریعت کے ماسوا جس قدر ملہم اور محدث ہیں گو وہ کیسی ہی جناب الہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الہیہ سے سرفراز ہوں اُن کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا.ہاں بدقسمت منکر جو اُن مقربان الہی کا انکار کرتا ہے وہ اپنے انکار کی شامت سے دن بدن سخت دل ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ نور ایمان اس کے اندر سے مفقود ہو جاتا ہے.اور یہی احادیث نبویہ سے مستنبط ہوتا ہے کہ انکار اولیاء اور اُن سے دشمنی رکھنا.اول انسان کو غفلت اور دنیا پرستی میں ڈالتا ہے اور پھر اعمال حسنہ اور افعال صدق اور اخلاص کی اُن سے تو فیق چھین لیتا ہے اور پھر آخر سلب ایمان کا موجب ہو کر دینداری کی اصل حقیقت اور مغز سے اُن کو بے نصیب اور بے بہرہ کر دیتا ہے.اور یہی معنے ہیں اس حدیث کے کہ "مَنْ عَادَ وَلِيًّا لِي فَقَدْ اذَنْتُهُ لِلْحَرْبِ یعنے جو میرے ولی کا دشمن بنتا ہے تو میں اس کو کہتا ہوں کہ بس اب میری لڑائی کے لئے طیار ہو جا.اگر چہ اوائل عداوت میں خدا وند کریم ورحیم کے آگے ایسے لوگوں کی طرف سے کسی قدر عدم معرفت کا عذر ہو سکتا ہے لیکن جب اس ولی اللہ کی تائید میں چاروں طرف سے نشان ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور نور قلب اُس کو شناخت کر لیتا ہے اور اس کی قبولیت کی شہادت آسمان اور زمین دونوں کی طرف سے بآواز بلند کانوں کو سُنائی دیتی ہے تو نعوذ باللہ اس حالت میں جو شخص عداوت اور عناد سے باز نہیں آتا اور طریق تقویٰ کو بکلی الوداع کہہ کر دل کو سخت کر لیتا ہے اور عناد اور دشمنی سے ہر وقت در پئے ایذا رہتا ہے تو اس حالت میں وہ حدیث مذکورہ بالا کے ماتحت آ جاتا ہے.خدا تعالیٰ بڑا کریم و رحیم ہے وہ انسان کو جلد نہیں پکڑتا لیکن جب انسان نا انصافی اور ظلم کرتا کرتا حد سے گذر جاتا اور بہر حال اس عمارت کو گرانا چاہتا ہے اور اس باغ کو جلانا چاہتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے طیار کیا ہے تو اس صورت میں قدیم سے اور جب سے کہ سلسلہ نبوت کی بنیاد پڑی ہے عادۃ اللہ یہی ہے کہ وہ ایسے مفسد کا دشمن ہو جاتا ہے اور سب سے پہلے دولت ایمان اُس سے چھین لیتا ہے.تب بلعم کی طرح صرف لفاظی اور زبانی قیل و قال اس کے پاس رہ جاتی ہے اور جو نیک بندوں کی خدا تعالیٰ کی طرف نسبت انس

Page 210

۲۰۰ اور شوق اور ذوق اور محبت اور تبتل اور تقویٰ کی ہوتی ہے وہ اس سے کھوئی جاتی ہے.اور وہ خود محسوس کرتا ہے کہ ایام موجودہ سے دس سال پہلے جو کچھ اس کو رقت اور انشراح اور بسط اور خدا کی طرف جھکنے اور دنیا اور اہل دنیا سے بیزاری کی حالت دل میں موجود تھی اور جس طرح بچے زہد کی چمک کبھی کبھی اس کو آگاہ کرتی تھی کہ وہ خدا کے عباد صالحین میں سے ہو سکتا ہے اب وہ چمک بکلی اس کے اندر سے جاتی رہی ہے اور دنیا طلبی کی ایک آگ اس کے اندر بھڑک اُٹھتی ہے.اور انکار اہل اللہ کی شامت سے اس کو یہ بھی خیال نہیں آتا کہ جس زمانہ میں اُس کے خیال نیک اور پاک اور زاہدانہ تھے اب اس زمانہ کی نسبت اس کی عمر بہت زیادہ ہو گئی ہے.غرض اُس کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ مجھ کو کیا ہو گیا اور دنیا طلبی میں گر ا جاتا اور دنیا کا جاہ ڈھونڈتا ہے حالانکہ موت کے قریب ہوتا ہے.غرض اسی طرح ایمان کا نور اس کے دل سے چھین لیتے ہیں اور اولیاء اللہ کی عداوت سے دوسرا سبب سلب ایمان کا یہ بھی ہو جاتا ہے کہ وہ اس ولی اللہ کی ہر حالت میں مخالفت کرتا رہتا ہے جو سر چشمہ نبوت سے پانی پیتا ہے جس کو سچائی پر قائم کیا جاتا ہے.سو چونکہ اس کی عادت ہو جاتی ہے کہ خواہ نخواہ ہر ایک ایسی سچائی کو رڈ کرتا ہے جو اس ولی کے منہ سے نکلتی ہے اور جس قدر اس کی تائید میں نشان ظاہر ہوتے ہیں.یہ خیال کر لیتا ہے کہ ایسا ہونا جھوٹوں سے ممکن ہے اس لئے رفتہ رفتہ سلسلہ نبوت بھی اُس پر مشتبہ ہو جاتا ہے.لہذا انجام کار اس مخالفت کے پردہ میں اس کی ایمانی عمارت کی اینٹیں کرنی شروع ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ کسی دن کسی ایسے عظیم الشان مسئلہ کی مخالفت یا نشان کا انکار کر بیٹھتا ہے جس سے ایمان جاتا رہتا ہے.ہاں اگر کسی کا کوئی سابق نیک عمل ہو جو حضرت احدیت میں محفوظ ہو تو ممکن ہے کہ آخر کار عنایت از لی اس کو تھام لے اور وہ رات کو یا دن کو یک دفعہ اپنی حالت کا مطالعہ کرے یا بعض ایسے امور اس کی آنکھ روشن کرنے کے لئے پیدا ہو جائیں جن سے یک دفعہ وہ خواب غفلت سے جاگ اٹھے.وَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۳۲ تا ۴۳۵ حاشیه ) ابتدا سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہو سکتا.ہاں ضال اور جادہ صواب سے منحرف ضرور ہو گا اور میں اس کا نام بے ایمان نہیں رکھتا.ہاں میں ایسے سب لوگوں کو ضال اور جادہ صدق وصواب سے دُور سمجھتا ہوں جوان سچائیوں سے انکار کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی ہیں.میں بلا شبہ ایسے ہر ایک آدمی کو ضلالت کی آلودگی سے مبتلا سمجھتا

Page 211

۲۰۱ ہوں جو حق اور راستی سے منحرف ہے لیکن میں کسی کلمہ گو کا نام کا فرنہیں رکھتا جب تک کہ وہ میری تکفیر اور تکذیب کر کے اپنے تئیں خود کافر نہ بنا لیوے.سو اس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ انہوں نے مجھ کو کافر کہا.میرے لئے فتویٰ طیار کیا.میں نے سبقت کر کے اُن کے لئے کوئی فتویٰ طیار نہیں کیا.اور اس بات کا وہ خود اقرار کر سکتے ہیں کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان ہوں تو مجھ کو کا فر بنانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ اُن پر یہی ہے کہ وہ خود کافر ہیں.سومیں ان کو کافر نہیں کہتا بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتویٰ نبوی کے نیچے آتے ہیں.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۳۳،۴۳۲)

Page 212

۲۰۲

Page 213

٢٠٣ اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترک رضائے خویش ہے مرضی خدا سچا اور زندہ مذہب اسلام " میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں.“

Page 214

۲۰۴ واضح رہے کہ مذہب کے اختیار کرنے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا وہ خدا جو سر چشمہ نجات کا ہے اس پر ایسا کامل یقین آ جائے کہ گویا اس کو آنکھ سے دیکھ لیا جائے کیونکہ گناہ کی خبیث روح انسان کو ہلاک کرنا چاہتی ہے اور انسان گناہ کی مہلک زہر سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جب تک اس کو اس کامل اور زندہ خدا پر پورا یقین نہ ہو اور جب تک معلوم نہ ہو کہ وہ خدا ہے جو مجرم کو سزا دیتا ہے اور راستباز کو ہمیشہ کی خوشی پہنچاتا ہے.یہ عام طور پر ہر روز دیکھا جاتا ہے کہ جب تک کسی چیز کے مہلک ہونے پر کسی کو یقین آ جائے تو پھر وہ شخص اس چیز کے نزدیک نہیں جاتا مثلاً کوئی شخص عمدا ز ہر نہیں کھا تا.کوئی شخص شیر خونخوار کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا اور کوئی شخص عمد اسانپ کے سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا.پھر عمد ا گناہ کیوں کرتا ہے.اس کا یہی باعث ہے کہ وہ یقین اس کو حاصل نہیں جو اِن دوسری چیزوں پر حاصل ہے.پس سب سے مقدم انسان کا یہ فرض ہے کہ خدا پر یقین حاصل کرے اور اس مذہب کو اختیار کرے جس کے ذریعہ سے یقین حاصل ہو سکتا ہے تا وہ خدا سے ڈرے اور گناہ سے بچے مگر ایسا یقین حاصل کیونکر ہو؟ کیا یہ صرف قصوں کہانیوں سے حاصل ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا یہ محض عقل کے ظنی دلائل سے میسر آ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.پس واضح ہوا کہ یقین کے حاصل ہونے کی صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے مکالمہ کے ذریعہ سے اس کے خارق عادت نشان دیکھے اور بار بار کے تجربہ سے اس کی جبروت اور قدرت پر یقین کرے یا ایسے شخص کی صحبت میں رہے جو اس درجہ تک پہونچ گیا ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۴۴۷، ۴۴۸) مذہب سے غرض کیا ہے؟ بس یہی کہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات کاملہ پر یقینی طور پر ایمان حاصل ہو کر نفسانی جذبات سے انسان نجات پا جاوے اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا ہو کیونکہ درحقیقت وہی بہشت ہے جو عالم آخرت میں طرح طرح کے پیرائیوں میں ظاہر ہوگا.اور حقیقی خدا سے بے خبر رہنا اور اس سے دُور رہنا اور سچی محبت اس سے نہ رکھنا درحقیقت یہی جہنم ہے جو عالم آخرت میں انواع واقسام کے رنگوں میں ظاہر ہوگا.اور اصل مقصود اس راہ میں یہ ہے کہ اس خدا کی ہستی پر پورا یقین حاصل ہو اور پھر پوری محبت ہو.اب دیکھنا چاہئے کہ کون سا مذ ہب اور کون سی کتاب ہے جس کے ذریعہ سے یہ غرض حاصل ہو سکتی ہے.انجیل تو صاف جواب دیتی ہے کہ مکالمہ اور مخاطبہ کا دروازہ بند ہے اور یقین کرنے کی راہیں مسدود ہیں.اور جو کچھ ہوا وہ پہلے ہو چکا اور آگے کچھ نہیں ہم ایسے مذہب.

Page 215

۲۰۵ کو کیا کریں جو مُردہ مذہب ہے.ہم ایسی کتاب سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو مُردہ کتاب ہے.اور ہمیں ایسا خدا کیا فیض پہنچا سکتا ہے جو مُردہ خدا ہے.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۳،۳۵۲) کسی مذہب کے قبول کرنے سے غرض یہ ہے کہ وہ طریق اختیار کیا جائے جس سے خدائے غنی مطلق جو مخلوق اور مخلوق کی عبادت سے بکلی بے نیاز ہے راضی ہو جائے.اور اس کے فیوض رحمت اتر نے شروع ہو جائیں جن سے اندرونی آلائشیں دُور ہو کر صحن سینہ یقین اور معرفت سے پر ہو جائے سو یہ تدبیر اپنی فکر سے پیدا کرنا انسان کا کام نہیں تھا.اس لئے اللہ جل شانہ نے اپنے وجود اور اپنے عجائبات قدرت خالقیت یعنی ارواح و اجسام و ملائک و دوزخ و بهشت و بعث و حشر و رسالت و دیگر تمام اسرار مبدء و معاد کو یکساں طور پر پردہ غیب میں رکھ کر اور کچھ کچھ قیاسی یا امکانی طور پر عقل کو اس کو چہ میں گذر بھی دے کر غرض کچھ دکھلا کر اور کچھ چھپا کر بندوں کو ان سب باتوں پر ایمان لانے کے لئے مامور کیا.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۸۱) سچا مذ ہب شناخت کرنے کے لئے صرف تین باتوں کا دیکھنا ضروری ہے (۱) اوّل یہ کہ اس مذہب میں خدا کی نسبت کیا تعلیم ہے.یعنی اس کی توحید اور قدرت اور علم اور کمال اور عظمت اور سزا اور رحمت اور دیگر لوازم اور خواص الوہیت کی نسبت کیا بیان ہے.(۲) دوسرے طالب حق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس مذہب میں جس کو وہ پسند کرے اس کے نفس کے بارے میں اور ایسا ہی عام طور پر انسانی چال چلن کے بارے میں کیا تعلیم ہے.کیا کوئی ایسی تعلیم تو نہیں کہ جو انسانی حقوق کے باہمی رشتہ کو توڑتی ہو یا انسان کو دیوثی کی طرف کھینچتی ہو.یا دیو ٹی امور کو مستلزم ہو اور فطرتی حیا اور شرم کی مخالف ہو.اور نہ کوئی ایسی تعلیم ہو کہ جو خدا کے عام قانون قدرت کے مخالف پڑی ہو.اور نہ کوئی ایسی تعلیم ہو جس کی پابندی غیر ممکن یا منتج خطرات ہو.اور نہ کوئی ضروری تعلیم جو مفاسد کے روکنے کے لئے اہم ہے ترک کی گئی ہو.اور نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ تعلیم ایسے احکام سکھلاتی ہے یا نہیں کہ جو خدا کو عظیم الشان محسن قرار دے کر بندہ کا رشتہ محبت اُس سے محکم کرتے ہوں اور تاریکی سے نور کی طرف لے جاتے ہوں اور غفلت سے حضور اور یادداشت کی طرف کھینچتے ہوں.(۳) تیسرے طالب حق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس مذہب کو پسند کرے جس کا خدا

Page 216

۲۰۶ ایک فرضی خدا نہ ہو جو محض قصوں اور کہانیوں کے سہارے سے مانا گیا ہو.اور ایسا نہ ہو کہ صرف ایک مُردہ سے مشابہت رکھتا ہو.کیونکہ اگر ایک مذہب کا خدا صرف ایک مُردہ سے مشابہ ہے جس کا قبول کرنا محض اپنی خوش عقیدگی کی وجہ سے ہے نہ اس وجہ سے کہ اُس نے اپنے تئیں آپ ظاہر کیا ہے تو ایسے خدا کا ماننا گویا اُس پر احسان کرنا ہے.اور جس خدا کی طاقتیں کچھ محسوس نہ ہوں اور اپنے زندہ ہونے کے علامات وہ آپ ظاہر نہ کرے اُس پر ایمان لانا بے فائدہ ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳ ۳۷۴۳۷) وہ مذہب جو محض خدا کی طرف سے ہے اُس کے ثبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ منجانب اللہ ہونے کے نشان اور خدائی مہر اپنے ساتھ رکھتا ہوتا معلوم ہو کہ وہ خاص خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ہے.سو یہ مذہب اسلام ہے.وہ خدا جو پوشیدہ اور نہاں در نہاں ہے اسی مذہب کے ذریعہ سے اُس کا پتہ لگتا ہے اور اسی مذہب کے حقیقی پیروؤں پر وہ ظاہر ہوتا ہے.جو در حقیقت سچا مذہب ہے.نیچے مذہب پر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور خدا اس کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے کہ میں موجود ہوں.جن مذاہب کی محض قصوں پر بنا ہے وہ بت پرستی سے کم نہیں.ان مذاہب میں کوئی سچائی کی رُوح نہیں ہے.اگر خدا اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے تھا اور اگر وہ اب بھی بولتا اور سُنتا ہے جیسا کہ پہلے تھا تو کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ وہ اس زمانہ میں ایسا لچپ ہو جائے کہ گویا موجود نہیں.اگر وہ اس زمانہ میں بولتا نہیں تو یقینا وہ اب سُنتا بھی نہیں.گویا اب کچھ بھی نہیں.سوسچا وہی مذہب ہے کہ جو اس زمانہ میں بھی خدا کا سننا اور بولنا دونوں ثابت کرتا ہے.غرض بچے مذہب میں خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ مخاطبہ سے اپنے وجود کی آپ خبر دیتا ہے.خداشناسی ایک نہایت مشکل کام ہے دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کا کام نہیں ہے جو خدا کا پتہ لگاویں.کیونکہ زمین و آسمان کو دیکھ کر صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ترکیب محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہئے.مگر یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے.اور ہونا چاہئے اور ہے میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے.پس اس وجود کا واقعی طور پر پتہ دینے والا صرف قرآن شریف ہے جو صرف خدا شناسی کی تاکید نہیں کرتا بلکہ آپ دکھلا دیتا ہے اور کوئی کتاب آسمان کے نیچے ایسی نہیں ہے کہ اس پوشیدہ وجود کا پتہ دے.چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۲،۳۵۱) یادر ہے کہ محض خشک جھگڑے اور سب وشتم اور سخت گوئی اور بد زبانی جو نفسانیت کی بنا پر مذہب کے نام پر ظاہر کی جاتی ہے اور اپنی اندرونی بدکاریوں کو دُور نہیں کیا جاتا اور اس محبوب حقیقی سے سچا تعلق پیدا

Page 217

۲۰۷ نہیں کیا جاتا اور ایک فریق دوسرے فریق پر نہ انسانیت سے بلکہ کتوں کی طرح حملہ کرتا ہے اور مذہبی حمایت کی اوٹ میں ہر ایک قسم کی نفسانی بدذاتی دکھلاتا ہے کہ یہ گندہ طریق جو سراسر استخوان ہے اس لائق نہیں کہ اس کا نام مذہب رکھا جائے.افسوس ایسے لوگ نہیں جانتے کہ ہم دنیا میں کیوں آئے اور اصل اور بڑا مقصود ہمارا اس مختصر زندگی سے کیا ہے.بلکہ وہ ہمیشہ اندھے اور نا پاک فطرت رہ کر صرف متعصبانہ جذبات کا نام مذہب رکھتے ہیں.اور ایسے فرضی خدا کی حمایت میں دنیا میں بد اخلاقی دکھلاتے اور زبان درازیاں کرتے ہیں جس کے وجود کا اُن کے پاس کچھ بھی ثبوت نہیں.وہ مذہب کس کام کا مذہب ہے جو زندہ خدا کا پرستار نہیں بلکہ ایسا خدا ایک مُردے کا جنازہ ہے.جوصرف دوسروں کے سہارے سے چل رہا ہے.سہارا الگ ہوا اور وہ زمین پر گرا.ایسے مذہب سے اگر ان کو کچھ حاصل ہے تو صرف تعصب اور حقیقی خدا ترسی اور نوع انسان کی سچی ہمدردی جو افضل الخصائل ہے بالکل ان کی فطرت سے مفقود ہو جاتی ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۸ ) یادر ہے کہ کسی مذہب کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یعنی اس بات کے ثبوت کے لئے کہ وہ مذہب منجانب اللہ ہے دو قسم کی فتح کا اُس میں پایا جانا ضروری ہے.اول یہ کہ وہ مذہب اپنے عقائد اور اپنی تعلیم اور اپنے احکام کی رو سے ایسا جامع اور اکمل اور اتم اور نقص سے دُور ہو کہ اس سے بڑھ کر عقل تجویز نہ کر سکے اور کوئی نقص اور کمی اُس میں دکھلائی نہ دے اور اس کمال میں وہ ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہو.یعنی ان خوبیوں میں کوئی مذہب اس کے برابر نہ ہو.جیسا کہ یہ دعویٰ قرآن شریف نے آپ کیا ہے که الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الإسلام دینا ہے یعنی آج میں نے تمہارے لئے اپنا دین کامل کر دیا.اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کیا.اور میں نے پسند کیا کہ اسلام تمہارا مذہب ہو.یعنی وہ حقیقت جو اسلام کے لفظ میں پائی جاتی ہے جس کی تشریح خود خدا تعالیٰ نے اسلام کے لفظ کے بارہ میں بیان کی ہے اس حقیقت پر تم قائم ہو جاؤ.اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطا کی ہے اور قرآن شریف کا ہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی.پس یہ دعوی کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اسی کا حق تھا.اس کے سوا کسی آسمانی کتاب نے ایسا دعویٰ نہیں کیا جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ توریت اور انجیل المائدة :

Page 218

۲۰۸ دونوں اس دعوے سے دست بردار ہیں.کیونکہ توریت میں خدا تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے کہ میں تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی قائم کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.اور جو شخص اس کے کلام کو نہ سُنے گا میں اس سے مطالبہ کروں گا.پس صاف ظاہر ہے کہ اگر آئندہ زمانہ کی ضرورتوں کی رو سے توریت کا سننا کافی ہوتا تو کچھ ضرورت نہ تھی کہ کوئی اور نبی آتا اور مواخذہ الہیہ سے مخلصی پانا اس کلام کے سننے پر موقوف ہوتا جو اس پر نازل ہوتا.ایسا ہی انجیل نے کسی مقام میں دعویٰ نہیں کیا کہ انجیل کی تعلیم کامل اور جامع ہے بلکہ صاف اور کھلا کھلا اقرار کیا ہے کہ اور بہت سی باتیں قابل بیان تھیں مگر تم برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ سب کچھ بیان کرے گا اب دیکھنا چاہئے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی توریت کو ناقص تسلیم کر کے آنے والے نبی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی.ایسا ہی حضرت عیسی نے بھی اپنی تعلیم کا نامکمل ہونا قبول کر کے یہ عذر پیش کر دیا کہ ابھی کامل تعلیم بیان کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ کامل تعلیم بیان کر دے گا.مگر قرآن شریف نے توریت اور انجیل کی طرح کسی دوسرے کا حوالہ نہیں دیا بلکہ اپنی کامل تعلیم کا تمام دنیا میں اعلان کر دیا اور فرمایا کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا..پس اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی رُو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے اور کامل تعلیم کے لحاظ سے کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.دوم.پھر دوسری قسم فتح کی جو اسلام میں پائی جاتی ہے جس میں کوئی مذہب اس کا شریک نہیں اور جو اس کی سچائی پر کامل طور پر مہر لگاتی ہے اُس کی زندہ برکات اور معجزات ہیں جن سے دوسرے مذاہب بکلی محروم ہیں.یہ ایسے کامل نشان ہیں کہ ان کے ذریعہ سے نہ صرف اسلام دوسرے مذاہب پر فتح پاتا ہے بلکہ اپنی کامل روشنی دکھلا کر دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.یادر ہے کہ پہلی دلیل اسلام کی سچائی کی جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں یعنی کامل تعلیم وہ در حقیقت اس بات کے سمجھنے کے لئے کہ مذہب اسلام منجانب اللہ ہے ایک کھلی کھلی دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک متعصب منکر جس کی نظر باریک بین نہیں ہے کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ ایک کامل تعلیم بھی ہو اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو.پس اگر چہ یہ دلیل ایک دانا طالب حق کو بہت سے شکوک سے مخلصی دے کر یقین کے نزدیک کر دیتی ہے لیکن تاہم جب تک دوسری دلیل مذکورہ بالا اس کے ساتھ منظم اور پیوستہ نہ ہو کمال یقین کے مینار تک نہیں پہنچا سکتی.اور ان دونوں دلیلوں کے المائدة :

Page 219

۲۰۹ اجتماع سے سچے مذہب کی روشنی کمال تک پہنچ جاتی ہے.اور اگر چہ سچاند ہب ہزار ہا آثار اور انوار اپنے اندر رکھتا ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں بغیر حاجت کسی اور دلیل کے طالب حق کے دل کو یقین کے پانی سے سیراب کر دیتی ہیں.اور مکڈبوں پر پورے طور پر اتمام حجت کرتی ہیں.اس لئے ان دو قسم کی دلیلوں کے موجود ہونے کے بعد کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہتی.اور میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیتِ اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل ہزار ہانشانوں کے قائم مقام ہیں.پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا.( براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ دیبا چه صفحه ۳ تا ۶) خدا نے اپنے رسول نبی کریم کی اتمام حجت میں کسر نہیں رکھی.وہ ایک آفتاب کی طرح آیا اور ہر ایک پہلو سے اپنی روشنی ظاہر کی.پس جو شخص اس آفتاب حقیقی سے منہ پھیرتا ہے اس کی خیر نہیں.ہم اس کو نیک نیت نہیں کہہ سکتے.کیا جو شخص مجزوم ہے اور جذام نے اس کے اعضاء کھا لئے ہیں وہ کہہ سکتا ہے کہ میں مجزوم نہیں یا مجھے علاج کی حاجت نہیں اور اگر کہے تو کیا ہم اُس کو نیک نیت کہہ سکتے ہیں.ماسوا اس کے اگر فرض کے طور پر کوئی ایسا شخص دنیا میں ہو کہ وہ با وجود پوری نیک نیتی اور ایسی پوری پوری کوشش کے کہ جیسا کہ وہ دنیا کے حصول کے لئے کرتا ہے اسلام کی سچائی تک پہنچ نہیں سکا تو اس کا حساب خدا کے پاس ہے.مگر ہم نے اپنی تمام عمر میں ایسا کوئی آدمی دیکھا نہیں.اس لئے ہم اس بات کو قطعا محال جانتے ہیں کہ کوئی شخص عقل اور انصاف کی رو سے کسی دوسرے مذہب کو اسلام پر ترجیح دے سکے.نادان اور جاہل لوگ نفس امارہ کی تعلیم سے ایک بات سیکھ لیتے ہیں کہ صرف تو حید کافی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ضرورت نہیں.مگر یادر ہے کہ تو حید کی ماں نبی ہی ہوتا ہے جس سے تو حید پیدا ہوتی ہے اور خدا کے وجود کا اوس سے پتہ لگتا ہے اور خدا تعالیٰ سے زیادہ اتمام حجت کون جانتا ہے.اس نے اپنے نبی کریم کی سچائی ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان کو نشانوں سے بھر دیا ہے.اور اب اس زمانہ میں بھی خدا نے اس ناچیز خادم کو بھیج کر ہزار ہانشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے لئے ظاہر فرمائے ہیں جو بارش کی طرح برس رہے ہیں.تو پھر اتمام حجت میں کون سی کسر باقی ہے.جس شخص کو مخالفت کرنے کی عقل ہے.وہ کیوں موافقت کی راہ کو سوچ نہیں سکتا؟ اور جو رات کو دیکھتا ہے کیوں اوس کو روزِ روشن میں نظر نہیں آتا؟ حالانکہ تکذیب کی راہوں کی نسبت تصدیق کی راہ بہت سہل ہے ہاں جو شخص مسلوب العقل کی طرح ہے اور انسانی قوتوں سے کم حصہ رکھتا ہے.اس کا

Page 220

۲۱۰ حساب خدا کے سپرد کرنا چاہئے.اس کے بارہ میں ہم کلام نہیں کر سکتے.وہ اُن انسانوں کی طرح ہے جو خوردسالی اور بچپن میں مر جاتے ہیں مگر ایک شریر مکذب یہ عذر نہیں کر سکتا کہ میں نیک نیتی سے تکذیب کرتا ہوں.دیکھنا چاہئے کہ اُس کے حواس اس لائق ہیں یا نہیں کہ مسئلہ تو حید اور رسالت کو سمجھ سکے.اگر معلوم ہوتا ہے کہ سمجھ سکتا ہے مگر شرارت سے تکذیب کرتا ہے تو وہ کیونکر معذور رہ سکتا ہے.اگر کوئی آفتاب کی روشنی کو دیکھ کر یہ کہے کہ دن نہیں بلکہ رات ہے تو کیا ہم اس کو معذور سمجھ سکتے ہیں.اسی طرح جو لوگ دانستہ کج بحثی کرتے ہیں اور اسلام کے دلائل کو تو ڑ نہیں سکتے کیا ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ معذور ہیں.اور اسلام تو ایک زندہ مذہب ہے.جو شخص زندہ اور مردہ میں فرق کر سکتا ہے وہ کیوں اسلام کو ترک کرتا اور مردہ مذہب کو قبول کرتا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۱،۱۸۰) میں جب خدا کے پاک کلام پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کیونکر اس نے اپنی تعلیموں میں انسان کو اس کی طبعی حالتوں کی اصلاح کے قواعد عطا فرما کر پھر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف کھینچا ہے اور اعلیٰ درجہ کی رُوحانی حالت تک پہونچانا چاہا ہے تو مجھے یہ پر معرفت قاعدہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اول خدا نے یہ چاہا ہے کہ انسان کو نشست برخاست اور کھانے پینے اور بات چیت اور تمام اقسام معاشرت کے طریق سکھلا کر اس کو وحشیانہ طریقوں سے نجات دیوے اور حیوانات کی مشابہت سے تمیز کلی بخش کر ایک ادنی درجہ کی اخلاقی حالت جس کو ادب اور شائستگی کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں سکھلا دے.پھر انسان کی نیچرل عادات کو جن کو دوسرے لفظوں میں اخلاق رذیلہ کہہ سکتے ہیں اعتدال پر لاوے تا وہ اعتدال پا کر اخلاق فاضلہ کے رنگ میں آجائیں.مگر یہ دونوں طریقے دراصل ایک ہی ہیں.کیونکہ طبعی حالتوں کی اصلاح کے متعلق ہیں.صرف اعلیٰ اور ادنیٰ درجہ کے فرق نے ان کو دو قسم بنا دیا ہے.اور اس حکیم مطلق نے اخلاق کے نظام کو ایسے طور سے پیش کیا ہے کہ جس سے انسان ادنی خلق سے اعلیٰ خلق تک ترقی کر سکے.اور پھر تیسرا مرحلہ ترقیات کا یہ رکھا ہے کہ انسان اپنے خالق حقیقی کی محبت اور رضا میں محو ہو جائے اور سب وجود اس کا خدا کے لئے ہو جائے.یہ وہ مرتبہ ہے جس کو یاد دلانے کے لئے مسلمانوں کے دین کا نام اسلام رکھا گیا ہے کیونکہ اسلام اس بات کو کہتے ہیں کہ بکنی خدا کے لئے ہو جانا اور اپنا کچھ باقی نہ رکھنا.اسلامی اصول کی فلاسفی - روحانی خزائن جلده اصفه ۳۲۴) یہ خیال ایک سخت نادانی ہے کہ دین صرف چند بے سروپا باتوں کا نام ہے جو انجیل میں درج ہیں بلکہ

Page 221

۲۱۱ وہ تمام امور جو تکمیل انسانیت کے لئے ضروری ہیں دین میں داخل ہیں.جو باتیں انسان کو وحشیانہ حالت سے پھیر کر حقیقی انسانیت سکھلاتی یا عام انسانیت سے ترقی دے کر حکیمانہ زندگی کی طرف منتقل کرتی ہیں اور یا حکیمانہ زندگی سے ترقی دے کر فنا فی اللہ کی حالت تک پہنچاتی ہیں انہی باتوں کا نام دوسرے لفظوں میں دین ہے.( کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۹) اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ انجیل انسانیت کے درخت کی پورے طور پر آبپاشی نہیں کر سکتی.ہم اس مسافر خانہ میں بہت سے قومی کے ساتھ بھیجے گئے ہیں.اور ہر ایک قوت چاہتی ہے کہ اپنے موقعہ پر اس کو استعمال کیا جائے.اور انجیل صرف ایک ہی قوت حلم اور نرمی پر زور مار رہی ہے.حلم اور عفو در حقیقت بعض مواضع میں اچھی ہے لیکن بعض دوسرے مواضع میں سَم قَاتِل کی تاثیر رکھتی ہے.ہماری یہ تمدنی زندگی کہ مختلف طبائع کے اختلاط پر موقوف ہے بلاشبہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے تمام قوی کو حل بینی اور موقعہ شناسی سے استعمال کیا کریں.کیا یہ سچ نہیں کہ اگر چہ بعض جگہ ہم عفو اور درگذر کر کے اس شخص کو فائدہ جسمانی اور روحانی پہنچاتے ہیں جس نے ہمیں کوئی آزار پہنچایا ہے لیکن بعض دوسری جگہ ایسی بھی ہیں جو اس جگہ ہم اس خصلت کو استعمال کرنے سے شخص مجرم کو اور بھی مفسدانہ حرکات پر دلیر کرتے ہیں.ہماری روحانی زندگی کی طرز ہماری جسمانی زندگی کی طرز سے نہایت مشابہ ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ ایک ہی مزاج اور طبیعت کی اغذیہ اور ادویہ پر زور مارنے سے ہماری صحت بحال نہیں رہ سکتی.اگر ہم دس یا بیس روز متواتر ٹھنڈی چیزوں کے کھانے پر ہی زور دیں اور گرم غذاؤں کا کھانا حرام کی طرح اپنے نفس پر کر دیں تو ہم جلد تر کسی سرد بیماری میں جیسے فالج اور لقوہ اور رعشہ اور صرع وغیرہ میں مبتلا ہو جائیں گے.اور ایسا ہی اگر ہم متواتر گرم غذاؤں پر زور دیں یہاں تک کہ پانی بھی گرم کر کے ہی پیا کریں تو بلاشبہ کسی مرض حار میں گرفتار ہو جائیں گے.سوچ کر دیکھ لو کہ ہم اپنے جسمانی تمدن میں کیسے گرم اور سرد اور نرم اور سخت اور حرکت اور سکون کی رعایت رکھتے ہیں اور کیسی یہ رعایت ہماری صحت بدنی کے لئے ضروری پڑی ہوئی ہے.پس یہی قاعدہ صحت روحانی کے لئے برتنا چاہئے.خدا نے کسی بری قوت کو ہمیں نہیں دیا.اور در حقیقت کوئی بھی قوت بری نہیں صرف اس کی بد استعمالی بُری ہے مثلا تم دیکھتے ہو کہ حسد نہایت ہی بُری چیز ہے لیکن اگر ہم اس قوت کو بُرے طور پر استعمال نہ کریں تو یہ صرف اس رشک کے رنگ میں آ جاتی ہے جس کو عربی میں غبطہ کہتے ہیں.یعنی کسی کی اچھی حالت دیکھ کر خواہش کرنا کہ

Page 222

۲۱۲ میری بھی اچھی حالت ہو جائے.اور یہ خصلت اخلاق فاضلہ میں سے ہے.اسی طرح تمام اخلاق ذمیمہ کا حال ہے کہ وہ ہماری ہی بد استعالی یا افراط اور تفریط سے بدنما ہو جاتی ہیں.اور موقعہ پر استعمال کرنے اور حد اعتدال پر لانے سے وہی اخلاق ذمیمہ اخلاق فاضلہ کہلاتے ہیں.پس یہ کس قدر غلطی ہے کہ انسانیت کے درخت کی تمام ضروری شاخیں کاٹ کر صرف ایک ہی شاخ صبر اور عفو پر زور دیا جائے.اسی وجہ سے یہ تعلیم چل نہیں سکی اور آخر عیسائی سلاطین کو جرائم پیشہ کی سزا کے لئے قوانین اپنی طرف سے طیار کرنے پڑے.غرض انجیل موجودہ ہرگز نفوس انسانیہ کی تکمیل نہیں کر سکتی اور جس طرح آفتاب کے نکلنے سے ستارے مضمحل ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ آنکھوں سے غائب ہو جاتے ہیں یہی حالت انجیل کی قرآن شریف کے مقابل پر ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۶، ۶۷) دنیا کے مذاہب پر اگر نظر کی جائے تو معلوم ہو گا کہ بجز اسلام ہر ایک مذہب اپنے اندر کوئی نہ کوئی غلطی رکھتا ہے اور یہ اس لئے نہیں کہ در حقیقت وہ تمام مذاہب ابتداء سے جھوٹے ہیں.بلکہ اس لئے کہ اسلام کے ظہور کے بعد خدا نے ان مذاہب کی تائید چھوڑ دی اور وہ ایسے باغ کی طرح ہو گئے جس کا کوئی باغبان نہیں اور جس کی آبپاشی اور صفائی کے لئے کوئی انتظام نہیں.اس لئے رفتہ رفتہ اُن میں خرابیاں پیدا ہوگئیں.تمام پھلدار درخت خشک ہو گئے اور اُن کی جگہ کانٹے اور خراب بوٹیاں پھیل گئیں اور روحانیت جو مذہب کی جڑ ہوتی ہے وہ بالکل جاتی رہی اور صرف خشک الفاظ ہاتھ میں رہ گئے.مگر خدا نے اسلام کے ساتھ ایسا نہ کیا اور چونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ باغ ہمیشہ سرسبز رہے اس لئے اُس نے ہر یک صدی پر اس باغ کی نئے سرے آبپاشی کی اور اس کو خشک ہونے سے بچایا.اگر چہ ہر صدی کے سر پر جب کبھی کوئی بندہ خدا اصلاح کے لئے قائم ہوا جاہل لوگ اس کا مقابلہ کرتے رہے اور ان کو سخت ناگوار گذرا کہ کسی ایسی غلطی کی اصلاح ہو جو ان کی رسم اور عادت میں داخل ہو چکی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ اس آخری زمانہ میں جو ہدایت اور ضلالت کا آخری جنگ ہے.خدا نے چودھویں صدی اور الف آخر کے سر پر مسلمانوں کو غفلت میں پا کر پھر اپنے عہد کو یاد کیا اور دین اسلام کی تجدید فرمائی مگر دوسرے دینوں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ تجدید کبھی نصیب نہیں ہوئی.اس لئے وہ سب مذہب مر گئے.اُن میں روحانیت باقی نہ رہی اور بہت سی غلطیاں اُن میں ایسی جم گئیں کہ جیسے بہت مستعمل کپڑا پر جو کبھی دھویا نہ جائے میں جم جاتی ہے اور ایسے انسانوں نے جن کو روحانیت

Page 223

۲۱۳ سے کچھ بہرہ نہ تھا اور جن کے نفس امارہ سفلی زندگی کی آلائشوں سے پاک نہ تھے اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق ان مذاہب کے اندر بے جا دخل دے کر ایسی صورت اُن کی بگاڑ دی کہ اب وہ کچھ اور ہی چیز ہیں مثلاً عیسائیت کے مذہب کو دیکھو کہ وہ ابتدا میں کیسے پاک اصول پر مبنی تھا اور جس تعلیم کو حضرت مسیح علیہ السلام نے پیش کیا تھا اگر چہ وہ تعلیم قرآنی تعلیم کے مقابل پر ناقص تھی کیونکہ ابھی کامل تعلیم کا وقت نہیں آیا تھا اور کمزور استعداد میں اِس لائق بھی نہ تھیں تاہم وہ تعلیم اپنے وقت کے مناسب حال نہایت عمدہ تعلیم تھی وہ اُسی خدا کی طرف رہنمائی کرتی تھی جس کی طرف توریت نے رہنمائی کی لیکن حضرت مسیح کے بعد مسیحیوں کا خدا ایک اور خدا ہو گیا جس کا توریت کی تعلیم میں کچھ بھی ذکر نہیں اور نہ بنی اسرائیل کو اس کی کچھ بھی خبر ہے.اس نئے خدا پر ایمان لانے سے تمام سلسلہ توریت کا اُلٹ گیا اور گناہوں سے حقیقی نجات اور پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے جو ہدایتیں تو رات میں تھیں وہ سب درہم برہم ہو گئیں اور تمام مدار گناہ سے پاک ہونے کا اس اقرار پر آ گیا کہ حضرت مسیح نے دنیا کو نجات دینے کے لئے خود صلیب قبول کی.اور وہ خدا ہی تھے.اور نہ صرف اسی قدر بلکہ توریت کے اور کئی ابدی احکام توڑ دیئے گئے.اور عیسائی مذہب میں ایک ایسی تبدیلی واقعہ ہوئی کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام خود بھی دوبارہ تشریف لے آویں تو وہ اس مذہب کو شناخت نہ کر سکیں.نہایت حیرت کا مقام ہے کہ جن لوگوں کو توریت کی پابندی کی سخت تاکید تھی انہوں نے یک لخت توریت کے احکام کو چھوڑ دیا.مثلاً انجیل میں کہیں حکم نہیں کہ توریت میں تو سور حرام ہے اور میں تم پر حلال کرتا ہوں.اور توریت میں تو ختنہ کی تاکید ہے اور میں ختنہ کا حکم منسوخ کرتا ہوں.پھر کب جائز تھا کہ جو باتیں حضرت عیسی علیہ السلام کے منہ سے نہیں نکلیں وہ مذہب کے اندر داخل کر دی جائیں.لیکن چونکہ ضرور تھا کہ خدا ایک عالمگیر مذہب یعنی اسلام دنیا میں قائم کرے اس لئے عیسائیت کا بگڑنا اسلام کے ظہور کے لئے بطور ایک علامت کے تھا.یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ اسلام کے ظہور سے پہلے ہندو مذہب بھی بگڑ چکا تھا اور تمام ہندوستان میں عام طور پر بت پرستی رائج ہو چکی تھی.اور اس بگاڑ کے یہ آثار باقیہ ہیں کہ وہ خدا جو اپنی صفات کے استعمال میں کسی مادہ کا محتاج نہیں اب آریہ صاحبوں کی نظر میں وہ پیدائش مخلوقات میں ضرور مادہ کا محتاج ہے.اس فاسد عقیدہ سے ان کو ایک دوسرا فاسد عقیدہ بھی جو شرک سے بھرا ہوا ہے قبول کرنا پڑا یعنی یہ کہ تمام ذرات عالم اور تمام ارواح قدیم اور انادی ہیں.مگر افسوس کہ اگر وہ ایک نظر غامر خدا کی صفات پر ڈالتے تو ایسا کبھی نہ کہہ سکتے.کیونکہ اگر خدا پیدا کرنے کی صفت میں جو اس کی ذات میں قدیم

Page 224

۲۱۴ سے ہے انسان کی طرح کسی مادہ کا محتاج ہے تو کیا وجہ کہ وہ اپنی صفت شنوائی اور بینائی وغیرہ میں انسان کی طرح کسی مادہ کا محتاج نہیں.انسان بغیر توسط ہوا کے کچھ سن نہیں سکتا اور بغیر توسط روشنی کے کچھ دیکھ نہیں سکتا.پس کیا پر میشر بھی ایسی کمزوری اپنے اندر رکھتا ہے؟ اور وہ بھی سننے اور دیکھنے کے لئے ہوا اور روشنی کا محتاج ہے؟ پس اگر وہ ہوا اور روشنی کا محتاج نہیں تو یقینا سمجھو کہ وہ صفت پیدا کرنے میں بھی کسی مادہ کا محتاج نہیں.یہ منطق سراسر جھوٹ ہے کہ خدا اپنی صفات کے اظہار میں کسی مادہ کا محتاج ہے.انسانی صفات کا خدا پر قیاس کرنا کہ نیستی سے ہستی نہیں ہوسکتی اور انسانی کمزور یوں کو خدا پر جمانا بڑی غلطی ہے.انسان کی ہستی محدود اور خدا کی ہستی غیر محدود ہے.پس وہ اپنی ہستی کی قوت سے ایک اور ہستی پیدا کر لیتا ہے.یہی تو خدائی ہے اور وہ اپنی کسی صفت میں مادہ کا محتاج نہیں ہے ورنہ وہ خدا نہ ہو.کیا اس کے کاموں میں کوئی روک ہو سکتی ہے؟ اور اگر مثلاً چاہے کہ ایک دم میں زمین و آسمان پیدا کر دے تو کیا وہ پیدا نہیں کر سکتا.ہندؤں میں جو لوگ علم کے ساتھ روحانیت کا بھی حصہ رکھتے تھے اور نری خشک منطق میں گرفتار نہ تھے.کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا جو آج کل پر میشر کی نسبت آریہ صاحبان نے پیش کیا ہے.یہ سراسر عدم روحانیت کا نتیجہ ہے.غرض یہ تمام بگاڑ کہ ان مذاہب میں پیدا ہو گئے جن میں سے بعض ذکر کے بھی قابل نہیں.اور جو انسانی پاکیزگی کے بھی مخالف ہیں.اور یہ تمام علامتیں ضرورت اسلام کے لئے تھیں.ایک عقلمند کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام سے کچھ دن پہلے تمام مذاہب بگڑ چکے تھے اور روحانیت کو کھو چکے تھے.پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے.اس فخر میں ہمارے نبی صلعم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا.اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی.لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفر ۳ ۲۰ تا ۲۰۶) اب قبل اس کے جو ہم دوسری بحثوں کی طرف توجہ کریں اس بحث کا لکھنا نہایت ضروری ہے جو دین اسلام کی حقیقت کیا ہے اور اس حقیقت تک پہنچنے کے وسائل کیا ہیں اور اس حقیقت پر پابند ہونے کے ثمرات کیا ہیں؟ کیونکہ بہت سے اسرار دقیقہ کا سمجھنا اسی بات پر موقوف ہے کہ پہلے حقیقت اسلام اور پھر اس حقیقت کے وسائل اور پھر اس کے ثمرات بخوبی ذہن نشین ہو جائیں اور ہمارے اندرونی مخالفوں کے لئے یہ بات نہایت فائدہ مند ہو گی کہ وہ حقیقت اسلام اور اس کے ابحاث متعلقہ کو توجہ سے پڑھیں

Page 225

۲۱۵ کیونکہ جن شکوک و شبہات میں وہ مبتلا ہیں اکثر وہ ایسے ہیں کہ فقط اسی وجہ سے دلوں میں پیدا ہوئے ہیں کہ اسلام کی اتم اور اکمل حقیقت اور اس کے وسائل و ثمرات پر غور نہیں کی گئی..ایسا ہی مخالفین مذہب کو بھی ان حقائق کے بیان کرنے سے بہت فائدہ ہوگا اور اس مقام سے سمجھ سکتے ہیں کہ مذہب کیا چیز ہے اور اس کی سچائی کے نشان کیا ہیں.اب واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں.اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَرَيْهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کا یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اُس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے.مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے.اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی طاعت اور اُس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصاللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.(آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۸،۵۷) اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرے کی طرح رکھ دینا اور اپنے تمام ارادوں سے کھوئے جانا اور خدا کے ارادہ اور رضا میں محو ہو جانا اور خدا میں گم ہو کر ایک موت اپنے پر وارد کر لینا اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے محض محبت کے جوش سے اس کی اطاعت کرنا البقرة : ١١٣

Page 226

۲۱۶ نہ کسی اور بنا پر.اور ایسی آنکھیں حاصل کرنا جو حض اس کے ساتھ دیکھتی ہوں اور ایسے کان حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ سنتے ہوں اور ایسا دل پیدا کرنا جو سراسر اس کی طرف جھکا ہوا ہو.اور ایسی زبان حاصل کرنا جو اس کے بلائے بولتی ہو.یہ وہ مقام ہے جس پر تمام سلوک ختم ہو جاتے ہیں.اور انسانی قومی اپنے ذمہ کا تمام کام کر چکتے ہیں.اور پورے طور پر انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جاتی ہے.تب خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے زندہ کلام اور چمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ دوبارہ اس کو زندگی بخشتی ہے اور وہ خدا کے لذیذ کلام سے مشرف ہوتا ہے اور وہ دقیق در دقیق نور جس کو عقلیں دریافت نہیں کر سکتیں اور آنکھیں اس کی گنہ تک نہیں پہنچتیں وہ خود انسان کے دل سے نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ یعنی ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہیں.پس ایسا ہی وہ اپنے قرب سے فانی انسان کو مشرف کرتا ہے.تب وہ وقت آتا ہے کہ نابینائی دور ہو کر آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور انسان اپنے خدا کو ان نئی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی آواز سُنتا ہے اور اس کی نور کی چادر کے اندر اپنے تئیں لپٹا ہوا پاتا ہے.تب مذہب کی غرض ختم ہو جاتی ہے اور انسان اپنے خدا کے مشاہدہ سے سفلی زندگی کا گندہ چولا اپنے وجود پر سے پھینک دیتا ہے اور ایک نور کا پیراہن پہن لیتا ہے اور نہ صرف وعدہ کے طور پر اور نہ فقط آخرت کے انتظار میں خدا کے دیدار اور بہشت کا منتظر رہتا ہے.بلکہ اسی جگہ اور اسی دنیا میں دیدار اور گفتار اور جنت کی نعمتوں کو پالیتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ یعنی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا وہ خدا ہے جو جامع صفات کاملہ ہے جس کی ذات اور صفات میں اور کوئی شریک نہیں اور یہ کہہ کر پھر وہ استقامت اختیار کرتے ہیں اور کتنے ہی زلزلے آویں اور بلائیں نازل ہوں اور موت کا سامنا ہو ان کے ایمان اور صدق میں فرق نہیں آتا.اُن پر فرشتے اترتے ہیں اور خدا ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ تم بلاؤں سے اور خوفناک دشمنوں سے مت ڈرو.اور نہ گذشتہ مصیبتوں سے غمگین ہو.میں تمہارے ساتھ ہوں اور میں اسی دنیا میں تمہیں بہشت دیتا ہوں جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا.پس تم اس سے خوش ہو.اب واضح ہو کہ یہ باتیں بغیر شہادت کے نہیں اور یہ ایسے وعدے نہیں کہ جو پورے نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں اہل دل مذہب اسلام میں اس روحانی بہشت کا ق : ۱۷ حم السجدة : ٣١

Page 227

۲۱۷ مزا چکھ چکے ہیں.در حقیقت اسلام وہ مذہب ہے جس کے بچے پیروؤں کو خدا تعالیٰ نے تمام گذشتہ راستبازوں کا وارث ٹھیرایا ہے اور ان کی متفرق نعمتیں اس امت مرحومہ کو عطا کر دی ہیں.(لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۶۱،۱۶۰) اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجود مع اپنی تمام باطنی و ظاہری قومی کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی معطی حقیقی کو واپس دی جائیں اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقتِ کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے.یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا حلم اور اس کا علم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور اور جو کچھ اس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے.یہاں تک کہ اس کی نیات اور اس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے اور تمام اعضاء اور قومی الہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں.اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہو رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت اسلام ہے دو قسم پر ہے.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مق اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بدل و جان قبول کئے جائیں.اور نہایت نیستی اور تذلل سے ان سب حکموں اور حد وں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادت تام سر پر اٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اُس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لئے ایک قومی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں.دوسری قسم اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی مقصود

Page 228

۲۱۸ اور چارہ جوئی اور بار برداری اور بچی غم خواری میں اپنی زندگی وقف کر دی جاوے.دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دُکھ اٹھاویں.اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر رنج گوارا کر لیں.اس تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہل اسلام سے حقیقی طور پر ملقب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود مع اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے مع اس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اٹھا کر اسی کی راہ میں نہ لگ جاوے.پس حقیقی طور پر اسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اس کے نفس امارہ کا نقش ہستی مع اس کے تمام جذبات کے یکدفعہ مٹ جائے اور پھر اس موت کے بعد محسن اللہ ہونے کے نئی زندگی اس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اس میں بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو.خالق کی طاعت اس طرح سے کہ اس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزتی اور ذلت قبول کرنے کے لئے مستعد ہو اور اس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کے قبول کرنے کے لئے طیار ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹ سکے اور اس کے احکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلا وے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا بھسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہے.غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے.اور خلق اللہ کی خدمت اس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طرق کی راہ سے قسام ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے ان تمام امور میں محض اللہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے اُن کو نفع پہنچا وے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خدا داد قوت سے مدد دے اور اُن کی دنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگا دے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹ تا ۶۲) اب ہم کسی قدر اس بات کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کے ثمرات کیا ہیں ؟ سو واضح ہو کہ جب کوئی

Page 229

۲۱۹ اپنے مولیٰ کا سچا طالب کامل طور پر اسلام پر قائم ہو جائے اور نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے بلکہ طبعی طور پر خدا تعالیٰ کی راہوں میں ہر ایک قوت اس کے کام میں لگ جائے تو آخری نتیجہ اُس کی اس حالت کا یہ ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کی اعلیٰ تجلیات تمام حجب سے مبرا ہو کر اُس کی طرف رُخ کرتی ہیں.اور طرح طرح کی برکات اُس پر نازل ہوتی ہیں اور وہ احکام اور وہ عقائد جو محض ایمان اور سماع کے طور پر قبول کئے گئے تھے.اب بذریعہ مکاشفات صحیحہ اور الہامات.یقینہ قطعیہ مشہود اور محسوس طور پر کھولے جاتے ہیں.اور مغلقات شرع اور دین کے اور اسرار سر بستہ ملت حنیفیہ کے اس پر منکشف ہو جاتے ہیں اور ملکوت الہی کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے تا وہ یقین اور معرفت میں مرتبہ کامل حاصل کرے اور اس کی زبان اور اس کے بیان اور تمام افعال اور اقوال اور حرکات سکنات میں ایک برکت رکھی جاتی ہے اور ایک فوق العادت شجاعت اور استقامت اور ہمت اس کو عطا کی جاتی ہے اور شرح صدر کا ایک اعلیٰ مقام اس کو عنایت کیا جاتا ہے اور بشریت کے حجابوں کی تنگ دلی اور خست اور بخل اور بار بار کی لغزش اور تنگ چشمی اور غلامی شہوات اور رداءت اخلاق اور ہر ایک قسم کی نفسانی تاریکی بکلی اس سے دُور کر کے اُس کی جگہ ربانی اخلاق کا نور بھر دیا جاتا ہے.تب وہ بکلی مبدل ہو کر ایک نئی پیدائش کا پیرا یہ پہن لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ سے سُنتا اور خدائے تعالیٰ سے دیکھتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ حرکت کرتا اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ٹھہرتا ہے اور اُس کا غضب خدائے تعالیٰ کا غضب اور اس کا رحم خدائے تعالیٰ کا رحم ہو جاتا ہے.اور اس درجہ میں اُس کی دُعائیں بطور اصطفاء کے منظور ہوتی ہیں نہ بطور ابتلا کے.اور وہ زمین پر حجت اللہ اور امان اللہ ہوتا ہے اور آسمان پر اس کے وجود سے خوشی کی جاتی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ عطیہ جو اس کو عطا ہوتا ہے مکالمات الہیہ اور مخاطبات حضرت یزدانی ہیں جو بغیر شک اور شبہ اور کسی غبار کے چاند کے نور کی طرح اُس کے دل پر نازل ہوتے رہتے ہیں.اور ایک شدید الاثر لذت اپنے ساتھ رکھتے ہیں.اور طمانیت اور تسلی اور سکینت بخشتے ہیں.اور اس کلام اور الہام میں فرق یہ ہے کہ الہام کا چشمہ تو گویا ہر وقت مقرب لوگوں میں بہتا ہے اور وہ رُوح القدس کے بلائے بولتے اور روح القدس کے دکھائے دیکھتے اور روح القدس کے سُنائے سُنتے اور ان کے تمام ارادے رُوح القدس کے نفخ سے ہی پیدا ہوتے ہیں.اور یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ وہ ظلی طور پر اس آیت کا مصداق ہوتے ہیں وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى - إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحی لے لیکن مکالمہ البہیہ ایک الگ امر ہے.اور وہ یہ ہے کہ النجم :۵،۴

Page 230

۲۲۰ وحی متلو کی طرح خدا تعالیٰ کا کلام اُن پر نازل ہوتا ہے اور وہ اپنے سوالات کا خدائے تعالیٰ سے ایسا جواب پاتے ہیں کہ جیسا ایک دوست دوست کو جواب دیتا ہے.اور اس کلام کی اگر ہم تعریف کریں تو صرف اس قدر کر سکتے ہیں کہ وہ اللہ جل شانہ کی ایک تحلی خاص کا نام ہے جو بذریعہ اس کے مقرب فرشتہ کے ظہور میں آتی ہے اور اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ تا دعا کے قبول ہونے سے اطلاع دی جائے یا کوئی نئی اور مخفی بات بتائی جائے یا آئندہ کی خبروں پر آگاہی دی جائے.یا کسی امر میں خدا تعالیٰ کی مرضی اور عدم مرضی پر مطلع کیا جائے یا کسی اور قسم کے واقعات میں یقین اور معرفت کے مرتبہ تک پہنچایا جائے.بہر حال یہ وحی ایک الہی آواز ہے جو معرفت اور اطمینان سے رنگین کرنے کے لئے منجانب اللہ پیرایہ مکالمہ ومخاطبہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے.اور اس سے بڑھ کر اس کی کیفیت بیان کرنا غیر ممکن ہے کہ وہ صرف الہی تحریک اور ربانی نفخ سے بغیر کسی قسم کے فکر اور تدبیر اور خوض اور غور اور اپنے نفس کے دخل کے خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک قدرتی ندا ہے جو لذیذ اور پُر برکت الفاظ میں محسوس ہوتی ہے اور اپنے اندر ایک ربانی تحیلی اور الہی صولت رکھتی ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۶ تا ۲۳۳) میں صرف اسلام کو سچا مذہب سمجھتا ہوں اور دوسرے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے جو کہ بجز بچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا اور اگر ہندو اور عیسائی وغیرہ اپنے باطل معبودوں سے دُعا کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ان کو وہ مرتبہ ہل نہیں سکتا اور وہ کلام الہی جو دوسرے طنی طور پر اس کو مانتے ہیں میں اُس کو سُن رہا ہوں اور مجھے دکھلایا اور بتلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ یہ سب کچھ ببرکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تجھ کو ملا ہے اور جو کچھ ملا ہے اُس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں کیونکہ وہ باطل پر ہیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷۶،۲۷۵) ہزار ہزار شکر اس خداوند کریم کا ہے جس نے ایسا مذہب ہمیں عطا فرمایا جو خدا دانی اور خدا ترسی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانہ میں نہیں پائی گئی.اور ہزار ہا درود اُس نبی معصوم پر جس

Page 231

۲۲۱ کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے اور ہزار ہا رحمتیں نبی کریم کے اصحاب پر ہوں جنہوں نے اپنے خونوں سے اس باغ کی آبپاشی کی.اسلام ایک ایسا با برکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص بچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور اُن تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کار بند ہو جائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا.وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پر دوں میں ہے اس کی شناخت کے لئے بجز قرآنی تعلیم کے اور کوئی بھی ذریعہ نہیں.قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور اس میں ایک برکت اور قوت جاذبہ ہے جو خدا کے طالب کو دم بدم خدا کی طرف کھینچتی اور روشنی اور سکینت اور اطمینان بخشتی ہے اور قرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پر حکمت عالم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہئے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کر کے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہو کر یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے.اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صد ہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کر لیتا ہے کہ در حقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں.اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایسا ہی خدا کو سمجھتا ہے اور وحدت الہی کی عظمت ایسی اُس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لائے اور سراسر کالعدم سمجھتا ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۶،۲۵) بچے مذہب کا خدا ایسا مطابق عقل اور نور فطرت چاہئے کہ جس کا وجود ان لوگوں پر بھی حجت ہو سکے جو عقل تو رکھتے ہیں مگر ان کو کتاب نہیں ملی.غرض وہ خدا ایسا چاہئے جس میں کسی زبر دستی اور بناوٹ کی بُو نہ پائی جائے.سویا در ہے کہ یہ کمال اس خدا میں ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے.اور تمام دنیا کے تمام مذہب والوں نے یا تو اصل خدا کو بالکل چھوڑ دیا ہے جیسا کہ عیسائی اور یا نا واجب صفات اور اخلاق ذمیمہ اس کی طرف منسوب کر دیے ہیں جیسا کہ یہودی ، اور یا واجب صفات سے اس کو علیحدہ کر دیا ہے جیسا کہ مشرکین اور آریہ.مگر اسلام کا خدا وہی سچا خدا ہے جو آئینہ قانون قدرت اور صحیفہ فطرت سے

Page 232

۲۲۲ نظر آ رہا ہے.اسلام نے کوئی نیا خدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کیا ہے جو انسان کا نور قلب اور انسان کا کانشنس اور زمین و آسمان پیش کر رہا ہے اور دوسری علامت سچے مذہب کی یہ ہے کہ مُردہ مذہب نہ ہو.بلکہ جن برکتوں اور عظمتوں کی ابتدا میں اس میں تخم ریزی کی گئی تھی وہ تمام برکتیں اور عظمتیں نوع انسان کی بھلائی کے لئے اس میں اخیر دنیا تک موجود رہیں تا موجودہ نشان گذشتہ نشانوں کے لئے مصدق ہو کر اس سچائی کے نور کو قصہ کے رنگ میں نہ ہونے دیں.سومیں ایک مدت دراز سے لکھ رہا ہوں کہ جس نبوت کا ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا تھا اور جو دلائل آسمانی نشانوں کے آنجناب نے پیش کئے تھے وہ اب تک موجود ہیں اور پیروی کرنے والوں کو ملتے ہیں تا وہ معرفت کے مقام تک پہنچ جائیں.اور زندہ خدا کو براہ راست دیکھ لیں.مگر جن نشانوں کو یسوع کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اُن کا دنیا میں نام و نشان نہیں صرف قصے ہیں.لہذا یہ مُردہ پرستی کا مذہب اپنے مُردہ معبود کی طرح مُردہ ہے.ظاہر ہے کہ ایک سچائی کا بیان صرف قصوں تک کفایت نہیں کر سکتا.کون سی قوم دنیا میں ہے جن کے پاس کر اماتوں اور معجزوں کے قصے نہیں.پس یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ وہ صرف قصوں کی ناقص اور نا تمام تسلی کو پیش نہیں کرتا بلکہ وہ ڈھونڈ نے والوں کو زندہ نشانوں سے اطمینان بخشتا ہے اور اس شخص کو جو حق کا طالب ہو اس کو چاہئے کہ صرف بیہودہ مُردہ پرستی پر کفایت نہ کرے بلکہ نہایت ضروری ہے کہ محض ذلیل قصوں پر سرنگوں نہ ہو.ہم دنیا کے بازار میں اچھی چیزوں کے خریدنے کے لئے آئے ہیں.ہمیں نہیں چاہئے کہ کوئی مغشوش چیز خرید کر نقد ایمان ضائع کریں.زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے.زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ مُلهِم کو دیکھ سکیں.سوئیں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے.وہ مُردے ہیں نہ خدا جن سے اب کوئی ہمکلام نہیں ہو سکتا.اُس کے نشان نہیں دیکھ سکتا.سو جس کا خدا مردہ ہے وہ اُس کو ہر میدان میں شرمندہ کرتا ہے اور ہر میدان میں اُسے ذلیل کرتا ہے اور کہیں اس کی مدد نہیں کر سکتا.اس اشتہار کے دینے سے اصل غرض یہی ہے کہ جس مذہب میں سچائی ہے وہ کبھی اپنا رنگ نہیں بدل سکتی.جیسے اوّل ہے ویسے ہی آخر ہے.سچا مذ ہب کبھی خشک قصہ نہیں بن سکتا.سو اسلام سچا ہے.میں ہر ایک کو کیا عیسائی کیا آریہ اور کیا یہودی اور کیا بر ہمو اس سچائی کے دکھلانے کے لئے بلا تا ہوں.کیا کوئی ہے جو زندہ خدا کا طالب ہے ہم مُردوں کی پرستش نہیں کرتے.ہمارا زندہ خدا ہے.وہ ہماری مدد کرتا ہے.وہ اپنے الہام اور کلام اور آسمانی نشانوں سے ہمیں مدد دیتا ہے.اگر دنیا کے اس سرے سے اس سرے تک کوئی عیسائی

Page 233

۲۲۳ طالب حق ہے تو ہمارے زندہ خدا اور اپنے مُردہ خدا کا مقابلہ کر کے دیکھ لے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس با ہم امتحان کے لئے چالیس دن کافی ہیں.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۳ تا ۱۵- مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۱ تا ۱۳ بار دوم ) وہ اسلام جس کی خوبیاں ہم بیان کر چکے ہیں وہ ایسی چیز نہیں ہے جس کے ثبوت کے لئے ہم صرف گذشتہ کا حوالہ دیں.اور محض قبروں کے نشان دکھلائیں.اسلام مردہ مذہب نہیں تا یہ کہا جائے کہ اس کی سب برکات پیچھے رہ گئی ہیں اور آگے خاتمہ ہے.اسلام میں بڑی خوبی یہی ہے کہ اس کی برکات ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں.اور وہ صرف گذشتہ حصوں کے کا سبق نہیں دیتا بلکہ موجودہ برکات پیش کرتا ہے.دنیا کو برکات اور آسمانی نشانوں کی ہمیشہ ضرورت ہے.یہ نہیں کہ پہلے تھیں اور اب نہیں ہیں.ضعیف اور عاجز انسان جو اندھے کی طرح پیدا ہوتا ہے ہمیشہ اس بات کا محتاج ہے کہ آسمانی بادشاہت کا اس کو کچھ پتہ لگے اور وہ خدا جس کے وجود پر ایمان ہے اُس کی ہستی اور قدرت کے کچھ آثار بھی ظاہر ہوں.پہلے زمانہ کے نشان دوسرے زمانہ کے لئے کافی نہیں ہو سکتے کیونکہ خبر معائنہ کی مانند نہیں ہو سکتی اور امتدادِ زمانہ سے خبریں ایک قصہ کے رنگ میں ہو جاتی ہیں.ہر ایک نئی صدی جو آتی ہے تو گویا ایک نئی دنیا شروع ہوتی ہے اس لئے اسلام کا خدا جو سچا خدا ہے ہر ایک نئی دنیا کے لئے نئے نشان دکھلاتا ہے اور ہر یک صدی کے سر پر اور خاص کر ایسی صدی کے سر پر جو ایمان اور دیانت سے دُور پڑ گئی ہے اور بہت سی تاریکیاں اپنے اندر رکھتی ہے ایک قائم مقام نبی کا پیدا کر دیتا ہے جس کے آئینہ فطرت میں نبی کی شکل ظاہر ہوتی ہے اور وہ قائم مقام نبی متبوع کے کمالات کو اپنے وجود کے توسط سے لوگوں کو دکھلاتا ہے اور تمام مخالفوں کو سچائی اور حقیقت نمائی اور پردہ دری کے رُو سے ملزم کرتا ہے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۴۵ تا ۲۴۷) بچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پیدا ہوتے رہیں جو محدث کے مرتبہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے.اور اسلام کی حقیت اور حقانیت کی اوّل نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا تعالیٰ ہم کلام ہو پیدا ہوتے ہیں.تَتَنَزَلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا کے سو یہی معیار حقیقی بچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور صرف اسلام میں ہے.عیسائی مذہب اس روشنی سے بے نصیب ہے.(حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۳) ے سہو کتابت ہے یہ لفظ ” قصوں معلوم ہوتا ہے.حم السجدة : ٣١

Page 234

۲۲۴ ہم یقینی اور قطعی طور پر ہر ایک طالب حق کو ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہمارے سید ومولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک ہر ایک صدی میں ایسے باخدا لوگ ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھلا کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے.جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی اور ابوالحسن خرقانی اور ابو یزید بسطامی اور جنید بغدادی اور محی الدین ابن العربی.اور ذوالنون مصری اور معین الدین چشتی اجمیری اور قطب الدین بختیار کا کی.اور فرید الدین پاکپٹنی اور نظام الدین دہلوی، اور شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ اسلام میں گذرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزار ہا تک عدد پہونچا ہے اور اس قدر ان لوگوں کے خوارق علماء اور فضلاء کی کتابوں میں منقول ہیں کہ ایک متعصب کو با وجود سخت تعصب کے آخر ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ صاحب خوارق و کرامات تھے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے نہایت صحیح تحقیقات سے دریافت کیا ہے کہ جہاں تک بنی آدم کے سلسلہ کا پتہ لگتا ہے سب پر غور کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس قدر اسلام میں اسلام کی تائید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امت کے اولیاء کے ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں اُن کی نظیر دوسرے مذاہب میں ہرگز نہیں.اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی ترقی آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ہوتی رہی ہے اور اس کے بے شمار انوار اور برکات نے خدا تعالیٰ کو قریب کر کے دکھلا دیا ہے.یقینا سمجھو کہ اسلام اپنے آسمانی نشانوں کی وجہ سے کسی زمانہ کے آگے شرمندہ نہیں.اسی اپنے زمانہ کو دیکھو جس میں اگر تم چاہو تو اسلام کے لئے رؤیت کی گواہی دے سکتے ہو.تم سچ سچ کہو کہ کیا اس زمانہ میں تم نے اسلام کے نشان نہیں دیکھے؟ پھر بتلاؤ کہ دنیا میں اور کون سا مذہب ہے کہ یہ گواہیاں نقد موجود رکھتا ہے؟ یہی باتیں تو ہیں کہ جن سے پادری صاحبوں کی کمر ٹوٹ گئی.جس شخص کو وہ خدا بناتے ہیں اس کی تائید میں بجز چند بے سر و پا قصوں اور جھوٹی روایتوں کے اُن کے ہاتھ میں کچھ نہیں.اور جس پاک نبی کی وہ تکذیب کرتے ہیں اُس کی سچائی کے نشان اس زمانہ میں بھی بارش کی طرح برس رہے ہیں.ڈھونڈنے والوں کے لئے اب بھی نشانوں کے دروازے کھلے ہیں جیسا کہ پہلے کھلے تھے.اور سچائی کے بھوکوں کے لئے اب بھی خوان نعمت موجود ہے جیسا کہ پہلے تھا.زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس پر ہمیشہ کے لئے زندہ خدا کا ہاتھ ہو.سو وہ اسلام ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۹۲۹۱) اگر کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ دنیا میں صد ہا جھوٹے مذہب ہیں جو ہزاروں برسوں سے چلے

Page 235

۲۲۵ آتے ہیں حالانکہ ابتداء ان کی کسی کی افتراء سے ہی ہو گی.تو اس کا جواب یہ ہے کہ افتراء سے مراد ہمارے کلام میں وہ افتراء ہے کہ کوئی شخص عمداً اپنی طرف سے بعض کلمات تراش کر یا ایک کتاب بنا کر پھر یہ دعوی کرے کہ یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس نے مجھے الہام کیا ہے اور ان باتوں کے بارے میں میرے پر اُس کی وحی نازل ہوئی ہے.حالانکہ کوئی وحی نازل نہیں ہوئی.سو ہم نہایت کامل تحقیقات سے کہتے ہیں کہ ایسا افتراء کبھی کسی زمانہ میں چل نہیں سکا.اور خدا کی پاک کتاب صاف گواہی دیتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر افتراء کرنے والے جلد ہلاک کئے گئے ہیں.اور ہم لکھ چکے ہیں کہ توریت بھی یہی گواہی دیتی ہے اور انجیل بھی اور فرقان مجید بھی.ہاں جس قدر دنیا میں جھوٹے مذہب نظر آتے ہیں.جیسے ہندوؤں اور پارسیوں کا مذہب، اُن کی نسبت یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی جھوٹے پیغمبر کا سلسلہ چلا آتا ہے بلکہ اصل حقیقت ان میں یہ ہے کہ خود لوگ غلطیوں میں پڑتے پڑتے ایسے عقائد کے پابند ہو گئے ہیں.دنیا میں تم کوئی ایسی کتاب دکھا نہیں سکتے جس میں صاف اور بے تناقض لفظوں میں کھلا کھلا یہ دعوی ہو کہ یہ خدا کی کتاب ہے.حالانکہ اصل میں وہ خدا کی کتاب نہ ہو بلکہ کسی مفتری کا افتراء ہو.اور ایک قوم اس کو عزت کے ساتھ مانتی چلی آئی ہو.ہاں ممکن ہے کہ خدا کی کتاب کے الٹے معنے کئے گئے ہوں.جس حالت میں انسانی گورنمنٹ ایسے شخص کو نہایت غیرت مندی کے ساتھ پکڑتی ہے کہ جھوٹے طور پر ملازمت سرکاری ہونے کا دعویٰ کرے تو خدا جو اپنے جلال اور ملکوت کے لئے غیرت رکھتا ہے کیوں جھوٹے مدعی کو نہ پکڑے.انجام آتھم.روحانی خزائن جلدا اصفحہ ۶۳ ۶۴.نوٹ )

Page 236

۲۲۶ اللہ تعالیٰ 699 جَل شَانُه وعَزَّ اسْمُهُ وو یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے.“ 66

Page 237

۲۲۷ وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسی کلیم اللہ پر بمقام طور ظاہر ہوا اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چپکا وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلی فرما ہوا ہے.اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلیٰ وجود جس کی پرستش کے لئے تمام نبی بھیجے گئے میں ہوں.میں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں.اور میں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہوں.(ضمیمہ رسالہ جہاد.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۹) وہ پاک زندگی جو گناہ سے بیچ کر ملتی ہے وہ ایک لعلِ تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے ہاں خدا تعالیٰ نے وہ لعلِ تاباں مجھے دیا ہے اور مجھے اُس نے مامور کیا ہے کہ میں دنیا کو اس لعلِ تاباں کے حصول کی راہ بتا دوں.اس راہ پر چل کر میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص یقینا یقیناً اس کو حاصل کر لے گا اور وہ ذریعہ اور وہ راہ جس سے یہ ملتا ہے ایک ہی ہے جس کو خدا کی سچی معرفت کہتے ہیں.در حقیقت یہ مسئلہ بڑا مشکل اور نازک مسئلہ ہے.کیونکہ ایک مشکل امر پر موقوف ہے.فلاسفر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کر کے صرف اتنا بتاتا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہئے مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربوں کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا ہے.الحکم مورخہ ۱۷ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۴،۳.ملفوظات جلد دوم صفحه ۱۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۹ اصفحہ ۲۲٬۲۱)

Page 238

۲۲۸ خدا آسمان وزمین کا نور ہے.یعنی ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح میں ہے خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی اُسی کے فیض کا عطیہ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہو رہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں.وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے.اُسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیر وزبر کی پناہ ہے.وہی ہے جس نے ہر یک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا.بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو.یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اُسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں.(براہین احمدیہ ہر چہار تخصص - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۹۱ ۱۹۲ حاشیہ نمبر۱۱) اسلام کا خدا وہی سچا خدا ہے جو آئینہ قانون قدرت اور صحیفہ فطرت سے نظر آ رہا ہے.اسلام نے کوئی نیا خدا پیش نہیں کیا بلکہ وہی خدا پیش کیا ہے جو انسان کا نور قلب اور انسان کا کانشنس اور زمین و آسمان پیش کر رہا ہے.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۱۴.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۱۲ بار دوم ) اس قادر اور بچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہما را ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قولی کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے.اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اس کے تصرف سے نہ اس کے خلق سے.اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے.سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا.اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا.اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی.وہ ہمارا سچا خدا بے شمار برکتوں والا ہے اور بے شمار قدرتوں والا اور بے شمار حسن والا اور بے شمار احسان والا اوس کے سوا کوئی اور خدا نہیں.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۶۳)

Page 239

۲۲۹ خدا کی ذات غیب الغیب اور وراء الوراء اور نہایت مخفی واقع ہوئی ہے جس کو عقولِ انسانیہ محض اپنی طاقت سے دریافت نہیں کر سکتیں اور کوئی برہان عقلی اُس کے وجود پر قطعی دلیل نہیں ہوسکتی.کیونکہ عقل کی دوڑ اور سعی صرف اس حد تک ہے کہ اس عالم کی صنعتوں پر نظر کر کے صانع کی ضرورت محسوس کرے.مگر ضرورت کا محسوس کرنا اور شے ہے.اور اس درجہ عین الیقین تک پہنچنا کہ جس خدا کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے وہ درحقیقت موجود بھی ہے یہ اور بات ہے.اور چونکہ عقل کا طریق ناقص اور نا تمام اور مشتبہ ہے اس لئے ہر ایک فلسفی محض عقل کے ذریعہ سے خدا کو شناخت نہیں کر سکتا.بلکہ اکثر ایسے لوگ جو محض عقل کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا پتہ لگانا چاہتے ہیں آخر کار دہر یہ بن جاتے ہیں.اور مصنوعات زمین و آسمان پر غور کرنا کچھ بھی اُن کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اور خدا تعالیٰ کے کاملوں پر ٹھٹھا اور بنسی کرتے ہیں اور اُن کی یہ حجت ہے کہ دنیا میں ہزار ہا ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن کے وجود کا ہم کوئی فائدہ نہیں دیکھتے.اور جن میں ہماری عقلی تحقیق سے کوئی ایسی صنعت ثابت نہیں ہوتی جو صانع پر دلالت کرے بلکہ محض لغو اور باطل طور پر ان چیزوں کا وجود پایا جاتا ہے.افسوس وہ نادان نہیں جانتے کہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا.اس قسم کے لوگ کئی لاکھ اس زمانہ میں پائے جاتے ہیں.جو اپنے تئیں اوّل درجہ کے عقلمند اور فلسفی سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود سے سخت منکر ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی عقلی دلیل زبر دست ان کو ملتی تو وہ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار نہ کرتے اور اگر وجود باری جل شانہ پر کوئی برہان یقینی عقلی ان کو ملزم کرتی تو وہ سخت بے حیائی اور ٹھٹھے اور ہنسی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر نہ ہو جاتے.پس کوئی شخص فلسفیوں کی کشتی پر بیٹھ کر طوفان شبہات سے نجات نہیں پاسکتا بلکہ ضرور غرق ہو گا.اور ہرگز ہرگز شربت تو حید خالص اوس کو میسر نہیں آئے گا.اب سوچو کہ یہ خیال کس قدر باطل اور بد بودار ہے کہ بغیر وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے توحید میسر آ سکتی ہے.اور اس سے انسان نجات پاسکتا ہے.اے نادانو! جب تک خدا کی ہستی پر یقین کامل نہ ہو اُس کی توحید پر کیونکر یقین ہو سکے.پس یقینا سمجھو کہ توحید یقینی محض نبی کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے دہریوں اور بد مذہبوں کو ہزار ہا آسمانی نشان دکھلا کر خدا تعالیٰ کے وجود کا قائل کر دیا اور اب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل پیروی کرنے والے اُن نشانوں کو دہریوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.بات یہی سچ ہے کہ جب تک زندہ خدا کی زندہ طاقتیں انسان مشاہدہ نہیں کرتا شیطان اس کے دل میں سے نہیں نکلتا اور نہ سچی تو حید اُس کے دل میں داخل ہوتی ہے اور نہ یقینی طور پر خدا کی ہستی کا قائل ہو سکتا ہے اور یہ پاک اور

Page 240

۲۳۰ کامل تو حید صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ملتی ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۰، ۱۲۱) یا درکھو کہ انسان کی ہرگز یہ طاقت نہیں ہے کہ ان تمام دقیق در دقیق خدا کے کاموں کو دریافت کر سکے بلکہ خدا کے کام عقل اور فہم اور قیاس سے برتر ہیں اور انسان کو صرف اپنے اس قدر علم پر مغرور نہیں ہونا چاہئے کہ اس کو کسی حد تک سلسلہ علل و معلولات کا معلوم ہو گیا ہے کیونکہ انسان کا وہ علم نہایت ہی محدود.ہے جیسا کہ سمندر کے ایک قطرہ میں سے کروڑم حصہ قطرہ کا.اور حق بات یہ ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ خود نا پیدا کنار ہے ایسا ہی اس کے کام بھی نا پیدا کنار ہیں.اور اس کے ہر ایک کام کی اصلیت تک پہنچنا انسانی طاقت سے برتر اور بلند تر ہے.ہاں ہم اس کی صفات قدیمہ پر نظر کر کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کبھی معطل نہیں رہتیں اس لئے خدا تعالیٰ کی مخلوق میں قدامت نوعی پائی جاتی ہے.یعنی مخلوق کی انواع میں سے کوئی نہ کوئی نوع قدیم سے موجود چلی آئی ہے.مگر شخصی قدامت باطل ہے.اور باوجود اس کے خدا کی صفت افتاء اور اہلاک بھی ہمیشہ اپنا کام کرتی چلی آتی ہے وہ بھی کبھی معطل نہیں ہوئی.اور اگر چہ نادان فلاسفروں نے بہت ہی زور لگایا کہ زمین و آسمان کے اجرام واجسام کی پیدائش کو اپنے سائینس یعنی طبعی قواعد کے اندر داخل کر لیں اور ہر ایک پیدائش کے اسباب قائم کریں مگر سچ یہی ہے کہ وہ اس میں نا کام اور نامراد ر ہے ہیں اور جو کچھ ذخیرہ اپنی طبعی تحقیقات کا انہوں نے جمع کیا ہے وہ بالکل نا تمام اور نامکمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی اپنے خیالات پر قائم نہیں رہ سکے اور ہمیشہ ان کے خود تراشیدہ خیالات میں تغیر تبدل ہوتا رہا ہے اور معلوم نہیں کہ آگے کس قدر ہو گا.اور چونکہ ان کی تحقیقاتوں کی یہ حالت ہے کہ تمام مدار ان کا صرف اپنی عقل اور قیاس پر ہے اور خدا سے کوئی مددان کو نہیں ملتی اس لئے وہ تاریکی سے باہر نہیں آ سکتے.اور در حقیقت کو ئی شخص خدا کو شناخت نہیں کر سکتا جب تک اس حد تک اس کی معرفت نہ پہنچ جائے کہ وہ اس بات کو سمجھ لے کہ خدا کے بے شمار کام ایسے ہیں کہ جو انسانی طاقت اور عقل اور فہم سے بالاتر اور بلند تر ہیں اور اس مرتبہ معرفت سے پہلے یا تو انسان محض دہریہ ہوتا ہے اور خدا کے وجود پر ایمان ہی نہیں رکھتا اور یا اگر خدا کو مانتا ہے تو صرف اس خدا کو مانتا ہے کہ جو اس کے خود تراشیدہ دلائل کا ایک نتیجہ ہے نہ اس خدا کو جو اپنی تجلی سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور جس کی قدرتوں کے اسرار اس قدر ہیں کہ انسانی عقل ان کا احاطہ نہیں کہ سکتی.جب سے خدا نے مجھے یہ علم دیا ہے کہ خدا کی قدرتیں عجیب در عجیب اور عمیق در عمیق اور وراء الوراء لائید رک ہیں تب سے میں ان

Page 241

۲۳۱ لوگوں کو جو فلسفی کہلاتے ہیں پکے کافر سمجھتا ہوں اور چھپے ہوئے دہر یہ خیال کرتا ہوں.میرا خود ذاتی مشاہدہ ہے کہ کئی عجائب قدرتیں خدا تعالیٰ کی ایسے طور پر میرے دیکھنے میں آئی ہیں کہ بجز اس کے کہ اُن کو نیستی سے ہستی کہیں اور کوئی نام ان کا ہم رکھ نہیں سکتے جیسا کہ ان نشانوں کی بعض مثالیں بعض موقعہ پر میں نے لکھ دی ہیں.جس نے یہ کرشمہ قدرت نہیں دیکھا اُس نے کیا دیکھا؟ ہم ایسے خدا کو نہیں مانتے جس کی قدرتیں صرف ہماری عقل اور قیاس تک محدود ہیں اور آگے کچھ نہیں.بلکہ ہم اس خدا کو مانتے ہیں جس کی قدرتیں اس کی ذات کی طرح غیر محدود اور نا پیدا کنار اور غیر متناہی ہیں.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸ تا ۲۸۲) قرآن شریف میں ایسی تعلیمیں ہیں کہ جو خدا کو پیارا بنانے کے لئے کوشش کر رہی ہیں.کہیں اس کے حسن و جمال کو دکھاتی ہیں اور کہیں اُس کے احسانوں کو یاد دلاتی ہیں کیونکہ کسی کی محبت یا تو حسن کے ذریعہ سے دل میں بیٹھتی ہے اور یا احسان کے ذریعہ سے.چنانچہ لکھا ہے کہ خدا اپنی تمام خوبیوں کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے.کوئی بھی اس میں نقص نہیں.وہ مجمع ہے تمام صفات کا ملہ کا اور مظہر ہے تمام پاک قدرتوں کا اور مبدا ہے تمام مخلوق کا اور سرچشمہ ہے تمام فیضوں کا اور مالک ہے تمام جزا سزا کا اور مرجع ہے تمام امور کا.اور نزدیک ہے باوجود ڈوری کے اور دُور ہے باوجود نزدیکی کے.وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے.اور وہ سب چیزوں سے زیادہ پوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس سے کوئی زیادہ ظاہر ہے.وہ زندہ ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ زندہ ہے.وہ قائم ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ قائم ہے.اُس نے ہر یک چیز کو اُٹھا رکھا ہے اور کوئی چیز نہیں جس نے اُس کو اٹھا رکھا ہو.کوئی چیز نہیں جو اس کے بغیر خود بخود پیدا ہوئی ہے یا اس کے بغیر خود بخود جی سکتی ہے.وہ ہر یک چیز پر محیط ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ کیسا احاطہ ہے.وہ آسمان اور زمین کی ہر یک چیز کا نور ہے اور ہر یک نور اُسی کے ہاتھ سے چمکا اور اُسی کی ذات کا پر توہ ہے.وہ تمام عالموں کا پروردگار ہے کوئی روح نہیں جو اس سے پرورش نہ پاتی ہو اور خود بخود ہو.کسی رُوح کی کوئی قوت نہیں جو اُس سے نہ ملی ہو اور خود بخود ہو.اور اُس کی رحمتیں دو قسم کی ہیں.(۱) ایک وہ جو بغیر سبقت عمل کسی عامل کے قدیم سے ظہور پذیر ہیں.جیسا کہ زمین اور آسمان اور سورج اور چاند اور ستارے اور پانی اور آگ اور ہوا اور تمام ذرات اس عالم کے جو ہمارے آرام کے لئے بنائے گئے.ایسا ہی جن جن چیزوں کی ہمیں ضرورت تھی وہ تمام چیزیں ہماری پیدائش سے پہلے ہی ہمارے لئے مہیا کی گئیں اور یہ

Page 242

۲۳۲ سب اُس وقت کیا گیا جب کہ ہم خود بخود موجود نہ تھے نہ ہمارا کوئی عمل تھا.کون کہہ سکتا ہے کہ سورج میرے عمل کی وجہ سے پیدا کیا گیا یا زمین میرے کسی شدھ کرم کے سبب سے بنائی گئی.غرض یہ وہ رحمت ہے جو انسان اور اس کے عملوں سے پہلے ظاہر ہو چکی ہے جو کسی کے عمل کا نتیجہ نہیں.(۲) دوسری رحمت وہ ہے جو اعمال پر مترتب ہوتی ہے اور اس کی تصریح کی کچھ ضرورت نہیں.ایسا ہی قرآن شریف میں وارد ہے کہ خدا کی ذات ہر یک عیب سے پاک ہے اور ہر ایک نقصان سے مبرا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اس کی تعلیم کی پیروی کر کے عیبوں سے پاک ہو.اور وہ فرماتا ہے وَمَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمی یا یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا رہے گا اور اس ذاتِ بے چوں کا اس کو دیدار نہیں ہو گا وہ مرنے کے بعد بھی اندھا ہی ہوگا اور تاریکی اُس سے جُدا نہیں ہو گی کیونکہ خدا کے دیکھنے کے لئے اسی دنیا میں حواس ملتے ہیں.اور جو شخص ان حواس کو دنیا سے ساتھ نہیں لے جائے گا وہ آخرت میں بھی خدا کو دیکھ نہیں سکے گا.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف سمجھا دیا ہے کہ وہ انسان سے کس ترقی کا طالب ہے اور انسان اس کی تعلیم کی پیروی سے کہاں تک پہنچ سکتا ہے.پھر اس کے بعد وہ قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اسی دنیا میں دیدار الہی میسر آ سکتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا ل یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں.نہ ان کی وجہ سے دل میں تکبر پیدا ہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں.اور نہ وہ عمل ناقص اور نا تمام ہوں اور نہ اُن میں کوئی ایسی بدھ ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پر ہیز ہو.نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے، نہ ہوا نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا اُن پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کی قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا اور نہ اپنے علم پر کوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز.بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل ا بنی اسرائیل :۷۳ الكهف:ااا

Page 243

۲۳۳ سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت رُوح رگری رہے اور دعاؤں کے ساتھ اُس کے فیض کو اپنی طرف کھینچا جائے اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا بھی ہے اور اُس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیر ہیں.پس اُس نے افتاں و خیزاں بہر حال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا اور پھر قرآن میں ہمارا خدا اپنی خوبیوں کے بارے میں فرماتا ہے.قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ - وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌے یعنی تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے نہ کوئی ذات اُس کی ذات جیسی از لی اور ابدی یعنی انادی اور اکال ہے.نہ کسی چیز کے صفات اس کی صفات کے مانند ہیں.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور بائیں ہمہ غیر محدود ہے.انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں.اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے.ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیر محدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں.اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا.اس لئے اس کی توحید قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو.پھر اس سے آگے آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ خدا نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کوئی اس کا بیٹا ہے.کیونکہ وہ غنی بالذات ہے.اس کو نہ باپ کی حاجت ہے اور نہ بیٹے کی.یہ تو حید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدار ایمان ہے.لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲ ۱۵ تا ۱۵۵) خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بُزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں.ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.الاخلاص : ۲ تا ۵

Page 244

۲۳۴ اے سننے والوسنو ! ! کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے.بس یہی کہ تم اُسی کے ہو جاؤ اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو نہ آسمان میں نہ زمین میں.ہمارا خدا وہ خدا ہے جواب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا.یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں.بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے.اُس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہو گی.وہ وہی واحد لاشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں.وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں.وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے اور ڈور ہے باوجود نزدیک ہونے کے.وہ تمثل کے طور پر اہل کشف پر اپنے تئیں ظاہر کر سکتا ہے مگر اس کے لئے نہ کوئی جسم ہے اور نہ کوئی شکل ہے اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں.وہ مجمع ہے تمام صفات کا ملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد حقہ کا اور سر چشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہے تمام طاقتوں کا اور مبدء ہے تمام فیضوں کا اور مرجع ہے ہر ایک شے کا.اور مالک ہے ہر ایک ملک کا اور متصف ہے ہر ایک کمال سے اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے.اور مخصوص ہے اس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اسی کی عبادت کریں اور اس کے آگے کوئی بات بھی ان ہونی نہیں.اور تمام روح اور ان کی طاقتیں اور تمام ذرات اور ان کی طاقتیں اُسی کی پیدائش ہیں.اس کے بغیر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی.وہ اپنی طاقتوں اور اپنی قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور اس کو اُسی کے ذریعہ سے ہم پاسکتے ہیں.اور وہ راستبازوں پر ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا رہتا ہے اور اپنی قدرتیں ان کو دکھلاتا ہے.اسی سے وہ شناخت کیا جاتا اور اُسی سے اس کی پسندیدہ راہ شناخت کی جاتی ہے.وہ دیکھتا ہے بغیر جسمانی آنکھوں کے.اور سُنتا ہے بغیر جسمانی کانوں کے اور بولتا ہے بغیر جسمانی زبان کے.اسی طرح نیستی سے ہستی کرنا.اس کا کام ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ خواب کے نظارہ میں بغیر کسی مادہ کے ایک عالم پیدا کر دیتا ہے اور ہر ایک فانی اور معدوم کو موجود دکھلا دیتا ہے.پس اسی طرح اس کی تمام قدرتیں ہیں.نادان ہے وہ جو اس کی قدرتوں سے انکار کرے.اندھا ہے وہ جو اس کی عمیق طاقتوں.بے خبر ہے.وہ سب کچھ کرتا ہے اور کر سکتا ہے بغیر ان امور کے جو اُس کی شان کے مخالف ہیں یا اس کے

Page 245

۲۳۵ مواعید کے برخلاف ہیں.اور وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور قدرتوں میں اور اس تک پہنچنے کے لئے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے.( رساله الوصیت - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۹ تا ۳۱۱) الْحَمْدُ لِله - تمام محامد اس ذات معبود برحق مستجمع جمیع صفات کاملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے.ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور مستجمع جمیع صفات کا ملہ اور تمام رزائل سے منزہ اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء وصفات کا موصوف ٹھہرایا ہے اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا.پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ہے ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے.اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف.اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پر مشتمل ہے.پس خلاصہ مطلب اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں.اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں.اور نیز جس قد ر حامد صحیحہ اور کمالات تامہ کو عقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہے یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے وہ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے مگر اللہ تعالیٰ بدقسمت انسان کی طرح اُس خوبی سے محروم ہو بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کر سکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رذائل سے بکلی منزہ ہے.اب دیکھو یہ ایسی صداقت ہے جس سے سچا اور جھوٹا مذہب ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ تمام مذہبوں پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ بجز اسلام دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کو جمیع رذائل سے منزہ اور تمام محامد کاملہ سے متصف سمجھتا ہو.عام ہندو اپنے دیوتاؤں کو کارخانہ ربوبیت میں شریک سمجھتے ہیں اور خدا کے کاموں میں ان کو مستقل طور پر دخیل قرار دیتے ہیں بلکہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ خدا کے ارادوں کو بدلنے والے اور اس کی تقدیروں کو زیر وزبر کرنے والے ہیں اور نیز ہندو لوگ کئی انسانوں اور دوسرے جانوروں کی نسبت بلکہ بعض نا پاک اور نجاست خوار حیوانات یعنی خنزیز وغیرہ کی نسبت یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی زمانہ میں اُن کا پر میشر ایسی ایسی جونوں میں تولد پاکر ان تمام آلائشوں اور

Page 246

۲۳۶ آلودگیوں سے ملوث ہوتا رہا ہے کہ جو ان چیزوں کے عائد حال ہیں اور نیز انہیں چیزوں کی طرح بھوک اور پیاس اور درد اور دکھ اور خوف اور غم اور بیماری اور موت اور ذلت اور رسوائی اور عاجزی اور ناتوانی کی آفات میں گرفتار ہوتا رہا ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ تمام اعتقادات خدائے تعالیٰ کی خوبیوں میں بٹہ لگاتے ہیں اور اس کے ازلی و ابدی جاہ و جلال کو گھٹاتے ہیں.اور آریہ سماج والے جو اُن کے مہذب بھائی نکلے ہیں جن کا یہ گمان ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک وید کی لکیر پر چلتے ہیں وہ خدائے تعالیٰ کو خالقیت سے ہی جواب دیتے ہیں اور تمام روحوں کو اُس کی ذات کامل کی طرح غیر مخلوق اور واجب الوجود اور موجود بوجود حقیقی قرار دیتے ہیں.حالانکہ عقل سلیم خدائے تعالیٰ کی نسبت صریح یہ نقص سمجھتی ہے کہ وہ دنیا کا مالک کہلا کر پھر کسی چیز کا ربّ اور خالق نہ ہو اور دنیا کی زندگی اس کے سہارے سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی وجوب کے رُو سے ہو.اور جب عقل سلیم کے آگے یہ دونوں سوال پیش کئے جائیں کہ آیا خداوند قادر مطلق کے محامد تامہ کے لئے یہ بات اصلح اور انسب ہے کہ وہ آپ ہی اپنی قدرت کاملہ سے تمام موجودات کو منصہ ظہور میں لاکر ان سب کا رب اور خالق ہو اور تمام کائنات کا سلسلہ اسی کی ربوبیت تک ختم ہوتا ہو اور خالقیت کی صفت اور قدرت اُس کی ذات کامل میں موجود ہو اور پیدائش اور موت کے نقصان سے پاک ہو یا یہ باتیں اُس کی شان کے لائق ہیں کہ جس قدر مخلوقات اس کے قبضہ تصرف میں ہیں یہ چیزیں اس کی مخلوق نہیں ہیں اور نہ اس کے سہارے سے اپنا وجود رکھتی ہیں اور نہ اپنے وجود اور بقا میں اس کی محتاج ہیں اور نہ وہ اُن کا خالق اور رب ہے اور نہ خالقیت کی صفت اور قدرت اُس میں پائی جاتی ہے اور نہ پیدائش اور موت کے نقصان سے پاک ہے تو ہر گز عقل یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ وہ جو دنیا کا مالک ہے وہ دنیا کا پیدا کنندہ نہیں اور ہزاروں پر حکمت صفتیں کہ جو روحوں اور جسموں میں پائی جاتی ہیں وہ خود بخود ہیں اور ان کا بنانے والا کوئی نہیں اور خدا جو اِن سب چیزوں کا مالک کہلاتا ہے وہ فرضی طور پر مالک ہے.اور نہ یہ فتویٰ دیتی ہے کہ اُس کو پیدا کرنے سے عاجز سمجھا جاوے یا ناطاقت اور ناقص ٹھہرایا جاوے یا پلیدی اور نجاست خواری کی نالائق اور فتیح عادت کو اس کی طرف منسوب کیا جائے یا موت اور درد اور دکھ اور بے علمی اور جہالت کو اُس پر روا رکھا جائے بلکہ صاف یہ شہادت دیتی ہے کہ خدائے تعالیٰ ان تمام رذیلتوں اور نقصانوں سے پاک ہونا چاہئے اور اُس میں کمالِ تام چاہئے.اور کمال تام قدرت تام سے مشروط ہے اور جب خدائے تعالیٰ میں قدرت تام نہ رہی اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کر سکا اور نہ اپنی ذات کو ہر ایک قسم کے نقصان اور عیب سے بچا سکا تو اُس میں کمالِ تام بھی نہ

Page 247

۲۳۷ رہا.اور جب کمالِ تام نہ رہا تو محامد کا ملہ سے وہ بے نصیب رہا.یہ ہندؤں اور آریوں کا حال ہے اور جو کچھ عیسائی لوگ خدائے تعالیٰ کا جلال ظاہر کر رہے ہیں وہ ایک ایسا امر ہے کہ صرف ایک ہی سوال سے دانا انسان سمجھ سکتا ہے یعنی اگر کسی دانا سے پو چھا جائے کہ کیا اس ذات کامل اور قدیم اور غنی اور بے نیاز کی نسبت جائز ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے تمام عظیم الشان کاموں میں جو قدیم سے وہ کرتا رہا ہے آپ ہی کافی ہو آپ ہی بغیر حاجت کسی باپ یا بیٹے کے تمام دنیا کو پیدا کیا ہو اور آپ ہی تمام روحوں اور جسموں کو وہ قوتیں بخشی ہوں جن کی انہیں حاجت ہے اور آپ ہی تمام کائنات کا حافظ اور قیوم اور مدبر ہو بلکہ ان کے وجود سے پہلے جو کچھ اُن کو زندگی کے لئے درکار تھا وہ سب اپنی صفت رحمانیت سے ظہور میں لایا اور بغیر انتظار عمل کسی عامل کے سورج اور چاند اور بے شمار ستارے اور زمین اور ہزار ہا نعمتیں جو زمین پر پائی جاتی ہیں محض اپنے فضل و کرم سے انسانوں کے لئے پیدا کی ہوں اور ان سب کاموں میں کسی بیٹے کا محتاج نہ ہوا ہو لیکن پھر وہی کامل خدا آخری زمانہ میں اپنا تمام جلال اور اقتدار کا لعدم کر کے مغفرت اور نجات دینے کے لئے بیٹے کا محتاج ہو جائے اور پھر بیٹا بھی ایسا ناقص بیٹا جس کو باپ سے کچھ بھی مناسبت نہیں جس نے باپ کی طرح نہ کوئی گوشہ آسمان کا اور نہ کوئی قطعہ زمین کا پیدا کیا جس سے اس کی الوہیت ثابت ہو بلکہ مرقس کے ۸ باب ۱۲ آیت میں اس کی عاجزانہ حالت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اُس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا اور اس کے مصلوب ہونے کے وقت بھی یہودیوں نے کہا کہ اگر وہ اب ہمارے رو بروزندہ ہو جائے تو ہم ایمان لائیں گے.لیکن اس نے اُن کو زندہ ہو کر نہ دکھلایا.اور اپنی خدائی اور قدرت کاملہ کا ایک ذرہ ثبوت نہ دیا.اور اگر بعض معجزات بھی دکھلائے تو وہ دکھلائے کہ اُس سے پہلے اور نبی بکثرت دکھلا چکے تھے.بلکہ اُسی زمانہ میں ایک حوض کے پانی سے بھی ایسے ہی عجائبات ظہور میں آتے تھے ( دیکھو باب پنجم انجیل یوحنا) غرض وہ اپنے خدا ہونے کا کوئی نشان دکھلا نہ سکا.جیسا کہ آیت مذکورہ بالا میں خود اس کا اقرار موجود ہے بلکہ ایک ضعیفہ عاجزہ کے پیٹ سے تولد پاکر (بقول عیسائیوں) وہ ذلت اور رسوائی اور ناتوانی اور خواری عمر بھر دیکھی کہ جو انسانوں میں سے وہ انسان دیکھتے ہیں کہ جو بدقسمت اور بے نصیب کہلاتے ہیں.اور پھر مدت تک ظلمت خانہ رحم میں قید رہ کر اور اُس ناپاک راہ سے کہ جو پیشاب کی بدر رو ہے پیدا ہو کر ہر ایک قسم کی آلودہ حالت کو اپنے اوپر وارد کر لیا اور بشری آلودگیوں اور نقصانوں

Page 248

۲۳۸ میں سے کوئی ایسی آلودگی باقی نہ رہی جس سے وہ بیٹا باپ کا بد نام کنندہ ملوث نہ ہوا اور پھر اس نے اپنی جہالت اور بے علمی اور بے قدرتی اور نیز اپنے نیک نہ ہونے کا اپنی کتاب میں آپ ہی اقرار کر لیا.اور پھر درصورتیکہ وہ عاجز بنده که خواہ نخواہ خدا کا بیٹا قرار دیا گیا بعض بزرگ نبیوں سے فضائل علمی اور عملی میں کم بھی تھا اور اُس کی تعلیم بھی ایک ناقص تعلیم تھی کہ جو موسی کی شریعت کی ایک فرع تھی تو پھر کیونکر جائز ہے کہ خداوند قادر مطلق اور ازلی اور ابدی پر یہ بہتان باندھا جاوے کہ وہ ہمیشہ اپنی ذات میں کامل اور غنی اور قادر مطلق رہ کر آخر کار ایسے ناقص بیٹے کا محتاج ہو گیا اور اپنے سارے جلال اور بزرگی کو بیکبارگی کھو دیا.میں ہرگز باور نہیں کرتا کہ کوئی دانا اس ذات کامل کی نسبت کہ جو مجمع جمیع صفات کا ملہ ہے ایسی ایسی ذلتیں جائز رکھے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۳۵ تا ۴۴۱ حاشیہ نمبر ۱۱) یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لانا ہر ایک بندہ کا فرض ہے وہ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا رب ہے اور تمام زمانوں کا رب ہے اور تمام مکانوں کا رب ہے.اور تمام ملکوں کا وہی رب ہے اور تمام فیضوں کا وہی سر چشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اُسی سے ہے اور اُسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے.خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہو رہا ہے.یہ اس لئے ہوا که تاکسی قوم کو شکایت کرنے کا موقعہ نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا.یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی.یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا.پس اس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیا اور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا.اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھہرایا.(پیغام صلح - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۴۲) اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار یہ سراسر فضل و احسان ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار

Page 249

۲۳۹ دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑ اساتھ تو نے اے میرے حاجت برار اے مرے یاریگا نہ اے مری جاں کی پسند بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یار غمگسار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۲۷) خدا تعالیٰ نے عاجز انسانوں کو اپنی کامل معرفت کا علم دینے کے لئے اپنی صفات کو قرآن شریف میں دو رنگ پر ظاہر کیا ہے.(۱) اوّل اس طور پر بیان کیا ہے جس سے اس کی صفات استعارہ کے طریق پر مخلوق کی صفات کی ہم شکل ہیں.جیسا کہ وہ کریم رحیم ہے.محسن ہے اور وہ غضب بھی رکھتا ہے اور اُس میں محبت بھی ہے اور اس کے ہاتھ بھی ہیں اور اس کی آنکھیں بھی ہیں اور اس کی ساقین بھی ہیں اور اُس کے کان بھی ہیں اور نیز یہ کہ قدیم سے سلسلہ مخلوق کا اس کے ساتھ چلا آیا ہے مگر کسی چیز کو اس کے مقابل پر قدامت شخصی نہیں ہاں قدامت نوعی ہے اور وہ بھی خدا کی صفت خلق کے لئے ایک لازمی امر نہیں کیونکہ جیسا کہ خلق یعنی پیدا کرنا اس کی صفات میں سے ہے ایسا ہی کبھی اور کسی زمانہ میں تجلی وحدت اور تجرد اس کی صفات میں سے ہے اور کسی صفت کے لئے تعطل دائی جائز نہیں ہاں تعطل میعادی جائز ہے.غرض چونکہ خدا نے انسان کو پیدا کر کے اپنی ان تشبیہی صفات کو اُس پر ظاہر کیا جن صفات کے ساتھ انسان بظاہر شراکت رکھتا ہے.جیسے خالق ہونا کیونکہ انسان بھی اپنی حد تک بعض چیزوں کا خالق یعنی موجد ہے.ایسا ہی انسان کو کریم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حد تک کرم کی صفت بھی اپنے اندر رکھتا اور اسی طرح انسان کو رحیم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حد تک قوتِ رحم بھی اپنے اندر رکھتا ہے اور قوت غضب بھی اس میں ہے.ایسا ہی آنکھ کان وغیرہ سب انسان میں موجود ہیں.پس ان تشیبی صفات سے کسی کے دل میں شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ گویا انسان ان صفات میں خدا سے مشابہہ ہے اور

Page 250

۲۴۰ خدا انسان سے مشابہہ ہے اس لئے خدا نے ان صفات کے مقابل پر قرآن شریف میں اپنی تنزیہی صفات کا بھی ذکر کر دیا یعنی ایسی صفات کا ذکر کیا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کو اپنی ذات اور صفات میں کچھ بھی شراکت انسان کے ساتھ نہیں اور نہ انسان کو اس کے ساتھ کچھ مشارکت ہے.نہ اُس کا خلق یعنی پیدا کرنا انسان کی خلق کی طرح ہے.نہ اس کا رحم انسان کے رحم کی طرح ہے.نہ اس کا غضب انسان کے غضب کی طرح ہے.نہ اس کی محبت انسان کی محبت کی طرح ہے.نہ وہ انسان کی طرح کسی مکان کا محتاج ہے.اور یہ ذکر یعنی خدا کا اپنی صفات میں انسان سے بالکل علیحدہ ہونا قرآن شریف کی کئی آیات میں تصریح کے ساتھ کیا گیا ہے.جیسا کہ ایک یہ آیت ہے لَيْسَ كَمِثْلِ شَيْءٍ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ یعنی کوئی چیز اپنی ذات اور صفات میں خدا کی شریک نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے.اور پھر ایک جگہ فرمایا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۚ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةَ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَوْدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.ترجمه حقیقی وجود اور حقیقی بقا اور تمام صفات حقیقیہ خاص خدا کے لئے ہیں اور کوئی ان میں اس کا شریک نہیں.وہی بذاتہ زندہ ہے اور باقی تمام زندے اُس کے ذریعے سے ہیں.اور وہی اپنی ذات سے آپ قائم ہے اور باقی تمام چیزوں کا قیام اس کے سہارے سے ہے اور جیسا کہ موت اس پر جائز نہیں ایسا ہی ادنی درجہ کا تعطل حواس بھی جو نیند اور اونگھ سے ہے وہ بھی اس پر جائز نہیں مگر دوسروں پر جیسا کہ موت وارد ہوتی ہے نیند اور اونگھ بھی وارد ہوتی ہے.جو کچھ تم زمین میں دیکھتے ہو یا آسمان میں وہ سب اُسی کا ہے اور اُسی سے ظہور پذیر اور قیام پذیر ہے.کون ہے جو بغیر اس کے حکم کے اس کے آگے شفاعت کر ہے.وہ جانتا ہے جو لوگوں کے آگے ہے اور جو پیچھے ہے یعنی اس کا علم حاضر اور غائب پر محیط ہے.اور کوئی اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتا لیکن جس قدر وہ چاہے.اس کی قدرت اور علم کا تمام زمین و آسمان پر تسلط ہے.وہ سب کو اٹھائے ہوئے ہے.یہ نہیں کہ کسی چیز نے اس کو اٹھا رکھا ہے.اور وہ آسمان وزمین اور ان کی تمام چیزوں کے اٹھانے سے تھکتا نہیں اور وہ اس بات سے بزرگ تر ہے کہ سکتا.الشورى : ١٢ البقرة: ۲۵۶

Page 251

۲۴۱ ضعف و ناتوانی اور کم قدرتی اس کی طرف منسوب کی جائے.اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے اِنَّ رَبَّكُمُ اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ( ترجمہ ) تمہارا پروردگار وہ خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا.پھر اس نے عرش پر قرار پکڑ ا یعنی اُس نے زمین و آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کر کے اور شہبی صفات کا ظہور فرما کر پھر تنزیہی صفات کے ثابت کرنے کے لئے مقام تنزہ اور تجرد کی طرف رُخ کیا جو وراء الوراء مقام اور مخلوق کے قرب و جوار سے دُور تر ہے.وہی بلند تر مقام ہے جس کو عرش کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.تشریح اس کی یہ ہے کہ پہلے تو تمام مخلوق حیز عدم میں تھی اور خدا تعالیٰ وراء الوراء مقام میں اپنی تجلیات ظاہر کر رہا تھا جس کا نام عرش ہے.یعنی وہ مقام جو ہر ایک عالم سے بلند تر اور برتر ہے اور اُسی کا ظہور اور پر تو تھا اور اس کی ذات کے سوا کچھ نہ تھا.پھر اس نے زمین و آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا.اور جب مخلوق ظاہر ہوئی تو پھر اس نے اپنے تئیں مخفی کر لیا اور چاہا کہ وہ ان مصنوعات کے ذریعہ سے شناخت کیا جائے.مگر یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ دائمی طور پر تعطل صفات الہیہ کبھی نہیں ہوتا اور بجز خدا کے کسی چیز کے لئے قدامت شخصی تو نہیں مگر قدامت نوعی ضروری ہے اور خدا کی کسی صفت کے لئے تعطل دائمی تو نہیں مگر تعطل میعادی کا ہونا ضروری ہے.اور چونکہ صفت ایجاد اور صفت افتا باہم متضاد ہیں.اس لئے جب افتا کی صفت کا ایک کامل دور آ جاتا ہے تو صفت ایجاد ایک معیاد تک معطل رہتی ہے.غرض ابتدا میں خدا کی صفت وحدت کا دور تھا.اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس دور نے کتنی دفعہ ظہور کیا.بلکہ یہ دور قدیم اور غیر متناہی ہے.بہر حال صفت وحدت کے دور کو دوسری صفات پر تقدم زمانی ہے.پس اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں خدا اکیلا تھا اور اس کے ساتھ کوئی نہ تھا اور پھر خدا نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ اُن میں ہے پیدا کیا.اور اسی تعلق کی وجہ سے اس نے اپنے یہ اسماء ظاہر کئے کہ وہ کریم اور رحیم ہے اور غفور اور تو بہ قبول کرنے والا ہے.مگر جو شخص گناہ پر اصرار کرے اور باز نہ آوے اس کو وہ بے سزا نہیں چھوڑتا اور اُس نے اپنا یہ اسم بھی ظاہر کیا کہ وہ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے اور اس کا غضب صرف انہی لوگوں پر بھڑکتا ہے جو ظلم اور شرارت اور معصیت سے باز نہیں آتے.اس کی تمام صفات اس کی ذات کے مناسب حال ہیں..انسان کی صفات کی مانند نہیں.اور اس کی آنکھ وغیرہ جسم اور جسمانی نہیں اور اس کی کسی صفت کو انسان کی الاعراف: ۵۵.

Page 252

۲۴۲ کسی صفت سے مشابہت نہیں.مثلاً انسان اپنے غضب کے وقت پہلے غضب کی تکلیف آپ اُٹھاتا ہے اور جوش و غضب میں فوراً اس کا سرور دُور ہو کر ایک جلن سی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور ایک مادہ سوداوی اُس کے دماغ میں چڑھ جاتا ہے اور ایک تغیر اس کی حالت میں پیدا ہو جاتا ہے.مگر خدا ان تغیرات سے پاک ہے.اور اس کا غضب ان معنوں سے ہے کہ وہ اس شخص سے جو شرارت سے باز نہ آوے اپنا سایہ حمایت اٹھا لیتا ہے اور اپنے قدیم قانون قدرت کے موافق اس سے ایسا معاملہ کرتا ہے جیسا کہ ایک غضبناک انسان کرتا ہے.لہذا استعارہ کے رنگ میں وہ معاملہ اس کا غضب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.ایسا ہی اس کی محبت انسان کی محبت کی طرح نہیں کیونکہ انسان غلبہ محبت میں بھی دُکھ اٹھاتا ہے اور محبوب کے علیحدہ اور جدا ہونے سے اس کی جان کو تکلیف پہنچتی ہے مگر خدا ان تکالیف سے پاک ہے.ایسا ہی اس کا قرب بھی انسان کے قرب کی طرح نہیں کیونکہ انسان جب ایک کے قریب ہوتا ہے تو اپنے پہلے مرکز کو چھوڑ دیتا ہے.مگر وہ باوجود قریب ہونے کے دُور ہوتا ہے اور باوجود دُور ہونے کے قریب ہوتا ہے.غرض خدا تعالیٰ کی ہر ایک صفت انسانی صفات سے الگ ہے اور صرف اشتراک لفظی ہے اس سے زیادہ نہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ یعنی کوئی چیز اپنی ذات یا صفات میں خدا تعالیٰ کے برابر نہیں.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۲ تا ۲۷۶) خدا کبھی معطل نہیں ہو گا.ہمیشہ خالق ، ہمیشہ رازق ہمیشہ رب، ہمیشہ رحمان، ہمیشہ رحیم ہے اور رہے گا.میرے نزدیک ایسے عظیم الشان جبروت والے کی نسبت بحث کرنا گناہ میں داخل ہے.خدا نے کوئی چیز منوانی نہیں چاہی جس کا نمونہ یہاں نہیں دیا.(البدر مورخه ۶ ارجنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱ کالم نمبر.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۶۳۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) یادر ہے کہ جس طرح ستارے ہمیشہ نوبت به نوبت طلوع کرتے رہتے ہیں اسی طرح خدا کے صفات بھی طلوع کرتے رہتے ہیں.کبھی انسان خدا کے صفات جلالیہ اور استغنائے ذاتی کے پر توہ کے نیچے ہوتا ہے.اور کبھی صفات جمالیہ کا پر تو ہ اس پر پڑتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانٍ کے پس یہ سخت نادانی کا خیال ہے کہ ایسا گمان کیا جائے کہ بعد اس کے کہ مجرم لوگ دوزخ میں ڈالے جائیں گے.پھر صفات کرم اور رحم ہمیشہ کے لئے معطل ہو جائیں گی اور کبھی الشورى :١٢ الرحمن:٣٠

Page 253

۲۴۳ ان کی تجلی نہیں ہوگی کیونکہ صفات الہیہ کا تعطل ممتنع ہے بلکہ حقیقی صفت خدا تعالیٰ کی محبت اور رحم ہے اور وہی اُم الصفات ہے اور وہی کبھی انسانی اصلاح کے لئے صفات جلالیہ اور غضبيه کے رنگ میں جوش مارتی ہے اور جب اصلاح ہو جاتی ہے تو محبت اپنے رنگ میں ظاہر ہو جاتی ہے اور پھر بطور موہبت ہمیشہ کے لئے رہتی ہے.خدا ایک چڑ چڑے انسان کی طرح نہیں ہے جو خواہ نخواہ عذاب دینے کا شائق ہو اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنے پر آپ ظلم کرتے ہیں.اس کی محبت میں تمام نجات اور اس کو چھوڑنے میں تمام عذاب ہے.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۷۰،۳۶۹) جاننا چاہئے کہ جس خدا کی طرف ہمیں قرآن شریف نے بلایا ہے اُس کی اُس نے یہ صفات لکھی ہیں.هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ الْمَلِكُ الْقَدُّوسُ السَّلَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَثِرُ هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوَّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ : أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ اَلْحَيُّ الْقَيُّومُ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ.یعنی وہ خدا جو واحد لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں.یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شائد اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آ جائے.اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی.اور یہ جو فرمایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کاملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہوسکتا وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنیٰ کو شریک کرنا ظلم ہے.پھر فرمایا کہ عالم الغیب ہے یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے الحشر : ۲۳ ۲ الفاتحة :۴ الحشر : ۲۴ الفاتحة : ۲ تا ۲۴ - البقرة : ۱۸۷ البقرة : ۲۵۶ الحشر: ۲۵ الاخلاص :۲ تا ۵ البقرة: ٢١

Page 254

۲۴۴ اُس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سراپا دیکھ سکتے ہیں مگر خدا کا سراپا دیکھنے سے قاصر ہیں.پھر فرمایا کہ وہ عالم الشہادۃ ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں ہے.یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو.وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا.اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہو گا.سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے.پھر فرمایا کہ هُوَ الرَّحْمَنُ یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش میں اُن کے لئے سامان راحت میئر کرتا ہے جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنا دیا.اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے اور اس کام کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ رحمن کہلاتا ہے اور پھر فرمایا الرَّحِيمُ یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے.اور پھر فرمایا مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ یعنی وہ خدا ہر ایک کی جزا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے.اس کا کوئی ایسا کار پرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو.اور آپ کچھ نہ کرتا ہو.وہی کار پرداز سب کچھ جزا سزاد یتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو.اور پھر فرمایا المَلِكُ القُدُّوس یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں.یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں.اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی.یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے.اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کونسی لیاقت اپنی ثابت کرے.پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے.وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کر کے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے.اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجر ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا.کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا ؟ تو اس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا.اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا.جو دنیا کے لئے قانون بناتے ہیں.بات بات میں بگڑتے ہیں اور اپنی خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو شیر مادر سمجھ لیتے ہیں مثلاً

Page 255

۲۴۵ قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو تو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے.پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو یا تو وہ کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی ہی کو الوداع کہتا.بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ نیچے انصاف پر چل رہا ہے.پھر فرمایا اَلسَّلَامُ یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے.اس کے معنی بھی ظاہر ہیں کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا.لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو پھر اس بد نمونہ کو دیکھ کر کس طرح دل تسلّی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرور مصیبتوں سے چھڑ اوے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ باطل معبودوں کے بارہ میں فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبُهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنْقِدُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالمطلوب - مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِم إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِیزُ یا سورۂ حج.جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں.اگر چہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں بلکہ اگر مکھی اُن کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہو گی کہ وہ مکھی سے چیز واپس لے سکیں.اُن کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں.کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے.نہ اس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے.ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہئے اور پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچے خدا کا مانے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوسکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہو گا.کیونکہ اس کے پاس زبر دست دلائل ہوتے ہیں لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے.وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بے ہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تا ہنسی نہ ہو.اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے.اور پھر فرمایا کہ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبّر یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کاموں کا بنانے والا ہے اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے.اور فرمایا الحج : ۷۵،۷۴

Page 256

۲۴۶ هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى یعنی وہ ایسا خدا ہے کہ جسموں کا بھی پیدا کرنے والا اور روحوں کا بھی پیدا کرنے والا.رحم میں تصویر کھینچنے والا ہے.تمام نیک نام جہاں تک خیال میں آ سکیں سب اُسی کے نام ہیں اور پھر فرمایا يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی.اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں اور پھر فرمایا.عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - یعنی خدا بڑا قادر ہے.یہ پرستاروں کے لئے تسلی ہے کیونکہ اگر خدا عاجز ہو اور قادر نہ ہو تو ایسے خدا سے کیا اُمید رکھیں اور پھر فرمایا.رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.یعنی وہی خدا ہے جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا.رحمن رحیم اور جزا کے دن کا آپ مالک ہے.اس اختیار کو کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا.ہر ایک پکارنے والے کی پکار کو سننے والا اور جواب دینے والا یعنی دعاؤں کا قبول کرنے والا.اور پھر فرمایا.اَلْحَيُّ الْقَيُّومُ یعنی ہمیشہ رہنے والا اور تمام جانوں کی جان اور سب کے وجود کا سہارا.یہ اس لئے کہا کہ وہ ازلی ابدی نہ ہو تو اس زندگی کے بارے میں بھی دھڑ کا ر ہے گا کہ شاید ہم سے پہلے فوت نہ ہو جائے اور پھر فرمایا کہ وہ خدا اکیلا خدا ہے.نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا بیٹا اور نہ کوئی اُس کے برابر اور نہ کوئی اس کا ہم جنس.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۲ تا ۳۷۶) خدا تعالی کی چار اعلیٰ درجہ کی صفتیں ہیں جو اُم الصفات ہیں اور ہر ایک صفت ہماری بشریت سے ایک امر مانگتی ہے.اور وہ چار صفتیں یہ ہیں.ربوبیت، رحمانیت، رحیمیـت ، مالكيت يوم الدين.(1) ربوبیت.اپنے فیضان کے لئے عدم محض یا مشابہ بالعدم کوچاہتی ہے اور تمام انواع مخلوق کی جاندار ہوں یا غیر جاندار اسی سے پیرایہ وجود پہنتے ہیں.(۲) رحمانیت اپنے فیضان کے لئے صرف عدم کو ہی چاہتی ہے یعنی اس عدم محض کو جس کے وقت میں وجود کا کوئی اثر اور ظہور نہ ہو اور صرف جانداروں سے تعلق رکھتی ہے اور چیزوں سے نہیں.(۳) رحیمیت اپنے فیضان کے لئے موجود ذوالعقل کے مُنہ سے نیستی اور عدم کا اقرار چاہتی ہے

Page 257

۲۴۷ اور صرف نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے.(۴) مالكيت يوم الدین اپنے فیضان کے لئے فقیرانہ تضرع اور الحاح کو چاہتی ہے اور صرف اُن انسانوں سے تعلق رکھتی ہے جو گداؤں کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرتے ہیں اور فیض پانے کے لئے دامنِ اخلاص پھیلاتے ہیں اور سچ سچ اپنے تئیں تہی دست پا کر خدا تعالیٰ کی مالکیت پر ایمان لاتے ہیں.یہ چار الہی صفتیں ہیں جو دنیا میں کام کر رہی ہیں اور ان میں سے جو رحیمیت کی صفت ہے وہ دُعا کی تحریک کرتی ہے اور مالکیت کی صفت خوف اور قلق کی آگ سے گداز کر کے سچا خشوع اور خضوع پیدا کرتی ہے کیونکہ اس صفت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مالک جزا ہے کسی کا حق نہیں جو دعویٰ سے کچھ طلب کرے اور مغفرت اور نجات محض فضل پر ہے.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۳٬۲۴۲) سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار صفتیں بیان فرما ئیں.یعنی رب العالمين.رحمن.رحيم.مالک یوم الدین اور ان چہار صفتوں میں سے رب العالمین کو سب سے مقدم رکھا اور پھر بعد اس کے صفت رحمن کو ذکر کیا.پھر صفت رحیم کو بیان فرمایا.پھر سب سے اخیر صفت ما لک یوم الدین کو لائے.پس سمجھنا چاہئے کہ یہ ترتیب خدائے تعالیٰ نے کیوں اختیار کی.اس میں نکتہ یہ ہے کہ ان صفات اربعہ کی ترتیب طبیعی یہی ہے اور اپنی واقعی صورت میں اسی ترتیب سے یہ صفتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں.اس کی تفصیل یہ ہے کہ دنیا پر خدا کا چار طور پر فیضان پایا جاتا ہے جو غور کرنے سے ہر یک عاقل اس کو سمجھ سکتا ہے.پہلا فيضان فيضان اعم ہے.یہ وہ فیضانِ مطلق ہے کہ جو بلا تمیز ذی روح و غیر ذی روح افلاک سے لے کر خاک تک تمام چیزوں پر علی الا تصال جاری ہے اور ہر یک چیز کا عدم سے صورت وجود پکڑنا اور پھر وجود کا حد کمال تک پہنچنا اسی فیضان کے ذریعہ سے ہے.اور کوئی چیز جاندار ہو یا غیر جاندار اس سے باہر نہیں.اسی سے وجود تمام ارواح و اجسام ظہور پذیر ہوا اور ہوتا ہے اور ہر یک چیز نے پرورش پائی اور پاتی ہے.یہی فیضان تمام کائنات کی جان ہے.اگر ایک لمحہ منقطع ہو جائے تو تمام عالم نابود ہو جائے اور اگر نہ ہوتا تو مخلوقات میں سے کچھ بھی نہ ہوتا.اس کا نام قرآن شریف میں ربوبیت ہے اور اسی کے رو سے خدا کا نام رب العلمین ہے جیسا کہ اس نے دوسری جگہ بھی فرمایا ہے.وَ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْ ! الجز ونمبر ۸ یعنی خدا ہر یک چیز کا رب ہے اور کوئی چیز عالم کی چیزوں میں سے اس کی ربوبیت میں الانعام : ۵

Page 258

۲۴۸ سے باہر نہیں.سوخدا نے سورۃ فاتحہ میں سب صفات فیضانی میں سے پہلے صفت رب العالمین کو بیان فرمایا.اور کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.یہ اس لئے کہا کہ سب فیضانی صفتوں میں سے تقدم طبعی صفت ربوبیت کو حاصل ہے.یعنی ظہور کے رُو سے یہی صفت مقدم الظہو ر اور تمام صفات فیضانی سے اہم ہے.کیونکہ ہر یک چیز پر خواہ جاندار ہوخواہ غیر جاندار مشتمل ہے.پھر دوسر انتم فیضان کا جو دوسرے مرتبہ پر واقعہ ہے فیضان عام ہے.اس میں اور فیضانِ اعم میں یہ فرق ہے کہ فیضان اعم تو ایک عام ربوبیت ہے جس کے ذریعہ سے کل کائنات کا ظہور اور وجود ہے اور یہ فیضان جس کا نام فیضانِ عام ہے.یہ ایک خاص عنایت از لیہ ہے جو جانداروں کے حال پر مبذول ہے.یعنی ذی روح چیزوں کی طرف حضرت باری کی جو ایک خاص توجہ ہے.اس کا نام فیضان عام ہے اور اس فیضان کی یہ تعریف ہے کہ یہ بلا استحقاق اور بغیر اس کے کہ کسی کا کچھ حق ہو سب ذی روحوں پر حسب حاجت ان کے جاری ہے.کسی کے عمل کا پاداش نہیں اور اسی فیضان کی برکت سے ہر یک جاندار جیتا جاگتا ، کھاتا، پیتا اور آفات سے محفوظ اور ضروریات سے متمتع نظر آتا ہے.اور ہر یک ذی روح کے لئے تمام اسباب زندگی کے جو اس کے لئے یا اُس کے نوع کے بقا کے لئے مطلوب ہیں میتر نظر آتے ہیں اور یہ سب آثار اسی فیضان کے ہیں کہ جو کچھ رُوحوں کو جسمانی تربیت کے لئے درکار ہے.سب کچھ دیا گیا ہے.اور ایسا ہی جن روحوں کو علاوہ جسمانی تربیت کے روحانی تربیت کی بھی ضرورت ہے یعنی روحانی ترقی کی استعدا در کھتے ہیں.اُن کے لئے قدیم سے عین ضرورتوں کے وقتوں میں کلام الہی نازل ہوتا رہا ہے.غرض اسی فیضان رحمانیت کے ذریعہ سے انسان اپنی کروڑ ہا ضروریات پر کامیاب ہے.سکونت کے لئے سطح زمین، روشنی کے لئے چاند اور سورج ، دم لینے کے لئے ہوا، پینے کے لئے پانی، کھانے کے لئے انواع اقسام کے رزق اور علاج امراض کے لئے لاکھوں طرح کی ادویہ.اور پوشاک کے لئے طرح طرح کی پوشیدنی چیزیں اور ہدایت پانے کے لئے صحف ربانی موجود ہیں.اور کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ تمام چیزیں میرے عملوں کی برکت سے پیدا ہو گئی ہیں اور میں نے ہی کسی پہلے جنم میں کوئی نیک عمل کیا تھا جس کی پاداش میں یہ بے شمار نعمتیں خدا نے بنی آدم کو عنایت کیں.پس ثابت ہے کہ یہ فیضان جو ہزارہا طور پر ذی روحوں کے آرام کے لئے ظہور پذیر ہو رہا ہے یہ عطیہ بلا استحقاق ہے جو کسی عمل کے عوض میں نہیں فقط ربانی رحمت کا ایک جوش ہے تا ہر یک جاندار اپنے فطرتی مطلوب کو پہنچ جائے اور جو کچھ اس کی فطرت میں حاجتیں ڈالی گئیں وہ پوری ہو جائیں.پس اس فیضان میں

Page 259

۲۴۹ عنایت از لیہ کا کام یہ ہے کہ انسان اور جمیع حیوانات کی ضروریات کا تعہد کرے اور ان کی باکسیت اور نا باکسیت کی خبر رکھے تا وہ ضائع نہ ہو جائیں اور ان کی استعداد میں حیز کتمان میں نہ رہیں.اور اس صفت فیضانی کا خدائے تعالیٰ کی ذات میں پایا جانا قانون قدرت کے ملاحظہ سے نہایت بدیہی طور پر ثابت ہو رہا ہے کیونکہ کسی عاقل کو اس میں کلام نہیں کہ جو کچھ چاند اور سورج اور زمین اور عناصر وغیرہ ضروریات دنیا میں پائی جاتی ہیں جن پر تمام ذی روحوں کی زندگی کا مدار ہے اسی فیضان کے اثر سے ظہور پذیر ہیں اور ہر یک متنفس بلا تمیز انسان و حیوان و مومن و کافر و نیک و بد حسب حاجت اپنے ان فیوض مذکورہ بالا سے مستفیض ہو رہا ہے اور کوئی ذی روح اس سے محروم نہیں.اور اس فیضان کا نام قرآن شریف میں رحمانیت ہے اور اسی کے رُو سے خدا کا نام سورہ فاتحہ میں بعد صفت رب العالمین رحمن آیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ.اسی صفت کی طرف قرآن شریف کے کئی ایک اور مقامات میں بھی اشارہ فرمایا گیا ہے.چنانچہ مجملہ ان کے ایک یہ ہے وَ إِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا - تَبْرَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَ جَعَلَ فِيهَا سِرجًا وَ قَمَرًا مُّبِيرًا وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا - وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سلما ہے یعنی جب کافروں اور بے دینوں اور دہریوں کو کہا جاتا ہے کہ تم رحمن کو سجدہ کرو تو وہ رحمن کے نام سے متنفر ہو کر بطور انکار سوال کرتے ہیں کہ رحمن کیا چیز ہے؟ ( پھر بطور جواب فرمایا ) رحمن وہ ذات کثیر البرکت اور مصدرِ خیرات دائمی ہے جس نے آسمان میں بُرج بنائے.برجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کا فرو مومن کے روشنی پہنچاتے ہیں.اسی رحمن نے تمہارے لئے یعنی تمام بنی آدم کے لئے دن اور رات بنائے جو کہ ایک دوسرے کے بعد دورہ کرتے رہتے ہیں تا جو شخص طالب معرفت ہو وہ ان دقائق حکمت سے فائدہ اٹھا وے اور جہل اور غفلت کے پردہ سے خلاصی پاوے اور جو شخص شکر نعمت کرنے پر مستعد ہو وہ شکر کرے.رحمن کے حقیقی پرستار وہ لوگ ہیں کہ جو زمین پر بُردباری سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ اُن سے سخت کلامی سے پیش آئیں تو سلامتی اور رحمت کے لفظوں سے ان کا معاوضہ کرتے ہیں یعنی بجائے سختی کے نرمی اور بجائے گالی کے دعا دیتے ہیں اور الفرقان : ۶۱ تا ۶۴

Page 260

۲۵۰ تشبہ باخلاق رحمانی کرتے ہیں کیونکہ رحمن بھی بغیر تفریق نیک و بد کے اپنے سب بندوں کو سورج اور چاند اور زمین اور دوسری بے شمار نعمتوں سے فائدہ پہنچاتا ہے.پس ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے اچھی طرح کھول دیا کہ رحمن کا لفظ ان معنوں کر کے خدا پر بولا جاتا ہے کہ اس کی رحمت وسیع عام طور پر ہر یک بُرے بھلے پر محیط ہو رہی ہے.جیسا ایک جگہ اور بھی اسی رحمت عام کی طرف اشارہ فرمایا ہے.عَذَابی أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ ا یعنی میں اپنا عذاب جس کو لائق اس کے دیکھتا ہوں پہنچا تا ہوں اور میری رحمت نے ہر یک چیز کوگھیر رکھا ہے اور پھر ایک اور موقع پر فرمایا قُلْ مَنْ يَكُلَو كُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰن ہے یعنی ان کافروں اور يَكُلَؤُكُمْ نافرمانوں کو کہہ کہ اگر خدا میں صفت رحمانیت کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے.یعنی اس کی رحمانیت کا اثر ہے کہ وہ کافروں اور بے ایمانوں کو مہلت دیتا ہے اور جلد تر نہیں پکڑتا.پھر ایک اور جگہ اسی رحمانیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صِفْتٍ وَيَقْبِضُنَ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَنُ کے الجز و نمبر ۲۹.یعنی کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اُڑتے ہوئے نہیں دیکھا کہ کبھی وہ باز و کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی سمیٹ لیتے ہیں.رحمن ہی ہے کہ اُن کو گرنے سے تھام رکھتا ہے.یعنی فیضانِ رحمانیت ایسا تمام ذی روحوں پر محیط ہو رہا ہے کہ پرندے بھی جو ایک پیسہ کے دو تین مل سکتے ہیں وہ بھی اس فیضان کے وسیع دریا میں خوشی اور سرور سے تیر رہے ہیں.اور چونکہ ربوبیت کے بعد اسی فیضان کا مرتبہ ہے اس جہت سے اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں رب العالمین کی صفت بیان فرما کر پھر اس کے رحمن ہونے کی صفت بیان فرمائی تا ترتیب طبعی ان کی ملحوظ رہے.تیسری قسم فیضان کی فیضانِ خاص ہے.اس میں اور فیضان عام میں یہ فرق ہے کہ فیضان عام میں مستفیض پر لازم نہیں کہ حصول فیض کے لئے اپنی حالت کو نیک بناوے اور اپنے نفس کو حجب ظلمانیہ سے باہر نکالے یا کسی قسم کا مجاہدہ اور کوشش کرے.بلکہ اس فیضان میں جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں خدائے تعالیٰ آپ ہی ہر یک ذی روح کو اُس کی ضروریات جن کا وہ حسب فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کر دیتا ہے لیکن فیضان خاص میں جہد اور کوشش اور تزکیہ قلب اور دُعا اور تضرع اور توجہ الی اللہ اور دوسرا ہر طرح کا مجاہدہ جیسا کہ موقعہ ہو شرط ہے.اور اس الاعراف: ۱۵۷ الانبياء : ۴۳ الملک: ۲۰

Page 261

۲۵۱ فیضان کو وہی پاتا ہے جو ڈھونڈتا ہے.اور اُسی پر وارد ہوتا ہے جو اس کے لئے محنت کرتا ہے.اور اس فیضان کا وجود بھی ملاحظہ قانون قدرت سے ثابت ہے کیونکہ یہ بات نہایت بد یہی ہے کہ خدا کی راہ میں سعی کرنے والے اور غافل رہنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے.بلاشبہ جو لوگ دل کی سچائی سے خدا کی راہ میں کوشش کرتے ہیں.اور ہر یک تاریکی اور فساد سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں ایک خاص رحمت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے.اس فیضان کے رو سے خدائے تعالیٰ کا نام قرآن شریف میں رحیم ہے اور یہ مرتبہ صفت رحیمیت کا بوجہ خاص ہونے اور مشروط بشرائط ہونے کے مرتبہ صفت رحمانیت سے مؤخر ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے اوّل صفت رحمانیت ظہور میں آئی ہے.پھر بعد اس کے صفت رحیمیت ظہور پذیر ہوئی.پس اسی ترتیب طبعی کے لحاظ سے سورۃ فاتحہ میں صفت رحیمیت کو صفت رحمانیت کے بعد میں ذکر فرمایا اور کہا الرحمن الرحیم.اور صفت رحیمیت کے بیان میں کئی مقامات قرآن شریف میں ذکر موجود ہے.جیسا ایک جگہ فرمایا ہے.وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا لا یعنی خدا کی رحیمیت صرف ایمان داروں سے خاص ہے جس سے کا فر کو یعنی بے ایمان اور سرکش کو حصہ نہیں.اس جگہ دیکھنا چاہئے کہ خدا نے کیسی صفت رحیمیت کو مومن کے ساتھ خاص کر دیا.لیکن رحمانیت کو کسی جگہ مومنین کے ساتھ خاص نہیں کیا اور کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ گانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحْمَانًا.بلکہ جو مومنین سے رحمت خاص متعلق ہے.ہر جگہ اس کو رحیمیت کی صفت سے ذکر کیا ہے.پھر دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيْبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ کے یعنی رحیمیت الہی انہیں لوگوں سے قریب ہے جو نیکو کار ہیں پھر ایک اور جگہ فرمایا ہے اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَهَدُوا في سَبِيلِ اللهِ أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ وَ اللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ سے یعنی جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطنوں سے یا نفس پرستیوں سے جدائی اختیار کی اور خدا کی راہ میں کوشش کی وہ خدا کی رحیمیت کے امیدوار ہیں اور خدا غفور اور رحیم ہے.یعنی اس کا فیضان رحیمیت ضرور اُن لوگوں کے شامل حال ہو جاتا ہے کہ جو اس کے مستحق ہیں.کوئی ایسا نہیں جس نے اس کو طلب کیا اور نہ پایا.عاشق که شد که یار بحالش نظر نه کرد اے خواجہ درد نیست وگرنه طبیب ہست ۴ چوتھا تم فیضان کا فیضانِ اخص ہے.یہ وہ فیضان ہے کہ جو صرف محنت اور سعی پر مترتب نہیں ہوسکتا الاحزاب: ۴۴ الاعراف: ۵۷ البقرة : ٢١٩ ے کون عاشق بنا کہ محبوب نے اس کے حال پر توجہ نہ کی ہو.حضرت درد ہی نہیں ورنہ طبیب تو موجود ہے.

Page 262

۲۵۲ بلکہ اس کے ظہور اور بروز کے لئے اول شرط یہ ہے کہ یہ عالم اسباب کہ جو ایک تنگ و تاریک جگہ ہے بکلی معدوم اور منہدم ہو جائے اور قدرت کاملہ حضرت احدیت کے بغیر آمیزش اسباب معتادہ کے برہنہ طور پر اپنا کامل چمکا را دکھلا دے.کیونکہ اس آخری فیضان میں کہ جو تمام فیوض کا خاتمہ ہے جو کچھ پہلے فیضانوں کی نسبت عند العقل زیادتی اور کمالیت متصور ہو سکتی ہے وہ یہی ہے کہ یہ فیضان نہایت منکشف اور صاف طور پر ہو اور کوئی اشتباہ اور خفا اور نقص باقی نہ رہے.یعنی نہ مفیض کے بالا رادہ فیضان میں کوئی شبہ رہ جائے اور نہ فیضان کے حقیقی فیضان اور رحمت خالصہ اور کاملہ ہونے میں کچھ جائے کلام ہو بلکہ جس مالک قدیم کی طرف سے فیض ہوا ہے اس کی فیاضی اور جزا دہی روز روشن کی طرح کھل جائے.اور شخص فیضیاب کو بطور حق الیقین یہ امر مشہود اور محسوس ہو کہ حقیقت میں وہ مالک الملک ہی اپنے ارادہ اور توجہ اور قدرت خاص سے ایک نعمت عظمیٰ اور لَذَّتِ كُبُرای اُس کو عطا کر رہا ہے اور حقیقت میں اس کو اپنے اعمال صالحہ کی ایک کامل اور دائمی جزا کہ جو نہایت اصفی اور نہایت اعلیٰ اور نہایت مرغوب اور نہایت محبوب ہے مل رہی ہے.کسی قسم کا امتحان اور ابتلاء نہیں ہے اور ایسے فیضان اکمل اور اتم اور ابـقـی اور اعلیٰ اور اعلیٰ سے متمتع ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ بندہ اس عالم ناقص اور مکڈر اور کثیف اور تنگ اور منقبض نا پائیدار اور مشتبہ الحال سے دوسرے عالم کی طرف انتقال کرے.کیونکہ یہ فیضان تجلیات عظمی کا مظہر ہے جن میں شرط ہے کہ محسن حقیقی کا جمال بطور عریاں اور بمرتبہ حق الیقین مشہور ہو اور کوئی مرتبہ شہود اور ظہور اور یقین کا باقی نہ رہ جائے اور کوئی پردہ اسباب معتادہ کا درمیان نہ ہو.اور ہر یک دقیقہ معرفتِ تامہ کا مکمن قوت سے خیز فعل میں آ جائے اور نیز فیضان بھی ایسا منکشف اور معلوم الحقیقت ہو کہ اُس کی نسبت آپ خدا نے یہ ظاہر کر دیا ہو کہ وہ ہر یک امتحان اور ابتلاء کی کدورت سے پاک ہے اور نیز اس فیضان میں وہ اعلیٰ اور اکمل درجہ کی لذتیں ہوں جن کی پاک اور کامل کیفیت انسان کے دل اور روح اور ظاہر اور باطن اور جسم اور جان اور ہر یک روحانی اور بدنی قوت پر ایسا اکمل اور ابقی احاطہ رکھتی ہو کہ جس پر عقلاً اور خیالا اور وہما زیادت متصور نہ ہو.اور یہ عالم کہ جو ناقص الحقیقت اور مکڈ رالصورت اور بالکۃ الذات اور مشتبہ الکیفیت اور ضیق الظرف ہے ان تجلیات عظمی اور انوار اصفی اور عطیات دائمی کی برداشت نہیں کر سکتا اور وہ اشعه تَامَّه كَامِله دَائِمه اس میں سما نہیں سکتے.بلکہ اس کے ظہور کے لئے ایک دوسرا عالم درکار ہے جو اسباب معتادہ کی ظلمت سے بکلی پاک اور منزہ اور ذات واحد قہار کی اقتدار کامل اور خالص کا مظہر ہے.ہاں اس فیضانِ اخص سے ان کامل انسانوں کو اسی زندگی میں کچھ حظ

Page 263

۲۵۳ پہنچتا ہے کہ جو سچائی کی راہ پر کامل طور پر قدم مارتے ہیں.اور اپنے نفس کے ارادوں اور خواہشوں سے الگ ہو کر بکلی خدا کی طرف جھک جاتے ہیں.کیونکہ مرنے سے پہلے مرتے ہیں اور اگر چہ بظاہر صورت اس عالم میں ہیں لیکن درحقیقت وہ دوسرے عالم میں سکونت رکھتے ہیں.پس چونکہ وہ اپنے دل کو اس دنیا کے اسباب سے منقطع کر لیتے ہیں اور عادات بشریت کو توڑ کر اور بیکبارگی غیر اللہ سے منہ پھیر کر وہ طریق جو خارق عادت ہے اختیار کر لیتے ہیں اس لئے خداوند کریم بھی اُن کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے اور بطور خارق عادت ان پر اپنے وہ انوار خاصہ ظاہر کرتا ہے کہ جو دوسروں پر بجز موت کے ظاہر نہیں ہو سکتے.غرض بباعث امور متذکرہ بالا وہ اس عالم میں بھی فیضانِ اخص کے نور سے کچھ حصہ پالیتے ہیں.اور یہ فیضان ہر یک فیض سے خاص تر اور خاتمہ تمام فیضانوں کا ہے اور اس کو پانے والا سعادت عظمیٰ کو پہنچ جاتا ہے اور خوشحالی دائی کو پالیتا ہے کہ جو تمام خوشیوں کا سرچشمہ ہے اور جو شخص اس سے محروم رہا وہ ہمیشہ کے دوزخ میں پڑا.اس فیضان کے رُو سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنا نام مَالِكِ يَوْمِ الدِّين بیان فرمایا ہے.دین کے لفظ پر الف لام لانے سے یہ غرض ہے کہ تا یہ معنے ظاہر ہوں کہ جزا سے مراد وہ کامل جزا ہے جس کی تفصیل فرقان مجید میں مندرج ہے.اور وہ کامل جزا بجز تحبی مالکیت تامہ کے کہ جو ہمدم بنیان اسباب کو مستلزم ہے ظہور میں نہیں آ سکتی.چنانچہ اسی کی طرف دوسری جگہ بھی اشارہ فرما کر کہا ہے لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ یعنی اس دن ربوبیت الہیہ بغیر توسط اسباب عادیہ کے اپنی تجلی آپ دکھلائے گی اور یہی مشہود اور محسوس ہوگا کہ بجز قوت عظمیٰ اور قدرت کاملہ حضرت باری تعالیٰ کے اور سب بیچ ہیں.تب سارا آرام وسرور اور سب جزا اور پاداش بنظر صاف و صریح خدائی کی طرف سے دکھلائی دے گا اور کوئی پردہ اور حجاب درمیان میں نہیں رہے گا اور کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہے گی.تب جنہوں نے اس کے لئے اپنے تئیں منقطع کر لیا تھا وہ اپنے تئیں ایک کامل سعادت میں دیکھیں گے کہ جو ان کے جسم اور جان اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جائے گی اور کوئی حصہ وجود ان کے کا ایسا نہیں ہو گا کہ جو اس سعادت عظمی کے پانے سے بے نصیب رہا ہو اور اس جگہ مالک یوم الدین کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس روز راحت یا عذاب اور لذت یا درد جو کچھ بنی آدم کو پہنچے گا اس کا اصل موجب خدائے تعالیٰ کی ذات ہوگی اور مالک امر مجازات کا حقیقی طور پر وہی ہو گا یعنی اس کا وصل یا فصل سعادت ابدی یا شقاوت ابدی کا موجب ٹھہرے گا.اس طرح پر المؤمن:۱۷

Page 264

۲۵۴ کہ جو لوگ اس کی ذات پر ایمان لائے تھے اور توحید اختیار کی تھی اور اس کی خالص محبت سے اپنے دلوں کو رنگین کر لیا تھا اُن پر انوار رحمت اُس ذات کامل کے صاف اور آشکار ا طور پر نازل ہوں گے اور جن کو ایمان اور محبت الہیہ حاصل نہیں ہوئی وہ اس لذت اور راحت سے محروم رہیں گے اور عَذَابِ اَلِیم میں مبتلا ہو جائیں گے.یہ فیوض اربعہ ہیں جن کو ہم نے تفصیل وار لکھ دیا ہے.اب ظاہر ہے کہ صفت رحمن کو صفت رحیم پر مقدم رکھنا نہایت ضروری اور مقتضائے بلاغت کاملہ ہے کیونکہ صحیفہ قدرت پر جب نظر ڈالی جائے تو پہلے پہل خدائے تعالیٰ کی عام ربوبیت پر نظر پڑتی ہے.پھر اس کی رحمانیت پر.پھر اس کی رحیمیت پر.پھر اُس کے مالک یوم الدین ہونے پر اور کمال بلاغت اسی کا نام ہے کہ جو صحیفہ فطرت میں ترتیب ہو وہی ترتیب صحیفہ الہام میں بھی ملحوظ رہے کیونکہ کلام میں ترتیب قدرتی کو منقلب کرنا گویا قانون قدرت کو منقلب کرنا ہے اور نظام طبعی کو اُلٹا دینا ہے.کلام بلیغ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ نظام کلام کا نظام طبعی کے ایسا مطابق ہو کہ گویا اُسی کی عکسی تصویر ہو اور جو امر طبعا اور وقوعاً مقدم ہو اس کو وضعا بھی مقدم رکھا جائے.سو آیت موصوفہ میں یہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت ہے کہ باوجود کمال فصاحت اور خوش بیانی کے واقعی ترتیب کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دیا ہے اور وہی طرز بیان اختیار کی ہے جو کہ ہر یک صاحب نظر کو نظام عالم میں بدیہی طور پر نظر آ رہی ہے کیا یہ نہایت سیدھا راستہ نہیں ہے کہ جس ترتیب سے نعماء الہی صحیفہ فطرت میں واقعہ ہیں اُسی ترتیب سے صحیفہ الہام میں بھی واقع ہوں.سوایسی عمدہ اور پر حکمت ترتیب پر اعتراض کرنا حقیقت میں اُنہی اندھوں کا کام ہے جن کی بصیرت اور بصارت دونوں یکبارگی جاتی رہی ہیں.چشم بد اندیش که برکنده باد عیب نماید هنرش در نظر له اب ہم پھر تقریر کو دوہرا کر اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے سورۃ ممدوحہ میں رَبُّ العَالَمِین کی صفت سے لے کر مالک یوم الدین تک بیان فرمایا ہے.یہ حسب تصریحات قرآن شریف چار عالی شان صداقتیں ہیں جن کا اس جگہ کھول کر بیان کرنا قرین مصلحت ہے.پہلی صداقت یہ کہ خدائے تعالیٰ رب العالمین ہے یعنی عالم کے اشیاء میں سے جو کچھ موجود ہے سب کا ربّ اور مالک خدا ہے.اور جو کچھ عالم میں نمودار ہو چکا ہے اور دیکھا جاتا ہے یا ٹولا جاتا ہے یا عقل اس پر محیط ہوسکتی ہے وہ سب چیزیں مخلوق ہی ہیں اور ہستی حقیقی بجز ایک ذات حضرت باری تعالیٰ کے اور کسی بدخواہ کی آنکھ کہ خدا کرے پھوٹ جائے اسے ہنر بھی عیب دکھائی دیتا ہے.

Page 265

۲۵۵ چیز کے لئے حاصل نہیں.غرض عالم بجميع اجزائہ مخلوق اور خدا کی پیدائش ہے.اور کوئی چیز اجزائے عالم میں سے ایسی نہیں کہ جو خدا کی پیدائش نہ ہو اور خدائے تعالیٰ اپنی ربوبیت تامہ کے ساتھ عالم کے ذرہ ذرہ پر متصرف اور حکمران ہے اور اس کی ربوبیت ہر وقت کام میں لگی ہوئی ہے.یہ نہیں کہ خدائے تعالیٰ دنیا کو بنا کر اُس کے انتظام سے الگ ہو بیٹھا ہے اور اُسے نیچر کے قاعدہ کے ایسا سپرد کیا ہے کہ خود کسی کام میں دخل بھی نہیں دیتا.اور جیسے کوئی گل بعد بنائے جانے کے پھر بنانے والے سے بے علاقہ ہو جاتی ہے ایسا ہی مصنوعات صانع حقیقی سے بے علاقہ ہیں بلکہ وہ رب العالمین اپنی ربوبیت تامہ کی آبپاشی ہر وقت برابر تمام عالم پر کر رہا ہے اور اس کی ربوبیت کا مینہ بالا تصال تمام عالم پر نازل ہو رہا ہے اور کوئی ایسا وقت نہیں کہ اس کے رفح فیض سے خالی ہو بلکہ عالم کے بنانے کے بعد بھی اُس مبدء فیوض کی فی الحقیقت بلا ایک ذرہ تفاوت کے ایسی ہی حاجت ہے کہ گویا ابھی تک اُس نے کچھ بھی نہیں بنایا اور جیسا دنیا اپنے وجود اور نمود کے لئے اُس کی ربوبیت کی محتاج تھی ایسا ہی اپنے بقا اور قیام کے لئے اس کی ربوبیت کی حاجت مند ہے.وہی ہے جو ہر دم دنیا کو سنبھالے ہوئے ہے اور دنیا کا ہر ذرہ اُسی سے تر و تازہ ہے اور وہ اپنی مرضی اور ارادہ کے موافق ہر چیز کی ربوبیت کر رہا ہے.یہ نہیں کہ بلا ارادہ کسی شے کے ربوبیت کا موجب ہو.غرض آیات قرآنی کی رُو سے جن کا خلاصہ ہم بیان کر رہے ہیں اس صداقت کا یہ منشا ہے کہ ہر یک چیز کہ جو عالم میں پائی جاتی ہے وہ مخلوق ہے اور اپنے تمام کمالات اور تمام حالات اور اپنے تمام اوقات میں خدائے تعالیٰ کی ربوبیت کی محتاج ہے اور کوئی روحانی یا جسمانی ایسا کمال نہیں ہے جس کو کوئی مخلوق خود بخود اور بغیر ارادہ خاص اُس متصرف مطلق کے حاصل کر سکتا ہو اور نیز حسب توضیح اسی کلام پاک کے اس صداقت اور ایسا ہی دوسری صداقتوں میں یہ معنے بھی ملحوظ ہیں کہ رب العالمين وغیرہ صفتیں جو خدائے تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں یہ اُسی کی ذات واحد لاشریک سے خاص ہے اور دوسرا کوئی ان میں شریک نہیں جیسا کہ اس سورۃ کے پہلے فقرہ میں یعنی الحَمدُ لِلہ میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ تمام محامد خدا ہی سے خاص ہیں.دوسری صداقت رحمن ہے کہ جو بعد رب العالمین بیان فرمایا گیا.اور رحمن کے معنے جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں یہ ہیں کہ جس قدر جاندار ہیں خواہ ذی شعور اور خواہ غیر ذی شعور اور خواہ نیک اور خواہ بداُن سب کے قیام اور بقاء وجود اور بقائے نوع کے لئے ان کی تکمیل کے لئے خدائے تعالیٰ نے اپنی رحمت عامہ کے رُو سے ہر ایک قسم کے اسباب مطلوبہ میٹر کر دیئے ہیں اور ہمیشہ میئر کرتا رہتا ہے.

Page 266

۲۵۶ اور یہ عطیہ محض ہے کہ جو کسی عامل کے عمل پر موقوف نہیں.تیسری صداقت رحیم ہے کہ جو بعد رحمن کے مذکور ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدائے تعالیٰ سعی کرنے والوں کی سعی پر بمقتضائے رحمت خاصہ ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے.تو بہ کرنے والوں کے گناہ بخشتا ہے.مانگنے والوں کو دیتا ہے.کھٹکھٹانے والوں کے لئے کھولتا ہے.چوتھی صداقت جو سورۃ فاتحہ میں مندرج ہے مالک یوم الدین ہے یعنی با کمال و کامل جزا سزا کہ جو ہر یک قسم کے امتحان و ابتلاء اور توسط اسباب غفلت افترا سے منزہ ہے اور ہر یک کدورت اور کثافت اور شک اور شبہ اور نقصان سے پاک ہے اور تجلیات عظمی کا مظہر ہے اس کا مالک بھی وہی اللہ قادر مطلق ہے اور وہ اس بات سے ہرگز عاجز نہیں کہ اپنی کامل جزا کو جو دن کی طرح روشن ہے ظہور میں لاوے اور اس صداقت عظمی کے ظاہر کرنے سے حضرت احدیت کا یہ مطلب ہے کہ تا ہر یک نفس پر بطور حق الیقین امور مفصلہ ذیل کھل جائیں.اول یہ امر کہ جزا سزا ایک واقعی اور یقینی امر ہے کہ جو مالک حقیقی کی طرف سے اور اُسی کے ارادہ خاص سے بندوں پر وارد ہوتا ہے.اور ایسا کھل جانا دنیا میں ممکن نہیں کیونکہ اس عالم میں یہ بات عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتی کہ جو کچھ خیر و شر و راحت و رنج پہنچ رہا ہے وہ کیوں پہنچ رہا ہے اور کس کے حکم اور اختیار سے پہنچ رہا ہے اور کسی کو ان میں سے یہ آواز نہیں آتی کہ وہ اپنی جزا پا رہا ہے اور کسی پر بطور مشهود ومحسوس منکشف نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ بھگت رہا ہے حقیقت میں وہ اس کے عملوں کا بدلہ ہے.دوسرے اس صداقت میں اس امر کا کھلنا مطلوب ہے کہ اسباب عادیہ کچھ چیز نہیں ہیں اور فاعل حقیقی خدا ہے اور وہی ایک ذات عظمی ہے کہ جو جمیع فیوض کا مبدء اور ہر یک جزا سزا کا مالک ہے.تیسرے اس صداقت میں اس بات کا ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ سعادت عظمی اور شقاوت عظمی کیا چیز ہے.یعنی سعادت عظمیٰ وہ فوز عظیم کی حالت ہے کہ جب نور اور سرور اور لذت اور راحت انسان کے تمام ظاہر و باطن اور تن اور جان پر محیط ہو جائے اور کوئی عضو اور قوت اس سے باہر نہ رہے.اور شقاوت عظمی وہ عذاب الیم ہے کہ جو بباعث نافرمانی اور ناپاکی اور بعد اور دُوری کے دلوں سے مشتعل ہو کر بدنوں پر مستولی ہو جائے اور تمام وجود فِى النَّارِ وَ السَّقَر معلوم ہو اور یہ تجلیات عظمیٰ اس عالم میں ظاہر نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس تنگ اور منقبض اور مکدر عالم کو جور و پوش اسباب ہو کر ایک ناقص حالت میں پڑا ہے ان کے ظہور کی برداشت نہیں بلکہ اس عالم پر ابتلاء اور آزمائش غالب ہے.اور اس کی راحت اور رنج دونوں نا پائیدار اور ناقص ہیں اور نیز اس عالم میں جو کچھ انسان پر وارد ہوتا ہے وہ زیر پردہ اسباب ہے جس سے

Page 267

۲۵۷ مالک الجزاء کا چہرہ مجوب اور مکتوم ہو رہا ہے اس لئے یہ خالص اور کامل اور منکشف طور پر یومُ الجَزَاء نہیں ہو سکتا بلکہ خالص اور کامل اور منکشف طور پر یوم الدین یعنی یوم الجزاء وہ عالم ہوگا کہ جو اس عالم کے ختم ہونے کے بعد آوے گا.اور وہی عالم تجلّیاتِ عُظمی کا مظہر اور جلال اور جمال کے پوری ظہور کی جگہ ہے.اور چونکہ یہ عالم دنیوی اپنی اصل وضع کی رُو سے دار الجزاء نہیں بلکہ دارالابتلاء ہے اس لئے جو کچھ ٹھسر وئسر و راحت و تکلیف اور غم اور خوشی اس عالم میں لوگوں پر وارد ہوتی ہے اُس کو خدائے تعالیٰ کے لطف یا قہر پر دلالت قطعی نہیں.مثلا کسی کا دولت مند ہو جانا اس بات پر دلالت قطعی نہیں کرتا کہ خدائے تعالیٰ اس پر خوش ہے اور نہ کسی کا مفلس اور نادار ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ اُس پر ناراض ہے.بلکہ یہ دونوں طور کے ابتلاء ہیں تا دولتمند کو اس کی دولت میں اور مفلس کو اُس کی مفلسی میں جانچا جائے.یہ چار صداقتیں ہیں جن کا قرآن شریف میں مفصل بیان موجود ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۴۴ تا ۴۶۱ حاشیہ نمبر ۱) یہ بات به بداہت ثابت ہے کہ عالم کے اشیاء میں سے ہر یک موجود جو نظر آتا ہے اُس کا وجود اور قیام نظراً على ذاتہ ضروری نہیں مثلاً زمین کروی الشکل ہے اور قطر اس کا بعض کے گمان کے موافق تخمیناًا چار ہزار کوس پختہ ہے مگر اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی کہ کیوں یہی شکل اور یہی مقدار اس کے لئے ضروری ہے اور کیوں جائز نہیں کہ اس سے زیادہ یا اس سے کم ہو یا برخلاف شکل حاصل کے کسی اور شکل سے متشکل ہو اور جب اس پر کوئی دلیل قائم نہ ہوئی تو یہ شکل اور مقدار جس کے مجموعہ کا نام وجود ہے زمین کے لئے ضروری نہ ہوا اور علیٰ ہذا القیاس عالم کی تمام اشیاء کا وجود اور قیام غیر ضروری ٹھہرا.اور صرف یہی بات نہیں کہ وجود ہر یک ممکن کا نظرًا عَلى ذَاتِه غیر ضروری ہے بلکہ بعض صورتیں ایسی نظر آتی ہیں کہ اکثر چیزوں کے معدوم ہونے کے اسباب بھی قائم ہو جاتے ہیں.پھر وہ چیزیں معدوم نہیں ہوتیں.مثلاً باوجود اس کے کہ سخت سخت قحط اور وباء پڑتی ہیں مگر پھر بھی ابتدا زمانہ سے تخم ہر یک چیز کا بچتا چلا آیا ہے حالانکہ عند العقل جائز بلکہ واجب تھا کہ ہزار ہا شدائد اور حوادث میں سے جو ابتدا سے دنیا پر نازل ہوتی رہی کبھی کسی دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ شدت قحط کے وقت غلہ جو کہ خوراک انسان کی ہے بالکل مفقود ہو جا تا یا کوئی قسم غلہ کی مفقود ہو جاتی یا کبھی شدت وباء کے وقت نوع انسان کا نام ونشان باقی نہ رہتا یا کوئی اور انواع حیوانات میں سے مفقود ہو جاتے یا کبھی اتفاقی طور پر سورج یا چاند کی گل بگڑ جاتی یا دوسری بے شمار چیزوں سے جو عالم کی درستی نظام کے لئے ضروری ہیں کسی چیز کے وجود میں خلل راہ

Page 268

۲۵۸ پا جاتا کیونکہ کروڑہا چیزوں کا اختلال اور فساد سے سالم رہنا اور کبھی اُن پر آفت نازل نہ ہونا قیاس سے بعید ہے.پس جو چیزیں نہ ضروری الوجود ہیں نہ ضروری القیام بلکہ ان کا کبھی نہ کبھی بگڑ جانا ان کے باقی رہنے سے زیادہ تر قرین قیاس ہے.ان پر کبھی زوال نہ آنا اور احسن طور پر بہ ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ ان کا وجود اور قیام پایا جانا اور کروڑہا ضروریات عالم میں سے کبھی کسی چیز کا مفقود نہ ہونا صریح اس بات پر نشان ہے کہ ان سب کے لئے ایک محی اور محافظ اور قیوم ہے جو جامع صفات کا ملہ یعنی مدبر اور حکیم اور رحمان اور رحیم اور اپنی ذات میں ازلی ابدی اور ہر یک نقصان سے پاک ہے جس پر کبھی موت اور فتا طاری نہیں ہوتی بلکہ اونگھ اور نیند سے بھی جو فی الجملہ موت سے مشابہ ہے پاک ہے.سو وہی ذات جامع صفات کاملہ ہے جس نے اس عالم امکانی کو برعایت کمال حکمت و موزونیت وجود عطا کیا اور ہستی کو نیستی پر ترجیح بخشی اور وہی بوجہ اپنی کمالیت اور خالقیت اور ربوبیت اور قیومیت کے مستحق عبادت ہے.یہاں تک تو ترجمہ اس آیت کا ہوا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْم لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ اب بنظرِ انصاف دیکھنا چاہئے کہ کس بلاغت اور لطافت اور متانت اور حکمت سے اس آیت میں وجودِ صانع عالم پر دلیل بیان فرمائی ہے اور کس قدر تھوڑے لفظوں میں معانی کثیرہ اور لطائف حکمیہ کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے اور مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ کے لئے ایسی محکم دلیل سے وجود ایک خالقِ کامل الصفات کا ثابت کر دکھایا ہے جس کے کامل اور محیط بیان کے برابر کسی حکیم نے آج تک کوئی تقریر بیان نہیں کی بلکہ حکماء ناقص الفہم نے ارواح اور اجسام کو حادث بھی نہیں سمجھا اور اس راز دقیق سے بے خبر رہے کہ حیات حقیقی اور ہستی حقیقی اور قیام حقیقی صرف خدا ہی کے لئے مسلم ہے.یہ عمیق معرفت اسی آیت سے انسان کو حاصل ہوتی ہے جس میں خدا نے فرمایا کہ حقیقی طور پر زندگی اور بقاء زندگی صرف اللہ کے لئے حاصل ہے جو جامع صفاتِ کاملہ ہے.اس کے بغیر کسی دوسری چیز کو وجود حقیقی اور قیام حقیقی حاصل نہیں اور اسی بات کو صانع عالم کی ضرورت کے لئے دلیل ٹھہرایا اور فرمایا.لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ یعنی جبکہ عالم کے لئے نہ حیات حقیقی حاصل ہے نہ قیام حقیقی تو بالضرور اس کو ایک علت موجبہ کی حاجت ہے جس کے ذریعہ سے اس کو حیات اور قیام حاصل ہوا اور ضرور ہے کہ ایسی علت موجبہ جامع صفات کاملہ اور مدبر بالا رادہ اور حکیم اور عالم الغیب ہو.سو وہی اللہ ہے کیونکہ اللہ بموجب اصطلاح قرآن شریف کے اس ذات کا نام البقرة : ۲۵۶

Page 269

۲۵۹ ہے جو تجمع کمالات تامہ ہے.اسی وجہ سے قرآن شریف میں اللہ کے اسم کو جمیع صفات کا ملہ کا موصوف ٹھہرایا ہے اور جابجا فرمایا ہے کہ اللہ وہ ہے جو کہ ربّ العالمین ہے.رحمن ہے.رحیم ہے مد بر بالا رادہ ہے.حکیم ہے.عالم الغیب ہے.قادر مطلق ہے.ازلی ابدی ہے وغیرہ وغیرہ.سو یہ قرآن شریف کی ایک اصطلاح ٹھہر گئی ہے کہ اللہ ایک ذات جامع جمیع صفات کا ملہ کا نام ہے.اسی جہت سے اس آیت ج کے سر پر بھی اللہ کا اسم لائے اور فرمایا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ.یعنی اس عالم بے ثبات کا قیوم ذات جامع الکمالات ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ عالم جس ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ سے موجود اور مترتب ہے اس کے لئے یہ گمان کرنا باطل ہے کہ انہی چیزوں میں سے بعض چیزیں بعض کے لئے علتِ موجبہ ہو سکتی ہیں.بلکہ اس حکیمانہ کام کے لئے جو سراسر حکمت سے بھرا ہوا ہے ایک ایسے صانع کی ضرورت ہے جو اپنی ذات میں مدبر بالا رادہ اور حکیم اور علیم اور رحیم اور غیر فانی اور تمام صفات کا ملہ سے متصف ہو.سو وہی اللہ ہے جس کو اپنی ذات میں کمال تام حاصل ہے.پھر بعد ثبوت وجود صانع عالم کے طالب حق کو اس بات کا سمجھانا ضروری تھا کہ وہ صانع ہر ایک طور کی شرکت سے پاک ہے.سو اس کی طرف اشارہ فرما یا قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ الخ یا اس اقل عبارت کو جو بقدر ایک سطر بھی نہیں دیکھنا چاہئے کہ کس لطافت اور عمدگی سے ہر ایک قسم کی شراکت سے وجو دحضرت باری کا منزہ ہونا بیان فرمایا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرکت از روئے حصر عقلی چار قسم پر ہے.کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کبھی فعل اور تاثیر میں.سواس سورۃ میں ان چاروں قسموں کی شرکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دو یا تین نہیں اور وہ صمد ہے یعنی اپنے مرتبہء وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور ہا لک الذات ہیں جو اس کی طرف ہر دم محتاج ہیں اور وہ لم یلد ہے یعنی اُس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اس کا شریک ٹھہر جائے اور وه لَم يُولد سے ہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اس کا کوئی شریک بن جائے اور ه لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا سے ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اس سے برابری کرنے والا نہیں تا باعتبار فعل کے اس کا کوئی شریک قرار پاوے.سو اس طور سے ظاہر فرما دیا کہ خدائے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اور منزہ ہے اور وحدہ لاشریک ہے.پھر بعد اس کے اُس کے وحدہ لاشریک ہونے پر ا تا که الاخلاص :۲ تا ۵

Page 270

۲۶۰ ایک عقلی دلیل بیان فرمائی اور کہا.لَوْ كَانَ فِيْهِمَا أَلِهَةٌ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَنَا وَمَا كَانَ مَعَهُ مِن الله الخ لے یعنی اگر زمین آسمان میں بجز اس ایک ذات جامع صفات کا ملہ کے کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ دونوں بگڑ جاتے کیونکہ ضرور تھا کہ کبھی وہ جماعت خدائیوں کی ایک دوسرے کے برخلاف کام کرتے.پس اسی پھوٹ اور اختلاف سے عالم میں فساد راہ پا تا اور نیز اگر الگ الگ خالق ہوتے تو ہر واحد اُن میں سے اپنی ہی مخلوق کی بھلائی چاہتا اور اُن کے آرام کے لئے دوسروں کا بر باد کرنا روا رکھتا پس یہ بھی موجب فساد عالم ٹھہرتا.یہاں تک تو دلیل لمّی سے خدا کا واحد لاشریک ہونا ثابت کیا.پھر بعد اس کے خدا کے وحدہ لاشریک ہونے پر دلیل انی بیان فرمائی اور کہا قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمُ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشَفَ القُرِ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا الخ لا یعنی مشركين اور منکرین وجود حضرت باری کو کہہ کہ اگر خدا کے کارخانہ میں کوئی اور لوگ بھی شریک ہیں یا اسباب موجودہ ہی کافی ہیں تو اس وقت کہ تم اسلام کے دلائلِ حقیت اور اس کی شوکت اور قوت کے مقابلہ پر مقہور ہو رہے ہو ان اپنے شرکاء کو مدد کے لئے بلاؤ اور یا درکھو وہ ہر گز تمہاری مشکل کشائی نہ کریں گے اور نہ بلا کو تمہارے سر پر سے ٹال سکیں گے.اے رسول ! ان مشرکین کو کہہ کہ تم اپنے شرکاء کو جن کی پرستش کرتے ہو میرے مقابلہ پر بلاؤ اور جو تد بیر میرے مغلوب کرنے کے لئے کر سکتے ہو وہ سب تدبیریں کرو اور مجھے ذرا مہلت مت دو اور یہ بات سمجھ رکھو کہ میرا حامی اور ناصر اور کارساز وہ خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کیا ہے اور وہ اپنے بچے اور صالح رسولوں کی آپ کارسازی کرتا ہے مگر جن چیزوں کو تم لوگ اپنی مدد کے لئے پکارتے ہو وہ ممکن نہیں ہے جو تمہاری مدد کر سکیں اور نہ کچھ اپنی مدد کر سکتے ہیں.پھر بعد اس کے خدا کا ہر یک نقصان اور عیب سے پاک ہونا قانون قدرت کے رُو سے ثابت کیا اور فرمایا تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ الحَ ہے یعنی ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے خدا کی تقدیس کرتے ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اس کی تقدیس نہیں کرتی.پر تم اُن کی تقدیسوں کو سمجھتے نہیں.یعنی زمین آسمان پر نظر غور کرنے سے خدا کا کامل اور مقدس ہونا اور بیٹوں اور شریکوں سے پاک ہونا ثابت ہو رہا ہے.مگر ان کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں.پھر بعد اس کے جزئی طور پر مخلوق پرستوں کو ملزم کیا اور اُن کا خطا پر ہونا ظاہر فرمایا اور کہا قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا سُبْحَنَهُ هُوَ الْغَنِيُّ الخ ہے یعنی بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا بیٹا رکھتا ہے.حالانکہ بیٹے کا الانبياء : ۲۳ - المؤمنون: ۹۲ ۳ بنی اسرآئیل: ۵۷ ۳ بنی اسرآئیل: ۴۵ ۵ یونس: ۶۹

Page 271

۲۶۱ محتاج ہونا ایک نقصان ہے اور خدا ہر یک نقصان سے پاک ہے وہ تو غنی اور بے نیاز ہے جس کو کسی کی حاجت نہیں.جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب اُسی کا ہے.کیا تم خدا پر ایسا بہتان لگاتے ہو جس کی تائید میں تمہارے پاس کسی نوع کا علم نہیں.خدا کیوں بیٹوں کا محتاج ہونے لگا.وہ کامل ہے اور فرائضِ الوہیت کے ادا کرنے کے لئے وہ ہی اکیلا کافی ہے کسی اور منصوبہ کی حاجت نہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا بیٹیاں رکھتا ہے حالانکہ وہ ان سب نقصانوں سے پاک ہے.کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں؟ یہ تو ٹھیک ٹھیک تقسیم نہ ہوئی.اے لوگو! تم اس خدائے واحد لاشریک کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا.چاہئے کہ تم اس قادر توانا سے ڈرو جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو تمہارے لئے چھت بنایا.اور آسمان سے پانی اُتار کر طرح طرح کے رزق تمہارے لئے پھلوں میں سے پیدا کئے.سو تم دیدہ و دانستہ انہیں چیزوں کو خدا کا شریک مت ٹھہراؤ جو تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہیں.خدا ایک ہے جس کا کوئی شریک نہیں.وہی آسمان میں خدا ہے اور وہی زمین میں خدا.وہی اول ہے اور وہی آخر.وہی ظاہر ہے وہی باطن.آنکھیں اُس کی گنہ دریافت کرنے سے عاجز ہیں اور اس کو آنکھوں کی گنہ معلوم ہے.وہ سب کا خالق ہے اور کوئی چیز اس کی مانند نہیں.اور اُس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہر یک چیز کو ایک انداز ہ مقرری میں محصور اور محدود پیدا کیا ہے.جس سے وجود اس ایک حاصر اور محدّد کا ثابت ہوتا ہے.اس کے لئے تمام محامد ثابت ہیں اور دنیا و آخرت میں وہی منعم حقیقی ہے.اور اسی کے ہاتھ میں ہر ایک حکم ہے اور وہی تمام چیزوں کا مرجع و مآب ہے.خدا ہر ایک گناہ کو بخش دے گا جس کے لئے چاہے گا پر شرک کو ہرگز نہیں بخشے گا.سو جو شخص خدا کی ملاقات کا طالب ہے اُسے لازم ہے کہ ایسا عمل اختیار کرے جس میں کسی نوع کا فساد نہ ہو اور کسی چیز کو خدا کی بندگی میں شریک نہ کرے.تو خدا کے ساتھ کسی دوسری چیز کو ہرگز شریک مت ٹھہراؤ.خدا کا شریک ٹھہرانا سخت ظلم ہے.تو بجز خدا کے کسی اور سے مُرادیں مت مانگ، سب ہلاک ہو جائیں گے.ایک اس کی ذات باقی رہ جاوے گی.اُسی کے ہاتھ میں حکم ہے اور وہی تمہارا مرجع ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار حص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۱۵ تا ۵۲۱ حاشیه در حاشیه نمبر۳) خدا کا قانونِ قدرت اور ایسا ہی صحیفہ فطرت جس کا سلسلہ قدیم سے اور انسان کی بنیاد کے وقت سے چلا آتا ہے.وہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ خدا کے ساتھ تعلق شدید پیدا ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے

Page 272

۲۶۲ احسان اور حسن سے تمتع اٹھایا ہو اور ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ احسان سے مراد خدا تعالیٰ کے وہ اخلاقی نمونے ہیں جو کسی انسان نے اپنی ذات کی نسبت بچشم خود دیکھے ہوں مثلاً بیکسی اور عاجزی اور کمزوری اور یتیمی کے وقت میں خدا اس کا متوتی ہوا ہو.اور حاجتوں اور ضرورتوں کے وقت میں خدا نے خود اس کی حاجت براری کی ہو اور سخت اور کمرشکن غموں کے وقت میں خدا نے خود اس کو مدد کی ہو اور خدا کی طلبی کے وقت میں بغیر توسط کسی مرشد اور ہادی کے خود خدا نے اس کو رہنمائی کی ہو اور حسن سے مراد بھی خدا تعالیٰ کی وہی صفاتِ حسنہ ہیں جو احسان کے رنگ میں ملاحظہ ہوتی ہیں مثلاً خدا کی قدرت کاملہ اور رفق اور وہ لطف اور وہ ربوبیت اور وہ رحم جو خدا میں پایا جاتا ہے اور وہ عام ربوبیت اس کی جو مشاہدہ ہو رہی ہے اور وہ عام نعمتیں اس کی جو انسانوں کے آرام کے لئے بکثرت موجود ہیں اور وہ علم اس کا جس کو انسان نبیوں کے ذریعہ سے حاصل کرتا اور اس کے ذریعہ سے موت اور تباہی سے بچتا ہے اور اس کی یہ صفت کہ وہ بے قراروں اور در ماندوں کی دعائیں قبول کرتا ہے.اور اُس کی یہ خوبی کہ جولوگ اس کی طرف جھکتے ہیں وہ اُن سے زیادہ ان کی طرف جھکتا ہے یہ تمام صفات خدا کی اس کے حسن میں داخل ہیں اور پھر وہی صفات ہیں کہ جب ایک شخص خاص طور پر اُن سے فیضیاب بھی ہو جاتا ہے تو وہ اس کی نسبت احسان بھی کہلاتی ہیں گو دوسرے کی نسبت فقط حسن میں داخل ہیں.اور جو شخص خدا تعالیٰ کی ان صفات کو جو درحقیقت اس کا حسن اور جمال ہے احسان کے رنگ میں بھی دیکھ لیتا ہے تو اس کا ایمان نہایت درجہ قوی ہو جاتا ہے اور وہ خدا کی طرف ایسا کھنچا جاتا ہے جیسا کہ ایک لوہا آہن ربا کی طرف کھنچا جاتا ہے.اس کی محبت خدا سے بہت بڑھ جاتی ہے اور اس کا بھروسہ خدا پر بہت قوی ہو جاتا ہے اور چونکہ وہ اس بات کو آزما لیتا ہے جو اس کی تمام بھلائی خدا میں ہے اس لئے اُس کی اُمید میں خدا پر نہایت مضبوط ہو جاتی ہیں اور وہ طبعا نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے خدا کی طرف جھکا رہتا ہے اور اپنے تئیں ہر دم خدا سے مدد پانے کا محتاج دیکھتا ہے اور اس کی ان صفات کا ملہ کے تصور سے یقین رکھتا ہے کہ وہ ضرور کامیاب ہوگا کیونکہ خدا کے فیض اور کرم اور جود کے بہت سے نمونے اس کا چشم دید مشاہدہ ہوتا ہے.اس لئے اس کی دعا ئیں قوت اور یقین کے چشمہ سے نکلتی ہیں اور اس کا عقدِ ہمت نہایت مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے اور آخر کار بمشاہدہ آلاء اور نعماء الہی کے نور یقین بہت زور کے ساتھ اس کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اس کی ہستی بکلی جل جاتی ہے اور بباعث کثرت تصور عظمت اور قدرت الہی کے اُس کا دل خدا کا گھر ہو جاتا ہے اور جس طرح انسان کی روح اس کے زندہ ہونے کی حالت میں کبھی اُس کے جسم سے جدا

Page 273

۲۶۳ نہیں ہوتی اسی طرح خدائے قادر ذوالجلال کی طرف سے جو یقین اس کے اندر داخل ہوا ہے وہ کبھی اس سے علیحدہ نہیں ہوتا اور ہر وقت پاک رُوح اس کے اندر جوش مارتی رہتی ہے اور اسی پاک رُوح کی تعلیم سے وہ بولتا اور حقائق اور معارف اس کے اندر سے نکلتے ہیں اور خدائے ذُو العِزَّتِ وَ الجَبُرُوت کی عظمت کا خیمہ ہر وقت اس کے دل میں لگا رہتا ہے اور یقین اور صدق اور محبت کی لذت ہر وقت پانی کی طرح اس کے اندر بہتی رہتی ہے جس کی آبپاشی سے ہر یک عضو اس کا سیراب نظر آتا ہے.آنکھوں میں ایک جدا سیرابی مشہود ہوتی ہے.پیشانی پر الگ ایک نو ر اس سیرابی کا لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور چہرہ پر محبت الہی کی ایک بارش برستی ہوئی محسوس ہوتی ہے.اور زبان بھی اس نور کی سیرابی سے پورا حصہ لیتی ہے.اسی طرح تمام اعضا پر ایک ایسی شگفتگی نظر آتی ہے جیسا کہ ابر بہار کے برسنے کے بعد موسم بہار میں ایک دلکش تازگی درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں اور پھولوں اور پھلوں میں محسوس ہوتی ہے.لیکن جس شخص میں یہ روح نہیں اُتری اور یہ سیرابی اس کو حاصل نہیں ہوئی.اس کا تمام جسم مردار کی طرح ہوتا ہے اور یہ سیرابی اور تازگی اور شگفتگی جس کی قلم تشریح نہیں کر سکتی یہ اُس مردار دل کو مل ہی نہیں سکتی جس کو نور یقین کے چشمہ نے شاداب نہیں کیا بلکہ ایک طرح کی سڑی ہوئی بد بو اس سے آتی ہے.مگر وہ شخص جس کو یہ نور دیا گیا ہے اور جس کے اندر یہ چشمہ پھوٹ نکلا ہے اس کی علامات سے یہ ایک علامت ہے کہ اس کا جی ہر وقت یہی چاہتا ہے کہ ہر یک بات میں اور ہر یک قول میں اور ہر یک فعل میں خدا سے قوت پاوے اسی میں اس کی لذت ہوتی ہے اور اسی میں اس کی راحت ہوتی ہے.وہ اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا.( عصمت انبیاء علیہم السلام.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۶۸ تا ۶۷۱ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن) کامل تعریف دو قسم کی خوبیوں کے لئے ہوتی ہے ایک کمال حسن اور ایک کمال احسان اور اگر کسی میں دونوں خوبیاں جمع ہوں تو پھر اس کے لئے دل فدا اور شیدا ہو جاتا ہے اور قرآن شریف کا بڑا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی دونوں قسم کی خوبیاں حق کے طالبوں پر ظاہر کرے تا اُس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچ جائیں.اور رُوح کے جوش اور کشش سے اس کی بندگی کریں.اس لئے پہلی سورۃ میں ہی یہ نہایت لطیف نقشہ دکھلانا چاہا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف قرآن بلاتا ہے وہ کیسی خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے.سواسی غرض سے اس سورۃ کو الحمد للہ سے شروع کیا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ سب تعریفیں اس کی ذات کے لئے لائق ہیں جس کا نام اللہ ہے.اور قرآن کی اصطلاح کی رُو سے اللہ اس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہوئی ہوں اور کوئی منقصت

Page 274

۲۶۴ اس کی ذات میں نہ ہو.قرآن شریف میں تمام صفات کا موصوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہوتا ہے کہ جب تمام صفات کا ملہ اس میں پائی جائیں.پس جبکہ ہر ایک قسم کی خوبی اس میں پائی گئی تو حسن اس کا ظاہر ہے.اسی حسن کے لحاظ سے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا نام نور ہے.جیسا کہ فرمایا ہے.اَللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لا یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے ہر ایک نور اسی کے نور کا پر توہ ہے.اور احسان کی خوبیاں اللہ تعالیٰ میں بہت ہیں.جن میں سے چار بطور اصل الاصول ہیں.اور اُن کی ترتیب طبعی کے لحاظ سے پہلی خوبی وہ ہے جس کو سورہ فاتحہ میں رب العالمین کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت یعنی پیدا کرنا اور کمال مطلوب تک پہونچانا تمام عالموں میں جاری و ساری ہے یعنی عالم سماوی اور عالم ارضی اور عالم اجسام اور عالم ارواح اور عالم جواہر اور عالم اعراض اور عالم حیوانات اور عالم نباتات اور عالم جمادات اور دوسرے تمام قسم کے عالم اس کی ربوبیت سے پرورش پا رہے ہیں.یہاں تک کہ خود انسان پر ابتدا نطفہ ہونے کی حالت سے یا اس سے پہلے بھی جو جو عالم موت تک یا دوسری زندگی کے زمانہ تک آتے ہیں وہ سب چشمہ ربوبیت سے فیض یافتہ ہیں.پس ربوبیت الہی بوجہ اس کے کہ وہ تمام ارواح و اجسام و حیوانات و نباتات و جمادات وغیرہ پر مستعمل ہے فَيُضَانِ أَعَم سے موسوم ہے کیونکہ ہر ایک موجود اس سے فیض پاتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہر ایک چیز وجود پذیر ہے.ہاں البتہ ربوبیت الہی اگر چہ ہر ایک موجود کی موجد اور ہر ایک ظہور پذیر چیز کی مربی ہے لیکن بحیثیت احسان کے سب سے زیادہ فائدہ اس کا انسان کو پہونچتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے.اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ تمہارا خدا رب العالمین ہے تا انسان کی امید زیادہ ہو اور یقین کرے کہ ہمارے فائدہ کے لئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں وسیع ہیں اور طرح طرح کے عالم اسباب ظہور میں لاسکتا ہے.دوسری خوبی خدا تعالیٰ کی جو دوسرے درجہ کا احسان ہے جس کو فیضانِ عام سے موسوم کر سکتے ہیں رحمانیت ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں الرحمن کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کی رو سے خدا تعالیٰ کا نام رحمن اس وجہ سے ہے کہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے.اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی النور : ٣٦

Page 275

۲۶۵ بناوٹ جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھر اس کی بقاء کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لئے مہیا کیں.پرندوں کے لئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کے لئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کے لئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں.اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چیزوں کے وجود سے ہزار ہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرام سماوی وارضی کو پیدا کیا تا وہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں.پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت محض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود سے پہلے ڈالی گئی.ہاں انسان کو خدا تعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے.اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدا رحمن ہے.تیسری خوبی خدا تعالیٰ کی جو تیسرے درجے کا احسان ہے رحیمیت ہے.جس کو سورہ فاتحہ میں الرحیم کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے.اور قرآن شریف کی اصطلاح کے رُو سے خدا تعالیٰ رحیم اس حالت میں کہلاتا ہے جبکہ لوگوں کی دُعا اور تضرع اور اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلاؤں اور تضییع اعمال سے اُن کو محفوظ رکھتا ہے.یہ احسان دوسرے لفظوں میں فیضِ خاص سے موسوم ہے اور صرف انسان کی نوع سے مخصوص ہے.دوسری چیزوں کو خدا نے دُعا اور تضرع اور اعمالِ صالحہ کا ملکہ نہیں دیا مگر انسان کو دیا ہے.انسان حیوان ناطق ہے اور اپنی نطق کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا فیض پاسکتا ہے.دوسری چیزوں کو نطق عطا نہیں ہوا.پس اس جگہ سے ظاہر ہے کہ انسان کا دُعا کرنا اُس کی انسانیت کا ایک خاصہ ہے جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات ربوبیت اور رحمانیت سے فیض حاصل ہوتا ہے.اسی طرح صفت رحیمیت سے بھی ایک فیض حاصل ہوتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ربوبیت اور رحمانیت کی صفتیں دُعا کو نہیں چاہتیں کیونکہ وہ دونوں صفات انسان سے خصوصیت نہیں رکھتیں اور تمام پرند چرند کو اپنے فیض سے مستفیض کر رہی ہیں بلکہ صفت ربوبیت تو تمام حیوانات اور نباتات اور جمادات اور اجرام ارضی اور سماوی کو فیض رسان ہے اور کوئی چیز اس کے فیض سے باہر نہیں بر خلاف صفت رحیمیت کے کہ وہ انسان کے لئے ایک خلعت خاصہ ہے اور اگر انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے فیض رسانی کی چار صفت اپنی ذات میں رکھی ہیں اور رحیمیت کو جو انسان کی دعا کو چاہتی ہے خاص انسان کے لئے مقررفرمایا ہے پس اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ میں ایک قسم کا وہ فیض ہے جو دُعا کرنے سے وابستہ ہے اور بغیر دعا کے کسی طرح مل نہیں

Page 276

۲۶۶ سکتا.یہ سنت اللہ اور قانون الہی ہے جس میں مختلف جائز نہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی اُمتوں کے لئے دُعائیں مانگتے رہے.توریت میں دیکھو کہ کتنی دفعہ بنی اسرائیل خدا تعالی کو ناراض کر کے عذاب کے قریب پہونچ گئے اور پھر کیونکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا اور تضرع اور سجدہ سے وہ عذاب مل گیا حالانکہ بار بار وعدہ بھی ہوتا رہا کہ میں ان کو ہلاک کروں گا..اب ان تمام واقعات سے ظاہر ہے کہ دُعا محض لغو امر نہیں ہے اور نہ صرف ایسی عبادت جس پر کسی قسم کا فیض نازل نہیں ہوتا.یہ ان لوگوں کے خیال ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کا وہ قدر نہیں کرتے جو حق قدر کرنے کا ہے اور نہ خدا کی کلام کو نظر عمیق سے سوچتے ہیں اور نہ قانونِ قدرت پر نظر ڈالتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دُعا پر ضرور فیض نازل ہوتا ہے جو ہمیں نجات بخشتا ہے اسی کا نام فیض رحیمیت ہے جس سے انسان ترقی کرتا جاتا ہے.اسی فیض سے انسان ولایت کے مقامات تک پہنچتا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایسا یقین لاتا ہے کہ گویا آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے مسئلہ شفاعت بھی صفت رحیمیت کی بناء پر ہے.خدا تعالیٰ کی رحیمیت نے ہی تقاضا کیا کہ اچھے آدمی بُرے آدمیوں کی شفاعت کریں.چوتھا احسان خدا تعالیٰ کا جو تم چہارم کی خوبی ہے جس کو فیضانِ آخَص سے موسوم کر سکتے ہیں مالکیت یوم الدین ہے جس کو سورۃ فاتحہ میں فقرہ مالک یوم الدین میں بیان فرمایا گیا ہے اور اس میں اور صفت رحیمیت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے اور صفت مالکیت یوم الدین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک انسان گورنمنٹ کا ایک قانون یاد کرنے میں محنت اور جدو جہد کر کے امتحان دے اور پھر اس میں پاس ہو جائے.پس رحیمیت کے اثر سے کسی کامیابی کے لئے استحقاق پیدا ہو جانا پاس ہو جانے سے مشابہ ہے اور پھر وہ چیز یا وہ مرتبہ میسر آجانا جس کے لئے پاس ہوا تھا اس حالت سے مشابہ انسان کے فیض پانے کی وہ حالت ہے جو پر تو ہ صفت مالکیت یوم الدین سے حاصل ہوتی ہے.ان دونوں صفتوں رحیمیت اور مالکیت یوم الدین میں یہ اشارہ ہے کہ فیض رحیمیت خدا تعالیٰ کے رحم سے حاصل ہوتا ہے اور فیض مالکیت یوم الدین خدا تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتا ہے اور مالکیت یوم الدین اگر چہ وسیع اور کامل طور پر عالم معاد میں متجلی ہو گی مگر اس عالم میں بھی اس عالم کے دائرہ کے موافق یہ چاروں صفتیں تجلی کر رہی ہیں.اصل ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۴۷ تا ۲۵۱)

Page 277

۲۶۷ خدا تعالیٰ دنیا میں تین قسم کے کام کیا کرتا ہے.(۱) خدائی کی حیثیت سے (۲) دوسری دوست کی حیثیت سے (۳) تیسرے دشمن کی حیثیت سے.جو کام عام مخلوقات سے ہوتے ہیں وہ محض خدائی حیثیت سے ہوتے ہیں.اور جو کام محبین اور محبوبین سے ہوتے ہیں وہ نہ صرف خدائی حیثیت سے بلکہ دوستی کی حیثیت کا رنگ ان پر غالب ہوتا ہے.اور صریح دنیا کو محسوس ہوتا ہے کہ خدا اوس شخص کی دوستانہ طور پر حمایت کر رہا ہے.اور جو کام دشمنوں کی حیثیت سے ہوتے ہیں اُن کے ساتھ ایک موذی عذاب ہوتا ہے اور ایسے نشان ظاہر ہوتے ہیں جن سے صریح دکھائی دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس قوم یا اس شخص سے دشمنی کر رہا ہے اور خدا جو اپنے دوست کے ساتھ کبھی یہ معاملہ کرتا ہے جو تمام دنیا کو اس کا دشمن بنا دیتا ہے اور کچھ مدت کے لئے ان کی زبانوں یا اُن کے ہاتھوں کو اُس پر مسلط کر دیتا ہے یہ اس لئے خدائے غیور نہیں کرتا کہ اس اپنے دوست کو ہلاک کرنا چاہتا ہے یا بے عزت اور ذلیل کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ تا دنیا کو اپنے نشان دکھاوے اور تا شوخ دیدہ مخالفوں کو معلوم ہو کہ انہوں نے دشمنی میں ناخنوں تک زور لگا کر نقصان کیا پہنچایا.نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۵۱۸،۵۱۷) قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کے اسماء مفعول کے لفظ میں نہیں جیسے قدوس تو ہے مگر معصوم نہیں لکھا کیونکہ پھر بچانے والا اور ہو گا.(الحکم، مورخه ۱ار نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد دوم صفحه ۴۴۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) ہمارا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے.جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ نہ اس نے رُوح پیدا کی اور نہ ذرات اجسام وہ خدا سے غافل ہیں ہم ہر روز اُس کی نئی پیدائش دیکھتے ہیں اور ترقیات سے نئی نئی روح وہ ہم میں پھونکتا ہے اگر وہ نیست سے ہست کرنے والا نہ ہوتا تو ہم تو زندہ ہی مرجاتے.عجیب ہے وہ خدا جو ہمارا خدا ہے کون ہے جو اس کی مانند ہے؟ اور عجیب ہیں اس کے کام.کون ہے جس کے کام اس کی مانند ہیں.وہ قادر مطلق ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۳۵) در حقیقت نفی صفات الہی کی کرنا اور خدا تعالیٰ کو قا درانہ تصرف سے معطل سمجھنا یہی اصل موجب دیوتا پرستی اور تناسخ کا ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ اپنے مدبرانہ کاموں سے معطل خیال کیا گیا تو حاجت براری کے لئے دیوتے گھڑے گئے اور تقدیری تغیرات اور انقلابات کو گذشتہ عملوں کا نتیجہ ٹھہرایا گیا سو اس ایک ہی

Page 278

۲۶۸ خیال سے یہ دونوں خرابیاں پیدا ہوگئیں یعنی اواگون اور دیوتا پرستی.(شحنہ حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۰۷، ۴۰۸) قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے در مشین متفرق اشعار صفحه ۱۵۸ شائع کرده نظارت اشاعت صدرانجمن احمد یہ ربوہ ) ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اُس کے ہو گئے ہیں وہ غیروں پر جو اس کی قدرتوں پر یقین نہیں رکھتے اور اس کے صادق وفادار نہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا.کیا بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱) اُس کی قدرتیں غیر محدود ہیں اور اس کے عجائب کام نا پیدا کنار ہیں اور وہ اپنے خاص بندوں کے لئے اپنا قانون بھی بدل لیتا ہے مگر وہ بدلنا بھی اس کے قانون میں ہی داخل ہے.جب ایک شخص اس کے آستانہ پر ایک نئی روح لے کر حاضر ہوتا ہے اور اپنے اندر ایک خاص تبدیلی محض اس کی رضا مندی کے لئے پیدا کرتا ہے تب خدا بھی اس کے لئے ایک تبدیلی پیدا کر لیتا ہے کہ گویا اس بندے پر جو خدا ظاہر ہوا ہے وہ اور ہی خدا ہے.نہ وہ خدا جس کو عام لوگ جانتے ہیں.وہ ایسے آدمی کے مقابل پر جس کا ایمان کمزور ہے کمزور کی طرح ظاہر ہوتا ہے لیکن جو اس کی جناب میں ایک نہایت قوی ایمان کے ساتھ آتا ہے وہ اس کو دکھلا دیتا ہے کہ تیری مدد کے لئے میں بھی قوی ہوں.اس طرح انسانی تبدیلیوں کے مقابل پر اُس کی صفات میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں.جو شخص ایمانی حالت میں ایسا مفقود الطافت ہے کہ گویا میت ہے.خدا بھی اس کی تائید اور نصرت سے دستکش ہو کر ایسا خاموش ہو جاتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ وہ مر گیا ہے مگر یہ تمام تبدیلیاں وہ اپنے قانون کے اندر اپنے تقدس کے موافق کرتا ہے اور چونکہ کوئی شخص اس کے قانون کی حد بست نہیں کر سکتا اس لئے جلدی سے بغیر کسی قطعی دلیل کے جو روشن اور بد یہی ہو یہ اعتراض کرنا کہ فلاں امر قانونِ قدرت کے مخالف ہے محض حماقت ہے کیونکہ جس چیز کی ابھی حد بست نہیں ہوئی اور نہ اس پر کوئی قطعی دلیل قائم ہے اس کی نسبت کون رائے زنی کر سکتا ہے؟ (چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۰۴، ۱۰۵) اگر خدا کو قادر نہ مانا جاوے تو پھر اس سے ساری اُمیدیں باطل ہو جاتی ہیں.کیونکہ ہماری دعاؤں کی

Page 279

۲۶۹ قبولیت اس بات پر موقوف ہے کہ خدا تعالیٰ جب چاہے ذرات اجسام میں یا ارواح میں وہ قو تیں پیدا کر دے جو اُن میں موجود نہ ہوں مثلاً ہم ایک بیمار کے لئے دُعا کرتے ہیں اور بظاہر مرنے والے آثار اس میں ہوتے ہیں تب ہماری درخواست ہوتی ہے کہ خدا اس کے ذرات جسم میں ایک ایسی قوت پیدا کر دے جو اس کے وجود کو موت سے بچالے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر وہ دعا قبول ہوتی ہے اور بسا اوقات اول ہمیں علم دیا جاتا ہے کہ یہ شخص مرنے کو ہے اور اس کی زندگی کی قوتوں کا خاتمہ ہے لیکن جب دعا بہت کی جاتی ہے اور انتہا تک پہنچ جاتی ہے اور شدت دعا اور فلق اور کرب سے ہماری حالت ایک موت کی سی ہو جاتی ہے تب ہمیں خدا سے وحی ہوتی ہے کہ اس شخص میں زندگی کی طاقتیں پھر پیدا کی گئیں تب وہ یک دفعہ صحت کے آثار ظاہر کرنے لگتا ہے گویا مردہ سے زندہ ہو گیا.ایسا ہی مجھے یاد ہے کہ جب میں نے طاعون کے وقت میں دُعا کی کہ اے خدائے قادر ! ہمیں اس بلا سے بچا اور ہمارے جسم میں وہ ایک تریاقی خاصیت پیدا کر دے جس سے ہم طاعون کی زہر سے بچ جائیں تب وہ خاصیت خدا نے ہم میں پیدا کر دی اور فرمایا کہ میں طاعون کی موت سے تمہیں بچاؤں گا اور فرمایا کہ تیرے گھر کی چار دیواری کے لوگ جو تکبر نہیں کرتے یعنی خدا کی اطاعت سے سرکش نہیں اور پر ہیز گار ہیں میں اُن سب کو بچاؤں گا اور نیز میں قادیان کو طاعون کے سخت غلبہ اور عام ہلاکت سے محفوظ رکھوں گا یعنی وہ سخت تباہی جو دوسرے دیہات کو فنا کر دے گی اس قدر قادیان میں تباہی نہیں ہو گی.سو ہم نے دیکھا اور خدا تعالیٰ کی ان تمام باتوں کو مشاہدہ کیا.پس ہمارا خدا یہی خدا ہے جونئی نئی قو تیں اور گن اور خاصیتیں ذرات عالم میں پیدا کرتا ہے.ہم نے اس کامل خدا سے خبر پاکر ٹیکہ کے انسانی حیلہ سے دست کشی کی اور بہت سے لوگ ٹیکہ کرانے والے اس جہاں سے گذر گئے اور ہم اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہیں.پس اسی طرح خدا تعالیٰ ذرات پیدا کرتا ہے جس طرح اوس نے ہمارے لئے ہمارے جسم میں تریاقی ذرات پیدا کر دیئے اور اسی طرح وہ خدا رُوح پیدا کرتا ہے جس طرح مجھ میں اُس نے وہ پاک رُوح پھونک دی جس سے میں زندہ ہو گیا.ہم صرف اس بات کے محتاج نہیں کہ وہ رُوح پیدا کر کے ہمارے جسم کو زندہ کرے بلکہ خود ہماری روح بھی ایک اور روح کی محتاج ہے جس سے وہ مُردہ روح زندہ ہو.پس ان دونوں روحوں کو خدا ہی پیدا کرتا ہے جس نے اس راز کو نہیں سمجھا وہ خدا کی قدرتوں سے بے خبر اور خدا سے غافل ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۹۱،۳۹۰)

Page 280

۲۷۰ خدائے تعالیٰ کی خدائی اور الوہیت اس کی قدرت غیر محدودہ اور اسرار نا معدودہ سے وابستہ ہے جس کو قانون کے طور پر کسی حد کے اندر گھیر لینا انسان کا کام نہیں ہے.خدا شناسی کے لئے یہ بڑا بھاری بنیادی مسئلہ ہے کہ خدائے ذوالجلال کی قدرتیں اور حکمتیں بے انتہا ہیں.اس مسئلہ کی حقیقت سمجھنے اور اس پر عمیق غور کرنے سے سب الجھاؤ اور پیچ خیالات کا رفع ہو جاتا ہے اور سیدھا راہ حق شناسی اور حق پرستی کا نظر آنے لگتا ہے ہم اس جگہ اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ خدائے تعالیٰ ہمیشہ اپنی ازلی ابدی صفات کے موافق کام کرتا ہے اور اگر ہم دوسرے لفظوں میں انہی ازلی ابدی صفات پر چلنے کا نام قانون الہی رکھیں تو بے جا نہیں مگر ہمارا کلام اور بحث اس میں ہے کہ وہ آثار صفات ازلی ابدی یا یوں کہو کہ وہ قانون قدیم الہی محدود یا معدود کیوں مانا جائے.ہاں بے شک یہ تو ہم مانتے ہیں اور مان لینا چاہئے کہ جو کچھ صفتیں جناب الہی کی ذات میں موجود ہیں انہیں صفات غیر محدود کے آثار اپنے اپنے وقتوں میں ظہور میں آتے ہیں نہ کوئی امراُن کا غیر.اور وہ صفات ہر یک مخلوق ارضی و سماوی پر مؤثر ہو رہی ہیں اور انہی آثار الصفات کا نام سنت اللہ یا قانون قدرت ہے مگر چونکہ خدائے تعالیٰ معہ اپنی صفات کاملہ کے غیر محدود اور غیر متناہی ہے اس لئے ہماری بڑی نادانی ہو گی اگر ہم یہ دعوی کریں کہ اس کے آثار الصفات یعنی قوانین قدرت باندازہ ہمارے تجربہ یا فہم یا مشاہدہ کے ہیں اس سے بڑھ کر نہیں.آج کل کے فلسفی الطبع لوگوں کی یہ بڑی بھاری غلطی ہے کہ اوّل وہ قانونِ قدرت کو ایسا سمجھ بیٹھے ہیں جس کی من کل الوجوہ حد بست ہو چکی ہے اور پھر بعد اس کے جو امر نیا پیش آئے اس کو ہرگز نہیں مانتے.اور ظاہر ہے کہ اس خیال کی بناء راستی پر نہیں ہے.اور اگر یہی سچ ہوتا تو پھر کسی نئی بات کے ماننے کے لئے کوئی سبیل باقی نہ رہتا.اور امور جدیدہ کا دریافت کرنا غیر ممکن ہو جاتا.کیونکہ اس صورت میں ہر ایک نیافعل بصورت نقص قوانین طبعی نظر آئے گا.اور اس کے ترک کرنے سے ناحق ایک جدید صداقت کو ترک کرنا پڑے گا.اگر کوئی صفحات تاریخ زمانہ میں واقعات سوانح عمری حکماء پر غور کرے تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ اُن کے خیالات کی ٹرین کتنی مختلف سڑکوں یا یہ کہ کس قدر متناقص چالوں پر چلی ہے اور کیسے داغ خجالت اور ندامت کے ساتھ ایک رائے کو دوسری رائے سے تبدیل کرتے آئے ہیں اور کیونکر انہوں نے ایک مدت دراز تک کسی بات کا انکار کر کے اور قانون قدرت سے اس کو باہر سمجھ کر آخر نہایت منند مانہ حالت میں اسی بات کو قبول کر لیا ہے سو اس تبدیل آراء کا کیا سبب تھا؟ یہی تو تھا کہ جو کچھ انہوں نے سمجھ رکھا تھا وہ ایک ظنی بات تھی جس کی مشاہدات جدیدہ نے تکذیب کی.سوجن شکلوں اور حالتوں میں وہ

Page 281

۲۷۱ مشاہدات جدیدہ جلوہ گر ہوئے انہی کے موافق اُن کی راؤں کی پڑی بدلتی اور الٹتی پلٹتی رہی.اور جدھر تجارب جدیدہ کا رُخ پلٹتا رہا اُدھر ہی ان کے خیالات کی ہوائیں پلٹا کھاتی رہیں.غرض فلسفیوں کے خیالات کی لگام ہمیشہ امور جدید الظہور کے ہاتھ میں رہی ہے اور اب بھی بہت کچھ اُن کی نظروں سے چھپا ہوا ہے جس کی نسبت اُمید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ ٹھوکریں کھا کھا کر اور طرح طرح کی رسوائیاں اٹھا اٹھا کر کسی نہ کسی وقت قبول کریں گے.کیونکہ قوانین قدرت انسانی عقل کے دفتر میں ابھی تک ایسے منضبط نہیں اور نہ ہو سکتے ہیں جن پر نظر کر کے نئی تحقیقاتوں سے نو امیدی ہو.کیا کوئی عقلمند خیال کرسکتا ہے کہ انسان دنیا کے مکتب خانہ میں باوجود اپنی اس قدر عمر قلیل کے تحصیل اسرار ازلی ابدی سے بکلی فراغت پا چکا ہے اور اب اس کا تجربہ عجائبات الہیہ پر ایسا محیط ہو گیا ہے کہ جو کچھ اس کے تجربہ سے باہر ہو وہ فی الحقیقت خدائے تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہے.میں جانتا ہوں کہ ایسا خیال بجز ایک بے شرم اور ابلہ آدمی کے کوئی دانشمند نہیں کر سکتا.فلاسفروں میں سے جو واقعی نیک دانا اور بچے روحانی آدمی گذرے ہیں انہوں نے خود تسلیم کر لیا کہ ہمارے خیالات جو محدود اور منقبض ہیں خدا اور اس کے بے انتہا بھیدوں اور حکمتوں کی شناخت کا ذریعہ نہیں ہو سکتے.یہ نہایت محقق صداقت ہے کہ ہر یک چیز اپنے اندر ایک ایسی خاصیت رکھتی ہے جس سے وہ خدائے تعالی کی غیر متناہی قدرتوں سے اثر پذیر ہوتی رہی.سواس سے ثابت ہوتا ہے کہ خواص اشیاء ختم نہیں ہو سکتیں گو ہم ان پر اطلاع پائیں یا نہ پائیں.اگر ایک دانہ خشخاش کے خواص تحقیق کرنے کے لئے تمام فلا سفر اولین و آخرین قیامت تک اپنی دماغی قو تیں خرچ کریں تو کوئی عظمند ہرگز باور نہیں کر سکتا کہ وہ ان خواص پر احاطہ تام کر لیں.سو یہ خیال کہ اجرام علوی یا اجسام سفلی کے خواص جس قدر بذریعہ علم ہیئت یا طبعی دریافت ہو چکے ہیں اسی قدر پر ختم ہیں.اس سے زیادہ کوئی ہے مجھی کی بات نہیں.اب خلاصہ اس تمام مقدمہ کا یہ ہے کہ قانون قدرت کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ ایک حقیقت ثابت شدہ کے آگے ٹھہر سکے کیونکہ قانون قدرت خدائے تعالیٰ کے ان افعال سے مراد ہے جو قدرتی طور پر ظہور میں آئے یا آئندہ آئیں گے لیکن چونکہ ابھی خدائے تعالیٰ قدرتوں کے دکھلانے سے تھک نہیں گیا ہے اور نہ یہ کہ اب قدرت نمائی سے بے زور ہو گیا ہے یا سو گیا ہے یا کسی طرف کو کھسک گیا ہے یا کسی خارجی قاسر سے مجبور کیا گیا ہے اور مجبوراً آئندہ کے عجائب کاموں سے دستکش ہو گیا ہے اور ہمارے لئے وہی چند صدیوں کی کارگذاری ( یا اس سے کچھ زیادہ سمجھ لو ) چھوڑ گیا ہے.اس لئے ساری عقلمندی اور حکمت اور

Page 282

۲۷۲ فلسفیت اور ادب اور تعلیم اسی میں ہے کہ ہم چند موجودہ مشہودہ قدرتوں کو جن میں ابھی صد ہا طور کا اجمال باقی ہے مجموعہ قوانین قدرت خیال نہ کر بیٹھیں اور اس پر نادان لوگوں کی طرح ضد نہ کریں کہ ہمارے مشاہدات سے خدائے تعالیٰ کا فعل ہرگز تجاوز نہیں کر سکتا.میں سوچ میں ہوں کہ کیونکر ایسی چیزیں کامل اور قطعی طور پر مقیاس الصداقت یا میزان الحق ٹھہر سکتی ہیں جن کے اپنے ہی پورے طور کے انکشاف میں ابھی بہت سی منازل باقی ہیں اور اس پیچ در پیچ معما نے یاں تک حکماء کو حیران اور سرگردان کر رکھا ہے کہ بعض اُن میں سے حقائق اشیاء کے منکر ہی ہو گئے (منکرین حقائق کا وہی گروہ ہے جس کو سوفسطائی کہتے ہیں ) اور بعض اُن میں سے یہ بھی کہہ گئے کہ اگر چہ خواص اشیاء ثابت ہیں تاہم دائمی طور پر ان کا ثبوت نہیں پایا جاتا.پانی آگ کو بجھا دیتا ہے.مگر ممکن ہے کہ کسی ارضی یا سماوی تاثیر سے کوئی چشمہ پانی کا اس خاصیت سے باہر آ جائے.آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے.مگر ممکن ہے کہ ایک آگ بعض موجبات اندرونی یا بیرونی سے اس خاصیت کو ظاہر نہ کر سکے کیونکہ ایسی عجائب باتیں ہمیشہ ظہور میں آتی رہتی ہیں.حکماء کا یہ بھی قول ہے کہ بعض تاثیرات ارضی یا سماوی ہزاروں بلکہ لاکھوں برسوں کے بعد ظہور میں آتی ہیں جو نا واقف اور بے خبر لوگوں کو بطور خارق عادت معلوم دیتی ہیں اور کبھی کبھی کسی کسی زمانہ میں ایسا کچھ ہوتا رہتا ہے کہ کچھ عجائبات آسمان میں یا زمین میں ظاہر ہوتے ہیں جو بڑے بڑے فیلسوفوں کو حیرت میں ڈالتے ہیں.اور پھر فلسفی لوگ اُن کے قطعی ثبوت اور مشاہدہ سے خیرہ اور متندم ہو کر کچھ نہ کچھ تکلفات کر کے طبعی یا ہیئت میں اُن کو گھسیڑ دیتے ہیں تا ان کے قانون قدرت میں کچھ فرق نہ آ جائے.ایسا ہی یہ لوگ ادھر کے اُدھر لگا کر اور نئی باتوں کو کسی علمی قاعدہ میں جبراً دھنسا کر گزارہ کر لیتے ہیں.جب تک پر دار مچھلی نہیں دیکھی گئی تھی تب تک کوئی فلسفی اس کا قائل نہ تھا اور جب تک متواتر دم کے کٹنے سے دم کٹے کٹتے پیدا نہ ہونے لگے تب تک اس خاصیت کا کوئی فلاسفر اقراری نہ ہوا اور جب تک بعض زمینوں میں کسی سخت زلزلہ کی وجہ سے کوئی ایسی آگ نہ نکلی کہ وہ پتھروں کو پگھلا دیتی تھی مگر لکڑی کو جلا نہیں سکتی تھی تب تک فلسفی لوگ ایسی خاصیت کا آگ میں ہونا خلاف قانون قدرت سمجھتے رہے.جب تک اپنی ریٹر کا آلہ نہیں نکلا تھا کسی فلسفی کو معلوم تھا کہ عمل ٹرینس فیوژن آف بلڈ ( یعنی ایک انسان کا خون دوسرے انسان میں داخل کرنا ) قانون فطرت میں داخل ہے؟ بھلا اس فلاسفر کا نام لینا چاہئے جو الیکٹرک مشین یعنی بجلی کی کل نکلنے سے پہلے اس بجلی لگانے کے عمل کا قائل تھا ؟ علامه شارح قانون جو طبیب حاذق اور بڑا بھاری فلسفی ہے ایک جگہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے جو

Page 283

۲۷۳ یونانیوں میں یہ قصے بہت مشہور ہیں جو بعض عورتوں کو جو اپنے وقت میں عفیفہ اور صالحہ تھیں بغیر صحبت مرد کے حمل ہو کر اولا د ہوئی ہے.پھر علامہ موصوف بطور رائے کے لکھتا ہے کہ یہ سب قصے افتراء پر محمول نہیں ہو سکتے کیونکہ بغیر کسی اصل صحیح کے مختلف افراد اور مہذب قوموں میں ایسے دعاوی ہرگز فروغ نہیں پاسکتے.ان سب قصوں کی نسبت گوکسی منکر کی کیسی ہی رائے ہو مگر صرف ان کے نادر الوقوع ہونے کی وجہ سے وہ سب کی سب رد نہیں کی جاسکتیں اور ان کے ابطال پر کوئی دلیل فلسفی قائم نہیں ہو سکتی..اور علامہ موصوف نے اس مقام میں ایک تقریر بہت ہی عمدہ لکھی ہے.وہ لکھتے ہیں کہ اگر چہ سب انسان ایک نوع میں ہونے کی وجہ سے باہم مناسب الطبع واقعہ ہیں مگر پھر بھی اُن میں سے بعض کو نا در طور پر کبھی کبھی کسی کسی زمانہ میں خاص خاص طاقتیں یا کسی اعلیٰ درجہ کی قو تیں عطا ہوتی ہیں جو عام طور پر دوسروں میں نہیں پائی جاتیں جیسے مشاہدہ سے ثابت ہوا ہے کہ بعض نے حال کے زمانہ میں تین سو برس سے زیادہ عمر پائی جو بطور خارق عادت ہے اور بعض کی قوت حافظہ یا قوت نظر ایسے کمال درجہ کو پہنچی ہے جو اس کی نظیر نہیں پائی گئی اور اس قسم کے لوگ بہت نادر الوجود ہوتے ہیں جو صد ہایا ہزاروں برسوں کے بعد کوئی فردان میں سے ظہور میں آتا ہے اور چونکہ عوام الناس کی نظر اکثر امور کثیر الوقوع اور متواتر الظہور پر ہوا کرتی ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی نگاہ میں جو باتیں کثیر الوقوع اور متواتر الظہور ہوں وہ بطور قاعدہ یا قانون قدرت کے مانی جاتی ہیں اور انہی کی سچائی پر انہیں اعتماد ہوتا ہے اس لئے دوسرے امور جو نادر الوقوع ہوتے ہیں وہ بمقابل امور کثیر الوقوع کے نہایت مضمحل اور مشتبہ بلکہ باطل کے رنگ میں دکھائی دیتے ہیں.اسی وجہ سے عوام کیا بلکہ خواص کو بھی اُن کے وجود میں شکوک اور شبہات پیدا ہو جاتے ہیں.سو بڑی غلطی جو حکماء کو پیش آتی ہے اور بڑی بھاری ٹھو کر جو اُن کو آگے قدم رکھنے سے روکتی ہے یہ ہے کہ وہ امور کثیر الوقوع کے لحاظ سے نادر الوقوع کی تحقیق کے در پے نہیں ہوتے اور جو کچھ اُن کے آثار چلے آتے ہیں اُن کو صرف قصے اور کہانیاں خیال کر کے اپنے سر پر سے ٹال دیتے ہیں.حالانکہ یہ قدیم سے عادت اللہ ہے جو امور کثیر الوقوع کے ساتھ نادر الوقوع عجائبات بھی کبھی کبھی ظہور میں آتے رہتے ہیں.اس کی نظیریں بہت ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے.اور حکیم بقراط نے اپنی ایک طبی کتاب میں چند چشم دید بیماروں کا بھی حال لکھا ہے جو قواعد طبی اور تجربہ اطباء کی رو سے وہ ہرگز قابل علاج نہیں تھے مگران بیماروں نے عجیب طور پر شفا پائی جس کی نسبت اُن کا خیال ہے کہ یہ شفا بعض نادر تاثیرات ارضی یا سماوی سے ہے.اس جگہ ہم اس قدر اور لکھنا چاہتے ہیں کہ یہ بات صرف نوع انسان میں محدود نہیں کہ

Page 284

۲۷۴ کثیر الوقوع اور نادر الوقوع خواص کا اس میں سلسلہ چلا آتا ہے بلکہ اگر غور کے دیکھیں تو یہ دو ہرا سلسلہ ہر یک نوع میں پایا جاتا ہے مثلاً نباتات میں سے آک کے درخت کو دیکھو کہ کیسا تلخ اور زہر ناک ہوتا ہے مگر کبھی مدتوں اور برسوں کے بعد ایک قسم کی نبات اس میں پیدا ہو جاتی ہے جو نہایت شیریں اور لذیذ ہوتی ہے.اب جس شخص نے اس نبات کو کبھی نہ دیکھا ہو اور معمولی قدیمی تلخی کو دیکھتا آیا ہو بے شک وہ اس نبات کو ایک امر طبعی کی نقیض سمجھے گا.ایسا ہی بعض دوسری نوع کی چیزوں میں بھی دُور دراز عرصہ کے بعد کوئی نہ کوئی خاصہ نادر ظہور میں آ جاتا ہے.کچھ تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ مظفر گڑھ میں ایک ایسا بکرا پیدا ہوا کہ جو بکریوں کی طرح دودھ دیتا تھا.جب اس کا شہر میں بہت چرچا پھیلا تو میکالف صاحب ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ کو بھی اطلاع ہوئی تو انہوں نے یہ ایک عجیب امر قانون قدرت کے برخلاف سمجھ کر وہ بکرا اپنے روبرو منگوایا.چنانچہ وہ بکر اجب اُن کے روبرو دو ہا گیا تو شاید قریب ڈیڑھ سیر دودھ کے اُس نے دیا.اس کے بعد تین معتبر اور ثقہ اور معزز آدمی نے میرے پاس بیان کیا کہ ہم نے بچشم خود چند مردوں کو عورتوں کی طرح دودھ دیتے دیکھا ہے.ایسا ہی بعض لوگوں کا تجربہ ہے کہ کبھی ریشم کے کیڑے کی مادہ بے نر کے انڈے دے دیتی ہیں اور اُن میں سے بچے نکلتے ہیں.بعض نے یہ بھی دیکھا کہ چوہا مٹی خشک سے پیدا ہوا جس کا آدھا دھڑ تو مٹی تھا اور آدھا چوہا بن گیا.حکیم فاضل قرشی یا شائد علامہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک بیمار ہم نے دیکھا جس کا کان ماؤف ہو کر بہرہ ہو گیا تھا.پھر کان کے نیچے ایک ناسور سا پیدا ہو گیا جو آخر وہ سوراخ سے ہو گئے.اس سوراخ کی راہ سے وہ برابرسُن لیتا تھا گویا خدا نے اس کے لئے دوسرا کان عطا کیا...جالینوس سے سوال کیا گیا کہ کیا انسان آنکھوں کی راہ سے سُن سکتا تھا ؟ اس نے جواب دیا کہ ہنوز تجر بہ شہادت نہیں دیتا لیکن ممکن ہے کہ کوئی ایسی مشارکت کانوں اور آنکھوں کی مخفی ہو جو کسی ہاتھ کے عمل سے یا کسی سماوی موجب سے ظہور پذیر ہو کر اس خاصیت کے ظہور کا موجب ہو جائے.کیونکہ ابھی علم استدراک خواص مختم نہیں.ڈاکٹر بر نی آرنے اپنے سفر نامہ کشمیر میں پیر پنجال کی چڑھائی کی تقریب بیان پر بطور ایک عجیب حکایت کے لکھا ہے کہ جو ترجمہ کتاب مذکور کے صفحہ ۸۰ میں درج ہے کہ ایک جگہ پتھروں کے ہلانے جلانے سے ہم کو ایک بڑا سیاہ بچھو نظر پڑا جس کو ایک نوجوان مغل نے جو میری جان پہچان والوں میں سے تھا اٹھا کر اپنی مٹھی میں دبا لیا اور پھر میرے نوکر کے اور میرے ہاتھ میں دے دیا.مگر اُس نے ہم میں سے کسی کو بھی نہ کاٹا.اس نو جوان سوار نے اس کا باعث یہ بیان کیا کہ میں نے اس پر قرآن کی ایک آیت پڑھ کر پھونک دی ہے اور اسی

Page 285

۲۷۵ عمل سے اکثر بچھوؤں کو پکڑ لیتا ہوں.اور صاحب کتاب فتوحات وفصوص جو ایک بڑا بھارا نامی فاضل اور علوم فلسفہ وتصوف میں بڑا ماہر ہے.وہ اپنی کتاب فتوحات میں لکھتا ہے کہ ہمارے مکان پر ایک فلسفی اور کسی دوسرے کی خاصیت احراق آگ میں کچھ بحث ہو کر اس دوسرے شخص نے یہ عجیب بات دکھلائی کہ فلسفی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کوئلوں کی آگ میں جو ہمارے سامنے مجمر میں پڑی ہوئی تھی ڈال دیا اور کچھ عرصہ اپنا اور فلسفی کا ہاتھ آگ پر رہنے دیا مگر آگ نے اُن دونوں ہاتھوں میں سے کسی پر ایک ذرا بھی اثر نہ کیا.اور راقم اس رسالہ نے ایک درویش کو دیکھا کہ وہ سخت گرمی کے موسم میں یہ آیت قرآنی پڑھ کر وَ إِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمُ جَبَّارِيْنَ - زنبور کو پکڑ لیتا تھا اور اُس کی نیش زنی سے بکتی محفوظ رہتا تھا اور خود اس راقم کے تجربہ میں بعض تاثیرات عجیبہ آیت قرآنی کی آچکی ہیں جن سے عجائبات قدرت حضرت باری جلشانہ معلوم ہوتے ہیں.غرض یہ عجائب خانہ دنیا کا بے شمار عجائبات سے بھرا ہوا ہے.جو دانا اور شریف حکیم گزرے ہیں انہوں نے اپنی چند معدود معلومات پر ہرگز ناز نہیں کیا اور وہ اس بات کو بہت بے شرمی اور گستاخی سمجھتے رہے ہیں کہ اپنے محدود تجربہ کا نام خدائے تعالیٰ کا قانون قدرت رکھیں.کیا جس نے یہ پُر بہار آسمان جو مہر و ماہ اور ستاروں کے چراغوں سے سج رہا ہے اور یہ رشک گلزار زمین جور نگا رنگ مخلوقات سے آباد ہو رہی ہے بغیر ایک ذرہ مشقت اٹھانے کے صرف اپنے ارادہ سے پیدا کر دیا اس کی قدرتوں کا کوئی انتہا پا سکتا ہے؟ سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۹۰ تا ۱۰۱) یہ ایک سر ربوبیت ہے جو کلمات اللہ سے مخلوقات الہی پیدا ہو جاتی ہے اس کو اپنی اپنی سمجھ کے موافق ہر یک شخص ذہن نشین کر سکتا ہے.چاہے اس طرح سمجھ لے کہ مخلوقات کلمات الہی کے اظلال و آثار ہیں یا ایسا سمجھ سکتا ہے کہ خود کلمات الہی ہی ہیں جو بقدرت الہی مخلوقیت کے رنگ میں آ جاتے ہیں.کلام الہی کی عبارت ان دونوں معنوں کے سمجھنے کے لئے وسیع ہے اور بعض مواضع قرآن کی ظاہر عبارت میں مخلوقات کا نام کلمات اللہ رکھا گیا ہے جو تجلیات ربوبیت سے بقدرت الہی لوازم وخواص جدیدہ حاصل کر کے حدوث کے کامل رنگ سے رنگین ہو گئے ہیں اور در حقیقت یہ ایک ستر ان اسرار خالقیت میں سے ہے جو عقل کے چرخ پر چڑھا کر اچھی طرح سمجھ میں نہیں آسکتے اور عوام کے لئے سیدھا راہ سمجھنے کا یہی ہے کہ خدائے تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کرنا چاہا وہ ہو گیا اور سب کچھ اسی کا پیدا کردہ اور اُسی کی مخلوق اور اُسی کے دست قدرت سے نکلا ہوا ہے.لیکن عارفوں پر کشفی طور سے بعد مجاہدات یہ کیفیت حدوث کھل جاتی ہے الشعراء: ۱۳۱

Page 286

اور نظر کشفی میں کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام ارواح واجسام کلمات اللہ ہی ہیں.جو محکمت کاملہ الہی پیرا یہ حدوث ومخلوقیت سے متلمس ہو گئے ہیں.مگر اصل محکم جس پر قدم مارنا اور قائم رہنا ضروری ہے یہ ہے کہ ان کشفیات و معقولات سے قدر مشترک لیا جائے یعنی یہ کہ خدائے تعالیٰ ہر یک چیز کا خالق اور محدث ہے اور کوئی چیز کیا ارواح اور کیا اجسام بغیر اس کے ظہور پذیر نہیں ہوئے اور نہ ہوسکتی ہے کیونکہ کلام الہی کی عبارت اس جگہ در حقیقت زوالوجوہ ہے اور جس قد ر قطع اور یقین کے طور پر قرآن شریف ہدایت کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ہر یک چیز خدائے تعالیٰ سے ظہور پذیر و وجود پذیر ہوئی ہے اور کوئی چیز بغیر اس کے پیدا نہیں ہوئی اور نہ خود بخود ہے.سو اس قدر اعتقاد ابتدائی حالت کے لئے کافی ہے.پھر آگے معرفت کے میدانوں میں سیر کرنا جس کو نصیب ہوگا اس پر بعد مجاہدات خود وہ کیفیت کھل جائے گی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۷۳ تا ۱۷۵ حاشیه ) اس جگہ اس نکتہ کا بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ خدائے تعالیٰ جو علت العلل ہے جس کے وجود کے ساتھ تمام وجودوں کا سلسلہ وابستہ ہے جب وہ بھی مربیانہ یا قاہرانہ طور پر کوئی جنبش اور حرکت ارادی کسی امر کے پیدا کرنے کے لئے کرتا ہے تو وہ حرکت اگر اتم اور اکمل طور پر ہو تو جمیع موجودات کی حرکت کو مستلزم ہوتی ہے اور اگر بعض شیون کے لحاظ سے یعنی بجز کی حرکت ہو تو اُسی کے موافق عالم کے بعض اجزاء میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ خدائے عز و جل کے ساتھ اُس کی تمام مخلوقات اور جمیع عالموں کا جو علاقہ ہے وہ اُس علاقہ سے مشابہ ہے جو جسم کو جان سے ہوتا ہے اور جیسے جسم کے تمام اعضاء رُوح کے ارادوں کے تابع ہوتے ہیں اور جس طرف رُوح جھکتی ہے اُسی طرف وہ جھک جاتے ہیں.یہی نسبت خدائے تعالیٰ اور اس کی مخلوقات میں پائی جاتی ہے.اگر چہ میں صاحب فصوص کی طرح حضرت واجب الوجود کی نسبت یہ تو نہیں کہتا کہ خَلَقَ الأَشْيَاءَ وَ هُوَ عَيْنُهَا مَگر یہ ضرور کہتا ہوں خَلَقَ الْأَشْيَاءَ وَهُوَ كَعَيْنِهَا - هَذَا الْعَالَمُ كَصَرُحٍ مُمَرَّدٍ مِنْ قَوَارِيرَ وَمَا الطَّاقَةُ العُظمى يَجْرِى تَحْتَهَا وَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ يُخَيَّلُ فِي عُيُونِ قَاصِرَةٍ كَأَنَّهَا هُوَ.يَحْسَبُونَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُؤتِرَاتٍ بِذَاتِهَا وَلَا مُؤَثِرَ إِلَّا هُوَ - حکیم مطلق نے میرے پر یہ راز سر بستہ کھول دیا ہے کہ یہ تمام عالم معہ اپنے جمیع اجزاء کے اس ل العنكبوت :٧٠

Page 287

۲۷۷ علت العلل کے کاموں اور ارادوں کی انجام دہی کے لئے سچ سچ اس اعضاء کی طرح واقع ہے جو خود بخو دقائم نہیں بلکہ ہر وقت اس رُوح اعظم سے قوت پاتا ہے.جیسے جسم کی تمام قو تیں جان کی طفیل سے ہی ہوتی ہیں اور یہ عالم جو اس وجود اعظم کے لئے قائم مقام اعضاء کا ہے.بعض چیزیں اس میں ایسی ہیں کہ گویا اس کے چہرہ کا نور ہیں جو ظاہری یا باطنی طور پر اس کے ارادوں کے موافق روشنی کا کام دیتی ہیں اور بعض ایسی چیزیں ہیں کہ گویا اس کے ہاتھ ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ گویا اُس کے پیر ہیں اور بعض اس کے سانس کی طرح ہیں.غرض یہ مجموعہ عالم خدائے تعالیٰ کے لئے بطور ایک اندام کے واقعہ ہے.اور تمام آب و تاب اس اندام کی اور ساری زندگی اس کی اسی روح اعظم سے ہے جو اس کی قیوم ہے.اور جو کچھ اس قوم کی ذات میں ارادی حرکت پیدا ہوتی ہے وہی حرکت اس اندام کے کل اعضاء یا بعض میں جیسا کہ اس قیوم کی ذات کا تقاضا ہو پیدا ہو جاتی ہے.اس بیان مذکورہ بالا کی تصویر دکھلانے کے لئے تخیلی طور پر ہم فرض کر سکتے ہیں کہ قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے لئے بے شمار ہاتھ بے شمار پیر اور ہر یک عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہا عرض اور طول رکھتا ہے اور تند وے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں اور کشش کا کام دے رہی ہے یہ وہی اعضاء ہیں جن کا دوسرے لفظوں میں عالم نام ہے.جب قیوم عالم کوئی حرکت جزوی یا کلی کرے گا تو اس کی حرکت کے ساتھ اس کے اعضاء میں حرکت پیدا ہو جانا ایک لازمی امر ہوگا اور وہ اپنے تمام ارادوں کو انہیں اعضاء کے ذریعہ سے ظہور میں لائے گا نہ کسی اور طرح سے.پس یہی ایک عام فہم مثال اس روحانی امر کی ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ مخلوقات کی ہر یک جزو خدائے تعالیٰ کے ارادوں کی تابع اور اُس کے مقاصد مخفیہ کو اپنے خادمانہ چہرہ میں ظاہر کر رہی ہے.اور کمال درجہ کی اطاعت سے اُس کے ارادوں کی راہ میں محو ہو رہی ہے.اور یہ اطاعت اس قسم کی ہرگز نہیں ہے جس کی صرف حکومت اور زبر دستی پر بنا ہو بلکہ ہر یک چیز کو خدائے تعالیٰ کی طرف ایک مقناطیسی کشش پائی جاتی ہے اور ہر ایک ذرہ ایسا بالطبع اس کی طرف جھکا ہوا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک وجود کے متفرق اعضاء اُس وجود کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں.پس درحقیقت یہی سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ یہ تمام عالم اُس وجود اعظم کے لئے بطور اعضاء کے واقعہ ہے اور اسی وجہ سے وہ قیوم العالمین کہلاتا ہے کیونکہ جیسی جان اپنے بدن کی قیوم ہوتی ہے ایسا ہی وہ تمام مخلوقات کا قیوم ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو نظام عالم کا بالکل بگڑ جاتا.

Page 288

۲۷۸ ہر یک ارادہ اس قوم کا خواہ وہ ظاہری ہے یا باطنی.دینی ہے یا دنیوی اسی مخلوقات کے توسط سے ظہور پذیر ہوتا ہے اور کوئی ایسا ارادہ نہیں کہ بغیر ان وسائط کے زمین پر ظاہر ہوتا ہو.یہی قدیمی قانون قدرت ہے کہ جو ابتداء سے بندھا ہوا چلا آتا ہے.توضیح مرام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۸ تا ۹۱) اس میں کلام کی جگہ نہیں کہ جو کچھ اجرام فلکی اور عناصر میں جسمانی اور فانی طور پر صفات پائی جاتی ہیں وہ روحانی اور ابدی طور پر خدا تعالیٰ میں موجود ہیں.اور خدا تعالیٰ نے یہ بھی ہم پر کھول دیا ہے کہ سورج وغیرہ بذات خود کچھ چیز نہیں ہیں.یہ اسی کی طاقت زبر دست ہے جو پردہ میں ہر ایک کام کر رہی ہے.وہی ہے جو چاند کو پردہ پوش اپنی ذات کا بنا کر اندھیری راتوں کو روشنی بخشتا ہے جیسا کہ وہ تاریک دلوں میں خود داخل ہو کر اُن کو منور کر دیتا ہے اور آپ انسان کے اندر بولتا ہے.وہی ہے جو اپنی طاقتوں پر سورج کا پردہ ڈال کر دن کو ایک عظیم الشان روشنی کا مظہر بنا دیتا ہے اور مختلف فصلوں میں مختلف اپنے کام ظاہر کرتا ہے.اُسی کی طاقت آسمان سے برستی ہے جو مینہ کہلاتی ہے اور خشک زمین کو سرسبز کر دیتی ہے اور پیاسوں کو سیراب کر دیتی ہے.اُسی کی طاقت آگ میں ہو کر جلاتی ہے اور ہوا میں ہو کر دم کو تازہ کرتی اور پھولوں کو شگفتہ کرتی اور بادلوں کو اُٹھاتی اور آواز کو کانوں تک پہنچاتی ہے.یہ اُسی کی طاقت ہے کہ زمین کی شکل میں مختم ہو کر نوع انسان اور حیوانات کو اپنی پشت پر اٹھا رہی ہے.مگر کیا یہ چیزیں خدا ہیں؟ نہیں بلکہ مخلوق مگر ان کے اجرام میں خدا کی طاقت ایسے طور سے پیوست ہو رہی ہے کہ جیسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے.اگر چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلم لکھتی ہے مر قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتا ہے یا مثلاً ایک لوہے کا ٹکڑا جو آگ میں پڑ کر آگ کی شکل میں بن گیا ہے.ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جلاتا ہے اور روشنی بھی دیتا ہے.مگر دراصل وہ صفات اس کی نہیں بلکہ آگ کی ہیں.اسی طرح تحقیق کی نظر سے یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر اجرام فلکی و عناصر ارضی بلکہ ذرہ ذرہ عالم سفلی اور علوی کا مشہود اور محسوس ہے یہ سب باعتبار اپنی مختلف خاصیتوں کے جو اُن میں پائی جاتی ہیں خدا کے نام ہیں اور خدا کی صفات ہیں اور خدا کی طاقت ہے جو ان کے اندر پوشیدہ طور پر جلوہ گر ہے اور یہ سب ابتداء میں اسی کے کلمے تھے جو اس کی قدرت نے ان کو مختلف رنگوں میں ظاہر کر دیا.نادان سوال کرے گا کہ خدا کے کلمے کیونکر مجسم ہوئے.کیا خدا اُن کے علیحدہ ہونے سے کم ہو گیا.مگر اس کو سوچنا چاہئے کہ آفتاب سے جو ایک آتشی شیشی آگ حاصل کرتی ہے وہ آگ کچھ آفتاب میں سے کم نہیں کرتی.ایسا ہی جو کچھ چاند کی تاثیر سے پھلوں میں

Page 289

۲۷۹ فر ہی آتی ہے وہ چاند کو ڈ بلا نہیں کر دیتی.یہی خدا کی معرفت کا ایک بھید اور تمام نظام روحانی کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سے ہی دنیا کی پیدائش ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۲۳ ۴۲۴) جب میں ان بڑے بڑے اجرام کو دیکھتا ہوں اور اُن کی عظمت اور عجائبات پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ صرف ارادہ الہی سے اور اس کے اشارہ سے ہی سب کچھ ہو گیا تو میری رُوح بے اختیار بول اُٹھتی ہے کہ اے ہمارے قادر خدا تو کیا ہی بزرگ قدرتوں والا ہے.تیرے کام کیسے عجیب اور وراء العقل ہیں.نادان ہے وہ جو تیری قدرتوں سے انکار کرے اور احمق ہے وہ جو تیری نسبت یہ اعتراض پیش کرے کہ اس نے ان چیزوں کو کس مادہ سے بنایا؟ (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲۵ حاشیه ) خدا تعالیٰ جو ہمارا خدا کہلاتا ہے اُس کی خُدائی کی اصل حقیقت ہی یہی ہے کہ وہ ایک مبدء فیض وجود ہے جس کے ہاتھ سے سب وجودوں کا نمود ہے.اُسی سے اس کا استحقاق معبودیت پیدا ہوتا ہے اور اسی سے ہم بخوشی دل قبول کرتے ہیں کہ اس کا ہمارے بدن و دل و جان پر قبضہ استحقاقی قبضہ ہے.کیونکہ ہم کچھ بھی نہ تھے اسی نے ہم کو وجود بخشا.پس جس نے عدم سے ہمیں موجود کیا وہ کامل استحقاق سے ہمارا مالک ہے.شخبۂ حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۲۹،۴۲۸) اصل بات یہ ہے کہ خدا کی قدرت میں جو ایک خصوصیت ہے جس سے وہ خدا کہلاتا ہے وہ روحانی اور جسمانی قوتوں کے پیدا کرنے کی خاصیت ہے.مثلاً جانداروں کے جسم کو جو اوس نے آنکھیں عطا کی ہیں اس کام میں اس کا اصل کمال یہ نہیں ہے کہ اُس نے یہ آنکھیں بنائیں بلکہ کمال یہ ہے کہ اُس نے ذرات جسم میں پہلے سے یہ پوشیدہ طاقتیں پیدا کر رکھی تھیں جن میں بینائی کا نور پیدا ہو سکے.پس اگر وہ طاقتیں خود بخود ہیں تو پھر خدا کچھ بھی چیز نہیں.کیونکہ بقول شخصے کہ گھی سنوارے سالنا بڑی بہو کا نام“ اس بینائی کو وہ طاقتیں پیدا کرتی ہیں خدا کو اس میں کچھ دخل نہیں اور اگر ذراتِ عالم میں وہ طاقتیں نہ ہوتیں تو خدائی بے کار رہ جاتی.پس ظاہر ہے کہ خدائی کا تمام مدار اس پر ہے کہ اوس نے روحوں اور ذرات عالم کی تمام قو تیں خود پیدا کی ہیں اور کرتا ہے اور خود اُن میں طرح طرح کے خواص رکھے ہیں اور رکھتا ہے.پس وہی خواص جوڑنے کے وقت اپنا کرشمہ دکھلاتے ہیں.اور اسی وجہ سے خدا کے ساتھ کوئی موجد برابر نہیں ہوسکتا کیونکہ گو کوئی شخص ریل کا موجد ہو یا تار کا یا فوٹو گراف کا یا پریس کا یا کسی اور صنعت کا اس کو

Page 290

۲۸۰ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ ان قوتوں کا موجد نہیں جن قوتوں کے استعمال سے وہ کسی صنعت کو طیار کرتا ہے.بلکہ یہ تمام موجد بنی بنائی قوتوں سے کام لیتے ہیں جیسا کہ انجن چلانے میں بھاپ کی طاقتوں سے کام لیا جاتا ہے.پس فرق یہی ہے کہ خدا نے عصر وغیرہ میں یہ طاقتیں خود پیدا کی ہیں.مگر یہ لوگ خود طاقتیں اور قو تیں پیدا نہیں کر سکتے.پس جب تک خدا کو ذرات عالم اور ارواح کی تمام قوتوں کا موجد نہ ٹھہرایا جائے تب تک خدائی اُس کی ہرگز ثابت نہیں ہو سکتی اور اس صورت میں اس کا درجہ ایک معمار یا نجار يا حداد یا گلگو سے ہرگز زیادہ نہیں ہوگا.یہ ایک بدیہی بات ہے جو رڈ کے قابل نہیں.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳ ۳۸ ۳۸۴) ہم اپنے کامل ایمان اور پوری معرفت سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ اصول آریہ سماجیوں کا ہرگز درست نہیں کہ ارواح اور ذرات اپنی تمام قوتوں کے ساتھ قدیم اور انادی اور غیر مخلوق ہیں.اس سے تمام وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جو خدا میں اور اوس کے بندوں میں ہے.یہ ایک نیا اور مکروہ مذہب ہے جو پنڈت دیانند نے پیش کیا ہے.ہم نہیں جانتے کہ وید سے کہاں تک اس مذہب کا تعلق ہے لیکن ہم اس پر بحث کرتے ہیں کہ یہ اصول جو آریہ سماجیوں نے اپنے ہاتھ سے شائع کیا ہے یہ عقل سلیم کے نزدیک کامل معرفت اور کامل غور اور کامل سوچ کے بعد ہرگز درست نہیں.سناتن دھرم کا اصول جو اس کے مقابل پر پڑا ہوا ہے اس کو اگرچہ ویدانت کے بے جا مبالغہ نے بدشکل کر دیا ہے اور ویدانتیوں کی افراط نے بہت سے اعتراضات کا موقعہ دے دیا ہے تاہم اس میں سچائی کی ایک چمک ہے.اگر اس عقیدے کو زوائد سے الگ کر دیا جائے تو ماحصل اس کا یہی ہوتا ہے کہ ہر ایک چیز پر میشر کے ہی ہاتھ سے نکلی ہے.پس اس صورت میں تمام شبہات دُور ہو جاتے ہیں اور ماننا پڑتا ہے کہ بموجب اصول سناتن دھرم کے وید کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ یہ تمام ارواح اور ذرات اجسام اور ان کی قوتیں اور طاقتیں اور گن اور خا صیتیں خدا کی طرف سے ہیں.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۳۸۷) قرآن شریف نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ انسان مع اپنی رُوح اور تمام قوتوں اور ذرہ ذرہ وجود کے خدا کی مخلوق ہے.جس کو اُس نے پیدا کیا.لہذا قرآن شریف کی تعلیم کی رُو سے ہم خدا تعالیٰ کے خالص ملک ہیں اور اُس پر ہمارا کوئی بھی حق نہیں ہے جس کا ہم اُس سے مطالبہ کریں.یا جس کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ ملزم ٹھہر سکے.اس لئے ہم اپنے مقابل پر خدا کا نام منصف نہیں رکھ سکتے بلکہ ہم بالکل تہی دست ہونے کی وجہ سے اُس کا نام رحیم رکھتے ہیں.غرض منصف کہنے کے اندر یہ شرارت مخفی ہے کہ

Page 291

۲۸۱ گویا ہم اس کے مقابل پر کوئی حقوق رکھتے ہیں اور اُس حق کے ادا نہ کرنے کی صورت میں اس کو حق تلفی کی طرف منسوب کر سکتے ہیں.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۶) لیکن قرآن شریف نے وید کی طرح بے وجہ اور محض زبردستی کے طور پر اللہ جل شانہ کو تمام ارواح اور ہر ایک ذرہ ذرہ اجسام کا مالک نہیں ٹھہرایا.بلکہ اُس کی ایک وجہ بیان کی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (ترجمہ) یعنی زمین اور آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے سب خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے کیونکہ وہ سب چیزیں اسی نے پیدا کی ہیں اور پھر ہر ایک مخلوق کی طاقت اور کام کی ایک حد مقرر کر دی ہے تا محدود چیزیں ایک محدد پر دلالت کریں جو خدا تعالیٰ ہے.سو ہم دیکھتے ہیں کہ جیسا کہ اجسام اپنے اپنے حدود میں مقید ہیں اور اس حد سے باہر نہیں ہو سکتے.اسی طرح ارواح بھی مقید ہیں اور اپنی مقررہ طاقتوں سے زیادہ کوئی طاقت پیدا نہیں کر سکتے.اب پہلے ہم اجسام کے محدود ہونے کے بارہ میں بعض مثالیں پیش کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ مثلاً چاند ایک مہینہ میں اپنا دورہ ختم کر لیتا ہے یعنی انتیس یا تین دن تک مگر سورج تین سو چوسٹھ دن میں اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے.اور سورج کو یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنے دورہ کو اس قدر کم کر دے جیسا کہ چاند کے دورہ کا مقدار ہے.اور نہ چاند کی یہ طاقت ہے کہ اس قدر اپنے دورہ کے دن بڑھا دے کہ جس قد ر سورج کے لئے دن مقرر ہیں.اور اگر تمام دنیا اس بات کے لئے اتفاق بھی کر لے کہ ان دونوں نیروں کے دوروں میں کچھ کمی بیشی کر دیں تو یہ ہرگز اُن کے لئے ممکن نہیں ہو گا اور نہ خود سورج اور چاند میں یہ طاقت ہے کہ اپنے اپنے دوروں میں کچھ تغیر، تبدل کر ڈالیں.پس وہ ذات جس نے ان ستاروں کو اپنی اپنی حد پر ٹھہرا رکھا ہے.یعنی جو ان کا محد داور حد باندھنے والا ہے وہی خدا ہے.ایسا ہی انسان کے جسم اور ہاتھی کے جسم میں بڑا فرق ہے.اگر تمام ڈاکٹر اس بات کے لئے اکٹھے ہوں کہ انسان اپنی جسمانی طاقتوں اور جسم کی ضخامت میں ہاتھی کے برابر ہو جاوے تو یہ اُن کے لئے غیر ممکن ہے.اور اگر یہ چاہیں کہ ہاتھی محض انسان کے قد تک محدود ر ہے تو یہ بھی اُن کے لئے غیر ممکن ہے.پس اس جگہ بھی ایک تحدید ہے یعنی حد باندھنا.جیسا کہ سورج اور چاند میں ایک تحدید ہے اور وہی تحدید ایک محد دیعنی حد باندھنے والے پر دلالت کرتی ہے یعنی اس ذات پر دلالت کرتی ہے الحديد: الفرقان : ٣

Page 292

۲۸۲ جس نے ہاتھی کو وہ مقدار بخشا اور انسان کے لئے وہ مقدار مقرر کیا.اور اگر غور کر کے دیکھا جائے تو ان تمام جسمانی چیزوں میں عجیب طور سے خدا تعالیٰ کا ایک پوشیدہ تصرف نظر آتا ہے اور عجیب طور پر اس کی حد بندی مشاہدہ ہوتی ہے.ان کیڑوں کی مقدار سے لے کر جو بغیر دور بین کے دکھائی نہیں دے سکتے ان بڑی بڑی مچھلیوں کی مقدار تک جو ایک بڑے جہاز کو بھی چھوٹے سے لقمہ کی طرح نگل سکتی ہیں حیوانی اجسام میں ایک عجیب نظارہ حد بندی کا نظر آتا ہے.کوئی جانور اپنے جسم کی رُو سے اپنی حد سے باہر نہیں جاسکتا ایسا ہی وہ تمام ستارے جو آسمان پر نظر آتے ہیں اپنی اپنی حد سے باہر نہیں جا سکتے.پس یہ حد بندی دلالت کر رہی ہے کہ در پردہ کوئی حد باندھنے والا ہے.یہی معنی اس مذکورہ بالا آیت کے ہیں کہ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا اب واضح ہو کہ جیسا کہ یہ حد بندی اجسام میں پائی جاتی ہے.ایسا ہی یہ حد بندی ارواح میں بھی ثابت ہے.تم سمجھ سکتے ہو کہ جس قدر انسانی روح اپنے کمالات ظاہر کر سکتا ہے.یا یوں کہو کہ جس قدر کمالات کی طرف ترقی کر سکتا ہے وہ کمالات ایک ہاتھی کی روح کو باوجود نعیم اور جسیم ہونے کے حاصل نہیں ہو سکتے.اسی طرح ہر ایک حیوان کی رُوح بلحاظ اپنی قوتوں اور طاقتوں کے اپنے نوع کے دائرہ کے اندر محدود ہے اور وہی کمالات حاصل کر سکتے ہیں کہ جو اس کے نوع کے لئے مقرر اور مقدر ہیں.پس جس طرح اجسام کی حد بندی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اُن کا کوئی حد باندھنے والا اور خالق ہے اسی طرح ارواح کی طاقتوں کی حد بندی اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ان کا بھی کوئی خالق اور حد باندھنے والا ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۷ تا ۱۹) اگر دل میں یہ وہم گذرتا ہو کہ خدا نے مختلف طبائع کیوں پیدا کیں اور کیوں سب کو ایسی قوتیں عنایت نہ فرما ئیں جن سے وہ معرفتِ کاملہ اور محبت کا ملہ کے درجہ تک پہنچ جاتے.تو یہ سوال بھی خدا کے کاموں میں ایک فضول دخل ہے جو ہرگز جائز نہیں.ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ تمام مخلوقات کو ایک ہی درجہ پر رکھنا اور سب کو اعلی کمالات کی قوتیں بخشنا خدا پر حق واجب نہیں.یہ تو صرف اس کا فضل ہے.اسے اختیار ہے جس پر چاہے کرے اور جس پر چاہے نہ کرے.مثلا تم کو خدا نے آدمی بنایا اور گدھے کو آدمی نہ بنایا.تم کو عقل دی اور اس کو نہ دی یا تمہارے لئے علم حاصل ہوا اور اس کو نہ ہوا.یہ سب مالک کی مرضی کی بات ہے کوئی ایسا حق نہیں کہ تمہارا تھا اور اُس کا نہ تھا.غرض جس حالت میں خدا الفرقان : ٣

Page 293

۲۸۳ کی مخلوقات میں صریح تفاوت مراتب پایا جاتا ہے جس کے تسلیم کرنے سے کسی عاقل کو چارہ نہیں تو کیا مالک با اختیار کے سامنے ایسی مخلوقات جن کا موجود ہونے میں بھی کوئی حق نہیں چہ جائیکہ بڑا بننے میں کوئی حق ہو کچھ دم مار سکتی ہے.خدائے تعالیٰ کا بندوں کو خلعت وجود بخشنا ایک عطا اور احسان ہے اور ظاہر ہے که معطی و حسن اپنی عطا اور احسان میں کمی بیشی کا اختیار رکھتا ہے اور اگر اس کو کم دینے کا اختیار نہ ہو تو پھر زیادہ دینے کا بھی اختیار نہ ہو.تو اس صورت میں وہ مالکانہ اختیارات کے نافذ کرنے سے بالکل قاصر رہ جائے اور خود ظاہر ہے کہ اگر مخلوق کا خالق پر خواہ نخواہ کوئی حق قرار دیا جائے تو اس سے تسلسل لازم آتا ہے کیونکہ جس درجہ پر خالق کسی مخلوق کو بنائے گا اسی درجہ پر وہ مخلوق کہہ سکتا ہے کہ میرا حق اس سے زیادہ ہے.اور چونکہ خدائے تعالیٰ غیر متناہی مراتب پر بنا سکتا ہے.اور اس کی لا انتہا قدرت کے آگے صرف آدمی بنانے پر فضیلت پیدائش ختم نہیں تو اس صورت میں سلسلہ سوالات مخلوق کبھی ختم نہ ہو گا اور ہر یک مرتبہ پیدائش پر الی غیر النہایت اس کو اپنے حق کے مطالبہ کا استحقاق حاصل ہو گا اور یہی تسلسل ہے.ہاں اگر یہ جستجو ہے کہ اس تفاوت مراتب رکھنے میں حکمت کیا ہے تو سمجھنا چاہئے کہ اس بارہ میں قرآن شریف نے تین حکمتیں بیان فرمائی ہیں.جو عند العقل نہایت بدیہی اور روشن ہیں جن سے کوئی عاقل انکار نہیں کر سکتا.اور وہ بہ تفصیل ذیل ہیں.اول یہ کہ تا مہمات دنیا یعنی امور معاشرت با حسن وجه صورت پذیر ہوں جیسا فرمایا ہے.وَقَالُوا لَوْلَا نُزِلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ - أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيَّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ لا الجز و نمبر ۲۵.یعنی کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے بڑے بڑے مال داروں اور رئیسوں میں سے کسی بھاری رئیس اور دولتمند پر کیوں نازل نہ ہوا تا اس کی رئیسانہ شان کے شایان ہوتا.اور نیز اس کے رعب اور سیاست اور مال خرچ کرنے سے جلد تر دین پھیل جاتا.ایک غریب آدمی جس کے پاس دنیا کی جائیداد میں سے کچھ بھی نہیں کیوں اس عہدہ سے ممتاز کیا گیا؟ ( پھر آگے بطور جواب فرمایا ) أَهُمُ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ.کیا قسام ازل کی رحمتوں کا تقسیم کرنا ان کا اختیار ہے یعنی یہ خداوند حکیم مطلق کا فعل ہے کہ بعضوں کی استعدادیں اور ہمتیں پست رکھیں اور وہ زخارف دنیا میں پھنسے الزخرف :٣٣،٣٢

Page 294

۲۸۴ رہے.اور رئیس اور امیر اور دولتمند کہلانے پر پھولتے رہے اور اصل مقصود کو بھول گئے اور بعض کو فضائل روحانیت اور کمالات قدسیہ عنایت فرمائے اور وہ اس محبوب حقیقی کی محبت میں محو ہو کر مقرب بن گئے اور مقبولانِ حضرت احدیت ہو گئے.( پھر بعد اس کے اس حکمت کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو اس اختلاف استعدادات اور تباین خیالات میں مخفی ہے ) نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ الخ.یعنی ہم نے اس لئے بعض کو دولتمند اور بعض کو درویش اور بعض کو لطیف طبع اور بعض کو کثیف طبع اور بعض طبیعتوں کو کسی پیشہ کی طرف مائل اور بعض کو کسی پیشہ کی طرف مائل رکھا ہے تا اُن کو یہ آسانی پیدا ہو جائے کہ بعض کے لئے بعض کار برار اور خادم ہوں اور صرف ایک پر بھار نہ پڑے.اور اس طور پر مہمات بنی آدم بآسانی تمام چلتے رہیں.اور پھر فرمایا کہ اس سلسلہ میں دنیا کے مال و متاع کی نسبت خدا کی کتاب کا وجود زیادہ تر نفع رساں ہے.یہ ایک لطیف اشارہ ہے جو ضرورتِ الہام کی طرف فرمایا.تفصیل اس کی یہ ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے اور بجز ایک دوسرے کی مدد کے کوئی امر اس کا انجام پذیر نہیں ہوسکتا.مثلاً ایک روٹی کو دیکھئے جس پر زندگانی کا مدار ہے.اس کے طیار ہونے کے لئے کس قدر تمدن و تعاون درکار ہے.زراعت کے تر ڈر سے لے کر اس وقت تک کہ روٹی پک کر کھانے کے لائق ہو جائے بیسیوں پیشہ وروں کی اعانت کی ضرورت ہے.پس اس سے ظاہر ہے کہ عام امور معاشرت میں کس قدر تعاون اور باہمی مدد کی ضرورت ہو گی.اسی ضرورت کے انصرام کے لئے حکیم مطلق نے بنی آدم کو مختلف طبیعتوں اور استعدادوں پر پیدا کیا تا ہر ایک شخص اپنی استعداد اور میل طبع کے موافق کسی کام میں بہ طیب خاطر مصروف ہو کوئی کھیتی کرے.کوئی آلات زراعت بناوے.کوئی آٹا پیسے.کوئی پانی لاوے.کوئی روٹی پکاوے کوئی سوت کاتے.کوئی کپڑا بنے.کوئی دوکان کھولے.کوئی تجارت کا اسباب لا وے.کوئی نوکری کرے اور اس طرح پر ایک دوسرے کے معاون بن جائیں.اور بعض کو بعض مدد پہنچاتے رہیں.پس جب ایک دوسرے کی معاونت ضروری ہوئی تو ان کا ایک دوسرے سے معاملہ پڑنا بھی ضروری ہو گیا.اور جب معاملہ اور معاوضہ میں پڑ گئے اور اس پر غفلت بھی جو استغراق امور دنیا کا خاصہ ہے عائد حال ہو گئی تو اُن کے لئے ایک ایسے قانونِ عدل کی ضرورت پڑی جو اُن کو ظلم اور تعدی اور بغض اور فساد اور غفلت من اللہ سے روکتا رہے تا نظام عالم میں ابتری واقع نہ ہو.کیونکہ معاش و معاد کا تمام مدار انصاف اور خداشناسی پر ہے.اور التزام انصاف و خدا ترسی ایک قانون پر موقوف ہے جس میں دقائق معدلت وحقائق معرفت الہی بدرستی تمام درج ہوں اور سہو یا عمداً کسی نوع کا ظلم یا کسی نوع کی غلطی نہ پائی جاوے.اور ایسا قانون اسی

Page 295

۲۸۵ کی طرف سے صادر ہو سکتا ہے جس کی ذات سہو و خطا وظلم وتعدی سے بکلی پاک ہو.اور نیز اپنی ذات میں واجب الانقیا داور واجب التعظیم بھی ہو.کیونکہ گو کوئی قانون عمدہ ہو مگر قانون کا جاری کرنے والا اگر ایسا نہ ہو جس کو باعتبار مرتبہ اپنے کے سب پر فوقیت اور حکمرانی کا حق ہو یا اگر ایسا نہ ہو جس کا وجود لوگوں کی نظر میں ہر یک طور کے ظلم وخبث اور خطا اور غلطی سے پاک ہو تو ایسا قانون اول تو چل ہی نہیں سکتا.اور اگر کچھ دن چلے بھی تو چند ہی روز میں طرح طرح کے مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں.اور بجائے خیر کے شر کا موجب ہو جاتا ہے.ان تمام وجوہ سے کتاب الہی کی حاجت ہوئی کیونکہ ساری نیک صفتیں اور ہر یک طور کی کمالیت و خوبی صرف خدا ہی کی کتاب میں پائی جاتی ہے وبس.دوم حکمت تفاوت مراتب رکھنے میں یہ ہے کہ تا نیک اور پاک لوگوں کی خوبی ظاہر ہو.کیونکہ ہر یک خوبی مقابلہ ہی سے معلوم ہوتی ہے.جیسے فرمایا ہے.اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلا الجزو نمبر ۱۵.یعنی ہم نے ہر یک چیز کو جو زمین پر ہے زمین کی زینت بنا دیا ہے.تا جو لوگ صالح آدمی ہیں بمقابلہ بُرے آدمیوں کے اُن کی صلاحیت آشکارا ہو جائے.اور کثیف کے دیکھنے سے لطیف کی لطافت کھل جائے.کیونکہ ضد کی حقیقت ضد ہی سے شناخت کی جاتی ہے اور نیکوں کا قدر و منزلت بدوں ہی سے معلوم ہوتا ہے.سوم حکمت تفاوت مراتب رکھنے میں انواع و اقسام کی قدرتوں کا ظاہر کرنا.اور اپنی عظمت کی طرف توجہ دلانا ہے.جیسا فرما یا مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا.وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا ت نمبر ۲۹.یعنی تم کو کیا ہو گیا کہ تم خدا کی عظمت کے قائل نہیں ہوتے.حالانکہ اُس نے اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لئے تم کو مختلف صورتوں اور سیرتوں پر پیدا کیا یعنی اختلاف استعدادات وطبائع اسی غرض سے حکیم مطلق نے کیا تا اُس کی عظمت و قدرت شناخت کی جائے.جیسا دوسری جگہ بھی فرمایا ہے.وَاللهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَّاءٍ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مِّنْ يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الجزو نمبر ۱۸ یعنی خدا نے ہر یک جاندار کو پانی سے پیدا کیا.سو بعض جاندار پیٹ پر چلتے ہیں اور بعض دو پائوں پر.بعض چار پائوں پر.خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.خدا ہر چیز پر قادر ہے.یہ بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے یہ مختلف چیزیں اس لئے بنائیں کہ تا مختلف قدرتیں الكهف : نوح :۱۵،۱۴ النور : ۴۶

Page 296

۲۸۶ اس کی ظاہر ہوں.غرض اختلاف طبائع جو فطرت مخلوقات میں واقع ہے اس میں حکمتِ الہیہ انہیں امور ثلاثہ میں منحصر ہے جن کو خدائے تعالیٰ نے آیات ممدوحہ میں بیان کر دیا.فتدبر.( براہین احمدیہ ہر چہار تخصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۳ ۲۰ تا ۲۰۷ حاشیہ نمبر۱۱) پنڈت دیانند کی ستیارتھ پرکاش اردو کے صفحہ ۵۰۱ میں لکھا ہے کہ پر میشر کسی کا گناہ بخش نہیں سکتا ایسا کرے تو بے انصاف ٹھہرتا ہے پس اس نے مان لیا ہے کہ پر میشر محض ایک حج کی طرح ہے مالکانہ حیثیت اس کو حاصل نہیں.ایسا ہی پنڈت دیانند نے اپنی کتاب ترجمہ شدہ کے صفحہ ۵۰۱ میں لکھا ہے کہ پرمیشر محدود افعال کا ثمرہ غیر محدود نہیں دے سکتا پس ظاہر ہے کہ اگر وہ مالکانہ اختیار رکھتا ہے تو محدود خدمت کے عوض میں غیر محدود شمرہ دینے میں اس کا کیا حرج ہے کیونکہ مالک کے کاموں کے ساتھ انصاف کو کچھ تعلق نہیں.ہم بھی اگر کسی مالک کے مالک ہو کر سوالیوں کو کچھ دینا چاہیں تو کسی سوالی کا حق نہیں کہ یہ شکایت کرے کہ فلاں شخص کو زیادہ دیا اور مجھے کم دیا.اسی طرح کسی بندہ کا خدا تعالیٰ کے مقابل پر حق نہیں کہ اس سے انصاف کا مطالبہ کرے.کیونکہ جس حالت میں جو کچھ بندہ کا ہے وہ سب کچھ خدا کا ہے.تو نہ تو یہ بندہ کا حق ہے کہ انصاف کی رو سے اس سے فیصلہ چاہے اور نہ خدا کی یہ شان ہے کہ اپنی مخلوق کا یہ مرتبہ تسلیم کر لے کہ وہ لوگ اس سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لئے مجاز ہیں.پس درحقیقت جو کچھ خدا تعالیٰ بندہ کو اس کے اعمال کی جزائیں دیتا ہے وہ اس کا محض انعام اکرام ہے ورنہ اعمال کچھ چیز نہیں بغیر خدا کی تائید اور فضل کے اعمال کب ہو سکتے ہیں.پھر ماسوا اس کے جب ہم خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ اپنے بندوں کے لئے مہیا کیا ہے یا کرتا ہے وہ دو قسم کی بخشش ہے.ایک تو اس کے وہ انعام اکرام ہیں جو انسانوں کے وجود سے بھی پہلے ہیں اور ایک ذرہ انسانوں کے عمل کا اُن میں دخل نہیں جیسا کہ اوس نے انسانوں کے آرام کے لئے سورج چاند ستارے زمین پانی ہوا آگ وغیرہ چیزیں پیدا کی ہیں اور کچھ شک نہیں کہ ان چیزوں کو انسانوں کے وجود اور اُن کے عملوں پر تقدم ہے اور انسان کا وجود اُن کے وجود کے بعد ہے.یہ خدا تعالیٰ کی وہ رحمت کی قسم ہے جس کو قرآنی اصطلاح کی رو سے رحمانیت کہتے ہیں.یعنی ایسی جود و عطا جو بندہ کے اعمال کی پاداش میں نہیں بلکہ محض فضل کی راہ سے ہے.دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں رحیمیت کہتے ہیں یعنے وہ انعام اکرام جو بنام نہاد پاداش اعمال حسنہ انسان کو عطا ہوتا ہے.پس جس خدا نے اپنی فیاضانہ مالکیت کا وہ نمونہ دکھلایا کہ

Page 297

۲۸۷ عاجز بندوں کے لئے زمین و آسمان اور چاند سورج وغیرہ بنا دیئے اس وقت میں جبکہ بندوں اور اُن کے اعمال کا نام ونشان نہ تھا کیا اس کی نسبت یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ بندوں کا مدیون ہو کر صرف اُن کے حقوق ادا کرتا ہے اس سے بڑھ کر نہیں؟ کیا بندوں کا کوئی حق تھا کہ وہ اُن کے لئے زمین و آسمان بناتا اور ہزاروں چمکتے ہوئے اجرام آسمان پر اور ہزار ہا آرام اور راحت کی چیزیں زمین پر مہیا کرتا.پس اس فیاض مطلق کو محض ایک حج کی طرح فقط انصاف کرنے والا قرار دینا اور اس کے مالکانہ مرتبہ اور شان سے انکار کرنا کس قدر کفرانِ نعمت ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۶ تا ۲۸) یادر ہے کہ مالک ایک ایسا لفظ ہے جس کے مقابل پر تمام حقوق مسلوب ہو جاتے ہیں.اور کامل طور پر اطلاق اس لفظ کا صرف خدا پر ہی آتا ہے کیونکہ کامل مالک وہی ہے جو شخص کسی کو اپنی جان وغیرہ کا مالک ٹھہراتا ہے تو وہ اقرار کرتا ہے کہ اپنی جان اور مال وغیرہ پر میرا کوئی حق نہیں اور میرا کچھ بھی نہیں سب ما لک کا ہے اس صورت میں اپنے مالک کو یہ کہنا اس کے لئے ناجائز ہو جاتا ہے کہ فلاں مالی یا جانی معاملہ میں میرے ساتھ انصاف کر کیونکہ انصاف حق کو چاہتا ہے اور وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہو چکا ہے.اسی طرح انسان نے جو اپنے مالک حقیقی کے مقابل پر اپنا نام بندہ رکھا یا اور اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ کا اقرار کیا.یعنی ہمارا مال ، جان، بدن ، اولاد سب خدا کی ملک ہے تو اس اقرار کے بعد اس کا کوئی حق نہ رہا جس کا وہ خدا سے مطالبہ کرے اسی وجہ سے وہ لوگ جو درحقیقت عارف ہیں باوجود صد ہا مجاہدات اور عبادات اور خیرات کے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کے رحم پر چھوڑتے ہیں اور اپنے اعمال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے اور کوئی دعوی نہیں کرتے کہ ہمارا کوئی حق ہے یا ہم کوئی حق بجا لائے ہیں کیونکہ در حقیقت نیک وہی ہے جس کی توفیق سے کوئی انسان نیکی کر سکتا ہے اور وہ صرف خدا ہے.پس انسان کسی اپنی ذاتی لیاقت اور ہنر کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے انصاف کا مطالبہ ہرگز نہیں کرسکتا.قرآن شریف کی رو سے خدا کے کام سب مالکانہ ہیں جس طرح کبھی وہ گناہ کی سزا دیتا ہے.ایسا ہی وہ کبھی گناہ کو بخش بھی دیتا ہے.یعنی دونوں پہلوؤں پر اس کی قدرت نافذ ہے.جیسا کہ مقتضائے مالکیت ہونا چاہئے اور اگر وہ ہمیشہ گناہ کی سزادے تو پھر انسان کا کیا ٹھکانہ ہے بلکہ اکثر وہ گناہ بخش دیتا ہے اور تنبیہ کی غرض سے کسی گناہ کی سزا بھی دیتا ہے تا غافل انسان متنبہ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جیسا کہ قرآن شریف میں یہ آیت ہے.وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرِ دیکھو سورة الشورى ( ترجمہ ) اور جو کچھ تمہیں کچھ مصیبت پہنچتی ہے پس تمہاری بد اعمالی کے سبب سے ہے اور خدا بہت سے البقرة : ۱۵۷ الشورى : ٣١

Page 298

۲۸۸ گناہ بخش دیتا ہے اور کسی گناہ کی سزا دیتا ہے.اور پھر اسی سورۃ میں یہ آیت بھی ہے وَهُوَ الَّذِى يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَات لا یعنی تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی تو بہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں اُن کو معاف کر دیتا ہے.کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے.وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَہ ہے یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا.پس یادر ہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تناقض نہیں.کیونکہ اس شہر سے وہ شتر مراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے.اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے.نہ ذنب کا تا معلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریہ آدمی باز آنا نہیں چاہتا.ورنہ سارا قرآن شریف اس بارہ میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں.بلکہ خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ کے یعنی اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے اور نیز ان لوگوں سے پیار کرتا ہے کہ جو اس بات پر زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح گناہ سے پاک ہو جائیں.غرض ہر ایک بدی کی سزا دینا خدا کے اخلاق عفو اور درگذر کے برخلاف ہے کیونکہ وہ مالک ہے نہ صرف ایک مجسٹریٹ کی طرح جیسا کہ اس نے قرآن شریف کی پہلی سورۃ میں ہی اپنا نام مالک رکھا ہے.اور فرمایا کہ ملِكِ يَوْمِ الدین کے یعنی خدا جزا سزا دینے کا مالک ہے.اور ظاہر ہے کہ کوئی مالک مالک نہیں کہلا سکتا جب تک دونوں پہلوؤں پر اس کو اختیار نہ ہو.یعنی چاہے تو پکڑے اور چاہے تو چھوڑ دے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳ ۲۴) پھر ہم اصل بحث کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ آریوں کے اصول کی رُو سے اُن کے پرمیشر کا نام مالک ٹھہر نہیں سکتا کیونکہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ قدرت نہیں رکھتا کہ بغیر کسی کے حق واجب کے اس کو بطورا کرام انعام کچھ دے سکے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص کسی مال کا مالک ہوتا ہے وہ اختیار رکھتا ہے کہ جس قدر اپنے پاس سے چاہے کسی کو دے دے.مگر پر میشر کی نسبت آریوں کا یہ اصول ہے کہ نہ وہ گناہ بخش سکتا ہے اور نہ جود و عطا کے طور پر کسی کو وہ کچھ دے سکتا ہے اور اگر وہ ایسا کرے تو اس سے بے انصافی لازم آتی ہے.لہذا تناسخ کے ماننے والے کسی طرح کہہ نہیں سکتے کہ پر میشر مخلوقات کا مالک الشورى : ٢٦ الزلزال : ٩ البقرة : ٢٢٣ الفاتحة : ۴

Page 299

۲۸۹ ہے.یہ تو ہم کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ مالک کی نسبت انصاف کی پابندی کی شرط لگانا بالکل بے جا ہے.ہاں ہم مالک کی صفاتِ حسنہ میں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ رحیم ہے وہ جواد ہے وہ فیاض ہے وہ گنہ بخشنے والا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے زرخرید غلاموں اور گھوڑوں اور گائیوں کی نسبت منصف مزاج ہے کیونکہ انصاف کا لفظ وہاں بولا جاتا ہے جبکہ دونوں طرف ایک قسم کی آزادی حاصل ہو مثلاً ہم مجازی سلاطین کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ وہ منصف ہیں اور رعایا کے ساتھ انصاف کا سلوک کرتے ہیں اور جب تک رعایا اُن کی اطاعت کرے اُن پر بھی انصاف کا قانون یہ واجب کرتا ہے کہ وہ بھی رعایا کی اطاعت اور خراج گذاری کے عوض میں اُن کے مال و جان کی پوری نگہبانی کریں اور ضرورتوں کے وقت اپنے مال میں سے اُن کی مدد کریں.پس ایک پہلو سے سلاطین رعایا پر حکم چلاتے ہیں اور دوسرے پہلو سے رعیت سلاطین پر حکم چلاتی ہے.اور جب تک یہ دونوں پہلو اعتدال سے چلتے ہیں تب تک اس ملک میں امن رہتا ہے اور جب کوئی بے اعتدالی رعایا کی طرف سے یا بادشاہوں کی طرف سے ظہور میں آتی ہے تبھی ملک میں سے امن اُٹھ جاتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ ہم بادشاہوں کو حقیقی طور پر مالک نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کو رعایا کے ساتھ اور رعایا کو اُن کے ساتھ انصاف کا پابند رہنا پڑتا ہے.مگر ہم خدا کو اُس کی مالکیت کے لحاظ سے رحیم تو کہہ سکتے ہیں مگر منصف نہیں کہہ سکتے.کوئی شخص مملوک ہو کر مالک سے انصاف کا مطالبہ نہیں کر سکتا.ہاں تضرع اور انکسار سے رحم کی درخواست کر سکتا ہے.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے تمام قرآن شریف میں اپنا نام منصف نہیں رکھا کیونکہ انصاف دوطرفہ برابری اور مساوات کو چاہتا ہے.ہاں اس طرح پر خدا تعالیٰ منصف ہے کہ بندوں کے باہمی حقوق میں انصاف کرتا ہے لیکن اس طرح منصف نہیں کہ کوئی بندہ شریک کی طرح اس سے کوئی حق طلب کر سکے کہ کیونکہ بندہ خدا کی ملک ہے اور اس کو اختیار ہے کہ اپنی ملک کے ساتھ جس طرح چاہے معاملہ کرے.جس کو چاہے بادشاہ بنا وے.جس کو چاہے فقیر بنا دے.اور جس کو چاہے چھوٹی عمر میں وفات دے اور جس کو چاہے لمبی عمر عطا کرے.اور ہم بھی تو جب کسی مالک کے مالک ہوتے ہیں تو اس کی نسبت پوری آزادی رکھتے ہیں ہاں خدا رحیم ہے بلکہ اَرحَمُ الرَّاحِمین ہے وہ اپنے رحم کے تقاضا سے نہ کسی انصاف کی پابندی سے اپنی مخلوقات کی پرورش کرتا ہے.کیونکہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ مالک کا مفہوم منصف کے مفہوم سے بالکل ضد پڑا ہوا ہے.جبکہ ہم اس کے پیدا کردہ ہیں تو ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم اس سے انصاف کا مطالبہ کریں.ہاں نہایت عاجزی سے اس کے رحم کی ضرور درخواست کرتے ہیں اور اس بندہ کی نہایت

Page 300

۲۹۰ بدذاتی ہے جو خدا سے اُس کے کاروبار کے متعلق جو اس بندہ کی نسبت خدا تعالیٰ کرتا ہے انصاف کا مطالبہ کرے.جبکہ انسانی فطرت کا سب تار و پود خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تمام قومی روحانی جسمانی اُسی کی عطا کردہ ہیں اور اُسی کی توفیق اور تائید سے ہر ایک اچھا عمل ظہور میں آ سکتا ہے تو اپنے اعمال پر بھروسہ کر کے اُس سے انصاف کا مطالبہ کرنا سخت بے ایمانی اور جہالت ہے.اور ایسی تعلیم کو ہم وڈیا کی تعلیم نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ تعلیم بچے گیان سے بالکل محروم اور سراسر حماقت سے بھری ہوئی تعلیم ہے سو ہمیں خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں جو قرآن شریف ہے یہی سکھایا ہے کہ بندہ کے مقابل پر خدا کا نام منصف رکھنا نہ صرف گناہ بلکہ کفر صریح ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲ تا ۳۴) یہ وسوسہ کہ عدل اور رحم دونوں خدا تعالیٰ کی ذات میں جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ عدل کا تقاضا ہے کہ سزا دی جائے اور رحم کا تقاضا ہے کہ در گذر کی جائے یہ ایک ایسا دھوکا ہے کہ جس میں قلت تدبر سے کو نہ اندیش عیسائی گرفتار ہیں.وہ غور نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ کا عدل بھی تو ایک رحم ہے.وجہ یہ کہ وہ سراسر انسانوں کے فائدہ کے لئے ہے.مثلاً اگر خدا تعالیٰ ایک خونی کی نسبت باعتبار اپنے عدل کے حکم فرماتا ہے کہ وہ مارا جائے.تو اس سے اس کی الوہیت کو کچھ فائدہ نہیں بلکہ اس لئے چاہتا ہے کہ تا نوع انسان ایک دوسرے کو مار کرنا بود نہ ہو جا ئیں سو یہ نوع انسان کے حق میں رحم ہے اور یہ تمام حقوق عباد خدا تعالیٰ نے اسی لئے قائم کئے ہیں کہ تا امن قائم رہے اور ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم کر کے دنیا میں فساد نہ ڈالیں.سو وہ تمام حقوق اور سزائیں جو مال اور جان اور آبرو کے متعلق ہیں در حقیقت نوع انسان کے لئے ایک رحم ہے..پس عدل اور رحم میں کوئی جھگڑا نہیں گویا وہ دو نہریں ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر چل رہی ہیں.ایک نہر دوسرے کی ہرگز مزاحم نہیں ہے.دنیا کی سلطنتوں میں بھی یہی دیکھتے ہیں کہ جرائم پیشہ کو سزا ملتی ہے لیکن جو لوگ اچھے کاموں سے گورنمنٹ کو خوش کرتے ہیں وہ مورد انعام واکرام ہو جاتے ہیں.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی اصل صفت رحم ہے اور عدل عقل اور قانون عطا کرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور حقیقت میں وہ بھی ایک رحم ہے جو اور رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.جب کسی انسان کو عقل عطا ہوتی ہے اور بذریعہ عقل وہ خدا تعالیٰ کے حدود اور قوانین سے واقف ہوتا ہے تب اس حالت میں وہ عدل کے مؤاخذہ کے نیچے آتا ہے.لیکن رحم کے لئے عقل اور قانون کی شرط نہیں.اور چونکہ خدا تعالیٰ نے رحم کر کے انسانوں کو سب سے زیادہ فضیلت دینی چاہی اس لئے اس نے انسانوں کے لئے عدل کے قواعد اور حدود

Page 301

۲۹۱ مرتب کئے.سو عدل اور رحم میں تناقض سمجھنا جہالت ہے.کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۷۴،۷۳ ) یہ ایک نہایت باریک صداقت ہے کہ علم باری تعالیٰ جس کی کاملیت کی وجہ سے وہ ذرہ ذرہ کے ظاہر و باطن پر اطلاع رکھتا ہے کیونکر اور کس طور سے ہے.اگر چہ اس کی اصل کیفیت پر کوئی عقل محیط نہیں ہو سکتی مگر پھر بھی اتنا کہنا سراسر سچائی پر مبنی ہے کہ وہ تمام علم کے قسموں میں سے جو ذہن میں آ سکتے ہیں اشد و اقومی واتم و اکمل قسم ہے.جب ہم اپنے حصول علم کے طریقوں کو دیکھتے ہیں اور اس کے اقسام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اپنے سب معمولی علموں میں سے بڑا یقینی اور قطعی وہی علم معلوم ہوتا ہے جو ہم کو اپنی ہستی کی نسبت ہے.کیونکہ ہم اور ایسا ہی ہر ایک انسان کسی حالت میں اپنی ہستی کو فراموش نہیں کر سکتا اور نہ اس میں کوئی شک کر سکتا ہے سو جہاں تک ہماری عقل کی رسائی ہے ہم اس قسم کے علم کو اشد واقولی واتم واکمل پاتے ہیں اور یہ بات ہم سراسر خدائے تعالیٰ کی ذات کامل سے بعید دیکھتے ہیں کہ جو اس درجہ اور اس قسم کے علم سے اس کا علم اپنے بندوں کے بارہ میں کمتر ہو.کیونکہ یہ بڑے نقص کی بات ہے کہ جو اعلیٰ قسم علم کی ذہن میں آ سکتی ہے وہ خدائے تعالیٰ میں نہ پائی جائے.اور اعتراض ہو سکتا ہے کہ کس وجہ سے خدائے تعالیٰ کا علم اعلیٰ درجہ کے علم سے منزل رہا.آیا اس کے اپنے ہی ارادہ سے یا کسی قاسر کے قسر سے.اگر کہو کہ اس کے اپنے ہی ارادہ سے تو یہ جائز نہیں کیونکہ کوئی شخص اپنے لئے بالا رادہ نقصان روا نہیں رکھتا تو پھر کیونکر خدائے تعالیٰ جو بذات خود کمالات کو دوست رکھتا ہے ایسے ایسے نقصان اپنی نسبت روار کھے اور اگر کہو کہ کسی قاسر کے قسر سے یہ نقصان اس کو پیش آیا تو چاہئے کہ ایسا قا سر اپنی طاقتوں اور قوتوں میں خدائے تعالیٰ پر غالب ہو.تا وہ زیادت قوت کی وجہ سے اس کو اس کے ارادوں سے روک سکے اور یہ خود ممتنع اور محال ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ پر اور کوئی قاسر نہیں جس کی مزاحمت سے اس کو کوئی مجبوری پیش آوے.پس ثابت ہوا کہ ضرور خدائے تعالیٰ کا علم کامل تام ہے.اور پہلے ہم ابھی ثابت کر چکے ہیں کہ علم کی تمام قسموں میں سے کامل و تام وہ علم ہے کہ جو ایسا ہو جیسے ایک انسان کو اپنی ہستی کی نسبت علم ہوتا ہے.سو ماننا پڑا کہ خدائے تعالیٰ کا علم اپنی مخلوقات کے بارہ میں اسی علم کی مانند اور اس کے مشابہ ہے گو ہم اس کی اصل کیفیت پر محیط نہیں ہو سکتے لیکن ہم اپنی عقل سے جس کی رو سے ہم مکلف ہیں یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بڑا قطعی اور یقینی علم یہی ہے جو عالم اور معلوم میں کسی نوع کا بعد اور حجاب نہ ہو سو وہ قسم علم کی یہی ہے.اور جس طرح ایک انسان کو اپنی ہستی پر مطلع ہونے کے لئے کسی دوسرے وسائل کی

Page 302

۲۹۲ ضرورت نہیں بلکہ جاندار ہونا اور اپنے تئیں جاندار سمجھنا دونوں باتیں ایسی باہم قریب واقع ہیں کہ ان میں ایک بال کا فرق نہیں.سو ایسا ہی جمیع موجودات کے بارہ میں خدا تعالیٰ کا علم ہونا ضروری ہے.یعنی اس جگہ بھی عالم اور معلوم میں ایک ذرہ فرق اور فاصلہ نہیں چاہئے.اور یہ اعلیٰ درجہ علم کا جو باری تعالیٰ کو اپنے تحقق الوہیت کے لئے اس کی ضرورت ہے اسی حالت میں اس کے لئے مسلم ہوسکتا ہے کہ جب پہلے اُس کی نسبت یہ مان لیا جائے کہ اس میں اور اس کے معلومات میں اس قدر قرب اور تعلق واقع ہے جس سے بڑھ کر تجویز کرنا ممکن ہی نہیں اور یہ کامل تعلق معلومات سے اسی صورت میں اس کو ہو سکتا ہے کہ جب عالم کی سب چیزیں جو اس کی معلومات ہیں اس کے دست قدرت سے نکلی ہوں اور اس کی پیدا کردہ اور مخلوق ہوں اور اُس کی ہستی سے اُن کی ہستی ہو.یعنی جب ایسی صورت ہو کہ موجود حقیقی وہی ایک ہوا اور دوسرے سب وجود اس سے پیدا ہوئے ہوں.اور اس کے ساتھ قائم ہوں.یعنی پیدا ہو کر بھی اپنے وجود میں اس سے بے نیاز اور اس سے الگ نہ ہوں بلکہ در حقیقت سب چیزوں کے پیدا ہونے کے بعد بھی زندہ حقیقی وہی ہو.اور دوسری ہر ایک زندگی اسی سے پیدا ہوئی ہو.اور اس کے ساتھ قائم ہو.اور بے قید حقیقی وہی ایک ہو اور دوسری سب چیزیں کیا ارواح اور کیا اجسام اُس کی لگائی ہوئی قیدوں میں مقید اور اس کے ہاتھ کے بندوں سے بندھے ہوئے اور اس کی مقرر کردہ حدوں میں محدود ہوں اور وہ ہر چیز پر محیط ہو اور دوسری سب چیزیں اس کی ربوبیت کے نیچے احاطہ کی گئی ہوں اور کوئی ایسی چیز نہ ہو جو اس کے ہاتھ سے نکلی نہ ہو.اور اس کی ربوبیت کا اس پر احاطہ نہ ہو.یا اُس کے سہارے سے وہ چیز قائم نہ ہو.غرض اگر ایسی صورت ہو تب خدائے تعالیٰ کا تعلق تام جو علم تام کے لئے شرط ہے اپنے معلومات سے ہو گا.اسی تعلق تام کی طرف اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ قرآن شریف میں اشارہ فرمایا جیسے وہ فرماتا ہے.وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ے یعنی ہم انسان کی جان سے اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ تر نزدیک ہیں ایسا ہی اس نے قرآن شریف میں ایک دوسری جگہ فرمایا ہے.هُوَ الْحَيُّ الْقَوم نے یعنی حقیقی حیات اس کو ہے اور دوسری سب چیزیں اس سے پیدا اور اُس کے ساتھ زندہ ہیں.یعنی در حقیقت سب جانوں کی جان اور سب طاقتوں کی طاقت وہی ہے.اگر روح کو مخلوق اور حادث تسلیم نہ کیا جائے تو اس بات کے تسلیم کرنے کے لئے کوئی وجہ نہیں کہ ایک بے تعلق شخص جو فرضی طور پر پر میشر کے نام سے موسوم ہے رُوح کی حقیقت سے کچھ اطلاع رکھتا ہے اور اس ق :۱۷ البقرة : ۲۵۶

Page 303

۲۹۳ کا علم اس کی تہ تک پہنچا ہوا ہے کیونکہ جو شخص کسی چیز کی نسبت پورا پورا علم رکھتا ہے تو البتہ اس کے بنانے پر بھی قادر ہوتا ہے اور اگر قادر نہیں ہوسکتا تو اس کے علم میں ضرور کوئی نہ کوئی نقص ہوتا ہے اور اگر پورا علم نہ ہو تو قطع نظر بنانے سے متشابہ چیزوں میں باہم امتیاز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے.سواگر خدائے تعالی خالق الاشیاء نہیں تو اس میں صرف یہی نقص نہیں ہے کہ اس صورت میں وہ ناقص العلم ٹھہرا بلکہ اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ کروڑ ہا روحوں کے امتیاز اور تمیز اور شناخت میں روز بروز دھو کے بھی کھایا کرے اور بسا اوقات زید کی رُوح کو بکر کی روح سمجھ بیٹھے کیونکہ ادھورے علم کو ایسے دھو کے ضرور لگ جایا کرتے ہیں اور اگر کہو کہ نہیں لگتے تو اس پر کوئی دلیل پیش کرنی چاہئے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۲ تا ۲۲۶ حاشیه ) شائد کسی دل کو اس جگہ یہ وسوسہ پکڑے کہ اگر کسی شے پر پورا پورا علمی احاطہ ہونے سے وہ شے مخلوق ہو جاتی ہے تو علم حق سبحانہ تعالیٰ جو اپنی ذات سے متعلق ہے وہ بھی بہر حال کامل ہے.تو کیا خدائے تعالیٰ اپنی ذات کا آپ خالق ہے یا اپنی مثل بنانے پر قادر ہے؟ اس میں اعتراض کے پہلے ٹکڑے کا تو یہ جواب ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ اپنے وجود کا آپ خالق ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ اپنے وجود سے پہلے موجود ہو.اور ظاہر ہے کہ کوئی شے اپنے وجود سے پہلے موجود نہیں ہو سکتی.ورنہ تــقــدم الـشـي عـلـى نفسه لازم آتا ہے.بلکہ خدائے تعالیٰ جو اپنی ذات کا علم کامل رکھتا ہے تو اس جگہ عالم اور علم اور معلوم ایک ہی شے ہے جس میں علیحدگی اور دوئی کی گنجائش نہیں تو پھر اس جگہ وہ الگ چیز کون سی ہے جس کو مخلوق ٹھہرایا جائے سو ذاتی علم خدائے تعالیٰ کا جو اس کی ذات سے تعلق رکھتا ہے دوسری چیزوں پر اس کا قیاس نہیں کر سکتے.غرض علم ذاتی باری تعالیٰ میں جو اس کی ذات سے متعلق ہے عالم اپنے معلوم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے تا ایک خالق اور مخلوق قرار دیا جاوے.ہاں اس کے وجود میں بجائے مخلوق کہنے کے یہ کہنا چاہئے کہ وہ وجود کسی دوسرے کی طرف سے مخلوق نہیں بلکہ ازلی ابدی طور پر اپنی طرف سے آپ ہی ظہور پذیر ہے اور خدا ہونے کے بھی یہی معنے ہیں کہ خود آئندہ ہے.دوسرا ٹکڑا اعتراض کا کہ تقریر مذکورہ بالا سے خدائے تعالیٰ کا اپنی مثل بنانے پر قادر ہونا لازم آتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ قدرت الہی صرف اُن چیزوں کی طرف رجوع کرتی ہے جو اُس کی صفات از لیہ ابدیہ کی منافی اور مخالف نہ ہوں بے شک یہ بات تو صحیح اور ہر طرح سے مدلل اور معقول ہے کہ جس چیز کا علم خدائے تعالیٰ کو کامل ہو اس چیز کو اگر چاہے تو پیدا بھی کر سکتا ہے لیکن یہ بات ہرگز صحیح اور ضروری نہیں کہ جن باتوں کے کرنے پر وہ قادر ہو اُن سب باتوں کو بلالحاظ اپنی صفات کمالیہ کے کر کے بھی دکھاوے

Page 304

۲۹۴ بلکہ وہ اپنی ہر ایک قدرت کے اجراء اور نفاذ میں اپنی صفات کمالیہ کا ضرور لحاظ رکھتا ہے کہ آیا وہ امر جس کو وہ اپنی قدرت سے کرنا چاہتا ہے اس کی صفات کا ملہ سے منافی و مبائن تو نہیں.مثلاً وہ قادر ہے کہ ایک بڑے پر ہیز گار صالح کو دوزخ کی آگ میں جلاوے.لیکن اس کے رحم اور عدل اور مجازات کی صفت اس بات کی منافی پڑی ہوئی ہے کہ وہ ایسا کرے.اس لئے وہ ایسا کام کبھی نہیں کرتا.ایسا ہی اس کی قدرت اس طرف میں رجوع نہیں کرتی کہ وہ اپنے تئیں ہلاک کرے.کیونکہ یہ فعل اس کی صفت حیات ازلی ابدی کی منافی ہے.پس اسی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اپنے جیسا خدا بھی نہیں بناتا کیونکہ اُس کی صفت احدیت اور بے مثل اور مانند ہونے کی جو ازلی ابدی طور پر اس میں پائی جاتی ہے اس طرف توجہ کرنے سے اس کو روکتی ہے.پس ذرہ آنکھ کھول کر سمجھ لینا چاہئے کہ ایک کام کرنے سے عاجز ہونا اور بات ہے لیکن باوجود قدرت کے بلحاظ صفات کمالیہ امر منافی صفات کی طرف توجہ نہ کرنا یہ اور بات ہے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۳۰ تا ۲۳۳ حاشیه ) اپنے ذاتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدائے تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے.قدیم سے اہلِ حق حضرات واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت وجوب ذاتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناع ذاتی اور امکان بالواجب عزاسمہ کا عقیدہ ہے.یعنی یہ عقیدہ کہ خدائے تعالی کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کے ہویت حقہ کی یہ ذاتی خاصیت ہے کہ عالم الغیب ہو.مگر ممکنات جو هَا لِكَةُ الذَّات اور بَاطِلَةُ الْحَقِیقت ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفات میں شراکت بحضرت باری عَزّ اسْمُهُ جائز نہیں.اور جیسا ذات کی رو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کی رو سے بھی ممتنع ہے.پس ممکنات کے لئے نَـظـرا عـلـى ذَاتِهِم عالم الغيب ہونا ممتنعات میں سے ہے.خواہ نبی ہوں یا محدث ہوں یا ولی ہوں.ہاں الہام الہی سے اسرار غیبیہ کو معلوم کرنا یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصہ ملتا رہا ہے.اور اب بھی ملتا ہے جس کو ہم صرف تا بعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پاتے ہیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳ ۴۵ ،۴۵۴) هما را زنده حي و قيوم خدا ہم سے انسان کی طرح باتیں کرتا ہے.ہم ایک بات پوچھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں تو وہ قدرت کے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ جواب دیتا ہے.اگر یہ سلسلہ ہزار مرتبہ تک بھی جاری رہے تب بھی وہ جواب دینے سے اعراض نہیں کرتا.وہ اپنے کلام میں عجیب در عجیب غیب کی

Page 305

۲۹۵ باتیں ظاہر کرتا ہے اور خارق عادت قدرتوں کے نظارے دکھلاتا ہے.یہاں تک کہ وہ یقین کرا دیتا ہے کہ وہ وہی ہے جس کو خدا کہنا چاہئے.دعائیں قبول کرتا ہے اور قبول کرنے کی اطلاع دیتا ہے.وہ بڑی بڑی مشکلات حل کرتا ہے اور جو مُردوں کی طرح بیمار ہوں اُن کو بھی کثرتِ دُعا سے زندہ کر دیتا ہے اور یہ سب ارادے اپنے قبل از وقت اپنے کلام سے بتلا دیتا ہے.خدا وہی خدا ہے جو ہمارا خدا ہے.وہ اپنے کلام سے جو آئندہ کے واقعات پر مشتمل ہوتا ہے ہم پر ثابت کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا وہی خدا ہے.وہی ہے جس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے طاعون کی موت سے بچاؤں گا اور نیز ان سب کو جو تیرے گھر میں نیکی اور پرہیز گاری کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں بچاؤں گا.اس زمانہ میں کون ہے جس نے میرے سوا ایسا الہام شائع کیا اور اپنے نفس اور اپنی بیوی اور اپنے بچوں اور دوسرے نیک انسانوں کے لئے جو اس کی چار دیوار کے اندر رہتے ہیں خدا کی ذمہ داری ظاہر کی.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۴۹،۴۴۸) منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کو لازم پڑی ہوئی ہیں ایک برتر ہستی کی تلاش ہے جس کے لئے اندر ہی اندر انسان کے دل میں ایک کشش موجود ہے اور اس تلاش کا اثر اسی وقت سے محسوس ہونے لگتا ہے جب کہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے.کیونکہ بچہ پیدا ہوتے ہی پہلے روحانی خاصیت اپنی جو دکھاتا ہے وہ یہی ہے کہ ماں کی طرف جھکا جاتا ہے اور طبعا اپنی ماں کی محبت رکھتا ہے.اور پھر جیسے جیسے حواس اس کے کھلتے جاتے ہیں اور شگوفہ فطرت اس کا کھلتا جاتا ہے یہ کشش محبت جو اس کے اندر چھپی ہوئی تھی اپنا رنگ و روپ نمایاں طور پر دکھاتی چلی جاتی ہے پھر تو یہ ہوتا ہے کہ بجز اپنی ماں کی گود کے کسی جگہ آرام نہیں پاتا.اور پورا آرام اس کا اسی کے کنارِ عاطفت میں ہوتا ہے.اور اگر ماں سے علیحدہ کر دیا جائے اور ڈور ڈال دیا جائے تو تمام عیش اس کا تلخ ہو جاتا ہے اور اگر چہ اس کے آگے نعمتوں کا ایک ڈھیر ڈال دیا جاوے تب بھی وہ اپنی سچی خوشحالی ماں کی گود میں ہی دیکھتا ہے اور اس کے بغیر کسی طرح آرام نہیں پاتا.سو وہ کششِ محبت جو اس کو اپنی ماں کی طرف پیدا ہوتی ہے وہ کیا چیز ہے؟ در حقیقت یہ وہی کشش ہے جو معبود حقیقی کے لئے بچہ کی فطرت میں رکھی گئی ہے بلکہ ہر ایک جگہ جو انسان تعلّق محبت پیدا کرتا ہے درحقیقت وہی کشش کام کر رہی ہے.اور ہر ایک جگہ جو یہ عاشقانہ جوش دکھلاتا ہے در حقیقت اسی محبت کا وہ ایک عکس ہے.گویا دوسری چیزوں کو اٹھا اٹھا کر ایک گم شدہ چیز کی تلاش کر رہا ہے.جس کا اب نام بھول گیا ہے سو انسان کا مال یا اولاد یا بیوی سے محبت کرنا یا کسی

Page 306

۲۹۶ خوش آواز کے گیت کی طرف اس کی روح کا کھینچے جانا در حقیقت اسی گمشدہ محبوب کی تلاش ہے اور چونکہ انسان اس دقیق در دقیق ہستی کو جو آگ کی طرح ہر ایک میں مخفی اور سب پر پوشیدہ ہے اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا اور نہ اپنی نا تمام عقل سے اس کو پا سکتا ہے.اس لئے اس کی معرفت کے بارے میں انسان کو بڑی بڑی غلطیاں لگی ہیں اور سہو کاریوں سے اس کا حق دوسرے کو دیا گیا ہے.خدا نے قرآن شریف میں یہ خوب مثال دی ہے کہ دنیا ایک ایسے شیش محل کی طرح ہے جس کی زمین کا فرش نہایت مصفی شیشوں سے کیا گیا ہے اور پھر ان شیشوں کے نیچے پانی چھوڑا گیا ہے جو نہایت تیزی سے چل رہا ہے.اب ہر ایک نظر جو شیشوں پر پڑتی ہے وہ اپنی غلطی سے ان شیشوں کو بھی پانی سمجھ لیتی ہے.اور پھر انسان ان شیشوں پر چلنے سے ایسا ڈرتا ہے جیسا کہ پانی سے ڈرنا چاہئے حالانکہ وہ درحقیقت شیشے ہیں مگر صاف شفاف.سو یہ بڑے بڑے اجرام جو نظر آتے ہیں جیسے آفتاب و ماہتاب وغیرہ یہ وہی صاف شیشے ہیں جن کی غلطی سے پرستش کی گئی اور ان کے نیچے ایک اعلیٰ طاقت کام کر رہی ہے جو ان شیشوں کے پردہ میں پانی کی طرح بڑی تیزی سے چل رہی ہے اور مخلوق پرستوں کی نظر کی یہ غلطی ہے کہ انہی شیشوں کی طرف کام کو منسوب کر رہے ہیں جو ان کے نیچے کی طاقت دکھلا رہی ہے یہی تفسیر اس آیت کریمہ کی ہے.اِنَّه صَرْحُ مُمَرَّدُ مِنْ قَوَارِيرَ.غرض چونکہ خدا تعالیٰ کی ذات باوجود نہایت روشن ہونے کے پھر بھی نہایت مخفی ہوتی ہے اس لئے اس کی شناخت کے لئے صرف یہ نظام جسمانی جو ہماری نظروں کے سامنے ہے کافی نہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ ایسے نظام پر مدار رکھنے والے باوجود یکہ اس ترتیب ابلغ اور محکم کو جو صد ہا عجائبات پر مشتمل ہے نہایت غور کی نظر سے دیکھتے رہے بلکہ ہیئت اور طبعی اور فلسفہ میں وہ مہارتیں پیدا کیں کہ گویا زمین و آسمان کے اندر جنس گئے مگر پھر بھی شکوک اور شبہات کی تاریکی سے نجات نہ پاسکے اور اکثر اُن کے طرح طرح کی خطاؤں میں مبتلا ہو گئے اور بے ہودہ اوہام میں پڑ کر کہیں کے کہیں چلے گئے اور اگر ان کو اس صانع کے وجود کی طرف کچھ خیال بھی آیا تو بس اسی قدر کہ اس اعلیٰ اور عمدہ نظام کو دیکھ کر یہ اُن کے دل میں پڑا کہ اس عظیم الشان سلسلہ کا جو پُر حکمت نظام اپنے ساتھ رکھتا ہے کہ کوئی پیدا کرنے والا ضرور چاہئے مگر ظاہر ہے کہ یہ خیال نا تمام اور یہ معرفت ناقص ہے کیونکہ یہ کہنا کہ اس سلسلہ کے لئے ایک خدا کی ضرورت ہے اس دوسرے کلام سے ہرگز مساوی نہیں کہ وہ خدا در حقیقت ہے بھی.غرض یہ اُن کی صرف النمل: ۴۵

Page 307

۲۹۷ قیاسی معرفت تھی جو دل کو اطمینان اور سکینت نہیں بخش سکتی اور نہ شکوک کو بلکلی دل پر سے اٹھا سکتی ہے اور نہ یہ ایسا پیالہ ہے جس سے وہ پیاس معرفت تامہ کی بجھ سکے جو انسان کی فطرت کو لگائی گئی ہے.بلکہ ایسی معرفت نا قصہ نہایت پُر خطر ہوتی ہے.کیونکہ بہت شور ڈالنے کے بعد پھر آخر بیچ اور نتیجہ ندارد ہے.غرض جب تک خود خدا تعالیٰ اپنے موجود ہونے کو اپنے کلام سے ظاہر نہ کرے جیسا کہ اُس نے اپنے کام سے ظاہر کیا تب تک صرف کام کا ملاحظہ تسلی بخش نہیں ہے.مثلاً اگر ہم ایک ایسی کوٹھڑی کو دیکھیں جس میں یہ بات عجیب ہو کہ اندر سے کنڈیاں لگائی گئی ہیں تو اس فعل سے ہم ضرور اوّل یہ خیال کریں گے کہ کوئی انسان اندر ہے جس نے اندر سے زنجیر کو لگایا ہے.کیونکہ باہر سے اندر کی زنجیروں کو لگانا غیر ممکن ہے.لیکن جب ایک مدت تک بلکہ برسوں تک با وجود بار بار آواز دینے کے اس انسان کی طرف سے کوئی آواز نہ آوے تو آخر یہ رائے ہماری کہ کوئی اندر ہے بدل جائے گی اور یہ خیال کریں گے کہ اندر کوئی نہیں بلکہ کسی حکمت عملی سے اندر کی کنڈیاں لگائی گئی ہیں.یہی حال ان فلاسفروں کا ہے جنہوں نے صرف فعل کے مشاہدہ پر اپنی معرفت کو ختم کر دیا ہے یا بڑی غلطی ہے جو خدا کو ایک مُردہ کی طرح سمجھا جائے جس کو قبر سے نکالنا صرف انسان کا کام ہے.اگر خدا ایسا ہے جو صرف انسانی کوشش نے اُس کا پتہ لگایا ہے تو ایسے خدا کی نسبت ہماری سب اُمیدیں عبث ہیں.بلکہ خدا تو وہی ہے جو ہمیشہ سے اور قدیم سے آپ انا الموجُود کہہ کر لوگوں کو اپنی طرف بلاتا رہا ہے.یہ بڑی گستاخی ہوگی کہ ہم ایسا خیال کریں کہ اس کی معرفت میں انسان کا احسان اس پر ہے.اور اگر فلاسفر نہ ہوتے تو گویا وہ گم کا گم ہی رہتا.اور یہ کہنا کہ خدا کیونکر بول سکتا ہے.کیا اس کی زبان ہے؟ یہ بھی ایک بڑی بے با کی ہے.کیا اُس نے جسمانی ہاتھوں کے بغیر تمام آسمانی اجرام اور زمین کو نہیں بنایا.کیا وہ جسمانی آنکھوں کے بغیر تمام دنیا کو نہیں دیکھتا.کیا وہ جسمانی کانوں کے بغیر ہماری آوازیں نہیں سنتا.پس کیا یہ ضروری نہ تھا کہ اسی طرح وہ کلام بھی کرے.یہ بات بھی ہرگز صحیح نہیں ہے کہ خدا کا کلام کرنا آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا ہے.ہم اس کے کلام اور مخاطبات پر کسی زمانہ تک مہر نہیں لگاتے.بے شک وہ اب بھی ڈھونڈ نے والوں کو الہامی چشمہ سے مالا مال کرنے کو طیار ہے جیسا کہ پہلے تھا.اور اب بھی اس کے فیضان کے ایسے دروازے کھلے ہیں جیسے کہ پہلے تھے.ہاں ضرورتوں کے ختم ہونے پر شریعتیں اور حدود ختم ہو گئیں اور تمام رسالتیں اور نبوتیں اپنے آخری نقطہ پر آکر جو ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تھا کمال کو پہونچ گئیں.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۳۶۳ تا ۳۶۷)

Page 308

۲۹۸ حقیقی خدا دانی تمام اسی میں منحصر ہے کہ اُس زندہ خدا تک رسائی ہو جائے کہ جو اپنے مقرب انسانوں سے نہایت صفائی سے ہم کلام ہوتا ہے اور اپنی پُر شوکت اور لذیذ کلام سے اُن کو تسلی اور سکینت بخشتا ہے.اور جس طرح ایک انسان دوسرے انسان سے بولتا ہے ایسا ہی یقینی طور پر جو بکلی شک وشبہ سے پاک ہے اُن سے باتیں کرتا ہے اُن کی بات سنتا ہے اور اُس کا جواب دیتا ہے اور اُن کی دعاؤں کوسن کر دُعا کے قبول کرنے سے ان کو اطلاع بخشتا ہے اور ایک طرف لذیذ اور پُر شوکت قول سے اور دوسری طرف معجزانہ فعل سے اور اپنے قومی اور زبردست نشانوں سے اُن پر ثابت کر دیتا ہے کہ میں ہی خدا ہوں.وہ اول پیشگوئی کے طور پر اُن سے اپنی حمایت اور نصرت اور خاص طور کی دستگیری کے وعدے کرتا ہے اور پھر دوسری طرف اپنے وعدوں کی عظمت بڑھانے کے لئے ایک دنیا کو اُن کے مخالف کر دیتا ہے اور وہ لوگ اپنی تمام طاقت اور تمام مکر و فریب اور ہر ایک قسم کے منصوبوں سے کوشش کرتے ہیں کہ خدا کے اُن وعدوں کو ٹال دیں جو اس کے اُن مقبول بندوں کی حمایت اور نصرت اور غلبہ کے بارے میں ہیں اور خدا ان تمام کوششوں کو برباد کرتا ہے.وہ شرارت کی تخم ریزی کرتے ہیں اور خدا اس کی جڑ باہر پھینکتا ہے.وہ آگ لگاتے ہیں اور خدا اس کو بجھا دیتا ہے.وہ ناخنوں تک زور لگاتے ہیں.آخر خدا اُن کے منصوبوں کو انہی پر اُلٹا کر مارتا ہے.خدا کے مقبول اور راستباز نہایت سید ھے اور سادہ طبع اور خدا تعالیٰ کے سامنے اُن بچوں کی طرح ہوتے ہیں جو ماں کی گود میں ہوں اور دنیا اُن سے دشمنی کرتی ہے کیونکہ وہ دنیا میں سے نہیں ہوتے.اور طرح طرح کے مکر اور فریب اُن کی بیخ کنی کے لئے کئے جاتے ہیں.قو میں اُن کے ایذا دینے کے لئے متفق ہو جاتی ہیں.اور تمام نا اہل لوگ ایک ہی کمان سے ان کی طرف تیر چلاتے ہیں اور طرح طرح کے افترا اور تہمتیں لگائی جاتی ہیں تا کسی طرح وہ ہلاک ہو جائیں اور ان کا نشان نہ رہے مگر آخر خدائے تعالیٰ اپنی باتوں کو پوری کر کے دکھلا دیتا ہے.اسی طرح اُن کی زندگی میں یہ معاملہ اُن سے جاری رہتا ہے کہ ایک طرف وہ مکالمات صحیحہ واضحہ یقینیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں اور امور غیبیہ جن کا علم انسانوں کی طاقت سے باہر ہے اُن پر خدائے کریم و قدیر اپنے صریح کلام کے ذریعہ سے منکشف کرتا رہتا ہے اور دوسری طرف مجزا نہ افعال سے جو اُن اقوال کو سچ کر کے دکھلاتے ہیں اُن کے یقین کو نور علی نور کیا جاتا ہے.اور جس قدر انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ہے کہ خدا کی یقینی شناخت کے لئے اس قدر معرفت چاہئے وہ معرفت قولی اور فعلی تجلی سے پوری کی جاتی ہے.یہاں تک کہ ایک ذرہ کے برابر بھی تاریکی درمیان نہیں رہتی.یہ خدا ہے جس کے ان قولی فعلی تجلیات کے بعد

Page 309

۲۹۹ جو ہزاروں انعامات اپنے اندر رکھتی ہیں اور نہایت قوی اثر دل پر کرتی ہیں انسان کو سچا اور زندہ ایمان نصیب ہوتا ہے اور ایک سچا اور پاک تعلق خدا سے ہو کر نفسانی غلاظتیں دُور ہو جاتی ہیں.اور تمام کمزوریاں دُور ہو کر آسمانی روشنی کی تیز شعاعوں سے اندرونی تاریکی الوداع ہوتی ہے اور ایک عجیب تبدیلی ظہور میں آتی ہے.پس جو مذہب اس خدا کو جس کا ان صفات سے متصف ہونا ثابت ہے پیش نہیں کرتا اور ایمان کو صرف گذشتہ قصوں کہانیوں اور ایسی باتوں تک محدود رکھتا ہے جو دیکھنے اور کہنے میں نہیں آئی ہیں وہ مذہب ہر گز سچا مذہب نہیں ہے.اور ایسے فرضی خدا کی پیروی ایسی ہے کہ جیسے ایک مردہ سے توقع رکھنا کہ وہ زندوں جیسے کام کرے گا.ایسے خدا کا ہونا نہ ہونا برابر ہے جو ہمیشہ تازہ طور پر اپنے وجود کو آپ ثابت نہیں کرتا گویا وہ ایک بُت ہے جو نہ بولتا ہے اور نہ سکتا ہے اور نہ سوال کا جواب دیتا ہے اور نہ اپنی قادرانہ قوت کو ایسے طور پر دکھا سکتا ہے جو ایک پکا دہر یہ بھی اس میں شک نہ کر سکے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۱ ۳۲) وسوسہ ہشتم.انسان کو خدا کا ہم کلام تجویز کرنا ادب سے دُور ہے.فانی کو ذات ازلی ابدی سے کیا نسبت.اور مشتِ خاک کونو رو جوب سے کیا مشابہت؟ جواب.یہ وہم بھی سراسر بے اصل اور پوچ ہے.اور اس کے قلع و قمع کے لئے انسان کو اسی بات کا سمجھنا کافی ہے کہ جس کریم اور رحمن نے افراد کا ملہ بنی آدم کے دل میں اپنی معرفت کے لئے بے انتہا جوش ڈال دیا اور ایسا اپنی محبت اور اپنی اُنس اور اپنے شوق کی طرف کھینچا کہ وہ بالکل اپنی ہستی سے کھوئے گئے تو اس صورت میں یہ تجویز کرنا کہ خدا ان کا ہم کلام ہونا نہیں چاہتا اس قول کے مساوی ہے کہ گویا اُن کا تمام م عشق اور محبت ہی عبث ہے اور اُن کے سارے جوش یک طرفہ خیالات ہیں.لیکن خیال کرنا چاہئے کہ ایسا خیال کس قدر بے ہودہ ہے.کیا جس نے انسان کو اپنے تقرب کی استعداد بخشی اور اپنی محبت اور عشق کے جذبات سے بے قرار کر دیا اس کے کلام کے فیضان سے اس کا طالب محروم رہ سکتا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ خدا کا عشق اور خدا کی محبت اور خدا کے لئے بے خود اور محو ہو جانا یہ سب ممکن اور جائز ہے اور خدا کی شان میں کچھ حارج نہیں.مگر اپنے محبت صادق کے دل پر خدا کا الہام نازل ہونا غیر ممکن اور نا جائز ہے اور خدا کی شان میں حارج ہے.انسان کا خدا کی محبت کے بے انتہا دریا میں ڈوبنا اور پھر کسی مقام میں بس نہ کرنا اس بات پر شہادت قاطع ہے کہ اس کی عجیب الخلقت روح خدا کی معرفت کے لئے

Page 310

۳۰۰ بنائی گئی ہے.پس جو چیز خدا کی معرفت کے لئے بنائی گئی ہے اگر اس کو وسیلہ معرفت کامل کا جو الہام ہے عطا نہ ہو تو یہ کہنا پڑے گا کہ خدا نے اس کو اپنی معرفت کے لئے نہیں بنایا حالانکہ اس بات سے برہمو سماج والوں کو بھی انکار نہیں کہ انسان سلیم الفطرت کی رُوح خدا کی معرفت کی بھوکی اور پیاسی ہے.بس اب ان کو آپ ہی سمجھنا چاہئے کہ جس حالت میں انسان صحیح الفطرت خود دفطر تا خدا کی معرفت کا طالب ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ معرفت الہی کا ذریعہ کامل بجز الہام الہی اور کوئی دوسرا امر نہیں تو اس صورت میں اگر وہ معرفت کامل کا ذریعہ غیر ممکن الحصول بلکہ اس کا تلاش کرنا دُور از ادب ہے تو خدا کی حکمت پر بڑا اعتراض ہو گا کہ اُس نے انسان کو اپنی معرفت کے لئے جوش تو دیا پر ذریعہ معرفت عطا نہ کیا گویا جس قدر بھوک تھی اُس قدر روٹی دینا نہ چاہا.اور جس قدر پیاس لگا دی اس قدر پانی دینا منظور نہ ہوا.مگر دانشمند لوگ اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ ایسا خیال سراسر خدا کی عظیم الشان رحمتوں کی ناقدر شناسی ہے.جس حکیم مطلق نے انسان کی ساری سعادت اس میں رکھی ہے کہ وہ اسی دنیا میں الوہیت کی شعاعوں کو کامل طور پر دیکھے تا اس زبر دست کشش سے خدا کی طرف کھینچا جائے پھر ایسے کریم اور رحیم کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ انسان کو اپنی سعادت مطلوبہ اور اپنے مرتبۂ فطرتیہ تک پہنچانا نہیں چاہتا یہ حضرات بر ہمو کی عجب عقلمندی ہے.براہین احمدیہ ہر چہار تخصص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۳۰ تا ۲۳۲ حاشیہ نمبر۱۱) خدا نے انسانوں میں جس مطلب کا ارادہ کیا ہے پہلے سے اس مطلب کی تکمیل کے لئے تمام قو تیں خود پیدا کر رکھی ہیں مثلاً انسانی روحوں میں ایک قوت عشقی موجود ہے اور گو کوئی انسان اپنی غلطی سے دوسرے سے محبت کرے اور اپنے عشق کا محل کسی اور کو ٹھہرا وے لیکن عقل سلیم بڑی آسانی سے سمجھ سکتی ہے کہ یہ قوت عشقی اس لئے رُوح میں رکھی گئی ہے کہ تا وہ اپنے محبوب حقیقی سے جو اس کا خدا ہے اپنے سارے دل اور ساری طاقت اور سارے جوش سے پیار کرے.پس کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قوت عشقی جو انسانی روح میں موجود ہے جس کی موجیں نا پیدا کنار ہیں اور جس کے کمال تموج کے وقت انسان اپنی جان سے بھی دستبردار ہونے کو طیار ہوتا ہے.یہ خود بخو درُوح میں قدیم سے ہے ہر گز نہیں.اگر خدا نے انسان اور اپنی ذات میں عاشقانہ رشتہ قائم کرنے کے لئے رُوح میں خود قوت عشقی پیدا کر کے یہ رشتہ آپ پیدا نہیں کیا تو گویا یہ امر اتفاقی ہے کہ پر میٹر کی خوش قسمتی سے روحوں میں قوت عشقی پائی گئی اور اگر اس کے مخالف کوئی اتفاق ہوتا یعنی قوت عشقی روحوں میں نہ پائی جاتی تو کبھی

Page 311

٣٠١ لوگوں کو پر میشر کی طرف خیال بھی نہ آتا اور نہ پر میشر اس میں کوئی تدبیر کرسکتا کیونکہ نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی سوچنا چاہئے کہ پر میشر کا بھگتی اور عبادت اور نیک اعمال کے لئے مواخذہ کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ اُس نے خود محبت اور اطاعت کی قوتیں انسان کی رُوح کے اندر رکھی ہیں.الہذا وہ چاہتا ہے کہ انسان جس میں خود اوس نے یہ قوتیں رکھی ہیں اس کی محبت اور اطاعت میں محو ہو جائے ورنہ پر میشر میں یہ خواہش پیدا کیوں ہوئی کہ لوگ اس سے محبت کریں اس کی اطاعت کریں اور اس کی مرضی کے موافق رفتار اور گفتار بناویں.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸۵، ۳۸۶) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے یہ تو ہر ایک قوم کا دعویٰ ہے کہ بہتیرے ہم میں ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں مگر ثبوت طلب یہ بات ہے کہ خدا تعالیٰ بھی اُن سے محبت رکھتا ہے یا نہیں.اور خدا تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ پہلے تو اُن کے دلوں پر سے پردہ اٹھا وے جس پردہ کی وجہ سے اچھی طرح انسان خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا اور ایک دھندلی سی اور تاریک معرفت کے ساتھ اس کے وجود کا قائل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات امتحان کے وقت اس کے وجود سے ہی انکار کر بیٹھتا ہے.اور یہ پردہ اٹھایا جانا بجز مکالمہ الہیہ کے اور کسی صورت سے میتر نہیں آ سکتا پس انسان حقیقی معرفت کے چشمہ میں اس دن غوطہ مارتا ہے جس دن خدا تعالیٰ اس کو مخاطب کر کے انا الموجُود کی اس کو آپ بشارت دیتا ہے.تب انسان کی معرفت صرف اپنے قیاسی ڈھکوسلے یا محض منقولی خیالات تک محدود نہیں رہتی بلکہ خدا تعالیٰ سے ایسا قریب ہو جاتا ہے کہ گویا اس کو دیکھتا ہے اور یہ بیچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان اُسی دن انسان کو نصیب ہوتا ہے کہ جب اللہ جل شانہ اپنے وجود سے آپ خبر دیتا ہے.اور پھر دوسری علامت خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ ہے کہ اپنے پیارے بندوں کو صرف اپنے وجود کی خبر ہی نہیں دیتا بلکہ اپنی رحمت اور فضل کے آثار بھی خاص طور پر اُن پر ظاہر کرتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ اُن کی دعائیں جو ظاہری امیدوں سے زیادہ ہوں قبول فرما کر اپنے الہام اور کلام کے ذریعہ سے اُن کو اطلاع دے دیتا ہے.تب اُن کے دل تسلی پکڑ جاتے ہیں کہ یہ ہمارا قادر خدا ہے جو ہماری دعائیں سنتا اور ہم کو اطلاع دیتا اور مشکلات سے الشمس :١٠

Page 312

ہمیں نجات بخشتا ہے.اُسی روز سے نجات کا مسئلہ بھی سمجھ آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی پتہ لگتا ہے.اگر چہ جگانے اور متنبہ کرنے کے لئے کبھی کبھی غیروں کو بھی سچی خواب آ سکتی ہے مگر اس طریق کا مرتبہ اور شان اور رنگ اور ہے.یہ خدا تعالیٰ کا مکالمہ ہے جو خاص مقربوں سے ہی ہوتا ہے اور جب مقرب انسان دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنی خدائی کے جلال کے ساتھ اس پر مجتبی فرماتا ہے اور اپنی روح اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی محبت سے بھرے ہوئے لفظوں کے ساتھ اس کو قبول دعا کی بشارت دیتا ہے اور جس کسی سے یہ مکالمہ کثرت سے وقوع میں آتا ہے اُس کو نبی یا محدث کہتے ہیں.(حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۲ ۴۳) یا در ہے کہ بندہ تو حسن معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھری ہوئی محبت ظاہر کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ پر حد ہی کر دیتا ہے.اس کی تیز رفتار کے مقابل پر برق کی طرح اس کی طرف دوڑتا چلا آتا ہے.اور زمین و آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھی اس کی مخالفت پر کھڑا ہو تو اُن کو ایسا ذلیل اور بے دست و پا کر دیتا ہے جیسا کہ ایک مرا ہوا کپڑا اور محض ایک شخص کی خاطر کے لئے ایک دنیا کو ہلاک کر دیتا ہے اور اپنی زمین و آسمان کو اس کے خادم بنا دیتا ہے.اور اس کی کلام میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے تمام درو دیوار پر نور کی بارش کرتا ہے اور اس کی پوشاک میں اور اس کی خوراک میں اور اس مٹی میں بھی جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ایک برکت رکھ دیتا ہے اور اس کو نامراد ہلاک نہیں کرتا اور ہر ایک اعتراض جو اُس پر ہو اس کا آپ جواب دیتا ہے.اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے پائوں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے.وہ اس کے دشمنوں کے مقابل پر آپ نکلتا ہے.اور شریروں پر جو اس کو دُکھ دیتے ہیں آپ تلوار کھینچتا ہے ہر میدان میں اوس کو فتح دیتا ہے اور اپنی قضاء و قدر کے پوشیدہ راز اوس کو بتلاتا ہے.غرض پہلا خریدار اس کے روحانی حسن و جمال کا جوحسن معاملہ اور محبت ذاتیہ کے بعد پیدا ہوتا ہے خدا ہی ہے.پس کیا ہی بد قسمت وہ لوگ ہیں جو ایسا زمانہ پاویں اور ایسا سورج ان پر طلوع کرے اور وہ تاریکی میں بیٹھے رہیں.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۲۵) روحانی قالب کے کامل ہونے کے بعد محبت ذاتیہ الہیہ کا شعلہ انسان کے دل پر ایک رُوح کی طرح

Page 313

٣٠٣ پڑتا ہے اور دائمی حضور کی حالت اس کو بخش دیتا ہے.کمال کو پہنچتا ہے اور سبھی روحانی حسن اپنا پورا جلوہ دکھاتا ہے لیکن یہ حسن جو روحانی حسن ہے جس کو حسن معاملہ کے ساتھ موسوم کر سکتے ہیں یہ وہ حسن ہے جو اپنی قوی کششوں کے ساتھ حسن بشرہ سے بہت بڑھ کر ہے کیونکہ حسن بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہوگا جو جلد زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہو گی لیکن وہ روحانی حسن جس کو حسن معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے وہ اپنی کششوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے اور قبولیت دعا کی بھی در حقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا روحانی حسن والا انسان جس میں محبت الہیہ کی رُوح داخل ہو جاتی ہے جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دعا کرتا ہے اور اس دعا پر پورا پورا زور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میں حسن روحانی رکھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرہ ذرہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے.پس ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں.تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اس کی دُعا ئیں ان تمام ذرات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن ربا لو ہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علم طبعی اور فلسفہ میں نہیں اس کشش کی باعث ظاہر ہو جاتی ہیں اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے.جب سے کہ صانع مطلق نے عالم اجسام کو ذرات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرے میں وہ کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرہ روحانی حسن کا عاشقِ صادق ہے.اور ایسا ہی ہر ایک سعید روح بھی کیونکہ وہ حسنِ تجلبی گاہ حق ہے.وہی حسن تھا جس کے لئے فرمایا اُسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا ابلیس.اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اس حسن کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ حسن بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے.نوح میں وہی حسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جل شانہ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا.پھر اس کے بعد موسی بھی وہی حسن روحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا.پھر سب کے بعد سید الانبياء و خَيرُ الوَراى مولانا وسيدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے.دَنَا فَتَدَلَّى - فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ ادنی کے یعنی وہ نبی جناب البی البقرة : ۳۵ النجم : ١٠٩

Page 314

۳۰۴ کے بہت نزدیک چلا گیا اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اور اس طرح پر دونوں حقوق کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا اور دونوں قسم کا حسن روحانی ظاہر کیا.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۱۹ تا ۲۲۱) اُسی مضمون میں جو جلسہ میں پڑھا گیا مضمون کے پڑھنے والے نے یہ بیان کیا کہ پرمیشر غضب اور کینہ اور بغض اور حسد سے الگ ہے.شاید اس تقریر سے اس کا یہ مطلب ہے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کی نسبت غضب کا لفظ آیا ہے تو گویا وہ اپنے اس مضمون میں قرآن شریف کے مقابل پر دید کو اس تعلیم سے مبرا کرتا ہے کہ خدا غضب بھی کیا کرتا ہے مگر یہ اس کی سراسر غلطی ہے.یادر ہے کہ قرآن شریف میں کسی بے جا اور ظالمانہ غضب کی طرف خدا تعالیٰ کو منسوب نہیں کیا گیا بلکہ مطلب صرف اس قدر ہے کہ بوجہ نہایت پاکیزگی اور تقدس کے خدا تعالیٰ میں ہم رنگ غضب ایک صفت ہے اور وہ صفت تقاضا کرتی ہے کہ نافرمان کو جو سرکشی سے باز نہیں آتا اس کی سزا دی جائے اور ایک دوسری صفت ہم رنگ محبت ہے اور وہ تقاضا کرتی ہے کہ فرمانبردار کو اس کی اطاعت کی جزا دی جائے.پس سمجھانے کے لئے پہلی صفت کا نام غضب اور دوسری صفت کا نام محبت رکھا گیا ہے.لیکن نہ وہ غضب انسانی غضب کی طرح ہے اور نہ وہ محبت انسانی محبت کی طرح جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شی چلے یعنی خدا کی ذات اور صفات کی مانند کوئی چیز نہیں.بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ آریوں کے دید کی رو سے ان کا پر میشر کیوں گنہگاروں کو سزا دیتا ہے.یہاں تک کہ انسانی جون سے بہت نیچے پھینک کرسکتا ، سور، بندر، بلا بنا دیتا ہے آخر اس میں ایک ایسی صفت ماننی پڑتی ہے کہ جو اس فعل کے لئے وہ محرک ہو جاتی ہے.اسی صفت کا نام قرآن شریف میں غضب ہے.اگر اس میں اس قسم کی صفت موجود نہیں کہ وہ تقاضا کرتی ہے کہ پر میشر گنہگاروں کو سزا دے تو پھر کیوں پر میشر کی طبیعت سزا دینے کی طرف متوجہ ہوتی ہے؟ آخر اس میں ایک صفت ہے جو بدلہ دینے کے لئے توجہ دلاتی ہے.پس اسی صفت کا نام غضب ہے.لیکن وہ غضب نہ انسان کے غضب کی مانند ہے بلکہ خدا کی شان کی مانند.اسی غضب کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے.جب وہ ایک اچھے عمل کرنے والے پر اپنا انعام واکرام وارد کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اُس نے اس سے محبت کی اور جب وہ ایک بُر اعمل کرنے والے کو سزا دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اُس نے اُس پر غضب کیا غرض جیسا کہ ویدوں میں غضب کا ذکر ہے ایسا ہی قرآن شریف الشورى :۱۲

Page 315

۳۰۵ میں بھی ذکر ہے.صرف یہ فرق ہے کہ ویدوں نے خدا کے غضب کو اس حد تک پہنچا دیا کہ یہ تجویز کیا کہ وہ شدت غضب کی وجہ سے انسانوں کو گنہ کی وجہ سے کیڑے مکوڑے بنا دیتا ہے مگر قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کے غضب کو اس حد تک نہیں پہنچایا بلکہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا با وجود سزا دینے کے پھر بھی انسان کو انسان ہی رکھتا ہے کسی اور جون میں نہیں ڈالتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن شریف کی رو سے خدا تعالیٰ کی محبت اور رحمت اس کے غضب سے بڑھ کر ہے.اور وید کے رو سے گنہگاروں کی سزا نا پیدا کنار ہے اور پر میشر میں غضب ہی غضب ہے رحمت کا نام ونشان نہیں مگر قرآن شریف سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ انجام کار دوزخیوں پر ایسا زمانہ آوے گا کہ خدا سب پر رحم فرمائے گا.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۶ تا ۵۰) انجیل میں ہے کہ تم اس طرح دعا کرو کہ اے ہمارے باپ کہ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو.تیری بادشاہت آوے تیری مرضی جیسی آسمان پر ہے زمین پر آوے.ہماری روزانہ روٹی آج ہمیں بخش اور جس طرح ہم اپنے قرضداروں کو بخشتے ہیں تو اپنے قرض کو ہمیں بخش دے اور ہمیں آزمائش میں نہ ڈال بلکہ برائی سے بچا کیونکہ بادشاہت اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں.مگر قرآن کہتا ہے کہ یہ نہیں کہ زمین نقدیس سے خالی ہے بلکہ زمین پر بھی خدا کی تقدیس ہو رہی ہے نہ صرف آسمان پر جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا في الْأَرْضِ کے یعنی ذرہ ذرہ زمین کا اور آسمان کا خدا کی تحمید اور نقدیس کر رہا ہے اور جو کچھ اُن میں ہے وہ تحمید اور تقدیس میں مشغول ہے، پہاڑ اوس کے ذکر میں مشغول ہیں ، دریا اوس کے ذکر میں مشغول ہیں.درخت اس کے ذکر میں مشغول ہیں.اور بہت سے راستباز اس کے ذکر میں مشغول ہیں اور جو شخص دل اور زبان کے ساتھ اس کے ذکر میں مشغول نہیں اور خدا کے آگے فروتنی نہیں کرتا اس سے طرح طرح کے شکنجوں اور عذابوں سے قضا و قدر الہی فروتنی کرا رہی ہے اور جو کچھ فرشتوں کے بارے میں خدا کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ نہایت درجہ اطاعت کر رہے ہیں یہی تعریف زمین کے پات پات اور ذرہ ذرہ کی نسبت قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر ایک چیز اوس کی اطاعت کر رہی ہے.ایک پتہ بھی بجز اس کے امر کے گر نہیں سکتا اور بجز اس کے حکم کے نہ کوئی دوا شفا دے سکتی ہے اور نہ کوئی غذا موافق ہو سکتی ہے اور ہر ایک چیز غایت درجہ کے تذلل اور عبودیت سے خدا کے آستانہ پر گری ہوئی ہے اور اس بنی اسرائیل : ۴۵ الجمعة :٢

Page 316

۳۰۶ کی فرمانبرداری میں مستغرق ہے.پہاڑوں اور زمین کا ذرہ ذرہ اور دریاؤں اور سمندروں کا قطرہ قطرہ اور درختوں اور بوٹیوں کا پات پات اور ہر ایک جز اُن کا اور انسان اور حیوانات کے کل ذرات خدا کو پہچانتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی تحمید و تقدیس میں مشغول ہیں اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يُسبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ کے یعنی جیسے آسمان پر ہر یک چیز خدا کی تسبیح و تقدیس کر رہی ہے ویسے زمین پر بھی ہر ایک چیز اس کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے.پس کیا زمین پر خدا کی تحمید و تقدیس نہیں ہوتی ؟ ایسا کلمہ ایک کامل عارف کے منہ سے نہیں نکل سکتا بلکہ زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز تو شریعت کے احکام کی اطاعت کر رہی ہے اور کوئی چیز قضا و قدر کے احکام کے تابع ہے اور کوئی دونوں کی اطاعت میں کمر بستہ ہے.کیا بادل، کیا ہوا، کیا آگ، کیا زمین سب خدا کی اطاعت اور تقدیس میں محمد ہیں.اگر کوئی انسان الہی شریعت کے احکام کا سرکش ہے تو الہی قضا وقدر کے حکم کا تابع ہے.ان دونوں حکومتوں سے باہر کوئی نہیں.کسی نہ کسی آسمانی حکومت کا جوا ہر ایک کی گردن پر ہے.ہاں البتہ انسانی دلوں کی اصلاح اور فساد کے لحاظ سے غفلت اور ذکر الہی نوبت به نوبت زمین پر اپنا غلبہ کرتے ہیں مگر بغیر خدا کی حکمت اور مصلحت کے یہ مد و جز رخود بخود نہیں.خدا نے چاہا کہ زمین میں ایسا ہو سو ہو گیا.سو ہدایت اور ضلالت کا دور بھی دن رات کے دور کی طرح خدا کے قانون اور اذن کے موافق چل رہا ہے نہ خود بخود باوجود اس کے ہر ایک چیز اس کی آواز سنتی ہے اور اس کی پا کی یاد کرتی ہے مگر انجیل کہتی ہے کہ زمین خدا کی تقدیس سے خالی ہے.اس کا سبب اس انجیلی دُعا کے اگلے فقرہ میں بطور اشارہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ابھی اوس میں خدا کی بادشاہت نہیں آئی.اس لئے حکومت نہ ہونے کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے خدا کی مرضی ایسے طور سے زمین پر نافذ نہیں ہوسکی جیسا کہ آسمان پر نافذ ہے مگر قرآن کی تعلیم سراسر اس کے برخلاف ہے وہ تو صاف لفظوں میں کہتا ہے کہ کوئی چور، خونی، زانی ، کافر ، فاسق ، سرکش، جرائم پیشہ کسی قسم کی بدی زمین پر نہیں کر سکتا جب تک کہ آسمان پر سے اس کو اختیار نہ دیا جائے.پس کیونکر کہا جائے کہ آسمانی بادشاہت زمین پر نہیں.کیا کوئی مخالف قبضہ زمین پر خدا کے احکام کے جاری ہونے سے مزاحم ہے.سبحان اللہ ! ایسا ہرگز نہیں بلکہ خدا نے خود آسمان پر فرشتوں کے لئے جدا قانون بنایا اور زمین پر انسانوں کے لئے جدا اور خدا نے اپنی آسمانی بادشاہت میں فرشتوں کو کوئی اختیار نہیں دیا بلکہ اون کی فطرت میں ہی اطاعت کا مادہ رکھ دیا ہے وہ مخالفت کر ہی نہیں سکتے اور سہوا اور نسیان الجمعة : ٢

Page 317

۳۰۷.ان پر وارد نہیں ہو سکتا لیکن انسانی فطرت کو قبول ، عدم قبول کا اختیار دیا گیا ہے اور چونکہ یہ اختیار اوپر سے دیا گیا ہے اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ فاسق انسان کے وجود سے خدا کی بادشاہت زمین سے جاتی رہی بلکہ ہر رنگ میں خدا کی ہی بادشاہت ہے.ہاں صرف قانون دو ہیں ایک آسمانی فرشتوں کے لئے قضا و قدر کا قانون ہے کہ وہ بدی کر ہی نہیں سکتے اور ایک زمین پر انسانوں کے لئے خدا کے قضا و قدر کے متعلق ہے اور وہ یہ کہ آسمان سے اون کو بدی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے مگر جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو رُوح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بیچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہگار ہو چکے ہیں تو استغفار ان کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی.اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں.دیکھو آج کل طاعون بھی بطور سزا کے زمین پر اتری ہے اور خدا کے سرکش اوس سے ہلاک ہوتے جاتے ہیں پھر کیونکر کہا جائے کہ خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں یہ خیال مت کرو کہ اگر زمین پر خدا کی بادشاہت ہے تو پھر لوگوں سے جرائم کیوں ظہور میں آتے ہیں کیونکہ جرائم بھی خدا کے قانون قضاء و قدر کے نیچے ہیں سو اگر چہ وہ لوگ قانون شریعت سے باہر ہو جاتے ہیں مگر قانون تکوین یعنی قضاء و قدر سے وہ باہر نہیں ہو سکتے.پس کیونکر کہا جائے کہ جرائم پیشہ لوگ الہی سلطنت کا جوا اپنی گردن پر نہیں رکھتے.اگر خدا کا قانون ابھی سخت ہو جائے اور ہر یک زنا کرنے والے پر بجلی پڑے اور ہر یک چور کو یہ بیماری پیدا ہو کہ ہاتھ گل سڑ کر گر جائیں اور ہر ایک سرکش خدا کا منکر اس کے دین کا منکر طاعون سے مرے تو ایک ہفتہ گذرنے سے پہلے ہی تمام دنیا راستبازی اور نیک بختی کی چادر پہن سکتی ہے.پس خدا کی زمین پر بادشاہت تو ہے لیکن آسمانی قانون کی نرمی نے اس قدر آزادی دے رکھی ہے کہ جرائم پیشہ جلدی نہیں پکڑے جاتے ہاں سزائیں بھی ملتی رہتی ہیں.زلزلے آتے ہیں.بجلیاں پڑتی ہیں.کوہ آتش فشاں آتش بازی کی طرح مشتعل ہو کر ہزاروں جانوں کا نقصان کرتے جاتے ہیں.جہاز غرق ہوتے ہیں.ریل گاڑیوں کے ذریعہ سے صدہا جائیں تلف ہوتی ہیں.طوفان آتے ہیں.مکانات گرتے ہیں.سانپ کاٹتے ہیں.درندے پھاڑتے ہیں.وبائیں پڑتی ہیں.اور فنا کرنے کا نہ ایک دروازہ بلکہ ہزار ہا دروازے کھلے ہیں جو مجرمین کی پاداش کے لئے خدا کے قانون قدرت نے مقرر کر رکھے ہیں.پھر کیونکر کہا جائے کہ خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں.سچ یہی ہے کہ بادشاہت تو ہے.

Page 318

ہر ایک مجرم کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں پڑی ہیں اور پاؤں میں زنجیر ہیں مگر حکمت الہی نے اس قدر اپنے قانون کو نرم کر دیا ہے کہ وہ ہتکڑیاں اور وہ زنجیریں فی الفور اپنا اثر نہیں دکھاتی ہیں اور آخر اگر انسان باز نہ آوے تو دائی جہنم تک پہنچاتی ہیں اور اس عذاب میں ڈالتی ہیں جس سے ایک مجرم نہ زندہ رہے اور نہ مرے.غرض قانون دو ہیں.ایک وہ قانون جو فرشتوں کے متعلق ہے یعنی یہ کہ وہ محض اطاعت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور ان کی اطاعت محض فطرت روشن کا ایک خاصہ ہے.وہ گناہ نہیں کر سکتے مگر نیکی میں ترقی بھی نہیں کر سکتے (۲) دوسرا قانون وہ ہے جو انسانوں کے متعلق ہے.یعنی یہ کہ انسانوں کی فطرت میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ گنہ کر سکتے ہیں مگر نیکی میں ترقی بھی کر سکتے ہیں.یہ دونوں فطرتی قانون غیر متبدل ہیں اور جیسا کہ فرشتہ انسان نہیں بن سکتا ہے ایسا ہی انسان بھی فرشتہ نہیں ہو سکتا ہے یہ دونوں قانون بدل نہیں سکتے ازلی اور اٹل ہیں.اس لئے آسمان کا قانون زمین پر نہیں آ سکتا اور نہ زمین کا قانون فرشتوں کے متعلق ہو سکتا ہے.انسانی خطا کاریاں اگر تو بہ کے ساتھ ختم ہوں تو وہ انسان کو فرشتوں سے بہت اچھا بنا سکتی ہیں.کیونکہ فرشتوں میں ترقی کا مادہ نہیں انسان کے گنہ تو بہ سے بخشے جاتے ہیں.اور حکمت الہی نے بعض افراد میں سلسلہ خطا کاریوں کا باقی رکھا ہے تا وہ گناہ کر کے اپنی کمزوری پر اطلاع پاویں اور پھر تو بہ کر کے بخشے جاویں.یہی قانون ہے جو انسان کے لئے مقرر کیا گیا ہے اور اسی کو انسانوں کی فطرت چاہتی ہے.سہو و نسیان انسانی فطرت کا خاصہ ہے فرشتہ کا خاصہ نہیں پھر وہ قانون جو فرشتوں کے متعلق ہے انسانوں میں کیونکر نافذ ہو سکے.یہ خطا کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف کمزوری منسوب کی جاوے.صرف قانون کے نتائج ہیں جو زمین پر جاری ہورہے ہیں.نعوذ باللہ کیا خدا ایسا کمزور ہے جس کی بادشاہت اور قدرت اور جلال صرف آسمان تک ہی محدود ہے یا زمین کا کوئی اور خدا ہے جو زمین پر مخالفانہ قبضہ رکھتا ہے.اور عیسائیوں کو اس بات پر زور دینا اچھا نہیں کہ صرف آسمان میں ہی خدا کی بادشاہت ہے جو ابھی زمین پر نہیں آئی کیونکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان کچھ چیز نہیں اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان کچھ چیز نہیں جس پر خدا کی بادشاہت ہو اور زمین پر ابھی خدا کی بادشاہت آئی نہیں تو گویا خدا کی بادشاہت کسی جگہ بھی نہیں.ماسوا اس کے ہم خدا کی زمینی بادشاہت کو بچشم خود دیکھ رہے ہیں.اُس کے قانون کے موافق ہماری عمریں ختم ہو جاتی ہیں اور ہماری حالتیں بدلتی رہتی ہیں اور صد ہارنگ کے راحت اور رنج ہم دیکھتے ہیں.ہزار ہا لوگ خدا کے حکم سے مرتے ہیں اور ہزار ہا پیدا ہوتے ہیں.دعائیں قبول ہوتی ہیں.نشان ظاہر ہوتے ہیں.زمین ہزار ہا قسم کے نباتات اور پھل اور

Page 319

۳۰۹ پھول اس کے حکم سے پیدا کرتی ہے تو کیا یہ سب کچھ خدا کی بادشاہت کے بغیر ہو رہا ہے بلکہ آسمانی اجرام تو ایک ہی صورت اور منوال پر چلے آتے ہیں.اور ان میں تغییر و تبدیل جس سے ایک مغیر مبدل کا پتہ ملتا ہو کچھ محسوس نہیں ہوتی مگر زمین ہزار ہا تغیرات اور انقلابات اور متبدلات کا نشانہ ہورہی ہے.ہر روز کروڑ ہا انسان دنیا سے گذرتے ہیں اور کروڑہا پیدا ہوتے ہیں اور ہر ایک پہلو اور ہر ایک طور سے ایک مقتدر صانع کا تصرف محسوس ہو رہا ہے تو کیا ابھی تک خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں اور انجیل نے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی کہ کیوں ابھی تک خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں آئی.البتہ مسیح کا باغ میں اپنے بچ جانے کے لئے ساری رات دعا کرنا اور دُعا قبول بھی ہو جانا جیسا کہ عبرانیاں ۵ آیت ۷ میں لکھا ہے.مگر پھر بھی خدا کا اس کے چھڑانے پر قادر نہ ہونا یہ بزعم عیسائیاں ایک دلیل ہو سکتی ہے کہ اس زمانہ میں خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں تھی.مگر ہم نے اس سے بڑھ کر ابتلا دیکھے ہیں اور اُن سے نجات پائی ہے ہم کیونکر خدا کی بادشاہت کا انکار کر سکتے ہیں.کیا وہ خون کا مقدمہ جو میرے قتل کرنے کے لئے مارٹن کلارک کی طرف سے عدالت کپتان ڈگلس میں پیش ہوا تھا.وہ اوس مقدمہ سے کچھ خفیف تھا جو محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے نہ کسی خون کے اتہام سے یہودیوں کی طرف سے عدالت پیلاطوس میں دائر کیا گیا تھا مگر چونکہ خدا زمین کا بھی بادشاہ ہے جیسا کہ آسمان کا اس لئے اس نے اس مقدمہ کی پہلے سے مجھے خبر دیدی کہ یہ ابتلا آنے والا ہے اور پھر خبر دے دی کہ میں تم کو بری کروں گا اور وہ خبر صد ہا انسانوں کو قبل از وقت سنائی گئی.اور آخر مجھے بری کیا گیا.پس یہ خدا کی بادشاہت تھی جس نے اس مقدمہ سے مجھے بچالیا جو مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں کے اتفاق سے مجھ پر کھڑا کیا گیا تھا.ایسا ہی نہ ایک دفعہ بلکہ بیسیوں دفعہ میں نے خدا کی بادشاہت کو زمین پر دیکھا اور مجھے خدا کی اس آیت پر ایمان لانا پڑا کہ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ے یعنی زمین پر بھی خدا کی بادشاہت ہے اور آسمان پر بھی اور پھر اس آیت پر ایمان لانا پڑا کہ إِنَّمَا أَمْرُةَ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ لا یعنی تمام زمین و آسمان اس کی اطاعت کر رہے ہیں.جب ایک کام کو چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا تو فی الفور وہ کام ہو جاتا ہے اور پھر فرماتا ہے وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ سے یعنی خدا اپنے ارادہ پر غالب ہے مگر اکثر لوگ خدا کے قہر اور جبروت سے بے خبر ہیں.ا الحديد :٣ ياس : ۸۳ يوسف : ٢٢

Page 320

۳۱۰ غرض یہ تو انجیل کی دُعا ہے جو انسانوں کو خدا کی رحمت سے نومید کرتی ہے اور اس کی ربوبیت اور افاضہ اور جزا سزا سے عیسائیوں کو بے باک کرتی ہے اور اس کو زمین پر مدد دینے کے قابل نہیں جانتی جب تک اس کی بادشاہت زمین پر نہ آوے لیکن اس کے مقابل پر جودُعا خدا نے مسلمانوں کو قرآن میں سکھلائی ہے وہ اس بات کو پیش کرتی ہے کہ زمین پر خُدا مسلوب السلطنت لوگوں کی طرح بے کار نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مجازات زمین پر جاری ہے اور وہ اپنے عابدوں کو مدد دینے کی طاقت رکھتا ہے اور مجرموں کو اپنے غضب سے ہلاک کر سکتا ہے.وہ دعا یہ ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.إيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ - اِهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ - اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ امين ترجمہ: وہ خدا ہی ہے جو تمام تعریفوں کا مستحق ہے یعنی اس کی بادشاہت میں کوئی نقص نہیں اور اس کی خوبیوں کے لئے کوئی ایسی حالت منتظرہ باقی نہیں جو آج نہیں مگر کل حاصل ہوگی اور اس کی بادشاہت کے لوازم میں سے کوئی چیز بے کار نہیں تمام عالموں کی پرورش کر رہا ہے.بغیر عوض اعمال کے رحمت کرتا ہے اور نیز بعوض اعمال رحمت کرتا ہے.جزا سزا وقت مقررہ پر دیتا ہے.اُسی کی ہم عبادت کرتے ہیں اور اسی سے ہم مدد چاہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہمیں تمام نعمتوں کی راہیں دکھلا اور غضب کی راہوں اور ضلالت کی راہوں سے دُور رکھ.بیہ دعا جو سورۃ فاتحہ میں ہے انجیل کی دُعا سے بالکل نقیض ہے کیونکہ انجیل میں زمین پر خدا کی موجودہ بادشاہت ہونے سے انکار کیا گیا ہے.پس انجیل کے رو سے نہ زمین پر خدا کی ربوبیت کچھ کام کر رہی ہے نہ رحمانیت نہ رحیمیت نہ قدرت جزا سزا کیونکہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں آئی.مگر سورۃ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت موجود ہے.اسی لئے سورۃ فاتحہ میں تمام لوازم بادشاہت کے بیان کئے گئے ہیں.ظاہر ہے کہ بادشاہ میں یہ صفات ہونی چاہئیں کہ وہ لوگوں کی پرورش پر قدرت رکھتا ہو.سوسورۃ فاتحہ میں ربّ الـعـالـمـيـن کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا گیا ہے.پھر دوسری صفت بادشاہ کی یہ چاہئے کہ جو کچھ اس کی رعایا کو اپنی آبادی کے لئے ضروری سامان کی حاجت ہے وہ بغیر عوض ان کی خدمات کے خود رحم خسروانہ سے بجا لاوے سو الرحمن کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کر دیا ہے.تیسری صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جن کاموں کو اپنی کوشش سے رعایا انجام تک نہ الفاتحة :۲ تا ۷

Page 321

۳۱۱ پہنچا سکے ان کے انجام کے لئے مناسب طور پر مدد دے.سو الرَّحیم کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا ہے.چوتھی صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جزا وسزا پر قادر ہوتا سیاست مدنی کے کام میں خلل نہ پڑے.سومالک یوم الدین کے لفظ سے اس صفت کو ظاہر کر دیا ہے.خلاصہ کام یہ کہ سورۃ موصوفہ بالا نے تمام وہ لوازم بادشاہت پیش کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت اور بادشاہی تصرفات موجود ہیں.سنو اور سمجھو کہ بڑی معرفت یہی ہے کہ زمین کا ذرہ ذرہ بھی ایسا ہی خدا کے قبضہ اقتدار میں ہے جیسا کہ آسمان کا ذرہ ذرہ خدا کی بادشاہت میں ہے.اور جیسا کہ آسمان پر ایک عظیم الشان تجلتی ہے زمین پر بھی ایک عظیم الشان حجتی ہے بلکہ آسمان کی تجلی تو ایک ایمانی امر ہے.عام انسان نہ آسمان پر گئے نہ اوس کا مشاہدہ کیا مگر زمین پر جو خدا کی بادشاہت کی تجلی ہے وہ تو صریح ہر ایک شخص کو آنکھوں سے نظر آ رہی ہے.ہر ایک انسان خواہ کیسا ہی دولت مند ہو اپنی خواہش کے مخالف موت کا پیالہ پیتا ہے.پس دیکھو اس شاہ حقیقی کے حکم کی کیسی زمین پر تجلی ہے کہ جب حکم آ جاتا ہے تو کوئی اپنی موت کو ایک سیکنڈ بھی روک نہیں سکتا.ہر ایک خبیث اور نا قابلِ علاج مرض جب دامن گیر ہوتی ہے تو کوئی طبیب ڈاکٹر اس کو دُور نہیں کر سکتا.پس غور کرو یہ کیسی خدا کی بادشاہت کی زمین پر تجلی ہے جو اس کے حکم رڈ نہیں ہو سکتے.پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ آئندہ کسی زمانہ میں آئے گی.دیکھو اسی زمانہ میں خدا کے آسمانی حکم نے طاعون کے ساتھ زمین کو ہلا دیا تا اس کے مسیح موعود کے لئے ایک نشان ہو پس کون ہے جو اس کی مرضی کے سوا اس کو دُور کر سکے پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں.ہاں ایک بدکار قیدیوں کی طرح اس کی زمین میں زندگی بسر کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کبھی نہ مرے لیکن خدا کی کچی بادشاہت اس کو ہلاک کر دیتی ہے اور وہ آخر پنجہ ملک الموت میں گرفتار ہو جاتا ہے.پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں.دیکھو زمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑہا انسان مر جاتے ہیں اور کروڑہا اوس کے ارادہ سے پیدا ہو جاتے ہیں اور کروڑہا اُس کی مرضی سے فقیر سے امیر اور امیر سے فقیر ہو جاتے ہیں پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں.آسمانوں پر تو فرشتے رہتے ہیں مگر زمین پر آدمی بھی ہیں اور فرشتے بھی جو خدا کے کارکن ہیں اور اس کی سلطنت کے خادم ہیں جو انسانوں کے مختلف کاموں کے محافظ چھوڑے گئے ہیں اور وہ ہر وقت خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنی رپورٹیں بھیجتے رہتے ہیں.پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ خدا سب سے زیادہ اپنی زمینی بادشاہت سے

Page 322

۳۱۲ پہنچانا گیا ہے کیونکہ ہر ایک شخص خیال کرتا ہے کہ آسمان کا راز مخفی اور غیر مشہود ہے.بلکہ حال کے زمانہ میں قریبا تمام عیسائی اور ان کے فلاسفر آسمانوں کے وجود کے ہی قائل نہیں جن پر خدا کی بادشاہت کا انجیلوں میں سارا مدار رکھا گیا ہے مگر زمین تو فی الواقع ایک کرہ ہمارے پاؤں کے نیچے ہے.اور ہزار ہا قضا و قدر کے امور اس پر ظاہر ہورہے ہیں جو خود سمجھ آتا ہے کہ یہ سب کچھ تغیر و تبدل اور حدوث اور فتنا کسی خاص مالک کے حکم سے ہو رہا ہے پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر ابھی خدا کی بادشاہت نہیں...ہمارے خدائے عزّ و جلّ نے سورۃ فاتحہ میں نہ آسمان کا نام لیا نہ زمین کا.اور یہ کہہ کر حقیقت سے ہمیں خبر دے دی کہ وہ رب العالمین ہے یعنی جہاں تک آبادیاں ہیں اور جہاں تک کسی قسم کی مخلوق کا وجود موجود ہے.خواہ اجسام خواہ ارواح ان سب کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا خدا ہے جو ہر وقت ان کی پرورش کرتا ہے اور ان کے مناسب حال ان کا انتظام کر رہا ہے.اور تمام عالموں پر ہر وقت ہر دم اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور جزا سزا کا جاری ہے.اور یا درہے کہ سورۃ فاتحہ میں فقرہ مالک یوم الدین سے صرف یہ مراد نہیں ہے کہ قیامت کو جزا سزا ہوگی بلکہ قرآن شریف میں بار بار اور صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ قیامت تو مجازات گبری کا وقت ہے.مگر ایک قسم کی مجازات اسی دنیا میں شروع ہے جس کی طرف آیت يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانَا اشارہ کرتی ہے.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹صفحه ۳۲ تا ۴۲ ) واضح ہو کہ قرآن شریف کی تعلیم کی رُو سے خدا جیسا کہ آسمان پر ہے زمین پر بھی ہے جیسا کہ اوس نے فرمایا وَ هُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَهُ وَ فِي الْأَرْضِ اِلہ کے یعنی زمین میں وہی خدا ہے اور وہی آسمان میں خدا.اور فرمایا کہ کسی پوشیدہ مشورہ میں تین آدمی نہیں ہوتے جن کے ساتھ چوتھا خدا نہیں ہوتا اور فرمایا کہ وہ غیر محدود ہے جیسا کہ اس آیت میں لکھا ہے لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ سکے یعنی آنکھیں اس کے انتہا کو نہیں پاسکتیں اور وہ آنکھوں کے انتہا تک پہنچتا ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ یعنی ہم انسان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہیں.اور یہ بھی ایک جگہ فرمایا کہ خدا ہر ایک چیز پر محیط ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ یعنی خدا وہ ہے جو انسان اور اُس کے دل میں حائل ہو جاتا ہے.اور یہ بھی فرمایا کہ الله نُورُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ ل الانفال :۳۰ - الزخرف : ۸۵ ۳ الانعام : ۱۰۴ ۲ : ۱۷ ۵ الانفال : ۲۵ - النور : ۳۶

Page 323

۳۱۳ یعنی خدا وہ ہے جو زمین اور آسمان میں اسی کے چہرہ کی چمک ہے اور اس کے بغیر سب تاریکی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ كُلِّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ.وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ لا یعنی ہر ایک وجود ہلاک ہونے والا اور تغیر پذیر ہے اور وہ جو باقی رہنے والا ہے وہی خدا ہے یعنی ہر ایک چیز فنا کو قبول کرتی ہے اور تغیر قبول کرتی ہے مگر انسانی فطرت اس بات کے ماننے کے لئے مجبور ہے کہ اس تمام عالم ارضی اور سماوی میں ایک ایسی ذات بھی ہے کہ جب سب پر فنا اور تغیر وارد ہواس پر تغیر اور فتا وارد نہیں ہوگی.وہ اپنے حال پر باقی رہتا ہے وہی خدا ہے لیکن چونکہ زمین پر گناہ اور معصیت اور نا پاک کام بھی ظاہر ہوتے ہیں اور خدا کو صرف زمین تک محدود رکھنے والے آخر کار بہت پرست اور مخلوق پرست ہو جاتے ہیں.جیسا کہ تمام ہندو ہو گئے.اس لئے قرآن شریف میں ایک طرف تو یہ بیان کیا کہ خدا کا اپنی مخلوق سے شدید تعلق ہے اور وہ ہر ایک جان کی جان ہے اور ہر ایک ہستی اُس کے سہارے سے ہے.پھر دوسری طرف اس غلطی سے محفوظ رکھنے کے لئے کہ تا اس کے تعلق سے جو انسان کے ساتھ ہے کوئی شخص انسان کو اس کا عین ہی نہ سمجھ بیٹھے جیسا کہ ویدانت والے سمجھتے ہیں.یہ بھی فرما دیا کہ وہ سب سے برتر اور تمام مخلوقات سے وراء الوراء مقام پر ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں عرش کہتے ہیں.اور عرش کوئی مخلوق چیز نہیں ہے صرف وراء الوراء مرتبہ کا نام ہے نہ یہ کہ کوئی ایسا تخت ہے جس پر خدا تعالیٰ کو انسان کی طرح بیٹھا ہوا تصور کیا جائے بلکہ جو مخلوق سے بہت دور اور تنزہ اور تقدس کا مقام ہے اس کو عرش کہتے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ سب کے ساتھ خالقیت اور مخلوقیت کا تعلق قائم کر کے پھر عرش پر قائم ہو گیا یعنی تمام تعلقات کے بعد الگ کا الگ رہا اور مخلوق کے ساتھ مخلوط نہیں ہوا.غرض خدا کا انسان کے ساتھ ہونا اور ہر ایک چیز پر محیط ہونا یہ خدا کی تشبیہی صفت ہے.اور خدا نے قرآن شریف میں اس لئے اس صفت کا ذکر کیا ہے کہ تا وہ انسان پر اپنا قرب ثابت کرے اور خدا کا تمام مخلوقات سے وراء الوراء ہونا اور سب سے برتر اور اعلیٰ اور دُور تر ہونا اور اس تنزہ اور تقدس کے مقام پر ہونا جو مخلوقیت سے دُور ہے جو عرش کے نام سے پکارا جاتا ہے اس صفت کا نام تنزیہی صفت ہے اور خدا نے قرآن شریف میں اس لئے اس صفت کا ذکر کیا تا وہ اس سے اپنی توحید اور اپنا وحدہ لاشریک ہونا اور مخلوق کی صفات سے اپنی ذات کا منزہ ہونا ثابت کرے.دوسری قوموں نے خدا تعالیٰ کی ذات کی نسبت یا تو تنزیہی صفت اختیار کی ہے یعنی نرگن کے نام سے پکارا ہے اور ل الرحمن : ۲۸،۲۷

Page 324

۳۱۴ یا اس کو سرگن مان کر ایسی تشبیہ قرار دی ہے کہ گویا وہ عین مخلوقات ہے اور ان دونوں صفات کو جمع نہیں کیا.مگر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ان دونوں صفات کے آئینہ میں اپنا چہرہ دکھلایا ہے اور یہی کمال توحید ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۹۷ تا ۹۹) مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھو اوس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے.خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا میں ہی پیدا کرنے والا ہوں.میں ہی زمین آسمان اور روحوں اور اُن کی تمام قوتوں کا خالق ہوں.میں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے.ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا میں پیدا کرنے والا ہوں.قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے.اُس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے.اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر چار ہیں جو دید کے رُو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں مگر قرآنی اصطلاح کی رُو سے اون کا نام فرشتے بھی ہے.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹صفحه ۳ ۴۵ تا ۶ ۴۵) عرش سے مراد قرآن شریف میں وہ مقام ہے جو تشبیہی مرتبہ سے بالاتر اور ہر ایک عالم سے برتر اور نہاں در نہاں اور تقدس اور تنزہ کا مقام ہے وہ کوئی ایسی جگہ نہیں کہ پتھر یا اینٹ یا کسی اور چیز سے بنائی گئی ہو اور خدا اس پر بیٹھا ہوا ہے.اسی لئے عرش کو غیر مخلوق کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ جیسا کہ یہ فرماتا ہے کہ کبھی وہ مومن کے دل پر اپنی تجلی کرتا ہے ایسا ہی وہ فرماتا ہے کہ عرش پر اُس کی تجلی ہوتی ہے اور صاف طور پر فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز کو میں نے اٹھایا ہوا ہے.یہ کہیں نہیں کہا کہ کسی چیز نے مجھے بھی اٹھایا ہوا ہے اور عرش جو ہر ایک عالم سے برتر مقام ہے وہ اُس کی تنزیہی صفت کا مظہر ہے اور ہم بار بارلکھ چکے ہیں کہ ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں.ایک صفت تشبیہی دوسری صفت تنزیہی اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرنا ضروری تھا یعنی ایک تشبیہی صفت اور دوسری تنزیہی صفت.اس لئے خدا نے تشبیہی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہاتھ ، آنکھ، محبت ، غضب وغیرہ صفات قرآن شریف میں بیان

Page 325

۳۱۵ فرمائے اور پھر جبکہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ کہہ دیا اور بعض جگہ ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ کہہ دیا جیسا کہ سورۃ رعد جزو نمبر 11 میں بھی یہ آیت ہے.اللَّهُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَوتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرُش لے (ترجمہ) تمہارا خدا وہ خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو اور پھر اُس نے عرش پر قرار پکڑا.اس آیت کے ظاہری معنی کی رو سے اس جگہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پہلے خدا کا عرش پر قرار نہ تھا؟ اس کا یہی جواب ہے کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے بلکہ وراء الوراء ہونے کی ایک حالت ہے جو اس کی صفت ہے پس جبکہ خدا نے زمین و آسمان اور ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور ظلی طور پر اپنے نور سے سورج چاند اور ستاروں کو نور بخشا اور انسان کو بھی استعارہ کے طور پر اپنی شکل پر پیدا کیا اور اپنے اخلاق کریمہ اُس میں پھونک دیئے تو اس طور سے خدا نے اپنے لئے ایک تشبیہ قائم کی مگر چونکہ وہ ہر ایک تشبیہہ سے پاک ہے اس لئے عرش پر قرار پکڑنے سے اپنے تنزہ کا ذکر کر دیا.خلاصہ یہ کہ وہ سب کچھ پیدا کر کے پھر مخلوق کا عین نہیں ہے بلکہ سب سے الگ اور وراء الوراء مقام پر ہے.پر چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۶ ، ۲۷۷) ایک اور اعتراض مخالف لوگ پیش کرتے ہیں.اور وہ یہ کہ قرآن شریف کے بعض مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھا ئیں گے.جس سے اشارۃ النص کے طور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں چار فرشتے عرش کو اٹھاتے ہیں.اور اب اس جگہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ تو اس بات سے پاک اور برتر ہے کہ کوئی اُس کے عرش کو اٹھا دے.اس کا جواب یہ ہے کہ ابھی تم سُن چکے ہو کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے جو اٹھائی جائے یا اٹھانے کے لائق ہو بلکہ صرف تنزہ اور تقدس کے مقام کا نام عرش ہے.اسی لئے اس کو غیر مخلوق کہتے ہیں.ورنہ ایک مجسم چیز خدا کی خالقیت سے کیونکر باہر رہ سکتی ہے.اور عرش کی نسبت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب استعارات ہیں.پس اسی سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسا اعتراض محض حماقت ہے.اب ہم فرشتوں کے اٹھانے کا اصل نکتہ ناظرین کو سُناتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے تنزہ کے مقام میں یعنی اس مقام میں جبکہ اس کی صفت تنزہ اس کی تمام صفات کو روپوش کر کے اس کو وراء الوراء اور نہاں در نہاں کر دیتی ہے جس مقام کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں عرش ہے تب خدا عقول انسانیہ سے بالا تر ہو جاتا ہے اور عقل کو طاقت الرعد : ٣

Page 326

۳۱۶ نہیں رہتی کہ اس کو دریافت کر سکے تب اس کی چار صفتیں جن کو چار فرشتوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.جو دنیا میں ظاہر ہو چکی ہیں اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہیں.(۱) اوّل ربوبیت جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی روحانی اور جسمانی تکمیل کرتا ہے چنانچہ رُوح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے تقاضا سے ہے.اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اس کے خارق عادت نشان ظہور میں آنار بوبیت کے تقاضا سے ہے.(۲) دوم خدا کی رحمانیت جو ظہور میں آچکی ہے.یعنی جو کچھ اس نے بغیر پاداش اعمال بے شمار نعمتیں انسان کے لئے میسر کی ہیں.یہ صفت بھی اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے.(۳) تیسری خدا کی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ نیک عمل کرنے والوں کو اول تو صفت رحمانیت کے تقاضا سے نیک اعمال کی طاقتیں بخشتا ہے اور پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال اُن سے ظہور میں لاتا ہے اور اس طرح پر ان کو آفات سے بچاتا ہے.یہ صفت بھی اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے.(۴) چوتھی صفت مَالِكِ يَوْمِ الدِّین ہے.یہ بھی اس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا دیتا ہے.یہ چاروں صفتیں ہیں جو اس کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں یعنی اس کے پوشیدہ وجود کا ان صفات کے ذریعہ سے اس دنیا میں پتہ لگتا ہے.اور یہ معرفت عالم آخرت میں دو چند ہو جائے گی گویا بجائے چار کے آٹھ فرشتے ہو جائیں گے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۹،۲۷۸) تو حید ایک نور ہے جو آفاقی و انفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے اور وجود کے ذرّہ ذرّہ میں سرایت کر جاتا ہے پس وہ بجز خدا اور اس کے رسول کے ذریعہ کے محض اپنی طاقت سے کیونکر حاصل ہو سکتا ہے.انسان کا فقط یہ کام ہے کہ اپنی خودی پر موت وارد کرے اور اس شیطانی نخوت کو چھوڑ دے کہ میں علوم میں پرورش یافتہ ہوں اور ایک جاہل کی طرح اپنے تئیں تصور کرے اور دعا میں لگا رہے تب تو حید کا نور خدا کی طرف سے اس پر نازل ہو گا.اور ایک نئی زندگی اس کو بخشے گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۴۸) پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے.اس لئے یہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نبی کے توحید مل سکے.نبی خدا کی صورت

Page 327

۳۱۷ دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں بھیجتا ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دکھلاتا ہے.تب دنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے.پس جن لوگوں کا وجود ضروری طور پر خدا کے قدیم قانون ازلی کے رو سے خداشناسی کے لئے ذریعہ مقرر ہو چکا ہے اُن پر ایمان لانا توحید کی ایک جزو ہے اور بجز اس ایمان کے تو حید کامل نہیں ہو سکتی کیونکہ ممکن نہیں کہ بغیر اُن آسمانی نشانوں اور قدرت نما عجائبات کے جو نبی دکھلاتے ہیں اور معرفت تک پہنچاتے ہیں وہ خالص تو حید جو چشمہ یقین کامل سے پیدا ہوتی ہے میسر آ سکے.وہی ایک قوم ہے جو خدا نما ہے جن کے ذریعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقیق در دقیق اور مخفی در مخفی اور غیب الغیب ہے ظاہر ہوتا ہے.اور ہمیشہ سے وہ کنز مخفی جس کا نام خدا ہے نبیوں کے ذریعہ سے ہی شناخت کیا گیا ہے.ورنہ وہ تو حید جو خدا کے نزدیک تو حید کہلاتی ہے جس پر عملی رنگ کامل طور پر چڑھا ہوا ہوتا ہے اس کا حاصل ہونا بغیر ذریعہ نبی کے جیسا کہ خلاف عقل ہے ویسا ہی خلاف تجارب سالکین ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۶،۱۱۵) یادر ہے کہ حقیقی تو حید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو خواہ انسان ہو خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا.کوئی رازق نہ ماننا.کوئی معرز اور مذل خیال نہ کرنا.کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اُسی سے خاص کرنا.اپنی عبادت اُسی سے خاص کرنا.اپنا تذلل اُسی سے خاص کرنا.اپنی اُمید میں اُسی سے خاص کرنا.اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا.پس کوئی تو حید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہوسکتی.اوّل ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا.دوم صفات کے لحاظ سے توحید.یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا اور جو بظاہر ربّ الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا.تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید.یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گردانا اور اُسی میں کھوئے جانا.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۵۰،۳۴۹)

Page 328

۳۱۸ آج کل تو حید اور ہستی الہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں.عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا ہے.لیکن جو کچھ کہا اور لکھا وہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا ہے نہ کہ ایک مُردہ مصلوب اور عاجز خدا کی بابت.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اٹھائے گا اس کو آخر کار اُسی خدا کی طرف آنا پڑے گا جو اسلام نے پیش کیا ہے.کیونکہ صحیفہ فطرت کے ایک ایک پتے میں اس کا پتہ ملتا ہے.اور بالطبع انسان اُسی خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحه ۵۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) حضرات عیسائی خوب یاد رکھیں کہ مسیح علیہ السلام کا نمونہ قیامت ہونا سرمو ثابت نہیں اور نہ عیسائی جی اُٹھے بلکہ مردہ اور سب مردوں سے اول درجہ پر اور تنگ و تاریک قبروں میں پڑے ہوئے اور شرک کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں.نہ ایمانی رُوح اُن میں ہے نہ ایمانی روح کی برکت.بلکہ ادنی سے ادنی درجہ توحید کا جو مخلوق پرستی سے پر ہیز کرنا ہے وہ بھی اُن کو نصیب نہیں ہوا اور ایک اپنے جیسے عاجز اور نا تو ان کو خالق سمجھ کر اس کی پرستش کر رہے ہیں.یادر ہے کہ توحید کے تین درجے ہیں.سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنے جیسی مخلوق کی پرستش نہ کریں.نہ پتھر کی.نہ آگ کی.نہ آدمی کی.نہ کسی ستارہ کی.دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب پر بھی ایسے نہ گریں کہ گویا ایک قسم کا اُن کور بوبیت کے کارخانہ میں مستقل دخیل قرار دیں.بلکہ ہمیشہ مسبب پر نظر رہے نہ اسباب پر.تیسرا درجہ توحید کا یہ ہے کہ تجلیات الہیہ کا کامل مشاہدہ کر کے ہر یک غیر کے وجود کو کالعدم قرار دیں اور ایسا ہی اپنے وجود کو بھی.غرض ہر یک چیز نظر میں فانی دکھائی دے بجز اللہ تعالیٰ کی ذات کامل الصفات کے.یہی روحانی زندگی ہے کہ یہ مراتب ثلاثہ تو حید کے حاصل ہو جائیں.اب غور کر کے دیکھ لو کہ روحانی زندگی کے تمام جاودانی چشمے محض حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی طفیل دنیا میں آئے ہیں.یہی امت ہے کہ اگر چہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کی مانند خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہو جاتی ہے.اور اگر چہ رسول نہیں مگر رسولوں کی مانند خدا تعالیٰ کے روشن نشان اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور روحانی زندگی کے دریا اس میں بہتے ہیں اور کوئی نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکے.کوئی ہے کہ جو برکات اور نشانوں کے دکھلانے کے لئے مقابل میں کھڑا ہو کر ہمارے اس دعویٰ کا جواب دے!!! آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۳ ۲۲۴) افسوس ہے کہ مجھے وہ لفظ نہیں ملے جس میں غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی برائیاں بیان کر

Page 329

۳۱۹ سکوں.لوگوں کے پاس جا کر منت خوشامد کرتے ہیں.یہ بات خدا تعالی کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے پس وہ اس سے ہٹتا اور اسے دور پھینک دیتا ہے میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں.گو یہ امر اس طرح پر نہیں ہے مگر سمجھ میں خوب آ سکتا ہے کہ جیسے ایک مرد غیور کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہوئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مرد ایسی حالت میں اس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا بلکہ بسا اوقات ایسی وارد تیں ہو جاتی ہیں ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کا ہے.عبودیت اور دعا خاص اُسی ذات کے مد مقابل ہیں.وہ پسند نہیں کر سکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جائے یا پکارا جاوے.پس خوب یا درکھو! اور پھر یا درکھو! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے نماز اور توحید کچھ ہی کہو کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے، اس وقت بے برکت اور بے سود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو !!! (الحکم مورخه ۱۲ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۶ - ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۰۶، ۱۰۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) شرک کی کئی قسم ہیں ایک تو وہ موٹا اور صریح شرک ہے جس میں ہندو عیسائی یہود اور دوسرے بت پرست لوگ گرفتار ہیں.جس میں کسی انسان یا پتھر یا اور بے جان چیزوں یا قوتوں یا خیالی دیویوں اور دیوتاؤں کو خدا بنا لیا گیا ہے.اگر چہ یہ شرک ابھی تک دنیا میں موجود ہے لیکن یہ زمانہ روشنی اور تعلیم کا کچھ ایسا زمانہ ہے کہ عقلیں اس قسم کے شرک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئی ہیں.یہ جدا امر ہے کہ وہ قومی مذہب کی حیثیت سے بظاہر ان بے ہودگیوں کا اقرار کریں لیکن دراصل بالطبع لوگ ان سے متنفر ہوتے جاتے ہیں.مگر ایک اور قسم کا شرک ہے جو مخفی طور پر زہر کی طرح اثر کر رہا ہے اور وہ اس زمانہ میں بہت بڑھتا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد بالکل نہیں رہا.ہم یہ ہرگز نہیں کہتے اور نہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ اسباب کی رعایت بالکل نہ کی جاوے کیونکہ خدا تعالیٰ نے رعایت اسباب کی ترغیب دی ہے اور اس حد تک جہاں تک یہ رعایت ضروری ہے.اگر رعایت اسباب نہ کی جاوے تو انسانی قوتوں کی بے حرمتی کرنا اور خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان فعل کی توہین کرنا ہے.کیونکہ ایسی حالت میں جبکہ بالکل رعایت اسباب کی نہ کی جاوے ضروری ہوگا کہ تمام قوتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں بالکل بے کار چھوڑ دیا جاوے اور ان سے کوئی کام نہ لیا جاوے اور ان سے کام نہ لینا اور ان کو بے کار چھوڑ دینا خدا تعالیٰ کے فعل کولغو اور عبث قرار دینا ہے.جو بہت بڑا گناہ ہے.پس ہمارا یہ منشا اور مذہب ہرگز نہیں کہ اسباب کی رعایت بالکل ہی نہ کی جاوے بلکہ رعایت

Page 330

۳۲۰ اسباب اپنی حد تک ضروری ہے آخرت کے لئے بھی اسباب ہی ہیں.خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور بدیوں سے بچنا اور دوسری نیکیوں کو اختیار کرنا اسی لئے ہے کہ اس عالم اور دوسرے عالم میں سکھ ملے تو گویا یہ نیکیاں اسباب کے قائم مقام ہیں.اسی طرح پر یہ بھی خدا تعالیٰ نے منع نہیں کیا کہ دنیوی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے اسباب کو اختیار کیا جاوے.نوکری والا نوکری کرے.زمیندار اپنی زمینداری کے کاموں میں رہے.مزدور مزدوریاں کریں تا وہ اپنے عیال و اطفال اور دوسرے متعلقین اور اپنے نفس کے حقوق کو ادا کرسکیں.پس ایک جائز حد تک یہ سب درست ہے اور اس کو منع نہیں کیا جاتا.لیکن جب انسان حد سے تجاوز کر کے اسباب ہی پر پورا بھروسہ کرے اور سارا دار و مدار اسباب ہی پر جا ٹھہرے تو یہ وہ شرک ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصد سے دور پھینک دیتا ہے.مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں سبب نہ ہوتا تو میں بھوکا مر جاتا.یا اگر یہ جائیداد یا فلاں کام نہ ہوتا تو میرا بُرا حال ہو جاتا.فلاں دوست نہ ہوتا تو تکلیف ہوتی.یہ امور اس قسم کے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائیداد یا اور اسباب و احباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے بکلی دُور جا پڑے.یہ خطرناک شرک ہے جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَفي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ اور فرمایا وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ، اور فرمایا وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ہے اور فرمایا وَهُوَ يَتَوَلَّى الصُّلِحِينَ ے قرآن شریف اس قسم کی آیتوں سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیوں کا متولی اور متکفل ہوتا ہے تو پھر جب انسان اسباب پر تکیہ اور تو کل کرتا ہے تو گویا خدا تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرتا ہے اور ان اسباب کو ان صفات سے حصہ دیتا ہے.اور ایک اور خدا اپنے لئے ان اسباب کا تجویز کرتا ہے.چونکہ وہ ایک پہلو کی طرف جھکتا ہے.اس سے شرک کی طرف گویا قدم اٹھاتا ہے.جو لوگ حکام کی طرف جھکے ہوئے ہیں اور اُن سے انعام یا خطاب پاتے ہیں اُن کے دل میں ان کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے وہ ان کے پرستار ہو جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو تو حید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اس کے اصل مرکز سے ہٹا کر دُور پھینک دیتا ہے.پس انبیاء علیہم السلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میں تناقض نہ ہونے پاوے بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے.اور مال کار تو حید پر جا ٹھہرے.وہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں ل الذريات :٢٣ الطلاق : ۴ الطلاق : ۴۳ 2 الاعراف : ۱۹۷

Page 331

۳۲۱ کہ ساری عزتیں سارے آرام اور حاجات براری کا متکفل خدا ہی ہے.پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دوضر وں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے.اس لئے مقدم ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید ہو.رعایت اسباب کی جاوے.اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے.اسی توحید سے ایک محبت خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اُسی کے ہاتھ میں ہے.محسن حقیقی وہی ہے.ذرہ ذرہ اُسی سے ہے.کوئی دوسرا درمیان نہیں آتا.جب انسان اس پاک حالت کو حاصل کر لے تو وہ موحد کہلاتا ہے.غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھروں یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نہ بناوے بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہر کرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گزرے.تیسری قسم یہ ہے کہ اپنے نفس اور وجود کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھا دیا جاوے اور اس کی نفی کی جاوے.بسا اوقات انسان کے زیر نظر اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے کہ فلاں نیکی میں نے اپنی طاقت سے کی ہے.انسان اپنی طاقت پر ایسا بھروسہ کرتا ہے کہ ہر کام کو اپنی ہی قوت سے منسوب کرتا ہے.انسان موحد تب ہوتا ہے کہ جب اپنی طاقتوں کی بھی نفی کر دے.الحکم مورخہ ۳۱ / جولائی ۱۹۰۲ء صفحه ۵ ، ۶ - ملفوظات جلد دوم صفحه ۶ ۵ تا ۵۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) عیسائی صاحبوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جو لوگ تثلیث کا عقیدہ اور یسوع کا کفارہ نہیں مانتے وہ ہمیشہ کے جہنم میں ڈالے جائیں گے.غیر محدود خدا کو تین اقنوم میں یا چار اقنوم میں محدود کرنا اور پھر ہر ایک اقنوم کو کامل بھی سمجھنا اور ترکیب کا محتاج بھی اور پھر خدا پر یہ روا رکھنا کہ وہ ابتدا میں کلمہ تھا.پھر وہی کلمہ جو خدا تھا مریم کے پیٹ میں پڑا اور اس کے خون سے مجسم ہوا اور معمولی راہ سے پیدا ہوا اور سارے دکھ خسرہ چیچک دانتوں کی تکلیف جو انسان کو ہوتی ہیں سب اٹھائے.آخر کو جوان ہو کر پکڑا گیا اور صلیب پر چڑھایا گیا.یہ نہایت گندہ شرک ہے جس میں انسان کو خدا ٹھہرایا گیا ہے خدا اس سے پاک ہے کہ وہ کسی کے پیٹ میں پڑے اور مجسم ہو اور دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہو.انسانی فطرت اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ خدا پر ایسے دُکھ کی مار اور یہ مصیبتیں پڑیں اور وہ جو تمام عظمتوں کا مالک اور تمام عزتوں کا سر چشمہ ہے اپنے لئے یہ تمام ذلتیں روا رکھے.عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا کی اس رسوائی کا یہ پہلا ہی موقعہ ہے اور اس سے پہلے اس قسم کی ذلتیں خدا نے کبھی نہیں اٹھا ئیں.کبھی یہ امر وقوع میں نہیں آیا کہ خدا بھی انسان کی طرح کسی عورت کے رحم میں نطفہ میں مخلوط ہو کر قرار پکڑ گیا ہو.جب سے کہ لوگوں نے خدا کا نام سنا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ بھی انسان کی طرح کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو.

Page 332

۳۲۲ یہ تمام وہ باتیں ہیں جن کا عیسائیوں کو خود اقرار ہے اور اس بات کا بھی اقرار ہے کہ گو پہلے یہ تین اقنوم تین جسم علیحدہ علیحدہ نہیں رکھتے تھے مگر اب اس خاص زمانہ سے جس کو اب ۱۸۹۶ برس جاتا ہے تینوں اقنوم کے لئے تین علیحدہ علیحدہ جسم مقرر ہو گئے.باپ کی وہ شکل ہے جو آدم کی کیونکہ اس نے آدم کو اپنی شکل پر بنایا دیکھو توریت پیدائش باب ۱ آیت ۲۷.اور بیٹا یسوع کی شکل پر مجسم ہوا دیکھو یوحنا بابا آیت ا، اور رُوح القدس کبوتر کی شکل پر متشکل ہوا.دیکھو متی باب ۳ آیت ۱ یہ تینوں مجسم خدا عیسائیوں کے زعم میں ہمیشہ کے لئے مجسم اور ہمیشہ کے لئے علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں.اور پھر بھی یہ تینوں مل کر ایک خدا ہے لیکن اگر کوئی بتلا سکتا ہے تو ہمیں بتلا دے کہ باوجود اس دائمی تجسم اور تغیر کے یہ تینوں ایک کیونکر ہیں.بھلا ہمیں کوئی ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عماد الدین اور پادری ٹھاکر داس کو باوجود ان کے علیحدہ علیحدہ جسم کے ایک کر کے تو دکھلاوے ہم دعوی سے کہتے ہیں کہ اگر تینوں کو کوٹ کر بھی بعض کا گوشت بعض کے ساتھ ملا دیا جاوے پھر بھی جن کو خدا نے تین بنایا تھا ہرگز ایک نہیں ہو سکیں گے.پھر جبکہ اس فانی جسم کے حیوان با وجود امکان تحلیل کے اور تفرق جسم کے ایک نہیں ہو سکتے پھر ایسے تین مجسم جن میں ہمو جب عقیدہ عیسائیاں تحلیل اور تفریق جائز نہیں کیونکر ایک ہو سکتے ہیں؟ یہ کہنا بے جانہیں ہوگا کہ عیسائیوں کے یہ تین خدا بطور تین ممبر کمیٹی کے ہیں اور بزعم ان کے تینوں کی اتفاق رائے سے ہر ایک حکم نافذ ہوتا ہے یا کثرت رائے پر فیصلہ ہو جاتا ہے.گویا خدا کا کارخانہ بھی جمہوری سلطنت ہے اور گویا اُن کے گاڈ صاحب کو بھی شخصی سلطنت کی لیاقت نہیں.تمام مدار کونسل پر ہے.غرض عیسائیوں کا یہ مرکب خدا ہے جس نے دیکھنا ہو دیکھ لے.انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۴ تا ۳۶) عیسائی مذہب توحید سے تہی دست اور محروم ہے بلکہ ان لوگوں نے سچے خدا سے منہ پھیر کر ایک نیا خدا اپنے لئے بنایا ہے جو ایک اسرائیلی عورت کا بیٹا ہے مگر کیا یہ نیا خدا ان کا قادر ہے.جیسا کہ اصلی خدا قادر ہے؟ اس بات کے فیصلہ کے لئے خود اس کی سرگذشت گواہ ہے کیونکہ اگر وہ قادر ہوتا تو یہودیوں کے ہاتھ سے ماریں نہ کھاتا.رومی سلطنت کی حوالات میں نہ دیا جاتا اور صلیب پر کھینچا نہ جاتا.اور جب یہودیوں نے کہا تھا کہ صلیب پر سے خود بخود اتر آہم ابھی ایمان لے آئیں گے.اُس وقت اُتر آتا لیکن اس نے کسی موقعہ پر اپنی قدرت نہیں دکھلائی.رہے اُس کے معجزات سو واضح ہو کہ اُس کے معجزات دوسرے اکثر نبیوں کی نسبت بہت ہی کم ہیں مثلاً اگر کوئی عیسائی ایلیا نبی کے معجزات سے جو بائیبل میں

Page 333

۳۲۳ مفصل مذکور ہیں جن میں سے مُردوں کا زندہ کرنا بھی ہے مسیح ابن مریم کے معجزات سے مقابلہ کرے تو اس کو ضرور اقرار کرنا پڑے گا کہ ایلیا نبی کے معجزات شان اور شوکت اور کثرت میں مسیح ابن مریم کے معجزات سے بہت بڑھ کر ہیں.ہاں انجیلوں میں بار بار اس معجزہ کا ذکر ہے کہ یسوع مسیح مصر وعوں یعنی مرگی زدہ لوگوں میں سے جن نکالا کرتا تھا اور یہ بڑا معجزہ اس کا شمار کیا گیا ہے جو محققین کے نزدیک ایک ہنسی کی جگہ ہے.آج کل کی تحقیقات سے ثابت ہے کہ مرضِ صرع ضعف دماغ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یا بعض اوقات کوئی رسولی دماغ میں پیدا ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ کسی اور مرض کا یہ عرض ہوتی ہے لیکن ان تمام محققین نے کہیں نہیں لکھا کہ اس مرض کا سبب جن بھی ہوا کرتے ہیں.مسیح کے کسی معجزہ یا طرز ولادت میں کوئی ایسا اعجوبہ نہیں کہ وہ اس کی خدائی پر دلالت کرے.اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کی ولادت کے ذکر کے ساتھ یحیی کی ولادت کا ذکر کر دیا تا معلوم کہ جیسا کہ بیٹی کی خارق عادت ولادت ان کو انسان ہونے سے باہر نہیں لے جاتی.ایسا ہی مسیح ابن مریم کی ولادت اس کو خدا نہیں بناتی.وہ ہر گز کسی بات پر قادر نہیں تھا.صرف ایک عاجز انسان تھا.اور انسانی ضعف اور لاعلمی اپنے اندر رکھتا تھا.اور انجیل سے ظاہر ہے کہ اس کو غیب کا علم ہرگز نہیں تھا کیونکہ وہ ایک انجیر کے درخت کی طرف پھل کھانے گیا.اور اُس کو معلوم نہ ہوا کہ اُس پر کوئی پھل نہیں ہے اور وہ خود اقرار کرتا ہے کہ قیامت کی خبر مجھے معلوم نہیں.پس اگر وہ خدا ہوتا تو ضرور قیامت کا علم اوس کو ہونا چاہئے تھا.اسی طرح کوئی صفت الوہیت اوس میں موجود نہیں تھی اور کوئی ایسی بات اس میں نہیں تھی کہ دوسروں میں نہ پائی جائے.عیسائیوں کو اقرار ہے کہ وہ مر بھی گیا.پس کیسا بد قسمت وہ فرقہ ہے جس کا خدا مر جائے.یہ کہنا کہ پھر وہ زندہ ہو گیا تھا کوئی تسلی کی بات نہیں.جس نے مرکز ثابت کر دیا کہ وہ مر بھی سکتا ہے اُس کی زندگی کا کیا اعتبار؟ (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۷۸ تا ۳۸۲) ایسا خدا کس کام کا جو ایک انسان کی طرح جو بڑھا ہو کر بعض قومی اُس کے بیکار ہو جاتے ہیں.امتدادِ زمانہ کی وجہ سے بعض قومی اُس کے بھی بیکار ہو گئے.اور نیز ایسا خدا کس کام کا کہ جب تک ٹکٹکی سے باندھ کر اُس کو کوڑے نہ لگیں اور اس کے منہ پر نہ تھو کا جائے اور چند روز اُس کو حوالات میں نہ رکھا جائے اور آخر اُس کو صلیب پر نہ کھینچا جائے تب تک وہ اپنے بندوں کے گناہ نہیں بخش سکتا.ہم تو ایسے خدا سے سخت بیزار ہیں جس پر ایک ذلیل قوم یہودیوں کی جو اپنی حکومت بھی کھو بیٹھی تھی غالب آ گئی.ہم

Page 334

۳۲۴ اس خدا کو سچا خدا جانتے ہیں جس نے ایک مکہ کے غریب بے کس کو اپنا نبی بنا کر اپنی قدرت اور غلبہ کا جلوہ اُسی زمانہ میں تمام جہان کو دکھا دیا.یہاں تک کہ جب شاہ ایران نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھیجے تو اُس قادر خدا نے اپنے رسول کو فرمایا کہ سپاہیوں کو کہہ دے کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو قتل کر دیا ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف ایک شخص خدائی کا دعوی کرتا ہے اور اخیر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گورنمنٹ رومی کا ایک سپاہی اس کو گرفتار کر کے ایک دو گھنٹہ میں جیل خانہ میں ڈال دیتا ہے اور تمام رات کی دُعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں.اور دوسری طرف وہ مرد ہے کہ صرف رسالت کا دعوی کرتا ہے اور خدا اس کے مقابلہ پر بادشاہوں کو ہلاک کرتا ہے.یہ مقولہ طالب حق کے لئے نہایت نافع ہے کہ یار غالب شوکہ تا غالب شوی.ہم ایسے مذہب کو کیا کریں جو مُردہ مذہب ہے.ہم ایسی کتاب سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو مُردہ کتاب ہے.اور ہمیں ایسا خدا کیا فیض پہنچا سکتا ہے جو مُردہ خدا ہے.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۳) جس بات کی طرف وہ بلاتے ہیں وہ نہایت ذلیل خیال اور قابل شرم عقیدہ ہے.کیا یہ بات عند العقل قبول کرنے کے لائق ہے کہ ایک عاجز مخلوق جو تمام لوازم انسانیت کے اپنے اندر رکھتا ہے خدا کہلاوے؟ کیا عقل اس بات کو مان سکتی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو کوڑے مارے اور خدا کے بندے اپنے قادر خدا کے منہ پر تھوکیں اور اُس کو پکڑیں اور اُس کو سولی دیں اور وہ خدا ہو کر اُن کے مقابلہ سے عاجز ہو؟ کیا یہ بات کسی کو سمجھ آ سکتی ہے کہ ایک شخص خدا کہلا کر تمام رات دُعا کرے اور پھر اُس کی دعا قبول نہ ہو؟ کیا کوئی دل اس بات پر اطمینان پکڑ سکتا ہے کہ خدا بھی عاجز بچوں کی طرح نو مہینے تک پیٹ میں رہے.اور خون حیض کھاوے اور آخر چیختا ہوا عورتوں کی شرمگاہ سے پیدا ہو؟ کیا کوئی عظمند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ خدا بے شمار اور بے ابتدا زمانہ کے بعد مجسم ہو جائے.اور ایک ٹکڑا اس کا انسان کی صورت بنے اور دوسرا کبوتر کی اور یہ جسم ہمیشہ کے لئے اُن کے گلے کا ہار ہو جائے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ اصفحہ ۸۷،۸۶) رکس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا اُس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تا تار کا تو زبر دست کا ساتھی بن تا تو بھی غالب بن جائے.

Page 335

۳۲۵ ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی راہ ہے ترے دیدار کا چشمه خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا تو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑ کا نمک اُس سے ہے شور محبت عاشقان زار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کس سے کھل سکتا ہے بیچ اس عقدہ دشوار کا خوب روؤں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس تری گلزار کا چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سوسو حجاب ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا تیرے ملنے کے لئے ہم مل گئے ہیں خاک میں تا مگر درماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جان گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۵۲) جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا شکر اللہ مل گیا ہم کو وہ لعلِ بے بدل کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۵۹) حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہم سر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اُس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی.ہے سب کہانی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یارجانی دل میں مرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے پاک پاک قدرت عظمت ہے اس کی عظمت لرزاں ہیں اہل قربت کروبیوں پر ہیبت ہے عام اس کی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم سب ہیں اُس کی صنعت اُس سے کرو محبت

Page 336

۳۲۶ غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اُس کی غیرت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي جو کچھ نہیں ہے راحت سب اُس کی جود و منت اُس سے ہے دل کی بیعت دل میں ہے اس کی عظمت بہتر ہے اس کی طاعت طاعت میں ہے سعادت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي سب کا وہی سہارا رحمت ہے آشکارا ہم کو وہی پیارا دلبر وہی ہمارا اُس بن نہیں گذارا غیر اس کے جھوٹ سارا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یارب ہے تیرا احساں میں تیرے در پہ قرباں تو نے دیا ہے ایمان تو ہر زماں نگہباں تیرا کرم ہے ہر آں تو ہے رحیم و رحماں روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي کیونکر ہو شکر تیرا، تیرا ہے جو ہے میرا تُو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ( محمود کی آمین.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۱۹ ،۳۲۰) جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزبیں بنا کر کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کا قول لیکن کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اُسے بلایا بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر لوح مزار مرزا مبارک احمد صاحب - در مشین اردو صفحه ۱۰۰ شائع کرده نظارت اشاعت ربوہ ) وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ بچوں میں پاتے ہو اُس میں وہ کیا نہیں سورج پہ غور کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اس یار سا نہیں واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار ہیں اُس کو فنا نہیں سب خیر ہے اسی میں کہ اس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اُسی کو یارو! جُوں میں وفا نہیں اس جائے پر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ بستاں سرا نہیں تفخیذ الا ذبان ماہ دسمبر ۱۹۰۸ صفحه ۵ ۴۸ - در نشین صفحه ۱۵۲)

Page 337

۳۲۷ پایا تجھے سب زور و قدرت ہے خدایا تجھے پایا ہر پایا ہر اک مطلب ہر اک عاشق نے ہے اک بُت بنایا ہمارے دل میں دلبر سمایا وہی آرام جاں اور دل کو بھایا وہی جس کو کہیں رَبُّ البرايا ہوا ظاہر وہ مجھ پر بالا یا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أُخْرَى الْأَعَادِي جنت وہی دار الاماں ہے مجھے اس یار سے پیوند جاں ہے وہی بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے کیا احساں ہیں تیرے میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي تری نعمت کی کچھ قلت نہیں ہے تہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہے یہ کیا احساں ترے ہیں میرے ہادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ترے کوچہ میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا ، کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سُناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي بشیر احمد شریف احمد اور مبارکہ کی آمین مطبوعہ ۱۹۰۱ء در ثمین صفحه ۵۴ شائع کرده نظارت اشاعت ربوہ )

Page 338

۳۲۸ حمد و کز وجودش ہر وجودے آشکار اے شکر آن خدائے کردگار این جهان آئینہ دار روئے او ذره کرد در آئینه ارض و سما ہر گیا ہے عارف بنگاه او نُورِ مہر و مه ز فیض نُور اوست ہر سرے سرے ز خلوت گاہ او مطلب ہر ذره ره نماید سوئے او کے آن رُخ بے مثل خود جلوہ نما سے شاف نماید راه او که ظہورے تابع منشور اوست ۵ دست ہر ہر ہر قدم جوید در با جاه اول گمرہی گر ہست بہر کوئے اوست که دل جمال روئے اوست مهر و ماه و انجم و خاک آفرید صد ہزاران کرد صنعت با پدید 스 این همه صنعش کتاب کار اوست بے نہایت اندرین اسرار اوست این کتابے پیش ما نهاد تا ازو راہ ہدی داریم یاد اے تا شناسی آن خدائے پاک را کو نماند خاکیان و خاک را لا تا شود معیار بہر وحی دوست تا شناسی از هزاران آنچه زوست ۱۲ تا خیانت را نماند هیچ راه تا جدا گردد سفیدی از سیاه ۱۳ ے اس خدائے کردگار کی حمد اور شکر واجب ہے جس کے وجود سے ہر چیز کا وجود ظاہر ہوا.ے یہ جہاں اس کے چہرے کے لئے آئینہ کی طرح ہے ذرہ ذرہ اسی کی طرف راستہ دکھاتا ہے.سے اس نے زمین و آسمان کے آئینہ میں اپنا بے مثل چہرہ دکھلا دیا.ے گھاس کا ہر پتہ اس کے کون و مکان کی معرفت رکھتا ہے اور درختوں کی ہر شاخ اسی کا راستہ دکھاتی ہے.چاند اور سورج کی روشنی اسی کے نور کا فیضان ہے ہر چیز کا ظہور اسی کے شاہی فرمان کے ماتحت ہوتا ہے.ہر سر اس کے اسرار خانہ کا ایک بھید ہے اور ہر قدم اسی کا با عظمت دروازہ تلاش کرتا ہے.کے اس کے منہ کا جمال ہر ایک دل کا مقصود ہے اور کوئی گمراہ بھی ہے تو وہ بھی اسی کے کوچہ کی تلاش میں ہے.اس نے چاند سورج ستارے اور زمین کو پیدا کیا اور لاکھوں صنعتیں ظاہر کر دیں.اس کی یہ تمام صناعیاں اس کی کاریگری کا دفتر ہیں اور ان میں اس کے بے انتہا اسرار ہیں.ا یہ نیچر کی کتاب اس نے ہماری آنکھوں کے سامنے رکھ دی تا کہ اس کی وجہ سے ہم ہدایت کا راستہ یا درکھیں.ا تا کہ تو اس خدائے پاک کو پہچانے جو دنیا والوں اور دنیا سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا.۱۳ تا کہ خدا کی وحی کے لئے یہ بطور معیار کے ہوتا کہ تو ہزاروں کلاموں میں سے پہچان لے کہ کونسا اس کی طرف سے ہے.۱۳ تا کہ خیانت کا کوئی راستہ کھلا نہ رہے اور نور تاریکی سے الگ ہو جائے.

Page 339

۳۲۹ بس ہماں شد آنچه آن دادار خواست کار دستش شاهد گفتار خاست ! مشرکان وانچه پوزش مے کنند این گواہان تیر دوزش می کنند ۲ گر بگوئی غیر را رحمان خدا تخف زند بر روئے تو ارض و سما سے ور تراشی بہر آن یکتا پسر پر تو بارد لعنت زیر و زبر با زبان حال گوید این جهان کاں خدا فردست و قیوم و یگان ۵ نے یک پدر دارد نه فرزند و نه زن نے مبدل شد ز ایام کہن دے گر رفح فیضش کم شود این همه خلق و جہان برہم شود که یک نظر قانون قدرت را بین تا شناسی شان رب العالمین A (ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۵۲،۲۵۱) اے خالق ارض و سما بر من در رحمت کشا دانی تو آن درد مراکز دیگراں پنہاں کنم 2 از بس لطیفی دلبرا در هر رگ و تارم درا تا چون بخود یا بم ترا دل خوشتر از بستاں کنم 10 در سرکشی اے پاک خو جان بر کنم در ہجر تو زانساں ہمی گریم کز و یک عالمے گریاں کنم !! خواہی قہرم کن جدا خواہی بلطفم رونما خواهی بکش یا کن رہا کے ترک آن دامان کنم ۱۲ ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۱۳ حاشیه در حاشیہ نمبر۳) ے بس وہی ہوا جو اس خدا کا منشا تھا اور اس کا کام اس کے کلام کا گواہ قرار پایا.مشرک لوگ جو بہانے کرتے ہیں یہ گواہ ( قول خدا اور فعل خدا ) ان عذرات کو تیروں سے چھلنی کر دیتے ہیں.اگر تو کسی اور کو خدائے رحمان کر دے تو تیرے منہ پر زمین و آسمان تھو کیں.اور اگر اس یکتا کے لیے تو کوئی بیٹا تجویز کرے تو نیچے اور اوپر سے تجھ پر لعنتیں برسنے لگیں.۵ یہ جہان زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ خدا یکتا قیوم اور واحد ہے.نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ بیٹا اور نہ بیوی اور نہ ازل سے اس میں کوئی تغییر آیا.کے اگر ایک لحظہ کے لیے بھی اس کے فیض کی بارش کم ہو جائے تو یہ سب مخلوقات اور جہان درہم برہم ہو جا ئیں.قانونِ قدرت پر ایک نظر ڈال تا کہ تو رب العالمین کی شان کو پہچانے.و اے خالقِ ارض وسما ! مجھ پر در رحمت کھول تو میرے اس درد کو جانتا ہے جسے میں اوروں سے چھپاتا ہوں.10 اے دلبر تو بیحد لطیف ہے میرے ہر رگ و ریشہ میں داخل ہو جاتا کہ جب تجھے اپنے اندر پاؤں تو اپنا دل چمن سے بھی زیادہ خوشتر کروں.ال اور اے نیک صفات اگر تو انکار کرے تو تیرے فراق میں جان دے دوں گا اور اتنا روؤں گا کہ ایک عالم کو رلا دوں گا.خواہ تو تو مجھے ناراض ہو کر جدا کر دے خواہ لطف فرما کر اپنا چہرہ دکھا دے خواہ ماریا چھوڑ میں تیرے دامن کو نہیں چھوڑ سکتا.

Page 340

۳۳۰ اے خدا اے چارہ آزار ما اے علاج گریہ ہائے زار مال اے تو مرہم بخش جان ریش ما اے تو دلدار دل غم کیش ما ۲ از کرم برداشتی هر بار ما و از تو حافظ و ستاری از جود و کرم عاجزی را ہر بار و بر اشجار ما سے بے کسان را یاری از لطف اتم سے بنده در مانده باشد دل طپان نا گهان درمان برآری از میان ۵ ظلمت گیرد براه نا گہان آری برد صد مهر و ماه ۲ حسن و خلق دلبری بر تو تمام صحبتی بعد از لقائے تو حرام کے آن خرد مندے که او دیوانه ات شمع بزم است آنکه او پروانه ات A ہر کہ هر که عشقت در دل و جانش فتد نا گہان جانے ایمانش فتد 2 عشق تو گردد عیاں بر روئے او ہوئے تو آید ز بام و کوئے او نا صد ہزاران نعمتش بخشی از جود مهر و مه را پیشش آری در سجود الله خود نشینی از پیئے تائید او در او دید روئے تو یاد اوفتد از بس نمایان کا رہا کاندر جہان می نمائی بیر اکرامش عیان ۱۳ لے اے خدا !اے ہمارے دکھوں کی دوا.اور اے ہماری گریہ وزاری کا علاج.تو ہماری زخمی جان پر مرہم رکھنے والا ہے.اور تو ہمارے غمزدہ دل کی دلداری کرنے والا ہے.سے تو نے اپنی مہربانی سے ہمارے سب بوجھ اٹھا لیے ہیں اور ہمارے درختوں پر میوہ اور پھل تیرے فضل سے ہے.تو ہی مہربانی اور عنایت سے ہمارا محافظ اور پردہ پوش ہے اور کمال مہربانی سے بے کسوں کا ہمدرد ہے.جب بندہ مغموم اور درماندہ ہو جاتا ہے تو تو وہیں سے اس کا علاج پیدا کر دیتا ہے.جب کسی عاجز کو رستے میں اندھیرا گھیر لیتا ہے تو تو یکدم اس کے لیے سینکڑوں سورج اور چاند پیدا کر دیتا ہے.کے حسن واخلاق اور دلبری تجھ پرختم ہیں تیری ملاقات کے بعد پھر کسی سے تعلق رکھنا حرام ہے.وہ عقلمند ہے جو ترادیوانہ ہے اور وہ شمع بزم ہے جو تیرا پروانہ ہے.ہر وہ شخص جس کے جان و دل میں تیرا عشق داخل ہو جائے تو اس کے ایمان میں فوراً جان پڑ جاتی ہے.نا تیرا عشق اس کے چہرہ پر ظاہر ہو جاتا ہے اور اس کے درودیوار سے تیری خوشبو آتی ہے.لے تو اس کو اپنے کرم سے لاکھوں نعمتیں بخشتا ہے سورج اور چاند کو اس کے سامنے سجدہ کرواتا ہے.تو اس کی نصرت کے لیے خود تیار ہو جاتا ہے اور اس کے دیدار سے تیرا چہرہ یاد آتا ہے.اس جہاں میں بہت سے نمایاں کام تو اس کی عزت کے لیے ظاہر کرتا ہے.

Page 341

۳۳۱ خود کنی و خود کنانی کار را خود دہی رونق تو آن بازار را اے خاک را در یک دے چیزے کنی کز ظهورش خلق گیرد روشنی سے بر کسی چوں مہربانی سے کئی از زمینی آسمانی ے کنی سے (براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۶، ۶۲۷ حاشیه در حاشیہ نمبر۳) محبت تو دوائے ہزار بیماری است بروئے تو کہ رہائی درین گرفتاری است ۴ پناہ روئے تو جستن نہ طور مستان است که آمدن به پناہت کمال ہشیاری ست ۵ متاع مہر رُخ تو نہان نخواهم داشت کہ خفیه داشتن عشق تو ز غداری است 1 بر آن سرم که سر و جان فدائے تو بکنم که جان بسیار سپردن حقیقت یاری است که آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱) سخن نزدم مران از شهر یارے که هستم بر درے اُمید وارے A پروردگارے 2 خداوندے کہ جان بخش جهان است بدیع و خالق و کریم و قادر مشکل کشائے رحیم و محسن و حاجت برارے نا و فتادم بر درش زیر آنکه گویند برآید در جهان کارے ز کارے ا1 چو آن یار وفادار آیدم یاد فراموشم شود هر خویش و یارے ۱۲ لے تو آپ ہی کام کرتا ہے اور آپ ہی کرواتا ہے اور آپ ہی اس بازار کو رونق دیتا ہے.سے مٹی کو تو یکدم ایک ( قیمتی) چیز بنا دیتا ہے تا کہ اس کے ظہور سے مخلوقات روشنی حاصل کرے.ے جب تو کسی پر مہربانی کرتا ہے تو اسے زمینی سے آسمانی بنا دیتا ہے.تیری محبت ہزار بیماریوں کی دوا ہے تیرے منہ کی قسم کہ اس گرفتاری ہی میں اصل آزادی ہے.۵ تیری پناہ ڈھونڈ نا دیوانوں کا طریقہ نہیں ہے بلکہ تیری پناہ میں آنا ہی تو کمال درجہ کی عظمندی ہے.میں تیری محبت کی دولت کو ہرگز نہیں چھپاؤں گا.کہ تیرے عشق کا مخفی رکھنا بھی ایک غداری ہے.کے میں تیار ہوں کہ جان و دل تجھ پر قربان کردوں کیونکہ جان کو محبوب کے سپرد کر دینا ہی اصل دوستی ہے.میرے سامنے کسی بادشاہ کا ذکر نہ کر کیونکہ میں تو ایک اور دروازہ پر امیدوار پڑا ہوں.2 وہ خدا جو دنیا کو زندگی بخشنے والا ہے اور بدیع اور خالق اور پروردگار ہے.ا کریم و قادر ہے اور مشکل کشا ہے.رحیم ہے محسن ہے اور حاجت روا ہے.لا میں اس کے دروازہ پر آپڑا ہوں کیونکہ مثل مشہور ہے کہ دنیا میں ایک کام میں سے دوسرا کام نکل آتا ہے.جب وہ یار وفادار مجھے یاد آتا ہے تو ہر رشتہ دار اور دوست مجھے بھول جاتا ہے.

Page 342

۳۳۲ بغیر او چسان بندم دل خویش کہ بے رویش نمی آید قرارے کے چگویم در سيين ریشم مجوسید نستیمش بدامان نگارے تے دل من دلبری را تخت گا ہے من در رہ یارے تارے ۳ فضل او برمن چگون است که فضل اوست نا پیدا کنارے کے عنایت ہائے او را چون شمارم که لطف اوست بیرون از شماری ۵ مرا کاریست با آن داستانی ندارد کس خبر زان کارو بارے 1 بنالم بر درش از انسان که نالد بوقت وضع حملے بار دارے کے مرا با عشق او وقتے ست مامور خوش وقتے خرم روزگاری A شابا گوییمت اے گلشن که فارغ کر دی از باغ و بہارے 2 یار (حجة الله - روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۴۹) چہ شیریں منظری اے دلستانم چہ شیریں خصلتی اے جان جانم نا چو دیدم روئے تو دل در تو بستم نمانده غیر تو اندر جہانم !! عالم مگر ہجرت بسوزد استخوانم ۱۲ توان برداشتن دست از دو لے میں اسے چھوڑ کر کسی اور سے کس طرح دل لگاؤں کہ بغیر اس کے مجھے چین نہیں آتا.ے دل کو مرے زخمی سینے میں نہ ڈھونڈ و کہ ہم نے اسے ایک محبوب کے دامن سے باندھ دیا ہے.سے میرا دل دلبر کا تخت ہے اور میرا سر یار کی راہ میں قربان ہے.ہے میں کیا بتاؤں کہ مجھ پر اس کا فضل کس طرح کا ہے کیونکہ اس کا فضل تو ایک نا پیدا کنارسمندر ہے.میں اس کی مہر بانیوں کو کیونکر گنوں کہ اس کی مہربانیاں تو حد شمار سے باہر ہیں مجھے اس دلبر سے ایسا تعلق ہے کہ کسی کو بھی اس معاملہ کی خبر نہیں.کے میں اس کے دروازے پر اس طرح روتا ہوں جس طرح بچہ پیدا ہوتے وقت حاملہ عورت روتی ہے.میرا وقت اسی کے عشق سے بھر پور ہے واہ کیا اچھا وقت ہے اور کیا عمدہ زمانہ ہے.اے یار کے گلزار تیرے کیا کہنے.تو نے تو مجھے دنیا کے باغ و بہار سے بے پروا کر دیا.ا اے میرے محبوب تو کیسا خوبصورت ہے اور اے میرے خدا تو کیسا شیر میں خصلت ہے.جب میں نے تیرا منہ دیکھا تو تجھ سے دل لگا لیا اور دنیا میں تیرے سوا میرا کوئی نہ رہا.دونوں جہان سے دست برداری ممکن ہے مگر تیرا فراق میری ہڈیاں تک جلا دیتا ہے.

Page 343

۳۳۳ در آتش تن بآسانی توان داد ز ہجرت جان رود با صد فغانم اے (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۶،۳۵۵) اے یار ازل بس است روئے تو مرا بہتر ز ہزار خلد کوئے تو مرا ہے از مصلحتے دگر طرف بینم لیک لحظه نگاه هست سوئے تو مرا سے بر عزت من اگر کے حملہ کند صبر است طریق ہمچو خوئے تو مرا ہے ہست مگر جنگ است ز بهر آبروئے تو مرا ۵ و من چیستم عزم ہست مگر ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۵۳) آگ کے اندر بدن آسانی سے ڈالا جا سکتا ہے مگر تیری جدائی سے میری جان آہ وفغاں کرتی ہوئی نکلتی ہے.اے خدائے لم یزل میرے لئے تیرا چہرہ کافی ہے اور تیری گلی میرے لئے ہزار جنتوں سے بڑھ کر ہے.سے میں کسی مصلحت کی وجہ سے اور طرف دیکھ لیتا ہوں.ورنہ ہر وقت میری نظر تو تیری ہی جانب لگی ہوئی ہے.ہے اگر کوئی میری عزت پر حملہ کرتا ہے تو تیری عادت کی طرح میرا طریقہ بھی صبر ہے.میں کون ہوں اور میری کیا عزت ہے لیکن تیری عزت کی خاطر یہ میری جنگ ہے.

Page 344

Page 345

۳۳۵ وحی الہام کشوف اور رویا میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر یک دروازہ بند ہو جاتا ہے مگر روح القدس کے اترنے کا کبھی دروازہ بند نہیں ہوتا.تم اپنے دلوں کے دروازے کھول دو تا وہ اُن میں داخل ہو.“

Page 346

۳۳۶ کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوما غلطی سے بچ سکیں.یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صد با طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور کتی با تیں اپنی نادانی کے یادگار میں چھوڑ گئے.پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقہ اور عقائد صحیحہ پر پہونچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کوئی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا کہ جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو اور خطا سے معصوم ہو.پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ مسیح اور سچا نتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاص کا کہ جنہوں نے صرف قانون قدرت میں فکر اور غور کر کے اور اپنے ذخیرہ کانشنس کو واقعات عالم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلی پایۂ صداقت پر پہونچا دیا ہو کہ جس میں غلطی کا نکلنا غیر ممکن ہو.خود عادتاً غیر ممکن صاف ظاہر ہے کہ جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی سے بچ سکے ہو.اور نہ خدا ( جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو و خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت پر واقف ہے ) بذریعہ اپنے بچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کیونکر آفات شک شبہ سے نجات پائیں.لہذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضاء حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتا فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پائیں اور تفہیم تعلیم کا ملکہ وہی رکھیں تا کہ نفوس بشریہ کہ سچی ہدایت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں.(پرانی تحریریں.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۱،۲۰) خدائے تعالیٰ نے اپنے عجیب عالم کو تین حصہ پر منقسم کر رکھا ہے.(1) عالم ظاہر جو آنکھوں اور کانوں اور دیگر حواس ظاہری کے ذریعہ اور آلات خارجی کے توسل سے محسوس ہوسکتا ہے.(۲) عالم باطن جو عقل اور قیاس کے ذریعہ سے سمجھ میں آ سکتا ہے.(۳) عالم باطن در باطن جو ایسا نازک اور لا یدرک و فوق الخیالات عالم ہے جو تھوڑے ہیں جو اس

Page 347

۳۳۷ سے خبر رکھتے ہیں.وہ عالم غیب محض ہے جس تک پہنچنے کے لئے عقلوں کو طاقت نہیں دی گئی مگر ظن محض.اور اس عالم پر کشف اور وحی اور الہام کے ذریعہ سے اطلاع ملتی ہے نہ اور کسی ذریعہ سے.اور جیسی عادت اللہ بدیہی طور پر ثابت اور متحقق ہے کہ اُس نے ان دو پہلے عالموں کے دریافت کرنے کے لئے جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے انسان کو طرح طرح کے حواس و قو تیں عنایت کی ہیں اسی طرح اس تیسرے عالم کے دریافت کرنے کے لئے بھی اس فیاض مطلق نے انسان کے لئے ایک ذریعہ رکھا ہے اور وہ ذریعہ وحی اور الہام اور کشف ہے جو کسی زمانہ میں بکلی بند اور موقوف نہیں رہ سکتا بلکہ اس کے شرائط بجا لانے والے ہمیشہ اس کو پاتے رہے ہیں اور ہمیشہ پاتے رہیں گے.چونکہ انسان ترقیات غیر محدودہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ بھی عیب بخل و امساک سے بکلی پاک ہے پس اس قوی دلیل سے ایسا خیال بڑا نا پاک خیال ہے جو یہ سمجھا جائے جو خدائے تعالیٰ نے انسان کے دل میں تینوں عالموں کے اسرار معلوم کرنے کا شوق ڈال کر پھر تیسرے عالم کے وسائل وصول سے بکلی اس کو محروم رکھا ہے.پس یہ وہ دلیل ہے جس سے دانشمند لوگ دائمی طور پر الہام اور کشف کی ضرورت کو یقین کر لیتے ہیں.اور آریوں کی طرح چار رشیوں پر الہام کو ختم نہیں کرتے جن کی مانند کوئی پانچواں اس کمال تک پہنچنا اُن کی نظر عجیب میں ممکن ہی نہیں بلکہ عقلمند لوگ خدا تعالیٰ کے فیاض مطلق ہونے پر ایمان لا کر الہامی دروازوں کو ہمیشہ کھلا سمجھتے ہیں.اور کسی ولایت اور ملک سے اس کو مخصوص نہیں رکھتے.ہاں اس صراط مستقیم سے مخصوص رکھتے ہیں جس پر ٹھیک ٹھیک چلنے سے یہ برکات حاصل ہوتے ہیں کیونکہ ہر یک چیز کے حصول کے لئے یہ لازم پڑا ہوا ہے کہ انہی قواعد اور طریقوں پر عمل کیا جائے جن کی پابندی سے وہ چیز مل سکتی ہے.غرض عقلمند لوگ عالم کشف کے عجائبات سے انکار نہیں کرتے بلکہ انہیں ماننا پڑتا ہے کہ جس جَوادِ مُطْلَق نے عالم اول کے ادنی ادنیٰ امور کے دریافت کرنے کے لئے انسان کو حواس اور طاقتیں عنایت کی ہیں وہ تیسرے عالم کے معظم اور عالیشان امور کے دریافت سے جس سے حقیقی اور کامل تعلق خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتا ہے اور کچی اور یقینی معرفت حاصل ہو کر اسی دنیا میں انوار نجات نمایاں ہو جاتے ہیں کیوں انسان کو محروم رکھتا بے شک یہ طریق بھی دوسرے دونوں طریقوں کی طرح کھلا ہوا ہے اور صادق لوگ بڑے زور سے اس پر قدم مارتے ہیں اور اس کو پاتے ہیں.اور اس کے ثمرات حاصل کرتے ہیں.عجائبات اس عالم ثالث کے بے انتہاء ہیں.اور اس کے مقابل پر دوسرے عالم ایسے ہیں جیسے آفتاب کے مقابل پر ایک دانہ خشخاش.اس بات پر زور لگانا کہ اس عالم کے اسرار عقلی طاقت سے بکلّی منکشف

Page 348

۳۳۸ ہو جائیں یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک انسان آنکھوں کو بند کر کے مثلاً اس بات پر زور لگائے کہ وہ قابل رؤیت چیزوں کو قوت شامہ کے ذریعہ سے دیکھ لے.بلکہ عجائبات عالم باطن در باطن سے عقل ایسی حیران ہے کہ کچھ دم نہیں مار سکتی کہ یہ کیا بھید ہے.روحوں کی پیدائش پر انسان کیوں تعجب کرے اسی دنیا میں صاحب کشف پر ایسے ایسے اسرار ظاہر ہوتے ہیں کہ اُن کی گنہ کو سمجھنے میں بکلی عقل عاجز رہ جاتی ہے.بعض اوقات صاحب کشف صد ہا کوسوں کے فاصلہ سے باوجود حائل ہونے بے شمار حجابوں کے ایک چیز کو صاف صاف دیکھ لیتا ہے.بلکہ بعض اوقات عین بیداری میں باز نہ تعالیٰ اس کی آواز بھی سُن لیتا ہے اور اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض اوقات وہ شخص بھی اس کی آواز سُن لیتا ہے جس کی صورت اُس پر منکشف ہوئی ہے.بعض اوقات صاحب کشف اپنے عالم کشف میں جو بیداری سے نہایت مشابہ ہے ارواح گذشتہ سے ملاقات کرتا ہے اور عام طور پر ملاقات ہر یک نیک بخت روح یا بد بخت روح کے کشف قبور کے طور پر ہو سکتی ہے.چنانچہ خود اس میں مؤلف رسالہ ہذا صاحب تجربہ ہے.اور یہ امر ہندوؤں کے مسئلہ تناسخ کی بیخ کنی کرنے والا ہے.اور سب سے تعجب کا یہ مقام ہے کہ بعض اوقات صاحب کشف اپنی توجہ اور قوت تاثیر سے ایک دوسرے شخص پر باوجود صد ہا کوسوں کے فاصلہ کے باذنہ تعالیٰ عالم بیداری میں ظاہر ہو جاتا ہے.حالانکہ اس کا وجود عنصری اپنے مقام سے جنبش نہیں کرتا اور عقل کے زور سے ایک چیز کا دو جگہ ہونا محال ہے.سو وہ محال اس عالم ثالث میں ممکن الوقوع ہو جاتا ہے.اسی طرح صد ہا عجائبات کو عارف بچشم خود دیکھتا ہے.اور ان کو رباطنوں کے انکار سے تعجب پر تعجب کرتا ہے جو اس عالم ثالث کے عجائبات سے قطعا منکر ہیں.راقم رسالہ ہذا نے اس عالم ثالث کے عجائبات اور نادر مکاشفات کو قریب پانچ ہزار کے بچشم خود دیکھا اور اپنے ذاتی تجربہ سے مشاہدہ کیا اور اپنے نفس پر انہیں وارد ہوتے پایا ہے.اگر ان سب کی تفصیل لکھی جائے تو ایک بڑی بھاری کتاب تالیف ہو سکتی ہے.ان سب عجائبات میں سے ایک بڑی عجیب بات یہ ثابت ہوئی ہے کہ بعض کشفی امور جن کا خارج میں نام و نشان نہیں محض قدرت غیبی سے وجود خارجی پکڑ لیتے ہیں.اگر چہ صاحب فتوحات و فصوص و دیگر اکثر اکابر متصوفین نے اس بارے میں بہت سے اپنے خود گذشت قصے اپنی تالیفات میں لکھے ہیں لیکن چونکہ دید و شنید میں فرق ہے اس لئے مجرد ان قصوں کی سماعت سے ہم کو وہ کیفیت یقینی حاصل نہیں ہو سکتی تھی جو اپنے ذاتی مشاہدہ سے حاصل ہوئی.ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ میں نے عالم کشف میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء و قدر میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں

Page 349

۳۳۹ ایسا ہو گا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جل شانہ کے سامنے پیش کیا ہے (اور یاد رکھنا چاہئے کہ مکاشفات اور رویا صالحہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض صفات جمالیہ یا جلالیہ الہیہ انسان کی شکل پر متمثل ہو کر صاحب کشف کو نظر آ جاتے ہیں اور مجازی طور پر وہ یہی خیال کرتا ہے کہ وہی خداوند قادر مطلق ہے.اور یہ امرار باب کشوف میں شائع و متعارف ومعلوم الحقیقت ہے جس سے کوئی صاحب کشف انکار نہیں کر سکتا ) غرض وہی صفت جمالی جو بعالم کشف قوتِ متخیلہ کے آگے ایسی دکھلائی دی تھی جو خداوند قادر مطلق ہے.اس ذات بیچون و بے چگون کے آگے وہ کتاب قضاء وقد ر پیش کی گئی اور اُس نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثل تھا اپنے قلم کو سرخی کی دوات میں ڈبو کر اول اس سُرخی کو اس عاجز کی طرف چھڑ کا اور بقیہ سُرخی کا قلم کے منہ میں رہ گیا اس سے اس کتاب پر دستخط کر دیئے.اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دور ہو گئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا تو کئی قطرات سُرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے چنانچہ ایک صاحب عبداللہ نام جو سنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت اس عاجز کے پاس نزدیک ہو کر بیٹھے ہوئے تھے دو یا تین قطرہ سُرخی کے اُن کی ٹوپی پر پڑے.پس وہ سُرخی جو ایک امر کشفی تھا وجود خارجی پکڑ کر نظر آ گئی.اسی طرح اور کوئی مکاشفات میں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے مشاہدہ کیا گیا ہے اور اپنے ذاتی تجارب سے ثابت ہو گیا جو بلاشبہ امور کشفیہ کبھی کبھی باز نہ تعالیٰ وجود خارجی پکڑتے ہیں.یہ امور عقل کے ذریعہ سے ہرگز ذہن نشین نہیں ہو سکتے بلکہ جو شخص عقل کے گھمنڈ اور غرور میں پھنسا ہوا ہے وہ ایسی باتوں کو سنتا ہے نہایت تکبر سے کہے گا کہ یہ سراسر امر محال اور خیال باطل ہے اور ایسا کہنے والا یا تو دروغ گو ہے یا دیوانہ یا اس کو سادہ لوحی کی وجہ سے دھو کہ لگا ہے اور باعث نقصان تحقیق بات کی تہ تک پہنچنے سے محروم رہ گیا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ان عقلمندوں کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ امور جن کی صداقت پر ہزار ہا عارف دراستباز اپنے ذاتی تجارب سے شہادتیں دے گئے ہیں اور اب بھی دیتے ہیں اور صحبت گزین پر ثابت کر دینے کے لئے بفضلہ تعالیٰ اپنی ذمہ داری لیتے ہیں کیا وہ ایسے خفیف امور ہیں جو صرف منکرانہ زبان ہلانے سے باطل ہو سکتے ہیں اور حق بات تو یہ ہے کہ عالم کشف کے عجائبات تو ایک طرف رہے جو عالم عقل ہے یعنی جس عالم تک عقل کی رسائی ہونا ممکن ہے اس عالم کا بھی ابھی تک عقل نے تصفیہ نہیں کیا اور لاکھوں اسرار الہی پردہ غیب میں دبے پڑے ہیں جن کی عقلمندوں کو ہوا تک نہیں پہنچی.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۷۵ تا ۱۸۱ حاشیہ )

Page 350

۳۴۰ خدائے تعالیٰ نے جیسے انسان کی فطرت میں مبادی امور کے کسی قدر سمجھنے کے لئے ایک عقلی قوت رکھی ہے اسی طرح انسان میں کشف اور الہام کے پانے کی بھی ایک قوت مخفی ہے.جب عقل انسانی اپنی حد مقررہ تک چل کر آگے قدم رکھنے سے رہ جاتی ہے تو اس جگہ خدائے تعالیٰ اپنے صادق اور وفادار بندوں کو کمال عرفان اور یقین تک پہنچانے کی غرض سے الہام اور کشف سے دستگیری فرماتا ہے.اور جو منزلیں بذریعہ عقل طے کرنے سے رہ گئی تھیں اب وہ بذریعہ کشف اور الہام طے ہو جاتی ہیں اور سالکین مرتبہ عین الیقین بلکہ حق الیقین تک پہنچ جاتے ہیں یہی سنت اللہ اور عادت اللہ ہے جس کی رہنمائی کے لئے تمام پاک نبی دنیا میں آئے ہیں اور جس پر چلنے کے بغیر کوئی شخص کچی اور کامل معرفت تک نہیں پہنچا.مگر کم بخت خشک فلسفی کو کچھ ایسی جلدی ہوتی ہے کہ وہ یہی چاہتا ہے کہ جو کچھ کھلنا ہے وہ عقلی مرتبہ پر ہی کھل جائے اور نہیں جانتا کہ عقل انسانی اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور نہ طاقت سے آگے قدم رکھ سکتی ہے اور نہ اس بات کی طرف فکر دوڑاتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کو اس کے کمالات مطلوبہ تک پہنچانے کے لئے صرف جو ہر عقل ہی عطا نہیں کیا بلکہ کشف اور الہام پانے کی قوت بھی اُس کی فطرت میں رکھی ہے سو جو کچھ خدائے تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے وسائل خدا شناسی انسان کی سرشت کو عطا کئے ہیں ان وسائل میں سے صرف ایک ابتدائی اور ادنیٰ درجہ کے وسیلہ کو استعمال میں لانا اور باقی وسائل خدا شناسی سے بکلی بے خبر رہنا بڑی بھاری بدنصیبی ہے.اور ان قوتوں کو ہمیشہ بے کار رکھ کر ضائع کر دینا اور ان سے فائدہ نہ اُٹھانا پرلے درجہ کی بے سمجھی ہے.سو ایسا شخص سچا فلسفی ہرگز نہیں ہوسکتا کہ جو کشف اور الہام پانے کی قوت کو معطل اور بے کار چھوڑتا ہے بلکہ اس سے انکار کرتا ہے حالانکہ ہزاروں مقدسوں کی شہادت سے کشف اور الہام کا پایا جانا بپایہ ثبوت پہنچ چکا ہے اور تمام سچے عارف اسی طریق سے معرفت کا ملہ تک پہنچے ہیں.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۸۷ تا ۹۰ مقدمه ) بعض خشک ملاؤں کو یہاں تک انکار میں غلو ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مکالماتِ الہیہ کا دروازہ ہی بند ہے اور اس بد قسمت امت کے یہ نصیب ہی نہیں کہ یہ نعمت حاصل کر کے اپنے ایمان کو کامل کرے اور پھر کشش ایمانی سے اعمال صالح کو بجالا وے.ایسے خیالات کا یہ جواب ہے کہ اگر یہ امت در حقیقت ایسی ہی بد بخت اور اندھی اور شر الامم ہے تو خدا نے کیوں اس کا نام خیر الامم رکھا بلکہ سچ بات یہ ہے کہ وہی لوگ احمق اور نادان ہیں کہ جو ایسے

Page 351

۳۴۱ خیالات رکھتے ہیں ورنہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اس اُمت کو وہ دعا سکھلائی ہے جو سورۃ فاتحہ میں ہے ساتھ ہی اُس نے یہ ارادہ بھی فرمایا ہے کہ اس امت کو وہ نعمت عطا بھی کرے جو نبیوں کو دی گئی تھی یعنی مکالمہ مخاطبہ الہیہ جو سر چشمہ تمام نعمتوں کا ہے.کیا خدا تعالیٰ نے وہ دُعا سکھلا کر صرف دھوکا ہی دیا ہے اور ایسی ناکارہ اور ذلیل اُمت میں کیا خیر ہوسکتی ہے جو بنی اسرائیل کی عورتوں سے بھی گئی گذری ہے.ظاہر ہے کہ حضرت موسی کی ماں اور حضرت عیسی کی ماں دونوں عور تیں تھیں اور بقول ہمارے مخالفین کے نبیہ نہیں تھیں تاہم خدا تعالیٰ کے یقینی مکالمات اور مخاطبات اُن کو نصیب تھے اور اب اگر اس امت کا ایک شخص اس قدر طہارت نفس میں کامل ہو کہ ابراہیم کا دل پیدا کر لے اور اتنا خدا تعالیٰ کا تابعدار ہو جو تمام نفسانی چولہ پھینک دے اور اتنا خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو کہ اپنے وجود سے فنا ہو جائے تب بھی وہ باوجود اس قدر تبدیلی کے موسی کی ماں کی طرح بھی وحی الہی نہیں پاسکتا.کیا کوئی عظمند خدا تعالیٰ کی طرف ایسا بجل منسوب کر سکتا ہے؟ اب ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین.اصل بات یہ ہے کہ جب ایسے لوگ سراسر دنیا کے کیڑے ہو گئے اور اسلام کا شعار صرف پگڑی اور داڑھی اور ختنہ اور زبان کے چند اقرار اور رسمی نماز روزہ رہ گیا تو خدا تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو مسخ کر دیا اور ہزار ہا تاریکی کے پردے آنکھوں کے آگے آگئے اور دل مر گئے اور کوئی زندہ نمونہ روحانی حیات کا اُن کے ہاتھ میں نہ رہا نا چار ان کو مکالمات الہیہ سے انکار کرنا پڑا اور یہ انکار در حقیقت اسلام سے انکار ہے.لیکن چونکہ دل مر چکے ہیں اس لئے یہ لوگ محسوس نہیں کرتے کہ ہم کس حالت میں پڑے ہیں.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه۳۱۰ ،۳۱۱) اے مسلمانو! ہشیار ہو جاؤ کہ ایسا خیال سراسر جہالت اور نادانی ہے.اگر اسلام ایسا ہی مُردہ مذہب ہے تو کس قوم کو تم اس کی طرف دعوت کر سکتے ہو؟ کیا اس مذہب کی لاش جاپان لے جاؤ گے یا یورپ کے سامنے پیش کرو گے اور ایسا کون بے وقوف ہے جو ایسے مردہ مذہب پر عاشق ہو جائے گا جو بمقابلہ گذشتہ مذہبوں کے ہر ایک برکت اور روحانیت سے بے نصیب ہے.گذشتہ مذہبوں میں عورتوں کو بھی الہام ہوا جیسا کہ موسی کی ماں اور مریم کو.مگر تم مرد ہو کر ان عورتوں کے برابر بھی نہیں بلکہ اے نادانو !! اور آنکھوں کے اندھو!!! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے سید ومولی (اس پر ہزار ہا سلام) اپنے افاضہ کی رو سے تمام انبیاء سے سبقت لے گئے ہیں.کیونکہ گذشتہ نبیوں کا افاضہ ایک حد تک آ کر ختم ہو گیا اور اب وہ تو میں اور وہ مذہب مردے ہیں کوئی اُن میں زندگی نہیں.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا

Page 352

۳۴۲ رُوحانی فیضان قیامت تک جاری ہے.اسی لئے باوجود آپ کے اس فیضان کے اس امت کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی مسیح باہر سے آوے بلکہ آپ کے سایہ میں پرورش پانا ایک ادنی انسان کو مسیح بنا سکتا ہے جیسا کہ اُس نے اس عاجز کو بنایا.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۸۹) یہ دعوی ہمارا بالکل صحیح اور نہایت صفائی سے ثابت ہے کہ صراط مستقیم پر چلنے سے طالب صادق الہام الہی پاسکتا ہے کیونکہ اول تو اس پر تجر بہ ذاتی شاہد ہے ماسوائے اس کے ہر یک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ اس دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی معرفت الہی کا اعلیٰ رتبہ نہیں ہے کہ انسان اپنے رب کریم جل شانہ سے ہم کلام ہو جائے.یہی درجہ ہے جس سے روحیں تسلی پاتی ہیں اور سب شکوک وشبہات دور ہو جاتے ہیں اور اسی درجۂ صافیہ پر پہنچ کر انسان اس دقیقہ معرفت کو پالیتا ہے جس کی تحصیل کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اور دراصل نجات کی کنجی اور ہستی موہوم کا عقدہ کشا یہی درجہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے اور کھل جاتا ہے کہ خالق حقیقی کو اپنی مخلوق ضعیف سے کس قدر قرب واقع ہے.اس درجہ تک پہنچنے کی خبر ہمیں اسی نور نے دی ہے جس کا نام قرآن ہے.وہ نور صاف عام طور پر بشارت دیتا ہے کہ الہام کا چشمہ کبھی بند نہیں ہوسکتا.جب کوئی مشرق کا رہنے والا یا مغرب کا باشندہ دلی صفائی سے خدائے تعالیٰ کو ڈھونڈھے گا اور اس سے پوری پوری صلح کر لے گا اور درمیان کے حجاب اٹھائے گا تو ضرور اُسے پائے گا.اور جب واقعی اور سچے اور کامل طور پر پائے گا تو ضرور خدا اس سے ہم کلام ہوگا.مگر دیدوں نے انسان کے اس درجہ تک پہنچنے سے انکار کیا ہے اور صرف چار رشیوں تک جو ویدوں کے مصنف ہیں (بقول آریہ سماج والوں کے ) اس درجہ کو محدود رکھا ہے.یہ ویدوں کی ایسی ہی غلطی ہے جیسے اور بڑی بڑی غلطیوں سے وہ پر ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ سب بنی آدم متحد الفطرت ہیں اور جو بات ایک آدمی کے لئے ممکن ہے وہ سب کے لئے ممکن ہے اور جو قرب و معرفت ایک فرد بشر کے لئے جائز ہے وہ سب کے لئے جائز ہے کیونکہ وہ سب اصل طینت میں ایک ہی جوہر سے ہیں.ہاں کمالات میں کمی بیشی ہے.مگر جنس کمالات میں سرے سے جواب تو نہیں.اور اگر کوئی ایسا شخص ہو کہ اس میں تحصیل کمالات انسانی کے ایک ذرہ بھی استعداد نہ ہو تو وہ خود انسان ہی نہیں ہو سکتا.غرض تھوڑے بہت کا تو انسانی استعدادوں میں فرق ضرور ہوتا ہے مگر انسان ہو کر یکلخت فقدان استعداد نہیں ہوسکتا.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۴۰،۲۳۹)

Page 353

۳۴۳ وہ خدا جو کریم ورحیم ہے جیسا کہ اس نے انسانی فطرت کو اپنی کامل معرفت کی بھوک اور پیاس لگا دی ہے ایسا ہی اس نے اس معرفت کا ملہ تک پہنچانے کے لئے انسانی فطرت کو دو قسم کے قومی عنایت فرمائے ہیں.ایک معقولی قو تیں جن کا منبع دماغ ہے اور ایک روحانی قوتیں جن کا منبع دل ہے.اور جن کی صفائی دل کی صفائی پر موقوف ہے.اور جن باتوں کو معقولی قو تیں کامل طور پر دریافت نہیں کر سکتیں روحانی قوتیں اُن کی حقیقت تک پہونچ جاتی ہیں.اور روحانی قوتیں صرف انفعالی طاقت اپنے اندر رکھتی ہیں یعنی ایسی صفائی پیدا کرنا کہ مہدہ فیض کے فیوض اُن میں منعکس ہو سکیں.سو اُن کے لئے یہ لازمی شرط ہے کہ حصول فیض کے لئے مستعد ہوں اور حجاب اور روک درمیان نہ ہو تا خدا تعالیٰ سے معرفت کاملہ کا فیض پاسکیں.اور صرف اس حد تک ان کی شناخت محدود نہ ہو کہ اس عالم پر حکمت کا کوئی صانع ہونا چاہئے بلکہ اس صانع سے شرف مکالمہ مخاطبہ کامل طور پر پاکر اور بلا واسطہ اس کے بزرگ نشان دیکھ کر اس کا چہرہ دیکھ لیں.اور یقین کی آنکھ سے مشاہدہ کر لیں کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود ہے.لیکن چونکہ اکثر انسانی فطرتیں حجاب سے خالی نہیں اور دنیا کی محبت اور دنیا کے لالچ اور تکبر اور نخوت اور معجب اور ریاء کاری اور نفس پرستی اور دوسرے اخلاقی رذائل اور حقوق اللہ اور حقوق عباد کی بجا آوری میں عمداً قصور اور تساہل اور شرائط صدق و ثبات اور دقائق محبت اور وفا سے عمداً انحراف اور خدا تعالیٰ سے عمداً قطع تعلق اکثر طبائع میں پایا جاتا ہے اس لئے وہ طبیعتیں باعث طرح طرح کے حجابوں اور پردوں اور روکوں کے اور نفسانی خواہشوں اور شہوات کے اس لائق نہیں کہ قابل قدر فیضان مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا اُن پر نازل ہو جس میں قبولیت کے انوار کا کوئی حصہ ہو.ہاں عنایت ازلی نے جو انسانی فطرت کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تخم ریزی کے طور پر اکثر انسانی افراد میں یہ عادت اپنی جاری کر رکھی ہے کہ کبھی کبھی سچی خوا ہیں یا بچے الہام ہو جاتے ہیں تا وہ معلوم کر سکیں کہ اُن کے لئے آگے قدم رکھنے کے لئے ایک راہ کھلی ہے.لیکن ان کی خوابوں اور الہاموں میں خدا کی قبولیت اور محبت اور فضل کے کچھ آثار نہیں ہوتے اور نہ ایسے لوگ نفسانی نجاستوں سے پاک ہوتے ہیں.اور خوا ہیں محض اس لئے آتی ہیں کہ تا اُن پر خدا کے پاک نبیوں پر ایمان لانے کے لئے ایک حجبت ہو.کیونکہ اگر وہ کچی خوابوں اور بچے الہامات کی حقیقت سمجھنے سے قطعاً محروم ہوں اور اس بارے میں کوئی ایسا علم جس کو علم الیقین کہنا چاہئے اُن کو حاصل نہ ہو تو خدا تعالیٰ کے سامنے اُن کا عذر ہو سکتا ہے کہ وہ نبوت کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے تھے.کیونکہ اس کوچہ سے بکلی نا آشنا تھے اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ نبوت کی حقیقت سے ہم محض بے خبر تھے اور اس کے سمجھنے کے لئے ہماری فطرت

Page 354

۳۴۴ کو کوئی نمونہ نہیں دیا گیا تھا.پس ہم اس مخفی حقیقت کو کیونکر سمجھ سکتے.اس لئے سنت اللہ قدیم سے اور جب سے دنیا کی بناء ڈالی گئی اس طرح پر جاری ہے کہ نمونہ کے طور پر عام لوگوں کو قطع نظر اس سے کہ وہ نیک ہوں یا بد ہوں اور صالح ہوں یا فاسق ہوں.اور مذہب میں بچے ہوں یا جھوٹا مذہب رکھتے ہوں کسی قدر سچی خوا ہیں دکھلائی جاتی ہیں یا بچے الہام بھی دیئے جاتے ہیں تا ان کا قیاس اور گمان جو محض نقل اور سماع سے حاصل ہے علم الیقین تک پہونچ جائے اور تا روحانی ترقی کے لئے اُن کے ہاتھ میں کوئی نمونہ ہو اور حکیم مطلق نے اس مدعا کے پورا کرنے کے لئے انسانی دماغ کی بناوٹ ہی ایسی رکھی ہے اور ایسے روحانی قومی اس کو دیئے ہیں کہ وہ بعض کچی خوا ہیں دیکھ سکتا ہے اور بعض بچے الہام پاسکتا ہے مگر وہ کچی خوا ہیں اور بچے الہام کسی وجاہت اور بزرگی پر دلالت نہیں کرتے بلکہ وہ محض نمونہ کے طور پر ترقی کے لئے ایک راہیں ہوتی ہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۸ تا ۱۰) جاننا چاہئے کہ دلیل دو قسم کی ہوتی ہے.ایک تھی اور تھی دلیل اس کو کہتے ہیں کہ دلیل سے مدلول کا پتہ لگا لیں جیسا کہ ہم نے ایک جگہ دھواں دیکھا تو اس سے ہم نے آگ کا پتہ لگا لیا اور دوسری دلیل کی قسم انی ہے.اور انہی اس کو کہتے ہیں کہ مدلول سے ہم دلیل کی طرف انتقال کریں جیسا کہ ہم نے ایک شخص کو شدید پ میں مبتلا پایا تو ہمیں یقین ہوا کہ اس میں ایک تیز صفرا موجود ہے جس سے تپ چڑھ گیا.سو اس جگہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ دونوں قسم کی دلیلیں پیش کریں گے.سو پہلے ہم لسمی دلیل ضرورت الہام کے لئے پیش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ انسان کے جسم کا جسمانی اور روحانی نظام ایک ہی قانون قدرت کے ماتحت ہے پس اگر ہم انسان کے جسمانی حالات پر نظر ڈال کر دیکھیں تو ظاہر ہوگا کہ خدا وند کریم نے جس قدر انسان کے جسم کو خواہشیں لگا دی ہیں اُن کے پورا کرنے کے لئے بھی سامان مہیا کئے ہیں.چنانچہ انسان کا جسم باعث بھوک کے اناج کا محتاج تھا سو اس کے لئے طرح طرح کی غذا ئیں پیدا کی ہیں.ایسا ہی انسان بباعث پیاس کے پانی کا محتاج تھا.سو اس کے لئے کنوئیں اور چشمے اور نہریں پیدا کر دیئے ہیں.اسی طرح انسان اپنی بصارت سے کام لینے کے لئے آفتاب یا کسی اور روشنی کا محتاج تھا سو اس کے لئے خدا نے آسمان پر سورج اور زمین پر دوسری اقسام کی روشنی پیدا کر دی ہے اور انسان اس ضرورت کے لئے کہ سانس لے اور نیز اس ضرورت کے لئے کہ کسی دوسرے کی آواز کوسُن سکے ہوا کا محتاج تھا سو اس

Page 355

۳۴۵ کے لئے خدا نے ہوا پیدا کر دی.ایسا ہی انسان بقائے نسل کے لئے اپنے جوڑے کا محتاج تھا سوخدا نے مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد پیدا کر دیا ہے.غرض خدا تعالیٰ نے جو جو خواہشیں انسانی جسم کو لگا دی ہیں اُن کے لئے تمام سامان بھی پیدا کر دیا ہے پس اب سوچنا چاہئے کہ جبکہ انسانی جسم کو با وجود اس کے فانی ہونے کے تمام اس کی خواہشوں کا سامان دیا گیا ہے.تو انسان کی رُوح کو جو دائگی اور ابدی محبت اور معرفت اور عبادت کے لئے پیدا کی گئی ہے کس قدر اس کی پاک خواہشوں کے سامان دیئے گئے ہوں گے.سو وہی سامان خدا کی وحی ہے اور اس کے تازہ نشان ہیں جو ناقص العلم انسان کو یقین تام تک پہنچاتے ہیں.خدا نے جیسا کہ جسم کو اس کی خواہشوں کا سامان دیا ایسا ہی رُوح کو بھی اُس کی خواہشوں کا سامان دیا تا جسمانی اور روحانی نظام دونوں باہم مطابق ہوں.یہ دلیل جو لمی ہے پوری نہیں ہو سکتی جب تک اُس کے ساتھ انسٹی دلیل نہ ہو یعنی جب تک تازہ نمونہ الہام کا نہ دیکھا جائے.بلاشبہ ضرورت کا محسوس کرنا اور چیز ہے اور پھر اس ضرورت کو حاصل بھی کر لینا یہ اور امر ہے.تم دیکھتے ہو کہ اس زمانہ میں تمہارے جسم کے لئے غذا اور پانی دونوں موجود ہیں یہ نہیں کہ فقط کسی پہلے زمانہ میں تھیں اور اب نہیں ہیں.مگر جب الہام اور وحی کا ذکر آتا ہے تو پھر تم کسی ایسے پہلے زمانہ کا حوالہ دیتے ہو جس پر کروڑ ہا برس گزر چکے ہیں مگر موجود کچھ نہیں دکھلا سکتے.پھر خدا کا جسمانی اور روحانی قانونِ قدرت باہم مطابق کیونکر ہوا.ذرا ٹھہر کر سوچو یونہی جلدی سے جواب مت دو.تم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ جسمانی خواہشوں کے سامان تو تمہارے ہاتھوں میں موجود ہیں مگر رُوحانی خواہشوں کے سامان تمہارے ہاتھوں میں موجود نہیں بلکہ صرف قصے تمہارے ہاتھوں میں ہیں جو بودے اور باسی ہو چکے ہیں.تم جانتے ہو کہ اس زمانہ تک تمہارے جسمانی چشمے بند نہیں ہوئے جن کا تم پانی پی کر پیاس کی جلن اور سوزش کو دور کرتے ہو.اور نہ جسمانی کھیتوں کی زمین نا قابل زراعت ہو گئی ہے جن کے اناج سے تم دو وقت پیٹ بھرتے ہو مگر وہ روحانی چشمے اب کہاں ہیں.جو الہام الہی کا تازہ پانی پلا کر پیاس کی سوزش کو دور کرتے تھے.اور اب وہ روحانی اناج بھی تمہارے پاس نہیں ہے جس کو کھا کر تمہاری روح زندہ رہ سکتی تھی.اب تم گویا ایک جنگل میں ہو جس میں نہ اناج ہے نہ پانی ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۶۳ تا ۶۶)

Page 356

۳۴۶ ہے غضب کہتے ہیں اب وحی خدا مفقود ہے اب قیامت تک ہے اس اُمت کا قصوں پر مدار یہ عقیده برخلاف گفته دادار ہے پر اتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار گوہر وحی خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر اک یہی دیں کے لئے ہے جائے عز و افتخار یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مشک تتار یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے در کھلیں یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں روئے نگار بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے بس یہی اک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار ہے خدادانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں محض قضوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار ہے یہی وحی خدا عرفانِ مولیٰ کا نشاں جس کو یہ کامل ملے اس کو ملے وہ دوستدار واہ رے باغ محبت موت جس کی رہ گذر وصلِ یار اس کا ثمر پر ارد گرد اس کے ہیں خار براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۷) الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تر ڈ داور تفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہومحسوس ہوتا ہے.اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہونچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلا تکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے.ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے رُوح لذت اوٹھاتا ہے.غرض یہ ایک منجانب اللہ اعلام لذیذ ہے کہ جس کو نفث فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں.(پرانی تحریر ہیں.روحانی خزائن جلد دوم صفحہ ۲۰) یادر ہے کہ الہام کے لفظ سے اس جگہ یہ مراد نہیں ہے کہ سوچ اور فکر کی کوئی بات دل میں پڑ جائے.جیسا کہ جب شاعر شعر کے بنانے میں کوشش کرتا ہے یا ایک مصرع بنا کر دوسرا سو چتا رہتا ہے تو دوسرا مصرع دل میں پڑتا ہے سو یہ دل میں پڑ جانا الہام نہیں ہے بلکہ یہ خدا کے قانون قدرت کے موافق اپنے فکر اور سوچ کا ایک نتیجہ ہے.جو شخص اچھی باتیں سوچتا ہے یا بُری باتوں کے لئے فکر کرتا ہے اُس کی تلاش کے موافق کوئی بات ضرور اس کے دل میں پڑ جاتی ہے.ایک شخص مثلاً نیک اور راستباز آدمی ہے جو سچائی کی حمایت میں چند شعر بناتا ہے اور دوسرا شخص جو ایک گندہ اور پلید آدمی ہے اپنے شعروں

Page 357

۳۴۷ میں جھوٹھ کی حمایت کرتا ہے اور راستبازوں کو گالیاں نکالتا ہے تو بلاشبہ یہ دونوں کچھ نہ کچھ شعر بنا لیں گے بلکہ کچھ تعجب نہیں کہ وہ راستبازوں کا دشمن جو جھوٹھ کی حمایت کرتا ہے بباعث دائمی مشق کے اس کا شعر عمدہ ہو.سواگر صرف دل میں پڑ جانے کا نام الہام ہے تو پھر ایک بدمعاش شاعر جو راست بازی اور راستبازوں کا دشمن اور ہمیشہ حق کی مخالفت کے لئے قلم اٹھاتا اور افتراؤں سے کام لیتا ہے خدا کا مہم کہلائے گا.دنیا میں ناولوں وغیرہ میں جادو بیانیاں پائی جاتی ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ اس طرح سراسر باطل مگر مسلسل مضمون لوگوں کے دلوں میں پڑتے ہیں پس کیا ہم ان کو الہام کہہ سکتے ہیں؟ بلکہ اگر الہام صرف دل میں بعض باتیں پڑ جانے کا نام ہے تو ایک چور بھی مہم کہلا سکتا ہے کیونکہ وہ بسا اوقات فکر کر کے اچھے اچھے طریق نقب زنی کے نکال لیتا ہے اور عمدہ عمدہ تدبیریں ڈاکہ مارنے اور خون ناحق کرنے کی اس کے دل میں گذر جاتی ہیں تو کیا لائق ہے کہ ہم ان تمام نا پاک طریقوں کا نام الہام رکھ دیں؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا خیال ہے جن کو اب تک اس بچے خدا کی خبر نہیں جو آپ خاص مکالمہ سے دلوں کو تسلی دیتا اور نا واقفوں کو روحانی علوم سے معرفت بخشتا ہے.الہام کیا چیز ہے؟ وہ پاک اور قادر خدا کا ایک برگزیدہ بندہ کے ساتھ یا اس کے ساتھ جس کو برگزیدہ کرنا چاہتا ہے اور زندہ اور با قدرت کلام کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے.سو جب یہ مکالمہ اور مخاطبہ کافی اور تسلی بخش سلسلہ کے ساتھ شروع ہو جائے اور اس میں خیالات فاسدہ کی تاریکی نہ ہو اور نہ غیر مکتفی اور چند بے سرو پا لفظ ہوں.اور کلام لذیذ اور پر حکمت اور پر شوکت ہو تو وہ خدا کا کلام ہے جس.اپنے بندہ کو تسلی دینا چاہتا ہے.اور اپنے تئیں اُس پر ظاہر کرتا ہے.ہاں کبھی ایک کلام محض امتحان کے طور پر ہوتا ہے اور پورا اور بابرکت سامان ساتھ نہیں رکھتا.اس میں خدا تعالیٰ کے بندہ کو اُس کی ابتدائی حالت میں آزمایا جاتا ہے تا وہ ایک ذرہ الہام کا مزہ چکھ کر پھر واقعی طور پر اپنا حال وقال سچے ملہموں کی طرح بناوے یا ٹھوکر کھاوے.پس اگر وہ حقیقی راستبازی صدیقوں کی طرح اختیار نہیں کرتا تو اس نعمت کے کمال سے محروم رہ جاتا ہے اور صرف بے ہودہ لاف زنی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے.کروڑ ہانیک بندوں کو الہام ہوتا رہا ہے مگر اُن کا مرتبہ خدا کے نزدیک ایک درجہ کا نہیں بلکہ خدا کے پاک نبی جو پہلے درجہ پر کمال صفائی سے خدا کا الہام پانے والے ہیں وہ بھی مرتبہ میں برابر نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ! البقرة : ۲۵۴

Page 358

ا ۳۴۸ یعنی بعض نبیوں کو بعض نبیوں پر فضیلت ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الہام محض فضل ہے اور فضیلت کے وجود میں اس کو دخل نہیں بلکہ فضیلت اس صدق اور اخلاص اور وفاداری کی قدر پر ہے جس کو خدا جانتا ہے.ہاں الہام بھی اگر اپنی بابرکت شرائط کے ساتھ ہو تو وہ بھی ان کا ایک پھل ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر اس رنگ میں الہام ہو کہ بندہ سوال کرتا ہے اور خدا اس کا جواب دیتا ہے اسی طرح ایک ترتیب کے ساتھ سوال و جواب ہو اور الہی شوکت اور نور الہام میں پایا جاوے اور علوم غیب یا معارف صحیحہ پر مشتمل ہو تو وہ خدا کا الہام ہے.خدا کے الہام میں یہ ضروری ہے کہ جس طرح ایک دوست دوسرے دوست سے مل کر باہم ہم کلام ہوتا ہے اسی طرح رب اور اس کے بندے میں ہم کلامی واقع ہو.اور جب کسی امر میں سوال کرے تو اس کے جواب میں ایک کلام لذیذ فصیح خدا تعالیٰ کی طرف سے سُنے جس میں اپنے نفس اور فکر اور غور کا کچھ بھی دخل نہ ہو اور وہ مکالمہ اور مخاطبہ اس کے لئے موہبت ہو جائے تو وہ خدا کا کلام ہے.اور ایسا بندہ خدا کی جناب میں عزیز ہے مگر یہ درجہ کہ الہام بطور موہبت ہو اور زندہ اور پاک الہام کا سلسلہ اپنے بندہ سے خدا کو حاصل ہو اور صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ ہو یہ کسی کو نہیں ملتا بجز ان لوگوں کے جو ایمان اور اخلاص اور اعمال صالحہ میں ترقی کریں اور نیز اس چیز میں جس کو ہم بیان نہیں کر سکتے.سچا اور پاک الہام الوہیت کے بڑے بڑے کرشمے دکھلاتا ہے.بارہا ایک نہایت چمکدار نور پیدا ہوتا ہے اور ساتھ اس کے پُر شوکت اور ایک چمکدار الہام آتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ ملہم اس ذات سے باتیں کرتا ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے.دنیا میں خدا کا دیدار یہی ہے کہ خدا سے باتیں کرے مگر اس ہمارے بیان میں انسان کی وہ حالت داخل نہیں ہے جو کسی کی زبان پر بے ٹھکا نہ کوئی لفظ یا فقرہ یا شعر جاری ہو اور ساتھ اس کے کوئی مکالمہ اور مخاطبہ نہ ہو بلکہ ایساش خدا کے امتحان میں گرفتار ہے کیونکہ خدا اس طریق سے بھی سست اور غافل بندوں کو آزماتا ہے کہ کبھی کوئی فقرہ یا عبارت کسی کے دل پر یا زبان پر جاری کی جاتی ہے اور وہ شخص اندھے کی طرح ہو جاتا ہے.نہیں جانتا کہ وہ عبارت کہاں سے آئی خدا سے یا شیطان سے.سوایسے فقرات سے استغفار لازم ہے.لیکن اگر ایک صالح اور نیک بندہ کو بے حجاب مکالمہ الہی شروع ہو جائے اور مخاطبہ اور مکالمہ کے طور پر ایک کلام روشن.لذیذ.پر معنی.پر حکمت پوری شوکت کے ساتھ اس کو سُنائی دے اور کم سے کم بارہا اس کو ایسا اتفاق ہوا ہو کہ خدا میں اور اُس میں عین بیداری میں دس مرتبہ سوال و جواب ہوا ہو.اُس نے سوال کیا خدا نے جواب دیا پھر اُسی وقت عین بیداری میں اُس نے کوئی اور عرض کی اور خدا نے اس کا شخص

Page 359

۳۴۹ بھی جواب دیا.پھر گزارش عاجزانہ کی خدا نے اس کا جواب بھی عطا فر مایا.ایسا ہی دس مرتبہ تک خدا میں اور اُس میں باتیں ہوتی رہیں اور خدا نے بارہا ان مکالمات میں اس کی دُعائیں منظور کیں ہوں عمدہ عمدہ معارف پر اس کو اطلاع دی ہو.آنے والے واقعات کی اس کو خبر دی ہو اور اپنے بر ہنہ مکالمہ سے بار بار کے سوال و جواب میں اس کو مشرف کیا ہو تو ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کا بہت شکر کرنا چاہئے.اور سب سے زیادہ خدا کی راہ میں فدا ہونا چاہئے.کیونکہ خدا نے محض اپنے کرم سے اپنے تمام بندوں میں سے اُسے چن لیا اور ان صدیقوں کا اس کو وارث بنا دیا جو اُس سے پہلے گزر چکے ہیں.یہ نعمت نہایت ہی نادر الوقوع اور خوش قسمتی کی بات ہے جس کو ملی.اس کے بعد جو کچھ ہے وہ بیچ ہے.اس مرتبہ اور اس مقام کے لوگ اسلام میں ہمیشہ ہوتے رہے ہیں اور ایک اسلام ہی ہے جس میں خدا بندہ سے قریب ہو کر اس سے باتیں کرتا اور اس کے اندر بولتا ہے وہ اس کے دل میں اپنا تخت بنا تا اور اس کے اندر سے اُسے آسمان کی طرف کھینچتا ہے اور اس کو وہ سب نعمتیں عطا فرماتا ہے جو پہلوں کو دی گئیں.افسوس اندھی دنیا نہیں جانتی کہ انسان نزدیک ہوتا ہوتا کہاں تک پہنچ جاتا ہے.وہ آپ تو قدم نہیں اُٹھاتے اور جو قدم اٹھائے یا تو اُس کو کافر ٹھہرایا جاتا ہے اور یا اُس کو معبود ٹھہرا کر خدا کی جگہ دی جاتی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۴۳۷ تا ۴۴۱ ) رہی یہ بات کہ الہام بے اصل اور بے سود اور بے حقیقت چیز ہے جس کا ضرر اس کے نفع سے بڑھ کر ہے.سو جاننا چاہئے کہ ایسی باتیں وہی شخص کرے گا جس نے کبھی اس شراب طہور کا مزا نہیں چکھا اور نہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ سچا ایمان اس کو حاصل ہو.بلکہ رسم اور عادت پر خوش ہے اور کبھی نظر اس طرف اٹھا کر نہیں دیکھتا کہ مجھے خدا وند کریم پر یقین کہاں تک حاصل ہے اور میری معرفت کا درجہ کس حد تک ہے اور مجھے کیا کرنا چاہئے کہ تا میری اندرونی کمزوریاں ڈور ہوں اور میرے اخلاق اور اعمال اور ارادوں میں ایک زندہ تبدیلی پیدا ہو جائے اور مجھے وہ عشق اور محبت حاصل ہو جائے جس کی وجہ سے میں بآسانی سفر آخرت کر سکوں اور مجھ میں ایک نہایت عمدہ قابل ترقی مادہ پیدا ہو جائے.بے شک یہ بات سب کے فہم میں آسکتی ہے کہ انسان اپنی اس غافلانہ زندگی میں جو ہر دم تحت الثریٰ کی طرف کھینچ رہی ہے اور علاوہ اس کے تعلقات زن و فرزند اور نگ و ناموس کے بوجھل اور بھاری پتھر کی طرح ہر لحظہ نیچے کی طرف لے جارہے ہیں ایک بالائی طاقت کا ضرور محتاج ہے جو اس کو سچی بینائی اور سچا کشف بخش کر خدائے تعالیٰ کے جمال با کمال کا مشتاق بنا دیوے.سو جاننا چاہئے کہ وہ بالائی

Page 360

۳۵۰ طاقت الہامِ ربانی ہے جو عین دُکھ کے وقت میں سرور پہنچاتا ہے.اور مصائب کے ٹیلوں اور پہاڑوں کے نیچے بڑے آرام اور لذت کے ساتھ کھڑا کر دیتا ہے.وہ دقیق در دقیق وجود جس نے عقلی طاقتوں کو خیرہ کر رکھا ہے اور تمام حکیموں کی عقل اور دانش کو سکتہ میں ڈال دیا ہے وہ الہام ہی کے ذریعہ سے کچھ اپنا پتہ دیتا ہے اور انا الموجود کہہ کر سالکوں کے دلوں کو تسلی بخشتا ہے اور سکینت نازل کرتا ہے اور انتہائی وصول کی ٹھنڈی ہوا سے جان پڑ مردہ کو تازگی بخشتا ہے.یہ بات تو سچ کہ قرآن کریم ہدایت دینے کے لئے کافی ہے.مگر قرآن کریم جس کو ہدایت کے چشمہ تک پہنچاتا ہے اس میں پہلی علامت یہی پیدا ہو جاتی ہے کہ مکالمہ طیبہ الہیہ اُس سے شروع ہو جاتا ہے جس سے نہایت درجہ کی انکشافی معرفت اور چشم دید برکت و نورانیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ عرفان حاصل ہونا شروع ہو جاتا ہے جو مجرد تقلیدی انکلوں یا عقلی ڈھکوسلوں سے ہرگز نہیں مل سکتا کیونکہ تقلیدی علوم محدود و مشتبہ ہیں اور عقلی خیالات ناقص و ناتمام ہیں اور ہمیں ضرور حاجت ہے کہ براہ راست اپنے عرفان کی توسیع کریں.کیونکہ جس قدر ہمارا عرفان ہو گا اُسی قدر ہم میں ولولہ و شوق جوش مارے گا.کیا ہمیں باوجود ناقص عرفان کے کامل ولولہ وشوق کی کچھ توقع ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں سو حیرت اور تعجب ہے کہ وہ لوگ کیسے بد فہم ہیں جو ایسے ذریعہ کاملہ وصول حق سے اپنے تئیں مستغنی سمجھتے ہیں جس سے روحانی زندگی وابستہ ہے.یا د رکھنا چاہئے کہ روحانی علوم اور روحانی معارف صرف بذریعہ الہامات و مکاشفات ہی ملتے ہیں.اور جب تک ہم وہ درجہ روشنی کا نہ پالیں تب تک ہماری انسانیت کسی حقیقی معرفت یا حقیقی کمال سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتی.ہم ایک بڑے بھاری مطلب کے لئے جو یقینی معرفت ہے پیدا کئے گئے ہیں اور وہی معرفت ہماری نجات کا مدار بھی ہے جو ہر یک خبیث اور مغشوش طریق سے ہمیں آزادی بخش کر ایک پاک اور شفاف دریا کے کنارہ پر ہمارا منہ رکھ دیتی ہے اور وہ صرف بذریعہ الہام الہی ہمیں ملتی ہے.جب ہم اپنے نفس سے بکلی فنا ہوکر دردمند دل کے ساتھ لا یدرک وجود میں ایک گہرا غوطہ مارتے ہیں تو ہماری بشریت الوہیت کے دربار میں پڑنے سے عند العود کچھ آثار و انوار اس عالم کے ساتھ لے آتی ہے.سوجس چیز کو اس دنیا کے لوگ بنظر حقارت دیکھتے ہیں در حقیقت وہی ایک چیز ہے جو مدت کے جُداشدہ کو ایک دم میں اپنے محبوب سے ملاتی ہے وہی ہے جس سے عشاق الہی تسلی پاتے ہیں اور طرح طرح کی نفسانی قیدوں سے بیک بار اپنا پیر باہر نکال لیتے ہیں جب تک وہ بچی روشنی دلوں پر نازل نہ ہو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ کوئی دل منور ہو

Page 361

۳۵۱ سکے.غرض انسانی عقل کی نا قابلیت اور رسمی علوم کی محدودیت ضرورت الہام پر شہادت دے رہی ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۶ تا ۳۲۹) وسوسہء نہم.یہ اعتقاد کہ خدا آسمان سے اپنا کلام نازل کرتا ہے یہ بالکل درست نہیں کیونکہ قوانین نیچر یہ اس کی تصدیق نہیں کرتے.اور کوئی آواز اوپر سے نیچے کو آتی ہم کبھی نہیں سنتے بلکہ الہام صرف ان خیالات کا نام ہے کہ جو فکر اور نظر کے استعمال سے عظمند لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں وبس.جواب.جو صداقت بجائے خود ثابت ہے اور جس کو بے شمار صاحب معرفت لوگوں نے بچشم خود مشاہدہ کر لیا ہے اور جس کا ثبوت ہر زمانہ میں طالب حق کو مل سکتا ہے اگر اس سے کوئی ایسا انسان منکر ہو کہ جو روحانی بصیرت سے بے بہرہ ہے یا اگر اُس کی تصدیق سے کسی محجوب القلب کا فکر قاصر اور علم ناقص ناکام رہے تو اُس صداقت کا کچھ بھی نقصان نہیں اور نہ وہ ایسے لوگوں کے بگ بگ کرنے سے قوانین قدرتیہ سے باہر ہو سکتی ہے.مثلاً تم سوچو کہ اگر کوئی اس قوت جاز بہ سے جو مقناطیس میں ہے بے خبر ہو اور اُس نے کبھی مقناطیس دیکھا ہی نہ ہو اور یہ دعویٰ کرے کہ مقناطیس ایک پتھر ہے اور جہاں تک قوانین قدرتیہ کا مجھے علم ہے اس طور کی کشش کو میں نے کبھی کسی پتھر میں مشاہدہ نہیں کیا اس لئے میری رائے میں جو مقناطیس کی نسبت ایک خاصیت جذب خیال کی گئی ہے وہ غلط ہے کیونکہ قوانین نیچریہ کے برخلاف ہے تو کیا اس کی اس فضول گوئی سے مقناطیس کی ایک متحقق خاصیت غیر معتبر اور مشکوک ہو جائے گی ؟ ہرگز نہیں بلکہ ایسے نادان کی ان فضول باتوں سے اگر کچھ ثابت بھی ہو گا تو یہی ثابت ہو گا کہ وہ سخت درجہ کا احمق اور جاہل ہے کہ جو اپنے عدم علم کو عدم شے پر دلیل ٹھہراتا ہے اور ہزار ہا صاحب تجر بہ لوگوں کی شہادت کو قبول نہیں کرتا.بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ قوانین قدرتیہ کے لئے یہ بھی شرط ہو کہ ہر یک فرد بشر عام طور پر خودان کو آزما لیوے.خدا نے نوع انسان کو ظاہری و باطنی قوتوں میں متفاوت پیدا کیا ہے مثلاً بعض کی قوت باصرہ نہایت تیز ہے.بعض ضعیف البصر ہیں.بعض بعض اندھے بھی ہیں.جو ضعیف البصر ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ تیز بصارت والوں نے دُور سے کسی بار یک چیز کو مثلاً ہلال کو دیکھ لیا تو وہ انکار نہیں کرتے بلکہ انکار کرنا اپنی ذلت اور پردہ دری کا موجب سمجھتے ہیں اور اندھے بیچارے تو ایسے معاملہ میں دم بھی نہیں مارتے.اسی طرح جن کی قوت شامہ مفقود ہے وہ صد ہا ثقہ اور راست گولوگوں کی زبان سے خوشبو، بد بو کی خبریں جب سنتے ہیں تو یقین کر لیتے ہیں اور ذرہ شک نہیں کرتے اور خوب جانتے ہیں کہ اس قدر لوگ جھوٹ نہیں بولتے ضرور بچے ہیں اور بلاشبہ ہماری ہی قوت شامہ ندارد ہے کہ جو ہم ان

Page 362

۳۵۲ مشمومات کے دریافت کرنے سے محروم ہیں.علی ہذا القیاس باطنی استعدادوں میں بھی بنی آدم مختلف ہیں.بعض ادنی ہیں اور مُجب نفسانی میں مجوب ہیں.اور بعض قدیم سے ایسے نفوس عالیہ اور صافیہ ہوتے چلے آئے ہیں کہ جو خدا سے الہام پاتے رہے ہیں.اور ادنیٰ فطرت کے لوگ کہ جو محجوب النفس ہیں اُن کا نفوسِ عالیہ لطیفہ کے خصائص ذاتیہ سے انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی اندھا یا ضعیف البصر صاحب بصارت قویہ کے مرئیات سے انکار کرے.یا جیسا ایک اختم آدمی جس کی قوت بویائی ابتدا پیدائش سے ہی باطل ہو صاحب قوت شامہ کے مشموعات سے منکر ہو.اور پھر منکر کے ملزم کرنے کے لئے بھی جو ظاہری طور پر تدابیر ہیں وہی باطنی طور پر بھی تدابیر موجود ہیں.مثلاً جس کی قوت شامہ کا مفقود ہونا بعلت مولودی ہے اگر وہ بد بو کے وجود سے منکر ہو بیٹھے اور جس قدر لوگ صاحب قوت شامہ ہیں سب کو دروغ گویا وہمی قرار دے تو اس کو یوں سمجھا سکتے ہیں کہ اُس کو یہ کہا جائے کہ وہ بہت سی چیزوں مثلاً پار چات میں سے بعض پر عطر مل کر اور بعض کو خالی رکھ کر صاحب قوت شامہ کا امتحان کر لے تا تکرار تجربہ سے اس کو اس بات پر یقین ہو جائے کہ قوت شامہ کا وجود بھی واقعی اور حقیقی ہے اور ایسے لوگ فی الحقیقت پائے جاتے ہیں کہ جو معطر اور غیر معطر میں فرق کر لیتے ہیں.ایسا ہی تکرار تجربہ سے الہام کا وجود طالب حق پر ثابت ہو جاتا ہے.کیونکہ جب صاحب الہام پر وہ امور غیبیہ اور دقائق مخفیہ منکشف ہوتے ہیں کہ جو مجرد عقل سے منکشف نہیں ہو سکتے.اور کتاب الہامی ان عجائبات پر مشتمل ہوتی ہے جن پر کوئی دوسری کتاب مشتمل نہیں ہوتی ، تو طالب حق اسی دلیل سے سمجھ لیتا ہے کہ الہام الہی ایک متحقق الوجود صداقت ہے.اور اگر نفوس صافیہ میں سے ہو تو خود ٹھیک ٹھیک راہ راست پر چلنے سے کسی قدر بہ حیثیت نورانیت قلب اپنے کے الہام الہی کو اولیاء اللہ کی طرح پا بھی لیتا ہے جس سے وحی کر سالت پر بطور حق الیقین اس کو علم حاصل ہو جاتا ہے.چنانچہ طالب حق کے لئے کہ جو اسلام کے قبول کرنے پر دلی سچائی اور روحانی صدق اور خالص اطاعت سے رغبت ظاہر کرے ہم ہی اس طور پر تسلی کر دینے کا ذمہ اٹھاتے ہیں.وَ اِنْ كَانَ اَحَدٌ فِي شَكٍّ مِّنْ قَوْلِى فَلْيَرْجِعُ إِلَيْنَا بِصِدْقِ الْقَدَمِ.وَاللَّهُ عَلَى مَانَقُولُ قَدِيرٌ.وَهُوَ فِي كُلِّ أَمْرٍ نَصِيرٌ اور یہ خیال کرنا کہ جو جو دقائق فکر اور نظر کے استعمال سے لوگوں پر کھلتے ہیں وہی الہام ہیں بجز ان کے کوئی شے الہام نہیں.یہ بھی ایک ایسا وہم ہے جس کا موجب صرف کور باطنی اور بے خبری ہے.اگر انسانی خیالات ہی خدا کا الہام ہوتے تو انسان بھی خدا کی طرح بذریعہ اپنے فکر اور نظر کے اُمور غیبیہ کو

Page 363

۳۵۳ معلوم کر سکتا.لیکن ظاہر ہے کہ گو انسان کیسا ہی دانا ہو مگر وہ فکر کر کے کوئی امر غیب بتلا نہیں سکتا اور کوئی نشان طاقت الوہیت کا ظاہر نہیں کر سکتا اور خدا کی قدرتِ خاصہ کی کوئی علامت اُس کے کلام میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ اگر وہ فکر کرتا کرتا مر بھی جائے تب بھی ان پوشیدہ باتوں کو معلوم نہیں کر سکتا کہ جو اس کی عقل اور نظر اور حواس سے وراء الوراء ہیں اور نہ اس کا کلام ایسا عالی ہوتا ہے کہ جس کے مقابلہ سے انسانی قوتیں عاجز ہوں.پس اس وجہ سے عاقل کو یقین کرنے کے لئے وجوہ کافی ہیں کہ جو کچھ انسان اپنی فکر اور نظر سے بھلے یا بُرے خیالات پیدا کرتا ہے وہ خدا کا کلام نہیں بن سکتے.اگر وہ خدا کا کلام ہوتا تو انسان پر سارے غیب کے دروازے کھل جاتے اور وہ امور بیان کر سکتا جن کا بیان کرنا الوہیت کی قوت پر موقوف ہے.کیونکہ خدا کے کام اور کلام میں خدائی کے تجلیات کا ہونا ضروری ہے لیکن اگر کسی کے دل میں یہ شبہ گذرے کہ نیک اور بد تدبیریں اور ہر یک شر و خیر کے متعلق باریک حکمتیں اور طرح طرح کے مکر وفریب کی باتیں کہ جو فکر اور نظر کے وقت انسان کے دل میں پڑ جاتی ہیں وہ کس کی طرف سے اور کہاں سے پڑتی ہیں اور کیونکر سوچتے سوچتے ایک دفعہ مطلب کی بات سُوجھ جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام خیالات خلق اللہ ہیں، امر اللہ نہیں اور اس جگہ خلق اور امر میں ایک لطیف فرق ہے.خلق تو خدا کے اس فعل سے مراد ہے کہ جب خدائے تعالیٰ عالم کی کسی چیز کو بتوسط اسباب پیدا کر کے بوجہ علت العلل ہونے کے اپنی طرف اس کو منسوب کرے اور امر وہ ہے جو بلا توسط اسباب خالص خدائے تعالی کی طرف سے ہو اور کسی سبب کی اس سے آمیزش نہ ہو.پس کلام الہی جو اس قادر مطلق کی طرف سے نازل ہوتا ہے اس کا نزول عالم امر سے ہے نہ عالم خلق ہے.اور دوسرے جو جو خیالات انسانوں کے دلوں میں بوقت نظر وفکر اٹھا کرتے ہیں وہ بتا مہا عالم خلق سے ہیں کہ جن میں قدرت الہیہ زیر پردہ اسباب و قوی متصرف ہوتی ہے اور ان کی نسبت بسط کلام یوں ہے کہ خدا نے انسان کو اس عالم اسباب میں طرح طرح کی قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ پیدا کر کے اُن کی فطرت کو ایک ایسے قانون قدرت پر مبنی کر دیا ہے یعنی ان کی پیدائش میں کچھ اس قسم کی خاصیت رکھ دی ہے کہ جب وہ کسی بھلے یا بُرے کام میں اپنی فکر کو متحرک کریں تو اُسی کے مناسب ان کو تدبیریں سُوجھ جایا کریں.جیسے ظاہری قوتوں اور حواسوں میں انسان کے لئے یہ قانون قدرت رکھا گیا ہے کہ جب وہ اپنی آنکھ کھولے تو کچھ نہ کچھ دیکھ لیتا ہے اور جب اپنے کانوں کو کسی آواز کی طرف لگاوے تو کچھ نہ کچھ سُن لیتا ہے.اسی طرح جب وہ کسی نیک یا بد کام میں کوئی کامیابی کا راستہ سوچتا ہے تو کوئی نہ کوئی تدبیر سوجھ ہی جاتی ہے.

Page 364

۳۵۴ صالح آدمی نیک راہ میں فکر کر کے نیک باتیں نکالتا ہے اور چور نقب زنی کے باب میں فکر کر کے کوئی عمدہ طریق نقب زنی کا ایجاد کرتا ہے.غرض جس طرح بدی کے بارے میں انسان کو بڑے بڑے عمیق اور نازک بدی کے خیال سوجھ جاتے ہیں.علی ہذا القیاس اُسی وقت کو جب انسان نیک راہ میں استعمال کرتا ہے تو نیکی کے عمدہ خیال بھی سوجھ جاتے ہیں.اور جس طرح بد خیالات گو کیسے ہی عمیق اور دقیق اور جادواثر کیوں نہ ہوں خدا کا کلام نہیں ہو سکتے ایسا ہی انسان کے خود تراشیدہ خیالات جن کو وہ اپنے زعم میں نیک سمجھتا ہے کلام الہی نہیں ہیں.خلاصہ یہ کہ جو کچھ نیکوں کو نیک حکمتیں یا چوروں اور ڈاکوؤں اور خونیوں اور زانیوں اور جعلسازوں کو فکر اور نظر کے بعد بُری تدبیریں سو جھتی ہیں وہ فطرتی آثار اور خواص ہیں.اور بوجہ علت العلل ہو نے حضرت باری کے اُن کو خلق اللہ کہا جاتا ہے نہ امر اللہ.وہ انسان کے لئے ایسے ہی فطرتی خواص ہیں جیسے نباتات کے لئے قوت اسہال یا قوت قبض یا دوسری قو تیں فطرتی خواص ہیں.غرض جیسا اور چیزوں میں حکیم مطلق نے طرح طرح کے خواص رکھتے ہیں ایسا ہی انسان کی قوت متفکرہ میں یہ خاصہ رکھا ہے کہ جس نیک یا بد میں انسان اس سے مدد لینا چاہتا ہے اسی قسم کی اس سے مدد ملتی ہے.ایک شاعر کسی کی ہجو میں شعر بناتا ہے.اس کو فکر کرنے سے ہجو کے شعر سو جھتے جاتے ہیں.دوسرا شاعر اسی شخص کی تعریف کرنی چاہتا ہے اس کو تعریف کا ہی مضمون سوجھتا ہے.سو اس قسم کے خیالات نیک اور بد خدا کی خاص مرضی کا آئینہ نہیں ہو سکتے اور نہ اُس کا کام اور کلام کہلا سکتے ہیں.خدا کا پاک کلام وہ کلام ہے کہ جو انسانی قومی سے بکلی برتر و اعلیٰ ہے.اور کمالیت اور قدرت اور تقدس سے بھرا ہوا ہے جس کے ظہور و بروز کے لئے اوّل شرط یہی ہے کہ بشری قو تیں بکلی معطل اور بے کار ہوں.نہ فکر ہو نہ نظر ہو بلکہ انسان مثل میت کے ہو اور سب اسباب منقطع ہوں.اور خدا جس کا وجود واقعی اور حقیقی ہے آپ اپنے کلام کو اپنے خاص ارادہ سے کسی کے دل پر نازل کرے.پس سمجھنا چاہئے کہ جس طرح آفتاب کی روشنی صرف آسمان سے آتی ہے آنکھ کے اندر سے پیدا نہیں ہو سکتی اسی طرح نور الہام کا بھی خاص خدا کی طرف سے اور اس کے ارادہ سے نازل ہوتا ہے.یونہی اندر سے جوش نہیں مارتا.جبکہ خدا فی الواقعہ موجود ہے اور فی الواقع وہ دیکھتا، سُنتا، جانتا، کلام کرتا ہے تو پھر اُس کا کلام اُسی کی قیوم کی طرف سے نازل ہونا چاہئے نہ یہ کہ انسان کے اپنے ہی خیالات خدا کا کلام بن جائیں.ہمارے اندر سے وہی خیالات بھلے یا بُرے جوش مارتے ہیں کہ جو ہمارے انداز ہ فطرت کے مطابق ہمارے اندر سمائے ہوئے ہیں مگر خدا کے بے انتہا علم اور بے شمار حکمتیں ہمارے دل میں کیونکر سما سکیں.اس سے زیادہ تر اور کیا

Page 365

۳۵۵ کفر ہو گا کہ انسان ایسا خیال کرے کہ جس قدر خدا کے پاس خزائن علم و حکمت اور اسرار غیب ہیں وہ سب ہمارے ہی دل میں موجود ہیں اور ہمارے ہی دل سے جوش مارتے ہیں.پس دوسرے لفظوں میں اس کا خلاصہ تو یہی ہوا کہ حقیقت میں ہم ہی خدا ہیں اور بجز ہمارے اور کوئی ذات قائم بنفسہ اور منصف بصفاتہ موجود نہیں جس کو خدا کہا جائے.کیونکر اگر فی الواقعہ خدا موجود ہے اور اس کے علوم غیر متنا ہی اُسی سے خاص ہیں جن کا پیمانہ ہمارا دل نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں کس قدر یہ قول غلط اور بے ہودہ ہے کہ خدا کے بے انتہا علوم ہمارے ہی دل میں بھرے پڑے ہیں اور خدا کے تمام خزائن حکمت ہمارے ہی قلب میں سما رہے ہیں.گویا خدا کا علم اسی قدر ہے جس قدر ہمارے دل میں موجود ہے.پس خیال کرو کہ اگر یہ خدائی کا دعوی نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کا دل خدا کے جمیع کمالات کا جامع ہو جائے ؟ کیا یہ جائز ہے کہ ایک ذرہ امکان آفتاب وجوب بن جائے ؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں.ہم پہلے ابھی لکھ چکے ہیں کہ الوہیت کے خواص جیسے علم غیب اور احاطہ دقائق حکمیہ اور دوسرے قدرتی نشان انسان سے ہرگز ظہور پذیر نہیں ہو سکتے.اور خدا کا کلام وہ ہے جس میں خدا کی عظمت، خدا کی قدرت، خدا کی برکت، خدا کی حکمت، خدا کی بے نظیری پائی جاوے.سو وہ تمام شرائط قرآن شریف میں ہیں جیسے انشاء اللہ ثبوت اس کا اپنے موقعہ پر ہوگا.پس اگر اب بھی برہمو سماج والوں کو ایسے الہام کے وجود سے انکار ہو کہ جو امور غیبیہ اور دوسرے امور قدرتیہ پر مشتمل ہو تو اُن کو اپنی آنکھ کھولنے کے لئے قرآن شریف کو بغور تمام دیکھنا چاہئے تا انہیں معلوم ہو کہ کیسے اس کلام پاک میں ایک دریا اخبار غیب کا اور نیز اُن تمام امور قدرتیہ کا کہ جو انسانی طاقتوں سے باہر ہیں بہ رہا ہے.اور اگر بوجہ قلت بصیرت و بصارت ان فضائل قرآنیہ کو خود بخو د معلوم نہ کر سکیں تو ہماری اس کتاب کو ذرا آنکھ کھول کر پڑھیں تا وہ خزائن اُمور غیبیہ واسرار قدرتیہ کہ جو قرآن شریف میں بھرے پڑے ہیں بطور مشتے نمونہ از خروارے اُن کو معلوم ہو جائیں اور یہ بھی ان کو معلوم رہے کہ تحقق وجود الہام ربانی کے لئے کہ جو خاص خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے.اور امور غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے ایک اور بھی راستہ کھلا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اُمت محمدیہ میں کہ جو بچے دین پر ثابت اور قائم ہیں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے کہ جو خدا کی طرف سے ملہم ہو کر ایسے امور غیبیہ جتلاتے ہیں جن کا بتلا نا بجز خدائے واحد لاشریک کے کسی کے اختیار میں نہیں.اور خداوند تعالیٰ اس پاک الہام کو اُنہی ایمانداروں کو عطا کرتا ہے جو بچے دل سے قرآن شریف کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور صدق اور اخلاص سے اس پر عمل کرتے ہیں.اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا سچا اور کامل

Page 366

۳۵۶ پیغمبر اور سب پیغمبروں سے افضل اور اعلیٰ اور بہتر اور خاتم الرسل اور اپنا ہادی اور رہبر سمجھتے ہیں دوسروں کو یہ الہام یعنی یہودیوں عیسائیوں آریوں اور برہمیوں وغیرہ کو ہرگز نہیں ہوتا.بلکہ ہمیشہ قرآن شریف کے کامل تابعین کو ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہوگا.اور گو وحی رسالت بہت عدم ضرورت منقطع ہے لیکن یہ الہام کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے با اخلاص خادموں کو ہوتا ہے یہ کسی زمانہ میں منقطع نہیں ہوگا.اور یہ الہام وحی رسالت پر ایک عظیم الشان ثبوت ہے جس کے سامنے ہر یک منکر و مخالف اسلام ذلیل اور رُسوا ہے اور چونکہ یہ مبارک الہام اپنی تمام برکت اور عزت اور عظمت اور جلال کے ساتھ صرف اُن عزت دار بندوں میں پایا جاتا ہے کہ جو امت محمدیہ میں داخل ہیں اور خدام آنحضرت والا جاہ ہیں.دوسرے کسی فرقہ میں یہ نور کامل کہ جو تقرب اور قبولیت اور خوشنودی حضرت عزت کی بشارتیں بخشتا ہے ہر گز پایا نہیں جاتا.اس لئے وجود اس مبارک الہام کا صرف نفس الہام کی حقانیت کو ثابت نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ دنیا میں مقبول اور مستقیم دین پر جو فرقہ ہے وہ فقط اہلِ اسلام ہی کا فرقہ ہے اور باقی سب لوگ باطل پرست اور کجرو اور مور د غضب الہی ہیں.نادان لوگ میری اس بات کو سنتے ہی طرح طرح کی باتیں بنائیں گے اور انکار سے سر ہلائیں گے یا احمقوں اور شریروں کی طرح ٹھٹھا کریں گے مگر اُن کو سمجھنا چاہئے کہ خواہ نخواہ انکار اور ہنسی سے پیش آنا شریف النفس اور طالب الحق انسانوں کا کام نہیں بلکہ ان خبیث الطینیت اور شریر النفس لوگوں کا کام ہے جن کو خدا اور راستی سے غرض نہیں.دنیا میں ہزار ہا چیزوں میں ایسے خواص ہیں کہ جو عقلی طور پر سمجھے نہیں جاتے صرف تجربہ سے انسان ان کو سمجھتا ہے.اسی وجہ سے عام طور پر تمام عنظمندوں کا یہی قاعدہ ہے کہ جب تکرار تجربہ سے کسی چیز کی خاصیت ظاہر ہو جاتی ہے تو پھر اس خاصیت کے تحقق وجود میں کسی عاقل کو شک باقی نہیں رہتا.اور آزمانے کے بعد وہی شخص شک کرتا ہے کہ جونرا گدھا ہے.مثلاً خر بد میں جو قوت اسہال ہے یا مقناطیس میں جو قوت جذب ہے اگر چہ اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں کہ کیوں ان میں یہ قوتیں ہیں لیکن جب کہ تکرار تجر بہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ضرور ان چیزوں میں یہ قو تیں پائی جاتی ہیں تو گوان کی کیفیت وجود پر عقلی طور پر کوئی دلیل قائم نہ ہولیکن بضرورت شہادت قاطعہ تجربہ اور امتحان کے ہر ایک عاقل کو ماننا پڑتا ہے کہ فی الحقیقت تربد میں قوت اسہال ہے اور مقناطیس میں خاصہ جذب موجود ہے اور اگر کوئی ان کے وجود سے اس بنا پر انکار کرے کہ عقلی طور پر مجھ کو کوئی دلیل نہیں ملتی تو ایسے شخص کو ہر ایک دانا پاگل اور دیوانہ جانتا ہے اور سودائی اور مسلوب العقل قرار دیتا ہے.سواب ہم بر ہمولوگوں اور

Page 367

۳۵۷ دوسرے مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے الہام کی نسبت بیان کیا ہے یعنی یہ کہ وہ اب بھی امت محمدیہ کے کامل افراد میں پایا جاتا ہے اور انہی سے مخصوص ہے.ان کے غیر میں ہرگز پایا نہیں جاتا.یہ بیان ہمارا بلا ثبوت نہیں بلکہ جیسا بذریعہ تجربہ ہزار ہا صداقتیں دریافت ہو رہی ہیں.ایسا ہی یہ بھی تجربہ اور امتحان سے ہر یک طالب پر ظاہر ہو سکتا ہے اور اگر کسی کو طلب حق ہو تو اس کا ثابت کر دکھانا بھی ہمارا ہی ذمہ ہے.بشرطیکہ کوئی برہمو یا اور کوئی منکر دین اسلام کا طالب حق بن کر اور بصدق دل دین اسلام قبول کرنے کا وعدہ تحریری مشتہر کر کے اخلاص اور نیک نیتی اور اطاعت سے رجوع کرے.فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ لا بعض لوگ یہ وہم بھی پیش کرتے ہیں کہ جس حالت میں امور غیبیہ کے بتانے والے دنیا میں کئی فرقے پائے جاتے ہیں کہ جو کبھی نہ کبھی اور کچھ نہ کچھ بتلا دیتے ہیں اور بعض اوقات کسی قدر ان کا مقولہ بھی سچ ہو رہتا ہے جیسے منجم، طبیب، قیافہ دان، بو کا کاہن، رمال، جفری ، فال بین اور بعض بعض مجانین اور حال کے زمانہ میں مسمریزم کے بعض امور ان سے مکشوف ہوتے رہے ہیں تو پھر اُمور غیبیہ الہام کی حقانیت پر کیونکر حجت قاطع ہوں گے.اس کے جواب میں سمجھنا چاہئے کہ یہ تمام فرقے جن کا اوپر ذکر ہوا صرف ظن اور تخمین بلکہ وہم پرستی سے باتیں کرتے ہیں یقینی اور قطعی علم ان کو ہرگز نہیں ہوتا اور نہ ان کا ایسا دعویٰ ہوتا ہے اور بعض حوادث کو نیہ سے جو یہ لوگ اطلاع دیتے ہیں تو اُن کی پیشین گوئیوں کا ماخذ صرف علامات و اسباب ظنیہ ہوتے ہیں جنہوں نے قطع اور یقین کے مرتبہ سے مس بھی نہیں کیا ہوتا اور احتمال تلبیس اور اشتباہ اور خطا کا اُن سے مرتفع نہیں ہوتا بلکہ اکثر ان کی خبریں سراسر بے اصل اور بے بنیاد اور دروغ محض نکلتی ہیں اور باوصف اس کذب فاش اور خلاف واقعہ نکلنے کے اُن کی پیشین گوئیوں میں عزت اور قبولیت اور منصوریت اور کامیابی کے انوار پائے نہیں جاتے اور ایسے خبریں بتانے والے اپنی ذاتی حالت میں اکثر افلاس زدہ اور بدنصیب اور بد بخت اور بے عزت اور دونِ ہمت اور دنی النفس اور نا کام اور نامراد ہی نظر آتے ہیں اور امور غیبیہ کو اپنی حسب مراد ہرگز نہیں کر سکتے بلکہ اُن کے حالات پر خدا کے قہر کی علامات نمودار ہوتی ہیں اور خدا کی طرف سے کوئی برکت اور عزت اور نصرت اُن کے شامل حال نہیں ہوتی.مگر انبیاء اور اولیاء صرف نجومیوں کی طرح اُمور غیبیہ کو ظاہر نہیں کرتے بلکہ خدا کے کامل فضل اور بزرگ رحمت سے کہ جو ہر دم اُن کے شامل حال ہوتی ہے ایسی اعلیٰ پیشین گوئیاں بتلاتے ہیں جن میں انوار قبولیت اور ال عمران ۶۴

Page 368

۳۵۸ ا عزت کے آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جو عزت اور نصرت کی بشارت پر مشتمل ہوتے ہیں.نہ نحوست اور نہ نکبت پر.قرآن شریف کی پیشین گوئیوں پر نظر ڈالو تو معلوم ہو کہ وہ نجومیوں وغیرہ درماندہ لوگوں کی طرح ہر گز نہیں بلکہ اُن میں صریح ایک اقتدار اور جلال جوش مارتا ہوا نظر آتا ہے اور اس میں تمام پیشین گوئیوں کا یہی طریق اور طرز ہے کہ اپنی عزت اور دشمن کی ذلت اور اپنا اقبال اور دشمن کا ادبار اور اپنی کامیابی اور دشمن کی ناکامی اور اپنی فتح اور دشمن کی شکست اور اپنی ہمیشہ کی سرسبزی اور دشمن کی تباہی ظاہر کی ہے.کیا اس قسم کی پیشین گوئیاں کوئی نجومی بھی کر سکتا ہے یا کسی رمال یا مسمریزم کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہو سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں.ہمیشہ اپنی ہی خیر ظاہر کرنا اور مخالف کا زوال اور وبال جتلانا اور جو بات مخالف مُنہ پر لاوے اُسی کو توڑنا اور جو بات اپنے مطلب کی ہو اُس کے ہو جانے کا وعدہ کرنا یہ تو صریح خدائی ہے انسان کا کام نہیں.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۳۲ تا ۲۴۲ بقیه حاشیہ نمبر ۱) انسان باوجودیکہ ہزار ہا برسوں سے اپنے علوم طبعیہ اور ریاضیہ کے ذریعہ سے خدا کی قدرتوں کے دریافت کرنے کے لئے جان توڑ کوششیں کر رہا ہے مگر ابھی تک اس قدر اس کے معلومات میں کمی ہے کہ اس کو نامراد اور نا کام ہی کہنا چاہئے.صدہا اسرار غیبیہ اہل کشف اور اہل مکالمہ الہیہ پر گھلتے ہیں اور ہزار ہا راستباز ان کے گواہ ہیں مگر فلسفی لوگ اب تک ان کے منکر ہیں.جیسا کہ فلسفی لوگ تمام مدار ادراک معقولات اور تدبر اور تفکر کا دماغ پر رکھتے ہیں مگر اہلِ کشف نے اپنی صحیح رؤیت اور روحانی تجارب کے ساتھ معلوم کیا ہے کہ انسانی عقل اور معرفت کا سرچشمہ دل ہے.جیسا کہ میں پینتیس برس سے اس بات کا مشاہدہ کر رہا ہوں کہ خدا کا الہام جو معارف روحانیہ اور علوم غیبیہ کا ذخیرہ ہے دل پر ہی نازل ہوتا ہے بسا اوقات ایک ایسی آواز سے دل کا سر چشمہ علوم ہونا کھل جاتا ہے کہ وہ آواز دل پر اس طور سے بشدت پڑتی ہے کہ جیسے ایک ڈول زور کے ساتھ ایک ایسے کنوئیں میں پھینکا جاتا ہے جو پانی سے بھرا ہوا ہے تب وہ دل کا پانی جوش مار کر ایک غنچہ کی شکل میں سر بستہ اوپر کو آتا ہے اور دماغ کے قریب ہو کر پھول کی طرح کھل جاتا ہے اور اس میں سے ایک کلام پیدا ہوتا ہے وہی خدا کا کلام ہے.پس ان تجارب صحیحہ روحانیہ سے ثابت ہے کہ دماغ کو علوم اور معارف سے کچھ تعلق نہیں.ہاں اگر دماغ صحیح واقعہ ہو اور اس میں کوئی آفت نہ ہو تو وہ دل کے علوم مخفیہ سے مستفیض ہوتا ہے اور دماغ چونکہ منبت اعصاب ہے اس لئے وہ ایسی گلن کی طرح ہے جو پانی کو کنوئیں سے کھینچ سکتی ہے اور دل وہ کنواں ہے جو

Page 369

۳۵۹ علوم مخفیہ کا سر چشمہ ہے.یہ وہ راز ہے جو اہل حق نے مکاشفات صحیحہ کے ذریعہ سے معلوم کیا ہے جس میں میں خود صاحب تجربہ ہوں.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۸۲ ۲۸۳) یہ عاجز قریباً گیارہ برس سے شرف مکالمہ الہیہ سے مشرف ہے اور اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ وحی در حقیقت آسمان سے ہی نازل ہوتی ہے.وحی کی مثال اگر دنیا کی چیزوں میں سے کسی چیز کے ساتھ دی جائے تو شائد کسی قدر تار برقی سے مشابہ ہے جو اپنے ہر یک تغیر کی آپ خبر دیتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ اس وحی کے وقت جو برنگ وحی ولایت میرے پر نازل ہوتی ہے ایک خارجی اور شدیدالاثر تصرف کا احساس ہوتا ہے اور بعض دفعہ یہ تصرف ایسا قوی ہوتا ہے کہ مجھ کو اپنے انوار میں ایسا دبا لیتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں اس کی طرف ایسا کھینچا گیا ہوں کہ میری کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اس تصرف میں گھلا اور روشن کلام سنتا ہوں.بعض وقت ملائکہ کو دیکھتا ہوں اور سچائی میں جو اثر اور ہیبت ہوتی ہے مشاہدہ کرتا ہوں اور وہ کلام بسا اوقات غیب کی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ایسا تصرف اور اخذ خارجی ہوتا ہے جس سے خدا تعالیٰ کا ثبوت ملتا ہے.اب اس سے انکار کرنا ایک کھلی کھلی صداقت کا خون کرنا ہے.برکات الدعا.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۲۶) مجھے اُس اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وحی آسمان سے دل پر ایسی رگرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر.میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب مکالمہ الہیہ کا وقت آتا ہے تو اول یک دفعہ مجھ پر ایک ربودگی طاری ہوتی ہے تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہو جاتا ہوں اور میری جس اور میرا ادراک اور ہوش گو بگفتن باقی ہوتا ہے مگر اس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تمام وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اُس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا نہیں بلکہ اس کا ہے.جب یہ حالت ہو جاتی ہے تو اس وقت سب سے پہلے خدا تعالی دل کے ان خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتا ہے جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہوتا ہے.تب ایک عجیب کیفیت سے وہ خیالات یکے بعد دیگرے نظر کے سامنے آتے ہیں.اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال مثلاً زید کی نسبت دل میں آیا کہ وہ فلاں مرض سے صحت یاب ہوگا یا نہ ہو گا تو جھٹ اس پر ایک ٹکڑا کلام الہی کا ایک شعاع کی طرح گرتا ہے اور

Page 370

بسا اوقات اس کے گرنے کے ساتھ تمام بدن ہل جاتا ہے.پھر وہ مقدمہ طے ہو کر دوسرا خیال سامنے آتا ہے.ادھر وہ خیال نظر کے سامنے کھڑا ہوا اور اُدھر ساتھ ہی ایک ٹکڑا الہام کا اُس پر گرا.جیسا کہ ایک تیر انداز ہر یک شکار کے نکلنے پر تیر مارتا جاتا ہے اور عین اُس وقت میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ خیالات کا ہمارے ملکہ فطرت سے پیدا ہوتا ہے اور کلام جو اس پر گرتا ہے وہ اوپر سے نازل ہوتا ہے.اگر چہ شعراء وغیرہ کو بھی سوچنے کے بعد القاء ہوتا ہے مگر اُس وحی کو اس سے مناسبت دینا سخت بے تمیزی ہے کیونکہ وہ القاء خوض اور فکر کا ایک نتیجہ ہوتا ہے اور ہوش و حواس کی قائمی اور انسانیت کی حد میں ہونے کی حالت میں ظہور کرتا ہے.لیکن یہ القاء صرف اس وقت ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کے تصرف میں آ جاتا ہے اور اپنا ہوش اور اپنا خوض کسی طور سے اس میں دخل نہیں رکھتا.اُس وقت زبان ایسی معلوم ہوتی ہے کہ گویا یہ اپنی زبان نہیں اور ایک دوسری زبر دست طاقت اس سے کام لے رہی ہے اور یہ صورت جو میں نے بیان کی ہے اس سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ فطرتی سلسلہ کیا چیز ہے اور آسمان سے کیا نازل ہوتا ہے؟ ( برکات الدعا.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۲ ۲۳۰ حاشیه ) مکالمہ الہیہ کے وقت میں جو انسان کو ایک قسم کی نیند اور غنودگی آتی ہے جس غنودگی کی حالت میں خدا کا کلام دل پر نازل ہوتا ہے وہ غنودگی اسباب مادیہ کی حکومت اور تاثیر سے بالکل باہر ہے اور اس جگہ طبعی کے تمام اسباب اور علل معطل اور بے کار رہ جاتے ہیں.مثلاً جب ایک صادق انسان جس کا در حقیقت خدا تعالیٰ سے محبت اور وفا کا تعلق ہے اپنے اس جوش تعلق میں اپنے رب کریم سے کسی حاجت کے متعلق کوئی سوال کرتا ہے تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ ابھی اسی دُعا میں مشغول ہوتا ہے کہ نا گہ ایک غنودگی اُس پر طاری ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی آنکھ کھل جاتی ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس سوال کا جواب اس غنودگی کے پردہ میں نہایت فصیح بلیغ الفاظ میں اس کو مل جاتا ہے.وہ الفاظ اپنے اندر ایک شوکت اور لذت رکھتے ہیں.اور ان میں الوہیت کی طاقت اور قوت چمکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور شیخ آہنی کی طرح دل کے اندر ھنس جاتے ہیں.اور وہ الہامات اکثر غیب پر مشتمل ہوتے ہیں.اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک سوال کے بعد وہ صادق بندہ اُسی پہلے سوال کے متعلق کچھ اور عرض کرنا چاہتا ہے یا کوئی نیا سوال کرتا ہے تو پھر غنودگی اُس پر طاری ہو جاتی ہے اور ایک سیکنڈ تک یا اُس سے بھی کم تر حالت میں وہ غنودگی کھل جاتی ہے اور اس میں سے پھر ایک پاک کلام نکلتا ہے جیسے ایک میوہ کے غلاف میں سے اس کا مغز نکلتا

Page 371

۳۶۱ ہے جو نہایت لذیذ اور پُر شوکت ہوتا ہے.اسی طرح وہ خدا جو نہایت کریم اور رحیم اور اخلاق میں سب سے بڑھا ہوا ہے ہر ایک سوال کا جواب دیتا ہے.اور جواب دینے میں نفرت اور بیزاری ظاہر نہیں کرتا.یہاں تک کہ اگر ساٹھ یا ستر یا سو دفعہ سوال کیا جائے تو اس کا جواب اسی صورت اور اسی پیرایہ میں دیتا ہے یعنی ہر ایک سوال کے وقت ایک خفیف سی غنودگی وارد حال ہو جاتی ہے اور کبھی ایک بھاری غنودگی اور ر بودگی طاری حال ہو جاتی ہے کہ گویا انسان ایک غشی کی حالت میں پڑ گیا ہے.اور اکثر عظیم الشان امور میں اس قسم کی وحی ہوتی ہے اور یہ وحی کی تمام قسموں میں برتر و اعلیٰ ہے.پس ایسے حالات میں جو سوال اور دعا کے وقت لحظہ لحظہ پر غنودگی طاری ہوتی ہے اور اس غنودگی کے پردہ میں وحی الہی نازل ہوتی ہے.یہ طرز غنودگی اسباب مادیہ سے برتر ہے.اور جو کچھ طبعی والوں نے خواب کے متعلق قانون قدرت سمجھ رکھا ہے.اُس کو پاش پاش کرتی ہے.ایسا ہی صد ہا روحانی امور ہیں جو ظاہری فلسفہ والوں کے خیالات کو نہایت ذلیل ثابت کرتے ہیں.بسا اوقات انسان کشفی رنگ میں کئی ہزار کوس کی دُور کی چیزوں کو ایسے طور سے دیکھ لیتا ہے گویا وہ اُس کی آنکھ کے سامنے ہیں اور بسا اوقات اُن روحوں سے جو فوت ہو چکے ہیں عین بیداری میں ملاقات کرتا ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۱۱ ۱۱۲۰) صورت اوّل الہام کی منجملہ اُن کئی صورتوں کے جن پر خدا نے مجھ کو اطلاع دی ہے یہ ہے کہ جب خداوند تعالیٰ کوئی امرغیبی اپنے بندہ پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو کبھی نرمی سے اور کبھی سختی سے بعض کلمات زبان پر کچھ تھوڑی غنودگی کی حالت میں جاری کر دیتا ہے.اور جو کلمات سختی اور گرانی سے جاری ہوتے ہیں.وہ ایسی پر شدت اور عنیف صورت میں زبان پر وارد ہوتے ہیں جیسے گڑے یعنی اولے بیکبارگی ایک سخت زمین پر گرتے ہیں یا جیسے تیز اور پُر زور رفتار میں گھوڑے کاسم زمین پر پڑتا ہے.اس الہام میں ایک عجیب سرعت اور شدت اور ہیبت ہوتی ہے جس سے تمام بدن متاثر ہو جاتا ہے اور زبان ایسی تیزی اور بارعب آواز میں خود بخود وڑتی جاتی ہے کہ گویا وہ اپنی زبان ہی نہیں اور ساتھ اس کے جو ایک تھوڑی سی غنودگی اور ر بودگی ہوتی ہے وہ الہام کے تمام ہونے کے بعد فی الفور دُور ہو جاتی ہے اور جب تک کلمات الہام تمام نہ ہوں تب تک انسان ایک میت کی طرح بے حس و حرکت پڑا ہوتا ہے.یہ الہام اکثر ان صورتوں میں نازل ہوتا ہے کہ جب خداوند کریم ورحیم اپنی عین حکمت اور مصلحت سے کسی خاص دُعا کو منظور کرنا نہیں چاہتا یا کسی عرصہ تک تو قف ڈالنا چاہتا ہے یا کوئی اور خبر پہنچانا چاہتا ہے

Page 372

۳۶۲ کہ جو بہ مقتضائے بشریت انسان کی طبیعت پر گراں گذرتی ہو.مثلاً جب انسان جلدی سے کسی امر کا حاصل کر لینا چاہتا ہو اور وہ حاصل ہونا حسب مصلحت ربانی اس کے لئے مقدر نہ ہو یا توقف سے مقدر ہو اس قسم کے الہام بھی یعنی جو سخت اور گراں صورت کے الفاظ خدا کی طرف سے زبان پر جاری ہوتے ہیں بعض اوقات مجھ کو ہوتے رہے ہیں جس کا بیان کرنا موجب طوالت ہے مگر ایک مختصر فقرہ بطور نمونہ بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ شائد تین سال کے قریب عرصہ گذرا ہو گا کہ میں نے اسی کتاب کے لئے دُعا کی کہ لوگ اس کی مدد کی طرف متوجہ ہوں تب یہی الہام شدید الکلمات جس کی میں نے ابھی تعریف کی ہے ان لفظوں میں ہوا.بالفعل نہیں، اور یہ الہام جب اس خاکسار کو ہوا تو قریب دس یا پندرہ ہندو اور مسلمان لوگوں کے ہوں گے کہ جو قادیان میں اب تک موجود ہیں جن کو اُسی وقت اس الہام سے خبر دی گئی.اور پھر اُسی کے مطابق جیسے لوگوں کی طرف سے عدم تو جہی رہی وہ حال بھی ان تمام صاحبوں کو بخوبی معلوم ہے.دوسری قسم الہام کی یعنی وہ قسم جس میں کچھ ملائمت سے کلمات زبان پر جاری ہوتے ہیں اس قسم میں اپنے ذاتی مشاہدات میں سے صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ جب پہلے الہام کے بعد جس کو میں ابھی ذکر کر چکا ہوں ایک عرصہ گذر گیا اور لوگوں کی عدم توجہی سے طرح طرح کی دقتیں پیش آئیں اور مشکل حد سے بڑھ گئی تو ایک دن قریب مغرب کے خداوند کریم نے یہ الہام کیا.هُزِ إِلَيْكَ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكَ رُطَبًا جَنِيًّا.سو میں نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک کے اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہو گا.اور اس کی خبر بھی بدستور کئی ہندو اور مسلمانوں کو دی گئی.اور اتفاقاً اُسی روز یا دوسرے روز حافظ ہدایت علی خاں صاحب کہ جو ان دنوں اس ضلع میں اکسٹرا اسٹنٹ تھے قادیان میں آگئے اُن کو بھی اس الہام سے اطلاع دی گئی اور مجھے بخوبی یاد ہے کہ اسی ہفتہ میں میں نے آپ کے دوست مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کو بھی اس الہام سے اطلاع دی تھی.اب خلاصہ کلام یہ کہ اس الہام کے بعد میں نے حسب الارشاد حضرت احدیت کسی قدر تحریک کی تو تحریک کرنے کے بعد لاہور، پشاور، راولپنڈی، کوٹلہ مالیر اور چند دوسرے مقاموں سے جس قدر اور جہاں سے خدا نے چاہا اس حصہ کے لئے جو چھپتا تھا مدد پہنچ گئی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِک.(براہین احمدیہ ہر چہار قصص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۴۸ تا ۲۵۱ حاشیه در حاشیه نمبرا) کھجور کے تنا کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجور میں گریں گی.

Page 373

۳۶۳ صورت دوم الہام کی جس کا میں باعتبار کثرت عجائبات کے کامل الہام نام رکھتا ہوں یہ ہے کہ جب خدائے تعالیٰ بندہ کو کسی امرغیبی پر بعد دعا اس بندہ کے یا خود بخود مطلع کرنا چاہتا ہے تو یک دفعہ ایک بیہوشی اور ربودگی اس پر طاری کر دیتا ہے جس سے وہ بالکل اپنی ہستی سے کھویا جاتا ہے.اور ایسا اس بیخودی اور ر بودگی اور بے ہوشی میں ڈوبتا ہے جیسے کوئی پانی میں غوطہ مارتا ہے اور نیچے پانی کے چلا جاتا ہے.غرض جب بندہ اس حالت ربودگی سے کہ جو غوطہ سے بہت ہی مشابہ ہے باہر آتا ہے تو اپنے اندر میں کچھ ایسا مشاہدہ کرتا ہے جیسے ایک گونج پڑی ہوئی ہوتی ہے اور جب وہ گونج کچھ فرو ہوتی ہے تو نا گہاں اُس کو اپنے اندر سے ایک موزون اور لطیف اور لذیذ کلام محسوس ہو جاتی ہے اور یہ غوطہ ربودگی کا ایک نہایت عجیب امر ہے جس کے عجائبات بیان کرنے کے لئے الفاظ کفایت نہیں کرتے.یہی حالت ہے جس سے ایک دریا معرفت کا انسان پر کھل جاتا ہے کیونکہ جب بار بار دعا کرنے کے وقت خدا وند تعالیٰ اس حالت غوطہ اور ر بودگی کو اپنے بندہ پر وارد کر کے اس کی ہر یک دعا کا اس کو ایک لطیف اور لذیذ کلام میں جواب دیتا ہے اور ہر یک استفسار کی حالت میں وہ حقائق اس پر کھولتا ہے جن کا کھلنا انسان کی طاقت سے باہر ہے تو یہ امر اس کے لئے موجب مزید معرفت اور باعث عرفان کامل ہو جاتا ہے.بندہ کا دُعا کرنا اور خدا کا اپنی الوہیت کی تجلی سے ہر ایک دعا کا جواب دینا یہ ایک ایسا امر ہے کہ گویا اسی عالم میں بندہ اپنے خدا کو دیکھ لیتا ہے اور دونوں عالم اس کے لئے بلا تفاوت یکساں ہو جاتے ہیں.جب بندہ اپنی کسی حاجت کے وقت بار بار اپنے مولیٰ کریم سے کوئی عقدہ پیش آمدہ دریافت کرتا ہے اور عرض حال کے بعد حضرت خداوند کریم سے جواب پاتا ہے اسی طرح کہ جیسے ایک انسان دوسرے انسان کی بات کا جواب دیتا ہے اور جواب ایسا ہوتا ہے کہ نہایت فصیح اور لطیف الفاظ میں بلکہ کبھی کسی ایسی زبان میں ہوتا ہے کہ جس سے وہ بندہ نا آشنا محض ہے اور کبھی امور غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے کہ جو مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہیں اور کبھی اس کے ذریعہ سے مواہب عظیمہ کی بشارت ملتی ہے اور منازل عالیہ کی خوشخبری سنائی جاتی ہے اور قرب حضرت باری کی مبارکبادی دی جاتی ہے.اور کبھی دنیوی برکتوں کے بارے میں پیشگوئی ہوتی ہے تو ان کلمات لطیفہ و بلیغہ کے سُننے سے کہ جو مخلوق کی قوتوں سے نہایت بلند اور اعلیٰ ہوتے ہیں جس قدر ذوق اور معرفت حاصل ہوتی ہے اس کو وہی بندہ جانتا ہے جس کو یہ نعمت عطا ہوتی ہے.فی الحقیقت وہ خدا کو ایسا ہی شناخت کر لیتا ہے جیسے کوئی شخص تم میں سے اپنے پکے اور پرانے دوست کو شناخت کرتا ہے.اور یہ الہام اکثر معظمات امور میں ہوتا ہے.کبھی اس میں ایسے الفاظ بھی ہوتے ہیں جن کے

Page 374

۳۶۴ معنے لغت کی کتابیں دیکھ کر کرنے پڑتے ہیں اور بلکہ بعض دفعہ یہ الہام کسی اجنبی زبان مثلاً انگریزی یا کسی ایسی دوسری زبان میں ہوا ہے جس زبان سے ہم محض نا واقف ہیں.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۶۰ تا ۲۶۴ حاشیه در حاشیه نمبرا) صورت سوم الہام کی یہ ہے کہ نرم اور آہستہ طور پر انسان کے قلب پر القاء ہوتا ہے یعنی یک مرتبہ دل میں کوئی کلمہ گذر جاتا ہے جس میں وہ عجائبات یہ تمام و کمال نہیں ہوتے کہ جو دوسری صورت میں بیان کئے گئے ہیں بلکہ اس میں ربودگی اور غنودگی بھی شرط نہیں.بسا اوقات عین بیداری میں ہو جاتا ہے اور اُس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا غیب سے کسی نے وہ کلمہ دل میں پھونک دیا ہے یا پھینک دیا ہے.انسان کسی قدر بیداری میں ایک استغراق اور محویت کی حالت میں ہوتا ہے اور کبھی بالکل بیدار ہوتا ہے کہ یکدفعہ دیکھتا ہے کہ ایک نو وارد کلام اُس کے سینہ میں داخل ہے یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ معاوہ کلام دل میں داخل ہوتے ہی اپنی پُر زور روشنی ظاہر کر دیتا ہے اور انسان متنبہ ہو جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے یہ القاء ہے.اور صاحب ذوق کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تنفسی ہوا اندر جاتی ہے اور تمام دل وغیرہ اعضاء کو راحت پہنچاتی ہے ویسا ہی وہ الہام دل کو تسکی اور سکیت اور آرام بخشتا ہے اور طبیعت مضطرب پر اُس کی خوشی اور خنکی ظاہر ہوتی ہے.یہ ایک باریک بھید ہے جو عوام لوگوں سے پوشیدہ ہے.مگر عارف اور صاحب معرفت لوگ جن کو حضرت واہب حقیقی نے اسرار ربانی میں صاحب تجربہ کر دیا ہے وہ اس کو خوب سمجھتے اور جانتے ہیں اور اس صورت کا الہام بھی اس عاجز کو بار ہا ہوا ہے جس کا لکھنا بالفعل کچھ ضروری نہیں.صورت چہارم الہام کی یہ ہے کہ رویا صادقہ میں کوئی امر خدائے تعالیٰ کی طرف سے منکشف ہو جاتا ہے یا کبھی کوئی فرشتہ انسان کی شکل میں متشکل ہو کر کوئی غیبی بات بتلاتا ہے یا کوئی تحریر کا غذ یا پتھر وغیرہ پر مشہور ہو جاتی ہے جس سے کچھ اسرار غیبیہ ظاہر ہوتے ہیں.وَغَيْرُهَا مِنَ الصُّوَرِ - ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۷۳ ۲۷۴ حاشیه در حاشیہ نمبر ۱) صورت پنجم الہام کی وہ ہے جس کا انسان کے قلب سے کچھ تعلق نہیں بلکہ ایک خارج سے آواز آتی ہے اور یہ آواز ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ایک پردہ کے پیچھے سے کوئی آدمی بولتا ہے.مگر یہ آواز نہایت لذیذ اور شگفتہ اور کسی قدر سرعت کے ساتھ ہوتی ہے اور دل کو اس سے ایک لذت پہنچتی ہے.انسان کسی قدر استغراق میں ہوتا ہے کہ یک دفعہ یہ آواز آ جاتی ہے اور آواز سن کر وہ حیران رہ جاتا ہے کہ کہاں سے

Page 375

۳۶۵ یہ آواز آئی اور کس نے مجھ سے کلام کی.اور حیرت زدہ کی طرح آگے پیچھے دیکھتا ہے.پھر سمجھ جاتا ہے کہ کسی فرشتہ نے یہ آواز دی.اور یہ آواز خارجی اکثر اس حالت میں بطور بشارت آتی ہے کہ جب انسان کسی معاملے میں نہایت متفکر اور مغموم ہوتا ہے یا کسی بدخبری کے سننے سے کہ جو اصل میں محض دروغ تھی کوئی سخت اندیشہ اس کو دامنگیر ہو جاتا ہے.مگر صورت دوم کی طرح اس میں مکرر دعاؤں پر اُس آواز کا صادر ہونا مشہود نہیں ہوا.بلکہ ایک ہی دفعہ اُسی وقت کہ جب خدائے تعالیٰ چاہتا ہے کوئی فرشتہ غیب سے ناگہانی طور پر آواز کرتا ہے برخلاف صورت دوم کے اُس میں اکثر کامل دعاؤں پر حضرت احدیت کی طرف سے جواب صادر ہونا مشہور ہوا ہے اور خواہ سو مرتبہ دُعا اور سوال کرنے کا اتفاق ہو اس کا جواب سو مرتبہ ہی حضرت فیاض مطلق کی طرف سے صادر ہو سکتا ہے جیسا کہ متواتر تجر بہ خود اس خاکسار کا اس بات کا شاہد ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۸۷، ۲۸۸ حاشیه در حاشیہ نمبرا) میں نے کئی دفعہ کشفی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا ہے اور اور بعض نبیوں سے بھی میں نے عین بیداری میں ملاقات کی ہے اور میں نے سید و مولی اپنے امام نبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی دفعہ عین بیداری میں دیکھا ہے اور باتیں کی ہیں.اور ایسی صاف بیداری سے دیکھا ہے جس کے ساتھ خواب یا غفلت کا نام ونشان نہ تھا اور میں نے بعض اور وفات یافتہ لوگوں سے بھی اُن کی قبر پر یا اور موقعہ پر عین بیداری میں ملاقات کی ہے اور ان سے باتیں بھی کی ہیں.میں خوب جانتا ہوں کہ اس طرح پر عین بیداری میں گذشتہ لوگوں کی ملاقات ہو جاتی ہے اور نہ صرف ملاقات بلکہ گفتگو ہوتی ہے اور مصافحہ بھی ہوتا ہے اور اس بیداری اور روز مرہ کی بیداری میں لوازم حواس میں کچھ بھی فرق نہیں ہوتا.دیکھا جاتا ہے کہ ہم اسی عالم میں ہیں اور یہی کان ہیں اور یہی آنکھیں ہیں اور یہی زبان ہے مگر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالم اور ہے دنیا اس قسم کی بیداری کو نہیں جانتی کیونکہ دنیا غفلت کی زندگی میں پڑی ہے.یہ بیداری آسمان سے ملتی ہے.یہ ان کو دی جاتی ہے جن کو نئے حواس ملتے ہیں.یہ ایک صحیح بات ہے اور واقعات حقہ میں سے ہے.(مسیح ہندوستان میں.روحانی خزائن جلد ۵ اصفحہ ۳۶، ۳۷) صاحب الہام ہونے میں استعداد اور قابلیت شرط ہے.یہ بات نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس خدائے تعالیٰ کا پیغمبر بن جائے اور ہر ایک پر حقانی وحی نازل ہو جایا کرے.اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں

Page 376

۳۶۶ آپ ہی اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے.وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتَّى نُؤْتُى مِثْلَ مَا أُوتِ رُسُلُ اللهِ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه الجز نمبر ۸ یعنی جس وقت قرآن کی حقیت ظاہر کرنے کے لئے کوئی نشانی کفار کو دکھلائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ جب تک خود ہم پر ہی کتاب الہی نازل نہ ہو تب تک ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے خدا خوب جانتا ہے کہ کس جگہ اور کس محل پر رسالت کو رکھنا چاہئے یعنی قابل اور نا قابل اسے معلوم ہے اور اُسی پر فیضانِ الہام کرتا ہے کہ جو جو ہر قابل ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حکیم مطلق نے افراد بشریہ کو بوجہ مصالحہ مختلفہ مختلف طوروں پر پیدا کیا ہے.اور تمام بنی آدم کا سلسلہ فطرت ایک ایسے خط سے مشابہ رکھا ہے جس کی ایک طرف نہایت ارتفاع پر واقعہ ہو اور دوسری طرف نہایت اِن حضاض پر.طرف ارتفاع میں وہ نفوس صافیہ ہیں جن کی استعدادیں حسب مراتب متفاوته کامل درجہ پر ہیں اور طرف انحصار میں وہ نفوس ہیں جن کو اس سلسلہ میں ایسی پست جگہ ملی ہے کہ حیوانات لا یعقل کے قریب قریب پہنچ گئے ہیں اور درمیان میں وہ نفوس ہیں جو عقل وغیرہ میں درمیان کے درجہ میں ہیں اور اس کے اثبات کے لئے مشاہدہ افرادِ مُخْتَلِفَةُ الْإِسْتِعْدَاد کافی دلیل ہے کیونکہ کوئی عاقل اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ افراد بشریہ عقل کے رُو سے تقویٰ اور خدا ترسی کے لحاظ سے محبت الہیہ کی وجہ سے مختلف مدارج پر پڑی ہوئی ہیں اور جس طرح قدرتی واقعات سے کوئی خوبصورت پیدا ہوتا ہے کوئی بدصورت کوئی سوجا کھا، کوئی اندھا، کوئی ضعیف البصر ، کوئی قوی البصر ، کوئی تائم الخلقت، کوئی ناقص الخلقت اسی طرح قوی دماغیہ اور انوار قلبیہ کا تفاوت مراتب بھی مشہود اور محسوس ہے.ہاں یہ سچ بات ہے که هر یک فرد بشر بشرطیکہ نر امنخبط الحواس اور مسلوب العقل نہ ہو.عقل میں تقویٰ میں محبت الہیہ میں ترقی کر سکتا ہے مگر اس بات کو بخوبی یا درکھنا چاہئے کہ کوئی نفس اپنے دائرہ قابلیت سے زیادہ ہرگز ترقی نہیں کرسکتا.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۸۲٬۱۸۱ حاشیہ نمبر۱۱) طبائع انسانی جواہر کانی کی طرح مختلف الاقسام ہیں.بعض طبیعتیں چاندی کی طرح روشن اور صاف.بعض گندھک کی طرح بد بودار اور جلد بھڑکنے والی.بعض زیبق کی طرح بے ثبات اور بے قرار.بعض لوہے کی طرح سخت اور کثیف اور جیسا یہ اختلاف طبائع بدیہی الثبوت ہے ایسا ہی انتظامِ ربانی کے بھی موافق ہے کچھ بے قاعدہ بات نہیں.کوئی ایسا امر نہیں کہ قانون نظام عالم کے برخلاف ہو بلکہ آسائش و آبادی عالم اس پر موقوف ہے.ظاہر ہے کہ اگر تمام طبیعتیں ایک ہی مرتبہ استعداد پر ہوتیں تو الانعام : ۱۲۵

Page 377

پھر مختلف طور کے کام (جو مختلف طور کی استعدادوں پر موقوف تھے ) جن پر دنیا کی آبادی کا مدار تھا حيّز التوا میں رہ جاتے کیونکہ کثیف کاموں کے لئے وہ طبیعتیں مناسب حال ہیں جو کثیف ہیں اور لطیف کاموں کے لئے وہ طبیعتیں مناسبت رکھتی ہیں جو لطیف ہیں.یونانی حکیموں نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے کہ جیسے بعض انسان حیوانات کے قریب قریب ہوتے ہیں.اسی طرح عقل تقاضا کرتی ہے کہ بعض انسان ایسے بھی ہوں جن کا جو ہر نفس کمال صفوت اور لطافت پر واقع ہو تا جس طرح طبائع انسانی کا سلسلہ نیچے کی طرف اس قدر منزل نظر آتا ہے کہ حیوانات سے جا کر اتصال پکڑ لیا ہے.اسی طرح اوپر کی طرف بھی ایسا متصاعد ہو کہ عالم اعلیٰ سے اتصال پکڑ لے.اب جبکہ ثابت ہو گیا کہ افرادِ بشریہ عقل میں، قوائے اخلاقیہ میں، نور قلب میں متفاوت المراتب ہیں تو اسی سے وحی کربانی کا بعض افراد بشریہ سے خاص ہونا یعنی ان سے جو مِن كُل الوُجُوہ کامل ہیں بہ پایہ ثبوت پہنچ گیا کیونکہ یہ بات تو خود ہر یک عاقل پر روشن ہے کہ ہر یک نفس اپنی استعداد و قابلیت کے موافق انوار الہیہ کو قبول کرتا ہے اس سے زیادہ نہیں.اس کے سمجھنے کے لئے آفتاب نہایت روشن مثال ہے کیونکہ ہر چند آفتاب اپنی کرنیں چاروں طرف چھوڑ رہا ہے لیکن اس کی روشنی قبول کرنے میں ہر یک مکان برابر نہیں.جس مکان کے دروازے بند ہیں اس میں کچھ روشنی نہیں پڑسکتی.اور جس میں بمقابل آفتاب ایک چھوٹا سا روز نہ ہے اس میں روشنی تو پڑتی ہے مگر تھوڑی جو بکلی ظلمت کو نہیں اٹھا سکتی لیکن وہ مکان جس کے دروازے بمقابل آفتاب سب کے سب کھلے ہیں اور دیوار میں بھی کسی کثیف شے سے نہیں بلکہ نہایت مصفی اور روشن شیشہ سے ہیں اس میں صرف یہی خوبی نہیں ہو گی کہ کامل طور پر روشنی قبول کرے گا بلکہ اپنی روشنی چاروں طرف پھیلا دے گا اور دوسروں تک پہنچا دے گا.یہی مثال مؤخر الذکر نفوس صافیہ انبیاء کے مطابق حال ہے یعنی جن نفوس مقدسہ کو خدا اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے وہ بھی رفع حجب اور مکمل صفوت میں اس شیش محل کی طرح ہوتے ہیں جس میں نہ کوئی کثافت اور نہ کوئی حجاب باقی ہے.پس ظاہر ہے کہ جن افراد بشریہ میں وہ کمال تام موجود نہیں.ایسے لوگ کسی حالت میں مرتبہء رسالتِ الہی نہیں پاسکتے.بلکہ یہ مرتبہ قسام ازل سے انہی کو ملا ہوا ہے جن کے نفوس مقدسہ مجب ظلمانی سے بکلی پاک ہیں جن کو آغشیہ ، جسمانی سے بغایت درجہ آزادگی ہے.جن کا تقدس و تنزہ اُس درجہ پر ہے کہ جس کے آگے خیال کرنے کی گنجائش ہی نہیں.وہی نفوس تا مہء کاملہ وسیلہ، ہدایت جمیع مخلوقات ہیں اور جیسے حیات کا فیضان تمام اعضاء کو قلب کے ذریعہ سے ہوتا ہے ایسا ہی حکیم مطلق نے

Page 378

۳۶۸ ہدایت کا فیضان انہیں کے ذریعہ سے مقرر کیا ہے کیونکہ وہ کامل مناسبت جو مفیض اور مستفیض میں چاہئے وہ صرف انہیں کو عنایت کی گئی ہے.اور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ خداوند تعالیٰ جو نہایت تجرد و تنزّہ میں ہے ایسے لوگوں پر افاضہ انوار وحی مقدس اپنے کا کرے جن کی فطرت کے دائرہ کا اکثر حصہ ظلمانی اور دود آمیز ہے اور نیز نہایت تنگ اور منقبض اور جن کی طبائع جسیسہ کدوراتِ سفلیہ میں منغمس اور آلودہ ہیں اگر ہم اپنے تئیں آپ ہی دھوکہ نہ دیں تو بے شک ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ مبدء قدیم سے اتصال تام پانے کے لئے اور اس قدوس اعظم کا ہم کلام بننے کے لئے ایک ایسی خاص قابلیت اور نورانیت شرط ہے کہ جو اس مرتبہ عظیم کی قدر اور شان کے لائق ہے.یہ بات ہرگز نہیں کہ ہر یک شخص جو عین نقصان اور فروما ئیگی اور آلودگی کی حالت میں ہے اور صد ہائجب ظلمانیہ میں محجوب ہے وہ باوصف اپنی پست فطرتی اور دون ہمتی کے اس مرتبہ کو پاسکتا ہے.اس بات سے کوئی دھو کہ نہ کھاوے کہ منجملہ اہل کتاب عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ انبیاء کے لئے جو وحی اللہ کے منزل علیہ ہیں تقدس اور منزہ اور عصمت اور کمال محبت الہیہ حاصل نہیں کیونکہ عیسائی لوگ اصول حقہ کو کھو بیٹھے ہیں اور ساری صداقتیں صرف اس خیال پر قربان کر دی ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح خدا بن جائیں اور کفارہ کا مسئلہ جم جائے.سو چونکہ نبیوں کا معصوم اور مقدس ہونا اُن کی اس عمارت کو گراتا ہے جو وہ بنا رہے ہیں اس لئے ایک جھوٹ کی خاطر سے دوسرا جھوٹ بھی انہیں گھڑنا پڑا.اور ایک آنکھ کے مفقود ہونے سے دوسری بھی پھوڑنی پڑی.پس نا چار انہوں نے باطل سے پیار کر کے حق کو چھوڑ دیا.نبیوں کی اہانت روا رکھی.پاکوں کو نا پاک بنایا اور ان دلوں کو جو مہیط وہی تھے کثیف اور مکد رقرار دیا تا کہ اُن کے مصنوعی خدا کی کچھ عظمت نہ گھٹ جائے یا منصوبہ کفارہ میں کچھ فرق نہ آ جائے.اسی خود غرضی کے جوش سے انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس سے فقط نبیوں کی تو ہین نہیں ہوتی بلکہ خدا کی قدوسی پر بھی حرف آتا ہے کیونکہ جس نے نعوذ باللہ ناپاکوں سے ربط ارتباط اور میل ملاپ رکھا وہ آپ بھی کا ہے کا پاک ہوا.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۸۸ تا ۱۹۰ حاشیہ نمبر۱۱) نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے تاریکی پر وارد نہیں ہوتا.کیونکہ فیضان کے لئے مناسبت شرط ہے اور تاریکی کو ٹور سے کچھ مناسبت نہیں بلکہ ٹور کو ٹور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا.ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اُسی کو اور نور بھی دیا جاتا ہے.اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں

Page 379

۳۶۹ دیا جاتا.جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نو ر بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے.اور انبیاء جملہ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مبتسم ہو گئے ہیں.اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور اور سراج منیر رکھا ہے.جیسا فرمایا ہے قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللهِ نُورُ وَكِتَبٌ مُّبِينٌ لا الجزو نمبر 1 وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا کے نمبر ۲۲ یہی حکمت ہے کہ نور وحی جس کے لئے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور اُنہی سے مخصوص ہوا.پس اب اس حجت موجہ سے کہ جو مثال مقدم الذکر میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی بطلان ان لوگوں کے قول کا ظاہر ہے جنہوں نے باوصف اس کے کہ فطرتی تفاوت مراتب کے قائل ہیں.پھر محض حمق و جہالت کی راہ سے یہ خیال کر لیا ہے کہ جونور افراد کامل الفطرت کو ملتا ہے وہی نور افراد نا قصہ کو بھی مل سکتا ہے.ان کو دیانت اور انصاف سے سوچنا چاہئے کہ فیضانِ وحی کے بارہ میں کس قدر غلطی میں وہ مبتلا ہو رہے ہیں.صریح دیکھتے ہیں کہ خدا کا قانونِ قدرت اُن کے خیال باطل کی تصدیق نہیں کرتا.پھر شدّت تعصب وعناد سے اسی خیال فاسد پر جمے بیٹھے ہیں.ایسا ہی عیسائی لوگ بھی نور کے فیضان کے لئے فطرتی نور کا شرط ہونا نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ جس دل پر نور وحی نازل ہو اس کے لئے اپنے کسی خاصہ اندرونی میں نورانیت کی حالت ضروری نہیں بلکہ اگر کوئی بجائے عقل سلیم کے کمال درجہ کا نادان اور سفیہ ہو اور بجائے صفت شجاعت کے کمال درجہ کا بُز دل اور بجائے صفت سخاوت کے کمال درجہ کا بخیل اور بجائے صفت حمیت کے کمال درجہ کا بے غیرت اور بجائے صفت محبت الہیہ کے کمال درجہ کا محبت دنیا اور بجائے صفت زہد و ورع و امانت کے بڑا بھارا چور اور ڈاکو اور بجائے صفت عفت و حیا کے کمال درجہ کا بے شرم اور شہوت پرست اور بجائے صفتِ قناعت کے کمال درجہ کا حریص اور لالچی.تو ایسا شخص بھی بقول حضرات عیسائیاں با وصف ایسی حالت خراب کے خدا کا نبی اور مقرب ہو سکتا ہے بلکہ ایک مسیح کو باہر نکال کر دوسرے تمام انبیاء جن کی نبوت کو بھی وہ مانتے ہیں اور ان کی الہامی کتابوں کو بھی مقدس مقدس کر کے پکارتے ہیں وہ نعوذ باللہ بقول اُن کے ایسے ہی تھے اور کمالات قدسیہ سے جو ستلزم عصمت و پاک دلی ہیں محروم تھے.عیسائیوں کی عقل اور خداشناسی پر بھی ہزار المائدة : ١٦ الاحزاب : ۴۷

Page 380

٣٧٠ آفرین.کیا اچھا نو روحی کے نازل ہونے کا فلسفہ بیان کیا مگر ایسے فلسفہ کے تابع ہونے والے اور اس کو پسند کرنے والے وہی لوگ ہیں جو سخت ظلمت اور کور باطنی کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں ورنہ نور کے فیض کے لئے نور کا ضروری ہونا ایسی بدیہی صداقت ہے کہ کوئی ضعیف العقل بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۹۵ تا ۱۹۷ حاشیہ نمبر۱۱) یہ افسوس کا مقام ہے کہ اکثر لوگ ہر ایک بات کو جو غنودگی کی حالت میں ان کی زبان پر جاری ہوتی ہے خدا کا کلام قرار دیتے ہیں.اور اس طرح پر آیت کریمہ لا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ! کے نیچے اپنے تئیں داخل کر دیتے ہیں اور یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی کلام زبان پر جاری ہو اور قال الله قال الرسول سے مخالف بھی نہ ہو تب بھی وہ خدا کا کلام نہیں کہلا سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فعل اس پر گواہی نہ دے.کیونکہ شیطان لعین جو انسان کا دشمن ہے جس طرح اور طریقوں سے انسان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اسی طرح اس مضل کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اپنے کلمات انسان کے دل میں ڈال کر اس کو یہ یقین دلاتا ہے کہ گویا وہ خدا کا کلام ہے اور آخر انجام ایسے شخص کا ہلاکت ہوتی ہے.پس جس پر کوئی کلام نازل ہو جب تک تین علامتیں اُس میں نہ پائی جائیں اُس کو خدا کا کلام کہنا اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا ہے.اول.وہ کلام قرآن شریف سے مخالف اور معارض نہ ہو.مگر یہ علامت بغیر تیسری علامت کے جو ذیل میں لکھی جائے گی ناقص ہے بلکہ اگر تیسری علامت نہ ہو تو محض اس علامت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکتا.دوم.وہ کلام ایسے شخص پر نازل ہو جس کا تزکیہ نفس بخوبی ہو چکا ہو اور وہ اُن فانیوں کی جماعت میں داخل ہو جو بکلی جذبات نفسانیہ سے الگ ہو گئے ہیں اور اُن کے نفس پر ایک ایسی موت وارد ہوگئی ہے جس کے ذریعہ سے وہ خدا سے قریب اور شیطان سے دُور جا پڑے ہیں کیونکہ جوشخص جس کے قریب ہے اُسی کی آواز سُنتا ہے پس جو شیطان کے قریب ہے وہ شیطان کی آواز سُنتا ہے اور جو خدا سے قریب ہے وہ خدا کی آواز سُتا ہے اور انتہائی کوشش انسان کی تزکیہ نفس ہے.اور اس پر تمام سلوک ختم ہو جاتا ہے اور دوسرے لفظوں میں یہ ایک موت ہے جو تمام اندرونی آلائشوں کو جلا دیتی ہے.پھر جب انسان اپنا سلوک ختم کر چکتا ہے تو تصرفات الہیہ کی نوبت آتی ہے.تب خدا اپنے اس بندہ کو جو سلب جذبات نفسانیہ سے فنا کے درجہ تک پہنچ چکا ہے معرفت اور محبت کی زندگی سے دوبارہ زندہ کرتا ہے.اور اپنے فوق العادت بنی اسرائیل :۳۷

Page 381

نشانوں سے عجائبات روحانیہ کی اُس کو سیر کراتا ہے اور محبت ذاتیہ کی وراء الوراء کشش اُس کے دل میں بھر دیتا ہے جس کو دنیا سمجھ نہیں سکتی اس حالت میں کہا جاتا ہے کہ اس کونئی حیات مل گئی جس کے بعد موت نہیں.پس یہ نئی حیات کامل معرفت اور کامل محبت سے ملتی ہے.اور کامل معرفت خدا کے فوق العادت نشانوں سے حاصل ہوتی ہے اور جب انسان اس حد تک پہنچ جاتا ہے تب اُس کو خدا کا سچا مکالمہ مخاطبہ نصیب ہوتا ہے مگر یہ علامت بھی بغیر تیسرے درجے کی علامت کے قابل اطمینان نہیں کیونکہ کامل تزکیہ ایک امر پوشیدہ ہے.اس لئے ہر ایک فضول گو ایسا دعویٰ کر سکتا ہے.تیسری علامت ملہم صادق کی یہ ہے کہ جس کلام کو وہ خدا کی طرف منسوب کرتا ہے خدا کے متواتر افعال اس پر گواہی دیں یعنی اس قدر اس کی تائید میں نشانات ظاہر ہوں کہ عقل سلیم اس بات کو ممتنع سمجھے کہ باوجود اس قدر نشانوں کے پھر بھی وہ خدا کا کلام نہیں اور یہ علامت در حقیقت تمام علامتوں سے بڑھ کر ہے..یہ ایسی کامل علامت ہے جو کوئی اس کو تو ڑ نہیں سکتا.یہی علامت ہے جس سے خدا کے سچے نبی جھوٹوں پر غالب آتے رہے ہیں کیونکہ جو شخص دعوی کرے کہ میرے پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے پھر اس کے ساتھ صد ہانشان ظاہر ہوں اور ہزاروں قسم کی تائید اور نصرت الہی شامل حال ہو اور اُس کے دشمنوں پر خدا کے کھلے کھلے حملے ہوں پھر کس کی مجال ہے کہ ایسے شخص کو جھوٹا کہہ سکے.لوگ جو خدا کے نزدیک ملہم اور مکلم کہلاتے ہیں اور مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف رکھتے ہیں اور دعوت خلق کے لئے مبعوث ہوتے ہیں ان کی تائید میں خدا تعالیٰ کے نشان بارش کی طرح برستے ہیں اور دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور فعل الہی اپنی کثرت کے ساتھ گواہی دیتا ہے کہ جو کلام وہ پیش کرتے ہیں وہ کلام الہی ہے اگر الہام کا دعوی کرنے والے اس علامت کو مدنظر رکھتے تو وہ اس فتنہ سے بچ جاتے.وہ ( تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۳۴ تا ۵۳۸) واضح ہو کہ شیطانی الہامات ہونا حق ہے اور بعض نا تمام سالک لوگوں کو ہوا کرتے ہیں اور حدیث النفس بھی ہوتی ہے جس کو اضغاث احلام کہتے ہیں.اور جو شخص اس سے انکار کرے وہ قرآن شریف کی مخالفت کرتا ہے.کیونکہ قرآن شریف کے بیان سے شیطانی الہام ثابت ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک انسان کا تزکیہ نفس پورے اور کامل طور پر نہ ہو تب تک اس کو شیطانی الہام ہوسکتا ہے اور وہ آیت عَلَى كُلِّ آفَال آنیم کے نیچے آ سکتا ہے مگر پاکوں کو شیطانی وسوسہ پر بلا تو قف مطلع کیا جاتا الشعراء :٢٢٣

Page 382

ہے.افسوس کہ بعض پادری صاحبان نے اپنی تصنیفات میں حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت اس واقعہ کی تفسیر میں کہ جب اُن کو ایک پہاڑی پر شیطان لے گیا اس قدر جرات کی ہے کہ وہ لکھتے ہیں.یہ کوئی خارجی بات نہ تھی جس کو دنیا دیکھتی اور جس کو یہودی بھی مشاہدہ کرتے بلکہ یہ تین مرتبہ شیطانی الہام حضرت مسیح کو ہوا تھا جس کو انہوں نے قبول نہ کیا.مگر انجیل کی ایسی تفسیر سننے سے ہمارا تو بدن کا پتا ہے کہ مسیح اور پھر شیطانی الہام.پاکوں کے دل میں شیطانی خیال مستحکم نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی تیرتا ہوا سرسری وسوسہ اُن کے دل کے نزدیک آ بھی جائے تو جلد تر وہ شیطانی خیال ڈور اور دفع کیا جاتا ہے اور اُن کے پاک دامن پر کوئی داغ نہیں لگتا.قرآن شریف میں اس قسم کے وسوسہ کو جو ایک کم رنگ اور نا پختہ خیال سے مشابہ ہوتا ہے طائف کے نام سے موسوم کیا ہے اور لغت عرب میں اس کا نام طائف اور طوف اور طیف اور طیف بھی ہے.اور اس وسوسہ کا دل سے نہایت ہی کم تعلق ہوتا ہے گویا نہیں ہوتا.یا یوں کہو کہ جیسا کہ دُور سے کسی درخت کا سایہ بہت ہی خفیف سا پڑتا ہے ایسا ہی یہ وسوسہ ہوتا ہے.اور ممکن ہے کہ شیطان لعین نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دل میں اسی قسم کے خفیف وسوسہ کے ڈالنے کا ارادہ کیا ہو اور انہوں نے قوت نبوت سے اس وسوسہ کو دفع کر دیا ہو.یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے قوت نبوت اور نور حقیقت کے ساتھ شیطانی القا کو ہرگز ہرگز نزدیک آنے نہیں دیا اور اس کے ذب اور دفع میں فورا مشغول ہو گئے اور جس طرح نور کے مقابل پر ظلمت ٹھہر نہیں سکتی.اسی طرح شیطان اُن کے مقابل پر نہیں ٹھہر سکا.اور بھاگ گیا.یہی اِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سلطن کے صحیح معنے ہیں کیونکہ شیطان کا سلطان یعنی تسلط درحقیقت اُن پر ہے جو شیطانی وسوسہ اور الہام کو قبول کر لیتے ہیں.لیکن جو لوگ ڈور سے نور کے تیر سے شیطان کو مجروح کرتے ہیں اور اُس کے مُنہ پر زجر اور توبیخ کا جوتا مارتے ہیں اور اپنے منہ سے وہ کچھ بکے جائے اس کی پیروی نہیں کرتے وہ شیطانی تسلط سے مستثنیٰ ہیں مگر چونکہ ان کو خدا تعالیٰ مَلَكُوتُ السَّموات والارض دکھانا چاہتا ہے اور شیطان مَلَكُوتُ الأَرضِ میں سے ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ مخلوقات کے مشاہدہ کا دائرہ پورا کرنے کے لئے اس عجیب الخلقت وجود کا چہرہ دیکھ لیں اور کلام سُن لیں جس کا نام شیطان ہے.اس سے اُن کے دامن تنزہ اور عصمت کو کوئی داغ نہیں لگتا.حضرت مسیح سے شیطان نے اپنے قدیم طریقہ وسوسہ اندازی کے طرز پر شرارت سے ایک درخواست کی تھی سو اُن کی پاک طبیعت نے فی الفور اس کو رڈ کیا اور قبول نہ الحجر :٤٣

Page 383

۳۷۳ کیا.اس میں ان کی کوئی کسر شان نہیں.کیا بادشاہوں کے حضور میں کبھی بدمعاش کلام نہیں کرتے؟ سوالیسا ہی روحانی طور سے شیطان نے یسوع کے دل میں اپنا کلام ڈالا.یسوع نے اس شیطانی الہام کو قبول نہ کیا بلکہ رڈ کیا.سو یہ تو قابل تعریف بات ہوئی اس سے کوئی نکتہ چینی کرنا حماقت اور روحانی فلاسفی کی بے خبری ہے لیکن جیسا کہ یسوع نے اپنے نور کے تازیانہ سے شیطانی خیال کو دفع کیا اور اس کے الہام کی پلیدی فی الفور ظاہر کر دی.ہر ایک زاہد اور صوفی کا یہ کام نہیں.سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ شیطانی الہام مجھے بھی ہوا تھا.شیطان نے کہا کہ اے عبدالقادر تیری عبادتیں قبول ہوئیں.اب جو کچھ دوسروں پر حرام ہے تیرے پر حلال اور نماز سے بھی اب تجھے فراغت ہے جو چاہے کر.تب میں نے کہا کہ اے شیطان دُور ہو.وہ باتیں میرے لئے کب روا ہو سکتی ہیں جو نبی علیہ السلام پر روا نہیں ہوئیں.تب شیطان مع اپنے سنہری تخت کے میری آنکھوں کے سامنے سے گم ہو گیا.اب جبکہ سید عبدالقادر جیسے اہل اللہ اور مرد فرد کو شیطانی الہام ہوا تو دوسرے عامۃ الناس جنہوں نے ابھی اپنا سلوک بھی تمام نہیں کیا وہ کیونکر اس سے بچ سکتے ہیں.اور ان کو وہ نورانی آنکھیں کہاں حاصل ہیں تا سید عبد القادر اور حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح شیطانی الہام کو شناخت کر لیں.یادر ہے کہ وہ کا ہن جو عرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بکثرت تھے.ان لوگوں کو بکثرت شیطانی الہام ہوتے تھے اور بعض وقت وہ پیشگوئیاں بھی الہام کے ذریعہ سے کیا کرتے تھے.اور تعجب یہ کہ اُن کی بعض پیشگوئیاں کچی بھی ہوتی تھیں چنانچہ اسلامی کتابیں ان قصوں سے بھری پڑی ہیں.پس جو شخص شیطانی الہام کا منکر ہے وہ انبیاء علیہم السلام کی تمام تعلیموں کا انکاری ہے اور نبوت کے تمام سلسلہ کا منکر ہے.بائیل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبی کو شیطانی الہام ہوا تھا اور انہوں نے الہام کے ذریعہ سے جو ایک سفید جن کا کرتب تھا ایک بادشاہ کی فتح کی پیشگوئی کی.آخر وہ بادشاہ بڑی ذلت سے اسی لڑائی میں مارا گیا.اور بڑی شکست ہوئی.اور ایک پیغمبر جس کو حضرت جبرائیل سے الہام ملا تھا اُس نے یہی خبر دی تھی کہ بادشاہ مارا جائے گا.اور کتے اس کا گوشت کھائیں گے.اور بڑی شکست ہو گی سو یہ خبر سچی نکلی مگر اس چارسو نبی کی پیشگوئی جھوٹھی ظاہر ہوئی.اس جگہ طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ اس کثرت سے شیطانی الہام بھی ہوتے ہیں تو پھر الہام سے امان اٹھتا ہے اور کوئی الہام بھروسہ کے لائق نہیں ٹھہرتا کیونکہ احتمال ہے کہ شیطانی ہو.خاص کر جبکہ مسیح جیسے اولی العزم نبی کو بھی یہی واقعہ پیش آیا تو پھر اس سے تو ملہموں کی کمر ٹوٹتی ہے.تو الہام کیا ایک

Page 384

۳۷۴ بلا ہو جاتی ہے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے دل ہونے کا کوئی محل نہیں.دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ایسا ہی واقع ہوا ہے کہ ہر ایک عمدہ جوہر کے ساتھ مغشوش چیزیں بھی لگی ہوئی ہیں.دیکھو ایک تو وہ موتی ہیں جو دریا سے نکلتے ہیں.دوسرے وہ سستے موتی ہیں جو لوگ آپ بنا کر بیچتے ہیں.اب اس خیال سے کہ دنیا میں جھوٹے موتی بھی ہیں سچے موتیوں کی خرید وفروخت بند نہیں ہوسکتی.کیونکہ وہ جو ہری جن کو خدا تعالیٰ نے بصیرت دی ہے ایک ہی نظر سے پہچان جاتے ہیں کہ یہ سچا اور یہ جھوٹا ہے.سو الہامی جواہرات کا جو ہری امام الزمان ہوتا ہے.اس کی صحبت میں رہ کر انسان جلد اصل اور مصنوعی میں فرق کر سکتا ہے.اے صوفیو! اور اس مہوشی کے گرفتار و! ذرا ہوش سنبھال کر اس راہ میں قدم رکھو اور خوب یاد رکھو کہ سچا الہام جو خالص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے مندرجہ ذیل علامتیں اپنے ساتھ رکھتا ہے:.(۱) وہ اس حالت میں ہوتا ہے کہ جبکہ انسان کا دل آتش درد سے گداز ہو کر مصفا پانی کی طرح خدا تعالی کی طرف بہتا ہے.اسی طرف حدیث کا اشارہ ہے کہ قرآن غم کی حالت میں نازل ہوا.لہذا تم بھی اس کو غمناک دل کے ساتھ پڑھو.(۲) سچا الہام اپنے ساتھ ایک لذت اور سرور کی خاصیت لاتا ہے اور نامعلوم وجہ سے یقین بخشتا ہے اور ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر جھنس جاتا ہے اور اُس کی عبارت فصیح اور غلطی سے پاک ہوتی ہے.(۳) بچے الہام میں ایک شوکت اور بلندی ہوتی ہے اور دل پر اُس سے مضبوط ٹھوکر لگتی ہے.اور قوت اور رعب ناک آواز کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے مگر جھوٹے الہام میں چوروں اور محنتوں اور عورتوں کی سی دھیمی آواز ہوتی ہے.کیونکہ شیطان چور اور مخنث اور عورت ہے.(۴) سچا الہام خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اثر اپنے اندر رکھتا ہے اور ضرور ہے کہ اُس میں پیشگوئیاں بھی ہوں اور وہ پوری بھی ہو جائیں.(۵) سچا الہام انسان کو دن بدن نیک بناتا جاتا ہے اور اندرونی کثافتیں اور غلاظتیں پاک کرتا ہے اور اخلاقی حالتوں کو ترقی دیتا ہے.(۶) بچے الہام پر انسان کی تمام اندرونی قوتیں گواہ ہو جاتی ہیں اور ہر ایک قوت پر ایک نئی اور پاک روشنی پڑتی ہے اور انسان اپنے اندر ایک تبدیلی پاتا ہے.اور اس کی پہلی زندگی مرجاتی ہے اور نئی زندگی شروع ہوتی ہے.اور وہ بنی نوع کی ایک عام ہمدردی کا ذریعہ ہوتا ہے.(۷) سچا الہام ایک ہی آواز پرختم نہیں ہوتا.کیونکہ خدا کی آواز ایک سلسلہ رکھتی ہے.وہ نہایت

Page 385

۳۷۵ ہی حلیم ہے جس کی طرف توجہ کرتا ہے اس سے مکالمت کرتا ہے اور سوالات کا جواب دیتا ہے اور ایک ہی مکان اور ایک ہی وقت میں انسان اپنے معروضات کا جواب پا سکتا ہے.گو اس مکالمہ پر کبھی فترت کا زمانہ بھی آجاتا ہے.(۸) بچے الہام کا انسان کبھی بزدل نہیں ہوتا اور کسی مدعی الہام کے مقابلہ سے اگر چہ وہ کیسا ہی مخالف ہو نہیں ڈرتا.جانتا ہے کہ میرے ساتھ خدا ہے اور وہ اُس کو ذلت کے ساتھ شکست دے گا.(۹) سچا الہام اکثر علوم اور معارف کے جانے کا ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ خدا اپنے مہم کو بے علم اور جاہل رکھنا نہیں چاہتا.(۱۰) بچے الہام کے ساتھ اور بھی بہت سی برکتیں ہوتی ہیں اور کلیم اللہ کو غیب سے عزت دی جاتی ہے اور رعب عطا کیا جاتا ہے.( ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳ ۴۸ تا ۴۹۰) میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہو گیا مگر میں اپنے ابتدائی زمانہ سے ہی اس بات کا گواہ ہوں کہ وہ خدا جو ہمیشہ پوشیدہ چلا آیا ہے وہ اسلام کی پیروی سے اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے.اگر کوئی قرآن شریف کی سچی پیروی کرے اور کتاب اللہ کے منشاء کے موافق اپنی اصلاح کی طرف مشغول ہو اور اپنی زندگی نہ دنیا داروں کے رنگ میں بلکہ خادم دین کے طور پر بنا وے اور اپنے تئیں خدا کی راہ میں وقف کر دے اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھے اور اپنی خود نمائی اور تکبر اور تعجب سے پاک ہو اور خدا کے جلال اور عظمت کا ظہور چاہے نہ یہ کہ اپنا ظہور چاہے اور اس راہ میں خاک میں مل جائے تو آخری نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ مکالمات الہیہ عربی فصیح بلیغ میں اس سے شروع ہو جاتے ہیں.اور وہ کلام لذیذ اور با شوکت ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے.حدیث النفس نہیں ہوتا.حدیث النفس کا کلام آہستہ ہوتا ہے.جیسا کہ ایک مخنث یا بیمار بولتا ہے.مگر خدا کا کلام پُر شوکت ہوتا ہے اور اکثر عربی زبان میں ہوتا ہے.بلکہ اکثر آیات قرآنی میں ہوتا ہے اور جو کچھ ہمارے تجربہ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ اول دل پر اس کی سخت ضرب محسوس ہوتی ہے اور اس ضرب کے ساتھ ایک گونج پیدا ہوتی ہے اور پھر پھول کی طرح وہ شگفتہ ہو جاتا ہے.اور اس سے پاک اور لذیذ کلام نکلتا ہے اور وہ کلام اکثر امور غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے اور اپنے اندر ایک شوکت اور طاقت اور تاثیر رکھتا ہے اور ایک آہنی میخ کی طرح دل میں ھنس جاتا ہے.اور خدا کی خوشبو اس سے آتی ہے.یہ تمام لوازم اس لئے اس کے ساتھ لگائے گئے ہیں

Page 386

کہ بعض ناپاک طبع انسان شیطانی الہام بھی پاتے ہیں یا حدیث النفس کے فریب میں آ جاتے ہیں.اس لئے خدا نے اپنے کلام کے ساتھ چمکتے ہوئے انوار رکھے ہیں تا دونوں میں فرق ظاہر ہو.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۱۵،۳۱۴) اکثر نادان لوگ شیطانی القا کو بھی خدا کا کلام سمجھنے لگتے ہیں اور ان کو شیطانی اور رحمانی الہام میں تمیز نہیں.پس یادر ہے کہ رحمانی الہام اور وحی کے لئے اوّل شرط یہ ہے کہ انسان محض خدا کا ہو جائے اور شیطان کا کوئی حصہ اُس میں نہ رہے.کیونکہ جہاں مُردار ہے ضرور ہے کہ وہاں کتے بھی جمع ہو جائیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيْطِيْنُ - تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَاكِ اسم ہے مگر جس میں شیطان کا حصہ نہیں رہا.اور وہ سفلی زندگی سے ایسا دُور ہوا کہ گویا مرگیا اور راستباز وفادار بندہ بن گیا اور خدا کی طرف آ گیا.اس پر شیطان حملہ نہیں کر سکتا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن کے جو شیطان کے ہیں اور شیطان کی عادتیں اپنے اندر رکھتے ہیں انہی کی طرف شیطان دوڑتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے شکار ہیں.اور نیز یادر ہے کہ خدا کے مکالمات ایک خاص برکت اور شوکت اور لذت اپنے اندر رکھتے ہیں.اور چونکہ خدا سمیع و علیم و رحیم ہے اس لئے وہ اپنے متقی اور راستباز اور وفادار بندوں کو اُن کے معروضات کا جواب دیتا ہے اور یہ سوال و جواب کئی گھنٹوں تک طول پکڑ سکتے ہیں.جب بندہ عجز و نیاز کے رنگ میں ایک سوال کرتا ہے تو اس کے بعد چند منٹ تک اس پر ایک ربودگی طاری ہو کر اس ربودگی کے پردہ میں اس کو جواب مل جاتا ہے.پھر بعد اس کے بندہ اگر کوئی سوال کرتا ہے تو پھر دیکھتے دیکھتے اس پر ایک اور ربودگی طاری ہو جاتی ہے اور بدستور اس کے پردہ میں جواب مل جاتا ہے اور خدا ایسا کریم اور رحیم اور حلیم ہے کہ اگر ہزار دفعہ بھی ایک بندہ کچھ سوالات کرے تو جواب مل جاتا ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ بے نیاز بھی ہے اور حکمت اور مصلحت کی بھی رعایت رکھتا ہے اس لئے بعض سوالات کے جواب میں اظہار مطلوب نہیں کیا جا تا اور اگر یہ پوچھا جاوے کہ کیونکر معلوم ہو کہ وہ جوابات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں نہ شیطان کی طرف سے.اس کا جواب ہم ابھی دے چکے ہیں.ماسوا اس کے شیطان گنگا ہے.اپنی زبان میں فصاحت اور روانگی نہیں رکھتا اور گنگے کی طرح وہ فصیح اور کثیر المقدار باتوں پر قادر نہیں ہو سکتا.صرف ایک بد بو دار پیرایہ میں فقرہ دو فقرہ دل میں ڈال دیتا الشعراء : ٢٢٣،٢٢٢ الحجر :٤٣

Page 387

۳۷۷ ہے.اس کو ازل سے یہ توفیق ہی نہیں دی گئی کہ لذیذ اور با شوکت کلام کر سکے اور یا چند گھنٹہ تک سلسلہ کلام کا سوالات کے جواب دینے میں جاری رکھ سکے اور وہ بہرہ بھی ہے ہر ایک سوال کا جواب نہیں دے سکتا اور وہ عاجز بھی ہے اپنے الہامات میں کوئی قدرت اور اعلیٰ درجہ کی غیب گوئی کا نمونہ دکھلا نہیں سکتا اور اُس کا گلا بھی بیٹھا ہوا ہے پر شوکت اور بلند آواز سے بول نہیں سکتا.مخنتوں کی طرح اس کی آواز دھیمی ہے.انہیں علامات سے شیطانی وحی کو شناخت کر لو گے.لیکن خدا تعالیٰ گنگے اور بہرے اور عاجز کی طرح نہیں وہ سنتا ہے اور برابر جواب دیتا ہے.اور اس کے کلام میں شوکت اور ہیبت اور بلندی آواز ہوتی ہے.اور کلام پر اثر اور لذیذ ہوتا ہے اور شیطان کا کلام دھیما اور زنانہ اور مشتبہ رنگ میں ہوتا اس میں ہیبت اور شوکت اور بلندی نہیں ہوتی.اور نہ وہ بہت دیر تک چل سکتا ہے گویا جلدی تھک جاتا ہے اور اس میں بھی کمزوری اور بُزدلی ٹپکتی ہے.مگر خدا کا کلام تھکنے والا نہیں ہوتا.اور ہر ایک قسم کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور بڑے بڑے غیبی امور اور اقتداری وعدوں پر مشتمل ہوتا ہے اور خدائی جلال اور عظمت اور قدرت اور قدوسی کی اس سے بُو آتی ہے اور شیطان کے کلام میں یہ خاصیت نہیں ہوتی اور نیز خدا تعالیٰ کا کلام ایک قومی تاثیر اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک میخ فولادی کی طرح دل میں پھنس جاتا ہے اور دل پر ایک پاک اثر کرتا ہے اور دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور جس پر نازل ہوتا ہے اُس کو مرد میدان کر دیتا ہے.یہاں تک کہ اگر اُس کو تیز تلوار کے ساتھ ٹکڑہ ٹکڑہ کر دیا جاوے یا اس کو پھانسی دیا جاوے یا ہر ایک قسم کا دُکھ جو دنیا میں ممکن ہے پہنچایا جاوے اور ہر ایک قسم کی بے عزتی اور توہین کی جائے یا آتش سوزاں میں بٹھایا جاوے یا جلایا جاوے وہ کبھی نہیں کہے گا کہ یہ خدا کا کلام نہیں جو میرے پر نازل ہوتا ہے کیونکہ خدا اس کو یقین کامل بخش دیتا ہے اور اپنے چہرہ کا عاشق کر دیتا ہے اور جان اور عزت اور مال اس کے نزدیک ایسا ہوتا ہے جیسا کہ ایک تنکا.وہ خدا کا دامن نہیں چھوڑتا اگر چہ تمام دنیا اس کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالے اور توکل اور شجاعت اور استقامت میں بے مثل ہوتا ہے مگر شیطان سے الہام پانے والے یہ قوت نہیں پاتے وہ بُزدل ہوتے ہیں کیونکہ شیطان بزدل ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۲ تا ۱۴۴) اب اگر یہ سوال ہو کہ جبکہ شیطان کے دخل سے بکلی امن نہیں تو ہم کیونکہ اپنی خوابوں پر بھروسہ کر لیں کہ وہ رحمانی ہیں کیا ممکن نہیں کہ ایک خواب کو ہم رحمانی سمجھیں اور دراصل وہ شیطانی ہو اور یا شیطانی خیال کریں اور دراصل وہ رحمانی ہو تو اس وہم کا جواب یہ ہے کہ رحمانی خواب اپنی شوکت اور برکت اور

Page 388

عظمت اور نورانیت سے خود معلوم ہو جاتی ہے.جو چیز پاک چشمہ سے نکلی ہے وہ پاکیزگی اور خوشبو اپنے اندر رکھتی ہے اور جو چیز ناپاک اور گندے پانی سے نکلی ہے اس کا گند اور اس کی بد بوفی الفور آ جاتی ہے.سچی خوا ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں.وہ ایک پاک پیغام کی طرح ہوتی ہیں جن کے ساتھ پریشان خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا.اور اپنے اندر ایک اثر ڈالنے والی قوت رکھتی ہیں اور دل اُن کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور روح گواہی دیتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے کیونکہ اس کی عظمت اور شوکت ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر ھنس جاتی ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خدائے تعالیٰ اس کے کسی مجلسی کو بطور گواہ ٹھہرانے کے وہی خواب یا اس کے کوئی ہم شکل دکھلا دیتا ہے.تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۴) بعض کو تہ فکر لوگ یہ وسوسہ پیش کرتے ہیں کہ الہام میں یہ خرابی اور نقص ہے کہ وہ معرفت کامل تک پہنچنے سے کہ جو حیات ابدی اور سعادت دائگی کے حصول کا مدار علیہ ہے مانع اور مزاحم ہے اور تقریر اس اعتراض کی یوں کرتے ہیں کہ الہام خیالات کی ترقی کو روکتا ہے اور تحقیقات کے سلسلہ کو آگے چلنے سے بند کرتا ہے.کیونکہ الہام کے پابند ہونے کی حالت میں ہر ایک بات میں یہی جواب کافی سمجھا جاتا ہے کہ یہ امر ہماری الہامی کتاب میں جائز یا نا جائز لکھا ہے اور قومی عقلیہ کو ایسا معطل اور بے کا رچھوڑ دیتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو وہ قو تیں عطا ہی نہیں کیں.سو بالآخر عدم استعمال کے باعث سے وہ تمام قو تیں رفته رفته ضعیف بلکہ قریب قریب مفقود کے ہوتی جاتی ہیں اور انسانی سرشت بالکل منقلب ہو کر حیوانات سے مشابہت پیدا ہو جاتی ہے.اور نفس انسانی کا عمدہ کمال کہ جو ترقی فی المعقولات ہے ناحق ضائع ہو جاتا ہے اور معرفت کا ملہ کے حاصل کرنے سے انسان رُک جاتا ہے اور جس حیات ابدی اور سعادت دائگی کے حصول کی انسان کو ضرورت ہے اس کے حصول سے الہامی کتابیں سدِ راہ ہو جاتی ہیں.اما الجواب.واضح ہو کہ ایسا سمجھنا کہ گویا خُدا کی سچی کتاب پر عمل کرنے سے قومی عقلیہ کو بالکل بے کار چھوڑا جاتا ہے اور گویا الہام اور عقل ایک دوسرے کی نفیض اور ضد ہیں کہ جو ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں یہ برہمو لوگوں کی کمال درجہ کی بدنہمی اور بداندیشی اور ہٹ دھرمی ہے.اور اس عجیب وہم کی عجیب طرح کی ترکیب ہے جس کے اجزاء میں سے کچھ تو جھوٹ اور کچھ تعصب اور کچھ جہالت ہے.جھوٹ یہ کہ باوصف اس بات کے اُن کو بخوبی معلوم ہے کہ حقانی صداقتوں کی ترقی ہمیشہ انہیں لوگوں کے ذریعہ

Page 389

سے ہوتی رہی ہے کہ جو الہام کے پابند ہوئے ہیں اور وحدانیت الہی کے اسرار دنیا میں پھیلانے والے وہی برگزیدہ لوگ ہیں کہ جو خدا کی کلام پر ایمان لائے مگر پھر عمداً اس واقعہ معلومہ کے برخلاف بیان کیا ہے.اور تعصب یہ کہ اپنی بات کو خواہ نخواہ سر سبز کرنے کے لئے اس بد یہی صداقت کو چھپایا ہے کہ الہیات میں عقل مجرد مرتبہ یقین کامل تک نہیں پہنچا سکتی.اور جہالت یہ کہ الہام اور عقل کو دو امر متناقض سمجھ لیا ہے کہ جو ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.اور الہام کو عقل کا مضر اور مخالف قرار دیا ہے.حالانکہ یہ خدشہ سراسر بے اصل ہے.ظاہر ہے کہ بچے الہام کا تابع عقلی تحقیقاتوں سے رُک نہیں سکتا بلکہ حقائق اشیاء کو معقول طور پر دیکھنے کے لئے الہام سے مدد پاتا ہے اور الہام کی حمایت اور اس کی روشنی کی برکت سے عقلی وجوہ میں کوئی دھوکا اس کو پیش نہیں آتا اور نا خطا کار عاقلوں کی طرح بے جا دلائل کے بنانے کی حاجت پڑتی ہے اور نہ کچھ تکلف کرنا پڑتا ہے بلکہ جو ٹھیک ٹھیک عنظمندی کا راہ ہے وہی اُس کو نظر آ جاتا ہے اور جو حقیقی سچائی ہے اُسی پر اُس کی نگاہ جا ٹھہرتی ہے غرض عقل کا کام یہ ہے کہ الہام کے واقعات کو قیاسی طور پر جلوہ دیتی ہے.اور الہام کا کام یہ کہ وہ عقل کو طرح طرح کی سرگردانی سے بچاتا ہے.اس صورت میں ظاہر ہے کہ عقل اور الہام میں کوئی جھگڑا نہیں.اور ایک دوسرے کا نقیض اور ضد نہیں اور نہ الہام حقیقی یعنی قرآن شریف عقلی ترقیات کے لئے سنگ راہ ہے بلکہ عقل کو روشنی بخشنے والا اور اس کا بزرگ معاون اور مددگار اور مربی ہے اور جس طرح آفتاب کا قدر آنکھ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور روزِ روشن کے فوائد اہل بصارت ہی پر ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح خدا کی کلام کا کامل طور پر انہیں کو قدر ہوتا ہے کہ جو اہل عقل ہیں.جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے.وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَلِمُونَ - الجز و نمبر ۲۱ یعنی یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں پر ان کو معقول طور پر وہی سمجھتے ہیں کہ جو صاحب علم اور دانشمند ہیں.علی ہذا القیاس جس طرح آنکھ کے نور کے فوائد صرف آفتاب ہی سے کھلتے ہیں اگر وہ نہ ہو تو پھر بینائی اور نا بینائی میں کچھ فرق باقی نہیں رہتا.اسی طرح بصیرت عقلی کی خوبیاں بھی الہام ہی سے کھلتی ہیں.کیونکہ وہ عقل کو ہزار باطور کی سرگردانی سے بچا کر فکر کرنے کے لئے نزدیک کا راستہ بتلا دیتا ہے اور جس راہ پر چلنے سے جلد تر مطلب حاصل ہو جائے وہ راہ دکھلا دیتا ہے اور ہر یک عاقل خوب سمجھتا ہے کہ اگر کسی باب میں فکر کرنے کے وقت اس قدر مددمل جائے کہ کسی خاص طریق پر راہ راست اختیار کرنے کے لئے علم العنكبوت : ۴۴

Page 390

۳۸۰ حاصل ہو جائے تو اس علم سے عقل کو بڑی مدد ملتی ہے اور بہت سے پراگندہ خیالوں اور ناحق کی درد سریوں سے نجات ہو جاتی ہے.الہام کے تابعین نہ صرف اپنے خیال سے عقل کے عمدہ جو ہر کو پسند کرتے بلکہ خود الہام ہی اُن کو عقل کے پختہ کرنے کے لئے تاکید کرتا ہے.پس اُن کو عقلی ترقیات کے لئے دوہری کشش بھینچتی ہے.ایک تو فطرتی جوش جس سے بالطبع انسان ہر یک چیز کی ماہیت اور حقیقت کو مدلل اور عقلی طور پر جاننا چاہتا ہے دوسری الہامی تاکید میں کہ جو آتش شوق کو دوبالا کر دیتی ہیں چنانچہ جو لوگ قرآن شریف کو نظر سرسری سے بھی دیکھتے ہیں وہ بھی اس بدیہی امر سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس کلام مقدس میں فکر اور نظر کی مشق کے لئے بڑی بڑی تاکیدیں ہیں یہاں تک کہ مومنوں کی علامت ہی یہی ٹھہرا دی ہے کہ وہ ہمیشہ زمین اور آسمان کے عجائبات میں فکر کرتے رہتے ہیں اور قانون حکمتِ الہیہ کو سوچتے رہتے ہیں.جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں فرمایا ہے.اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ.الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيْمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلًا لا یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف میں دانشمندوں کے لئے صانع عالم کی ہستی اور قدرت پر کئی نشان ہیں.دانشمند وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو خدا کو بیٹھے کھڑے اور پہلو پر پڑے ہونے کی حالت میں یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین اور آسمان اور دوسری مخلوقات کی پیدائش میں تفکر اور تدبر کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل اور زبان پر یہ مناجات جاری رہتی ہے کہ اے ہمارے خداوند تو نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کو عبث اور بے ہودہ طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ہر ایک چیز تیری مخلوقات میں سے عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہے کہ جو تیری ذات بابرکات پر دلالت کرتی ہے.ہاں دوسری الہامی کتابیں کہ جو محرف اور مبدل ہیں اُن میں نا معقول اور محال باتوں پر جمے رہنے کی تاکید پائی جاتی ہے.جیسی عیسائیوں کی انجیل شریف.مگر یہ الہام کا قصور نہیں یہ بھی حقیقت میں عقل ناقص کا ہی قصور ہے.اگر باطل پرستوں کی عقل صحیح ہوتی اور حواس درست ہوتے تو وہ کا ہے کو ایسی محرف اور مبدل کتابوں کی پیروی کرتے اور کیوں وہ غیر متغیر اور کامل اور قدیم خدا پر یہ آفات اور مصیبتیں جائز رکھتے کہ گویا وہ ایک عاجز بچہ ہو کر نا پاک غذا کھاتا رہا اور نا پاک جسم سے جسم ہوا اور نا پاک راہ سے نکلا اور دارالفنا میں آیا اور طرح طرح کے دُکھ اٹھا کر آخر بڑی ال عمران : ۱۹۲،۱۹۱

Page 391

۳۸۱ بدبختی اور بدنصیبی اور ناکامی کی حالت میں ایلی ایلی کرتا مر گیا.آخر الہام ہی تھا جس نے اس غلطی کو بھی ڈور کیا.سبحان اللہ ! کیا بزرگ اور دریائے رحمت وہ کلام ہے جس نے مخلوق پرستوں کو پھر تو حید کی طرف کھینچا.واہ! کیا پیارا اور دلکش وہ نور ہے کہ جو ایک عالم کو ظلمت کدہ سے باہر لایا اور بجز اس کے ہزار ہا لوگ نظمند کہلا کر اور فلاسفر بن کر اس غلطی اور اس قسم کی بے شمار غلطیوں میں ڈوبے رہے اور جب تک قرآن شریف نہ آیا کسی حکیم نے زور شور سے اس اعتقاد باطل کا رڈ نہ لکھا اور نہ اس قوم تباہ شدہ کی اصلاح کی بلکہ خود حکماء اس قسم کے صدہا نا پاک عقیدوں میں آلودہ اور مبتلا تھے.جیسا پادری یوت صاحب لکھتے ہیں کہ حقیقت میں یہ عقیدہ تثلیث کا عیسائیوں نے افلاطون سے اخذ کیا ہے.اور اس احمق یونانی کی غلط بنیاد پر ایک دوسری غلط بنیا درکھ دی ہے.غرض خدا کا سچا اور کامل الہام عقل کا دشمن نہیں ہے بلکہ عقل ناقص نیم عاقلوں کی آپ دشمن ہے جیسا ظاہر ہے کہ تریاق فی حد ذاتہ انسان کے بدن کے لئے کوئی بُری چیز نہیں ہے لیکن اگر کوئی اپنی کو نہ عقلی سے زہر کو تریاق سمجھ لے تو یہ خود اس کی عقل کا قصور ہے نہ تریاق کا.پس یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہم کہ ہر یک امر کی تفتیش کے لئے الہامی کتاب کی طرف رجوع کرنا محل خطر ہے یہ سراسر حمق اور نادانی ہے.کیونکہ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں الہام عقل کے لئے ایک آئینہ حق نما ہے اور اس کی سچائی پر بھی یہی دلیل اعظم ہے کہ وہ ایسے تمام امور سے بکلی پاک ہے کہ جو خدا کی قدرت اور کمالیت اور قدوسی پر نظر کرنے کے بعد محال ثابت ہوں.بلکہ دقائقِ الہیات میں کہ جو نہایت مخفی اور عمیق ہیں عقل ضعیف انسانی کا وہی ایک ہادی اور رہبر ہے.پس ظاہر ہے کہ اس کی طرف رجوع کرنا عقل کو بے کار نہیں کرتا بلکہ عقل کو ان باریک بھیدوں تک پہنچاتا ہے جن تک خود بخود پہنچنا عقل کے لئے سخت مشکل تھا.سوالہام حقیقی سے یعنی قرآن شریف سے عقل کو سراسر فائدہ اور نفع پہنچتا ہے نہ زیاں اور نقصان اور عقل بذریعہ الہام حقیقی خطرات سے بچ جاتی ہے نہ یہ کہ خطرات میں پڑتی ہے کیونکہ یہ بات ہر یک دانا کے نزدیک مسلم بلکہ اجلی بدیہات ہے کہ محض تشخیص عقلی میں خطا اور غلطی ممکن ہے.لیکن عالم الغیب کی کلام میں خطا اور غلطی ممکن نہیں.پس اب تم آپ ہی ذرہ منصف ہو کر سوچو کہ جس چیز کو کبھی کبھی سخت لغزشیں پیش آ جاتی ہیں.اگر اس کے ساتھ ایک ایسا رفیق ملایا گیا کہ جو اس کو لغزشوں سے بچاوے اور پاؤ پھسلنے کی جگہ سے سنبھل رکھے تو کیا اس کے لئے اچھا ہوا یا بُرا ہوا.اور کیا اس رفیق نے اس کو اپنے کمال مطلوب تک پہنچایا یا کمال مطلوب سے روک دیا ؟ یہ کیسی کور باطنی ہے کہ معین اور مددگار کو لے سہو کتابت ہے صحیح پورٹ (JOHN DAVENPORT) ہے.ناشر

Page 392

۳۸۲ مخالف اور مزاحم سمجھا جاوے اور مکمل اور تم کو رہزن اور نقصان رساں قرار دیا جائے.آپ لوگ جب اپنے حواس میں قائم ہو کر اور طالب حق بن کر اس مسئلہ میں غور کریں گے تو آپ پر فی الفور واضح ہو جائے گا کہ خدا نے جو عقل کا رفیق الہام کو ٹھہرا دیا ہے یہ عقل کے حق میں کوئی ضرر کی بات نہیں کی بلکہ اس کو سرگردان اور حیران پا کر حق شناسی کے لئے ایک یقینی آلہ عطا کیا ہے جس کی نشان دہی سے عقل کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ صد با سچ اور ناراست راہوں میں بھٹکتے پھرنے سے بچ جاتی ہے اور سرگشتہ اور آوارہ نہیں ہوتی اور ہر طرف حیرانی سے بھٹکتی نہیں پھرتی بلکہ اصل مقصود کی خاص راہ کو پالیتی ہے اور جو ٹھیک ٹھیک گوہر مراد کی جگہ ہے اس کو دیکھ لیتی ہے اور بے ہودہ جان کنی سے امن میں رہتی ہے.اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی سچا مخبر کی گمشدہ شخص کا بدرستی تمام پستہ لگا دیوے کہ وہ فلاں طرف گیا ہے اور فلاں شہر اور فلاں محلہ اور فلاں جگہ میں چھپا ہوا بیٹھا ہے.سوظاہر ہے کہ ایسے مخبر پر جو کسی گمشدہ کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگا دیتا ہے اور اس تک پہنچنے کا سہل اور آسان راستہ بتلا دیتا ہے کوئی با عقل آدمی یہ اعتراض نہیں کرتا کہ وہ ہماری کارروائی کا حارج ہوا ہے بلکہ اس کے بغایت درجہ ممنون اور شکر گذار ہوتے ہیں کہ ہم بے خبر تھے اس نے خبر دی اور ہم ہر طرف بھٹکتے پھرتے تھے اس نے خاص جگہ بتلا دی اور ہم نری اٹکلیں دوڑاتے تھے اس نے یقین کا دروازہ ہم پر کھول دیا.ایسا ہی وہ لوگ جن کو خدا نے عقلِ سلیم بخشی ہے حقیقی الہام کے مرہون منت اور ثناخواں اور مداح ہیں اور بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ الہام حقیقی ان کو خیالات کی ترقی سے نہیں روکتا بلکہ خیالات کی سرگشتگی سے روکتا ہے اور انواع اقسام کے پیچ در پیچ اور مشتبہ راہوں میں سے ایک خاص راہِ مقصود جتلا دیتا ہے جس پر قدم مارنا عقل کو نہایت آسان ہو جاتا ہے اور جو جو مشکلات انسان کو بباعث قلت عمر اور قلت طاقت علمی و کمی بصیرت پیش آتی ہیں ان سب سے خلاصی بخشتا ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۹۲ تا ۳۰۹ حاشیہ نمبر۱۱) واضح ہو کہ اگر چہ یہ سچ بات ہے کہ عقل بھی خدا نے انسان کو ایک چراغ عطا کیا ہے کہ جس کی روشنی اس کو حق اور راستی کی طرف کھینچتی ہے اور کئی طرح کے شکوک اور شبہات سے بچاتی ہے اور انواع اقسام کے بے بنیاد خیالوں اور بے جا وساوس کو دور کرتی ہے نہایت مفید ہے بہت ضروری ہے بڑی نعمت ہے مگر پھر بھی با وجود ان سب باتوں اور ان تمام صفتوں کے اس میں یہ نقصان ہے کہ صرف وہی اکیلی معرفت حقائق اشیاء میں مرتبہ یقین کامل تک نہیں پہنچا سکتی.کیونکہ مرتبہ یقین کامل کا یہ ہے کہ جیسا کہ حقائق اشیاء کے واقعہ میں موجود ہیں انسان کو بھی اُن پر ایسا ہی یقین آ جائے کہ ہاں حقیقت میں موجود

Page 393

۳۸۳ ہیں مگر مجرد عقل انسان کو اس اعلیٰ درجہ یقین کا مالک نہیں بنا سکتی کیونکہ غایت درجہ حکم عقل کا یہ ہے کہ وہ کسی شے کے موجود ہونے کی ضرورت کو ثابت کرے جیسا کسی چیز کی نسبت یہ حکم دے کہ اس چیز کا ہونا ضروری ہے یا یہ چیز ہونی چاہئے.مگر ایسا حکم ہرگز نہیں دے سکتی کہ واقعہ میں یہ چیز ہے بھی اور یہ پایہ یقین کامل کا کہ علم انسان کا کسی امر کی نسبت ہونا چاہنے کے مرتبہ سے ترقی کر کے ہے کے مرتبہ تک پہنچ جائے تب حاصل ہوتا ہے کہ جب عقل کے ساتھ کوئی دوسرا ایسا رفیق مل جاتا ہے کہ جو اُس کی قیاسی وجوہات کو تصدیق کر کے واقعات مشہودہ کا لباس پہناتا ہے.یعنی جس امر کی نسبت عقل کہتی ہے کہ ہونا چاہئے وہ رفیق اس امر کی نسبت یہ خبر دے دیتا ہے کہ واقعہ میں وہ امر موجود بھی ہے کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں عقل صرف ضرورت شے کو ثابت کرتی ہے خود شے کو ثابت نہیں کر سکتی.اور ظاہر ہے کہ کسی شے کی ضرورت کا ثابت ہونا امر دیگر ہے اور خود اُس شے کا ثابت ہو جانا امر دیگر.بہر حال عقل کے لئے ایک رفیق کی حاجت ہوئی کہ تا وہ رفیق عقل کے اس قیاسی اور ناقص قول کا کہ جو ہونا چاہنے کے لفظ سے بولا جاتا ہے مشہودی اور کامل قول سے جو ہے کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے.جبر نقصان کرے اور واقعات سے جیسا کہ وہ نفس الامر میں واقعہ ہیں آگاہی بخشے سوخدا نے جو بڑا ہی رحیم اور کریم ہے اور انسان کو مراتب قصوی یقین تک پہنچانا چاہتا ہے اس حاجت کو پوری کیا ہے اور عقل کے لئے کئی رفیق مقرر کر کے راستہ یقین کامل کا اس پر کھول دیا ہے تا نفس انسان کا کہ جس کی ساری سعادت اور نجات یقین کامل پر موقوف ہے اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہے اور ہونا چاہئے کے نازک اور پُر خطر پل سے کہ عقل نے شکوک اور شبہات کے دریا پر باندھا ہے بہت جلد آگے عبور کر کے ہے کے قصر عالی میں جو دارالامن والاطمینان ہے داخل ہو جائے اور وہ رفیق عقل کے جو اس کے یار اور مددگار ہیں ہر مقام اور موقعہ میں الگ الگ ہیں لیکن از روئے حصہ عقلی کے تین سے زیادہ نہیں اور ان تینوں کی تفصیل اس طرح پر ہے کہ اگر حکم عقل کا دنیا کے محسوسات اور مشہودات سے متعلق ہو جو ہر روز دیکھے جاتے پائنے جاتے یا سونگھے جاتے یا ٹولے جاتے ہیں تو اس وقت رفیق اس کا جو اس کے حکم کو یقین کامل تک پہنچا وے مشاہدہ صحیحہ ہے کہ جس کا نام تجربہ ہے.اور اگر حکم عقل کا اُن حوادث و واقعات سے متعلق ہو جو مختلف از منہ اور امکنہ میں صدور پاتے رہے ہیں یا صدور پاتے ہیں تو اس وقت اس کا ایک اور رفیق بنتا ہے کہ جس کا نام تواریخ اور اخبار اور خطوط اور مراسلات ہے اور وہ بھی تجربہ کی طرح عقل کی دُود آمیز روشنی کو ایسا مصفا کر دیتا ہے کہ پھر اُس میں شک کرنا ایک عمق اور جنون اور سودا ہوتا ہے اور اگر حکم عقل کا

Page 394

۳۸۴ اُن واقعات سے متعلق ہو جو ماوراء المحسوسات ہیں جن کو ہم نہ آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ کان سے سُن سکتے ہیں اور نہ ہاتھ سے ٹول سکتے ہیں اور نہ اس دنیا کی تواریخ سے دریافت کر سکتے ہیں تو اس وقت اس کا ایک تیسرا رفیق بنتا ہے کہ جس کا نام الہام اور وحی ہے اور قانون قدرت بھی یہی چاہتا ہے کہ جیسے پہلے دو مواضع میں عقل نا تمام کو دور فیق میٹر آگئے ہیں تیسرے موضع میں بھی میسر آیا ہو.کیونکہ قوانین فطرتیہ میں اختلاف نہیں ہوسکتا.بالخصوص جبکہ خدا نے دنیا کے علوم اور فنون میں کہ جن کے نقصان اور سہو اور خطا میں چنداں حرج بھی نہیں انسان کو ناقص رکھنا نہیں چاہا تو اس صورت میں خدا کی نسبت یہ بڑی بد گمانی ہو گی جو ایسا خیال کیا جاوے جو اس نے ان امور کی معرفت تامہ کے بارے میں کہ جن پر کامل یقین رکھنا نجات اخروی کی شرط ہے اور جن کی نسبت شک رکھنے سے جہنم ابدی طیار ہے انسان کو ناقص رکھنا چاہا ہے اور اس کے علم اخروی کو صرف ایسے ایسے ناقص خیالات پر ختم کر دیا ہے کہ جن کی محض انکلوں پر ہی ساری بنیاد ہے اور ایسا ذریعہ اس کے لئے کوئی بھی مقرر نہیں کیا کہ جو شہادت واقعہ دے کر اس کے دل کو یہ تسلی اور تشفی بخشے کہ وہ اصول نجات کہ جن کا ہونا عقل بطور قیاس اور انکل کے تجویز کرتی ہے وہ حقیقت میں موجود ہی ہیں اور جس ضرورت کو عقل قائم کرتی ہے وہ فرضی ضرورت نہیں بلکہ حقیقی اور واقعی ضرورت ہے اب جبکہ یہ ثابت ہوا کہ الہیات میں یقین کامل صرف الہام ہی کے ذریعہ سے ملتا ہے اور انسان کو اپنی نجات کے لئے یقین کامل کی ضرورت ہے اور خود بغیر یقین کامل کے ایمان سلامت لے جانا مشکل.تو نتیجہ ظاہر ہے کہ انسان کو الہام کی ضرورت ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار تحصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۷۸ تا ۸۰ حاشیہ نمبر۴) اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ مجرد عقلی خیالوں میں صرف اتنا ہی نقص نہیں کہ وہ مراتب یقینیہ سے قاصر ہیں اور دقائق الہیات کے مجموعہ پر قابض نہیں ہو سکتے بلکہ ایک یہ بھی نقص ہے کہ مجرد عقلی تقریر میں دلوں پر اثر کرنے میں بھی بغایت درجہ کمزور و بے جان ہیں اور کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کسی کلام کا دل پر کارگر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ اس کلام کی سچائی سامع کے ذہن میں ایسی متحقق ہو کہ جس میں ایک ذرا شک کرنے کی گنجائش نہ ہو اور دلی یقین سے یہ بات دل میں بیٹھ جائے کہ جس واقعہ کی مجھ کوخبر دی گئی ہے اس میں غلطی کا امکان نہیں اور ابھی ظاہر ہو چکا ہے کہ مجرد عقل یقین کامل تک پہنچا ہی نہیں سکتی.پس اس صورت میں یہ بات بدیہی ہے کہ وہ آثار کہ یقین کامل پر مترتب ہوتے ہیں اور وہ تاثیر ہیں کہ جو یقینی کلام دلوں پر کرتی ہے وہ مجرد عقل سے ہرگز متوقع نہیں اور اس کا ثبوت روز مرہ تجربہ سے ظاہر ہے مثلاً

Page 395

۳۸۵ ایک شخص ایک دور دراز ولایت کا سیر کر کے آتا ہے تو جب اپنے وطن میں پہنچتا ہے تو ہر یک خویش و بریگانہ اس ولایت کی خبریں اُس سے دریافت کرتا ہے اور اُس کی چشم دید خبریں بشرطیکہ وہ دروغ گوئی کی عادت سے متہم نہ ہو دلوں پر بہت اثر کرتی ہیں اور بغیر کسی تردد اور شک کے فی الواقعہ راست اور صحیح سمجھی جاتی ہیں.بالخصوص جب ایسا مخبر ہو کہ لوگوں کی نظر میں ایک بزرگوار اور صالح آدمی ہو.اس قدر تاثیر اس کی کلام میں کیوں ہوتی ہے اس لئے ہوتی ہے کہ اول اس کو ایک شریف اور راستباز تسلیم کر کے پھر اس کی نسبت یہ یقین کیا گیا ہے کہ وہ جو جو ان ملکوں کے واقعات بیان کرتا ہے ان کو اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور جو جو خبریں بتلاتا ہے وہ سب اس کا چشم دید ماجرا ہے.پس اسی باعث سے اس کی باتوں کا دلوں پر سخت اثر واقع ہوتا ہے اور اس کے بیانات طبیعتوں میں ایسے جم جاتے ہیں کہ گویا ان واقعات کی تصویر نظر کے سامنے آموجود ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات جب وہ اپنے سفر کی ایک رقت آمیز حکایت سُنا تا ہے یا کسی قوم کا درد انگیز قصہ بیان کرتا ہے تو سنتے ہی وہ بات سامعین کے دل کو ایسا پکڑ لیتی ہے کہ اُن کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور ان کی ایک ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ گویا وہ موقع پر موجود ہیں اور اس واقعہ کو چشم خود دیکھ رہے ہیں.لیکن جو شخص اپنے گھر کی چار دیوار سے کبھی باہر نہیں نکلا نہ اس ملک میں کبھی گیا اور نہ دیکھنے والوں سے کبھی اس کا حال سُنا اگر وہ اُٹھ کر صرف اپنی انکل سے اس ملک کی خبریں بیان کرنے لگے تو اس کی بک بک سے خاک بھی تا ثیر نہیں ہوتی.بلکہ لوگ اُسے کہتے ہیں کہ کیا تو پاگل اور دیوانہ ہے کہ ایسی باتیں بیان کرنے لگا کہ جو تیرے معائنہ اور تجربہ سے باہر ہیں اور تیرے ناقص علم سے بلند تر ہیں اور اس پر ایسا ہی کہتے ہیں کہ جیسا ایک بزرگ نے کسی احمق کا قصہ لکھا ہے کہ وہ ایک جگہ گیہوں کی روٹی کی بہت سی تعریفیں کر رہا تھا کہ وہ بہت ہی مزیدار ہوتی ہے اور جب پوچھا گیا کہ کیا تو نے بھی کبھی کھائی ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں نے کھائی تو کبھی نہیں پر میرے دادا جی بات کیا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم نے کسی کو کھاتے دیکھا ہے.غرض جب تک کوئی سامعین کی نظر میں کسی واقعہ پر بکلی محیط نہ ہو تب تک بجائے اس کے کہ اُس کا کلام دلوں پر کچھ اثر کرے خواہ نخواہ ٹھٹھا اور نہی کرانے کا موجب ٹھہرتا ہے یہی وجہ ہے کہ مجرد عقلمندوں کی خشک تقریروں نے کسی کو عالم آخرت کی طرف یقینی طور پر متوجہ نہیں کیا اور لوگ یہی سمجھتے رہے کہ جیسا یہ لوگ صرف انکل سے باتیں کرتے ہیں علی ہذا القیاس ہم بھی اُن کی رائے کے مخالف انکلیں دوڑا سکتے ہیں.نہ انہوں نے موقع پر جا کر اصل حقیقت کو دیکھا نہ ہم نے.اسی باعث سے جب ایک طرف بعض

Page 396

۳۸۶ عظمندوں نے خدا کی ہستی پر رائے ظاہر کرنی شروع کی تو دوسرے عقلمندوں نے ان کے مخالف ہو کر دہر یہ مذہب کی تائید میں کتابیں تصنیف کیں اور سچ تو یہ ہے کہ ان عاقلوں کا فرقہ کہ جو خدا کی ہستی کے کسی قدر قائل تھے وہ بھی دہر یہ پن کی رگ سے کبھی خالی نہیں ہوا اور نہ اب خالی ہے.انہی بر ہمولوگوں کو دیکھو کب وہ خدا کو کامل صفتوں سے متصف سمجھتے ہیں کب ان کو اقرار ہے کہ خدا گونگا نہیں بلکہ اُس میں حقیقی طور پر صفت تکلم بھی ہے جیسی ایک جیتے جاگتے میں ہونی چاہئے.کب وہ اس کو حقانی طور پر پورا پورا مد بر اور رزاق سمجھتے ہیں.کب ان کو اس بات پر ایمان ہے کہ حقیقت میں خدا حی و قیوم ہے اور اپنی آوازیں صادق دلوں تک پہنچا سکتا ہے.بلکہ وہ تو اس کے وجود کو ایک موہومی اور مردہ سا خیال کرتے ہیں کہ جس کو عقل انسانی صرف اپنے ہی تصورات سے ایک فرضی طور پر ٹھہرا لیتی ہے اور اس طرف سے زندوں کی طرح کبھی آواز نہیں آتی.گویا وہ خدا نہیں ایک بُت ہی ہے کہ جو کسی گوشہ میں پڑا ہے.میں متعجب ہوں کہ ایسے کچے اور ضعیف خیالات سے کیونکر یہ لوگ خوش ہوئے بیٹھے ہیں اور ایسے خود تراشیدہ باتوں سے کن ثمرات کی توقع ہے.کیوں سچے طالبوں کی طرح اس خدا کو نہیں ڈھونڈتے کہ جو قادر توانا اور جیتا جاگتا ہے اور اپنے وجود پر آپ اطلاع دینے کی قدرت رکھتا ہے اور اني انا الله کی آواز سے مُردوں کو ایک دم میں زندہ کر سکتا ہے.جب یہ لوگ خود جانتے ہیں کہ عقل کی روشنی دود آمیز ہے تو پھر کامل روشنی کے کیوں خواہاں نہیں ہوتے.عجب احمق ہیں کہ اپنے مریض ہونے کے تو قائل ہیں پر علاج کا کچھ فکر نہیں.ہائے افسوس! کیوں ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں تا وہ حق الا مر کو دیکھ لیں.کیوں ان کے کانوں پر سے پردہ نہیں اُٹھتا تا وہ حقانی آواز کوسُن لیں.کیوں ان کے دل ایسے کجرو اور ان کی سمجھیں ایسی الٹی ہو گئیں کہ جو اعتراض حقیقت میں اُنہی پر وارد ہوتا تھا وہ الہام خفن م حقیقی کے تابعین پر کرنے لگے.اسی وہم کا ضمیمہ بر ہمو سماج والوں کا ایک اور و ہم بھی ہے کہ الہام ایک قید ہے اور ہم ہر ایک قید سے آزاد ہیں یعنی ہم اچھے ہیں کیونکہ آزاد قیدی سے اچھا ہوتا ہے.ہم اس نکتہ چینی کو مانتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ بلاشبہ الہام ایک قید ہے مگر ایسی قید ہے کہ جس کے بغیر سچی آزادی حاصل ہونا ممکن نہیں کیونکہ سچی آزادی وہ ہے کہ انسان کو ہر یک نوع کی غلطی اور شکوک اور شبہات سے نجات ہو کر مرتبہ یقین کامل کا حاصل ہو جائے اور اپنے موٹی کریم کو اسی دنیا میں دیکھ لے.سو جیسا کہ ہم اسی حاشیہ میں ثابت کر چکے ہیں یہ حقیقی آزادی دنیا میں کامل اور خدا دوست مسلمانوں کو بذریعہ قرآن شریف حاصل ہے اور بجز

Page 397

۳۸۷ ان کے کسی برہمو وغیرہ کو حاصل نہیں.اسی وہم کا ضمیمہ بر ہمو سماج والوں کا ایک اور مقولہ ہے کہ گویا انہوں نے اپنے اسی قامت ناساز کو ایک دوسرے لباس میں ظاہر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ الہام کا تابع ہونا ایک حرکت خلاف وضع استقامت اور مبائن طریق فطرت ہے کیونکہ ہر یک امر کی حقیقت پر مطلع ہونے کے لئے صاف اور سیدھا راستہ کہ جس کو ہر یک انسان کا نفس ناطقہ بمقتضائے اپنی فطرت کے چاہتا ہے یہی ہے کہ عقلی دلائل سے اس حقیقت کو کھولا جائے.جیسے مثلا فعل سرقہ کے قبیح ہونے کے لئے حقیقی وجہ جس پر روحانی اطمینان موقوف ہے یہی ہے کہ وہ ایک ظلم اور تعدی ہے کہ عند العقل نامناسب اور ناجائز ہے.یہ وجہ نہیں ہے کہ جو کسی الہامی کتاب نے اس کا مرتکب ہونا گناہ لکھا ہے.یا مثلاً سم الفار جو ایک زہر ہے اُس کے کھانے کی ممانعت حقیقی طور پر اس بنا پر ہو سکتی ہے کہ وہ قاتل اور مہلک ہے نہ اس بنا پر کہ خدا کے کلام میں اس کے اکل وشرب سے نہی وارد ہے.پس ثابت ہے کہ واقعی اور حقیقی سچائی کی رہ نما صرف عقل ہے نہ الہام لیکن ان حضرات کو ابھی تک یہ خبر بھی نہیں کہ اس وہم کا تو اسی وقت قلع قمع ہو گیا کہ جب مضبوط اور قوی دلائل سے ان کی عقل کا خام اور نا تمام ہونا بپایہ ثبوت پہنچ گیا.کیا یہ عقلمندی ہے کہ جس وسوسہ کو دلائل قومیہ کے پُر زور لشکر نے پیس ڈالا ہے اُسی مُردہ خیال کو بے شرم آدمی کی طرح بار بار پیش کیا جائے.افسوس افسوس !! ارے بابا کیا تم بارہائن نہیں چلے کہ گو حقائق اشیاء عقلی دلائل سے کسی قدر منکشف ہوتے ہیں مگر ایسا تو نہیں کہ تمام مراتب یقین کا استعمال عقل ہی پر موقوف ہے.آپ تو اپنی ہی مثال پیش کردہ سے ملزم ہو سکتے ہیں.کیونکہ سم الفار کا قاتل اور مہلک ہونا مجرد عقل کے ذریعہ سے بپایہ ثبوت نہیں پہنچا بلکہ یقینی طور پر یہ خاصیت اس کی تب معلوم ہوئی جب عقل نے تجربہ صحیحہ کو اپنا رفیق بنا کرسم الفار کی خاصیت مخفیہ کو مشاہدہ کر لیا ہے.سو ہم بھی آپ کو یہی سمجھاتے ہیں کہ جیسی سم الفار کی خاصیت یقینی طور پر دریافت کرنے کے لئے عقل کو ایک دوسرے رفیق کی حاجت ہوئی یعنی تجر بہ صحیحہ کی حاجت.ایسا ہی الہیات اور عالم معاد کے حقائق علی وجہ الیقین دریافت کرنے کے لئے عقل کو الہام الہی کی حاجت ہے اور بغیر اس رفیق کے عقل کا کام علم دین میں چل نہیں سکتا.جیسے دوسرے علوم میں بغیر دوسرے رفیقوں کے عقل بے دست و پا اور ناقص اور نا تمام ہے.غرض عقل في حد ذاتہ مستقل طور پر کسی کام کو یقینی طور پر انجام نہیں دے سکتی جب تک کوئی دوسرا رفیق اس کے ساتھ شامل نہ ہو.اور بغیر شمول رفیق کے ممکن نہیں کہ خطا اور غلطی سے محفوظ اور معصوم رہ سکے بالخصوص علم الہی میں جس کے تمام ابحاث کی گنہ اور حقیقت اس عالم کی

Page 398

۳۸۸.وراء الوراء ہے.اور جس کا کوئی نمونہ اس دنیا میں موجود نہیں.ان امور میں عقل ناقص انسانی غلطی سے تو کیا بچے گی کمال معرفت کے مرتبہ تک بھی نہیں پہنچاسکتی جو وقتیں اس نا دیدہ عالم کے واقعات میں پیش آتی ہیں اور جس طرح غیر مرئی اور غیب الغیب جہان کے تصور کرنے کے وقت میں حیرتیں رونما ہوتی ہیں اور نظر اور فکر کے آگے ایک دریا نا پیدا کنار دکھلائی دیتا ہے اس جگہ اس کا ہزارم حصہ بھی نہیں تو اس صورت میں اگر ہم صریحاً و عمداً بے راہی اختیار نہ کریں تو بلا شبہ اس اقرار کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ ہمیں اس عالم کے حالات اور واقعات ٹھیک ٹھیک معلوم کرنے کے لئے اور اُن پر یقین کامل لانے کی غرض سے دنیا کی نسبت صد ہا درجہ زیادہ مؤرخوں اور واقعہ نگاروں اور تجربہ کاروں کی حاجت ہے اور جبکہ اس عالم کا مؤرخ اور واقعہ نگار بجز خدا کی کلام کے کوئی اور نہیں ہوسکتا اور ہمارے یقین کا جہاز بغیر وجود واقعہ نگار کے تباہ ہوا جاتا ہے.اور با صر صر وساوس کی ایمان کی کشتی کو ورطہ ہلاکت میں ڈالتی جاتی ہے تو اس صورت میں کون عاقل ہے کہ جو صرف عقل ناقص کی رہبری پر بھروسہ کر کے ایسے کلام کی ضرورت سے منہ پھیرے جس پر اُس کی جان کی سلامتی موقوف ہے اور جس کے مضامین صرف قیاسی انکلوں میں محدود نہیں بلکہ وہ عقلی دلائل کے علاوہ بحیثیت ایک مؤرخ صادق عالم ثانی کے واقعات صحیحہ کی خبر بھی دیتا ہے اور چشم دید ماجرا بیان کرتا ہے.براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۲۷ تا ۳۳۵ حاشیہ نمبر ۱۱) حضرات ! ! تم خوب سوچ کر دیکھ لو کہ الہام کے بغیر نہ یقین کامل ممکن ہے نہ غلطی سے بچنا ممکن.نہ توحید خالص پر قائم ہونا ممکن.نہ جذبات نفسانیہ پر غالب آنا حیز امکان میں داخل ہے.وہ الہام ہی ہے جس کے ذریعہ سے خدا کی نسبت ہے کی دھوم مچی ہوئی ہے اور تمام دنیا ہست ہست کر کے اُس کو پکار رہی ہے وہ الہام ہی ہے جو ابتدا سے دلوں میں جوش ڈالتا آیا کہ خدا موجود ہے.وہی ہے جس سے پرستاروں کو پرستش کی لذت آتی ہے.ایمان داروں کو خدا کے وجود اور عالم آخرت پر تسلی ملتی ہے.وہی ہے جس سے کروڑ ہا عارفوں نے بڑی استقامت اور جوش محبت الہیہ سے اس مسافر خانہ کو چھوڑا.وہی ہے جس کی صداقت پر ہزار ہا شہیدوں نے اپنے خون سے مہریں کر دیں.ہاں وہی ہے جس کی قوتِ جاذبہ سے بادشاہوں نے فقر کا جامہ پہن لیا.بڑے بڑے مالداروں نے دولتمندی پر درویشی اختیار کر لی.اسی کی برکت سے لاکھوں اُمّی اور ناخواندہ اور بوڑھی عورتوں نے بڑے پُر جوش ایمان سے کوچ کیا.وہی ایک کشتی ہے جس نے بار ہا یہ کام کر دکھایا کہ بے شمار لوگوں کو ورطہ مخلوق پرستی اور بدگمانی

Page 399

۳۸۹ سے نکال کر ساحل تو حید اور یقین کامل تک پہنچا دیا.وہی آخری دم کا یار اور نازک وقت کا مددگار ہے.لیکن فقط عقل کے پردے سے جس قدر دنیا کو ضرر پہنچا ہے وہ کچھ پوشیدہ نہیں.بھلا تم آپ ہی بتلاؤ کس نے افلاطون اور اس کے توابع کو خدا کی خالقیت سے منکر بنایا ؟ کس نے جالینوس کو روحوں کے باقی رہنے اور جزا سزا کے بارہ میں شک میں ڈال دیا ؟ کس نے تمام حکیموں کو خدا کے عالم بالجزئیات ہونے سے انکاری رکھا.کس نے بڑے بڑے فلاسفروں سے بُت پرستی کرائی؟ کس نے مورتوں کے آگے مُرغوں اور دوسرے حیوانات کو ذبح کرایا ؟ کیا یہی عقل نہیں تھی جس کے ساتھ الہام نہ تھا؟ اور یہ شبہ پیش کرنا کہ بہت سے لوگ الہام کے تابع ہو کر بھی مشرک بن گئے.نئے نئے خدا بنا لئے درست نہیں کیونکہ یہ خدا کے بچے الہام کا قصور نہیں بلکہ ان لوگوں کا قصور ہے جنہوں نے سچ کے ساتھ جھوٹ ملا دیا اور خدا پرستی پر ہوا پرستی کو اختیار کر لیا.پھر بھی الہام الہی اُن کے تدارک سے غافل نہیں رہا.اُن کو فراموش نہیں کیا بلکہ جن جن باتوں میں وہ حق سے دُور پڑ گئے دوسرے الہام نے ان باتوں کی اصلاح کی.( براہین احمدیہ ہر چہار تص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۶۳ ۱۶۴ حاشیہ نمبر۱) ہاں سچ بات ہے کہ عقل بھی بے سود اور بے فائدہ نہیں اور ہم نے کب کہا ہے کہ بے فائدہ ہے.مگر اس بدیہی صداقت کے ماننے سے ہم کس طرح بھاگ سکتے ہیں کہ مجرد عقل اور قیاس کے ذریعہ سے ہمیں وہ کامل یقین کا سرمایہ حاصل نہیں ہو سکتا کہ جو عقل اور الہام کے اشتمال سے حاصل ہوتا ہے اور نہ لغزشوں اور غلطیوں اور خطاؤں اور گمراہیوں اور خود پسندیوں اور خود بینیوں سے بچ سکتے ہیں.اور نہ ہمارے خود تراشیدہ خیالات خدا کے پر زور اور پر جلال اور پُر رعب حکم کی طرح جذبات نفسانی پر غالب آ سکتے ہیں اور نہ ہمارے طبعزاد تصورات اور خشک تخیلات اور بے اصل تو ہمات ہم کو وہ سرور اور خوشی اور تسکی اور تشفی پہنچا سکتے ہیں کہ جو محبوب حقیقی کا دلآویز کلام پہنچاتا ہے تو پھر کیا ہم ایک اکیلی عقل کے پیرو ہو کر اُن تمام نقصانوں اور زبانوں اور بدبختیوں اور بدنصیبیوں کو اپنے لئے قبول کر لیں اور ہزار ہا بلاؤں کا اپنے نفس پر دروازہ کھول دیں.عاقل انسان کسی طرح اس مہمل بات کو باور نہیں کر سکتا کہ جس نے کامل معرفت کی پیاس لگا دی ہے اُس نے پوری معرفت کا لبالب پیالہ دینے سے دریغ کیا ہے اور جس نے آپ ہی دلوں کو اپنی طرف کھینچا ہے اس نے حقیقی عرفان کے دروازے بند کر رکھے ہیں اور خدا شناسی کے تمام مراتب کو صرف فرضی ضرورت پر خیال دوڑانے میں محدود کر دیا ہے.کیا خدا نے انسان کو ایسا ہی بد بخت اور بے نصیب پیدا کیا ہے کہ جس کامل تسلّی کو خدا شناسی کی راہ میں اس کی روح چاہتی ہے اور دل

Page 400

۳۹۰ تڑپتا ہے اور جس کے حصول کا جوش اُس جان و جگر میں بھرا ہوا ہے اُس کے حصول سے اس دنیا میں اس کو بکلی پاس اور نا امیدی ہے.کیا تم ہزار ہا لوگوں میں سے کوئی بھی ایسی روح نہیں کہ اس بات کو سمجھے کہ جو معرفت کے دروازے صرف خدا کے کھولنے سے کھلتے ہیں وہ انسانی قوتوں سے کھل نہیں سکتے اور جو خدا کا آپ کہنا ہے کہ میں موجود ہوں اس سے انسانوں کے صرف قیاسی خیالات برابر نہیں ہو سکتے.بلاشبہ خدا کا اپنے وجود کی نسبت خبر دینا ایسا ہے کہ گویا خدا کو دکھلا دیتا ہے مگر صرف قیاسا انسان کا کہنا ایسا نہیں ہے.اور جبکہ خدا کے کلام سے کہ جو اس کے وجود خاص پر دلالت کرتا ہے ہمارے عقلی خیالات کسی طرح برابر نہیں ہو سکتے تو پھر تکمیل یقین کے لئے کیوں اس کے کلام کی حاجت نہیں؟ کیا اس صریح تفاوت کو دیکھنا تمہارے دل کو ذرا بھی بیدار نہیں کرتا؟ کیا ہمارے کلام میں کوئی بھی ایسی بات نہیں کہ جو تمہارے دل پر مؤثر ہو؟ اے لوگو! اس بات کے سمجھنے میں کچھ بھی دقت نہیں کہ عقل انسانی مغیبات کے جاننے کا آلہ نہیں ہو سکتی.اور کون تم میں سے اس بات کا منکر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ بعد فوت کے پیش آنے والا ہے وہ سب مغیبات میں ہی داخل ہے.مثلاً تم سوچو کہ کسی کو واقعی طور پر کیا خبر ہے کہ موت کے وقت کیونکر انسان کی جان نکلتی ہے اور کہاں جاتی ہے اور کون ہمراہ لے جاتا ہے اور کس مقام میں ٹھہرائی جاتی ہے اور پھر کیا کیا معاملہ اس پر گذرتا ہے؟ ان سب باتوں میں عقل انسانی کیونکر قطعی فیصلہ کر سکے.قطعی طور پر تو انسان تب فیصلہ کر سکتا ہے کہ جب ایک دو مرتبہ پہلے مر چکا ہوتا اور وہ راہیں اُسے معلوم ہوتیں جن راہوں سے خدا تک پہنچتا تھا اور وہ مقامات اُسے یاد ہوتے جن میں ایک عرصہ تک اس کی سکونت رہی تھی مگر اب تو ری انکلیں ہیں گو ہزار احتمال نکالو موقعہ پر جا کر تو کسی عاقل نے نہ دیکھا.اس صورت میں ظاہر ہے کہ ایسے بے بنیاد خیالات سے آپ ہی تسلی پکڑنا ایک طفل تسلی ہے حقیقی تسلی نہیں ہے.اگر تم محققانہ نگاہوں سے دیکھو تو آپ ہی شہادت دو کہ انسان کی عقل اور اس کا کانشنس ان سب امور کو علی وجہ الیقین ہرگز دریافت نہیں کر سکتا.اور صحیفہ قدرت کا کوئی صفحہ ان امور پر یقینی دلالت نہیں کرتا.دُور دراز کی باتیں تو یک طرف رہیں اول قدم میں ہی عقل کو حیرانی ہے کہ روح کیا چیز ہے اور کیونکر داخل ہوتی اور کیونکر نکلتی ہے.ظاہر اتو کچھ نکلتا نظر نہیں آتا اور نہ داخل ہوتا نظر آتا ہے اور اگر کسی جاندار کو وقت نزع جان کے کسی شیشہ میں بھی بند کر وتب بھی کوئی چیز نکلتی نظر نہیں آتی اور اگر بند شیشہ کے اندر کسی مادہ میں کیڑے پڑ جائیں تو ان روحوں کے داخل ہونے کا بھی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتا.انڈے میں اس سے بھی زیادہ تعجب ہے کس راہ سے روح پرواز کر کے آتی ہے اور اگر بچہ اندر ہی مرجائے

Page 401

۳۹۱ تو کس راہ سے نکل جاتی ہے؟ کیا کوئی عاقل اس معمہ کو صرف اپنی ہی عقل کے زور سے کھول سکتا ہے؟ و ہم جتنے چاہو دوڑاؤ مگر مجرد عقل کے ذریعہ سے کوئی واقعی اور یقینی بات تو معلوم نہیں ہوتی.پھر جبکہ پہلے ہی قدم میں یہ حال ہے تو پھر یہ ناقص عقل امور معاد میں قطعی طور پر کیا دریافت کر لے گی؟ ( براہین احمدیہ ہر چہار تخصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۳۶ تا ۳۳۸ حاشیہ نمبر۱۱) اُس حکیم مطلق نے انسان ضعیف البنیان کو اپنی ہی رائے اور قیاس پر چھوڑ نا نہیں چاہا بلکہ جس طور کے واعظوں اور متکلموں سے اس کی تسلی اور شقی ہو سکتی ہے اور اس کے جذبات نفسانی وب سکتے ہیں اور اُس کی روحانی بے قراریاں دُور ہو سکتی ہیں وہ سب متکلم اس کے لئے پیدا کئے ہیں اور جس کلام سے اس کی امراض و اعراض دُور ہو سکتی ہیں وہ کلام اس کے لئے مہیا کیا ہے.یہ ثبوت ضرورت الہام کا کسی اور طرز سے نہیں بلکہ خدا کا ہی قانون قدرت اُسے ثابت کرتا ہے.کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا میں کروڑ ہا آدمی کہ جو مصیبت میں معصیت میں غفلت میں گرفتار ہوتے ہیں ہمیشہ وہ دوسرے واعظ اور ناصح سے متاثر ہوا کرتے ہیں اور ہر جگہ اپنا ہی علم اور اپنے ہی خیالات ہرگز کافی نہیں ہوتے اور ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ جس قدر متکلم کی ذاتی عظمت اور وقعت سامع کی نظر میں ثابت ہو اسی قدر اس کا کلام تسلّی اور تشفی بخشتا ہے.اسی شخص کا وعدہ موجب تسکین خاطر ہوتا ہے کہ جو سامع کی نظر میں صادق الوعد اور ایفائے وعدہ پر قادر بھی ہو.اس صورت میں کون اس بد یہی بات میں کلام کر سکتا ہے کہ امور معاد اور ماوراء المحسوسات میں اعلی مرتبہ تسلی اور تشفی اور تسکین خاطر کا کہ جو جذبات نفسانی اور آلام روحانی کو دور کرنے والا ہوصرف خدا کے کلام سے حاصل ہو سکتا ہے.اور قانونِ قدرت پر نظر ڈالنے سے اس سے عمده تر موجب تسلی و تشفی کا اور کوئی امر قرار نہیں پاسکتا.جب کوئی آدمی خدا کے کلام پر پورا پورا ایمان لاتا ہے اور کوئی اعراض صوری یا معنوی درمیان نہیں ہوتا تو خدا کا کلام اس کو بڑے بڑے گردابوں میں سے بچا لیتا ہے.اور سخت سخت جذبات نفسانی کا مقابلہ کرتا ہے اور بڑے بڑے پر دہشت حادثوں میں صبر بخشتا ہے.جب دانا انسان کسی مشکل یا جذ بہ نفسانی کے وقت میں خدا کے کلام میں وعد اور وعید پاتا ہے یا کوئی دوسرا اُسے سمجھاتا ہے کہ خدا نے ایسا فرمایا ہے تو ا یکبارگی اُس سے ایسا متاثر ہو جاتا ہے کہ تو بہ پر تو بہ کرتا ہے.انسان کو خدا کی طرف سے تسلی پانے کی بڑی بڑی حاجتیں پڑتی ہیں.بسا اوقات وہ ایسی سخت مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے کہ اگر خدا کا کلام آیا نہ ہوتا اور اُس کو اپنی اس بشارت سے مطلع نہ کرتا.وَلَنَبْلُوَنَّكُمُ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ

Page 402

۳۹۲ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ - أُولَيكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ لے تو وہ بے حوصلہ ہو کر شاید خدا کے وجود سے ہی انکار کرتا اور یا نا اُمیدی کی حالت میں خدا سے بکلی رابطہ توڑ دیتا اور یا غموں کے صدمہ سے ہلاک ہو جاتا.اسی طرح جذبات نفسانی ایسے ہیں کہ جن کی کسر ثوران کے لئے خدا کے کلام کی ضرورت تھی اور قدم قدم میں انسان کو وہ امور پیش آتے ہیں جن کا تدارک صرف خدا کا کلام کر سکتا ہے.جب انسان خدا کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے تو صد ہا موانع اُس کو اس توجہ سے روکتے ہیں.کبھی اس دنیا کی لذت یاد ہوتی ہے کبھی ہم مشربوں کی صحبت دامن کھینچتی ہے کبھی اس راہ کی تکالیف ڈراتی ہیں.کبھی قدیمی عادات اور ملکات راسخہ سنگ راہ ہو جاتی ہیں کبھی تنگ کبھی نام کبھی ریاست کبھی حکومت اس راہ سے روکنا چاہتی ہے اور کبھی یہ سارے ایک لشکر کی طرح ایک جگہ فراہم ہو کر اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اپنے فوائد نقد کی خوبیاں پیش کرتے ہیں پس ان کے اتفاق اور اثر دہام میں ایک ایسا زور پیدا ہو جاتا ہے کہ خیالات خود تراشیدہ ان کی مدافعت نہیں کر سکتے بلکہ ایک دم بھی اُن کے مقابلہ پر ٹھہر نہیں سکتے.ایسے جنگ کے موقعہ میں خدا کے کلام کی پُر زور بندوقیں درکار ہیں کہ تا مخالف کی صف کو ایک ہی فیر میں اڑا دیں.کیا کوئی کام یک طرفہ بھی ہوسکتا ہے.پس یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا ایک پتھر کی طرح ہمیشہ خاموش رہے اور بندہ وفاداری میں صدق میں صبر میں خود بخود بڑھتا جائے اور صرف یہی ایک خیال کہ آسمان اور زمین کا البتہ کوئی خالق ہو گا اُس کو ہمیشہ کی قوت دے کر عشق کے میدانوں میں آگے سے آگے کھینچتا چلا جائے خیالی باتیں واقعی باتوں کی ہرگز قائم مقام نہیں ہو سکتیں اور نہ کبھی ہوئیں مثلاً ایک مفلس قرضدار نے کسی راستباز دولتمند سے وعدہ پایا ہے کہ عین وقت پر میں تیرا گل قرضہ ادا کر دوں گا اور دوسرا ایک اور مفلس قرض دار ہے اُس کو کسی نے اپنی زبان سے وعدہ نہیں دیا وہ اپنے ہی خیالات دوڑاتا ہے کہ شاید مجھ کو بھی وقت پر رو پیل جائے.کیا تسلی پانے میں یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں ہرگز نہیں یہ سب قوانین قدرت ہی ہیں.قوانین قدرت سے کون سی حقانی صداقت باہر ہے.پر افسوس ان لوگوں پر کہ جو قوانین قدرت کی پابندی کا دعوی کرتے کرتے پھر انہیں تو ڑ کر دوسری طرف بھاگ گئے اور جو کچھ کہا تھا اُس کے برعکس عمل میں لائے.البقرة :۱۵۷،۱۵۶ ( براہین احمدیہ ہر چہار تحصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۴۰ تا ۳۴۲ حاشیہ نمبر۱۱)

Page 403

۳۹۳ نہ معلوم آپ لوگوں کو کس نے بہکا دیا کہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویا عقل اور الہام میں کسی قدر با ہم تناقض ہے جس کے باعث وہ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.خدا تمہاری آنکھیں کھولے اور تمہارے دلوں کے پردے اُٹھا دے.کیا تم اس آسان بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ جس حالت میں الہام کی طفیل سے عقل اپنے کمال کو پہنچتی ہے اپنی غلطیوں پر متنبہ ہوتی ہے اپنی راہ مقصود کی سمت خاص کو دریافت کر لیتی ہے آوارہ گردی اور سرگردانی سے چھوٹ جاتی ہے اور ناحق کی محنتوں اور بے ہودہ مشقتوں اور بے فائدہ جان کنی سے رہائی پاتی ہے اور اپنے مشتبہ اور مظنون علم کو یقینی اور قطعی کر لیتی ہے اور مجرد انکلوں سے آگے بڑھ کر واقعی وجود پر مطلع ہو جاتی ہے تسلی پکڑتی ہے آرام اور اطمینان پاتی ہے تو پھر اس صورت میں الہام اس کا محسن و مددگار اور مربی ہوا یا اس کا دشمن اور مخالف اور ضرر رساں ہوا یہ کس قسم کا تعصب اور کس نوع کی نابینائی ہے کہ جو ایک بزرگ مربی کو جو صریح رہبری اور رہنمائی کا کام دے رہا ہے رہزن اور مزاحم تصور کیا جاتا ہے اور جو گڑھے سے باہر نکالتا ہے اس کو گڑھے کے اندر دھکیلنے والا سمجھ رہے ہیں.سارا جہان جانتا ہے اور تمام آنکھوں والے دیکھ رہے ہیں اور غور کرنے والی طبیعتیں مشاہدہ کر رہی ہیں کہ دنیا میں عقل کی خوبی اور عظمت کو ماننے والے لاکھوں ایسے ہو گزرے ہیں اور اب بھی ہیں کہ جو باوجود اس کے کہ عقل کے پیغمبر پر ایمان لائے اور عاقل کہلائے اور عقل کو عمدہ چیز اور اپنا رہبر سمجھتے تھے مگر بایں ہمہ خدا کے وجود سے منکر ہی رہے اور منکر ہی مرے.لیکن ایسا آدمی کوئی ایک تو دکھلاؤ کہ جو الہام پر ایمان لا کر پھر بھی خدا کے وجود سے انکاری رہا.پس جس حالت میں خدا پر محکم ایمان لانے کے لئے الہام ہی شرط ہے تو ظاہر ہے کہ جس جگہ شرط مفقود ہو گی اُس جگہ مشروط بھی ساتھ ہی مفقود ہو گا سو اب بدیہی طور پر ثابت ہے کہ جو لوگ الہام سے منکر ہو بیٹھے ہیں انہوں نے دیدہ و دانستہ بے ایمانی کی راہوں سے پیار کیا ہے اور دہر یہ مذہب کے پھیلنے اور شائع ہو جانے کو روا رکھا ہے.یہ نادان نہیں سوچتے کہ جو وجود غیب الغیب ہے نہ دیکھنے میں آسکتا ہے نہ سونگھنے میں نہ ٹولنے میں اگر قوت سامعہ بھی اُس ذات کامل کے کلام سے محروم اور بے خبر ہو تو پھر اس نا پیدا وجود پر کیونکر یقین آوے.اور اگر مصنوعات کے ملاحظہ سے صانع کا کچھ خیال بھی دل میں آیا لیکن جب طالب حق نے مدت العمر کوشش کر کے نہ کبھی اس صانع کو اپنی آنکھوں سے دیکھا نہ کبھی اس کے کلام پر مطلع ہوا نہ کبھی اُس کی نسبت کوئی ایسا نشان پایا کہ جو جیتے جاگتے میں ہونا چاہئے تو کیا آخر اس کو یہ وسوسہ نہیں گذرے گا کہ شاید میری فکر نے ایسے صانع کے قرار دینے میں غلطی کی ہو اور شاید دہریہ اور طبعیہ ہی بچے ہوں کہ جو عالم کی بعض اجزا کو

Page 404

۳۹۴ بعض کا صانع قرار دیتے ہیں اور کسی دوسرے صانع کی ضرورت نہیں سمجھتے میں جانتا ہوں کہ جب نرا عقل پرست اس باب میں اپنے خیال کو آگے سے آگے دوڑائے گا تو وسوسہ مذکورہ ضرور اُس کے دل کو پکڑ لے گا کیونکہ ممکن نہیں کہ وہ خدا کے ذاتی نشان سے با وجو د سخت جستجو اور تکاپو کے ناکام رہ کر پھر ایسے وساوس سے بچ جائے وجہ یہ کہ انسان میں یہ فطرتی اور طبعی عادت ہے کہ جس چیز کے وجود کو قیاسی قرائن سے واجب اور ضروری سمجھے اور پھر باوجود نہایت تلاش اور پرلے درجہ کی جستجو کے خارج میں اس چیز کا کچھ پتہ نہ لگے تو اپنے قیاس کی صحت میں اس کو شک بلکہ انکار پیدا ہو جاتا ہے اور اُس قیاس کے مخالف اور منافی سینکڑوں احتمال دل میں نمودار ہو جاتے ہیں.بارہا ہم تم ایک مخفی امر کی نسبت قیاس دوڑایا کرتے ہیں کہ یوں ہوگا یا ووں ہو گا اور جب بات کھلتی ہے تو وہ اور ہی ہوتی ہے.انہی روز مرہ کے تجارب نے انسان کو یہ سبق دیا ہے کہ مجرد قیاسوں پر طمانیت کر کے بیٹھنا کمال نادانی ہے غرض جب تک قیاسی اٹکلوں کے ساتھ خبر واقعہ نہ ملے تب تک ساری نمائش عقل کی ایک سراب ہے اس سے زیادہ نہیں جس کا آخری نتیجہ دہریہ پن ہے سو اگر دہر یہ بننے کا ارادہ ہے تو تمہاری خوشی.ورنہ وساوس کے تند سیلاب سے کہ جو تم سے بہتر ہزار ہا عقلمندوں کو اپنی ایک ہی موج سے تحت الثرمی کی طرف لے گیا ہے صرف اسی حالت میں تم بچ سکتے ہو کہ جب عروہ تھی الہام حقیقی کو مضبوطی سے پکڑ لو.ورنہ یہ تو ہرگز نہیں ہوگا کہ تم مجرد خیالات عقلیہ میں ترقی کرتے کرتے آخر خدا کو کسی جگہ بیٹھا ہوا دیکھ لو گے بلکہ تمہارے خیالات کی ترقی کا اگر کچھ انجام ہوگا تو بالآخر یہی انجام ہوگا کہ تم خدا کو بے نشان پا کر اور زندوں کی علامات سے خالی دیکھ کر اور اُس کے سُراغ لگانے سے عاجز اور درماندہ رہ کر اپنے دہر یہ بھائیوں سے ہاتھ جا ملاؤ گے.(براہین احمدیہ ہر چہار تصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۴۴ تا ۳۴۶ حاشیہ نمبر۱۱) سه ششم - معرفت کامل کا ذریعہ وہ چیز ہوسکتی ہے جو ہر وقت اور ہر زمانہ میں کھلے طور پر نظر آتی ہو.سو یہ صحیفہ نیچر کی خاصیت ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا اور ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور یہی رہبر ہونے کے لائق ہے کیونکہ ایسی چیز کبھی رہنما نہیں ہو سکتی جس کا دروازہ اکثر اوقات بند رہتا ہو اور کسی خاص زمانہ میں کھلتا ہو.جواب.صحیفہ فطرت کو بمقابلہ کلام الہی کھلا ہوا خیال کرنا یہی آنکھوں کے بند ہونے کی نشانی ہے جن کی بصیرت اور بصارت میں کچھ خلل نہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اسی کتاب کو کھلے ہوئے کہا جاتا ہے جس کی تحریر صاف نظر آتی ہو جس کے پڑھنے میں کوئی اشتباہ باقی نہ رہتا ہو پر کون ثابت کر سکتا ہے کہ مجرد

Page 405

۳۹۵ صحیفہ قدرت پر نظر کرنے سے کبھی کسی کا اشتباہ دُور ہوا؟ کس کو معلوم ہے کہ اس نیچری تحریر نے کبھی کسی کو منزل مقصود تک پہنچایا ہے؟ کون دعوی کر سکتا ہے کہ میں نے صحیفہ قدرت کے تمام دلالات کو بخوبی سمجھ لیا ہے؟ اگر یہ صحیفہ کھلا ہوا ہوتا تو جو لوگ اس پر بھروسہ کرتے تھے وہ کیوں ہزار ہا غلطیوں میں ڈوبتے.کیوں اسی ایک صحیفہ کو پڑھ کر باہم اس قدر مختلف الرائے ہو جاتے کہ کوئی خدا کے وجود کا کسی قدر قائل اور کوئی سرے سے انکاری ہم نے بفرض محال یہ بھی تسلیم کیا کہ جس نے اس صحیفہ کو پڑھ کر خدا کے وجود کو ضروری نہیں سمجھا وہ اس قدر عمر پالے گا کہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر متنبہ ہو جائے گا مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر یہ صحیفہ کھلا ہوا تھا تو اس کو دیکھ کر ایسی بڑی بڑی غلطیاں کیوں پڑ گئیں؟ کیا آپ کے نزدیک کھلی ہوئی کتاب اسی کو کہتے ہیں جس کو پڑھنے والے خدا کے وجود میں ہی اختلاف کریں اور بسم اللہ ہی غلط ہو.کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسی صحیفہ فطرت کو پڑھ کر ہزار ہا حکیم اور فلاسفر دہریے اور طبعی ہو کر مرے یا بتوں کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے اور وہی شخص اُن میں سے راہ راست پر آیا جو الہام الہی پر ایمان لایا.کیا اس میں کچھ جھوٹ پر بھی ہے کہ فقط اس صحیفہ کے پڑھنے والے بڑے بڑے فیلسوف کہلا کر پھر خدا کے مدبر و خالق بالا رادہ اور عالم بالجزئیات ہونے سے منکر رہے اور انکار ہی کی حالت میں مر گئے.کیا خدا نے تم کو اس قدر بھی سمجھ نہیں دی کہ جس خط کے مضمون کو مثلاً زید کچھ سمجھے اور بکر کچھ خیال کرے اور خالد ان دونوں کے برخلاف کچھ اور تصور کر بیٹھے تو اس خط کی تحریر کھلی ہوئی اور صاف نہیں کہلاتی بلکہ مشکوک اور مشتبہ اور مہم کہلاتی ہے.یہ کوئی ایسی دقیق بات نہیں جس کے سمجھنے کے لئے باریک عقل درکار ہو بلکہ نہایت بد یہی صداقت ہے مگر ان کا کیا علاج جو سراسر تحکم کی راہ سے ظلمت کو نور اور نور کو ظلمت قرار دیں اور دن کو رات اور رات کو دن ٹھہرا دیں.ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ مطالب دلی کو پورا پورا بیان کرنے کے لئے یہی سیدھا راستہ خدائے تعالی کی طرف سے مقرر ہے کہ بذریعہ قول واضح کے اپنا مافی الضمیر ظاہر کیا جائے کیونکہ دلی ارادوں کو ظاہر کرنے کے لئے صرف قوت نطقیہ آلہ ہے اسی آلہ کے ذریعہ سے ایک انسان دوسرے انسان کے مافی القلب سے مطلع ہوتا ہے.اور ہر یک امر جو اس آلہ کے ذریعہ سے سمجھایا نہ جائے وہ تفہیم کامل کے درجہ سے متنزل رہتا ہے.ہزار ہا امور ایسے ہیں کہ اگر ہم اُن میں فطرتی دلالت سے مطلب نکالنا چاہیں تو یہ امر ہمارے لئے غیر ممکن ہو جاتا ہے اور اگر فکر بھی کریں تو غلطی میں پڑ جاتے ہیں.مثلاً ظاہر ہے کہ خدا نے آنکھ دیکھنے کے لئے بنائی ہے اور کان سُننے کے لئے پیدا کئے ہیں.زبان بولنے کے لئے عطا کی ہے.اس قدر تو ہم نے اِن اعضاء کی فطرت پر نظر کر کے اور ان کے خواص کو

Page 406

۳۹۶ سوچ کر معلوم کر لیا لیکن اگر ہم اسی فطرتی دلالت پر کفایت کریں اور تصریحات کلام الہی کی طرف متوجہ نہ ہوں تو بموجب دلالت فطرتی ہمارا یہ اصول ہونا چاہئے کہ ہم جس چیز کو چاہیں بلا تفریق مواضع حلت و حرمت دیکھ لیا کریں اور جو چاہیں سُن لیں اور جو بات دل میں آوے بول اٹھیں کیونکہ قانون فطرت ہم کو اس قدر سمجھاتا ہے کہ آنکھ دیکھنے کے لئے ، کان سننے کے لئے ، زبان بولنے کے لئے مخلوق ہے اور ہم کو صریح اس دھو کے میں ڈالتا ہے کہ گویا ہم قوت بصارت اور قوت سمع اور قوت نطق کے استعمال کرنے میں بکلی آزاد اور مطلق العنان ہیں.اب دیکھنا چاہئے کہ اگر خدا کا کلام قانونِ قدرت کے اجمال کی تصریح نہ کرے اور اس کے ابہام کو اپنے بیان واضح اور کھلی ہوئی تقریر سے دور نہ فرمادے تو کس قدر خطرات ہیں جو محض قانون فطرت کا تابعدار ہو کر اُن میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے یہ خدا ہی کا کلام ہے جس نے اپنے کھلے ہوئے اور نہایت واضح بیان سے ہم کو ہمارے ہر ایک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں حدود معینہ مشخصہ پر قائم کیا اور ادب انسانیت اور پاک روشنی کا طریقہ سکھلایا وہی ہے جس نے آنکھ اور کان اور زبان وغیرہ اعضاء کی محافظت کے لئے بکمال تاکید فرمایا.قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْکى لَهُمْ لے نمبر ۱۸ یعنی مومنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں اور ستر گاہوں کو نامحرموں سے بچاویں اور ہر یک نادیدنی اور ناشنیدنی اور ناکردنی سے پر ہیز کریں کہ یہ طریقہ اُن کی اندرونی پاکی کا موجب ہو گا یعنی ان کے دل طرح طرح کے جذبات نفسانیہ سے محفوظ رہیں گے کیونکہ اکثر نفسانی جذبات کو حرکت دینے والے اور قوائے بہیمیہ کو فتنہ میں ڈالنے والے یہی اعضاء ہیں.اب دیکھئے کہ قرآن شریف نے نامحرموں سے بچنے کے لئے کیسی تاکید فرمائی اور کیسے کھول کر بیان کیا کہ ایمان دار لوگ اپنی آنکھوں اور کانوں اور ستر گاہوں کو ضبط میں رکھیں اور ناپاکی کے مواضع سے روکتے رہیں.اسی طرح زبان کو صدق وصواب پر قائم رکھنے کے لئے تاکید فرمائی اور کہا.قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ل نمبر ۲۲.یعنی وہ بات منہ پر لاؤ جو بالکل راست اور نہایت معقولیت میں ہو اور لغو اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سرِ مو دخل نہ ہو.اور پھر جمیع اعضا کی وضع استقامت پر چلانے کے لئے ایک ایسا کلمہء جامعہ اور پُر تہدید بطور تنبیہہ و انذار فرمایا جو غافلوں کو متنبہ کرنے کے لئے کافی ہے.اور کہا إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَيْكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا سے نمبر ۱۵.یعنی کان اور آنکھ اور دل اور ایسا ہی تمام اعضا اور قو تیں جو انسان میں موجود ہیں النور : ٣١ الاحزاب : اے بنی اسرآئیل : ۳۷

Page 407

۳۹۷ ان سب کے غیر محل استعمال کرنے سے باز پرس ہو گی.اور ہر ایک کمی و بیشی اور افراط اور تفریط کے بارہ میں سوال کیا جائے گا.اب دیکھو اعضا اور تمام قوتوں کو مجری خیر اور صلاحیت پر چلانے کے لئے کس قدر تصریحات و تاکیدات خدا کے کلام میں موجود ہیں.اور کیسے ہر یک عضو کو مرکز اعتدال اور خط استوا پر قائم رکھنے کے لئے بکمال وضاحت بیان فرمایا گیا ہے جس میں کسی نوع کا ابہام و اجمال باقی نہیں رہا.کیا یہ تصریح و تفصیل صحیفہ قدرت کے کسی صفحہ کو پڑھ کر معلوم ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.سواب تم آپ ہی سوچو کہ کھلا ہوا اور واضحہ صحیفہ یہ ہے یا وہ.اور فطرتی دلالتوں کے مصالحہ اور حدود کو اُس نے بیان کیا یا اس نے.اے حضرات !! اگر اشارات سے کام نکلتا تو پھر انسان کو زبان کیوں دی جاتی.جس نے تم کو زبان دی کیا وہ آپ نطق پر قادر نہیں جس نے تم کو بولنا سکھایا کیا وہ آپ بول نہیں سکتا جس نے اپنے فعل میں یہ قدرت دکھلائی کہ اتنا بڑا عالم بغیر مدد کسی مادہ ہیولی کے اور بغیر احتیاج معماروں اور مزدوروں اور نجاروں کے بمجرد ارادہ سب کچھ بنا ڈالا کیا اُس کی نسبت یہ کہنا جائز ہے کہ وہ بات کرنے پر قادر نہیں؟ یا قا در تو ہے مگر بباعث بخل کے اپنے کلام کے فیضان سے محروم رکھا.کیا یہ درست ہے؟ کہ قادر مطلق کی نسبت ایسا خیال کیا جائے کہ وہ اپنی طاقتوں میں حیوانات سے بھی فروتر ہے؟ کیونکہ ایک ادنی جانور بذریعہ اپنی آواز کے دوسرے جانور کو یقینی طور پر اپنے وجود کی خبر دے سکتا ہے.ایک مکھی بھی اپنی طنین سے دوسری مکھیوں کو اپنے آنے سے آگاہ کر سکتی ہے پر نعوذ باللہ بقول تمہارے اُس قادر مطلق میں ایک مکھی جتنی بھی قدرت نہیں.پھر جب اُس کی نسبت تمہارا صاف بیان ہے کہ اُس کا منہ کبھی نہیں کھلا اور کبھی اس کو بولنے کی طاقت نہیں ہوئی تو تم کو تو یہ کہنا چاہئے کہ وہ ادھورا اور ناقص ہے جس کی اور صفتیں تو معلوم ہو گئیں پر صفت گویائی کا کبھی پتہ نہ ملا.اس کی نسبت تم کس منہ سے کہہ سکتے ہو کہ اُس نے کوئی کھلا ہوا صحیفہ جس میں اُس نے بخوبی اپنا مافی الضمیر ظاہر کر دیا ہو تم کو عطا کیا ہے بلکہ تمہاری رائے کا تو خلاصہ ہی یہی ہے کہ خدائے تعالیٰ سے رہنمائی میں کچھ نہیں ہو سکا تمہیں نے اپنی قابلیت اور لیاقت سے شناخت کر لیا.ماسوا اس کے الہامی تعلیم ان معنوں کر کے کھلی ہوئی ہے کہ اُس کا اثر عام طور پر تمام لوگوں کے دلوں پر پڑتا ہے اور ہر یک طور کی طبیعت اس سے مستفیض ہوتی ہے اور مختلف اقسام کی فطرتیں اس سے نفع اٹھاتی ہیں اور ہر رنگ کے طالب کو اس سے مدد پہنچتی ہے.یہی وجہ ہے کہ بذریعہ کلام الہی بہت لوگ ہدایت یاب ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں اور بذریعہ مجرد عقلی دلائل کے بہت ہی کم بلکہ کالعدم ، اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ جو شخص بہ حیثیت مخبر صادق لوگوں کی نظر میں ثابت ہو کر

Page 408

۳۹۸ واقعات معاد میں اپنا تجربہ اور امتحان اور ملاحظہ اور معائنہ بیان کرتا ہے اور ساتھ ہی دلائل عقلیہ بھی سمجھاتا ہے وہ حقیقت میں ایک دوہرا زور اپنے پاس رکھتا ہے کیونکہ ایک تو اس کی نسبت یہ یقین کیا گیا ہے کہ وہ واقعہ نفس الامر کا معائنہ کرنے والا اور سچائی کو بچشم خود دیکھنے والا ہے اور دوسرے وہ بطور معقول بھی سچائی کی روشنی کو دلائل واضحہ سے ظاہر کرتا ہے.پس ان دونوں ثبوتوں کے اشتمال سے ایک زبر دست کشش اس کے وعظ اور نصیحت میں ہو جاتی ہے کہ جو بڑے بڑے سنگین دلوں کو کھینچ لاتی ہے اور ہر نوع کے نفس پر کارگر بھی پڑتی ہے کیونکہ اس کی بات میں مختلف طور کی تفہیم کی قدرت ہوتی ہے جس کے سمجھنے کے لئے ایک خاص لیاقت کے لوگ شرط نہیں ہیں بلکہ ہر ایک ادنیٰ و اعلیٰ و زیرک و غمی بجز ایسے شخص کے کہ جو بکلی مسلوب العقل ہو اس کی تقریروں کو سمجھ سکتے ہیں اور وہ فورا ہر یک قسم کے آدمی کی اُسی طور پر تسلی کر سکتا ہے کہ جس طور پر اس آدمی کی طبیعت واقعہ ہے یا جس درجہ پر اس کی استعداد پڑی ہوئی ہے.اس لئے کلام اُس کی خدا کی طرف خیالات کو کھینچنے میں اور دنیا کی محبت چھوڑانے میں اور احوال الآخرت نقش دل کرنے میں بڑی وسیع قدرت رکھتی ہے.اور اُن تنگ اور تاریک تصوروں میں محدود نہیں ہوتی.جن میں مجرد عقل پرستوں کی باتیں محدود ہوتیں ہیں.اسی جہت سے اس کا اثر عام اور اس کا فائدہ تام ہوتا ہے.اور ہر یک ظرف اپنی اپنی وسعت کے مطابق اس سے پُر ہو جاتا ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ مقدس میں اشارہ فرمایا ہے.اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا یا نمبر ۱۳.خدا نے آسمان سے پانی (اپنا کلام ) اُتارا.سو اس پانی سے ہر یک وادی اپنی قدر کے موافق بہ نکلی.یعنی ہر ایک کو اس میں سے اپنی طبیعت اور خیال اور لیاقت کے موافق حصہ ملا طبائع عالیہ اسرار حکمیہ سے متمتع ہوئیں اور جو اُن سے بھی اعلیٰ تھے انہوں نے ایک عجیب روشنی پائی کہ جو حد تحریر و تقریر سے خارج ہے اور جو کم درجہ پر تھے انہوں نے مخبر صادق کی عظمت اور کمالیت ذاتی کو دیکھ کر دلی اعتقاد سے اس کی خبروں پر یقین کر لیا اور اس طرح پر وہ بھی یقین کی کشتی میں بیٹھ کر ساحل نجات تک جا پہنچے اور صرف وہی لوگ باہر رہ گئے جن کو خدا سے کچھ غرض نہ تھی اور فقط دنیا کے ہی کیڑے تھے اور نیز قوت اثر پر نظر کرنے سے بھی طریق متابعت الہام کا نہایت گھلا ہوا اور وسیع معلوم ہوتا ہے کیونکہ جاننے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ تقریر میں اُسی قدر برکت اور جوش اور قوت اور عظمت اور دلکشی پیدا ہوتی ہے کہ جس قدر متکلم کا قدم مدارج یقین اور اخلاص اور وفاداری کے الرعد : ۱۸

Page 409

۳۹۹ اعلیٰ درجہ پر پہنچا ہوا ہوتا ہے.سو یہ کمالیت بھی اسی شخص کی تقریر میں متفق ہوسکتی ہے کہ جس کو دوہرے طور پر معرفت الہی حاصل ہو.اور یہ خود ہر ایک عاقل پر روشن ہے کہ پُر جوش تقریر کہ جس پر ترتیب اثر موقوف ہے تب ہی انسان کے منہ سے نکلتی ہے کہ جب دل اس کا یقین کے جوش سے پُر ہو اور وہی باتیں دلوں پر بیٹھتی ہیں جو کامل الیقین دلوں سے جوش مار کر نکلتی ہیں.پس اس جگہ بھی یہی ثابت ہوا کہ باعتبار شدت اثر بھی الہامی تربیت ہی مُنْفَتِحُ الابواب ہے.غرض باعتبار عمومیت تا خیر اور باعتبار شدت تاثیر فقط صحیفہ وحی کا کھلا ہوا ہونا بپایہ ثبوت پہنچتا ہے وبس.اور یہ مسئلہ بدیہات سے کچھ کم نہیں ہے کہ خدا کے بندوں کو زیادہ تر نفع پہنچانے والا وہی شخص ہوتا ہے کہ جو الہام اور عقل کا جامع ہو اور اُس میں یہ لیاقت ہوتی ہے کہ ہر یک طور کی طبیعت اور ہر قسم کی فطرت اُس سے مستفیض ہو سکے.مگر جو شخص صرف براہین منطقیہ کے زور سے راہ راست کی طرف کھچنا چاہتا ہے اگر اُس کی مغز زنی پر کچھ ترتیب اثر بھی ہو تو صرف اُنہی خاص طبیعتوں پر ہوگا کہ جو بوجہ تعلیم یافتہ ولائق و فائق ہونے کے اس کی عمیق و دقیق باتوں کو سمجھتے ہیں.دوسرے تو ایسا دل و دماغ ہی نہیں رکھتے کہ جو اُس کی فلاسفری تقریر کو سمجھ سکیں.ناچار اس کے علم کا فیضان فقط اُنہیں قدر قلیل لوگوں میں محدود رہتا ہے کہ جو اس کی منطق سے واقف ہیں.اور اُنہیں کو اُس کا فائدہ پہنچتا ہے کہ جو اس کی طرح معقولی حجتوں میں دخل رکھتے ہیں.اس امر کا ثبوت اُس حالت میں بوضاحت تمام ہو سکتا ہے کہ جب مجرد عقل اور الہام حقیقی کی کارروائیوں کو پہلو بہ پہلو رکھ کر وزن کیا جاوے.چنانچہ جن کو گذشتہ حکماء کے حالات سے اطلاع ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کیسے وہ لوگ اپنی تعلیم کی اشاعت عامہ سے ناکام رہے اور کیونکر اُن کے منقبض اور نا تمام بیان نے عام دلوں پر مؤثر ہونے سے اپنی محرومی دکھلائی اور پھر ہمقابلہ اس حالت منتقزلہ اُن کی کے قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی تاثیروں کو بھی دیکھئے کہ کس قوت سے اُس نے وحدانیت الہی کو اپنے سچے متبعین کے دلوں میں بھرا ہے اور کس عجیب طور سے اُس کی عالی شان تعلیموں نے صد ہا سالوں کی عادات را سخہ اور ملکات رد سیہ کا قلع و قمع کر کے اور ایسی رسوم قدیمہ کو کہ جو طبیعت ثانی کی طرح ہو گئیں تھیں دلوں کے رگ وریشہ سے اٹھا کر وحدانیت الہی کا شربت عذب کروڑ ہا لوگوں کو پلا دیا ہے.وہی ہے جس نے اپنا کار نمایاں اور نہایت عمدہ اور دیر پا نتائج دکھلا کر اپنی بے نظیر تاثیر کی دو بدو شہادت سے بڑے بڑے معاندوں سے اپنی لاثانی فضیلتوں کا اقرار کرایا.یہاں تک کہ سخت بے ایمانوں اور سرکشوں کے دلوں پر بھی اس کا اس قدراثر پڑا کہ جس کو انہوں نے قرآن شریف کی عظمت شان کا ایک ثبوت سمجھا اور بے ایمانی پر اصرار

Page 410

۴۰۰ کرتے کرتے آخر اس قدر انہیں بھی کہنا پڑا کہ اِنْ هذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ لا جز و نمبر ۲۳ ہاں وہی ہے جس کی زبر دست کششوں نے ہزار ہا درجہ عادت سے بڑھ کر ایسا خدا کی طرف خیال دلایا کہ لاکھوں خدا کے بندوں نے خدا کی وحدانیت پر اپنے خون سے مُہر میں لگا دیں.ایسا ہی ہمیشہ سے بانی کار اور ہادی اس کام کا الہام ہی چلا آیا ہے جس سے انسانی عقل نے نشو و نما پایا.ورنہ بڑے بڑے حکیموں اور عظمندوں کے لئے بھی یہ بات سخت محال رہی ہے کہ اُن کو اُمور ماوراء المحسوسات کی ہر جزئی کے دریافت کرنے میں ایسا موقعہ ہمیشہ مل جائے کہ یہ بات معلوم کر سکیں کہ کس کس وضع اور خصوصیت سے وہ جزئیات موجود ہیں اور جن کو طاقت بشری تک عقل حاصل ہی نہیں یا جہد اور کوشش کرنے کے سامان میسر نہیں آئے وہ تو اُن کی نسبت بھی زیادہ لاعلم اور بے خبر ہیں.پس اس بارہ میں جو جو سہولتیں خدا کے نیچے اور کامل الہام نے کہ جو قرآن شریف ہے عقل کو عطا کی ہیں اور جن جن سرگردانیوں سے فکر اور نظر کو بچایا ہے وہ ایک ایسا امر ہے کہ جس کا ہر یک عاقل کو شکر کرنا لازم ہے.سو کیا اس اعتبار سے کہ ابتداء امر خداشناسی کی الہام ہی کے ذریعہ سے ہوئی ہے اور کیا اس وجہ سے کہ معرفت الہی کا ہمیشہ از سرنو زندہ ہونا الہام ہی کے ہاتھ سے ہوتا آیا ہے.اور کیا اس خیال سے کہ مشکلات راہ سے رہائی پانا الہام ہی کی امداد پر منحصر ہے.ہر عاقل کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ راہ جو نہایت صاف اور سیدھی اور ہمیشہ سے کھلی ہوئی اور مقصود تک پہنچاتی ہوئی چلی آئی ہے وہ وحی کر بانی ہے اور یہ سمجھنا کہ وہ کھلا ہوا صحیفہ نہیں محض لا طائل اور سراسر حمق ہے.علاوہ برآں ہم پہلے اِس سے برہمو سماج والوں کی خداشناسی کے بارہ میں بہ تفصیل لکھ چکے ہیں کہ ایمان اُن کا جو صرف دلائل عقلیہ پر مبنی ہے.ہونا چاہیے کے مرتبہ تک محدود ہے اور مرتبہء کاملہ ہے کا انہیں نصیب نہیں.سو اس تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہے کہ کھلا ہوا اور واضح راستہ معرفت الہی کا صرف بذریعہ کلام الہی ملتا ہے.اور کوئی ذریعہ اس کے وصول وحصول کا نہیں.ایک بچہ نوزاد کو تعلیم سے محروم رکھ کر صرف صحیفہ فطرت پر چھوڑ دو پھر دیکھو کہ وہ اس صحیفہ کے ذریعہ سے جس کو برہمو سماج والے کھلا ہوا خیال کر رہے ہیں کون سی معرفت حاصل کر لیتا ہے اور کس درجہ خداشناسی پر پہنچ جاتا ہے بہت سے تجارب سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اگر کوئی سماعی طور پر جس کا اصل الہام ہے خدا کے وجود سے اطلاع نہ پاوے تو پھر اُس کو کچھ پتہ نہیں لگتا کہ اس عالم کا کوئی صانع ہے یا نہیں.اور اگر کچھ صانع کی تلاش میں توجہ بھی کرے تو صرف بعض مخلوقات جیسے پانی ، آگ، چاند سورج وغیرہ کو اپنی نظر میں خالق و قابل پرستش الصفت : ١٦

Page 411

۴۰۱ قرار دے لیتا ہے.جیسا یہ امر جنگلی آدمیوں پر نظر کرنے سے ہمیشہ بہ پایۂ تصدیق پہنچتا رہا ہے.پس یہ الہام ہی کا فیض ہے جس کی برکتوں سے انسان نے اُس خدائے بے مثل و مانند کو اسی طرح پر شناخت کر لیا جیسا اس کی ذات کامل و بے عیب کے لائق ہے.اور جو لوگ الہام سے بے خبر ہو گئے اور کوئی کتاب الہامی اُن میں موجود نہ رہی اور نہ کوئی ذریعہ الہام پر اطلاع پانے کا اُن کو میسر آیا با وجود اس کے کہ آنکھیں بھی رکھتے تھے اور دل بھی مگر کچھ بھی معرفتِ الہی اُن کو نصیب نہ ہوئی بلکہ رفتہ رفتہ انسانیت سے بھی باہر ہو گئے اور قریب قریب حیوانات لا یعقل کے پہنچ گئے اور صحیفہ فطرت نے کچھ بھی اُن کو فائدہ نہ پہنچایا.پس ظاہر ہے کہ اگر وہ صحیفہ کھلا ہوا ہوتا تو اس سے جنگلی لوگ فائدہ اٹھا کر معرفت اور خدا شناسی میں ان لوگوں کے برابر ہو جاتے جنہوں نے بذریعہ الہام الہی خدا شناسی میں ترقی کی.پس صحیفہ فطرت کے بند ہونے میں اس سے زیادہ تر اور کیا ثبوت ہو گا کہ جس کسی کا کام صرف اسی صحیفہ سے پڑا اور الہام الہی کا اُس نے کبھی نام نہ سُنا.وہ خدا کی شناخت سے بالکل محروم بلکہ انسانیت کے آداب سے بھی دور اور مہجور رہا اور اگر صحیفہ فطرت کے کھلے ہوئے ہونے سے یہ مطلب ہے کہ وہ جسمانی طور پر نظر آتا ہے تو یہ بے سود خیال ہے جس کو بحث ہذا سے کچھ تعلق نہیں کیونکہ جس حالت میں کوئی شخص صرف اس صحیفہ فطرت پر نظر کر کے کوئی فائدہ علم دین کا اٹھا نہیں سکتا اور جب تک الہام رہبری نہ کرے خدا کو پا نہیں سکتا تو پھر ہمیں اس سے کیا کہ کوئی چیز ہر وقت نظر آ رہی ہے یا نہیں.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۰۷ تا ۲۱۶ حاشیہ نمبر۱۱) تمام تواریخ دان بخوبی جانتے ہیں کہ از منہ سابقہ میں بھی جب کسی نے خدا کے نام اور اُس کی صفات کاملہ سے پوری پوری واقفیت حاصل کی تو الہام ہی کے ذریعہ سے کی اور عقل کے ذریعہ سے کسی زمانہ میں بھی توحید الہی شائع نہ ہوئی.یہی وجہ ہے کہ جس جگہ الہام نہ پہنچا اس جگہ کے لوگ خدا کے نام سے بے خبر اور حیوانات کی طرح بے تمیز اور بے تہذیب رہے کون کوئی ایسی کتاب ہمارے سامنے پیش کر سکتا ہے کہ جواز منہ سابقہ میں سے کسی زمانہ میں علم الہی کے بیان میں تصنیف ہوئی ہو اور حقیقی سچائیوں پر مشتمل ہو جس میں مصنف نے یہ دعوی کیا ہو کہ اُس نے خدا شناسی کے مستقیم راہ کو بذریعہ الہام حاصل نہیں کیا اور نہ خدائے واحد کی ہستی پر بطور سماع اطلاع پائی ہے بلکہ خدا کا پتہ لگانے اور صفات الہیہ کے جانے اور معلوم کرنے میں صرف اپنی ہی عقل اور اپنے ہی فکر اور اپنی ہی ریاضت اور اپنی ہی عرقریزی سے مددملی ہے اور بلا تعلیم غیرے آپ ہی مسئلہ وحدانیت الہی کو معلوم کر لیا ہے اور خود بخود ذہن خدائے تعالیٰ

Page 412

کی کچی معرفت اور کامل شناسائی تک پہنچ گیا ہے.کون ہم کو ثابت کر کے دکھلا سکتا ہے کہ کوئی ایسا زمانہ بھی تھا کہ دنیا میں الہام الہی کا نام ونشان نہ تھا اور خدا کی مقدس کتابوں کا دروازہ بند تھا اور اس زمانے کے لوگ محض صحیفہ ، فطرت کے ذریعہ سے توحید اور خدا شناسی پر قائم تھے.کون کسی ایسے ملک کا نشان بتلا سکتا ہے جس کے باشندے الہام کے وجود سے محض بے خبر رہ کر پھر فقط عقل کے ذریعہ سے خدا تک پہنچ گئے اور صرف اپنی ہی فکر ونظر سے وحدانیت حضرت باری پر ایمان لے آئے.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۲۰،۲۱۹ حاشیہ نمبر۱۱) یہ بات کہ کیوں توحید خالص الہام الہی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اور کیوں الہام کا منکر شرک کی آلودگی سے پاک نہیں ہوتا خود تو حید کی حقیقت پر نظر کرنے سے معلوم ہو سکتی ہے.کیونکہ تو حید اس بات کا نام ہے کہ خدا کی ذات اور صفات کو شرکت بالغیر سے منزہ سمجھیں اور جو کام اس کی قوت اور طاقت سے ہونا چاہئے وہ کام دوسرے کی طاقت سے انجام پذیر ہو جانا روا نہ رکھیں اسی توحید کے چھوڑنے سے آتش پرست، آفتاب پرست، بُت پرست و غیره و غیره مشرک کہلاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بتوں اور دیوتاؤں سے ایسی ایسی مرادیں مانگتے ہیں جن کا عطا کرنا صرف خدا کے ہاتھ میں ہے.اب ظاہر ہے کہ جولوگ الہام سے انکاری ہیں وہ بھی بُت پرستوں کی طرح خدا کی صفتوں سے مخلوق کا متصف ہونا اعتقاد رکھتے ہیں.اور اس قادر مطلق کی طاقتوں کا بندوں میں پایا جانا مانتے ہیں کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ ہم نے اپنی ہی عقل کے زور سے خدا کا پتہ لگایا ہے.اور ہمیں انسانوں کو ابتدا میں یہ خیال آیا تھا کہ کوئی خدا مقرر کرنا چاہئے اور ہماری ہی کوششوں سے وہ گوشہ گمنامی سے باہر نکلا.شناخت کیا گیا.معبودِ خلائق ہوا.قابل پرستش ٹھہرا.ورنہ پہلے اسے کون جانتا تھا ؟ اس کے وجود کی کسے خبر تھی ؟ ہم عقلمند لوگ پیدا ہوئے تب اس کے بھی نصیب جاگے.کیا یہ اعتقاد بُت پرستوں کے اعتقاد سے کچھ کم ہے؟ ہرگز نہیں.اگر کچھ فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ بُت پرست لوگ اور اور چیزوں کو اپنا منعم اور محسن قرار دیتے ہیں اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر اپنی ہی دود آمیز عقل کو اپنی ہادی اور محسن جانتے ہیں بلکہ اگر غور کیجئے تو بُت پرستوں سے بھی اُن کا پلہ کچھ بھاری معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر چہ بُت پرست اس بات کے تو قائل ہیں کہ خدا نے ہمارے دیوتاؤں کو بڑی بڑی طاقتیں دے رکھی ہیں اور وہ کچھ نذر نیاز لے کر اپنے پوجاریوں کو مرادیں دے دیا کرتے ہیں لیکن اب تک انہوں نے یہ رائے ظاہر نہیں کی کہ خدا کا پتہ انہیں دیوتاؤں نے لگایا ہے اور یہ نعمت عظمی وجو د حضرت باری کی انہیں کے زور بازو سے معلوم ہوئی ہے.یہ بات تو

Page 413

۴۰۳ انہی حضرات (منکرین الہام) کو سو بھی جنہوں نے خدا کو بھی اپنی ایجادات کی فہرست میں درج کر لیا اور بکمال خرد ماغی بلند آواز سے بول اُٹھے کہ خدا کی طرف سے اَنَا المَوجُود ہونے کی کبھی آواز نہیں آئی یہ ہماری ہی بہادری ہے جنہوں نے خود بخود بے جتلائے بے بتلائے اسے معلوم کر لیا.وہ تو ایسا چپ تھا جیسے کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا ہوتا ہے ہمیں نے فکر کرتے کرتے کھودتے کھودتے اُس کا کھوج لگایا گویا خدا کا احسان تو ان پر کیا ہونا تھا ایک طور پر انہیں کا خدا پر احسان ہے کہ اس بات کی پختہ خبر ملنے کے بغیر کہ خدا بھی ہے اور اس امر کے یقین کامل ہونے کے بدوں کہ اس کی نافرمانی سے ایسا ایسا عذاب اور اس کی فرمانبرداری سے ایسا ایسا انعام مل رہے گا یونہی بے کہے کہائے اور سُنے سُنائے کے اس خدائی کے موہوم کی فرمانبرداری کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا.گویا آپ ہی پکایا اور آپ ہی کھایا.لیکن خدا ایسا کمزور اور ضعیف تھا کہ اُس سے اتنا نہ ہو سکا کہ اپنے وجود کی آپ خبر دیتا اور اپنے وعدوں کے بارے میں آپ تسلی بخشتا بلکہ وہ چھپا ہوا تھا.انہوں نے ظاہر کیا.وہ گمنام تھا انہوں نے شہرت دی وہ چپ تھا انہوں نے اس کا کام آپ کیا.گویا وہ تھوڑی سی مدت سے اپنی خدائی میں مشہور ہوا ہے اور وہ بھی ان کی کوششوں سے ہر یک عاقل جانتا ہے کہ یہ قول بت پرستوں سے بھی بڑھ کر ہے.کیونکہ بُت پرست لوگ اپنے دیوتاؤں کو صرف اپنی نسبت محسن اور منعم قرار دیتے ہیں لیکن منکرین الہام نے تو حد کر دی کہ اُن کے زعم میں ان کی دیوی کا ( کہ عقل ہے) نہ فقط لوگوں پر بلکہ خدا پر بھی احسان ہے جس کے ذریعہ سے (بقول ان کے ) خدا نے شہرت پائی.اس صورت میں نہایت روشن ہے کہ الہام کے انکاری ہونے سے صرف اُن میں یہی فساد نہیں کہ خدا کے وجود پر مشتبہ اور مظنون طور پر ایمان لاتے ہیں اور طرح طرح کی غلطیوں میں مبتلا ہیں بلکہ یہ فساد بھی ہے کہ توحید کامل سے بھی محروم اور بے نصیب ہیں اور شرک سے آلودہ ہیں کیونکہ شرک اور کیا ہوتا ہے؟ یہی تو شرک ہے کہ خدا کے احسانات اور انعامات کو دوسرے کی طرف سے سمجھا جاوے.(براہین احمد یہ ہر چہار تخصص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۶۵ تا ۱۶۷ حاشیہ نمبر۱۱) آسمانی نشانوں سے حصہ لینے والے تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں.اوّل وہ جو کوئی ہنر اپنے اندر نہیں رکھتے اور کوئی تعلق خدا تعالیٰ سے اُن کا نہیں ہوتا صرف دماغی مناسبت کی وجہ سے اُن کو بعض سچی خوا ہیں آجاتی ہیں اور سچے کشف ظاہر ہو جاتے ہیں.جن میں کوئی مقبولیت اور محبوبیت کے آثار ظاہر نہیں ہوتے اور ان سے کوئی فائدہ اُن کی ذات کو نہیں ہوتا اور ہزاروں شریر اور بدچلن اور فاسق و فاجر ایسی بدبودار

Page 414

۴۰۴ خوابوں اور الہاموں میں اُن کے شریک ہوتے ہیں.پھر دوسری قسم کے خواب بین یا ملهم وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ سے کسی قدر تعلق ہے مگر کامل تعلق نہیں.ان لوگوں کی خوابوں یا الہاموں کی حالت اس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جبکہ ایک شخص اندھیری رات اور شَدِيدُ الْبَرد رات میں دُور سے ایک آگ کی روشنی دیکھتا ہے.اس کے دیکھنے سے اتنا فائدہ تو اسے حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی راہ پر چلنے سے پر ہیز کرتا ہے جس میں بہت سے گڑھے اور کانٹے اور پتھر اور سانپ اور درندے ہیں.مگر اس قدر روشنی اس کو سردی اور ہلاکت سے بچا نہیں سکتی.پس اگر وہ آگ کے گرم حلقہ تک پہنچ نہ سکے تو وہ بھی ایسا ہی ہلاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اندھیرے میں چلنے والا ہلاک ہو جاتا ہے.پھر تیسری قسم کے ملہم اور خواب بین وہ لوگ ہیں جن کے خوابوں اور الہاموں کی حالت اُس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جبکہ ایک شخص اندھیری اور شَدِيدُ الْبَرد رات میں نہ صرف آگ کی کامل روشنی ہی پاتا ہے اور اُس میں چلتا ہے بلکہ اُس کے گرم حلقہ میں داخل ہو کر بکلی سردی کے ضرر سے محفوظ ہو جاتا ہے.اس مرتبہ تک وہ لوگ پہنچتے ہیں جو شہوات نفسانیہ کا چولہ آتش محبت الہی میں جلا دیتے ہیں.اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں جو آگے موت ہے اور دوڑ کر اس موت کو اپنے لئے پسند کر لیتے ہیں.وہ ہر ایک درد کو خدا کی راہ میں قبول کرتے ہیں.اور خدا کے لئے اپنے نفس کے دشمن ہو کر اور اُس کے برخلاف قدم رکھ کر ایسی طاقت ایمانی دکھلاتے ہیں کہ فرشتے بھی اُن کے اس ایمان سے حیرت اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں.وہ روحانی پہلوان ہوتے ہیں.اور شیطان کے تمام حملے اُن کی روحانی قوت کے آگے پیچ ٹھیرتے ہیں.ہم اس مرتبہ ثالثہ کی جواعلی اور اکمل مرتبہ ہے اس طرح پر تصویر کھینچتے ہیں کہ وہ وحی کامل جو اقسام ثلاثہ میں سے تیسری قسم کی وحی ہے جو کامل فرد پر نازل ہوتی ہے اُس کی یہ مثال ہے کہ جیسے سورج کی دھوپ اور شعاع ایک مصفی آئینہ پر پڑتی ہے جو عین اس کے مقابل پر پڑا ہے.تب وہی شعاع ایک سے دہ چند ہو کر ظاہر ہوتی ہے جسے آنکھ بھی برداشت نہیں کر سکتی.پس اسی طرح جب نفس تزکیہ یافتہ پر جو تمام کدورتوں سے پاک ہو جاتا ہے وحی نازل ہوتی ہے تو اس کا نور فوق العادت نمایاں ہوتا ہے اور اس نفس پر صفات الہیہ کا انعکاس پورے طور پر ہو جاتا ہے اور پورے طور پر چہرہ حضرت احدیت ظاہر ہوتا ہے...غرض وحی الہی کے انوار اکمل اور اتسم طور پر وہی نفس قبول کرتا ہے جو اکمل اور تم طور پر تز کیہ حاصل کر

Page 415

۴۰۵ لیتا ہے اور صرف الہام اور خواب کا پانا کسی خوبی اور کمال پر دلالت نہیں کرتا جب تک کسی نفس کو بوجہ تزکیہ تمام کے یہ انعکاسی حالت نصیب نہ ہو اور محبوب حقیقی کا چہرہ اس کے نفس میں نمودار نہ ہو جائے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲ تا ۲۶) تین قسمیں خوابوں کی ہوتی ہیں ایک نفسانی اور ایک شیطانی اور ایک رحمانی.نفسانی جیسے بلی کو چھچھڑوں کے خواب، شیطانی وہ جس میں ڈرانا اور وحشت ہو.رحمانی خواب خدا کی طرف سے پیغام ہوتے ہیں.اور اُن کا ثبوت صرف تجربہ ہے اور یہ خدا کی باتیں ہیں جو کہ اس دنیا سے بہت دُور تر ہیں.اگر ہم ان کے متعلق عقلی دلائل پر توجہ کریں تو نہ دوسرا اون سے سمجھ سکتا ہے نہ ہم سمجھا سکتے ہیں.یہ خدا کی ہستی کے نشان ہیں جو وہ غیب سے دل پر ڈالتا ہے اور جب دیکھ لیتے ہیں کہ ایک بات بتلائی گئی اور وہ پوری ہوئی تو پھر اس پر خود ہی اعتبار ہو جاتا ہے.اس عالم کے امور کا جو آلہ ہے وہ اسے شناخت نہیں کر سکتا یہ روحانی امور ہیں انہی سے ان کو پہچانا جاوے تو سمجھ آتی ہے اور خواب اپنی صداقت پر آپ ہی گواہی دیتے ہیں.(البدر مورخه ۲۳ تا ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۳ کالم نمبر ۳.ملفوظات جلد دوم صفحه ۴ ۶۵ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) کشف اور خواب بھی ہر ایک کے یکساں نہیں ہوتے.وہ کامل کشف جس کو قرآن شریف میں اظہار علی الغیب سے تعبیر کیا گیا ہے جو دائرہ کی طرح پورے علم پر مشتمل ہوتا ہے وہ ہر ایک کو عطا نہیں کیا جاتا صرف برگزیدوں کو دیا جاتا ہے.اور ناقصوں کا کشف اور الہام ناقص ہوتا ہے جو بالآخر ان کو بہت شرمندہ کرتا ہے.اظہار علی الغیب کی حقیقت یہ ہے کہ جیسے کوئی اونچے مکان پر چڑھ کر ارد گرد کی چیزوں کو دیکھتا ہے تو بلاشبہ آسانی سے ہر ایک چیز اس کو نظر آ سکتی ہے لیکن جو شخص نشیب کے مکان سے ایسی چیزوں کو دیکھنا چاہتا ہے تو بہت سی چیزیں دیکھنے سے رہ جاتی ہیں.اور برگزیدوں سے خدا کی یہ عادت ہے کہ اُن کی نظر کو اونچے مکان تک لے جاتا ہے تب وہ آسانی سے ہر ایک چیز کو دیکھ سکتے ہیں اور انجام کی خبر دیتے ہیں.اور نشیب کا آدمی انجام کی خبر نہیں دے سکتا.اس لئے بلعم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہچاننے میں دھو کہ کھایا اور اس کو اُن کا وہ عالی مرتبہ برگزیدگی کا معلوم نہ ہو سکا جس سے ڈر کر وہ ادب اختیار کرتا.(حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۲ ۴۴۳) یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وحی دو قسم کی ہے وحی الابتلاء اور وحی الاصطفاء، وحی الا بتلاء بعض اوقات

Page 416

۴۰۶ موجب ہلاکت ہو جاتی ہے جیسا کہ بلعم اسی وجہ سے ہلاک ہوا مگر صاحب وحی الاصطفاء کبھی ہلاک نہیں ہوتا اور وحی الا بتلاء بھی ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی بلکہ بعض انسانی طبیعتیں ایسی بھی ہیں کہ جیسے جسمانی طور پر بہت سے لوگ گونگے اور بہرے اور اندھے پیدا ہوتے ہیں ایسا ہی بعض کی روحانی قوتیں کالعدم ہوتی ہیں اور جیسے اندھے دوسروں کی رہنمائی سے اپنا گزارہ کر سکتے ہیں ایسا ہی یہ لوگ بھی کرتے ہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۱)

Page 417

۴۰۷ كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّم “ (الہام الہی) سید نا وسيد المطهر من شفیع المذين خاتم النبيين سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم (فِدَاهُ نَفْسِي) وو بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم“

Page 418

۴۰۸ وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا، وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا، وہ لعل اور یا قوت اور زمر داور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اُس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیّد ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی اُمّی صادق مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۰ ۱ تا ۱۶۲) میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ تو حید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اوس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مُرادیں اس کی زندگی میں اُس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فرنعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۹،۱۱۸)

Page 419

۴۰۹ اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذ ہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے.جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اُس کی پیروی اور محبت سے ہم رُوح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۱) وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قومی کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً وعملاً وصدقاً و ثباتنا دکھلایا اور انسان کامل کہلایا.وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اُس کے آنے سے زندہ ہو گیا.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلين فخر التبتين جناب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملا کی اور یحی اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی.اگر چہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے.یہ اسی نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے.اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلَّمْ وَبَارِک عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ وَاخِرُ دَعْوَا نَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.( اتمام الحجة - روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۰۸) ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا بی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار ، رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفے واحمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کے زیر سایہ دن اون چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی.سو آ خری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک مل تھی...روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا.وہ بھی پائے گا اور ایسی

Page 420

۴۱۰ قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اُس کے آگے انہونی نہیں رہے گی.زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اُس کا خدا ہو گا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے.وہ ہر ایک جگہ مبارک ہوگا اور الہی قو تیں اُس کے ساتھ ہوں گی.وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۸۲ ۸۳) اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ وافضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پر دے اُٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں.اور قرآن شریف جو کچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.براہین احمدیہ ہر چہار تصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۵۸،۵۵۷ حاشیه در حاشیہ نمبر۳) دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے.لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.اِنَّ اللهَ وَمَلَيْكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تسلیما ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے.جیسے حضرت موسیٰ حضرت داؤد حضرت عیسی علیھم السلام اور دوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو اُن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں کیونکہ اب ان کا نام ونشان نہیں بلکہ ان گذشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقینا نہیں سمجھ سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے.اب ہم نہ قال کے طور پر الاحزاب :۵۷

Page 421

۴۱۱ بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الہیہ کیا چیز ہوتا ہے.اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں.وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا.پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے.کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے.؎ محمد عربی بادشاہ ہر دوسرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج.وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا.وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا.وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی کچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو.کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا لیکن افسوس ! کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور اُن کے اندر داخل ہو.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۱ تا ۳۰۳) قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا لا یعنی اے میرے رب تو مجھے اپنی عظمت اور معرفت شیون اور صفات کا علم کامل بخش.اور پھر دوسری جگہ فرمایا.وَ بِذلِكَ أُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ے ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ اوروں کی نسبت علوم معرفت الہی میں اعلم ہیں یعنی علم ان کا معارف الہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے.اس لئے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور اول المسلمین ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زیادت علم کی طرف اس دوسری آیت میں بھی اشارہ ہے جیسا کہ اللہ جَلَّ شَانُهُ فرماتا ہے.وَعَلَمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا الجزو نمبر ۵.یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ کو وہ علوم عطا کئے جو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا اور فضل الہی سے فیضان الہی سب سے زیادہ تیرے پر ہوا.یعنی تو معارف الہیہ اور اسرار اور علوم ربانی میں سب سے بڑھ گیا طه : ۱۱۵ الانعام : ۱۶۴ النساء : ۱۱۴

Page 422

۴۱۲ اور خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت کے عطر کے ساتھ سب سے زیادہ تجھے معطر کیا غرض علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے.اور اگر چہ حصول حقیقت اسلام کے وسائل اور بھی ہیں جیسے صوم وصلوۃ اور دُعا اور تمام احکام الہی جو چھ سو سے بھی کچھ زیادہ ہیں لیکن علم عظمت و وحدانیت ذات اور معرفت شیون وصفات جلالی و جمالی حضرت باری عزا سمۂ وسیلۃ الوسائل اور سب کا موقوف علیہ ہے کیونکہ جو شخص غافل دل اور معرفت الہی سے بکلی بے نصیب ہے وہ کب توفیق پا سکتا ہے کہ صوم اور صلوۃ بجا لاوے یا دعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو.ان سب اعمال صالحہ کا محرک تو معرفت ہی ہے اور یہ تمام دوسرے وسائل دراصل اسی کے پیدا کردہ اور اسی کے بنین و بنات ہیں.اور ابتدا اس معرفت کی پر توہ اسم رحمانیت سے ہے نہ کسی عمل سے نہ کسی دعا سے بلکہ بلاعلت فیضان سے صرف ایک موہت ہے يَهْدِي مَنْ يَّشَاءُ وَيُضِلُّ مَنْ يَّشَآءُ مگر پھر یہ معرفت اعمال صالحہ اور حسن ایمان کے شمول سے زیادہ ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ آخر الہام اور کلام الہی کے رنگ میں نزول پکڑ کر تمام صحن سینہ کو اس نور سے منور کر دیتی ہے جس کا نام اسلام ہے.اور اس معرفت تامہ کے درجہ پر پہنچ کر اسلام صرف لفظی اسلام نہیں رہتا بلکہ وہ تمام حقیقت اس کی جو ہم بیان کر چکے ہیں حاصل ہو جاتی ہے اور انسانی روح نہایت انکسار سے حضرت احدیت میں اپنا سر رکھ دیتی ہے.تب دونوں طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ جو میرا سو تیرا ہے.یعنی بندہ کی روح بھی بولتی ہے اور اقرار کرتی ہے کہ یا الہی ! جو میرا ہے سو تیرا ہے.اور خدا تعالیٰ بھی بولتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ اے میرے بندے! جو کچھ زمین و آسمان وغیرہ میرے ساتھ ہے وہ سب تیرے ساتھ ہے.اس مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا الجز و ۲۴ سورۃ الزمر.یعنی کہہ اے میرے غلامو! جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے کہ تم رحمت الہی سے نا امید مت ہو.خدا تعالیٰ سارے گناہ بخش دے گا.اب اس آیت میں بجائے قُلْ لِعِبَادِ اللہ کے جس کے یہ معنے ہیں کہ کہہ اے خدا تعالیٰ کے بندو.یہ فرمایا کہ قُلْ لِعِبَادِی یعنی کہہ کہ اے میرے غلامو! اس طرز کے اختیار کرنے میں بھید یہی ہے کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی ہے کہ تا خدا تعالیٰ بے انتہا رحمتوں کی بشارت دیوے اور جو لوگ کثرت گنا ہوں سے دل شکستہ ہیں ان کو تسکین بخشے.سو اللہ جل شانہ نے اس آیت میں چاہا کہ اپنی رحمتوں کا ایک نمونہ پیش کرے اور بندہ کو الزمر : ۵۴

Page 423

۴۱۳ دکھلاوے کہ میں کہاں تک اپنے وفادار بندوں کو انعامات خاصہ سے مشرف کرتا ہوں.سو اُس نے قُلْ يَا عِبَادِی الله کے لفظ سے یہ ظاہر کیا کہ دیکھو یہ میرا پیارا رسول، دیکھو یہ برگزیدہ بندہ کہ کمال طاعت سے کس درجہ تک پہنچا کہ اب جو کچھ میرا ہے وہ اس کا ہے.جو شخص نجات چاہتا ہے وہ اس کا غلام ہو جائے یعنی ایسا اس کی طاعت میں محو ہو جاوے کہ گویا اس کا غلام ہے.تب وہ گو کیسا ہی پہلے گنہ گار تھا بخشا جائے گا.جاننا چاہئے کہ عبد کا لفظ لغت عرب میں غلام کے معنوں پر بھی بولا جاتا ہے.جیسا کہ الله جَلَّ شَانُه فرماتا ہے وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكِ اور اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی سے غلامی کی نسبت پیدا کرے.یعنی اس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اس کے دامن طاعت سے اپنے تئیں وابستہ جانے جیسا کہ غلام جانتا ہے تب وہ نجات پائے گا.اس مقام میں اِن کور باطن نام کے موحد وں پر افسوس آتا ہے کہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاں تک بغض رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ نام کہ غلام نبی ، غلام رسول، غلام مصطفے ، غلام احمد ، غلام محمد شرک میں داخل ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدار نجات یہی نام ہیں اور چونکہ عبد کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ ہر ایک آزادگی اور خودروی سے باہر آ جائے اور پورا متبع اپنے مولیٰ کا ہو.اس لئے حق کے طالبوں کو یہ رغبت دی گئی کہ اگر نجات چاہتے ہیں تو یہ مفہوم اپنے اندر پیدا کریں اور در حقیقت یہ آیت اور یہ دوسری آیت قُل إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُم از رو مفہوم کے ایک ہی ہیں کیونکہ کمال اتباع اس محویت اور اطاعت تامہ کو مستلزم ہے جو عبد کے مفہوم میں پائی جاتی ہے.یہی سر ہے کہ جیسے پہلی آیت میں مغفرت کا وعدہ بلکہ محبوب الہی بننے کی خوشخبری ہے.گویا یہ آیت کہ قُلْ يَا عِبَادِی دوسرے لفظوں میں اس طرح پر ہے کہ قُلْ يَا مُتَّبِعِی یعنی اے میری پیروی کرنے والو! جو بکثرت گناہوں میں مبتلا ہور ہے ہو رحمت الہی سے نومید مت ہو کہ اللہ جل شانه برکت میری پیروی کے تمام گناہ بخش دے گا اور اگر عِباد سے صرف اللہ تعالیٰ کے بندے ہی مراد لئے جائیں تو معنے خراب ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ ہرگز درست نہیں که خدا تعالی بغیر تحق شرط ایمان اور بغیر تحقق شرط پیروی تمام مشرکوں اور کافروں کو یونہی بخش دیوے.ایسے معنے تو نصوص بینہ قرآن سے صریح مخالف ہیں.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ ماحصل اس آیت کا یہ ہے کہ جولوگ دل و جان سے تیرے یا رسول اللہ البقرة :٢٢٢ ال عمران :٣٢

Page 424

۴۱۴ غلام بن جائیں گے اُن کو وہ نور ایمان اور محبت اور عشق بخشا جائے گا کہ جو اُن کو غیر اللہ سے رہائی دے دے گا اور وہ گناہوں سے نجات پا جائیں گے اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی اُن کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے.اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِی یے یعنی میں وہ مُردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورہ سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مر چکی تھی اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر نئے سرے دنیا کو زندہ کیا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اِعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ہے یعنی اس بات کوسُن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے.پھر اسی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ یعنی ان کو رُوح القدس کے ساتھ مدد دی.اور رُوح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قوتیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خدا تعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے اور یہ علوم جو مدار نجات ہیں یقینی اور.قطعی طور پر بجز اس حیات کے حاصل نہیں ہو سکتے جو بتوسط رُوح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعوی ہے کہ وہ حیات روحانی صرف متابعت اس رسولِ کریم سے ملتی ہے اور تمام وہ لوگ جو اس نبی کریم کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مُردے ہیں جن میں اس حیات کی رُوح نہیں ہے اور حیات روحانی سے مراد انسان کے وہ علمی اور عملی قولی ہیں جو روح القدس کی تائید سے زندہ ہو جاتے ہیں اور قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ جن احکام پر اللہ جل شانہ انسان کو قائم کرنا چاہتا ہے.وہ چھ سو ہیں.ایسا ہی اس کے مقابل پر جبرائیل علیہ السلام کے پر بھی چھ سو ہیں اور بیضہ بشریت جب تک چھ سو حکم کو سر پر رکھ کر جبرائیل کے پروں کے نیچے نہ آوے اُس میں فنا فی اللہ ہونے کا بچہ نہیں ہوتا اور انسانی حقیقت اپنے اندر چھ سو بیضہ کی استعداد رکھتی ہے.پس جس شخص کا چھ سو بیضہ استعداد جبرائیل کے چھ سوپر کے نیچے آ گیا وہ انسان کامل اور یہ تولد اس کا تولد کامل اور یہ حیات حیات کامل ہے اور غور کی نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ بیضہ بشریت کے روحانی بچے جو روح القدس کی معرفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکت سے پیدا ہوئے وہ اپنی کمیت اور کیفیت ۶۰۰ بخاری کتاب المناقب الحديد : ۱۸ المجادلة : ٢٣

Page 425

۴۱۵ اور صورت اور نوع اور حالت میں تمام انبیاء کے بچوں سے اتم اور اکمل ہیں.اسی کی طرف اشارہ ہے جو الله جَلَّ شَانُه فرماتا ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ لا یعنی تم سب اُمتوں سے بہتر ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۶ تا ۱۹۷) دنیا میں ایک رسول آیا تا کہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صد ہا سال سے بہرے ہیں.کون اندھا ہے اور کون بہرا وہی جس نے تو حید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسول کو جس نے نئے سرے سے زمین پر تو حید کو قائم کیا.وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا.اور انسان سے با اخلاق انسان یعنی نیچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا.اور پھر با اخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الہی رنگ سے رنگین کیا.وہی رسول کہاں وہی آفتاب صداقت جس کے قدموں پر ہزاروں مردے شرک اور دہریت اور فسق اور فجور کے جی اُٹھے.اور عملی طور پر قیامت کا نمونہ دکھلایا.نہ یسوع کی طرح صرف لاف و گزاف.جس نے مکہ میں ظہور فرما کر شرک اور انسان پرستی کی بہت سی تاریکی کو مٹایا.ہاں دنیا کا حقیقی نور وہی تھا جس نے دنیا کو تاریکی میں پا کر فی الواقع وہ روشنی عطا کی کہ اندھیری رات کو دن بنا دیا.اُس کے پہلے دنیا کیا تھی اور پھر اس کے آنے کے بعد کیا ہوئی یہ ایک سوال نہیں ہے جس کے جواب میں کچھ وقت ہو.اگر ہم بے ایمانی کی راہ اختیار نہ کریں تو ہمارا کانشنس ضرور اس بات کے منوانے کے لئے ہمارا دامن پکڑے گا کہ اُس جناب عالی سے پہلے خدا کی عظمت کو ہر ایک ملک کے لوگ بھول گئے تھے.اور اُس سچے معبود کی عظمت اوتاروں اور پتھروں اور ستاروں اور درختوں اور حیوانوں اور فانی انسانوں کو دی گئی تھی اور ذلیل مخلوق کو اُس ذو الجلال و قدوس کی جگہ پر بٹھایا تھا.اور یہ ایک سچا فیصلہ ہے کہ اگر یہ انسان اور حیوان اور درخت اور ستارے درحقیقت خدا ہی تھے جن میں سے ایک یسوع بھی تھا تو پھر اس رسول کی کچھ ضرورت نہ تھی لیکن اگر یہ چیزیں خدا نہیں تھیں تو وہ دعوئی ایک عظیم الشان روشنی اپنے ساتھ رکھتا ہے جو حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے پہاڑ پر کیا تھا.وہ کیا دعویٰ تھا ؟ وہ یہی تھا کہ آپ نے فرمایا.کہ خدا نے دنیا کو شرک کی سخت تاریکی میں پا کر اس تاریکی کو مٹانے کے لئے مجھے بھیج دیا.یہ صرف دعوئی نہ تھا بلکہ اُس رسول مقبول نے اس دعوی کو پورا کر کے دکھلا دیا.اگر کسی نبی کی فضیلت اُس کے ان کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع ال عمران : ااا

Page 426

۴۱۶ کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو! اُٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں...اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسول کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے.لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسول شناخت کیا جائے.چاہو تو میری بات کو لکھ رکھو کہ اب کے بعد مُردہ پرستی روز بروز کم ہوگی یہاں تک کہ نابود ہو جائے گی.کیا انسان خدا کا مقابلہ کرے گا؟ کیا نا چیز قطرہ خدا کے ارادوں کو رد کر دے گا کیا فانی آدم زاد کے منصوبے الہی حکموں کو ذلیل کر دیں گے؟ اے سننے والو! سنو ! اور اے سوچنے والو! سوچو اور یا درکھو کہ حق ظاہر ہو گا.اور وہ جو سچا ٹور ہے چمکے گا.تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۹ تا ۱۱ مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۸ ۹ بار دوم ) میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے.اس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبت الہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے.تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا اُنس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے.تب محبت الہی کی ایک خاص تجلی اس پر پڑتی ہے اور اس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قومی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.تب جذبات نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے.اور اس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۸،۶۷) درود شریف کے طفیل.میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.یقیناً کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں تک پہونچ ہی نہیں سکتا..درودشریف کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.الحکم مورخہ ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲۰)

Page 427

۴۱۷ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اُسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں.اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۹۸ حاشیه در حاشیہ نمبر۳) یہ وسوسہ دل میں نہیں لانا چاہئے کہ کیونکر ایک ادنی امتی آں رسول مقبول کے اسماء یا صفات یا محامد میں شریک ہو سکے.بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ حقیقی طور پر کوئی نبی بھی آنحضرت کے کمالات قدسیہ سے شریک مساوی نہیں ہوسکتا بلکہ تمام ملائکہ کو بھی اس جگہ برابری کا دم مارنے کی جگہ نہیں چہ جائیکہ کسی اور کو آنحضرت کے کمالات سے کچھ نسبت ہو.مگر اے طالب حق ! اَرشَدَکَ اللہ تم متوجہ ہو کر اس بات کو سنو کہ خدا وند کریم نے اس غرض سے کہ تا ہمیشہ اس رسول مقبول کی برکتیں ظاہر ہوں اور تا ہمیشہ اس کے نور اور اس کی قبولیت کی کامل شعاعیں مخالفین کو ملزم اور لاجواب کرتی رہیں.اس طرح پر اپنی کمال حکمت اور رحمت سے انتظام کر رکھا ہے کہ بعض افرادِ اُمتِ محمدیہ کہ جو کمال عاجزی اور تذلیل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اختیار کرتے ہیں اور خاکساری کے آستانہ پر پڑ کر بالکل اپنے نفس سے گئے گذرے ہوتے ہیں خدا ان کو فانی اور ایک مصفا شیشہ کی طرح پا کر اپنے رسول مقبول کی برکتیں اُن کے وجود بے نمود کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ منجانب اللہ ان کی تعریف کی جاتی ہے یا کچھ آثار اور برکات اور آیات اُن سے ظہور پذیر ہوتی ہیں حقیقت میں مرجع تام ان تمام تعریفوں کا اور مصدر کامل ان تمام برکات کا رسول کریم ہی ہوتا ہے.اور حقیقی اور کامل طور پر وہ تعریفیں اُسی کے لائق ہوتی ہیں اور وہی ان کا مصداق اتم ہوتا ہے.مگر چونکہ متبع سنن آں سرور کائنات کا اپنے غایت اتباع کے جہت سے اس شخص نورانی کے لئے کہ جو وجود با وجود حضرتِ نبوی ہے مثل ظل کے ٹھہر جاتا ہے.اس لئے جو کچھ اس شخص مقدس میں انوار الہیہ پیدا اور ہویدا ہیں اُس کے اس فل میں بھی نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں.اور سایہ میں اس تمام وضع اور انداز کا ظاہر ہونا کہ جو اس کے اصل میں ہے ایک ایسا امر ہے کہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں ہاں سایہ اپنی ذات میں قائم نہیں اور حقیقی طور پر کوئی فضیلت اس میں موجود نہیں بلکہ جو کچھ اس میں موجود ہے وہ اس کے شخص اصلی کی ایک تصویر ہے جو اس میں نمودار اور نمایاں ہے.پس لازم ہے کہ آپ یا کوئی دوسرے صاحب اس بات کو حالت نقصان خیال نہ کریں کہ کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار باطنی اُن کی اُمت کے کامل متبعین کو پہنچ جاتے ہیں اور سمجھنا چاہئے

Page 428

۴۱۸ کہ اس انعکاس انوار سے کہ جو بطریق افاضہ دائمی نفوس صافیہ اُمت محمدیہ پر ہوتا ہے دو بزرگ امر پیدا ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدرجہ غایت کمالیت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ جس چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہو سکتا ہے اور ہمیشہ روشن ہوتا ہے وہ ایسے چراغ سے بہتر ہے جس سے دوسرا چراغ روشن نہ ہو سکے.دوسرے اس اُمت کی کمالیت اور دوسری اُمتوں پر اس کی فضیلت اس افاضہ دائمی سے ثابت ہوتی ہے.اور حقیت دین اسلام کا ثبوت ہمیشہ تر و تازہ ہوتا رہتا ہے.صرف یہی بات نہیں ہوتی کہ گذشتہ زمانہ پر حوالہ دیا جائے.اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس سے قرآن شریف کی حقانیت کے انوار آفتاب کی طرح ظاہر ہو جاتے ہیں اور دین اسلام کے مخالفوں پر حجت اسلام پوری ہوتی ہے اور معاندین اسلام کی ذلت اور رسوائی اور روسیا ہی کامل طور پر کھل جاتی ہے کیونکہ وہ اسلام میں وہ برکتیں اور وہ نور دیکھتے ہیں جن کی نظیر کو وہ اپنی قوم کے پادریوں اور پنڈتوں وغیرہ میں ثابت نہیں کر سکتے.فَتَدَبَّرُ أَيُّهَا الصَّادِقُ فِى الطَّلَبِ اَيَّدَكَ اللهُ فِى طَلَبِكَ.حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدرشان بزرگ ہے اور اس آفتاب صداقت کی کیسی اعلیٰ درجہ پر روشن تاثیریں ہیں جس کا اتباع کسی کو مومن کامل بناتا ہے.کسی کو عارف کے درجے تک پہنچاتا ہے.کسی کو آیت اللہ اور حجت اللہ کا مرتبہ عنایت فرماتا ہے اور محامد الہیہ کا مورد ٹھہراتا ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار تصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۶۸ تا ۲۷۱ حاشیه در حاشیه نمبرا) جب سے کہ آفتاب صداقت ذات بابرکات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آیا اُسی دم سے آج تک ہزار ہا نفوس جو استعداد اور قابلیت رکھتے تھے متابعت کلام الہی اور اتباع رسول مقبول سے مدارج عالیہ مذکورہ بالا تک پہنچ چکے ہیں اور پہنچتے جاتے ہیں.اور خدائے تعالیٰ اس قدر ان پر پے در پے اور عَلَى الاتصال تلطفات و تفضلات وارد کرتا ہے اور اپنی حمائتیں اور عنائتیں دکھلاتا ہے کہ صافی نگاہوں کی نظر میں ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ لوگ منظور انِ نظر احدیت سے ہیں.جن پر لطف ربانی کا ایک عظیم الشان سایہ اور فَضْلِ يَزْدَانی کا ایک جلیل القدر پیرایہ ہے اور دیکھنے والوں کو صریح دکھائی دیتا ہے کہ وہ انعامات خارق عادت سے سرفراز ہیں اور کرامات عجیب وغریب سے ممتاز ہیں اور محبوبیت کے عطر سے معطر ہیں اور مقبولیت کے نخروں سے مفتخر ہیں اور قادر مطلق کا نوران کی صحبت میں ، ان کی توجہ میں ، اُن کی ہمت میں، اُن کی دُعا میں، اُن کی نظر میں، اُن کے اخلاق میں، اُن کی طرز معیشت میں، اُن کی خوشنودی میں، اُن کے غضب میں، اُن کی رغبت میں، اُن کی نفرت میں، اُن کی حرکت میں، اُن کے

Page 429

۴۱۹ سکون میں ، اُن کے نطق میں، ان کی خاموشی میں، اُن کے ظاہر میں ، اُن کے باطن میں ایسا بھرا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک لطیف اور مصفا شیشہ ایک نہایت عمدہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اُن کے فیض صحبت اور ارتباط اور محبت سے وہ باتیں حاصل ہو جاتی ہیں کہ جو ریاضات شاقہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں اور اُن کی نسبت ارادت اور عقیدت پیدا کرنے سے ایمانی حالت ایک دوسرا رنگ پیدا کر لیتی ہے اور نیک اخلاق کے ظاہر کرنے میں ایک طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور شوریدگی اور امارگی نفس کی رو بھی ہونے لگتی ہے اور اطمینان اور حلاوت پیدا ہوتی جاتی ہے.اور بقدر استعداد اور مناسبت ذوق ایمانی جوش مارتا ہے اور اُنس اور شوق ظاہر ہوتا ہے اور التذاذ بذكرِ اللہ بڑھتا ہے اور اُن کی صحبت طویلہ سے بضرورت یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی ایمانی قوتوں میں اور اخلاقی حالتوں میں اور انقطاع عن الدنیا میں اور توجہ الی اللہ میں اور محبت الہیہ میں اور شفقت علی العباد میں اور وفا اور رضا اور استقامت میں اس عالی مرتبہ پر ہیں جس کی نظیر دنیا میں نہیں دیکھی گئی.اور عقل سلیم فی الفور معلوم کر لیتی ہے کہ وہ بند اور زنجیر اُن کے پانون سے اتارے گئے ہیں جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہیں اور وہ جنگی اور انقباض اُن کے سینہ سے دور کیا گیا ہے جس کے باعث سے دوسرے لوگوں کے سینے منقبض اور کوفتہ خاطر ہیں.ایسا ہی وہ لوگ تحدیث اور مکالمات حضرت احدیت سے بکثرت مشرف ہوتے ہیں اور متواتر اور دائمی خطابات کے قابل ٹھہر جاتے ہیں اور حق جل وعلی اور اُس کے مستعد بندوں میں ارشاد اور ہدایت کے لئے واسطہ گردانے جاتے ہیں.اُن کی نورانیت دوسرے دلوں کو منور کر دیتی ہے.اور جیسے موسم بہار کے آنے سے نباتی قو تیں جوش زن ہو جاتی ہیں ایسا ہی ان کے ظہور سے فطرتی نور طبائع سلیمہ میں جوش مارتے ہیں اور خود بخود ہر یک سعید کا دل یہی چاہتا ہے کہ اپنی سعادت مندی کی استعدادوں کو بکوشش تمام منصہ ظہور میں لاوے اور خواب غفلت کے پردوں سے خلاصی پاوے اور معصیت اور فسق و فجور کے داغوں سے اور جہالت اور بے خبری کی ظلمتوں سے نجات حاصل کرے.سوان کے مبارک عہد میں کچھ ایسی خاصیت ہوتی ہے اور کچھ اس قسم کا انتشار نورانیت ہو جاتا ہے کہ ہر یک مومن اور طالب حق بقدر طاقت ایمانی اپنے نفس میں بغیر کسی ظاہری موجب کے انشراح اور شوق دینداری کا پاتا ہے اور ہمت کو زیادت اور قوت میں دیکھتا ہے.غرض اُن کے اس عطر لطیف سے جو اُن کو کامل متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے ہر یک مخلص کو بقدر اپنے اخلاص کے حظ پہنچتا ہے.ہاں جو لوگ شقی از لی ہیں وہ اس سے کچھ حصہ نہیں پاتے بلکہ اور بھی عناد اور حسد اور شقاوت میں بڑھ کر ہاو یہ جہنم میں گرتے ہیں.اسی کی

Page 430

۴۲۰ طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۲۹ تا ۵۳۲ حاشیه در حاشیه نمبر۳) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی آفتاب کی طرح چمک رہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جاودانی زندگی پر یہ بھی بڑی ایک بھاری دلیل ہے کہ حضرت مدوح کا فیض جاودانی جاری ہے اور جو شخص اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے وہ بلاشبہ قبر میں سے اٹھایا جاتا ہے.اور ایک روحانی زندگی اس کو بخشی جاتی ہے نہ صرف خیالی طور پر بلکہ آثار صحیحہ صادقہ اُس کے ظاہر ہوتے ہیں اور آسمانی مددمیں اور سماوی برکتیں اور رُوح القدس کی خارق عادت تائید میں اس کے شامل حال ہو جاتی ہیں اور وہ تمام دنیا کے انسانوں میں سے ایک متفر دانسان ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اس سے ہمکلام ہوتا ہے اور اپنے اسرار خاصہ اُس پر ظاہر کرتا ہے اور اپنے حقائق و معارف کھولتا ہے.اور اپنی محبت اور عنایت کے چمکتے ہوئے علامات اس میں نمودار کر دیتا ہے اور اپنی نصرتیں اُس پر اوتارتا ہے اور اپنی برکات اس میں رکھ دیتا ہے.اور اپنی ربوبیت کا آئینہ اُس کو بنا دیتا ہے.اُس کی زبان پر حکمت جاری ہوتی ہے اور اس کے دل سے نکات لطیفہ کے چشمے نکلتے ہیں.اور پوشیدہ بھید اُس پر آشکار کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ایک عظیم الشان حجتی اس پر فرماتا ہے اور اس سے نہایت قریب ہو جاتا ہے.اور وہ اپنی استجابت دعاؤں میں اور اپنی قبولیوں میں اور فتح ابواب معرفت میں اور انکشاف اسرار غیبیہ میں اور نزول برکات میں سب سے اوپر اور سب پر غالب رہتا ہے.چنانچہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر انہیں امور کی نسبت اور اسی اتمام حجت کی غرض سے کئی ہزار رجسٹری شدہ خط ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے نامی مخالفوں کی طرف روانہ کئے تھے تا اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ یہ رُوحانی حیات بجز اتباع خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور ذریعہ سے بھی مل سکتی ہے تو وہ اس عاجز کا مقابلہ کرے.اور اگر یہ نہیں تو طالب حق بن کر یک طرفہ برکات اور آیات اور نشانوں کے مشاہدہ کے لئے حاضر آوے لیکن کسی نے صدق اور نیک نیتی سے اس طرف رخ نہ کیا اور اپنی کنارہ کشی سے ثابت کر دیا کہ وہ سب تاریکی میں گرے ہوئے ہیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۱-۲۲۲) ہم یقیناً جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا نبی اور سب سے زیادہ پیارا جناب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم البقرة :

Page 431

۴۲۱ ہے کیونکہ دوسرے نبیوں کی اُمتیں ایک تاریکی میں پڑی ہوئی ہیں اور صرف گذشتہ قصے اور کہانیاں اُن کے پاس ہیں مگر یہ امت ہمیشہ خدا تعالیٰ سے تازہ بتازہ نشان پاتی ہے.لہذا اس امت میں اکثر عارف ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر اس درجہ کا یقین رکھتے ہیں کہ گویا اس کو دیکھتے ہیں.اور دوسری قوموں کو خدا تعالیٰ کی نسبت یہ یقین نصیب نہیں.لہذا ہماری رُوح سے یہ گواہی نکلتی ہے کہ سچا اور صحیح مذہب صرف اسلام ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات صرف قصوں کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے خودان نشانوں کو پالیتے ہیں لہذا معائنہ اور مشاہدہ کی برکت سے ہم حق الیقین تک پہونچ جاتے ہیں.سو اس کامل اور مقدس نبی کی کس قدرشان بزرگ ہے جس کی نبوت ہمیشہ طالبوں کو تازہ ثبوت دکھلاتی رہتی ہے اور ہم متواتر نشانوں کی برکت سے اس کمال سے مراتب عالیہ تک پہونچ جاتے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ کو ہم آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں.پس مذہب اسے کہتے ہیں اور سچا نبی اس کا نام ہے جس کی سچائی کی ہمیشہ تازہ بہار نظر آئے.محض قصوں پر جن میں ہزاروں طرح کی کمی بیشی کا امکان ہے بھروسہ کر لینا عقلمندوں کا کام نہیں ہے.دنیا میں صد ہا لوگ خدا بنائے گئے اور صد ہا پورا نے افسانوں کے ذریعہ سے کراماتی کر کے مانے جاتے ہیں.مگر اصل بات یہ ہے کہ سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو.سو وہ شخص ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں اس کامل اور مقدس کے نشان دکھلانے کے لئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے.اور اس زمانہ میں مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے.دیکھو! آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور طرح طرح کے خوارق ظہور میں آ رہے ہیں.اور ہر ایک حق کا طالب ہمارے پاس رہ کر نشانوں کو دیکھ سکتا ہے گو وہ عیسائی ہو یا یہودی یا آریہ.یہ سب برکات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں.محمد است امام و چراغ ہر دو جہاں محمد است فروزنده زمین و زماں خدا نگویمش از ترس حق مگر بخدا خدا نماست وجودش برائے عالمیاں لے کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۵۵ تا ۱۵۷ حاشیه) روحانی زندگی کا ثبوت صرف ہمارے نبی علیہ السلام کی ذات بابرکات میں پایا جاتا ہے خدا کی ہزاروں رحمتیں اس کے شامل حال رہیں.بے سود ہے وہ زندگی جو نفع رساں نہیں اور لا حاصل ا محمد ہی دونوں جہانوں کا امام اور چراغ ہے.محمد ہی زمین و زمان کا روشن کرنے والا ہے.میں خوف کی وجہ سے اسے خدا تو نہیں کہ سکتا مگر خدا کی قسم اس کا وجود اہل جہان کیلئے خدا نما ہے.

Page 432

۴۲۲ ہے وہ بقاء جس میں فیض نہیں.دنیا میں صرف دو زندگیئیں قابل تعریف ہیں.(۱) ایک وہ زندگی جوخود خدا حى و قَيُّوم مبداء فیض کی زندگی ہے.(۲) دوسری وہ زندگی جو فیض بخش اور خدا نما ہو.سو آؤ ہم دکھاتے ہیں کہ وہ زندگی صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے.جس پر ہر ایک زمانہ میں آسمان گواہی دیتا رہا ہے اور اب بھی دیتا ہے اور یاد رکھو کہ جس میں فیاضانہ زندگی نہیں وہ مُردہ ہے نہ زندہ اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا نام لے کر جھوٹ بولنا سخت بد ذاتی ہے کہ خدا نے مجھے میرے بزرگ واجب الاطاعت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی دائمی زندگی اور پورے جلال اور کمال کا یہ ثبوت دیا ہے کہ میں نے اس کی پیروی سے اور اُس کی محبت سے آسمانی نشانوں کو اپنے اوپر اُترتے ہوئے اور دل کو یقین کے نور سے پُر ہوتے ہوئے پایا.اور اس قدرنشان غیبی دیکھے کہ اُن کھلے کھلے نوروں کے ذریعہ سے میں نے اپنے خدا کو دیکھ لیا ہے.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۰،۱۳۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت جس قدر بعض مقامات پر فروتنی اور انکساری میں کمال پر پہونچی ہوئی نظر آتی ہے.وہاں معلوم ہوتا ہے کہ اسی قدر آپ رُوح القدس کی تائید اور روشنی سے مؤید اور منور ہیں جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی اور فعلی حالت سے دکھایا ہے.یہاں تک کہ آپ کے انوار و برکات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ابدالآباد تک اس کا نمونہ اور ظل نظر آتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی جو کچھ خدا تعالیٰ کا فیض اور فضل نازل ہو رہا ہے وہ آپ ہی کی اطاعت اور آپ ہی کی اتباع سے ملتا ہے.میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیۂ نفس پر ملتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے اور اس کا ثبوت خود خدا تعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے.قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله نے اور خدا تعالیٰ کے اس دعوی کی عملی اور زندہ دلیل میں ہوں.ان نشانات کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کے محبوبوں اور ولیوں کے قرآن شریف میں مقرر ہیں مجھے شناخت کرو.الحکم مورخہ ۷ ارستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۲.ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۳۱ ۱۳۲۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا جس کے لوازم میں سے محبت اور تعظیم اور ال عمران : ۳۲

Page 433

۴۲۳ اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اس کا ضروری نتیجہ ہے کہ انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں یعنی اگر کوئی گناہ کی زہر کھا چکا ہے تو محبت اور اطاعت اور پیروی کے تریاق سے اس زہر کا اثر جاتا رہتا ہے اور جس طرح بذریعہ دوا مرض سے ایک انسان پاک ہو سکتا ہے ایسا ہی ایک شخص گناہ سے پاک ہو جاتا ہے اور جس طرح نور ظلمت کو دُور کرتا ہے اور تریاق زہر کا اثر زائل کرتا ہے اور آگ جلاتی ہے ایسا ہی کچی اطاعت اور محبت کا اثر ہوتا ہے.دیکھو آگ کیونکر ایک دم میں جلا دیتی ہے.پس اسی طرح پر جوش نیکی جو محض خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے کی جاتی ہے وہ گنا ہوں کاخس و خاشاک بھسم کرنے کے لئے آگ کا حکم رکھتی ہے.جب ایک انسان سچے دل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی تمام عظمت اور بزرگی کو مان کر پورے صدق وصفا اور محبت اور اطاعت سے آپ کی پیروی کرتا ہے یہاں تک کہ کامل اطاعت کی وجہ سے فنا کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.تب اس تعلق شدید کی وجہ سے جو آپ کے ساتھ ہو جاتا ہے.وہ الہی نور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اُترتا ہے اُس سے یہ شخص بھی حصہ لیتا ہے.تب چونکہ ظلمت اور نور کی باہم منافات ہے وہ ظلمت جو اس کے اندر ہے دُور ہونی شروع ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ کوئی حصہ ظلمت کا اس کے اندر باقی نہیں رہتا اور پھر اس نور سے قوت پا کر اعلیٰ درجہ کی نیکیاں اُس سے ظاہر ہوتی ہیں اور اس کے ہر ایک عضو میں سے محبت الہی کا نور چمک اٹھتا ہے.تب اندرونی ظلمت بکلی دُور ہو جاتی ہے اور علمی رنگ سے بھی اس میں نور پیدا ہو جاتا ہے اور عملی رنگ سے بھی نور پیدا ہو جاتا ہے.آخر ان نوروں کے اجتماع سے گناہ کی تاریکی اس کے دل سے کوچ کرتی ہے یہ تو ظاہر ہے کہ نور اور تاریکی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے لہذا ایمانی نور اور گناہ کی تاریکی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی اور اگر ایسے شخص سے اتفاقا کوئی گناہ ظہور میں نہیں آیا تو اس کو اس اتباع سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آئندہ گناہ کی طاقت اُس سے مسلوب ہو جاتی ہے اور نیکی کرنے کی طرف اس کو رغبت پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ آپ قرآن شریف میں فرماتا ہے.حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ! - ریویو آف ریلیجنز اردو جلد انمبر ۵ صفحه ۱۹۵،۱۹۴) جاننا چاہئے کہ محبوبیت اور قبولیت اور ولایت حقہ کا درجہ جس کے کسی قدر مختصر طور پر نشان بیان کر چکا الحجرات: ۸

Page 434

۴۲۴ ہوں یہ بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا اور بچے متبع کے مقابل پر اگر کوئی عیسائی یا آریہ یا یہودی قبولیت کے آثار و انوار دکھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہو گا اور نہایت صاف طریق امتحان کا یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان صالح کے مقابل پر جو سچا مسلمان اور سچائی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو کوئی دوسرا شخص عیسائی وغیرہ معارضہ کے طور پر کھڑا ہو اور یہ کہے کہ جس قدر تجھ پر آسمان سے کوئی نشان ظاہر ہو گا یا جس قدر اسرار غیبیہ تجھ پر کھلیں گے یا جو کچھ قبولیت دعاؤں سے تجھے مدد دی جائے گی یا جس طور تیری عزت اور شرف کے اظہار کے لئے کوئی نمونہ قدرت ظاہر کیا جائے گا یا اگر انعامات خاصہ کا بطور پیشگوئی تجھے وعدہ دیا جائے گا.یا اگر تیرے کسی موذی مخالف پر کسی تنبیہہ کے نزول کی خبر دی جائے گی تو ان سب باتوں میں جو کچھ تجھ سے ظہور میں آئے گا.اور جو کچھ تو دکھائے گا وہ میں بھی دکھلاؤں گا تو ایسا معارضہ کسی مخالف سے ہرگز ممکن نہیں اور ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے دل شہادت دے رہے ہیں کہ وہ کذاب ہیں.انہیں اُس بچے خدا سے کچھ بھی تعلق نہیں کہ جو راستبازوں کا مددگار اور صدیقوں کا دوست دار ہے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۸۰ تا ۴۸۲) خدا کے رسول کو ماننا تو حید کے ماننے کے لئے علت موجبہ کی طرح ہے اور ان کے باہمی ایسے تعلقات ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتے اور جو شخص بغیر پیروی رسول کے توحید کا دعویٰ کرتا ہے اس کے پاس صرف ایک خشک ہڈی ہے جس میں مغز نہیں اور اس کے ہاتھ میں محض ایک مُردہ چراغ ہے جس میں روشنی نہیں ہے.اور ایسا شخص کہ جو یہ خیال کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کو واحد لاشریک جانتا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانتا ہو وہ نجات پائے گا یقیناً سمجھو کہ اس کا دل مجزوم ہے اور وہ اندھا ہے اور اس کو تو حید کی کچھ بھی خبر نہیں کہ کیا چیز ہے.اور ایسی توحید کے اقرار میں شیطان اس سے بہتر ہے کیونکہ اگر چہ شیطان عاصی اور نافرمان ہے لیکن وہ اس بات پر تو یقین رکھتا ہے کہ خدا موجود ہے مگر اس شخص کو تو خدا پر یقین بھی نہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۲) اگر اس جگہ یہ استفسار ہو کہ اگر یہ درجہ اس عاجز اور مسیح کے لئے مسلّم ہے تو پھر جناب سیدنا ومولانا سید الکل وافضل الرسل حضرت خاتم النبین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کون سا درجہ باقی ہے؟ سو واضح ہو کہ وہ ایک اعلیٰ مقام اور برتر مرتبہ ہے جو اس ذات کامل الصفات پر ختم ہو گیا ہے جس کی کیفیت کو پہنچنا بھی کسی دوسرے کا کام نہیں چہ جائیکہ وہ کسی اور کو حاصل ہو سکے.

Page 435

۴۲۵ مراتب قرب و محبت باعتبار اپنے روحانی درجات کے تین قسم پر منقسم ہیں.سب سے ادنی درجہ جو درحقیقت وہ بھی بڑا ہے یہ ہے کہ آتش محبت الہی لوح قلب انسان کو گرم تو کرے اور ممکن ہے کہ ایسا گرم کرے کہ بعض آگ کے کام اس محرور سے ہو سکیں لیکن یہ کسر باقی رہ جائے کہ اس متاثر میں آگ کی چمک پیدا نہ ہو.اس درجہ کی محبت پر جب خدائے تعالیٰ کی محبت کا شعلہ واقع ہو تو اُس شعلہ سے جس قدر روح میں گرمی پیدا ہوتی ہے اس کو سکیت واطمینان اور کبھی فرشتہ و ملک کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں.دوسرا درجہ محبت کا وہ ہے جس میں دونوں محبتوں کے ملنے سے آتش محبت الہی لوح قلب انسان کو اس قدر گرم کرتی ہے کہ اُس میں آگ کی صورت پر ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے لیکن اُس چمک میں کسی قسم کا اشتعال یا بھڑک نہیں ہوتی فقط ایک چمک ہوتی ہے جس کو رُوح القدس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.تیسرا درجہ محبت کا وہ ہے جس میں ایک نہایت افروختہ شعلہ محبت الہی کا انسانی محبت کے مستعد فتیلہ پر پڑ کر اس کو افروختہ کر دیتا ہے اور اس کے تمام اجزا اور تمام رگ و ریشہ پر استیلاء پکڑ کر اپنے وجود کا اتم اور اکمل مظہر اس کو بنا دیتا ہے اور اس حالت میں آتشِ محبت الہی لوحِ قلب انسان کو نہ صرف ایک چمک بخشتی ہے بلکہ معاً اس چمک کے ساتھ تمام وجود بھڑک اٹھتا ہے اور اس کی لوئیں اور شعلے اردگرد کو روز روشن کی طرح روشن کر دیتے ہیں اور کسی قسم کی تاریکی باقی نہیں رہتی اور پورے طور پر اور تمام صفات کاملہ کے ساتھ وہ سارا وجود آگ ہی آگ ہو جاتا ہے اور یہ کیفیت جو ایک آتش افروختہ کی صورت پر دونوں محبتوں کے جوڑ سے پیدا ہو جاتی ہے اُس کو رُوح امین کے نام سے بولتے ہیں کیونکہ یہ ہر یک تاریکی سے امن بخشتی ہے اور ہر یک غبار سے خالی ہے اور اُس کا نام شدید القویٰ بھی ہے کیونکہ یہ اعلیٰ درجہ کی طاقت وحی ہے جس سے قوی تر وحی متصور نہیں اور اُس کا نام ذ والافق الاعلیٰ بھی ہے کیونکہ یہ وحی الہی کے انتہائی درجہ کی تجلی ہے اور اس کو رَأَى مَارَأی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے کیونکہ اس کیفیت کا اندازہ تمام مخلوقات کے قیاس اور گمان اور وہم سے باہر ہے.اور یہ کیفیت صرف دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے جو انسانِ کامل ہے جس پر تمام سلسلہ انسانیہ کا ختم ہو گیا ہے اور دائرہ استعدادات بشریہ کا کمال کو پہنچا ہے اور وہ در حقیقت پیدائش الہی کے خط ممتد کی اعلیٰ طرف کا آخری نقطہ ہے جو ارتفاع کے تمام مراتب کا انتہا ہے.حکمت الہی کے ہاتھ نے ادنیٰ سے ادنی خلقت سے اور اسفل سے

Page 436

۴۲۶ اسفل مخلوق سے سلسلہ پیدائش کا شروع کر کے اس اعلیٰ درجہ کے نقطہ تک پہنچا دیا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم.جس کے معنے یہ ہیں کہ نہایت تعریف کیا گیا یعنی کمالاتِ تامہ کا مظہر.سوجیسا کہ فطرت کے رو سے اس نبی کا اعلیٰ اور ارفع مقام تھا ایسا ہی خارجی طور پر بھی اعلیٰ و ارفع مرتبہ وحی کا اُس کو عطا ہوا اور اعلیٰ وارفع مقام محبت کا ملا.یہ وہ مقام عالی ہے کہ میں اور مسیح دونوں اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے.اس کا نام مقام جمع اور مقام وحدت تامہ ہے.پہلے نبیوں نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر دی ہے اسی پتہ ونشان پر خبر دی ہے اور اسی مقام کی طرف اشارہ کیا ہے اور جیسا کہ مسیح اور اس عاجز کا مقام ایسا ہے کہ اس کو استعارہ کے طور پر ابنیت کے لفظ سے تعبیر کر سکتے ہیں ایسا ہی یہ وہ مقام عالی شان مقام ہے کہ گذشتہ نبیوں نے استعارہ کے طور پر صاحب مقام ھذا کے ظہور کو خدائے تعالیٰ کا ظہور قرار دے دیا ہے اور اس کا آنا خدائے تعالیٰ کا آنا ٹھہرایا ہے.توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲ تا ۶۴) ہمارے سید و مولیٰ جناب مقدس خاتم الانبیاء کی نسبت صرف حضرت مسیح نے ہی بیان نہیں کیا کہ آنجناب کا دنیا میں تشریف لانا در حقیقت خدائے تعالیٰ کا ظہور فرمانا ہے بلکہ اس طرز کا کلام دوسرے نبیوں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اپنی اپنی پیشگوئیوں میں بیان کیا ہے اور استعارہ کے طور پر آنجناب کے ظہور کو خدائے تعالیٰ کا ظہور قرار دیا ہے بلکہ بوجہ خدائی کے مظہر اتم ہونے کے آنجناب کو خدا کر کے پکارا ہے چنانچہ حضرت داؤد کے زبور میں لکھا ہے.تو حسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے.تیرے لبوں میں نعمت بنائی گئی اس لئے خدا نے تجھ کو ابد تک مبارک کیا ( یعنی تو خاتم الانبیاء پٹھہر ) اے پہلوان تو جاہ و جلال سے اپنی تلوار حمائل کر کے اپنی ران پر لٹکا.امانت اور حلم اور عدالت پر اپنی بزرگواری اور اقبال مندی سے سوار ہو کر تیرا دہنا ہاتھ تجھے ہیبت ناک کام دکھائے گا.بادشاہ کے دشمنوں کے دلوں میں تیرے تبر تیزی کرتے ہیں.لوگ تیرے سامنے گڑ جاتے ہیں.اے خدا تیرا تخت ابد الآباد ہے.تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے.تو نے صدق سے دوستی اور شر سے دشمنی کی ہے اسی لئے خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا ہے.(دیکھوز بور ۴۵) اب جاننا چاہئے کہ زبور کا یہ فقرہ کہ اے خدا تیرا تخت ابد الآباد ہے.تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے.یہ محض بطور استعارہ ہے جس سے غرض یہ ہے کہ جو روحانی طور پر شان محمدی ہے اُس کو ظاہر کر دیا جائے.پھر یسعیاہ نبی کی کتاب میں بھی ایسا ہی لکھا ہے چنانچہ اس کی عبارت یہ ہے.

Page 437

۴۲۷ دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالوں گا، میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے.میں نے اپنی رُوح اس پر رکھی.وہ قوموں پر راستی ظاہر کرے گا.وہ نہ چلائے گا اور اپنی صدا بلند نہ کرے گا اور اپنی آواز بازاروں میں نہ سُنائے گا.وہ مسلی ہوئی سینتھی کو نہ توڑے گا اور سن کو جس سے دھواں اٹھتا ہے نہ بجھائے گا جب تک کہ راستی کو امن کے ساتھ نہ ظاہر کرے.وہ نہ گھٹے گا نہ تھکے گا جب تک کہ راستی کو زمین پر قائم نہ کرے اور جزیرے اُس.....کی شریعت کے منتظر ہو دیں.خداوند خدا ایک بہادر کی مانند نکلے گا وہ جنگی مرد کی مانند اپنی غیرت کو اسکائے گا.الخ اب جاننا چاہئے کہ یہ فقرہ کہ خداوند خدا ایک بہادر کی مانند نکلے گا.یہ بھی بطور استعارہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پُر ہیبت ظہور کا اظہار کر رہا ہے.دیکھو یسعیاہ نبی کی کتاب باب ۴۲ اور ایسا ہی اور کئی نبیوں نے بھی اسی استعارہ کو اپنی پیشگوئیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں استعمال کیا ہے.توضیح مرام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۵ تا ۶۷ حاشیہ ) مذہبی مسائل میں سے نجات اور شفاعت کا مسئلہ ایک ایسا عظیم الشان اور مدار المہام مسئلہ ہے کہ مذہبی پابندی کے تمام اغراض اسی پر جا کر ختم ہو جاتے ہیں.اور کسی مذہب کے صدق اور سچائی کے پر کھنے کے لئے وہی ایک ایسا صاف اور کھلا کھلا نشان ہے جس کے ذریعہ سے پوری تسلی اور اطمینان سے معلوم ہوسکتا ہے کہ فلاں مذہب در حقیقت سچا اور خدا کی طرف سے ہے.اور یہ بات بالکل راست اور درست ہے کہ جس مذہب نے اس مسئلہ کو صحیح طور پر بیان نہیں کیا یا اپنے فرقہ میں نجات یافتہ لوگوں کے موجودہ نمونے کھلے کھلے امتیاز کے ساتھ دکھلا نہیں سکا اس مذہب کے باطل ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں مگر جس مذہب نے کمال صحت سے نجات کی اصل حقیقت دکھلائی ہے.اور نہ صرف اس قدر بلکہ اپنے موجودہ زمانے میں ایسے انسان بھی پیش کئے ہیں جن میں کامل طور پر نجات کی روح پھونکی گئی ہے.اُس نے مہر لگا دی ہے کہ وہ سچا اور منجانب اللہ ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ ہر ایک انسان طبعا اپنے دل میں محسوس کرتا ہے کہ وہ صد با طرح کی غفلتوں اور پر دوں اور نفسانی حملوں اور لغزشوں اور کمزوریوں اور جہالتوں اور قدم قدم پر تاریکیوں اور ٹھوکروں اور مسلسل خطرات اور وساوس کی وجہ سے اور نیز دنیا کی انواع و اقسام کی آفتوں اور بلاؤں کے سبب سے لا یسعیاہ باب ۲۴ آیت ۱ تا ۲۳

Page 438

۴۲۸ ایک ایسے زبردست ہاتھ کا ضرور محتاج ہے جو اس کو ان تمام مکروہات سے بچاوے کیونکہ انسان اپنی فطرت میں ضعیف ہے اور وہ کبھی ایک دم کے لئے بھی اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کر سکتا کہ وہ خود بخو د نفسانی ظلمات سے باہر آ سکتا ہے.یہ تو انسانی کانشنس کی شہادت ہے.اور ماسوا اس کے اگر غور اور فکر سے کام لیا جائے تو عقل سلیم بھی اسی کو چاہتی ہے کہ نجات کے لئے شفیع کی ضرورت ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ تقدس اور تطہر کے مرتبہ پر ہے اور انسان نہایت درجہ ظلمت اور معصیت اور آلودگی کے گڑھے میں ہے اور بوجہ فقدان مناسبت اور مشابہت عام طبقہ انسانی گروہ کا اس لائق نہیں کہ وہ براہ راست خدا تعالیٰ سے فیض پا کر مرتبہ نجات کا حاصل کر لیں.پس اس لئے حکمت اور رحمت الہی نے یہ تقاضا فر مایا کہ نوع انسان اور اس میں بعض افراد کا ملہ جو اپنی فطرت میں ایک خاص فضیلت رکھتے ہوں درمیان واسطہ ہوں اور وہ اس قسم کے انسان ہوں جن کی فطرت نے کچھ حصہ صفات لا ہوتی سے لیا ہو اور کچھ حصہ صفات ناسوتی سے تا بباعث لاہوتی مناسبت کے خدا سے فیض حاصل کریں اور بباعث ناسوتی مناسبت کے اس فیض کو جو اوپر سے لیا ہے نیچے کو یعنی بنی نوع کو پہنچا ویں اور یہ کہنا واقعی صحیح ہے کہ اس قسم کے کو کہ انسان بوجہ زیادت کمال لا ہوتی اور نا سوتی کے دوسرے انسانوں سے ایک خاص امتیاز رکھتے ہیں.گویا یہ ایک مخلوق ہی الگ ہے کیونکہ جس قدر ان لوگوں کو خدا کا جلال اور عظمت ظاہر کرنے کے لئے جوش دیا جاتا ہے اور جس قدر ان کے دلوں میں وفاداری کا مادہ بھرا جاتا ہے اور پھر جس قدر بنی نوع کی ہمدردی کا جوش ان کو عطا کیا جاتا ہے وہ ایک ایسا امر فوق العادت ہے جو دوسرے کے لئے اُس کا تصور کرنا بھی مشکل.ہاں یہ بھی یادرکھنے کے لائق ہے کہ یہ تمام اشخاص ایک مرتبہ پر نہیں ہوتے بلکہ ان فطرتی فضائل میں کوئی اعلیٰ درجہ پر ہے کوئی اس سے کم اور کوئی اس سے کم.اور ایک سلیم العقل کا پاک کانشنس سمجھ سکتا ہے کہ شفاعت کا مسئلہ کوئی بناوٹی اور مصنوعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ خدا کے مقرر کردہ انتظام میں ابتدا سے اس کی نظیریں موجود ہیں.اور قانون قدرت میں اس کی شہادتیں صریح طور پر ملتی ہیں.اب شفاعت کی فلاسفی یوں سمجھنی چاہئے کہ شفع لغت میں جفت کو کہتے ہیں.پس شفاعت کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ضروری امر جو شفیع کی صفات میں سے ہوتا ہے یہ ہے کہ اس کو دوطرفہ اتحادحاصل ہو یعنی ایک طرف اُس کے نفس کو خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو ایسا کہ گویا وہ کمال اتحاد کے سبب حضرت احدیت کے لئے بطور جفت اور پیوند کے ہو اور دوسری طرف اس کو مخلوق سے بھی شدید تعلق ہو.گویا وہ اُن کے اعضا کی ایک جز ہو.پس شفاعت کا اثر مترتب ہونے کے لئے درحقیقت یہی

Page 439

۴۲۹ دو جز ہیں جن پر ترتب اثر موقوف ہے.یہی راز ہے جو حکمتِ الہیہ نے آدم کو ایسے طور سے بنایا کہ فطرت کی ابتدا سے ہی اُس کی سرشت میں دو قسم کے تعلق قائم کر دیئے یعنی ایک تعلق تو خدا سے قائم کیا جیسا قرآن شریف میں فرمایا فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سُجِدِينَ یعنی جب آدم کو ٹھیک ٹھیک بنالوں اور میں اپنی روح اُس میں پھونک دوں تو اے فرشتو اُسی وقت تم سجدہ میں گر جاؤ.اس مذکورہ بالا آیت سے صاف ثابت ہے کہ خدا نے آدم میں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اُس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا.سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطرتا خدا سے تعلق پیدا ہو جائے.ایسا ہی دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ ان لوگوں سے بھی فطرتی تعلق ہو جو بنی نوع کہلائیں گے کیونکہ جبکہ ان کا وجود آدم کی ہڈی میں سے ہڈی اور گوشت میں سے گوشت ہوگا تو وہ ضرور اس روح میں سے بھی حصہ لیں گے جو آدم میں پھونکی گئی.پس اس لئے آدم طبعی طور پر اُن کا شفیع ٹھہرے گا کیونکہ باعث نفخ روح جو راستبازی آدم کی فطرت کو دی گئی ہے ضرور ہے کہ اُس کی راستبازی کا کچھ حصہ اس شخص کو بھی ملے جو اس میں سے نکلا ہے جیسا کہ ظاہر ہے کہ ہر ایک جانور کا بچہ اس کی صفات اور افعال میں سے حصہ لیتا ہے اور دراصل شفاعت کی حقیقت بھی یہی ہے کہ فطرتی وارث اپنے مورث سے حصہ لے کیونکہ ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ شفاعت کا لفظ شَفَع کے لفظ سے نکلا ہے جو زوج کو کہتے ہیں.پس جو شخص فطرتی طور پر ایک دوسرے شخص کا زوج ٹھہر جائے گا ضرور اُس کی صفات میں سے حصہ لے گا.اسی اصول پر تمام سلسلہ خلقی توارث کا جاری ہے یعنی انسان کا بچہ انسانی قومی میں سے حصہ لیتا ہے اور گھوڑے کا بچہ گھوڑے کے قومی میں سے حصہ لیتا ہے اور بکری کا بچہ بکری کے قومی میں سے حصہ لیتا ہے اور اسی وراثت کا نام دوسرے لفظوں میں شفاعت سے فیضیاب ہونا ہے کیونکہ جب شفاعت کی اصل شفع یعنی زوج ہے پس تمام مدار شفاعت سے فیض اٹھانے کا اس بات پر ہے کہ جس شخص کی شفاعت سے مستفیض ہونا چاہتا ہے اُس سے فطرتی تعلق اس کو حاصل ہوتا ہے تا جو کچھ اس کی فطرت کو دیا گیا ہے.اس کی فطرت کو بھی وہی ملے.یہ تعلق جیسا کہ وہی طور پر انسانی فطرت میں موجود ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی ایک جز ہے ایسا ہی کسی طور پر بھی یہ تعلق زیادت پذیر ہے.یعنی جب ایک انسان یہ چاہتا ہے کہ جو فطرتی محبت اور فطرتی ہمدردی بنی نوع کی اس میں موجود ہے اس میں زیادت ہو تو اس میں بقدر الحجر : ٣٠

Page 440

۴۳۰ دائرہ فطرت اور مناسبت کے زیادت بھی ہو جاتی ہے.اسی بنا پر قوت عشقی کا تموج بھی ہے کہ ایک شخص ایک شخص سے اس قدر محبت بڑھاتا ہے کہ بغیر اس کے دیکھنے کے آرام نہیں کر سکتا آخر اس کی شدت محبت اس دوسرے شخص کے دل پر بھی اثر کرتی ہے اور جو شخص انتہا درجہ پر کسی سے محبت کرتا ہے.وہی شخص کامل طور پر اور بچے طور پر اُس کی بھلائی کو بھی چاہتا ہے چنانچہ یہ امر بچوں کی نسبت ان کی ماؤں کی طرف سے مشہود اور محسوس ہے.پس اصل جڑ شفاعت کی یہی محبت ہے جب اس کے ساتھ فطرتی تعلق بھی ہو کیونکہ بجز فطرتی تعلق کے محبت کا کمال جو شرط شفاعت ہے غیر ممکن ہے.اس تعلق کو انسانی فطرت میں داخل کرنے کے لئے خدا نے حوا کو علیحدہ پیدا نہ کیا بلکہ آدم کی پسلی سے ہی اس کو نکالا جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا لا یعنی آدم کے وجود میں سے ہی ہم نے اس کا جوڑا پیدا کیا جو حوّا ہے تا آدم کا تعلق حوا اور اس کی اولاد سے طبعی ہو نہ بناوٹی.اور یہ اس لئے کیا کہ تا آدم زادوں کے تعلق اور ہمدردی کو بقا ہو کیونکہ طبعی تعلقات غیر منفک ہوتے ہیں مگر غیر طبعی تعلقات کے لئے بقا نہیں ہے کیونکہ ان میں وہ باہمی کشش نہیں ہے جو طبعی میں ہوتی ہے.غرض خدا نے اس طرح پر دونوں قسم کے تعلق جو آدم کے لئے خدا سے اور بنی نوع سے ہونے چاہئے تھے طبعی طور پر پیدا کئے پس اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ کامل انسان جو شفیع ہونے کے لائق ہو وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے ان دونوں تعلقوں سے کامل حصہ لیا ہو اور کوئی شخص بجز ان ہر دو قسم کے کمال کے انسان کامل نہیں ہو سکتا.اس لئے آدم کے بعد یہی سنت اللہ ایسے طرح پر جاری ہوئی کہ کامل انسان کے لئے جو شفیع ہو سکتا ہے یہ دونوں تعلق ضروری ٹھہرائے گئے.یعنی ایک یہ تعلق کہ اُن میں آسمانی روح پھونکی گئی اور خدا نے ایسا اُن سے اتصال کیا کہ گویا اُن میں اُتر آیا اور دوسرے یہ کہ بنی نوع کی زوجیت کا وہ جوڑا جو حوا اور آدم میں باہمی ہمدردی اور محبت کے ساتھ مستحکم کیا گیا تھا اُن میں سب سے زیادہ چھکا یا گیا.اسی تحریک سے اُن کو بیویوں کی طرف بھی رغبت ہوئی اور یہی ایک اوّل علامت اس بات کی ہے کہ ان میں بنی نوع کی ہمدردی کا مادہ ہے اور اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس کے یہ الفاظ ہیں کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ بِاَهْلِهِ یعنی تم میں سے سب سے زیادہ بنی نوع کے ساتھ بھلائی کرنے والا وہی ہو سکتا ہے کہ پہلے اپنی بیوی کے ساتھ بھلائی کرے.مگر جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظلم اور شرارت کا برتاؤ رکھتا ہے ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کر سکے کیونکہ خدا نے آدم کو پیدا کر کے سب ل النساء :٢

Page 441

۴۳۱ سے پہلے آدم کی محبت کا مصداق اس کی بیوی کو ہی بنایا ہے.پس جو شخص اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا یا اس کی خود بیوی ہی نہیں وہ کامل انسان ہونے کے مرتبہ سے گرا ہوا ہے اور شفاعت کی دو شرطوں میں سے ایک شرط اُس میں مفقود ہے.اس لئے اگر عصمت اُس میں پائی بھی جائے تب بھی وہ شفاعت کرنے کے لائق نہیں لیکن جو شخص کوئی بیوی نکاح میں لاتا ہے وہ اپنے لئے بنی نوع کی ہمدردی کی بنیاد ڈالتا ہے کیونکہ ایک بیوی بہت سے رشتوں کا موجب ہو جاتی ہے اور بچے پیدا ہوتے ہیں.اُن کی بیویاں آتی ہیں اور بچوں کی نانیاں اور بچوں کے ماموں وغیرہ ہوتے ہیں.اور اس طرح پر ایسا شخص خواہ نخواہ محبت اور ہمدردی کا عادی ہو جاتا ہے.اور اُس کی اس عادت کا دائرہ وسیع ہو کر سب کو اپنی ہمدردی سے حصہ دیتا ہے.لیکن جو لوگ جو گیوں کی طرح نشو نما پاتے ہیں اُن کو اس عادت کے وسیع کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا اس لئے ان کے دل سخت اور خشک رہ جاتے ہیں.اور عصمت کو شفاعت سے کوئی حقیقی تعلق نہیں کیونکہ عصمت کا مفہوم صرف اس حد تک ہے کہ انسان گناہ سے بچے اور گناہ کی تعریف یہ ہے کہ انسان خدا کے حکم کو عمدا تو ڑ کر لائق سز ا ٹھہرے.پس صاف ظاہر ہے کہ عصمت اور شفاعت میں کوئی تلازم ذاتی نہیں کیونکہ تعریف مذکورہ بالا کے رو سے نابالغ بچے اور پیدائشی مجنوں بھی معصوم ہیں وجہ یہ کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ کوئی گناہ عمدا کریں اور نہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی فعل کے ارتکاب سے قابل سزا ٹھہرتے ہیں.پس بلاشبہ وہ حق رکھتے ہیں کہ ان کو معصوم کہا جائے مگر کیا وہ یہ حق بھی رکھتے ہیں کہ وہ انسانوں کے شفیع ہوں اور منجی کہلا ئیں؟ پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ نجی ہونے اور معصوم ہونے میں کوئی حقیقی نہیں.شفیع کے لئے جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے ضروری ہے کہ خدا سے اس کو ایک ایسا گہرا تعلق ہو کہ گویا خدا اُس کے دل میں اُترا ہوا ہو اور اس کی تمام انسانیت مرکز بال بال میں لاہوتی تحبیبی پیدا ہوگئی ہو.اور اس کی رُوح پانی کی طرح گداز ہو کر خدا کی طرف بہ نکلی ہو اور اس طرح پر الہی قرب کے انتہائی نقطہ پر جا پہنچی ہو.اور اسی طرح شفیع کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس کے لئے وہ شفاعت کرنا چاہتا ہے اُس کی ہمدردی میں اس کا دل اُڑا جاتا ہوا ایسا کہ گویا عنقریب اس پر غشی طاری ہوگی.گویا شدت قلق سے اُس کے اعضاء اُس سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں اور اُس کے حواس منتشر ہیں اور اُس کی ہمدردی نے اُس کو اس مقام تک پہنچایا ہو کہ جو باپ سے بڑھ کر اور ماں سے بڑھ کر اور ہر ایک غم خوار سے بڑھ کر ہے.پس جب یہ دونوں حالتیں اس میں پیدا ہو جائیں گی تو وہ ایسا ہو جائے گا کہ گویا وہ ایک

Page 442

۴۳۲ طرف سے لاہوت کے مقام سے جفت ہے اور دوسری طرف ناسوت کے مقام سے جفت ، تب دونوں پلہ میزان کے اُس میں مساوی ہوں گے.یعنی وہ مظہر لاہوت کامل بھی ہوگا اور مظہر ناسوت کامل بھی اور بطور برزخ دونوں حالتوں میں واقع ہوگا.اس طرح پر...ان جوتے سلام عند موت اسی مقامِ شفاعت کی طرف قرآن شریف میں اشارہ فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شفیع ہونے کی شان میں فرمایا ہے دَنَا فَتَدَلَّى - فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی ہے یعنی یہ رسول خدا کی طرف چڑھا اور جہاں تک امکان میں ہے خدا سے نزدیک ہوا.اور قرب کے تمام کمالات کو طے کیا اور لا ہو تی مقام سے پورا حصہ لیا.اور پھر ناسُوت کی طرف کامل رجوع کیا.یعنی عبودیت کے انتہائی نقطہ تک اپنے تئیں پہنچایا اور بشریت کے پاک لوازم یعنی بنی نوع کی ہمدردی اور محبت سے جو ناسوتی کمال کہلاتا ہے پورا حصہ لیا.لہذا ایک طرف خدا کی محبت میں اور دوسری بنی نوع کی محبت میں کمال تام تک پہنچا.پس چونکہ وہ کامل طور پر خدا سے قریب ہوا اور پھر کامل طور پر بنی نوع سے قریب ہوا.اس لئے دونوں طرف کے مساوی قرب کی وجہ سے ایسا ہو گیا.جیسا کہ دو قوسوں میں ایک خط ہوتا ہے.لہذا وہ شرط جو شفاعت کے لئے ضروری ہے اس میں پائی گئی اور خدا نے اپنے کلام میں اس کے لئے گواہی دی کہ وہ اپنے بنی نوع میں اور اپنے خدا میں ایسے طور سے درمیان ہے جیسا کہ وتر دوقوسوں کے درمیان ہوتا ہے.اور پھر ایک اور مقام میں اس کے الہی قرب کی نسبت یوں فرمایا.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے یعنی لوگوں کو اطلاع دے دے کہ میری یہ حالت ہے کہ میں اپنے وجود سے بالکل کھویا گیا ہوں.میری تمام عبادتیں خدا کے لئے ہوگئی ہیں.یہ آیت بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خدا میں گم اور محو ہو گئے تھے کہ آپ کی زندگی کے تمام انفاس اور آپ کی موت محض خدا کے لئے ہو گئی تھی.اور آپ کے وجود میں نفس اور مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا اور آپ کی روح خدا کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے رگری تھی کہ اس میں غیر کی ایک ذرہ آمیزش نہیں رہی تھی...اور چونکہ خدا سے محبت کرنا اور اس کی محبت میں اعلیٰ مقام قرب تک پہنچنا ایک ایسا امر ہے جو کسی غیر کو اس پر پر اطلاع نہیں ہو سکتی اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال ظاہر کئے جن النجم : ١٠٩ الانعام : ١٦٣

Page 443

۴۳۳ سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے در حقیقت تمام چیزوں پر خدا کو اختیار کر لیا تھا اور آپ کے ذرہ ذرہ اور رگ اور ریشہ میں خدا کی محبت اور خدا کی عظمت ایسے رچی ہوئی تھی کہ گویا آپ کا وجود خدا کی تجلیات کے پورے مشاہدہ کے لئے ایک آئینہ کی طرح تھا.خدا کی محبت کاملہ کے آثار جس قدر عقل سوچ سکتی ہے وہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے.( عصمت انبیاء علیہم السلام.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۵۵ تا ۶۶۶ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن) سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اپنے جیسا خدا بھی نہیں بنا تا کیونکہ اس کی صفت احدیت اور بے مثل اور مانند ہونے کی جو ازلی ابدی طور پر اس میں پائی جاتی ہے اس طرف توجہ کرنے سے اُس کو روکتی ہے.ہاں اس طرح پر وہ اپنی ذات بے مثل و مانند کا نمونہ پیدا کرتا ہے کہ اپنی ذاتی خوبیاں جن پر اس کا علم محیط ہے عکسی طور پر بعض اپنی مخلوقات میں رکھ دیتا ہے.اور کمالات کا انتہائی درجہ جو حقیقی طور پر اس کو حاصل ہے ظلمی طور پر اس مخلوق کو بھی بخش دیتا ہے جیسا کہ اسی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ بھی ہے وَرَفَعَ بَعْضُهُمْ دَرَجت.اس جگہ صاحب درجات رفیعہ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں جن کو ظلی طور پر انتہائی درجہ کے کمالات جو کمالات الوہیت کے اظلال و آثار ہیں بخشے گئے اور وہ خلافت حقہ جس کے وجود کامل کے تحقق کے لئے سلسلہ بنی آدم کا قیام بلکہ ایجاد کل کائنات کا ہوا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے اپنے مرتبہ اتم و اکمل میں ظہور پذیر ہو کر آئینہ خدا نما ہوئے.یہ بحث معارف الہیہ میں سے نہایت باریک بحث ہے اور ہمارے مخالفین جو ان نازک نکاتِ عرفانی سے بیگانہ اور اس کو چہ اسرار الوہیت سے نا آشنا محض ہیں وہ تعجب کریں گے کہ کیونکر کروڑ ہا اور بے شمار مخلوقات میں سے صرف ایک ہی شخص کو مرتبہ کا ملہ خلافت تامہ حقہ کا جوظل مرتبہ الوہیت ہے حاصل ہوسکتا ہے.سو اگر چہ اس بحث کے طول دینے کا یہ موقع نہیں ہے لیکن تاہم اس قدر بیان کر دینا طالب حق کے سمجھانے کے لئے ضروری ہے کہ عادت اللہ یا تم یوں ہی سمجھ لو کہ اس کا قانون قدرت جو اس کی صفت وحدت کے مناسب حال ہے یہی ہے کہ وہ بوجہ واحد ہونے کے اپنے افعال خالقیت میں رعایت وحدت کو دوست رکھتا ہے جو کچھ اُس نے پیدا کیا ہے اگر ہم اس سب کی طرف نظر غور سے دیکھیں تو اس ساری مخلوقات کو جو اس دست قدرت سے صادر ہوئی ہے ایک ایسے سلسلہ وحدانی اور با ترتیب رشتہ میں منسلک پائیں گے کہ گویا وہ ایک خط مستقیم ممتد محدود ہے جس کی دونوں طرفوں میں سے ایک طرف البقرة : ۲۵۴

Page 444

۴۳۴ ارتفاع اور دوسری طرف انخفاض ہے..طرف ارتفاع کے اخیر نقطہ پر اُس استعداد کا انسان ہو گا جو اپنی استعداد انسانی میں سب نوع انسان سے بڑھ کر ہے اور طرف انحصاض میں وہ ناقص الاستعداد روح ہوگی جو اپنے غایت درجہ کے نقصان کی وجہ سے حیوانات لا یعقل کے قریب قریب ہے.اور اگر سلسلہ جمادی کی طرف نظر ڈال کر دیکھیں تو اس قاعدہ کو اور بھی اس سے تائید پہنچتی ہے.کیونکہ خدائے تعالیٰ نے چھوٹے سے چھوٹے جسم سے جو ایک ذرہ ہے لے کر ایک بڑے سے بڑے جسم تک جو آفتاب ہے اپنی صفت خالقیت کو تمام کیا ہے اور بلا شبہ خدائے تعالیٰ نے اس جمادی سلسلہ میں آفتاب کو ایک ایسا عظیم الشان اور نافع اور ذی برکت وجود پیدا کیا ہے کہ طرف ارتفاع میں اس کے برابر کوئی دوسرا ایسا وجود نہیں ہے.سو اس سلسلہ کے ارتفاع اور انخفاض پر نظر ڈال کر جو ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے روحانی سلسلہ جو اُسی ہاتھ سے نکلا ہے اور اسی عادت اللہ سے ظہور پذیر ہوا ہے خود بلا تامل سمجھ میں آتا ہے کہ وہ بھی بلا تفاوت اسی طرح واقعہ ہے اور یہی ارتفاع اور انخفاض اس میں بھی موجود ہے.کیونکہ خدائے تعالیٰ کے کام یک رنگ اور یکساں ہیں اس لئے کہ وہ واحد ہے اور اپنے اصدار افعال میں وحدت کو دوست رکھتا ہے.پریشانی اور اختلاف اس کے کاموں میں راہ نہیں پاسکتا اور خود یہ کیا ہی پیارا اور موزوں طریق معلوم ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کے کام باقاعدہ اور ایک ترتیب سے مرتب اور ایک سلک میں منسلک ہوں.اب جبکہ ہم نے ہر طرح سے ثبوت پا کر بلکہ بہ بداہت دیکھ کر خدائے تعالیٰ کے اس قانون قدرت کو مان لیا کہ اس کے تمام کام کیا روحانی اور کیا جسمانی پریشان اور مختلف طور پر نہیں ہیں جن میں یونہی گڑ بڑ پڑا ہو بلکہ ایک حکیمانہ ترتیب سے مرتب اور ایک ایسے با قاعدہ سلسلہ میں بندھے ہوئے ہیں.جو ایک ادنی درجہ سے شروع ہو کر انتہائی درجہ تک پہنچتا ہے اور یہی طریق وحدت اُسے محبوب بھی ہے تو اس قانون قدرت کے ماننے سے ہمیں یہ بھی ماننا پڑا کہ جیسے خدائے تعالیٰ نے جمادی سلسلہ میں ایک ذرہ سے لے کر اس وجو د اعظم تک یعنی آفتاب تک نوبت پہنچائی ہے جو ظاہری کمالات کا جامع ہے.جس سے بڑھ کر اور کوئی جسم جمادی نہیں.ایسا ہی روحانی آفتاب بھی کوئی ہوگا جس کا وجود خط مستقیم مثالی میں ارتفاع کے اخیر نقطہ پر واقع ہو.اب تفتیش اس بات کی کہ وہ انسانِ کامل جس کو روحانی آفتاب سے تعبیر کیا گیا ہے وہ کون ہے اور اُس کا کیا نام ہے؟ یہ ایسا کام نہیں ہے جس کا تصفیہ مجرد عقل سے ہو سکے کیونکہ بجز خدائے تعالیٰ کے یہ امتیاز کس کو حاصل ہے اور کون مجرد عقل سے ایسا کام کر سکتا ہے کہ خدائے تعالیٰ

Page 445

۴۳۵ کے کروڑ ہا اور بے شمار بندوں کو نظر کے سامنے رکھ کر اور اُن کی روحانی طاقتوں اور قوتوں کا موازنہ کر کے سب سے بڑے کو الگ کر کے دکھلاوے.بلاشبہ عقلی طور پر کسی کو اس جگہ دم مارنے کی جگہ نہیں ہاں ایسے بلند اور عمیق دریافت کرنے کے لئے کتب الہامی ذریعہ ہیں جن میں خود خدائے تعالیٰ نے پیش از ظهور بلکہ ہزار ہا برس پہلے اس انسان کامل کا پتہ ونشان بیان کر دیا ہے.پس جس شخص کے دل کو خدائے تعالیٰ اپنی توفیق خاص سے اس طرف ہدایت دے گا کہ وہ الہام اور وحی پر ایمان لا دے اور ان پیشگوئیوں پر غور کرے کہ بائیل میں درج ہیں تو اُسے ضرور ماننا پڑے گا کہ وہ انسان کامل جو آفتاب روحانی ہے جس سے نقطہ ارتفاع کا پورا ہوا ہے اور جو دیوار نبوت کی آخری اینٹ ہے وہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور وجود خیر مجسم جس کا نفسی نقطہ انتہائی درجہ کمال ارتفاع پر واقع ہے یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم.اس کا مقام معراج خارجی جو منتہائے مقامِ عروج ( یعنی عرش رب العالمین ہے ) بتلایا گیا ہے.یہ در حقیقت اسی انتہائی درجہ کمال ارتفاع کی طرف اشارہ ہے جو اس وجود با جود کو حاصل ہے.گویا جو کچھ اس وجود خیر مجسم کو عالم قضاء و قدر میں حاصل تھا وہ عالم مثال میں مشہود ومحسوس طور پر دکھایا گیا.جیسا کہ اللہ تعالی اس نبی کریم کی شان رفیع کے بارہ میں فرماتا ہے وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِ ہے پس اس رفع درجات سے وہی انتہائی درجہ کا ارتفاع مراد ہے جو ظاہری اور باطنی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور یہ وجود باجود جو خیر مجسم ہے مقربین کی تین قسموں سے اعلیٰ و اکمل ہے جو الوہیت کا مظہر اتم کہلاتا ہے.جاننا چاہئے کہ قرب الہی کی تین قسمیں تین قسم کی تشبیہہ پر موقوف ہیں جن کی تفصیل سے مراتب ثلاثہ قرب کی حقیقت معلوم ہوتی ہے اول قسم قرب کی خادم اور مخدوم کے تشبہ سے مناسبت رکھتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَالَّذِينَ آمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلہ کے یعنی مومن جن کو دوسرے لفظوں میں بندہ فرمانبردار کہہ سکتے ہیں سب چیز سے زیادہ اپنے مولیٰ سے محبت رکھتے ہیں.تفصیل اس کی یہ ہے کہ جیسے ایک نوکر با اخلاص و باصفا و با وفا بوجہ مشاہدہ احسانات متواترہ و انعامات متکاثره و کمالاتِ ذاتنیہ اپنے آقا کی اس قدر محبت و اخلاص و یک رنگی میں ترقی کر جاتا ہے جو بوجہ ذاتی محبت کے جو اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اپنے آقا سے ہم طبیعت و ہم طریق ہو جاتا ہے اور اُس کی مرادات کا ایسا ہی طالب اور خواہاں ہوتا ہے جیسے آقا خود اپنی مرادات کا خواہاں ہے.اسی طرح بندہ وفادار کی حالت اپنے البقرة : ۲۵۴ البقرة : ١٦٦

Page 446

۴۳۶ مولی کریم کے ساتھ ہوتی ہے.یعنی وہ بھی اپنے خلوص اور صدق وصفا میں ترقی کرتا کرتا اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنے وجود سے بلکلی محو و فنا ہو کر اپنے مولا کریم کے رنگ میں مل جاتا ہے..قرب کی دوسری قسم ولد اور والد کی تشبہ سے مناسبت رکھتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فَاذْكُرُ وا اللهَ كَذِكْرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا لے یعنی اپنے اللہ جلشانہ کو ایسے دلی جوش محبت سے یاد کرو جیسا باپوں کو یاد کیا جاتا ہے.یا د رکھنا چاہئے کہ مخدوم اُس وقت باپ سے مشابہ ہو جاتا ہے جب محبت میں غایت درجہ شدت واقع ہو جاتی ہے اور حُبّ جو ہر یک کدورت اور غرض سے مصفا ہے دل کے تمام پردے چیر کر دل کی جڑ میں اس طرح سے بیٹھ جاتی ہے کہ گویا اُس کی جز ہے.تب جس قدر جوش محبت اور پیوند شدید اپنے محبوب سے ہے وہ سب حقیقت میں مادر زاد معلوم ہوتا ہے اور ایسا طبیعت سے ہم رنگ اور اس کی جز ہو جاتا ہے کہ سعی اور کوشش کا ذریعہ ہرگز یاد نہیں رہتا.اور جیسے بیٹے کو اپنے باپ کا وجود تصور کرنے سے ایک روحانی نسبت محسوس ہوتی ہے ایسا ہی اس کو بھی ہر وقت باطنی طور پر اس نسبت کا احساس ہوتا رہتا ہے.اور جیسے بیٹا اپنے باپ کا حلیہ اور نقوش نمایاں طور پر اپنے چہرہ پر ظاہر رکھتا ہے اور اس کی رفتار اور کردار اور خو اور بو بصفائی تمام اس میں پائی جاتی ہے.علی ہذا القیاس یہی حال اس میں ہوتا ہے...تیسری قسم کا قرب ایک ہی شخص کی صورت اور اس کے عکس سے مشابہت رکھتا ہے یعنی جیسے ایک شخص آئینہ صاف وسیع میں اپنی شکل دیکھتا ہے تو تمام شکل اس کی معہ اپنے تمام نقوش کے جو اس میں موجود ہیں عکسی طور پر اس آئینہ میں دکھائی دیتی ہے.ایسا ہی اس قسم ثالث قرب میں تمام صفات الہیہ صاحب قرب کے وجود میں یہ تما متر صفائی منعکس ہو جاتی ہیں اور یہ انعکاس ہر یک قسم کی تشبہ سے جو پہلے اس سے بیان کیا گیا ہے اتم و اکمل ہے کیونکہ یہ صاف ظاہر ہے کہ جیسے ایک شخص آئینہ صاف میں اپنا منہ دیکھ کر اس شکل کو اپنی شکل کے مطابق پاتا ہے.وہ مطابقت اور مشابہت اس کی شکل سے نہ کسی غیر کو کسی حیلہ یا تکلف سے حاصل ہو سکتی ہے اور نہ کسی فرزند میں ایسی ہو بہو مطابقت پائی جاتی ہے اور یہ مرتبہ کس کے لئے میسر ہے اور کون اس کامل درجہ قرب سے موسوم ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اُسی کو میتر آتا ہے کہ جو الوہیت و عبودیت کے دونوں قوسوں کے بیچ میں کامل طور پر ہو کر دونوں قوسوں سے ایسا شدید تعلق پکڑتا ہے کہ گویا ان دونوں کا عین ہو جاتا ہے اور اپنے نفس کو بکلی درمیان سے اٹھا کر آئینہ صاف کا حکم پیدا کر لیتا ہے اور وہ آئینہ ذو جهتین ہونے کی وجہ سے ایک جہت سے صورتِ الہیہ البقرة : ٢٠١

Page 447

۴۳۷ بطورظلی حاصل کرتا ہے اور دوسری جہت سے وہ تمام فیض حسب استعداد و طبائع مختلفہ اپنے مقابلین کو پہنچاتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى - فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ ادنی یا پھر نزدیک ہوا ( یعنی اللہ تعالیٰ سے) پھر نیچے کی طرف اترا ( یعنی مخلوق کی طرف تبلیغ احکام کے لئے نزول کیا ) پس اسی جہت سے کہ وہ اوپر کی طرف صعود کر کے انتہائی درجہ قرب تام کو پہنچا اور اس میں اور حق میں کوئی حجاب نہ رہا اور پھر نیچے کی طرف اُس نے نزول کیا اور اس میں اور خلق میں کوئی حجاب نہ رہا یعنی چونکہ وہ اپنے صعود اور نزول میں اتم و اکمل ہوا اور کمالات انتہا ئیہ تک پہنچ گیا اس لئے دوقوسوں کے بیچ میں یعنی وتر کی جگہ میں جو قطر دائرہ ہے اتم اور اکمل طور پر اس کا مقام ہوا بلکہ وہ قوس الوہیت اور قوس عبودیت کی طرف اس سے بھی زیادہ تر جو خیال و گمان و قیاس میں نہیں آ سکتا نزدیک ہوا.مثلاً صورت ان دو قوسوں کی یہ ہے.قوس اعلیٰ وجود قدیم قوس اسفل وجود حادث ممکن اس شکل میں جو خط مرکز دائرہ کو قطع کرتا ہے یعنی جو قطر دائرہ ہے وہی قاب قوسین یعنی دونوں قوسوں کا وتر ہے.جاننا چاہئے کہ دونوں قسم وجود واجب اور ممکن کے ایک ایسے دائرہ کی طرح ہیں کہ جو خط گذرندہ بر مرکز سے دو قوسوں پر منقسم ہو.وہی خط جو قطر دائرہ ہے جس کو قرآن شریف میں قَابَ قَوْسَيْنِ سے تعبیر کیا ہے اور عام بول چال علم ہندسہ میں اس کو وتر قوسین کہتے ہیں وہ ذات مفیض اور مستفیض میں بطور بر زخ واقع ہے کہ جو اپنے اخص کمال میں جو انتہائی درجہ کمالات کا ہے نقطہ مرکز دائرہ سے جو وتر قوس کا درمیانی نقطہ ہے مشابہت رکھتا ہے.یہی نقطہ تمام کمالات انسان کامل کا دل ہے جو قوس الوہیت و عبودیت کی طرف بخطوط مساویہ نسبت رکھتا ہے اور یہی نقطہ ارفع نقاط ان خطوط عمودیہ کا ہے جو محیط سے قطر دائرہ تک کھینچے جائیں.اگر چہ وتر قوسین اور بہت سے ایسے نقاط سے تالیف یافتہ ہے جو درحقیقت کمالات روحانیہ صاحب وتر کے صور محسوسہ ہیں لیکن بجز ایک نقطہ مرکز کے اور جس قدر نقاط وتر ہیں ان میں دوسرے انبیاء ورسل وارباب صدق وصفا بھی شریک ہیں اور نقطہ مرکز اس کمال کی صورت ہے کہ جو صاحب وتر کو بہ نسبت جمیع دوسرے کمالات کے اعلیٰ وارفع واخص و ممتاز طور پر حاصل ہے جس میں حقیقی النجم : 109:

Page 448

۴۳۸ طور پر مخلوق میں سے کوئی اس کا شریک نہیں ہاں اتباع و پیروی سے ظلی طور پر شریک ہوسکتا ہے.اب جاننا چاہئے کہ دراصل اسی نقطہ وسطی کا نام حقیقت محمدیہ ہے جو اجمالی طور پر جمیع حقائق عالم کا منبع واصل ہے اور درحقیقت اسی ایک نقطہ سے خط وتر انبساط وامتداد پذیر ہوا ہے.اور اسی نقطہ کی روحانیت تمام خط وتر میں ایک ہویت ساریہ ہے جس کا فیض اقدس اس سارے خط کو تعیین بخش ہو گیا ہے عالم جس کو متصوفین اسماء اللہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں.اس کا اوّل و اعلیٰ مظہر جس سے وہ عَلَى وَجُهِ التَّفْصِيل صدور پذیر ہوا ہے یہی نقطہ درمیانی ہے جس کو اصطلاحات اہل اللہ میں نفسی نقطہ احمد مجتبی ومحمد مصطفے نام رکھتے ہیں اور فلاسفہ کی اصطلاحات میں عقل اوّل کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے.اور اس نقطہ کو دوسرے وتری نقاط کی طرف وہی نسبت ہے جو اسم اعظم کو دوسرے اسماء الہیہ کی طرف نسبت واقعہ ہے.غرض سر چشمہ رموز غیبی و مفتاح کنوز لاریبی اور انسان کامل دکھلانے کا آئینہ یہی نقطہ ہے اور تمام اسرار مبدء و معاد کی علت غائی اور ہر یک زیر و بالا کی پیدائش کی کمیت یہی ہے جس کے تصور بالکنه و تصور بکنه سے تمام عقول وافهام بشریہ عاجز ہیں اور جس طرح ہر یک حیات خدائے تعالیٰ کی حیات سے مستفاض اور ہر یک وجود اس کے وجود سے ظہور پذیر اور ہریک تعین اس کے تعین سے خلعت پوش ہے.ایسا ہی نقطہ محمد یہ جمیع مراتب اکوان اور خطائر امکان میں بِاِذْنِهِ تعالى حسب استعدادات مختلفه و طبائع متفاوتہ مؤثر ہے.اور چونکہ یہ نقطہ جمیع مراتب الہیہ کا ظلمی طور پر اور جمیع مراتب کو نبیہ کا منبعی و اصلی طور پر جامع بلکہ انہیں دونوں کا مجموعہ ہے اس لئے یہ ہر یک مرتبہ کو نیہ پر جو عقول و نفوس کلیه و جزئیہ و مراتب طبعیہ الی آخر تنزلات وجود سے مراد ہے اجمالی طور پر احاطہ رکھتا ہے.ایسا ہی ظل الوہیت ہونے کی وجہ سے مرتبہ الہیہ سے اس کو ایسی مشابہت ہے جیسے آئینہ کے عکس کو اپنے اصل سے ہوتی ہے.اور امہات صفات الہیہ یعنی حیات ، علم ، ارادہ، قدرت، سمع، بصر، کلام مع اپنے جمیع فروع کے اتم و اکمل طور پر اس میں انعکاس پذیر ہیں.اس نقطہ مرکز کو جو بز رخ بین اللہ و بین الخلق ہے یعنی نفسی نقطہ حضرت سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مجر دکلمۃ اللہ کے مفہوم تک محدود نہیں کر سکتے جیسا کہ مسیح کو اس نام سے محدود کیا گیا ہے کیونکہ یہ نقطہ محمد یہ خلقی طور پر متجمع جميع مراتب الوہیت ہے.اسی وجہ سے تمثیلی بیان میں حضرت مسیح کو ابن سے تشبیہہ دی گئی ہے باعث اس نقصان کے جو اُن میں باقی رہ گیا ہے کیونکہ حقیقت عیسو یہ مظہر اتم صفات الوہیت نہیں ہے بلکہ اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے.برخلاف حقیقت محمدیہ کے کہ وہ جمیع صفات الہیہ کا اتم و اکمل مظہر ہے جس کا ثبوت عقلی ونقلی طور پر کمال درجہ پر پہنچ گیا ہے.سو اسی وجہ سے تمثیلی بیان میں ظلی طور پر خدائے قادر ذوالجلال سے

Page 449

۴۳۹ آنحضرت کو آسمانی کتابوں میں تشبیہ دی گئی ہے جو ان کے لئے بجائے اب ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم کا اضافی طور پر ناقص ہونا اور قرآنی تعلیم کا سب الہامی تعلیموں سے اکمل وا تم ہونا وہ بھی درحقیقت اسی بنا پر ہے.کیونکہ ناقص پر ناقص فیضان ہوتا ہے اور اکمل پر اکمل.اور جو تشبیہات قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوظلتی طور پر خداوند قادر مطلق سے دی گئی ہیں اُن میں سے ایک یہی آیت ہے جو اللہ تعالی فرماتا ہے.ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی یے یعنی وہ (حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی ترقیات کا ملہ قرب کی وجہ سے دو قوسوں میں بطور وتر کے واقع ہے بلکہ اس سے نزدیک تر.اب ظاہر ہے کہ وتر کی طرف اعلیٰ میں قوس الوہیت ہے.سو جبکہ نفس پاک محمد مکی اپنے شدت قرب اور نہایت درجہ کی صفائی کی وجہ سے وتر کی حد سے آگے بڑھا اور دریائے الوہیت سے نزدیک تر ہوا تو اس نا پیدا کنار دریا میں جا پڑا اور الوہیت کے بحر اعظم میں ذرہ بشریت گم ہو گیا اور یہ بڑھنا نہ مستحدث اور جدید طور پر بلکہ وہ ازل سے بڑھا ہوا تھا اور ظلی اور مستعار طور پر اس بات کے لائق تھا کہ آسمانی صحیفے اور الہامی تحریریں اس کو مظہر اتم الوہیت قرار دیں اور آئینہ حق نما اس کو ٹھہرا دیں.پھر دوسری آیت قرآن شریف کی جس میں یہی تشبیہہ نہایت اصفی اور اجلی طور پر دی گئی ہے یہ ہے اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ یعنی جولوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.واضح ہو کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کیا کرتے تھے اور مردوں کے لئے یہی طریق بیعت کا ہے.سو اس جگہ اللہ تعالیٰ نے بطریق مجاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو اپنی ذات اقدس ہی قرار دے دیا اور ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا.یہ کلمہ مقام جمع میں ہے.جو بوجہ نہایت قرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولا گیا ہے اور اسی مرتبہ جمع کی طرف جو محبت تامہ دوطرفہ پر موقوف ہے اس آیت میں بھی اشارہ ہے.مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللهَ رَمی سے تو نے نہیں چلایا خدا نے ہی چلایا جبکہ تو نے چلایا.ایسا ہی یہ اشارہ اس دوسری آیت میں پایا جاتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوْا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا سے یعنی ان کو کہہ دے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر اسراف النجم :١٠٩ الفتح : الانفال :۱۸ الزمر :۵۴

Page 450

۴۴۰ کیا ( یعنی ارتکاب کبائر کیا ) تم خدا کی رحمت سے نومید مت ہو.وہ تمہارے سب گناہ بخش دے گا.اب ظاہر ہے کہ بنی آدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تو بندے نہیں ہیں بلکہ سب نبی و غیر نبی خدائے تعالیٰ کے بندے ہیں.لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مولیٰ کریم سے قُرب اتم یعنی تیسرے درجے کا قرب حاصل تھا.سو یہ یخن بھی مقام جمع سے سرزد ہوا اور مقام جمع قاب قوسین کا مقام ہے جس کی تفاصیل کتب تصوف میں موجود ہے.ایسا ہی اللہ تعالیٰ نے مقام جمع کے لحاظ سے کئی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے رکھ دیئے ہیں جو خاص اُس کی صفتیں ہیں.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ نہایت تعریف کیا گیا.سو یہ غایت درجہ کی تعریف حقیقی طور پر خدائے تعالیٰ کی شان کے لائق ہے.مگر خالی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی.ایسا ہی قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور جو دنیا کو روشن کرتا ہے اور رحمت جس نے عالم کو زوال سے بچایا ہوا ہے آیا ہے اور رؤوف اور رحیم جو خدائے تعالیٰ کے نام ہیں.ان ناموں سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پکارے گئے ہیں اور کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم الوہیت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کا آنا خدا کا آنا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں اس بارے میں ایک یہ آیت بھی ہے.وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا کہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھا گنا ہی تھا.حق سے مراد اس جگہ اللہ جل شانہ اور قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور باطل سے مراد شیطان اور شیطان کا گروہ اور شیطانی تعلیمیں ہیں.سو دیکھو اپنے نام میں خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیونکر شامل کر لیا اور آنحضرت کا ظہور فرمانا خدائے تعالیٰ کا ظہور فرمانا ہوا ایسا جلالی ظہور جس سے شیطان معہ اپنے تمام لشکروں کے بھاگ گیا.اور اس کی تعلیمیں ذلیل اور حقیر ہو گئیں اور اس کے گروہ کو بڑی بھاری شکست آئی.اسی جامعیت تامہ کی وجہ سے سورۃ آل عمران جزو تیسری میں مفضل یہ بیان ہے کہ تمام نبیوں سے عہد و اقرار لیا گیا کہ تم پر واجب و لازم ہے کہ عظمت و جلالیت شان خاتم الرسل پر جو محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایمان لاؤ اور ان کی اس عظمت اور جلالیت کی اشاعت کرنے میں بدل و جان مدد کرو.اسی وجہ سے حضرت آدم صفی اللہ سے لے کرتا حضرت مسیح کلمۃ اللہ جس قدر نبی و رسول گزرے ہیں وہ سب کی سب عظمت و جلالیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرتے آئے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرآئیل : ۸۲.

Page 451

نے توریت میں یہ بات کہہ کر کہ خدا سینا سے آیا اور سعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے اُن پر چمکا صاف جتلا دیا کہ جلالیت الہی کا ظہور فاران پر آ کر اپنے کمال کو پہنچ گیا اور آفتاب صداقت کی پوری پوری شعائیں فاران پر ہی آکر ظہور پذیر ہوئیں اور وہی تو ریت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ فاران مکہ معظمہ کا پہاڑ ہے جس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام جد امجد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سکونت پذیر ہوئے اور یہی بات جغرافیہ کے نقشوں سے بپایہ ثبوت پہنچتی ہے اور ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں سے بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی رسول نہیں اُٹھا.سو دیکھو حضرت موسیٰ.کیسی صاف صاف شہادت دی گئی ہے کہ وہ آفتاب صداقت جو فاران کے پہاڑ سے ظہور پذیر ہو گا اُس کی شعاعیں سب سے زیادہ تیز ہیں اور سلسلہ ترقیات نور صداقت اُسی کی ذات جامع برکات پر ختم ہے.اس تمام تقریر کا مدعا وخلاصہ یہ ہے کہ عند العقل قرب الہی کے مراتب تین قسم پر منقسم ہیں اور تیسرا مرتبہ قرب کا جو مظہر اتم الوہیت اور آئینہ خدا نما ہے حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسلم ہے جس کی شعاعیں ہزار ہا دلوں کو منور کر رہی ہیں اور بے شمار سینوں کو اندرونی ظلمتوں سے پاک کر کے نور قدیم تک پہنچا رہے ہیں.وَلِلَّهِ دَرُّ الْقَائِل محمد عربی بادشاہ ہر دو سرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی کیا ہی خوش نصیب وہ آدمی ہے جس نے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشوائی کے لئے قبول کیا اور قرآن شریف کو رہنمائی کے لئے اختیار کر لیا.اللهم صل علی سیدنا و مولانا محمد واله و اصحابه الحمد لله الذى هدى قلبنا لحبه و لحب رسوله و جميع عباده المقربين.تا بر دلم نظر شد از مهر و ماه مارا کردست سیم خالص قلب سیاه مارا لطف عمیم دلبر ہر دم مرا بخواند ہر چند می زنند این اغیار راه مارا در کوئے دلستانم چوں خاک کو شب و روز دیگر نشان چه باشد اقبال و جاه مارا اے سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۳۲ تا ۳۰۱ حاشیه ) اجمعين.ے جب میرے دل پر میرے چاند نے محبت کی نظر ڈالی تو میرے سیاہ دل کو خالص چاندی بنا دیا.دلبر کی عالمگیر مہربانیاں مجھے بلا رہی ہیں ہر چند کہ یہ غیر لوگ ہمارے راستہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں.میں تو دن رات اپنے محبوب کے کوچہ میں خاک کی طرح پڑا رہتا ہوں اس سے بڑھ کر ہمارے عزت و اقبال کی اور کیا علامت ہے.

Page 452

۴۴۲ قرآن شریف میں اس مسئلہ کو ایک عمدہ مثال میں بیان کیا ہے جو ذیل میں معہ ایک لطیف تحقیقات جو اس کی تفسیر سے متعلق اور بحث ہذا کی تکمیل کے لئے ضروری ہے لکھی جاتی ہے اور وہ یہ ہے اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحُ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يَوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيِّ ، وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُوْرٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ الجزو نمبر ١٨ خدا آسمان وزمین کا نور ہے یعنی ہر ایک ٹور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے خواہ وہ ارواح میں ہے خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی اُسی کے فیض کا عطیہ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرتِ ربّ العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہو رہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں.وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا عِلتُ الْعِلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے.اُسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیروزبر کی پناہ ہے.وہی ہے جس نے ہر یک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا.بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ خاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور رُوح اور جسم سب اُسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں.یہ تو عام فیضان ہے جس کا بیان آیت الله نُورُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ میں ظاہر فرمایا گیا.یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہر یک چیز پر احاطہ کر رکھا ہے جس کے فائز ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں لیکن بمقابلہ اس کے ایک خاص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے اور انہیں افرادِ خاصہ پر فائض ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت و استعداد موجود ہے.یعنی نفوس کاملہ انبیاء علیہم السلام پر جن میں سے افضل و اعلی ذات جامع البرکات حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے دوسروں پر ہرگز نہیں ہوتا.اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت باریک صداقت ہے اور دقائق حکمیہ میں سے ایک دقیق مسئلہ ہے اس لئے خداوند تعالیٰ نے اوّل فیضان عام کو ( جو بدیہی الظہور ہے ) بیان کر کے پھر اس فیضان خاص کو بغرض اظہار کیفیت نور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثال میں بیان فرمایا ہے کہ جو اس آیت النور : ٣٦

Page 453

۴۴۳ سے شروع ہوتی ہے.مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الخ.اور بطور مثال اس لئے بیان کیا کہ تا اس دقیقہ نازک کے سمجھنے میں ابہام اور دقت باقی نہ رہے کیونکہ معانی معقولہ کو ھو رِمحسوسہ میں بیان کرنے سے ہر ایک نبی و بلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے.بقیہ ترجمہ آیات ممدوحہ یہ ہے.اُس نور کی مثال (فرد کامل میں جو پیغمبر ہے ) یہ ہے جیسے ایک طاق (یعنی سینہ مشروح حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) اور طاق میں ایک چراغ (یعنی وحی اللہ ) اور چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں جو نہایت مصفی ہے یعنی نہایت پاک اور مقدس دل میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہے جو کہ اپنی اصل فطرت میں شیعہ سفید اور صافی کی طرح ہر ایک طور کی کثافت اور کدورت سے منزہ اور مظہر ہے.اور تعلقات ماسوی اللہ سے بکلی پاک ہے) اور شیشہ ایسا صاف کہ گویا اُن ستاروں میں سے ایک عظیم القو رستارہ ہے جو کہ آسمان پر بڑی آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے نکلتے ہیں جن کو کوکب دری کہتے ہیں.(یعنی حضرت خاتم الانبیاء کا دل ایسا صاف کہ کو کپ دری کی طرح نہایت منور اور درخشندہ جس کی اندرونی روشنی اس کے بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر آتی ہے ) وہ چراغ زیتون کے شجرہ مبارکہ سے (یعنی زیتون کے روغن سے ) روشن کیا گیا ہے.(شجرہ مبارکہ زیتون سے مراد وجود مبارک محمدی ہے کہ جو بوجہ نہایت جامعیت و کمال انواع و اقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علی سبیل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے کبھی منقطع نہیں ہوگا ) اور شجرہ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی (یعنی طینت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریط.بلکہ نہایت توسط واعتدال پر واقع ہے اور احسن تقویم پر مخلوق ہے اور یہ جو فرمایا کہ اس شجرہ مبارکہ کے روغن سے چراغ وحی روشن کیا گیا ہے سو روغن سے مراد عقلِ لطیف نورانی محمدی معہ جمیع اخلاق فاضلہ فطرتیہ ہے جو اس عقل کامل کے چشمہ صافی سے پروردہ ہیں.اور وحی کا چراغ لطائف محمدیہ سے روشن ہونا ان معنوں کر کے ہے کہ ان لطائف قابلہ پر وحی کا فیضان ہوا اور ظہور وحی کا موجب وہی ٹھہرے.اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ فیضانِ وحی ان لطائف محمدیہ کے مطابق ہوا اور انہیں اعتدالات کے مناسب حال ظہور میں آیا کہ جو طینت محمدیہ میں موجود تھی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر یک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا.توریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی سوانجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقع

Page 454

۴۴۴ تھا نہ ہر جگہ حلم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا.بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقع کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی سو قرآن شریف بھی اسی طر ز موزون و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت و رحمت و ہیبت و شفقت ونرمی و درشتی ہے.سو اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا کہ چراغ وحی فرقان اس شجرہ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے کہ نہ شرقی ہے اور نہ غربی یعنی طینت معتدلہ محمدیہ کے موافق نازل ہوا ہے.جس میں نہ مزاج موسوی کی طرح درشتی ہے نہ مزاج عیسوی کی مانند نرمی بلکہ درشتی اور نرمی اور قہر اور لطف کا جامع ہے.اور مظہر کمال اعتدال اور جامع بین الجلال والجمال ہے.اور اخلاق معتدلہ فاضلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ جو معیت عقل لطیف روغن ظہور روشنی و حی قرار پائی اُن کی نسبت ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے.اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ يا نمبر ۲۹ یعنی تو اے نبی ایک خلق عظیم پر مخلوق و مفطور ہے یعنی اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا مستم و مکمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں کیونکہ لفظ عظیم محاورہ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو.مثلاً جب کہیں کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جس قدر طول وعرض درخت میں ہو سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ عظیم وہ چیز ہے جس کی عظمت اس حد تک پہنچ جائے کہ حیطہ ادراک سے باہر ہو.اور خلق کے لفظ سے قرآن شریف اور ایسا ہی دوسری کتب حکمیہ میں صرف تازه روی اور حسنِ اختلاط یا نرمی و تلطف و ملائمت ( جیسا عوام الناس خیال کرتے ہیں ) مراد نہیں ہے.بلکہ خلق بفتح خا اور خُلق بضم خا د ولفظ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل واقعہ ہیں.خلق بفتح خا سے مراد وہ صورت ظاہری ہے جو انسان کو حضرت وَاهِبُ الصُّوَر کی طرف سے عطا ہوئی جس صورت کے ساتھ وہ دوسرے حیوانات کی صورتوں سے ممیز ہے اور خلق بضم خا سے مراد وہ صورت باطنی یعنی خواص اندرونی ہیں جن کی رو سے حقیقت انسانیہ حقیقت حیوانیہ سے امتیاز کلی رکھتی ہے.پس جس قدر انسان میں من حیث الانسانیت اندرونی خواص پائے جاتے ہیں اور شجرہ انسانیت کو نچوڑ کر نکل سکتے ہیں.جو کہ انسان اور حیوان میں من حیث الباطن مابہ الامتیاز ہیں ان سب کا نام خلق ہے.اور چونکہ شجرۂ فطرت انسانی اصل میں توسط اور اعتدال پر واقعہ ہے اور ہر یک افراط و تفریط سے جو قومی حیوانیہ میں پایا جاتا ہے.منزہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقویم کے نمبر ۳۰.اس لئے خُلق کے لفظ سے جو کسی مذمت کی قید کے بغیر بولا القلم : ۵ التين : ۵

Page 455

۴۴۵ جائے ہمیشہ اخلاق فاضلہ مراد ہوتے ہیں.اور وہ اخلاق فاضلہ جو حقیقت انسانیہ ہے تمام وہ خواص اندرونی ہیں جو نفس ناطقہ انسان میں پائے جاتے ہیں.جیسے عقل، ذکا، سرعت فہم ، صفائی ذہن ، حسن تحفظ، حسن تذکر ، عفت، حیا، صبر، قناعت، زہد، تورع، جوانمردی، استقلال، عدل، امانت، صدق لہجہ، سخاوت فی محله ، ایثار فی محله ، کرم فی محله ، مروّت فی محلہ ، شجاعت فی محلہ ، علو ہمت فی محلہ حلم في محله تحمل في محلہ ، حمیت فی محله تواضع في محلہ ، ادب في محله ، شفقت في محله، رأفت في محله رحمت فی محلہ ، خوف الہی ، محبت الہیہ، انس بالله ، انقطاع الی اللہ وغیرہ وغیرہ ) اور تیل ایسا صاف اور لطیف کہ بن آگ ہی روشن ہونے پر آمادہ (یعنی عقل اور جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خود بخود روشن ہونے پر مستعد تھے ) نُورٌ عَلَى نُورٍ نور فائض ہوا نور پر یعنی جب کہ وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے.سوان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الہی ہے وارد ہو گیا اور اُس نور کے وارد ہونے سے وجو د باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۹۱ تا ۱۹۵ حاشیہ نمبر ۱۱) معراج انقطاع تام تھا اور سر اس میں یہ تھا کہ تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقطہ نفسی کو ظاہر کیا جاوے.آسمان پر ہر ایک روح کے لئے ایک نقطہ ہوتا ہے اس سے آگے وہ نہیں جاتی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطہ نفسی عرش تھا اور رفیق اعلیٰ کے معنے بھی خدا ہی کے ہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی معزز و مکرم نہیں ہے.الحکم مورخہ ۷ار فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ے کالم نمبر ۲.ملفوظات جلد ا صفحه ۳۹۶ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا جس کو درحقیقت بیداری کہنا چاہئے.ایسے کشف کی حالت میں انسان ایک نوری جسم کے ساتھ حسب استعداد نفس ناطقہ اپنے کے آسمانوں کی سیر کر سکتا ہے.پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس ناطقہ کی اعلیٰ درجہ کی استعداد تھی اور انتہائی نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے وہ اپنی معراجی سیر میں معمورہ عالم کے انتہائی نقطہ تک جو عرش عظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے پہنچ گئے.سو در حقیقت یہ سیر کشفی تھا جو بیداری سے اشد درجہ پر مشابہ ہے بلکہ ایک قسم کی بیداری ہی ہے میں اس کا نام خواب ہر گز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنی درجوں میں سے اس کو سمجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے جو درحقیقت بیداری بلکہ اس کثیف بیداری

Page 456

سے یہ حالت زیادہ اصفی اور اجلی ہوتی ہے اور اس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب تجر بہ ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲۶ حاشیہ) جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اُس کی نظر محدود نہ تھی اور اس کی عام غم خواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا.بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان اُس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی.اس لئے قدرت کی تجلیات کا پورا اور کامل حصہ اس کو ملا اور وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اُس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا.اور اس کی امت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے.اور اُس کی ہمت اور ہمدردی نے امت کو ناقص حالت پر چھوڑ نا نہیں چاہا اور اُن پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑ ہے.بند رہنا گوارا نہیں کیا.ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیض وحی آپ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص اُمتی نہ ہو اُس پر وحی الہی کا دروازہ بند ہو.سو خدا نے ان معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھیرایا.لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص کچی پیروی سے اپنا اُمتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہوسکتا ہے.کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے.مگر ظلی نبوت جس کے معنے ہیں کہ محض فیض محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفت الہیہ جو مدار نجات ہے مفقود نہ ہو جائے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰،۲۹) میں بڑے یقین اور دعوی سے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمالات نبوت ختم ہو گئے وہ شخص جھوٹا اور مفتری ہے جو آپ کے خلاف کسی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اور آپ کی نبوت سے الگ ہو کر کوئی صداقت پیش کرتا اور چشمہ نبوت کو چھوڑتا ہے.میں کھول کر کہتا ہوں کہ وہ شخص لعنتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا آپ کے بعد کسی اور کو نبی یقین کرتا ہے اور آپ کی ختم نبوت کو توڑتا ہے.یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آ سکتا جس کے پاس وہی

Page 457

۴۴۷ مہر نبوت محمدی نہ ہو.ہمارے مخالف الرائے مسلمانوں نے یہی غلطی کھائی ہے کہ وہ ختم نبوت کی مہر کو توڑ کر اسرائیلی نبی کو آسمان سے اُتارتے ہیں.اور میں یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور آپ کی ابدی نبوت کا یہ ادنی کرشمہ ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد بھی آپ ہی کی تربیت اور تعلیم سے مسیح موعود آپ کی امت میں وہی مہر نبوت لے کر آتا ہے.اگر یہ عقیدہ کفر ہے تو پھر میں اس کفر کو عزیز رکھتا ہوں لیکن یہ لوگ جن کی عقلیں تاریک ہو گئی ہیں جن کو نور نبوت سے حصہ نہیں دیا گیا اس کو سمجھ نہیں سکتے.اور اس کو کفر قرار دیتے ہیں.حالانکہ یہ وہ بات ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اور آپ کی زندگی کا ثبوت ہوتا ہے.(الحکم ۱۰ جون ۱۹۰۵ء صفحه ۲ کالم۲) تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جو پہلے گزر چکیں اُن کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمد یہ ان سب پر مشتمل اور حاوی ہے.اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں.تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اسی کے اندر ہیں.نہ اس کے بعد کوئی نئی سچائی آئے گی اور نہ اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں اس لئے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اور ہونا چاہئے تھا کیونکہ جس چیز کے لئے ایک آغاز ہے اس کے لئے ایک انجام بھی ہے.لیکن یہ نبوت محمد یہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا.مگر اس کا کامل پیر وصرف نبی نہیں کہلا سکتا کیونکہ نبوت کا ملہ نامہ محمد یہ کی اس میں ہتک ہے ہاں اُمتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اس پر صادق آ سکتے ہیں.کیونکہ اس میں نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کی ہتک نہیں بلکہ اس نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ تر ظاہر ہوتی ہے.( الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۱) ہم تو کہتے ہیں کہ کافر ہے وہ شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے ذرہ بھر بھی ادھر ادھر ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے روگردانی کرنے والا ہی ہمارے نزدیک جب کافر ہے تو پھر اس شخص کا کیا حال جو کوئی نئی شریعت لانے کا دعوی کرے یا قرآن اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تغیر و تبدل کرے یا کسی حکم کو منسوخ جانے.ہمارے نزدیک تو مومن وہی ہے جو قرآن شریف کی سچی پیروی کرے اور قرآن شریف ہی کو خاتم الکتب یقین کرے اور اسی شریعت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 458

۴۴۸ دُنیا میں لائے تھے اسی کو ہمیشہ تک رہنے والے مانے اور اُس میں ایک ذرہ بھر اور ایک شعشہ بھی نہ بدلے اور اس کی اتباع میں فنا ہو کر اپنا آپ کھو دے اور اپنے وجود کا ہر ذرہ اسی راہ میں لگائے.عملاً اور علماً اس کی شریعت کی مخالفت نہ کرے.تب پکا مسلمان ہوتا ہے.(الحکم ۶ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۵ کالم۲) اکثر نادان عیسائی مغفرت کی کچی حقیقت نہ دریافت کرنے کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جو شخص مغفرت مانگے وہ فاسق اور گنہگار ہوتا ہے مگر مغفرت کے لفظ پر خوب غور کرنے کے بعد صاف طور پر سمجھ آجاتا ہے کہ فاسق اور بد کا روہی ہے جو خدا تعالیٰ سے مغفرت نہیں مانگتا کیونکہ جبکہ ہر یک سچی پاکیزگی اُسی کی طرف سے ملتی ہے اور وہی نفسانی جذبات کے طوفان سے محفوظ اور معصوم رکھتا ہے.تو پھر خدا تعالیٰ کے راستباز بندوں کا ہر یک طرفه العین میں یہی کام ہونا چاہئے کہ وہ اس حافظ اور عاصم حقیقی سے مغفرت مانگا کریں.اگر ہم جسمانی عالم میں مغفرت کا کوئی نمونہ تلاش کریں تو ہمیں اس سے بڑھ کر اور کوئی مثال نہیں مل سکتی کہ مغفرت اس مضبوط اور نا قابل بند کی طرح ہے جو ایک طوفان اور سیلاب کے روکنے کے لئے بنایا جاتا ہے.پس چونکہ تمام زور تمام طاقتیں خدا تعالیٰ کے لئے مسلم ہیں اور انسان جیسا کہ جسم کے رو سے کمزور ہے.رُوح کے رُو سے بھی نا تواں ہے اور اپنے شجرہ پیدائش کے لئے ہر یک وقت اس لازوال ہستی سے آبپاشی چاہتا ہے جس کے فیض کے بغیر یہ جی ہی نہیں سکتا اس لئے استغفار مذکورہ معانی کے رُو سے اس کے لازم حال پڑا ہے اور جیسا کہ چاروں طرف درخت اپنی ٹہنیاں چھوڑتا ہے گویا اردگرد کے چشمہ کی طرف اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا ہے کہ اے چشمہ میری مدد کر اور میری سرسبزی میں کمی نہ ہونے دے اور میرے پھلوں کا وقت ضائع ہونے سے بچا.یہی حال راستبازوں کا ہے روحانی سرسبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یا اس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا بھی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار کے نام سے موسوم کرتا ہے.قرآن شریف کو سوچو اور غور سے پڑھو استغفار کی اعلیٰ حقیقت پاؤ گے اور ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ مغفرت لغت کے رُو سے ایسے ڈھانکنے کو کہتے ہیں جس سے کسی آفت سے بچنا مقصود ہے مثلاً پانی درختوں کے حق میں ایک مغفرت کرنے والا عنصر ہے یعنی اُن کے عیبوں کو ڈھانکتا ہے.یہ بات سوچ لو کہ اگر کسی باغ کو برس دو برس بالکل پانی نہ ملے تو اُس کی کیا شکل نکل آئے گی.کیا یہ سچ نہیں کہ اُس کی خوبصورتی بالکل دور ہو جائے گی اور سرسبزی اور خوشنمائی کا نام ونشان نہیں رہے گا اور وہ وقت پر کبھی پھل

Page 459

۴۴۹ نہیں لائے گا اور اندر ہی اندر جل جائے گا اور پھول بھی نہیں آئیں گے بلکہ اس کے سرسبز اور نرم نرم لہلہاتے ہوئے پتے چند روز ہی میں خشک ہو کر گر جائیں گے اور خشکی غالب ہو کر مجزوم کی طرح آہستہ آہستہ اس کے تمام اعضاء گرنے شروع ہو جائیں گے.یہ تمام بلائیں کیوں اس پر نازل ہوں گی؟ اس وجہ سے کہ وہ پانی جو اس کی زندگی کا مدار تھا اس نے اس کو سیراب نہیں کیا.اسی کی طرف اشارہ ہے جو الله جلّ شانۀ فرماتا ہے كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ لا یعنی پاک کلمہ پاک درخت کی مانند ہے.پس جیسا کہ کوئی عمدہ اور شریف درخت بغیر پانی کے نشوونما نہیں کر سکتا اسی طرح راستباز انسان کے کلمات طیبہ جو اس کے منہ سے نکلتے ہیں اپنی پوری سرسبزی دکھلا نہیں سکتے اور نہ نشو ونما کر سکتے ہیں جب تک وہ پاک چشمہ اُن کی جڑھوں کو استغفار کے نالے میں بہہ کر تر نہ کرے.سو انسان کی رُوحانی زندگی استغفار سے ہے جس کے نالے میں ہو کر حقیقی چشمہ انسانیت کی جڑھوں تک پہونچتا ہے اور خشک ہونے اور مرنے سے بچالیتا ہے.جس مذہب میں اس فلسفہ کا ذکر نہیں وہ مذہب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہیں اور جس شخص نے نبی یا رسول یا راستباز یا پاک فطرت کہلا کر اس چشمہ سے منہ پھیرا ہے وہ ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.اور ایسا آدمی خدا تعالیٰ سے نہیں بلکہ شیطان سے نکلا ہے کیونکہ شیط مرنے کو کہتے ہیں.پس جس نے اپنے روحانی باغ کو سر سبز کرنے کے لئے اُس حقیقی چشمہ کو اپنی طرف کھینچنا نہیں چاہا اور استغفار کے نالے کو اس چشمہ سے لبالب نہیں کیا وہ شیطان ہے یعنی مرنے والا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ کوئی سرسبز درخت بغیر پانی کے زندہ رہ سکے.ہر یک متکتمر جو اس زندگی کے چشمہ سے اپنے روحانی درخت کو سر سبز کرنا نہیں چاہتا وہ شیطان ہے اور شیطان کی طرح ہلاک ہو گا.کوئی راستباز نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے استغفار کی حقیقت سے منہ پھیرا اور اس حقیقی چشمہ سے سرسبز ہونا نہ چاہا.ہاں سب سے زیادہ اس سرسبزی کو ہمارے سید و مولی ختم المرسلین فخر الاولین والآخرین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگا اس لئے خدا نے اس کو اس کے تمام ہم منصبوں سے زیادہ سرسبز اور معطر کیا.( نور القرآن نمبرا.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۵۶ تا ۳۵۸) آپ کے مبارک ناموں میں ایک ستر یہ ہے کہ محمد اور احمد جو دو نام ہیں اُن میں دو جداجدا کمال ہیں.محمد کا نام جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے جو نہایت درجہ تعریف کیا گیا ہے اور اس میں ایک معشوقانہ رنگ ہے کیونکہ معشوق کی تعریف کی جاتی ہے.پس اس میں جلالی رنگ ہونا ضروری ہے.مگر احمد کا نام اپنے اندر عاشقانہ رنگ رکھتا ہے کیونکہ تعریف کرنا عاشق کا کام ہے.وہ اپنے محبوب اور معشوق کی تعریف ابراهیم : ۲۵

Page 460

۴۵۰ کرتا رہتا ہے.اس لئے جیسے محمدؐ محبوبانہ شان میں جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے اسی طرح پر احمد عاشقانہ شان میں ہو کر غربت اور انکساری کو چاہتا ہے.اس میں ایک تریہ تھا کہ آپ کی زندگی کی تقسیم دوحصوں پر کر دی گئی.ایک تو ملکی زندگی جو ۱۳ برس کے زمانہ کی ہے اور دوسری وہ زندگی جو مدنی زندگی ہے اور وہ دس برس کی ہے.ملکہ کی زندگی میں اسم احمد کی تجلی تھی.اس وقت آپ کے دن رات خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و بکا اور طلب استعانت اور دعا میں گزرتی تھی.اگر کوئی شخص آپ کی اس زندگی کے بسر اوقات پر پوری اطلاع رکھتا ہو تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ جو تضرع اور زاری آپ نے اس مکی زندگی میں کی ہے وہ کبھی کسی عاشق نے اپنے محبوب و معشوق کی تلاش میں کبھی نہیں کی اور نہ کر سکے گا.پھر آپ کی تضرع اپنے لئے نہ تھی بلکہ یہ تضرع دنیا کی حالت کی پوری واقفیت کی وجہ سے تھی.خدا پرستی کا نام ونشان چونکہ مٹ چکا تھا اور آپ کی رُوح اور خمیر میں اللہ تعالیٰ میں ایمان رکھ کر ایک لذت اور ایک سرور آچکا تھا اور فطرتا دنیا کو اس لذت اور محبت سے سرشار کرنا چاہتے تھے.ادھر دنیا کی حالت کو دیکھتے تھے تو اُن کی استعداد میں اور فطرتیں عجیب طرز پر واقع ہو چکی تھیں اور بڑے مشکلات اور مصائب کا سامنا تھا.غرض دنیا کی اس حالت پر آپ گریہ وزاری کرتے تھے اور یہاں تک کرتے تھے کہ قریب تھا کہ جان نکل جاتی.اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِینَ یا یہ آپ کی متضرعانہ زندگی تھی اور اسم احمد کا ظہور تھا اس وقت آپ ایک عظیم الشان توجہ میں پڑے ہوئے تھے.اس توجہ کا ظہور مدنی زندگی اور اسم محمد کی تجلی کے وقت ہوا جیسا کہ اس آیت سے پتہ لگتا ہے.وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدِ ( الحکم ۱۷ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۴.ملفوظات جلد اوّل صفحه ۴۲۳ جدید ایڈیشن) جو شخص قرآن کریم کی اسالیب کلام کو بخوبی جانتا ہے اس پر یہ پوشیدہ نہیں کہ بعض اوقات وہ کریم و رحیم جل شانہ اپنے خواص عباد کے لئے ایسا لفظ استعمال کر دیتا ہے کہ بظاہر بدنما ہوتا ہے مگر معنا نہایت محمود اور تعریف کا کلمہ ہوتا ہے.جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی کریم کے حق میں فرمایا.وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدی.اب ظاہر ہے کہ مال کے معنے مشہور اور متعارف جواہل لغت کے منہ پر چڑھے ہوئے ہیں گمراہ کے ہیں.جس کے اعتبار سے آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے (اے رسول اللہ ) تجھ کوگمراہ پایا اور ہدایت دی حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہ نہیں ہوئے اور الشعراء : ابراهیم: ۱۶ الضحى : ۸

Page 461

۴۵۱ جو شخص مسلمان ہو کر یہ اعتقادر کھے کہ کبھی آنحضرت صلعم نے اپنی عمر میں ضلالت کا عمل کیا تھا تو وہ کافر بے دین اور حد شرعی کے لائق ہے بلکہ آیت کے اس جگہ وہ معنی لینے چاہے جو آیت کے سیاق اور سباق سے ملتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اللہ جل شانہ نے پہلے آنحضرت صلعم کی نسبت فرمایا.اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيما فاوى - وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَى وَوَجَدَكَ عَابِلًا فَاغْنى ا یعنی خدا تعالیٰ نے تجھے یتیم اور بے کس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو صال (یعنی عاشق وجه الله ) پایا پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش پا یا پس غنی کر دیا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۱،۱۷۰) حضرت موسیٰ بردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبۂ عالیہ تک پہنچ سکے توریت سے ثابت ہے جو حضرت موسیٰ رفق اور علم اور اخلاق فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے.جیسا کہ گفتی باب دوازدهم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو روئے زمین پر تھے زیادہ بردبار تھا.سوخدا نے توریت میں موسیٰ کی بُردباری کی ایسی تعریف کی جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے.ہاں جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے.اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ تو خلق عظیم پر ہے.اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اُس چیز کی انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہو گا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول وعرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے.ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائل حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کا ملہ نامہ نفس محمدی میں موجود ہیں.سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا :- وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا کے یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا.یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب ۴۵ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی الضحى : ۷ تا ۹ القلم : ۵ ۳ النساء : ۱۱۴

Page 462

۴۵۲ شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا ہے کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا.( براہین احمدیہ ہر چہار حص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۰۶،۶۰۵ حاشیہ نمبر۳) قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَ لَتَنْصُرُنَّه لے پس اس طرح تمام انبیاء علیہم السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہوئے.ا ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے.پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسی بھی اور آدم بھی اور ابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی.اسی کی طرف الله جل شانہ فرماتا ہے فَبِهَدهُمُ اقْتَدِہ سے یعنی اے رسول الله تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کر لے جو ہر یک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا.پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیں اور درحقیقت محمد کا نام صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنے ہیں کہ بغایت تعریف کیا گیا.اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالاتِ متفرقہ اور صفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں.چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک با عتبارا اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر یک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسبت پا کر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر وہ آنے والا ہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری مسیح سے بشدت مناسبت ہے اور اُس کے وجود سے میرا وجود ملا ہوا ہے.پس اس حدیث میں حضرت مسیح کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا.سو ایسا ہی ہوا کہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اُس نے مسیح ناصری کے نا تمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کے لئے گواہی دی اور اُن تہمتوں سے اُس کو بری قرار دیا جو یہود اور نصاری نے اس پر لگائی ۹۱: ال عمران :۸۲ الانعام :

Page 463

۴۵۳ تھیں اور مسیح کی رُوح کو خوشی پہنچائی.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۳) وحی الہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی صفات کمالیہ کا چہرہ حسب صفائی باطن نبی منزل علیہ کے نظر آتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاک باطنی وانشراح صدری و عصمت و حیا و صدق و صفا و تو گل و وفا اور عشق الہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل واعلیٰ و اکمل وارفع و اجلی واصفی تھے اس لئے خدائے جلّ شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقوئی و اکمل وارفع واتم ہو کر صفات الہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو.سو یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف ایسے کمالاتِ عالیہ رکھتا ہے جو اس کی تیز شعاعوں اور شوخ کرنوں کے آگے تمام صحف سابقہ کی چمک کالعدم ہو رہی ہے.کوئی ذہن ایسی صداقت نکال نہیں سکتا جو پہلے ہی سے اس میں درج نہ ہو.کوئی فکر ایسی برہان عقلی پیش نہیں کر سکتا جو پہلے ہی سے اس نے پیش نہ کی ہو.کوئی تقریر ایسا توی اثر کسی دل پر ڈال نہیں سکتی جیسے قوی اور پر برکت اثر لاکھوں دلوں پر وہ ڈالتا آیا ہے.وہ بلاشبہ صفات کمالیہ حق تعالیٰ کا ایک نہایت مصفی آئینہ ہے جس میں سے وہ سب کچھ ملتا ہے جو ایک سالک کو مدارج عالیہ معرفت تک پہنچنے کے لئے درکار ہے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۱ ۷۲ حاشیہ ) چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیا اور سب رسولوں سے بہتر اور بزرگ تر تھے اور خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ جیسے آنحضرت اپنے ذاتی جوہر کے رُو سے فی الواقعہ سب انبیاء کے سردار ہیں ایسا ہی ظاہری خدمات کے رُو سے بھی ان کا سب سے فائق اور برتر ہونا دنیا پر ظاہر اور روشن ہو جائے اس لئے خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو کافہ بنی آدم کے لئے عام رکھا تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتیں اور کوششیں عام طور پر ظہور میں آدیں.موسی اور ابن مریم کی طرح ایک خاص قوم سے مخصوص نہ ہوں اور تا ہر یک طرف سے اور ہر یک گروہ اور قوم سے تکالیف شاقہ اٹھا کر اس اجر عظیم کے مستحق ٹھہر جائیں کہ جو دوسرے نبیوں کو نہیں ملے گا.(براہین احمدیہ ہر چہار حص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۶۵۴،۶۵۳) میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اُس وقت تک گذر

Page 464

۴۵۴ چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہرگز نہ کر سکتے.اُن میں وہ دل، وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی کو لی تھی.اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا.میں نبیوں کی عزت وحرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں لیکن نبی کریم کی فضلیت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میری رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے.یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں.بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ الحکم ۱۷ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۲ ۳.ملفوظات جلد اول صفحه ۴۲۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) یہودیوں کی کتب مقدسہ میں نہایت صفائی سے بیان کیا گیا ہے کہ موسیٰ کی مانند ایک منجی ان کے لئے بھیجا جائے گا.یعنی وہ ایسے وقت میں آئے گا کہ جب قوم یہود فرعون کے زمانہ کی طرح سخت ذلّت اور دُکھ میں ہو گی اور پھر اس منجی پر ایمان لانے سے وہ تمام دکھوں اور ذلتوں سے رہائی پائیں گے تو کچھ شک نہیں کہ یہ پیشگوئی جس کی طرف یہود کی ہر زمانہ میں آنکھیں لگی رہی ہیں وہ ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے ذریعہ سے توریت کی پیشگوئی کمال وضاحت سے پوری ہوگئی کیونکہ جب یہودی ایمان لائے تو اُن میں سے بڑے بڑے بادشاہ ہوئے.یہ اس بات پر دلیل واضح ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام لانے سے ان کا گناہ بخشا اور اُن پر رحم کیا جیسا کہ توریت میں وعدہ تھا.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۰۳٬۳۰۲) مسیح کو جو کچھ بزرگی ملی وہ بوجہ تابعداری حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ملی کیونکہ مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی خبر دی گئی اور مسیح آنجناب پر ایمان لایا اور بوجہ اس ایمان کے مسیح نے نجات پائی.الحکم ۳۰ / جون ۱۹۰۱ ء صفحه ۳ کالم نمبر ۲) جب ہم حضرت مسیح اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات میں بھی مقابلہ کرتے ہیں کہ موجودہ گورنمنٹوں نے اُن کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور کس قدر ان کے ربانی رعب یا الہی تائید نے اثر دکھایا تو ہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح میں بمقابلہ جناب مقدس نبوی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خدائی تو کیا نبوت کی شان بھی پائی نہیں جاتی.جناب مقدس نبوی کے جب پادشاہوں کے نام فرمان جاری ہوئے تو قیصر روم نے آہ بھینچ کر کہا کہ میں تو عیسائیوں کے پنجہ میں مبتلا ہوں.کاش اگر مجھے اس

Page 465

۴۵۵.جگہ سے نکلنے کی گنجایش ہوتی تو میں اپنا فخر سمجھتا کہ خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور غلاموں کی طرح جناب مقدس کے پاؤں دھویا کروں مگر ایک خبیث اور پلید دل پادشاہ کسری ایران کے فرماں روا نے غصہ میں آ کر آپ کے پکڑنے کے لئے سپاہی بھیج دیئے.وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا کہ ہمیں گرفتاری کا حکم ہے.آپ نے اس بے ہودہ بات سے اعراض کر کے فرمایا.تم اسلام قبول کرو.اُس وقت آپ صرف دو چار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر ربانی رُعب سے وہ دونوں بید کی طرح کانپ رہے تھے.آخر انہوں نے کہا کہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے؟ کہ ہم جواب ہی لے جائیں.حضرت نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا.صبح کو جو وہ حاضر ہوئے تو آنجناب نے فرمایا کہ وہ جسے تم خداوند خداوند کہتے ہو وہ خدا وند نہیں ہے.خداوند وہ ہے جس پر موت اور فنا طاری نہیں ہوتی مگر تمہارا خداوند آج رات کو مارا گیا.میرے بچے خداوند نے اُسی کے بیٹے شیرویہ کو اُس پر مسلط کر دیا.سو وہ آج رات اُس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور یہی جواب ہے.یہ بڑا معجزہ تھا.اس کو دیکھ کر اس ملک کے ہزار ہا لوگ ایمان لائے کیونکہ اُسی رات در حقیقت خسرو پرویز یعنی کسری مارا گیا تھا اور یا درکھنا چاہئے کہ یہ بیان انجیلوں کی بے سروپا اور بے اصل باتوں کی طرح نہیں بلکہ احادیث صحیحہ اور تاریخی ثبوت اور مخالفوں کے اقرار سے ثابت ہے.چنانچہ ڈیون پورٹ صاحب بھی اس قصہ کو اپنی کتاب میں لکھتا ہے لیکن اُس وقت کے بادشاہوں کے سامنے حضرت مسیح کی جو عزت تھی وہ آپ پر پوشیدہ نہیں وہ اوراق شائد اب تک انجیل میں موجود ہوں گے جن میں لکھا ہے کہ ہیرودیس نے حضرت مسیح کو مجرموں کی طرح پیلاطوس کی طرف چالان کیا.اور وہ ایک مدت تک شاہی حوالات میں رہے کچھ بھی خدائی پیش نہیں گئی.اور کسی پادشاہ نے یہ نہ کہا کہ میرا فخر ہوگا اگر میں اُس کی خدمت میں رہوں اور اس کے پاؤں دھویا کروں بلکہ پلاطوس نے یہودیوں کے حوالہ کر دیا.کیا یہی خدائی تھی ؟ عجیب مقابلہ ہے.دو شخصوں کو ایک ہی قسم کے واقعات پیش آئے اور دونوں نتیجہ میں ایک دوسرے سے بالکل ممتاز ثابت ہوتے ہیں.ایک شخص کے گرفتار کرنے کو ایک متکبر جبار کا شیطان کے وسوسہ سے برانگیختہ ہونا اور خود آخر لعنت الہی میں گرفتار ہو کر اپنے بیٹے کے ہاتھ سے بڑی ذلت کے ساتھ قتل کیا جانا.اور ایک دوسرا انسان ہے جسے قطع نظر اپنے اصلی دعووں کے غلو کرنے والوں نے آسمان پر چڑھا رکھا ہے سچ سچ گرفتار ہو جانا.چالان کیا جانا اور عجیب ہیئت کے ساتھ ظالم پولیس کی حوالت میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل کیا جانا.( نور القرآن نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴ ۳۸ تا ۳۸۶)

Page 466

۴۵۶ ایک وہ زمانہ تھا کہ انجیل کے واعظ بازاروں اور گلیوں اور کوچوں میں نہایت دریدہ دہانی سے اور سراسر افترا سے ہمارے سید و مولی خاتم الانبیاء اور افضل الرسل والاصفیاء اور سید المعصومین والاتقیاء حضرت محبوب جناب احدیت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ قابل شرم جھوٹ بولا کرتے تھے کہ گویا آنجناب سے کوئی پیشگوئی یا معجزہ ظہور میں نہیں آیا اور اب یہ زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے علاوہ ان ہزار ہا معجزات کے جو ہمارے سرور و مولی شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف اور احادیث میں اس کثرت سے مذکور ہیں جو اعلیٰ درجہ کے تو اتر پر ہیں.تازہ بتازہ صد ہانشان ایسے ظاہر فرمائے ہیں کہ کسی مخالف اور منکر کو اُن کے مقابلہ کی طاقت نہیں.ہم نہایت نرمی اور انکسار سے ہر ایک عیسائی صاحب اور دوسرے مخالفوں کو کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ در حقیقت یہ بات سچ ہے کہ ہر ایک مذہب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو کر اپنی سچائی پر قائم ہوتا ہے اس کے لئے ضرور ہے کہ ہمیشہ اُس میں ایسے انسان پیدا ہوتے رہیں کہ جو اپنے پیشوا اور ہادی اور رسول کے نائب ہو کر یہ ثابت کریں کہ وہ نبی اپنی روحانی برکات کے لحاظ سے زندہ ہے فوت نہیں ہوا کیونکہ ضرور ہے کہ وہ نبی جس کی پیروی کی جائے جس کو شفیع اور منجی سمجھا جائے وہ اپنی روحانی برکات کے لحاظ سے ہمیشہ زندہ ہو اور عزت اور رفعت اور جلال کے آسمان پر اپنے چمکتے ہوئے چہرہ کے ساتھ ایسا بدیہی طور پر مقیم ہو اور خدائے ازلی ابدی حتی قیوم ذوالاقتدار کے دائیں طرف بیٹھنا اُس کا ایسے پُر زور الہی نوروں سے ثابت ہو کہ اُس سے کامل محبت رکھنا اور اُس کی کامل پیروی کرنا لازمی طور پر اس نتیجہ کو پیدا کرتا ہو کہ پیروی کرنے والا روح القدس اور آسمانی برکات کا انعام پائے اور اپنے پیارے نبی کے نوروں سے نور حاصل کر کے اپنے زمانہ کی تاریکی کو دُور کرے اور مستعد لوگوں کو خدا کی ہستی پر وہ پختہ اور کامل اور درخشاں اور تاباں یقین بخشے جس سے گناہ کی تمام خواہشیں اور سفلی زندگی کے تمام جذبات جل جاتے ہیں.یہی ثبوت اس بات کا ہے کہ وہ نبی زندہ اور آسمان پر ہے.سو ہم اپنے خدائے پاک ذوالجلال کا کیا شکر کریں کہ اس نے اپنے پیارے نبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی کی توفیق دے کر اور پھر اس محبت اور پیروی کے رُوحانی فیضوں سے جو کچی تقوی اور بچے آسمانی نشان ہیں کامل حصہ عطا فرما کر ہم پر ثابت کر دیا کہ وہ ہمارا پیارا برگزیدہ نبی فوت نہیں ہوا بلکہ وہ بلند تر آسمان پر اپنے ملیک مقتدر کے دائیں طرف بزرگی اور جلال کے تخت پر بیٹھا ہے.اللَّهُمْ صَلَّ عَلَيْهِ وَ بَارِكْ وَسَلَّم - إِنَّ اللهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي

Page 467

۴۵۷ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيمًا اب ہمیں کوئی جواب دے کہ روئے زمین پر یہ زندگی کسی نبی کے لئے بجز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت ہے؟ کیا حضرت موسی کے لئے ؟ ہرگز نہیں.کیا حضرت داؤد کے لئے؟ ہرگز نہیں.کیا حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے؟ ہر گز نہیں.کیا راجہ رامچندر یا راجہ کرشن کے لئے ؟ ہر گز نہیں.کیا وید کے ان رشیوں کے لئے جن کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے دلوں پر وید کا پر کاش ہوا تھا؟ ہرگز نہیں.جسمانی زندگی کا ذکر بے سود ہے اور حقیقی اور روحانی اور فیض رساں زندگی وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی زندگی کے مشابہ ہوکر نور اور یقین کے کرشمے نازل کرتی ہو ورنہ جسمانی وجود کے ساتھ ایک لمبی عمر پانا اگر فرض بھی کر لیں اور فرض کے طور پر مان بھی لیں کہ ایسی عمر کسی کو دی گئی ہے تو کچھ بھی جائے فخر نہیں.مصر کی بعض پورانی عمارتیں ہزار ہا برس سے چلی آتی ہیں اور بابل کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں جن میں اُتو بولتے ہیں اور اس ملک میں اجودھیا اور بندرا بن بھی پُرانے زمانے کی آبادیاں ہیں اور اٹلی اور یونان میں بھی ایسی قدیم عمارتیں پائی جاتی ہیں تو کیا اس جسمانی طور پر لمبی عمر پانے سے یہ تمام چیزیں اُس جلال اور بزرگی سے حصہ لے سکتی ہیں جو روحانی زندگی کی وجہ سے خدا کے مقدس لوگوں کو حاصل ہوتی ہے.اب اس بات کا فیصلہ ہو گیا ہے کہ اس روحانی زندگی کا ثبوت صرف ہمارے نبی علیہ السلام کی ذات بابرکات میں پایا جاتا ہے.خدا کی ہزاروں رحمتیں اس کے شامل حال رہیں.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۷ تا ۱۳۹) ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ہزار سے زیادہ معجزات ہوئے ہیں اور پیشگوئیوں کا تو شمار نہیں.مگر ہمیں ضرورت نہیں کہ ان گذشتہ معجزات کو پیش کریں بلکہ ایک عظیم الشان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی وحی منقطع ہوگئی اور منجزات نابود ہو گئے اور اُن کی امت خالی اور تہی دست ہے صرف قصے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہ گئے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی منقطع نہیں ہوئی.اور نہ منجزات منقطع ہوئے بلکہ ہمیشہ بذریعہ کاملین امت جو شرف اتباع سے مشرف ہیں ظہور میں آتے ہیں.اسی وجہ سے مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کا خدا زندہ خدا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس شہادت کے پیش کرنے کے لئے یہی بندہ حضرت عزت موجود ہے اور اب تک میرے ہاتھ پر ہزار ہا نشان تصدیق رسول اللہ اور کتاب اللہ کے بارہ میں ظاہر ہو چکے ہیں اور الاحزاب :

Page 468

۴۵۸ خدا تعالیٰ کے پاک مکالمہ سے قریباً ہر روز میں مشرف ہوتا ہوں.(چشمہ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۵۰ ، ۳۵۱) اس درجہ لقا ء میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں.بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اُس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی اُن میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو.اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی اُن میں پیدا ہو گئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا.اسی معجزہ کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى لیے یعنی جب تو نے اُس مٹھی کو پھینکا وہ تو نے نہیں پھی کا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا یعنی در پردہ الہی طاقت کام کر گئی.انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا.اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جوشق القمر ہے اسی الہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا.کوئی دُعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آ گیا تھا.اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جوصرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا.اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا اُن سے شکم سیر کر دیا.اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا.اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اُس کو نہایت شیریں کر دیا.اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا.اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا.ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الہی مخلوط تھی.الانفال : ١٨

Page 469

۴۵۹ حال کے برہمو اور فلسفی اور نیچیری اگر ان معجزات سے انکار کریں تو وہ معذور ہیں کیونکہ وہ اس مرتبہ کو شناخت نہیں کر سکتے جس میں ظلی طور پر الہی طاقت انسان کو ملتی ہے.پس اگر وہ ایسی باتوں پر ہنسیں تو وہ اپنے بننے میں بھی معذور ہیں کیونکہ انہوں نے بجز طفلانہ حالت کے اور کسی درجہ روحانی بلوغ کو طے نہیں کیا.اور نہ صرف اپنی حالت ناقص رکھتے ہیں بلکہ اس بات پر خوش ہیں کہ اسی حالت ناقصہ میں مریں بھی.مگر زیادہ تر افسوس ان عیسائیوں پر ہے جو بعض خوارق اسی کے مشابہ مگر ان سے ادنی حضرت مسیح میں سن سنا کر اُن کی الوہیت کی دلیل ٹھہرا بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کا مُردوں کا زندہ کرنا اور مفلوجوں اور مجذ وموں کا اچھا کرنا اپنے اقتدار سے تھا کسی دعا سے نہیں تھا اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ وہ حقیقی طور پر ابن اللہ بلکہ خدا تھا.لیکن افسوس کہ ان بیچاروں کو خبر نہیں کہ اگر انہی باتوں سے انسان خدا بن جاتا ہے تو اس خدائی کا زیادہ تر استحقاق ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے کیونکہ اس قسم کے اقتداری خوارق جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز دکھلا نہیں سکے اور ہمارے بادی و مقتدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اقتداری خوارق نہ صرف آپ ہی دکھلائے بلکہ ان خوارق کا ایک لنبا سلسلہ روز قیامت تک اپنی امت میں چھوڑ دیا جو ہمیشہ اور ہر زمانہ میں حسب ضرورت زمانہ ظہور میں آتا رہا ہے اور اس دنیا کے آخری دنوں تک اسی طرح ظاہر ہوتا رہے گا اور الہی طاقت کا پر تو ہ جس قدر اس امت کی مقدس روحوں پر پڑا ہے اس کی نظر دوسری امتوں میں ملنی مشکل ہے.پھر کس قدر بیوقوفی ہے کہ ان خارق عادت امور کی وجہ سے کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیا جائے.اگر ایسے ہی خوارق سے انسان خدا بن سکتا ہے تو پھر خداؤں کا کچھ انتہاء بھی ہے؟ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۵ تا ۶۷) ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ شق القمر کا معجزہ اہل اسلام کی نظر میں ایسا امر نہیں ہے کہ جو مدار ثبوت اسلام اور دلیل اعظم حقانیت کلام اللہ کا ٹھرایا گیا ہو.بلکہ ہزار ہا شواہد اندرونی و بیرونی وصد با معجزات و نشانوں میں سے یہ بھی ایک قدرتی نشان ہے جو تاریخی طور پر کافی ثبوت اپنے ساتھ رکھتا ہے جس کا ذکر آئندہ عنقریب آئے گا.سو اگر تمام کھلے کھلے ثبوتوں سے چشم پوشی کر کے فرض بھی کر لیں کہ یہ معجزہ ثابت نہیں ہے اور آیت کے اس طور پر معنے قرار دیں جس طور پر حال کے عیسائی و نیچری یا دوسرے منکرین خوارق کرتے ہیں.تو اس عدم ثبوت کا اسلام پر کوئی بداثر نہیں پہنچ سکتا.سچ تو یہ ہے کہ کلام الہی نے مسلمانوں کو دوسرے معجزات سے بکلی بے نیاز کر دیا ہے.وہ نہ صرف اعجاز بلکہ اپنی برکات و

Page 470

۴۶۰ تنویرات کے رُو سے اعجاز آفرین بھی ہے.فی الحقیقت قرآن شریف اپنی ذات میں ایسی صفات کمالیہ رکھتا ہے جو اس کو خارجیہ معجزات کی کچھ بھی حاجت نہیں.خارجیہ معجزات کے ہونے سے اس میں کچھ زیادتی نہیں ہوتی اور نہ ہونے سے کوئی نقص عائد حال نہیں ہوتا.اس کا بازار حسن معجزات خارجیہ کے زیور سے رونق پذیر نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں آپ ہی ہزار ہا معجزات عجیبہ وغریبہ کا جامع ہے.جن کو ہر یک زمانہ کے لوگ دیکھ سکتے ہیں.نہ یہ کہ صرف گذشتہ کا حوالہ دیا جائے وہ ایسا ملیح احسن محبوب ہے کہ ہر یک چیز اس سے مل کر آرائش پکڑتی ہے اور وہ اپنی آرائش میں کسی کی آمیزش کا محتاج نہیں.ہمہ خوبان عالم را بزیورہا بیا رایند تو سیمیں تن چناں خوبی که زیور با بیا رائی ہے پھر ماسوا اس کے سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ شق القمر کے معجزہ پر حملہ کرتے ہیں اُن کے پاس صرف یہی ایک ہتھیار ہے اور وہ بھی ٹوٹا پھوٹا کہ شق القمر قوانین قدرتیہ کے برخلاف ہے اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اوّل ہم ان کے قانونِ قدرت کی کچھ تفتیش کر کے پھر وہ ثبوت تاریخی پیش کریں جو اس واقعہ کی صحت پر دلالت کرتے ہیں.سو جاننا چاہئے کہ نیچر کے ماننے والے یعنی قانون قدرت کے پیرو کہلانے والے اس خیال پر زور دیتے ہیں کہ یہ بات بد یہی ہے کہ جہاں تک انسان اپنی عقلی قوتوں سے جان سکتا ہے وہ بجز قدرت اور قانون قدرت کے کچھ نہیں یعنی مصنوعات و موجودات مشہودہ موجودہ پر نظر کرنے سے چاروں طرف یہی نظر آتا ہے کہ ہر یک چیز مادی یا غیر مادی جو ہم میں اور ہمارے ارد گرد یا فوق وتحت میں موجود ہے وہ اپنے وجود اور قیام اور ترتب آثار میں ایک عجیب سلسلہ انتظام سے وابستہ ہے جو ہمیشہ اُس کی ذات میں پایا جاتا ہے اور کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا.قدرت نے جس طرح پر جس کا ہونا بنا دیا بغیر خطا کے اسی طرح ہوتا ہے اور اسی طرح پر ہوگا.پس وہی بیچ ہے اور اصول بھی وہی بچے ہیں جو اس کے مطابق ہیں.میں کہتا ہوں کہ بلا شبہ یہ سب سچ مگر کیا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ قدرت الہی کے طریقے اور اس کے قانون اسی حد تک ہیں جو ہمارے تجربہ اور مشاہدہ میں آچکے ہیں اس سے زیادہ نہیں؟ جس حالت میں الہی قدرتوں کو غیر محدود ماننا ایک ایسا ضروری مسئلہ ہے جو اسی سے نظامِ کارخانہ الوہیت وابستہ اور اسی سے ترقیات علمیہ کا ہمیشہ کے لئے دروازہ کھلا ہوا ہے تو پھر کس قدر غلطی کی بات ہے کہ ہم یہ ناکارہ حجت پیش کریں کہ جو امر ہماری سمجھ اور مشاہدہ سے باہر ہے وہ قانون قدرت سے بھی باہر ہے بلکہ جس حالت میں ہم اپنے منہ سے اقرار کر چکے کہ قوانین قدرتیہ غیر متناہی اور غیر محدود ہیں تو پھر ہمارا یہ لے دنیا کے تمام حسینوں کو زیوروں سے زینت دی جاتی ہے تو ایسا رو پہلی بدن حسین ہے کہ زیوروں کو زینت بخشتا ہے.

Page 471

۴۶۱ اصول ہونا چاہئے کہ ہر یک نئی بات جو ظہور میں آوے پہلے ہی اپنی عقل سے بالا تر دیکھ کر اس کو رد نہ کریں بلکہ خوب متوجہ ہو کر اُس کے ثبوت یا عدم ثبوت کا حال جانچ لیں.اگر وہ ثابت ہو تو اپنے قانون قدرت کی فہرست میں اس کو بھی داخل کر لیں.اور اگر وہ ثابت نہ ہو تو صرف اتنا کہہ دیں کہ ثابت نہیں مگر اس بات کے کہنے کے ہم ہرگز مجاز نہیں ہوں گے کہ وہ امر قانون قدرت سے باہر ہے.بلکہ قانون قدرت سے باہر کسی چیز کو سمجھنے کے لئے ہمارے لئے پر ضرور ہے کہ ہم ایک دائرہ کی طرح خدائے تعالیٰ کے تمام قوانین از لی وابدی پر محیط ہو جائیں اور بخوبی ہمارا فکر اس بات پر احاطہ تام کر لے کہ خدائے تعالیٰ نے روز ازل سے آج تک کیا کیا قدرتیں ظاہر کیں اور آئندہ اپنے ابدی زمانہ میں کیا کیا قدرتیں ظاہر کرے گا...بہر حال اگر ہم خدائے تعالیٰ کی قدرتوں کو غیر محدود مانتے ہیں تو یہ جنون اور دیوانگی ہے کہ اس کی قدرتوں پر احاطہ کرنے کی اُمید رکھیں.کیونکہ اگر وہ ہمارے مشاہدہ کے پیمانہ میں محدود ہو سکیں تو پھر غیر محدود اور غیر متناہی کیونکر رہیں؟ اور اس صورت میں نہ صرف یہ نقص پیش آتا ہے کہ ہمارا فانی اور ناقص تجربہ خدائے ازلی و ابدی کی تمام قدرتوں کا حد بست کرنے والا ہوگا بلکہ ایک بڑا بھاری نقص یہ بھی ہے کہ اُس کی قدرتوں کے محدود ہونے سے وہ خود بھی محدود ہو جائے گا اور پھر یہ کہنا پڑے گا کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ کی حقیقت اور گنہ ہے ہم نے سب معلوم کر لی ہے اور اس کے گہراؤ اور تہہ تک ہم پہنچ گئے ہیں اور اس کلمہ میں جس قدر کفر اور بے ادبی اور بے ایمانی بھری ہوئی ہے وہ ظاہر ہے حاجت بیان نہیں.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۰ تا ۶۵) میں پوچھتا ہوں کہ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے عام اور اعلانیہ طور پر یہ دعولی مشہور کر دیا تھا کہ میرے ہاتھ سے معجزہ شق القمر وقوع میں آ گیا ہے اور کفار نے اس کو بچشم خود دیکھ بھی لیا ہے مگر اس کو جاد و قرار دیا اپنے اس دعوئی میں بچے نہیں تھے تو پھر کیوں مخالفین آنحضرت جو اُسی زمانہ میں تھے جن کو یہ خبریں گویا نقارہ کی آواز سے پہنچ چکی تھیں چُپ رہے اور کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مواخذہ نہ کیا کہ آپ نے کب چاند کو دوٹکڑے کر کے دکھایا اور کب ہم نے اس کو جادو کہا اور اس کے قبول سے منہ پھیرا اور کیوں اپنے مرتے دم تک خاموشی اختیار کی اور منہ بند رکھا یاں تک کہ اس عالم سے گذر گئے ؟ کیا ان کی یہ خاموشی جو اُن کی مخالفانہ حالت اور جوش مقابلہ کے بالکل بر خلاف تھی اس بات کا یقین نہیں دلاتے کہ کوئی ایسی سخت روک تھی جس کی وجہ سے کچھ بول نہیں سکتے تھے مگر بجر ظہور سچائی کے اور کون سی روک تھی؟ یہ معجزہ مکہ میں ظہور میں آیا تھا اور مسلمان ابھی بہت کمزور اور غریب اور عاجز تھے.پھر تعجب یہ

Page 472

۴۶۲ کہ اُن کے بیٹوں یا پوتوں نے بھی انکار میں کچھ زبان کشائی نہ کی حالانکہ اُن پر واجب و لازم تھا کہ اتنا بڑا دعویٰ اگر افتر محض تھا اور صدہا کوسوں میں مشہور ہو گیا تھا اُس کی رڈ میں کتابیں لکھتے اور دنیا میں شائع اور مشہور کرتے اور جبکہ ان لاکھوں آدمیوں عیسائیوں، عربوں، یہودیوں، مجوسیوں وغیرہ میں سے رڈ لکھنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی اور جو لوگ مسلمان تھے وہ علانیہ ہزاروں آدمیوں کے روبرو چشمدید گواہی دیتے رہے جن کی شہادتیں آج تک اس زمانہ کی کتابوں میں مندرج پائی جاتی ہیں تو یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ مخالفین ضرور شق القمر مشاہدہ کر چکے تھے اور رڈ لکھنے کیلئے کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہی تھی....پھر ان سب باتوں کے بعد ہم یہ بھی لکھتے ہیں کہ شق القمر کے واقعہ پر ہندوؤں کی معتبر کتابوں میں بھی شہادت پائی جاتی ہے.مہا بھارتہ کے دھرم پر ب میں بیاس جی صاحب لکھتے ہیں کہ اُن کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر مل گیا تھا.اور وہ اس شق قمر کو اپنے بے ثبوت خیال سے بسوامتر کا معجزہ قرار دیتے ہیں...معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی شہرت ہندوؤں میں مؤلف تاریخ فرشتہ کے وقت میں بھی بہت کچھ پھیلی ہوئی تھی کیونکہ اس نے اپنی کتاب کے مقالہ یاز دہم میں ہندوؤں سے یہ شہرت یافتہ نقل لے کر بیان کی ہے کہ شہر دہار کہ جو متصل دریائے پہنبل صوبہ مالوہ میں واقع ہے اب اس کو شائد دہار انگری کہتے ہیں واں کا راجہ اپنے محل کی چھت پر بیٹھا تھا ایکبارگی اُس نے دیکھا کہ چاند دوٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا اور بعد تفتیش اس راجہ پر کھل گیا کہ یہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے تب وہ مسلمان ہو گیا.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۷) ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر خدا تعالی کی طرف سے نشان اور معجزات ملے وہ صرف اُس زمانہ تک محدود نہ تھے بلکہ قیامت تک اُن کا سلسلہ جاری ہے اور پہلے زمانوں میں جو کوئی نبی ہوتا تھا وہ کسی گذشتہ نبی کی اُمت نہیں کہلاتا تھا گو اس کے دین کی نصرت کرتا تھا اور اس کو سچا جانتا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ایک خاص فخر دیا گیا ہے کہ وہ ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت ان پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ اُن کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا رسول نہیں اور نہ کوئی ایسا نبی ہے جو اُن کی اُمت سے باہر ہو بلکہ ہر ایک کو جو شرف مکالمہ الہیہ ملتا ہے وہ انہیں کے فیض اور اُنہیں کے وساطت سے ملتا ہے اور وہ امتی کہلاتا ہے نہ کوئی مستقل نبی اور رجوع خلائق اور قبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج کم سے کم بیس کروڑ ہر طبقہ کے مسلمان آپ کی غلامی میں کمر بستہ کھڑے ہیں اور جب سے خدا نے آپ کو پیدا کیا ہے.بڑے بڑے زبر دست بادشاہ جو ایک دنیا کو فتح

Page 473

۴۶۳ کرنے والے تھے آپ کے قدموں پر ادنی غلاموں کی طرح گھرے رہے ہیں.اور اس وقت کے اسلامی بادشاہ بھی ذلیل چاکروں کی طرح آنجناب کی خدمت میں اپنے تئیں سمجھتے ہیں اور نام لینے سے تخت سے اتر آتے ہیں.اب سوچنا چاہئے کہ کیا یہ عزت کیا یہ شوکت کیا یہ اقبال کیا یہ جلال کیا یہ ہزاروں نشان آسمانی کیا یہ ہزاروں برکات ربانی جھوٹے کو بھی مل سکتے ہیں؟ ہمیں بڑا فخر ہے کہ جس نبی علیہ السلام کا ہم نے دامن پکڑا ہے خدا کا اس پر بڑا ہی فضل ہے.وہ خدا تو نہیں مگر اس کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو دیکھ لیا ہے.اُس کا مذہب جو ہمیں ملا ہے خدا کی طاقتوں کا آئینہ ہے.اگر اسلام نہ ہوتا تو اس زمانہ میں اس بات کا سمجھنا محال تھا کہ نبوت کیا چیز ہے؟ اور کیا معجزات بھی ممکنات میں سے ہیں؟ اور کیا وہ قانون قدرت میں داخل ہیں؟ اس عقدے کو اُسی نبی کے دائگی فیض نے حل کیا اور اُسی کے طفیل سے اب ہم دوسری قوموں کی طرح صرف قصہ گو نہیں ہیں بلکہ خدا کا نور اور خدا کی آسمانی نصرت ہمارے شامل حال ہے.ہم کیا چیز ہیں جو اس شکر کو ادا کر سکیں کہ وہ خدا جو دوسروں پر مخفی ہے اور وہ پوشیدہ طاقت جو دوسروں سے نہاں در نہاں ہے وہ ذوالجلال خدا محض اس نبی کریم کے ذریعہ سے ہم پر ظاہر ہو گیا.مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۱،۳۸۰) جس قدر معجزات کل نبیوں سے صادر ہوئے اُن کے ساتھ ہی اُن معجزات کا بھی خاتمہ ہو گیا مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ایسے ہیں کہ وہ ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بتازہ اور زندہ موجود ہیں.ان معجزات کا زندہ ہونا اور ان پر موت کا ہاتھ نہ چلنا صاف طور پر اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں اور حقیقی زندگی یہی ہے جو آپ کو عطا ہوئی اور کسی دوسرے کو نہیں ملی.آپ کی تعلیم اس لئے زندہ تعلیم ہے کہ اُس کے ثمرات اور برکات اس وقت بھی ویسے ہی موجود ہیں جو آج سے تیرہ سو سال پیشتر موجود تھے.دوسری کوئی تعلیم ہمارے سامنے اس وقت ایسی نہیں ہے جس پر عمل کرنے والا یہ دعوی کر سکے کہ اس کے ثمرات اور برکات اور فیوض سے مجھے حصہ دیا گیا ہے اور میں ایک آیت اللہ ہو گیا ہوں.لیکن ہم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم ، قرآن شریف کی تعلیم کے ثمرات اور برکات کا نمونہ اب بھی موجود پاتے ہیں اور ان تمام آثار اور فیوض کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے ملتے ہیں اب بھی پاتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اسی لئے قائم کیا ہے تا وہ اسلام کی سچائی پر زندہ گواہ ہو اور ثابت کرے کہ وہ برکات اور آثار اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 474

۴۶۴ کے کامل اتباع سے ظاہر ہوتے ہیں جو تیرہ سو برس پہلے ظاہر ہوتے تھے.چنانچہ صد ہانشان اس وقت تک ظاہر ہو چکے ہیں اور ہر قوم اور مذہب کے سرگروہوں کو ہم نے دعوت کی ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں آ کر اپنی صداقت کا نشان دکھا ئیں مگر ایک بھی ایسا نہیں کہ جن سے اپنے مذہب کی سچائی کا کوئی نمونہ عملی طور پر دکھائے.الحکم، مورخه ۲۳ را پریل ۱۹۰۳ء صفحہ نمبر۲ کالم نمبر ۲۰.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۲۷، ۲۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) جس قدر خداوند قادر مطلق نے تمام دنیا کے مقابلہ پر تمام مخالفوں کے مقابلہ پر تمام دشمنوں کے مقابلہ پر تمام منکروں کے مقابلہ پر تمام دولتمندوں کے مقابلہ پر تمام زور آوروں کے مقابلہ پر تمام بادشاہوں کے مقابلہ پر تمام حکیموں کے مقابلہ پر تمام فلاسفروں کے مقابلہ پر تمام اہل مذہب کے مقابلہ پر ایک عاجز نا تو ان بے زر بے زور ایک اُمی نا خوان بے علم بے تربیت کو اپنی خداوندی کے کامل جلال سے کامیابی کے وعدے دیتے ہیں کیا کوئی ایمانداروں اور حق کے طالبوں میں سے شک کر سکتا ہے کہ یہ تمام مواعید کہ جو اپنے وقتوں پر پورے ہو گئے اور ہوتے جاتے ہیں یہ کسی انسان کا کام ہے.دیکھو ایک غریب اور تنہا اور مسکین نے اپنے دین کے پھیلنے کے اور اپنے مذہب کی جڑ پکڑنے کی اُس وقت خبر دی کہ جب اُس کے پاس بجز چند بے سامان درویشوں کے اور کچھ نہ تھا.اور تمام مسلمان صرف اس قدر تھے کہ ایک چھوٹے سے حجرہ میں سما سکتے تھے اور انگلیوں پر نام بنام گنے جا سکتے جن کو گانڈ کے چند آدمی ہلاک کر سکتے تھے جن کا مقابلہ اُن لوگوں سے پڑا تھا کہ جو دنیا کے بادشاہ اور حکمران تھے اور جن کو ان قوموں کے ساتھ سامنا پیش آیا تھا کہ جو باوجود کروڑوں مخلوقات ہونے کے ان کے ہلاک کرنے اور نیست و نابود کرنے پر متفق تھے.مگر اب دنیا کے کناروں تک نظر ڈال کے دیکھو کہ کیونکر خدا نے انہیں نا تو ان اور قدرقلیل لوگوں کو دنیا میں پھیلا دیا.اور کیونکر اُن کو طاقت اور دولت اور بادشاہت بخش دی اور کیونکر ہزار ہا سال کی تخت نشینیوں کے تاج اور تخت اُن کے سپرد کئے گئے.ایک دن وہ تھا کہ وہ جماعت اتنی بھی نہیں تھی کہ جس قدر ایک گھر کے آدمی ہوتے ہیں اور اب وہی لوگ کئی کروڑ دنیا میں نظر آتے ہیں.خداوند نے کہا تھا کہ میں اپنے کلام کی آپ حفاظت کروں گا.اب دیکھو کیا یہ سچ ہے یا نہیں کہ و ہی تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ اُس کی کلام کے پہنچائی تھی وہ برابر اس کی کلام میں محفوظ چلی آتی ہے اور لاکھوں قرآن شریف کے حافظ ہیں کہ جو قدیم سے چلے آتے ہیں.خدا نے کہا تھا کہ میری کتاب کا کوئی شخص حکمت میں، معرفت میں، بلاغت میں فصاحت میں،

Page 475

۴۶۵ احاطہ علوم ربانیہ میں، بیان دلائل دینیہ میں مقابلہ نہیں کر سکے گا.سو دیکھو کسی سے مقابلہ نہیں ہو سکا اور اگر کوئی اس سے منکر ہے تو اب کر کے دکھلا دے.اور جو کچھ ہم نے اس کتاب میں جس کے ساتھ دس ہزار روپے کا اشتہار بھی شامل ہے حقائق و دقائق و عجائبات قرآن شریف کے کہ جو انسانی طاقتوں سے باہر ہیں لکھے ہیں کسی دوسری کتاب میں سے پیش کرے.اور جب تک پیش نہ کرے تب تک صریح حجت خدا کی اُس پر وارد ہے.اور خدا نے کہا تھا کہ میں ارضِ شام کو عیسائیوں کے قبضہ میں سے نکال کر مسلمانوں کو اس زمین کا وارث کروں گا.سو دیکھو اب تک مسلمان ہی اس زمین کے وارث ہیں اور یہ سب خبریں ایسی ہیں کہ جن کے ساتھ اقتدار اور قدرت الوہیت شامل ہے.یہ نہیں کہ نجومیوں کی طرح صرف ایسی ہی خبریں ہوں کہ زلزلے آویں گے.قحط پڑیں گے.قوم پر قوم چڑھائی کرے گی.وباء پھیلیں گی.مری پڑے گی وغیرہ وغیرہ اور بہ تبعیت خدا کے کلام کی اور اُسی کی تاثیر اور برکت سے وہ لوگ کہ جو قرآن شریف کا اتباع اختیار کرتے ہیں اور خدا کے رسول مقبول پر صدق دلی سے ایمان لاتے ہیں اور اُس سے محبت رکھتے ہیں اور اس کو تمام مخلوقات اور تمام نبیوں اور تمام رسولوں اور تمام مقدسوں اور تمام اُن چیزوں سے جو ظہور پذیر ہوئیں یا آئندہ ہوں بہتر اور پاک تر اور کامل تر اور افضل اور اعلیٰ سمجھتے ہیں وہ بھی اُن نعمتوں سے اب تک حصہ پاتے ہیں اور جو شربت موسی اور مسیح کو پلایا گیا.وہی شربت نہایت کثرت سے نہایت لطافت سے نہایت لذت سے پیتے ہیں اور پی رہے ہیں.اسرائیلی نور اُن میں روشن ہیں.بنی یعقوب کے پیغمبروں کی اُن میں برکتیں ہیں سبحان اللہ ! ثم سبحان اللہ ! حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کس شان کے نبی ہیں.اللہ اللہ ! کیا عظیم الشان نور ہے جس کے ناچیز خادم جس کی ادنیٰ سے ادنیٰ امت جس کے احقر سے احقر چاکر مراتب مذکورہ بالا تک پہنچ جاتے ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى نَبِيِّكَ وَحَبِيْبِكَ سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَ اَفْضَلِ الرُّسُلِ وَ خَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ وَ الِهِ وَ أَصْحَابِهِ وَ بَارِک وَسَلَّم - اس زمانہ کے پادری اور پنڈت اور برہمو اور آریہ اور دوسرے مخالف چونک نہ اٹھیں کہ وہ برکتیں کہاں ہیں.وہ آسمانی نور کدھر ہیں جن میں امت مرحومہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیح اور موسیٰ کی برکتوں میں شریک ہے اور اُن نوروں کی وارث ہے جن سے اور تمام قو میں اور تمام اہل مذاہب محروم اور بے نصیب ہیں.اس وسوسہ کے دُور کرنے کے لئے بارہا ہم نے اسی حاشیے میں لکھ دیا ہے کہ طالب حق کے لئے کہ جو اسلام کے فضائل خاصہ دیکھ کر فی الفور مسلمان ہونے پر مستعد ہے اس

Page 476

ثبوت دینی کے ہم آپ ہی ذمہ دار ہیں.اور حاشیہ در حاشیہ صورت دوم میں اسی کی طرف ہم نے صریح اشارہ کیا ہے.بلکہ خدائے تعالیٰ جس جس طرح پر اپنی خداوندی کی طاقتوں اور فضلوں اور برکتوں کو مسلمانوں پر ظاہر کرتا ہے.انہیں ربانی مواعید اور بشارتوں میں سے کہ جو انسانی طاقتوں سے باہر ہیں کسی قدر حاشیہ مدوحہ میں لکھ دیا ہے.پس اگر کوئی پادری یا پنڈت یا برہمو کہ جو اپنی کور باطنی سے منکر ہیں یا کوئی آریہ اور دوسرے فرقوں میں سے سچائی اور راستی سے خدا تعالیٰ کا طالب ہے تو اس پر لازم ہے کہ بچے طالبوں کی طرح اپنے تمام تکبیروں اور غروروں اور نفاقوں اور دنیا پرستیوں اور ضد وں اور خصومتوں سے بکلی پاک ہو کر اور فقط حق کا خواہاں اور حق کا جو یاں بن کر ایک مسکین اور عاجز اور ذلیل آدمی کی طرح سیدھا ہماری طرف چلا آوے اور پھر صبر اور برداشت اور اطاعت اور خلوص کو صادق لوگوں کی طرح اختیار کرے تا انشاء اللہ اپنے مطلب کو پاوے.اور اگر اب بھی کوئی منہ پھیرے تو وہ خود اپنی بے ایمانی پر آپ گواہ ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار ص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۶۶ تا ۲۷۵ حاشیہ نمبر ۱۱) قرآن شریف نے بہت زور شور سے اس دعویٰ کو پیش کیا ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے اور حضرت سیدنا و مولانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بچے نبی اور رسول ہیں جن پر وہ پاک کلام اُترا ہے.چنانچہ یہ دعویٰ آیات مندرجہ ذیل میں بخوبی مصرح و مندرج ہے.(آل عمران ۱ و ۲) الم - اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ.یعنی وہی اللہ ہے اُس کا کوئی ثانی نہیں.اُسی سے ہر ایک کی زندگی اور بقا ہے اُس نے حق اور ضرورت حقہ کے ساتھ تیرے پر کتاب اتاری.اور پھر فرمایا یايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ كُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ الجزو نمبر ۵ سورة النّساء یعنی اے لوگو! حق اور ضرورت حقہ کے ساتھ تمہارے پاس یہ نبی آیا ہے.اور پھر فرمایا.وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ - الجزو نمبر ۱۵ یعنی ضرورت حقه کے ساتھ ہم نے اس کلام کو اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ اُترا ہے اور پھر فرمایا.يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًات الجزو نمبر ٦ سورة النساء لوگو! تمہارے پاس یہ یقینی بُرہان پہونچی ہے اور ایک کھلا نور تمہاری طرف ہم نے اتارا ہے اور پھر فرمایا.قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا الجزو نمبر 9 یعنی لوگوں کو کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف پیغمبر ہو کر آیا ہوں اور پھر فرمایا وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ ال عمران : ۲ تا ۴ ) النساء : ۱۷۱ ۳ بنی اسرائیل : ۱۰۶ - النساء : ۱۷۵ ۵ الاعراف : ۱۵۹

Page 477

۴۶۷ وَامَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ الجز و نمبر ۲۶ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور وہی حق ہے خدا اُن کے گناہ دُور کرے گا اور اُن کے حال چال کو درست کر دے گا.ایسا ہی صد ہا آیات اور ہیں جن میں نہایت صفائی سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم خدا کا کلام اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے بچے نبی ہیں لیکن ہم بالفعل اسی قدر لکھنا مناسب و کافی دیکھتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنے مخالفوں کو یاد دلاتے ہیں کہ جس شد ومد سے قرآن شریف میں یہ دعویٰ موجود ہے کسی اور کتاب میں ہرگز موجود نہیں.ہم نہایت مشتاق ہیں اگر آریہ اپنے ویدوں میں اتنا ہی ثابت کر دیں کہ اُن کے ہر چہار ویدوں نے الہی کلام ہونے کا دعوی کیا اور بتصریح بتلایا کہ فلاں فلاں شخص پر فلاں زمانہ میں وہ اُترے ہیں.کتاب اللہ کے ثبوت کے لئے پہلا ضروری امر یہی ہے کہ وہ کتاب اپنے من جانب اللہ ہونے کی مدعی بھی ہو.کیونکہ جو کتاب اپنے من جانب اللہ ہونے کی طرف آپ کوئی اشارہ نہیں کرتی اس کو خداوند تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ایک بیجا مداخلت ہے.اب دوسرا امر قابل تذکرہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنے منجانب اللہ ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارے میں صرف دعوی ہی نہیں کیا بلکہ اس دعوی کو نہایت مضبوط اور قوی دلیلوں کے ساتھ ثابت بھی کر دیا ہے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ سلسلہ وار ان تمام دلائل کو لکھیں گے اور اُن میں سے پہلی دلیل ہم اسی مضمون میں تحریر کرتے ہیں تا حق کے طالب اول اسی دلیل میں دوسری کتابوں کا قرآن کے ساتھ مقابلہ کریں اور نیز ہم ہر یک مخالف کو بھی بلاتے ہیں کہ اگر یہ طریق ثبوت جس کا ایک کتاب میں پایا جانا اس کی سچائی پر بدیہی دلیل ہے اُن کی کتابوں اور نبیوں کی نسبت بھی پایا جاتا ہے تو وہ ضرور اپنے اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ سے پیش کریں.ورنہ ان کو اقرار کرنا پڑے گا کہ اُن کی کتابیں اس اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے عاری اور بے نصیب ہیں.اور ہم نہایت یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ یہ طریق ثبوت ان کے مذہب میں ہرگز نہیں پایا جاتا.پس اگر ہم غلطی پر ہیں تو ہماری غلطی ثابت کریں اور وہ پہلی دلیل جو قرآن شریف نے اپنے منجانب اللہ ہونے پر پیش کی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ عقل سلیم ایک سچی کتاب اور ایک سچے منجانب اللہ رسول کے ماننے کے لئے اس بات کو نہایت بزرگ ا محمد :

Page 478

۴۶۸ دلیل ٹھہراتی ہے کہ اُن کا ظہور ایک ایسے وقت میں ہو جبکہ زمانہ تاریکی میں پڑا ہوا اور لوگوں نے توحید کی جگہ شرک اور پاکیزگی کی جگہ فسق اور انصاف کی جگہ ظلم اور علم کی جگہ جہل اختیار کر لیا ہو اور ایک مصلح کی اشد حاجت ہو.اور پھر ایسے وقت میں وہ رسول دنیا سے رخصت ہو جبکہ وہ اصلاح کا کام عمدہ طور سے کر چکا ہو.اور جب تک اس نے اصلاح نہ کی ہو دشمنوں سے محفوظ رکھا گیا ہو.اور نوکروں کی طرح حکم سے آیا ہو اور حکم سے واپس گیا ہو.غرضیکہ وہ ایسے وقت ظاہر ہو جبکہ وہ وقت بزبانِ حال پکار پکار کہہ رہا ہو کہ ایک آسمانی مصلح اور کتاب کا آنا ضروری ہے.اور پھر ایسے وقت میں الہامی پیشگوئی کے ذریعہ سے واپس بلایا جاوے کہ جب اصلاح کے پودا کو مستحکم کر چکا ہو اور ایک عظیم الشان انقلاب ظہور میں آچکا ہو.اب ہم اس بات کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ دلیل جس طرح قرآن اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نہایت روشن چہرہ کے ساتھ جلوہ نما ہوئی ہے کسی اور نبی اور کتاب کے حق میں ہرگز ظاہر نہیں ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعوی تھا کہ میں تمام قوموں کے لئے آیا ہوں.سوقرآن شریف نے تمام قوموں کو ملزم کیا ہے کہ وہ طرح طرح کے شرک اور فسق و فجور میں مبتلا ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ یعنی دریا بھی بگڑ گئے اور جنگل بھی بگڑ گئے اور پھر فرماتا ہے لِيَكُونَ لِلْعَلَمِيْنَ نَذِيرا.یعنی ہم نے تجھے بھیجا تا کہ تو دنیا کی تمام قوموں کو ڈراوے یعنی ان کو متنبہ کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی بدکاریوں اور عقیدوں کی وجہ سے سخت گنہ گارٹھہری ہیں.یادر ہے کہ جو اس آیت میں نذیر کا لفظ دنیا کے تمام فرقوں کے مقابل پر استعمال کیا گیا ہے جس کے معنے گنہگاروں اور بدکاروں کو ڈرانا ہے.اسی لفظ سے یقینی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کا یہ دعوی تھا کہ تمام دنیا بگڑ گئی اور ہر ایک نے سچائی اور نیک بختی کا طریق چھوڑ دیا کیونکہ انذار کا محل فاسق اور مشرک اور بدکار ہی ہیں اور انذار اور ڈرانا مجرموں کی ہی تنبیہ کے لئے ہوتا ہے نہ نیک بختوں کے لئے.اس بات کو ہر یک جانتا ہے کہ ہمیشہ سرکشوں اور بے ایمانوں کو ہی ڈرایا جاتا ہے اور سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ نبی نیکوں کے لئے بشیر ہوتے ہیں اور بدوں کے لئے نذیر.پھر جبکہ ایک نبی تمام دنیا کے لئے نذیر ہوا تو ماننا پڑا کہ تمام دنیا کو نبی کی وحی نے بداعمالیوں میں مبتلا قرار دیا ہے اور یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ نہ توریت نے موسی کی نسبت کیا اور نہ انجیل نے عیسی کے زمانہ کی نسبت بلکہ صرف قرآن شریف نے کیا اور پھر فرمایا کہ ۴۲: الروم :٤٢ الفرقان :٢

Page 479

۴۶۹ كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ یعنی تم اس نبی کے آنے سے پہلے دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر پہونچ چکے تھے.اور عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی متنبہ کیا کہ تم نے اپنے دجل سے خدا کی کتابوں کو بدل دیا اور تم ہر یک شرارت اور بدکاری میں تمام قوموں کے پیشرو ہو اور بت پرستوں کو بھی جابجا ملزم کیا کہ تم پتھروں اور انسانوں اور ستاروں اور عناصر کی پرستش کرتے ہو اور خالق حقیقی کو بھول گئے ہو.اور تم یتیموں کا مال کھاتے اور بچوں کو قتل کرتے اور شرکاء پر ظلم کرتے ہو.اور ہر ایک بات میں حد اعتدال سے گذر گئے ہو.اور فرمایا اِعْلَمُوا اَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا یعنی یہ بات تمہیں معلوم ہے کہ زمین سب کی سب مر گئی تھی اب خدا نئے سرے اُس کو زندہ کرتا ہے.غرض تمام دنیا کو قرآن نے شرک اور فسق اور بت پرستی کے الزام سے ملزم کیا جو ام الخبائث ہیں اور عیسائیوں اور یہودیوں کو دنیا کی تمام بدکاریوں کی جڑ ٹھہرایا اور ہر یک قسم کی بدکاریاں اُن کی بیان کر دیں.اور ایک ایسا نقشہ کھینچ کر زمانہ موجودہ کا اعمال نامہ دکھلا دیا کہ جب سے دنیا کی بناء پڑی ہے بجز نوح کے زمانہ کے اور کوئی زمانہ اس زمانہ سے مشابہ نظر نہیں آتا.اور ہم نے اس جگہ جس قدر آیات لکھ دی ہیں وہ اتمام حجت کے لئے اول درجہ پر کام دیتی ہیں.لہذا ہم نے طول کے خوف سے تمام آیات کو نہیں لکھا.ناظرین کو چاہئے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں تا انہیں معلوم ہو کہ کس شد ومد اور کس قدر مؤثر کلام سے جا بجا قرآن شریف بیان کر رہا ہے کہ تمام دنیا بگڑ گئی ، تمام زمین مرگئی اور لوگ دوزخ کے گڑھے کے قریب پہونچ گئے اور کیسے بار بار کہتا ہے کہ تمام دنیا کو ڈرا کہ وہ خطرناک حالت میں پڑی ہیں.یقیناً قرآن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شرک اور فسق اور بت پرستی اور طرح طرح کے گناہوں میں سڑگئی اور بدکاریوں کے عمیق کنوئیں میں ڈوب گئی ہیں.یہ بات سچ ہے کہ انجیل میں بھی کسی قدر یہودیوں کی بدچلنیوں کا ذکر ہے لیکن مسیح نے کہیں یہ ذکر تو نہیں کیا کہ جس قدر دنیا کے صفحہ میں لوگ موجود ہیں جن کو عالمین کے نام سے نامزد کر سکتے ہیں وہ بگڑ گئے مر گئے اور دنیا شرک اور بدکاریوں سے بھر گئی اور نہ رسالت کا عام دعویٰ کیا.پس ظاہر ہے کہ یہودی ایک تھوڑی سی قوم تھی جو مسیح کے مخاطب تھی بلکہ وہی تھی جو مسیح کی نظر کے سامنے اور چند دیہات کے باشندے تھے.لیکن قرآن کریم نے تو تمام زمین کے مرجانے کا ذکر کیا ہے.اور تمام قوموں کی بری حالت کو وہ بتلاتا ہے اور صاف بتلاتا ہے کہ زمین ہر قسم کے گناہ سے مرگئی.یہودی تو نبیوں کی اولاد اور تورات کو اپنے اقرار سے مانتے تھے گو عمل سے قاصر ال عمران ۱۰۴ الحديد : ١٨

Page 480

تھے لیکن قرآن کے زمانہ میں علاوہ فسق اور فجور کے عقائد میں بھی فتور ہو گیا تھا.ہزار ہا لوگ دہر یہ تھے.ہزار ہاوحی اور الہام سے منکر تھے.اور ہر قسم کی بدکاریاں زمین پر پھیل گئی تھیں.اور دنیا میں اعتقادی اور عملی خرابیوں کا ایک سخت طوفان برپا تھا.ماسوا اس کے مسیح نے اپنی چھوٹی سی قوم یہودیوں کی بد چلنی کا کچھ ذکر تو کیا جس سے البتہ یہ خیال پیدا ہوا کہ اُس وقت یہود کی ایک خاص قوم کو ایک مصلح کی ضرورت تھی.مگر جس دلیل کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں بیان کرتے ہیں.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فساد عام کے وقت میں آنا اور کامل اصلاح کے بعد واپس بلائے جانا اور ان دونوں پہلوؤں کا قرآن شریف کا آپ پیش کرنا اور آپ دنیا کو اس کی طرف توجہ دلانا یہ ایک ایسا امر ہے کہ انجیل تو کیا بجز قرآن شریف کسی پہلی کتاب میں بھی نہیں پایا جاتا.قرآن شریف نے آپ یہ دلائل پیش کئے ہیں اور آپ فرما دیا ہے کہ اس کی سچائی ان دونوں پہلوؤں پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوتی ہے یعنی ایک تو وہی جو ہم بیان کر چکے ہیں کہ ایسے زمانہ میں ظہور فرمایا جبکہ زمانہ میں عام طور طرح طرح کی بدکاریاں، بد اعتقادیاں پھیل گئی تھیں اور دنیا حق اور حقیقت اور توحید اور پاکیزگی سے بہت دُور جا پڑی تھی اور قرآن شریف کے اس قول کی اس وقت تصدیق ہوتی ہے جبکہ ہر یک قوم کی تاریخ اس زمانہ کے متعلق پڑھی جائے کیونکہ ہر یک قوم کے اقرار سے یہ عام شہادت پیدا ہوتی ہے کہ در حقیقت وہ ایسا پُر ظلمت زمانہ تھا کہ ہر ایک قوم مخلوق پرستی کی طرف جھک گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ جب قرآن نے تمام قوموں کو گمراہ اور بد کار قرار دیا تو کوئی اپنا بری ہونا ثابت نہ کر سکا.دیکھو اللہ تعالیٰ کے زور سے اہل کتاب کی بدیوں اور تمام دنیا کے مرجانے کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْآمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَسِقُوْنَ اِعْلَمُوا اَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الايتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (سورۃ الحدید جز و ۲۷ رکوع ۱۷) یعنی مومنوں کو چاہئے کہ اہل کتاب کی چال و چلن سے پر ہیز کریں.اُن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی.پس اُن پر ایک زمانہ گذر گیا سوان کے دل سخت ہو گئے.اور اکثر اُن میں سے فاسق اور بدکار ہی ہیں.یہ بات بھی جانو کہ زمین مرگئی تھی اور اب خدا نئے سرے سے زمین کو زندہ کر رہا ہے.یہ قرآن کی ضرورت اور سچائی کے نشان ہیں جو اس لئے بیان کئے گئے تاکہ تم نشانوں کو دریافت کرلو.الحديد : ۱۸،۱۷

Page 481

اب سوچ کر دیکھو کہ یہ دلیل جو تمہارے سامنے پیش کی گئی ہے یہ ہم نے اپنے ذہن سے ایجاد نہیں کی بلکہ قرآن شریف آپ ہی اس کو پیش کرتا ہے.اور دلیل کے دونوں حصے بیان کر کے پھر آپ ہی فرماتا ب قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ لا یعنی اس رسول اور اس کتاب کے منجانب اللہ ہونے پر یہ بھی ایک نشان ہے جس کو ہم نے بیان کر دیا تا تم سوچو اور سمجھو اور حقیقت تک پہونچ جاؤ.دوسرا پہلو اس دلیل کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں دنیا سے اپنے مولیٰ کی طرف بلائے گئے جب کہ وہ اپنے کام کو پورے طور پر انجام دے چکے.اور یہ امر قرآن شریف سے بخوبی ثابت ہے.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے: اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ہے یعنی آج میں نے قرآن شریف کے اُتار نے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کر لیا.حاصل مطلب یہ ہے کہ جس قدر قرآن مجید نازل ہونا تھا نازل ہو چکا اور مستعد دلوں میں نہایت عجیب اور حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کر چکا اور تربیت کو کمال تک پہونچا دیا اور اپنی نعمت کو اُن پر پورا کر دیا.اور یہی دور کن ضروری ہیں جو ایک نبی کے آنے کی علت غائی ہوتے ہیں.اب دیکھو یہ آیت کس زور شور سے بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اس دنیا سے کوچ نہ کیا جب تک کہ دین اسلام کو تنزیل قرآن اور تکمیل نفوس سے کامل نہ کیا گیا.اور یہی ایک خاص علامت منجانب اللہ ہونے کی ہے جو کاذب کو ہر گز نہیں دی جاتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی صادق نبی نے بھی اس اعلیٰ شان کے کمال کا نمونہ نہیں دکھلایا کہ ایک طرف کتاب اللہ بھی آرام اور امن کے ساتھ پوری ہو جائے اور دوسری طرف تکمیل نفوس بھی ہو.اور بایں ہمہ کفر کو ہر یک پہلو سے شکست اور اسلام کو ہریک پہلو سے فتح ہو.اور پھر دوسری جگہ فرمایا اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ.فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا یعنی جبکہ آنے والی مدد اور فتح آگئی جس کا وعدہ دیا گیا تھا اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوتے جاتے ہیں.پس خدا کی حمد اور تسبیح کر یعنی یہ کہہ کہ یہ جو ہوا وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس کے فضل اور کرم اور تائید سے ہے اور الوداعی استغفار کر کیونکر وہ رحمت کے ساتھ بہت ہی رجوع کرنے والا الحديد : ۱۸ المآئدة : ۴ النصر : ۲ تا ۴

Page 482

۴۷۲ ہے.استغفار کی تعلیم جو نبیوں کو دی جاتی ہے اس کو عام لوگوں کے گناہ میں داخل کرنا عین حماقت ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں یہ لفظ اپنی نیستی اور تذلل اور کمزوری کا اقرار اور مددطلب کرنے کا متواضعانہ طریق ہے.چونکہ اس سورۃ میں فرمایا گیا ہے کہ جس کام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے وہ پورا ہو گیا.یعنی یہ کہ ہزار ہا لوگوں نے دین اسلام قبول کر لیا اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف بھی اشارہ ہے چنانچہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک برس کے اندر فوت ہو گئے.پس ضرور تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نزول سے جیسا کہ خوش ہوئے تھے غمگین بھی ہوں کیونکہ باغ تو لگایا گیا مگر ہمیشہ کی آب پاشی کا کیا انتظام ہوا؟ سوخدا تعالیٰ نے اسی غم کے دور کرنے کے لئے استغفار کا حکم دیا کیونکہ لغت میں ایسے ڈھانکنے کو کہتے ہیں جس سے انسان آفات سے محفوظ رہے اسی وجہ سے مغفر جو خود کے معنے رکھتا ہے اسی میں سے نکالا گیا ہے.اور مغفرت مانگنے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جس بلا کا خوف ہے یا جس گناہ کا اندیشہ ہے خدا تعالیٰ اُس بکا یا اُس گناہ کو ظاہر ہونے سے روک دے اور ڈھانکے رکھے.سو اس استغفار کے ضمن میں یہ وعدہ دیا گیا کہ اس دین کے لئے غم مت کھا.خدا تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرے گا اور ہمیشہ رحمت کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتا رہے گا اور ان بلاؤں کو روک دے گا جو کسی ضعف کے وقت عائد حال ہو سکتی ہیں.( نور القرآن نمبر ا.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۳ تا ۳۵۶) پھر ہم اپنے پہلے مقصد کی طرف عود کر کے لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت پر اس دلیل سے نہایت اعلیٰ و اجلی ثبوت پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب علیہ الصلوۃ والسلام ایسے وقت میں دنیا میں بھیجے گئے کہ جب دنیا زبانِ حال سے ایک عظیم الشان مصلح کو مانگ رہی تھی.اور پھر نہ مرے اور نہ مارے گئے جب تک کہ راستی کو زمین پر قائم نہ کر دیا.جب نبوت کے ساتھ ظہور فرما ہوئے تو آتے ہی اپنی ضرورت دنیا پر ثابت کر دی.اور ہر ایک قوم کو اُن کے شرک اور ناراستی اور مفسدانہ حرکات پر ملزم کیا.جیسا کہ قرآن کریم اس سے بھرا ہوا ہے مثلاً اسی آیت کو سوچ کر دیکھو جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تبرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِيْنَ نَذِيرًا یعنی وہ بہت ہی برکت والا ہے جس نے قرآن کو اپنے بندہ پر اس غرض سے اتارا جو تمام جہانوں کو ڈرانے والا ہو.یعنی تا اُن کی بدرا ہی اور بد عقیدگی پر اُن کو متنبہ کرے.پس یہ آیت بصراحت اس بات الفرقان :٢

Page 483

وہ پر دلیل ہے کہ قرآن کا یہی دعوی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں تشریف لائے تھے جبکہ تمام دنیا اور تمام قو میں بگڑ چکی تھیں اور مخالف قوموں نے اس دعویٰ کو نہ صرف اپنی خاموشی سے بلکہ اپنے اقراروں سے مان لیا ہے.پس اس سے بہداہت نتیجہ نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت ایسے وقت میں آئے تھے جس وقت میں ایک بچے اور کامل نبی کو آنا چاہئے.پھر جب ہم دوسرا پہلو د یکھتے ہیں کہ آنجناب صلعم کس وقت واپس بلائے گئے تو قرآن صاف اور صریح طور پر ہمیں خبر دیتا ہے کہ ایسے وقت میں بلانے کا حکم ہوا کہ جب اپنا کام پورا کر چکے تھے یعنی اس وقت کے بعد بلائے گئے جبکہ یہ آیت نازل ہو چکی کہ مسلمانوں کے لئے تعلیم کا مجموعہ کامل ہو گیا اور جو کچھ ضروریات دین میں نازل ہونا تھا وہ سب نازل ہو چکا اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی خبر دی گئی کہ خدا تعالیٰ کی تائید میں بھی کمال کو پہونچ گئیں اور جوق در جوق لوگ دین اسلام میں داخل ہو گئے اور یہ آیتیں بھی نازل ہو گئیں کہ خدا تعالیٰ نے ایمان اور تقویٰ کو ان کے دلوں میں لکھ دیا اور فسق اور فجور سے انہیں بیزار کر دیا اور پاک اور نیک اخلاق سے و متصف ہو گئے اور ایک بھاری تبدیلی اُن کے اخلاق اور چلن اور روح میں واقع ہوگئی تب ان تمام باتوں کے بعد سورۃ النصر نازل ہوئی جس کا ماحصل یہی ہے کہ نبوت کے تمام اغراض پورے ہو گئے اور اسلام دلوں پر فتحیاب ہو گیا.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر اعلان دے دیا کہ یہ سورۃ میری وفات کی طرف اشارہ کرتی ہے.بلکہ اس کے بعد حج کیا اور اس کا نام حجة الوداع رکھا اور ہزار ہا لوگوں کی حاضری میں ایک اونٹنی پر سوار ہو کر ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ سنو! اے خدا کے بندو! مجھے میرے رب کی طرف سے یہ حکم ملے تھے کہ تا میں یہ سب احکام تمہیں پہونچا دوں.پس کیا تم گواہی دے سکتے ہو کہ یہ سب باتیں میں نے تمہیں پہونچا دیں.تب ساری قوم نے بآواز بلند تصدیق کی کہ ہم تک یہ سب پیغام پہو نچائے گئے.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اے خدا ان باتوں کا گواہ رہ اور پھر فرمایا کہ یہ تمام تبلیغ اس لئے مکرر کی گئی کہ شاید آئندہ سال میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں گا اور پھر دوسری مرتبہ تم مجھے اس جگہ نہیں پاؤ گے.تب مدینہ میں جا کر دوسرے سال میں فوت ہو گئے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَ بَارِكْ وَسَلَّمْ.درحقیقت یہ تمام اشارات قرآن سے ہی مستنبط ہوتے ہیں جس کی تصدیق اسلام کی متفق علیہ تاریخ سے بہ تفصیل تمام ہوتی ہے.اب کیا دنیا میں کوئی عیسائی یا یہودی یا آریہ اپنے کسی ایسے مصلح کو بطور نذیر پیش کر سکتا ہے جس کا آنا ایک عام اور اشد ضرورت پر مبنی ہو اور جانا اس غرض کی تکمیل کے بعد ہو اور ان مخالفوں کو اپنی ناپاک

Page 484

۴۷۴ حالت اور بدعملیوں کا خود اقرار ہو جن کی طرف وہ رسول بھیجا گیا ہو میں جانتا ہوں کہ یہ ثبوت بجز اسلام کے کسی کے پاس موجود نہیں.ظاہر ہے کہ حضرت موسی صرف فرعون کی سرکوبی کے لئے اور اپنی قوم کو چھڑانے کے لئے اور نیز راہ راست دکھلانے کے لئے آئے تھے.سارے جہان کے فساد یا عدم فساد کی اُن کو کچھ غرض نہیں تھی اور یہ تو سچ ہے کہ فرعون کے ہاتھ سے انہوں نے اپنی قوم کو چھوڑا دیا مگر شیطان کے ہاتھ سے چھوڑا نہ سکے اور نیز وعدہ کے ملک تک ان کو پہونچا نہ سکے.اور اُن کے ہاتھ سے بنی اسرائیل کو تزکیۂ نفس نصیب نہیں ہوا اور بار بار نا فرمانیاں کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ فوت ہو گئے اور ان کا وہی حال تھا.اور حضرت مسیح کے حواریوں کی حالت خود انجیل سے ظاہر ہے.حاجت تصریح نہیں.اور یہ بات کہ یہودی جن کے لئے حضرت مسیح نبی ہو کر آئے تھے کس قدر ان کی زندگی میں ہدایت پذیر ہو گئے تھے یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ کسی پر پوشیدہ نہیں بلکہ اگر حضرت مسیح کی نبوت کو اس معیار سے جانچا جائے تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُن کی نبوت اس معیار کی رُو سے کسی طرح ثابت نہیں ہوسکتی.( نور القرآن نمبر ا.روحانی خزائن جلد نمبر ۹ صفحه ۳۵۸ تا ۳۶۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے کہ جب تمام دنیا میں شرک اور گمراہی اور مخلوق پرستی پھیل چکی تھی اور تمام لوگوں نے اصول حقہ کو چھوڑ دیا تھا اور صراط مستقیم کو بھول بھلا کر ہر یک فرقہ نے الگ الگ بدعتوں کا راستہ لے لیا تھا.عرب میں بُت پرستی کا نہایت زور تھا.فارس میں آتش پرستی کا بازار گرم تھا.ہند میں علاوہ بت پرستی کے اور صد با طرح کی مخلوق پرستی پھیل گئی تھی.اور اُنہی دنوں میں کئی پوران اور پستک کہ جن کے رُو سے بیسیوں خدا کے بندے خدا بنائے گئے اور اوتار پرستی کی بنیاد ڈالی گئی تصنیف ہو چکی تھی.اور بقول پادری بورٹ صاحب اور کئی فاضل انگریزوں کے اُن دنوں عیسائی مذہب سے زیادہ اور کوئی مذہب خراب نہ تھا اور پادری لوگوں کی بد چلنی اور بداعتقادی سے مذہب عیسوی پر ایک سخت دھبہ لگ چکا تھا اور مسیحی عقائد میں نہ ایک نہ دو بلکہ کئی چیزوں نے خدا کا منصب لے لیا تھا.پس آنحضرت کا ایسی عام گمراہی کے وقت میں مبعوث ہونا کہ جب خود حالت موجودہ زمانہ کی ایک بزرگ معالج اور مصلح کو چاہتی تھی اور ہدایت ربانی کی کمال ضرورت تھی اور پھر ظہور فرما کر ایک عالم کو تو حید اور اعمال صالحہ سے منور کرنا اور شرک اور مخلوق پرستی کا جو ام الشرور ہے قلع قمع فرمانا اس بات پر صاف دلیل ہے کہ آنحضرت خدا کے سچے رسول اور سب رسولوں سے افضل تھے.سچا ے سہو کتابت ہے صحیح پورٹ ( جان ڈیون پورٹ (JOHN DAVENPORT) ہے.ناشر

Page 485

۴۷۵ ہونا ان کا تو اس بات سے ثابت ہے کہ اس عام ضلالت کے زمانہ میں قانون قدرت ایک سچے ہادی کا متقاضی تھا اور سنتِ الہیہ ایک رہبر صادق کی مقتضی تھی.کیونکہ قانونِ قدیم حضرتِ ربّ العالمین کا یہی ہے کہ جب دنیا میں کسی نوع کی شدت اور صعوبت اپنے انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو رحمت الہی اُس کے دُور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے.جیسے جب امساک باراں سے غایت درجہ کا قحط پڑ کر خلقت کا کام تمام ہونے لگتا ہے تو آخر خداوند کریم بارش کر دیتا ہے.اور جب وہاء سے لاکھوں آدمی مرنے لگتے ہیں تو کوئی صورت اصلاح ہوا کی نکل آتی ہے یا کوئی دوا ہی پیدا ہو جاتی ہے.اور جب کسی ظالم کے پنجہ میں کوئی قوم گرفتار ہوتی ہے تو آخر کوئی عادل اور فریاد رس پیدا ہو جاتا ہے.پس ایسا ہی جب لوگ خدا کا راستہ بھول جاتے ہیں اور توحید اور حق پرستی کو چھوڑ دیتے ہیں تو خدا وند تعالی اپنی طرف سے کسی بندہ کو بصیرت کامل عطا فرما کر اور اپنے کلام اور الہام سے مشرف کر کے بنی آدم کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے کہ تا جس قدر بگاڑ ہو گیا ہے اُس کی اصلاح کرے.اس میں اصل حقیقت یہ ہے کہ پروردگار جو قیوم عالم کا ہے اور بقا اور وجود عالم کا اُسی کے سہارے اور آسرے سے ہے کسی اپنی فیضان رسانی کی صفت کو خلقت سے دریغ نہیں کرتا اور نہ بے کار اور معطل چھوڑتا ہے بلکہ ہر یک صفت اس کی اپنے موقعہ پر فی الفور ظہور پذیر ہو جاتی ہے.پس جبکہ از روئے تجویز عقلی کے اس بات پر قطع واجب ہوا کہ ہر یک آفت کا غلبہ توڑنے کے لئے خدا تعالیٰ کی وہ صفت جو اُس کے مقابل پر پڑی ہے ظہور کرتی ہے اور یہ بات تواریخ سے اور خود مخالفین کے اقرار سے اور خاص فرقان مجید کے بیان واضح سے ثابت ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت میں یہ آفت غالب ہو رہی تھی کہ دنیا کی تمام قوموں نے سیدھا راستہ توحید اور اخلاص اور حق پرستی کا چھوڑ دیا تھا.اور نیز یہ بات بھی ہر یک کو معلوم ہے کہ اس فساد موجودہ کے اصلاح کرنے والے اور ایک عالم کو ظلمات شرک اور مخلوق پرستی سے نکال کر تو حید پر قائم کرنے والے صرف آنحضرت ہی ہیں کوئی دوسرا نہیں تو ان سب مقدمات سے نتیجہ یہ نکلا کہ آنحضرت خدا کی طرف سے بچے ہادی ہیں.چنانچہ اس دلیل کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں آپ ارشاد فرمایا ہے اور وہ یہ ہے.تَاللهِ لَقَدْ اَرسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمُ - وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِى اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ - وَالله اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ

Page 486

فِي ذلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ لا (سورة النحل الجزو ۱۳).اب غور سے دیکھنا چاہئے کہ وہ تینوں مقدمات متذکرہ بالا کہ جن سے ابھی ہم نے آنحضرت کے نیچے ہادی ہونے کا نتیجہ نکالا تھا کہ کس خوبی اور لطافت سے آیات مدوحہ میں درج ہیں.اول گمراہوں کے دلوں کو جو صد ہاسال کی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے زمین خشک اور مُردہ سے تشبیہ دے کر اور کلام الہی کو مینہ کا پانی جو آسمان کی طرف سے آتا ہے ٹھہرا کر اس قانونِ قدیم کی طرف اشارہ فرمایا جو امساک باراں کی شدت کے وقت ہمیشہ رحمت الہی بنی آدم کو برباد ہونے سے بچالیتی ہے اور یہ بات جتلادی که به قانون قدرت صرف جسمانی پانی میں محدود نہیں بلکہ روحانی پانی بھی شدت اور صعوبت کے وقت میں جو پھیل جانا عام گمراہی کا ہے ضرور نازل ہوتا ہے.اور اس جگہ بھی رحمت الہی آفت قلوب کا غلبہ توڑنے کے لئے ضرور ظہور کرتی ہے.اور پھر انہیں آیات میں یہ دوسری بات بھی بتلا دی کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے تمام زمین گمراہ ہو چکی تھی.اور اسی طرح اخیر پر یہ بھی ظاہر کر دیا کہ ان روحانی مُردوں کو اس کلام پاک نے زندہ کیا اور آخر یہ بات کہہ کر کہ اس میں اس کتاب کی صداقت کا 600 نشان ہے.طالبین حق کو اس نتیجہ نکالنے کی طرف توجہ دلائی کہ فرقان مجید خدا کی کتاب ہے.اور جیسا کہ اس دلیل سے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی صادق ہونا ثابت ہوتا ہے ایسا ہی اس سے آنحضرت کا دوسرے نبیوں سے افضل ہونا بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ آنحضرت کو تمام عالم کا مقابلہ کرنا پڑا اور جو کام حضرت ممدوح کے سپرد ہوا وہ حقیقت میں ہزار دو ہزار نبی کا کام تھا.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۱۲ تا۱۶ حاشیہ نمبر ۱۰) وہ زمانہ کہ جس میں آنحضرت مبعوث ہوئے حقیقت میں ایسا زمانہ تھا کہ جس کی حالت موجودہ ایک بزرگ اور عظیم القدر مصلح ربانی اور ہادی آسمانی کی اشد محتاج تھی.اور جو جو تعلیم دی گئی وہ بھی واقعہ میں تچی اور ایسی تھی کہ جس کی نہایت ضرورت تھی اور اُن تمام امور کی جامع تھی کہ جس سے تمام ضرورتیں زمانہ کی پوری ہوتی تھیں اور پھر اس تعلیم نے اثر بھی ایسا کر دکھایا کہ لاکھوں دلوں کو حق اور راستی کی طرف کھینچ لائی اور لاکھوں سینوں پر لا اله الا اللہ کا نقش جما دیا اور جو نبوت کی علت غائی ہوتی ہے یعنی تعلیم اصول نجات کے اس کو ایسا کمال تک پہنچایا جو کسی دوسرے نبی کے ہاتھ سے وہ کمال کسی زمانہ میں بہم نہیں پہنچا.تو ان واقعات پر نظر ڈالنے سے بلا اختیار یہ شہادت دل سے جوش مار کر نکلے گی کہ النحل : ۶۴ تا ۶۶

Page 487

آنحضرت ضرور خدا کی طرف سے نیچے ہادی ہیں.جو شخص تعصب اور ضدیت سے انکاری ہو اُس کی مرض تو لا علاج ہے خواہ وہ خدا سے بھی منکر ہو جائے ورنہ یہ سارے آثار صداقت جو آنحضرت میں کامل طور پر جمع ہیں کسی اور نبی میں کوئی ایک تو ثابت کر کے دکھلاوے تا ہم بھی جانیں.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۱۲ تا ۱۱۴) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجد داعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے.اس فخر میں ہمارے نبی صلعم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی.جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر تو حید کا جامہ نہ پہن لیا.اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہونچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی.یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلعم کے نصیب نہیں ہوئی یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت صلعم کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جبکہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعا ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا.اور پھر آپ نے ایسے وقت میں دُنیا سے انتقال فرمایا جبکہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو چھوڑ کر تو حید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے اور در حقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی عادات سکھلائے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا.اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں - باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی.اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا.وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا.پس بلاشبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہونچے اور تمام نیک قو تیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بار و بر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تأخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہو گئے اور چونکہ آپ صفات الہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی اور آپ کے دو نام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے ہیں اور

Page 488

۴۷۸ آپ کی نبوت عامہ میں کوئی حصہ بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتدا سے تمام دنیا کے لئے ہے.(لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶ ۲۰، ۲۰۷) اصل حقیقت یہ ہے کہ سب نبیوں سے افضل وہ نبی ہے کہ جو دنیا کا مربی اعظم ہے یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ سے فساد اعظم دنیا کا اصلاح پذیر ہوا جس نے تو حید گم گشتہ اور نا پدید شدہ کو پھر زمین پر قائم کیا.جس نے تمام مذاہب باطلہ کو حجت اور دلیل سے مغلوب کر کے ہر یک گمراہ کے شبہات مٹائے.جس نے ہر یک ملحد کے وسواس دور کئے اور سچا سامان نجات کا کہ جس کے لئے کسی بے گناہ کو پھانسی دینا ضروری نہیں اور خدا کو اپنی قدیمی اور ازلی جگہ سے کھسکا کر کسی عورت کے پیٹ میں ڈالنا کچھ حاجت نہیں اصول حقہ کی تعلیم سے از سر نو عطا فرمایا.پس اس دلیل سے اس کا فائدہ اور افاضہ سب زیادہ ہے.اس کا درجہ اور رتبہ بھی سب سے زیادہ ہے.اب تواریخ بتلاتی ہے.کتاب آسمانی شاہد ہے اور جن کی آنکھیں ہیں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ نبی جو بموجب اس قاعدہ کے سب نبیوں سے افضل ٹھہرتا ہے وہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.( براہین احمدیہ ہر چہار تخصص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۹۷ حاشیہ نمبر ۶) خیال کرنا چاہئے کہ کسی استقلال سے آنحضرت اپنے دعوائی نبوت پر باوجود پیدا ہو جانے ہزاروں خطرات اور کھڑے ہو جانے لاکھوں معاندوں اور مزاحموں اور ڈرانے والوں کے اول سے اخیر دم تک ثابت اور قائم رہے.برسوں تک وہ مصیبتیں دیکھیں اور وہ دُکھ اُٹھانے پڑے جو کامیابی سے بکلی مایوس کرتے تھے اور روز بروز بڑھتے جاتے تھے کہ جن پر صبر کرنے سے کسی دنیوی مقصد کا حاصل ہو جانا وہم بھی نہیں گذرتا تھا.بلکہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے از دست اپنی پہلی جمعیت کو بھی کھو بیٹھے اور ایک بات کہہ کر لاکھ تفرقہ خرید لیا.اور ہزاروں بلاؤں کو اپنے سر پر بلا لیا.وطن سے نکالے گئے قتل کے لئے تعاقب کئے گئے.گھر اور اسباب تباہ اور برباد ہو گیا.بار ہاز ہر دی گئی.اور جو خیر خواہ تھے وہ بدخواہ بن گئے اور جو دوست تھے وہ دشمنی کرنے لگے اور ایک زمانہ دراز تک وہ تلخیاں اٹھانی پڑیں کہ جن پر ثابت قدمی سے ٹھہرے رہنا کسی فریبی اور مکار کا کام نہیں.اور پھر جب مدت مدید کے بعد غلبہ اسلام کا ہوا تو ان دولت اور اقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا.کوئی عمارت نہ بنائی.کوئی بارگاہ طیارنہ ہوئی.کوئی سامانِ شاہانہ عیش و عشرت کا تجویز نہ کیا گیا.کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا بلکہ جو کچھ آیا وہ سب تیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبر گیری میں خرچ ہوتا رہا.اور کبھی ایک وقت بھی سیر

Page 489

۴۷۹ ہو کر نہ کھایا.اور پھر صاف گوئی اس قدر کہ توحید کا وعظ کر کے سب قوموں اور سارے فرقوں اور تمام جہان کے لوگوں کو جو شرک میں ڈوبے ہوئے تھے مخالف بنا لیا.جو اپنے اور خویش تھے ان کو بُت پرستی سے منع کر کے سب سے پہلے دشمن بنایا.یہودیوں سے بھی بات بگاڑ لی کیونکہ ان کو طرح طرح کی مخلوق پرستی اور پیر پرستی اور بد اعمالیوں سے روکا.حضرت مسیح کی تکذیب اور توہین سے منع کیا.جس سے ان کا نہایت دل جل گیا.اور سخت عداوت پر آمادہ ہو گئے.اور ہر دم قتل کر دینے کی گھات میں رہنے لگے.اسی طرح عیسائیوں کو بھی خفا کر دیا گیا.کیونکہ جیسا کہ اُن کا اعتقاد تھا حضرت عیسی کو نہ خدا، نہ خدا کا بیٹا قرار دیا اور نہ ان کو پھانسی مل کر دوسروں کو بچانے والا تسلیم کیا.آتش پرست اور ستارہ پرست بھی ناراض ہو گئے.کیونکہ ان کو بھی اُن کے دیوتوں کی پرستش سے ممانعت کی گئی.اور مدار نجات کا صرف تو حید ٹھہرائی گئی.اب جائے انصاف ہے کہ کیا دنیا حاصل کرنے کی یہی تدبیر تھی؟ (براہین احمدیہ ہر چہار صص - روحانی خزائن جلد اصفحہ ۱۰۸، ۱۰۹) آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بہیم وامید سے بالکل منہ پھیر نے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پروانہ کی کہ توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی.اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دُکھ اور درد اُٹھانا ہو گا.بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کر کے اپنے مولیٰ کا حکم بجالائے اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعات خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر تو گل کر کے کھلا کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحہ ۱۱۲۱۱۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ سالہ زندگی جو مکہ میں گذری اس میں جس قدر مصائب اور مشکلات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آئیں ہم تو ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.دل کانپ اُٹھتا ہے جب اُن کا تصور کرتے ہیں.اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی حوصلگی، فراخدلی ، استقلال اور عزم و استقامت کا پتہ لگتا ہے.کیسا کوہ وقار انسان ہے کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے پڑتے ہیں مگر اس کو ذرا بھی جنبش نہیں دے سکتے.وہ اپنے منصب کے ادا کرنے میں ایک لمحہ سُست اور غمگین نہیں ہوا..

Page 490

۴۸۰ حبیب وہ مشکلات اس کے ارادے کو تبدیل نہیں کر سکیں.بعض لوگ غلط انہی سے کہہ اُٹھتے ہیں کہ آپ تو خدا کے ب مصطفے اور مجتنے تھے پھر یہ مصیبتیں اور مشکلات کیوں آئیں؟ میں کہتا ہوں کہ پانی کے لئے جب تک زمین کو کھودا نہ جاوے اس کا جگر پھاڑا نہ جاوے وہ کب نکل سکتا ہے.کتنے ہی گز گہرا زمین کو کھودتے چلے جائیں تب کہیں جا کر خوشگوار پانی نکلتا ہے جو مایۂ حیات ہوتا ہے.اسی طرح وہ لذت جو خدا تعالیٰ کی راہ میں استقلال اور ثبات قدم کے دکھانے سے نہیں ملتی جب تک ان مشکلات اور مصائب میں سے ہو کر انسان نہ گذرے.وہ لوگ جو اس کو چہ سے بے خبر ہیں وہ ان مصائب کی لذت سے کب آشنا ہو سکتے ہیں اور کب اسے محسوس کر سکتے ہیں.انہیں کیا معلوم ہے کہ جب آپ کو کوئی تکلیف پہونچتی تھی اندر سے ایک سرور اور لذت کا چشمہ پھوٹ نکلتا تھا.خدا تعالیٰ پر توکل ، اس کی محبت اور نصرت پر ایمان پیدا ہوتا تھا.الحکم مورخه ۳۰ / جون ۱۹۰۱ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۲ ۳.ملفوظات جلد اول صفحه ۵۱۶، ۵۱۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) کیا یہ حیرت انگیز ماجرا نہیں کہ ایک بے زر، بے زور، بے کس اُمی، یتیم ، تنہا، غریب ایسے زمانہ میں کہ جس میں ہر ایک قوم پوری پوری طاقت مالی اور فوجی اور علمی رکھتی تھی ایسی روشن تعلیم لایا کہ اپنی براہین قاطعہ اور حُجَجِ وَاضِحَہ سے سب کی زبان بند کر دی.اور بڑے بڑے لوگوں کی جو حکیم بنے پھرتے تھے اور فیلسوف کہلاتے تھے فاش غلطیاں نکالیں اور پھر باوجود بے کسی اور غریبی کے زور بھی ایسا دکھایا کہ بادشاہوں کو تختوں سے گرا دیا اور انہیں تختوں پر غریبوں کو بٹھایا.اگر یہ خدا کی تائید نہیں تھی تو اور کیا تھی؟ کیا تمام دنیا پر عقل اور علم اور طاقت اور زور میں غالب آجانا بغیر تائید الہی کے بھی ہوا کرتا ہے؟ خیال کرنا چاہئے کہ جب آنحضرت نے پہلے پہل مکے کے لوگوں میں منادی کی کہ میں نبی ہوں.اُس وقت ان کے ہمراہ کون تھا اور رکس بادشاہ کا خزانہ ان کے قبضہ میں آ گیا تھا کہ جس پر اعتماد کر کے ساری دنیا سے مقابلہ کرنے کی ٹھہر گئی؟ یا کون سی فوج اکٹھی کر لی تھی کہ جس پر بھروسہ کر کے تمام بادشاہوں کے حملوں سے امن ہو گیا تھا ؟ ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں کہ اُس وقت آنحضرت زمین پرا کیلے اور بے کس اور بے سامان تھے صرف اُن کے ساتھ خدا تھا جس نے ان کو ایک بڑے مطلب کے لئے پیدا کیا تھا.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۲۰،۱۱۹) پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا.اگر آنجناب در حقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے

Page 491

۴۸۱ جاتے.ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھا لی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے.(۲) دوسرا وہ موقعہ تھا جبکہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابوبکر کے چھپے ہوئے تھے.(۳) تیسرا وہ نازک موقعہ تھا جبکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا.اور آپ پر بہت سی تلوار میں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی.یہ ایک معجزہ تھا.(۴) چوتھا وہ موقعہ تھا جبکہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اُس کا دیا گیا تھا (۵) پانچواں وہ نہایت خطرناک موقع تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے مصم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے.پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی زبر دست دلیل اس بات پر ہے کہ در حقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۶۳ ۲۶۴ حاشیه ) انبیاء اور اولیاء کا وجود اس لئے ہوتا ہے کہ تا لوگ جمیع اخلاق میں اُن کی پیروی کریں.اور جن امور پر خدا نے ان کو استقامت بخشی ہے اُسی جادہ استقامت پر سب حق کے طالب قدم ماریں اور یہ بات نہایت بد یہی ہے کہ اخلاق فاضلہ کسی انسان کے اس وقت بپایہ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوں اور اُسی وقت دلوں پر اُن کی تاثیریں بھی ہوتی ہیں مثلا عفو وہ معتبر اور قابل تعریف ہے کہ جو قدرت انتقام کے وقت میں ہو اور پر ہیز گاری وہ قابل اعتبار ہے کہ جو نفس پروری کی قدرت موجود ہوتے ہوئے پھر پرہیز گاری قائم رہے.غرض خدائے تعالیٰ کا ارادہ انبیاء اور اولیاء کی نسبت یہ ہوتا ہے کہ اُن کے ہر یک قسم کے اخلاق ظاہر ہوں اور یہ پایہ ثبوت پہنچ جائیں.سوخدائے تعالیٰ اسی ارادہ کو پورا کرنے کی غرض سے ان کی نورانی عمر کو دو حصہ پر منقسم کر دیتا ہے.ایک حصہ تنگیوں اور مصیبتوں میں گذرتا ہے اور ہر طرح سے دُکھ دیئے جاتے ہیں اور ستائے جاتے ہیں تا وہ اعلیٰ اخلاق اُن کے ظاہر ہو جائیں کہ جو بجز سخت تر مصیبتوں کے ہرگز ظاہر اور ثابت نہیں ہو سکتے.اگر اُن پر وہ سخت تر مصیبتیں نازل نہ ہوں تو یہ کیونکر ثابت ہو کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ مصیبتوں کے پڑنے سے اپنے مولیٰ سے بے وفائی نہیں کرتے بلکہ اور بھی آگے قدم بڑھاتے ہیں.اور خداوند کریم کا شکر کرتے ہیں کہ اُس نے سب کو

Page 492

۴۸۲ چھوڑ کر انہیں پر نظر عنایت کی اور انہیں کو اس لائق سمجھا کہ اُس کے لئے اور اُس کی راہ میں ستائے جائیں.سو خدائے تعالیٰ اُن پر مصیبتیں نازل کرتا ہے تا ان کا صبر ان کا صدق قدم اُن کی مردی ان کی استقامت ان کی وفاداری ان کی فتوت شعاری لوگوں پر ظاہر کر کے الاستقامة فوق الكرامة كا مصداق ان کو ٹھہرا دے.کیونکہ کامل صبر بجز کامل مصیبتوں کے ظاہر نہیں ہوسکتا.اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور ثابت قدمی بجز اعلیٰ درجہ کے زلزلہ کے معلوم نہیں ہو سکتی اور یہ مصائب حقیقت میں انبیاء اور اولیاء کے لئے روحانی نعمتیں ہیں جن سے دنیا میں ان کے اخلاق فاضلہ جن میں وہ بے مثل و مانند ہیں ظاہر ہوتے ہیں اور آخرت میں ان کے درجات کی ترقی ہوتی ہے.اگر خدا ان پر یہ مصیبتیں نازل نہ کرتا تو یہ نعمتیں بھی ان کو حاصل نہ ہوتیں اور نہ عوام پر اُن کے شمائل حسنہ کما حقہ کھلتے.بلکہ دوسرے لوگوں کی طرح اور ان کے مساوی ٹھہرتے.اور گو اپنی چند روزہ عمر کو کیسے ہی عشرت اور راحت میں بسر کرتے پر آخر ایک دن اس دار فانی سے گذر جاتے اور اس صورت میں نہ وہ عیش اور عشرت اُن کی باقی رہتی نہ آخرت کے درجات عالیہ حاصل ہوتے نہ دنیا میں اُن کی وہ فتوت اور جواں مردی اور وفا داری اور شجاعت شہرہ آفاق ہوتی جس سے وہ ایسے ارجمند ٹھہرے جن کا کوئی مانند نہیں اور ایسے لگا نہ ٹھہرے جن کا کوئی ہم جنس نہیں اور ایسے فرد الفرد ٹھہرے جن کا کوئی ثانی نہیں اور ایسے غیب الغیب ٹھہرے جن تک کسی ادراک کی رسائی نہیں.اور ایسے کامل اور بہادر ٹھہرے کہ گویا ہزار ہاشیر ایک قالب میں ہیں.اور ہزار ہا پلنگ ایک بدن میں جن کی قوت اور طاقت سب کی نظروں سے بلند تر ہو گئی اور جو تقرب کے اعلیٰ درجات تک پہنچ گئی.اور دوسرا حصہ انبیاء اور اولیاء کی عمر کا فتح میں، اقبال میں، دولت میں ، بمرتبہ کمال ہوتا ہے تا وہ اخلاق اُن کے ظاہر ہو جائیں کہ جن کے ظہور کے لئے فتح مند ہونا، صاحب اقبال ہونا ، صاحب دولت ہونا، صاحب اختیار ہونا، صاحب اقتدار ہونا ، صاحب طاقت ہونا ضروری ہے.کیونکہ اپنے دُکھ دینے والوں کے گناہ بخشا اور اپنے ستانے والوں سے درگذر کرنا اور اپنے دشمنوں سے پیار کرنا.اور اپنے بداندیشوں کی خیر خواہی بجالانا دولت سے دل نہ لگانا.دولت سے مغرور نہ ہونا.دولتمندی میں امساک اور بخل اختیار نہ کرنا اور کرم اور جود اور بخشش کا دروازہ کھولنا اور دولت کو ذریعہ نفس پروری نہ ٹھہرانا اور حکومت کو آلۂ ظلم و تعدی نہ بنانا یہ سب اخلاق ایسے ہیں کہ جن کے ثبوت کے لئے صاحب دولت اور صاحب طاقت ہونا شرط ہے اور اُسی وقت بپایہ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب انسان کے لئے دولت و اقتدار

Page 493

۴۸۳ دونوں میسر ہوں.پس چونکہ بجز زمانه مصیبت و ادبار و زمانه دولت و اقتدار یہ دونوں قسم کے اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے اس لئے حکمتِ کاملہ ایزدی نے تقاضا کیا کہ انبیاء اور اولیاء کو ان دونوں طور کی حالتوں سے کہ جو ہزار ہا نعمتوں پر مشتمل ہیں متمتع کرے لیکن ان دونوں حالتوں کا زمانہ وقوع ہر ایک کے لئے ایک ترتیب پر نہیں ہوتا بلکہ حکمت الہیہ بعض کے لئے زمانہ امن و آسائش پہلے حصہ عمر میں میسر کر دیتی ہے اور زمانہ تکالیف پیچھے سے اور بعض پر پہلے وقتوں میں تکالیف وارد ہوتی ہیں اور پھر آخر کار نصرت الہی شامل ہو جاتی ہے اور بعض میں یہ دونوں حالتیں مخفی ہوتی ہیں.اور بعض میں کامل درجہ پر ظہور و بروز پکڑتی ہیں اور اس بارے میں سب سے اوّل قدم حضرت خاتم الرسل محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال وضاحت سے یہ دونوں حالتیں وارد ہو گئیں اور ایسی ترتیب سے آئیں کہ جس سے تمام اخلاق فاضلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثل آفتاب کے روشن ہو گئے اور مضمون إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ کا پایہ ثابت پہنچ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور پر علی وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا اور ان کا مقرب اللہ ہونا ظاہر کر دیا ہے.پس اس تحقیق سے یہ اعتراض بھی بالکل دُور ہو گیا کہ جو مسیح کے اخلاق کی نسبت دلوں میں گذر سکتا ہے.یعنی یہ کہ اخلاق حضرت مسیح علیہ السلام دونوں قسم مذکورہ بالا پر علی وجہ الکمال ثابت نہیں ہو سکتے بلکہ ایک قسم کے رو سے بھی ثابت نہیں ہیں کیونکہ مسیح نے جو زمانہ مصیبتوں میں صبر کیا تو کمالیت اور صحت اس صبر کی تب بپایۂ صداقت پہنچ سکتی تھی کہ جب صحیح اپنے تکلیف دہندوں پر اقتدار اور غلبہ پا کر اپنے موذیوں کے گناہ دلی صفائی سے بخش دیتا جیسا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکتی فتح پا کر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا.اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا اور بجز ان از لی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پا کر سب کو لَا تَثْرِیبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ نے کہا اور اس عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کر لیا اور حقانی صبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ جو ایک زمانہ دراز تک آنجناب نے اُن القلم : ۵ يوسف : ٩٣

Page 494

۴۸۴ کی سخت سخت ایذاؤں پر کیا تھا آفتاب کی طرح اُن کے سامنے روشن ہو گیا.اور چونکہ فطرتاً یہ بات انسان کی عادت میں داخل ہے کہ اسی شخص کے صبر کی عظمت اور بزرگی انسان پر کامل طور پر روشن ہوتی ہے کہ جو بعد زمانہ آزارکشی کے اپنے آزار دہندہ پر قدرت انتقام پا کر اس کے گناہ کو بخش دے.اسی وجہ سے مسیح کے اخلاق کہ جو صبر اور حلم اور برداشت کے متعلق تھے بخوبی ثابت نہ ہوئے.اور یہ امر ا چھی طرح نہ کھلا کہ مسیح کا صبر اور حلم اختیاری تھا یا اضطراری تھا.کیونکہ مسیح نے اقتدار اور طاقت کا زمانہ نہیں پایا تا دیکھا جاتا کہ اس نے اپنے موذیوں کے گناہ کو عفو کیا یا انتقام لیا.برخلاف اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ وہ صد ہا مواقع میں اچھی طرح کھل گئے.اور امتحان کئے گئے اور اُن کی صداقت آفتاب کی طرح روشن ہو گئی اور جو اخلاق کرم اور جود اور سخاوت اور ایثار اور فتوت اور شجاعت ہوگئی اور زہد اور قناعت اور اغراض عَنِ الدُّنْیا کے متعلق تھے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں ایسے روشن اور تاباں اور درخشاں ہوئے کہ مسیح کیا بلکہ دنیا میں آنحضرت سے پہلے کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس کے اخلاق ایسی وضاحت تامہ سے روشن ہو گئے ہوں.کیونکہ خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دیئے سو آنجناب نے اُن سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک جنبہ بھی خرچ نہ ہوا.نہ کوئی عمارت بنائی نہ کوئی بارگاہ طیار ہوئی بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی اپنی ساری عمر بسر کی.بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جو دل آزار تھے اُن کو اُن کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی.سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا اور کھانے کے لئے نان کو یا فاقہ اختیار کیا.دنیا کی دولتیں بکثرت اُن کو دی گئیں.پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا اور ہمیشہ فقر کو تونگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا اور اُس دن سے جو ظہور فرمایا تا اس دن تک جو اپنے رفیق اعلے سے جاملے بجز اپنے مولیٰ کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا.اور ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پر معرکہ جنگ میں کہ جہاں قتل کیا جانا یقینی امر تھا خالصا خدا کے لئے کھڑے ہو کر اپنی شجاعت اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھلائی.غرض جود اور سخاوت اور زہد اور قناعت اور مردی اور شجاعت اور محبت الہیہ کے متعلق جو جو اخلاق فاضلہ ہیں وہ بھی خدا وند کریم نے حضرت خاتم الانبیاء میں ایسے ظاہر کئے کہ جن کی مثل نہ کبھی دنیا میں ظاہر ہوئی اور نہ آئندہ ظاہر ہو گی.لیکن حضرت مسیح علیہ السلام میں اس قسم کے اخلاق بھی اچھی طرح ثابت نہیں ہوئے کیونکہ یہ سب

Page 495

۴۸۵ اخلاق بجز زمانہ اقتدار اور دولت کے یہ پایہ ثبوت نہیں پہنچ سکتے اور مسیح نے اقتدار اور دولت کا زمانہ نہیں پایا اس لئے دونوں قسم کے اخلاق اس کے زیر پردہ رہے اور جیسا کہ شرط ہی ظہور پذیر نہ ہوئی.پس یہ اعتراض مذکورہ بالا جو مسیح کی ناقص حالت پر وارد ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل حالت سے بکلی مندفع ہو گیا کیونکہ وجود باجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ایک نبی کے لئے ستم اور مکمل ہے اور اس ذات عالی کے ذریعہ سے جو کچھ امر مسیح اور دوسرے نبیوں کا مشتبہ اور مخفی رہا تھا وہ چمک اٹھا اور خدا نے اس ذات مقدس پر انہیں معنوں کر کے وحی اور رسالت کو ختم کیا کہ سب کمالات اس وجود با جود پر ختم ہوگئے.وَهَذَا فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ.براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۷۶ تا ۲۹۲ حاشیہ نمبر۱۱) خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح کو دوحصوں پر منقسم کر دیا.ایک حصہ دُکھوں اور مصیبتوں اور تکلیفوں کا اور دوسرا حصہ فتح یابی کا تا مصیبتوں کے وقت میں وہ خُلق ظاہر ہوں جو مصیبتوں کے وقت ظاہر ہوا کرتے ہیں اور فتح اور اقتدار کے وقت میں وہ خلق ثابت ہوں جو بغیر اقتدار کے ثابت نہیں ہوتے.سو ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قسم کے اخلاق دونوں زمانوں اور دونوں حالتوں کے وارد ہونے سے کمال وضاحت سے ثابت ہو گئے.چنانچہ وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پر توکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارہ کرنا اور اپنے کام میں شست نہ ہونا اور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلا دیئے جو کفار ایسی استقامت دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا.اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا انہی اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا.دُکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا.ان کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کر دیا اور قابو پا کر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک کوئی خدا کی طرف سے اور حقیقہ راستباز نہ ہو یہ

Page 496

۴۸۶ اخلاق ہرگز دکھلا نہیں سکتا یہی وجہ ہے کہ آپ کے دشمنوں کے پرانے کینے یکلخت دُور ہو گئے.آپ کا بڑا بھاری خلق جس کو آپ نے ثابت کر کے دکھلا دیا وہ خلق تھا جو قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے.اور وہ یہ ہے.قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ یعنی ان کو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا خدا کی راہ میں ہے یعنی اس کا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور نیز اس کے بندوں کے آرام دینے کے لئے ہے.تا میرے مرنے سے اُن کو زندگی حاصل ہو.(اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۷، ۴۴۸) سب عزتوں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہے جس کا کل اسلامی دنیا پر اثر ہے آپ ہی کی غیرت نے پھر دنیا کو زندہ کیا.عرب جن میں زنا ، شراب اور جنگ جوئی کے سوا کچھ رہا ہی نہ تھا اور حقوق العباد کا خون ہو چکا تھا.ہمدردی اور خیر خواہی نوع انسان کا نام ونشان تک مٹ چکا تھا اور نہ صرف حقوق العباد ہی تباہ ہو چکے تھے بلکہ حقوق اللہ پر اس سے بھی زیادہ تاریکی چھا گئی تھی.اللہ تعالیٰ کی صفات پتھروں ، بوٹیوں اور ستاروں کو دی گئی تھیں.قسم قسم کا شرک پھیلا ہوا تھا.عاجز انسان اور انسان کی شرمگاہوں تک کی پوجا دنیا میں ہو رہی تھی.ایسی حالت مکروہ کا نقشہ اگر ذرا دیر کے لئے بھی ایک سلیم الفطرت انسان کے سامنے آجاوے تو وہ ایک خطرناک ظلمت اور ظلم وجور کے بھیانک اور خوفناک نظارہ کو دیکھے گا.فالج ایک طرف گرتا ہے مگر یہ فالج ایسا فالج تھا کہ دونوں طرف گرا تھا.فساد کامل دنیا میں برپا ہو چکا تھا.نہ بحر میں امن وسلامتی تھی اور نہ کر پر سکون وراحت.اب اس تاریکی اور ہلاکت کے زمانہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں.آپ نے آ کر کیسے کامل طور پر اس میزان کے دونوں پہلو درست فرمائے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اپنے اصلی مرکز پر قائم کر دکھایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی طاقت کا کمال اس وقت ذہن میں آ سکتا ہے جبکہ اس زمانے کی حالت پر نگاہ کی جاوے.مخالفوں نے آپ کو اور آپ کے متبعین کو جس قدر تکالیف پہونچائیں اور اس کے بالمقابل آپ نے ایسی حالت میں جبکہ آپ کو پورا اقتدار اور اختیار حاصل تھا اُن سے جو کچھ سلوک کیا وہ آپ کے علو شان کو ظاہر کرتا ہے.ابو جہل اور اس کے دوسرے رفیقوں نے کونسی تکلیف تھی جو آپ کو اور آپ کے جاں نثار خادموں کو الانعام : ٣ ۱۶۳:

Page 497

۴۸۷ نہیں دی.غریب مسلمان عورتوں کو اونٹوں سے باندھ کر مخالف جہات میں دوڑایا اور وہ چیری جاتی تھیں محض اس گناہ پر کہ وہ لا الہ الا اللہ پر کیوں قائل ہوئیں مگر آپ نے اس کے مقابل صبر و برداشت سے کام لیا اور جبکہ مکہ فتح ہوا تو لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ کر معاف فرمایا.یہ کس قدرا خلاقی کمال ہے جو کسی دوسرے نبی میں نہیں پایا جاتا.اللهم صل على محمد و على آل محمد.(الحکم مورخہ ۹ / جولائی ۱۹۰۰ء صفحہ کالم ۳ و صفحہ ۵ کالم ۱.ملفوظات جلد اول صفحه ۳۵۶، ۳۵۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نے اپنے رسول مقبول کی راہ میں ایسا اتحاد اور ایسی روحانی یگانگت پیدا کر لی تھی کہ اسلامی اخوت کی رو سے سچ سچ عضو واحد کی طرح ہوگئی تھی اور ان کے روزانہ برتاؤ اور زندگی اور ظاہر و باطن میں انوار نبوت ایسے رچ گئے تھے کہ گویا وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عکسی تصویریں تھے.سو یہ بھاری معجزہ اندرونی تبدیلی کا جس کے ذریعہ سے مخش بت پرستی کرنے والے کامل خدا پرستی تک پہنچ گئے.اور ہر دم دنیا میں غرق رہنے والے محبوب حقیقی سے ایسا تعلق پکڑ گئے کہ اس کی راہ میں پانی کی طرح اپنے خونوں کو بہا دیا.یہ دراصل ایک صادق اور کامل نبی کی صحبت میں مخلصانہ قدم سے عمر بسر کرنے کا نتیجہ تھا.فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۱ ۲۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک عظیم الشان کامیاب زندگی ہے.آپ کیا بلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کے اور کیا بلحاظ اپنی قوت قدسی اور عقد ہمت کے اور کیا بلحاظ اپنی تعلیم کی خوبی اور تکمیل کے اور کیا بلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعاؤں کی قبولیت کے.غرض ہر طرح اور ہر پہلو میں چمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے ساتھ رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ایک نبی سے نبی انسان بھی بشر طیکہ اس کے دل میں بے جاضر اور عداوت نہ ہو صاف طور پر مان لیتا ہے کہ آپ تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ اللہ کا کامل نمونہ اور کامل انسان ہیں.الحکم ۱۰ را پریل ۱۹۰۲، صفحه ۵ کالم نمبر ۲) وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گذرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے.اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا ؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں يوسف : ٩٣

Page 498

۴۸۸ کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلا ئیں کہ جو اُس اُمی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اَللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَ الِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَ غَمِّهِ وَ حُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَ اَنْزِلُ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ ( برکات الدعاء.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۱،۱۰) ابتدائے اسلام میں بھی جو کچھ ہوا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو کہ مکہ کی گلیوں میں خدا تعالیٰ کے آگے رو رو کر آپ نے مانگیں.جس قدر عظیم الشان فتوحات ہوئیں کہ تمام دنیا کے رنگ ڈھنگ کو بدل دیا وہ سب آنحضرت کی دعاؤں کا اثر تھا.ورنہ صحابہ کی قوت کا تو یہ حال تھا کہ جنگ بدر میں صحابہ کے پاس صرف تین تلوار میں تھیں اور وہ بھی لکڑی کی بنی ہوئی تھیں.الحکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۶ ء صفحہ ۴ کالم ۳ ۴۰ ) ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح نہایت وسیع اور عام اور مسلّم الطوائف ہے اور یہ مرتبہ اصلاح کا کسی گذشتہ نبی کو نصیب نہیں ہوا.اور اگر کوئی عرب کی تاریخ کو آگے رکھ کر سوچے تو اسے معلوم ہو گا کہ اُس وقت کے بُت پرست اور عیسائی اور یہودی کیسے متعصب تھے.اور کیونکر ان کی اصلاح کی.صد ہا سال سے نومیدی ہو چکی تھی.پھر نظر اٹھا کر دیکھیے کہ قرآنی تعلیم نے جو ان کے بالکل مخالف تھی کیسی نمایاں تاثیر میں دکھلا ئیں اور کیسی ہر یک بد اعتقادی اور ہر یک بدکاری کا استیصال کیا.شراب کو جو ام الخبائث ہے دور کیا.قمار بازی کی رسم کو موقوف کیا دختر کشی کا استیصال کیا اور جو انسانی رحم اور عدل اور پاکیزگی کے برخلاف عادات تھیں سب کی اصلاح کی.ہاں مجرموں نے اپنے جرموں کی سزائیں بھی پائیں.جن کے پانے کے وہ سزا وار تھے.پس اصلاح کا امرایسا امر نہیں ہے جس سے کوئی انکار کر سکے.( نور القرآن نمبرا.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۶۶ حاشیه) ہمارے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت سے اور کوئی بڑھ کر شہادت نہیں ہمارا تو اس بات کوسن کر بدن کانپ جاتا ہے کہ جب ایک شخص کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پیش کیا جائے تو وہ اس کو قبول نہیں کرتا اور دوسری طرف بہکتا پھرتا ہے.اتمام الحجة - روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۹۳) مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریم کی عزت کے لئے جان دیتے ہیں اور وہ اس بے عزتی سے مرنا

Page 499

۴۸۹ بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخصوں سے دلی صفائی کریں اور ان کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ ان کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہاروں میں نہایت تو ہین سے ان کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ سے اُن کو یاد کرتے ہیں.آپ یا درکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں.کیونکہ وہ اُن کی راہ میں کانٹے ہوتے ہیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کر لیں تو یہ ممکن ہے مگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے.وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بد زبانی میں ہی فتح ہے مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے.مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۶،۳۸۵) اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا.کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا.اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بد گوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سُننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو والله ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا.اور اس قدر کبھی دل نہ رکھتا جوان گالیوں اور اس تو ہین سے جو ہمارے رسول کریم کی کی گئی ڈکھا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۲٬۵۱) لا يَا عَيْنَ فَيُضِ اللَّهِ وَالْعِرُفَانِ يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلُقُ كَالظَّمَانِ يَا بَحْرَ فَضْلِ الْمُنْعِمِ الْمَنَّان تَهُوى إِلَيْكَ الرُّمَرُ بِالْكِيُزَان - لے اے اللہ کے فیض و عرفان کے چشمے ! خلقت تیری طرف پیاسے کی طرح دوڑ رہی ہے.ہے اے انعام و احسان کرنے والے خدا کے فضل کے سمندر! لوگوں کے گروہ کوزے لئے ہوئے تیری طرف لپکے آ رہے ہیں.

Page 500

۴۹۰ يَا شَمْسَ مُلْكِ الْحُسُنِ وَ الْإِحْسَانِ نَوَّرُتَ وَجُهَ الْبَرِّ وَالْعُمْرَان ل قَوْمٌ رَأَوُكَ وَ أُمَّةٌ قَدْ أُخْبِرَتْ مِنْ ذَلِكَ الْبَدْرِ الَّذِي أَصْبَانِي - يَبْكُونَ مِنْ ذِكْرِ الْجَمَالِ صَبَابَةً وَتَالُمًا مِّنْ لَّوْعَةِ الْهِجْرَانِ ٣ وَأَرَى الْقُلُوبَ لَدَى الْحَنَاجِرِ كُرُبَةً وَأَرَى الْغُرُوبَ تُسِيلُهَا الْعَيْنَانِ.يَا مَنْ غَدَا فِی نُورِهِ وَضِيَائِهِ كَالنَّيْرَيْنِ وَنَوَّرَ الْمَلَوَانِ يَا بَدْرَنَا يَا آيَةَ الرَّحْمَنِ أَهْدَى الْهُدَاةِ وَأَشْجَعَ الشُّجُعَان لا إِنِّي أَرَى فِي وَجُهِكَ الْمُتَهَدِّلِ شَانًا يَّفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ - سُجُحْ كَرِيمٌ بَاذِلٌ خِلُ التَّقَى خِرُقْ وَفَاقَ طَوَائِفَ الْفِتْيَان A فَاقَ الْوَرَى بِكَمَالِهِ وَ جَمَالِهِ وَجَلالِهِ وَجَنَانِهِ الرَّيَّانِ.لَا شَكٍّ أَنَّ مُحَمَّدًا خَيْرُ الْوَرى رَيْقُ الْكِرَامِ وَنُخْبَةُ الْأَعْيَانِ.تَمَّتْ عَلَيْهِ صِفَاتُ كُلِّ مَزِيَّةٍ خُتِمَتُ بِهِ نَعْمَاءُ كُلِّ زَمَانِ ال وَاللَّهِ إِنَّ مُحَمَّدًا كَرِدَافَةٍ وَبِهِ الْوُصُولُ بِسُدَّةِ السُّلْطَانٍ 28 لے اے حسن واحسان کے ملک کے آفتاب ! تو نے بیابانوں اور آبادیوں کے چہرے کو منور کر دیا ہے.ے ایک قوم نے تو تجھے دیکھا ہے اور ایک اُمت نے خبر سنی ہے اس بدر کی جس نے مجھے (اپنا) عاشق بنا دیا ہے.سے وہ تیرے حسن کی یاد میں بوجہ عشق کے (بھی) روتے ہیں اور جدائی کی جلن کے دُکھ اٹھانے سے بھی.ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ دل بیقراری سے گلے تک آگئے ہیں اور میں دیکھتا ہوں آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں.اے وہ ہستی جو اپنے نور اور روشنی میں مہر و ماہ کی طرح ہو گئی ہے اور رات اور دن منور ہو گئے ہیں.اے ہمارے کامل چاند اور اے رحمان کے نشان ! سب راہنماؤں کے راہنما اور سب بہادروں سے بہادر.کے بے شک میں تیرے درخشاں چہرے میں دیکھ رہا ہوں ایک ایسی شان جو انسانی خصائل پر فوقیت رکھتی ہے.آپ خوش خلق ، معزز بنی ، تقومی کے بچے دوست، فیاض اور جواں مردوں کے گروہوں پر فوقیت رکھنے والے ہیں.آپ ساری خلقت سے اپنے کمال اور اپنے جمال اور اپنے جلال اور اپنے شاداب دل کے ساتھ فوقیت لے گئے ہیں.نا بے شک محمدصلی اللہ علیہ وسلم خیر الورای معززین میں سے برگزیدہ اور سرداروں میں سے منتخب وجود ہیں.ہر قسم کی فضیلت کی صفات آپ پر کمال کو پہنچ گئیں اور ہر زمانہ کی نعمتیں آپ پر ختم ہو گئیں ہیں.بخدا! بے شک محمدصلی اللہ علیہ وسلم ( خدا کے ) نائب کے طور پر ہیں اور آپ ہی کے ذریعہ دربار شاہی میں رسائی ہوسکتی ہے.

Page 501

۴۹۱ هُوَ فَخُرُ كُلِّ مُطَهَّرٍ وَّ مُقَدَّسِ و به يُبَاهِي الْعَسْكَرُ الرُّوحَانِي ! هُوَ خَيْرُ كُلّ مُقَرَّبٍ مُّتَقَدَّمٍ وَالْفَضْلُ بِالْخَيْرَاتِ لَا بِزَمَانِ وَالطَّلُّ قَدْ يَبْدُو أَمَامَ الْوَابِلِ فَالطَّلُّ طَلٌّ لَيْسَ كَالتَّهْتَانِ ٣ بَطَلٌ رَّحِيدٌ لَا تَطِيشُ سِهَامُهُ ذُو مُصْمِيَاتٍ مُوبِقُ الشَّيْطَانِ : هُوَ جَنَّةٌ إِنِّي أَرَى أَثْمَارَهُ وَقُطُوفَهُ قَدْ ذُلِلَتْ لِجَنَانِي ٥ الْفَيْتُهُ بَحْرَ الْحَقَائِقِ وَالْهُدَى وَرَأَيْتُهُ كَالدُّرِ فِى اللَّمَعَانِ لا قَدْ مَاتَ عِيسَى مُطْرِقَا وَّنَبِيُّنَا حَيٌّ وَرَبِّي إِنَّهُ وَافَانِي = وَاللَّهِ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ جَمَالَهُ بِعُيُونِ جِسْمِي قَاعِدًا بِمَكَانِى وَنَبِيِّنَا حَيٌّ وَإِنِّي شَاهِدٌ وَقَدِ اقْتَطَفْتُ قَطَائِفَ اللُّقْيَان و وَ رَأَيْتُ فِي رَيْعَانِ عُمُرِى وَجُهَهُ ثُمَّ النَّبِيُّ بِيَقْظَتِي لَا قَانِى.إِنِّي لَقَدْ أُحْيِيتُ مِنْ إِحْيَانِهِ وَاهَا لِإِعْجَازِ فَمَا أَحْيَانِى يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا في هذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْثٍ ثَان 1 لے آپ ہر ایک مطہر اور مقدس کا فخر ہیں اور روحانی لشکر آپ پر ہی ناز کرتا ہے.آپ ہر مقرب اور (راہ سلوک میں ) آگے بڑھنے والے سے افضل ہیں اور فضیلت کا رہائے خیر پر موقوف ہے نہ کہ زمانہ پر.سے اور ہلکا مینہ ( یعنی پھوار) کبھی موسلادھار بارش سے پہلے ہوتا ہے.بالکابینہ، ہلکا مینہ ہی ہے موسلا دھار بارش کی طرح نہیں.آپ یگانہ پہلوان ہیں جس کے تیر خطا نہیں جاتے.آپ ٹھیک نشانے پر لگنے والے تیروں کے مالک ( اور ) شیطان کو ہلاک کرنے والے ہیں.۵، آپ ایک باغ ہیں.بے شک میں دیکھتا ہوں کہ اس کے پھل اور اس کے خوشے میرے دل کے لئے جھکا دیئے گئے ہیں.میں نے آپ کو حقائق اور ہدایت کا سمندر پایا اور چمک دمک میں آپ کو موتی کی طرح پایا.کے عیسی تو سر جھکائے وفات پا گئے اور ہمارے نبی زندہ ہیں اور مجھے رب کی قسم ! آپ نے مجھ سے ملاقات بھی کی ہے.بخدا! میں نے آپ کے جمال کو اپنی جسمانی آنکھوں سے اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے.اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور بے شک میں گواہ ہوں اور میں نے آپ کی ملاقات کے ثمرات حاصل کئے ہیں.ملے میں نے تو (اپنے) عنفوانِ شباب میں ہی آپ کا چہرہ مبارک دیکھا.پھر نبی علیے میری بیداری میں بھی مجھے ملے ہیں.11 بے شک میں آپ کے زندہ کرنے سے ہی زندہ ہوا ہوں.سبحان اللہ ! کیا اعجاز ہے اور مجھے کیا خوب زندہ کیا ہے! اے میرے رب ! اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیجتارہ.اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی.

Page 502

۴۹۲ يَا سَيِّدِى قَدْ جِئْتُ بَابَكَ لَاهِفًا وَالْقَوْمُ بِالْإِكْفَارِ قَدْ آذَانِى 1 أَنْظُرُ إِلَيَّ بِرَحْمَةٍ وَّتَحَنَّنٍ يَا سَيِّدِى أَنَا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ لَ يَا حِبِّ إِنَّكَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّةٌ فِي مُهْجَتِي وَ مَدَارِكِي وَ جَنَانِي ٣ مِنْ ذِكْرِ وَجُهِكَ يَا حَدِيقَةً بَهْجَتِي لَمُ أَخْلُ فِي لَحْظِ وَّلَا فِي آن 2 جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانِ م آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۰ تا ۵۹۴) يَاقَلْبِيَ اذْكُرُ أَحْمَدَا عَيْنَ الْهُدَى مُفْنِى الْعَدَا ل رًّا كَرِيمًا مُحْسِنَا بَحْرَ الْعَطَايَا وَالْجَدَا كن نِيرٌ زَاهِرٌ فِي كُلِّ وَصُفِ حُمدَا A إِحْسَانُهُ يُصْبِي الْقُلُوبَ وَحُسْنُهُ يُروى الصَّدَا 3 الظَّالِمُونَ بِظُلْمِهِمُ قَدْ كَذَّبُوهُ تَمَرُّدَا.وَ الْحَقُّ لَا يَسَعُ الْوَرى انُكَارَهُ لَمَّا بَدَا ال لے اے میرے آقا! میں تیرے دروازے پر مظلوم و مضطر فریادی کی حالت میں آیا ہوں جبکہ قوم نے ( مجھے ) کافر کہ کر ایذا دی ہے.ے تو مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر.اے میرے آقا! میں ایک حقیر ترین غلام ہوں.اے میرے آقا! تو از راہ محبت میری جان، میرے حواس اور میرے دل میں داخل ہو گیا ہے.اے میری خوشی کے باغ ! تیرے چہرے کی یاد سے میں ایک لحظہ اور آن کے لئے بھی خالی نہیں رہا.میرا جسم تو شوق غالب سے تیری طرف اڑنا چاہتا ہے.اے کاش ! مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی.اے میرے دل! احمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کر جو ہدایت کا سرچشمہ اور دشمنوں کو فنا کرنے والا.کے نیک، کریم محسن ، بخششوں اور سخاوت کا سمندر ہے.وہ چودھویں کا نورانی روشن چاند ہے.وہ ہر وصف میں تعریف کیا گیا ہے.اس کا احسان دلوں کو موہ لیتا ہے اور اس کا حسن پیاس کو بجھا دیتا ہے.نا ظالموں نے اپنے ظلم کی وجہ سے اسے سرکشی سے جھٹلایا ہے.لا اور سچائی ایسی شے ہے کہ مخلوق اس کا انکار نہیں کرسکتی جب وہ ظاہر ہو جائے.

Page 503

۴۹۳ أطلبُ نَظِيرَ كَمَالِهِ سَتَنْدَمَنَّ مُــلَــدَّدَا لا ا إِنْ رَأَيْنَا مِثْلَهُ للنَّائِمِينَ مُسَهَدَا ۲ نُورٌ مِّنَ اللَّهِ الَّذِي الْعُلُومَ تَجَدُّدَا ٣ الْمُصْطَفَى وَالْمُجْتَبى وَالْمُقْتَدَا وَالْمُجْتَدَا ! جُمِعَتْ مَرَابِيعُ الْهُدَى فِي وَبُلِهِ حِيْنَ النَّدى ه ى الزَّمَانُ رِهَـــامَــهُ مِنْ جَوْدِ هَذَا الْمُقْتَدَا ل يَوْمَ يَسْعَى النِّكْسُ أَن يُطْفِي هُدَاهُ وَيُخْمِدَا ك ه يُبْدِي نُورَة يَوْمًا وَّانُ طَالَ الْمَدَى A يَاقَطْرَ سَارِيَةٍ وَّغَا د قَدْ عُصِمُتَ مِنَ الرَّدَا و رَبَّيْتَ اَشْجَارَ الُاسِرَةِ الْفُيُوضِ وَقَرُدَدَا.إِنَّا وَجَدْنَاكَ الْمَلَاذَ فَبَعُدَ كَهْفِ قَدْ بَدَا ال لَا نَتَّقِى قَوْسَ الْخُطُوُ بِ وَلَا تُبَالِ ب وَلَا تُبَالِى مُرجِدًا ٣ ے تو اُس کے کمال کی نظیر تلاش کر.سوتو (اس میں ) یقیناً حیران ہو کر شرمندہ ہو گا.سے ہم نے اس کی مانند سوتوں کو جگانے والا کوئی نہیں دیکھا.ردو سلے وہ اللہ کا نور ہے جس نے علوم کو نئے سرے سے زندہ کر دیا.ے وہ برگزیدہ ہے، چنا ہوا ہے ، اس کی پیروی کی جاتی ہے، اس سے فیض طلب کیا جاتا ہے.۵ ہدایت کی بارشیں سخاوت کے وقت اس کی موسلا دھار بارش میں جمع کر دی گئیں.زمانہ اپنی مسلسل تھوڑی بارش کو بھول گیا ہے اس مقتدا کی موسلا دھار بارش کے مقابلہ میں.کے آج کمبینہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی ہدایت کو بجھا دے اور ٹھنڈا کر دے.اور اللہ اس کے نور کو ظاہر کر دے گا کسی نہ کسی دن خواہ مدت لمبی ہی ہو جائے.اے رات کو برسنے والی اور دن کو برسنے والی بارش ! تو ہلاکت سے محفوظ کر دی گئی ہے.وا تو نے اپنے فیوض سے پست زمین کے درختوں کی پرورش کی ہے اور اونچی زمین کے بھی.الے بے شک ہم نے تجھے جائے پناہ پایا ہے سو ایسی عظیم الشان پناہ گاہ کے بعد، جو ظاہر ہو چکی ہے.ہم حادثات کی کمان سے نہیں ڈرتے اور نہ ہم لرزہ طاری کر دینے والی تلوار کی پرواہ کرتے ہیں.

Page 504

۴۹۴ لَا نَتَّقِي نَوْبَ الزَّمَــــانِ وَلَا نَخَافُ تَهَدُّدَا ! وَنَمُدُّ فِي أَوْقَاتِ افَاتٍ إِلَى الْمَوْلى يَدَا ! م مِنْ مُّنَازَعَةٍ جَرَتْ وَأَقْوَامِ الْعِدَا ٣ انْكَنَيْتُ مُظَفَّرًا وَمُــوَّقَـــرًا وَّ مُؤَيَّدًا 2 اَدْرَكَنِي الْهُدَى.لهِ حَمْدَ ثُمَّ حَمْدٌ قَدْ عَرَفْنَا الْمُقْتَدى ۵ كَادَتْ تُعَفِّيْنِي ضَلَالَاتٌ فَادْرَكَنِ يَا صَاحِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ اغطى لَنَا هَذَا جَدَا ك هُوَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ الَّتِي طِي نَعِيْمًا مُخُلَدَا A اتَجُولُ فِي حَوْمَاتِ نَفْسِكَ تَارِكَاسُنَنَ الْهُدَى و هَلَّا انْتَهَجُتَ مَحَجَّةَ الاحْيَاءِ يَا صَيدَ الرَّدَا.وَتَرى بِوَقْتٍ بَعْدَهُ فِي زِيّ أَحْمَدَ أَحْمَدَا !! کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ ۷۱،۷۰ ) لے ہم زمانے کے حادثات سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی ہم کسی دھمکی سے خوف کھاتے ہیں.ے اور ہم مصیبتوں کے اوقات میں اپنے مولا کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہیں.بہت سے مقابلے ہیں جو میرے اور دشمنوں کی قوموں کے درمیان ہوئے.ے یہاں تک کہ میں کامیاب، معزز اور مؤید ہو کر لوٹا.اللہ ہی کی سب تعریف ہے پھر تعریف ہے کہ ہم نے اپنے مقتدا کو پہچان لیا ہے.قریب تھا کہ گمراہیاں مجھے مٹادیتیں پر ہدایت نے مجھے پالیا.کے اے ساتھی! بے شک اللہ (تعالی) نے ہمیں یہ عطیہ بخش دیا ہے.وہ ایسی لیلۃ القدر ہے جو دائمی نعمت عطا کرتی ہے.کیا تو ! (اے مخاطب) اپنے نفس کے میدانوں میں ہدایت کے طریقوں کو چھوڑ کر گھوم رہا ہے؟ ا تو کیوں زندوں کے طریق کار پر گامزن نہ ہوا ؟ اے ہلاکت کے شکار ! الے اور تو کسی وقت اس کے بعد احمد کو احمد کے لباس میں دیکھ لے گا.

Page 505

۴۹۵ بلایا ہم نے ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے یہ ثمر باغ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اُٹھو دیکھو سنایا ہم نے آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل آؤ لوگو! کہ یہیں نور خدا پاؤ گے تو تمہیں طور تسلّی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اک زور ہے اِس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کے وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفے پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے ترے مونہہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے دلبرا! مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۴، ۲۲۵) کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ معنی راز نبوت ہے اسی سے آشکار نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار روشنی میں مہر تاباں کی بھلا کیا فرق ہو گرچہ نکلے روم کی سرحد سے یا از زنگ بار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۴۴) برتر گمان و و ہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۸۶ حاشیه ) وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اُس کا ہے نور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ہے اس پر ہر اک نظر ہے بدر الد جی یہی ہے

Page 506

۴۹۶ پہلے تو رہ میں ہارے پار اس نے ہیں اوتارے میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے پردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے دل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے وہ یار لامکانی وہ دلبر نہانی دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہنما یہی ہے وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے وہ طیب و امیں ہے اُس کی نا یہی ہے حق سے جو حکم آئے اُس نے وہ کر دکھائے جو راز تھے بتائے نعم العطاء یہی ہے آنکھ اُس کی دُور ہیں ہے دل یار سے قریں ہے ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیاء یہی ہے جو رازِ دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرمانروا یہی ہے اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے وہ دلبر یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہم تھے دلوں کے اندھے سوسو دلوں پر پھندے پھر کھولے جس نے جندے وہ مجتبی یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۵۶) ہے

Page 507

۴۹۷ دیدم جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم ثار کوچه آل محمد است ! بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در هر مکاں ندائے جلال محمد است.ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دهم یک قطره ز بحر کمال محمد است ۳ این آتشم ز آتش مهر محمدی ست ویں آب من ز آب زلال محمد است ہے (ضمیمہ اخبار ریاض ہندا امرتسر مطبوعہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء در مشین فارسی شائع کرده نظارت اشاعت صفحه ۸۹ ) شانِ احمد را که داند جز خداوند کریم آنچنان از خود جدا شد کز میاں افتادمیم ۵ زاں نمط شد محو دلبر کز کمال اتحاد پیکر او شد سراسر صورتِ رب رحیم 1 بوئے محبوب حقیقی سے دہد ز آں روئے پاک ذات حقانی صفاتش مظہر ذات قدیم کے گرچه منسوبم کند کس سوئے الحاد و ضلال چوں دلِ احمد نے بینم دگر عرش عظیم ۵ منت ایزد را که من بر رغم اہل روزگار صد بلا را می خرم از ذوق آں عین النعیم 2 از عنایات خدا و از فضل آن دادار پاک دشمن فرعونیانم بهر عشق آں کلیم نا آں مقام و رتبت خاصش کہ برمن شد عیاں گفتی گردید سے طبعے در میں راہے سلیم 11 میری جان و دل محمد کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمد کے کوچے پر قربان ہے.میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سنا.ہر جگہ محمد کے جلال کا شہرہ ہے.سے معارف کا یہ دریائے رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں یہ محمد کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے.یہ میری آگ محمد کے عشق کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میرا پانی محمد کے مصفی پانی میں سے لیا ہوا ہے.۵ احمد کی شان کو سوائے خداوند کریم کے کون جان سکتا ہے وہ اپنی خودی سے اس طرح الگ ہو گیا کہ میم درمیان سے گر گیا.وہ اپنے معشوق میں اس طرح محو ہو گیا کہ کمال اتحاد کی وجہ سے اس کی صورت بالکل رب رحیم کی صورت بن گئی.کے محبوب حقیقی کی خوشبو اس کے چہرہ سے آ رہی ہے اس کی حقانی ذات خدائے قدیم کی ذات کی مظہر ہے.خواہ کوئی مجھے الحاد اور گمراہی سے ہی منسوب کرے مگر میں تو احمد کے دل جیسا اور کوئی عظیم الشان عرش نہیں دیکھتا.2 خدا کا شکر ہے کہ میں دنیا داروں کے برخلاف اس سر چشمہ نعمت کی خواہش کی وجہ سے سینکڑوں دکھ خریدتا ہوں.نا خدا کی مہربانیوں اور اس ذات اقدس کے فضل و کرم سے میں بھی اس کلیم کی محبت کی خاطر فرعونی لوگوں کا دشمن ہوں.الے اس کا وہ خاص مقام اور مرتبہ جو مجھ ظاہر ہوا میں اس کا ضرور ذکر کرتا اگر اس راہ میں کوئی سلیم فطرت والا پاتا.

Page 508

در ره عشق محمد ایں سرد جانم رود ۴۹۸ ایں تمنا این دعا این در دلم عزم صمیم کے توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲ ۶۳) در دلم جوشد ثنائے سرورے آنکه در خوبی ندارد ہمسرے سے آنکه جانش عاشق یار ازل عاشق یار ازل آنکه روحش واصل آں دلبرے سے آنکه مجذوب عنایات حق سر ہیچو طفلے پروریده در برے کے آنکه در تیر و کرم بحر جود و سخا ابر بهار آنکه در فیض و عطا یک خاوری 1 کرم بحر عظیم آنکه در لطف اتم یکتا ڈرے ۵ آنکه در آں رحیم و رحم حق را آیتے آں کریم و جُودِ حق را مظہرے کے آں رُخ فرخ که یک دیدار او زشت رو را میکند خوش منظرے ۸ آں دل روشن که روشن کرده است صد درون تیره را چون اخترے 2 اں مبارک ہے کہ آمد ذاتِ او رحمتے زاں ذات عالم پرورے نا لے محمد کے عشق میں میرا سر اور میری جان قربان ہو.یہی میری خواہش ، میری دعا اور میرا دلی ارادہ ہے.میرے دل میں اُس سردار کی تعریف جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا.سے وہ جس کی جان خدائے ازلی کی عاشق ہے وہ جس کی روح اُس دلبر میں واصل ہے.ے وہ جو خدا کی مہربانیوں سے اُس کی طرف کھینچا گیا ہے اور خدا کی گود میں ایک بچہ کی مانند پلا ہے.وہ جو نیکی اور بزرگی میں ایک بحر عظیم ہے اور کمال خوبی میں ایک نایاب موتی ہے.وہ جو بخشش اور سخاوت میں ابر بہار ہے اور فیض و عطا میں ایک سورج ہے.کے وہ رحیم ہے اور رحمت حق کا نشان ہے وہ کریم ہے اور بخشش خداوندی کا مظہر ہے.اُس کا مبارک چہرہ ایسا ہے کہ اُس کا ایک ہی جلوہ بدصورت کو حسین بنا دیتا ہے.وہ ایسا روشن ضمیر ہے جس نے روشن کر دیا سینکڑوں سیاہ دلوں کو ستاروں کی طرح.ا وہ ایسا مبارک قدم ہے کہ اُس کی ذات خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہے

Page 509

۴۹۹ احمد آخر زماں کز نور او شد دل مردم زخور تاباں ترے لے از بنی آدم فزوں تر در جمال واز لالے پاک تر در گوہرے ۲ بر لبش جاری ز حکمت چشمه در دلش پر از معارف کوثری ۳ بہر حق داماں ز غیرش برفشاند ثانی او نیست در بحر و بری ۴ آں چراغش داد حق کش تا ابد نے خطر نے تم ز بادِ صرصرے ۵ پہلوان حضرت رب جلیل بر میاں بسته ز شوکت خنجری 1 تیر او تیزی بهر میدان نمود شیخ او ہر جا نمودہ جو ہرے کے کرد ثابت بر جہاں بجز بُتاں وا نموده زور آں یک قادرے A تا نماند بے خبر از زور حق بت ستاؤ بت پرست و بُت گرے 2 و راستی دشمن کذب و فساد و هر شرے مل عاشق صدق و سداد خواجہ , مر عاجزان را بنده بادشاہ و بے کساں را کساں را چاکرے !! آں ترتم ہا کہ خلق از وے بدید کس ندیده در جہاں از مادری ۱۲ ے اس احمد آخر زماں کے نور سے لوگوں کے دل آفتاب سے زیادہ روشن ہو گئے.ے وہ تمام بنی آدم سے بڑھ کر صاحب جمال ہے اور آب و تاب میں موتیوں سے بھی زیادہ روشن ہے.سے اس کے منہ سے حکمت کا چشمہ جاری ہے اور اُس کے دل میں معارف سے پر ایک کوثر ہے.خدا کے لئے اُس نے ہر وجود سے اپنا دامن جھاڑ دیا بحرو بر میں اُس کا کوئی ثانی نہیں.حق نے اُس کو ایسا چراغ دیا ہے کہ تا ابد اُسے ہوائے تند سے کوئی خوف وخطر نہیں.وہ خدائے جلیل کی درگاہ کا پہلوان ہے اور اُس نے بڑی شان سے کمر میں خنجر باندھ رکھا ہے.کے اُس کے تیر نے ہر میدان میں تیزی دکھائی ہے اور اُس کی تلوار نے ہر جگہ اپنا جو ہر ظاہر کیا ہے.اُس نے دنیا پر بتوں کا بجز ثابت کر دیا اور خدائے واحد کی طاقت کھول کر دکھا دی.تا خدائی طاقت سے بے خبر نہ رہیں بہت ستا، بت پرست اور بہت گر.وہ صدق.سچائی اور راستی کا عاشق ہے مگر کذب.فساد اور شر کا دشمن ہے.الے وہ اگر چہ آقا ہے مگر کمزوروں کا غلام ہے.وہ بادشاہ ہے مگر بیکسوں کا چاکر ہے.وہ مہربانیاں جو مخلوق نے اُس سے دیکھیں وہ کسی نے اپنی ماں میں بھی نہیں پائیں.

Page 510

از شراب شوق جاناں بے خودی روشنی از وے بہر قوع رسید آیت رحماں برائے ہر بصیر در سرش بر خاک بنہادہ سرے لے نور او رخشید بر ہر کشورے سے حجت حق بہر ہر دیدہ ورے سے ناتوانان را برحمت 6 6 دستگیر خستہ جاناں را به شفقت غم خورے سے حُسن رولیش ز ماه و آفتاب خاک کولیش به ز مشک و عنبری ۵ آفتاب و مه نہ چه مے ماند بدو در پیش از نور حق صد تیرے 1 یک نظر بہتر ز عمر جاوداں گرفتد کس را براں خوش پیکرے کے منکه از حسنش ہے دارم خبر جاں فشانم گر دل دیگرے وہر 스 یاد آن صورت مرا از خود برد ہر زمان مستم کند از ساغری 2 می پریدم سوئے کوئے اُو مدام من اگر مے داشتم بال و پرے تلے لاله و ریحاں چه کار آید مرا من سرے دارم باں روڈ سرے لال خوبی او دامن دل می کشد موکشانم می بُرد زور آورے ۱۲ لے وہ محبوب کے عشق کی شراب میں بیخود ہے اُس کی محبت میں اُس نے اپنا سر خاک پر رکھا ہوا ہے.ہے اس سے ہر قوم کو روشنی پہنچی.اُس کا نور ہر ملک پر چمکا.وہ ہر صاحب بصیرت کے لئے آیت اللہ اور ہر اہل نظر کے حجت حق ہے.کمزوروں کا رحمت کے ساتھ ہاتھ پکڑنے والا اور نا امیدوں کا شفقت کے ساتھ غمخوار.اس کے چہرہ کا حسن شمس و قمر سے زیادہ ہے اور اس کے کوچہ کی خاک، خوشبو مشک و عنبر سے زیادہ اچھی ہے.سورج اور چاند اس سے کیا مشابہت رکھ سکتے ہیں اس کے دل میں تو خدا کے نور سے سوسورج روشن ہیں.کے ہمیشہ کی زندگی سے ایک نظر بہتر ہے اگر اس پیکر حسن پر پڑ جائے.میں جو اس کے حسن سے باخبر ہوں اس پر اپنی جان قربان کرتا ہوں جب کہ دوسرا صرف دل دیتا ہے.اس کی یاد مجھے بے خود بنادیتی ہے وہ ہر وقت مجھے ایک ساغر سے مست رکھتا ہے.اہ میں ہمیشہ اس کے کوچہ میں اڑتا پھرتا اگر میں پرو بال رکھتا.الے لالہ وریحان میرے کس کام کے ہیں؟ میں تو اس چہرہ وسر سے تعلق رکھتا ہوں.اس کی خوبی دامن دل کو پہنچتی ہے اور ایک طاقتور ہستی مجھے کشاں کشاں لے جا رہی ہے.

Page 511

۵۰۱ دیده ام کوہست نور دیده با در اثر مهرش چو مہر انورے اے تافت آں روئے کزاں رو سرنتافت یافت آن در ماں کہ بگزید آں ڈرے ہے ہر کہ بے او زد قدم در بحرِ دیں کرد ، در اول قدم گم معبرے سے امی و در علم و حکمت بے نظیر ہیں چه باشد حجتی روشن ترے ہے ہے آں شراب معرفت دادش خدا کز شعاعش خیره شد ہر اخترے ۵ شد عیاں از وے على الوجه الاتم جوہرِ انساں کہ بود آں مضمرے 1 ختم شد برنفس پاکش ہر کمال آفتاب ہر زمین و ہر زماں لا جرم شد ختم رہبر ہر اسور و ہر , پیغمبرے In ہر احمرے A خاورے 2 مجمع البحرین علم و معرفت جامع الاسمین ابر چشم من بسیار گردید و ندید چشمہ چوں دین او صافی ترے نے سالکاں را نیست غیر از وے امام ره روان را نیست جز دے رہبرے لال سوزد از انوار آں بال و پرے ۱۲ جائے او جائیکہ طیر قدس را لے میں نے دیکھا کہ وہ آنکھوں کا نور ہے اس کی محبت کا اثر چمکدار سورج کی مانند ہے.وہ چہرہ روشن ہو گیا جس نے اس سے روگردانی نہ کی.وہ کامیاب ہو گیا جس نے اس کا دروازہ پکڑ لیا.سے جس نے اس کے بغیر دین کے سمندر میں قدم رکھا.اس نے پہلے ہی قدم میں گھاٹ کو کھو دیا.وہ اُمی ہے مگر علم و حکمت میں بے نظیر ہے اس سے زیادہ اس کی صداقت پر اور کیا دلیل ہوگی؟ خدا نے اسے وہ شراب معرفت عطا فرمائی کہ اس کی شعاعوں سے ہر ستارہ ماند پڑ گیا.اس کے باعث پورے طور پر عیاں ہو گیا انسان کا وہ جو ہر جو مخفی تھا.کے اس کے پاک نفس پر ہر کمال ختم ہو گیا اس لئے اس پر پیغمبروں کا خاتمہ ہو گیا.وہ ہر ملک اور ہر زمانہ کے لئے آفتاب ہے اور ہر اسود واحمر کا رہبر ہے.وہ علم اور معرفت کا مجمع البحرین ہے.بادل اور آفتاب دونوں ناموں کا جامع ہے.10 میں نے بہت تلاش کیا مگر کہیں نہیں دیکھا اس کے دین کی مانند مصفی چشمہ.سالکوں کے لئے اس کے سوا کوئی امام نہیں راہ حق کے متلاشیوں کے لئے اس کے سوا کوئی رہبر نہیں.اس کا مقام وہ ہے جہاں کے انوار سے جبریل کے بال و پر جلتے ہیں.

Page 512

۵۰۲ آں خداوندش بداد آن شرع و دیں کان نگردد تا ابد متغیری اے تافت اوّل بر دیار تازیان تا زیانش را شود درمان گرے سے بعد ازاں آن نور دین و شرع پاک شد محیط عالمی چوں چنبرے سے خلق را بخشید از حق کام جان وا رہانیده ز کام اثر وری ہے یک طرف حیران از و شاہان وقت یک طرف مبہوت ہر دانشوری ۵ شکستہ کبر ہر متکبری 1 ئے し در 1.نے بعلمش کس رسید و نے بزور او چه می دارد بمدح کس نیاز مدح او خود فخر ہر مدحت گرے کے هست او در روضه قدس و جلال اے خدا بروے سلام ما رساں و از خیال مادحان بالا ترے A ہم بر اخوانش زہر اخوانش زہر پیغمبرے 2 چاکریم ہیچو خاکے اوفتاده بر درے نا ہمہ پیغمبران را چاکریم ہر رسولے کو طریق حق نمود جان ما قربان برآں حق پرورے اے خیل انبیاء کش فرستادی به فضل اوفری ۱۲ اے خداوندم نہ لے اس خدا نے اسے وہ شریعت اور دین عطا کیا.جو کبھی بھی تبدیل نہ ہو گا.پہلے وہ عرب کے ملک پر چمکاتا کہ اس ملک کی خرابیوں کا انسداد کرے.سے بعد ازاں وہ نور اور پاک شریعت تمام عالم پر آسمان کی طرح محیط ہو گئی.مخلوق کو خدا کی طرف سے مقصد زندگی بخشا اور ایک اثر دھے کے منہ سے اسے رہائی دلائی.ایک طرف شاہان وقت اس سے حیران تھے دوسری طرف ہر عقل مند ششدر تھا.نہ اس کے علم تک کوئی پہنچا نہ اس کی طاقت تک اس نے ہر متکبر کے تکبر کو توڑ کر رکھ دیا.کہ اسے کسی کی تعریف کی کیا حاجت ہے اس کی مدح ہر مدحت گر کے لئے باعث فخر ہے.وہ پاکیزگی اور جلال کے گلستان میں ممکن ہے اور تعریف کرنے والوں کے وہم سے بالا تر ہے.9 اے خدا ہمارا سلام اس تک پہنچا دے نیز ہر پیغمبر پر جو اس کا بھائی ہے.ا ہم تو سب پیغمبروں کے غلام ہیں اور خاک کی طرح اُن کے دروازہ پر پڑے ہیں الے ہر وہ رسول جس نے خدا کا راستہ دکھایا ہماری جان اُس راستباز پر قربان ہے اے میرے خدا ان انبیاء کے گروہ کے طفیل جن کو تو نے بڑے بھاری فضلوں کے ساتھ بھیجا ہے.

Page 513

۵۰۳ معرفت ہم وہ چو بخشیدی دلم کے بدہ زاں ساں کہ دادی ساغری ! اے دست خداوندم مصطف بنام کش شدے در ہر مقام ناصرے سے من گیر از رو لطف و کرم در مهم باش یار و یاورے سے تکیه بر زور تو دارم گرچه من گرچه من ہمچو خاکم بلکہ زاں ہم کمترے ہے (دیباچہ براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحہ ۱۷ تا ۲۳).آن شد عالم که نامش مصطفے سید عشاق حق شمس الضحه آنکہ ہر نورے طفیل نور اوست آنکه منظور خدا منظور اوست ۲ در آنکہ بہر زندگی آپ رواں معارف ہمچو بحر بیکراں کے آنکه بر صدق و کمالش در جہاں صد دلیل و حجت روشن عیاں A آنکہ انوار خدا بر روئے او مظہر کارِ خدائی کوئے او 2 آنکہ جملہ انبیاء و راستاں خادمانش ہمچو خاک آستاں نا لے مجھے معرفت عطا فرما جیسے تو نے دل دیا ہے شراب بھی عطا کر جبکہ تو نے جام دیا ہے.ے اے میرے خدا.مصطفی کے نام پر جس کا تو ہر جگہ مددگار رہا ہے.ے اپنے لطف وکرم سے میرا ہاتھ پکڑ اور میرے کاموں میں میرا دوست اور مددگار بن جا.میں تیری قوت پر بھروسہ رکھتا ہوں اگر چہ میں خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سے بھی کم تر.وہ جہاں کا بادشاہ جس کا نام مصطفیٰ “ ہے جو عشاق حق کا سردار اور شمس الضحی ہے.وہ وہ ہے کہ ہر نور اسی کے طفیل سے ہے اور وہ وہ ہے کہ جس کا منظور کردہ خدا کا منظور کر دہ ہے.کے اس کا وجود زندگی کے لئے آب رواں ہے اور حقائق اور معارف کا ایک نا پیدا کنارسمندر ہے.وہ کہ جس کی سچائی اور کمال پر دنیا میں سینکڑوں دلیلیں اور روشن براہین ظاہر ہیں.وہ جس کے منہ پر خدائی انوار برستے ہیں اور جس کا کوچہ نشانات الہی کا مظہر ہے.ا وہ کہ تمام نبی اور راست باز خاک در کی طرح اس کے خادم ہیں.

Page 514

۵۰۴ آنکه مهرش می رساند تا سما میکند چوں ماہِ تاباں در صفا کے چوید ے دہد فرعونیاں را ہر زماں چو ید بیضائے موسی صد نشاں ۲ ( براہین احمدیہ ہر چہار تصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۷ حاشیه در حاشیہ نمبر۳) چون ز من آید ثنائے سرور عالی تبار عالی تبار عاجز از مدحش زمین و آسمان و هر دو دار سے آں مقام قرب کو دارد بدلدار قدیم کس نداندشان آن از واصلان کردگار ۴ اں عنایت ہا کہ محبوب ازل دارد بدو کس بخوا بے ہم ندیده مثل آن اندر دیار ۵ سرور خاصانِ حق شاہ گروه عاشقاں آنکه روحش کرد طے ہر منزل وصل نگار 4 آں مبارک پے کہ آمد ذات با آیات او رحمت زاں ذاتِ عالم پرور و پروردگار کے آں کہ دارد قرب خاص اندر جناب پاک حق آنکه شان او فهمد کس ز خاصان و کبار ۵ احمد آخر زماں کو اولیس را جائے فخر آخرین را مقتدا و ملجاؤ کہف و حصار 2 هست درگاه بزرگش کشتی عالم پناہ کس نه گردد روز محشر جز پناهش رستگار ۱۰ از ہمہ چیزے فزوں تر در همه نوع کمال آسمانها پیش اوج ہمت او ذره وار اے ہمہ لے وہ کہ جس کی محبت آدمی کو آسمان تک پہنچاتی ہے اور صفائی میں چمکتے ہوئے چاند کی طرح بنا دیتی ہے.ے وہ نبی فرعونی لوگوں کو ہر وقت دکھاتا ہے موسیٰ کے ید بیضا کی طرح سینکٹروں نشانات.مجھ سے اس عالی قدر سردار کی تعریف کس طرح ہو سکے جس کی مدح سے زمین و آسمان اور دونوں جہان عاجز ہیں.قرب کا وہ مقام جو وہ محبوب از لی کے ساتھ رکھتا ہے اس کی شان کو واصلان بارگاہ الہی میں سے بھی کوئی نہیں جانتا.۵ وہ مہربانیاں جو محبوب از لی اس پر فرماتا رہتا ہے.وہ کسی نے دنیا میں خواب میں بھی نہیں دیکھیں.خاصان حق کا سردار اور عاشقان الہی کی جماعت کا بادشاہ ہے جس کی روح نے محبوب کے وصل کے ہر درجہ کو طے کر لیا ہے.کے وہ مبارک قدم جس کی ذات والا صفات رحمت بن کر اس رب العالمین پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی.وہ جو کہ جناب الہی میں خاص قرب رکھتا ہے وہ جس کی شان خواص اور بزرگ بھی نہیں سمجھتے.2 احمد آخر الزمان جو پہلوں کے لئے فخر کی جگہ ہے اور پچھلوں کے لئے پیشوا.مقام پناہ جائے حفاظت اور قلعہ ہے.10 اس کی عالی بارگاہ سارے جہان کو پناہ دینے والی کشتی ہے حشر کے دن کوئی بھی اس کی پناہ میں آنے کے بغیر نجات نہیں پائے گا.لے وہ ہر قسم کے کمالات میں ہر ایک سے بڑھ کر ہے اس کی بلندی ہمت کے آگے آسمان بھی ایک ذرہ کی طرح ہیں.

Page 515

مظہر نورے کہ پنہاں بود از عہدِ ازل مطلع شمسی که بود از ابتدا در استتار اے صدر بزم آسمان و حجۃ اللہ برز میں ذات خالق را نشانے بس بزرگ و استوار ۲ ہر رگ و تار وجودش خانه یار ازل ہر دم و هر ذره اش پر از جمال دوستدار سے حسن روئے او به از صد آفتاب و ماہتاب خاک کوئے او به از صد نافہ مشک تیار ہے ہست او از عقل و فکر و و ہم مردم دور تر کے مجال فکر تا آں بحر ناپیدا کنار ۵ رُوح او در گفتن قول بلی اول کے آدم توحید و پیش از آدمش پیوند یار 1 کے جان خود دادن پئے خلق خدا در فطرتش جاں نثار خستہ جاناں بے دلاں را غمگسار اندر آں وقتیکہ دنیا پر ز شرک و کفر بود هیچ کس را خوں نہ محمد دل جز دل آن شہر یار ۸ هیچ کس از خُبثِ شرک و ر جس بت آگه نشد ایس خبر شد جان احمد را که بود از عشق زار 2 کس چه میداند کرا زاں نالہ ہا باشد خبر کان شفیعے کرداز بہر جہاں در گنج غار ما من نمی دانم چه دردے بود و اندوه و غم کا مندراں غارے در آوردش حزین و دلفگار اے و لے وہ اس نور کا مظہر ہے جو روز ازل سے مخفی تھا اور اس سورج کے نکلنے کی جگہ ہے جو ابتدا سے نہاں تھا.ہے وہ آسمانی مجلس کا میر مجلس اور زمین پر اللہ کی حجت ہے نیز ذات باری کا عظیم الشان مضبوط نشان ہے.سے اس کے وجود کا ہر رگ وریشہ خداوند از لی کا گھر ہے اس کا ہر سانس اور ہر ذرہ دوست کے جمال سے منور ہے.ہے.اس کے چہرہ کا حسن سینکڑوں چاند اور سورج سے بہتر ہے اس کے کوچہ کی خاک تا تاری مشک کے سینکڑوں نافوں سے زیادہ خوشبودار ہے.وہ لوگوں کی عقل و سمجھ سے بالا تر ہے فکر کی کیا مجال کہ اُس نا پیدا کنارسمندر کی حد تک پہنچ سکے.قول بلی کہنے میں اس کی روح سب سے اول ہے وہ توحید کا آدم ہے اور آدم سے بھی پہلے یار سے اس کا تعلق تھا.کے مخلوق الہی کے لئے جان دینا اس کی فطرت میں ہے وہ شکستہ دلوں کا جان شارا اور بیکسوں کا ہمدرد ہے.ایسے وقت میں جبکہ دنیا کفر و شرک سے بھر گئی تھی سوائے اس بادشاہ کے اور کسی کا دل اس کے لئے غمگین نہ ہوا.2 کوئی بھی شرک کی نجاست اور بتوں کی گندگی سے آگاہ نہ تھا صرف احمد کے دل کو یہ آگاہی ہوئی جو محبت الہی سے چور تھا.ا کون جانتا ہے اور کسے اس آہ وزاری کی خبر ہے؟ جو آنحضرت نے دنیا کے لئے غارحرا میں کی.لا میں نہیں جانتا کہ کیا درد، غم اور تکلیف تھی جو اسے غم زدہ کر کے اس غار میں لاتی تھی.ا اشارہ سوۓ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى.

Page 516

نے ز تاریکی توحش نے ز تنہائی ہر اس نے زمر دن غم نہ خوف کثر دمے نے بہیم مار لے کشته قوم و فدائے خلق و قربان جہاں نے جسم خویش میلش نے بنفس خویش کار ہے نعرہ ہا پُر درد مے زد از پئے خلقِ خدا شد تَضَرُّع کار او پیش خدا لیل و نہار سے سخت شورے بر فلک اوفتاد زاں عجز و دعا قدسیاں را نیز شد چشم از غم آں اشکبار ہے آخر از عجز و مناجات و تضرع کردنش شد نگاه لطف حق بر عالم تاریک و تار ۵ در جهان از معصیت ها بود طوفانِ عظیم بود خلق از شرک و عصیاں کور و کر در هر دیار 1 ہمچو وقت نوح دنیا بود پُر از هر فساد بیچ دل خالی نبود از ظلمت و گرد و غبار کے مر شیاطین را تسلط بود بر هر روح و نفس پس تجلی کرد بر روحِ محمدؐ کردگار ۵ منت او بر ہمہ سُرخ و سیا ہے ثابت است آنکہ بہر نوع انساں کرد جان خود شار 2 یا نبی اللہ توئی خورشید رہ ہائے ہدی ہے تو نآرد رو برا ہے عارف پرہیز گار نا یا نبی اللہ لب تو چشمه جان پرور است یا نبی اللہ توئی در راه حق آموزگار اے آن کی جو ید حدیث پاک تو از زید و عمر و و آن دگر خود از دهانت بشنود بے انتظار ۱۲ لا نہ اسے اندھیرے کا خوف تھا نہ تنہائی کا ڈرنہ مرنے کا غم نہ سانپ بچھو کا خطرہ.سے وہ کشتہ قوم فدائے خلق اور اہل جہاں پر قربان تھا نہ اسے اپنے تن بدن سے کچھ تعلق تھا نہ اپنی جان سے کچھ کام.ے خدا کی مخلوق کے لئے دردناک آہیں بھرتا تھا اور خدا کے سامنے رات دن گریہ وزاری اس کا کام تھا.ہے اس کے عجز و دعا کی وجہ سے آسمان پر سخت شور برپا ہو گیا اور اس کے غم کی وجہ سے فرشتوں کی آنکھیں بھی غم سے اشکبار ہوگئیں.۵.آخر کار اس کی عاجزی مناجات اور گریہ وزاری کی وجہ سے خدا نے تاریک و تار دنیا پر مہربانی کی نظر فرمائی.1 جہان میں بدعملیوں کا خطرناک طوفان بپا تھا اور ہر ملک میں لوگ شرک اور گناہوں کے مارے اند ھے اور بہرے ہورہے تھے.کے دنیا نوح کے زمانہ کی طرح ہر قسم کے فسادوں سے بھر گئی تھی کوئی دل بھی ظلمت اور گردوغبار سے خالی نہ تھا.ہر روح اور ہر نفس پر شیاطین کا قبضہ تھا تب خدا تعالی نے محمد کی روح پر تجلی فرمائی.تمام گوری اور کالی قوموں پر اس کا احسان ثابت ہے اس نے نوع انسانی کے لئے اپنی جان قربان کر دی.اے نبی اللہ! تو ہی ہدایت کے راستوں کا سورج ہے تیرے بغیر کوئی عارف پر ہیز گار ہدایت نہیں پاسکتا.الے اے نبی اللہ! تیرے ہونٹ زندگی بخش چشمہ ہیں.اے نبی اللہ ! تو ہی خدا کے راستہ کا رہنما ہے.۱۲ ایک تو تیری پاک باتیں زید و عمر کے پاس جا کر تلاش کرتا ہے اور دوسرا بلا توسط تیرے منہ سے ان کوسنتا ہے.

Page 517

۵۰۷ زنده آن شخصی که نوشد جرعه از چشمه ات زیرک آن مردیکه کرد است اتباعت اختیار کے عارفاں را منتہائے معرفت علم رخت صادقاں را منتہائے صدق بر عشقت قرار ہے ۲ ہے تو ہرگز دولت عرفاں نے یا بد کسے گرچہ میرد در ریاضت ہا وجہدِ بے شمار سے تکیه بر اعمال خود بے عشق رویت ابلی است غافل از رویت نه بیند روئے نیکی زینہار ہے در دمے حاصل شود نورے زعشق روئے تو کان نہ باشد سالکاں را حاصل اندر روزگار ۵ از عجائب ہائے عالم ہر چہ محبوب و خوش است شانِ آں ہر چیز بینم در وجودت آشکار 1 خوشتر از دورانِ عشق تو نباشد بیچ دور خوب تر از وصف و مدح تو نباشد بیچ کار کے منکه ره بردم بخوبی ہائے بے پایانِ تو جاں گدازم بر تو گر دیگرے خدمتگذار A ہر کیسے اندر نماز خود دُعائے مے کند من دعا ہائے برو بار تو اے باغ بہار 2 یا نبی اللہ فدائے ہر سر موئے تو ام وقف راہ تو کنم گر جاں دہندم صد ہزار ما اتباع وعشق رویت از ره تحقیق چیست کیمیائے ہر دلے اکسیر ہر جانِ فگار 11 دل اگر خوں نیست از بهرت چه چیز است آن دلی در شمار تو نگردد جاں کجا آید بکار ۱۲ لے وہ شخص زندہ ہے جو تیرے چشمہ سے پانی کے گھونٹ پیتا ہے اور وہی انسان عقلمند ہے جس نے تیری پیروی اختیار کی.عارفوں کی معرفت کا آخری نقطہ تیرے رخ کا علم ہے اور راستبازوں کے صدق کا منتہا تیرے عشق پر ثابت قدم رہنا ہے.ے تیرے بغیر کوئی عرفان کی دولت کو نہیں پاسکتا.اگر چہ وہ ریاضتیں اور جدوجہد کرتا مر بھی جائے.تیرے عشق کے سوا صرف اپنے اعمال پر بھروسہ کرنا بے وقوفی ہے جو تجھ سے غافل ہے وہ ہرگز نیکی کا منہ نہ دیکھے گا.۵ تیرے عشق کی وجہ سے ایک دم میں وہ نور حاصل ہو جاتا ہے جو سالکوں کو ایک لمبے زمانے میں حاصل نہیں ہوتا.1 دنیا کی عجیب چیزوں میں سے جو چیز بھی دلپسند اور مفید ہے ایسی ہر چیز کی خوبیاں میں تیری ذات میں پاتا ہوں.کے تیرے عشق کے زمانہ سے اور کوئی زمانہ زیادہ اچھا نہیں اور کوئی کام تیری مدح و ثنا سے زیادہ بہتر نہیں.چونکہ مجھے تیری بے انتہا خوبیوں کا تجربہ ہے اس لئے اگر دوسرے تیرے خدمتگذار ہیں تو میں تجھ پر جان فدا کرنے کو تیار ہوں.ہر شخص اپنی نماز میں (اپنے لئے ) دعا کرتا ہے مگر میں اے میرے آقا تیری آل و اولاد کے لئے دعا مانگتا ہوں.ا اے نبی اللہ میں تیرے بال بال پر فدا ہوں اگر مجھے ایک لاکھ جانیں بھی ملیں تو تیری راہ میں سب کو قربان کر دوں.اصل میں تیری اتباع اور تیرا عشق ہر دل کے لئے کیمیا اور ہر زخمی جان کیلئے اکسیر ہے.دل اگر تیری محبت میں خون نہیں تو وہ دل ہی نہیں اور جو جان تجھ پر قربان نہ ہو وہ جان کس کام کی.

Page 518

۵۰۸ دل نے ترسد بمہر تو مرا از موت ہم پائیداری ہا ہیں خوش میروم تا پائے دار کے راغب اندر رحمتت یا رحمۃ اللہ آمدیم اے کہ چُوں ما بر در تو صد ہزار امیدوار ہے یا نبی اللہ نثار رُوئے محبوب تو ام وقف راہت کرده ام این سر که بر دوش ست بار سے تا بمن نور رسول پاک را بنموده اند عشق او در دل ہے جو شد چو آب از آبشار کے آتش عشق از دم من ہمچو برقے سے جہد یک طرف اے ہمدمان خام از گرد و جوار ۵ برسر و جداست دل تا دید روئے او بخواب اے برآں روئے وسرش جان و سر و رویم نثار 1 صد ہزاران یوسفے بینم دریں چاہ ذقن واں مسیح ناصری شد از دم او بے شمار کے تاجدار هفت کشور آفتاب شرق و غرب بادشاه ملک و ملت ملجاء هر خاکسار ۸ کامران آں دل که زد در راه او از صدق گام نیک بخت آں سر که میدار دسر آں شہسوار 2 یا نبی اللہ جہاں تاریک شد از شرک و کفر وقت آں آمد که بنمائی رخ خورشید وار ما بینم انوار خدا در روئے تو اے دلبرم مست عشق روئے تو بینم دل ہر ہوشیار 11 اہل دل فہمند قدرت عارفان دانند حال از دو چشم شیراں پنہاں خور نصف النہار ۱۲ لے تیری محبت میں میرا دل موت سے بھی نہیں ڈرتا میرا استقلال دیکھ کہ میں صلیب کے نیچے خوش خوش جارہا ہوں.سے اے اللہ کی رحمت ہم تیرے رحم کے امیدوار ہیں تو وہ ہے کہ ہم جیسے لاکھوں تیرے در کے امیدوار ہیں.سے اے نبی اللہ میں تیرے پیارے مکھڑے پر نثار ہوں میں نے اس سر کو جو کندھوں پر بار ہے تیری راہ میں وقف کر دیا ہے.جب سے مجھے رسول پاک کا نور دکھایا گیا تب سے اس کا عشق میرے دل میں یوں جوش مارتا ہے جیسے آبشار میں سے پانی.۵ میرے دل سے اس کے عشق کی آگ بجلی کی طرح نکلتی ہے اے خام طبع رفیقو میرے آس پاس سے ہٹ جاؤ.میرا دل وجد میں ہے جب سے آنحضور کو خواب میں دیکھا ہے اس چہرے اور سر پر میری جان سر اور منہ قربان ہوں.کے اس چاہ ذقن میں میں لاکھوں یوسف دیکھتا ہوں اور اُس کے دم سے بے شمار مسیح ناصری پیدا ہوئے.و هفت کشور کا شہنشاہ اور مشرق و مغرب کا آفتاب ہے دین و دنیا کا بادشاہ اور ہر خاکسار کی پناہ ہے.کامیاب ہو گیا وہ دل جو صدق و وفا کے ساتھ اس کی راہ پر چلا خوش قسمت ہے وہ سر جو اس شہسوار سے تعلق رکھتا ہے.اے نبی اللہ کفر اور شرک سے دنیا اندھیر ہو گئی اب وقت آ گیا ہے کہ تو اپنا سورج کی مانند چہرہ ظاہر کرے.ا اے میرے دلبر میں انوار الہی تیری ذات میں دیکھتا ہوں اور ہر عقلمند دل کو تیرے عشق میں سرشار پاتا ہوں.۱۲ صاحب دل تیری قدر پہچانتے ہیں اور عارف تیرا حال جانتے ہیں لیکن چمگادڑوں کی آنکھ سے دوپہر کا سورج چھپا ہوا ہے.

Page 519

۵۰۹ ہر کسے دارد سرے با دلبرے اندر جہان من فدائے روئے تو اے دلستانِ گلعذار لے از همه عالم دل اندر روئے خوبت بسته ام بر وجود خویشتن کردم وجودت اختیار ہے زندگانی چیست جان کردن براه تو فدا رستگاری چیست در بند تو بودن صید وار سے تا وجودم هست خواهد بود عشقت در دلم تا دلم دوران خون دارد به تو دار و مدار ۳ یا رسول اللہ برویت عهد دارم استوار عشق تو دارم از ان روز یکه بودم شیر خوار ۵ ہر قدم کاندر جناب حضرت پیچون زدم دیدمت پنہاں معین و حامی کو نصرت شعار 1 دو عالم نسبتے دارم بتو از بس بزرگ پرورش دادی مرا خود ہمچو طفلے درکنار کے یاد کن وقتیکه در کشکم نمودی شکل خویش یاد کن ہم وقت دیگر کآمدی مشتاق وار 2 یاد کن آن لطف و رحمت با که با من داشتی و آن بشارت با که میدادی مرا از کردگار 2 یاد کن وقتے چو بنمودی به بیداری مرا آن جمالی آن رفے آن صورتے رشک بہار ۱۰ آنچه ما را از دو شیخ شوخ آزاری رسید یا رسول الله بپرس از عالم ذوالاقتدار 1 (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۳ تا ۲۸) در دو ے ہر شخص دنیا میں کوئی نہ کوئی محبوب رکھتا ہے مگر میں تو تیرا فدائی ہوں اے پھول سے رخساروں والے محبوب.ے سارا جہان چھوڑ کر میں نے تیرے حسین چہرہ سے دل لگایا ہے اور اپنے وجود پر تیرے وجود کو ترجیح دی ہے.سے زندگی کیا ہے؟ یہی کہ تیری راہ میں جان کو قربان کر دینا.آزادی کیا ہے؟ یہی کہ تیری قید میں شکار بن کر رہنا.ہے جب تک میرا وجود باقی ہے تیرا عشق میرے دل میں رہے گا جب تک میرے دل میں خون دورہ کرتا ہے تب تک اس کا دار ومدار تجھ پر ہے.۵ یا رسول اللہ میں تجھ سے مضبوط تعلق رکھتا ہوں اور اس دن سے کہ میں شیر خوار تھا مجھے تجھ سے محبت ہے.1 جو قدم بھی میں نے خدائے بے ہمتا کی راہ میں مارا میں نے پوشیدہ طور پر ہر جگہ تجھے اپنا معین حامی اور مددگار دیکھا.کے دونوں جہانوں میں میں تجھ سے بے انتہا تعلق رکھتا ہوں تو نے خود بچے کی طرح اپنی گود میں میری پرورش فرمائی.وہ وقت یاد کر کہ جب تو نے کشف میں مجھے اپنی صورت دکھائی تھی اور ایک اور موقع بھی یاد کر جب تو میرے پاس مشتاقانہ تشریف لایا تھا.ان مہر بانیوں اور رحمتوں کو یاد کر جو تو نے مجھ پر کیس اور ان بشارتوں کو بھی جو خدا کی طرف سے تو مجھے دیتا تھا.ا وہ وقت یاد کر جب بیداری میں تو نے مجھے دکھایا تھا اپنا وہ جمال، وہ چہرہ اور وہ صورت جس پر موسم بہار بھی رشک کرتا ہے.جو کچھ ہم کو ان دو موذی شیخوں سے تکلیف پہنچی اے رسول اللہ ! اس کا حال اس قادر اور علیم خدا سے پوچھ لے.

Page 520

۵۱۰ عجب نوریست جان محمد در عجب در کان محمد لعليت ز ظلمتها دلے آنگه شود صاف محمد که گردد از محتانِ عجب دارم دل آن ناکسان را که رو تابند از خوان محمد ۳ ندانم بیچ نفسے در رو عالم که دارد شوکت و شان محمد سے خدا زاں سینہ بیزارست صد بار کہ ہر از کینه داران محمد ۵ خدا خود سوزد آن کرم دنی را که باشد از عدوان محمد ۱ اگر خواہی نجات از مستی نفس بیا در اگر خواهی که حق گوید ثنایت بشو از دل ثنا خوان محمد ذیل مستان محمد سے اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمد ہست بُرہان محمد و سرے دارم فدائے خاک احمد دلم ہر وقت قربان محمد حل بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم ثار دریں رہ گر کشندم در بسوزند روئے نتابم رو تابان محمد ال ز ایوان ایوان محمد ۱۲ ا محمد ﷺ کی جان میں ایک عجیب نور ہے.محمد علے کی کان میں ایک عجیب و غریب لعل ہے.ے دل اس وقت ظلمتوں سے پاک ہوتا ہے جب وہ محمد ﷺ کے دوستوں میں داخل ہو جاتا ہے.سے میں ان نالایقوں کے دلوں پر تعجب کرتا ہوں جو محمد علیہ کے دستر خوان سے منہ پھیرتے ہیں.دونوں جہان میں میں کسی شخص کو نہیں جانتا جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سی شان وشوکت رکھتا ہو.۵ خدا اس شخص سے سخت بیزار ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ رکھتا ہو.خدا خود اس ذلیل کیڑے کو جلا دیتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں میں سے ہو.کے اگر تو نفس کی بدمستیوں سے نجات چاہتا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مستانوں میں سے ہو جا.اگر تو چاہتا ہے کہ خدا تیری تعریف کرے تو تہ دل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مدح خواں بن جا.اگر تو اس کی سچائی کی دلیل چاہتا ہے تو اس کا عاشق بن جا کیونکہ محد عنہ ہی خودمحمد کی دلیل ہے.ا میرا سر احمد اللہ کی خاک پا پر نثار ہے اور میرا دل ہر وقت محمد ﷺ پر قربان رہتا ہے.11 رسول اللہ کی زلفوں کی قسم کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی چہرے پر فدا ہوں.۱۲ اس راہ میں اگر مجھے قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جاوے تو پھر بھی میں محمد ﷺ کی بارگاہ سے منہ نہیں پھیروں گا.

Page 521

۵۱۱ بکار دیں نترسم از جهانی که دارم بسے سہل ست از دنیا بُریدن بیاد حسن رنگ ایمان ایمان محمد احسان محمد دگر اُستاد نامے ندانم که خواندم بدیگر دلبرے کارے ندارم و فدا شد در رہش ہر ذرہ من که دیدم حسن پنہان محمد سے را در دبستان محمد ۴ که هستم کشته آن کشته آن محمد مرا آں گوشته چشم نه خواهم جز گلستان محمد 1 محمدی دل زارم یہ بیاید پہلو تم مجوئید که بستیمش بدامان من آں خوش مرغ از مرغان قدسم که وارد جا بستان محمد تو جان ما منور کردی از عشق فدایت جانم اے جانِ جان محمد و نباشد نیز شایان محمد دریغا گر دہم د ہم صد جان درین راه با بدادند این جوان را که ناید کس به میدان محمد الله الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بُران محمد ۱۲ لے دین کے معاملہ میں میں سارے جہان سے بھی نہیں ڈرتا کہ مجھ میں محمد علیہ کے ایمان کا رنگ ہے.ے دنیا سے قطع تعلق کرنا نہایت آسان ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کو یاد کر کے.سے اس کی راہ میں میرا ہر ذرہ قربان ہے کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مخفی حسن دیکھ لیا ہے.میں اور کسی استاد کا نام نہیں جانتا میں تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسہ کا پڑھا ہوا ہوں.اور کسی محبوب سے مجھے واسطہ نہیں کہ میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ناز و ادا کا مقتول ہوں.مجھے تو اسی آنکھ کی نظر مہر درکار ہے.میں محمد علی کے باغ کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا.ے مرے زخمی دل کو میرے پہلو میں تلاش نہ کرو کہ اسے تو ہم نے محمد ﷺ کے دامن سے باندھ دیا ہے.میں طائران قدس میں سے وہ اعلیٰ پرندہ ہوں جو محمد ﷺہے کے باغ میں بسیرا رکھتا ہے.و تو نے عشق کی وجہ سے ہماری جان کو روشن کر دیا اے محمد علیہ تجھ پر میری جان فدا ہو.ا اگر اس راہ میں سو جان سے قربان ہو جاؤں تو بھی افسوس رہے گا کہ یہ محمد علیہ کی شان کے شایاں نہیں.ے اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد علی کے میدان میں کوئی بھی (مقابلہ پر ) نہیں آتا.اے نادان اور گمراہ دشمن ہوشیار ہو جا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر.

Page 522

۵۱۲ ره مولے کہ گم کردند مردم بجو الا اے منکر از شان محمد ہم از در آل و اعوان محمد نور نمایان محمد سے بنگر بیا ز عالمان محمد ۳ کرامت گرچه بے نام و نشان است (اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء صفحه ا، سراج منیر صفحہ ۱۲۱.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۹.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۳۰۳ تا ۳۰۵ بار دوم ) آں رسولی کش محمد ہست نام هست نام دامن پاکش بدست ما مدام ۴ مهر او باشیر شد اندر بدن جان شد و با جان بدر خواهد شدن ۵ هست او خیر الرسل خیر الانام ہر نبوت را برو شد اختتام ۲ ما از و نوشیم ہر آبے کہ ہست زو شده سیراب سیرا بے کہ ہست کے آنچه ما را وحی ما از و و ایمائی بود آن نه از خود از ہماں جائے بود ^ یابیم ہر نور و کمال وصل دلدار ازل بے او محال 2 اقتدائے قول او در جانِ ما است ہر چہ زُو ثابت شود ایمان ماست نا (سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۹۵) لے خدا کے اس راستہ کو جسے لوگوں نے بھلا دیا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آل اور انصار میں ڈھونڈ.خبر دار ہو جا! اے وہ شخص جو محمد ﷺ کی شان نیز محمدعلی کے چمکتے ہوئے نور کا منکر ہے.اگر چہ کرامت اب مفقود ہے.مگر تو آ اور اسے محمد مالہ کے غلاموں میں دیکھ لے.ے وہ رسول جس کا نام محمد ہے اس کا مقدس دامن ہر وقت ہمارے ہاتھ میں ہے..اس کی محبت ماں کے دودھ کے ساتھ ہمارے بدن میں داخل ہوئی وہ جان بن گئی اور جان کے ساتھ ہی باہر نکلے گی.وہی خیر الرسل اور خیر الا نام ہے اور ہر قسم کی نبوت کی تکمیل اُس پر ہوگئی.جو بھی پانی ہے وہ ہم اسی سے لے کر پیتے ہیں جو بھی سیراب ہے وہ اسی سے سیراب ہوا ہے.جو وحی والہام ہم پر نازل ہوتا ہے وہ ہماری طرف سے نہیں وہیں سے آتا ہے.ہم ہر روشنی اور ہر کمال اسی سے حاصل کرتے ہیں محبوب از لی کا وصل بغیر اس کے ناممکن ہے.ا اس کے ہر ارشاد کی پیروی ہماری فطرت میں ہے جو بھی اس کا فرمان ہے اس پر ہمارا پورا ایمان ہے.

Page 523

۵۱۳ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے قرآن مجید " قرآن جواہرات کی تحصیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں.“

Page 524

۵۱۴ ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اِس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا.ہم نے اُس خدا کی آواز سنی اور اس کے پُر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا.سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے.ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے.سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں.ہم نے اس نور حقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلمانی پر دے اُٹھ جاتے ہیں اور غیر اللہ سے در حقیقت دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے.یہی ایک راہ ہے جس سے انسان نفسانی جذبات اور ظلمات سے ایسا باہر آ جاتا ہے جیسا کہ سانپ اپنی کینچلی ہے.( کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۵) یہ تو ظاہر ہے کہ ہر ایک چیز کی بڑی خوبی یہی سمجھی جائے گی کہ جس غرض کے پورا کرنے کے لئے وہ وضع کی گئی ہے اس غرض کو بوجہ احسن پوری کر سکے.مثلاً اگر کسی بیل کو قلبہ رانی کے لئے خریدا گیا ہے تو اُس بیل کی یہی خوبی دیکھی جائے گی کہ وہ بیل قلبہ رانی کے کام کو بوجہ احسن ادا کر سکے اسی طرح ظاہر ہے کہ اصلی غرض آسمانی کتاب کی یہی ہونی چاہئے کہ اپنی پیروی کرنے والے کو اپنی تعلیم اور تاثیر اور قوت اصلاح اور اپنی روحانی خاصیت سے ہر ایک گناہ اور گندی زندگی سے چھوڑا کر ایک پاک زندگی عطا فرما دے اور پھر پاک کرنے کے بعد خدا کی شناخت کے لئے ایک کامل بصیرت عطا کرے.اور اس ذات بے مثل کے ساتھ جو تمام خوشیوں کا سرچشمہ ہے محبت اور عشق کا تعلق بخشے.کیونکہ در حقیقت یہی محبت نجات کی جڑ ہے.اور یہی وہ بہشت ہے جس میں داخل ہونے کے بعد تمام کوفت اور تلخی اور رنج و عذاب دُور ہو جاتا ہے.اور بلاشبہ زندہ اور کامل کتاب الہامی وہی ہے جو طالب خدا کو اس مقصود تک پہنچا وے اور اس کو سفلی زندگی سے نجات دے کر اس محبوب حقیقی سے ملاوے جس کا وصال عین نجات ہے اور تمام

Page 525

۵۱۵ شکوک و شبہات سے مخلصی بخش کر ایسی کامل معرفت اس کو عطا کرے کہ گویا وہ اپنے خدا کو دیکھ لے اور خدا کے ساتھ ایسے مستحکم تعلقات اس کو بخش دے کہ وہ خدا کا وفادار بندہ بن جائے اور خدا اس پر ایسا لطف و احسان کرے کہ اپنی انواع و اقسام کی نصرت اور مدد اور حمایت سے اس میں اور اُس کے غیر میں فرق کر کے دکھلائے اور اپنی معرفت کے دروازے اُس پر کھول دے.اور اگر کوئی کتاب اپنے اس فرض کو ادا نہ کرے جو اس کا اصلی فرض ہے اور دوسرے بے ہودہ دعووں سے اپنی خوبی ثابت کرنی چاہے تو اس کی یہی مثال ہے کہ ایک شخص مثلاً طبیب حاذق ہونے کا دعویٰ کرے اور جب کوئی بیمار اس کے سامنے پیش کیا جائے کہ اس کو اچھا کر کے دکھلاؤ تو وہ یہ جواب دے کہ میں اس کو اچھا تو نہیں کر سکتا لیکن میں کشتی کرنا خوب جانتا ہوں.یا یہ کہے کہ علم ہیئت اور فلسفہ میں مجھے بہت دخل ہے.ظاہر ہے کہ ایسا آدمی مسخرہ کہلائے گا اور عقلمندوں کے نزدیک قابل سرزنش ہو گا.خدا کی کتاب اور خدا کے رسول جو دنیا میں آتے ہیں بڑی غرض اُن کی یہی ہوتی ہے جو دنیا کو پاپ اور گناہ کی زندگی سے چھوڑا دیں اور خدا سے پاک تعلقات قائم کریں.اُن کی یہ غرض تو نہیں ہوتی کہ دنیا کے علوم ان کو سکھاویں اور دنیا کی ایجادوں سے اُن کو آگاہ کریں.غرض ایک عقلمند اور منصف مزاج آدمی کے نزدیک اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ خدا کی کتاب کا فرض یہی ہے کہ وہ خدا کو ملا وے اور خدا کی ہستی کے بارہ میں یقین کے درجہ تک پہنچاوے اور خدا کی عظمت اور ہیبت دل میں بٹھا کر گناہ کے ارتکاب سے روک دے ورنہ ہم ایسی کتاب کو کیا کریں جو نہ دل کا گند دُور کر سکتی ہے اور نہ ایسی پاک اور کامل معرفت بخش سکتی ہے جو گناہ سے نفرت کرنے کا موجب ہو سکے.یادر ہے کہ گناہ کی رغبت کا جذام نہایت خطرناک جذام ہے اور یہ جذام کسی طرح دُور ہی نہیں ہو سکتا جب تک کہ خدا کی زندہ معرفت کی تجلیات اور اس کی ہیبت اور عظمت اور قدرت کے نشان بارش کی طرح وارد نہ ہوں اور جب تک کہ انسان خدا کو اُس کی مہیب طاقتوں کے ساتھ ایسا نزدیک نہ دیکھے جیسے وہ بکری کہ جب شیر کو دیکھتی ہے کہ صرف وہ اُس سے دو قدم کے فاصلہ پر ہے.انسان کو یہ ضرورت ہے کہ وہ گناہ کے مہلک جذبات سے پاک ہو اور اس قدر خدا کی عظمت اُس کے دل میں بیٹھ جائے کہ وہ بے اختیار کرنے والی نفسانی شہوات کی خواہش کہ جو بجلی کی طرح اُس پر گرتی اور اُس کے تقویٰ کے سرمایہ کو ایک دم میں جلا دیتی ہے وہ دُور ہو جاوے.مگر کیا وہ ناپاک جذبات کہ جو مرگی کی طرح بار بار پڑتے ہیں اور پر ہیز گاری کے ہوش و حواس کو کھو دیتے ہیں وہ صرف اپنے ہی

Page 526

۵۱۶ خود تراشیدہ پر میشر کے تصور سے دُور ہو سکتے ہیں یا صرف اپنے ہی تجویز کردہ خیالات سے دب سکتے ہیں اور یا کسی ایسے کفارہ سے رُک سکتے ہیں جس کا دُکھ اپنے نفس کو چھوا بھی نہیں؟ ہرگز نہیں.یہ بات معمولی نہیں بلکہ سب باتوں سے بڑھ کر عقلمند کے نزدیک غور کرنے کے لائق یہی بات ہے کہ وہ تا ہی جو اس بے باکی اور بے تعلقی کی وجہ سے پیش آنے والی ہے جس کی اصلی جڑ گناہ اور معصیت ہے اس سے کیونکر محفوظ رہے.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان یقینی لذات کو محض ظنی خیالات سے چھوڑ نہیں سکتا.ہاں ایک یقین دوسرے یقینی امر سے دست بردار کرا سکتا ہے.مثلاً ایک بن کے متعلق ایک یقین ہے کہ اس جگہ سے کئی ہرن ہم بآسانی پکڑ سکتے ہیں اور ہم اس یقین کی تحریک پر قدم اٹھانے کے لئے مستعد ہیں مگر جب یہ دوسرا یقین ہو جائے گا کہ وہاں پچاس شیر بر بھی موجود ہیں اور ہزارہا خونخوار اژدہا بھی ہیں جو منہ کھولے بیٹھے ہیں تب ہم اس ارادہ سے دست کش ہو جائیں گے.اسی طرح بغیر اس درجہ یقین کے گناہ بھی دُور نہیں ہو سکتا لو ہالو ہے سے ہی ٹوٹتا ہے.خدا کی عظمت اور ہیبت کا وہ یقین چاہئے جو غفلت کے پردوں کو پاش پاش کر دے اور بدن پر ایک لرزہ ڈال دے اور موت کو قریب کر کے دکھلا دے اور ایسا خوف دل پر غالب کرے جس سے تمام تار و پود نفس امارہ کے ٹوٹ جائیں.اور انسان ایک غیبی ہاتھ سے خدا کی طرف کھینچا جائے اور اُس کا دل اس یقین سے بھر جائے کہ درحقیقت خدا موجود ہے جو بے باک مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا.پس ایک حقیقی پاکیزگی کا طالب ایسی کتاب کو کیا کرے جس کے ذریعہ سے یہ ضرورت رفع نہ ہو سکے؟ اس لئے میں ہر ایک پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ وہ کتاب جوان ضرورتوں کو پورا کرتی ہے وہ قرآن شریف ہے اس کے ذریعہ سے خدا کی طرف انسان کو ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور دنیا کی محبت سرد ہو جاتی ہے.اور وہ خدا جو نہایت نہاں در نہاں ہے اُس کی پیروی سے آخر کا ر اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے اور وہ قادر جس کی قدرتوں کو غیر قو میں نہیں جانتیں قرآن کی پیروی کرنے والے انسان کو خدا خود دکھا دیتا ہے اور عالم ملکوت کا اس کو سیر کراتا ہے اور اپنے انا الموجود ہونے کی آواز سے آپ اپنی ہستی کی اس کو خبر دیتا ہے.مگر وید میں یہ ہنر نہیں ہے.ہر گز نہیں ہے.اور وید اس بوسیدہ گھڑی کی مانند ہے جس کا مالک مر جائے اور یا جس کی نسبت پتہ نہ لگے کہ یہ کس کی گھڑی ہے.جس پر میشر کی طرف دید بلاتا ہے اس کا زندہ ہونا ثابت نہیں ہوتا.بلکہ وید اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں کرتا کہ اُس کا پر میشر موجود بھی ہے اور وید کی گمراہ کنندہ تعلیم نے اس بات میں بھی رخنہ ڈال دیا ہے کہ مصنوعات سے صانع کا پتہ لگایا

Page 527

۵۱۷ جائے کیونکہ اس کی تعلیم کی رو سے ارواح اور پر مانو یعنی ذرات سب قدیم اور غیر مخلوق ہیں.پس غیر مخلوق کے ذریعہ سے صانع کا کیونکر پتہ لگے.ایسا ہی وید کلام الہی کا دروازہ بند کرتا ہے اور خدا کے تازہ.نشانوں کا منکر ہے.اور وید کی رو سے پر میشر اپنے خاص بندوں کی تائید کے لئے کوئی ایسا نشان ظاہر نہیں کر سکتا کہ جو معمولی انسانوں کے علم اور تجربہ سے بڑھ کر ہو.پس اگر وید کی نسبت بہت ہی حسن ظن کیا جائے تو اس قدر کہیں گے کہ وہ صرف معمولی سمجھ کے انسانوں کی طرح خدا کے وجود کا اقرار کرتا ہے اور خدا کی ہستی پر کوئی یقینی دلیل پیش نہیں کرتا غرض دید وہ معرفت عطا نہیں کر سکتا جو تازہ طور پر خدا کی طرف سے آتی ہے اور انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیتی ہے.مگر ہمارا مشاہدہ اور تجربہ اور اُن سب کا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے بچے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جونکڑہ ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے.وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے.اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دُعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے.اور ہر ایک جو اس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۵ تا ۳۰۹) وہ خدا جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے وہ بجز قرآن شریف کی پیروی کے ہرگز نہیں مل سکتا.کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو میں نے سُنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو چھوڑ دیں اور حقیقت کی طرف دوڑیں.وہ کامل علم کا ذریعہ جس سے خدا نظر آتا ہے وہ میل اتارنے والا پانی جس سے تمام شکوک دُور ہو جاتے ہیں.وہ آئینہ جس سے اُس برتر ہستی کا درشن ہو جاتا ہے خدا کا وہ مکالمہ اور مخاطبہ ہے جس کا میں ابھی ذکر کر چکا ہوں.جس کی رُوح میں سچائی کی طلب ہے وہ اُٹھے اور تلاش کرے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر رُوحوں میں سچی تلاش پیدا ہو اور دلوں میں سچی پیاس لگ جائے تو لوگ اس طریق کو ڈھونڈیں اور اس راہ کی تلاش میں لگیں.مگر یہ راہ کس طریق سے کھلے گی اور حجاب کس دوا سے اُٹھے گا.میں سب طالبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف اسلام ہی ہے جو اس راہ کی خوشخبری دیتا ہے اور دوسری قو میں تو خدا کے الہام پر مدت سے مہر لگا چکی ہیں.سو یقینا سمجھو کہ یہ خدا کی طرف

Page 528

۵۱۸ سے مہر نہیں بلکہ محرومی کی وجہ سے انسان ایک حیلہ پیدا کر لیتا ہے اور یقینا سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سُن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اوس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں.میں جوان تھا اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو.اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلده اصفحه ۴۴۲ ۴۴۳) سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری رُوحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے.قرآن کریم ہے جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصل کرنے کے متکفل ہو کر آیا ہے جس کی آیت آیت اور لفظ لفظ ہزار ہا طور کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آب حیات ہماری زندگی کے لئے بھرا ہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو ہر روز ظاہر ہوتے جاتے ہیں.یہی ایک عمدہ محک ہے جس کے ذریعہ سے ہم راستی اور ناراستی میں فرق کر سکتے ہیں.یہی ایک روشن چراغ ہے جو عین سچائی کی راہیں دکھاتا ہے.بلاشبہ جن لوگوں کو راہ راست سے مناسبت ہے اور ایک قسم کا رشتہ ہے اُن کا دل قرآن شریف کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے.اور خدائے کریم نے اُن کے دل ہی اس طرح کے بنا رکھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں اور بغیر اس کے کسی جگہ قرار نہیں پکڑتے اور اس سے ایک صاف اور صریح بات سن کر پھر کسی دوسرے کی نہیں سنتے.اس کی ہر یک صداقت کو خوشی سے اور دوڑ کر قبول کر لیتے ہیں اور آخر وہی ہے جو موجب اشراق اور روشن ضمیری کا ہو جاتا ہے اور عجیب در عجیب انکشافات کا ذریعہ ٹھہرتا ہے اور ہر یک کو حسب استعداد معراج ترقی پر پہنچاتا ہے.راستبازوں کو قرآن کریم کے انوار کے نیچے چلنے کی ہمیشہ حاجت رہی ہے اور جب کبھی کسی حالت جدیدہ زمانہ نے اسلام کو کسی دوسرے مذہب کے ساتھ ٹکرا دیا ہے تو وہ تیز اور کارگر ہتھیار جو فی الفور کام آیا ہے قرآن کریم ہی ہے.ایسا ہی جب کہیں فلسفی خیالات مخالفانہ طور پر شائع ہوتے رہے تو اس خبیث پودہ کی بیخ کنی آخر قرآن کریم ہی نے کی اور ایسا اس کو حقیر اور ذلیل کر کے دکھلا دیا کہ ناظرین کے آگے آئینہ رکھ دیا کہ سچا فلسفہ یہ ہے نہ وہ.حال کے زمانہ میں بھی جب اول عیسائی واعظوں نے سر اُٹھایا اور بدنہم اور نادان لوگوں کو توحید سے کھینچ کر ایک عاجز بندہ کا پرستار بنانا چاہا اور اپنے مغشوش طریق کو سوفسطائی تقریروں سے آراستہ کر کے اُن کے آگے رکھ دیا اور ایک طوفان ملک ہند میں برپا کر دیا.آخر قرآن کریم ہی تھا جس نے انہیں ایسا پسپا کیا کہ اب وہ لوگ

Page 529

۵۱۹ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۲٬۳۸۱) کسی با خبر آدمی کو منہ بھی نہیں دکھلا سکتے.اور ان کے لمبے چوڑے عذرات کو یوں الگ کر کے رکھ دیا جس طرح کوئی کاغذ کا تختہ لیٹے.والله انه درة يتيمة ظاهره نور و باطنه نور و فوقه نور و تحته نور و فی کل لفظه و کلمته.نور.جنة روحانية ذللت قطوفها تذليلا وتجرى من تحتها الانهار.كل ثمرة السعادة توجد فيه و كل قبس يقتبس منه.و من دونه خرط القتاد موارد فيضه سائغة فطوبى للشاربين.و قد قذف في قلبي انوار منه.ما كان لي ان استحصلها بطريق آخر.ووالله لولا القرآن ماكان لى لطف حياتى.رأيت حسنه ازيد من مائة الف يوسف.فملت اليه اشد میلی و اشرب هو في قلبي هو رباني كما يربى الجنين.وله على قلبی اثر عجیب و حسنه يراودني عن نفسي.وانّي أدركت بالكشف ان حظيرة القدس تسقى بماء القرآن و هو بحر مواج من ماء الحياة من شرب منه فهو يحي بل يكون من المحيين.- (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۶،۵۴۵) خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اُس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں کیونکہ کلام الہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے جس پر کلام الہی نازل ہوتا ہے اُسی قدر قوت اور شوکت اس کلام کی ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اللہ کی قسم وہ ایک انمول موتی ہے جس کا ظاہر و باطن نور ہے اور اس کے اوپر بھی نور ہے اور نیچے بھی نور ہے اس کے ہر لفظ اور ہر بات میں نور ہے.وہ ایسی روحانی جنت ہے جس کے خوشے جھکے ہوئے ہیں اور جس کے نیچے نہریں جاری ہیں.سعادت کا ہر پھل اس میں پایا جاتا ہے.اور ہر قسم کا فیض اس سے حاصل کیا جاتا ہے.اور اس کے ورے مشقت ہی مشقت ہے.اس کے فیض کے گھاٹ آسانی سے گلے سے اترنے والے ہیں.پس خوش خبری ہے پینے والوں کے لئے.میرے دل میں اس کے انوار میں سے ڈالا گیا ہے.میرے لئے ممکن نہ تھا کہ میں کسی اور طریق سے اسے حاصل کر سکتا.اور اللہ کی قسم اگر قرآن نہ ہوتا تو میری زندگی میں مجھے کوئی لطف حاصل نہ ہوتا.میں نے اس کے حسن کو لاکھ یوسف سے بھی زیادہ حسین پایا پس میں اس کی طرف پوری طرح جھک گیا اور وہ میرے دل میں رچ بس گیا.اس نے میری ایسی پرورش کی جس طرح ایک جنین کی پرورش کی جاتی ہے.اور میرے دل پر اس کا ایک عجیب اثر ہے اور اس کا حسن مجھے میرے نفس کے خلاف پھسلا رہا ہے.اور میں نے کشفا دیکھا ہے کہ جنت کو قرآن کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور وہ زندگی بخش پانی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے.جو اس میں سے بنے گا وہ زندہ کیا جائے گا بلکہ وہ زندوں میں سے ہو جائیگا.

Page 530

۵۲۰ اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا.اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہونچا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات کمال آپ پر ختم ہو چکے تھے اور آپ انتہائی نقطہ پر پہونچے ہوئے تھے.اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہونچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے آپ خاتم النبیین ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری.جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں اُن سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہونچی ہوئی ہے یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت.کیا باعتبار ترتیب مضامین.کیا باعتبار تعلیم.کیا باعتبار کمالات تعلیم.کیا باعتبار ثمرات تعلیم.غرض جس پہلو سے دیکھواسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو.خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت.خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد.خواہ بلحاظ تعلیم.خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہے.غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے.الحکم ۲۴ / اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ا کالم ۳ و صفحہ ۲ کالم ۱.ملفوظات جلد دوم صفحه ۲۶، ۲۷.ایڈیشن ۲۰۰۳ء) قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اوّل مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہو گا.اُس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اس طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا.علاوہ اس کے یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا کلام اُس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہو گا.اور وحی الہی میں بھی یہی رنگ ہو گا.جس شخص کی طرف اُس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہوگا اُسی پایہ کا کلام اُسے ملے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے اور دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدود وقت یا مخصوص قوم کے لئے نہ تھی جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی بلکہ آپ کے لئے فرمایا گیا.اِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعًا ہے اور مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ " الاعراف :۱۵۹ الانبياء : ١٠٨

Page 531

۵۲۱ جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہو اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.اس وقت اگر کسی کو قرآن شریف کی کوئی آیت بھی الہام ہو تو ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے اس الہام میں اتنا دائرہ وسیع نہیں ہو گا جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے.الحکم ۳۱ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ا کالم ۳ و صفحه ۲ کالم ۱.ملفوظات جلد دوم صفحه ۴۰ ۴۱ جدید ایڈیشن ) قرآن شریف میں جس قدر باریک صداقتیں علم دین کی اور علوم دقیقہ الہیات کے اور براہین قاطعہ اصول حقہ کے معہ دیگر اسرار اور معارف کے مندرج ہیں اگر چہ وہ تمام فی حد ذا تہا ایسے ہیں کہ قومی بشریہ ان کو بہ بیت مجموعی دریافت کرنے سے عاجز ہیں اور کسی عاقل کی عقل ان کے دریافت کرنے کے لئے بطور خود سبقت نہیں کر سکتی کیونکہ پہلے زمانوں پر نظر استقراری ڈالنے سے ثابت ہو گیا ہے کہ کوئی حکیم یا فیلسوف ان علوم و معارف کا دریافت کرنے والا نہیں گذرا لیکن اس جگہ عجیب بر عجیب اور بات ہے یعنی یہ کہ وہ علوم اور معارف ایک ایسے امی کو عطا کی گئی کہ جو لکھنے پڑھنے سے نا آشنا محض تھا جس نے عمر بھر کسی مکتب کی شکل نہیں دیکھی تھی اور نہ کسی کتاب کا کوئی حرف پڑھا تھا اور نہ کسی اہل علم یا حکیم کی صحبت میسر آئی تھی بلکہ تمام عمر جنگلیوں اور وحشیوں میں سکونت رہی انہیں میں پرورش پائی اور انہیں میں سے پیدا ہوئے اور انہیں کے ساتھ اختلاط رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمی اور ان پڑھ ہونا ایک ایسا بد یہی امر ہے کہ کوئی تاریخ دان اسلام کا اس سے بے خبر نہیں.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۱ ۵ تا ۵۶۳) جو چیز محض قدرت کا ملہ خدائے تعالیٰ سے ظہور پذیر ہو خواہ وہ چیز اس کی مخلوقات میں سے کوئی مخلوق ہو اور خواہ وہ اس کی پاک کتابوں میں سے کوئی کتاب ہو جو لفظ اور معنا اسی کی طرف سے صادر ہو اُس کا اس صفت سے متصف ہونا ضروری ہے کہ کوئی مخلوق اُس کی مثل بنانے پر قادر نہ ہو اور یہ اصول عام جو ہر یک صادر من اللہ سے متعلق ہے دوطور سے ثابت ہوتا ہے.اوّل قیاس سے کیونکہ از روئے قیاس صحیح و مستحکم کے خدا کا اپنی ذات اور صفات اور افعال میں واحد لاشریک ہونا ضروری ہے اور اس کی کسی صنعت یا قول یا فعل میں شراکت مخلوق کی جائز نہیں.دلیل اس پر یہ ہے کہ اگر اس کی کسی صنعت یا قول یا فعل میں شراکت مخلوق کی جائز ہو تو البتہ پھر سب صفات اور افعال میں جائز ہو اور اگر سب صفات اور افعال میں جائز ہو تو پھر کوئی دوسرا خدا بھی پیدا ہونا جائز ہو کیونکہ جس چیز میں تمام صفات خدا کی پائی

Page 532

۵۲۲ ا جائیں اُسی کا نام خدا ہے اور اگر کسی چیز میں بعض صفات باری تعالٰی کی پائی جائیں تب بھی وہ بعض میں شریک باری تعالیٰ کے ہوئے اور شریک الباری ببداہت عقل ممتنع ہے.پس اس دلیل سے ثابت ہے کہ خدا کا اپنی تمام صفات اور اقوال اور افعال میں واحد لاشریک ہونا ضروری ہے اور ذات اُس کی ان تمام نالائق امور سے منزہ ہے جو شریک الباری پیدا ہونے کی طرف منجر ہوں.دوسرے ثبوت اس دعویٰ کا استقراء تام سے ہوتا ہے جو ان سب چیزوں پر جو صادر من اللہ ہمیں نظر تدبر کر کے بہ پا یہ صحت پہنچ گیا ہے.کیونکہ تمام جزئیات عالم جو خدا کی قدرت کاملہ سے ظہور پذیر ہیں جب ہم ہر یک کو اُن میں سے عمیق نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اعلیٰ سے ادنیٰ تک بحد یکہ حقیر سے حقیر چیزوں کو جیسے مکھی اور مچھر اور عنکبوت وغیرہ ہیں خیال میں لاتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی ایسی چیز ہم کو معلوم نہیں ہوتی جس کے بنانے پر انسان بھی قدرت رکھتا ہو بلکہ ان چیزوں کی بناوٹ اور ترکیب پر غور کرنے سے ایسے عجائب کام دست قدرت کے ان کے جسم میں مشہود اور موجود پاتے ہیں جو صانع عالم کے وجود پر دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ ہیں.علاوہ ان سب دلائل کے یہ بات بھی ہر یک دانشمند پر روشن ہے کہ اگر یہ جائز ہوتا کہ جو چیزیں خدا کے دست قدرت سے ظہور پذیر ہیں اُن کے بنانے پر کوئی دوسرا شخص بھی قادر ہوسکتا تو کسی مصنوع کو اُس خالق حقیقی کے وجود پر دلالت کامل نہ رہتی اور امر معرفت صانع عالم کا بالکل مشتبہ ہو جاتا کیونکہ جب بعض ان اشیاء کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوئیں ہیں بجز خدا کے کوئی اور بھی بنا سکتا ہے تو پھر اس بات پر کیا دلیل ہے جو کل اشیاء کوئی اور نہیں بنا سکتا.اب جبکہ دلائل مستحکمہ سے ثابت ہو گیا کہ جو چیزیں خدا کی طرف سے ہیں اُن کا بے نظیر ہونا اور پھر ان کی بے نظیری ان کے منجانب اللہ ہونے پر دلیل قاطع ہونا اُن کی صادر من اللہ ہونے کے لئے شرط ضروری ہے تو اس تحقیق سے جھوٹ ان لوگوں کا صاف کھل گیا جن کی یہ رائے ہے کہ کلام الہی کا بے نظیر ہونا ضروری نہیں یا اس کے بے نظیر ہونے سے اس کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت نہیں ہوسکتا.پس اس تمام تحقیقات سے ظاہر ہے کہ بے نظیر ہونے کی حقیقت اور کیفیت ربانی کام اور کلام سے مختص ہے.اور ہر یک دانشمند جانتا ہے کہ خدا کی خدائی مانے کے لئے بڑا بھا را ذریعہ جو کہ عقل کے ہاتھ میں ہے وہ یہی ہے کہ ہر یک صادر من اللہ ایسی بے نظیری کے رتبہ پر ہے کہ اس صانع وحید کے وجود پر دلالت کامل کر رہا ہے اور اگر یہ ذریعہ نہ ہوتا تو پھر عقل کو خدا تک پہنچنے کا راستہ مسدود تھا.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۴۹ تا۱۸۲) قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں اپنی حکمتوں اپنی صداقتوں اپنی بلاغتوں اپنے

Page 533

۵۲۳ لطائف و نکات اپنے انوار رُوحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہونا آپ ظاہر فرما دیا ہے.یہ بات ہرگز نہیں کہ صرف مسلمانوں نے فقط اپنے خیال میں اُس کی خوبیوں کو قرار دے دیا ہے بلکہ وہ تو خود اپنی خوبیوں اور اپنے کمالات کو بیان فرماتا ہے اور اپنا بے مثل و مانند ہونا تمام مخلوقات کے مقابلہ پر پیش کر رہا ہے اور بلند آواز سے ھل من معارض کا نقارہ بجا رہا ہے اور دقائق حقائق اس کے صرف دو تین نہیں جس میں کوئی نادان شک بھی کرے بلکہ اس کے دقائق تو بحر ذخار کی طرح جوش مار رہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں.کوئی صداقت نہیں جو اس سے باہر ہو.کوئی حکمت نہیں جو اس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو.کوئی نور نہیں جو اس کی متابعت سے نہ ملتا ہو اور یہ باتیں بلا ثبوت نہیں.کوئی ایسا امر نہیں جو صرف زبان سے کہا جاتا ہے بلکہ یہ وہ تحقیق اور بدیہی الثبوت صداقت ہے کہ جو تیرہ سو برس سے برابر اپنی روشنی دکھلاتی چلی آئی ہے اور ہم نے بھی اس صداقت کو اپنی اس کتاب میں نہایت تفصیل سے لکھا ہے اور دقائق اور معارف قرآنی کو اس قدر بیان کیا ہے کہ جو ایک طالب صادق کی تسلی اور تشفی کے لئے بحر عظیم کی طرح جوش ماررہے ہیں.( براہین احمدیہ ہر چہار تصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۶۲ تا ۶۶۵ حاشیہ نمبر ۱) قرآن کریم کی شان بلند جواسی کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے وَكُلُّ العِلم فِي القُرانِ لكن ــقَاصَرَ مِنْهُ أَنْهَامُ الرِّجَالِ جاننا چاہئے کہ اس زمانہ میں اسباب ضلالت میں سے ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی نظر میں عظمت قرآن شریف کی باقی نہیں رہی.ایک گروہ مسلمانوں کا ایسا فلاسفہ ضالہ کا مقلد ہو گیا کہ وہ ہر ایک امر کا عقل سے ہی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.اُن کا بیان ہے کہ اعلیٰ درجہ کا حکم جو تصفیہ تنازعات کے لئے انسان کو ملا ہے وہ عقل ہی ہے.ایسے ہی لوگ جب دیکھتے ہیں کہ وجود جبرائیل اور عزرائیل اور دیگر ملائکہ کرام جیسا کہ شریعت کی کتابوں میں لکھا ہے اور وجود جنت و جہنم جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا

Page 534

۵۲۴ ہے وہ تمام صداقتیں عقلی طور پر بپایہ ثبوت نہیں پہنچتیں تو فی الفور اُن سے منکر ہو جاتے ہیں اور تاویلات رکیکہ شروع کر دیتے ہیں کہ ملائک سے صرف قوتیں مراد ہیں اور وحی رسالت صرف ایک ملکہ ہے اور جنت اور جہنم صرف ایک روحانی راحت یا رنج کا نام ہے.ان بے چاروں کو خبر نہیں کہ آلہ دریافت مجہولات صرف عقل نہیں ہے وبس بلکہ اعلیٰ درجہ کی صداقتیں اور انتہائی مقام کے معارف تو وہی ہیں جو مبلغ عقل سے صد ہا درجہ بلند تر ہیں جو بذریعہ مکاشفات صحیحہ ثابت ہوتی ہیں اور اگر صداقتوں کا محک صرف عقل کو ہی ٹھہرایا جائے تو بڑے بڑے عجائبات کا رخانہ الوہیت کے در پردہ مستوری و مجوبی رہیں گے اور سلسلہ معرفت کا محض نا تمام اور ناقص اور ادھورا رہ جائے گا اور کسی حالت میں انسان شکوک اور شبہات سے مخاصی نہیں پاسکے گا اور اس یکطرفہ معرفت کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ بوجہ نہ ثابت ہونے بالائی رہنمائی کے اور باعث نہ معلوم ہونے تحریکات طاقت بالا کے خود اس صانع کی ذات کے بارہ میں طرح طرح کے وساوس دلوں میں پیدا ہو جائیں گے.سوایسا خیال کہ خالق حقیقی کے تمام دقیق در دقیق بھیدوں کے سمجھنے کے لئے صرف عقل ہی کافی ہے کس قدر خام اور نا سعادتی پر دلالت کر رہا ہے.اور ان لوگوں کے مقابل پر دوسرا گروہ یہ ہے کہ جس نے عقل کو بکلی معطل کی طرح چھوڑ دیا ہے اور ایسا ہی قرآن شریف کو بھی چھوڑ کر جو سر چشمہ تمام علوم الہیہ ہے صرف روایات و اقوال بے سر و پا کو مضبوط پکڑ لیا ہے.سو ہم ان دونوں گروہ کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم کی عظمت و نورانیت کا قدر کریں اور اُس کے نور کی راہنمائی سے عقل کو بھی دخل دیں اور کسی غیر کا قول تو کیا چیز ہے اگر کوئی حدیث بھی قرآن کریم کے مخالف پاویں تو فی الفور اس کو چھوڑ دیں جیسا کہ اللہ جل شانۂ قرآن کریم میں آپ فرماتا ہے فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ کے یعنی قرآن کریم کے بعد کس حدیث پر ایمان لاؤ گے.اور ظاہر ہے کہ ہم مسلمانوں کے پاس وہ نص جو اول درجہ پر قطعی اور یقینی ہے قرآن کریم ہی ہے.اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں.وَالظَّنُّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا.مندرجہ ذیل صفات قرآن کریم کے غور سے پڑھو اور پھر انصافا خود ہی کہو کہ کیا مناسب ہے کہ اس کلام کو چھوڑ کر کوئی اور ہادی یا حکم مقرر کیا جائے اور وہ آیات یہ ہیں.إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ اِنَّ فِي هَذَا لَبَلَعًا لِقَوْمٍ عُبِدِينَ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ - وَإِنَّهُ لَحَقِّ الْيَقِينِ حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ تِبْيَانًا لِكُلِ الاعراف: ۱۸۲ ۲.بنی اسرائیل : ۱۰ ۳ الانبیاء : ۱۰۷ ) الحاقة : ۵۲،۴۹ القمر : ٦

Page 535

۵۲۵ شَيْءٍ نُوْرُ عَلَى نُورٍ شِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ اَنْزَلَ الكتب بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ هُدَى لِلنَّاسِ وَبَيْنَةٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ اِنَّهُ لَقَوْلُ فَصْلَ لَا رَيْبَ فِيهِ وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيْهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ فِيْهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ يَا لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ لا هَذَا بَصَابِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُوْنَ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَأَيْتِهِ يُؤْمِنُونَ - قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ " یعنی یہ قرآن اس راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے جو نہایت سیدھی ہے.اس میں ان لوگوں کے لئے جو پرستار ہیں حقیقی پرستش کی تعلیم ہے اور یہ اُن کے لئے جو متقی ہیں کمالات تقویٰ کے یاد دلانے والا ہے.یہ حکمت ہے جو کمال کو پہنچی ہوئی ہے.اور یہ یقینی سچائی ہے اور اس میں ہر یک چیز کا بیان ہے.یہ نُوْرٌ عَلَى نُورِ اور سینوں کو شفا بخشنے والا ہے.رحمن نے قرآن کو سکھلایا ایسی کتاب نازل کی جو اپنی ذات میں حق ہے اور حق کے وزن کرنے کے لئے ایک ترازو ہے.وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اجمالی ہدایتوں کی اس میں تشریح ہے.اور وہ اپنے دلائل کے ساتھ حق اور باطل میں فرق کرتا ہے.اور وہ قول فصل ہے اور شک اور شبہ سے خالی ہے.ہم نے اس کو اس لئے تجھ پر اتارا ہے کہ تا امور متنازعہ فیہ کا اس سے فیصلہ کر دیں اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا سامان طیار کر دیں.اس میں وہ تمام صداقتیں موجود ہیں جو پہلی کتابوں میں متفرق اور پراگندہ طور پر موجود تھیں ایک ذرہ باطل کا اس میں دخل نہیں نہ آگے سے اور نہ پیچھے سے.یہ لوگوں کے لئے روشن دلیلیں ہیں.اور جو یقین لانے والے ہوں اُن کے لئے ہدایت ورحمت ہے.سو ایسی کونسی حدیث ہے جس پر تم اللہ اور اس کی آیات کو چھوڑ کر ایمان لاؤ گے.یعنی اگر کوئی حدیث قرآن کریم سے مخالف ہو تو ہرگز نہیں ماننی چاہئے بلکہ رڈ کر دینی چاہئے.ہاں اگر کوئی حدیث بذریعہ تاویل قرآن کریم کے بیان سے مطابق آ سکے مان لینا چاہئے.پھر النحل: ٩٠ النور: ٣٦ یونس: ۵۸ الرحمن : ٣٢ الشورى : ۱۸ البقرة : ١٨٦ ك الطارق ۱۴ البقرة : النحل ۶۵ ١٠ البينة : ال حم السجدة :٤٣ الجاثية : ٢١ الجاثية : یونس : ۵۹

Page 536

۵۲۶ بعد اس کے ترجمہ بقیہ آیات کا یہ ہے کہ ان کو کہہ دے کہ خدائے تعالیٰ کے فضل و رحمت سے یہ قرآن ایک بیش قیمت مال ہے سو اس کو تم خوشی سے قبول کرو.یہ ان مالوں سے اچھا ہے جو تم جمع کرتے ہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ علم اور حکمت کی مانند کوئی مال نہیں یہ وہی مال ہے جس کی نسبت پیشگوئی کے طور پر لکھا تھا کہ مسیح دنیا میں آکر اس مال کو اس قدر تقسیم کرے گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے.یہ نہیں کہ مسیح درم و دینار کو جو مصداق آیت إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ہے جمع کرے گا اور دانستہ ہر یک کو مال کثیر دے کر فتنہ میں ڈال دے گا.مسیح کی پہلی فطرت کو بھی ایسے مال سے مناسبت نہیں.وہ خود انجیل میں بیان کر چکا ہے کہ مومن کا مال درم و دینار نہیں بلکہ جواہر حقائق و معارف اس کا مال ہیں.یہی مال انبیا ء خدائے تعالیٰ سے پاتے ہیں اور اسی کو تقسیم کرتے ہیں.اسی مال کی طرف اشارہ ہے کہ أَنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ هُوَ الْمُعْطِی - حدیثوں میں یہ بات بوضاحت لکھی گئی ہے کہ مسیح موعود اس وقت دنیا میں آئے گا کہ جب علم قرآن زمین پر سے اُٹھ جائے گا اور جہل شیوع پا جائے گا یہ وہی زمانہ ہے جس کی طرف ایک حدیث میں یہ اشارہ ہے لَوْ كَانَ الْإِیمَانُ مُعَلَّقًا عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فارس.یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا جو کمال طغیان اس کا اس سنہ ہجری میں شروع ہو گا جو آیت وَ اِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ تَقْدِرُونَ کے میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی سنہ ۱۲۷۴ء.اس مقام کو غور سے دیکھو اور جلدی سے نکل نہ جاؤ اور خدا سے دعا مانگو کہ وہ تمہارے سینوں کو کھول دے.آپ لوگ تھوڑے سے تامل کے ساتھ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ حدیثوں میں یہ وارد ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن زمین سے اُٹھا لیا جائے گا اور علم قرآن مفقود ہو جائے گا.اور جہل پھیل جائے گا اور ایمانی ذوق اور حلاوت دلوں سے دُور ہو جائے گی.پھر ان حدیثوں میں یہ حدیث بھی ہے کہ اگر ایمان ثریا کے پاس جا ٹھہرے گا یعنی زمین پر اس کا نام ونشان نہیں رہے گا تو ایک آدمی فارسیوں میں سے اپنا ہاتھ پھیلائے گا اور وہیں تریا کے پاس سے اس کو لے لے گا.اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب جہل اور بے ایمانی اور ضلالت جو دوسری حدیثوں میں دخان کے ساتھ تعبیر کی گئی ہے دنیا میں پھیل جائے گی اور زمین میں حقیقی ایمان داری ایسی کم ہو جائے گی کہ گویا وہ آسمان پر اُٹھ گئی ہو گی اور قرآن کریم ایسا متروک ہو جائے گا کہ گویا وہ خدائے تعالی کی طرف اُٹھایا گیا ہو گا تب ضرور ہے کہ فارس کی اصل سے ایک شخص پیدا ہو اور ایمان کو ثریا سے لے کر پھر زمین پر نازل ہو.سو یقیناً التغابن : ١٦ المؤمنون : ١٩

Page 537

۵۲۷ سمجھو کہ نازل ہونے والا ابن مریم یہی ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲ ۴۵ تا ۴۵۶) میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہو گیا اور اگر لوگ چاہیں تو گواہی دے سکتے ہیں کہ میں دنیا داری کے کاموں میں نہیں پڑا اور دینی شغل میں ہمیشہ میری دلچسپی رہی.میں نے اس کلام کو جس کا نام قرآن ہے نہایت درجہ تک پاک اور روحانی حکمت سے بھرا ہوا پایا.نہ وہ کسی انسان کو خدا بناتا اور نہ روحوں اور جسموں کو اس کی پیدائش سے باہر رکھ کر اس کی مذمت اور نندیا کرتا ہے اور وہ برکت جس کے لئے مذہب قبول کیا جاتا ہے اس کو یہ کلام آخر انسان کے دل پر وارد کر دیتا ہے اور خدا کے فضل کا اس کو مالک بنا دیتا ہے.پس کیونکر ہم روشنی پا کر پھر تاریکی میں آویں اور آنکھیں پا کر پھر اندھے بن جاویں.سناتن دھرم.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۷۴) یہ امر ثابت شدہ ہے کہ قرآن شریف نے دین کے کامل کرنے کا حق ادا کر دیا ہے.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا لے یعنی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے اور میں اسلام کو تمہارا دین مقرر کر کے خوش ہوا.سو قرآن شریف کے بعد کسی کتاب کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ جس قدر انسان کی حاجت تھی وہ سب کچھ قرآن شریف بیان کر چکا.اب صرف مکالمات الہیہ کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی خود بخود نہیں بلکہ سچے اور پاک مکالمات جو صریح اور کھلے طور پر نصرت الہی کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں اور بہت سے امور غیبیہ پرمشتمل ہوتے ہیں وہ بعد تزکیه نفس محض پیروی قرآن شریف اور اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوتے ہیں.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۰) یا درکھنا چاہئے کہ ہر ایک الہام کے لئے وہ سنت اللہ بطور امام اور مھیمن اور پیشرو کے ہے جو قرآن کریم میں وارد ہو چکی ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی الہام اس سنت کو تو ڑ کر ظہور میں آوے کیونکہ اس سے پاک نوشتوں کا باطل ہونا لازم آتا ہے.(تبلیغ رسالت جلد سوم صفحہ ۱۵۶.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۳۲۹ بار دوم ) جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہل زبان پر روشن ہوسکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر یک ملک کے آدمی کو خواہ وہ ہندی ہو یا پارسی یا یورپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہوملزم و ساکت ولا جواب کر سکتے ہیں.وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی المآئدة :

Page 538

۵۲۸ حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اور ہر یک زمانہ کے خیالات کو مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں.اگر قرآن شریف اپنے حقائق و دقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیز ہوتی تو ہرگز وہ معجزہ تامہ نہیں ٹھہر سکتا تھا فقط بلاغت و فصاحت ایسا امر نہیں ہے جس کی اعجازی کیفیت ہر یک خواندہ، ناخواندہ کو معلوم ہو جائے.کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے.جو شخص قرآن شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتا وہ علم قرآن سے سخت بے نصیب ہے.وَمَنْ لَّمْ يُؤْمِنُ بِذَالِكَ الْإِعْجَازِ فَوَ اللَّهِ مَا قَدَرَ الْقُرْآنَ حَقَّ قَدْرِهِ وَ مَا عَرَفَ اللَّهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهِ وَمَا وَقَرَ الرَّسُولَ حَقَّ تَوْقِيرِهِ..اے بندگانِ خدا ! یقیناً یا د رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے.اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے.کوئی شخص بر ہمو ہو یا بدھ مذہب والا یا آریہ یا کسی اور رنگ کا فلسفی کوئی ایسی الہی صداقت نکال نہیں سکتا جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو.قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے.اور جس طرح صحیفہ فطرت کے عجائب وغرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں.یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو.اور میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ قرآن شریف کے عجائبات اکثر بذریعہ الہام میرے پر کھلتے رہتے ہیں اور اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ تفسیروں میں ان کا نام و نشان نہیں پایا جاتا.مثلاً یہ جو اس عاجز پر کھلا ہے کہ ابتدائے خلقت آدم سے جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت تک مدت گذری تھی وہ تمام مدت سورۃ والعصر کے اعداد ۴۷۴۰ حروف میں بحساب قمری مندرج ہے یعنی چار ہزار سات سو چالیس.اب بتلاؤ کہ یہ دقائق قرآنیہ جس میں قرآن کریم کا اعجاز نمایاں ہے کسی تفسیر میں لکھے ہیں.ایسا ہی خدائے تعالیٰ نے میرے پر یہ نکتہ معارف قرآنیہ کا ظاہر کیا کہ اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ " کے صرف یہی معنے نہیں کہ ایک بابرکت رات ہے جس میں قرآن شریف اترا بلکہ با وجود ان معنوں کے جو بجائے خود صحیح ہیں.اس آیت کے بطن ے اور جو شخص اس معجزہ پر ایمان نہیں لاتا تو اللہ کی قسم اس نے قرآن کی قدر کرنے کا حق ادا نہیں کیا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی اس حد تک معرفت حاصل کی ہے جو حاصل کرنا چاہیے تھی اور نہ ہی اس سے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عزت و توقیر کا حق ادا کیا ہے.القدر : ٢

Page 539

۵۲۹ میں دوسرے معنے بھی ہیں جو رسالہ فتح اسلام میں درج کئے گئے ہیں.اب فرمائیے کہ یہ تمام معارف حقہ کس تفسیر میں موجود ہیں؟ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن شریف کے ایک معنے کے ساتھ اگر دوسرے معنے بھی ہوں تو ان دونوں معنوں میں کوئی تناقض پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہدایت قرآنی میں کوئی نقص عائد حال ہوتا ہے بلکہ ایک نور کے ساتھ دوسرا نور مل کر عظمت فرقانی کی روشنی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے اور چونکہ زمانہ غیر محدود انقلابات کی وجہ سے غیر محدود خیالات کا بالطبع محرک ہے لہذا اس کا نٹے پیرا یہ میں ہو کر جلوہ گر ہونا یا نئے نئے علوم کو بمنقہ ظہور لانا یا نئے نئے بدعات اور محدثات کو دکھلانا ایک ضروری امر اس کے لئے پڑا ہوا ہے.اب اس حالت میں ایسی کتاب جو خاتم الکتب ہونے کا دعوی کرتی ہے اگر زمانہ کے ہر یک رنگ کے ساتھ مناسب حال اس کا تدارک نہ کرے تو وہ ہرگز خاتم الکتب نہیں ٹھہر سکتی اور اگر اس کتاب میں مخفی طور پر وہ سب سامان موجود ہے جو ہر یک حالت زمانہ کے لئے درکار ہے تو اس صورت میں ہمیں ماننا پڑے گا کہ قرآن شریف بلاریب غیر محدود معارف پر مشتمل ہے اور ہر یک زمانہ کی ضرورات لاحقہ کا کامل طور پر متکلفل ہے.اب یہ بھی یادر ہے کہ عادت اللہ ہر ایک کامل مہم کے ساتھ یہی رہی ہے کہ عجائبات مخفیہ فرقان اس پر ظاہر ہوتے رہے ہیں.بلکہ بسا اوقات ایک مہم کے دل پر قرآن شریف کی آیت الہام کے طور پر القاء ہوتی ہے اور اصل معنی سے پھیر کر کوئی اور مقصود اس سے ہوتا ہے.جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب مرحوم غزنوی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ الہام ہوا.قلنا یا نار کونی بردًا وسلامًا.مگر میں اس کے معنے نہ سمجھا.پھر الہام ہوا قلنا یا صبر کونی بردا و سلاما تب میں سمجھ گیا کہ نار سے مراد اس جگہ صبر ہے.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۵ تا ۲۶۲).یہی زمانہ ہے کہ جس میں ہزار ہا قسم کے اعتراضات اور شبہات پیدا ہو گئے ہیں.اور انواع اقسام کے عقلی حملے اسلام پر کئے گئے ہیں.اور خدائے تعالیٰ فرماتا ہے وَ إِنْ مِّنْ شَيْ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَابِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ لا یعنی هر یک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں.مگر بقدر معلوم اور بقدر ضرورت ہم ان کو اتارتے ہیں.سو جس قدر معارف و حقائق بطون قرآن کریم میں چھپے ہوئے ہیں جو ہر یک قسم کے ادیان فلسفیہ و غیر فلسفیہ کو مقہور ومغلوب کرتے ہیں.ان کے ظہور کا زمانہ یہی تھا.کیونکہ وہ بجر تحریک ضرورت پیش آمدہ کے ظاہر نہیں ہو سکتے تھے.سواب مخالفانہ حملے جو نئے فلسفہ کی طرف سے ہوئے تو ان معارف کے ظاہر ہونے کا وقت آ گیا اور ممکن نہیں تھا کہ بغیر اس کے الحجر : ٢٢

Page 540

۵۳۰.کہ وہ معارف ظاہر ہوں اسلام تمام ادیان باطلہ پر فتح پا سکے کیونکہ سیفی فتح کچھ چیز نہیں اور چند روزہ اقبال کے دور ہونے سے وہ فتح بھی معدوم ہو جاتی ہے.کچی اور حقیقی فتح وہ ہے جو معارف اور حقائق اور کامل صداقتوں کے لشکر کے ساتھ حاصل ہو.سو وہ یہ فتح ہے جواب اسلام کو نصیب ہو رہی ہے.بلاشبہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے حق میں ہے.اور سلف صالح بھی ایسا ہی سمجھتے آئے ہیں.یہ زمانہ در حقیقت ایک ایسا زمانہ ہے جو بالطبع تقاضا کر رہا ہے جو قرآن شریف اپنے ان تمام لبطون کو ظاہر کرے جو اس کے اندر مخفی چلے آتے ہیں.یہ بات ہر یک فہیم کو جلدی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اللہ جل شانہ کی کوئی مصنوع دقائق وغرائب خواص سے خالی نہیں.اور اگر ایک مکھی کے خواص و عجائبات کی قیامت تک تفتیش و تحقیقات کرتے جائیں تو وہ بھی کبھی ختم نہیں ہو سکتی.تو اب سوچنا چاہئے کہ کیا خواص و عجائبات قرآن کریم کے اپنے قدر و اندازہ میں مکھی جتنے بھی نہیں؟ بلاشبہ وہ عجائبات تمام مخلوقات کے مجموعی عجائبات سے بہت بڑھ کر ہیں اور ان کا انکار در حقیقت قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا انکار ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں کہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے صادر ہو اور اُس میں بے انتہا عجائبات نہ پائے جائیں وہ نکات و حقائق جو معرفت کو زیادہ کرتے ہیں وہ ہمیشہ حسب ضرورت کھلتے رہتے ہیں.اور نئے نئے فسادوں کے وقت نئے نئے پر حکمت معانی بمنصہ ظہور آتے رہتے ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم بذات خود معجزہ ہے اور بڑی بھاری وجہ اعجاز کی اُس میں یہ ہے کہ وہ جامع حقائق غیر متناہیہ ہے مگر بغیر وقت کے وہ ظاہر نہیں ہوتے.جیسے جیسے وقت کی مشکلات تقاضا کرتی ہیں وہ معارف خفیہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں.دیکھو د نیوی علوم جواکثر مخالف قرآن کریم اور غفلت میں ڈالنے والے ہیں کیسے آج کل ایک زور سے ترقی کر رہے ہیں اور زمانہ اپنے علوم ریاضی اور طبعی اور فلسفہ کی تحقیقاتوں میں کیسی ایک عجیب طور کی تبدیلیاں دکھلا رہا ہے کیا ایسے نازک وقت میں ضرور نہ تھا کہ ایمانی اور عرفانی ترقیات کے لئے بھی دروازہ کھولا جاتا تا شرور محدثہ کی مدافعت کے لئے آسانی پیدا ہو جاتی.سو یقیناً سمجھو کہ وہ دروازہ کھولا گیا ہے اور خدا تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ تا قرآن کریم کے عجائبات مخصیہ اس دنیا کے متکبر فلسفیوں پر ظاہر کرے.اب نیم ملاں دشمن اسلام اس ارادہ کو روک نہیں سکتے.اگر اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئیں گے تو ہلاک کئے جائیں گے اور قہری طمانچہ حضرت قہار کا ایسا لگے گا کہ خاک میں مل جائیں گے.ان نادانوں کو حالت موجودہ پر بالکل نظر نہیں.چاہتے ہیں کہ قرآن کریم مغلوب اور کمزور اور ضعیف اور حقیر سا نظر آوے لیکن اب وہ ایک جنگی بہادر کی طرح نکلے گا.

Page 541

۵۳۱ ہاں وہ ایک شیر کی طرح میدان میں آئے گا اور دنیا کے تمام فلسفہ کو کھا جائے گا اور اپنا غلبہ دکھائے گا اور لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ کُلّم کی پیشگوئی کو پوری کر دے گا اور پیشگوئی وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمْ کو روحانی طور سے کمال تک پہنچائے گا کیونکہ دین کا زمین پر بوجہ کمال قائم ہو جانا محض جبر اور اکراہ سے ممکن نہیں.دین اس وقت زمین پر قائم ہوتا ہے کہ جب اس کے مقابل پر کوئی دین کھڑا نہ رہے اور تمام مخالف سپر ڈال دیں.سواب وہی وقت آ گیا.اب وہ وقت نادان مولویوں کے روکنے سے رک نہیں سکتا.اب وہ ابن مریم جس کا روحانی باپ زمین پر بجر معلم حقیقی کے کوئی نہیں جو اس وجہ سے آدم سے بھی مشابہت رکھتا ہے.بہت سا خزانہ قرآن کریم کا لوگوں میں تقسیم کرے گا.یہاں تک کہ لوگ قبول کرتے کرتے تھک جائیں گے اور لا يقبلۂ احد کا مصداق بن جائیں گے اور ہر یک طبیعت اپنے ظرف کے مطابق پر ہو جائے گی.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۴ تا ۴۶۷) پاک اور کامل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو انسانی درخت کی ہر ایک شاخ کی پرورش کرتی ہے اور قرآن شریف صرف ایک پہلو پر زور نہیں ڈالتا بلکہ کبھی تو عفو اور درگذر کی تعلیم دیتا ہے مگر اس شرط سے کہ عفو کرنا قرین مصلحت ہو اور کبھی مناسب محل اور وقت کے مجرم کو سزا دینے کے لئے فرماتا ہے.پس در حقیقت قرآن شریف خدا تعالیٰ کے اُس قانونِ قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظر کے سامنے ہے.یہ بات نہایت معقول ہے کہ خدا کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں یعنی جس رنگ اور طرز پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا فعل نظر آتا ہے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل کے مطابق تعلیم کرے نہ یہ کہ فعل سے کچھ اور ظاہر ہو اور قول سے کچھ اور ظاہر ہو.خدا تعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور درگذر نہیں بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزا یاب بھی کرتا ہے.ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے ہما را خدا صرف حلیم خدا نہیں بلکہ وہ حلیم بھی ہے اور اس کا قہر بھی عظیم ہے.سچی کتاب وہ کتاب ہے جو اس کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے اور سچا قول الہی وہ ہے جو اس کے فعل کے مخالف نہیں.ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ حلم اور درگذر کا معاملہ کیا ہو اور کوئی عذاب نہ آیا ہو.اب بھی نا پاک طبع لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ایک عظیم الشان اور ہیبت ناک زلزلہ کی خبر دے رکھی ہے جو اُن کو ہلاک کرے گا.چشم مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۶ ، ۳۴۷) ایک اور اعتراض تھا جو ہم نے عیسائیوں کی موجودہ انجیلوں پر کیا تھا جس کی وجہ سے پادری صاحبوں

Page 542

۵۳۲ کو بہت شرمندگی اٹھانی پڑی اور وہ یہ ہے کہ انجیل انسان کی تمام قوتوں کی مربی نہیں ہوسکتی اور جو کچھ اس میں کسی قدر اخلاقی حصہ موجود ہے اور وہ بھی دراصل توریت کا انتخاب ہے.اس پر بعض عیسائیوں نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ ” خدا کی کتاب کے مناسب حال صرف اخلاقی حصہ ہوتا ہے اور سزا جزا کے قوانین خدا کی کتاب کے مناسب حال نہیں.کیونکہ جرائم کی سزائیں حالات متبدلہ کی مصلحت کی رُو سے ہونی چاہیئیں اور وہ حالات غیر محدود ہیں اس لئے اُن کے لئے صرف ایک ہی قانون سزا ہونا ٹھیک نہیں ہے.ہر ایک سزا جیسا کہ وقت تقاضا کرے اور مجرموں کی تنبیہ اور سرزنش کے لئے مفید پڑ سکے دینی چاہئے لہذا ہمیشہ ایک ہی رنگ میں ان کا ہونا اصلاح خلائق کے لئے مفید نہیں ہوگا اور اس طرح پر قوانین دیوانی اور فوجداری اور مال گذاری کو محدود کر دینا اس بد نتیجہ کا موجب ہوگا کہ جو ایسی نئی صورتوں کے وقت میں پیدا ہو سکتا ہے جو ان قوانین محدودہ سے باہر ہوں.مثلاً ایک ایسی جدید طرز کے امور تجارت پر مخالفانہ اثر کرے جو ایسے عام رواج پر مبنی ہوں جن سے اس گورنمنٹ میں کسی طرح گریز نہ ہو سکے اور یا کسی اور طرز کے جدید معاملات پر مؤثر ہو اور یا کسی اور تمدنی حالت پر اثر رکھتا ہو اور یا بد معاشوں کے ایسے حالات را سخہ پر غیر مفید ثابت ہو جو ایک قسم کی سزا کی عادت پکڑ گئے ہوں یا اس سزا کے لائق نہ رہے ہوں.مگر میں کہتا ہوں کہ یہ خیالات ان لوگوں کے ہیں جنہوں نے کبھی تدبر سے خدا کی کلام قرآن شریف کو نہیں پڑھا.اب میں حق کے طالبوں کو سمجھاتا ہوں کہ قرآن شریف میں ایسے احکام جو دیوانی اور فوجداری اور مال کے متعلق ہیں دو قسم کے ہیں.ایک وہ جن میں سزا یا طریق انصاف کی تفصیل ہے.دوسرے وہ جن میں ان امور کو صرف قواعد کلیہ کے طور پر لکھا ہے اور کسی خاص طریق کی تعیین نہیں کی.اور وہ احکام اس غرض سے ہیں کہ تا اگر کوئی نئی صورت پیدا ہو تو مجتہد کو کام آویں.مثلاً قرآن شریف میں ایک جگہ تو یہ ہے کہ دانت کے بدلے دانت آنکھ کے بدلے آنکھ.یہ تو تفصیل ہے.اور دوسری جگہ یہ اجمالی عبارت ہے کہ جَزَ وَ ا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ہے پس جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجمالی عبارت توسیع قانون کے لئے بیان فرمائی گئی ہے کیونکہ بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں یہ قانون جاری نہیں ہو سکتا.مثلاً ایک ایسا شخص کسی کا دانت توڑے کہ اُس کے منہ میں دانت نہیں اور باعث کبر سنی یا کسی اور سبب سے اُس کے دانت نکل گئے ہیں تو دندان شکنی کی سزا میں ہم اُس کا دانت تو ڑ نہیں سکتے کیونکہ اس کے تو منہ میں دانت ہی نہیں.ایسا ہی اگر ایک اندھا کسی کی الشورى : ۴۱

Page 543

۵۳۳ آنکھ پھوڑ دے تو ہم اس کی آنکھ نہیں پھوڑ سکتے کیونکہ اُس کی تو آنکھیں ہی نہیں.خلاصہ مطلب یہ کہ قرآن شریف نے ایسی صورتوں کو احکام میں داخل کرنے کے لئے اس قسم کے قواعد کلیہ بیان فرمائے ہیں.پس اس کے احکام اور قوانین پر کیونکر اعتراض ہو سکے اور اُس نے صرف یہی نہیں کہا بلکہ ایسے قواعد کلیہ بیان فرما کر ہر ایک کو اجتہاد اور استخراج اور استنباط کی ترغیب دی ہے مگر افسوس کہ یہ ترغیب اور طرز تعلیم توریت میں نہیں پائی جاتی اور انجیل تو اس کامل تعلیم سے بالکل محروم ہے اور انجیل میں صرف چند اخلاق بیان کئے ہیں اور وہ بھی کسی ضابطہ اور قانون کے سلسلہ میں منسلک نہیں ہیں اور یادر ہے کہ عیسائیوں کا یہ بیان کہ انجیل نے قوانین کی باتوں کو انسانوں کی سمجھ پر چھوڑ دیا ہے جائے فخر نہیں بلکہ جائے انفعال اور ندامت ہے کیونکہ ہر ایک امر جو قانون کلی اور قواعد مرتبہ منتظمہ کے رنگ میں بیان نہ کیا جائے وہ امر گو کیسا ہی اپنے مفہوم کے رو سے نیک ہو بد استعمالی کے رو سے نہایت بد اور مکروہ ہو جاتا ہے.(کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۸٬۸۷) ہما را خداوند کریم کہ جو دلوں کے پوشیدہ بھیدوں کو خوب جانتا ہے اس بات پر گواہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ذرہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کر سکے کہ جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو اور اس سے بہتر ہو تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو طیار ہیں.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۹۸ حاشیہ نمبر۲) آج روئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلام الہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے جس کے اصول نجات کے بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قومیہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں.جس کی تعلیمات ہر یک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں.جس میں تو حید اور تعظیم الہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جناب الہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذات پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبر دستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے.اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے.اور ہر ایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے اور ہر یک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کر کے مرتبہ یقین

Page 544

۵۳۴ کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دُور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کا جاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہر یک فساد کی اُسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آجکل پھیلا ہوا ہے.اُس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکامِ قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دلی اور بصیرت قلبی کے لئے ایک آفتاب چشم افروز ہے اور عقل کے اجمال کو تفصیل دینے والا اور اس کے نقصان کا جبر کرنے والا ہے.لیکن دوسری کتابیں جو الہامی کہلاتی ہیں جب اُن کی حالت موجودہ کو دیکھا گیا تو بخوبی ثابت ہو گیا جو وہ سب کتابیں ان صفات کا ملہ سے بالکل خالی اور عاری ہیں اور خدا کی ذات اور صفات کی نسبت طرح طرح کی بدگمانیاں اُن میں پائی جاتی ہیں.اور مقلد ان کتابوں کے عجیب عجیب عقائد کے پابند ہو رہے ہیں.کوئی فرقہ ان میں سے خدا کو خالق اور قادر ہونے سے جواب دے رہا ہے اور قدیم اور خود بخود ہونے میں اس کا بھائی اور حصہ دار بن بیٹھا ہے اور کوئی بتوں اور مورتوں اور دیوتوں کو اس کے کارخانہ میں دخیل اور اس کی سلطنت کا مدار المہام سمجھ رہا ہے.کوئی اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں اور پوتے اور پوتیاں تراش رہا ہے.اور کوئی خود اسی کو کچھ اور کچھ کا جنم دے رہا ہے.غرض ایک دوسرے سے بڑھ کر اس ذات کامل کو ایسا خیال کر رہے ہیں کہ گویا وہ نہایت ہی بدنصیب ہے کہ جس کمال تام کو اس کے لئے عقل چاہتی تھی.وہ اس کو میسر نہ ہوا.اب اے بھائیو! خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میں نے ایسے ایسے باطل عقائد میں لوگوں کو مبتلا دیکھا اور اس درجہ کی گمراہی میں پایا کہ جس کو دیکھ کر جی پکھل آیا اور دل اور بدن کانپ اُٹھا تو میں نے اُن کی رہنمائی کے لئے اس کتاب کا تالیف کرنا اپنے نفس پر ایک حق واجب اور دین لازم دیکھا جو بجز ادا کرنے کے ساقط نہ ہو گا.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۸۱ تا ۸۳) وہ براہین جو قرآن شریف کی حقیت اور افضلیت پر بیرونی شہادتیں ہیں چار قسم پر ہیں.ایک وہ جو امور محتاج الاصلاح سے ماخوذ ہیں.دوسری وہ جو امور محتاج التکمیل سے ماخوذ ہیں.تیسری وہ جو امور قدرتیہ سے ماخوذ ہیں.چوتھی وہ جو امور غیبیہ سے ماخوذ ہیں لیکن وہ براہین جو قرآن شریف کی حقیت اور افضلیت پر اندرونی شہادتیں ہیں وہ تمام امور قدرتیہ ہی سے ماخوذ ہیں اور تعریف اقسام مذکورہ کی بہ تفصیل ذیل ہے.

Page 545

۵۳۵ امور محتاج الاصلاح سے وہ امور کفر اور بے ایمانی اور شرک اور بد عملی کے مراد ہیں جن کو بنی آدم نے بجائے عقائد حقہ اور اعمال صالحہ کے اختیار کر رکھا ہو اور جو عام طور پر تمام دنیا میں پھیلنے کی وجہ سے اس لائق ہو گئے ہوں کہ عنایت از لیہ ان کی اصلاح کی طرف توجہ کرے.امور محتاج التکمیل سے وہ امور تعلیمیہ مراد ہیں کہ جو کتب الہامیہ میں ناقص طور پر پائے جاتے ہوں اور حالت کا ملہ تعلیم پر نظر کرنے سے اُن کا ناقص اور ادھورا ہونا ثابت ہوتا ہو اور اس وجہ سے وہ ایک ایسی کتاب الہامی کے محتاج ہوں جو اُن کو مرتبۂ کمال تک پہنچاوے.امور قدرتیہ دوطور پر ہیں.ا.بیرونی شہادتیں.ان سے وہ امور مراد ہیں جو بغیر وسیلہ انسانی تدبیروں کے خدا کی طرف سے پیدا ہو جائیں اور ہر ایک ذرہ بے مقدار کو وہ شوکت و شان اور عظمت و بزرگی بخشیں جس کا حاصل ہونا عند العقل محالات عادیہ سے متصور ہو اور جس کی نظیر صفحہ دنیا میں کہیں نہ پائی جاتی ہو.۲.اندرونی شہادتیں.ان سے وہ محاسن صوری اور معنوی کتاب الہامی کے مراد ہیں جن کا مقابلہ کرنے سے قومی بشریہ عاجز ہوں اور جو فی الواقعہ بے مثل و مانند ہوکر ایسے قادر یکتا پر دلالت کرتی ہوں کہ گویا آئینہ خدا نما ہوں.امور غیبیہ سے وہ امور مراد ہیں جو ایک ایسے شخص کی زبان سے نکلیں جس کی نسبت یہ یقین کیا جائے کہ ان امور کا بیان کرنا من کل الوجوہ اس کی طاقت سے باہر ہے یعنی ان امور پر نظر کرنے اور اس شخص کے حال پر نظر کرنے سے یہ بات بہ بداہت واضح ہو کہ نہ وہ امور اس کے لئے حکم بدیہی اور مشہود کا رکھتے ہیں اور نہ بذریعہ نظر اور فکر کے اس کو حاصل ہو سکتے ہیں اور نہ اُس کی نسبت عند العقل یہ گمان جائز ہے کہ اُس نے بذریعہ کسی دوسرے واقف کار کے ان امور کو حاصل کر لیا ہو گا.گو وہی امور کسی دوسرے شخص کی طاقت سے باہر نہ ہوں.پس اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ امور غیبیہ اضافی اور نسبتی امور ہیں.یعنی ایسے امور ہیں کہ جب بعض خاص اشخاص کی طرف اُن کو نسبت دی جاتی ہے تو اس قابل ہو جاتے ہیں کہ امور غیبیہ ہونے کا اُن پر اطلاق ہو اور پھر جب وہی امور بعض دیگر کی طرف منسوب کئے جائیں تو یہ قابلیت اُن میں متحقق نہیں ہوتی.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۴۳ تا ۱۴۵) بعض معجزات و پیشگویاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ وہ ہمارے لئے بھی جو اس زمانہ میں مشہود و

Page 546

۵۳۶ محسوس کا حکم رکھتی ہیں اور کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا.چنانچہ وہ یہ ہیں.(۱) عذابی نشان کا معجزہ جو اس وقت کے کفار کو دکھلایا گیا تھا یہ ہمارے لئے بھی فی الحقیقت ایسا ہی نشان ہے جس کو چشم دید کہنا چاہئے.وجہ یہ کہ یہ نہایت یقینی مقدمات کا ایک ضروری نتیجہ ہے جس سے کوئی موافق اور مخالف کسی صورت سے انکار نہیں کر سکتا.اوّل یہ مقدمہ جو بطور بنیاد معجزہ کے ہے نہایت بدیہی اور مسلم الثبوت ہے کہ یہ عذابی نشان اس وقت مانگا گیا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چند رفیق آنجناب کے مکہ میں دعوت حق کی وجہ سے خود صد ہا تکالیف اور دردوں اور دُکھوں میں مبتلا تھے.اور وہ ایام دین اسلام کے لئے ایسے ضعف اور کمزوری کے دن تھے کہ خود کفار مکہ ہنسی اور ٹھٹھے کی راہ سے مسلمانوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو اس قدر عذاب اور مصیبت اور دکھ اور درد ہمارے ہاتھ سے کیوں تمہیں پہنچ رہا ہے اور وہ خدا جس پر تم بھروسہ کرتے ہو وہ کیوں تمہاری مدد نہیں کرتا اور کیوں تم ایک قدر قلیل جماعت ہو جو عنقریب نابود ہونے والی ہے اور اگر تم سچے ہو تو کیوں ہم پر عذاب نازل نہیں ہوتا ؟ ان سوالات کے جواب میں جو کچھ کفار کو قرآن شریف کے متفرق مقامات میں ایسے زمانہ تنگی و تکالیف میں کہا گیا وہ دوسرا مقدمہ اس پیشگوئی کی عظمت شان سمجھنے کے لئے ہے کیونکہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ پر ایسا نازک زمانہ تھا کہ ہر وقت اپنی جان کا اندیشہ تھا اور چاروں طرف نا کامی منہ دکھلا رہی تھی.سو ایسے زمانہ میں کفار کو اُن کے عذابی نشان مانگنے کے وقت صاف صاف طور پر یہ کہا گیا تھا کہ عنقریب تمہیں اسلام کی فتح مندی اور تمہارے سزا یاب ہونے کا نشان دکھلایا جائے گا.اور اسلام جواب ایک تخم کی طرح نظر آتا ہے کسی دن ایک بزرگ درخت کی مانند اپنے تئیں ظاہر کرے گا.اور وہ جو عذاب کا نشان مانگتے ہیں وہ تلوار کی دھار سے قتل کئے جائیں گے اور تمام جزیرۂ عرب کفر اور کافروں سے صاف کیا جائے گا.اور تمام عرب کی حکومت مومنوں کے ہاتھ میں آ جائے گی اور خدائے تعالی دین اسلام کو عرب کے ملک میں ایسے طور سے جمادے گا کہ پھر بت پرستی کبھی پیدا نہیں ہو گی.اور حالت موجودہ جو خوف کی حالت ہے بکلی امن کے ساتھ بدل جائے گی.اور اسلام قوت پکڑے گا اور غالب ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ دوسرے ملکوں پر اپنی فتح اور نصرت کا سایہ ڈالے گا.اور دور دور تک اُس کی فتوحات پھیل جائیں گی.اور ایک بڑی بادشاہت قائم ہو جائے گی جس کا اخیر دنیا تک زوال نہیں ہو گا.اب جو شخص پہلے ان دونوں مقدمات پر نظر ڈال کر معلوم کر لیوے کہ وہ زمانہ جس میں یہ پیشگوئی کی گئی اسلام کے لئے کیسی تنگی اور نا کامی اور مصیبت کا زمانہ تھا اور جو پیشگوئی کی گئی وہ کس قدر حالت

Page 547

۵۳۷ موجودہ سے مخالف اور خیال اور قیاس سے نہایت بعید بلکہ صریح محالات عادیہ سے نظر آتی تھی.پھر بعد اس کے اسلام کی تاریخ پر جو دشمنوں اور دوستوں کے ہاتھ میں موجود ہے ایک منصفانہ نظر ڈالے کہ کیسی صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی اور کس قدر دلوں پر ہیبت ناک اثر اس کا پڑا.اور کیسے مشارق اور مغارب میں تمام تر قوت اور طاقت کے ساتھ اس کا ظہور ہوا.تو اس پیشگوئی کو یقینی اور قطعی طور پر چشم دید معجزہ قرار دے گا جس میں اس کو ایک ذرہ بھی شک وشبہ نہیں ہو گا.پھر دوسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہمارے لئے حکم مشہود و محسوس کا رکھتا ہے وہ عجیب وغریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں برکت پیروی قرآن شریف واثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں.جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واتباع قرآن شریف کس رنگ میں آگئے اور کیسے اخلاق میں عقائد میں چلن میں گفتار میں رفتار میں کردار میں اور اپنی جمیع عادات خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے اُن کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور روشنی اور چمک بخشدی تھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارق عادت تصرف تھا جو خاص خدائے تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا.یہ تبدیلی ایک خارق عادت تبدیلی ہے جسے معجزہ کہنا چاہئے.پھر تیسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہماری نظروں کے سامنے موجود ہے اُس کے حقائق و معارف و لطائف و نکات ہیں جو اس کی بلیغ و صیح عبارات میں بھرے ہوئے ہیں.اس معجزہ کو قرآن شریف میں بڑی شد ومد سے بیان کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تمام جن وانس اکٹھے ہو کر اس کی نظیر بنانا چاہیں تو اُن کے لئے ممکن نہیں.یہ معجزہ اس دلیل سے ثابت اور متحقق الوجود ہے کہ اس زمانہ تک کہ تیرہ سو برس سے زیادہ گذر رہا ہے باوجود یکہ قرآن شریف کی منادی دنیا کے ہر ایک نواح میں ہو رہی ہے اور بڑے زور سے هَلْ مِنْ مُعَارِض کا نقارہ بجایا جاتا ہے مگر کبھی کسی طرف سے آواز نہیں آئی.پس اس سے اس بات کا صریح ثبوت ملتا ہے کہ تمام انسانی قوتیں قرآن شریف کے مقابلہ ومعارضہ سے عاجز ہیں.بلکہ اگر قرآن شریف کی صدہا خوبیوں میں سے صرف ایک خوبی کو پیش کر کے اُس کی نظیر مانگی جائے تو انسان ضعیف البنیان سے یہ بھی ناممکن ہے کہ اس کے ایک جزو کی نظیر پیش کر سکے.مثلاً قرآن شریف کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی خوبی ہے کہ وہ تمام معارف دینیہ پر مشتمل ہے اور کوئی دینی سچائی جو حق اور

Page 548

۵۳۸ حکمت سے تعلق رکھتی ہے ایسی نہیں جو قرآن شریف میں پائی نہ جاتی ہو مگر ایسا شخص کون ہے کہ کوئی دوسری کتاب ایسی دکھلائے جس میں یہ صفت موجود ہو اور اگر کسی کو اس بات میں شک ہو کہ قرآن شریف جامع تمام حقائق دینیہ ہے تو ایسا مشلک خواہ عیسائی ہو خواہ آریہ اور خواہ برہمو ہو خواہ دہر یہ اپنی طرز اور طور پر امتحان کر کے اپنی تسلی کر سکتا ہے اور ہم تسلی کر دینے کے ذمہ دار ہیں.بشرطیکہ کوئی طالب حق ہماری طرف رجوع کرے.بائبل میں جس قدر پاک صداقتیں ہیں یا حکماء کی کتابوں میں جس قدر حق اور حکمت کی باتیں ہیں جن پر ہماری نظر پڑی ہے یا ہندؤں کے دید وغیرہ میں جو اتفاقاً بعض سچائیاں درج ہو گئیں یا باقی رہ گئیں ہیں جن کو ہم نے دیکھا ہے یا صوفیوں کی صد ہا کتابوں میں جو حکمت و معرفت کے نکتے ہیں جن پر ہمیں اطلاع ہوئی ہے ان سب کو ہم قرآن شریف میں پاتے ہیں.اور اس کامل استقراء سے جو تمیں برس کے عرصہ سے نہایت عمیق اور محیط نظر کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہے نہایت قطع اور یقین سے ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ کوئی روحانی صداقت جو تکمیل نفس اور دماغی اور دلی قومی کی تربیت کے لئے اثر رکھتی ہے ایسی نہیں ہے جو قرآن شریف میں درج نہ ہو اور یہ صرف ہمارا ہی تجر بہ نہیں بلکہ یہی قرآن شریف کا دعوی بھی ہے جس کی آزمائش نہ فقط میں نے بلکہ ہزار ہا علماء ابتداء سے کرتے آئے اور اس کی سچائی کی گواہی دیتے آئے ہیں.پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کی رُوحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلی آتی ہیں.یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الہی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالمات الہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں.خدائے تعالیٰ اُن کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرار غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسری مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے.یہ بھی ایسا نشان ہے کہ جو قیامت تک امت محمدیہ میں قائم رہے گا اور ہمیشہ ظاہر ہوتا چلا آیا ہے اور اب بھی موجود اور محقق الوجود ہے.مسلمانوں میں سے ایسے لوگ اب بھی دُنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جن کو اللہ جل شانہ اپنی تائیدات خاصہ سے مؤید فرما کر الہامات صحیحہ وصادقہ ومبشرات و مکاشفات غیبیہ سے سرفراز فرماتا ہے.اب اے حق کے طالبو! اور بچے نشانوں کے بھو کو اور پیاسو! انصاف سے دیکھو اور ذرا پاک نظر سے غور کرو کہ جن نشانوں کا خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے کس اعلیٰ درجہ کے نشان ہیں اور کیسے ہر زمانے کے لئے مشہور و محسوس کا حکم رکھتے ہیں.پہلے نبیوں کے معجزات کا اب نام ونشان باقی

Page 549

۵۳۹ نہیں صرف قصے ہیں خدا جانے ان کی اصلیت کہاں تک درست ہے.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۵ تا ۴۵۰ ) معجزات اور خوارق قرآنی چار قسم پر ہیں.(۱) معجزات عقلیہ (۲) معجزات علمیه (۳) معجزات برکات روحانیہ (۴) معجزات تصرفات خارجیہ.نمبر اول دو و تین کے معجزات خواص ذاتیہ قرآن شریف میں سے ہیں اور نہایت عالیشان اور بد یہی الثبوت ہیں جن کو ہر یک زمانہ میں ہر یک شخص تازہ بتازہ طور پر چشم دید ماجرا کی طرح دریافت کر سکتا ہے لیکن نمبر چار کے منجزات یعنی تصرفات خارجیہ یہ بیرونی خوارق ہیں جن کو قرآن شریف سے کچھ ذاتی تعلق نہیں.انہی میں سے معجزہ شق القمر بھی ہے.اصل خوبی اور حسن و جمال قرآن شریف کا پہلے تینوں قسم کے منجزات سے وابستہ ہے بلکہ ہر ایک کلام الہی کا یہی نشانِ اعظم ہے کہ یہ تینوں قسم کے معجزات کسی قدراس میں پائے جائیں اور قرآن شریف میں تو یہ ہر سہ قسم کے اعجاز اعلیٰ والکمل واتم طور پر پائے جاتے ہیں.اور انہی کو قرآن شریف اپنے بے مثل و مانند ہونے کے اثبات میں بار بار پیش کرتا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.قُل لَّبِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا لا یعنی ان منکرین کو کہہ دے کہ اگر تمام جن و انس یعنی تمام مخلوقات اس بات پر متفق ہو جائے کہ اس قرآن کی کوئی مثل بنانی چاہئے تو وہ ہرگز اس بات پر قادر نہیں ہوں گے کہ ایسی ہی کتاب انہی ظاہری باطنی خوبیوں کی جامع بنا سکیں.اگر چہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں.اور پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے.ھا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ.اور پھر فرماتا ہے يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيهَا كُتُب قَيْمَةٌ.اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے.لَوْ اَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ أَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِعَا مِنْ خَشْيَةِ اللهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ہے لیکن بایں ہمہ تصرفات خارجیہ کے اعجاز بھی قرآن شریف میں بکثرت درج ہیں.اور اس قسم کے معجزات جمال قرآنی کے لئے بطور اس زیور کے ہیں جو خوبوں کو پہنایا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ نفس خوبصورتی زیور کے محتاج نہیں گو اس سے حسن کی آب و تاب کسی قدر اور بڑھ جاتی ہے.اس جگہ واضح رہے کہ تصرفات خارجیہ کے معجزات قرآن شریف میں کئی نوع پر مندرج ہیں.اے بنی اسرآئیل : ۸۹ سے الانعام : ٣٩ البينة : ٤،٣ الحشر :٢٢

Page 550

۵۴۰ ایک نوع تو یہی کہ جو دعائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدائے تعالیٰ نے آسمان پر اپنا قادرانہ تصرف دکھلایا اور چاند کو دو ٹکڑے کر دیا.دوسرے وہ تصرف جو خدائے تعالیٰ نے جناب ممدوح کی دُعا سے زمین پر کیا اور ایک سخت قحط سات برس تک ڈالا.یاں تک کہ لوگوں نے ہڈیوں کو پیس کر کھایا.تیسرے وہ تصرف اعجازی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شرکفار سے محفوظ رکھنے کے لئے بروز ہجرت کیا گیا.یعنی جبکہ کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ جل شانہ نے اپنے اس پاک نبی کو اس بد ارادہ کی خبر دے دی اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا.اور پھر بفتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی.بدھ کا روز اور دوپہر کا وقت اور سختی گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلاء منجانب اللہ ظاہر ہوا.اس مصیبت کی حالت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا.تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا جانبازی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے مُنہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر قتل کرنے کے لئے ٹھہرے رہیں.کس بہر کسے سر ندهد جان نہ فشاند عشق است که این کار بصد صدق کناندا سو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس وفادار اور جاں نثار عزیز کو اپنی جگہ چھوڑ کر چلے گئے تو آخر تفتیش کے بعد ان نالائق بد باطن لوگوں نے تعاقب کیا اور چاہا کہ راہ میں کسی جگہ پا کر قتل کر ڈالیں.اس وقت اور اس مصیبت کے سفر میں بجز ایک با اخلاص اور یک رنگ اور دلی دوست کے اور کوئی انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہ تھا.ہاں ہر وقت اور نیز اس پُر خطر سفر میں وہ مولیٰ کریم ساتھ تھا جس نے اپنے اس کامل وفادار بندہ کو ایک عظیم الشان اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا تھا سو اس نے اپنے اس پیارے بندہ کو محفوظ رکھنے کے لئے بڑے بڑے عجائب تصرفاف اس راہ میں دکھلائے جو اجمالی طور پر قرآن شریف میں درج ہیں.منجملہ ان کے ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاتے وقت کسی مخالف نے نہیں دیکھا.حالانکہ صبح کا وقت تھا اور تمام مخالفین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر رہے تھے.سوخدائے تعالیٰ نے جیسا کہ سورہ یسین میں اس کا ذکر کیا ہے ان سب اشقیاء کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور ے کوئی کسی کے لئے سر نہیں دیتا نہ جان قربان کرتا ہے.عشق ہی ہے کہ یہ کام پوری وفاداری سے کراتا ہے.

Page 551

۵۴۱ آنحضرت اُن کے سروں پر خاک ڈال کر چلے گئے.از انجملہ ایک یہ کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی معصوم کے محفوظ رکھنے کے لئے یہ امر خارق عادت دکھلایا کہ باوجود یکہ مخالفین اس غار تک پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معہ اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اُسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنا دیا اور انڈے بھی دیدئیے اور اسی طرح اذنِ الہی سے عنکبوت نے اس غار پر اپنا گھر بنا دیا.جس سے مخالف لوگ دھوکا میں پڑ کر نا کام واپس چلے گئے.از انجملہ ایک یہ کہ ایک مخالف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پکڑنے کے لئے مدینہ کی راہ پر گھوڑا دوڑائے چلا جاتا تھا جب وہ اتفاقاً آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو جناب ممدوح کی بد دعا سے اس کے گھوڑے کے چاروں تم زمین میں دھنس گئے اور وہ گر پڑا.اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگ کر اور عفو تقصیر کرا کر واپس لوٹ آیا.چوتھی وہ تصرف اعجازی کہ جب دشمنوں نے اپنی ناکامی سے منفعل ہو کر لشکر کثیر کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کی تا مسلمانوں کو جو ابھی تھوڑے سے آدمی تھے نابود کر دیں اور دین اسلام کا نام ونشان مٹا دیں.تب اللہ جل شانہ نے جناب موصوف کے ایک مٹھی کنکریوں کے چلانے سے مقام بدر میں دشمنوں میں ایک تہلکہ ڈال دیا اور اُن کے لشکر کو شکست فاش ہوئی اور خدائے تعالیٰ نے ان چند کنکریوں سے مخالفین کے بڑے بڑے سرداروں کو سراسیمہ اور اندھا اور پریشان کر کے وہیں رکھا اور اُن کی لاشیں انہی مقامات میں گرائیں جن کے پہلے ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ نشان بتلا رکھے تھے.ایسا ہی اور کئی عجیب طور کے تائیدات و تصرفات الہیہ کا (جو خارق عادت ہیں ) قرآن شریف میں ذکر ہے جن کا ماحصل یہ ہے کہ کیونکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مسکینی اور غریبی اور یتیمی اور تنہائی اور بے کسی کی حالت میں مبعوث کر کے پھر ایک نہایت قلیل عرصہ میں جو تمیں برس سے بھی کم تھا ایک عالم پر فتحیاب کیا.اور شہنشاہ قسطنطنیہ و بادشاہان دیار شام و مصر و ممالک ما بین دجلہ و فرات وغیرہ پر غلبہ بخشا.اور اس تھوڑے ہی عرصہ میں فتوحات کو جزیرہ نما عرب سے لے کر دریائے جیحون تک پھیلایا.اور ان ممالک کے اسلام قبول کرنے کی بطور پیشگوئی قرآن شریف میں خبر دی.اس حالت بے سامانی اور پھر ایسی عجیب و غریب فتحوں پر نظر ڈال کر بڑے بڑے دانشمند اور فاضل انگریزوں نے بھی شہادت دی ہے کہ جس جلدی سے اسلامی سلطنت اور اسلام دنیا میں پھیلا ہے اس کی نظیر صفحہ تواریخ دنیا میں کسی جگہ نہیں پائی جاتی.اور ظاہر ہے کہ جس امر کی کوئی نظیر نہ پائی جائے اسی کو دوسرے لفظوں میں خارق عادت بھی

Page 552

۵۴۲ کہتے ہیں.غرض قرآن شریف میں تصرفات خارجیہ کا ذکر بھی بطور خارق عادت بہت جگہ آیا ہے بلکہ ذرا نظر کھول کر دیکھو تو اس پاک کلام کا ہر یک مقام تائیدات الہیہ کا نقارہ بجا رہا ہے.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۰ تا ۶۷ حاشیہ) معرفت حقانی کے عطا کرنے کے لئے تین دروازے قرآن شریف میں کھلے ہوئے ہیں.ایک عقلی یعنی خدائے تعالیٰ کی ہستی اور خالقیت اور اُس کی توحید اور قدرت اور رحم اور قیومی اور مجازات وغیرہ صفات کی شناخت کے لئے جہاں تک علومِ عقلیہ کا تعلق ہے استدلالی طریق کو کامل طور پر استعمال کیا ہے اور اس استدلال کے ضمن میں صناعت منطق و علم بلاغت و فصاحت وعلوم طبعی و طبابت و هیئت و ہندسہ و دقائق فلسفیه و طریق جدل و مناظرہ وغیرہ تمام علوم کو نہایت لطیف و موزوں طور پر بیان کیا ہے جس سے اکثر دقیق مسائل کا بیچ کھلتا ہے.پس یہ طرز بیان جو فوق العادت ہے از قسم اعجاز عقلی ہے.کیونکہ بڑے بڑے فیلسوف جنہوں نے منطق کو ایجاد کیا اور فلاسفی کے قواعد مرتب کئے اور بہت کچھ طبعی اور ہیئت میں کوشش و مغز زنی کی وہ باعث نقصان عقل اپنے ان علوم سے اپنے دین کو مدد نہیں دے سکے اور نہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کر سکے اور نہ اور وں کو فائدہ دینی پہنچا سکے بلکہ اکثر اُن کے دہر یہ اور ملحد اور ضعیف الایمان رہے اور جو بعض ان میں سے کسی قدر خدائے تعالیٰ پر ایمان لائے انہوں نے ضلالت کو صداقت کے ساتھ ملا کر اور خبیث کو طیب کے ساتھ مخلوط کر کے راہ راست کو چھوڑ دیا.پس یہ الہی عقل از قبیل خارق عادت ہے جس کے استدلال میں کوئی غلطی نہیں اور جس نے علوم مذکورہ سے ایک ایسی شائستہ خدمت لی ہے جو کبھی کسی انسان نے نہیں لی.اور اس کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہے کہ دلائل وجود باری عزّ اسمہ اور اس کی توحید و خالقیت وغیرہ صفات کمالیہ کے اثبات میں بیان قرآن شریف کا ایسا محیط و حاوی ہے جس سے بڑھ کر ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان کوئی جدید برہان پیش کر سکے اگر کسی کو شک ہو تو وہ چند دلائل عقلی متعلق اثبات ہستی باری عز اسمہ یا اس کی توحید یا اس کی خالقیت یا کسی دوسری الہی صفت کے متعلق بطور امتحان پیش کرے تا بالمقابل قرآن شریف میں سے وہی دلائل یا ان سے بڑھ کر اُس کو دکھلائے جائیں.جس کے دکھلانے کے ہم آپ ہی ذمہ وار ہیں.غرض یہ دعویٰ اور یہ تعریف قرآنی لاف و گزاف نہیں بلکہ حقیقت میں حق ہے.اور کوئی شخص عقائد حقہ کے اثبات میں کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتا جس کے پیش کرنے سے قرآن شریف غافل رہا ہو.قرآن شریف بآواز بلند بیسیوں جگہ اپنے احاطہ تامہ کا دعویٰ پیش کرتا ہے..

Page 553

۵۴۳ دوسرا دروازہ معرفت الہی کا جو قرآن شریف میں نہایت وسیع طور پر کھلا ہوا ہے دقائق علمیہ ہیں.جن کو بوجہ ء خارق عادت ہونے کے علمی اعجاز کہنا چاہئے.وہ علوم کئی قسم کے ہیں.اول علم معارف دین یعنی جس قدر معارف عالیہ دین اور اس کی پاک صداقتیں ہیں اور جس قدر نکات و لطائف علم الہی ہیں جن کی اس دنیا میں تکمیل نفس کے لئے ضرورت ہے.ایسا ہی جس قدر نفس امارہ کی بیماریاں اور اس کے جذبات اور اس کی دوری یا دائمی آفات ہیں یا جو کچھ ان کا علاج اور اصلاح کی تدبیریں ہیں اور جس قدر تزکیہ و تصفیہ نفس کے طریق ہیں اور جس قد ر ا خلاق فاضلہ کے انتہائی ظہور کی علامات و خواص ولوازم ہیں یہ سب کچھ باستیفا ئے تام فرقان مجید میں بھرا ہوا ہے.اور کوئی شخص ایسی صداقت یا ایسا نکتہ الہیہ یا ایسا طریق وصول الی اللہ یا کوئی ایسا نادر یا پاک طور مجاہدہ و پرستش الہی کا نکال نہیں سکتا جو اس پاک کلام میں درج نہ ہو.دوسرے علم خواص روح و علم نفس ہے جو ایسے احاطہ تام سے اس کلام معجز نظام میں اندراج پایا ہے کہ جس سے غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ بجز قادر مطلق کے یہ کسی کا کام نہیں.تیسرے علم مبدء و معاد و دیگر امور غیبیہ جو عالم الغیب کے کلام کا ایک لازمی خاصہ ہے جس سے دلوں کو تسلی و تشفی ملتی ہے اور غیب دانی خدائے قادر مطلق کی مشہودی طور پر ثابت و متحقق ہوتی ہے.یہ علم اس تفصیل اور کثرت سے قرآن شریف میں پایا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی دوسری کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.پھر علاوہ اس کے قرآن شریف نے تائید دین میں اور اور علوم سے بھی اعجازی طور پر خدمت لی ہے.اور منطق اور طبعی اور فلسفہ اور ہیئت اور علم نفس اور طبابت اور علم ہندسہ اور علم بلاغت و فصاحت وغیرہ علوم کے وسائل سے علم دین کا سمجھانا اور ذہن نشین کرنا یا اس کا تفہیم درجہ بدرجہ آسان کر دینا یا اس پر کوئی برہان قائم کرنا یا اس سے کسی نادان کا اعتراض اٹھانا مدنظر رکھا ہے.غرض طفیلی طور پر یہ سب علوم خدمتِ دین کے لئے بطور خارق عادت قرآن شریف میں اس عجیب طرز سے بھرے ہوئے ہیں جن سے ہر یک درجہ کا ذہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تیسرا دروازہ معرفت الہی کا جو قرآن شریف میں اللہ جل شانه نے اپنی عنایت خاص سے کھول رکھا ہے برکات روحانیہ ہیں جس کو اعجاز تا شیری کہنا چاہئے.یہ بات کسی سمجھ دار پر مخفی نہیں ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زاد بوم ایک محدود جزیرہ نما ملک ہے جس کو عرب کہتے ہیں.جو دوسرے ملکوں سے ہمیشہ بے تعلق رہ کر گویا ایک گوشتہ تنہائی میں پڑا رہا ہے.اس ملک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بالکل وحشیانہ اور درندوں کی طرح زندگی بسر کرنا اور دین اور ایمان اور حق اللہ اور حق العباد سے بے خبر محض ہونا اور سینکڑوں برسوں سے بت پرستی و دیگر ناپاک

Page 554

۵۴۴ خیالات میں ڈوبے چلے آنا اور عیاشی اور بدمستی اور شراب خواری اور قمار بازی وغیرہ فستق کے طریقوں میں انتہائی درجہ تک پہنچ جانا اور چوری اور قزاقی اور خون ریزی اور دختر کشی اور یتیموں کا مال کھا جانے اور بیگانہ حقوق دبالینے کو کچھ گناہ نہ سمجھنا.غرض ہر یک طرح کی بُری حالت اور ہر یک نوع کا اندھیرا اور ہر قسم کی ظلمت و غفلت عام طور پر تمام عربوں کے دلوں پر چھائی ہوئی ہونا ایک ایسا واقعہ مشہورہ ہے کہ کوئی متعصب مخالف بھی بشر طیکہ کچھ واقفیت رکھتا ہو اس سے انکار نہیں کر سکتا اور پھر یہ امر بھی ہر ایک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یاوہ اور نا پارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہو گئے.اور کیونکر تاثیرات کلام الہی اور صحبت نبی معصوم نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدل کر دیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہو گئے.اور محبت دنیا کے بعد الہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں اپنے مالوں، اپنے عزیزوں، اپنی عزتوں ، اپنی جان کے آراموں کو اللہ جل شانہ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا.چنانچہ یہ دونوں سلسلے اُن کی پہلی حالت اور اس نئی زندگی کے جو بعد اسلام انہیں نصیب ہوئے قرآن شریف میں ایسی صفائی سے درج ہیں کہ ایک صالح اور نیک دل آدمی پڑھنے کے وقت بے اختیار چشم پر آب ہو جاتا ہے.پس وہ کیا چیز تھی جو ان کو اتنی جلدی ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف کھینچ کر لے گئی.وہ دو ہی باتیں تھیں.ایک یہ کہ وہ نبی معصوم اپنی قوت قدسیہ میں نہایت ہی قوی الاثر تھا ایسا کہ نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا.دوسری خدائے قادر مطلق حتی قیوم کی پاک کلام کی زبر دست اور عجیب تاثیر یں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں.بلاشبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں کیونکہ کوئی دنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی.کون اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ کسی کتاب نے ایسی عجیب تبدیل و اصلاح کی جیسی قرآن شریف نے کی.لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کے اتباع سے برکات الہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولا کریم سے ہو جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اُترتے ہیں اور معارف اور نکات ان کے مُنہ سے نکلتے ہیں.ایک قوی تو کل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے اُن کے دلوں میں رکھی جاتی ہے.اگر اُن کے وجودوں کو ہاونِ مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو اُن کا عرق بجز حب الہی کے اور کچھ نہیں.دنیا اُن سے ناواقف اور وہ دنیا سے دُور تر و بلند تر ہیں.خدا

Page 555

۵۴۵ کے معاملات اُن سے خارق عادت ہیں.انہیں پر ثابت ہوا ہے کہ خدا ہے.انہیں پر کھلا ہے کہ ایک ہے.جب وہ دعا کرتے ہیں تو وہ اُن کی سنتا ہے.جب وہ پکارتے ہیں تو وہ انہیں جواب دیتا ہے.جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ اُن کی طرف دوڑتا ہے.وہ باپوں سے زیادہ اُن سے پیار کرتا ہے.اور ان کی در و دیوار پر برکتوں کی بارش برساتا ہے.پس وہ اس کی ظاہری و باطنی و روحانی و جسمانی تائیدوں سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ ہر یک میدان میں اُن کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے اور وہ اُن کا ہے.یہ باتیں بلاثبوت نہیں.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۲ تا ۷۹ حاشیہ ) بعض بر ہمو سماج والے یہ وسوسہ پیش کیا کرتے ہیں کہ اگر کامل معرفت قرآن پر ہی موقوف ہے تو پھر خدا نے اس کو تمام ملکوں میں اور تمام معمورات قدیم وجدید میں کیوں شائع نہ کیا اور کیوں کروڑ ہا مخلوقات کو اپنی معرفت کا ملہ اور اعتقاد صحیح سے محروم رکھا ؟ جواب :.یہ وسوسہ بھی کو نہ اندیشی سے پیدا ہوا ہے...اگر آفتاب عالمتاب کی روشنی بعض امکنہ ظلمانیہ تک نہیں پہنچی یا اگر بعض نے اُلو کی طرح آفتاب کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں تو کیا اس سے یہ لازم آ جائے گا کہ آفتاب منجانب اللہ نہیں ؟ اگر مینہ کسی زمین شور پر نہیں پڑا یا کوئی کلری زمین اس سے فیضیاب نہیں ہوئی تو کیا اس سے وہ بارانِ رحمت انسان کا فعل خیال کیا جائے گا؟ ایسے اوہام دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ ہی قرآن شریف میں بکمال وضاحت اس بات کو کھول دیا ہے کہ الہام الہی کی ہدایت ہر یک طبیعت کے لئے نہیں بلکہ ان طبائع صافیہ کے لئے ہے جو صفت تقومی اور صلاحیت سے متصف ہیں.وہی لوگ ہدایت کا ملہ الہام سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس سے منتفع ہوتے ہیں اور ان تک الہام الہی بہر صورت پہنچ جاتا ہے.چنانچہ بعض آیات ان میں سے ذیل میں لکھی جاتی ہیں.الم.ذلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُوْنَ.أُولَبِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءِ عَلَيْهِمْ انْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ.خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ يا الجزو نمبرا البقرة : ۲تا۸

Page 556

۵۴۶ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلِّلٍ مُّبِيْنٍ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ - الجزو نمبر ۲۸ آیات مندرجہ بالا میں پہلے اس آیت پر یعنی الم - ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ پر غور کرنا چاہئے کہ کس لطافت اور خوبی اور رعایت ایجاز سے خدائے تعالیٰ نے وسوسہ مذکور کا جواب دیا ہے.اول قرآن شریف کے نزول کی علت فاعلی بیان کی اور اس کی عظمت اور بزرگی کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا اللہ میں خدا ہوں جو سب سے زیادہ جانتا ہوں یعنی نازل کنندہ اس کتاب کا میں ہوں جو علیم و حکیم ہوں جس کے علم کے برابر کسی کا علم نہیں.پھر بعد اس کے علت مادی قرآن کے بیان میں فرمائی اور اس کی عظمت کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا ذلِكَ الْكِتُبُ وہ کتاب ہے یعنی ایسی عظیم الشان اور عالی مرتبت کتاب ہے جس کی علت مادی علم الہی ہے یعنی جس کی نسبت ثابت ہے کہ اس کا منبع اور چشمہ ذات قدیم حضرت حکیم مطلق ہے.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے وہ کا لفظ اختیار کرنے سے جو بعد اور ڈوری کے لئے آتا ہے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ کتاب اُس ذات عالی صفات کے علم سے ظہور پذیر ہے جو اپنی ذات میں بے مثل و مانند ہے جس کے علوم کاملہ واسرار دقیقہ نظر انسانی کی حد جولان سے بہت بعید اور دُور ہیں.پھر بعد اس کے علت صوری کا قابل تعریف ہونا ظاہر فرمایا اور کہا لَا رَيْبَ فِيهِ یعنی قرآن اپنی ذات میں ایسی صورت مدلل و معقول پر واقعہ ہے کہ کسی نوع کے شک کرنے کی اس میں گنجائش نہیں.یعنی وہ دوسری کتابوں کی طرح بطور کتھا اور کہانی کے نہیں بلکہ ادلہ یقینیه و براہین قطعیہ پر مشتمل ہے اور اپنے مطالب پر حجج بینہ اور دلائل شافیہ بیان کرتا ہے اور فی نفسہ ایک معجزہ ہے جو شکوک اور شبہات کے دُور کرنے میں سیف قاطع کا حکم رکھتا ہے اور خدا شناسی کے بارہ میں صرف ہونا چاہئے کے ظنی مرتبہ میں نہیں چھوڑتا بلکہ ہے کے یقینی اور قطعی مرتبہ تک پہنچاتا ہے.یہ تو علل ثلاثہ کی عظمت کا بیان فرمایا اور پھر باوجود عظیم الشان ہونے ان ہر سہ علتوں کے جن کو تا ثیر اور اصلاح میں دخل عظیم ہے علت رابعہ یعنی علت غائی نزول قرآن شریف کو جو رہنمائی اور ہدایت ہے صرف متقین میں منحصر کر دیا اور فرمایا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یعنی یہ کتاب صرف ان جو ہر قابلہ الجمعة : ۳ تا ۵

Page 557

۵۴۷ کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے جو بوجہ پاک باطنی و عقل سلیم و فهم مستقیم و شوق طلب حق و نیت صحیح انجام کار درجه ایمان و خدا شناسی و تقوی کامل پر پہنچ جائیں گے.یعنی جن کو خدا اپنے علم قدیم سے جانتا ہے کہ ان کی فطرت اس ہدایت کے مناسب حال واقعہ ہے اور وہ معارف حقانی میں ترقی کر سکتے ہیں وہ بالآخر اس کتاب سے ہدایت پا جائیں گے اور بہر حال یہ کتاب ان کو پہنچ رہے گی.اور قبل اس کے جو وہ مریں خدا اُن کو راہ راست پر آنے کی توفیق دے دے گا.اب دیکھو اس جگہ خدائے تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ جولوگ خدائے تعالیٰ کے علم میں ہدایت پانے کے لائق ہیں اور اپنی اصل فطرت میں صفت تقویٰ سے متصف ہیں وہ ضرور ہدایت پا جائیں گے.اور پھر ان آیات میں جو اس آیت کے بعد میں لکھی گئی ہے اس کی زیادہ تر تفصیل کر دی اور فرمایا کہ جس قدر لوگ ( خدا کے علم میں ) ایمان لانے والے ہیں وہ اگر چہ ہنوز مسلمانوں میں شامل نہیں ہوئے پر آہستہ آہستہ سب شامل ہو جائیں گے اور وہی لوگ باہر رہ جائیں گے جن کو خدا خوب جانتا ہے کہ طریقہ حقہ اسلام قبول نہیں کریں گے اور گوان کو نصیحت کی جائے یا نہ کی جائے ایمان نہیں لائیں گے یا مراتب کاملہ تقویٰ و معرفت تک نہیں پہنچیں گے.غرض ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے کھول کر بتلا دیا کہ ہدایت قرآنی سے صرف متقی مشفع ہو سکتے ہیں جن کی اصل فطرت میں غلبہ کسی ظلمت نفسانی کا نہیں..اور اگر یہ کہو کہ جن تک کتاب الہامی نہیں پہنچی اُن کی نجات کا کیا حال ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ اگر ایسے لوگ بالکل وحشی اور عقل انسانی سے بے بہرہ ہیں تو وہ ہر یک باز پرس سے بری اور مرفوع القلم ہیں اور مجانین اور مسلوب الحواسوں کا حکم رکھتے ہیں.لیکن جن میں کسی قدر عقل اور ہوش ہے اُن سے بقدر عقل اُن کی محاسبہ ہو گا.( براہین احمدیہ ہر چہار حص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۹۸ تا ۲۰۳ حاشیہ نمبر۱۱) جو کچھ قرآن شریف نے تو حید کا تخم بلا عرب - فارس - مصر.شام.ہند.چین.افغانستان.کشمیر وغیرہ بلاد میں بو دیا ہے اور اکثر بلاد سے بت پرستی اور دیگر اقسام کی مخلوق پرستی کا تم جڑ سے اکھاڑ دیا ہے یہ ایک ایسی کارروائی ہے کہ اس کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں پائی جاتی.مگر بمقابل اس کے جب ہم وید کی طرف دیکھتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ آریہ ورت کی بھی اصلاح نہیں کر سکا.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۷۷ ) تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ

Page 558

۵۴۸ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اُس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو نذیر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الخـيــر كـلـه فـي القــرآن که تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات سچ ہے افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے.اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے اُن کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی.یہ نہایت پیاری نعمت ہے.یہ بڑی دولت ہے.اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی.قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدائتیں بیچ ہیں.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۶، ۲۷) فرقان مجید با وجود ان تمام کمالات بلاغت و فصاحت و احاطہ حکمت و معرفت ایک رُوحانی تاثیر اپنی ذات بابرکات میں ایسی رکھتا ہے کہ اس کا سچا اتباع انسان کو مستقیم الحال اور منور الباطن اور منشرح الصدر اور مقبول الہی اور قابلِ خطاب حضرت عزت بنا دیتا ہے اور اس میں وہ انوار پیدا کرتا ہے اور وہ فیوض غیبی اور تائیدات لا ریبی اس کے شامل حال کر دیتا ہے کہ جو اغیار میں ہرگز پائی نہیں جاتیں اور حضرت احدیت کی طرف سے وہ لذیذ اور دل آرام کلام اُس پر نازل ہوتا ہے جس سے اُس پر دم بدم کھلتا جاتا ہے کہ وہ فرقان مجید کی سچی متابعت سے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی سے اُن مقامات تک پہنچایا گیا ہے کہ جو محبوبان الہی کے لئے خاص ہیں اور اُن ربانی خوشنودیوں اور مہربانیوں سے بہرہ یاب ہو گیا ہے جن سے وہ کامل ایمان دار بہرہ یاب تھے جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں.اور نہ صرف مقال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر بھی ان تمام محبتوں کا ایک صافی چشمہ اپنے پر صدق دل میں بہتا ہوا دیکھتا ہے اور ایک ایسی کیفیت تعلق باللہ کی اپنے منشرح سینہ میں مشاہدہ کرتا ہے جس کو نہ الفاظ کے ذریعہ سے

Page 559

۵۴۹ اور نہ کسی مثال کے پیرائے میں بیان کر سکتا ہے.اور انوار الہی کو اپنے نفس پر بارش کی طرح برستے ہوئے دیکھتا ہے.اور وہ انوار کبھی اخبار غیبیہ کے رنگ میں اور کبھی علوم و معارف کی صورت میں اور کبھی اخلاق فاضلہ کے پیرا یہ میں اس پر اپنا پر تو ہ ڈالتے رہتے ہیں.یہ تاثیرات فرقان مجید کی سلسلہ وار چلی آتی ہیں.اور جب سے کہ آفتاب صداقت ذات بابرکات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آیا اُسی دم سے آج تک ہزار ہا نفوس جو استعداد اور قابلیت رکھتے تھے متابعت کلام الہی اور اتباع رسول مقبول سے مدارج عالیہ مذکورہ بالا تک پہنچ چکے ہیں اور پہنچتے جاتے ہیں.اور خدائے تعالیٰ اس قدر اُن پر پے در پے اور علی الاتصال تلطفات اور تفصلات وارد کرتا ہے اور اپنی حمایتیں اور عنایتیں دکھلاتا ہے کہ صافی نگاہوں کی نظر میں ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ لوگ منظورانِ نظر احدیت سے ہیں جن پر لطف ربانی کا ایک عظیم الشان سایہ اور فضل یزدانی کا ایک جلیل القدر پیرایہ ہے اور دیکھنے والوں کو صریح دکھائی دیتا ہے کہ وہ انعامات خارق عادت سے سرفراز ہیں اور کرامات عجیب اور غریب سے ممتاز ہیں.اور محبوبیت کے عطر سے معطر ہیں اور مقبولیت کے فخروں سے مفتخر ہیں اور قادر مطلق کا نور اُن کی صحبت میں ان کی توجہ میں اُن کی ہمت میں اُن کی دُعا میں اُن کی نظر میں اُن کے اخلاق میں اُن کی طرز معیشت میں اُن کی خوشنودی میں اُن کے غضب میں اُن کی رغبت میں اُن کی نفرت میں اُن کی حرکت میں اُن کے سکون میں اُن کے نطق میں اُن کی خاموشی میں اُن کے ظاہر میں اُن کے باطن میں ایسا بھرا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک لطیف اور مصفا شیشہ ایک نہایت عمدہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اُن کے فیض صحبت اور ارتباط اور محبت سے وہ باتیں حاصل ہو جاتی ہیں کہ جو ریاضات شاقہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں اور اُن کی نسبت ارادت اور عقیدت پیدا کرنے سے ایمانی حالت ایک دوسرا رنگ پیدا کر لیتی ہے اور نیک اخلاق کے ظاہر کرنے میں ایک طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور شوریدگی اور امارگی نفس کی رو کبھی ہونے لگتی ہے اور اطمینان اور حلاوت پیدا ہوتی جاتی ہے اور بقدر استعداد اور مناسبت ذوق ایمانی جوش مارتا ہے اور انس اور شوق ظاہر ہوتا ہے اور اِلْتِدَاذُ بِذِكْرِ اللہ بڑھتا ہے اور اُن کی صحبت طویلہ سے بضرورت یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی ایمانی قوتوں میں اور اخلاقی حالتوں میں اور انقطاع عن الدنیا میں اور توجہ الی اللہ میں اور محبت الہیہ میں اور شفقت علی العباد میں اور وفا اور رضا اور استقامت میں اس عالی مرتبہ پر ہیں جس کی نظیر دنیا میں نہیں دیکھی گئی.اور عقل سلیم فی الفور معلوم کر لیتی ہے کہ وہ بند اور زنجیر اُن کے پانوں سے اتارے گئے ہیں جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہیں.اور وہ تنگی اور انقباض اُن کے سینے سے

Page 560

دور کیا گیا ہے جس کے باعث سے دوسرے لوگوں کے سینے منقبض اور کوفتہ خاطر ہیں.ایسا ہی وہ لوگ تحدیث اور مکالمات حضرت احدیت سے بکثرت مشرف ہوتے ہیں اور متواتر اور دائی خطابات کے قابل ٹھہر جاتے ہیں.اور حق جَلَّ وَ عَلَا اور اس کے مستعد بندوں میں ارشاد اور ہدایت کے لئے واسطہ گردانے جاتے ہیں.اُن کی نورانیت دوسرے دلوں کو منور کر دیتی ہے.اور جیسے موسم بہار کے آنے سے نباتی قو تیں جوش زن ہو جاتی ہیں ایسا ہی اُن کے ظہور سے فطرتی نور طبائع سلیمہ میں جوش مارتے ہیں اور خود بخود ہر یک سعید کا دل یہی چاہتا ہے کہ اپنی سعادت مندی کی استعدادوں کو بکوشش تمام منصہ ظہور میں لاوے اور خواب غفلت کے پردوں سے خلاصی پاوے اور معصیت اور فسق و فجور کے داغوں سے اور جہالت اور بے خبری کی ظلمتوں سے نجات حاصل کرے.سوان کے مبارک عہد میں کچھ ایسی خاصیت ہوتی ہے اور کچھ اس قسم کا انتشار نورانیت ہو جاتا ہے کہ ہر یک مومن اور طالب حق بقدر طاقت ایمانی اپنے نفس میں بغیر کسی ظاہری موجب کے انشراح اور شوق دینداری کا پاتا ہے اور ہمت کو زیادت اور قوت میں دیکھتا ہے.غرض ان کے اس عطر لطیف سے جو ان کو کامل متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے.ہر یک مخلص کو بقدر اپنے اخلاص کے حظ پہنچتا ہے.ہاں جو لوگ شقی از لی ہیں وہ اس سے کچھ حصہ نہیں پاتے بلکہ اور بھی عناد اور حسد اور شقاوت میں بڑھ کر ہاو یہ جہنم میں گرتے ہیں.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمُ ا ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۲۸ تا ۵۳۲ حاشیه در حاشیه نمبر۳) متبعین قرآن شریف کو جو انعامات ملتے ہیں اور جو مواہب خاصہ ان کے نصیب ہوتے ہیں اگر چہ وہ بیان اور تقریر سے خارج ہیں مگر اُن میں سے کئی ایک ایسے انعامات عظیمہ ہیں جن کو اس جگہ مفصل طور پر بغرض ہدایت طالبین بطور نمونہ لکھنا قرین مصلحت ہے.چنانچہ وہ ذیل میں لکھے جاتے ہیں.ازاں جملہ علوم و معارف ہیں جو کامل متبعین کو خوانِ نعمت فرقانیہ سے حاصل ہوتے ہیں.جب انسان فرقان مجید کی کچی متابعت اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس کے امر و نہی کے بکلی حوالہ کر دیتا ہے اور کامل محبت اور اخلاص سے اس کی ہدایتوں میں غور کرتا ہے اور کوئی اعراض صوری و معنوی باقی نہیں رہتا.تب اس کی نظر اور فکر کو حضرت فیاض مطلق کی طرف سے ایک نور عطا کیا جاتا ہے اور ایک لطیف عقل اس کو بخشی جاتی ہے جس سے عجیب غریب لطائف اور نکات علم الہی کے جو کلام الہی میں پوشیدہ البقرة : ٨

Page 561

۵۵۱ ہیں اُس پر کھلتے ہیں اور ابر نیساں کے رنگ میں معارف دقیقہ اس کے دل پر برستے ہیں.وہی معارف دقیقہ ہیں جن کو فرقان مجید میں حکمت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے يُؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَ مَنْ يُّوْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا لا یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اُس کو خیر کثیر دی گئی ہے.یعنی حکمت خیر کثیر پر مشتمل ہے اور جس نے حکمت پائی اُس نے خیر کثیر کو پالیا.سو یہ علوم و معارف جو دوسرے لفظوں میں حکمت کے نام سے موسوم ہیں.یہ خیر کثیر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بحر محیط کے رنگ میں ہیں جو کلام الہی کے تابعین کو دئیے جاتے ہیں اور ان کے فکر اور نظر میں ایک ایسی برکت رکھی جاتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے حقائق حہ اُن کے نفس آئینہ صفت پر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور کامل صداقتیں ان پر منکشف ہوتی رہتی ہیں اور تائیدات الہیہ ہر ایک تحقیق اور تدقیق کے وقت کچھ ایسا سامان اُن کے لئے میٹر کر دیتی ہیں جس سے بیان اُن کا ادھورا اور ناقص نہیں رہتا اور نہ کچھ غلطی واقعہ ہوتی ہے.سو جو جو علوم و معارف و دقائق حقائق و لطائف و نکات وادله و براہین ان کو سوجھتے ہیں وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں ایسے مرتبہ کاملہ پر واقع ہوتے ہیں کہ جو خارق عادت ہے اور جس کا موازنہ اور مقابلہ دوسرے لوگوں سے ممکن نہیں.کیونکہ وہ اپنے آپ ہی نہیں بلکہ تفہیم غیبی اور تائید صمدی اُن کی پیش رو ہوتی ہے اور اُسی تفہیم کی طاقت سے وہ اسرار اور انوار قرآنی اُن پر کھلتے ہیں کہ جو صرف عقل کی دود آمیز روشنی سے کھل نہیں سکتے اور یہ علوم و معارف جو اُن کو عطا ہوتے ہیں جن سے ذات اور صفات الہی کے متعلق اور عالم معاد کی نسبت لطیف اور بار یک باتیں اور نہایت عمیق حقیقتیں ان پر ظاہر ہوتی ہیں.یہ ایک رُوحانی خوارق ہیں کہ جو بالغ نظروں کی نگاہوں میں جسمانی خوارق سے اعلیٰ اور الطف ہیں بلکہ غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ عارفین اور اہل اللہ کا قدر و منزلت دانشمندوں کی نظر میں انہیں خوارق سے معلوم ہوتا ہے.اور وہی خوارق اُن کی منزلت عالیہ کی زینت اور آرائش اور اُن کے چہرہ صلاحیت کی زیبائی اور خوبصورتی ہیں کیونکہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ علوم و معارف حقہ کی ہیبت سب سے زیادہ اس پر اثر ڈالتی ہے.اور صداقت اور معرفت ہر یک چیز سے زیادہ اس کو پیاری ہے اور اگر ایک زاہد عابد ایسا فرض کیا جائے کہ صاحب مکاشفات ہے اور اخبار غیبیہ بھی اسے معلوم ہوتے ہیں اور ریاضات شاقہ بھی بجا لاتا ہے اور کئی اور قسم کے خوارق بھی اُس سے ظہور میں آتے ہیں.مگر علم الہی کے بارہ میں سخت جاہل ہے یہاں تک کہ حق اور باطل میں البقرة :۲۷۰

Page 562

۵۵۲ تمیز ہی نہیں کر سکتا بلکہ خیالات فاسدہ میں گرفتار اور عقائد غیر صحیحہ میں مبتلا ہے.ہر یک بات میں خام اور ہر یک رائے میں فاش غلطی کرتا ہے تو ایسا شخص طبائع سلیمہ کی نظر میں نہایت حقیر اور ذلیل معلوم ہوگا.اس کی یہی وجہ سے کہ جس شخص سے دانا انسان کو جہالت کی بدبو آتی ہے اور کوئی احمقانہ کلمہ اس کے منہ سے سُن لیتا ہے تو فی الفور اس کی طرف سے دل متنفر ہو جاتا ہے اور پھر وہ شخص عاقل کی نظر میں کسی طور سے قابل تعظیم نہیں ٹھہر سکتا اور گو کیسا ہی زاہد عابد کیوں نہ ہو کچھ حقیر سا معلوم ہوتا ہے.پس انسان کی اس فطرتی عادت سے ظاہر ہے کہ خوارق روحانی یعنی علوم و معارف اُس کی نظر میں اہل اللہ کے لئے شرط لازمی اور اکابر دین کی شناخت کے لئے علامات خاصہ اور ضرور یہ ہیں.پس یہ علامتیں فرقان شریف کی کامل تابعین کو اکمل اور اتم طور پر عطا ہوتی ہیں اور باوجود یکہ ان میں سے اکثروں کی سرشت پر امیت غالب ہوتی ہے اور علوم رسمیہ کو باستیفاء حاصل نہیں کیا ہوتا لیکن نکات اور لطائف علم الہی میں اس قدر اپنے ہمعصروں سے سبقت لے جاتے ہیں کہ بسا اوقات بڑے بڑے مخالف اُن کی تقریروں کو سُن کر یا اُن کی تحریروں کو پڑھ کر اور دریائے حیرت میں پڑ کر بلا اختیار بول اُٹھتے ہیں کہ ان کے علوم و معارف ایک دوسرے عالم سے ہیں جو تائیدات الہی کے رنگ خاص سے رنگین ہیں اور اس کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ اگر کوئی منکر بطور مقابلہ کے الہیات کے مباحث میں سے کسی بحث میں اُن کی محققانہ اور عارفانہ تقریروں کے ساتھ کسی تقریر کا مقابلہ کرنا چاہے تو اخیر پر بشرط انصاف و دیانت اس کو اقرار کرنا پڑے گا که صداقت حقہ اسی تقریر میں تھی جو ان کے منہ سے نکلی تھی اور جیسے جیسے بحث عمیق ہوتی جائے گی بہت سے لطیف اور دقیق براہین ایسے نکلتے آئیں گے جن سے روز روشن کی طرح ان کا سچا ہونا کھلتا جائے گا.چنانچہ ہر ایک طالب حق پر اس کا ثبوت ظاہر کرنے کے لئے ہم آپ ہی ذمہ دار ہیں.ازاں جملہ ایک عصمت بھی ہے جس کو حفظ الہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عصمت بھی فرقان مجید کے کامل تابعین کو بطور خارق عادت عطا ہوتی ہے اور اس جگہ عصمت سے مراد ہماری یہ ہے کہ وہ ایسی نالائق اور مذموم عادات اور خیالات اور اخلاق اور افعال سے محفوظ رکھے جاتے ہیں جن میں دوسرے لوگ دن رات آلودہ اور ملوث نظر آتے ہیں اور اگر کوئی لغزش بھی ہو جائے تو رحمت الہیہ جلد تر ان کا تدارک کر لیتی ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ عصمت کا مقام نہایت نازک اور نفس امارہ کے مقتضیات سے نہایت دور پڑا ہوا ہے جس کا حاصل ہونا بجز توجہ خاص الہی کے ممکن نہیں.مثلاً اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ وہ صرف ایک کذب اور دروغ گوئی کی عادت سے اپنے جمیع معاملات اور بیانات اور حرفوں اور پیشوں

Page 563

۵۵۳ میں قطعی طور پر باز رہے تو یہ اس کے لئے مشکل اور متع ہو جاتا ہے.بلکہ اگر اس کام کے کرنے کے لئے کوشش اور سعی بھی کرے تو اس قدر موانع اور عوائق اس کو پیش آتے ہیں کہ بالآ خر خود اس کا یہ اصول ہو جاتا ہے کہ دنیا داری میں جھوٹ اور خلاف گوئی سے پر ہیز کرنا ناممکن ہے.مگر ان سعید لوگوں کے لئے کہ جو سچی محبت اور پُر جوش ارادت سے فرقان مجید کی ہدایتوں پر چلنا چاہتے ہیں صرف یہی امر آسان نہیں کیا جاتا کہ وہ دروغ گوئی کی فتیح عادت سے باز رہیں بلکہ وہ ہر نا کر دنی اور نا گفتنی کے چھوڑنے پر قادر مطلق سے توفیق پاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کا ملہ سے ایسی تقریبات شنیعہ سے اُن کو محفوظ رکھتا ہے جن سے وہ ہلاکت کے ورطوں میں پڑیں.کیونکہ وہ دنیا کا نور ہوتے ہیں اور ان کی سلامتی میں دنیا کی سلامتی اور اُن کی ہلاکت میں دنیا کی ہلاکت ہوتی ہے.اسی جہت سے وہ اپنے ہر یک خیال اور علم اور فہم اور غضب اور شہوت اور خوف اور طمع اور تنگی اور فراخی اور خوشی اور غمی اور عسر اور ٹیر میں تمام نالائق باتوں اور فاسد خیالوں اور نادرست علموں اور نا جائز عملوں اور بے جا فہموں اور ہر یک افراط اور تفریط نفسانی سے بچائے جاتے ہیں اور کسی مذموم بات پر ٹھہر نا نہیں پاتے کیونکہ خود خداوند کریم اُن کی تربیت کا متکفل ہوتا ہے اور جس شاخ کو ان کے شجرہ طیبہ میں خشک دیکھتا ہے اس کو فی الفور اپنے مربیانہ ہاتھ سے کاٹ ڈالتا ہے اور حمایت الہی ہر دم اور ہر لحظہ ان کی نگرانی کرتی رہتی ہے اور یہ نعمت محفوظیت کی جو اُن کو عطا ہوتی ہے.یہ بھی بغیر ثبوت نہیں بلکہ زیرک انسان کسی قدرصحبت سے اپنی پوری تسلی سے اس کو معلوم کر سکتا ہے.از انجملہ ایک مقام تو کل ہے جس پر نہایت مضبوطی سے اُن کو قائم کیا جاتا ہے.اور ان کے غیر کو وہ چشمہ صافی ہرگز میسر نہیں آ سکتا بلکہ انہیں کے لئے وہ خوشگوار اور موافق کیا جاتا اور نور معرفت ایسا ان کو تھامے رہتا ہے کہ وہ بسا اوقات طرح طرح کی بے سامانی میں ہو کر اور اسباب عادیہ سے بکلی اپنے تئیں دُور پا کر پھر بھی ایسی بشاشت اور انشراح خاطر سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ایسی خوشحالی سے دنوں کو کاٹتے ہیں کہ گویا اُن کے پاس ہزار ہا خزائن ہیں.اُن کے چہروں پر تو نگری کی تازگی نظر آتی ہے اور صاحب دولت ہونے کی مستقل مزاجی دکھائی دیتی ہے.اور تنکوں کی حالت میں بکمال کشادہ دلی اور یقین کامل اپنے مولیٰ کریم پر بھروسہ رکھتے ہیں.سیرت ایثار ان کا مشرب ہوتا ہے.اور خدمت خلق ان کی عادت ہوتی ہے اور کبھی انقباض ان کی حالت میں راہ نہیں پاتا.اگر چہ سارا جہان ان کا عیال ہو جائے اور فی الحقیقت خدائے تعالیٰ کی ستاری مستوجب شکر ہے جو ہر جگہ اُن کی پردہ پوشی کرتی ہے اور

Page 564

۵۵۴ قبل اس کے جو کوئی آفت فوق الطاقت نازل ہو ان کو دامن عاطفت میں لے لیتی ہے کیونکہ اُن کے تمام کاموں کا خدا متولی ہوتا ہے.جیسا کہ اس نے آپ ہی فرمایا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصُّلِحِينَ لیکن دوسروں کو دنیا داری کے دلآ زار اسباب میں چھوڑا جاتا ہے اور وہ خارق عادت سیرت جو خاص ان لوگوں کے ساتھ ظاہر کی جاتی ہے کسی دوسرے کے ساتھ ظاہر نہیں کی جاتی اور یہ خاصہ ان کا بھی صحبت سے بہت جلد ثابت ہوسکتا ہے.از انجملہ ایک مقام محبت ذاتی کا ہے جس پر قرآن شریف کے کامل متبعین کو قائم کیا جاتا ہے اور اُن کے رگ وریشہ میں اس قدر محبت الہیہ تا شیر کر جاتی ہے کہ ان کے وجود کی حقیقت بلکہ ان کی جان کی جان ہو جاتی ہے اور محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیار اُن کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور ایک خارق عادت اُنس اور شوق ان کے قلوب صافیہ پر مستولی ہو جاتا ہے کہ جو غیر سے بکلی منقطع اور گستہ کر دیتا ہے اور آتش عشق الہی ایسی افروختہ ہوتی ہے کہ جو ہم صحبت لوگوں کو اوقات خاصہ میں بدیہی طور پر مشہود اور محسوس ہوتی ہے بلکہ اگر محبانِ صادق اس جوش محبت کو کسی حیلہ اور تدبیر سے پوشیدہ رکھنا بھی چاہیں تو یہ ان کے لئے غیر ممکن ہو جاتا ہے.جیسے عشاق مجازی کے لئے بھی یہ بات غیر ممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب کی محبت کو جس کے دیکھنے کے لئے دن رات مرتے ہیں اپنے رفیقوں اور ہم صحبتوں سے چھپائے رکھیں بلکہ وہ عشق جو ان کے کلام اور اُن کی صورت اور ان کی آنکھ اور ان کی وضع اور ان کی فطرت میں گھس گیا ہے اور اُن کے بال بال سے مترشح ہو رہا ہے وہ اُن کے چھپانے سے ہرگز چھپ ہی نہیں سکتا اور ہزار چھپائیں کوئی نہ کوئی نشان اس کا نمودار ہو جاتا ہے اور سب سے بزرگ تر اُن کے صدق قدم کا نشان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کو ہر یک چیز پر اختیار کر لیتے ہیں.اور اگر آلام اُس کی طرف سے پہنچیں تو محبت ذاتی کے غلبہ سے برنگ انعام اُن کو مشاہدہ کرتے ہیں اور عذاب کو شربت عذب کی طرح سمجھتے ہیں.کسی تلوار کی تیز دھار اُن میں اور اُن کے محبوب میں جدائی نہیں ڈال سکتی اور کوئی بلدیہ عظمی اُن کو اپنے اس پیارے کی یادداشت سے روک نہیں سکتے.اسی کو اپنی جان سمجھتے ہیں اور اسی کی محبت میں لذات پاتے اور اُسی کی ہستی کو ہستی خیال کرتے ہیں اور اُسی کے ذکر کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیتے ہیں.اگر چاہتے ہیں تو اُسی کو اگر آرام پاتے ہیں تو اُسی سے.تمام عالم میں اسی کو رکھتے ہیں اور اُسی کے ہو رہتے ہیں.اُسی کے لئے جیتے ہیں اور اُسی کے لئے مرتے ہیں.عالم میں رہ کر پھر الاعراف: ۱۹۷

Page 565

بے عالم ہیں.اور با خود ہو کر پھر بے خود ہیں.نہ عزت سے کام رکھتے ہیں نہ نام سے نہ اپنی جان سے نہ اپنے آرام سے بلکہ سب کچھ ایک کے لئے کھو بیٹھتے ہیں اور ایک کے پانے کے لئے سب کچھ دے ڈالتے ہیں.لایدرک آتش سے جلتے جاتے ہیں اور کچھ بیان نہیں کر سکتے کہ کیوں جلتے ہیں اور تفہیم اور تقسیم سے صم بکم ہوتے ہیں اور ہر یک مصیبت اور ہر یک رسوائی کے سہنے کو طیار رہتے ہیں اور اُس سے لذت پاتے ہیں ؎ عشق است که برخاک مذلت غلطاند عشق است که بر آتش سوزاں بنشاند کس بہر کسے سرندہد جان نہ فشاند عشق است که این کار بصد صدق کناند لے از انجمله اخلاق فاضلہ ہیں.جیسے سخاوت، شجاعت، ایثار، علو همت، وفور شفقت حلم، حیا، مودت یہ تمام اخلاق بھی بوجہ احسن اور انسب انہیں سے صادر ہوتے ہیں اور وہی لوگ بہ یمن متابعت قرآن شریف وفاداری سے اخیر عمر تک ہر یک حالت میں ان کو بخوبی و شائستگی انجام دیتے ہیں اورکوئی انقباض خاطر ان کو ایسا پیش نہیں آتا کہ جو اخلاق حسنہ کے كَمَا يَنبَغِی صادر ہونے سے ان کو روک سکے.اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ خوبی علمی یا عملی یا اخلاقی انسان سے صادر ہو سکتی ہے وہ صرف انسانی طاقتوں سے صادر نہیں ہو سکتی بلکہ اصل موجب اس کے صدور کا فضل الہی ہے.پس چونکہ یہ لوگ سب سے زیادہ موردِ فضل الہی ہوتے ہیں اس لئے خود خداوند کریم اپنے تفصلات لامتناہی سے تمام خوبیوں سے اُن کو متمتع کرتا ہے.یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو کہ حقیقی طور پر بجز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں.تمام اخلاق فاضلہ اور تمام نیکیاں اُسی کے لئے مسلم ہیں.پھر جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت سے فانی ہو کر اس ذات خیر محض کا قرب حاصل کرتا ہے اُسی قدرا خلاق الہیہ اس کے نفس پر منعکس ہوتی ہیں.پس بندہ کو جو جو خوبیاں اور کچی تہذیب حاصل ہوتی ہے وہ خدا ہی کے قرب سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہی چاہئے تھا کیونکہ مخلوق فی ذاتہ کچھ چیز نہیں ہے.سو اخلاق فاضلہ الہیہ کا انعکاس انہیں کے دلوں پر ہوتا ہے کہ جولوگ قرآن شریف کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں اور تجربہ صحیحہ بتلا سکتا ہے کہ جس مشرب صافی اور روحانی ذوق اور محبت کے بھرے ہوئے جوش سے اخلاق فاضلہ اُن سے صادر ہوتے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اگر چہ منہ سے ہر یک شخص دعوی کر سکتا ہے.اور لاف و گزاف کے طور پر ہر یک کی اے عشق ہی ہے جو ذلت کی خاک پر آدمی کو تڑپاتا ہے.عشق ہی ہے جو جلتی ہوئی آگ پر اسے بٹھاتا ہے.کوئی کسی کے لئے سر نہیں دیتا نہ جان قربان کرتا ہے.عشق ہی ہے کہ یہ کام پوری و فاداری سے کراتا ہے.

Page 566

زبان چل سکتی ہے مگر جو تجر بہ صحیحہ کا تنگ دروازہ ہے اُس دروازہ سے سلامت نکلنے والے یہی لوگ ہیں.اور دوسرے لوگ اگر کچھ اخلاق فاضلہ ظاہر کرتے بھی ہیں تو تکلف اور تصنع سے ظاہر کرتے ہیں اور اپنی آلودگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور اپنی بیماریوں کو چھپا کر اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں اور ادنی ادنی امتحانوں میں اُن کی قلعی کھل جاتی ہے اور تکلف اور تصنع اخلاق فاضلہ کے ادا کرنے میں اکثر وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اپنی دُنیا اور معاشرت کا حسن انتظام وہ اسی میں دیکھتے ہیں.اور اگر اپنی اندرونی آلائشوں کی ہر جگہ پیروی کریں تو پھر مہمات معاشرت میں خلل پڑتا ہے.اور اگر چہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تم اخلاق کا اُن میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبا رہتا ہے اور بغیر آمیزش اغراض نفسانی کے خالص اللہ ظاہر نہیں ہوتا چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے.اور خالص اللہ انہیں میں وہ تخم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہو رہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالی غیریت کی لوث سے بکلی خالی پا کر خود اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے اور اُن کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کر دیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں.پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے تخلق باخلاق اللہ کا ایسا مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہو جاتے ہیں جس کی توسط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور اُن کو بھو کے اور پیاسے پا کر وہ آب زلال ان کو اپنے اُس خاص چشمہ سے پلاتا ہے جس میں کسی مخلوق کو علی وجہ الا صالت اس کے ساتھ شرکت نہیں.اور منجملہ اُن عطیات کے ایک کمال عظیم جو قرآن شریف کے کامل تابعین کو دیا جاتا ہے عبودیت ہے.یعنی وہ باوجود بہت سے کمالات کے ہر وقت نقصان ذاتی اپنا پیش نظر رکھتے ہیں اور بشہود کبریائی حضرت باری تعالی ہمیشہ تذلل اور نیستی اور انکسار میں رہتے ہیں.اور اپنی اصل حقیقت ذلت اور مفلسی اور ناداری اور پُر تقصیری اور خطاواری سمجھتے ہیں.اور ان تمام کمالات کو جو ان کو دیئے گئے ہیں اس عارضی روشنی کی مانند سمجھتے ہیں جو کسی وقت آفتاب کی طرف سے دیوار پر پڑتی ہے جس کو حقیقی طور پر دیوار سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہوتا اور لباس مستعار کی طرح معرض زوال میں ہوتی ہے.پس وہ تمام خیر و خوبی خدا ہی میں محصور رکھتے ہیں اور تمام نیکیوں کا چشمہ اُسی کی ذات کامل کو قرار دیتے ہیں اور صفات الہیہ کے کامل شہود سے اُن کے دل میں حق الیقین کے طور پر بھر جاتا ہے کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں.یہاں تک کہ وہ اپنے وجود اور ارادہ اور خواہش سے بکلی کھوئے جاتے ہیں.اور عظمت الہی کا پُر جوش دریا اُن کے دلوں پر ایسا محیط ہو جاتا ہے کہ ہزار ہا طور کی نیستی اُن پر وارد ہو جاتی ہے اور شرک خفی کے ہر یک رگ وریشہ

Page 567

سے بکلی پاک اور منزہ ہو جاتے ہیں.اور منجملہ ان عطیات کے ایک یہ ہے کہ اُن کی معرفت اور خدا شناسی بذریعہ کشوف صادقہ و علوم لدنیہ و الہامات صریحہ و مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت و دیگر خوارق عادت بدرجہ اکمل واتم پہنچائی جاتی ہے.یہاں تک کہ اُن میں اور عالم ثانی میں ایک نہایت رقیق اور شفاف حجاب باقی رہ جاتا ہے.جس میں سے ان کی نظر عبور کر کے واقعات اُخروی کو اسی عالم میں دیکھ لیتی ہے برخلاف دوسرے لوگوں کے کہ جو سباعث پر ظلمت ہونے اپنی کتابوں کے اس مرتبہ کاملہ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے بلکہ اُن کی کجھ تعلیم کتابیں اُن کے حجابوں پر اور بھی صد با حجاب ڈالتے ہیں اور بیماری کو آگے سے آگے بڑھا کر موت تک پہنچاتے ہیں اور فلسفی جن کے قدموں پر آج کل بر ہمو سماج والے چلتے ہیں اور جن کے مذہب کا سارا مدار عقلی خیالات پر ہے وہ خود اپنے طریق میں ناقص ہیں اور اُن کے نقصان پر یہی دلیل کافی ہے کہ اُن کی معرفت باوجود صد با طرح کی غلطیوں کی نظری وجوہ سے تجاوز نہیں کرتی اور قیاسی انکلوں سے آگے نہیں بڑھتی اور ظاہر ہے کہ جس شخص کی معرفت صرف نظری طور پر محدود ہے اور وہ بھی کئی طرح کی خطا کی آلودگیوں سے ملوث.وہ شخص بمقابلہ اُس شخص کے جس کا عرفان بداہت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے اپنی علمی حالت میں بغایت درجہ پست اور منزل ہے.ظاہر ہے کہ نظر اور فکر کے مرتبہ کے آگے ایک مرتبہ بداہت اور شہود کا باقی ہے.یعنی جو امور نظری اور فکری طور پر معلوم ہوتے ہیں وہ ممکن ہیں کہ کسی اور ذریعہ سے بدیہی اور مشہود طور پر معلوم ہوں.سو یہ مرتبہ بداہت کا عند العقل ممکن الوجود ہے اور گو بر ہمو سماج والے اس مرتبہ کے وجود فی الخارج سے انکار ہی کریں پر اس بات سے انہیں انکار نہیں کہ وہ مرتبہ اگر خارج میں پایا جاوے تو بلاشبہ اعلیٰ واکمل ہے اور جو نظر اور فکر میں خفا یا باقی رہ جاتے ہیں ان کا ظہور اور بروز اِسی مرتبہ پر موقوف ہے.اور خود اس بات کو کون نہیں سمجھ سکتا کہ ایک امر کا بدیہی طور پر کھل جانا نظری طور سے اعلیٰ اور اکمل ہے مثلاً اگر چہ مصنوعات کو دیکھ کر دانا اور سلیم الطبع انسان کا اس طرف خیال آ سکتا ہے کہ ان چیزوں کا کوئی صانع ہو گا.مگر نہایت بدیہی اور روشن طریق معرفت الہی کا جو اُس کے وجود پر بڑی ہی مضبوط دلیل ہے یہ ہے کہ اُس کے بندوں کو الہام ملتا ہے اور قبل اس کے جو حقائق اشیاء کا انجام کھلے اُن پر کھولا جاتا ہے اور وہ اپنے معروضات میں حضرت احدیت سے جوابات پاتے ہیں.اور اُن سے مکالمات اور مخاطبات ہوتے ہیں اور بنظر کشفی اُن کو عالم ثانی کے واقعات دکھلائے جاتے ہیں اور جزا سزا کی حقیقت پر مطلع کیا جاتا ہے اور دوسرے کئی طور کے اسرار اخروی اُن پر کھولے جاتے

Page 568

۵۵۸ ہیں.اور کچھ شک نہیں کہ یہ تمام امور علم الیقین کو اتم اور اکمل مرتبہ تک پہنچاتے ہیں اور نظری ہونے کے عمیق نشیب سے بداہت کے بلند مینار تک لے جاتے ہیں بالخصوص مکالمات اور مخاطبات حضرت احدیت ان سب اقسام سے اعلیٰ ہیں کیونکہ اُن کے ذریعہ سے صرف اخبار غیبیہ ہی معلوم نہیں ہوتے بلکہ عاجز بندہ پر جو جو مولی کریم کی عنایتیں ہیں اُن سے بھی اطلاع دی جاتی ہے اور ایک لذیذ اور مبارک کلام سے ایسی تستی اور تشفی اس کو عطا ہوتی ہے اور خوشنودی حضرت باری تعالیٰ سے مطلع کیا جاتا ہے جس سے بندہ مکروہات دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑی قوت پاتا ہے.گویا صبر اور استقامت کے پہاڑ اس کو عطا کئے جاتے ہیں.اسی طرح بذریعہ کلام اعلیٰ درجہ کے علوم اور معارف بھی بندہ کو سکھلائے جاتے ہیں اور وہ اسرار خفیہ و دقائق عمیقہ بتلائے جاتے ہیں کہ جو بغیر تعلیم خاص ربانی کے کسی طرح معلوم نہیں ہو سکتے اور اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ یہ تمام امور جن کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ قرآن شریف کے کامل اتباع سے حاصل ہوتے ہیں کیونکر اسلام میں اُن کا مُتحقق في الخارج ہونا بہ پایہ ثبوت پہنچ سکتا ہے تو اس وہم کا جواب یہ ہے کہ صحبت سے اور اگر چہ ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں لیکن بغیر اندیشہ طول کے پھر مکر ر ہر یک مخالف پر ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحقیقت یہ دولت عظمی اسلام میں پائی جاتی ہے کسی دوسرے مذہب میں ہرگز پائی نہیں جاتی اور طالب حق کے لئے اس کے ثبوت کے بارے میں ہم آپ ہی ذمہ دار ہیں.بشرط صحبت وحسن ارادت و تحقق مناسبت اور صبر اور ثبات کے یہ امور ہر ایک طالب پر بقدر استعداد اور لیاقت ذاتی اُس کی کے گھل سکتے ہیں.(براہین احمدیہ ہر چہار تص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۳۲ تا ۵۴۵ حاشیه در حاشیه نمبر۳) قرآن شریف جو آنحضرت کے اتباع کا مدار علیہ ہے ایک ایسی کتاب ہے جس کی متابعت سے اسی جہان میں آثار نجات کے ظاہر ہو جاتے ہیں.کیونکہ وہی کتاب ہے کہ جو دونوں طریق ظاہری اور باطنی کے ذریعہ سے نفوس نا قصہ کو بمرتبہء تکمیل پہنچاتی ہے اور شکوک اور شبہات سے خلاصی بخشتی ہے.ظاہری طریق سے اس طرح پر کہ بیان اس کا ایسا جامع دقائق و حقائق ہے کہ جس قدر دنیا میں ایسے شبہات پائے جاتے ہیں کہ جو خدا تک پہنچنے سے روکتے ہیں جن میں مبتلا ہو کر صد ہا جھوٹے فرقے پھیل رہے ہیں اور صد با طرح کے خیالات باطلہ گمراہ لوگوں کے دلوں میں جم رہے ہیں سب کا ردّ معقولی طور پر اس میں موجود ہے.اور جو جو تعلیم حقہ اور کاملہ کی روشنی ظلمت موجودہ زمانہ کے لئے درکار ہے.وہ سب آفتاب کی طرح اس میں چمک رہی ہے اور تمام امراض نفسانی کا علاج اس میں مندرج ہے اور تمام

Page 569

۵۵۹ معارف حقہ کا بیان اس میں بھرا ہوا ہے اور کوئی دقیقہ علم الہی نہیں کہ جو آئندہ کسی وقت ظاہر ہوسکتا ہے اور اس سے باہر رہ گیا ہو.اور باطنی طریق سے اس طور پر کہ اس کی کامل متابعت دل کو ایسا صاف کر دیتی ہے کہ انسان اندرونی آلودگیوں سے بالکل پاک ہو کر حضرتِ اعلیٰ سے اتصال پکڑ لیتا ہے اور انوار قبولیت اُس پر وارد ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور عنایات الہیہ اس قدر اس پر احاطہ کر لیتی ہیں کہ جب وہ مشکلات کے وقت دُعا کرتا ہے تو کمال رحمت اور عطوفت سے خدا وند کریم اس کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ اگر وہ ہزار مرتبہ ہی اپنی مشکلات اور ہجوم غموں کے وقت میں سوال کرے تو ہزار ہا مرتبہ ہی اپنے مولیٰ کریم کی طرف سے نہایت فصیح اور لذیذ اور متبرک کلام میں محبت آمیز جواب پاتا ہے اور الہام الہی بارش کی طرح اس پر برستا ہے اور وہ اپنے دل میں محبت الہیہ کو ایسا بھرا ہوا پاتا ہے جیسا ایک نہایت صاف شیشہ ایک لطیف عطر سے بھرا ہوتا ہے.اور انس اور شوق کی ایک ایسی پاک لذت اس کو عطا کی جاتی ہے کہ جو اُس کے سخت سخت نفسانی زنجیروں کو تو ڑ کر اور اِس دُخانستان سے باہر نکال کر محبوب حقیقی کی ٹھنڈی اور دل آرام ہوا سے اس کو ہر دم اور ہر لحظہ تازہ زندگی بخشتی رہتی ہے.پس وہ اپنی وفات سے پہلے ہی ان عنایات الہیہ کو بچشم خود دیکھ لیتا ہے جن کے دیکھنے کے لئے دوسرے لوگ بعد مرنے کے اُمید میں باندھتے ہیں.اور یہ سب نعمتیں کسی راہبانہ محنت اور ریاضت پر موقوف نہیں بلکہ صرف قرآن شریف کے کامل اتباع سے دی جاتی ہیں اور ہر ایک طالب صادق ان کو پاسکتا ہے.ہاں اُن کے حصول میں خاتم الرسل اور فخر الرسل کی بدرجہ کامل محبت بھی شرط ہے.تب بعد محبت نبی اللہ کے انسان ان نوروں میں سے بقدر استعداد خود حصہ پالیتا ہے کہ جو کامل طور پر نبی اللہ کو دی گئی ہیں.پس طالب حق کے لئے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں کہ وہ کسی صاحب بصیرت اور معرفت کے ذریعہ سے خود اس دین متین میں داخل ہو کر اور اتباع کلام الہی اور محبت رسول مقبول اختیار کر کے ہمارے ان بیانات کی حقیت کو بچشم خود دیکھ لے اور اگر وہ اس غرض کے حصول کے لئے ہماری طرف بصدق دل رجوع کرے تو ہم خدا کے فضل اور کرم پر بھروسہ کر کے اُس کو طریق اتباع بتلانے کو طیار ہیں پر خدا کا فضل اور استعداد ذاتی درکار ہے.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کچی نجات کچی تندرستی کی مانند ہے پس جیسی بچی تندرستی وہ ہے کہ جس میں تمام آثار تندرستی کے ظاہر ہوں اور کوئی عارضہ منافی اور مغائر تندرستی کا لاحق نہ ہو اسی طرح کچی نجات بھی وہی ہے کہ جس میں حصول نجات کے آثار بھی پائے جائیں کیونکہ جس چیز کا واقعی طور پر وجود تحقیق ہو.اس وجود تحقیق کے لئے آثار و علامات کا پائے جانا لازم پڑا ہوا ہے

Page 570

اور بغیر تحقق وجود ان آثار و علامات کے وجود اس چیز کا متفق نہیں ہوسکتا.اور جیسا کہ ہم بار ہا لکھ چکے ہیں تحقق نجات کے لئے یہ علامات خاصہ ہیں کہ انقطاع الی اللہ اور غلبہ ء حب الہی اس قدر کمال کے درجہ تک پہنچ جائے کہ اس شخص کی صحبت اور توجہ اور دعا سے بھی یہ امور دوسرے ذی استعداد لوگوں میں پیدا ہوسکیں اور خود وہ اپنی ذاتی حالت میں ایسا منور الباطن ہو کہ اس کی برکات طالب حق کی نظر میں بد یہی الظہو ر ہوں اور اس میں وہ تمام خصوصیات اور مخاطبات حضرت احدیت پائی جائیں کہ جو مقربین میں پائی جاتی ہیں.اس جگہ کوئی شخص نجومیوں اور جوتشیوں وغیرہ غیب گویوں کی پیشگوئیوں پر دھوکہ نہ کھاوے اور بخوبی یادر کھے کہ ان لوگوں کو اہل اللہ کے انوار اور برکات سے کچھ بھی مناسبت نہیں.ہم پہلے بھی لکھ چکے کہ قادرانہ پیشگوئیاں اور کریمانہ مواعید کہ جو حق محض ہیں اور جن میں سراسر فتح اور نصرت کی بشارتیں اور اقبال اور عزت کی خبریں بھری ہوئی ہیں.ان سے انسانی آلات کو کچھ بھی نسبت نہیں.خداوند تعالیٰ نے اہل اللہ کو ایسی فطرت بخشی ہے کہ ان کی نظر اور صحبت اور توجہ اور دُعا اکسیر کا حکم رکھتی ہے بشرطیکہ شخص مستفیض میں قابلیت موجود ہو.اور ایسے لوگ صرف پیشگوئیوں سے نہیں بلکہ اپنے خزائن معرفت سے اپنی تو کل خارق عادت سے اپنی کامل محبت سے اپنے انقطاع تام سے اپنے صدق اور ثبات سے اپنے انس باللہ اور شوق اور ذوق سے اور اپنے غلبہ خشوع اور خضوع سے اور اپنے تزکیۂ نفس سے اور اپنی ترک محبت دنیا سے اور اپنی کثیر الوجود برکتوں سے کہ جو بارش کی طرح برستی ہیں.اور اپنے موید من اللہ ہونے سے اور اپنی بے مثل استقامت اور اعلیٰ درجہ کی وفاداری اور لاثانی تقویٰ اور طہارت ر عظیم الشان ہمت اور انشراح صدر سے شناخت کئے جاتے ہیں اور پیشگوئیاں ان کا اصل منصب نہیں ہے.بلکہ وہ اس غرض سے ہے کہ تا وہ ان برکتوں کو جو اُن پر اور اُن کے متعلقین پر وارد ہونے کو ہیں قبل از وقوع بیان کر کے توجہ خاص حضرت احدیت پر یقین دلا ئیں.اور نیز وہ مخاطبات اور مکالمات جو حضرت احدیت کی طرف سے اُن کو ہوتے ہیں اُن کی صحت اور منجانب اللہ ہونے پر ایک قطعی اور یقینی حجت پیش کریں اور ایسے انسان جن کو یہ سب برکات قدسیہ بکثرت عطا ہوتی ہیں اُن کی نسبت خدا کی قدرت اور حکمت قدیمہ کے قانون میں یہی قرار پایا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے سچے اور پاک عقائد ہوں اور جو بچے مذہب پر ثابت اور مستقیم ہوں اور حضرت احدیت سے غایت درجہ کا اتصال اور دنیا و مافیہا سے غایت درجہ کا انقطاع رکھتے ہوں.ایسے لوگ کبریت احمر کا حکم رکھتے ہیں اور اُن کی فطرت کو ربانی انوار اور حقانی مذہب لازم ہے اور ان کی ذات ستودہ صفات کو کہ جو جامع البرکات ہے اور

Page 571

۵۶۱ بد بخت نجومیوں اور جوتشیوں سے نسبت دینا کمال درجہ کی کج فہمی اور غایت درجہ کی بدنصیبی ہے کیونکہ وہ دنیا کے ذلیل جیفہ خواروں کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتے بلکہ وہ آفتاب اور چاند کی طرح آسمانی نور ہیں اور حکمتِ الہیہ کے قانونِ قدیم نے اسی غرض سے ان کو پیدا کیا ہے کہ تا دنیا میں آکر دنیا کو منور کریں.یہ بات بتوجہ تمام یاد رکھنی چاہئے کہ جیسے خدا نے امراض بدنی کے لئے بعض ادویہ پیدا کی ہیں اور عمدہ عمدہ چیزیں جیسے تریاق وغیرہ انواع و اقسام کے آلام اسقام کے لئے دنیا میں موجود کی ہیں اور ان ادویہ میں ابتدا سے یہ خاصیت رکھی ہے کہ جب کوئی بیمار بشر طیکہ اس کی بیماری درجہ شفایابی سے تجاوز نہ کر گئی ہو ان دواؤں کو برعایت پر ہیز وغیرہ شرائط استعمال کرتا ہے تو اس حکیم مطلق کی اسی طرح پر عادت جاری ہے کہ اس بیمار کو حسب استعداد اور قابلیت کسی قدر صحت اور تندرستی سے حصہ بخشتا ہے یا بکلی شفا عنایت کرتا ہے.اسی طرح خداوند کریم نے نفوس طیبہ ان مقربین میں بھی روز ازل سے یہ خاصیت ڈال رکھی ہے کہ اُن کی توجہ اور دعا اور صحبت اور عقد ہمت بشرط قابلیت امراض رُوحانی کی دوا ہے.اور اُن کے نفوس حضرت احدیت سے بذریعہ مکالمات و مخاطبات و مکاشفات انواع اقسام کے فیض پاتے رہتے ہیں اور پھر وہ تمام فیوض خلق اللہ کی ہدایت کے لئے ایک عظیم الشان اثر دکھلاتے ہیں.غرض اہل اللہ کا وجود خلق اللہ کے لئے ایک رحمت ہوتا ہے.اور جس طرح اس جائے اسباب میں قانونِ قدرت حضرت احدیت کا یہی ہے کہ جو شخص پانی پیتا ہے وہی پیاس کی درد سے نجات پاتا ہے اور جو شخص روٹی کھاتا ہے وہی بھوک کے دُکھ سے خلاصی حاصل کرتا ہے.اسی طرح عادت الہیہ جاری ہے کہ امراض روحانی دُور کرنے کے لئے انبیاء اور اُن کے کامل تابعین کو ذریعہ اور وسیلہ ٹھہرا رکھا ہے.انہی کی صحبت میں دل تستی پکڑتے ہیں.اور بشریت کی آلائشیں رو بھی ہوتی ہیں اور نفسانی ظلمتیں اُٹھتی ہیں.اور محبت الہی کا شوق جوش مارتا ہے اور آسمانی برکات اپنا جلوہ دکھاتی ہیں اور بغیر ان کے ہرگز یہ باتیں حاصل نہیں ہوتیں.پس یہی باتیں اُن کی شناخت کی علامات خاصہ ہیں.فَتَدَبَّرُ وَلَا تَغْفَلْ - ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۴۵ تا ۶ ۳۵ حاشیه در حاشیه نمبر۲) اب ہم اس جگہ بغرض فائدہ عام یہ بات بطور قاعدہ کلیہ بیان کرتے ہیں کہ کلام کا وہ کونسا مرتبہ ہے جس مرتبہ پر کوئی کلام واقعہ ہونے سے اس صفت سے متصف ہو جاتا ہے کہ اس کو بے نظیر اور منجانب اللہ کہا جائے اور پھر بطور نمونہ کوئی سُورہ قرآن شریف کی لکھ کر اس میں یہ ثابت کر کے دکھلا ئیں گے کہ وہ تمام وجود بے نظیری جو قاعدہ کلیہ میں قرار دی گئی ہیں اس سورہ میں یہ تمام و کمال پائی جاتی ہیں.اور اگر

Page 572

۵۶۲ کسی کو ان وجوہ بے نظیری کے قبول کرنے میں پھر بھی انکار ہو گا تو یہ بار ثبوت اُسی کے ذمہ ہو گا کہ کوئی دوسرا کلام پیش کر کے دکھلاوے جس میں وہ تمام وجوہ بے نظیری پائے جاویں.سو واضح ہو کہ اگر کوئی کلام ان تمام چیزوں میں سے کہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے صادر اور اُس کے دستِ قدرت کی صنعت ہیں کسی چیز سے مشابہت کلّی رکھتا ہو یعنی اس میں عجائبات ظاہری و باطنی ایسے طور پر جمع ہوں کہ جو مصنوعات الہیہ میں سے کسی شے میں جمع ہیں تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ وہ کلام ایسے مرتبہ پر واقع ہے کہ جس کی مثل بنانے سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں.کیونکہ جس چیز کی نسبت بے نظیر اور صادر من اللہ ہونا عند الخواص والعوام ایک مسلم اور مقبول امر ہے جس میں کسی کو اختلاف و نزاع نہیں اُس کی وجوہ بے نظیری میں کسی شے کی شراکت تامہ ثابت ہونا بلاشبہ اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ وہ شے بھی بے نظیر ہی ہے.مثلاً اگر کوئی چیز اُس چیز سے بلکلی مطابق آجائے جو اپنے مقدار میں دس گز ہے تو اس کی نسبت بھی یہ علم صیح قطعی مفید یقین جازم حاصل ہوگا کہ وہ بھی دس گز ہے.اب ہم ان مصنوعات الہیہ میں سے ایک لطیف مصنوع کو مثلاً گلاب کے پھول کو بطور مثال قرار دے کر اس کے وہ عجائبات ظاہری و باطنی لکھتے ہیں جن کی رُو سے وہ ایسی اعلیٰ حالت پر تسلیم کیا گیا ہے کہ اُس کی نظیر بنانے سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں.اور پھر اس بات کو ثابت کر کے دکھلائیں گے کہ ان سب عجائبات سے سورۃ فاتحہ کے عجائبات اور کمالات ہموزن ہیں بلکہ ان عجائبات کا پلہ بھاری ہے.اور اس مثال کے اختیار کرنے کا موجب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ اس عاجز نے اپنی نظر کشفی میں سورۃ فاتحہ کو دیکھا کہ ایک ورق پر لکھی ہوئی اس عاجز کے ہاتھ میں ہے اور ایک ایسی خوبصورت اور دلکش شکل میں ہے کہ گویا وہ کاغذ جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہے سُرخ سُرخ اور ملائم گلاب کے پھولوں سے اس قد ر لدا ہوا ہے کہ جس کا کچھ انتہا نہیں.اور جب یہ عاجز اس صورت کی کوئی آیت پڑھتا ہے تو اُس میں سے بہت سے گلاب کے پھول ایک خوش آواز کے ساتھ پرواز کر کے اوپر کی طرف اُڑتے ہیں اور وہ پھول نہایت لطیف اور بڑے بڑے اور سندر اور تر و تازہ اور خوشبو دار ہیں جن کے اوپر چڑھنے کے وقت دل و دماغ نہایت معطر ہو جاتا ہے اور ایک ایسا عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں کہ جو اپنی بے مثل لذتوں کی کشش سے دنیا و مافیہا سے نہایت درجہ کی نفرت دلاتے ہیں.اس مکاشفہ سے معلوم ہوا کہ گلاب کے پھول کو سورۃ فاتحہ کے ساتھ ایک رُوحانی مناسبت ہے سوالیسی مناسبت کے لحاظ سے اس مثال کو اختیار کیا گیا اور مناسب معلوم ہوا کہ اوّل بطور مثال گلاب کے پھول کے عجائبات کو کہ جو اس کے ظاہر و باطن میں پائے

Page 573

۵۶۳ جاتے ہیں لکھا جائے اور پھر بمقابلہ اس کے عجائبات کے سورۃ فاتحہ کے عجائبات ظاہری و باطنی قلمبند ہوں تا ناظرین با انصاف کو معلوم ہو کہ جو خوبیاں گلاب کے پھول میں ظاہر او باطنا پائی جاتی ہیں جن کے رُو سے اُس کی نظیر بنانا عادتاً محال سمجھا گیا ہے.اُسی طور پر اور اس سے بہتر خوبیاں سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں اور تا اس مثال کے لکھنے سے اشارہ کشفی پر بھی عمل ہو جائے.پس جاننا چاہئے کہ یہ امر ہر یک عاقل کے نزدیک بغیر کسی تردد اور توقف کے مسلم الثبوت ہے کہ گلاب کا پھول بھی مثل اور مصنوعاتِ الہیہ کے ایسی عمدہ خوبیاں اپنی ذات میں جمع رکھتا ہے جن کی مثل بنانے پر انسان قادر نہیں اور وہ دو طور کی خوبیاں ہیں.ایک وہ کہ جو اس کی ظاہری صورت میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اس کا رنگ نہایت خوشنما اور خوب ہے.اور اس کی خوشبو نہایت دل آرام اور دلکش ہے.اور اُس کے ظاہر بدن میں نہایت درجہ کی ملائمت اور تر و تازگی اور نرمی اور نزاکت اور صفائی ہے.اور دوسری وہ خوبیاں ہیں کہ جو باطنی طور پر حکیم مطلق نے اُس میں ڈال رکھی ہیں.یعنی وہ خواص کہ جو اُس کے جوہر میں پوشیدہ ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ مفرح اور مقوی قلب اور مسکن صفراء ہے اور تمام قومی اور ارواح کو تقویت بخشتا ہے اور صفراء اور بلغم رقیق کا مسہل بھی ہے اور اسی طرح معدہ اور جگر اور گردہ اور امعاء اور رحم اور پھیپھڑہ کو بھی قوت بخشا ہے اور خفقان حار اور غشی اور ضعف قلب کے لئے نہایت مفید ہے اور اسی طرح اور کئی امراض بدنی کو فائدہ مند ہے.پس انہیں دونوں طور کی خوبیوں کی وجہ سے اُس کی نسبت اعتقاد کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مرتبہ کمال پر واقع ہے کہ ہر گز کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسا پھول بناوے کہ جو اس پھول کی طرح رنگ میں خوشنما اور خوشبو میں دل کش اور بدن میں نہایت تر و تازہ اور نرم اور نازک اور مصفا ہو اور باوجود اس کے باطنی طور پر تمام وہ خواص بھی رکھتا ہو جو گلاب کے پھول میں پائے جاتے ہیں.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیوں گلاب کے پھول کی نسبت ایسا اعتقاد کیا گیا کہ انسانی قو تیں اس کی نظیر بنانے سے عاجز ہیں اور کیوں جائز نہیں کہ کوئی انسان اس کی نظیر بنا سکے اور جو خوبیاں اس کی ظاہر و باطن میں پائی جاتی ہیں وہ مصنوعی پھول میں پیدا کر سکے تو اس سوال کا جواب یہی ہے کہ ایسا پھول بنانا عادتا ممتنع ہے.اور آج تک کوئی حکیم اور فیلسوف کسی ایسی ترکیب سے کسی قسم کی ادویہ کو ہم نہیں پہنچا سکا کہ جن کے باہم مخلوط اور ممزوج کرنے سے ظاہر و باطن میں گلاب کے پھول کی سی صورت اور سیرت پیدا ہو جائے.اب سمجھنا چاہئے کہ یہی وجوہ بے نظیری کی سورۃ فاتحہ میں بلکہ قرآن شریف کے ہر یک حصہ اقل قلیل میں کہ جو چار آیت سے بھی کم ہو پائی جاتی ہیں.پہلے ظاہری

Page 574

۵۶۴ صورت پر نظر ڈال کر دیکھو کہ کیسی رنگینی عبارت اور خوش بیانی اور جودت الفاظ اور کلام میں کمال سلاست اور نرمی اور روانگی اور آب و تاب اور لطافت وغیرہ لوازم حسن کلام اپنا کامل جلوہ دکھا رہے ہیں.ایسا جلوہ کہ جس پر زیادت متصور نہیں اور وحشت کلمات اور تعقید ترکیبات سے بکلی سالم اور بری ہے.ہر یک فقرہ اس کا نہایت فصیح اور بلیغ ہے اور ہر یک ترکیب اس کی اپنے اپنے موقعہ پر واقعہ ہے اور ہر یک قسم کا التزام جس سے حسنِ کلام بڑھتا ہے اور لطافت عبارت کھلتی ہے سب اُس میں پایا جاتا ہے اور جس قدر حسن تقریر کے لئے بلاغت اور خوش بیانی کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ ذہن میں آ سکتا ہے وہ کامل طور پر اس میں موجود اور مشہور ہے اور جس قدر مطلب کے دل نشین کرنے کے لئے حسنِ بیان درکار ہے وہ سب اس میں مہیا اور موجود ہے اور باوجود اس بلاغت معانی اور التزام کمالیت حسنِ بیان کے صدق اور راستی کی خوشبو سے بھرا ہوا ہے کوئی مبالغہ ایسا نہیں جس میں جھوٹ کی ذرا آمیزش ہو.کوئی رنگینی عبارت اس قسم کی نہیں جس میں شاعروں کی طرح جھوٹ اور ہنرل اور فضول گوئی کی نجاست اور بد بو سے مدد لی گئی ہو.پس جیسے شاعروں کا کلام جھوٹ اور ہنرل اور فضول گوئی کی بد بو سے بھرا ہوا ہوتا ہے یہ کلام صداقت اور راستی کی لطیف خوشبو سے بھرا ہوا ہے اور پھر اس خوشبو کے ساتھ خوش بیانی اور جودت الفاظ اور رنگینی اور صفائی عبارت کو ایسا جمع کیا گیا ہے کہ جیسے گلاب کے پھول میں خوشبو کے ساتھ اُس کی خوش رنگی اور صفائی بھی جمع ہوتی ہے.یہ خوبیاں تو باعتبار ظاہر کے ہیں اور باعتبار باطن کے اس میں یعنی سورۃ فاتحہ میں یہ خواص ہیں کہ وہ بڑی بڑی امراض روحانی کے علاج پر مشتمل ہے اور تکمیل قوت علمی اور عملی کے لئے بہت سا سامان اس میں موجود ہے اور بڑے بڑے بگاڑوں کی اصلاح کرتی ہے اور بڑے بڑے معارف اور دقائق اور لطائف کہ جو حکیموں اور فلسفیوں کی نظر سے چھپے رہے اس میں مذکور ہیں.سالک کے دل کو اس کے پڑھنے سے یقینی قوت بڑھتی ہے اور شک اور شبہ اور ضلالت کی بیماری سے شفا حاصل ہوتی ہے اور بہت سی اعلیٰ درجہ کی صداقتیں اور نہایت باریک حقیقتیں کہ جو تکمیل نفس ناطقہ کے لئے ضروری ہیں اس کے مبارک مضمون میں بھری ہوئی ہیں.اور ظاہر ہے کہ یہ کمالات بھی ایسے ہیں کہ گلاب کے پھول کے کمالات کی طرح ان میں بھی عادتا ممتنع معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی انسان کے کلام میں مجتمع ہو سکیں اور یہ امتناع نہ نظری بلکہ بدیہی ہے کیونکہ جن دقائق و معارف عالیہ کو خدائے تعالیٰ نے عین ضرورت حقہ کے وقت اپنے بلیغ اور فصیح کلام میں بیان فرما کر ظاہری اور باطنی خوبی کا کمال دکھلایا ہے اور بڑی نازک شرطوں کے ساتھ دونوں پہلوؤں ظاہر و باطن کو کمالیت کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچایا ہے یعنی اول تو ایسے

Page 575

۵۶۵ معارف عالیہ ضرور یہ لکھتے ہیں کہ جن کے آثار پہلی تعلیموں سے مندرس اور محو ہو گئے تھے اور کسی حکیم یا فیلسوف نے بھی اُن معارف عالیہ پر قدم نہیں مارا تھا اور پھر اُن معارف کو غیر ضروری اور فضول طور پر نہیں لکھا بلکہ ٹھیک ٹھیک اُس وقت اور اُس زمانہ میں ان کو بیان فرمایا جس وقت حالت موجودہ زمانہ کی اصلاح کے لئے اُن کا بیان کرنا از بس ضروری تھا.اور بغیر ان کے بیان کرنے کے زمانہ کی ہلاکت اور تبا ہی متصورتھی اور پھر وہ معارف عالیہ ناقص اور نا تمام طور پر نہیں لکھے گئے بلکہ كمّاً و كيفاً کامل درجہ پر واقع ہیں اور کسی عاقل کی عقل کوئی ایسی دینی صداقت پیش نہیں کر سکتی جو ان سے باہر رہ گئی ہو.اور کسی باطل پرست کا کوئی ایسا وسوسہ نہیں جس کا ازالہ اس کلام میں موجود نہ ہو.ان تمام حقائق و دقائق کے التزام سے کہ جو دوسری طرف ضرورت حقہ کے التزام کے ساتھ وابستہ ہیں فصاحت بلاغت کے اُن اعلیٰ کمالات کو ادا کرنا جن پر زیادت متصور نہ ہو یہ تو نہایت بڑا کام ہے کہ جو بشری طاقتوں سے یہ بداہت نظر بلند تر ہے.مگر انسان تو ایسا بے ہنر ہے کہ اگر ادنی اور ناکارہ معاملات کو کہ جو حقائق عالیہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتے کسی رنگین اور فصیح عبارت میں بہ التزام راست بیانی اور حق گوئی کے لکھنا چاہے تو یہ بھی اس کے لئے ممکن نہیں جیسا کہ یہ بات ہر عاقل کے نزدیک نہایت بد یہی ہے کہ اگر مثلاً ایک دوکاندار جو کامل درجہ کا شاعر اور انشا پرداز ہو یہ چاہے کہ جو اپنی اس گفتگو کو جو ہر روز اُسے رنگا رنگ کے خریداروں اور معاملہ داروں کے ساتھ کرنی پڑتی ہے کمال بلاغت اور رنگینی کعبارت کے ساتھ کیا کرے اور پھر یہ بھی التزام رکھے کہ ہر محل اور ہر موقعہ میں جس قسم کی گفتگو کرنا ضروری ہے وہی کرے.مثلاً جہاں کم بولنا مناسب ہے وہاں کم بولے اور جہاں بہت مغز زنی مصلحت ہے وہاں بہت گفتگو کر کرے.اور جب اس میں اور اس کے خریدار میں کوئی بحث آ پڑے تو وہ طرز تقریر اختیار کرے جس سے اس بحث کو اپنے مفید مطلب طے کر سکے یا مثلاً ایک حاکم جس کا یہ کام ہے کہ فریقین اور گواہوں کے بیان کو ٹھیک ٹھیک قلمبند کرے اور ہر یک بیان پر جو جو واقعی اور ضروری طور پر جرح قدح کرنا چاہئے وہی کرے اور جیسا کہ تنقیح مقدمہ کے لئے شرط ہے اور تفتیش امر متنازعہ فیہ کے لئے قرین مصلحت ہے سوال کے موقعہ پر سوال اور جواب کے موقعہ پر جواب لکھے اور جہاں قانونی وجوہ کا بیان کرنا لازم ہو ان کو درست طور پر حسب منشاء قانون بیان کرے اور جہاں واقعات کا بہ ترتیب تمام کھولنا واجب ہو اُن کو بہ پابندی ترتیب و صحت کھول دے اور پھر جو کچھ فی الواقعہ اپنی رائے اور بتائید اُس رائے کے وجوہات ہیں اُن کو بصحت تمام بیان کرے اور باوصف ان التزامات کے فصاحت بلاغت کے اس اعلیٰ درجہ پر اس کا کلام ہو کہ اس سے بہتر

Page 576

کسی بشر کے لئے ممکن نہ ہو تو اس قسم کی بلاغت کو بانجام پہنچانا یہ بداہت اُن کے لئے محال ہے.سو انسانی فصاحتوں کا یہی حال ہے کہ بجر فضول اور غیر ضروری اور واہیات باتوں کے قدم ہی نہیں اُٹھ سکتا اور بغیر جھوٹ اور ہنرل کے اختیار کرنے کے کچھ بول ہی نہیں سکتے اور اگر کچھ بولے بھی تو ادھورا.ناک ہے تو کان نہیں.کان ہیں تو آنکھ ندارد.سچ بولے تو فصاحت گئی.فصاحت کے پیچھے پڑے تو جھوٹ اور فضول گوئی کے انبار کے انبار جمع کر لئے.پیاز کی طرح سب پوست ہی پوست اور بیچ میں کچھ بھی نہیں.پس جس صورت میں عقل سلیم صریح حکم دیتی ہے کہ ناکارہ اور خفیف معاملات اور سیدھے سادے واقعات کو بھی ضرورت حقہ اور راستی کے التزام سے رنگین اور بلیغ عبارت میں ادا کرنا ممکن نہیں تو پھر اس بات کا سمجھنا کس قدر آسان ہے کہ معارف عالیہ کو ضرورت حقہ کے التزام کے ساتھ نہایت رنگین اور فصیح عبارت میں جس سے اعلیٰ اور اصفی متصور نہ ہو بیان کرنا بالکل خارق عادت اور بشری طاقتوں سے بعید ہے اور جیسا کہ گلاب کے پھول کی طرح کوئی پھول کہ جو ظاہر و باطن میں اس سے مشابہ ہو بنانا عادتا محال ہے ایسا ہی یہ بھی محال ہے کیونکہ جب ادنی ادنیٰ امور میں تجربہ صحیحہ شہادت دیتا ہے اور فطرت سلیمہ قبول کرتی ہے کہ انسان اپنی کسی ضروری اور راست راست بات کو خواہ وہ بات کسی معاملہ خرید وفروخت سے متعلق ہو یا تحقیقات عدالت وغیرہ سے تعلق رکھتی ہو جب اس کو اصلح اور انسب طور پر بجا لانا چاہے تو یہ بات غیر ممکن ہو جاتی ہے کہ اس کی عبارت خواہ نخواہ ہر محل میں موزوں اور منقمی اور فصیح اور بلیغ بلکہ اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور بلاغت پر ہو تو پھر ایسی تقریر کہ جو علاوہ التزام راستی اور صدق کے معارف اور حقائق عالیہ سے بھی بھری ہوئی اور ضرورت حقہ کے رُو سے صادر ہو اور تمام حقانی صداقتوں پر محیط ہو اور اپنے منصب اصلاح حالت موجودہ اور اتمام حجت اور الزام منکرین میں ایک ذرا فرو گزاشت نہ کرتی ہو اور مناظرہ اور مباحثہ کے تمام پہلوؤں کی کماحقہ رعایت رکھتی ہو اور تمام ضروری دلائل اور ضروری براہین اور ضروری تعلیم اور ضروری سوال اور ضروری جواب پر مشتمل ہو کیونکر با وجود ان مشکلات پیچ در پیچ کے کہ جو پہلی صورت سے صدہا درجہ زیادہ ہیں ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ کسی بشر کی تحریر میں جمع ہو سکتی ہے کہ وہ بلاغت بھی بے مثل و مانند ہو اور اس مضمون کو اس سے زیادہ فصیح عبارت میں بیان کرنا ممکن نہ ہو.یہ تو وہ وجوہ ہیں کہ جو سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف میں ایسے طور سے پائی جاتی ہیں جن کو گلاب کے پھول کی وجوہ بے نظیری سے بکلی مطابقت ہے لیکن سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف میں ایک اور

Page 577

خاصہ بزرگ پایا جاتا ہے کہ جو اُسی کلام پاک سے خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کو توجہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے اور ظلمانی پردوں کو اٹھاتا ہے اور سینے کو منشرح کرتا ہے اور طالب حق کو حضرت احدیت کی طرف کھینچ کر ایسے انوار اور آثار کا مورد کرتا ہے کہ جو مقربانِ حضرت احدیت میں ہونی چاہئے اور جن کو انسان کسی دوسرے حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کر سکتا اور اس رُوحانی تاثیر کا ثبوت بھی ہم اس کتاب میں دے چکے ہیں اور اگر کوئی طالب حق ہو تو با لمواجہ ہم اُس کی تسلی کر سکتے ہیں اور ہر وقت تازہ بتازہ ثبوت دینے کو طیار ہیں اور نیز اس بات کو بخوبی یا د رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف کا اپنی کلام میں بے مثل و مانند ہونا صرف عقلی دلائل میں محصور نہیں بلکہ زمانہ دراز کا تجربہ صیحہ بھی اس کا مؤید اور مصدق ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ قرآن شریف برابر تیرہ سو برس سے اپنی تمام خوبیاں پیش کر کے ھل من معارض کا نقارہ بجا رہا ہے اور تمام دنیا کو بآواز بلند کہہ رہا ہے کہ وہ اپنی ظاہری صورت اور باطنی خواص میں بے مثل و مانند ہے اور کسی جن یا انس کو اس کے مقابلہ یا معارضہ کی طاقت نہیں مگر پھر بھی کسی متنفس نے اس کے مقابلہ پر دم نہیں مارا بلکہ اس کی کم سے کم کسی سورۃ مثلاً سورۃ فاتحہ کی ظاہری و باطنی خوبیوں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکا.تو دیکھو اس سے زیادہ بدیہی اور گھلا کھلا معجزہ اور کیا ہوگا کہ عقلی طور پر بھی اس پاک کلام کا بشری طاقتوں سے بلند تر ہونا ثابت ہوتا ہے اور زمانہ دراز کا تجربہ بھی اس کے مرتبہ اعجاز پر گواہی دیتا ہے.اور اگر کسی کو یہ دونوں طور کی گواہی کہ جو عقل اور تجر بہ زمانہ دراز کے رو سے بہ پایہ ثبوت پہنچ چکی ہے نا منظور ہوا اور اپنے علم اور ہنر پر نازاں ہو یا دنیا میں کسی ایسے بشر کی انشا پردازی کا قائل ہو کہ جو قرآن شریف کی طرح کوئی کلام بنا سکتا ہے تو ہم جیسا کہ وعدہ کر چکے ہیں کچھ بطور نمونہ حقائق و دقائق سورۃ فاتحہ کے لکھتے ہیں.اُس کو چاہئے کہ بمقابلہ ان ظاہری و باطنی سورۃ فاتحہ کی خوبیوں کے کوئی اپنا کلام پیش کرے.- ( براہین احمدیہ ہر چہار ص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۹۴ تا ۳ ۴۰ حاشیہ نمبر۱۱) سورۃ فاتحہ میں تمام قرآن شریف کی طرح دوستم کی خوبیاں کہ جو بے مثل و مانند ہیں پائی جاتی ہیں.یعنی ایک ظاہری صورت میں خوبی اور ایک باطنی خوبی.ظاہری خوبی یہ کہ جیسا کہ بار ہا ذکر کیا گیا ہے اس کی عبارت میں ایسی رنگینی اور آب و تاب اور نزاکت و لطافت و ملائمت اور بلاغت اور شیرینی اور روانگی اور حسنِ بیان اور حسن ترتیب پایا جاتا ہے کہ ان معانی کو اس سے بہتر یا اس سے مساوی کسی دوسری فصیح عبارت میں ادا کر ناممکن نہیں اور اگر تمام دنیا کے انشا پرداز اور شاعر متفق ہو کر یہ چاہیں کہ اسی مضمون کو

Page 578

۵۶۸ لے کر اپنے طور سے کسی دوسری فصیح عبارت میں لکھیں کہ جو سورۃ فاتحہ کی عبارت سے مساوی یا اس سے بہتر ہو تو یہ بات بالکل محال اور ممتنع ہے کہ ایسی عبارت لکھ سکیں.کیونکہ تیرہ سو برس سے قرآن شریف تمام دنیا کے سامنے اپنی بے نظیری کا دعویٰ پیش کر رہا ہے.مخالفین کی سینکڑوں برسوں کی خاموشی اور لا جواب رہنے نے اس کو وہ کامل مرتبہ ثبوت کا بخشا ہے کہ جو گلاب کے پھول وغیرہ کو وہ ثبوت بے نظیری کا حاصل نہیں.کیونکہ دنیا کے حکیموں اور صنعت کاروں کو کسی دوسری چیز میں اس طور پر معارضہ کے لئے کبھی ترغیب نہیں دی گئی.اور نہ اس کی مثل بنانے سے عاجز رہنے کی حالت میں کبھی ان کو یہ خوف دلایا گیا کہ وہ طرح طرح کی تباہی اور ہلاکت میں ڈالے جائیں گے.اب ہم باطنی خوبیوں کو بھی دہرا کر ذکر کرتے ہیں تا اچھی طرح غور کرنے والوں کے ذہن میں آجا ئیں.سو جاننا چاہئے کہ جیسا خداوند حکیم مطلق نے گلاب کے پھول میں بدن انسان کے لئے طرح طرح کے منافع رکھے ہیں کہ وہ دل کو قوت دیتا ہے اور قومی اور ارواح کو تقویت بخشتا ہے اور کئی اور مرضوں کو مفید ہے ایسا ہی خداوند کریم نے سورۃ فاتحہ میں تمام قرآن شریف کی طرح رُوحانی مرضوں کی شفار کھی ہے اور باطنی بیماریوں کا اس میں وہ علاج موجود ہے کہ جو اُس کے غیر میں ہرگز نہیں پایا گیا.کیونکہ اس میں وہ کامل صداقتیں بھری ہوئی ہیں کہ جو روئے زمین سے نابود ہو گئی تھیں اور دنیا میں ان کا نام ونشان باقی نہیں رہا تھا اور حقیقت میں وہ بارانِ رحمت ہی تھا کہ سخت پیاسوں کی جان رکھنے کے لئے آسمان سے اترا اور دنیا کی رُوحانی حیات اسی بات پر موقوف تھی کہ وہ آب حیات نازل ہو اور کوئی قطرہ اس کا ایسا نہ تھا کہ کسی موجود الوقت بیماری کی دوا نہ ہو اور حالت موجودہ زمانہ نے صد ہا سال تک اپنی معمولی گمراہی پر رہ کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ ان بیماریوں کے علاج کو خود بخود بغیر اتر نے اس نور کے حاصل نہیں کر سکتا اور نہ اپنی ظلمت کو آپ اٹھا سکتا ہے بلکہ ایک آسمانی نور کا محتاج ہے کہ جو اپنی سچائی کی شعاعوں سے دنیا کو روشن کرے اور اُن کو دکھاوے جنہوں نے کبھی نہیں دیکھا اور اُن کو سمجھا وے جنہوں نے کبھی نہیں سمجھا.اس آسمانی نور نے دنیا میں آکر صرف یہی کام نہیں کیا کہ ایسے معارف حقہ ضرور یہ پیش کئے جن کا صفحہ زمین پر نشان باقی نہیں رہا تھا بلکہ اپنے روحانی خاصہ کے زور سے ان جواہر حق اور حکمت کو بہت سے سینوں میں بھر دیا اور بہت سے دلوں کو اپنے دلربا چہرہ کی طرف کھینچ لایا اور اپنی قوی تاثیر سے بہتوں کو علم اور عمل کے اعلیٰ مقام تک پہنچایا.اب یہ دونوں قسم کی خوبیاں کہ جو سورۃ فاتحہ اور تمام قرآن شریف میں پائی جاتی ہیں کلام الہی کی بے نظیری ثابت کرنے کے لئے ایسے روشن دلائل ہیں

Page 579

۵۶۹ کہ جیسی وہ خوبیاں جو گلاب کے پھول میں سب کے نزدیک انسانی طاقتوں سے اعلی تسلیم کی گئی ہیں.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس قدر یہ خوبیاں بدیہی طور پر عادت سے خارج اور طاقت انسانی سے باہر ہیں.اس شان کی خوبیاں گلاب کے پھول میں ہرگز نہیں پائی جاتیں.ان خوبیوں کی عظمت اور شوکت اور بے نظیری اُس وقت کھلتی ہے جب انسان سب کو من حیث الاجتماع اپنے خیال میں لاوے اور اس اجتماعی ہیئت پر غور اور تدبر سے نظر ڈالے.مثلاً اوّل اس بات کے تصوّر کرنے سے کہ ایک کلام کی عبارت ایسے اعلیٰ درجہ کی فصیح اور بلیغ اور ملائم اور شیریں اور سلیس اور خوش طرز اور رنگین ہو کہ اگر کوئی انسان کوئی ایسی عبارت اپنی طرف سے بنانا چاہے کہ جو بتمام و کمال انہیں معانی پر مشتمل ہو کہ جو اس بلیغ کلام میں پائی جاتی ہیں تو ہرگز ممکن نہ ہو کہ وہ انسانی عبارت اس پائیہ بلاغت و رنگینی کو پہنچ سکے پھر ساتھ ہی یہ دوسرا تصور کرنے سے کہ اس عبارت کا مضمون ایسے حقائق دقائق پر مشتمل ہو کہ جو فی الحقیقت اعلیٰ درجہ کی صداقتیں ہوں اور کوئی فقرہ اور کوئی لفظ اور کوئی حرف ایسا نہ ہو کہ جو حکیمانہ بیان پر مبنی نہ ہو.پھر ساتھ ہی یہ تیسرا تصور کرنے سے کہ وہ صداقتیں ایسی ہوں کہ حالتِ موجودہ زمانہ کو اُن کی نہایت ضرورت ہو.پھر ساتھ ہی یہ چوتھا تصور کرنے سے کہ وہ صداقتیں ایسی بے مثل و مانند ہوں کہ کسی حکیم یا فیلسوف کا پتہ نہ مل سکتا ہو کہ ان صداقتوں کو اپنی نظر اور فکر سے دریافت کرنے والا ہو چکا ہو.پھر ساتھ ہی یہ پانچواں تصور کرنے سے کہ جس زمانہ میں وہ صداقتیں ظاہر ہوئی ہوں ایک تازہ نعمت کی طرح ظاہر ہوئی ہوں اور اس زمانہ کے لوگ اُن کے ظہور سے پہلے اس راہ راست سے بکلی بے خبر ہوں.پھر ساتھ ہی یہ چھٹا تصور کرنے سے کہ اس کلام میں ایک آسمانی برکت بھی ثابت ہو کہ جو اس کی متابعت سے طالب حق کو خداوند کریم کے ساتھ ایک سچا پیوند اور ایک حقیقی اُنس پیدا ہو جائے اور وہ انوار اُس میں چمکنے لگیں کہ جو مردانِ خدا میں چکنے چاہئیں.یہ کل مجموعی ایک ایسی حالت میں معلوم ہوتا ہے کہ عقل سلیم بلاتوقف و تر ڈ دحکم دیتی ہے کہ بشری کلام کا ان تمام مراتب کاملہ پر مشتمل ہونا ممتنع اور محال اور خارق عادت ہے.اور بلاشبہ ان تمام فضائل ظاہری و باطنی کو بنظر یکجائی دیکھنے سے ایک رُعب ناک حالت ان میں پائی جاتی ہے کہ جو عقل مند کو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ اس کل مجموعی کا انسانی طاقتوں سے انجام پذیر ہونا عقل اور قیاس سے باہر ہے اور ایسی رُعبناک حالت گلاب کے پھول میں ہرگز پائی نہیں جاتی.کیونکہ قرآن شریف میں یہ خصوصیت زیادہ ہے کہ اس کی صفات مذکورہ کہ جو بے نظیری کا مدار ہیں نہایت بدیہی الثبوت ہیں اور اسی وجہ سے جب معارض کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک حرف بھی ایسے موقعہ پر

Page 580

۵۷۰ نہیں رکھا گیا کہ جو حکمت اور مصلحت سے دُور ہو اور اس کا ایک فقرہ بھی ایسا نہیں کہ جو زمانہ کی اصلاح کے لئے اشد ضروری نہ ہو اور پھر بلاغت کا یہ کمال کہ ہرگز ممکن ہی نہیں کہ اس کی ایک سطر کی عبارت تبدیل کر کے بجائے اس کے کوئی دوسری عبارت لکھ سکیں.تو ان بدیہی کمالات کے مشاہدہ کرنے سے معارض کے دل پر ایک بزرگ رُعب پڑ جاتا ہے.ہاں کوئی نادان جس نے ان باتوں میں کبھی غور نہیں کی شاید بباعث نادانی سوال کرے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ یہ ساری خوبیاں سورۃ فاتحہ اور تمام قرآن شریف میں متحقق اور ثابت ہیں.سو واضح ہو کہ اس بات کا یہی ثبوت ہے کہ جنہوں نے قرآن شریف کے بے مثل کمالات پر غور کی اور اس کی عبارت کو ایسے اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور بلاغت پر پایا کہ اس کی نظیر بنانے سے عاجز رہ گئے اور پھر اس کے دقائق و حقائق کو ایسے مرتبہ عالیہ پر دیکھا کہ تمام زمانہ میں اس کی نظیر نظر نہ آئی اور اس میں وہ تاثیرات عجیبہ مشاہدہ کیں کہ جو انسانی کلمات میں ہرگز نہیں ہوا کرتیں اور پھر اس میں یہ صفت پاک دیکھی کہ وہ بطور ہرل اور فضول گوئی کے نازل نہیں ہوا بلکہ عین ضرورت حقہ کے وقت نازل ہوا تو انہوں نے ان تمام کمالات کے مشاہدہ کرنے سے بے اختیار اس کی بے مثل عظمت کو تسلیم کر لیا اور ان میں سے جو لوگ باعث شقاوت از لی نعمت ایمان سے محروم رہے.اُن کے دلوں پر بھی اس قدر ہیبت اور رعب اس بے مثل کلام کا پڑا کہ انہوں نے بھی مبہوت اور سراسیمہ ہو کر یہ کہا کہ یہ تو سحر مبین ہے.اور پھر منصف کو اس بات سے بھی قرآن شریف کے بے مثل و مانند ہونے پر ایک قوی دلیل ملتی ہے اور روشن ثبوت ہاتھ میں آتا ہے کہ باوجود اس کے کہ مخالفین کو تیرہ سو برس سے خود قرآن شریف مقابلہ کرنے کی سخت غیرت دلاتا ہے اور لا جواب رہ کر مخالفت اور انکار کرنے والوں کا نام شریر اور پلید اور لعنتی اور جہنمی رکھتا ہے مگر پھر بھی مخالفین نے نامردوں اور مختوں کی طرح کمال بے شرمی اور بے حیائی سے اس تمام ذلت اور بے آبروئی اور بے عزتی کو اپنے لئے منظور کیا اور یہ روا رکھا کہ اُن کا نام جھوٹا اور ذلیل اور بے حیا اور خبیث اور پلید اور شریر اور بے ایمان اور جہنمی رکھا جاوے.مگر ایک قلیل المقدار سورۃ کا مقابلہ نہ کر سکے.اور نہ ان خوبیوں اور صفتوں اور عظمتوں اور صداقتوں میں کچھ نقص نکال سکے کہ جن کو کلام الہی نے پیش کیا ہے.حالانکہ ہمارے مخالفین پر در حالت انکار لازم تھا اور اب بھی لازم ہے کہ اگر وہ اپنے کفر اور بے ایمانی کو چھوڑنا نہیں چاہتے تو وہ قرآن شریف کی کسی سورۃ کی نظیر پیش کریں اور کوئی ایسا کلام بطور معارضہ ہمارے سامنے لاویں کہ جس میں یہ تمام ظاہری و باطنی خوبیاں پائی جاتی ہوں کہ جو قرآن شریف کی ہر یک اقل قلیل سورۃ

Page 581

۵۷۱ میں پائی جاتی ہیں.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۳ ۴۰ تا ۴۱۰ حاشیہ نمبر ۱۱) اب اتمام حجت کے لئے کچھ دقائق و حقائق سورۃ فاتحہ کے ذیل میں لکھے جاتے ہیں مگر اوّل سورۃ فاتحہ کولکھ کر پھر اس کے معارف عالیہ کا لکھنا شروع کریں گے اور سورۃ فاتحہ یہ ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اس سورۃ کی تفسیر جس میں کسی قدر بطور نمونہ اس سورۃ کے معارف و حقائق مذکور ہیں ذیل میں لکھے جاتے ہیں.بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ.یہ آیت سورہ ممدوحہ کی آیتوں میں سے پہلی آیت ہے اور قرآن شریف کی دوسری سورتوں پر بھی لکھی گئی ہے اور ایک اور جگہ بھی قرآن شریف میں یہ آیت آئی ہے اور جس قدر تکرار اس آیت کا قرآن شریف میں بکثرت پایا جاتا ہے اور کسی آیت میں اس قدر تکرار نہیں پایا جاتا اور چونکہ اسلام میں یہ سنت ٹھہر گئی ہے کہ ہر یک کام کے ابتداء میں جس میں خیر اور برکت مطلوب ہو بطریق تبرک اور استمداد اس آیت کو پڑھ لیتے ہیں.اس لئے یہ آیت دشمنوں اور دوستوں اور چھوٹوں اور بڑوں میں شہرت پا گئی ہے.یہاں تک کہ اگر کوئی شخص تمام قرآنی آیات سے بے خبر مطلق ہوتب بھی امید قوی ہے کہ اس آیت سے ہرگز اُس کو بے خبری نہیں ہوگی.اب یہ آیت جن کامل صداقتوں پر مشتمل ہے اُن کو بھی سن لینا چاہئے.سو منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ اصل مطلب اس آیت کے نزول سے یہ ہے کہ تا عاجز اور بے خبر بندوں کو اس نکتۂ معرفت کی تعلیم کی جائے کہ ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے کہ جو اصطلاح قرآنی ربانی کی رُو سے ذات مستجمع جمیع صفات کا ملہ اور منزہ عن جمیع رذائل اور معبود برحق اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض پر بولا جاتا ہے.اس اسم اعظم کی بہت سی صفات میں سے جو دو صفتیں بسم اللہ میں بیان کی گئی ہیں یعنی صفت رحمانیت ورحیمیت انہی دو صفتوں کے تقاضا سے کلام الہی کا نزول اور اس کے انوار و برکات کا صدور ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا کے پاک کلام کا دنیا میں اتر نا اور بندوں کو اس سے مطلع کیا جانا یہ صفت رحمانیت کا تقاضا ہے کیونکہ صفت رحمانیت کی کیفیت (جیسا کہ آگے بھی تفصیل سے لکھا جائے گا) یہ ہے کہ وہ صفت بغیر سبقت عمل کسی عامل کے محض جود اور بخشش الہی کے جوش سے ظہور میں آتی ہے جیسا خدا نے سورج اور چاند اور الفاتحة : اتا

Page 582

۵۷۲ پانی اور ہوا وغیرہ کو بندوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے یہ تمام جود اور بخشش صفت رحمانیت کی رُو سے ہے اور کوئی شخص دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ چیزیں میرے کسی عمل کی پاداش میں بنائی گئی ہیں.اسی طرح خدا کا کلام بھی کہ جو بندوں کی اصلاح اور رہنمائی کے لئے اتر اوہ بھی اس صفت کے رُو سے اُترا ہے اور کوئی ایسا متنفس نہیں کہ یہ دعوی کر سکے کہ میرے کسی عمل یا مجاہدہ یا کسی پاک باطنی کے اجر میں خدا کا پاک کلام کہ جو اُس کی شریعت پر مشتمل ہے نازل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر چہ طہارت اور پاک باطنی کا دم مارنے والے اور زہد اور عبادت میں زندگی بسر کرنے والے اب تک ہزاروں لوگ گزرے ہیں لیکن خدا کا پاک اور کامل کلام کہ جو اس کے فرائض اور احکام کو دنیا میں لایا اور اس کے ارادوں سے خلق اللہ کو مطلع کیا اُنہیں خاص وقتوں میں نازل ہوا ہے کہ جب اس کے نازل ہونے کی ضرورت تھی.ہاں یہ ضرور ہے کہ خدا کا پاک کلام انہیں لوگوں پر نازل ہو کہ جو تقدس اور پاک باطنی میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہوں کیونکہ پاک کو پلید سے کچھ میل اور مناسبت نہیں.لیکن یہ ہر گز ضرور نہیں کہ ہر جگہ تقدس اور پاک باطنی کلام الہی کے نازل ہونے کو مستلزم ہو بلکہ خدائے تعالیٰ کی حقانی شریعت اور تعلیم کا نازل ہونا ضرورات حقہ سے وابستہ ہے.پس جس جگہ ضرورات حقہ پیدا ہو گئیں اور زمانہ کی اصلاح کے لئے واجب معلوم ہوا کہ کلام الہی نازل ہواُسی زمانہ میں خدائے تعالیٰ نے جو حکیم مطلق ہے اپنے کلام کو نازل کیا اور کسی دوسرے زمانہ میں گولاکھوں آدمی تقویٰ اور طہارت کی صفت سے متصف ہوں اور گوکیسی ہی تقدس اور پاک باطنی رکھتے ہوں ان پر خدا کا وہ کامل کلام ہرگز نازل نہیں ہوتا کہ جو شریعت حقانی پر مشتمل ہو.ہاں مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت کے بعض پاک باطنوں سے ہو جاتے ہیں.اور وہ بھی اُس وقت کہ جب حکمتِ الہیہ کے نزدیک ان مکالمات اور مخاطبات کے لئے کوئی ضرورت حقہ پیدا ہو اور ان دونوں طور کی ضرورتوں میں فرق یہ ہے کہ شریعت حقانی کا نازل ہونا اس ضرورت کے وقت پیش آتا ہے کہ جب دنیا کے لوگ باعث ضلالت اور گمراہی کے جادہ استقامت سے منحرف ہو گئے ہوں اور اُن کے راہ راست پر لانے کے لئے ایک نئی شریعت کی حاجت ہو کہ جوان کی آفات موجودہ کا بخوبی تدارک کر سکے اور ان کی تاریکی اور ظلمت کو اپنے کامل اور شافی بیان کے نور سے بکلّی اٹھا سکے.اور جس طور کا علاج حالت فاسدہ زمانہ کے لئے درکار ہے وہ علاج اپنے پر زور بیان سے کر سکے لیکن جو مکالمات و مخاطبات اولیاء اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں اُن کے لئے غالبا اس ضرورت عظمی کا پیش آنا ضروری نہیں بلکہ بسا اوقات صرف اُسی قدر ان مکالمات سے مطلب ہوتا ہے کہ تا ولی کے نفس کو کسی مصیبت اور محنت کے وقت صبر اور استقامت کے لباس سے متحلی کیا جائے یا کسی غم اور حزن کے غلبہ میں

Page 583

۵۷۳ کوئی بشارت اس کو دی جائے.مگر وہ کامل اور پاک کلام خدائے تعالیٰ کا کہ جو نبیوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے وہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے اس ضرورت حقہ کے پیش آنے پر نزول فرماتا ہے کہ جب خلق اللہ کو اُس کے نزول کی بشدت حاجت ہو.غرض کلام الہی کے نازل ہونے کا اصل موجب ضرورت حقہ ہے.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب تمام رات کا اندھیر ہو جاتا ہے اور کچھ نور باقی نہیں رہتا تو اسی وقت تم سمجھ جاتے ہو کہ اب ماہ نو کی آمد نزدیک ہے اسی طرح جب گمراہی کی ظلمت سخت طور پر دنیا پر غالب آ جاتی ہے تو عقل سلیم اس روحانی چاند کے نکلنے کو بہت نزدیک بجھتی ہے.ایسا ہی جب امساک باراں سے لوگوں کا حال تباہ ہو جاتا ہے تو اس وقت عقلمند لوگ بارانِ رحمت کا نازل ہونا بہت قریب خیال کرتے ہیں اور جیسا کہ خدا نے اپنے جسمانی قانون میں بھی بعض مہینے برسات کے لئے مقرر کر رکھے ہیں یعنی وہ مہینے جن میں فی الحقیقت مخلوق اللہ کو بارش کی ضرورت ہوتی ہے اور ان مہینوں میں جو مینہ برستا ہے اُس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاتا کہ خاص ان مہینوں میں لوگ زیادہ نیکی کرتے ہیں اور دوسرے مہینوں میں فسق و فجور میں مبتلا رہتے ہیں بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ وہ مہینے ہیں جن میں زمین داروں کو بارش کی ضرورت ہے اور جن میں بارش کا ہو جانا تمام سال کی سرسبزی کا موجب ہے.ایسا ہی کلام الہی کا نزول فرمانا کسی شخص کی طہارت اور تقویٰ کی جہت سے نہیں ہے.یعنی علت موجبہ اس کلام کے نزول کی یہ نہیں ہو سکتی کہ کوئی شخص غایت درجہ کا مقدس اور پاک باطن تھا یا راستی کا بھوکا اور پیاسا تھا بلکہ جیسا کہ ہم کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کتب آسمانی کے نزول کا اصلی موجب ضرورت حقہ ہے.یعنی وہ ظلمت اور تاریکی کہ جو دنیا پر طاری ہو کر ایک آسمانی نور کو چاہتی ہے کہ تا وہ نور نازل ہو کر اس تاریکی کو دور کرے.اور اسی کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں فرمایا ہے.اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ لے یہ لیلۃ القدر اگر چہ اپنے مشہور معنوں کی رُو سے ایک بزرگ رات ہے لیکن قرآنی اشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ظلمانی حالت بھی اپنی پوشیدہ خوبیوں میں لیلتہ القدر کا ہی حکم رکھتی ہے اور اس ظلمانی حالت کے دنوں میں صدق اور صبر اور زہد اور عبادت خدا کے نزدیک بڑا قدر رکھتا ہے.اور وہی ظلمانی حالت تھی کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے وقت تک اپنے کمال کو پہنچ کر ایک عظیم الشان نور کے نزول کو چاہتی تھی اور اسی ظلمانی حالت کو دیکھ کر اور ظلمت زدہ بندوں پر رحم کر کے صفت رحمانیت نے جوش مارا اور آسمانی برکتیں زمین کی طرف متوجہ ہوئیں سو وہ ظلمانی حالت دنیا کے لئے مبارک ہو گئی اور دنیا نے اس سے ایک عظیم الشان رحمت کا حصہ پایا کہ ایک القدر : ٢

Page 584

۵۷۴ کامل انسان اور سید الرسل کہ جس سا کوئی پیدا نہ ہوا اور نہ ہو گا دنیا کی ہدایت کے لئے آیا اور دنیا کے لئے اس روشن کتاب کو لایا جس کی نظیر کسی آنکھ نے نہیں دیکھی.پس یہ خدا کی کمال رحمانیت کی ایک بزرگ تجلی تھی کہ جو اس نے ظلمت اور تاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان نور نازل کیا جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے جس نے حق کو موجود اور باطل کو نابود کر کے دکھلا دیا.وہ اس وقت زمین پر نازل ہوا جب زمین ایک موت روحانی کے ساتھ مر چکی تھی اور بر اور بحر میں ایک بھاری فساد واقع ہو چکا تھا.پس اُس نے نزول فرما کر وہ کام کر دکھایا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرما کر کہا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضِ بَعْدَ مَوْتِهَا لا یعنی زمین مرگئی تھی اب خدا اُس کو نئے سرے زندہ کرتا ہے.اب اس بات کو بخوبی یا د رکھنا چاہئے کہ یہ نزول قرآن شریف کا کہ جو زمین کے زندہ کرنے کے لئے ہوا یہ صفت رحمانیت کے جوش سے ہوا.وہی صفت ہے کہ جو کبھی جسمانی طور پر جوش مار کر قحط زدوں کی خبر لیتی ہے اور بارانِ رحمت خشک زمین پر برساتی ہے اور وہی صفت کبھی روحانی طور پر جوش مار کر ان بھوکوں اور پیاسوں کی حالت پر رحم کرتی ہے کہ جو ضلالت اور گمراہی کی موت تک پہنچ جاتے ہیں اور حق اور صداقت کی غذا کہ جو روحانی زندگی کا موجب ہے ان کے پاس نہیں رہتی پس رحمان مطلق جیسا جسم کی غذا کو اس کی حاجت کے وقت عطا فرماتا ہے ایسا ہی وہ اپنی رحمت کاملہ کے تقاضا سے روحانی غذا کو بھی ضرورت حقہ کے وقت مہیا کر دیتا ہے.ہاں یہ بات درست ہے کہ خدا کا کلام انہیں برگزیدہ لوگوں پر نازل ہوتا ہے جن سے خدا راضی ہے اور انہیں سے وہ مکالمات اور مخاطبات کرتا ہے جن سے وہ خوش ہے.مگر یہ بات ہرگز درست نہیں کہ جس سے خدا راضی اور خوش ہو اُس پر خواہ نخواہ بغیر کسی ضرورت حقہ کے کتاب آسمانی نازل ہو جایا کرے یا خدائے تعالیٰ یونہی بلاضرورت حقہ کسی کی طہارت لازمی کی وجہ سے لا زمی اور دائمی طور پر اس سے ہر وقت باتیں کرتا ر ہے بلکہ خدا کی کتاب اُسی وقت نازل ہوتی ہے کہ جب فی الحقیقت اس کے نزول کی ضرورت پیش آ جائے.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ وحی اللہ کے نزول کا اصل موجب خدائے تعالیٰ کی رحمانیت ہے کسی عامل کا عمل نہیں اور یہ ایک بزرگ صداقت ہے جس سے ہمارے مخالف بر ہمو وغیرہ بے خبر ہیں.پھر بعد اس کے سمجھنا چاہئے کہ کسی فرد انسانی کا کلام الہی کے فیض سے فی الحقیقت مستفیض ہو جانا اور اس کی برکات اور انوار سے متمتع ہو کر منزل مقصود تک پہنچنا اور اپنی سعی اور کوشش کے ثمرہ کو حاصل کرنا یہ صفت رحیمیت کی تائید سے وقوع میں آتا ہے اور اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے بعد ذکر صفت رحمانیت کے الحديد : ۱۸

Page 585

۵۷۵ صفت رحیمیت کو بیان فرمایا تا معلوم ہو کہ کلام الہی کی تاثیریں جو نفوسِ انسانیہ میں ہوتی ہیں یہ صفت رحیمیت کا اثر ہے جس قدر کوئی اعراض صوری و معنوی سے پاک ہو جاتا ہے جس قدر کسی کے دل میں خلوص اور صدق پیدا ہو جاتا ہے جس قدر کوئی جدو جہد سے متابعت اختیار کرتا ہے اُسی قدر کلام الہی کی تاثیر اس کے دل پر ہوتی ہے اور اسی قدر وہ اس کے انوار سے متمتع ہوتا ہے اور علامات خاصہ مقبولانِ الہی کی اس میں پیدا ہو جاتی ہیں.دوسری صداقت کہ جو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ میں مودع ہے یہ ہے کہ یہ آیت قرآن شریف کے شروع کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس کے پڑھنے سے مدعا یہ ہے کہ تا اس ذات مستجمع جمیع صفات کاملہ سے مدد طلب کی جائے جس کی صفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ رحمان ہے اور طالب حق کے لئے محض تفضل اور احسان سے اسباب خیر اور برکت اور رشد کے پیدا کر دیتا ہے اور دوسری صفت یہ ہے کہ وہ رحیم ہے یعنی سعی اور کوشش کرنے والوں کی کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ اُن کی جدوجہد پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے اور ان کی محنت کا پھل اُن کو عطا فرماتا ہے اور یہ دونوں صفتیں یعنی رحمانیت اور رحیمیت ایسی ہیں کہ بغیر ان کے کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا انجام کو پہنچ نہیں سکتا اور اگر غور کر کے دیکھو تو ظاہر ہو گا کہ دنیا کی تمام مہمات کے انجام دینے کے لئے یہ دونوں صفتیں ہر وقت اور ہر لحظہ کام میں لگی ہوئی ہیں.خدا کی رحمانیت اس وقت سے ظاہر ہو رہی ہے کہ جب انسان ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا.سو وہ رحمانیت انسان کے لئے ایسے ایسے اسباب بہم پہنچاتی ہے کہ جو اس کی طاقت سے باہر ہیں اور جن کو وہ کسی حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کر سکتا اور وہ اسباب کسی عمل کی پاداش میں نہیں دیئے جاتے بلکہ تفضل اور احسان کی راہ سے عطا ہوتے ہیں.جیسے نبیوں کا آنا.کتابوں کا نازل ہونا.بارشوں کا ہونا.سورج اور چاند اور ہوا اور بادل وغیرہ کا اپنے اپنے کاموں میں لگے رہنا اور خود انسان کا طرح طرح کی قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ مشرف ہو کر اس دنیا میں آنا اور تندرستی اور امن اور فرصت اور ایک کافی مدت تک عمر پانا.یہ وہ سب امور ہیں کہ جو صفت رحمانیت کے تقاضا سے ظہور میں آتے ہیں.اسی طرح خدا کی رحیمیت تب ظہور کرتی ہے کہ جب انسان سب تو فیقوں کو پا کر خدا داد قوتوں کو کسی فعل کے انجام کے لئے حرکت دیتا ہے اور جہاں تک اپنا زور اور طاقت اور قوت ہے خرچ کرتا ہے تو اس وقت عادتِ الہیہ اس طرح پر جاری ہے کہ وہ اس کی کوششوں کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اُن کوششوں پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے.پس یہ اس کی سراسر رحیمیت ہے کہ جو انسان کی مردہ محنتوں میں جان ڈالتی ہے.اب جاننا چاہئے کہ آیت ممدوحہ کی تعلیم سے مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف کے شروع کرنے کے ہے.

Page 586

۵۷۶ وقت اللہ تعالیٰ کی ذات جامع صفات کاملہ کی رحمانیت اور رحیمیت سے استمداد اور برکت طلب کی جائے.صفت رحمانیت سے برکت طلب کرنا اس غرض سے ہے کہ تا وہ ذات کامل اپنی رحمانیت کی وجہ سے اُن سب اسباب کو محض لطف اور احسان سے میسر کر دے کہ جو کلام الہی کی متابعت میں جد و جہد کرنے سے پہلے درکار ہیں.جیسے عمر کا وفا کرنا.فرصت اور فراغت کا حاصل ہونا.وقت صفا میسر آجانا طاقتوں اور قوتوں کا قائم ہونا.کوئی ایسا امر پیش نہ آجانا کہ جو آسائش اور امن میں خلل ڈالے.کوئی ایسا مانع نہ آپڑ نا کہ جو دل کو متوجہ ہونے سے روک دے.غرض ہر طرح سے تو فیق عطا کئے جانا یہ سب امور صفت رحمانیت سے حاصل ہوتے ہیں.اور صفت رحیمیت سے برکت طلب کرنا اس غرض سے ہے کہ تا وہ ذات کامل اپنی رحیمیت کی وجہ سے انسان کی کوششوں پر ثمرات حسنہ مرتب کرے.اور انسان کی محنتوں کو ضائع ہونے سے بچاوے اور اس کی سعی اور جدوجہد کے بعد اس کے کام میں برکت ڈالے.پس اس طور پر خدائے تعالیٰ کی دونوں صفتوں رحمانیت اور رحیمیت سے کلام الہی کے شروع کرنے کے وقت بلکہ ہر یک ذیشان کام کے ابتداء میں تبرک اور استمداد چاہنا یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی صداقت ہے جس سے انسان کو حقیقت توحید کی حاصل ہوتی ہے اور اپنے جہل اور بے خبری اور نادانی اور گمراہی اور عاجزی اور خواری پر یقین کامل ہو کر مبدء فیض کی عظمت اور جلال پر نظر جاٹھہرتی ہے اور اپنے تئیں بکتی مفلس اور مسکین اور بیچ اور ناچیز سمجھ کر خداوند قادر مطلق سے اُس کی رحمانیت اور رحیمیت کی برکتیں طلب کرتا ہے اور اگر چہ خدائے تعالیٰ کی یہ صفتیں خود بخود اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں مگر اس حکیم مطلق نے قدیم سے انسان کے لئے یہ قانون قدرت مقرر کر دیا ہے کہ اس کی دُعا اور استمداد کو کامیابی میں بہت سا دخل ہے.جو لوگ اپنی مہمات میں دلی صدق سے دعا مانگتے ہیں اور ان کی دُعا پورے پورے اخلاص تک پہنچ جاتی ہے تو ضرور فیضان الہی ان کی مشکل کشائی کی طرف توجہ کرتا ہے ہر یک انسان جو اپنی کمزوریوں پر نگاہ کرتا ہے اور اپنے قصوروں کو دیکھتا ہے وہ کسی کام پر آزادی اور خود بینی سے ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ سچی عبودیت اس کو یہ سمجھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کہ جو متصرف مطلق ہے اُس سے مدد طلب کرنی چاہئے.یہ کچی عبودیت کا جوش ہر ایک ایسے دل میں پایا جاتا ہے کہ جو اپنی فطرتی سادگی پر قائم ہے.اور اپنی کمزوری پر اطلاع رکھتا ہے.پس صادق آدمی جس کے رُوح میں کسی قسم کے غرور اور عجب نے جگہ نہیں پکڑی اور جو اپنے کمزور اور بیچ اور بے حقیقت وجود پر خوب واقف ہے اور اپنے تئیں کسی کام کے انجام دینے کے لائق نہیں پاتا اور اپنے نفس میں کچھ قوت اور طاقت نہیں دیکھتا جب کسی کام کو شروع

Page 587

۵۷۷ کرتا ہے تو بلا تصنع اُس کی کمزور روح آسمانی قوت کی خواستگار ہوتی ہے اور ہر وقت اس کو خدا کی مقتدر ہستی اپنے سارے کمال و جلال کے ساتھ نظر آتی ہے اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت ہر یک کام کے انجام کے لئے مدار دکھلائی دیتی ہے.پس وہ بلا ساختہ اپنا ناقص اور ناکارہ زور ظاہر کرنے سے پہلے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کی دُعا سے امداد الہی چاہتا ہے پس اس انکسار اور فروتنی کی وجہ سے اس لائق ہو جاتا ہے کہ خدا کی قوت سے قوت اور خدا کی طاقت سے طاقت اور خدا کے علم سے علم پاوے اور اپنی مرادات میں کامیابی حاصل کرے.اس بات کے ثبوت کے واسطے کسی منطق یا فلسفہ کے دلائل پر از تکلف درکار نہیں ہیں بلکہ ہر یک انسان کے رُوح میں اس کے سمجھنے کی استعداد موجود ہے اور عارف صادق کے اپنے ذاتی تجارب اس کی صحت پر بہ تو اتر شہادت دیتے ہیں.بندہ کا خدا سے امداد چاہنا کوئی ایسا امر نہیں ہے جو صرف بے ہودہ اور بناوٹ ہو یا جو صرف بے اصل خیالات پر مبنی ہو اور کوئی معقول نتیجہ اس پر مترتب نہ ہو بلکہ خداوند کریم کہ جو فی الحقیقت قیوم عالم ہے اور جس کے سہارے پر سچ مچ اس عالم کی کشتی چل رہی ہے اس کی عادت قدیمہ کے رو سے یہ صداقت قدیم سے چلی آتی ہے کہ جو لوگ اپنے تئیں حقیر اور ذلیل سمجھ کر اپنے کاموں میں اُس کا سہارا طلب کرتے ہیں اور اس کے نام سے اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں تو وہ اُن کو اپنا سہارا دیتا ہے جب وہ ٹھیک ٹھیک اپنی عاجزی اور عبودیت سے رو بخدا ہو جاتے ہیں تو اُس کی تائید میں اُن کے شامل حال ہو جاتی ہیں.غرض ہر یک شاندار کام کے شروع میں اُس مبدء فیوض کے نام سے مدد چاہنا کہ جو رحمان و رحیم ہے ایک نہایت ادب اور عبودیت اور نیستی اور فقر کا طریقہ ہے اور ایسا ضروری طریقہ ہے کہ جس سے توحید فی الاعمال کا پہلا زینہ شروع ہوتا ہے جس کے التزام سے انسان بچوں کی سی عاجزی اختیار کر کے ان نخوتوں سے پاک ہو جاتا ہے کہ جو دنیا کے مغرور دانشمندوں کے دلوں میں بھری ہوتی ہیں.اور پھر اپنی کمزوری اور امداد الہی پر یقین کامل کر کے اس معرفت سے حصہ پالیتا ہے کہ جو خاص اہل اللہ کو دی جاتی ہے اور بلاشبہ جس قدر انسان اس طریقہ کو لازم پکڑتا ہے جس قدر اس پر عمل کرنا اپنا فرض ٹھہرا لیتا ہے جس قدر اس کے چھوڑنے میں اپنی ہلاکت دیکھتا ہے اُسی قدراس کی تو حید صاف ہوتی ہے اور اُسی قدر تعجب اور خود بینی کی آلائشوں سے پاک ہوتا جاتا ہے اور اسی قدر تکلف اور بناوٹ کی سیاہی اس کے چہرہ پر سے اُٹھ جاتی ہے اور سادگی اور بھولا پن کا نور اس کے منہ پر چمکنے لگتا ہے.پس یہ وہ صداقت ہے کہ جو رفتہ رفتہ انسان کو فنا فی اللہ کے مرتبہ تک پہنچاتی ہے.یہاں تک کہ وہ دیکھتا ہے کہ میرا کچھ بھی اپنا نہیں بلکہ سب کچھ میں خدا سے پاتا ہوں.جہاں کہیں یہ طریق کسی

Page 588

۵۷۸ نے اختیار کیا وہیں تو حید کی خوشبو پہلی دفعہ میں ہی اس کو پہنچے لگتی ہے اور دل اور دماغ کا معطر ہونا شروع ہوتا جاتا ہے.بشرطیکہ قوت شامہ میں کچھ فساد نہ ہو.غرض اس صداقت کے التزام میں طالب صادق کو اپنے بیچ اور بے حقیقت ہونے کا اقرار کرنا پڑتا ہے اور اللہ جل شانہ کے متصرف مطلق اور مبدء فیوض ہونے پر شہادت دینی پڑتی ہے.اور یہ دونوں ایسے امر ہیں کہ جوحق کے طالبوں کا مقصود ہے اور مرتبۂ فنا کے حاصل کرنے کے لئے ایک ضروری شرط ہے.اس ضروری شرط کے سمجھنے کے لئے یہی مثال کافی ہے کہ بارش اگر چہ عالمگیر ہومگر تا ہم اس پر پڑتی ہے کہ جو بارش کے موقعہ پر آ کھڑا ہوتا ہے.اسی طرح جو لوگ طلب کرتے ہیں وہی پاتے ہیں اور جو ڈھونڈتے ہیں انہیں کو ملتا ہے.جو لوگ کسی کام کے شروع کرنے کے وقت اپنے ہنر یا عقل یا طاقت پر بھروسہ رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ پر بھروسہ نہیں رکھتے وہ اس ذات قادر مطلق کا کہ جو اپنی قیومی کے ساتھ تمام عالم پر محیط ہے کچھ قدر شناخت نہیں کرتے اور ان کا ایمان اُس خشک ٹہنی کی طرح ہوتا ہے کہ جس کو اپنے شاداب اور سرسبز درخت سے کچھ علاقہ نہیں رہا اور جو ایسی خشک ہوگئی ہے کہ اپنے درخت کی تازگی اور پھول اور پھل سے کچھ بھی حصہ حاصل نہیں کر سکتے.صرف ظاہری جوڑ ہے جو ذراسی جنبش ہوا سے یا کسی اور شخص کے ہلانے سے ٹوٹ سکتا ہے.پس ایسا ہی خشک فلسفیوں کا ایمان ہے کہ جو قیومِ عالم کے سہارے پر نظر نہیں رکھتے اور اس مبدء فیوض کو جس کا نام اللہ ہے ہر یک طرفہ العین کے لئے اور ہر حال میں اپنا محتاج الیہ قرار نہیں دیتے پس یہ لوگ حقیقی توحید سے ایسے دُور پڑے ہوئے ہیں جیسے نور سے ظلمت دُور ہے.انہیں یہ سمجھ ہی نہیں کہ اپنے تئیں پیچ اور لاشئے سمجھ کر قادر مطلق کی طاقتِ عظمی کے نیچے آپڑنا عبودیت کے مراتب کی آخری حد ہے اور توحید کا انتہائی مقام ہے جس سے فناء اتم کا چشمہ جوش مارتا ہے اور انسان اپنے نفس اور اُس کے ارادوں سے بالکل کھویا جاتا ہے اور سچے دل سے خدا کے تصرف پر ایمان لاتا ہے.اس جگہ اُن خشک فلسفیوں کے اس مقولہ کو بھی کچھ چیز نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو کہتے ہیں کہ کسی کام کے شروع کرنے میں استمداد الہی کی کیا حاجت ہے.خدا نے ہماری فطرت میں پہلے سے طاقتیں ڈال رکھی ہیں پس ان طاقتوں کے ہوتے ہوئے پھر دوبارہ خدا سے طاقت مانگنا تحصیل حاصل ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ بے شک یہ بات سچ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے بعض افعال کے بجالانے کے لئے کچھ کچھ ہم کو طاقتیں بھی دی ہیں مگر پھر بھی اس قیوم عالم کی حکومت ہمارے سر پر سے دُور نہیں ہوئی اور وہ ہم سے الگ نہیں ہوا اور اپنے سہارے سے ہم کو جُدا کرنا نہیں چاہا اور اپنے فیوض غیر متناہی سے ہم کو محروم کرنا روا نہیں رکھا.جو کچھ ہم کو اُس نے دیا ہے

Page 589

۵۷۹ وہ ایک امر محدود ہے اور جو کچھ اس سے مانگا جاتا ہے اُس کی نہایت نہیں.علاوہ اس کے جو کام ہماری طاقت سے باہر ہیں ان کے حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی ہم کو طاقت نہیں دی گئی.اب اگر غور کر کے دیکھو اور ذرا پوری فلسفیت کو کام میں لاؤ تو ظاہر ہو گا کہ کامل طور پر کوئی بھی طاقت ہم کو حاصل نہیں مثلاً ہماری بدنی طاقتیں ہماری تندرستی پر موقوف ہیں اور ہماری تندرستی بہت سے ایسے اسباب پر موقوف ہے کہ کچھ ان میں سے سماوی اور کچھ ارضی ہیں اور وہ سب کی سب ہماری طاقت سے بالکل باہر ہیں اور یہ تو ہم نے ایک موٹی سی بات عام لوگوں کی سمجھ کے موافق کہی ہے لیکن جس قدر در حقیقت وہ قیوم عالم اپنے علت العلل ہونے کی وجہ سے ہمارے ظاہر اور ہمارے باطن اور ہمارے اول اور ہمارے آخر اور ہمارے فوق اور ہمارے تحت اور ہمارے یمین اور ہمارے بیسار اور ہمارے دل اور ہماری جان اور ہمارے رُوح کی تمام طاقتوں پر احاطہ کر رہا ہے وہ ایک ایسا مسئلہ دقیق ہے جس کے کنہ تک عقول بشریہ پہنچ ہی نہیں سکتیں.اور اُس کے سمجھانے کی اس جگہ ضرورت بھی نہیں کیونکہ جس قدر ہم نے اوپر لکھا ہے وہی مخالف کے الزام اور افہام کے لئے کافی ہے.غرض قیوم عالم کے فیوض حاصل کرنے کا یہی طریق ہے کہ اپنی ساری قوت اور زور اور طاقت سے اپنا بچاؤ طلب کیا جائے.اور یہ طریق کچھ نیا طریق نہیں ہے بلکہ یہ وہی طریق ہے جو قدیم سے بنی آدم کی فطرت کے ساتھ لگا چلا آتا ہے.جوشخص عبودیت کے طریقہ پر چلنا چاہتا ہے وہ اسی طریق کو اختیار کرتا ہے اور جو شخص خدا کے فیوض کا طالب ہے وہ اسی راستے پر قدم مارتا ہے اور جو شخص مور د رحمت ہونا چاہتا ہے وہ انہی قوانین قدیمہ کی تعمیل کرتا ہے.یہ قوانین کچھ نئے نہیں ہیں.یہ عیسائیوں کے خدا کی طرح کچھ مستحدث بات نہیں بلکہ خدا کا یہ ایک قانونِ محکم ہے کہ جو قدیم سے بندھا ہوا چلا آتا ہے اور سُنت اللہ ہے کہ جو ہمیشہ سے جاری ہے جس کی سچائی کثرت تجارب سے ہر یک طالب صادق پر روشن ہے.فی الحقیقت ہر ایک برکت اسی راہ سے.آتی ہے کہ وہ ذات جو متصرف مطلق اور علت العلل اور تمام فیوض کا مبدء ہے جس کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ ہے خود متوجہ ہو کر اول اپنی صفت رحمانیت کو ظاہر کرے اور جو کچھ قبل از سعی در کار ہے اُس کو محض اپنے فضل اور احسان سے بغیر توسط عمل کے ظہور میں لاوے پھر جب وہ صفت رحمانیت کی اپنے کام کو بہ تمام و کمال کر چکے اور انسان توفیق پا کر اپنی قوتوں کے ذریعہ سے محنت اور کوشش کا حق بجا لاوے تو پھر دوسرا کام اللہ تعالیٰ کا یہ ہے کہ اپنی صفت رحیمیت کو ظاہر کرے اور جو کچھ بندہ نے محنت اور کوشش کی ہے اُس پر نیک ثمرہ مترتب کرے اور اُس کی محنتوں کو ضائع ہونے سے بچا کر گوہر مراد عطا

Page 590

۵۸۰ ہا فرماوے.اسی صفت ثانی کی رُو سے کہا گیا ہے کہ جو ڈھونڈتا ہے پاتا ہے جو مانگتا ہے اس کو دیا جاتا ہے جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے واسطے کھولا جاتا ہے..یہ شبہ کرنا کہ یہ استعانت بعض اوقات کیوں بے فائدہ اور غیر مفید ہوتی ہے اور کیوں خدا کی رحمانیت و رحیمیت ہر یک وقت استعانت میں بجلی نہیں فرماتی.پس یہ شبہ صرف ایک صداقت کی غلط نہی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ ان دعاؤں کو کہ جو خلوص کے ساتھ کی جائیں ضرور سنتا ہے اور جس طرح مناسب ہو مدد چاہنے والوں کے لئے مدد بھی کرتا ہے.مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی استمداد اور دُعا میں خلوص نہیں ہوتا نہ انسان دلی عاجزی کے ساتھ امداد الہی چاہتا ہے اور نہ اس کی روحانی حالت درست ہوتی ہے.بلکہ اُس کے ہونٹوں میں دعا اور اُس کے دل میں غفلت یا ریاء ہوتی ہے یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا اس کی دُعا کوسن تو لیتا ہے اور اس کے لئے جو کچھ اپنی حکمت کاملہ کے رُو سے مناسب اور اصلح دیکھتا ہے عطا بھی فرماتا ہے لیکن نادان انسان خدا کی ان الطاف خفیہ کو شناخت نہیں کرتا اور باعث اپنے جہل اور بے خبری کے شکوہ اور شکایت شروع کر دیتا ہے اور اس آیت کے مضمون کو نہیں سمجھتا عَلَی اَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرُ لَّكُمْ وَعَلَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ لا یعنی یہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بُری سمجھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے اچھی ہو.اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے بُری ہو.اور خدا چیزوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.اب ہماری اس تمام تقریر سے واضح ہے کہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کس قدر عالی شان صداقت ہے جس میں حقیقی تو حید اور عبودیت اور خلوص میں ترقی کرنے کا نہایت عمدہ سامان موجود ہے جس کی نظیر کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتی.اور اگر کسی کے زعم میں پائی جاتی ہے تو وہ اس صداقت کو معہ تمام دوسری صداقتوں کے جو ہم نیچے لکھتے ہیں نکال کر پیش کرے.اس جگہ بعض کو نہ اندیش اور نادان دشمنوں نے ایک اعتراض بھی بسم اللہ کی بلاغت پر کیا ہے.ان معترضین میں سے ایک صاحب تو پادری عماد الدین نام ہیں جس نے اپنی کتاب ہدایت المسلمین میں اعتراض مندرجہ ذیل لکھا ہے.دوسرے صاحب باوا نرائن سنگھ نام وکیل امرتسری ہیں جنہوں نے پادری کے اعتراض کو سچ سمجھ کر اپنے دلی عناد کے تقاضا کی وجہ سے وہی پوچ اعتراض اپنے رسالہ و ڈ یا پر کا شک میں درج کر دیا ہے.سو ہم اس اعتراض کو معہ جواب اس کے کے لکھنا مناسب سمجھتے ہیں تا منصفین کو البقرة : ۲۱۷

Page 591

۵۸۱ معلوم ہو کہ فرط تعصب نے ہمارے مخالفین کو کس درجہ کی کور باطنی اور نا بینائی تک پہنچا دیا ہے کہ جو نہایت درجہ کی روشنی ہے.وہ ان کو تاریکی دکھائی دیتی ہے اور جو اعلیٰ درجہ کی خوشبو ہے وہ اُس کو بد بو تصور کرتے ہیں.سواب جاننا چاہئے کہ جو اعتراض بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیم کی بلاغت پر مذکورہ بالا لوگوں نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ الرحمن الرحیم جو بسم اللہ میں واقع ہے یہ صحیح طرز پر نہیں.اگر رحیم الرحمن ہوتا تو یہ فصیح اور صحیح طرز تھی کیونکہ خدا کا نام رحمن باعتبار اس رحمت کے ہے کہ جوا کثر اور عام ہے اور رحیم کا لفظ بہ نسبت رحمن کے اس رحمت کے لئے آتا ہے کہ جو قلیل اور خاص ہے.اور بلاغت کا کام یہ ہے کہ قلت سے کثرت کی طرف انتقال ہو نہ یہ کہ کثرت سے قلت کی طرف.یہ اعتراض ہے کہ ان دونوں صاحبوں نے اپنی آنکھیں بند کر کے اس کلام پر کیا ہے جس کلام کی بلاغت کو عرب کے تمام اہل زبان جن میں بڑے بڑے شاعر بھی تھے باوجو د سخت مخالفت کے تسلیم کر چکے ہیں بلکہ بڑے بڑے معاند اس کلام کی شانِ عظیم سے نہایت درجہ تعجب میں پڑ گئے اور اکثر اُن میں سے کہ جو فصیح اور بلیغ کلام کے اسلوب کو بخوبی جانے پہچانے والے اور مذاق سخن سے عارف اور با انصاف تھے وہ طرز قرآنی کو طاقت انسانی سے باہر دیکھ کر ایک معجزہ عظیم یقین کر کے ایمان لے آئے.جن کی شہادتیں جا بجا قرآن شریف میں درج ہیں.افسوس یہ کہ اس نادان عیسائی کو اب تک یہ بھی خبر نہیں کہ بلاغت حقیقی اس امر میں محدود نہیں کہ قلیل کو کثیر پر ہر جگہ اور ہر محل میں خواہ نخواہ مقدم رکھا جائے بلکہ اصل قاعدہ بلاغت کا یہ ہے کہ اپنے کلام کو واقعی صورت اور مناسب وقت کا آئینہ بنایا جاوے.سو اس جگہ بھی رحمان کو رحیم پر مقدم کرنے میں کلام کو واقعی صورت اور ترتیب کا آئینہ بنایا گیا ہے.چنانچہ اس ترتیب طبعی کا مفصل ذکر ابھی سورۃ فاتحہ کی آئندہ آیتوں میں آوے گا.( براہین احمدیہ ہر چہار تصص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۱۴ تا ۴۳۵ حاشیہ نمبر۱۱) ایک خاصہ روحانی سورۃ فاتحہ میں یہ ہے کہ دلی حضور سے اپنی نماز میں اس کو ورد کر لینا اور اُس کی تعلیم کو فی الحقیقت سچ سمجھ کر اپنے دل میں قائم کر لینا تنویر باطن میں نہایت دخل رکھتا ہے یعنی اس سے انشراح خاطر ہوتا ہے اور بشریت کی ظلمت دور ہوتی ہے اور حضرت مبدء فیوض کے فیوض انسان پر وارد ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اور قبولیتِ الہی کے انوار اس پر احاطہ کر لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ ترقی کرتا کرتا مخاطبات الہیہ سے سرفراز ہو جاتا ہے اور کشوف صادقہ اور الہامات واضحہ سے تمتع تام حاصل کرتا ہے اور حضرت الوہیت کے مقربین میں دخل پالیتا ہے اور وہ وہ عجائبات القائے غیبی اور کلام لا ریبی اور

Page 592

۵۸۲ استجابت ادعیہ اور کشف مغیبات اور تائید حضرت قاضی الحاجات اُس سے ظہور میں آتی ہیں کہ جس کی نظیر اس کے غیر میں نہیں پائی جاتی.اگر مخالفین اس سے انکار کریں اور غالبا انکار ہی کریں گے تو اس کا ثبوت اس کتاب میں دیا گیا ہے.اور یہ احقر ہر یک طالب حق کی تسلی کرنے کو طیار ہے اور نہ صرف مخالفین کو بلکہ اسمی اور رسمی موافقین کو بھی جو بظاہر مسلمان ہیں مگر مجوب مسلمان اور قالب بے جان ہیں جن کو اس پر ظلمت زمانہ میں آیات سماویہ پر یقین نہیں رہا.اور الہاماتِ حضرتِ احدیت کو محال خیال کرتے ہیں.اور از قبیل اوہام اور وساوس قرار دیتے ہیں.جنہوں نے انسان کی ترقیات کا نہایت تنگ اور منقبض دائرہ بنا رکھا ہے کہ جو صرف عقلی انکلوں اور قیاسی ڈھکوسلوں پر ختم ہوتا ہے اور دوسری طرف خدائے تعالیٰ کو بھی نہایت درجہ کا کمزور اور ضعیف سا خیال کر رہے ہیں.سو یہ عاجز ان سب صاحبوں کی خدمت میں بادب تمام عرض کرتا ہے کہ اگر اب تک تاثیرات قرآنی سے انکار ہے اور اپنے جہل قدیم پر اصرار ہے تو اب نہایت نیک موقعہ ہے کہ یہ احقر خادمین اپنے ذاتی تجارب سے ہر یک منکر کی پوری پوری اطمینان کر سکتا ہے.اس لئے مناسب ہے کہ طالب حق بن کر اس احقر کی طرف رجوع کریں اور جو جو خواص کلام الہی کا اوپر ذکر کیا گیا ہے.اس کو بچشم خود دیکھ لیں اور تاریکی اور ظلمت میں سے نکل کر نور حقیقی میں داخل ہو جائیں.اب تک تو یہ عاجز زندہ ہے مگر وجود خا کی کی کیا بنیاد اور جسم فانی کا کیا اعتماد.پس مناسب ہے کہ اس عام اعلان کو سنتے ہی احقاق حق اور ابطال باطل کی طرف توجہ کریں.تا اگر دعویٰ اس احقر کا بہ پایۂ ثبوت نہ پہنچ سکے تو منکر اور روگردان رہنے کے لئے ایک وجہ موجہ پیدا ہو جائے لیکن اگر اس عاجز کے قول کی صداقت جیسا کہ چاہئے یہ پایہ ثبوت پہنچ جائے تو خدا سے ڈر کر اپنے باطل خیالات سے باز آئیں اور طریقہ حقہ اسلام پر قدم جما دیں تا اس جہان میں ذلت اور رسوائی سے اور دوسرے جہان میں عذاب اور عقوبت سے نجات پاویں.سو دیکھواے بھائیو! اے عزیزو! اے فلاسفرو! اے پنڈ تو! اے پادریو! اے آریو! اے نیچر یو! اے براہم دھرم والو! کہ میں اس وقت صاف صاف اور اعلانیہ کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی کو شک ہو اور خاصہ مذکورہ بالا کے ماننے میں کچھ تامل ہو تو وہ بلا تو قف اس عاجز کی طرف رجوع کریں اور صبوری اور صدق دلی سے کچھ عرصہ تک صحبت میں رہ کر بیانات مذکورہ بالا کی حقیقت کو بچشم خود دیکھ لے ایسا نہ ہو کہ اس ناچیز کے گذرنے کے بعد کوئی نامنصف کہے کہ کب مجھ کو کھول کر کہا گیا کہ تا میں اس جستجو میں پڑتا.کب کسی نے اپنی ذمہ داری سے دعوی کیا تا میں ایسے دعوی کا ثبوت اس سے مانگتا.سواے بھائیو! اے حق کے طالبو! ادھر دیکھو کہ یہ عاجز کھول کر کہتا ہے

Page 593

۵۸۳ اور اپنے خدا پر توکل کر کے جس کے انوار دن رات دیکھ رہا ہے اس بات کا ذمہ وار بنتا ہے کہ اگر تم دلی صدق اور صفائی سے حق کے جو یاں اور خواہاں ہو کر صبر اور ارادت سے کچھ مدت تک اس احقر کی صحبت میں زندگی بسر کرو گے تو یہ بات تم پر بدیہی طور پر کھل جائے گی کہ فی الحقیقت وہ خواص روحانی جن کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں.سو کیا مبارک وہ شخص ہے کہ جو اپنے دل کو تعصب اور عناد سے خالی کر کے اور اسلام کے قبول کرنے پر مستعد ہو کر اس مطلب کے حصول کے لئے بصدق وارادت توجہ کرے.اور کیا بدقسمت وہ آدمی ہے کہ اس قدر واشگاف باتیں سن کر پھر بھی نظر اٹھا کر نہ دیکھے اور دیدہ و دانستہ خدائے تعالیٰ کی لعنت اور غضب کا مورد بن جاوے.مرگ نہایت نزدیک ہے اور بازی اجل سر پر ہے.براہین احمدیہ ہر چہار تخصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۲۶ تا ۶۳۵ حاشیہ نمبر۱۱) سورۃ فاتحہ مجمل طور پر تمام مقاصد قرآن شریف پر مشتمل ہے گویا یہ سورۃ مقاصد قر آنیہ کا ایک ایجاز لطیف ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے.وَلَقَدْ أَتَيْنَكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ لا یعنی ہم نے تجھے اے رسول سات آیتیں سورۃ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قرآنیہ پر مشتمل ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطا فرمایا ہے جو مفصل طور پر مقاصد دینیہ کو ظاہر کرتا ہے.اور اسی جہت سے اس سورۃ کا نام ام الکتاب اور سورۃ الجامع ہے ام الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قرآنیہ اس سے مستخرج ہوتے ہیں اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمالی مشتمل ہے.اسی جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھا گویا اُس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا.غرض قرآن شریف اور احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ سورۃ فاتحہ ممدوحہ ایک آئینہ قرآن نما ہے.اس کی تصریح یہ ہے کہ قرآن شریف کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمام محامد کا ملہ باری تعالیٰ کو بیان کرتا ہے.اور اس کی ذات کے لئے جو کمال نام حاصل ہے اس کو بوضاحت بیان فرماتا ہے.سو یہ مقصد الْحَمدُ لِلَّهِ میں بطور اجمال آ گیا کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تمام محامد کاملہ اللہ کے لئے ثابت ہیں جو ستجمع جمیع کمالات اور مستحق جمیع عبادات ہے.دوسرا مقصد قرآن شریف کا یہ ہے کہ وہ خدا کا صانع کامل ہونا اور خالق العالمین ہونا ظاہر کرتا ہے الحجر : ۸۸

Page 594

۵۸۴ اور عالم کے ابتداء کا حال بیان فرماتا ہے اور جو دائرہ عالم میں داخل ہو چکا اس کو مخلوق ٹھہراتا ہے.اور ان امور کے جو لوگ مخالف ہیں اُن کا کذب ثابت کرتا ہے سو یہ مقصد رَبّ الْعَلَمِینَ میں بطورا جمال آ گیا..تیسرا مقصد قرآن شریف کا خدا کا فیضان بلا استحقاق ثابت کرنا اور اس کی رحمتِ عامہ کا بیان کرنا ہے سو یہ مقصد لفظ رحمن میں بطورا جمال آ گیا.چوتھا مقصد قرآن شریف کا خدا کا وہ فیضان ثابت کرنا ہے جو محنت اور کوشش پر مترتب ہوتا ہے سو یہ مقصد لفظ رحیم میں آ گیا.پانچواں مقصد قرآن شریف کا عالم معاد کی حقیقت بیان کرنا ہے سو یہ مقصد ملِكِ يَوْمِ الدین میں آ گیا.چھٹا مقصد قرآن شریف کا اخلاص اور عبودیت اور تزکیہ نفس عن غیر اللہ اور علاج امراض روحانی اور اصلاح اخلاق رڈیہ اور توحید فی العبادت کا بیان کرنا ہے سو یہ مقصد اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں بطور اجمال آ گیا.ساتواں مقصد قرآن شریف کا ہر ایک کام میں فاعل حقیقی خدا کو ٹھہرانا اور تمام تو فیق اور لطف اور نصرت اور ثبات علی الطاعت اور عصمت عن العصیان اور حصولِ جمیع اسباب خیر اور صلاحیت دنیا و دین اُسی کی طرف سے قرار دینا اور ان تمام امور میں اُسی سے مدد چاہنے کے لئے تاکید کرنا سو یہ مقصد إِيَّاكَ نَسْتَعِین میں بطور اجمال آ گیا.آٹھواں مقصد قرآن شریف کا صراط مستقیم کے دقائق کو بیان کرنا ہے اور پھر اس کی طلب کے لئے تاکید کرنا کہ دعا اور تضرع سے اُس کو طلب کریں سو یہ مقصد اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں بطور اجمال کے آ گیا.نواں مقصد قرآن شریف کا ان لوگوں کا طریق و خلق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا انعام وفضل ہوا تا طالبین حق کے دل جمعیت پکڑیں.سو یہ مقصد صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں آ گیا.دسوان مقصد قرآن شریف کا اُن لوگوں کا خلق و طریق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا غضب ہوا یا جو راستہ بھول کر انواع اقسام کی بدعتوں میں پڑ گئے تا حق کے طالب ان کی راہوں سے ڈریں سو یہ مقصد غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ میں بطور اجمال آ گیا ہے.

Page 595

۵۸۵ یہ مقاصد عشرہ ہیں جو قرآن شریف میں مندرج ہیں جو تمام صداقتوں کا اصل الاصول ہیں.سو یہ تمام مقاصد سورۃ فاتحہ میں بطور اجمال آگئے.براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد اصفحه۵۸۰ تا ۵۸۵ حاشیہ نمبر۱۱) یاد رہے کہ اکیلی عقل کو ماننے والے جیسے علم اور معرفت اور یقین میں ناقص ہیں ویسا ہی عمل اور وفاداری اور صدق قدم میں بھی ناقص اور قاصر ہیں.اور ان کی جماعت نے کوئی ایسا نمونہ قائم نہیں کیا جس سے یہ ثبوت مل سکے کہ وہ بھی ان کروڑہا مقدس لوگوں کی طرح خدا کے وفادار اور مقبول بندے ہیں کہ جن کی برکتیں ایسی دنیا میں ظاہر ہوئیں کہ ان کے وعظ اور نصیحت اور دعا اور توجہ اور تاثیر صحبت سے صد ہا لوگ پاک روش اور باخدا ہو کر ایسے اپنے مولیٰ کی طرف جھک گئے کہ دنیا و مافیہا کی کچھ پرواہ نہ رکھ کر اور اس جہان کی لذتوں اور راحتوں اور خوشیوں اور شہرتوں اور فخروں اور مالوں اور ملکوں سے بالکل قطع نظر کر کے اس سچائی کے راستہ پر قدم مارا جس پر قدم مارنے سے اُن میں سے سینکڑوں کی جانیں تلف ہوئیں ہزار ہا سر کاٹے گئے لاکھوں مقدسوں کے خون سے زمین تر ہو گئی پر باوجود ان سب آفتوں کے انہوں نے ایسا صدق دکھایا کہ عاشق دلدادہ کی طرح پایز نجیر ہو کر ہنستے رہے اور دُکھ اُٹھا کر خوش ہوتے رہے اور بلاؤں میں پڑ کر شکر کرتے رہے اور اُسی ایک کی محبت میں وطنوں سے بے وطن ہو گئے اور عزت سے ذلت اختیار کی اور آرام سے مصیبت کو سر پر لے لیا اور تو نگری سے مفلسی قبول کر لی اور ہر یک پیوند و رابطہ اور خویشی سے غریبی اور تنہائی اور بے کسی پر قناعت کی اور اپنے خون کے بہانے سے اور اپنے سروں کے کٹانے سے اور اپنی جانوں کے دینے سے خدا کی ہستی پر مہریں لگا دیں اور کلام الہی کی کچی متابعت کی برکت سے وہ انوار خاصہ اُن میں پیدا ہو گئے کہ جو ان کے غیر میں کبھی نہیں پائے گئے.اور ایسے لوگ نہ صرف پہلے زمانوں میں موجود تھے بلکہ یہ برگزیدہ جماعت ہمیشہ اہل اسلام میں پیدا ہوتی رہتی ہے اور ہمیشہ اپنے نورانی وجود سے اپنے مخالفین کو ملزم ولا جواب کرتی آئی ہے.لہذا منکرین پر ہماری یہ حجت بھی تمام ہے کہ قرآن شریف جیسے مراتب علمیہ میں اعلیٰ درجہ کمال تک پہنچاتا ہے ویسا ہی مراتب عملیہ کے کمالات بھی اسی کے ذریعہ سے ملتے ہیں اور آثار و انوار قبولیت حضرت احدیت انہیں لوگوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ظاہر ہوتے ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کی متابعت اختیار کی ہے دوسروں میں ہرگز ظاہر نہیں ہوتے.پس طالب حق کے لئے یہی دلیل جس کو وہ بچشم خود معائنہ کر سکتا ہے کافی ہے یعنی یہ کہ آسمانی برکتیں اور ربانی نشان صرف قرآن شریف کے کامل تابعین میں

Page 596

۵۸۶ پائے جاتے ہیں اور دوسرے تمام فرقے کہ جو حقیقی اور پاک الہام سے روگردان ہیں کیا برہمو اور کیا آریہ اور کیا عیسائی وہ اس نور صداقت سے بے نصیب اور بے بہرہ ہیں.چنانچہ ہر یک منکر کی تسلی کرنے کے لئے ہم ہی ذمہ اُٹھاتے ہیں بشرطیکہ وہ سچے دل سے اسلام قبول کرنے پر مستعد ہو کر پوری پوری ارادت اور استقامت اور صبر اور صداقت سے طلب حق کے لئے اس طرف تکلیف کش ہو.براہین احمدیہ ہر چہار تصص.روحانی خزائن جلد اصفه۳۵۰ تا ۳۵۲ حاشیہ نمبر۱۱) اور جس قدر قرآن شریف میں قصے ہیں وہ بھی درحقیقت قصے نہیں بلکہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو قصوں کے رنگ میں لکھی گئی ہیں.ہاں وہ توریت میں تو ضرور صرف قصے پائے جاتے ہیں مگر قرآن شریف نے ہر ایک قصہ کو رسول کریم کے لئے اور اسلام کے لئے ایک پیشگوئی قرار دے دیا ہے اور یہ قصوں کی پیشگوئیاں بھی کمال صفائی سے پوری ہوئی ہیں.غرض قرآن شریف معارف و حقائق کا ایک دریا ہے اور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی انسان بجز ذریعہ قرآن شریف کے پورے طور پر خدا تعالیٰ پر یقین لا سکے کیونکہ یہ خاصیت خاص طور پر قرآن شریف میں ہی ہے کہ اس کی کامل پیروی سے وہ پر دے جو خدا میں اور انسان میں حائل ہیں سب دور ہو جاتے ہیں.ہر ایک مذہب والا محض قصہ کے طور پر خدا کا نام لیتا ہے مگر قرآن شریف اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلا دیتا ہے اور یقین کا نور انسان کے دل میں داخل کر دیتا ہے.اور وہ خدا جو تمام دنیا پر پوشیدہ ہے وہ محض قرآن شریف کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۲،۲۷۱) قرآن کریم صرف اپنی بلاغت و فصاحت ہی کے رو سے بے نظیر نہیں بلکہ اپنی ان تمام خوبیوں کی رو سے بے نظیر ہے جن خوبیوں کا جامع وہ خود اپنے تئیں قرار دیتا ہے اور یہی صحیح بات بھی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ صادر ہے اُس کی صرف ایک خوبی ہی بے مثل نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہر یک خوبی بے مثل ہو گی.بلاشبہ جو لوگ قرآن کریم کو غیر محدود حقائق اور معارف کا جامع نہیں سمجھتے وہ مَا قَدَرُوا القُرْآنَ حَقَّ قَدْرِہ میں داخل ہیں.خدا تعالیٰ کی پاک اور سچی کلام کو شناخت کرنے کے لئے یہ ایک ضروری نشانی ہے کہ وہ اپنی جمیع صفات میں بے مثل ہو کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز خدا تعالیٰ سے صادر ہوئی ہے اگر مثلاً ایک جو کا دانہ ہے وہ بھی بے نظیر ہے اور انسانی طاقتیں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں.اور بے مثل ہونا غیر محدود ہونے کو مستلزم ہے یعنی ہر یک چیز اسی حالت میں بے نظیر ٹھہر سکتی ہے جبکہ اس کی عجائبات اور خواص کی کوئی حد اور کنارہ نظر نہ آوے اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں یہی خاصیت

Page 597

۵۸۷ مشتمل خدا تعالی کی ہر یک مخلوق میں پائی جاتی ہے مثلاً اگر ایک درخت کے پتے کی عجائبات کی ہزار برس تک بھی تحقیقات کی جائے تو وہ ہزار برس ختم ہو جائے گا مگر اس پتے کے عجائبات ختم نہیں ہوں گے اور اس میں ستر یہ ہے کہ جو چیز غیر محدود قدرت سے وجود پذیر ہوئی ہے اس میں غیر محدود عجائبات اور خواص کا پیدا ہونا ایک لازمی اور ضروری امر ہے اور یہ آیت کہ قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّيٌّ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا اپنے ایک معنے کی رُو سے اسی امر کی مؤید ہے کیونکہ مخلوقات اپنے مجازی معنوں کی رُو سے تمام کلمات اللہ ہی ہیں...سو ان معنوں کے رو سے اس آیت کا یہی مطلب ہوا کہ خواص مخلوقات بے حد اور بے نہایت ہیں اور جبکہ ہر یک چیز اور ہر یک مخلوق کے خواص بے حد اور بے نہایت ہیں اور ہر یک چیز غیر محدود عجائبات پرشت ہے تو پھر کیونکر قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کا پاک کلام ہے صرف ان چند معانی میں محدود ہو گا کہ جو چالیس پچاس یا مثلاً ہزار جزو کی کسی تفسیر میں لکھے ہوں یا جس قدر ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک زمانہ محدود میں بیان کئے ہوں نہیں بلکہ ایسا کلمہ مُنہ پر لانا میرے نزدیک قریب قریب کفر کے ہے اگر عمداً اس پر اصرار کیا جائے تو اندیشہ کفر ہے.یہ بیچ ہے کہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے معنے بیان فرمائے ہیں وہی صحیح اور حق ہیں.مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ جو کچھ قرآن کریم کے معارف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے اُن سے زیادہ قرآن کریم میں کچھ بھی نہیں.یہ اقوال ہمارے مخالفوں کے صاف دلالت کر رہے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی غیر محدودہ عظمتوں اور خوبیوں پر ایمان نہیں لاتے اور ان کا یہ کہنا کہ قرآن کریم ایسوں کے لئے اُترا ہے جو امی تھے اور بھی اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ وہ قرآن شناسی کی بصیرت سے بکلی بے بہرہ ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محض امیوں کے لئے نہیں بھیجے گئے بلکہ ہر یک رتبہ اور طبقہ کے انسان ان کی امت میں داخل ہیں.الله جلّ شانہ فرماتا ہے.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعًا ت پر اس آیت سے ثابت ہے کہ قرآن کریم ہر یک استعداد کی تکمیل کے لئے نازل ہوا ہے اور درحقیقت آیت وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ البِ سے میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے.پس یہ خیال کہ گویا جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کے بارہ میں بیان فرمایا اس سے بڑھ کر ممکن نہیں بدیہی البطلان ہے.ہم نہایت قطعی اور یقینی دلائل سے ثابت کر چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کلام الكهف : ١١٠ الاعراف : ۱۵۹ الاحزاب : ۴۱

Page 598

۵۸۸ کے لئے ضروری ہے کہ اس کا عجائبات غیر محدود اور نیز بے مثل ہوں اور اگر یہ اعتراض ہو کہ اگر قرآن کریم میں ایسے عجائبات اور خواص مخفیہ تھے تو پہلوں کا کیا گناہ تھا کہ اُن کو ان اسرار سے محروم رکھا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بکلی اسرار قرآنی سے محروم تو نہیں رہے بلکہ جس قدر معلومات عرفانیہ خدا تعالیٰ کے ارادہ میں اُن کے لئے بہتر تھے وہ ان کو عطا کئے گئے اور جس قدر اس زمانہ کی ضرورتوں کے موافق اس زمانہ میں اسرار ظاہر ہونے ضروری تھے وہ اس زمانہ میں ظاہر کئے گئے مگر وہ باتیں جو مدار ایمان ہیں اور جن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص مسلمان کہلا سکتا ہے.وہ ہر زمانہ میں برابر طور پر شائع ہوتی رہیں.میں متعجب ہوں کہ ان ناقص الفہم مولویوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ خدا تعالیٰ پر یہ حق واجب ہے کہ جو کچھ آئندہ زمانہ میں بعض آلاء ونعماء حضرت باری عزّ اسمۂ ظاہر ہوں پہلے زمانہ میں بھی اُن کا ظہور ثابت ہو.کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۶۰ تا ۶۲) جاننا چاہئے کہ سب سے اوّل معیار تفسیر صحیح کا شواہد قرآنی ہیں.یہ بات نہایت توجہ سے یا د رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم اور معمولی کتابوں کی طرح نہیں جو اپنی صداقتوں کے ثبوت یا انکشاف کے لئے دوسرے کا محتاج ہو.وہ ایک ایسی متناسب عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ ہلانے سے تمام عمارت کی شکل بگڑ جاتی ہے.اس کی کوئی صداقت ایسی نہیں ہے جو کم سے کم دس یا ہیں شاہد اُس کے خود اُسی میں موجود نہ ہوں.سو اگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک معنے کریں تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ان معنوں کی تصدیق کے لئے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں.اگر دوسرے شواہد دستیاب نہ ہوں بلکہ ان معنے کی دوسری آیتوں سے صریح معارض پائے جاویں تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ وہ معنے بالکل باطل ہیں کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو اور سچے معنوں کی یہی نشانی ہے کہ قرآن کریم میں سے ایک لشکر شواہد پینہ کا اس کا مصدق ہو.دوسرا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کریم کے معنے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلا توقف اور بلا دغدغہ قبول کرے.نہیں تو اس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہو گی.تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت کے نوروں کو

Page 599

۵۸۹ حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خدا تعالیٰ کا اُن پر بڑا فضل تھا.اور نصرت الہی اُن کی قوت مدرکہ کے ساتھ تھی کیونکہ اُن کا نہ صرف قال بلکہ حال تھا.چوتھا معیار خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے.کیونکہ نفس مطہرہ سے قرآن کریم کو مناسبت ہے اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ لا یعنی قرآن کریم کے حقائق صرف اُن پر کھلتے ہیں جو پاک دل ہوں.کیونکہ مطہر القلب انسان پر قرآن کریم کے پاک معارف بوجہ مناسبت کھل جاتے ہیں اور وہ اُن کو شناخت کر لیتا ہے.اور سونگھ لیتا ہے اور اُس کا دل بول اُٹھتا ہے کہ ہاں یہی راہ کچی ہے اور اُس کا نور قلب سچائی کی پرکھ کے لئے ایک عمدہ معیار ہوتا ہے.پس جب تک انسان صاحب حال نہ ہو اور اس تنگ راہ سے گذرنے والا نہ ہو جس سے انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں تب تک مناسب ہے کہ گستاخی اور تکبر کی جہت سے مفسر القرآن نہ بن بیٹھے ورنہ وہ تفسیر بالرائے ہوگی جس سے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مَنْ فَسَّرَ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ یعنی جس نے صرف اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کی اور اپنے خیال میں اچھی کی تب بھی اُس نے بُری تفسیر کی.پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے.لیکن قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کر دیئے ہیں کہ چنداں لغات عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں.ہاں موجب زیادتِ بصیرت بے شک ہے بلکہ بعض اوقات قرآن کریم کے اسرار مخفیہ کی طرف لغت کھودنے سے توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور ایک بھید کی بات نکل آتی ہے.چھٹا معیار روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لئے سلسلہ جسمانی ہے کیونکہ خدا وند تعالیٰ کے دونوں سلسلوں میں بکلی تطابق ہے.ساتواں معیار وحی کولایت اور مکاشفات محدثین ہیں اور یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہے کیونکہ صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ اُس پر وہ سب امور بطور انعام اکرام کے وارد ہو جاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں.سو اس کا بیان محض انکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور سن کر بولتا ہے اور یہ راہ اس الواقعة: ٨٠

Page 600

۵۹۰ اُمت کے لئے کھلی ہے.ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے.بركات الدعاء.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۱۷ تا ۲۱) یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم الہی کلام کی کسی آیت میں تغییر اور تبدیل اور تقدیم اور تا خیر اور فقرات تراشی کے مجاز نہیں ہیں.مگر صرف اس صورت میں کہ جب خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو اور یہ ثابت ہو جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ بذات خود ایسی تغییر اور تبدیل کی ہے اور جب تک ایسا ثابت نہ ہو تو ہم قرآن کی ترصیع اور ترتیب کو زیر وزبر نہیں کر سکتے اور نہ اس میں اپنی طرف سے بعض فقرات ملا سکتے ہیں اور اگر ایسا کریں تو عند اللہ مجرم اور قابل مواخذہ ہیں.(اتمام الحجة - روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۹۱) اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ قرآن کریم دس قسم کے نظام مفردات پر مشتمل ہے.(۱) ایسے مفردات کا نظام جن میں بیان وجود باری اور دلائل وجود باری اور نیز خدا تعالیٰ کی ایسے صفات اور اسماء اور افعال اور سنن اور عادات کا بیان ہے کہ جو باہمی امتیازوں کے ساتھ اللہ جل شانه کی ذات سے مخصوص ہیں.اور نیز وہ کلمات جو اس کی اس کامل مدح اور ثنا کے متعلق ہیں جو بیان جلال اور جمال اور عظمت اور کبریائی کے بارے میں ہیں.(۲) اُن مفردات کا نظام جو تو حید باری اور دلائل توحید باری پر (۳) اُن مفردات کا نظام جن میں وہ صفات اور افعال اور اعمال اور عادات اور کیفیات روحانیہ یا نفسانیہ بیان کی گئی ہیں جو باہمی امتیازوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے سامنے اس کی مرضی کے موافق یا خلاف مرضی بندوں سے صادر ہوتی ہیں یا ظہور و بروز میں آتی ہیں.مشتمل ہیں.(۴) ان مفردات کا نظام جو وصایا اور تعلیم اخلاق اور عقائد اور حقوق اللہ اور حقوق العباد اور علوم حکمیہ اور حدود اور احکام اور اوامر اور نہی اور حقائق و معارف کے رنگ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کامل ہدایتیں ہیں.(۵) ان مفردات کا نظام جن میں بیان کیا گیا ہے کہ نجات حقیقی کیا شے ہے اور اُس کے حصول کے لئے حقیقی وسائل اور ذرائع کیا کیا ہیں اور نجات یافتہ مومنوں اور مقربوں کے آثار اور علامات کیا ہیں.(1) اُن مفردات کا نظام جن میں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کیا شے ہے اور کفر اور شرک کیا شے ہے اور اسلام کی حقیت پر دلائل اور نیز اعتراضات کی مدافعت ہے.

Page 601

۵۹۱ (۷) ایسے مفردات کا نظام جو مخالفین کے تمام عقائد باطلہ کا رڈ کرتے ہیں.(۸) ایسے مفردات کا نظام جو انذارا اور تبشیر اور وعد اور وعید اور عالم معاد کے بیان کے رنگ میں یا معجزات کی صورت میں یا مثالوں کے طور پر یا ایسی پیشگوئیوں کی صورت میں جو موجب زیادتِ ایمان یا اور مصالح پر مشتمل ہوں یا ایسے قصوں کی طرز میں جو تنبیہ یا ڈرانے یا خوشخبری دینے کی غرض سے ہوں مرتب کیا گیا ہے.(1) ایسے مفردات کا نظام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح اور پاک صفات اور آنجناب کی پاک زندگی کے اعلی نمونہ پر مشتمل ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے دلائل کا ملہ بھی ہیں.(۱۰) ایسے مفردات کا نظام جو قرآن کریم کے صفات اور تاثیرات اور اس کے ذاتی خواص کو بیان کرتے ہیں.یہ دن نظام وہ ہیں جو اپنے کمال تام کی وجہ سے دس دائروں کی طرح قرآن میں پائے جاتے ہیں جن کو دوائر عشرہ سے موسوم کر سکتے ہیں.ان دس دائروں میں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے پاکیزہ اور باہمی امتیاز رکھنے والے مفردات سے کام لیا ہے جو عقل سلیم فی الفور گواہی دیتی ہے کہ یہ اکمل اور اتم سلسلہ مفردات کا اسی لئے عربی میں مقرر کیا گیا تھا کہ تا قرآن کا خادم ہو.یہی وجہ ہے کہ یہ سلسلہ مفردات کا قرآن کریم کی تعلیمی نظام سے جو اکمل اور اتم ہے بالکل مطابق آ گیا لیکن دوسری زبانوں کے مفردات کا سلسلہ ان کتابوں کے تعلیمی نظام سے ہرگز مطابق نہیں آتا جو الہی کتابیں کہلاتی ہیں اور جن کا ان زبانوں میں نازل ہونا بیان کیا گیا ہے اور نہ دوائر عشرہ مذکورہ ان کتابوں میں پائے جاتے ہیں.پس ان کتابوں کے ناقص ہونے کی وجوہ سے یہ بھی ایک بھاری وجہ ہے کہ وہ دوائر ضرور یہ سے بے بہرہ اور نیز زبان کے مفردات ان کتابوں کی تعلیم سے وفا نہیں کر سکے اور اس میں بھید یہی ہے کہ وہ کتا بیں حقیقی کتا بیں نہیں تھیں بلکہ وہ صرف چند روزہ کا رروائی تھی حقیقی کتاب دنیا میں ایک ہی آئی جو ہمیشہ کے لئے انسانوں کی بھلائی کے لئے تھی.لہذا وہ دوائر عشرہ کاملہ کے ساتھ نازل ہوئی اور اس کے مفردات کا نظام تعلیمی نظام کا بالکل ہم وزن اور ہم پلہ تھا اور ہر یک دائرہ اس کا دوائر عشرہ میں سے اپنے طبیعی نظام کے اندازہ اور قدر پر مفردات کا نظام ساتھ رکھتا تھا جس میں الہی صفات کے اظہار کے لئے اور اقسام اربعہ مذکورہ کے مدارج بیان کرنے کی غرض سے الگ الگ الفاظ مفردہ مقرر تھے اور ہر یک تعلیم کے دائرہ کے موافق

Page 602

۵۹۲ مفردات کا کامل دائرہ موجود تھا.( من الرحمن.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۵۰ تا ۱۵۲ حاشیه ) ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں.کیونکہ اللہ جلّ شانہ فرماتا ہے وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانَا لِكُلِّ شَيْءٍ ے یعنی ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے اور پھر فرماتا ہے مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شَيْءٍ کے یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی لیکن ساتھ اس کے یہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اس کی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں بلکہ یہ خاص طور پر ان کا کام ہے جو وحی الہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمی مدد دیئے گئے ہوں.سو ایسے لوگوں کے لئے جو استخراج و استنباط معارف قرآنی پر بعلت غیر ملہم ہونے کے قادر نہیں ہو سکتے یہی سیدھی راہ ہے کہ وہ بغیر قصد استخراج و استنباط قرآن کے ان تمام تعلیمات کو جو سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے ملی ہیں بلا تامل و توقف قبول کر لیں اور جو لوگ وحی ولایت عظمیٰ کی روشنی سے منور ہیں اور إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کے گروہ میں داخل ہیں.اُن سے بلاشبہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً دقائق مخفیہ قرآن کے اُن پر کھولتا رہتا ہے اور یہ بات اُن پر ثابت کر دیتا ہے کہ کوئی زائد تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز نہیں دی بلکہ احادیث صحیحہ میں مجملات وارشادات قرآن کریم کی تفصیل ہے.سو اس معرفت کے پانے سے اعجاز قرآن کریم اُن پر کھل جاتا ہے اور نیز ان آیات بینات کی سچائی اُن پر روشن ہو جاتی ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے جو قرآن کریم سے کوئی چیز باہر نہیں.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۸۱،۸۰ ) هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلِيهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ.اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے بڑے فائدے دو ہیں جن کے پہنچانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے.ایک حکمت فرقان یعنی معارف و دقائق قرآن.دوسری تا ثیر قرآن جو موجب تزکیہ نفوس ہے.اور قرآن کی حفاظت صرف اسی قدر نہیں جو اس کے صحف مکتو بہ کو خوب نگہبانی سے رکھیں کیونکہ ایسے کام تو اوائل حال میں یہود اور نصاری نے بھی کئے.یہاں تک کہ توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے بلکہ اس جگہ مع حفاظت ظاہری حفاظت فوائد و تا ثیرات قرآنی مراد ہے اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہو سکتی ہے کہ جب وقتاً فوقتاً نائب رسول آویں جن میں ل النحل : ٩٠ الانعام : ٣٩ الجمعة : ٣

Page 603

۵۹۳ ظلّی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جن کو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیوں کو دی جاتی ہیں.جیسا کہ ان آیات میں اسی امر عظیم کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُوْنَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ - پس یہ آیت در حقیقت اس دوسری آیت إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ " کے لئے بطور تفسیر کے واقع ہے اور اس سوال کا جواب دے رہی ہے کہ حفاظت قرآن کیونکر اور کس طور سے ہوگی.سوخدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہوں گا.شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۸ ،۳۳۹) وہ یقینی اور کامل اور آسان ذریعہ کہ جس سے بغیر تکلیف اور مشقت اور مزاحمت شکوک اور شبہات اور خطا اور سہو کے اصول صحیحہ معہ اُن کی دلائل عقلیہ کے معلوم ہو جائیں اور یقین کامل سے معلوم ہوں وہ قرآن شریف ہے اور بجز اس کے دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں اور نہ کوئی ایسا دوسرا ذریعہ ہے کہ جس سے یہ مقصد اعظم ہمارا پورا ہو سکے.( براہین احمدیہ ہر چہار ص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۷۷ ) اب اے صاحبو! میں یہ بیان کرتا ہوں کہ وہ امتیازی نشان کہ جو الہامی کتاب کی شناخت کے لئے عقل سلیم نے قرار دیا ہے وہ صرف خدا تعالیٰ کی مقدس کتاب قرآن شریف میں پایا جاتا ہے اور اس زمانہ میں وہ تمام خوبیاں جو خدا کی کتاب میں امتیازی نشان کے طور پر ہونی چاہئیں دوسری کتابوں میں قطعاً مفقود ہیں.ممکن ہے کہ ان میں وہ خوبیاں پہلے زمانہ میں ہوں گی مگر اب نہیں ہیں اور گو ہم ایک دلیل سے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں ان کو الہامی کتابیں سمجھتے ہیں مگر وہ گو الہامی ہوں لیکن اپنی موجودہ حالت کے لحاظ سے بالکل بے سود ہیں اور اس شاہی قلعہ کی طرح ہیں جو خالی اور ویران پڑا ہے اور دولت اور فوجی طاقت سب اس میں سے کوچ کرگئی ہے.( مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۰۲) اگر کوئی مخالفین اسلام میں سے یہ اعتراض کرے کہ قرآن شریف کو سب الہامی کتابوں سے افضل النور : ۵۶ الحجر: ١٠

Page 604

۵۹۴ اور اعلیٰ قرار دینے میں یہ لازم آتا ہے کہ دوسری الہامی کتابیں ادنیٰ درجہ کی ہوں حالانکہ وہ سب ایک خدا کی کلام ہے.اُس میں ادنیٰ اور اعلیٰ کیونکر تجویز ہو سکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بہ اعتبار نفس الہام کے سب کتابیں مساوی ہیں مگر باعتبار زیادت بیان امور مکملات دین کے بعض کو بعض پر فضیلت ہے پس اسی جہت سے قرآن شریف کو سب کتابوں پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ جس قدر قرآن شریف میں امور تکمیل دین کے جیسے مسائل توحید اور ممانعت انواع و اقسام شرک اور معالجات امراض روحانی اور دلائل ابطال مذاہب باطلہ اور براہین اثبات عقائد حقه وغیره بکمال شد و مد بیان فرمائے گئے ہیں وہ دوسری کتابوں میں درج نہیں.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۴ ۷ حاشیہ نمبر۲) یہ دعوی پادریوں کا سراسر غلط ہے کہ ” قرآن توحید اور احکام میں نئی چیز کونسی لایا جو توریت میں نہ تھی.بظاہر ایک نادان توریت کو دیکھ کر دھو کہ میں پڑے گا کہ توریت میں توحید بھی موجود ہے اور احکام عبادت اور حقوق عباد کا بھی ذکر ہے.پھر کونسی نئی چیز ہے جو قرآن کے ذریعہ سے بیان کی گئی.مگر یہ دھوکا اُسی کو لگے گا جس نے کلام الہی میں کبھی تدبیر نہیں کیا.واضح ہو کہ الہیات کا بہت سا حصہ ایسا ہے کہ توریت میں اس کا نام ونشان نہیں.چنانچہ توریت میں توحید کے باریک مراتب کا کہیں ذکر نہیں.قرآن ہم پر ظاہر فرماتا ہے کہ تو حید صرف اس بات کا نام نہیں کہ ہم بتوں اور انسانوں اور حیوانوں اور عناصر اور اجرام فلکی اور شیاطین کی پرستش سے باز رہیں بلکہ توحید تین درجہ پر منقسم ہے.درجہ اول عوام کے لئے یعنی اُن کے لئے جو خدا تعالیٰ کے غضب سے نجات پانا چاہتے ہیں.دوسرا درجہ خواص کے لئے یعنی اُن کے لئے جو عوام کی نسبت زیادہ تر قرب الہی کے ساتھ خصوصیت پیدا کرنی چاہتے ہیں.اور تیسرا درجہ خواص الخواص کے لئے جو قرب کے کمال تک پہنچنا چاہتے ہیں.اوّل مرتبہ توحید کا تو یہی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے اور ہر ایک چیز جو محدود اور مخلوق معلوم ہوتی ہے خواہ زمین پر ہے خواہ آسمان پر اس کی پرستش سے کنارہ کیا جائے.دوسرا مرتبہ تو حید کا یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے تمام کاروبار میں مؤثر حقیقی خدا تعالیٰ کو سمجھا جائے اور اسباب پر اتنا زور نہ دیا جائے جس سے وہ خدا تعالیٰ کے شریک ٹھہر جائیں مثلاً یہ کہنا کہ زید نہ ہوتا تو میرا یہ نقصان ہوتا اور بکر نہ ہوتا تو میں تباہ ہو جاتا.اگر یہ کلمات اس نیت سے کہے جائیں کہ جس سے

Page 605

۵۹۵ حقیقی طور پر زید و بکر کو کچھ چیز سمجھا جائے تو یہ بھی شرک ہے.تیسری قسم توحید کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھانا اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرنا.یہ توحید توریت میں کہاں ہے.ایسا ہی توریت میں بہشت اور دوزخ کا کچھ ذکر نہیں پایا جا تا اور شاید کہیں کہیں اشارات ہوں.ایسا ہی تو ریت میں خدا تعالیٰ کی صفات کا ملہ کا کہیں پورے طور پر ذکر نہیں.اگر توریت میں کوئی ایسی سورۃ ہوتی جیسا کہ قرآن شریف میں قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ.اللهُ الصَّمَدُ.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ ہے تو شاید عیسائی اس مخلوق پرستی کی بلا سے رُک جاتے.ایسا ہی تو ریت نے حقوق کے مدارج کو پورے طور پر بیان نہیں کیا.لیکن قرآن نے اس تعلیم کو بھی کمال تک پہنچایا ہے مثلاً وہ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبى ہے.یعنی خدا حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم لوگوں کی ایسے طور سے خدمت کرو کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے خدمت کرتا ہے یعنی بنی نوع سے تمہاری ہمدردی جوش طبعی سے ہو کوئی ارادہ احسان رکھنے کا نہ ہو جیسا کہ ماں اپنے بچہ سے ہمدردی رکھتی ہے.ایسا ہی تو ریت میں خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت اور اس کی صفات کا ملہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے نہیں دکھلایا لیکن قرآن شریف نے ان تمام عقائد اور نیز ضرورتِ الہام اور نبوت کو دلائل عقلیہ سے ثابت کیا ہے اور ہر ایک بحث کو فلسفہ کے رنگ میں بیان کر کے حق کے طالبوں پر اس کا سمجھنا آسان کر دیا ہے اور یہ تمام دلائل ایسے کمال سے قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں کہ کسی کی مقدور میں نہیں کہ مثلاً ہستی باری پر کوئی ایسی دلیل پیدا کر سکے کہ جو قرآن شریف میں موجود نہ ہو.ماسوا اس کے قرآن شریف کے وجود کی ضرورت پر ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلی تمام کتابیں موسی کی کتاب توریت سے انجیل تک ایک خاص قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہیں.اور صاف اور صریح لفظوں میں کہتے ہیں کہ ان کی ہدایتیں عام فائدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کے وجود تک محدود ہیں مگر قرآن شریف کے مدنظر تمام دنیا کی اصلاح ہے اور اُس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳ ۸ تا ۸۵) اصلاح اس کا مقصود ہے.الاخلاص : ۲ تا ۵ ۲ النحل: ۹۱

Page 606

۵۹۶ آؤ عیسائیو! ادھر آؤ نور حق دیکھو! راہ حق پاؤ جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ خالق ہے اُس کو یاد کرو یونہی مخلوق کو : بہکاؤ کب تلک جھوٹ سے کرو گے پیار کچھ تو سچ کو بھی کام فرماؤ کچھ تو خوف خدا کرو لوگو! کچھ تو لوگو خدا سے شرماؤ بقا نہیں پیارو کوئی اس میں رہا نہیں پیارو عیش دنیا سدا نہیں پیارو اس جہاں کو تو رہنے کی جا نہیں نہیں پیارو اے عزیزو! سنو کہ بے قرآں حق کو ملتا نہیں کبھی انساں جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں أن اس یار کی نظر ہی نہیں ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر کہ بناتا ہے عاشق دلبر مجھ سے اُس دلستاں کا حال سنیں مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی نہ سہی یونہی امتحان سہی ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۲۹۸ تا ۳۰۰) قرآن عمیق حکمتوں سے پر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کے لئے آگے قدم رکھتا ہے بالخصوص بچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے.اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا.سوشکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہو گئی تھی دوبارہ قائم ہو گئی.تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۸۲) قرآن شریف ایک ایسی پر حکمت کتاب ہے جس نے طب روحانی کے قواعد کلیہ کو یعنی دین کے اصول کو جو دراصل طب روحانی ہے طب جسمانی کے قواعد کلیہ کے ساتھ تطبیق دی ہے.اور یہ تطبیق ایک ایسی لطیف ہے جو صد ہا معارف اور حقائق کے کھلنے کا دروازہ ہے.اور سچی اور کامل تفسیر قرآن شریف کی وہی شخص کر سکتا ہے جو طب جسمانی کے قواعد کلیہ پیش نظر رکھ کر قرآن شریف کے بیان کردہ قواعد میں نظر ڈالتا ہے.ایک دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں جو طب

Page 607

۵۹۷ جسمانی کے قواعد کلیہ اور اصول علمیہ اور ستہ ضرور یہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل اور متضمن تھیں جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیر قرآن ہے.اس سے معلوم ہوا کہ علم الا بدان اور علم الادیان میں نہایت گہرے اور عمیق تعلقات ہیں اور ایک دوسرے کے مصدق ہیں اور جب میں نے ان کتابوں کو پیش نظر رکھ کر جو طب جسمانی کی کتابیں تھیں قرآن شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق در عمیق طب جسمانی کے قواعد کلیہ کی باتیں نہایت بلیغ پیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۰۲ ۱۰۳) جو کتاب ابتدائے آفرینش کے وقت آئی ہوگی اس کی نسبت عقل قطعی طور پر تجویز کرتی ہے کہ وہ کامل کتاب نہیں ہوگی بلکہ وہ صرف اس اوستاد کی طرح ہوگی جو ابجد خواں بچوں کو تعلیم دیتا ہے.صاف ظاہر ہے کہ ایسی ابتدائی تعلیم میں بہت لیاقت کی ضرورت نہیں ہوتی.ہاں جس زمانہ میں انسانی تجربہ نے ترقی کی اور نیز نوع انسان کئی قسم کی غلطیوں میں پڑ گئی.تب بار یک تعلیم کی حاجت پڑی.بالخصوص جب گمراہی کی تاریکی دنیا میں بہت پھیل گئی اور انسانی نفوس کئی قسم کی علمی اور عملی ضلالت میں مبتلا ہو گئے تب ایک اعلیٰ اور اکمل تعلیم کی حاجت پڑی اور وہ قرآن شریف ہے لیکن ابتدائے زمانہ کی کتاب کے لئے اعلیٰ درجہ کی تعلیم کی ضرورت نہ تھی کیونکہ ابھی انسانی نفوس سادہ تھے اور ہنوز اُن میں کوئی ظلمت اور ضلالت جاگزین نہیں ہوئی تھی.ہاں اُس کتاب کے لئے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت تھی جو انتہائی درجہ کی ضلالت کے وقت ظاہر ہوئی اور ان لوگوں کی اصلاح کے لئے آئی جن کے دلوں میں عقائد فاسدہ راسخ ہو چکے تھے اور اعمال قبیحہ ایک عادت کے حکم میں ہو گئے تھے.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۷ حاشیہ ) پھر ہم اصل مدعا کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ یہ بات فی الواقع صحیح اور درست ہے کہ ابتدائے آفرینش میں بھی ایک الہامی کتاب نوع انسان کو ملی تھی.مگر وہ وید ہر گز نہیں ہے اور موجودہ وید کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا اس پاک ذات کی توہین ہے.اس جگہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ابتدائے زمانہ میں صرف ایک الہامی کتاب انسانوں کو کیوں دی گئی.ہر ایک قوم کے لئے جدا جدا کتا ہیں کیوں نہ دی گئیں.اس کا جواب یہ ہے کہ ابتدائے زمانہ میں انسان تھوڑے تھے اور اس تعداد سے بھی کم تر تھے جو ان کو ایک قوم کہا جائے.اس لئے اُن کے لئے صرف ایک کتاب کافی تھی.پھر بعد اس کے جب دنیا میں انسان پھیل گئے اور ہر ایک حصہ زمین کے باشندوں کا ایک قوم بن گئی اور بباعث

Page 608

۵۹۸ دُور دراز مسافتوں کے ایک قوم دوسری قوم کے حالات سے بالکل بے خبر ہو گئی ایسے زمانوں میں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نے تقاضا فرمایا کہ ہر ایک قوم کے لئے جُدا جُدا رسول اور الہامی کتابیں دی جائیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر جب نوع انسان نے دنیا کی آبادی میں ترقی کی اور ملاقات کے لئے راہ کھل گئی اور ایک ملک کے لوگوں کو دوسرے ملک کے لوگوں کے ساتھ ملاقات کرنے کے لئے سامان میسر آگئے اور اس بات کا علم ہو گیا کہ فلاں فلاں حصہ زمین پر نوع انسان رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ ان سب کو پھر دوبارہ ایک قوم کی طرح بنا دیا جائے اور بعد تفرقہ کے پھر اُن کو جمع کیا جاوے تب خدا نے تمام ملکوں کے لئے ایک کتاب بھیجی اور اس کتاب میں حکم فرمایا کہ جس جس زمانہ میں یہ کتاب مختلف ممالک میں پہنچے ان کا فرض ہوگا کہ ان کو قبول کر لیں اور اُس پر ایمان لاویں اور وہ کتاب قرآن شریف ہے جو تمام ملکوں کا باہمی رشتہ قائم کرنے کے لئے آئی ہے.قرآن سے پہلی سب کتابیں مختص القوم کہلاتی تھیں یعنی صرف ایک قوم کے لئے ہی آتی تھیں.چنانچہ شامی فارسی ہندی چینی مصری رومی یہ سب قومیں تھیں جن کے لئے جو کہتا ہیں یا رسول آئے وہ صرف اپنی قوم تک محدود تھے دوسری قوم سے اُن کو کچھ تعلق اور واسطہ نہ تھا.مگر سب کے بعد قرآن شریف آیا جو ایک عالمگیر کتاب ہے.اور کسی خاص قوم کے لئے نہیں بلکہ تمام قوموں کے لئے ہے.ایسا ہی قرآن شریف ایک ایسی امت کے لئے آیا جو آہستہ آہستہ ایک ہی قوم بننا چاہتی تھی.سواب زمانہ کے لئے ایسے سامان میسر آ گئے ہیں جو مختلف قوموں کو وحدت کا رنگ بخشتے جاتے ہیں.باہمی ملاقات جو اصل جڑ ایک قوم بنے کی ہے ایسی سہل ہوگئی ہے کہ برسوں کی راہ چند دنوں میں طے ہو سکتی ہے اور پیغام رسانی کے لئے وہ سبیلیں پیدا ہو گئی ہیں کہ جو ایک برس میں بھی کسی دُور دراز ملک کی خبر نہیں آ سکتی تھی.وہ اب ایک ساعت میں آ سکتی ہے.زمانہ میں ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہو رہا ہے اور تمدنی دریا کی دھار نے ایک ایسی طرف رُخ کر لیا ہے جس سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ اب خدا تعالیٰ کا یہی ارادہ ہے کہ تمام قوموں کو جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ایک قوم بنا دے.اور ہزار ہا برسوں کے بچھڑے ہوؤں کو پھر باہم ملادے.اور یہ خبر قرآن شریف میں موجود ہے اور قرآن شریف نے ہی کھلے طور پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کے لئے آیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا.یعنی تمام لوگوں کو کہہ دے کہ میں تم سب کے لئے رسول ہو کر آیا ہوں.اور پھر فرماتا ہے وَمَا أَرْسَلْنَكَ الاعراف :۱۵۹

Page 609

۵۹۹ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ کا یعنی میں نے تمام عالموں کے لئے تجھے رحمت کر کے بھیجا ہے اور پھر فرماتا ہے لِيَكُونَ لِلْعَلَمِینَ نَذِير ا ت یعنی ہم نے اس لئے بھیجا ہے کہ تمام دنیا کو ڈراوے لیکن ہم بڑے زور سے کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے یہ دعویٰ نہیں کیا بلکہ ہر ایک نے اپنی رسالت کو اپنی قوم تک ہی محدود رکھا یہاں تک کہ جس نبی کو عیسائیوں نے خدا قرار دیا اس کے منہ سے بھی یہی نکلا کہ میں اسرائیل کی بھیڑوں کے سوا اور کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا اور زمانہ کے حالات نے بھی گواہی دی کہ قرآن شریف کا یہ دعوی تبلیغ عام کا عین موقع پر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا.(چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴ ۷ تا ۷۷ ) قرآن شریف میں یہ وعدہ تھا کہ خدا تعالیٰ فتنوں اور خطرات کے وقت میں دین اسلام کی حفاظت کرے گا جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ سے سو خدا تعالیٰ نے بموجب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنے کلام کی کی.اول حافظوں کے ذریعہ سے اس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کئے جو اس کی پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں.ایسا حفظ کہ اگر ایک لفظ پوچھا جائے تو اس کا اگلا پچھلا سب بتا سکتے ہیں.اور اس طرح پر قرآن کو تحریف لفظی سے ہر ایک زمانہ میں بچایا.دوسرے ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے.جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا تیسرے متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر خدا کی پاک کلام کو کو نہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے.چوتھے روحانی انعام پانے والوں سے بچایا ہے.لصد کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ ایام اسح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۸۸) شاید اس جگہ کسی کے دل میں یہ وسوسہ اُٹھے کہ مسلمانوں کا بھی یہی اعتقاد ہے کہ وحی حضرت آدم سے شروع ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی.سو اس عقیدہ کے رو سے بھی بعد زمانہ حضرت خاتم الانبیاء کے انقطاع وحی کا ہمیشہ کے لئے لازم آیا.سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا ہندوؤں کی طرح ہرگز یہ اعتقاد نہیں جو خدا کے پاس اتنی ہی کلام تھی جتنی وہ ظاہر کر چکا بلکہ بموجب الانبياء : ١٠٨ الفرقان :٢ الحجر : ١٠

Page 610

۶۰۰ اعتقا داسلام کے خدا کی کلام اور خدا کا علم اور حکمت مثل ذات اس کی کے غیر محدود ہے.چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے.قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (سورۃ کہف الجزو ۱۶) یعنی اگر خدا کی کلام کے لکھنے کے لئے سمندر کو سیاہی بنایا جائے تو لکھتے لکھتے سمندرختم ہو جائے اور کلام میں کچھ کمی نہ ہو.گو ویسے ہی اور سمندر بطور مدد کے کام میں لائے جائیں.رہی یہ بات کہ ہم لوگ ختم ہونا وحی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کن معنوں سے مانتے ہیں.سو اس میں اصل حقیقت یہ ہے کہ گو کلام الہی اپنی ذات میں غیر محدود ہے لیکن چونکہ وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لئے کلام الہی نازل ہوتی رہی یا وہ ضرورتیں کہ جن کو الہام ربانی پورا کرتا رہا ہے وہ قدر محدود سے زیادہ نہیں ہیں.اس لئے کلام الہی بھی اسی قدر نازل ہوئی ہے کہ جس قدر بنی آدم کو اس کی ضرورت تھی اور قرآن شریف ایسے زمانہ میں آیا تھا کہ جس میں ہر ایک طرح کی ضرورتیں کہ جن کا پیش آنا ممکن ہے پیش آگئی تھیں.یعنی تمام امور اخلاقی اور اعتقادی اور قولی اور فعلی بگڑ گئے تھے.اور ہر ایک قسم کا افراط تفریط اور ہر ایک نوع کا فساد اپنے انتہا کو پہنچ گیا تھا.اس لئے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی.پس انہی معنوں سے شریعت فرقانی مختم اور مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں کیونکہ پہلے زمانوں میں وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لئے الہامی کتابیں آئیں وہ بھی انتہائی درجہ پر نہیں پہنچے تھے اور قرآن شریف کے وقت میں وہ سب اپنی انتہاء کو پہنچ گئے تھے.پس اب قرآن شریف اور دوسری الہامی کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں.پھر بھی بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی فرقان مجید ظہور پذیر ہوتا مگر قرآن شریف کے لئے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کہ اس کے بعد کوئی اور کتاب بھی آوے کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں.ہاں اگر یہ فرض کیا جائے کہ کسی وقت اصول حقہ قرآن شریف کے دید اور انجیل کی طرح مشرکانہ اصول بنائے جائیں گے اور تعلیم توحید میں تبدیل اور تحریف عمل میں آوے گی یا اگر ساتھ اس کے یہ بھی فرض کیا جائے جو کسی زمانہ میں وہ کر وڑ ہا مسلمان جو تو حید پر قائم ہیں وہ بھی پھر طریق شرک اور مخلوق پرستی کا اختیار کر لیں گے.تو بے شک ایسی صورتوں میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہو گا مگر دونوں قسم کے فرض محال ہیں.قرآن شریف کی تعلیم کا محرف مبدل ہونا اس لئے محال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے الكهف : ١١٠

Page 611

۶۰۱ إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (سورة الحجر الحجز و ۱۴) یعنی اس کتاب کو ہم نے ہی نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ رہیں گے.سو تیرہ سو برس سے اس پیشینگوئی کی صداقت ثابت ہو رہی ہے.اب تک قرآن شریف میں پہلی کتابوں کی طرح کوئی مشر کا نہ تعلیم ملنے نہیں پائی اور آئندہ بھی عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ اُس میں کسی نوع کی مشر کا نہ تعلیم مخلوط ہو سکے کیونکہ لاکھوں مسلمان اس کے حافظ ہیں.ہزار ہا اس کی تفسیر میں ہیں.پانچ وقت اس کی آیات نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں.ہر روز اس کی تلاوت کی جاتی ہے.اسی طرح تمام ملکوں میں اس کا پھیل جانا، کروڑ ہا نسخے اس کے دنیا میں موجود ہونا، ہر یک قوم کا اس کی تعلیم سے مطلع ہو جانا یہ سب امور ایسے ہیں کہ جن کے لحاظ سے عقل اس بات پر قطع واجب کرتی ہے کہ آئندہ بھی کسی نوع کا تغیر اور تبدل قرآن شریف میں واقع ہونا ممتنع اور محال ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۰۰ تا ۱۰۲ حاشیه نمبر ۹) وسوسہ ہفتم.کسی کتاب پر علم الہی کی ساری صداقتیں ختم نہیں ہوسکتیں.پھر کیونکر امید کی جائے کہ ناقص کتا ہیں کامل معرفت تک پہنچا دیں گی.جواب.یہ وسوسہ اس وقت قابل التفات ہوتا کہ جب برہم سماج والوں میں سے کوئی صاحب اپنی عقل کے زور سے خدا شناسی یا کسی دوسرے امر معاد کے متعلق کوئی ایسی جدید صداقت نکالتا جس کا قرآن شریف میں کہیں ذکر نہ ہوتا.اور ایسی حالت میں بلاشبہ حضرات برہمو بڑے ناز سے کہہ سکتے تھے که علم معاد اور خداشناسی کی ساری صداقتیں کتاب الہامی میں مندرج نہیں بلکہ فلاں فلاں صداقت باہر رہ گئی ہے جس کو ہم نے دریافت کیا ہے.اگر ایسا کر کے دکھلاتے تب تو شاید کسی نادان کو کوئی دھو کہ بھی دے سکتے.پر جس حالت میں قرآن شریف کھلا کھلی دعوی کر رہا ہے.مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَبِ مِنْ شی سے الجز و نمبر ے.یعنی کوئی صداقت علم الہی کے متعلق جو انسان کے لئے ضروری ہے اس کتاب سے باہر نہیں.اور پھر فرمایا يَتْلُوا صُحُفَا مُطَهَّرَةً فِيهَا كُتُبْ قَيْمَةٌ - الجز و نمبر ۳۰ یعنی خدا کا رسول پاک صحیفے پڑھتا ہے جن میں تمام کامل صداقتیں اور علوم اولین و آخرین درج ہیں.اور پھر فرمایا کتب أحْكِمَتْ التُه ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ نے الجز نمبر 1.یعنی اس کتاب میں دو خوبیاں ہیں.ایک تو یہ کہ حکیم مطلق نے محکم اور مدلل طور پر یعنی علوم حکمیہ کی طرح اس کو بیان کیا ہے بطور کتھا یا قصہ نہیں.دوسری یہ خوبی کہ اس میں تمام ضروریات علم معاد کی تفصیل کی گئی ہے.اور پھر فرمایا الحجر : ١٠ الانعام : ٣٩ البينة :٤٣ هود : ۲

Page 612

۶۰۲ إِنَّهُ لَقَوْلُ فَضْلُّ وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ ے یعنی علم معاد میں جس قدر تنازعات اُٹھیں سب کا فیصلہ یہ کتاب کرتی ہے بے سود اور بیکار نہیں ہے اور پھر فرمایا وَ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ الجزو نمبر ۱۴ یعنی ہم نے اس لئے کتاب کو نازل کیا ہے تا جو اختلافات عقول ناقصہ کے باعث سے پیدا ہو گئے ہیں یا کسی عمداً افراط و تفریط کرنے سے ظہور میں آئے ہیں ان سب کو دُور کیا جائے اور ایمانداروں کے لئے سیدھا راستہ بتلا یا جاوے.اس جگہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو فساد بنی آدم کے مختلف کلاموں سے پھیلا ہے اس کی اصلاح بھی کلام ہی پر موقوف ہے.یعنی اس بگاڑ کے درست کرنے کے لئے جو بے ہودہ اور غلط کلاموں سے پیدا ہوا ہے ایسے کلام کی ضرورت ہے کہ جو تمام عیوب سے پاک ہو کیونکہ یہ نہایت بدیہی بات ہے کہ کلام کا ر ہنزدہ کلام ہی کے ذریعہ سے راہ راست پر آ سکتا ہے صرف اشارات قانونِ قدرت تنازعات کلامیہ کا فیصلہ نہیں کر سکتے اور نہ گمراہ کو اس کی گمراہی پر بصفائی تمام ملزم کر سکتے ہیں.جیسے اگر جج نہ مدعی کی وجوہات بہ تصریح قلمبند کرے نہ مدعا علیہ کے عذرات کو بدلائل قاطعہ تو ڑے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ صرف اس کے اشارات سے فریقین اپنے اپنے سوالات و اعتراضات و وجوہات کا جواب پالیں اور کیونکر ایسے مبہم اشارات پر جن سے کسی فریق کا باطمینان کامل رفع عذر نہیں ہوا حکم آخیر مترتب ہوسکتا ہے.اسی طرح خدا کی حجت بھی بندوں پر تب ہی پوری ہوتی ہے کہ جب اس کی طرف سے یہ التزام ہو کہ جو لوگ غلط تقریروں کے اثر سے طرح طرح کی بد عقیدگی میں پڑ گئے ہیں ان کو بذریعہ اپنی کامل و صحیح تقریر کے غلطی پر مطلع کرے.اور مدلل اور واضح بیان سے اُن کا گمراہ ہونا ان کو جتلا دے تا اگر اطلاع پا کر پھر بھی وہ باز نہ آویں اور غلطی کو نہ چھوڑیں تو سزا کے لائق ہوں.خدائے تعالیٰ ایک کو مجرم ٹھہرا کر پکڑے اور سزا دینے کو طیار ہو جائے مگر بیان واضح سے اس کے دلائل بریت کا غلط ہونا ثابت نہ کرے.اور اس کے دلی شبہات کو اپنی کھلی کلام سے نہ مٹادے.کیا یہ اس کا منصفانہ حکم ہوگا ؟ پھر اسی کی طرف دوسری آیت میں بھی اشارہ فرمایا هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ کالجز و نمبر ۲.یعنی قرآن میں تین صفتیں ہیں.اوّل یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے اُن کی طرف ہدایت فرماتا ہے.دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا اُن کی تفصیل بیان کرتا ہے.تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہو گیا تھا اُن میں قولِ فیصل بیان الطارق :۱۵،۱۴ النحل : ۶۵ البقرة : ١٨٦

Page 613

۶۰۳ کر کے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہے.اور پھر اُسی جامعیت کے بارہ میں فرمایا وَ كُلِّ شَيْءٍ فَصَّلْنَهُ تَفْصِيلا الجز و نمبر ۱۵ یعنی اس کتاب میں ہر یک علم دین کو بہت تفصیل تمام کھول دیا ہے اور اس کے ذریعہ سے انسان کی جزئی ترقی نہیں بلکہ یہ وہ وسائل بتلاتا ہے اور ایسے علوم کا ملہ ع فرماتا ہے جن سے کلی طور پر ترقی ہو اور پھر فرمایا وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ " الجزء نمبر ۱۴ - یعنی یہ کتاب ہم نے اس لئے تجھ پر نازل کی کہ تا ہر یک دینی صداقت کو کھول کر بیان کر دے.اور تا یہ بیان کامل ہمارا ان کے لئے جو اطاعت الہی اختیار کرتے ہیں موجب ہدایت و رحمت ہو.اور پھر فرمایا.اتر - كتُبُ أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ کے الجزء نمبر ۱۳ یعنی یہ عالی شان کتاب ہم نے تجھ پر نازل کی تا کہ تو لوگوں کو ہر یک قسم کی تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کرے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس قدر انسان کے نفس میں طرح طرح کے وساوس گذرتے ہیں اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں.اُن سب کو قرآن شریف دُور کرتا ہے اور ہر ایک طور کے خیالات فاسدہ کو مٹاتا ہے اور معرفت کامل کا نور بخشتا ہے یعنی جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے اور اس پر یقین لانے کے لئے معارف و حقائق درکار ہیں سب عطا فرماتا ہے اور پھر فرمایا مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ تَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَ هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ" الجزو نمبر ۱۳.یعنی قرآن ایسی کتاب نہیں کہ انسان اس کو بنا سکے بلکہ اس کے آثارِ صدق ظاہر ہیں کیونکہ وہ پہلی کتابوں کو سچا کرتا ہے یعنی کتب سابقہ انبیاء میں جو اس کے بارہ میں پیشینگوئیں موجود تھیں وہ اس کے ظہور سے بہ پایۂ صداقت پہنچ گئیں اور جن عقائد حقہ کے بارہ میں ان کتابوں میں دلائل واضح موجود نہ تھیں اُن کے قرآن نے دلائل بتلائے اور ان کی تعلیم کو مرتبۂ کمال تک پہنچایا.اس طور پر ان کتابوں کو سچا کیا جس سے خود سچائی اُس کی ثابت ہوتی ہے.دوسرے نشانِ صدق یہ کہ ہر یک صداقت دینی کو وہ بیان کرتا ہے اور تمام وہ امور بتلاتا ہے کہ جو ہدایت کامل پانے کے لئے ضروری ہیں.اور یہ اس لئے نشان صدق ٹھہرا کہ انسان کی طاقت سے یہ بات باہر ہے کہ اس کا علم ایسا وسیع و محیط ہو جس سے کوئی دینی صداقت وحقائق دقیقہ باہر نہ رہیں.غرض ان تمام آیات میں خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ قرآن شریف ساری صداقتوں کا جامع ہے.اور یہی بزرگ دلیل اس کی حقانیت پر ہے.اور اس دعویٰ پر صد ہا برس بھی گذر گئے پر آج تک کسی بنی اسرآئیل :۱۳ ۲ النحل:۹۰ ابراهیم ۲ يوسف: ١١٢

Page 614

۶۰۴ بر ہمو وغیرہ نے اس کے مقابلہ پر دم بھی نہ مارا تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ بغیر پیش کرنے کسی ایسی جدید صداقت کے کہ جو قرآن شریف سے باہر رہ گئی ہو.یونہی دیوانوں اور سودائیوں کی طرح اوہام باطلہ پیش کرنا جن کی کچھ بھی اصلیت نہیں اس بات پر پختہ دلیل ہے کہ ایسے لوگوں کو راستبازوں کی طرح حق کا تلاش کرنا منظور ہی نہیں.بلکہ نفس امارہ کو خوش رکھنے کے لئے اس فکر میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح خدا کے پاک کلام احکام سے بلکہ خدا ہی سے آزادگی حاصل کر لیں.اسی آزادگی کے حصول کی غرض سے خدا کی کچی کتاب سے جس کی حقانیت اظہر من الشمس ہے ایسے منحرف ہورہے ہیں کہ نہ متکلم بن کر شائستہ طریق پر کلام کرتے ہیں اور نہ سامع ہونے کی حالت میں کسی دوسرے کی بات سنتے ہیں.بھلا کوئی اُن سے پوچھے کہ کب کسی نے کوئی صداقت دینی قرآن کے مقابلہ پر پیش کی جس کا قرآن نے کچھ جواب نہ دیا اور خالی ہاتھ بھیج دیا.جس حالت میں تیرہ سو برس سے قرآن شریف بآواز بلند دعوی کر رہا ہے کہ تمام دینی صداقتیں اُس میں بھری پڑی ہیں تو پھر یہ کیسا خبث طینت ہے کہ امتحان کے بغیر ایسی عالی شان کتاب کو ناقص خیال کیا جائے.اور یہ کس قسم کا مکابرہ ہے کہ نہ قرآن شریف کے بیان کو قبول کریں اور نہ اُس کے دعوی کو تو ڑ کر دکھلا ئیں.سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے لبوں پر تو ضرور کبھی کبھی خدا کا ذکر آ جاتا ہے مگر اُن کے دل دنیا کی گندگی سے بھرے ہوئے ہیں.اگر کوئی دینی بحث شروع بھی کریں تو اس کو مکمل طور پرختم کرنا نہیں چاہتے بلکہ نا تمام گفتگو کا ہی جلدی سے گلا گھونٹ دیتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی صداقت ظاہر ہو جائے اور پھر بے شرمی یہ کہ گھر میں بیٹھ کر اس کامل کتاب کو ناقص بیان کرتے ہیں جس نے بوضاحت تمام فرما دیا.اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمُ نِعمتى الجز ء نمبر 4.یعنی آج میں نے اس کتاب کے نازل کرنے سے علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچا دیا اور اپنی تمام نعمتیں ایمان داروں پر پوری کر دیں.اے حضرات! کیا تمہیں کچھ بھی خدا کا خوف نہیں؟ کیا تم ہمیشہ اسی طرح جیتے رہو گے؟ کیا ایک دن خدا کے حضور میں اس جھوٹے منہ پر لعنتیں نہیں پڑیں گی ؟ اگر آپ لوگ کوئی بھاری صداقت لئے بیٹھے ہیں جس کی نسبت تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے کمال جانفشانی اور عرق ریزی اور موشگافی سے اس کو پیدا کیا ہے اور جو تمہارے گمان باطل میں قرآن شریف اس صداقت کے بیان کرنے سے قاصر ہے تو تمہیں قسم ہے کہ سب کاروبار چھوڑ کر وہ صداقت ہمارے روبرو پیش کرو تا ہم تم کو قرآن شریف میں سے نکال کر دکھلا دیں.المائدة : ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۲۳ تا ۲۲۷ حاشیہ نمبر۱۱)

Page 615

جمال وحسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے نظیر اُس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے بہار جاوداں پیدا ہے اُس کی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے کلامِ پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر لولوئے عثماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے خدا کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لاعلمی سخن میں اس کے ہمتائی کہاں مقدور انساں ہے بنا سکتا نہیں اک پانو کیڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اُس پہ آساں ہے ارے لوگو کرو کچھ پاس شان کبریائی کا زباں کو تھام لو اب بھی اگر کچھ بُوئے ایماں ہے خدا سے غیر کو ہمتا بنانا سخت کفراں ہے خدا سے کچھ ڈرو یارو یہ کیسا کذب و بہتاں ہے اگر اقرار ہے تم کو خدا کی ذات واحد کا تو پھر کیوں اس قدر دل میں تمہارے شرک پنہاں ہے یہ کیسے پڑ گئے دل پر تمہارے جہل کے پردے خطا کرتے ہو باز آؤ اگر کچھ خوف یزداں ہے ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو! نصیحت ہے غریبانہ کوئی جو پاک دل ہووے دل و جاں اُس پر قرباں ہے ( براہین احمدیہ ہر چہار خصص.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۱۹۸ تا۲۰۴) سے انوار کا دریا نکلا نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا ناگہاں غیب سے یہ چشمه اصفی نکلا یا الہی! تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا وہ پہلے سمجھے تھے کہ موسی کا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ہے ایسا چکا ہے کہ صد تیر بیضا نکلا زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اٹمی نکلا ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۰۶،۳۰۵ حاشیه در حاشیہ نمبر ۲)

Page 616

۶۰۶ از نور پاک قرآں صبح صفا دمیده برنچائے دلہا باد صبا وزیده 1 این روشنی و لمعاں شمس اصحی ندارد وایں دلبری و خوبی کس در قمر ندیده ۲ یوسف بقعر چاہے محبوس ماند تنہا وایس یوسفی که تن با از چاه برکشیده ۳ از مشرق معانی صدہا دقائق آورد قد ہلال نازک زاں ناز کی خمیدہ سے کیفیت علومش دانی شان دارد شهدیست آسمانی از وحی حق چکیده ۵ آن نیز صداقت چوں رُو بعالم آورد ہر بوم شب پرستی در کنج خود خزیده 1 روئے یقین نہ بند ہرگز کے بدنیا الا کسی که باشد با رویش آرمیده ک آنکس که عالمش شد شد مخزن معارف وآں بے خبر ز عالم کیں عالم ندیده 2 باران فضل رحماں آمد بمقدم او بد قسمت آنکه از وے سوئے دگر دویده 2 میل بدی نباشد الا رگے ز شیطاں آن را بشر بدانم کز هر شرے رہیدہ نا اے کان دلربائی دانم که از کجائی تو نور آں خدائی کیں خلق آفریدہ لے میلم نماند باکس محبوب من توئی بس زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیده ۱۱۲ ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۰۵،۳۰۴ حاشیه در حاشیہ نمبر۲) لے قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہوگئی اور دلوں کے غنچوں پر بادِ صبا چلنے لگی.ے ایسی روشنی اور چمک تو دو پہر کے سورج میں بھی نہیں اور ایسی کشش اور حسن تو کسی چاندنی میں بھی نہیں.سے یوسف تو ایک کنوئیں کی تہ میں اکیلا گرا تھا مگر اس یوسف نے بہت سے لوگوں کو کنوئیں میں سے نکالا ہے.سے منبع حقائق سے یہ سینکڑوں حقائق اپنے ہمراہ لایا ہے.ہلالِ نازک کی کمر ان حقائق سے جھک گئی ہے.تجھے کیا پتہ کہ اس کے علوم کی حقیقت کس شان کی ہے؟ وہ آسمانی شہد ہے جو خدا کی وحی سے ٹپکا ہے.یہ سچائی کا سورج جب اس دنیا میں ظاہر ہوا تو رات کے پجاری اگو اپنے اپنے کونوں میں جا گھسے.کے دنیا میں کسی کو یقین کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا.مگر اسی شخص کو جو اس کے منہ سے محبت رکھتا ہے.جو اس کا عالم ہو گیا وہ خود معرفت کا خزانہ بن گیا اور جس نے اس عالم کو نہیں دیکھا اسے دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں.رحمان کے فضل کی بارش ایسے شخص کی پیشوائی کو آتی ہے بدقسمت وہ ہے جوا سے چھوڑ کر دوسری طرف بھاگا.ا بدی کی طرف رغبت ایک شیطانی رگ ہے میں تو اسے بشر سمجھتا ہوں جو ہر شر سے نجات پائے.لا اے کان حسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے تو تو اس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی.۱۲ مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اس خدائے فریادرس کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے.

Page 617

۶۰۷ از وحی خدا صبح صداقت بدمیده چشم که ندید آن صحفِ پاک چه دیده ای کاخ دل ما شد زہماں نافه معطر و آن یار بیامد که زما بود رمیده سے آن دیده که نورے نگرفت ست ز فرقاں حقا کہ ہمہ عمر ز کوری نہ رہیدہ سے آں دل کہ جز از وے گل گلزار خدا جست و گند تواں خورد که بویش نشمیده که با خور ندهم نسبت آں نور که بینم صد خور که به پیراهن و حلقه کشیده ۵ بے دولت بدبخت کسا نیکہ ازاں نور سرتافته از نخوت و پیوند بریده 1 ( براہین احمدیہ ہر چہار قصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۳۳۵ حاشیہ نمبر۱۱) ے خدا کی وحی سے صبح صداقت روشن ہوگئی جس آنکھ نے یہ صحفِ پاک نہیں دیکھے اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا.ے ہمارا دل اس نافہ سے معطر ہے اور وہ یار جو ہم سے بھاگا ہوا تھا پھر آ گیا.سے وہ آنکھ جس نے قرآن سے نور اخذ نہیں کیا خدا کی قسم وہ ساری عمر اندھے پن سے خلاصی نہ پائے گی.ہے وہ دل جس نے اسے چھوڑ کر گل گلزار خدا ڈھونڈا.خدا کی قسم کہ اس شخص نے اس کی خوشبو بھی نہیں سونگھی.۵ میں سورج سے اس نور کو تشبیہ نہیں دے سکتا کیونکہ دیکھتا ہوں کہ اس کے گرد سینکڑوں آفتاب حلقہ باندھے کھڑے ہیں.وہ لوگ بد قسمت اور بدنصیب ہیں جنہوں نے اس نور سے تکبر کی وجہ سے روگردانی کی اور تعلق توڑ لیا.

Page 618

Voh

Page 619

۶۰۹ حدیث وسنت نبوی مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لئے تین چیزیں ہیں.(۱) قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں.وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے.(۲) دوسری سنت.اور اس جگہ ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اور سنت الگ چیز.سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تو اتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں.(۳) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے.اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں.پس سنت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سنت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تو اتر رکھتا ہے جس کو آنحضرت نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا.اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے.اور جس طرح آنحضرت قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے.ایسا ہی سنت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے.پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سنت معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے.یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجالائے.اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا.مثلاً

Page 620

۶۱۰ جب نماز کے لئے حکم ہوا.تو آنحضرت نے خدا تعالیٰ کے اس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلا دیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ.اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں.ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا.پس عملی نمونہ جواب تک امت میں تعامل کے رنگ میں مشہود ومحسوس ہے.اسی کا نام سنت ہے.لیکن حدیث کو آنحضرت صلعم نے اپنے روبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کے لئے کوئی اہتمام کیا.کچھ حدیثیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کی تھیں.لیکن پھر تقویٰ کے خیال سے انہوں نے وہ سب حدیثیں جلا دیں.کہ یہ میرا سماع بلا واسطہ نہیں ہے خدا جانے اصل حقیقت کیا ہے پھر جب وہ دور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے.تب حدیثیں جمع ہوئیں.اس میں شک نہیں ہوسکتا کہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متقی اور پرہیز گار تھے.انہوں نے جہاں تک ان کی طاقت میں تھا حدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں.اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی بہت محنت کی.مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی.باایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہو گی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور علمی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں.بلکہ ان حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی.یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلا تا تھا.لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے.تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بے خبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنت کے ذریعہ سے اُن میں پیدا ہو گیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلا دیئے تھے.اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مدت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا.کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے ان ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا.تاہم حدیثوں نے اُس نور کو زیادہ کیا.گویا اسلام نور علی نور ہو گیا.اور حدیثیں قرآن اور سنت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہو گئیں.اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد

Page 621

۶۱۱ میں پیدا ہو گئے اُن میں سچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا.پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اس زمانہ کے اہل حدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدم ہیں اور نیز اگر اُن کے قصے صریح قرآن کے بیانات سے مخالف پڑیں تو ایسا نہ کریں کہ حدیثوں کے قصوں کو قرآن پر ترجیح دی جاوے اور قرآن کو چھوڑ دیا جائے.اور نہ حدیثوں کو مولوی عبد اللہ چکڑالوی کے عقیدہ کی طرح محض لغو اور باطل ٹھیرایا جائے بلکہ چاہئے کہ قرآن اور سنت کو حدیثوں پر قاضی سمجھا جائے اور جو حدیث قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو اس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے.یہی صراط مستقیم ہے.مبارک وہ جو اس کے پابند ہوتے ہیں.نہایت بد قسمت اور نادان وہ شخص ہے جو بغیر لحاظ اس قاعدہ کے حدیثوں کا انکار کرتا ہے.ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۰۹ تا ۲۱۲) ہماری کتب مسلمه و مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں یہ تفصیل ذیل ہیں.اول قرآن شریف.مگر یادر ہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اور نیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسر نہ آ سکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسر ہو.غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں.پس ہر یک معترض پر لازم ہو گا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے.دوم دوسری کتا بیں جو ہماری مسلم کتابیں ہیں اون میں سے اول درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جو قرآن شریف سے مخالف نہیں.اور ان میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے.اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو.اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی، ابن ماجه، موطا، نسائی، ابو داؤد، دارقطنی کتب حدیث ہیں.جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں.یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رُو سے ہمارا عمل ہے..پس ہر یک معترض پر واجب ہو گا کہ کسی

Page 622

۶۱۲ اعتراض کے وقت ان کتابوں اور ان شرائط سے باہر نہ جائے.آریہ دھرم.روحانی خزائن جلد ۰ اصفحہ ۸۷،۸۶) کتاب وسنت کے حج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے.جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تو وہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جو کتاب اللہ کی نص بین سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَأَيْتِهِ يُؤْمِنُونَ.یعنی تم بعد اللہ اور اس کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لاؤ گے.اس آیت میں صریح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر قرآن کریم کسی امر کی نسبت قطعی اور یقینی فیصلہ دیوے یہاں تک کہ اس فیصلہ میں کسی طور سے شک باقی نہ رہ جائے اور منشا اچھی طرح سے کھل جائے تو پھر بعد اس کے کسی ایسی حدیث پر ایمان لانا جو صریح اس کے مخالف پڑی ہو مومن کا کام نہیں ہے.پھر فرماتا ہے فباي فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ہے.ان دونوں آیتوں کے ایک ہی معنے ہیں.اس لئے اس جگہ تصریح کی ضرورت نہیں.سو آیات متذکرہ بالا کی رو سے ہر ایک مومن کا یہ ہی مذہب ہونا چاہئے کہ وہ کتاب اللہ کو بلا شرط اور حدیث کو شر طی طور پر حجت شرعی قرار دیوے اور یہی میرا مذہب ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد۴ صفحه ۱۲۱) جس کو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے فہم قرآن عطا کرے اور تفہیم الہی سے وہ مشرف ہو جاوے اور اُس پر ظاہر کر دیا جائے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت سے فلاں حدیث مخالف ہے اور یہ علم اس کا کمال یقین اور قطعیت تک پہونچ جائے تو اس کے لئے یہی لازم ہو گا کہ حتی الوسع اول ادب کی راہ سے اس حدیث کی تاویل کر کے قرآن شریف سے مطابق کرے اور اگر مطابقت محالات میں سے ہو اور کسی صورت سے نہ ہو سکے تو بدرجہ نا چاری اس حدیث کے غیر صحیح ہونے کا قائل ہو.کیونکہ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم بحالت مخالفت قرآن شریف ، حدیث کی تاویل کی طرف رجوع کریں.لیکن یہ سراسر الحاد الجاثية: الاعراف : ١٨٦

Page 623

۶۱۳ اور کفر ہو گا کہ ہم ایسی حدیثوں کی خاطر سے کہ جو انسان کے ہاتھوں سے ہم کو ملی ہیں اور انسانوں کی باتوں کا اُن میں ملنا نہ صرف احتمالی امر ہے بلکہ یقینی طور پر پایا جاتا ہے قرآن کو چھوڑ دیں !!! الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۱) واضح ہو کہ احادیث کے دو حصہ ہیں.ایک وہ حصہ جو سلسلۂ تعامل کی پناہ میں کامل طور پر آ گیا ہے.یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اور قومی اور لاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچا دیا ہے.جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اور عقود اور معاملات اور احکام شرع متین داخل ہیں.سوایسی حدیثیں تو بلا شبہ یقین اور کامل ثبوت کی حد تک پہونچ گئے ہیں اور جو کچھ ان حدیثوں کو قوت حاصل ہے وہ قوت فنِ حدیث کے ذریعہ حاصل نہیں ہوئی اور نہ وہ احادیث منقولہ کی ذاتی قوت ہے اور نہ وہ راویوں کے وثاقت اور اعتبار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ وہ قوت برکت وطفیل سلسلہ تعامل پیدا ہوئی ہے.سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک اُن کو سلسلۂ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں.لیکن دوسرا حصہ حدیثوں کا جن کو سلسلہ تعامل سے کچھ تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور صرف راویوں کے سہارے سے اور اُن کی راست گوئی کے اعتبار پر قبول کی گئی ہیں ان کو میں مرتبہ ظن سے بڑھ کر خیال نہیں کرتا اور غایت کار مفید ظن ہو سکتی ہیں کیونکہ جس طریق سے وہ حاصل کی گئی ہیں وہ یقینی اور قطعی الثبوت طریق نہیں ہے بلکہ بہت سی آویزش کی جگہ ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۵) پس ایسا ہی صاحب معترض نے کسی سے سُن لیا ہے کہ احادیث اکثر احاد کے مرتبہ پر ہیں.اور اس سے بلا توقف یہ نتیجہ پیدا کیا کہ بجز قرآن کریم کے اور جس قدر مسلماتِ اسلام ہیں وہ سب کے سب بے بنیاد و مشکوک ہیں جن کو یقین اور قطعیت میں سے کچھ حصہ نہیں.لیکن درحقیقت یہ ایک بڑا بھاری دھو کہ ہے جس کا پہلا اثر دین اور ایمان کا تباہ ہونا ہے.کیونکہ اگر یہی بات سچ ہے کہ اہل اسلام کے پاس بجز قرآن کریم کے جس قدر اور منقولات ہیں وہ تمام ذخیرہ کذب اور جھوٹھ اور افترا اور ظنون اور اوہام کا ہے تو پھر شاید اسلام میں سے کچھ تھوڑا ہی حصہ باقی رہ جائے گا وجہ یہ کہ ہمیں اپنے دین کی تمام تفصیلات احادیث نبویہ کے ذریعہ سے ملی ہیں.مثلاً یہ نماز جو پنج وقت ہم پڑھتے ہیں گو قرآن مجید سے اس کی فرضیت ثابت ہوتی ہے مگر یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ صبح کی دو رکعت فرض اور دو رکعت سنت ہیں اور پھر ظہر کی چار رکعت فرض اور چار اور دوسنت اور مغرب کی تین رکعت فرض اور پھر عشاء کی چار.ایسا ہی

Page 624

۶۱۴ زکوۃ کی تفاصیل معلوم کرنے کے لئے ہم بالکل احادیث کے محتاج ہیں اسی طرح ہزار ہا جزئیات ہیں جو عبادات اور معاملات اور عقود وغیرہ کے متعلق ہیں اور ایسی مشہور ہیں کہ ان کا لکھنا صرف وقت ضائع کرنا اور بات کو طول دینا ہے.علاوہ اس کے اسلامی تاریخ کا مبدء اور منبع یہی احادیث ہی ہیں.اگر احادیث کے بیان پر بھروسہ نہ کیا جائے تو پھر ہمیں اس بات کو بھی یقینی طور پر نہیں ماننا چاہئے کہ در حقیقت حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے جن کو بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی ترتیب سے خلافت ملی اور اسی ترتیب سے ان کی موت بھی ہوئی.کیونکہ اگر احادیث کے بیان پر اعتبار نہ کیا جاوے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان بزرگوں کے وجود کو یقینی کہ سکیں.اور اس صورت میں ممکن ہو گا کہ تمام نام فرضی ہی ہوں اور دراصل نہ کوئی ابوبکر گذرا ہو نہ عمر نہ عثمان نہ علی.ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا نام عبد اللہ اور والدہ کا نام آمنہ اور دادا کا نام عبدالمطلب ہونا اور پھر آنحضرت صلعم کی بیویوں میں سے ایک کا خدیجہ اور ایک کا نام عائشہ اور ایک کا نام حفصہ رضی اللہ منھن ہونا اور دایہ کا نام حلیمہ ہونا.اور غارِ حرا میں جا کر آنحضرت کا عبادت کرنا اور بعض صحابہ کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بعد بعثت دین سال تک مکہ میں رہنا اور پھر وہ تمام لڑائیاں ہونا جن کا قرآن کریم میں نام ونشان نہیں اور صرف احادیث سے یہ تمام امور ثابت ہوتے ہیں.تو کیا ان تمام واقعات سے اس بنا پر انکار کر دیا جاوے کہ احادیث کچھ چیز نہیں؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر مسلمانوں کے لئے ممکن نہ ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سواخ میں سے کچھ بھی بیان کر سکیں.دیکھنا چاہئے کہ ہمارے مولیٰ وآقا کی سوانح کا وہ سلسلہ کہ کیونکر قبل از بعثت مکہ میں زندگی بسر کی اور پھر کس سال دعوت نبوت کی اور کس ترتیب سے لوگ داخل اسلام ہوئے اور کفار نے مکہ کے دس سال میں کس کس قسم کی تکلیفیں پہنچائیں اور پھر کیونکر اور کس وجہ سے لڑائیاں شروع ہوئیں اور کس قدرلڑائیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس حاضر ہوئے اور آنجناب کے زمانہ زندگی تک کن کن ممالک تک حکومت اسلام پھیل چکی تھی.اور شاہان وقت کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام کے خط لکھے تھے یا نہیں اور اگر لکھے تھے تو کیا ان کا نتیجہ ہوا تھا ؟ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کے وقت کیا کیا فتوحات اسلام ہوئیں اور کیا کیا مشکلات پیش آئیں؟ اور حضرت فاروق کے زمانہ میں کن کن ممالک تک فتوحات اسلام ہوئیں.یہ تمام امور صرف احادیث اور اقوالِ صحابہ کے ذریعہ سے معلوم ہوتے

Page 625

۶۱۵ ہیں.پھر اگر احادیث کچھ بھی چیز نہیں تو پھر اُس زمانہ کے حالات دریافت کرنا نہ صرف ایک امر مشکل بلکہ محالات میں سے ہو گا.اور اس صورت میں واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت مخالفین کو ہر یک افترا کی گنجائش ہوگی اور ہم دشمنوں کو بے جا حملہ کرنے کا بہت سا موقعہ دیں گے.اور ہمیں ماننا پڑے گا کہ جو کچھ ان احادیث کے ذریعہ سے واقعات اور سوانح دریافت ہوتے ہیں وہ سب پیچ اور کالعدم ہیں.یہاں تک کہ صحابہ کے نام بھی یقینی طور پر ثابت نہیں.غرض ایسا خیال کرنا کہ احادیث کے ذریعہ سے کوئی یقینی اور قطعی صداقت ہمیں مل ہی نہیں سکتی.گویا اسلام کا بہت سا حصہ اپنے ہاتھ سے نابود کرنا ہے بلکہ اصل اور صیح امر یہ ہے کہ جو کچھ احادیث کے ذریعہ سے بیان ہوا ہے جب تک صحیح اور صاف لفظوں میں قرآن اس کا معارض نہ ہو تب تک اس کو قبول کرنا لازم ہے.کیونکہ یہ بات مسلّم ہے کہ طبعی امر انسان کے لئے راست گوئی ہے اور انسان جھوٹ کو محض کسی مجبوری کی وجہ سے اختیار کرتا ہے.کیونکہ وہ اس کے لئے ایک غیر طبعی ہے.پھر ایسی احادیث جو تعامل اعتقادی یا عملی میں آکر اسلام کے مختلف گروہوں کا ایک شعار ٹھہر گئی تھیں اُن کی قطعیت اور تواتر کی نسبت کلام کرنا تو درحقیقت جنون اور دیوانگی کا ایک شعبہ ہے.مثلاً آج اگر کوئی شخص یہ بحث کرے کہ یہ پہنچ نمازیں جو مسلمان پنجوقت ادا کرتے ہیں ان کی رکعات کی تعداد ایک شکی امر ہے.کیونکہ مثلاً قرآن کریم کی کسی آیت میں یہ مذکور نہیں کہ تم صبح کی دورکعت پڑھا کرو.اور پھر جمعہ کی دو اور عیدین کی بھی دو دو.رہی احادیث تو وہ اکثر احاد ہیں جو مفید یقین نہیں.تو کیا ایسی بحث کرنے والا حق پر ہو گا.اگر احادیث کی نسبت ایسی ہی رائیں قبول کی جائیں تو سب سے پہلے نماز ہی ہاتھ سے جاتی ہے.کیونکہ قرآن نے تو نماز پڑھنے کا کوئی نقشہ کھینچ کر نہیں دکھلایا صرف یہ نمازیں احادیث کی صحت کے بھروسہ پر پڑھی جاتی ہیں..در حقیقت یہی ایک بھاری غلطی ہے جس نے اس زمانہ کے نیچریوں کو صداقت اسلام سے بہت ہی دور ڈال دیا.وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا اسلام کی وہ تمام سُنن اور رسوم اور عبادات اور سوانح اور تواریخ جن پر حدیثوں کا حوالہ دیا جاتا ہے.وہ صرف چند حدیثوں کی بنا پر ہی قائم ہیں.حالانکہ یہ اُن کی فاش غلطی ہے.بلکہ جس تعامل کے سلسلہ کو ہمارے نبی صلعم نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا تھا وہ ایسا کروڑہا انسانوں میں پھیل گیا تھا کہ اگر محدثین کا دنیا میں نام ونشان بھی نہ ہوتا تب بھی اس کو کچھ نقصان نہ تھا.یہ بات ہر ایک کو ماننی پڑتی ہے کہ اس مقدس معلم اور مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی باتوں کو ایسا محدود نہیں رکھا تھا کہ صرف دو چار آدمیوں کو سکھلائی جائیں اور باقی سب اس سے بے خبر ہوں.

Page 626

۶۱۶ اگر ایسا ہوتا تو پھر اسلام ایسا بگڑتا کہ کسی محدث وغیرہ کے ہاتھ سے ہرگز درست نہیں ہوسکتا تھا.اگر چہ ائمہ حدیث نے دینی تعلیم کی نسبت ہزار ہا حدیثیں لکھیں مگر سوال تو یہ ہے کہ وہ کونسی حدیث ہے کہ جو اُن کے لکھنے سے پہلے اُس پر عمل نہ تھا اور دنیا اس مضمون سے غافل تھی.اگر کوئی ایسی تعلیم یا ایسا واقعہ یا ایسا عقیدہ ہے جو اس کی بنیادی اینٹ صرف ائمہ حدیث نے ہی کسی روایت کی بنا پر رکھی ہے اور تعامل کے سلسلہ میں جس کے کروڑ با افراد انسانی قائل ہوں اس کا کوئی اثر ونشان دکھائی نہیں دیتا اور نہ قرآن کریم میں اس کا کچھ ذکر پایا جاتا ہے تو بلا شبہ ایسی خبر واحد کا جس کا پتہ بھی سو ڈیڑھ سو برس کے بعد لگا یقین کے درجہ سے بہت ہی نیچے گری ہوئی ہو گی اور جو کچھ اس کی ناقابل تسلی ہونے کی نسبت کہو وہ بجا ہے لیکن ایسی حدیثیں در حقیقت دین اور سوانح اسلام سے کچھ بڑا تعلق نہیں رکھتیں بلکہ اگر سوچ کر دیکھو تو ائمہ حدیث نے ایسی حدیثوں کا بہت ہی کم ذکر کیا ہے جن کا تعامل کے سلسلہ میں نام ونشان تک نہیں پایا جاتا.پس جیسا کہ بعض جاہل خیال کرتے ہیں یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ دنیا نے دین کے صد با ضروری مسائل یہاں تک کہ صوم وصلوٰۃ بھی صرف امام بخاری اور مسلم وغیرہ کی احادیث سے سیکھے ہیں.کیا سو ڈیڑھ سو برس تک لوگ بے دین ہی چلے آتے تھے ؟ کیا وہ لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے؟ زکوۃ نہیں دیتے تھے؟ حج نہیں کرتے تھے؟ اور ان تمام اسلامی عقائد کے امور سے جو حدیثوں میں لکھے ہیں بے خبر تھے؟ حَاشَا وَ كَلَّا ہرگز نہیں.شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۸ تا ۳۰۳)

Page 627

۶۱۷ ملائكة الله افسوس ان لوگوں کی حالت پر جو فلسفہ باطلہ کی ظلمت سے متاثر ہو کر ملا یک اور شیاطین کے وجود سے انکار کر بیٹھے ہیں اور بینات اور نصوص صریحہ قرآن کریم سے انکار کر دیا اور نادانی سے بھرے ہوئے الحاد کے گڑھے میں گر پڑے.اور اس جگہ واضح رہے کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے اثبات کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے استنباط حقائق میں اِس عاجز کو متفرد کیا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۸۹) خدا تعالیٰ جو اپنے تنزہ اور تقدس میں ہر یک برتر سے برتر ہے اپنی تذلیات اور تجلیات میں مظاہر مناسبہ سے کام لیتا ہے اور چونکہ جسم اور جسمانی چیزیں اپنے ذاتی خواص اور اپنی ہستی کی کامل تقیدات سے مقید ہو کر اور بمقابل ہستی اور وجود باری اپنا نام ہست اور موجود رکھا کر اور اپنے ارادوں یا اپنے طبعی افعال سے اختصاص پا کر اور ایک مستقل وجود جامع ہویت نفس اور مانع ہو یت غیر بن کر ذات علت العلل اور فیاض مطلق سے دور جا پڑے ہیں اور ان کے وجود کے گردا گرد اپنی ہستی اور انانیت اور مخلوقیت کا ایک بہت ہی موٹا حجاب ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں رہیں کہ ذات احدیت کے وہ فیضان براہ راست اُن پر نازل ہوسکیں جو صرف اس صورت میں نازل ہو سکتے ہیں کہ جب حجب مذکورہ بالا درمیان نہ ہوں اور ایک ایسی ہستی ہو جو بکلی نیستی کے مشابہ ہو کیونکہ ان تمام چیزوں کی ہستی نیستی کے مشابہ نہیں.ہر ایک چیز اس قسم کی مخلوقات میں سے بزبان حال اپنی ہستی کا بڑے زور وشور سے اقرار کر رہی ہے.آفتاب کہہ رہا ہے کہ میں وہ ہوں جس پر تمام گرمی و سردی و روشنی کا مدار ہے.جو ۳۶۵ صورتوں میں تین سو پینسٹھ قسم کی تاثیریں دنیا میں ڈالتا ہے اور اپنی شعاعوں کے مقابلہ سے گرمی اور اپنی انحراف

Page 628

۶۱۸ شعاعوں سے سردی پیدا کرتا ہے اور اجسام اور اجسام کے مواد اور اجسام کی شکلوں اور حواس پر اپنی حکومت رکھتا ہے.زمین کہہ رہی ہے کہ میں وہ ہوں کہ جس پر ہزار ہا ملک آباد ہیں اور جو طرح طرح کی نباتات پیدا کرتی اور طرح طرح کے جواہر اپنے اندر طیار کرتی اور آسمانی تاثیرات کو عورت کی طرح قبول کرتی ہے.آگ بزبانِ حال کہہ رہی ہے کہ میں ایک جلانے والی چیز ہوں اور بالخاصیت قوتِ احراق میرے اندر ہے اور اندھیرے میں قائم مقام آفتاب ہوں.اسی طرح زمین کی ہر ایک چیز بزبان حال اپنی شنا کر رہی ہے.غرض یہ تمام چیزیں بزبان حال اپنی اپنی تعریف کر رہی ہیں اور مجوب بانفسہا ہیں.یعنی اپنے خواص کے پردے میں مجوب ہیں.اس لئے مبدء فیض سے دور پڑ گئی ہیں اور بغیر ایسی چیزوں کی توسط کے جو ان حجابوں سے منزہ ہوں مبدء فیض کا کوئی ارادہ اُن سے تعلق نہیں پکڑ سکتا کیونکہ حجاب اس فیض سے مانع ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کی حکمت نے تقاضا کیا کہ اُس کی ارادات کا مظہر اول بننے کے لئے ایک ایسی مخلوق ہو جو مجوب بنفسہ نہ ہو بلکہ اس کی ایک ایسی نرالی خلقت ہو جو بر خلاف اور چیزوں کے اپنی فطرت سے ہی ایسی واقع ہو کہ نفس حاجب سے خالی اور خدا تعالیٰ کے لئے اس کی جوارح کی طرح ہو اور خدا تعالیٰ کے جمیع ارادات کے موافق جو مخلوق اور مخلوق کے کل عوارض سے تعلق رکھتے ہیں اس کی تعداد ہو اور وہ نرالی پیدائش کی چیزیں مرایا صافیہ کی طرح اپنی فطرت رکھ کر ہر وقت خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں اور اپنے وجود میں ذُو جِهَتَین ہوں.ایک جہت تجرد اور تنزہ کی جو اپنے وجود میں وہ نہایت الطف اور منزہ عن الحجب ہوں جس کی وجہ سے وہ دوسری مخلوق سے نرالی اور خدا تعالیٰ کے وجود سے ظلمی طور پر مشابہت تامہ رکھتے ہوں اور مجوب بانفسہا نہ ہوں.دوسری جہت مخلوقیت کی جس کی وجہ سے وہ دوسری مخلوقات سے مناسبت رکھیں اور اپنی تاثیرات کے ساتھ اُن سے نزدیک ہوسکیں.سو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ سے اس عجیب مخلوق کا وجود ہو گیا جس کو ملائک کہتے ہیں.یہ ملائک ایسے فنا فی طاعت اللہ ہیں کہ اپنا ارادہ اور فیشن اور توجہ اور اپنے ذاتی قوی یعنی یہ کہ اپنے نفس سے کسی پر مہربان ہونا یا اس سے ناراض ہو جانا اور اپنے نفس سے ایک بات کو چاہنا یا اس سے کراہت کرنا کچھ بھی نہیں رکھتے بلکہ بلکلی جوارح الحق کی طرح ہیں.خدا تعالیٰ کے تمام ارادے اوّل انہی کے مرایا صافیہ میں منعکس ہوتے ہیں اور پھر اُن کی توسط سے کل مخلوقات میں پھیلتے ہیں.چونکہ خدا تعالیٰ بوجہ اپنے تقدس تام کے نہایت تجرڈ اور تنزہ میں ہے.اس لئے وہ چیزیں جو انانیت اور ہستی محجوبہ کی کثافت سے خالی نہیں اور مجوب بانفسہا ہیں اس

Page 629

۶۱۹ مبدء فیض سے کچھ مناسبت نہیں رکھتیں اور اسی وجہ سے ایسی چیزوں کی ضرورت پڑی جو مِنُ وَجهِ خدا تعالیٰ سے مناسبت رکھتی ہوں اور من وجہ اس کی مخلوق سے.تا اس طرف سے فیضان حاصل کریں اور اس طرف پہنچا دیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۱ ۱ تا ۱۷۰ حاشیہ) فرشتوں کا وجود ماننے کے لئے نہایت سہل اور قریب راہ یہ ہے کہ ہم اپنی عقل کی توجہ اس طرف مبذول کریں کہ یہ بات طے شدہ اور فیصل شدہ ہے کہ ہمارے اجسام کی ظاہری تربیت اور تکمیل کے لئے اور نیز اس کام کے لئے کہ تا ہمارے ظاہری حواس کے افعال مطلو بہ کما ینبغی صادر ہوسکیں خدا تعالیٰ نے یہ قانون قدرت رکھا ہے کہ عناصر اور شمس و قمر اور تمام ستاروں کو اس خدمت میں لگا دیا ہے کہ وہ ہمارے اجسام اور قومی کو مدد پہنچا کر اُن سے بوجہ احسن ان کے تمام کام صادر کرا دیں.اور ہم ان صداقتوں کے ماننے سے کسی طرف بھاگ نہیں سکتے کہ مثلاً ہماری آنکھ اپنی ذاتی روشنی سے کسی کام کو بھی انجام نہیں دے سکتی جب تک آفتاب کی روشنی اُس کے ساتھ شامل نہ ہو.اور ہمارے کان محض اپنی قوت شنوائی سے کچھ بھی سُن نہیں سکتے جب تک کہ ہوا متکلیف بصوت ان کی ممد و معاون نہ ہو.پس کیا اس سے یہ ثابت نہیں کہ خدا تعالیٰ کے قانون نے ہمارے قومی کی تکمیل اسباب خارجیہ میں رکھی ہے اور ہماری فطرت ایسی نہیں ہے کہ اسباب خارجیہ کی مدد سے مستغنی ہو.اگر غور سے دیکھو تو نہ صرف ایک دو بات میں بلکہ ہم اپنے تمام حواس تمام قومی تمام طاقتوں کی تعمیل کے لئے خارجی امدادات کے محتاج ہیں.پھر جبکہ یہ قانون اور انتظام خدائے واحد لاشریک کا جس کے کاموں میں وحدت اور تناسب ہے ہمارے خارجی قومی اور حواس اور اغراض جسمانی کی نسبت نہایت شدت اور استحکام اور کمال التزام سے پایا جاتا ہے تو پھر کیا یہ بات ضروری اور لازمی نہیں کہ ہماری روحانی تکمیل اور روحانی اغراض کے لئے بھی یہی انتظام ہو.تا دونوں انتظام ایک ہی طرز پر واقع ہو کر صانع واحد پر دلالت کریں.اور خود ظاہر ہے کہ جس حکیم مطلق نے ظاہری انتظام کی یہ بنا ڈالی ہے اور اسی کو پسند کیا ہے کہ اجرام سماوی اور عناصر وغیرہ اسباب خارجیہ کے اثر سے ہمارے ظاہر اجسام اور قومی اور حواس کی تعمیل ہو.اس حکیم قادر نے ہماری روحانیت کے لئے بھی یہی انتظام پسند کیا ہو گا.کیونکہ وہ واحد لاشریک ہے اور اس کی حکمتوں اور کاموں میں وحدت اور تناسب ہے اور دلائل انیہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں.سو وہ اشیاء خارجیہ جو ہماری روحانیت پر اثر ڈال کر شمس اور قمر اور عناصر کی طرح جو اغراض جسمانی کے لئے محمد ہیں ہماری اغراض روحانی کو پورا کرتی ہیں.انہی کا نام ہم ملائک رکھتے ہیں.پس اس تقریر سے وجود ملائک کا بوجہ احسن

Page 630

۶۲۰ ثابت ہوتا ہے اور گو ہم پر اُن کی گنہ کھل نہ سکے اور کھلنا کچھ ضرور بھی نہیں لیکن اجمالی طور پر قانون قدرت کے توافق اور اتحاد پر نظر کر کے اُن کا وجود ہمیں ماننا پڑتا ہے کیونکہ جس حالت میں ہم نے بطیب خاطر ظاہری قانون کو مان لیا ہے تو پھر کیا وجہ کہ ہم اسی طرز اور طریق پر باطنی قانون کو تسلیم نہ کریں.بے شک ہمیں باطنی قانون بھی اسی طرح قبول کرنا پڑے گا کہ جس طرح ہم نے ظاہری قانون کو مان لیا.یہی سر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں بعض جگہ ان دونوں قانونوں کو مشترک الفاظ میں بیان کر دیا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَالذُّرِيتِ ذَرُوا فَالْحَمِلتِ وِقْرًا فَالْجَرِيتِ يُسْرًا.فَالْمُقَسمتِ أَمْرًا لے.یعنی ان ہواؤں کی قسم ہے جو سمندروں اور دوسرے پانیوں سے بخارات کو ایسا جدا کرتی ہیں جو حق جدا کرنے کا ہے.پھر اُن ہواؤں کی قسم ہے جو ان گراں بار بخارات کو حمل دار عورتوں کی طرح اپنے اندر لے لیتی ہیں.پھر اُن ہواؤں کی قسم ہے جو بادلوں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے چلتی ہیں.پھر ان فرشتوں کی قسم ہے جو در پردہ ان تمام امور کے منصرم اور انجام دہ ہیں.یعنی ہوائیں کیا چیز ہیں اور کیا حقیقت رکھتی ہیں جو خود بخود بخارات کو سمندروں میں سے اٹھاویں اور بادلوں کی صورت بناویں اور عین محل ضرورت پر جا کر برساویں.اور مقسم امور بہنیں یہ تو در پردہ ملائک کا کام ہے.سوخدا تعالیٰ نے ان آیات میں اول حکماء ظاہر کے طور پر بادلوں کے برسنے کا سبب بتلایا اور بیان فرمایا کہ کیونکر پانی بخار ہو کر بادل اور ابر ہو جاتا ہے اور پھر آخری فقرہ میں یعنی فَالْمُقَسمتِ أَمْرًا میں حقیقت کو کھول دیا اور ظاہر کر دیا کہ کوئی ظاہر بین یہ خیال نہ کرے کہ صرف جسمانی علل اور معلولات کا سلسلہ نظام ربانی کے لئے کافی ہے بلکہ ایک اور سلسلہ علل روحانیہ کا اس جسمانی سلسلہ کے نیچے ہے جس کے سہارے سے یہ ظاہری سلسلہ جاری ہے.اور پھر ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.وَالْمُرْسَلَتِ عُرُفًا فَالْعُصِفْتِ عَصْفًا وَالنُّشِرَاتِ نَشْرًا فَالْفَرِقْتِ فَرْقًا.فَالْمُلْقِيتِ ذِكْرًا.یعنی قسم ہے اُن ہواؤں کی اور اُن فرشتوں کی جو نرمی سے چھوڑے گئے ہیں اور قسم ہے ان ہواؤں کی اور اُن فرشتوں کی جو زور اور شدت کے ساتھ چلتے ہیں.اور قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں اور ان فرشتوں کی جو ان بادلوں پر مؤکل ہیں.اور قسم ہے ان ہواؤں کی جو ہر یک چیز کو جو معرض ذکر میں آجائے کانوں تک پہنچاتی ہیں.اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو الہی کلام کو دلوں تک پہنچاتے ہیں.اس طرح خدا تعالیٰ نے آیت فَالْمُدَتِرَاتِ أَمْرًا میں فرشتوں اور الثريت : ۵۲ ۲ المرسلات :۶۲۲ تا تا النازعات:

Page 631

۶۲۱ ستاروں کو ایک ہی جگہ جمع کر دیا ہے یعنی اس آیت میں کواکب سبعہ کو ظاہری طور پر مدتر مافی الارض ٹھہرایا ہے اور ملائک کو باطنی طور پر ان چیزوں کا مد بر قرار دیا ہے.چنانچہ تفسیر فتح البیان میں معاذ بن جبل اور قشیری سے یہ دونوں روائتیں موجود ہیں.اور ابن کثیر نے حسن سے یہ روایت ملائک کی نسبت کی ہے كه تدبر الامر من السماء الى الارض یعنی آسمان سے زمین تک جس قدر امور کی تدبیر ہوتی ہے وہ سب ملائک کے ذریعہ سے ہوتی ہے.اور ابن کثیر لکھتا ہے کہ یہ متفق علیہ قول ہے کہ مدبرات امر ملائک ہیں.اور ابن جریر نے بھی آیات فَالْمُدَبِرَاتِ أَمْرًا کے نیچے یہ شرح کی ہے کہ اس سے مراد ملائک ہیں.جو مدبر عالم ہیں.یعنی گو بظاہر نجوم اور شمس و قمر و عناصر وغیرہ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں مگر در حقیقت مدتبر ملائک ہی ہیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۳ تا ۱۳۷ حاشیه ) جہاں تک ہم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں اور جس قدر ہم اپنے فکر اور ذہن اور سوچ سے کام لیتے ہیں صریح اور صاف اور بدیہی طور پر ہمیں نظر آتا ہے کہ ہر یک فیضان کے لئے ہم میں اور ہمارے خداوند کریم میں علل متوسطہ ہیں جن کی توسط سے ہر یک قوت اپنی حاجت کے موافق فیضان پاتی ہے.پس اسی دلیل سے ملائک اور جنات کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ہم نے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ خیر اور شر کے اکتساب میں صرف ہمارے ہی قومی کافی نہیں بلکہ خارجی ممدات اور معاونات کی ضرورت ہے جو خارق عادت اثر رکھتے ہیں.مگر وہ ممد اور معاون خدا تعالیٰ براہ راست اور بلا توسط نہیں بلکہ بتوسط بعض اسباب ہے.سو قانون قدرت کے ملاحظہ نے قطعی اور یقینی طور پر ہم پر کھول دیا کہ وہ ممدات اور معاونات خارج میں موجود ہیں.گو اُن کی گنہ اور کیفیت ہم کو معلوم ہو یا نہ ہومگر یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ نہ براہِ راست خدا تعالیٰ ہے اور نہ ہماری ہی قوتیں اور ہمارے ہی ملکے ہیں.بلکہ وہ ان دونوں قسموں سے الگ ایسی مخلوق چیزیں ہیں جو ایک مستقل وجود اپنا رکھتی ہیں.اور جب ہم ان میں سے کسی کا نام داعی الی الخیر رکھیں گے تو اُسی کو ہم روح القدس یا جبرائیل کہیں گے اور جب ہم اُن میں سے کسی کا نام داعی الی الشر رکھیں گے تو اُسی کو ہم شیطان اور ابلیس کے نام سے بھی موسوم کریں گے.یہ تو ضرور نہیں کہ ہم رُوح القدس یا شیطان ہر یک تاریک دل کو دکھلاویں اگر چہ عارف اُن کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور کشفی مشاہدات سے وہ دونوں نظر بھی آ جاتی ہیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶ ۸ تا ۸۸)

Page 632

۶۲۲.خدا آپ لوگوں کو ہدایت دے قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ خدا متغیر ہے بلکہ یہ لکھا ہے کہ انسان متغیر ہے.اس لئے اس کے مناسب حال خدا اس کے لئے تبدیلیاں کرتا ہے.جب بچہ پیٹ میں ہوتا ہے تو صرف اُس کو خون کی غذا ملتی ہے اور جب پیدا ہوتا ہے تو ایک مدت تک صرف دودھ پیتا ہے اور پھر بعد اس کے اناج کھاتا ہے اور خدائے تعالیٰ تینوں سامان اس کے لئے وقتاً فوقتاً پیدا کر دیتا ہے.پیٹ میں ہونے کی حالت میں پیٹ کے فرشتوں کو جو اندرونی ذرات ہیں حکم کر دیتا ہے کہ اُس کی غذا کے لئے خون بناویں.اور پھر جب پیدا ہوتا ہے تو اس حکم کو منسوخ کر دیتا ہے.تو پھر پستان کے فرشتوں کو جو اس کے ذرات ہیں حکم کرتا ہے جو اُس کے لئے دودھ بناویں.اور جب وہ دودھ سے پرورش پا چکتا ہے تو پھر اس حکم کو بھی منسوخ کر دیتا ہے.تو پھر زمین کے فرشتوں کو جو اس کے ذرات ہیں حکم کرتا ہے جو اُس کے لئے اخیر مدت تک اناج اور پانی پیدا کرتے رہیں.پس ہم مانتے ہیں کہ ایسے تغیر خدا کے احکام میں ہیں.خدا نے تو قرآن شریف میں ہمیں یہ سکھلایا ہے کہ یہ طبعی سلسلہ خود بخود نہیں بلکہ ان چیزوں کے تمام ذرات خدا کی آواز سنتے ہیں اور اُس کے فرشتے ہیں یعنی اس کی طرف سے ایک کام کے لئے مقرر شدہ ہیں.پس وہ کام اُس کی مرضی کے موافق وہ کرتے رہتے ہیں.سونے کے ذرات سونا بناتے رہتے ہیں اور چاندی کے ذرات چاندی بناتے رہتے ہیں اور موتی کے ذرات موتی بناتے ہیں اور انسانی وجود کے ذرات ماؤں کے پیٹ میں انسانی بچہ طیار کرتے ہیں اور یہ ذرات خود بخود کچھ بھی کام نہیں کرتے بلکہ خدا کی آواز سنتے ہیں اور اسی کی مرضی کے موافق کام کرتے ہیں.اسی لئے وہ اس کے فرشتے کہلاتے ہیں اور کئی قسم کے فرشتے ہوتے ہیں یہ تو زمین کے فرشتے ہیں.مگر آسمان کے فرشتے آسمان سے اپنا اثر ڈالتے ہیں جیسا کہ سورج کی گرمی بھی خدا کا ایک فرشتہ ہے جو پھلوں کا پکانا اور دوسرے کام کرتا ہے اور ہوائیں بھی خدا کے فرشتے ہیں جو بادلوں کو اکٹھے کرتے اور کھیتوں کو مختلف اثر اپنے پہونچاتے ہیں.اور پھر ان کے اوپر اور بھی فرشتے ہیں جو اُن میں تاثیر ڈالتے ہیں.علوم طبعی اس بات کے گواہ ہیں کہ فرشتوں کا وجود ضروری ہے اور ان فرشتوں کو ہم بچشم خود دیکھ رہے ہیں.قرآن شریف میں تین قسم کے فرشتے لکھے ہیں:.(۱) ذرات اجسام ارضی اور روحوں کی قوتیں.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۴۶۱ تا ۴۶۳) (۲) اکاش.سورج.چاند.زمین کی قوتیں جو کام کر رہی ہیں.

Page 633

۶۲۳ (۳) ان سب پر اعلی طاقتیں جو جبرائیل و میکائیل وعزرائیل وغیرہ نام رکھتی ہیں جن کو دید میں جسم لکھا ہے..اور فرشتہ کا لفظ قرآن شریف میں عام ہے.ہر ایک چیز جو اس کی آواز سنتی ہے وہ اس کا فرشتہ ہے.پس دنیا کا ذرہ ذرہ خدا کا فرشتہ ہے کیونکہ وہ اُس کی آواز سنتے ہیں اور اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں.(نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۶ ۴۵ ،۴۵۷) محققین اہل اسلام ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ ملائک اپنے شخصی وجود کے ساتھ انسانوں کی طرح پیروں سے چل کر زمین پر اترتے ہیں.اور یہ خیال ببداہت باطل بھی ہے کیونکہ اگر یہی ضرور ہوتا کہ ملائک اپنی اپنی خدمات کی بجا آوری کے لئے اپنے اصل وجود کے ساتھ زمین پر اترا کرتے تو پھر اُن سے کوئی کام انجام پذیر ہونا بغایت درجہ محال تھا مثلاً فرشتہ ملک الموت جو ایک سکنڈ میں ہزار ہا ایسے لوگوں کی جانیں نکالتا ہے جو مختلف بلاد وامصار میں ایک دوسرے سے ہزاروں کوسوں کے فاصلہ پر رہتے ہیں اگر ہر ایک کے لئے اس بات کا محتاج ہو کر کہ اول پیروں سے چل کر اس ملک اور شہر اور گھر میں جاوے اور پھر اتنی مشقت کے بعد جان نکالنے کا اس کو موقع ملے تو ایک سکنڈ کیا اتنی بڑی کارگزاری کے لئے تو کئی مہینے کی مہلت بھی کافی نہیں ہو سکتی.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص انسانوں کی طرح حرکت کر کے ایک طرفہ العین کے یا اس سے کم عرصہ میں تمام جہان گھوم کر چلا آوے ہرگز نہیں.بلکہ فرشتے اپنے اصلی مقامات سے جو اُن کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں ایک ذرہ کے برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے جیسا کہ خدائے تعالیٰ ان کی طرف سے قرآن شریف میں فرماتا ہے.وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُوْم وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُونَ سورة صافات جز و۲۳ پس اصل بات یہ ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اس کی گرمی و روشنی زمین پر پھیل کر اپنے خواص کے موافق زمین کی ہر یک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح روحانیات سماویہ خواہ ان کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یا دسا تیر اور وید کی اصطلاحات کے موافق ارواح کو اکب سے ان کو نامزد کریں یا نہایت سید ھے اور موحدانہ طریق سے ملائک اللہ کا ان کو لقب دیں، در حقیقت یہ عجیب مخلوقات اپنے اپنے مقام میں مستعقر اور قرار گیر ہے اور محکمت کا ملہ خداوند تعالی زمین کی ہر یک مستعد چیز کو اس کے کمال مطلوب تک پہنچانے کے لئے یہ روحانیات خدمت میں لگی ہوئی ہیں ظاہری خدمات بھی بجا لاتے ہیں اور باطنی بھی.جیسے الصافات : ۱۶۶،۱۶۵

Page 634

۶۲۴ ہمارے اجسام اور ہماری تمام ظاہری قوتوں پر آفتاب اور ماہتاب اور دیگر سیاروں کا اثر ہے.ایسا ہی ہمارے دل اور دماغ اور ہماری تمام روحانی قوتوں پر یہ سب ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں.جو چیز کسی عمدہ جو ہر بننے کی اپنے اندر قابلیت رکھتی ہے وہ اگر چہ خاک کا ایک ٹکڑا ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو صدف میں داخل ہوتا ہے.یا پانی کا وہ قطرہ جو رحم میں پڑتا ہے وہ ان ملائک اللہ کی روحانی تربیت سے لعل اور الماس اور یا قوت اور نیلم وغیرہ یا نہایت درجہ کا آبدار اور وزنی موتی یا اعلیٰ درجہ کے دل اور دماغ کا انسان بن جاتا ہے.قرآن شریف نے جس طرز سے ملائک کا حال بیان کیا ہے وہ نہایت سیدھی اور قریب قیاس راہ ہے اور بجز اس کے ماننے کے انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا.قرآن شریف پر بدیدہ تعمق غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بلکہ جمیع کا ئنات الارض کی تربیت ظاہری و باطنی کے لئے بعض وسائط کا ہونا ضروری ہے.اور بعض بعض اشارات قرآنیہ سے نہایت صفائی سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض وہ نفوس طیبہ جو ملائک سے موسوم ہیں ان کے تعلقات طبقات سماویہ سے الگ الگ ہیں.بعض اپنی تاثیرات خاصہ سے ہوا کے چلانے والے اور بعض مینہ کے برسانے والے اور بعض بعض اور تا ثیرات کو زمین پر اوتار نے والے ہیں.پس اس میں کچھ شک نہیں کہ بوجہ مناسبت نوری وہ نفوس طیبہ ان روشن اور نورانی ستاروں سے تعلق رکھتے ہوں گے کہ جو آسمانوں میں پائے جاتے ہیں مگر اس تعلق کو ایسا نہیں سمجھنا چاہئے کہ جیسے زمین کا ہر یک جاندار اپنے اندر جان رکھتا ہے بلکہ اُن نفوس طیبہ کو بوجہ مناسبت اپنی نورانیت اور روشنی کے جو روحانی طور پر انہیں حاصل ہے روشن ستاروں کے ساتھ ایک مجہول الکنہ تعلق ہے اور ایسا شدید تعلق ہے کہ اگر ان نفوس طیبہ کا اُن ستاروں سے الگ ہونا فرض کر لیا جائے تو پھر اُن کے تمام قومی میں فرق پڑ جائے گا.انہیں نفوس کے پوشیدہ ہاتھ کے زور سے تمام ستارے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں اور جیسے خدائے تعالیٰ تمام عالم کے لئے بطور جان کے ہے ایسا ہی ( مگر اس جگہ تشبیہ کامل مراد نہیں ) وہ نفوس نورانیہ کواکب اور سیارات کے لئے جان کا ہی حکم رکھتے ہیں.اور ان کے جدا ہو جانے سے ان کی حالت وجود یہ میں بکتی فساد راہ پا جانا لازمی وضروری امر ہے اور آج تک کسی نے اس امر میں اختلاف نہیں کیا کہ جس قدر آسمانوں میں سیارات اور کواکب پائے جاتے ہیں وہ کائنات الارض کی تکمیل و تربیت کے لئے ہمیشہ کام میں مشغول ہیں.غرض یہ نہایت بچی ہوئی اور ثبوت کے چرخ پر چڑھی ہوئی صداقت ہے کہ تمام نباتات اور جمادات اور حیوانات پر آسمانی کواکب کا دن رات اثر پڑ رہا ہے اور جاہل سے

Page 635

۶۲۵ جاہل ایک دہقان بھی اس قدر تو ضرور یقین رکھتا ہوگا کہ چاند کی روشنی پھلوں کے موٹا کرنے کے لئے اور سورج کی دھوپ ان کو پکانے اور شیریں کرنے کے لئے اور بعض ہوا میں بکثرت پھل آنے کے لئے بلاشبہ مؤثر ہیں.اب جبکہ ظاہری سلسلہ کا ئنات کا ان چیزوں کی تاثیرات مختلفہ سے تربیت پا رہا ہے تو اس میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ باطنی سلسلہ پر بھی باز نہ تعالیٰ وہ نفوس نو رانیہ اثر کر رہی ہیں جن کا اجرام نورانیہ سے ایسا شدید تعلق ہے کہ جیسے جان کو جسم سے ہوتا ہے.اب اس کے بعد یہ بھی جاننا چاہئے کہ اگر چہ بظاہر یہ بات نہایت دور از ادب معلوم ہوتی ہے کہ خدائے تعالیٰ اور اُس کے مقدس نبیوں میں افاضہ انوار وحی کے لئے کوئی اور واسطہ تجویز کیا جائے لیکن ذرا غور کرنے سے بخوبی سمجھ آ جائے گا کہ اس میں کوئی سوء ادب کی بات نہیں بلکہ سراسر خدا تعالیٰ کے اس عام قانون کے مطابق ہے جو دنیا کی ہر یک چیز کے متعلق کھلے کھلے طور پر مشہو دو محسوس ہو رہا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام بھی اپنے ظاہری جسم اور ظاہری قومی کے لحاظ سے انہی وسائط کے محتاج ہیں اور نبی کی آنکھ بھی گو کیسی ہی نورانی اور بابرکت آنکھ ہے مگر پھر بھی عوام کی آنکھوں کی طرح آفتاب یا اس کے کسی دوسرے قائم مقام کے بغیر کچھ دیکھ نہیں سکتے اور بغیر توسط ہوا کے کچھ سن نہیں سکتے لہذا یہ بات بھی ضروری طور پر ماننی پڑتی ہے کہ نبی کی روحانیت پر بھی ان سیارات کے نفوس نورانیہ کا ضرور اثر پڑتا ہوگا بلکہ سب سے زیادہ اثر پڑتا ہوگا کیونکہ جس قدر استعداد صافی اور کامل ہوتی ہے اسی قدراثر بھی صافی اور کامل طور پر پڑتا ہے.قرآن شریف سے ثابت ہے کہ یہ سیارات اور کواکب اپنے اپنے قالبوں کے متعلق ایک ایک رُوح رکھتے ہیں جن کو نفوس کو اکب سے بھی نامزد کر سکتے ہیں اور جیسے کواکب اور سیاروں میں باعتبار ان کے قالبوں کے طرح طرح کے خواص پائے جاتے ہیں جو زمین کی ہر یک چیز پر حسب استعداد اثر ڈال رہے ہیں ایسا ہی اُن کے نفوس نورانیہ میں بھی انواع اقسام کے خواص ہیں جو باذنِ حکیم مطلق کائنات الارض کے باطن پر اپنا اثر ڈالتے ہیں اور یہی نفوس نورانیہ کامل بندوں پر بشکل جسمانی متشکل ہو کر ظاہر ہو جاتے ہیں اور بشری صورت سے متمثل ہو کر دکھائی دیتے ہیں اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تقریر از قبیل خطابیات نہیں بلکہ یہ وہ صداقت ہے جو طالب حق اور حکمت کو ضرور ماننی پڑے گی.توضیح مرام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۶ تا ۷۲ ) واضح رہے کہ فرشتوں کے نزول سے بھی ہمیں انکار نہیں.اگر کوئی ثابت کر دے کہ فرشتوں کا نزول

Page 636

۶۲۶ اسی طرح ہوتا ہے کہ وہ اپنے وجود کو آسمان سے خالی کر دیں تو ہم بشوق اس ثبوت کو سنیں گے.اور اگر در حقیقت ثبوت ہوگا تو ہم اس کو قبول کر لیں گے.جہاں تک ہمیں معلوم ہے فرشتوں کا وجود ایمانیات میں داخل ہے.خدا تعالیٰ کا نزول سماء الدنیا کی طرف اور فرشتوں کا نزول دونوں ایسی حقیقتیں ہیں جو ہم سمجھ نہیں سکتے.ہاں کتاب اللہ سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ خلق جدید کے طور پر زمین پر فرشتوں کا ظہور ہو جاتا ہے.وحیہ کلبی کی شکل میں جبرائیل کا ظاہر ہونا خلق جدید تھا یا کچھ اور تھا.پھر کیا یہ ضرور ہے کہ پہلی خلق کو نابود کر لیں.پھر خلق جدید کے قائل ہوں.بلکہ پہلا خلق بجائے خود آسمان پر ثابت اور قائم ہے اور دوسر اخلق خدا تعالیٰ کی وسیع قدرت کا ایک نتیجہ ہے کیا خدا تعالیٰ کی قدرت سے بعید ہے کہ ایک وجود دو جگہ دو جسموں سے دکھاوے.حاشا و کل ہرگز نہیں اَلَمْ تَعْلَمُ اَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.(اشتہار انعامی بنام شیخ محمد حسین بطالوی مشمولہ ستر الخلافہ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۴ ۴۱ ، ۴۱۵ ) واعتقد أن لله ملائكة مقربين.لكلّ واحدٍ منهم مقام معلوم لا ينزل احد من مقامه ولا يرقى ونزولهم الذى قدجاء في القرآن ليس كنزول الانسان من الاعلى الى الاسفل ولا صعودهم كصعود الناس من الاسفل الى الاعلى لان في نزول الانسان تحوّل من المكان و رائحة من شق الانفس و اللغوب ولا يمسهم لغب ولاشق ولا يتطرق اليهم تغير فلا تقيسوا نزولهم و صعودهم باشياء اخرى بل نزولهم و صعودهم بصبغ نزول الله و صعوده من العرش الى سماء الدنيا.لان الله ادخل وجود هم في الايـمـانـيـات.وقال مَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبَّكَ إِلَّاهُوَ.فآمنوا بنزولهم وصعودهم ولا تدخلوا في میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں ان میں سے ہر ایک کا مقام معلوم ہے نہ تو ان میں سے کوئی اپنے مقام سے نیچے آ سکتا ہے اور نہ ہی اوپر جاتا ہے اور ان کا وہ نزول جس کا قرآن میں ذکر آیا ہے وہ انسان کے اوپر سے نیچے آنے کی طرح نہیں اور نہ ہی ان کا صعود یعنی اوپر چڑھنا لوگوں کے نیچے سے اوپر چڑھنے کی طرح ہے کیونکہ انسان کے نزول میں اپنی جگہ سے ہٹنا لازم ہے اور یہ اپنے آپ کو مشقت اور تھکاوٹ میں ڈالنے کی ایک قسم ہے، جبکہ فرشتوں کو نہ تو تھکاوٹ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ تکلیف میں پڑتے ہیں اور نہ ہی حالات کی تبدیلی ان پر اثر انداز ہوتی ہے.پس ان کے نزول وصعود کو دیگر اشیاء پر قیاس نہ کرو بلکہ فرشتوں کا نزول اور صعود اللہ تعالیٰ کے عرش سے سماء الدنیا کی طرف نزول اور سماء الدنیا سے عرش کی طرف صعود کے رنگ میں رنگین ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے وجود کو تسلیم کرنا ایمانیات میں شامل فرمایا ہے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی فوجوں کو اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا.پس ان کے نزول وصعود پر ایمان لاؤ اور ان کی المدثر : ٣٢

Page 637

۶۲۷ كنهما ذالك خير واقرب للتقوى.وقد وصفهم الله بالقائمين والساجدين والصافين والمسبحين و الثابتين فى مقامات معلومة وجعل هذه الصفات لهم دائمة غَيْرُ منفكة وخصهم بها.فكيف يجوز ان يترك الملائكة سجودهم و قيامهم و يقصموا صفوفهم و يذروا تسبيحهم و تقديسهم و يتنزلوا من مقاماتهم ويهبطوا الارض ويخلوا السموات العلى بل هم يتحركون حال كونهم مستقرين في مقاماتهم كالملك الذي على العرش استوى.وتعلمون ان الله ينزل الى السماء في اخر كل ليل ولا يقال أنه يترك العرش ثم يصعد اليه فى اوقات اخرى فکذالک الملائكة الذين كانوا في صبغة صفات ربهم كمثل انصباغ الظل بصبغة اصله لانعرف حقيقتها و نؤمن بها.كيف نشبه احوالهم باحوال انسان نعرف حقيقة صفاته و حدود خواصه و سکناته وحركاته و قد منعنا الله من هذا و قال : وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبَّكَ إِلَّا هُوَ - فاتقوا الله يا ارباب النهى.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۸۴ تا ۳۸۷) حقیقت کی جستجو میں نہ پڑو یہ بہتر ہے اور تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ وصف رکھا ہے کہ وہ اس کے حضور میں قیام کرنے والے ہیں سجدے کرنے والے ہیں.صف بند کھڑے ہوئے ہیں.تسبیح میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے مقامات معلومہ پر ثابت قدم ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ صفات دائمی بنائی ہیں جو کبھی ختم ہونے والی نہیں اور ان صفات کو اس نے فرشتوں سے مخصوص کیا ہے.پس یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ فرشتے اپنی سجدہ گاہوں اور قیام گاہوں کو چھوڑ دیں اور اپنی صفوں کو توڑ دیں اور اپنی تسبیح و تقدیس کو چھوڑ دیں اور اپنے مقامات معلومہ سے نزول کرتے ہوئے زمین پر اتر آئیں.اور بلند آسمانوں کو خالی چھوڑ دیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فرشتے اپنے مقامات معلومہ پر قائم رہتے ہوئے حرکت کرتے ہیں اس مالک خدا کی طرح جو عرش پر متمکن ہے.اور تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سماء دنیا پر ہر رات کے آخر پر نازل ہوتا ہے اور یہ نہیں کہا جاتا کہ وہ عرش کو چھوڑ دیتا ہے اور پھر دوسرے اوقات میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے.یہی حال فرشتوں کا ہے جو کہ اپنے رب کی صفات کے رنگ میں ایسے رنگین ہیں جیسے ظل اصل وجود کے رنگ میں رنگین ہوتا ہے ہم اس کی حقیقت کو نہیں جانتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں.ہم ان (فرشتوں) کے حالات کو انسان کے حالات سے مشابہ کس طرح قرار دے سکتے ہیں جبکہ ہم اس کی صفات کی حقیقت اور اس کی حدود کی خاصیت اور اس کی حرکات وسکنات کو جانتے ہیں اور اس بات سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے اور فرمایا وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ يعنى تیرے رب کی افواج کو صرف وہی جانتا ہے.پس اے عقلمند و ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.

Page 638

۶۲۸ اب جبکہ خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے رو سے یہ بات نہایت صفائی سے ثابت ہو گئی کہ نظام روحانی کے لئے بھی نظام ظاہری کی طرح مؤثرات خارجیہ ہیں جن کا نام کلام الہی میں ملائک رکھا ہے تو اس بات کا ثابت کرنا باقی رہا کہ نظام ظاہری میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے ان تمام افعال اور تغیرات کا بھی انجام اور انصرام بغیر فرشتوں کی شمولیت کے نہیں ہوتا.سومنقولی طور پر تو اس کا ثبوت ظاہر ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کا نام مدبرات اور مقسمات امر رکھا ہے.اور ہر یک عرض اور جو ہر کے حدوث اور قیام کا وہی موجب ہیں.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے عرش کو بھی وہی اٹھائے ہوئے ہیں جیسا کہ آیت إِن كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظ سے کلی طور پر فرشتوں کا تقرر ہر یک چیز پر ثابت ہوتا ہے.اور نیز قرآن کریم کی آیت مندرجہ ذیل بھی اس پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے.وَانْشَقَّتِ السَّمَاءِ فَهِيَ يَوْمَدٍ وَاهِيَةٌ.وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَابِهَا وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبَّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَبِذٍ ثَمُنِيَّةٌ - سے یعنی جب قیامت واقع ہوگی تو آسمان پھٹ جائے گا اور ڈھیلا اور شست ہو جائے گا اور اس کی قوتیں جاتی رہیں گی.کیونکہ فرشتے جو آسمان اور آسمانی اجرام کے لئے جان کی طرح تھے وہ سب تعلقات کو چھوڑ کر کناروں پر چلے جائیں گے اور اس دن خدا تعالیٰ کے عرش کو آٹھ فرشتے اپنے سر پر اور کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے.اس آیت کی تفسیر میں شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں کہ در حقیقت آسمان کی بقا باعث ارواح کے ہے یعنی ملائک کے جو آسمان اور آسمانی اجرام کے لئے بطور روحوں کے ہیں.اور جیسے رُوح بدن کی محافظ ہوتی ہے اور بدن پر تصرف رکھتی ہے اسی طرح بعض ملائک آسمان اور آسمانی اجرام پر تصرف رکھتے ہیں اور تمام اجرام سماوی اُن کے ساتھ ہی زندہ ہیں اور انہی کے ذریعہ سے صدور افعال کو اکب ہے.پھر جب وہ ملائک جان کی طرح اس قالب سے نکل جائیں گے تو آسمان کا نظام اُن کے نکلنے سے درہم برہم ہو جائے گا جیسے جان کے نکل جانے سے قالب کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے.پھر ایک اور آیت قرآن کریم کی بھی اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے.اور وہ یہ ہے وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَهَا رُجُوْمًا لِلشَّيطين - سورۃ الملک الحجز و نمبر ۲۹ یعنی ہم نے سماء الدنیا کو ستاروں کے ساتھ زینت دی ہے اور ستاروں کو ہم نے رجم شیاطین کے لئے ذریعہ ٹھہرایا ہے.اور پہلے اس سے نص قرآنی سے ثابت ہو چکا ہے کہ آسمان سے زمین تک ہر یک امر کے مقسم اور مد بر فرشتے ہیں اور اب یہ قول اللہ جلّ شانہ کا کہ مہب ثاقبہ کو چلانے الطارق:۵ الحاقة : ۱۸،۱۷ الملک :

Page 639

۶۲۹ والے وہ ستارے ہیں جو سماء الدنیا میں ہیں بظاہر منافی اور مبائن ان آیات سے دکھائی دیتا ہے جو فرشتوں کے بارے میں آئی ہیں لیکن اگر بنظر غور دیکھا جائے تو کچھ منافی نہیں کیونکہ ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام کے لئے بطور جان کے ہیں اور ظاہر ہے کہ کسی شے کی جان اس شئے سے جدا نہیں ہوتی.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے بعض مقامات میں رمی ٹھہب کا فاعل فرشتوں کو ٹھہرایا اور بعض دوسرے مقامات میں اس رمی کا فاعل ستاروں کو ٹھہرایا کیونکہ فرشتے ستاروں میں اپنا اثر ڈالتے ہیں.جیسا کہ جان بدن میں اپنا اثر ڈالتی ہے.تب وہ اثر ستاروں سے نکل کر ان ارضی بخارات پر پڑتا ہے جو شہاب بننے کے لائق ہوتے ہیں تو وہ فی الفور قدرت خدا تعالیٰ سے مشتعل ہو جاتے ہیں.اور فرشتے ایک دوسرے رنگ میں ٹھہب ثاقبہ سے تعلق پکڑ کر اپنے نور کے ساتھ یمین اور سیار کی طرف ان کو چلاتے ہیں.اور اس بات میں تو کسی فلسفی کو کلام نہیں کہ جو کچھ کا ئنات الجو یا زمین میں ہوتا ہے علل ابتدائیہ ان کے نجوم اور تاثیرات سماویہ ہی ہوتی ہیں.ہاں اس دوسرے دقیق بھید کو ہر یک شخص نہیں سمجھ سکتا کہ نجوم کے قولیٰ فرشتوں سے فیضیاب ہیں.اس بھید کو اوّل قرآن کریم نے ظاہر فرمایا اور پھر عارفوں کو اس طرف توجہ پیدا ہوئی.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۷ تا ۱۴۳ حاشیه ) ہر یک چیز جس پر نفس کا نام اطلاق پاسکتا ہے اس کی فرشتے حفاظت کرتے ہیں.پس بموجب اس آیت کے نفوس کو اکب کی نسبت بھی یہ عقیدہ رکھنا پڑا کہ کل ستارے کیا سورج کیا چاند کیا زحل کیا مشتری ملائک کی زیر حفاظت ہیں یعنی ہر ایک کے کے لئے سورج اور چاند وغیرہ میں سے ایک ایک فرشتہ مقرر ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے کاموں کو احسن طور پر چلاتا ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۷۷ حاشیہ ) اگر چه ملائک جسمانی آفات سے بھی بچاتے ہیں لیکن اُن کا بچانا روحانی طور پر ہی ہے.مثلاً ایک شخص ایک گرنے والی دیوار کے نیچے کھڑا ہے تو یہ تو نہیں کہ فرشتہ اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اُس کو دور لے جائے گا بلکہ اگر اس شخص کا اس دیوار سے بچنا مقدر ہے تو فرشتہ اس کے دل میں الہام کر دے گا کہ یہاں سے جلد کھسکنا چاہئے لیکن ستاروں اور عناصر وغیرہ کی حفاظت جسمانی ہے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۹۹ حاشیہ نوٹ ) قادر مطلق نے دنیا کے حوادث کو صرف اسی ظاہری سلسلہ تک محصور اور محدود نہیں کیا بلکہ ایک باطنی

Page 640

۶۳۰ سلسلہ ساتھ ساتھ جاری ہے.اگر آفتاب ہے یا ماہتاب یا زمین یا وہ بخارات جن سے پانی برستا ہے یا وہ آندھیاں جو زور سے آتی ہیں یا وہ اولے جو زمین پر گرتے ہیں یا وہ شہب ثاقبہ جو ٹوٹتے ہیں اگر چہ یہ تمام چیزیں اپنے کاموں اور تمام تغیرات اور تحولات اور حدوثات میں ظاہری اسباب بھی رکھتی ہیں جن کے بیان میں ہیئت اور طبعی کے دفتر بھرے پڑے ہیں لیکن بایں ہمہ عارف لوگ جانتے ہیں کہ ان اسباب کے نیچے اور اسباب بھی ہیں.جو مد بر بالا رادہ ہیں جن کا دوسرے لفظوں میں نام ملائک ہے.وہ جس چیز سے تعلق رکھتے ہیں اس کے تمام کاروبار کو انجام تک پہنچاتے ہیں اور اپنے کاموں میں اکثر اُن روحانی اغراض کو مد نظر رکھتے ہیں جو مولا کریم نے ان کو سپرد کی ہیں اور اُن کے کام بے ہودہ نہیں بلکہ ہر ایک کام میں بڑے بڑے مقاصد ان کو مدنظر رہتے ہیں.اب جبکہ یہ بات ایک ثابت شدہ صداقت ہے جس کو ہم اس سے پہلے بھی کسی قدر تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور ہمارے رسالہ توضیح مرام میں بھی یہ تمام بحث نہایت لطافت بیان سے مندرج ہے کہ حکیم مطلق نے اس عالم کے احسن طور پر کاروبار چلانے کے لئے دو نظام رکھے ہوئے ہیں اور باطنی نظام فرشتوں کے متعلق ہے اور کوئی جز ظاہری نظام کی ایسی نہیں جس کے ساتھ در پردہ باطنی نظام نہ ہو تو اس صورت میں ایک مستر شد بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ شہب ثاقبہ کے تساقط کا ظاہری نظام جن علل اور اسباب پر مبنی ہے وہ عمل اور اسباب روحانی نظام کے کچھ مزاحم اور سدِ راہ نہیں اور روحانی نظام یہ ہے کہ ہر یک شہاب جو ٹوٹتا ہے دراصل اس پر ایک فرشتہ موکل ہوتا ہے جو اس کو جس طرف چاہتا ہے حرکت دیتا ہے.چنانچہ شہب کی طرز حرکات ہی اس پر شاہد ہے.اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ فرشتہ کا کام عبث نہیں ہوسکتا.اس کی تحت میں ضرور کوئی نہ کوئی غرض ہو گی جو مصالح دین اور دنیا کے لئے مفید ہو لیکن ملائک کے کاموں کے اغراض کو سمجھنا بجز توسط ملائک ممکن نہیں.سو بتوسط ملائک یعنی جبرائیل علیہ السلام آخر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی ظاہر ہوا کہ ملائک کے اس فعل رمی شہب سے علت غائی رجم شیاطین ہے.اور یہ بھید کہ شہب کے ٹوٹنے سے کیونکر شیاطین بھاگ جاتے ہیں اس کا سر روحانی سلسلہ پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین اور ملائک کی عداوت ذاتی ہے.پس ملائک ان مہب کے چھوڑنے کے وقت جن پر وہ ستاروں کی حرارت کا بھی اثر ڈالتے ہیں اپنی ایک نورانی طاقت جو میں پھیلاتے ہیں اور ہر ایک شہاب جو حرکت کرتا ہے وہ اپنے ساتھ ایک ملکی نور رکھتا ہے کیونکہ فرشتوں کے ہاتھ سے برکت پا کر آتا ہے اور شیطان سوزی کا اس میں ایک مادہ ہوتا ہے.پس یہ اعتراض نہیں ہوسکتا

Page 641

۶۳۱ کہ جنات تو آگ سے مخلوق ہیں وہ آگ سے کیا ضرر اٹھائیں گے کیونکہ درحقیقت جس قدر رمی شہب سے جنات کو ضرر پہنچتا ہے اس کا یہ ظاہری موجب آگ نہیں بلکہ وہ روشنی موجب ہے جو فرشتہ کے نور سے شہب کے ساتھ شامل ہوتی ہے جو بالخاصیت محرق شیاطین ہے.جب تک کوئی انسان پابند اعتقاد وجود ہستی باری ہے اور دہر یہ نہیں اُس کو ضرور یہ بات ماننی پڑے گی کہ یہ تمام کاروبار عبث نہیں بلکہ ہر یک حدوث اور ظہور پر خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت بالا رادہ کا ہاتھ ہے اور وہ ارادہ تمام انتظام کے موافق بتوسط اسباب ظہور پذیر ہوتا ہے چونکہ خدا تعالیٰ نے اجرام اور اجسام کو علم اور شعور نہیں دیا اس لئے ان باتوں کے پورا کرنے کے لئے جن میں علم اور شعور درکار ہے ایسے اسباب یعنی ایسی چیزوں کے توسط کی حاجت ہوئی جن کو علم اور شعور دیا گیا ہے اور وہ ملائک ہیں.اب ظاہر ہے کہ جب ملائک کی یہی شان ہے کہ وہ عبث اور بے ہودہ طور پر کوئی کام نہیں کرتے بلکہ اپنی تمام خدمات میں اغراض اور مقاصد رکھتے ہیں اس لئے اُن کی نسبت یہ بات ضروری طور پر ماننی پڑے گی کہ رجم کی خدمت میں بھی ان کا کوئی اصل مقصد ہے اور چونکہ عقل اس بات کے درک سے قاصر ہے کہ وہ کون سا مقصد ہے اس لئے اس عقدہ کے حل کے لئے عقل سے سوال کرنا بے محل سوال ہے.پس وہ بوجہ اس کے کہ ادراک تفصیلی سے عاجز ہے اس تفصیل کے لئے کسی اور ذریعہ کی محتاج ہو گی جو حدود عقل سے بڑھ کر ہے اور وہ ذریعہ وحی اور الہام ہے جو اسی غرض سے انسان کو دیا گیا ہے کہ تا انسان کو ان معارف اور حقائق تک پہنچا دے کہ جن تک مجرد عقل پہنچا نہیں سکتی اور وہ اسرار دقیقہ اس پر کھولے جو عقل کے ذریعہ سے کھل نہیں سکتے اور وحی سے مراد ہماری وحی قرآن ہے جس نے ہم پر یہ عقدہ کھول دیا کہ اسقاط شہب سے ملائکہ کی غرض رجم شیاطین ہے.یعنی یہ ایک قسم کا انتشار نورانیت ملائک کے ہاتھ سے اور ان کے نور کی آمیزش سے ہے جس کا جنات کی ظلمت پر اثر پڑتا ہے.اور جنات کے افعال مخصوصہ اس سے رو کبھی ہو جاتے ہیں اور اگر اس انتشار نورانیت کی کثرت ہو تو بوجہ نور کے مقناطیسی جذب کے مظاہر کاملہ نورانیت کے انسانوں میں سے پیدا ہوتے ہیں.ورنہ یہ انتشار نورانیت بوجہ اپنی ملکی خاصیت کے کسی قدر دلوں کو نور اور حقانیت کی طرف کھینچتا ہے اور یہ ایک خاصیت ہے جو ہمیشہ دنیا میں انسی طور پر اس کا ثبوت ملتا رہا ہے.درحقیقت خدا تعالیٰ کا انتظام یہی ہے کہ جو کچھ اجرام اور اجسام اور کائنات الجو میں ہو رہا ہے یا کبھی کبھی ظہور میں آتا ہے وہ صرف اجرام اور اجسام کے افعال شتر بے مہار کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان کے تمام واقعات کی زمام اختیار حکیم قدیر نے ملائک کے ہاتھ میں

Page 642

۶۳۲ دے رکھی ہے جو ہر دم اور ہر طرفتہ العین میں اس قادر مطلق سے اذن پا کر انواع اقسام کے تصرفات میں مشغول ہیں اور نہ عبث طور پر بلکہ سراسر حکیمانہ طرز سے بڑے بڑے مقاصد کے لئے اس کرہ ارض و سما کو طرح طرح کی جنبشیں دے رہے ہیں اور کوئی فعل بھی اُن کا بے کار اور بے معنی نہیں.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۲۴ تا ۱۳۳ حاشیه ) یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی شریعت کی رو سے خواص ملائک کا درجہ خواص بشر سے کچھ زیادہ نہیں بلکہ خواص الناس خواص الملائک سے افضل ہیں اور نظام جسمانی یا نظام روحانی میں اُن کا وسائط قرار پانا ان کی افضلیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ قرآن شریف کی ہدایت کے رو سے وہ خدام کی طرح اس کام میں لگائے گئے ہیں.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ے یعنی وہ خدا جس نے سورج اور چاند کو تمہاری خدمت میں لگا رکھا ہے.مثلاً دیکھنا چاہئے کہ ایک چٹھی رساں ایک شاہ وقت کی طرف سے اس کے کسی ملک کے صوبہ یا گورنر کی خدمت میں چٹھیاں پہنچا دیتا ہے تو کیا اس سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ چٹھی رسان جو اس بادشاہ اور گورنر جنرل میں واسطہ ہے گورنر جنرل سے افضل ہے.سو خوب سمجھ لو.یہی مثال ان وسائط کی ہے جو نظام جسمانی اور روحانی میں قادر مطلق کے ارادوں کو زمین پر پہنچاتے اور ان کی انجام دہی میں مصروف ہیں.اللہ جل شـــانـه قرآن شریف کے کئی مقامات میں بنصریح ظاہر فرماتا ہے کہ جو کچھ زمین و آسمان میں پیدا کیا گیا ہے وہ تمام چیزیں اپنے وجود میں انسان کی طفیلی ہیں یعنی محض انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور انسان اپنے مرتبہ میں سب سے اعلیٰ وارفع اور سب کا مخدوم ہے جس کی خدمت میں یہ چیزیں لگا دی گئی ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَابِبَيْنِ - پھر ایک اور جگہ فرمایا اِذْقَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي خَالِقُ بَشَرًا مِنْ طِينٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ فَسَجَدَ الْمَلَيْكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا ابْلِیس - س یعنی یاد کر وہ وقت کہ جب تیرے خدا نے (جس کا تو مظہر اتم ہے ) فرشتوں کو کہا کہ میں مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں.سو جب میں اس کو کمال اعتدال پر پیدا کرلوں اور اپنی روح میں سے اس میں پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر و یعنی کمال انکسار سے اس کی خدمت میں مشغول ہو جاؤ.اور ایسی خدمت گزاری میں جھک جاؤ کہ گویا تم اسے سجدہ کر رہے ہو.پس سارے کے سارے فرشتے انسان مکمل کے آگے سجدہ میں گر پڑے مگر شیطان جو اس ا ابراهیم : ۳۴ ۳ ص ۷۲ تا ۷۵

Page 643

۶۳۳ سعادت سے محروم رہ گیا.جاننا چاہئے کہ یہ سجدہ کا حکم اس وقت سے متعلق نہیں ہے کہ جب حضرت آدم پیدا کئے گئے.بلکہ یہ علیحدہ ملائک کو حکم کیا گیا کہ جب کوئی انسان اپنی حقیقی انسانیت کے مرتبہ تک پہنچے اور اعتدال انسانی اس کو حاصل ہو جائے اور خدائے تعالی کی رُوح اُس میں سکونت اختیار کرے تو تم اس کامل کے آگے سجدہ میں گرا کر و.یعنی آسمانی انوار کے ساتھ اُس پر اُتر و اور اُس پر صلوٰۃ بھیجو.سو یہ اس قدیم قانون کی طرف اشارہ ہے جو خدائے تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ ہمیشہ جاری رکھتا ہے.جب کوئی شخص کسی زمانہ میں اعتدال روحانی حاصل کرتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی رُوح اس کے اندر آباد ہوتی ہے یعنی اپنے نفس سے فانی ہو کر بقا باللہ کا درجہ حاصل کر لیتا ہے تو ایک خاص طور پر نزول ملائکہ کا اس پر شروع ہو جاتا ہے.اگر چہ سلوک کے ابتدائی حالات میں بھی ملائک اس کی نصرت اور خدمت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ نزول ایسا اتم اور اکمل ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم رکھتا ہے.اور سجدہ کے لفظ سے خدائے تعالیٰ نے یہ ظاہر کر دیا کہ ملائکہ انسان کامل سے افضل نہیں ہیں بلکہ وہ شاہی خادموں کی طرح سجدات تعظیم انسان کامل کے آگے بجالا رہے ہیں..توضیح مرام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ہے تا۷۷) ملائک اللہ (جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں) ایک ہی درجہ کی عظمت اور بزرگی نہیں رکھتے.نہ ایک ہی قسم کا کام انہیں سپرد ہے بلکہ ہر یک فرشتہ علیحدہ علیحدہ کا موں کے انجام دینے کے لئے مقرر کیا گیا ہے.دنیا میں جس قدر تم تغیرات و انقلابات دیکھتے ہو یا جو کچھ مکمن قوة سے خیز فعل میں آتا ہے یا جس قدر ارواح و اجسام اپنے کمالات مطلوبہ تک پہنچتے ہیں ان سب پر تاثیرات سماویہ کام کر رہی ہیں اور کبھی ایک ہی فرشتہ مختلف طور کی استعدادوں پر مختلف طور کے اثر ڈالتا ہے.مثلاً جبریل جو ایک عظیم الشان فرشتہ ہے اور آسمان کے ایک نہایت روشن نیر سے تعلق رکھتا ہے اس کو کئی قسم کی خدمات سپرد ہیں.اُنہی خدمات کے موافق جو اس کے نیر سے لئے جاتے ہیں.سو وہ فرشتہ اگر چہ ہر ایک ایسے شخص پر نازل ہوتا ہے جو وحی الہی سے مشرف کیا گیا ہو ( نزول کی اصل کیفیت جوصرف اثر اندازی کے طور پر ہے نہ واقعی طور پر یاد رکھنی چاہئے ) لیکن اس کے نزول کی تاثیرات کا دائرہ مختلف استعدادوں اور مختلف ظروف کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی یا بڑی بڑی شکلوں پر تقسیم ہو جاتا ہے.نہایت بڑا دائرہ اس کی روحانی تاثیرات کا وہ دائرہ ہے جو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی سے متعلق ہے.اسی وجہ سے جو معارف و

Page 644

۶۳۴ حقائق و کمالات حکمت و بلاغت قرآن شریف میں اکمل اور اتم طور پر پائے جاتے ہیں.یہ عظیم الشان مرتبہ اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے (جیسا کہ پہلے بھی ہم اس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں ) کہ ہر ایک فرشتہ کی تاثیر انسان کے نفس پر دو قسم کی ہوتی ہے.اوّل وہ تاثیر جو رحم میں ہونے کی حالت میں باذنہ تعالیٰ مختلف طور کے تخم پر مختلف طور کا اثر ڈالتی ہے.پھر دوسری وہ تاثیر جو بعد طیاری وجود کے اس وجود کی مخفی استعدادوں کو اپنے کمالات ممکنہ تک پہنچانے کے لئے کام کرتی ہے.اس دوسری تا شیر کو جب وہ نبی یا کامل ولی کے متعلق ہو وحی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور یوں ہوتا ہے کہ جب ایک مستعد نفس اپنے نور ایمان اور نور محبت کے کمال سے مبدء فیوض کے ساتھ دوستانہ تعلق پکڑ لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی زندگی بخش محبت اس کی محبت پر پر تو ہ انداز ہو جاتی ہے تو اس حد اور اس وقت تک جو کچھ انسان کو آگے قدم رکھنے کے لئے مقدور حاصل ہوتا ہے یہ دراصل اس پنہانی تاثیر کا اثر ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کے فرشتہ نے انسان کے رحم میں ہونے کی حالت میں کی ہوتی ہے.پھر بعد اس کے جب انسان اس پہلی تاثیر کی کشش سے یہ مرتبہ حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہی فرشتہ از سر نو اپنا اثر نور سے بھرا ہوا اس پر ڈالتا ہے.مگر یہ نہیں کہ اپنی طرف سے بلکہ وہ درمیانی خادم ہونے کی وجہ سے اُس نالی کی طرح جو ایک طرف سے پانی کو کھینچتی اور دوسری طرف اس پانی کو پہنچا دیتی ہے خدائے تعالیٰ کا نور فیض اپنے اندر کھینچ لیتا ہے.پھر عین اس وقت میں جب انسان بوجہ اقتران محبتین رُوح القدس کی نالی کے قریب اپنے تئیں رکھ دیتا ہے معا اُس نالی میں سے فیض وحی اس کے اندر گر جاتا ہے یا یوں کہو کہ اُس وقت جبریل اپنا نورانی سایہ اس مستعد دل پر ڈال کر ایک عکسی تصویر اپنی اس کے اندر لکھ دیتا ہے تب جیسے ایک فرشتہ کا جو آسمان پر متعقر ہے جبریل نام ہے اس عکسی تصویر کا نام بھی جبریل ہی ہوتا ہے یا مثلاً اس فرشتہ کا نام روح القدس ہے تو عکسی تصویر کا نام بھی رُوح القدس ہی رکھا جاتا ہے.سو یہ نہیں کہ فرشتہ انسان کے اندر گھس آتا ہے بلکہ اس کا عکس انسان کے آئینہ قلب میں نمودار ہو جاتا ہے.مثلاً جب تم نہایت مصفی آئینہ اپنے منہ کے سامنے رکھ دو گے تو موافق دائرہ مقدار اس آئینہ کے تمہاری شکل کا عکس بلا تو قف اس میں پڑے گا یہ نہیں کہ تمہارا منہ اور تمہارا سر گردن سے ٹوٹ کر اور الگ ہو کر آئینہ میں رکھ دیا جائے گا بلکہ اُس جگہ رہے گا جو رہنا چاہئے اور صرف اس کا عکس پڑے گا اور عکس بھی ہر یک جگہ ایک ہی مقدار پر نہیں پڑے گا بلکہ جیسی جیسی وسعت آئینہ قلب کی ہوگی اُسی مقدار کے موافق اثر پڑے گا مثلاً اگر تم اپنا چہرہ آری کے شیشہ میں دیکھنا چاہو کہ جو ایک چھوٹا سا شیشہ ایک قسم کی انگشتری میں لگا ہوتا ہے تو

Page 645

۶۳۵ اگر چہ اس میں بھی تمام چہرہ نظر آئے گا مگر ہر یک عضوا اپنی اصلی مقدار سے نہایت چھوٹا ہو کر نظر آئے گا لیکن اگر تم اپنے چہرہ کو ایک بڑے آئینہ میں دیکھنا چا ہو جو تمہاری شکل کے پورے انعکاس کے لئے کافی ہے تو تمہارے تمام نقوش اور اعضاء چہرہ کے اپنے اصلی مقدار پر نظر آ جائیں گے.پس یہی مثال جبریل کی تاثیرات کی ہے.ادنیٰ سے ادنیٰ مرتبہ کے ولی پر بھی جبریل ہی تاثیر وحی کی ڈالتا ہے.اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر بھی وہی جبریل تا ثیر وحی کی ڈالتا رہا ہے.لیکن ان دونوں وحیوں میں وہی فرق مذکورہ بالا آرسی کے شیشہ اور بڑے آئینہ کا ہے.یعنی اگر چہ بظاہر صورت جبریل وہی ہے اور اُس کی تاثیرات بھی وہی مگر ہر یک جگہ مادہ قابلہ ایک ہی وسعت اور صفائی کی حالت پر نہیں.اور یہ جو اس جگہ میں نے صفائی کا لفظ بھی لکھ دیا تو یہ اس بات کے اظہار کے لئے ہے کہ جبریلی تاثیرات کا اختلاف صرف کمیت کے ہی متعلق نہیں بلکہ کیفیت کے متعلق بھی ہے یعنی صفائی قلب جو شرط انعکاس ہے.تمام افراد ملہمین کے ایک ہی مرتبہ پر کبھی نہیں ہوتے جیسے کہ تم دیکھتے ہو سارے آئینے ایک ہی درجہ کی صفائی ہرگز نہیں رکھتے.بعض آئینے ایسے اعلیٰ درجہ کے آبدار اور مصفی ہوتے ہیں کہ پورے طور پر جیسا کہ چاہئے دیکھنے والے کی شکل اُن میں ظاہر ہو جاتی ہے اور بعض ایسے کثیف اور مکڈ راور پر غبار اور دود آمیز جیسے ہوتے ہیں کہ صاف طور پر اُن میں شکل نظر نہیں آتی بلکہ بعض ایسے بگڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ اگر مثلاً اُن میں دونوں لب نظر آویں تو ناک دکھائی نہیں دیتا اور اگر ناک نظر آ گیا تو آنکھیں نظر نہیں آتیں.سو یہی حالت دلوں کے آئینہ کی ہے.جو نہایت درجہ کا مصفی دل ہے اُس میں مصفی طور پر انعکاس ہوتا ہے اور جو کسی قدر مکدر ہے.اُس میں اُسی قدر مکدر دکھائی دیتا ہے اور اکمل اور اتم طور پر یہ صفائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو حاصل ہے.ایسی صفائی کسی دوسرے کے دل کو ہر گز حاصل نہیں.توضیح مرام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۵ تا ۸۸) ان لوگوں کی سمجھ پر سخت تعجب ہے کہ وہ ظاہری بارش ہونے کے لئے جو بادلوں کے ذریعہ سے زمین پر ہوتی ہے بخارات مائیہ کا توسط ضروری خیال کرتے ہیں اور خود بخود دقدرت سے بغیر بادل کے بارش ہو جانا محال سمجھتے ہیں لیکن الہام کی بارش کے لئے جو صاف دلوں پر ہوتی ہے ملائک کے بادلوں کا توسط جو عند الشرع ضروری ہے اس پر جہالت کی نظر سے ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا خدائے تعالیٰ بغیر ملائک کے توسط کے خود بخود الہام نہیں کر سکتا تھا؟ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ بغیر توسط ہوا کے آواز کا سن لینا خلاف قانونِ قدرت ہے.مگر وہ ہوا جو روحانی طور پر خدائے تعالیٰ کی آواز کو ملہموں کے دلوں تک

Page 646

۶۳۶ پہنچاتی ہے اس قانونِ قدرت سے غافل ہیں.وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ ظاہری آنکھوں کی بصارت کے لئے آفتاب کی روشنی کی ضرورت ہے مگر وہ روحانی آنکھوں کے لئے کسی آسمانی روشنی کی ضرورت یقین نہیں رکھتے.اب جبکہ یہ قانونِ الہی معلوم ہو چکا کہ یہ عالم اپنے جمیع قومی ظاہری و باطنی کے ساتھ حضرت واجب الوجود کے لئے بطور اعضاء کے واقعہ ہے.اور ہر یک چیز اپنے اپنے محل اور موقع پر اعضاء ہی کا کام دے رہی ہے اور ہر یک ارادہ خدائے تعالیٰ کا انہی اعضاء کے ذریعہ سے ظہور میں آتا ہے.کوئی ارادہ بغیر ان کی توسط کے ظہور میں نہیں آتا.تو اب جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ کی وحی میں جو پاک دلوں پر نازل ہوتی ہے جبریل کا تعلق جو شریعت اسلام میں ایک ضروری مسئلہ سمجھا گیا اور قبول کیا گیا ہے یہ تعلق بھی اسی فلسفہ حقہ پر ہی مبنی ہے جس کا ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں.اس کی تفصیل یہ ہے کہ حسب قانون قدرت مذکورہ بالا یہ امر ضروری ہے کہ وحی کے القاء یا ملکہ وحی کے عطا کرنے کے لئے بھی کوئی مخلوق خدائے تعالیٰ کے الہامی اور روحانی ارادہ کو بمنضہ ظہور لانے کے لئے ایک عضو کی طرح بن کر خدمت بجالا وے جیسا کہ جسمانی ارادوں کے پورا کرنے کے لئے بجا لا رہے ہیں.سو وہ وہی عضو ہے جس کو دوسرے لفظوں میں جبریل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جو بہ تبعیت حرکت اس وجود اعظم کے سچ سچ ایک عضو کی طرح بلا توقف حرکت میں آجاتا ہے یعنی جب خدائے تعالیٰ محبت کرنے والے دل کی طرف محبت کے ساتھ رجوع کرتا ہے تو حسب قاعدہ مذکورہ بالا جس کا ابھی بیان ہو چکا ہے جبریل کو بھی جو سانس کی ہوا یا آنکھ کے نور کی طرح خدائے تعالیٰ سے نسبت رکھتا ہے اس طرف ساتھ ہی حرکت کرنی پڑتی ہے یا یوں کہو کہ خدائے تعالیٰ کی جنبش کے ساتھ وہ بھی بلا اختیار و بلا ارادہ اسی طور سے جنبش میں آ جاتا ہے کہ جیسا اصل کی جنبش سے سایہ کا ہلنا طبعی طور پر ضروری امر ہے.پس جب جبریلی نور خدائے تعالیٰ کی کشش اور تحریک اور نفخہ نورانیہ سے جنبش میں آ جاتا ہے تو معا اس کی ایک عکسی تصویر جس کو روح القدس کے ہی نام سے موسوم کرنا چاہئے محبت صادق کے دل میں منقش ہو جاتی ہے اور اس کی محبت صادقہ کا ایک عرضِ لازم ٹھہر جاتی ہے تب یہ قوت خدائے تعالی کی آواز سننے کے لئے کان کا فائدہ بخشتی ہے اور اس کے عجائبات کے دیکھنے کے لئے آنکھوں کی قائم مقام ہو جاتی ہے اور اس کے الہامات زبان پر جاری ہونے کے لئے ایک ایسی محرک حرارت کا کام دیتی ہے جو زبان کے پہیہ کو زور کے ساتھ الہامی خط پر چلاتی ہے اور جب تک یہ قوت پیدا نہ ہو اس وقت تک انسان کا دل اندھے کی

Page 647

۶۳۷ طرح ہوتا ہے اور زبان اس ریل کی گاڑی کی طرح ہوتی ہے جو چلنے والے انجن سے الگ پڑی ہولیکن یہ یادر ہے کہ یہ قوت جو روح القدس سے موسوم ہے ہر یک دل میں یکساں اور برابر پیدا نہیں ہوتی بلکہ جیسے انسان کی محبت کامل یا ناقص طور پر ہوتی ہے اسی اندازہ کے موافق یہ جبریلی نور اس پر اثر ڈالتا ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ روح القدس کی قوت جو دونوں محبتوں کے ملنے سے انسان کے دل میں جبریلی نور کے پر توہ سے پیدا ہو جاتی ہے اس کے وجود کے لئے یہ امر لازم نہیں کہ ہر وقت انسان خدائے تعالیٰ کا پاک کلام سنتا ہی رہے یا کشفی طور پر کچھ دیکھتا ہی رہے بلکہ یہ تو انوار سماویہ کے پانے کے لئے اسباب قریبہ کی طرح ہے یا یوں کہو کہ یہ ایک روحانی روشنی روحانی آنکھوں کے دیکھنے کے لئے یا ایک روحانی ہوا روحانی کانوں تک آواز پہنچانے کے لئے منجانب اللہ ہے.اور ظاہر ہے کہ جب تک کوئی چیز سامنے موجود نہ ہو مجرد روشنی کچھ دکھا نہیں سکتی.اور جب تک متکلم کے منہ سے کلام نہ نکلے مجرد ہوا کانوں تک کوئی خبر نہیں پہنچا سکتی سو یہ روشنی یا ہوا روحانی حواس کے لئے محض ایک آسمانی مؤید عطا کیا جاتا ہے جیسے ظاہری آنکھوں کے لئے آفتاب کی روشنی اور ظاہری کانوں کے لئے ہوا کا ذریعہ مقرر کیا گیا ہے اور جب باری تعالیٰ کا ارادہ اس طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اپنا کلام اپنے کسی مہم کے دل تک پہنچاوے تو اس کی اس متکلمانہ حرکت سے معا جبریلی نور میں القاء کے لئے ایک روشنی کی موج یا ہوا کی موج یا ملہم کی تحریک لسان کے لئے ایک حرارت کی موج پیدا ہو جاتی ہے یا اس تموج یا اس حرارت سے بلا تو قف وہ کلام مہم کی آنکھوں کے سامنے لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے یا کانوں تک اس کی آواز پہنچتی ہے یا زبان پر وہ الہامی الفاظ جاری ہوتے ہیں اور روحانی حواس اور روحانی روشنی جو قبل از الہام ایک قوت کی طرح ملتی ہے یہ دونوں قو تیں اس لئے عطا کی جاتی ہیں کہ تا قبل از نزول الہام الہام کے قبول کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے.کیونکہ اگر الہام ایسی حالت میں نازل کیا جا تا کہ ملہم کا دل حواس روحانی سے محروم ہوتا یا روح القدس کی روشنی دل کی آنکھ کو پہنچی نہ ہوتی تو وہ الہام الہی کو کن آنکھوں کی پاک روشنی سے دیکھ سکتا.سو اسی ضرورت کی وجہ سے یہ دونوں پہلے ہی سے ملہمین کو عطا کی گئیں.اور اس تحقیق سے یہ بھی ناظرین سمجھ لیں گے کہ وحی کے متعلق جبریل کے تین کام ہیں:.اول یہ کہ جب رحم میں ایسے شخص کے وجود کے لئے نطفہ پڑتا ہے جس کی فطرت کو اللہ جلشانہ اپنی رحمانیت کے نقاضا سے جس میں انسان کے عمل کو کچھ دخل نہیں ملہمانہ فطرت بنانا چاہتا ہے تو اس پر اُسی نطفہ ہونے کی حالت میں جبریلی نور کا سایہ ڈال دیتا ہے.تب ایسے شخص کی فطرت منجانب اللہ الہامی

Page 648

۶۳۸ خاصیت پیدا کر لیتی ہے اور الہامی حواس اس کو مل جاتے ہیں.پھر دوسرا کام جبریل کا یہ ہے کہ جب بندہ کی محبت خدائے تعالیٰ کی محبت کے زیر سایہ آپڑتی ہے تو خدائے تعالیٰ کی مربیانہ حرکت کی وجہ سے جبریلی نور میں بھی ایک حرکت پیدا ہو کر محب صادق کے دل پر وہ نور جا پڑتا ہے یعنی اس نور کا عکس محب صادق کے دل پر پڑ کر ایک عکسی تصویر جبریل کی اُس میں پیدا ہو جاتی ہے جو ایک روشنی یا ہوا یا گرمی کا کام دیتی ہے اور بطور ملکہ الہامیہ کے ملہم کے اندر رہتی ہے.ایک سرا اس کا جبریل کے نور میں غرق ہوتا ہے اور دوسرا مہم کے دل کے اندر داخل ہو جاتا جس کو دوسرے لفظوں میں رُوح القدس یا اس کی تصویر کہہ سکتے ہیں.تیسرا کام جبریل کا یہ ہے کہ جب خدائے تعالیٰ کی طرف سے کسی کلام کا ظہور ہو تو ہوا کی طرح موج میں آ کر اس کلام کو دل کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے یا روشنی کے پیرایہ میں افروختہ ہو کر اس کو نظر کے سامنے کر دیتا ہے یا حرارت محرکہ کے پیرایہ میں تیزی پیدا کر کے زبان کو الہامی الفاظ کی طرف چلاتا ہے.توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۹۱ تا ۹۴) جب محبت الہی بندہ کی محبت پر نازل ہوتی ہے تب دونوں محبتوں کے ملنے سے روح القدس کا ایک روشن اور کامل سایہ انسان کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے اور لقا کے مرتبہ پر اس روح القدس کی روشنی نہایت ہی نمایاں ہوتی ہے اور اقتداری خوارق جن کا ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں اسی وجہ سے ایسے لوگوں سے صادر ہوتے ہیں کہ یہ روح القدس کی روشنی ہر وقت اور ہر حال میں اُن کے شامل حال ہوتی ہے اور ان کے اندر سکونت رکھتی ہے اور وہ اس روشنی سے کبھی اور کسی حال میں جدا نہیں ہوتے اور نہ وہ روشنی اُن سے جدا ہوتی ہے.وہ روشنی ہر دم اُن کے تنفس کے ساتھ نکلتی ہے.اور اُن کی نظر کے ساتھ ہر یک چیز پر پڑتی ہے اور ان کی کلام کے ساتھ اپنی نورانیت لوگوں کو دکھلاتی ہے.اسی روشنی کا نام روح القدس ہے مگر یہ حقیقی روح القدس نہیں.حقیقی روح القدس وہ ہے جو آسمان پر ہے.یہ روح القدس اس کا ظل ہے جو پاک سینوں اور دلوں اور دماغوں میں ہمیشہ کے لئے آباد ہو جاتا ہے اور ایک طرفۃ العین کے لئے بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا اور جو شخص تجویز کرتا ہے کہ یہ روح القدس کسی وقت اپنی تمام تاثیرات کے ساتھ اُن سے جدا ہو جاتا ہے وہ شخص سراسر باطل پر ہے اور اپنے پر ظلمت خیال سے خدا تعالیٰ کے مقدس برگزیدوں کی توہین کرتا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ حقیقی روح القدس تو اپنے مقام پر ہی رہتا ہے لیکن روح القدس کا سایہ جس کا نام مجاز اروح القدس ہی رکھا جاتا ہے ان سینوں اور دلوں اور دماغوں اور تمام اعضاء میں

Page 649

۶۳۹ داخل ہوتا ہے جو مرتبہ بقاء اور لقاء کا پا کر اس لائق ٹھہر جاتے ہیں کہ ان کی نہایت اصفی اور اجلی محبت پر خدا تعالیٰ کی کامل محبت اپنی برکات کے ساتھ نازل ہو.اور جب وہ روح القدس نازل ہوتا ہے تو اس انسان کے وجود سے ایسا تعلق پکڑ جاتا ہے کہ جیسے جان کا تعلق جسم سے ہوتا ہے.وہ قوت بینائی بن کر آنکھوں میں کام دیتا ہے اور قوت شنوائی کا جامہ پہن کر کانوں کو روحانی حس بخشتا ہے.وہ زبان کی گویائی اور دل کے تقویٰ اور دماغ کی ہوشیاری بن جاتا ہے اور ہاتھوں میں بھی سرایت کرتا ہے اور پیروں میں بھی اپنا اثر پہنچاتا ہے.غرض تمام ظلمت کو وجود میں سے اٹھا دیتا ہے اور سر کے بالوں سے لے کر پیروں کے ناخنوں تک منور کر دیتا ہے.اور اگر ایک طرفتہ العین کے لئے بھی علیحدہ ہو جائے تو فی الفور اس کی جگہ ظلمت آ جاتی ہے.مگر وہ کاملوں کو ایسا نعم القرین عطا کیا گیا ہے کہ ایک دم کے لئے بھی اُن سے علیحدہ نہیں ہوتا اور یہ گمان کرنا کہ اُن سے علیحدہ بھی ہو جاتا ہے یہ دوسرے لفظوں میں اس بات کا اقرار ہے کہ وہ بعد اس کے جو روشنی میں آگئے پھر تاریکی میں پڑ جاتے ہیں اور بعد اس کے جو معصوم یا محفوظ کئے گئے پھر نفس امارہ اُن کی طرف عود کرتا ہے اور بعد اس کے جو روحانی حواس ان پر کھولے گئے پھر وہ تمام حواس بے کار اور معطل کئے جاتے ہیں.ہر یک نور اور سکیت اور اطمینان اور برکت اور استقامت اور ہر یک روحانی نعمت برگزیدوں کو روح القدس سے ہی ملتی ہے اور جیسے اشرار اور کفار کے لئے دائمی طور پر شیطان کو بئس القرین قرار دیا گیا ہے تا ہر وقت وہ اُن پر ظلمت پھیلاتا رہے اور ان کے قیام اور قعود اور حرکت اور سکون اور نیند اور بیداری میں ان کا پیچھا نہ چھوڑے ایسا ہی مقربین کے لئے دائمی طور پر روح القدس کو نعم القرین عطا کیا گیا ہے تا ہر وقت وہ اُن پر نور برساتا رہے اور ہر دم اُن کی تائید میں لگا ر ہے اور کسی دم اُن سے جدا نہ ہو.اب ظاہر ہے کہ جبکہ بمقابل بئس القرین کے جو ہمیشہ اشد شریروں کا ملازم اور رفیق ہے مقربوں کے لئے نعم القرین کا ہر وقت رفیق اور انہیں ہونا نہایت ضروری ہے اور قرآن کریم اس کی خبر دیتا ہے تو پھر اگر اس نعم القرین کی علیحدگی مقربوں سے تجویز کی جائے جیسا کہ ہمارے اندرونی مخالف قومی بھائی گمان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روح القدس جبرائیل کا نام ہے کبھی تو وہ آسمان سے نازل ہوتا ہے اور مقربوں سے نہایت درجہ اتصال کر لیتا ہے یہاں تک کہ اُن کے دل میں پھنس جاتا ہے اور کبھی ان کو اکیلا چھوڑ کر ان سے جدائی اختیار کر لیتا ہے اور کروڑ ہا بلکہ بے شمار کوسوں کی دوری اختیار کر کے آسمان پر چڑھ جاتا ہے اور ان مقربوں سے بالکل قطع تعلقات کر کے اپنی قرار گاہ میں جا چھپتا ہے تب وہ اس

Page 650

۶۴۰ روشنی اور اس برکت سے بکلی محروم رہ جاتے ہیں جو اس کے نزول کے وقت ان کے دل اور دماغ اور بال بال میں پیدا ہوتی ہے.تو کیا اس عقیدہ سے لازم نہیں آتا کہ روح القدس کے جدا ہونے سے پھر اُن برگزیدوں کو ظلمت گھیر لیتی ہے اور نعوذ باللہ نظم القرین کی جدائی کی وجہ سے بئس القرین کا اثر اُن میں شروع ہو جاتا ہے.اب ذرا خوف الہی کو اپنے دل میں جگہ دے کر سوچنا چاہئے کہ کیا یہی ادب اور یہی ایمان اور عرفان ہے اور یہی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس نقص اور تنزل کی حالت کو روا رکھا جائے کہ گویا روح القدس آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں تک علیحدہ ہو جاتا تھا.اور نعوذ باللہ ان مدتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انوار قدسیہ سے جو روح القدس کا پر تو ہ ہے محروم ہوتے تھے.غضب کی بات ہے کہ عیسائی لوگ تو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت یقینی اور قطعی طور پر یہ اعتقاد رکھیں کہ روح القدس جب سے حضرت مسیح پر نازل ہوا کبھی اُن سے جدا نہیں ہوا اور وہ ہمیشہ اور ہر دم روح القدس سے تائید یافتہ تھے یہاں تک کہ خواب میں بھی اُن سے روح القدس جد انہیں ہوتا تھا.اور ان کا روح القدس کبھی آسمان پر اُن کو اکیلا اور مہجور چھوڑ کر نہیں گیا اور نہ روح القدس کی روشنی ایک دم کے لئے بھی کبھی ان سے جدا ہوئی لیکن مسلمانوں کا یہ اعتقاد ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روح القدس آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا بھی ہو جاتا تھا.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۷۲ تا ۷۵ ) شاید کوئی بے خبر اس حیرت میں پڑے کہ فرشتوں کا اُترنا کیا معنی رکھتا ہے؟ سو واضح ہو کہ عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدث اصلاح خلق اللہ کے لئے آسمان سے اترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اترا کرتے ہیں کہ جو مستعد دلوں میں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں اور برابر اترتے رہتے ہیں جب تک کفر اور ضلالت کی ظلمت دور ہو کر ایمان اور راستبازی کی صبح صادق نمودار ہو.جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.تَنَزَّلُ الْمَلَيْكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ.سَلَمُ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ.سو ملائکہ اور روح القدس کا تنزل یعنی آسمان سے اتر نا اُسی وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعت خلافت پہن کر اور کلام الہی سے شرف پا کر زمین پر نزول فرماتا ہے.روح القدس خاص طور پر اس خلیفہ کو ملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تمام دنیا کے مستعد دلوں پر نازل کئے جاتے ہیں.القدر : ۶۰۵

Page 651

۶۴۱ تب دنیا میں جہاں جہاں جو ہر قابل پائے جاتے ہیں سب پر اُس نور کا پر توہ پڑتا ہے اور تمام عالم میں ایک نورانیت پھیل جاتی ہے اور فرشتوں کی پاک تاثیر سے خود بخود دلوں میں نیک خیال پیدا ہونے لگتے.ہیں اور توحید پیاری معلوم ہونے لگتی ہے اور سیدھے دلوں میں راست پسندی اور حق جوئی کی ایک روح پھونک دی جاتی ہے اور کمزوروں کو طاقت عطا کی جاتی ہے اور ہر طرف ایسی ہوا چلنی شروع ہو جاتی ہے کہ جو اس مصلح کے مدعا اور مقصد کو مدد دیتی ہے.ایک پوشیدہ ہاتھ کی تحریک سے خود بخو دلوگ صلاحیت کی طرف کھسکتے چلے آتے ہیں اور قوموں میں ایک جنبش سی شروع ہو جاتی ہے.تب نا سمجھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات نے خود بخو د راستی کی طرف پلٹا کھایا ہے لیکن درحقیقت یہ کام ان فرشتوں کا ہوتا ہے کہ جو خلیفہ اللہ کے ساتھ آسمان سے اُترتے ہیں اور حق کے قبول کرنے اور سمجھنے کے لئے غیر معمولی طاقتیں بخشتے ہیں.سوئے ہوئے لوگوں کو جگا دیتے ہیں اور مستوں کو ہشیار کرتے ہیں اور بہروں کے کان کھولتے ہیں اور مردوں میں زندگی کی روح پھونکتے ہیں اور ان کو جو قبروں میں ہیں باہر نکال لاتے ہیں.تب لوگ یکدفعہ آنکھیں کھولنے لگتے ہیں اور اُن کے دلوں پر وہ باتیں کھلنے لگتی ہیں جو پہلے مخفی تھیں اور در حقیقت یہ فرشتے اس خلیفہ اللہ سے الگ نہیں ہوتے.اسی کے چہرہ کا نور اور اُسی کی ہمت کے آثار جلیہ ہوتے ہیں جو اپنی قوت مقناطیسی سے ہر ایک مناسبت رکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں خواہ وہ جسمانی طور پر نزدیک ہو یا دور ہو اور خواہ آشنا ہو یا بکلی بے گانہ اور نام تک بے خبر ہو.غرض اس زمانہ میں جو کچھ نیکی کی طرف حرکتیں ہوتی ہیں اور راستی کے قبول کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں خواہ وہ جوش ایشیائی لوگوں میں پیدا ہوں یا یورپ کے باشندوں میں یا امریکہ کے رہنے والوں میں وہ در حقیقت انہی فرشتوں کی تحریک سے جو اس خلیفہ اللہ کے ساتھ اُترتے ہیں ظہور پذیر ہوتے ہیں.یہ الہی قانون ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے.اور بہت صاف اور سریع الفہم ہے.(فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲ ۱۳ حاشیہ) اِس عاجز کو اپنے ذاتی تجربہ سے یہ معلوم ہے کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت اور ہر دم اور ہر لحظہ بلا فصل ملہم کے تمام قومی میں کام کرتی رہتی ہے اور وہ بغیر روح القدس اور اُس کی تاثیر قدسیت کے ایک دم بھی اپنے تئیں ناپاکی سے بچا نہیں سکتا اور انوار دائمی اور استقامت دائمی اور محبت دائمی اور عصمت دائمی اور برکات دائمی کا بھی سبب ہوتا ہے کہ روح القدس ہمیشہ اور ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے.پھر

Page 652

۶۴۲ امام المعصومین اور امام المتبرکین اور سید المقربین کی نسبت کیونکر خیال کیا جائے کہ نعوذ باللہ کسی وقت ان تمام برکتوں اور پاکیزگیوں اور روشنیوں سے خالی رہ جاتے تھے.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۳-۹۴ حاشیه ) ناظرین کی توجہ کے لائق یہ ہے کہ ان مولویوں نے بات بات میں حضرت عیسی کو بڑھایا اور ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی.غضب کی بات ہے کہ ان کا عقیدہ حضرت مسیح کی نسبت تو یہ ہو کہ کبھی روح القدس اُن سے جدا نہیں ہوتا تھا اور مس شیطان سے وہ بری تھے.اور یہ دونو باتیں انہیں کی خصوصیت تھی لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ان کا یہ اعتقاد ہو کہ نہ روح القدس ہمیشہ اور ہر وقت اُن کے پاس رہا اور نہ وہ نعوذ باللہ نقل کفر کفر نباشد مس شیطان سے بری تھے باوجود ان باتوں کے یہ لوگ مسلمان کہلا دیں.اُن کی نظر میں ہمارے سید و مولی محمد صلی اللہ علیہ وسلم مُردہ مگر حضرت عیسی اب تک زندہ اور عیسی کے لئے رُوح القدس دائمی رفیق مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ اس نعمت سے بے بہرہ.اور حضرت عیسی مسیں شیطان سے محفوظ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ نہیں.جن لوگوں کے یہ عقائد ہوں اُن کے ہاتھ سے جس قدر دین اسلام کو اس زمانہ میں نقصان پہنچ رہا ہے کون اس کا اندازہ کر سکتا ہے.یہ لوگ چھپے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں.چاہئے کہ ہر یک مسلمان اور سچا عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پر ہیز کرے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۱۰-۱۱۱) یہی حال انبیاء کی اجتہادی غلطی کا ہے کہ روح القدس تو کبھی اُن سے علیحدہ نہیں ہوتا مگر بعض اوقات خدا تعالی بعض مصالح کے لئے انبیاء کے فہم اور ادراک کو اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے تب کوئی قول یا فعل سہو یا غلطی کی شکل پر اُن سے صادر ہوتا ہے اور وہ حکمت جو ارادہ کی گئی ہے ظاہر ہو جاتی ہے.تب پھر وحی کا دریا زور سے چلنے لگتا ہے اور غلطی کو درمیان سے اُٹھا دیا جاتا ہے گویا اس کا کبھی وجود نہیں تھا.حضرت مسیح ایک انجیر کی طرف دوڑے گئے کہ تا اُس کا پھل کھائیں اور روح القدس ساتھ ہی تھا مگر روح القدس نے یہ اطلاع نہ دی کہ اس وقت انجیر پر کوئی پھل نہیں.بایں ہمہ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ شاذ و نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے.پس جس حالت میں ہمارے سید و مولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دس لاکھ کے قریب قول و فعل میں سراسر خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے اور ہر بات میں حرکات میں سکنات میں اقوال میں افعال میں روح القدس کے چمکتے ہوئے انوار نظر آتے ہیں تو پھر اگر ایک آدھ بات میں

Page 653

۶۴۳ بشریت کی بھی بو آ وے تو اس سے کیا نقصان بلکہ ضرور تھا کہ بشریت کے تحقق کے لئے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تا لوگ شرک کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۱۵.۱۱۶) اس جگہ کئی اعتراض پیدا ہوتے ہیں جن کا دفع کرنا ہمارے ذمہ ہے.ازاں جملہ ایک یہ کہ جس حالت میں روح القدس صرف اُن مقربوں کو ملتا ہے کہ جو بقاء اور لقاء کے مرتبہ تک پہنچتے ہیں تو پھر ہر ایک کا نگہبان کیونکر ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ روح القدس کا کامل طور پر نزول مقر بوں پر ہی ہوتا ہے مگر اس کی فی الجملہ تائید حسب مراتب محبت و اخلاص دوسروں کو بھی ہوتی ہے ہماری تقریر مندرجہ بالا کا صرف یہ مطلب ہے کہ روح القدس کی اعلیٰ تعلمی کی یہ کیفیت ہے کہ جب بقاء اور لقاء کے مرتبہ پر محبت الہی انسان کی محبت پر نازل ہوتی ہے تو یہ اعلی تلقی روح القدس کی ان دونوں محبتوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے جس کے مقابل پر دوسری تجلیات کا لعدم ہیں مگر یہ تو نہیں کہ دوسری تجلیات کا وجود ہی نہیں.خدا تعالیٰ ایک ذرہ محبت خالصہ کو بھی ضائع نہیں کرتا.انسان کی محبت پر اس کی محبت نازل ہوتی ہے اور اُسی مقدار پر روح القدس کی چمک پیدا ہوتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا ایک بندھا ہوا قانون ہے کہ ہر یک محبت کے اندازہ پر الہی محبت نزول کرتی رہتی ہے.اور جب انسانی محبت کا ایک دریا بہہ نکلتا ہے تو اس طرف سے بھی ایک دریا نازل ہوتا ہے اور جب وہ دونوں دریا ملتے ہیں تو ایک عظیم الشان نور اُن میں سے پیدا ہوتا ہے جو ہماری اصطلاح میں روح القدس سے موسوم ہے.لیکن جیسے تم دیکھتے ہو کہ اگر ہیں سیر پانی میں ایک ماشہ مصری ڈال دی جائے تو کچھ بھی مصری کا ذائقہ معلوم نہیں ہو گا اور پانی پھیکے کا پھیکا ہی ہوگا مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مصری اس میں نہیں ڈالی گئی اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پانی میٹھا ہے.یہی حال اُس روح القدس کا ہے جو ناقص طور پر ناقص لوگوں پر اُترتا ہے.اُس کے اترنے میں تو شک نہیں ہو سکتا کیونکہ ادنیٰ سے ادنی آدمی کو بھی نیکی کا خیال روح القدس سے پیدا ہوتا ہے.کبھی فاسق اور فاجر اور بدکار بھی کچی خواب دیکھ لیتا ہے اور یہ سب روح القدس کا اثر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبویہ سے ثابت ہے مگر وہ تعلق عظیم جو مقدسوں اور مقربوں کے ساتھ ہے اُس کے مقابل پر یہ کچھ چیز نہیں گویا کالعدم ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۷۷ تا ۸۰ حاشیہ) واضح ہو کہ یہ خیال کہ فرشتے کیوں نظر نہیں آتے بالکل عبث ہے.فرشتے خدا تعالیٰ کے وجود کی طرح

Page 654

۶۴۴ نہایت لطیف وجود رکھتے ہیں.پس کس طرح ان آنکھوں سے نظر آ دیں.کیا خدا تعالیٰ جس کا وجودان فلسفیوں کے نزدیک بھی مسلم ہے ان فانی آنکھوں سے نظر آتا ہے؟ ماسوا اس کے یہ بات بھی درست نہیں کہ کسی طرح نظر ہی نہیں آ سکتے.کیونکہ عارف لوگ اپنے مکاشفات کے ذریعہ سے جوا کثر بیداری میں ہوتے ہیں فرشتوں کو روحانی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور ان سے باتیں کرتے ہیں اور کئی علوم ان سے اخذ کرتے ہیں اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو مفتری کذاب کو بغیر ذلیل اور معذب کرنے کے نہیں چھوڑتا کہ میں اس بیان میں صادق ہوں کہ بار ہا عالم کشف میں میں نے ملائک کو دیکھا ہے اور اُن سے بعض علوم اخذ کئے ہیں.اور اُن سے گذشتہ یا آنے والی خبریں معلوم کی ہیں جو مطابق واقعہ تھیں.پھر میں کیونکر کہوں کہ فرشتے کسی کو نظر نہیں آ سکتے.بلاشبہ نظر آ سکتے ہیں مگر اور آنکھوں سے اور جیسے یہ لوگ ان باتوں پر بنتے ہیں عارف ان کی حالتوں پر روتے ہیں.اگر صحبت میں رہیں تو کشفی طریقوں سے مطمئن ہو سکتے ہیں.لیکن مشکل تو یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی کھوپڑی میں ایک قسم کا تکبر ہوتا ہے.وہ تکبر انہیں اس قدر بھی اجازت نہیں دیتا کہ انکسار اور تذلل اختیار کر کے طالب حق بن کر حاضر ہو جائیں.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸ تا ۱۸۳ حاشیه ) از انجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ خدا تعالیٰ کو فرشتوں سے کام لینے کی کیا حاجت ہے؟ کیا اس کی بادشاہی بھی انسانی سلطنتوں کی طرح عملہ کی محتاج ہے اور اُس کو بھی فوجوں کی حاجت تھی جیسی انسان کو حاجت ہے؟ اما الجواب.پس واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کو کسی چیز کی حاجت نہیں.نہ فرشتوں کی نہ آفتاب کی نہ ماہتاب کی نہ ستاروں کی.لیکن اسی طرح اس نے چاہا کہ تا اس کی قدرتیں اسباب کے توسط سے ظاہر ہوں اور تا اس طرز سے انسانوں میں حکمت اور علم پھیلے.اگر اسباب کا توسط درمیان نہ ہوتا تو نہ دنیا میں علم ہیئت ہوتا نہ نجوم.نہ طبعی نہ طبابت نہ علم نباتات.یہ اسباب ہی ہیں جن سے علم پیدا ہوئے.تم سوچ کر دیکھو کہ اگر فرشتوں سے خدمت لینے سے کچھ اعتراض ہے تو وہی اعتراض سورج اور چاند اور کواکب اور نباتات اور جمادات اور عناصر سے خدمت لینے میں پیدا ہوتا ہے جو شخص معرفت کا کچھ حصہ رکھتا ہے.وہ جانتا ہے کہ ہر یک ذرہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے موافق کام کر رہا ہے اور ایک قطرہ پانی کا جو ہمارے اندر جاتا ہے وہ بھی بغیر اذن الہی کے کوئی تاثیر موافق یا مخالف ہمارے بدن پر ڈال نہیں سکتا.پس تمام

Page 655

۶۴۵ ذرات اور سیارات وغیرہ در حقیقت ایک قسم کے فرشتے ہیں جو دن رات خدمت میں مشغول ہیں.کوئی انسان کے جسم کی خدمت میں مشغول ہے اور کوئی روح کی خدمت میں.اور جس حکیم مطلق نے انسان کی جسمانی تربیت کے لئے بہت سے اسباب کا توسط پسند کیا اور اپنی طرف سے بہت سے جسمانی مؤثرات پیدا کئے تا انسان کے جسم پر انواع اقسام کے طریقوں سے تاثیر ڈالیں.اُسی وحدہ لاشریک نے جس کے کاموں میں وحدت اور تناسب ہے یہ بھی پسند کیا کہ انسان کی رُوحانی تربیت بھی اسی نظام اور طریق سے ہو کہ جو جسم کی تربیت میں اختیار کیا گیا تا وہ دونوں نظام ظاہری و باطنی اور روحانی اور جسمانی اپنے تناسب اور یکرنگی کی وجہ سے صانع واحد مدتر بالا رادہ پر دلالت کریں.پس یہی وجہ ہے کہ انسان کی روحانی تربیت بلکہ جسمانی تربیت کے لئے بھی فرشتے وسائط مقرر کئے گئے.مگر یہ تمام وسائط خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں مجبور اور ایک کل کی طرح ہیں جس کو اس کا پاک ہاتھ چلا رہا ہے.اپنی طرف سے نہ کوئی ارادہ رکھتے ہیں نہ کوئی تصرف.جس طرح ہوا خدا تعالیٰ کے حکم سے ہمارے اندر چلی جاتی ہے اور اسی کے حکم سے باہر آتی ہے اور اُسی کے حکم سے تاثیر کرتی ہے.یہی صورت اور بتمامہ یہی حال فرشتوں کا ہے.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.پنڈت دیا نند نے جو فرشتوں کے اس نظام پر اعتراض کیا ہے کاش پنڈت صاحب کو خدا تعالیٰ کے نظام جسمانی اور روحانی کا علم ہوتا تا بجائے اعتراض کرنے کے کمالات تعلیم قرآنی کے قائل ہو جاتے کہ کیسی قانون قدرت کی صحیح اور سچی تصویر اس میں موجود ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۸۵ تا ۸۸ حاشیه) اور یہ خیال کہ اگر مدبرات اور مقسمات امر فرشتے ہیں تو پھر ہماری تدبیریں کیوں پیش جاتی ہیں.اور کیوں اکثر امور ہمارے معالجات اور تدبیرات سے ہماری مرضی کے موافق ہو جاتے ہیں؟ تو اس کا یہ جواب ہے کہ وہ ہمارے معالجات اور تذبیرات بھی فرشتوں کے دخل اور القاء اور الہام سے خالی نہیں ہیں.جس کام کو فرشتے بازنہ تعالیٰ کرتے ہیں وہ کام اُس شخص یا اس چیز سے لیتے ہیں جس میں فرشتوں کی تحریکات کے اثر کو قبول کرنے کا فطرتی مادہ ہے.مثلا فرشتے جو ایک کھیت یا ایک گانڈ یا ایک ملک میں باذنہ تعالیٰ پانی برسانا چاہتے ہیں تو وہ آپ تو پانی نہیں بن سکتے اور نہ آگ سے پانی کا کام لے سکتے ہیں بلکہ بادل کو اپنی تحریکات جاز بہ سے محل مقصود پر پہنچا دیتے ہیں اور مدبرات امر بن کر جس کم اور کیف اور حد اور اندازہ تک ارادہ کیا گیا ہے برسا دیتے ہیں.بادل میں وہ تمام قوتیں موجود

Page 656

۶۴۶ ہوتی ہیں جو ایک بے جان اور بے ارادہ اور بے شعور چیز میں باعتبار اس کے جمادی حالت اور عنصری خاصیت کے ہو سکتے ہیں اور فرشتوں کی منصبی خدمت دراصل تقسیم اور تدبیر ہوتی ہے.اسی لئے وہ مقسمات اور مدبرات کہلاتے ہیں اور القاء اور الہام بھی جو فرشتے کرتے ہیں.وہ بھی بر عایت فطرت ہی ہوتا ہے.مثلاً وہ الہام جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر وہ نازل کرتے ہیں دوسروں پر نہیں کر سکتے بلکہ اُس طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور اسی قاعدہ کے موافق ہر یک شخص اپنے اندازہ استعداد پر فرشتوں کے القاء سے فیضیاب ہوتا ہے.اور جس فن یا علم کی طرف کسی کا روئے خیال ہے اُسی میں فرشتہ سے مدد پاتا ہے مثلاً جب اللہ جل شانہ کا ارادہ ہوتا ہے کہ کسی دوا سے کسی کو دست آویں تو طبیب کے دل میں فرشتہ ڈال دیتا ہے کہ فلاں مسہل کی دوا اس کو کھلا دو.تب وہ تربد یا خیار شیر یا شیر خشت یا سقمونیا یا سنا یا کشٹر ائل یا کوئی اور چیز جیسے دل میں ڈالا گیا ہو اس بیمار کو بتلا دیتا ہے اور پھر فرشتوں کی تائید سے اس دوا کو طبیعت قبول کر لیتی ہے.مئے نہیں آتی.تب فرشتے اس دوا پر اپنا اثر ڈال کر بدن میں اس کی تاثیرات پہنچاتے ہیں اور مادہ موذیہ کا اخراج باذنہ تعالیٰ شروع ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے نہایت حکمت اور قدرت کاملہ سے سلسلہ ظاہری علوم وفنون کو بھی ضائع ہونے نہیں دیا اور اپنی خدائی کے تصرفات اور دائمی قبضہ کو بھی معطل نہیں رکھا اور اگر خدا تعالیٰ کا اس قدر دقیق در دقیق تصرف اپنی مخلوق کے عوارض اور اس کی بقاء اور فنا پر نہ ہوتا تو وہ ہرگز خدا نہ ٹھہر سکتا اور نہ تو حید درست ہو سکتی.ہاں یہ بات درست ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عالم میں نہیں چاہا کہ یہ تمام اسرار عام نظروں میں بدیہی ٹھہر جاویں کیونکہ اگر یہ بدیہی ہوتے تو پھر اُن پر ایمان لانے کا کچھ بھی ثواب نہ ہوتا.( آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۵ تا ۱۸۸ حاشیه ) ازاں جملہ ایک یہ سوال ہے کہ جس حالت میں رُوح القدس انسان کو بدیوں سے روکنے کے لئے مقرر ہے تو پھر اس سے گناہ کیوں سرزد ہوتا ہے اور انسان کفر اور فسق اور فجور میں کیوں مبتلا ہو جاتا ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ابتلاء کے طور پر دو روحانی داعی مقرر کر رکھے ہیں.ایک داعی خیر جس کا نام روح القدس ہے اور ایک داعی شتر جس کا نام ابلیس اور شیطان ہے.یہ دونوں داعی صرف خیر یا شر کی طرف بلاتے رہتے ہیں مگر کسی بات پر جبر نہیں کرتے.جیسا کہ اس آیت کریمہ میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے.فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوبهَا یعنی خدا بدی کا بھی الہام کرتا ہے الشمس: 9

Page 657

۶۴۷ اور نیکی کا بھی.بدی کے الہام کا ذریعہ شیطان ہے جو شرارتوں کے خیالات دلوں میں ڈالتا ہے.اور نیکی کے الہام کا ذریعہ روح القدس ہے جو پاک خیالات دل میں ڈالتا ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ علت العلل.ہے اس لئے یہ دونوں الہام خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کر لئے کیوں کہ اُسی کی طرف سے یہ سارا انتظام ہے ور نہ شیطان کیا حقیقت رکھتا ہے جو کسی کے دل میں وسوسہ ڈالے اور روح القدس کیا چیز جو کسی کو تقوی کی راہوں کی ہدایت کرے.ہمارے مخالف آریہ اور برہمو اور عیسائی اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس تعلیم کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دانستہ انسان کے پیچھے شیطان کو لگا رکھا ہے.گویا اس کو آپ ہی خلق اللہ کا گمراہ کرنا منظور ہے مگر یہ ہمارے شتاب باز مخالفوں کی غلطی ہے ان کو معلوم کرنا چاہئے کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ شیطان گمراہ کرنے کے لئے جبر کر سکتا ہے اور نہ یہ تعلیم ہے کہ صرف بدی کی طرف بلانے کے لئے شیطان کو مقرر کر رکھا ہے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ آزمائش اور امتحان کی غرض سے.لمہ ملک اور لمہ ابلیس برابر طور پر انسان کو دیئے گئے ہیں یعنی ایک داعی خیر اور ایک داعی شر تا انسان اس ابتلاء میں پڑ کر مستحق ثواب یا عقاب کا ٹھہر سکے کیونکہ اگر اُس کے لئے ایک ہی طور کے اسباب پیدا کئے جاتے مثلاً اگر اس کے بیرونی اور اندرونی اسباب جذبات فقط نیکی کی طرف ہی اس کو کھینچتے یا اس کی فطرت ہی ایسی واقعہ ہوتی کہ وہ بجز نیکی کے کاموں کے اور کچھ کر ہی نہ سکتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ نیک کاموں کے کرنے سے اس کو کوئی مرتبہ قرب کا مل سکے کیونکہ اس کے لئے تو تمام اسباب وجذ بات نیک کام کرنے کے ہی موجود ہیں یا یہ کہ بدی کی خواہش تو ابتداء سے ہی اس کی فطرت سے مسلوب ہے تو پھر بدی سے بچنے کا اُس کو ثواب کس استحقاق سے ملے.مثلاً ایک شخص ابتداء سے ہی نامرد ہے جو عورت کی کچھ خواہش نہیں رکھتا اب اگر وہ ایک مجلس میں یہ بیان کرے کہ میں فلاں وقت جوان عورتوں کے ایک گروہ میں رہا جو خوبصورت بھی تھیں مگر میں ایسا پر ہیز گار ہوں کہ میں نے اُن کو شہوت کی نظر سے ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا اور خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہا تو کچھ شک نہیں کہ سب لوگ اُس کے اس بیان پر ہنسیں گے اور طنز سے کہیں گے کہ اے نادان ! کب اور کس وقت تجھ میں یہ قوت موجود تھی تا اُس کے روکنے پر تو فخر کر سکتا یا کسی ثواب کی امید رکھتا.پس جاننا چاہئے کہ سالک کو اپنی ابتدائی اور درمیانی حالات میں تمام اُمید میں ثواب کی مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں اور ان

Page 658

۶۴۸ منازل سلوک میں جن امور میں فطرت ہی سالک کی ایسی واقع ہو کہ اُس قسم کی بدی وہ کر ہی نہیں سکتا تو اس قسم کے ثواب کا بھی وہ مستحق نہیں ہو سکتا مثلاً ہم بچھو اور سانپ کی طرح اپنے وجود میں ایک ایسی زہر نہیں رکھتے جس کے ذریعہ سے ہم کسی کو اس قسم کی ایذا پہنچاسکیں جو کہ سانپ اور بچھو پہنچاتے ہیں.سوہم اس قسم کی ترک بدی میں عند اللہ کسی ثواب کے مستحق بھی نہیں.اب اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ مخالفانہ جذبات جو انسان میں پیدا ہو کر انسان کو بدی کی طرف کھینچتے ہیں درحقیقت وہی انسان کے ثواب کا بھی موجب ہیں کیونکہ جب وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر اُن مخالفانہ جذبات کو چھوڑ دیتا ہے تو عنداللہ بلاشبہ تعریف کے لائق ٹھہر جاتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیتا ہے لیکن جو شخص جو انتہائی مقام کو پہنچ گیا ہے اُس میں مخالفانہ جذبات نہیں رہتے.گویا اُس کا جن مسلمان ہو جاتا ہے مگر ثواب باقی رہ جاتا ہے کیونکہ وہ ابتلا کے منازل کو بڑی مردانگی کے ساتھ طے کر چکا ہے جیسے ایک صالح آدمی جس نے بڑے بڑے نیک کام اپنی جوانی میں کئے ہیں اپنی پیرانہ سالی میں بھی اُن کا ثواب پاتا ہے.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۸۰ تا ۸۵ حاشیه ) اسی طرح شیطان کے وجود پر بھی بعض نا سمجھ اعتراض کرتے ہیں کہ گویا خدا نے خود لوگوں کو گمراہ کرنا چاہا.مگر یہ بات نہیں ہے بلکہ ہر ایک دانا اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ ہر ایک انسان میں دو قو تیں ضرور پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک قوت کو عربی میں لمہ شیطان کہتے ہیں اور دوسری قوت کولمہ ملک یعنی انسانی فطرت میں یہ بات مشہور ہے کہ کبھی نامعلوم اسباب سے نیک خیال اس میں پیدا ہوتا ہے اور نیک کاموں کی طرف دل رغبت کرتا ہے.اور پھر کبھی بدخیال اس کے دل میں اٹھتا ہے اور بدی اور بدکاری اور ظلم اور شر کی طرف اس کی طبیعت مائل ہو جاتی ہے.پس وہ قوت جو بد خیال کا منبع ہے قرآنی تعلیم کی رو سے وہ شیطان ہے اور وہ قوت جو نیک خیال کا منبع ہے وہ فرشتہ ہے.( مضمون جلسہ لا ہور منسلکہ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۳۵) اگر کوئی کہے کہ جس حالت میں شیطان کو خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت پر یقین ہے تو پھر وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کیوں کرتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی نافرمانی انسان کی نافرمانی کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ اسی عادت پر انسان کی آزمائش کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اور یہ ایک راز ہے جس کی تفصیل انسان کو نہیں دی گئی.اور انسان کی خاصیت اکثر اور اغلب طور پر یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نسبت علم کامل حاصل کرنے سے ہدایت پالیتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ

Page 659

۶۴۹ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا.ہاں جو لوگ شیطانی سرشت رکھتے ہیں وہ اس قاعدہ سے باہر ہیں.(حقیقة الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۲ حاشیه ) اول ہم بیان کر چکے ہیں کہ صاحب انتہائی کمال کا جس کا وجود سلسلہ خط خالقیت میں انتہائی نقطہ ارتفاع پر واقع ہے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اُن کے مقابل پر وہ خسیس وجود جو انتہائی نقطہ انخفاض پر واقع ہے اس کو ہم لوگ شیطان سے تعبیر کرتے ہیں.اگر چہ بظاہر شیطان کا وجود مشہود و محسوس نہیں.لیکن اس سلسلہ خط خالقیت پر نظر ڈال کر اس قدر تو عقلی طور پر ضرور ماننا پڑتا ہے کہ جیسے سلسلہ ارتفاع کے انتہائی نقطہ میں ایک وجود خیر مجسم ہے جو دنیا میں خیر کی طرف ہادی ہو کر آیا اِسی طرح اس کے مقابل پر ذو العقول میں انتہائی نقطہ انخفاض میں ایک وجود شرانگیز بھی جو شر کی طرف جاذب ہو ضرور چاہئے.اسی وجہ سے ہر یک انسان کے دل میں باطنی طور پر بھی دونوں وجودوں کا اثر عام طور پر پایا جاتا ہے پاک وجود جو روح الحق اور نور بھی کہلاتا ہے یعنی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اس کا پاک اثر بجذبات قدسیہ تو جہات باطنیہ ہر ایک دل کو خیر اور نیکی کی طرف بلاتا ہے.جس قدر کوئی اس سے محبت اور مناسبت پیدا کرتا ہے اسی قدر وہ ایمانی قوت پاتا ہے اور نورانیت اس کے دل میں پھیلتی ہے یاں تک کہ وہ اسی کے رنگ میں آجاتا ہے اور ظلمی طور پر ان سب کمالات کو پالیتا ہے جو اس کو حاصل ہیں اور جو وجود شر انگیز ہے یعنی وجود شیطان جس کا مقام ذوالعقول کی قسم میں انتہائی نقطہ انخفاض میں واقع ہے اُس کا اثر ہر یک دل کو جو اس سے کچھ نسبت رکھتا ہے شرک کی طرف کھینچتا ہے.جس قدر کوئی اس سے مناسبت پیدا کرتا ہے اس قدر بے ایمانی اور خباثت کے خیال اس کو سو جھتے ہیں یاں تک کہ جس کو مناسبت تام ہو جاتی ہے وہ اسی کے رنگ اور روپ میں آکر پورا پورا شیطان ہو جاتا ہے اور ظلمی طور پر ان سب کمالات خباثت کو حاصل کر لیتا ہے جو اصلی شیطان کو حاصل ہیں.اسی طرح اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان اپنی اپنی مناسبت کی وجہ سے الگ الگ طرف کھینچے چلے جاتے ہیں.سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۴۸ تا ۲۵۱ حاشیه ) فاطر: ۲۹

Page 660

Page 661

۶۵۱ دعا میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلا ہٹ ایسی ہی اضطراری ہو تو وہ اس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے اور میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جو قبولیت دعا کی صورت میں آتا ہے میں نے اپنی طرف کھینچتے ہوئے محسوس کیا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دیکھا ہے.ہاں آج کل کے زمانہ کے تاریک دماغ فلاسفر اس کو محسوس نہ کر سکیں یا نہ دیکھ سکیں تو یہ صداقت دنیا سے اُٹھ نہیں سکتی اور خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ میں قبولیت دعا کا نمونہ دکھانے کے لئے ہر وقت طیار ہوں.( الحکم ۳۱ را گست ۱۹۰۱ء صفحہ ۳ کالم ۲۱.ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۲۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) سیّد احمد خانصاب کے سی.ایس.آئی کے رسالہ الدعاء والاستجابة اور رسالہ تحریر فی اصول التفسیر پر ایک نظر.اے اسیر عقل خود برہستی خود کم بناز کیں سپہر بوالعجائب چوں تو بسیار آورد غیر را هرگز نمی باشد گذر در کوئے حق ہر کہ آید ز آسمان او راز آن یار آورد خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است هر که از خود آورد او نجس و مردار آورد سید صاحب اپنے رسالہ مندرجہ عنوان میں دعا کی نسبت اپنا یہ عقیدہ ظاہر کرتے ہیں کہ استجابت دعا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو کچھ دعا میں مانگا گیا ہے وہ دیا جائے کیونکہ اگر استجابت دعا کے یہی معنے ہوں کہ لے اے اپنی عقل کے قیدی اپنی ہستی پر ناز نہ کر کہ یہ عجیب آسمان تیری طرح کے بہت سے آدمی لایا کرتا ہے.ے خدا کے کوچہ میں غیر کو ہر گز دخل نہیں جو آسمان سے آتا ہے وہی اس یار کے اسرار ہمراہ لاتا ہے.سے آپ ہی آپ قرآن کو سمجھ لینا ایک غلط خیال ہے جو شخص اپنے پاس سے اس کا مطلب بیان کرتا ہے وہ گندگی اور مردار پیش کرتا ہے.

Page 662

۶۵۲ وہ سوال بہر حال پورا کر دیا جائے تو دو شکلیں پیش آتی ہیں.اوّل یہ کہ ہزاروں دعا ئیں نہایت عاجزی اور اضطراری سے کی جاتی ہیں مگر سوال پورا نہیں ہوتا جس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی حالانکہ خدا نے استجابت دعا کا وعدہ کیا ہے.دوسری یہ کہ جو امور ہونے والے ہیں وہ مقدر ہیں اور جو نہیں ہونے والے وہ بھی مقدر ہیں.ان مقدرات کے برخلاف ہرگز نہیں ہوسکتا.پس اگر استجابت دعا کے معنے سوال کا پورا کرنا قرار دیئے جائیں تو خدا کا یہ وعدہ کہ أَدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ ان سوالوں پر جن کا ہونا مقدر نہیں ہے صادق نہیں آ سکتا.یعنی ان معنوں کے رو سے یہ عام وعدہ استجابت دعا کا باطل ٹھہرے گا کیونکہ سوالوں کا وہی حصہ پورا کیا جاتا ہے جس کا پورا کیا جانا مقدر ہے.لیکن استجابت دعا کا وعدہ عام ہے.جس میں کوئی بھی استثناء نہیں.پھر جس حالت میں بعض آیتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ جن چیزوں کا دیا جانا مقدر نہیں وہ ہرگز دی نہیں جاتیں اور بعض آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی دعا رد نہیں ہوتی اور سب کی سب قبول کی جاتی ہیں اور نہ صرف اسی قدر بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ کر لیا ہے جیسا کہ آیت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لکم سے ظاہر ہے.پھر اس تناقض اور تعارض آیات سے بجز اس کے کیونکر مخلصی حاصل ہو کہ استجابت دُعا سے عبادت کا قبول کرنا مراد لیا جائے یعنی یہ معنے کئے جائیں کہ دعا ایک عبادت ہے اور جب وہ دل سے اور خشوع سے اور خضوع سے کی جائے تو اس کے قبول کرنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.پس استجابت دعا کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ دعا ایک عبادت متصور ہو کر اُس پر ثواب مترتب ہوتا ہے.ہاں اگر مقدر میں ایک چیز کا ملنا ہے اور اتفاقاً اس کے لئے دعا بھی کی گئی تو وہ چیز مل جاتی ہے مگر نہ دعا سے بلکہ اس کا ملنا مقد رتھا.اور دعا میں بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب دعا کرنے کے وقت خدا کی عظمت اور بے انتہا قدرت کا خیال اپنے دل میں جمایا جاتا ہے تو وہ خیال حرکت میں آ کر ان تمام خیالات پر جن سے اضطرار پیدا ہوا ہے غالب ہو جاتا ہے اور انسان کو صبر اور استقلال پیدا ہو جاتا ہے اور ایسی کیفیت کا دل میں پیدا ہو جانا لا زمہ عبادت ہے اور یہی دعا کا مستجاب ہونا ہے.پھر سید صاحب اپنے رسالہ کے اخیر میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ حقیقت دعا سے ناواقف اور جو حکمت اس میں ہے اس سے بے خبر ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ امر مسلم ہے کہ جو مقدر نہیں ہے وہ نہیں ہونے کا.تو دعا سے کیا فائدہ ہے یعنی جبکہ مقدر بہر حال مل رہے گا خواہ دعا کر دیا نہ کرو اور جس کا ملنا مقدر نہیں اُس کے لئے المؤمن: ٦١

Page 663

۶۵۳ ہزاروں دعائیں کئے جاؤ کچھ فائدہ نہیں تو پھر دُعا کرنا ایک امر عبث ہے.اس کے جواب میں سید صاحب فرماتے ہیں کہ اضطرار کے وقت استمداد کی خواہش رکھنا انسان کی فطرت کا خاصہ ہے.سو انسان اپنے فطرتی خاصہ سے دعا کرتا ہے بلا خیال اس کے کہ وہ ہوگا یا نہیں اور بمقتضائے اُس کی فطرت کے اس کو کہا گیا ہے کہ خدا ہی سے مانگو جو مانگو.اس تمام تحریر سے جس کو ہم نے بطور خلاصہ او پر لکھ دیا ہے ثابت ہوا کہ سید صاحب کا یہ مذہب ہے کہ دعا ذریعہ حصول مقصود نہیں ہو سکتی اور نہ تحصیل مقاصد کے لئے اس کا کچھ اثر ہے اور اگر دعا کرنے سے کسی داعی کا فقط یہی مقصد ہو کہ بذریعہ دعا کوئی سوال پورا ہو جائے تو یہ خیال عبث ہے کیونکہ جس امر کا ہونا مقدر ہے اس کے لئے دعا کی حاجت نہیں اور جس کا ہونا مقدر نہیں ہے اس کے لئے تضرع وابتال بے فائدہ ہے.غرض اس تقریر سے تمامتر صفائی کھل گیا کہ سید صاحب کا یہی عقیدہ ہے کہ دعا صرف عبادت کے لئے موضوع ہے اور اس کو کسی دنیوی مطلب کے حصول کا ذریعہ قرار دینا طمع خام ہے.اب واضح ہو کہ سید صاحب کو قرآنی آیات کے سمجھنے میں سخت دھوکا لگا ہوا ہے مگر ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس دھوکے کی کیفیت کو اس مضمون کے اخیر میں بیان کریں گے.اس وقت ہم نہایت افسوس سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر سید صاحب قرآن کریم کے سمجھنے میں فہم رسا نہیں رکھتے تھے تو کیا وہ قانونِ قدرت بھی جس کی پیروی کا وہ دم مارتے ہیں اور جس کو وہ خدا تعالیٰ کی فعلی ہدایت اور قرآن کریم کے اسرار غامضہ کا مفسر قرار دیتے ہیں اس مضمون کے لکھنے کے وقت اُن کی نظر سے غائب تھا ؟ کیا سید صاحب کو معلوم نہیں کہ اگر چہ دنیا کی کوئی خیر و شر مقدر سے خالی نہیں تاہم قدرت نے اُس کے حصول کے لئے ایسے اسباب مقرر کر رکھے ہیں جن کے صحیح اور نیچے اثر میں کسی عقلمند کو کلام نہیں.مثلاً اگر چہ مقدر پر لحاظ کر کے دوا کا کرنا نہ کرنا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ دعا یا ترک دعا مگر کیا سید صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ مثلاً علم طب سراسر باطل ہے اور حکیم حقیقی نے دواؤں میں کچھ بھی اثر نہیں رکھا.پھر اگر سید صاحب با وجود ایمان بالتقدیر کے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ دوائیں بھی اثر سے خالی نہیں تو پھر کیوں خدا تعالیٰ کے یکساں اور متشابہ قانون میں فتنہ اور تفریق ڈالتے ہیں؟ کیا سید صاحب کا یہ مذہب ہے کہ خدا تعالیٰ اس بات پر تو قادر تھا کہ تربد اور سقمونیا اور سنا اور حب الملوک میں تو ایسا قومی اثر رکھے کہ اُن کی پوری خوراک کھانے کے ساتھ ہی دست چھوٹ جائیں یا مثلا سم الفار اور بیش اور دوسری ہلاہل زہروں میں وہ غضب کی تاثیر ڈال دی کہ اُن کا کامل قدر شربت چند منٹوں میں ہی اس جہان سے رخصت کر دے

Page 664

۶۵۴ لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقدِ ہمت اور تضرع کی بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مُردہ کی طرح رہنے دے جن میں ایک ذرہ بھی اثر نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ نظام الہی میں اختلاف ہو اور وہ ارادہ جو خدا تعالیٰ نے دواؤں میں اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا تھا وہ دواؤں میں مرغی نہ ہو؟ نہیں نہیں ! ہرگز نہیں !! بلکہ خود سید صاحب دعاؤں کی حقیقی فلاسفی سے بے خبر ہیں.اور اُن کی اعلیٰ تا شیروں پر ذاتی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی ایک مدت تک ایک پورانی اور سال خوردہ اور مسلوب القویٰ دوا کو استعمال کرے اور پھر اس کو بے اثر پا کر اس دوا پر عام حکم لگا دے کہ اس میں کچھ بھی تا خیر نہیں.افسوس! صد افسوس که سید صاحب با وجود یکه پیرانہ سالی تک پہنچ گئے مگر اب تک اُن پر یہ سلسلہ نظام قدرت مخفی رہا کہ کیونکر قضاء و قدر کو اسباب سے وابستہ کر دیا گیا ہے اور کس قدر یہ سلسلہ اسباب اور مستیات کا باہم گہرے اور لازمی تعلقات رکھتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس دھوکے میں پھنس گئے کہ انہوں نے خیال کر لیا کہ گویا بغیر ان اسباب کے جو قدرت نے روحانی اور جسمانی طور پر مقرر کر رکھے ہیں کوئی چیز ظہور پذیر ہو سکتی ہے.یوں تو دنیا میں کوئی چیز بھی مقدر سے خالی نہیں.مثلاً جو انسان آگ اور پانی اور ہوا اور مٹی اور اناج اور نباتات اور حیوانات و جمادات وغیرہ سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ سب مقدرات ہی ہیں لیکن اگر کوئی نادان ایسا خیال کرے کہ بغیر ان تمام اسباب کے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں اور بغیر ان راہوں کے جو قدرت نے معین کر دی ہیں ایک چیز بغیر توسط جسمانی یا روحانی وسائل کے حاصل ہو سکتی ہے تو ایسا شخص گویا خدا تعالیٰ کی حکمت کو باطل کرنا چاہتا ہے.میں نہیں دیکھتا کہ سید صاحب کی تقریر کا بجز اس کے کچھ اور بھی ماحصل ہے کہ وہ دُعا کو مجملہ ان اسباب مؤثرہ کے نہیں سمجھتے جن کو انہوں نے بڑی مضبوطی سے تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ اس راہ میں حد سے زیادہ آگے قدم رکھ دیا ہے مثلاً اگر سید صاحب کے پاس آگ کی تاثیر کا ذکر کیا جائے تو وہ ہرگز اس سے منکر نہیں ہوں گے اور ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ اگر کسی کا جلنا مقدر ہے تو بغیر آگ کے بھی جل رہے گا.تو پھر میں حیران ہوں کہ وہ باوجود مسلمان ہونے کے دُعا کی تاثیروں سے جو آگ کی طرح کبھی اندھیرے کو روشن کر دیتی ہیں اور کبھی گستاخ دست انداز کا ہاتھ جلا دیتی ہیں کیوں منکر ہیں.کیا ان کو دعاؤں کے وقت تقدیر یاد آ جاتی ہے اور جب آگ وغیرہ کا ذکر کریں تو پھر تقدیر بھول جاتی ہے؟ کیا ان دونوں چیزوں پر ایک ہی تقدیر حاوی نہیں ہے؟ پھر جس حالت میں باوجود تقدیر ماننے کے وہ اسباب مؤثرہ کو اس شدت سے مانتے ہیں کہ اس کے غلو میں وہ بدنام بھی ہو گئے ہیں تو پھر اس کا کیا موجب ہے کہ وہ نظام قدرت جس کو وہ

Page 665

تسلیم کر چکے ہیں دعا میں اُن کو یاد نہیں رہا.یہاں تک کہ مکھی میں تو کچھ تاثیر ہے مگر دعا میں اتنی بھی نہیں.پس اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کوچے سے بے خبر ہیں اور نہ ذاتی تجربہ اور نہ تجربہ والوں کی اُن کو صحبت ہے.اب ہم فائدہ عام کے لئے کچھ استجابت دعا کی حقیقت ظاہر کرتے ہیں.سو واضح ہو کہ استجابت دعا کا مسئلہ در حقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھو کے لگتے ہیں.بس یہی سبب سیڈ کی غلط فہمی کا ہے.اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اُس کے رب میں ایک تعلق مجاز بہ ہے یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف پھینچتی ہے.پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اُس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے.سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہِ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں.تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اُس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے.تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر اُن تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اور اگر قحط کے لئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے یعنی باز نہ تعالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے.خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیریں کچھ کم نہیں ہیں.بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں منجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیائے کرام ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں.وہ جوعرب کے بیابیانی ملک

Page 666

میں ایک عجیب ماجرا گذرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللھم صَلِّ وَ سَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَمِهِ وَ غَمِهِ وَ حُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَ اَنْزِلْ عَلَيْهِ اَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَد.اور میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے.اور اگر یہ شبہ ہو کہ بعض دعا ئیں خطا جاتی ہیں اور اُن کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے.کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے؟ یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے؟ مگر کیا با وجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے.مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا.بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور رُوحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں.مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور پر میسر آ جاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ اُن سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے.تب دوا نشانہ کی طرح جا کر اثر کرتی ہے یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے.یعنی دعا کے لئے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادہ الہی اس کے قبول کرنے کا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلہ مؤثرات اور متاثرات میں باندھ رکھا ہے.پس سید صاحب کی سخت غلطی ہے کہ وہ نظام جسمانی کا تو اقرار کرتے ہیں مگر نظام روحانی سے منکر ہو بیٹھے ہیں! بالآ خر میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر سید صاحب اپنے اس غلط خیال سے تو بہ نہ کریں اور یہ کہیں کہ دعاؤں کے اثر کا ثبوت کیا ہے تو میں ایسی غلطیوں کے نکالنے کے لئے مامور ہوں.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت سید صاحب کو اطلاع دوں گا اور نہ صرف اطلاع بلکہ چھپوا دوں گا مگر سید صاحب ساتھ ہی یہ بھی اقرار کریں کہ وہ بعد ثابت ہو جانے میرے دعوی کے اپنے اس غلط خیال سے رجوع کریں گے.

Page 667

سید صاحب کا یہ قول ہے کہ گویا قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے حالانکہ تمام دعائیں قبول نہیں ہوتیں.یہ اُن کی سخت غلط فہمی ہے اور یہ آیت اُدعُونِی اسْتَجِبْ لَكُمْ ان کے مدعا کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.کیونکہ یہ دُعا جو آیت اُدعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ میں بطور امر کے بجالانے کے لئے فرمائی گئی ہے اس سے مراد معمولی دُعا ئیں نہیں ہیں بلکہ وہ عبادت ہے جو انسان پر فرض کی گئی ہے.کیونکہ امر کا صیغہ یہاں فرضیت پر دلالت کرتا ہے.اور ظاہر ہے کہ کل دعائیں فرض میں داخل نہیں ہیں.بلکہ بعض جگہ اللہ جلشانہ نے صابرین کی تعریف کی ہے جو اناللہ پر ہی کفایت کرتے ہیں.اور اس دعا کی فرضیت پر بڑا قرینہ یہ ہے کہ صرف امر پر ہی کفایت نہیں کی گئی بلکہ اُس کو عبادت کے لفظ سے یاد کر کے بحالت نافرمانی عذاب جہنم کی وعید اس کے ساتھ لگا دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ دوسری دعاؤں میں یہ وعید نہیں بلکہ بعض اوقات انبیاء علیہم الصلوة والسلام کو دعا مانگنے پر زجر و توبیخ کی گئی ہے.چنانچہ انی اعظُكَ اَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ " اس پر شاہد ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر ہر دعا عبادت ہوتی تو حضرت نوح علیہ السلام کو لَا تَسْلُن کا تازیانہ کیوں لگایا جاتا اور بعض اوقات اولیاء اور انبیاء دعا کرنے کو سوء ادب سمجھتے رہے ہیں اور صلحاء نے ایسی دعاؤں میں استفتاء قلب پر عمل کیا ہے یعنی اگر مصیبت کے وقت دل نے دعا کرنے کا فتویٰ دیا تو دُعا کی طرف متوجہ ہوئے.اور اگر صبر کے لئے فتویٰ دیا تو پھر صبر کیا اور دعا سے منہ پھیر لیا.ماسوا اس کے اللہ تعالیٰ نے دوسری دعاؤں میں قبول کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ صاف فرما دیا ہے کہ چاہوں تو قبول کروں اور چاہوں تو رڈ کروں.جیسا کہ یہ آیت قرآن کی صاف بتلا رہی ہے اور وہ یہ بے بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُوْنَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ اِنْ شَآءَ کے سورۃ انعام الجز نمبرے اور اگر ہم تنز لامان بھی لیں کہ اس مقام میں لفظ اُدعُوا سے عام طور پر دعا ہی مراد ہے تو ہم اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں دیکھتے کہ یہاں دعا سے وہ دعا مراد ہے جو جمیع شرائط ہو اور تمام شرائط کو جمع کر لینا انسان کے اختیار میں نہیں جب تک توفیق از لی یاور نہ ہو.اور یہ بھی یادر ہے کہ دعا کرنے میں صرف تضرع کافی نہیں ہے بلکہ تقویٰ اور طہارت اور راست گوئی اور کامل یقین اور کامل محبت اور کامل توجہ اور یہ کہ جو شخص اپنے لئے دعا کرتا ہے یا جس کے لئے دعا کی گئی ہے اُس کی دنیا اور آخرت کے لئے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحتِ الہی بھی نہ ہو کیونکہ بسا اوقات دعا میں اور شرائط تو سب جمع ہو جاتے ہیں ل المؤمن: ٦١ هود: ۴۷ الانعام: ۴۲

Page 668

۶۵۸ مگر جس چیز کو مانگا گیا ہے وہ عند اللہ سائل کے لئے خلاف مصلحت الہی ہوتی ہے اور اس کے پورے کرنے میں خیر نہیں ہوتی.مثلاً اگر کسی ماں کا پیارا بچہ بہت الحاح اور رونے سے یہ چاہے کہ وہ آگ کا ٹکڑا یا سانپ کا بچہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دے یا ایک زہر جو بظاہر خوبصورت معلوم ہوتی ہے اس کو کھلا دے تو یہ سوال اس بچہ کا ہر گز اس کی ماں پورا نہیں کرے گی اور اگر پورا کر دیوے اور اتفاقاً بچہ کی جان بچ جاوے لیکن کوئی عضو اس کا بے کار ہو جاوے تو بلوغ کے بعد وہ بچہ اپنی اس احمق والدہ کا سخت شا کی ہوگا اور بجز اس کے اور بھی کئی شرائط ہیں کہ جب تک وہ تمام جمع نہ ہوں اس وقت تک دعا کو دعا نہیں کہہ سکتے اور جب تک کسی دُعا میں پوری روحانیت داخل نہ ہو اور جس کے لئے دعا کی گئی ہے اور جو دعا کرتا ہے اُن میں استعداد قریبہ پیدا نہ ہوتب تک توقع اثر دعا امید موہوم ہے اور جب تک ارادہ الہی قبولیت دعا کے متعلق نہیں ہوتا تب تک یہ تمام شرائط جمع نہیں ہوتیں اور ہمتیں پوری توجہ سے قاصر رہتی ہیں.سید صاحب اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ دار آخرت کی سعادتیں اور نعمتیں اور لذتیں اور راحتیں جن کی نجات سے تعبیر کی گئی ہے ایمان اور ایمانی دعاؤں کا نتیجہ ہیں.پھر جبکہ یہ حال ہے تو سید صاحب کو ماننا پڑا کہ بلاشبہ ایک مومن کی دعائیں اپنے اندر اثر رکھتی ہیں اور آفات کے دُور ہونے اور مرادات کے حاصل ہونے کا موجب ہو جاتی ہیں کیونکہ اگر موجب نہیں ہو سکتیں تو پھر کیا وجہ کہ قیامت میں موجب ہو جائیں گی.سوچو اور خوب سوچو کہ اگر در حقیقت دعا ایک بے تاثیر چیز ہے اور دنیا میں کسی آفت کے دور ہونے کا موجب نہیں ہو سکتی تو کیا وجہ کہ قیامت کو موجب ہو جائے گی ؟ یہ بات تو نہایت صاف ہے کہ اگر ہماری دعاؤں میں آفات سے بچنے کے لئے در حقیقت کوئی تاثیر ہے تو وہ تاثیر اس دنیا میں بھی ظاہر ہونی چاہئے تا ہمارا یقین بڑھے اور امید بڑھے اور تا آخرت کی نجات کے لئے ہم زیادہ سرگرمی سے دعائیں کریں اور اگر در حقیقت دعا کچھ چیز نہیں صرف پیشانی کا نوشتہ پیش آنا ہے تو جیسا دنیا کی آفات کے لئے بقول سید صاحب دعا عبث ہے اسی طرح آخرت کے لئے بھی عبث ہو گی اور اس پر امید رکھنا طمع خام.بركات الدعاء.روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۵ تا ۱۴) ایک بچہ جب بھوک سے بے تاب ہو کر دودھ کے لئے چلا تا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آ جاتا ہے.بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن اُس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ لاتی ہیں ؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے.بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں مگر بچہ کی چلا ہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچ لاتی ہے تو کیا ہماری چینیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر

Page 669

۶۵۹ لاسکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے.بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر دعا کی فلاسفی غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے.دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیدا ہوتا ہے.مانگتے جاؤ ملتا جائے گا ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم لے کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے.مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا.جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے بچہ کی مثال جو میں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کر کے دکھاتی ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحه ۸۲ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب وغریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے.(الحکم ۷ار دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲ کالم نمبر ا ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۴۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آداب دعا سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دعا کرنے والے ان طریقوں سے واقف قبولیت دعا کے ہوتے ہیں بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہو گئی ہے.بعض ایسے ہیں جو سرے سے دعا کے منکر ہیں اور جو دعا کے منکر تو نہیں اُن کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ چونکہ اُن کی دعائیں بوجہ آداب الدعا کی ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں کیونکہ دعا اپنے اصلی معنوں میں دعا ہوتی ہی نہیں اس لئے وہ منکرین دعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں.اُن کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہونچا دیا ہے.دعا کے لئے سب سے اوّل اس امر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے اور اللہ تعالیٰ پر یہ سوءظن نہ کر بیٹھے کہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا.بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اس قدر دعا کی گئی ہے کہ جب مقصد کا شگوفہ سرسبز ہونے کے قریب ہوتا ہے دعا کرنے والے تھک گئے ہیں جس کا نتیجہ نا کامی اور نامرادی ہو گیا ہے اور اس نامرادی نے یہاں تک بُرا اثر پہونچایا ہے کہ پھر دعا کی تاثیرات کا انکار شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اس درجہ تک نوبت پہونچ جاتی ہے کہ پھر خدا کا بھی انکار کر بیٹھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اگر خدا ہوتا اور وہ دعاؤں کو قبول کرنے والا ہوتا تو اس قدر عرصہ دراز تک جو دعا کی گئی ہے کیوں قبول المؤمن: ٦١

Page 670

نہ ہوئی ؟ مگر ایسا خیال کرنے والا اور ٹھو کر کھانے والا انسان اگر اپنے عدم استقلال اور تلون کو سوچے تو اُسے معلوم ہو جائے کہ یہ ساری نامرادیاں اُس کی اپنی ہی جلد بازی اور شتاب کاری کا نتیجہ ہیں جن پر خدا کی قوتوں اور طاقتوں کے متعلق بدظنی اور نامراد کرنے والی مایوسی بڑھ گئی.پس کبھی تھکنا نہیں چاہئے.دعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہر جا کر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے اب بظاہر تو یہ حالت ہے کہ اُس نے اچھے بھلے اناج کو مٹی کے نیچے دبا دیا.اس وقت کوئی کیا سمجھ سکتا ہے کہ یہ دانہ ایک عمدہ درخت کی صورت میں نشو و نما پا کر پھل لائے گا.باہر کی دنیا اور خود زمیندار بھی نہیں دیکھ سکتا کہ یہ دانہ اندر ہی اندر زمین میں ایک پودہ کی صورت اختیار کر رہا ہے.مگر حقیقت یہی ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانہ گل کر اندر ہی اندر پودا بنے لگتا ہے اور طیار ہوتا رہتا ہے.یہاں تک کہ اس کا سبزہ او پر نکل آتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کو دیکھ سکتے ہیں.اب دیکھو وہ دانہ جس وقت سے زمین کے نیچے ڈالا گیا تھا.دراصل اُسی ساعت سے وہ پودا بننے کی طیاری کرنے لگ گیا تھا مگر ظاہر بین نگاہ اس سے کوئی خبر نہیں رکھتی اور اب جبکہ اس کا سبزہ باہر نکل آیا تو سب نے دیکھ لیا.لیکن ایک نادان بچہ اُس وقت یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے وقت پر پھل لگے گا.وہ یہ چاہتا ہے کہ کیوں اُسی وقت اُس کو پھل نہیں لگتا مگر عقل مند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کونسا موقع ہے.وہ صبر سے اس کی نگرانی کرتا اور غور و پرداخت کرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ وقت آ جاتا ہے کہ جب اُس کو پھل لگتا اور وہ پک بھی جاتا ہے.یہی حال دعا کا ہے اور بعینہ اسی طرح دعا نشو ونما پاتی اور مثمر ثمرات ہوتی ہے.جلد باز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مآل اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیں اور اپنے مقصد کو پا لیتے ہیں.یہ سچی بات ہے کہ دعا میں بڑے بڑے مراحل اور مراتب ہیں جن کی ناواقفیت کی وجہ سے دعا کرنے والے اپنے ہاتھ سے محروم ہو جاتے ہیں.ان کو ایک جلدی لگ جاتی ہے اور وہ صبر نہیں کر سکتے.حالانکہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں ایک تدریج ہوتی ہے.دیکھو یہ کبھی نہیں ہوتا کہ آج انسان شادی کرے تو کل کو اُس کے گھر بچہ پیدا ہو جاوے.حالانکہ وہ قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے مگر جو قانون اور نظام اس نے مقرر کر دیا ہے وہ ضروری ہے.پہلے نباتات کی نشو ونما کی طرح کچھ پتہ ہی نہیں لگتا.چار مہینے تک کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا.پھر کچھ حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوری میعاد گذرنے پر بہت بڑی تکالیف برداشت کرنے کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے.بچہ کا پیدا ہونا ماں کا بھی ساتھ ہی پیدا ہونا ہوتا

Page 671

۶۶۱ ہے.مرد شاید ان تکالیف اور مصائب کا اندازہ نہ کر سکیں جو اس مدت حمل کے درمیان عورت کو برداشت کرنی پڑتی ہیں مگر یہ سچی بات ہے کہ عورت کی بھی ایک نئی زندگی ہوتی ہے.اب غور کرو کہ اولاد کے لئے پہلے ایک موت خود اس کو قبول کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کر اس خوشی کو دیکھتی ہے.اسی طرح پر دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تلون اور عجلت کو چھوڑ کر ساری تکلیفوں کو برداشت کرتا رہے.اور کبھی بھی یہ وہم نہ کرے کہ دعا قبول نہیں ہوئی آخر آنے والا زمانہ آ جاتا ہے اور دُعا کے نتیجہ کے پیدا ہونے کا وقت پہونچ جاتا ہے.جبکہ گویا مراد کا بچہ پیدا ہوتا ہے.دعا کو پہلے ضروری ہے کہ اس مقام اور حد تک پہونچایا جاوے جہاں پہونچ کر وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے.جس طرح پر آتشی شیشے کے نیچے کپڑا رکھ دیتے ہیں اور سورج کی شعاعیں اس شیشہ پر آ کر جمع ہوتی ہیں اور ان کی حرارت وحدت اس مقام تک پہونچ جاتی ہے جو اس کپڑے کو جلا دے پھر یکا یک وہ کپڑا جل اُٹھتا ہے.اسی طرح پر ضروری ہے کہ دعا اس مقام تک پہونچے جہاں اس میں وہ قوت پیدا ہو جاوے کہ نا مرا دیوں کو جلا دے اور مقصد مراد کو پورا کرنے والی ثابت ہو جاوے.ع پیدا است ندلا را که بلند است جنابت مدت دراز تک انسان کو دعاؤں میں لگے رہنا پڑتا ہے.آخر خدا تعالیٰ ظاہر کر دیتا ہے.میں نے اپنے تجربہ سے دیکھا ہے اور گذشتہ راستبازوں کا تجربہ بھی اس پر شہادت دیتا ہے کہ اگر کسی معاملہ میں دیر تک خاموشی کرے تو کامیابی کی امید ہوتی ہے لیکن جس امر میں جلد جواب مل جاتا ہے وہ ہونے والا نہیں ہوتا.عام طور پر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ایک سائل جب کسی کے دروازہ پر مانگنے کے لئے جاتا ہے اور نہایت عاجزی اور اضطراب سے مانگتا ہے اور کچھ دیر تک جھڑ کیاں کھا کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا اور سوال کئے ہی جاتا ہے تو آخر اس کو بھی کچھ شرم آ ہی جاتی ہے خواہ کتنا ہی بخیل کیوں نہ ہو پھر بھی کچھ نہ کچھ سائل کو دے ہی دیتا ہے تو کیا دعا کرنے والے کو کم از کم ایک معمولی سائل جتنا بھی استقلال نہیں ہونا چاہئے اور خدا تعالیٰ جو کریم ہے اور حیا رکھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کا عاجز بندہ ایک عرصہ سے اس کے آستانہ پر گرا ہوا ہے تو کبھی اس کا انجام بد نہیں کرتا اگر انجام بد ہو تو اپنے ظن سے ہوتا ہے جیسے ایک حاملہ عورت چار پانچ ماہ کے بعد کہے کہ اب بچہ پیدا کیوں نہیں ہوتا اور اس خواہش میں کوئی مسقط دوا کھا لے تو اس وقت کیا بچہ پیدا ہو گا یا ایک مایوسی بخش حالت میں وہ خود مبتلا ہو گی ؟ اسی طرح جو شخص قبل از وقت لے آواز سے ظاہر ہے کہ تیری بارگاہ بہت بلند ہے.

Page 672

۶۶۲ جلدی کرتا ہے وہ نقصان ہی اُٹھاتا ہے اور نہ نرا نقصان بلکہ ایمان کو بھی صدمہ پہنچاتا ہے.بعض ایسی حالت میں دہر یہ ہو جاتے ہیں.ہمارے گاؤں میں ایک نجار تھا اس کی عورت بیمار ہوئی اور آخر وہ مرگئی اُس نے کہا کہ اگر خدا ہوتا تو میں نے اتنی دعائیں کی تھیں وہ قبول ہو جاتیں اور میری عورت نہ مرتی اور اس طرح پر وہ دہر یہ ہو گیا لیکن سعید اگر اپنے صدق اور اخلاص سے کام لے تو اُس کا ایمان بڑھتا ہے اور سب کچھ ہو بھی جاتا ہے.زمین کی دولتیں خدا تعالیٰ کے آگے کیا چیز ہیں.وہ ایک دم میں سب کچھ کر سکتا ہے.کیا دیکھا نہیں کہ اس نے اس قوم کو جس کو کوئی جانتا بھی نہ تھا بادشاہ بنا دیا اور بڑی بڑی سلطنتوں کو ان کا تابع فرمان بنا دیا اور غلاموں کو بادشاہ بنا دیا.انسان اگر تقویٰ اختیار کرے اور خدا تعالیٰ کا ہو جاوے تو دنیا میں اعلیٰ درجہ کی زندگی ہو.مگر شرط یہی ہے کہ صادق اور جوانمرد ہو کر دکھائے دل متزلزل نہ ہو اور اس میں کوئی آمیزش ریاء کاری و شرک کی نہ ہو.ابراہیم علیہ السلام میں وہ کیا بات تھی جس نے اس کو ابوالملت اور ابو الحفاء قرار دیا اور خدا تعالیٰ نے اس کو اس قدر عظیم الشان برکتیں دیں کہ شمار میں نہیں آ سکتیں.وہ یہی صدق اور اخلاص تھا.دیکھو ابراہیم علیہ السلام نے بھی ایک دعا کی تھی کہ اُس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو.پھر کیا وہ اُسی وقت قبول ہو گئی ؟ ابراہیم علیہ السلام کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اُس دعا کا کیا اثر ہوالیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.(احکام ۲۸ فروری ۱۹۰۳ ، صفحہ ۲۰۱.ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۹۲ تا ۶ ۶۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ دُعا کا قبول ہونا دوطور سے ہوتا ہے ایک بطور ابتلاء اور ایک بطور اصطفاء.بطور ابتلاء تو کبھی کبھی گنہگاروں اور نافرمانوں بلکہ کافروں کی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے مگر ایسا قبول ہونا حقیقی قبولیت پر دلالت نہیں کرتا.بلکہ از قبیل استدراج و امتحان ہوتا ہے.لیکن جو بطور اصطفاء دعا قبول ہوتی ہے اُس میں یہ شرط ہے کہ دعا کرنے والا خدائے تعالی کے برگزیدہ بندوں میں سے ہو اور چاروں طرف سے برگزیدگی کے انوار و آثار اُس میں ظاہر ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ حقیقی قبولیت کے طور پر نافرمانوں کی دُعا ہر گز نہیں سنتا بلکہ انہیں کی سنتا ہے جو اس کی نظر میں راستباز اور اس کے حکم پر چلنے والے ہیں سو ابتلاء اور اصطفاء کی قبولیت ادعیہ میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ جو ابتلاء کے طور پر دعا قبول ہوتی ہے اس میں متقی اور خدا دوست ہونا شرط نہیں.اور نہ اس میں یہ ضرورت ہے کہ خدائے تعالی دعا کو قبول کر کے بذریعہ اپنے مکالمہ خاص کے اُس کی قبولیت سے اطلاع بھی دیوے.اور نہ وہ دعائیں ایسی اعلیٰ

Page 673

۶۶۳ پایہ کی ہوتی ہیں جن کا قبول ہونا ایک امر عجیب اور خارق عادت متصور ہو سکے لیکن جو دعائیں اصطفاء کی وجہ سے قبول ہوتی ہیں اُن میں یہ نشان نمایاں ہوتے ہیں.(۱).اول یہ کہ دعا کرنے والا ایک متقی اور راستباز اور کامل فرد ہوتا ہے.(۲).دوسرے یہ کہ بذریعہ مکالمات الہیہ اس دعا کی قبولیت سے اُس کو اطلاع دی جاتی ہے.(۳).تیسری یہ کہ اکثر وہ دعائیں جو قبول کی جاتی ہیں نہایت اعلیٰ درجہ کی اور پیچیدہ کاموں کے متعلق ہوتی ہیں جن کی قبولیت سے کھل جاتا ہے کہ یہ انسان کا کام اور تدبیر نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ کا ایک خاص نمونہ قدرت ہے جو خاص بندوں پر ظاہر ہوتا ہے.(۴).چوتھی یہ کہ ابتلائی دعا ئیں تو کبھی کبھی شاذ و نادر کے طور پر قبول ہوتی ہیں لیکن اصطفائی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں.بسا اوقات صاحب اصطفائی دعا کا ایسی بڑی بڑی مشکلات میں پھنس جاتا ہے اگر اور شخص اُن میں مبتلا ہو جاتا تو بجز خود کشی کے اور کوئی حیلہ اپنی جان بچانے کے لئے ہرگز اُسے نظر نہ آتا.چنانچہ ایسا ہوتا بھی ہے کہ جب کبھی دنیا پرست لوگ جو خدائے تعالیٰ سے مہجور و دور ہیں بعض بڑی بڑی هموم و عموم و امراض و استقام و بلایات لائیل میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو آخر وہ باعث ضعف ایمان خدائے تعالیٰ سے نا امید ہو کر کسی قسم کی زہر کھا لیتے ہیں یا کنوئیں میں گرتے ہیں یا بندوق وغیرہ سے خود کشی کر لیتے ہیں لیکن ایسے نازک وقتوں میں صاحب اصطفاء کا بوجہ اپنی قوت ایمانی اور تعلق خاص کے خدائے تعالی کی طرف سے نہایت عجیب در عجیب مدد دیا جاتا ہے اور عنایت الہی ایک عجیب طور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے یہاں تک کہ ایک محرم راز کا دل بے اختیار بول اٹھتا ہے کہ یہ شخص مؤید الہی ہے.(۵).پانچویں یہ کہ صاحب اصطفائی دعا کا مورد عنایات الہیہ کا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس کے تمام کاموں میں اُس کا متوتی ہو جاتا ہے اور عشق الہی کا نور اور مقبولا نہ کبریائی کی ہستی اور روحانی لذت یابی اور تنعم کے آثار اس کے چہرہ میں نمایاں ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.- ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۷ ۴۷ تا ۴۷۹ ) غرض جبکہ ہماری رُوح ایک چیز کے طلب کرنے میں بڑی سرگرمی اور سوز و گداز کے ساتھ مبدء فیض المطففين : ۲۵ یونس : ۶۳

Page 674

۶۶۴ کی طرف ہاتھ پھیلاتی ہے اور اپنے تئیں عاجز پا کر فکر کے ذریعہ سے کسی اور جگہ سے روشنی ڈھونڈتی ہے تو در حقیقت ہماری وہ حالت بھی دعا کی ایک حالت ہوتی ہے.اسی دُعا کے ذریعہ سے دنیا کی کل حکمتیں ظاہر ہوئی ہیں اور ہر ایک بیت العلم کی کنجی دعا ہی ہے اور کوئی علم اور معرفت کا دقیقہ نہیں جو بغیر اس کے ظہور میں آیا ہو.ہمارا سوچنا ہمارا فکر کرنا اور ہمارا طلب امر مخفی کے لئے خیال کو دوڑانا یہ سب امور دُعا ہی میں داخل ہیں صرف فرق یہ ہے کہ عارفوں کی دُعا آداب معرفت کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے اور ان کی روح مبدء فیض کو شناخت کر کے بصیرت کے ساتھ اُس کی طرف ہاتھ پھیلاتی ہے اور مجوبوں کی دُعا صرف ایک سرگردانی ہے جو فکر اور غور اور طلب اسباب کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے.وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ سے ربط معرفت نہیں اور نہ اس پر یقین ہے وہ بھی فکر اور غور کے وسیلہ سے یہی چاہتے ہیں کہ غیب سے کوئی کامیابی کی بات اُن کے دل میں پڑ جائے اور ایک عارف دعا کرنے والا بھی اپنے خدا سے یہی چاہتا ہے کہ کامیابی کی راہ اُس پر کھلے لیکن مجوب جو خدا تعالیٰ سے ربط نہیں رکھتا وہ مبدء فیض کو نہیں جانتا اور عارف کی طرح اس کی طبیعت بھی سرگردانی کے وقت ایک اور جگہ سے مدد چاہتی ہے اور اسی مدد کے پانے کے لئے وہ فکر کرتا ہے.مگر عارف اس مبدء کو دیکھتا ہے.اور یہ تاریکی میں چلتا ہے اور نہیں جانتا کہ جو کچھ فکر اور خوض کے بعد دل میں پڑتا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ متفکر کے فکر کو بطور دعا قرار دے کر بطور قبول دعا اس علم کو فکر کرنے والے کے دل میں ڈالتا ہے.غرض جو حکمت اور معرفت کا نکتہ فکر کے ذریعہ سے دل میں پڑتا ہے وہ بھی خدا سے ہی آتا ہے اور فکر کرنے والا اگر چہ نہ سمجھے مگر خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ مجھ سے ہی مانگ رہا ہے.سو آخر وہ خدا سے اس مطلب کو پاتا ہے.اور جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے.یہ طریق طلب روشنی اگر علی وجہ البصیرت اور ہادی حقیقی کی شناخت کے ساتھ ہو تو یہ عارفانہ دعا ہے.اور اگر صرف فکر اور خوض کے ذریعہ سے یہ روشنی لا معلوم مبدء سے طلب کی جائے اور منو رحقیقی کی ذات پر کامل نظر نہ ہو تو وہ مجو بانہ دعا ہے..علاوہ اس کے جیسا کہ تدبیر اور دعا کا باہمی رشتہ قانون قدرت کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے ایسا ہی صحیفہ فطرت کی گواہی سے بھی یہی ثبوت ملتا ہے.جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ انسانی طبائع کسی مصیبت کے وقت جس طرح تدبیر اور علاج کی طرف مشغول ہوتی ہیں.ایسا ہی طبعی جوش سے دعا اور صدقہ اور خیرات کی طرف جھک جاتی ہیں.پس یہی ایک روحانی دلیل اس بات پر ہے کہ انسان کی شریعت باطنی نے بھی قدیم سے تمام قوموں کو یہی فتویٰ دیا ہے کہ وہ دُعا کو اسباب اور تدابیر سے الگ نہ

Page 675

کریں بلکہ دعا کے ذریعہ سے تدابیر کو تلاش کریں.غرض دعا اور تدبیر انسانی طبیعت کے دو طبعی تقاضے ہیں کہ جو قدیم سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے دو حقیقی بھائیوں کی طرح انسانی فطرت کے خادم چلے آئے ہیں.اور تد بیر دُعا کے لئے بطور نتیجہ ضروریہ کے اور دُعا تد بیر کے لئے بطور محرک اور جاذب کے ہے اور انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ تدبیر کرنے سے پہلے دعا کے ساتھ مبدء فیض سے مدد طلب کرے تا اس چشمہ لا زوال سے روشنی پا کر عمدہ تدبیریں میسر آسکیں.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۳۰ تا۲۳۲) جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا اور اس سے حلّ مشکلات چاہتا ہے.وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچاوے خدا تعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اور قسم کی تسلی اور سکینت خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے اور وہ ہرگز ہرگز نا مراد نہیں رہتا اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے.لیکن جو شخص دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف منہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا اور اندھا مرتا ہے.جوشخص روح کی سچائی سے دُعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرا یہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے.ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت میں دُعا کے بعد وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تخت شاہی پر حاصل نہیں ہو سکتی سو اسی کا نام حقیقی مراد یابی ہے جو آخر دُعا کرنے والوں کو ملتی ہے.اصل ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۲۳۷) کیا یہ تسلی بخش ثبوت نہیں ہے کہ قدیم سے خدا تعالیٰ کا ایک روحانی قانونِ قدرت ہے کہ دُعا پر حضرت احدیت کی توجہ جوش مارتی ہے اور سکیت اور اطمینان اور حقیقی خوشحالی ملتی ہے.اگر ہم ایک مقصد کی طلب میں غلطی پر نہ ہوں تو وہی مقصد مل جاتا ہے اور اگر ہم اس خطا کار بچہ کی طرح جو اپنی ماں سے سانپ یا آگ کا ٹکڑہ مانگتا ہے اپنی دُعا اور سوال میں غلطی پر ہوں تو خدا تعالیٰ وہ چیز جو ہمارے لئے بہتر ہو عطا کرتا ہے اور با ایں ہمہ دونوں صورتوں میں ہمارے ایمان کو بھی ترقی دیتا ہے کیونکہ ہم دُعا کے ذریعہ سے پیش از وقت خدا تعالیٰ سے علم پاتے ہیں اور ایسا یقین بڑھتا ہے کہ گویا ہم اپنے خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور دعا اور استجابت میں ایک رشتہ ہے کہ ابتدا سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا برابر چلا آتا ہے.

Page 676

۶۶۶ جب خدا تعالی کا ارادہ کسی بات کے کرنے کے لئے توجہ فرماتا ہے تو سنت اللہ یہ ہے کہ اس کا کوئی مخلص بندہ اضطرار اور کرب اور قلق کے ساتھ دعا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنی تمام ہمت اور تمام توجہ اس امر کے ہو جانے کے لئے مصروف کرتا ہے.تب اس مرد فانی کی دعائیں فیوض الہی کو آسمان سے کھینچتی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے نئے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن سے کام بن جائے.یہ دعا اگر چہ بعالم ظاہر انسان کے ہاتھوں سے ہوتی ہے مگر درحقیقت وہ انسان خدا میں فانی ہوتا ہے.اور دعا کرنے کے وقت میں حضرت احدیت و جلال میں ایسے فنا کے قدم سے آتا ہے کہ اس وقت وہ ہاتھ اس کا ہاتھ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے.یہی دعا ہے جس سے خدا پہچانا جاتا ہے اور اس ذوالجلال کی ہستی کا پتہ لگتا ہے جو ہزاروں پر دوں میں مخفی ہے.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۳۹،۲۳۸) نادان خیال کرتا ہے کہ دعا ایک لغو اور بے ہودہ امر ہے مگر اسے معلوم نہیں کہ صرف ایک دعا ہی ہے جس سے خداوند ذوالجلال ڈھونڈ نے والوں پر تجلی کرتا ہے اور اَنَا الْقَادِرُ کا الہام ان کے دلوں پر ڈالتا ہے ہر ایک یقین کا بھوکا اور پیاسا یا د رکھے کہ اس زندگی میں روحانی روشنی کے طالب کے لئے صرف دعا ہی ایک ذریعہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین بخشا اور تمام شکوک وشبہات دور کر دیتا ہے.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۴۰،۲۳۹) یہ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ دعا جو خدا تعالیٰ کی پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں.(۱) ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر تو حید پر پختگی حاصل ہو.کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے (۲) دوسرے یہ کہ تا دعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو.(۳) تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الہی شاملِ حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے (۴) چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رؤیا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اُسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے.ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۲) سورۃ فاتحہ میں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ مسلمانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ دعا میں مشغول

Page 677

رہیں.بلکہ دُعا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، سکھلائی گئی ہے اور فرض کیا گیا ہے کہ پنجوقت یہ دعا کریں.پھر کس قدر غلطی ہے کہ کوئی شخص دعا کی روحانیت سے انکار کرے.قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ دعا اپنے اندر ایک روحانیت رکھتی ہے اور دُعا سے ایک فیض نازل ہوتا ہے جو طرح طرح کے پیرایوں میں کامیابی کا ثمرہ بخشتا ہے.ہماری تقریر مذکورہ بالا سے ہر ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ جس طرح با وجود تسلیم مسئلہ قضاء و قدر کے صد ہا امور میں یہی سنت اللہ ہے کہ جد و جہد سے ثمرہ مترتب ہوتا ہے.اسی طرح دعا میں بھی جو جد وجہد کی جائے وہ بھی ہرگز ضائع نہیں جاتی.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خدا وہ خدا ہے جو بے قراروں کی دعا سنتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے آمن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ ".پھر جبکہ خدا تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کو اپنی ہستی کی علامت ٹھہرائی ہے تو پھر کس طرح کوئی عقل اور حیا والا گمان کر سکتا ہے کہ دعا کرنے پر کوئی آثار صریحہ اجابت کے مترتب نہیں ہوتے اور محض ایک رسمی امر ہے جس میں کچھ بھی روحانیت نہیں؟ میرے خیال میں ہے کہ ایسی بے ادبی کوئی بچے ایمان والا ہر گز نہیں کرے گا جبکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ جس طرح زمین و آسمان کی صنعت پر غور کرنے سے سچا خدا پہچانا جاتا ہے اسی طرح دعا کی قبولیت کو دیکھنے سے خدا تعالیٰ پر یقین آتا ہے.پھر اگر دعا میں کوئی روحانیت نہیں اور حقیقی اور واقعی طور پر دعا پر کوئی نمایاں فیض نازل نہیں ہوتا تو کیونکر دعا خدا تعالیٰ کی شناخت کا ایسا ذریعہ ہو سکتی ہے جیسا کہ زمین و آسمان کے اجرام و اجسام ذریعہ ہیں؟ بلکہ قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ نہایت اعلیٰ ذریعہ خدا شناسی کا دعا ہی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی اور صفت کا ملہ کی معرفت تامہ یقینیہ کاملہ صرف دعا سے ہی حاصل ہوتی ہے اور کسی ذریعہ سے حاصل نہیں ہوتی.وہ امر جو ایک بجلی کی چمک کی طرح یکدفعہ انسان کو تاریکی کے گڑھے سے کھینچ کر روشنی کی کھلی فضا میں لاتا اور خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر دیتا ہے.وہ دعا ہی ہے.دعا کے ذریعہ سے ہزاروں بدمعاش صلاحیت پر آ جاتے ہیں ہزاروں بگڑے ہوئے درست ہو جاتے ہیں.اصل ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۶۰،۲۵۹) جب اللہ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کے اسباب پہونچا دیتا ہے.دل میں ایک الفاتحة : ٦ النمل: ٦٣

Page 678

۶۶۸ رقت اور سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے.لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا تو دل میں اطمینان اور رجوع پیدا نہیں ہوتا.طبیعت پر کتنا ہی زور ڈالو مگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی.اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنی قضا و قدر منوانا چاہتا ہے اور کبھی دعا قبول کرتا ہے اس لئے میں تو جب تک اذنِ الہی کے آثار نہ پالوں قبولیت کی کم امید کرتا ہوں اور اُس کی قضاء وقدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہو جاتا ہوں کیونکہ اس رضا بالقضاء کے ثمرات اور برکات اس سے بہت زیادہ ہیں.الحکم مورخہ ۳۱ / جولائی وہ اراگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳ کالم نمبر.ملفوظات جلد اول صفحه ۳۰۴ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے.اس لئے دُعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے اور یہی معنی اس دعا کے ہیں.پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد اعمال میں نظر کرے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے.وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا کر دیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہو جاتا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ ۷۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) پنجابی میں ایک مثل ہے جو منگے سومر ر ہے مرے سومنگن جا.لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو.دعا کرنا تو مرنا ہوتا ہے.اس ( پنجابی مصرعہ ) کے یہی معنے ہیں کہ جس پر نہایت درجہ کا اضطراب ہوتا ہے وہ دعا کرتا ہے دعا میں ایک موت ہے اور اُس کا بڑا اثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک طرح سے مرجاتا ہے مثلاً ایک انسان ایک قطرہ پانی کا پی کر اگر دعوی کرے کہ میری پیاس بجھ گئی یا اُسے بڑی پیاس تھی تو وہ جھوٹا ہے ہاں اگر پیالہ بھر کر پیوے تو اس بات کی تصدیق ہو گی.پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ ایک رنگ میں جب دعا کی جاتی ہے حتی کہ روح گداز ہو کر آستانہ الہی پر گر پڑتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے اور الہی سنت یہی کہ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ یا تو اُسے قبول کرتا ہے اور یا اُسے جواب دیتا ہے.البدر مورخه ۹ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۸۶ کالم نمبر ۲.ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۳۰ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں اور ہماری گواہی رؤیت سے ہے نہ بطور قصہ کے اُس شخص کی دعا کیونکر منظور ہو اور خود کیونکر اس کو بڑی مشکلات کے وقت جو اس کے نزدیک قانون قدرت کے مخالف ہیں دعا کرنے کا حوصلہ پڑے جو خدا کو ہر ایک چیز پر

Page 679

۶۶۹ قادر نہیں سمجھتا.مگر اے سعید انسان تو ایسا مت کر.تیرا خدا وہ ہے جس نے بے شمار ستاروں کو بغیر ستون کے لٹکا دیا اور جس نے زمین و آسمان کو محض عدم سے پیدا کیا.کیا تو اس پر بدظنی رکھتا ہے کہ وہ تیرے کام میں عاجز آ جائے گا بلکہ تیری ہی بدظنی تجھے محروم رکھے گی.ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اُس کے ہو گئے ہیں.وہ غیروں پر جو اُس کی قدرتوں پر یقین نہیں رکھتے اور اس کے صادق وفادار نہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا.کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱) جہاں تک مجھے خدا تعالیٰ نے دعاؤں کے بارے میں علم دیا ہے وہ یہ ہے کہ دعا کے قبول ہونے کے لئے تین شرطیں ہیں:.اول دعا کرنے والا کامل درجہ پر متقی ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کا مقبول وہی بندہ ہوتا ہے جس کا شعار تقویٰ ہو اور جس نے تقویٰ کی باریک راہوں کو مضبوط پکڑا ہو اور جو امین اور متقی اور صادق العہد ہونے کی وجہ سے منظور نظر الہی ہو اور محبت ذاتیہ الہیہ سے معمور اور پر ہو.دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی عقد ہمت اور توجہ اس قدر ہو کہ گویا ایک شخص کے زندہ کرنے کے لئے ہلاک ہو جائے اور ہر ایک شخص کو قبر سے باہر نکالنے کے لئے آپ گور میں داخل ہو.اس میں راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنے مقبول بندے اس سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک خوبصورت بچہ جو ایک ہی ہو اس کی ماں کو پیارا ہوتا ہے.پس جبکہ خدائے کریم ورحیم دیکھتا ہے کہ ایک مقبول ومحبوب اس کا ایک شخص کی جان بچانے کے لئے روحانی مشقتوں اور تضرعات اور مجاہدات کی وجہ سے اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ قریب ہے کہ اس کی جان نکل جائے تو اس کو علاقہ محبت کی وجہ سے ناگوار گذرتا ہے کہ اسی حال میں اُس کو ہلاک کر دے.تب اس کے لئے اس دوسرے شخص کا گناہ بخش دیتا ہے.جس کے لئے وہ پکڑا گیا تھا.پس اگر وہ کسی مہلک بیماری میں گرفتار ہے یا اور کسی بلا میں اسیر و لاچار ہے تو اپنی قدرت سے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جس سے رہائی ہو جائے اور بسا اوقات اُس کا ارادہ ایک شخص کے قطعی طور پر ہلاک کرنے یا بر باد کرنے پر قرار یافتہ ہوتا ہے لیکن جب ایک مصیبت زدہ کی خوش قسمتی سے ایسا شخص پُر درد تضرعات کے ساتھ درمیان میں آپڑتا ہے جس کو حضرت عزت میں وجاہت ہے تو وہ مثل مقدمہ جو سزا دینے کے لئے مکمل اور مرتب ہو چکی ہے چاک کرنی پڑتی ہے کیونکہ اب بات اغیار سے یار کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور یہ کیونکر ہو سکے کہ خدا اپنے سچے دوستوں کو عذاب دے.

Page 680

۶۷۰ تیسری شرط استجابت دعا کے لئے ایک ایسی شرط ہے جو تمام شرطوں سے مشکل تر ہے کیونکہ اس کا پورا کرنا خدا کے مقبول بندوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس شخص کے ہاتھ میں ہے جو دعا کرانا چاہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نہایت صدق اور کامل اعتقاد اور کامل یقین اور کامل ارادت اور کامل غلامی کے ساتھ دعا کا خواہاں ہو اور یہ دل میں فیصلہ کر لے کہ اگر دعا قبول بھی نہ ہو تا ہم اس کے اعتقاد اور ارادت میں فرق نہیں آئے گا اور دعا کرانا آزمائش کے طور پر نہ ہو بلکہ بچے اعتقاد کے طور پر ہو اور نہایت نیازمندی سے اس کے دروازے پر گرے اور جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے مال سے خدمت سے ہر ایک طور کی اطاعت سے ایسا قرب پیدا کرے کہ اس کے دل کے اندر داخل ہو جائے اور بائیں ہمہ نہایت درجہ پر نیک ظن ہو اور اس کو نہایت درجہ کا متقی سمجھے اور اس کی مقدس شان کے برخلاف ایک خیال بھی دل میں لانا کفر خیال کرے اور اس قسم کی طرح طرح کی جاں شاری دکھلا کر بچے اعتقاد کو اس پر ثابت اور روشن کر دے اور اس کی مثل دنیا میں کسی کو بھی نہ سمجھے اور جان سے مال سے آبرو سے اُس پر فدا ہو جائے.اور کوئی کلمہ کسر شان کا کسی پہلو سے اس کی نسبت زبان پر نہ لائے اور نہ دل میں.اور اس بات کو اُس کی نظر میں بپایہ ثبوت پہنچا دے کہ در حقیقت وہ ایسا ہی معتقد اور مرید ہے اور بایں ہمہ صبر سے انتظار کرے اور اگر پچاس دفعہ بھی اپنے کام میں نامراد رہے پھر بھی اعتقاد اور یقین میں سُست نہ ہو کیونکہ یہ قوم سخت نازک دل ہوتی ہے اور اُن کی فراست چہرہ کو دیکھ کر پہچان سکتی ہے کہ یہ شخص کس درجہ کا اخلاص رکھتا ہے اور یہ قوم با وجود نرم دل ہونے کے نہایت بے نیاز ہوتی ہے.اُن کے دل خدا نے ایسے بے نیاز پیدا کئے ہیں کہ متکبر اور خود غرض اور منافق طبع انسان کی کچھ پروا نہیں کرتے.اس قوم سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اس قدر غلامانہ اطاعت اُن کی اختیار کرتے ہیں کہ گویا مر ہی جاتے ہیں مگر وہ شخص جو قدم قدم پر بدظنی کرتا ہے اور دل میں کوئی اعتراض رکھتا ہے اور پوری محبت اور ارادت نہیں رکھتا وہ بجائے فائدہ کے ہلاک ہوتا ہے.ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۲۶ تا ۲۲۸) یہ بالکل سچ ہے کہ مقبولین کی اکثر دعائیں منظور ہوتی ہیں بلکہ بڑا معجزہ اُن کا استجابت دعا ہی ہے.جب ان کے دلوں میں کسی مصیبت کے وقت شدت سے بے قراری ہوتی ہے اور اس شدید بے قراری کی حالت میں وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو خدا اُن کی سنتا ہے اور اس وقت ان کا ہاتھ گویا خدا کا ہاتھ ہوتا ہے.خدا ایک مخفی خزانہ کی طرح ہے.کامل مقبولوں کے ذریعہ سے وہ اپنا چہرہ دکھلاتا ہے.

Page 681

۶۷۱ خدا کے نشان تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب اس کے مقبول ستائے جاتے ہیں اور جب حد سے زیادہ اُن کو دکھ دیا جاتا ہے تو سمجھو کہ خدا کا نشان نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر کیونکہ یہ وہ قوم ہے کہ کوئی اپنے پیارے بیٹے سے ایسی محبت نہیں کرے گا جیسا کہ خدا ان لوگوں سے کرتا ہے جو دل و جان سے اس کے ہو جاتے ہیں.وہ اُن کے لئے عجائب کام دکھلاتا ہے اور ایسی اپنی قوت دکھلاتا ہے کہ جیسا ایک سوتا ہوا شیر جاگ اٹھتا ہے.خدا مخفی ہے اور اس کے ظاہر کرنے والے یہی لوگ ہیں.وہ ہزاروں پر دوں کے اندر ہے اور اس کا چہرہ دکھلانے والی یہی قوم ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خیال کہ مقبولین کی ہر ایک دعا قبول ہو جاتی ہے یہ سراسر غلط ہے.بلکہ حق بات یہ ہے کہ مقبولین کے ساتھ خدا تعالیٰ کا دوستانہ معاملہ ہے کبھی وہ ان کی دعائیں قبول کر لیتا ہے اور کبھی وہ اپنی مشیت اُن سے منوانا چاہتا ہے.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ دوستی میں ایسا ہی ہوتا ہے بعض وقت ایک دوست اپنے دوست کی بات کو مانتا ہے اور اُس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور پھر دوسرا وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اپنی بات اس سے منوانا چاہتا ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں مومنوں کی استجابت دعا کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم لے یعنی تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور دوسری جگہ اپنی نازل کردہ قضاء و قدر پر خوش اور راضی رہنے کی تعلیم کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ ن مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ.پس ان دونوں آیتوں کو ایک جگہ پڑھنے سے صاف معلوم ہو جائے گا کہ دعاؤں کے بارے میں کیا سنت اللہ ہے اور رب اور عبد کا کیا باہمی تعلق ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱،۲۰) بعض جاہل کہتے ہیں کہ کیوں کامل لوگوں کی بعض دعائیں منظور نہیں ہوتیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اُن کی تجلی حسن کو خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے.پس جس جگہ یہ تجلی عظیم ظاہر ہو جاتی ہے اور کسی معاملہ میں اُن کا حسن جوش میں آتا ہے اور اپنی چمک دکھلاتا ہے تب اس چمک کی طرف ذرات عالم کھنچے جاتے ہیں اور غیر ممکن باتیں وقوع میں آتی ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں معجزہ کہتے ہیں.مگر یہ المؤمن: ٦١ البقرة: ۱۵۶ ۱۵۷

Page 682

۶۷۲ جوش روحانی ہمیشہ اور ہر جگہ ظہور میں نہیں آتا.اور تحریکات خارجیہ کا محتاج ہوتا ہے یہ اس لئے کہ جیسا کہ خدائے کریم بے نیاز ہے اس نے اپنے برگزیدوں میں بھی بے نیازی کی صفت رکھ دی ہے سو وہ خدا کی طرح سخت بے نیاز ہوتے ہیں اور جب تک کوئی پوری خاکساری اور اخلاص کے ساتھ ان کے رحم کے لئے ایک تحریک پیدا نہ کرے وہ قوت اُن کی جوش نہیں مارتی اور عجیب تر یہ کہ وہ لوگ تمام دنیا سے زیادہ تر رحم کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں مگر اس کی تحریک اُن کے اختیار میں نہیں ہوتی.گو وہ بار ہا چاہتے بھی ہیں کہ وہ قوت ظہور میں آوے مگر بجز ارادہ الہیہ کے ظاہر نہیں ہوتی.بالخصوص وہ منکروں اور منافقوں اور ست اعتقاد لوگوں کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے اور ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح اون کو سمجھتے ہیں اور وہ بے نیازی اُن کی ایسی شان رکھتی ہے جیسا کہ ایک معشوق نہایت خوبصورت برقعہ میں اپنا چہرہ چھپائے رکھے اور اسی بے نیازی کا ایک شعبہ یہ ہے کہ جب کوئی شریر انسان ان پر بدظنی کرے تو بسا اوقات بے نیازی کے جوش سے اس بدظنی کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں کیونکہ مخلق باخلاق اللہ رکھتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فِي قُلُوبِهِمُ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا.جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کوئی معجزہ ان سے ظاہر ہو تو اُن کے دلوں میں ایک جوش پیدا کر دیتا ہے اور ایک امر کے حصول کے لئے سخت کرب اور قلق اُن کے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے تب وہ بے نیازی کا برقع اپنے منہ پر سے اتار لیتے ہیں اور وہ حسن اُن کا جو بجز خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں دیکھتا وہ آسمان کے فرشتوں پر اور ذرہ ذرہ پر نمودار ہو جاتا ہے.اور ان کا منہ پر سے برقع اٹھانا یہ ہے کہ وہ اپنے کامل صدق اور صفا کے ساتھ اور اس روحانی حسن کے ساتھ جس کی وجہ سے وہ خدا کے محبوب ہو گئے ہیں اُس خدا کی طرف ایک ایسا خارق عادت رجوع کرتے ہیں اور ایک ایسے اقبال علی اللہ کی ان میں حالت پیدا ہو جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی فوق العادت رحمت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور ساتھ ہی ذرہ ذرہ اس عالم کا کھنچا چلا آتا ہے اور اُن کی عاشقانہ حرارت کی گرمی آسمان پر جمع ہوتی اور بادلوں کی طرح فرشتوں کو بھی اپنا چہرہ دکھا دیتی ہے.اور ان کی درد میں جو رعد کی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں ایک سخت شور ملا اعلیٰ میں ڈال دیتی ہیں.تب خدا تعالیٰ کی قدرت سے وہ بادل پیدا ہو جاتے ہیں جن سے رحمت الہی کا وہ مینہ برستا ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہیں.اُن کی روحانیت جب اپنے پورے سوز و گداز کے ساتھ کسی عقدہ کشائی کے لئے توجہ کرتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے کیونکہ وہ لوگ باعث اس کے جو خدا سے ذاتی البقرة:

Page 683

۶۷۳ - محبت رکھتے ہیں محبوبانِ الہی میں داخل ہوتے ہیں تب ہر ایک چیز جو خدا تعالیٰ کے زیر حکم ہے اُن کی مدد کے لئے جوش مارتی ہے اور رحمت الہی محض اُن کی مراد پوری کرنے کے لئے ایک خلق جدید کے لئے تیار ہو جاتی ہے اور وہ امور ظاہر ہوتے ہیں جو اہل دنیا کی نظر میں غیر ممکن معلوم ہوتے ہیں اور جن سے سفلی علوم محض نا آشنا ہیں.ایسے لوگوں کو خدا تو نہیں کہہ سکتے مگر قرب اور علاقہ محبت ان کا کچھ ایسا صدق وصفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے گویا خدا اُن میں اتر آتا ہے اور آدم کی طرح خدائی روح اُن میں پھونکی جاتی ہے مگر یہ نہیں کہ وہ خدا ہیں لیکن درمیان میں کچھ ایسا تعلق ہے جیسا کہ لوہے کو جبکہ سخت طور پر آگ سے افروختہ ہو جائے اور آگ کا رنگ اس میں پیدا ہو جائے آگ سے تعلق ہوتا ہے.اس صورت میں تمام چیزیں جو خدا تعالیٰ کے زیر حکم ہیں ان کے زیر حکم ہو جاتی ہیں اور آسمان کے ستارے اور سورج اور چاند سے لے کر زمین کے سمندروں اور ہوا اور آگ تک اُن کی آواز کو سنتے اور اُن کو شناخت کرتے اور ان کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ہر ایک چیز طبعاً اُن سے پیار کرتی ہے اور عاشق صادق کی طرح ان کی طرف کھینچی جاتی ہے بجز شریر انسانوں کے جو شیطان کا اوتار ہیں.عشق مجازی تو ایک منحوس عشق ہے کہ ایک طرف پیدا ہوتا اور ایک طرف مرجاتا ہے اور نیز اس کی بنا ء اس حسن پر ہے جو قابل زوال ہے اور نیز اس حسن کے اثر کے نیچے آنے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں مگر یہ کیا حیرت انگیز نظارہ ہے کہ وہ حسنِ رُوحانی جوحسن معاملہ اور صدق وصفا اور محبت الہیہ کی تجلی کے بعد انسان میں پیدا ہوتا ہے.اس میں ایک عالمگیر کشش پائی جاتی ہے وہ مستعد دلوں کو اس طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے جیسے شہر چیونٹیوں کو اور نہ صرف انسان بلکہ عالم کا ذرہ ذرہ اس کی کشش سے متاثر ہوتا صادق المحبت انسان جو کچی محبت خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے وہ وہ یوسف ہے جس کے لئے ذرہ ذرہ اس عالم کا زلیخا صفت ہے اور ابھی حسن اس کا اس عالم میں ظاہر نہیں کیونکہ یہ عالم اس کی برداشت نہیں کرتا.خدا تعالیٰ اپنی پاک کتاب میں جو فرقان مجید ہے فرماتا ہے کہ مومنوں کا نور اُن کے چہروں پر دوڑتا ہے اور مومن اس حسن سے شناخت کیا جاتا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں نور ہے.ہے.( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۲۱ تا ۲۲۴) کبھی ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ ایک طالب نہایت رقت اور درد کے ساتھ دعائیں کرتا ہے مگر وہ دیکھتا ہے کہ ان دعاؤں کے نتائج میں ایک تاخیر اور توقف واقع ہوتا ہے اس کا سر کیا ہے؟ اس میں یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اوّل تو جس قدرا مور دنیا میں ہوتے ہیں اُن میں ایک قسم کی تدریج پائی جاتی ہے.

Page 684

۶۷۴ دیکھو ایک بچہ کو انسان بننے کے لئے کس قدر مر حلے اور منازل طے کرنے پڑتے ہیں.ایک پیج کا درخت بننے کے لئے کس قدر توقف ہوتا ہے.اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے امور کا نفاذ بھی تدریجاً ہوتا ہے.دوسرے اس توقف میں یہ مصلحت الہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے عزم اور عقد ہمت میں پختہ ہو جاوے اور معرفت میں استحکام اور رسوخ ہو.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر انسان اعلیٰ مراتب اور مدارج کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسی قدر اس کو زیادہ محنت اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے.پس استقلال اور ہمت ایک ایسی عمدہ چیز ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو انسان کامیابی کی منزلوں کو طے نہیں کر سکتا.اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ پہلے مشکلات میں ڈالا جاوے.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.اس لئے فرمایا ہے.الحکم مورخہ ۷ اردسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۲ کالم نمبر۳.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۴۹ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک امر کے لئے دعا کرتا ہے مگر وہ دعا اس کی اپنی نا واقعی اور نادانی کا نتیجہ ہوتی ہے.یعنی ایسا امر خدا سے چاہتا ہے جو اس کے لئے کسی صورت سے مفید اور نافع نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ اُس کی دعا کو تو رو نہیں کرتا لیکن کسی اور صورت میں پورا کر دیتا ہے مثلاً ایک زمیندار جس کو ہل چلانے کے لئے بیل کی ضرورت ہے وہ بادشاہ سے جا کر ایک اونٹ کا سوال کرے اور بادشاہ جانتا ہے کہ اس کو دراصل بیل دینا مفید ہو گا اور وہ حکم دے دے کہ اس کو ایک بیل دے دو.وہ زمین دار اپنی بیوقوفی سے یہ کہہ دے کہ میری درخواست منظور نہیں ہوئی تو اُس کی حماقت اور نادانی ہے لیکن اگر وہ غور کرے تو اس کے لئے یہی بہتر تھا.اس طرح پر اگر ایک بچہ آگ کے سُرخ انگارے دیکھ کر ماں سے مانگے تو کیا مہربان اور شفیق ماں یہ پسند کرے گی کہ اُس کو آگ کے انگارے دیدے؟ غرض بعض اوقات دعا کی قبولیت کے متعلق ایسے امور بھی پیش آتے ہیں.جولوگ بے صبری اور بدظنی سے کام لیتے ہیں وہ اپنی دعا کورڈ کرا لیتے ہیں.الحکم مورخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۲ کالم نمبر.ملفوظات جلد دوم صفحہ ۷۰۸ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلا پر ابتلا آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلا بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں.مگر مستقل مزاج سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے.ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سر یہ بھی ہوتا ہے کہ دُعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس الم نشرح :

Page 685

۶۷۵ جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اُسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں.پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے یہ کبھی بھی خیال کرنا نہ چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی.ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے.الحکم، مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱ ۲.ملفوظات جلد دوم صفحه ۷۰۸،۷۰۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء ) دعا ئیں حقیقت میں بہت قابل قدر ہوتی ہیں اور دعاؤں والا آخر کار کامیاب ہو جاتا ہے.ہاں یہ نادانی اور سوء ادب ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ لڑنا چاہے مثلاً یہ دعا کرے کہ رات کے پہلے حصہ میں سورج نکل آوے.اس قسم کی دعا ئیں گستاخی میں داخل ہوتی ہیں.وہ شخص نقصان اٹھاتا ہے اور ناکام رہتا ہے جو گھبرانے والا اور قبل از وقت چاہنے والا ہو مثلاً اگر بیاہ کے دس دن بعد مرد و عورت یہ خواہش کریں کہ اب بچہ پیدا ہو جاوے تو یہ کیسی حماقت ہو گی.اس وقت تو اسقاط کے خون اور چھیچھڑوں سے بھی بے نصیب رہے گی.اسی طرح جو سبزہ کو نمونہیں دیتا وہ دانہ پڑنے کی نوبت ہی آنے نہیں دیتا....مسلمان دعا سے بالکل ناواقف ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو بدقسمتی سے ایسا موقعہ ملا کہ دعا کریں مگر انہوں نے صبر اور استقلال سے چونکہ کام نہ لیا اس لئے نامراد رہ کر سید احمد خانی مذہب اختیار کر لیا کہ دعا کوئی چیز نہیں.یہ دھوکا اور غلطی اسی لئے لگتی ہے کہ وہ لوگ حقیقت دعا سے ناواقف محض ہوتے ہیں اور اس کے اثر سے بے خبر اور اپنی خیالی امیدوں کو پورا نہ ہوتے دیکھ کر کہہ اُٹھتے ہیں کہ دعا کوئی چیز نہیں اور اس سے برگشتہ ہو جاتے ہیں.دعار بوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے.اگر دُعاؤں کا اثر نہ ہوتا تو پھر اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.الحکم مورخہ ۱۷ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳ کالم نمبر.ملفوظات جلد دوم صفحه ۵۰،۱۴۹ جدید ایڈیشن) پس دعاؤں سے کام لینا چاہئے اور خدا تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے اس پر کسی کی حکومت نہیں ہے.ایک شخص اگر عاجزی اور فروتنی سے اس کے حضور نہیں آتا وہ اس کی کیا پرواہ کر سکتا ہے.دیکھو اگر ایک سائل کسی کے پاس آ جاوے اور اپنا بجز اور غربت ظاہر کرے تو ضرور ہے کہ اُس کے ساتھ کچھ نہ کچھ سلوک ہو لیکن ایک شخص جو گھوڑی پر سوار ہو کر آوے اور سوال کرے اور یہ بھی کہے کہ اگر نہ دو گے تو ڈنڈے ماروں گا تو بجز اس کے کہ خود اس کو ڈنڈے پڑیں اور اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا ؟ خدا تعالیٰ سے اڑ کر مانگتا ہے اور اپنے ایمان کو مشروط کرنا بڑی بھاری غلطی اور ٹھوکر کا

Page 686

موجب ہے.دعاؤں میں استقلال اور صبر ایک الگ چیز ہے اور اڑ کر مانگنا اور بات ہے.یہ کہنا کہ میرا فلاں کام اگر نہ ہوا تو میں انکار کر دوں گا یا یہ کہہ دوں گا یہ بڑی نادانی اور شرک ہے اور آداب الدعا سے ناواقفیت ہے ایسے لوگ دعا کی فلاسفی سے ناواقف ہیں.قرآن شریف میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہر ایک دعا تمہاری مرضی کے موافق میں قبول کروں گا.بے شک یہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ لے لیکن ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اسی قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہوا ہے.وَلَنَبْلُوَنَّكُمُ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ " - الآية ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں اگر تمہاری مانتا ہے تو لَنَبْلُوَنَّكُمْ میں اپنی منوانی چاہتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا احسان اور اس کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندہ کی بھی مان لیتا ہے ورنہ اس کی الوہیت اور ربوبیت کی شان کے یہ ہرگز خلاف نہیں کہ اپنی ہی منوائے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الخوف جو فرمایا تو اس مقام پر وہ اپنی منوانا چاہتا ہے.کبھی کسی قسم کا خوف آتا ہے اور کبھی بھوک آتی ہے اور کبھی مالوں پر کمی واقع ہوتی ہے.تجارتوں میں خسارہ ہوتا ہے.اور کبھی ثمرات میں کمی ہوتی ہے.اولا د ضائع ہوتی ہے اور ثمرات برباد ہو جاتے ہیں اور نتائج نقصان دہ ہوتے ہیں.ایسی صورتوں میں خدا تعالیٰ کی آزمائش ہوتی ہے.اُس وقت خدا اپنی شانِ حکومت دکھانا چاہتا ہے اور اپنی منوانا چاہتا ہے.اُس وقت صادق اور مومن کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ نہایت اخلاص اور انشراح صدر کے ساتھ خدا کی رضا کو مقدم کر لیتا ہے اور اُس پر خوش ہو جاتا ہے کوئی شکوہ اور بدظنی نہیں کرتا.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ کے پس صبر کرنے والوں کو بشارت دو.یہ نہیں فرمایا کہ دعا کرنے والوں کو بشارت دو بلکہ صبر کرنے والوں کو.اس لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اگر بظاہر اپنی دعاؤں میں نا کامی دیکھے تو گھبرا نہ جاوے بلکہ صبر اور استقلال سے خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرے.اہل اللہ کو نظر آ جاتا ہے کہ یہ کام ہونہار ہے.پس جب وہ یہ دیکھتے ہیں تو دعا کرتے ہیں ورنہ قضاء وقد ر پر راضی رہتے ہیں.اہل اللہ کے دو ہی کام ہوتے ہیں.جب کسی بلا کے آثار دیکھتے ہیں تو دُعا کرتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ قضاء وقد راس طرح پر ہے تو صبر کرتے ہیں جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کیا.جن میں سے ایک بچہ ابراہیم بھی تھا.( ملفوظات جلد دوم صفحه ۲۹۶، ۲۹۷ ایڈیشن ۲۰۰۳ء) میرا صد ہا مرتبہ کا تجربہ ہے کہ خدا ایسا کریم و رحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دعا کو منظور نہیں المؤمن : ٦١ ۳۲ البقرة : ۱۵۶

Page 687

722 کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دعا منظور کر لیتا ہے جو اس کے مثل ہوتی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۰) یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دعا کرتے ہیں اور تمام نماز دعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے.وہ فنا کرنے والی چیز ہے.وہ گداز کرنے والی آگ ہے.وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے.وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے.وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے.ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے.مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں.تھکتے نہیں.کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے.مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے.مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے.مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پچھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھریوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بیتاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنادیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا.وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم.حیا والا.صادق.وفادار.عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے.پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا.دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو.خدا کے لئے ہار اختیار کر لو اور شکست کو قبول کر لو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ.دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائیگی.دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے.دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے.دُعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنے صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی گویا وہ اور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں مگرنتی تجلی نئے رنگ میں اس کو البقرة: ١٠٧

Page 688

۶۷۸ ظاہر کرتی ہے.تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسرں کے لئے نہیں کرتا.یہی وہ خوارق ہے.غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے.اور وہ ایک پانی ہے جو اندر دنی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے.اس دعا کے ساتھ رُوح پچھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانۂ حضرت احدیت پر گرتی ہے.وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے.اور رُوح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک مصیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے اور اس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے تئیں بکلی کھو دیتی ہے اور اپنے نقش وجود کو مٹا دیتی ہے.یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے.اور شریعت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تاوہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو.کیونکہ خدا تعالے نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے.جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں.اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ انسان بسا اوقات ہنسنے لگتا ہے.ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے.اور جب جسم گھلی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرت احدیت کی طرف حرکت پیدا ہو اور وہ روحانی قیام اور رکوع اور سجود میں مشغول ہو جائے.(لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۲ تا ۲۲۴) یہ شبہ کرنا کہ یہ استعانت بعض اوقات کیوں بے فائدہ اور غیر مفید ہوتی ہے اور کیوں خدا کی رحمانیت و رحیمیت ہر یک وقت استعانت میں تجلّی نہیں فرماتی ؟ پس یہ شبہ صرف ایک صداقت کی غلط فہمی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ ان دعاؤں کو کہ جو خلوص کے ساتھ کی جائیں ضرور سنتا ہے اور جس طرح مناسب ہو مدد چاہنے والوں کے لئے مدد بھی کرتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی استمداد اور دعا میں خلوص نہیں ہوتا.نہ انسان دلی عاجزی کے ساتھ امداد البہی چاہتا ہے اور نہ اس کی روحانی حالت درست ہوتی ہے بلکہ اس کے ہونٹوں میں دعا اور اُس کے دل میں غفلت یا ریاء ہوتی ہے یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا

Page 689

۶۷۹ اُس کی دعا کوسن تو لیتا ہے اور اس کے لئے جو کچھ اپنی حکمت کا ملہ کے رُو سے مناسب اور اصلح دیکھتا ہے عطا بھی فرماتا ہے لیکن نادان انسان خدا کی اُن الطاف خفیہ کو شناخت نہیں کرتا اور باعث اپنے جہل اور بے خبری کے شکوہ اور شکایت شروع کر دیتا ہے اور اس آیت کے مضمون کو نہیں سمجھتا.عسی آن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَلَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ لے.یعنی یہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بُری سمجھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے اچھی ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور وہ اصل میں تمہارے لئے بُری ہو اور خدا چیزوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۳۰، ۴۳۱ حاشیه در حاشیہ نمبر۱۱) خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ فاتحہ میں دعا کرنے کا ایسا طریقہ حسنہ بتلایا ہے جس سے خوب تر طریقہ پیدا ہو نا ممکن نہیں اور جس میں وہ تمام امور جمع ہیں جو دعا میں دلی جوش پیدا کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں.تفصیل اس کی یہ ہے کہ قبولیت دعا کے لئے ضرور ہے کہ اُس میں ایک جوش ہو کیونکہ جس دعا میں جوش نہ ہو وہ صرف لفظی بڑ بڑ ہے حقیقی دعا نہیں.مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ دعا میں جوش پیدا ہونا ہر یک وقت انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ انسان کے لئے اشد ضرورت ہے کہ دُعا کرنے کے وقت جو امور دلی جوش کے محرک ہیں وہ اس کے خیال میں حاضر ہوں اور یہ بات ہر یک عاقل پر روشن ہے کہ دلی جوش پیدا کرنے والی صرف دو ہی چیزیں ہیں.ایک خدا کو کامل اور قادر اور جامع صفات کا ملہ خیال کر کے اس کی رحمتوں اور کرموں کو ابتدا سے انتہا تک اپنے وجود اور بقا کے لئے ضروری دیکھنا اور تمام فیوض کا مبدء اسی کو خیال کرنا.دوسرے اپنے تئیں اور اپنے تمام ہم جنسوں کو عاجز اور مفلس اور خدا کی مدد کا محتاج یقین کرنا یہی دو امر ہیں جن سے دعاؤں میں جوش پیدا ہوتا ہے اور جو جوش دلانے کے لئے کامل ذریعہ ہیں.وجہ یہ کہ انسان کی دُعا میں تب ہی جوش پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے تئیں سراسر ضعیف اور ناتواں اور مدد الہی کا محتاج دیکھتا ہے.اور خدا کی نسبت نہایت قوی اعتقاد سے یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ بغایت درجہ کامل القدرت اور رب العالمین اور رحمن اور رحیم اور مالک امر مجازات ہے اور جو کچھ انسانی حاجتیں ہیں سب کا پورا کرنا اُسی کے ہاتھ میں ہے.سوسورۃ فاتحہ کے ابتدا میں جو اللہ تعالیٰ کی نسبت بیان فرمایا گیا ہے کہ وہی ایک ذات ہے کہ جو تمام محامد کا ملہ سے متصف اور تمام خوبیوں کی جامع البقرة : ۲۱۷

Page 690

۶۸۰ ہے اور وہی ایک ذات ہے جو تمام عالموں کی رب اور تمام رحمتوں کا چشمہ اور سب کو ان کے عملوں کا بدلہ دینے والی ہے پس ان صفات کے بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نے بخوبی ظاہر فرما دیا کہ سب قدرت اُسی کے ہاتھ میں ہے اور ہر یک فیض اسی کی طرف سے ہے اور اپنی اس قدر عظمت بیان کی کہ دنیا اور آخرت کے کاموں کا قاضی الحاجات اور ہر یک چیز کا علت العلل اور ہر یک فیض کا مبدء اپنی ذات کو ٹھہرایا جس میں یہ بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ اس کی ذات کے بغیر اور اُس کی رحمت کے بدوں کسی زندہ کی زندگی اور آرام اور راحت ممکن نہیں.اور پھر بندہ کو تذلل کی تعلیم دی اور فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اس کے یہ معنے ہیں کہ اے مبدء تمام فیوض ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.یعنی ہم عاجز ہیں آپ سے کچھ بھی نہیں کر سکتے جب تک تیری توفیق اور تائید شامل حال نہ ہو.پس خدائے تعالیٰ نے دُعا میں جوش دلانے کے لئے دو محرک بیان فرمائے.ایک اپنی عظمت اور رحمت شاملہ.دوسرے بندوں کا عاجز اور ذلیل ہونا.اب جاننا چاہیے کہ یہی دو محرک ہیں جن کا دعا کے وقت خیال میں لانا دعا کرنے والوں کے لئے نہایت ضروری ہے.جو لوگ دعا کی کیفیت سے کسی قدر چاشنی حاصل رکھتے ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ بغیر پیش ہونے ان دونوں محرکوں کے دُعا ہو ہی نہیں سکتی اور بجز ان کے آتش شوق الہی دُعا میں اپنے شعلوں کو بلند نہیں کرتے.یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ جو شخص خدا کی عظمت اور رحمت اور قدرت کاملہ کو یاد نہیں رکھتا وہ کسی طرح سے خدا کی طرف رجوع نہیں کرسکتا اور جو شخص اپنی عاجزی اور درماندگی اور مسکینی کا اقراری نہیں اُس کی روح اس مولیٰ کریم کی طرف ہرگز جھک نہیں سکتی.غرض یہ ایسی صداقت ہے جس کے سمجھنے کے لئے کوئی عمیق فلسفہ درکار نہیں بلکہ جب خدا کی عظمت اور اپنی ذلت اور عاجزی متحقق طور پر دل میں متنقش ہو تو وہ حالت خاصہ خود انسان کو سمجھا دیتی ہے کہ خالص دعا کرنے کا وہی ذریعہ ہے.بچے پرستار خوب سمجھنے ہیں کہ حقیقت میں انہی دو چیزوں کا تصور دعا کے لئے ضروری ہے.یعنی اول اس بات کا تصور کہ خدائے تعالیٰ ہر یک قسم کی ربوبیت اور پرورش اور رحمت اور بدلہ دینے پر قادر ہے اور اس کی یہ صفات کا ملہ ہمیشہ اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں.دوسرے اس بات کا تصور کہ انسان بغیر تو فیق اور تائید الہی کے کسی چیز کو حاصل نہیں کرسکتا.اور بلاشبہ یہ دونوں تصور ایسے ہیں کہ جب دُعا کرنے کے وقت دل میں جم جاتے ہیں تو یکا یک انسان کی حالت کو ایسا تبدیل کر دیتے ہیں کہ ایک متکبر اُن سے متاثر ہو کر روتا ہوا زمین پر گر پڑتا ہے.اور ایک گردن کش، سخت دل کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.یہی کل ہے جس سے ایک غافل مُردہ میں جان پڑ جاتی ہے انہی

Page 691

۶۸۱ دو باتوں کے تصور سے ہر یک دل دعا کرنے کی طرف کھینچا جاتا ہے.غرض یہی وہ رُوحانی وسیلہ ہے جس سے انسان کی روح رو بخدا ہوتی ہے اور اپنی کمزوری اور امداد ر بانی پر نظر پڑتی ہے.اس کے ذریعہ سے انسان ایک ایسے عالم بے خودی میں پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی مکڈ رہستی کا نشان باقی نہیں رہتا اور صرف ایک ذات عظمی کا جلال چمکتا ہوا نظر آتا ہے اور وہی ذات رحمت کل اور ہر ایک ہستی کا ستون اور ہر یک درد کا چارہ اور ہر یک فیض کا مبدء دکھائی دیتی ہے.آخر اس سے ایک صورت فنا فی اللہ کے ظہور پذیر ہو جاتی ہے جس کے ظہور سے نہ انسان مخلوق کی طرف مائل رہتا ہے نہ اپنے نفس کی طرف نہ اپنے ارداہ کی طرف اور بالکل خدا کی محبت میں کھویا جاتا ہے.اور اُس ہستی حقیقی کی شہود سے اپنی اور دوسری مخلوق چیزوں کی ہستی کا لعدم معلوم ہوتی ہے.اس حالت کا نام خدا نے صراط مستقیم رکھا ہے جس کی طلب کے لئے بندہ کو تعلیم فرمایا اور کہا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی وہ راستہ فنا اور توحید اور محبت الہی کا جو آیات مذکورہ بالا سے مفہوم ہو رہا ہے وہ ہمیں عطا فرما اور اپنے غیر سے بکلی منقطع کر.خلاصہ یہ کہ خدائے تعالیٰ نے دعا میں جوش پیدا کرنے کے لئے وہ اسباب حقہ انسان کو عطا فرمائے کہ جو اسقدر دلی جوش پیدا کرتے ہیں کہ دعا کرنے والے کو خودی کے عالم سے بیخودی اور نیستی کے عالم میں پہنچا دیتے ہیں.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بات ہر گز نہیں کہ سورۃ فاتحہ دعا کے کئی طریقوں میں سے ہدایت مانگنے کا ایک طریقہ ہے بلکہ جیسا کہ دلائل مذکورہ بالا سے ثابت ہو چکا ہے درحقیقت صرف یہی ایک طریقہ ہے جس پر جوش دل سے دعا کا صادر ہونا موقوف ہے اور جس پر طبیعت انسانی بمقتضا اپنے فطرتی تقاضا کے چلنا چاہتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جیسے خدا نے دوسرے امور میں قواعد مقررہ ٹھہرا رکھے ہیں ایسا ہی دعا کے لئے بھی ایک قاعدہ خاص ہے اور وہ قاعدہ وہی محرک ہیں جو سورۃ فاتحہ میں لکھے گئے ہیں اور ممکن نہیں کہ جب تک وہ دونوں محرک کسی کے خیال میں نہ ہوں تب تک اس کی دعا میں جوش پیدا ہو سکے.سوطبعی راستہ دعا مانگنے کا وہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں ذکر ہو چکا ہے.پس سورہ محدوحہ کے لطائف میں سے یہ ایک نہایت عمدہ لطیفہ ہے کہ دعا کو مع محرکات اُس کے کے بیان کیا ہے.فَتَدَبَّر ( براہین احمدیہ ہر چہار حصص - روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۸ ۵ تا ۵۷۵ حاشیہ نمبر ۱۱) اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ پُر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیبات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور اور رحیم ہے.مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے.مجھ میں اور میرے

Page 692

۶۸۲ نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر.اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل محبین میں مجھے اٹھا.اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اُس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس کے محبوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کے ظلّ اور حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل بن اور اپنے رسول مقبول اور اس کے آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر.آمین یا رب العالمین ☆ الفضل مورخہ ۱۱ راکتو بر ۱۹۴۲ء صفحہ نمبر ۳ کالم نمبر ۴) اے میرے قادر خدا ! میری عاجزانہ دعائیں سن لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول دے.اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کہ پرستش دنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے.اور زمین تیرے راستباز اور موحد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے.اور تیرے رسول کریم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے.آمین اے میرے قادر خدا! مجھے یہ تبدیلی دنیا میں دکھا.اور میری دُعائیں قبول کر جو ہر ایک طاقت اور قوت تجھ کو ہے.اے قادر خدا! ایسا ہی کر.آمین ثم آمین.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن.( تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۰۳) نوٹ :.یہ دعا آپ نے حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کو بذریعہ خط لکھی کہ ” آپ پر فرض ہے انہی الفاظ میں بلا تغییر و تبدل بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے کریں.خط بطور یادداشت اپنے پاس رکھیں.چنانچہ صوفی صاحب نے حسب الحکم ۱۳۰۲ھ حج اکبر کے دن بیت اللہ میں اس دعا کو بلند آواز سے پڑھا اور ساتھ کی جماعت آمین کہتی گئی.

Page 692