Language: UR
حضرت چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب نے اپنی والدہ مرحومہ حسین بی بی صاحبہ کی وفات پر ایک مختصر رسالہ تصنیف فرمایاجس کے متعلق حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے لکھا کہ <blockquote>’’مکرم چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب نے اس مختصر کتاب میں اپنی والدہ صاحبہ مرحومہ کے دلکش اور موثر حالات لکھ کر صرف بیٹا ہونے کے حق کو ہی بطور احسن ادا نہیں کیا ۔ بلکہ جماعت کی بھی ایک عمدہ خدمت سرانجام دی ہے۔ کیونکہ خدا کے فضل سے اس قسم کا لٹریچر جماعت کی اخلاقی اور دینی حالت کے بہتر بنانے میں بہت مفید ہوسکتا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس کتاب کو نہ صرف خود پڑھیں گے بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس کے پڑھنے کی تحریک کریں گے۔ تاکہ ان ہر دو فریق کو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ سچا اور حقیقی تعلق پیدا کرنے کے علاوہ اپنے گھروں میں اچھے والدین اور اچھی اولاد بننے کی طرف توجہ پیدا ہو۔ کیونکہ یہی اس کتاب کا بہترین جوہر ہے۔ ‘‘</blockquote>
میری والدہ
میری والدہ سر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نظارت اصلاح وارشاد صدر انجمن احمد یہ قادیان ضلع گورداسپور ( پنجاب ) فون 70749,72870
نام کتاب تصنیف اشاعت میری والدہ سر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بار دوم 2002 شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت قادیان مطبوعه فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN No.81-7912-023-6
سر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلى عبده المسيح الموعود نذر محبت مکرم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اس مختصر کتاب میں اپنی والدہ صاحبہ مرحومہ کے دلکش اور مؤثر حالات لکھ کر صرف بیٹا ہونے کے حق کو ہی بصورت احسن ادا نہیں کیا.بلکہ جماعت کی بھی ایک عمدہ خدمت سرانجام دی ہے.کیونکہ خدا کے فضل سے اس قسم کا لٹریچر جماعت کی اخلاقی اور دینی حالت کے بہتر بنانے میں بہت مفید ہوسکتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس کتاب کو نہ صرف خود پڑھیں گے.بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس کے پڑھنے کی تحریک کریں گے.تا کہ ان ہر دو فریق کو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ سچا اور حقیقی تعلق پیدا کرنے کے علاوہ اپنے گھروں میں اچھے والدین اور اچھی اولاد بنے کی طرف توجہ پیدا ہو.کیونکہ یہی اس کتاب کا بہترین جوہر ہے.اللہ تعالیٰ مرحومہ کو نیز اُن کے مرحوم خاوند کو اپنی خاص رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور اُن کی اولاد کو اور ہم سب کو یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اپنی زندگیوں کو رضائے الہی کے رستہ پر چلا کر خدمت دین اور خدمت خلق میں صرف کر سکیں.امین الھم امین.خاکسار مرزا بشیر احمد قادیان مورخه ۱۶/ بمبه ۱۱۹۳۸
p نحمده ونصلى ل رسول الكريم میری والدہ میری والدہ کا نام حسین بی بی تھا.ان کے اپنے اندازہ کے مطابق ان کی ولادت غالبا ۱۸۶۳ء میں ہوئی تھی.ان کے والد صاحب کا نام چوہدری الہی بخش تھا.آبائی مسکن دا تا زید کا ( ضلع سیالکوٹ) تھا.قوم باجوہ تھی.جو سیالکوٹ کے ضلع کی زمینداراقوام میں نہایت معز زقوم کبھی جاتی ہے.چو ہدری اپنی بخش صاحب کی اولاد پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھی.میری والدہ سب سے بڑی تھیں.میرے ماموں چوہدری عبداللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ دا تازید کا اپنی چار بہنوں سے چھوٹے اور ایک بہن سے بڑے تھے.میر کی والدہ بوجہ اپنے والدین کی پہلی اولا د ہونے کے بچپن سے ہی بہت لاڈلی تھیں.فرمایا کرتی تھیں کہ وہ زمانہ خوشحالی کا تھا اور چونکہ ان کے والد صاحب کے بڑے بھائی ( جو خاندان کے سرکردہ تھے ) ان سے بہت محبت کرتے تھے اور اُن کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے.اس لئے اوائل بچپن میں اُن کی طبیعت نسبتا آزاد بھی اور کسی وقت یہ ایسا ناز یا شوخی بھی کر بیٹھی تھیں.جو اس زمانہ میں تو بچوں کا شعار بن چکی ہے.لیکن اُن ایام میں اُن کی والدہ کے لئے بعض دفعہ پریشانی کا موجب بن جایا کرتی تھی.لیکن یہ آزادی کا زمانہ جلد ہی ختم ہو گیا.
ہمارے خاندانی حالات اوائل عمر میں ہی والدہ کا نکاح میرے والد صاحب مرحوم چوہدری نصر اللہ خان صاحب کے ساتھ ہو گیا.میرے دادا صاحب کا نام چوہدری سکندر خاں تھا.ہمارا آبائی مسکن ڈسکہ (ضل سیالکوٹ) ہے.ہماری قوم یہی کہلاتی ہے کہا جاتاہے کہ یہ قوم زیادہ تر منگری کے علاقہ میں آباد تھی.چنانچہ منگری کا پرانا نام ساہی وال بھی ہے.کسی وقت اس قوم کی پنجاب کے ایک علاقہ پر حکومت تھی.واللہ اعلم بالصواب.ہمارے خاندان کی ایک دو شاخیں اب تک ہندو ہیں.باقی یا سکھ ہیں یا مسلمان.ہماری شاخ قریبا بارہ پشت سے مسلمان ہے.میرے دادا چوہدری سکندر خان صاحب مرحوم اپنے علاقہ کے بہت بارسوخ زمیندار تھے.میرے پڑ دادا چو ہدری فتح دین صاحب با الکل جوانی میں فوت ہو گئے تھے.اُس وقت میرے دادا ابھی بالکل بچہ ہی تھے.ان کی پرورشب بہت سختی کے حالات میں ہوئی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی طبیعت میں حزم و دانش ودیعت کی تھی.اس لئے یا وجود شرکاء کی مخالفت اور منصوبوں کے انہوں نے اپنا زمانہ نہایت خوش اسلوبی سے گزارا.وہ زمانہ ہر رنگ میں تاریکی اور جہالت کا زمانہ تھا.لیکن باوجود اس کے اللہ تعالی نے انہیں دنیوی دانش کے علاوہ دین کا علم اور فہیم بھی عطا فر مایا تھا.جہاں تک مجھے معلوم ہو سکا ہے.وہ اہل حدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور احکام شریعت کی تختی سے پابندی کرتے اور کرواتے تھے.شرک کے ساتھ انہیں خصوصیت سے دشمنی تھی اور ہر قسم کی بدعات سے سخت نفرت تھی.ماتم کے موقعہ پر عورتوں کی جزع فزع کو بہت بُرا منایا کرتے تھے اور اس سے بڑی سختی سے روکا کرتے تھے ، حکام کے ساتھ ان کا برتا و تواضع لیکن وقار کا بنوا کرتا تھا اور حکام بھی ان کا احترام کیا کرتے تھے.
مہمان نواز کی اور غریب پروری ان کا خاص شعار تھے.گو جن حالات میں سے انہیں بچپن میں گزرنا پڑا تھا.ان کے نتیجہ میں خود انہیں تنگی سے گزر کرنا پڑتی تھی.لیکن اس کا اثر وہ مہمانوں کی تواضع پر پڑنے نہیں دیتے تھے.ان کا معمول تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد رات کے کپڑے پہن کر وہ مہمان خانے میں چلے جاتے اور ایک خادم کے طور پر مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور تہجد کے بعد بھی مہمانوں کی خبر گیری کے لئے مہمان خانے میں جو مسجد کے ساتھ ملحق تھا چلے جاتے تھے.ایک دن فجر کے وقت مہمان خانہ کے خادم نے اطلاع دی کہ ایک مسافر جس نے مہمان خانہ میں رات بسر کی تھی غائب ہے اور اُس کے بستر کا لحاف بھی غائب ہے اور یہ بھی کہا کہ چوکیدار اور ایک دو اور آدمی اُس کی تلاش میں گئے ہوئے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد یہ لوگ اُس مسافر کو لحاف سمیت پکڑے ہوئے میرے دادا صاحب کے سامنے لے آئے.انہوں نے دریافت کیا.میاں تم نے ایسا کیوں کیا ؟ مسافر نے جواب دیا.حضور ہم گھر میں بچوں سمیت چار نفوس ہیں.سردی کا موسم ہے اور ہمارے گھر میں صرف ایک لحاف ہے.میرے دادا صاحب نے کہا اسے چھوڑ دو اور وہ لحاف بھی اُسے دے دیا اور تین روپے نقد دے کر اسے رخصت کیا.ان کی مہمان نوازی اور سخاوت کی وجہ سے تمام علاقہ میں بلکہ اردگرد کے اضلاع میں بھی لوگ اُن کا نام عزت اور احترام کے ساتھ لیا کرتے تھے.کے خاندان کی پہلے بھی ہمارے خاندان کے ساتھ رشتہ داری تھی.میری دادی پناہ بی بی ( جو بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں ) کی حقیقی پھوپھی تھیں اور اس طرح میرے نانا میرے والد صاحب کے حقیقی ماموں تھے.چنانچہ میرے والد اپنے بچپن کا بہت سا حصہ اپنے نھیال میں گزارا کرتے تھے.میری نانی جو میرے والد صاحب کی ممانی تھیں.اُن سے بہت پیار کیا کرتی تھیں.آخر عمر تک
جب بھی میری نانی صاحبہ کو میرے والد صاحب کے ساتھ ملنے کا اتفاق ہو ا کرتا.تو دونوں بہت دیر رات گئے تک آپس میں باتیں کرتے رہا کرتے تھے.میری نانی صاحبہ ایک نہایت ہی عابدہ زاہدہ با صبر اور با ہمت عورت تھیں.اس زمانے میں جب دیہات میں عورتوں کی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی تھی.اُن کے والد صاحب نے اُن کو باقاعدہ طب پڑھوانے کا انتظام کیا تھا اور وہ طلب میں اچھی خاصی مہارت رکھتی تھیں.چنانچہ اُن کی تربیت کا ہی اثر تھا کہ گو صاحبہ طب نہیں پڑھی تھیں.لیکن عام بیماریوں کا رسمی علاج وغیرہ جانتی تھیں اور بعض دفعہ تو سخت بیماری کی حالت میں بھی نسخہ تجویز کرنے کی جرات کر لیتی تھیں اور اللہ تعالیٰ اپنے رحم سے مریض کو شفا بھی عطا کر دیتا تھا.والدہ صاحبہ کی شادی میں نے ذکر کیا ہے کہ یہ زمانہ ہمارے ننھیال میں نسبتا خوشحالی کا زمانہ تھا اور ہمارے اپنے گھر میں نسبتا تنگی کا زمانہ تھا.میرے والدین نکاح کے وقت ابھی دونوں بچے ہی تھے.رخصتانہ نکاح کے چند سال بعد ہوا.جب نے سسرال آنا جانا شروع کیا.میرے والد صاحب لاہور اور منٹل کالج میں پڑھا کرتے تھے اور اس زمانے کی معاشرت کے مطابق کو اپنا تمام وقت میری دادی صاحبہ کی ہدایات کے ماتحت گزارنا پڑتا تھا.یوں تو ان دونوں کی آپس میں قریبی رشتہ داری تھی.لیکن یہ زمانہ کے لئے کافی نخی کا زمانہ تھایا کی طبیعت بچپن سے بہت حساس تھی اور اُن کی صحت بھی اچھی نہیں رہتی تھی.اس لئے سرال کی رہائش کا زمانہ اُن کے لئے اور بھی دوبھر ہو اکرتا تھا.والد صاحب کو طالب علمی کی وجہ سے بہت کم عرصہ گھر پر رہنے کا موقعہ ملا کرتا تھا اور ان سے جدائی والدہ صاحب کو بہت شاق تھی.لیکن یہ سب کچھ انہیں خاموشی سے برداشت کرنا پڑتا تھا.میرے دادا
صاحب اُن سے بہت شفقت اور ہمدردی سے پیش آتے تھے.لیکن اُن سے کسی قسم کی تکلیف کا بیان کرنا والدہ صاحب کو طبعا گوارا نہ تھا.والد صاحب کے بعض حالات میرے والد صاحب کی طبیعت بہت نازک اور حساس بھی اور اپنے والد صاحب سے انہیں بہت حجاب تھا.فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نہ بھی بے تکلفی سے کلام کیا تھا اور نہ بھی سیر ہوکر ان کے چہرہ کو دیکھا تھا.ایک دفعہ کسی تقریب پر میرے دادا صاحب نے انہیں لاہور سے بلا بھیجا.والد صاحب نے جواب میں لکھا کہ اس وقت آنے سے میری پڑھائی میں ہرج ہوگا اب آئندہ تعطیلات میں ہی آنا ہو سکے گا.جب تعطیلات کے موقعہ پر یہ گھر آئے تو اُن کے والد صاحب نے ان کی والدہ صاحبہ کو مخاطب کر کے فرمایا ” اب کس نے بلایا تھا ؟“ والد صاحب نے بھی یہ فقرہ سُن لیا.جونہی انہیں موقعہ ملا.انہوں نے اپنا سامان باندھ لیا اور واپس لاہور روانہ ہو پڑے.پاس خرچ بھی کافی نہیں تھا.ڈسکہ سے گوجرانوالہ ۱۵ میل کا فاصلہ سامان سر پر اٹھائے ہوئے پیدل گئے.گوجرانوالہ سے شاہدہ تک ریل میں سفر کیا اور شاہدرہ سے پھر سامان سر پر اٹھا کر حضوری باغ میں پہنچے.جہاں ان دنوں اور فینل کا لج کا ہوٹل ہوا کرتا تھا اور تعطیلات کا زمانہ بھی لاہور ہی میں گزار دیا.باپ بیٹے نے تو انی اپنی طبیعت کا تقاضا پورا کر لیا مگر کے دل پر جو گزری ہوگی.اُس کا اندازہ کوئی دردمندوں ہی کر سکتا ہے.میرے والد صاحب ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اب تو تعلیم کے لئے اس قدر سہولتیں ہو گئی ہیں اور پھر بھی تم لوگ کئی قسم کے بہانے کرتے رہتے ہو.ہمارے وقت میں تو سخت مشکلات تھیں.اول تو اخراجات کی سخت تنگی تھی.فرمایا کرتے تھے کہ میں نے چھ سات سال کا عرصہ لاہور میں بطور طالب علم کے گزارا او مینٹل کالج
A سے بی.او ایل کا امتحان پاس کیا.ٹر منینگ کالج سے نارمل سکول کا امتحان پاس کیا اور پھر مختاری اور وکالت کے امتحان پاس کئے.اس تمام عرصہ میں گھر سے ایک پیسہ نہیں منگوایا.جو وظائف ملتے رہے.انہیں پر گزارا کیا.گھر سے صرف آٹا لے جایا کرتے تھے اور وہ صرف اس مقدار کا کہ اس تمام عرصہ میں لاہور میں بھی سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا.وظیفہ بھی پہلے چار روپے یا ہوار اور پھر چھ اور آٹھ روپے ماہوار تھا.پھر قانون کے امتحانوں کے لئے یہ دقت تھی کہ اکثر کتب انگریزی میں تھیں اور انگریزی نہ جاننے والے طلباء کو بڑی دقت کا سامنا ہوتا تھا.کیونکہ کئی کتب کے تراجم میسر نہ تھے.چنانچہ ایک دفعہ والد صاحب لالہ لاجپت رائے صاحب کے ساتھ حصار اس غرض کے لئے گئے تھے کہ وہاں کے ایک وکیل صاحب کی زیر نگرانی ایسے مضمون کی تیاری کریں.جس کے کورس کی کتب کا اردو ترجمہ میسر نہیں تھا.ان دنوں ابھی حصار تک ریل نہیں بنی تھی اور بہت سا حصہ سفر کا پہلی یا یکہ کے ذریعہ کرنا پڑتا تھا.باوجود ایسی مشکلات کے والد صاحب مختاری اور وکالت دونوں امتحانوں میں اول رہے اور اس صلہ میں چاندی اور سونے کے تمغے انعام پائے.وکالت کا امتحان پاس کرنے سے قبل والد صاحب نے بطور مختار ڈسکہ ہی میں پریکٹس شروع کر دی تھی.لیکن وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے سیالکوٹ میں پریکٹس شروع کی اوروہ میں رہائش اختیار کی.بچوں کی وفات پر والدہ کا صبر میری پیدائش سے قبل میرے والدین کے پانچ بچے فوت ہو چکے تھے.ان میں سے پہلے تین کی پیدائش اور وفات تو اس زمانہ میں ہوئی جب میرے والد صاحب ابھی طالب علم ہی تھے اور آخری دو کی اُن کی مختاری اور وکالت کے زمانہ میں.ان میں سے ہر ایک بچہ کی وفات میری والد صاحب کے لئے ایک امتحان بن
گئی.جن میں اُن کے ایمان کی پوری پوری آزمائش کی گئی.لیکن وہ اللہ تعالی کے فضل اور اس کے رحم سے ہر موقعہ پر ثابت قدم رہیں اور کسی وقت بھی اُن کے قدم جادہ صدق سے ادھر ادھر نہیں بھٹکے - تفصیل تو ان واقعات کی بہت لمی ہے.اختصار کے ساتھ دو تین واقعات بطور مثال کے بیان کر دیتا ہوں.جن سے اس امتحان کی نوعیت اور والدہ صاحب کے صدق اور ایمان کی وضاحت ہو جائے گی.ہمارے سب سے بڑی بھائی کا نام بھی ظفر ہی تھا.والدہ صاحبہ ان سب بچوں میں سے ظفر اور رفیق کا نہایت محبت کے ساتھ ذکر فرمایا کرتی تھیں اور اُن کی خوش شکلی کی بہت تعریف کیا کرتی تھیں.ظفر ا بھی چند ماہ کا ہی تھا کہ والدہ صاحب کو داتا زید کا جانے کا اتفاق ہوا.اُن کے گاؤں میں ایک بیوہ عورت کے دیوی نام تھی.جسے لوگوں نے چڑیل یا ڈائن مشہور کر رکھا تھا اور وہ بھی اس شہرت یا بدنامی کا فائدہ اٹھالیا کرتی تھی.اس موقعہ پر وہ والدہ صاحبہ سے ملنے کے لئے آئی اور اُن سے کچھ پار چات اور کچھ رسد اس رنگ میں طلب کی.جس سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ گویا یہ چیزیں ظفر پر سے بلا ٹالنے کے لئے ہیں.والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ تم ایک مسکین بیوہ بورت ہو.اگر تم صدقہ یا خیرات کے طور پر کچھ طلب کرو.تو میں خوشی سے اپنی توفیق کے مطابق تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں.لیکن میں چڑیلوں اور ڈائینوں کی مانے والی نہیں.میں صرف اللہ تعالی کو موت اور حیات کا مالک مانتی ہوں اور کسی اور کا ان معاملات میں کوئی اختیار تسلیم نہیں کرتی.ایسی باتوں کو میں شرک سمجھتی ہوں اور ان سے نفرت کرتی ہوں.اس لئے اس بناء پر میں تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوں.جے دیوی نے جواب میں کہا کہ اچھا تم سوچ لو.اگر بچے کی زندگی چاہتی ہو.تو میرا سوال تمہیں پورا ہی کرنا پڑے گا.چند دن بعد والد و صلاب ظفر کو غسل دے رہی تھیں کہ پھر ہے دیوی آگئی اور بیچے
کی طرف اشارہ کر کے دریافت کیا: اچھا یہی ساہی راجہ ہے؟“ والدہ صاحبہ نے جواب دیا.”ہاں یہی ہے.جے دیوی نے پھر وہی اشیاء طلب کیں.والدہ صاحبہ نے پھر وہی جواب دیا جو پہلے موقعہ پر دیا تھا.اس پر جے دیوی نے کچھ برہم ہو کر کہا: اچھا اگر بچے کو زندہ لے کر گھر لوٹیں.تو سمجھ لینا کہ میں جھوٹ کہتی تھی.والدہ صاحبہ نے جواب دیا.جیسے خدا تعالیٰ کی مرضی ہوگی وہی ہوگا".والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ ابھی کے دیوی مکان کی ڈیوڑھی تک بھی نہ پہنچی ہوگی کہ غسل کے درمیان ہی ظفر کو خون کی قے ہوئی اور خون ہی کی اجابت ہوگئی.چند منٹوں میں بچے کی حالت دگرگوں ہوگئی اور چند گھنٹوں کے بعد وہ فوت ہو گیا.والدہ صاحبہ نے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کی.یا اللہ تو نے ہی دیا تھا اور تو نے ہی لے لیا.میں تیری رضاء پر شا کر ہوں.اب تو ہی مجھے صبر عطا کیجیو.اس کے بعد خالی گود ڈسکہ واپس آئیں.پھر کچھ عرصہ بعد رفیق پیدا ہوا.ظفر سے بھی زیادہ پیارا اور خوش شکل.میرے دادا صاحب نے والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ جب تک یہ بچہ چلنے پھرنے لگے اور آپ سے الگ رہنے کے قابل نہ ہو جائے آپ کو دا تا زید کا جانے نہ دیں گے.رفیق قریباً دو سال کا ہو گیا اور والدہ صاحبہ اس عرصہ میں ڈسکہ میں ہی مقیم میں.پھر ان کے خاندان میں کوئی وفات ہوگئی اور مجبوراً انہیں دا تا زید کا جانا پڑا.میرے دادا صاحب نے صرف ایک ہفتہ یا دس دن وہاں ٹھہرنے کی اجازت دی.بلکہ پہلے تو فرمایا کہ رفیق کو ڈسکہ ہی چھوڑ جائیں.لیکن یہ والدہ صاحبہ کو منظور نہ ہوا.دا تا زید کا پہنچنے کے ایک آدھ دن بعد پھر جے دیوی آئی اور اُس نے اپنا پرانا مطالبہ پیش کیا اور والدہ صاحبہ نے پھر وہی جواب دیا.اس موقعہ پر میرے نانا
H صاحب نے بھی اصرار کیا کہ آخرانی کونسی سی پڑی بات ہے.چند روپوں کا معاملہ ہے.جو کچھ یہ مانگتی ہے.اسے دے دو اور اگر تمہیں کوئی عذر ہے.تو ہم دے دیتے.ہیں.والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ یہ چند روپوں کا معاملہ نہیں.یہ میرے ایمان کا امتحان ہے.کیا میں یہ تسلیم کرلوں کہ میرے بچے کی زندگی اس عورت کے اختیار میں ہے؟ یہ تو کھلا شرک ہے.اگر میرے بچے کواللہ تعالی زندگی دیگا تو یہ زندہ رہے گا اور اگر وہ اسے زندگی عطا نہیں کریگا.تو کوئی اور ہستی اسے زندہ نہیں رکھ سکتی.میں تو اپنے ایمان کو شک میں ہرگز نہیں ڈالوں گی.بچہ زندہ رہے یا نہ رہے.دو چار روز بعد والدہ صاحبہ نے خواب نہیں دیکھا کہ اُن کے گاؤں کی ایک عورت شکایت کر رہی ہے کہ اس کے بچے کا کلیجہ جے دیوی نے نکال لیا اور کسی نے اُس سے باز پرس نہیں کی.اگر کسی صاحب اقتدار کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا.تو وہ جے دیوی کو ذلیل کر کے گاؤں سے نکال دیتے.والدہ صاحبہ نے خواب میں ہی جواب دیا کہ موت اور حیات تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.جے دیوی کا اس میں کچھ واسطہ نہیں.میرے بچہ کے ساتھ بھی تو بظاہر ایسا ہی واقعہ ہو اتھا.لیکن ہم نے تو جے دیوی کو کچھ نہیں کہا.والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ میرا یہ کہنا ہی تھا کہ خواب میں میں نے دیکھا کہ گویا ایک طرف کوئی کھڑ کی کھولی گئی ہے اور اُس میں سے جے دیوی کا چہرہ نظر آیا اور مجھے مخاطب کر کے جے دیوی نے کہا."اچھا اب کی بار بھی اگر بچے کو زندہ واپس لے گئیں.تو مجھے کھتری کی بیٹی نہ کہنا.چوہڑے کی بیٹی کہنا.والدہ صاحبہ کی دہشت سے آنکھ کھل گئی.دیکھا کہ چراغ گل ہو چکا ہے.والدہ صاحبہ کی عادت تھی کہ وہ اپنے سونے کے کمرے میں ضرور روشنی رکھا کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ جب بھی خواب میں جے دیوی نظر آیا کرتی تھی.تو آنکھ کھلنے پر ہمیشہ کمرہ اندھیرا ہو اکرتا تھا.چنانچہ والدہ صاحبہ نے میری نانی صاحبہ کو آواز دی.جو
کی کمرہ میں ہورہی تھیں.انہوں نے چراغ روشن کیا اور روشنی ہونے پر والدہ صاحبہ نے دیکھا کہ رفیق نے خون کی قے کی ہے اور ساتھ ہی اسے خون کی اجابت بھی ہوئی ہے اور نیم مردہ سا ہو گیا ہے.چنانچہ یہ بہت گھبرا نہیں.اس خیال سے کہ اس کے دادا تو اسے آنے ہی نہیں دیتے تھے اور اب اگر ظفر کی طرح یہ بھی یہیں فوت ہو گیا.تو میرا تو ڈسکہ میں کوئی ٹھکانا نہیں.چنانچہ انہوں نے اصرار کیا کہ ابھی سواری کا انتظام کیا جائے.میں فوراً بچہ کو لے کر ڈسکہ جاتی ہوں.سحری کا وقت تھا.فوراً دو سواریوں کا انتظام کیا گیا اور والدہ صاحبہ اور نانی صاحبہ دو خادموں کے ساتھ رفیق کو اسی حالت میں لے کر دا تا زید کا سے روانہ ہو گئیں.جب کچھ روشنی ہونی شروع ہوئی تو والدہ صاحب نے دیکھا کہ رفیق بالکل مردہ سا ہو رہا ہے اور بظا ہر زندگی کے آثار باقی نہیں ہیں.فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ اس کی موت کا وقت آچکا ہے.لیکن ساتھ ہی مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ قضاء کو بھی ٹال دینے پر قادر ہے.چنانچہ میں نے گھوڑے کی باگ اُس کی گردن پر ڈال دی اور دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا شروع کی کہ یا اللہ تو جانتا ہے کہ مجھے اس بچے کی جان کی فکر نہیں اگر تیری رضا اس کو بلا لینے میں ہی ہے تو میں تیری رضا کو خوشی سے قبول کرتی ہوں لیکن مجھے اپنی آبرو کی فکر ہے.اگر یہ بچہ آج فوت ہو گیا تو میرا ڈسکہ میں کوئی ٹھکانا نہیں.اے ارحم الراحمین تو ہی زندگی موت کا مالک ہے.تو میری زاری کوئن اور اس بچہ کو دس دن کی اور مہلت عطا فرما، تا اس کے دادا اُسے ہنستا کھیلتا دیکھ لیں.دس دن کے بعد پھر تو اسے بلا لیجیو، میں اس کی وفات پر اُف بھی نہ کرونگی.فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ میں نے یوں دعا کی.لیکن میں ابھی دعا ہی کر رہی تھی کہ رفیق نے میرے دوپٹے کو کھینچا اور تندرستی کی آواز میں مجھے پکارا ” بے بئے اور میں نے دیکھا کہ وہ بالکل تندرست حالت میں میری گود میں
۱۳ کھیل رہا ہے.تب مجھے یقین ہو گیا کہ میرے مولی نے میری : عاشن لی اور میرا دل اس کے شکر سے معمور ہو گیا.ڈسکہ پہنچے تو میرے دادا صاحب بہت خوش ہوئے کہ یہ لوگ وعدہ سے پہلے ہی واپس آگئے.پوتے کو گود میں لیا اور پیار کیا اور جنسی جنسی اس سے باتیں کرتے رہے اور اس طرح دن گزرتے گئے.والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ میں دادا پوتے کو خوش خوش دیکھ کر مسکرایا کرتی تھی کہ رفیق تو نہیںیہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت نہیں رہی اور مسکرا رہی ہے.رفیق تو خدا تعالی کی نذر ہو چکا ہوا ہے.چنانچہ پورے دس دن گزرنے پر رفیق پر کھیلتے کھیلتے وہی حالت وارد ہو گئی.جو دا تا زید کا میں ہوئی تھی.اسی طرح اُسے خون آیا اور چند گھنٹوں میں وہ اپنے مولی کے پاس چلا گیا.میر کی والدہ کی گود پھر خالی ہوگئی.لیکن پھر انہوں نے خوشی خوشی اللہ تعالیٰ کی رضا کو قبول کیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ تو نے ایک عاجز انسان کی زاری پر اس کے حال پر رحم فرمایا اور اس کی آبرو کی حفاظت کی.میری پیدائش میری پیدائش 4 فروری ۱۸۹۳ء کو بمقام سیاللوٹ ہوئی.اس سے پہلی رات والدہ صاحبہ نے پھر جے دیوی کو خواب میں دیکھا.اُس نے انہیں بتایا کہ فلاں وقت لڑکا پیدا ہو گا.لیکن ساتھ ہی کہا کہ بعض احتیاطیں ضروری ہیں.ایک تو یہ کہ پیدا ہوتے ہی لڑکے کی ناک چھید دینا اور اونٹ کا بال چھید میں ڈال دینا.دوسرے ایک چراغ آئے اور گھی اور بلدی کا بنا کر کل رات اپنے مکان کی سب سے اوپر کی منزل کی چھت کے اُس کونے پر جہاں چیل بیٹھا کرتی ہے، جلاد بنا.یہ خواب والدہ صاحبہ نے والد صاحب کو بنا دی.میں اُس وقت جو خواب میں بتلا یا گیا تھا.میری پیدائش ہوئی اور والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے دیکھا کہ
۱۴ تمہاری پھوپھی مبارک بی بی نے ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک سوئی تیار کر کے رکھی ہوئی ہے.جس میں دھاگے کی بجائے ایک بال ڈالا ہوا ہے.میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ آپ کی خواب کے مطابق اونٹ کا بال منگوایا گیا ہے.تا کہ بچے کی ناک اس سے چھید دی جائے.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں تو ایسا ہرگز نہیں کرنے دونگی.پھوپھی صاحبہ نے کہا کہ بھائی جان (میرے والد صاحب) فرماتے تھے کہ کوئی ہرج نہیں.جیسے خواب میں کہا گیا ہے.ویسے کر دیا جائے اور ایک چراغ بھی آئے بھی اور ہلدی کا بنالیا گیا ہے.والدہ صاحبہ نے فرمایا یہ سب مشرکانہ باتیں ہیں.میں ہرگز ایسا کرنے کی اجازت نہ دونگی.میرے بچے کو اگر اللہ تعالی زندگی دیگا.تو بچ رہے گا.میں اپنا ایمان ہرگز ضائع نہیں کرونگی.چنانچہ اونٹ کا بال اور چراغ دونوں پھینک دیئے گئے اور نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنا ایمان پھر محفوظ رکھا.جے دیوی نے کافی لمبی عمر پائی.لیکن بے چاری کی زندگی مصیبت ہی میں گزری.لوگوں نے چڑیل مشہور کر رکھا تھا.اس لئے اکثر لوگ اُسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور جب وہ ضعیف ہوگئی.تو کھانے پینے کو بھی محتاج ہوگئی اور کوئی شخص حتی الوسع اُس کے نزدیک نہیں جاتا تھا.حتی کہ اُس کی آخری بیماری میں اُسے پانی پلانے والا بھی کوئی نہیں ملتا تھا اور وہ کچھ دن بہت تکلیف اور کرب کی حالت میں پڑی رہی.آخر تنگ آکر اُس نے اپنی چار پائی کو آگ لگادی اور اُسی آگ میں جل کر مر گئی.دادا صاحب کی وفات جب میرے دادا صاحب کی وفات ہوئی.اُس وقت میری عمر پورے پانچ برس کی تھی.اُن کی بیماری میں میرے والد صاحب ہر روز شام کو ڈسکہ چلے جایا کرتے
۱۵ تھے اور صبح کچہری کے کام کے لئے واپس سیالکوٹ آ جایا کرتے تھے.ڈسکھ اور سیالکوٹ کے درمیان سیدھی سڑک سے ۱۶ میل کا فاصلہ ہے.چونکہ یہ سڑک بچی ہے.اس لئے والد صاحب گھوڑے پر ید سفر کیا کرتے تھے.گویا اُن دنوں ہر روز سردی میں (فروری کا مہینہ تھا ) ۳۲ میل سواری کیا کرتے تھے اور تمام دن کچہری میں کام بھی کیا کرتے تھے.اس کے علاوہ گھر پر بھی مقدمات کی تیاری کے لئے وقت نکالتے ہوں گے.جس دن ہمارے دادا صاحب کی وفات ہوئی.اُس دن والد صاحب اُن کے پاس ڈسکہ ہی میں تھے.ہماری والدہ صاحبہ اور ہم تین بچے (میں اور ہماری ہمشیرہ صاحبہ اور عزیز شکر اللہ خان سیالکوٹ میں تھے.ہمیں تارکے ذریعہ یہ خبر لی اور والدہ صاحبہ ہمیں لے کر اُسی وقت ڈسکہ روانہ ہوگئیں.جب ہم ڈسکہ پہنچے.تو ہمارے گھر میں اور مہمان خانہ میں ایک بہت بڑا ہجوم تھا اور دادا صاحب کے جنازہ کے ساتھ اس قد را نبوہ خلقت کا تھا کہ بازار میں سے گزرنے پر لوگوں کو دکا نہیں بند کرنی پڑیں.دادا صاحب کی وفات ہمارے خاندان کے لیئے بہت بڑا صدمہ تھا اور چونکہ والدہ صاحبہ کے ساتھ انہیں خاص محبت اور شفقت کا تعلق تھا.اس لئے والدہ صاحبہ نے اس صدمہ کو بہت محسوس کیا اور جیسا ان ایام میں رواج تھا.اُن کے ماتم میں بہت بڑھ کر حصہ لیا.میں ذکر کر چکا ہوں کہ ہمارے دادا صاحب کو ایسی رسوم سے سخت نفرت تھی.چنانچہ کچھ عرصہ اُن کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ نے انہیں خواب میں دیکھا اور اُنہوں نے والدہ صاحبہ کو ساتھ لے جا کر جہنم کا ایک نظارہ دکھایا.جہاں چند عورتوں کو دردناک عذاب دیا جارہا تھا اور بتایا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو ماتم کیا کرتی تھیں اور جزع فزع کرتی تھیں.آپ اس نظارہ سے عبرت حاصل کریں اور ایسی باتوں ہے آئندہ کے لئے تو بہ کریں اور پھر دادا صاحب والدہ صاحبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے مزار پر لے گئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مزار دکھایا.یہ دونوں مزار ایک باغ میں نظر آتے تھے اور اُن کے سرہانے ایک فوارہ نہایت شفاف پانی کا چل رہا تھا.والدہ صاحبہ نے اس فوارے کے پانی کے ساتھ وضو کیا اور آئندہ کے لئے اپنی اس کمزوری سے توبہ کی.اس کے تھوڑا عرصہ بعد ہمارے قریبی رشتہ داروں میں کوئی اور موت ہوگئی اور والدہ صاحبہ کو ماتم پرسی کے لئے جانا پڑا اور اگر چہ اب ان کو خواب میں کافی تنبیہ ہو چکی تھی اور اُن کی طبیعت ما تم وغیرہ کی رسوم سے نفرت بھی کرنے لگ گئی تھی اور ڈرتی بھی تھیں.لیکن پھر بھی بوجہ قریبی رشتہ داری کے اور شرکاء کے ملعن و تشنیع کے خوف سے ان رسوم سے بکلی پرہیز نہ کرسکیں.اس کے بعد انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کا جسم بیشمار چیونٹیوں سے لتھڑا ہوا ہے اور وہ ان سے نجات حاصل کرنے کی بہت کوشش کرتی ہیں.لیکن کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوتی.جس قدر چیونٹیوں کو وہ جسم سے اتار کر چھینکتی ہیں.اس.زیادہ اور ان کو چمٹ جاتی ہیں.اس وحشت اور کرب میں اُن کی نیند کھل گئی اور پھر پے درپے کئی دفعہ اُن کے ساتھ خواب میں یہی کیفیت گزری.انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ اس امر کی سزا ہے کہ میں تو بہ کرنے کے بعد اپنی تو بہ پر پورے طور پر قائم نہ رہ سکی.چنانچہ انہوں نے بہت استغفار کیا اور اپنی تو بہ کا اعادہ کیا اور اس حالت پر چند دن گزرنے کے بعد پھر اُسی حالت میں ہمارے دادا صاحب کو خواب میں دیکھا.انہوں نے فرمایا.آپ نے بہت غلطی کی کہ تو بہ کے بعد پھر ایسی باتوں میں شمولیت لی.اب آپ نے دوبارہ تو بہ کی ہے.اس پر آپ مضبوطی سے قائم رہیں اور ایک چه در انہوں نے والدہ صاحبہ کو دی اور ایک شفاف تالاب کی طرف اشارہ کیا کہ آپ جا کر اس چادر کا پردہ کر کے اس تالاب میں غسل کر لیں.والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ جب نہیں اُس تالاب میں داخل ہوئی.تو اس کے پانی کو نہایت شفاف اور
12 خوشگوار پایا اور جوں جوں میں اُس تالاب میں آگے بڑھتی جاتی تھی.چیونٹیاں میرے جسم سے اترتی جاتی تھیں اور میرا جسم بالکل صاف اور بلکا ہوتا جا تا تھا.اس خواب سے بیدار ہونے پر میں نے اللہ تعالی کا بہت بہت شکر کیا اور اپنے دل سے عہد کیا کہ اب ہرگز ان باتوں میں حصہ نہ لوں گی اور اس کے بعد مجھے آرام سے نیند آنے لگی.کچھ عرصہ بعد ہمارے چچا صاحب کا بڑا بیٹا فوت ہو گیا اور ہماری والدہ کو پھر ان رسوم میں تھوڑا بہت حصہ لینا پڑا.اب کی بار انہوں نے خواب میں دیکھنا شروع کیا کہ دو بیل لیے سینگوں والے ان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ اُن سے بھاگتی پھرتی ہیں.لیکن کہیں جائے مفر نہیں اور بعض دفعہ وہ حملہ کر بھی دیتے ہیں اور ان کے جسم کو اپنے سینگوں سے زخمی کر دیتے ہیں.ہر دفعہ سونے پر ان کی یہی کیفیت ہوتی اور چند منٹ میں اُن کی آنکھ کھل جاتی.اس طور پر گویا نیند حرام ہو گئی اور رات زاری اور دعاؤں میں گزرتی.والد صاحب بھی اُن کے لئے بہت دعائیں کرتے.لیکن یہ کیفیت پورا ایک مہینہ متواتر جاری رہی.آخر مبینہ بھر کے استغفار اور دعاؤں کے بعد پھر والدہ صاحبہ نے دادا صاحب کو خواب میں دیکھا.انہوں نے انہیں سخت تنبیہ کی اور فرمایا کہ اب آئندہ کے لئے تو بہ کا دروازہ بند ہے.اگر پھر آپ نے یہ جرم کیا.تو توبہ قبول نہیں ہوگی اور انہوں نے بیلوں کو روک دیا اور والدہ صاحبہ سے فرمایا.اب بے فکر گزرجائیں.لیکن ابھی ایک اور امتحان باقی تھا.اس آخری تو بہ کے تھوڑے عرصہ کے اندر ہماری بڑی پھوپھی صاحبہ کا بڑا فرزند فوت ہو گیا اور والدہ صاحبہ ہماری داد کی صاحبہ، بچی صاحبہ اور ڈسکہ کی اور چند عورتوں کی ہمراہی میں ہماری پھوپھی صاحبہ کے ہاں ہمدردی اور اظہار افسوس کے لئے گئیں.ان دنوں ہمارے دیہات میں رواج ہو اکرتا تھا کہ قریبی رشتہ دار عورتوں کے
IA ماتم پرسی کے لئے آنے پر ایک کہرام مچ جایا کرتا تھا اور بہت واویلا ہو ا کرتا تھا اور جس گاؤں میں ماتم ہو ا کرتا تھا.وہاں کی عورتیں ان قافلوں کی آمد پر اپنے مکانوں کی چھتوں پر سے ان کا واویلا سنا کرتی تھیں.چنانچہ اس موقعہ پر بھی جب ہمارے خاندان کی عورتیں ہماری پھوپھی صاحبہ کے گاؤں کے قریب پہنچیں.تو انہوں نے دیکھا کہ گاؤں کی عورتیں اس انتظار میں اپنے مکانوں کی چھتوں پر بیٹھی ہیں کہ اُن کا واویلا سنیں.والدہ صاحبہ نے اپنی ہمراہی عورتوں سے درخواست کی کہ وہ مطلق واویلا نہ کریں اور بالکل خامشی سے پھوپھی صاحبہ کے مکان پر پہنچ جا ئیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.لیکن جب وہ گلی میں داخل ہوئیں.تو ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر جمع شدہ عورتوں میں سے بعض نے انہیں طنز کرنے شروع کئے اور کہا: بی بیو ہنستی ہوئی چلی جاؤ“.والدہ صاحبہ اور ان کی ساتھ کی عورتوں نے صبر ہے یہ سب کچھ سنا اور برداشت کیا اور خاموشی سے پھوپھی صاحبہ کے مکان کے اندر داخل ہو گئیں.وہاں پہنچ کر بھی والدہ صاحبہ نے کسی رسم یا کسی قسم کی جزع فزع میں حصہ نہیں لیا اور اس امتحان میں اللہ تعالیٰ نے انہیں پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائی.اس کے بعد والدہ صاحبہ اللہ تعالٰی کے فضل سے پوری مضبوطی سے اپنے عہد پر قائم رہیں.یہ زمانہ والدہ صاحبہ کا احمدیت سے پہلے کا زمانہ تھا.اس زمانے میں والدہ صاحبہ کو خواب اور رویا میں اکثر دادا صاحب ہی نظر آیا کرتے تھے اور انہی کے ذریعہ اُن کی روحانی اور اخلاقی تربیت ہوئی تھی اور زیادہ تر ان ہی کے ذریعہ بشارات حاصل ہوتی تھیں.چنانچہ ۱۹۰۳ ء کا ذکر ہے کہ والدہ صاحبہ نے دادا صاحب کو خواب میں دیکھا اور اُن سے کہا کہ میرے پاس یہ ایک روپیہ داغدار ہے اسے بدل دیجئے.انہوں نے وہ
19 وپیہ لے لیا اور اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر والدہ صاحبہ کو دیا اور کہا.میرے پاس اب یہ ایک ہی روپیہ ہے یہ لے لیجئے.لیکن یہ محمد شاہی روپیہ ہے.اس پر کلمہ کندہ ہے.اس کی بے ادبی نہ ہو.اس خواب کے بعد والدہ صاحبہ کو یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک اور فرزند عطا کریگا.لیکن ساتھ ہی یہ فکر تھی کہ ہمارا ایک بھائی حمد اللہ خاں جو عزیز شکر اللہ خاں سے چھوٹا اور عزیز عبد اللہ خاں سے بڑا تھا اور جس کی صحت اچھی نہیں رہتی تھی اور کمزور سا تھا فوت ، وجائے گا.چنانچہ چند ماہ بعد عزیز اسد اللہ خاں پیدا ہو ااور اس کے پیدا ہونے کے کچھ ماہ بعد حمد اللہ خال خسرہ سے بیمار ہوا اور چند دن بیمار رہ کر فوت ہو گیا.والدہ صاحبہ نے اس موقعہ پر بھی نہایت صبر سے کام لیا اور کوئی کلمہ تک منہ سے نہیں نکالا.جو اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا موجب ہوتا.حمد اللہ خاں فجر کے وقت فوت ہو اور دس بجے سے قبل اس کی تیز تکلمین اور تد فین سے فارغ ہو کر والد صاحب حسب معمول مقدمات کی پیروی کے لئے کچھری چلے گئے اور ہمیں بھی وقت پر تیار کر کے مدرسہ بھیج دیا گیا.گھر میں احمدیت کا چرچا اس زمانہ میں ہمارے نانا صاحب اور ماموں صاحب احمدی ہو چکے تھے.والد صاحب بھی الحکم منگوایا کرتے تھے اور سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے درس قرآن کریم میں شامل ہوا کرتے تھے.مولوی مبارک علی صاحب کے احمد کی ہو جانے کے چند سال بعد چھاؤنی سیالکوٹ کے بعض غیر احمد کی اشخاص نے جمعہ مسجد چھاؤنی سیالکوٹ کی امامت اور تولیت سے مولوی مبارک علی صاحب کو علیحدہ کرنے کے لئے مقدمہ دائر کر دیا تھا اور جماعت احمد یہ سیالکوٹ نے والد صاحب کو مولوی مبارک علی صاحب کی طرف سے متقدمہ کی پیروی کرنے کے لئے وکیل مقرر کیا تھا.
اس مقدمہ کی کماحقہ پیروی کرنے کی خاطر والد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی کا اور سلسلہ ے لٹریچر کا بالتفصیل مطالعہ کرنا پڑا اور عدالت میں جماعت احمدیہ کے عقائد حمایت کرنی پڑی.جس کے نتیجہ میں ان کی طبیعت احمدیت سے بہت حد تک متاثر ہو چکی تھی.غالباً ۱۹۰۴ء میں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے مولوی کرم دین والے مقدمہ میں گورداسپور بطور گواہ صفائی بھی طلب کیا گیا تھا.وہاں اول بار انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں شرف باریابی حاصل ہوا تھا اور وہ بہت خوشگوار اثر لے کر واپس آئے تھے.مجھے یاد ہے کہ والد صاحب کے گورداسپور سے واپس آنے کے بعد کئی دن تک لوگ ہمارے ہاں آیا کرتے تھے اور والد صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے اور سہ پہر سے شام تک گفتگو میں زیادہ تر یہی تذکر ہ رہا کرتا تھا.۳ ستمبر ۱۹۰۴ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لیکچر لاہور میلیا رام کے منڈوے میں تھا.والد صاحب اس موقعہ پر لاہور تشریف لے گئے اور مجھے بھی ساتھ لے گئے.میری عمر اس وقت : 11 سال کی تھی.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی زیارت اول باراتی موقعہ پر کی اور جیسے میں نے ایک مضمون میں جو الفضل میں چھپ چکا ہے، واضح کیا ہے.میں بفضل تعالیٰ اُسی دن سے احمدی ہوں.گو میں نے بیعت تین سال بعد کی.احمدیت کے متعلق رویا اس دوران میں والدہ صاحبہ کو احمدیت یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے دعاوی کا کوئی تفصیلی علم نہیں تھا.حتی کہ حضور کے نام سے بھی واقفیت نہیں تھی.
۲۱ ۱۹۰۴ء کے دوران انہوں نے بعض رویا دیکھے.جن کی بناء پر انہیں تمبر ۱۹۰۴ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا شرف حاصل ہوا.اس سلسلہ میں پہلا رویا جو آپ نے دیکھا یہ تھا کہ بازار میں بہت رونق ہے اور لوگ خوشنما لباس پہن کر کہیں جارہے ہیں.والدہ صاحبہ نے دریافت کیا.تو معلوم ہوا کہ کسی نظارہ کو دیکھنے جارہے ہیں.والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے کہا کہ آپ بھی اپنی گاڑی تیار کرائیں.تا ہم بھی جا کر یہ نظارہ دیکھیں.چنانچہ والد صاحب نے گاڑی تیار کروائی اور یہ دونوں بھی گاڑی میں سوار ہو کر روانہ ہو گئے.والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ جب ہم چوہدری محمد امین صاحب ( حال ایڈووکیٹ شیخو پورہ) کے مکان کے مقابل پر پہنچے.تو انہوں نے تمہارے والد کو آواز دے کر بلا لیا اور تمہارے والد وہاں رک گئے اور میں اکیلی اُس میدان کی طرف چلی گئی.جہاں لوگ جمع ہو رہے تھے.وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ خلقت کا بہت ہجوم ہے.حتی کہ درختوں کی ٹہنیوں سے بھی لوگ لٹک رہے ہیں.لیکن وسط میں جگہ خالی ہے اور ایک جھولا درمیان میں لٹک رہا ہے.جس کی رسیاں آسمان میں جا کر غائب ہو جاتی ہیں.اس جھولے پر ایک کپڑا پر دے کے طور پر لٹک رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پردے کے نیچے کوئی انسان ہے.لیکن وہ نظر نہیں آتا.میدان کے ایک طرف ایک گیلری کے طور پر نشستیں بنی ہوئی تھیں.جن پر میں نے دیکھا کہ ایک مقام پر دو آدمیوں کی جگہ خالی ہے.میں وہاں جا کر بیٹھ گئی اور خالی حصہ کو بھی روک لیا..جب کوئی شخص اس حصہ پر بیٹھنا چاہتا.میں اسے یہ کہہ کر روک لیتی کہ یہ میرے ساتھی کی جگہ ہے.میں اس انتظار میں تھی کہ تمہارے والد صاحب آجائیں اور خالی جگہ پر بیٹھ جا میں.تھوڑی دیر کے بعد وہ جھولا شرقا غر باجھولنا شروع ہوا اور اُس سے ایک نور نکلنا شروع ہوا.جوں جوں جھولا زور پکڑتا تھا.یہ نور بھی بڑھتا جاتا تھا اور جس طرف کو یہ
۲۲ جھولا جاتا.اُس طرف کے لوگ جوش سے پکارتے تھے.صدقے یا رسول اللہ آخر یہ جھولا اس زور سے جھولنے لگا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ زمین کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک حرکت کرتا ہے.دوسرار و یا والدہ صاحبہ نے یہ دیکھا کہ صبح چار بجے کے قریب مکہ معظمہ جانے کی تیاری کر رہی ہیں اور یوں محسوس کیا ہے کہ اس وقت سفر شروع کیا ہے اور سہ پہر کے چار بجے کے قریب دیکھا کہ یکہ جس میں سوار ہیں.ایک بڑھ کے درخت کے قریب کھڑا کر دیا گیا ہے.انہوں نے یکہ بان سے کہا کہ میں تو مکہ جانا چاہتی ہوں.اس نے کہا یہی مکہ ہے جہاں آپ پہنچ گئی ہیں.فرماتی تھیں میں حیران ہوئی کہ اس قدر جلد مکہ کیسے پہنچ گئی.فجر کے وقت سفر شروع کیا تھا اور عصر کے وقت ختم ہو گیا.اس حیرانی میں میں یکہ سے اتر کر ایک بازار سے گزر کر ایک گلی میں سے ہوتی ہوئی ایک مکان میں داخل ہوئی اور پہلی منزل پر چلی گئی.وہاں دیکھا کہ محن میں ایک تخت پوش بچھا ہوا ہے اور اُس پر ایک تعلیم کتاب رجسٹر کی طرز کی رکھی ہوئی ہے اور ساتھ ایک بکس ہے جس کے اوپر کے ڈھکنے میں ایک سوراخ ہے.میں نے اُس سوراخ کے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر اور اپنا منہ اس سُوراخ کے قریب کر کے تین بار بلند آواز سے کہا.یا اللہ میرے گناہ بخش “ اور پھر خود ہی دریافت کیا.” بخشو گے؟ تو بلند آواز سے جواب ملا : میں صاحب بخشش ہوں بخشوں گا اگر تمہارا نام اس رجسٹر میں درج ہو اتو “ میں نے خواب میں خیال کیا کہ شاید یہ رجسٹر پیدائش اور اموات کے اندراجات کا ہے اور فکر کرنے لگی کہ معلوم نہیں چوکیدار نے میری پیدائش کے وقت میرا نام درج کرایا تھا یا نہیں.پھر میری نیند کھل گئی.یہ رویا دیکھنے کے تھوڑا عرصہ بعد والدہ صاحبہ دا تازید کا تشریف لے گئیں اور
۲۳ وہاں اس رؤیا کا ذکر کرنے پر ہمارے نانا صاحب نے فرمایا کہ تم نے یہ قادیان کا نظارہ دیکھا ہے.تمہیں چاہئے کہ حضرت میرزا صاحب کی بیعت کر لو.والدہ صاحبہ نے کہا کہ جس بزرگ کا آپ ذکر کرتے ہیں.اگر وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.تو اللہ تعالی ضرور مجھے اُن کی زیارت نصیب کریگا.ار ان کی صداقت مجھ پرکھول دیگا.رویا میں حضرت مسیح موعود کی زیارت سیالکوٹ واپس آنے کے تھوڑا عرصہ بعد انہوں نے پھر ایک رؤیا دیکھا کہ رات کے وقت اپنے مکان کے مچن میں اس طور پر انتظام میں مصروف ہیں کہ گویا بہت سے مہمانوں کی آمد کی توقع ہے.اسی دوران میں دالان کے اندر جانے کا اتفاق ہوا.تو دیکھا کہ مغرب کی طرف کی کوٹھڑی میں بہت اُجالا ہو رہا ہے.حیران ہوئیں کہ وہاں تو کوئی لیمپ وغیرہ نہیں یہ روشنی کیسی ہے.چنانچہ آگے بڑھیں تو دیکھا کہ کمرہ روشنی سے دمک رہا ہے اور ایک پلنگ پر ایک نورانی صورت بزرگ تشریف فرما ہیں اور ایک نوٹ بک میں کچھ تحریر فرما رہے ہیں.والدہ صاحبہ کمرہ میں داخل ہو کر اُن کی پیٹھ کی طرف کھڑی ہو گئیں.جب انہوں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص کمرہ کے اندر آیا ہے.تو انہوں نے اپنا جوتا پہنے کے لئے پاؤں پلنگ سے نیچے اُتارے.گویا کمرہ سے چلے جانے کی تیاری کرنے لگے ہیں.والدہ صاحبہ نے عرض کی."یا حضرت مجھے تمام عمر میں کبھی اس قدر خوشی محسوس نہیں ہوئی.جس قدر آج میں محسوس کر رہی ہوں.آپ تھوڑی دیر تو اور تشریف رکھیں.چنا نچہ وہ بزرگ تھوڑی دیر اور ٹھہر گئے اور پھر جب تشریف لے جانے لگے.تو والدہ صاحبہ نے دریافت کیا.”یا حضرت اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہیں کون بزرگ ملے ہیں.تو میں کیا بتاؤں؟“ انہوں نے دائیں کندھے کے اوپر سے پیچھے کی طرف دیکھ کر اور دایاں بازو اٹھا کر جواب دیا:
اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کون ملے ہیں تو کہیں احمد ملے میں".اس پر والدہ صاحبہ بیدار ہو میں ہمارے ماموں صاحب بھی اُس دن سیالکوٹ ہی میں تھے.والدہ صاحبہ نے اس رؤیا کا ذکر والد صاحب اور ماموں صاحب سے کیا.ماموں صاحب نے فرمایا.یہ تو میرزا صاحب تھے.والدہ صاحبہ نے کہا.انہوں نے اپنا نام میرزا صاحب تو نہیں بتایا احمد بتایا ہے.ماموں صاحب نے فرمایا.میرزا صاحب کا نام غلام احمد ہے اور والدہ صاحبہ سے کہا.آپ دعا کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ آپ پر حق کھول دیگا.چند دن کے اندر ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیالکوٹ تشریف آوری کے متعلق اطلاع مل گئی.والدہ صاحبہ نے پھر رویا میں دیکھا کہ بعض سڑکوں پر سے گزر کر وہ ایک مسقف گلی کے نیچے سے ہوتی ہوئی ایک مکان پر پہنچی ہیں اور اس کی پہلی منزل پر پھر اُنہی بزرگ کو دیکھا اور انہوں نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ اتنی بار دیکھنے کے بعد بھی آپ کو یقین نہیں آیا ؟ تو والدہ صاحبہ نے عرض کی.الحمد للہ میں ایمان لے آتی ہوں.حضرت مسیح موعود کی سیا لکوٹ میں تشریف آوری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیالکوٹ تشریف آوری اُس شہر کے لئے تا ابد باعث فخر و امتیاز رہے گی.حضور کا دور ود عین مغرب کے بعد ہوا.سٹیشن پر خلقت کا اس قدر ہجوم تھا کہ پلیٹ فارم پر اس ہجوم کو کسی انتظام کے ماتحت لانا مشکل ہو جاتا.اس لئے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ جس گاڑی میں حضور اور حضور کے اہل بیت اور رفقاء سفر کر رہے تھے.اسے کاٹ کر مال گودام کے پلیٹ فارم پر پہنچادیا گیا.نال گودام کا وسیع احاطہ کھچا کھیچ خلقت سے بھر اہو اتھا اور اس کے باہر سڑک پر بھی خلقت جمع تھی سٹیشن پر اور اُن بازاروں میں جہاں سے حضور کی سواری گزرتی تھی.پولیس کا
۲۵ خاطر خواہ انتظام تھا.سپرنٹنڈنٹ پولیس اور اکثر حکام ضلع اور آنریری مجسٹریٹ انتظام کی نگرانی کے لئے موجود تھے.بازاروں میں اور مکانوں کی کھڑکیوں اور چھتوں پر کثرت سے لوگ موجود تھے.اکثر تو ان میں سے زائر یا تماشہ مین تھے.بعض مخالف بھی تھے.مخالف علماء اور سجادہ نشینوں نے ہر چندلوگوں کو روکنے کی کوشش کی کی تھی کہ حضور کے استقبال یا زیارت کے لئے نہ جائیں.لیکن یہ مخالفت خود اس ہجوم کے بڑھانے میں محمد ہوگئی.خاکسار بھی والد صاحب کے ہمراہ سٹیشن پر گیا.لیکن ہجوم کی کثرت کی وجہ سے ہمیں حضور کی گاڑی کے قریب پہنچنے کا موقعہ نہ ملا.دُور سے اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے استقبال کا نظارہ دیکھتے رہے اور جب حضور کی سواری ایک جلوس کی صورت میں سٹیشن سے روانہ ہوگئی.تو ہم واپس آگئے.لیکن میرے ماموں صاحب جلوس کے ساتھ ساتھ گئے اور حضور کے اپنے جائے قیام پر پہنچ جانے کے بعد گھر واپس آئے اور اُن سے ہم نے تفصیل کے ساتھ وہ واقعات سنے.جو حضور اور حضور کے رفقاء کوٹیشن سے لے کر حضور کی قیام گاہ تک پیش آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع اپنے اہل بیت اور افراد خاندان کے حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے ا، حضرت خلیفہ اسیج اول رضی اللہ عنہ کا قیام بابو عبد العزیز صاحب مرحوم کے مکان : قرار پایا.والدہ صاحبہ کا احمدی ہونا دوسری صبح ہی والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے اجازت طلب کی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوں.والد صاحب نے اجازت دیدی.لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ آپ دیکھ آئیں.لیکن بیعت نہ کریں.میں بھی
۲۶ تحقیقات میں لگا ہو ا ہوں.آخری فیصلہ اکٹھے سوچ کر کرینگے.والدہ صاحبہ نے کہا کہ اگر تو یہ وہی بزرگ ہیں.جنہیں میں نے خواب میں دیکھا ہے.تو پھر تو میں بیعت میں تا خیر نہیں کر سکتی.کیونکہ میں خواب میں اقرار کر چکی ہوں اور تاخیر سے میرا عہد ٹوٹتا ہے اور اگر یہ وہ نہیں ہیں.تو پھر آپ تحقیقات کرتے رہیں میں بھی غور کر لوں گی.والد صاحب نے پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی قطعی فیصلہ بغیر مزید مشورہ کے نہ کریں اور یہ نصیحت کر کے کچہری چلے گئے.والدہ صاحبہ دو پہر کے کھانے کے بعد بصد شوق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فرودگاہ کی طرف روانہ ہوئیں.رستہ سے مکان کی ہیئت سے والدہ صاحبہ نے پہچان لیا کہ یہ وہی مکان ہے.جو انہوں نے خواب میں دیکھا تھا.جب والدہ صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں شرف باریابی کے لئے حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے مکان پر حاضر ہوئیں.تو خاکسار بھی ان کے ہمراہ تھا.حضرت ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر انہوں نے عرض کی کہ حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوئی ہوں.حضور اس وقت مکان کی چھت پر تشریف رکھتے تھے.وہ غالبا لیکچر سیالکوٹ کی تیاری میں مصروف تھے.حضور نے کہلا بھیجا کہ تھوڑی دیر میں تشریف لائیں گے.تھوڑے ہی وقفہ کے بعد حضور تشریف لے آئے اور ایک پلنگ پر جو وسط صحن میں بچھا ہوا تھا، تشریف فرما ہوئے.والدہ صاحبہ چند دیگر مستورات کے ساتھ ایک چوبی تخت پوش پر جو اس پلنگ کے قریب دو گز کے فاصلہ پر بچھا ہوا تھا، میٹھی تھیں.حضور پلنگ پر تشریف فرما ہو گئے.تو والدہ صاحبہ نے عرض کیا.”حضور میں بیعت کرنا چاہتی ہوں.حضور نے فرمایا.بہت اچھا اور والدہ صاحبہ نے بیعت کر لی.یہ وقت ظہر کا تھا.مکان پر واپس پہنچ کر والدہ صاحبہ نے مجھے کچھ اچار دیا اور کہا کہ یہ جا کر حضرت
۲۷ اُم المومنین کی خدمت میں پہنچا دو.کیونکہ آپ نے اچار سے رغبت ظاہر کی تھی اور والدہ صاحبہ نے عرض کیا تھا کہ ہمارے ہاں بہت عمدہ اچار موجود ہے.جب والد صاحب کچہری سے واپس آئے.تو انہوں نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا.” کیا آپ میرزا صاحب کی زیارت کے لئے گئے تھے؟‘ والدہ صاحبہ نے جواب دیا.” گئی تھی.والد صاحب نے پوچھا.” بیعت تو نہیں کی ؟“ والدہ صاحبہ نے سینہ پر ہاتھ کر کہا.الحمد للہ کہ میں نے بیعت کر لی ہے.اس پر والد صاحب نے کچھ رنج کا اظہار کیا.والدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے.اس میں آپ کی خفگی مجھ پر کوئی اثر نہیں کرسکتی.اگر یہ امر آپ کو بہت ناگوار ہے.تو آپ جو چاہیں فیصلہ کر دیں.جس خدا ئے اب تک میری حفاظت اور پرورش کا سامان کیا ہے وہ آئندہ بھی کریگا.ممکن ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے قیام سیالکوٹ کے دوران میں والدہ صاحبہ کو اس کے بعد بھی حضور کی زیارت نصیب ہوئی ہو.لیکن حضور کے سیالکوٹ سے واپس تشریف لے جانے کے بعد والدہ صاحبہ کو پھر کوئی موقعہ حضور کی حیات میں حضور کی زیارت کا میسر نہیں آیا.دراصل تو انہوں نے عہد اخلاص دو فار ڈیا میں ہی باندھا.پھر بیعت کے الفاظ میں اس کی تجدید کی اور اس کی ظاہری شہادت قائم کی اور پھر آخرمی سانس تک اُسے اس طریق سے نباہا کہ جیسے اُس کا حق تھا.بیعت کے بعد ہر دن جو اُن پر چڑھا بلکہ ہرلحظہ جوان پرگز را، وہ اُن کے ایمان اور اخلاص کی ترقی پر شاہد ہوا.اُن کا ایمان شروع ہی سے عشق کی جھلک اپنے اندر رکھتا تھا اور رفتہ رفتہ اس عشق نے اس قدر ترقی کی کہ انہیں ہر بات میں ہی اللہ تعالیٰ کا جلال اور قدرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت نظر آتی تھی.بیعت کے بعد اُن کے عمل میں بھی جلد جلد تبدیلی ہوتی گئی.اصل تربیت تو اُن کی اللہ تعالی نے رویا اور کشوف کے ذریعہ ہی جاری رکھی.لیکن ظاہر میں بھی جب کبھی
۲۸ کوئی حکم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا حضور کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ عنہ یا اُن کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا اُن تک پہنچ جاتا.وہ فورا مستعدی سے اس پر عمل پیرا ہو جاتیں.اُن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے طبیعت بالکل جادہ تسلیم و رضا پر چلنے والی عطا فرمائی تھی.اُن کی طبیعت میں ان امور کے متعلق چون و چرا پیدا ہوتا ہی نہیں تھا.والد صاحب کا قبول احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے سیالکوٹ تشریف آوری کیے وقت تک والد صاحب کی طبیعت بھی بہت حد تک احمدیت کی طرف راغب ہو چکی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ اب آخری فیصلہ کا وقت آ پہنچا ہے.ان دنوں اُن کی صحبت بہت حد تک چوہدری محمد امین صاحب کے ساتھ رہا کرتی تھی اور وہ خواہش رکھتے تھے کہ چوہدری محمد امین صاحب اور وہ اکٹھے فیصلہ کریں.جب والد صاحب نے چوہدری محمد امین صاحب کے ساتھ مشورہ کیا.تو چوہدری صاحب نے فرمایا کہ میرے دل میں کچھ شکوک ہیں.میں چاہتا ہوں کہ انہیں صاف کیا جائے.چنانچہ حضرت خلیفہ ابیج اول رضی اللہ عنہ کے ساتھ طے ہوا کہ یہ دونوں مغرب کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہو جایا کریں اور چوہدری محمد امین صاحب اپنے شکوک اور اعتراضات صاف کرلیں.خاکسار بھی مغرب کے بعد اس مختصہ مجلس میں والد صاحب کے ہمراہ حاضر ہوا کرتا تھا.تین چار دن کے بعد چوہدری محمد امین صاحب نے والد صاحب کے پاس تسلیم کیا کہ اُن کے اعتراضات کا جواب تو مل گیا ہے چنانچہ والد صاحب نے فرمایا کہ پھر کل بیعت کر لیں گے.لیکن دوسری صبح جب والد صاحب چوہدری محمد امین صاحب کے مکان پر پہنچے اور اُن سے کہا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کے
لئے چلیں.تو چوہدری صاحب نے فرمایا کہ انہیں انشراح صدر نہیں.چنانچہ والد صاحب اُن کے بغیر ہی حضرت اقدس کی خدمت میں تشریف لے گئے اور بیعت کر لی.اس موقعہ پر بھی خاکسار ان کے ہمراہ تھا.یہ دن غالباً اکتوبر کے پہلے دو تین دنوں میں سے تھا اور وقت فجر کی نماز کے بعد کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قیام سیالکوٹ کے دوران میں کثرت سے لوگوں نے بیعت کی.لیکن مولوی فیض الدین صاحب مرحوم اور والد صاحب کے سلسلہ میں شامل ہونے کا سیالکوٹ میں بہت چر چاہو ا.اس کے قریباً ایک سال بعد یعنی تمبر ۱۹۹۵ء میں والد صاحب پہلی دفعہ دار الامان حاضر ہوئے اور خاکسار کو بھی ساتھ لیتے گئے.بعد میں اُن کا یہ معمول رہا کہ جب تک وہ سیالکوٹ پر میٹس کرتے رہے.ستمبر کی تعطیلات کا کچھ حصہ دارالامان میں گزارا کرتے تھے اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے بھی حاضر ہو ا کرتے تھے.خاکسار بھی ان اوقات میں عموما ان کے ہمراہ قادیان حاضر ہو ا کرتا تھا.والدہ صاحبہ کی مجھ سے محبت والدہ صاحبہ کا دل نہایت ہی نرم اور تحقیق تھا اور خاص طور پر خا کسبار اس شفقت کا مورد تھا.کچھ تو اس لحاظ سے والدہ صاحبہ کو خاکسار کے ساتھ خاص اُنس تھا کہ پانچ بچوں کی وفات کے بعد خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے رشد تک پہنچنے کی مہلت عطا فرمائی اور کچھ اس وجہ سے کہ چھوٹی عمر میں ہی خاکسار کو آشوب چشم کا عارضہ ہو گیا اور اس کی یہ کیفیت ہو گئی کہ دس سال کی عمر سے لے کر سولہ سال کی عمر تک گرمیوں میں خاکسار بہت کم باہر نکل سکتا تھا اور بعض دفعہ ہفتوں اندھیرے کمرے میں گزارنے پڑتے تھے.اس تمام عرصہ میں والدہ صاحبہ اکثر خاکسار کے ساتھ رہا کرتی تھیں.اس طرح خاکسار کو ان کی صحبت بھی خصوصیت سے میسر آتی رہی اور پھر دل را بدل رہیست کے
ماتحت خاکسار کو بھی معمول سے بڑھ کر ان سے محبت ہوتی گئی.یوں تو اُن کا دل محبت اور شفقت کا ایک جاری چشمہ تھا.جو اپنے اور پرائے کا امتیاز نہ جانتا تھا اور اپنے تمام متعلقین اور خصوصیت سے اپنی تمام اولاد کے ساتھ تو انہیں محبت کا گہرا تعلق تھا.لیکن خاکسار کے اور والدہ صاحبہ کے درمیان جو رشتہ تھا.اُس کی کیفیات کو ہمارے دو دل ہی جانتے تھے.والدہ صاحبہ کو ہر عزیز سے جدائی بہت شاق گزرتی تھی.لیکن خاکسار سے جدائی کا برداشت کرنا انہیں بہت دشوار ہو جایا کرتا تھا.۱۹۹۷ء میں جب خاکسار انٹرنس کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا اور پہلی دفعہ لمبے عرصہ کے لئے گھر سے باہر رہنا پڑا تو والدہ صاحبہ نے اصرار کیا کہ میں ہر ہفتہ ان کی خدمت میں حاضر ہو ا کروں.لیکن چونکہ ہر ہفتہ لاہور سے سیالکوٹ جانا مشکل تھا.اس لئے خاکسار اوسطاً ہر دوسرے ہفتہ اُن کی خدمت میں حاضر ہو جایا کرتا تھا.ہر دفعہ واپس جاتے وقت تا کید فرمایا کرتی تھیں کہ لاہور پہنچتے ہی اپنے بخیریت پہنچ جانے کی اطلاع دیتا.خاکسار پر انہیں حسن ظن بھی تھا.1910ء کی گرمیوں کی تعطیلات میں خاکسار بی.اے کے امتحان کی تیاری کے لئے ایبٹ آباد چلا گیا.تعطیلات کے آخری حصہ میں رمضان کا مہینہ آ گیا.جب خاکسار تعطیلات کے آخر میں سیالکوٹ واپس پہنچا.تو والدہ صاحبہ نے خاکسار سے کہا کہ تمہارے والد تو قیاس کرتے تھے کہ تم نے روزے نہیں رکھے ہونگے.لیکن میں باصرار کہتی رہی کہ میرے بیٹے نے ضرور روزے رکھے ہو نگے.اب بتاؤ ہم دونوں میں سے کس کا قیاس درست تھا ؟ میں نے عرض کی کہ آپ کا قیاس درست تھا.میں نے اللہ تعالی کے فضل سے تمام روزے رکھے ہیں یہ بلکہ آج بھی باوجود سفر کے میرا روزہ ہے.(اس وقت خاکسار کی عمرے اسال کی تھی.ابھی خاکسار پر یہ واضح نہیں تھا کہ سفر کے دن رمضان
۳۱ کا فرض روزہ نہیں رکھنا چاہئے ).میر اتعلیم کے لئے انگلستان جانا 1911ء میں خاکسار نے بی.اے کا امتحان پاس کیا اور والد صاحب کی یہ خواہش ہوئی کہ خاکسار کو مزید تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا جائے.اُن کی ہدایت کے ماتحت خاکسار نے حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عریضہ لکھا اور والد صاحب کی خواہش کے مطابق انگلستان جانے کے لئے حضور سے اجازت طلب کی.حضور نے ہدایت دی کہ والد صاحب اور خاکسار دونوں استخارہ کریں.استخارہ کے بعد اگر طبیعت میں اطمینان ہو.تو خاکسار انگلستان چلا جائے.چنانچہ ہم دونوں نے استخارہ کیا اور کوئی امر مانع نہ پا کر خاکسار نے والد صاحب کی ہدایت کے ماتحت انگلستان کے سفر کی تیاری شروع کر دی.والدہ صاحبہ کو خاکسار سے اس قدر لمبی جدائی گوارا نہ تھی.اُن کی یہ خواہش تھی کہ کوئی ایسا فیصلہ خاکسار کی آئندہ تعلیم کے متعلق ہو جائے جس کے نتیجہ میں خاکسار کو اتنا لمبا سفر اختیار نہ کرنا پڑے اور نہ والدہ صاحبہ سے اس قدر لمبا عرصہ الگ رہنا پڑے.لیکن جب فیصلہ ہو گیا تو آخر انہیں بھی اس پر رضا مند ہونا پڑا.گوان کی رضامندی بادلِ نا خواستہ ہی تھی.اگست 1911ء کے آخر میں خاکسار سیالکوٹ سے روانہ ہوا بہ والد صاحب، والدہ صاحبہ اور ماموں صاحب بھی ہمراہ تھے.اول تو ہم سب قادیان حاضر ہوئے.جہاں تک مجھے یاد ہے.یہ والدہ صاحبہ کے قادیان حاضر ہونے کا پہلا موقعہ تھا اور اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکانات کو دیکھکر والدہ صاحبہ نے چان لیا کہ یہی مکانات اُنہوں نے اپنے ایک رویا میں دیکھے تھے اور اس سفر کے متعلق اتفاق بھی ایسا ہوا کہ ہم سیالکوٹ سے فجر سے کچھ قبل روانہ ہوئے اور عصر کے
وقت قادیان پہنچے.جو والدہ صاحبہ کے سات سال قبل کے رؤیا کے عین مطابق تھا.ہم ایک دن ہی قادیان ٹھہرے.اس موقعہ پر مجھے یاد ہے کہ حضرت ام المومنین (متعنا الله بطول حياتها ) نے کمال شفقت سے ہم سب کے لئے اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کیا.دوسرے دن ہم سب لوگ امرتسر تک اکٹھے گئے.وہاں سے والدہ صاحبہ تو ماموں صاحب کے ہمراہ سیالکوٹ تشریف لے گئیں اور خاکسار والد صاحب کے ہمراہ بمبئی کی طرف روانہ ہوا.بمبئی سے والد صاحب خاکسار کے جہاز پر سوار ہو جانے کے بعد واپس سیالکوٹ تشریف لے گئے.خاکسار نے بعد میں سُنا کہ امرتسر سے روانہ ہوتے ہی والدہ صاحبہ کوشش آ گیا اور سیالکوٹ تک کے سفر کا اکثر حصہ اُن کا اسی حالت میں گزرا.اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اُن دنوں جو میری کیفیت تھی.اُس کا اس سے اندازہ کر لو کہ تمہارے چلے جانے کے دو چار روز بعد جب تمہارے والد کے سیالکوٹ واپس پہنچنے کا دن آیا تو تمہاری دادی صاحبہ نے جو ان دنوں سیالکوٹ ہی مقیم تھیں، کہنا شروع کیا الحمد للہ آج میرا بیٹا واپس گھر پہنچ جائے گا.اُن کے ایک دفعہ ایسا کہنے پر تو میں خاموش رہی.لیکن جب اُنہوں نے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے دو تین دفعہ ایسا کہا.تو میں نے اپنی وحشت میں اُن سے کہہ دیا: پھوپھی جان آپ کیوں بار بار اپنی سے تابی کا اظہار کر رہی ہیں.آپ کا بیٹا کہیں سمندر یار نہیں گیا.اگر آج نہیں آئے گا.تو کل آجائے گا.فرماتی تھیں کہ میں جب اس واقعہ کو باز کرتی ہوں.تو ایک ندامت ہی محسوس کرتی ہوں کہ میں نے کیوں ایسا کہا.لیکن یہ فقرہ بے اختیاری میں میرے بدنہ سے
۴۴ نکل گیا.انگلستان میں خاکسار کے قیام کا عرصہ والدہ صاحبہ کے لئے بہت ہی پریشانی کا زمانہ تھا.خاکسار تو اتنا ہی کر سکتا تھا کہ ہر ڈاک میں با قاعدہ خط لکھتا رہتا.چنانچہ اس میں خاکسار نے اس تمام عرصہ میں کبھی ناغہ نہیں ہونے دیا.انگلستان جانے کے وقت خاکسار کی عمر اٹھارہ سال کی تھی.وہاں پہنچ کر جب طبیعت میں جدائی کا احساس پیدا ہوا اور والدین کی شفقت کا حقیقی اندازہ ہونے لگا.تو خاکسار کے دل میں بھی اپنے والدین کے لئے ایک نئی محبت پیدا ہوگئی اور متواتر ترقی کرتی گئی.چنانچہ ایک موقعہ پر خاکسار نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں خصوصیت سے ایک عہد کے طور پر لکھا کہ میں اپنے دل میں آپ کے لئے محبت کا ایک بحر بے پایاں اپنے ساتھ لاؤں گا اور یہ جذ بہ بڑھتا چلا جائے گا اور اس میں انشاء اللہ بھی کمی نہیں آئے گی.اس عہد کے اظہار کے بعد اللہ تعالیٰ نے والدہ صاحبہ کو پچیس برس اور زندگی عطا فرمائی اور خاکسار کو اپنے فضل اور رحم سے اس عہد کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی.فالحمد للہ علی ذالک.اب جبکہ وہ اپنے مولیٰ کے حضور چلی گئیں ہیں اور ہمارے درمیان ظاہری اور عارضی جدائی ہو گئی ہے میرے دل کی وہی کیفیت ہے بلکہ محبت اور حسرت نے مل کر ایک عجیب نئی کیفیت پیدا کردی ہے.ان کے احساسات کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے.کر مارچ ۱۹۱۴ ء میں جب خاکسار بھی انگلستان ہی میں تھا.حضرت خلیفہ ایج اول رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا.والد صاحب نے خاکسار کو لکھا کہ حضور کی وفات پر جماعت میں یوں اختلاف ہو گیا ہے.یہ ایمان کا معاملہ ہے.میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے.صرف اتنا کہتا ہوں کہ جو کچھ کرو.غور اور فکر کے بعد کرنا.جلدی نہ کرنا اور والدہ صاحبہ نے خاکسار کو دیکھوایا کہ جماعت میں یہ طوفان برپا ہو گیا ہے.میں نے حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی بیعت کر لی ہے اور تمہارے
۳۴ بھائیوں اور بہن کی طرف سے بھی بیعت کا خط لکھوا دیا ہے.تمہیں نصیحت کرتی ہوں کہ اگر ابھی تم نے بیعت کا خط نہیں لکھا تو اب فورا لکھ دو.تاخیر ہرگز نہ کرنا.خلافت ثانیہ کی بیعت اور اس کے متعلق رویا اس موقعہ پر بھی والدہ صاحبہ نے اپنے رویا اور خوابوں کی بناء پر فوراً بیعت کر لی.والد صاحب نے چند دن کے توقف کے بعد بیعت کی.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے کئی دفعہ فرمایا ہے کہ بعض دفعہ والدہ صاحبہ کے رویا کا اور حضور کے رڈیا کا توارد ہو جاتا تھا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے والدہ صاحبہ کو بھی بعض باتیں اُسی رنگ میں دکھا دیتا تھا.جس رنگ میں وہ حضور کو دکھائی جاتی تھیں.چنانچہ اس موقعہ پر بھی والدہ صاحبہ کے ایک رؤیا کے متعلق حضور کا یہی خیال تھا.والدہ صاحبہ نے دیکھا کہ طغیانی آ گئی ہے اور گلی کوچوں میں پانی بہت سُرعت سے چڑھ رہا ہے.لوگ اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئے نہیں.اتنے میں آواز میں آنی شروع ہوئیں کہ ایک خرگوش پانی میں تیرتا پھرتا ہے ، جو باتیں کرتا ہے.پھر وہ خرگوش ہمارے مکان کے متحن میں آ گیا.ایک لکڑی کے تختہ پر بیٹھا ہو اتھا اور وہ تختہ پانی میں تیرتا پھرتا تھا.والدہ صاحبہ نے اوپر کی منزل سے اُسے مخاطب کر کے کہا: خواجہ کیا تم باتیں کرتے ہو ؟ خرگوش نے جواب دیا ”ہاں والدہ صاحبہ نے کہا.خواجہ دیکھو نہیں ڈوب نہ جانا.خرگوش نے جواب دیا.”اگر میں ڈوب گیا تو کئی اور لوگوں کو ساتھ لے کر غرق ہونگا“.انہی ایام میں والدہ صاحبہ نے ایک اور رویا دیکھی کہ ایک وسیع میدان میں بہت سے لوگ جمع ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کی انتظار میں ہیں.تھوڑی دیر کے بعد زمین سے ایک روشنی نمودار ہوئی جو بجلی کے ایک بہت روشن لیمپ کی صورت میں تھی اور آہستہ آہستہ وہ زمین سے بلند ہونی شروع ہوئی.اس طور پر کہ گویا
۳۵ اُس کے نیچے کوئی کل ہے.جس کے زور سے وہ بلند ہورہی ہے.جو نبی یہ روشنی نمودار ہوئی.اکثر لوگ اُسکی طرف متوجہ ہو گئے اور دوڑ کر اس سے قریب ہونے کی کوشش کرنے لگے.تاکہ اس نور کو قریب سے دیکھ سکیں.والدہ صاحبہ بھی اس روشنی کی رف بڑھیں اور والد صاحب کو آواز دی کہ جلد آئیں اور قریب سے اس نور کو دیکھیں.ورنہ جب یہ نو ر قد آدم سے اوپر چلا جائے گا.تو اس کے دیکھنے کا وہ لطف نہ رہے گا.جو زمین کے قریب اسے دیکھنے میں ہے.چنانچہ والد صاحب بھی والدہ صاحبہ کے پیچھے اس نور کی طرف جلد جلد بڑھنے لگے اور دونوں کے دیکھتے دیکھتے یہ نور بلند ہوتا گیا اور پھیلتا گیا.حتیٰ کہ آسمان تک بلند ہو گیا اور اُس کی روشنی سے تمام میدان منور ہو گیا.والدہ صاحبہ نے دیکھا کہ بعض لوگ جو اوور کوٹ اور ترکی ٹوپیاں پہنے ہوئے ہیں.کچھ فاصلہ پر ایک نہر کے کنارے کھڑے ہیں اور اس نور کی طرف اُن کی التفات نہیں.والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں اور کیوں اس روح افزاء نظارہ کی طرف توجہ نہیں کرتے.والد صاحب نے جواب دیا کہ یہ لوگ پانی کی رو کو دیکھ رہے ہیں کہ کس طرف سے آتا ہے اور کس طرف کو جاتا ہے.والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے والد کی طرف سے جب اس موقعہ پر بیعت کرنے میں تو قف ہوا.تو مجھے سخت گھبراہٹ ہونے لگی.میں بہت دعائیں کیا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے مکان پر اُن دنوں بہت جمگھٹا لگا رہا کرتا تھا اور اختلاف کے متعلق بحث جاری رہا کرتی تھی.ایک دن جب بہت سے لوگ جمع تھے اور زور شور سے بحث جاری تھی.یہاں تک کہ بعض لوگوں کی آوزیں دوسری منزل پر بھی پہنچ جاتی تھیں.میری طبیعت میں بہت قلق پیدا ہوا کہ تمہارے والد کیوں جلد فیصلہ نہیں کرتے اور کیوں اس قدر لمبی بحثوں میں پڑ رہے ہیں اور اسی جوش میں میں نے سیڑھیوں کے
دروازے کو بہت زور سے کھٹکھٹایا.جس سے تمہارے والد کو ادھر توجہ ہوئی اور وہ جلدی اور گھبراہٹ میں اوپر آئے اور بہت تشویش میں دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے.آپ نے اتنے زور سے دروازہ کیوں کھٹکھٹایا ؟ میں نے جواب دیا کہ میں آپ کے تامل سے بہت گھبرا گئی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ آپ جلد بیعت کرنے کا فیصلہ کریں اور ان بحثوں کو بند کریں اور منکرین خلافت کو کہہ دیں کہ وہ بحث مباحثہ کے لئے یہاں نہ آیا کریں.اُنہوں نے مجھے تسلی دینے کی کوشش کی کہ میں غور کر رہا ہوں عنقریب کوئی فیصلہ کروں گا.لیکن مجھے تسلی کہاں ہوتی تھی.ہر لحظہ جو اس حالت میں گزرتا مجھے پہاڑ کی طرح بو جھل معلوم ہوتا تھا.اسی طرح چند دن اور گزر گئے.میں دعاؤں میں لگی رہی اور اپنی توفیق کے مطابق تمہارے والد کو سمجھانے کی کوشش بھی کرتی رہی.وہ بس مسکرا دیتے اور اتنا کہہ دیتے کہ غور کر رہا ہوں.میں پھر دعاؤں میں لگ جاتی.آخر ایک روز عشاء کی نماز کے بعد اُنہوں نے کہا.میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مجھے بیعت کر لینی چاہئے.مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے لئے تمام دنیا روشن ہوگئی ہے.میں نے فورا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اُن سے کہا کہ آپ ابھی خط لکھ دیں.انہوں نے کہا.ڈاک تو اب کل صبح ہی جائے گی صبح خط لکھ دیں گے.میں نے منت کی کہ ابھی لکھ دیں.دیر نہ کریں.انہوں نے کہا کہ کیا خط کو سینہ پر رکھ کر سونا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اصل بات تو یہی ہے.میں یہ تمام راتیں سو نہیں سکی.میں چاہتی ہوں کہ آپ بیعت کا خط لکھدیں اور میں اُسے اپنے سینہ پر رکھ لوں اور اطمینان کی نیند سو سکوں.چنانچہ انہوں نے اُسی وقت خط لکھ کر مجھے دیدیا اور میں نے اُسے سینہ پر رکھ لیا اور سوگئی اور صبح ہوتے ہی میں نے ڈاک میں بھجوا دیا.خاکسار بھی تعلیم کے سلسلہ میں انگلستان ہی میں مقیم تھا کہ آخر جولائی 1914ء میں یورپ میں جنگ چھڑ گئی اور شروع اگست میں انگلستان بھی جنگ میں شامل ہو گیا.جنگ کی وجہ سے آمد و رفت کے سلسلہ میں بعض رکاوٹیں پیدا ہو گئیں اور
۳۷ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان ڈاک کے آنے جانے میں بھی ایک ہفتہ کا وقفہ بڑھ گیا.والدہ صاحبہ پہلے تو جنگ کی خبروں سے ہی گھبرائی ہوئی تھیں.جب ڈاک میں توقف ہو جانے کی خبر سنی تو غش کھا کر گر گئیں.والد صاحب پہلے ہی اُن کے احساسات کا بہت خیال رکھتے تھے اور انہیں تسلی دیتے رہتے تھے.لیکن اب اور بھی زیادہ احتیاط کرنے لگے.فرمایا کرتے تھے کہ جنگ کے شروع ہو جانے سے لے کر تمہاری واپسی تک تین مہینہ کا عرصہ میرے لئے پہلے تین سالوں سے بڑھ کر مشکل ہو گیا.تمہاری والدہ کی بیقراری کو دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا تمہیں انگلستان بھیجنے میں میں کسی جرم کا مرتکب ہو ا ہوں.آخر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمہیں بخیریت واپس لے آیا.تو تمہاری والدہ کی جان میں جان آئی اور میری جان بخشی ہوئی.میری ولایت سے واپسی خاکسار شروع نومبر 1910 ء میں وائیس ہندوستان پہنچا.پہلے دارالامان حاضر ہو کر تحریری بیعت کی زبان سے تصدیق کی اور حضرت خلیفہ اسیح کی زیارت سے مشرف ہوکر سیالکوٹ پہنچا.جنگ کی وجہ سے ان دنوں بحری رستے محفوظ نہیں تھے.اس لئے خاکسار نے والد صاحب کی خدمت میں صرف اس قدر اطلاع ارسال کی تھی کہ خاکسار عنقریب واپس پہنچنے والا ہے.کسی خاص تاریخ کی اطلاع نہیں دی تھی.خاکسار کے لاہور پہنچنے کے بعد والد صاحب کو اطلاع مل گئی تھی کہ خاکسار بخیریت واپس پہنچ گیا.یہ خبر سنتے ہی والدہ صاحبہ ماموں صاحب اور عزیز شکر اللہ خاں کو ساتھ لے کر سیالکوٹ سے وزیر آباد پہنچ گئیں تا کہ رستہ ہی میں خاکسار کومل جائیں.لیکن ایک
۳۸ رات وہاں انتظار کرنے کے بعد ماموں صاحب کو وہاں چھوڑ کر خود عزیز شکر اللہ خاں کے ساتھ واپس سیالکوٹ چلی گئیں.کیونکہ خاکسار کے آنے کی کوئی پختہ خبر انہیں نہ مل سکی.خاکسار بھی چند گھنٹوں کے بعد اُن کی خدمت میں حاضر ہو گیا.۱ دسمبر ۱۹۱۴ ء سے لے کر اگست ۱۹۱۶ ء تک خاکسار نے والد صاحب کے ساتھ سیالکوٹ میں وکالت کی پریکٹس کی.اگست 1913ء میں خاکسار رسالہ انڈین کیسز کے اسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر لاہور چلا گیا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا.وہاں ہائیکورٹ میں پریکٹس کے مواقع بھی خاکسار کو میسر آتے گئے.حتی کہ کچھ عرصہ کے بعد خاکسار کا زیادہ وقت ہائیکورٹ کے کام میں صرف ہونے لگا.قادیان میں والد صاحب کی رہائش اپریل 1915ء میں والد صاحب نے وکالت کی پریکٹس ترک کر دی اور چند ماہ بعد اُنہوں نے قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی.۱۹۰۵ء میں جب وہ پہلی دفعہ قادیان حاضر ہوئے تھے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کی تھی کہ اگر حضور پسند فرما ئیں.تو میں وکالت کی پریکٹس ترک کر کے اپنا تمام وقت دین کی خدمت میں صرف کروں.لیکن حضور نے فرمایا کہ آپ پریکٹس جاری رکھیں.اسی طرح حضور کے وصال کے بعد والد صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی تھی.لیکن آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیسے فرمایا تھا ویسے ہی کریں.خلافت ثانیہ کا عہد شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے والد صاحب سے فرمایا کہ آپ دین کی خدمت کے لئے اپنے تئیں کب وقف کریں گے؟ والد صاحب نے عرض کی کہ میں تو حاضر ہوں.جب حضور حکم دیں وکالت ترک کر کے حضور کی خدمت میں آجاؤں.
۳۹ چنانچہ 1916ء میں انہوں نے دارالامان کی رہائش اختیار کر لی اور حضرت خلیفہ سیح نے نظارت اعلیٰ کے فرائض اُن کے سپر د کئے.علاوہ اس کے مقبرہ بہشتی کا صیغہ بھی اُن کے سپرد تھا اور اپنا فارغ وقت وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا انڈکس تیار کرنے میں صرف کیا کرتے تھے.وکالت کے زمانے میں بھی وہ صدر انجمن احمدیہ کے رُکن تھے اور صدر انجمن احمدیہ کے مشیر قانونی کے فرائض بھی سر انجام دیا کرتے تھے.والد صاحب کے دارالامان میں رہائش اختیار کر لینے کے بعد والدہ صاحبہ کی رہائش زیادہ تر ڈسکہ میں رہا کرتی تھی.بھی بھی قادیان بھی تشریف لے جایا کرتی تھیں.لیکن بیک وقت قادیان میں ان کا قیام مہینہ دو مہینہ سے زائد نہیں ہوا کرتا تھا.بعض اوقات خاکسار کے پاس لاہور تشریف فرما ہو اکرتی تھیں.لیکن وہاں بھی اُن کا قیام ایک وقت میں چند دن یا چند ہفتے ہی ہوا کرتا تھا.والد صاحب اور والدہ صاحبہ کا حج کرنا ۱۹۲۴ء کی گرمیوں میں والد صاحب اور والدہ صاحبہ دونوں حج کے لئے تشریف لے گئے.والد صاحب کی طبیعت تو سمندر میں تلاطم ہونے کی وجہ سے دورانِ سفر میں اکثر حصہ علیل رہی.لیکن والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ انہیں سمندر کا سفر بہت پسند آیا اور اُن کی صحت سفر کے دوران میں نہایت عمدہ رہی.والدہ صاحبہ حج کو جاتے ہوئے اپنے لئے او والا احب کے لئے کفن کی چادر میں تیار کر کے ساتھ لے گئی تھیں اور حج کے ایام میں ان چادروں کو زمزم کے پانی میں دھو کر حفاظت سے رکھ لیا تھا تا کہ وقت آنے پر استعمال میں لائی جائیں.حج سے واپس آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے والد صاحب کو دو سال اور زندگی عطا فرمائی.اگست ۱۹۲۵ء میں والد صاحب اور والدہ صاحبہ خاکسار کے ہمراہ کشمیر جانے
۴۰ کے ارادہ سے روانہ ہوئے.رستہ میں چند دن کے لئے کوہ مری کے مقام پر ہم نے قیام کیا.اس مختصر سے قیام کے عرصہ میں والد صاحب کی طبیعت بہت علیل ہوگئی اور حالت تشویشناک ہو گئی.لیکن اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں صحت عطا فرمائی.گوان کی علالت کی وجہ سے اکثر حصہ اگست اور تمبر کا ہمیں کوہ مری میں ہی گزارنا پڑا اور آخر تمبر میں صرف چند دن کے لئے ہم کشمیر جاسکے.لیکن اللہ تعالی نے انکی یہ خواہش بھی پوری کر دی.والد صاحب کی بیماری آخر جولائی یا شروع اگست ۱۹۲۶ء میں والد صاحب جماعت کے ایک مقدمہ میں شہادت دینے کے لئے قادیان سے سیالکوٹ تشریف لے گئے.خاکسار بھی اس مقدمہ کے تعلق میں سیالکوٹ گیا ہو اتھا.وہاں والد صاحب نے ذکر کیا کہ مجھے کھانسی کی شکایت ہے.لیکن کوئی خاص تکلیف بیان نہ کی.مقدمہ کی کاروائی سے فارغ ہو کر والد صاحب ڈسکہ تشریف لے گئے اور خاکسار واپس لاہور چلا گیا.۱۲ اگست کو خاکسار کو اطلاع ملی کہ والد صاحب کو زیادہ تکلیف ہے.خاکسار فورا ڈسکہ گیا اور والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو اپنے ساتھ لاہور لے گیا.لاہور پہنچتے ہی اُن کا معائنہ کرانے پر معلوم ہوا کہ انہیں پلوریسی کی تکلیف ہے اور پھیپھڑے کے نیچے کی جھلی میں پانی جمع ہو رہا ہے.چنانچہ دوسرے دن یہ پانی نکالا گیا.جس سے کھانسی میں بہت حد تک افاقہ ہو گیا اور بظاہر اُن کی حالت رو بصحت ہوگئی.لیکن وہ خود چونکہ با قاعدہ طب پڑھے ہوئے تھے.بیماری کے آثار سے اس کی نوعیت کو پہچانتے تھے.چنانچہ لاہور پہنچنے کے دو تین دن بعد مجھے فرمایا کہ زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور بظا ہر حالت رو بصحت ہے خدا چاہے تو شفا عطا فرمادے.لیکن بیماری کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اور اپنی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے
میں چاہتا ہوں کہ چند ہدایات تمہیں لکھوا دوں.میں نے کاغذ قلم لے لیا اور انہوں نے چند مختصری ہدایات لکھواد ہیں.جن میں سے ایک یہ تھی کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرنا کہ اگر باعث تکلیف نہ ہو ( حضور ان ایام میں ڈلہوزی تشریف فرما تھے ) تو میرا جنازہ حضور خود پڑھا دیں.اس کے بعد پھر آخر تک اُنہوں نے کسی قسم کی خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ یوں کرنا یا یوں نہ کرنا.گو ان کی صحت اس کے بعد بظاہر اچھی ہوتی گئی.حتی کہ کھانا پینا، چلنا پھرنا شروع کر دیا.ایک دن میں نے ذکر کیا کہ حضرت صاحب نے ڈلہوزی سے خاکسار کو تحریر فرمایا ہے کہ تم بھی ڈلہوزی نہیں آئے اب کی بار ڈلہوزی آؤ.تو والد صاحب نے خوب شوق سے فرمایا.اچھی بات اس دفعہ ڈلہوزی چلیں گے.والدہ صاحبہ نے مسکرا کر کہا.آپ کی صحت کی تو یہ حالت ہے اور ڈلہوزی کے ارادے کر رہے ہیں.والد صاحب نے فرمایا.کیا معلوم اللہ تعالیٰ شفا دیدے.آخر اگست میں پھر والد صاحب کے پھیپھڑے پر بوجھ پڑنا شروع ہو گیا.جس سے معلوم ہوا کہ پھر پانی جمع ہورہا ہے.طبی مشورہ یہ تھا کہ پانی نکالنا چاہئے.والد صاحب اس دفعہ پانی نکلوانے سے کچھ گھبراتے تھے.خاکسار نے والدہ صاحبہ سے مشورہ کیا.انہوں نے فرمایا کہ اگر ڈاکٹروں کی رائے میں یہی علاج ہے تو پھر چارہ نہیں.چنانچہ والد صاحب بھی رضا مند ہو گئے اور ۲۹ اگست اتوار کے دن دوبارہ نکالا گیا.اس دوران میں والدہ صاحبہ بوجہ ڈاکٹر صاحبان کی موجودگی کے اُس کمرہ میں نہیں تھیں.جہاں والد صاحب کا پلنگ تھا کسی دوسرے کمرے میں سجدہ میں پڑی ہوئی دعا کر رہی تھیں.جب ڈاکٹر صاحبان ساتھ والے کمرہ میں چلے گئے.تو خاکسار نے والدہ صاحبہ کو اطلاع کی اور وہ والد صاحب والے کمرہ میں تشریف لے آئیں اور اس طرح انہوں نے ڈاکٹر صاحبان کو دوسرے کمرہ سے باہر جاتے ہوئے دیکھ لیا.انہیں دیکھ کر وہ کچھ گھبرا گئیں اور الگ مجھ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ خیر کرے.
۴۲ تمہیں میر اوہ خواب یاد ہے جو چند دن ہوئے میں نے تمہیں بتایا تھا.وہ دو شخص جن کو خواب میں میں نے کوٹھی سے باہر جاتے ہوئے دیکھا تھا.وہ یہی دو شخص تھے.جو اس کمرہ سے ابھی باہر گئے ہیں.میں نے خواب میں بعینہ انہیں اسی لباس میں دیکھا تھا اور اسی طرح پیٹھ کی طرف سے اُن کے بت مجھے کمرہ سے باہر نکلتے ہوئے نظر آئے تھے.اس سے چند دن پیشتر والدہ صاحبہ نے اپنا ایک خواب مجھے سنایا تھا کہ میں نے دیکھا کہ دو شخص انگریزی لباس پہنے ہوئے کمرہ سے باہر جارہے ہیں.کسی نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ دو شخص چوہدری صاحب ( یعنی والد صاحب) کو قتل کر گئے ہیں.اس دن سہ پہر تک تو والد صاحب کی طبیعت اچھی رہی.سہ پہر کو سانس لینے میں تکلیف محسوس ہونے لگی.پہلے تو پھیپھڑے کے نیچے کچھ درد بھی محسوس ہوتا تھا.لیکن ۳۰ کی صبح تک درد سے تو آرام ہو گیا.البتہ سانس کی تکلیف جاری رہی.علاج معالجہ جاری تھا.لیکن آہستہ آہستہ حالت تشویش ناک ہوتی گئی.وہ خود بھی محسوس کرتے تھے کہ یہ بیماری کا آخری مرحلہ ہے.لیکن اُن کی طرف سے کسی قسم کی بے چینی یا حسرت کا اظہار نہیں تھا.اس کی صبح کو فجر کے وقت میں اُن کے پاس سے اُٹھ کر نماز پڑھنے کے لئے گیا.نماز میں میرے رونے کی آواز اُن کے کان میں پڑ گئی.بہت گھبراہٹ میں انہوں نے والدہ صاحبہ سے کہا.جلدی جاؤ اور اُسے تسلی دو.معلوم ہوتا ہے ڈاکٹروں کی باتوں سے گھبرا گیا ہے.والد صاحب کی وفات کے متعلق والدہ صاحبہ کا ایک رؤیا اُسی دن والدہ صاحبہ نے مجھے اپنا ایک خواب سنایا.جو انہوں نے گزشتہ رات ہی دیکھا تھا فرمایا میں نے دیکھا کہ تمہارے والد ایک میز کے سامنے کرسی پر بیٹھے کچھ
۴۳ لکھ رہے ہیں اور اپنے کام میں بہت منہمک ہیں.اُسی کمرہ میں ایک صوفہ پر ایک جوان عورت بیٹھی ہوئی ہے اور شکر اللہ خاں نے تمہارے والد سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر آپ جا رہے ہیں.تو اس عورت کو ساتھ لیتے جائیں.تمہارے والد نے وہیں سے گردن پھیر کر ( گویا اپنے کام میں ہرج پسند نہیں کرتے اور جلد ختم کرنا چاہتے ہیں ) جواب دیا.”میاں مجھے تو جمعہ کے دن چھٹی ہو گی.والدہ صاحبہ نے مجھے فرمایا کہ چھٹی کے لفظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جمعہ کا دن شروع ہوتے ہی رخصت ہو جائیں گے.اس لئے ڈاکٹر خواہ کچھ کہیں تم ابھی سے سب انتظام کر لواور جمعرات کی شام تک تمام تیاری مکمل کر لینا.تا کہ ان کے رخصت ہوتے ہی ہم انہیں قادیان لے چلیں.تمہیں ایسا موقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا.ایسا نہ ہو کہ وقت پر گھبرا جاؤ.اللہ تعالیٰ کی رضا ایسے ہی معلوم ہوتی ہے.اس لئے ابھی سے تیاری کرلو.اپنے بھائیوں کو لکھ دو کہ دو تو فوراً یہاں پہنچ جائیں اور ایک تمہاری ہمشیرہ کو لینے چلا جائے.لیکن جو تمہاری ہمشیرہ کو لینے جائے ، اُسے تاکید کر دی جائے کہ جمعرات کے دن سورج غروب ہونے سے قبل یہاں پہنچ جائے.یہ بھی انہیں لکھدو کہ تمہارے والد کے کفن کی چادریں فلاں جگہ رکھی ہیں وہ اپنے ساتھ لیتے آئیں لیکن اور کسی کو خبر نہ کریں.ورنہ گاؤں کے سب لوگ یہاں جمع ہو جائیں گے.پھر فرمایا صندوق کی تیاری کے لئے بھی کہہ دو اور تاکید کردو کہ جمعرات کی شام تک تیار ہو جائے اور موٹریں بھی کرایہ پر کر لو اور اُن کے متعلق ہدا یو دے دو کہ نصف شب کے بعد ۲ بجے آجائیں.چنانچہ میں نے اُن کی ہدایات کے مطابق سب انتظام کر دیا.یہ منگل کا دن تھا.سوائے سانس کی خفیف تکلیف کے بظاہر والد صاحب کو کوئی تکلیف نہ تھی.پوری ہوش میں تھے اور بات چیت کرتے تھے.لیکن کمزوری آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی.یکم ستمبر بدھ کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد میں اکیلا ہی والد صاحب کے پاس تھا.
میں نے کہا.” آپ اُداس تو نہ ہوں گے.تھوڑے ہی وقفہ کے بعد اللہ تعالیٰ چاہے گا تو ملاقات ہو جائے گی.انہوں نے جواب میں فرمایا ”نہیں میں اپنے مولیٰ کی رضا پر راضی ہوں“.اُسی دن سہ پہر کو عزیزان شکر اللہ خان اور اسد اللہ خان پہنچ گئے اور بعض اور عزیز اور رشتہ دار بھی آگئے.جمعرات کے دن دوپہر کے وقت سانس کی جو تکلیف تھی وہ ختم ہوگئی.نقاہت کو بڑھ رہی تھی.لیکن ہوش پوری طرح قائم تھے.دو پہر کے بعد والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ جب ذرا میری ذرا آنکھ لگ جاتی ہے.تو مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کمرہ مختلف قسم کے پھلوں سے بھرا ہوا ہے اور نہایت عمدہ خوشبو آ رہی ہے اور میری طبیعت میں اب کسی قسم کی بے چینی نہیں ہے.چونکہ دل متواتر کمزور ہورہا تھا.اس سہ پہر کو ڈاکٹر صاحب بار بار دل کو طاقت دینے کے لئے ٹیکا کرتے تھے.والد صاحب فرماتے تھے کہ ٹیکے کرنے کی اب ضرورت نہیں.لیکن اس خیال سے کہ علاج میں دخل نہیں دینا چاہئے بالکل انکار بھی نہیں کرتے تھے.ایک وقت مجھے جو بہت افسردہ دیکھا تو فرمایا.بیٹا یہ وقت آیا ہی کرتے ہیں“.عصر کے بعد بابو عبد الحمید صاحب آڈیٹر تشریف لائے اور خاکسار کو بلا بھیجا.صندوق اور موٹروں کا انتظام اُن کے سپر د تھا.اُنہوں نے بتایا کہ صندوق تیار ہے اور مسجد میں رکھوا دیا گیا ہے.موٹریں کرایہ پر کر لی گئی ہیں اور نصف شب کے بعد ۲ بجے یہاں آجائیں گی.پھر دریافت کیا کہ چوہدری صاحب کیسے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں اُن کے پاس سے باتیں کرتا ہی اُٹھ کر آیا ہوں.مغرب سے تھوڑی دیر پہلے عزیز عبداللہ خان اور ہمشیرہ صاحبہ بھی پہنچ گئے.عبداللہ خاں نے جب والد صاحب سے مصافحہ کیا تو اُن کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا.والد صاحب نے تھوڑی دیر کے بعد اپنا ہاتھ آزاد کر کے خاکسار کی ران پر رکھ دیا اور کہا: ”میاں میں اسے یہاں رکھنا چاہتا ہوں“.
والد صاحب کی وفات چونکہ ہم سب کو تو والدہ صاحبہ کے خواب کا علم تھا.ہم جانتے تھے کہ اب یہ آخری گھڑیاں ہیں اور دل میں بہت حسرت تھی کہ کوئی بات کر لیں.اس لئے میں کوئی نہ کوئی بات کرتا جاتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ میں نے اُن کے کان میں کہا."مجھے آپ سے اس قدر محبت ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی تکلیف میں لے لوں.اس پر والد صاحب نے اپنا بازو میری گردن کے گرد ڈال کر میرے چہرہ کو اپنے چہرہ کے قریب کر لیا اور میرے کان میں کہا.ایسی خواہش اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں.ہر ایک اپنی اپنی باری پر.تھوڑے وقفہ کے بعد میں نے کہا.آپ کو یاد ہے.یہ کس موقعہ کا شعر ہے كنت السواد لناظري - فعمی علیک الناظر من شاء بعدک فلیمت - فعلیک کنت احاذر فرمایا ہاں یاد ہے حستان ابن ثابت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا تھا.جب کھانے کا وقت ہوا.تو باصرار تمام مہمانوں سے کہا جاؤ اور کھانا کھاؤ.جب بعض نے تامل کیا.تو والد صاحب نے پھر اصرار کیا اور کہا ملازم انتظار کرتے رہیں گے انہیں بھی فارغ کرنا چاہئے.ابھی مہمان کھانا کھا رہے تھے.تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اگر تمہارے والد پسند کریں.تو اُن کا پلنگ مردانہ صحن میں لے چلیں وہ زیادہ فراخ اور ہوا دار ہے اور یہ اکثر وہیں سویا کرتے تھے.میں نے والد صاحب سے دریافت کیا.تو اُنہوں نے فرمایا.”ہاں لے چلو.میں نے کہا.” کیا وہ صحن آپ کو زیادہ پسند ہے؟ تو والدہ صاحبہ نے کہا وہ تو فوت بھی ہو چکے ہیں اور یوں وہ اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.چنانچہ دیکھا تو فوت ہو چکے تھے.
۴۶ والدہ صاحبہ نے کلمہ شریف پڑھا اور اناللہ وانا الیہ راجعون کہا اور دعا کی.یا اللہ اپنے فضل سے انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں جگہ دیجیو.پھر خاکسار سے مخاطب ہو کر کہا، پلنگ مردانے میں لے جاؤ اور انہیں قادیان لے چلنے کی تیاری کرو.اس تیاری کے دوران میں میں دبے پاؤں دو تین بار زنانہ میں گیا.تا معلوم کروں کہ والدہ صاحبہ کا کیا حال ہے.میں نے دیکھا کہ وہ مستورات میں بیٹھی ہوئی اطمینان سے والد صاحب کی بیماری کے حالات بیان کر رہی ہیں.جب سب تیاری ہو چکی تو جنازہ پڑھا گیا اور والدہ صاحبہ بھی مع مستورات کوٹھی کے برآمدہ میں صف بندی کر کے جنازہ میں شامل ہوئیں.صندوق موٹر میں رکھنے سے پیشتر میرے بازو کا سہارا لے کر صندوق کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے سپرد.آپ نے مجھے ہر طرح سے خوش رکھا اور میری چھوٹی سے چھوٹی خواہش کو پورا کیا.میرا دل ہمیشہ آپ پر راضی رہا.مجھے تو یاد نہیں کہ آپ کی طرف سے مجھے کوئی تکلیف یا رنج پہنچا.ہو لیکن اگر کبھی ایسا ہوا ہو.تو میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آپ کو معاف کرتی ہوں.مجھ سے کئی قصور اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں.ان کی معافی میں اللہ تعالیٰ سے طلب کرونگی.اللہ تعالٰی آپ کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے.اپنے والد صاحب کو میرا سلام پہنچا دینا اور اگر ہو سکے.تو اپنی حالت کی ہمیں اطلاع دینا.اس تمام عرصہ میں یہ ایک آخری فقرہ ہی اُن کے دل کے کرب کا شاہد ہوا اور غالبا یہ بھی بے اختیاری میں منہ سے نکل گیا.ورنہ خدا تعالی کی رضا کو انہوں نے نہ صرف صبر سے بلکہ بشاشت سے، قبول کیا اور اس نصف صدی کی با محبت اور باوفا
نام رے رفاقت کے ختم ہونے پر جو ہر دیکھنے والے کے لئے بطور نمونہ کے تھی کسی قسم کے غم کا اظہار نہیں کیا.اُن کے دل پر جو گزری.اس سے وہ خودہی واقف ہوں گی.لیکن دل کی کیفیت انہوں نے دل میں ہی رہنے دی.کبھی کبھی اس کی کوئی جھلک کسی محرم راز کو نظر آ جاتی تھی.لیکن حتی الوسع وہ اس کے اظہار سے پر ہیز کرتی تھیں.۲ اور ۳ بجے صبح کے درمیان ہم والد صاحب کا جنازہ لے کر لاہور سے روانہ ہوئے اور ۸ بجے کے قریب حضرت ام المومنین کے باغ میں پہنچے.یہ ۳ ستمبر جمعہ کا دن تھا.حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ بنصرہ کا تار ڈلہوزی نے آیا کہ اگر طبی لحاظ سے جنازہ میں تاخیر نا مناسب نہ ہو.تو انتظار کی جائے.ہم خود جنازہ پڑھائیں گے.ڈاکٹر صاحبان نے ملاحظہ کے بعد رائے دی کہ تاخیر میں کوئی ہرج نہیں.چنانچہ حضور کی خدمت میں اطلاع بھیج دی گئی اور حضور کا جواب آیا کہ حضور تشریف لا رہے ہیں.بارش کی کثرت کی وجہ سے رستہ صاف نہیں تھا.اس لئے حضور نصف شب کے بعد قادیان پہنچے اور ہفتہ کے دن ۴ ستمبر صبح 9 بجے کے قریب حضور نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار والے قطعہ کے مغرب کی طرف خاص صحابہ کے قطعہ میں والد صاحب کو دفن کرنے کی حضور نے اجازت بخشی.جب قبر کی مٹی ہموار کی جارہی تھی.تو یکا یک بارش ہوگئی اور قبر کو ہموار کرنے کے لئے پانی استعمال کرنے کی ضرورت نہ پڑی.کتبہ کی عبارت حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ نے خود تحریر فرمائی جو یہ ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسوله الكريم و على عبده امسیح الموعود چوہدری نصر اللہ خاں صاحب پلیڈر سیالکوٹ گو ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ کے مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر کے ایام میں بیعت میں شامل ہوئے.لیکن اخلاص دیر سے رکھتے
۴۸ تھے اور آپ کی اہلیہ صاحبہ بعض خوابوں کی بناء پر آپ سے پہلے بیعت کر چکی تھیں نہایت شریف الطبع سنجیدہ مزاج مخلص انسان تھے.بہت جلد جلد اخلاص میں ترقی کی.بڑی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا.آخر میری تحریک پر وکالت کا پیشہ جس میں آپ بہت کامیاب تھے ترک کر کے دین کے کاموں کے لئے بقیہ زندگی وقف کی اور اعلیٰ اخلاص کے ساتھ جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ترقی ہوتی گئی قادیان آبیٹھے.اسی دوران میں حج بھی کیا.میں نے انہیں ناظر اعلیٰ کا کام سپرد کیا تھا.جسے اُنہوں نے نہایت محنت اور اخلاص سے پورا کیا.اللہ تعالیٰ کی رضاء کے ساتھ میری خوشنود کی اور احمد کی بھائیوں کا فائدہ اور ترقی کو ہمیشہ مدنظر رکھا.ساتھ کام کرنے کی وجہ سے میں نے دیکھا کہ نگاہ دور میں تھی.باریک اشاروں کو سمجھتے اور ایسی نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے کہ میرا دل محبت اور قدر کے جذبات سے بھر جاتا تھا اور آج تک اُن کی یاد دل کو گرما دیتی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اُن کے مدارج کو بلند کرے اور اُن کی اولاد کو اسی رنگ میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی توفیق دے اور ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے والے لوگ کثرت سے ہمارے سلسلہ میں پیدا ہوتے رہیں.اللهم امين مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی تاریخ وفات ۲۴ صفر ۱۳۴۵ھ بروز جمعۃ المبارک مطابق ۳ ستمبر ۱۹۲۶ء بعمر ۶۳ سال ✰✰✰
۴۹ ۵ ستمبر کو ہم قادیان سے روانہ ہو کر واپس اپنے وطن ڈسکہ کو گئے.والدہ صاحبہ نے خاکسار کو تاکید کی کہ ڈسکہ ایسے وقت میں پہنچیں کہ کسی نماز کا وقت ہو، تا پہنچتے ہی نماز میں مصروف ہو جائیں اور جو مستورات ماتم پرسی کے لئے آئیں.انہیں کسی قسم کی جزع فزع کا موقعہ نہ ملے.چنانچہ جب ہم ڈسکہ کے قریب پہنچے.تو ظہر کا وقت ہو گیا تھا.والدہ صاحبہ نے رستہ میں ہی وضو کر لیا اور مکان پر پہنچتے ہی نماز شروع کر دی.اس موقعہ پر ہمارے گاؤں کی ایک غیر احمدی عورت نے والدہ صاحبہ سے بیان کیا کہ کل یعنی ۴ ستمبر کو مجھے شدید تپ تھا اور بحر ان کی حالت تھی میں نے بے ہوشی میں دیکھا کہ میاں جماں ( جو والد صاحب کے کارندہ تھے اور اُن کے ساتھ ہی حج بھی کر چکے تھے ) مجھ سے کہتے ہیں چلو تمہیں قادیان لے چلوں.میں اُن کے ساتھ روانہ ہو پڑی اور تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ انہوں نے کہا وہ دیکھو قادیان ہے.سامنے ایک باغ تھا.ہم اس میں داخل ہو گئے.باغ میں ایک مکان تھا.ہم اُس کے برآمدہ میں داخل ہوئے.تو سامنے کے دالان میں ایک پلنگ بچھا ہوا دیکھا.جس پر چوہدری صاحب ( یعنی والد صاحب بیٹھے قرآن کریم پڑھ رہے تھے اور ایک جوان خوبصورت عورت پاس کھڑی پنکھا ہلا رہی تھی.کمرے میں مختلف قسم کے پھل رکھے ہوئے تھے.چوہدری صاحب نے ہمیں اندر بلا لیا اور اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ظفر اللہ خان کی والدہ سے کہدینا کہ میں بہت خوش ہوں.پھر میں ہوش میں آگئی اور میں نے دیکھا کہ میرا تپ بالکل اتر گیا ہے اور میں بالکل صحت میں ہوں.والدہ صاحبہ کی میرے ساتھ رہائش والد صاحب کا منشاء تھا کہ اُن کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ اپنی مستقل رہائش خاکسار کے پاس ہی رکھیں اور انہوں نے اپنی آخری بیماری میں ایک رنگ میں اپنی
۵۰ اس خواہش کا اظہار والدہ صاحبہ سے بھی کر دیا تھا.خاکسار کو بھی گوارا نہ تھا کہ والدہ صاحبہ اب خاکسار سے الگ رہیں.چنانچہ مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی کہ والدہ صاحبہ نے اپنی بقیہ حیات کا اکثر حصہ خاکسار کے ہی پاس گزارا اور ہمارے گھر کو اپنے مبارک وجود سے منور رکھا اور ہم جو اُن کے ارد گرد رہتے تھے.ہر لحظہ اُن کی دعاؤں سے فیضیاب ہوتے رہے.یہ بارہ سال کا عرصہ کس قدر مبارک تھا.لیکن کس قدر مختصر اور زود رفتار ! اس عرصہ کے شروع میں میرا یہ معمول تھا کہ میں ہر روز عشاء کی نماز کے بعد والدہ صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہو جایا کرتا تھا اور چند منٹ ہم اپنے راز و نیاز کی باتوں میں گزار لیا کرتے تھے.یہ معمول تو آخر تک رہا.لیکن پہلے ایک دو سال کے بعد بعض دفعہ اس میں ناغہ بھی ہو جایا کرتا تھا.اُن کا دل نہایت نازک احساس تھا.اس لئے وہ ذراز اسی بات سے نتیجہ اخذ کر لیا کرتی تھیں.مجھ سے کئی قصور اور کوتاہیاں ہو ئیں اور بعض دفعہ گستاخی کا ارتکاب بھی ہوا.لیکن اُن کے عفو کی چادر بہت وسیع تھی اور وہ میرے تصور بہت جلد معاف کر دیا کرتی تھیں.لیکن ذراسی خدمت یا محبت کے اظہار پر اُن کی دعاؤں کا ایک لمبا سلسلہ جاری ہو جایا کرتا تھا اور یہ سلوک کچھ خاکسار ہی کے ساتھ مخصوص نہ تھا.ہر وہ شخص جس کا اُن کے ساتھ ڈور کا بھی تعلق ہوا.وہ اس بات کا شاہد ہے کہ وہ عفو اور بخشش اور اجر دینے اور خیرات کرنے میں بہت جلدی کیا کرتی تھیں اور بہت فیاضی سے کام لیا کرتی تھیں.ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے کہا.میں بعض دفعہ حیران ہوتی ہوں کہ تم میری اس قدر اطاعت کیوں کرتے ہو.میں نے جواب دیا کہ اول تو اس لئے کہ آپ میر کی والدہ ہیں اور اللہ تعالٰی نے آپ کی اطاعت مجھ پر فرض کی ہے.دوسرے اس لئے کہ میں آپ کی طرف سے لا انتہاء محبت کا مورد ہوں.تیسرے اس لئے کہ میں خواہش رکھتا ہوں کہ جب آپ والد صاحب سے ملیں.تو اُن سے کہہ سکیں کہ آپ
۵۱ کے بیٹے نے میری پوری اطاعت کی اور میں اُس سے خوش رہی.جب میں نے یہ آخری بات کہی تو مسکرا کر کہا.یہ تو میں اُن سے ضرور کہونگی.صوبہ بہار کا سفر ۱۹۲۷ء کی گرمیوں کی تعطیلات میں ہم گریڈی (صوبہ بہار ) چوہدری شمشاد علی صاحب مرحوم کے پاس گئے (یہ میرے خسر تھے اور بہشتی مقبرہ میں دین ہیں ) والدہ صاحبہ بھی ہمارے ساتھ تھیں.وہاں پہنچنے کے دن دوپہر کے بعد سورہی تھیں کہ خواب میں دیکھا کہ محن میں ایک پھلدار درخت ہے اور میرے گھر سے اُس درخت کے پاس گئی ہیں اور ایک شاخ کو پکڑ کر اس سے پھل توڑنا چاہتی ہیں.اس پر والد صاحب نے انہیں منع کیا اور کہا کہ ابھی یہ پھل پختہ نہیں ہوا اور توڑنے کے قابل نہیں.جب یہ پھل پکے گا تو میں خود اسے طشتری میں رکھ کر لاؤ نگا.والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے کہا کہ ہم تو ۹۰۰ میل کا سفر کر کے ریل سے آئے ہیں.آپ اس قدر جلد یہاں کیسے پہنچ گئے ؟ تو انہوں نے جواب دیا میں آپ کے ساتھ ساتھ ہی آیا ہوں.چوہدری شمشاد علی خاں صاحب نے ایک شام کہا آئیے آپ کو ارواح سے گفتگو کا طریق دکھائیں اور ایک تپائی پر ہاتھ رکھوا کر تجربات شروع کئے.والدہ صاحبہ سے بھی کہا.آئیے آپ بھی اس میں حصہ لیں.انہوں نے ہنس کر کہا بیٹا بھلا یوں بھی کبھی ارواح سے بات چیت ہوتی ہے؟ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے پھر والدہ صاحبہ کو بلایا کہ آئیے چوہدری (یعنی والد صاحب ) کی رُوح موجود ہے.اس سے باتیں کر لیں.والدہ صاحبہ نے جواب دیا.میری طرف سے کہہ دیں کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذمہ لگایا ہوا ہے.اُس کا نباہنا میرے ساتھ باتیں کرنے سے بہت زیادہ مبارک ہے آپ اُسی میں لگے رہیں.
۵۲ کشمیر کا سفر والدہ صاحبہ کو سفر کا بہت شوق تھا اور قدرتی مناظر سے بہت دیکھی تھی.کسی قسم کے سفر سے گھبرائی نہیں تھیں.حتی کہ پہاڑی علاقوں میں روپل یا موٹر کا سفر بھی شوق سے کیا کرتی تھیں.۱۹۲۹ء کے موسم گرما میں حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ بنصرہ کشمیر تشریف فرما تھے.تعطیلات کے آنے پر ہم نے بھی کشمیر کا رخ کیا.لیکن سرینگر پہنچتے ہی خاکسار کو ایک کمیٹی میں شمولیت کے لئے واپس آنا پڑا.والدہ صاحبہ سرینگر ہی ٹھہریں.ان کا ہاؤس بوٹ حضرت صاحب کے قافلہ کے ہاؤس بوٹس کے ساتھ ہی تھا اور عزیزم چوہدری شاہ نواز صاحب اُن کے پاس تھے.خاکسار کے چلے آنے کے بعد دریائے جہلم میں غیر معمولی طغیانی آگئی اور دو تین روز بہت تشویش کے گزرے.جب خاکسار واپس سرینگر پہنچا.تو والدہ صاحبہ سے اُن دنوں کے حالات ئے.انہوں نے فرمایا.مجھے اپنی تو فکر نہیں تھی باقی قافلہ والوں کے لئے دعائیں کرتے ہوئے وقت گزرا.ایک وقت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب والی کشتی خطره میں تھی.وہ وقت بہت تشویش کا تھا.جس رات طغیانی بہت بڑھ گئی.میں تو تمام رات دُعاؤں میں لگی رہی.لیکن میں نے شاہ نواز کو نہ جگایا کہ خواہ مخواہ یہ تشویش میں رہے گا.البتہ میں بار بار اس کے کمرہ کے دروازہ میں جا کر اسے دیکھ آتی تھی کہ آرام سے سو رہا ہے اور دعا کرتی تھی کہ یا اللہ یہ اپنے باپ کے گھر کا آخری عمر کا تیرا عطا کردہ چراغ ہے.اس کی حفاظت کیجیو اور اپنی تو مجھے کوئی ایسی فکر نہیں تھی.مجھے ؟ • اطمینان تھا کہ حضرت صاحب جب قریب ہیں تو ہمیں کیا خطرہ ہے.انہی دنوں کا ذکر ہے.میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں عرض کی کہ ہم تو لوگوں سے احمدیت کے متعلق لمبی لبی بخشیں کرتے ہیں.لیکن بہت کم کسی پر اثر ہوتا ہے.برعکس اس کے آپ کے ساتھ دو چار دفعہ بھی جو عورت مل لیتی ہے ضرور متاثر ہو
۵۳ جاتی ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا.” بیٹا میں کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں ہوں اور کوئی علم میں نے حاصل نہیں کیا.بس اتنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتی ہوں اور اس سے محبت کرتی ہوں.میں نے خیال کیا کہ سارے علوم کا نچوڑ تو یہی ہے.ایک حادثہ کے متعلق رویا ۱۹۳۱-۳۲ء میں میری رہائش زیادہ تر دہلی میں رہی.کیونکہ اُن دنوں میں میں سازش دہلی کے مقدمہ میں سرکار کی طرف سے پیروی کر رہا تھا.بڑے دن کی تعطیلات میں جلسہ پر حاضر ہوا.جلسہ کے بعد لاہور چلا گیا.والدہ اُن دنوں زیادہ تر لاہور قیام رکھا کرتی تھیں.۳۱ دسمبر ۱۹۳۱ء کی سہ پہر کو میں نے دیکھا کہ بہت افسردہ نظر آ رہی ہیں اور بار بار آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں.میں نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے.تو کہا کوئی خاص وجہ نہیں.کل دہلی واپس جا رہے ہو اس لئے طبیعت افسردہ میں نے کہا آپ بھی ساتھ چلیں.تو جواب دیا نہیں میں چند دن بعد آ جاؤں ہے.نے کہ یکم جنوری ۱۹۳۲ء کو خاکسار قریب ابجے قبل دو پہر موٹر میں لاہور سے دہلی کی جانب روانہ ہو ا.۲ بجنے میں ۲۰ منٹ پر کرتار پور اور جالندھر کے درمیان موٹر کی ٹکر ایک چھکڑے کے ساتھ ہو گئی اور خاکسار کو چہرہ پر شدید چوٹیں آئیں.اسی حالت میں خاکسار کو جالندھر شہر کے ہسپتال میں لے جایا گیا.شام کے وقت ٹیلیفون پر لاہور اطلاع کی گئی اور والدہ صاحبہ اُسی وقت روانہ ہو کر 11 بجے رات کے قریب جالندھر پہنچ گئیں.میری حالت کے متعلق تفاصیل معلوم کرنے کے بعد فرمایا.کل جو میں اس قدر افسردہ تھی.اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے پرسوں رات ایک خواب دیکھا تھا.جس کا
۵۴۰ میری طبیعت پر اثر تھا.وہ خواب یہ تھا کہ سیاہ بادل اٹھا ہے.جس سے بالکل اندھیرا ہو گیا ہے.پھر بجلی گری ہے اور ساتھ ہی مطلع صاف ہو گیا ہے.لوگ کہتے ہیں خیر گزری ہے کوئی نقصان نہیں ہوا.البتہ ساتھ کے مکان والوں کا نقصان ہوا ہے.میں نے دیکھا کہ تمہارے کمرے کی باہر کی دیوار پر ایک سیاہ لکیری رہ گئی ہے.جہاں بجلی گری تھی اور کوئی نقصان نہیں ہوا.میں نے اس خواب کے دیکھنے کے بعد صدقہ دیا لیکن طبیعت میں اطمینان نہیں تھا.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے فضل سے تمہاری جان بخشی کی.خاکسار کو دو دن تو جالندھر ہسپتال میں ٹھہر نا پڑا اور تیسرے دن لاہور ہسپتال میں لے جایا گیا.دس دن کے قریب وہاں ٹھہرا.پھر اپنے مکان پر چلا گیا.موڈل ٹاؤن چلے جانے کے دوسرے تیسرے روز شام کو خاکسار کو تیز تپ ہو گیا.گو حرارت تیز تھی لیکن طبیعت میں کوئی زیادہ بے چینی نہیں تھی اور کچھ اطمینان سا تھا کہ یہ حالت عارضی ہے.لیکن والدہ صاحبہ سخت بے قرار ہو گئیں اور بہت کرب کی حالت میں دعا کرتی رہیں.چند گھنٹوں میں آپ کی حالت جاتی رہی اور والدہ صاحبہ کو کچھ اطمینان ہوا.تو انہوں نے فرمایا کہ میری زیادہ تشویش کی وجہ تھی کہ جو خواب میں نے تمہیں جالندھر سُنایا تھا.اس کے دو حصے تھے.ایک حصہ تو میں نے تمہیں سُنا دیا تھا.دوسرا حصہ نہیں سنایا تھا.وہ یہ تھا کہ پھر سو جانے پر خواب دیکھا کہ ہم گھر کی عورتیں ساتھ کے مکان میں چھت پر سے گئی ہیں اور اُس گھر کی عورتوں سے بات چیت کرتی رہی ہیں.وہاں سے واپس بھی چھت پر سے ہی آنے لگی ہیں.جب زمینہ سے میں نے قدم چھت پر رکھا تو دیکھا کہ چھت پر صرف چند بوسیدہ لکڑیاں رہ گئی ہیں اور باقی چھت غائب ہو چکی ہے.میں نے اپنی ہمراہی عورتوں کو روک دیا کہ اس چھت پر قدم نہ رکھنا یہ تو بالکل گر چکی ہے اور کہا کہ جب ہم نیچے کمرے میں بیٹھے تھے تو یہ چھت کیسی خوبصورت اور آراستہ نظر آ رہی تھی اور اب کیسی ویران ہو گئی ہے.پھر میں بیدار
۵۵ ہو گئی.آج جو تمہیں آپ ہو گیا تو مجھے تشویش ہوئی کہ کہیں خواب کا دوسرا حصہ نہ ہو.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ خیر گزری.یہ واقعہ ۴ یا ۱۵ جنوری کا تھا.ارجنوری کی صبح کو تار ملا کہ ۱۶ کو چوہدری شمشاد علی خاں صاحب شکار میں اتفاقیہ گولی لگ جانے سے فوت ہو گئے ہیں.رشتہ کے لحاظ سے اور اس لحاظ سے کہ والدہ صاحبہ کو اُن کے ساتھ اپنے بیٹوں جیسی ہی محبت تھی.اُن کا مکان گویا ہمارے مکان کے ساتھ کا ہی مکان تھا.اس کے بعد جب کبھی والدہ صاحبہ کو جالندھر سے گزرنے کا اتفاق ہوتا.تو دو نفل شکرانہ کے پڑ نہیں کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے میرے بیٹے کو دوبارہ زندگی بخشی.جون ۱۹۳۲ء میں خاکسار کا تقررمیاں سر فضل حسین صاحب کی رخصت کے سلسلہ میں بعہدہ رکن حکومت ہند عارضی طور پر چار ماہ کے لئے ہوا.جولائی ۱۹۳۲ء میں ایک روز رات کے دس بجے کے قریب عزیز اسد اللہ خاں کا تارلاہور سے ملا کہ چوہدری جلال الدین صاحب اسٹنٹ پوسٹماسٹر جنرل ( جو ہمارے یک جدی بھائی تھے ) چند گھنٹوں کی بیمار کے بعد فوت ہو گئے ہیں.والدہ صاحبہ کو ان کے ساتھ بھی بہت اُنس تھا.اُس وقت عزیز چوہدری بشیر احمد صاحب بھی شملہ میں ہی تھے اور جس وقت تار ملا میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے.ہم دونوں نے خیال کیا کہ بہتر ہوگا کہ والدہ صاحبہ کو یہ خبر رات کے وقت نہ سنائی جائے.ورنہ ان کی تمام رات بے قراری میں گزرے گی.دوسری صبح کو میں اُن کے کمرہ میں گیا تو دیکھا کہ ابھی پلنگ پر ہی ہیں اور بہت افسرده سی نظر آ رہی ہیں.میں نے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے؟ تو فرمایا کہ رات میں نے دو خواب ایسے دیکھے جن کی وجہ سے مجھے تشویش ہے.پہلا خواب تو یہ تھا کہ میں نے دیکھا کہ تمہارے والد کسی شخص کو جسے میں پورے طور پر پہچان نہیں سکی.لیکن
۵۶ میرا احساس ہے کہ وہ ہمارے خاندان میں سے ہی کوئی شخص ہے اور جو ایک سفید چادر میں ملبوس ہے.سہارا دیکر زینہ سے اتار رہے ہیں.اس کے بعد میں بیدار ہو گئی اور پھر خواب میں دیکھا کہ کسی شخص نے مجھے ایک نوٹ بک دی.میں نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے ؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ جلال الدین کا تبادلہ ہو گیا ہے یہ اُس کے حساب کی کتاب ہے.اُن کے خواب سننے کے بعد خاکسار نے کہا کہ پھر تو آپ آج سفر کرنے کے قابل نہ ہوں گی.والدہ صاحبہ نے ذرا چونک کر دریافت کیا کیا ہوا؟ میں نے تار کا مضمون سنا دیا.والدہ صاحبہ کی جرات اللہ تعالی نے والدہ صاحبہ کو جرات اور حوصلہ بھی بہت عطا فر مایا تھا.کسی کے دُکھ یا درد کی حالت دیکھ کر سُن کر اُن کا دل فوراً پکھل جاتا تھا.بعض دفعہ کسی بچے کے رونے کی آواز اُن کے کان میں پڑ جاتی تھی.تو ان کی نیند اُچاٹ ہو جاتی تھی لیکن اگر کوئی موقعہ ایسا پیش آ جائے جہاں انہیں اپنی ہی ہمیت پر انحصار کرنا پڑ جائے.تو ایسے وقت میں وہ اپنی تمام کمزوریوں کو فراموش کر دیتی تھیں اور مردانہ حوصلہ کا نمونہ دکھاتی تھیں.۱۹۳۳ء کا واقعہ ہے خاکسار انگلستان گیا ہوا تھا.والدہ صاحبہ ان دنوں ماڈل ٹاؤن میں مقیم تھیں.ایک روز ظہر یا عصر کی نماز پڑھتے ہوئے سلام پھیر نے پر سامنے کے ایک مکان پر اُن کی نظر پڑی.جہاں عمارت کا کام ہورہا تھا.ایک معمار ا تفاق سے اُس وقت اپنے ہاتھ سے ہمارے زنانہ محن کی طرف اشارہ کر رہا تھا.ایک مزدور اُس کے پاس کھڑا تھا.والدہ صاحبہ نے جب اس واقعہ کی تفاصیل خاکسار کو سنا ئیں.تو اس حصہ کے متعلق فرمایا کہ ایک لحظہ کے لئے میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ شاید یہ معمار ہمارے مکان کی طرف اشارہ کر کے اس مزدور کو اس بات پر آمادہ کر رہا ہے
۵۷ کہ موقعہ پا کر رات کے وقت وہ چوری کے لئے ہمارے مکان میں داخل ہوں.لیکن اس خیال کے ساتھ ہی میرے دل نے مجھے ملامت کی کہ میں نے ان غریب کاریگروں پر خواہ مخواہ بدظنی کیوں کی.چنانچہ میں نے اُسی وقت استغفار کیا اور اللہ تعالیٰ سے اس لغزش کی معافی چاہی.اُسی رات میں زنانہ بر آمدہ میں سورہی تھی کہ میں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص آ کر میرے پلنگ کے کنارے پر بیٹھ گیا ہے.اس شخص نے مسہری اٹھا کر میرے بازو کو ہاتھ ڈالنا چاہا.گویا میرے لن کو پکڑنا چاہتا تھا میں اٹھ کر بیٹھ گی اور دریافت کیا کہ تم کون ہو اور ساتھ ہی آواز دی کہ کوئی شخص اُٹھ کر بجلی روشن کر دے.میری آواز سُن کر یہ شخص گھبرا گیا اور پانگ سے اٹھ کھڑا ہو ا.روشنی ہونے پر وہ مجن میں چلا گیا.میں بھی اٹھ کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی اور بظا ہر کتی سے اُسے سرزنش کرنی شروع کی کہ تم کون ہو اور تمہارا مکان کے اندر زنانے حصہ میں آنے کا کیا حق ہے.وہ کچھ مبہوت سا ہو کر پیچھے ہٹتا چلا گیا اور میں آگے بڑھتی گئی اور ساتھ ساتھ بلند آواز سے ملازموں کو بھی بلانے کی کوشش کرتی جاتی تھی.گو میر اول خوف کے مارے دھڑک رہا تھا اور میں جانتی تھی کہ یہ شخص ایک تھیٹر یا ضرب سے میرا خاتمہ کر سکتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت عطا کی اور میں صحن کے آخری حصہ تک اُس کے پیچھے پیچھے چلی گئی.اتنے میں میری آواز سن کر مردانہ حصہ سے عزیز اسد اللہ خاں اور ملازم آگئے اور اُنہوں نے اس شخص کو گر فتار کر لیا اور اس کے دو ساتھیوں کو بھی جو باہر باغ میں اس کا انتظار کر رہے تھے.تعاقب کر کے تھوڑی دُور جا کر پکڑ لیا.یہی وہ معمار اور مزدور تھے.جنہیں ظہر یا عصر کے وقت میں نے آپس میں اشارے کرتے دیکھا تھا.جب ان لوگوں کا چالان ہوا.تو والدہ صاحبہ کی طبیعت میں رحم کا جذبہ غالب ہونے لگا.بار بار کہتیں کہ میں چاہتی ہوں کہ ان غریبوں پر کتی نہ ہو.مزدور لوگ ہیں معلوم نہیں کس انگیخت میں آ کر انہوں نے یہ فعل کیا.جو شخص مکان کے اندر داخل
۵۸ ہوا.وہ تو مجھے جیسی بُڑھیا کے سامنے سہم گیا تھا.خود ہی تجویز کرتی رہیں کیہ مکان کے اندر آنے والے کے لئے تو تین چار ماہ کی قید کافی سزا ہے اور جو دو ساتھی اس کے باہر سے پکڑے گئے وہ رہا ہو جانے چاہئیں.مجسٹریٹ نے ان سب کو ایک ایک سال کی قید کی سزا دیدی.اب والدہ صاحبہ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ کس طرح ان لوگوں کی سزا میں تخفیف ہو.اس اثناء میں خاکسار انگلستان سے واپس آ گیا.مجھے سارا ماجرا والدہ صاحبہ نے سُنایا اور فرمایا کہ تم کوشش کرو کہ ان لوگوں کی سزا میں تخفیف ہو جائے.میں نے عرض کی کہ یہ تو میرے اختیار کی بات نہیں.ان کی اپیل عدالت سیشن میں دائر ہے.یہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ لوگ مجھ پر اعتماد کریں.تو میں اُن کی طرف سے بلا فیس اُن کی اپیل کی پیروی کردن ممکن ہے کہ حج یہ خیال کرلے کہ جب اس کے گھر میں یہ چوری کی نیت سے داخل ہوئے تھے اور یہی اُن کی طرف سے وکالت کرتا ہے.تو اُن کی سزا میں کم سے کم تخفیف کر دینی چاہئے.لیکن ساتھ ہی یہ قباحت بھی ہوگی کہ مجھے عزیز اسد اللہ خاں اور اپنے ملازموں کی شہادت پر تنقید کرنی پڑیگی اور ممکن ہے کہ حج یہ خیال بھی کرے کہ عجب آدمی ہے.روپے کی طمع میں یہ کاروائی کر رہا ہے.اُسے یہ تو معلوم نہیں ہوگا کہ میں کس وجہ سے ان لوگوں کی وکالت کر رہا ہوں.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ یہ طریق ٹھیک نہیں کوئی اور طریق تجویز کرو.میں نے عرض کی کہ اگر اُن کی اپیل نا منظور ہوگئی اور ہائی کورٹ سے بھی اُن کی سزا میں تخفیف نہ ہوئی.تو پھر یہ ہوسکتا ہے کہ میں گورنر صاحب کی خدمت میں عرض کروں کہ ان کی سزا میں تخفیف کر دیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاں بھی تمہیں یہ بتانا پڑیگا کہ میری خواہش کے مطابق تم اُن سے کہہ رہے ہو.میں نے کہا یہ تو کہنا ہی پڑے گا.فرمانے لگیں.یہ طریق بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا.اچھا اگر کوئی اور صورت نہیں تو میں اُن لوگوں کے لئے دعا کروں گی کہ اللہ تعالی ان پر رحم کرے.
۵۹ چنانچہ جب تک ان کی اپیل کا فیصلہ نہ ہوا.اُن کے لئے دعا کرتی رہیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کی اپیل کا فیصلہ عین والدہ صاحبہ کی خواہش کے مطابق ہو گیا.جب والدہ صاحبہ نے یہ سنا تو بہت خوش ہوئیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان غریبوں پر رحم فرمایا.بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور رحم کا جذ بہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت وافر عطا فر مایا تھا.اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ اگر دشمن نہ ہو تو کوئی دشمن کیا بگاڑسکتا ہے اور میں تو اس لحاظ سے کسی کو دشمن سمجھتی ہی نہیں.دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کے برہ میں کہا کرتی تھیں کہ جس سے دل خوش ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کیلئے تو خود ہی دل چاہتا ہے.اس میں ثواب کی کونسی بات ہے.اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے تو انسان کو چاہئے کہ ان لوگوں سے بھی احسان اور نیکی سے پیش آئے جن پر دل راضی نہ ہو.ڈسکہ کے لوگوں کے ساتھ والدہ صاحبہ کا سلوک ہمیشہ بہت فیاضانہ اور غریب پروری کا ہو ا کرتا تھا اور باوجود اختلاف مذہب و عقائد کے وہاں کے لوگ غیر مسلم اور غیر احمدی سب اُن کو بہت عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے.لیکن جب احرار کا فتنہ اُٹھا تو آہستہ آہستہ ہمارے گاؤں کے غیر احمدی بھی اس سے متاثر ہو گئے اور مختلف طریق سے احمدیوں کو دُکھ دینے لگے.ہمارے خاندان کے بعض افراد کو خصوصیت سے ایذاد ہی کا نشانہ بنایا گیا.والدہ صاحبہ کو قدرتی طور پر ان واقعات سے رنج پہنچتا تھا.لیکن اُن کے نتیجہ میں اُن کے حُسن سلوک میں کمی نہ آتی تھی.اگر ہمارے آدمیوں میں سے کوئی اس قسم کا اشارہ بھی کرتا کہ یہ لوگ تو ہمارے دشمن ہیں.آپ ان سے ایسا سلوک کیوں کرتی ہیں.تو وہ اس کو بُرا منایا کرتیں اور ہمیشہ یہی جواب دیا کرتیں کہ جس کا اللہ دشمن نہ ہو
اُس کا اور کوئی دشمن نہیں ہوسکتا.اُن کا اکثر یہ معمول تھا کہ یتامیٰ اور مساکین کے لئے اپنے ہاتھ سے پار چات تیار کرتی رہتی تھیں اور بغیر حاجتمند کے سوال کے انتظار کئے اُن کی حاجت روائی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق کے مطابق کرتی رہتی تھیں.ایک روز ڈسکہ میں کچھ پار چات تیار کر رہی تھیں کہ میاں جہاں نے دریافت کیا یہ پار چات کس کے لئے تیار ہو رہے ہیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا فلاں شخص کے بچوں کے لئے.میاں جُہاں نے ہنس کر کہا.آپ کا بھی عجب طریق ہے.وہ تو احراری ہے اور ہمارا مخالف ہے اور یہ لوگ ہر روز ہمارے خلاف کوئی نہ کوئی نئی شرارت کھڑی کر دیتے ہیں اور آپ اُس کے بچوں کے لئے کپڑے تیار کر رہے ہیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا وہ شرارت کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرتا.جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے.مخالف کی شرارتیں ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا.سکتیں.لیکن یہ شخص مفلس ہے.اس کے پاس اپنے بچوں اور پوتوں کے بدن ڈھانکنے کے لئے کپڑے مہیا کرنے کا سامان نہیں.کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالی کو یہ پسند ہے کہ اس کے بچے اور پوتے ننگے پھریں؟ اور تم نے جو میری بات کو نا پسند کیا ہے.اس کی سزا یہ ہے کہ یہ کپڑے جب تیار ہو جائیں.تو تم ہی انہیں لے کر جاتا اور اُس شخص کے گھر پہنچا کر آنا.لیکن لے جانا رات کے وقت تا کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ میں نے بھیجے ہیں.ورنہ دوسرے احراری اُسے دق کریں گے کہ تم نے احمدیوں سے یہ اشیاء کیوں لیں.انہی ایام میں ہمارے گاؤں کے ایک ساہوکار نے ایک غریب کسان کے مویشی ایک ڈگری کے سلسلہ میں فرق کر لئے.یہ کسان بھی احراریوں میں شامل تھا.قرق شدہ مویشیوں میں ایک بچھڑی بھی تھی.قرقی کے وقت کسان کے کم سن لڑکے نے پچھڑی کی ری پکڑ لی کہ یہ پچھڑی میرے باپ نے مجھے دی ہوئی ہے.میں یہ نہیں لے جانے دوں گا.ڈگری دار نے یہ بچھڑی بھی فرق کرالی.اس سے چند روز
قبل اسی کسان کی ایک بھینس کنویں میں گر کر مر گئی تھی.یہ بھی مفلس آدمی تھا اور یہ مویشی ہی اُس کی پونجی تھے.والدہ صاحبہ ان دنوں ڈسکہ ہی میں مقیم تھیں.جب انہیں اس واقعہ کی خبر پہنچی تو بے تاب ہو گئیں.بار بار کہتیں.آج اس بیچارے کے گھر میں ماتم کی صورت ہوگی.اُس کا ذریعہ معاش جاتا رہا.اُس کے بیوی بچے کس امید پر جیں گے.جب اس کے لڑکے کے ہاتھ سے قارق نے بچھڑی کی رہی لے لی ہوگی تو اس کے دل پر کیا گزری ہوگی ! پھر دُعا میں لگ گئیں کہ یا اللہ تو مجھے تو فیق عطا کر کہ میں اس مسکین کی اور اس کے بیوی بچوں کی اس مصیبت میں مدد کر سکوں.میاں جہاں کو بلایا ( یہ تین پشت سے ہماری اراضیات کے منتظم چلے آتے ہیں ؟ اور کہا آج یہ واقعہ ہو گیا ہے.تم ابھی ساہوکار کو بلا کر لاؤ.میں اُس کے ساتھ اس شخص کے قرضہ کا تصفیہ کروں گئی اور ادائیگی کا انتظام کرونگی.تا شام سے پہلے پہلے اس کے مویشی اُسے واپس مل جائیں اور اُس کے بیوی بچوں کے دلوں کی ڈھارس بندھے.میاں جہاں نے کہا میں تو ایسانہ کروں گا.یہ شخص ہمارا مخالف ہے.ہمارے دشمنوں کے ساتھ شامل ہے.والدہ صاحبہ نے خفی سے کہا: تم مل جولاہ کے بیٹے ہو اور میں چوہدری سکندر خاں کی بہو اور چوہدری نصر اللہ خان کی بیوی اور ظفر اللہ خاں کی ماں ہوں اور میں تمہیں خدا کے نام پر ایک بات کہتی ہوں اور تم کہتے ہو میں نہیں کروں گا، تمہاری کیا حیثیت ہے کہ تم انکار کرو.جاؤ جو میں حکم دیتی ہوں فورا کرو اور یاد رکھوسا ہو کار کو کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کہ تصفیہ میں کوئی دقت ہو.جب مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا تو فرمایا ظہر کا وقت ہو چکا تھا.میں نے نماز میں پھر بہت دعا کی کہ یا اللہ میں ایک عاجز عورت ہوں.تو ہی اس موقعہ پر میری مددفرما
۶۲ اور میں نے یہ بھی دعا کی کہ میرے بیٹے عبداللہ خاں اور اسد اللہ خاں قصور اور لاہور سے جلد پہنچ جائیں.(خاکساران دنوں انگلستان میں تھا) نماز سے ابھی فارغ ہوئی تھی کہ عبداللہ خاں اور اسد اللہ خاں موٹر میں پہنچ گئے.مجھے دیکھتے ہی انہوں نے دریافت کیا.آپ اس قدر افسردہ کیوں ہیں؟ میں نے تمام ماجرا اُن سے کہدیا اور کہا تم دونوں اس معاملہ میں میری مدد کرو.انہوں نے کہا جیسے آپ کا ارشاد ہو.چنانچہ ساہوکار آیا اور والدہ صاحبہ نے اُس کے ساتھ مقروض کے حساب کا تصفیہ کیا.ساہوکار نے بہت کچھ حیل و حجت کی.لیکن والدہ صاحبہ نے اصل رقم پر ہی فیصلہ کیا اور پھر ساہوکار سے کہا کہ یہ رقم میں خود ادا کروں گی.تم فورا اس کے مویشی واپس لا کر اس کے حوالہ کرو.پھر تصفیہ شدہ رقم یوں فراہم کی کہ جس قدر اپنے پاس روپیہ موجود تھا.وہ دیا اور باقی اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ پیش کریں.جب مویشی کسان کو واپس مل گئے.تو اُس کے بیٹے سے کہا جاؤ اب جا کر اپنی کچھڑی پکڑ لو.اب کوئی تم سے نہیں لے سکتا.پھر اپنے بیٹوں کو دعائیں دیں کہ تم نے میرا غم دور کیا.اب میں چین کی نیند سو سکوں گی.سلسلہ کے متعلق غیرت لیکن ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ والدہ صاحبہ کو سلسلہ کے متعلق غیرت نہ تھی خلاف حقیقت ہو گا.سلسلہ کے متعلق انہیں انتہاء درجہ کی غیرت تھی اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، سلسلہ احمدیہ، خاندان نبوت اور بزرگانِ سلسلہ کے متعلق کسی قسم کی گستاخی یا ناروا حرکت برداشت نہ کر سکتی تھیں.مجھے خوب یاد ہے کہ جس زمانہ میں والد صاحب سلسلہ میں داخل ہوئے.انہیں مثنوی مولانا روم سے بہت دلچسپی تھی اور فرصت کے وقت ایک صاحب کے ساتھ جو بظاہر صوفیانہ اور فقیرانہ طرز رکھتے تھے مثنوی پڑھا کرتے تھے.ایک دفعہ یہ
۶۳ صاحب کسی تعطیل کے دن ہمارے مکان پر تشریف لائے اور دریافت کیا کہ والد صاحب کہاں ہیں؟ دفتر میں شاید اُس وقت کوئی محرر یا ملازم موجود نہیں تھا.اِن صاحب نے خیال کیا کہ شاید والد صاحب پہلی منزل پر ہوں.اُنہوں نے بلند آواز سے والد صاحب کو بلایا.والدہ صاحبہ نے مجھ سے فرمایا کہہ دو چوہدری صاحب گھر پر نہیں ہیں.میں نے یوں ہی کہہ دیا.ان صاحب نے دریافت کیا کہاں ہیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہہ دو قادیان گئے ہوئے ہیں.یہ سن کر اُن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں کوئی خلاف ادب کلمہ کہا.اب تک تو والدہ صاحبہ میری معرفت جواب دے رہی تھیں.یہ کلمہ سنتے ہی غصہ سے بیتاب ہو گئیں اور کھڑکی کے پاس جا کر جوش سے اُن صاحب سے کہا : - " تم نے بہت ظلم کیا ہے.اگر خیریت چاہتے ہو تو اسی وقت میرے مکان سے نکل جاؤ.کوئی ہے ملازم یہاں ؟ نکال دو اس گستاخ بڑھے کو اور یاد رکھو پھر بھی یہ اس مکان میں داخل نہ ہونے پائے.اب آلے اس کا دوست جس کے ساتھ یہ مثنوی پڑھنے کے لئے یہاں آتا ہے تو لوں گی اُس کی خبر کہ ایسے بے ادب گستاخ کے ساتھ کیوں نشست برخاست جاری رکھی ہوئی 6 ہے ہے.وہ صاحب تو اُسی وقت چلے گئے.والد صاحب کی واپسی پر والدہ صاحبہ نے بہت رنج کا اظہار کیا اور اصرار کیا کہ اب وہ صاحب بھی ہمارے مکان کے اندر داخل نہ ہوں.چنانچہ اُس دن کے بعد پھر وہ ہمارے مکان پر نہیں آئے.یہ حالت تو ابتدائے عشق کی تھی.پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا.غیرت بھی بڑھتی گئی.خاندانِ نبوت کے ساتھ جس قدر اخلاص اور محبت نہیں تھی.اُس کا کسی قد راندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بارہا میں نے اُس سے سُنا ہے کہ میں بھی کوئی دعا
۶۴ نہیں کرتی جب تک پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام خاندان کے لئے دُعا نہیں کر لیتی.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے ساتھ عقیدت حضرت خلیفتہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے ساتھ انہیں حد درجہ عقیدت تھی اور انتہاء کی محبت تھی.آپ کا کوئی ارشاد پہنچ جاتا فورا اس پر کار بند ہو جاتیں اور حضور بھی خصوصیت سے شفقت کا سلوک اُن کے ساتھ روا رکھا کرتے تھے.بعض دفعہ نور محبت میں وہ حضور کے ساتھ بالکل ایسے کلام کر لیتی تھیں.جیسے ماں اپنے بچوں کے ساتھ کرتی ہے اور حضور بھی اُن کی دلجوئی کی خاطر بعض اوقات لمبا عرصہ اُن کی باتیں سنتے رہتے تھے.والدہ صاحبہ کا ایک رؤیا خصوصیت سے اس تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے.چار پانچ سال کا عرصہ ہوا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رویا میں دیکھا کہ والد صاحب کے ساتھ کوئی بات کر رہے ہیں اور پھر والدہ صاحبہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا انہیں بلائے.چنانچہ والد صاحب نے کسی سے کہا وہ ظفر اللہ خاں کی والدہ کھڑی ہیں.اُن سے کہیں حضور نے یاد فرمایا ہے.والدہ صاحبہ یہ پیغام ملنے پر حضور کی پیٹھ کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئیں اور عرض کی حضور میں حاضر ہوں.حضور نے فرمایا: محمود سے کہنا وہ مسجد والی بات یاد نہیں؟“ جب خاکسار نے والدہ صاحب کا یہ رویا حضرت خلیفہ امسیح کی خدمت اقدس کی میں بیان کیا.تو حضور نے فرمایا یہ آنے والے فتن کے متعلق جماعت کی حفاظت کی طرف اشارہ ہے.والد صاحب کی وفاتکے کچھ عرصہ بعد والدہ صاحبہ نے حضرت خلیفہ المسیح کی
خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اگر ممکن ہو.تو اُن کے قریب قریب میری قبر کی جگہ مقرر فرما دیں.حضور نے فرمایا کہ عام طور پر ایسا کرنا تو پسندیدہ نہیں.لیکن استثنائی صورت میں ایسا ہو سکتا ہے.چنانچہ حضور نے والد صاحب کی قبر کے دائیں طرف والدہ صاحبہ کے لئے جگہ مقرر فرما دی.لیکن ایسا اتفاق ہوا کہ جب حضرت تائی صاحبہ فوت ہوئیں.تو انہیں اس جگہ دفن کر دیا گیا.والدہ صاحبہ نے جب حضرت صاحب کی خدمت میں اس امر کا ذکر کیا.تو حضور نے فرمایا کہ مقبرہ بہشتی کے منتظمین کے سہو سے ایسا ہو گیا ہے.اب ہم نے اور جگہ آپ کے لئے تجویز کر دی ہے.یہ ہے تو اُسی قطعہ میں.لیکن چوہدری صاحب کے پاؤں کی طرف ہے.والدہ صاحبہ نے عرض کی.حضور میں ہوں بھی اُن کی پاؤں کی جگہ کے ہی لائق لیکن اب ایسا انتظام فرمائیے کہ پھر میری جگہ کسی اور نہ مل جائے.حضور نے فرمایا اب ہم نے مقبرہ بہشتی کے محکمہ کو ہدایت دے دی ہے کہ وہ اپنے رجسٹروں میں اس کا اندراج کر دیں اور اخبار میں اعلان بھی کرا دیا جائے گا.خاندان حضرت مسیح موعود کے ساتھ محبت ۱۹۳۵ء میں جب ایک احراری نے صاحبزادہ میرزا شریف احمد صاحب پر حملہ کیا.تو والدہ صاحبہ کو یہ واقعہ سن کر بہت قلق ہوا.کھانا پینا موقوف ہو گیا.نیند آ گئی اور آنسو بند ہونے میں نہیں آتے تھے.چند دن کے بعد خاکسار سے فرمایا.ظفر اللہ خاں میں بہت سوچتی ہوں کہ جب اس واقعہ کو سن کر میرا یہ حال ہے تو اماں جان ( حضرت ام المومنین ) کا کیا حال ہو گا پھر مجھے خیال آتا ہے کہ میں اس معاملہ میں کیا کر سکتی ہوں.دو تین روز ہوئے ایک تجویز میرے ذہن میں آئی ہے.اس کے بعد میں نے بہت دعائیں کی ہیں اور مجھے اطمینان ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس تجویز پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.
۶۶ میں نے دریافت کیا کہ کیا تجویز ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا.لیڈی ولنگڈن میرے ساتھ بہت محبت کا اظہار کرتی ہیں اور میں بھی محسوس کرتی ہوں کہ انہیں ضرور میرے ساتھ کچھ لگاؤ ہے.اگر تم ان کے ساتھ میر کی ملاقات کا وقت مقرر کر دو اور وائسرائے بھی اُس وقت موجود ہوں.تو میں اُن کے سامنے بیان کروں کہ سلسلہ کے ساتھ حکومت کی طرف سے کیسا سلوک ہو رہا ہے اور اب اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لخت جگر پر ایک آوارہ آدمی نے حملہ کر دیا ہے.میں اب بوڑھی عورت ہوں میرے متعلق تو پردہ کی بھی کوئی سخت پابندی نہیں اور میرے دل میں بار بار یہ بات اٹھتی ہے کہ میں وائسرائے کے سامنے جا کر یہ شکوہ کروں.میں نے کہا ملاقات کا انتظام تو میں کرادوں گا اور ترجمانی کے لئے ساتھ بھی چلوں گا.لیکن بات ساری آپ نے خود ہی کرنی ہوگی.میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکوں گا.ورنہ وہ خیال کریں گے کہ میں آپ کو سکھا کر لایا ہوں.والدہ صاحبہ نے فرمایا تم وقت مقرر کرا دو.بات کرنے کی ہمت اللہ تعالیٰ مجھے عطا کر دیگا.چنانچہ میں نے وائسرائے صاحب سے ذکر کیا.انہوں نے کہا بڑی خوشی سے تشریف لائیں.وائسرائے ہند سے ملاقات وقت مقررہ پر ہم دونوں وائسرائے اور لیڈ کی ولنگڈن کی خدمت میں حاضر ہو گئے.مزاج پرسی کے بعد وائسرائے صاحب نے کہا ظفر اللہ خاں نے مجھے کہا ہے کہ آپ اپنی جماعت کے متعلق مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتی ہیں.والدہ صاحبہ اور لیڈی ولنگڈن ایک صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھیں.لیڈی ولنگڈن کی دائیں طرف وائسرائے ایک آرام کرسی پر بیٹھے تھے اور والدہ صاحبہ کی بانہیں طرف خاکسار ایک دوسری آرام کرسی پر بیٹھا تھا.لیڈی ولنگڈن کا معمول تھا کہ جب والدہ صاحبہ کے پاس بیٹھتی تھیں.تو
16 ایک بازو والدہ صاحبہ کی کمر کے گرد ڈال لیا کرتی تھیں اور بالکل ان کے ساتھل کر بیٹھا کرتی تھیں.اب بھی یہ دونوں ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھیں.لیڈی ولنگڈن کسی کسی وقت اپنے فارغ ہاتھ سے والدہ صاحبہ کے ہاتھ بھی دباتی جاتی تھیں.وائسرائے کے سوال کرنے پر والدہ صاحبہ نے فرمایا.ہاں میں نے بہت غور کے بعد آپ تک پہنچنے کی جرات کی ہے.میں احمد یہ جماعت کی ایک فرد ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ہمارے سلسلہ کے بانی تھے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم سلطنت برطانیہ کے وفادار ر ہیں اور اس کے لئے دعا کرتے رہیں.کیونکہ اس عملداری میں ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے اور ہم بغیر خوف وخطر کے اپنے دین کے احکام بجالا سکتے ہیں.میں باقی جماعت کے متعلق تو نہیں کہ سکتی لیکن اپنے متعلق وثوق سے کہہ سکتی ہوں (یہاں والدہ صاحبہ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ لیا ) کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس ہدایت پر باقاعدہ عمل کرتی رہی ہوں اور سلطنت برطانیہ کے قیام اور اس کی بہبودی کے لئے متواتر دعا کرتی رہی نیوں.لیکن دو سال کے عرصہ سے پنجاب کی حکومت کا ہماری جماعت کے ساتھ برتاؤ کچھ ایسا غیر منصفانہ ہو گیا ہے اور ہمارے امام اور ہماری جماعت کو ایسی ایسی تکالیف پہنچ رہی ہیں کہ دعا تو میں اب بھی کرتی ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حکم ہے.لیکن اب دعادل سے نہیں نکلتی.کیونکہ میرا ادل خوش نہیں ہے.ابھی چند دن کا ذکر ہے کہ ایک آوارہ اور شہد سے شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے اور ہمارے امام کے چھوٹے بھائی پر حملہ کر دیا اور انہیں ضربات پہنچا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہمیں اپنی جانوں سے بھی پیاری ہے اور میں نے جب سے اس واقعہ کی خبر سنی ہے.میں نہ کھا سکتی ہوں نہ پی سکتی ہوں نہ مجھے نیند آتی ہے.آتی یہ فقرے والدہ صاحبہ نے کچھ ایسے در دستے کہے کہ لیڈی والنگڈن کا چہرہ بالکل
متغیر ہو گیا اور انہوں نے جھنجلا کر وائسرائے سے دریافت کیا کہ یہ کیا واقعہ ہے اور آپ نے کیوں مناسب انتظام نہیں کیا ؟ وائسرائے نے جواب دیا.میں نے ظفر اللہ خاں کے ساتھ تفصیلاً اس کے متعلق گفتگو کی ہے اور والدہ صاحبہ سے مخاطب ہو کر کہا.اصل بات یہ ہے کہ یہ امور گورنر صاحب پنجاب کے اختیار میں ہیں اور میں ان کے متعلق اُن کے نام کوئی حکم جاری نہیں کر سکتا.اگر میں ان معاملات میں دخل دوں تو وہ پُر امنائیں گے.جب میں خود بمبئی یا مدراس کا گورنر تھا اگر اس وقت کے وائسرائے ایسے معاملات میں میرے نام کوئی حکم جاری کرتے تو میں بھی بُرا منا تا.والدہ صاحبہ نے فرمایا.میں آپ سے یہ نہیں کہتی کہ آپ ان کے نام حکم جاری کریں یا سختی سے کام لیں.لیکن آخر اُن کے کام کی نگرانی بھی تو آپ ہی کے سپرد ہے.آپ انہیں نرمی اور محبت سے سمجھائیں کہ وہ ہماری شکایات کو رفع کریں.وائسرائے نے کہا.ہاں میں ایسا ضرور کرونگا.لیکن لیڈی ولنگڈن کا جوش وائسرائے کے اس جواب سے ٹھنڈا نہ ہوا.وہ والدہ صاحبہ کے ہاتھ دباتیں اور محبت کے کلمات سے اُن کو مخاطب کرتیں اور بار بار کہتیں میں خود پنجاب کے گورنر کو سمجھاؤں گی.آپ گھبرا نہیں نہیں میں اس کوسر زنش کرونگی اور مجھ سے اصرار کے ساتھ کہتیں کہ میری بات کا حیح حیح ترجمہ کرو.ایک اور موقعہ پر لارڈ ولنگڈن نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ کیا ایک ملک کی حکومت کا انتظام زیادہ آسان ہے یا ایک گھر کا انتظام؟ والدہ صاحبہ نے جواب دیا.دونوں میں سے جس کو اللہ تعالی زیادہ آسان کر دے.وائسرائے کو اس جواب سے بہت استعجاب ہوا.
۶۹ میر انعام اللہ شاہ صاحب کی وفات کے متعلق خواب اپریل ۱۹۳۵ء میں میر انعام اللہ شاہ صاحب مرحوم حیدر آباد دکن تشریف لے گئے اور آخرمئی میں وہاں سخت بیمار ہو گئے.جب اُن کی بیماری کی اطلاع ملی.تو میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کی.انہیں میر صاحب کے ساتھ بہت اُنس تھا.فرمایا دعا کروں گی.لیکن ساتھ ہی بہت تشویش کا اظہار کیا اور کچھ عرصہ قبل کا اپنا ایک خواب سنایا کہ ایک مکان کی اوپر کی منزل کے صحن میں میر صاحب اور عزیز چوہدری بشیر احمد کے ساتھ ایک پلنگ پر بیٹھی ہوں کہ کھڑکی میں سے چوہدری جلال الدین صاحب محسن میں آگئے.میں دل میں ڈری کہ یہ تو فوت ہو چکے ہوئے ہیں.یہ یہاں کیسے آگئے.میں نے بشیر احمد کو اشارہ کیا کہ ہم کمرے کے اندر چلے جائیں.چنانچہ بشیر احمد نے دروازہ کھولا اور ہم دونوں کمرے کے اندر چلے گئے.میں نے دروازہ کے شیشہ میں سے دیکھا کہ چوہدری جلال الدین صاحب میر صاحب کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئے اور پھر دونوں ایک ہی لحاف اوڑھ کر اُسی پلنگ پر لیٹ گئے.خاکسار نے جب یہ خواب سنا تو والدہ صاحبہ کی خدمت میں عرض کی کہ اس کی تعبیر تو بالکل واضح ہے.اگر آپ اسی وقت بتا دیتیں تو میں میر صاحب کو حیدر آباد سے واپس چلے آنے کی تحریک کرتا لیکن اب سوائے دعا کے اور کیا چارہ ہے.دو دن بعد تہجد اور فجر کے درمیان والدہ صاحبہ پلنگ پر لیٹی ہوئی میر صاحب کی صحت کے لئے ہی دعا کر رہی تھیں کہ آواز آئی کہ اُس کا کرنٹ (Current) بند کر دیا گیا ہے فورا اُٹھ کر میری بیوی کے کمرے میں گئیں اور اُسے جگا کر کہا.میر صاحب فوت ہو گئے ہیں.صبح کو حیدر آباد سے تار آیا کہ میر صاحب رات فوت ہو گئے ہیں اور بعد میں جب تفصیلی حالات معلوم ہوئے تو معلوم ہوا کہ اُن کی وفات عین اُس وقت ہوئی جس وقت والدہ صاحبہ کو بتایا گیا کہ ان کا کرنٹ بند کر دیا گیا ہے.
رسوم اور بدعات سے بیزاری چوہدری بشیر احمد صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدہ صاحبہ کو بدعات اور رسوم سے کس قدر نفرت تھی.وہ کہتے ہیں.میری شادی کا موقعہ تھا.نکاح کے بعد مجھے زنانہ میں بلایا گیا.میں نے دیکھا کہ جیسے دیہات میں رواج ہے.دو نشستوں کا ایک دوسرے کے مقابل انتظام کیا گیا ہے اور مجھ سے توقع کی جارہی ہے کہ میں ایک نشست پر بیٹھ جاؤں اور دوسری پر دلہن کو بٹھا دیا جائے اور بعض رسوم ادا کی جائیں.جنہیں پنجابی میں بیٹڑو گھوڑی کھیلنا" کہتے ہیں.میں دل میں گھبرایا.لیکن پھر میں نے خیال کیا کہ اس وقت عورتوں کے ساتھ بحث اور ضد مناسب نہیں اور میں اُس نشست پر جو ے لئے تجویز کی گئی تھی بیٹھ گیا اور ان اشیاء کی طرف جو اس رسم کے لئے مہیا کی میں تھیں، ہاتھ بڑھایا.اتنے میں ممانی صاحبہ ( خاکسار کی والدہ صاحبہ ) نے میرا ہاتھ کلائی سے مضبوط پکڑ کر پیچھے ہٹادیا اور کہا نہ بیٹا یہ شرک کی باتیں ہیں.اس سے مجھے بھی حوصلہ ہو گیا.میں نے اُن اشیاء کو اپنے ہاتھ کے ساتھ بکھیر دیا اور کھڑے ہو کر کہہ دیا کہ میں ان رسوم میں شامل نہیں ہونگا اور اس طرح میری مخلصی ہوئی.میری لڑکی کی پیدائش کے متعلق والدہ صاحبہ کا رویا مئی ۱۹۳۶ ء میں والدہ صاحبہ نے رویا دیکھا کہ کوئی خادم ایک طشتری لایا ہے جس میں آم کی قسم کے پانچ عدد پھل اور پانچ روپے رکھے ہیں اور ایک طلائی زیور ہے.جسے پنجابی میں تیلا یا تھیلی کہتے ہیں اور جو ناک میں پہنا جاتا ہے.اس خادم نے والدہ صاحبہ کا نام لیا کہ وہ یہ پھل لائے ہیں.والدہ صاحبہ نے رویا ہی میں کہا.یہ تو وہی پھل ہے جو انہوں نے کہا تھا کہ پکی گا تو میں خود طشتری میں رکھ کر لاؤں گا.
چنانچہ صبح ہونے پر والدہ صاحبہ نے میری بیوی کو یہ رویا سنایا اور دریافت کیا کہ کیا اس کے پورا ہونے کے آثار ہیں؟ اُس نے کچھ حجاب کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ اُسے خود بھی پورا یقین نہیں تھا کہ دیا نہیں ابھی تو کوئی آثار نہیں ہیں.والدہ صاحبہ نے کہا تم انکار کرتی ہو مجھے تواللہ تعالیٰ نے بڑی صفائی سے اطلاع دے دی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے فضل سے اس بشارت کو پورا کریگا.چنانچہ ۱۲ جنوری ۱۹۳۷ء کو عزیزہ امتہ ائی پیدا ہوئی.اس کا یوم پیدائش بھی بہت مبارک ہے.کیونکہ یہی تاریخ حضرت خلیفہ اسیح ثانی کی ولادت مبارکہ کی ہے.اس کے پیدا ہونے سے چند گھنٹے قبل والدہ صاحبہ نے میری بیوی سے کہا کہ لڑکی پیدا ہوگی.کیونکہ میں نے ابھی غنودگی کی حالت میں دیکھا کہ مکان میں بہت چہل پہل ہے اور لوگ کہتے ہیں : بی بی آئی ہے بہت خوبصورت" والدہ صاحبہ کو امتہائی کے پیدا ہونے کی بہت ہی خوشی ہوئی.کیونکہ وہ خاکسار کے ہاں اولاد کی بہت آرزو رکھتی تھیں اور اس کے لئے بہت دعائیں کرتی رہتی تھیں.امتہائی کی پیدائش کے بعد مجھے فرمایا.بیٹا پچھلے سال تو میں اس رنگ میں بھی دُعا کرتی رہی.کہ یا اللہ لوگ جب مجھ سے دعا کے لئے کہتے ہیں تو میں شرمندہ ہو جاتی ہوں کہ یہ ایک دعا میں اتنی مدت سے کر رہی ہوں اور ابھی تک تیری رحمت کا دروازہ نہیں کھلا.اب اُس نے میری یہ دعا بھی سُن لی.میں اُس کی کس کس رحمت کا شکر ادا کروں.والدہ صاحبہ کی بعض خوابوں کا ذکر والدہ صاحبہ کے بہت سے رویا اور خوابوں کا ذکر ان واقعات کے تعلق میں آپکا ہے.جواب تک میں نے بیان کئے ہیں.بعض دیگر رویاء کا میں ابھی ذکر کروں گا.
۷۲ لیکن یہ محض نمونہ کے طور پر ہیں.ورنہ یہ سلسلہ اُن کی اوائل عمر سے لے کر آخر تک جاری رہا اور بہت کثرت سے وہ بچے خواب اور رویا دیکھا کرتی تھیں.اُن کو خود بھی اپنے رویا اور خوابوں پر پورا یقین تھا اور ہم سب بھی جو قریباً ہر روز ان کے رویا اور خوابوں کی قبولیت دعا کا مشاہدہ کرتے تھے اُن پر پورا یقین رکھتے تھے اور یہ مشاہدہ ہمارے ایمانوں کی مضبوطی کا باعث ہوتا تھا.کیونک دنیا خواہ ایسی باتوں پر شک کرے ہمارے لئے یہ روزانہ مشاہدہ کی بات تھی اور ہم ایسے روحانی امور کے مشاہدہ کی بناء پر قائل تھے.بعض دفعہ والدہ صاحبہ کو الہام بھی ہوتا تھا.لیکن وہ انکسار کی وجہ سے اس کا نام الہام نہیں رکھتی تھیں.اب میں مثال کے طور پر اُن کے بعض ایسے رویاء کا ذکر کرتا ہوں.جو کوئی نہ کوئی خصوصیت اپنے اندر رکھتے ہیں.1910ء میں آپ نے خواب میں دیکھا کہ سیالکوٹ چھاؤنی کے بڑے گر جائے بُرج میں سے ایک بڑا پتھر گر گیا ہے اور بُرج میں خلا ہو گیا ہے.خواب میں آپ نے میری پھوپھی زاد ہمشیرہ شریفہ بی بی سے کہا.دیکھو یہ خلا کیسا بد نما معلوم ہوتا ہے.شریفہ بی بی نے کہا.ممانی جان دیکھئے وہ سنگساز ایک بالکل ویسا ہی پتھر تراش کر تیار کر رہے ہیں.جو ابھی گرے ہوئے پتھر کی جگہ لگا دیا جائے گا.چند دن بعد شاہ ایڈورڈ ہفتم کا انتقال ہوگیا اور شاہ جارج پنجم اُن کی جگہ تخت نشین ہوئے.۱۹۳۶ء کے آخر میں جب شاہ ایڈورڈ ہشتم کی شادی کے متعلق اخبارات میں چرچا ہونے لگا.تو میں نے ایک روز والدہ صاحبہ سے عرض کیا کہ آپ بادشاہ کے لئے دعا کریں.وہ اس قسم کی مشکل میں گرفتار ہیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا.چند دن سے میں متواتر خواب میں شور و غوغا اور بے چینی کے نظارے دیکھ رہی ہوں.ممکن ہے یہ بادشاہ کے متعلق ہی اشارہ ہو.اچھا میں دعا کرونگی.بعد میں میں نے دو تین بار دریافت کیا تو فرمایا.شور بڑھ رہا ہے کم نہیں ہوتا.مجھے خوف ہے کہ نتیجہ اچھا نہیں ہوگا.چنانچہ چند دن بعد شاہ ایڈورڈ ہفتم تخت سے دست بردار ہو گئے.
۷۳ عزیز اسد اللہ خان چھوٹی عمرکا تھا کہ اس سے سلیٹ گم ہوگئی یا ٹوٹ گئی.والدہ صاحبہ اسے بہت خفا ہوئیں کہ ہر چند دن کے بعد نئی سلیٹ لیتے ہو اور اسے توڑ دیتے ہو یا کم کر دیتے ہو.والدہ صاحبہ کے خفا ہونے سے وہ بہت سہم گیا.اُسی رات والیدہ صاحبہ نے رویا میں ایک نہایت نورانی شکل والے سفید پوش بزرگ کو دیکھا.جنہوں نے فرمایا.” آپ نے ایک چار آنہ کی چیز ضائع ہو جانے پر ہمارے بندے پر اس قدر غضب کا اظہار کیا.یہ لیجئے چار آنے میں دے دیتا ہوں اور انہوں نے ایک چمکتی ہوئی چونی والدہ صاحبہ کو دی.والدہ صاحبہ بیدار ہوئیں تو فجر ہونے کو تھی.لوٹے میں پانی لے کر وضو کے لئے اُوپر کی منزل پر گئیں.چاندنی ہو رہی تھی.جب چھت پر آسمان کے نیچے پہنچیں تو کوئی چھکتی ہوئی چیز تیزی سے آسمان سے گرتی ہوئی دیکھی.وہ چیز اُن کے لوٹے کے ساتھ آکر ٹکرائی اور ٹکرانے کی آواز ایسی تھی کہ گویا یہ چیز چاندی کی یا کسی اور ای قسم کی دھات کی ہے.لوٹے سے ٹکرا کر یہ چیز زمین پر گر گئی.والدہ صاحبہ نے اُسے اٹھالیا اور دیکھا کہ وہ ایک چمکتی ہوئی چونی ہے.والدہ صاحبہ نے اُسے تبرک کے طور پر جیب میں ڈال لیا اور کچھ دن تو اُسے احتیاط سے الگ سنبھالے رکھا.لیکن چند دن کے بعد وہ کم ہو گئی.غالباً باقی سکوں کے ساتھ کہیں مل گئی اور خرچ کر دی گئی.والد صاحب کی وفات کے بعد دو تین دفعہ والدہ صاحبہ نے انہیں خواب میں اسی رنگ میں دیکھا کہ وہ نو جوان عورت جسے والدہ صاحبہ نے والد صاحب کی وفات سے تین دن قبل خواب میں دیکھا تھا کہ اُسی کمرہ میں بیٹھی ہے.جس میں والد صاحب کام کر رہے ہیں.اب بھی ان کی خدمت میں مصروف ہے.جب دوسری تیسری دفعہ یہی نظارہ والدہ صاحبہ نے دیکھا.تو خواب میں اُن کے دل میں کچھ قبض سی محسوس ہوئی کہ یہ عورت ہر وقت ان کے ساتھ کیوں رہتی ہے.لیکن والدہ صاحبہ نے اس امر کا کوئی اظہار نہ خواب میں کیا اور نہ بیدار ہو کر.کچھ عرصہ بعد میری ایک
خالہ صاحبہ تشریف لائیں اور دوران گفتگو میں مہنس کر کہا کہ میں نے آپ کو بھائی جان کی طرف سے ایک پیغام دینا ہے.والدہ صاحبہ نے دریافت کیا.کیا پیغام ہے؟ خالہ صاحبہ نے کہا.کچھ دن ہوئے میں نے بھائی جان کو خواب میں دیکھا.ایک نو جوان عورت اُن کے پاس کھڑی تھی اور پنکھا ہلا رہی تھی.کچھ باتیں بھی ہوئیں.پھر انہوں نے مجھ سے کہا.ظفر اللہ خان کی والدہ سے کہنا کہ وہ خوامخواہ دق ہو ئیں.یہ عورت تو میری خدمت کے لئے مقرر ہے میرا اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں“.اس پر والدہ صاحبہ نے خواب میں جو انہیں احساس ہو اتھا اس کا ذکر خالہ صاحبہ سے کیا.والد صاحب کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ایک رویا میں والدہ صاحبہ نے والد صاحب کو دیکھا.والد صاحب نے دریافت کیا آپ اس قدر افسردہ کیوں ہیں؟ والدہ صاحبہ تو اس پر خاموش رہیں.ہمارے پھوپھا صاحب چوہدری ثناء اللہ خاں صاحب نے جو پاس تھے جواب دیا.آپ کی جدائی کی وجہ سے افسردہ ہیں.اگر آپ کو ان کی افسردگی کی فکر ہے.تو آپ انہیں ساتھ کیوں نہیں لے جاتے.اس پر والد صاحب بھی کچھ افسردہ ہو گئے اور فرمایا.سچ جانیئے ابھی ان کا مکان تیار نہیں ہوا.جب تیار ہو جائے گا.میں خود آ کر انہیں لے جاؤں گا.۱۹۳۶ء کی جنوری کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ والدہ صاحبہ کو خاکسار نے بہت افسردہ دیکھا تو سبب دریافت کرنے پر انہوں نے فرمایا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ اسد اللہ خاں قتل ہو گیا ہے اور اُس نے وصیت کی ہے کہ میرے بڑے بھائی میرے بچوں کی پرورش کریں.میں نے والدہ صاحبہ کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ خواب تعبیر طلب ہوتے ہیں اور بہر صورت دفع بلا کے لئے صدقہ دینا چاہئے اور دعائیں کرنی چاہئیں.والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ صدقہ کا تو میں نے صبح ہی انتظام کر دیا تھا اور دعا کر رہی ہوں اور کرتی رہونگی.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.دو یا تین دن کے بعد عزیز اسد اللہ خان ہمیں ملنے کے لئے دہلی آیا اور بیان کیا
۷۵ کہ رستہ میں رات کے وقت رین میں کسی شخص نے ایک لمبا خنجر اس جگہ پر گھونیہ جہاں اس کا سینہ ہوتا اگر حملہ سے پیشتر اس نے اپنا بستر بدل کر اپنے پاؤں اُس جگہ نہ کر لئے ہوتے چنانچہ خنجر جو بہت زور سے گھونپا گیا تھا.لحاف سے گزر کر تو شک سے گنہ رتا ہو اچھڑے کے گرنے میں اسد اللہ خان کے دونوں گھٹنوں کے درمیان گڑ گیا اور اسی حالت میں گڑا ہو اپایا گیا.اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالی نے والدہ صاحبہ کو قبل از وقت اس خطرہ کی اطلاع دے کر صدقہ اور دعا کی تحریک کی اور پھر اس کے نتیجہ میں اپنے فضل اور رحم سے اس بلا کو ٹال دیا.مجھے خوب یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں جب بھی طاعون کا دورہ شروع ہوتا تو والدہ صاحبہ کو قبل از وقت خواب کے ذریعہ اس کی اطلاع دی جاتی اور وہ اُسی وقت سے دعاؤں میں لگ جاتیں اور پھر جب افاقہ کی صورت ہوتی تو بھی خواب کے ذریعہ انہیں اطلاع ملی جاتی.اسی طرح ہمارے رشتہ داروں اور متعلقین میں خوشی اور غم کے مواقعے پر انہیں قبل از وقت خبر دی جاتی.سلسلہ کے بڑے بڑے واقعات اور دفعہ جاتی.بعض دفعہ دنیا کے بڑے بڑے واقعات سے بھی انہیں اطلاع دی جاتی.باواجھنڈ اسنگھ صاحب ریٹائر ڈسینئر سب جج نے میرے پاس بیان کیا کہ جب میں ۱۹۳۶ء کی گرمیوں میں شملہ ٹھہرا ہوا تھا.تو ایک دن تمہارے مکان پر تمہاری والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ قصور میں ہیضہ کی خبر ملنے پر مجھے بہت تشویش تھی اور میں بہت دعائیں کر رہی تھی.رات مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتہ کے بعد قصور میں ہیضہ کی وارداتیں بند ہو جائیں گی.باوا صاحب فرماتے تھے کہ میں اخباروں ) میں دیکھتارہا اور پورے ایک ہفتہ کے بعد قصور میں ہیضہ کی وارداتیں بند ہوگئیں.والدہ صاحبہ کا اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان
اللہ تعالیٰ کے ہر شئے پر قادر ہونے اور قبولیت دعا پر انہیں حق الیقین تھا.کیونکہ یہ اُن کے روزانہ مشاہدہ کی بات تھی.بیماری کے علاج کے سلسلہ میں اُن کا یہ قاعدہ تھا کہ علاج بتانے کے ساتھ ہی دعا میں لگ جاتی تھیں.اُن کی وفات سے چند دن پہلے کا واقعہ ہے کہ میرے ایک دوست کے پاؤں میں آبلہ سا ہو گیا اور اس سے انہیں کچھ غیر معمولی سی تکلیف ہونے لگی.میں نے والدہ صاحبہ سے ذکر کیا.انہوں نے علاج بتایا اور کہا.اُن سے کہو یہ علاج کریں اور میں دعا کرونگی اللہ تعالیٰ رحم کرے گا اور شفا دیگا.دوسرے دن جب وہ خود اپنی بیماری کی وجہ سے بستر میں تھیں تو مجھ سے کہا کہ ٹیلیفون کر کے اپنے دوست کا حال دریافت کرو.میں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے وہ علاج نہیں کیا اور تکلیف ابھی جاری ہے.تب والدہ صاحبہ نے کہا.اُن سے اصرار کرو کہ جیسے میں نے بتایا ہے علاج کریں.میں دعا کر رہی ہوں اللہ تعالیٰ ضرور شفا دے گا.چنانچہ دوسرے ہی دن اُن صاحب نے اطلاع دی کہ والدہ صاحبہ کی ہدایت کے مطابق علاج کیا گیا تھا.اب بہت افاقہ ہے.والدہ صاحبہا کر فرمایا کرتی تھیں کہ جب میں کسی کو کوئی علاج بتاتی ہوں.تو اس رنگ میں بھی دعا کرتی ہوں کہ یا اللہ میں نے تیرے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ جرات کر لی ہے.اب تو ہی اس شخص پر رحم فرما اور وہ بہت دفعہ میری عرض کو قبولیت بخشتا ہے.اللہ تعالیٰ کا بھی اُن کے ساتھ رُبَّ اشْعَتْ أَغْبَرَ والا سلوک تھا.والدہ صاحبہ کا اپنی وفات کے متعلق رویا تمیں سال سے زائد عرصہ ہوا.اُنہیں خواب میں بتایا گیا کہ اُن کی وفات اپریل کے مہینہ میں ہوگی.پھر کچھ عرصہ بعد بتایا گیا کہ اپریل کے آخری بدھوار کے دن وفات ہوگی.انہیں اس بات پر یقین تھا کہ یہ اطلاع اللہ تعالیٰ کی طرف سے
22 ہے.لیکن ساتھ ہی جانتی تھیں کہ ریا اور خواب تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور اس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں.جنوری ۱۹۳۸ء میں جب خاکسار انگلستان جانے لگا.تو والدہ صاحبہ نے دریافت کیا.اپریل تک واپس آ جاؤ گے ؟ میں نے جواب دیا امید کرتا ہوں انشاء اللہ.اس پر انہوں نے بہت اطمینان کا اظہار کیا.چنانچہ خاکسار یکم اپریل کی شام کو واپس دہلی پہنچ گیا.انگلستان سے میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں لکھا تھا کہ انشاء اللہ یکم اپریل کو دہلی پہنچ جاؤں گا اور ۱۲ دن دہلی ٹھہرنے کے بعد قادیان جاؤں گا.اگر آپ پسند فرمائیں.تو دہلی تشریف لے آئیں اور اگر سفر کی تکان اور تکلیف کا خیال ہو تو پھر انشاء اللہ ۳، راپریل کو قادیان ملاقات ہوگی.یکم اپریل کو گاڑی پونے دو گھنٹے دیر سے دہلی پہنچی.سٹیشن پر پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ موٹر میں بیٹھی انتظار کر رہی ہیں.چنانچہ جب میں موٹر میں پہنچا.تو دعا دی اور پیار کیا اور کہا تم نے یہ کیسے خیال کیا کہ میں بارہ دن اور انتظار کر سکونتگی ؟ والدہ صاحبہ کی علالت ابھی ہم دہلی ہی میں تھے کہ والدہ صاحبہ کو خون کے دباؤ کی تکلیف ہوگئی.پہلے بھی کبھی کبھی انہیں یہ تکلیف ہو جایا کرتی تھی.چنانچہ علاج کرنے پر دباؤ کی اصلاح ہوگئی اور تکلیف رفع ہو گئی.انہی ایام میں انہوں نے ایک رویا دیکھا.جس پر وہ اپنی طبیعت میں بہت خوشی محسوس کرتی تھیں اور گو اس کی تعبیر کو خوب سمجھتی تھیں.لیکن بار بار اور خوشی خوشی اُسے بیان کرتی تھیں.فرمایا میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک پلنگ پر تشریف فرما ہیں اور بہت خوش نظر آتے ہیں.مجھے آپ کو دیکھ کر دل میں بہت خوشی محسوس ہوئی اور میں نے عرض کیا یا حضرت اگر حضور اجازت دیں.تو میں حضور کے
ZA پاؤں دباؤں.آپ نے مسکرا کر کمال شفقت سے اپنے پاؤں پلنگ کے ایک طرف کر لئے.تا میرے بیٹھنے کے لئے جگہ ہو جائے.میں پلنگ پر بیٹھ گئی اور حضور کے پاؤں دبانے لگی.اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ حضور اس وقت بہت خوش نظر آتے ہیں.میں کسی بات کے لئے دعا کے لئے عرض کروں.ابھی میں سوچ رہی تھی کہ کس بات کے لئے دعا کے لئے عرض کروں کہ حضور نے اپنی دائیں طرف کسی سے مخاطب ہو کر اور میری طرف اشارہ کر کے فرمایا.ان کا مکان کشادہ بنانا.پھر میں بیدار ہوگئی.جب سے میں نے یہ خواب دیکھا ہے.میرے دل میں بہت ہی خوشی ہے.جب ہم قادیان پہنچے تو والدہ صاحب نے اپنا یہ کیا حضرت خلیفہ المسح اید والہ رویا ای بنصرہ کی خدمت میں بیان کیا اور ساتھ ہی عرض کی.حضور میں تو اُس وقت آپ کی شکایت کرنے کو تھی کہ اب میرا مکان کشادہ کیا ہوگا ایک طرف تو عبدالستار صاحب افغان دفن ہیں اور دوسری طرف کوئی اور.حضور نے مسکرا کر فرمایا یہ تو جنت کے مکان کی طرف اشارہ ہے.جب والدہ صاحبہ نے خاکسار سے اس گفتگو کا ذکر کیا.تو فرمایا یہ تو میں بھی جانتی ہوں کہ یہ جنت کے مکان کی طرف اشارہ ہے.میں نے اپنے قبر کے مقام کا ذکر تو حضرت صاحب کو ہنسانے کے لئے کیا تھا.اس موقعہ پر ہم آخر اپریل تک قادیان ٹھہرے.والدہ صاحبہ کے خواب کی وجہ سے ہی میں نے یہ انتظام کیا تھا کہ ہم اپریل کا آخری نصف قادیان گزاریں.اس عرصہ میں والدہ صاحبہ باوجود ضعف پیری کے اور خون کے دباؤ کی شکایت کے جو پھر عود کر آئی تھی پیدل جمعہ کی نماز کے لئے مسجد اقصی جاتی رہیں اور حضرت ام المؤمنین اور حضرت خلیفہ اس کی خدمت میں حاضر ہوتی رہیں.جمعہ کی نماز کے وقت چونکہ اچھی خاصی گرمی ہو جاتی تھی.اس لئے جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد اقصی گئی تھیں.تو میں نے عرض کیا کہ اگر آپ مجھے اطلاع دیتیں.تو میں
سواری کا انتظام کرتا.تو فرمایا نہیں بیٹا مسجد تک جانے میں کیا تکلیف.جب والدہ صاحبہ کو معلوم ہوا کہ حضرت خلیفتہ ایچ نے ۲۵ اپریل کو سندھ کی طرف روانگی کا ارادہ فرمایا ہے.تو کچھ افسردہ کی ہو گئیں.دو روز کے بعد معلوم ہوا کہ حضور ۲۷ اپریل کو قادیان سے روانہ ہوں گے.تو خوشی خوشی مجھے بتایا کہ تم نے سنا حضرت صاحب ۲۷ کو روانہ ہوں گے؟ میں نے کہا ہاں میں نے بھی سنا ہے.پھر دوبارہ مجھ سے کہا.۲۷ تاریخ ہے.میں نے کہا میں سمجھتا ہوں مراد ان کی یہ تھی کہ ۲ کو آخری بدھوار اپریل کے مہینے کا ہے اور اگر اس سال میرا خواب ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہے تو حضرت صاحب میرا جنازہ پڑھا کر قادیان سے روانہ ہوں گے.ار کی صبح کو فجر کی نماز کے بعد وہ آخری بار مقبرہ بہشتی گئیں.اس دن مجھ سے شکایت کی کہ میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے جسم کے اندر حرارت ہے.لیکن بظاہر اور کوئی تکلیف انہیں نہیں تھی.غالباً اسی شام یا ۲۸ ء کی شام کو میرے ساتھ مندرجہ ذیل واقعہ کا ذکر کیا.رحمدلی کا ایک واقعہ فرمایا آج میں شہر سے واپس آ رہی تھی.دار الانوار میں دیکھا کہ ایک عورت سڑک کے کنارے پر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہے اور دولڑ کیاں اس کے پاس بیٹھی ہیں.پہلے تو میں اُن کے پاس سے گزر آئی.لیکن چند قدم آگے آ کر میرے ذہن میں آیا کہ اس عورت کو کچھ تکلیف ہے.چنانچہ میں واپس گئی اور اُس عورت کے پاس بیٹھ گئی.میں نے دیکھا کہ وہ خود بھی اپنا ایک پاؤں دبا رہی ہے اور وہ لڑکیاں بھی اُس کا پاؤں دبا رہی ہیں.عورت درد سے کراہ رہی تھی.میں نے اُس کے پاؤں کو غور سے دیکھا.تو معلوم ہوا کہ ایک لمبی پیچ اُس کے پاؤں میں گڑی ہوئی ہے.وہ خود درد سے بے حال ہو رہی تھی.میں اکیلی تھی.میرے قریب بھی کوئی ایسا آدمی نہیں تھا.
۸۰ جسے میں مدد کے لئے بلا سکتی یا مدد کے لئے بھیج سکتی.آخر میں نے خیال کیا کہ میں خود ہی ہمت کر کے اس شیخ کو اس کے پاؤں سے بھینچ کر نکال دوں.لیکن جب میں نے اس کے پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ بہت گھبرائی اور منت کرنے لگی کہ آپ اسے نہ چھیڑیں مجھ سے درد برداشت نہ ہو سکے گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت عطا فرمائی اور میں نے ایک ہاتھ سے اس کے پاؤں کو مضبوط پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے شیخ کے سر کو پکڑ کر زور سے اسے بھینچ لیا.یہ مین کوئی اڑھائی تین انچ لمبی تھی اور تھی زنگ آلود.اس عورت کے پاؤں سے فوارہ کی طرح خون جاری ہو گیا.پہلے تو درد سے وہ اور بے حال ہوئی لیکن پھر اسے کچھ آرام محسوس ہونے لگا.میں نے اس سے کہا.ہمارا امکان یہاں سے قریب ہی ہے تم ہمت کر کے میرے ساتھ چلو.میں تیل ابال کر اور اس میں روئی بھگو کر تمہارے پاؤں پر باندھوں گی.تاکہ زخم میں کسی قسم کا زہر پیدا نہ ہو جائے اور تمام رات خود تمہاری خدمت کرونگی.لیکن اس عورت نے کہا میرا گاؤں قریب ہی ہے میں ان لڑکیوں کی مدد سے اپنے گھر پہنچ جاؤں گی.جب والدہ صاحبہ نے مجھے یہ واقعہ سنایا تو میں نے عرض کی کہ آپ مکان پر پہنچ کر کسی خادم کو حکم دیتیں وہ جا کر اس عورت کو لے آتا.والدہ صاحبہ نے فرمایا.وہ اپنے گھر جانے پر انہی ایام میں والدہ صاحبہ نے بتایا کہ کئی بار میں نے غنودگی کی حالت میں سنا ہے کہ کوئی شخص کہتا ہے کچھ ہونے والا ہے اور ایک دوسرا شخص جواب میں کہتا ہے.اب کی بار تو ہوکر رہے گا.۲۷ یا ۲۸ کو فرمایا.میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات جنازے مقبرہ بہشتی میں ساتھ ساتھ رکھے ہوئے ہیں.۳۰ ۱ اپریل کو جس دن قادیان سے ہماری روانگی تھی.والدہ صاحبہ نے زیادہ تکلیف کا اظہار کیا.میں نے عرض کی کہ میں ڈاکٹر صاحب کو بلوانے کی کوشش کرتا
Al ہوں.چنانچہ میں نے ٹیلیفون پر پیغام پہنچانے کی کوشش کی.لیکن یا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیغام نہ پہنچ سکا یا وہ کسی وجہ سے تشریف نہ لا سکے.سہ پہر کو میں مکان پر واپس آیا تو معلوم ہو اڈاکٹر صاحب نہیں آئے.میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں عرض کیا.اب شملہ پہنچ کر ڈاکٹر بلا لیں گے.انہوں نے مسکرا کر فرمایا.اچھا.شام کی گاڑی سے ہم قادیان سے روانہ ہو گئے.بٹالہ میں چوہدری نصیر احمد صاحب اور اُن کی بیگم صاحبہ ہمارے ساتھ شامل ہو گئے.ان کی بیگم صاحبہ کو ایک دن پیشتر ہی سخت درد کا دورہ ہوا تھا اور وہ بہت کمزور ہورہی تھیں.والدہ صاحبہ نے اصرار کیا کہ وہ پلنگ پر سوئیں اور خود انہوں نے صوفہ پر رات گزاری.صبح انہوں نے اپنا ایک رؤیا سنایا کہ تمہارے والد صاحب آئے ہیں اور کہتے ہیں.آپ تو بہت بیمار ہیں.اچھا میں جا کر ڈاکٹر کو لاتا ہوں.ایسا ڈاکٹر جس کی فیس ہر بارٹی بتیس روپیہ ہوئی.بیماری کا تشویشناک صورت اختیار کرنا شملہ پہنچ کر ڈاکٹر صاحب کو بلایا.انہوں نے کہا تکلیف تو خون کے دباؤ کی ہے لیکن صحیح علاج اس وقت تک تجویز نہیں ہوسکتا.جب تک بیماری کے پہلے مراحل کی تفصیل معلوم نہ ہو.خون وغیرہ کا معائنہ کرنے سے معلوم ہو ا کہ گردے بھی ٹھیک کام نہیں کر رہے.بہر حال جو علاج تجویز ہڈ او شروع کر دیا گیا.لیکن کمزوری آہستہ آہستہ بڑھتی گئی.شملہ پہنچ کر پہلی رات ہی والدہ صاحبہ نے رویا میں دیکھا کہ والد صاحب تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں.میں آپ کے لئے پالکی لے آیا ہوں.اب آپ جس وقت تیار ہو جائیں ہم روانہ ہو جائیں.والدہ صاحبہ نے کہا میں تو تہجد کے وقت تیار ہو جاؤں گی اور اس وقت چلنا بھی مناسب ہوگا.تا کہ زیادہ گرمی ہونے
۸۲ سے پہلے پہلے سفر طے کر لیا جائے.والد صاحب نے فرمایا بہتر ہوگا کہ بجے کے بعد روانہ ہوں جب بچے ناشتہ سے فارغ ہو جائیں ورنہ بچوں کو تکلیف ہوگی.والدہ صاحبہ نے دوسرے دن خواب بیان کرتے ہوئے پالکی کی زیبائش کی تفاصیل بھی بیان کیں کہ ایسی خوبصورت تھی اور اس قسم کی لکڑی تھی اور فلاں حصے چاندی کے تھے.پانچ دن تو اسی صورت میں گزر گئے کہ گو کمزوری تھی.لیکن کسی قسم کی تشویش نہیں تھی.تہجد کے لئے اور باقی نمازوں کے لئے خود ہی اٹھ کر غسل خانہ میں وضو کے لئے تشریف لے جاتی تھیں اور جائے نماز پر نمازیں پڑھتی تھیں.اکثر وقت پلنگ پر بیٹھے ہوئے گزارتی تھیں.چوتھے روز گوڈاکٹر صاحب نے پلنگ سے اترنا منع کر دیا تھا.لیکن پھر بھی 4 رمئی جمعہ کے دن عصر کے وقت جب میں ان کے پاس گیا.تو میں نے دیکھا کہ برآمدہ میں جائے نماز پر نماز پڑھ رہی ہیں.جب نماز ختم کر چلیں.تو میں نے عرض کی کہ ڈاکٹر صاحب نے تو پلنگ سے ملنے کی اجازت نہیں دی.آپ اس حالت میں ہیں.فرمایا نماز پڑھنے میں کوئی تکلیف نہیں.پھر میں نے کہا چلنے میں آپ کو پلنگ تک پہنچا آؤں اور میں سہارا دے کر پلنگ تک لے گیا.انہوں نے اظہار شفقت کے طور پر سہارا لے لیا.لیکن اس وقت تک ابھی انہیں سہارے کی ضرورت نہ تھی.مغرب کے بعد میں دفتر کے کمرہ میں بیٹھا ہو ا کام کر رہا تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ والدہ صاحبہ پر ایک قسم کی بے ہوشی کی حالت طاری ہو گئی ہے.میں فورا ان کے کمرہ میں گیا.اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ضعف کی وجہ سے کچھ نیم بے ہوش ہی ہو رہی ہیں.لیکن آہستہ آہستہ پاؤں دبانے سے پورا ہوش آ گیا اور باتیں وغیرہ کرنی شروع کر دیں.مجھ سے فرمایا کہ مغرب سے پیشتر جب تم مجھے یہاں چھوڑ گئے تھے.مجھے غنودگی ہوگئی اور میں نے محسوس کیا کہ میں کسی اندھیری جگہ میں ہوں اور وہاں سے نکلنے کا
۸۳ رستہ تلاش کر رہی ہوں لیکن رستہ نہیں ملتا.اسی دوران میں میں ایک خیمہ کے اندر چلی گئی ہوں کہ شاید یہاں سے رستہ باہر نکلنے کا مل جائے.لیکن اس خیمہ میں بھی بہت اندھیرا ہے اور نیچے کیچڑ ہے.جس میں میں پھنس گئی ہوں اور نکلنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن نکل نہیں سکتی.اس وقت میں نے کہا اگر کسی طور سے ظفر اللہ خاں کو اطلاع ہو جائے تو وہ مجھے یہاں سے نکلوانے کا انتظام کر لے گا.سے رمئی ہفتہ کے دن ان کی حالت پہلی شام کی حالت سے تو بہتر تھی لیکن کمزوری بہت محسوس کرتی تھیں.دوران گفتگو میں انہوں نے کہا.اگر ڈاکٹر لطیف یہاں ہوتے تو مجھے جلد صحت ہو جاتی.میں نے فورا ڈاکٹر لطیف صاحب کو دہلی تار دیدیا کہ والدہ صاحبہ آپ کو یاد فرماتی ہیں.وہ دوسرے دن صبح شملہ پہنچ گئے.والدہ صاحبہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں.پلنگ پر اٹھ کر بیٹھ گئیں.ڈاکٹر صاحب کو پیار کیا اور مسکرا کر کہا.اب کے اچھی ہو جاؤں تو سمجھوں بڑے ڈاکٹر ہو.ڈاکٹر صاحب نے کہا اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.دیکھئے میں آپ کا تار ملتے ہی آ گیا ہوں.والدہ صاحبہ نے کہا.میں نے تو تار نہیں بھجوایا اور میری طرف دیکھا.میں نے عرض کی کہ کل آپ نے ڈاکٹر صاحب کو یاد کیا تھا.اس لئے میں نے تار دے دیا تھا.شملہ سے دہلی کو روانگی ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے لئے شملہ میں ٹھہرنا نہایت مضر ہے.یہاں بلندی کی وجہ سے دل پر بہت بوجھ ہے.انہیں آج ہی میں اپنے ساتھ دہلی لے جاؤں گا اور اپنے مکان پر ہی رکھوں گا.کیونکہ تین چار روز تک متواتر علاج کی ضرورت ہے اور میرا ہر وقت قریب رہنا ضروری ہے.تاکہ دل کی حالت اور اور خون کے دباؤ کے مطابق علاج میں تبدیلی ہوتی پر ہے.ساتھ ہی والدہ صاحب کو تسلی دی کہ تین چار روز کے علاج کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام تکلیف
۸۴ دور ہو جائے گی.چنانچہ اسی دن دہلی کے سفر کی تیاری کر لی گئی.امتہ ائی کی والدہ نے اصرار کیا کہ میں ضرور والدہ صاحبہ کے ساتھ دہلی جاؤنگی.میں نے بھی روکنے کی کوشش کی اور والدہ صاحبہ نے بھی منع کیا کہ بچی کو گرمی میں بہت تکلیف ہوگی اور ڈاکٹر لطیف کا گھر بھی میرا اپنا گھر ہے.امینہ میری بیٹیوں کی طرح خدمت کرتی ہے.پھر عزیز بشیر احد کے گھر کے لوگ بھی دہلی میں ہیں.تم خوامخواہ بچی کو اور اپنے تئیں اس قدر گرمی میں تکلیف میں نہ ڈالو.لیکن اس نے اصرار جاری رکھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ یہاں سے بیماری کی حالت میں روانہ ہوں اور میں آپ کی خدمت اور خبر گیری کے لئے ساتھ نہ جاؤں.یہ اتوار کا دن تھا اور خاکسار کی حاضری دوسرے دن شملہ میں لازم تھی.اس لئے یہ انتظام کیا گیا کہ میں ان سب کو کا لکا تک جا کر پہنچا آؤں اور ریل میں سوار کر دوں اور پھر آئندہ ہفتہ کے دن خود بھی دہلی والدہ صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں.چنانچہ ہم سب شام کے وقت کا لکا پہنچ گئے اور ان سب کو آرام سے ریل میں سوار کرا دیا گیا.گاڑی کے چلنے کا وقت تو رات کے ۱۲ بجے تھا.لیکن ساڑھے دس کے قریب میں نے والدہ صاحبہ سے رخصت چاہی کہ اب جا کر میں ریل کیے بنگلے میں سو جاؤں.کیونکہ صبح سویرے پھر شملہ کا سفر کرتا ہے.والدہ صاحبہ لیٹی ہوئی تھیں.جب میں نے کمرہ کے اندر جا کر اجازت طلب کی تو اٹھ کھڑی ہوئیں اور میری پیشانی کو بوسہ دے کر دعا دی.ڈاکٹر صاحب نے انہیں کھڑے ہوئے دیکھا تو شور مچا دیا.ہے ہے جی ہے بے جی آپ کیا کر رہی ہیں فور الیٹ جائیں.آپ کو تو لیٹے لیٹے بھی حرکت نہیں کرنی چاہئے.والدہ صاحبہ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا.بیٹا لیٹے رہنے کے لئے تو بہت وقت ہے.ظفر اللہ خاں کو اب پھر ملنا شاید ہو یا نہ ہو.و مئی کی صبح کو میں ساڑھے آٹھ بجے واپس شملہ پہنچ گیا.شام کو دہلی ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ کی حالت پہلے سے بہتر ہے.البتہ دو پہر کے وقت امتلاء
۸۵ کی شکایت ہو گئی تھی.جس سے دل پر کچھ بوجھ بڑھ گیا تھا.لیکن یہ حالت ایک دو گھنٹوں کے بعد رفع ہوگئی.۰ ارمئی منگل کے دن دو بار دہلی ٹیلیفون کیا.وہی جواب ملا جو پہلے دن ملا تھا.ارمئی بدھ کے دن صبح کو بھی وہی جواب ملا.سہ پہر کو دہلی سے ٹیلیفون ہوا کہ دو پہر کے بعد دل کی حالت بگڑ گئی تھی.مگر ٹیکے وغیرہ کرنے سے پھر سنبھل گئی.اب نسبتا آرام ہے.ہوش میں ہیں اور باتیں کر رہی ہیں.لیکن حالت ایسی ہے کہ تمہیں فوراً دہلی پہنچ جانا چاہئے.مجھے دوسرے دن شملہ میں ایک ایسا ضروری سرکاری کام تھا.جسے چھوڑ کر میں نہیں جا سکتا تھا.میں نے جواب میں کہا کہ میں کل یہاں سے روانہ ہو سکتا ہوں.عزیز بشیر احمد نے اصرار کیا کہ آج ہی شملہ سے روانہ ہو جاؤ.میں نے کہا میں آپ کے اصرار سے اندازہ کر سکتا ہوں کہ کیا حالت ہے.لیکن مجبور ہوں.کل سہ پہر روانہ ہو کر انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کی صبح کو دہی پہنچ جاؤں گا.شام کو پھر ٹیلفون کیا معلوم ہوا کہ خالت پہلے سے بہتر ہے اور کوئی ایسی تشویش نہیں.ڈاکٹر لطیف صاحب کے ساتھ سول سرجن صاحب بھی علاج میں شامل ہیں.۱۲ مئی جمعرات کی صبح کو بھی ٹیلیفون کرنے پر ایسا ہی جواب ملا.پھر بھی میں نے احتیاطاً اپنے تینوں بھائیوں کو تار دے دیئے کہ دہلی پہنچ جائیں اور ہمشیرہ صاحبہ کو بھی ساتھ لیتے آئیں.عزیز اسد اللہ خان تو بدھ کی رات کو ہی لاہور سے روانہ ہو گیا تھا اور جمعرات کی صبح کو دہلی پہنچ گیا تھا.باقی ہم سب جمعہ کی صبح کو دہلی پہنچ گئے.ڈاکٹر لطیف صاحب نے بتایا کہ امتہ ائی کی والدہ نہایت جانفشانی کے ساتھ والدہ صاحبہ کی خدمت میں لگی رہی ہے اور اپنی صحت اور آرام کا کچھ خیال نہیں کیا اور پھر میں نے خود بھی مشاہدہ کر لیا کہ ہم سب بیٹوں، بہوؤں اور بیٹی سے وہ حق خدمت کا ادا نہ ہو سکا جو امتہ ائی کی والدہ نے ادا کیا.اللہ تعالٰی اسے اجر وافر عطا فرمائے.آمین
AY امتہ الحئی کی والدہ سے اور والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر لطیف صاحب اور امینہ بیگم نے بھی بیٹے اور بیٹی کی طرح والدہ صاحبہ کی خدمت نہایت اخلاص اور تندہی سے کی ہے.چنانچہ والدہ صاحبہ نے خود خاکسار سے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی بخشی تو میں بھی حسب توفیق ڈاکٹر صاحب کی خدمت کا حق ادا کرنے کی کوشش کروں گی.ورنہ اصل اجر تو بہر حال اللہ تعالیٰ ہی دے گا.اللہ تعالیٰ انہیں بھی اپنے فضل سے اجر وافر عطا فرمائے اور ان کے عزیزوں کو اور ہر اس شخص کو جس نے والدہ صاحبہ کی خدمت کی.آمین دہلی پہنچنے پر والدہ صاحبہ نے مجھے بتایا کہ درمئی کی شام کو جب تم کا لکا سٹیشن سے مجھ سے رخصت ہو کر چلے گئے.تو تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ عزیز احمد اور عبدالرحیم جن کو تمہارے پاس موجود رہنا چاہئے تھا پلیٹ فارم پر پھر رہے ہیں.میں نے انہیں بلایا اور اللہ تعالٰی کا واسطہ دے کر کہا کہ ابھی بنگلے میں جاؤ اور جنس کمرہ میں میرا بیٹا سو رہا ہے.اس کے آگے رات گزارو.میں نے عرض کی کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ رات یہ دونوں بنگلے کے دروازے کے سامنے برآمدہ میں سوئے ہیں.۱۰ بجے کے قریب والدہ صاحبہ نے خاکسار سے فرمایا.اب پھر خاکسار نے اسے استفہام تصور کر کے جلدی سے عرض کی.اب پھر اللہ تعالیٰ کا فضل چاہئے.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ پرسوں کی نسبت آپ کی حالت بہت اچھی ہے.انشاء اللہ آپ کو جلد صحت ہو جائے گی.والدہ صاحبہ نے فرمایا.اب پھر مجھے قادیان لے چلو.میں نے عرض کی کہ وہاں علاج کا پورا انتظام نہیں ہو سکے گا.والدہ صاحبہ نے بہت حسرت سے مسکرا کر کہا."اچھا“.اس دن دو پہر کو والدہ صاحب کو امتلاء کی تکلیف نہ ہوئی اور یہ وقت جو تشویش کا ہوا کرتا تھا.بخیریت گزر گیا.جس سے کچھ امید ہونے لگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں شفا دے دیگا.چنانچہ خاکسار نے تجویز کی کہ عزیزان شکر اللہ خاں اور اسد اللہ
۸۷ خاں کے گھر سے اور ہمشیرہ صاحبہ تو ہفتہ کی شام کو واپس چلی جائیں اور میں خود اتوار کی شام کو واپس شملہ چلا جاؤں گا اور میرے تینوں بھائی بھی اتوار کی شام کو واپس چلے جائیں.کیونکہ یہ توقع کی جاتی تھی کہ اس وقت تک والدہ صاحبہ کی حالت رو بصحت ہو چکی ہوگی.۴ ارمئی ہفتہ کے دن دو پہر تک والدہ صاحبہ کی وہی حالت رہی.دوپہر کے وقت سب لوگ تو عزیز بشیر احمد کے ہاں کھانا کھانے کے لئے چلے گئے.والدہ امتہ ائی، اور خاکسار والدہ صاحبہ کے پاس رہے.کھانا کھانے کے بعد ۲ بجے کے قریب خاکسار وضو کر رہا تھا کہ مجھے کسی نے آواز دی کہ والدہ صاحبہ یاد فرماتی ہیں.میں ان کے کمرہ میں گیا تو دیکھا کہ انہوں نے اپنی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے.مجھے دیکھ کر مسکرائیں اور کہا آؤ بیٹا اب آخری باتیں کر لیں اور اپنے بھائیوں اور بہن کو بھی بلا لو.ڈاکٹر صاحب اس وقت کمرہ ہی میں ٹیکا تیار کر رہے تھے.انہوں نے انگریزی میں مجھ سے کہا.دل کی حالت بگڑ گئی ہے اور قبض بھی بہت کمزور ہوگئی ہے.لیکن میں نے والدہ صاحبہ سے کچھ نہیں کہا.انہوں نے خود ہی نبض سے شناخت کر لیا ہے.اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ٹیکا کیا اور سول سرجن صاحب کو بھی ٹیلیفون پر بلا لیا.ٹیکا کرنے کے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے نبض دیکھ کر کہا.بے بے جی اب تو نبض ٹھیک چل رہی ہے.والدہ صاحبہ نے خود نبض دیکھ کر فرمایا.ٹھیک تو نہیں چل رہی واپس آ گئی ہے.لیکن ابھی کمزور ہے.اتنے میں وہ سب عزیز جو کھانا کھانے کے لئے گئے ہوئے تھے، واپس آنے شروع ہو گئے اور چوہدری بشیر احمد صاحب اور شیخ اعجاز احمد صاحب بھی اطلاع ملنے پر تھوڑی دیر کے بعد کچہری سے آگئے.والدہ صاحبہ نے فرمایا.یہ وقت سب پر آتا ہے اور اولاد کو جب والدین سے
AA جدا ہونا پڑتا ہے تو انہیں کرب بھی ہوتا ہے.لیکن میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوں اور خوشی سے اس کے حضور جا رہی ہوں.میں تم سب سے رخصت ہونا چاہتی ہوں.لیکن چاہتی ہوں کہ تم لوگ کوئی شور خونمانہ کردو.نہ اس وقت نہ میرے بعد.پھر ہمشیرہ صاحبہ کے کان میں کچھ کہا اور انہوں نے والدہ صاحبہ کے کان میں کچھ کہا.پھر باری باری سے والدہ صاحبہ نے بیٹوں سے پیار کیا اور دعادی اور پھر بہوؤں سے، اور ایسا ہی بشیر احمد اور اعجاز احمد سے اور ڈاکٹر صاحب سے اور امینہ بیگم سے اور احمدہ بیگم سے اور غلام نبی اور عزیز احمد اور چوہدری فضل داد صاحب سے رخصت ہوئیں.پھر امتہ ائی کو بلوایا اور اسے پیار کیا پھر عبدالکریم کو بلوایا اور اسے دعا دی.غرض جو کوئی بھی موجود تھا.اس سے رخصت ہوئیں.غلام نبی اس وقت غم سے بہت مضطرب ہوا جا رہا تھا اسے تسلی دی اور مجھے فرمایا دیکھو بیٹا اگر اس سے کوئی قصور سرزد ہو جائے تو اس وقت کو یاد کرنا اور اسے معاف کر دینا.پھر شکراللہ خاں کی یوبی سے دریافت کیا.کیا میری صندوقچی لے آئی ہو؟ اس نے کچھ حیران ہو کر پوچھا.کونسی صند و چی ؟ والدہ صاحبہ نے جواب دیا.وہی جس میں میرے کفن کی چادر میں رکھی ہیں.زینب بی بی نے کہا.ہم نے تو تار ملتے ہی دلی آنے کی تیاری شروع کر دی.جلدی میں کچھ اور سوجھا ہی نہیں اور یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ صندونچی ڈسکہ میں ہے.والدہ صاحبہ نے فرمایا میں نے تو کوئی تار نہیں دلوایا.میں نے عرض کی تار میں نے دیئے تھے.میرے دہلی پہنچنے سے قبل والدہ امتہ ائی سے فرما چکی تھیں کہ جب قادیان لے جاؤ گے تو مجھے بیت الظفر کی نچلی منزل میں ہی رکھنا.اوپر کی منزل پر میرے اپنے کمرے میں نہ لے جانا اور مجھے فلاں مقام پر غسل دینا.اب پھر مجھ سے بھی یہی فرمایا.اس پر والدہ امتہ الئی نے عرض کی کہ جو جگہ آپ نے غسل کے لئے تجویز کی ہے وہ کافی نہیں اور وہاں پورا پر وہ بھی نہیں.مسکرا کر فرمایا.بہت کھلی ہے اور پردہ بھی
۸۹ ہے.تم نے اچھی طرح اس کا اندازہ نہیں کیا.اتنے میں سول سرجن صاحب بھی آگئے.انہوں نے ڈاکٹر لطیف صاحب کے ساتھ مشورہ کر کے کچھ اور ٹیکے تجویز کئے.میں نے ڈاکٹر صاحب سے الگ دریافت کیا کہ اگر علاج کے لحاظ سے والدہ صاحبہ کا دہلی رہنا ضروری ہو تو چارہ نہیں.لیکن اگر علاج کے آخری مراحل ختم ہو چکے ہوں.تو آپ مجھے بتادیں تا میں ان کی یہ خواہش بھی پوری کرنے کی کوشش کروں کہ انہیں قادیان لے جاؤں.انہوں نے کہا اب تک تو کسی ٹیکے کے نتیجے میں دل کی حالت کی اصلاح نہیں ہوئی لیکن ہم ایک دو اور ٹیکے لگانا چاہتے ہیں.جن کا نتیجہ پون گھنٹے تک معلوم ہو سکے گا.اس وقت ہم بتا سکیں گے کہ کیا صورت ہے.یہ وقفہ گزر جانے کے بعد پانچ بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ کسی ٹیکے کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا.اب علاج کے سب مراحل ختم ہو چکے ہیں اور دل کی یہ حالت ہے کہ اندازہ ہے کہ آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ سے زیادہ کام نہیں کر سکے گا.دہلی سے قادیان کا سفر اس پر میں والدہ صاحبہ کے پاس گیا اور کہا اب میں آپ کو قادیان لے چلتا ہوں.بہت خوش ہوئیں اور مجھے دعا دی.ہم نے اسی وقت تیاری شروع کر دی اور شام کی گاڑی سے قادیان روانہ ہو گئے.طبی لحاظ سے تو اس قدر مہلت ملنا موجب حیرت تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دی.آہستہ آہستہ کمزوری بڑھتی گئی اور کسی وقت کچھ بے چینی تبھی ہو جاتی تھی.لیکن ہوش رات بھر قائم رہا.والدہ صاحبہ کی آخری گفتگو
۹۰ " 1 بجے کے قریب عزیز اسد اللہ خاں کو اور مجھے پاس بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا.جاؤ بیٹا اب سو جاؤ.یہ آخری کلمہ تھا جو اپنی مرضی سے خود بخود اس پیارے منہ سے نکلا.ڈاکٹر عاجز آ چکے تھے.علاج بند ہو چکا تھا.روح اپنے خالق کے سامنے پیش ہونے کی تیاری کر رہتی تھی.لیکن ماں کی مامتا کو اس وقت بھی یہ فکر تھی کہ میرے بیٹوں کے آرام میں خلل نہ آئے.تھوڑی دیر کے بعد جب میں اکیلا ہی ان کے پاس تھا.تو میں نے بلایا.جواب دیا ”جیو پتر.میں نے کہا آپ نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی.فرمایا میں نے دوسروں کے ساتھ بھی کوئی خاص بات نہیں کی.میں نے کہا دوسرے تو صرف بیٹے ہی ہیں اور میرے اور آپ کے درمیان تو عشق کا رشتہ تھا.فرمایا.ہاں.اس رات ایک عجب کیفیت ہمارے سامنے تھی.طبی لحاظ سے روح اور جسم کا سامنے جو ختم ہو چکا ہونا چاہئے تھا.لیکن روح اپنے خالق کے سامنے سجدہ میں پڑی ہوئی عرض کر رہی تھی کہ آپ کی رحمت سے بعید نہیں کہ آپ اس جوڑ کے قائم رہنے کا حکم فرمائیں.جب تک آپ کا یہ عاجز اور نا تو ان بندہ اس سرزمین میں پہنچ جائے.جو آپ کے ایک محبوب کی جائے قیام ہونے کی وجہ سے آپ کے انوار اور رحمت کی مهبط ہے.گاڑی تیز چل رہی تھی اور ہر لحظہ ہمیں قادیان سے قریب کر رہی تھی اور ہم یہ نظارہ دیکھ رہے تھے.مرا عهدیست با جانان که تاجان در بدن دارم هواداری کوئیـش را بجان خویشتن دارم قادیان میں آمد ۱۵ مئی اتوار کے دن پونے دس بجے قبل دو پہر ہم قادیان پہنچے میں نے والدہ
۹۱ صاحبہ کی خدمت میں عرض کی قادیان آ گیا ہے.فرمایا: بسم الله بسم الله پھر میں نے کہا.آپ کی کوٹھی لے چلیں؟ فرمایا ہاں.اپنی کوٹھی میں لے چلو.بیت الظفر ، پہنچ کر آپ کا پلنگ نچلی منزل میں گول کمرہ میں بچھایا گیا.میں نے عرض کی.آپ نے مکان پہچان لیا؟ فرمایا ہاں.پھر میں نے کہا.آپ کا پلنگ نچلی منزل میں ہی گول کمرہ میں ہے.اس پر نظر اٹھا کر کمرہ کی دیواروں کو دیکھا اور " فرمایا.میں نے پہچان لیا ہے.اب روح کو اطمینان ہو گیا کہ خدا کے مسیح کی تخت گاہ تک پہنچنے کی مہلت مل گئی اور کوئی اور خواہش باقی نہ رہی.وفات عصر کے وقت ڈسکہ سے کفن کی چادریں بھی پہنچ گئیں.وہی جو چودہ سال قبل زمزم کے پانی میں دھوئی گئی تھیں.پھر رات آئی اور کیسی رات.یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی روحانی شاہزادی نے ہمارے گھر کو ایک رات کے لئے اپنا قیام گاہ تجویز کر کے اسے نور سے بھر دیا ہے اور ہر لحظہ یہاں فرشتے نازل ہو رہے ہیں.نصب شب کے قریب جب بظاہر کئی گھنٹوں سے بے ہوشی کا عالم تھا.کسی نے مجھ سے کہا تم بلاؤ تو شاید جواب دیں.ہم نے تو بلایا ہے کوئی جواب نہیں دیتیں.میں نے بلایا تو جواب دیا.ہاں! تین بجے کے قریب جب تہجد کے وقت ہوا.تو کامل بیہوشی کی حالت ہو گئی.محض سانس آتا تھا.گویا اپنے رویا کے مطابق پالکی میں سوار ہونے اور سفر شروع کر کے لئے تیار ہو گئی تھیں.صبح ساڑھے سات بجے کے قریب میں نے والدہ امتہ الحی سے کہا کہ سب لوگ ناشتہ کر لیں.کیونکہ ان کا عہد ہے کہ بچے ناشتہ کر لیں گے.تو روانہ ہوگی.پھر
۹۲۰ میں نے والدہ صاحبہ کا وہ خواب یاد کر کے جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ اندھیرے میں ایک خیمہ کے اندر کیچڑ میں پھنس گئی ہیں اور فرمایا تھا کہ ظفر اللہ خاں کو کوئی خبر کرے.تو وہ مجھے یہاں سے نکلوانے کا انتظام کرے.ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا کرنی شروع کی.سانس جو کچھ وقت پہلے تیز ہو گیا تھا.ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ہلکا ہونا شروع ہو گیا اور جب گھر کے لوگ مہمان اور ملازم سب ناشتہ ختم کر چکے.تو ۹ بجے کے قریب روح اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئی.یہ ۶ ارمئی سوموار کا دن تھا.۱۲ بجے کے قریب جسم کو اس مقام پر سپر د خاک کر دیا گیا.جو پہلے سے اس کی آخری قیام گاہ تجویز ہو چکا تھا.و كل من علیها فان و يبقى وجه ربك ذو الجلال والاكرام حضرت خلیفہ امیج ایدہ اللہ نعرہ ان دنوں سندھ میں میں قیام فرما تھے.صاحبزادگان میرزا بشیر احمد صاحب و میرزا شریف احمد صاحب و دیگر افراد خاندان نبوت نے جنازہ کو کندھا دیا.لحد کے لئے ایک دوائیٹوں کی درستی کی ضرورت ہوئی.تو صاحبزادہ میرزا شریف احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے انہیں درست کیا.حضرت خلیفہ مسیح کی طرف سے یہ تعزیت نامہ والدہ صاحبہ کی وفات پر الفضل میں شائع ہوا: " چوہدری سر ظفر اللہ خانصاحب کی والدہ صاحبہ کی وفات ( رقم فرمودہ حضرت امیرالمومنین ایده الله ) آخر میں عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب کی والدہ کی وفات کی خبر آئی ہے اور افسوس کہ اس وقت میں مرکز سے بہت دور ہوں اور آسانی سے میرا وہاں پہنچنا اور جنازہ میں شامل ہونا مشکل نظر آ رہا ہے.جس کا مجھے سخت افسوس ہے.میں نے ابھی خبر سنتے ہی موٹر میں ایک آدمی کو میر پور خاص بھیجوا دیا ہے کہ فون کر کے دریافت
۹۳ کرے کہ کیا میر اوقت پر پہنچنا ممکن ہے یا نہیں؟ اگر ایسا ہو سکا تو میری یہ خواہش کہ میں ان کا جنازہ پڑھا کر انہیں دفن کر سکوں پوری ہو جائے گی.ورنہ اللہ تعالی کی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم ہے.مرحومہ کا اخلاص اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحومہ کے خاوند چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم ایک نہایت مخلص اور قابل قدر احمدی تھے اور انہوں نے سب سے پہلے میری آواز پر لبیک کہی اور اپنی زندگی وقف کی اور قادیان آ کر میرا ہاتھ بٹانے لگے.اس لئے ان کے تعلق کی بناء پر ان کی اہلیہ کا مجھ پر اور میری وساطت سے جماعت پر ایک حق تھا.پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عزیزم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب جنہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی حصہ سے ہی رشد و سعادت کے جوہر دکھائے ہیں اور شروع ایام خلافت سے ہی مجھ سے اپنی محبت اور اخلاص کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں.مرحومہ ان کی والدہ تھیں اور اس تعلق کی بناء پر بھی ان کا مجھ پر حق تھا.لیکن باوجود اس کے کہ اکثر عورتوں کا تعلق طفیلی ہوتا ہے یعنی اپنے باپ پا بیٹے یا بھائی کے سبب سے ہوتا ہے.مرحومہ ان مسکنی عورتوں میں سے تھیں.جن کا تعلق براہ راست اور بلا کسی واسطہ کے ہوتا ہے.وہ اپنے مرحوم خاوند سے پہلے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئیں ان سے پہلے انہوں نے بیعت خلافت کی اور ہمیشہ غیرت و حمیت کا ثبوت دیا.چندوں میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینا، غرباء کی امداد کا خیال رکھنا ان کا خاص امتیاز تھا.دعاؤں کی کثرت اور اس کے نتیجہ میں کچی خوابوں کی کثرت سے خدا تعالیٰ نے ان کو عزت بخشی تھی.انہوں نے خوابوں سے احمدیت قبول کی اور خوابوں سے خلافت ثانیہ کی بیعت کی.مرحومہ کی وائسرائے ہند سے گفتگو مجھے ان کا یہ واقعہ نہیں بھول سکتا جو بہت سے مردوں کے لئے بھی نصیحت کا موجب بن سکتا ہے کہ گزشتہ ایام میں جب احراری فتنہ قادیان میں زوروں پر تھا اور
۹۴ ایک احراری ایجنٹ نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب پر راستہ میں لاٹھی سے حملہ کیا تھا.جب انہیں ان حالات کا علم ہوا تو انہیں سخت تکلیف ہوئی.بار بار چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے کہتی تھیں.ظفر اللہ خاں میرے دل کو کچھ ہوتا ہے اماں جان ( حضرت ام المومنین) کا دل تو بہت کمزور ہے.ان کا کیا حال ہوگا.کچھ دنوں بعد چوہدری صاحب گھر میں داخل ہوئے تو انہیں معلوم ہوا.جیسے مرحومہ اپنے آپ سے کچھ باتیں کر رہی ہیں.انہوں نے پوچھا کہ بے بے جی کیا بات ہے.تو مرحومہ نے جواب دیا کہ میں وائسرائے سے باتیں کر رہی تھی چوہدری صاحب نے کہا کہ آپ سچ سچ ہی کیوں باتیں نہیں کر لیتیں.انہوں نے کہا کیا اس کا انتظام ہو سکتا ہے؟ چوہدری صاحب نے کہا کہ ہاں ہو سکتا ہے.اس پر انہوں نے کہا بہت اچھا پھر انتظام کر دو.قرآنی تعلیم کے مطابق ان کی عمر میں وہ پردہ تو تھا ہی نہیں جو جوان عورتوں کے لئے ہوتا ہے.وہ وائسرائے سے ملیں اور چوہدری صاحب ترجمان بنے.لیڈی ولنگڈن بھی پاس تھیں.چوہدری صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں کچھ نہیں کہوں گا جو کہنا ہو خود کھنہ چنانچہ مرحومہ نے لارڈ ولنگڈن سے نہایت جوش سے کہا کہ میں گاؤں کی رہنے والی عورت ہوں.میں نہ انگریزوں کو جانوں اور نہ ہی ان کی حکومت کے اسرار کو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا تھا کہ انگریزی قوم اچھی قوم ہے اور ہمیشہ تمہاری قوم کے متعلق دل سے دعائیں نکلتی تھیں.جب بھی تمہاری قوم کے لئے مصیبت کا وقت آتا تھا.رورو کر دعائیں کیا کرتی تھیں کہ اے اللہ تو انکا حافظ و ناصر ہو.تو ان کو تکلیف سے بچائیو.لیکن اب جو کچھ جماعت سے خصوصا قادیان میں سلوک ہو رہا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دعا تو میں اب بھی کرتی ہوں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم ہے.لیکن اب دعا دل سے نہیں نکلتی.کیونکہ اب میرا دل خوش نہیں ہے.آخر ہم لوگوں نے کیا کیا ہے کہ اس رنگ میں ہمیں تکلیف دی جاتی ہے.
۹۵ چوہدری صاحب نے لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں صرف ترجمان ہوں.میں وہی بات کہہ دوں گا جو کہتی ہیں.آگے آپ انہیں خود جواب دے دیں اور ان کی بات لارڈ ولنگڈن کو پہنچا دی.اس سیدھے سادے اور باغیرت کلام کا اثر لیڈی ولنگڈن پر تو اس قدر ہوا کہ اٹھ کر مرحومہ کے پاس آ بیٹھیں اور تسلی دینی شروع کی اور اپنے خاوند سے کہا یہ معاملہ ایسا ہے جس کی طرف تم کو خاص توجہ دینی چاہئے.کتنے مرد ہیں جو اس دلیری سے سلسلہ کے لئے اپنی غیرت کا اظہار کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحومہ کی روح کو قبولیت کے ہاتھوں لے لے اور اپنے فضلوں کا وارث کرے.آمین سر ظفر اللہ خان صاحب سے محبت عزیزم چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب سے وہ اپنے سب بیٹوں سے زیادہ محبت کرتی تھیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سب سے زیادہ عزت بھی دی ہے اور سب سے زیادہ میرا ادب بھی کرتے ہیں.مرحومہ کا ایک خواب ابھی شوری کے موقعہ پر چوہدری صاحب کے ساتھ آئی ہوئی تھیں.دو تین دفعہ مجھے ملنے آئیں.خوش بہت نظر آتی تھیں.مگر کہتی تھیں مجھے اپنا اندر خالی خالی نظر آتا ہے.ان کا ایک خواب تھا کہ اپریل میں وہ فوت ہونگی.مگر خوابوں کی بعض دفع مخفی تعبیر ہوتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اپریل میں اس بیماری نے لگنا تھا جس سے وہ فوت ہوئیں.اپریل کے اس قدر قریب عرصہ میں ان کا فوت ہونا اس خواب کے بچے ہونے کا ایک معینی ثبوت ہے.مرحومہ کی وفات کے متعلق ایک خواب ایک دو سال ہوئے میں نے خواب میں دیکھا.میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور ۱۱-۱۲ سال کی
۹۶ عمر کے معلوم ہوتے ہیں کہنی پر ٹیک لگا کر ہاتھ کھڑا کیا ہوا ہے اور اس پر سر رکھا ہوا ہے.ان کے دائیں بائیں عزیزم چوہدری عبداللہ خانصاحب اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیٹھے ہیں.ان کی عمریں آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچوں کی سی معلوم ہوتی تھیں.مینوں کے منہ میری طرف ہیں اور تینوں مجھ سے باتیں کر رہے ہیں اور بہت محبت سے میری باتیں سن رہے ہیں اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں اور جس طرح گھر میں فراغت کے وقت ماں باپ اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں.اسی طرح میں ان سے باتیں کرتا ہوں.شاید اسکی تعبیر بھی مرحومہ کی وفات ہی تھی کہ الہی قانون کے مطابق ایک قسم کی ابوت یا مامتا جگہ خالی کرتی ہے تو دوسری قسم کی ابوت یا مامتا اس کی جگہ لے لیتی ہے.مرحومہ کے رشتہ دار مرحومہ کے والد بھی احمدی تھی اور ان کے بھائی چوہدری عبداللہ خاں صاحب دا تا زید کا والے ایک نہایت پرجوش احمدی ہیں اور اپنے علاقہ کے امیر جماعت ہیں.حضرت خلیفہ اول کے وقت سے مجھ سے اخلاص رکھتے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ اظہارا خلاص میں پیش پیش رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومہ کو اپنے قرب میں جگہ دے اور ان کے خاندان کو ان کی دعاؤں کی برکات سے محروم نہ کرے اور وہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے حق میں پوری ہوتی رہیں.الفضل مورخه ۲۲ رمئی ۱۹۳۸ء نمبر ۱۸۸ جلد ۲۶) حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ نے جو عبارت والدہ صاحبہ مرحومہ کے کتبہ پر لکھے جانے کے لئے تجویز فرمائی ہے وہ یہ ہے." چوہدری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم کی زوجہ عزیزم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سلمہ اللہ کی والدہ صاحبہ کشف و رویا
۹۷ تھیں.رؤیا ہی کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت نصیب ہوئی اور اپنے مرحوم شوہر سے پہلے بیعت کی.پھر رویا ہی کے ذریعہ سے خلافت ثانیہ کی شناخت کی اور مرحوم خاوند سے پہلے بیعت خلافت کی.دین کی غیرت بدرجہ کمال تھی اور کلام حق کے پہنچانے میں نڈر تھیں.غرباء کی خبر گیری کی صفت سے متصف اور غریبانہ زندگی بسر کرنے کی عادی، نیک بیوی اور و دود والدہ تھیں.اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کے شوہر کو جو نہایت مؤدب و خلص خادم سلسلہ تھے.اپنے انعامات سے حصہ دے اور اپنے قرب میں جگہ دے اور ان کی اولا دکو اپنی حفاظت میں رکھے.آمین اب وہ محبوب وجود ہمارے درمیان موجود نہیں.اس پیارے چہرہ کو آنکھیں تلاش کرتی ہیں لیکن پا نہیں سکتیں.ہم ان مسلسل درد بھری دعاؤں سے محروم ہو گئے ہیں.لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو خوشی سے قبول کرتے ہیں اور اس خیال سے اطمینان حاصل کرتے ہیں کہ ہماری والدہ نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رضا جوئی میں گزاری.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ وافر رحمت کا سلوک فرمائے گا اور اپنے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارا وقت آنے پر وہ ہمیں بھی اپنی رحمت میں داخل فرمائے اور ہمارے والدین اور صادقین کی معیت ہمیں عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں ہمیں جگہ عطا فرمائے.آمین میرے لئے جب وہ وقت آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت پھر یہ ممکن کر دے گی
۹۸ کہ میر کی نظر پھر اس پیارے چہرہ پر پڑے.تو میری تمام محبت اور تمام حسرت اور تمام شوق اس ایک ہی لفظ میں ادا ہو جا ئیں گے." بے بے“ اور ان کی طرف سے ” جیو پتر ، پھر ایک بار میرے دل کو خوشی سے بھر دے گا.ای خدا بر تربت او بارش رحمت ببار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعيم ظفر اللہ خان
MERI WALIDAH (My Mother) By Sir Choudhri Zafrullah Khan Sahib ISBN 81-7912-023-6 9788179 120231