Mirqatul-Yaqeen Fi Hayat-e-Noorud-Din

Mirqatul-Yaqeen Fi Hayat-e-Noorud-Din

مِرقاتُ الیقین فی حَیاتِ نورالدّین

Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ

مرتبہ اکبر شاہ خان نجیب آبادی اس کتاب میں خود حضرت خلیفہ  المسیح الاول کے املا کروائے ہوئے سوانح حیات اور وہ متفرق واقعات درج ہیں جو حضور نے مختلف مواقع پر بیان فرمائے۔ نہایت دلچسپ اور ایمان افروز واقعا ت کا مجموعہ ہے۔ کتاب شروع کرنے پر اسے ختم کئے بغیر چین نہیں آتا ۔ اس کتاب کا سن اشاعت1331ہجری ہے جب اسے  اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی نے مرتب کیا۔ اولاً یہ حالات الحکم میں شائع ہوئے۔ دوبارہ 14 دسمبر 1962 کو جلال الدین شمس صاحب کے گیارہ صفحات کے دیباچہ سے دوبارہ شائع ہوئے جس کے آخر پر مزید معلومات کا اضافہ ہے۔  فروری 2002ء میں نظارت نشر و اشاعت قادیان نے اسے دوبارہ شائع کیا۔ آخر پر اسماء اور مقامات کا انڈیکس بھی شامل ہے۔


Book Content

Page 1

فى مرقات الیقین حیات نورالدین مرتبه اکبر شاه خارج نجیب آبادی

Page 2

نام کتاب مرقات الیقین فی حیات نورالدین مرتبه من اشاعت اکبر شاہ خان نجیب آبادی فروری 2002 تعداد 1000 شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان-143516 ضلع گورداسپور، پنجاب (بھارت) ISBN No.81-7912-019-8 Published by : Nazarat Nashro Isha'at, Qadian-143516, India

Page 3

بسم الله الرحمن الرحيم حضرت خلیفہ المسیح الاول ، حاجی الحرمین حکیم مولانا نور الدین نے اپنے کچھ حالات زندگی بر صغیر کے مشہور مصنف جناب اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کو وقتا فوقتا اپنی یادداشت سے لکھوائے تھے.یہ دلچسپ اور ایمان افروز حالات مرقاة اليقين في حياة نور الدین کے نام سے متعدد بار شائع ہو چکے ہیں.موجودہ ایڈیشن اُس نسخہ کے مطابق ہے جو الشركة الاسلاميه لمیٹڈ نے ۱۹۶۲ء میں ربوہ سے شائع کیا تھا.البتہ اس کے آخر میں حضرت مفتی محمد صادق رفیق بانی سلسلہ احمدیہ کا ایک مختصر لیکن جامع مضمون شامل کیا گیا ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے قیام قادیان کے حالات پر مشتمل ہے.ناشر

Page 4

Page 5

P for 1A4 ١٩٣ ۲۰۴ r+A ۲۱۵ ٢١٩ ۲۲۶ ۲۳۸ ۲۴۴ فهرست پیش لفظ از حضرت مولوی جلال الدین شمس) مقدمه (از اکبر شاه خان نجیب آبادی) تمهید گذارش احوال شجرہ نسب آپ کا مقام مذہب و عقائد 19 ۲۵ ۲۹ ۴۷ مکہ معظمہ میں دوسری مرتبہ بھیرہ عجیب سفر بھوپال میں دوسری مرتبہ بھیرہ ریاست کشمیر و جموں خاتمه عطر مجموعه اہل خاندان - ایام طفولیت نور الدین اعظم متعلق به اهل و عیال طفلی و عنفوان شباب رام پور اور لکھتو بھوپال میں پہلی مرتبہ سفر حرمین مکہ معظمہ میں پہلی مرتبہ 수 ۹۵ 1+2 عہد جوانی.طلب علم متعلق به اساتذه دوست آشتا وطن یعنی بھیرہ لکھنو رامپور کشمیر و جموں 114 مدینه طیبه

Page 6

۳۰۴ ۳۰۵ ٣٠٩ ٣٠٩ ۲۵۶ آپ کے سفر عهد خلافت آپ کے شاگرد آپ کے رشتہ دار واقعات زمانہ خلافت مرض الموت ۲۶۷ Par ۲۸۰ ۲۸۷ بعض مولوی صاحبان شیعه عیسائی ہندو.دہریہ مختلف واقعات قادیانی زندگی (مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق) ابتدائے ہجرت قادیان میں آپ کے مشاغل تصنیف گزارے کی صورت ٣٠٣ ۳۰۴ اولاد وصیتیں

Page 7

بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ یہ کتاب حاجی الحرمین حضرت مولوی حکیم نورالدین خلیفہ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کے ایمان افروز حالات و واقعات پر مشتمل ہے اور یہ حالات آپ نے خود مرتب کتاب اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کو لکھوائے تھے اور ان کا ایک بڑا حصہ اس سے پہلے اخبار الحکم میں بھی شائع ہو چکا تھا.عظیم الشان انسان -: اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک عظیم الشان عالم با عمل اور زندہ جاوید انسان تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو نوازا.اور آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا جاں نثار خادم بنے کی سعادت بخشی.آپ کا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا نتیجہ تھا.حضرت اقدس اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے رب میرا کون ناصر و مددگار ہے.میں تنہا ہوں اور جب دعا کا ہاتھ پے پے اٹھا اور فضائے آسمانی میری دعاؤں سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا.اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا..اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے جب وہ میرے پاس اگر مجھ سے ملا تو میں نے اسے اپنے رب کی آیتوں میں سے ایک آیت پایا ور

Page 8

اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میری اس دعا کا نتیجہ ہے.جو میں ہمیشہ کیا کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے اور میں لوگوں کی مدح کرنا اور ان کے شمائل کی اشاعت کرنا اس خوف سے برا سمجھتا تھا کہ مبادا انہیں نقصان پہنچائے مگر میں اسے ان لوگوں سے پاتا ہوں جن کے نفسانی جذبات شکستہ اور طبعی شہوات مٹ گئی ہیں اور ان کے متعلق اس قسم کا خوف نہیں کیا جا سکتا.وہ میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بد زبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں سے مفارقت اختیار کرتا ہے اور میرا کلام سننے کے لئے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لئے اپنے اصلی وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے.- ( ترجمه از عربی عبارت مندرجہ " آئینہ کمالات اسلام" روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۸۱ تا ۵۸۶) اس میں شک نہیں کہ آپ کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ قصر احمدیت کی پہلی بنیادی ایس ہیں جو نہایت خوش نما اور اس قصر کے حسن و جمال کی رونق کا باعث ہے لیکن مجھے پیش لفظ میں آپ کے محاسن و فضائل اور آپ کی خدمات جلیلہ اور عظیم الشان قربانیوں کا ذکر کرنا مقصود نہیں کیونکہ یہ کتاب ان امور سے معمور ہے.مگر میں اس جگہ ایک بات کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تلہی تعلق اور اخلاص و محبت کا ذکر کر کے اور یہ لکھ کر کہ ”میں آپ کی راہ میں قربان ہوں جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے " لکھا ہے.” دعا فرمائیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو "

Page 9

سو اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ تمنا پوری کی اور آپ کو صدیقوں کا مقام عطا فرمایا.حضرت ابو بکر صدیق سے آپ کی مشابہت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "الوصیت" میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قدرت ثانیہ کے ظہور کی مثال میں حضرت ابو بکر صدیق میانین کی خلافت پیش کی ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے جس شخص کے ہاتھ پر صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کو جمع کیا وہ حضرت ابو بکر صدیق سے بہت سے باتوں میں مشابہت رکھتا تھا.مثلاً.حضرت ابو بکر صدیق مردوں میں سے پہلے شخص تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوئی پر بغیر کسی تردد اور شک کے ایمان لائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :.إِنِّي قُلْتُ يَايُّهَا النَّاسُ إِلَى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ صَدَقت اور فرمایا ( بخاری کتاب التفسیر ) مَا دَعَوْتُ أَحَدًا إِلَى الْإِسْلَام إِلَّا كَانَتْ لَهُ كَبْوَةً وَتَرَدُّد وَ نَظَر الا أبا بَكْرٍ مَا عَتَمَ عَنْهُ حِيْنَ ذَكَرْتُهُ وَ مَا تَرَةً دَ فِيهِ (ابن ہشام جلد اول) یعنی ” میں نے تم لوگوں سے کہا کہ میں تم سب کی طرف رسول ہوں تو تم نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے مگر ابو بکر نے تصدیق کی اور میں نے جس کسی کو بھی اسلام کی طرف بلایا اس نے اس کے ماننے میں تردد اور شک ظاہر کیا.لیکن ابو بکر وہ شخص تھا جس نے بغیر کسی تردد اور بغیر کسی تاخیر کے اسے قبول کر

Page 10

لیا" اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت الحاج الحکیم مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ -: سے متعلق فرماتے ہیں :- انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے ست اور متذبذب ہو گئے تھے.تب سب سے پہلے مولوی صاحب مدروح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعوئی کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج ت امَنَّا وَ صَدَّقْنَا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِرِينَ - (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۲۱) اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق کے حق میں فرمایا وَمَا نَفَعَنِيْ مَالُ اَحَدٍ قَطَّ مَا نَفَعَنِيْ مَالُ أَبِي بَكْرٍ" (ردی) یعنی مجھے کسی شخص کے مال سے کبھی ایسا نفع نہیں پہنچا جیسا کہ ابو بکر کے مال سے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب ”ازالہ اوہام " میں فرماتے ہیں.ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے.میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا.جو اس کے مقابل پر میں بیان کر سکوں" اور " آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں : -: " مجھ کو کسی شخص کے مال نے اس قدر نفع نہیں پہنچایا جس قدر کہ اس کے مال نے جو کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے دیا اور کئی سال سے دے رہا ہے".( ترجمه از عربی عبارت روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۸۲) صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام صحابہ نے حضرت ابو بکر

Page 11

صدیق رضی اللہ عنہ کو آپ کا خلیفہ اول تسلیم کیا ویسے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد تمام اراکین جماعت نے حضرت الحاج حکیم مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کو آپ کا خلیفہ اول تسلیم کیا اور اس سے متعلق اخبار میں یہ اعلان شائع کیا.اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیاں جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں.اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نور الدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتقی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوہ حسنہ قرار فرما چکے ہیں.جیسا کہ آپ کے شعر - چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو.جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود اور مہدی معہود علیه الصلوۃ والسلام کا تھا".دستخط کنندگان رحمت اللہ مالک انگلش ویر ہاؤس لاہور) صاحبزادہ مرزا محمود احمد - مفتی محمد صادق عفی اللہ عنہ - سید محمد احسن امرد ہوئی.سید محمد حسین اسٹنٹ سرجن لاہور.مولوی محمد علی ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز - خواجہ کمال الدین - ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ خلیفہ رشیدالدین اسٹنٹ سرجن مرزا خدا بخش - شیخ یعقوب علی ایڈیٹر الحکم - اکبر شاہ خاں نجیب آبادی.نواب محمد علی خاں رئیس

Page 12

مالیر کوٹلہ - ڈاکٹر بشارت احمد اسسٹنٹ سرجن وغیر ہم.اور حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اس موقعہ پر کھڑے ہو کر اس امر کی رقت آمیز اور دردمندانہ الفاظ میں تائید کی کہ ہم میں سے اب مسیح کا جانشین اور بیعت لینے کے لائق حضرت مولوی صاحب موصوف ہی ہیں".اور اس سے پہلے لکھا ہے : -: " جب بیوی صاحبہ حضرت ام المومنین سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب سے بڑھ کر کون اس کے قابل ہو سکتا ہے کہ حضرت اقدس کا جانشین ہو.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی اس سے اتفاق کیا".بدر مورخه ۲ جون ۶۱۹۰۸ اللہ تعالی نے آپ کی خلافت کے ذریعہ اس سوال کو ہمیشہ کے لئے حل کر دیا کہ حضرت مسیح موعود کے بعد مطابق الوصیت شخصی خلافت ہو گی یا کہ انجمن آپ کی خلیفہ ہو گی اور نئے خلیفہ کی ہر احمدی کو بیعت کرنا اور اس کے احکام کی تعمیل کرنا لازمی ہو گا یا نہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت سے ان تمام لوگوں کی گردنوں کو جو بعد میں مسئلہ خلافت مسیح موعود میں اختلاف کرنے والے تھے ، آپ کے سامنے جھکا دیا اور انہی کے ذریعہ اور انہی کے اپنے دستخطوں سے خلافت کے متعلق ساری کاروائی تکمیل کو پہنچی اور جب آپ کے عہد خلافت میں بعض نے سرتابی کی روح کا مظاہرہ کیا تو آپ نے نہایت عزم و استقلال کے ساتھ اس روح کو کچل دیا.آپ نے فرمایا اور احمد یہ بلڈنگس لاہور کی مسجد میں ۱۹۱۲ء میں تقریر کے دوران نہایت جلالی رنگ میں فرمایا.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے.اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے.اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں تم ان سے بچو.پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان

Page 13

نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا ء کو مجھ سے چھین لے.اب سوال ہو تا ہے کہ خلافت حق کس کا ہے؟ ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے.پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی کو کہدیں.پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب صاحب کا حق ہے یا ام المومنین کا حق ہے جو حضرت صاحب کی بیوی ہیں.یہی لوگ ہیں جو خلافت کے حق دار ہو سکتے ہیں.مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا حق کسی اور نے لے لیا ہے.وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب کے سب میرے فرمانبردار اور وفادار ہیں اور انہوں نے اپنا دعویٰ ان کے سامنے پیش نہیں کیا...مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جتنی فرمانبرداری میرا پیارا محمود- بشیر- شریف - نواب ناصر - نواب محمد علی خاں کرتا ہے تم میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا.میں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ میں امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں.ان کو خدا کی رضا کے لئے محبت ہے.بیوی صاحبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں......میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ وہ سچا فرماں بردار ہے.ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ سچا فرماں بردار نہیں.مگر نہیں.میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرماں بردار ہے اور ایسا فرماں بردار کہ تم (میں سے) ایک بھی نہیں.جس طرح علی - فاطمہ - عباس نے ابو بکر کی بیعت کی تھی اس سے بھی بڑھ کر مرزا صاحب کے خاندان نے میری

Page 14

فرماں برداری کی ہے اور ایک ایک ان میں سے مجھ پر فدا ہے کہ مجھے کبھی و ہم بھی نہیں آسکتا کہ میرے متعلق انہیں کوئی وہم آتا ہے.اللہ تعالٰی نے اپنے ہاتھ سے جس کو حق دار سمجھا خلیفہ بنا دیا جو اس کی مخالفت کرتا ہو وہ جھوٹا اور فاسق ہے.فرشتے بن کر اطاعت و فرماں برداری اختیار کرو.ابلیس نہ بنو تم خلافت کا نام نہ لو.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کرے گا.تم نے میرے ہاتھ پر اقرار کئے ہیں.تم خلافت کا نام نہ لو - مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے ".پھر آپ نے اپنے جانشین کے متعلق ان الفاظ میں وصیت کی.( بدر ۴ جولائی ۱۹۱۲ء) ”میرا جانشین متقی ہو.ہر دل عزیز عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک، چشم پوشی اور درگذر کو کام میں لاوے..میں سب کا خیر خواہ تھا وہ سب کا خیر خواہ رہے.قرآن و حدیث کا درس جاری رہے".یہ وصیت آپ نے مولوی محمد علی صاحب سے تین بار حاضرین مجلس کے سامنے پڑھوائی اور تصدیق کروائی مگر افسوس کہ انہوں نے اس وصیت کے برخلاف آپ کے جانشین کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اصل خلیفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انجمن ہے اور تفرقہ کی بنیاد رکھ دی.بهر حال اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ قدرت ثانیہ کو ظاہر فرمایا اور خلافت کی عظمت اور اس کی اہمیت اور اس کا حقیقی مقام آپ کے ذریعہ ظاہر ہوا.بے شک آپ ایک عظیم

Page 15

۹ الشان انسان تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن کے ساتھ وابستہ ہو کر آپ کے بعد آپ کے خلیفہ اور جانشین ہونے کی وجہ سے تاریخ کسی طرح آپ کو نظر انداز نہیں کر سکتی.مگر بعض نادانوں نے تابع اور متبوع کے حقیقی مقام کو شناخت نہ کرنے کی وجہ سے یہاں تک لکھ دیا کہ وہ معاذ اللہ اپنے متبوع سے علم و تقویٰ میں بڑھے ہوئے تھے " حالانکہ آپ کی تمام بڑائی اور آپ کی تمام عظمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے روحانی وابستگی کی وجہ سے تھی.آپ خود فرماتے ہیں کہ میں ساری آمدنیوں کو چھوڑ کر جو دو سرے شہروں میں مجھے ہو سکتی ہیں کیوں قادیان میں رہنے کو ترجیح دیتا ہوں.اس کا مختصر جواب یہی دوں گا کہ میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے ، جس کو چور اور قزاق نہیں لے جاسکتا.مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا.پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر میں چند روزہ دنیا کے لئے مارا مارا پھروں.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا، ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھنا چاہے، میں نہیں رہ سکتا.ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے.پس میرے دوست میرا مال میری ضرورتیں اس امام کی اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتا ہوں".( سورہ جمعہ کی تفسیر صفحہ ۶۳ ) -: اور جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے احباب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں : ” ہماری بابت کچھ بھی خیال نہ کرو.ہم کیا اور ہماری ہستی کیا.ہم اگر بڑے تھے تو گھر رہتے.پاکباز تھے تو پھر امام کی ضرورت ہی کیا تھی.اگر کتابوں سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا تھا تو پھر ہمیں کیا حاجت تھی.ہمارے پاس بہت سی

Page 16

کتابیں تھیں.مگر نہیں ان باتوں سے کچھ نہیں بنتا.اسی طرح ہم جس قدر یہاں ہیں اپنے اپنے امراض میں مبتلا ہیں...اور یہاں علاج کے لئے بیٹھے ہیں تو پھر ہماری کسی حرکت پر ناراض ہونا عقل مندی نہیں.......صادق مامور ایک ہی ہے جو صحیح اور مہدی ہو کر آیا ہے.پس خدا سے مدد مانگو.ذکر اللہ کی طرف آؤ جو فحشاء اور منکر سے بچانے والا ہے.اس کو اسوہ بناؤ اور اس کے نمونہ پر چلو جو ایک ہی مقتدا اور مطاع اور امام ہے".( سورہ جمعہ کی تغییر صفحه ۲۶ ) اور اپنے ایک عربی قصیدہ میں جو "کرامات الصادقین میں شائع شدہ ہے فرماتے ہیں :.فَوَاللَّهِ مُذْ لَا قَيْتُهُ زَادَنِي الْهُدَى وَ عَرَّفْتُ مِنْ تَفْهِيْمِ أَحْمَدَ أَحْمَدًا وَكَمْ مِنْ عُوَيْصٍ مُشْكِل غَيْرِ وَاضِحٍ آنَارَ عَلَيَّ فَصِرْتُ مِنْهُ مُسَهَدًا اللہ کی قسم جب سے مجھے ان کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے انہوں نے مجھے ہدایت میں بڑھایا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اب "احمد " کے سمجھانے سے ہی میں نے احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو شناخت کیا ہے اور کتنے ہی نهایت مشکل اور مبہم مسائل تھے جو آپ نے مجھ پر روشن اور واضح کئے اور میں آپ ہی سے ان کی حقیقت سمجھ کر بیدار ہوا.پس ایسے تابع شخص کے متعلق جو اپنے متبوع میں فتا ہو، یہ کہنا کہ وہ اپنے متبوع سے علم اور تقویٰ میں بڑھا ہوا تھا.حد درجہ کی جسارت ہے.اس کتاب کے ایک حصہ پر تاریخی نام "نور دین اعظم "لکھا ہوا ہے غالبا" اس کتاب کے سن اشاعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.لیکن حقیقت کے لحاظ سے "اعظم" کے لفظ کا استعمال

Page 17

درست نہیں.ہم نے چونکہ نقل مطابق اصل کی ہے اس لئے اس لفظ کو رہنے دیا گیا ہے.ورنہ آپ کی تعریف جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے وہی آپ کی حقیقی تعریف ہے اور ” خلیفہ المسیح" کا لقب آپ کے لئے سب القاب سے بڑا لقب اور سب سے بڑی فضیلت ہے.الغرض آپ نے جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت و فرمانبرداری کی وہ اس امر کی تین دلیل ہے کہ آپ فنافی المسیح الموعود تھے.یہی وجہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :- دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں.مولوی صاحب پہلے راست بازوں کا ایک نمونہ ہیں.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ" اور فرمایا :- ) ازالہ اوہام ) چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے ہمیں بودے اگر ہر یک پُر از نور یقین بودے اللہ تعالیٰ تمام فرزندان احمدیت کو آپ سانور ایمان اور ایقان اور عرفان بخشے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اللهم امين خاکسار جلال الدین شمس ۱۴/ دسمبر ۱۹۶۳ء حمد

Page 18

۱۲

Page 19

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مقدمه از جناب اکبر شاہ خان نجیب آبادی رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِى وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا انت رب العالمین ! اے خالق آسمان و زمین! اے ہواؤں کے چلانے اور بادلوں کے لانے والے ! اے بادلوں سے مینہ برسانے اور پہاڑوں سے دریا بہانے والے - اے خزاں کے بعد بہار اور خشک مردہ زمین کو اپنے ابر کرم سے گلزار بنانے والے! ا فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا فرمانے والے! اے رب المشرقین و المغر بین ! اے شہنشاہ دارین! اے احسن الخالقین ! اے ارحم الراحمین! اے میرے پیارے اللہ تعالیٰ ! اے کامل محبوب! اے غایت مقصود! اے کامل معبود! اے موالید ثلاثہ جمع کائنات موجدات کے خالق! اے چرند و پرند اور ہر ذی روح کے رازق! اے میرے مولا! اے میری روح کی راحت اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ! اے میرے دل کے سرد را اے میرے جسم و روح کی حفاظت کرنے والے! اے میری مرادوں کے برلانیوالے! اے میرے ماں باپ سے زیادہ محبت کرنے والے! اے پکارنے والوں کی آوازوں کو سننے اور فریادی کی فریاد کو پہنچنے والے ! اے عزت و ذلت کے مالک ! اے خطا

Page 20

۱۴ کاروں کی خطاؤں کو دامن عفو سے ڈھانکنے والے ! اے کمزوروں کو طاقت بخشنے والے! اے میرے پیارے اللہ ! او میرے پیارے! او میرے پیارے ! او میرے پیارے اللہ ! اللہ میاں او میرے پیارے اللہ میاں! او سب حسینوں سے زیادہ خوبصورت! او سب باوفاؤں سے زیادہ باوفا! اپنے دوستوں کی خاطر عزیز رکھنے والے ! نوح کو طوفان سے بچانے والے ! موسیٰ کو بچا کر فرعون کو غرق کرنے والے مچھلی کے پیٹ میں سے یونس کی فریاد سن لینے والے! وَكَذَلِكَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِيْنَ فرمانے والے ! میں بھی کہتا ہوں اور تو جانتا ہے کہ درد دل سے کہتا ہوں.لا اله إلا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ.اور چھوٹوں کو بڑا بنانے والے اور ڈوبتوں کو بچانے اور گرتے ہوؤں کو سنبھالنے والے ! مجھ پر بھی نظر کرم فرما.تیرا غضب تیرے رحم سے کمتر اور تیری در گذر تیری گرفت سے برتر ہے.مجھ کو مورد فضل و عطا بنا.میں نہیں جانتا کہ مجھ کو کس کس چیز کی ضرورت ہے.مجھ کو نہیں معلوم کہ میرے لئے کیا مفید ہے اور کیا مضر ہے.اللہ میاں ! اے میرے پیارے اللہ میاں ! تو مجھ کو وہ سب کو کچھ عطا کر دے جو میرے لئے موجب خیر و خوبی اور میرے جسم و روح کے لئے مفید ہو.اے میرے پیارے اللہ ! تو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی مجھ کو بہتر سے بہتر مقامات بہتر سے بہتر اسباب اور اعلیٰ سے اعلیٰ کامیابی و کامرانی عطا کر.اے میرے اللہ جبکہ مجھ کو خبر ہی نہیں کہ میری بھلائی کس میں ہے.تو بتا پھر تجھ سے کیا مانگوں.ہاں تیری ہی بتائی ہوئی بات عرض ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالين.رَبَّنَا تِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے میرے اللہ مجھ کو مومن اور مفلح بنا.اے میرے اللہ ! مجھ کو اپنی رضامندی کی راہوں

Page 21

۱۵ پر چلا.اے میرے اللہ اتو مجھ کو ایسا بنا دے کہ تو مجھ سے خوش ہو جائے اور ایسا خوش ہو کہ پھر کبھی ناراض نہ ہو.اے میرے اللہ ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعہ سے مجھ کو تیری کتاب اور شریعت ملی اور پھر ان کے خلفاء کے ذریعہ اس کتاب کے سمجھنے میں آسانی ہوئی.میرے ماں باپ میری پرورش کا ذریعہ ہیں.میرے جسم کا ہر ذرہ ان کے احسانات کے بوجھ میں دیا ہوا ہے.اے میرے اللہ ! اس دنیا میں کس کس نے مجھ پر کس کس قسم کے احسانات کئے تو سب سے واقف ہے.میں تو سب کے نام بھی نہیں گن سکتا.پس تو ہر ایک محسن کو بہتر سے بہتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ جزا عطا کر - اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى ال مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدُ مجید.اے میرے اللہ اتو مجھ کو ایسا بنا دے کہ جس جس سے مجھ کو محبت ہے ان سب پر میری وجہ سے تیرے فضل و کرم کی بارشیں ہوں.اے میرے اللہ میں نیک آدمیوں سے محبت کروں اور مجھ سے سب محبت کریں.اے میرے اللہ تو مجھ کو نافع الناس بنا.اے میرے اللہ مجھ کو قوت اور توفیق عطا کر کہ میں بآسانی تیرے احکام کی تعمیل کروں.اے میرے اللہ ! مجھ کو صحیح اور نافع علم عطا کر اللہ میاں! مجھ کو تو اپنے سوا کسی مخلوق کا محتاج نہ کر.اے میرے اللہ ! مجھ کو اسی دنیا میں جنتی زندگی عطا کر اور مرنے کے بعد بھی جنت (جو تیری رضا کا اعلیٰ مقام ہے) میرا مکان ہو.اے میرے اللہ ! اے میرے پیارے اللہ ! اے اُدْعُونِي اسْتَجِبْ لَكُمْ فرمانے والے اتو ہی بتا میں تیرے سوا کس سے فریاد کروں؟ میں تیرے دروازہ کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ تجھ سے نہ کہوں تو اور کس سے کہوں؟ تجھ سے نہ مانگوں تو اور کس سے مانگوں؟ تو اگر میری مدد نہ کرے تو اور کون ہے جو میری مدد کر سکتا ہے ؟ اے میرے پیارے ! میں بڑا گنہگار بڑا نا فرمان، بڑا آرام طلب اور عبادتوں میں ست ہوں.محض اپنے فضل و کرم سے میری بخشش فرما.میں کتنے ہی جوش اور ہمت سے کام لوں لیکن تیری حمد و ستائش ادا ہونا میری طاقت سے باہر اور تیرے احسانات کی گنتی میری ہمت کے دائرہ سے بیروں و افزوں ہے.رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِيْ

Page 22

14 فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا انْتَ.اے خدا اے خالقِ چرخ بریں تو رحیم و ارحم و راحم ہے رب العالمین فضل سے بنتی ہیں تیرے محنتیں بھی راحتیں تو اگر چاہے تو ہر غمگیں بنے فرحت قریں تو اگر چاہے تو ہو پھر سے جاری جوئے شیر تو اگر چاہے تو ہو حنظل سے پیدا انمیں تو اگر چاہے تو دے ادنی کو اعلیٰ مرتبہ تو اگر چاہے تو ہو فرش زمین عرش بریں تو اگر چاہے تو ہر اک معصیت طاعت بنے تو اگر چاہے تو اکبر شاہ خاں ہو نور دیں رب العالمین ! میں التجا کرتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں میری طرف سے ہزاروں ہزار بلکہ بے شمار صلوۃ و سلام و برکات کے ایسے تحائف بھیج جن کو دیکھ کر میرے پیارے ہاں ! میری جان و مال و آبرو سب سے زیادہ پیارے نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم اس قدر خوش ہو جائیں جس کے تصور سے میری واہمہ بھی عاجز ہو.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ كُلَّ مَعْلُومٍ لَّكَ اللہ میاں! حضرت ابو بکر صدیق - حضرت عمر فاروق - حضرت عثمان غنی - حضرت علی.حضرت ابو عبیدہ بن جراح - حضرت طلحہ - حضرت زبیر بن العوام - حضرت سعد بن وقاص - حضرت عبد الرحمن بن عوف - حضرت سعید بن زید - تمام اصحاب بدر تمام اصحاب بیعت الرضوان ، تمام مہاجرین، تمام انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خدمت میں میری طرف سے بہت بہت سلام و درود بھیج.اللہ میاں اتمام ائمہ حدیث ائمہ فقہ - ائمہ تصوف - حضرت خالد بن ولید - حضرت عمر بن عبد العزیز - مهندی بالله عباسی - سلطان صلاح الدین محمد بن قاسم - سلطان محمد ناصر الدین محمود.سکندر لودهی شیر شاہ افغان اور نگ زیب عالمگیر اور محمد ثانی.سلیم سلیمان سلاطین

Page 23

16 عثمانی کی خدمت میں میرا سلام پہنچا.اللہ میاں! میں نے حضرت امام غزالی کی احیاء العلوم - حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی کی فتوح الغیب اور حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب شہید کی تقویتہ الایمان سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.میری طرف سے ان کو بہت بہت سلام پہنچے.اے میرے پیارے خدائے تعالیٰ تیرے پیارے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو میرے دین و دنیا دونوں کو سدھار دیا اور تو جانتا ہے کہ انہیں کی برکت سے میں نے سچا اور پکا ایمان حاصل کیا ہے.اتنے بڑے عظیم الشان محسن کے احسان کی جزاء الہی ! تو ہی دے سکتا ہے.الہی ! تو مسیح موعود کی روح پر فتوح پر اپنے فضل و انعام و برکات و سلام و رحمت و رضوان کی مسلسل و ممتد بارشیں کر اور ان کی جناب میں میری طرف سے صلوٰۃ وسلام کے ایسے اعلیٰ تحائف و ہدایا پہنچا جو آج تک ان کی خدمت میں کسی نے نہ بھجوائے ہوں.میرے ماں باپ بہنوں بھائیوں بیوی.بچوں دوستوں.استادوں.شاگردوں پر اپنے پیارے مسیح موعود کے صدقے اپنا فضل و کرم فرما اور دین و دنیا کی عفو د عافیت اور حسنات دارین سب کو عطا کر - امین یارب العالمین.ہاں اے رب العالمین! تیرا ایک پیارا بندہ ہے.محبت اگر کوئی بری چیز نہیں تو مجھ کو اس سے محبت ہے.اس کی محبت میں میں نے جو جو لذتیں حاصل کی ہیں ، ان کا شکر تو بڑی چیز ہے بیان بھی نہیں ہو سکتا.اے میرے مولا! اس کا وجود تو بڑا نافع الناس ہے.اور تو تو فرماتا ہے وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْضِ.پس اے میرے اللہ ! اس کو تیرے مقررہ قانون کے موافق بھی بہت لمبی مدت تک زندہ و سلامت رہنا چاہئے اور میں بھی بڑی عاجزی کمال انکسار اور نہایت آرزو کے ساتھ تجھ رب رحمن رحیم ، کریم رؤف منان ، وھاب، سلام ، حی ، قیوم خدا کی جناب میں التجا کرتا ہوں کہ اس کو ہمارے سر پر بہت عرصہ تک سلامت با کرامت رکھ اور ہم سب کو توفیق عطا کر کہ اس کے انفاس قدسیہ سے فائدہ اٹھائیں - أمين يارب العالمين.

Page 24

>

Page 25

۱۹ تمهید علم ریاضی انسان کے دماغ میں ایک موزونیت اور اسباب سے نتائج تک پہنچنے کی قابلیت پیدا کر دیتا ہے.علم ادب خوش سلیقگی و نفاست پسندی سکھاتا اور علم اخلاق انسان کو نافع الناس - متین و سنجیدہ بنا کر بے ضرر اور لوگوں کی نگاہوں میں محبوب بنا دیتا ہے.علوم طبعیہ ذکاوت و باریک بینی پیدا کرتے ہیں.لیکن علم تاریخ کو تمام دینی و دنیوی علوم کا جامع اور ہر ایک مفید نتیجہ کا مورث کہا جا سکتا ہے.انسان میں خدائے تعالیٰ نے مختلف اقسام کے قومی اور بے شمار استعدادیں ودیعت فرمائی ہیں.ہر ایک استعداد جبکہ بے کار چھوڑ دی جائے اور کام میں نہ لائی جائے تو مردہ ہو جاتی ہے.یہ کاشت کارجن کو ساری ساری عمر کھیت کی محدود زمین گنتی کے چند مویشیوں، گاؤں کے متعدد چھپروں اور چوپال میں شام کو آکر حقہ پینے والے چند لنگوٹ بند بھائی بندوں کے سوا دنیا کے علوم و ترقیات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.انہیں میں اکثر ایسی استعداد والے دماغ بھی ہوتے ہیں کہ اگر ان استعدادوں کو جگا کر ان سے کام لیا جاتا تو ارسطو و بیکن اور تمبورو نپولین کے برابر یا ان سے بھی بڑھ چڑھ کر کارنامے دنیا کو دکھاتے اور اہل عالم کو محو حیرت بناتے.بڑے بڑے عالم و فاضل اور معزز خاندانوں کے یتیم اور لاوارث بچوں کو دیکھا گیا ہے کہ ابتداء بڑے ذہین اور اپنے باپ دادا کے قدم بقدم ترقیات کی راہیں طے کرنے والے نظر آتے ہیں.لیکن سامان و اسباب کا میسر نہ آنا اور ناہموار صحبتوں کے بدنتائج ان کو انجام کار خاک مذلت سے اٹھنے اور گوشہ گمنامی سے نکلنے نہیں دیتے.سلطنت روما سے بھی پہلے کا قدیم زمانہ یورپ میں جابجا درختوں کی جڑیں کھانے والے اور درختوں کے پتے جسم کو لپیٹنے والے ایسے وحشی پیش کرتا ہے جن کو بن مانس سے کچھ تھوڑا ہی سا اونچے درجے پر بٹھا سکتے ہیں.لیکن اگر ان میں استعدادیں نہ تھیں تو آج وہی ساری دنیا کے استاد کیسے بن گئے ؟ صوبہ سرحدی کے جاہل پٹھان جب لکھ پڑھ جاتے ہیں تو کسی علمی معرکہ میں اپنے ہم چشموں سے پیچھے نظر نہیں آتے.اس بات کے

Page 26

- ثبوت کے لئے زیادہ دلائل کی ضرورت نہیں کہ فیاض ازل نے ترقیات کی استعدادوں کے عطا کرنے میں کسی بخل یا زیادہ تفریق کو روا نہیں رکھا.ہاں! ان استعدادوں کے متحرک کرنے اور کام میں لانے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے.کہ جس قدر چاہے کام لے اور ترقیات کے میدان میں کامیابی کے گھوڑے اڑاتا چلا جائے.انسان کے سوا دوسرے حیوانات کو عطا شدہ استعدادوں کے متحرک کرنے کا مکلف بھی نہیں بنایا.ایک کتے کا بچہ اسی طرح پانی میں تیرنا جانتا ہے جس طرح بڑا کتا.لیکن حضرت انسان اگر اپنی استعداد شناوری کو کام میں نہیں لاتے.تو کتے کے بچے کے برابر بھی نہیں تیر سکتے.وَقِسَ عَلَى هَذَا.غرض کہ تمام ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے ضرورت ہے کسی تحریک کی اور تحریک کے بعد عمل کی جس کا لازمی نتیجہ ورزش ہے.اور عمل اور ورزش کے ساتھ ہی کامیابی و مقصد دری دیکھی جاتی ہے.فطری استعدادوں میں تحرک پیدا کرنے کے بعد عمل د ورزش پر مستعد د کر دینے والی چیز در حقیقت بڑی مفید قیمتی اور ضروری چیز ہے.اور وہ علم تاریخ ہے.یوں سمجھنا چاہئے کہ انسان اور انسانی قومی کا مجموعہ ایک مشین ہے.انسانی ترقیات کی استعدادیں اس مشین کے پر زے اور تاریخ اسٹیم ہے.تاریخ کی اسٹیم سے تمام پُرزوں میں تحریک پیدا ہو جاتی ہے.اس اعتبار سے اگر تاریخ کو جامع العلوم اور مخزن الفنون بھی کہا جائے تو بے جا نہیں.اگر تاریخ کوئی عالی مرتبہ چیز نہ ہوتی تو بائبل اور قرآن کریم اور دیگر کتب سماویہ میں تاریخی واقعات کے بیان کی بجائے مسائل ریاضیہ مذکور ہوتے اور بنی اسرائیل ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے واقعات کی بجائے علم بیطاری و باغبانی کے قواعد کھول کھول کر سمجھائے جاتے.تاریخ ہم کو بزرگوں کے حالات سے واقف کرتی اور دل و دماغ میں ایک بابرکت جوش پیدا کر دیتی ہے.انسانی فطرت میں ایک خاص قسم کی پیاس اور خواہش ہے جو اس کو تماشا گاہوں اور تھیٹروں میں لے جاتی ، ملکوں کی سیاحی ، باغوں کی سیر اور کوہ و صحرا کی سیاحت پر

Page 27

۲۱ آماده کردیتی اور سِيرُوا فِي الأَرْضِ کے حکم کی تعمیل کراتی ہے.یہی پیاس ہے جو بچوں کو رات کے وقت چڑے چڑیا کی کہانی طوطے مینا کی داستان کے سننے اور سنانے پر آمادہ کرتی ہے.یہی پیاس ہے جو تاریخی مطالعہ سے کما حقہ تسکین پاتی اور فَاسْتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ کے ارشاد کی تعمیل پر آمادہ کر کے انسان کو مقاصد عالیہ تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہے.فطرت کے اس تقاضے پر نظر فرما کر فطرتوں کے خالق نے کتب سماویہ میں تاریخی چاشنی رکھی ہے.فرضی قصوں، جھوٹے ناولوں اور بے بنیاد کہانیوں میں بھی ایک تاثیر به مقدار کثیر موجود ہوتی ہے اور اسی لئے بعض علماء نے پند و وعظ کو کہانیوں کے لباس میں پیش کرنا مناسب سمجھا مثلاً کلیله دمنه وغیرہ.لیکن فطرت انسانی جو پاک و صاف اور مطہر و مصفی چیزوں کی جانب مائل مخلوق ہوئی ہے کذب و دروغ کی بدبو کے سبب اس جوش اور طاقت کے ساتھ فرضی کہانیوں کی طرف نہیں جھکتی جیسی سچے حالات اور واقعات صحیحہ یعنی تاریخ کی جانب.اور یہی سبب ہے کہ علم تاریخ سے ان لوگوں کو جن کی فطرتیں رذیل اور مسخ شدہ ہوتی ہیں کوئی تعلق کبھی نہیں ہوا.دنیا میں کوئی رذیل اور کمینہ یا کوئی دہر یہ اعلیٰ درجہ کا مورخ نہیں ہوا.انسان چونکہ مل جل کر رہنے اور ہم جنسوں کے ساتھ محبت وہمدردی سے بسر کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.لہذا جو واقعہ جس قدر زیادہ ہم جنس سے تعلق رکھتا ہے اسی قدر اس کا زیادہ اثر ہوتا ہے.کسی بیل یا گھوڑے کے حالات اس قدر موثر نہیں ہو سکتے جس قدر کسی انسان کے.پھر کسی دوسرے ملک کے تاریخی حالات سے اس قدر دلچسپی نہیں ہوتی جس قدر اپنے ملک کے واقعات سے.پھر کسی دوسری قوم و مذہب کی تاریخ اس قدر باعث دل بستگی نہیں ہوتی جس قدر اپنی قوم اور اپنے مذہب کی.اپنی دادی یا نانی سے اپنے خاندانی بزرگوں کے حالات سن کر ہمارے دل میں جس قدر جوش ، خوشی، غم ، غصہ وغیرہ پیدا ہوتے ہیں محلہ کے دوسرے پرانے لوگوں کے حالات سے وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی.جس قوم میں قوم کے تاریخی حالات اور پاکستانی واقعات پورے طور پر شائع ہوتے

Page 28

۲۲ ہیں.(خواہ کہانیوں، نظموں اور گیتوں ہی میں سہی) اس قوم میں قومی امتیازات اور خصوصیات بھی محفوظ اور قائم رہتے ہیں اور یہ قومی خصوصیات قوم کے افراد کا کسی میدان اور کسی مقابلہ میں دل نہیں ٹوٹنے دیتے اور ہمت کی کمر چست رکھ کر انجام کار کھوئے ہوئے کمالات تک پھر پہنچا دیتے ہیں.ایک وہ شخص جو اپنے باپ دادا کے حالات سے بے خبر ہے.موقع پا کر خیانت کر سکتا ہے.لیکن جو یہ جانتا ہے کہ میرے دادا نے فلاں موقع پر لاکھوں روپوں کی پروانہ کر کے اور دیانت کو ہاتھ سے نہ دے کر عزت و ناموری حاصل کی تھی، اس سے خیانت کا ارتکاب دشوار ہے.ایک وہ شخص جو اپنے دادا کے حالات سے بے خبر ہے ، میدان جنگ سے جان بچا کر فرار کی عار گوار کر سکتا ہے.لیکن جو واقف ہے کہ میرے باپ نے فلاں فلاں میدانوں میں اپنی جان کو معرض ہلاکت میں ڈال کر میدان جنگ سے منہ نہ موڑ کر عزت اور شہرت حاصل کی تھی وہ کبھی نہ بھاگ سکے گا اور بھاگنے کا خیال دل میں آتے ہی اس کے باپ کے کارناموں کی یاد زنجیر پا ہو جائے گی.اسی طرح وفاداری و بے وفائی ، جھوٹ اور بیچ، زنا و پاک دامنی ، حیا اور بے حیائی، بخل و سخاوت و غیرہ بہت سی باتوں کو قیاس کرلو بزرگوں کے حالات کی واقفیت ہی دنیا میں بہت کچھ امن اور قوموں میں زندگی کی روح پیدا کر سکتی ہے.اسلام کے دنیا پر بے شمار احسانات ہیں.انہیں میں یہ ایک عظیم الشان احسان ہے کہ مسلمانوں ہی نے دنیا میں علم تاریخ کی ترویج کی اور مسلمانوں ہی سے سیکھ کر دوسری قوموں نے اس فن میں ترقی کی.کیسے افسوس اور کس قدر ملال کا مقام ہے کہ آجکل مسلمان ہی سب سے زیادہ اپنے بزرگوں کے حالات سے بے خبر پائے جاتے ہیں.بنی اسرائیل کی کیسی عظیم الشان قوم تھی کہ نَحْنُ ابْنُوا اللَّهِ وَاحِبَّاؤُهُ تک کہنے کا حوصلہ کیا لیکن جب اپنے بزرگوں کے حالات سے بے خبر ہوتے گئے ، قعر مذلت میں اترتے گئے.چنانچہ قرآن کریم میں خدائے تعالیٰ نے يَا بَنِي إِسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا کے الفاظ سے بار بار ان کو مخاطب فرمایا اور ان کے بزرگوں کے حالات کو یاد دلایا ہے.پس

Page 29

۲۳ معلوم ہوا کہ کسی قوم کو تنزل سے ترقی کی طرف لے جانے کی ایک یہ بھی اعلیٰ درجہ کی تدبیر ہے کہ ان کے بزرگوں کے حالات بار بار یاد دلائے جائیں یعنی قومی تاریخ کی خوب اشاعت کی جائے.تاریخ کا وہ حصہ جس میں خاص خاص شخصوں کی زندگی کے قابل تذکرہ نتیجہ خیز حالات ذکر کئے جائیں عام تاریخ سے زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہوتا ہے کیونکہ پڑھنے والے کو واقعات سے نتائج اخذ کرنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کی مجموعی تاریخ سے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات دل پر اثر کرتے ہیں.آج کل تاریخ نویسی میں اس بات پر زیادہ زور نظر آتا ہے کہ مورخین اصول درایت کو زیادہ کام میں لاکر خود ہی نتائج اخذ کر کے ناظرین کے سامنے رکھ دیتے ہیں.اس میں یہ نقص ہے کہ پڑھنے والے کو اپنے دماغ سے زیادہ کام لینے کی ضرورت نہیں رہتی اور بڑی آسانی سے انسان مؤرخ کا مقلد بن جاتا ہے.اس تقلید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کے بہت سے مفید اور بابرکت نتائج جو مختلف مستعد دماغوں سے بر آمد ہوتے ، تاریکی اور پوشیدگی ہی میں رہ جاتے ہیں.مسلمانوں کے فن تاریخ میں یہ خوبی ہے کہ انہوں نے روایت کی صحت پر بڑا زور دیا ہے جس کے لئے رواۃ احادیث و آثار کے اخلاق پر حیرت انگیز تنقید اور فن اسماء الرجال کی ضخیم و جسیم کتابیں شاہد ہیں.اس طرح اصل واقعہ اور پوری کیفیت تو ہمارے سامنے پیش ہو جاتی ہے.پھر اس سے اپنی اپنی استعداد اور قابلیت کے موافق قلوب پر اثر ہوتا ہے اور یہی فطرت کا تقاضا ہے.مثال کے طور پر یوں سمجھنا چاہئے.کہ کسی ورکشاپ میں لوہار نجار، معمار سنار و غیر مختلف کاریگر اپنی اعلیٰ درجہ کی قابلیتوں اور کاریگریوں کو کام میں لا رہے ہیں.ایک لوہار جب اس کارخانہ میں سیر کرتا ہو ا جائے گا تو اس مقام پر زیادہ دیر ٹھہرے گا جہاں لوہار اپنا کام کر رہے ہیں.اسی طرح نجار نجاروں کا تماشا زیادہ غور سے دیکھے گا اور اپنے پیشہ کے متعلق کوئی قیمتی بات بھی حاصل کر سکے گا.لیکن اگر اس کارخانہ میں سیر کے لئے جانے والے ہر شخص کو مہتمم کارخانہ سنار کی کاریگریوں یعنی زیوروں کا معائنہ

Page 30

سلام السلام کرانے اور ہر ایک زیور کی صنعت کاریوں کے دکھانے میں تمام وقت گزار دے تو ظاہر ہے کہ بے چارے لوہار اور نجار وغیرہ دوسرے پیشہ در سیاح اپنے مفید مطلب واقفیت حاصل کرنے سے رہ جائیں گے.مناسب یہی ہے کہ مہتمم صاحب اپنے کمرہ میں بیٹھے ہوئے انتظام و اہتمام کی مشین چلاتے رہیں اور سیر کرنے والے آزادی سے جہاں چاہیں سیر کریں.اس موقعے پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مورخ ایسا ہونا چاہئے جو ہر قسم کے نتائج صحیح صحیح اخذ کرے اور کوئی پہلو بلا تنقید نہ رہنے دے لیکن یہ صرف ایک دل خوشکن خیال ہی خیال ہے کیونکہ بہر حال اس کا کام محدود ضرور ہو گا اور ظاہر ہے کہ انسان غیر محدود ذرائع علوم کا خواہش مند ہے.دوسرا نقص جدید تاریخ نویسی میں یہ ہے کہ مورخین اپنی محدود عقل و فہم کے موافق واقعات کا تسلسل قائم کرنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں کہ بعض زبر دست اور قابل اعتبار روایتوں کو چھوڑ کر کمزور یا خود تراشیدہ روایتوں اور تھیوریوں کو ترجیح دیں.اس طرح اصل تاریخ کا خون ہو کر تاریخ ایک جھوٹا افسانہ اور فرضی ناول بن سکتی ہے.لیکن جو تاریخیں اسلامی طرز پر لکھی گئی ہیں ان میں یہ نقص نہیں.ہر شخص کی نظر سے اپنی زندگی میں بہت سے ایسے نظارے گذرے ہوں گے کہ بعض باتوں کی اصلیت سمجھ میں نہ آئی ہوگی.پس ایسے موقعوں پر روایت کی صحت پر زور دینے والے مورخ کو کوئی دقت پیش نہیں آتی.وہ جو دیکھا یا سنتا ہے بلا کم و کاست وہی لکھ دیتا ہے.لیکن دوسری قسم کے مورخ کو تو مصیبت کا سامنا ہوتا ہے.روایت کی صحت و درستی جبکہ نہایت ضروری اور شاندار فن تاریخ کا سنگ بنیاد ہے.تو اب دیکھنا یہ ہے کہ روایت کی صحت کس طرح حاصل ہو.زیادہ قیمتی بیان اس میں راوی کا سمجھا جاتا ہے جو کسی واقعہ کا چشم دید حال بیان کرے اور ظاہر ہے کہ وہ شخص جس پر خود واقعہ گذرا ہے اور بھی زیادہ روایت اپنے متعلق بیان کر سکتا ہے.پس تاریخ کی وہ کتابیں جو عظیم الشان اور مسلّمہ راست گفتار انسانوں نے اپنے اوپر گذرے ہوئے حالات میں لکھی یا لکھوائی ہیں.تاریخ کی بہترین کتابیں کسی جاسکتی ہیں.اس

Page 31

۲۵ تمہید کے بعد اب اصل مقصد کی طرف متوجہ ہو تا ہوں.گزارش احوال مسلمانوں میں انگریزی تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی نہیں.سینکڑوں ہزاروں بی.اے ایم.اے ، جس حصہ ملک میں چاہو، موجود ہیں.سرسید احمد خاں وغیرہ کے طرز پر چلنے والے لوگ اور قومی مرثیے پڑھنے والے جنٹلمین بھی یہ افراط پائے جاتے ہیں.مسجدوں میں وعظ کہنے والے پرانی وضع کے مولوی اور مزاروں پر حال قال والے صوفی بھی ضرورت سے زیادہ موجود پائے جاتے ہیں.دھواں دھار تقریریں کرنے والے لیکچرار اور دلوں کو بے تاب کر دینے والے جادو نگار بھی کم و بیش دیکھے سے جاتے ہیں.تلوار و خنجر اٹھانے والوں نے باٹ ترازو بھی سنبھال لئے.ہل چلانے اور بیل کی دم پکڑنے والے کتابوں کے مصنف بن گئے.کرنی بسولی والے نقشہ کشی سیکھ کر معمار سے انجینئر اور بعض دوا بیچنے یا سر مونڈنے والے ڈاکٹر ہو گئے.اس سے بھی گذر کر بعض ریزہ اقوام نے اپنے آپ کو اعلیٰ قوموں میں شامل ٹھہرایا.وغیرہ وغیرہ - چشم ظاہر بین میں مسلمانوں کی یہ حالت روبہ ترقی نظر آسکتی ہے.لیکن جو دل دانا اور چشم بینا ر کھتے ہیں جانتے ہیں کہ اس کا نام اسلامی ترقی نہیں.سرسید کی لائف میں خواجہ حالی نے ادعا کیا ہے کہ یہ لائف مسلمانوں کے لئے نمونہ نہیں ہونی چاہئے.لیکن جاننے والے جانتے اور ارباب دانش پہنچانتے ہیں کہ قرآن کریم کو موم کی ناک بنانے اور موجود فلسفہ اور زمانہ حال کی مادی ترقیات سے مرعوب ہو کر ”چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی " کہنے والے لوگوں نے کہاں تک اسلام کی حقیقت کو سمجھا اور خد اتعالیٰ کی کتاب کو مشعل راہ بنایا ہے.ہاں ! یہ سچ ہے کہ سرسید نے شریعت کی حقیقت سے کوسوں دور اور رسم و رواج کی کثیف دلدلوں میں پھنسے ہوئے نور ایمانی سے مجبور جبہ پوشوں کی مخالفتوں پر کان نہیں دھرا اور سرسری نظر میں اس طرح وہ بڑے دلیر اور جری نظر آتے ہیں لیکن ان کی یہ تمام دلیری اور جرأت فلسفہ جدیدہ اور یورپی ترقیات کی پشت گری کی بدولت ہے نہ

Page 32

PY صرف ایمان و ایقان باللہ اور کتاب اللہ کے بھروسہ پر.اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ سرسید کی کوئی حقارت مد نظر ہے یا ان کی نیت پر حملہ مقصود- بلکہ میرے نزدیک وہ اپنی نیت میں بہت نیک اور اپنی کوششوں میں عند اللہ ماجور ہونے والے ہیں.انہوں نے جو کچھ کیا.غالبا" نیک نیتی سے اور اپنے نزدیک بہتر سمجھ کر کیا.لیکن ایک انسان جب تک تائیدات غیبی شامل حال نہ ہوں اور خدائے تعالی کی طرف سے اس کی رہبری نہ ہو اپنی محدود اور نا تمام عقل سے کہاں صراط مستقیم پر پہنچ سکتا ہے؟ قرآن کریم کی طرف سے بے توجہی اور دعاؤں کو غیر ضروری سمجھنے نے اکثر مسلمانوں کو کچھ کا کچھ بنا دیا ہے.ہماری شریعت کسی قسم کی دنیوی ترقی کی مانع ہرگز نہیں بلکہ ہر قسم کی دنیوی ترقی کے اصول بھی قرآن کریم اور صرف قرآن کریم ہی میں بدرجہ اتم موجود ہیں.اس موقع پر ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ تفصیلی طور پر قرآن کریم کی عظمت ہستی باری تعالیٰ اور صفات حسنہ باری تعالیٰ پر ایمان اور سچے مسلمان کی تعریف بیان کی جائے.مگر چونکہ اصل مدعائے نگارش سے قرب ہونا مد نظر اور گنجائش اوراق مختصر ہے.نیز کتاب کے مطالعہ کرنے والے زیادہ تر وہی لوگ فرض کئے گئے ہیں جو ان باتوں کے متعلق آگاہی رکھتے اور جانتے ہیں کہ ہم دعاؤں کے بدوں کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے اور قرآن کریم اور سنت و حدیث کو چھوڑ کر فلاح دارین تک نہیں پہنچ سکتے.لہذا صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ وہ اس زمانہ کے ایک کامل انسان ( امیرالمومنین سیدنا نور الدین کی لائف کو پڑھیں اور دیکھیں کہ اس باخدا اور مرد کامل کی لائف ان کے لئے بہترین نمونہ ہے یا نہیں ؟ اور اس کے قدم بقدم چل کر وہ بچے پکے مسلمان بن سکتے ہیں اور فلاح دارین حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ حضور امیر المومنین کی سوانح عمری کا مرتب و شائع ہونا کس قدر ضروری کام تھا اس کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں.مکرمی شیخ یعقوب علی صاحب نے جب کبھی الحکم میں حيات النور کا ذکر کیا ہے لوگوں میں خوشی اور بے تابی کے آثار دیکھے گئے ہیں.لیکن چونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مولانا مولوی

Page 33

۲۷ عبد الکریم صاحب کی سوانح عمریوں کی طرح حیات النور کی اشاعت میں بھی غیر معمولی انتظار کی زحمت برداشت کرنا ہمارے لئے مقدر ہے.لہذا خدائے تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے حیات النور کے خمیازہ کشوں کے لئے ایک اور سامان تسکین سیا فرمایا.خلاصہ کلام یہ کہ میں نے شروع ہی سے دعاؤں کو اپنے کام کا سنگ بنیاد بنایا اور خدائے تعالیٰ ہی نے ہر موقع پر اپنی قدرت کا ہاتھ دکھایا.ہاں! اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ خدائے تعالیٰ نے یہ عزت میرے حصہ میں لکھی تھی کہ میں حضور سے عرض کروں کہ اپنی سوانح عمری خود لکھوائیں اور وہ گذارش درجہ قبولیت کو پہنچے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنی اس حیرت کا ذکر کروں کہ میں پنسل کاغذ لے کر حاضر ہو تا، آپ کام کرتے کرتے مجھ کو منتظر بیٹھا ہوا دیکھ کر فرماتے.اچھا تم بھی کچھ لکھ لو.آپ فرماتے جاتے اور میں لکھتا جا تا.باوجود اس کے کہ میں محض خدائے تعالیٰ کے فضل و کرم سے اکثر لیکچراروں کے لیکچر بآسانی حرف بحرف لکھ سکتا ہوں ، بڑی مستعدی اور پوری ہمت کو کام میں لا کر آپ کے تمام الفاظ قلمبند کر سکا ہوں.اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ آپ کس روانی اور طلاقت کے ساتھ تقریر فرماتے ہوں گے.لیکن جب اپنی جائے قیام پر آکر اس پنسل کے شکستہ لکھے ہوئے کو صاف کرتا تو مجھ کو یاد نہیں کہ عبارت کو چست اور درست بنانے کے لئے کہیں کسی فقرہ میں کوئی تغیر و تبدل کرنا پڑا ہو.بس آپ کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک حرف اپنی اصلی حالت میں لکھ دیا ہے.ناظرین خود اندازہ فرمالیں گے کہ اس طرح بے ساختہ اور پختہ تقریر کرنے والے ہندوستان میں کس قدر اشخاص موجود ہیں اور یہ سب کچھ آپ نے ایسی حالت میں لکھوایا ہے کہ گردو پیش بہت سے مریض ، مرید ، مہمان طالب علم اور مختلف ضرورتوں والے جمع ہوتے تھے.بیچ بیچ میں کئی دفعہ لوگوں کی طرف مخاطب ہونا کسی کو نسخہ لکھنا، کسی کی عرضی پڑھنا وغیرہ یہ کام بھی ہو جاتے تھے اور اس طرح میرے داہنے ہاتھ کی انگلیوں کو کسی قدر آرام کا موقع بھی مل جاتا تھا.

Page 34

۲۸ میں اس بات سے واقف ہوں کہ جب تک تنقید و رائے زنی نہ کی جائے اور مناسب وقعوں پر نتائج کی طرف ناظرین کو متوجہ نہ کیا جائے.سوانح عمری میں لطف پیدا نہیں ہوتا لیکن اس لئے کہ ز عشق ناتمام با جمال یار مستغنی است باب درنگ و خال و خط چه حاجت روئے زیبا را کوئی نوٹ یا حاشیہ تک لکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور مکرمی شیخ یعقوب علی صاحب کی حیات النور کا کام خود انجام دینا غیر ضروری خیال کیا.یہ کتاب متن ہے.حیات النور ایک شرح حامل المتن ہوگی (انشاء اللہ تعالی) حیات النور کی بھی ہم کو ضرورت ہے اور بڑی ضرورت.میں اپنے ناظرین سے التماس کرتا ہوں کہ وہ شیخ صاحب پر حیات النور کے جلد شائع کرنے کے لئے ضرور تقاضا کریں.میں بھی عرض کرتا ہوں بے نیازی حد سے گذری بندہ پرور کب تلک ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا اس اعتراض کا بھی مجھ کو اندیشہ نہیں رہا کہ ”سوانح عمری چونکہ ایک مرید و معتقد نے لکھی ہے لہذا خوش عقیدگی نے تنقید کے کام کو ناقص رکھا ہو گا".اصل حالات صحیح واقعات ناظرین کے سامنے ہیں.خود غور فرما دیں اور نتائج اخذ کریں.اب میں اخبار بدر سے حضور امیر المومنین کا شجرہ نسب نقل کرنے کے بعد وہ الفاظ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت امیرالمومنین کی نسبت ارقام فرمائے ہیں اس مقدمہ میں درجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں.

Page 35

۲۹ شجرہ نسب حضرت خلیفہ ایسی مولانا نورالدین خلیفہ ثانی فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد میں سے ہیں.آپؐ کا شجرہ نسب حاصل کر کے ہم واقفقیر سے عامہ کے واسطے درج اخبار کرتے ہیں.آج سے تیرہ صدیاں قبل حضرت عمر خلافت نبوت کے مالک ہوئے تھے آج ارض کے ایک بیٹے کو خدا تعالی نے ایک نجی کا خلیفہ اول بنا ديا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلِك - حضرت امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالی عنہ حضر سلطان المشائخ شیخ عبدالله حضرت نصیر الدین حضرت سلطان ابراهیم رت شیخ مسعود - حضرت عبدالله حضرت افظ صفر حضرت اعظ اکبر حضرت شیخ فتح محد خان حضرت شیخ اسحق مصر شیخ محمد حضرت شیخ فرخ شاہ کا بی قدس سر العزیز حضرت شیخ حمد المعروف حافظ محمود ضرت شیخ جمال الدین - حضرت شعیبه حضرت شیخ یوسف - حضرة اب الدین ضرت شیخ سلیمان - حضرت شیخ بهاءالدین مخزن اسرار حضرت شیخ بدر الدین حضرت شریعت پناه قاضی عبدالرحمن معارف دستگاه حافظ یار محمد حقائق آب حافظ عبد العزیز مغضو حافظ نصر الله حافظ عبد النصیر - حافظ عبد الغنی - - نصرالله کمالات دستگاه حافظ عبد الرب فضیلت بنا و حافظ فخر الدین حافظ معز الدین - غفران پناه حافظ غلام محمد شیخ نورالدین حفاظت پناه حافظ غلام رسول عبد الحي عبد السلام عبد الوہاب امتہ الحی منقوله از بدر ۲۸ مارچ ۲۶۱۹۱۲

Page 36

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دین بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں.سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نور اخلاص کی طرح نور دین ہے میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلائے کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں.ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہوا ہے ، اس کے تصور سے قدرت الہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو ان کو میسر ہیں ہر وقت اللہ اور رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں اور میں تجربہ سے نہ صرف حسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں خدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہردم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں تا انہیں معلوم ہو کہ میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نورالدین بھیروی معالج ریاست جموں نے محبت اور اخلاص کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے اور وہ سطریں یہ ہیں -:

Page 37

" مولانا - مرشد نا - امامنا.عالی جناب ! I ٣١ السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے، جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا ہے، وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے ، میرا نہیں ، آپ کا ہے.حضرت پیر و مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنی خدمت بجالاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کردوں.حضرت پیر و مرشد ! تابکار شرمسار عرض کرتا ہے.اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے.میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ مجھ پر ڈال دیا جائے پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو.مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں.دعا فرما دیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو." مولوی صاحب ممدوح کا صدق اور ہمت اور ان کی غمخواری اور جان شاری جیسے ان کے قال سے ظاہر ہے اس سے بڑھ کر ان کے حال سے ان کی مخلصانہ خدمتوں سے ظاہر ہو رہا ہے اور وہ محبت اور اخلاص کے جذبہ کاملہ سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ یہاں تک کہ اپنے عیال کی زندگی بسر کرنے کی ضروری چیزیں بھی اسی راہ میں فدا کر دیں.ان کی روح محبت کے جوش

Page 38

اور مستی سے ان کی طاقت سے زیادہ قدم بڑھانے کی تعلیم دے رہی ہے اور ہر دم اور ہر آن خدمت میں لگے ہوئے ہیں.لیکن یہ نہایت درجہ کی بے رحمی ہے کہ ایسے جان نثار پر وہ سارے فوق العادت بوجھ ڈال دیئے جائیں جن کو اٹھانا ایک گروہ کا کام ہے.بے شک مولوی صاحب اس خدمت کو بہم پہنچانے کے لئے تمام جائداد سے دست بردار ہو جانا اور ایوب نبی کی طرح یہ کہتا کہ میں اکیلا آیا اور اکیلا جاؤں گا" قبول کرلیں گے.لیکن یہ فریضہ تمام قوم میں مشترک ہے اور سب پر لازم ہے کہ اس پُر خطر اور پر فتنہ زمانہ میں کہ جو ایمان کے ایک نازک رشتہ کو جو خدا اور اس کے بندے میں ہونا چاہئے بڑے زور شور کے ساتھ جھٹکے دے کر ہلا رہا ہے.اپنے اپنے حسن خاتمہ کی فکر کریں اور وہ اعمال صالحہ جن پر نجات کا انحصار ہے اپنے پیارے مالوں کو فدا کرنے اور پیارے وقتوں کو خدمت میں لگانے سے حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کے اس غیر متبدل اور مستحکم قانون سے ڈریں جو وہ اپنے کلام عزیز میں فرماتا ہے.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ.یعنی تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہر گز پا نہیں سکتے بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں." افتح اسلام صفحه ۶۰ تا صفحه ۶۵ ایڈیشن سوم ) ) حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور احادیث و تفسیر میں اعلیٰ درجہ کے معلومات رکھتے ہیں.فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے.فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں.ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ تیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں مناظرات دینیه میں بھی نہایت درجہ نظر و سیع رکھتے ہیں.بہت سی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں.حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے.۲۰ روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۳۵ تا ۳۸

Page 39

٣٣ "میرے ایک مخلص دوست مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی جو نو تعلیم یافتہ جوان اور تربیت جدیدہ کے رنگ سے رنگین اور نازک خیال آدمی ہیں جن کے دل پر میرے محب صادق اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کی مربیانہ اور استادانہ صحبت کا نہایت عمدہ بلکہ خارق عادت اثر پڑا ہوا ہے." (ازالہ اوہام صفحه ۳۴ مطبوعہ ریاض ہند پریس) " حتی فی اللہ مولوی حکیم نوردین صاحب بھیروی.مولوی صاحب ممدوح کا حال کسی قدر رسالہ فتح اسلام میں لکھ آیا ہوں.لیکن ان کی تازہ ہمدردیوں نے پھر مجھے اس وقت ذکر کرنے کا موقع دیا.ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے.میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں.میں نے ان کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا.اگر چہ ان کی روز مرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہریک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے بچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اول درجہ کے نکلے.مولوی صاحب موصوف اگر چہ اپنی فیاضی کی وجہ سے اس مصرعہ کے مصداق ہیں کہ قرار در کف آزادگاں نگیرد مال.لیکن پھر بھی انہوں نے بارہ سو روپیہ نقد متفرق حاجتوں کے وقت اس سلسلہ کی تائید میں دیا اور اب میں روپیہ ماہواری دینا اپنے نفس پر واجب کر دیا اور اس کے سوا اور بھی ان کی مالی خدمات ہیں جو طرح طرح کے رنگوں میں ان کا سلسلہ جاری ہے.میں یقینا دیکھتا ہوں کہ جب تک وہ نسبت پیدا نہ ہو جو محب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے تب تک ایسا انشراح صدر کسی میں پیدا نہیں ہو سکتا.ان کو خدا تعالٰی نے اپنے قوی ہاتھ سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور طاقت بالا نے خارق عادت اثر ان پر کیا ہے.انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۱۱۹

Page 40

سلام سلام ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے ست اور متذبذب ہو گئے تھے.تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں، قادیان میں میرے پاس پہنچا.جس میں یہ فقرات درج تھے.امَنَّا وَ صَدَقْنَا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ.مولوی صاحب موصوف کے اعتقاد اور اعلیٰ درجہ کی قوت ایمانی کا ایک یہ بھی نمونہ ہے کہ ریاست جموں کے ایک جلسہ میں مولوی صاحب موصوف کا ایک ڈاکٹر صاحب سے جن کا نام جگن ناتھ ہے اس عاجز کی نسبت کچھ تذکرہ ہوا.مولوی صاحب نے بڑی قوت اور استقامت سے یہ دعوئی پیش کیا کہ خدا تعالیٰ نے ان کے یعنی اس عاجز کے ہاتھ پر کوئی آسمانی نشان دکھلانے پر قادر ہے.پھر ڈاکٹر صاحب کے انکار پر مولوی صاحب نے ریاست کے بڑے بڑے ارکان کی مجلس میں یہ شرط قبول کی کہ اگر وہ یعنی یہ عاجز کسی مدت مسلمہ فریقین پر کوئی آسمانی نشان دکھلا نہ سکے تو مولوی صاحب ڈاکٹر صاحب کو پانچ ہزار روپیہ بطور جرمانہ دیں گے اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شرط ہوگی کہ اگر انہوں نے کوئی نشان دیکھ لیا تو بلا توقف مسلمان ہو جائیں گے اور ان تحریری اقراروں پر مندرجہ ذیل گواہیاں ثبت ہو ئیں.خان بهادر جنرل ممبر کو نسل ریاست جموں.غلام محی الدین خاں.سراج الدین احمد سپرنٹنڈنٹ و افسر ڈاک خانہ جات ریاست جموں.سر کار سنگھ سیکرٹری راجہ امر سنگھ صاحب بہادر پریذیڈنٹ کو نسل.مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب ناقابل قبول اعجازی صورتوں کو پیش کر کے ایک حکمت عملی سے گریز کر گئے چنانچہ انہوں نے ایک آسمانی نشان یہ مانگا کہ کوئی مرا ہوا پرندہ زندہ کر دیا جائے حالانکہ وہ خوب جانتے ہوں گے کہ

Page 41

۳۵ ہمارے اصولوں سے یہ مخالف ہے.ہمارا یہی اصول ہے کہ مردوں کو زندہ کرنا خدا تعالیٰ کی عادت نہیں اور وہ آپ فرماتا ہے.حَرَام عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ یعنی ہم نے یہ واجب کر دیا ہے کہ جو مر گئے پھر وہ دنیا میں نہیں آئیں گے.میں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ کہا تھا کہ آسمانی نشان کی اپنی طرف سے کوئی تعیین ضروری نہیں بلکہ جو امر انسانی طاقتوں سے بالا تر ثابت ہو خواہ کوئی امر ہو.اسی کو آسمانی نشان سمجھ لینا چاہئے اور اگر اس میں شک ہو تو بالمقابل ایسا ہی کوئی دوسرا امر دکھلا کر یہ ثبوت دینا چاہئے کہ وہ امرالہی قدرتوں سے مخصوص نہیں.لیکن ڈاکٹر صاحب اس سے کنارہ کر گئے اور مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جو مولوی صاحب کی عظمت ایمان پر ایک محکم دلیل ہے.دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں.مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا ایک نمونہ ہیں.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ وَاحْسَنَ الَيْهِمْ فِي الدُّنْيَا وَالْعُقْبَى.(ازالہ اوہام صفحہ ۷۷۷ تا ۷۸۱ ۱۰ جب سے میں خداتعالی کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور حی و قیوم کی طرف سے زندہ کیا گیا ہوں.دین کے چیدہ مددگاروں کی طرف شوق کرتا رہا ہوں اور وہ شوق اس شوق سے بڑھ کر ہے جو ایک پیاسے کو پانی کی طرف ہوتا ہے.اور میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے میرے رب! میرا کون ناصر و مددگار ہے.میں تنہا اور ذلیل ہوں.پس جبکہ دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اور آسمان کی فضا میری دعا سے بھر گئی تو اللہ تعالٰی نے میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالٰی نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ ا روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۵۲۰ ۵۲۲۲

Page 42

ہے اور میرے ان مخلص دوستوں کا خلاصہ ہے جو دین کے بارہ میں میرے دوست ہیں.اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرف نور الدین ہے.وہ جائے ولادت کے لحاظ سے بھیروی اور نسبت کے لحاظ سے ہاشمی ہے جو کہ اسلام کے سرداروں میں سے اور شریف والدین کی اولاد میں سے ہے پس مجھ کو اس کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی کہ گویا کوئی جدا شدہ عضو مل گیا اور ایسا سرور ہوا جس طرح کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ملنے سے خوش ہوئے تھے.اور میں اپنے غموں کو بھول گیا جب سے کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا.اور میں نے دین کی نصرت کی راہوں میں اس کو سابقین میں سے پایا اور مجھ کو کسی شخص کے مال نے اس قدر نفع نہیں پہنچایا جس قدر کہ اس کے مال نے جو کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے دیا اور کئی سال سے دیتا ہے.وہ علم و فضل اور نیکی و سخاوت میں اپنے ہم چشموں پر فوقیت لے گیا ہے اور باوجود اس کے اس کا حلم کوہ رضوی سے زیادہ مضبوط ہے.اس نے اپنا تمام چیدہ مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا ہے اور اپنی تمام خوشی خدا تعالیٰ کے کلام میں رکھی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ سخاوت اس کی عبادت ہے اور علم اس کی غذا ہے اور حلم اس کی سیرت ہے اور تو کل اس کی قوت اور میں نے اس کی مانند جہان میں کوئی عالم نہیں دیکھا اور منعمین میں ہو کر اس کی مانند مخلوق میں فقیر نہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اس کی مانند کوئی خرچ کرنے والا دیکھا.میں نے جب عقل و سمجھ پائی ہے اس کی مانند کوئی وسیع علم والا نہیں دیکھا اور وہ جب میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا اور میری نظر اس پر پڑی تو میں نے اس کو دیکھا کہ وہ میرے رب کی آیات میں سے ایک آیت ہے اور مجھے ނ

Page 43

۳۷ یقین ہو گیا کہ وہ میری اسی دعا کا نتیجہ ہے جس پر میں مداومت کرتا تھا اور میری فراست نے مجھ کو بتا دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے اور میں لوگوں کی مدح کرنا اور ان کے شمائل کو پھیلانا اس خوف سے برا جانتا ہوں کہ مبادا ان کے نفسوں کو ضرر دے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ تو ایسے لوگوں میں سے ہے جن کے نفسانی جذبات شکستہ ہو گئے ہیں اور جن کی طبعی شہوات فنا ہو گئی ہیں اور ان پر کوئی خوف نہیں کیا جا سکتا اور اس کے کمال کے نشانوں میں سے یہ ہے کہ جب اس نے اسلام کو مجروح دیکھا اور اس کو ایک مسافر سرگردان کی طرح یا اس درخت کی طرح پایا جو اپنی جگہ سے ہلایا جائے.تو اس نے غم کو اپنا شعار بنا لیا اور مارے غم کے اس کے عیش مکدر ہو گیا اور وہ مضطر کی طرح دین کی مدد کو کھڑا ہو گیا اور ایسی کتابیں تصنیف کیں جو دقائق اور معارف سے بھری ہوئی ہیں اور جس کی نظیر پہلے لوگوں کی کتابوں میں نہیں پائی جاتی.ان کی عبارتیں باوجود مختصر ہونے کے فصاحت سے بھری ہوئی ہیں.اور ان کے الفاظ نهایت دل ربا خوبصورت اور عمدہ ہیں جو کہ دیکھنے والوں کو شراب طہور پلاتی ہیں اور اس کی کتابوں کی مثال اس ریشم کی ہے جو مشک کے ساتھ آلودہ کیا جائے.پھر اس میں موتی اور یا قوت اور بہت سی کستوری ملائی جائے پھر اس میں عنبر ملا کر معجون کی طرح بنا دیا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی کتابیں جامع ہیں.ہم ان میں فوائد کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کر سکتے.وہ تمام سے بڑھ گئی ہیں اس لئے کہ اس نے تمام کمی و زیادتی کا احاطہ کر لیا ہے اور بسبب اس کے کہ دلائل و براہین کے رسوں کے ساتھ دلوں کو کشش کرتی ہیں.اپنے غیر پر فوقیت لے گئی ہیں.مبار کی ہے اس شخص کو جو ان کو حاصل کرے اور پہچانے اور غور سے پڑھے

Page 44

ان کی مانند کوئی مددگار نہیں مل سکتا.جو کوئی یہ چاہے کہ قرآن شریف کے عقدوں کو حل کرے اور خدا تعالیٰ کی کتاب کے اسراروں پر واقفیت ہو تو اس کو چاہئے کہ ان کتابوں میں مشغول ہو کیونکہ وہ اس چیز کی متکفل ہیں جس کو ذہین طالب تلاش کرتا ہے.ان کے ریحان کی خوشبو دلوں کو فریفتہ کرتی ہے.ان کی شاخوں میں کثرت سے میوے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ وہ اس باغ کی طرح ہیں جس کے خوشے جھکے ہوئے ہیں اور اس میں کوئی لغو بات نہیں سنائی دیتی اور پاکوں کے لئے مہمانی ہے.ان میں سے ایک کا نام فصل الخطاب اور ایک کا نام تصدیق براہین احمدیہ ہے باوجود متانت الفاظ اور لطافت بیانی کے قیمتی معانی پرو دیئے گئے ہیں.یہاں تک کہ وہ مولفین کے لئے اسوہ حسنہ ہو گئی ہیں.اور متکلمین آرزو کرتے ہیں کہ وہ انہیں کتابوں کی طرز پر لکھیں اور بڑے بڑے عالموں کی زبانوں نے ان کتابوں کی مدح سرائی کی ہے.ان کے جواہرات جواهر النحو (چھاتیوں کے ہاروں میں پروئے ہوئے جواہر) پر فوقیت لے گئے.اور ان کے موتی دریاؤں کے موتیوں پر فائق ہو گئے ہیں.اور وہ اس کے کمالات پر ایک دلیل قاطع ہیں.ان کی خبر کو ایک وقت کے بعد جان لو گے.اور مؤلف فاضل نے ان کتابوں پر قرآن شریف کے نکات کی تفسیر کرنے کے لئے کمر باندھی ہے.اور اپنی تحقیق میں روایت اور درایت کے متفق کرنے کی مشقت اٹھائی ہے.پس آفرین ہے اس کی عالی ہمت کے لئے اور اس کے روشن افکار کے لئے.پس وہ مسلمانوں کا فخر ہے اور اس کو قرآن کریم کے دقائق کے استخراج میں اور فرقان حمید کے حقائق کے خزانوں کو پھیلانے میں عجیب ملکہ ہے.بلاشک وہ مشکوۃ نبوت کے انوار سے منور ہے اور شان مردمی اور اپنی پاک طینی کے مناسب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے

Page 45

۳۹ نور سے نور لیتا ہے.وہ ایک عجیب و غریب مرد ہے.اس کے ایک ایک لمحہ کے ساتھ انوار کی نہریں بہتی ہیں.اس کے ایک ایک رشحہ کے ساتھ فکروں کے مشرب پھوٹتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ خیر الواهبين ہے.وہ نخبة المتكلمين ہے اور زبدة المؤلفين - لوگ اس کے زلال سے پیتے ہیں اور اس کی گفتگو کی شیشیاں شراب طہور کی طرح خریدتے ہیں.وہ ابرار اور اخیار اور مومنین کا فخر ہے.اس کے دل میں لطائف اور دقائق اور معارف اور حقائق کے انوار ساطعہ ہیں.جب وہ اپنے پاک و صاف کلمات اور اچھوتے ، فی البدیہ ، عجیب و غریب ملفوظات کے ساتھ کلام کرتا ہے تو گویا دلوں اور روحوں کو لطیف راگوں اور داؤدی مزامیر کے ساتھ فریفتہ کرتا ہے اور کھلے کھلے معجزوں کے ساتھ لوگوں کو گھٹنوں کے بل بٹھا لیتا ہے.جب کلام کرتا ہے تو ایسی حکمتیں منہ سے نکالتا ہے کہ گویا وہ پانی ہے جو پے در پے ٹپک رہا ہے اور سامعین کے مونہوں کی طرف جا رہا ہے اور میں نے اپنے فکر کے گھوڑے کو اس کے کمال کی طرف چلایا تو میں نے اس کو اس کے علوم اور اعمال اور نیکی اور صدقات میں یکتائے زمانہ پایا.وہ نہایت ذکی الذہن ، حديد الفوائد، فصیح اللسان، نخجہ" الابرار اور زبدۃ الاخیار ہے.اس کو سخاوت اور مال خطا کیا گیا ہے.امیدیں اس کے ساتھ وابستہ کی گئی ہیں.پس وہ خدام دین کا سردار ہے.اور میں اس پر رشک کرنے والوں میں سے ہوں.امیدوں والے اس کے صحن میں اترتے ہیں اور اس کی ہتھیلی سے ابر سخاوت طلب کرتے ہیں.جو اس کے گھر کا قصد کرتا ہے اور اس کی ملاقات کرتا ہے تو وہ اس سے منہ نہیں پھیرتا اور فقراء میں سے جو اس کے پاس آتا ہے وہ اس کی خوشبو سے معطر ہو جاتا ہے

Page 46

۴۰ اور وہ میری ملاقات کے لئے نہایت میلان دل کے ساتھ ایسا مضطرب رہتا ہے جیسے دولت مند سونے کے ساتھ محبت و یقین کے پاؤں سے چل کر دور دراز ملکوں سے میرے پاس آتا ہے وہ ایک دلر با جوان ہے جو مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں.اپنی تمام طاقت سے میری طرف سعی کرتا ہے اگر چہ اس کو اتنی ہی فرصت مل جائے جو اونٹنی کے دو دفعہ دودھ دوہنے کے درمیان ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس پر قسم قسم کے انعام کئے ہیں اور اس کی بقا کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کی مدد کی ہے.اس کو میرے دل سے عجیب تعلقات ہیں.میری محبت میں قسم قسم کی علامتیں اور بد زبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں کی مفارقت اختیار کرتا ہے.میرے کلام کے سننے کے لئے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لئے وہ اپنے اصلی وطن کی یاد کو چھوڑ دیتا ہے اور میرے ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے.اور میں اس کو اپنی رضا میں فانیوں کی طرح دیکھتا ہوں.جب اس سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ بلا توقف پورا کرتا ہے.اور جب کسی کام کی طرف مدعو کیا جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں سے ہوتا ہے.اس کا دل سلیم ہے اور خلق عظیم اور کرم ابر کثیر کی طرح ہے.اس کی صحبت بدحالوں کے دلوں کو سنوارتی ہے اور اس کا حملہ دین کے دشمنوں پر شیر ببر کے حملہ کی طرح ہے.کفار پر اس نے پتھر برسائے ہیں.آریوں کے مسائل کو اس نے کھودا.اور نقب لگا کر ان بیوقوفوں کی زمین میں اترا اور ان کا تعاقب کیا اور ان کی زمین کو تہ و بالا کر دیا اور اپنی کتابوں کو مکذبین کے رسوا کرنے کے لئے نیزوں کی طرح سیدھا کیا.پس خدا تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر ویدوں کو شرمندہ کیا.پس ان کے منہ پر راکھ ڈالی گئی اور سیاہ کر دیا گیا اور مُردوں کی

Page 47

۴۱ طرح ہو گئے.پھر انہوں نے دوبارہ حملہ کرنا چاہا لیکن مردے موت کے بعد کس طرح زندہ ہو سکتے ہیں، لرزتے ہوئے واپس چلے گئے.اگر ان کے لئے حیاء میں سے کچھ بھی حصہ ہوتا تو وہ دوبارہ حملہ نہ کرتے لیکن بے حیائی سے اس قوم کا حلیہ اس طرح ہو گیا ہے جس طرح مجل گھوڑوں میں تجھیل.پس وہ ذبح کئے ہوؤں کی طرح حملہ کرتے ہیں.اور فاضل نبیل موصوف میرے سب سے زیادہ محبت کرنے والے دوستوں میں سے ہے.وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے اور عقد نیت کو میرے ساتھ خالص کر دیا ہے اور جنہوں نے عہد کا سودا مجھے اس بات پر دیا.کہ وہ خدا تعالیٰ پر کسی کو مقدم نہ کریں گے.پس میں نے اس کو ان لوگوں میں سے پایا ہے جو اپنے عہدوں کی محافظت کرتے اور رب العالمین سے ڈرتے ہیں اور وہ اس پر شرر زمانہ میں اس ماء المعین کی طرح ہے جو آسمان سے نازل ہو تا ہے.جس طرح اس کے دل میں قرآن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ایسی محبت میں اور کسی کے دل میں نہیں دیکھتا.وہ قرآن کا عاشق ہے اور اس کی پیشانی میں آیات مبین کی محبت چمکتی ہے.اس کے دل میں خدا تعالی کی طرف سے نور ڈالے جاتے ہیں.پس وہ ان نوروں کے ساتھ قرآن شریف کے وہ دقائق دکھاتا ہے جو نہایت بعید و پوشیدہ ہوتے ہیں اور اس کی اکثر خوبیوں پر مجھے رشک آتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کی عطا ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے.اور وہ خیر الرازقین ہے.اور خدا تعالیٰ نے اس کو ان لوگوں میں سے بنایا ہے جو قوت و بصارت والے ہیں اور اس کے کلام میں وہ حلاوت و طلاوت و دیعت کی گئی ہے جو دوسری کتابوں میں نہیں پائی جاتی.اور اس کی فطرت کے لئے خدا تعالیٰ کے کلام سے پوری پوری مناسبت ہے.خدا تعالی کے کلام میں بے شمار خزانے ہیں.جو اس بزرگ جو ان کے لئے ودیعت رکھے گئے ہیں.اور یہ

Page 48

سم اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.اس کے لئے کوئی اس کے رزقوں میں جھگڑنے والا نہیں.کیونکہ اس کے بندوں میں سے بعض وہ مرد ہیں جن کو تھوڑی سی نمی دی گئی ہے اور دوسرے کئی آدمی ہیں جن کو بہت سا پانی دیا گیا ہے اور وہ اس کے ساتھ حجت بازی کرنے والے ہیں.مجھے میری زیست کی قسم ہے کہ وہ بڑے بڑے میدانوں کا مرد ہے.اس کے لئے کسی کا یہ قول صادق آتا ہے لِكُلِّ عِلْمٍ رِجَال وَلِكُلِّ مَيدَانِ أَبْطَال اور نیز یہ بھی صادق آتا ہے.إنَّ فِي الزَّوَايَا خَبَايَا وَفِي الرِّجَالِ بَقَايَا خدا تعالیٰ اس کو عافیت دے اور اس کو محفوظ رکھے.اور اس کی عمر کو اپنی رضامندی اور اطاعت میں لمبا کرے اور اس کو مقبولین میں سے بنائے.میں دیکھتا ہوں کہ اس کے لبوں پر حکمت بہتی ہے اور آسمان کے نور اس کے پاس نازل ہوتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ مہمانوں کی طرح اس پر نزول انوار متواتر ہو رہا ہے.جب کبھی وہ کتاب اللہ کی تاویل کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسرار کے منبع کھولتا ہے اور لطائف کے چشمے بہاتا ہے اور عجیب و غریب معارف ظاہر کرتا ہے جو پردوں کے نیچے ہوتے ہیں.دقائق کے ذرات کی تدقیق کرتا ہے اور حقایق کی جڑوں تک پہنچ کر کھلا کھلا نور لاتا ہے.عقل مند اس کی تقریر کے وقت اس کے کلام کے اعجاز اور عجیب تاثیر کی وجہ سے تعلیم کے ساتھ اس کی طرف اپنی گردنوں کو لمبا کرتے ہیں.حق کو سونے کی ڈلی کی طرح دکھاتا ہے اور مخالفین کے اعتراضات کو جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے.موجودہ زمانہ فلسفہ کے طوفانی حملہ کا وقت تھا جس نے فاسد اور گندہ کر دیا اور اضطراب میں ڈال دیا.ہر ایک جو ان کو اس چیز نے جو واقع ہوئی اور علماء علوم روحانیہ کی دولت اور اسرار رحمانیہ کے جو اہرات سے بے گوشت ہڈی کی طرح خالی ہاتھ رہ گئے.پس یہ جو ان کھڑا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں پر

Page 49

سوم اس طرح ٹوٹ پڑا جیسے شیاطین پر شہاب گرتے ہیں.سو وہ علماء میں آنکھ کی پتلی کی طرح ہے اور حکمت کے آسمان میں روشن سورج کی طرح ہے.وہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور وہ ان سطحی رایوں سے خوش نہیں ہوتا جن کا منبت اونچی زمین ہے نہ نیچی زمین.بلکہ اس کا فہم ان دقیق الماخذ مخفی اسرار کی طرف پہنچتا ہے.جو گہری زمین میں ہوتے ہیں.فَلِلَّهِ دَرَةٌ وَعَلَى اللهِ اَجْرُهُ اللہ تعالٰی نے اس کی طرف کھوئی ہوئی دولت کو واپس کر دیا ہے اور وہ ان لوگوں میں سے ہے.جو توفیق دیئے جاتے ہیں.اور سب حمد اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھ کو یہ دوست ایسے وقت میں بخشا جبکہ اس کی سخت ضرورت تھی.سو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کی عمر و صحت و ثروت میں برکت دے اور مجھ کو ایسے اوقات عطا کرے جن میں وہ دعائیں قبول ہوں جو اس کے اور اس کے قبیلہ کے لئے کروں.اور میری فراست گواہی دیتی ہے کہ یہ استجابت ایک محقق امر ہے نہ ظنی.اور میں ہر روز امیدواروں میں سے ہوں.خدا تعالیٰ کی قسم ! میں اس کے کلام میں ایک نئی شان دیکھتا ہوں اور قرآن شریف کے اسرار کھولنے میں اور اس کے کلام اور مفہوم کے سمجھنے میں اس کو سابقین میں سے پاتا ہوں اور میں اس کے علم و علم کو ان دو پہاڑوں کی طرح دیکھتا ہوں جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں.میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کونسا دو سرے پر فوقیت لے گیا ہے.وہ دین متین کے باغوں میں سے ایک باغ ہے.اے رب! تو اس پر آسمان سے برکتیں نازل کر اور دشمنوں کے شر سے اس کو محفوظ رکھ اور جہاں کہیں وہ ہو تو اس کے ساتھ ہو اور دنیا و آخرت میں اس پر رحم کر اے ارحم الراحمین! آمین ثم آمین - تمام تعریف أَوَّلاً وَ آخِرًا وَ ظَاهِرًا وَ بَاطِنَا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.وہی دنیا و آخرت میں میرا ولی ہے.اس کے

Page 50

سمسم کلام نے مجھے بلوایا اور اس کے ہاتھ نے مجھے ہلایا.سو میں نے یہ مسودہ اللہ تعالی کے فضل اور اشارے سے اور القاء سے لکھا ہے.وَلا حَولَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِالله - وہ ہی قادر ہے آسمان و زمین میں.اے رب! جو میں نے لکھا ہے محض تیری قوت و طاقت اور تیرے الہام کے اشارے سے لکھا ہے پس تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے ، اے رب العالمین!".مترجمه عزیزم مولوی عبدالرحمن از حصه عربی آئینہ کمالات اسلام از صفحه ۵۸۱ تا ۵۸۹) مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور الله شجاعت اور سخاوت اور ہمد ردئی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں.کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا تعالٰی کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دیتا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں میں ان کی صحبت کا اثر ہے.مولوی صاحب موصوف اب تک تین ہزار روپیہ کے قریب اللہ اس عاجز کو دے چکے ہیں اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں.اگر چہ یہ طریق دنیا اور معاشرت کے اصولوں کے مخالف ہے مگر جو شخص خدا تعالی کی ہستی پر ایمان لا کر اور دین اسلام کو ایک سچا اور منجانب اللہ دین سمجھ کر اور بائیں ہمہ اپنے زمانہ کے امام کو بھی شناخت کر کے اللہ جل شانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کریم کی محبت اور عشق میں فانی ہو کر محض اعلاء کلمہ اسلام کے لئے اپنے مال حلال اور طیب کو اس راہ میں خدا کرتا ہے اس کا جو عند الله قدر ہے وہ ظاہر ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ.

Page 51

۴۵ خدا وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر ثار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شد شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب اے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں تابکار لگاتے ہیں دل اپنا اس پاک ނ وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے خدا تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے.آمین ثم آمین..چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دین بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے" (نشان آسمانی صفحه ۴۶) اور میرے سب دوست متقی ہیں لیکن ان سب سے قوی بصیرت اور كثیر العلم اور زیادہ تر نرم اور حلیم اور اکمل الایمان والا سلام اور سخت محبت اور معرفت اور خشیت اور یقین اور ثبات والا ایک مبارک شخص بزرگ متقی ، عالم، صالح، فقیہ اور جلیل القدر محدث اور عظیم الشان حاذق حکیم، حاجی الحرمین ، مافظ القرآن ، قوم کا قریشی ، نسب کا فاروقی ہے جس کا نام نامی مع لقب گرامی مولوی حکیم نور الدین بھیر دی ہے.اللہ تعالیٰ اس کو دین و دنیا میں بڑا اجر دے اور صدق و صفا اور اخلاص اور محبت اور وفاداری میں میرے

Page 52

سب مریدوں سے وہ اول نمبر پر ہے اور غیر اللہ سے انقطاع میں اور ایثار اور خدمات دین میں وہ عجیب شخص ہے.اس نے اعلائے کلمہ " اللہ کے لئے مختلف وجوہات سے بہت مال خرچ کیا ہے اور میں نے اس کو ان مخلصین سے پایا ہے جو ہر ایک رضا پر اور اولاد و ازواج پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں اور ہمیشہ اس کی رضا چاہتے ہیں اور اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے مال اور جانیں صرف کرتے ہیں.اور ہر حال میں شکر گذاری سے زندگی بسر کرتے ہیں.اور وہ شخص رقیق القلب، صاف طبع ، حلیم ، کریم اور جامع الخیرات بدن کے تعمید اور اس کی لذات سے بہت دور ہے.بھلائی اور نیکی کا موقع اس کے ہاتھ سے کبھی فوت نہیں ہوتا اور وہ چاہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے اعلاء اور تائید میں پانی کی طرح اپنا خون بہارے اور اپنی جان کو بھی خاتم النبیین کی راہ میں صرف کرے.وہ ہر ایک بھلائی کے پیچھے چلتا ہے اور مفسدوں کی بیخ کنی کے واسطے ہر ایک سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجہ کا صدیق دیا جو راست باز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس.اللہ تعالیٰ کے لئے مجاہدہ کرنے والا اور کمال اخلاص سے اس کے لئے ایسی اعلیٰ درجہ کی محبت رکھنے والا ہے کہ کوئی محب اس سے سبقت نہیں لے گیا".حمامة البشری ترجمه عربی از صفحه ۱۵ تا صفحه ۱۶)

Page 53

مذہب و عقائد (حضرت امیر المومنین کے اپنے الفاظ میں) ایڈیٹر رسالہ البیان کے نام ماہ ستمبر ۱۹۰۸ء میں آپ نے ایک خط لکھا جس میں ظاہر فرمایا ہے کہ ہمارا مذہب کیا ہے وہ عبارت اخبار الحکم سے یہاں نقل کی جاتی ہے.جناب من ہمار امذ ہب کیا ہے ؟ مختصر ا عرض ہے.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ اللہ تعالیٰ تمام صفات کا ملہ سے موصوف اور ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے.اپنی ذات میں یکتا اور صفات میں بے ہمتا.اپنے افعال میں لیس کمثل اور اپنے تمام عبادات میں وَحْدَهُ لا شَرِیک - ۲ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ان پر ایمان لابد ہے..تمام کتب الهیه - ۴.تمام رسولوں اور نبیوں.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم المکی و المدنی محمد بن عبد الله - ابن آمنہ - خاتم النبین ، رسول رب العالمین ہیں اور آپ پر جو کتاب نازل ہوئی.کیا معنی ! اس پر اور ان تمام چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے.قرآن کریم بلا تحریف و تبدیل و کمی و زیادتی کے اسی ترتیب موجودہ پر ہم کو حضرت نبی کریم سے پہنچا.تقدیر کا مسئلہ حق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام اشیاء جو ہیں اور جو ہوں گی اور جو ہو چکیں سب کا اتم و اکمل طور پر علم ہے.جزئیات کا بھی وہ عالم ہے.نیکی کا ثمرہ نیک اور بدی کا نتیجہ ہد ہوتا ہے.جیسا کوئی کرتا ہے ویساہی پاتا ہے.يَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ

Page 54

۴۸ بعد الموت نفس کو بقا ہے.قبر سے لے کر حشر نشر- صراط - جنم.بہشت کے واقعات جو کچھ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں.سب صحیح ہیں.- صحابہ کرام کو ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے معاویہ و مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک کسی کو برا نہیں کہتے اور نہ دل میں ان کی نسبت بد اعتقاد ہیں.اہل بیت کو بدل اپنا محبوب و پیارا یقین کرتے ہیں.تمام بیبیاں حضرت نبی کریم کی حضرت عائشہ و خدیجہ" سے لے کر اور تمام خاندان نبوت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام حسن سبط اکبر او ر امام حسین سبط اصغر شہید کربلا اور ان کی والدہ بتول زھر اسیدۃ النساء اہل الجنہ.سب کو اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ گروہ بدل یقین کرتے ہیں.صَلوةُ اللهِ وَ سَلَامُهُ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ.اولاد امجاد مولى مرتضیٰ علیہ السلام علی بن حسین زین العابدین اور محمد باقر العلوم اور جعفر صادق سے لے کر زید بن علی اور اولاد صادق علیہ السلام میں حسن بن عسکری تک سب کو علماء با عمل اور ائمہ دین مانتے ہیں.امام ابو حنیفہ - مالک - شافعی اور احمد کو ائمہ فقہاء سے.بخاری و مسلم.ابو داؤد اور نسائی کو ائمہ محدثین سے خواجہ معین الدین چشتی اور الشیخ عبد القادر جیلانی.خواجہ نقشبند - شیخ احمد سرہندی- شیخ شهاب الدین سهروردی- ابوالحسن الشاذلی کو ائمہ تصوف اس لئے ان کو مکرم معظم واجب التعظیم اعتقاد کرتے ہیں.کتاب و سنت پر ہمارا عمل ہے.اگر بتصریح وہاں مسئلہ نہ ملے تو فقہ حنفیہ پر اس ملک میں عمل کر لیتے ہیں اور اس لئے ہم سفر میں گیارہ رکعت فرض اور حضر میں سترہ رکعت فرض اور تین رکعت وتر کے علاوہ ہیں رکعت رواتب اور بعض چالیس رکعت تک پڑھتے ہیں.ہر رکعت میں الحمد اور کچھ.قرآن کریم کا اور رکوع و سجود میں تسبیح و تحمید اور تشہد میں التحیات و صلوۃ و سلام و دعا پڑھتے نہیں.تمام رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں.چاندی میں ۵۲ تولہ چاندی پر چالیسواں ہ ساڑھے سات تولہ سونے پر سوا دو ماشہ زکوۃ اور بارانی زمین پر عشر اور نهری و چاہی زمین پر بیسواں حصہ زکوٰۃ دیتے ہیں.اور حج بیت اللہ کرتے ہیں.فضائل میں ترقی اور رزائل سے بچنے میں لگے رہتے ہیں.حصہ

Page 55

دریس نتایم رو وم مرزا گیر کنندم بوزند ایوان پر ہر ایک کا عمل ہے.باایں ہمہ لوگ اور آپ ہم سے کیوں خفا ہیں ؟ اس لئے کہ مرزا نے دعوئی مکالمہ الہیہ کا کیا.مگر اس دعوے کی بنا اس پر تھی کہ اللہ تعالٰی اپنے صفات میں آلانُ كَمَا كَانَ ہے.پس اگر وہ پہلے کسی سے بولتا اور کلام کرتا تھا تو اب وہ کیوں نہیں بولتا.اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں دعا ہے کہ الہی ! انبیاء - صدیقوں.شہداء اور صلحاء کی راہ عطا فرما.اور ان راہوں میں ایک راہ مکالمہ کی بھی ہے.پس اگر ہم مکالمہ کے مدعی ہیں تو کیا کفر کیا؟ بنی اسرائیل کو اس لئے عبادت عمل پر ملامت ہوئی اَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلاً - کہ ان کا معبود ان سے بات نہیں کرتا اور ان کو ہدایت نہیں فرماتا.پس اس وقت کیوں مسلمان مکالمات الہیہ سے انکار کرتے ہیں.؟ دعوی امامت و تجدید دین.اس کی بنا مکالمات اور حدیث عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا اور سورہ نور کی آیت استخلاف پر تھی.اور ہمیشہ مجدد گذرتے رہے.پس اس صدی کو کیوں خالی چھوڑتے ہیں.؟ دعوی مهدویت جس کا مدار وہی مکالمات تھے اور حدیث لَا مَهْدِى إِلا عِيسَى یہ صحیح حدیث اسفار حدیث میں موجود ہے.منجملہ ان کے ابن ماجہ میں بھی ہے مگر جناب نے بہت حقارت اور بری نگاہ سے اس کا نام روایت اور مرزا صاحب کی توہین کے لئے فرمایا کہ حدیث کر کے مرزا نے اس روایت کو پیش کیا ہے.حالانکہ یہ حدیث ہے.اور پھر کیا مجدد مھدی نہیں ہوتا ؟ انصاف ! انصاف !! دعوئی عیسی ابن مریم ہونے کا.اس کا مدار بھی مکالمہ اللہ تھا اور قرآن کریم کی آیت

Page 56

و مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرَجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (سورۃ تحریم) پر تھا.اس آیت کریمہ سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مومن جس سے خطا ہو جائے وہ امرأة فرعون کی مثل ہے کہ شیطان کے ماتحت ہے.وہ تو دعا ئیں کریں.نَجْنِي مِنْ فِرْعَوْنَ اور اس آیت میں ذکر ہے دوسری قسم کے مومن کا.دوسرا مومن وہ ہے جو محصن ہے.وہ مریم ہو تا ہے اور جب اس پر کلام الہی کا نفخ ہوتا ہے تو مریم سے ابن مریم ہو جاتا ہے تیسری وجہ یہ کہ چون مرا نورے پنے قوم مسیحی داده اند مصلحت را ابن مریم نام من بنهاده اند چوتھی وجہ حدیث صحیح يَنْزِلُ فِيكُمُ ابْن مَرْيَمَ.مرزا صاحب کا دعویٰ کہ ابن مریم مرگئے اس کے ثبوت کے لئے انہوں نے اتنی رسالے - جو طبعی بت سے مر گئے وہ دنیا میں بائیں جسم عصری واپس نہیں آتے.وَمِنْ ورانهِمْ يَرْزَع إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.آپ نے ہزاروں پیشگوئیاں کیں جو صحیح ہو ئیں.جو بظا ہر کسی کو نظر آتا ہے کہ صحیح نہیں ، ان پر مراز صاحب نے بہت کچھ لکھا ہے.بایں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبين مانا اور ان کے عشق و محبت میں ہزاروں صفحہ لکھا ہے، بے ریب لکھا ہے کہ میں ني بمعنی پیشگوئی کرنے والا ہوں.مجھے احادیث اور کلام الہی میں نبی کہا گیا مگر نہ نبی تشریعی - اور یہی مذہب تمام صوفیاء کرام کا ہے.فتوحات مکیه باب پر آپ غور کریں.آپ کی سرخی اور آپ کا مضمون کم سے کم چار لاکھ مسلمان احمدیوں کو دکھ دینے والا ہے.اگرچہ آپ کے ساتھ بھی بہت سے اخبار اور رسائل ہیں.مولوی صاحب! آپ کا

Page 57

۵۱ زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں.اس پر دریافت طلب امر ہے کہ آپ کو اس بارے میں وحی نبوت ہوئی ہے کہ آپ کا زمانہ نبوت کا زمانہ نہیں یا آپ کی دہریت کا فتویٰ ہے.نور الدین فروری ۱۹۰۹ء میں حسن نظامی دہلوی نے آپ کی خدمت میں ایک خط لکھا اس کے جواب میں ان کو جو خط آپ نے لکھا.درج ذیل ہے.مکرم معظم جناب مولانا - مکرمت نامہ پہنچا.اس پر عرض ہے کہ کتاب اللہ کے بعد صحیح بخاری کو میں اور ہماری جماعت اصح الکتب یقین کرتے ہیں.اس میں لکھا ہے کہ ایک بار سرور عالم ، مخربنی آدم خاتم المرسلین، سید الاولین والآخرین، صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حضرات صحابہ کرام شرف اندوز تھے اور ایک جنازہ گزرا.اور اس مطہرو مزکی جماعت نے اس کی تعریف کی.عربی عبارت میں ہے.اُثْنُوا عَلَيْهِ خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ.پھر ایک اور جنازہ گذرا تو اس کی خدمت ہوئی پھر ارشاد ہوا.وَجَبَتْ.وَجَبَتْ کے معنی ہیں کہ اس کے لئے واجب ہو چکی.حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا.مَا وَجَبَتْ يَا رَسُولَ اللهِ ا کیا واجب ہوا.فرمایا.الَّذِي اثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا فَوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ وَأَمَّا الَّذِي اثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَهُ النَّارُ.أَنْتُمْ شُهَدَاءُ فِي الْأَرْضِ جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوئی اور جس کی تم نے مذمت کی اس کے لئے دوزخ واجب ہوئی.اب جو میں قرآن کریم کو پڑھتا ہوں تو اس میں ارشاد ہے.وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ حقیقت ہر زمانہ کے اخیار میں طاری و ساری ہے.اور ہمیشہ اس کے مطابق ہم مشاہدہ کرتے ہیں.اور اس معیار پر میں نے حضرت نظام الحق والدین سلطان الدنيا و العقبیٰ کو دیکھا تو سات سو برس کے قریب قریب ہوتا ہے کہ ہزاروں ہزار اخیار آپ کی مدح میں رطب اللسان ہیں.اگر یہ مشت خاک ان ابرار و اخیار کے ساتھ ہم آواز نہ ہو تو حسب الارشاد وَيَتَّبِعْ غَيْرَ

Page 58

۵۲ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلَه مَا تَوَلَّى وَنَصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا.مجھے زیادہ کون بد قسمت ہو سکتا ہے.پس میرا دلی یقین یہ ہے کہ وہ محبوب الہی حسب تزکیہ شہداء اللہ واقعی محبوب الہی تھے.یہی میرا دلی اعتقاد ہے.عام لوگوں کی اجنبیت انشاء اللہ تعالیٰ میرے نزدیک جوئے نمی ارزد کارنگ رکھتی ہے..ه کاش آنا نکه عیب من گیرند روئے آں داستاں بریده نادری اب دوسرے ارشاد اور اس کی اہمیت پر گذارش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.انا لتَنْصُرُ رَسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا اور فرماتا ہے وَلِلَّهِ العِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُومِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ پس مولانا.اگر ہم فی الواقع جناب الہی کی نظر میں مومن ہیں تو ہم یقینا یقینا معزز و منصور ہیں.ہمیں کفار کے جلسہ کا قطعا جوش و رنج نہیں.اور نہ ہم ان کے نظاروں کو اہم یقین کر سکتے ہیں.جناب کو معلوم ہو گا حضرت فرید الحق والدین جب قطب الحق کے جانشین ہوئے تو ہفتہ کے اندراندر قرب دہلی سے دوری اختیار فرمائی تو کیا ان کے لئے اجودھن کا جنگل مضر ہوا.لا و الله ہے.اپنی کتاب رسالہ نور الدین میں آپ نے اپنا مذ ہب بیان فرمایا ہے جو یہاں نقل کیا جاتا ا.ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں کہ ہے اور وہ موصوف صفات کاملہ اور ہر ایک نقص سے مزه لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولد ہے.اس کے ارادہ اور اسی کی خلق سے یہ تمام مخلوق ہے.وہ وراء الوراء محيط کانات لا اله إلا الله خَالِقَ كُلِّ شَيْء وَ هُوَ بِكُلِّ شَيْي محيط مُّحِيطٌ وَهُوَ الْاَوَّلُ وَإِنَّ إلى رَبِّكَ الْمُنتَهى وَهُوَ الأجر ہے.جبکہ ہمارا یہ عقیدہ اور یہ ایمان ہے تو سوفسطائی.دہریہ - مسیحی.اور وہ یونانی منطقی اور سناتن جو اللہ تعالیٰ کو علت.

Page 59

۵۳ لا بشرط - بشرط لا نرگن مانتا ہے اور وجودی.نیچری - آریہ سماجی جس کے نزدیک اللہ خالق ارواح، خالق مادہ خالق زمانہ خالق فضا اور ان کے گن - کرم.سبھاؤ - خواص - افعال.عادت کا خالق نہیں.ہماری کتاب کو کیوں پسند کرے گا..ہم اللہ تعالٰی کو مانتے ہیں کہ وہ متکلم ہے.اپنے پیاروں سے کلام کرتا ہے.ارادہ و مشیت سے اس کے کام ہوتے ہیں.وہ کلام کرتا رہا کرتا رہتا ہے اور کلام کرے گا.اس کے کلام و تکلیم پر کبھی مہر نہیں لگی.پس جو لوگ اس کو گم صم مانتے ہیں مثلاً بر ہمو اور نیچری اور جو لوگ کہتے ہیں دو ارب برس سے وہ خاموش ہے اور صرف چار ہی آدمیوں سے سرشٹی کے ابتدا میں بولا تھا یا جو کہتے ہیں کہ مسیح یا نبی کریم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و مسلم تک بات کر کے اب خاموش ہے اور جن کا وہم ہے کہ بیج کی طرح بے اختیار ہے وہ کیوں پسند کرنے لگے.ہم مانتے ہیں کہ ملائکہ ہیں.ان پر اور اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں، رسولوں اور نبیوں پر ہمارا ایمان ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خاتم النبیین رسول رب العالمین مانتے ہیں.پھر ان باتوں کے مخالف کیوں پسند کرنے لگے..ہمارے نزدیک ہر ایک شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار اور جواب دہ ہے.اور ہم عفو مغفرت شفاعت بالاذن کے معتقد ہیں.پس ہماری باتوں سے کفارہ کا قائل کب راضی ہوا.اور جو اللہ تعالیٰ کو (کھما) عفو والا نہ مانے.وہ کیونکر راضی ہو.ہم صحابہ کرام ، تابعین عظام رِضْوَانَ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ کو ابو بکر و عمر سے لے کر معاویہ و مغیرہ تک اویس قرنی اور حسن بصری سے لے کر ابراہیم نھی و نافع عکرمہ تک، اور اہل بیت میں خدیجہ وعائشہ سے لے کر علی المرتضیٰ اور تمام ائمہ اہل بیت علیهم السلام ان سب کو بجھد اللہ اپنا محبوب اور دل سے پیارا اعتقاد کرتے ہیں قَالَ الْإِمَامُ إِمَا مَنَا - عَلَيْهِ السَّلَامُ.

Page 60

۵۴ جان و دلم فدائے جمال محمد است آل محمد است خاکم نثار کوچه آل پس رافضی شیعہ ، خارجی ناصبی جبریہ قدریہ، مرجیہ جہمیہ، معتزلہ ، تعامل اسلام کا منکر.احادیث صحیحہ کا منکر اور ان کو تو وہ طوفان کہنے والے کب پسند کر سکتے ہیں حالانکہ وہ معمولی کتب تو رایخ بلکہ امور تاریخیہ.لغت و کتب بیان کو اپنا مقتد ابنائے ہوئے ہیں.ہم ائمہ تصوف - ائمہ فقہ - ائمہ حدیث ائمہ کلام کی تعظیم و تکریم کو ضروری یقین کرتے ہیں اور ان کی مشترکہ سبیل کو سبیل المومنین مانتے ہیں.ہاں ! ان لوگوں کے آثار باقیہ فتوح الغیب وفتح الرباني للسيد الشيخ عبد القادر الجیلانی - عوارف شیخ شهاب الدین السهر وردی جس کو میرے ابن عم حضرت فرید الدین گنج شکر چشتی ہمیشہ اپنے درس میں رکھتے تھے.اور وہ نسخہ جس پر حضرت سلطان نظام الدین نے پڑھا.اب تک جمالیوں میں موجود ہے.منازل السائرین شرح مدارج السالکین - طریق الہجرتین - مجمع الفوائد و زاد المعاد لشیخ الاسلام الشيخ ابن قیم - فصل الخطاب الخواجہ محمد پارسا.مکتوبات لشيخ مشائخنا المجد واحمد السرہندی.فتوحات مکیه ابن عربی- الکتاب اصحیح لامام البخاری - الموطاء لامام دار الهجرة - امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے آثار باقیہ - تصانیف ابویوسف- امام ائمه فقه و حدیث و تصانیف امام محمد الشیبانی و طحاوی - الام للشافعی - محلی و فقل لابن حزم.السنن الكبرى لليقي وراء تعارض العقل والنقل والرد على المنطقيين - و منهاج السنة للشيخ الاجل رئیس المتكلمين والفقهاء والمحدثين والمفسرین شیخ الاسلام شیخ ابن تیمیہ الحرانی و المطالب العالیہ الامام الرازی - فتح الباری لابن حجر- فتح القدير و تحریر لابن ہمام اور تمام تصانیف حافظ ذہبی جیسے دول الاسلام، میزان و تذکره و غیره حجه الله البالغہ شیخ مشائخنا شاہ ولی اللہ دہلوی.نیل الاوطار للشوکانی ایمنی موجود ہیں.مصنف خدا پرست دیکھ لے.انہیں کے ساتھ ہیں.ابن المنذر ابن قدامہ ابو یعلی میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کرتا ہوں اور سچے دل سے علی وجہ البصیرة کامل یقین کرتا ہوں کہ بے ریب یہ لوگ

Page 61

۵۵ - مصداق تھے.وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةٌ يَهْدُونَ بأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (پ ۲۱ سجدہ) کے.اور ان کی دعائیں وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا (پ ۱۹ (فرقان) ضرور ہی قبول ہو ئیں.پس بڑے ہی بے نصیب ہیں وہ لوگ جو انسانی امامت کے منکر ہیں.اور اِنّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا کے بھید سے ناواقف ہیں.ان کی عملی حالتیں ان پر خود ملامت کرتی ہوں گی اگر فطرت سلیمہ باقی ہے.بحمد اللہ ہم نے ان سب کے اسفار طیبہ کو خوب غور سے پڑھا اور ہم علی بصیرۃ اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ سب لوگ خدا تعالیٰ کے برگزیدوں میں اور ہادیوں میں سے تھے.ہم نے لغت میں بخاری.اصمعی - ابو عبیدہ - ابو عبید - مفردات راغب نہایہ - مجمع البحار - لسان العرب اور صرف و نحو میں سیبویہ - ابن مالک - ابن ہشام اور سیوطی اور قرأت میں شاطبی اور ابو عمر دوانی اور معانی و بیان میں عبد القاہر جرجانی مصنف دلائل الاعجاز اور اسرار البلاغہ اور سکا کی مصنف مفتاح العلوم اور ادب میں اصمعی اور تفاسیر میں روایتہ " ابن جریر.ابن کثیر شوکانی کی فتح القدیر اور د رايتة وروايته دونوں میں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور فقط درایت میں تفسیر کبیر کو ائمہ سلف کے بعد انتخاب کیا ہے.قریب زمانہ کے جو ہندوستانیوں میں اصحاب تصنیف گزرے ہیں.ان میں صاحب حجتہ اللہ البالغہ اور ازالته الحفاء شاہ ولی اللہ کو میں ممتاز انسان اور صافی الذہن جانتا ہوں.میں حضرت مسیح کی وفات کا قائل ہوں اور میرا کامل یقین ہے کہ وہ قتل اور پھانسی سے بچ کر اپنی موت سے مرچکے.اس امت میں أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ مَغْضُوبِ ضال تینوں قسم کے لوگ موجود ہیں.پس وہ مسیح موعود علیہ السلام بھی موجود ہے.جس کو ہم میں نازل ہونا تھا.وہ مہدی معہود اور اس وقت کا امام بھی ہے.وہ اختلافوں میں حکم ہے.ہم نے اس کی آیات بینات کو دیکھا اور ہم گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈر کر جزا و سزا حشر اجساد جنت و نار.اپنی بے ثبات زندگی کو نصیب العین رکھ کر اس کو امام مان لیا ہے.ہم نے اپنے مقتداؤں میں ابن حزم اور ابن تیمیہ کو بھی شمار کیا ہے.اس کی تائید میں صرف دو قول یہاں لکھتے ہیں.اول ایک شخص اہل اللہ میں سے ہے.

Page 62

راست باز- صالح اور ثقہ امین ان کا نام عبد اللہ الغزنوی کرکے ہمارے ملک پنجاب میں مشہور ہے.ہمارے امام علیہ السلام نے ان کو خاتم النبيين رسول رب العالمین نبی کریم علیہ الصلوة والتسلیم کی شکل پر رویا میں دیکھا ہے اور یہ بسبب ان کی کمال اتباع سنت کے تھا وہ بہت خوبیوں کے جامع اور علمی اور عملی حصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو خصوصیت سے ممتاز فرمایا تھا.انہوں نے ابن حزم کے بارے میں توجہ کی کہ یہ بہت سخت الفاظ استعمال میں لاتے ہیں.اس پر عبد اللہ المرحوم کو الہام ہوا.(ہاں ! میں اس وقت تک عبد اللہ مرحوم کو صادق ر است باز یقین کرتا ہوں اور اسی یقین پر اس الہام کو شائع کرتا ہوں.گفتگو عاشقاں باب شش عشق است نے ترک ادب ہر کہ کرد از جام حق یک جرعه نوش نے ادب ماند نے عقل و ہوش ہاں ورد و ہاں تک هد کن باشمان دانه ابلیسی شوی اندر جہاں با دے شیرے تو بازی می کنی با ملائک ترک و تازی می کنی اس کہانی کی شہادت ایک شخص ساکن لاہور کو چہ کندی گراں کے پاس بھی ہے اور اس کا نام عبد الحق ہے.وہ بھی حسن ظن کے قابل ہیں.وَلَا أَزْكَى عَلَى اللهِ أَحَدًا.دوم حضرت امام سیوطی نے اپنی بے نظیر کتاب الاشباه والنظائر کی جلد سوم صفحہ ۳۲ میں لکھا ہے.قَالَ فِيْهِ جَوَابُ سَائِل سَأَلَ عَنْ حَرْفٍ لَو لِشَيْخِنَا وَ سَيِّدِنَا الإِمَامِ الْعَالَمِ الْعَلَامَةِ إِلا حَدًا لَحَافِظِ الْمُجْتَهِدِ الزَّاهِدِ

Page 63

وار الْعَابِدِ الْقُدْوَةِ اِمَامِ الْاَئِمَّةِ قُدْوَةِ الْأُمَّةِ عَلامَةِ الْعُلَمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ أَخِرِ الْمُجْتَهِدِيْنَ اَوْ حَدِ عُلَمَاءِ الدِّيْنِ بَرَكَةِ الْإِسْلَامِ حُجَّةِ الْأَعْلَامِ بُرْهَانِ الْمُتَكَلِّمِينَ قَامِعِ الْمُبْتَدِ عِينَ ذِي الْعُلُومِ الرَّفِيعَة وَالْفُنُونِ الْبَدِيعَةِ مُحْيِ السُّنَّةِ وَمَنْ عَظُمَتْ بِهِ عَلَيْنَا الْمِنَّةُ وَقَامَتْ بِهِ عَلَى الْاَعْدَاءِ الْحُجَّةُ وَاسْتَبَانَتْ بِبَرَكَةِ وَ هَدْيَةِ الْمَحَجَةِ تَقِي الدِّيْنِ أَبِي الْعَبَّاسِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الْحَلِيْمِ ابْنِ تَيْمِيَّةَ الْحَرَانِي مَنَارَةِ وَ شيد مِنَ الدِّينِ أَرْكَانِهِ (۲۳ اگست ۱۹۰۷ء بروز جمعہ حضرت حکیم حاجی الحرمین جناب مولوی نور الدین نے خطبہ ارشاد فرمایا ) اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوله اما بعد أعوذُ بِالله مِن الشَّيْطَانِ الرّحِيمِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقْتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوا عَذَابٌ عَظِيمٌ (آل عمران آیت ۱۰۳ تا ۱۰۶) j تم نے سنا ہو گا کہ جب کبھی میں کوئی خطبہ پڑھتا ہوں وہ خطبہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا کوئی لیکچر ہویا اور کوئی نصیحت ہو تو میری عادت ہے کہ اس کے شروع میں اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ پڑھ لیتا ہوں.اگر چہ میری عادت نہیں کہ اپنی ہر ایک حرکت اور بات کو بلند آواز سے ظاہر کروں مگر جب کوئی لمبی بات یا درد مندوں کی بات کرنی ہو تو میں اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.اس کے اول ضرور پڑھتا ہوں

Page 64

۵۸ اور میری غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو میری نصیحت سنتے ہیں اس بات کے گواہ رہیں کہ میں خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک اس کی ذات و صفات میں مانتا ہوں اور میں حضور قلب سے ، یقین سے استقلال سے یہ بات کہتا ہوں کہ میں اس کی قدرتوں کو بیان کرتے ہوئے کبھی شرمندگی نہیں اٹھاتا.میں اسے اپنا محبوب مانتا ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سب انبیاء کا سردار اور فخر رسل سمجھتا ہوں اور میں اللہ کریم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل سے اس کی امت میں مجھے بنایا اس کے محبوں میں سے بنایا اس کے دین کے محبوں میں سے بنایا.اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ تم نے دیکھا ہو گا کہ میں سخت بیمار ہو گیا تھا اور میں نے کئی دفعہ یقین کیا تھا کہ میں اب مرجاؤں گا.ایسی حالت میں بعض لوگوں نے میری بڑی بیمار پرسی کی.تمام رات جاگتے تھے.ان میں سے خاص کر ڈاکٹر ستار شاہ صاحب ہیں.بعضوں نے ساری ساری رات دبایا اور یہ سب خد اتعالیٰ کی غفور رحیمیاں ہیں.ستاریاں ہیں جو ان لوگوں نے بہت محبت اور اخلاص سے ہمدردی کی.اور یاد رکھو کہ اگر میں مرجاتا تو اسی ایمان پر مرتا کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اپنی ذات و صفات میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بچے رسول اور خاتم انبیاء اور فخر رسل ہیں اور یہ بھی میرا یقین ہے کہ حضرت مرزا صاحب مہدی ہیں، مسیح ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بچے غلام ہیں.بڑے راست باز اور کچے ہیں.گو مجھ سے ایسی خدمت ادا نہیں ہوئی جیسی کہ چاہئے تھی اور ذرہ بھی ادا نہیں ہوئی.میں آج اپنی زندگی کا ایک نیا دن سمجھتا ہوں.گو تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے مگر اب میں ایک نیا انسان ہوں اور ایک نئی مخلوق ہوں.میرے قومی پر میرے عادات پر میرے دماغ پر میرے وجود پر میرے اخلاق پر جو اس بیماری نے اثر کیا ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک نیا انسان ہوں.مجھے کسی کی پروا نہیں.میں ذرا کسی کی خوشامد نہیں کر سکتا.میں بالکل الگ تھلگ ہوں.میں صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود سمجھتا ہوں.وہی میرا رب ہے کیونکہ اس بات کا بھروسہ نہیں کہ آئندہ ہفتہ تک میری زندگی ہے کہ نہیں.لہذا میں تم کو بتانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ

Page 65

۵۹ تقویٰ اختیار کرو اور اپنے باطن کو ایسا پاک صاف کر لو جیسا کہ چاہئے.خدا تعالیٰ بڑا پاک قدوس اور سب سے بڑھ کر مطہر ہے.اس کی جناب میں مقرب بھی وہی ہو سکتا ہے جو خود پاک ہے.گندہ آدمی قبولیت حاصل نہیں کر سکتا.دیکھو ایک پاک صاف اور عمدہ لباس والا آدمی ایک پیشاب والی گندی جگہ پر نہیں بیٹھتا.اسی طرح ایک پاک اور قدوس خدا ایک گندے کو اپنا مقرب کس طرح بنا سکتا ہے ؟ اسی واسطے اس نے سعیدوں کے واسطے بہشت اور شعیوں کے واسطے دوزخ بنایا ہے.ایک ناپاک انسان تو بہشت کے قابل بھی نہیں ہو تا اللہ تعالیٰ کے قرب کے لائق کب ہو سکتا ہے.الخ (۱۹۱۰ء کے ایام جلسہ سالانہ میں جو خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے فرمایا درج ذیل ہے) أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ أَعوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ.وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.تمام خطبے جو دنیا میں پڑھے جاتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک ان کا ابتدا أَشْهَدُ أن لا إله إلا الله و اشهد ان محمدا عبده و رَسُولُه سے ہوتا ہے.اس کلمہ کا پہلا حصہ ہے.لا اله الا اللہ اس کے تین فائدے ہیں.(1).پہلا فائدہ یہ ہے کہ جو شخص اسے باد از بلند پڑھ لیتا ہے ، ہم اسے مسلمان اور شرک سے بیزار سمجھ لیتے ہیں.(۲).دوسرا فائدہ اس کا یہ ہے کہ جب اس کے معنوں پر حقیقی طور پر ایمان ہو تا ہے تو ایسا مومن دنیا کے تمام اسباب اور ذرائع کو تب ذریعہ مانتا ہے جب دیکھ لیتا ہے کہ میرا موٹی ان

Page 66

کو اسباب بناتا ہے اور اسی نے ان میں تاثیر رکھ دی ہے.(۳).تیسرا فائدہ جس کی شہادت تمام انبیاء علیم السلام اور تمام اولیاء کرام یک زبان ہو کر دیتے آئے ہیں یہ ہے کہ جب اس کلمہ کی کثرت کی جاوے اور اسے بار بار سمجھ کو دو ہرایا جاوے تو اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے اور اس کے قرب کی راہ میں جو حجاب اور پر دے ہوتے ہیں وہ آسانی سے بتدریج اٹھ جاتے ہیں.فقرہ اول کے دو حصے ہیں ایک میں لا إله دوسرے میں الا اللہ ہے.پہلا حصہ گناہوں کے دور کرنے اور ان سے بچانے کا سامان ہے اور دو سرائیکیوں کے حاصل کرنے کا ذریعہ.لا الہ میں دنیا کے تمام معبودوں، محبوبوں اور مطلوبوں کی نفی ہے.جو کوئی چیز انسان کی نظر اور ایمان میں محبوب اور مطلوب ہی نہ رہے تو وہ ان امور پر جو گناہ ہیں جھک کیونکر سکتا ہے.اصل اشیاء جو اس کے لئے حلال ہیں وہ بھی جب اس کا مقصود بالذات نہ ہونگی تو جو اس پر حرام ہیں ان کی طرف تو وہ توجہ بھی نہیں کر سکتا.اس طرح پر یہ پہلا حصہ لا إله گنا ہوں سے بچانے کا ذریعہ ٹھہرتا ہے.کس کس طرح پر ہر ایک گناہ سے انسان اس حصہ پر ایمان لا کر بیچ سکتا ہے یہ لمبی بحث ہے.دانشمند اس اصل پر جو میں نے بیان کر دیا ہے غور کریں.الا اللہ سے نیکیوں کی طرف توجہ کیونکر پیدا ہوتی ہے ؟ اس طرح پر کہ جب انسان دنیا کے تمام مطلوبات و محبوبات کو فانی اور ادنی یقین کر کے کامل الصفات خدا کے ساتھ پیوند کرتا ہے تو پھر اس کی تجلی اس کے تمام جذبات کو اپنی رضا کے نیچے کر لیتی ہے اور اس کا اصل مطلوب ہرامر میں خدا ہو تا ہے.پس وہ کسی کام کو کرتا ہی نہیں جب تک وہ اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لے.یعنی جہاں ایک طرف اسے نگران حال پاتا ہے وہاں دوسری طرف اس کی رضا اور اجازت کو دیکھتا ہے.اس طرح پر وہ نیکیوں کو حاصل کرتا ہے.پھر اس کلمہ کے ساتھ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُہ کا جملہ اس لئے لگایا کہ آپ نے دیکھ لیا تھا کہ زمانہ گذشتہ میں جو ہادی دنیا کی ہدایت کے لئے وقتافوقتاً آئے ایک زمانہ گذرنے کے بعد ان کو معبود بنالیا گیا اور خدا

Page 67

تعالی کی معبودیت میں ان کو شریک کر لیا گیا.اس گند سے دنیا کو بچانے کے لئے آپ نے اس حصہ کو رکھا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو لوگ ایک عبد سمجھیں اور آئندہ چونکہ اس امت میں ولی ہوں گے اس لئے انہیں بھی کوئی معبود قرار نہ دے لے.پس میں اَشْهَدُ أنْ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ کو کلمہ کا متمم یقین کرتا ہوں اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ اس جزو پر ایمان لانے کے بدوں مومن بن ہی نہیں سکتا.جب انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے جو لا ADATA ATLANTA اللہ کا نشا ء ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی حسنات کاملہ پر غور کرتا اور اس کے اسماء اور افعال پر سوچتا ہے تو یقیناً اسے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں اللہ تعالیٰ کی کتابوں اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور تقدیر اور حشر نشر پل صراط جنت و نار پر ایمان لانا لا بد کی ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے صفات کے ہی ثمرات ہیں اور ایمان باللہ کے لئے لابد ہے کہ وہ اس کو صفات کاملہ سے موصوف یقین کرے.چونکہ اسی نے تقدیر کو بنایا.ملائکہ کو پیدا کیا.جنت و نار کو پیدا کیا.انبیاء علیہم السلام کو بھیجا.ان کو صحائف دیئے.اس لئے ملائکہ پر ایمان لانا.خدا کی کتابوں ، اس کے رسولوں ، تقدیر، حشر و نشر پل صراط جنت و نار پر ایمان لانا ضروری ہو جاتا ہے.پس میرے ایمان میں ایمان باللہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان باتوں پر بھی ایمان نہ لاوے.پھر ایمان کے بعد اس کا اثر انسان کے جوارح پر ہوتا ہے.جو راج سے جو امور سرزد ہوتے ہیں ان کا نام اعمال ہے.ان میں نماز ہے.روزہ ہے.حج ہے.اخلاق فاضلہ ہیں.رزائل سے بچنا ہے.ایمان باللہ اور ایمان کامل کے ساتھ اعمال بھی لابد ہیں.قرآن کریم سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُم عَلَى صَلَا تِهِمْ يُحَافِظُونَ.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے تو وہ آخرت پر بھی ایمان لاتا ہے.یعنی اللہ پر ایمان لانا آخرت پر ایمان لانے کے لئے ضروری ہے.پھر اس ایمان کا اثر اعمال پر یوں پڑتا ہے کہ ایسے مومن اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں.انہیں ضائع نہیں ہونے دیتے.پس یا د رکھو کہ جو شخص لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ

Page 68

کا دعوی کرے اور بائیں نماز کا تارک ہو اور قرآن کریم کی اتباع میں سستی کرے ، وہ اپنے اس لا اله الا اللہ کے دعوئی میں سچا نہیں جیسا کہ یہ آیت ظاہر کرتی ہے.اس کے بعد حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اقرار کے ساتھ ہمیں ضرورت پڑتی ہے کہ ہم قرآن شریف میں دیکھیں کہ آپ کس درجہ کے انسان تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بلند معلوم کرنے کے لئے مومنوں کو دو آیتیں جو ادنیٰ تعداد شہادت کی ہے، سامنے رکھنی پڑتی ہیں.ایک جگہ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ اور دوسری جگہ فرمایا - كَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيماً.اب غور کرو کہ اللہ تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو عظمتوں کا ذکر کیا ہے.ایک تو عظیم اخلاق پر ہونا ہی بڑا ہوتا ہے پھر جس کو اللہ بڑا بنائے اس کا خیال کرو کہ وہ بڑائی کس شان کی ہوگی.اللہ تعالیٰ جو کامل الصفات ہستی ہے اس کی طرف سے جس کو بڑائی عطا ہو وہ بڑائی ایسی نہیں ہو سکتی جس کا وہم یا اندازہ ہو سکے اور یہ بڑائی ایک تو اخلاق میں عطا کی.اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثل اخلاق کا اندازہ ہو سکتا ہے.پھر عظیم فضل آپ پر کیا.اب غور کرو جس کو یہ دو عظمتیں حاصل ہوں اور فضل عظیم اور خلق عظیم والا جن کا مقتدا ہو.انہیں کسی اور کی ریجھ ہی کیا ہو سکتی ہے ؟ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - پھر جو کتاب اللہ جل شانہ نے اس کامل انسان صاحب خلق عظیم و فضل عظیم پر نازل کی اس کے لئے دو گواہیاں میں پیش کرتا ہوں.ایک یہ کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا.اِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.اور پھر فرماتا ہے لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهِ.پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا آپ وعدہ فرمایا اور دوسری آیت میں یہ فرمایا کہ باطل اس پر اپنا اثر نہیں کر سکتا.اب جس کتاب کا محافظ حق سبحانہ ہو اور وہ آئندہ کے لئے پیشگوئی کرتا ہے کہ اس کو باطل کرنے والی چیز نہیں بھیجیں گے تو ہمیں سائنس کا کیا ڈر اور کسی اندرونی یا بیرونی حملے کا کیا خوف؟ میں نے ہمیشہ یہ ظاہر کیا ہے کہ جس قدر سائنس اور دیگر علوم ترقی کریں گے اسی قدر

Page 69

۶۳ قرآن مجید کے کمالات کا اظہار ہو گا.اس کتاب کو لے کر ہمیں کسی حملے سے دنیا میں رہ کر گھبرانے کی حاجت نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے اور تجربہ نے بتادیا ہے کہ نہ اس میں تحریف ہوگی اور نہ یہ دنیا سے اٹھے گی.پس یہ کتاب کامل کتاب ہے اور یہی خالق فطرت نے بتا دیا ہے تو اس پر کسی حملہ کا ڈر نہیں اور نہ گھبرانے کی حاجت ہے.ہاں اگر ڈر ہے تو اس بات کا کہ بعض گھروں سے نکل کر دو سرے گھروں میں چلی جائے گی تو پچھلے بزرگوں کی روح کو کیا مال ہو گا.پس خوف ہے تو یہ ہے کہ کوئی اس کی اتباع سے نہ نکل جائے.موجودہ حالت میں میں دیکھتا ہوں کہ کچھ امراء ہیں کچھ علماء اور سجادہ نشین ہیں اور کچھ وہ نوجوان ہیں جو قوم کے لئے کالجوں میں تعلیم پانے کی تیاریاں کر رہے ہیں.جب عملی رنگ میں یہی لوگ مذہبی امور میں ست ہوں تو عوام مخلوق کا کیا حال ہو سکتا ہے.اس لئے سورۃ العصر میں نے پڑھی ہے اور میرا مطلب اس میں یہ ہے کہ زمانہ جس طرح پر تیزی سے گزر رہا ہے اسی طرح ہماری عمریں تیزی سے گزر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ شریف میں جہاں انسانی عمر کے اس طرح تیزی سے گزرنے کی طرف متوجہ کیا ہے.ساتھ ہی اس سورۃ میں اس کا علاج بتایا ہے کہ تمہیں زمانہ کی پروا نہیں اگر ہمار ا حکم مان لو.اس حکم کی تعمیل سے تم زندہ جاوید ہو جاؤ گے اور وہ یہ ہے کہ آپ مومن بنو اور اعمال صالحہ کرو.دوسرے کو مومن بناؤ اور حق کی وصیت کرد - حق کے پہنچانے میں تکالیف سے نہ ڈرو اور صبر و استقلال سے کام لو.اس علاج پر اگر مومن عمل کرے اور اس کو اپنا دستور العمل بنالے تو یقینا یقیناوہ ہمیشہ کی زندگی پالے گا.بہر حال یہ سورۃ العصر وہ سورت کریمہ ہے کہ جب صحابہ کرام آپس میں ملتے تھے تو اس کو پڑھ لیا کرتے تھے.آج تم اور ہم بھی ملے ہیں اور نہیں معلوم آئندہ ہمیں ملنے کا موقعہ ہو گایا نہیں.اس لئے میں نے اس سنت پر عمل کرنے کی نیت سے اس سورت کو پڑھا ہے اور میں نے چاہا ہے کہ وصیت الحق کے طور پر تمہیں سنادوں.سنو! میں اللہ تعالی پر ایمان رکھتا ہوں کہ وہ اپنی ذات میں یکتا، اپنی صفات میں بے ہمتا اپنے اسماء اور

Page 70

۶۴ افعال میں لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْيٌّ ہے.میں اللہ تعالٰی کے ملائکہ پر ایمان رکھتا ہوں جو تمام نیک تحریکوں کے محرک ہیں اور ان پر ایمان لانے کی یہی غرض ہے کہ ہر نیک تحریک پر انسان عمل کرے.میں اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں پر ایمان رکھتا ہوں خواہ ان کا ذکر قرآن مجید میں ہے یا نہیں.وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے راست باز بندے تھے اور انہوں نے مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا کلام اپنے اپنے وقت پر پہنچایا.میں اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہوں کہ تمام نبوتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئیں.بلکہ میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں اور بصیرت اور شرح صدر کے ساتھ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف تمام نبوتوں کے جامع اور خاتم تھے بلکہ آپ خاتم النبین ، خاتم الرسل اور خاتم کمالات انسانی تھے.یہ میرا یقین ہے کہ تمام انبیاء اور تمام اولیاء اور تمام انسانی کمالات کے آپ جامع اور خاتم ہیں اور اب آپ کے بعد میرا واہمہ بھی تجویز نہیں کرتا کہ کسی شخص میں ایسے کمالات ہوں.میں اس کے متعلق حضرت صاحب کا ایک شعر سناتا ہوں.< انکار ول و سکے آں شاہ دیں خادمان و چاکرانش را میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کمالات کے لئے جب ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کیسے پاک گروہ تھے تو یہ قصہ معلوم ہوتا ہے.تمہارا وجود اس گاؤں میں خود گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ احمد کا غلام بننے سے کیا فضل کرتا ہے.اسی طرح پر میں خدا کی تقدیر ، حشر و نشر پل صراط جنت و نار پر ایمان رکھتا ہوں.میں اب تم کو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ میں نے لمبا خطبہ نہیں سنایا.میری غرض یہ بھی ہے کہ میرے پھر تقریر کرنے تک اگر کوئی اور تمہیں تقریریں سنائیں یا باتیں بتائیں گے تو ہمارے مذہب اور معتقدات کا یہ معیار ہوگا.اگر اس کے موافق کوئی بات ہو تو ہماری طرف سے سمجھو اور اگر اس کے خلاف ہو تو وہ ہمارے عقائد کے مطابق نہیں.

Page 71

۶۵ اسلام چونکہ حق کے اظہار کے لئے آیا ہے جیسا کہ اس سورۃ سے ظاہر ہے اس لئے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تمہیں دین کی بہت سے باتیں پہنچائی ہیں وہاں ہم تم کو دنیا کی ایک بات سناتے ہیں مگر دنیا کی نہیں ہم اسے دین ہی سمجھتے ہیں اور دین ہی سمجھ کر کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے سارے دنیا کے کام بلکہ دین کے بھی سب کام امن پر موقوف ہیں.اگر امن قائم نہ رہے گا تو کوئی کام نہیں ہو سکے گا.جس قدر امن بڑھ کر ہو گا اسی قدر حق کا ابلاغ عمدہ طور سے ہو گا.اس واسطے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کے حامی رہے.آپ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی خود رہ کر عیسائیوں کی سلطنت میں جو حبشہ میں تھی صحابہ کرام کو رکھ کر ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہمیں کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے.اس زندگی کے فرائض میں سے امن ہے.اگر امن نہ ہو تو کسی طرح کا کوئی کام دین یا دنیا کا عمدگی سے نہیں کر سکتے.میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ امن کی کوشش کرو.امن کے لئے ایک تو طاقت کی ضرورت ہے جو گورنمنٹ کے پاس ہے.دوسرے نیک چلنی اور گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری کی جو تمہارا فرض ہے.میں اس امر کو کسی کی خوشامد کی غرض سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی غرض سے کہتا ہوں کہ امن پسند جماعت بنو تا کہ ہر قسم کی ترقیوں کا تم کو موقع ملے اور چین سے زندگی بسر کرو.اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرو اور اسی سے مانگو.یہ خوب یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پھول سکتا ہے.پس تم امن کے قائم رکھنے میں ہمیشہ گورنمنٹ کا وفاداری سے ساتھ دو.میں اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے اس احسان کا بدلہ اگر امن کے قائم کرنے کے لئے کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ ضرور دے گا.اور اگر خلاف ورزی کریں گے تو اس کے بد نتیجہ کا ضرور منتظر رہنا پڑے گا.پھر اس کے بعد ایک اور بات کہتا ہوں کہ باہم محبت کو بڑھاؤ اور بغضوں کو دور کرو اور محبت بڑھ نہیں سکتی جب تک کسی قدر تم صبر سے کام نہ لو اور صبر کرنے والے کے ساتھ

Page 72

آپ خدا تعالیٰ ہوتا ہے.اس واسطے صبر کرنے والے کو کوئی ذلت اور تکلیف نہیں پہنچ سکتی.(ایک مرتبہ آپ بیمار ہوئے اس حالت کرب و اضطراب میں آپ نے ایک وصیت عربی زبان میں لکھی.اس کا ترجمہ درج ذیل ہے.) یہ میری شہادت امانت ہے اس شخص کے لئے جو سنے یا دیکھے اور سمجھے.بعد اس کے کہ گواہ کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو اوپر اس کے.میں محتاج رب العالمین، نور الدین.اے خدا مجھ کو میرے نام کی مانند دین کا نور بنا دے.آمین.تحقیق اللہ تعالیٰ میرا رب عالم کا رب ہے.الرحمن ہے.الرحیم ہے.مالک یوم الدین ہے.اور تحقیق وہ الله أحدٌ.اَلصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ ہے.وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَإِنَّهُ بِكُل شَيْءٍ عَلِيمٍ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ الْقَادِرُ.فَقَالَ لِمَا يُرِيدُ.اَلسَّمِيعُ الْبَصِيرُ - كَلَّمَ اللهُ مُوسَى تَكْلِيمًا وَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى وَهُوَ الْغَنِيُّ مِنَ الْعَالَمِينَ.مستوی ہوا اوپر اپنے عرش کے.وَلَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْيٌّ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا وَ خَلْقًا وَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا وَ إِحْصَى كُلَّ شَيْنُ عَدَدًا يَعْلَمُ السِّرَّ وَاخْفَى أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ.عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ.وہ ایسا اول ہے کہ اس سے پہلے کوئی شے نہیں اور وہ ایسا آخر ہے کہ اس کے بعد کوئی شے نہیں.وہ ایسا ظاہر ہے کہ اس کے فوق کوئی شے نہیں.وہ ایسا باطن ہے کہ اس کے سوا کوئی شے نہیں.کوئی اس کی قضا کو لوٹانے والا نہیں ہے اور نہ کوئی اس کے حکم کو پیچھے ڈالنے والا ہے پیدہ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَتَمَّتْ كَلِمَةً رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاً لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا وَ لِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا غضب میں آتا ہے شرک و عصیان

Page 73

ہے.رضا مند اور فرح مند ہوتا ہے بندہ کی توبہ.لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ.اور باوجود ان باتوں کے وُجُوهُ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ- اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے.نازل ہوا بذریعہ روح الامین کے ہمارے مولا اور ہمارے رسول پر جو خاتم النبیین ہیں.اور اولاد آدم کے سرادر اور جہان کے واسطے رحمت ہیں.آدمیوں کی طرف بھیجے گئے اور عام کئے گئے طرف تمام آدمیوں کی.قَالَ تَعَالٰی قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إلَيْكُمْ جَمِيعًا.اور نازل کیا اچھا کلام اور وعدہ کیا کہ تحقیق خدائے تعالیٰ حافظ ہے اس کے لئے جیسا کہ فرمایا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ اورده ہدایت ہے اور رحمت ہے.شفا اور روح ہے.فضل ہے کفایت ہے اور تحقیق کافی ہوا.اور ملائکہ حق ہیں اور رسول حق ہیں اور کتابیں اللہ تعالیٰ کی اور وہ چیز جو پہلے نازل کی گئی حق ہیں.اور ہمیشہ سے ہے اللہ تعالیٰ رب ، رحیم، متکلم اور ہمیشہ رہے گا.وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَرَ : تَقْدِيرًا.اور قبر اور سوال اس قبر میں اور نشر اور حشر اجساد اور باب اور ایک فریق جنت میں ایک نارمیں اور صراط اور شفاعت اہل کبائر کے لئے چہ جائیکہ اہل صغائر.اور شفاعت واسطے رفع درجات کے حق ہے.جنت کی نعمتیں بھی حق ہیں اور وہ عطا غیر محدود ہے.اور آلام نار کے حق ہیں وَإِنَّ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ وَإِنَّ رَبَّكَ فَعَالُ لِمَا يُرِيدُ - اللہ تعالیٰ کی رحمت مسبوق بالغضب ہے.تحقیق وہ ارحم الراحمین احکم الحاکمین ، اکرم الاکرمین ہے.پھر اسلام مبنی ہے او پر پانچ چیزوں کے.تشہد.صلوۃ.زکوۃ.صوم.حج اور تحقیق نماز اور سوا اس کے جیسا کہ ثابت ہوا ہے تعامل اور سنت سے اور جیسا کہ ثابت ہوا مشرحاً موطا اور بخاری سے اور دیکھا ہے ان کو ہم نے مومنین میں اور یقین کیا ہے ہم نے کہ وہ طریقہ مومنین کا ہے اور فرمایا اللہ تعالی نے ک يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا - اور تحقیق اللہ سبحانہ تعالٰی نے جیسا کہ حکم کیا ہم کو اس چیز کی اتباع کرنے کا جو کہ نازل کی

Page 74

۲۸ ہماری طرف حکم کیا ہم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا جیسا کہ فرمایا قُل اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اور جیسا کہ حکم کیا خدا تعالٰی نے اپنی اطاعت کا حکم کیا اپنے رسول کی اطاعت کا اور اطاعت اولی الامر کا.پس فرمایا.اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ اور بلکہ فرمایا اطاعت والدین کی بات وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا.اور ضرور چاہئے مقدم رکھنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اور اطاعت کتاب اللہ کا اوپر اطاعت خلق کے اور اس کے رسول میں ایم کی اطاعت خاص اللہ تعالیٰ عز سلطانہ کی اطاعت ہے جیسا کہ فرمایا وَمَنْ يُطِعِ الرَّسُول فَقَدْ أَطَاعَ الله اور دوست رکھتا ہوں میں اتباع کرنا گر وہ سابقین اولین کا مهاجرین و انصار ہے.جیسا کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اَلسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ - پر تحقیق وہ لوگ اول ان شخصوں میں سے ہیں کہ مزکی ہوئے ہمارے حبیب اور ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تزکیہ کرنے سے.اور خلفائے راشدون ان میں سے ابو بکر و عمر و عثمان نہ تھے یہ اور نہ کوئی ان میں منافق کبھی.پس تحقیق اللہ تعالیٰ نے توصیف بیان کی منافقین کی کہ هَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا اور یہ لوگ ہیں نَالُوا مَا هَقُوا.اور یہ لوگ مصداق ہیں خدائے تعالیٰ کے اس ارشاد کے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ أمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الطَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ وَ هُمُ الْغَالِبُونَ.جیسا کہ ذکر کیا سورہ مائدہ میں.اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ان میں سے ہیں.ان کے نکاح میں آئیں بیٹی رسول کی حضرت فاطمہ بتول اور دوستی ان کی ایمان ہے اور بغض ان کا نفاق ہے اور وہ بھائی ہیں ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور بمنزلہ ہارون کے ہیں موسیٰ علیہ السلام سے اور انہیں صحابہ میں سے سردار ہیں حسن " مجتبی.زیادہ کر میرے قلب میں اے خدا محبت ان کی.رضی اللہ عنہ.پس تحقیق وہ مصداق ہیں -

Page 75

44 اس حدیث شریف کے کہ صلح کرائے گا اللہ تعالیٰ بہ سبب اس کے مسلمانوں کے دو گروہوں میں.اور دوست رکھتا ہوں میں اس کے بھائی حسین کو جو سردار ہیں جو انان اہل جنت کے مقتول ہوئے بحالت غربت، مظلوم شہید اور بغض رکھتا ہوں میں ان کے مقابلہ میں عنيد ذات الخيبة ہے.اس تحقیق حال یہ ہے کہ نہیں تعریف کی اس کی کسی نے بھلائی کے ساتھ بلکہ تا کی اس کی شرارت کی.اور دوست رکھتا ہوں میں عشرہ مبشرہ کو اور ست رکھتا ہوں میں اصحاب بدر کو.اور دوست رکھتا ہوں میں اصحاب بیعت الرضوان کو اور جو شخص کہ مقتول ہو ا جنگ احد میں اور تمام ان شخصوں کو کہ جن کی بشارت دی ہمارے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور پڑھا ہے ہم نے ان کو صحاح میں.بلکہ دوست رکھتا ہوں میں اس شخص کو بھی کہ جو اسلام لایا آپ کے ہاتھ پر کہ جو کریم ہے اور مرگیا اوپر اسلام کے مثلا معاہ یہ مغیرہ بن شعبہ.نہیں جھوٹ بولا ان میں سے کسی نے امر دین میں رسول اکرم سے.اور نہیں تھا کوئی ان میں سے بھرا.اور چھوڑ دیا ہے میں نے ، جب سے ہوش سنبھالا روافض- شیعہ - خوارج معتزلہ کو اور ایسے مقلد جامد کو جو چھوڑنے والے ہیں نصوص قرآن و سنت کو اور احادیث صحیحہ ثابتہ کو واسطے ایک شخص کے قول کے.والْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اور باوجود ان باتوں کے دوست رکھتا ہوں میں ابو حنیفہ - مالک - شافعی" - احمد - محمد اسماعیل بخاری اور اصحاب سنن.فقہا اور محدثین کو.رحم کرے اللہ تعالیٰ ان پر.اور تعظیم کرتا ہوں میں اس چیز کی جو اوپر ان کے ہے اور ان کی اتباع کرنے کو میں دوست رکھتا ہوں.پس تحقیق وہی لوگ سردار ہیں اور شاکرتا ہوں میں او پر ان کے بہتری کی اور محتاج ہوں میں ان کی تحقیقات کی طرف.اور باوجود اس کے تقدم کرتا ہوں میں جس شخص کو مقدم کیا اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے.اور اعتقاد رکھتا ہوں میں یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ان کے اپنی طرف رفع کرنے سے پہلے وفات دی جیسا کہ وعدہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اِنِّي مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَی اور نہیں قتل ہوئے اور نہیں صلیب دئیے گئے.اور ثابت ہوا رفع

Page 76

ان کا بہ سبب دلیل قول اللہ تعالٰی کے بَل رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ.اور مقدم کیا اس پاک ذات اللہ جل شانہ نے اپنے وعدہ میں ان کی وفات کو.اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مقدم کیا ہے.ہم بھی مقدم کرتے ہیں.جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے موخر کیا ہم بھی موخر کرتے ہیں.پھر فرمایا اللہ جل شانہ نے اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَانَّا اَحْيَاء وَاَمْوَاتًا اور فرمایا اللہ تعالی نے مَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ.پس گزر گئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی جس طرح کہ گزر گئے باقی رسول علیہم الصلوۃ والسلام- اور یہ بات کہ حضرت عیسی بن مریم جو کہ اترنے والے ہیں اترے.صلوٰۃ اللہ کی اوپر ان کے اور سلام.پس تحقیق اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہمارے لئے قرآن شریف کی سورہ نور میں کہ اللہ تعالی خلیفہ کرے گا اس شخص کو جو خلیفہ ہو گا ہم میں سے.اور تصریح فرمائی ہے ہمارے رسول نے جو کہ سردار ہیں اولین و آخرین کے اور سردار ہیں اولاد آدم علیہ الصلوۃ و السلام کے کہ تحقیق امام ہو گا تمہارا تم میں سے نازل ہونے والا.اور شہادت دی اللہ جل شانہ اور اس کے ملائکہ نے اور صاحب علم نے کہ تحقیق وہ وہی ہے.اور شہادت دی شمس و قمر نے کہ تحقیق وہ مہدی ہے.اور طاعون اور جدب اور قبال نے کہ تحقیق وہ مرسل ہیں جیسا کہ فرمایا وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَهُمْ بِالْبَاسَاء وَالضَّرَّاء اور فائز ہونا اس کا اور فلاح پانا اس کا مقابلہ میں مخالفوں کے آریہ - براہمہ - نصاری - سکھ.علماء اور متصوفین اور حکام اور اقارب اس کے اور بنی عم اس کے ببكرة ابیھم اس طرح کہ وہی مطاع ہے اور پائے گا تو اس کو اور نصرت اس کی کو کہ تحقیق وہ اوپر حق کے ہے.تم کلامه اس مقدمہ میں میں نے جو جو کچھ لکھنا چاہا تھا نیز سلسلہ ترتیب جس تفصیل کا مقتضی ہے گنجائش اوراق اس کے لئے قلیل اور لکھنے کی قابل باتیں بہت طویل ہیں.لہذا یہاں تک

Page 77

<1 پہنچ کر مقدمہ گویا بیچ میں ہی چھوڑتا ہوں...دامان نگه تنگ و گل حسن تو بسیار گل چین بهار تو ز دامان گله دارد (مؤلف)

Page 78

الهی سمن نمال نیچه ذکر خفی گردان دهانم را گویا بحرفے خبر شائے خود زبانم را معرفت ور جو تیار خاطرم بنشان معطر کن چو نخل از ہوئے وحدت مغز جانم را دست ادب را کوته از من گاه نزدیکی ره چونے ہنگام دوریها رسائی زبانم را غفلت سرا از شهرت بسیار گم نامم دریس بلند آوازه گردان چون قیامت داستانم را بمره گان سیہ چشمان گره از کار من بکشا به بند از تار زلف عنبریں مویاں میانم را نمیخواهم که در عالم دلے از من غمیں باشد ز فیضِ دوستی آگاه گرداں دشمنانم را

Page 79

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم نوردین اعظم M طفلی و عنفوان شباب ۵۱۲۵۸ یا ۱۸۴۱ ء یا سمت ۹۸ بکرمی کے قریب میرا تولد کا زمانہ ہے.ابتدا میں میں نے اپنی ماں کی گود میں قرآن کریم پڑھا ہے اور انہیں سے پنجابی زبان میں فقہ کی کتابیں پڑھیں اور سنیں.کچھ حصہ قرآن شریف کا والد صاحب سے بھی پڑھا مگر وہ عدیم الفرصت تھے پھر مجھے بسبب ان تعلقات کے جو لاہور میں تھے (اور وہ یہ تھے کہ ہمارا ایک مطبع قادری نام کابلی مل کی حویلی میں تھا ) ۷۰ ہجری کے قریب لاہور میں آنا پڑا.یہاں آکر مجھے خناق کا مرض ہوا اور حکیم غلام دستگیر لاہوری ساکن سید مٹھا( جن کا تعلق میرے بھائیوں سے بہت تھا اور میرے بھائی طب میں ان کے شاگر د بھی تھے.میرا علاج کرتے تھے.اس وقت اگر چہ طبی تعلیم کی تحریک میرے دل میں پیدا ہوئی مگر میرے بھائی صاحب نے مجھے منشی محمد قاسم کشمیری کے پاس فارسی کی تکمیل کے لئے سپرد کیا.انہوں نے مجھ پر بہت محنت کی.بڑی مہربانی سے رزم اور بزم اور بہار یہ مضامین لکھ دیتے اور مجھ سے لکھواتے.میرزا امام و سروی کے سپرد اس لئے کیا کہ میں خوش خطی سیکھوں مگر مجھ کو فارسی زبان سے کوئی دلچسپی پیدا نہ ہوئی اور میں افسوس کرتا ہوں کہ مجھے ایک بڑا وقت ایسی زبان کے سیکھنے میں خرچ کرنا پڑا جس کے ساتھ بلحاظ دین اور ضرورت سلطنت مجھ کو کچھ بھی دلچسپی نہ تھی مگر اس میں میرے بھائیوں کا بھی قصور نہیں معلوم ہو تا کیونکہ اس وقت کی موجودہ حالت کسی جدید تحریک کا باعث بن ہی

Page 80

نہیں سکتی تھی.خوش خطی کے لئے ا- ب- ج- دکا لکھنا مہینوں کا سفر تھا اور چونکہ میرے دماغ کو ہاتھ سے کسب کرنے کی بناوٹ نہیں بخشی گئی تھی.میں اس فن سے بھی کو رے کا کو برا رہا.رسائل طغراء کے عجیب در عجیب نکات اور امام ویروی صاحب کے بے نظیر قطعات اس عمر میں میری دلچسپی کا باعث نہ تھے.مرزا امام و یروی صاحب مہرکنی کے کسب میں بھی کمال رکھتے تھے مگر مجھے اس سے بھی محروم رہنا پڑا.یہ میرے دونوں استاد شیعہ مذہب کے پابند تھے مگر مباحثات سے ان دونوں بزرگوں کا تعلق کم تھا.مجھے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ شیعہ مذہب سے میں آگاہ ہو گیا.پس اس محنت کا اگر کوئی نتیجہ سمجھا جائے تو صرف یہ تھا کہ میری معلومات میں شیعہ مذہب کے جاننے کی ترقی ہوئی.اسی زمانہ میں حکیم اللہ دین لاہوری سے نیاز حاصل ہوا مگر فارسی اور خوش خطی کے شغل نے موقع نہ دیا کہ کوئی استفادہ کرتا.۷۲ ہجری میں مجھ کو وطن آنا پڑا اور میاں حاجی شرف الدین فارسی کے استاد مقرر کئے گئے مگر دلچسپی کے نہ ہونے نے یہ فائدہ پہنچایا کہ مجھے سبق یاد کرنے کی محنت سے بچالیا اور میرے قومی خوب مضبوط رہے.غالبا اس وقت اگر کوئی محنت کا علم پڑھتا تو میرے دماغ کو تکلیف ہوتی اس لئے اس کا بھی شکر ہی ادا کرتا ہوں.تھوڑے عرصہ کے بعد میرے بھائی سلطان احمد صاحب بھیرہ میں تشریف لائے اور انہوں نے باضابطہ عربی کی تعلیم دینی شروع کی.خدا تعالیٰ ان کا بھلا کرے انہوں نے صرف میں بناؤں اور تعلیلات کا گورکھ دھند ا میرے سامنے نہ رکھا.بہت سادہ طور پر تعلیم شروع کی جو میرے لئے مفید اور دلچسپ ثابت ہوئی.میں نے بہت ہی جلد یہ رسائل پڑھ لئے.جناب الہی کے انعامات میں سے یہ بات تھی کہ ایک شخص غدر میں کلکتہ کے تاجر کتب جو مجاہدین کے پاس اس زمانہ میں روپیہ لے جایا کرتے تھے ، ہمارے مکان میں اترے.انہوں نے ترجمہ قرآن کی طرف یا یہ کہنا چاہیے کہ اس گراں بہا جواہرات کی کان کی طرف مجھے متوجہ کیا جس کے باعث میں اس بڑھاپے میں نہایت شادمانہ زندگی بسر کرتا ہوں.ذَلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ.یہ تو کلکتہ کے تاجر سے فائدہ ہوا.پھر

Page 81

" ایک بمبئی سے تاجر آیا جس نے تقویۃ الایمان اور مشارق الانوار کی سپارش کی کہ میں ان دونوں کتابوں کو پڑھوں.اردو زبان مجھے نہایت پسند تھی اور میری دل لگی کا موجب.اس لئے میں نے ان دونوں کو خوب پڑھا اور تھوڑے دنوں کے بعد لاہور آگیا.عربی تو پڑھتا ہی تھا.حکیم الہ دین صاحب لاہوری مقیم گئی بازار میرے استاد مقرر ہوئے اور وہ مجھے مو جز پڑھاتے تھے.عربی عبارت نہایت صحیح پڑھنا اور تلفظ میں بڑی احتیاط کرنا یہ ان کو ہمیشہ مد نظر تھا.چند روز کے بعد مجھ کو بھیرہ آنا پڑا اور اس دلچسپ علم کے درس سے محروم ہوا.یہاں سے ایک خاص تقریب کے باعث مجھے راولپنڈی جانا پڑا اور نارمل سکول کی تعلیم میرے ذمہ لگائی گئی.غالبا یہ ۶۵۸ کا ذکر ہے.میری عمر اس وقت اٹھارہ برس کے قریب قریب ہو چکی تھی.منشی محمد قاسم صاحب کی تعلیم کی قدر اس وقت معلوم ہوئی کیونکہ نارمل سکول میں سہ نثر ظہوری“ اور ”ابو الفضل " کے پڑھنے میں میں مدرسہ میں طلباء کا سرتاج تھا.مولوی سکندر علی نام ہیڈ ماسٹر اتنے خوش ہوئے کہ میری غیر حاضری کو بھی معاف کر دیا.اس غیر حاضری میں مجھے یہ فائدہ ہوا کہ حساب اور جغرافیہ پڑھنے کے لئے میں نے ایک آدمی کو نوکر رکھ لیا اور بجائے اس ذہاب و ایاب کے جو مدرسہ کے جانے میں ہو تا تھا.میرا وقت اقلیدس اور حساب اور جغرافیہ کے لئے مفت بچ جاتا تھا.کیونکہ نارمل سکول ہمارے مکان سے دو تین میل پر تھا.تقسیم کسور مرکب کے لئے میں نے شیخ غلام نبی صاحب نام ہیڈ ماسٹرلون میانی کو ٹھیکہ دار بنایا اور وہی میں نے سب سے پہلے سیکھنی چاہی.اس کا سیکھنا تھا کہ سارے مبادی الحساب ہر چہار حصص کے پڑھانے میں آخر کو ہم شیخ صاحب کے بھی استاد ہو گئے.اقلیدس کے لئے منشی نہال چند ساکن ضلع شاہ پور کو منتخب کیا.انہوں نے مجھے نہایت محبت سے پہلے مقالہ کی چند شکلیں پڑھائیں.پھر مجھ میں محض خدا تعالی کے فضل سے سارے تعلیمی حصہ کو خود بخود پڑھنے کا فہم پیدا ہو گیا اور میں ایک امتحان میں جس کو تحصیلی امتحان کہتے تھے ایسا کامیاب ہوا کہ پنڈ دادن خان کا ہیڈ ماسٹر ہو گیا.منشی محمد قاسم صاحب کی تعلیم اس وقت میرے لئے بڑی مفید ہوئی کیونکہ پنڈ دادن خان میں فارسی مدرس میری

Page 82

مخالفت کے لئے اپنے شاگردوں کو امتحانا بھیجا کرتے تھے اور وہ فارسی کی معمولی باتوں کو نہایت عظمت کی نگاہ سے دیکھ کر مجھ سے پوچھتے تھے اور میں خوش ہو تا تھا.عربی کی تعلیم میرے بھائی صاحب نے میری ہیڈ ماسٹری کے وقت پھر شروع کرادی اور میں الفیہ اور منطق کے رسائل اور شرح عقائد وہاں پڑھ چکا تھا.لیکن آخر چار برس کے بعد وہ نوکری کا تعلق خدا تعالیٰ کے محض فضل سے ٹوٹا اور میرے والد صاحب نے مجھ کو تعلیم عربی کی تکمیل کے لئے تاکید فرمائی.مولوی احمد الدین صاحب جو بگے والے قاضی صاحب کے نام سے مشہور تھے ، میرے استاد ہوئے.وہ میرے بھائیوں کے بھی استاد تھے.مگر ان کو جامع مسجد کے بنانے کے لئے ایسی فکر لگی ہوئی تھی کہ ایک جگہ ٹھرنا ان کے لئے محال تھا.میں ایک سال ان کے ہمراہ سفر اور حضر میں رہا اور عربی زبان کی معمولی درسی کتابیں نہایت تکلیف سے پڑھیں اور تنگ آکر اپنے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب سے کہا.وہ مجھے لاہور میں لائے اور حکیم محمد بخش اور چند اور اساتذہ کے سپرد کر کے بھیرہ تشریف لے گئے.یہاں اب ہمارا مطبع کا تعلق کوئی نہ تھا.بھائی صاحب کے جاتے ہی ایک طالب علم کی ترغیب سے ہندوستان کو چلا گیا اور بمقام رامپور روہیل کھنڈ پڑھنا اختیار کیا.رام پور اور لکھنؤ بـ ہم تین آدمی تھے.ایک کا نام مولوی محمد مصطفیٰ تھا.ایک مولوی علاء الدین اور ایک میں خود تھا.ہم نے سفر میں پہلے یہ تجویز سوچی کہ ایک کو امیر بنانا چاہئے اور سفر کے اصل مقصد کو مد نظر رکھ کر باقیوں کو اس کی رائے کی پابندی اور فرمانبرداری چاہئے.یہ قرار پایا کہ ایک شہر میں تین برس تک رہیں.(کیونکہ عربی علوم پڑھنے کے لئے یہ مدت کافی سے بھی زیادہ تھی.) اور ایسے شہر میں رہیں جس میں صرف دو تین عالم نہیں بلکہ بہت زیادہ عالم ہوں تا کہ مختلف علوم میں کافی اور بآسانی آگاہی حاصل ہو سکے.کاندھلہ رستہ میں پڑا.جب وہاں پہنچے تو مولوی نورالحسن ایک پاک صورت معمور الاوقات مجھے ملے.انہوں نے مجھ سے رہنے

Page 83

،، کے واسطے کہا مگر میں نے اس خیال سے کہ ہمارا اصل ارادہ اب رامپور کا ہو چکا ہے.وہاں ٹھہرنا پسند نہ کیا.میں مولوی نور الحسن کے لئے دعا کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے بہت ہی محبت واخلاص سے فرمایا جو فرمایا سفر بلار ئیس کے بہتر نہیں.خدا جانے مسلمانوں نے کیوں اس کی پروا کم کر دی ہے.ہم رامپور کی ایک ایسی ویران مسجد میں جو کچھ بڑی نہ تھی.تینوں جا ٹھرے.جب کھانے کا وقت آیا تو ایک لڑکی ہم تین آدمیوں کی روٹیاں لائی.اس لڑکی کی عمر غالبا سات آٹھ سال کے درمیان تھی.کھانا کھا کر ہم شہر میں علماء کی جستجو میں پھرتے رہے.شام کا وقت آیا تو اسی لڑکی نے پھر کھا نالا کر دیا.دوسرے دن دوپہر کو بدستور لائی اور شام کو بھی.پھر تیسرے دن ادھر روٹی دی ادھر یہ کہا کہ میری اماں کہتی ہے کہ آپ دعا کریں کہ میرا خاوند میری طرف توجہ کرے.میں اس کے خاوند کا نام جانتا ہوں.میں اس کے خاوند کے پاس پہنچا اور بقدر اپنی اس طاقت کے جو مجھ کو حاصل تھی.اس کو خوب وعظ کیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنی بیوی کو رعایت سے بلایا اور مجھ کو جناب الہی کے حضور شکر کا موقع ملا.اسی دن شام کے قریب میں اکیلا پنجابیوں کے محلہ کی ایک گلی میں ہو کر گزرا.وہاں ایک مختص حافظ عبد الحق راستہ میں مجھ کو ملے.انہوں نے فرمایا کہ آپ میری مسجد میں آکر رہیں.میں نے کہا میں اکیلا نہیں ہوں ہم تین آدمی ہیں.انہوں نے تینوں کی ذمہ داری اٹھائی.تب میں نے کہا کہ ہم پڑھنے کے لئے آئے ہیں.ایسا نہ ہو کہ ہم لوگوں کے گھر میں روٹیاں مانگتے پھریں.انہوں نے کہا ایسا نہ ہو گا.پھر میں نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ محلہ کے لڑکے ہمارے سپرد کر دیں.انہوں نے کہا یہ بھی نہ ہو گا.پھر میں نے کہا کہ ہم کو کتابوں اور استادوں کی فکر ہے.انہوں نے کہا کہ میں مدد دونگا.فجزاه الله خيرا.انہوں نے ایک سال اپنے اس معاہدہ پر بڑی عمدگی سے گزارا - رحمه الله تعالی بلکہ جن دنوں میں دوبارہ ایک سال حکیم علی حسین صاحب کی خدمت میں رہا تو ان دنوں میں بھی حافظ عبد الحق صاحب اور اس محلہ کے لوگ میرے ساتھ بدستور مروت کرتے رہے.میں ان کے اور ان کی اولاد کے لئے دعا کرتا ہوں.ابتدائے درود رامپور میں مجھے یہ فکر تھی کہ میرا پچھلا پڑھا

Page 84

۷۸ ہوا آیا یہاں آکر مفید ہو گا یا نہ ہو گا اور اب مجھے کہاں سے شروع کرنا چاہے.اس لئے میں فکر مندہی رہتا تھا.جو صاحب ہمیں ترغیب دے کر لائے تھے وہ تو اس بیکاری سے تنگ آکر رامپور چھوڑ کر خلاف وعدہ چلے گئے.اور تعجب ہے کہ ہم سے انہوں نے پوچھا بھی نہیں.اس لئے ہم دو ہی رہ گئے.ان دنوں میں میں طالب علموں میں پھرا کر تا تھا.اتفاقاً ایک دن دیکھتا ہوں کہ بہت سے طالب علم ایک جگہ آپس میں مباحثہ کر رہے ہیں.جس سوال پر جھگڑا تھا.میں نے اس پر بہت غور کیا تو ایک ایسا جواب میرے خیال میں آیا جس کو میں یقینا کافی جواب سمجھتا تھا.وہ سوال اور جواب دل میں رکھ کر میں نے سوچا کہ اگر آج ہم اس سوال اور جواب میں جیت گئے تو اس وقت کا پڑھا بابرکت ثابت ہو گیا.نہیں تو ہمیں اب کیا ڈر ہے.انہیں میں سے جو لائق طالب علم ہے اس کو استادی کے لئے پسند کرلیں گے.میں نے بلند آواز سے کہا.میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں.اس پر بہت سے طالب علموں نے نفسی اڑائی مگر پنجابی طالب علم میرے طرف دار ہو گئے.انہوں نے کہا کہ پہلے امتحان لیا جائے کہ اس نے سوال کو سمجھا ہے یا نہیں.اگر سوال سمجھا ہے تو اس کے جواب کو توجہ اور قدر سے بنا جائے کیونکہ مباحثہ تو ہو ہی رہا ہے.اس پر وہ مباحثہ کسی قدر ٹھنڈا ہوا.میں نے کہا کہ کوئی بڑا نحوی حکم مقرر کرو.ایک بزرگ مولوی غلام نبی صاحب کو سب نے تسلیم کیا کہ وہ نحو کے پورے ماہر ہیں.ہم سب اٹھے اور ان کی خدمت میں چلے گئے.میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر وہی بڑے عالم ہیں تو انہیں کو استاد بنالیں گے.مولوی غلام نبی صاحب نہایت خوبصورت سفید ریش باد قار آدمی تھے.میں نے دیکھا کہ انہوں نے کچھ حقارت کے لہجے میں فرمایا کہ تم لوگ کس طرح آئے.میں نے بڑھ کر کہا کہ ایک سوال ہے اور اس کا جواب ہے.آپ کو حکم بنانا چاہتے ہیں.انہوں نے بیٹھنے کی اجازت دی.وہ سوال اور اس کا جواب مجھے سے سن کر کہا کہ مولوی جی ( مجھ کو اس وقت اپنے متعلق ”مولوی جی" سننے سے بھی بہت خوشی ہوئی کہ میرا پچھلا پڑھا ہوا ضائع نہیں ہوا.حالانکہ میں نے شرح جامی نہیں پڑھی تھی.الفیہ اس کے بدلہ میں پڑھا تھا، یہ سوال عبد الرحمن میں جو جامی کا حاشیہ ہے لکھا ہے

Page 85

29 اور اس میں اس سوال کے دو جواب بھی دیئے ہیں.پھر وہ دونوں جواب بھی سنائے.مگر وہ جواب بہت ہی کمزور تھے جن کے متعلق مولوی صاحب نے خود فرمایا کہ یہ بہت کمزور ہیں اور آپ کا جواب بہت صحیح ہے اور یہ لوگ تو آپ سے کبھی نہ مانتے جب تک یہی جواب نہ سنتے جو کتاب میں لکھے ہوئے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سوچ کر جواب دیا ہے.مجھ کو مولوی صاحب کی تقریر سے خوشی ہوئی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب شرح جامی تک کی کتابیں میں نہیں پڑھوں گا.اس واسطے ملاحسن.مشکوۃ.اصول شاشی شرح وقایہ اور میبذی مختلف استادوں سے شروع کیں.میبذی پڑھنے میں مجھے کو بڑا ہی تعجب ہوا کرتا تھا کیونکہ جس چیز کو میں نہیں سمجھتا تھا اس کو ہمارے استاد بھی نہیں سمجھتے تھے.اس واسطے جتنی کراہت ممکن تھی میرے دل میں اس کتاب کی نسبت پیدا ہو گئی.یہاں آکر مجھے اتنا افسوس ہوا کرتا ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمان تعلیمی درسی کتابیں سوچ سمجھ کر مقرر کیا کریں اور پھر ان کے امتحان بھی ہوا کریں اور اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ طالب علم دین و دنیا دونوں میں ترقی کر سکیں تو قوم پر کتنا بڑا احسان ہو.الگ الگ درس گاہیں بڑی دقت میں ڈالتی ہیں.سب سے بڑی دقت جو مجھ کو محسوس ہوئی یہ ہے کہ نہ تو استاد صلاح دیتے ہیں کہ کیا پڑھنا چاہیئے اور نہ طالب علم اپنے حسب منشاء آزادی کے ساتھ اپنے ان قومی کے متعلق جو خدا تعالیٰ نے عطا کئے ہیں کسی کتاب کے انتخاب کی جرات کر سکتا ہے نیز اخلاق فاضلہ کی تعلیم و تاکید نہیں ہوتی.میں اپنی تحقیق سے کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں کسی استاد میں یہ بات نہ دیکھی.ان باتوں کا رنج مجھے اب تک بھی ہے.کس قدر رنج ہوتا ہے جب کہ میں غور کرتا ہوں کہ اس وقت ہمارے افعال اقوال ، عادات اخلاق پر کبھی ہمارے معلموں میں سے کسی نے نوٹس نہ لیا.بلکہ عقائد کے متعلق بھی کبھی کچھ نہ کہا.مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ مشکوۃ میں ہی ہمارے اخلاق پر توجہ دلائی گئی ہو.رامپور میں تین باتیں بڑی قابل غور ہیں.ایک یہ کہ شاہ جی عبد الرزاق صاحب ایک بزرگ تھے.میں ان کی خدمت میں اکثر جایا کرتا تھا.ایک زمانہ میں مجھ سے سستی ہوئی اور

Page 86

.کچھ دنوں کے بعد انکی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ نورالدین! تم بہت دنوں میں آئے.اب تک کہاں تھے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت ہم طالب علموں کو اپنے درس تدریس کے اشغال سے فرصت بھی کم ہی ملتی ہے.کچھ مجھ سے سستی بھی ہوئی.فرمانے لگے کبھی تم نے قصاب کی دکان بھی دیکھی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں اکثر اتفاق ہوا ہے.فرمایا کہ تم نے دیکھا ہو گا کہ گوشت کاٹتے کاٹتے جب اس کی چھریاں کند ہو جاتی ہیں تو وہ دونوں چھریاں لے کر ایک دوسری سے رگڑتا ہے.چھریوں کی دھار پر جو چربی جم جاتی ہے اس طرح رگڑنے سے وہ دور ہو کر چھریاں پھر تیز ہو جاتی ہیں اور قصاب پھر گوشت کاٹنے لگتا ہے اور اسی طرح تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد چھریوں کو آپس میں رگڑ کر تیز کرتا رہتا ہے.میں نے عرض کیا کہ ہاں حضرت یہ سب کچھ دیکھا ہے مگر آپ کا اس سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا کچھ ہم پر غفلت کی چربی چھا جاتی ہے، کچھ تم پر.جب تم آجاتے ہو تو کچھ تمہاری غفلت دور ہو جاتی ہے کچھ ہماری اور اس طرح دونوں تیز ہو جاتے ہیں.پس ہم سے ملتے رہا کرو اور زیادہ عرصہ جدائی اور دوری میں نہ گزارا کرو.ان کی اس بات نے مجھے بہت ہی بڑے بڑے فائدے پہنچائے اور ہمیشہ مجھ کو یہ خواہش رہی کہ نیک لوگوں کے پاس آدمی کو جاکر ضرور بیٹھنا چاہیے.اس سے بڑی بڑی ستیاں دور ہو جاتی ہیں..دوسری بات جو رامپور میں بڑی عجیب نظر آئی یہ تھی کہ ایک طالب علم میرے دوست تھے.وہ پڑھنے میں کچھ ست ہو گئے.میں نے ان سے وجہ دریافت کی.تو کہا کہ میں ایک حسین لڑکے پر عاشق ہو گیا ہوں.بدوں اس کے دیکھے دل بے تاب رہتا ہے اور اس کی ملاقات کسی طرح میسر نہیں ہو سکتی.اس لئے پڑھا نہیں جاتا.میں یہ سن کر بہت دلیری کر کے اٹھا اور اس لڑکے کے پاس چلا گیا.اپنے دوست کو بھی ہمراہ لے گیا اور اس لڑکے سے کہا کہ یہ ہمارے دوست ہیں.آپ پر عاشق ہو گئے ہیں.اس لئے ان سے پڑھنے میں محنت نہیں ہوتی اور میری یہ خواہش ہے کہ ان کے پڑھنے کا حرج نہ ہو.لہذا میں انکی سفارش کرتا ہوں کہ یہ عصر کے بعد آپ کے پاس آجایا کریں گے اور شام تک آپکی دکان پر بیٹھ کر مغرب کے

Page 87

Al وقت اٹھ کر چلے جایا کریں گے.آپ میری سفارش سے اس بات کو منظور کرلیں.میری اس جرأت پر اس شریف لڑکے کو بڑا ہی تعجب ہوا اور پھر کہا کہ بہت اچھا آجایا کریں.اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ فی اللہ کام کرتا ہے.خدا تعالیٰ اس میں ضرور برکت دیتا ہے.تیسری بات یہ ہے کہ مجھے کتابوں کا بہت شوق تھا.ایک بزرگ شاہ صاحب میری کتابیں لکھا کرتے تھے اور وہ شاہ صاحب کتابت میں بہت کچھ کماتے تھے مگر سب کیمیا میں لگا دیتے تھے.ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ دس روپیہ مجھ کو دے دیں اور میں آئندہ کتاب نہ لکھوں گا بلکہ نقد روپیہ آپ کو ادا کردوں گا.میں نے کہا کیوں؟ کہا میں اٹھارہ برس کا تھا تب سے مجھ کو کیمیا کے نسخوں کا شوق ہے.میں کیمیا کے معاملات میں خوب تجربہ کار ہوں.اب مجھ کو کیمیا کا اصل نسخہ مل گیا ہے.چاندی بناؤں گا اور آپ کے روپے ادا کردوں گا.میں نے ان کو دس روپے دے دیئے مگر بہت دنوں تک شاہ صاحب ملے نہیں.ایک روز میں اس مسجد میں چلا گیا جہاں وہ امامت کراتے تھے.مگر وہ مسجد میں نظر نہ آئے.جس حجرہ میں وہ رہتے تھے اس کو دیکھا تو دروازہ بند ہے.اندر سے زنجیر لگی ہوئی ہے.آواز دی مگر اندر سے جواب نہ آیا.دروازہ کو کھٹکھٹایا دھکا دیا.کواڑ کچھ کمزور تھے.دروازہ کھل گیا.شاہ صاحب چار پائی پر بیٹھے تھے.مجھ کو دیکھ کر چونک پڑے.مجھ سے کہنے لگے.دیکھئے ہم نے کیمیا تو بنائی تھی.یہ کہہ کر ایک مٹی کا برتن اٹھا لائے.اس میں جلی ہوئی کوئی چیز تھی.کچھ ذرات سے بھی چمکتے تھے.کہا چاندی تو بنے ہی لگی تھی.مگر ہم نے کچھ ستی کی.اچھی طرح برتن کو بند نہیں کیا تھا.خیر اب تو کتاب لکھے دیتا ہوں مگر آئندہ نہ لکھوں گا.مجھ کو کیمیاگری سے بڑی ہی نفرت ہو گئی.اس سے پہلے میں راولپنڈی سے بھیرہ کو آتا تھا.ایک مسجد میں میں نے نماز پڑھی وہاں دو آدمی سکندر نامہ کے کسی شعر پر الجھے ہوئے تھے.میں نے نماز پڑھ کر ان کا فیصلہ کیا اور شعر کے کچھ معنے بتائے.جس کو وہ دونوں مان گئے.ان میں ایک نوجوان ہمارے گھر چلا آیا اور پڑھنا شروع کیا.وہ ہمارے گھر رہتا تھا اور پڑھتا تھا.عربی میں بھی اس کی اچھی استعداد ہو گئی تھی.بہت دنوں کے بعد ایک روز اس کے دادا آئے ہم نے انکی

Page 88

사 مناسب مدارات کی.انہوں نے بڑا شکریہ ادا کیا.اور کہا کہ ” آپ نے ہمارے ساتھ بڑا سلوک کیا اور میرے پوتے کو عالم بنا دیا.میں اس کے عوض میں آپ کو کیمیا سکھاتا ہوں مجھ کو چونکہ اپنے والد صاحب سے بہت ہی محبت تھی اور کوئی بات بھی ان سے نہیں چھپا تا تھا.میں نے جا کر والد صاحب سے عرض کیا کہ اس لڑکے پر واقعی ہم نے بڑا احسان کیا ہے.اب اس کے دادا صاحب آئے ہیں.وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں کیمیا بتائے دیتا ہوں.آپ کا اس میں کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اس لڑکے کے دادا سے کہو کہ بہتر یہ ہے کہ آپ ہم کو دس ہزار روپیہ بنا کر دے دیں.کیمیا کے سیکھنے کی ضرورت نہیں.میں نے ایسے ہی ان سے کہ دیا.وہ تو چلے گئے.بعد میں ان کے پوتے نے کہا کہ.” یہ تو ٹھنگ آدمی ہے " خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے کیمیا کی خواہش سے مجھ کو بچایا.میرے قلب کے کسی گوشہ میں بھی کبھی کیمیا کی کوئی خواہش نہیں ہوئی.شاید یہ بات بھی کسی کو مفید ہو کہ اس زمانہ میں رامپور میں میاں سبحان شاہ رہتے تھے.میرا ایک بہت پیارا دوست انکے پاس گیا اور ان کی خدمت میں شریعت کے متعلق کچھ عرض کیا.میاں سبحان شاہ نے اس کی بات کو ہنسی میں ملا دیا.میرا دوست کسی قدر شوخ تھا.کھڑا ہو گیا.میاں صاحب نے کہا.آپ جاتے تو ہیں مگر آپ تو پھر بھی ہمارے یہاں آہی جائیں گے.اس نے غلیظ قسم کھائی کہ میں آپ کے یہاں ہر گز نہ آؤں گا.لیکن جب وہ مکان پر آیا تو اس کو معلوم ہوا کہ اس کے گلے میں کوئی رسہ ڈالا گیا ہے اور زور سے کوئی کھینچتا ہے.انچہ وہ مجبوراً اٹھ کر کھا چلا جاتا تھا.راستہ میں قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتا تھا مگر سبحان شاہ کے مکان کی طرف چلا جاتا تھا.پھر اس نے بڑے الحاج سے دعا مانگی یہاں تک کہ وہ رسہ ٹوٹ گیا اور وہ راستہ ہی سے اپنے مکان کو واپس چلا آیا.بہت دنوں کے بعد اپنی مرضی سے بلا کسی جبر کے وہ سبحان شاہ کے مکان پر گیا.انہوں نے دیکھتے ہی کہا چلے جاؤ اور یہ چلا آیا.مگر یہ کہتا ہوا آیا کہ آپ کا رسہ تو ہم نے تو رہی دیا.یہ وہاں کے عجائبات میں سے ایک بات ہے.

Page 89

۸۳ رامپور میں مشکوۃ میں نے حسن شاہ صاحب سے پڑھی.شرح وقایہ مولوی عزیز اللہ صاحب افغان سے اور اصول شاشی اور میبذی مولوی ارشاد حسین صاحب سے متنبی مفتی سعد اللہ صاحب سے، صدری وغیرہ مولوی عبد العلی صاحب سے ملا حسن حافظ سعد اللہ رڑیان ملک پنجاب سے پڑھی.ایک عجیب معرکۃ الآراء بات جو مجھ کو اس وقت پیش آئی یہ تھی کہ مجھ سے میرے بعض احباب نے کہا کہ تم زواہد ثلاثہ پڑھو.میں نے ان سے پوچھا یہ کس علم کی کتابیں ہیں.اس میرے سوال نے وہاں ایک شور برپا کر دیا.بڑی بڑی مخالفتیں میرے اس سوال پر ہو ئیں.مجھ کو یہ فائدہ ہوا کہ ان تینوں کتابوں کے پڑھنے میں مجھے تامل ہو گیا.اگر چہ طوعاً و کرها میرزاہد رسالہ اور میرزاہد ملا جلال کو میں نے پڑھا مگر بڑی بدمذاقی سے.ایک دفعہ میں گلی میں جاتا تھا اور بہت سے طالب علم میرے ساتھ تھے.راستہ میں ایک خوش وضع اور عمدہ لباس والے آدمی سے جن کے ساتھ بہت سے طالب علم تھے ملاقات ہوئی.انہوں نے مجھ کو دیکھ کر کہا کہ تمہارا ہی نام نورالدین ہے اور تم نے ہی زواہد ثلاثہ کے متعلق لوگوں سے کچھ گفتگو کی ہے.میں نے کہا کہ حضرت ایسا ہوا ہے " انہوں نے میری پیٹھ تھپکی اور کہا کہ ”خوب ! میں بھی تمہارا ہم خیال ہوں.اب اگر کوئی تم سے زواہد ثلاثہ کے متعلق گفتگو کرے اور تم ہار جاؤ تو اس کو میرے پاس لاؤ.انہوں نے بڑی محبت سے گفتگو لی اور کہا کہ زواہد میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے یہ کوئی علم نہیں.بعد میں میں نے لوگوں سے انکا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ مولوی حکیم عبد الکریم صاحب.انکی زبان میں کسی قدر لکنت بھی تھی.رامپور میں چونکہ میں دو تین برس رہا.اس لئے بڑی بڑی باتیں ہیں مگر اس وقت اللہ جلّ شانہ کے احسانوں میں سے ایک احسان کا ذکر کر دیا مجھے پسند آتا ہے.مولوی ارشاد حسین صاحب میرے ہم قوم بزرگ تھے.اور میں سلسلہ نقش بندیہ میں مرید بھی تھا مگر پھر بھی مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید کی شان میں وہاں اکثر جھگڑا ہو جاتا تھا.میں ہر چند کوشش کرتا تھا کہ وہاں یہ جھگڑے نہ ہوں کیونکہ ہمارے پڑھنے میں حرج ہو تا تھا.

Page 90

A۴ مگر وہاں میرا کوئی سکوت کارگر نہ ہوا.ایک دن مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم جو مولوی محمد اسماعیل صاحب کی اس قدر تعریف کرتے اور اتنی عقیدت رکھتے ہو.کیا تم نے ان کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا.نہیں کہا ہم تو ان سے علم میں زیادہ ہیں.میں نے کہا.ہاں.آپ ان سے علم میں زیادہ بھی سہی لیکن یہی تو ان کا جذب ہے کہ میں ان کے مقابلہ میں آپ کو یا کسی کو نہیں سمجھتا.یہ سن کر مولوی صاحب بہت ہی خفا ہو گئے.میں ان سے صرف اصول شاشی کا سبق پڑھنے جایا کرتا تھا.میں تو اپنی کتاب کھول کر پڑھنے لگا.تھوڑی دیر کے بعد مولوی صاحب ٹھنڈے ہو گئے.طلباء میں ایک عبد القادر خاں تھے.وہ آسودہ حال بھی معلوم ہوتے تھے.جہاں میں نماز پڑھاتا تھا.اس محلہ میں ایک شخص کلن خاں رہتے تھے جو بے چارے سیدھے سادھے کچھ ان پڑھ سے تھے.ایک روز عبد القادر خاں نے کلن خاں کو علیحدہ لے جاکر سمجھایا کہ یہ طالب علم جو نماز پڑھاتا ہے اس قابل نہیں کہ اس کی عزت کی جائے کیونکہ اس کا مولوی ارشاد حسین سے کئی مسائل میں تنازع ہے.کلن خاں نے کہا کہ ہماری مسجد میں کوئی طالب علم جماعت نہیں کراتا.عبد القادر خاں نے میرا پورا پتہ بتایا اور نام لیا.کلن خاں نے اپنی تلوار نکال کر عبد القادر خاں کو دکھلائی اور کہا کہ وہ مسئلے تو یہاں تلوار کی دھار پر لکھے ہوئے ہیں.آپ پڑھنا چاہیں تو ہم ابھی پڑھانے کو موجود ہیں پڑھ لیں.عبد القادر خاں بے چارہ ایک شریف انسان تھا.وہ بھاگ گیا اور پھر مکتب میں خود ہی مجھ سے یہ سب واقعہ بیان کر دیا.میرا خیال تھا کہ کلن خاں صاحب بھی مجھ سے ذکر کریں گے.لیکن انہوں نے قطعاً مجھ سے ذکر نہیں کیا حالانکہ روزانہ ملاقات ہوتی تھی.جب بہت دن گزر گئے تو میں نے ہی کلن خاں سے کہا کہ میرے متعلق عبد القادر خاں سے کچھ آپ کی باتیں ہوئی تھیں؟ کلن خاں نے ہنس کر کہا کہ ہاں وہ آپ کے متعلق کچھ کہنے لگا تھا مگر رہ گیا.اگر ذرا زیادہ زبان ہلاتا تو فورا اس کا سر اڑا دیتا.میں نے کہا کہ آپ کو ایسا نہیں چاہیے تھا.اگر خدانخواستہ یہ بات نواب صاحب تک پہنچتی تو آپ کو مشکل پیش آتی.کہا کہ نہیں جناب ہمارا سارا محلہ ذبح ہو جائے گا تب کوئی آپ کو ہاتھ لگا سکے گا.نواب صاحب ہوں یا کوئی 1

Page 91

۸۵ ہوں.میں اب تک کلن خاں کا ثناخواں ہوں اور میں اس کو عنایت ایزدی سمجھتا ہوں.اب مصیبت یہ پڑی کہ میرا سبق رات کو یا دو پہر کو بہت دور ایک مقام پر ہو تا تھا.ان شب بیداریوں نے مجھے بیمار کر دیا اور مجھے سر کا مرض لاحق حال ہو گیا جس سے میں بہت تنگ ہوا.میں نے وہاں تحقیقات کی کہ آجکل ہندوستان میں بڑا عالم طبیب کون ہے.اس محدود جماعت میں سوائے حکیم علی حسین صاحب لکھنوی کے کسی کا نام نہ سنا.مگر سب نے یہ بھی کہا کہ ان کے ہاتھ میں شفا نہیں اور مجھے جلد معلوم ہو گیا کہ ان کے پاس مسلول اور مد فوق یا مجزوم یا ذیا بیطس کے گرفتار ہی اکثر پہنچتے ہیں.سوایسے بیماروں میں کامیابی کی کمی ان کے نقص کے سبب نہیں.بیماری نے تو لا چار کرہی رکھا تھا.میں رامپور سے مراد آباد چلا گیا اور وہاں ایک خد اتعالیٰ کا بندہ عبد الرشید نام ساکن بنارس مجھے اسماعیل نام ایک پنجابی نوجوان تاجر کے ذریعہ ملا.جس نے میری خدمت والدین کے برابر کیا، بڑھ کر کی اور میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں اچھا ہو گیا.عمدہ صحت کے بعد میں نے لکھنو کا قصد کیا.میرے مکرم دوست عبد الرحمن خان مالک مطبع نظامی میرے بھائی کے دوست تھے.انکے پاس کانپور میں ٹھہرا.انہوں نے حکیم صاحب حکیم علی حسین صاحب لکھنوی) کی بہت تعریف کی اور دوسرے دن گاڑی میں سوار کرا کر لکھنو روانہ کیا.کچی سڑک اور گرمی کا موسم گر دو غبار نے مجھے خاک آلودہ کر دیا تھا کہ میں لکھنو پہنچا.جہاں وہ گاڑی ٹھری وہاں اترتے ہی میں نے حکیم صاحب کا پتہ پوچھا.خدائی عجائبات ہیں کہ جہاں گاڑی ٹھری تھی ، اس کے سامنے ہی حکیم صاحب کا مکان تھا یہاں ایک پنجابی مثل یاد کرنے کے قابل ہے کل کرے اولیاں رب کرے سولیاں " میں اسی وحشیانہ حالت میں مکان میں جا گھسا.ایک بڑا ہال نظر آیا.ایک فرشتہ خصلت دلربا حسین سفید ریش ، نہایت سفید کپڑے پہنے ہوئے ایک گدیلے پر چار زانو بیٹھا ہوا.پیچھے اس کے ایک نہایت نفیس تکیہ اور دونوں طرف چھوٹے چھوٹے تکیے تھے.سامنے پاندان اگالدان خاص دان، قلم دوات کاغذ دھرے ہوئے.ہال کے کنارے کنارے جیسے کوئی التحیات میں

Page 92

AY بیٹھتا ہے.بڑے خوشنما چہرے قرینے سے بیٹھے ہوئے نظر آئے.نہایت براق چاندنی کا فرش اس ہال میں تھا.وہ قہقہہ دیوار دیکھ کر میں حیران سا رہ گیا.کیونکہ پنجاب میں کبھی ایسا نظارہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا.بہر حال اس کے مشرقی دروازے سے (اپنا بستہ اس دروازہ ہی میں رکھ کر) حضرت حکیم صاحب کی طرف جانے کا قصد کیا.گرد آلودہ پاؤں جب اس چاندنی پر پڑے تو اس نقش و نگار سے میں خود ہی مجوب ہو گیا.حکیم صاحب تک بے تکلف جا پہنچا اور وہاں اپنی عادت کے مطابق زور سے السلام علیکم کہا جو لکھنو میں ایک نرالی آواز تھی.یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ حکیم صاحب نے وعلیکم السلام زور سے یا دبی آواز سے کہا ہو مگر میرے ہاتھ بڑھانے سے انہوں نے ضرور ہی ہاتھ بڑھایا اور خاکسار کے خاک آلودہ ہاتھوں سے اپنے ہاتھ آلودہ کئے اور میں دو زانو بیٹھ گیا.یہ میرا دو زانو بیٹھنا بھی اس چاندنی کے لئے جس عجیب نظارہ کا موجب ہوا وہ یہ ہے کہ ایک شخص نے جو اراکین لکھنؤ سے تھا اس وقت مجھے مخاطب کر کے کہا.آپ کس مہذب ملک سے تشریف لائے ہیں ؟ میں تو اپنے قصور کا پہلے ہی قائل ہو چکا تھا.مگر ” خد اشترے برانگیزد که خیر ما دراں باشد " میں نے نیم نگاہی کے ساتھ اپنی جوانی کی ترنگ میں اس کو یہ جواب دیا کہ یہ بے تکلفیاں اور السلام علیکم کی بے تکلف آواز وادی غَیر ذی ذرع کے امی اور بکریوں کے چرواہے کی تعلیم کا نتیجہ ہے.صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فداہ ابی و امی.اس میرے کہنے کی آواز نے بجلی کا کام دیا اور حکیم صاحب پر وجد طاری ہوا اور وجد کی حالت میں اس امیر کو کہا کہ آپ تو بادشاہ کی مجلس میں رہے ہیں کبھی ایسی زک آپ نے اٹھائی ہے؟ اور تھوڑے وقفہ کے بعد مجھ سے کہا کہ آپ کا کیا کام ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں پڑھنے کے لئے آیا ہوں.اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اب بہت بوڑھا ہو گیا ہوں اور پڑھانے سے مجھے ایک انقباض ہے میں خود تو نہیں پڑھا سکتا.میں نے قسم کھائی ہے کہ اب نہیں پڑھاؤں گا.میری طبیعت ان دنوں بہت جو شیلی تھی اور شاید سر کا بقیہ بھی ہو اور حق تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کے کام ہوتے ہیں.منشی محمد قاسم صاحب کی فارسی تعلیم نے یہ تحریک کی کہ میں نے جوش بھری اور

Page 93

AL دردمندانه آواز سے کہا کہ شیرازی حکیم نے بہت ہی غلط کہا.”رنجانیدن دل جهل است و کفارہ یمین سهل".اس پر ان کو دوبارہ وجد ہوا اور چشم پر آب ہو گئے.تھوڑے وقفہ کے بعد فرمایا.مولوی نور کریم حکیم ہیں اور بہت لائق.میں آپ کو ان کے سپرد کر دوں گا اور وہ آپ کو اچھی طرح پڑھائیں گے.جس پر میں نے عرض کیا کہ ” ملک خدا تنگ نیست پائے مرا لنگ نیست".تب آپ پر تیسری دفعہ وجد کی حالت طاری ہوئی اور فرمایا.ہم نے قسم توڑ دی.اس کے بعد حکیم صاحب تو گھر کو تشریف لے گئے اور وہ لوگ جو مختلف اغراض اور بیماروں کے لئے آئے تھے.اپنی اپنی جگہ چلے گئے.میں نے بھی تنہائی کو غنیمت سمجھ کر اپنا بوریا بدھنا سنبھالا اور اس مکان سے باہر نکلا.میرے بھائی صاحب کے دوست علی بخش خاں مرحوم مطبع علوی کے مالک تھے.میں ان کے مکان پر پہنچا.وہاں میں نے بڑا آرام پایا.غسل کیا.کپڑے بدلے.خان صاحب نے انار کا ایک خوبصورت درخت دکھایا جو ان کے مطبع والے مکان میں تھا.اور فرمایا کہ یہ تمہارے بھائی کی یاد گار ہے.وہاں آرام پا کر میں مختلف علماء سے جو لکھنؤ میں تھے ملا اور عجیب عجیب باتیں سننے میں آئیں.آخر علی بخش خان نے مجھے ایک مکان دیا اور روہاں کھانے کا انتظام مجھے خود کرنا پڑا.جیسے کہ میں کہہ چکا ہوں.حرفہ کے لئے میرے دماغ میں کوئی بناوٹ نہیں.اپنی روٹی پکانے کے لئے ایک منطق سے کام لینے لگا.چولہے میں آگ جلائی.تو ا رکھا اور روٹی گول بنانے کی یہ ترکیب سوجھی کہ آئے کو بہت پتلا گھول لیا اور ایک برتن کے ذریعہ اس گرم توے پر بلا تھی اور خشکے کے خوبصورت دائرہ کی طرح آٹا ڈال دیا.جب اس کا نصف حصہ پک گیا تو پلٹنے کے لئے روٹی کو اٹھانے کی فضول کوششیں کی.ان کوششوں میں روٹی اوپر تک پک چکی تھی.خیالی فلسفہ نے توے کو اتار کر آگ کے سامنے رکھوایا.جب عمدہ طور پر اوپر کا حصہ پختہ نظر آیا تو چاقو سے اتارنے کی ٹھری.مگر چاقو کے ذریعہ اترنے سے بھی اس نے انکار کیا اور مجھے دعا کی توفیق ملی.اس مکان سے باہر نکل کر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر یوں دعا مانگنے لگا.اے کریم مولا! ایک نادان کے کام سپرد کرنا اپنے بنائے ہوئے رزق کو ضائع کرتا ہے.یہ کس

Page 94

AA لائق ہے.جس کے سپر د روٹی پکانا کیا گیا.اس روٹی کے انتظام اور دعا کے بعد حکیم صاحب کے حضور پُر تکلف لباس میں جا پہنچا.جاتے ہی اپنی دعا کی قبولیت کا یہ اثر دیکھا کہ حکیم صاحب نے فرمایا.آپ اس وقت آئے اور بے اجازت چلے گئے.یہ شاگردوں کا کام ہے ؟ آئندہ تم روٹی ہمارے ساتھ کھایا کرو اور یہیں رہو یا جہاں ٹھرے ہو وہاں رہو مگر روٹی یہاں کھایا کرو.میں نے کچھ عذر معذرت کی پھر آپ نے فرمایا کیا پڑھنا چاہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا طب پڑھنا چاہتا ہوں.مجھے اس وقت یہ بھی اطلاع نہ تھی کہ دنیا میں بڑا طبیب کون ہے.حکیم صاحب نے فرمایا.طب کہاں تک پڑھنا چاہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا.افلاطون کے برابر.مجھے کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ افلاطون کوئی حکیم ہے یا طبیب - آپ نے ہنس کر فرمایا کچھ تو ضرور ہی پڑھ لو گے.اگر کسی چھوٹے کا نام لیتے تو میرے دل کو بہت صدمہ پہنچتا.کیونکہ ہر ایک انسان اپنی غایت مطلوب تک نہیں پہنچتا.حکیم الہ دین صاحب لاہوری مرحوم اور حکیم محمد بخش لاہوری مرحوم سے کسی قدر موجز تو میں پڑھ ہی چکا ہوں اور علمی مباحثات کے لئے میری پہلی تعلیم کافی سے بھی زیادہ تھی.میں نے عرض کیا.قانون شروع کرا دو.اس پر حکیم صاحب نے تبسم کیا.پھر میں نے جلد جواب دیا کہ میں تو خدائے تعالیٰ کی کتاب بھی سمجھ سکتا ہوں اور سمجھتا ہوں.بو علی سینا یا اس کا قانون اس سے بڑے ہیں ؟ حکیم صاحب نے نفیسی کی طرف اور اس کے علمی حصہ کے لئے مجھے مجبور کیا میں نے کتاب شروع کر دی.ایک ہی سبق تمام دن میں میرے لئے ہرگز قابل برداشت نہ تھا.میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں کوئی اور سبق پڑھوں مگر وہابیت کا خدائے تعالیٰ بھلا کرے.اس نے کوئی جگہ پسند نہ کرنے دی.پھر بھی مولوی فضل الله نام فرنگی محلی سے میری سفارش ہوئی اور انہوں نے ملا حسن یا حمد اللہ پڑھانے کا وعدہ کیا اور شروع کرادی.میں نے چند سبق ہی پڑھے ہونگے کہ تنہائی میں اپنی گزشتہ عمر کا مطالعہ شروع کیا اور اس بات تک پہنچ گیا کہ اگر تو اسی طرح پڑھے گا تو ان علوم سے متمتع ہونے کے دن تجھ کو کب ملیں گے اور میرے دل نے فیصلہ کر لیا کہ -

Page 95

اگر چھ سات سبق ہر روز نہ ہوں تو پڑھنا گویا عمر کو ضائع کرنا ہے.غرض اس فیصلہ کے بعد حکیم صاحب کے حضور صرف اس لئے گیا کہ آج میں ان سے رخصت ہو کر واپس رامپور جاؤں گا.لیکن قدرت خداوندی کے کیا تماشے ہیں کہ میری اس ادھیڑ بن کے وقت حکیم صاحب کے نام نواب کلب علی خان نواب رامپور کا تار آیا تھا کہ آپ ملازمت اختیار کر لیں.علی بخش نام ان کے ایک چیتے خدمت گار علیل ہیں.ان کا آکر علاج کریں.دوپہر کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کر میں وہاں حاضر ہوا.اپنے منشاء کا اظہار کر کے عرض کیا کہ اب میں رامپور جانا چاہتا ہوں.حکیم صاحب نے فرمایا.تم یہ بتاؤ.مجھ جیسے آدمی کو ملازمت اچھی ہے یا آزادی سے علاج کرنا.چار سو روپیہ کے قریب یہاں شہر میں آمدنی ہوتی ہے.کیا اس آمدنی کو چھوڑ کر ملازمت اختیار کریں ؟ تمہارے خیال میں یہ بھلی بات ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نوکری آپ کے لئے بہت ضروری ہے.کیونکہ موجودہ حالت میں اگر آپ کے حضور کوئی شخص اپنے پہلو یا سرین کو کھجلانے لگے تو آپ کو یہی خیال ہو گا کہ کچھ دینے لگا ہے.اس پر وه بهت قهقهه مار کر ہنسے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ ڈال دیا.یہ بھی اس شخص کے تصرفات کی کوئی بات ہے.غرض ہماری ولایت کا وہاں سکہ بیٹھ گیا.پھر وہ تار نکالا اور کہا کہ کیا یہ آپ کے رامپور جانے کی ترکیب نہیں ؟ اچھا ہم منظور کرتے ہیں اور آپ ساتھ چلیں.غرض معا رامپور واپس آنے کی تیاری ہو گئی.رامپور پہنچ کر حکیم صاحب نے کہا کہ اس شخص کی صحت کے لئے تم دعا کرو.میں نے کہا یہ بچتا نظر نہیں آتا اور مجھے اس کے لئے دعا کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور بدوں توجہ دعا نہیں ہو سکتی.اب یہ جینے یا مرے ہم تو رامپور پہنچ ہی گئے.آخر علی بخش کا انتقال ہو گیا.حکیم صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اس (علی بخش) کے مرنے پر ہمارے شہر کے ایک حکیم ابراہیم صاحب ہیں.ان کو دربار میں ہم پر ہنسی کا موقع ملا ہے.میں خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرتا ہوں.میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ اس مریض جیسا کوئی ان کے ہاتھ سے بھی مر رہے گا.آپ کیوں گھبراتے ہیں.قدرت الہی دیکھونہ گمان نہ خیال.علی بخش کے بالمقابل ایک دوسرا خدمت گار نواب کا اسی بیماری میں گرفتار ہوا

Page 96

۹۰ اور حکیم ابراہیم صاحب لکھنوی اس کے معالج تجویز ہوئے.مریض کو درم کبد بھی تھا.ایک دن اس کے منہ سے خون آیا.معالج حکیم صاحب نے فرمایا کہ یہ بحرانی خون ہے اور ہم کو اس کی صحت کی بہت امید ہے.ہمارے حکیم صاحب نے آکر یہی بات ظاہر کی.میں نے عرض کیا کہ اب یہ مر گیا ہے.خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں.انسان کی کیا مقدرت ہے.وہ مریض مرگیا.عوض معاوض گله ندارد.حکیم ابراہیم صاحب آئندہ تمسخر سے باز آگئے.طب کے پڑھنے میں مجھے جو امر بہت نافع نظر آیا اور میں نے خود عمل کیا اور جس میں میں نے بہت فائدہ اٹھایا.اس کو بیان کرنا شاید مفید ہو.سو اس میں پہلی بات یہ ہے کہ میں نے مفرد اور مرکب ادویہ کے متعلق بہت دنوں تک حضرت حکیم صاحب سے کبھی بھی سوال نہ کیا کہ یہ مرکب کس طرح بنتا ہے.یا اس مفرد کا کیا نام ہے.بات یہ تھی کہ اگر وہ نام بتاتے تو صرف لکھنؤ کا مروج نام فرماتے اور وہ میرے لئے اپنے وطن میں کچھ بھی مفید نہ ہوتا.مرکبات کے واسطے میں یقین کرتا تھا کہ قرابادینوں کا مطالعہ کافی ہو گا.اس پر آخر حکیم صاحب نے مجھ سے سنکھیا ( سم الفار ) اور سرخ مرچ کے متعلق سوال فرمایا کہ تم اس کو مفردات سے کس طرح نکالو گے.( یہ سوال ممکن تھا کہ میرے راستہ میں پہاڑ بنتا کہ میں آئندہ دواؤں کے نام پوچھ لیا کرتا.مگر میں نے خیال کیا کہ ایک ایک دوا کے بہیں ہیں نام ہوتے ہیں.خود حکیم صاحب بھی مجھے کب بتا سکتے ہیں) میں نے اپنے مطالعہ کی عادت کے باعث جلد اس کا جواب حاصل کر لیا جس پر وہ خود مطمئن ہو گئے.دوسری بات نسخہ نویسی کے متعلق تھی.وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے نسخے لکھا کروں اور مجھے مطلوب تھا کہ میں علم پڑھوں.جس وقت میں بیماروں کا گھمسان دیکھا تو اپنے دوسرے اساتذہ کے پاس اور علوم کے واسطے چلا جاتا.کیونکہ حکیم صاحب کے پاس صبح سے عشاء تک اپنا ضروری سبق بھی بمشکل ختم ہو سکتا تھا.ایک دن مزمن ماشرہ کا مبتلا ایک بیمار آیا اس کا سر اس قدر موٹا ہو گیا تھا جیسے ہاتھی کا.اس کے ہونٹوں اور آنکھوں کی شکل بھی بڑی بھیانک تھی.میں اس سے دو تین روز پہلے یہ مرض پڑھ چکا تھا.مگر مریض کو دیکھ کر سمجھ میں نہ آیا کہ یہ ماشرہ ہے.ادھر

Page 97

91 حکیم صاحب نے فرمایا کہ اس کا نسخہ لکھو.میں سخت گھبرایا.آخر میرے پاس تو دعاہی کا ہتھیار تھا.معاً حکیم صاحب نے بے ساختہ فرمایا کہ ایسے ماشرہ دنیا میں کم دیکھنے میں آتے ہیں.تب میں نے عرض کیا کہ اس مریض کو دیکھنے میں بہت جمگھٹا ہو گیا ہے.یہ اس کو مکان پر لے جائیں اور پھر اگر نسخہ لے جائیں.اس طرح وقت کو ٹلا دیا اور خود اپنے کمرہ میں جا کر حکیم صاحب کی زیر نظر کتابیں شرح گیلانی قانون پر ، ترویح الارواح طبری اور مجموعہ بقائی کو دیکھنا شروع کیا اور ان تمام کتابوں سے ایک مشترکہ نسخہ ضماد اور طلاء اور کھانے کا لکھ لیا اور کتابیں اپنی اپنی جگہ پر رکھوا دیں اور نسخے قریب یاد کرلئے.تیمار دار دیر کے بعد آیا اور حکیم صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ آپ نے نسخہ لکھا ہے ؟ میں نے کہا کہ ابھی لکھ دیتا ہوں.قلم اٹھا کر نسخے لکھ دیئے اور حکیم صاحب کے حضور پیش کئے.حکیم صاحب نے ان کو دیکھ کر مجھے اشارہ کیا کہ شرح گیلانی ، ترویح اور مجموعہ بقائی لاؤ.میں لایا.میرے نسخوں کو سامنے رکھ کر سرسری نظر ان کتابوں پر ڈال لی اور نسخے تیمار دار کو دے دیئے.جب فراغت ہوئی تو اپنا بیاض بڑی محبت سے مجھ کو عطا کیا اور فرمایا.تم اس کے اہل ہو.دے کر آپ حرم سرا میں تشریف لے گئے.میں نے دیکھا اس میں کچھ نسخے تھے.اس بیاض کو میں نے مطب میں ہی چھوڑ دیا اور اپنے کمرہ میں چلا گیا.کسی دوسرے وقت حکیم صاحب آئے اور بیاض کو اس طرح کھلا پڑا ہوا دیکھ کر اٹھایا اور مجھے دیا.میں نے عرض کیا اس کو کیا کروں.نسخہ لکھنا تو تشخیص پر منحصر ہے اور اس میں کوئی تشخیص نہیں.اس پر متبسم ہو کر کہا کہ بات تو ٹھیک ہے.تیسری بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ درسی کتب میں قانونچہ - موجز ، اقصرائی نفیسی، سدیدی ، شرح اسباب کا لمبا سلسلہ مجھے حیرت زدہ کرتا تھا اور مجھ کو یقین تھا کہ جیسے اور علوم میں ملکہ پیدا ہونے کے بغیر کوئی علم نہیں آسکتا اسی طرح طب بھی ایک ملکہ کے بغیر کیونکر مفید ہو سکتا ہے.جیسے درسی کتابوں میں علی العموم یہ غلط راہ اختیار کی گئی ہے کہ مختصرات اور حواشی در حواشی میں وقت ضائع کیا جاتا ہے.دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونکنے لگا.مجھ کو اپنی گذشتہ عمر کے ضائع ہونے کا سخت ہی افسوس تھا.اس لئے میں نے صرف قانون ہی

Page 98

۹۲ کا پڑھ لینا اور وہ بھی صرف عملی حصہ کا پڑھنا پسند کیا تھا.حکیم صاحب نے ایک دن مجھے فرمایا کہ تم شرح اسباب کسی کو ہمارے سامنے پڑھاؤ.جس کو میں نے بطیب خاطر پسند کیا اور ایک شخص مولوی محمد اسحاق ساکن نگینہ کو شرح اسباب حکیم صاحب کے سامنے پڑھانی شروع کی اور اس میں مجھے کامیابی ہوئی.یہ باتیں اس لئے ذکر کر دی ہیں کہ کسی کو فائدہ ہو.میں جس زمانہ میں طب پڑھتا تھا.ان دنوں مجھ کو متنبی پڑھنے کا بھی خیال پیدا ہوا.لہذا میں مفتی سعد اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.بہت الحاح سے میں نے انکی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ کو آپ ایک سبق پڑھا دیا کریں.انہوں نے بہت روکھے الفاظ میں یہ فرمایا کہ ہم کو فرصت نہیں.میں نے کہا اچھا.اب ہم اسی وقت پڑھیں گے جب آپ ہماری منت کریں گے.میں مکان پر آیا اور میں نے حکیم صاحب سے عرض کیا کہ میں علم پڑھنا پسند نہیں کرتا انہوں نے فرمایا کیوں؟ میں نے کہا علم سے فائدہ کوئی نہیں.آپ مجھے غایت علم بتائیں کہ علم سے نتیجہ کیا ملے گا؟ انہوں نے فرمایا کہ علم سے اخلاق فاضلہ پیدا ہوتے ہیں.حکیم صاحب نے فرمایا کہ بات کیا ہے ، ذرا ہم سے بیان تو کرو.میں نے کہا مفتی سعد اللہ صاحب کے پاس گیا تھا.ان سے کچھ پڑھنا چاہتا تھا.انہوں نے بڑے روکھے پن سے کہا کہ ہم کو فرصت نہیں.حکیم صاحب نے مطب میں سے ایک پرچہ اٹھا کر مفتی سعد اللہ صاحب کے نام رقعہ لکھا کہ جب آپ کچھری سے فارغ ہوں تو اسی راستہ سے تشریف لا ئیں اور مجھ سے ملتے ہوئے جائیں.رقعہ آدمی کے ہاتھ بھجوا دیا اور مفتی صاحب کچھری سے اٹھ کر سیدھے حکیم صاحب کے پاس آئے.مجھ کو حکیم صاحب نے پہلے سے کہہ دیا کہ تم اپنی کو ٹھڑی میں چلے جاؤ.جب مفتی صاحب تشریف لائے تو حکیم صاحب نے فرمایا کہ اگر میں پڑھنا چاہوں تو آپ کو میرے پڑھانے کے لئے کچھ وقت مل سکے گا.مفتی صاحب نے بڑے زور شور سے کہا کہ ہاں وقت بہت مل سکتا ہے اور ہم جس وقت کے لئے آپ کہیں ، فرمت نکال سکتے.حکیم صاحب نے کہا اگر کوئی ہمارے پیرو مرشد پڑھنے لگیں ؟ مفتی صاحب نے کہا ان کو تو جہاں وہ چاہیں ہم خود جا کر پڑھا دیا کریں گے.تھوڑی دیر کے بعد حکیم صاحب نے مجھ کو ہیں.

Page 99

۹۳ بلوایا.میں جب آیا تو مجھ کو آتے ہوئے دیکھ کر مفتی صاحب ہنس پڑے اور کہا کہ آؤ صاحب ہم اب آپ کی منت کرتے ہیں کہ آپ پڑھیں.معلوم ہوا کہ حدیث شریف میں جو آیا ہے کہ طالب علم کے لئے فرشتے پر بچھاتے ہیں ، یہ بہت صحیح ہے.باری خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے سبق مجھ کو شروع کرایا.ہم کچھ نخرہ بھی کرتے رہے مگر یہ شکایت میں اب تک بھی کرتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ میں بڑے بڑے علماء کی خدمت میں جاتا تھا کسی نے نہ تو اخلاقی تعلیم دی اور نہ کسی کتاب کا مشورہ دیا.نہ آئندہ کی ضرورتوں سے آگاہ کیا.ایک مرتبہ طالب علموں میں مباحثہ ہوا کہ اہل کمال اپنا کمال کسی کو بتاتے ہیں یا نہیں ؟ میرا دعوی تھا کہ اہل کمال تو اپنا کمال سکھانے اور بتانے کے لئے تڑپتے ہیں مگر کوئی سیکھنے والا نہیں ملتا.باقی تمام طالب علم کہتے تھے کہ سیکھنے والے بہت ہیں مگر وہ سکھاتے ہی نہیں.میں نے کہا تم یوں تو مانتے نہیں اور نہ تم ہارنا جانتے ہو.کوئی صاحب کمال بتاؤ.اس کے پاس چل کر اسی سے فیصلہ کرا ئیں.سب نے بالا تفاق کہا کہ یہاں امیر شاہ صاحب عامل ایک باکمال ہیں.ان کا ایک باغیچہ شہر کے اندر تھا.سب طالب علم ان کے مکان پر چلے گئے.وہ ایک لکڑی کے تخت پر تکیہ لگائے لیٹے ہوئے تھے اور پاس ہی زمین پر ایک چھوٹی سی چٹائی بچھی ہوئی تھی.جو ہمارے بڑے بڑے طالب علم اور زیادہ مستحق تھے.وہ فور اُسب سے پہلے چٹائی پر بیٹھ گئے.باقی بہت سے طالب علم زمین پر ہی بیٹھ گئے.چونکہ مجھ کو زمین پر بیٹھنے کی قطعا عادت نہ تھی اور اب بھی مجھے بڑی نفرت ہوتی ہے.میں سامنے کی ایک کچی دیوار کے پاس کھڑا رہا.جب سب بیٹھ گئے تو امیر شاہ صاحب نے بڑی حقارت سے کہا.”اد مملو اکس طرح آئے".میں نے عرض کیا.ایک مقدمہ ہے جس میں یہ سب لوگ مدعی اور میں مدعا علیہ ہوں یا میں مدعی ہوں اور یہ سب مدعا علیہ ہیں.آپ سے فیصلہ چاہتے ہیں.تب انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم کھڑے کیوں ہو؟ میں نے عرض کیا کہ چٹائی بہت چھوٹی ہے جو ہمارے اعزاز کے قابل طالب علم تھے.وہ بیٹھ گئے اب کوئی جگہ نہیں اس لئے میں کھڑا ہوں.انہوں نے فرمایا تم ہمارے پاس آجاؤ.میں فور اتحنت پر ان کے پاس جا بیٹھا.طالب علموں کا تو اس

Page 100

۹۴ وقت فیصلہ ہو گیا.مگر انہوں نے مقدمہ سن کر صاف لفظوں میں مجھ سے کہا کہ تم بچے ہو اور یہ ب غلطی پر ہیں.میں نے کہا بس فیصلہ ہو گیا.اب جاتے ہیں.میں جب اٹھ کر چلنے لگا تو انہوں نے مجھ کو پھر بٹھایا اور خود اٹھ کر ایک قریب کی کوٹھڑی میں گئے وہاں سے ایک قلمی کتاب لائے.میں نے اس کو دیکھا تو عملیات کی کتاب تھی.مجھ سے فرمانے لگے کہ میری ساری عمر کا اندوختہ یہی ہے اور میں یہ کتاب تم کو دیتا ہوں.میں نے کہا میں تو طالب علم ہوں.ابھی پڑھتا ہوں مجھ کو اس کی ضرورت نہیں.یہ سن کر وہ چشم پر آب ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم تم کو دیتے ہیں اور تم لیتے نہیں.یہ لوگ مانگتے ہیں اور ہم ان کو دیتے نہیں.پھر بھی جب میں اٹھنے لگا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک بات عملیات کے متعلق کہتے ہیں.اس کو سن لو.جب کوئی شخص تمہارے پاس کسی غرض کے لئے آئے تو تم کو چاہیے کہ تم جناب الہی کی طرف جھک جاؤ اور یوں التجا کرو کہ الہی میں نے اس کو نہیں بلایا.تو نے خود بھیجا ہے.جس کام کے لئے آیا ہے اگر وہ کام تجھ کو کرنا منظور نہیں تو جس گناہ کے سبب میرے لئے تو نے یہ سامان ذلت بھیجا.میں اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں.پھر بھی دوبارہ تمہاری اس دعا مانگنے کے ندوہ شخص اصرار کرے تو دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعامانگ کر اس کو کچھ لکھ دیا کرو.مجھ کو امیر شاہ صاحب کے بتائے ہوئے اس نکتہ نے آج تک بڑا فائدہ دیا.مگر ان طلباء نے مطلق توجہ نہیں کی اور ان کو کچھ بھی خبر نہ ہوئی کہ انہوں نے کیا بتا دیا.جب وہاں سے باہر نکلے تو طالب علموں نے میری نسبت کہا کہ اس کو حُب کا عمل آتا ہے اس نے کھڑے ہو کر ان پر بھی حب کا عمل ڈالا اور وہ اس کے قابو میں آگئے اور اسی واسطے یہ ہمیشہ بڑے بڑے امیروں اور معززوں میں رہتا ہے اور سب اس کی خاطر کرتے ہیں.یہاں میں دو برس حضرت حکیم صاحب کے حضور حاضر رہا اور بمشکل قانون کا عملی حصہ ختم کیا.بعد حصول سند و اجازت رخصت مانگی کہ اب میں عربی کی تکمیل اور حدیث پڑھنے کے لئے جاتا ہوں.آپ نے مجھے میرٹھ اور دہلی جانے کا مشورہ دیا اور نہایت محبت سے فرمایا کہ ہم معقول خرچ ان دونوں شہروں میں تمہیں بھیجا کریں گے.مگر جب میں میرٹھ پہنچا تو حافظ احمد علی صاحب کلکتہ کو چلے

Page 101

۹۵ گئے تھے اور مولوی نذیر حسین مجاہدین کو روپیہ پہنچانے کے مقدمہ میں ماخوذ تھے.ان دونوں سے ایک حرف پڑھنا بھی نصیب نہ ہوا (اگر چہ پھر آخر میں ایک وقت میں نے حافظ احمد علی صاحب سہارنپوری سے بہت کچھ استفادہ کیا.مگر وہ طالب علمی کا وقت نہ تھا) اور میں بھوپال پہنچ گیا.بھوپال میں پہلی مرتبہ بھوپال جاتے ہوئے دو باتیں رستہ میں پیش آئیں.ایک یہ کہ جب میں گوالیار پہنچا تو میری ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہوئی جو حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے مخلصوں میں سے تھے.مجھ کو کچھ ان کی صحبت میں ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ میں وہیں رہ پڑا.مجھ سے باتیں کرتے کرتے انہوں نے یہ دو شعر پڑھے.نہ کر عوض مرے عصیان و جرم بے حد کا کہ تیری ذات غفور الرحیم کہتے ہیں کہیں نہ کہدے عدد دیکھ کر مجھے غمگین یہ اس کا بندہ ہے جس کو کریم کہتے ہیں ان شعروں کا اثر جو میرے دل پر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ آج اس بات کو شاید پچاس برس کے قریب زمانہ گزرتا ہے.لیکن وہ لذت اب تک بھی فراموش نہیں ہوئی.اگر چہ ادعیہ مسنونہ کی برابری یہ دعا نہیں کر سکتی مگر معلوم نہیں کہ کیسے دل سے نکلی تھی.جس میں عجیب قسم کا اثر ہے.وہاں سے چل کر میں گونہ نام ایک چھاؤنی میں پہنچا.میرے پاؤں بہت زخمی ہو گئے تھے اور چلنے کی تاب ان میں بالکل باقی نہ تھی.کیونکہ میں بہت ہی تھک گیا تھا.ایک مسجد میں جو

Page 102

94 چھاؤنی میں تھی جا کر آرام کیا.یہ مسجد کچھ دیر ان ہی سی معلوم ہوئی.رات بہت چلی گئی تو ایک شخص نماز پڑھنے آیا.میں نے اس سے کہا کہ تم بہت دیر کر کے نماز پڑھنے آئے ہو.اس نے کہا.ہم کاروباری لوگ ہیں.یہاں ہم بڑے اتفاق سے رہتے تھے.یہ مسجد بھی بڑی آباد تھی.لیکن یہاں رفع یدین اور آمین بالجھر پر آپس میں ایسا جھگڑا ہوا کہ قریب تھا کہ یہ مسجد گنج شہیداں ہو جائے.آخر ایک دنیا دار نے سب کو کہدیا کہ نمازیں اپنے اپنے گھر میں پڑھو اور اپنے کاروبار کرو.کیوں مولویوں کے کہنے سے تباہ ہوتے ہو.چنانچہ سب نے مسجد کی نماز چھوڑ دی ہے اور اپنے اپنے گھروں میں لوگ پڑھتے ہیں یا نہیں پڑھتے.مگر میرا دل مسجد کے سوا نہیں لگتا.اس لئے میں ایسے وقت مسجد میں آتا ہوں جبکہ کوئی اس محلہ کا آدمی مجھ کو مسجد میں آتے ہوئے نہ دیکھ سکے.میں نے کہا ممکن ہو تو تم کل ان لوگوں کو بلاؤ.ہم ان کو کچھ سنانا چاہتے ہیں.وہ نماز پڑھ کر چلا گیا.کچھ دیر کے بعد کھچڑی لایا جو ہم دونوں رفیقوں کے لئے کافی سے زیادہ تھی.دوسرے دن بہت سے آدمیوں کو اکٹھا کر کے لایا.میں نے ان کو باہمی عداوت کے متعلق بہت سمجھایا اور بتایا کہ دیکھو خد اتعالیٰ واحد ہے.رسول واحد ہے.کتاب واحد ہے.قبلہ توجہ واحد ہے.فرائض میں بھی قریباً با ہمی اشتراک ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اتنے بڑے عظیم الشان کام جماعت کو چھوڑ دینا لوگوں کی غلطی ہے.میری تقریر کا بہت اثر ہوا.بہت سے لوگ میرے ہمدرد ہو گئے.ان میں سے ایک شخص ڈاکٹر حبیب اللہ خان نے میرے ساتھ میرے پاؤں کے زخموں کے متعلق بڑی بڑی ہمدردیاں کیں.آخر وہ سانبھر جھیل کو تبدیل ہو گئے تھے.میرے ساتھ اپنے آخری دم تک اپنی محبت کو انہوں نے بہت نباہا.میں قادیان میں تھا.جب ان کا انتقال ہوا ہے.وہ ہمیشہ بڑی بڑی محبتوں کا اظہار میرے ساتھ کرتے رہے.مجھے ان مسائل کے متعلق بڑا ہی تعجب آیا کرتا ہے کہ یہ کیا جھگڑے ہیں.اگر ہماری قوم کے ملاح ان چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے باعث عوام کو جوش نہ دلا ئیں تو میرے نزدیک خود ان علماء اور گدی نشینوں کو بھی کوئی ضرر نہ پہنچے.مگر طالب علمی میں ان کو پاک باتوں کی

Page 103

طرف توجہ کم دلائی جاتی ہے اور طالب علمی میں پاک صحبتیں ان لوگوں کو بہت ہی کم نصیب ہوتی ہیں اور بد قسمتی سے اخلاق کے متعلق عملی کتاب کوئی نہیں.گونہ چھاؤنی سے چلا.میرے ساتھ محمود نامی ایک افغان نهایت خوبصورت نوجوان تھا.ہم نے گونہ سے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہو گا کہ ایک زمیندار نے ہم سے کہا کہ اس سڑک پر مری ہے (مری وہ ہیضہ کو کہتا تھا) دوسری سڑک پر چلو.لیکن محمود ایک بڑا متوکل آدمی تھا.تو کل کے غلط معنی جس میں آجکل علی العموم مسلمان گرفتار ہو کر کاہل اور ست ہو گئے ہیں ، اس میں وہ بھی گرفتار تھا.اس کے کہنے پر محمود نے پروانہ کی.میں نے بھی روکا مگر اس نے کہا.خبر واحد ہے کیا اعتبار - میں نے محمود سے کہا کہ میں بیزار ہوں مگر مجبور ہوں.آخر ہم چلے.چند منٹ کے بعد محمود خود ہیضہ میں مبتلا ہو گیا.دور سے ایک گاؤں نظر آتا تھا.ہم نے بہت کوشش کی کہ جلد وہاں پہنچیں مگر ایک ہی اجابت نے محمود کو مضمحل کر دیا.آخر گاؤں کے پاس پہنچے.گاؤں والوں نے بالکل روک دیا.اور ہم نے ایک املی کے درخت کے نیچے ڈیرا کر دیا.محمود کی حالت و تا فوقا بگڑتی گئی اور دو تین روز کے بعد اس نے انتقال کیا.اس کے دفن کرنے میں اور اتنے روز کھانا نہ ملنے میں مجھے بہت دقت ہوئی.مرنے کے بعد میں نے گاؤں کے نمبردار کی دفن کے لئے بہت کچھ منت کی.مگر وہ ایک زر خطیر لے کر راضی ہوا اور پھر بھی یہ کہا کہ میت کو ہم میں سے کوئی نہ اٹھائے گا.ہاں ہم ایک گہرا گڑھا کھود دیتے ہیں.میں نے محمود کو خود اٹھا کر گڑھے میں ڈالا اور نماز جنازہ تب یاد آئی.جب مٹی برابر کر چکے.ایک مسلمان جو صرف ایک ہی مسلمان گاؤں میں تھا اور اس کا نام گرجن اور ایک اس کا بھائی جس کا نام ارجن تھا.اور جس کو میں نے ہر چند اپنی امداد کے لئے کہا تھا اور وہ انکار کر چکا تھا.اس کا اکلوتا بیٹا ہیضہ میں گرفتار ہو گیا.کچھ تو وہ مشرکانہ خیال کے باعث اور کچھ اس لئے کہ مجھے کو محمود کا علاج کرتے بھی دیکھا تھا.میرے پاس دوڑتا اور روتا ہوا آیا اور کہا.ہمارے گھر چلو اور بھوجن بھی کھاؤ.میں چلا گیا اور اس کے لڑکے کو یہ دوائی دی.گل ناشگفتہ مشر ( آکھ تولہ ، سہاگہ بریاں ۵ ماشہ دار فلفل ۵ ماشه - لونگ ۵ ماشه - زنجبیل ۵

Page 104

۹۸ ماشہ - گولی بنائی اور نیم کی انتر چھال کے پانی کے ساتھ دی اور لہسن کوٹ کر اس کے ناخنوں پر باندھ دیا.لڑکا سنبھل گیا.اس کی ماں نے تازہ چو کا بنا کر مجھ کو اس کے اندر بٹھا کر کھانا کھلایا.شہر میں مرض کی بڑی شدت ہو گئی اور ہم وہاں طبیب ہو گئے.نمبردار نے ہمارا روپیہ واپس کر دیا اور مجھے کہا کہ آپ کو میں مع آپ کے اسباب کے بھوپال پہنچا دوں گا.اس نے اپنے عہد کو بڑی وفاداری سے نباہا.اسی راستہ میں میں نے حضرت شاہ وجیہ الدین کے (جو ہمارے شیخ المشائخ شاہ ولی اللہ صاحب کے بڑے تھے) گنج شہیداں کو دیکھنے اور عبرت حاصل کرنے میں بہت فائدہ اٹھایا.وہاں شاہ صاحب کو کنگن ولی کہتے تھے.میں بھوپال پہنچا تو میرے پاس کچھ روپیہ تھا.جس کو میں نے اپنے اسباب کے ساتھ بیرونی سرائے میں رکھا اور ایک روپیہ اس میں سے نکال لیا.کیونکہ بلا کسی خاص اجازت کے شہر کے اندر کسی اجنبی کو جانے نہیں دیتے تھے اس لئے میں نے بیرونی سرائے میں اسباب رکھ کر کپڑے بدلے اور وہ ایک روپیہ رومال میں باندھ کر شہر میں چلا گیا.شہر میں تھوڑی دور چل کر ایک باورچی کی دوکان آئی.وہاں جاکر میں نے کھانا کھایا.اس باورچی نے آٹھ آنے مجھ سے مانگے.میں نے اس کو روپیہ دیا.اس نے مجھ کو اٹھنی واپس دی.وہ اٹھنی لے کر میں چلا اور قلعہ دار سے اجازت حاصل کی.تھوڑی دیر کے بعد جو دیکھتا ہوں تو وہ اٹھنی کہیں گر گئی تھی.جب واپس سرائے میں پہنچا تو میرا اسباب تو بالکل محفوظ تھا مگر روپے ندارد.دوسرے دن میں اسباب کو لے کر جب دروازہ شہر میں داخل ہوا تو یہ فکر تھی کہ کتابیں وغیرہ کہاں رکھوں.جب اسی باورچی کی دکان کے سامنے سے گزرا تو اس نے کہا کہ کھانا کھا لو.میں نے کتابیں اور اسباب اس کی دکان پر رکھ کر بلا تکلف خوب کھانا کھالیا.میرے دل میں تھا.پیسے تو پاس ہیں نہیں مگر آخر تمام اسباب آٹھ آنہ کا بھی نہ ہو گا؟ میں اسباب وہیں رکھ کر چلا آیا.بھوپال میں باجی کی مسجد بڑی عمدہ ہوادار جگہ اور تالاب کے کنارے تھی.مجھ کو پسند آئی.میں زیادہ حصہ اسی میں رہتا تھا.اب میں اس باورچی کی دکان کی طرف بھی نہیں جاسکتا تھا.مجھ کو بہت وقتوں تک کھانے

Page 105

٩٩ کا موقع نہ ملا.ایک دن میں نے دل میں یقین کیا کہ آج شائد شام تک نہ بچوں گا.اس باجی کی مسجد میں ایک چبوترہ تھا.عصر کے بعد میں ٹیک لگا کر اس چبوترہ میں بیٹھ گیا اور پھر لیٹ گیا.میرے بدن سے پسینہ جاری تھا اور خیال تھا کہ شام تک شائد ہی زندہ رہوں.اسی وقت وہاں منشی جمال الدین مدار المهام نماز کے لئے آئے اور نماز پڑھ کر اپنے امام صاحب کو میرے پاس بھیجا.اس وقت میں تو جان سے بھی بیزار تھا.لہذا امام صاحب نے جو کچھ مجھ سے کہا.اس کا جواب میں نے بہت روکھا سوکھا دیا.معلوم نہیں کہ امام صاحب نے کیا جا کر کہا ہو گا.مگر ان کے پہنچتے ہی منشی صاحب مع اپنے ہمراہیوں کے خود میرے پاس چلے آئے.ضعف کے باعث میں اٹھ نہیں سکتا تھا اور میری عادت بھی نہ تھی.امام صاحب نے ہی آگے بڑھ کر مجھ سے کہا کہ منشی صاحب آتے ہیں.میں نے کہا آنے دو.منشی صاحب آئے اور میں لیٹا ہی رہا.منشی صاحب نے کہا آپ پڑھے ہوئے ہیں.میں نے کہا ہاں.پھر انہوں نے کہا آپ کیا کیا علوم جانتے ہیں.میں نے کہا بھی کچھ جانتا ہوں.تب انہوں نے اپنی نبض مجھ کو دکھائی.مجھے یہ تو یاد نہیں میں نے نبض کسی احتیاط سے دیکھی.اس روز ان کو بہت بد ہضمی ہو چکی تھی.میں نے نبض دیکھ کر کہا کہ بد ہضمی ہے.انہوں نے مجھ سے نسخہ طلب کیا.میں نے ان کو نسخہ لکھوا دیا جو بہت قیمتی تھا.انہوں نے کہا.اگر فائدہ نہ کرے.میں نے اس کا جواب نهایت سختی سے دیا.پھر انہوں نے کہا آپ علم مساحت جانتے ہیں؟ میں نے کہا جانتا ہوں.سامنے تالاب تھا جو بہت بڑا تھا.انہوں نے کہا کہ آپ یہاں بیٹھ کر اس تالاب کی مساحت کر سکتے ہیں.میں نے کہا ہاں.میں نے ایک قاعدہ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ تو ایک قلم کے ذریعہ سے کر سکتے ہیں.بس اس کے بعد وہ سب لوگ چلے گئے.راستہ سے انہوں نے کہلا کر بھیجوایا کہ ہم آپ کی ضیافت کرتے ہیں.میں نہ اٹھ سکتا تھا نہ جاسکتا تھا.میں نے کہا مجھ کو ضیافت کی کوئی ضرورت نہیں.تب انہوں نے کہلا کر بھجوایا کہ مسنون دعوت ہے.میں نے سوچا.مرتے تو ہیں آخر وقت سنت پر تو عمل ہو اور کہا کہ بہت اچھا دعوت منظور ہے.غالباً دن ابھی بہت باقی تھا کہ ایک سپاہی آیا اور کہا کہ کھانا تیار ہے ، چلو.میں نے اس سے کہا کہ

Page 106

میں چل نہیں سکتا.اس نیک انسان نے کہا کہ آپ میری پیٹھ پر سوار ہو جائیں.چنانچہ میں اس کی پشت پر سوار ہو گیا اور وہ مجھ کو خوب احتیاط سے لے گیا.وہاں کھانا دستر خوان پر چنا جا چکا تھا.اس سپاہی نے لے جا کر مجھ کو منشی صاحب کے پاس ہی بٹھا دیا.میں نے اس وقت بہت غور کیا کہ کیا چیز ہے جو کھاؤں.پلاؤ کے ساتھ مجھ کو رغبت تھی.میں نے پلاؤ کی رکابی میں سے لقمہ اٹھایا.جب منہ کے قریب لے گیا تو ڈرا کہ ایسا نہ ہو گلے میں پھنس جائے اور جان نکل جائے.اس واسطے پلاؤ کے لقمہ کو پھینک دیا.پھر جو غور کیا تو ایک برتن میں مرغ کا شور ہا تھا.میں نے اس کو اٹھا لیا اور ایک بہت چھوٹا سا گھونٹ بھرا.تو میری آنکھوں میں روشنی سی آگئی.پھر ایک اور گھونٹ بھرا.اسی طرح آہستہ آہستہ میں نے اس کو پینا شروع کیا.منشی صاحب نے اپنے باورچی کو بلایا اور دریافت کیا کہ اس پلاؤ میں کیا نقص ہے.اس نے کہا کہ اس میں نقص تو کوئی نہیں ہاں اس کے مرغ میں کسی قدر داغ لگ گیا تھا.چونکہ یہ برتن بڑا ہے اور چاولوں کی زیادہ مقدار اس میں ہے.میں نے وہ داغ لگا ہوا گوشت نیچے دبا دیا ہے.منشی صاحب نے اس میں سے ایک لقمہ اٹھا کر سونگھا.مگر ان کو کچھ محسوس نہ ہوا.وہ یہ سمجھے کہ اس نے سونگھ کر اس نقص کو محسوس کیا اور لقمہ چھوڑ دیا.پھر انہوں نے باورچی سے کہا کہ ان تمام کھانوں میں سب سے عمدہ پکا ہوا کھانا کونسا ہے.اس نے کہا شوربا.جس کا پیالہ ان کے ہاتھ میں ہے.خیر میں نے وہ شور با قریباً تمام ہی پی لیا اور وہ اس وقت میرے لئے بہت ہی مفید ہوا.میرے ہوش و حواس اور قومی ٹھیک ہو گئے.جب کھانے سے سب فارغ ہو گئے تو اور لوگوں کو ہٹا دیا اور مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو.کہاں سے آئے ہو.ان دنوں میرا لہجہ اردو کا لکھنوی طرز پر تھا.میں نے کہا کہ میں ایک پنجابی آدمی ہوں اور یہاں پڑھنے کے لئے آیا ہوں.یہ بات میرے لئے بہت ہی مفید ہوئی.منشی صاحب کو یہ گمان تھا کہ یہ کوئی آسوده حال صدمہ رسیدہ اور حوادث کا پامال ہے.پڑھنے کا یونہی نام لیا ہے ورنہ یہ خود عالم ہے.تب انہوں نے فرمایا کہ آپ میرے پاس رہیں اور میرے ساتھ ہی کھانا کھایا کریں.جہاں آپ کو پڑھنا ہو گا میں کوشش کر دوں گا.ان کا ایک توشہ خانہ تھا.اس میں رہنے کے

Page 107

لئے جگہ دی.اور اپنے مستم کتب خانہ کو حکم دیا کہ کسی کتاب سے انکو مت روکو.میں نے کہا میرے پاس بھی کتابیں ہیں.ایک دکان پر میں نے اپنا سامان رکھ دیا ہے.اس دکاندار کو کچھ دینا ہو گا.وہاں سے سامان منگوادیں جو دینا ہو گا میں دے دوں گا.تھوڑی دیر کے بعد سب سامان مع کتابوں کے پہنچ گیا اور میں ان کے توشہ خانہ میں رہنے لگا.حضرت مولوی عبد القیوم صاحب سے میں نے بخاری اور ہدا یه دو کتابیں شروع کیں.حضرت منشی صاحب مغرب کے بعد خود قرآن شریف کا لفظی ترجمہ پڑھایا کرتے تھے.ایک روز میں بھی اس درس میں چلا گیا.وہاں یہ سبق تھا.وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ محمد عمران کا نواسہ قاری تھا.میں نے کہا کیا اجازت ہے ہم لوگ کچھ سوال بھی کریں ؟ منشی صاحب نے فرمایا بخوشی.میں نے کہا یہاں بھی منافقوں کا ذکر ہے اور نرم لفظ بولا ہے.یعنی بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ اور اس سورۃ کے ابتدا میں جہاں انہیں کا ذکر ہے وہاں بڑا تیز لفظ ہے.اِذَا خَلَوْا إِلى شَيْطِيْنِهِمُ اس نرمی اور تختی کی کیا وجہ ہو گی ؟ منشی صاحب نے فرمایا کیا تم جانتے ہو ؟ میں نے کہا.میرے خیال میں ایک بات آتی ہے کہ مدینہ منورہ میں دو قسم کے منافق تھے ، ایک اہل کتاب ایک مشرک.اہل کتاب کے لئے نرم یعنی بعضھم کا نرم لفظ اور مشرکین کے لئے سخت إلى شيطينهم بولا ہے.منشی صاحب سن کر اپنی مسند پر سیدھے کھڑے ہو گئے اور میرے پاس چلے آئے.مجھ سے کہا کہ آپ وہاں بیٹھیں اور میں بھی اب قرآن شریف پڑھوں گا.قدرت الہی ہم وہاں ایک ہی لفظ پر قرآن کریم کے مدرس بن گئے.نشی صاحب کو دن بدن مجھ سے محبت بڑھتی جاتی تھی.ان کے دربار میں ایک روز کوئی اخلاقی مسئلہ پیش ہوا.میں بھی وہاں موجود تھا.قاضی شہر نے شاہ اسحاق صاحب کی نسبت کوئی سخت لفظ بولا.صرف اتنی غیرت پر میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا.کھانے کے وقت میں منشی صاحب کے یہاں نہیں گیا.وہ مجھ سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اس روز خود بھی کھانا نہیں کھایا.میں زمانہ سے نا تجربہ کار مجھ کو خبر نہیں کہ وہ مجھ سے اتنی محبت کرتے ہیں.دوسرے

Page 108

١٠٢ دن انہوں نے کسی آدمی سے دریافت کیا کہ نور الدین عصر کی نماز کہاں پڑھتا ہے.اس نے کہا کہ توشہ خانہ کے پاس کی مسجد میں.میں وہاں عصر کی نماز پڑھتا تھا.خود منشی صاحب میرے دہنی طرف آکر بیٹھ گئے.میں نے جو سلام پھیرا اور کہا کہ السلام علیکم و رحمہ اللہ فوراً فرمانے لگے آخاہ ! آپ نے تو ابتدا کر دی.میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھالیا.ایک بگھی جس کو وہاں چرٹ کہتے تھے اس میں اپنے ساتھ سوار کر کے شہر سے باہر بہت دور لے گئے.باہر جا کر مجھے سے کہا کہ آپ نے تو کل سے ہم کو بھوکا رکھا.میں نے کہا کہ آپ کی محفل میں شاہ اسحاق صاحب کی برائی ہوتی ہے اور میں تو شاہ صاحب کا عاشق ہوں.منشی صاحب نے فرمایا.آپ نے شاہ اسحاق صاحب کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں.کہا میں نے تو شاہ صاحب کی خدمت میں قرآن شریف پڑھا ہے.میں شیعہ تھا اور سخت شیعہ تھا مگر ہمارا گھر دہلی میں ایسی جگہ تھا کہ شاہ صاحب کے سامنے سے ہو کر جانا پڑتا تھا.آخر میں شاہ صاحب کے درس میں شریک ہوا اور انہیں کی صحبت کا نتیجہ ہے کہ میں موجوہ حالت کو پہنچا.پھر اپنا سارا قصہ تشیع کا اور سنی ہونے کا سنایا اور کہا کہ میں شاہ صاحب کا بہت معتقد ہوں.لیکن وہ ایک سرکاری معاملہ تھا.جس میں اس وقت مجھ کو بولنا مناسب نہ تھا اور یہ لوگ ایسے ہی ہیں.ان کی باتوں کی طرف زیادہ التفات نہیں چاہیے.یہ کہہ کر بگھی کو لوٹایا اور مجھے کو اپنے مکان پر لے گئے.کھانا کھایا اور مجھ سے کہا کہ آپ ایسی باتوں کا زیادہ خیال نہ کیا کریں.میں نے ان کی قرآن شریف کی آیتوں سے محبت اور وقاف للقرآن ہونا اس طرح دیکھا کہ مجھ کو یاد نہیں کہ کسی اور کو ایسا دیکھا ہو.ایک دفعہ میں منشی جمال الدین صاحب کے ساتھ ان کے باغ میں جانا تھا.راستہ میں انہوں نے پوچھا کہ حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ میں جس طرح ما سے پہلے اذا آیا ہے عربی کے کسی شعر میں اس کی مثال موجود ہے ؟ بچپن کی حالت بھی کیا بری ہوتی ہے.میں اور ان کا نواسہ محمد نام بگھی میں ایک سیٹ پر بیٹھے تھے اور مقابل کی سیٹ پر نشی صاحب تھے.میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا.

Page 109

١٠٣ اذا ما بكى من خلفها انصرفت له بشق و تحتى شقها لم تحول پڑھنے کو تو یہ شعر میں نے پڑھ ہی دیا مگر اس حالت کو کوئی کیا سمجھ سکتا ہے.جب انہوں نے کہا کہ اس شعر کا ترجمہ کرو.میں نے میاں محمد کی طرف دیکھا اور انہوں نے منہ کے سامنے کوئ چیز کر کے گردن جھکائی اور مسکرائے.وہ بھی خاموش اور میں بھی چپ.منشی صاحب کی طبیعت بہت ہی نیک تھی.وہ فورا سمجھ گئے کہ یہ کوئی فحش شعر ہو گا اور بات کو ٹلا دیا اور سلسلہ کلام شروع کر دیا.اس روز مجھ کو یہ سبق ملا کہ بات کو منہ سے نکالنے میں انسان کو بہت زیادہ عاقبت اندیشی سے کام لینا چاہیے.گو بعض اوقات زیادہ غور و خوض انسان کو نقصان بھی پہنچا دیتا ہے مگر اس کی تلافی دعاؤں سے ہو سکتی ہے.مجھ کو اپنی اس حرکت پر بڑی حیرت رہی.مگر انکی شرافت دیکھو کہ کسی دن بھی انہوں نے اس شعر کے متعلق مجھ سے نہ پوچھا.بھوپال میں میں دو دفعہ گیا ہوں.طالب علمی میں تو یہی کافی ہے کہ میں نے بخاری اور ھدایہ مولوی عبد القیوم صاحب سے پڑھیں اور حدیث مسلسل بالا ولیت میں نے وہاں کے مفتی صاحب سے کی فجزاه الله احسن الجزاء جو انہوں نے محمد بن ناصر حضرمی سے روایت کی.محمد بن ناصر حضرمی کا ایک قصہ مجھ کو منشی صاحب نے سنایا کہ ایک مرتبہ وہ میرے مکان پر آئے.چونکہ بڑے نیک اور مشہور آدمی تھے.میں نے ایک ہزار روپیہ کی تھیلی ان کے سامنے رکھی.یہ دیکھ کر ان کے چہرہ پر بڑا تغیر اور خفگی کے آثار نمایاں ہوئے.میں نے وہ تحصیلی فورا اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لی تو ان کے چہرہ پر بشاشت کے آثار نمایاں ہوئے اور میں ہنس پڑا.وہ کہنے لگے کہ تم کیوں ہے.میں نے کہا کہ میں نے روپیہ آپ کے سامنے رکھا تو آپ کے چہرہ پر تغیر نمایاں ہوا اور جب میں نے روپیہ اٹھالیا تو آپ کے چہرہ پر خوشی کے آثار نمایاں ہوئے.فرمانے لگے کہ ہاں ہمارا ارادہ تھا کہ آپ کے پاس آیا کریں گے اور آپ کو

Page 110

۱۰۴ حدیث سنائیں گے.جب آپ نے روپیہ رکھا تو ہم کو رنج ہوا کہ یہ تو دنیا دار آدمی ہے.حدیث میں آیا ہے کہ روپیہ کوئی دے تو واپس نہ کرو.اس لئے ہم روپیہ تو لے لیتے مگر روپیہ لے کر پھر حدیث نہ سناتے.اب معلوم ہوا کہ تم بڑے ذہین آدمی ہو اس لئے ضرور آیا کریں گے اور تم کو حدیث سنائیں گے.یہ بھی فرمانے لگے کہ ہم کو روپیہ کی ضرورت نہیں.ہمارے گھر اس قدر کھجوریں پیدا ہو جاتی ہیں جو سال بھر کے لئے کافی ہوتی ہیں.ہمارے گھر کے اونٹ ہیں.ایک طرف اونٹ پر کھجوریں لاد لیتے ہیں.دوسری طرف غلام کو سوار کر لیتے ہیں.پانی کا مشکیزہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں.اسی طرح حج کو جاتے ہیں اور دور دور سفر کر آتے ہیں.کسی چیز کی اور الحمد للہ ضرورت نہیں.یہ قصہ خود منشی جمال الدین صاحب نے بلا کسی وساطت کے سنایا.محمد بن ناصر حضرمی (حضرموت کے رہنے والے) جب بات کرتے تھے تو بہت جلد جلد بلا تکان زبان سے الفاظ نکلتے تھے.مگر کوئی لفظ قرآن و حدیث کے الفاظ سے باہر نہ ہوتا.منشی جمال الدین صاحب کی ایک یہ بات دیکھی کہ وہ ہمیشہ نابینا مرد یا نابینا عورت کی تلاش میں رہتے تھے اور دور دور سے بلواتے تھے.کبھی مرد و عورت دونوں نابینا ہوتے تھے اور ان کی شادی کر دیتے تھے.کبھی دونوں میں ایک ہی نابینا ہو تا تھا.ان سب کا تمام خرچ وہ خود برداشت کرتے تھے اور ان کا ایک محلہ آباد کیا تھا.ان کے جو بچے ہوتے تھے.ان کے لئے اسی محلہ میں ایک مدرسہ بھی جاری کیا تھا.ایک روز ایک لڑکے کو (جس کے ماں باپ دونوں نابینا تھے) دیکھ کر وجد کی حالت فشی صاحب پر طاری ہو گئی.مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھو اس کی دونوں آنکھیں کیسی اچھی ہیں.وہاں دور دور کے اندھے جمع تھے.حتی کی ایک سیالکوٹ کا بھی تھا.منشی صاحب اقتصاد کے بڑے عالم تھے.ان کے لئے عضلہ کا ایک سیر گوشت خصوصیت سے پکتا تھا.ایک وقت کھانا کھاتے تھے.اس گوشت میں کئی آدمیوں کو شریک کر لیتے تھے.ایک روز مجھ سے کہنے لگے کہ میں نوجوان تھا جب یہاں نو کر ہوا.میں نے تین روپیہ سے زیادہ کا گوشت اب تک نہیں کھایا.مجھے کو سن کر بہت تعجب ہوا.تو فرمانے لگے کہ

Page 111

۱۰۵ میں تین روپیہ کا ایک بکرا ہر روز خرید تاہوں اور نماز فجر کے بعد اس کو ذبح کر دیتا ہوں.ایک بیر گوشت اس میں سے نکلوا کر باقی پر ایک سپاہی کھڑا کر دیتا ہوں کہ اس کے تین روپیہ وصول کرلے.وہ باقی گوشت پوست فوراتین روپیہ میں فروخت ہو جاتا ہے اور لوگ علی الصبح آکر سب خرید کرلے جاتے ہیں.اس طرح ہر روز ہم کو تین روپیہ بچ جاتے ہیں.یہ طریقہ انہوں نے اپنے بہت سے کھانے پینے میں مقرر کر رکھا تھا.مگر مجھ کو تو صرف گوشت کا حال سنایا تھا.بھوپال کے واقعات بہت ہی عجیب ہیں.مگر طبی امور کے متعلق صرف یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے نہایت عمدہ دو صد ریاں بنوائی تھیں جن کے پہننے کی ہمیشہ مجھے عادت تھی.ان میں ایک چوری ہو گئی.مجھے یقین ہوا کہ طالب علمی کی حالت میں یہ ایک مصیبت ہے.مصیبت پر صبر کرنے والے کو نعم البدل ملتا ہے.دوسری صدری کو اس کے شکریہ میں دے دیا.تھوڑے دنوں کے بعد ایک امیر کبیر کے لڑکے کو سوزاک ہوا.اس نے اپنے آدمی کو کہا کہ کوئی ایسا طبیب جس کو لوگ نہ جانتے ہوں بلا لاؤ.مگر وہ بنی ہوئی روانہ دے بلکہ سہل دوا بتلادے ایسی نہ ہو کہ جس کے بنانے میں مجھے عام نوکروں کو آگاہی کرنی پڑے.جن سے کہا تھا ان کا نام پیرا بو احمد مجددی تھا.انہوں نے کہا کہ ایک طالب علم طبیب ہے اور اس کے طبیب ہونے سے لوگ ناواقف ہیں.میں اس کو اپنے ساتھ لاؤں گا.چنانچہ وہ مجھ کو وہاں لے گئے.وہ نوجوان اپنے گھر کے ایک دالان کے آگے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا.وہاں ایک باغیچہ بھی تھا.وہیں ہمارے لئے کرسیاں منگوا ئیں.میں نے اس کا حال دریافت کر کے کہا کہ کیلے کی جڑھ کا ایک چھٹانک پانی صاف کر کے اس میں یہ شورہ قلمی جو آپ کے دالان میں بارود کے لئے رکھا ہے کئی دفعہ پئیں اور شام تک مجھے اطلاع دیں.میں کہہ کر چلا آیا اور قدرت الہی سے اس کو شام تک تخفیف ہو گئی.اس نے مجھے ایک گراں بہا خلعت اور استار و پسیہ دیا کہ مجھ پر حج فرض ہو گیا.ساتھ ہی یہ بات ہوئی.کہ مجھے شدت بخار میں سیلان اللعاب خطرناک رنگ میں شروع ہوا.جس میں پانی بودار سیاہ رنگ کا نکلتا تھا.ایک شخص حکیم فرزند علی نے

Page 112

I ۱۰۶ مجھے رائے دی کہ آپ کا وطن اگر قریب ہے تو جلد چلے جائیں.اس احتراقی مواد سے بچنے کی کوئی امید نہیں.شام کے وقت ایک بزرگ جو وہاں مہتم طلبہ " العلم تھے اور نہایت ہی مخلصانہ حالت میں تھے.آئے اور کہنے لگے کہ میں بوڑھا ہوں اور میرے منہ سے لعاب آتا ہے.کوئی ایسی چیز بتاؤ جو افطار کے وقت کھا لیا کروں.میں نے کہا مربائے آملہ بنارسی.دانہ الائچی.ورق طلا سے افطار کریں.وہ یہ نسخہ دریافت کر کے گئے.معا واپس آئے اور ایک مرتبان مربہ اور بہت سی الائچیاں اور دفتری ورق طلا کی میرے سامنے لار کبھی اور کہا کہ آپ کے منہ سے بھی لعاب آتا ہے.آپ بھی کھائیں.میں نے ان کو کھانا شروع کیا.ایک آدھ کے کھانے سے چند منٹ کے لئے تخفیف ہو گئی.جب پھر پانی کا آغاز شروع ہوا تو ایک اور کھا لیا.غرض مجھے یاد نہیں کہ کس قدر کھا گیا.عشاء کے بعد مجھے بہت تخفیف ہو گئی.میں نے بجائے وطن کے حرمین کا ارادہ کر لیا.میں جب بھوپال سے رخصت ہونے لگا تو اپنے استاد مولوی عبدالقیوم صاحب کی خدمت میں رخصتی ملاقات کے لئے حاضر ہوا.سینکڑوں آدمی بطریق مشایعت میرے ہمراہ تھے.جن میں اکثر علماء اور معزز طبقہ کے آدمی تھے.میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ مجھ کو کوئی ایسی بات بتا ئیں جس سے میں ہمیشہ خوش رہوں.فرمایا کہ ”خدانہ بننا اور رسول نہ بننا.میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی اور یہ بڑے بڑے عالم موجود ہیں.غالبا یہ بھی نہ سمجھے ہوں گے.سب نے کہا.ہاں ہم بھی نہیں سمجھے.مولوی صاحب نے فرمایا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو ؟ میری زبان سے نکلا کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت فَعَالُ لِمَا يُرِيدُ.وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے.فرمایا کہ بس ہمار ا مطلب اسی سے ہے.یعنی تمہاری کوئی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں تم کوئی خدا ہو ؟ رسول کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آتا ہے وہ یقین کرتا ہے کہ اس کی نافرمانی سے لوگ جہنم میں جائیں گے.اس لئے اس کو بہت رنج ہوتا ہے.تمہار ا فتویٰ اگر کوئی نہ مانے تو وہ یقینی جہنمی تھوڑا ہی ہو سکتا ہے.لہذا تم کو اس کا بھی رنج نہ ہونا چاہیے.حضرت

Page 113

مولوی صاحب کے اس نکتہ نے اب تک مجھے کو بڑی راحت پہنچائی.وجزاهم الله تعالى.حرمین کے لئے سفر مجھ کو اس آپ نے جو بھوپال میں آتا تھا.بھوپال سے جدا ہونے کے بعد بھی سفر میں نہیں چھوڑا مگر اس کا یہ قاعدہ تھا کہ پندرہ دن کے بعد صرف ایک دن کے لئے ہوا کرتا تھا.رستہ میں برہان پوراسٹیشن پر میں اترا.جب شہر میں گیا تو ایک آدمی مولوی عبد اللہ نام مجھے کو ملے.انہوں نے میری بڑی خاطر مدارات کی اور کہا کہ میں تمہارے باپ کا دوست ہوں.جب میں رخصت ہوا تو انہوں نے مجھ کو مٹھائی کی ایک ٹوکری دی.جب راستہ میں ٹوکری کھولی تو اس میں ایک ہزار روپیہ کی ہنڈی مکہ معظمہ کے ایک ساہوکار کے نام تھی اور کچھ نقد روپیہ بھی تھا.اس ہنڈی میں لکھا تھا کہ نورالدین کو ایک ہزار روپیہ تک جب وہ طلب کریں دے دو اور ہمارے حساب میں لکھ لو.اس کے حوصلہ کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا.اگر چہ میں نے وہ ایک ہزار روپیہ وصول نہیں کیا مگر ان کے حوصلہ کی داد دینی ضروری ہے.ان مولوی عبد اللہ صاحب نے بیان کیا کہ میں ساہی وال ضلع شاہ پور کا باشندہ ہوں.میں مکہ معظمہ میں حج کو گیا.اس زمانہ میں میں بہت ہی غریب تھا.مکہ معظمہ میں صبح سے شام تک " لقمة الله مسکین " کی صدا سے بھیک مانگتا تھا.پھر بھی کافی طور پر پیٹ نہیں بھرتا تھا اور تمام دن بازاروں گلی کوچوں میں پھر تا رہتا تھا.ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ تو اگر کبھی بیمار ہو جائے اور اتنا زیادہ نہ چل سکے تو بھوک کے مارے مرجائے گا.اس تحریک کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ بس آج ہی مر جائیں گے اور اب سوال نہ کریں گے.پھر میں بیت اللہ شریف میں گیا اور پر وہ پکڑ کر یوں اقرار کیا کہ ”اے میرے مولی - گو تو اس وقت میرے سامنے نہیں.مگر میں اس مسجد کا پردہ پکڑ کر عہد کرتا ہوں کہ کسی بندے اور کسی مخلوق سے اب نہیں مانگوں گا.یہ معاہدہ کر کے پیچھے ہٹ کر بیٹھ گیا.اتنے میں ایک شخص آیا.اس نے میرے ہاتھ پر ڈیڑھ آنہ کے پیسے (انگریزی سکے) رکھ دیئے.اب میرے دل میں یہ شک ہوا کہ میری شکل سائل کی سی ہے.گو میں نے زبان سے سوال نہیں کیا.اس لئے میرے

Page 114

HA لئے یہ پیسے جائز ہیں یا نہیں.میں یہ سوچنے لگا اور وہ شخص اتنے میں غائب ہو گیا.میں نے وہاں سے اٹھ کر دو پیسے کی روٹی کھائی.اور چار پیسے کی دیا سلائیاں خریدیں جو بارہ ڈبیاں ملیں.چونکہ مجھ کو گلی کوچوں میں دن بھر چلنے کی عادت تو تھی ہی.ان دیا سلائیوں کو ہاتھ میں لے کر کبریت کبریت کہتا پھرتا تھا.تھوڑی دیر میں وہ چھ پیسے کی بک گئیں.پھر میں نے چھ پیسے کی خریدیں وہ بھی اسی طرح بیچ دیں.آخر شام تک میرے پاس ایک چونی ہو گئی.دو پیسے کی روٹی کھا کر رات کو سو رہا.دوسرے دن پھر دیا سلائیاں خریدیں اور اسی طرح بیچیں.چند روز کے بعد وہ اتنی ہو گئیں کہ جن کے اٹھانے میں دقت ہوتی تھی.آخر میں نے وہ مختلف چیزیں جنکی عورتوں کو ضرورت ہوتی ہے خریدیں اور بقیہ کمر سے لگا کر پھرنے لگا.مگر سودا ایسا خرید تا تھا اور نفع اس قدر کم لیتا تھا کہ شام تک سب فروخت ہو جائے.رات کو بالکل فارغ ہو کر سوتا تھا.کچھ دنوں بعد ایک چادر بچھا کر اس پر سودا جما کر بیٹھ جاتا اور فروخت کرتا.پھر اس قدر ترقی ہو گئی کہ میں نے نصف دکان کرایہ پر لے لی.پھر اس قدر ترقی ہوئی کہ میں بمبئی آگیا وہاں قرآن شریف خرید تا اور ارد گرد کے گاؤں اور قصبوں میں لے جاکر فروخت کرتا.پھر میری ایسی ساکھ بڑھی کہ میں تمہیں ہزار روپیہ کے قرآن شریف خرید کر تمہارے شہر بھیرہ میں لے گیا اور تمہارے والد نے وہ سب کے سب خرید لئے.مجھ کو اس میں منافع عظیم ہوا.پھر دوبارہ اسی طرح ہزاروں ہزار کے قرآن شریف خرید کرلے جاتا.جب میں نے دیکھا کہ اب روپیہ بہت زیادہ ہو گیا ہے اور اس تجارت سے بڑھ کر ہے تو میں نے کپڑے کی تجارت شروع کی.یہ میری عادت تھی کہ مال بہت جلد فروخت کر دیتا اور نفع بہت کم لیتا تھا.اب مال اس قدر بڑھا کہ میں برھان پور سے اس کو اٹھا نہ سکا.میں نے یہیں کو ٹھی بنالی اور اب میں اتنا بڑا آدمی ہوں.اس سے مجھ کو اس حدیث کا مضمون صحیح ثابت ہوا کہ جس میں ارشاد ہے کہ تجارت میں بڑا رزق ہے.میں جب بمبئی پہنچا تو مولوی عنایت اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی مجھے اس زمانہ میں فوز الكبیر کا بڑا شوق تھا.میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ کتاب مجھ کو کہیں سے پیدا

Page 115

۱۰۹ کر دیں.انہوں نے فرمایا کہ کل آؤ.میں جب دوسرے دن گیا تو انہوں نے وہ کتاب ہمیٹی کی چھپی ہوئی مجھے دکھائی اور کہا کہ ہم اس کی قیمت پچاس روپیہ لیں گے.میں نے فورا پچاس روپیہ کانوٹ نکال کر ان کو دے دیا.اور وہ کتاب لیکر کھڑا ہو گیا اورباہر جانے لگا.انہوں نے کہا کیوں اس قدر جلدی کیوں اٹھ کھڑے ہوئے.میں نے کہا کہ بیع شرا میں ایک مختلف مسئلہ ہے.حنفیہ تفارق قولی کے قائل ہیں اور محدثین تفارق جسمی کی طرف مائل ہیں.میں چاہتا ہوں کہ احتیاطاً دونوں کے موافق بیع صحیح اور قوی ہو جائے.اس لئے آپ کے مکان سے جانے کا ارادہ کیا ہے.ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے بھی ایسا ہی کیا تھا.چنانچہ میں اس وقت ان کے موافق عمل کرتا ہوں.میں وہاں سے اٹھ کر گلی میں جاکر پھر جلد واپس آگیا.تھوڑی دیر بیٹھے رہے اور باتیں کرتے رہے مجھے وہ بڑے ہی مخلص اور عمدہ آدمی معلوم ہوئے.جب باتوں سے فارغ ہو کر میں اٹھنے لگا تو انہوں نے پچاس روپیہ کانوٹ نکالا اور مجھ سے کہا کہ میں اپنی طرف سے آپ کو اس عمدہ نظارہ پر دیتا ہوں جو عمدہ کتابوں سے آپ کے محبت کرنے کے متعلق میں نے دیکھا.میں نے کہا کہ گو میں طالب علم آدمی ہوں مگر محتاج نہیں ہوں.حج مجھ پر فرض ہے.مگر انہوں نے وہ پچاس روپیہ مجھ کو واپس کر ہی دیئے یا یوں سمجھو کہ اپنے پاس سے دیئے.بمبئی سے روانگی کے وقت مجھ کو اپنے وطن کے پانچ آدمی حج کو جاتے ہوئے ملے.جن کے باعث مجھ کو جہاز میں بڑا آرام ملا.کیونکہ وہ میرے مفت کے خدمت گزار ہوتے تھے.بندرگاہ حدیدہ میں اس جہاز کو کچھ مدت ٹھہر نا تھا.میں جو ان آدمی تھا اس لئے میرا ارادہ ہوا کہ جب تک جہاز لنگر ڈالے ہوئے ہے میں یمن کے اندرونی حصہ کے علماء کو دیکھ آؤں.چنانچہ میں حدیدہ سے مراعہ پہنچا اور وہاں سے میں نے بہت کچھ نفع اٹھایا اور تعجب ہے کہ وہاں کے ایک نوجوان نے مجھ سے الفیہ کی اجازت لکھوائی جو مجھے کو اس وقت بڑے اچنبھے کی بات معلوم ہوتی تھی.اس نوجوان نے کچھ الفیہ مجھ سے پڑھ بھی لیا.ان احباب میں سے جو سفر میں میرے شریک تھے دو شخصوں کو میں نے دیکھا کہ بلا کسی حساب کتاب کے

Page 116

شراکت میں خرچ اٹھاتے ہیں.میں نے کہا.میں پڑھا لکھا آدمی ہوں، مجھ سے لکھوالیا کرد.ان کو میری یہ بات بڑی ہی ناگوار گزری اور کہا کہ آپ بھائیوں میں تفرقہ ڈلوانا چاہتے ہیں.میں سمجھتا تھا کہ یہ مزدوری پیشہ لوگ ہیں اور یہاں خرچ بہت ہو تا ہے.انجام انکی اس بجھتی کا اچھا نہ ہو گا.وہ دو تو مجھ سے یوں ناراض ہو گئے ایک ضعیف العمر تھے وہ تو ویسے ہی قابل ادب تھے.چوتھے صاحب جن سے بہت آرام ملتا تھا.انہوں نے مجھ سے کہا کہ اپنی کتابیں میرے صندوق میں رکھ دو کیونکہ اس میں جگہ خالی ہے.میں سفروں کا تجربہ کار نہ تھا.میں نے کتابیں رکھ دیں.جدہ سے ہم سوار ہوئے.پڑاؤ پر جہاں ٹھرے وہاں یہ حادثہ ہوا کہ انکے صندوق کی کنجی گم ہو گئی.وہ طبیعت کے بڑے تیز تھے مجھ سے کہنے لگے کہ تمہاری کتابوں کے سبب سے چونکہ صندوق بھاری تھا اس لئے اس کی کنجی کسی نے چرائی ہے.تم ابھی کنجی پیدا کرو.میں نے کہا کہ تمہاری کنجی میں نے چرائی نہیں.اور میری کتابیں اپنے صندوق میں تم نے خود ہی باصرار بلا میری درخواست کے رکھی ہیں.مگروہ کچھ ایسے ضدی آدمی تھے کہ ایک ہی بات پر اڑ گئے اور کہا کہ میری کنجی اسی وقت پیدا کرو.یہ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ شور برپا ہوا اور ارد گرد کے تمام لوگوں کو اطلاع ہوئی.ایک ہمارے ساتھ لوہار تھا.اس نے کہا کہ اس تالے کی اعلیٰ سے اعلیٰ کنجی مکہ معظمہ میں پہنچتے ہی بنادوں گا.مگر اس وقت یہاں چونکہ کوئی سامان نہیں.اس لئے مجبور ہوں.صندوق والے نے کہا کہ میں تو اپنی کنجی مانگتا ہوں غرض کہ ایسے پیچھے پڑے کہ کسی طرح چین نہیں لینے دیتے تھے.میں نے منت سماجت بھی کی.اور لوگوں نے بھی انکی خوشامد کی اور سمجھایا مگر وہ اپنی بات سے نہ ملے.رات کو وہ اور ہم سب سو گئے.اسی رات ترکوں کے کیمپ پر چوروں نے حملہ کیا.ترک لوگ سپاہی تھے.انہوں نے چوروں کا تعاقب کیا.بھاگتے چوروں کی کنجیاں رہ گئیں.اور یہ کرشمہ اس دعا کا تھا جو رات کو میں نے جناب الہی میں کی تھی.صبح کے وقت ترک مع کنجیوں کے اس تجھے کے ہندیوں کے کیمپ میں آئے اور منشا ان کا یہ تھا کہ جن کے صندوقوں میں وہ کنجیاں لگیں.وہی چور ہیں ان کو پکڑ لیا جائے.میں نے ایک ترک کے ہاتھ میں کنجیوں کا گچھا دیکھا تو اس

Page 117

☐ میں وہ کنجی بھی تھی.میں نے اس ترک سے کہا.اگر ان کنجیوں کے ذریعہ سے چور پکڑنے منظور ہیں تو یہ کنجی تو میری ہے.مجھ کو پکڑ لو مگر یہ کنجی مجھ کو دے دو.اول تو وہ کچھ خفا سا ہوا اور کہا.ہم تم کو پکڑلیں گے.میں نے کہا کچھ حرج نہیں مگر میری کنجی مجھے دے دو.آخر وہ تمام کنجیوں کا گچھا میری طرف پھینک کر چلا گیا.میں نے وہ کنجی صندوق والے صاحب کو دی کہ لیجئے.وہ کچھ بہت ہی شرمندہ سے ہو گئے اور پھر مجھ سے عذر کرنے لگے.مکہ معظمه میں کوئی بزرگ محمد حسین سندھی تھے ان کے مکان پر ہم اترے.انہوں نے اپنا بیٹا ہمارے ساتھ کر دیا کہ طواف القدوم کرا دے.مطوفون کی ہوشیاری اور ذہانت کبھی میرے دل سے فراموش نہیں ہوئی.اور میں اب تک حیران ہوتا ہوں کہ وہ کیسے ہوشیار ہوتے ہیں.ہم جب مسجد بیت اللہ میں داخل ہوئے تو مطوف کی پہلی آواز یہ تھی کہ یا بیت الله - اسکی اس آواز پر میں نے کہا کہ میں مسنون دعا ئیں جانتا ہوں.میں خود پڑھ لوں گا تو دوسری آواز یہ تھی یا رب البیت اسکی اس ذہانت پر اس قدر تعجب ہوا کہ آج تک بھی وہ تعجب دور نہیں ہوا.تمام مراتب میں اس نے سفن کو نہایت احتیاط سے مد نظر رکھا.میں نے کسی روایت کے ذریعہ سنا تھا کہ جب بیت اللہ نظر آئے تو اس وقت کوئی ایک دعا مانگ لودہ ضرور ہی قبول ہو جاتی ہے.میں علوم کا اس وقت ماہر تو تھا ہی نہیں جو ضعیف و قوی روایتوں میں امتیاز کرتا.میں نے یہ دعا مانگی.الہی میں تو ہر وقت محتاج ہوں.اب میں کون کونسی دعا مانگوں.پس میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ میں جب ضرورت کے وقت تجھ سے دعا مانگوں تو اس کو قبول کر لیا کر.روایت کا حال تو محدثین نے کچھ ایسا ویسا ہی لکھا ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ میری تو یہ دعا قبول ہی ہو گئی.بڑے بڑے نیچریوں.فلاسفروں.دہریوں سے مباحثہ کا اتفاق ہوا اور ہمیشہ دعا کے ذریعہ مجھ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ایمان میں بڑی ترقی ہوتی گئی.مکہ معظمہ میں پہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں میں نے شیخ محمد خزرجی سے ابو داؤد اور سید حسین سے صحیح مسلم اور

Page 118

مؤطا مولوی رحمت اللہ صاحب سے پڑھنا شروع کی.ان تینوں بزرگوں کی صحبت بڑی ہی دلربا تھی.سید حسین صاحب کی صحبت میں مدت دراز تک حاضری کا اتفاق رہا.مگر میں نے سوائے الفاظ حدیث کے قطعاً کوئی لفظ ان کی زبان سے نہیں سنا.جب میں نے مولوی رحمت اللہ صاحب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم میں برس سے دیکھتے ہیں کہ یہ کسی سے تعلق نہیں رکھتے اور ہم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کھاتے کہاں سے ہیں.سید حسین صاحب نہایت ہی کم سخن تھے اور باتیں کرنے میں اس قدر تامل تھا کہ بعض اوقات ضروری کلام بھی نہیں فرماتے تھے.حرم میں میں ان سے مسلم پڑھتا تھا.سائل بھی وہاں آجاتے تھے.وہ تھوڑی دیر تک ان سائلوں کو دیکھتے رہتے تھے.پھر کسی کو کہتے تھے کہ تم یا باسط پڑھو.کسی کو کہتے.یاغنی پڑھو.کسی کو یا حمید کسی کو یا مجید وغیرہ کا حکم دیتے.یہ انکی معمولی روزانہ باتیں تھیں.لیکن میں ان سے یہ نہ پوچھ سکا کہ یہ مختلف اسماء مختلف اشخاص کو آپ کیوں بتاتے ہیں.انکی قلت کلام نے پوچھنے کی اجازت نہیں دی.شیخ محمد صاحب کو صحاح ستہ خوب آتی تھیں.سادہ سادہ پڑھاتے تھے.مباحثات کی طرف سے انکی طبیعت بالکل متنفر تھی.ایک دفعہ میں ابوداؤد پڑھتا تھا.اعتکاف کے مسئلہ میں حدیث سے معلوم ہو تا تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر انسان معتکف میں بیٹھے.مجھے اشارہ کیا کہ تم حاشیہ کو پڑھو یہ حدیث بہت مشکل ہے.میں نے عرض کیا کہ حدیث تو بہت آسان ہے.حکماً میں دیکھ لیتا ہوں.انہوں نے کہا بہت مشکل ہے.میں نے سرسری طور پر اس کا حاشیہ دیکھا.اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ حدیث بہت مشکل ہے.کیونکہ اکیس تاریخ کی صبح کو بیٹھیں تو ممکن ہے اکیسویں رات لیلۃ القدر ہو.اگر اس کے لحاظ سے عصر کو بیٹھیں تو رسول اللہ صلی علیہ و سلم سے ثابت نہیں.میں نے دیکھ کر کہا کہ ذرا بھی مشکل نہیں.یہ محاشی کی غلطی ہے.میں ایسی راہ عرض کرتا ہوں جس میں ذرا بھی اشکال نہیں یعنی میں کی صبح کو بیٹھے.انہوں نے کہا یہ تو اجماع کے خلاف ہے.میں نے کہا.امام احمد رحمہ اللہ علیہ کے اقوال آپ پڑھیں.یہ اجماع محض دعاوی ہیں.ہر ایک شخص اپنے اپنے مذہب کی کثرت کو دیکھ کر لفظ اجتماع بول

Page 119

١٤٣ لیا کرتا ہے.اس پر وہ بہت ہی تند ہو گئے.میری عادت تھی کہ سبق کو پڑھ کر کسی بڑے کتب خانہ میں اس کتاب کی شرح دیکھا کرتا تھا اور کوئی لغت اٹک جاتا تھا تو لغت کی کتاب میں دیکھ لیتا تھا.میں نے انکی تیزی کی طرف دھیان نہ کر کے سبق کو بہت تیزی سے پڑھنا شروع کر دیا.صبح سے لیکر دو پر کے قریب تک پڑھتا ہی چلا گیا.مگر وہ چپ ہی بیٹھے رہے.جب ظہر کی اذان کی آواز آئی تو اتنا فرمایا کہ جماعت مشکل سے ملے گی.سوائے اس کے انہوں نے اس وقت تک کوئی کلام نہیں کیا.میں نے کتاب کو بند کر دیا.عبد اللہ حلوائی ایک شخص کے مکان پر یہ سبق ہوا کرتا تھا اور دن کا کھانا میرا اور شیخ صاحب کا اسی کے یہاں ہو تا تھا.میں وضو کر کے ظہر کی نماز کو چلا گیا.ظہر کے بعد مولوی رحمت اللہ صاحب کے خلوت خانہ میں جا پہنچا.انہوں نے فرمایا کہ آج تمہارا اپنے شیخ سے مباحثہ ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ تلمیذ اور استاد کا کوئی مباحثہ نہیں ہو سکتا.میں طالب علم آدمی ہوں میرا مباحثہ ہی کیا.ہمارے شیخ تو بڑے آدمی ہیں.ہاں یوں طالب علم اساتذہ سے کچھ پوچھا ہی کرتے ہیں.فرمانے لگے نہیں کوئی بڑا مسئلہ ہے.میں نے کہا مسئلہ تو کوئی نہیں ایک جزوی بات تھی.مولوی صاحب کی طرز سے مجھ کو معلوم ہو گیا کہ ان کو ساری خبر پہنچ گئی ہے.مگر میں حیران تھا کہ سوائے میرے اور شیخ کے وہاں اور کوئی نہ تھا خبر کیسے پہنچی.اتنے میں مولوی صاحب نے خود ہی فرمایا کہ تمہارے شیخ آئے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض طالب علم بہت دلیر آجاتے ہیں اور ان کے مشکلات کا خمیازہ ہمیں اٹھانا پڑتا ہے اور پھر انہوں نے سارا واقعہ ہم کو سنایا.میں نے جب سمجھ لیا کہ اب اخفا کا کوئی موقع نہیں تو ان سے عرض کیا کہ یہ ایک جزوی مسئلہ ہے.اکیس کی صبح کو نہ بیٹھے ہیں کی صبح کو بیٹھ گئے.اس طرح حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے.مولوی رحمت اللہ صاحب نے فرمایا کہ بات اجماع کے خلاف ہو جاتی ہے.میں نے کہا کہ اس چھوٹی سی بات پر بھلا اجماع کیا ہو گا.تب انہوں نے فرمایا کہ سبق کل پڑھائیں گے.اب تم ہمارے ساتھ ہمارے مکان پر چلو.یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے.جب خلوت خانہ سے نکل کر مسجد کے صحن میں پہنچ گئے.میں نے عرض کیا حضرت اس کوٹھے کی طرف لوگ سجدہ کیوں کرتے

Page 120

ہیں.فرمایا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حکم ہے.میں نے کہا انبیا کا اجماعی قبلہ تو بیت المقدس ہے.اور اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو اہل کتاب کی کتابوں سے بہت آگاہ فرمایا ہے.آپ ایک شخص کے فرمان پر اجماع انبیاء نبی اسرائیل کو کیوں چھوڑتے ہیں.آپ نے تو اتنے بڑے اجماع کو چھوڑ دیا.میں نے اگر جزوی مسئلہ میں ایک حدیث کے معنی میں اختلاف کیا تو حرج کیا ہوا.فرمایا.دل دھڑکتا ہے.میں نے کہا.جس کا دل نہ دھڑ کے وہ کیا کرے.پھر فرمایا کہ دل دھڑکتا ہے اور کھڑے ہو گئے.تب میں نے بہت دلیری سے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ محقق اور عالم ہیں.ہر مسئلہ میں شخص واحد کا اتباع.اس کے متعلق آپ مجھے ارشاد کریں.فرمایا ہم تو امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں.مگر ہر مسئلہ میں تو ہم فتویٰ نہیں دیتے.میں نے عرض کیا کہ حضور کے فرمانے سے تقلید شخصی کا مسئلہ تو حل ہو گیا.فرمایا تقلید کا مسئلہ بہت سهل اور بہت مشکل ہے.میں نے عرض کیا کہ میں اس کلام کو سمجھا نہیں.فرمایا ہر جزوی مسئلہ میں ایک ہی شخص کی تقلید نہ کسی نے کی نہ کوئی کر سکتا ہے اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ تقلید شخصی کوئی بڑی بات نہیں اور مسئلہ صاف ہو جاتا ہے.مگر مشکل یہ ہے کہ ہم غدر میں ہندوستان سے بھاگے تھے.تو پونا کے قریب ایک گاؤں میں ٹھرے وہاں جمعہ کے دن ایک شخص وعظ کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے اس طرح شروع کیا کہ نہ میں پنچھی (حنفی) کی مانوں نہ شاھی (شافعی) کی.میں وہ کہوں جو حضرت نبی کریم نے فرمایا ہے یہ کہہ کر اس نے مولوی خرم علی صاحب کی کتاب نصیحت المسلمین شروع کر دی.بیچ میں یہ بھی کہا کہ یہ بات مسکوت میں لکھی ہے.جب وہ وعظ سے فارغ ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ مشکوۃ کو مسکوت کہہ رہے تھے.سو اس لئے تقلید کا مسئلہ مشکل ہے.کیونکہ وہ پہلا فتوی دیں.تو جو لوگ مشکوۃ کو مسکوت کہتے ہیں وہ بھی مجتہد مطلق بن جاتے ہیں.بات تو بہت ہی سہل تھی.مگر بہت ہی مشکل ہو گئی.ہم علی العموم ان باتوں کے دشمن نہیں.تمہاری شفاعت تمہارے شیخ سے کر دی ہے.تم سبق پڑھتے جائیو.وہ روکیں گے نہیں اور آزادی سے پڑھو.ہم نے شیخ کو مطمئن کر دیا ہے.ہم تمہار انذاق خوب جانتے ہیں.میں نے عرض کیا ہمارے شیخ حدیث

Page 121

کا بڑا ادب کرتے ہیں.اگر میں ان کے حضور پڑھتا رہوں تو وہ کبھی مجھ کو بند نہ کریں گے.فرمایا.وہ ڈرے تھے.ہم نے مطمئن کر دیا ہے.چنانچہ میں دوسرے دن گیا.گو شیخ صاحب اس دن تو نہ بولے.مگر میں نے سبق پڑھ لیا.میں نے نسائی، ابو داؤد ابن ماجہ ان سے پڑھ لیں.ان دنوں مولوی ابو الخیر صاحب دہلوی خلف الرشید حضرت محمد عمر نقش بندی مجددی مجھے در المختار پڑھا کرتے تھے.کچھ مدت کے بعد حضرت شاہ عبد الغنی مجددی مدینہ سے مکہ میں تشریف لائے.شہر میں بڑی دھوم دھام بچی.میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا.اس وقت وہ حرم میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہزاروں آدمی ان کے گرد موجود تھے.سنب سے پہلے میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اعتکاف کب بیٹھا جائے.طالب علمانہ زندگی بھی عجیب ہوتی ہے.وہی ایک مسئلہ اتنے بڑے وجود کے سامنے میں نے پیش کیا.آپ نے بے تکلف فرمایا کہ نہیں کی صبح کو.میں تو سن کر حیران رہ گیا.ان کی عظمت اور رعب میرے دل میں بہت پیدا ہوا.مگر پھر بھی جرأت کر کے پوچھا کہ حضرت میں نے سنا ہے کہ یہ اجماع کے خلاف ہے.ان کے علم پر قربان ہو جاؤں.بڑے عجیب لہجہ میں فرمایا کہ جہالت بڑی بری بلا ہے.حنفیوں میں فلاں فلاں شافعیوں میں فلاں.حنابلہ میں فلاں.مالکیوں میں فلاں.کئی کئی آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ ہر فرقہ میں اس نہیں کے بھی قائل ہیں.میں اس علم اور تجربہ کے قربان ہو گیا.ایک وجد کی کیفیت طاری ہو گئی کہ کیا علم ہے ، تب وہاں سے ہٹ کر میں نے ایک عرضی لکھی کہ میں پڑھنے کے واسطے اس وقت آپ کے ساتھ مدینہ جاسکتا ہوں ؟ اس کاغذ کو پڑھ کر یہ حدیث مجھے سنائی المستشار مؤتمن - پھر فرمایا کہ تمام کتابوں سے فارغ ہو کر مدینہ آنا چاہیے.میں نے یہ قصہ جاکر حضرت مولانا زحمت اللہ کے حضور پیش کیا اور عرض کیا کہ علم تو اس کو کہتے ہیں.یہ بھی عرض کیا کہ ہمارے شیخ تو ڈر گئے تھے مگر حضرت شاہ عبد الغنی صاحب نے تو حرم میں بیٹھ کر ہزارہا مخلوق کے سامنے فتوی دیا.مگر کسی نے چوں بھی نہ کی.فرمایا شاہ صاحب بہت بڑے عالم ہیں.حرمین میں جن شیوخ سے میں پڑھتا تھا.ان میں سے جو شیخ الحدیث تھے ان کی والدہ کو

Page 122

قلاع کا مرض ہوا اور اطبا کے ناز سے وہ تنگ آگئے.مجھ سے فرمایا کہ کوئی طبیب تمہارا دوست ہو تو اس سے دو الا دو.میں اس فن کا خوب ماہر تھا.میں نے یہ نسخہ بنا کر پیش کیا.شورہ قلمی دو ماشہ - کتھا دو ماشہ.الائچی خورد دو ماشہ - گل سرخ دو ماشہ - کافور ایک ماشہ - تو تیا ئے سبز بریاں چھ رتی.شاید کچھ کمی بیشی بھی ہو.مگر شیخ سے یہ اظہار نہ کیا کہ میں طبیب ہوں.اس کے استعمال نے معافا ئدہ دیا.یہ ان کو پھر بھی معلوم نہ ہوا کہ یہ خود طبیب ہے.وہاں ایک اور امر میری طبی توجہ کے بڑھانے کا یہ ہوا کہ ڈاکٹر محمد و زیر خاں صاحب جو ہمارے شیخ مولوی رحمت اللہ کے بڑے دوست اور مناظر آگرہ میں شامل تھے.مولوی صاحب کے مکان پر ان سے تعارف ہوا.ان دنوں شریف مکہ کو سنگ مثانہ تھا.چونکہ فرانس کے ساتھ وہاں کے شریف کا تعلق تھا، فرانس سے وہ آلہ جس سے پتھری پیس کر نکالتے ہیں ، منگوایا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے اس کو پیس کر نکالا.اس کامیاب تجربہ سے مجھے ڈاکٹری طلب کا بہت شوق ہوا مگر میری موجودہ حالت اور شواغل اس طرف جھکنے نہ دیتے تھے.ڈیڑھ برس کے بعد مجھے کچھ سبکدوشی ہوئی تو حضرت شیخ المشائخ پیرو مرشد حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ سے نیاز حاصل ہوا اور اس طبیب روح کے باعث مدینہ چلا گیا.ان کے حضور بہت مدت رہا.اس عرصہ میں تمام دنیوی شواغل چھوٹ گئے.صرف ایک مخلص عنایت فرما جو عورتوں کے تپ دق سے خوب ماہر تھے ، ان سے کبھی کبھی طبی تذکرہ ہو جایا کرتا تھا.وہاں کی اقامت میں خود تجربہ کا خیال حضرت شاہ کی خاص توجہات کے باعث ہرگز نہ ہو سکا.مکه معظمہ میں ایک قابل افسوس امریہ پیش آیا کہ میرے شہر کا رہنے والا میرا ہموطن ، میرا ہم مکتب ایک شخص وہاں رہتا تھا.چونکہ اتنے تعلقات تھے اس لئے میں جب مدینہ طیبہ کو جانے لگا تو اپنا بہت سا اسباب اور روپیہ اس کے پاس رکھ دیا اور کہا کہ میں زمانہ در از تک مدینہ منورہ میں رہوں گا.یہ روپیہ تجارت میں لگاؤ.تم کو فائدہ ہو جائے گا.میں جب آئندہ حج کے وقت آؤں گا تو روپیہ تم سے لے لوں گا.تم حج کے زمانہ سے پہلے ہی روپیہ جمع رکھنا.میں جب آیا اور حج سے فارغ ہوا تو روپیہ اور اسباب اس سے طلب کیا.

Page 123

114.بہت اصرار اور تقاضوں کے بعد ایک روز وہ مجھے کو ایک عمدہ عظیم الشان مکان کے پاس لے گیا جس کے دروازہ پر قفل لگا ہوا تھا.کہنے لگا میں نے آپ کا روپیہ اور اسباب اس شخص کے پاس رکھ دیا ہے.معلوم نہیں کہاں چلا گیا ہے.اس گھر کی حیثیت بڑی عظیم الشان معلوم ہوتی تھی.ہم دونوں کے باتیں کرتے ہوئے ایک عرب آگیا اور پوچھا کیا معاملہ ہے.میں نے کہا میرا کچھ اسباب ہے جو اس صاحب خانہ کے پاس ہے اور تعجب ہے اتنا بڑا امکان ہے اور قفل لگا ہوا ہے.تب اس نے کہا کہ یہ ہندی آدمی جو آپ کے پاس ہے ، یہ کیوں کھڑا ہے ؟ میں نے کہا اسی نے رکھا ہے.یہ سنتے ہی اس نے بڑے طیش و غضب کا چہرہ بنا کر کہا یہ جھوٹا ہے.یہ آپ کا مال اور روپیہ سب کھا گیا اور اس مکان کا مالک تو بڑا عظیم الشان آدمی ہے.وہ تو مع اپنے کنبہ کے آدمیوں کے اپنے احباب کو رخصت کرنے گیا ہے اور جدہ میں اس وقت تک رہے گا جب تک کہ سب حجاج رخصت نہ ہو لیں.مجھ سے تو اس نے بڑی محبت اور نرمی سے کلام کیا مگر ہمارے ہم مکتب کو بڑے غضب سے بہت گالیاں دیں.ہمارا ہم مکتب خاموش اور شرمندہ ہو کر رہ گیا.پھر عرب نے کہا یہ حال مکہ شہر کا ہے.ان ہندیوں نے عرب کو بہت ہی بد نام کیا ہے اور اپنے قصور کی طرف مطلق توجہ نہیں کرتے.پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہا کہ تمہارا کپڑا مال اور روپیہ سارا اسباب اس نے ایک بنگالی عورت کو دے دیا ہے اور یہ لوگ ایسے کام یہاں بہت کرتے ہیں.اب اس سے آپ واپسی کی کوئی امید نہ رکھیں.اس واقعہ سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ میرے ایک استاد جن کے مکتب کا وہ ہم مکتب تھا، جب حج کو جانے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے مال و اسباب کی خود حفاظت کریں اور کسی شخص پر بھروسہ نہ کریں.جب وہ حج سے واپس آئے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تمہاری نصیحت کے سبب سے ہم اپنے ایک شاگرد کی دست برد سے بچ گئے.اس قسم کی مخلوق بھی کہیں کہیں ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.دوسرا افسوس وہاں یہ دیکھا کہ ایک دفعہ میں منی سے آرہا تھا تو میں نے کسی سے دریافت کیا کہ محسب کہاں ہے.کوئی نہیں بتا سکا.پھر میں نے کہا کہ اچھا خیف بنی ،

Page 124

کنانہ کہاں ہے؟ پھر میں نے پوچھا کہ بطحی کہاں ہے.جب کہیں پتہ نہ لگا تو میں بہت حیران ہوا.ایک شخص نے جو خشک ساوہابی تھا ، مجھ سے کہا کہ دیکھا! کہاں تک یہ نوبت پہنچی ہے.پھر اس نے پتہ دیا کہ جنه المعالی (جو وہاں کا مشرقی قبرستان ہے) وہی محسب ہے.وہی خیف بنی کنانہ اور بطحی ہے.میں وہاں کی مسجد میں گیا تو تعجب اور بھی بڑھ گیا.وہاں چند ضعیف العمر بنگالی بیٹھے تھے.تیسرا تعجب وہاں یہ ہوا کہ عرفات میں میں نے دیکھا کہ لوگ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے کپڑے کا پلہ پکڑ کر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہلاتے ہیں.میں اس نظارہ کو دیکھ کر بہت ہی متعجب ہوا.ادھر ادھر لوگوں سے پوچھا تو لوگوں نے کہا پہلے یہ کپڑا اس سامنے والی پہاڑی سے ہلتا ہے.وہاں اصلیت کا پتہ لگے گا.میں تو جو شیلا جوان تھا.دوڑا.اس پہاڑی کے چاروں طرف پھرا.آخر ایک رستہ نظر آیا جس کے ذریعہ اوپر چڑھ گیا.وہاں بہت سے ترک دیکھے جو سنگینیں چڑھائے ہوئے تھے.انہوں نے مجھے اشارہ سے منع بھی کیا.مگر میں رکا نہیں.زیادہ چھیٹر انہوں نے بھی نہ کی.جب اوپر پہنچاتو دیکھا کہ ایک اونٹنی پر ایک ترک سوار ہے.اس کے ہاتھ میں کتاب ہے اور چاروں طرف پہرہ دار کھڑے ہیں.میں ان سپاہیوں کو بھی چیرتا ہوا اس اونٹنی کے پاس جا کھڑا ہوا.میں نے بہت کوشش کی کہ اس کتاب کا کچھ حصہ سنوں.مگر کوئی ایک لفظ بھی سمجھ میں نہ آیا.مگر یہ بات حل ہو گئی کہ وہ ترک جس کتاب کو پڑھ رہا تھا تھوڑے وقفہ کے بعد بایاں ہاتھ ہلا تا تھا.اس کو دیکھ کر پہاڑی کے لوگ کپڑا ہلاتے تھے.ترکی یونی میں جانتا نہ تھا اور نہ اب جانتا ہوں اور وہاں سوائے ترک سپاہیوں کے اور کوئی بھی نہ تھا.میں نیچے اتر آیا.آخر پتہ لگا کہ یہ امام صاحب خطبہ پڑھ رہے ہیں اور جہاں الله أكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ NANGA NANGANANA الله وَ اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ - وَلِلَّهِ الْحَمْدُ کا مقام آتا ہے تو یہ اپنا ہاتھ ہلاتے ہیں اور لوگ اپنا کپڑا ہلاتے ہیں.اب یہ رسم رہ گئی ہے.اللهُ أَكْبَرُ کوئی نہیں کہتا.

Page 125

119 مدینہ طیبہ مدینہ طیبہ کے جانے میں چونکہ میں نے حضرت شاہ عبد الغنی صاحب سے ہی پہلے مشورہ لیا تھا.اس لئے میں انہیں کی خدمت میں سب سے پہلے حاضر ہوا.انہوں نے ایک علیحدہ حجرہ رہنے کے واسطے مجھے عطا کیا.میں وہاں صرف رہتا تھا.سبق کسی سے نہیں پڑھا کرتا تھا.نہ شاہ صاحب سے.پھر میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں انکے ہاتھ پر بیعت کرلوں.مکان پر تو میرا ایسا خیال ہو تا تھا.لیکن جب ان کی خدمت میں حاضر ہو تا تھا تو خیال کرتا تھا کہ کیا فائدہ.ان کے پاس جا کر عجیب عجیب خیال اٹھتے تھے.کبھی یہ سوچتا تھا کہ حلال و حرام اور اوامرو نوا ہی قرآن کریم میں موجود ہی ہیں.ان لوگوں سے کیا سیکھنا.اگر حسن اعتقاد سے نفع ہے تو مجھ کو ان سے ویسے ہی بہت عقیدت ہے.پھر اپنی جگہ جا کر یہ بھی خیال کرتا تھا کہ ہزار ہالوگ جو بیعت اختیار کرتے ہیں اگر اس میں کوئی نفع نہیں تو اس قدر مخلوق کیوں مبتلا ہے.غرض کہ میں اسی سوچ و بچار میں بہت دنوں پڑا رہا.فرصت کے وقت ایک کتب خانہ جو مسجد نبوی کے جنوب و مشرق میں تھا وہاں جا کر اکثر بیٹھتا اور کتابیں دیکھا کرتا تھا.بہت دنوں کے بعد آخر میں نے پختہ ارادہ کیا کہ کم سے کم بیعت کر کے تو دیکھیں اس میں فائدہ کیا ہے ؟ اگر کچھ فائدہ نہ ہوا تو پھر چھوڑنے کا اختیار ہے.لیکن جب میں خدمت میں حاضر ہوا اور خیال آیا کہ ایک شریف آدمی ایک معاہدہ کر کے چھوڑ دے تو یہ بھی ایک حماقت ہی ہے.پہلے ہی سے اس بات کو سوچ لینا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ پھر چھوڑ دے.آخر ایک دن میں خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ استخارہ کرو.میں نے عرض کیا کہ میں نے تو بہت کچھ استخارہ اور فکر کیا ہے.لیکن شاہ صاحب نے جو نہی اپنا ہاتھ بیعت لینے کے لئے بڑھایا.میرے دل میں بڑی مضبوطی سے یہ بات آئی کہ معاہدہ قبل از تحقیقات ! یہ کیا بات ہے؟ اس لئے باوجود یکہ حضرت شاہ صاحب نے ہاتھ بڑھایا تھا.میں نے اپنے دونوں ہاتھ کھینچ لئے.مربع بیٹھ گیا اور عرض کیا.بیعت سے کیا فائدہ؟ آپ نے

Page 126

فرمایا کہ "سمعی کشفی گردد و دید بشنید مبدل گردد" اور یہ وہ جواب ہے جو نجم الدین کبری نے دیا ہے.پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے.لیکن اس وقت آپ نے اپنے ہاتھ کو ذرا سا پیچھے ہٹالیا اور فرمایا تمہیں وہ حدیث یاد ہے جس میں ایک صحابی نے درخواست کی تھی کہ اسئلک مرافقتک فی الجنة میں نے عرض کیا خوب یاد ہے.آپ نے فرمایا.اس امر کے لئے تم کو اگر اصول اسلام سیکھنے ہوں تو کم سے کم چھ مہینے میرے پاس رہنا ہو گا اور اگر فروع اسلام سیکھنے ہیں تو ایک برس رہنا ہو گا.تب میں نے پھر اور بھی جب ہاتھ بڑھایا تو آپ نے میری بیعت لی اور فرمایا کہ کوئی مجاہدہ سوائے اس کے آپ کو نہیں بتاتے کہ ہر وقت آپ آیت و نحن أقرب إليه من حبل الورید پر توجہ رکھیں.پھر والله معكم این ما کنتم کی نسبت ایسا ہی فرمایا.اس توجہ میں میں نے بارہا حضرت نبی کریم کو دیکھا اور اپنی بعض غفلتوں اور سستیوں کے نتائج کا مشاہدہ کیا.چھ مہینہ کے اندر اندر آپ کا وہ وعدہ میرے حق میں بہر حال پو ر ا ہو گیا.جزاه الله عنی احسن الجزاء آپ بڑے محتاط تھے اور آپ کی نظر دینی علوم میں بڑی وسیع تھی.بہت قلیل الکلام تھے.مثنوی، ترمذی ، بخاری ، رسالہ قشیریه یه چار چیزیں آپ کے درس میں ہوتی تھیں.آپ کے کھانے پینے کے عجائبات میں سے ایک یہ بات ہے کہ ہمارے یہاں قادیان میں جو اکبر خاں سنوری حضرت مسیح موعود کے مرید اور خاص خادم رہتے ہیں.ان کے ایک حقیقی بھائی ولی داد خاں صاحب تھے جو مدینہ منورہ میں حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں اسی طرح رہتے تھے ان کو ایک دفعہ گیہوں خریدنے کے لئے بھیجا.وہ نہایت عمدہ گیہوں جس میں جو کا ایک دانا بھی نہ تھا لائے.ولی داد خاں کو تو کچھ نہ فرمایا.لیکن آئندہ بازار کا سودا ان کی معرفت منگوانا بند کر دیا.ولی داد خاں چونکہ منجملہ بڑے احباب کے تھے بہت گھبرائے.آخر ایک شخص کو پھر گیہوں خریدنے کے لئے بھیجا.اس شخص نے وہ روپیہ جو گیہوں خریدنے کا تھا ، ولی داد خاں کو دیا اور یہ کہا کہ اب کی دفعہ جو گیہوں حضرت صاحب کے واسطے لاؤ تو اس

Page 127

میں بہت سے جو ملے ہوئے ہوں.چنانچہ وہ گیہوں لائے جس میں بہت ہی جو ملے ہوئے تھے.خوش ہو کر فرمانے لگے کہ یہ گیہوں کون لایا ہے ؟ اس شخص نے سفارش کے طور پر کہا کہ ولی داد خاں لائے ہیں فرمانے لگے کہ اب ان کو عقل آگئی ہے.لہذا آئندہ وہی لایا کریں.ایک دفعہ مذاہب کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا اشهر المذاهب مذهب أبي حنيفة واوسع المذاهب مذهب مالك واقول المذاهب مذهب الشافعي و احوط المذاهب مذهب احمد بن حنبل - آپ کو میں نے نہایت ہی وسیع الخلق پایا اور کم کلامی میں تو مجھ کو تعجب بھی آتا تھا.وہاں آپ کے مکان میں ہر روز ختم ہو تا تھا اور بعض مریدین انیس ہزار دفعہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ہر روز پڑھتے تھے.ایک شخص نے شکایت کی کہ نور الدین اتنی محنت نہیں کرتا.نیز امام کے پیچھے الحمد پڑھتا ہے اور رفع یدین کا قائل ہے.آپ نے فرمایا کہ آپ ایک ایسی چھری لائیں جو رفع یدین اور فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ کو بخاری میں سے کاٹ سکے اور انیس ہزار بار لا اله الا اللہ پڑھنے کی کوئی سند ہے تو وہ نو ر الدین کو دکھلائی جائے.اگر وہ صحیح ہوگی تو وہ مان لے گا.اس پر ہمارے سب پیر بھائی بالکل خاموش ہو گئے.میرے حجرہ کے ساتھ ایک اور حجرہ تھا.اس میں مولوی نبی بخش نام چشتی جامپور کے رہنے والے رہتے تھے.ایک دفعہ ایک رکعت وتر کے معاملہ میں ان سے دوستانہ گفتگو تھی.جس میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ ایک رکعت و تر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کی تحقیقات کے خلاف ہے اور کوئی دلیل اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.امام کا فیصلہ کافی دلیل ہے کہ ایک رکعت کوئی نماز نہیں کچھ دن کے بعد میں نے ان کو ایک کتاب میں نماز عاشقان دکھائی جو ایک رکعت ہوتی ہے اور ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر پڑھی جاتی ہے.انہوں نے فرمایا کہ یہ نماز بہت ہی مجرب ہے.میں نے کہا کہ یہ امام صاحب کی اس ایک رکعت والی تحقیق کے خلاف ہے.تب انہوں نے امام صاحب رحمہ اللہ علیہ کے حق میں بڑی ہی گستاخی کے کلمات کئے.میں نے کہا کہ اُس دن آپ اتنے مداح تھے یا اب ایسے گستاخ ہیں.تو کہنے لگے

Page 128

۱۲۲ کہ وہ فقہاء کے مقابلہ میں ہیں اور یہ تو سلطان جی نے لکھا ہے.سلطان جی تو عرش پر پہنچنے والے ہیں انکے سامنے ابو حنیفہ وغیرہ ملا لوگوں کی کیا حقیقت ہے.تب میں نے فیصلہ کیا کہ محبت اور تقلید بھی بڑی تکلیف میں ڈالنے والی چیز ہے.وہ مدینہ میں اس وجہ سے رہتے تھے که حالت یقظہ میں نبی کریم کو دیکھیں.میں نے ایک دفعہ رویا میں نبی کریم میں کو دیکھا.آپ نے فرمایا کہ "تمہارا کھانا تو ہمارے گھر میں ہے لیکن نبی بخش کا ہم کو بہت فکر ہے " ان دنوں میں میں نے نبی بخش کو بہت ڈھونڈا باوجودیکہ میرے ساتھ کے حجرہ میں رہتے تھے مگر ملاقات نہیں ہو سکی اور وہ حجرہ میں آئے ہی نہیں.بہت دنوں کے بعد جب ملے تو میں نے کہا آپکو کوئی تکلیف ہو تو بتا ئیں اور ضرورت ہو تو میں آپ کو کچھ دام دے دوں.کہا کہ مجھ کو بہت شدت کی تکلیف تھی مگر آج مجھ کو چونہ اٹھانے کی مزدوری مل گئی ہے اور پیسے مزدوری کے ہاتھ آگئے ہیں.اس لئے ضرورت نہیں.مدینہ طیبہ میں ایک ترک کو مجھ سے بہت محبت تھی.اس نے کہا کہ اگر کوئی کتاب پسند ہو تو ہمارے کتب خانہ سے لے جایا کریں.گو ہمارا قانون نہیں ہے مگر آپ کے اس عشق و محبت کی وجہ سے جو آپ کو قرآن کریم سے ہے.آپ کو اجازت ہے.میں نے کہا کہ مسئلہ ناسخ و منسوخ کے متعلق کوئی کتاب دو.انہوں نے مجھے ایک کتاب دی.جس میں چھ سو آیات منسوخ لکھی تھی.مجھے یہ بات پسند نہ آئی.ساری کتاب کو پڑھا اور مزا نہ آیا.میں اس کتاب کو واپس لے گیا اور کہا کہ میں جو ان آدمی ہوں اور خدا کے فضل سے یہ چھ سو آیتیں یاد کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ کتاب پسند نہیں.وہ بہت بوڑھے اور ماہر شخص تھے.انہوں نے ایک اور کتاب دی جس کا نام اتقان تھا اور ایک مقام اس میں بتایا جہاں ناسخ و منسوخ کی بحث تھی.خوشی ایسی چیز ہے کہ میں نے فوز الکبیر کو جو بمبئی میں پچاس روپے کی خریدی تھی ابھی پڑھا بھی نہیں تھا.میں اتقان کو لایا اور پڑھنا شروع کیا.اس میں لکھا تھا کہ انیس آیتیں منسوخ ہیں.میں اس کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوا اور میں نے سوچا کہ انہیں یا ہیں آیتوں کو تو فور زیاد کرلوں گا.گو مجھے خوشی بہت ہوئی.مگر مجھے کو ایسا قلب اور علم دیا گیا

Page 129

۱۲۳ تھا کہ پھر بھی وہ کتاب مجھ کو پسند نہ آئی.اب مجھ کو فوز الکبیر کا خیال آیا کہ اس کو بھی تو پڑھ کر دیکھیں.اس کو پڑھا تو اس کے مصنف نے لکھا تھا کہ خدا تعالیٰ نے جو علم مجھے دیا ہے اس میں پانچ آیتیں منسوخ ہیں.یہ پڑھ کر تو بہت ہی خوشی ہوئی.میں نے جب ان پانچ پر غور کی تو خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھ دی کہ یہ تاریخ و منسوخ کا جھگڑا ہی بے بنیاد ہے.کوئی چھ سو بتا تا ہے کوئی انیس یا اکیس اور کوئی پانچ.اس سے معلوم ہوا کہ یہ تو صرف فہم کی بات ہے.میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ قطعی فیصلہ کر لیا کہ ناسخ و منسوخ کا معاملہ صرف بندوں کے فہم پر ہے.ان پانچ نے سب پر پانی پھیر دیا.یہ فہم جب مجھے دیا گیا تو اس کے بعد ایک زمانہ میں میں لاہور کے اسٹیشن پر شام کو اترا.بعض اسباب ایسے تھے کہ چینیانوالی مسجد میں گیا.شام کی نماز کے لئے وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھائی میاں علی محمد نے مجھ سے کہا کہ جب عمل قرآن مجید و حدیث پر ہوتا ہے تو ناسخ و منسوخ کیا بات ہے.میں نے کہا کچھ نہیں.وہ پڑھے ہوئے نہیں تھے.گو میر ناصر کے استاد تھے انہوں نے اپنے بھائی سے ذکر کیا ہو گا.یہ ان دنوں جوان تھے اور بڑا جوش تھا.میں نماز میں تھا.اور وہ جوش سے ادھر ادھر شملتے رہے.جب میں نماز سے فارغ ہوا تو کہا ادھر آؤ.تم نے میرے بھائی کو کہہ دیا کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں.میں نے کہا ہاں نہیں ہے.تب بڑے جوشن سے کہا کہ تم نے ابو مسلم اصفہانی کی کتاب پڑھی ہے.وہ احمق بھی قائل نہ تھا.میں نے پھر کہا پھر تو ہم دو ہو گئے.پھر اس نے کہا کہ سید احمد کو جانتے ہو.مراد آباد میں صدر الصدور ہے.میں نے جواب دیا کہ میں رامپور لکھنو اور بھوپال کے عالموں کو جانتا ہوں ان کو نہیں جانتا.اس پر کہا کہ وہ بھی قائل نہیں.تب میں نے کہا کہ بہت اچھا.پھر ہم اب تین ہو گئے.کہنے لگا کہ یہ سب بدعتی ہیں.امام شوکانی نے لکھا ہے کہ جو نخ کا قائل نہیں وہ بدعتی ہے.میں نے کہا تم دو ہو گئے.میں ناسخ و منسوخ کا ایک آسان فیصلہ آپ کو بتا تا ہوں.تم کوئی آیت پڑھ دو جو منسوخ ہو.اس کے ساتھ ہی میرے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ ان پانچ آیتوں میں سے پڑھ دے تو کیا جواب دوں.خدا تعالیٰ ہی سمجھائے تو بات بنے.اس نے ایک آیت پڑھی.میں نے کہا کہ

Page 130

فلاں کتاب نے جس کے تم بھی قائل ہو، اس کا جواب دیا ہے.کہنے لگا ہاں.پھر میں نے کہا اور پڑھو تو خاموش ہی ہو گیا.علماء کو یہ و ہم رہتا ہے.ایسا نہ ہو کہ ہتک ہو.اس لئے اس نے یی غنیمت سمجھا کہ چپ رہے.اس کے بعد پھر بھیرہ میں ایک شخص نے نسخ کا مسئلہ پوچھا اور میں نے اپنے فہم کے مناسب جواب دیا اور کہا کہ پانچ کے متعلق میری تحقیق نہیں.تو اس دوست نے کہا کہ آپ ان پانچ پر نظر ڈال لیں.میں نے تفسیر کبیر رازی میں یہ تفصیل ان مقامات کو دیکھا تو تین مقام خوب میری سمجھ میں آگئے اور دو سمجھ میں نہ آئے.تفسیر کبیر میں اتنا تو لکھا ہے کہ شدت اور خفت کا فرق ہو گیا ہے.پھر میں ایک مرتبہ ریل میں بیٹھا ہوا ایک کتاب پڑھ رہا تھا.جیسے بجلی کو ند جاتی ہے.میں نے پڑھا کہ فلاں آیت منسوخ نہیں ہے.میں بڑا خوش ہوا کہ اب تو چار مل گئیں.صرف ایک ہی رہ گئی.بڑی بڑی کتابوں کا تو کیا میں چھٹ بھیتوں کی بھی پڑھ لیتا ہوں.اس طرح پر ایک کتاب میں وہ پانچویں بھی مل گئی اور خدا کے فضل سے مسئلہ ناسخ و منسوخ حل ہو گیا.مدینہ طیبہ کی تعجب انگیز باتوں میں سے ہے کہ ایک دن میں نہر پر گیا جو بہت نیچے بہتی تھی اور سیڑھیوں سے نیچے اتر کر جانا پڑتا تھا.میں نے دیکھا کہ نیچے ایک آدمی تمام کپڑے اتارے ہوئے بالکل ننگا، مادر زاد کسی اوپر کھڑے ہوئے آدمی سے بہت بے تکلفی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا اور وہاں بہت سے آدمی موجود تھے.مجھ سے رہا نہ گیا.میں نے اس سے کہا کہ تم اس طرح ننگے ہو کر حیا نہیں کرتے ؟ اس نے بہت بے تکلفی سے جواب دیا.ان الله يرى وراء الستر جس سے مجھ کو ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی عملی حالت اور ان کے اخلاق فاضلہ میں بہت نقصان آگیا ہے.وہاں کے کسی آدمی نے اس کو منع بھی نہ کیا.وہاں بیرونی شہر میں زیدی شیعہ بھی بہت رہتے ہیں اور ان میں متعہ کا رواج ہے.ایک ہمارے دوست تھے.انہوں نے وہاں ایک عظیم الشان سرائے لوگوں کے آرام کے لئے بنانی تجویز کی اور بہت سا روپیہ اس پر خرچ کیا.وہاں کے قاضی صاحب نے سو پونڈ ان سے قرض مانگے.انہوں نے ہمارے پیرو مرشد شاہ عبد الغنی صاحب سے مشورہ لیا.انہوں نے فرمایا کہ

Page 131

۱۲۵ قرض وغیرہ نہیں یہ تو قاضی صاحب تم سے لیتے ہیں پھر وہ تم کو واپس نہ دیں گے.آخر انہوں نے انکار کیا.دوسرے ہی دن دار القضا سے حکم نامہ آیا کہ جہاں تم سرائے بناتے ہو.یہاں ایک کو چہ نافذہ تھا اور نافذہ کوچہ کا بند کرنا حدیث سے منع ہے.اس لئے سرائے کا بنانا بند کیا جائے.چونکہ ان کے ہزاروں روپے خرچ ہو چکے تھے بہت گھبرائے.آخر ایک بزرگ نے (جن کو میں جانتا ہوں) صلاح دی کہ تم جدہ چلے جاؤ اور انگریزی قونصل سے جا کر ملو) چنانچہ ہمارے دوست وہاں گئے اور تمام حالات انگریزی قونصل سے بیان کئے.اس نے قاضی صاحب کے نام ایک چٹھی لکھ دی.وہ چٹھی قاضی صاحب کے پاس پہنچی تو اگلے ہی روز دار القضا سے حکم پہنچا کہ چونکہ پتہ چلا ہے کہ کوچہ نافذہ کی آمد و رفت رک گئی ہے اور جبکہ آمد و رفت رکی ہوئی ہے تو اب وہ کوچہ نافذہ کے حکم میں نہیں رہا.لہذا سرائے بنانے کی اجازت دی جاتی ہے.ایک اور ہمارے دوست تھے.انہوں نے وہاں ایک عظیم الشان باغ بنانا چاہا.وہاں کے لوگوں اور زمین داروں نے اس کام میں خوب مدد دی.لیکن جب پھل آنے لگا تو رات کو جا کر سب کاٹ لیتے تھے.یہ اخلاق قابل افسوس ہیں اور بیان اس لئے کئے ہیں کہ کوئی عبرت حاصل کرے اور شاید کوئی خدا تعالیٰ کا نیک بندہ دعا کرے.ایک دفعہ ایک شخص شاہ صاحب کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میں مدینہ منورہ ہجرت کر کے آیا ہوں.لیکن یہاں کے لوگوں کے حالات سے میں تنگ آگیا ہوں.شاہ صاحب سن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ہم بھی تو ہجرت کر کے آئے ہیں.تم نے اگر جوار نبی کریم کے لئے ہجرت کی ہے تو وہ موجود ہے اور اگر اس لئے کی ہے کہ ابو بکر و عمر و عثمان و علی یہاں موجود ہیں تو یہ لوگ تو بے شک آج موجود نہیں ہیں.آپ یہاں سے چلے جائیں.جن دنوں میں شاہ عبد الغنی صاحب سے تعلیم پا تا تھا.ایک دن ظہر کی نماز جماعت سے مجھ کو نہ ملی.جماعت ہو چکی تھی اور میں کسی سبب سے رہ گیا.مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یہ اتنا بڑا کبیرہ گناہ ہے کہ قابل بخشش ہی نہیں.خوف کے مارے میرا رنگ زرد ہو گیا.مسجد کے اندر

Page 132

ہو گھنے سے بھی ڈر معلوم ہو تا تھا.وہاں ایک باب الرحمت ہے.اس پر لکھا ہوا ہے.کیا عِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ.اس کو پڑھ کر پھر بھی بہت ڈرتا وااور حیرت زدہ سا ہو کر مسجد کے اندر گھسا اور بہت ہی گھبرایا.جب میں منبر اور حجرہ شریف کے درمیان پہنچا اور نماز ادا کرنے لگا تو رکوع میں مجھے جس خیال نے بہت زور دیا وہ یہ تھا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ مابین بیتی و مِنْبَری روضة من رياض الجنة اور جنت تو وہ مقام ہے جہاں جو التجا کی جاتی ہے وہ مل جاتی ہے.پس میں نے دعا کی.الہی میرا یہ قصور معاف کر دیا جائے.مکه معظمہ میں دوسری مرتبہ جب میں مدینہ سے مکہ کو چلا.راستہ میں دو واقعے بڑے عجیب پیش آئے.اول یہ کہ میں ہمیشہ سنتا تھا کہ مسافروں اور بدوؤں میں لڑائی ہو جاتی ہے.اس پر میں نے خود بہت غور کیا ہے.اس کے دو باعث معلوم ہوتے ہیں.ایک یہ کہ بد وہندوستانی نہیں سمجھتے اور ہندوستانی عربی نہیں جانتے.ایک کچھ کہتا ہے تو دوسرا سمجھتا نہیں.جب ایک کا مطلب دوسرا نہیں سمجھتا تو دونوں جلد تیز ہو جاتے ہیں.پس پہلا سب لڑائی اور بد مزگی کا زبان کی ناواقفیت ہے.دو سرا سبب مجھ کو یہ معلوم ہوا کہ عربوں میں دستور ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے کوئی دوسرا شخص آکر شامل ہو جائے تو روکتے نہیں.اب مثلاً کسی نے ایک آدمی کے قابل کھچڑی پکا کر ایک بدو کو دی تو سب کے سب اس میں شریک ہو جاتے ہیں اور اس طرح سب کے سب بھوکے ہی رہتے ہیں.بھو کا آدمی دیسے بھی جلد برافروختہ اور غضب ناک ہو جاتا ہے.میں نے ان دونوں اصولوں کو پیش نظر رکھ کر بہت سی کھجوریں خرید کر بدوؤں کی نظر سے پوشیدہ خوب محفوظ کر کے رکھ لی تھیں.جب آدھی رات کا وقت ہو تا تو میں ایک بک خوب بھر کر کھجوریں خاموشی کے ساتھ اپنے بدو کو دے دیتا تھا جس سے اس کا پیٹ خوب بھر جاتا تھا

Page 133

اہزادہ میری خدمت اس طرح کرتا تھا جیسے ایک وفادار غلام اپنے آقا کی.کبھی تو میں تھوڑا سا پانی ساتھ بھی رکھ لیتا تھا اور کبھی بدد سے کہتا کہ مجھ کو پانی کی ضرورت ہے.وہ کہیں نہ کہیں سے پانی لاکر مجھ کو دیتا تھا.ایک دن رات کو میں نے پانی کی فرمائش کی تو اس نے کہا کہ یہاں سے دو تین میل پر ٹھنڈے پانی کا چشمہ آتا ہے.ذرا ٹھہریئے.لیکن عجائبات قدرت.مجھ کو پیاس بہت تھی.میں نے کہا.اچھا ٹھنڈا پانی نہ سہی ویسا ہی سہی.رات کے وقت میں نے ان لوگوں کے چال چلن میں دیکھا ہے کہ اپنے اونٹ سے علیحدہ ہو کر دوسرے اونٹ والے کے پاس قطعا نہیں جاتے.اس نے مجھ سے گلاس مانگا.میرے سامنے ایک ہندوستانی تھے.وہ آگے بڑھا اور انکے پاس جا کر نہایت ادب سے کہا کہ ایک معزز شخص کے واسطے ایک گلاس پانی کی ضرورت ہے.انہوں نے بجائے اس کے کہ پانی دیتے، حرامی حرامی کہہ کر شور مچا دیا.وہ بد و بڑی چالاکی سے اپنے اونٹ کے پاس پہنچ گیا اور مجھ سے کہا کہ اس وقت پانی کا کوئی موقع نہیں ملا.آپ تھوڑا سا انتظار کریں.دو تین میل چل کر جہاں پانی تھا، وہاں سے بڑا ٹھنڈا پانی میرے واسطے لایا.میں نے پانی پیا اور پھر سو گیا.دن کے وقت جہاں ڈیرا ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک ہندوستانی بے چارے بڑے مضطر ہیں اور شور مچارہے ہیں.میں نے دریافت کیا کہ کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے مشکیزہ میں رات کوئی بد معاش سوراخ کر گیا ہے.اب ہم کو مشکل یہ ہے کہ مکہ تک پانی نہیں ملے گا.میں تاڑ گیا کہ یہ اس ہمارے بدو کا کام ہے.میں نے علیحدگی میں اس سے کہا کہ رات اس ہندوستانی کے مشکیزہ میں کسی نے سوراخ کر دیا ہے.کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نے یہ کام کیا ہو.وہ کہنے لگا کہ مولوی صاحب !دیکھو ہم نے آپ کے لئے اس سے پانی مانگا اور اس نے ایک گلاس پانی نہ دیا.پھر بھلا غصہ آتا یا نہ آتا.میں نے اس کو بہت ملامت کی.میری دانست میں ان سے حجاج کو کسی قدر ملاطفت اور علیحدگی کا سلوک بہت مناسب ہوتا ہے.میں نے آنے اور جانے دونوں موقعوں پر نہ مشکیزہ رکھا نہ چھا گل.مجھ کو پینے کے لئے یا وضو کے لئے پانی کی کوئی دقت نہیں ہوئی.زبان کی واقفیت پر بھی بہت کچھ مدار ہے.میں کسی دن کوئی شعر سنا دیتا تھا تو سن کر بد و ناچنے لگتے تھے..

Page 134

IPA رو وسرا واقعہ عجیب یہ ہے کہ ایک جگہ ہم نے ڈیرا کیا.میرے مقام کے قریب ایک الشان خیمہ تھا.اس کے اندر بڑا مباحثہ ہو رہا تھا.میں نے اس خیمے کے اندر جانا تو مناسب نہ سمجھا.انکے مباحثہ پر میں بہت متوجہ رہا.آخری فقرہ جو ایک مقلد نے پیش کیا یہ تھا کہ کسی مسئلہ میں کسی امام کے بالمقابل ترجیح دینا اس شخص کا کام ہو سکتا ہے جو اپنے کامل دلائل اور جس کے خلاف چلتا ہے، اس کے دلائل کے جوابات کامل طور پر جانتا ہو اور اگر اس قدر وسیع واقفیت نہ ہو تو ترجیح کس طرح ہو سکتی ہے.لہذا تم لوگ کسی مسئلہ میں ترجیح کے مستحق نہیں.اس وقت مجھ کو یہ خیال آیا کہ کم سے کم ہم بھی اس کا کچھ جواب تو دیں اور جوانی کی ایک ترنگ تھی.میں نے بلند آواز سے کہا.جب ایک مسئلہ میں اتنے بڑے علم کی ضرورت ہے تو ایک امام کو دوسرے پر تمام مسائل میں ترجیح دینے کے لئے تو لاکھوں علوم کی ضرورت ہو گی.ہماری اس آواز نے بھی کچھ بجلی کا سا کام دیا.مگر وہ لوگ کچھ امراء تھے اور ان دنوں مجھ کو امراء سے تنفر تھا.جب مکہ معظمہ کے قریب پہنچے تو میں نے ایک حدیث میں پڑھا تھا کہ حضرت نبی کریم کداء کی طرف سے مکہ میں داخل ہوئے تھے.لیکن آدمیوں کی بار برداریاں اور سواریاں اس راستہ نہیں جاتی تھیں.اس واسطے میں ذی طوی سے ذرا آگے بڑھ کر اونٹ سے کود پڑا.اور گداء کے راستہ سے مکہ میں داخل ہوا.مجھے افسوس ہوا کہ اس رستہ سے بہت ہی تھوڑے لوگ گئے.حالانکہ کوئی حرج نہ تھا.صرف ہمت، قوت اور معلومات کافی تھی.مکه معظمہ میں میں جہاں رہتا تھا.میری عادت تھی کہ اکثر وہیں سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کر لیا کرتا تھا.جن کے گھر میں رہتا تھا وہ ایک بوڑھے شخص مخدوم کہلاتے تھے.انہوں نے میری اس حرکت کو بار بار دیکھ کر کہا کہ آپ تنعیم سے کیوں احرام نہیں باندھتے ؟ میں نے کہا کہ میں طالب علم آدمی ہوں.میرے پاس اتنا وقت کہاں ہے.آنے جانے میں چھ سات میل کا سفر ہے اور پھر بلا ضرورت اور بیہودہ بات ہے.احادیث صحیحہ سے

Page 135

۱۲۹ ثابت ہوتا ہے کہ مکہ والے مکہ سے احرام باندھ سکتے ہیں.اس پر وہ بڑے گھبرائے اور کہنے لگے کہ آپ تمام شہر کے خلاف کرتے ہیں.میں نے کہا تمام شہر کے خلاف تو نہیں البتہ گدھے والوں کے خلاف کرتا ہوں جن کے کرایہ میں کمی ہوتی ہے.اس پر وہ ہنس کر چپ ہو رہے.ان کے گھر میں جو سب سے بے نظیر کام میں نے دیکھا وہ یہ ہے کہ مخدوم صاحب بہت ضعیف العمر آدمی تھے اور ان کی بیوی بے نظیر حسین اور بہت کم عمر تھی.لیکن وہ اپنے ہاتھ سے کاغذ گھوٹ کر پیسے کما کر اپنے خاوند کے لئے نہایت نرم غذ ا بنایا کرتی تھی.میں اس خدمت کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا.ایک دن میں نے تنہائی میں اس سے کہا کہ تم کو اپنے حسن کی خبر بھی ہے ؟ اس نے کہا.خوب خبر ہے اور میں اپنی اس خبر کی شہادت بھی دے سکتی ہوں او روہ شہادت یہ ہے کہ مکہ کی تمام عورتوں کو دیکھ لو یہ اپنے رخساروں پر ایک داغ بناتی ہیں اور مجھے کو دیکھو میرے چہرہ پر کوئی داغ نہیں اور سارے شہر میں ایسی میں ہی ایک عورت ہوں.یہ اس بات کی دلیل ہے کہ میں اپنے حسن کو پہچانتی ہوں.جب عورتوں نے مجھے کو بہت مجبور کیا تو میں نے اپنے بالوں کے نیچے گردن پر داغ بنائے.چنانچہ اس نے اپنے بال اٹھا کر مجھے دکھائے.میں نے کہا اب دوسرا سوال یہ ہے کہ مخدوم صاحب کی تم اس قدر خدمت کرتی ہو کہ میں دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں.یہ نہایت ضعیف العمر آدمی ہیں اور تم نو عمر ہو.کہنے لگی اگر یہ ضعیف العمر نہ ہوتے تو میں کیوں کا غذ گھوٹتی.چونکہ خدا تعالیٰ نے میرے لئے یہ خاوند عطا کیا ہے تو میرا فرض ہے کہ ان کے ساتھ بہت غم گس، رانہ برتاؤ کروں.مجھے کو معلوم ہوا اور بہت ہی پسندیدہ معلوم ہوا کہ نیکی اور نیک طینتی اس عورت میں بدرجہ اتم موجود ہے.میں نے جب مخدوم صاحب سے پوچھا کہ آپ اس پر مطمئن ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں اس کی راست بازی پر قسم اٹھا سکتا ہوں.یہ بہت ہی غمگسار ہے اور جس طرح اس کا نام صادقہ ہے اسی طرح یہ واقعی صادقہ ہے.مکه معظمہ میں ایک عمدہ طبیب کی بڑی ضرورت ہے.ایک اچھا خداترس تجربہ کار طبیب بڑی وسعت سے گزارہ کر سکتا ہے.میں نے اپنے استاد کی والدہ صاحبہ کی بیماری کا ذکر

Page 136

بھی کیا ہے.میں جن دنوں وہاں تھا غالبا وہ ۸۵ ہجری یا ۸۶ ہجری کا زمانہ تھا.امراض زیادہ تر اولاد کی کمی خون کی کمی، قہوہ کی کثرت ، عام ضعف پائے جاتے تھے.وہاں رہنے کے لئے طبیب ایسا ہو جو کسی قدر دستکاری بھی جانتا ہو.حج کے بعد علی العموم عرب لوگ اپنے گھر کی چیزیں بہت ارزاں فروخت کیا کرتے ہیں.خصوصاً جب ان کا ارادہ عیش و عشرت کے لئے طائف جانے کا ہو تو روپیوں کی چیزیں کو ڑیوں میں فروخت کر دیا ان کے نزدیک بہت سہل ہے.لیکن جب حجاج کی آمد کے دن ہوتے ہیں تو وہی چیزیں جو کوڑیوں میں خریدی تھیں روپیوں میں فروخت ہو سکتی ہیں.حج کے بعد کباڑیوں کی طرح خریداری شروع کرے اور حج کے ابتدا میں بیچ دے تو اس طرح بڑی اعلیٰ درجہ کی تجارت ہو سکتی ہے.قرضہ کا معاملہ بہت خطرناک ہے.مجھ کو ایک نکتہ معرفت وہاں یہ حاصل ہوا کہ چونکہ ہر سال نئے حاجی آتے ہیں اور وہ بہت جلد چلے جاتے ہیں.اس واسطے وہاں کے لوگوں کو کسی کامل انسان سے بھی سچی محبت کبھی نہیں ہو سکتی.وہاں ہر روز نئے مہمان آتے اور جاتے ہیں.اگر وہ شدید محبت کسی سے کریں تو پھر تو ان کی ہلاکت ہے.میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہاں جناب الہی کی محبت کے واسطے خالص سامان مہیا ہے.انسانی محبتیں کوئی چیز نہیں.وہاں کے شرفا اور تجھی لوگ اور عرب اور عریانیہ بے شک ذہاں کے تمدن و معاشرت کا قابل قدر نمونہ ہیں اور ان کی مجالس میں فصیح زبان بھی بولی جاتی ہے.گو کہ گستر متر بھی بول لیتے ہیں.بهر حال بمبئی پہنچے.ایک میاں بیوی جن کو میں نے مکہ میں دیکھا تھا.مجھ کو ملے.میں نے ان سے کہا کہ اگر تمہارا کچھ اسباب ہو یا تم کو اپنے گھر والوں کو کوئی پیغام دینا ہو تو مجھ کو دے دو.میں ریل کے راستے جلد جاؤں گا انہوں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا کہ ہم آہستہ آہستہ دریا کے راستے ملک کو جائیں گے) وہ دونوں بہت شریف معلوم ہوتے تھے.وہ عورت سرسے کپڑا اتار کر میرے پاؤں پر گر پڑی اور کہا کہ صرف آپ کی مہربانی یہ ہے کہ ہمارا اپتہ اس ملک میں کسی کو نہ دیں.میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں ایک

Page 137

شریف عورت ہوں.کم عمری میں بیوہ ہو گئی اور ہمارے یہاں بوجہ شرافت کے بیوہ کا نکاح نہیں کرتے اور یہ بزرگ پیری مریدی کرتے ہیں.ہمارے پڑوس میں انکے مرید رہتے ہیں.میں نے ان سے مخفی طور پر نکاح کر لیا ہے جس کی خبر ہمارے گھر والوں کو نہیں.اس طرح مجھ کو گیارہ دفعہ اسقاط کرانا پڑا.پھر بھی میرے جوش جوانی کے ایسے تھے کہ میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ ہم آزادانہ میاں بیوی کے طور پر نہیں رہتے.تم یہ کرو کہ ملتان پہنچو اور وہاں ایک جگہ مقرر کرلی کہ میں بھی ملتان پہنچتی ہوں.پھر وہاں ہم خوب کھل کر رہیں گے.جب میں حج کے ارادہ سے چلی تو میرے بھائی جو آسودہ حال تھے انہوں نے مجھے.سے کہا کہ ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں تاکہ تم کو تکلیف نہ ہو.میں نے اس بات کو منظور کر لیا.رات کو کسی گاؤں میں ہم لوگ ٹھرے.رات کو بڑی شدت سے آندھی اور بارش آئی.اور تمام مسافروں میں افرا تفری مچ گئی.میں نے دور اندیشی کے طور پر عین بارش اور ہوا کے طوفان میں وہاں سے جنگل کی طرف رخ کیا اور صبح تک دوڑتی بھاگتی چلی گئی اور کچھ خبر نہ تھی کہ کدھر جاتی ہوں.صبح کی روشنی میں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ ملتان کا راستہ کونسا ہے ؟ لوگوں نے مجھے ایک سڑک پر ڈال دیا.میں نہیں جانتی کہ میرے بھائی واپس ہوئے یا کہاں تک انہوں نے میری تلاش کی.میں جب ملتان پہنچی تو یہ میرے میاں صاحب منتظر کھڑے تھے.وہاں سے ہم بخوشی و خرمی مکہ پہنچ کر یہ توں رہے جیسا کہ تم نے دیکھا ہے ہمارے گھر والوں کو کوئی خبر نہیں پہنچی.اب میں جاتی ہوں.ملتان کے ارد گرد میں اپنے میاں صاحب سے الگ ہو جاؤں گی.یہ اصل بات ہے.پس آپ ہمارا کوئی ذکر نہ کریں.یہ قصہ صرف اس لئے بیان کیا ہے کہ بیواؤں کو بٹھانا اچھا نہیں.وہ عورت کسی زمانہ میں ہمارے گھر میں بھی آئی تھی.اللہ تعالی ان لوگوں کو توفیق دے.جن کے گھر میں جوان اور بیوہ عورتیں ہیں کہ ان کا نکاح استخارہ کر کے کر دیں.

Page 138

۱۳۲ بھیرہ واپسی میں میں دہلی اترا اور میرے ایک پرانے رفیق نے مجھ سے بیان کیا کہ تمہارے طبیب استاد یہاں دہلی میں ہیں.میں اس کو ساتھ لے کر حضرت استاد کی خدمت میں پہنچا.مجھے فرمایا کہ تم حرمین سے کیا کیا لائے.میں نے بعض لطیف کتابوں کا ذکر کیا جو میں وہاں سے لایا تھا.تو آپ نے فرمایا وہ سب مجھے دے دو.میں نے انشراح صد ر سے کہا کہ وہ تو آپ ہی کی چیز ہے.لیکن میں نے صندوقوں کو لاہور بھیج دیا ہے.کیونکہ ریل وہاں تک ہے.میں لاہور پہنچ کر وہ صندوق آپ کی خدمت میں بھیجوا دوں گا.آپ نے سن کر فرمایا کہ ہم بھی لاہور دیکھنا چاہتے ہیں.آج ہی چلیں.میں بڑی خوشی سے حاضر ہوا اور آپ لاہور تشریف لائے.بہت سے مقامات کی سیر میں میں آپ کے ساتھ ہی تھا.باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ وہ صندوق ریل سے منگواؤ.میں جب ریل کو جانے لگا تو فرمایا کہ ہم ہی منگوالیں گے.چنانچہ اپنے نوکر کو بھیج کر وہ صندوق (جن کا محصول میں نے ابھی ادا نہیں کیا تھا) اپنی گرہ سے محصول دیگر منگوا لئے.پھر مجھ سے کہا کہ یہ ہم نے صرف اس لئے کیا کہ کچھ ہمارا حصہ بھی ان میں شامل ہو جائے.مطلب یہ کہ بمبئی سے لاہور تک کا کرایہ ان صندوقوں کا انہوں نے دے دیا.اصل رحمت الہی کا ذکر کرنا مجھے مقصود ہے کہ اس وقت میری جیب میں اتنے روپے ہی نہ تھے کہ میں ان صندوقوں کا محصول دیتا.بہر حال میں آپ کو رخصت کر کے شہر لاہور میں داخل ہوا تو ایک میرے وطن کا ہندو جس کے پاس بار برداری کے سامان تھے.اس نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کا اسباب بھیرہ لئے چلتا ہوں آپ مجھے روپیہ بھیرہ میں دے دیں.اس طرح مجھے اللہ تعالیٰ نے مع اسباب کے بھیرہ پہنچا دیا.وہاں میرے ملنے کو شہر کے بہت سے ہندو مسلمان جمع ہوئے تو اسی جلسہ میں ایک مولوی صاحب نے یہ ذکر بھی کیا کہ بخاری ایک کتاب ہزار سال سے گمنامی کے کونے میں پڑی ہوئی تھی.دلی کے ایک شخص نے جس کا نام اسماعیل تھا اس کتاب کو شائع کیا.یہ خطر ناک کلمہ ایسا

Page 139

۱۳۳ تھا جس سے میرے کان آشنا نہ تھے اور میں نے اس قسم کا کلمہ کسی خارجی یا شیعہ سے بھی نہیں سنا تھا چہ جائیکہ ایک حنفی مذہب کے ممتاز عالم کے منہ سے نکلا.مجھے تعجب ہوا پھر میرے دل میں غیظ و غضب پیدا ہوا.وہ پہلا ہی دن تھا کہ میں اپنے وطن میں پہنچا تھا.بہت کچھ نشیب و فراز دل میں پیدا ہوئے.آخر میں نے اتنی بات سے تو رکنا مناسب نہ سمجھا کہ میں نے کہا کہ اول تو میں ابھی طالب علمی سے آیا ہوں نہ میرا مطالعہ نہ میری وسعت نظر نہ مجھے تجربہ.لیکن بخاری کی ساتھ شروح کے نام اس وقت مجھے یاد ہیں.اگر ایک شرح کو سولہ برس کے قریب قریب ختم کر لیا جائے جو کچھ زیادہ مدت نہیں معلوم ہوتی.تو اس ہزار برس میں ہر روز بخاری کی شرح لکھی گئی ہے اور یہ شروح شافعی مذہب کی بھی ہیں.حنفیوں کی بھی.مالکیوں اور حنابلہ کی بھی.میں نے خود بخاری کو ایک بڑے حنفی المذہب مولوی عبد القیوم صاحب سے بھوپال میں پڑھا ہے.پھر شاہ عبد الغنی صاحب سے بھی.ان دونوں کی صحبت میں میں نے کبھی ایسے لفظ نہیں سنے.یہ میرا فقرہ اس مولوی صاحب کے قلب پر بجلی کا کام کر گیا.پھر ایک دن میں اپنی مسجد میں مشکوۃ پڑھا رہا تھا.اس میں یہ حدیث آئی کہ جو کوئی اذان کی آواز سنے وہ اذان کے کلمات کہے اور بعد اس کے اللهم رب هذه الدعوة التامة...الخ آخر تک دعا پڑھے حلت له شفاعتی.اس حدیث کے بیان کو ایک شخص عبد العزیز نام پشاوری جس کو عزیز بھی کہتے تھے سن کر مجھ سے کہنے لگا کہ آپ یہ دعا لکھ دیں.اس وقت میرے پاس اتفاق سے انگریزی لکھنے کا لوہے کا قلم تھا جو بہت ہی باریک تھا اسی سے میں نے وہ دعا لکھ دی.وہ چونکہ ضعیف العمر اور نظر کا کمزور تھا.اس کے پڑھنے کی کوشش کی.مگر اس کی کم نظری نے روک دیا.وہ پرچہ لے کر ایک مشہور کاتب محمد دین کے پاس پہنچا کہ یہ دعا آپ بہت موٹے حروف میں خوش قلم لکھ دیں.کاتب صاحب نے تو آگا پیچھا ہی نہ دیکھا کہ یہ دعا تو شفاعت کے لئے ہے وہ اس کاغذ کو لیکر بخاری کے دشمن مولوی صاحب کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ اس شخص کے قلم سے وارزقنا شفاعته کا لفظ

Page 140

۱۳ ارادہ چھوٹ گیا ہے.مولوی صاحب کے اس پہلے غضب پر یہ میرا لکھا ہوا کاغذ اور بھی خطرناک کام کر گیا اور اب وہ میرے مقابلہ کے لئے بالکل تیار ہو گئے.وہ ابھی کچھ منصوبوں ہی میں تھے کہ ایک روز صبح کے وقت ایک سید صاحب اور انکے ساتھ ایک متولی صاحب دونوں میرے پاس آئے.اور شاہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ میرے سسرال میں ایک جماعت ہے جو نمازوں میں رکوع اور قومہ میں رفع یدین کرتے ہیں.آپ کا فتویٰ ان لوگوں کی نسبت کیا ہے کہ ان سے کیا معاملہ کیا جائے.کیونکہ وہاں جھگڑے میں آپ کو منصف مقرر کیا گیا ہے.میں نے اس وقت کمزوری سے کام لیا اور ان سے کہا کہ پہلے پتہ لگایا جائے اور ان رفع یدین کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ وہ شیعہ ہیں یا سنی.اور سنیوں میں وہ شافعی ہیں یا حنبلی.اگر اس قسم کے لوگ ہوں تو ان کے مذہب میں رفع یدین ثابت ہے.ہاں اگر وہ حقی مذہب کے مقلد ہیں تو پھر ان کے متعلق انکے مناسب فتوی دیا جا سکتا ہے.سید نے اس فتویٰ کو بہت پسند کیا اور دونوں واپس چلے گئے.قدرت ہی کے تماشے ہیں.جب وہ دنوں صاحب مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئے.تو وہ مولوی صاحب جو بخاری پر ناراض اور دعائے شفاعت پر گھبرائے ہوئے تھے پاس سے گزرے اور انہوں نے شاہ صاحب سے پوچھا.آپ یہاں کس طرح آئے تھے.شاہ صاحب نے کہا.میں نے ایک سوال کیا تھا مگر بہت ہی معقول جواب دیا ہے.شاہ صاحب سے سن کر مولوی صاحب نے ان کو بتاکید فرمایا کہ میں یہاں کھڑا ہوں.آپ اس سے یہ اور دریافت کر آئیں کہ آپ کے نزدیک رفع یدین کا کیا حکم ہے.وہ شاہ صاحب جب واپس تشریف لائے اور میں نے ان کو دیکھا تو اپنی کمزوری پر بہت ہی افسوس کیا.خیر انہوں نے جیسا ان کو مولوی صاحب نے سمجھایا تھا اسی طرح کھڑے کھڑے ہی مجھ سے دریافت کیا.میں تو پہلے ہی اپنی حالت پر افسوس کر رہا تھا.میں نے ان سے کہا کہ میرے نزدیک رفع یدین کرنا جائز ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کا ایسا خیال ہے تو آپ کا اس ملک میں یا کم سے کم اس شہر میں رہنا محال ہو گا.میں نے انکو جیسا کہ میں تیار ہو ہی چکا تھا، کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں ان میں بندوں کا کوئی دخل نہیں.پہلے

Page 141

۳۵ دن کی گفتگو.وہ دعا.شاہ صاحب کا یہ سوال ان تینوں چیزوں نے مل کر اپنا ایک عجیب کیمیاوی اثر دکھلایا.ایک دن صبح کو میں اپنے مکان سے اترا تو حکیم فضل دین صاحب جو میرے بڑے مخلص اور محسن اور پیارے اور دل سے فرمانبردار دوست تھے رحمهم الله.کچھ گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ اذان کی دعا کس طرح ہے؟ وہ سوال میں بہت ہی ادب کیا کرتے تھے.میں نے ان کو حسب معمول دعا سنادی.انہوں نے کہا یہ کہاں لکھا ہے ؟ میں نے کہا آپ کیوں گھبراتے ہیں.کبیری شرح منیہ اور لمعات شرح مشکوۃ شیخ عبد الحق محدث دہلوی میں ایسا ہی ہو گا.میرے مکان کے نیچے بہت سے مسلمان بیمار بھی ہوا کرتے تھے.لیکن اس دن خلاف معمول کوئی آدمی نہ تھا.اتنے میں ایک شخص میرے پاس آیا.جس کی حالت پر اب مجھ کو رحم آتا ہے اور بہت ہی رحم آتا ہے.اس کا نام غلام محمد تھا.قوم جلا ہا مگر بہت جو شیلا آدمی تھا.رحم کی وجہ یہ ہے کہ اب اس کی اولاد میں ایک لڑکا میں نے دیکھا ہے جو بڑا جو شیلا شیعہ ہے اور رفع یدین کو تو وہ قریبا فرض ہی سمجھتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں.اس نے آکر کہا کہ حضرت پیر صاحب کی بی بی بہت سخت بیمار ہیں.آپ وہاں چل کر ان کو دیکھ لیں.میں ان پیر صاحب کی بڑی عزت کرتا تھا.اس واسطے بلا تکلف اس کے ساتھ ہولیا.وہ بڑی تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا چلا.میں نے بہت سی مخلوق راستہ میں دیکھی جو بے ساختہ پیر صاحب کے مکان کی طرف جا رہے تھے.جب میں انکے دروازہ کے قریب پہنچا تو وہاں بڑا از دحام خلقت کا مجھے نظر آیا.لیکن انکے زنان خانہ کی طرف نہ کوئی مرد جا تا ہوا دیکھانہ کوئی عورت.میاں غلام محمد صاحب کو دیکھا تو وہ بھی وہاں غائب ہو گئے.اس وقت معلوم ہوا کہ فریب سے مجھ کو کسی دوسری غرض کے لئے بلایا گیا ہے.لیکن اس وقت وہاں سے کوئی واپس جانے کی صورت نظر نہ آئی تو ناچار میں بھی مردانہ کی طرف خود بخود چلا گیا.وہاں پیر صاحب ایک بڑی چارپائی پر گاؤ تکیہ لگائے اور اپنے دونوں پاؤں کو چارپائی کے دونوں طرف رکھے ہوئے چت تھے.اور ایک عالم جو اس شہر سے باہر کے تھے اور میں اس دم تک ان کے علم

Page 142

اور تقدس اور نیکی کا بڑا معتقد تھا.ان کو دیکھا کہ ان ان پڑھ پیر صاحب کے پاؤں پر ماتھا رکھے ہوئے اور ہاتھ سے ان کا پیر دبائے ہوئے بیٹھے ہیں.میں دیکھ کر بے تاب ہو گیا.میں نے کراہت سے ان کو دیکھ کر پیر صاحب کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ آپ کی بیوی بیمار ہے.آپ کا آدمی گیا تھا.چلئے اس کو دیکھ لوں.انہوں نے کہا کہ ایک مسئلہ ضروری ہے.پہلے اس کی نسبت آپ سے کچھ دریافت کرنا ہے.میں نے کہا.آپ تو پیر ہیں.آپ کو مسائل سے کیا غرض پڑی ہے.آج کل تو پیر مسائل سے قطعا سبکدوش ہیں.ابھی میں کھڑا ہی تھا کہ انہوں نے دوبارہ اصرار کیا مگر وہ ایسے ذہین اور فہیم تھے کہ فورا تاڑ گئے کہ یہ زمین پر تو بیٹھے گا نہیں.چارپائی پر ہی بیٹھے گا.یہ ان کی فراست نہایت صحیح تھی.جلد تاڑ کر کہا کہ او ہو ! علماء تو سب نیچے بیٹھے ہیں اور یہ رسول کے جانشین ہیں.ہمارے نوکروں نے بڑی غلطی کی کہ ہمارے لئے چارپائی بچھائی.اپنے نوکروں سے کہا کہ جلد چارپائی اٹھاؤ.چارپائی کے اٹھنے سے جگہ بھی فراخ ہو گئی.پیر صاحب بھی نیچے ہی بیٹھ گئے.میں نے کہا کیا مسئلہ ہے ؟ کام سب خدا تعالی کے فضل سے ہی ہوتے ہیں.اصل محرک مولوی صاحب کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی اور اس میں ایک جگہ انہوں نے اپنی انگلی رکھ چھوڑی تھی.میں سمجھا کہ کوئی ایسا مسئلہ ہو گا جس کا اس کتاب میں ذکر ہے.میں نے خدا تعالیٰ کے کامل رحم اور بندہ نوازی سے اس کتاب کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ بھائی صاحب یہ کیا کتاب ہے.تو مولوی صاحب نے بڑے غضب سے کہا کہ آپ میرے بھائی نہیں ہیں.حالانکہ میں رشتہ میں ان کو بھائی سمجھتا تھا.میں نے کہا.یہ تو کوئی ناراض ہونے کی بات نہیں اگر اخوت اسلامی کے سبب آپ بھائی ہونا نہیں مانتے تو ہمارے یہاں سکھوں کو بھی بھائی کہتے ہیں.تب انہوں نے اپنے ہاتھ سے کتاب چھوڑ دی اور کہا کہ اچھا ان معنوں میں آپ لے لیں.جہاں انکی انگلی رکھی ہوئی تھی میرے ہاتھ میں آکر وہ مقام تو مل گیا.میں اپنے مولا کی کس مہربانی کا ذکر کروں.وہ کتاب دلائل الخيرات مطبع کانپور کی تھی.میں نے ہاتھ میں لے کر جب اس کو کھولا تو اس کے ساتویں صفحہ پر میری نظر پڑی اور اس میں اذان کی دعا وہی لکھی تھی جو میرے ہاتھ سے لکھی

Page 143

گئی تھی.اب میں خوشی سے اس قدر جوش میں آگیا کہ میں بیٹھ نہیں سکا اور میرے دل میں یہ بات جوش زن ہو گئی کہ بہر حال یہ عالم آدمی ہے اور بڑا ہوشیار ہے.اس نے ضرو را تھی طرح دیکھ بھال لیا ہو گا.لیکن اب تو وہ لفظ دلائل الخیرات میں موجود نہیں.ہو نہ ہو یہ وارزقنا كا لفظ خدا تعالیٰ نے کاٹ دیا ہے.میں نے کھڑے ہو کر بڑی بلند آواز سے کہا کہ تم نے بنی اسرائیل میں ایک لڑکے کا قصہ سنا ہو گا کہ وہ توریت پڑھتا تھا اور جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتا تھا تو کاٹ دیتا تھا.اور پھر خود بخود قدرت خدا سے اس میں نام لکھا جاتا تھا.سب نے کہا کہ ہاں.ہم نے یہ قصہ سنا ہے میں نے کہا وہاں تو کاٹا ہوا پھر لکھا جاتا تھا اور یہاں خدا تعالیٰ نے لکھا ہوا کاٹ دیا.اس دلائل الخیرات کو دیکھو.اس میں وارزقنا کا لفظ کٹ گیا ہے وہ لوگ تو پہلے ہی دلائل الخیرات میں اس دعا کو دیکھ چکے تھے که وارزقنا کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے.سب اٹھ اٹھ کر اور جھک جھک کر دیکھنے لگے.اور اس بات سے غافل (کہ پہلے انہوں نے کونسے صفحہ پر یہ دعادیکھی تھی اور اب یہ ساتواں صفحہ تھا) حیران و ششدر رہ گئے.میری تیز زبانی اور طاقت اور بھی بڑھ گئی.پیر صاحب فوراً سمجھ گئے اور انہوں نے پہلو بدل کر کہا کہ یہ مولویوں کی بحث ہے.ہم اس کو نہیں جانتے.مسئلہ دراصل وہ جو ہم دریافت کریں.تم یہ بتاؤ کہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شيئًا لله پڑھنا جائز ہے یا ناجائز؟ میں اپنے مولا کی حمد کس طرح بیان کروں اور میری کیا ہستی ہے کہ اس کے فضل و کرم اور تصرفات پر قربان ہو جاؤں.میں نے ان سے کہا کہ پیر صاحب آپ تو یا شیخ الخ کے وظیفہ کا مسئلہ دریافت کرتے ہیں پہلے اپنے مولویوں سے یہ تو پوچھو کہ وہ جناب شیخ کو قطعی جنتی بھی مانتے ہیں یا نہیں ؟ پیر صاحب نے کہا.ہاں یہ انصاف کی بات ہے.وہاں بہت سے مولوی موجود تھے.سب نے متفق ہو کر کہا کہ سوائے عشرہ مبشرہ کے ہم کسی کو قطعی جنتی نہیں جانتے.میں نے پیر صاحب کو کہا کہ یہ تو آپ کے باپ کو وہ شیخ عبد القادر جیلانی کی اولاد میں سے تھے) جنتی بھی نہیں مانتے.شیئًا اللہ کا وظیفہ کیا.انہوں نے بہت گھبرا کر اور بڑی حیرت کے لہجہ میں کہا.”ارے او مولویو یہ کیا کام

Page 144

کرتے ہو".غرض وہ سحر تو باطل ہو گیا.اب پیر صاحب کو لینے کے دینے پڑ گئے.مجھ سے کہنے لگے آپ ان لوگوں کو چھوڑ دیں.اپنا خیال بتائیں.میں نے کہا بخاری شریف میں لکھا ہے کہ سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ قطعی بہشتی ہیں یعنی صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ حضور نبی کریم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا اور اچھے لوگوں نے اس کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا وجبت جب اس کے معنی پوچھے گئے تو آپ نے فرمایا کہ جس کی اچھے لوگ تعریف کرتے ہیں تو وہ جنتی ہوتا ہے چونکہ شیخ عبد القادر جیلانی کی نسبت جہاں تک میرا خیال ہے ہزار ہا بزرگوں نے تعریف فرمائی ہے.لہذا اس حدیث کی رو سے میں ان کو یقینی جنتی سمجھتا ہوں.مولویوں میں سے اس وقت کسی نے مجھ پر جرح نہیں کی.پیر صاحب اس وقت ہمارے قابو میں آگئے.اصل وظیفہ کے متعلق پوچھنا تو رہ ہی گیا.بات کچھ اور کی اور ہی ہو گئی.تب میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے.میں اصل حقیقت کو سمجھ گیا ہوں.اب آپ اپنے گھر چلے جائیں.خیر خدا تعالیٰ کے فضل و نعمت کا شکر ادا کرتا ہوا بآرام اپنے گھر پہنچ گیا اور وہ جادو محض خدا تعالیٰ کے فضل سے باطل ہو گیا.ایک دفعہ وہاں کے علماء مباحثہ کے لئے جمع ہوئے.وہاں کی جامع مسجد کو جو شیر شاہ کی بنوائی ہوئی ہے اکھاڑہ بنایا.کئی قسم کی گفتگو کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ تم جو اولیاء کا پکارنا شرک کہتے ہو ، اگر علماء میں سے کسی نے ایسا لکھا ہو تو بلا گفتگو اس امر کو مان لیں گے.بہت سے علماء تھے.جن سے یہ اقرار پختہ کرایا.دوسرے دن میں تفسیر عزیزی کو لے گیا اور اس میں سے وَتَبَتِّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلاً کا موقع ان کو دکھایا گیا.جہاں شاہ عبد العزیز صاحب تحریر فرماتے ہیں.”و بعض پیر پرستان از زمره مسلمین در حق پیران خودا مراول را ثابت می کنند و در وقت احتیاج ہمیں اعتقاد بانها استعانت می نمایند الخ اس کے لطیف جوابوں میں ایک شخص نے جو بڑے پیر بنے ہوئے تھے اور عالم بھی مشہور تھے.میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ آپ گھبرا کر کیوں بات کرتے ہیں.یہاں کیا کوئی تمہارا دشمن ہے ؟ مجھ کو ان کی اس بات پر بہت ہی حیرت و افسوس ہوا.مگر دوسرے مولوی نے کہا کہ یہ لفظ پیران (بیائے فارسی) نہیں

Page 145

۱۳۹ بلکہ بیران (بیائے موحدہ) ہے اور بیر ہنومان کو کہتے ہیں.پھر آپس میں کچھ اشارے کر کے سب کھڑے ہو گئے.معلوم ہوا کہ کوئی خاص منصوبہ میرے متعلق انہوں نے تجویز کیا تھا اور اس لئے انہوں نے ایسی بھی کوشش کی تھی کہ وہاں میرے دوستوں میں سے ایک شخص بھی موجود نہ تھا.میں اس وقت اپنے دل میں یہ دعا مانگ رہا تھا عذت بر بی و ربکم ان ترجمون.اس مسجد جامع میں ایک منبر تھا.ایک مولوی اس پر جا کھڑا ہوا.ایک دنیا دار آدمی جس کو میرے خسر سے محبت تھی.اس عظیم الشان از دحام اور کہرام میں میرے پاس سے یہ کہتا ہوا گزر گیا کہ."اگر یہ وقت مل جائے تو پھر ہم انتظام کر سکتے ہیں " جب مولوی کھڑا ہوا تو مجھ کو یقین ہو گیا کہ اب یہ کسی قسم کا فتویٰ دے گا اور اس فتویٰ کی حقیقت مجھ کو معلوم نہ تھی.میرے داہنی طرف شہر کے تحصیلدار کھڑے تھے.ان کا نام رام داس تھا اور ان کے داہنے ہاتھ پر تھانہ دار تھے جن کا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتا اور تھانہ دار کے داہنے اور پیچھے بہت سے سپاہی تھے.باقی ہزارہا مخلوق ان کے پیچھے تھی.اس تھانہ دار کا نقار تو صحیح تھا کیونکہ مولوی ہمارے مخالف تھے.لیکن مجھ کو بڑا تعجب ہوا جبکہ تحصیل دار نے بھی مجھے دھمکی دی اور کہا کہ آپ کی نسبت جو یہ شخص فتوی دینے لگا ہے اس میں یہ شخص مختار ہے.اس وقت محض خدا تعالیٰ کے فضل سے میرے دل میں آیا کہ جیسا میرے خسر کے دوست نے کہا ہے وقت مل جائے تو اس ملنے کی تدبیر کرنی چاہیے.چنانچہ میں نے خدا تعالیٰ سے تائید پا کر اپنی پوری طاقت سے تحصیل دار کی رگ گردن کو جو شہ رگ کہلاتی ہے انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے اس طرح دبایا کہ تحصیل دار صاحب کی چیخ نکل گئی اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے.تھانہ دار کو جب یہ معلوم ہوا کہ تحصیل دار مارا جا چکا تو اس کو خیال آیا کہ ہم تھانہ سے باقاعدہ روزنامچہ میں روانگی درج کر کے نہیں آئے.ہم کو تھانہ سے با قاعدہ آنا چاہیے.چنانچہ تحصیل دار کے بے ہوش ہو کر گرتے ہی تھانہ دار مع تمام سپاہیوں کے وہاں سے بھاگ گیا.اس کے جاتے ہی یکلخت تمام مسجد خالی ہو گئی.حتی کہ ان منبر پر چڑھنے والے مولوی صاحب کا بھی کوئی پتہ و نشان نہ تھا.تحصیل دار رام داس کو جب ہوش آیا تو

Page 146

ان کا چہرہ زرد اور منہ فق تھا اور اس تمام مسجد میں سوائے میرے اور ان کے کوئی تیسرا آدمی نہ تھا.تحصیل دار نے بڑی لجاجت اور خوف زدہ آواز سے کہا کہ مہاراج! میں آپ کا مخالف نہیں ہوں.معلوم ہو تا تھا کہ ان کو اندیشہ ہے کہ یہ مذہب کے جوش میں مجھ کو قتل نہ کر ڈالے.میں نے ان کو محبت سے اٹھایا اور گلے لگالیا لیکن ان کا اندیشہ رفع نہ ہوا.تحصیل دار قد میں مجھ سے چھوٹے اور بڑے شریف الطبع انسان تھے.میں نے ان کو اپنی بغل میں دیا کیا اور اسی طرح بغل میں لئے مسجد سے باہر نکلا.لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ہوا ہو گئے تھے.کسی کا پتہ و نشان نہ تھا.جوں جوں ہم دونوں شہر کے قریب آتے جاتے تھے.تحصیل دار کا چہرہ بشاش ہوتا جاتا تھا.جب ہم دروازہ میں آئے تو انہوں نے ذرا ہوش سنبھالا اور جب چوک میں پہنچے تو بالکل سنبھل گئے اور مجھ سے کہا کہ آپ ارشاد کریں تو میں تحصیل کو چلا جاؤں.میں نے کہا ہاں جاؤ.ان کی شرافت کا یہ حال ہے کہ آخری دم تک انہوں نے اور ان کے بیٹے ڈاکٹر فتح چند نے میری ہمیشہ بچی تعظیم کی اور کبھی بھی اس امر کا اظہار نہ کیا و کفی الله المؤمِنينَ الْقِتال عجائبات مباحثہ میں ایک مباحثہ میں نے اپنے ملک میں یہ دیکھا کہ میں ایک گاؤں میں مباحثہ کے لئے بلایا گیا.مقام مباحثہ میں جب میں پہنچا تو ایک بڑا میدان دیکھا کہ اس میں بہت کی چارپائیاں بچھی ہوتی ہیں اور چار پائیوں پر ایک ایک کتاب علیحدہ علیحدہ کر کے برابر برابر پھیلی ہوئی ہیں.میں نے بھی ان میں سے بعض کو دور سے رکھے ہوئے دیکھا.کتا ہیں اس قدر فراہم کی گئی تھیں کہ انہوں نے وہ وسیع میدان پر کر دیا تھا.میں نے مہتمم مباحثہ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ تمام کتابیں رفع یدین والی حدیث کی تردید میں ہیں.مجھ کو بہت تعجب ہوا کہ اس حدیث کی تردید تو چند محدثین اور چند فقہا کے اقوال سے بھی یہ لوگ کر سکتے تھے.اس قدر وسیع کتب خانہ پھر کتابوں کو ایک ایک کر کے پھیلا کر رکھنے سے کیا فائدہ؟ میں اول اس کمرہ میں گیا جہاں مباحثہ تجویز ہوا تھا.میں نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ یہ کتابوں کا کیا کارخانہ ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک سہل بات ڈالی اور

Page 147

۱۱ اسکی محرک معمولات مظہری نام ایک کتاب ہو گئی جو اس وقت میرے کوٹ اور کرتہ کے درمیان رکھی تھی.میں نے کھڑے ہی کھڑے مولوی صاحب سے پوچھا کہ اگر معمولات مظہری میں جو آپ کے پیروں کے پیر کے ملفوظات ہیں ، کوئی اس قسم کا فیصلہ نکل آئے جو فرض کرو ان کتابوں کے خلاف ہے تو کیا آپ اپنے پیر کو چھوڑ دیں گے ؟ باعث مباحثہ بھی کھڑاہی تھا.میں بھی کھڑا تھا اور وہ بزرگ بیٹھے تھے.انہوں نے فرمایا کہ وہ ہمار ا طریقت کا پیر ہے ، شریعت کا پیر نہیں.میں نے کہا کیا وہ شرعی امور کے مخالف ہو کر بھی آپ کی طریقت کے پیر رہ سکتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا.ہاں.باعث مباحثہ جو ایک بڑا ہو شیار دنیا دار آدمی تھا.وہ تاڑ گیا اور اس نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ میں تو حقیقت کو پہنچ گیا.یہ لوگ تو آپ سے کچھ بھی مباحثہ نہیں کر سکتے.مجھے کو تو کسی کاوش کی ضرورت نہ تھی.میں وہاں سے گھوڑے پر سوار ہو کر اس ارادہ سے کہ اپنے گھر چلا جاؤں اس گاؤں سے باہر نکلا.لیکن ایک آدمی نهایت تیزی سے دوڑتا ہوا میرے پاس پہنچا اور اس نے آتے ہی میرے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا کہ یہ ڈھول کی آواز نہیں سنتے؟ میں نے کہا کہ میں تو ڈھول کی آواز پہچانتا نہیں.اس نے کہا کہ یہ فلاں دنیا دار نے اس خوشی کا ڈھول بجوایا ہے کہ آپ ہار گئے ہیں.مجھے کو بڑا تعجب ہوا اور میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑا کر اپنے آپ کو پھر اسی مقام پر پہنچایا.اب اس دنیا دار کو بھی ہوش آیا.میں نے اس سے کہا کہ تم نے مجھ سے تو کہا تھا کہ حقیقت معلوم ہو گئی یہ لوگ مباحثہ نہیں کر سکتے اور اب سنا کہ یہ فتح کا ڈھول بجوایا ہے.یہ سن کر اس نے ڈھول بجانے والے کو بڑی فحش گالی دے کر نیچے اتارا.میں نے اس دنیا دار کو دھمکی دی کہ اگر اس طرح آدمی فتح یاب ہو سکتا ہے تو تمہارے مخالف تم کو جان سے مار ڈالنے پر تیار ہو سکتے ہیں.تم نے سوچا سمجھا نہیں اور غور سے کام نہیں لیا.تحریری اور تقریری مباحثہ کرالو اور ان شرارتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو.پھر وہاں سے میں ایک بڑے پرامن مکان میں چلا گیا.تھوڑے سے تحریری مناظرہ کے بعد کتابوں والے مولوی صاحب نے مناظرہ کو روک دیا.میں ان کو جانتا تھا کہ وہ مناظروں سے دور رہنے والے آدمی تھے.میں انکو بہت

Page 148

شریف الطبع اور نیک طبیعت خیال کرتا تھا.لیکن ان کے اس لفظ پر مجھ کو اس وقت تک تعجب ہے کہ انہوں نے میرے سامنے یہ کہا کہ اس ملک میں کوئی مذہبی مباحثہ کبھی نہیں ہوتا تھا.اس گاؤں کے مولوی نے تفرقہ ڈال دیا ہے اور جو مفرق الجماعت ہوتے ہیں وہ ملعون ہوتے ہیں.عليه لعنت الله والملائكة والناس اجمعین.اس لفظ سے میں کانپ گیا اور معلوم ہوا کہ شریف الطبع انسان بھی جوش میں آکر حد سے نکل جاتا ہے.ایک مسجد میں یہ عجیب بات دیکھی کہ ایک بزرگ میری بہت مذمت کر رہے تھے اور میں بھی وہاں جا کر بیٹھ گیا.انہوں نے مجھ کو دیکھا نہ تھا اور بڑے جوش سے اپنے کام میں مصروف تھے.میں جانتا تھا کہ دنیا میں یہ ہماری بھی کچھ لحاظ داری کرتے ہیں.میں نے آہستگی سے کسی اور شخص سے ایک بات کی اور خیال کیا کہ یہ بھی میری آواز سن لیں گے.چنانچہ وہ فور امیری آواز سن کر چونک پڑے اور میری طرف منہ کر کے فرمانے لگے کہ آپ بیٹھے ہیں ؟ اور اس کے بعد ان پر ایک سکتہ کا عالم طاری ہو گیا جس سے مجھ کو افسوس ہوا کہ کس قسم کی یہ مخلوقات ہے.ایک واقعہ اس کے قریب یہ ہوا کہ ہمارے شہر میں ایک بہت بڑے پیر ولایت تھے.بہت کچھ سمجھا کر ان سے لوگوں نے یہ اقرار لے لیا کہ اس قدر مدد دیں گے کہ نورالدین کو شہر سے نکال دیں.جب پیر صاحب آرے بلے کہہ چکے ، مجھ کو بھی یہ خبر پہنچی.میں دوپہر کے وقت پیر صاحب کے پاس پہنچا اور وہ ایسا وقت تھا کہ اس وقت پیر صاحب اکثر تنہا ہی ہوتے تھے.میں نے کہا کہ ایک عرض کرنے آیا ہوں جو بہت ہی مختصر ہے.یہ باغ جو آپ کے گھر کے پاس ہے اس باغ کی نسبت ایک سوال ہے کہ " آپ تو حجرہ شاہ مقیم کے رہنے والے ہیں اور وہ یہاں سے بہت دور ہے.یہ باغ آپ کو اس شہر میں کس طرح مل گیا ؟ بس میرا اتنا ہی سوال ہے " پیر صاحب نے فرمایا کہ آپ کے دادا نے ہمارے دادا کو دیا تھا.میں نے کہا کہ بہر حال آپ کو ہمارے خاندان سے کچھ نفع پہنچا ہے.یہ سن کر انہوں نے فرمایا کہ میں اور آپ کا بڑا بھائی لاہور میں ایک جگہ رہتے تھے اور ہمارے باہم بہت کچھ رسم آمد و رفت تھی.میں نے

Page 149

۱۴۳ کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ میرے اس شہر سے نکالنے میں شریک ہیں.خیر یہ تو احسان کا بدلہ ہی ہو گا مگر اتنا آپ یاد رکھیں کہ جو لوگ میرے مرید اور معتقد ہیں وہ تو کم سے کم آپ کو کبھی سلام نہ کریں گے.یہ کہہ کر میں چلا آیا اور جلد وہاں سے واپس ہو گیا.دن کے آخر حصہ میں جب علماء اکٹھے ہو کر ان کے پاس گئے اور میرے اخراج کا فتویٰ پیش کیا تو پیر صاحب نے ہنس کر یہ فرمایا کہ فقر کا دروازہ بڑا ہی اونچا ہے.ہندو سکھ مسلمان، عیسائی، وہابی سب فقر کے سلامی ہیں.تب ان علماء نے عرض کیا کہ آپ نے کل فرمایا تھا کہ میں کل تدبیر بتادوں گا اور ہم سے خوب پکی بات آپ کی اس کام کے متعلق ہو چکی تھی.پیر صاحب نے کہا کہ ہاں آپ رسول کی گدی کے مالک ہیں اور اس لئے آپ کی رعایت کرنی ضروری ہے.لیکن فقر کا دروازہ بہت اونچا ہے اور فقر کے سب سلامی ہیں.مولویوں نے بڑا ہی زور دیا.مگر سلام کے لفظ کو پیر صاحب چھوڑ نہ سکے ، پھر ان کا آدمی میرے پاس پہنچا کہ پیر صاحب آپ کے مکان کے قریب سے گزریں گے.جب وہ قریب آئیں تو آپ باہر نکل کر ان سے ملیں.میں نے خیال رکھا.جب مجھ کو معلوم ہوا کہ وہ قریب ہیں.میں مکان سے نکل کر ان سے ملا.وہ ایک گھوڑی پر سوار تھے.مگر کوئی آدمی ان کے آگے پیچھے نہ تھا.حالانکہ وہ بڑے ذی وجاہت آدمی تھے.مجھ سے کہنے لگے کہ ”جو ان میں نے وہ کام کر دیا ہے.یا ر ا اب اپنے مریدوں سے کہہ دینا کہ وہ ہم کو سلام کر لیا کریں" میں نے کہا کہ جب میں نے خود آپ کو سلام کیا ہے تو میرے مرید بھلا کیوں نہ کریں گے.بھیرہ میں میں نے ایک طبیب سے مشورہ کیا کہ میں یہاں طب کرنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کہ تم یہاں کامیاب نہیں ہو سکتے.کیونکہ میں مانگ لینے والا آدمی ہوں.پھر بھی مجھے اس شہر میں پانچ روپیہ سے زیادہ آمدنی نہیں اور تم تو مانگو گے نہیں اور تمہاری حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوا کا مفت دینا تمہاری عادت میں داخل ہو گا.ان سے میں کسی تقریب میں یہ بات بھی کہہ چکا تھا کہ معاجین، شربت اور فصد کا طریق مجھے لمبا نظر آتا ہے.انہوں نے کہا یہاں عطار اور جراح مخالفت کریں گے.علماء کی مخالفت اس کے علاوہ ہے.میں نے تو کلا

Page 150

۱۴۴۴ علی اللہ اپنے ایک طالب علم سے کہا کہ یہ سرمہ بناؤ - جست ہیں ماشہ سرمہ سیاہ ہیں ماشه زنگار تین ماشہ سفیده کاشغری چار ماشہ افیون تین ماشہ سمند رجھاگ چار ماشہ اور اسی طرح کا ایک اور سرمہ جس میں افیون نہ ہو.میں نے عصر کے بعد وضو کرتے وقت ایک شخص کی آنکھ کو غور سے دیکھ کر پہلی قسم کا سرمہ لگا دیا.اس کی دیکھا دیکھی ایک اور نے درخواست کی اس کے بھی لگا دیا.یہ ہمارا پہلا اشتہار تھا.صبح بہت سے لوگ آئے اور سرمہ ہی طلب کیا.ہمارے شہر میں رطوبت کے زیادہ ہونے سے یہ بیماری بکثرت تھی.بعض کو نزلی اور بعض کو معدی آشوب تھا اور بعض کو طبقات العین میں.اس لئے اطریفل کشنیزی جس میں گل اسطو خودوس پڑتا ہے اس کی ہدایت کی.بعض کے کان کے پیچھے یا ہڈی یا گردن پر پلاسٹر لگا دیا.خدا تعالیٰ ہی کے عجائبات ہیں کہ اس تدبیر نے بڑی کامیابی کامنہ دکھلایا.عجیب سفر بھیرہ میں جب میں علاج کرتا تھا تو ایک ایسے مکان میں بیٹھتا تھا جو ایک طبیب کے لئے نہایت ہی مناسب تھا اور اس میں بیٹھ کر عورت اور مرد دونوں کے حالات بے تکلف سن سکتا تھا.میں اپنے والد صاحب کے ارشاد سے بیٹھتا اور علاج کر تا تھا.مکان وہ بہت وسیع تھا.والد صاحب کی وفات کے تھوڑے دنوں بعد میرے ایک بھائی صاحب نے جن کے مجھ پر بڑے بڑے احسانات ہیں.( منجملہ ان احسانات کے یہ کہ انہوں نے مجھ کو پڑھایا، پرورش کیا شادی کی.اور بھی بڑے بڑے احسان ہیں.اور میں ہمیشہ ان کے لئے دعائیں کرتا ہوں) مجھ سے آکر فرمایا کہ یہ مکان میرے روپیہ سے لیا گیا اور میرے ہی روپیہ سے یہ درست کیا گیا.تم اس قدر لکھ دو.میں تو ان پر اپنے جان ومال سب کو قربان کرنے کے لئے تیار تھا.میں نے نہایت انشراح قلب سے ان کے حسب منشا لکھ دیا اور اپنے طالب علموں سے کہا کہ یہاں سے دوائیں اٹھا کر فلاں مسجد کے حجرہ میں رکھ دو اور اسی وقت وہ مکان خالی کر دیا.روپیہ اس وقت میرے پاس بالکل نہ تھا.میں نے سمجھا کہ یہ میرے استاد بھی ہیں.مربی بھی

Page 151

۱۴۵ ہیں.ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں ذرا بھی کدورت پیدا ہو.ایک دو روز کے بعد میری والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس تحریر کا منشا یہ نہ تھا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ.اس تحریر کا منشا کچھ اور ہی تھا جس کا اثر تم پر نہیں پڑ سکتا تھا.کچھ انہوں نے کسی اصل بات کی طرف اشارہ بھی کرنا چاہا مگر میں تو مکان چھوڑ ہی چکا تھا.وہاں ایک سرکاری زمین تھی جس کو کمیٹی کی زمین کہتے تھے.میں نے اپنے ایک دوست مستری سے کہا کہ تم اس زمین پر مکان بناؤ اور ایک ہندو سے کہا کہ تم روپیہ دے دو.مکان بننا شروع ہو گیا.وہاں تحصیل دار (جن کا نام منصب دار خاں تھا اور جو راولپنڈی کے علاقہ کے رہنے والے تھے) نے میرے پاس کہلا بھیجوایا کہ اول تو کوئی مکان بلا اجازت اور بغیر نقشہ منظور کرائے بنانا جائز نہیں پھر یہ کہ سرکاری زمین میں مکان بنانا قانون کے خلاف ہے.میں بسبب ادب کے کچھ نہیں کہہ سکتا.مگر ہاں یہ بتائے دیتا ہوں کہ کمیٹی بھی اگر چہ بسبب ادب کے کچھ نہیں کہہ سکی لیکن انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ کر دی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ بنا بنا یا مکان گرا دیا جائے گا.میرے دوست مستری نے بھی یہی کہا.مگر چونکہ میرا دل انشراح صدر سے یہی کہتا تھا کہ مکان ضرور بنے گا.اس لئے میں نے کہا کہ تم اپنا کام کئے جاؤ - صاحب ڈپٹی کمشنر نے کمیٹی والوں کی رپورٹ پر کہا کہ ہم بہت جلد وہاں آنے والے ہیں.خود ہی آکر موقع کا ملاحظہ کریں گے.چنانچہ وہ آئے اور بعد ملاحظہ فرمایا کہ جس قدر مکان بن چکا ہے وہ تو ابھی رہنے دو.باقی تعمیر کا کام روک دو.میں بھی اس وقت وہاں قریب کے مکان میں موجود تھا.ڈپٹی کمشنر صاحب کے تشریف لانے کی خبر سن کر وہاں گیا تو ڈپٹی کمشنر صاحب وہاں سے چلے گئے تھے اور بہت سے قدم آگے نکل گئے تھے.مجھ کو آتا دیکھ کر شائد ان کے ہمراہی لوگوں میں سے کسی نے کہا ہو گا کہ مکان بنوانے والا آ گیا ہے.وہ پھر واپس آئے اور ان کو واپس ہوتے دیکھ کر میرے دل نے کہا کہ حکم لوٹ گیا.جب وہ آگئے تو مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم جانتے ہو یہ سرکاری زمین ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں !مگر سارا شہر ہی سرکاری زمین ہے.انہوں نے فرمایا کہ وہ کس طرح؟ میں نے کہا کہ اگر سرکار کو اس شہر کے مقام پر فوجی

Page 152

میدان بنانا پڑے تو کیا شہر کے لوگ انکار کر سکتے ہیں ؟ کہا.ہاں ! نہیں کر سکتے.میں نے کہا بس اسی طرح ہر جگہ سرکاری ہی کہلاتی ہے.تب انہوں نے کہا کہ آپ کا مکان سرکاری زمین کے کتنے حصہ میں بن سکتا ہے.میں نے کہا ایک طرف تو سڑک ہے.دوسری طرف بھی شارع عام ہے اس کے درمیان جتنی زمین ہے اس میں مکان بن سکتا ہے.فرمایا کہ ابھی میخیں گاڑ دو.چنانچہ میخیں گاڑ دی گئیں.پھر تحصیل دار اور میونسپلٹی کے لوگوں سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کوئی اعتراض ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ان کا مکان تو نافع عام ہوتا ہے.ہم کو کوئی اعتراض نہیں.مجھ سے فرمایا کہ اچھا آپ اپنا مکان بنا ئیں.جب وہ چلے گئے تو تحصیل دار نے میرے پاس آکر کہا کہ یہ تو سکھا شاہی فیصلہ ہوا ہے کیونکہ ڈپٹی کمشنر صاحب کو خود بھی اختیار اس طرح سرکاری زمین دینے کا نہیں ہے.میں نے ان سے کہا کہ آپ خاموش رہیں.بہت دور جا کر ڈپٹی کمشنر پھر واپس آئے اور مجھ سے فرمایا کہ سڑک کے ساتھ ساتھ بدرد ہے آپ کو اس کے سبب سے بہت تکلیف پہنچے گی.میں نے کہا.میں نے سنا ہے انگریز بہت عقل مند ہوتے ہیں.آپ ہی کوئی تدبیر بتا ئیں.کہا میں نے تدبیر یہ سوچی ہے کہ سرکار کی طرف سے آپ کے مکان کا پشتہ کمیٹی بنادے پھر کمیٹی والوں سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ کو کوئی اعتراض ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں.وہ تحصیل دار مجھ سے کہنے لگا کہ یہ ایک ہزار روپیہ اور ہم پر جرمانہ ہوا.میں نے ان سے کہا کہ تم ان باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہو.اس مکان کے بننے میں جب بارہ سو روپیہ خرچ ہو گیا تو مجھ کو خیال آیا کہ کہیں وہ ہندو اپنا روپیہ نہ مانگ بیٹھے.میں اسی خیال میں تھا کہ میرے ایک دوست ملک فتح خاں صاحب گھوڑے پر سوار میرے پاس آئے اور فرمایا کہ میں راولپنڈی جاتا ہوں کیونکہ لارڈلٹن نے دتی میں دربار کیا ہے.بڑے بڑے رئیس تو دتی بلائے گئے ہیں اور چھوٹے رئیس راولپنڈی جمع ہوں گے اور انہی تاریخوں میں راولپنڈی میں دربار ہو گا.ہم راولپنڈی بلائے گئے ہیں.میں نے انکے کان میں چپکے سے کہا کہ مجھ کو بھی دربار میں جانا ہے.انہوں نے کہا کہ یہ گھوڑا ہے ، آپ اس پر سوار ہو جائیں.اس وقت جس قدر میرے بیمار تھے وہ وہیں بیٹھے رہے اور

Page 153

۱۴۷ میں نے گھر میں بھی اطلاع نہیں کی.اسی وقت سوار ہو کر چل دیا.فتح خاں اور ہم دونوں جب جہلم پہنچے تو وہاں ریل تھی.ملک فتح خاں مرحوم تو راولپنڈی چلے گئے.میں نے کہا.میں تو دتی جاتا ہوں.میرے کپڑے بہت میلے ہو گئے تھے اس لئے میں نے اپنے کپڑے اتار کر ملک حاکم خاں تحصیل دار جہلم کا ایک پاجامہ پگڑی اور کوٹ پہن لیا ، جس کے نیچے کر یہ نہ تھا.میں میر کے لئے نکلا اور ٹہلتا ہوا اسٹیشن جہلم پر پہنچا.میں نے اسٹیشن پر کسی سے پوچھا کہ لاہور کا تھرڈ کلاس کا کیا کرایہ ہے؟ معلوم ہوا کہ پندرہ آنہ - اس کوٹ کی جیب میں دیکھا تو صرف پندرہ آنہ کے پیسے پڑے تھے.میں نے ٹکٹ لیا اور لاہور پہنچا.یہاں بڑی گھمسان تھی کیونکہ لوگ دربار کے سبب دہلی جا رہے تھے.ٹکٹ ملنا محال تھا اور میری جیب میں تو کوئی پیسہ بھی نہ تھا.ایک پادری جن سے کسی مرض کے متعلق طبی مشورہ دینے کے سبب میری پہلے سے جان پہچان تھی.اسٹیشن پر مل گئے.ان کا نام گولک ناتھ تھا.انہوں نے کہا.آپ کہاں سجاتے ہیں؟ ٹکٹ تو بڑی مشکل سے ملے گا.میں نے کہا مجھ کو دہلی جانا ہے.گولک ناتھ نے کہا میں جاتا ہوں اور ٹکٹ کا انتظام کرتا ہوں.چنانچہ وہ گئے اور بہت ہی جلد ایک ٹکٹ دہلی کا لائے.میں نے ٹکٹ ان سے لیا اور جیب میں ہاتھ ڈالا تو پادری صاحب کہنے لگے ” آپ میری ہتک نہ کریں.معاف کریں.میں اس کے دام نہ لوں گا اور میں بھی تو دہلی ہی جاتا ہوں.رستہ میں دیکھا جائے گا میں رستہ میں ان کو تلاش کرتا رہا وہ نظر نہ آئے اور دہلی کے اسٹیشن پر بھی باوجود تلاش مجھ کو نہ ملے.اسٹیشن پر اترا تو عصر کا وقت تھا.میں آہستہ آہستہ اس سڑک پر چلا جس پر رؤسا کے خیمے نصب تھے.میں غالبا پانچ میل نکل گیا.اب چونکہ آفتاب غروب ہونے کو تھا.میں نے واپسی کا ارادہ کیا.اتنے میں ایک سپاہی جو حضرت منشی جمال الدین صاحب رحمہ اللہ علیہ کا ملازم تھا دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ا کو منشی صاحب بلاتے ہیں.انہوں نے آپ کو دیکھ کر مجھے بلانے بھیجا ہے.میں نے کہا اب تو وقت تنگ ہے.میں کل انشاء اللہ تعالیٰ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا.اس نے کونکہ وہ بہت اصرار سے آپ کو بلاتے ہیں.میں نے پھر بھی کہا کہ کل آؤں گا.اس نے کہا پاس ہی تو

Page 154

۱۴۸ ان کا خیمہ ہے.آپ ذرا تکلیف کر کے خود ہی ان سے عذر کرلیں.جب میں گیا تو وہ حسب عادت بڑی ہی مہربانی سے پیش آئے اور فرمایا کہ میرا ایک نواسہ محمد عمر نام بیمار ہے آپ اس کو دیکھیں.میں نے کہا کہ میں کل آکر اس کو دیکھوں گا.انہوں نے فرمایا کہ آپ آج رات کو یہیں رہیں.کل ہم آپ کے مکان پر چلیں گے.چنانچہ میرے لئے علیحدہ ایک آرام دہ خیمہ کھڑا کر دیا اور اگلے روز چونکہ جمعہ تھا انہوں نے یہ سمجھ کر کہ مکان پر جانے سے تو اس کو ہم نے روک لیا ہے راتوں رات ہی میرے لئے کپڑے تیار کرا دیئے جو میں نے اگلے روز پہن لئے.جمعہ کا وقت آیا تو ہم دونوں جامع مسجد گئے اور نماز پڑھی.جس طرف حضرت مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ ہمارے شیخ المشائخ کی قبر ہے.اس طرف کی سیڑھیوں سے وہ اترے وہیں ان کی بگھیاں کھڑی تھیں.مجھ سے کہا کہ آپ کا مکان کہاں ہے.ادھر چلیں.میں حیران.مجھ کو سامنے ایک تنگ گلی نظر آئی.میں نے کہا.ادھر ہے.فرمایا اس طرف تو ہماری بگھی نہیں جاسکتی.اپنے دو آدمی میرے ساتھ کر دیئے اور کہا کہ اسباب لے آؤ.میں ان آدمیوں کو ساتھ لئے ہوئے اس گلی میں پہنچا.بلا کسی ارادہ کے چلا جاتا تھا کہ ایک مکان نظر پڑا کہ اس مکان میں بڑی کثرت سے لوگ جاتے ہیں اور آتے بھی ہیں.اس مکان میں مخلوق کی اس قدر آمد و رفت دیکھ کر میں بھی بلا تکلف اس مکان میں گھس گیا.جب ہم لوگ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ نیچے ایک بڑا دالان ہے اور اوپر زمینہ کے راستے بالا خانہ پر لوگ جا رہے ہیں.میں نے ان سپاہیوں کو تو اس دالان میں بٹھایا اور بلا تکلف سیڑھیوں پر چڑھ گیا.اس وقت میرے دل میں ذرا وسوسہ نہ آیا کہ یہ کس کا اور کیسا مکان ہے گویا قدرت کا ایک ہاتھ تھا جو مجھ کو پکڑ کر اوپر لے گیا.وہاں کثرت سے آدمی بیٹھے ہوئے تھے.میں بھی ان کی طرف متوجہ ہوا.میں نے ان لوگوں میں سے صرف عبید اللہ صاحب ساکن بنت مصنف تحفة الهند کو پہچانا مجھ کو دیکھتے ہی وہ بڑے خوش ہو کر بولے کہ آپ کا آنا تو میرے لئے بڑا ہی مبارک ہوا ہے.میرے ساتھ کچھ نوجوان نو مسلم ہیں.میں اس فکر میں تھا کہ ان کو کہاں رکھوں.اب آپ جیسا انسان اور کون مل سکتا ہے.آپ ان کو اپنے یہاں لے

Page 155

جائیں.یقین ہے کہ آپ بڑی مہربانی سے رکھیں گے.انہیں نو مسلموں میں ہمارے دوست ہدایت اللہ بھی تھے جو بہت کمسن تھے.میں نے کہا.ہاں میں بخوشی ان کی خدمت گذاری کو موجود ہوں.مجھے کو ابھی اپنے مکان پر واپس جانا ہے آپ میرے ساتھ کردیں.مولوی صاحب نے کہا.ان کے ساتھ ان کے بسترے اور سب ضروری سامان موجود ہے.میں نے کہا میرے آدمی نیچے بیٹھے ہیں.وہ سب اٹھا کر لے چلیں گے.ان کو دے دو.ان سپاہیوں سے اسباب اٹھوا کر ہم بخیر و عافیت منشی صاحب کی خدمت میں پہنچ گئے.وہ بہت ہی خوش اور احسان مند ہوئے اور ہم سب کو اپنی بگھیوں پر سوار کرا کر کیمپ میں لے آئے.میں نے کہا کہ میں تھوڑے ہی دنوں آپ کے پاس رہ سکتا ہوں اور میاں محمد عمر کے رسولی ہے ، یہ بہت دنوں کے بعد جائے گی اور میں گھر میں اطلاع دے کر بھی نہیں آیا.انہوں نے فرمایا کہ آپ ضرور ٹھہریں اور گھر کے لئے پانسو روپیہ کا نوٹ بھیج دیں.میں بہت گھبرایا کہ ہم تو بارہ سو کے مقروض ہو کر نکلے تھے اور یہ تو پانسو ہی دیتے ہیں.شائد یہ وہ جگہ نہیں جہاں ہمیں جانا ہے.خیر میں نے وہ نوٹ تو اس ہندو کو بھجوا دیا اور گھر میں لکھا کہ آپ مطمئن رہیں.تھوڑے ہی دنوں کے بعد منشی صاحب نے سات سو رو پید اور دیا.اور مجھ سے کہا کہ جس طرح ممکن ہو آپ بھوپال تک چلیں.میں نے سمجھا کہ میرا قرضہ تو پورا ہو ہی گیا ہے اب جہاں چاہیں جاسکتے ہیں.بھوپال میں دوسری مرتبہ چنانچہ میں منشی صاحب کے ہمراہ بھوپال پہنچا.منشی صاحب نے کچھ ماہانہ اپنے پاس سے اور کچھ سرکار سے مقرر کر دیا اور فرمایا کہ لوگوں سے بھی فیس لے لیا کریں.غرض وہاں مجھ کو بہت آرام ملا.یہ میرے دوبارہ بھوپال جانے کی وجہ تھی.میں اب تک منشی صاحب کے واسطے بہت دعائیں کرتا ہوں.بھوپال میں ہمارے ایک مریض محمد عمر منشی جمال الدین کے نواسے تیز طبیعت اس کے

Page 156

10.ساتھ متمول تھے.انہوں نے تیل کی شیشی جس میں جمالگوٹہ کا تیل تھا اٹھالی اور مجھ سے کہا کہ میں پیتا ہوں.میں نے کہا کہ یہ خطرناک زہر ہے ایسا نہ ہو کہ ہلاک ہو جاؤ اور ساتھ ہی ہم بھی ہلاک ہوں.لیکن انہوں نے ذرا بھی پروا نہ کی اور چند قطرے پی گئے.میں تو بہت ہی گھبرایا مگر وہ پی چکے تھے.میں نے کہا فعل ما قدر تھوڑی دیر کے بعد ان کو بڑا ہی اضطراب ہوا.چونکہ وہ حضرت نواب صدیق حسن صاحب مرحوم کی بیوی کے بیٹے اور مدار المهام صاحب کے نواسے تھے.بڑی خلقت جمع ہو گئی.بہت سے ڈاکٹر اور حکیم آئے.مجھے بھی بلوایا.اب وہ میاں صاحب یہ بھی نہ کہیں کہ ہم نے یہ جبر پی ہے اور نہ میں نے بتایا.میں کتیرا پیس کر اپنے ساتھ لے گیا.میں نے کہا.یہ معاملہ تو پیچھے ہو گا جب ہو گا.اس وقت ان کو یہ پلا دیا جائے.ان کی اماں ایسی گھبرائیں جس کا کچھ اندازہ نہیں ہو سکتا.کچھ مجھے دھمکی بھی دی اور ان کی دھمکی کی شہرت بھی بہت ہو گئی.میں اپنے مکان پر مطمئن ہو کر واپس چلا آیا کیونکہ کیرے نے انکو بہت فائدہ دیا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان عورت بہت ساسونے کا زیور اور بہت سے کپڑے لائی اور بدوں کچھ کیسے گٹھڑی رکھ کر فور ابھاگ گئی.میں نے منشی ہدایت اللہ سے کہا کہ دیکھو یہ عورت کہاں سے آئی اور کیسی گٹھڑی لائی.جب اس کو کھول کر دیکھا تو وہ قیمتی کپڑوں اور زیوروں سے بھری ہوئی تھی.میں بہت گھبرایا کہ ایک معاملہ توطے نہیں ہوا یہ دوسرا کیا معاملہ ہے.تھوڑی دیر کے بعد ایک بوڑھی عورت اتنی ہی چیزیں اور لے کر آئی اور رکھ کر چلی گئی.میں نے منشی ہدایت اللہ سے کہا کہ دیکھو تو سہی یہ کہاں کی عورتیں ہیں اور کیا بات ہے.وہ اس کے پیچھے گئے.معلوم ہوا کہ حضرت پیر ابو احمد صاحب مجددی کے گھر سے آئی تھیں.کچھ وقفہ کے بعد حضرت پیر صاحب تشریف لائے اور بہت جھنجلا کر کہا کہ آپ ابھی تک یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں.یہاں بڑا فساد ہونے والا ہے.ہمارے گھر چلو.میں نے کہا وہ لڑکا انشاء اللہ تعالیٰ اچھا ہو جائے گا اور کوئی فساد وغیرہ نہ ہو گا.تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے کہا کہ ”یہاں رہنے کی ضرورت ہی کیا ہے.پھر فرمایا.کیا ہمارے گھر والوں نے زیور نہیں بھیجا؟ جس قدر رو پید ان لوگوں سے لیا ہے

Page 157

ادا سب واپس کردو " تب مجھ کو اس زیو رو غیرہ کی حقیقت معلوم ہوئی.میں ان کی نیکی وسعت حوصلہ شرافت اور خوبیوں کا کوئی اندازہ نہیں کر سکا اور اس وقت بھی نہیں کر سکتا.دھمکی کے لحاظ سے وقت بڑا خطرناک تھا.بہر حال وہ لڑکا خدا کے فضل سے اچھا ہو گیا.اور جو سلوک میرے ساتھ پیر صاحب نے کیا وہ ایسا نہیں جس کا بدلہ میں اتار سکوں.اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی اتارے گا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پیر صاحب ان کی اولاد اور بیوی کو اپنی جناب سے بہت بہت اجر عطا فرمائے.یہ قصہ اس قصہ کے لگ بھگ ہے جو رامپور میں ایک پٹھان کلن خاں نے عبد القادر خاں پر تلوار سونت لی تھی اور ذرا بھی عبد القادر خاں ٹھر تا تو کلن خاں مار ہی دیتا یا اس قصہ کے لگ بھگ ہے کہ بھیرہ میں ہمارے ساتھ عوام کا فساد تھا اس میں حفظ امن کے لئے طرفین کے عمائد لوگوں کے کچھ مچلکے اور ضمانتیں لئے جانے کا حکم ہوا.میرے نام بھی وہ حکم پہنچا تھا اگر چہ میں کسی مقدمہ سے تعلق نہ رکھتا تھا.سکیسر میں جانا تھا جو بھیرہ سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر ہے.مولوی صاحبان نے یہ تجویز کی کہ راستہ میں ایسے فتوے دیئے جائیں کہ ات کھانے پینے کی دقتیں پیش آئیں.میں نے ایک تیز گھوڑی لی اور ارادہ کیا کہ اگر عصر کے وقت یہاں سے سوار ہوں تو صبح کے وقت سکیسر پہنچ سکتے ہیں.ساٹھ کوس بڑی بات نہیں.میں اس گھوڑی پر سوار ہو کر چل دیا.چھ کوس کے فاصلہ پر چکرم داس ایک گاؤں ہے.وہاں میں نے دیکھا کہ بہت سے گاؤں کے آدمی لٹھ لئے ہوئے سڑک پر کھڑے ہیں.اس وقت مجھے کو یہ تمیز نہ ہوئی کہ یہ کون ہیں اور کس غرض سے کھڑے ہیں.مگر جب میں بہت ہی قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملک فتح خاں صاحب مع اپنے ملازمین کے ہیں.سلام علیک کے بعد میں نے پوچھا کہ آپ کیسے کھڑے ہیں.فرمایا کہ میں نے سنا تھا کہ آپ کو چھاؤنی جانا ہے اور مجھے بھی چھاؤنی جانا ہے.اس واسطے آپ کا منتظر تھا.لیکن ہم لوگ آہستہ آہستہ چلیں گے.صبح ہوتے چھاؤنی پہنچ جائیں گے.غرضیکہ ایک گاؤں سے نکل کر دوسرے میں دو سرے سے نکل کر تیسرے میں اسی طرح رات بھر چل کر صبح ہوتے شاہ پور کی چھاؤنی

Page 158

۱۵۲ میں پہنچے.وہاں کے آفیسر اور منشی اور اہلکار بہت سے لوگ ہمارے ملنے کو آئے.ملک صاحب نے دیکھا کہ یہاں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی تو مجھ سے کہا کہ مجھ کو خوشاب جانا ہے.چھاؤنی میں ہم دن بھر رہے ، رات کو بھی رہے پھر دوسرے دن بھی رہے.بمشکل ہم وہاں سے سوار ہوئے خوشاب چار کوس تھا.جب دریا کے پار کنارے پر اترے تو وہاں کے نائب تحصیل دار صاحب شیخ فضل کریم اور وہاں کے بہت سے عمائد اور احباب ہماری ملاقات کو آئے.ملک صاحب نے جب یہ امن دیکھا تو مجھ سے فرمایا کہ مجھے کو تو سکیسر جانا ہے.خوشاب میں بھی دو تین روز لگے.وہاں سے جب سوار ہوا تو گل حسین شاہ ایک سید نے دودھ کا بھرا ہوا ایک کٹورا پیش کیا.دودھ ان دنوں مجھ کو ہضم نہ ہو تا تھا.میں نے عذر کیا.انہوں نے بہت افسوس سے کہا کہ اگر کسی شخص کو دودھ ہضم نہ ہو تا ہو اور وہ آپ کے پاس علاج کو آئے تو آپ کیا کریں گے ؟ اس بات کے سننے سے واقعی مجھ کو بھی اپنی حالت پر افسوس آیا اور وہ کٹورا ان کے ہاتھ سے لیکر گھوڑی پر چڑھے ہوئے ہی سارا پی گیا.مگر میں یقین کرتا تھا کہ اب یہ ہضم نہ ہو گا.اس لئے میں جلدی ہی ان سے رخصت ہو کر چل دیا.سکیسر کے راستہ میں ایک پل آتا ہے جس کے نیچے پانی بہتا ہے.وہاں پہنچ کر مجھ کو گونہ تکلیف محسوس ہوئی.میں اتر پڑا اور ایک بہت بڑی صفراوی اجابت ہوئی اور طبیعت بالکل صاف ہو گئی.سکیسر پہنچے.قاضی علی احمد صاحب ( جو سو درہ کے باشندے تھے اور بنی اسرائیل کہلاتے تھے) سررشتہ دار نے ایک آدمی بھیجا کہ آپ کو جو ضرورت ہو حکم کر بھیجیں.میں خود اس لئے حاضر نہیں ہوا کہ مقدمہ کے متعلق اشتباہ نہ ہو.جب میں سرائے کے اندر گیا تو ایک عمدہ چار پائی پر نہایت عمدہ بستر بچھا ہوا تھا.چار پائی خالی تھی اور ملک صاحب ایک چٹائی پر بیٹھے تھے.انہوں نے مجھے چار پائی پر بٹھانا چاہا.چونکہ وہ میرے مخلص اور عمر میں مجھ سے بڑے تھے.میں نے کہا کہ یا تو آپ ہی چارپائی پر بیٹھیں یا ہم دونوں بیٹھیں.انہوں نے کہا کہ نہیں آپ بیٹھ جائیں.مصلحت اسی میں ہے.خیر میں اس وقت تو انکی مصلحت کو نہیں سمجھا اور چارپائی پر بیٹھ گیا.تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی آیا.جس کے چہرہ پر بڑا غضب تھا

Page 159

۱۵۳ مگر وہ ملک صاحب کو دیکھ کر ٹھنڈا ہو گیا.اس ملک کے رواج کے موافق ملک صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے لگا تو ملک صاحب نے کہا کہ نہیں آپ ہمارے پیر صاحب کے قدم لیں.چنانچہ میری طرف بڑھا اور مراسم تعظیم بجالایا.تھوڑی دیر کے بعد ملک صاحب نے اس سے کہا کہ میاں سلطان علی کہاں ہیں؟ ( یہ میانوالی کے رئیس تھے ) اس نے کہا کہ میں ابھی جاتا ہوں اور ان کو اطلاع کرتا ہوں چنانچہ میاں سلطان علی صاحب آئے اور ملک صاحب نے ان سے بھی اسی طرح میری طرف جھکنے کو کہا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ گویا میرا بیٹا ہے آپ اس کو کچھ وعظ کریں.تھوڑی دیر کے بعد سلطان علی ہاتھ باندھ کر میرے سامنے کھڑے ہو گئے کہ کچھ مجھے ارشاد کرو.چونکہ وہ مولوی عبد اللہ چکڑالوی کے مقدمہ میں آئے ہوئے تھے اور ان کا ارادہ کچھ عظیم الشان تھا میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں بس یہی ارشاد ہے.پیر ابو احمد صاحب کا احسان میں اور میری اولاد کبھی نہیں بھول سکتی.یہ پیر ابو احمد صاحب شاہ رؤف احمد صاحب کے بیٹے تھے.ملک صاحب کے ساتھ تو ہمارے تعلقات طبیبانہ بھی تھے مگر پیر صاحب کے ساتھ کوئی اس قسم کا تعلق نہ تھا یہ صرف ان کا احسان ہی احسان تھا والاجر من الله - پیر صاحب نے مجھ سے ایام طالب علمی میں بھی بڑے بڑے نیک سلوک کئے اور بہت بہت میری امدادطالب علمی میں کی تھی.میں ان سب کے بدلہ میں ان کے لئے دعا کر تا ہوں.بھیرہ بھیرہ میں ایک شخص میرے پاس آیا.اور کہا کہ ایک مسجد ہے اس میں کنواں کوئی نہیں ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس میں کنواں بن جائے.وہ چونکہ ملا تھا.اس لئے مجھ کو تعجب ہوا کہ یہ ملا ہو کر ایسی ہمت اور رفاہ عام کا کام کرتا ہے.میں خود اس کے ہمراہ اس محلہ میں اٹھا ہوا چلا گیا.میں نے اس محلہ والوں سے کہا کہ میں تم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اس شخص کے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ ڈال دیا کہ یہ تمہارے محلہ میں کنواں بنوانا چاہتا ہے.تم کنواں بنوالو.

Page 160

۱۵۴ کنوئیں کے نہ ہونے سے تم کو پانی دور سے لانا پڑتا ہے.نیز تمہاری جوان عمر بہو بیٹیاں پانی لینے کے لئے بازار میں سے ہو کر جاتی ہیں.یہ خرابی اور تکلیف بھی جاتی رہے گی.اس محلہ کے نمبردار نے نہ تو میری وجاہت کا خیال کیا اور نہ خود دل میں شرمایا.بے ساختہ مجھ کو جواب دیا کہ مولوی صاحب ! انسان کے جسم میں ایک مقعد ہوتی ہے اس میں پاخانہ بھرا رہتا ہے.اسی طرح ہمارا محلہ بھی بھیرہ شہر کی مقعد ہے لہذا ہر قسم کی گندگیاں ہم میں ہونی چاہیں.اور یہ جو آپ کہتے ہیں کہ ہماری بہو بیٹیاں بازار میں ہو کر جاتی ہیں.جب ہماری مائیں اور دادیاں بھی بازار میں ہو کر ہی پانی لاتی رہی ہیں تو بہو بیٹیاں ان سے زیادہ معزز نہیں.میں وہاں سے چلا آیا.مگر مجھ کو یقین تھا کہ خدا تعالیٰ میری اس محنت کو ضائع نہ کرے گا.بعد میں مجھ کو معلوم ہوا کہ ملا اس مسجد کی امامت کا بھو کا تھا اور اسی لئے کنواں بنوا تا تھا کہ مسجد کی امامت مل جائے.چند ہی روز کے بعد میونسپلٹی نے حکم دیا کہ شہر کی گلیاں سب پختہ بنوائی جائیں.اس محلہ میں سڑک اس طرح نکالی گئی کہ انکے دروازوں کے سامنے ذرا بھی صحن نہ رہا.وہ پنکھے بنانے والوں کا محلہ تھا.ان لوگوں کو بڑی تکلیف ہوئی.اور سڑک سے دوسری طرف کی تمام زمین پر اہل ہنود نے قبضہ کر لیا.اس نمبردار سے سب نے کہا کہ اب تو اس کی ایک ہی سبیل ہو سکتی ہے کہ اگر نور الدین تمہاری مدد کرے تو وہ تم کو زمین دلا سکتا ہے.وہ نمبردار میرے پاس آیا کہ حضرت! آئیے اس کنوئیں کی اینٹ آپ اپنے ہاتھ سے رکھیں.مجھ کو بڑی حیرت ہوئی.میں نے اس سے کہا کہ صاف بات بتاؤ.تم تو کنواں بنوانے کے اس قدر مخالف تھے یا اب خود مجھ سے درخواست کرتے ہو ؟ کہنے لگا کہ حضور آپ کا فرمان بھلا کہیں بغیر پورا کئے تھوڑا ہی ہم رہ سکتے ہیں.خیر اس کو تو اس وقت میں نے رخصت کر دیا اور اس ملا کو بلوایا.اس نے بتایا کہ اصل بات تو یہ ہے.اور اب جب تک آپ کا قدم در میان نہ ہو نہ کنواں بن سکتا ہے نہ زمین ان کو ہندو دے سکتے ہیں.ہندو میرا بڑا لحاظ کرتے تھے.میں نے ان سے کہا کہ نصف زمین ان کو دے دو کہ یہ کنواں وغیرہ بنوالیں.انہوں نے میرے کھنے سے مان لیا.کنواں بن گیا اور ملا صاحب بھی اس مسجد کے امام بن گئے.چونکہ مُلا صاحب

Page 161

۱۵۵ کے ارادہ میں دنیا کی ملونی تھی اس لئے اس کام میں اس قدر دیر ہوئی.طب کے پیشہ میں دو بار مجھے کو اللہ تعالیٰ نے مار مار کر توحید سکھلائی اور دونوں واقعوں سے اعتماد علی المخلوق اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے بالکل نکال دیا.پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک کو محرقہ آپ تھی اور وہ ایک بڑا امیر کبیر آدمی تھا.میں نے اس کے علاج میں بہت ہی زور لگایا اور مجھ کو یقین تھا کہ ساتویں دن اس کو بحران ہو جائے گا.ساتویں روز کی رات میں شام ہی سے اس کو خوب اضطراب شروع ہوا اور میں نے اس کو فال نیک سمجھا.اس کے گھر والے تو اس علم سے ناواقف تھے.انہوں نے رات ہی کو ایک اور طبیب (اس طبیب کا نام کرم علی تھا یہ پنڈ دادنخان کا ایک خاندانی طبیب تھا) کو بلایا.وہ آخر شب وہاں پہنچا.بڑا تجربہ کار آدمی تھا.اس کو یقین ہو گیا کہ مریض کے عوارض تو رو به انحطاط ہیں اب بحران شروع ہونے والا ہے.آتے ہی اپنے پاس سے ایک پڑیہ بہت جلدی نکال کر وہاں بید مشک رکھا ہوا تھا اس کے ساتھ کھلائی.میری طرف دیکھ کر ہنسا اور ان سے کہا کہ یہ کیاتپ ہے ابھی ہماری پڑیہ سے ٹوٹ جائے گا.کچھ وقفہ کے بعد اس کو بحران شروع ہوا.گھر والوں نے سمجھا کہ اس حکیم کے پاس اکسیر کی پڑیہ تھی والا نور الدین کو آج چھ روز ہوئے.کس قدر اس نے زور لگایا اور ذرا بھی فائدہ نہ ہوا.اور آج کی رات تو بڑی تکلیف کی تھی.اس حکیم نے بھی بحران کے بعد بہت بڑا انعام مانگا.مجھ کو یہ انعام ملا کہ مخلوق پر بھروسہ نہ کرنا.الحمد لله رب العلمين.دوسرا واقعہ یہ ہے.کہ میرے ایک دوست تھے.جن کی عمر اسی برس کے قریب تھی.میرے ساتھ وہ بڑی ہی محبت کا برتاؤ کیا کرتے تھے.میں نے ان کو بہت ترغیب دی کہ آپ شادی کرلیں مگر وہ مضائقہ کرتے تھے.میری وجاہت بھی ان کے دل پر بڑی تھی.آخر مجھے سے کہا کہ مجھے شہوانی تحریک ہوتی ہی نہیں.میرے خیال میں تھا کہ ایک باکرہ نوجوان کے ساتھ شادی کی تو تحریک ہو جائے گی.لیکن ظاہر میں میں نے سم الفار - پارہ - افیون کا مرکب معجون فلاسفہ کے ساتھ دیا.انہوں نے شادی بھی کرلی.اللہ تعالیٰ کے عجائبات قدرت میں

Page 162

۱۵۶ سے ہے کہ انکے گھر میں حمل ہو گیا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی.وہ تو بہت ہی خوش ہو گئے.چونکہ بہت بڑے امیر تھے.میں نے کہا کہ آپ اس لڑکی کو کسی اور کا دودھ پلوا ئیں.لیکن اس کو انہوں نے مانا نہیں.بہر حال دوسرے سال پھر حمل ہوا اور لڑکا پیدا ہوا جواب اللہ تعالیٰ کے فضل سے محمد حیات نام اکسٹرا اسٹنٹ ہے اور مجھے ہمیشہ اپنا چاہی لکھا کرتا ہے.خدا تعالیٰ اس کی حیات میں بہت برکت دے.وہ میرے نہایت پیارے دوست کی یاد گار ہے.میری طبی آمدنی اس وقت اتنی قلیل تھی کہ ہم میاں بیوی دو آدمیوں کے لئے بھی گونہ مشکلات پڑ جاتے تھے.جب انکے لڑکا پیدا ہوا تو انہوں نے بعض آدمیوں کو مبارک باد کے لئے میرے پاس روانہ کیا.میری حالت تو خود بہت کمزور تھی.مگر مجھے کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑا.پھر ایک دفعہ میں چھاؤنی شاہ پور میں گیا.وہاں سے مجھے کچھ روپے مل گئے تھے.میں اس خیال سے کہ انہوں نے مجھے کچھ مالی امداد نہیں دی.انکے گاؤں میں چلا گیا.وہ اپنے گاؤں کے بہت سے وہ لڑکے جو ان کے لڑکے کے قریب پیدا ہوئے تھے جمع کر کے لائے اور سب کو کہا کہ تم سلام کرو.مجھے کو ان لڑکوں کی تعداد اور اپنی جیب کے روپیوں میں کچھ مناسبت معلوم نہ ہوئی تو میں نے جو کچھ میری جیب میں تھا.سب ان کے لڑکے کو دے دیا.اس کو انہوں نے فال نیک سمجھا گویا یہ لڑکا امیر ہو گا.اور باقی لڑکے اس کے دست نگر رہیں گے.اس کے ہاتھ سے ان بچوں کو تقسیم کرا دیا.جب میں گھر میں پہنچا تو ایک میرے مکرم دوست اللهم اغفره و ارحمه جو میری آسائش کو بہت ضروری سمجھتے تھے ، حکیم فضل الدین ان کا نام تھا اور قسم قسم کی امدادوں میں وہ لگے رہتے تھے.انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہ تو یوں کچھ دیتے نہیں.آپ اس لڑکے کے لئے ایک لباس بنوا کر بھیج دیں.وہ لباس بمبئی میں تیار کرایا گیا.جیساوہ قیمتی تھا ویسا ہی وہ عمر کے لحاظ سے جو ان آدمی کے قابل تھا.وہ لباس میں نے کسی آدمی کی معرفت ان کو بھیج دیا.اس لباس کی وسعت مقدار کو دیکھ کر اس رئیس نے یہ تفاول لیا کہ یہ لڑکا جو ان ہو گا اور وہ لباس جوانی کے وقت کے لئے محفوظ رکھا.جب وہ آدمی واپس آیا تو میں نے حکیم فضل الدین صاحب سے کہا کہ مال کا نام قرآن کریم نے فضل رکھا ہے.

Page 163

۱۵۷ یہ فضل سے حاصل ہوتا ہے.مجھ کو تو یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ میں مخلوق پر قطعاً اب کبھی بھروسہ نہ کروں گا اور خدا تعالیٰ اب مجھ کو اپنے خاص کارخانہ سے رزق بھیجے گا اور میں آئندہ ارادہ بھی نہ کروں گا کہ کسی کو قیمتا دوائی دوں.یہ ایک امارت اور دولت مندی کی راہ تھی جو مجھ کو اس دن عطا ہوئی.الحمد لله رب العلمين.مجھے ان دنوں تاریخ ابن خلدون کا شوق تھا.کوئی تاجر لایا.ستر روپیہ اس نے قیمت کہی.میں نے کہا کہ باقساط تو روپیہ میں دے دوں گا ایک دم میرے پاس نہیں ہے لیکن اس تاجر نے قسطوں کو پسند نہ کیا.جب میں ظہر کی نماز کے لئے مطب میں آیا تو وہ کتاب وہاں رکھی دیکھی.ہر چند میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون رکھ گیا ہے لیکن کسی نے پتہ نہ بتایا.نہ تاجر کا کچھ پتہ چلا.کبھی کبھی میں مطب میں ذکر کر دیا کرتا تھا.آخر ایک دن ایک بیمار نے کہا کہ یہ کتاب ایک سکھ رکھ گیا تھا.جس کو میں صورت سے تو پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتا.وہ یہاں تحصیل میں بہت آتا جاتا رہتا ہے.کچھ دنوں کے بعد وہ اس سکھ کو لے آیا.میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کتاب آپ نے کس طرح رکھی.اس نے کہا کہ ”آپ کی مجلس میں ذکر ہوا تھا کہ آپ کے پاس روپیہ نہیں لہذا میں نے ستر روپیہ دے کر کتاب خرید لی اور یہاں رکھ دی تھی.اور یہ ستر روپیہ میں نے فلاں امیر سے وصول کر لیا تھا کیونکہ ان کا ہم کو حکم ہے کہ نور الدین کو جب کوئی ضرورت ہوا کرے بلا ہمارے پوچھے روپیہ خرچ کر دیا کرو.چنانچہ مجھ کو یہ موقع مل گیا اور میں نے انکے حکم کے موافق روپیہ خرچ کیا.میرے پاس بھی چونکہ ستر روپیہ آگئے تھے.میں نے ستر روپے اس امیر کے پاس واپس کر دئیے.میرا آدمی دو پہر کے وقت وہاں پہنچا اور روپے پیش کئے جن کو انہوں نے بڑے غضب اور رنج سے لیا اور اس آدمی کو روٹی بھی نہ کھلائی.پھر میرے بڑے بھائی کو بلایا اور کہا کہ ہم نے نور دین کے لئے جب سوچا تو کوئی حد نذرانہ کی ہم کو نظر نہ آئی اس لئے ہم نے یہ تجویز کیا تھا کہ ہم سارے ہی اس کے ہیں اور ہم نے اپنے نوکروں کو حکم دے دیا تھا کہ جب ان کو کوئی ضرورت پیش آئے تو بلا دریغ روپیہ خرچ کر دیا کریں.مگر انہوں نے ستر روپیہ واپس بھیجا.

Page 164

۱۵۸ ہم کو اس سے بہت رنج ہوا ہے.اب کیا کریں ؟ ہمارے بھائی صاحب نے ستر روپیہ تو آپ سے لے لیا اور اس رئیس سے کہدیا کہ ہم اس کو سمجھا دیں گے.مجھ کو آکر ملامت کی اور بتادیا کہ وہ ستر روپیہ ہم نے لے لیا ہے.گویا یہ ایک رقم تھی جو ہم کو وصول ہوئی.توکل علی اللہ کی خوشی کے مقابلہ میں یہ رقم مجھ کو واپس لینی گوارا بھی نہ تھی.ان دنوں میں ایک بیمار ایسے فالج میں گرفتار ہو ا جس کا فالج پاؤں کے اطراف عصابہ سے شروع ہوا اور روز مرہ بڑھتا گیا.پھر ہاتھ بھی مفلوج ہو گئے.اس کے باپ نے میری طرف رجوع کیا.طب یونانی اس مرض سے جہاں تک میرا خیال ہے خاموش ہے.قواعد کلیہ سے کام لینا اس وقت میری طاقت سے باہر تھا.تیمار دار ڈاکٹروں کا منکر تھا.ڈاکٹری مسودہ بھی اس وقت میری سمجھ میں پورا نہ آیا.غرض میں نے کسٹر ایل کلونجی اور شہد پلایا اور مسل کے بعد اس کے فقرات ظہر پر ایک پلسٹر لگا دیا جس سے اس کا سانس ٹھہر گیا.پھر اسے کچھ کو نین اور فولاد دو تین روز حت فرفیون ہفتہ میں دوبار دینا شروع کیا.یہی اصول علاج تھے جو اس وقت کئے اور کامیابی ہوئی.ہماری نواح کے گاؤں میں میری طب کا غیر معمولی چر چاپھیل گیا.جموں سے ایک شخص جو اس وقت بھی افسر پولیس ہیں.مدقوق ہو کر علاج کے لئے میرے پاس آئے.شہر میں وہ ہمارے پڑوسی تھے.ان کا نام لالہ متھرا داس ہے.ان کے علاج میں کامیابی ہوئی.اسی اثناء میں دیوان کر پا رام وزیر اعظم جموں کا گزر پنڈ دادنخان میں ہوا.بهر حال دیوان صاحب اور لالہ متھر اداس کے ماموں بخشی صاحب نے سرکار جموں سے میرا ذکر کیا.ان دنوں مجھ کو ایک بیوہ کا پتہ لگا کہ جس کو مختلف اسباب سے میں پسند کرتا تھا.میں نے اس کے یہاں نکاح کی تحریک کی.وہ عورت تو راضی ہو گئی.مگر ملک کا رواج جو بیواؤں کے نکاح کا نہیں ہے اس کے متعلق اس نے عذر کیا اور پھر یہ بھی کہا کہ آپ نکاح کر لیں کچھ دنوں کے بعد میرے ولی راضی ہو جائیں گے.میں نے ان ولیوں کو اس خیال پر کہ وہ بیوہ کے نکاح کو روکتے ہیں معزول سمجھا.اور اس نکاح میں جرات کرلی.قبل اس کے کہ وہ

Page 165

۱۵۹ ہمارے گھر میں آئے.میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ کا چہرہ زرد ہے زمین پر لیٹے ہیں اور ڈاڑھی منڈی ہوئی ہے.میں ہوشیار ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ نکاح سنت کے خلاف واقع ہوا ہے.تب میں نے ایک خط میاں نذیر حسین دہلوی اور ایک خط شیخ محمد حسین بٹالوی کو لکھا اور اس میں لکھ دیا کہ وہ بیوہ بالغ ہے، ولی مانع ہے.یہ تو اب مجھ کو یاد نہیں کہ ان دونوں میں سے کس کا خط آیا تھا مگر ایک کا خط آیا.جس میں لکھا تھا کہ ایسے ولی معزول ہو جاتے ہیں اور ایسی بیوہ اپنے اختیار سے نکاح کر سکتی ہے کیونکہ حديث لا نكاح إلا بولی میں کلام ہے میرے تو مطلب کے مطابق تھا.میں بڑا خوش ہو کر اٹھا کہ اب اس کو گھر میں بلالوں بیٹھک کے پھاٹک پر پہنچا تو ایک شخص حدیث کی کتاب لایا اور کہا یہ حدیث سمجھارو الاثم ما حا فی صد رک ولو افتاک المفتون اس کے دیکھتے ہی میرا بدن بالکل سن ہو گیا اور میں نے کہا کہ تم لے جاؤ پھر بتا دیں گے.میں نے یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو آگاہ کیا ہے کہ ان مفیتوں کے فتووں کی طرف توجہ نہ کرو میں نے وہ پھاٹک بند کر دیا.بیٹھک کے اندر دالان میں آیا.میرے دل میں یہ بھی خیال آتا تھا کہ اول تو حدیث میں کلام ہے دوسرے مفتی نے فتویٰ دے دیا ہے.بهر حال دالان میں آتے ہی مجھے پر نوم غیر طبعی طاری ہو گئی.میں لیٹ گیا تو میں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا.اس وقت آپ کی عمر پچیس برس کے قریب معلوم ہوتی تھی.گویا وہ عمر تھی جب آپ کی شادی ہوئی ہوگی.میں نے دیکھا کہ بائیں جانب سے آپ کی ڈاڑھی خشخشی ہے اور داہنی طرف بال بہت بڑے ہیں اور میں حضور میں بیٹھا ہوں.میں نے دل میں سوچا کہ بال دونوں طرف کے برابر ہوتے تو بہت خوبصورت ہوتے.پھر معا میرے دل میں آیا کہ چونکہ اس حدیث کے متعلق تجھ کو تامل ہے اس لئے یہ فرق ہے.تب میں نے اسی وقت دل میں کہا کہ اگر سارا جہان بھی اس کو ضعیف کہے گا تب بھی میں اس حدیث کو صحیح سمجھوں گا.یہ خیال کرتے ہی میں نے دیکھا کہ دونوں طرف ڈاڑھی برابر ہو گئی اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور مجھ سے کہا کہ کیا تو کشمیر دیکھنا چاہتا

Page 166

14.ہے.میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ ! آپ چل پڑے اور میں پیچھے پیچھے تھا.بانہال کے رستے سے ہم کشمیر گئے.یہ بھیرہ چھوڑنے اور کشمیر کی ملازمت کی تحریک ہے اس لئے میں بھیرہ کا اور کوئی حال نہیں لکھواتا.ریاست کشمیر و جموں جموں ریاست میں پہنچ کر سب سے عجیب نظارہ یہ دیکھنے میں آیا کہ میں نے ایک مختصر بالا خانہ ایسے موقع پر کرایہ پر لیا جہاں سے مجھ کو دربار آنے جانے میں سہولت ہو.وہ مکان اصل میں سرکاری اور اس کا مہتم ایک بہت ضعیف العمر آدمی تھا.لوگوں نے مجھ سے کہا کہ یہ شخص بد عہد ہے.آپ سال کے لئے اس سے اسٹامپ لکھالیں.چنانچہ میں نے اس سے اسٹامپ بھی لکھا لیا.دوسرے تیسرے دن وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ جو کرایہ آپ دیتے ہیں اس سے دو گنا کرا یہ دوسرا آدمی دیتا ہے.میں نے کہا کہ تم تو ہم کو تحریر دے چکے ہو.اس نے کہا کہ میں اپنی تحریر کا کوئی اعتبار نہیں کرتا.میں نے کہا اچھا ہم ہی دو گنا کرایہ دیں گے.تھوڑی دیر کے بعد آیا کہ وہ آدمی چوگنا کرایہ دیتا ہے.میں نے کہا بہت اچھا ہم چوگنا کرایہ ہی دے دیں گے.تھوڑی دیر کے بعد آیا کہ وہ بارہ گنا کرایہ دیتا ہے.میں نے اس کی پیرانہ سالی شہر کے سرکاری مکانوں کی افسری اور اس بد عہدی کو خیال کیا تو مجھے اس شہر سے نفرت ہو گئی.میں نے اپنے آدمی سے کہا کہ ہم ایسے شہر میں رہنا پسند نہیں کرتے.ابھی سب اسباب باند ھو اور یہاں سے چلو.چنانچہ میرے آدمیوں نے تمام اسباب باندھ کر نیچے اتار دیا اور میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ اس شہر کو ابھی چھوڑ دینا چاہیے.جہاں ایسا ضعیف العمر اور تمام سرکاری مکانات کا افسر ایسا بد عہد ہے.تمام اسباب نیچے اتر گیا تھا اور میں ابھی اوپر ہی تھا کہ اس طرف سے ایک شخص فتح نام رئیس گذرے اور کھڑے ہو کر دریافت کرنے لگے کہ یہ کس کا اسباب ہے.اتنے میں میں بھی وہاں آگیا.مجھ سے کہنے لگے کہ آپ تو ابھی آئے

Page 167

141 ہیں جاتے کہاں ہیں؟ میں نے سختی سے جواب دیا کہ تم لوگ بد عہد ہو.بد عہدوں میں رہنا مجھے پسند نہیں.وہ اس بھید کو سمجھ گئے کہ افسر نزول ایک بد عہد آدمی ہے ان کے ساتھ آدمی بہت تھے.انہوں نے اپنے آدمیوں سے کہا سب اسباب کو اٹھا کر ہمارے مکان میں لے جاؤ.میں نے کہا کہ مجھے اس شہر میں رہنا پسند ہی نہیں.لیکن انہوں نے ایک نہ مانی اور سب اسباب اپنے مکان پر بھجوا دیا.میں نے ان سے کہا کہ میرے رکھنے میں آپ کو بڑی تکلیف ہوگی.کیونکہ یہاں دو فلاں فلاں آدمی ہیں جن کو مجھ سے نظار ہے اور چونکہ دونوں بڑے آدمی ہیں اور میرے ساتھ خاص طور پر نقار رکھتے ہیں.پس مناسب نہیں ہے کہ میرے سبب آپ درباری آدمیوں سے مخالفت پیدا کریں.میں نے مختلف پہلوؤں سے سمجھایا.لیکن وہ کہنے لگے کہ ہم کچھ پروا نہیں کرتے.چنانچہ وہ مجھ کو اپنے گھر لے گئے اور دس برس اپنے مکان میں رکھا.مجھ کو یا میرے طالب علموں یا میرے مہمانوں کو اس دس برس میں کوئی بھی شکایت کا موقع نہ ملا.میں اب تک انکے وسعت حوصلہ پر حیران ہوں اور مجھے کو افسوس ہوتا ہے کہ میں اتنازی حوصلہ نہیں اور یہ بات ان کی ذات ہی سے وابستہ نہیں تھی بلکہ ان کے گھر کے تمام چھوٹے بڑے سب ایک ہی رنگ میں رنگین دیکھے.جب میں وہاں تھا تو میں نے ایک شادی اس زمانہ میں کی جب میری بیوی گھر میں آئی تو ان کی بہن نے اس کے ساتھ ایسے نیک سلوک کئے جیسے ایک ماں اپنی بیٹی سے کرتی ہے.جموں میں میاں لعل دین نام ایک ممتاز رئیس تھے.ان کی لڑکی کو زحیر کاذب ہوئی اور اطباء نے قوابض سے کام لیا.مریضہ کی حالت بہت رڈی ہو گئی.میاں لعل دین کو مجھ سے مذہبی رنج تھا.ادھر بیمار کی نسبت یاس کچھ اطباء نے بھی مددہی کی ہوگی.مجھے علاج کے لئے بلایا.”عدو شود سبب خیر گر خدا خواہد " میں نے اس کو اس حال میں دیکھا کہ پٹ پڑ ( جب چنا اپنے خول میں ہوتا ہے تو اس کو پٹ پڑ کھتے ہیں) کی طرح اس میں غلاظت ہے.مجھے یقین ہوا کہ زمیر کاذب ہے اور علاج میں غلطی ہوتی ہے.مگر میں خطرناک حالت میں جرأت نہ کر سکا کہ کوئی امر ظاہر کروں.اس وقت مجھے طب جدید نے یہ فائدہ دیا کہ موجودہ طبیب جو اس

Page 168

۱۶۲ وقت وہاں حاضر تھے.سب طب انگریزی سے ناواقف تھے.میں نے ایک مرکب ایسا بتا دیا جس میں پوڈا فلین تھی اور وہ تشخیص کارگر ہو گئی.اگر سو دست تھے تو گیارہ رہ گئے.دو سرے دن بھی میں نے وہی ترکیب استعمال کی.جس پر انہوں نے باوجود کدورت مجھے کو ایک یا رقندی یا بو مع زمین دیا اور خلعت بھی دیا.دوسری تقریب یہ ہوئی کہ چنگی کے افسر کو تولنج شدید ہوا اور آدھی رات کے وقت مجھے بلایا.میں نے یہ سوچ لیا کہ شدت درد کے باعث مسمل مفید نہیں ہوتا.اس لئے میں نے افیون، کمبوج، نوشادر کا مرکب اپنے پاس سے دیا جس سے اس کا درد قولنج دور ہو گیا.دوسری عجیب بات یہ ہوئی کہ وہاں ایک دفعہ بہت شدید ہیضہ پھیلا.وہاں کے راجہ با ہو نام ایک قلعہ میں تشریف لے گئے.اس سبب سے مجھے بھی وہاں جانا پڑا.راجہ موتی سنگھ جی بھی تشریف لے گئے.وہاں پہنچ کر ان کو ذو سنگاریا (جسے ڈسنٹری کہتے ہیں) کا شدید مرض لاحق ہوا.ساتھ ہی ان کو پیچش بھی تھی اور وہ ہیضہ کے دن تھے.اس لئے اس قلعہ میں انکو میرے طبی مشورہ کی ضرورت پڑی.بہت دنوں کی آمد و رفت سے ان کے ساتھ ایک گہرا تعلق پیدا ہو گیا.انہوں نے جو رقم بطور شکریہ مجھے کو دی تھی وہ سالہا سال برابر دیتے رہے.مہاراج کے ساتھ ان کے تعلقات میں کسی قدر کدورت تھی.ان دنوں ایک شاہزادہ کی شادی تھی.مجھ سے انہوں نے اس کدورت اور شادی کا ذکر کیا.میں نے ان کو صلاح دی کہ اب شادی کا موقع ہے آپ اس شادی میں ضرور ساتھ چلیں.اس میں آپ کے اور ان کے تعلقات انشاء اللہ تعالٰی ضرور صاف ہو جائیں گے.اس کے علاوہ بھی جو مناسب تھا مشورہ دیا.چنانچہ سمت ۳۷ بکرمی میں مصالحت ہو گئی اور وہ اس شاہزادہ کی شادی میں شریک ہو گئے.میں بھی ساتھ تھا.پہلی ہی منزل میں ایک ہاتھی میری سواری میں تھا جس پر ایک عماری تھی اور اس میں دو آدمیوں کے با فراغت بیٹھنے کی جگہ تھی.اس سواری میں ایک اسپرنگ کے صدمہ سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی.پھر دوسری منزل میں تو ایسی حالت ہوئی کہ میں سفر کے قابل نہ رہا.میں نے رات کے دس بجے کے قریب ایک ڈاکٹر کو بلایا جو بنگالی تھا.میں نے

Page 169

۱۶۳ کہا کہ مجھے ڈر لگتا ہے.یہاں کبھی کبھی ناسور ہو جاتا ہے آپ اس کچے ورم کو چیر دیجئے.اس نے عذر کیا کہ میں اوزار اور سامان سب کچھ ابھی بند کر چکا ہوں کہ مبادا صبح کے سفر میں کوئی چیز رہ نہ جائے لیکن جب میں نے بہت سختی سے کہا اور چاقو نکال کر دیا کہ اس سے چیر دیجئے تو ڈاکٹرنے کہا کہ کلور فارم نہیں ہے.میں نے کہا کہ کلوروفارم کی کوئی ضرورت نہیں.اس کے دل میں بھی طیش پیدا ہوا.اس نے بڑی سختی سے شگاف دیا.میں نے کہا کہ زخم کے دونوں کنارے خوب دبا کر لہو نکال دو اور دونوں لب زخم کے ملا کر باندھ دو.اس سے جس قدر سختی ہو سکی کی.مجھے قدرتی کلوروفارم یہ ملی کہ غشی طاری ہو گئی اور ڈاکٹر نے اپنا کام اچھی طرح کیا.صبح کو ڈاکٹر صاحب سویرے ہی بغیر معائنہ کئے چل دیئے.میں نے آئینہ نیچے رکھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ زخم خدا تعالیٰ کے فضل سے مل گیا ہے.لیکن اپنے قولی کے گھمنڈ پر میں ایک گھوڑی پر سوار ہو گیا.اگر چہ میں نے بڑی احتیاط کی اور زین کے ایک طرف رہا.لیکن چار میل پہنچ کر مجھ میں یہ طاقت نہ رہی کہ میں اس سواری پر رہ سکوں.چنانچہ میں اتر گیا.باریک سی شرک کی بو مجھ میں یہ تھی کہ آخر مہتممان کیمپ یہاں سے گزریں گے وہ ضرور ہمدردی کریں گے.تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ولی عہد صاحب آئے.انہوں نے کہا کیوں اتر پڑے ؟ میں نے کہا کہ میں سواری نہیں کر سکتا.میری طبیعت اچھی نہیں.ولی عہد صاحب یہ کہہ کر کہ اچھا کیمپ میں آؤ وہاں بندوبست ہو جائے گا اور سرپٹ گھوڑا دوڑا کر چلے گئے.میں نے کہا کہ ایک بت تو ٹوٹ گیا.لیکن نفس امارہ نے پھر بھی یہ سمجھا کہ اس کے دوسرے بھائی آئیں گے.چونکہ وہ میرا ہی علاج کرتے تھے اور مجھ سے ان کا بہت تعلق تھا وہ آئے اور بڑی ہمدردی سے کھڑے ہو گئے.میں نے کہا کہ میں سوار نہیں ہو سکتا.انہوں نے کہا کہ آپ کیمپ میں پہنچے اور سرپٹ گھوڑا دوڑا کر چل دیئے.پھر ان کے تیسرے بھائی آئے اور وہ بھی بدستور دریافت کر کے چل دیئے.پھر راجہ صاحب آئے انہوں نے بڑی محبت سے میرا حال دریافت کیا اور کہا کہ آپ سوار ہو جائیں.میں نے کہا کہ میں گھوڑے کی سواری نہیں کر سکتا.انہوں نے فرمایا کہ یہاں سے دو چار میل کے فاصلہ پر کیمپ ہے.آپ

Page 170

140 وہاں پہنچیں سب بندوبست ہو جائے گا.یہ فرما کر وہ بھی روانہ ہو گئے.پھر کیمپ کے مہتمم صاحب جو وہی ایک سب سے پیچھے تھے آئے اور انہوں نے بھی سابق رؤسا کی طرح کام لیا.اب میں ADATA ALWANALTANA اللہ کی طرف متوجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو دو سرے پر امید رکھتا ہے بڑی غلطی کرتا ہے.اب میری امید گاہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تھا.اتنے میں دیوان کچھن داس نام جو ان دنوں فوجی افسر تھے گزرے.انہوں نے جب مجھے دیکھا تو معا اتر پڑے اور کہا کہ کیا تکلیف ہے؟ میں نے کہا کہ میرے ایک پھنسی ہے اس لئے میں سوار نہیں ہو سکتا.آپ تشریف لے چلیں.لیکن انہوں نے کہا کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہاں اس حالت میں چھوڑ کر ہم آگے چلے جائیں.غرضیکہ وہ اتر کر میرے پاس ہی بیٹھ گئے اور باتیں کرتے رہے.اتنے میں انکی پالکی آئی.انہوں نے میرے پاس سے اٹھ کر اپنے آدمی کو علیحدہ لے جا کر کچھ حکم دیا اور اس کے بعد خود گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے.ان کا آدمی پالکی لے کر میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ پالکی میں سوار ہو جائیں اور یہ پالکی جموں واپس ہونے تک آپ کے ساتھ رہے گی.میں نے اس کو خدا تعالیٰ کا فضل سمجھا اور سوار ہو گیا.اس میں خوب آرام کا بستر بچھا ہوا تھا.میں اس میں لیٹ گیا اور شکریہ میں قرآن شریف کی تلاوت شروع کی.وہ ایک مہینہ کا سفر تھا.میں الحمد للہ جلدی ہی اچھا ہو گیا اور میں نے پالکی کو رخصت کرنا چاہا.لیکن پالکی برداروں اور ان کے ہمرا ہی افسر نے کہا کہ ہم کو دیوان جی کا حکم ہے کہ جب تک آپ جموں واپس نہ پہنچیں ہم آپ کی خدمت میں رہیں.میں نے اس ایک مہینہ میں چودہ پارے قرآن شریف کے یاد کرلئے.جب ہم جموں واپس پہنچے تو میں نے پالکی برداروں اور ان کے افسر کو انعام دینا چاہا.لیکن انہوں نے کہا کہ ہم انعام لے چکے ہیں.ہم کو اسی دن دیوان جی نے انعام اور خرچ کے لئے کافی روپیہ دے دیا تھا اور ان کا حکم ہے کہ آپ سے کچھ نہ لیں.میں نے اس افسر کو بہت سمجھایا کہ ان کو اطلاع کرنے کی ضرورت نہیں.مگر اس نے تو اور اپنے پاس سے کسی قدر روپیہ نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ جو روپیہ انہوں نے خرچ کے واسطے دیا تھا وہ بھی سب خرچ نہیں ہوا اور اب ہم

Page 171

۱۶۵ میں اتنی طاقت نہیں کہ انکو واپس دیں.چنانچہ اس نے وہ روپیہ واپس نہ لیا اور میں نے خدا تعالی کا فضل یقین کر کے وہ روپیہ لے لیا.پھر اس کے بعد دیوان کچھمن داس نے میرے ساتھ اس قدر نیکیاں کیں کہ ان کے بیان کرنے کے لئے بڑے وقت کی ضرورت ہے.ایک دفعہ وہ وزیر اعظم ہو گئے.ان کو پشتو بولنے کا بڑا شوق تھا اور ہمیشہ اپنی اردل میں پشتو بولنے والے ہی رکھتے تھے.وزیر اعظم ہو کر انہوں نے اپنے یہاں ایسے پشتو بولنے والوں کو مقرر کیا جو کوئی دوسری زبان نہیں جانتے تھے اور حکم دیا کہ پرائیویٹ ملاقات کے لئے کوئی ہمارے مکان پر نہ آئے.میں نے ایک روز شیخ فتح محمد صاحب سے کہا کہ آپ وزیر صاحب کے پاس جائیں اور ضرور ملاقات کریں.انہوں نے کہا کہ وہاں تو پشتون لوگ ہیں جو کسی کی سنتے ہی نہیں.ٹھوکریں مار مار کر لوگوں کو نکال دیتے ہیں اور بڑے بڑے لوگ وہاں جا کر ذلیل ہو چکے ہیں.اس وقت رات کے دس بجے تھے.میں نے کہا اچھا میں دیوان جی کو ابھی ایک خط لکھتا ہوں.شیخ صاحب نے کہا آپ خط ہر گز نہ لکھیں.لیکن میں نے انکی بات کو نہ مانا اور اسی وقت خط لکھا کہ یہاں کے لوگ ملاقاتوں کے عادی ہیں.میں نے سنا ہے آپ نے خطرناک پہرہ بٹھایا ہے.مہربانی کر کے ایک وسیع کمرہ جس میں ایرانی قالین بچھا ہوا ہو ملاقات کے لئے مقرر فرمائیں کہ لوگ وہاں جا کر بیٹھ سکیں.باقی جب آپ کا جی چاہے اس کمرہ میں ملاقات کے لئے آئیں اور جس سے چاہیں ملاقات کریں.جس سے چاہیں نہ کریں.مگر پشتونوں سے شریف آدمیوں کو دھکے دلوانا آپکی شان کے خلاف ہے.یہ خط اسی وقت ڈاک میں ڈالا اور ڈاک والے نے فور اوہاں پہنچایا.ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ ان کا حقیقی بہنوئی جو ان کا پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھا.لالٹین لئے ہوئے خود ہی میرے پاس پہنچا.اور کہا کہ آپ کا ایک خط دیوان صاحب نے پڑھا ہے اور آپ کو بلایا ہے.شیخ فتح محمد صاحب نے منع کیا اور کہا کہ اس وقت نہ جاؤ لیکن میں چلا گیا اور اس وقت وہاں کوئی پہرہ نظر نہ آیا.دیوان صاحب نے فرمایا کہ دیکھو کہیں پہرہ کا پتہ نہیں.میں نے اسی وقت موقوف کر دیا ہے اور فلاں کمرہ کو دیکھو اس میں ایرانی قالین بچھا ہوا ہے اور وہ شرفاء کی ملاقات کے لئے مخصوص کر دیا ہے.

Page 172

۱۶۶ میں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا جس کا انہوں نے ان لفظوں میں مجھ کو جواب دیا کہ ریاست میں اس طرح صفائی سے کہنے والا انسان بھی ضروری ہے اور اس لئے میں آپ کی بڑی قدر کرتا ہوں.اب میں کسی کو نہ روکوں گا اور آپ کے لئے تو کوئی وقت مقرر نہیں.آپ جس.وقت چاہیں بلا تکلف تشریف لائیں.میں جب حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کی مریدی میں کیا مجاہدہ کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں ترقی ہو.آپ نے فرمایا کہ میں یہ مجاہدہ بتا تا ہوں کہ آپ عیسائیوں کے مقابلہ میں ایک کتاب لکھیں.مجھے کو عیسائی مذہب سے واقفیت نہ تھی.ان کے اعتراضوں کی بھی خبر نہ تھی کہ کیا کیا اعتراض ہوتے ہیں.پھر یہ کہ میں اپنے آپ کو کبھی فرصت میں نہیں رکھتا اور اس کام کے لئے فراغت و فرصت کی بھی ضرورت تھی.جموں میں تو مجھ کو فرصت بہت ہی کم تھی.جب میں قادیان سے یہ حکم لے کر اپنے وطن میں پہنچا تو وہاں میرا ایک ہم مکتب حافظ قرآن مسجد کا پیش امام تھا.وہ میرے سامنے تقدیر کا مسئلہ لے بیٹھا اور اس نے اس مسئلہ کے پیش کرنے میں بڑی شوخی سے گفتگو کی.میں حیران اس کے منہ کو دیکھتا رہا کہ فرفر بو لتا تھا.حالانکہ مسجد کے ملا میں اس قدر شوخی نہیں ہوتی.جب لوگ چلے گئے تو میں نے اس کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ حافظ صاحب مجھ کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ عیسائی ہو گئے ہیں.اس نے کہا کہ عیسائی ہو گئے ہیں تو حرج ہی کیا ہے؟ میں نے کہا اپنے گورو سے ذرا مجھ کو بھی ملاؤ.چنانچہ وہ مجھ کو پنڈ دادنخان لے گیا.دریا سے اترے تو ایک گاؤں کے نمبردار نے کہا تمہاری دعوت ہے.میں نے کہا شہر سے واپس آکر دعوت کھائیں گے.چنانچہ میں اور حافظ صاحب دونوں ایک انگریز کی کوٹھی میں جا دھمکے.حافظ صاحب تو پہلے سے واقف ہی تھے.پادری صاحب ملاقات کے کمرہ میں تشریف لائے.میں نے کہا کہ پادری صاحب میرے آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے ہم مکتب آپ کے مرید ہو گئے ہیں آپ ہم کو بھی کچھ سنائیں.مطلب میرا یہ تھا کہ انکے مذہب کا پتہ لگے.اگر وہ اس وقت اعتراض پیش کرتا تو کوئی ایک دو ہی اعتراض کرتا کیونکہ میں نے پادری

Page 173

196 صاحب سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ لمبی بحث نہ کریں ، اپنے مذہب کا خلاصہ ہمارے مذہب کا خلاصہ اور صرف ایک اعتراض بطور خلاصہ پیش کریں.مگر پادری صاحب کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ میری بات کو ٹال کر ہمارے لئے چاء بسکٹ کا اہتمام کرنے لگے.میں نے کہا کہ میں اس شہر میں چار برس ہیڈ ماسٹر رہ چکا ہوں اور یہاں میری کافی واقفیت ہے ہم کو چاء وغیرہ کی ضرورت نہیں آپ ہم سے گفتگو کریں.میں نے حافظ صاحب سے بھی کہا کہ تم اس کو اکساؤ.چنانچہ حافظ صاحب اس کو علیحدہ لے گئے اور بہت دیر تک باتیں کر کے واپس آئے اور کہا کہ میں نے بہت زور لگایا مگر یہ تو آگے چلتا ہی نہیں.یہ کہتا ہے کہ میں ان سے زبانی گفتگو نہ کروں گا.ہاں بعد میں اعتراضات لکھ کر بھیجوا دوں گا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ جب تک ان کے اعتراضات ہمارے پاس پہنچیں اور ہماری طرف سے جو اب نہ ہولے اس وقت تک آپ بپتسمہ نہ لیں.حافظ صاحب نے کہا ہاں یہ تو ضرور ہو گا.میں نے پادری صاحب سے بھی کہہ دیا کہ یہ ایسا کہتے ہیں.انہوں نے کہا ہاں یہ مناسب ہے.پھر میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ بتاؤ اور کون ہے جو مثل تمہارے ہو.حافظ صاحب نے کہا کہ ایک اسٹیشن ماسٹر ہے چنانچہ ہم اسٹیشن پر آئے.اسٹیشن ماسٹر صاحب نے تو بڑی دلیری سے کہا مذہب عیسائی کا مقابلہ تو کسی مذہب سے ہو ہی نہیں سکتا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ یہ تو پھنس گئے.جب اسٹیشن ماسٹر نے حافظ صاحب سے سنا کہ پادری صاحب خاموش ہو گئے تو وہ حیران ہو گیا.آخر اس پادری نے ایک بڑا طومار اعتراضوں کا لکھ کر بھیجا.میں نے حافظ صاحب سے کہا کہ بتاؤ یہ کوئی ایک دن کا کام ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں.میں نے کہا تم ہی مدت مقرر کرد - حافظ صاحب نے کہا کہ ایک برس تک کتاب چھپ کر ہمارے پاس پہنچ جائے.میں جموں آیا.اس زمانہ میں زلزلے بہت آئے تھے.راجہ پونچھ کا بیٹا زلزلوں کے سبب پاگل ہو گیا تھا.اس نے جموں کے راجہ کو لکھا کہ ہم کو ایک اعلیٰ درجہ کے طبیب کی ضرورت ہے.چنانچہ میں وہاں گیا.مجھ کو شہر سے باہر ایک تنا مکان دیا گیا.بس ایک مریض کا دیکھنا اور تمام دن تنہائی.میں وہاں بائیبل اور قرآن شریف پڑھنے لگا.ان تمام

Page 174

اعتراضوں کو پیش نظر رکھ کر بائیبل پر نشان کرتا.پھر اس کے بعد قرآن شریف پڑھتا اور نشان کرتا رہا.اس کے بعد کتاب لکھنی شروع کی اور چار جلد کی ایک کتاب (فصل الخطاب لکھی.ادھر کتاب تیار ہوئی ادھر راجہ کالڑ کا اچھا ہوا.اب روپیہ کی فکر تھی کہ کتاب چھپے.راجہ پونچھ نے کئی ہزار روپیہ دیا.جب جموں آیا تو راجہ صاحب جموں نے پوچھا.کیا دیا ؟ میں نے وہ تمام روپیہ آگے رکھ دیا.وہ بہت ناراض ہوئے کہ بہت تھوڑا رو پیدہ دیا.چنانچہ اسی وقت حکم دیا کہ ان کو سال بھر کی تنخواہ اور انعام ہماری سرکار سے ملے.میں نے وہ روپیہ اور دو جلد میں دلی بھیج دیں وہاں سے چھپ کر آئیں تو حافظ صاحب اور مثل ان کے دوسرے لوگوں کو بھیج دیں.انہوں نے جواب میں لکھا کہ ہم بچے دل سے اب مسلمان ہو گئے.باقی کی ضرورت نہیں.چونکہ پونچھ کے راجہ سے مجھے پہلے ہی بڑا تعلق تھا اور اب اس کے لڑکے کے علاج سے جس میں مجھ کو بڑی کامیابی ہوئی.راجہ اور اس کے ولی عہد سے بہت تعلق بڑھ گیا تھا ایک دفعہ راجہ پونچھ جموں میں تشریف لائے اور علیل ہو گئے.مجھے بلا بھیجا.میں نے دیکھ کر کوئی علاج کا انتظام کر دیا.جب میں ان کے مکان سے باہر نکلا.رستہ میں ان کے سپاہیوں کے مکانات تھے.ان میں سے ایک شخص نے مجھ سے آکر کہا کہ فلاں خدمت گار آپ کو بلا تا ہے.میں نے کہا کہ اس خدمت گار کا گھر ایسے موقع پر ہے کہ جب وہ گھر جائے گا تو میرے مکان کے پاس سے ہی گزرے گا.وہ وہاں آجائے ہم دوائی دے دیں گے.لیکن اس خدمت گار نے جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کسی آدمی سے کہا کہ نو ر الدین تو بہت متکبر ہو گیا ہے.اب ہم اس کو اپنے راجہ کے پاس نہیں آنے دیں گے.میری عادت تھی کہ میں کسی امیر کے گھر بدوں اس کے بلائے نہ جاتا تھا.دوسرے دن راجہ صاحب کا کوئی آدمی نہ آیا اور میں بھی اپنی عادت کے موافق نہ گیا.کئی مہینے اسی طرح گزر گئے.ایک دن میں اپنے مکان کے دروازہ پر کھڑا تھا کہ وہ خدمت گار کسی اور طبیب کو ہمراہ لئے جا رہا تھا.ہمارے پڑوس میں چند معزز میاں صاحبان رہتے تھے.وہ بہت ہی ہے اور میری طرف متوجہ ہو کر کہا کہ آج

Page 175

149 اس کی محنت ٹھکانے لگی.میں نے دریافت کیا کہ آپ کیوں ہنستے ہیں.انہوں نے کہا کہ مدت سے یہ اس طبیب کو اس طرف سے اس لئے لے جایا کرتا تھا کہ آپ کو دکھلائے کہ ہم نے اور طبیب رکھ لیا ہے.تھوڑے ہی دنوں کے بعد مہاراج کشمیر لاہور کو تشریف لے گئے.میں بھی ہمراہ تھا اور قدرت الہی سے وہ دوسرا طبیب جو وہ بھی مہاراج کشمیر کا ملازم تھا.لاہور میں ساتھ نہ آسکا.راجہ پونچھ بھی جو بدستور بیمار تھے ہمراہ تھے.کیمپ میں چونکہ میں ایک ہی طبیب تھا.اس لئے مجھے عین دوپہر کے وقت راجہ پونچھ نے بلوایا.اس وقت وہ تنہائی میں تھے اور طبیعت بہت مضمحل تھی.مجھ سے فرمایا کہ سرکار نے (ہم نے) اس سال کا مقرری روپیہ آپ کو نہیں دیا.اس لئے ہم دو سال کا روپیہ آپ کو بھیج دیں گے اور آپ کوئی دوائی بتا ئیں.میں نے کہا کہ آپ نے دوپہر کے وقت شائد اس لئے بلایا ہے کہ آپ کا وہ خدمت گار جس کے بلانے سے میں اس کے پاس نہیں گیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ ہم اپنے راجہ کے پاس نہ آنے دیں گے.یہ دو پہر کا وقت اس کی حاضری کا وقت نہیں ہے.چونکہ آپ اس کے رعب میں آئے ہوئے ہیں.لہذا خطرہ ہے کہ اگر میں آپ کا علاج شروع کروں اور اس کو پتہ لگ جائے تو آپ کو کوئی ضرر پہنچے اور چوری کا علاج مجھے پسند بھی نہیں ہے.تب انہوں نے کہا کہ ہم تو ان لوگوں سے ڈرتے ہی رہتے ہیں کیونکہ یہ کمینے زہر بھی دے دیتے ہیں.خیر لاہور سے ہم بہت جلد واپس آگئے.اور وہاں میں نے سنا کہ راجہ صاحب دن بدن مضمحل ہوتے جاتے ہیں.آخر ایک دن ان کا انتقال ہو گیا.لیکن ابھی اس خدمت گار کاگونہ عروج مصلحنا باقی تھا اور میرا تعلق ان دنوں ایک ایسے شہزادے سے تھا جس کے ساتھ ولی عہد پونچھ کو کسی قدر تکدر تھا.میرے ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ آپ پر ایک مقدمہ ہونے والا ہے اور اس کا باعث اس شہزادہ کا تعلق ہے.ولی عہد پو نچھ کا منشاء ہے کہ آپ پر یہ مقدمہ بنایا جائے کہ ان کا والد آپ کے علاج کی کسی غلطی سے فوت ہوا ہے اور اس علاج میں ایک زہر بھی ہے.مجھے بہت ہی ہنسی آئی کہ اہل دنیا کے تعلق کیا ! اور ان کی خدمتیں کیا! اور ان کے معاہدات کیا؟ میں نے کسی موقع پر اس شہزادہ سے ذکر کیا تو اس

Page 176

14 نے کہا افسوس آپ کو خبر ہو گئی.معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ بات زیادہ کھل گئی ہے.میرا بھی منشاء تھا کہ یہ نالش کرے تو پھر ہم اس کا سارا قرضہ مع سود کے ادا کر دیں گے.آپ مطمئن رہیں.یہ لوگ بہت ناعاقبت اندیش ہوتے ہیں.یہ کمینہ خدمت گاروں کے ماتحت بڑی مجبوری سے کام کرتے ہیں.اور قابل رحم گروہ ہے.تب مجھے یاد آیا کہ جن دنوں میں اس کا علاج کرتا تھا.میں نے اس سے کہا کہ آپ مقدمات سنا کریں اور انکے فیصلوں میں لگے رہا کریں اس طرح آپ کو ایک اچھا موقع آرام کا مل جائے گا.میرے کہنے سے وہ صرف عرضیاں سن لیتا تھا.ایک دفعہ عرضیاں سنانے والے نے عرضی سناتے سناتے اس کے چہرہ کو بہت غور کے ساتھ دیکھا اور عرضی کو بہت مخش گالی کے ساتھ زمین پر پھینک دیا اور لگا اس کی نبض دیکھنے.چونکہ بار عب آدمی تھا.اس نے جب سب لوگوں سے جو وہاں بیٹھے تھے.کہا کہ دیکھو ہمارے سرکار کی طبیعت مضمحل ہوئی جاتی ہے تو سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملادی اور ساتھ ہی اس نے یہ نسخہ بتا دیا کہ تم لوگ بڑے شریر ہو.حضور کے یہاں عرضیاں نہ دیا کرو.اس سے سرکار کو تکلیف ہوتی ہے.دیکھو اس وقت کیسی خراب حالت ہو گئی ہے.پھر کیوڑہ اور بید مشک منگایا اور میرے پاس سوار دوڑایا.اس سوار نے میرے پاس پہنچ کر بڑی خطر ناک حالت بیان کی اور یہ بھی کہا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ کے پہنچنے تک زندہ رہیں یا نہیں.میرا مکان فاصلہ پر تھا.میں سریٹ گھوڑا دوڑا کر پہنچا تو وہ مکان سے اتر رہے تھے.سیڑھیوں پر ہی ملاقات ہوئی.وہیں میں نے نبض دیکھی.مجھ سے کہا.مولوی صاحب! آپ تو دور ہوتے ہیں.کہیں قریب آجائیں تو اچھا ہے.اب بھی یہ سب لوگ کہتے ہیں کہ میری بہت ہی خراب حالت ہو گئی تھی.مگر میں نے کیوڑہ اور بید مشک پیا تو اب یہ سب کہتے ہیں کہ ذرا طبیعت ٹھیک ہو گئی.میں نے کہا کہ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟ کہا کہ اس وقت تو میں شکار کے لئے جاتا ہوں.میں نے کہا میں بھی چلتا ہوں.چنانچہ ہم شکار کے لئے روانہ ہو گئے.خوب فاصلہ پر شکار تھا.وہاں پہنچ کر ایک موقع پر میں نے دریافت کیا کہ آپ کو خود بھی کچھ معلوم ہوا تھا کہ طبیعت خراب ہے.کہا مجھ کو تو معلوم نہیں ہوا مگر لوگ کہتے تھے کہ تمہاری

Page 177

طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے.میں نے دو آدمیوں سے جو پاس تھے پوچھا انہوں نے کہا کہ ہم کو تو کوئی بات معلوم ہوئی نہیں مگر جو عرضیاں سنایا کرتے ہیں انہوں نے کہا تھا.ہم نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی تھی.تب میں سمجھا کہ یہ ملا جی کے شاگردوں والا معاملہ معلوم ہوتا ہے.بہر حال وہاں ایک ریچھ ملا.وہ بھاگا اس کے پیچھے دوڑے.میں تو چند قدم پر رہ گیا.مگر ہمارے مریض صاحب جس طرح ہرن دوڑتا ہے اس کے متعاقب پہاڑ پر چڑھ گئے.جب میں واپس آیا تو ان کے بڑے چہیتے اور معتمد شخص جن کو وہ وزیر کے لفظ سے پکارا کرتے تھے میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ یہاں علاج کرنے آئے ہیں یا ہمارے ولی عہد کو حکومت سکھلانے آئے ہیں؟ آپ صرف دوا و غیرہ بتا دیا کریں اور حکومت کرنی نہ سکھائیں ورنہ آپ کو بڑی تکلیف اٹھانی پڑے گی.یہ لوگ اگر ایسے ہو جا ئیں جیسا آپ چاہتے ہیں تو ہم لوگ روٹی کہاں سے کھائیں.خیر میں اصلیت کو پہنچ گیا.خدا تعالیٰ ہمارے ملک کے رئیسوں پر رحم کرے اور ان کو ہدایت کرے.مہاراج کشمیر مجھ سے بہت ہی بعدارات پیش آتے تھے.بعض وقت میں خود بھی تعجب کیا کرتا تھا.ایک دن مجھے سے تنہائی میں کہا کہ جانتے ہو میں تم سے ڈرتا ہوں.میں نے کہا کہ آپ تو بادشاہ ہیں اور میں ایک غریب آدمی ہوں.ڈرنا کیا معنی؟ کہا میں تم سے بہت ڈرتا ہوں اور بعض اوقات میں ایسی چشم پوشی کرتا ہوں کہ میری طبعیت کے وہ بالکل خلاف ہوتی ہے.آج میں تمہیں اس کی وجہ بتا تا ہوں.وہ وجہ یہ ہے کہ سلطان محمود غزنوی کوئی ذلیل آدمی نہ تھا.وہ ایک شاہی خاندان کا شہزادہ تھا اور ایسی سلطنت جیسی کہ محمود کی تھی ایک کمینہ انسان کو کبھی میسر نہیں ہو سکتی.میں محمود کے حسب اور نسب کو خوب جانتا ہوں.وہ شاہان ایران کی نسل سے تھا.مگر نیک نامی کا جینا اور بدنامی کا مرنا دونوں کیسے عجیب ہیں کہ ملا فردوسی نے دو شعر کہہ کر کہے

Page 178

اگر مادر شاه بانو مرا کیم ر زر تا بزانو اگر شاه بڑے شاه پودے پدر زر نہارے مرا تاج ایک ایسا خطرناک ٹیکا لگایا ہے کہ ہم بادشاہوں کی مجلسوں میں اس کا ذکر آتا ہے.اس لئے میں مصنف لوگوں سے بہت ڈرتا ہوں.تمہارا بھی اسی لئے زیادہ خیال کرتا ہوں.ان رؤسا میں بعض وجود بڑے نیک اور مخلوق الہی کے واسطے بہت مفید ہوتے ہیں اور بعض اس کے خلاف اس قسم کی باتوں کو صرف اس وجہ سے بیان کرنا مناسب سمجھا گیا ہے کہ شاید کسی کو نفع پہنچے.کشمیر میں ایک مولوی عبد القدوس صاحب رہتے تھے.وہ بڑے بزرگ آدمی تھے.اور میرے پیر بھائی بھی تھے.کیونکہ وہ شاہ جی عبد الغنی صاحب کے مرید تھے اور میں بھی شاہ صاحب کا مرید تھا.ان کو مجھ سے خاص محبت تھی اور باوجود ضعف پیری کے میرے مکان پر ترمذی کا سبق پڑھنے آتے تھے.میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ انکی گود میں کئی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں.میں نے ایک جھپٹا مارا اور سب بچے اپنی گود میں لے کر وہاں سے چل دیا.رستہ میں میں نے ان بچوں سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا نام کھیعص ہے.میں اپنے اس رویا کو بہت ہی تعجب سے دیکھتا تھا.جب میں حضرت مرزا صاحب کا مرید ہوا تو میں نے ان سے اس خواب کا ذکر کیا.مرزا صاحب نے فرمایا کہ آپ کو اس کا علم دیا جائے گا اور وہ لڑکے فرشتے تھے.دھرم پال نے جب ” ترک اسلام "کتاب لکھی تو اس سے بہت پہلے مجھے ایک خواب نظر آیا تھا کہ اللہ تعالٰی مولی مجھ سے فرماتا ہے کہ ”اگر کوئی شخص قرآن شریف کی کوئی آیت تجھ سے پوچھے اور وہ تجھ کو نہ آتی ہو اور پوچھنے والا منکر قرآن ہو تو ہم خود تم کو اس آیت کے متعلق علم دیں گے " جب دھرم پال کی کتاب آئی اور خدا

Page 179

تعالیٰ نے مجھ کو اس کے جواب کی توفیق دی.حروف مقطعات کے متعلق اعتراض تک پہنچ کر ایک روز مغرب کی نماز میں دو سجدوں کے درمیان میں نے صرف اتنا ہی خیال کیا کہ مولا! یہ منکر قرآن تو ہے.گو میرے سامنے نہیں.یہ مقطعات پر سوال کرتا ہے.اسی وقت یعنی دو سجدوں کے درمیان قلیل عرصہ میں مجھ کو مقطعات کا وسیع علم دیا گیا.جس کا ایک شمہ میں نے رسالہ نورالدین میں مقطعات کے جواب میں لکھا ہے اور اس کو لکھ کر میں خود بھی حیران ہو گیا.جموں میں ٹھٹھیروں کی دوکانوں کے پاس جلا کا کے محلہ میں ایک مندر ہے.میں نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ اس مندر کے سامنے آئے ، نمک ، تیل وغیرہ یعنی پرچون کی ایک دوکان ہے.وہاں ایک لکڑی کی چوکی پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم بیٹھے ہیں.میں وہاں سے گزرا تو آپ نے فرمایا کہ تم ہمارے یہاں سے آٹا لے لو.چنانچہ انہوں نے ایک لکڑی کی ترازو میں آٹا تو لا جو بظاہر ایک آدمی کی خوراک کے قابل تھا.میں نے اپنے دامن میں اس کو لیا.جب وہ آٹا میرے دامن میں ڈال چکے تو کفه ترازو کو زور سے ڈنڈی پر مارا تا کہ سب آٹا میرے دامن پر گر جائے.جب میں آٹا اپنے دامن میں لے چکا تو میں نے سوال کیا کہ آپ نے حضرت ابو ہریرہ کو کوئی ایسی بات بتائی تھی جس سے وہ آپ کی حدیثیں یاد رکھتے تھے ؟ آپ نے فرمایا."ہاں" میں نے عرض کیا.وہ بات مجھے بھی بتا دیں تا کہ میں آپ کی حدیثیں یاد کرلوں.کہا کہ ہم کان میں بتاتے ہیں.میں نے کان آگے کیا اور آپ نے اپنا منہ میرے کان سے لگایا کہ اتنے میں خلیفہ نورالدین نے میرے ایک پاؤں کو خوب زور سے دبایا اور کہا کہ نماز کا وقت ہے.میری سمجھ میں آیا کہ حدیث پر عمل کرنا یہی حدیثوں کے یاد کرنے کا ذریعہ ہے.اٹھانے والا بھی خواب ہی کا فرشتہ ہوتا ہے اور نور الدین کے لفظ سے یہ تعبیر میری سمجھ میں آئی.وہاں بعض اوقات مجھے خاص خدمت گاروں میں بیٹھنے کا موقع ملتا تھا.ایک دفعہ میں نے ان سے کہا آؤ ہم تمہیں قرآن سنا ئیں.وہ سب ہندو تھے.میں نے دو ایک روز انہیں

Page 180

مسلمان قرآن سنایا.ایک شخص جس کا نام رتی رام تھا اور وہ خزانہ کا افسر تھا اور افسر خزانہ کا بیٹا بھی تھا.اس نے عام مجلس میں کہا کہ دیکھو ان کو قرآن شریف سنانے سے رو کو درنہ میں ہو جاؤں گا.قرآن شریف بڑی دلر با کتاب ہے اور اس کا مقابلہ ہرگز نہیں ہو سکتا اور نور الدین کے سنانے کا انداز بھی بہت ہی دلفریب اور دلربا ہے.وہاں کے وزراء میں سے دیوان گوبند سمائے ، دیوان اننت رام اور دیوان کرپا رام دنیوی اخلاق کی رو سے بہت ہی بے نظیر آدمی تھے.وسعت خیالات کے ساتھ عام مروّت کا مادہ بھی ان لوگوں میں تھا.دیوان لچھمن داس اور سردار روپ سنگھ - سردار لال من.سردار موتی رام ایسے اشخاص ہیں جن کو میرے طبی مشوروں کے علاوہ مجھ سے خاص طور پر خطر ناک معرکوں میں سلوک کرنے کا موقع ملا ہے.میں ان کا ہمیشہ شکر گذار ہوں گا.ایک دفعہ وہاں کے گورنر پنڈت رادھا کشن صاحب نے راجہ امر سنگھ کے مکان پر مجھے سے کہا کہ لیکھرام کے بعض اعتراضات جو اسلام پر کئے گئے ہیں بالکل لاجواب ہیں.مسلمان ان کا جواب نہیں دے سکتے.میں نے کہا بات تو بڑی سہل ہے.آپ ان اعتراضوں میں سے اعلیٰ درجہ کا اعتراض میرے سامنے اس وقت پیش کریں اور راجہ صاحب کو ہم جج بنائیں گے.تب انہوں نے اسکندریہ کے کتب خانہ کے متعلق یہ اعتراض کیا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے جلایا گیا.میں نے ان سے کہا کہ آپ کے نزدیک دنیا میں کوئی صحیح تاریخ ہے ؟ جس میں اسلامی پہلی صدی یا دوسری یا تیسری اور چوتھی صدی کے درمیان اس قصہ کو کسی مورخ نے بیان کیا ہے آپ اس کا نام لیں.انہوں نے کہا کہ میں نے عربی تاریخیں نہیں پڑھیں.میں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے انگریزی تاریخیں نہیں پڑھیں.مگر خیر اب آپ کسی انگریزی تاریخ کا نام لیں جو نسبتاً قابل اعتماد ہو.تب انہوں نے گین کی تاریخ ڈکلائن اینڈ فال آف دی رومن امپائر Decline and fall of the Roman Empire By Gibbon.یعنی ( تاریخ زوال سطنت روما) کا ذکر کیا.میں نے کہا بس یہی ایک کتاب ہمارے اور آپ

Page 181

14A وہ کے درمیان فیصلہ کن ہوگی، منگوائی جائے.چنانچہ دیوان امرنا تھ صاحب کے کتب خانہ سے وہ کتاب منگوائی گئی اور کتب خانہ کے متعلق جو کچھ کہ اس مصنف کا خیال تھا.گور نر صاحب کے سامنے پیش کیا.انہوں نے کیسا تعجب کے قابل جواب دیا کہ چونکہ ہم کو ابتداء سے ہی تعلیم دی جاتی ہے کہ اسلام کا مذہب بہت برا ہے اس واسطے جو اعتراض اس پر کیا جائے ہم کو ہ عظیم الشان ہی معلوم ہوتا ہے.تب میں نے راجہ صاحب سے کہا کہ آپ کی مسلمان رعایا پنڈت جی سے کیا فائدہ اٹھا سکتی ہے.جبکہ یہ اسلام کے ایسے خیر خواہ ہیں (کشمیریوں کے محاورہ میں خیر خواہ بد خواہ کو کہتے ہیں گورنر صاحب نے کہا کہ میں ہندو نہیں بلکہ بدھ ہوں کیونکہ میں لداخ کا گورنر رہا ہوں.وہاں بدھوں کی تعلیم مجھ کو بہت پیاری معلوم ہوئی.مجھے کو ایک طمع بھی تھی.موقع بھی تھا اور بات بھی بن گئی.میں نے کہا کہ آپ کے محکمہ میں فتح محمد اور فتح چند دو امیدوار ہوں اور لیاقت میں بھی فتح محمد دو سرے سے بڑھا ہوا ہو تو آپ کس کو جگہ دیں گے.انہوں جواب دیا کہ ہم فتح چند کو جگہ دیں گے گو وہ لیاقت میں کم ہی ہو.میں نے کہا آپ کی بات تو متضاد ہو گئی کیونکہ فتح چند بدھ نہیں ہے.گور نر صاحب نے کہا کہ مجھے پر اپنے باپ کی تعلیم کا یہ اثر ہے.اس پر میں نے راجہ صاحب سے کہا کہ آپ توجہ کریں کہ کیا حال آپکی مسلمان رعایا کا ہو سکتا ہے.اس طرح کے بہت سے نظارے وہاں دیکھنے میں آئے.اللہ تعالیٰ سے رحم کا امیدوار ہوں.جب راجہ پونچھ کو قلعہ باہو میں ڈوسنطا ریا نے آدبایا تھا وہاں سبوس اسبغول انجبار اور شیرہ بکن نے مجھے تحریک دی کہ میں ہندی طب پڑھوں.کیونکہ بکن کی نسبت صرف ہندی طب راہ نما ہوئی تھی.اس کام کے لئے پنڈت ہر نام داس بوڑھے پنڈت انتخاب کئے اور ان سے امرت ساگر اور سرت سبقاً پڑھا اور طب جدید کی بہت سی مصری کتابیں منگوا کر مطالعہ کیں.پنڈت صاحب کی میں ایسی خدمت کرتا تھا کہ بعض وقت ان کے لئے حقہ کی عمدہ قسم کی نلیاں کشمیر سے منگواتا تھا اور وہ بھی مجھ کو بچوں سے کم عزیز نہ سمجھتے تھے.اس میرے پڑھنے کی خبر مہاراج جموں کو کی گئی کہ یہ شخص ابھی پنڈت ہر نام داس سے طب پڑھتا ہے جو

Page 182

144 آپ کا ادنی نو کر ہے.مجھ سے جب پوچھا گیا کہ تم دربار میں پنڈت ہر نام داس کی تواضع زیادہ کیوں کرتے ہو ؟ تو میں نے کہا کہ وہ میرے استاد ہیں.اس میری گفتگو نے رئیس کے دل پر بہت ہی بڑا اثر کیا اور مجھے کو بڑی عظمت سے دیکھنے لگا.ان دنوں میں میرے مولا نے جو میری نخوت کا علاج کیا وہ بھی عجیب ہے کہ میاں لعل دین کا بیٹا فیروز الدین جو مجھ سے دلی تعلق اور اخلاص اور گہری محبت رکھتا تھا وہ عالم شباب میں مبتلاء چیچک ہوا اور مرگیا.میرے سامنے ہی اس نے جان دی.اس صدمہ سے اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے کہ مجھ پر کیا کیا گزری.اور مجھ کو یہ واقعہ اب تک بھی تکلیف دیتا ہے کہ کوئی تدبیر وہاں کام نہ دے سکی.بہت ہی ٹکریں ماریں مگر نا کامی رہی.یہ سب خد اتعالیٰ کے فضل کی باتیں ہیں.میں نے شیخ فتح محمد اور ان کے تمام کنبہ والوں اور ان کے بھائی شیخ امام الدین کو خلوص و محبت کا نہایت ہی پاک نمونہ پایا.شیخ علی محمد تاجر و زیر آباد مقیم جموں کو بھی مجھ سے بڑی محبت تھی راجہ عطا محمد خاں رئیس یا ڈی پورہ اور راجہ فیروز الدین خان اور راجہ قطب الدین خاص ذکر کے قابل ہیں اور ان میں طبی تذکرے بھی موجب ذکر ہیں مگر بات لمبی ہوتی جاتی ہے.صرف اتنا بتائے دیتا ہوں کہ ان میں سے ایک شخص جو خطرناک ضعف باہ میں گرفتار تھا.اس نے مجھ سے کہا کہ کوئی خاص طور کی دوائی آپ مجھے دیں.میں نے اس کو نسخہ زرجام عشق بنا کر دیا.جس کے استعمال کے بعد اس نے میری اور میری بیوی کی دعوت اپنے گھر میں کی اور اس کی بیوی نے میری بیوی کے ہاتھ میں سونے کے بڑے بڑے کنگن بہت محبت سے ڈال دیئے اور خود اس شخص نے قیمتی گھوڑے باصرار دیئے.ایک شخص بڑے عملیات کے مدعی تھے اور وہ اپنے آپ کو شاہ عبد الغنی صاحب کا مرید بھی ظاہر کرتے تھے.انہوں نے عملیات پر کتاب بھی لکھی تھی.میں نے شاہ صاحب کے تعلقات کی بنا پر ان کو ایک خط لکھا.جس پر انہوں نے مجھ کو ایک عمل لکھ کر بھیجا کہ اس سے پانچ روپیه روز آدمی کما سکتا ہے.چونکہ وہ شاہ صاحب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے

Page 183

166 تھے اس لئے میں نے اس عمل کا تجربہ کیا.میں طب کا پیشہ بھی کرتا تھا.تھوڑے دنوں کے بعد مجھ کو یہ خیال ہوا کہ یہ جو مجھ کو آمدنی ہوتی ہے آیا اس عمل کا نتیجہ ہے یا طب کا؟ ان دونوں میں تشخیص کرنے کے لئے یا تو عمل چھوڑ دیا جائے یا طب.سو میں نے طب کو چھوڑنا پسند نہ کیا.عمل کو چھوڑ دیا.اس مہینہ میں مجھ کو بارہ سو روپیہ کی آمدنی ہوئی.اس لئے مجھ کو رنج ہوا کہ اس عمل کی نحوست سے بارہ سو کی بجائے ڈیڑھ سو ہی ملتا تھا.جب میں جموں گیا تو ایک روز علی الصباح وہ عامل صاحب میرے مکان پر پہنچے.میرے دل میں خیال گزرا کہ شاید یہ اپنے دل میں خیال کرتے ہوں گے کہ یہ میرے عمل کے سبب یہاں نو کر ہے اس لئے میں نے اپنے نفس پر بہت ہی جبر کر کے اپنی عادت کے خلاف انکی طرف مطلق توجہ نہیں کی.چاء اور کھانا وغیرہ تو بڑی بات ہے.میں نے انکی طرف دیکھا بھی نہیں.آخر دس بج گئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟ میں نے کہا کہ نہیں، میں آپ کو پہچانتا ہوں.آپ فلاں کتاب کے مصنف ہیں.اس سے زیادہ میں نے اور کوئی تعارف ظاہر نہ کیا.وہ میرے اس روکھے پن سے بہت ہی متعجب ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ کہیں تو میں میاں لعل دین کے مکان پر جا ٹھہروں.میں نے کہا.ہاں آپ شوق سے جائیں.چنانچہ وہ اٹھ کر میاں صاحب کے یہاں پہنچے.تھوڑی دیر کے بعد میاں صاحب کا ایک خاص خدمت گار میرے پاس دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ ابھی میاں صاحب کے مکان پر ایک عامل آیا ہے جس نے ایک تعویذ لکھ کر آگ میں ڈالا اور وہ اشرفی بن گیا.وہاں اس عامل کی بڑی خاطر مدارات ہو رہی ہے.پلاؤ اور زردے پک رہے ہیں.دو ایک روز کے بعد وہ عامل پھر میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ آپ اگر میرے لئے کوشش کریں تو یہاں دعاگویوں کی ایک مد ہے.ساٹھ روپیہ تنخواہ ہوتی ہے.مجھے اس میں ملازم کرا دیں.یہ سن کر مجھ کو اور بھی شبہ ہوا کہ مجھ کو تو انہوں نے ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار کا عمل بتایا اور خود ساٹھ روپیہ ماہوار کے لئے سفارش چاہتے ہیں.میں نے کہا اس قسم کی نوکریاں میاں صاحب اور حافظ حکیم فدا محمد صاحب کی معرفت مل سکتی ہیں.میری نسبت اس رئیس کا خیال ہے کہ یہ شخص اس قسم کے

Page 184

IZA لوگوں سے بہت تعلق نہیں رکھتا جو گنڈے تعویذ کرتے ہیں.مجھے انکی تصنیف اور ان کے حالات اور اس تعلق پر جو انہوں نے حضرت شاہ عبدالغنی صاحب سے ظاہر کیا بہت ہی افسوس و رنج ہوا کہ دنیا میں مسلمانوں نے اپنا کیسا حال بنایا ہے.پھر وہ پندرہ روپیہ ماہوار تک بھی آگئے لیکن میں نے ان کو کچھ ملامت نہ کی.پونچھ میں مجھ کو ایک فقیر ملا جو بازاروں میں عجیب طرح کی آواز میں کسا کر تا تھا.میں نے اس کو بلا کر کہا کہ تم یہ کیا حرکت کیا کرتے ہو.جب میں نے اس کی بہت مدارات کی تو اس نے کہا کہ میں چالیس برس سے ایک فقیر کا معتقد ہوں اور اس نے مجھے ایک عمل بتایا ہے.میں اسی کی مشق کیا کرتا ہوں.تین باتوں کا اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا مگر ابھی ان تینوں باتوں میں سے کوئی ظاہر نہیں ہوئی.لیکن میں عمل برابر کئے جاتا ہوں.میں نے کہا.ان باتوں میں سے تم ایک بات تو بتاؤ.اس نے کہا کہ فقیر نے بتایا تھا کہ تم جب آنکھیں بند کرو گے تو تم کو سب حقیقت کا پتہ لگ جائے گا.میں نے کہا یہ تو میں تم کو ابھی بتائے دیتا ہوں.تم اپنی آنکھیں بند کرو.چنانچہ اس نے آنکھیں بند کرلیں.میں نے کہا تم کو کچھ نظر آتا ہے ؟ کہا اندھیرا نظر آتا ہے.میں نے کہا حقیقت تو معلوم ہو گئی کہ اس عمل میں سوائے اندھیر کے اور کچھ نہیں.اس نے کہا کہ مجھ سے یہ بھی کہا تھا.مرے ہوئے لوگوں کی برائیوں اور بھلائیوں سے آگاہ ہو سکتے ہو.اس وقت میں ایک ایسی جگہ تھا کہ سامنے عبد الغفور نام ایک بزرگ کی خانقاہ تھی اور اس کے قریب ہی ایک کنچنی کی قبر تھی.میں نے اس بزرگ کی خانقاہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ اس نے کہا کہ یہ تو بڑے بزرگ ولی گزرے ہیں.پھر میں نے دوسری قبر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ کس کی قبر ہے؟ کہا کہ یہ ایک بد کار کنچنی کی قبر ہے.میں نے کہا.بس یہ بات تو تم کو حاصل ہے.وہ بہت ہی حیران سا ہو گیا اور میرے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور آئندہ اپنی حرکات سے باز رہنے کا وعدہ کر کے ایک بھلا آدمی بن کر میرے پاس سے چلا گیا.میں نے ایک مرتبہ (جبکہ اس کو میرے موجود ہو نے کا علم نہ تھا) اس کو بازار میں پھر بھی ویسی حرکت کا مرتکب دیکھا.لیکن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اس کو

Page 185

149 ر کا چالیس برس کی عادت جس کام کی پڑی ہوئی ہے یک لخت اس کا چھوٹنا مشکل ہی ہے.ایک شیعہ طبیب بھی وہاں تھے.جن کو اپنے مذہب میں بہت غلو تھا.چونکہ وہ میرے ہم پیشہ تھے اور ولی عہد صاحب کے وہ خاص طبیب تھے.ایک دن انہوں نے مطاعن صحابہ ذکر شروع کیا.میں نے انکی خدمت میں مختصراً اتنا ہی عرض کیا کہ عمر نام صحابی کی اولاد میں سے میں بھی ہوں.ہاں ! اب آپ اعتراض کریں.ان کی شرافت کا یہ عجیب حال ہے کہ جب تک ہم وہاں رہے انہوں نے مذہبی چھیڑ چھاڑ میرے سامنے کبھی نہ کی.صرف میں نے ولی عہد کی تحریک پر ایک خط لکھا تھا جو مطبوع موجود ہے.مگر اس کا بھی انہوں نے جواب نہ دیا.ایک مرتبہ دیوان اننت رام صاحب وزیر اعظم کے استاد مولوی عبد اللہ صاحب نے سرکار میں میری شکایت اس بنا پر کی کہ یہ اس شخص کی اولاد ہے جس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گڈی پر غاصبانہ حملہ کیا.چونکہ میرے سامنے کا واقعہ نہیں ہے.مجھے اس کی تفصیل سے آگاہی نہیں.صرف سرکار نے مجھ سے کہا کہ پیغمبر صاحب کا جانشین ان کی اولاد کو کیوں نہیں کیا گیا.میں نے اس کو نہ ہی جھگڑا نہ سمجھا.عرض کیا کہ آپ کی نرینہ اولادنہ تھی اور بیٹی کی اولاد میں بھی کوئی بالغ لڑکانہ تھا اور آپ کی گدی کوئی دنیوی رسومات کی گری نہ تھی اس لئے دنیوی رسومات کے مطابق کوئی گدی نشین نہیں بنایا گیا.لیکن جب انہوں نے مجھ سے یہ کہا کہ مولا مرتضیٰ آپ کے بیٹے تھے.لیکن عمر نے غاصبانہ رنگ میں اس گدی کو حاصل کیا.تب مجھے معا خیال آیا کہ یہ مولوی عبد اللہ صاحب کی تحریک ہے.اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہی ڈالا کہ حضرت علی داماد تھے اور حضرت عمر آپ کے بلا فصل جانشین نہیں.تب انہوں نے پوچھا کہ کیا حضرت علی بیٹے نہیں تھے.وہاں خود رئیس کا ایک داماد بیٹھا تھا.میں نے کہا ایسا ہی دامادی کا تعلق تھا.جیسا اس راجہ کو حضور سے ہے تب انہوں نے بہت گرم ہو کر اور جھنجلا کر کہا کہ اب میں مباحثہ کی بنا کو سمجھ گیا ہوں.دیکھو ہم لوگ داماد اور وزیر ایسے لوگوں کو نہیں بناتے جو سلطنت کا استحقاق رکھتے ہوں.دیکھو یہ ہمارے سا بڑوں (سابڑوں یا سابنوں ان کی زبان میں داماد کو کہتے ہیں) ہیں.غدر میں انہوں

Page 186

iA.نے انگریزوں کا مقابلہ کیا.اس لئے ان کو پورٹ بلیر( کالا پانی) بھیجا گیا.جب ہم نے غدر میں انگریزوں کی خدمات کیں تو اس کے بدلہ میں انہوں نے ہم کو کوئی ملک دینا چاہا لیکن ہم نے بجائے علاقہ لینے کے ان کو اور ان کے باپ کو پورٹ بلیر سے بلایا اور انکی ریاست ان کو دلوا کر اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی اب اگر یہ ذرا بھی کوئی حرکت کریں تو پورٹ بلیبر موجود ہے اور یہ اننت رام جی ہمارے وزیر اعظم ہیں.اگر اب ہم موقوف کردیں تو یہ لون تیل کی دکانداری کریں.پھر مجھے معلوم نہیں کہ مولوی عبد اللہ صاحب کو انہوں نے کیا کہا.ایک دفعہ مجھے کتاب عبقات الانوار کے دیکھنے کا بڑا شوق ہوا جو حدیث من كنت مولاه فعلی مولاہ کی بحث پر ہے اور میر حامد حسین صاحب نے سات سو صفحات سے زیادہ پر لکھی ہے.ایک میر نواب نام لکھنو کے شیعہ وہاں طبیب تھے اور میں نے سنا یہ کتاب ان کے پاس ہے.میں نے ان سے طلب کی تو انہوں نے کہا کہ رات کے دس بجے آپ لیں اور صبح کے چار بجے واپس کر دیں تو میں دے سکتا ہوں.میں نے سمجھا کہ یہ میری دن بھر برابر کام کرنے کی عادت سے واقف ہیں انہوں نے سوچا ہو گا کہ دن بھر کا تھکا ہوا رات کو سو جائے گا.کتاب کیا دیکھ سکے گا؟ بہر حال میں نے رات کے دس بجے وہ کتاب منگوائی اور محض خدا تعالیٰ کے فضل سے میں جب اس کے مطالعہ اور خلاصہ اور نقل سے فارغ ہو گیا تو میں نے اپنے ملازم کو آواز دی اور پوچھا کہ اب کیا بجا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ابھی چار نہیں بجے.میں نے کہا کہ حکیم نواب صاحب کو یہ کتاب دے آؤ.اس خلاصہ کو میں نے ایک نظر پھر بھی دیکھ لیا.میں حیران تھا کہ اتنی بڑی محنت کیوں کی گئی ہے.اس خلاصہ کے مکرر دیکھنے میں میں نے اس کے کچھ جوابات بھی سوچ لئے تھے.تھوڑے ہی دنوں کے بعد ایک دن شیخ فتح محمد صاحب نے کہا کہ میری اور آپکی آج الہی بخش نام ایک رئیس کے ہاں ضیافت ہے.میں اور شیخ صاحب دونوں اکٹھے ضیافت کو چلے تو رستہ میں شیخ صاحب نے مجھے سے ذکر کیا کہ میاں الہی بخش ایک جوشیلے شیعہ ہیں.انہوں نے کوئی مجند بلوایا ہے.جس کی آپ کے ساتھ بحث ہوگی.اور شرط یہ ٹھہری ہے کہ ہم جس قدر سنی وہاں دعوت میں شامل

Page 187

ہوں گے.اگر مباحثہ میں آپ ہار گئے تو ہم کو شیعہ ہونا پڑے گا.اور پہلے سے اس کا ذکر آپ سے اس لئے نہیں کیا کہ تیاری کر کے جاتے تو مزہ نہ آتا.میں نے شیخ صاحب کو بہت ملامت کی کہ ایسی شرطیں نہیں کیا کرتے مگر انہوں نے میری باتیں ہنسی ہی میں اڑا دیں جب وہاں پہنچے تو شیخ فتح محمد صاحب نے جو بڑے ہی بے تکلف بھی تھے کہا کہ ارے او شیعو الاؤ کہاں ہیں وہ تمہارے بحث کرنے والے مولوی.چنانچہ کتاب عبقات الانوار میرے سامنے پیش کی گئی.ابھی تک میں نے مجتہد صاحب کو بھی نہیں پہچانا تھا.کیونکہ اس وقت تک میرے سامنے نہیں ہوئے تھے.میں نے اپنے مولا کا بڑا ہی شکر ادا کیا کہ یہ وہی کتاب ہے جو میں دیکھ چکا ہوں.میں نے اس کتاب کے جلد جلد ورق الٹنے شروع کئے.چند منٹ میں اس کے سب ورقوں کو الٹ گیا.پھر میں نے وہ کتاب میاں الہی بخش کے سامنے رکھ دی اور عرض کیا کہ منشا کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ اس کتاب کو بہت غور سے پڑھیں.میں اپنے مولا کی غریب پروری کی کوئی حد نہیں سمجھتا.اس وقت مجھ کو بڑی خوشی ہوئی.میں نے کہا کہ میں نے یہ کتاب پڑھ لی.اگر آپ کہیں تو میں اس کا خلاصہ سنادوں اور پھر اس کا جواب نہایت مختصر طور پر عرض کردوں.وہاں بہت سے شیعہ مولوی موجود تھے.سب نے کہا کہ آپ خلاصہ سنا ئیں.میں نے اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے خلاصہ سنایا جس کے سننے کے بعد ان شیعوں نے علیحدہ جا کر سرگوشی کی کہ اس شخص سے مباحثہ کرنا ہمارا کام نہیں.الہی بخش نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ کھانا لاؤ.بس پھر کیا تھا.ہمارے شیخ فتح محمد صاحب نے خوب اچھل اچھل کر کہا کہ ہم کھانا نہیں کھاتے.مباحثہ ہو جائے.اور بلاؤ کہاں ہیں تمہارے مباحثہ کرنے والے.میرے اس خلاصہ کو بنانے سے یہ فائدہ ہوا کہ مباحثہ کے لئے کوئی سامنے نہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے وہ مباحثہ ٹال دیا.میں نے ریاست کے معاملات میں بہت ہی غور کیا ہے.وہاں چار نقص بڑے ہیں.اول یہ کہ رئیس کے خدمت گار جس قد ر ا جہل ہوں اسی قدر ان کا زیادہ رسوخ ہوتا ہے اور وہ بہت تھوڑی طمع پر ایک شریف کی ہتک کرنے میں دریغ نہیں کرتے.میں نے خود ایک دفعہ

Page 188

TAY اس موجودہ رئیس سے کہا کہ آپ ان خدمت گاروں سے اس قدر ڈرتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بڑے خبیث باطن ہوتے ہیں انکی دو دو چار چار روپیہ تو تنخواہ ہوتی ہے.تھوڑی سی طمع پر یہ اپنے آقا کو زہر دے دیتے ہیں.ان کو دو روپیہ کی بجائے سو روپیہ مل جائیں اور یہ قتل کر دیں تو ان کا کیا کر سکتے ہیں.میں نے کہا کہ آپ ان کو موقوف کر سکتے ہیں.کہا کہ وہ جو دوسرے آئیں گے وہ بھی انہیں کے بھائی بند ہوں گے.یہ ایک بڑی خطرناک قوم ہے جو ہمارے ارد گرد رہتی ہے.پھر کہا کہ میری ولی عہدی کے زمانہ میں ان لوگوں نے مجھے ایسا لوٹا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے ؟ دوسرا نقص یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ شرفا کو زیر و زبر کرتے رہتے ہیں.اس واسطے ارکان و عمائد میں رئیس کی نسبت بھی اور آپس میں بھی بدظنی بہت پھیل جاتی ہے.اس بدظنی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ کسی کام کو وہ دل لگا کر نہیں کرتے.بلکہ ایام گزاری ہی کرتے ہیں.تیسرا نقص یہ ہوتا ہے کہ اپنی ناپائداری کو دیکھ کر طمع کا دامن بہت دراز کر لیتے ہیں.چوتھا نقص یہ ہوتا ہے کہ ایجنٹوں اور ریذیڈنٹوں کے کانوں میں عجیب در عجیب متضاد باتیں پہنچتی ہیں جس سے ان کو رئیس سے بڑا تنفر پیدا ہو جاتا ہے.ایک معزز کو ذلیل کر دینا اور ایک ذلیل کو معزز بنا دینا یہ لوگ اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتے ہیں.میرے سامنے جو جو شرفا بگڑے اور جو جو غربا امیر بنے وہ ایسے واقعات ہیں جن کے بیان سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.دو چار روپیہ کے ملازم لاکھوں روپیہ کے مالدار بن جاتے ہیں اور لاکھوں روپے والے خاک میں مل جاتے ہیں.میاں لعل دین وہاں کے بڑے رئیسوں اور امراء میں سے تھے اور اصل میں خدمت گاری ان کا عہدہ تھا.مجھ سے کسی سبب سے ان کو بہت رنج تھا.میں ایک روز ان کے مکان پر چلا گیا.ان کا مکان حاجت مندوں سے بھرا پڑا تھا اور وہ ایک کھڑکی میں اونچے بیٹھے ہوئے اپنے منشی سے کچھ حکم لکھا رہے تھے.کیونکہ وہ خود لکھے پڑھے نہ تھے.جوں جوں حاجت مند

Page 189

TAI اٹھتے گئے اور مکان خالی ہو نا گیا.میں بھی آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیا.آخر ان کا خدمت گار اور منشی ہی رہ گیا اور میں بھی بہت ہی قریب جا پہنچا.ان کو معلوم تھا کہ میں ان کے مکان پر کبھی نہیں جاتا تھا.اس واسطے بہت متعجب ہو کر پوچھا کہ آپ کس واسطے آئے ہیں ؟ ان کے نوکر اور منشی بھی اس وقت یہ سمجھ کر کہ اس کو کوئی خاص بات خلوت میں کہنی ہے چلے گئے تھے.صرف ہم دونوں ہی موجود تھے.میں نے کہا کہ آپ کا جاہ و جلال ایسا ہے کہ عام علماء تو آپ کو کچھ کہہ نہیں سکتے اور ہر آدمی کے لئے ایک واعظ کی ضرورت ہے میں اس واسطے آیا ہوں کہ آپ سے دریافت کروں کہ آپ کا واعظ کون ہے.اس پر انہوں نے کہا کہ میں ان پڑھ آدمی ہوں.باریک باتیں میں سمجھ نہیں سکتا.میں نے کہا کہ ہر آباد شہر کے قریب کوئی اجرا شہر ضرور ہوتا ہے اور ہر ایک امیر کے مکان کے قریب حوادث زمانہ کے مارے ہوئے امیر کاویران گھر ضرور ہوتا ہے اور وہی ویرانہ اس کا واعظ بن سکتا ہے.اس پر وہ کچھ متحیر ہو کر کہنے لگا.کہ مولوی صاحب آگے آئیں چونکہ میں ان کے گھٹنے کے بالکل قریب ہی تھا.اور آگے کوئی جگہ نہ تھی اس لئے میں نے اپنا سر ہی آگے کر دیا.انہوں نے کہا کہ دیکھو میرا بیٹھنے کا گریلا تو وہ ہے اور میں ہمیشہ اس کھڑکی ہی میں بیٹھتا ہوں.آپ دیکھیں اس کھڑکی کے سامنے ایک محراب دار دروازہ ہے اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ میرے لئے واعظ ہے.اس گھر کا مالک ہماری ہی قوم کا ایک شخص تھا اور اتنا بڑا آدمی تھا کہ سرخ چھاتا اس کے لئے مہاراج کے سامنے لگایا جاتا تھا اور ہم لوگ تو کالی چھتری بھی سرکار کے سامنے نہیں لگا سکتے.اب اس گھر کا مالک ایسا ویران ہوا ہے کہ خود اس کی بیوی میرے گھر میں برتن مانجھنے پر ملازم ہے.میں یہ سنتے ہی فور آکھڑا ہو گیا اور یہ کہ کر کہ آپ کے لئے یہ واعظ بس ہے.وہاں سے چل دیا.پھر میں نے یہ مضمون سرکار کے سامنے دو ہرایا تو انہوں نے کہا میرے لئے تو کئی واعظ موجود ہیں.اول جہاں ہم لوگوں کو راج تلک لگایا جاتا ہے.اس کے گرد جو بڑا ویرانہ اور کچے مکانات ہیں یہ سب اصل مالکوں کے مکانات ہیں اور وہ لوگ اب تک بھی ہم لوگوں کو سلام کرنے کے مجوز نہیں.دوسرے میں جہاں کچہری لگاتا ہوں.اس کے سامنے

Page 190

دھار انگر ایک مشہور شہر تھا جو بالکل ویران ہے.تیسرا باہو کا قلعہ میرے سامنے ہے اور وہ بھی بہت بڑے طاقت ور راجوں کا قلعہ تھا.ہمارے لئے ان سے بڑھ کر کوئی واعظ ممکن نہیں.پھر جن لوگوں کے ہم نے ملک لئے وہ بھی کچھ کم واعظ نہیں ہیں.ایک شخص راجہ سورج کول نام وہاں کو نسل کے سینئر ممبر تھے.ان کے گردہ میں بہت مدت سے درد تھا.مجھ کو انہوں نے بلایا میری تشخیص میں ان کے گردہ میں پتھری ثابت ہوئی.جب میں نے بے تکلفی سے ان سے کہہ دیا تو انہوں نے بہت ہی رنج ظاہر کیا اور کہا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ سات انگریز میرے ماتحت رہے ہیں.میں نے کہا کہ انگریزوں کے ماتحت رہنے سے گردے کی پتھری نہیں رک سکتی.پھر انہوں نے کہا کہ میرا ایک بیٹا ڈاکٹر ہے.میں نے کہا کہ بیٹے کے ڈاکٹر ہونے سے بھی باپ کی پتھری نہیں رک سکتی.اس پر وہ بہت ہی ناراض ہو گئے.کچھ مدت کے بعد پیری نام ایک انگریز جو لاہور میڈیکل کالج میں پروفیسر تھا.وہاں گیا اور مہاراج نے ان راجہ صاحب کے درد گردہ کا ذکر کیا اور تاکید کی کہ آپ ضرور علاج کریں.ڈاکٹر نے انکو جا کر دیکھا اور فکر کرنے لگا کہ اتنے میں راجہ صاحب نے کہا کہ ایک دیسی طبیب نے یہ بھی کہا تھا کہ تمہارے گردہ میں پتھری ہے.یہ سنتے ہی انگریز نے دوسرے انگریز سے کہا کہ فور اگر دے کو چیر دو.اس انگریز نے فور اشکاف دیا مگر پتھری اس کو نظر نہ آئی.اس پر پیری صاحب نے نشتر خود ہاتھ میں لیا اور شگاف کو وسیع کیا تو گر دے کی نالی کے پاس پتھری نظر آئی اس کو نکالا اور بڑی خوشی کی اور میرے متعلق بھی جو کچھ ان سے بن پڑا بہت کچھ تعریفی لفظ بولے.راجہ صاحب نے پھر مجھے بلایا.مگر میں نے جانا پسند نہ کیا.اس پر وہ پھر ناراض ہو گئے.گو مجھے پورا علم نہیں ہے.مگر قرائن قویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پھر میرا وہاں رہنا اور مجھ کو دیکھنا پسند نہ کیا.وہاں کے دوسرے ممبر نے جن کا نام باگ رام تھا مجھ سے کہا کہ اگر آپ استعفیٰ دے دیں تو اس میں بڑے مصالح ہیں.میں نے ان سے کہا کہ بنے ہوئے روزگار کو خود چھوڑنا ہماری شریعت میں پسند نہیں کیا گیا الاقامة في ما اقام الله ضروری ہے.باگ رام صاحب نے مجھ کو استعفیٰ کی

Page 191

۱۸۵ ترغیب دی لیکن میں نے شرعی امر کو مقدم سمجھا.آخر ایک روز میری علیحدگی کا پروانہ آیا.اور جب پھر مجھے کسی تقریب پر وہاں جانا پڑا تو موجودہ مہاراج صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ آپ پر بھی بہت بے جا ظلم ہوا ہے آپ معاف کر دیں.میں نے کہا یہ تو خد اتعالیٰ کا گناہ ہے.خدا کا گناہ خدا تعالیٰ ہی معاف کر سکتا ہے.بندے کی کیا طاقت ہے.ان کے والد ماجد عالم لوگوں سے خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں جیسے کہ میں نے ذکر کیا ہے ڈرتے تھے.ان دنوں میں مہاراج کو اپنے چھوٹے بھائی صاحب سے کدورت تھی اور میرا ان کے ساتھ بڑا تعلق تھا.اس لئے اور بھی ممبر صاحب کو موقع مل گیا.جموں میں حاکم نام ایک ہندو پنساری تھا وہ مجھ سے ہمیشہ نصیحتنا کہا کرتا تھا کہ ہر مہینہ میں ایک سو روپیہ پس انداز کر لیا کریں.یہاں مشکلات پیش آجاتی ہیں.میں ہمیشہ یہی کہہ دیا کرتا.ایسے خیالات کرنا اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہے.ہم پر انشاء اللہ تعالیٰ کبھی مشکلات نہ آئیں گے.جس دن میں وہاں سے علیحدہ ہوا.اس دن وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا آج شاید آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہوگی.میں نے کہا میں تمہاری نصیحت کو جیسا پہلے حقارت سے دیکھتا تھا.آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں.ابھی وہ مجھ سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ خزانہ سے چار سو اسی روپیہ میرے پاس آئے کہ یہ آپ کی ان دنوں کی تنخواہ ہے.اس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ کیا نور دین تم پر نالش تھوڑا ہی کرنے لگا تھا.ابھی وہ اپنے غصہ کو فرونہ کرنے پایا تھا کہ ایک رانی صاحبہ نے میرے پاس بہت سا روپیہ بھجوایا اور کہا کہ اس وقت ہمارے پاس اس سے زیادہ روپیہ نہ تھا.یہ ہمارے جیب خرچ کا روپیہ ہے.جس قدر اس وقت موجود تھا.سب کا سب حاضر خدمت ہے.پھر تو اس کا غضب بہت ہی بڑھ گیا.مجھ کو ایک شخص کا ایک لاکھ پچانوے ہزار روپیہ دینا تھا.اس پنساری نے اس طرف اشارہ کیا کہ بھلا یہ تو ہوا.جن کا آپ کو قریباً دو لاکھ روپیہ دینا ہے وہ آپ کو بدوں اس کے کہ اپنا اطمینان کرلیں کیسے جانے دیں گے؟ اتنے میں انہیں کا آدمی آیا اور بڑے ادب سے ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ میرے پاس ابھی تار آیا ہے میرے آقا فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو تو

Page 192

TAY جاتا ہے.ان کے پاس روپیہ نہ ہو گا.اس لئے تم ان کا سب سامان گھر جانے کا کر دو اور جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو دے دو.اور اسباب کو اگر وہ ساتھ نہ لے جاسکیں تو تم اپنے اہتمام سے بحفاظت پہنچوا دو.میں نے کہا.مجھے کو روپیہ کی ضرورت نہیں.خزانہ سے بھی روپیہ آگیا ہے اور ایک رانی نے بھی بھیج دیا ہے.میرے پاس روپیہ کافی سے زیادہ ہے اور اسباب میں سب ساتھ ہی لے جاؤں گا.غالبا اس وقت میرے پاس بارہ سو یا اس سے بھی کچھ زیادہ روپیہ آگیا تھا.وہ ہندو پنساری کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ پر مشیروں کے یہاں بھی کچھ لحاظ داری ہی ہوتی ہے.ہم لوگ صبح سے لیکر شام تک کیسے کیسے دکھ اٹھاتے ہیں.تب کہیں بڑی دقت سے روپیہ کا منہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے.بھلا اور تو ہوا اس احمق کو دیکھو اپنے روپیہ کا مطالبہ تو نہ کیا اور دینے کو تیار ہو گیا.میں نے کہا خد اتعالیٰ دلوں کو جانتا ہے.ہم اس کا روپیہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت ہی جلد ادا کر دیں گے.تم ان بھیدوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے.بھیرہ میں پہنچ کر میرا ارادہ ہوا کہ میں ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفاخانہ کھولوں اور ایک عالی شان مکان بنالوں.وہاں میں نے ایک مکان بنایا.ابھی وہ نا تمام ہی تھا.اور غالبا سات ہزار روپیہ اس پر خرچ ہونے پایا تھا کہ میں کسی ضرورت کے سبب لاہور آیا.اور میرا جی چاہا کہ حضرت صاحب کو بھی دیکھوں.اس واسطے میں قادیان آیا.چونکہ بھیرہ میں بڑے پیمانہ پر عمارت کا کام شروع تھا.اس لئے میں نے واپسی کا یکہ کرایہ کیا تھا.یہاں آکر حضرت صاحب سے ملا اور ارادہ کیا کہ آپ سے ابھی اجازت لیکر رخصت ہوں.آپ نے اثنائے گفتگو میں مجھ سے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے.میں نے کہا ہاں ، اب تو میں فارغ ہی ہوں.یکہ والے سے میں نے کہہ دیا کہ اب تم چلے جاؤ.آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے کل پرسوں اجازت لیں گے.اگلے روز آپ نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی.آپ اپنی ایک بیوی کو بلوالیں.میں نے حسب الارشاد بیوی کے بلانے کے لئے خط لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آسکوں اس لئے عمارت کا کام بند کر دیں.جب میری بیوی آگئی تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اپنا کتب

Page 193

IAZ خانہ منگوالیں.تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپکی مزاج شناس اور پرانی ہے آپ اس کو ضرو ر بلالیں.لیکن مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ مجھ کو نورالدین کے متعلق الہام ہوا ہے.اوروہ شعر حریری میں موجود ہے لا تصبون الى الوطن فيه تهان و تمتحن خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں میری واہمہ اور خواب میں بھی پھر مجھے وطن کا خیال نہ آیا.پھر تو ہم قادیان کے ہو گئے.

Page 194

ΛΑ

Page 195

bvi خاتمہ عطر مجموعه

Page 196

190

Page 197

191 حضرت امیر المومنین کی خود نویسانیده سوانح عمری کا یہ پہلا حصہ ختم کرنے کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ آپ کے متعلق آپ ہی کے الفاظ میں اپنی نوٹ بکوں سے مندرجہ ذیل سرخیوں کے تحت میں کچھ لکھوں مثلاً ؟ دعا.قرآن کریم کی عظمت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت و عظمت.تعظیم لامر الله - شفقت علی خلق الله - توکل علی الله - غیرت اسلام - آپ کا خاص علم کلام - قوت ایمان- قرآن کریم کے درس کا شوق نکات قرآنی- قدر علم - قدردانی اہل کمال.کتابوں سے محبت.شوق کتب بینی - جفاکشی اوالوالعزمی - شجاعت- سخاوت- فراست- دیانت و امانت - محبت.اتفاق کی قدر عربی زبان سے محبت - رعب و ہیبت.بعض کرامات و خوارق اپنے استادوں کی عظمت - مرشدوں سے محبت - عفو و در گذر - کشوف و الهامات- مذاہب غیر پر نظر جامعیت علوم- معرکة الارء مسائل پر تسکین بخش محاکمه - طرز معاشرت وفاداخوی- گورنمنٹ کی وفاداری ہمیشہ خوش رہنا.تجربات جو ہر شخص کے لئے کیمیا سے بڑھ کر ہیں.وغیرہ وغیرہ.اور الحمد للہ میرے پاس آپ کے اس قدر کلمات طیبات محفوظ ہیں کہ میں اپنی طرف سے ایک حرف بھی لکھے بدوں مندرجہ بالا عنوانوں کے تحت میں بہت کچھ درج کر سکتا ہوں.لیکن چونکہ یہ شائع ہونے والی کتاب حضرت کی لائف کا قادیان تشریف لانے سے پہلے پہلے حالات کا حصہ ہے یعنی پہلا حصہ ہے.لمزان کورہ بالا باتوں کے متعلق دوسرے حصہ میں جو ( قادیانی زندگی سے متعلق ہو گا) درج کرنا مناسب سمجھا گیا.اس جگہ اپنی نوٹ بکوں سے صرف وہ چند واقعات انتخاب کر کے لکھتا ہوں جو پہلی زندگی سے تاریخانہ تعلق رکھتے ہیں.ور مسلسل سوانح عمری میں (جو حضرت نے لکھوائی ہے) مذکور نہیں ہوئے.میری نوٹ بکوں (یادداشتوں) میں بہت سے واقعات بھی ہیں جو حضرت نے اپنے سلسلہ سوانح عمری میں لکھوا دیے ہیں.ان کو ہاتھ لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی وہ تاریخانہ واقعات جو قادیانی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں.دوسرے حصہ میں نقل ہونے کے لئے میری نوٹ بکوں میں

Page 198

۱۹۲ محفوظ ہیں).اس طرح یہ قادیانی زندگی سے پہلے کا حصہ ایک حد تک کامل کے جانے کے قابل ہو جائے گا.ہاں مذکورہ بالا سرخیوں کے تحت میں جو کچھ دوسرے حصہ میں درج ہو گا.اس کو اس پہلی زندگی سے بھی ایسا ہی تعلق ہے جیسا قادیانی زندگی ہے.لیکن اس کے اندراج کے لئے دوسرا حصہ ہی بہتر مقام ہے.یہ بات پھر یاد دلائی جاتی ہے کہ حضرت امیر المومنین کی لائف کے متعلق میں نے احتیاط کی ہے کہ جو کچھ لکھا جائے خود حضرت ہی کے الفاظ ہوں.اپنی طرف سے کچھ نہ لکھا جائے.اور یہ امتیاز اس کتاب کا اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتا ہوں.الحمد لله رب العالمين.میں نے یہ بھی احتیاط کی ہے کہ کسی حکایت کو اپنی یادداشتوں سے (جو بطور روزنامچہ لکھی ہوئی ہیں) نقل کرتے وقت پیشانی پر تاریخ بھی لکھ دی جائے.جس سے یہ معلوم ہو تا رہے کہ حضرت نے یہ واقعہ کس تاریخ میں بیان فرمایا تھا اور اس سے میرے اس کام کی عظمت بھی ظاہر ہوگی جو میں حضرت کے کلمات طیبات کے محفوظ کرنے میں کما ینبغی احتیاط سے کرتا رہا ہوں.بحوله وقوته تعالی.المرتب

Page 199

۱۹۳ اہل خاندان- ایام طفولیت (۸) فروری ۱۹۱۰ ء در مسجد مبارک بعد نماز ظهر) ہمارے باپ کے نہ کوئی بھائی تھانہ بہن تھی.ہمارے دادا کے نہ کوئی بھائی تھانہ بہن.اسی طرح ہمارے پردادا کے.غرض کہ ہماری گیارہ پشتوں تک ایک ہی ایک شخص ہوا ہے.پھر دیکھو ہم کتنے بھائی اور بہن ہوئے اور ہماری اولاد تو اور بھی زیادہ (۲۳) ستمبر ۱۹۰۹ء - بعد نماز عصر در مسجد مبارک) ہم نو بھائی بہن تھے.میں اپنے تمام بھائی بہنوں سے چھوٹا ہوں.میں اپنے ماں باپ کی سب سے آخری اولاد ہوں.ہمارے باپ نے ہم سب کو پڑھانے کی بے حد کوشش کی.ہمارے ایک بڑے بھائی تھے جو ہم سب میں بڑے خوبصورت تھے.ہمارے باپ کے حکم کے موافق وه مدن چند ایک جذامی کے پاس پڑھنے جاتے تھے.اس وقت سی زبان کا عام رواج تھا اور مدن چند فارسی کا ماہر تھا.شہر والوں نے کہا کہ آپ اچھے ہوتے کو کوڑھی کے پاس پڑھنے بھیجتے ہیں ؟ ہمارے باپ نے فرمایا کہ کوڑھی ہو اور عالم ہو تو جاہل تندرست سے اچھا ہے.ہم سب بھائی نہن بحمد للہ پڑھے لکھے تھے.ہماری بہنیں بھی خوب لکھ پڑھ سکتی تھیں.ہمارے باپ علم کے بڑے ہی قدر دان تھے.جب ہماری سب سے بڑی بہن کی شادی ہوئی تو ہمارے باپ نے جہیز میں سب سے اوپر قرآن شریف رکھ دیا اور کہا کہ ہماری طرف سے یہی ہے.اس قرآن شریف کا کاغذ حریری باریک بڑی محنت اور صرف زر سے میسر ہوا تھا.جلالپور جٹاں کے مولوی نور احمد صاحب نے سو روپیہ میں صرف لکھ کر دیا.جدول.رول - آیتیں بنانا.رنگ بھرنا.سونے کا پانی پھیرناوغیرہ علاوہ.

Page 200

۱۹۴ (دسمبر ۱۹۰۶ء- در مطب) بچوں کو مارنا اچھا نہیں.اگر موا اولادکم بھی آیا ہے.جب شریعت نے ان کو مکلف نہیں کیا تو ہم کون جو مکلف کریں.اولاد کے نیک بنانے کے لئے دعائیں کرو.میری اور میرے بھائی بہنوں کی تربیت زدو کوب کے ذریعہ سے نہیں ہوئی.میرے والدین ہم سب پر اور بالخصوص مجھ پر بہت ہی زیادہ شفقت فرماتے تھے.ہماری تعلیم کے لئے وہ کبھی بڑے سے بڑے خرچ کی بھی پروا نہ کرتے تھے.میں نے اپنے والد یا والدہ سے کبھی کوئی گالی نہیں سنی.والدہ صاحبہ جن سے ہزاروں لڑکیوں اور لڑکوں نے قرآن شریف پڑھا ہے وہ اگر کسی کو گالی دیتی تھیں تو یہ گالی دیتی تھیں."محروم نہ جاویں " یا نا محروم" اپریل ۱۹۰۷ء بعد درس قبل مغرب اس میدان میں فرش پر بیٹھے ہوئے جہاں اب دفتر بدر ہے اس کی مشرقی افتاده زمین بوجہ طاعون بجائے مسجد کلاں وہاں درس ہوا تھا.تاریخ درج نہیں.میرے باپ کو چلنے کی بہت عادت تھی لیکن میں تو زیادہ دور نہیں چل سکتا.سخت گرمی اور پیاس محسوس ہونے لگتی ہے.میری ماں بھی بہت کم چل سکتی تھیں.یہ مجھ میں انہی کا اثر ہے.میری ماں پڑھی لکھی اور مذہب سے خوب واقف تھیں.نہایت صحیح عقائد رکھتی تھیں.فقہ کے بہت مسائل یا دتھے.(۵ار مارچ ۱۹۰۷ء) میری ماں اچھی پڑھی ہوئی اور قرآن شریف کو خوب سمجھتی سمجھاتی تھیں.وہ اعوان قوم میں سے تھیں.میری بھاوج بگہ والے مشہور خاندان میں سے تھیں.دودھ چھڑانے کا زمانہ مجھ کو یاد ہے.دودھ چھڑانے کے بعد میری بھاوج نے مجھ کو اکثر اپنے پاس رکھا.وہ مجھ

Page 201

۱۹۵ کو کھلاتے اور بہلاتے ہوئے اکثر یہ کہا کرتی تھیں.انت الھادی.انت الحق.ليس الهادى الاهو (۴) اگست ۱۹۰۸ء) اللہ تعالیٰ میرے باپ پر رحم فرمائے.انہوں نے مجھ کو اس وقت جبکہ میں تحصیل علم کے لئے پر دیس کو جانے لگا.فرمایا اتنی دور جا کر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے اور تم اس بات کی اپنی والدہ کو خبر نہ کرنا.(۸) فروری ۱۹۱۰ء) میں اپنے ماں باپ کے لئے دعا مانگنے سے تھکتا نہیں.میں نے اب تک کوئی جنازہ ایسا نہیں پڑھا جس میں ان کے لئے دعانہ مانگی ہو.خدا تعالیٰ رحم کرنے میری والدہ پر.انہوں نے اپنی زبان میں عجیب عجیب طرح کے نکات قرآن مجھ کو بتائے.منجملہ ان کے ایک یہ بات تھی کہ تم اللہ تعالیٰ کی جس قسم کی فرماں برداری کرو گے اس قسم کے انعامات پاؤ گے اور جس قسم کی نافرمانی کرو گے اسی قسم کی سزا پاؤ گے..از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو ز جو هل جزاء الإحسان إلا الإحسان.از مذاہب مذہب دہقاں قوی اے مولوی مذہب دہقاں چہ باشد هرچه کشتی بد روی وہ اکثر فرمایا کرتی تھیں.” جو آگ کھائے گا انگارے لگے گا" (۹) اپریل ۱۹۱۲ء) میں نے اپنے ماں اور باپ کو تر شرو کبھی نہیں دیکھا حالانکہ میں عبدالحی پر کبھی خفا بھی ہو

Page 202

194 جاتا ہوں.(۸) جون ۱۹۰۹ ء بعد نماز عصر قبل درس در مسجد مبارک) میری ماں کو قرآن کریم پڑھانے کا بڑا ہی اتفاق ہو تا تھا.انہوں نے تیرہ برس کی عمر سے قرآن شریف پڑھانا شروع کیا تھا.چنانچہ یہ ان کا اثر ہے کہ ہم سب بھائیوں کو قرآن شریف سے بہت ہی شوق رہا ہے.مئی ۱۹۰۹ء) میرے والد صاحب کو بھینس رکھنے کا بڑا شوق تھا.انہوں نے اس کے چرانے والے کو تاکید کر دی تھی کہ ہماری بھینس کا دودھ نہ دوہا کر.ہم تجھ کو اجرت زیادہ دے دیں گے.لیکن وہ ایک دن دودھ دوہتا ہوا دیکھا گیا.تب کہنے لگا.حضور! میرا بیٹا مر گیا ہے آج اس کی جمعرات ہے میں نے بہت سوچا.پھر یقین ہو گیا.آپ کی بھینس طیب حلال ہے اسی کا دودھ اس کی فاتحہ میں دوں.۲۷ اکتوبر ۱۹۰۸ء بروز عید بعد نماز ظہر جبکہ سب لوگ چلے گئے.مسجد مبارک میں اس عاجز (احقر اکبر) کو جو خدمت میں حاضر تھا.مخاطب کر کے فرمایا :- ایک دن ہم اپنے گھر بھیرہ میں تھے.یہ وہ زمانہ تھا کہ روم و روس میں لڑائی ہو رہی تھی اور ہندوستان میں روز خبریں مشہور ہوا کرتی تھیں.رات کا وقت تھا.ہمارے گھر میں ہم سات بھائی اور دو بہنیں اور دونوں ماں باپ تھے.پھر ہر ایک بھائی کی غالبا پانچ پانچ چھ چھ اولاد تھی.سوائے میرے سب کی شادیاں ہو چکی تھیں.گھر خوب بھر رہا تھا.میں نے اپنی ماں سے کہا کہ روز خبریں آرہی ہیں کہ آج اس قدر آدمی مارے گئے.آج اس قدر مارے گئے.

Page 203

194 آخر وہ مارے جانے والے کسی کے بیٹے اور بھائی ضرور ہوتے ہوں گے.دیکھو ہمارے گھر میں تو ہر طرح امن و امان ہے اور کوئی فکر نہیں.بس آپ اپنی اولاد میں سے ایک بیٹے کو یعنی مجھ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کردیجئے.میری شادی بھی نہیں ہوئی.نہ بیوی ہے نہ بچے.یہ سن کر میری ماں نے کہا کہ میرے سامنے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے.غرض میں خاموش ہو رہا.اب سنو ! تھوڑے ہی دنوں کے بعد ہمارے بھائی مرنے شروع ہوئے.جو مرتا.اس کی بیوی جو اس کے ہاتھ آتا لے کر گھر سے نکل جاتی.کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ باقی بھائی قبضہ کرلیں گے اور اسباب میرے قبضہ میں نہ رہے گا.رفتہ رفتہ سب مرگئے اور سارا گھر خالی ہو گیا جبکہ میرا تعلق ریاست جموں سے تھا.میں ایک دفعہ گرمیوں کے موسم پر اپنے مکان پر آیا.وہاں میں اس جگہ جو ہمارے مشترکہ خزانہ کی کوٹھڑی گھر کی عام نشست گاہ کے قریب تھی.دوپہر کے وقت سو رہا تھا.میری والدہ قریب کے کمرہ میں آئیں.انہوں نے اس قدر زور سے انا لله وانا اليه راجعون پڑھا کہ میری آنکھ کھل گئی.میں نے ان سے کہا کہ صبر کے کلمہ کو تو اس قدر بے صبری کے ساتھ نہیں کہنا چاہئے.پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام گھر اب ویران اور خالی کیوں پڑا ہے ؟ کہا کہ ہاں مجھ کو وہ تیری اس روز رات کی بات خوب یاد ہے.اسی کا یہ اثر ہے اور مجھ کو ہر ایک بیٹے کی موت کے وقت وہ بات یاد آتی رہی ہے.پھر میں نے کہا اور بھی کچھ سمجھ میں آیا ؟ کہا کہ ہاں میں جانتی ہوں کہ میرا دم تیرے سامنے نہ نکلے گا.بلکہ میں اس وقت مروں گی جبکہ تو یہاں نہ ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور قاضی امیر حسین نے جو اس وقت موجود تھے کفن دفن کا کام انجام دیا.میں اس وقت جموں میں تھا.اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے چاہا تھا کہ نو ر الدین کفن دفن میں شریک ہو.اور ہم اس کے سامنے فوت ہوں گے.(۵) جنوری ۱۹۰۷ ء در مطب) میں سفر میں جانے لگا تو ایک بزرگ کی بات یاد آئی جس نے کہا کہ جس شہر میں جاؤ وہاں

Page 204

چار شخصوں یعنی ایک وہاں کے پولیس افسر ایک طبیب - ایک اہل دل اور ایک امیر سے ضرور ملاقات رکھنا.اور جس شہر میں یہ چاروں نہ ہوں.وہاں جانا نہ چاہئے.(۸/جون ۱۹۰۹ء) میرے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب جو بڑے عالم متبحر تھے ہرن پور کو جا رہے تھے.راستہ میں کسی گاؤں میں تھوڑی دیر کے لئے کسی درخت کے نیچے ٹھرے تو دیکھا کہ وہاں بہت سے جاہل مسلمان جمع ہیں اور بڑے زور شور کی بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ مسلمان کیا ہوتے ہیں اور مسلمین کیا ہوتے ہیں.بھائی صاحب حیران تھے.فرماتے تھے کہ میں سوچتا تھا کہ مسلمانوں کی جہالت کہاں تک پہنچ گئی ہے اور یہ اپنی اسی حالت میں خوش ہیں.(مئی ۱۹۰۹ء) بھیرہ کی جامع مسجد میں میرے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب و عظ بیان فرمار ہے تھے.میری اس وقت بہت چھوٹی عمر تھی.مجھ کو یاد ہے کہ انہوں نے اپنے بیان میں سی موقع پر یہ حدیث پڑھی الدنيا جيفة وطالبها كلاب اور اس کا ترجمہ بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہاں بجائے گلاب کے غراب کیوں نہ فرمایا.کو ابھی تو مردار خور ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ کتے کو کتنی ہی بڑی مقدار میں اس کی ضرورت سے زیادہ مردار مل جائے پھر بھی وہ دوسرے کتے کو دیکھ کر غراتا ہے اور پاس نہیں آنے دیتا.لیکن مکونے میں یہ بات نہیں.وہ مردار دیکھ کو شور مچاتا اور اپنے تمام ہم قوموں کو خبر کر دیتا ہے.کتے میں قومی ہمدردی نہیں اور کوے میں ہمدردی اپنی قوم کی بہت ہے.اسی وجہ سے کتے کو زیادہ ذلیل ٹھر آ گیا.

Page 205

۱۹۹ (۲۱) ستمبر ۱۹۰۸ء) عبد الرحمن کے باپ ہمارے ایک بھائی تھے.وہ جب ڈیرہ غازی خاں کی طرف گئے تو وہاں سنا کہ ایک نواب صاحب رمضان میں روزہ نہیں رکھتے اور کھانا بھی سب کے سامنے باہر بیٹھ کر کھاتے ہیں.انہوں نے کہا کہ لو ہم ابھی اس حرکت سے اس کو روکے دیتے ہیں.چنانچہ یہ گئے.اس کو دیکھا کہ اس نے پانی پی کر الحمد للہ کہا.انہوں نے کہا استغفر الله آپ تو مسلمان ہیں.لوگ خواہ مخواہ بازار میں چرچا کر رہے ہیں کہ نواب صاحب کرسشان ہو گئے کیونکہ رمضان شریف کی حرمت نہیں فرماتے.کھلے طور پر باہر مردانہ میں کھانا کھاتے ہیں.اس نے اپنے ملازموں سے کہا کہ تم نے مجھ کو خبر بھی نہیں کی کہ رمضان آگئے واقعی رمضان کا ضرور ادب کرنا چاہئے.پھر اس نے رمضان میں باہر کھانا نہیں کھایا.(۸) نومبر ۱۹۰۹ء) میری ایک بہن تھیں.ان کا ایک لڑکا تھا وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا اور مرگیا.اس کے چند روز بعد میں گیا.میرے ہاتھ سے انہوں نے کسی پیچش کے مریض کو اچھا ، دتے ہوئے دیکھا.مجھ سے فرمانے لگیں کہ بھائی تم اگر آجاتے تو میرا لڑکا بیچ ہی جاتا.میں نے ان سے کہا کہ تمہارے ایک لڑکا ہو گا اور میرے سامنے پیچش کے مرض میں مبتلا ہو کر مرے گا.چنانچہ وہ حاملہ ہو ئیں اور ایک بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا.پھر جب وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا.ان کو میری بات یاد تھی.مجھ سے کہنے لگیں کہ اچھا دعا ہی کرو.میں نے کہا کہ خد اتعالیٰ آپ کو اس کے عوض میں ایک اور لڑکا دے گا لیکن اس کو تو اب جانے ہی دو.چنانچہ وہ لڑکا فوت ہو گیا اور اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا جو زندہ رہا اهداب تک زندہ بر سر روزگار ہے.یہ الہی غیرت تھی.

Page 206

۲۰۰ (جنوری ۱۹۰۷ ءو در درس حدیث) میرا حافظہ کچھ اس قدر تیز ہے کہ مجھے دودھ چھوڑنا بھی یاد ہے.میری ماں نے جب اپنی چھاتی پر کچھ لگایا تو میں نے اپنے بڑے بھائی سے کہا.حوا ہے.اار فروری ۱۹۱۰ء) مجھ کو اپنے سن تمیز سے بھی پہلے سے کتابوں کا شوق ہے.بچپنے میں جلد کی خوبصورتی کے سبب کتابیں جمع کرتا تھا.سن تمیز کے وقت میں نے کتابوں کا بڑا انتخاب کیا اور مفید کتابوں کے جمع کرنے میں بڑی کوشش کی.(۲۲) اپریل ۱۹۱۲ء ) میں نے کبھی کوئی کھیل نہیں کھیلا.میں نے صرف ایک ہی کھیل کھیلا ہے اور وہ تیرنا ہے.مجھ کو تیرنا خوب آتا ہے.بعض اوقات میں بڑے بڑے عظیم الشان دریاؤں میں بھی تیر تا تھا.(۱۳) فروری ۱۹۱۲ء) میرے سامنے میرے ساتھ کھیلنے والے لڑکوں نے کبھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ مجھ کو دور سے دیکھ کر آپس میں کہا کرتے کہ یا رو سنبھل کر بولنا.(۰ار اکتوبر ۱۹۱۲ء) سمت ۱۹۰۳ (بکرمی) کی بات ہے جس کو اب قریباً ۶۶ برس گزر گئے ہوں گے مجھے کو اس طرح یاد ہے جیسے ایک اور ایک دو کہ ایک مردانہ نام چاوہ کاڑا کو تھا.سکھوں کا عہد تھا اس کو پکڑ کر اس کا سرا ڈرا دیا گیا تھا.ہمارے شہر میں چٹی پل دروازہ پر اس کا سر لٹکا دیا تھا.چونکہ وہ بڑا

Page 207

ڈاکو تھا.اس کو سب دیکھنے کے لئے گئے.میں بھی گیا تھا.یہ یاد نہیں کہ میں خود گیا یا کوئی لے گیا.میں بڑی گھمسان میں کھڑا ہوا اس کو دیکھ رہا تھا.(۵) اکتوبر ۱۹۱۲ء) ایک مرتبہ جبکہ میں بچہ تھا ایک مولوی نے کہا کہ تم بھی ختم میں چلو.میں چلا گیا.وہاں لوگ قرآن شریف پڑھ رہے تھے.میں نے بھی ایک سپارہ لیا.ابھی میں نے آدھا ہی پڑھا تھا کہ بعض نے دو.بعض نے چار پڑھ لئے.قریب سے ایک نے غصہ کے ساتھ مجھ سے سپارہ لیا اور کہا کہ تم نہیں جانتے.لاؤ میں پڑھ دوں.اس نے لے کر ویسے ہی ورق لوٹنے شروع کر دئیے اور جھٹ سپارہ ختم کر کے رکھ دیا.(۲۳) جنوری ۱۹۰۹ ء بعد مغرب) ہم مکتب میں پڑھا کرتے تھے.ایک دفعہ ہمارے استاد نے ہم کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے بھیجا.ہم میں ایک لڑکا تھا.اس نے وضو کر لینے کے بعد سب کو مخاطب کر کے کہا کہ یا رو کیسی نماز ؟ کون نماز پڑھتا ہے.یہ کہہ کر اس نے اپنی پیشانی ایک کچی دیوار سے رگڑی.مٹی کا نشان ماتھے پر نظر آنے لگا.جس سے یہ معلوم ہو تا تھا کہ یہ مسجد میں نماز پڑھ کر آیا ہے.اس نے ہم سب کو نماز نہ پڑھنے اور جھوٹ بولنے کی اٹکل سکھائی.پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بڑا نامی گرامی چور ہوا اور ہمارے شہر کے تمام چوروں اور بد معاشوں میں اس کا نمبر سب سے اول تھا.ایک مرتبہ وہ ایک قلعہ کی دیوار سے کودا اور اس کو قید کی سخت تکلیف اٹھانی پڑی.میری اس نصیحت کو یاد رکھو کہ نماز دل سے پڑھو.(۶) جنوری ۱۹۱۲ء) میں جب بچہ تھا تب مجھے کو ایک کتاب پڑھائی گئی تھی جس میں لکھا تھا کہ -

Page 208

شب چو عقد نماز بر بندم چه خور و بامداد فرزندم یہ کوئی ساتویں صدی کی بات ہے.اب تو چودھویں صدی ہے.میں کبھی اس آیت کو پڑھا کرتا ہوں کہ اللهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيْهِ وَالنَّهَارِ مُبْصِرًا ان اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ اور پھر تعجب کے ساتھ اس شعر کو پڑھتا ہوں.رات کے وقت بھی دنیا کے تفکرات کو نہ چھوڑنا فضول ہے.مومن کو چاہئے کہ برات کو سکون کرے.(۷ار مارچ ۱۹۱۲ء) ہمارے شہر میں ایک بڑا پہلوان عظیم شاہ آیا.ہمارے ایک دوست (نجم الدین کے بھائی نے ہم سے کہا کہ آؤ ، اکھاڑے میں چلیں ، کشتی لڑیں گے.ہم جب وہاں پہنچے تو میں نے دیکھا کہ عظیم شاہ پہلوان پاؤں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے ہاتھوں سے چل رہا ہے.مجھ کو یہ نظارہ دیکھ کر بڑی نفرت ہوئی.کہا کہ افمن يمشى مكبا على وجهه.ہمارے دوست تو لنگو ٹا باندھ کر دھڑام سے اکھاڑے میں داخل ہوئے اور میں وہاں سے چلا آیا.(۱۰/ نومبر ۱۹۰۸ء) مجھ کو بچپنے میں شوق تھا کہ اس دریا پر جو ہمارے شہر کے قریب ہے جا کر بہت تیر تا تھا.میں نے سردیوں کے موسم میں ایک مرتبہ اس دریا کے قریب ایک فقیر کو ننگے بدن صرف ایک کھال کے اوپر بیٹھے ہوئے دیکھا.میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اس سے دریافت کیا کہ تم کو سردی کیوں نہیں معلوم ہوتی ؟ اس نے کہا کہ سنکھیا کھاتا رہتا ہوں اور اور بھی گرم چیزیں استعمال کرتا ہوں.جلد پر راکھ ملتے ملتے ایک تہہ جم گئی ہے.جلد کے مسامات بھی بند ہو گئے ہیں اس لئے سردی نہیں معلوم ہوتی.اس قسم کے لوگوں کا خدا تعالی کے حصول اور

Page 209

تقرب کے متعلق کوئی مدعا نہیں ہوتا.(۹/ اپریل ۱۹۱۲ء) میں مدرسہ میں پڑھنے جایا کرتا تھا.اس کے راستہ میں ایک شخص بٹیر لڑایا کرتا تھا.میں نے وہ اس سے خرید لیا.گھر لایا تو بڑا خراب تھا.میں اس کے پاس لے گیا.اس نے کہا کہ تم نے خراب کر دیا ہے.دوسرا لے جاؤ.وہ بھی بڑا تیز معلوم ہو تا تھا.گھر جا کر وہ بھی بہت خراب تھا.ایک شخص نے مجھ کو بتایا کہ یہ لوگ شراب پلا کر ان کو ایسا بنا دیتے ہیں.وہ شخص اب بھی میرا ادب کرتا ہے.میں اس کو بھی اپنا استاد ہی سمجھتا ہوں کہ اس نے مجھے بتا دیا کہ دھوکوں سے بچو.(۳۰) مئی ۱۹۰۹ء) جب میں راولپنڈی میں آیا تو ہمارے مکان کے قریب ایک انگریز الیگز نڈھسر کی کو بھی تھی.ایک شخص مجھ کو وہاں لے گیا.اس نے میزان الحق اور طریق الحیوۃ دو کتابیں بڑی خوبصورت چھپی ہوئی مجھ کو دیں.میں نے ان کو خوب پڑھا.میں بچہ ہی تھا لیکن قرآن کریم سے اس زمانہ میں بھی مجھ کو محبت تھی.مجھ کو وہ دونوں کتابیں بہت لچر معلوم ہو ئیں.اس وقت ان کے روح القدس کو بھی نہیں جانتا تھا.میں نے دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعا ئیں مانگنے والے مباحثات میں کبھی عاجز نہیں ہوتے.(۲۰ / مئی ۱۹۰۹ء) ہمارے خاندان کی ایک عورت بیوہ ہو گئی.اس نے کسی شخص سے شادی کرنی چاہی.اس شخص نے جس کے ساتھ شادی ہونے والی تھی مجھ کو لکھا کہ کیا آپ خوشی سے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس سے شادی کرلوں؟ میں نے کہا.ہاں ! بڑی خوشی سے اور بڑی مبار کی

Page 210

For کی بات ہے.وہ پڑھ کر حیران رہ گیا کہ دیکھو انہوں نے اپنی عزت کا خیال نہیں کیا.میں نے کہا اس شخص کو جس کی یہ بیوی تھی.جب خدا تعالٰی نے مار دیا تو اب خدا تعالیٰ کی مرضی ہی یوں تھی.(۱۵) اکتوبر ۱۹۰۸ء) حکیم فضل الدین میرے نہایت بچپنے کے دوست ہیں.جبکہ ہمارے شہر میں کوہاٹ کے علاقہ سے محمد جی نامی ایک مولوی آکر وعظ کیا کرتے اور ہم دنوں بڑے شوق سے ان کا وعظ سننے جایا کرتے.متعلق به اہل و عیال (۲۲) مئی ۱۹۰۹ء) میرا نکاح جب ہونے لگا تو میرے استاد جو نکاح پڑھانے والے تھے.میں نے ان سے کہا کہ مہر مجھ کو تو ادا کرنا پڑے گا آپ کو تو ادا کرنا پڑے گا نہیں.عورتوں میں شور مچ گیا کہ لڑکا بول پڑا.ہمارے استاد صاحب بھی ناراض ہو گئے.عورتیں بھی ناراض ہو گئیں لیکن میں نے تو پانچ سو روپے سے زیادہ منظور نہیں کیا.۱۶ مئی ۱۹۰۹ ء در مسجد مبارک) میری تین بیویاں ہوئیں جن میں دو آپس میں لڑتی بھی تھیں.میں نے اس بات کے معلوم کرنے کی کہ لڑائی کی بنیاد کیا ہے ؟ بہت کوشش کی.لیکن بعض بعض باتوں کا مجھے کو آج تک بھی پتہ نہیں چلا.جب اپنے گھر کے متعلق اور اپنے متعلق واقعہ کی یہ حالت ہے تو دوسرے واقعات اور تاریخ پر کیا اعتماد ہو سکتا ہے.

Page 211

۲۰۵ (۸) جون ۱۹۰۹ ء بعد نماز عصر قبل از درس در مسجد مبارک) میری بیوی کو جب میرے لڑکے محمود احمد کا حمل ہوا تو میں نے اس سے کہا کہ تم لکھا بہت کرد - مدعا اس سے یہ تھا کہ تجربہ کروں کہ یہ بچہ لکھنے کا شوقین ہو گایا نہیں ؟ چنانچہ جس وقت محمود احمد کے انتقال کا زمانہ قریب تھا.میں نے ایک قلم لیا اور ایک روپیہ لیا.دونوں اس کے سامنے کئے.اس نے ہر مرتبہ قلم ہی کی طرف ہاتھ بڑھایا.(۱۴ جون ۱۹۰۹ء) میری نئی نئی شادی ہوئی تھی.میری بیوی کی عمر چھوٹی تھی.میرے ایک دوست تھے.انہوں نے کہا کہ ہماری بیوی تمہاری بیوی سے ملاقات کرنا چاہتی ہے.میں نے کہا کہ شوق سے وہ آئیں.چنانچہ وہ آئی.میری بیوی کو دیکھتے ہی ایک بڑا ٹھنڈ ا سانس بھرا اور کہا کہ ہائے تیری تو قسمت پھوٹ گئی.تو تو ابھی بچی ہے اور تیرے ماں باپ اور بھائیوں نے مولوی صاحب کے ساتھ تیری شادی کر دی جو تیرے باپ کے ہم عمر ہیں.میں نے تو اپنی بیٹی کی شادی ایک نہایت خوبصورت اور جوان شخص کے ساتھ کی ہے.میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ یہ کون عورت ہے؟ میں نے کہا کہ ہمارے ایک دوست کی بیوی ہے.میری بیوی نے کہا کہ یہ مجھ سے ایسا ایسا کہتی ہے اور اس کی سب باتیں اس کے سامنے ہی نقل کر دیں.وہ سنتے ہی فور آ وہاں سے چل دی.مجھ کو کچھ کہنے کی بھی نوبت نہ پہنچی.اس کی لڑکی کی جس شخص کے ساتھ شادی ہوئی تھی یعنی اس کا داماد تپ دق سے جلد مرگیا.پھر دو سرے کے ساتھ شادی کی.چند روز کے بعد قریباً ایک ہزار روپیہ دے کر اس سے طلاق حاصل کی.اب بھی وہ لڑکی موجود ہے.قرآن کریم میں اسی واسطے علی العموم عورتوں کو گھروں میں آنے سے روکا گیا ہے.دیکھو سورہ نور.

Page 212

(۱۹ار اگست ۱۹۰۸ء) لدھیانہ میں میری اس موجودہ بیوی کے کان میں درد ہوا.ایک عیسائی ڈاکٹرنی کو بلایا.اس نے علاج کیا.آرام ہو گیا.چونکہ اس نے بہت خدمت کی تھی لہذاوہ بڑی دوست بن گئی اور روزانہ آنا جانا شروع کیا.ایک روز اس نے کہا کہ بیوی تمہار ا مذ ہب اسلام تو بہت اچھا ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ دو بیویاں کیوں کر لیتے ہیں.چونکہ میری بڑی بیوی زندہ تھی لہذا ڈاکٹرنی کی بات کا میری اس چھوٹی بیوی کے دل پر بڑا اثر ہوا.پھر ایک دن وہ اپنی کو بھی میں بطور سیر لے گئی اور پردہ کے متعلق اعتراض کیا.میری بیوی اس کا بھی جواب نہ دے سکی.اس کے بعد میں لدھیانہ گیا.بیوی کو ہمراہ لے کر مالیر کوٹلہ پہنچا.وہاں ایک عیسائی عورت کے نام جو مالیر کوٹلہ کے ولی عہد کی اتالیق تھی ، اسی لدھیانہ والی ڈاکٹرنی کی چٹھی آئی.جس میں میری بیوی کے مالیر کوٹلہ آنے اور اس سے ملاقات کرنے کی بابت اشارہ تھا.مجھے کو اس کا حال معلوم ہو گیا.میں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ تمہاری کسی عیسائی عورت سے لدھیانہ میں ملاقات ہوئی تھی؟ اس نے کہا کہ ہاں ایک مس ڈاکٹرنی سے کان کے درد کا علاج کرایا تھا اور تمام قصہ سنایا.میں نے ہر چند نصیحت کی مگر تعدد ازدواج کے متعلق میری بیوی کی تشفی نہ ہوئی.میں نے دعائیں کیں جس کا یہ اثر ظاہر ہوا کہ ایک ناول کسی نے میرے پاس اسی عرصہ میں بھیجا جس کا نام شاید فلورا فلورنڈا تھا.وہ میری بیوی نے دیکھا اور اول سے آخر تک بغور پڑھا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ میری بات کو بھی مان گئی اور اسی روز سے اس کو عیسائی عورتوں سے اب نہایت سخت نفرت ہے.وہ ناول عبد الحلیم شرر کا تھا.بار مئی ۱۹۱۲ء) میں نے جب سے شادیاں کی ہیں آج تک اپنی کسی بیوی کا کوئی صندوق کبھی ایک مرتبہ بھی کھول کر نہیں دیکھا.

Page 213

۲۰۷ (۷ار دسمبر ۱۹۱۱ء) میں ایک مرتبہ ایک عیسائی عورت سے شادی کرنے لگا تھا.لیکن صرف پردہ کے مشکلات کے باعث باز رہا.(۱۰ر نمبر ۱۹۱۰ء) میرے بہت سے لڑکے مرے.جب کوئی لڑکا مرتا تو میں یہی سمجھتا کہ اس میں کوئی نقص ہو گا.خدا تعالیٰ اس سے بہتر بدلہ دے گا.خد اتعالیٰ کی نعمتوں سے مایوس ہونا تو کافروں کا کام ہے.خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی جب قدر نہیں کی جاتی تو وہ نعمتیں چھن جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی نعمتیں جاتی ہی نہیں مگر ناشکری سے.جب نعمت چلی جائے تو آدمی مایوس نہ ہو.(۴ مارچ ۱۹۰۹ء) میرے بچے جب مرے تو میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ اگر تم مرتے تب بھی یہ تم سے جدا ہو جاتے.(۲۰) اکتوبر ۱۹۱۲ء) مجھ کو شاہ ولی اللہ صاحب کا فارسی ترجمہ قرآن کریم کے تمام ترجموں میں پسند ہے.میں نے ایک مرتبہ اپنی لڑکی امامہ کو وہ پڑھانا چاہا.اس لئے اول اس کو فارسی پڑھانی شروع کی.وہ لڑکی بڑی ہی ذہین اور پڑھنے لکھنے میں بہت ہو شیار تھی.میں نے اس کو اول کریما شروع کرائی.میں خود ہی اس کو پڑھایا کرتا تھا.ایک دن سبق آیا کہ ة بده ساقیا آب آتش لباس اب میں حیران تھا کہ اس کو کس طرح پڑھاؤں میں نے کہا کہ امامہ آج تو رہنے دو سبق کل پڑھائیں گے.اگلے روز میں نے وہ آب آتش لباس و الا ورق پھاڑ دیا اور اس طرح پھاڑا

Page 214

کہ یہ بھی نہ معلوم ہو کہ کوئی ورق علیحدہ کیا گیا ہے لیکن جب وہ پڑھنے بیٹھی تو کہنے لگی کہ وہ آتش لباس و الاورق کہاں گیا.پھر اس نے ورق پھاڑنے والے کو بہت برابھلا کہا.غرض میں نے آب آتش لباس ورق کے سوا کر یما اس کو پڑھائی.اس کے بعد نہ گلستاں اس قابل تھی.نہ بوستاں کہ اس کو پڑھاتا.انوار سہیلی ان سے بھی بد تر نکلی.جب کوئی کتاب نہ ملی تو مجبور امیں نے کہا کہ تم شاہ ولی اللہ صاحب کا ترجمہ ہی پڑھو.عهد جوانی - طلب (۱۵ مارچ ۱۹۱۰ء) میں ایک مرتبہ آگرہ سے بھوپال پیادہ پاگیا اور معلوم بھی نہ ہوا.اب تو نواب صاحب کو ٹھی تک جانے سے کئی دن تک تکان کا اثر باقی رہتا ہے.(۲۹ اکتوبر ۱۹۱۰ء) میں جوانی کے عالم میں جبکہ جہلم کا دریا خوب چڑھا ہوا تھا تیر کر پار چلا جاتا تھا.ار مارچ ۱۹۱۲ ء بعد نماز ظهر قوی مختلف ہوتے ہیں.میں زمانہ طالب علمی میں کئی کئی وقت تک کھانا نہیں کھاتا تھا اور کوئی ضعف و نقاہت قطعاً محسوس نہیں ہو تا تھا.(۱ار مئی ۱۹۰۹ ء بعد نماز ظهر) میں نے حج میں دو مرتبہ سات سات دفعہ طواف کر کے دو دو رکعتیں پڑھیں.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ یہ موقع کسی کو بڑی ہی مشکل سے مل سکتا ہے بلکہ نہیں ملتا.مطاف میں دن رات ہر وقت ہی خدا تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے.دنیا میں کوئی جگہ نہیں جہاں اس کثرت سے

Page 215

۲۰۹ ہر وقت خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو.پس نزول رحمت جس قدر وہاں ہو تا ہے دوسری جگہ ہو ہی و تا و پس نزول رحمت نہیں سکتا.(۱۶) فروری ۱۹۱۲ء) میرے استاد نے مجھ سے کہا کہ تم قانون ( قانون شیخ) کس طرح پڑھو گے ؟ میں نے کہا کہ میں تو قرآن شریف پڑھ سکتا ہوں.قانون کی کیا حقیقت ہے؟ (۱۲۷ مئی ۱۹۰۹ء) یہ بھی ایک شرک ہے کہ آدمی ڈپلومے یا سند پر بھروسہ کرے.ایک مرتبہ ایک شخص نے جو افسر مدارس تھا اور میں بھی پنڈ دادنخان میں مدرس تھا.مجھ سے کسی بات پر کہا کہ آپ کو ڈپلومے کا گھمنڈ ہے.میں نے اپنے آدمی سے کہا.ڈپلومہ لاؤ جس کو یہ خدا سمجھے ہوئے ہے وہ ہمارے پاس بھی ایک ہے.منگا کر اسی وقت اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.وہ آدمی بڑا حیران ہوا.مجھ سے کہا آپ کو کوئی جوش ہے ؟ میں نے کہا نہیں.کہا کوئی رنج ہے ؟ میں نے کہا نہیں.آپ نے اس کو باعث غرور و تکبر، موجب روزی سمجھا ہے.میں نے اس کو پارہ کر کے دکھایا ہے کہ میرا ان چیزوں پر بحمد اللہ بھروسہ نہیں.(۲) نومبر ۱۹۱۰ء) میں نے بائیبل دساتیر- دید وغیرہ تمام مذاہب کی کتابیں پڑھی بھی ہیں.سنی بھی ہیں.مجھ کو سب سے زیادہ قرآن کریم ہی کی عظمت نظر آئی اور کوئی چیز بھی گمراہی کا موجب نہیں ہو سکی.فالحمد لله رب العالمين.

Page 216

(۲) نومبر ۱۹۱۲ء) میں نے عنفوان شباب میں لوگوں کو بہت نصیحت کی ہے.ایک شخص کو میں نے بہت نصیحت کی تو وہ چیخ مار کر رونے لگا.میں نے کہا کیوں روتے ہو ؟ کہا کہ تمہاری باتیں زبان کو تو خاموش کئے دیتی ہیں لیکن دل نہیں مانتا.اسی طرح ایک شخص کو میں نماز کے لئے بار بار کہتا تھا.میں نے ایک اور شخص سے کہا کہ تم اس کو نماز کے لئے نصیحت کرو.جب اس نے نماز کے لئے کہا تو اس بے نماز نے اس کو جواب دیا کہ نماز تو ہم پڑھتے مگر نورالدین ہم کو نماز نہیں پڑھنے دیتا کیونکہ ہم نے عہد کیا ہے کہ جو نور الدین کے گاوہ نہ کریں گے.اس شخص نے مجھے سے آکر کہا کہ تم اس کو یہ کہو کہ نماز نہ پڑھ تو پھر وہ پڑھنے لگے گا.میں نے کہا کہ ممکن ہے وہ یہ مکہدے کہ ساری عمر تو ہم نے تمہاری بات مانی نہیں لاؤ یہ ایک بات تو مان لیں.اس لئے میں تو ڈر ہی گیا.اور چپ ہو رہا.(۱۲) جنوری ۱۹۱۰ء تحمل مغرب در مسجد مبارک) میں نے حضرت خواجہ شاہ سلیمان صاحب تونسوی اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت شاہ غلام علی صاحب اور صحابہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ایک عالم میں خود دیکھا ہے.حضرت شاہ سلیمان صاحب بائیس برس کے تھے جب خلیفہ ہوئے اور پورے ۷۸ برس خلافت کی.سو برس کی عمر پائی.شاہ سلیمان صاحب قوم سے پٹھان روہیلے تھے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب فقیہ ، محدث اور حکیم صوفی ہیں.شاہ غلام علی صاحب بٹالہ کے باشندہ سید تھے.(۲۶ / جنوری ۱۹۱۰ ء بعد نماز فجر) میں نے دنیا کے جملہ مذاہب کی کتابیں پڑھیں اور سنی ہیں.ژند - پاژند- سفرنگ- دساتیر- بائیبل - وید - گیتا و غیرہ کتابوں پر بہت ہی بہت غور کیا ہے.دنیا کی تمام کتابوں کی اچھی باتوں

Page 217

٢١١ کا خلاصہ اور بہتر سے بہتر خلاصہ قرآن کریم ہے.مولانا مولوی فضل الرحمان صاحب گنج مراد آبادی کے ملفوظات میں میں نے پڑھا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے مولانا شاہ عبد القادر صاحب سے دو سو برس پہلے کا ایک بھا کا کا ترجمہ دیکھا ہے جس میں اللہ کا ترجمہ من موہن لکھا تھا.مجھ کو تو بڑا شوق ہوا کہ اس ترجمہ میں بڑے بڑے مفید الفاظ ہوں گے سر ملا نہیں.(یکم جنوری ۱۹۰۶ء) میں نے بہت روپیہ - محنت وقت خرچ کر کے احادیث کو پڑھا ہے اور اس قدر پڑھا ہے کہ اگر بیان کروں تو تم کو حیرت ہو.ابھی میرے سامنے کوئی کلمہ حدیث کا.ایک قرآن کا.ایک کسی اور شخص کا پیش کرو.میں بتادوں گا کہ یہ قرآن کا ہے یہ حدیث کا اور یہ کسی معمولی انسان کا ہے.(یکم جنوری ۱۹۰۷ء) مجھ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ خواب میں فرمایا کہ ربنا أتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ بہت پڑھا کرو.(۲۴) مئی ۱۹۰۹ ء بعد ظهر) میں نے ایک مرتبہ ایک جگہ ڈیڑھ روپیہ ماہوار کی نوکری کی.اس شخص سے جس کی نوکری کی.کچھ نہیں کہا کہ کس قدر علوم و کمالات سے واقف ہوں.کچھ عرصہ کے بعد جب کام اور نوکری کا تعلق ختم ہو گیا.میں ان کے یہاں گیا اور برابر گدیلے پر جا کر بیٹھ گیا اور کہا کہ میں حکیم ہوں - محدث ہوں.ادیب ہوں وغیرہ.وہ سن کر حیران رہ گیا اور مجھ سے معافی

Page 218

مانگنے لگا.۲۱۲ (۹) نومبر ۱۹۱۲ء) میری جوانی کی عمر کا ذکر ہے.ایک مقدمہ تھا.فریقین نے مجھ کو منصف قرار دیا.میں حالات سے واقف نہ تھا.ایک کمشنر ولایت سے نیا نیا آیا تھا.اس کے سامنے میں گیا.اس نے کہا کہ ایک لڑکی نے دعوی ورثہ کا کیا ہے آپ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں".میں نے قرآن شریف سے نکال کر آیت دکھا دی.اس نے کہا کہ قرآن شریف کو تو سب مسلمان مانتے ہی ہیں ؟ میں نے کہا ہاں.اس نے فیصلہ کر دیا.لڑکی کو حق دلا دیا اور فیصلہ میں لکھ دیا کہ رواج بھی ایسا ہی ہے.دوسرے فریق نے مجھ سے کہا کہ تم نے یہ کیا غضب کیا.میں نے کہا تمہارے بزرگوں نے ایسا ہی کیا ہے.(وہ سید تھے.انہوں نے اپیل کیا.مگر کچھ ہوا نہیں کیونکہ کمشنر نے رواج بھی لکھ دیا تھا.ایک اور واقعہ ہے کہ مجھ کو لوگ اس لئے برا جانتے تھے کہ میں امام کے پیچھے الحمد پڑھتا تھا.ملک فتح خاں سے کسی نے کہا کہ تم نور دین سے کیوں ملتے ہو ؟ اتفاق سے ان جیسے رئیس نے عدالت میں عند الاستفسار کہہ دیا کہ ہم قرآن شریف کے اس حصہ کو جو حقوق وارثت کے متعلق یعنی بیٹیوں کو حق دلانے کے متعلق ہے نہیں مانتے.فتح خاں نے ان سے کہا کہ نور دین تو الحمد پڑھتا ہے تم تو قرآن ہی کو نہیں مانتے.(۲۵) مئی ۱۹۰۹ ء بعد نماز ظهر در مسجد مبارک) ائمہ اربعہ - ائمہ حدیث ائمہ تصوف - ائمہ کلام میں سے کسی نے قرآن شریف کی پوری تفسیر نہیں لکھی.مجھ کو بچپنے ہی سے تفسیر کا بہت شوق ہے.میں نے کئی مرتبہ تفسیر لکھنی شروع کی اور پوری نہ ہو سکی.ایک مرتبہ میں نے بڑی دعا مانگی کہ خدا تعالی تفسیر لکھنے کی توفیق دے.خواب میں دیکھا کہ مجھ کو ایک دوات دی گئی لیکن وہ خشک تھی.میں سمجھا کہ

Page 219

۲۱۳ اور دعا مانگنی چاہئے کیونکہ پانی ڈالنے سے روات کام دے سکتی ہے.پھر دوسری مرتبہ خواب دیکھا کہ ایک قلم دیا گیا جو چرا ہوا تھا.میں نے سمجھ لیا کہ چرے ہوئے قلم کا تو کوئی علاج ہی نہیں.اس کی وجہ یہی تھی کہ میرے اوپر بھی امام کا لفظ آنے والا تھا.(۳۱) مئی ۱۹۰۹ء) میں نے بڑی بڑی فہرستوں کو دیکھا ہے.ان میں علم رویا کی کتابوں کو علوم متفرقات میں رکھا ہے میں نے چونکہ قرآن کریم میں رویا کا تذکرہ دیکھا تھا.لہذا میں اس پر اپنا شرح صدر نہ پاتا تھا.پھر میری سمجھ میں آیا کہ رویا کی کتابیں قرآن کریم اور حدیث کی لغت کی کتابوں کے ساتھ رکھنی چاہیں.چنانچہ میں نے اپنے کتب خانہ میں تعطیر الانام اور کامل التعبير وغیرہ کو مفردات راغب، مجمع البحار فائق کے ساتھ رکھا.اس نکتہ کو مولوی قائم الدین مرحوم سیالکوٹی نے بہت ہی پسند کیا.یہ نوجوان انگریزی اور عربی کا بڑا ماہر تھا) (۳۱ / مئی ۱۹۰۹ء بعد نماز ظهر) میں نے بڑی تحقیقات کی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے کوئی ایک بھی بھرا نہ تھا.یہ بڑا ہی معرفت کا نکتہ ہے.( یکم اگست ۱۹۰۸ء) میں نے جب مولانا مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید رحمہ اللہ علیہ کی کتاب الحق الصريح في احكام الميت و الضریح پڑھی تو اس میں یہ بھی دیکھا کہ خدا تعالیٰ کو یہ کہنا کہ وہ عرض بھی نہیں.جو ہر بھی نہیں.وہ جسم بھی نہیں وغیرہ بدعت ہے.یہ میرے بچپنے کا ذکر ہے.میں ڈرا کرتا تھا کہ کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ جب خدا تعالیٰ کو ایسا کہنا بدعت ہے تو کیا اس کو جو ہر و عرض و جسم وغیرہ کہہ سکتے ہیں؟ غرض کہ جب اس کتاب کا

Page 220

۲۱۳ کہیں کسی سے ذکر ہو تا تو میں خدا تعالیٰ سے دعامانگا کر تا کہ یہ شخص اس جو ہر و عرض والی بات پر اعتراض نہ کرے.میری طالب علمی کے زمانہ میں کسی نے اعتراض نہ کیا.میں جب بھوپال گیا تو وہاں ایک مفتی صاحب سے میں نے کہا کہ خواجہ محمد پارسا کی کتاب فصل الخطاب مجھ کو کہیں سے لادو.انہوں نے وہ کتاب مجھ کو دی.میں نے جب اس کو اول ہی کھولا تو میری نظر اس مقام پر پڑی کہ ”جو سید ہو اور پھر وہ سید بادشاہ بھی ہو.اس کی تعریف میں یہ کہنا کہ وہ چمار بھی نہیں.وہ بھنگی بھی نہیں وغیرہ سخت حماقت ہے.جب ہم نے کہا اللہ تو پھر جو ہر و عرض وغیرہ کی سب صفات تو خود اس کے نام اللہ ہی سے رد ہو گئیں.یہ دیکھ کر میری طبیعت بڑی خوش ہوئی.پھر میں نے اس کتاب کو خود مہیا کیا اور راب الحمد للہ میرے پاس کتب خانہ میں موجود ہے.میں نے اس کو بہت پڑھا ہے.وہ تصوف کی ایک کتاب ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی کئی کتابوں کا نام فصل الخطاب رکھا ہے.(۳) اگست ۱۹۰۸ء) میں نے ایک مرتبہ جرمن کے عربی جاننے والے پروفیسروں کو لکھا کہ وہ کون کونسی کتابیں ہیں جن کے پڑھنے سے زبان عربی بہت اعلیٰ درجہ کی آجائے.انہوں نے جن کتابوں کے نام لکھ کر بھیجے ان میں یہ کتابیں بالاتفاق سب نے لکھیں.القرآن - البخاری - المسلم.امام شافعی کی کتاب الام احیاء العلوم جاحظ کی کل کتابیں.مبرد کی کتاب الكامل.العقد الفريد سيرت ابن هشام تاریخ طبری فتوح البلدان تقويم البلدان مقدمه ابن خلدون شفا - رحله ابن بطوطه.الف ليلى كليله د منه سبع معلقه حماسه اغانی دیوان جرير - سقط الزند.قانون بو على سينا -

Page 221

۲۱۵ (۲۰ بر مارچ ۱۹۰۹ء) میں نے ایک نوجوان کو مدینہ کے راستہ میں دیکھا کہ پیدل سفر کر رہا تھا.اس نے مجبورو مضطر ہو کر ایک جاتے ہوئے سوار کو ٹانگ پکڑ کر نیچے کھینچ لیا اور خود سوار ہو گیا.اس وقت مجھ کو خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد یاد آ گیا.و تزودوا (بقره رکوع ۲۵) متعلق به اساتذہ (۸) فروری ۱۹۱۰ء) ہمارے چار مرشد ہوئے ہیں.محمد جی بخاری.عبد القیوم صاحب - شاہ عبد الغنی صاحب- میرزاغلام احمد صاحب مسیح موعود (۱۲) اگست ۱۹۰۸ء) مکہ معظمہ میں ہمارے ایک شیخ تھے.میں نے ان سے صحیح مسلم پڑھی.ان کا نام شیخ حسین تھا.مجھ سے مولوی رحمت اللہ صاحب کہتے تھے کہ میں برس ہو گئے.لوگ تلاش میں ہیں لیکن آج تک یہ نہ معلوم ہوا کہ یہ کھاتے کہاں سے ہیں.(۱۳) مئی ۱۹۱۰ء) میرے ایک پیر شاہ عبد الغنی صاحب فرماتے تھے کہ سورۃ نور قرآن شریف میں ہے اور خد اتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس میں بڑے ضروری احکام بیان فرمائے ہیں.لیکن ہندوستان کے لوگ اس کے کسی حصہ پر نہ توجہ کرتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں.(۱۲۴ مئی ۱۹۰۹ء) حکیم فضل الدین صاحب نے میری کسی بیماری میں گھبرا کر حضرت صاحب ( مسیح موعود)

Page 222

کو لکھ دیا کہ بیمار ہیں.حضرت صاحب بے تاب ہو کر میرے پاس جموں تشریف لے گئے.وہاں حضرت صاحب نے ایک جلسہ میں فرمایا تھا کہ انبیاء علیہم السلام بھی ناقة الله ہوتے ہیں.بھلا ان کو کوئی چھیڑ کر تو دیکھیے.(۲۵/مئی ۱۹۰۹) میرے ایک استاد تھے مولوی رحمت اللہ.ان کے عیسائیوں سے بڑے بڑے معرکہ الاراء مباحثے ہوئے.وہ کرانہ کے رہنے والے تھے.(۳۱ اکتوبر ۱۹۱۲ء) میں نے اپنے استادوں کو دیکھا ہے وہ ذرا بھی مخالفت کو برادشت نہیں کر سکتے تھے.بس ایک مولوی رحمت اللہ کو دیکھا ہے کہ میں نے ان کا سخت سے سخت مقابلہ بھی کیا ہے لیکن وہ ہنتے ہی رہتے تھے.میں نے کسی مولوی کا یہ دل گردہ نہیں دیکھا.رد نمبر ۱۹۱۲ء) ایک امیر آدمی تھا.میرے استاد حکیم صاحب نے اس سے کہا کہ آپ نہانے کے پانی میں یہ دو املالیں.اس نے کہا کہ حکیم صاحب میں تین برس سے نہیں نہایا.میرے استاد نے کہا کہ آپ منہ بھی دھوتے ہیں؟ کہا کہ میں رومال کو تھوک لگا کر منہ صاف کر لیتا ہوں.حکیم صاحب نے کہا کہ پھر آپ کا مذہب کیا ہوا؟ اس نے کہا جو کسی بڑی حسین کہنچنی کا مذہب ہو وہی ہمارا مذہب ہے کہ اس کے ساتھ اسی کا ہم مذہب ہو کر خوب لطف آئے.وہ امیر آدمی کئی لاکھ آدمیوں پر حکومت کرتا اور ایک بڑے ملک کا مالک تھا.

Page 223

۲۱۷ (۳) جون ۱۹۰۹ء) میرے ایک پیر ہوتے تھے.عبد الغنی ان کا نام تھا.دتی میں رہتے تھے.مرزا کامران ان کے ایک مرید تھے.مرزا کامران نے کہا کہ شاہ صاحب قلعہ میں رات کے وقت شہزادیاں چوڑھوں کے پاس اور چوڑھیاں شاہزادوں کے پاس ہوتی ہیں.شاہ صاحب نے مرزا کامران کو حکم دیا کہ تم قلعہ سے چلے آؤ.ایسی جگہ ہرگز نہ رہو.عصر کے وقت مرزا کامران قلعہ سے باہر چلے آئے.شام کے وقت شاہ صاحب کو الہام ہوا کہ تم نے تو قلعہ والوں کو تباہ کر دیا.جب تک مرزا کامران قلعہ میں تھا اس وقت تک ہم نے عذاب کو روک دیا تھا.اب چونکہ مرزا کامران چلا آیا.لہذا اہم قلعہ پر عذاب بھیجتے ہیں.شاہ صاحب فرماتے تھے کہ ہم کو پھر تو کچھ افسوس ہی ہوا.قلعہ اور دتی شہر فتح ہوا.شاہ صاحب کو وہاں سے مع اہل وعیال بھاگنا پڑا.پھر بہزار دقت کراچی اور وہاں سے مکہ معظمہ پہنچے.مولوی اسماعیل شہید دہلوی کے بیٹے محمد عمر صاحب ایک بزرگ دہلی میں رہتے تھے.مولوی رحمت اللہ صاحب سے میں نے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ محمد عمر صاحب جب ہمارے ساتھ دہلی میں جارہے تھے.بادشاہ کی سواری کے ڈنکے کی آواز آئی.یکانت ان کی رنگت زرد ہو گئی.پیشاب کرنے بیٹھ گئے.بادشاہ کی سواری آئی اور گزر گئی.بعدہ وہ اٹھے تو چہرہ خوش تھا.دریافت کیا کہ حضرت آپ کیوں اس قدر گھبرا گئے تھے اور اب کیوں مطمئن ہیں ؟ کہا.میں نے بادشاہ کی سواری سامنے سے آتی ہوئی محسوس کر کے اس بات کا خوف کیا کہ کہیں میرے ایمان کو نہ لے جائے.نواب وزیر الدولہ نواب ٹونک انہیں محمد عمر صاحب کے بہت معتقد تھے.ایک مرتبہ ان کے مکان پر ملاقات کے لئے آئے.محمد عمر صاحب نے سنا کہ وزیر الدولہ آیا ہے تو دیوار کود کر پچھواڑے کی طرف سے مکان چھوڑ کر چل دیئے کہ امیروں کی ملاقات سے دل سیاہ ہو تا اور قلب پر غفلت طاری ہوتی ہے.

Page 224

PIA (۹) نومبر ۱۹۱۳ء) ہمارے ایک استاد مولوی تھے ہم پڑھنے کے لئے سفر میں ان کے ساتھ پھرا کرتے تھے.وہ ایک علاقہ میں گئے.کسی کی چوری کی بھینسیں واپس کرانی تھیں.ہم سب ان کے ساتھ تھے.انیس دن وہاں مقیم رہے.گاؤں والوں نے کہا.بھینسیں یہاں نہیں ہیں.ہر چند کوشش کی مگر نہیں ملیں.آخر ایک دوسرے طالب علم نے مجھ سے کہا کہ بھینسیں تو آج شام سے پہلے آجائیں گی.میں نے کہا کس طرح؟ کہا کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جہاں کوئی قریشی اذان کہتا ہے وہ بستی ویران ہو جاتی ہے.آج دائرہ (چوپال) کے سامنے چل کر میں کہوں گا.آج ہی.تم کہنا آج نہیں.چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا.ایک شخص سن کر دو ڑا ہوا آیا.اس طالب علم نے دریافت کرنے پر جواب دیا کہ یہ ہمارا ساتھی قریشی ہے اور اب اذان دینے کا ارادہ ہے.وہ یہ سن کر دوڑا ہوا واپس گیا اور ہم سے کہتا گیا کہ ذرا آپ ٹھہرے رہیں.تھوڑی دیر میں واپس آیا اور کہا کہ بھینسیں آج ہی آجائیں گی.آپ اذان نہ دیں.چنانچہ بھینسیں آگئیں اور مولوی صاحب کے سپرد کر دی گئیں.ار اگست ۱۹۰۸ء در خطبه جمعه ) میرے ایک پیر بھائی نے مسجد نبوی میں نماز پڑھتے ہوئے رکوع یا مجدہ میں دیکھا کہ خود انہیں کا جنازہ لائے ہیں.حتی کہ انہوں نے خود اس جنازہ کا منہ کھول کر دیکھا.میرے وہ پیر بھائی حضرت شاہ عبد الغنی صاحب کے داماد تھے.انہوں نے شاہ صاحب سے کہا کہ میں نے ایسا دیکھا ہے اور جنازہ کا منہ کھول کر دیکھا تو پسینہ آرہا تھا اور اس پسینہ سے یہ پڑھا جاتا تھا مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمُ الله شاہ صاحب نے فرمایا کہ تمہاری موت کا وقت بہت قریب آگیا ہے.چنانچہ وہ تھوڑی دیر کے بعد مرگئے.میں نے شاہ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے کیسے سمجھا.کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مومن کو پسینہ آتا ہے.

Page 225

۲۱۹ دوست آشنا (۲ جون ۱۹۰۹ء) میرے ایک دوست تھے جن سے مجھ کو بڑی محبت تھی.ایک مرتبہ میرے پاس آئے وہ چا پینے کے عادی تھے.میں نے ان کے لئے چاء تیار کرائی اور خوشی کے ساتھ ان سے ذکر کیا کہ میں نے آپ کے لئے چاء تیار کرائی ہے.یہ سن کر وہ تو بہت ہی ناراض ہوئے اور یہ کہہ کر چل دیئے کہ چاء تو ہم چوہڑے کو بھی پلا دیتے ہیں.چاء کا احسان ہم پر جتایا گیا.غرض کہ وہ چاء تیار ہونے سے پہلے ہی چل دیئے.جبکہ ایک انسان دوسرے انسان کی رضامندی کا طریقہ نہیں معلوم کر سکتا تو خدا تعالیٰ کی رضامندی کی راہ اپنی تجویز سے کیسے معلوم کر سکتا ہے؟ (۲) فروری ۱۹۱۰ء) جب میں رامپور میں رہتا تھا.اس زمانہ میں میرا ایک دوست عید الفطر کے دن مجھ سے ملنے آیا اور کہا کہ آج سوتیاں کھلاؤ.میں نے کہا کہ اس محلہ میں جہاں میں رہتا ہوں سب لوگ اس خیال کے ہو گئے ہیں کہ آج سوتیاں پکائیں گے.ہاں کل ہم تم کو پکوا دیں گے.وہ سن کر سخت متعجب اور برافروختہ ہوا اور کہا کہ ” جاتو نے سارے محلہ کو خراب کر دیا".دو (۲۶) ستمبر ۱۹۰۸ء) میں نے اپنے ایک دوست کو دیکھا کہ ان کا کام نہیں چلتا.میں نے ان کو تجارت کی ترغیب دی اور تین ہزار روپیہ اپنے پاس سے ان کو دیئے.انہوں نے وہ تین ہزار روپیہ لیکر کہا کہ بھلا ان میں کیا ہو سکتا ہے؟ کچھ بھی نہ ہو گا.میں نے کہا کہ تم کو شکر ادا کرنا چاہئے تھا.لیکن چونکہ تم نے شکر ادا نہیں کیا لہذا تم کو ہر گز نفع نہ ہو گا اور واقعی کچھ نہ ہو گا.چنانچہ ایسا

Page 226

ہی ہوا.۲۲۰ (۹ار جنوری ۱۹۱۰ء) میرے ایک محسن بزرگ تھے.وہ بہت بوڑھے تھے.ان کا نام منشی جمال الدین تھا.وہ جب بچے موتیوں کی مالا پہنتے تو پہنتے وقت میری طرف دیکھتے اور یہ آیت پڑھا کرتے.منْهُ حلية تَلْبَسُونَهَا (سوره نحل رکوع ۲) (۱۴ار جون ۱۹۱۱ء ) میاں جمال الدین صاحب وزیر اعظم بھوپال ایک مرتبہ کہنے لگے.میاں تم چلے نہ جاؤ تو ایک بات کہتا ہوں.میں نے کہا فرمائیے.کہا کہ میں تم پر عاشق ہوں.(۸ مارچ ۱۹۱۰ء) میرا ایک آشنا تھا.وہ دلی کا رہنے والا تھا.بعد غدر کے انگریزی پڑھ کر بڑا آدمی بن گیا حتی کہ حج وغیرہ معزز عہدوں تک پہنچا.اس کا بیٹا پڑھا لکھا آدمی نہ تھا.اس نے اپنے بیٹے کو مجبور افوج میں بھرتی کرانا چاہا.ایک بڑے انگریز سے ملا اور سفارش کی.اس انگریز نے کہا کہ اگر آپ دتی کے رہنے والے نہ ہوتے تو ہم ضرور آپ کے بیٹے کو فوج میں بھرتی کر لیتے.دیکھو.بغاوت کا کیسا برا نتیجہ ہوتا ہے.(۲۶) فروری ۱۹۱۲ء) ایک دفعہ ایک مجلس میں شفاعت کے متعلق گفتگو ہوئی.میں نے کہا کہ شفاعت اذن سے ہوگی.میرا ایک آشنا جو میرے خیال میں بڑا نیک تھا میرے قریب ہی بیٹھا تھا.اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تم کیا کہتے ہو کہ شفاعت بالاذن ہو گی؟ ہم نے شفاعت کے بھروسہ بڑی بڑی

Page 227

۲۲۱ بدکاریاں کی ہیں.آج تم نے ہمارے سب منصوبوں کو خاک میں ملا دیا.(۸) مئی ۱۹۰۹ء) ایک ہمارے دوست تھے.وہ بہت ہی اچھی حالت میں فوت ہوئے ہیں.لیکن ان کی ابتدائی عمر بڑے بڑے فسق و فجور میں گزری تھی.انہوں نے ایک مرتبہ خود ہی اپنا قصہ سنایا کہ میں لاہور میں مدرس تھا.میں نے سنا کہ امرتسر میں ایک رنڈی ہے جو کسی بڑے بھاری رئیس کی ملازم ہے اور کسی دوسرے شخص کے پاس نہیں جاتی.وہ کہتے تھے کہ مجھ کو تنخواہ ملی تو میں نے تنخواہ لیکر اپنے شاگردوں سے کہا کہ دیکھو ہم اس قلعہ کو فتح کرتے ہیں.چنانچہ اپنے شاگردوں کو لے کر امر تسر پہنچے.(شاگرد بھی کوئی ایسے ہی ہوں گے) رنڈی کے گھر جا کر اس کی نایکہ کے سامنے پگڑی اتار کر رکھ دی اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے.اس نے توجہ بھی نہ کی.جب بہت دیر ہو گئی تو شاگردوں نے کہا کہ مولوی صاحب یہ توجہ کرتی ہی نہیں اب آپ چلیں.جب اس نایکہ نے مولوی صاحب کا لفظ سنا تو کہا کہ آپ مولوی صاحب ہیں ؟ میں نے کہا کہ ہاں میں مولوی ہوں اور یہ سب میرے شاگرد ہیں.آج مجھ کو تنخواہ ملی تھی وہ سب کی سب لے کر یہاں آیا ہوں.یہ موجود ہے.چنانچہ سب اس کے سامنے رکھ دی.اس پر کچھ ایسا اثر ہوا اور لفظ مولوی صاحب نے کچھ ایسا کام کیا کہ اس نے کہا کہ اچھا چاہے کچھ ہی ہو ہم تمہارا کہنا مانے لیتے ہیں.ایک رات کے واسطے تم اس رنڈی کو لے جاؤ.چنانچہ میں اس کو ہمراہ لے کر اسی وقت ریل میں بیٹھ کر لاہور آیا اور کھلی ٹمٹم میں بیٹھ کر دتی دروازہ ہو تا ہوا سر بازار نہایت فخر و غرور کے ساتھ اس رنڈی کو اپنے ساتھ بٹھا کر لایا اور فخریہ شہر میں اس بات کو ظاہر کیا کہ دیکھو ہم کسی سے کم نہیں ہیں.غرض کہ ان کی حالت بہت خراب تھی.ان کو ہدایت صرف ایک آیت سن کر ہوئی.وہ آیت یہ ہے اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ الله....الخ اس آیت کو سن کر ان کے دل پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ پھر ان کی حالت نہایت ہی اچھی ہو گئی اور بہت ہی اچھی حالت

Page 228

میں فوت ہوئے.PPP (۳۰) مئی ۱۹۰۹ء) میرے پاس ایک شخص آیا کہ میری بیوی کو آتشک ہو گئی ہے اور وہ روتا تھا.میں جانتا تھا کہ وہ عورت نیک ہے یعنی حرامکار نہیں ہے.میں نے اس عورت کو بلا کر اس کے زخم دیکھنا چاہے تو اس نے اپنا ہاتھ دکھایا.میں نے کہا کہ یہ ہرگز آتشک کا زخم نہیں.یہ آگ سے جلا ہوا ہے.غرض کہ اس نے بڑی مشکل سے مجھے بتایا کہ یہ خاوند مجھ کو پسند نہیں ہے.اصل بات کچھ تھی ظاہر کچھ کرتی تھی.(۱۲) فروری ۱۹۱۰ء) میرے بعض دوستوں نے مجھ کو ملامت کی کہ تو اس قدر حسن ظن سے کیوں کام لیتا ہے؟ میں نے کہا کہ یہ تو میرے خدا تعالیٰ نے بلاواسطہ مجھے کو بتایا ہے.میں کیوں بد ظنی سے نہ بچوں.بدظنی سے بچنے کا طریق سورہ نور کے پہلے رکوع میں لکھا ہے.(۴ اکتوبر ۲۶۱۹۱۲ میرے ایک دوست شہزادے تھے.اور احمد سعید ایک دوسرے دوست تھے.احمد سعید اپنی معرفت لوگوں کے کپڑے لاتے اور شہزادے صاحب وہ کپڑے سیتے اور اسی میں اپنا گزارہ کرتے.ایک روز احمد سعید صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ کو اگر کپڑے سلوانے ہوں تو مجھ کو دے دیں.شہزادے صاحب سیتے ہیں میں سلوادوں گا لیکن خود نہ دیں ورنہ آپ سے وہ سلائی نہ لیں گے.میں نے ایک روز کہا کہ شہزادے صاحب! ابھی تک اس حالت عسرت میں آپ کو بعض امیرانہ شوق موجود ہیں.کہا کہ میاں بگڑی ہوئی عادتیں آسانی سے نہیں چھوٹتیں.

Page 229

۲۲۳ ار مارچ ۱۹۱۲ ء بعد نماز ظهر) میرے ایک دوست تھے متمول آدمی تھے.ان سے اکثر فجر کی پہلی رکعت رہ جاتی تھی.ایک نابینا حافظ صاحب تھے.وہ ہمیشہ ان کو کہتے کہ تم نماز میں دیر کر کے آتے ہو.یہ بے ایمانی اور نفاق کی علامت ہے.جب بار بار ان کو حافظ صاحب نے شدومد کے ساتھ ٹو کا تو انہوں نے حافظ صاحب کی شادی کرادی.پھر تو حافظ صاحب کی ان سے بھی بد تر حالت ہوئی.پہلے ہی دن کی نماز فجر قضا ہوئی.(۱۵ر مئی ۱۹۰۹ ء بعد نماز ظهر) میں نے اس وقت تک ہزا ر ہا روپیہ لوگوں کو قرض دیا لیکن سوائے ایک شخص کے کہ اس نے نو روپیہ قرض لئے تھے اور جس آنکھ سے لئے تھے اس آنکھ سے ادا کئے تھے اور کسی نے اسی آنکھ سے ادا نہیں کئے.(۳۰) مئی ۱۹۰۹ء) میں لاہور کے ڈبی بازار میں جارہا تھا.وہاں ایک شخص مجھ سے ملا اور کہا کہ ہم کو تم سے بڑی بڑی امیدیں تھیں.میں نے کہا کہ یہ بات پہلے بھی کی گئی ہے یعنی قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِينَا مَرْجُوا - (۲۸) اکتوبر ۱۹۱۲ء) میں نے اپنے ایک آشنا سے دریافت کیا.سویلزیشن کا نشان کیا ہے؟ کہا سویلیزیشن کا نشان یہ ہے کہ دو روپیہ کا مقدمہ ہو تو پریوی کو نسل تک پہنچائے اور جعلی نوٹ بنالے.یہ باتیں بھلا جاہل شخص سے کہاں ہو سکتی ہیں.

Page 230

۳۲۴ (۲۸) اکتوبر ۱۹۱۲ء) ایک علمی مجلس میں ایک شخص نے ایک ریزولیوشن پیش کیا اور ایسے پُر درد لب ولہجہ سے تقریر کی کہ وہ تقریر کرتے ہوئے خود رو بھی پڑا مگر کسی نے اس کی بات کی تائید نہ کی.میں نے چونکہ پہلے کبھی ایسا واقعہ دیکھا نہ تھا.مجھ کو اس پر رحم آیا اور میں نے کھڑے ہو کر کہہ دیا کہ میں اس کی بات کی تائید کرتا ہوں.مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ سن کر ہنس پڑے اور سب نے سرینچے کرلئے.اب مجھ کو اور بھی زیادہ تعجب ہوا.پھر اس شخص نے میز پر سکے بھی مارے اور خوب زور شور سے تقریر کرتا رہا.لیکن تمام مجلس خاموش تھی.آخر کسی عقل مند نے مجلس برخاست کر دی.جب اٹھ کر چلے تو میں حیران تھا کہ تمام اہل مجلس نے کیوں ایسی سرد مہری دکھائی.دروازہ کے قریب پہنچ کر وہی لیکچرار دھڑام سے گر پڑا اور اس وقت مجھ کو معلوم ہوا کہ وہ شراب کے نشے میں چور تھا.آج کل واعظ عام طور پر خود عملی حالت میں کمزور اور دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں.(۲) جون ۱۹۰۹ء) میں جموں میں تھا.ایک ہندو عورت میرے ساتھ بڑا اخلاص رکھتی تھی.میرے دو لڑکے تھے ایک فضل الہی دوسرا حفیظ الرحمان.ان دونوں) کا انتقال ہو گیا.اس ہندنی نے مجھے سے کہا کہ میں دولڑکے آپ کے واسطے خرید کر لاؤں گی جو ایسے ایسے ہونگے.میں نے اس سے کہا کہ نادان ! وہ لڑکے ہمارے کیسے ہو سکتے ہیں اور اس طرح کہاں تلافی ہو سکتی ہے ؟ (۴) جون ۱۹۰۹ء) میرا ایک بڑا بھاری دشمن تھا، ایک شخص جو اکثر اس کے پاس رہتا تھا، میرے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کو تحصیل دار تک پہنچا دو.میں تمہارے اس دشمن پر قتل کا جرم ثابت کئے دیتا ہوں.میں نے اپنے آدمی سے کہا کہ اس کو نکال دو.اس نے کہا کیوں؟ میں نے کہا تم جب

Page 231

۲۲۵ اس کے دوست بنے ہوئے ہو تو پھر اس کو مقدمہ میں کیوں پھنساتے ہو ؟ کہنے لگا کہ میں تو اس مقدمہ کے ثابت کرنے ہی کے لئے اس کے پاس رہتا ہوں.میں نے کہا کہ پھر تو تم منافق ہو.میں ایسے شخص کا روادار نہیں.۲۷ مئی ۱۹۰۹ء) ایک شخص نے ایک مرتبہ میری بڑی خاطر مدارات کی اور مجھ سے کہا کہ میرے پاس نہایت اعلیٰ درجہ کی خوش رفتار ایک اونٹنی ہے.آپ اس پر سوار ہو کر سیر کو جائیں.ایک ملازم جو اس اونٹنی پر نوکر تھا وہ بھی میرے ساتھ بیٹھا کہ سیر کرا کر لائے.میں نے راستہ میں اس سے پوچھا کہ تمہارا آقا کیسا آدمی ہے؟ اس نے ایک نہایت غلیظ گالی اس کو دی اور کہا کہ اگر یہ رات کو یا شام کو مکان سے باہر نکلے تو ہم فور امار ڈالیں.(۱۶) فروری ۱۹۱۲ء) چند قومیں ہیں جن پر مجھ کو کبھی اعتبار نہیں آیا.ایک دہریہ دوسرے رافضی ، تیسرے عیسائی.چوتھے جو حقیقتاً منافق ہیں اور ان کو منافقوں کے علامات سے پہچان سکتے ہیں.دہریہ جب خدا تعالیٰ ہی کا قائل نہیں تو اس کی قسم کا کیا اعتبار - رافضی تقیہ کی آڑ میں سب کچھ کر سکتے ہیں.عیسائی کفارہ پر اعتماد رکھتے ہیں.منافق کا اعتبار تو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ظاہر و باطن یکساں نہیں.(۹) نومبر ۱۹۱۲ء) میرا ایک آشنا تھا.اس نے میری ضیافت کی.مجھے کو اپنا بڑا باغ دکھایا.اس میں ایک درخت آم کا بتا کر کہا کہ سارا باغ تو خدا کا ہے.آپ کے ساتھ والے جہاں سے اور جس قدر چاہیں کھائیں مگر یہ ایک درخت سید عبد القادر جیلانی کا ہے اس کو ہاتھ نہ لگائیں.میں

Page 232

۲۲۶ نے کہا سید عبد القادر جیلانی تو خدا تعالیٰ کے عاشق تھے وہ بھلا کیسے گوارا کریں گے کہ خدا تعالیٰ کا نام اس پر نہ ہو.اور ان کا نام ہو.اس نے کہا کہ نہیں صاحب! اس درخت پر خدا کا تو آپ ذکر ہی نہ کریں.چند روز کے بعد دریا کا ایسا سیلاب آیا کہ اس باغ کا نام و نشان تک باقی نہ رہا.میں نے اس سے کہا کہ وہ تو سب کا سب خدا تعالیٰ ہی لے گیا.چپ ہو گیا اور کچھ جواب نہ دیا.وطن یعنی بھیرہ وغیرہ (۸) فروری ۱۹۱۰ء) بھیرہ میں جب میری مخالفت لوگوں نے کی تو دروازوں پر لوگ بیٹھتے تھے اور میرے پاس آنے والوں کو روکتے تھے اور یہی میری شہرت کا باعث ہوا.(۷ار مئی ۱۹۰۹ ء بعد نماز ظهر) بھیرہ میں دو آدمی آپس میں بڑے دوست تھے.ایک مر گیا.اس کے وارث موجود تھے.دوسرا خود موجود تھا.ان میں آپس میں نزاع ہوا.ایک نے مجھ کو لکھا کہ حاکم سے (جو ہندو تھا) میری سفارش کر دو.میں نے ان کو جواب میں بہت نصیحت لکھی اور یہ آیت لکھی اَلَمْ تَرَ إلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ أمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ إِنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَ قَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِه وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلُّهُمْ ضَلَا لَا بَعِيدًا.میرا وہ خط کہیں فریق مخالف کے ہاتھ آگیا.اس نے اس حاکم سے (جو کھتری یعنی ہندو تھا) میری چغلی کھائی کہ آپ کو نور الدین نے طاغوت لکھا ہے.اس نے کہا کہ سچ لکھا ہے.تم یہ بتاؤ کہ کیا تمہارے عقیدہ میں ہم ایسے نہیں.چغل خور لاجواب رہ گیا.

Page 233

۲۲۷ (۱۸) مئی ۱۹۰۹ ء بعد نماز ظهر) ایک امیر شخص نے جو راجہ کہلاتا تھا.میری ضیافت کی اور بڑی ہی خاطر تواضع سے پیش آیا.باتوں باتوں میں اس کو معلوم ہوا کہ یہ شخص بھیرہ کا رہنے والا ہے.بھیرہ کا نام سنتے ہی اس کا چہرہ متغیر ہو گیا.یہ ۱۸۶۰ء کے قریب کی بات ہے.اس نے کہا کہ بھیرہ کا ایک اکسٹرا اسٹنٹ تھا.اس نے ہم پر بڑے ہی ظلم کئے.اس نے نہایت ہی طیش اور رنج اور حسرت کے ساتھ اس کے مظالم کا بیان کیا اور کہا کہ ہم قیامت کے دن اس سے بدلہ لیں گے.میں نے کہا کہ وہ تو ہجرت کرکے مدینہ طیبہ کو چلا گیا.یہ سنتے ہی اس نے کہا کہ ہم نے معاف کیا.اس کی ہجرت کی خبر نے ایسا اثر کیا کہ وہ شخص آبدیدہ ہو گیا.دیکھو خد اتعالیٰ خود ہی اپنے بندوں کے حق العباد کو اس طرح معاف کر دیتا ہے.(۱۲۰ مئی ۱۹۰۹ ء در درس حدیث) حکیم فضل الدین صاحب کے والد نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ ہماری مسجد میں جس قدر مولوی آتے ہیں ہم ان کو علیحدہ لے جا کر سمجھا دیتے ہیں.وہ انہیں بتائے ہوئے مسائل پر وعظ کرتے ہیں.میں نے کہا کہ پھر ہم کو تو تم اچھا جانتے ہو گے ؟ کہا کہ تم تو ہمارا کہنا نہیں مانتے وہ کہنا تو مان لیتے ہیں.(۲۲) جون ۱۹۰۹ء) ایک مرتبہ پنڈ دادنخاں میں کسی مقام پر یعنی ایک گاؤں میں میرا گزر ہوا.وہاں ایک شخص نے میری بڑی خاطر مدارات کی.معلوم ہوا کہ وہ میرے باپ کا بڑا معتقد تھا.بزرگوں کی اولاد سمجھ کر خدمت گزاری اور خاطر داری سے پیش آیا.چلتی دفعہ اس نے کہا کہ کوئی تعویذ لکھ دو یا کوئی نصیحت کرد یا کوئی بات بتاؤ.اس وقت مجھ کو اس آیت کا خیال آیا.لا أقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللهِ وَلَا اَعْلَمُ...(سورہ انعام).اور مجھ کو بڑا ہی

Page 234

۲۲۸ سرور حاصل ہوا.(۷ار مارچ ۱۹۱۲ء قبل نماز ظهر) بھیرہ کے قریب ایک گاؤں میں میاں حید ر نام ایک بھنگ گھونٹنے اور پینے والے فقیر رہتے تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ امام مہدی کی کیا شناخت ہوگی ؟ انہوں نے کہا کہ امام صاحب جب آئیں گے تو ان کی سواری کے آگے سوالاکھ فقیر مطہریں ہاتھ میں لئے ہوئے دھمال ڈالتے ہوئے چلیں گے.میں نے کہا کہ یہ مولوی لوگ تو نہ مانیں گے.کہا کہ پھر تو کچھ جھگڑا ہی معلوم ہوتا ہے.(یکم جون ۱۹۰۹ء) ہمارے شہر میں ایک لڑکا ہے.طوائف قوم کا بڑا متین معلوم ہوتا ہے اور بڑی شرم کے ساتھ بات کرتا ہے.لیکن اس میں حیا کا مادہ نہیں.ایک شخص نے اس سے پوچھا کہ آپ کے باپ کا نام کیا ہے ؟ اس نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر دکھا دیا کہ یہ نام ہے.(یکم جون ۱۹۰۹ء) ایک مرتبہ میری مخالفت بھیرہ میں اس قدر بڑھی کہ لوگ میرے قتل کے منصوبے کیا کرتے تھے.یہاں تک زور ہوا کہ ایک شخص میرا دودھ شریک بھائی تھا.اس نے میرے دشمنوں سے کہا کہ میں نور الدین کے چھری مار کر اس کا کام تمام کردوں گا.میں نے جب سنا تو میں ایک دن رات کو نماز عشاء کے بعد اس کے گھر چلا گیا.اس کی ماں کا چونکہ میں نے دودھ پیا تھا اس لئے وہ مجھ سے پر وہ تو کرتی ہی نہ تھی.میں وہاں جا کر لیٹ گیا اور خراٹوں تک بھی نوبت پہنچادی.سب نے سمجھا کہ یہ سو گیا ہے.میرے دل میں یہ خیال اور شوق کہ دیکھوں یہ کس طرح چھری مارے گا یہاں تک کہ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو اس کی ماں نے مجھے

Page 235

۲۲۹ کو جگایا کہ بیٹا اب تم اپنے گھر جاؤ.میں نے کہا کہ میں ہیں سو رہوں گا کیونکہ آدھی رات تو گزر ہی گئی ہے.اس نے کہا کہ نہیں تم اپنے گھر ہی جا کر سوؤ.میں نے کہا کہ اچھا میں تنہانہ جاؤں گا.اس کو (دودھ شریک بھائی کو میرے ساتھ بھیجو کہ مجھ کو مکان تک پہنچا آئے.وہ میرے ساتھ ہو لیا.میں نے دانستہ اس کو پیچھے رکھا اور خود آگے آگے چلا.لیکن اس نے کچھ نہیں کیا.پھر جب میں اپنے گھر کے دروازہ پر پہنچاتو میں دروازہ کی سیڑھیوں پر اوپر کھڑے ہو کر اس کو نیچے کی سیڑھی پر کھڑا کر کے باتیں کرنے لگا کہ اب یہ اطمینان سے چھری بھونک دیگا لیکن وہ تو اس قدر گھبرایا کہ اس نے مجھ سے کہا کہ اب اجازت دیجئے.میں نے کہا اچھا.(۱۰ر جون ۱۹۰۹ء) جب میں پنڈ دادنخان میں تھا تو وہاں سکندر کی بیوی کابت نکلا تھا.اس کو ایک انگریز خرید کرلے گیا تھا.(۱۴ جون ۱۹۰۹ء) ہمارے شہر میں ایک عالم شخص مسجد میں رہتے تھے.محمد اشرف ان کا نام تھا.مسجد کے اندر ہی کے حصہ میں ان کا سب سامان- آٹا.صندوق - گھڑے.کتابیں وغیرہ سب کچھ رہتا تھا.وہ جب کہیں جاتے تو سار ا سامان ساتھ ہوتا.بازار میں جب جاتے تو آٹے کے گھڑے اور کتابیں غرض کہ تمام سامان سب شاگر داٹھائے ہوئے ہوتے.عجیب قسم کی ان کی سواری نکلتی تھی.وہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر بازار میں کوئی فقیر آنے کا سوال کرے تو کیا گھر سے آٹا لینے جائیں.اگر کوئی فتویٰ لکھوائے تو قلم دوات کے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں.وہیں قلم دوات لیا اور فتویٰ لکھ دیا.ایک مرتبہ ایک مولوی ان کے پاس آیا اور کہا کہ مولوی صاحب آپ راگ کو برا جانتے ہیں اور میں راگ کو جائز بلکہ ضروری ثابت کرتا ہوں.راگ کے ذریعہ سے خداشناسی میسر ہوتی ہے.وہ اس وقت شہر سے باہر کسی جگہ گئے ہوئے

Page 236

۲۳۰ تھے.وہیں یہ گفتگو ہوئی تھی.اسی وقت کھڑے ہو گئے اور اس مولوی کو ہمراہ لے کر چل کھڑے ہوئے.شہر میں آئے اور ایک رنڈی کے مکان میں مع تمام لاؤ لشکر اور سامان اور مع اس مولوی کے چلے گئے.وہاں وہ رنڈی گا رہی تھی.یہ سب جاکر خاموش کھڑے ہو گئے.رنڈی نے جب اس طرح ان کو کھڑے ہوئے دیکھا تو وہ اپنا گانا ختم کر کے کھڑی ہو گئی اور ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ تشریف لائیے اور کرم فرمائیے.انہوں نے فرمایا کہ واہ صاحب! آپ نے گانا کیوں چھوڑ دیا ؟ پھر کہا کہ ان مولوی صاحب کو تو خد اتعالیٰ مل ہی گیا ہو گا لیکن ان کی بیوی اور بیٹی محروم ہیں ان کو بھی تم بلا کر تعلیم دو تاکہ خداشناسی سے وہ بھی محروم نہ رہیں.(۲۹) مئی ۱۹۱۰ء) میں اس بات سے ہمیشہ متعجب رہا کرتا تھا کہ عرب کے لوگ تور حمن کو جانتے تھے پھر وہ کیوں چڑتے اور انکار کرتے تھے.ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ حکیم فضل الدین کی مسجد میں آمین بالجہر پر لوگوں میں جھگڑا ہوا.میں نے جا کر پوچھا تو وہاں کے لوگ کہنے لگے کہ ہم آئین کو بہت اچھا سمجھتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کبھی آمین بالجہر کہتے نہیں.اس وقت میرا وہ تعجب دور ہو گیا اور بات سمجھ میں آگئی.(۱۳/ نومبر ۱۹۱۰ء) میں ایک مرتبہ ایک گلی میں جاتا تھا.ایک فقیر نے مجھ سے ایک پیسہ مانگا.میں نے کہا سائیں ! تم تو سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہو اور کہتے ہو کہ ہم سب سے آزاد ہیں.پھر اس قدر محتاج! میں تو دنیا دار ہوں یعنی میرے بیوی بچے بھی ہیں.مجھ سے تم کو التجا کرنی پڑی.ذرا یہ بتا دو کہ آزادی کیسی اور کیا چیز ہے؟ اس نے اپنے مرشد کو ایک بڑی گندی گالی دی کہ اس نے مجھ کو پوست پینے کی عادت ڈالی اور کہا کہ لاؤ پوست پینے کے لئے پیسہ دلواؤ.

Page 237

۲۳۱ (۲۳) اپریل ۱۹۱۲ء) ہمارے شہر میں ایک کنچنی رہتی تھی.روزانہ میرے پاس آتی اور کہتی کہ تو بہ کیا ہوتی ہے؟ میں بہت تنگ ہوا.کچھ عرصہ وہ غیر حاضر اور غائب رہی.پھر ایک روز خوب بن ٹھن کر آئی اور کہنے لگی کہ تو بہ سے تو بھوکے مرنے لگے تھے.ہولیوں میں فلاں مقام پر گئے تو اتنے روپے کما لائے.مجھ کو سن کر بڑا جوش آیا.میں نے کہا.اٹھ جا.یہ ہمارا امکان ہے.تجھ کو یہ روپیہ کھانا بھی نصیب نہ ہو گا اور توبہ بھی نصیب نہ ہو گی.وہ اٹھ کر چلی گئی.جاتے ہی اس پر فالج گرا.اس کا ایک رشتہ دار دوڑتا ہوا میرے پاس آیا.میں نے کہا.وہ اب نہیں بچے گی.اس نے کہا خیر وہ نہ بچے لیکن روپیہ جو وہ لائی ہے وہ ہم کو معلوم نہیں اس نے کہاں رکھا ہے؟ اتنا ہو کہ وہ روپیہ تو بتادے کیونکہ ہمارے گھر جب کوئی مرتا ہے تو پانچ سو روپیہ برادری کی روٹی میں خرچ ہوتا ہے.میں نے کہا وہ روپیہ بھی نہ ملے گا.وہ سخت حیران ہوا.آخر اس کے بہت اصرار پر میں نے کہا اچھا چلو.جا کر دیکھا کہ بالکل بے ہوش پڑی ہے.ایک آدمی نے بہت زور سے آوازیں دیں لیکن کچھ نہ بولی.میں نے آس پاس کی تمام بد کار عورتوں کو بلوایا وہ آگئیں.میں نے کہا کہ اس نے توبہ کی حقارت کی ہے.دیکھو اب یہ بغیر تو بہ مرتی ہے.تم بتاؤ تمہارا کیا فشا ہے.ان میں جو سب سے زیادہ بد کار تھی.اول اسی نے کہا کہ میں تو تو بہ کرتی ہوں.میں نے کہا تم اس کے مرنے پر کھانا بھی برادری کو نہ کھلاؤ.کیونکہ اگر بد نامی بھی ہوگی تو کس قوم میں؟ ان سب کی سمجھ میں آگیا اور کوئی کھانا وغیرہ بھی برادری کو نہ دیا.(۲۵) مئی ۱۹۰۹ء) بھیرہ میں میرے ایک دوست تھے میں نے ان سے ایک کتاب چند مرتبہ مستعار مانگی.انہوں نے دینے کا وعدہ کیا.پھر ایک روز میں نے ان سے بازار میں کہا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا.ان کی زبان سے جواب صاف سن کر میں نے بلند آواز سے انا لله وانا اليه راجعون پڑھا.چند ہی روز کے بعد پشاور سے ایک بڑا پلندہ بذریعہ ڈاک آیا.جس

Page 238

میں بھیجنے والے کا نام نہ تھا.اس میں وہی کتاب.اس کتاب کی شرح اور اس فن کی اور کتابیں بھی تھیں.میں نے اس قسم کے سب آدمیوں سے اس کا تذکرہ کیا لیکن کچھ پتہ نہ چلا کہ یہ کتابیں کس نے بھجوائیں اور کیوں بھجوائیں.میں نے ایک مرتبہ ایک امیر آدمی کے سامنے بھی تذکرہ کیا.وہ میرا ہم خیال نہ تھا.اس نے کہا گو میں آپ کا ہم خیال نہیں ہوں لیکن آپ کی وہ انا للہ مجھ کو کھا گئی.اس کتاب کے پشاور ہونے کا مجھ کو علم تھا.میں نے اپنے آدمی کو لکھا کہ خرید کر آپ کے نام روانہ کردے.(۴ / جون ۱۹۰۹ء) میں ایک شہر میں مدرس تھا.میرے پاس ایک دوست آکر ٹھہرے.اس شہر میں پانی دریا سے لاتے ہیں کنوؤں کا رواج نہیں.دریا پر جانے کا راستہ مدرسہ کے سامنے کو تھا.دریا سے کچھ ہندو عورتیں پانی لا رہی تھیں.صاف ستھری ساڑھیاں باندھے خوبصورت لباس پہنے اور پیتل کی چمکدار گاگریں سروں پر رکھے آرہی تھیں.ان کے پیچھے چند مسلمان عورتیں نیلے نیلے میلے میلے کپڑے پہنے اور مٹی کے کثیف گھڑے سروں پر رکھے آ رہی تھیں.میرے وہ دوست باہر کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے.انہوں نے مجھ کو آواز دی کہ جلدی باہر آؤ.میں گھبرا کر جلدی سے باہر آیا.تو مجھ سے کہا کہ کیا یہ پیچھے جانے والی ان اگلی جانے والیوں سے یہ کہہ سکتی ہیں کہ تم مسلمان ہو جاؤ.(۲۹ / دسمبر ۱۹۰۶ء) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لڑائیوں میں اپنی بیوی عائشہ صدیقہ اور اپنی بیٹی فاطمہ کو بھی لے جاتے تھے.کسی تاریخ میں نہیں لکھا کہ یہ دونوں پکڑی گئی ہوں.میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی شکست نہیں کھائی.میں ایسی کہانیوں کو جھوٹ سمجھتا ہوں کہ نبی کریم نے شکست بھی کھائی.میں کسی رسول کے قتل کا

Page 239

۲۳۳ قائل نہیں.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے.اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا غرض کہ میرا اعتقاد نہیں کہ کسی رسول کو شکست ہوئی ہو.چونکہ مجھ کو رسولوں سے محبت ہے اس لئے میں نے اپنی عمر میں کبھی شکست نہیں کھائی.بہت آدمیوں نے میرے قتل کے منصوبے کئے مگر ہمیشہ ناکام رہے.(۱۴ مئی ۱۹۰۹ ء قبل از نماز عشاء در مسجد مبارک) پنڈ دادنخاں اور میانی کے درمیان ایک ندی ہے.میانی میں بھی ہمارا ایک گھر تھا.پنڈ دادنخان میں میں مدرس تھا.میانی سے پنڈ دادنخاں آتے ہوئے دریا پر میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے دریا میں داخل ہوتے وقت اپنا تہ بند سر پر کھول کر رکھ لیا اور نگا ہو کر چلنے لگا.ایک دوسرے شخص نے اس کو بڑی ہی لعنت ملامت کی اور نہایت سخت ست کہا کہ اس طرح ننگا ہو کر کیوں دریا میں جاتا ہے.پہلے شخص کے پیچھے وہ دوسرا شخص بھی دریا میں داخل ہوا.جوں جوں آگے بڑھتا گیا پانی گرا آتا گیا اور وہ اپنا تہ بند اوپر کو اٹھا تا گیا.جب اس نے دیکھا کہ پانی تو شاید ناف تک آجائے گا تو اس نے بھی اپنا تہ بند کھول کر سر پر رکھ لیا اور پہلے شخص کی طرح بالکل ننگا ہو گیا.اس وقت میری سمجھ میں یہ نکتہ آیا کہ جو شخص کسی دوسرے کی تحقیر کرتا ہے.وہ خود بھی اسی قسم کی ذلت اٹھاتا ہے.اگر وہ دوسرا شخص کپڑے کے بھیگنے کی پروا نہ کرتا اور نگا نہ ہو تا تو کوئی بڑے نقصان کی بات نہ تھی لیکن جس بات کے لئے اس نے دوسرے کی تحقیر کی تھی.اسی کا مرتکب اس کو بھی ہو نا پڑا.(۲۲ جولائی ۱۹۰۷ ء بعد نماز عصر) میں جب پنڈ دادنخان میں مدرس تھا اس وقت میں نے ایک فوت شدہ شخص کو جو میرا ہم وطن تھا رویا میں دیکھا اور معلوم ہوا کہ یہ بہت بیمار ہے.میں نے کہا کہ تم تو بہت بیمار ہو اور میں نے سنا ہے کہ جو مرجاتا ہے وہ بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.اس پر اس نے اپنے ہاتھ

Page 240

۳۳۲ سے ایک لڑکی کو بازو سے پکڑ کر مجھے دکھایا کہ میں اس لڑکی پر دنیا میں عاشق تھا اس واسطے اب میں بیمار اور مبتلائے عذاب ہوں.جب میں اپنے شہر میں آیا تو اس کے ایک دوست سے میں نے پوچھا کہ فلاں شخص جس عورت کے عشق میں فوت ہوا آپ مجھے اس عورت کا پتہ بتا سکتے ہیں ؟ اس نے کہا کہ آپ کو یہ بات کس نے بنائی؟ میں نے کہا کہ بھلا عشق کہیں مخفی رہ سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ جب میرے اس دوست کا انتقال ہوا ہے تو اس کا سر میری ران پر تھا اور میں نے اس سے اس وقت دریافہ کیا تھا.کہ اس عشق کا حال تم نے کسی کو بتایا ہے ؟ تو اس نے کہا تھا کہ اس کا حال یا تو اس عورت کو معلوم ہے یا تم کو یا مجھ کو یا خد اتعالیٰ کو اور کسی چوتھے انسان کو معلوم نہیں.مرتے ہوئے جب اس نے یہ کہا تو آپ کو کہاں سے خبر ہوئی؟ غرض کہ اس عورت کا نام اس نے مجھ کو نہ بتایا.ہمارے شہر میں ایک محلہ ہے وہاں کی عورتیں کسی قدرخد و خال میں اچھی ہوتی ہیں اور ان لوگوں میں پردہ کا رواج بھی نہیں گو مسلمان ہیں.اس محلہ کی عورتیں ایک روز کسی شادی میں جاتی تھیں.میں بھی اتفاق سے اس طرف سے گزرا.ان کو دیکھ کر مجھے کو یقین ہوا کہ اس وقت اس محلہ کی سب عورتیں ہیں.میں نے ان سے کہا کہ ”مائیو ا دیوار کے ساتھ مل کر ایک صف تو بناؤ میرے بزرگوں کی وجاہت ایسی تھی کہ انہوں نے میری بات مان لی اور سڑک کے کنارے سب ایک صف میں کھڑی ہو گئیں.ان میں بعینہ وہی لڑکی جو میں نے رویا میں دیکھی تھی نظر آئی جو ابھی کنواری ہی تھی.میں نے ان سے کہا کہ اس کو میرے پاس بھیج دو.چنانچہ بعض دوسری عورتوں نے اس کو دھکیل کر میری طرف بھیج دیا.جب میرے قریب آئی تو میں نے اس سے یوچھا کہ تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے اپنا نام مجھ کو بتا دیا.اس کا نام دریافت کر کے میں نے ان سے کہا کہ بس اب چلی جاؤ.کچھ دنوں کے بعد اس متوفی کا وہی دوست مجھ کو ملا میں نے اس سے کہا کہ تم نے تو ہمیں اس عورت کا نام نہ بتایا.مگر ہم کو معلوم ہو گیا.وہ فلاں محلہ کی لڑکی ہے اور اس کا نام یہ ہے.وہ سن کر ہکا بکا سا رہ گیا اور کہا کہ ہاں یہی نام ہے مگر آپ کو کسی طرح معلوم ہوا.میں نے اس سے اپنے رویا کا ذکر نہ کیا اور نہ مناسب تھا.

Page 241

۲۳۵ ایک اور رویا میں نے پنڈ دادنخان میں دیکھا.وہاں ایک سررشتہ دار تھا.جو اپنی فضولیوں میں بڑا مشہور تھا.میں نے اس کو دیکھا کہ وہ بہشت میں ایک بڑی اونچی اٹاری پر ہے.جب میں نے اس کو اور اس نے مجھ کو دیکھا تو میں نے اس سے کہا کہ تم تو بڑے سیہ کار تھے تم کو بہشت میں اور پھر غرفات میں کیونکر موقع ملا.اس نے جواب میں کہا کہ ”میری غریب الوطنی پر جناب الہی نے رحم فرمایا " میں نے بیداری کے بعد اس کی بہت جستجو کی مگر کہیں پتہ نہ لگا.یہی معلوم ہوا کہ عرصہ سے مفقود الخبر ہے.دو برس کے بعد ایک میری رشتہ دار نے مجھ کو بتایا کہ فلاں آدمی بمبئی کے قریب ایک مقام گلیانی میں مرگیا ہے وہ مکہ معظمہ کو پیادہ پا جاتا تھا.(۱۲ر جون ۱۹۱۲ء) میرا ایک بھتیجا تھا.اس کا نام شہسوار تھا.میں اس کو ہمراہ لے کر جموں کے ارادہ سے گھر سے نکلا.میرے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا.میں نے ارادہ کیا کہ بیوی سے کچھ روپیہ قرض لے لوں لیکن طبیعت نے مضائقہ کیا اور ویسے ہی چل دیا.ہم دونوں گھوڑوں پر سوار تھے.شہر سے باہر ایک آدمی نے مجھے ایک روپیہ اور کچھ بتاشے دیئے.ایک اور آدمی نے ایک اٹھنی دی.تین چار کوس چل کر سڑک کے کنارے آوان نام ایک گاؤں کے قریب پہنچے تو لڑ کے نے مجھ سے کہا کہ بتاشے ہمارے پاس ہیں.گرمی ہے.اگر آپ فرما ئیں تو میں یہاں کنوئیں پر جاکر شربت پی لوں.چنانچہ وہ لڑکا تھوڑی دور جا کر پھر واپس ہوا اور مجھ سے کہا کہ آپ بھی آجائیں.ہم دونوں اس گاؤں میں پہنچے.لڑکے نے لوٹا کھولنا چاہا.لیکن کنوئیں والے نے کہا کہ ذرا آپ ٹھہر جائیں.خیر ہم بیٹھ گئے.میں نے اس سے پوچھا کہ ٹھرانے کی وجہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ گاؤں کے نمبردار نے دور سے آپ کو دیکھا تھا.وہ دودھ لینے کے واسطے گیا ہے.تھوڑے ہی وقفہ میں نمبردار آیا اور اس نے ایک روپیہ مجھ کو نذر دیا.اس کا بیٹا کبھی میرے پاس علاج کے واسطے آیا تھا اور اچھا ہو گیا تھا.خیر ہم نے دودھ پیا.جب اٹھنے لگے تو

Page 242

اس نمبردار نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہر جائیں.غرض تھوڑی دیر میں وہاں کی مسجد کاملا آیا اور اس نے ایک روپیہ دیا.چونکہ وہ غریب حالت میں تھا.میں نے اس سے روپیہ لینا پسند نہ کیا.اس عرصہ میں گاؤں کے اور بھی بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے.جب میں نے روپیہ واپس کرنا چاہا تو سب نے یک زبان ہو کر کہا یہ روپیہ تو ضرور لے لیں.آپ ہر گز واپس نہ کریں.میں نے سبب پوچھا تو کہا کہ یہ شخص بہت دنوں سے بیمار تھا اور اس نے آپ سے بذریعہ ڈاک جموں سے دوائی منگوائی تھی.یہ اس کے استعمال سے اچھا ہو گیا.ہم سب کہتے تھے کہ تو نے دو امفت منگوائی اور کوئی شکریہ بھی ادا نہیں کیا.اس نے کہا کہ اگر نور دین یہاں ہمارے گاؤں میں آئے تو یہ دے دوں گا.یہ کبھی روپیہ دینے والا نہیں.آج اتفاق سے ہی یہ قابو چڑھا ہے.اب آپ اس سے روپیہ لے ہی لیں.عجیب بات ہے کہ میں اس سے پیشتر کبھی اس گاؤں میں نہیں گیا تھا (حالانکہ ہمارے شہر سے صرف ساڑھے چار میل کے فاصلہ پر ہو گا) اور نہ اس کے بعد کبھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا.اب میرے پاس ساڑھے تین روپیہ ہو گئے.غرض ہم ریل کے کنارے پر پہنچے.اسٹیشن پر پہنچ کر میرے دل میں خیال آیا کہ اس لڑکے کو لاہور دکھادیں.میں نے اسٹیشن پر دیکھا کہ لاہور تک کا دو آدمیوں کا تھرڈ کلاس کا کرایہ تین روپیہ ہے.ہم نے دو ٹکٹ تھرڈ کلاس کے لئے اور لاہور پہنچ گئے.آٹھ آنے ہمارے پاس باقی تھے.اسٹیشن پر اترے.ایک گاڑی بان نے کہا کہ سوار ہو جاؤ.ہم نے کہا.انار کلی میں شیخ رحیم بخش کی کوٹھی پر اترنا ہے کیا لو گے ؟ اس نے کہا کہ ایک روپیہ سے کم نہ لوں گا.ہم نے کہا کہ ہمارے پاس تو ایک اٹھنی ہے.چاہو تو لے لو.اس نے ہنس کر اٹھنی لے لی اور شیخ صاحب کے مکان پر ہم کو پہنچا دیا.کچھ دن لاہور رہنے کے بعد جب چلنے لگے تو شیخ صاحب نے اپنی گاڑی میرے لئے منگوادی اور آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ ہمارے نوکر کو آپ انعام نہ دیں.اسٹیشن پر مجھے یقین تھا کہ میں ابھی کی گاڑی میں جاؤں گا.پیسہ تو پاس ایک بھی نہ تھا.لیکن یقین ایسا کامل تھا کہ اس میں ذرا بھی تزلزل نہ تھا.میرے کھڑے کھڑے ٹکٹ تقسیم ہونے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بند ہو گئے.ٹرین بھی آئی.مسافر

Page 243

۲۳۷ بھی سوار ہو گئے.اندر جانے کا دروازہ بھی بند کیا گیا.انجن نے روانگی کی سیٹی دی.اس وقت بھی مجھ کو یقین تھا کہ اس گاڑی پر جاؤں گا.جب بالکل گاڑی چلنے ہی کو تھی تو ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نور دین نور دین پکارتا ہوا دور تک چلا گیا.اور گاڑی میں کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ وہ چل کر پھر رک گئی.وہ شخص پھر واپس آیا اور مجھے دیکھ لیا.دیکھتے ہی دوڑتا ہوا اسٹیشن کے کمرہ میں گیا وہاں سے تین ٹکٹ لایا.ایک اپنا اور دو ہمارے.ساتھ ہی ایک سپاہی بھی لایا.دروازہ کھلوایا اور ہم تینوں سوار ہوئے.ہمارے سوار ہوتے ہی ٹرین چل دی.اس نے کہا کہ مجھ کو آپ سے ایک نسخہ لکھوانا ہے.میں نے نسخہ لکھ دیا اور پھر ٹکٹوں کو دیکھنے لگا کہ یہ کہاں تک کے ہیں اور کیا کرایہ دیا گیا ہے.وہ خود ہی فور ابولا کہ میں ان ٹکٹوں کے دام ہرگز نہ لوں گا.میں بھی خاموش ہو گیا.ٹکٹ وہیں تک کے تھے جہاں ہم کو جانا تھا.یعنی وزیر آباد - وہ تو نسخہ لکھوا کر شاہدرہ اتر گیا.ہم وزیر آباد پہنچے میں نے لڑکے سے کہا کہ بیگ لے کر تم شہر میں سے ہوتے ہوئے سیدھے شہر کے دوسری طرف پہنچو.پیچھے پیچھے میں بھی آتا ہوں.وزیر آباد سے جموں تک ریل نہ تھی.راستہ میں ایک شخص ملا.اس نے کہا کہ میری ماں بیمار ہے.آپ اس کو دیکھ لیں.میں نے کہا کہ یہ کوئی علاج کا موقع نہیں.مجھ کو جانے کی جلدی ہے.اس نے کہا کہ میرا بھائی جو میرے ساتھ ہے یہ آگے اڈے پر جاتا ہے اور یکہ کرایہ کرتا ہے.اتنے میں آپ میری ماں کو دیکھ لیں.آپ کو اڈے پر پہنچ کریکہ تیار ملے گا.چنانچہ میں نے اس کی ماں کو دیکھا اور نسخہ لکھا.جب میں وہاں سے چلا تو اس شخص نے چلتے چلتے میری جیب میں کچھ روپے ڈال دئے جن کو میں نے اڈے پر پہنچنے سے پہلے ہی پہلے جیب میں ہاتھ ڈال کر گن لیا معلوم ہوا کہ دس روپیہ ہیں.اڈے پر پہنچے تو اس کا بھائی اور یکہ والا آپس میں جھگڑ رہے تھے.یکہ والا کہتا تھا کہ دس روپیہ لوں گا اور وہ کہتا تھا کہ کم.میں نے کہا جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں.دس روپیہ کرایہ ٹھیک ہے.

Page 244

۲۳۸ لکھنو - رامپور وغیرہ (۲ / جون ۱۹۰۹ء) لکھنو میں میرے ایک استاد تھے.انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ بھلا یہ تو بتاؤ عبد الکریم یا کریم بخش تمہارے نزدیک کیسے نام ہیں.میں نے کہا کہ ایسے سوال کا جواب جو آپ نے کیا ہو.میں کیا دے سکتا ہوں.کہا کہ یہاں لکھنو میں ایک ننگ دھڑنگ فقیر ہے.اس کا نام کریم جی ہے.جو عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ بیٹا ہم کو کریم جی نے دیا ہے.اس کا نام عبد الکریم یا کریم بخش رکھتی ہیں.(۳) اگست ۱۹۰۸ء) ایک مرتبہ لکھنو میں ایک مجتہد کے پاس ایک شیعہ آیا.اس نے ان سے پوچھا کہ کربلا اور مکہ کے حج میں کیا فرق ہے.مجتہد نے کہا کہ مکہ کے حج میں تو بہت سے شرائط ہیں اور کربلا کے حج میں کوئی شرط نہیں.وہ سائل پاؤں چوم کر خوش ہو کر چلا گیا.جب وہ چلا گیا تو مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھو میں تو کربلا کے حج کا قائل نہیں ہوں.اسی وجہ سے تو میں نے کہا کہ کربلا کے حج میں کوئی شرط نہیں کیونکہ قرآن شریف میں اس کا ذکر نہیں ہے.(۲۷ دسمبر ۱۹۰۹ء) میں نے لکھنو میں سنا کہ حجام کو خلیفہ کہتے ہیں وجہ اس کی یہ کہ خلفائے راشدین سے ان کو عداوت ہے.(یکم جون ۱۹۰۹ء) ہمارے ایک طبیب استاد تھے.ان کے یہاں ایک پہلوان آیا.اس کو ہیضہ ہوا تھا.

Page 245

۲۳۹ انہوں نے اس سے یہ نہ کہا کہ تم کو ہیضہ ہے.کہا کہ میاں تمہارے معدہ میں فتور و بد ہضمی ہے.اس نے یہ سن کر ایک مگدر (نال) جو سامنے پڑا ہوا تھا.اٹھانے کے لئے جھک کر کہا کہ بد ہضمی تو ہمارے پاس بھی نہیں پھٹک سکتی.لو دو چار ہاتھ اس کے ابھی نکالتا ہوں.یہ کہہ کر ایک ہاتھ سے اس کو اٹھا لیا.ہاتھ اوپر کو سیدھا کیا اور فور اسی حالت میں دم نکل گیا.(۱۹ اکتوبر ۱۹۱۲ء) رامپور میں ہمارے استاد حکیم صاحب کے یہاں بڑی بڑی سینیوں میں جلیبیاں آئیں.انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم یہ بتاؤ کہ ان جلیبیوں کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ یہ پیران پیر صاحب کی گیارھویں کی ہیں.میں نے کہا آپ عالم ہیں.مجھ سے کیا دریافت فرماتے ہیں.انہوں نے کہا ہمارے لئے تو ان کا کھانا جائز ہے.میں نے کہا مَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ کا آپ کو خیال نہیں ؟ کہا کہ تم کسی طالب علم کو جو گیلانی سید ہو بھیج کر دیکھو اور وہ وہاں جا کر اپنا گیلانی سید ہونا بیان کرے اور کچھ مانگے.دھکوں اور جوتیوں کے سوا اور کچھ نہ ملے گا.ہمارے یہاں اس قدر آئی ہیں.فلاں رئیس کے یہاں اس قدر.فلاں اہلکار کے یہاں اس قدر گئی ہوں گی.یہ سب ریا کاری اور نمود کے لئے کرتے ہیں.(۱ار اگست ۱۹۰۸ء) میں رامپور میں جن حکیم صاحب سے طب پڑھتا تھاوہ بڑے آدمی تھے.ان کے یہاں بہت سے مہمان لکھنو و غیرہ کے پڑے رہتے تھے.وہیں مرزا رجب علی بیگ سرور مصنف فسانہ عجائب بھی جو بہت بوڑھے آدمی تھے رہتے تھے.میں نے ایک دن ان سے کہا کہ مرزا صاحب ! مجھے کو اپنی کتاب فسانہ عجائب پڑھا دو.میں اس کتاب کو آپ سے پڑھ کر اس کی سند لینا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا بہت اچھا.میں نے ایک دو صفحہ ہی پڑھا تھا کہ یہ فقرہ آیا کہ ادھر مولوی ظهور الله و مولوی محمد مبین وغیرہ اور اُدھر مولوی تقی و میر محمد مجتد وغیرہ " میں

Page 246

۴۴۰ نے اس فقرہ پر پہنچ کر ان سے کہا کہ مرزا صاحب یہ بتاؤ کہ تم سنی کیسے ہوئے.نہایت حیران اور متعجب ہو کر کہنے لگے کہ تم نے یہ کیسے معلوم کیا کہ میں سنی ہوں؟ میں نے کہا کہ آپ کو اس سے کیا؟ آپ ہیں تو سنی.یہ بتادیجئے کس طرح سنی ہوئے.انہوں نے کہا تم اول یہ بتاؤ میرا سنی ہونا کس طرح معلوم کیا ؟ میں نے کہا ادھر کا لفظ اپنی طرف اشارہ ہو تا ہے.آپ نے ادھر کے ساتھ سنی مولویوں کے نام لکھے ہیں اور جب لکھا ہے اُدھر تو ادھر کے ساتھ شیعوں کے نام لکھے ہیں.دلیل اس بات کی ہے کہ تم سنی ہو.سن کر ہنس پڑے اور کہا کہ لو میرے سنی ہونے کی داستان سنو.میں جب لکھنو سے دلّی آنے لگا تو لکھنو کے بادشاہ نے مجھ سے کہا کہ تم دتی جاتے ہو.وہاں شاہ عبد العزیز صاحب سے ضرور مل کر آنا.میں دتی آیا اور شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.لیکن یہ سوچ کر کہ یہ عربی کے بہت بڑے عالم ہیں اور میں عربی جانتا نہیں.اردو میں عربی الفاظ بھی بکثرت استعمال ہوتے ہیں.ان کے سامنے اگر عربی کا کوئی لفظ زبان سے غلط نکلا تو یہ بہت ہی حقیر سمجھیں گے کہ یہ شاعر کیسا ہے کہ الفاظ بھی صحیح نہیں بول سکتا.میں خاموش ہی بیٹھا رہا اور خاموش ہی اٹھ کر چلا آیا.دوسرے دن کچھ عبارت یاد کی کہ اس طرح گفتگو کروں گا اور الفاظ بہت سوچ سمجھ کر اور تحقیق کر کے صحیح صحیح یاد کر لئے.لیکن جب وہاں گیا تو پھر یہ خیال ہوا کہ اگر گفتگو بڑھی اور مجھ کو اور کچھ باتیں کرنی پڑیں تو بڑی مشکل ہوگی.اسی خیال سے پھر خاموش رہا.غرض تین روز تک اسی طرح جاتا اور خاموش ہی اٹھ کر واپس آتا رہا.یہ بھی خیال تھا کہ جب لکھنو جاؤں گا تو بادشاہ دریافت کریں گے کہ دلی میں شاہ عبد العزیز صاحب سے مل کر آئے.کیا باتیں ہوئیں؟ تو کیا جواب دوں گا؟ اس وجہ سے روز جاتا بھی تھا.ایک دن شاہ صاحب نے خود ہی مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا اور کہا کہ میاں تم کہاں سے آئے ہو ؟ کیسے آئے ہو ؟ میں نے کہا کہ میں لکھنو رہتا ہوں.انہوں نے فرمایا کہ لکھنو میں کہاں؟ میں نے کہا کہ پکے پل پر.یہ سن کر انہوں نے فرمایا کہ ہاں تو تم چاند پور کے رہنے والے ہو.میں نے کہا کہ نہیں میں لکھنو رہتا ہوں.انہوں نے فرمایا کہ ہاں لکھنو میں کس مقام پر.میں نے کہا کہ پکے پل پر.کچھ سوچ کر فرمایا کہ ہاں تو تم چاند پور کے

Page 247

اسلام سلام رہنے والے ہو.میں سن کر خاموش رہا.میں نے شاہ صاحب سے عرض کیا کہ شیعہ سنی کا جھگڑا کس طرح طے ہو ؟ انہوں نے فرمایا کہ تم یہ بتاؤ کہ ہمارے اور شیعوں کے درمیان کوئی چیز بھی مابہ الاشتراک ہے میں نے کہا کہ ہاں قرآن شریف کو شیعہ بھی مانتے ہیں اور سنی بھی.انہوں نے کہا کہ بس تو اب آسان طریقہ یہ ہے کہ قرآن شریف جو مذہب تعلیم فرمائے اسی کو قبول کر لو.میں نے کہا میں تو عربی نہیں جانتا.کہا کہ ہمارے بھائی رفیع الدین نے قرآن شریف کا ترجمہ لکھا ہے تم اس ترجمہ کو پڑھو اور جو لفظ ترجمہ کا سمجھ میں نہ آئے بس اسی لفظ کے اوپر کا اصل عربی لفظ لے کر کسی سنی یا شیعہ مولوی سے اس لفظ کے معنی دریافت کرلو.لیکن صرف اسی لفظ کے معنی.آگے پیچھے کی عبارت دریافت کرنے کی ضرورت نہیں.اس طرح تمام ترجمہ خوب سمجھ کو پڑھ لو.چنانچہ میں نے وہ ترجمہ پڑھا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں تو سنی ہو گیا.میں جب واپس ہو کر لکھنو گیا تو بادشاہ نے مجھ سے دریافت کیا.میں نے قرآن شریف والی بات کا ذکر تو کیا نہیں.بادشاہ سے عرض کیا کہ کیا بتاؤں وہ چاند پور کہتے رہے اور میں لکھنؤ کہتا رہا.بادشاہ نے کہا کس طرح اتفاق ہوا مفصل بیان کرو.جب میں نے مفصل بیان کیا تو بادشاہ نے فورا حکم دیا کہ تمام پرانے کاغذات اور نوشتے بہم پہنچا کر اس بات کو تحقیق کرو کہ لکھنو کی آبادی سے پیشتر اس تمام قطعہ زمین میں جہاں اب لکھنؤ آباد ہے.کون کون سے گاؤں آباد تھے.چنانچہ بہت دنوں میں یہ بات تحقیق ہو کر بادشاہ کی خدمت میں تحقیق کا نتیجہ پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جہاں پکا پل ہے وہاں پیشتر چاند پور نام ایک آبادی تھی.بادشاہ نے بڑا تعجب کیا کہ افسوس ہم کو اپنے شہر کا جغرافیہ معلوم نہیں اور شاہ عبد العزیز دلی میں بیٹھے ہوئے ہمارے شہر کے جغرافیہ سے اس قدر واقف !! (۱۳) اگست ۱۹۰۸ء) رامپور میں میں نے ایک شخص کو دیکھا.ان کا نام نورالدین تھا.انہوں نے غیر مقلدوں کے رد میں ایک کتاب لکھی.اس کتاب میں پہلی ہی دلیل یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ

Page 248

السلام بھی حنفی مذہب رکھتے تھے.كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ.اس کتاب کی قیمت پچیس ہزار روپیہ رکھی تھی.مجھ سے کہا کہ تم ایک کتاب لے لو.کچھ اب دے دو چاہے ایک پیسہ.باقی قیامت کو دے دینا.میں نے کہا کہ میں تو قیامت کا قائل ہوں.(۲۲) فروری ۱۹۱۲ء) لکھنو میں ایک بڑا ز کی نوجوان تھا.باتوں باتوں میں میرا اس کا جھگڑا ہو گیا.ہمارے استاد نے کہا کہ اچھا تم دونوں میں سے جو والدیتِ ضَبْحًا کے معنی کرے وہ جیت گیا.(۴) جنوری ۱۹۱۲ ء بعد عصر میرے ایک بنارس کے رہنے والے محسن مولوی عبدالرشید تھے.انہوں نے میرے ساتھ بڑی نیکیاں کی ہیں.وہ مراد آباد میں رہتے تھے.ایک مرتبہ ایک مہمان عشاء کے بعد آگیا.ان بنارسی بزرگ کے بیوی بچے نہ تھے.مسجد کے ایک حجرہ میں رہتے تھے.حیران ہوئے کہ اب اس مہمان کا کیا بندوبست کروں اور کس سے کہوں.انہوں نے مہمان سے کہا کہ آپ کھانا پکنے تک آرام کریں.وہ مہمان لیٹ گیا اور سو گیا.انہوں نے وضو کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر یہ دعا پڑھنی شروع کی اُفَوّضُ أَمْرِ إِلَى اللهِ اِنَّ اللهَ بَصِير بِالْعِبَادِ - جب اتنی دیر گزری کہ جتنی دیر میں کھانا پک سکتا ہے اور یہ برابر دعا پڑھنے میں مصروف تھے کہ ایک آدمی نے باہر سے آواز دی کہ حضرت میرا ہاتھ جلتا ہے جلدی آؤ.یہ اٹھے ایک شخص تانے کی رکابی میں گرم گرم پلاؤ لئے ہوئے آیا.انہوں نے لے لیا اور مہمان کو اٹھا کر کھلایا.وہ حجرہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.اس رکابی کا کوئی مالک نہ نکلا.وہ تانبے کی رکابی رکھی رہتی تھی اور وہ کہا کرتے تھے جس کی رکابی ہونے جائے لیکن کوئی اس کا مالک پیدا نہ ہوا.

Page 249

(۲ جون ۱۹۰۹ ء بعد نماز عصر قبل از درس) میں رامپور میں تین سال تک رہا ہوں.وہاں کے پٹھانوں کے اکثر حالات سے واقف ہوں.عموماً یا تو قصائی کی دوکان پر ان کی لڑائی ہوتی ہے یا لڑکوں کے پیچھے.یہ پٹھان لوگ بڑے شریف اور باوفا ہوتے ہیں اور شریفانہ خصائل پٹھانوں کے بہت ہی قابل ستائش ہوتے ہیں ( آگے کلن خاں رامپوری کا قصہ بیان فرمایا جو آپ نے اپنے سوانح میں بھی لکھوایا ہے اسی لئے یہاں نہیں لکھا جاتا.) مولانا مولوی محمد علی صاحب کی بڑی بیوی کے کفن دفن سے فارغ ہو کر مسجد مبارک میں آئے اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی لڑکی حمیدہ بیگم اور بابو شاہدین مرحوم کی چھوٹی بیوی رسول بیگم دونوں کے نکاح کا خطبہ پڑھا.(دونوں کا نکاح حسب ترتیب اسد اللہ اور بابو منظور الہی کے ساتھ ہوا) اور خطبہ میں فرمایا :- قاری عبدالرحیم صاحب رام پوری جو آخر میرٹھ میں رہتے تھے.میرے ایک مخلص دوست نے ان سے دریافت کیا کہ تم سب بھائی اس قدر نیک اور فرشتہ خصال کیوں ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے ماں باپ جب قصد جماع کرتے تو ان کی عادت تھی کہ پہلے دونوں دعائیں مانگتے رہتے کہ الہی تو ہم کو صالح اولاد عطا کر.اسی کا یہ اثر ہے کہ ہم سب بھائی ایسے ہیں.اللهم جنبنا الشيطن وجنب الشيطان ما رزقتنا - کشمیر وجموں (۳/ دسمبر ۱۹۱۳ء) ہمارے ایک واقف کار موتی رام تھے.میرے ایک لڑکے کا انتقال ہوا تو موتی رام کہنے لگا کہ دیکھو مولوی صاحب ! مشاہدہ کا تو انکار نہیں ہو سکتا.میں نے کہا ہاں.کہا کہ ہمارے باپ

Page 250

۲۴۴ دیوی جی کے مندر سے دو پتے لائے.ان کے کوئی اولاد نہ تھی اور دو بیویاں تھیں.ایک نے پستہ نہ کھایا.دوسری نے دونوں کھالئے اور ہم دو بھائی پیدا ہو گئے.میں نے کہا تمہارے بھائی شب لال بڑی بھنگ پیتے ہیں.تم بھی ان سے تنگ ہو.کہا ہاں.موتی رام ہمیشہ دائم المریض رہتے تھے.میں نے کہا تم ہمیشہ مریض رہتے ہو.کہا ہاں.میں نے کہا پھر میں ایسے لڑکے کیا کروں گا.اسی طرح کشمیر میں ایک مندر نیا بنایا گیا.اس میں ایک بڑی بھاری پتھر کی مورت رکھنی تھی.بہت سے کشمیری مسلمانوں کو بلایا.انہوں نے رسے باندھے کچھ اوپر سے کھینچتے تھے کچھ نیچے سے دھکیلتے تھے.اوپر والے کہتے تھے لا الہ نیچے والے کہتے تھے الا اللہ.اسی طرح اس کو چڑھا رہے تھے.میں نے ایک ہندو سے جو مہذب معلوم ہو تا تھا کہا کہ یہ بدوں توحید کے تو چڑھتا نہیں.اس نے کہا کہ یہ ابھی پاک نہیں.میں نے کہا تو ابھی یہ ناپاک ہے.کہا کہ ہاں ایسا ہی کہنا پڑتا ہے.بت پرستی بڑی لغو چیز ہے.بت پرستوں کی عقل ماری جاتی ہے.تعجب ہے کہ ہمارے مسلمان بھی بت پرستی میں گرفتار ہیں.(۵) جنوری ۱۹۰۹ء) میں کشمیر میں تھا.ایک روز دربار کو جارہا تھا.یار محمد خاں ایک شخص میری اردلی میں تھا.اس نے راستہ میں مجھ سے کہا کہ آپ کے پاس جو یہ پشمینہ کی چادر ہے یہ ایسی ہے کہ میں اس کو اوڑھ کر آپ کی اردلی میں بھی نہیں چل سکتا.میں نے اس سے کہا کہ تجھ کو اگر بری معلوم ہوتی ہے تو میرے خدا کو تجھ سے بھی زیادہ میرا خیال ہے.میں جب دربار میں گیا تو وہاں مہاراجہ نے کہا کہ آپ نے ہیضہ کی وبا میں بڑی کوشش کی ہے آپ کو تو خلعت ملنا چاہئے.چنانچہ ایک قیمتی خلعت دیا.اس میں جو چادر تھی وہ نہایت ہی قیمتی تھی.میں نے یار محمد خاں سے کہا کہ دیکھو ہمارے خدا تعالیٰ کو ہمارا کیسا خیال ہے.

Page 251

۲۴۵ (1) دسمبر ۱۹۱۱ء) میں کشمیر میں تھا.وہاں ایک نجوم کا اعلم العلماء یعنی تمام پنڈتوں کا استاد جو تشی تھا.اس کی رسائی مہاراجہ کے گھر میں اندر عورتوں تک بھی تھی.میں نے ان ایام میں کچھ عرصہ سے دربار میں جانا چھوڑ دیا تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بتاؤ ہم دربار میں کب جائیں گے؟ اس نے اپنے بہت سے شاگردوں کو جمع کرکے کہا کہ اس سوال پر غور کرو.سب نے اتفاق کر کے ایک تاریخ مقرر کی.میں نے کہا یہ تاریخ غلط ہے.پھر پنڈت صاحب نے خود بھی غور کی اور سب کے اتفاق سے ایک تاریخ معین ہوئی.میں نے کہا کہ یہ بھی غلط ہے.پھر میں نے کہا کہ ہم بتاتے ہیں.رات کا پچھلا حصہ ہو گا.فلاں تاریخ ہوگی جب ہم بلائے جائیں گے.اگر کہو تو اس وقت تم کو بھی جگا دیں.چنانچہ اسی تاریخ اور اسی وقت جب آدمی بلانے آیا تو میں نے اس سے کہا کہ فلاں راستہ سے چلیں گے.چنانچہ راستہ میں جب پنڈت جی کا مکان آیا تو میں نے پنڈت جی کو بلایا وہ سوتے ہوئے اٹھ کر باہر آئے.میں نے کہا کہ دیکھو ہم بلائے ہوئے جا رہے ہیں.اس کے بعد پنڈت جی مجھ سے کہا کرتے تھے کہ ”مہاراج تمہارا تا جک بڑا ز بر دست ہے ہم کو بھی بتادو " ہماری نجوم در حقیقت صرف اس قدر تھی کہ پیشتر سے یہ معلوم تھا کہ فلاں تاریخ کو آم آنے والے ہیں.میں جانتا تھا کہ یہ بہت کھا جائیں گے.اور ہماری ضرورت پڑے گی.آم کھانے سے ہمیشہ رات کے پچھلے حصہ میں نفخ ہوا کرتا تھا.(۱۳) مئی ۱۹۰۹ء) میں پندرہ سولہ برس تک ایک غیر مسلم (مہاراجہ کشمیر) کا نو کر رہا.مجھ کو ایک دفعہ بھی سلام نہ کرنا پڑا.صرف ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ تمام اہل دربار کو نذریں دکھانی لازمی تھیں.نذر دکھلانا بھی ایک قسم کا سلام ہی ہے.موقع کچھ ایسا ہی تھا کہ میں نے بھی نذر دکھلانے کا عزم کیا.روپیہ ہاتھ میں لے کر جب میں نذر دکھلانے والا تھا.ویسے ہی بلا کسی خیال کے میری نظر روپیہ پر پڑی.میں ہتھیلی پر روپیہ لئے ہوئے خود ہی جب اس کو دیکھ رہا تھا

Page 252

تو مہاراج نے مجھے کو آواز دے کر کہا کہ مولوی صاحب! آپ نذر دکھلاتے ہیں یا روپیہ دیکھتے ہیں.میں نے بے ساختہ کہا کہ مہاراج روپیہ کو دیکھتا ہوں کہ یہ روپیہ ہی ہے جس کی وجہ سے مجھ کو نذر دکھلانے کی ضرورت پیش آئی.یہ سن کر فور امہاراج نے کہا کہ ہاں! آپ کو نذر دکھلانے کی ضرورت نہیں.آپ تو نذر دکھلانے سے آزاد ہیں.سب ہنس پڑے اور اس طرح بات ہنسی میں ٹل گئی اور مجھے کو نذر بھی نہ دکھلانی پڑی.(۴) اکتوبر ۱۹۱۲ء) میں جموں میں تھا.وہاں ایک روز راجہ کے سامنے ایک شخص مسمی مرزا پیارے نے ستار بجایا.راجہ نے ستارسن کر کہا کہ مرزا صاحب آپ نے خوب ستار بجایا.مرزا صاحب نے جھک کر سلام کیا.بس اسی حالت میں سر جھکائے او ر ہا تھ اٹھائے ہوئے دم نکل گیا.۸) مئی ۱۹۰۹ قبل مغرب بعد درس) کشمیر میں میرے پاس ایک نوجوان رہتا تھا.میں نے اس کو بار بار سمجھایا کہ ہمارے پاس رہتے ہو.قرآن شریف پڑھا کرو.وہ ٹالتا ہی رہتا تھا.میں کشمیر سے وطن کو آنے لگا.وہ جوان بھی میرے ساتھ چلا.راستہ میں ایک مقام اور ھم پور ہے ہم وہاں اترے.وضو کیا.نماز پڑھی.وہیں ڈاک آئی جس میں اس کی نوکری کا پروانہ آیا.وہ بڑا خوش ہوا.اور ھم پور سے ہم چل دیئے.وہ جوان میرے ڈر سے سفر میں ایک حمائل اپنے گلے میں لٹکائے رکھتا تھا.جب اور ھم پور سے کئی چڑھائیاں اور کئی اتار ہم طے کر چکے اور نیچے اتر کر ایک تالاب کے کنارے زرا دم لینے اور آرام کرنے کے لئے ٹھہرے تو اس لڑکے نے کہا کہ مولوی صاحب میرا قرآن شریف تو وہیں درخت سے لٹکا ہوا رہ گیا جہاں نماز پڑھی تھی.مگر خیر میں اب لاہور جاتے ہی سب سے پہلا کام یہ کروں گا کہ ایک نہایت عمدہ سا قرآن شریف خریدوں گا.میں نے کہا.بس اب تم کو قرآن شریف پڑھنے کا موقع نہ ملے گا.قرآن شریف

Page 253

۲۴۷ تو تم سے گیا.چنانچہ جاتے ہی پولیس کا کام سپرد ہوا.اور قصہ مختصر پھر اس کو قرآن شریف پڑھنا نصیب نہ ہوا.اب چند روز ہوئے اس کا خط میرے پاس آیا تھا.وہ لکھتا ہے کہ مجھ کو آج تک بھی قرآن شریف پڑھنا نصیب نہ ہوا.مگرہاں میرا ارادہ ہے کہ اپنے لڑکے کو قرآن شریف پڑھاؤں.(۱۰) مئی ۱۹۰۹ ء بعد نماظهر) ایک مرتبہ مہاراجہ کشمیر نے مجھ سے کہا کہ کیوں مولوی جی تم ہم کو تو کہتے ہو کہ تم سٹور کھاتے ہو اس لئے بیجا حملہ کر بیٹھتے ہو.بھلا یہ تو بتاؤ کہ انگریز بھی تو سٹور کھاتے ہیں وہ کیوں اس طرح ناعاقبت اندیشی سے حملہ نہیں کرتے ؟ میں نے کہا کہ وہ ساتھ ہی گائے کا گوشت بھی کھاتے رہتے ہیں.اس سے اصلاح ہو جاتی ہے.سن کر خاموش ہی ہو گئے.اور پھر دو برس تک مجھ سے کوئی مذہبی مباحثہ نہیں کیا.(۶/ اکتوبر ۱۹۱۲ء بعد عصر) میں مہاراجہ کشمیر کے یہاں نوکر ہوا تو میں نے بعض احباب کے مشورہ سے درخواست دی کہ میری تنخواہ ماہ بماہ مجھے کو مل جایا کرے.انہیں احباب کے مشورے سے میں اس وقت دربار سے غیر حاضر تھا.جبکہ میری درخواست پیش ہوئی.مہاراج بہت ناراض ہوئے کہ ہمارا اعتبار نہیں کرتے اور تنخواہ ماہ بماہ لیتے ہیں.تمام حاضرین دربار نے یک زبان ہو کر میری تائید کی اور کہا کہ ان کا خرچ بہت ہے اور بدوں اس کے گذر مشکل ہے.خیر میری درخواست پر تو میرے حسب منشاء حکم لکھا گیا.لیکن جب میں دربار میں گیا تو مجھ کو سنانے کے لئے مہاراج نے کہا کہ بعض لوگ اپنی تنخواہ ہم سے پہلے ٹھراتے اور ماہ بماہ مانگتے ہیں.لیکن ہمارے وزیر اعظم دس برس سے ہمارے یہاں نوکر ہیں اب تک تنخواہ کا مانگناتو در کنار تنخواہ مقرر بھی نہیں ہوئی.میں نے کہا کہ پھر وہ کھاتے کہاں سے ہیں ؟ بعد میں مجھ سے ایک شخص

Page 254

۲۴۸ نے کہا کہ قریباً تمام اہلکاروں کی یہی حالت ہے مگر مہاراج کو سمجھائے کون ؟ میں نے کہا دیکھو ہم ہی کبھی سمجھائیں گے.اس نے کہا کہ آپ ہی صرف ایسے شخص ہیں.جن کی تنخواہ ماہ بماہ مقرر ہوئی ہے.ورنہ چھ ماہی سے کم کسی کو تنخواہ نہیں ملتی.(۳۱) مئی ۱۹۰۹ء) میں ریاست کشمیر میں ملازم تھا.وہاں میری بڑی تنخواہ تھی.بعض اتنی اتنی روپیہ ماہوار کے طبیب مجھ سے اول بیٹھنے کی کوشش کرتے اور میں ان کو آگے بیٹھنے دیتا اور بہت خوش ہو تا.وہاں ایک بوڑھے آدمی تھے.انہوں نے بہت سے علوم و فنون کی حدود یعنی ابتدائی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں.بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے.وہ جو کچھ بیان کرتے یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے.کیونکہ پختہ الفاظ تعریفوں کے یاد تھے.اس طرح ہر شخص پر اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کرتے.ایک دن سر در بار مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب! حکمت کس کو کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بد اخلاقی تک سے بچنے کا نام حکمت ہے.وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کس نے لکھی ہے؟ میں نے دہلی کے ایک حکیم سے جو حافظ بھی تھے اور میرے پاس بیٹھے تھے کہا کہ حکیم صاحب! ان کو سورہ بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سنادو.جس میں آتا ہے.ذَلِكَ مِمَّا اَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ پھر تو وہ بہت ہی حیرت زدہ سے ہو گئے.( یکم جون ۱۹۰۹ء) میں جب کشمیر میں تھا تو وہاں ایک شخص آیا.اس کا تعلق خبیث ارواح سے تھا.مہاراج نے ایک بنگالی ڈاکٹر کو جو مہاراج کے ہاں نو کر تھا بھیجا.اس نے کچھ مٹھائی اور پیسے وغیرہ اس کے سامنے رکھے.اس شخص نے کہا کہ اس کے دل میں یہ خیال ہے.اور رخصت چاہتا ہے.

Page 255

۲۴۹ وہ بنگالی ڈاکٹر سن کر حیران ہی رہ گیا.کیونکہ اس کے دل کی بات ٹھیک ٹھیک بنائی گئی تھی.پھر دہلی کے ایک حکیم صاحب کو بھیجا.ان کے دل کی بات بھی اسی طرح اس نے بتادبی او ر وہ بھی غرق حیرت ہو کر چلے آئے.کچھ دل میں سوچ کر میں بھی گیا.میں لاحول پڑھتا رہا.اس نے بڑی دیر تک غور کر کے کہا کہ اس شخص کا حال مجھ کو کچھ نہیں معلوم ہو تا.یہاں ایک لڑکا رہتا تھا.اس کا نام عبد العلی تھا.اس کے باپ کو جنات کے حاضر کرنے کا بڑا دعویٰ تھا.وہ میرے ساتھ اکثر رہا.لیکن کبھی بھی میرے سامنے تو وہ جنات کو حاضر نہ کرسکا." جون ۱۹۰۹ء قبل از درس بعد نماز عصر مسجد مبارک میں جبکہ سید سرور شاہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب رامپور جانے کے لئے 9 جون کی صبح کو قصد روانگی رکھتے تھے.ان کو چند نصائح فرماتے ہوئے." مہاراجہ کشمیر سے بارہا میرا مباحثہ ہوا.ہمیشہ میں نے انہیں کو منصف مقرر کیا.اس کے بعد ایک شیعہ حکیم صاحب سے عبقات الانوار سات سو صفحہ کی کتاب لے کر پڑھنے اور ضیافت کے بہانہ مباحثہ کے لئے بلائے جانے کا مفصل حال بیان فرمایا جو آپ نے اپنی سوانح میں بھی لکھوایا ہے.(۰ار جون ۱۹۰۹ء) میں نے ایک مرتبہ مہاراج کشمیر سے دریافت کیا کہ آپ کے یہاں بادشاہوں اور دو سرے دیوتاؤں میں فرق کیا ہے کہا کہ دوسرے دیو تا تو ناقص ہوتے ہیں اور راجہ کامل دیوتا ہوتا ہے.میں نے کہا ثبوت؟ کہا دیکھو ابھی ثبوت دیتے ہیں.یہ کہہ کر پنڈت کو بلایا اور اس سے کہا کہ تم گدھا خیرات میں لے سکتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں.پھر کہا کنجروں کا مال لے سکتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں.کہا دیکھو یہ ناقص ہے اور ہم سب کچھ لے سکتے ہیں.

Page 256

۲۵۰ (۱۰ر اگست ۱۹۰۸ء) مولوی عبد الکریم صاحب جب پہلے پہل مجھ سے ملے تو ان کی بہت چھوٹی عمر تھی.پہلے دبلے اور بہت صاف دل تھے.میں نے ان سے جموں میں کہا کہ تم میرے پاس آیا کرو.مولوی عبد الکریم چار زبانیں جانتے تھے.انگریزی - عربی - فارسی-اردو- میں نے تو اس وقت تک اپنی جماعت میں کوئی شخص دیکھا نہیں جو ان کی طرح چار زبانیں اچھی طرح جانتا ہو.(۱۳) اکتوبر ۱۹۱۲ءد ردرس کلام اللہ ) میں کشمیر میں تھا.ایک روز میں نے خود صبح کی اذان کہی.میں جوان تھا.بڑے مزے میں خوب زور سے اذان کہی.میں جس محلہ میں رہتا تھا.وہاں سب ہندو یا سکھ ہی رہتے تھے.صرف ایک مسلمان تھے.وہ بھی بیچارے شراب کے نشے میں مخمور رہتے تھے.راجہ میری اذان سن رہا تھا.دن میں مجھ سے کہا کہ آج صبح اذان کس نے دی؟ میں نے کہا کہ میں نے دی تھی.کہا کہ آپ نے حی علی الصلوۃ کہا اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ کہا یعنی نماز کے لئے آؤ تو کوئی اس آواز پر آیا نہیں.چونکہ اذان کے الفاظ بڑے ہی پر تاثیر ہیں.اس لئے مجھے کو بڑا ہی ڈر معلوم ہوا کہ یہ لوگ حی علی الصلوة کی تعمیل نہیں کرتے.کہیں سب کے سب غارت نہ ہو جائیں.میں چونکہ اس شہر کا مالک ہوں اس لئے میں بڑا ہی خوف زدہ بیٹھا رہا.مطلب اس کہنے سے یہ تھا کہ آئندہ اذان نہ کہیں مگر ایک لطیف پیرایہ میں کہا.(۱۳) اکتوبر ۱۹۰۸ء) کشمیر میں جذامیوں کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن آئی.وہاں ایک سو چار جذامیوں میں نانوے مسلمان تھے.

Page 257

۲۵۱ (۱۵) اکتوبر ۱۹۱۰ء) میں کسی زمانہ میں ایک بڑے امیر کے ساتھ اس کے باغ میں گیا.باغ میں سے اس امیر نے اپنے ہاتھ سے بادام توڑ کر مجھے دیئے.میں نے بادام دانت سے تو ڑ تو ڑ کر کھانے شروع کئے.اس امیر ( راجہ کشمیر) نے میری طرف بڑی حیرت سے دیکھا.یا آج یہ حالت ہے کہ چھوہارہ اور انگریزی مٹھائی نہیں کھا سکتا.(۶ار اکتوبر ۱۹۱۰ء) مجھ سے ایک مرتبہ مہاراجہ کشمیر نے کہا کہ مولوی صاحب! ان اختلافوں کے مٹانے کے واسطے بھی کوئی معیار ہے؟ میں نے کہا کہ آپ ہی کچھ سوچئے کہ کیا معیار ہو سکتا ہے ؟ کہنے لگے مذہب وہ سچا ہے جو پر اچین (پرانا.قدیم) ہو اور تمہارا تو صرف بارہ سو برس سے ہے.میں نے کہا.ہمارے یہاں فَبِهُدُهُمُ اقتده آیا ہے یعنی جو پرانا اور اچھا ہو اس کی پیروی کرو.سن کر کہا کہ رام چند جی سب سے پرانے ہیں.ہم ان کو مانتے ہیں.میں نے کہا رام چند کس کی پرستش کرتے تھے ؟ کہا کہ وشن کی.میں نے کہا کہ وہ کس کی؟ کہا وہ رڈر کی.میں نے عرض کیا اور وہ کس کی؟ تو کہا وہ برہما کی.میں نے کہا برہما کس کی؟ کہا کہ برہما کیوں ایشور کی.میں نے کہا کہ بس وہی اسلام ہے.کیا معنی ! وحدہ لا شریک کی پرستش کرتے ہیں.(۴) فروری ۱۹۱۲ء) میں نے جموں میں بہت درس دیئے ہیں.میں اپنی جیب سے بہت سے روپے بھی اس کام کے لئے خرچ کرتا تھا.پھر مجھ کو خد اتعالیٰ نے سمجھایا کہ ہم تیرے لئے دوسری صورت پیدا کر دیں گے.اب میں کچھ زیادہ روپیہ بھی خرچ نہیں کرتا.اخلاص ایسی چیز ہے کہ یا تو میں ہزاروں روپے خرچ کر کے بعض نوجوانوں کو بنانا چاہتا تھا یا اب میں ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جو مجھ پر جان بھی دینے کو تیار ہیں.اور بالکل میرے جاں گر از عاشق ہیں.(کاش میں

Page 258

۲۵۲ ان میں سے ہوں.اکبر شاہ خاں) (۱۲) نومبر ۱۹۱۰ ء بعد مغرب) میں جب ریاست پونچھ میں تھا تو وہاں میرا کو بڑھ گیا اور زبان پر زیادہ گرنے لگا.ورم شدید ہو گیا.میں نے اس کو کٹوا دیا.اس لئے میری آواز بھاری ہو گئی پھر اب تک کبھی کوا نہیں بڑھا.(۷) فروری ۱۹۱۲ء) ایک مرتبہ کشمیر میں ایک شخص میرے مکان پر آکر مقیم ہوا.بڑی بے تکلف اور محبت کی باتیں کیا کرتا تھا.بظا ہر غریب آدمی معلوم ہو تا تھا.میں بھی اس سے محبت کرتا تھا.ایک روز موقع پاکر اس نے تنہائی میں مجھ سے کہا کہ حضرت! دس ہزار روپے دلائے دیتے ہیں، چاہے نقد چاہے زمین.میں نے ہر چند غور کیا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا.آخر میں نے ہنس کر کہا کہ کچھ کھول کر کہو.کہنے لگا کہ صرف اتنا کام ہے کہ رئیس کے متعلق یہ یہ باتیں ہیں ذرا ان کا پتہ لگاؤ.باقی آپ کو کام کچھ نہ کرنا پڑے گا وہ ہم خود کرلیں گے.صرف پتہ صحیح بتادو اور فلاں مقام پر آپ سے ملنے کے لئے..آجائیں گے.میں نے اس سے کہا کہ مجھ کو ایسی باتوں سے دلچسپی نہیں.وہ اسی دن میرے یہاں سے چلا گیا.دوسرے کسی رئیس کے پاس گیا.وہاں جاکر کامیاب ہو گیا یا نہیں.اس طرح ایک اور شخص میرے پاس بیمار بن کر آیا کہ میرے پاؤں میں درد ہے.میں ہر چند دوا دیتا لیکن درد نہ گھٹتانہ بڑھتا.وہ ایک گدی نشین تھا.مجھ کو شبہ ہوا کہ یہ بھی اسی قسم کا آدمی ہے.میں نے اس کو تنہائی میں بلا کر پوچھا کہ تم اپنا اصل مدعا بتاؤ ؟ کہنے لگا کہ تم بڑے چالاک ہو کہ میری اصل غرض سمجھ گئے.پھر صاف طور پر کہا کہ ہاں بات یہی ہے.تب ہی تو تمہارے پاس آئے ہیں.میں نے کہا کہ رئیس مجھ پر بھروسہ کرتا ہے.میں ہر گز اس کی مخالفت میں کوئی کام نہ کروں گا.

Page 259

۲۵۳ (۱۹ اکتوبر ۱۹۱۲ء) میں جموں میں تھا.وہاں دبا کے دنوں میں ایک ہاتھی کو خوب سیاہ کر کے نکالا گیا.ایک بنارس کا برہمن تھا.اس کا نام رام ہرک تھا.اس نے کہا یہ ہاتھی مجھ کو دیا جائے.لوگوں نے کہا کہ ہاتھی کا دان بڑا منحوس ہوتا ہے.اس نے کہا بلا سے.چاہے کچھ ہو.یہ مجھ کو ضرور ملنا چاہئے.چونکہ اس نے بہت کوشش کی اہزادہ ہاتھی اسی کو مل گیا اور ساتھ ہی چند روز کا اس کے کھانے پینے کا خرچ بھی.شہر والوں نے کہا کہ چونکہ تم ہاتھی لئے جاتے ہو یعنی ہاتھی کے ساتھ شہر کی وبا بھی تمہارے ساتھ جائے گی لہذا تم کو پھر کبھی یہاں واپس نہ آنے دیا جائے گا.برہمن نے کہا بہت اچھا.میں واپس نہ آؤں گا.میرے پاس آیا تو میں نے کہا رام ہرک جی بس اب تو تم کبھی اس ملک میں واپس نہ آسکو گے.کہنے لگا کہ میں اس ہاتھی کو کمپریٹ والوں کے ہاتھ جا کر کم سے کم سو روپیہ کو تو ضرور ہی فروخت کر دوں گا اور ان ہندؤں جاہل بتوں کو پوجنے والی قوم کو دیکھو.میں کیسا بیوقوف بناتا ہوں اور اسی ملک میں پھر واپس آتا ہوں.چند روز کے بعد ہم سری نگر گئے تو دیکھا وہاں رام ہرک جی موجود ہیں.لوگوں نے اس سے کہا کہ تم تو دان کا ہاتھی لے کر گئے تھے.یہاں کیسے آگئے ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ تو میں جموں کی وبالے گیا تھا.اسی لئے جموں واپس نہیں گیا اگر کشمیر کی وبا کے حصہ کا ہا تھی دو تو وہ ہاتھی لے جاکر پھر یہاں بھی واپس نہ آؤں گا.(۱۴) تمبر ۱۹۰۹ء) میرا ایک شاگر د تھا.اس کو مجھ سے حسن ظن تھا.وہ جموں کشمیر میں میرے پاس گیا.میں نے اس کے لئے بہت کوشش کی اور وہ سو روپیہ ماہوار کا نوکر ہو گیا.اب اس کو مجھ سے بدظنی ہوئی کہ یہ اگر چاہتے تو مجھ کو سو روپیہ سے زیادہ کا نوکر کرا دیتے.اسی بدظنی کو بڑھاتے بڑھاتے اس نے یہاں تک نوبت پہنچائی کہ پندرہ با اثر اشخاص کو اپنے ساتھ ملالیا.جن میں ایک پندرہ سو روپیہ ماہوار کا نوکر تھا.باقی سب بھی ایسے ہی معزز تھے.سب کے

Page 260

۲۵۴ سب مل کر میری مخالفت کے درپے اور منصوبہ بازی میں لگے رہتے تھے.میں نے ایک دن ان سب کی ضیافت کر دی اور صرف انہیں کی ، ان کے نوکروں کی نہیں.جب وہ مکان میں سب آگئے تو میں نے اپنے آدمی کو حکم دیا کہ تمام دروازے بند کردو - علاج معالجہ کے سبب بہت سے راجپوت اور فوجی پٹھان میرے معتقد تھے اور مہمان اس بات سے واقف تھے.لہذا ان کو یہ گمان ہوا کہ اس مکان میں پہلے سے آدمی بلوا کر چھپا رکھے ہیں اور اب ہماری سب کی خبر لی جائے گی.جو ان میں سب سے بڑا آدمی تھا.وہ سب سے زیادہ ڈرا.میں نے ان سے کہا کہ تم ڈرومت.ہم نے تم کو گرفتار تو کرہی لیا ہے تمہاری جان کو زبان نہیں پہنچے گا.پھر میں نے اس آدمی سے جو سب سے زیادہ ڈرتا تھا.مخاطب ہو کر اور کڑک کر کہا کہ اچھا تو شریک ہے یا نہیں ؟ اس نے ڈرتے ہوئے لرزتے ہوئے کہا کہ مجھ کو تو فلاں شخص نے یہ یہ باتیں کہہ کر شامل کیا.اس شخص نے کہا کہ مجھے کو فلاں نے مجبور کیا.غرض اس طرح آخر دو آدمیوں پر بات ٹھری کہ تمام سازش کے بانی اور محرک یہ دونوں ہیں.وہ دونوں چونکہ کمزور تھے اس لئے سب انہیں کے سر ہو گئے.ان دونوں میں ایک وہی میرا شاگر د تھا.اس نے کہا میں ان پر بڑی بڑی امیدیں رکھتا تھا.یہ اگر چاہتے تو مجھے کو بڑی نوکری دلا سکتے تھے.اس بڑے آدمی نے کہا کہ یہ سو روپیہ کی نوکری تو تجھ کو صرف مولوی صاحب ہی کوششوں سے ملی ہے ورنہ تو کہاں اور یہ نوکری کہاں ؟ وہ سخت لاجواب خموش اور تصویر کی طرح دم بخود تھا.اب سب کو یقین تھا کہ بس حکم کی دیر ہے اور ہم سب پر کفش کاری شروع ہوتی ہے.میں نے ان سے کہا کہ میں تو تمہارے سب کے حوصلے دیکھتا تھا.ے ارجون ۱۹۱۲ء) ایک بڑا شخص اتنی ہزار مربع میل کا مالک تھا ( مہاراجہ کشمیر) اس لئے اس کے پاس سپاہی بہت تھے.میں نے جس زمانہ میں دیکھا.اس کے پاس اڑتالیس ہزار فوج تھی.میں نے کہا کہ آپ نے بہت آدمی دیکھے ہیں.یہ تو بتائیے بہادر کی تعریف کیا ہے ؟ کہا میں نے تو کوئی بہادر

Page 261

۲۵۵ دیکھا نہیں.یہ جس قدر مونچھوں کو تاؤ دینے والے ہوتے ہیں، کہنیوں کے ساتھ تاش.چو سر - شطرنج کھیلنا خوب جانتے ہیں.بہادر نہیں ہوتے.پھر ایک چھوٹے سے پتلے دبلے آدمی کو دیکھایا کہ بس یہ ایک شخص بہادر میں نے دیکھا ہے.یہ شیر کی طرح حملہ کرتا ہے.(۱۴ جولائی ۱۹۱۲ء) ایک ڈاکٹر جو کشمیر میں گورنر تھا وہ عورتوں مردوں کی مساوات کا بڑا ہی قائل تھا.وہ ایک خیمہ میں بیٹھا ہوا عورت مرد کی مساوات کے متعلق بہت زور دے کر تقریر کر رہا تھا.میں وہاں اتفاقا چلا گیا.وہ اس وقت تک مجھ کو پہچانتا نہ تھا.میں نے آہستگی سے پوچھا کہ حضور کا کوئی بیٹا ہے؟ اول تو اس کو میرا لباس وغیرہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ یہ کون وحشی سا آدمی ہے جو با قاعدہ انٹروڈیوس ہوئے بدوں مخاطب ہے مگر اس نے آخر کہہ دیا کہ ہاں میرے ایک بیٹا ہے.میں نے کہا وہ آپ کی بیوی کے پیٹ سے ہی پیدا ہوا ہو گا؟ اب اس کو اور بھی تعجب ہوا مگر اس نے کہہ دیا کہ ہاں.میں نے بڑی جرات کے ساتھ فورا اٹھ کر خوب زور سے اس کی چھاتیوں کو پکڑ کر مروڑا.میں جانتا تھا کہ وہ جسم میں مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں.اب تو وہ بہت گھبرایا لیکن میری جرأت کو دیکھ کر حیران بھی تھا.مجھ سے کہا یہ کیا بات ہے ؟ میں نے کہا اب تو آپ کی باری ہوگی کہ بچہ جنیں.میں یہ دیکھتا ہوں.کہ آپ کی چھاتیوں میں دودھ اتر آیا یا نہیں؟ اور کچھ کچھ کا سامان شروع ہے یا نہیں ؟ اس نے اس امیر سے جس کے خیمہ میں آیا ہوا تھا.پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ بڑے آدمی ہیں.میں کیا بتاؤں یہ خود ہی تادیں گے.اب تو وہ اور بھی زیادہ حیران ہوا.مجھ سے کہنے لگا کہ آپ اپنا نام بتا دیں.میں نے کہا ہم فقیر آدمی ہیں.جب اس نے باصرار کہا تو میں نے کہا کہ میرا نام نورالدین ہے.نام میرا وہ چونکہ خوب جانتا تھا.کہنے لگا کہ آپ تو بڑے عالم ہیں.میں نے کہا کہ آپ نے اپنی ساری علمیت کا زور عورت مرد کی مساوات میں صرف کیا.میری دلیل کا بھی آپ کوئی جواب دے سکتے ہیں ؟ کہا آپ کی دلیل کا تو کوئی جواب نہیں دے سکتا.

Page 262

۲۵۶ (۴ر مارچ ۱۹۰۷ء) مہاراجہ کشمیر بارہا سر دربار تمام درباریوں کو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے کہ تم سب اپنی اپنی غرض کو آکر میرے پاس جمع ہو گئے ہو اور میری خوشامد کرتے ہو.لیکن صرف ایک یہ شخص ( میری طرف اشارہ کر کے) ہے جس کو میں نے اپنی غرض کو بلایا ہے اور مجھ کو اس کی خوشامد کرنی پڑتی ہے.(۶ ا ر د کمبر ۱۹۱۱ء) مجھ کو کسی سے خود کوشش کر کے مباحثہ کرنے کی نہ کبھی خواہش ہوئی اور نہ اب ہے.ہاں! جب کوئی مجبور ہی کر دے اور گلے ہی میں آپڑے تو پھر خد اتعالیٰ سے دعا مانگ کر مباحثہ کیا اور ہمیشہ کامیاب ہوا ہوں.تم لوگ اس کا تجربہ کر کے دیکھو.ہاں انبیاء علیہم السلام معذور ہوتے ہیں.کیونکہ مامور ہوتے ہیں.بعض مولوی صاحبان (۱۸/ مارچ ۱۹۱۲ء قبل از نماز ظہر کھانا کھاتے ہوئے) ایک مرتبہ میں لاہور میں تھا.ایک وکیل میرے پاس آئے اور کہا کہ ایک بہت بڑے عالم آئے ہیں انہوں نے ایک سو تیں تفسیریں خوب بغور پڑھی ہیں.میں نے کہا کہ ایک سو تمہیں تفسیریں تو اس ملک پنجاب میں بھی نہ ہوں گی.پھر میں نے کہا.اچھا جاؤ.مولوی صاحب سے ان ۱۳۰ تفسیروں کے نام لکھوا لاؤ.وہ وکیل گئے تو مولوی صاحب نے کہا ایک کے سو تمیں نہیں تو تمہیں تو پڑھی ہیں.وہ میرے پاس آئے کہ ۳۰ رہ گئیں.میں نے کہا.اچھا جاؤ.تمیں ہی کے نام لکھو الا ؤ - وہ پھر گئے تو مولوی صاحب نے کہا کہ تمیں نہیں مگر ہاں دو تین تو پڑھی ہیں.مجھ سے آکر کہا.تو میں نے وکیل صاحب سے کہا کہ اچھا ان سے یہ پوچھو کہ

Page 263

۲۵۷ آپ نے بالاستیعاب دو تین پڑھی ہیں.وہ پھر گئے تو کہا کہ انی متوفیک والی آیت تو میں نے جلالین اور تفسیر حسینی میں پڑھی ہے.پس یہ جو لوگ ”جمہور علماء کا قول" یا جمہور امت وغیرہ کہا کرتے ہیں.اس کی اکثر ایسی ہی حقیقت ہوتی ہے.(۱۲/ نومبر ۱۹۱۰ء) لاہور میں ایک شخص مولوی رحیم بخش چینیاں والی مسجد میں رہتے تھے.انہوں نے اسلام کی پہلی، دوسری ، تیسری وغیرہ بہت سی کتابیں لکھی ہیں.ایک مرتبہ وہ بڑے زور شور کے ساتھ مجھ سے مباحثہ کرنے کے لئے آئے اور آتے ہی کہا کہ قرآن تو مجمل ہے.اس اجمال کی تفصیل کے لئے اور کس کتاب سے مدد لیں ؟ میں نے کہا کہ قرآن مجمل ہے ؟ کہا ہاں.میں نے کہا خد اتعالیٰ تو فرماتا ہے.کتاباً مفصلاً آپ فرماتے ہیں مجمل.بس اٹھ کر چلے گئے اور کہا کہ ساری عمر آپ سے مباحثہ نہ کروں گا.چنانچہ پھر ساری عمر مجھ سے بحث نہیں کی.اار ستمبرے ۱۹۰ء) مجھ کو ایک وجودی کے ساتھ کھانا کھانے کا اتفاق ہوا.ایک کتے کی طرف جو ہڈی پھینکی تو وجودی بولا.یہ بھی آپ ہی ہیں.وہ وجودی سیال والوں کا مرید تھا.میں نے کہا.بس اب تو آپ کو موضع سیال میں جانے کی حاجت ہی نہ رہی.وجودی بولا.واہ مولوی صاحب ! تم نے ہمارے مرشد کو گالی دی.میں نے کہا تم نے ہمارے خدا کو گالی دی.فبهت (۱۳) مئی ۱۹۰۹ء) ایک مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ کافروں کے مسلمان بنانے کو تم احیاء کہتے ہو.یہ تو ایک معمولی بات ہے.میں نے تھوڑے وقفہ سے کہا کہ تمہارے گاؤں میں کوئی کافر ہے.کہا

Page 264

۲۵۸ ہاں ایک ہندو دوکاندار ہے.میں نے کہا تم مولوی ہو تم نے اب تک کیوں اس کو مسلمان نہیں بنایا ؟ کچھ سوچ سوچ کر کہنے لگا کہ واقعی یہ بڑا مشکل کام ہے اور نبیوں ہی کا کام ہے.(۷ار مئی ۱۹۰۹ء) ایک شخص نے میرے اوپر کفر کا فتویٰ لگایا.اس میں سترہ وجوہ میرے کفر کے لکھے.میں نے ایک دن اس سے کہا کہ یہ تمام وجوہ فی الواقع باعث کفر ہیں.میں بھی مہر لگا تا ہوں.(۲۳) مئی ۱۹۰۹ء) ایک شخص نے مجھ سے پاخانہ (براز) کی حرمت کا ثبوت دریافت کیا.میں نے کہا کہ وہ تو قدرت نے ہمارے جسم سے ایک مضر چیز خود خارج کی ہے اس کو پھر واپس لینا یہ کہاں کی انسانیت اور عظمندی ہے.( یکم جون ۱۹۰۹ء) جاء الإحتمال بطل الاستدلال یہ مولویوں کا ایک فقرہ ہے.ہر بات میں ایک احتمال نکال دیتے اور کہہ دیتے ہیں جاء الاحتمال بطل الاستدلال میں نے ایک مولوی سے کہا کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ جس میں کوئی احتمال ہو وہ دلیل میں پیش نہ کیا جائے بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ جب احتمال آتا ہے تو پھر استدلال سے کام لینے کی ضرورت ہی نہیں.کیونکہ استدلال میں تو احتماں نکل سکتا ہے.ایسے طریق سے استدلال بھی باطل ہو جاتا ہے.مطلب یہ کہ احتمال سے کام نہ لو - استدلال سے کام لو.(۱۰) جون ۱۹۰۹ء) نواب محسن الملک نے ایک لیکچر دیا.اس میں اسلامیوں کے تنزل کے اسباب بیان گئے.

Page 265

۲۵۹ سید احمد خاں نے اس کو بہت ہی پسند کیا اور اس کتاب کو بڑی تعداد میں شائع کیا کہ ملک والے دیکھیں کہ اسباب تنزل کے یہ ہیں.سید احمد خاں نے میرے پاس بھی وہ کتاب بھیجی.میں نے اس پر ایک آیت لکھ دی کہ سوائے اس کے اور کوئی سبب تنزل نہیں.وہ یہ ہے وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا.(الفرقان: ۳۱) (۱۹ جون ۱۹۰۹ء) میں نے ایک مرتبہ علی گڑھ کے عمائد کے پاس خطوط بھیجے کہ بتاؤ تم لوگوں میں مسلمان ہونے پر بھی اعمال میں اس قدر ستی کیوں ہے؟ خد ا مغفرت کرے اس کی.مولوی شبلی نے مجھ کو لکھا کہ ہمار اخد اتعالیٰ اور جزا سزا پر پورا یقین نہیں.(۲۶ جون ۱۹۰۹ء) سورة المرسلات پڑھاتے ہوئے جب یہ آیت آئی فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ تو ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ تمہاری ساری حدیثوں کا تو رد ہو گیا.میں نے کہا تیری اس بات کا بھی رد ہو گیا.(۲۷ / جون ۱۹۰۹ء) ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور عبد اللہ ٹونکی دونوں مجھ سے بحث کرنے کے لئے آئے.محمد حسین نے کہا کہ شرائط میں لکھواتا ہوں.میں نے کہا اچھا.پہلی ہی شرط میں لکھایا کہ حقیقت و مجاز میں جب ہمارے تمہارے درمیان تفرقہ ہو گا تو میں نے کہا یہ پہلی شرط ہی غلط ہے.آپ تو اہل حدیث ہیں اور حقیقت و مجاز کا تفرقہ تو بدعت ہے.سب سے پہلے تیسری صدی کے آخر اور چوتھی صدی کے ابتدا میں حقیقت و مجاز کا تفرقہ ہوا ہے.

Page 266

۲۶۰ عبد اللہ ٹونکی نے کہا کہ اٹھو چلو.یہاں تو مطول پر بھی پانی پھر گیا.وہ سمجھ گیا کہ ضرور کوئی بات ہے.(۸) اگست ۱۹۰۸ء) ایک شخص ہمارے شہر کا رہنے والا میرا بڑا معتقد تھا او ر اکثر میرے پاس عقیدت سے آتا تھا.ایک روز میں نے دیکھا کہ جب نماز کا وقت ہوا اور تکبیر ہوئی.میں نماز پڑھانے کھڑا ہوا تو وہ اٹھ کر چلا گیا.میں سمجھا کہ اس کو وضو کرنا ہو گا.لیکن کئی روز کے بعد معلوم ہوا کہ اس نے میرے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی ہے.میں نے وجہ دریافت کی تو کہا کہ میں آپ کو یہ تو مانتا ہوں کہ آپ قرآن وحدیث کے بڑے واقف ہیں اور اسی لئے میں نے آپ کے پاس آمد و رفت ترک نہیں کی.لیکن چونکہ آپ شیطان پر ایمان لے آئے ہیں اس لئے میں اب آپ کے پیچھے نماز تو نہ پڑھوں گا.میں نے تعجب سے پوچھا کہ کس طرح؟ اس نے کہا ہاں کوئی جانے یا نہ جانے مگر ہم تو پہچان ہی گئے کہ آپکا شیطان پر بھی ایسا ہی ایمان ہے جیسا خد اتعالیٰ پر.میں نے کہا آخر کچھ بتاؤ تو سہی بات کیا ہے ؟ کہا کہ انگریز بڑے پکے کافر ہیں اور شیطان کی ان سے دوستی ہے اس لئے ان کے اکثر کام شیطان کرتا ہے.یہ شیطان کے ذریعہ سے فوراً ایک جگہ سے دوسری جگہ خبر بھیج دیتے ہیں اسی کو تار برقی کہتے ہیں.میں نے دیکھا کہ فلاں دن آپ نے بھی تار برقی کے ذریعہ خبر بھیجی.لہذا آپ کے پیچھے نماز ہرگز نہیں پڑھنی چاہئے.میں سن کر حیران ہی رہ گیا اور کسی طرح یہ ممکن نہ ہوا کہ اس کو سمجھایا جائے.مجبورا مجھ کو یہی کہنا پڑا کہ بہت اچھا.ایک دوسرا واقعہ بھی عجیب ہے.میں کشمیر میں تھا.وہاں رات کو بذریعہ تار خبر پہنچی کہ رمضان کا چاند دیکھا گیا ہے.میں نے لوگوں سے کہدیا کہ صبح روزہ رکھیں.ایک مولوی صاحب جو بڑے مشہور مولوی ہیں.میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے روزہ رکھنے کا فتویٰ دیا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں تار کے ذریعہ سے خبر آگئی ہے.کہنے لگے.تو بہ ! تو بہ اکیا تم

Page 267

۲۶۱ تار کی خبر کا اعتبار کرتے ہو ؟ میں نے کہا کیوں ! اعتبار کیوں نہ کیا جائے.کہنے لگے حضرت تم کو کیا خبر! ہم تو خوب واقف ہیں.ایک مرتبہ میرے پاس تار آیا.میں تار بابو کے پاس گیا کہ اس میں کیا لکھا ہے اس نے کہا کہ اس میں لکھا ہے کہ ” برکٹ بیمار ہے " میں نے اس سے کہا کہ تم پھر دریافت کرو اصل بات کیا ہے.اس نے پھر یہی کہا کہ " برکٹ بیمار ہے " حالانکہ اصل بات یہ تھی کہ میری لڑکی جس کا نام برکت تھا وہ بیمار تھی لیکن اس بابو نے برکت کا برکٹ ہی بتایا.بھلا جب نام بھی صحیح نہیں بتا سکتا تو خبر کیا درست بتا ئیں گے.لہذا تار کی خبر پر ہرگز عمل نہ کیا جائے.عجیب بات یہ ہے کہ مولوی صاحب بھی ہر گز نہ سمجھ سکے اور مجھ کو خاموش ہی ہونا پڑا.(۸) اگست ۱۹۰۸ء) ایک مرتبہ شاہدرہ کے اسٹیشن کے قریب ریل میں ایک نوجوان مسلمان نے مجھ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا اور اس نے مجھ کو مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کیا.اس کی زبان سے مولوی صاحب کا لفظ سن کر ایک اور سفید ریش مسلمان جو اسی کمرہ میں بیٹھا تھا اور سونے کی انگوٹھیاں بھی پہن رکھی تھیں فورا اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑکی کے قریب گیا اور اپنا منہ ٹھڑ کی سے باہر نکال لیا اور ہماری طرف سے پشت پھیرلی.میں سمجھ گیا کہ اس کو کوئی نفرت ہے.میں نے اس نوجوان کو اس کے مسئلہ کا جواب نہایت وضاحت اور تشریح کے ساتھ فلسفیانہ طور پر بآواز بلند بتانا شروع کیا تا کہ وہ سفید ریش بھی ضرور سنے.وہ مسئلہ دریافت کرنے والا بھی حیران تھا کہ میں نے ایک ذراسی بات دریافت کی تھی.اس نے اتنی لمبی چوڑی تقریر کی.جب میں کہہ چکا تو سائل نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میری وجہ سے آپ نے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا.اس سفید ریش نے بھی چونکہ میری تمام تقریر سنی تھی.آخر وہ بھی میری طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ یہاں اس گاڑی میں اور کوئی جگہ کہیں جانے کی نہ تھی اس لئے مجبوراً آپ کی باتیں مجھ کو سننی پڑیں.در اصل بات یہ ہے کہ میں جب کسی شخص کو سنتا

Page 268

۲۶۲ ہوں کہ یہ مولوی ہے تو میری رنگت زرد ہو جاتی ہے اور میں نہایت خوف کھاتا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ لودھیانہ میں جب شروع ہی شروع میں انگریز آئے.وہاں ایک مولوی صاحب و عظ بیان فرما رہے تھے.میرا باپ بھی وہاں چلا گیا.میں بھی اس کے ساتھ ہو لیا.میں اپنے باپ کا ایک ہی بیٹا تھا.میری عمر بہت تھوڑی تھی لیکن بہت سمجھ دار تھا.مولوی صاحب نے وعظ میں بیان کیا کہ دریائے نیل چاند کے ایک پہاڑ سے نکلا ہے.ایک شخص نے کہا کہ چاند تو ہمارے سر پر ہو کر گزرتا ہے.ہم پر تو کوئی چھینٹ نہیں پڑتی اور نہ وہ دریائے نیل اس میں سے نکلتا ہوا معلوم ہوتا ہے.یہ سنتے ہی مولوی صاحب نے کہا کہ یہ کافر ہے اس کو لینا.خبردار ! جانے نہ پائے.بس پھر کیا تھا اس وعظ میں کشمیری بہت تھے.چاروں طرف سے اس پر ٹوٹ پڑے.جوتوں اور تھپڑوں سے مارتے مارتے بے ہوش اور ادھ موا کر دیا.میرے دل میں اسلام سے بڑی نفرت پیدا ہوئی.اس وقت وہاں سے اٹھا اور سیدھا ایک پادری کے پاس گیا کہ مجھ کو عیسائی بنالو اور کہیں دور جلد بھیج دو.پھر اب تک مجھ کو اپنے باپ کا حال معلوم نہیں.میں نے صرف انگریزی پڑھی.عیسائی مذہب کی تمام کتابیں پڑھ کر اعلیٰ درجہ کا پادری بنا.بہت دنوں تک مسیحی مذہب کا وعظ کرتا رہا اور مشن کا افسر ہو گیا.ایک روز ایک انگریز جو جالندھر کا کمشنر بھی رہ چکا ہے.ضلع جہلم میں مستم بندوبست بھی رہا ہے اور آخر کو حج ہو گیا تھا میرے پاس آیا اور مجھ کو ایک رسالہ دکھایا کہ اس میں لکھا ہے کہ اب دریائے نیل کا منبع معلوم ہو گیا ہے.ہماری قوم بھی کیسی جفاکش ہے.دریائے نیل کا منبع معلوم کرنے میں بہت سے لوگ اپنی عمریں ضائع کر چکے.بعض خاندانوں کی کئی کئی پشتیں اسی تحقیق میں گذر گئیں آخر اب معلوم ہوا کہ دریائے نیل جبل القمر سے نکلتا ہے.وہ ایک پہاڑ ہے جس پر ہمیشہ برف جمی رہتی ہے.اس کا نام جبل القمر یعنی چاند کا پہاڑ ہے.میں اس انگریز سے وہ رسالہ لے کر اور اس کو ٹال کر اندر کمرے میں چلا گیا اور اپنے باپ کو یاد کر کے بہت رویا اور میں نے کہا کہ اے خدا تعالیٰ ! ایک مولوی کی وجہ سے تو میں عیسائی ہوا تھا اور اب ایک عیسائی کے ذریعہ سے میں مسلمان ہوتا ہوں.اس میں شک نہیں کہ اسلام سچا

Page 269

۲۶۳ مذہب ہے.لیکن یہ میں نہیں جانتا کہ وہ (اسلام) ہے کیا اور اس کی اصلیت کیا ہے ؟ بہر حال میں مسلمان ہوں.چنانچہ میں اس روز سے مسلمان ہوں لیکن آج تک کسی مولوی سے نہیں ملا اور نہ کسی مولوی کی باتیں سنیں.آج آپ کی باتیں سن کر میرا خیال اس قدر بد لا کہ سب مولوی یکساں نہیں ہوتے لیکن مجھے کو ڈر معلوم ہوتا ہے کہ کسی مولوی کی بات سن کر پھر عیسائی نہ ہو جاؤں اور میری خواہش یہ ہے کہ مسلمان ہی مروں.(۱۸) اگست ۱۹۰۸ء) ہمارے ننھیال میں ایک نو عمر مولوی آیا.وہ بڑا کٹر وہابی تھا.میں نے اس کے پاس ایک کتاب دیکھی تو پہلا ورق جس پر کتاب کا نام ہوتا ہے اس پر دار الشفاء لکھا ہوا تھا.جب میں نے اندر سے کتاب کو کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ زینۃ الاسلام ہے.میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ کہا کہ زینة الاسلام کو سب جانتے ہیں کہ وہابیوں کی کتاب ہے اس لئے اس کا سرورق پھاڑ کر دار لشفاء کا سرورق چسپاں کر لیا ہے.مضمون سے بھلا کس کو خبر ہے.بس ہم تو اسی کتاب کو پڑھ کر سناتے اور اسی کا وعظ کرتے ہیں.(۱۸) اگست ۱۹۰۸ء) ایک بہت بڑے مولوی صاحب کے پاس دو شیعہ بھائی جو سوتیلے بھائی تھے گئے.ان دونوں میں جائداد کے معاملہ میں مقدمہ بازی تھی.ان میں سے ایک بھائی نے جو چالاک تھا دوسرے بھائی سے کہا کہ تو اس بات کو ثابت کر کہ میرے باپ نے تیری ماں سے نکاح کیا تھا.چنانچه مولوی صاحب کی خدمت میں فریق ثانی نے بڑی کوشش کر کے گواہ پیش کئے.مولوی صاحب کو فریقین نے اپنے مقدمہ کے فیصلہ کے لئے پنچ مقرر کیا تھا.بہت برس نکاح کو گزر گئے تھے.مدعی نے مولوی صاحب سے کہا کہ ہر ایک گواہ سے علیحدہ علیحدہ دریافت کیجئے.مولوی صاحب نے ایسا ہی کیا.ہر ایک گواہ سے مدعی سوال کرتا تھا کہ نکاح کے وقت میرے

Page 270

کامنہ کس طرف تھا اور تاریخ کیا تھی.وقت کیا تھا.وغیرہ وغیرہ.غرض کہ گواہوں میں کچھ کچھ اختلاف ہوا.اور مولوی صاحب نے فریق ثانی کی نسبت فتویٰ لکھ دیا کہ وہ حرامی ہے.جب اس کا حال مجھ کو معلوم ہوا تو میں مولوی صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ یہ آپ نے کیا غضب کیا ؟ مولوی صاحب نے کہا کہ گواہوں میں اختلاف ہی بہت ہے.کیا کیا جائے ؟ میں نے کہا کہ اچھا حضرت آیہ تو فرمائیے کہ اگر آپ سے آپ کی ماں کے نکاح کے گواہ طلب کئے جائیں تو آپ ثبوت دے سکتے ہیں ؟ سوچ کر کہا کہ نہیں.میں نے کہا پھر ! کہا میں حیران ہوں اب کیا کیا جائے ؟ تب میں نے کہا کہ فقہ کا مسئلہ ہے کہ نسب میں گواہی کی ضرورت بالکل نہیں.بس عرف عام کافی ہے.تب مولوی صاحب کی سمجھ میں آیا.(۲۶) ستمبر ۱۹۰۸ء) جموں میں میرے پاس ایک بہت بڑے مونوی صاحب آئے جو اب بھی زندہ ہیں.بہت دنوں تک میرے پاس رہے اور بڑی محبت سے پیش آتے تھے.ایک روز مجھ کو بہت ہی موافق دیکھ کر محبت کے عالم میں فرمایا کہ مجھ کو تسخیر کا عمل بتادو.میں نے کہا کہ میں تو دعا ہی کرتا ہوں.آپ بھی دعا ہی کیا کریں.میری بات کا ان کو یقین نہ آیا اور ناراض ہو کر چلے گئے.(۳۰/ جنوری ۱۹۱۲ء) ایک مرتبہ ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ ہم تم کو عمل تسخیر بتائے دیتے ہیں.میں نے کہا که قرآن کریم میں لکھا ہے.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ یعنی جو کچھ زمین و آسمان میں ہے ہم نے تمہارا مسخر بنا دیا ہے.اب اس.زیادہ آپ مجھ کو کیا بتائیں گے ؟ سن کر حیران سا رہ گیا.

Page 271

۲۶۵ (۱۸ر اپریل ۱۹۰۹ء) میں نے ایک مولوی سے کہا کہ ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس طرح احیاء کرتے تھے اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کیا.وہ کہنے لگے کہ یہ تو ایک معمولی سی بات ہے.میں نے کہا کہ اگر یہ معمولی بات ہے تو آپ اب بڑھے ہو گئے.بتاؤ اس وقت تک کس قدر احیاء کیا.یعنی کتنے شخصوں کو نیک بنایا.کہا ہم نے تو نہیں بنایا.میں نے کہا.اچھا.آپ نے کسی بڑے آدمی کو نیک بنانے کی کوشش بھی کی.کہا کہ نہیں.میں نے کہا آپ نے اپنے کسی بزرگ یا استاد کو کوشش کرتے دیکھا؟ کہا نہیں.میں نے کہا تم نے تو کہا تھا کہ یہ معمولی کام ہے.(۲۴) فروری ۱۹۱۲ء) میں نے کبھی کسی چور ڈاکو - رشوت خور جعل ساز کو راحت کی حالت میں نہیں دیکھا.ایک مرتبہ میں نے خلیفہ نورالدین جمونی سے ایک خط لکھوایا اور ایک مولوی صاحب کو جو جعل سازی میں مشہور تھے ، دیا.خفیہ طور پر میں نے اس پر ایک غیر محسوس نشان بنا دیا تھا.وہ مولوی خطہ بنا کر لائے تو وہ نشان بھی اس پر موجود تھا.میں حیران رہ گیا.ان سے پوچھا کہ اصل کونسا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس کو تو اب میں بھی نہیں بتا سکتا.وہی مولوی سنانے لگے کہ ایک مرتبہ میں نے ایک ساہوکار کے قرضداروں کو ہندی میں رسیدیں بنا دیں.جن کا اس ساہوکار سے عدالت میں انکار نہ ہو سکا.وجہ یہ تھی کہ اس نے ہم کو ایک دفعہ روپیہ نہیں دیا تھا.اسی مولوی کا ابھی تھوڑے دن ہوئے خط آیا.وہ بالکل پاگل ہو گئے.مال و متاع ان کے پاس کچھ نہیں.(۱۴) مئی ۱۹۰۹ء) میں امرتسر میں ایک شخص کے ساتھ صبح سے دوپہر تک سیر کرتا پھرا.میں نے اس عرصہ

Page 272

۲۶۶ میں اس کو بڑی بڑی باتیں سنائیں.آخر میں اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کا پاجامہ نیچا ہے.میں نے کہا تم نے میری باتوں سے کوئی نصیحت بھی حاصل کی؟ کہا کہ میں تو اسی خیال میں رہا کہ کوئی اعتراض کروں.(۱۴) مئی ۱۹۰۹ء) میں نے ریل میں ایک شخص کو قرآن شریف کا ایک نکتہ سنایا.اس نے کہا کوئی طب کی بات سناؤ کیونکہ قرآن تو تم جانتے ہی نہیں.میں نے کہا کیسے؟ کہا کہ میں قاری ہوں آیت کے پڑھنے میں فلاں حرف کا مخرج آپ کا صحیح نہیں تھا.۱۳۰ مئی ۱۹۰۹ء ضلع شاہ پور میں ایک مولوی صاحب کسی عورت کے معاملہ میں ماخوذ ہوئے.انہوں نے میرے ایک دوست سے کہا کہ ہمارے لئے دعا کرو کہ اس کا انجام کیا ہو گا.میں دونوں کو جانتا ہوں یعنی دعا کرنے اور دعا کرانے والے کو.میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ دعا تو میں نے بہت کی ہے لیکن میں نے نظارہ دیکھا ہے کہ گدھی ہے اور ایک گدھا ہے.اس گدھے کو لوگ پکڑتے ہیں اور وہ بھاگتا ہے.میں نے سن کر کہا کہ خواب یا کشف آپ کا صحیح ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَشْفَارًا.اس مولوی کو انہوں نے اصل بات تو نہ سنائی یہ کہہ دیا کہ نتیجہ کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا.چنانچہ اس مولوی کو کئی سال کی قید ہو گئی.(۸/ نومبر ۱۹۱۲ ء در خطبه جمعه ) ریل میں مجھ کو ایک کنچنی ملی.میں نے کہا تو کہاں گئی تھی؟ کہنے لگی.سبحان اللہ ! فلاں حضرت کے یہاں گئی تھی.انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ ہماری فقیر نی آگئی اور حکم دیا کہ اس

Page 273

کو تین سو روپیہ دے دو.اب مالا مال ہو کر مکان کو جا رہی ہوں.(۲۳) مئی ۱۹۰۹ء) ایک مولوی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہمارے ایک جنٹلمین دوست تھے.وہ انگریزی سوسائٹی میں بہت رسوخ رکھتے تھے.ایک برات کے موقع پر انہوں نے ہم کو شریک ہونے کی ترغیب دی.ہمارے پاس صرف ستر روپیہ تھے.ستر روپیہ میں اس جنٹلمین ہی نے ہمارے واسطے ایک سوٹ تیار کرایا اور کوشش کر کے کسی طرح ہم کو برات میں اپنے ساتھ لے گیا.جب برات میں گئے.وہاں کھانے کا وقت آیا تو ہم سے کہا کہ کھانے کا سوت (لباس) آپ کو پہننا چاہئے.اس لباس سے کھانے کی میز پر آپ نہیں جاسکتے.اسی طرح فٹ بال کالباس اور ہے ، سونے کا اور سیر کا اور وغیرہ.تین دن تک برات رہی.ہم تین دن تک لحاف اوڑھے ہوئے بیمار ہی بنے پڑے رہے.جب تین دن کے بعد رخصت کا وقت آیا.تب پھر ہمار اوہ لباس کام آیا.(۶) اکتوبر ۱۹۱۲ء) میں نے کسی امیر کو زکوۃ کا پابند نہیں دیکھا اور سوائے ایک مولوی کے جو وہ بھی میرا بھائی تھا، کسی مولوی کو بھی زکوۃ دیتے نہیں دیکھا اور نہ کسی گدی نشین کو زکوۃ دیتے دیکھا.شیعہ ( ۲۰ ) جولائی ۱۹۰۷ء) لاہور میں ایک مرتبہ میرا د عظ تھا.اثنائے تقریر میں میں نے کہا کہ اگر قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرما دیتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی ہی خلیفہ ہونگے تو کیسی جلدی فیصلہ ہو جاتا.ایک شیعہ نے بعد میں کہا کہ آپ نے بڑے اچنبھے کی بات بیان

Page 274

۲۶۸ کی.میں نے کہا کیسے ؟ کہا دو ہزار جگہ قرآن میں خلافت کو شیر خدا کا حق فرمایا ہے " میں نے کہا.کم سے کم نور الدین تو شیعہ ہو جائے گا.کہا کہ کل آپ ٹھہریں گے ؟ میں نے کہا.ہاں.پھر کئی روز تک شیعہ صاحب نہ آئے.ایک دن گلی میں مل گئے.میں نے کہا.ہم کو تو یہاں منتظر بٹھا گئے اور خود ادھر کا رخ بھی نہ کیا.کہنے لگے کہ جس مجند کے پاس گیا اسی نے بات تو نہ بتائی اور یہی کہا کہ اس کے پاس نہ جانا.مجتہدوں کو گالیاں دیتے ہوئے چلے گئے.(۸) جنوری ۱۹۰۷ء) مجھ سے کسی نے کہا کہ پنڈ دادنخان میں میتا نام ایک کنچنی ہے.وہ شیعہ گر ہے.یعنی لوگوں کو جو کوئی اس کے یہاں جاتا ہے ، شیعہ بنا دیتی ہے.اتفاقا وہ ایک روز بغرض علاج میرے پاس آگئی.بڑی مشہور اور پڑھی لکھی عورت تھی.اس کے میراثی نے جو اس کے ساتھ تھا مجھ سے کہا کہ آپ جانتے بھی ہیں یہ کون ہیں؟ میں نے کہا نہیں.کہا کہ میتا ہے.میں نے کہا اخاہ ! آپ ہی میتا ہیں.مجھ کو ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے.وہ ہنسی اور کہا کہ آپ مجھے سے کیا مسئلہ دریافت کریں گے.میں نے کہا کہ یہ بتاؤ امام حسین علیہ السلام نے کیوں یزید کی بیعت نہیں کی.اس نے کہا کہ یزید فاسق یعنی زانی تھا.اس لئے امام حسین نے بیعت نہیں کی.میں نے کہا تو امام حسین کو فاسقوں اور زانیوں سے نفرت تھی ؟ کہا ہاں.میں نے کہا کہ پھر جو خود ترغیب دے اور لوگوں کو زانی بنائے یعنی زنا کرائے اس سے بھلا امام حسین کس طرح خوش ہو سکتے ہیں ؟ کہا میں اس قدر نہیں پڑھی.لو نبض دیکھو.(۱۰) فروری ۱۹۰۸ء) میں نے ایک مرتبہ مالیر کوٹلہ میں مولوی شیخ احمد صاحب مجتہد سے کہا.یہ بتاؤ کہ کیا ثابت کیا جا سکتا ہے یا تمہارا اعتقاد ہے یا کسی شیعہ کا یہ اعتقاد ہے کہ قرآن شریف میں کوئی ایک پوری سورت بنا کر کسی نے داخل کر دی ہے ، خواہ وہ مصنوعی سورت چھوٹی سے چھوٹی کیوں

Page 275

۲۶۹ نہ ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں کوئی بھی سورت قرآن شریف میں اضافہ نہیں کی گئی.ہاں یہ ممکن ہے کہ قرآن شریف میں سے بعض سورتیں یا بعض آیتیں کم کی گئی ہوں اور ترتیب بگاڑی گئی ہو.جب انہوں نے یہ فرمایا تو میں نے ان سے کہا کہ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ والْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ افَوَاجًا سے معلوم ہوتا ہے که افواج در افواج لوگ دین الہی میں داخل ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے دیکھے.آپ مجھے صرف ایک فوج اور ایک فوج بھی نہ سہی ایک فوج کے صرف ایک دستہ اور ایک دستہ بھی نہ سی صرف دس پندرہ ہی نام سنا دیں (علی مرتضی کے سوا شیعوں کے اعتقاد میں صرف دو ڈھائی شخص مومن تھے ) یہ سن کر شیخ احمد صاحب مجہد ایسے سٹ پٹائے اور گھبرائے کہ انہوں نے کہا کہ اول تو لفظ اذا کی تحقیق نقی طور پر ہونی چاہئے.پھر یہ کہ آیا زمانہ حادث ہے یا قدیم.پاک ہے یا نجس.متصل ہے یا منفصل.میں نے عرض کیا کہ اسے لکھ دیجئے کہ ہم اذا کے معنی نہیں جانتے.انہوں نے لکھ دیا کہ ہم اذا کے معنی نہیں جانتے.جب بعد میں دو سرے شیعہ لوگوں کو معلوم ہوا تو بڑا شور مچا کہ یہ کیا کیا کہ تحریر دے دی.پھر تم مجتہد ہی کا ہے کے ہوئے.جب اذا کے معنی نہیں جانتے.چنانچہ میرے پاس ان کے آدمی آئے اور خوشامد کرنے لگے کہ وہ پرچہ دے دو.میں نے وہ پر چہ ان کو دے دیا.(۱۲ر مئی ۱۹۰۹ء) ایک شیعہ میرے پاس ایک کتاب پانچ جلدوں کی لایا.میں نے اس سے کہا کہ اس کی کیا قیمت ہے ؟ اس نے کہا اس کی یہ قیمت ہے کہ آپ اس کو ایک مرتبہ پڑھ جائیے.میں نے اس کی خاطر سے اس کے ۷۵ صفحے پڑھے اور اس کتاب پر یہ آیت لکھ دی.فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأَخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَا كَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ وَلَا دْخِلَنَّهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ

Page 276

ثَوَابَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ.اس کتاب میں حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گنہگار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس تمام کوشش کا یہ آیت کافی جواب تھا.(۲۲ مئی ۱۹۰۹ ء بعد نماز ظهر) میں مالیر کوٹلہ میں تھا کہ شیعوں کی طرف سے ایک اشتہار بلالی پریس ساڈھورہ کا چھپا ہوا نکلا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ تیری قوم سے مجھ کو نقصان پہنچا.میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قوم تو پھر ابو طالب اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہوئے؟ ایک شیعہ نے کہا.ہاں.میں نے کہا اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے كَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ (رکوع ۸ سوره انعام جب اس کا چرچا ہوا تو اگلے ہی دن تمام اشتہار شہر میں سے اتار لئے گئے.(۲۷) مئی ۱۹۰۹ء).میں نے اکثر شیعوں سے دریافت کیا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ تم یہ بتاؤ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کا مقابلہ کیا کیا ہے ؟ میں نے شیعوں سے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق نے کوشش کی اور کامیاب ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بقول تمہارے کوشش کی لیکن هَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا (۹/ جون ۱۹۰۹ء) میں نے ایک شیعہ سے دریافت کیا کہ تم جو متعہ کرتے ہو اس سے نطفہ رہ جائے اور

Page 277

۲۷۱ لڑکی پیدا ہو.تیرہ چودہ برس کے بعد پھر وہی لڑکی متعہ میں تمہارے پاس آجائے تو کیا صورت بچنے کی ہے؟ خاموش ہی رہ گیا کوئی جواب بن نہ آیا.(۴ار جون ۱۹۰۹ء) میں نے ایک شیعہ سے پوچھا کہ منافقوں کو قتل کرنے کا حکم تھا.ابو بکر و عمر کو کس نے قتل کیا؟ کہنے لگا کہ جب امام مہدی آئیں گے تو حضرت ابو بکر و عمر کو پیدا کریں گے اور ماریں گے.یہ سن کر ایک شخص نے سر پر خاک ڈالی اور شیعوں کے سامنے جا کر کہا کہ اول ابو بکر نے پھر عمر نے پھر عثمان " پھر معاویہ پھر یزید و غیر ہم نے ہم پر ظلم ہی کئے اور ہم سے یا ہمارے کسی امام سے کچھ بھی نہ ہو سکا.اب امید تھی کہ امام مہدی کے زمانہ میں چین ملے گا لیکن وہ تو آج معلوم ہوا کہ ابو بکر و عمر پھر پیدا ہو جائیں گے وہ بھلا کا ہے کو ہمیں چین لینے دیں گے.(۲۳) اگست ۱۹۰۸ء) میں نے شیعوں سے اکثر پوچھا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت سے تو حضرت ابو بکر و عمر و عثمان و زبیر و طلحہ وغیرہ اور اصحاب بدر پیدا ہوئے جو تمہارے نزدیک ظالم ، غاصب کافر مرتد تھے.اب تم بتاؤ کہ تمہاری دعوت سے کیا ہو گا؟ ایک شیعہ نے کہا.خیر اور تو ہوئے ہی مگر حضرت علی بھی تو پیدا ہوئے.میں نے کہا وہ تو بلا اثر دعوت پیدائشی طور سے ہی ولی پیدا ہوئے تھے.ان کا ذکر کیوں کرتے ہو ؟ (۲۹ نومبر ۱۹۰۹ء) مالیر کوٹلہ میں شیعوں کے ایک مجتد آئے.وہاں خوجے شیعہ رہتے ہیں.مجتہد صاحب نے سنا کہ یہ خوجے بوڑھے ہو گئے لیکن اکثروں کی ختنہ نہیں ہو ئیں.مجہتد صاحب نے حکم

Page 278

۲۷۲ دیا کہ ختنہ کرو اور سبب پوچھا کہ اب تک کیوں نہیں کیں ؟ انہوں نے کہا کہ سو روپیہ میں ختنہ ہوتی ہیں.ایک اور شخص نے مجھ سے کہا کہ شریعت پر تو عمل ہو سکتا ہی نہیں.میں نے کہا.کیوں صاحب تمہارے مراسم پر عمل ہو سکتا ہے ؟ لاجواب ہو کر سوچا اور سمجھ گیا.(۱۸ مارچ ۱۹۱۰ء) ایک مرتبہ ایک گوہر شاہ شیعہ میرے مکان پر آیا.مجھ کو پتہ لگا کہ کوئی اور شخص مولوی عبد اللہ مباحثہ کرنا چاہتے ہیں.اس شخص کو بھیجنے سے مطلب یہ ہے کہ آپ کو ٹولے.اس نے کہا کہ آپ کو قرطاس کا مسئلہ معلوم ہے ؟ میں نے کہا سیالکوٹ میں بنتا ہے.اور یورپ میں بہت کاغذ بنتا ہے.اس نے کہا کہ قرطاس کا کوئی مسئلہ ہے ؟ میں نے کہا.کاغذ گروں سے دریافت کرو.اس نے کہا کہ آپ کے مذہب کی کونسی کتاب ہے ؟ میں نے کہا قرآن کافی کتاب ہے.کہا کوئی اور؟ میں نے کہا کہ اور کتاب زیادہ سے زیادہ بخاری ہے.کہا بخاری میں کوئی قرطاس کا معاملہ ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں اس میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ اہل بیت میں سے ایک لڑکی ام کلثوم سے اپنا ناطہ کرنا چاہتے تھے.حضور نبی کریم نے جب کاغذ منگایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے خلافت لکھ دیں تو اہل بیت کو فکر ہوئی کہ اگر حضرت ابو بکر کا نام لکھا گیا.تو بڑی مشکل ہوگی.لہذا انہوں نے کہا کہ یہ تو سب جانتے ہی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی خلیفہ ہوں گے.لکھوانے کی کیا ضرورت ہے ؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل بیت کی طرف داری کی اور کہا کہ اہل بیت کی بات مان لو اور کاغذ رہنے دو.پھر اس شیعہ نے کہا کہ فدک کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا فدک کیا تھا؟ کہا.یہودیوں کے باغ تھے.میں نے کہا.قرآن شریف سورۃ حشر رکوع میں لکھا ہے کہ یہودیوں کے باغ پر کسی نے گھوڑے نہیں دوڑائے.یہ مال کسی کا نہیں.یہ مال مومنوں کا ہے اور مہاجرین کا.پس معلوم ہوا کہ یہ مال بہت سے لوگوں کا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہ سنیوں کا ہے وَالَّذِينَ جَاءُو مِنْ

Page 279

بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ یہ مال ان لوگوں کا ہے جو بعد میں آئیں گے.اے ہمارے رب! ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں کسی مسلمان کی نسبت کوئی کھوٹ نہ ہو.اب بتاؤ کہ جو اپنے آپ کو حقدار سمجھتے ہیں یعنی شیعہ وہ اگلے صحابہ کے حق میں دعا مانگتے اور مغفرت چاہتے ہیں یا ان سب کو تبرہ بھیجتے ہیں؟ قرآن کریم تو کہتا ہے یہ ان کا حق ہے جو تبرہ نہیں بھیجتے.(۳۱) جنوری ۱۹۱۲ء) ایک شیعہ نے مجھ سے کہا کہ یہ قرآن تو چپ کتاب ہے (اس کے الفاظ تھے کتاب صامة) اور حضرت علی کرم اللہ وجہ ناطق کتاب تھے.میں نے کہا کہ یہ کتاب تو کہتی ہے کہ میں بولتی ہوں.هَذَا كِتَابُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ (الجافیہ).اور اگر حضرت علی ناطق ہیں تو ان کی آواز میرے کان میں پہنچو اؤ تو سہی.عیسائی (۲۴ / جولائی ۱۹۰۷ء) بمبئی میں ایک شخص سید حسین پیدل جا رہے تھے.ایک عیسائی کو دیکھا کہ بگھی پر آرہا ہے.اس نے ان کو سلام کیا.انہوں نے بگھی رکوا کر کہا کہ گھوڑے میں زیادہ طاقت ہے یا تم میں ؟ اس نے کہا گھوڑے میں.انہوں نے کہا انسان نے جس کو اپنے آپ سے زیادہ طاقتور دیکھا اسی کو قابو کر لیا مگر تم نے خدا کو دیکھا او ر مان لیا اور اس کو قابو نہ کیا.(۲۳ / دسمبر ۱۹۱۱ء) ایک مرتبہ ایک عیسائی سے میری ملاقات ہوئی.میں نے اس سے کہا کہ زنا تم کرتے ہو تو

Page 280

۲۵۴ آتشک تم کو ہوتی ہے یا مسیح کو ؟ مبہوت رہ گیا.(۱۱۳ اپریل ۱۹۰۹ء قبل از درس در مسجد اقصی) بائیبل کو ہم نے بہت دفعہ پڑھا.ہمارے مطالعہ کی بائیبل جس پر ہم نے بہت سے قیمتی حواشی لکھے تھے.کسی نے چرالی.(۱۵ر مئی ۱۹۰۹ ء بعد نماز ظهر) ایک انگریز کا نام گارڈن تھا.اس نے مجھ سے کہا کہ یورپ نے بڑی ترقی کی ہے ؟ میں نے کہا کیا ترقی کی ہے؟ مسلمانوں کی صرف ایک اذان ہی کا مقابلہ کر لو.تم لوگوں سے سوائے گھنٹے بجانے کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن مسلمان کو ٹھوں پر بلند میناروں پر چڑھ کر پانچوں وقت اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہیں.کیا اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے جلال اور کبریائی کے لئے یورپ کوئی چیز ایجاد کر سکتا ہے؟ نہ یہودی مقابلہ کر سکتے ہیں.نہ مسیحی.نہ مجوسی.نہ ہندو - ایک اور انگریز سے اسی قسم کی گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ ہم نے ہی غلام آزاد کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ہم لوگوں ہی کے سر یہ سہرا بندھا.میں نے فور أجواب دیا کہ مسلمانوں کے ہاں تو اِنَّمَا الصدقات والی آیات میں خدا تعالیٰ نے غلام آزاد کرنے کے لئے ایک حصہ فی الرقاب مقرر فرما دیا ہے تمہاری انجیل میں تو کہیں غلاموں کے آزاد کرنے کے لئے کوئی بھی حکم نہیں.بھلا مسلمانوں سے بڑھ کر غلاموں کے آزاد کرنے کا دعوئی تم کیسے کر سکتے ہو ؟ وہ بھی سن کر کچھ حیران ہی سارہ گیا.(۱۹) مئی ۱۹۰۹ء) میں ایک مرتبہ سورہ مائدہ کے پہلے رکوع کی آیت الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَتُ وَطَعَامُ الَّذِینَ الخ پڑھا رہا تھا کہ ایک مسیحی جو بڑا آدمی تھا آگیا.اس نے اعتراض

Page 281

۲۷۵ کیا کہ مولوی صاحب یہ تو بڑا ظلم ہے کہ اسلام نے ہماری لڑکیاں تو تم کو دلا دیں اور تمہاری لڑکیاں عیسائیوں کو نہ دینے دیں.میں نے کہا کہ تم کو معلوم نہیں اس میں ایک بڑی پیشگوئی ہے ؟ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ عیسائی مسلمانوں کے بادشاہ ہوں گے.پس مسلمانوں کو کہا کہ تم تو اپنے حاکموں پر بدظنی نہ کرو لیکن وہ بغاوت وغیرہ کی بد ظنی تم پر کریں گے.اس لئے تم ان کی لڑکیوں سے شادی کر لو تا کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ ہماری تو لڑکیاں مسلمانوں کے گھروں میں ہیں.یہ اگر بغاوت کے منصوبے کریں گے تو ہم کو فوراً معلوم ہو جائیں گے.یہ سن کر وہ خاموش و حیران رہ گیا.(۳ ارجون ۱۹۰۹ء) ایک پادری نے مجھ سے کہا کہ تمہارے یہاں قرآن میں مکہ کو زمین کی ناف کہا ہے.میں نے کہا یہ قرآن شریف موجود ہے اس میں کہیں ناف کا ذکر نہیں.ہاں بائیبل میں یا جوج ماجوج کے ذکر میں مذکور ہے کہ وہ زمین کی ناف پر چڑھائی کریں گے.حدیثوں میں البتہ ناف کا ذکر ہے.بچہ ناف کے ذریعہ سے غذا حاصل کرتا ہے اسی طرح مکہ میں جو کتاب نازل ہونا شروع ہوئی.اس نے ہم کو روحانی غذا پہنچائی.(۲۰) جون ۱۹۰۹ء) ایک مسیحی نے مجھ سے کہا کہ بائیبل کے معنی ہم ہی خوب کر سکتے ہیں، تم نہیں کر سکتے.میں نے کہا تو ریت کے معنی پھر تو یہودی ہی خوب کر سکتے ہیں ، تم نہیں کرسکتے.(۳) اگست ۱۹۰۸ ء در درس بخاری بعد نماز ظهر در مسجد مبارک) ٹوانہ کے سردار عمر حیات خان کے والد ماجد ایک مرتبہ کسی انگریز کی کوٹھی میں گئے تو وہاں اس انگریز نے سوال کیا کہ سردار صاحب ایہ بتاؤ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ

Page 282

وسلم سچے رسول تھے ؟ انہوں نے کہا اور تو میں جانتا نہیں.ہاں اتنا جانتا ہوں کہ تمہاری کو ٹھی میں آکر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچے ہی معلوم ہوتے ہیں.اس نے کہا کیسے؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تین لاکھ روپیہ جمع ہے.اسی برس کی عمر ہے.اولاد کوئی نہیں.لیکن پھر بھی تمہاری کو ٹھی میں آکر یہی جی چاہتا ہے کہ کچھ زمین مل جائے.کوئی کرسی کا درجہ بڑھ جائے وغیرہ.دنیا میں مال و دولت اور عورت وغیرہ لطف کی چیزیں ہیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع کیا کہ دنیا کی محبت نہ کرو.کسی کا مال نہ لو.کسی کی عورت کو مت دیکھو.زنانہ کرد.پھر یہ کہ اپنی اولاد کے لئے بھی کوئی آمدنی کی کر مقرر نہیں کی.سادات کو زکوۃ لینے سے بھی منع کیا.بس اب یہ بتاؤ کہ پیغمبری سے انہوں نے خود فائدہ کونسا اٹھایا اور آرام کیا حاصل کیا؟ پھر یہ کہ اپنی اولاد کے لئے صدقہ بھی حرام کر دیا.یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے زبردستی ہی پیغمبری کا دعویٰ کرایا ہو گا یعنی خدا تعالیٰ نے ہی پیغمبر بنایا ہو گا ورنہ خود تو کوئی فائدہ اٹھایا نہیں.مجھے سے جب کسی نے یہ حکایت بیان کی تو میں نے سن کر کہا کہ اب ضرور ملک صاحب خان کے لڑکا بھی پیدا ہو گا.چنانچہ ان کے لڑکا پیدا ہوا جو موجود ہے.(۱۵/ اگست ۱۹۰۸ء) ایک پادری نے مجھ سے کہا کہ بہشت میں کھائیں گے تو پاخانہ کیوں نہ پھریں گے.میں نے کہا کہ تو نے نو مہینے ماں کے پیٹ میں کھایا کیا وہاں پاخانہ بھی پھر تا تھا.چپ ہو گیا.(۱۶) اگست ۱۹۰۸ء) ایک مرتبہ ریل میں ایک انگریز ہمارے ساتھ سوار ہوا.اس کا نام ینگسن تھا.ایک اور منشی جمال الدین تھے.انہوں نے اس انگریز سے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ قرآن شریف خوب جانتا ہے.وہ انگریز میرے پاس آگیا اور کہا آپ نے مَا قَتَلُوهُ وَمَا

Page 283

صَلَبُوهُ پر غور کیا ہے ؟ میں نے اس کو بہت تفصیل سے سمجھایا.اس نے مجھ سے سن کر کہا کہ آپ کا نام کیا ہے ؟ میں نے کہا نور الدین ہے.کہا جموں والا؟ میں نے کہا ہاں.وہ فوراً علیحدہ ہو گیا اور پھر تمام سفر میں مجھ سے بولا ہی نہیں.(۱۸ / اکتوبر ۱۹۱۲ء بروز جمعه) میں ایک گاڑی پر سوار ایک انگریز پادری کی کوٹھی کے سامنے سے گزرا.میرے ساتھ ایک گریجویٹ لڑکا بھی سوار تھا.اس نے مجھ سے کہا کہ آپ اس انگریز سے ضرور ملاقات کریں.بڑا فلسفی ہے.اس نے زیادہ مبالغہ کیا تو میں نے کہا کہ مسیحی فلسفی نہیں ہو سکتا.اس نے کہا کیوں؟ میں نے کہا کہ اچھا تم اول اس کے پاس جا کر کہو کہ مجھے کو تھری ون ( تثلیث) کے مسئلہ کی فلاسفی سمجھادیجئے.وہ لڑکا بے تکلف فورا اس کے پاس چلا گیا اور اس سے تھری ون ( تثلیث ) کے مسئلہ کی فلاسفی دریافت کی.پادری نے جواب میں کہا کہ اس مسئلہ کے صحیح ہونے کی دلیل یہی کافی ہے کہ ہم نے اس کو مان لیا اور ایشیائی دماغ اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے.وہ لڑکا واپس آیا اور کہا کہ اس نے ہماری بڑی تحقیر کی اور کہا کہ اس کا فہم ایشیائی دماغوں سے بالا تر ہے.میں نے کہا کہ تم پھر جاؤ اور اس سے کہو تمہارا خدا ( مسیح) بھی ایشیائی تھا اور اس کے مرید پولوس - پطرس بھی ایشیائی.آپ کے قاعدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تینوں اس مسئلہ کو نہیں سمجھے تھے.جب تمہارا خدا اور اس کے خلیفے بھی نہیں سمجھ سکے تو تم کیسے سمجھ گئے ؟ وہ پادری سن کر ہنس پڑا.وہ لڑکا سمجھ گیا کہ یہ ہنسنا لاجواب ہونے کی علامت ہے.مجھ سے آکر کہا کہ وہ تو لا جواب ہو گیا.انہیں ایام میں کچھ عرصہ کے بعد اس پادری کو عیسائیوں کے ایک مجمع میں لیکچر دینے کا اتفاق ہوا اور اتفاق سے وہ لڑکا بھی اس مجمع میں موجود تھا لیکن پادری صاحب نے اس کو نہیں دیکھا تھا.وہاں پادری نے اپنے مسیحیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ان کالجوں کے گریجویٹ لڑکوں سے بچنا چاہئے.یہ بڑے خطرناک ہوتے ہیں.ایک تعلیم یافتہ لڑکے نے مجھ سے ایسا سوال کیا کہ میں اس کو کوئی جواب نہیں

Page 284

۲۷۸ دے سکا اور نہایت سراسیمہ ہو گیا اور اب تک بھی جواب نہیں دے سکتا.(۱۰) تمبر ۱۹۰۹ء) ایک عیسائی مجھ کو ریل میں ملا.میں نے اس سے کہا کہ تم بڑی کوشش کرتے ہو.کہنے لگا کہ جس کا گھر پہاڑ پر بنا ہو اس کو کیا فکر ، لیکن جس کا گھر ریت کے تو وہ پر بنا ہو وہ کوشش بھی نہ کرے ؟ ہمارامذہب تو ریت کے تو وہ پر ہے.ہم کوشش نہ کریں تو کیا کریں.(۳۰/ جنوری ۱۹۰۹ء) راولپنڈی میں ایک شخص صفدر علی تھا.وہ عیسائی ہو گیا.اس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام نیاز نامہ تھا.ایک مولوی صاحب نے اس میں آیت وَامِنُوا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ کی بحث دیکھی اور گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے کہ قرآن شریف تو انجیل کو سچا بتاتا ہے.میں نے کہا ما معکم کے مصداق تو یہودی ہیں نہ کہ عیسائی.مولوی صاحب کی سمجھ میں بات اچھی طرح نہ آئی تو میں نے ان سے کہا کہ تم اس عیسائی سے جا کر یہ پوچھو کہ وہ انجیل جو حضرت عیسی پر نازل ہوئی ہے کونسی ہے؟ چاہے کسی دوسرے نے ہی جمع کی ہو.مولوی صاحب گئے اور دریافت کیا تو عیسائی نے جواب دیا کہ ہمارے یہاں عیسی کوئی نہیں.رب ، ہمارے خداوند.سو وہ تو خود کتاب نازل کرتے ہیں.تمیز بخشتے ہیں.ان پر کوئی کیا کتاب نازل کرتا اور ان کو کوئی کیا تمیز سکھاتا.مولوی صاحب یہ جواب سن کر میرے پاس آئے تو میں نے ان سے کہا کہ لو تم تو فارغ ہوئے.اب اگر کوئی یہودی ہو تو اس کو بتاؤ اس کا بھی علاج بتا ئیں.(۱۵) فروری ۱۹۰۹ء) ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح کیوں کرتے

Page 285

۲۷۹ ہو ؟ میں نے کہا تم یہ بتاؤ تم کسی بات کے قائل بھی ہو جو کسی مذہب نے مانی ہے ؟ کہا کہ ہاں دعا کا قائل ہوں.میں نے کہا کہ زمین گول ہے.نماز کا وقت زمین پر ہر جگہ ہوتا ہے.مسلمان دنیا کے ہر حصہ میں پائے جاتے ہیں یعنی ہر وقت سینکڑوں ہزاروں لوگ نمازیں پڑھتے ہیں.پھر ہر نماز میں درود پڑھی جاتی ہے اور یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو تا.تو بتاؤ کہ کوئی رسول بھی ایسا ہے جس کے لئے اس قدر دعائیں مانگی جاتی ہوں اور مانگی گئی ہوں.حسب خواہش محمد یوسف صاحب ان کا خط بجنسہ درج کیا گیا.انہوں نے چاہا کہ اس طرح میرا نام بھی اس کتاب میں درج ہو جس کو وہ اپنے لئے موجب سعادت سمجھتے ہیں.(مرتب) سیدی مخدومی جناب خان صاحب! اسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاته ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ء کو قریباً تین بجے دن کے درس حدیث میں حضرت امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مباحثہ کا جو ان کو ایک عیسائی سے پیش آیا تھا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر فرمانے کے بعد فرمایا کہ محمد اکبر (شاہ) خان صاحب کچھ لکھا کرتے ہیں.وہ ہر وقت تو یہاں ہوتے نہیں اور ہمیں باتیں ایک ہی مرتبہ یاد نہیں آتیں.کبھی کبھی کسی سبق کے وقت یاد آجاتی ہیں.یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے اس لئے خان صاحب کو لکھوادیں.لہذا درج ذیل ہے.راقم محمد یوسف سب ایڈیٹر بد ر قادیان) ایک دفعہ میں ریل میں آتا تھا.ایک عیسائی مجھے ملا.اس نے کہا اب تو اسلام کے مقابل میں ایسی کتاب لکھی گئی ہے کہ اسلام اس کے سامنے ہر گز نہ ٹھہرے گا.میں نے کہا.وہ ایسی کون سی کتاب ہے؟ کہنے لگا کہ اس کتاب کا نام تنقید القرآن ہے اور پادری عماد الدین نے لکھی ہے.میں نے کہا اس کی کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ تنقید سناؤ.اس نے کہا کہ قرآن نے جو یہ

Page 286

۲۸۰ دعوی کیا ہے کہ یہ خاص قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے اور چونکہ نبی کریم قریش مکہ میں سے تھے ، دوسروں کی زبان نہیں بول سکتے تھے.اس کتاب میں یہی ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن میں فلاں لفظ فلاں زبان سے اور فلاں لفظ فلاں زبان سے آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاص قریش میں سے نہ تھے اور قرآن شریف بھی خاص قریش کی زبان میں نہیں ہے.میں نے کہا.دیکھو میں بھیرہ کا رہنے والا پنجابی آدمی ہوں اور اردو بولتا ہوں تو کیا اس سے میرا پنجابی ہونا باطل ہو جائے گا؟ اور پھر قرآن شریف میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ خاص قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے.اس پر وہ خاموش ہو کر سوچنے لگا اور کہا کہ آپ ہی بتائیں کہ آیا قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت ہے یا نہیں جس میں لکھا ہو کہ یہ قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے ؟ میں نے کہا کہ یہ نہیں لکھا بلکہ وہاں تو صرف یہ لکھا ہے.بِلِسَانٍ عَرَبِي مُّبِينٍ یہ سن کر مجھ سے کہنے لگا کہ آپ نے اس کتاب کا ستیا ناس ہی کر دیا.ہندو - دہریہ (۱۳/ نومبر ۱۹۰۵ء) میں نے ایک رئیس کو جو بوڑھا آدمی تھا ایک مرتبہ رات کے وقت ناچتے ہوئے دیکھا.صبح کو اس مکان میں میں نے جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سانپ کی ایک مورت کسی دھات کی بنی ہوئی ہے.میں نے اس کو انگلی سے ٹھو کا دیا تو اس میں سے جھنکار کی آواز دیر تک نکلتی رہی وہ آواز سن کر وہ رئیس جو قریب کے مکان میں تھا آگیا اور کہا رام رام یہ آپ کیا کرتے ہیں ؟ میں نے اس کو بہت شرمندہ کیا.غرض مشرک اعلیٰ درجہ کا بیوقوف ہوتا ہے.

Page 287

۲۸۱ (۳۰ / دسمبر ۱۹۰۵ء) سفر میں ایک بادشاہ کی مجلس میں بڑے طویل و عریض مقام پر سفید چاندنی بچھی تھی اور نرم نرم ہوا کے باعث اس میں خوشنما تموج ہو تا تھا جو بھلا معلوم ہو تا تھا.اسی حال میں وہ بادشاہ اپنے وزیر سے جو د ہر یہ مزاج تھا، ہستی باری تعالیٰ پر بحث کر رہا تھا.بادشاہ نے مجھ سے فرمایا کہ ہستی باری کی کوئی دلیل بیان کرو.میں نے عرض کیا کہ یہ دلر با تموج چاندنی کا.بادشاہ نے جب اس طرف دیکھا تو اس کو نہایت اچھا معلوم ہوا اور مجھ سے کہا کہ کیونکر ؟ میں نے عرض کیا کہ اس تموج کا باعث چاندنی کا ارادہ ہے یا اس میں طبعی خواہش ہے ؟ وزیر نے کہا کہ یہ تموج ہوا کی خاص رفتار کے باعث ہے اور یہ متاثر چاندنی بے ارادہ ہے.میں نے عرض کیا کہ اس طرح اس وقت ہوا کی طبعی خاصیت ہے ؟ اس نے کہا کہ ایک خاص انقباض کے باعث ہوا میں یہ خاص رفتار ہے.میں نے کہا کہ یہ انقباض بالا رادہ ہے ؟ اور مجھے یقین تھا کہ یہ فلسفی ہے دو تین قدم سے زیادہ نہیں چلے گا.اس نے کہا کہ اس انقباض خاص کا سبب غیر معلوم ہوتا ہے.میں نے کہا وہ غیر معلوم سبب ارادہ رکھتا ہے کہ نہیں ؟ اس پر بولا کہ ایک گریٹ پاور اس انتظام کا موجب ہے.اس پر میں نے اور بادشاہ نے معا کہا کہ یہ اصطلاحی لفظ ہے.اس کو اللہ.پر میشر - گاڈ جو چاہو کہو.تب اس نے کہا کہ میں منکر نہیں بلکہ طالب دلیل ہوں.(۱۴ اپریل ۱۹۰۷ء) ایک عظیم الشان شہزادہ کے حضور ایسا اتفاق ہوا کہ ہم لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے اور نیچے دری تھی.وہ شاہزادہ منکر ہستی باری تعالیٰ تھا.اثنائے گفتگو میں اس نے ایک ڈاکٹر کو اپنا استاد بتایا.میں نے کہا کہ اسے طلب فرما ئیں.وہ بلایا گیا.میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ یہ سیاہ تاگا جو دری میں ہے اس میں فطری خواہش ہے کہ وہ سیدھا اس مقام تک رہے اور ادھر ادھر نہ جائے ؟ ڈاکٹر بولا مولوی صاحب! ایک دری باف کے ارادہ نے اس کو سیدھایا ٹیڑھا کیا.مگر

Page 288

۲۸۲ ہم نے اس دری باف کو دیکھا ہے اور آپ کے صانع کو ہم نے نہیں دیکھا.میں نے کہا ڈا کٹر! سوچ کر کہو.تم نے اس دری کے دری باف کو دیکھا ہے کیا یہ سچ ہے ؟ کہا کہ اس کے مثل کو دیکھا ہے.میں نے کہا کیا اس کی اور مثل ہے؟ تو بولا اصل بات یہ ہے کہ میں بچہ تھا جب میں نے مولوی صاحب کو دیکھا اس لئے میں اس وقت بحث میں دب گیا ہوں.(۳/ جنوری ۱۹۰۷ء) میں نے ایک برہمو سے پوچھا کہ تمہارا اصل اصول کیا ہے.اس نے کہا کہ دعا.میں نے کہا تم غلط کہتے ہو.کہا کس طرح؟ میں نے کہا مشاہدہ - کہا وہ کیونکر ؟ میں نے کہا تم اپنی کوئی اعلیٰ درجہ کی دعا سناؤ تو سہی.اس کو شرم سی آگئی اور کچھ دیر چپ رہ کر کہا کہ آپ ہی سنائیں.میں نے کہا دعویٰ تمہارا اور سناؤں میں.خیر اس کے اصرار پر میں نے سورہ فاتحہ کو بہت سی باتیں مد نظر رکھ کر مع ترجمہ سنانا شروع کیا تو اس نے جھٹ نوٹ بک نکال کر لکھنا شروع کیا اور کہا کہ اصل دعا تو یہی ہے.(۶ ارمئی ۱۹۰۹ء) ایک آریہ نے مجھ سے اعتراض کیا کہ تمہاری شریعت میں مردوں کے واسطے جنت میں بدلہ ملنے کا ذکر ہے ، عورتوں کے لئے نہیں.میں نے اس کو یہ آیت پڑھ کر سنائی لا أُضِيعُ فَعَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِّنْ ذَكَر وانثى.(۱۹ مئی ۱۹۰۹ء) ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ وہ طالب علموں کو ساتھ لے کر بڑے بڑے عالی شان مکانوں کے قریب جاتا اور ان کو دیکھ کر کہتا کہ میرے دل میں بڑی تمنا ہے کہ یہ عربی کے مدر سے ہوتے اور مسلمان ایسے ہوتے ، ایسے ہوتے.یوں عزت و احترام کے ساتھ رہتے

Page 289

۲۸۳ وغیرہ.پھر جب خوب ان باتوں کا اثر ہو جاتا تو کہتا کہ اگر کوئی قوت واقعی ہوتی یعنی خدا تعالٰی ہو تا تو کیوں یہ اندھیر ہوتا.دیکھو کیسی باریک دربار یک طریقہ سے دہریت کی تعلیم.(۹۱) مئی ۱۹۰۹ء) مجھ سے ایک آریہ نے اعتراض کیا کہ تم قبلہ کی سمت کو کیوں معزز سمجھتے ہو اور نمازوں میں اس طرف کو منہ کرتے ہو ؟ میں نے کہا کہ ہون کرتے وقت تم اس طرف پشت کیوں نہیں کر لیتے ؟ پھر اب جو تم نے مجھ سے بات کی تو میری طرف پشت کیوں نہیں کی ؟ کہنے لگا اب کبھی یہ اعتراض نہ کروں گا.(۲۰) مئی ۱۹۰۹ء) ایک نو مسلم لڑکے کی تعلیم پر میں نے ہزار ہا روپیہ خرچ کیا.اس نے مجھ کو ایک کارڈ لکھا کہ میں تمہارے اس ناپاک مذہب اسلام سے پھرتا ہوں اور اب گنگا نہانے یعنی پوتر ہونے جاتا ہوں.میں نے اس کو لکھا کہ تمہارا روح افزا کارڈ پہنچا.اگر تم ایک مرتد ہو گے تو اللہ تعالیٰ ہم کو ایک جماعت دے گا اور یہ آیت بھی لکھی يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي الله.....(مائدہ) جس وقت یہ کار ڈلکھا تھا اس وقت سید حامد شاہ بھی کشمیر ہی میں میرے پاس تھے.وہ لڑکا اب ہمارے مریدوں میں ہے.(۸/جون ۱۹۰۹ء) ایک سراؤگی (بینی) کے کیڑے پڑ گئے.میں نے تیزاب ڈال کر ان تمام کیٹروں کو ہلاک اور زخم کو صاف کیا.وہ مجھ کو بڑی دعا ئیں دینے اور کہنے لگا کہ مہاراج بڑی کرپا ہوئی.میں نے کہا.کرپا کیا خاک ہوئی ؟ تمہارے مذہب پر تو پانی پھر گیا.ایک جیو کے عوض میں ہزاروں جیو ہلاک ہوئے.

Page 290

۲۸۴ (۲۶ / جون ۱۹۰۹ء) ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ فضا میں عدم محض ہے.میں نے کہا تو پھر چاند سورج عدم محض میں چلے گئے ؟ کہنے لگا.لفظوں کی غلطی نہ پکڑو.میں نے کہا آخر کلام تو لفظوں ہی سے ہوتا ہے.(۹تر اگست ۱۹۰۸ء) ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ تمہارے خدا کی کیا شکل اور کیارنگت ہے ؟ میں نے کہا.تو اول یہ بتا کہ تیری آواز کی کیا شکل ہے ؟ تیری قوت ذائقہ کی کیا صورت ہے ؟ تیری بینائی کی کیا رنگت ہے؟ اس نے کہا.کم از کم ان کے مقام تو معین ہیں.میں نے کہا.زمانہ کی کوئی جگہ مقرر ہے ؟ ایک سیکنڈ کا لا کھواں حصہ بھی سارے جہان کو اپنی بغل میں لئے بیٹھا ہے.زمانہ کی کوئی شکل بھی نہیں اور زمانہ موجود بھی ہے اور اس کا کوئی مکان بھی معین نہیں.پس ہم ایسی بہت سی مخلوق کو جانتے ہیں جس کی کوئی جگہ مقرر نہیں کر سکتے.مخلوق میں جب ایسی مثالیں ہیں تو خد ا تو پھر خدا ہی ہے.(۲۸ دسمبر ۱۹۰۹ء) کفرو شرک بھی بڑی ظلمت ہے.میں نے بڑے بڑے ہندوؤں کو ناچتے اور سفید داڑھیوں پر بتوں کے سامنے طنبور بجاتے ہوئے دیکھا ہے.ضلع سیالکوٹ میں ایک شخص اپنی لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ نچوا تا تھا.(۱۰) اکتوبر ۱۹۱۰ء) ایک برہمو نے مجھ سے کہا کہ آپ لوگ مکہ معظمہ کی پرستش کرتے ہیں.میں نے کہا کہ پرستش کے معنی کیا ہیں بتاؤ ؟ کہا ہو جا.میں نے کہا پو جا کس کو کہتے ہیں ؟ تب اس نے

Page 291

۲۸۵ پرستش کے معنی بتائے کہ جس میں دھیان ہو.عظمت ہو.میں نے ایک شخص سے کہا کہ ذرا نماز پڑھو.اس نے پڑھی.میں نے اس برہمو سے دریافت کیا کہ بتاؤ اس میں کوئی مکه معظمہ کا دھیان یا عظمت ہے یا مکہ سے کوئی دعا مانگی گئی ہے؟ (۱۳) نومبر ۱۹۱۰ء) ایک شریر آدمی نے مجھ سے کیا کہ اگر اس زمین سے آسمان تک اور لا انتها فضا تک کو پتھروں سے بھر دیا جائے تو پھر (نعوذ باللہ) تمہارا خد ا کہاں جائے گا؟ میں نے کہا کہ زمانہ ان سب پر حکومت کرتا ہے یا نہیں ؟ مثلاً ایک سیکنڈ تمام فضا اور تمہارے پتھروں پر گذر تا ہے یا نہیں؟ کہا ہاں زمانہ تو ان پتھروں سے نہیں کچلا جاتا.میں نے کہا.زمانہ تو خدا تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے.(۲۴ / جنوری ۱۹۱۲ء) ایک وکیل نے مجھ سے دریافت کیا کہ ہستی باری تعالی کی دلیل کیا ہے ؟ میں نے کہا.تمہاری کوئی جماعت ہے؟ کہا.نہیں.میں نے کہا.تم کسی کے ہادی ہو ؟ کہا.نہیں.میں نے کہا.تم یہ چاہتے ہو کہ جھوٹے مشہور ہو جاؤ ؟ کہا.نہیں.میں نے کہا.جب تم جیسا لچر آدمی بھی اپنے آپ کو جھوٹا کہلانا پسند نہیں کرتا تو بھلا یہ انبیاء کی تمام جماعت کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ وہ جھوٹ بولیں؟ پھر مشرق سے لیکر مغرب تک شمال سے لیکر جنوب تک اور ہر زمانہ کے نبی متفق ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے مکالمہ کرتا ہے.(۷ار فروری ۱۹۱۲ء) ایک دہر یہ میرے پاس بہت آتا جاتا تھا.اس نے کہا کہ ایک ہندو قرآن کا بڑا ماہر ہے اور وہ تمہار ا واقف نہیں.واقف ہو کر شاید بحث نہ کرے.لہذا ابھی چلو.میں گیا.اس سے کہا کہ

Page 292

۲۸۶ سنا ہے آپ قرآن شریف کو خوب جانتے ہیں اور آپ نے کچھ اعتراض بھی کئے ہیں.غرض بہت سی باتوں کے بعد اس نے کہا کہ ذرات عالم مفقود نہیں ہوتے اور قرآن میں لکھا ہے کہ مفقود ہو جاتے ہیں.میں نے کہا کہ یہ دو دعوے ہیں.ایک کا ثبوت آپ کے ذمہ کہ مفقود نہیں ہوتے اور دوسرا قرآن کے ذمہ کہ مفقود ہو جاتے ہیں.قرآن کریم منگایا گیا.اس نے آیت نکالی كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ میں نے کہا کل کا ترجمہ کیا ہوا؟ کہا ہر چیز من کا ترجمہ نہ کر سکا.علیها کا ترجمہ کیا.جو زمین پر ہیں.میں نے کہا اس سے تو ثابت ہوا کہ جو زمین کے اوپر اوپر ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ سب نہیں.پھر میں نے کہا.کہ اس میں مفقود کا لفظ نہیں.معدوم کا لفظ بھی نہیں؟ اب فان کا ترجمہ باقی ہے کہ معدوم معنی ہیں یا نہیں ؟ وہ کچھ حیران پریشان سا رہ گیا.(۱۳) جون ۱۹۱۲ء) میں ایک مرتبہ راولپنڈی گیا.ایک آریہ دوست نے میری خاطر عمدہ عمدہ خربوزہ لا کر میرے آگے رکھے.اپنے ہی ہاتھ سے کاٹنے لگا.پہلے پیج علیحدہ کئے.پھر قاشیں بنائیں.پھر چھلکے علیحدہ کئے.پھر شکر ملائی.جب میرے آگے رکھنے لگا تو کہا گوشت کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ میں نے کہا.بندہ تو کوئی گوشت نہیں کھاتا.یہ سوال بے ہودہ ہے.حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ بڑے مہاتما ہیں.یہ بھلا گوشت کے مجوز ہو سکتے ہیں؟ وہ میرے طرز مباحثہ سے ناواقف تھا.میں نے کہا کہ میں نے اپنی مدت العمر میں ایک برہمن کو گوشت کھاتے ہوئے دیکھا ہے.(ایک اودھ کی طرف کا برہمن تھا.وہ کشمیر میں فوج کا کرنیل تھا.بازار سے گوشت لا تا اور راستہ میں کچا ہی کھاتا ہوا جاتا، میں نے ایک قاش اٹھائی اور کہا کہ اس کا نام خربوزہ تو نہیں ہے.خربوزہ تو وہ تھا جس کا اکثر حصہ یعنی پیج اور چھلکا وغیرہ تم نے پھینک دیا ہے.یہ کیا ہے؟ کہا یہ تو شکر مل کر کوئی مرکب چیز ہی بن گئی ہے جو کچھ اس کا نام رکھا جائے.میں نے کہا.انسان ایسا مرکب ہے کہ خربوزہ تک کو نہیں کھا سکتا یہ بھلا گوشت کیا کھا سکتا

Page 293

۲۸۷ ہے ؟ ہمارے گھر میں گوشت آتا ہے اس میں گھی.زعفران - دار چینی - خشخاش - بیسن وغیرہ چیزیں ملا کر پکاتے ہیں.وہ ایک مرکب تیار ہوتا ہے اس کو گوشت نہیں کہہ سکتے.ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں گوشت بھی ہے.بھلا انسان بکری کی طرح ساگ بھی کہاں کھا سکتا ہے ؟ مختلف واقعات (۰ار جنوری ۱۹۱۲ء) ایک مرتبہ ایک موچی میرے پاس فروخت کے لئے ایک جوتی لایا.دور سے تو اچھی معلوم ہوتی تھی.جب میں نے ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس میں بھراؤ معلوم ہوا.میں نے کہا اس میں تو کھوٹ معلوم ہوتا ہے.وہ بوڑھا موچی مجھ سے کہنے لگا کہ میاں کھوٹ نہ کریں تو روٹی کیسے کھائیں.بھلا سچ سے کہیں روٹی ملتی ہے ؟ میں نے اس سے کہا کہ تو اتنا بوڑھا ہو گیا اب تک تجھ کو جھوٹ ہی کے ذریعہ سے روٹی لی ہے؟ (۱۰ دسمبر ۱۹۱۲ء) میں ایک مرتبہ جے پور میں تھا.وہاں کے راجہ نے اپنے آدمیوں سے کہا.ایک بت خرید و - بت سازوں نے یہ چالا کی کی کہ بہت سے بت بنا کر شام کے وقت لائے.راجہ نے کہا کہ اچھا کل دیکھیں گے.ان بتوں میں ایک ٹوٹا ہوا بت بھی بت سازوں نے شامل کر دیا تھا.صبح کو انہوں نے کہا کہ آپ کے آدمیوں نے رات کے وقت ایک بت کا گلا کاٹ دیا ہے.میں نے کہا کہ میں ہی ایک مسلمان یہاں ہوں مگر مجھ کو تو یہ لوگ ان بتوں کے پاس بھی نہیں جانے دیتے.راجہ نے کہا کہ یہ لوگ بت ساز) ایسے ہی ہوتے ہیں.ان بت سازوں کو قیمت اس بت کی دے دی.میں نے کہا جو بت اپنا گلا کٹوا بیٹھاوہ بھلا آپ کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟

Page 294

۲۸۸ (۵ار جنوری ۱۹۱۲ء) میں نے مختلف اضلاع کے جیل خانوں کے داروغوں سے دریافت کیا ہے.معلوم ہوا کہ قیدیوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے.میں نے ایک شہر کے جیل خانہ میں معلوم کیا تو کل قیدی ۳۳۵ تھے.جن میں صرف ۱۳ ہندو اور ۳۲۲ مسلمان تھے اور اسی ضلع کے مدرسوں میں کل ۱۴۰۰ا لڑکے پڑھتے تھے جن میں صرف ۱۴ مسلمان اور ۱۳۸۶ ہندو تھے.تم غور کرد اور سوچو.خدا تعالیٰ سے استغفار کرو اور ڈرو.(۲۰ / جنوری ۱۹۱۲ء) ایک نوجوان کو میں نے دیکھا کہ اس کے یہاں فسق و فجور بہت ہی ہو تا تھا اور رات دن ہنسی مذاق ، دل لگی ہوتی رہتی تھی.اگر چہ وہ میرا راستہ نہ تھا.لیکن میں پھیر کھا کر بھی اسی طرف کو جاتا اور کوئی ان کا ملازم ذرا جھوٹ موٹ بھی کوئی بات کرتا تو میں تھوڑی دیر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگتا.میری وہاں بہت بڑی وجاہت تھی.پھر کسی وجیہ آدمی کا اس طرح کھڑے ہو جانا معمولی بات نہ تھی کہ بے اثر رہے.رفتہ رفتہ وہاں واقفیت اور تعلق بڑھ گیا.ایک دن دوپہر کے وقت ان کا ایک آدمی آیا.میں سمجھ گیا کہ آج نکتہ حل ہونے لگا ہے.اس آدمی نے آکر کچھ نہ کہا اور خاموش کھڑا رہا.میں نے اس کو دیکھ کر خود ہی کہا.چلو اور فورا اٹھ کر چل کھڑا ہوا.وہ بھی میرے ساتھ ساتھ خاموش اور شر میں صورت بنائے ہوئے چلا.وہاں پہنچے.میرے جا کر بیٹھنے کے بعد رفتہ رفتہ تمام حاضرین چلے گئے.صرف میں اور وہ رکیں تنہا رہ گئے.میں نے کہا.فرمائیے.وہ کچھ کہتے ہوئے رکا.میں نے بڑی جرات کے ساتھ اس کے کچھ کے بدوں اس کا کمربند کھول دیا.دیکھا تو عضو تناسل کا بڑا حصہ آتشک کے زخم سے گلا ہوا تھا.تب مجھ کو معلوم ہوا کہ اس خوشی کے شور میں یہ رنج ہے.خدا تعالیٰ بے وجہ کسی کو نہیں پکڑتا.

Page 295

۲۸۹ (۲۷ / جنوری ۱۹۱۰ء) بعض آدمی لباس ہی کے بنانے میں مصروف رہتے ہیں.میں جب ریاست بھوپال میں تھا تو وہاں کے شاہی خاندان میں ایک شادی تھی.میرے ایک وہاں کے شاگر د تھے جو اب بھی وہاں اچھے عہدہ پر ہیں.انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم بھی چلیں گے.میں نے کہا.اچھا.وہ گھر سے کپڑے بدل کر آئے جو بڑے ہی زرق برق تھے.یہ معلوم ہو تا تھا کہ ان میں سونا ہی سونا ہے.وہ جب آگئے تو مجھ سے کہا کہ آپ نے کپڑے نہیں بدلے.میں نے کہا کہ بھائی ہمارا دوست ہدایت اللہ تو کہیں مکان بند کر کے چلا گیا ہے.چنانچہ ویسے ہی چل کھڑے ہوئے.جب پہلی ڈیوڑھی پر پہنچے تو وہ آگے تھے اور میں پیچھے.دربان نے ان کو روکا.میں آگے بڑھ کر گیا اور دربان سے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ ہیں.اس نے کہا اچھا.میں نے دربان سے کہا کہ تو ان کے لباس کو نہیں دیکھتا.اس نے کہا کہ لباس کا کیا ہے.کرایہ پر اس سے بھی اچھا لباس ہر شخص کو مل سکتا ہے.آگے گئے تو وہاں معلوم ہوا کہ اس وقت خاص دربار ہے.سوائے خاندان کے خاص خاص اور چند آدمیوں کے کوئی نہیں جا سکتا.مجھ کو تو دربان نے کہا کہ آپ اندر تشریف لے جائیں لیکن ہمارے ان ہمراہی کو وہیں دالان میں بٹھالیا جہاں پہلے سے اور بھی رؤساء بیٹھے ہوئے تھے.غرض کہ میں اپنے اسی سادہ اور معمولی لباس سے اس خاص دربار میں بلا روک ٹوک چلا گیا.(۲۲ جون ۱۹۱۲ء ۱۲ بجے دن کے مکان پر ) مجھے کو میووں میں سات میوے بہت پسند ہیں جن میں چار تو ہندوستان سے باہر کے ہیں اور تین ہندوستان کے کھجور - انگور - انار - سیب- آم.کیلا جو چھوٹا ہوتا ہے.سنگترہ.(۸) جنوری ۱۹۰۷ء) ایک مرتبہ میں ایک کچھری میں بغرض ادائے شہادت گیا.وکیل نے سوال کیا کہ تم

Page 296

۲۹۰ مولوی ہو ؟ میں نے کہا نہیں.وہ خاموش رہ گیا.بات یہ تھی کہ وہ مجھ پر دروغ حلفی کا مقدمہ قائم کرنا چاہتا تھا یعنی میں اگر کہتا کہ میں مولوی ہوں تو وہ مجھ سے کہتا کہ سار ٹیفکیٹ دکھاؤ.پنجاب یونیورسٹی میں امتحان ہوتا ہے جس میں مولوی.مولوی عالم - مولوی فاضل کی سندیں لوگ حاصل کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ میں نے یہ امتحان نہیں دیا.اور مولوی سے وہی یونیورسٹی کا سند یافتہ مولوی مراد لیا جاتا.میں اس کی اس منصو بہ بازی کو فور افراست سے سمجھ گیا تھا.(۵ار مارچ ۱۹۱۲ ء بعد نماز جمعہ مولوی محمد علی صاحب سے مخاطب ہو کر) لباس میں میں نے ترقی نہیں کی جب سے ہوش سنبھالا ہے اسی قسم کا لباس پہنتا ہوں.(۲۶) مئی ۱۹۰۹ء) ایک شخص میرے پاس آیا.بوڑھا، حاجی ، آتشک کا مارا ہوا.مجھ کو کامل یقین ہو گیا کہ اس کو آتشک ہے لیکن میں حیرت میں غرق ہو گیا کہ یہ حاجی بھی ہے.بوڑھا بھی ہے اور بہت نیک آدمی ہے اور پھر یہ مرض ! مجھ کو نہایت متفکر اور حیرت زدہ دیکھ کر وہ کہنے لگا کہ آپ کیوں اس قدر حیران ہیں؟ میں نے کہا.میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ سوائے زنا کے کوئی دوسرا سبب آتشک کا نہیں ہو سکتا.کہا ذرا سوچ کر بتا ئیں کہ کوئی اور سبب بھی ہو سکتا ہے ؟ میں نے کہا صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے وَلا تَرُ كَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ کہا کہ ہاں بس یہی بات ہے.میرے بڑھاپے کی وجہ سے میری بیوی بد کار ہے.میں نے اس کو چھوڑا نہیں.(۲۹/مئی ۱۹۰۹ء) میں نے لاہور میں ایک لیکچر سنا.لیکچرار نے کہا کہ میں حساب کے امتحان میں فیل ہو تا رہا.

Page 297

۲۹۱ یہ دلیل اس بات کی ہے کہ میں مسلمان ہوں.میں نے ایک شخص سے جو میرے پاس بیٹھا تھا کہا کہ مجھ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السنينَ وَالْحِسَاب بھلا مسلمانوں سے زیادہ کون حساب کو جان سکتا ہے.(۱۲۹ مئی ۱۹۰۹ء) میں نے تمام دنیا کی تاریخوں کو ٹولا ہے ہمیشہ وہ لوگ جو قیامت کے قائل نہیں، ان لوگوں سے جو قیامت کے قائل ہیں، شکست کھاتے رہے ہیں.قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (۲۴ جون ۶۱۹۰۹ ) میں نے پاگل خانہ کے ایک اعلیٰ افسر سے دریافت کیا کہ مجنون و غیر مجنون میں کیا فرق ہے؟ اس نے کہا کہ میں رات دن یہاں رہتا ہوں اور غور کرتا ہوں لیکن آج تک میری سمجھ میں تو کوئی معیار پاگل اور غیر پاگل کا نہیں آیا.اسی طرح ایک وکیل سے پوچھا.اس نے کہا قانون میں بھی مجنون و غیر مجنون کا کوئی مابہ الامتیاز نہیں ہے.در حقیقت پاگل میں خلق عظیم نہیں ہوتا اور پاگل جس قدر محنت کرتا ہے اس کا کوئی اجر اس کو نہیں ملتا.(۳۰) جولائی ۱۹۰۸ء) میں نے ایک مرتبہ نبی کریم می علم کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو کمر پر اس طرح اٹھا رکھا ہے جس طرح بچوں کو مشک بناتے ہیں.پھر میرے کان میں کہا کہ تو ہم کو محبوب ہے.(۱۹ر اگست ۱۹۰۸ء) میں نے ایک روز دودھ اور جلیبیاں خوب کھالیں.اس کی وجہ سے ریاح بہت خارج

Page 298

۲۹۲ ہوئی.اس روز مجھ کو الہام ہوا " بطن الانبياء صامة " (۹) تمبر ۱۹۰۸ء) میں نے ایسے مسلمان دیکھے ہیں جو صرف انہیں احادیث پر عمل کرتے ہیں جو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہیں اور کسی حدیث کو مطلق نہیں مانتے.(۲۱) ستمبر ۱۹۰۸ء) میرے پاس ایک شخص پنجرے میں ایک نہایت چھوٹا سفید سؤر کا بچہ بند کر کے لایا.اس کو یہ معلوم تھا کہ اس نے کبھی سور نہیں دیکھا اور واقعی میں نے اس وقت تک کبھی سور نہیں دیکھا تھا.اس نے مجھ سے کہا کہ دیکھو کیسا خوبصورت ہے.بتاؤ تو سہی یہ کیا جانور ہے؟ میں نے اس کو دیکھ کر کہا کہ میں نے اس جانور کو کبھی نہیں دیکھا مگر بڑا ہی بد شکل جانو ر ہے.اس نے بار بار کہا کہ نہیں یہ تو بڑا خوبصورت جانور ہے لیکن میں نے ہر بار یہی کہا کہ مجھ کو تو یہ بد شکل ہی معلوم ہوتا ہے.آخر میں اس نے بتا دیا کہ یہ سور ہے.میں نے کہا کہ تم بھی بچے ہو اور میں بھی.اس نے کہا کہ یہ کیسے ؟ میں نے کہا کہ میری بیسیوں پشتیں گزر گئیں ہوں گی جنہوں نے اس کو شاید دیکھا بھی نہ ہو اور تمہاری بیسیوں پشتیں اس کو کھاتے ہوئے گزر گئیں.اس لئے تمہارا گوشت پوست اسی کا بن گیا اور اسی لئے تمہاری نگاہ میں یہ مرغوب ہے.اس نے سن کر کچھ برا بھی نہ مانا اور کہا کہ ہاں ہو تو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو.(۲۱ جون ۱۹۱۰ء) اللهم حببنا الى اهلها وحبب صالحى اهلها الينا.میں نے اپنی عمر میں جن جن شہروں کو دیکھا ہے.اور جن جن شہروں میں رہا ہوں.اس دعا کے نتائج میں نے ہمیشہ دیکھے ہیں.مجھ کو جن لوگوں سے محبت ہوئی ہے وہ آج تک اچھے ہی سمجھے جاتے ہیں اور مجھ کو سب ہی اچھا جانتے تھے.میں بڑے بڑے شریر النفس لوگوں کی صحبت میں بھی گیا ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھ کو محفوظ رکھا ہے.

Page 299

۲۹۳ (۸) مئی ۱۹۱۲ ء ) میں نے بڑے بڑے مال کمانے والوں کو دیکھا ہے.موت اس طرح آجاتی ہے کہ پیشتر سے مطلق خبر نہیں ہوتی.ایک بڑے مال کمانے والے کو دیکھا کہ رات کو جب کچھری سے آیا تو نوکر سے کہا کہ چاء لاؤ.وہ جب لیکر آیا تو دیکھا.مرا ہوا پڑا تھا.وہ ایک پائی بھی خیرات نہیں کر سکا.ہندو تھا.(۱۰ر متی ۱۹۱۲ء) ایک شخص غلام حید رتھے میں نے ان کو دیکھا کہ تمام دیواروں میں لکڑی اور ٹین لگوا رہے ہیں.میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ کہا کہ ہم تحصیل دار یعنی مجسٹریٹ شہر کے پاس شکایت لے کر گئے کہ ہم کو چوہوں نے بہت تنگ کیا ہے.آپ اس تکلیف سے ہم کو بچائیں.انہوں نے کہا کہ چوہوں کا تو ہم کچھ نہیں کر سکتے.لہذا اب خود حفاظتی کے لئے خود ہی سامان کر رہے ہیں.(۱۶) اکتوبر ۱۹۱۲ء) میں ایک مرتبہ ریل میں سفر کر رہا تھا.میرے پاس اسی کمرہ میں (جو سیکنڈ کلاس کا کمرہ تھا) ایک ایسا شخص بھی تھا جو مجھ کو جانتا تھا اور شراب بہت پیتا تھا.بار بار اٹھتا.میرے پاس آتا اور کہتا.مولوی صاحب امجھ کو قرآن شریف پڑھاؤ مگر صحیح.لفظ صحیح کو کھینچ کر کہتا اور نشہ کی وجہ سے گر پڑتا.مجھے کو اس کی شراب کی بدبو سے ہی بہت تکلیف تھی.یہ اس کا بار بار مجھ سے مخاطب ہونا اور بھی موجب تکلیف ہوا.میں نے اپنے دوسرے ہمراہی سے کہا کہ یہ تو موجب تکلیف ہوتا ہے.کیا کیا جائے ؟ اس نے کہا بہت اچھا اگلا اسٹیشن آنے دو.میں اس کا علاج کر دوں گا.چنانچہ گوجر انوالہ کا اسٹیشن آیا.وہ اترا اور خدا جانے کسی شخص سے کیا کہہ آیا.میں نے دیکھا کہ پلیٹ فارم پر ایک شخص دوسری کھڑکی کے سامنے آکر کھڑا ہوا.

Page 300

۲۹۴ اس شرابی کو آواز دی.وہ کھڑکی کے قریب گیا.اس نے چپکے سے اس سے کوئی مختصر سی بات کی جو میں نے نہ سنی.وہ شرابی اس وقت بعجلت تمام اترا اور صرف اپنا ٹکٹ لئے ہوئے اسٹیشن سے باہر گیا اور شہر کی طرف دوڑتا ہوا چلا گیا.میرے ساتھی نے کہا کہ بس.اب آپ اطمینان رکھیں.یہ یہاں واپس نہ آئے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.وہاں گاڑی بہت دیر ٹھری اور چل بھی دی لیکن وہ شرابی اسٹیشن پر واپس نہ آیا لیکن اس میرے ہمراہی شخص نے مجھے کو یہ نہ بتایا کہ اس نے کیا الفاظ کہلوائے تھے.(۷) مئی ۱۹۰۹ء) مسلمانوں میں بدکاری کی بہت عادت ہو گئی ہے.اور پھر بد کاری کو بد کاری بھی نہیں سمجھتے.میں نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ تو فلاں عورت سے ناجائز تعلق نہ رکھ.اس نے کہا کہ اس عورت نے تو اپنی برادری اور قوم کو چھوڑ کر وفاداری کا ثبوت دیا اور میں مرد ہو کر اس کو چھوڑ دوں اور بے وفائی کروں؟ یہ اقرار باللسان و تصديق بالقلب کے خلاف ہے.(۲۱) فروری ۱۹۱۲ء) ہندوستان میں مراد آباد ایک شہر ہے.وہاں میرا ایک بڑا محسن تھا جس نے بیماری میں میری بڑی بڑی خدمتیں کی ہیں.میں بیماری کی حالت میں وہاں رہتا تھا.وہاں ایک عورت ہر روز صبح اٹھ کر پاخانہ میں جا کر قدیمہ کے آگے سجدہ کرتی تھی اور کہتی تھی کہ میا کھڑی اتو مجھ کو بیٹا دے تو تجھ میں ہوگا یا کروں گی.(۱۰ مئی ۱۹۰۹ء) ایک شخص کسی بزرگ کی اولاد میں سے تھے اور سخت بیمار تھے.میں نے ایک مرتبہ ان

Page 301

۲۹۵ سے کہا کہ کچھ پڑھنا اور سیکھنا چاہئے.کہنے لگے کہ بند ر سیکھا کرتے ہیں.بھلا کہیں شیر بھی سیکھتے ہیں ؟ ہم شیروں کی اولاد ہیں ، بندروں کی اولاد نہیں.سیکھنا ہمارا کام نہیں.میں نے کہا.حضرت! تشبیہوں سے تو کام نہیں چلتا.باز سیکھ جاتے ہیں لیکن کوے نہیں سیکھتے.وہ اس قدر ناراض ہوئے کہ علاج موقوف کر دیا.(۲۴) مئی ۱۹۰۹ء) ایک مرتبہ میرے دل میں کسی گناہ کی خواہش پیدا ہوئی.میں نے بہت سی حما نگیں لے کر اپنی ہر ایک جیب میں ایک ایک حمائل رکھی.ایک حمائل ہاتھ میں رکھنے کی عادت ڈالی بسترے پر.سامنے الماری پر.مکان کی کھونٹیوں پر.غرض کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں قرآن سامنے نہ ہو.پس جب وہ خیال آتا تو قرآن سامنے ہوتا کہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے.یہاں تک کہ نفس تنگ ہو گیا اور اس گناہ کا خیال ہی جاتا رہا.(۲۶) مئی ۱۹۰۹ء) ایک مرتبہ میں نے رمضان کے مہینہ میں بحالت بیماری روزے رکھنے شروع کئے.تو میری دستوں کی بیماری رفع ہو گئی.میں نے سمجھا کہ یہ روزے تو اکسیر ہیں لیکن بعد میں میں نے دیکھا کہ میری قوت رجولیت بالکل جاتی رہی.میں نے سمجھا کہ بیماری کی حالت میں روزے رکھنا ایک غلطی تھی، اس کی سزا ہے.اٹھارہ یا انیس دن تک خوب توبہ کی تب وہ کیفیت دور ہوئی.ار جولائی ۱۹۰۹ء) ایک بڑا آدمی تھا.وہ لاہور کا رہنے والا نہیں تھا.لاہور میں وہ اور میں دونوں باتیں کرتے ہوئے بازار میں ہو کر گزرے.اس نے کہا کہ دوزخ کے عذاب کو آپ غیر مقطوع

Page 302

۲۹۶ مانتے ہیں ؟ میں نے کہا نہیں.کہنے لگا پھر تو کوئی خوف کا مقام نہیں کیونکہ ایک نہ ایک دن اس سے نجات تو مل ہی جائے گی.یہ گفتگو جس وقت ہوئی تو ہم بازار چوک میں تھے.میں نے فوراً جاتے جاتے کھڑے ہو کر جیب میں سے دو روپیہ نکالے اور اس سے کہا یہاں کوئی شخص تمہارا واقف نہیں.تم یہ دو روپیہ لے لو اور میں تمہارے سر پر ایک جوت لگالوں.گھبرا کر کہا کہ کہیں مار نہ بیٹھنا.مسئلہ میں سمجھ گیا ہوں.(مدعا یہ کہ قیامت کے دن جہاں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے ایک شریف انسان کیسے اپنی ذلت گوارا کر سکتا ہے) (۲۵/ جنوری ۱۹۰۹ء) میرا ایک دوست تھا اس میں بہت سے عیوب تھے میں نے اس سے کہا کہ تم لوگوں کو و عظ بہت کیا کرو.اس نے اس پر عمل کیا اور اس کے بہت سے عیوب خود ہی کم ہو گئے.(۲۷ / جنور کی ۱۹۰۹ء) ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ تم فلاں شخص کو کیسا سمجھتے ہو ؟ میں نے کہا.بہت اچھا.اس نے پھر بہت اصرار سے کہا کہ تم بہت اچھا سمجھتے ہو ؟ میں نے کہا ہاں.بعد میں اس نے کہا کہ وہ تو مرزا صاحب کو نہیں مانتا.میں نے کہا اگر اس کو ملک بھی مان لیں تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ ملائکہ نے ایک خلیفہ ( آدم علیہ السلام) پر اعتراض و انکار غلطی سے کیا تھا.(۸) اگست ۱۹۱۲ء) میں کہیں جا رہا تھا راستہ میں ایک شخص میرے ساتھ ہو لیا.میں جانتا تھا کہ یہ اپنی بیوی سے بدسلوکی کرتا ہے.میں نے چلتے چلتے اس سے کہا کہ قرآن کریم میں آیا ہے.وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.یہ تعلیم کسی کتاب میں سوائے قرآن مجید کے نہیں.اس نے اسی وقت مجھ سے کہا کہ مجھ کو اجازت ہے ؟ میں نے کہا جاؤ.وہ سیدھا اپنے گھر پہنچا

Page 303

۲۹۷ اور بیوی سے کہا کہ نورالدین سے میں نے آج ایک بات سنی ہے اس کو صرف آزمانا چاہتا نہوں ورنہ میں تجھ سے ناراض بہت ہوں.اسی وقت عورت سے ہم بستر ہوا.ایک لڑکا ہوا.پھر دوسرا ہوا.پھر تیسرا.پھر چو تھا.وہ عورت یہاں بھی آئی تھی.میں نے کہا کیسے آئیں ؟ کہا کہ یہ کنبہ دکھانے آئی ہوں کیونکہ تمہاری کسی نصیحت سے میرا خاوند میری طرف متوجہ ہوا تھا.غرض کہ میرا قرآن سنانا بیکار نہ گیا.(۲۰ / دسمبر ۱۹۰۶ء) میں نے ایک مرتبہ کسی کا علاج کیا.ایک بڑھیا نے نذرانہ میں مجھ کو سکھوں کے وقت کا تانے کا ایک پیسہ دیا.میں نے نہایت خوشی اور شکر گذاری کے ساتھ لے لیا اور اپنے دل میں سوچا کہ میں اس کو اگر خدا کے نام پر کسی کو دے دوں تو کم سے کم اس ایک پیسہ کے سات سوچیے بنا سکتا ہوں.مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللون (سوره بقره رکوع ۳۶) (۲۱) دسمبر ۱۹۰۶ء) جموں میں ایک پٹھان تھے.وہ میرا لحاظ بھی بہت کرتے تھے.ایک مرتبہ مجھ کو اپنی نبض دکھائی.میں نے دیکھا کہ نبض نہایت ہی کمزور چلتی ہے.میں نے ان سے کہا کہ کیا تم نے عیاشی کی ہے؟ کہنے لگے کہ مولوی صاحب آپ کی مجلس میں ایک مرتبہ زنا کی برائی سن کر میں نے تو زنا سے بالکل تو بہ کرتی ہے اور اب قطعا زنا کے پاس نہیں پھٹکتا.میں نے کہا اچھا اور کسی ذریعہ سے آپ کی منی خارج ہوئی ہے ؟ کہا کہ ہاں یہ بات تو ضرور ہے کیونکہ میں نے اسی روز سے دولڑ کے رکھ لئے ہیں ان کے ساتھ اعلام کرتا ہوں.میں نے کہا کہ خان صاحب کیا یہ زنا نہیں ہے؟ کیا مولوی صاحب وہ دونوں لڑکے ہندوؤں کے ہیں اور ہندوؤں میں بھی برہمنوں یعنی مہاراج کے پجاریوں کے.بھلا مسلمانوں کے لڑکوں کے ساتھ یہ کام کر

Page 304

۲۹۸ سکتا تھا؟ ان خان صاحب کو بالکل یہ خبر ہی نہیں تھی کہ اغلام بھی کوئی بری چیز ہے ورنہ وہ اس طرح میرے سامنے ہر گز گفتگو نہ کرتے کیونکہ وہ میرا بڑا لحاظ اور ادب کرتے تھے.ایک اور بوڑھے انگریزی تعلیم یافتہ شخص تھے.وہ میرے ساتھ جب سیر وغیرہ میں ہوتے اور نماز کا وقت آتا تو نماز میں شریک ہو جاتے.میں نے ایک روز پوچھا کہ آپ کا ہمیشہ وضو رہتا ہے.فرمانے لگے کہ مولوی صاحب ! ہم شراب بھی پیتے ہیں اور رنڈیاں بھی رکھتے ہیں مگر رات کو یہ کام کرتے ہیں اور دن کو نہیں.صبح اٹھ کر غسل کرنا اور صابون سے نہانا بھی ہمارے فیشن میں داخل ہے.پھر دن بھر نہ شراب پیتے ہیں.نہ زنا کرتے ہیں.وضو ٹوٹے تو کیسے ؟ ان کے نزدیک وضو صرف زنا اور شراب ہی سے ٹوٹتا تھا.میرے اظہار تعجب پر کہنے لگے کہ کیا مولوی صاحب اور بھی کسی چیز سے وضو ٹوٹتا ہے ؟ ان باتوں کا ذکر اس وجہ سے کیا گیا کہ آجکل مسلمان شریعت سے کس قدر نا واقف ہیں اور حالت کہاں تک پہنچ گئی ہے.(۳) نومبر ۱۹۱۲ء) و زیر آباد کے سٹیشن پر ایک شخص نے جو وکیل تھا اور جموں میں رہتا تھا.مجھ سے کہا کہ آپ قرآن کریم کی بڑی تعریف کرتے ہیں.جاؤ صرف و نحو عربی کہاں پڑھیں ؟ میں نے کہا آپ نے انگریزی پڑھنے میں محنت کی ہے؟ کہا کہ نہیں.صرف تو نہیں پڑھی جاتی.میں نے کہا قرآن میں قال کی جگہ قول نہیں دیکھا اس لئے صرف کی ضرورت نہیں.کہا نحو ؟ میں نے کہا قرآن میں زیر زبر سب لکھے ہوئے ہوتے ہیں.کہا معانی - بیان- بدیع ؟ میں نے کہا ان کی ضرورت نہیں.کہا عروض و قافیہ ؟ میں نے کہا اس کی بھی ضرورت نہیں.کہا لغت کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا ہر مسلمان کو دن رات میں نماز - السلام عليكم انا لله.سبحان اللہ وغیرہ بہت سی عربی پڑھنی پڑتی ہے.کہنے لگا.قُولُوا قولا سدیدا کا ترجمہ کس لغت سے کریں.میں نے کہا.”گلاؤ گل سدی".یہ اس کا ترجمہ ہے.کہنے لگا

Page 305

۲۹۹ بہت اچھا حضور ! اب قرآن پڑھا کروں گا.جناب خان صاحب السلام علیکم و رحمتہ رحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ آج کل حضرت خلیفہ المسیح کی سوانح عمری لکھ رہے ہیں.میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ کسی طرح میرا نام اس متبرک کتاب میں لکھا جائے لہذا ایک بات لکھتا ہوں کہ میں جس روز حضرت صاحب سے بیعت ہوا تھا تو آپ نے اس روز رات کو احیاء العلوم کا درس دیتے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ اب تم حضرت صاحب سے واقفیت بڑھاؤ.میں نے کئی روز تک کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا.ایک روز درس قرآن کے بعد مسجد میں میں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا.پھر دروازہ کے قریب مصافحہ کیا تو حضرت صاحب نے میری پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو.میں نے کہا کہ نارون ضلع کانگڑہ سے.انہوں نے میرے والد کا نام پوچھا تو میں نے کہا کہ ان کا نام وزیر خان ہے اور وہ فوت ہو چکے ہیں اور اب میرے تایا حمید خان پرورش کرتے ہیں.اس بات کو سن کر حضرت صاحب نے میری پیٹھ تھپکی اور فرمایا کہ تم ہمارے پاس روز آیا کرو اور ہمارے ساتھ محبت کیا کرو اور ہمارے ساتھ واقفیت پیدا کرو.حضرت صاحب کی اس بات سے مجھ کو پتہ لگ گیا کہ ان کو قیموں سے بڑی ہمدردی ہے اور مجھے ان کے یہاں جانے کا حوصلہ ہو گیا.اور اب میں ان کے یہاں بغیر کسی ہمراہی کے چلا جاتا ہوں.اگر اس بات کے ذریعہ سے میرا نام کسی جگہ آپ درج کر سکیں تو بڑی مہربانی ہوگی.والسلام راقم آپ کا شاگر د محمد نذیر خان فورتھ ہائی ۵ / جولائی ۱۹۱۲ء تمت

Page 306

بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم حضرت خلیفہ اول کی قادیانی زندگی! حضرت خلیفہ اول کی، خود لکھوائی ہوئی سوانح عمری کے ساتھ جس میں آپ کے صرف قادیان تک پہنچنے کے حالات درج ہیں.میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کے قادیانی حالات تا وفات بھی مختصراً درج کئے جائیں.اس کے لئے میں نے حضرت مخدومی مفتی محمد صادق صاحب کو تکلیف دی.جنہوں نے از راہ عنایت باوجود غیر معمولی عدیم الفرصتی کے مندرجہ ذیل حالات مرتب فرما کر بغرض اندراج دیئے.جو ہدیہ ناظرین ہیں." ابتدائے ہجرت ) ناشر ) ابی المکرم استاد المعظم حضرت حافظ حاجی مولانا مولوی حکیم نور الدین صاحب خلیفہ المسیح اول رضی اللہ تعالٰی عنہ - حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کے

Page 307

عاشق صادق اول المبائعين اور اول المهاجرین تھے.اللہ کریم کی ہزاروں برکتیں اور رحمتیں آپ کی روح پر اور آپ کی آل اولاد پر ہوں.ابدالاباد کے لئے.اور جیسا کہ رب تعالیٰ نے آپ کو اس دنیا میں حسنات سے مالا مال کیا ایسا ہی اور اس سے بڑھ کر اس عالم میں بھی اللہ تعالی انہیں تمام حسنات اور انعامات سے مالا مال کرتا رہے اور اپنے رضاء قرب کے مقامات و مدارج پر ترقی دیتا رہے.ابد الاباد کے لئے.آمین ثم آمین.ریاست جموں کی ملازمت سے جب آپ علیحدہ ہوئے.میں اس وقت آپ کی خدمت میں موجود تھا.کیونکہ میں بھی اس وقت جموں ہائی اسکول میں ٹیچر تھا.ہزار پندرہ سو روپے ماہوار آپ کی آمدنی تھی.اور خرچ جو قریباً سارا ہی فی سبیل اللہ ہو تا تھا.وہ اس کے برابریا اس سے زیادہ ہو تا تھا.کبھی آپ کی عادت نہ تھی کہ روپیہ پیسہ جمع رکھیں.اس حالت میں ملازمت ریاست سے اچانک علیحدگی کے باوجود نہ آپ کے چہرہ پر کوئی ملال تھا.نہ اس کا کوئی احساس تھا.جیسا روز مرہ آپ درس تدریس میں بیماروں کو دیکھنے میں لوگوں کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں اپنی کتب کے مطالعہ کرنے میں مصروف اپنی نشست گاہ میں کھلا دربار لگائے بیٹھے رہتے تھے.جہاں لوگ بے تکلف آتے جاتے رہتے تھے ، ایسا ہی اس دن اور اس سے دوسرے دن جو تیاری سفر کا دن تھا، آپ حسب معمول بیٹھے رہے.گو یا علیحدگی ملازمت کا واقعہ ہوا ہی نہیں یا ہوا ہے تو روز مرہ کی باتوں میں سے ایک معمولی سی بات ہے.جموں سے آپ اپنے وطن بھیرہ تشریف لے گئے.وہاں آپ کے مکان کے سامنے آپکی مملوکہ بہت سی خالی زمین پڑی تھی.اس پر مطب اور مہمانوں کی رہائش کے واسطے مکانات بننے شروع ہو گئے.یہ غالبا ۱۸۹۲ء کا واقعہ ہے.بھیرہ اس وقت پنجاب بھر کے بیماروں کے واسطے رجوع کا مرکز بن گیا.دور نزدیک سے لوگ آنے شروع ہو گئے.صدہا بیماروں کا روزانہ علاج کیا جاتا اور دوائی حسب معمول مفت دی جاتی.اسی حال میں کہ مکانات تیار ہو رہے تھے.آپ کو کسی ضرورت کے واسطے دو تین دن کے لئے لاہور آنا پڑا.لاہور پہنچ کر قادیان قریب ہونے کے سبب آپ ایک روز کے واسطے قادیان

Page 308

بھی آگئے.یہ غالباً ۱۸۹۳ء کا واقعہ ہے.یہاں اس وقت حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے.انہوں نے آپ سے ذکر کیا کہ حضرت صاحب مسیح موعود) کا یہ منشا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اب ملازمت سے فارغ ہو گئے ہیں ، اب آپ ہیں رہیں.حضرت مسیح موعود کے اس منشا کی خبر سنتے ہی آپ نے فرمایا.بہت اچھا.اب یہاں سے نہیں جاتے اور نہیں رہ پڑے.نہ کوئی سامان لینے گئے نہ کوئی سامان منگوایا.بس جیسے آئے تھے ویسے ہی بیٹھ گئے.یہ تھی آپ کی فرمانبرداری کی روح.اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی ہی فرمانبرداری کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے.آمین.اس طرح آپ ہجرت کر کے قادیان میں بیٹھ گئے اور پھر کبھی قادیان سے بھیرہ جانے کا خیال بھی نہ کیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمانے سے ایک بیوی کو بھیرہ سے یہاں بلوالیا اور کچھ عرصہ کے بعد دوسری بیوئی کو بھی بلا لیا.پھر یہاں زمین خرید کر کچی دیواروں کے مکان بنوا لئے.اور ہجرت میں ایسے پختہ ہو کر بیٹھے کہ ”قطب از جانہ جنبد " کی مثال گویا آپ ہی پر بنائی گئی تھی.آپ حقیقی معنوں میں ایک ولی اللہ اور قطب تھے.قادیان میں آپ کے مشاغل قادیان میں آپ کی اقامت کا زمانہ دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے.حصہ اول ابتدائے ہجرت سے لیکر تا وصال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً پندرہ سال اور حصہ دوم آپ کا زمانہ خلافت چھ سال پہلے زمانہ میں آپ صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے تھے.اس کے بعد طالب علموں کو درس حدیث و طبی کتب دیتے تھے.مثنوی شریف اور حضرت مسیح موعود کی کتب کا درس بھی گاہے دیتے تھے اور بعد نماز عصر روزانہ درس قرآن شریف دیا کرتے تھے.مہمانوں کی امانتیں اپنے پاس رکھتے تھے.غرباء کی امداد کا خیال رکھتے تھے اور تمام احمدی برادران کو اچھے کاموں کے کرنے اور بدیوں سے بچنے کی نصیحت کرتے رہتے تھے.اور باہر سے آنے والے خطوط کا جو متعلق مسائل دينيه و طبیہ ہوتے تھے.جوار

Page 309

۳۰۳ لکھتے اور لکھاتے رہتے تھے.آپ کی عادت تھی کہ صبح سے شام تک بلکہ اکثر عشاء تک سوائے نمازوں کے اوقات کے ایک ہی جگہ اپنی نشست گاہ میں بیٹھے رہتے تھے ، جس میں صرف چٹائی بچھی ہوتی تھی اور آپ کے واسطے کوئی الگ مسند نہ ہوتی تھی.ہر طرح کے حاجت مند آتے تھے اور آپ سے مستفیض ہوتے رہتے تھے.ایک کھلا دربار ہو تا تھا.جس پر کبھی کوئی دربان مقرر نہ ہوا.اندر زنانہ میں عموماً صبح کے وقت آپ عورتوں میں بھی درس قرآن شریف دیا کرتے تھے.جب تک آپ کے شاگر در شید اور رفیق و انیس حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب زندہ رہے وہ مسجد مبارک میں پنج وقت نماز اور جمعہ کی امامت کراتے تھے اور مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ آپ پڑھاتے تھے.حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد آپ پانچ نمازیں اور جمعہ ان مساجد میں پڑھاتے رہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے جاسکتے تھے اور عموماً سب نمازیں مسجد مبارک میں ہوا کرتی تھیں.آپ کی عادت باہر سیر کے واسطے جانے کی نہ تھی.لیکن گا ہے حضرت مسیح موعود آپ کو اپنے ساتھ سیر کے واسطے باہر لے جایا کرتے تھے.جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو آپ اس میں عربی پڑھاتے رہے.صدر انجمن احمدیہ کے آپ پریذیڈنٹ تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ مولوی صاحب کی ایک رائے انجمن میں سورائے کے برابر سمجھنی چاہئے.تصنیف چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکثر تصنیف کے کام میں مصروف رہتے تھے.لہذا حضور کا ادب کرتے ہوئے آپ تصنیف کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے حکم سے آپ نے صرف ایک کتاب تصنیف کی.جو ایک آریہ دھرمپال نام کی کتاب " ترک اسلام" کے جواب میں تھی.یہ کتاب آپ نے تصنیف کی اور اس کا مسودہ عاجز راقم نے ایک ایک باب کر کے حضرت مسیح موعود کو شام کی مجلس میں

Page 310

۳۰۴ سنایا اور حضرت مسیح موعود نے ہی اس کتاب کا نام نورالدین رکھا.اس کتاب کے چھاپنے اور شائع کرنے کا کام آپ کے قدیمی دوست اور مخلص صادق حضرت مولوی حکیم حاجی حافظ فضل الدین صاحب مرحوم نے کیا تھا.زمانہ خلافت میں آپ نے کوئی تصنیف نہیں کی.گزارے کی صورت قادیان میں آپ کے گزارے کی صورت بظاہر طب کے سوا اور کچھ نہ تھی.مگر آپ کے خانگی اخراجات.مہمان نوازی ، یتانی و مساکین کی پرورش دینی چندوں میں سب سے بڑھ کر حصہ لینا.ان سب پر ایک معقول رقم خرچ ہوتی تھی.اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ رقوم کہاں سے آتی تھیں.فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری ضرو رتوں کو پورا کرتا ہے.اور مجھے رزق مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ عطا کرتا رہتا ہے.کبھی آپ کی کوئی ایسی ضرورت نہ ہوتی تھی جو پوری نہ ہو جائے اور غیب سے اس کے واسطے سامان بن نہ جائے.آپ کے سفر اپنے وطن بھیرہ سے ہجرت کر کے قادیان آجانے کے بعد آپ نے کوئی سفر بغیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ نہیں کیا.آپ کے سفر درج ذیل ہیں.(1) ریاست جموں کے بعض اراکین نے باصرار آپ کو چند روز کے واسطے جموں بلایا.اور وہاں مہاراجہ صاحب نے آپ سے خواہش کی کہ پھر ریاست میں ملازمت کرلیں مگر چونکہ اس امر کے واسطے حضرت مسیح موعود سے کوئی اجازت نہ تھی اس واسطے آپ انکار کر کے واپس چلے آئے.عاجز ان ایام میں ریاست جموں میں ملازم تھا.(۲) ریاست بہاولپور کے نواب صاحب نے ایک دفعہ آپ کو اپنے علاج کے واسطے بلایا

Page 311

۳۰۵ اور حضرت مسیح موعود سے اس غرض کے واسطے نواب صاحب کے آدمیوں نے اجازت حاصل کی.کچھ دن نواب صاحب کا علاج کر کے آپ واپس آگئے.(۳) حضرت نواب محمد علی خان صاحب احمدی رئیس مالیر کوٹلہ کی درخواست پر حضرت مسیح موعود نے درس قرآن و حدیث دینے کے واسطے مالیر کوٹلہ بھیجا اور ایک سال سے کچھ زائد عرصہ آپ کا وہاں قیام رہا.(۴) آریاؤں کے ایک جلسہ میں حضرت مسیح موعود کا ایک مضمون پڑھنے کے واسطے آپ لاہور تشریف لے گئے.یہ وہی مضمون ہے.جو کتاب چشمہ معرفت میں ہے.(۵) زمانہ خلافت میں ایک دفعہ آپ کو ایک مقدمہ کی شہادت کے واسطے ملتان جانا پڑا.وہاں سے واپسی پر لاہور میں آپ کا لیکچر ہوا.(۲) شیخ رحمت اللہ صاحب احمدی مرحوم کے مکان اور دکان کی بنیادی اینٹ رکھنے کے واسطے آپ لاہور تشریف لے گئے.جب حضرت مسیح موعود ۱۹۰۵ء میں دہلی تشریف لے گئے تھے تو حضرت مولانا کو بھی چند روز بعد وہاں بلا لیا تھا.اسی طرح اس سفر میں بھی لاہور ہمراہ تھے جس سفر میں حضور علیہ السلام نے وفات پائی.عهد خلافت قادیان میں آپ کی زندگی کا دوسرا دور حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد شروع ہوا جبکہ اللہ تعالیٰ نے تمام جماعت کے دل میں یہ بات ڈالی کہ اب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک خلیفہ ہونا چاہئے جو حضرت مسیح موعود کا جانشین ہو کر تمام جماعت کا امام مطاع ہو.سب کی نگاہیں حضرت مولوی نور الدین صاحب کی طرف تھیں کہ وہی مسند خلافت کے اہل ہیں اور انہیں سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ اس عہدہ کو قبول فرما دیں.پس خواجہ کمال الدین صاحب اور دیگر اصحاب حضرت ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے.انہوں نے

Page 312

بھی یہی مشورہ دیا کہ حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ بنایا جائے.میں پاس تھا.جب حضرت مولوی صاحب کو یہ پیغام پہنچایا گیا.اس وقت آپ نے ایک لوٹا پانی کا منگوایا اور وضو کیا اور نواب صاحب کے اس مکان میں جہاں آجکل لائبریری ہے اور حضرت فاضل مولانا مولوی شیر علی صاحب کے دفتر کا کمرہ ہے.یہاں آپ نے علیحدگی میں نماز پڑھی اور سجدہ میں گر کر بہت روئے.اس کے بعد سب لوگ باغ میں جمع ہوئے.جہاں حضرت مسیح موعود کا جسد مبارک چارپائی پر رکھا تھا.وہاں ایک تحریر جس میں آپکی خدمت میں یہ درخواست تھی کہ عہدہ خلافت کو قبول کریں اور کہ ہم سب آپ کی اسی طرح اطاعت کریں گے جس طرح حضرت مسیح موعود کی اطاعت کرتے تھے.اس پر ممبران انجمن اور دیگر اکابران کے دستخط ثبت ہو چکے تھے.عاجز راقم نے پڑھ کر سنائی.اس کے بعد حضرت مولوی صاحب نے ایک تقریر کی.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میں تو چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی اولاد میں سے یا کسی اور بزرگ کو خلیفہ بنایا جاتا.میں تیار ہوں کہ اگر حفیظه بیگم (حضرت مسیح موعود کی سب سے چھوٹی صاحبزادی جس کی عمر اس وقت قریباً چار سال تھی) کو خلیفہ بنایا جائے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کروں.تم مجھے خلیفہ بنانا چاہتے ہو تو تم کو میری اطاعت کرنی ہو گی.اس پر سب نے کہا کہ ہم اطاعت کریں گے.پھر آپ بیٹھ گئے اور بیعت شروع ہوئی.سب حاضرین نے بیعت کی.دعا ہوئی.اور اس کے بعد آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ پڑھایا.وہ تحریر جو میں نے پڑھی اور آپ کی تقریر ہر دو اخبار بدر میں شائع ہوئی تھیں.ابتدائے ایام خلافت میں آپ اکثر وقت اندر خلوت میں رہتے.دعاؤں میں بہت مصروف رہتے.دعا کے واسطے آپ کے لئے ایک علیحدہ کمرہ بنوا دیا گیا تھا.فرمایا کرتے، مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے کندھوں پر ایک بڑا بھاری بوجھ رکھ دیا گیا ہے جس سے میں دیا جاتا ہوں.اس وقت آپ کی دن کی نشست گاہ مسجد مبارک میں ہوتی تھی.مگر چونکہ بیمار بھی آپ کی توجہ کے محتاج ہوتے تھے اور بیماروں کا مسجد میں جمع ہو نا مناسب نہ تھا.اس واسطے آپ نے کچھ عرصہ کے بعد پھر اپنے مطب میں بدستور بیٹھنا شروع کر دیا.

Page 313

آپ کے شاگرد قرآن و حدیث اور طب پڑھنے والے آپ کے شاگر د صدہا بلکہ ہزا رہا ہیں.کیونکہ درس قرآن میں کثرت کے ساتھ لوگ شامل ہوا کرتے تھے.دینی علوم میں آپ کے خاص شاگردوں میں سے حضرت خلیفہ امسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ ہیں.جن کو آپ نے خصوصیت کے ساتھ ترجمہ قرآن شریف بخاری اور مثنوی مولانا روم پڑھائی.آپ کے طبی شاگردوں میں سے اس وقت قادیان میں مولوی قطب الدین صاحب.مفتی فضل الرحمٰن صاحب اور عبد الرحمن صاحب کاغانی ہیں اور مولوی غلام محمد صاحب جو ۲۵ء میں فوت ہو چکے ہیں.آپ کے رشتہ دار آپ کا فیض عام تھا.ہندو مسلم ، سکھ، عیسائی ہزا رہا آپ کے ممنون احسان تھے ! ہیں.آپ کی وفات کے دن قادیان کے بعض ہندو بھی روتے تھے.ہر شخص کے ساتھ آپ حسن سلوک کرتے تھے.مگر اپنے بھائیوں کی اولاد پر آپ بہت ہی مہربانیاں کرتے تھے.منجملہ آپ کے بھائیوں کی اولاد کے حکیم میراحمد صاحب مہاجر قادیان میں رہتے ہیں.واقعات زمانہ خلافت ہیں.آپ کے زمانہ خلافت کے واقعات میں سے مفصلہ ذیل خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر (1) محلہ دار العلوم کی زمین خرید کی گئی.(۲) مدرسه مہ تعلیم الاسلام و بورڈنگ ہاؤس کی شاندار عمارتیں تیار ہوئیں.(۳) مسجد نور کی عمارت بنائی گئی.

Page 314

(۴) نور ہسپتال بنا.(۵) مدرسہ احمدیہ قائم ہوا.(1) برہمن بڑیا کے مشہور عالم مولانا مولوی عبد الواحد صاحب سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور انکے ذریعہ سے صد ہالوگوں نے بیعت کی.(۷) اخبار نور جاری ہوا.(۸) اخبار الفضل جاری ہوا.(۹) بہت سے شہروں میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان مباحثات ہوئے.(10) واعظین سلسلہ نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں تبلیغی دورے کئے.(11) غیر احمدی حضرات نے واعظین سلسلہ کو اپنے جلسوں پر بلانا شروع کیا.(۱۲) لنڈن میں ایک اسلامی مشن قائم ہوا.جس کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب لنڈن پہنچے.مرض الموت جب آپ گھوڑی سے گرے اور زخموں میں پیپ پڑ جانے کے سبب آپریشن ہوا.آپ کی صحت بہت کمزور ہو گئی تھی.خلاف عادت سردیوں میں جرابیں پہنی شروع کیں اور ہاتھ میں لمبا عصا لیکر اس پر ٹیک لگا کر چلنے لگے.بالخصوص سیڑھیوں پر چڑھنے سے تکلیف ہوتی تھی.ہر بیماری میں آپ نے حضرت اولو العزم محمود احمد کو اپنی جگہ نماز پڑہانے اور خطبہ پڑھنے کے واسطے مقرر فرمایا.آخری مرض جس میں آپ کی وفات ہوئی.اس کے متعلق ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ آپ کو مرض ٹیوبر کلوسس یعنی دق ہو گیا تھا.بخار رہتا تھا اور تھوڑی تھوڑی کھانسی بھی تھی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب آپ کو اپنی کو ٹھی پر لے گئے تھے اور آخر دم تک انہوں نے تیمار داری اور خدمت گذاری کا حق ادا کیا اور وہیں آپ کی وفات جمعہ کے دن تاریخ ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ ء ہوئی.انالله وانا اليه راجعون

Page 315

۳۰۹ اور ۱۴مارچ ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے جنازہ پڑھایا اور مقبرہ بہشتی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر کے متصل آپ کو دفن کیا گیا.اللَّهُمَّ نَورُ قَبْرَهُ إلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ.اولاد بوقت وفات آپ کی ایک بیوی حضرت صغری بیگم صاحبہ اور انکی اولاد پانچ لڑکے اور ایک لڑکی زندہ موجود تھے.اور پہلی بیوی مرحومہ فاطمہ بی بی کی اولاد میں سے ایک لڑکی بی بی حفصه مرحومه زوجه مفتی فضل الرحمن صاحب زندہ تھیں.پانچ لڑکوں کے نام یہ ہیں.عبدالحی مرحوم عبد السلام ، عبد الوہاب ، عبد المنان، محمد عبد اللہ اور لڑکی مکرمہ بی بی امہ الحی مرحومہ تھیں جو حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے نکاح میں آئیں اور جن کی اولاد اس وقت دو لڑکیاں اور ایک لڑکا زندہ موجود ہیں.اللہ تعالیٰ انکی عمر اور صحت اور نیکی میں برکت دے.لڑکوں میں سے محمد عبد اللہ صاحب قریباً چھ ماہ بعد اور حضرت صاحبزادہ عبدالحی صاحب قریباً ایک سال بعد فوت ہوئے.وصیتیں جہاں تک مجھے یاد ہے.آپ نے تین دفعہ وصیت لکھی.سب سے پہلی وصیت آپ نے ۱۹۰۵ء میں لکھی.جبکہ زلزلوں کے سلسلوں کے سبب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام و آپ کے دیگر اصحاب کے ہمراہ حضرت صاحب کے باغ میں فروکش تھے.آپ بہت بیمار ہو گئے اور متواتر کئی دن باہر تشریف نہ لا سکے.تب آپ نے اپنی ایک وصیت لکھی جو کہ ایمان اور عقائد اور عملیات میں آپ کی عمر بھر کی تحقیقات کا خلاصہ ہے.وہ وصیت عاجز راقم نے اخبار بدر میں چھاپی تھی.دوسری وصیت آپ نے اس وقت لکھی جبکہ ابتدائے زمانہ خلافت میں مطابق پیشگوئی

Page 316

۳۱۰ فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ گھوڑے سے گر کر بیمار ہو گئے اور ایک شب آپ کو خیال ہوا کہ سوجن دل کی طرف جارہی ہے.تب آپ نے رات کے وقت قلم دوات طلب کی اور ایک کاغذ پر صرف دو لفظ لکھے.خلیفہ - محمود- اور اپنے شاگرد کو وہ کاغذ دیا کہ لفافہ میں بند کر کے اپنے پاس رکھو.یہ وصیت شائع نہ ہوئی.گو کئی لوگوں کو اس شاگرد کے ذریعہ سے اس کے مضمون سے آگاہی حاصل ہو گئی.اس کے بعد صحت ہو جانے پر آپ نے وہ لفافہ لیکر پھاڑ دیا.جس قلم اور دوات کے ساتھ یہ وصیت لکھی تھی.وہ اب تک عاجز کے پاس محفوظ ہے.تیسری وصیت آپ نے مرض الموت میں وفات سے چند یوم قبل کی جس میں یہ تاکید کی ہے کہ جو آپ کا خلیفہ ہو وہ حضرت مسیح موعود کے پرانے اور نئے مریدوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کرے.یہ وصیت آپ نے لکھوا کر مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ دو دفعہ بآواز بلند پڑھیں.انکے پڑھنے کے بعد اسے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے سپرد کیا.اور اسی کے مطابق حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ کا انتخاب ہوا.مقبرہ بہشتی کی وصایا کے ماتحت آپ نے اپنی زرعی زمین جو بھیرہ میں تھی.اپنی زندگی میں ہی صدرانجمن احمدیہ کو ہبہ کر دی تھی.وہ اپنے مکانات جو قادیان اور بھیرہ میں ہیں اور کتب خانہ وقف علی الاولاد کر دیا تھا.اللهم اغفر له وارحمه وارفع درجاته في جنت على امين ثم أمين ✰✰✰

Page 317

I اشاریہ مرتبہ مقصود احمد قمر مربی سلسله اسماء مقامات f ۱۲

Page 318

: i

Page 319

۵۴ AM ۱۵۳ ۱۵۰ ۱۰۵ pzp*rzitzira ۴۹ IIA FA ۲۹۲ 00 I 00 ۱۲۴ Izr اسماء ابن المنذر ابن همام ابو احمد مجددی پیر ابو بکر صدیق حضرت ابوالحسن الشاذلي ابو حنیفہ امام ابوالخیر دہلوی ابود اور Ar ۵۳ ۲۱۴ آدم علیہ السلام آمنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ابراہیم لکھنوی ابراہیم تھی ابن بطوطه ابن تیمیه ابن جریر لوگر نیم ابن حجر عسقلانی ۵۴ ابوذر ابن حزم امام ۵۴ ۵۵ ۵۶ ابو طالب ابن خلدون ۱۵۷ ۲۱۴۰ ابو عبید (امام لغت) ابن عربی ۵۴ ده ابو عبیدہ بن جراح حضرت ابو عمر دوانی (امام قرات) ابو مسلم اصفهانی ابوهریره حضرت ابویوسف امام ابن قدامه ابن قیم شیخ الاسلام ابن کثیر ابن مالک

Page 320

^^ ۱۴۰ ۱۸۱ ۱۸۰ 142 ابو علی احمد سرہندی مجدد الف ثانی احمد بریلوی سید احمد المعروف حافظ محمود شیخ احمد بن حنبل امام احمد خان سرسید احمد الدین (بگے والے قاضی) احمد سعید احمد سید مراد آبادی احمد علی سهارنپوری حافظ احمد مجید مولوی شیخ ارجن (مسلمان) ۵۴ 10 rt افلاطون اکبر خان سنوری اکبر شاه خان نجیب آبادی الہی بخش رئیس میاں الہ دین لاہوری حکیم ۲۵۹۷۷٬۲۵ الیگزنڈر A ۲۲۲ 12 14 امام الدین شیخ امام و سروی میرزا (خوشنویس) امامه ( بنت خلیفہ اول) امة الحی (بنت خلیفہ اول) اسر سنگھ راجہ امرناتھ دیوان ام کلیم ۵۳ ۳۲ ۱۸۴ F ارسطو ارشاد حسین مولوی اسد اللہ اسماعیل علیہ السلام اسماعیل شہید دہلوی مولوی اسماعیل (پنجابی تاجر) اسحاق شاه اسحاق شیخ حضرت اجمعی AAr ۱۳۲ ۲۱۷ AO امیر حسین قاضی امیر شاه عامل اننت.رام وزیر اعظم دیوان اور نگ زیب المگیر اویس قرنی حضرت ۱۰ ۱۰۴ ایوب علیہ السلام ۲۹ ده ب.پ.ت.باگ رام

Page 321

۲۹ ۲۲۰ ۲۰۰ IAO دا Far Jo ۴۸ Ar MAH'A ۲۱۵ ۲۲۴ بخشی (متھرا داس کے ماموں) بدر الدین شیخ برکت برہما کیول ایشور بشارت احمد اسٹنٹ سرجن ڈاکٹر بشیر احمد مرزا (پسر مسیح موعود علیہ السلام) بوعلی سینا بہاء الدین شیخ مخون اسرار بیکین (BACON) بیہقی امام (محدث) پطرس پولوس پیارے مرزا (ستار نواز) پیری پروفیسر میڈیکل کالج تقی مولوی تیمور جاحظ 10^ ۲۹ جلال الدین رومی مولانا روم جلال الدین شمس جمال الدین شیخ ۲۵۱ جمال الدین منشی TKAA 74 14 ۲۷۷ 746 IM ٢٣٩ جمال الدین میاں وزیر اعظم بھوپال چاوه (ڈاکو) چکرم داس حاکم (ہندو پنساری) حاکم خان (تحصیل دار جمسلم) حامد حسین میر حامد شاہ سید حبیب اللہ خان ڈاکٹر حسن امام حسن بصری حسن بن عسکری حسن شاه (استاد خلیفه اول) ج - چ - ح - خ حسین امام جریر (صاحب دیوان جریر) جعفر صادق حضرت امام جگن ناتھ ڈاکٹر P MA حسین سید حسین شیخ کی (استاد خلیفہ اول) حفصہ زوجہ مفتی فضل الرحمن حفیظ الرحمن (خلیفہ اول کے بیٹے)

Page 322

A QA ۳۴ ۳۴ Ar lor ۳۰۵۵ ۲۵۷۲۳۶ ۲۵۱ 72N 3 CA نفیہ بیگم (مسیح موعود علیہ السلام کی صاجزادی) رحمت اللہ مولوی حمید خان حمیدہ بیگم حیدر میاں فقیر خالد بن ولید خان بهادر (جنرل ممبر کو نسل ریاست جموں) ٢٩٩ ۲۴۴ TTA N ۳۴ رحمت الله احمدی شیخ رحیم بخش شیخ رور رسول بیگم رشید الدین (اسٹنٹ سرجن)، مرزا رفیع الدین شاه خدا بخش مرزا خديجه (ام المومنین) ۵۳٬۲۸ روپ سنگھ سردار * روف احمد پیر زبير بن العوام زید بن علی ه سبحان شاہ میاں ۱۷ ستار شاہ ڈاکٹر س.ش سراج الدین احمد (افسر ڈاک خانہ جات جموں) سرکار سنگھ سیکرٹری ۲۵۳ سرور شاہ سید سعد اللہ (ر ژیان) حافظ سعد اللہ مفتی ۱۷۴ سعد بن وقاص سعید بن زید ۲۳۹ خرم علی مولوی وز- رز داؤد علیہ السلام ، حضرت دھرم پال ذہبی حافظ رادها کشن (پنڈت گورنر) رازی امام راغب امام رام چندر جی رام داس رام ہرک (بر من) رقی رام رجب علی بیگ مرزا

Page 323

704 z ۲۰ irr'ba'ar ۲۳۵ AL IPA ٢٠ MA ۱۳۹ TZA N شبلی نعمانی مولوی شرف الدین میاں شریف احمد (پسر مسیح موعود ) شعیب حضرت شوکانی امام N 00 Frq 20 14 سکاکی (مصنف مفتاح العلوم) سکندر اعظم سکندر علی (ہیڈ ماسٹر)، مولوی سکندر لودهی سلطان ابراهیم سلطان احمد مولوی (خلیفہ اول کے بھائی) شهاب الدین سهروردی شیخ ۱۹۸۷ شهسوار (خلیفہ اول کا بھتیجا) شیرازی حکیم (فارسی شاعر) ۱۲۲ شیر شاہ افغان شیر شاہ سوری ١٥٣ سلطان جی سلطان علی میاں (رئیس میانوالی) سلطان محمود غزنوی سلیمان حضرت شیخ سلیمان شاه تونسوی خواجه سلیمان علیہ السلام سلیم سلیمان (سلاطین عثمانی) سورج کول راجہ سیویه (امام نحو) سیوطی امام ۲۹ ۲۰ 14 IM ده شاطبی (امام قرات) ده شافعی امام شاہدین بابو شب لال ۲۴۳ ۲۴۴ شیر علی مولوی ص...ظ صادق علیه السلام امام صادقہ صدیق حسن خان نواب صغری بیگم (اہلیہ خلیفہ اول) صفدر علی صلاح الدین ایوبی طبری امام طحاوی امام طلحہ حضرت

Page 324

TEA +z+'trror'ra ۱۳۵ ۳۰۹۱۹۵۲۹ 144 IN عبد الغفور بزرگ عبدالغنی حافظ عبد الغنی دہلوی شاه IZA ۲۹ عبد القادر جیلانی شیخ ۱۳۷٬۵۳٬۴۸۰۱۷ ۱۳۸ ۲۲۲٬۲۲۵ عبدال عبد القادر شاہ مولوی عبد القادر خان عبد القاہر جرجانی عبد القدوس مولوی عبد القیوم (مرشد خلیفه اول) عبد القیوم مولوی بھوپالوی عبدالکریم سیالکوئی مولوی ΓΗ 101'AM هه ۱۷۲ ۲۱۵ *'*' ۲۰۳۳۰۲۲۵۰٬۲۳۸۱۸۷۸۳ ۳۲۲۷ عبدالله والد ماجد آنحضرت م ) عبد اللہ بن عمر عبد اللہ ٹونکی عبداللہ چکڑالوی عبد اللہ طوائی عبدالله شیخ عبد الله مولوی عبد اللہ غزنوی عبد المنان (صاحبزاده خلیفه اول) 1*4 ۲۶۰۲۵۹ lor ۲۹ rot're 1 AO ** ۲۴۲ ۲۹ ง ۲۴۲ ۸۵ r r«d'ri ظهور الله مولوی عائشة ام المومنين عباس بن عبد المطلب عبد الحق حافظ عبدالحق دہلوی محدث ع عبد الحی (صاحبزاده خلیفه اول) عبد الرحمن عبدالرحمن بن عوف عبد الرحمن ( شریعت پناه قاضی) عبدالرحمن خان (مالک مطبع نظامی) عبد الرحمن کلاغانی عبد الرحیم رام پوری قاری عبد الرب حافظ عبد الرزاق شاه جی عبدالرشید (بناری) مولوی PF+FIFA'N ۳۳ TM4'Ar عبد السامع شیخ عبد السلام (صاحبزادہ خلیفہ اول) عبد العزیز شاه عبد العزیز پیشاوری عبد العلی مولوی

Page 325

۱۰۸ عبد النصیر حافظ عبد الواحد مولوی عالم دین احمدی) ۲۹ ۳۰۸ عمر بن عبد العزيز عمر حیات خان ٹوانہ سردار عبد الوہاب (صاحبزادہ خلیفہ اول) ۳۰۹۲ عنایت اللہ مولوی عیسی علیہ السلام، حضرت غ غزالی امام غلام احمد مرزا ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۱۸۶۱۶۶۲۵٬۵۸٬۵۵٬۴۹٬۳۴٬۳۰٬۲۸٬۲۶ ۰۴۴۰۳۳۰۲۳۰۰ ۲۱۵ ۱۸۷ 수 ۲۹ F1+ ۲۹ ۳۴ LA 20 غلام حیدر غلام دستگیر لاہوری حکیم غلام رسول حافظ غلام علی شاه سید غلام محمد (جلایا) غلام محمد حافظ ۱۴۸ AM ۲۰۲ or tor A4 ۴۸ AL عبید الله عثمان غنی رضی اللہ عنہ عزیز الله افغان مولوی عطا محمد خان راجہ یاری پورہ کشمیر عظیم شاہ پہلوان عکرمہ علاء الدین مولوی علی بن ابی طالب علی احمد قاضی علی بخش (خادم نواب رامپور) علی بن حسین (زین العابدین) علی بخش خان (مالک مطبع علوی) علی حسین لکھنوی حکیم ۷۷ ۸۵ ۸۷ ۸۸ ۴٬۹۲٬۸۹ غلام محمد مولوی علی محمد تاجر و زیر آباد، شیخ غلام محی الدین خان غلام نبی مولوی (رامپوری) علی محمد میاں برادر مولوی محمد حسین بٹالوی ۱۲۳ غلام نبی ہیڈ ماسٹر شیخ عماد الدین پادری (مصنف کتاب تنقید القرآن) ۲۷۹ عمر فاروق رضی اللہ عنہ 'A''A''r'ın فق فاطمة الزهرة (حضرت)

Page 326

فاطمه بی بی المیہ خلیفہ اول) فتح چند ڈاکٹر فتح خان ملک فتح رئیس فتح محمد شیخ فتح محمد ملک 120' فلورا فلورنڈا فیروز الدین خان راجه ۱۳۷۳ قائم الدین سیالکوٹی مولوی قطب الحق (صوفی) ۱۸۱ ۱۸۰ ۱۷۶ ۱۷۵ ۱۶۵۲۹ ۲۱۲ " قطب الدین راجہ ٢٠ قطب الدین مولوی طبی شاگر د خلیفه اول) ۳۰۷ ک.گل ۷۳ ۲۱۷ I'DA 100 PA TTA f A4 فخر الدین حافظ فدا محمد حکیم فرخ شاہ کابلی شیخ فردوسی ملا فرزند علی حکیم فرعون فرید الحق صوفی فرید الدین چشتی شکر گنج فضل الہی (خلیفہ اول کے فرزند) فضل الدین حکیم فضل الدین حاجی حافظ 164 ۲۹ 161 1+0 * ۵۲ ۵۴ ۲۲۴ ۲۳۰ ۲۲۷۲۱۵۲۰۴ ۱۵۶۱۳۵ فضل الرحمن مولوی (تبغ مراد آبادی) فضل الرحمن مفتی (طبی شاگر د خلیفه اول) فضل کریم شیخ فضل الله فرنگی محلی مولوی ۲۱۲ AA کابلی مل کامران مرزا کر پارام دیوان (وزیر اعظم جموں) کرم علی (طبیب) کریم جی فقیر کریم بخش کلب علی خان نواب کلن خان پیمان کمال الدین خواجه گارڈن مسٹر گین (مورخ) مرجن گل حسین شاہ سید گوبند سمائے دیوان ۲۴۳۱۵۱٬۸۵٬۸۳ ۳۰۸٬۳۰۵٬۵ 46 for

Page 327

• ۵۴ CA AA Befor 704'04' E ۱۵۶ ۱۳ Poo's گولک ناتھ پادری گوہر شاہ شیعہ لال من سردار لٹن لارڈ پچھن داس دیوان ۱۳ ۲۷۲ ۱۷۴ محمد اشرف محمد اکبر شاہ خان نجیب آبادی محمد الشیبانی امام محمد باقر رضی اللہ عنہ ۱۷۴۰۱۵ محمد بخش لاہوری حکیم لعل دین میاں (رئیس جموں) ۱۷۶۱ ۱۸۲۱۷۷ محمد بن قاسم ر لیکھرام مالک امام میرد ستھرا داس لاله محسن الملک نواب ۱۷۴ محمد بن ناصر حضرمی ۱۹٬۵۵٬۵۴٬۴۸ ۲۱۴ 10A TOA محمد پارسا خواجہ محمد ثانی محمد جی (مولوی خلیفہ اول کے استاد) محمد حسین اسٹنٹ سرجن لاہور، سید محمد حسین بٹالوی (مولوی) محمد (نواسه منشی جمال الدین) ۱۰۲ ۱۰۳ محمد حسین سندھی محمد (خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم) محمد حیات اکٹر اسٹنٹ محمد شیخ ۵۶٬۵۳٬۵۰٬۴۸٬۴۵ ۴۴ ۴۲ ۳۸ ۳۶۶۱۵ محمد خزرجی شیخ ۱۷۳۱۵۹۱۳۷۱۲۸۲۵ ۱۷۹ ۲۳۴٬۲۱۳۲۸۹۹۱ محمد دین کاتب محمد احسن امروہوی سید محمد اسحاق مولوی محمد صادق مفتی محمد عبد الله (صاحبزادہ خلیفہ اول) محمد علی خان نواب رئیس مالیر کوٹلہ ۳۱۰٬۳۰۸٬۳۰۵۷ ۳۱۰۲۹۰ ۲۴۹٬۲۴۳۸۵ محمد علی مولوی '14'00' FIFA'A' محمد اسماعیل امام بخاری محمد اسماعیل شهید مولوی

Page 328

◉ ۱۹ (84°48 ۵۳ IY x ۴۸ IMA YO'NA ۱۳۵ ۲۴۳ YA'IC ''or A ۱۲ محمد عمر (اسماعیل شہید کے فرزند) محمد عمر نقشبندی مجددی محمد عمران محمد قاسم کشمیری منشی محمد مبین مولوی محمد مجید مولوی محمد مصطفی مولوی محمد ناصر الدین محمود سلطان محمد نذیر خان محمد وزیر خان ڈاکٹر ۲۱۷۴۹۴۸ 恻 A1'20'2 فا مظہر جان جاناں معاوية معز الدین حافظ معین الدین چشتی خواجه مغیرہ بن شعبه ۲۳۹ منصب دار خان منظور الی موتی رام سردار موتی سنگھ راجہ ۲۳۹ 24 ۱۶ *44 អ។ موسیٰ علیہ السلام محمد یوسف (سب ایڈیٹر " بدر" قادیان) مهاراج کشمیر محمود احمد مرزا صاحبزادہ خلیفة المسیح الثانی مهدی بالله عباسی ۵ ۶ ۳۱۰۱۳۰۹۳۰۸۳۰۷ میراحمد مهاجر حکیم ۲۰۵ ن محمود احمد ابن حضرت خلفیہ المسیح الاول محمود افغان محمود شیخ مدن چند مریم عليها السلام مسعود شیخ مسلم امام 14 ۲۹ ۹۳ ۵۰ " ۲۱۳ ناصر نواب میر تافع نبی بخش چشتی جام پوری مولوی نپولین نجم الدین مجم الدین کبری مسیح عیسی بن مریم علیہ السلام ۲۶۵۵۳ ۲۷۷ نذیر حسین دہلوی مولوی

Page 329

نسائی امام نصر اللہ حافظ ۴۸ ۲۹ وشن (دیوتا کا نام) ولی داد خان ۲۵۱ I' نصرت جہاں بیگم حرم حضرت مسیح موعود علیہ السلام ولی اللہ شاہ محدث دہلوی ۷٬۹۸٬۵۵٬۵۳ ۲۰ ۲۱۰۰۲۰۸ ٣٠٥٦ ہارون علیہ السلام ۶۸ ۱۵۰ ۱۳۹ 720 14 ۲۴۴ PLA 129 ۲۹ ۱۳ ہدایت اللہ نشی ۲۹ نصیر الدین شیخ نظام الدین سلطان (صوفی) نوح علیہ السلام نور احمد مولوی نور الحسن مولوی نور الدین (رام پور کا ایک باشنده) نورالدین جمونی خلیفہ ۵۴ ہر نام داس پنڈت یا جوج ماجوج یار محمد حافظ یار محمد خان یزید ۲۶۵۱۷ یعقوب بیگ ڈاکٹر مرزا نورالدین خلیفة المسیح الاول مولوی علکیم یعقوب علی عرفانی شیخ ۲۱۰ ۱۹ ۱۸ ۱۷۴ ۱۷۳۱۶۸۱۵۵ ۱۵۴ ۳۰۵٬۳۰۰ ۲۷۷ ۲۶۸ ۲۶۷۲۵۵٬۲۳۷ ۲۳۶۲۲۶٬۲۱۲ ینگن انگریز یوسف (شیخ) یونس علیہ السلام AL ۲۹ ☑ A S 744 نور کریم حکیم مولوی نهال چند مٹی واعظ اکبر حضرت واعظ اصغر وجیه الدین شاه وزیر خان وہی

Page 330

۱۴ Aч'Ar ۲۳۵٬۲۳۳٬۲۲۹ ۲۲ IA+ A ཝཱ 120'199 ۲۱۷ PSP IMA ۱۹۳ ۱۴ مقامات بيت المقدس پشاور پنجاب پنڈ دادنخاں پورٹ بلییر پونچھ (کشمیر) تنعیم (احرام باندھنے کی جگہ) ٹونک (ریاست) ج- چ - ح - خ جالندھر جامع مسجد دہلی جده جلال پور جٹاں ۱۶۹۱۶۸ ۱۶۷ ۱۶۶ ۱۶۴ ۱۶۰ ۱۵۸٬۳۴۳۰ جموں T⚫A'IIM " ۱۷۴ TAY PEN ۱۶۰ +A*P* F+A اگرہ اجودھن اسکندریه امر تر اوره اود هم پور (کشمیر) ایران با نهال (کشمیر) بٹالہ برہان پور برہمن بڑیا (بنگلہ دیش) ہمیتی بنارس بہاولپور بھوپال ۲۷۳۴۳۵۱۵۶۱۳٠٩١٠٨٥ ٠ ۲۵۳ ۲۴۲ ۳۰۴

Page 331

14 For ۱۵۲ ۷۳ ۳۲ Pre*r«p*r«'MA'14z'n'rortai 'A' ۲۸۷ ۲۴۱ ۲۴۰ ۶۵ lor ۱۸۴ سرحد (صوبہ) سری نگر (کشمیر) سکیسر سودره سیالکوٹ سید مٹھا (پاکستان) شاہ پور شاہدرہ قام جے پور چاند پور جبشه حجرہ شاہ مقیم خوشاب و.ڈ.زر دها را نگر دہلی ڈیرہ غازی خان ذی طوی رام پور طع-ف-ق-ک-گ ۲۱۷ ۲۲۰ ۳۰۵٬۴۳۹٬۲۴۸٬۲۴۰ طائف عرب 174 ۲۴ KA Σ *'AD G ITA FA عرفات FA راولپنڈی روس روم سانبھر جھیل PAT'PZA*P*P \\M°°IMOʻM°20 س.ش ساہی وال (ضلع شاہ پور ) 149 ندک فرانس قادیان ۲۱۹ قلعہ یا ہو.جموں ہو.۹۶ ۱۰۷ کانپور كاندهل كداء کربلا

Page 332

14 کراچی کشمیر کلکتہ کلیانی کو ہات گرنگیا گوالیار لاہور ۲۱۷ مان ۱۵۹ ۱۶۰ ۱۷۱ ۲۴۳۶۱۷۲ ۲۴۴ ۲۴۵ مالیر کوٹلہ PAY PAP'ry-ror'ro-'tra're لم ۲۳۵ TAK 40 میانوالی میانی میرٹھ ۳۰۵۲۷۱۲۷۰٬۲۶۸۲۰۲ ن-و-ه-ی نادون ضلع کانگڑھ نیل (دریا) وزیر آباد ولایت ۱۵۳ ۲۳۳ ۲۹۹ F ۲۹۸۲۳۷ tir 14 ۳۰۸۲۹۴۲۸۹۱۱۴۸۵ Tomorr ہرن پور ہندوستان ۱۷۵ لداخ لدھیانہ ۲۶۲۲۰۶ ۸۵ ۸۶ ۱۳۰۹۰۸۷ یاری پوره (کشمیر) ۲۴۴٬۲۲۱٬۲۰۰٬۲۳۹٬۲۳۸٬۱۸۰ | یورپ لکھنو لنڈن لون میانی (ضلع سرگودھا) T+A 20 ⭑-⭑-⭑ ۲۹۴ ۸۵ ۲۴۴ ۳۲ ''''''r مدینه منوره مراد آباد مصر مکه معظمه ۲۸۵٬۲۸۴۲۷۵۲۳۸٬۲۳۵٬۲۱۷ ۱۶۰ ۱۵۴ ۱۵۳ ۱۵:۱۳

Page 332