Language: UR
سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود حضرت حاجی میاں محمد موسی نامور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈاکٹر محمود احمد ناگی
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاؤ گے.(حدیث مبارکہ) حیات و خدمات حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب نیلا گنبد لاہور نامور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈاکٹر محمود احمد ناگی 2
3 سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود دعاؤں کے ساتھ دراستهدسه حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب نیلہ گنبد لاہور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈاکٹر محمود احمد ناگی
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود Biography & Services of Haḍrat Hajji Miāñ Muhammad Musa Raḍiyallāhu 'Anhu Of Nila Gumbad, Lahore A Distinguished Companion of Hadrat Mirza Ghulam Ahmad Qadiani Masīḥ-e-Mau'ūd ‘Alaihis-Salām By Dr.Mahmud Ahmad Nagi Additional Wakālat Tasnīf London permitted to publish this Book Letter No.AVT-10719 Dated: 21 January 2017 Printed in USA Second Edition June 2020 Copies Printed: 100 No part of this book may be reproduced or used in any form or by any means graphic, electronic or mechanical, including photocopying, recording, copying or information storage and retrieval systems without permission of the publisher.ISBN: 9781946812285 4
مضمون پیش لفظ سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود فہرست مضامین صفحہ نمبر 8 کتاب ہذا کی طباعت پر حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا دست مبارک سے دعاؤں کا تحفہ _ 12 طباعت کا اجازت نامہ ابتدائیہ ابتدائی زندگی اور ذریعہ معاش حلیہ اور عادات عائلی زندگی حضرت مسیح موعود سے پیار و محبت کے واقعات قابل توجہ مالی قربانیاں اور ایمان افروز واقعات میاں محمد موسی کی دکان پر آپ کا تشریف لانا جمعہ کے لئے باقاعدگی سے قادیان جانا.مالی معاونت کا روح پرور واقعہ نظام وصیت میں شمولیت مالی تحریکات میں شمولیت مالی قربانیوں میں پیش پیش لاہور کے احمد کی خاندان حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے نکاح میں شمولیت عبد المجيد ابن محمد موسیٰ کا حضور سے معانقہ کا واقعہ حضور کے ساتھ کھانا تناول کرنا حضرت مسیح موعود کی سادگی کے بارے بیان حضور کے لئے پوستین خریدنا گھٹنوں کی درد کا انوکھا علاج عید الا ضحی پر قربانی کے جانوروں کے بارے حضور کا فتویٰ مسیح موعود کے لئے مچھلی کا تحفہ مسیح موعود کے زیر تعمیر کمرہ کی نگرانی مسیح موعود نے اپنی رضائی بھجوادی حضرت مسیح موعود کو دبانا 13 15 19 24 37 37 37 42 43 47 222222333 7 7 7 7 78552223777 in 47 49 50 51 51 54 54 54 55 5
6 80 82 82 76 لا لا 77 78 59 58 58 57 55 W22222222222322 U ss su u U 66 67 67 68 69 69 70 72 73 75 66 63 65 65 59 60 60 62 56 سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضور کے لیے موٹر کار کی سیر کا انتظام کرنا تبلیغ کا ایک واقعہ علم نجوم کے بارے ایک بحث خاص دعا کرنے کا طریق الیس الله بکاف عبدہ کی مہر حضور کا تصنیف تحریر کرنے کا منفر داند از سائیکل پر حضرت مسیح موعود کا پہرہ دینا.جماعتی خدمات کا تذکرہ بہشتی مقبرہ قادیان کے لئے منصوبہ بندی دین کی خدمت پر آقا کا خراج تحسین خاندانِ حضرت مسیح موعود سے پیار کا تعلق قدرت ثانیہ کے ساتھ بجڑی یادوں کا تذکرہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے لئے دعوت کا اہتمام.حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے تعلق کے چند واقعات منکرین خلافت کے مقابلہ کیلئے ”لاہور انصار اللہ کا قیام نیلا گنبد کی دکان کا سنگ بنیاد انتخاب خلافت ثانیہ کی عینی شہادت سفر بمبئی اور میاں موسیٰ کی مہمان داری سفر کشمیر کے دوران میاں محمد موسیٰ کی دعوت بٹالہ سے قادیان سفر کے دوران انتظامات قادیان تک ریل کے اجرا کی کامیاب کوشش حضرت مصلح موعود کا امر تسر قادیان ریل کا افتتاح اسٹیشن ماسٹر بٹالہ کا محمد موسیٰ صاحب کو خراج تحسین حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا حضرت ائمہ طاہر کے لئے دعا کا کہنا لاہور میں نئی مسجد کے لئے خلیفتہ المسیح الثانی کی تلقین اک سے ہزار ہوویں خلیفہ المسیح الثانی کا میاں محمد موسیٰ کے لئے اظہارِ محبت فلاح و بہبود کے کام تعمیر مساجد میں حصہ لینا مسجد تقی پور چھاپہ.
82 84 83 ∞ ∞ ∞ ∞ ∞ 89 88 86 89 89 91 92 94 96 98 سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود مسجد فلیمنگ روڈ لاہور مسجد دہلی دروازہ لاہور تعمیر بیت الذکر گنج مغلپورہ لاہور.بردباری اور ذہانت کی مثال.مزاح کے چند پہلو حج کی ادائیگی کے بعد والدہ کی وفات تمباکونوشی سے نفرت ہمارے محلے کا حجام مٹی کے برتنوں اور مٹھائی کے بارے میں.گاؤں کے مولوی کا ایک دلچسپ واقعہ جماعتی پکنک کے دوران دریا پر المناک حادثہ حضرت میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ کی وفات حرفِ آخر مصنف کے بارے میں 7
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود م الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسول الكر غير وعلى عبادة المسيح الموعود پیش لفظ حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ آف نیلا گنبد لاہور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات و واقعات پر لکھنے کی خاکسار کو سعادت ملی ہے.آپ 1902ء میں حضرت مسیح موعود کے مقدس ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.حضرت مسیح موعود کے پیار کی نگاہوں نے آپ کو اس قابل بنایا کہ اپنی زندگی حضور کے جذبہ عشق اور اطاعت میں بسر کی.آپ حضرت خلیفتہ المسیح الاول اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے بھی دست راست رہے.اس کتابچہ میں آپ کی عقیدت و محبت کی سچی کہانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2009ء تا 2015ء کے عرصہ میں متعدد خطبات میں صحابہ حضرت مسیح موعود کے ایمان افروز واقعات بیان کئے.آپ نے فرمایا کہ صحابہ حضرت مسیح موعود کی قربت کے باعث ان سے فیض یاب ہوئے.اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی کی اور انہیں ہدایت کی راہوں پر گامزن کیا.صحابہ کی زندگیوں کے ایمان افروز واقعات جماعتی لٹریچر اور ان کے خاندانی ذرائع سے اکٹھا کر کے شائع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے.سید نا حضرت اقدس ایدہ اللہ فرماتے ہیں: کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے عشق و وفا کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور فرستادوں کا زمانہ پاتے ہیں.یہ نمونے دکھانے کا موقع ہم میں سے بعض کے باپ دادا کو بھی ملا جنہوں نے حضرت مسیح موعود کا وقت پایا اور اپنی محبت اور عقیدت اور احترام کا اظہار براہ راست آپ سے کیا.پھر آپ کے پیار اور شفقت سے بھی حصہ لینے والے بنے.“
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود یہ یادر ہے کہ ان بزرگوں کے کس قدر ہم پر احسان ہیں ورنہ شاید آج بہت سوں میں اتنی جرات نہ ہوتی کہ حق کو اس طرح قبول کر لیتے جس جرات سے ان بزرگوں نے قبول کیا.“ ” پس ان بزرگوں کی نسلوں کو بہت زیادہ اپنے بزرگوں کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور پھر ساتھ ہی اپنے ایمان کی ترقی اور استقامت کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں.نیز ان بزرگوں کا حضرت مسیح موعود سے جو تعلق تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے نمونوں پر ، ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے.“ (خطبہ جمعہ 17 دسمبر 2010ء) حضور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا: ”وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود سے فیض پایا یقیناً ان کا ایک مقام ہے اور ان میں سے ہر ایک ہمارے لئے ایک نمونہ ہیں جن کی نیکی تقویٰ اور پاک تبدیلیوں کا معیار یقینا قابل تقلید ہے.“(خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2011ء) آخرین کی وہ جماعت جس نے براہ راست حضرت مسیح موعود سے فیض پایا.اللہ تعالٰی نے اُن کی رہنمائی کی.ان کو نشانات دکھائے.خوابوں کے ذریعے ان کو صحیح ہدایت کے رستے پر ڈالا اور انہوں نے حضرت مسیح موعود کی بیعت میں آنے کے لئے ہر طرح کی قربانی دی.ایسے بھی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عاشق صادق کو ایک جان ہونے کی صورت میں دکھایا.“ (خطبہ جمعہ 25 جنوری 2013ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات اور آپ کے کلمات صحابہ سے جمع کرائے جائیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں یوں تحریک فرمائی: جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو دیکھا اور آپ علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہوئے.تو بہر حال ان روایات کی اہمیت ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کی ہے اور اپنے انداز کے مطابق ان باتوں سے جو بظاہر چھوٹی چھوٹی ہیں بہت سی نصیحت کی اور اسلام کی بنیادی تعلیم کی باتیں اخذ کی ہیں وہ اس وقت میں پیش 9
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود کروں گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے وقت میں بہت سے صحابہ موجود تھے اس لئے آپ نے صحابہ کو ان دنوں میں توجہ بھی دلائی، نصیحت بھی کی یا ان کے رشتہ داروں کو توجہ دلائی کہ یہ روایات جمع کریں کیونکہ یہی چیزیں آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے نصیحت اور حقیقی تعلیم اور بعض مسائل کا حل پیش کرنے والی ہوں گی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ایک بات جس کی طرف میں نے اس سال جماعت کو خصوصیت سے توجہ دلائی ہے.(جب یہ بات آپ فرمارہے ہیں) اور وہ اتنی اہم ہے (اس کی ساری بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ ایک زمانے میں جماعت میں فتنہ اٹھا اس فتنے کو آپ بیان فرمارہے ہیں کہ کس طرح ہمیں روکنا چاہیے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہمیں پہنچتی ہے وہ ہمارے لئے مددگار ہوتی ہے اور بہت سی برائیوں سے روکنے والی ہوتی ہے.بہر حال آپؐ فرماتے ہیں) کہ جتنی بار اس کی اہمیت کی طرف جماعت کو متوجہ کیا جائے کم ہے اور وہ بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات اور آپ کے کلمات صحابہ سے جمع کرائے جائیں.فرماتے ہیں کہ ہر شخص جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک چھوٹی سے چھوٹی بات بھی یاد ہو اس کا اس بات کو چھپا کر رکھنا اور دوسروں کو نہ بتانا یہ ایک قومی خیانت ہے.(خطبہ جمعہ 13 ستمبر 2015ء، خطبات مسرور جلد 13 ، صفحہ نمبر 9-558) حضور کی مندرجہ بالا ہدایات کی روشنی میں حضرت حاجی محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعودؓ کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ زندگی کے واقعات ایک جگہ اکٹھے کئے گئے ہیں تاکہ احباب جماعت کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں.خدا تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے.آمین.یہ ایک مشکل کام تھا کہ حالات اور واقعات کو اکٹھا کیا جاتا کیونکہ ان کے ماخذ مختلف ذرائع تھے.ان کا ایک بڑا حصہ ان واقعات پر مبنی ہے جو خلفائے احمدیت نے میاں محمد موسیٰ کے بارے میں اپنے خطبات میں بتائے اور جماعت احمدیہ کے مورخین نے ان کا تذکرہ تواریخ میں سپرد قلم کیا.اس کے علاوہ مصنف کتاب ہذا نے ان کے بارے میں اپنے والد محترم میاں محمد یحی اور دیگر بزرگوں سے عینی شہادت کے طور پر واقعات سنے اور نوٹ کیے.اس کام کی نوعیت کے پیش نظر کچھ بے ضابطگیاں سرزد ہونا عین ممکن ہے.یہ 10 10
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود کوشش کی گئی ہے کہ بے ضابطگیوں اور متضاد بیانات کو ریکارڈ کی مدد سے حتی المقدور درست کر دیا جائے.اس کام میں تمام احباب کا شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں.عظیم المرتبت حضرت میاں محمد موسیٰ کی حضرت مسیح موعود، حضرت خلیفہ المسیح الاول اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے اور تعلق ساتھ خاص طور پر اور اکابرین جماعت احمد یہ اور کئی احمدیوں سے عام طور پر محبت اور کا تذکرہ کتاب کے مختلف ابواب میں کیا جائے گا.اس کے علاوہ مولانا دوست محمد شاہد مورخ احمدیت ، مورخ اور کئی کتب کے مصنف شیخ عبد القادر ، عزیزم ڈاکٹر مبشر محمود ماہر امراض قلب، احمد عدنان ، مسز ثریا ،جاه، غلام مصباح بلوچ پروفیسر جامعه ، عزیزم فرخ محمود، ملک محمد صفی اللہ سید ساجد احمد چیف ایڈیٹر احمد یہ گزٹ امریکہ اور ڈاکٹر و بیج باجوہ جیکسن ول فلوریڈا امریکہ کا کتابچہ کی تالیف میں معاونت کا بے حد شکر گزار ہوں.دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.آمین.آخر میں احباب جماعت سے خاندان میاں محمد موسیٰ کی جماعت احمدیہ اور خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہنے کی درخواست دعا ہے.11
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود کتاب ہذا کی طباعت پر حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا دست مبارک سے دعاؤں کا تحفہ والمال لي من كلمات متقال المبرم ي عفا الله العافية امام جماعت احمدی تحمَلة وتُصلى على رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر HM-07-09-2017 مکرم محمود احمد ناگی صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته آپ کا خط ملا جس میں آپ نے اپنی تصنیف کردہ کتاب کا ذکر کیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں بہت برکت ڈالے اور اس کتاب کو تمام قارئین کے لئے مفید ثابت کرے.اللہ تعالیٰ آپ کی جملہ نیک کاوشوں کو قبول فرمائے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.آمین والسلام خاکسار هذا السرندل خليفة المسيح الخامس
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود وکالت تصنیف یو کے کی جانب سے کتاب ہذا کی طباعت کا اجازت نامہ In the name of Allah, the Gracious, the Merciful VAKALAT-E-TASNEEF "Islamabad" 2 Sheephatch Lane.Tilford, Fareham, Surrey GU10 2AQ UK Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS UK Tel: 01252 891:334 Email: wakalat tasnoek@gmail.com Email: avtmds@gmail.com Ref.AVT.1.719 Date: 21 January 2017 کرم و محترم ڈاکٹر محمود احمد ناگی مناسب، امریکہ مری که موتور امیر مجاب امریکہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته حضرت حاجی محمد موسیکی موجب رضی اللہ عنہ کے معاملات زندگی امید ہے خیریت ہوگی.ار کو جن در سیتوں کا کہا گیا تھا ان آپنے بتایا ہے کہ درست پر مشتملی کتاب کے بارہ میں کرلی گئی ہیں.لہذا اس کتاب کو آپ لمبے کروا سکتے ہیں.اس کی اطلاع اس سے قبل حرک ستیہ مساجد اور صاحب کے ذریعہ زبانی طور پر آپکو کی جا چکی ہے صحابہ کے حالات زندگی کو منظر عام پر لانا بہت ضروری ہے.اللہ تعالی اس کتاب کی اشاعت ہر طاظ سے بعد بابرکت فرما شد.آمینی بر اور کریم طباعت کے بعد اسکی دو کا یہاں برائے ریکارڈ دفتر خدا کو ضرور کو کار ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء والسلام میزال شد ایڈیشنل وکیل التصنیف 13
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ولادت : 1872ء.بیعت: 1902ء.وفات: 24 دسمبر 1945ء
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود ابتدائیہ حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب آف نیلا گنبد لاہور کا شمار حضرت مسیح موعود و مهدی مہود علیہ الصلوۃ و السلام کے جید صحابہ میں ہوتا ہے.جماعت احمد یہ لاہور کے صف اول کے صحابی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے سے پہلے آپ کا تعلق اہل حدیث مسلک سے تھا.بہت سی احادیث زبانی یاد تھیں.پابند صوم و صلوۃ تھے.قرآن کی تلاوت کثرت سے کرتے تھے.اردو انگریزی فارسی کشمیری اور پنجابی زبانیں بول لیتے تھے.سادہ لباس زیب تن کرتے اور ہمیشہ گفتگو میں شائستگی کا پہلو نمایاں ہو تا.میاں محمد موسیٰ نے 1902ء میں ایک خط کے ذریعے حضرت مسیح موعود سے ان کی صداقت کا ثبوت مانگا.آپ کے جواب سے مکمل تسلی ہو گئی اور ہر قسم کے شکوک و شبہات جو شاید مخالفین نے ان کے دماغ میں ڈال دیے تھے ہمیشہ کے لئے دور ہو گئے.حضرت مسیح موعود کا یہ شعر ان کی اندرونی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے.1 صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کر دگار میاں محمد موسیٰ نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام دیانت داری سے قبول کیا اور پھر کبھی مڑ کر پیچھے نہ دیکھا.حضرت مسیح موعود سے حد درجہ کی عقیدت اور محبت تھی اور کوئی ان کو اپنے آقا سے دور نہ کر سکتا تھا.بہت دعا گو بزرگ تھے.ہر کام فہم و فراست سے کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کی بیعت میں آنے کے بعد گاؤں کے رشتہ داروں نے آپ سے رشتہ ناطہ توڑ لیا.آپ نے اس کی قطعا پر واہ نہ کی.حضرت مسیح موعود کی صحبت میں زیادہ وقت گزارنے کے لئے ایک لمبے عرصہ تک آپ کے اقتداء میں جمعہ پڑھنے کے لئے لاہور سے قادیان سفر کرتے اور اس وقت تک گھر ۱ در ثمین اردو مؤلفه حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود، بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ، صفحہ 127، ناشر نظارت اشاعت ربوہ پاکستان، ضیاء الاسلام پریس ربوہ
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود نہ لوٹتے جب تک حضرت اقدس علیہ الصلواةُ وَ السَّلام واپس جانے کی اجازت نہ دیتے.یہ طریق کار حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی حضرت مسیح موعود سے لازوال محبت کی یاد دلاتا ہے جس سے جماعت احمدیہ کے احباب اچھی طرح واقف ہیں.محض خدا تعالیٰ کے فضل سے اور حضور کی دعاؤں کے نتیجے میں آپ کے اخلاص اور تقویٰ میں استقامت اور استقلال پیدا ہوا اور انعامات الہیہ کے دروازے کھلتے چلے گئے جس کا ثمر آپ کی نسلوں میں جاری وساری ہے.حاجی محمد موسیٰ صاحب جماعت کی مالی معاونت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب بھی کوئی مالی تحریک یا چندہ کا جماعت سے مطالبہ کیا تو آپ نے اس پر لبیک کہا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب یا اشتہار کی اشاعت کے لئے جماعت کو ایک نماز کے بعد مالی تحریک کی.میاں محمد موسیٰ صاحب اسی وقت قادیان سے لاہور چلے گئے.گنج مغلپورہ لاہور میں آٹھ اکٹھے مکان ایک احاطہ کی شکل میں ان کی ملکیت تھے.اس جگہ کو فروخت کر کے تمام رقم حضرت مسیح موعود کو پیش کر دی.یہ جگہ اب بھی ”سرائے موسیٰ “ کہلاتی ہے.میاں محمد موسیٰ لازمی چندہ جات کی ادائیگی کے علاوہ دوسرے چندوں کی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.آپ نے شدھی کی تحریک میں بھی نمایاں حصہ لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آخری ایام میں آپ کے بارے میں مندرجہ ذیل تعریفی کلمہ کہا جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے.2 موسی صاحب آپ نے دین کی بہت خدمت کی.“ نبی اللہ کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ایک سچے عاشق کی نشاندہی کرتے ہیں.میاں محمد موسیٰ نے مساجد کی تعمیر کے لئے اپنے اموال بے دریغ خرچ کیے.کوشش کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفروں میں ان کے ہمرکاب ہوں.حضور اور 2 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب ، حاجی میاں محمد موسی“، صفحہ 310، مطبوعہ فروری 1966ء ، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.16
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود ان کے قافلے کے قیام و طعام کا خیال رکھیں.اس عاشق کی یہ بے غرض قربانیاں حضرت مہدی علیہ الصلواۃ و السلام کے علم میں تھیں.اپنے آقا کی وفات کے بعد خلفائے احمدیت سے بھی وفا کا ناطہ جوڑے رکھا.حضرت خلیفة المسیح الثانی نے قادیان میں ریل کے اجراء کے لئے آپ کی ڈیوٹی لگائی.محمد موسیٰ صاحب نے اپنے اموال اور وقت خرچ کر کے اس عظیم پر اجیکٹ کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اور خلیفہ وقت کی دعاؤں کے وارث بنے.آپ جب صاحب فراش تھے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے آپ کے گھر جاکر ان کی عیادت کی اور حضرت اُمّم طاہر کے لئے دعا کا کہا جو ان دنوں لاہور میں بیمار تھیں.حضرت مصلح موعودؓ کی جانب سے میرے دادا جان کے لئے یہ انتہائی عقیدت اور محبت کا اظہار تھا.خاکسار نے اپنے والد محترم میاں محمد بیٹی صاحب سے ان کے والد میاں محمد موسیٰ صاحب کے بارے میں بہت سی روایات سنیں جو لکھ لی گئیں.اس وقت ان کا تذکرہ کرنا مقصود ہے.کافی روایات جو آپ کے بارے میں اس کتابچہ میں بیان ہوں گی وہ خلفائے احمدیت کے خطبات، تاریخ احمدیت مؤلّفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد اور لاہور تاریخ احمدیت مصنفہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگر مل) سے شامل کی گئی ہیں.ان کتب میں سن کی کچھ غلطیاں مشاہدے میں آئی ہیں ان کو حوالہ جات کی مدد سے درست کر دیا گیا ہے تاکہ میاں محمد موسیٰ صاحب کی خدمات اور واقعات سند کے ساتھ جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں محفوظ ہو جائیں.وما توفیقی الا باللہ.کتاب کے اس ایڈیشن میں کچھ نئے حوالہ جات شامل کئے گئے ہیں.اگر کوئی حوالہ دوبارہ آجائے تو اس کی نشاندھی حاشیہ میں کر دی گئی ہے.پہلے ایڈیشن کی چند اغلاط کو درست کیا گیا ہے.واقعات کی ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے.میں دعا گو ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب اگلی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو.حضرت میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، خلفائے احمدیت سے خصوصی عقیدت اور جماعت احمدیہ کے لئے عمومی خدمات یقینا نئی نسل میں جوش و خروش پیدا کریں گی اور وہ احمدیت کی خدمت کے لئے تیار رہیں گے.واقعات جو 17
18 سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود اس کتاب میں بیان ہوں گے اس کی بدولت احمدی احباب حضرت مسیح موعود علیہ کے اس نامور صحابی کے نقش قدم پر چلنے کو اپنی سعادت سمجھیں گے.السلام
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود ابتدائی زندگی اور ذریعہ معاش حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب 1872ء میں ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے.3 ان کے والد کا نام میاں عبد الکریم تھا.آپ کا خاندان ایمانداری اور تقویٰ کی وجہ سے بہت عزت و تکریم سے دیکھا جاتا تھا.آپ کے والد نے جوانی میں ہی لاہور سے تقریباً 20 میل دور و اہگہ چیک پوسٹ ہندوستان پاکستان بارڈر کے نزدیک ایک گاؤں تقی پور چھاپہ میں سکونت اختیار کر لی تھی.ہند و پاک کے مابین 1965ء کی جنگ میں یہ گاؤں ہندوستان کے قبضہ میں چلا گیا اور جنگ کے بعد ایک معاہدہ کے تحت واپس ہوا.اس گاؤں میں ان کی تقریباً تین ایکٹر (24 کنال) قابل زراعت زمین ہے جس پر اس وقت مزارعے کام کرتے ہیں.شروع میں آپ اپنے والد کے ساتھ کھیتی باڑی میں مدد کرتے تھے.والد صاحب کی وفات کے بعد زمین کے معاملات خود سنبھال لیے اور ساتھ ساتھ لاہور شہر میں سائیکلوں کا کاروبار بھی شروع کر دیا.سائیکلوں کی دکان ایم موسیٰ اینڈ سنز نیلا گنبد لاہور 1901ء سے قائم ہے اور سائیکل مارکیٹ کی پرانی دکانوں میں سے ایک ہے.میاں محمد موسیٰ کے تین بیٹوں کی اولادیں اسی مارکیٹ میں کاروبار سے منسلک ہیں.نیلا گنبد انار کلی بازار لاہور کے پاس بلند و بالا ایک کشادہ مقبرہ ہے جو شاید نیلے رنگ کی وجہ سے نیلا گنبد کہلاتا ہے.گنبد کے نیچے ایک صوفی بزرگ شیخ عبد الرزاق مدفون ہیں جو مغلیہ شہنشاہ ہند نصیر الدین ہمایوں (1508ء تا 1556ء) کے دور میں مکہ (سعودی عرب) سے لاہور آئے تھے.ان کے بہت سے پیروکار تھے.مقبرہ کی جگہ پر ان کی خانقاہ تھی جہاں وہ بیٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے.4 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ”حاجی میاں محمد موسیٰ“، صفحہ 306، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا 4 لاہور کی روحانی قدریں مولفہ حنیف محمود صاحب صفحہ 89، مطبوعہ رقیم پر میں اسلام آباد (ٹلفورڈ) یو کے 19
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب نے لاہور اور اس کے مضافات میں چند مکان بھی خرید رکھے تھے.اس کے علاوہ برانڈرتھ روڈ لاہور ( کیلیانوالی سڑک) پر ایک ورکشاپ بھی تھی.یہ جگہ احمد یہ بلڈنگز کے بہت قریب ہے جہاں حضرت مسیح موعود کی وفات ہوئی تھی.20 20
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود سائیکلوں کی دکان ایم موسیٰ اینڈ سنز نیلا گنبد لاہور پاکستان SONY BYCLE 21 24
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حلیہ اور عادات حاجی محمد موسیٰ صاحب کا قد درمیانہ یعنی تقریباً ساڑھے پانچ فٹ تھا.اُن کا جسم سڈول اور مضبوط تھا.عام طور پر سفید شلوار قمیض زیب تن کرتے.گرمیوں میں پتلا واسکوٹ یا سلو کہ اور سردیوں میں گرم کوٹ پہنتے.شروع ہی سے بھر پور اور کھنی داڑھی رکھتے تھے.باہر نکلتے تو سفید پگڑی سر پر ضرور رکھتے اور تیار ہو کر اچھے اور صاف ستھرے کپڑوں میں باہر نکلتے.صفائی کا ہر وقت خاص خیال رکھتے.کھانے کے بعد دانتوں کی صفائی کے لئے اپنے کوٹ کی جیب میں ایک نرم برش رکھتے تھے.کوٹ کی اوپر والی جیب میں ایک پرانی طرز کی زنجیری کے ساتھ جیسی گھڑی رکھی ہوتی تھی.بچوں کو ”بچو ہیر یا “ کہہ کر بلاتے.مشکل اوقات میں بچوں سے دعائیں کرواتے اور کہتے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کی دعائیں جلدی سنتا اور قبول کرتا ہے.ر میں کوئی بھی پانی مانگتا تو جھٹ سے خود اُٹھ کر پانی دیتے اور کہتے کہ پانی پلانے میں خدا تعالیٰ سے بڑا ثواب ملتا ہے.نماز باجماعت کا اہتمام کرتے.گھر کے تمام افراد یعنی مرد، عورتوں اور بچوں کو پابندی کے ساتھ نماز باجماعت میں شامل کرتے.عام طور خود امامت کے فرائض سر انجام دیتے.آپ کا چہرہ بارعب اور باوقار تھا جو عام طور پر شگفتہ اور تروتازہ رہتا.زیر لب مسکراتے رہتے.ان کی باتوں سے ہر وقت پیار ہی پیار ٹپکتا یعنی صرف میٹھے بول بولتے.بہت کم ناراض ہوتے.بہت سوچ سمجھ کر اور فہم و فراست سے مشورہ دیتے.خاندان کے تمام افراد ان کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے.آپ پنجابی اور اردو میں شاعری بھی کرتے تھے.ذریعہ معاش کے لئے گھر سے صبح سویرے نکلتے.شہر میں جہاں بھی کسی کام کے سلسلہ میں جانا ہوتا تو اس کے لئے سائیکل استعمال میں لاتے.مغرب سے پہلے گھر واپس لوٹ آتے.بڑوں چھوٹوں سب کے لئے گھر میں مغرب تک واپس آنے کا دستور رائج تھا.خاکسار نے بھی بچپن میں یہی مشاہدہ کیا کہ ہماری دادی جان سختی سے سب اہل خانہ کو 22
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود غرب سے پہلے گھر لوٹنے کی تلقین کرتی تھیں.اگر کسی کو دیر ہو جاتی تو بے چین ہو جاتی تھیں اور سیڑھیوں میں کھڑی ہو کر انتظار کرتیں.محمد موسیٰ صاحب کو حکمت سے لگاؤ تھا.بڑی محنت سے دیسی دوائیاں بناتے اور دوستوں اور ملنے والوں کو فی سبیل اللہ بانٹ دیتے.ایک ہندو دوست کو جو گوشت کھانے کا سخت مخالف تھا گائے کی ہڈیوں کی یخنی بوتلوں میں بند کر کے دوائی کے طور پر دی.خدا تعالیٰ نے اسے شفا دے دی.حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب کے بڑے بیٹے حضرت میاں عبد المجید صاحب صحابی حضرت مسیح موعود نے بھی سائیکلوں کے کاروبار کے علاوہ حکمت کو ایک لمبے عرصہ تک فی سبیل اللہ جاری رکھا.وہ کہتے تھے کہ ان کی حکمت میں اس وقت تک اثر رہے گا جب تک مفت دوائیاں دیتے رہیں گے.اس نیک کام کی وجہ سے انہیں تبلیغ کے مواقع ملتے تھے.ان کی دکان پر ہر وقت کوئی نہ کوئی مریض دوائی لینے کی غرض سے آیا ہو تا تھا.دور دراز سے لوگ آتے اور دکان کھلنے سے پہلے باہر بیٹھے انتظار کرتے رہتے.حضرت میاں عبدالمجید صاحب کی اولاد میں سے میرے بڑے برادر نسبتی میاں عبدالروف صاحب ( حال لندن) نے بھی فی سبیل اللہ حکمت کے کام کو ایک عرصہ تک جاری رکھا.23 23
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود عائلی زندگی میاں محمد موسیٰ صاحب نے تین شادیاں کیں.آپ کی پہلی شادی 1893ء میں ہوئی.پہلی اہلیہ کے بطن سے صرف ایک لڑکا میاں محمد حسین دسمبر 1894ء کو پید اہو ا.میاں محمد موسیٰ اور اُن کے اہل خانہ نے 1902ء میں حضرت مسیح موعود کی بیعت کی تھی.آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے میاں محمد حسین صاحب نے گھر والوں کے ساتھ 1905ء میں قادیان جاکر حضرت مسیح موعود کی دستی بیعت کا بھی شرف حاصل کیا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے حضور کی غلامی میں آگئے 65.دوسری شادی ایک بیوہ سے کی جس کی کافی عرصہ سے وہ مالی کفالت کر رہے تھے.احباب جماعت کے مشورہ کے بعد ان سے شادی کی.وہ موصیہ تھیں.انہوں نے 1912ء میں حج کرنے کی سعادت حاصل کی.7 وہ شادی کے بعد کئی سال تک زندہ رہیں لیکن ان میں سے کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی.حضرت مسیح موعود سے باقاعدہ اجازت لے کر میاں محمد موسیٰ نے تیسری شادی 1902ء میں ہماری دادی جان رحمت بی بی صاحبہ سے کی.آپ نے اس شادی کے لئے دعا کی.رحمت بی بی صاحبہ کا ولادت کا سن 1875 ء ہے اور وہ 1904ء میں بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئیں.ان کے بارے میں لاہور تاریخ احمدیت میں یہ لکھا ہے: چند بار آمد ورفت ہو جانے کی وجہ سے میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ میرا ارادہ ایک اور نکاح کرنے کا ہے.ابھی میں یہ کہنا ہی چاہتا تھا کہ حضور دعا فرمائیں کہ حضور نے فور آفرمایا: 6 لاہور تاریخ احمدیت مر تبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ” حاجی میاں محمد موسیٰ“، صفحہ 306، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[ حاشیہ 3] تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد ، " حاجی محمد موسیٰ“، جلد 9، صفحہ 543 تا545، مطبوعہ (2007) ، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پریس امر تسر اخبار بدر قادیان دارلامان 28 مارچ 1912ء صفحہ 2 کالم 1 24 لله
سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود ”ہاں، بہت مبارک ہو ، میں دعا کروں گا.“ چنانچہ اس کے بعد میں نے تیسر ا نکاح کیا اور یہ رشتہ بہت ہی بابرکت ثابت ہوا.میری یہ اہلیہ بہت متقی ہیں اور موصیہ بھی.؟ میرے دادا جان حضرت رسول اکرم صلی علی کلم کے فرمان کے عین مطابق اپنے اہل و عیال کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے خاص طور پر اپنی بیویوں کے ساتھ ان کا سلوک قابل ستائش تھا.ان کی ہر جائز فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے.گھر کا ماحول خوشگوار رکھتے تھے.حضرت رحمت بی بی صاحبہ کے بطن سے پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں.بڑے لڑکے میاں عبد المجید صاحب یکم جنوری 1903ء کو پیدا ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے 1907ء میں بیعت کر کے صحابہ میں اپنا نام لکھوالیا.آپ کی باقی اولاد کے نام درج ذیل ہیں.لڑکوں میں میاں عبد الماجد صاحب، میاں محمد احمد صاحب، میرے والد میاں محمد بیٹی صاحب اور میاں مبارک احمد صاحب شامل ہیں.لڑکیوں میں مریم بی بی صاحبہ زوجہ عبد الخالق صاحب، زینب بی بی صاحبہ زوجہ عبد العزیز صاحب اور عائشہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری بشیر احمد صاحب آف جہلم ہیں.یہ سب وجو د وفات پاچکے ہیں.حضرت رحمت بی بی صاحبہ کی وفات 17 مارچ 1958ء کو لاہور میں ہوئی.82 برس عمر پائی.وہ بہشتی مقبر در بوہ میں قطعہ خاص کی چار دیواری کے قریب دفن ہیں.10 میاں محمد بیٹی صاحب جماعت احمد یہ لاہور پاکستان کے دو دفعہ قائد مجلس، قائد ضلع اور قائد علاقہ منتخب ہوئے.جماعت لاہور کے شعبہ مال کے لئے نصف صدی سے زائد لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ”حاجی میاں محمد موسیٰ“، صفحہ 308، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ”حاجی میاں محمد موسیٰ“، صفحہ 312، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.10 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ”حاجی میاں محمد موسی“، صفحہ 312، مطبوعہ فروری 1966ء ، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[ حاشیہ 9] 25 25
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود دینی خدمات سر انجام دیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ان سے بہت شفقت کا سلوک فرماتے تھے اور جماعتی معاملات کے لئے ان کو اپنے پاس بلاتے اور گھنٹوں ہدایات سے نوازتے رہتے تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے آپ کو جو خطوط لکھے ان میں سے کئی خطوط کی نقول تاریخ احمدیت لاہور میں دیکھی جاسکتی ہیں.12.11 12 روز نامہ الفضل ربوہ 25 اپریل 2013ء صفحہ 4 تا6 تک، میرے والد میاں محمد یحیی صاحب کی یاد میں ، مصنف محمود احمد ناگی احمد یہ گزٹ امریکہ ”میاں محمد یحیی کی یاد میں “ ، جلد 69، نمبر 11-12 نومبر دسمبر 2017، صفحہ 37 تا 41، مصنف محمود احمد ناگی 26
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود صحابی حضرت مسیح موعود میاں محمد حسین ابن میاں محمد موسی
28 سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود صحابی حضرت مسیح موعود میاں عبد المجید ابن میاں محمد موسی
29 29 سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود فرزندان حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب (دائیں سے بائیں طرف) میاں محمد حسین (صحابی)، میاں عبد المجید (صحابی)، میاں عبد المساجد، میاں محمد احمد ، میاں محمد بیچی اور میاں مبارک احمد
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود قبول احمدیت کے ایمان افروز واقعات حضرت میاں محمد موسیٰ نیلا گنبد لاہور میں 1901/1900 میں سائیکلوں کا کاروبار کرتے تھے.لاہور میں سائیکلوں والے مشہور تھے.ایمان داری ، محنت اور لگن ان کے کاروبار کے اصول تھے.اُن دنوں کاروباری لوگ حساب فہمی کے لئے منشی (Accountant) ملازم رکھتے تھے.دادا جان نے محبوب عالم نامی ایک لڑکے کو تنخواہ پر ملازم رکھا ہوا تھا جو ان کی دکان کا حساب کتاب رکھتے تھے.(حضرت قاضی محبوب عالم 1878 میں پیدا ہوئے اور 1898 میں حضرت مسیح موعود کی بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.(13) مشہور مورخ مولانا دوست محمد شاہد نے ان کی ملازمت کا واقعہ تاریخ احمدیت میں کچھ یوں لکھا ہے.منشی محبوب عالم صاحب کے پوتے مولوی محمد صادق صاحب مبلغ سیر الیون تحریر فرماتے ہیں: ”حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے.فرمایا حضور مجھے ایک نیک نوجوان کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود نے قاضی محبوب عالم صاحب کا ہاتھ پکڑ کر حضرت میاں صاحب کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور دادا مرحوم ایک مدت تک بطور منشی کے حضرت میاں صاحب کے ہاں ملازم رہے.بعد میں آپ نے اپنی دکان لی.آپ ایک تاجر تھے.14 کچھ عرصہ بعد وہ ملازمت چھوڑ کر چلے گئے تو میاں محمد موسیٰ صاحب نے حضرت مسیح وی صاحب.موعودؓ کی خدمت اقدس میں ایک خط تحریر کیا: 13 تاریخ احمدیت مؤلّفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 18 صفحہ 300 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر میں امر تسر 14 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 18 صفحہ 306 تا 307 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیں امر تسر 30
ہیں: سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود ” آپ کا مرید محبوب عالم ہمارا ملازم تھا.نوکری چھوڑ کر چلا گیا ہے.آپ اس کو ہدایت فرما دیں کہ واپس آجائے کیونکہ وہ دیانتدار آدمی ہے.ہمیں اس کی ضرورت ہے.15% حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب رجسٹر روایات اصحاب احمد میں تحریر کرتے چنانچہ حضرت صاحب کو جب یہ خط ملا تو حضور نے محبوب عالم صاحب کو طلب فرمایا ( یعنی مجھے ) اور حکم دیا کہ آپ فور آلاہور چلے جائیں.اس دکاندار نے آپ کی بہت تعریف لکھی ہے.اس واسطے ہمارا خیال ہے کہ آپ ان کے پاس پہنچ جائیں.چنانچہ میں لاہور آگیا اور ہمیں روپیہ ماہوار پر ملازم ہو گیا.دوسال کے بعد پروپرائیٹر (Proprietor) دکان جس کا نام الہ بخش تھا میاں محمد موسیٰ کو اپنی تجارت میں حصہ دار بنا لیا.اب میں بجائے ایک شخص کے دو کا ملازم ہو گیا.مگر قدرت خداوندی سے اللہ بخش علیحدہ ہو گیا اور میاں محمد موسی دکان کا واحد مالک ہو گیا اور مجھے منیجر رکھ لیا.16 منشی محبوب عالم صاحب جب بھی دکان پر حساب فہمی کے لئے آتے تو میاں محمد موسیٰ کو تبلیغ کرتے اور اصرار کرتے کہ قادیان میں مرزا غلام احمد نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.ان کا دعویٰ حق پہ مبنی ہے.آپ بھی قادیان جا کر مرزا صاحب سے ایک فعہ ضرور مل لیں.حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحب نے بیان کیا: ” میں نے میاں موسیٰ صاحب کو تبلیغ شروع کی.چنانچہ اُن کو قادیان بھیجا مگر وہ شامت اعمال سے قادیان سے بغیر بیعت کے واپس آگئے.بعد ازاں میں اُن کو کبھی کبھی اخبار بدر سناتا رہا.پھر میں نے ان کو ایک حدیث سنائی کہ ایک دن ایک بدوی نے آنحضرت صلی الله علم کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ 15 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 237، مطبوعہ فروری1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.16 روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد نمبر 9، صفحہ 136 تا 137، روایت منشی محبوب عالم صاحب تذکرہ اصحاب احمد خطبه جمعه فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 9 مارچ 2012ء، صفحہ 150 تا 151، خطبات مسرور 2012، نظارت اشاعت ربوہ پاکستان 31
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود آپ خدا تعالیٰ کے رسول ہیں.آنحضرت علی مریم نے قسم کھا کر کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں.تب اس بدوی نے بیعت کر لی اور اپنے قبیلہ کی بھی بیعت کروادی.جب یہ واقعہ میں نے میاں محمد موسیٰ صاحب کو سنایا تو ان پر بڑا اثر ہوا اور انہوں نے اسی وقت ایک کارڈ حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ مسیح موعود ہیں.یہ کارڈ جب حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پہنچا تو حضور نے مولوی عبد الکریم صاحب کو حکم دیا کہ لکھ دو.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا وعدہ آنحضرت صلی ہم نے اس امت کو دیا تھا.اس کارڈ میں مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنی طرف سے بھی ایک دو فقرے لکھ دیے.جن کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے خدا کے صحیح کو قسم دی ہے.اب آپ یا ایمان لائیں یا عذاب الہی کے منتظر رہیں.وہ کارڈ جب پہنچا تو میاں محمد موسیٰ نے اپنی اور اہل و عیال کی بیعت کا خط لکھ دیا.اس طرح سے میں اب اکیلا نہ رہا بلکہ میرے ساتھ خدا تعالیٰ نے ان کو بھی شامل کر دیا.18" میاں محمد موسیٰ صاحب بیعت سے پہلے ایک دفعہ خود قادیان چلے گئے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان پر سچائی کی حقیقت آشکار ہو چکی تھی.احمدیت قبول کرنے کا واقعہ وہ خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں: ” بیعت کرنے سے چھ سات ماہ پہلے میں قادیان گیا.اس وقت میرے رشتہ داروں نے وہاں جانے کی سخت مخالفت کی تھی اور مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں وہاں جا کر مرزا صاحب کے گھر کھانا نہ کھاؤں اور نہ ہی بیعت کروں.میاں محمد موسیٰ صاحب گھر والوں اور رشتہ داروں سے وعدہ کر کے قادیان گئے تھے اس لئے انہوں نے اس وقت بیعت نہ کی تھی.اس وقت میرے ساتھ میری اہلیہ کے بھائی بھی تھے جن کا نام شہاب الدین تھا.قادیان جا کر مولوی عبد الکریم صاحب سے ملا اور حضور علیہ السلام کی ملاقات بھی ہوئی اور حضور سے مصافحہ بھی کیا اور کچھ باتیں بھی کیں جواب 18 تذکرہ اصحاب احمد خطبه جمعه فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 9 مارچ 2012ء، صفحہ 150 تا 151، خطبات مسرور 2012، نظارت اشاعت ربوہ پاکستان [ حاشیہ 17] 32
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود یاد نہیں.تین نمازیں بھی حضور کے ہمراہ مولوی عبد الکریم کی اقتداء میں پڑھیں.مجھ پر اس وقت آپ کی صداقت کا بہت اثر ہوا.گو میں نے اپنے رشتہ داروں سے وعدہ کرنے کی وجہ سے بیعت نہ کی.اس وقت مجھ پر حضور کی محبت کا جو اثر تھا اس کو دیکھ کر میرے نسبتی بھائی نے مجھ سے کہا کہ آپ تو اپنے وعدہ کے خلاف کر رہے ہیں اور آپ کی حرکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ضرور پھنس جائیں گے.اس عرصہ میں میری کچھ گفتگو حافظ مولوی محمد ابراہیم صاحب نا پینا کے ساتھ ہوئی جس کا مجھ پر خاص اثر ہوا.پھر ہم واپس آگئے.“ ” میں نے چھ سات ماہ بعد حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ عام لوگوں کے لئے آپ کی صداقت کا معلوم کرنا مشکل ہے.آپ قسم کھا کر تحریر فرما دیں کہ آپ وہی مسیح موعود ہیں جن کی دنیا کو انتظار ہے.اس پر حضور نے اس لفافہ کی پشت پر تحریر فرمایا کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جن کا وعدہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.آپ نے قرآن مجید سے یہ آیت بھی تحریر کی 19.لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَذِبِيْنَ خاکسار مرزا غلام احمد بقلم خود.“ دادا جان میاں محمد موسیٰ صاحب نے اسی سلسلہ میں بیان کیا: ”وہ خط لے کر اپنے گھر کے اندر گئے اور اپنے اہل و عیال کو صاف صاف کہہ دیا کہ میں اب بیعت کرنے لگا ہوں اگر کسی کو عذر ہو تو وہ اس وقت بیان کر دے یا علیحدہ ہو جائے.چنانچہ میری بیوی اور بچوں سب نے اس وقت بیعت کر لی اور میں نے سب کی طرف سے حضرت مسیح موعود کو خط لکھ دیا.میری والدہ زندہ موجود تھیں مگر وہ اس وقت لاہور میں نہ تھیں اس لئے انہوں نے بعد میں حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کی.“ حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں: 19 القرآن.آلِ عمران : 62، ترجمہ: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت.33
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود ” بیعت کا خط لکھنے کے قریباً ایک ہفتہ بعد جب میں قادیان گیا تو حضرت مولوی نورالدین سے میری عصر کی نماز کے بعد ملاقات ہوئی.انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ نے وہ حدیث پوری کی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک یہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر یہ سوال کیا تھا کہ آپ خدا کی قسم کھا کر بتائیں کہ کیا آپ وہی رسول ہیں جن کا تو رات میں وعدہ دیا گیا ہے اور حضور نے اس وقت قسم کھا کر بیان کیا تھا کہ ہاں میں وہی ہوں جس پر اس نے وہاں بیعت کر لی تھی.اس موقعہ پر میں قادیان میں چند دن ٹھہرا تھا اور حضور علیہ السلام کی دستی بیعت بھی کی.روزانہ صبح آپ سیر کو تشریف لے جاتے تھے.میں بھی ہمراہ ہو تا تھا.آپ کی رفتار عام لوگوں سے کچھ تیز ہوتی تھی.اُن ایام میں آپ ننگل (قادیان کے قریب گاؤں) کی طرف تشریف لے جاتے تھے.222120 حضرت مسیح موعود نے جس خط کی پشت پر سچائی سے پر تحریر اپنے مقدس ہاتھ سے ثبت فرمائی تھی وہ خط ان کے بیٹے یعنی والد میاں محمد یحیی صاحب کے پاس 1953ء تک محفوظ تھا.6 مارچ 1953ء کو بلوائیوں نے لاہور میں احمدیوں کی املاک کو جلایا اور نقصان پہنچایا.23 میرے ایک دوست اور ہم جماعت ڈاکٹر صلاح الدین جو اُس وقت ہمارے گھر کے سامنے رہتے تھے بتاتے تھے کہ قرآن کریم کے جلے ہوئے اوراق اور کتابیں سڑک پر جگہ جگہ بکھری پڑی تھیں.جس کا جو جی چاہا سامان اُٹھا کر لے گیا باقی سامان نظر آتش کر دیا گیا.فوج نے بہت سے نام نہاد مسلمانوں کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا.ہمارے چند ہمسائے بھی پکڑے گئے.والد میاں محمد یحیی صاحب جیل میں ان کی خیریت پوچھنے جاتے اور ان کے لئے کھانا ساتھ لے جاتے اور کہتے تھے کہ انہوں نے 20 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 10 صفحہ 543 تا545 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیس امر تسر [ حاشیہ 6] 21 روایات اصحاب احمد ( غیر مطبوعہ ) رجسٹر 11 صفحہ 7تا8 22 لاہور تاریخ احمدیت مر تبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب ”حاجی میاں محمد موسیٰ“، صفحہ 306 تا308، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.23 تاریخ احمدیت مؤلّفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد "حالات لاہور پر ایک طائرانہ نظر "، جلد 15 صفحہ 170 تا 171 مطبوعہ (2007) ، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پریس امر تسر 34
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود ہمسائیگی کا حق ادا نہیں کیا لیکن ان کی دیکھ بھال کرنامیر افرض بنتا ہے.قصہ مختصر وہ شاہکار تحریر گھر کے سامان کے ساتھ ضائع ہو گئی.سب افرادِ خاندان کو جس کا ہمیشہ قلق رہے گا.حضرت مسیح موعود کی کتابوں کے پہلے ایڈیشن ابا جان نے بڑی عقیدت اور محبت سے جمع کر رکھے تھے وہ سب ان بد بختوں نے نذر آتش کر دیے.والد صاحب آخری دم تک ان قلمی نسخوں کا ذکر کرتے رہتے تھے لیکن گھر اور دکان کے سامان کے کٹ جانے کا کبھی ذکر نہ کیا.قبول احمدیت کے بعد دادا جان اپنے خاندان اور دوست احباب سے کلیتا کٹ کر رہ گئے تھے.دادا جان کو ان کی کچھ پرواہ نہ تھی پر واہ تھی تو صرف اپنے آقا حضرت مسیح موعودؓ کی کہ وہ کس طرح خوش ہو سکتے ہیں.ان کی ہر بات کو من و عن بجالاتے.آپ نے جو بھی تحریک فرمائی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.بیعت کے بعد انہوں نے اپنی دنیا الگ سے بسالی تھی.زیادہ میل جول صرف جماعت احمدیہ کے احباب سے تھا.اپنے غیر احمدی عزیزوں رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیا تھا.حضرت دادا جان نے میرے والد میاں محمد یحیی صاحب کی شادی حضرت جان محمد صاحب ابن حاجی گلاب دین صاحب موضع بھڈیار ضلع امر تسر کی صاحبزادی محترمہ فردوس بیگم سے کی.حضرت جان محمد صاحب اولین صحابہ میں سے تھے.24 ان کا بیعت کا سن 1898 ہے.ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا.دادا جان کی وفات کے بعد آبائی گاؤں کے غیر احمدی احباب نے ہماری دادی جان سے دوبارہ تعلق قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا.انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا لیکن ساری زندگی ان غیر احمدیوں کے گھرانوں میں اپنے بچوں کی شادیاں نہ کیں.24 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، محترم مستری جان محمد “، صفحہ 278، مطبوعہ فروری 1966ء ، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیاء الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.35
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت جان محمد صاحب آف بھڈیار صحابی حضرت مسیح موعود ولادت : 1888ء.بیعت : 1898ء.وفات: 24 دسمبر 1972ء
سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود حضرت مسیح موعود سے پیار و محبت کے واقعات حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب نے اپنے آقا حضرت مسیح موعود کے ساتھ تقریباً چھ سال کا مختصر عرصہ گزارا اور اس دوران ان کی صحبت سے بھر پور فیض اٹھایا.ہر موقعہ کو غنیمت جانا.وہ ان چند صحابہ میں شامل ہیں جن سے حضور کو بہت پیار تھا.آپ خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنے میں کوشاں رہتے اور خدمت دین بجالانے میں اپنا زیادہ وقت صرف کرتے.اس بات کا ہمیشہ خیال رکھتے کہ ان کی اولاد کا خلافتِ احمدیہ کے ساتھ گہرا تعلق رہے اور وہ سب دین متین کے سچے خادم بنیں.قابل توجه مالی قربانیاں اور ایمان افروز واقعات میاں محمد موسیٰ کی دکان پر آپ کا تشریف لانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا 1902ء میں میاں محمد موسیٰ صاحب کی دکان واقع نیلا گنبد لاہور کے باہر تشریف آوری کا واقعہ جماعت کے لٹریچر میں محفوظ ہے.یہ واقعہ 26.25 سن کی تبدیلی کے ساتھ پیش خدمت ہے.یہ روایت حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب نے خود بیان کی تھی.ایک دفعہ 1904ء ( تاریخ احمدیت میں 1902 ء درج ہے) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا بھی لاہور تشریف 25 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ”حاجی میاں محمد موسیٰ “، صفحہ 308 تا309، مطبوعہ فروری 1966ء ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.26 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد سے آپ کی 1902ء میں لاہور آمد کی تصدیق نہیں ہوتی.آپ 1903 میں جہلم سے واپسی پر ایک دن کے لئے لاہور میں رکے.یہ واقعہ غالباً 1904ء کا ہے جب حضور 20 اگست تا 3 ستمبر دو ہفتے کے لئے لاہور تشریف لائے تھے اور آپ نے چار لیکچر دیے تھے ( تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد ، جلد 2 صفحہ 268 اور 353 تا 349 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پریس امرتسر)
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود لائیں.حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنہا کو عجائب گھر چھوڑ کر حضور ہماری دکان واقع نیلا گنبد لاہور تشریف لائے.کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد دکان سے باہر ایک کرسی پر تشریف فرما ہوئے.(میاں محمد موسیٰ نے آپ سے دکان کے اندر آنے کی درخواست کی.حضرت مسیح موعود نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ نبی اللہ کاروباری دکانوں میں نہیں جاتے).27 اور فرمایا کہ پانی لاؤ.منشی محبوب عالم صاحب اور کئی اور احباب سوڈا واٹر اور لسی اور دودھ لائے مگر حضور نے فرمایا کہ ہم پانی پیئیں گے جس پر پانی لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیا.میں نے اس موقعہ پر آپ کی خدمت میں ایک پونڈ (برٹش انڈیا کی کرنسی) پیش کیا جسے حضور نے دو دفعہ عذر کے بعد قبول فرما 30-29-28" ایک اور واقعہ اسی وقت پیش آیا جسے بیان کرناد لچپسی کا باعث ہو گا.اتنے میں ایک شخص آیا.اس کا نام محمد امین تھا وہ بوٹوں کی دکان کیا کرتا تھا.مجمع کو کہنے لگا کہ کیا ہے ؟ ان لوگوں میں سے کسی نے کہا کہ مرزا صاحب قادیان والے ہیں.چنانچہ وہ آگے بڑھا.مجمع کو توڑتے ہوئے سامنے کھڑا ہو گیا اور نہایت گستاخی اور بے باکی سے دجال یا کافر کہہ کر السلام علیکم کہا.حضور مسکرائے اور فرمایا کہ دجال بھی اور السلام علیکم بھی.یہ دو متضاد باتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں.اس واقعہ پر حضور نے ایک مختصر تقریر فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے.مسلمانوں کی انتہائی بد نصیبی ہے کی ان کے درمیان دنجال پیدا ہو گیا جبکہ ان کو ضرورت کسی مصلح کی تھی.اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت میں ان پر رحم فرمایا جبکہ ان کی حالت 27 لاہور کی روحانی قدریں مولفہ حنیف محمود صاحب، حاشیہ صفحہ 142، مطبوعہ رقیم پر یس اسلام آباد (تلفورڈ) یو کے 28 روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر نمبر 11 ، صفحہ 7 تا 8 ، روایت حاجی محمد موسیٰ صاحب [ حاشیہ 21] 29 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ”حاجی میاں محمد موسی“، صفحہ 308 تا309، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[حاشیہ 25] 30 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، ”حاجی میاں محمد موسیٰ “ جلد 9، صفحہ 543، مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیں امر تسر [ حاشیہ 8] 38
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود پراگندہ تھی اور شیرازہ بکھر اہوا تھا مگر افسوس کہ وہ بد قسمتی سے ایک ہادی کو دنبال کہہ بیٹھے.31 میاں محمد موسیٰ صاحب کی دکان کے باہر جس جگہ حضور کرسی پر براجماں ہوئے تھے ایک درخت کے نیچے ایک عرصہ تک غلام رسول نامی ایک شخص مرغ چھولے کا سالن بیچتا تھا اور اس کا سارا کھانا دو تین گھنٹوں میں ختم ہو جاتا تھا.وہ کہتا تھا کہ یہ سب برکت مرزا صاحب کی مرہونِ منت ہے.حضرت موسیٰ کے خاندان کو ہمیشہ رعایت سے کھانا دیتا.اس شخص نے جماعت کی کبھی مخالفت نہ کی.جب لاہور میونسپل کمیٹی نے وہ درخت (غالباً 1975ء میں) سڑک کو چوڑا کرنے کے لئے کاٹ دیا گیا تو اس کو کہا گیا کہ وہ جگہ چھوڑ دے.31 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، حضرت قاضی محبوب عالم ، صفحہ 238، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.39
سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود حضرت حاجی میاں محمد موسی نیلا گنبد لاہور حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ اپنی دکان ایم موسیٰ اینڈ سنز نیلا گنبد لاہور کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جہاں ان کے آقا حضرت مسیح موعود کچھ دیر کے لئے 1904 میں کرسی پر بیٹھے تھے.
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود موجودہ دکان ایم موسیٰ اینڈ سنز نیلا گنبد لاہور Servis Setti JF 27.000 (اوپر کی تصویر دائیں طرف سے بائیں) مربی سلسلہ مکرم بشیر الدین صاحب لاہور ، میاں محمد بیچی صاحب ابن حاجی محمد موسیٰ صاحب اور مکرم حنیف محمود صاحب (مصنف لاہور کی روحانی قدریں) تصویر میں نظر آرہے ہیں.نیچے کی تصویر میں برادرم میاں بشیر احمد امین جماعت لاہور دکان پر ماسک پہنے کھڑے ہیں.
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود جمعہ کے لئے با قاعدگی سے قادیان جانا حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب جب بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے تو ان کا قادیان کے علاوہ کہیں اور دل نہ لگتا تھا.آپ لاہور سے ہر جمعہ کی صبح قادیان کے لئے روانہ ہو جاتے 32 تا کہ اپنے آقا امام الزمان کے اقتداء میں جمعہ اور دوسری نمازیں ادا کر سکیں.بعض دفعہ تو جمعہ کی رات کو ہی واپسی ہو جاتی لیکن عام طور پر ہفتہ یا اتوار کو واپس آتے.اس وقت تک لاہور واپس نہ جاتے جب تک حضرت مسیح موعود آپ کو واپس جانے کی اجازت نہ دے دیتے.حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اصحاب احمد کے تذکرہ میں میاں محمد موسیٰ کی حضرت مسیح موعود کے ساتھ محبت کے بارے میں اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 4 مئی 2012ء میں فرماتے ہیں: ”پھر حاجی محمد موسیٰ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس زمانے میں میرا کئی سال تک یہ دستورالعمل رہا کہ نیا سٹیشن (سٹیشن کا نام) پر ایک جمعدار کے پاس ایک بائیسکل ٹھوس ٹائروں والا رکھا ہوا تھا.33 جمعہ کے روز میں لاہور سے بٹالہ تک گاڑی پر جاتا 34 اور وہاں سے سائیکل پر سوار ہو کر قادیان جاتا اور جمعہ کی نماز کے بعد واپس سائیکل پر بٹالہ آجاتا.یہاں سے گاڑی پر سوار ہو کر لاہور آ جاتا.35 32 بٹالہ سے قادیان یک طرفہ تقریباً 11 میل اور دو طرفہ 22 میل کا سفر تھا.33 وہ بائیسکل جس کے ٹائروں میں ہو ا کی بجائے ربڑ چڑھا ہو اتھا.34 24 گھر سے لاہور اسٹیشن بھی سائیکل پر جاتے اور سائیکل لاہور اسٹیشن پر سائیکل سٹینڈ پر رکھتے.ناقل 35 تذکرہ اصحاب احمد خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی 4 مئی 2012ء، "روایت حاجی میاں محمد موسیٰ صفحہ 275، خطبات مسرور 2012، نظارت اشاعت ربوہ پاکستان
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود مالی معاونت کا روح پرور واقعہ مالی معاونت کے بارے میں حضرت مسیح موعود کی مندرجہ ذیل تحریر میاں محمد موسیٰ جہ ذیل تحریر میں حمد کے مد نظر ہو گی جب انہوں نے درج ذیل مالی قربانی کی تھی.اگر تم کوئی نیکی کا کام بجا لاؤ گے اور اس وقت کوئی خدمت کروگے.تو اپنی ایمانداری پر مہر لگا دو گے.اور تمہاری عمریں زیادہ ہوں گی.اور تمہارے مالوں میں برکت دی جائے گی.36 ( تبلیغ رسالت جلد 10 ، صفحہ 56) میاں محمد بیٹی صاحب نے 2002 میں اپنی وفات سے کچھ دیر پہلے میاں محمد موسیٰ صاحب کی ایک عظیم مالی قربانی کے بارے میں بتایا جو ابھی تک جماعت احمدیہ کے کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکی : 1902-3 میں میاں محمد موسیٰ حضرت مسیح موعود کی ایک محفل میں موجود تھے جب حضور نے ایک نماز کے بعد ضروری کتاب یا اشتہار شائع کرنے کے لئے جماعت کو ایک بڑی رقم کی تحریک کی.میاں محمد موسیٰ کا یہ دستور تھا کہ وہ حضور سے اجازت لیے بغیر گھر واپس نہ جاتے تھے.لیکن اس دن وہ خاموشی سے لاہور چلے گئے.اپنے گھر نہیں گئے.گنج مغل پورہ لاہور میں ان کی ملکیت میں آٹھ مکانوں کا ایک احاطہ تھا جو ”سرائے موسیٰ“ کے نام سے مشہور تھا.اب بھی اس کا یہی نام ہے.میاں محمد موسیٰ نے اس سرائے کا ایک ہندو سوداگر سے سودا کر دیا.اسے نہایت ہی کم دام پر بیچ دیا اور رقم لے کر واپس قادیان پہنچ گئے.آپ کی غیر موجودگی میں حضور نے احباب جماعت سے اُن کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہیں نظر نہیں آرہے.یہ بھی کہا کہ موسیٰ صاحب تو اجازت لئے بغیر واپس نہیں جاتے.احباب نے لاعلمی کا اظہار کیا.اگلے دن فجر کی نماز کے وقت آپ قادیان واپس پہنچ گئے اور نماز کے بعد ساری ر قم حضور کی خدمت میں پیش کر دی اور کہا: ”حضور میں تو رقم کے حصول کے لئے لاہور گیا تھا اس لئے آپ سے اجازت نہ طلب کی.اس رقم سے حضور اپنی کتاب ے نہ شائع کر لیں.“ 36 مالی قربانی ایک تعارف.صفحہ 17، ناشر تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان 43
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود یہ رقم نا ہی پانی سے چھ ہزار روپے تھی.میاں محمد موسیٰ صاحب گھر والوں کی مرضی کے بغیر سرائے موسیٰ فروخت کر کے اپنے آقا کے حضور سر خرو ہو گئے اور دعاؤں کے وارث بنے.حضرت مسیح موعود اس قربانی سے بہت خوش ہوئے.“ یوں آپ حضرت مسیح موعود کی ہمہ وقت کی بابرکت دعاؤں کے مصداق بنے.ان عظیم قربانیوں نے جماعت کے اس وقت نرم و نازک پودے کی خوب آبیاری کی.ہم دعا گو ہیں کہ خدا تعالیٰ احباب جماعت احمدیہ کو میاں محمد موسیٰ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.کتاب کے مصنف نے 2016ء میں اپنے بھتیجے عزیزم احمد عدنان کے ہمراہ سرائے موسیٰ کا کھوج لگایا.یہ پولیس اسٹیشن مغل پورہ لاہور کے سامنے سڑک پار واقع ہے.سڑک مغلیہ شالامار باغ کو جاتی ہے اور اسے شالا مار لنک روڈ کہا جاتا ہے.اگر منہ باغ کی طرف کیا جائے تو یہ جگہ سڑک کے دائیں ہاتھ پر ہے.ایک صدی سے زائد عرصہ بیت گیا اور اس احاطہ کا نام ابھی تک سرائے موسیٰ ہی ہے.ہم نے وہاں کے مکینوں کی اجازت سے چند تصاویر بنائیں.اس کے مکانوں کے باہر نمبروں کے ساتھ سرائے موسیٰ لکھا ہوا ہے.اس سرائے کا دروازہ یا اندر جانے کا رستہ مغلیہ طرز تعمیر سے مشابہت رکھتا ہے.اس جگہ کا معائنہ اور مشاہدہ کا موقع بھی ملا.اندر جائیں تو دائیں اور بائیں طرف چار چار مکان ہیں.اب تو مکان نئی طرز تعمیر کے بنے ہوئے ہیں.ایک پرانے لیٹر بکس کی بھی تصویر شامل کی جارہی ہے جس پر سرائے موسیٰ لکھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے.44
سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود سرائے موسیٰ شالا مار لنک روڈ مغل پورہ لاہور 121-23 SRAY MOSA SHALIMAR LINK ROAD MUGHALPURA LAHORE QAZI WORKS MADNI SPECIALISTIVA ALL KIND OF POSE VERY BOMBAR TRADERS FIBER GEISS PRISON MEY WE General Order Suppliers 12:20 STAY WISA SALMAT UNK ROUPA LARE PENDANG
سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود سرائے موسیٰ شالا مار لنک روڈ مغل پورہ لاہور جہاں بد اللہ خان والد ممتاز بیگم (مرحوم) سرائے موسی شالا ما ینگ در او مظلو LC 79
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود نظام وصیت میں شمولیت حضرت مسیح موعود نے رسالہ الوصیت 24 دسمبر 1905ء کو شائع کیا تھا.حضرت میاں محمد موسیٰ ابتدائی چند جانثاروں میں سے تھے جنہوں نے نظام وصیت میں شمولیت اختیار کی تھی.وہ خو د بتاتے ہیں: شروع میں اس الہی تحریک میں میرا اوصیت نمبر 16 تھا جو کچھ دیر بعد تبدیل ہو کر 65 ہو گیا.37 مالی تحریکات میں شمولیت میرے دادا جان جماعت کی ہر مالی تحریک میں شامل ہو تے تھے.لاہور تاریخ احمدیت مصنفہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب میں حضرت میاں چراغدین کے ذکر میں آپکی غیر معمولی مالی قربانیوں کا ذکر ملتا ہے.38 اس موقعہ پر حضرت منشی محبوب عالم صاحب مالک راجپوت سائیکل در کس نیلا گنبد اور حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب سائیکلز ڈیلر نیلا گنبد کا ذکر بھی ضروری ہے.یہ دونوں اصحاب نہایت مخلص اور محنتی کارکن تھے.مؤخر الذکر تو مالی قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.39 40 میاں محمد موسیٰ نے چندہ تحریک جدید کے لئے بھی معیاری قربانیاں کیں.تحریک جدید کے پانچ ہزاری دفتر اول کے مجاہدین کی لسٹ میں آپ کا نام صفحہ 242، نمبر 2054 پر درج ہے.اس کے علاوہ موسی خاندان میں تایا میاں عبد المجید صاحب 37 لاہور تاریخ احمدیت مر تبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ”حاجی میاں محمد موسی“، صفحہ 308، مطبوعہ فروری 1966ء ،ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.[ حاشیہ 8] یہ پہرہ میاں محمد موسیٰ کی کتاب کے پہلے ایڈیشن میں موجود نہ تھا.38 39 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ”باب نمبر 4، صفحہ 416، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.40 یہ پہرہ میاں محمد موسیٰ کی کتاب کے پہلے ایڈیشن میں موجود نہ تھا.47
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود صحابی حضرت مسیح موعود اور میرے والد میاں محمد بیٹی صاحب بالترتیب 2055 اور 2056 نمبر پر لسٹ میں دیکھے جاسکتے ہیں.41 میاں عبد المجید صاحب نے اپنے والد ماجد حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب کے متعلق ایک روایت بیان کی : 1907ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت مسیح موعود نے کسی کام کے لئے ساری جماعت کے سامنے ایک ہزار روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی.سات سو روپے والد محترم نے حضور کی خدمت میں پیش کئے اور تین سو روپے باقی احباب نے.42 میری پھوپھی زاد بہن محترمہ ثریا جاہ صاحبہ اہلیہ ملک محمد خان صاحب مرحوم آف خوشاب حال لندن بیان کرتی ہیں: لنگر خانہ 43 کے لئے کنواں کھدوانے کے لئے حضرت مسیح موعود نے مبلغ تین ہزار روپے کا جماعت سے مطالبہ کیا تھا.نانا جان (میاں موسیٰ صاحب نے ایک ہزار کا اسی وقت وعدہ کر دیا اور دو ہزار روپے باقی احباب جماعت سے اکٹھے کر دیے.وعدہ کی رقم انہوں نے چند دنوں میں ہی ادا کر دی.41 پانچ ہزاری مجاہدین تحریک جدید صفحہ 242 42 لاہور تاریخ احمدیت مر تبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 312 تا 313، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.43 حضرت مسیح موعود نے مہمانوں کے کھانے کا ہمیشہ ہمیش کے لئے انتظام فرمایا.48 48
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود مالی قربانیوں میں پیش پیش لاہور کے احمد کی خاندان حضرت مسیح موعود کے زمانے میں لاہور میں چند احمدی خاندان تھے جنہوں نے اپنی حیثیت سے زائد مالی قربانیاں کیں.مندرجہ ذیل لاہور کے خاندان پیش پیش تھے.44 حضرت میاں چراغ دین صاحب حضرت حکیم محمد حسین قریشی صاحب حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب رض ان خاندانوں کے بزرگ تو وفات پاچکے ہیں اور ان کی اولادیں زیادہ تر انگلینڈ، جرمنی، کینیڈا اور امریکہ میں آباد ہیں.ان کو جماعت کے مختلف شعبہ جات میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے.حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب کی فیملی کی اولادوں کو اگر جمع کیا جائے تو کم و بیش پانچ صد ہوں گے.حضرت مسیح موعود تمام احمدیوں کو دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں.با برگ و بار ہو ویں اِک سے ہزار ہو دیں.45% 44 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب, صفحہ 416، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[حاشیہ 38] 45 در ثمین اردو مؤلفه حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود، بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ، صفحہ 38، ناشر نظارت اشاعت ربوہ پاکستان ، ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ.
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے نکاح میں شمولیت حضرت سیدہ مبار که بیگم دختر نیک اختر حضرت اقدس مسیح موعود کا نکاح 17 فروری 1908ء حضرت نواب محمد علی خان صاحب "رئیس مالیر کوٹلہ 46 کے ساتھ مسجد اقصیٰ قادیان میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے پڑھا.نکاح کی مبارک تقریب میں شمولیت کے لئے لاہور سے مندرجہ ذیل احباب مدعو کئے گئے.ان احباب نے قادیان جا کر اس تقریب میں شرکت کی.1.میاں چراغدین صاحب رض رض 2.ڈاکٹر حکیم نور محمد صاحب 3.حکیم محمد حسین صاحب قریشی 4.بابو غلام محمد صاحب 5.میاں محمد موسیٰ صاحب 6.شیخ رحمت اللہ صاحب رض 7.خواجہ کمال الدین صاحب رض 8.خلیفہ رجب الدین صاحب حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب آف لاہور ان خوش قسمت احباب میں شامل تھے جو اس مبارک تقریب سعید میں شامل ہوئے.48,47 مالیر کوٹلہ انڈیا کے صوبہ پنجاب میں واقع ہے.47 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 2 صفحہ 516 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیں امر تسر 48 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 312، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[ حاشیہ 9]
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود عبد المجيد ابن محمد موسیٰ کا حضور سے معانقہ کا واقعہ حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱ امئی 2012ء بابت روایات صحابہ حضرت محمد موسیٰ صاحب کے بیٹے میاں عبد المجید صاحب کا مندرجہ ذیل واقعہ یوں بیان فرمایا: ”ایک دفعہ میرے لڑکے جس کی عمر اس وقت تقریباً 4 برس تھی.اس بات پر اصرار کیا کہ میں نے حضرت صاحب کو چمٹ کر جیھی (معانقہ) ڈال کر ملتا ہے.49 اس نے مغرب سے لے کر صبح تک یہ ضد جاری رکھی اور ہمیں رات کو بہت تنگ کیا.صبح اُٹھ کر پہلی گاڑی میں اسے لے کر بٹالہ اور وہاں سے سے ٹانگے پر ہم قادیان گئے.50 حضور اس موقع پر باہر تشریف لائے اور عبد المجید آپ کی ٹانگوں کو چمٹ گیا اور اس طرح اس نے ملاقات کی اور پھر وہ 4 سال کا بچہ کہنے لگا ”ہن ٹھنڈ پے گئی اے (یعنی بھر پور تسلی ہو گئی ہے.ناقل ).51 52 حضور کے ساتھ کھانا تناول کرنا حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب بیان کرتے ہیں.” میں نے ایک دفعہ حضور کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا.حضور کھانا بہت کم کھایا کرتے تھے.53 49 یہ واقعہ غالباً 1907 کا ہے.51 50 قادیان پہنچتے ہی حضرت صاحب کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ عبد المجید آپ کو ملنا چاہتا ہے.گلے ملنا چاہتا ہے یا جسمھی ڈالنا قادیان ہی حضرت کی میں یہ پیغام کہ وہ کمانا یا چاہتا ہے (چھوٹا سا بچہ تھا عمر 4 سال تھی).روایات صحابہ (غیر مطبوعہ ) رجسٹر 11 صفحہ 11 تا12، خطبات مسرور 2012 صفحہ 295، نظارت اشاعت ربوہ پاکستان 52 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 310 ، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[ حاشیہ 2] 53 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 309، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.51
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت مسیح موعود کی سادگی کے بارے بیان میاں محمد موسیٰ صاحب نے روایت کی: حضور کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات دستار مبارک کے پیچ بالکل بے ترتیب ہوتے تھے.یہی حال قمیض اور کوٹ کے بٹنوں کا ہو تا تھا یعنی جو بٹن اوپر کا ہو تا تھا وہ 54" نیچے کے کاج میں لگا ہو تا تھایا نیچے کا بٹن اوپر کے کاج میں.64 حضور کے لئے پوستین خریدنا حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب بیان کرتے ہیں : ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے قریشی محمد حسین کو خط لکھا کہ آپ پوستین 55 کا نرخ دریافت کر کے لکھیں کہ تا پتہ لگے کہ آیا میں خرید بھی سکتا ہوں یا نہیں.قریشی صاحب نے وہ خط میرے سامنے پڑھا.اسی دن میں نے پوستین خریدی جس کی قیمت قریباً 45 روپے تھی اور دوسرے دن قادیان جاکر حضور کی خدمت میں پیش کر دی.اس وقت حضور باغ میں تشریف فرما تھے.56" گھٹنوں کی درد کا انوکھا علاج حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب روایات اصحاب احمد کے رجسٹر میں لکھتے ہیں.57 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب»، صفحہ 309، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[حاشیہ 51] 55 ایک قسم کی کھال کی پوشش جو بالوں کے باعث نہایت گرم ہوتی ہے.یعنی بالدار چمڑے کا گرم کوٹ 56 اہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 309، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[حاشیہ 51] 57 حضرت مسیح موعود نے اپنے صحابہ کے احمدیت کے بارے میں تاثرات اور سچے واقعات کے اندراج کے لیے رجسٹر رکھوایا تا کہ جو صحابہ قادیان آئیں وہ اس میں اپنے روح پرور واقعات لکھیں.52 62
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود ”میاں فیروز دین صاحب میاں محمد سلطان صاحب کے متبنی تھے.58 گھٹنوں کی درد کی انہیں بہت شکایت تھی.دو آدمی پکڑ کر ان کو اُٹھایا کرتے تھے.حضرت صاحب سے ان کو بہت محبت تھی اور وہ حضور کے پاس روزانہ آیا کرتے تھے.ان ایام میں امریکہ کے ایک صاحب اور میم یہاں پر آئے اور ان سے حضور نے گفتگو فرمائی.59 حضور نے فرمایا کہ میاں فیروز دین کیا چاہتے ہو ؟ انہوں نے عرض کی کہ حضور درد بہت ہے.آپؐ نے فرمایا.اُٹھو! اُٹھو!! انہوں نے کہا کہ حضور کہاں اُٹھ سکتا ہوں.لیکن حضور نے بڑی تیزی سے فرمایا کہ اُٹھو.اُٹھو! جس پر وہ خود بخود اُٹھ کھڑے ہو گئے اور ان کی درد زائل ہو گئی.اس کے بعد گھٹنوں کی درد اُن کو مرتے دم تک نہیں ہوئی.وہ چار پانچ سال اس کے بعد زندہ رہے.60% عید الاضحی پر قربانی کے جانوروں کے بارے حضور کا فتویٰ حاجی محمد موسیٰ صاحب نے ایک اور روایت کی: ” میں نے ایک دفعہ حضور کی خدمت میں یہ درخواست کی تھی.چونکہ جماعت کو مال کی بڑی ضرورت ہے.کیا عید الاضحی 61 کے دن قربانی کی بجائے روپے نہ قادیان بھجوا دیے جائیں ؟ (حضرت مسیح موعود نے) فرمایا نہیں.شعائر اللہ کو برقرار رکھنا ضروری ہے.58 58 میاں محمد سلطان صاحب نے لاہور کا اسٹیشن بنوایا تھا اور گورنمنٹ کو کئی لاکھ روپیہ کابل چھوڑ دیا تھا.59 تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 519 مولفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے اسے بیان کیا ہے.7 اپریل 1908 کو قادیان میں شکاگو کے ایک سیاح مسٹر جارج ٹرنر اپنی لیڈی مس بارڈون اور ایک سکاچ مین مسٹر بانسر کے ہمراہ قریباً دس بجے قادیان آئے.مسجد مبارک کے نیچے دفاتر میں ان کو بٹھایا گیا اور چونکہ انہوں نے حضرت اقدس سے ملاقات کی درخواست کی تھی اس لئے حضرت اقدس بھی وہیں تشریف لے آئے.60 لاہور تاریخ احمدیت مر تبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 311، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.61 عید الاضحی دس ذوالحجہ کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کی یاد میں تمام عالم اسلام میں منائی جاتی ہے.53
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود مسیح موعود کے لئے مچھلی کا تحفہ ایک دفعہ مولوی کرم الدین صاحب مرحوم جو کہ بھڑ یار 62 متصل اٹاری کے رہنے والے تھے.انہوں نے مچھلی پکڑ کر دی کہ یہ حضرت صاحب کی خدمت میں لے جاؤ.میاں محمد موسیٰ صاحب وہ مچھلی حضور کی خدمت میں لے کر گئے.حضور بہت خوش ہوئے.63 مسیح موعود کے زیر تعمیر کمرہ کی نگرانی حاجی محمد موسیٰ صاحب روایت کرتے ہیں: ” میں ایک دفعہ قادیان گیا.حضور کا ایک کمرہ بن رہا تھا.اس کی نگرانی کے لئے حضور نے مجھے مقرر کیا.ایک مرتبہ دو پہر کے بعد حضور وہاں خود تشریف لائے.اس اثنا میں ایک معمار نے حضور کو کہا کہ فلاں مزدور نمازی نہیں.فرمایا.ہم نے 64" اس سے نفل نہیں پڑھوانے.“54 مسیح موعود نے اپنی رضائی بھجوادی حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب یہ بھی روایت کرتے ہیں: ”وہ ایک دفعہ قادیان گئے اور بستر ہمراہ نہ لے کر گئے.حضور کے خادم حافظ حامد علی صاحب نے حضور کو اطلاع دی کہ لاہور سے ایک صحابی محمد موسی کے پاس بستر نہیں 62 اٹاری کے متصل ایک گاؤں جو انڈیا کے ضلع امر تسر (پنجاب) میں واقع ہے.63 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 311، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.64 لاہور تاریخ احمدیت مر تبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب،، صفحہ 312، مطبوعہ فروری 1966ء،ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[ حاشیہ 9] 54 54
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود ہے.اس پر حضور نے اپنی رضائی ان کو بھیج دی.وہ کہتے ہیں کہ اس رات میں حضور کی رضائی اوڑھ کر سویا.“ 65 , حضرت مسیح موعود کو دبانا حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب کہتے ہیں کہ ان کو کئی دفعہ حضور کو مٹھی چاپی 66 کرنے کا موقعہ ملا.68,67 حضور کے لیے موٹر کار کی سیر کا انتظام کرنا 1908ءکا واقعہ ہے جب حضرت مسیح موعود آخری بار لاہور تشریف لے گئے تھے.یہ واقعہ سیرت المہدی جلد دوم مصنفہ مرزا بشیر احمد میں یوں بیان ہوا ہے.”حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب نے ایک دن ایک موٹر کار حضور کی سواری کے واسطے کہیں سے مہیا کی اور حضرت سے اس میں سوار ہونے کی درخواست کی نیز سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا سے بھی سوار ہونے کی خواہش کی.چنانچہ حضور پر نور معہ سيّدة النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا موٹر میں سوار ہونے کی غرض سے مکان سے اتر کر سڑک پر تشریف لائے مگر موقعہ پر پہنچ کر سیدہ نے سوار ہونے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ مجھے خوف آتا ہے مگر حضرت اقدس بعض بچوں 65 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 9، صفحہ 544 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پر نٹ ویل پر لیں امر تسر 66 تھکاوٹ دور کرنے کے لئے جسم کو دبانا.67 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 312، مطبوعہ فروری 1966ء ،ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[حاشیہ 9] 68 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 9، صفحہ 544 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پر نٹ ویل پر میں امر تسر [ حاشیہ 60] 55
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود سمیت سوار ہوئے اور قریبی سڑک کا چکر کاٹ کر واپس تشریف لے آئے.موٹر اس زمانے میں نئی نئی لاہور میں آئی تھی.69" تبلیغ کا ایک واقعہ حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی جب حضور اپنے آخری ایام میں چند دنوں کے لئے لاہور تشریف لے گئے تھے.یہ واقعہ 1908ء ہے.”میرے ایک چچا زاد بھائی عبد اللہ صاحب میری دکان (نیلا گنبد لاہور) پر ملازم تھے جو کہ جماعت کے بہت مخالف تھے.آخری ایام میں جب حضور لاہور تشریف لائے تو کئی روز میں نے ان سے تقاضا کیا کہ آپ جا کر دیکھ تو آئیں مگر وہ انکار ہی کرتے چلے گئے.آخر ایک روز میرے اصرار پر کہنے لگے کہ دہاڑی ( یومیہ مزدوری) چھوڑ کر کون جائے.میں نے کہا کہ میں آپ کی دہاڑی نہیں کاٹتا.آپ چلے جائیں.وہ جب حضرت مسیح موعود کو ملنے گئے تو میں بھی گیارہ بجے وہاں گیا اور میں نے دیکھا کہ ان پر حضور کی صحبت کا بہت نیک اثر پڑا ہے.چنانچہ ان کی حالت بدل چکی تھی اور وہ بیعت پر آمادہ تھے.میں نے کہا کہ آپ تو اس قدر مخالف تھے ذرا ٹھہر جائیں.اس کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ اب میں بیعت کرنے سے نہیں رک سکتا.عصر کے بعد بھی ایسا ہی کہا اور میں ان کو روکتا رہا کہ سوچ سمجھ لو.آخر دوسرے دن جمعہ کے وقت انہوں نے کہا کہ اب آپ چاہے روکیں میں بیعت ضرور کروں گا.چنانچہ نماز جمعہ کے بعد انہوں نے بیعت کرلی.69 سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 387 مطبوعہ (2008)، مولفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، نظارت نشر و اشاعت قادیان، فضل عمر پریس قادیان، انڈیا 70ل ہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب ، صفحہ 11-310، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.56
ہیں: سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود علم نجوم کے بارے ایک بحث میاں محمد بیٹی صاحب ابن حاجی محمد موسیٰ صاحب روایت کرتے ہیں : ” ان کے ابا جان علم نجوم سے کافی شغف رکھتے تھے.اس بارے میں کافی کتابیں پڑھ رکھی تھیں.دوست احباب ان کے اس علم کی وجہ سے مشورہ کے لئے اکثر ان کے پاس آتے تھے.اس علم کو کبھی دولت کمانے کا ذریعہ نہ بنایا.ایک دفعہ میاں محمد موسیٰ صاحب نے اس بارہ میں حضرت مسیح موعود سے پوچھا.آپ نے فرمایا علم نجوم مستقبل کے بارے نہیں بتا سکتا.یہ صرف خدا کو ہی علم ہے.حضرت مسیح موعود اپنی کتاب توضیح مرام میں ستاروں کے بارے میں تحریر کرتے اس میں کوئی شک نہیں کہ بوجہ مناسبت نوری وہ نفوس طیبہ ان روشن اور نورانی ستاروں سے تعلق رکھتے ہوں گے کہ جو آسمانوں میں پائے جاتے ہیں مگر اس تعلق کو ایسا سمجھنا چاہیے کہ جیسے زمین کا ہر یک جاندار اپنے اندر جان رکھتا ہے بلکہ ان نفوس طیبہ کو بوجہ مناسبت اپنی نورانیت اور روشنی کے جو روحانی طور پر انہیں حاصل ہے روشن ستاروں کے ساتھ ایک مجہول الکنہ تعلق ہے اور ایسا شدید تعلق ہے کہ اگر اُن نفوس طیبہ کا ان ستاروں سے الگ ہونا فرض کر لیا جائے تو پھر ان کے تمام قویٰ میں فرق پڑ جائے گا انہیں نفوس کے پوشیدہ ہاتھ کے زور سے تمام ستارے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں.“71 میاں محمد موسیٰ نے حضور کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پھر کبھی علم نجوم کی طرف توجہ نہ کی.71 روحانی خزائین جلد نمبر 3, صفحہ نمبر 70 مؤلفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود، بانی سلسلہ احمدیہ ، ناشر انٹر نیشنل لمیٹڈ اسلام آباد یو کے.57
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود خاص دعا کرنے کا طریق میاں محمد یحیی صاحب یہ بھی روایت کرتے ہیں: ”میاں جی کے پاس حضرت مسیح موعود کے تبرکات میں پگڑی اور شلوار کرتا( قمیض) تھا.جسے آپ نے بہت سنبھال کر رکھا ہوا تھا.اگر خاندان میں سے کوئی خاص دعا کے لئے کہتا تو والد صاحب ان تبرکات کو پہنتے اور کسی خاموش جگہ پر التزام سے دعا کرتے.دعا کے بعد اس کی قبولیت کا بھی بتا دیتے.یہ تبرکات بھی 1953 ء کے احمدیوں کے خلاف فسادات میں ضائع ہو گئے جب احمدیوں کے گھروں اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا تھا.“ 7266 الیس الله بکاف عبدہ کی مہر حضرت مسیح موعود نے اپنے آخری ایام میں ایک اشتہار شائع فرمایا تھا 73 اور اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدہ (کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں) 74 کی مہر ہر اشتہار پر لگائی تھی.حضرت حاجی محمد موسیٰ کے پاس وہ مہر بہت عرصہ تک محفوظ رہی.آپ کی وفات کے بعد وہ خاکسار کے والد میاں محمد یحیی صاحب کی تحویل میں آگئی.1953ء میں بلوائیوں نے ہمارے آبائی گھر کو لوٹا، جلایا اور شدید نقصان پہنچایا تو یہ لکڑی پہ بنی ہوئی مہر بھی سامان کے ساتھ ضائع ہو گئی.75 72 لاہور تاریخ احمدیت مر تبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب ” چار احمدیوں کی شہادت،، صفحہ 571 تا572، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کو ثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.73 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 311 تا 312، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.[حاشیہ 57 ] 74 الزمر 37 75 اریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد " حالات لاہور پر ایک طائرانہ نظر "، جلد 15 صفحہ 170 تا 171 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پر نٹ ویل پریس امر تسر [ حاشیہ 68] 58
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضور کا تصنیف تحریر کرنے کا منفر داند از حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب روایت کرتے ہیں: ” میں ایک دفعہ قادیان گیا.میں نے حضور کو کتاب تصنیف کرتے دیکھا.حضور ایک کتاب لکھ رہے تھے.76 حضور کے لکھنے کا طریق یہ تھا کہ صحن یا کمرہ کے دونوں طرف دوا تیں رکھی ہوتی تھیں اور ہاتھ میں کاغذ اور قلم لئے ہوتے تھے.ایک طرف کی دوات سے روشنائی لے کر لکھتے لکھتے دوسری طرف چلے جاتے پھر اُدھر سے روشنائی لے کر اس طرف چلے جاتے.7766 سائیکل پر حضرت مسیح موعود کا پہرہ دینا میاں محمد موسیٰ روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود جب 1908 میں لاہور تشریف لائے تو انہوں نے حضور کا سائیکل پر پہرہ دیا: ”حضرت مسیح موعود روزانہ عصر کی نماز کے بعد ایک یا دو گھوڑوں والی سواری پر گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے اور میں سائیکل پر ان کا پہرہ دیا کرتا تھا.78% 76 غالباً حضرت مسیح موعود 1905 میں اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ پنجم لکھ رہے تھے.77 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 311 تا 312، مطبوعہ فروری1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا [ حاشیہ 9] 178 ہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 310، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[ حاشیہ 2] 59
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود جماعتی خدمات کا تذکرہ بہشتی مقبرہ قادیان کے لئے منصوبہ بندی حضرت مسیح موعود نے رسالہ الوصیت 24 دسمبر 1905ء کو شائع کیا.اس رسالہ میں حضور نے الہی منشاء کے ماتحت اشاعت اسلام، تبلیغ احکام اور قرآن کے مقاصد کے لئے ایک دائمی نظام وصیت کا اعلان فرمایا جو آئندہ دنیا کے مختلف اقتصادی نظاموں کیلئے نظام نو ثابت ہو گا.اس رسالہ میں حضور نے قدرت ثانیہ کی خوشخبری دی.حضور نے الہی منشاء کے تحت ایسے وصیت کرنے والوں کے لئے ایک بہشتی مقبرہ 79 بھی تجویز فرمایا اور اس میں دفن ہونے والوں کے قواعد خود درج فرمائے.حضرت مسیح موعود نے 1906ء میں ایک قبرستان ” بہشتی مقبرہ “ بنانے کی تجویز دی اور اس کے لئے اپنی ذاتی زمین کا ایک ٹکڑا عطا کیا.حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب بیان کرتے ہیں: "رسالہ الوصیت شائع ہونے کے بعد 1906ء میں ایک دن لاہور سے آئے ہوئے میاں محمد موسیٰ صاحب سے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ بہشتی مقبرہ کا ایک نقشہ تیار کر دیں.جس میں قبروں اور راستوں کے نشانات دکھائے جائیں.جس وقت میاں محمد موسیٰ صاحب نے وہ نقشہ تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کیا.اس وقت میں بھی حاضر تھا.حضور نے وہ نقشہ پسند فرمایا.حضرت میاں صاحب نے نقشہ میں ایک قبر پر انگلی رکھ کر عرض کیا کہ حضور یہ قبر میرے لئے مخصوص کر دی جائے.“ حضور کا جواب یہ تھا: 79 رساله الوصیت، مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی (1905)، اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشن لمیٹد، صفحہ ۷
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود کوئی قبر کسی کے لئے مخصوص نہیں کی جاسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے :80 مَا تَدْرِي نَفْسٍ بِأَيِّ أَرْضِ تَمُوتُ (کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ کس زمین میں وہ مرے گا).میاں محمد موسیٰ خاموش ہو گئے.دوسال بعد حضرت مسیح موعود وفات پاگئے.میاں موسیٰ نے بتایا کہ جس قبر کی انہوں نے نشاندہی کی تھی یہ وہی قبر ہے جو اپنے لئے چاہی تھی.اب حضرت مسیح موعود کا جسد اطہر اس میں مدفون ہے.81 82 دراصل یہ وہی قبر تھی جو حضور کو کشف میں چاندی کی طرح چپکتی دکھائی گئی تھی قبر چاندی سے زیادہ چمک رہی تھی.قبر کی ساری زمین چاندی کی بنی ہوئی تھی.اس کا ذکر حضور نے رسالہ الوصیت میں کیا تھا.83 بعد میں اس قبرستان کے نقشہ میں حضرت میر ناصر نواب نے ترمیم کی تھی اور سڑکیں وغیرہ بنائی تھیں.حضور نے موسیٰ صاحب کو بتایا کہ انہیں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جو شخص اس قبرستان میں دفن ہو گا وہ جنت میں جائے گا.یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے جو اس کے باہر دفن ہو وہ بھی جنت میں جائے مگر اس میں دفن ہونے والا ضرور بہشتی ہو گا." 84" میاں محمد موسیٰ صاحب اور ان کی پہلی دو بیویاں بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں.80 القرآن.لقمان 35 81 روزنامه الفضل ربوہ، 18 جنوری 1964 82 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، حضرت ڈپٹی محمد شریف“، صفحہ 207 تا208، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.83 رساله الوصیت، مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی (1905)، اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشن لمیٹد، صفحہ 22 94 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 308، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[ حاشیہ 8] 61
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود دین کی خدمت پر آقا کا خراج تحسین حضرت مسیح موعود نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل 1908 ء میں درج ذیل سنہری الفاظ میاں محمد موسیٰ کے لئے کہے: موسی صاحب آپ نے دین کی بہت خدمت کی.8566 85 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 310، مطبوعہ فروری1966ء،ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[ حاشیہ 2] 62
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود خاندانِ حضرت مسیح موعود سے پیار کا تعلق حضرت مسیح موعود اور آپ کے خاندان بشمول خلفائے احمدیت کا میاں محمد موسیٰ صاحب اور ان کی اولاد کے ساتھ ہمیشہ گہرا تعلق رہا اور خدا کے فضل سے اس میں کبھی کمی نہیں آئی اور یہ تعلق وقت کے ساتھ ساتھ انشا اللہ بڑھے گا.حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب کا حضرت مسیح موعود سے پیار اور الفت کا تعلق سابقہ ابواب میں بیان ہو چکا ہے.حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا زوجہ حضرت مسیح موعود میرے تایا جان میاں عبدالمجید صاحب کے گھر واقع نیلا گنبد لاہور 52-1951ء کے لگ بھگ تشریف لائی تھیں.اس کا خاکسار چشم دید گواہ ہے.میری عمر اس وقت تقریباً 8 سال تھی.میری دادی جان اور گھر کی دوسری خواتین بھی موجود تھیں.وہ گھر کے صحن میں ایک تخت پوش پر تکیہ لگائے بیٹھی ہوئی تھیں.سب بچوں کو دعا اور پیار سے نوازا.یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں اپنی دادی جان کے ہمراہ اس عظیم روحانی ہستی سے فیض یاب ہوا.میاں محمد یحیی صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت اماں جان ہمارے آبائی گھر فلیمنگ روڈ لاہور پر بھی تشریف لاتی رہتی تھیں.خاکسار کی خوشدامن عائشہ بیگم صاحبہ دختر حضرت محمد موسیٰ نے اس قیمتی وجود کے لئے دوپٹے پر مکیش کا کام صرف ایک دن میں مکمل کر کے تحفتہ دیا تھا.حضرت اناں جان نے وہ دو پٹہ اوڑھ لیا اور بہت دعائیں میاں محمد یحیی صاحب مزید بتاتے ہیں: حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہمارے گھر واقع فلیمنگ روڈ تشریف لائے تھے.حضرت خلیفة المسیح الثالث ، حضرت خلیفة المسیح الرابع بہت دفعہ ابا جان کی دکان واقع نیلا گنبد لاہور تشریف لائے.اس بات کا ذکر حضرت خلیفتہ المسیح الرابح نے جلسہ یو کے کے ایک اختتامی اجلاس میں بھی کیا تھا.“
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود ان سب برکات کا موجب ہمارے دادا جان، تایا جان میاں محمد حسین، میاں عبد المجید اور والد گرامی میاں محمد یکی صاحب ہیں.والد صاحب کی دکان تو گویا جماعت کا ضمنی دفتر ہوا کرتی تھی.وہ خود بھی سارا دن جماعت کا کام ہی کیا کرتے تھے.وہ واقف زندگی تو نہ تھے لیکن اپنی زندگی جماعتی کاموں کے لئے وقف کی ہوئی تھی.64
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود قدرت ثانیہ کے ساتھ مجڑی یادوں کا تذکرہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے لئے دعوت کا اہتمام حاجی محمد موسیٰ بہت خوش قسمت تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کے بابرکت وجود سے ان کی بہت یادیں وابستہ تھیں.بیعت کے بعد آپ سے اکثر ملاقات رہتی تھی.آپ کی امامت میں بہت ساری نمازیں پڑھیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے 25 جولائی 1910ء بذریعہ ریل ملتان کا سفر عدالت میں ایک شہادت کے سلسلہ میں کیا تھا.ملتان سے واپسی پر آپ 28 جولائی 1910ء کو لاہور تشریف لائے.حسب معمول احباب کی بڑی تعداد آپ کے استقبال کے لئے موجود تھی.احباب جماعت لاہور نے واپسی پر بھی پہلے کی طرح خلوص و محبت کا اظہار کیا.میاں محمد موسیٰ صاحب نے آپ کی اور آپ کے خدام کی دعوت کی.86 86 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 3 صفحہ 323 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیس امر تسر
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے تعلق کے چند واقعات منکرین خلافت کے مقابلہ کیلئے ”لاہور انصار اللہ کا قیام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی منظوری سے فروری 1911 میں لاہور انصار اللہ کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی.87 اس کے مقاصد منکرین خلافت کے فتنہ کا مقابلہ کرنا اور سادہ لوح احمدیوں کو اس فتنے میں ملوث ہونے سے بچانا تھا.لاہور کے مندرجہ ذیل اصحاب احمد اس انجمن کے ممبر مقرر ہوئے.1 حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی موجد مفرح عنبری.2 حضرت بابو غلام محمد صاحب فورمین حضرت میاں چراغدین صاحب رئیس اعظم لاہور 4 حضرت میاں معراج دین صاحب عمر 5 حضرت منشی تاج الدین صاحب.6 حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب آف نیلا گنبد 7 حضرت منشی محبوب عالم صاحب آف نیلا گنبد یہ بزرگ احمد یہ بلڈ نگس ( وہ جگہ جہاں حضرت مسیح موعود نے وفات پائی تھی) کے لوگوں یعنی لاہوری پارٹی والوں کی روش کو سخت ناپسند کرتے تھے اور ان کے زہریلے پراپیگنڈہ کے ازالہ کی کوشش میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے.88 87 یہ واقعہ کتاب کے پہلے ایڈیشن میں شامل نہ ہو سکا تھا.88 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب, صفحہ 439، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الاسلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.[حاشیہ 83]
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود نیلا گنبد کی دکان کا سنگ بنیاد 25-26اکتوبر 1913ء کو گوجر انوالہ میں ایک تربیتی جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھی لیکچر دیا.گوجرانوالہ سے واپسی پر حضرت صاحبزادہ نے میاں محمد موسیٰ صاحب کی دکان ( واقعہ نیلا گنبد لاہور) کا سنگ بنیا د ر کھا اور پھر واپس قادیان تشریف لے گئے.19 89 انتخاب خلافت ثانیہ کی عینی شہادت حضرت مسیح موعود کے رفیق حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ لکھتے ہیں: ”وہ محمد مصطفیٰ صاحب کے ہمراہ قادیان جارہے تھے کہ امر تسر جا کر معلوم ہوا کہ کل یعنی 13 مارچ 1914ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات ہوئی.اسی اسٹیشن پر لاہور کی جانب سے حضرت مولوی محمد احسن صاحب بھی فروکش ہوئے.اس وقت میری رائے تھی کہ اب خلیفہ مولوی صاحب ہوں گے.حضرت مولوی صاحب نے بٹالہ پہنچنے تک خلافت کے قیام کی ضرورت اور اس کے دلائل لگا تار بیان کئے.بٹالہ پہنچ کر ہم مولوی صاحب سے سواری کے لحاظ سے علیحدہ ہو گئے.ہم دونوں نے سالم یکہ کرایہ پر لیا.جب یکہ وڈالہ گر نتھیاں کے قریب پہنچا تو ہم نے میاں محمد موسیٰ کو قادیان کی جانب سے بٹالہ کی طرف معہ ایک دو ساتھی آتے دیکھا.انہوں نے ہمارا یکہ رکوالیا اور ایک تحریر ہمارے پیش کی جسے پہلے مولوی محمد مصطفیٰ صاحب نے پڑھا اور اس پر اپنے دستخط کر کے میرے حوالے کر دیا.میں نے کاغذ ہاتھ میں لیکر پڑھا.اس پر یہ تحریر لکھی تھی.“ 89 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 3 صفحہ 468 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیس امر تسر 67
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود آپ خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اپنی رائے ثبت کریں کہ آیا اب خلافت ہونی چاہیے یا نہیں ہونی چاہیے.اگر ہونی چاہیے تو کیا ویسی جیسی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی تھی یا کسی اور طرح کی.“ ” میں نے عبارت کو پڑھا.ہونی چاہیے اور ویسی ہی ہونی چاہیے جیسی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی تھی اور دستخط کر دیئے.ہمارا یکہ چل پڑا میں نے مصطفیٰ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے مشورہ لئے بغیر کیوں دستخط کر دیئے.جب کہ امیر قافلہ میں تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک واضح بات تھی کہ اس میں مشورہ کی ضرورت میں نے نہ جانی اور خلافت ہونی چاہیے پر رائے ثبت کر دی.سفر بمبئی اور میاں موسیٰ کی مہمان داری 90% شدید علالت کے باعث حضرت خلیفتہ المسیح الثانی تبدیلی آب و ہوا کیلئے مع حضرت ام المومنین بمبئی جانے کیلئے 3 مئی 1918ء کو بعد نماز عصر روانہ ہوئے.آپ کے ہمراہ ڈاکٹر رشید الدین صاحب، ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب، شیخ عبد الرحمن صاحب مصری اور مولوی عطا محمد صاحب تھے.4 مئی کو لاہور ریلوے اسٹیشن پر جماعت استقبال کیلئے موجود لاہور کے ہر فرد نے اپنی ہمت سے عملاً اخلاص کا اظہار کیا.حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب نے اخلاص و محبت سے حضور اور آپ کے خدام کی مہمان داری کا ذمہ اپنے اوپر لے رکھا ہے اور آپ کا خاندان خدمت میں ہر وقت مستعد رہا.ان کا تہیہ ہے کہ حتی الواسع کوئی تکلیف نہ ہونے دیں گے.پہلے چار وقتوں تک بہت مسرت کے ساتھ انہوں نے ہی تمام اخراجات خوردونوش کو برداشت کیا.90 تاریخ احمدیت مؤلّفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 3 صفحہ 520 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیں امر تسر 68
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود بزرگان میاں محمد موسیٰ صاحب، سید دلاور شاہ صاحب، حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور ممبر ان میاں فیملی ڈپٹی میاں محمد شریف و میاں چراغ دین صاحب یہ سب لاہور کے چوٹی کے مخلصین میں سے تھے.رضی اللہ عنھم.91 سفر کشمیر کے دوران میاں محمد موسیٰ کی دعوت سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی 25 جون 1921ء 92 کو ڈاکٹروں کے مشورہ سے کشمیر تشریف لے گئے.ایک جم غفیر نے بیرون قصبہ تک الوداع کہا.حضرت اُم المومنین، حضور کی تینوں حرم اور حرم حضرت خلیفہ المسیح الاول آپ کے ہمراہ تھیں.93 نیز حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب اور بعض خدام ہمر کاب تھے.امر تسر ریلوے اسٹیشن پر جماعت کی ایک بڑی تعداد موجود تھی.قافلہ ریز رو گاڑی (ڈبہ) میں سوار ہوا.لاہور ریلوے سٹیشن پر حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب کی طرف سے دعوت کا کھانا پہنچا.راولپنڈی تک راستہ کی جماعتوں نے استقبال کیا.94 بٹالہ سے قادیان سفر کے دوران انتظامات 12 جولائی 1924ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بٹالہ سے دہلی تک کا سفر اختیار کیا.حضور مع خدام قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچے جہاں آپ کے انتظار میں خلقت کا بے پناہ اثر دھام تھا.مختلف مقامات کی جماعتوں نے شرف ملاقات حاصل کیا اور دعاؤں کے ساتھ اپنے محبوب آقا کو الوداع کہا.امر تسر ، بیاس، جالندھر چھاؤنی، 91 اصحاب احمد مصنفہ ملک صلاح الدین ایم اے، صفحہ 6-295 ، ناشر عبد المنان کو ثر، مطبع ضیا الاسلام پر لیس ربوہ (چناب نگر) 92 تاریخ احمدیت مؤلّفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 4، صفحہ 284, مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیس امرتسر 93 حضرت میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود پر کتاب کے اول ایڈیشن صفحہ 58 پر یہ واقعہ غیر ارادی طور پر غلط چھپ گیا تھا جس کے لئے مصنف معذرت خواہ ہے.94 اصحاب احمد مصنفہ ملک صلاح الدین ایم اے، صفحہ 357، ناشر عبد المنان کوثر، مطبع ضیا الا سلام پر میں ربوہ (چناب نگر) 69 69
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود پھگواڑہ اور دہلی میں آپ کے اور آپ کے رفقاء کے سفر کے فوٹو لئے گئے.قمر الانبیا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی حضور کے ہمراہ تشریف فرما تھے جو سہارنپور سے واپس ہوئے.امر تسر میں میاں محمد موسیٰ صاحب کی طرف سے برف کا انتظام تھا جو دہلی تک قائم رہا اور وہ خود بھی دہلی تک حضور کے ہم رکاب رہے.95 قادیان تک ریل کے اجرا کی کامیاب کوشش قادیان دارلامان جانے کے لئے احباب جماعت کو بٹالہ سے گیارہ بارہ میل کا سفر بذریعہ یکہ یا پیدل طے کرنا پڑتا تھا.حضرت مسیح موعود بھی سفر کے لئے گھوڑے پر سواری کرتے یا پیدل جاتے.احباب جماعت اور آنے جانے والوں کو کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا.بارش اور سخت گرمی کے دنوں میں تولوگوں کا براحال ہو جاتا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قادیان تک ریل کے اجراء کے لئے حضرت دادا جان میاں محمد موسیٰ صاحب کی ڈیوٹی لگائی.96 97 میاں محمد موسیٰ نے اس کام کو بہت خوبی سے نبھایا.ریل کا اجراء آپ کا بہت بڑا کار نامہ ہے.آپ کی کوششیں تاریخ احمدیت میں اصحاب احمد کے ابواب میں درج ہیں.حضرت حاجی صاحب کی زندگی کا ایک خاص واقعہ یہ بھی ہے کہ آپ نے 1915ء سے لے کر 1924 ء تک کوشش کی کہ قادیان میں ریل جاری ہو جائے.اس کوشش میں آپ کا تقریباً بارہ تیرہ ہزار روپیہ صرف ہوا.آپ نے اس غرض کے لئے دندوٹ کالری کی لائن کی نیلامی پر بولی دی جو بارہ میل کی لائن تھی.ایسا ہی ایک دفعہ آگرہ کی طرف بھی 95 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 4 صفحہ 434 مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیں امر تسر 96 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 9، صفحہ 544 تا 545، مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پریس امر تسر [ حاشیہ 65] 97 للاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب, صفحہ 309 تا310، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ (چناب نگر) سے طبع کیا.70
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود بولی میں شامل ہوئے اور اس کے بعد ڈپٹی کمشنر گورداسپور اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے پاس بھی بارہا دفعہ پہنچے اور اس لائن کے لئے سوال اُٹھایا.بلکہ ایک انجینئر ساتھ لے کر سرنی گوبند پور تک سروے (Survey) بھی کیا اور باقاعدہ نقشہ تیار کروایا.ایک تجویز یہ بھی کی کہ ایک کمپنی جاری ہو جس کے حصہ دار ہوں اور وہ اس ریلوے کو جاری کر دیں.آخر جب اس قسم کی درخواست ریلوے بورڈ میں دی گئی تو جواب ملا کہ یہ منصو بہ خود ہمارے زیر تجویز ہے اور اس کا نمبر 17 مقرر کر دیا گیا ہے.اس پر آپ نے ذاتی جد وجہد ترک کر دی.کیونکہ آپ کا مقصد کسی منافع کا کمانا نہیں تھا بلکہ ریل جاری کروانا تھا.چنانچہ تین سال کے بعد قادیان میں ریل جاری ہو گئی.چنانچہ جب امر تسر سے قادیان کی جانب پہلی گاڑی چلنے لگی تو اس وقت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے محمد موسیٰ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آج تمہاری کوشش کامیاب ہو گئی.“ 71
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت مصلح موعودؓ کا امر تسر قادیان ریل کا افتتاح خلافت ثانیہ کے پندرویں سال کے باب میں تاریخ احمدیت میں افتتاح کے نظارے کو محفوظ کیا گیا ہے.اس کا آنکھوں دیکھا حال ذیل میں پیش خدمت ہے.مورخ تاریخ احمدیت مولانا دوست محمد صاحب شاہد تحریر کرتے ہیں: 19 دسمبر 1928ء کو امر تسر قادیان ریلوے کے افتتاح کا اعلان کیا گیا.اس کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور بہت سے احباب جماعت 3 بجے امر تسر اسٹیشن پہنچ گئے.لاہور گجرانوالہ اور بعض دور دراز مقامات سے لوگ چلے آئے.ریلوے احکام کو زائد ڈبے لگانے پڑے.گاڑی کے پاس آذان کہی گئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ایک بڑے مجمع کو ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھائیں.حضور نے احباب کو مصافحہ کا شرف بھی بخشا.حضور گاڑی کے دروازے میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ” دوست دعا کریں اللہ تعالی ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے.“ آپ نے توجہ اور الحاج سے دعا کرائی.پھر احباب گاڑی میں سوار ہوئے.گاڑی 3 بج کر 42 منٹ پر اللہ اکبر اور غلام احمد کی جے کے نعروں کے ساتھ حرکت میں آئی.گاڑی کے تمام ڈبے بھر چکے تھے.بٹالہ اسٹیشن پر لوگوں کا جم غفیر تھا.مزید لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش نہ تھی.گاڑی اپنے وقت پر 6 بجے شام قادیان پہنچی.سٹیشن جھنڈیوں اور گملوں سے سجایا گیا تھا.پھر نعرے بلند ہوئے.اس یاد گار سفر پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے علاوہ حضرت مرزا بشیر احمد ، حضرت مرزا شریف احمد اور خاندانِ حضرت مسیح موعود اور جماعت کے دوسرے سر کر دہ دوست احباب شامل تھے.98 98 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، جلد 5 صفحہ 90 تا 92، مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیں امر تسر
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود اسٹیشن ماسٹر بٹالہ کا محمد موسیٰ صاحب کو خراج تحسین چند سال پہلے ہماری فیملی کے سترہ افراد بذریعہ ٹرین بٹالہ سے قادیان گئے.خاکسار کا چھوٹا بھائی مقصود احمد ناگی حال جرمنی بھی شریک سفر تھا.اس نے ایک ایمان افروز واقعہ بیان کیا جو درج ذیل ہے: وہ دسمبر 1990ء کو قادیان جانے کے لئے بٹالہ ریلوے سٹیشن گئے اور اسٹیشن ماسٹر سے ملے تاکہ دادا جان میاں محمد موسی کی ریل کے اجراء کی مساعی کا تذکرہ ہو.تعارف کے بعد اس نے اسٹیشن ماسٹر کو بتایا کہ ہمارے دادا جان نے بٹالہ سے قادیان تک ریل بچھانے میں نمایاں کام کیا تھا.بھائی نے دادا جان کی قادیان تک ریل کے اجراء کا پس منظر پیش کیا.اسٹیشن ماسٹر اپنی کرسی سے اُٹھا اور ایک پر انار جسٹر اُٹھا لایا اور صفحے الٹانے لگا.ایک صفحہ پر پہنچ کر اس نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں.یہ ہے آپ کے دادا کا نام میاں محمد موسیٰ.انہوں نے بٹالہ سے قادیان تک ریلوے لائن بچھوانے میں ریلوے احکام کی بہت مدد کی تھی.جب ٹرین جاری ہوئی تو اس ٹرین کا گارڈ بابو ولی محمد اور ڈرائیور بابو عمر دین تھا.بھائی مقصود احمد اور فیملی ممبران نے اجازت چاہی.اسٹیشن ماسٹر کہنے لگا: آپ کو بغیر چائے پلائے جانے نہ دے گا.بھائی صاحب نے جواب دیا: ٹرین کا وقت ہو رہا ہے ہمیں جانے دیں ایسا نہ ہو کہیں ٹرین چھوٹ جائے.اسٹیشن ماسٹر نے کہا: میری اجازت کے بغیر ٹرین اسٹیشن سے روانہ نہیں ہو سکتی.پھر اس نے چائے کے ساتھ کیک اور بسکٹ منگوائے اور بہت خاطر تواضع کی جس کو ہم سب ہمیشہ یاد رکھیں گے.ہم روانہ ہونے لگے تو اس نے موسیٰ صاحب کو پھر خراج تحسین پیش کیا.73
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود اسٹیشن ماسٹر نے ہمارے لئے ٹرین میں ایک ڈبہ مختص کر وا دیا.اس کے حکم پر ہمارا سامان اسٹیشن کے ملازمین نے ٹرین میں رکھا.ٹرین میں بہت رش تھا اور اس کے ان اقدام کی وجہ سے وہ سب خیریت سے بغیر کسی تکلیف کے قادیان پہنچ گئے.یہ حسن سلوک سب شریک سفر افرادِ خاندان کو ہمیشہ یاد رہے گا.اس اسٹیشن ماسٹر کو سلام جس نے جناب محمد موسیٰ صاحب کی کاوشوں کو سراہا.74 1
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا حضرت ام طاہر کے لئے دعا کا کہنا میاں محمد یحیی صاحب نے یہ بھی روایت کی: حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ حرم سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سر گنگا رام ہسپتال لاہور میں زیر علاج تھیں.آپ بہت تکلیف میں تھیں.حضور ان کی عیادت کے لئے قادیان سے لاہور تشریف لائے.جماعت احمدیہ لاہور کے احباب کثیر تعداد میں جمع تھے.حضور نے حاجی محمد موسیٰ صاحب کے بارے میں استفسار کیا کہ موسیٰ صاحب کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ کچھ ہفتے پہلے وہ نیلا گنبد سے گھر جاتے ہوئے سائیکل سے گر پڑے تھے اور گھٹنوں پر شدید چوٹیں آئی ہیں اور اب اُٹھ نہیں سکتے بستر پر ہی لیٹے رہتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں تک نہیں آسکے.حضور نے کہا: موسیٰ صاحب کو اتم طاہر کے لئے دعا کا کہنا تھا.حضور ہسپتال جانے کی بجائے خادموں کے ہمراہ ایک قافلہ کی صورت ہمارے آبائی گھر فلیمنگ روڈ پہنچ گئے.میرے والد میاں محمد یکی صاحب قافلے کے آگے آگے سائیکل پر رہنمائی کر رہے تھے.حضور گھر کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئے جہاں میاں محمد موسیٰ صاحب بسترے پر لیٹے ہوئے تھے.حضرت صاحب کو اچانک دیکھ کر وہ تعظیماً کھڑے ہو گئے.حضرت صاحب نے لیٹے رہنے کی ہدایت کی اور کہا: موسیٰ صاحب ہم جانتے ہیں آپ سائیکلوں والے ہیں اب اس عمر میں سائیکل کی سواری چھوڑ دیں.اتم طاہر علیل ہیں ان کے لئے دعائیں کریں وہ ہم سب کی دعاؤں کی مستحق ہیں.اس کے بعد حضور جلدی جلدی گھر کی سیڑھیاں اترے اور قافلہ سر گنگا رام ہسپتال روانہ ہو گیا.میاں محمد موسیٰ صاحب نے اس کے بعد وفات تک سائیکل نہ چلا کر اپنے آقا کے حکم پر سر تسلیم خم کیا.اسی ضمن میں والد صاحب روایت کرتے ہیں:
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 12 مارچ 1944ء کو مغرب اور عشاء کے بعد مجلس عرفان بر مکان شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور فرمایا: ” میں نے دعا کے طور پر 2 مارچ کو مندرجہ ذیل شعر کہا اور اتم طاہر نے 5 مارچ 1944ء کو وفات پائی.99 اک طرف تقدیر مبرم اک طرف عرض دعا فضل کا پلڑا جھکا دے اے میرے مشکل کشا لاہور میں نئی مسجد کے لئے خلیفتہ المسیح الثانی کی تلقین لاہور میں نئی مسجد کی ضرورت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود، خلیفہ المسیح الثانی نے 29 ستمبر 1950ء کو لاہور میں خطبہ جمعہ کے دوران مندرجہ ذیل الفاظ میں تلقین کی: و میاں موسیٰ صاحب کا خاندان ہی اگر اس میں دلچسپی لے تو وہ بہت کچھ مدد دے سکتا ہے.میاں موسیٰ صاحب کو زمینیں خرید کر بیچنے کا شوق تھا میں سمجھتا ہوں ان کے بچوں میں بھی کسی حد تک یہ مادہ ضرور ہو گا.پس کوشش کر کے اڑھائی تین کنال زمین مسجد کے لئے خرید لو.اس طرح چند سال کی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی.پھر اور ضرورت محسوس ہو گی تو اللہ تعالیٰ اور سامان پیدا کر دے گا.اگر نئے آدمی آجائیں اور ہماری آمدنی بھی بڑھ جائے تو ہر پانچویں یا دسویں سال اگر ایک نئی مسجد بنا لی جائے تو اس میں کیا حرج ہے.لوگوں کے چار چار بچے ہوتے ہیں تو وہ چاروں کے لئے الگ الگ گھر بناتے ہیں.اگر ایک گھر وہ خدا تعالیٰ کے لئے بھی بنا دیا کریں تو اس میں کون سی مشکل ہے.100 101 کلام محمود مولف حضرت خلیفة المسیح الثانی، (2008) صفحہ 373، ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان انڈیا، طبع پرنٹ ویل امر تر 100 خطبات محمود مؤلفہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی، جلد نمبر 31، صفحہ 188 تا189، ناشر فضل عمر فاونڈیشن، مطبع ضیاء الاسلام پرلیں چناب نگر (ربوہ) پاکستان 101 روزنامه الفضل ربوہ 12 اکتوبر 1950ء 76
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود اک سے ہزار ہوویں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے 6 جنوری 1956ء کور تن باغ لاہور میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.آپ نے احباب جماعت احمدیہ کو مختلف پیشے خاص طور پر کاروبار کا پیشہ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی.خطبہ کے دوران آپ نے میاں محمد موسیٰ اور ان کے خاندان کا ان الفاظ میں ذکر کیا: نیلا گنبد کو ہی لے لو اس وقت اس علاقہ میں بہت سے احمدی آباد ہیں لیکن کسی زمانہ میں یہاں میاں محمد موسیٰ صاحب اکیلے آئے تھے.اب اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد میں ہی اتنی برکت دی ہے کہ ان کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے اور پھر انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی ہے.اسی طرح منشی محبوب عالم صاحب ان کے کلرک تھے.ان کا خاندان بھی احمدی ہو گیا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ان دونوں کی اولاد اتنی ہے کہ اس کی تعداد لاہور کی پرانی جماعت کی تعداد سے زیادہ ہے.تو یاد رکھو! کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ مومنوں کی کوششوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ ان کی اولا دوں کو بھی بڑھاتا ہے.پس تم اپنے آپ کو سلسلہ کے لئے مفید وجو د بناؤ اور ایسا مفید وجود بناؤ کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دوستوں، رشتہ داروں اور ملنے والوں کو ایک سے ہزار کر دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا فرمائی تھی کہ : اک سے ہزار ہو دیں " 102" یہ دعا آپ کی صرف جسمانی اولاد کے متعلق نہیں ہوسکتی کیونکہ جسمانی اولاد ایک سے ہزار بہت کم ہوتی ہے.ایک سے ہزار روحانی اولاد ہوتی ہے.سو یہ دعا تمہارے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ تم ایک سے ہزار ہو جاؤ.لیکن جس طرح لاہور کی جماعت کے سر کردہ احباب کام کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں تو وہ ایک سے دو بھی نہیں ہو سکتے.اگر تم ایک سے ہزار ہوتے تو اس وقت لاہور میں جماعت احمدیہ کی تعداد پندرہ 102 در ثمین اردو مؤلفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود، بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ، صفحہ 38، ناشر نظارت اشاعت ربوہ پاکستان، ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ.77
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود لاکھ ہوتی.اس وقت لاہور کی کل آبادی دس لاکھ ہے.گویا اگر جماعت کی تعداد ایک سے ہزار کی صورت میں ترقی کرتی تو وہ لاہور کی موجودہ تعداد سے ڈیوڑھی ہوتی.103، 104 خلیفۃ المسیح الثانی کا میاں محمد موسیٰ کے لئے اظہار محبت حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 6 جنوری 1956ء کو بمقام رتن باغ لاہور خطبہ جمعہ کے دوران جماعت احمدیہ کو تجارت کی طرف توجہ دلائی.اس خطبہ میں میاں محمد موسیٰ اور ان کے خاندان کی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوةُ وَ السَّلام سے محبت کا اظہار ملاحظہ کریں: مجھے یاد ہے حضرت نانا جان (میر ناصر نواب خسر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة و السلام) کو میاں محمد موسیٰ صاحب سے بہت محبت تھی.آپ جب بھی لاہور تشریف لاتے اُنہی کے ہاں ٹھہرتے.ایک دفعہ آپ لاہور تشریف لائے تو میں بھی ساتھ تھا.آپ میاں موسیٰ صاحب کے مکان پر ہی ٹھہرے.وہ ہمارے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ یکدم باہر نکلے.چٹھی رساں آیا تھا اور اس نے ایک تار انہیں دی تھی.وہ پھر اندر آئے اور نانا جان سے کہنے لگے نانا جان ! مجھے پانچ منٹ کی اجازت دیں میں نے ایک ضروری کام کرنا ہے.چنانچہ انہوں نے سائیکل لیا اور جلدی سے باہر چلے گئے.تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے تو سانس پھولا ہوا تھا اور جسم پسینہ سے شرابور تھا.آتے ہی کہنے لگے نانا جان ! ایک منٹ کی دیر کی وجہ سے پندرہ بیس ہزار روپیہ ہاتھ سے نکل گیا.آپ نے دریافت فرمایا میاں صاحب ! یہ کیسے ؟ تو میاں صاحب نے بتایا کہ فلاں سائیکل کی قیمت یکدم بڑھ گئی تھی.مجھے تار کے ذریعہ اس کی اطلاع ملی.تار مجھے دوسرے سائیکل کے تاجروں سے پہلے مل جاتا ہے.میں نے خیال کیا کہ انہیں اطلاع ملنے سے پہلے پہلے میں ان میں سے کسی کے پاس چلا جاؤں اور اُس سے سارے سائیکلوں کا سودا کر لوں.چنانچہ میں فورآ سائیکل لے کر ایک تاجر کے پاس گیا اور 103 خطبات محمود مؤلّفہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، جلد نمبر 37، صفحہ 7 ، ناشر فضل عمر فاونڈیشن، مطبع ضیاء الا سلام پرلیں چناب نگر (ربوہ) پاکستان 104 روزنامه الفضل ربوہ 28 جنوری 1956ء 78
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود اُسے پہلی قیمت پر ایک روپیہ زیادہ آفر (Offer) کیا تو وہ سارے سائیکلوں کا سودا کرنے پر تیار ہو گیا.سائیکل کی قیمت پہلے پچانوے روپے تھی تو وہ ایک سو بیس روپے ہو گئی تھی.لیکن وہ چھیانوے روپے پر سودا کرنے پر راضی ہو گیا.لیکن ابھی وہ بیچ نامہ تحریر کر ہی رہا تھا کہ اسے بھی اطلاع مل گئی اور اس نے سودا کرنے سے انکار کر دیا.اگر ڈا کیا وہاں ایک منٹ بعد آتا تو آج مجھے پندرہ ہیں ہزار روپیہ کا فائدہ ہو جاتا.اب یہ واقفیت اُنہیں اس چھوٹے کام کی وجہ سے ہی ہوئی جو اُنہوں نے شروع کیا تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں ترقی دے دی اور اب ان کی اولاد میں بھی بہت سے اچھے کمانے والے پیدا ہو گئے ہیں.پس تجارت کی وجہ سے شروع شروع میں اگر چہ دقت ہوتی ہے لیکن بالآخر انسان ترقی کر جاتا ہے.ہماری جماعت کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہیے.اس وقت جو لوگ لاکھ پتی ہیں اُن میں سے اکثر چھوٹی چھوٹی تجارتوں سے ہی ترقی کر کے اس حالت تک پہنچے ہیں.105 106 05 1 خطبات محمود مؤلّفہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، جلد نمبر 37، صفحہ 11 ، ناشر فضل عمر فاونڈیشن، مطبع ضیاء الاسلام پر لیں چناب نگر (ربوہ) پاکستان 106 روزنامه الفضل ربوہ 28 جنوری 1956ء 79
سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود فلاح و بہبود کے کام دادا جان میاں محمد موسیٰ کو بیعت سے پہلے جب بھی کاروبار سے فرصت ملتی تو وہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے گاؤں چلے جاتے اور فصل مالیہ وغیرہ کا حساب کرتے.عام طور پر میری دادی جان یعنی ان کی اہلیہ بھی ان کے ہمراہ ہو تیں تا کہ اگر ضرورت پڑے تو ان کو بھی زمینی معاملات کا علم ہو.گاؤں جانے کے لئے تین سے چار میل کا سفر پیدل کرنا پڑتا تھا.کوئی سڑک نہ تھی اور بارشوں کے دنوں میں بہت تکلیف اُٹھانا پڑتی تھی.ایک دفعہ گاؤں جاتے ہوئے ہماری دادی صاحبہ ایک ندی نالہ پھلانگتے ہوئے گر پڑیں.بہت چوٹیں آئیں.دادا جان نے کچھ دنوں کے بعد ہی گاؤں کے رستے میں تمام ندی نالوں پر پل بنوا دیئے اور گاؤں تک کچی سڑک بنوادی.اس کے علاوہ راستہ میں مسافروں کے پانی پینے کے لئے ہینڈ پمپ لگوادیا.ان فلاح و بہبود کے کاموں کو سب گاؤں والوں نے بہت سراہا.میری پھوپھی زاد بہن محترمہ ثریا جاہ صاحبہ اہلیہ ملک محمد خان صاحب مرحوم جو کہ محترمه مریم بی بی صاحبہ دختر میاں محمد موسیٰ صاحب کی بیٹی ہیں مندرجہ ذیل روایت خاکسار کو بیان کی: میاں محمد موسیٰ صاحب ( ثریا جاہ کے نانا جان ) ان کی والدہ کی خیریت معلوم کرنے کو ٹلی لوہاراں مغربی ضلع سیالکوٹ جایا کرتے تھے.وہ سیالکوٹ بس سٹینڈ سے ٹانگہ پر گھر جاتے.رات اپنی بیٹی کے ہاں نہ ٹھہرتے.ٹانگہ گھر کے باہر ہی کھڑار کھتے.کچھ دیر کے بعد ٹانگہ سے بس سٹینڈ اور پھر لاہور واپس چلے جاتے.ایک دفعہ غالباً 1932ء کا واقعہ ہے کہ جب وہ سیالکوٹ سے واپس لوٹ رہے تھے تو راستے میں انہوں نے ایک شخص دیکھا جو تقریباً 12 سالہ بچے کو ڈنڈے سے زور زور سے پیٹ رہا تھا.وہ ٹانگے سے اترے.ڈنڈا اس سے چھینا اور واپس اس کو مار ناشروع کر دیا.اس نے کہا:
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود میں قریبی سکول میں استاد ہوں.یہ بچہ تعلیم پر توجہ نہیں دیتا.ہر مضمون میں کمزور ہے.گھر پر دیا ہوا پڑھائی کا کام بھی کر کے نہیں لاتا.اس کو بار بار توجہ دلائی ہے لیکن یہ اس کی پرواہ نہیں کرتا.میاں موسیٰ صاحب نے کہا: طالبعلموں کو مارنا غیر اخلاقی فعل ہے.اگر یہ آپ کی خواہش کے مطابق نہیں پڑھتا تو اس کے والدین سے شکایت کریں.بچوں کو پیٹنے سے وہ سدھرتے نہیں.“ استاد نے ان کی تجویز پر لبیک کہا اور محمد موسیٰ صاحب سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ طلباء کو سزا نہیں دے گا.میاں محمد موسیٰ صاحب نے اسے تنبیہ کی کہ اگر انہیں پتہ چلا کہ اس نے بچوں کو دوبارہ سزا دی ہے تو وہ اسے جیل بھجوا دیں گے.اس علاقہ میں لوگوں کو معلوم تھا کہ موسیٰ صاحب بڑے اثر رسوخ والے آدمی ہیں.کورٹ کچہری میں سب ان کو جانتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے سیالکوٹ کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا تھا.وہ بچوں کو مارنے کے خلاف تھے.آپ فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے.گویا بد مزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے...کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوزِ دل سے دعا کرنے کو ایک حزب ٹھہر الیں.اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے.یہ وجہ تھی کہ میاں محمد موسیٰ صاحب بچوں کو مارنا قطعاً پسند نہ کرتے تھے.بچے اپنے ہوں یا غیر کے وہ ان سے محبت کرتے تھے.107" ملفوظات (Set of five volume ، مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی، بانی جماعت احمدیہ ، جلد 1، صفحہ 308-9، ایڈیشن 2010- ناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان، انڈیا 81
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود عمیر مساجد میں حصہ لینا جو کوئی اللہ کی خاطر مسجد تعمیر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ جنت میں اس کے لئے اسی طرح کا گھر بنائے گا.“ (جامع الترمذی 319) حضرت محمد موسیٰ صاحب مساجد کی تعمیر میں شوق سے حصہ لیتے.مسجد خواہ احمدیوں کی ہو یا غیر احمدیوں کی اس کی تعمیر میں استطاعت سے بڑھ کر حصہ ڈالتے.( ان کے مد نظر یہ قرآنی حکم ہو گا.”کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دے پس وہ اسے اس کے لئے بڑھا دے اور اس کے لئے ایک بڑی عزت والا اجر بھی ہے.“ ( قرآن.الحدید :12 108 جن مساجد کی تعمیر کا خاکسار کو علم ہوا کہ ان میں دادا جان میاں محمد موسیٰ نے گرانقدر مالی قربانی کی تھی وہ درج ذیل ہیں.مسجد تقی پور چھاپہ اپنے گاؤں تقی پور چھاپہ کی مسجد تعمیر کروائی اور امام مسجد وہاں رکھوایا اور اس کے کھانے پینے کا خاطر خواہ بند وبست کیا.مسجد فلیمنگ روڈ لاہور ہمارے آبائی گھر فلیمنگ روڈ کے متصلہ غیر احمدیوں کی مسجد کی تمام اینٹوں کا خرچہ اُٹھایا.محلے کے لوگ حجت تمام کرنے آپ کے پاس مسجد کے چندہ کے لئے آئے.ان کا خیال تھا کہ اب یہ شخص مرزائی ہو گیا ہے اور اُن کی مسجد کے لئے چندہ نہ دے گا.108 قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ حضرت میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود کی کتاب کے پہلے ایڈیشن کا حصہ نہ تھیں.
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود مسجد دہلی دروازہ لاہور مسجد دہلی دروازہ لاہور کی تعمیر میں ایک بڑی رقم پیش کی.ابتدا میں یہی مسجد جماعت احمد یہ لاہور کی ہوا کرتی تھی.احمدی احباب لاہور نے اس کی تعمیر میں بھر پور حصہ لیا تھا.حضرت محمد حسین قریشی تعمیر کے کام کے انچارج تھے.شیخ عبد الرحمن صاحب سیکریٹری اور حاجی محمد موسیٰ اس منصوبہ کے نگران مقرر ہوئے تھے.میاں موسیٰ صاحب نے مسجد کے تمام نقشے بنائے تھے.وہ اس بات کی کڑی نگرانی کرتے تھے کہ عمارت نقشہ کے مطابق بن رہی ہے یا نہیں.109 خاکسار کے بچپن کے وقت مسجد دہلی دروازہ جمعہ کے روز اتنی بھر جاتی تھی کہ لوگ ساتھ والی گلی میں نماز ادا کرتے تھے.109 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب, صفحه 157، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کوثر ، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.83
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود تعمیر بیت الذکر گنج مغلپورہ لاہور حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب آف نیلا گنبد لاہور نے گنج مغلپورہ لاہور میں ایک بيت الذکر تعمیر کروائی تھی.جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی لاہور تشریف لائے تو اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے دادا جان نے آپ کی خدمتِ اقدس میں درخواست کی کہ حضور از راه نوازش اس مسجد کو دیکھ کر اس ناچیز غلام کی حوصلہ افزائی فرمائیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس درخواست کو منظور فرمایا اور 26 فروری 1922ء کو گنج مغلپورہ لاہور کی احمدیہ مسجد دیکھنے تشریف لے گئے اور وہاں دو رکعت نفل نماز پڑھائی.110 111 112 6 110 روزنامه الفضل ربوہ 27 فروری 1922ء، صفحہ 15 111 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب, بیت الذکر گنج مغل پورہ لاہور ، صفحہ 460، مطبوعہ فروری 1966ء، ناشر عبد المنان کو ثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.112 تاریخ احمدیت مؤلفہ حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، خلیفتہ المسیح الثانی کا سفر لاہور جلد 4 صفحہ 295, مطبوعہ (2007)، نظارت نشر و اشاعت قادیان طبع پرنٹ ویل پر لیس امر تسر
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود بیت الذکر گنج مغلپورہ لاہور بيت الذکر مغلپورہ
سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود بردباری اور ذہانت کی مثال میاں محمد یحیی صاحب نے بتایا: 41.1940 کی بات ہے جب میرے والد میاں محمد موسیٰ صاحب حیات تھے.ان دنوں لاہور میں کئی ٹھگ گھوما کرتے تھے اور ان پڑھ اور سید ھے سادھے لوگوں کو کسی نہ کسی بہانے سے لوٹتے تھے.ایک گروہ سونا بنانے والوں کا بھی تھا.وہ لوگ بہت ہو شیار اور باتونی ہوتے تھے.وہ کہتے ہیں کہ جوانی میں ان کو بھی سونا بنانے کا بہت شوق تھا.ایک دن انہوں نے مشاورت کے لئے اپنے ابا سے اس بارے میں استفسار کیا.میاں محمد موسیٰ نے کہا ہاں مجھے سونا بنانا آتا ہے اور میں کل تمہیں اس کا اصل نسخہ سمجھاؤں گا.والد صاحب سناتے ہیں: اگلے دن میاں جی نے مجھے کام پر بہت صبح ہی لگا دیا.والد صاحب ان دنوں ویلڈنگ کا کام کیا کرتے تھے.ان کو اُس دن ان کی استطاعت سے زیادہ کام دے دیا اور کہا کہ اسے ام سے پہلے مکمل کر لو تا کہ سونا بنانے کی ترکیب تمہیں بتائی جائے.اتا جان نے اس دن شام تک دو گنا کام کیا.میاں جی نے اس کام کی مالیت کا اندازہ لگایا اور اتنی رقم اتنا جان کو دیتے ہوئے کہا کہ سوہا بازار ( سونے کا کاروبار کرنے والوں کا لاہور میں بازار میں لبھا رام سنیار کے پاس جاؤ.وہ میرا جاننے والا ہے اور اس سے اتنی مالیت کا خالص سونا لے آؤ.تم اسے میر ا بتاؤ گے تو تمہیں ناخالص سونا نہیں دے گا.اتنا جان دی ہوئی رقم کا خالص سونا لے آئے اور بہت خوش تھے کہ آج سونا بنانے کا طریقہ معلوم ہو جائے گا.میاں محمد موسیٰ نے سوناد دیکھا تو کہا کہ بہت خالص سونا ہے.سونا دیکھنے کے بعد انہوں نے ابا جان کے ہاتھ میں اسے واپس تھما دیا اور کہا کہ آج سارے دن میں تم نے محنت کر کے اتنا سونا بنایا ہے.سونا بنانے کا اس سے مجرب کوئی نسخہ نہیں.میاں موسیٰ نے نہایت خوبصورت انداز میں سمجھا دیا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ٹھگوں کی ٹھگی سے نجات دلوادی.کیا عمدہ طریق تھا بات ذہن نشین کرانے کا؟ بزرگوں کے
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود سمجھانے کے رنگ نرالے ہوتے ہیں.ہمارے بزرگ اپنے قول اور عمل سے بات سمجھا دیتے تھے.یہ طریق آئندہ نسلوں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو گی.87
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود مزاح کے چند پہلو حج کی ادائیگی کے بعد والدہ کی وفات میاں محمد موسیٰ صاحب کی باتوں میں مزاح کا پہلو سب کی توجہ کا باعث بنتا.جس محفل میں بیٹھتے مرکز نگاہ بن جاتے.میاں محمد یحیی صاحب بتاتے ہیں: ان کے والد میاں محمد موسیٰ صاحب اپنی والدہ ماجدہ کو 1903ء میں فریضہ حج ادا کروانے بیت الحرام تشریف لے گئے.ان دنوں حج کا سفر عام طور پر بحری جہاز سے ممکن ہوا کرتا تھا اور بہت کھٹن مراحل سے گذرنا پڑتا تھا.لاہور سے مکہ معظمہ کے سفر کے دوران وہ تندرست رہیں.حج بیت اللہ کی سعادت پائی اور مقامات مقدسہ کی زیارت بھی کی.واپسی پر بحری جہاز کے سفر کے دوران ان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی.جہاز میں موجود ممکنہ طبی سہولیات فراہم کی گئیں لیکن وہ بقضائے الہی وفات پا گئیں.ابھی منزل پر پہنچنے میں کافی دن تھے اور ان کی میت جہاز پر دیر تک محفوظ نہ رکھی جاسکتی تھی.حاجی محمد موسیٰ صاحب نے خود جنازہ پڑھایا.جہاز میں موجود بہت سے لوگوں نے بھی ان کا جنازہ پڑھا.بحری جہاز کے دستور کے مطابق ان کا تابوت سمندر کی گہرائی میں اتار دیا گیا.گھر پہنچنے پر اہل خانہ نے پوچھا کہ بے بے جی ساتھ کیوں نہیں آئیں.اس پر میاں جی نے کہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ان کو دریائے نیل میں بہا دیا تھا.اب میاں محمد موسیٰ کی باری تھی اور اس نے اپنی والدہ کو سمندر کی لہروں کے سپرد کر کے تاریخ کو دہرا دیا.پھر کہا کہ حج سے واپسی کے دوران بحری جہاز پر سخت بیمار ہو گئیں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں.انا للہ و انا الیہ راجعون.( القرآن.البقرة: 157)
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود تمباکونوشی سے نفرت میاں محمد یحیی صاحب نے ایک اور واقعہ سنایا: میرے والد میاں جی کو تمباکو سے سخت نفرت تھی.راہ میں آتے جاتے کسی کو حقہ پیتے دیکھتے تو حقے کی چلم توڑ دیتے اور نقصان کے ازالہ کے لئے چلم کی قیمت جو ان دنوں ایک آنہ (ایک روپے کا سولواں حصہ) ہوتی تھی ادا کر دیتے اور اس بُری عادت کو ترک کرنے کی تلقین بھی کرتے.جب سڑک سے گذرتے تو تمبا کو پینے والے ادھر اُدھر چھپ جاتے.کتاب کے مصنف کو یاد ہے کہ اس کی جوانی کے دنوں میں بڑوں کے سامنے جوان بچے تمباکو نوشی سے گریز کرتے تھے.ہمارے محلے کا حجام میاں محمد بیٹی صاحب اپنے والد کا یہ قصہ بھی سناتے تھے : ہمارے آبائی گھر واقع فلیمنگ روڈ لاہور کے سامنے ایک عزیز نامی حجام دکان کرتا تھا.محلے والے اسے کریلا چھیڑتے تھے.جب بھی گھر میں کریلے پکنے کے لئے آتے تو دادا جان کسی چھوٹے بچے کے ہاتھ اس حجام کو ایک کریلا بھجواتے اور خود گھر کی کھڑکی سے یہ نظارہ دیکھ کر محظوظ ہوتے.وہ سیخ پا ہو کر اونچی اونچی آواز میں بولنے لگتا.کبھی کبھی اس کی دکان پر جاکر اس کی دلجوئی کرتے اور اس سے حجامت وغیرہ بھی بنواتے.ہیں: مٹی کے برتنوں اور مٹھائی کے بارے میں میری پھوپھی زینب بی بی صاحبہ مرحومہ اہلیہ عبد العزیز صاحب بی اے روایت کرتی ایک دفعہ ان کی والدہ رحمت بی بی صاحبہ نے شکایت کی کہ گھر میں مٹی کے برتن یعنی ہانڈیاں اور گھڑے وغیرہ پرانے ہو گئے ہیں اور ان کو تبدیل ہونا چاہیے.نئے منگوا
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود دیں.ایک دو روز کے بعد مٹی کے برتنوں سے بھری ایک گڈ گھر پہنچ گئی اور کمہار نے گھر کے باہر بر تن اتارنے شروع کر دیے.وہ بتاتی ہیں: ”وہ برتن ایک عرصہ تک گھر میں استعمال ہوتے رہے بلکہ رشتہ داروں اور جان پہچان والوں کو بھی تقسیم کئے گئے اور ختم ہونے کا نام نہ لیتے تھے.“ ایک اور موقع پر زینب بی بی صاحبہ نے بتایا: گھر میں جلیبیوں (مٹھائی) کی فرمائش کی گئی.میاں جی حاجی محمد موسیٰ نے سب سے باری باری پوچھا کہ ہر کوئی بتائے کہ کتنی کتنی جلیبیاں کھائے گا؟ افراد اہل خانہ نے اپنی خواہش کے مطابق تعداد بتائی.میاں جی نے حلوائی کے پاس جا کر سپیشل جلیبیاں بنوائیں ہر جلیبی کا وزن تقریباً ایک سیر (ہند و پاکستان میں وزن کا پرانا نظام.0.93 کلو گرام کے برابر وزن) ہو گا.حلوائی ساری مٹھائی ایک بڑے تھال میں رکھ کر گھر چھوڑ گیا.میاں جی نے سب کی فرمائش کے مطابق جلیبیاں تقسیم کر دیں.سب کے لئے اتنی مٹھائی کھانا مشکل ہو گیا.اس واقعہ سے سب بہت محظوظ ہوئے.یہ ایسا واقعہ تھا جو کبھی بھلایا نہ جاسکا.90 90
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود گاؤں کے مولوی کا ایک دلچسپ واقعہ اپنے گاؤں میں میاں محمد موسیٰ صاحب نے ایک مسجد نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے بنوار کبھی تھی.مولوی صاحب کے کھانے کا انتظام اپنے گھر سے کر دیا اور اس کے علاوہ کچھ حصہ ہر فصل میں سے بھی دیتے تھے.قبول احمدیت کے بعد جب میاں محمد موسیٰ اپنے گاؤں گئے تو مولوی ان کو مسجد میں نماز پڑھنے سے تو نہ روک سکا لیکن آپ جب لاہور واپس چلے گئے تو گاؤں والوں کو آپ کے خلاف اکسایا اور کہا کہ مسجد میں مرزائی نے نماز پڑھی ہے اس لئے اب یہ پلید ہو گئی ہے.سب گاؤں والوں کا فرض ہے کی مسجد کی مل کر دھلائی کریں تاکہ مسجد پاک ہو جائے.گاؤں میں مولوی کی بات نہیں ٹالی جاتی کیونکہ لوگوں نے اس سے جنازہ اور نکاح وغیرہ پڑھوانا ہوتا ہے.لوگوں نے مولوی کے اصرار پر مسجد دھوئی.کچھ دنوں کے بعد جب محمد موسیٰ صاحب دوبارہ گاؤں پہنچے تو ان کو اپنے ایک مزارع نے یہ بات بتا دی.میاں محمد موسیٰ کو اس بات پر بہت غصہ آیا اور انہوں نے مسجد جا کر مولوی کی داڑھی پکڑ لی اور کہا کہ اگر میرے نماز پڑھنے سے مسجد پلید ہو جاتی ہے تو اب تمہاری داڑھی بھی پلید ہو چکی.اگر تم میں ذرا بھی حیا ہے تو اس کو فوراًمنڈوا دو.حاجی محمد موسیٰ صاحب کا گاؤں میں بہت رعب اور دبدبہ تھا.لوگوں کو پتہ تھا کہ ان کو تو عدالت میں بھی کر سی مل جاتی ہے اور وہ بہت رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں.مولوی نے بھانپ لیا کہ مسجد کی امامت خطرے میں پڑ سکتی ہے.اس لئے اس نے اُن سے فوراً معافی مانگی اور معاملہ رفع دفع ہوا.اس کے بعد ایسی حرکت کرنے کی گاؤں میں کسی نے جرآت نہ کی.میاں محمد موسیٰ نے احمدیت کے عقیدہ کا بانگ دہل اعلان کر رکھا تھا.
سوانح میاں محمد موسی صحابی حضرت مسیح موعود جماعتی پکنک کے دوران دریا پر المناک حادثہ نومبر 1945ء میں دادا جان میاں محمد موسیٰ صاحب اپنے کاروبار کے سلسلہ میں دہلی کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے کہ ان کے ایک ہندو دوست نے اخبار میں تین بچوں کی دریائے راوی میں ڈوبنے کی خبر دکھائی اور کہا میاں موسیٰ صاحب یہ تو آپ کے اپنے پوتے ہیں.یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری.آپ فوراً لا ہور چلے آئے اور دیکھا کہ پورے شہر میں کہرام مچا ہوا ہے اور سارا شہر غم کی حالت میں ہے.جگہ جگہ تین بچوں کا دریائے راوی میں ڈوبنے کا چرچہ ہے.شہر کے سر کردہ اخباروں نے اس خبر کو پہلے صفحہ پر نمایاں چھاپا ہوا ہے.واقعہ یوں ہے کہ خدام الاحمدیہ لاہور کے زیر اہتمام دریائے راوی لاہور پر 11 نومبر 1945ء کو ایک پکنک منعقد ہوئی.خدام دریا پر کشتی رانی سے لطف اندوز ہو رہے تھے.ہمارے خاندان کے پانچ اور بارہ دوسرے خدام ایک ہی کشتی میں سوار تھے.کشتی دریا میں اچانک ڈوب گئی.خدام نے ایک دوسرے کی جانیں بچانے کے لئے دریا میں چھلانگیں لگا دیں.کوشش کے باوجود تین خدام دریا کی لہروں میں گم ہو گئے.بچوں کو کافی تگ و دو کے بعد پانی سے نکال کر ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے.ان کی نعشوں کو دوسرے روز یعنی 12 نومبر کو قادیان لے جایا گیا.بعد از نماز مغرب حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے مدرسہ احمدیہ کے صحن میں نماز جنازہ پڑھائی اور جنازے بچوں کے قبرستان کے ساتھ کی زمین میں دفن کئے گئے.بعد تدفین حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی.وہ تینوں بچے موسیٰ خاندان کے ہی چشم و چراغ تھے.ان کے نام یہ تھے.113 1.عبد الواحد ابن میاں عبد الماجد صاحب عمر پندرہ سال 2.منیر احمد ابن میاں عبد الماجد صاحب عمر چھ سال 113 لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب, صفحہ 528 تا529، مطبوعہ فروری 1966ء،ناشر عبدالمنان کوثر، طاہر مہدی امتیاز احمد وڑائچ نے ضیا الا سلام ربوہ ( چناب نگر) سے طبع کیا.
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود 3.عطاء الرحمن ابن میاں محمد حسین صحابی حضرت مسیح موعود عمر 15 سال اپنے پوتوں کی ناگہانی موت سے دادا جان پر بہت اثر ہوا اور وہ گہرے صدمے میں چلے گئے.یہ بہت بڑا حادثہ تھا.ابا جان میاں محمد یحییٰ صاحب بتاتے ہیں کہ میاں جی بچوں کا دکھ نہ بھلا سکے اور ہر وقت ان کو یاد کرتے رہتے تھے.ان کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے.شاید یہی صدمہ ان کی موت کا سبب بنا.93
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ کی وفات حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحب اپنے تین پوتوں کے دریائے راوی میں ڈوبنے کو ابھی نہ بھولے تھے کہ ان کی صاحبزادی عائشہ بیگم (خاکسار کی ساس محترمہ) بھی دو ہفتہ بعد ایک طویل بیماری کے باعث اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں.بچوں کے ڈوبنے کے غم کے بعد یہ نیا حادثہ رونما ہو گیا.اب تو موسیٰ صاحب نے چپ سادھ لی جیسے خدا تعالیٰ نے انہیں صبر عطا کر دیا ہو.کسی قسم کا ناشکری کا کوئی کلمہ زبان پر نہ آیا.خدا تعالیٰ پر بھروسہ کیا.ڈوبنے والے بچوں اور اپنی صاحبزادی کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے.یہ سارے صدمات آخر کار جان لیوا ثابت ہوئے اور 24 دسمبر 1945ء کو وہ خود بھی اس جہانِ فانی سے اپنے مولا کے پاس حاضر ہو گئے.114 اناللہ وانا الیہ راجعون.(القرآن.البقرة:157) دعا ہے کہ خد اتعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان سے راضی ہو.دوماہ سے کم عرصہ میں خاندان کے پانچ افراد وفات پاگئے.اس سال کو ہماری فیملی میں غم کا سال کہا جاتا ہے.میاں موسیٰ صاحب کا جسدِ خاکی ان کی دکان واقع نیلا گنبد لایا گیا اور اسی جگہ رکھا گیا جہاں آقا حضرت مسیح موعود تشریف لائے تھے اور ان کی دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے تھے.جماعت احمدیہ کی کثیر تعداد ان کے آخری دیدار کے لئے جمع ہو گئی.عزیز و اقارب بھی پہنچ گئے.نیلا گنبد کے اس مقام پر ان کا جنازہ ادا کیا گیا جہاں آقا و مولا حضرت مسیح موعود آپ کی دکان کے باہر کرسی پر بیٹھے تھے.غیر احمدی احباب نے اپنا علیحدہ جنازہ پڑھا.اس کے بعد ان کی میت بہشتی مقبرہ قادیان لے جائی گئی اور وہاں بھی احباب جماعت کی کثیر تعداد نے جنازہ ادا کیا.پھر خاندان موسیٰ کے جد امجد کو بہشتی مقبرہ میں سپر د خاک کر دیا گیا.14 روز نامہ الفضل ربوہ میاں محمد موسیٰ کی وفات 25 دسمبر 1945ء صفحہ 2
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود قادیان بہشتی مقبرہ کا نقشہ بناتے وقت میاں محمد موسیٰ صاحب نے جس جگہ کا اپنے لئے انتخاب کیا تھا.لیکن حضور نے اسے خدا تعالیٰ کے فرمان کی وجہ سے منظور نہ کیا تھا: کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ کس زمین میں وہ مرے گا.“ (القرآن.لقمان 35) جس قبر کی میاں محمد موسیٰ صاحب نے نشاندھی کی تھی وہاں ان کے آقا و مولا سیّدنا حضرت مسیح موعود کا مزارِ اقدس ہے.95
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حرف آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے: ے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاؤ گے.“ (جامع بيان العلم و فضل 895) حضرت رسول اکرم صلی علیکم کی یہ بات آپ کے بروز حضرت مسیح موعود کے زمانے میں دہرائی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک بڑا ثبوت آپ کے وہ تمام صحابہ نہیں جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنی زندگیاں دین متین کی آبیاری کے لئے وقف کئے رکھیں.اصحاب احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعجازی نشانات الہیہ کے عینی شاہد ہیں.ان کی اولادیں ہزاروں کی تعداد میں اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہیں اور حضور کی دعاؤں کے فیوض اور ثمرات سمیٹ رہی ہیں.شاید ہی کوئی ایسا احمدی گھرانہ ہو جس میں حضرت مسیح موعود کے زندہ اور تابندہ نشاناتِ الہیہ کا تذکرہ موجود نہ ہو.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب احمدی ان بزرگ ہستیوں کی سیرت کے نمونے اپنی زندگیوں میں ہر آن جاری رکھیں.میاں محمد موسیٰ صحابہ حضرت مسیح موعود کا درخشاں ستارہ ہیں.آپ کی حضور سے والہانہ محبت، مالی قربانیاں اور احمدیت کے لئے خدمات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں.اس کے علاوہ جوان بیٹی کی غیر متوقع وفات اور تین پوتوں کا دریا میں ڈوب جانا جیسے المناک حادثات میں صبر کا دامن نہ چھوڑنا اور خدا کی رضا پر راضی رہنا، ان کے اعلیٰ کردار کا خاصہ تھا.وہ ایک عام شخص نہ تھے.وہ اعلیٰ عزم و استقلال کے مالک تھے.کوئی کمزور ایمان والا اس طرح کے حادثات میں راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے.اسی لئے وہ حضرت مسیح موعود کے ایک درخشاں ستارہ تھے.حضرت محمد موسیٰ صاحب اپنے کارناموں اور اخلاق فاضلہ کے حسین نمونوں کی وجہ سے آج بھی زندہ جاوید ہیں.خدا تعالیٰ ان کو جنت
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی اولادوں کو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلائے.آمین ثم آمین.میں وقت کے امام حضرت مسیح موعود و مہدی مہوڈ کے ان سنہری الفاظ پر ختم کرتا ہوں جو آپ نے میاں محمد موسیٰ کے بارے میں کہے.”موسیٰ صاحب آپ نے دین کی بہت خدمت کی.“ یہ الفاظ میاں محمد موسیٰ اور ان کے خاندان کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں.اس طرح کے الفاظ مسیح موعود کی جماعت کے ہر احمدی کی خواہش ہے.میں دعا گو ہوں اور بہت زیادہ پر امید کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب خلفائے احمدیت ایسے ہی تعریفی کلمات حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب کی اولادوں کے لئے بھی کہیں گے.میں خدا کے حضور بسجود ہوں اور شکر بجالاتا ہوں کہ اس خدائی خدمت گار.میاں محمد موسیٰ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے انعامات مجھ پر اور ہمارے خاندان پر بلا شک و شبہ ہر وقت نازل ہوتے رہتے ہیں.97 97
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود مصنف کے بارے میں ڈاکٹر محمود احمد ناگی ابن مکرم میاں محمد یکی 12 دسمبر 1944 ء کو لاہور میں پیدا ہوئے.اُن کے دادا حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب آف نیلا گنبد لاہور کا شمار حضرت مسیح موعود کے جید صحابہ میں ہوتا ہے.انہوں نے خاندان میں سب سے پہلے 1902ء میں احمدیت قبول کی اور اپنی بقیہ زندگی کا زیادہ وقت سلسلہ عالیہ احمدیہ کے کاموں میں صرف کیا.مصنف کتاب ہذا نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے 1968ء میں فزکس میں ایم ایس سی کی.یونیورسٹی کی طرف سے اکیڈیمک رول آف آنر اور میرٹ (Academic Roll of Honor and Merit) دیا گیا.1974ء میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے ایک وظیفہ ملا.دفتر میں جماعت اسلامی کے چند افسروں کی مخالفت کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ نہ اُٹھا سکے.اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر اُن کا سفری سامان اس وقت جہاز سے اُتار لیا گیا جب وہ برمنگھم انگلینڈ کے لئے روانہ ہورہے تھے.پاسپورٹ اور سفری ٹکٹ سرکاری کارندوں نے چھین لئے اور کہا کہ احمدیت کا انکار کر و تو باہر جانے کی اجازت ہو گی ورنہ نہیں.احمدیت پر تو جان بھی قربان ہے.ایسا کہنا تو تصور میں بھی نہیں لایا جا سکتا.ایمان کے بغیر زندگی ادھوری ہے.کچھ لمحوں کیلئے مستقبل تاریک نظر آنے لگا.ایک جھٹکا تو لگا مگر دل برداشتہ نہ تھا.اس واقعہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی خدمت اقدس میں بغرض دعا 1974 میں حاضر ہوا.آپ نے فرمایا کہ فکر کی قطعاً ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ پی ایچ ڈی کا سامان مہیا کر دے گا.آپ نے جو کہا خدا نے
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود اسے پورا کر دکھایا.یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ خدا تعالیٰ نے خلفائے اسلام کو بے پناہ طاقتوں سے نوازا ہے.1988ء میں تجرباتی نیو کلر فزکس میں پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی الحمد للہ.مقالے کا عنوان Study of fast neutron induced reaction 'cross sections تھا.مصنف 37 سال پاکستان اٹامک انرجی کمشن میں ملازمت کرنے کے بعد دسمبر 2004ء میں چیف سائنٹفک آفیسر کے عہدہ سے ریٹائر ہوا.اس کے بعد سات سال بطور پروفیسر نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمر جنگ سائنسز لاہور میں فزکس پڑھائی.اس کی تحقیق پر مبنی سو سے زائد تحقیقاتی مقالے اور رپورٹس فزکس کے مستند جرائد میں چھپ چکی ہیں.میاں محمد موسیٰ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی بے شمار برکات و انعامات ان کے بچوں، پوتے پوتیوں اور ان کی آگے اولادوں میں جاری و ساری ہیں اور ان میں سے بیشتر کسی نہ کسی طور پر جماعت کی خدمت کر رہے ہیں.مصنف کو بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے مختلف شعبہ جات میں خدمت دین کی توفیق ملی.اس وقت بھی وہ جماعت امریکہ کے مختلف کاموں میں مصروف ہے.جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ میاں موسیٰ کی اولاوں میں بھی احمدیت کی خدمت رچ بس گئی ہے.بہت سے بچے جماعتی خدمت میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ نے مصنف کتاب ہذا پر بہت بڑا احسان کیا جب اسے دہشت گردوں کے حملے سے 28 مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں موت کے منہ سے بچایا جب وہ نماز جمعہ کے لئے مسجد میں حاضر ہو ا تھا.اس حملے میں 87 احمد یوں نے جامِ شہادت نوش کیا.خدا تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.جو بچ گئے خدا تعالیٰ انہیں ہمیشہ جماعت احمدیہ کی بہتر رنگ میں خدمت کی توفیق دے.آمین.99 99
سوانح میاں محمد موسیٰ صحابی حضرت مسیح موعود حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب آف نیلہ گنبد لاہور کا شمار حضرت مسیح موعود و مہدی میبود علیہ السلام کے جید صحابہ میں ہوتا ہے.میاں محمد موسیٰ نے 1902ء میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں لکھا کہ عام لوگوں کے لئے آپ کی صداقت کا معلوم کرنا مشکل ہے.آپ قسم کھا کر تحریر فرما دیں کہ آپ دہی مسیح موعود ہیں جس کا دنیا کو انکار ہے.اس پر حضرت مسیح موعود نے لفافہ کی پشت پر تحریر فرمایا: میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں وہی مسیح موعود ہوں ج کا وعدہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو دیا تھا.و لعنت اللہ علی انکار نہیں.خاکسار مرزا غلام احمد بقلم خود.جب میاں محمد موسی ہی تسلی ہو گئی تو بغیر کسی حیل و حجت کے آپ کی غلامی میں آگئے.آپ سے حد درجہ کی عقیدت اور محبت تھی.آپ کی صحبت میں زیادہ وقت گذارنے کے لئے ایک لمبے عرصہ تک آپ کے اقتداء میں جمعہ پڑھنے کے لئے لاہور سے قادیان سفر کر کے جاتے اور اس وقت تک گھر نہ لوٹتے جب تک حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام واپس جانے کی اجازت نہ دے دیتے.محض خداتعالی کے فضل سے اور حضور کی دعاؤں کے نتیجے میں آپ کے اخلاص اور تقویٰ میں استقامت اور استقلال پید اہو اور انعامات الہیہ کے دروازے کھلتے چلے گئے جس کا ثمر آپ کی نسلوں میں جاری وساری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آخری ایام میں آپ کے بارے میں مندرجہ ذیل تعریفی کلمہ کہا جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے.میاں محمد موسیٰ صاحب آپ نے دین کی بہت خدمت کی.100 158N 978-1-946812 9781946 812285