Language: UR
میری پونجی صفیه بشیر ساقی لندن
میری پونجی میری پونجی (میری یادیں؛ میرا سرمایہ ) صفیه بشیر سامی لندن (1)
میری پونجی میری پونجی صفیہ بشیر سامی ،لندن $2013 : 500 : 114, Red Lion Road Surbiton, Surrey KT6 7QN United Kingdom.: : : Unitech Publications Qadian 143516 Distt.Gurdaspur - PUNJAB (INDIA.) Ph.00-91-9815617814, 9872341117 khursheedkhadim@yahoo.co.in krishan.qadian@gmail.com www.unitechpublications.com (2) نام کتاب مصنف سن اشاعت تعداد 巡 مقام اشاعت
میری پونجی بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فہرست مضامین 31 37 هةةة له ق به چه په له یا الله الله الله الی ها 9 10 14 16 18 19 26 29 30 34 35 36 40 1 2 3 نمبر شمار انتساب 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 عنوان مکتوب از مکرم بشیر احمد رفیق صاحب سابق امام مسجد فضل لندن مکتوب از مکرم عبد الباسط شاہد صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ مکتوب از مکرم لئیق احمد طاہر صاحب.ریجنل مشنری بریڈ فورڈ (لندن) مکتوب از محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبه بہت شکریہ....عرض حال حضرت سردار مصباح الدین احمد صاحب غفر اللدلۂ سابق مبلغ انگلستان حضرت سردار صاحب کی سیالکوٹ میں آمد دور خلافت اولی اور ورود قادیان دور خلافت ثانیه احمد یہ ہوٹل کا قیام اور نو جوانوں کی تعلیمی ترقی حضرت میردار مصباح الدین صاحب کی انگلستان کیلئے روانگی لندن میں تبلیغی مساعی کرنل ڈگلس کی دریافت ڈاکٹر سلیمان صاحب کا احمدیت قبول کرنا (3)
میری پونجی حضرت نیر صاحب کی نائجیریا سے واپسی 1924 ء کا تاریخی سال لندن میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ورود مسعود مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی قادیان واپسی لندن سے واپسی اور لاہور کے رؤسا اورا کابرین کو احمدیت کا پیغام حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خوشنودی کا والا نامہ حضرت خلیفہ السیح الثانی بو اللہ کا درس القرآن تعیناتی بطور اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 31 ل له ق هه یه له الله له له له یه له چه ها یا الله الله ل لم لما لها الله لا لاله ها 30 32 33 34 35 36 37 38 39 42 تعیناتی بطور پروفیسر جامعہ احمدیہ گرچه خوردیم نسبتے بزرگ ہوٹل جامعہ احمدیہ کے سپر نٹنڈنٹ مسجد اقصیٰ میں ذکر حبیب کے ہفتہ وار اجلاس اونی سرخ شال کا تبرک خدمت لنگر خانہ حضرت مسیح موعود فرائض افسر جلسه سالانه پاکستان آنے کے بعد چنیوٹ میں سکونت ربوہ کے شب و روز کے حوالہ سے ان کی دلچسپیاں انداز تحریر کسر صلیب کا نفرنس میں شرکت ماد داشت می جہاد بیعت حضرت مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث 43 44 (4) 48 49 49 46 45 2 2 2 2 2 Gaga & 68 62 63 60 61 59 55 56 57 52 52 54 50 51 51
40 41 42 43 چه ند حه ج چ ه به چه چ و این مامان من این دل داده می 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 میری پونجی اہلیہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ (مرحومہ) والد محترم سردار صاحب کا سفر آخرت تعزیت نامے تعزیت منجانب صاحبزادہ مرز اوسیم احمد صاحب از قادیان والد صاحب کے تعلقات سائنس میگزین کے ایڈیٹر جناب قاسم محمود کی نظر کا مبہوت کن واقعہ حضرت چودھری صاحب اور کیفیت عجز و نیاز محترمہ حاکم بی بی صاحبہ (مرحومہ) دادا جان اور دادی جان کا ذکر خیر محترمہ حاکم بی بی صاحبہ مرحومہ والدہ محترمہ بشیر الدین احمد سامی صاحب مرحوم محترم سردار مصباح الدین احمد صاحب ( مرحوم) کی اولاد ابا جی سردار مصباح الدین صاحب کے نام چند معززین کے خطوط حیران کن انکشاف مکرم محترم سامی صاحب مرحوم 1953 کا ایک تاریخی واقعہ وہ گنجہائے گرانمایہ ! سپاس نامه پشاور کی جماعتی ذمہ داریوں کا سلسلہ ربوہ اسٹیشن سے روانگی قیام جرمنی لندن میں آمد میرا بچوں کے ساتھ لندن میں آنا سامی صاحب کی خدمت دین لا لا له الله الله له ف ي ة 68 70 71 72 73 78 83 91 97 103 112 115 120 123 124 128 134 138 139 140 142 145 157 (5) 56 57 58 59 60 61 62
158 163 167 167 168 169 171 173 181 183 184 185 189 190 199 226 228 232 233 236 237 سامی صاحب کی خدمتِ خلق سامی صاحب کی آخری بیماری نماز جنازه سامی صاحب کی وفات پر افضل انٹرنیشنل میں اعلان سامی صاحب کی وفات پر الفضل ربوہ میں اعلان حضور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع" کی طرف سے تعزیت نامہ پیارے بشیر بھائی از محترم منصور احمد بی ٹی صاحب مرحوم کچھ تعزیت نامے مکتوب از محترمہ امتہ القدوس قوسی صاحبہ ایک خواب- امتہ الباری ناصر مکتوب مبارک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع محترم مولاناعطاء الجیب راشد صاحب کے سامی صاحب کے نام خطوط امی جان محتر مہ حلیمہ بیگم صاحبہ ابا جان شیخ محمد حسن صاحب میرا بچپن میری پیاری امی جان امی جان کا گھر میں آخری دن میرے اباجان شیخ محمد حسن صاحب کا خاندانی پس منظر احمدیت کا ہمارے گھر میں نفوذ مجھے بیعت کی توفیق ملنا 238 241 (6) ایک نئے دور کا آغاز بائیکاٹ کا ٹوٹنا میرا شادی سے انکار مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کی پہلی تقرری 63 64 65 66 67 68 69 لا لا له الله له له له لا له ق 8 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85
6 80 00 00 00 00 00 94 93 91 92 89 90 88 87 86 241 243 245 246 247 248 249 250 250 251 251 تعلیمی فراغت کے بعد جبیلی فرائض کی انجام دی مکرم شیخ صاحب کا تبادلہ اور مولانا احمد خان نیم صاحب کی تقرری قادیان میں خاکسار کی شادی کی تحریک خاکسار کے خسر حضرت میاں فضل محمد صاحب آف ہرسیاں میری لاعلمی اور دشمن کے ارادوں کی ناکامی دار البیعت کی چھت ڈلوانا ایک ہندو بوڑھے مسافر کی مدد بوڑھی حاجن کی چیخ و پکار ایک گواہ ممبئی میں سیکرٹری تبلیغ کی سعادت ایک فرشتہ سیرت ڈپٹی کمشنر کی نوازشات 252 253 255 255 255 256 256 257 258 260 260 261 حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر دعا اور رویا ایک دہریہ سے گفتگو حضرت پیر منظور محمد صاحب حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر قائد اعظم محمد علی جناح سے مصافحہ فرقان فورس میں شمولیت مکرمہ محمد اسلم صاحب کا نام مکرم امیر صاحب کا ہمیں ربوہ بھجوانا کتابوں کا گم جانا اور ملنا حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور خواب کی تعبیر ایک سچا خواب ابا جان کا لندن تشریف لانا (7) 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 108
262 266 267 268 270 273 274 276 287 293 301 304 310 314 318 328 336 اخبار احمدیہ مکرم عثمان چینی صاحب لطیفہ حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب متفرق یاد یں قرآن کریم سے پیار صدمہ مخلصین کی یاد میں اور دعائیں میرے تایا جی شیخ غلام محمد صاحب مرحوم میرے بہن بھائی مکرمه بشری رفیق صاحبه جنت سے بشریٰ مرحومہ کا خط اپنے بچوں کے نام سعدی کا اپنی امی کو خراج تحسین مکرم محمد اسلم خالد صاحب روح کا رشتہ حرف آخر کلام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ (8) 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125
انتساب مکرمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اور مکرمہ حاکم بی بی صاحبہ کے نام ان دو شفیق ہستیوں نے مجھے اور میرے شوہر کو جینے کا سلیقہ سکھایا.”اے ہمارے رب ! انہیں آن دائمی جنتوں میں داخل کر دے جن کا تو نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے اور انہیں بھی جو اُن کے باپ دادا اور ان کے ساتھیوں اور ان کی اولاد میں سے نیکی اختیار کرنے والے ہیں.یقین تو ہی کامل غلبہ والا (اور ) بہت حکمت والا ہے.“ (سورۃ المومن : آیت (۹) (9)
مکتوب مبارک حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا رْنَا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحَامِينَ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ ان امام جماعت احمدیہ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيْمَ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ المَوْعُوْدُ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر لندن Z-31/3/14 مکرمہ صفیہ بشیر سامی صاحبه السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی کتاب ” میں نے جستہ جستہ پڑھی ہے.ماشاء اللہ اچھی کتاب ہے.بزرگوں کا ذکر ، ان کے واقعات، ان کی نیکیاں اگر یا د رکھی جائیں تو یہ ان بزرگوں کی اولادوں کو اپنے آباء کے نقش قدم پر چلانے کا ذریعہ ہیں.آپ کی ” میں جہاں بزرگوں کا ذکر ہے وہاں تاریخ احمدیت کے کچھ باب ہیں.پھر آپ کے خاوند مرحوم کی خدمات ، جماعت سے تعلق آپ نے بڑی محنت سے اپنے خاندان کو سرمایہ جمع کر کے دیا ہے.اللہ کرے آئندہ نسلیں اس کی قدر کرتے ہوئے اپنے آباء کے اس سرمائے کا صحیح استعمال کریں اور خلافت اور جماعت سے وفا کا تعلق رکھیں.تعلق باللہ میں بڑھنے والی ہوں اور آپ کی اس عظیم خدمت پر آپ کے لئے دعائیں کرنے والی ہوں.آمین ال والسلام خليفة المسيح الخامس
مکتوب از مکرم بشیر احمد رفیق صاحب سابق امام مسجد فضل لندن بسم اللہ الرحمن الرحیم مکرمه و محترمه بیگم سامی صاحبه السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مجھے بچپن سے آپ بیتیاں اور سوانح عمریاں پڑھنے کا شوق رہا ہے اور بلا مبالغہ اب تک سو سے زائد سوانح عمریاں جن میں خود نوشت سوانح عمریاں بھی شامل ہیں، پڑھ چکا ہوں.میں جب بھی کسی اردو کتب کی دکان پر جاتا ہوں تو سب سے پہلے سوانح عمریوں کے سیکشن میں جا کر کسی سوانح عمری کا انتخاب کرتا ہوں.میری ذاتی لائبریری میں درجنوں کتب مشاہیر کی سوانح پر مشتمل موجود ہیں.اس تمہید کے باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آپ کی غیر مطبوعہ کتاب ” میری پونچی“ کا مسودہ آپ نے از راہ کرم مجھے بھجوایا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی.میں نے کتاب ہاتھ میں لے کر اس پر ایک اُچٹتی نظر ڈالنے کا فیصلہ کیا اور ارادہ کیا کہ بعد میں آرام سے بیٹھ کر مسودہ کا مطالعہ کروں گا.لیکن جوں جوں میں کتاب کو پڑھتا چلا گیا میری دلچسپی کتاب میں بڑھتی گئی اور جب تک کتاب کا نصف حصہ ایک ہی نشست میں نہ پڑھ ڈالا، کتاب کو نیچے نہیں رکھا.آپ کی کتاب میرے لئے بے حد از د یاد ایمان کا باعث بنی ہے.ہر واقعہ نہایت ایمان افروز ہے.ہر صفحہ پر منجزات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت دعا کے نظارے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین پیدا ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتی ہے.(10)
جناب مکرم بشیر الدین احمد سامی صاحب مرحوم و مغفور کے حالات زندگی آپ نے جس محبت اور خلوص اور بھر پور جذبات سے لکھے ہیں انہیں پڑھتے ہوئے بارہا میری آنکھیں پرنم ہو گئیں اور میرے دل کی گہرائیوں سے ان کیلئے اور آپ کیلئے دعا ئیں نکلیں.محترم سامی صاحب مرحوم و مغفور کے ساتھ میرا کم وقت اکٹھے گزرا ہے.لیکن اس کم وقت میں بھی مجھ پر ان کے بے شمار احسانات ہیں.میں نے انگلستان کی غالباً پہلی مجلس شعر وسخن" قائم کی تو اس مجلس کو سجانے میں جناب سامی صاحب اور جناب منصور بی ٹی صاحب نے میرا بھر پور ساتھ دیا.اللہ تعالیٰ ان دونوں کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے.آمین.سامی صاحب مرحوم دھیمے مزاج کے کم گو، ایک منتقی اور پارسا انسان تھے.ان کے چہرہ پر ہمیشہ ایک معصوم سی مسکراہٹ رہتی تھی.وہ ہر کس و ناکس سے بڑے تپاک سے ملا کرتے تھے.ان کا کبھی کسی سے جھگڑا یا شکر رنجی نہیں ہوئی.خلیفہ وقت سے عقیدت و محبت ان کا طرہ امتیاز تھا.خوش خلق، خوش مزاج اور خوش لباس تھے.ہمیشہ خوبصورت سوٹ زیب تن رہتا تھا.کتاب کے اُس حصہ نے مجھے بے حد متاثر کیا جس میں آپ نے ان کے اور بعد میں آپ کے لندن آنے کے حالات لکھے ہیں.مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے، جب پاکستان سے آنے والوں کو یہاں settle ہونے سے قبل گونا گوں مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا.لیکن آپ کی تکالیف، پریشانیوں اور جناب سامی صاحب کے پس دیوار زنداں جانے کے تفصیلی ذکر پڑھ کر میری آنکھیں پرنم ہوتی رہیں اور دل سے دعائیں بھی نکلتی رہیں.آپ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ادیبہ ہیں.اردو زبان اور اس کے محاورہ پر آپ کو قدرت حاصل ہے.آپ کی طرز تحریر میں ایک بانکپن ہے جو قاری کو آپ کی منظر کشی میں شامل رکھتا ہے.میں بھلا آپ کی اس خوبصورت ، فکر انگیز اور ایمان افروز کتاب پر کیا تبصرہ کر سکتا ہوں.بس جو کچھ میں نے آپ کی کتاب کو پڑھ کر محسوس کیا ہے، اسے الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے.(11)
آپ نے اپنے ولی اللہ والد حضرت شیخ محمد حسن صاحب کے حالات لکھ کر ہم پر احسان کیا ہے.مجھے ان سے دلی محبت تھی اور وہ بھی مجھے پیار اور خلوص کی نگاہوں سے دیکھتے تھے.ہم اپنے دفاتر میں بیٹھے کام میں مگن ہوتے تھے تو حضرت شیخ صاحب مرحوم گرم گرم چائے کی کیتلی اُٹھائے ہوئے ہر دفتر میں جا کر سب کو چائے پیش کرتے.ساتھ میں گرم پکوڑے بھی ہوتے تھے.یہ کام وہ نہایت خاموشی اور انکساری سے کرتے تھے اور اس بات میں بے حد خوشی محسوس کرتے تھے کہ وہ کارکنانِ سلسلہ کی خدمت کر رہے ہیں.ایک دفعہ کی بات ہے کہ میں جلسہ سالانہ کے مبارک ایام میں شام کو فارغ ہوا تو خیال آیا کہ لنگر خانہ جا کر حضرت شیخ صاحب کی صحبت میں کچھ وقت گزاروں.عشاء کی نماز ہو چکی تھی اور تھکے ماندے کارکنان میں سے کچھ سورہے تھے.پہلے تو خیال آیا کہ جناب شیخ صاحب مرحوم بزرگ آدمی ہیں ، وہ بھی سور ہے ہوں گے.اس لئے انہیں ڈسٹرب نہ کیا جائے.میں اس خیال سے واپس جانے کیلئے مڑنے کو تھا کہ اچانک ایک کمرہ سے حضرت شیخ صاحب کی محبت بھری آواز آئی کہ اندر آجائیں.میں اندر گیا.دو چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں.ایک پر جناب منصور بی ٹی صاحب محو استراحت تھے اور ایک چارپائی پر آپ ٹیک لگائے نیم دراز تھے.میں نے دیر سے آنے پر معذرت کی تو ناراضگی کے لہجے میں فرمایا کہ آپ کا آنا تو میرے لئے بابرکت ہے.آپ کی خدمت کرنے کا موقعہ ملا ہے.یہ تو میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے.پھر مجھے چار پائی پر بٹھا کر اور کمبل اوڑھا کر آپ باہر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر بعد کیتلی ہاتھ میں اُٹھائے تشریف لائے.چائے کی پیالیاں بھریں اور چار پائی کے نیچے رکھے ہوئے ڈبے سے بسکٹوں کا ایک پیکٹ اُٹھا کر کھولا.میں حیران ہو ر ہا تھا کہ اس ضعیفی میں بھی انہیں کسی ادنیٰ کارکن کی خدمت کرنے کا کتنا لطف آ رہا ہے.محترم شیخ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے نورانی اور خوبصورت چہرہ عطا کر رکھا تھا.جو بھی ان سے (12)
ملاقات کرتا ، اُن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا تھا.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہوتا ہے کہ جب میاں بیوی دونوں ہی تقویٰ شعار، پارسا اور خدا ترس واقع ہوئے ہوں.ایسے جوڑے آسمان پر بنتے ہیں.آپ کی مرحومہ والدہ صاحبہ کے حالات پڑھتے ہوئے بار ہا یہ احساس ہوا کہ مرحومہ بھی اولیاء اللہ میں سے تھیں.اپنے خاوند کی وفا شعار، مہمان نواز ، خوش خلق اور خوش کردار خاتون تھیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان سب کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور ان کی تمام اُن دعاؤں کو جو انہوں نے اس جہان میں رہتے ہوئے کی تھیں ، قبول فرمائے.اللہ کرے کہ آپ کی یہ نہایت ایمان افروز کتاب ہماری نئی نسلوں کیلئے روشنی کا مینار بنے اور وہ اسے پڑھ کر اس یقین پر قائم ہو جائیں کہ ہمارا ایک مولیٰ ہے جو ہماری دعاؤں کو سنتا ہے اور انہیں شرف قبولیت بخشتا ہے.اور وہ ہم سے ماں باپ سے بڑھ کر پیار کرتا ہے.20-08-13 والسلام خاکسار بشیر احمد رفیق لندن (13)
مکتوب از مکرم عبد الباسط صاحب شاہد مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پیاری صفیہ بہن! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ میری پونچی بہت پیاری کوشش ہے.آپ نے روز مرہ کی زندگی میں ہونے والے واقعات کو اسقدر دلچسپ اور اچھے رنگ میں بڑی سادگی اور سلاست سے بیان کر کے ان واقعات میں عجیب روحانی رنگ بھر دیا ہے.اس کو پڑھتے ہوئے تو میں پرانی پر لطف یادوں میں ڈوب ڈوب کر لطف لیتا رہا.ہماری پھوپھی جان کا پیار و شفقت یاد آئی.محترم پھوپھا جان کی سادگی اور قابل رشک اخلاص کے واقعات یاد آئے.ان کے لنگر کے ایام میں ہم بھی جسمانی اور روحانی مائدہ سے استفادہ کرتے تھے.برادرم سامی صاحب سے ملاقات تو بچپن سے ہی تھی ، وہ ہمارے محلہ دار الفتوح میں رہتے تھے.اُن کے بزرگ والدین کا ہمارے ہاں بہت اچھے رنگ میں ذکر ہوتا تھا.سامی صاحب کے ساتھ احمد یہ ہال کراچی میں اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی.جب بھی دیکھا سلسلہ کی خدمت میں مصروف دیکھا.خدام الاحمدیہ کراچی کو اُن دنوں عالمی مجلس میں ایک نمایاں مقام حاصل تھا جس میں ایک بہت بڑا دخل محترم سامی صاحب کا بھی تھا.اس کتاب کو پڑھ کر ان کی خوبیوں اور صفات کی یاد تازہ ہوئی ، بہت سی ایسی خوبیوں کا علم بھی ہوا جو وہ اپنی انکساری میں چھپائے رکھتے تھے.ہم عمری کے باوجود میں ہمیشہ ہی انکی خدمات کی وجہ سے انکا احترام کرتا رہا اور انہیں ایک مخلص مثالی احمدی (14)
میری یونجی سمجھتا رہا، اللہ تعالیٰ زمرہ ابرار میں شامل فرمائے.آمین.خاکسار کو تو اس بات سے خاص سکون اور اطمینان حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی بزرگ ہی نہیں عام احمدی افراد اور بچے بھی ہر بات میں ہر وقت نیکی کارجحان رکھتے اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکے رہتے ہیں اور خدمت خلق کے کسی موقع کو بھی ضائع نہیں جانے دیتے.اگر یہ سچ ہے کہ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے تو حضرت مسیح موعود کی صداقت کیلئے یہ ایک منہ بولتا نشان ہے.آپ نے اپنی کتاب کا نام بہت شاعرانہ تجویز کیا ہے.میرا خیال ہے کہ محترمہ کی کمر پونچی کی وجہ سے جھک گئی ہے اس لیے ابھی ان کی تھیلی میں اور بہت ایمان افروز مواد ہو گا.اسے بھی باہر نکال کر رفاہ عامہ کیلئے پیش کریں.آپ نے لکھا ہے کہ یہ کتاب صرف اپنے بچوں کیلئے لکھی ہے.میرا تو دل چاہتا ہے کہ اسکی اشاعت اتنی زیادہ ہو کہ ہر احمدی بچے تک پہنچے اور اسے پتا چلے کہ احمدیت ہم سے کیا چاہتی ہے اور احمدی کیسے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا سے نوازے آپ نے ( شاید انجانے میں ایک بہت بڑا کام کر دیا ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.آمین.9-3-13 خاکسارادنی خادم سلسله عبد الباسط شاہد (15)
مکتوب از مکرم لئیق احمد طاہر صاحب ریجنل مشنری- بریڈ فورڈ (لندن) بسم اللہ الرحمن الرحیم مکرمہ محترمہ بیگم صاحبہ بشیر الدین احمد سامی صاحب مرحوم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ” کے نام سے آپ نے اپنے خاندان ، عزیز واقارب ، والدین ،سسرال ، بھائی اور بہنوں کے جو حالات لکھے ہیں اس پر میں آپ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اتنا قیمتی مواد مجھے پڑھنے کیلئے دیا.اس میں تمام افراد خانہ کے حالات جس طرح آپ نے جمع کئے وہ محنت اپنی جگہ لیکن آپ کے قلم میں جو بلا کی روانی ہے، جس عشق و درد کے ساتھ آپ نے یہ حکایتیں یہ روایتیں بیان کی ہیں وہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں.میری اس تحریر کوکوئی ایشیائی مبالغہ نہ سمجھے.بعض اوقات اس پونجی کو پڑھتے پڑھتے ایسا محو ہو جاتا کہ وقت کا احساس ہی نہ رہتا تھا.ہمارے پیارے بھائی سامی صاحب کا آپ نے حق ادا کرنے کی ایک حد تک کوشش کی ہے.وہ شخص فی الواقعہ جان توڑ محنت کرنے والا اخلاص کا پیکر تھا.عاجز ہمنکسر المزاج ، بے نفس، بے ریا ء خدمت کرنے والا پیارا وجود.میرا ان سے واسطہ ان دنوں میں پڑا جب میں قائم مقام امام کے طور پر کام کرتا تھا.یہ عارضی چند ہفتہ کا تعلق تھا.پھر جب ہمارے سپر د تاریخ احمدیت برطانیہ تالیف کرنے کا اہم تاریخی کام ہوا تو سامی صاحب کے جو ہر کھل کر سامنے آئے.منصور بی ٹی صاحب اور سامی صاحب میرے سلطان نصیر تھے.بالخصوص مکرم سامی صاحب کہ ان کی جاں گسل محنت شاقہ کے بغیر ہم اپنی منزل پر شاید دسیوں سال بعد پہنچتے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور بے حد و نہایت اجر سے نوازے.آمین.(16)
ماں باپ کی محبت میں سرشار، نیک اولاد ہمیشہ ان کے گن گاتی ہے لیکن آپ نے جس رنگ میں اپنی ساس اور اپنے سسر کا ذکر کیا ہے اُسے پڑھ کر دل سے انکے لئے دُعا نکلی.خدا تعالیٰ نے احمدیت کو کیا کیا گوہر نایاب دیئے ہیں.ماشاء اللہ والحمد للہ.آپ کے ابا جان 1969ء میں افریقہ سے یہاں آئے.یہ خاکسار 1967ء میں پہلی بار یہاں متعین ہوا تھا.میں نے کبھی انہیں کسی کے ساتھ تلخی سے بات کرتے نہیں دیکھا.ہمیشہ مسکراتے رہتے اور گرمی سردی میں جماعتی کچن میں اور جلسہ سالانہ کے دنوں میں لنگر خانہ میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں لیکن بغیر کسی نمود و نمائش کے.اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور اس جہان میں بھی مسکرا تارکھے.آپ نے شروع میں تحریر کیا ہے کہ آپ کو لکھنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے.میں نے ”“ کا لفظ لفظ پڑھا ہے سینکڑوں جگہ ٹائپ کی معمولی غلطی کی اصلاح بھی کی ہے لیکن میں بغیر کسی مبالغہ کے کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے قلم میں جو روانی ودیعت فرمائی ہے وہ شاید آج کے پی ایچ ڈی کرنے والوں کو بھی شرمندہ تحریر کر رہی ہے.ماشاء اللہ کیا بے ساختہ پن ہے.یوں لگتا ہے خون جگر حرف حرف کے ساتھ رہتا رہا ہے اور دل اُمڈ کر قرطاس پر آ گیا ہے.ہر ایک کا ذکر بے تکلف ہو رہا ہے.آپ نے جس عرق ریزی سے حالات مدون کئے اور سب عزیزوں ، رشتہ داروں، بھائی بہنوں اور ان کے بچوں کا ذکر کیا ہے وہ بلا کے حافظہ محنت اور دل جمعی کا غماز ہے.خدا تعالیٰ آپ کو صحت و عافیت والی لمبی فعال زندگی سے نوازے اور بچوں کی طرف سے آنکھیں ٹھنڈی رکھے.آمین.اور ے 11 جنوری بروز جمعتہ المبارک اللہ کرے زور قلم اور زیادہ والسلام خاکسار آپ کا بھائی لئیق احمد طاہر.ریجنل مشنری حال نزیل مسجد المحمدی بریڈ فورڈ (17)
مکتوب از محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ محترمہ پیاری صفیہ آپا جان ! بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کی پونجی اب آپ کی کب رہی.یہ خزانہ سب کے لیے کھول دینے پر میں آپ کو مبارکباد دیتی ہوں.مسودہ الف سے کی تک پڑھا.الحمد للہ بہت اثر کرنے والی تحریر ہے.اس میں ایک سردوگرم چشیدہ کہنہ مشق بالغ نظر کے تجربات کا سنجیدہ نچوڑ ہے جو بچوں جیسی بے لاگ معصوم سچائی سے پیش کیا گیا ہے.ایسی تحریروں میں خود بخود دل میں اترتے چلے جانے کی صلاحیت ہوتی ہے.ایسی بے ساختہ خوبصورتی کے لیے انسان تھوڑی دیر کے لیے فنی موشگافیوں کونظر انداز کرسکتا ہے.اونچے نیچے پہاڑوں پر اُگنے والے ان خودرو پھولوں کو اسی طرح پیش کر دیجئے.آپ نے جس حو صلے اور فراخ دلی سے اپنی ذات سے تعلق رکھنے والے تجربات وحوادث، ماضی کی تلخیاں اور شیر بینیاں صفحہ قرطاس پر بکھیریں ہیں، قابل داد ہے.اللہ تعالیٰ اس پر خلوص کاوش کا صلہ اپنے پیار سے عطا فرما تا رہے.آمین.اپنی دعاؤں میں خاکسار کا حصہ رکھیے.جزاک اللہ خیرا.29-5-13 (18) خاکسار امتہ الباری ناصر
بہت شکریہ بسم اللہ الرحمن الرحیم مجھ پر لازم ہے کہ میں اپنے ان محسنوں کا، جنہوں نے میری اس چھوٹی سی کاوش کو سراہا، حوصلہ افزائی کی اور مفید مشوروں سے نو از اغرضیکہ کسی بھی طرح میری مدد کی ، تہ دل سے شکر یہ ادا کروں.میری پونچی پر پہلا تبصرہ محترم مکرم جناب بشیر رفیق خان صاحب سابق امام مسجد فضل لندن نے کیا.عکاشہ جب میری پونچی لیکر واپس آیا تو کافی رات ہو چکی تھی.میں قریباً سوگئی تھی.صرف اُس کی آواز سنی کہ امی آپ کی کتاب لے آیا ہوں اور وہ میرے تکیہ کے پاس رکھ کر چلا گیا.نیند میں میری ہمت نہیں ہوئی دیکھنے کی لیکن آدھی رات کو میرا ہاتھ کتاب پر پڑا تو میری سوئی ہوئی آنکھیں اک دم کھل گئیں.لائٹ جلائی ، تبصرہ پڑھا.یہ بھی سچ ہے کہ میں کوئی مستقل تہجد گزار نہیں ہوں مگر تبصرہ پڑھ کر میرا اسر سجدہ میں گرار ہا اور آنکھیں جل تھل اور میں اس بے یقینی کی حالت میں سونہیں پائی.میری کتاب پر پہلا تبصرہ تھا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ جماعت کے اتنے عظیم سکالر میرے لکھے پر میری اس قدر حوصلہ افزائی فرمائیں گے.میں آپ کی کتاب چند خوشگوار یادیں سے بہت متاثر ہوں اور اپنی تحریر میں اسے مشعل راہ بنایا ہے.یہ بھی مجھ پر واجب ہے کہ میں دل کی گہرائی سے محترم مکرم جناب مولا نا ئیق احمد طاہر صاحب کا شکر یہ ادا کروں.اُنہوں نے ہی تو مجھے اس لکھنے کی راہ پر ڈالا ہے اور اب اپنی نور کی شدید بیماری کی حالت میں سے وقت نکال کر کو وقت دیا، میری دلجوئی فرمائی اور پروف ریڈنگ کی.اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ اللہ ہمیشہ اُن کے گھر کو نور سے پر نور رکھے اور آنے والی نسلوں تک نور (19)
کی برکت اور کرنیں تقسیم ہوتی رہیں.جزاھم اللہ احسن الجزا.بھائی جان مکرم عبد الباسط شاہد صاحب میرے ماموں زاد بھائی ہیں.ہمیشہ دھیمے لہجے اور قت سے میری دلجوئی فرماتے ہیں.مجھے خوشی ہے کو بھی اُن کا پیار اور شفقت ملی ہے.جزاھم اللہ احسن الجزا.عزیزم خالد میرا بھائی ہے اگر اُس نے ابا جان کے متعلق نوٹ نہ لکھے ہوتے تو شائد میں یہ پونچھی تقسیم ہی نہ کر پاتی.جزاھم اللہ احسن الجزا.میں اپنے سب بچوں کا شکر یہ ادا کرونگی، جنہوں نے مجھے کمپیوٹر پرلکھنا سکھانے میں پل پل میری رہنمائی کی ورنہ میں تو آج بھی قلم سے اپنا نام لکھنا چاہوں تو یقیناً غلط لکھ دوں.مجھ پر لازم ہے کہ میں اپنی بہو عروج اور بیٹے عکاشہ کا بھی شکر یہ ادا کروں.باوجود اس کے کہ دونوں ہی اردو زبان سے بے خبر ہیں، لیکن جب بھی مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی کو اپنا لکھا ہوا سناؤں اور رائے لوں کہ میں نے کیا لکھا ہے تو دونوں نے ہی غور سے سنا اور مشورہ بھی دیا.جزاھم اللہ.اب میں اپنے دو ننھے بچوں کا شکریہ ادا کروں.دونوں ہی سٹوڈنٹ ہیں.میری نواسی شہزانہ کنول ( لبنی مقصود کی بیٹی) جس نے مجھے کمپیوٹر پر سکین کرنا پھر اُس کو میل کرنا اور اس طرح کی بے شمار با تیں جن کا مجھے کوئی علم نہیں تھا وہ سب مجھے سکھایا.اللہ تعالیٰ سے اُس کی کامیابیوں کے لیے ہمیشہ دعا کرتی ہوں.میری بہن سعید شمیم کا پوتا عثمان وحید ( ابن شیخ عبدالوحید ) جو آرٹ کا سٹوڈنٹ ہے اُس نے کا ٹائٹل پیج بنایا ہے.اور اب یہ بھی بتادوں کہ کتاب لکھنے کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا مگر مجھے یہ ہمت اپنی بہن امتہ الباری ناصر کو دیکھ کر آئی جس نے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی تحریک پر اپنے بزرگوں کی یادوں کو زندہ رکھا اور زندہ درخت، کتاب لکھی.(20)
بہن امتہ الباری ! تمہاری محنت، پیار اور احسان کو شکر یہ کہہ کر چھوٹا نہیں کرنا چاہتی.بس اتنا ہی کافی ہے کہ تم نے چھوٹی بہن ہونے کا حق ادا کیا.میں انشاء اللہ ہمیشہ بڑی بہن ہوکر زندگی بھریاد رکھوں گی.جزاک اللہ احسن الجزا.آپ سب کے لیے دل کی گہرائی سے اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کرتی رہوں گی.محتاج دعا صفیہ بشیر ساقی (21) 16-6-13
عرض حال ہر انسان کی زندگی میں ، چاہے وہ تھوڑی ہو یا زیادہ وقت اپنا کردار ادا کرتا ہے.کبھی سہانا بن کر کبھی ڈراؤنا بن کر نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ، دکھ، خوشی غم ، فکر، انتشار، کامیابی ، ناکامی، سبھی کو لپیٹ میں لیکر چلتا ہے.خاکسار کو اپنی عمر رائیگاں کے تہترویں سال میں بفضل خدا وہ کام کرنے کی توفیق حاصل ہوئی جو اپنے حالات اور کم مائیگی کی وجہ سے زندگی بھر نہیں کیا تھا.کرنا تو.دور کی بات کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں بھی کبھی اپنے تجربات وحوادث قلمبند کروں گی یا کرسکتی ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ بزرگوں کا ذکر خیر محفوظ کرنا مقصود تھا، اس نے یہ توفیق بخشی کہ اپنی زندگی کا ما حصل سادہ انداز میں پیش کر دوں.لکھنے والے اپنے تعارف میں اپنے علمی مقام ومرتبے اور دیگر تصانیف کا ذکر کرتے ہیں.میں بھی یہ رسم نبھاتے ہوئے بتا دیتی ہوں کہ میں سکول پڑھنے گئی ضرور تھی ، سات آٹھ جماعت تک کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا ہوگا ، پر مجھے اپنا پاس ہونا کبھی یاد نہیں آتا.ہاں پڑھنا میرا شوق رہا اُس وقت بھی جب میں نے ربوہ کی چاندنی راتوں میں چاند کی چاندنی میں پڑھا، پھر سرسوں کے تیل کے دیئے میں پڑھا اور پھر مٹی کے تیل کے لیمپ میں اور جب بجلی آگئی تو میری عید ہو گئی.چونکہ میرے پڑھنے کا وقت ہمیشہ رات کا ہی ہوتا تھا کہ دن کو میں اپنی گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف ہوتی اور رات کو پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے.یہی میری زندگی کا ایک شوق رہا ہے.قدرت کے کام ہیں، شادی ایک قابل قلمکار محترم بشیر الدین سامی صاحب سے ہوئی.وہ لکھتے رہے میں دیکھتی رہی.خود کچھ لکھنے کا خیال ہی نہیں آیا.(22)
31 جولائی 2001ء کو سامی صاحب کی وفات کے کچھ عرصہ بعد میری بہت خواہش تھی کہ کوئی سامی صاحب کے بارے میں لکھے.ایک دن اسی موضوع پر محترم مکرم مولا نا لئیق احمد طاہر صاحب سے بات ہو رہی تھی.فرمانے لگے کہ آپ خود لکھیں آپ سے زیادہ اُن کے بارے میں کون لکھ سکتا ہے.میرا جواب تھا کہ مجھے تو لکھنا نہیں آتا میں کیسے لکھوں، آپ نے مجھے جواب دیا آپ دل کی بات لکھ دیں میں اُسکو ٹھیک کر دونگا.فون بند کر کے بہت روئی کہ میں کیسے لکھوں.میں تو ایسی نابلد ہوں کہ اپنا نام بھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتی.یہ خیال آتا رہا کہ سامی تو تھوڑے سے تعلق والے مرحومین کے لیے بھی دعا کی خاطر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتے تھے، مجھے تو محبوب جیون ساتھی کے بارے میں لکھنا ہے.اپنی نا اہلی اور بے بسی پر بہت دکھی ہوتی تھی.پہلی مرتبہ اپنے ان پڑھ ہونے کا افسوس ہوا ، آخر میں اللہ کا نام لیکر کمپیوٹر پر لکھنے بیٹھ گئی ، مجھے اس کا استعمال بالکل نہیں آتا تھا.پھر میرے بیٹے نے مجھے کچھ سمجھایا اور میں نے کوشش شروع کی.جذبات کا یہ عالم تھا کہ یہ جملہ لکھنا کہ سامی صاحب کی وفات ہوگئی اور وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، میرے لیے بہت مشکل تھا.صرف سامی لکھتی اور آبدیدہ ہو جاتی.کبھی زار و قطار رونے لگتی مگر ہمت نہیں ہاری.تین ماہ کے عرصہ بعد ایک دو صفحےلکھ کر میں نے محترم مولانا لئیق احمد طاہر صاحب کو پوسٹ کر دیے.دوسرے دن ہی اُن کا فون آیا کہ یہ تو آپ نے اُن کی میڈیکل رپورٹ لکھی ہے.پھر مجھے اُنہوں نے سمجھایا کہ کیسے لکھنا چاہئے.اس دوران مجھے اپنے جذبات پر قابور رکھنے اور کمپیوٹر پر لکھنے کی کچھ نہ کچھ مشتق ہو گئی تھی.جو بھی مجھ ان پڑھ کی سمجھ میں آیا لکھتی رہی.ایک سال کی محنت کا ما حصل اپنے ماموں زاد بھائی جان عبد الباسط صاحب کے پاس لے گئی کہ وہ چیک کر لیں ، میں نے اُن سے ایک درخواست کی کہ میرے سامنے نہیں، میرے بعد پڑھیں.دل میں بہت شرمندہ ہی تھی.نہیں جانتی میں نے کیا لکھا ہے.کچھ دنوں کے بعد بھائی جان نے اُس (23)
مضمون کی نوک پلک ٹھیک کر کے تھوڑی سی شاباش سے مجھے مضمون واپس کر دیا.میں نے الفضل انٹرنیشنل کو پوسٹ کر دیا اور میرا امضمون چھپ گیا.سچ پوچھیں، مجھے یقین نہیں آرہا تھا.شدت سے یہ خیال آتار با کاش سامی اس مضمون کو پڑھتے ، ان کے سامنے تو خط بھی مشکل سے لکھتی لکھتی بھی تو کئی جگہ اصلاح کرتے اور اب ان کی جاہل صفیہ کا مضمون الفضل میں چھپا تھا.پھر حوصلہ بڑھا اپنی مرحومہ امی جان کے متعلق لکھا، وہ الفضل ربوہ پاکستان میں چھپ گیا.پھر ابا جان پر لکھا وہ بھی چھپ گیا.الحمد للہ میرے مضمون ربوہ الفضل میں اور اخبار احمد یہ اور مصباح اور اب النصرت میں بھی چھپ چکے ہیں.جب بھی میرا مضمون کہیں چھپا مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ میں نے لکھا ہے.لکھنا نہیں آتا، ترتیب نہیں ہوتی بے ربط سا لکھ کر بھیج دیتی ہوں.چھاپنے والوں کا شکر یہ ادا کرتی ہوں کہ اُس کوسنوار دیتے ہیں اور میری حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے.یہ سب کچھ لکھنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں بڑی عالمہ فاضلہ ہو گئی ہوں.بلکہ یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اگر مخلص رہنما مل جائیں تو مجھ جیسی ان پڑھ کو بھی دل کی بات کرنی آجاتی ہے.سب سے پہلے میں یہ لکھنا چاہتی ہوں اگر بفضل الہی زندگی کا ساتھی اچھا مل جائے اور آپ کچھ بھی نہیں ہیں تو پھر بھی آپ بہت کچھ بن جاتے ہیں اور اگر آپ کی زندگی کا ساتھی اچھا نہیں تو آپ بہت کچھ ہو کر بھی کچھ نہیں بن پاتے.یہی میری زندگی کی کہانی ہے.آج میں پہلے اپنے والدین کا شکریہ ادا کروں گی جن کی بدولت میں ہوں، پھر سامی صاحب مرحوم کو دعا دیتی ہوں جنہوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا.آج جو یہ کتاب لکھنے کی میں ہمت کر رہی ہوں وہ بھی سامی صاحب کا دیا ہوا سبق ہے کہ کبھی بھی ہمت مت ہارو.جو کرنا ہے، اللہ کا نام لیکر ضرور کر واللہ تعالی برکت ڈالے گا اور مدد بھی کرے گا.اسی بھروسے پر یہ بیڑا اٹھایا.کوشش کی ہے کہ اپنے بچوں اور نسلوں کے لیے کچھ لکھ جاؤں.یہ کتاب اگر چہ کوئی تاریخی دستاویز نہیں ہے تاہم (24)
میرے اپنے بچوں اور فیملی کے لیے قیمتی یادگار ہے، تا کہ اُن کو بھی یہ معلوم ہو کہ ہمارے بزرگوں نے بفضلِ الہی قبول احمدیت اور ثبات قدم سے مشکلات کا سامنا کرنے میں کیسی کیسی قربانیاں دیں اور دین کی خدمات میں کیا کیا مقام حاصل کیے.یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے.پہلے حصے میں سامی صاحب کے والدین اور بہن بھائیوں کا ذکر ہے.یہ حصہ زیادہ تر سامی صاحب کا تحریر کردہ ہے اور دوسرے حصے میں میرے والدین اور بہن بھائیوں کا ذکر خیر ہے.یقیناً میری تحریر بے ربط بھی ہوگی ، بے شمار غلطیاں بھی ہونگی فقرے آگے پیچھے بھی ہونگے ، اُن سب کیلئے معافی چاہتی ہوں اور اپنے تمام پڑھنے والوں سے دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرا انجام بخیر کرے.میری تمام غلطیوں کو معاف کرے اور میری پردہ پوشی فرمائے.آمین.خاکسار صفیہ بشیر ساقی (25)
حضرت سردار مصباح الدین احمد صاحب غفر الله له سابق مبلغ انگلستان مکرم سردار مصباح الدین احمد صاحب غفر اللہ لہ صاحب کشف و رویا، مستجاب الدعوات بزرگ تھے.زہد و تقویٰ، عبادت وریاضت انکی روح کی غذا تھی.انکے خاندان کا سلسلہ بزرگان دین سہروردیہ سے تعلق رکھتا ہے، اُن کے دادا اسہروردی امیر بخش صاحب علم و حکمت اور معرفت میں ایک مقام اور مرتبہ رکھتے تھے اور والد بزرگوار حکیم مہتاب الدین سہر وردی بھی ایک روشن ضمیر اور درویش صفت بزرگ تھے.حنفی مسلک رکھتے تھے اور ذریعہ معاش حکمت اور زمیندارہ تھا.محترم سردار صاحب بتا یا کرتے تھے کہ اپنے بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ ہمارے اسلاف عربی النسل تھے اور حضرت عکاشہ جد اعلیٰ تھے.جو مکہ میں پلے بڑھے، ہجرت مدینہ سے قبل دولت اسلام سے بہرہ ور ہوئے.ہجرت مدینہ کا ارشاد نبوی صلی شمالی تم ہوا تو حضرت عکاشہ دیگر قدح خواران توحید کے ہمراہ سر زمین یثرب میں وارد ہوئے.غیر معمولی جرات و شجاعت کے مالک تھے.غزوات میں شامل ہوئے.جنگ بدر میں داد شجاعت دیتے ہوئے جب اُنکی تلوار ٹوٹ گئی تو آنحضور مایش الاسلام نے کھجور کی ایک چھڑی عطا فرمائی، اس سے دشمنوں پر بجلی بن کر گرے.ایک سریۃ میں آنحضرت سلیم نے چالیس صحابہ پر مشتمل قبیلہ بنی اسد کے خلاف ایک مہم میں حضرت عکاشہ کو افسر مقررفرمایا.ایک مرتبہ سرور کائنات، فخر موجودات حضرت محمد مصطفی صلی یا پی ایم نے ایک مجلس میں فرمایا کہ میری امت میں ستر ہزار لوگ بغیر حساب کتاب جنت میں جائیں گے، اس پر حضرت عکاشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ مان لیا ایلیم دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں سے کر دے.آپ مالی ملی ای ایم نے اسی وقت دعا کی کہ اے خدا تو اپنے فضل سے عکاشہ کو بھی ان لوگوں میں شامل کر (26)
دے.اس کے بعد ایک انصاری شخص نے عرض کیا.یا رسول اللہ صلی نیلم میرے لیے بھی دعا کریں.آنحضرت سلیہ و سلم نے فرمایا.اب عکاشہ تم پر بازی لے جا چکا ہے.حضرت عکاشہ سے اس تعلق کے بارے میں حضرت سردار صاحب کو ایک تذبذب تھا.اسی کیفیت کے بارے میں وہ فرماتے ہیں: انہیں ایک موقع دعائے خاص کامل گیا.جبکہ اُن کے دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ الہی، ظاہری طور پر تو ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں لیکن جی خوش ہو گا اگر تو کوئی ایسی روشنی عطا کر دے جس سے یہ اطمینان پاسکوں کہ اس عاجز فقیر کا تعلق اس سرزمین پاک سے ہے جس میں آقائے نامدار مال یتیم پیدا ہوئے.اس جذبہ کو دل میں بسائے ایک رات بکثرت درود اور دعا میں گزاری.اس پر اللہ تعالیٰ نے خواب میں نظارہ دکھایا کہ میں مکہ میں ہوں اور میں پیدائشی کی ہوں.ایک اور خواب جس کا ذکر کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ وہ مری کے ہسپتال میں سخت بیمار تھے اور اپنی زندگی کے بارے میں غم میں ڈوبے ہوئے تھے کہ خواب میں آنحضرت صلی لا یلم کے دادا حضرت عبد المطلب مجھے گلے لگا کر ملے اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے تنہائی کی جگہ بیٹھ کر دعا کر کے آیا ہوں.اس خواب میں تندرستی کی بشارت تھی.الحمد للہ اس عاجز کے دل کی اس خواہش کو مکہ کا نظارہ دکھا کر روحانی تسکین عطا فرمائی کہ اس عاجز کی نسبت مکہ سے ہے.واللہ اعلم بالصواب.اسی نسبت کے پیش نظر انہوں نے اپنے ایک پوتے کا نام عکاشہ ( ابن بشیر الدین احمد ساقی ) رکھا.“ حکیم سہر وردی مہتاب الدین صاحب کی نسل سے پانچ بیٹے ہوئے.( محمد علی، احمد علی ، غلام علی ، مصباح الدین اور سراج الدین ) مصباح الدین صاحب اور سراج الدین صاحب کو حضرت امام مہدی کو پہچانے کی سعادت نصیب ہوئی.اس طرح اس خاندان کی دوشاخیں احمد یہ مسلک سے (27)
وابستہ ہو گئیں.سردار مصباح الدین احمد غفر اللہ لہ اکتوبر 1899 کو پیدا ہوئے.(حوالہ الوصیت 12263 ) ان کی اولاد میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.فاطمہ بیگم (مدفون قلات)، عبدالسبحان سامی ( مدفون احمد یہ قبرستان کراچی ) سردار عبد القادر ( مدفون احمد یہ قبرستان فرینکفورٹ جرمنی)، ناصر الدین احمد سامی ( مدفون ربوہ) ، بشیر الدین احمد سامی ( مدفون بروک و ڈاحمد یہ قبرستان لندن)، صالح مسرت کوثر ( مقیم ربوہ)، ظفر اقبال(مقیم فرینکفورٹ جرمنی) محترم سردار مصباح الدین صاحب کے چھوٹے بھائی مکرم سراج الدین صاحب بھی نو جوانی کی عمر میں قادیان آگئے تھے اور خلیفتہ اسیح اول کے دست مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہوئے.اس طرح دونوں بھائیوں کو حضرت خلیفہ اسیح اول کی شفقت بھری صحبت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوئی.مکرم سراج دین صاحب قادیان آکر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہو گئے اور ساتھ کے ساتھ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے نور ہسپتال میں کمپوڈر کی تربیت بھی لیتے گئے.جیسے ہی اُنہوں نے خاطر خواہ مہارت حاصل کر لی بلوچستان کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی ملازمت میں چلے گئے.پھر اسی محکمہ سے ریٹائر ہو کر مستقل طور پر ربوہ میں آباد ہو گئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ سے محبت اور فدائیت کا رشتہ رکھتے تھے.بہت سادہ مزاج، کم گو، اور درویش صفت انسان تھے.وہ عرصہ تک محلہ دار النصر کی جماعت کے صدر رہے.اور بفضل تعالیٰ تحریک جدید دور اول کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے.عمر کے آخری حصہ میں اپنے بیٹے احسان الحق صاحب کے پاس کراچی چلے گئے اور وہیں وفات پائی.موصی تھے بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی.انکی نرینہ اولاد میں سے صرف ایک ہی بیٹا احسان الحق (مقیم جرمنی) حیات ہے.بیٹیوں میں سیدہ بیگم (مرحومہ) بشری بیگم ( مرحومہ ) صادقہ بیگم (مقیم لاہور ) صادقہ بیگم کا ایک بیٹا لا ہور 2010 ء کی شہادتوں میں شہید ہوا ) آمنہ بیگم (مقیم جرمنی ).سب ہی ماشاء اللہ بابرگ و بار ہیں.(28)
حضرت سر دار صاحب کی سیالکوٹ آمد سردار صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی.اسکول کی مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے گاؤں میں کوئی مدرسہ نہیں تھا لیکن تعلیم کا بہت شوق تھا، یہی شوق انہیں سیالکوٹ شہر لے آیا.بچپن سے چونکہ نماز اور عبادت کی عادت تھی سیالکوٹ آکر بھی انہیں کسی مسجد کی تلاش ہوئی اور یہی تلاش انہیں کبوتروں والی مسجد میں لے آئی.جہاں اس مسجد کے امام حضرت مولوی فیض الدین صاحب سیالکوٹی تقوی شعار اور مرنجاں مرنج بزرگ تھے.ان کے آباؤ اجداد بلاد عرب سے تھے.حافظ قرآن تھے ، عربی ، فارسی اور حدیث پر بھی عبور رکھتے تھے.بہت شفیق انسان تھے.حضرت مولوی صاحب کی خاص نظر اس نیک خصلت نو وارد نوجوان پر پڑی تو اسکے اخلاص کو دیکھ کر اُس کی دیکھ بھال اور تربیت کو اپنی نگرانی میں لے لیا.اس طرح اُن کا ہمہ وقت حضرت مولوی صاحب کی صحبت میں گزرنے لگا.جنہوں نے انکی سعادت مندی اور دینی شغف کو دیکھتے ہوئے اپنا شاگرد رشید بنالیا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسا وسیلہ پیدا کر دیا کہ انکی صحبت میں رہ کر جہاں دینی اسباق سیکھنے لگے وہاں وہ اسکے ساتھ ساتھ روحانی فیض بھی پانے لگے.دیکھتے ہی دیکھتے انکی سعادت مندی اس رنگ میں بھی اللہ تعالیٰ کا فضل سمیٹنے کا موجب بن گئی کہ اُنہوں نے حضرت مولوی صاحب کی صحبت میں رہ کر حضرت امام مہدی کے ظہور کی اطلاع پالی.اس طرح حضرت سردار صاحب سید نا حضرت اقدس میرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے دعوئی ماموریت پر ایمان لے آئے.جب آپکو یہ علم ہوا کہ حضرت اقدس امام مہدی نہ صرف یہ کہ پانچ سال کا عرصہ سیالکوٹ میں تشریف فرما ر ہے بلکہ بعد میں بھی متعدد بار تشریف لاتے رہے تو دل پر بے حد اثر ہوا کہ کاش مجھے بھی خبر ہوتی اور شہر میں ہوتا اور حضرت اقدس امام مہدی کے روئے منور کو دیکھ پاتا.یہ حسرت انکے دل میں ہمیشہ ایک خلش بن کر چھتی رہی.(29)
دور خلافت اولیٰ اور ورود قادیان حضرت مولوی فیض الدین صاحب سیالکوٹی نے سردار صاحب کے دینی جذ بہ او شوق کو دیکھتے ہوئے انہیں حضرت امام وقت مولانا نور الدین خلیفتہ امسیح اول کی خدمت میں بھجوانے کا پروگرام بنایا تا کہ وہاں جا کر وہ سلسلہ کے مفید وجود بن سکیں.یہ تجویز سردار صاحب کے لیے بہت خوشی اور انبساط کا موجب ہوئی.چنانچہ وہ 1910ء کے لگ بھگ قادیان کے لیے روانہ ہو گئے.قادیان پہنچ کر حضرت خلیفہ اسیح اوّل کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.اس وقت کے قادیان کے ماحول کے ذکر میں بتایا کرتے تھے کہ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے ، جب میں قادیان پہنچا.یہاں آکر مجھے ایسے لگا جیسے کھانے کی میز پر دستر خوان بچھا ہوا ہے اور مہمان بھی سبھی موجود اپنی اپنی نشست پر بیٹھے ہیں اور معزز میزبان ایسے لگتا تھا کہ ابھی ابھی اٹھ کر باہر گئے ہوں اور اُنکی نشست خالی ہے.آہ ! بانی سلسلہ حضرت اقدس مسیح موعود اگر چہ خود موجود نہیں تھے مگر آپ کے صحابہ کی موجودگی کی وجہ سے ان کی اس محفل کی رونق اور گہما گہمی میں وہی ولولے، وہی جوش اور جذ بے کارفرما نظر آتے تھے.ان کی اپنی تحریر کے مطابق ، عمر شعور کو پہنچنے پر ایسا ماحول پایا کہ احیائے دین کے چرچے سے فضا بھری ہوئی تھی.انصار دین خدمت دین کے لیے زندگی وقف کیے ہوئے تھے اور والہانہ طور پر اس پر جان و دل لگائے ہوئے تھے.اس منظر سے متاثر ہو کر بے اختیار یہی جذ بہ اُبھرا کہ اپنی زندگی بھی خدمت دین کے لیے وقف کر گزریں.حسن اتفاق، اس جذبہ کے ابھرنے کے ساتھ ہی یہ دعا بھی کان میں پڑگئی اور اس انداز سے دل میں اتر گئی کہ وفور شوق طلب سے ہر آن در دزبان ہوگئی.اللَّهُمَّ النَّصْرُ مَنْ نَصَرَ دِينَ مُحَمَّدٍ قادیان پہنچنے پر حضرت خلیفہ اسیح اول نے از راہ شفقت تدریس و تعلیم کیلئے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں انتظام فرما دیا.اس طرح تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا اور صحبت صالحین بھی میسر ہو گئی اور (30)
حضرت خلیفتہ استیج اول نور الدین کی مجالس درس القرآن سے بھی فیض پانے لگے.اسکول میں حضرت خلیفہ اسیج اول کے صاحبزادے میاں عبد ائی کے ہم مکتب ہوئے اور رفتہ رفتہ یہ تعلق گہری دوستی میں بدل گیا.اسی ناطے حضرت خلیفہ اسی اول کے گھر آنا جانا روز مرہ کا معمول بن گیا اور حضرت خلیفہ اسیح اول اور حضرت اماں جی کی اس قدر شفقت کے زیر سایہ آگئے کہ انہوں نے انہیں اپنے بیٹے کا شرف عطا فرمایا.کئی بارانہیں ایسی سعادت بھی حاصل ہوئی کہ حضور جب درس کیلئے مسجد اقصیٰ تشریف لیجاتے تو قرآن پاک اٹھا کر ساتھ چلتے.غرضیکہ حضرت خلیفہ اسیح اول کی شفقت کی نظر تا حیات رہی جسے آپ کے بعد بھی آپ کی اولاد نے نبھایا اور اس روحانی تعلق کو قائم رکھا.عجیب اتفاق تھا جب 1947ء میں ہجرت قادیان کا وقت آیا تو خطرات کے پیش نظر انہیں اپنے گھر واقع بادیاں سے نکل کر قادیان حضرت خلیفتہ المسیح اول کے مکان میں ہی منتقل ہونا پڑا جہاں سے پھر انہوں نے پاکستان کے لیے ہجرت فرمائی.ربوہ میں بھی حضرت اماں جی سے جب ملنے جاتے تو وہ اپنے بچے کی طرح کمال شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر تیں اور کچھ نقدی بھی ان کے ہاتھ پر رکھ دیتیں.حضرت اماں جی صغری بیگم " حرم حضرت خلیفہ اسیح اول کی وفات 6/7 اگست 1955 ء کی درمیانی شب کو ہوئی اور جنازہ گھر سے اٹھایا گیا تو انکی چار پائی کو ان کے بیٹوں کے ساتھ حضرت سردار صاحب کندھا دے کر باہر لائے.د و رخلافت ثانیه 1914ء میں جب حضرت خلیفہ امسیح اول کی وفات ہوئی تو حضرت سردار صاحب ابھی عہد طالب علمی میں سے گزر رہے تھے اور اسکول کی ہائی کلاس تک پہنچے تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ 1915ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خطبہ جمعہ میں خدمت دین کے لیے زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی.اس پر سکول کے کئی ساتھیوں نے تحریک پر لبیک کہنے کی سعادت پائی.یوں عہد شعور کی نکلی ہوئی وہ معصومانہ دعا جوذ وق شوق سے دل سے اٹھی تھی بارگاہ ایزدی میں قبولیت پاگئی اور (31)
کیا ہی خوش نصیبی تھی کہ جلد ہی اس جذبہ کے پورا ہو جانے کی خوشی بھی میسر آ گئی.جیسے کام کرنے والی عمر کو پہنچا جماعت کے خادمین دین کے دستہ میں شامل ہونے کی سعادت بھی پالی، ثم الحمد للہ.اس تحریک میں نام تو کئی دوستوں نے پیش کیے تھے مگر جس دستے کو ضروری تربیت دیکر جلد کام پر لگانا مقصود تھا، وہ کوئی درجن کے قریب تھے.یعنی حکیم فضل الرحمن صاحب، شیخ محمود احمد صاحب عرفانی، ممتاز علی صاحب، فرزند اکبر مولوی فرزند علی صاحب گوہر، شیخ یوسف علی صاحب سابق پرائیویٹ سیکرٹری ، صوفی عبد القدیر صاحب سابق مبلغ انگلستان ، مولوی رحمت علی صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا، ملک غلام فرید صاحب سابق مبلغ انگلستان ، صوفی محمد ابراہیم صاحب سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ،صوفی غلام محمد صاحب سابق وکیل المال تحریک جدید، ابوالعاصم صاحب ( برادر خورد چودھری ابوالہاشم صاحب)، بھائی وزیر محمد صاحب پٹیالوی، ماسٹر محمد حسن صاحب تاج، سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان.اس فہرست میں ایک اور نام خاص اہتمام سے ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس فہرست میں ایک اور نام بھی شامل ہے گو وہ ان دنوں قادیان سے باہر تھے اور قادیان کے فراق میں اُنہوں نے ایک نظم لکھی تھی جس کا ایک مصرع یہ تھا.کوئی لے چلے مجھے قادیاں احمد یہ گلی کوچوں اور مجالس میں یہ نظم بڑے وجد کے ساتھ پڑھی جاتی تھی.اس رفیق کا نام تھا مولوی عبدالرحیم صاحب درد.ایک عرصہ بعد جب قادیان آئے تو آتے ہی شعبہ تبلیغ کے منصرم مقرر ہوئے.حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے وقف زندگی کی اس پہلی تحریک پر فوری لبیک کہنے والے طلباء کا انتخاب فرمایا اور ہماری کلاس بنادی جس میں ہمیںتعلیمی تربیتی اور تبلیلی علوم دینے شروع کر دیئے.دو چار اسباق کے بعد حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے (خاکسار ) سردار مصباح الدین اور مولوی حکیم فضل الرحمن صاحب کو دوسرے طلباء سے مستی کر کے فرمایا کہ تم دونوں کو تو میں جلد ہی کام پر لگانا چاہتا (32)
میری یونجی ہوں ، چنانچہ ہم دونوں کیلئے کچھ مزید دینی کورس تجویز فرمائے اور اساتذہ مقرر فرما دئے.قرآن شریف کیلئے مکرم مولوی رفیع الدین صاحب ، بخاری شریف کیلئے حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری، عربی صرف و نحو کے لیے مکرم مولوی ارجمند خان صاحب، بیاض نور الدین مکرم مولوی حکیم غلام محمد صاحب ( جانشین طب نور الدین)، میزان الطب حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بسمل، معلومات عیسائی مذہب مکرم شیخ عبد الخالق صاحب، ڈسپینسنگ مکرم ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب (نور ہسپتال).یہ کورس زیادہ وقت کا متقاضی نہ تھا.مناسب حد تک جب کورس عبور ہو چکا تو حالات کے تقاضوں سے باہر بھیجنے کے فیصلہ ہونے تک کوئی چار سال لگ گئے.اس عرصہ میں ہر روز منزل عشق کے ان رفیقوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہتی تھی کہ یہ لوگ زندگی وقف کردہ نہیں زندگی تلف کردہ ہیں لیکن کوئی طنزیہ کلمہ ہمارے قدم ڈگمگا نہ سکا اور نہ ہی شوق دلبر کو مدھم کر سکا.آخر وہ وقت بھی آگیا جبکہ ہم میں سے ایک طارق ہمت سپاہی حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب قرآن کے دلائل علمیہ اور تاثیرات روحانیہ کے ہتھیار پہن کر 1922ء کو عازم گولڈ کوسٹ ہو کر فتح افریقہ کیلئے گھر سے نکل پڑے.قادیان سے روانگی بہت سادہ اور خاموش سی تھی.قلعی گر مکرم علی گوہر صاحب کے تانگہ پر سوار ہو کر یہ خاکسار سردار مصباح الدین اور مکرم ماسٹر حسن محمد صاحب تاج اپنے مجاہد بھائی کو چھوڑنے کیلئے بٹالہ تک ہمراہ گئے.وہاں سے اُنہوں نے تھرڈ کلاس میں بمبئی تک سفر کیا جہاں سے معروف پی اینڈ اد یا کسی اور سواری کے جہاز میں نہیں بلکہ ایک چھ سات ہزارٹن کے کارگو بوٹ (مال بردار جہاز ) پر بحری سفر کیا، رستہ میں جب یہ جہاز مصر پہنچا تو وہاں شیخ محمود احمد عرفانی صاحب سے جاملے جولوا ئے احمدیت لہرانے کیلئے مصر پہنچ چکے تھے.مکرم حکیم فضل الرحمن صاحب 27 جولائی 1922ء کو گولڈ کوسٹ پہنچے جہاں ان دنوں حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحب کام کر رہے تھے اور وہاں پر ایک اور مبلغ کی ضرورت تھی.(33)
میری یونجی احمد یہ ہوٹل لاہور کا قیام اور نو جوانوں کی تعلیمی ترقی حکیم فضل الرحمن صاحب کے زمانہ تعلیم کے حوالہ سے محترم سردار صاحب لکھتے ہیں: 1915ء کی بات ہے اس وقت انکی عمر بھی کوئی 15 برس کی تھی وہ سکول کی نویں جماعت میں آکر داخل ہوئے تھے.اسی سال حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ میں اپنے عہد کی پہلی وقف زندگی کی تحریک فرمائی.اس تحریک میں لبیک کہنے والوں میں ایک حکیم صاحب مرحوم بھی تھے.18-1917ء تک ایسا زمانہ تھا کہ جماعت میں انگلیوں پر گنے جانے کے برابر گریجوایٹ تھے.اور انہی سنین میں سکول سے نکل کر جو طلباء کی کھیپ لاہور پہنچی تو انہی میں سے گریجوایٹوں ، وکیلوں ، ڈاکٹروں اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر فائز ہونے والوں کا سلسلہ شروع ہوا.لاہور میں احمد یہ ہوٹل کھل گیا جس کے قیام سے لاہور کے تعلیمی حلقوں اور دوسرے لوگوں میں سلسلے کی ترقی کا نیا دروازہ کھلا جو سلسلے کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے.سلسلہ کے جوانوں کی تعلیمی ترقی اور نتیجہ دینوی عروج اور خوشکن مستقبل کے وہ ایام تھے کہ مکرم حکیم صاحب میٹرک کی کلاس تک پہنچ گئے.امتحان دیا مگر فیل ہو گئے.چونکہ زندگی کسی کی نذر کر چکے تھے اسلیے دوبارہ تیاری امتحان کے لیے اجازت طلب کی.اس کے جواب میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، میں نے تم لوگوں سے ایسا کام لینا ہے جس کیلئے یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کی ضرورت نہیں.یہ جواب پڑھ کر خدا کے فرمانبردار بندے نے پورے صمیم قلب سے مزید رواجی تعلیم میں آگے بڑھنے کا خیال ترک کر دیا.اسلام چیز کیا ہے خدا کیلئے فنا ترک رضائے خویش پئے مرضی خدا (34)
حضرت سر دار مصباح الدین صاحب کی انگلستان کیلئے روانگی والد بزرگوار سردار مصباح الدین صاحب کا نام ان کے والدین نے چراغ دین رکھا تھا.اس نام کے متعلق مکرم نسیم سیفی صاحب الفضل 7 نومبر 1994ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی کو جب انہیں انگلستان بھجوانا مقصودتھا ان کا نام بدل کر مصباح الدین رکھ دیامعنی کے لحاظ سے دونوں کا ایک ہی مطلب بنتا ہے، اس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے چراغ دین کو مصباح الدین بنا کر ان کے نام میں ایک انقلاب برپا کر دیا.اسی طرح جب ایک اور شخص آئے جن کا نام رحیم بخش تھا لیکن جب انگلستان بھجوانا مقصود تھا انکا نام رحیم بخش سے عبد الرحیم رکھ دیا جو درد کے نام سے مشہور ہوئے اور سلسلہ کی عظیم خدمات کی وجہ سے بہت عزت پائی.14 اگست 1922ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مکرم سردار مصباح الدین صاحب کو لنڈن مشن میں کام کرنے کیلئے قادیان سے روانہ فرمایا.ان دنوں لنڈن میں مکرم مولوی مبارک علی صاحب بنگالی بطور امام مسجد اور مبلغ انچارج کام کر رہے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تعیناتی آرڈر لیکر لنڈن پہنچے اس آرڈر میں مکرم مبارک علی صاحب کیلئے جرمنی جانے کا ارشاد شامل تھا.پس خدمت دین کیلئے یہ انکی پہلی تعیناتی تھی جس کے تحت وہ لنڈن مشن کے انچارج ہوئے.تاریخ مسجد فضل لنڈن مرتبہ حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب (مطبوعہ دسمبر 1927ء بمقام قادیان) میں انگلستان کے ابتدائی مبلغین کے ناموں کی فہرست میں مکرم سردار مصباح الدین صاحب کا نام چھٹے نمبر پر درج ہے جبکہ شخصی لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہیں کیونکہ حضرت فتح محمد صاحب سیال اس دوران انگلستان دو بار تشریف لائے جس کی شائع شدہ تفصیل درج ذیل ہے: (1) چودھری فتح محمد صاحب ایم اے (2) قاضی عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی (3) مفتی محمد صادق صاحب (4) چودھری فتح محمد صاحب ایم اے (دوبارہ ) (5) مولوی مبارک علی صاحب بی (35)
اے بی ٹی (6) مصباح الدین صاحب (7) مولوی عبد الرحیم نیر صاحب (8) مولوی محمد دین صاحب بی اے (9) مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم اے (10) ملک غلام فرید صاحب ایم اے.لندن میں تبلیغی مساعی مکرم حضرت سردار مصباح الدین صاحب لکھتے ہیں : مبلغین کرام اس سے پہلے جو اقدام عمل میں لا چکے تھے ان کو ہی آگے بڑھایا گیا.متعارف افراد سے مزید رابطہ کیلئے مشن ہاوس میں ہفتہ وار اجلاس کا سلسلہ جاری تھا.اسوقت جماعت کا لٹریچر بھی اسقدر موجود نہ تھا اس لیے یہی اجلاس دعوت پہنچانے کا بہترین ذریعہ تھے.دوسری صورت ذاتی طور پر مل کر دعوت کا ذکر کیا جاتا تھا.ہائیڈ پارک میں بھی تبلیغی کوششوں کو جاری رکھا گیا.اس کے علاوہ بھی دعوت پہنچانے کے مواقع کے حصول کی طرف دھیان لگا رہتا.پس ایسا ہی ایک موقع میسر آ گیا جبکہ اُردن کے شاہ عبد اللہ پاشا لنڈن تشریف لائے.اخبار میں یہ خبر پڑھ کر ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، تو انہوں نے بصد خوشی ملاقات کا وقت دے دیا.اس وقت اس سرزمین میں مشن سے وابستہ ہم صرف پانچ فرد تھے.مکرم عزیز دین صاحب سیالکوٹ کے تیار کردہ کھیلیوں کے سامان کے مینیجر تھے.دوسرے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے صاحبزادے میاں عبد الرحیم صاحب خالد (طالب علم ) تیسرے مکرم سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب سکندر آباد کے صاحبزادے علی محمد عبد اللہ طالب علم ) چوتھے راجہ محمد احمد جنجوعہ ( طالب علم ) سمیت ہم پانچ پر مشتمل وفد لے کر دعوت سلسلہ پہنچانے کیلئے اردن کے حکمران کے ہاں پہنچے.وہ والہانہ انداز سے ملے.اُسی وقت عربی میں ایک تقریر تیار کر لی.اس میں حضرت اقدس مسیح موعود کی آمد اور آپ کی صداقت کے دلائل کا بیان تھا.میاں عبد الرحیم خالد صاحب چونکہ وفد میں تھے اسلیے خصوصیت سے حضرت اقدس کے نشان کا ذکر کیا جو ان کے وجود سے متعلق تھا.الحمد للہ ! شاہ اردن نے حضرت اقدس کے ذکر سے روحانی اثر لیا اور اظہار خوشی کیا.زبانی گفتگو میں بھی جماعت کے خصوصی کوائف (36)
اور اس کے پیغام کی وسعت کا ذکر کیا.اس موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اعجاز احمدی اور الاستفتاء موجود تھیں جو ان کی خدمت میں پیش کر دی گئیں.الحمد للہ! اس تقریب میں ایک عرب حکمران کو دعوت سلسلہ پہنچانے کی توفیق مل گئی.کرنل ڈگلس کی دریافت حضرت سردار صاحب تحریر فرماتے ہیں: لنڈن میں ریٹائر ڈ سول سروس کی ایک ایسوسی ایشن تھی جس کے ممبران کی ملن پارٹی ہوتی رہتی تھی.مکرم مولوی مبارک علی صاحب مبلغ انگلستان بھی سینئر سروس کے ارکان میں تھے.ایک موقع پر ایسی ہی ملن پارٹی میں مولوی مبارک علی صاحب جس میز پر بیٹھے تھے انکے ساتھ کی میز پر دور یٹائرڈ سول سروس افسر بیٹھے ہوئے تھے.ان کی میز مکرم مولوی صاحب کے اتنی نزدیک تھی کہ انکی بات چیت بخوبی سماعت میں آرہی تھی.ان میں سے ایک نے اس واقعہ کی تفصیل بیان کرنا شروع کی جس کا تعلق عیسائیوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود کے خلاف مقدمہ قتل سے تھا.مکرم مولوی صاحب پوری توجہ سے انکی گفتگو سنتے رہے جس سے وہ اچھی طرح جان گئے کہ یہ واقعہ بیان کرنے والے کون ہو سکتے ہیں.خور و نوش کا وقت ختم ہوا تو ان سے پوچھا کہ کیا آپ کرنل ڈگلس ہیں؟ انہوں نے جواب بتا یا کہ ہاں میں کرنل ڈگلس ہوں.اسپر مکرم مولوی صاحب نے اپنا تعارف کرایا اور ان کا پتہ حاصل کیا لیکن ان سے رابطہ نہ کر سکے جبکہ تمبر 1922ء کو لنڈن مشن کا چارج خاکسار ( سردار مصباح الدین کو دیگر جرمن مشن کا چارج لینے کے لیے تشریف لے گئے اور جاتے ہوئے نہ صرف یہ قصہ ہی سنا کر گئے بلکہ کرنل ڈگلس کا مکمل پتہ بھی دے گئے.جیسے ہی لنڈن مشن کا چارج سنبھالا کرنل ڈگلس سے رابطہ کی کوشش شروع کر دی جس میں بفضل تعالیٰ کامیابی ہوئی اور کرنل ڈگلس نے مشن ہاؤس آنے کی دعوت قبول فرمالی.یہ پہلا موقعہ تھا کہ کرنل ڈگلس مشن ہاوس میں تشریف لائے اور لنڈن مشن سے متعارف ہوئے.ان دنوں ہمارا مشن ہاؤس ایک والا ہی تھا.ساتھ وسیع زمین تھی (37)
اور اس میں پھلدار درختوں کا باغ تھا.مشن ہاؤس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے پی ، پھر باغ میں ٹہلنے کو نکلے اور ساتھ ساتھ پرانے واقعات کا جس رنگ میں تذکرہ جاری تھا کہ وہ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ ان کے دل پر ایک خاص اثر تھا.جماعت احمدیہ کا برطانیہ پہنچنا اور تبلیغی مشن کا قیام، یہ سارے استعجاب ان کے چہرے سے نمایاں طور پر ان کے دل کی کیفیت اور حیرت کا پتہ دے رہے تھے.کرنل ڈگلس ٹہلتے ٹہلتے ایک دم ایک جگہ رک گئے اور میری طرف نظر اٹھا کر بولے: O, You people have reached here and have acquired a landed property? O,it is simply an astonishing and wonderful thing that a person appeared in my court as an accused one, his followers in a short span of time, having crossed over oceans, have reached to convert Great Britain and Europe to Islam? ترجمہ: اوہ ! آپ لوگ یہاں پہنچ گئے ! اور عمارت بھی حاصل کر لی ! ایک آدمی جو میری عدالت میں ایک ملزم کے طور پر پیش ہوا تھا ، اس کے ماننے والے اتنے تھوڑے عرصہ میں سمندروں کو چیرتے ہوئے گریٹ برٹن اور یورپ کو اسلام سے روشناس کروانے یہاں تک آگئے.حضرت مسیح موعود کی شبیہ مبارک اپنے تصور میں لاتے ہوئے مجھ سے پھر مخاطب ہوئے: Listen Moulawi Sahib, from the first moment I saw his face, it has remained before my eyes.At this moment when I am talking about him, I feel that he is in person before my eyes.ترجمہ: سنو مولوی صاحب ! جب سے میں نے ان کا چہرہ دیکھا ہے انکی تصویر میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے اب بھی جب کہ میں آپ سے مخاطب ہوں یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں انہیں بنفس نفیس اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں.(38)
حضرت سردار صاحب لکھتے ہیں: ” جب تک انگلستان رہا انہوں نے مشن ہاؤس سے اپنے تعلق کو قائم رکھا.اس دوران دو بار مشن ہاؤس آئے اور خطاب بھی کیا.میرے قادیان چلے جانے کے بعد میرے ساتھ خط و کتابت بھی رکھی.اکثر اپنی بیماری روماٹزم کا ذکر لکھتے رہتے اور ہندوستان سے حاذق طبیب سے دوائی کے لیے بھی لکھتے رہتے.ان کا مشن ہاؤس سے تعلق اسقدر پختہ ہو گیا تھا کہ بزرگ حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد، حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ بڑے قرابت کے تعلقات ہو گئے.حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ تو تصویر بھی اتروائی.غرضیکہ وہ ان بزرگوں کی محبت میں پروئے جاچکے تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود کی صداقت ان کے دل میں اتر چکی تھی اور اچھل کر زبان پر بھی آچکی تھی.مکرم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور مکرم عبد الرحیم صاحب درد کا بیان ہے کہ انہوں نے ہمارے سامنے آنحضرت مسیلی کی یام کی رسالت اور حضرت مسیح موعود کی صداقت پر ایمان کا اظہار کر دیا تھا.اللهم اغفرہ.“ حضرت شیخ مبارک احمد صاحب رسالہ المصلح 28 ستمبر 1953ء میں بھی ایک مضمون شائع کر چکے ہیں کہ کرنل ڈگلس حضرت مسیح موعود سے متاثر تھے ) اور اسی طرح حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کے دور امامت میں کرنل ڈگلس متعدد مرتبہ مسجد لندن میں تشریف لائے اور جماعتی اجلاسات میں تفصیلی تقاریر میں حضرت مسیح موعود کا واقعہ بیان فرمایا.ان میں سے بعض کا تذکرہ کتاب "خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کے حالات زندگی.حیات شمس میں بیان کیا گیا ہے.کرنل ڈگلس کے قبول اسلام کے تذکرہ میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے ظاہر ہے ان کے اس انجام کو پہنچنے میں سراسر تصرف، باری تعالیٰ کا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود کا چہرہ مبارک دیکھتے ہی یہ بات انکے دل میں اتر گئی کہ یہ راستباز اور صادق کا چہرہ ہے.پھر یہ بھی تصرف الہی ہوا جو انہیں (39)
ایک ایسی مجلس میں لے گیا جہاں حضرت اقدس کے ایک غلام مکرم مولوی مبارک علی صاحب کے قریب بیٹھنے کا موقع مل گیا اور بعد میں عاجز کو یہ توفیق ملی کہ وہ انہیں دارالامان پہنچانے کا موجب بن گیا.الحمد للہ.ڈاکٹر سلیمان صاحب کا احمدیت قبول کرنا دعوت الی اللہ کے فریضہ کی ادائیگی کے ذکر میں لنڈن مشن کے ذریعہ جماعت میں شامل ہونے کی سعادت پانے والوں میں ڈاکٹر سلیمان صاحب کا ذکر ایمان افروز ہے.ڈاکٹر صاحب کیپ ٹاؤن ، جنوبی افریقہ کے ایک مسلمان تاجر کے بیٹے تھے.مشہور لیڈ رگاندھی جی کا ان سے ایک گونہ یگانگت کے درجہ کا تعلق تھا.گاندھی نے اپنے اس دوست کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو کمسنی میں ہی لنڈن بھیج دیں تا کہ وہ کسی انگریز گھر میں انگریز بچے کی طرح پرورش پائے.سوائے نسلاً اور شکلاً ان میں اور کسی انگریز میں فرق نہ تھا.تعلیم میں میڈیکل لائن اختیار کی اور ڈاکٹر کہلائے.ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا شعور حاصل تھا کہ وہ ایک مسلمان گھر کے چشم و چراغ ہیں اس فطری طلب کی تسکین کیلئے وہ کسی نہ کسی مسلمان سے ملنے کا تر دو کر لیا کرتے.مکرم سردار صاحب لکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ممکن ہے کہ ان کا وہ کنگ سے بھی رابطہ ہوا ہولیکن جب مجھ سے تعلق پیدا ہوا تو انہوں نے حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ ان کی نیک دلی کا اُن پر بہت گہرا اثر ہوا.یہاں مشن ہاوس میں ہفتہ وار اجلاس کا طریق رائج تھا.ایسے میں سلیمان صاحب بھی ایک روز اجلاس میں آن شامل ہوئے.میرا اپنا علم بھی اس وقت محدود تھا اور انگریزی زبان پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے بلا تکلف رواں رواں نہ بول سکتا تھا مگر خدائی تصرف تھا اور روح کو روحانیت سے ایک فطری میلان تھا کہ وہ میری سادہ وضع اور سادہ بیانی سے ایسے متاثر ہوئے کہ تقریر کے بعد میرے پاس آئے اور اپنے نام سے متعارف کروایا.ان کے انداز سے ان کی نیاز مندی اور (40)
ارادے ایسے جھلک رہے تھے جیسے ایک شاگرد اپنے ایک استاد محترم سے ملنے پر اظہار کرتا ہے یا جیسے ایک مرید اپنے پیر سے عقیدت اور ارادت سے ملتا ہے.مکرم ڈاکٹر صاحب مجھے اسی انداز سے ملے اور خواہش ظاہر کی کہ میں انہیں اپنی شاگردی میں لے لوں اور دین اسلام کی عام تعلیم اور جماعت احمدیہ کی خصوصیات سے آگاہی کی تعلیم دوں.چنانچہ وفور شوق میں یہ ان کا معمول ہو گیا کہ وہ کسی دن میرے پاس مشن ہاؤس ٹھہرتے اور اپنی واقفیت کی تسکین کرتے رہتے.بس وقفہ وقفہ پر انکا آنا ایک عادت بن گیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ایسے انداز سے دل میں اتر گئی کہ نہ صرف یہ کہ خود احمدیت میں داخل ہوئے بلکہ ان کی ایک بہن اور بہنوئی بھی جماعت میں داخل ہو گئے اور تینوں نے اکٹھے حج بھی کیا.اسی سال چودھری ابوالہاشم صاحب بنگالی بھی حج پر گئے ہوئے تھے انہوں نے ان سے ملاقات کا حال بتایا کہ بہن اور بہنوئی کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کا چھوٹا بھائی عمر سلیمان بھی جماعت میں شامل ہو گیا ہے.حضرت سردار صاحب لکھتے ہیں: و عمر سليمان لندن تعلیم کے لیے گیا تو اس نے وہاں پہنچتے ہی مجھے ایک خط لکھا کہ میں یہ خط اس جذبہ سے سرشار ہو کر لکھ رہا ہوں کہ آپ کے ذریعہ ہمارے گھر میں احمدیت کا نور داخل ہوا.عمر سلیمان نے بھی ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی اور ایک ڈچ عورت سے شادی کر لی اور مشن ہاؤس کے قریب ہی رہائش اختیار کر لی.ان کی اہلیہ اس انداز کی دیندار تھیں کہ گویا وہ کسی احمدی گھرانے کی صوم وصلوۃ کی پابند بی بی ہوں.وہ ربوہ بھی آئیں اور دو ماہ تک محترمه فرخنده شاه اہلیہ محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب کے ہاں قیام کیا.ڈاکٹر عمر سلیمان کی وفات ہوئی تو ایک احمدی ڈاکٹر عبد الحمید صاحب کی زوجیت میں آگئیں.ڈاکٹر سلیمان صاحب نے حج ادا کیا اور پھر قادیان بھی آئے.قادیان میں میرے علاوہ حضرت مولوی شیر علی صاحب سے نیاز مندی تھی جبکہ وہ لنڈن میں ان سے فیوض حاصل کرتے رہتے تھے.(41)
ان کے علاوہ مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب سے بھی ان کی لنڈن سے ملاقات تھی اور رشتہ محبت قائم تھا.ڈاکٹر صاحب جتنے دن بھی قادیان رہے اس سرزمین پر عاشقانہ فدائیت کے ساتھ وقت گزارا.یوں بھی ڈاکٹر صاحب فدائیت کا ایک نمونہ تھے اور اس فدائیت میں ہی ساری زندگی گزار دی.الحمد للہ یہ عاجز ایک پورے کنبہ کے جماعت حضرت مسیح موعود میں شامل ہونے کا ذریعہ بن گیا.“ حضرت نیر صاحب کی نائجیریا سے واپسی 6 جنوری 1923ء کو حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحب جو نائجیر یا مغربی افریقہ میں کام کر رہے تھے رخصت پر وطن لوٹے اور رستہ میں لنڈن ٹھہرے.گرم ملک اور جانفشانی سے کام کرتے رہنے سے ان کی صحت بہت کمزور ہوگئی تھی.الفضل 19 فروری 1923ء کی اشاعت میں حضرت نیر صاحب اپنی صحت کے بارے میں لکھتے ہیں : دد لمبی بیماری اور سفر کے باعث صحت کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر کے حکم کے مطابق انگلستان بغرض تبدیلی آب و ہوا بھیجا گیا ہوں.6 جنوری کولنڈن پہنچا ہوں اور دو ہفتہ کے قیام سے صحت میں نمایاں ترقی ہوئی ہے.لحمد للہ بعد میں بحالی صحت کے لیے کچھ وقت لنڈن ٹھہرنے کی اور اجازت چاہی جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے منظور فرمائی.“ حضرت نیر صاحب الفضل 19 فروری 1923ء کی اشاعت میں اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ : در جسم میں طاقت آنے کے ساتھ مبلغین لنڈن کو ان کے کام میں امداد دینی شروع کر دی ہے.“ ہائڈ پارک میں انہوں نے خطاب فرمایا اور مزید اگلے چار ہفتہ وار اجلاس میں تقریر کا اعلان فرمایا.محترم سردار صاحب لکھتے ہیں کہ: حضرت نیر صاحب " نمونہ کے مبلغ تھے.نہ صرف فن تبلیغ کے لحاظ سے بلکہ وہ مبلغ (42)
کی باطنی صفات کے بھی حامل ہونے کے لحاظ سے صاحب رویاء صادقہ، صاحب کشف اور الہام بھی تھے.تبلیغ کرنا ان کیلئے غذائے روح تھی.جیسے ہی صحت بحالی ہوئی اپنی تبلیغی حس کو پورا کرنے لگ گئے.اسوقت اگر چہ خاکسار (مصباح الدین) ہی امام اور مبلغ انچارج تھالیکن اپنی اہلیت کے لحاظ سے حضرت نیر صاحب ہی اس کے اہل تھے.جیسے جیسے انکا عارضی قیام دراز ہونے لگا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حضرت نیر صاحب کو امام اور مجھے انکے ساتھ نائب مبلغ انچارج مقرر فرمایا.“ 1924ء کا تاریخی سال حضرت سردار صاحب تحریر فرماتے ہیں: ย ” میرے قیام لنڈن میں سال 1924 ء بڑا اہم اور جماعت کیلئے ایک عظیم تاریخی واقعہ کے ظہور کا سال تھا.حضرت نیر صاحب اور خاکسار حسب توفیق تگ و دو اور جد و جہد کر رہے تھے کہ اس سال کے موسم خزاں میں ویمبلے کا نفرنس ہونے کا ذکر چل نکلا.نمائش کے منتظمین نے جہاں جسمانی ضروریات اور دلچسپی کا سامان اس میں مہیا کرنے کے پروگرام کا اہتمام کیا وہاں روحانی ضرورت کا بھی خیال کر کے ایک مذہبی کانفرنس منعقد کرنے کا پروگرام بھی رکھا.مذہبی مرکز کے طور پر اس وقت ہمارا مشن تعارف میں آچکا تھا، اس لیے مذہبی پروگرام کے انچارج نے ہم سے بھی رابطہ کیا اور پروگرام میں حصہ لینے کی دعوت دی.جس وقت یہ تجویز ہمارے پاس پہنچی اس وقت مکرم ملک غلام فرید صاحب جرمنی سے لنڈن آچکے تھے.اسی طرح ان کے بھائی ملک نواب دین صاحب قادیان سے تجارتی صیغہ میں کام کے لیے آچکے تھے.یوں ہم اس وقت دو طالب علم ملا کر سات افرادِ جماعت تھے.مذہبی پروگرام پیش کرنے والوں کی اس تجویز پر ہم نے اپنی بساط پر نظر ڈالی تو یوں لگا کہ تصرف الہی کام کر رہی (43)
ہے اس وقت حضرت نیر صاحب کے سامنے ہی آیا کہ اسلام کی نمائندگی جیسے اہم موقع کیلئے خود ان سے یا انکے ساتھیوں سے کہیں بہتر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا وجود ہے اس لیے تجویز ہوئی کہ کانفرنس کے منتظمین سے کہا جائے کہ وہ حضرت امام جماعت احمدیہ کو دعوت دیں.یہ ہمارے دل کی آواز تھی اسکے بارے میں یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ اپنے رفقاء سے بھی مشورہ ہونا چاہئے.مشورہ لیا تو بعض کی رائے موافق نہ پائی گئی.اس تجویز کے حق میں چونکہ ہم دو دیوانگی کی حد تک قائم تھے اور ادھر تصرف الہی بھی کام کر رہا تھا اس لیے ہمارے رفقاء کی اکثریت ہماری مؤید ہو گئی اس طرح فرزانگی مات کھا گئی.تاریخ بتلاتی ہے کہ بعض اوقات دیوانگی ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیتی ہے کہ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے بالکل ایسا ہی کانفرنس کے موقع پر ظہور میں آیا جس کے نتیجہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں دعوت بھیجنے کی تجویز کا فیصلہ ہو گیا.ادھر مرکز نے بھی یہاں سے کچھ معلومات حاصل کیں جس سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی انگلستان آنے کی تفصیلات طے پاگئیں.لندن میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کاور و دمسعود مورخہ 22 / اگست 1924ء کو جماعت احمدیہ کے اولوا العزم خلیفہ نرالی شان سے اپنے بارہ حواریوں کے ساتھ لنڈن تشریف لائے جہاں انکے استقبال کیلئے حضرت مولوی عبد الراحیم نیز مشنری انچارج ، حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ، خاکسار سردار مصباح الدین، مکرم غلام فرید صاحب، اور 300 کے قریب احباب وکٹوریہ اسٹیشن پر موجود تھے.حضور کی آمد سے قبل پبلک اور پریس میں اسکا کھل کر تذکرہ ہو چکا تھا.اس لیے جو نہی آپ نے مسیحی شان سے اس ملک میں قدم رکھا تو پریس پہلے ہی منتظر تھی.آپ کی آمد پریس کی خاص توجہ کا مرکز بنی.استقبال میں کئی معزز شخصیات نے حصہ (44)
لیا پریس کے مقامی اخبارات کے علاوہ ملک کی روایات کے آئینہ دار اخبار ٹائمز ، ڈیلی ٹیلیگراف اور مارنگ پوسٹ نے بھی حضور کی آمد کی وجہ سے وسیع پیمانے پر پورے انگلستان میں عوام کے سامنے ہمارے مشن کا تعارف کر وا دیا اور ان اخبارات کی بدولت دوسرے مغربی ممالک میں بھی حضور کی آمد کی خبر اور جماعت کا تعارف پہنچ گیا.خاص طور پر کانفرنس کے موقع پر جو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے پڑھے گئے مضمون کی مقبولیت ہوئی.اسکا اندازہ بعد میں حضور سے ملنے والوں کے والہانہ اشتیاق اور ہجوم سے لگتا ہے جو اپنی مثال آپ تھا.اس موقع کا آنکھوں دیکھا تبصرہ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی کتاب تحدیث نعمت میں کیا ہے کہ کیا نظارہ تھا.اسکے علاوہ حضور کے قیام کے دوران جن جن افراد کو ملاقات کا موقع ملا ان پر حضور کی شان، مرتبہ اور مقام کا جواثر ہواوہ دیر تک قائم رہا.“ ویمبلے کا نفرنس کے موقع پر حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے ساتھ جو یادگار تصویر اتاری گئی تھی اس میں حضرت سردار مصباح الدین صاحب، حضور کی دائیں جانب حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے درمیان کھڑے ہیں.تاریخ احمدیت جب مرتب کی جارہی تھی تو اس یاد گار گروپ کے ممبران کی نام بنام پہچان میں محترم سردار صاحب نے مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد ، مورخ احمدیت کی مدد فرمائی.مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا اس موقع پر لنڈن تشریف لا کر ویمبلے کا نفرنس میں شرکت فرما نا اس لحاظ سے بھی بابرکت ثابت ہوا کہ اسی دوران حضور کے مرکز سے آنے اور اپنے ہاتھ سے لنڈن مسجد کا سنگ بنیا درکھنے کا تاریخی واقعہ ظہور میں آگیا.اس تقریب سے دور رس اثرات مرتب ہوئے جبکہ اس تقریب میں بعض ممالک کے سفراء اور پبلک کے مؤثر اور نامور مشاہیر شامل ہوئے اور پریس (45)
میں خوب تبصرہ ہوا.حضرت سردار صاحب تحریر فرماتے ہیں: مسجد فضل لنڈن کے قیام سے جو برکتیں حاصل ہوئیں وہ یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں تعمیر ہونے والی مساجد کا محرک بھی ہوئیں.مسجد فضل لنڈن کی تعمیر سے پہلے ہمارے کام کی صورت ایک پائنیر کی تھی تاہم مسجد کی تعمیر سے مشن کی شہرت سطح زمین سے اچھل کر فضا میں آگئی.اور دنیا میں پھیل گئی اس طرح ساری دنیا سے ہمارا رابطہ ہو گیا.اس مشن کی ترقی پزیر موجودہ صورت کی وجہ سے لندن مشن جماعت احمدیہ کیلئے ایک ایسی مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے.جو دنیا بھر میں اشاعت اسلام کے لیے اور حضرت اقدس مسیح موعود کی دعوت الی اللہ کے لیے ایک مرکز بن چکا ہے.جبکہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ہجرت کر کے اسی جگہ قیام پزیر ہیں.یہ سب مسجد فضل لنڈن کی برکت ہے جس کیلئے 1924ء میں الہی تصرف سے ایک واقعہ رونما ہوا تھا کہ جو جماعت کی آئندہ پیش آنے والی اہم ضروریات کیلئے ضروری تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی قادیان واپسی مسجد فضل لنڈن کے سنگ بنیاد کی با برکت تقریب ، ویمبلے کا نفرنس میں تاریخی خطاب اور اپنے قیام کا تبلیغی مشن پورا کرنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے واپسی کا پروگرام بنا لیا اور حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحب اور خاکسار (سردار مصباح الدین) کو اپنے ساتھ واپس وطن جانے کا ارشاد فرمایا.اس طرح سوا دو سال بطور مبلغ انگلستان خدمت کی سعادت پانے کے بعد حضور کا ہمسفر ہو کر قادیان واپس آگیا.(46)
حضرت بھائی عبد الرحمن قادیانی صاحب اپنی کتاب سفر یورپ 1924ء میں تحریر فرماتے ہیں: از مقام پیرس مورخہ ۳۰/اکتوبر ۱۹۲۴ء بعد روانگی ڈاک آج کی اذان (مسجد ) پیرس میں پہلی اذان اور آج کی نماز اس ( مسجد ) میں پہلی نماز تھی جو سید نا محمود موعود نے کہلوائی اور پڑھائی.اذان کے معابعد دعائے اذان سے فارغ ہو کر حضور قبلہ رو محراب (مسجد) میں کھڑے ہوئے.تکبیر اولیٰ کہی گئی اور نماز قائم ہوئی.حضور نے یکے بعد دیگرے دونوں نمازیں جمع کرا کے پڑھا ئیں.درج ذیل خدام شریک تھے: (۱) عبد الرحمن قادیانی (۲) چودھری ظفر اللہ خان صاحب (۳) ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب (۴) چودھری علی محمد صاحب (۵) مولوی عبد الرحیم صاحب (۶) ملک نواب دین صاحب (۷) شیلڈرک خالد صاحب (۸) مولوی مصباح الدین صاحب (۹) خلیفہ تقی الدین صاحب (۱۰) حافظ روشن علی صاحب (۱۱) شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (۱۲) ذو الفقار علی خان صاحب ( ۱۳ حضرت میاں شریف احمد صاحب (۱۴) شیخ عبدالرحمن صاحب مصری (۱۵) چودھری فتح محمد خان صاحب (۱۶) چودھری محمد شریف صاحب (۱۷) مولوی عبد الرحیم صاحب نیر (۱۸) ملک ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب.ان سترہ بزرگوں اور خادم قادیانی نے سید نا حضرت اقدس محمود ایده اللہ الود و دامام و مقتدا کی اقتدا میں یہ دو نمازیں ( مسجد ) پیرس میں ادا کیں.“ ( سفر یورپ ۱۹۲۴ء صفحه ۴۰۹) (47)
لندن سے واپسی اور لاہور کے رؤسا اور اکابرین کو احمدیت کا پیغام حضرت سردار صاحب تحریر فرماتے ہیں: لنڈن سے واپسی پر ایک روز حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمارے پبلک جلسوں یا مناظروں میں عام طور پر عوام ہی شامل ہوتے ہیں ، خواص اپنے خاص ہونے اور وضعداری سے ان جلسوں میں شامل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان تک ہماری تبلیغ نہیں پہنچتی ، اس غرض سے اگر اجازت ہو تو لاہور کے بڑے بڑے رؤسا اور اکابرکوفرداًفرداً ملکر ان تک دعوت حضرت اقدس مسیح موعودہ پہنچاؤں.حضور کو یہ تجویز پسند آئی جو بعد میں انجمن میں پیش ہو کر منظور ہوئی اور خاکسار کو لاہور بھجوا دیا گیا.لاہور جا کر وہاں کے مسلمانوں ، ہندؤوں ، اور سکھا کا برکو ان کے گھروں میں جا کر ملا اور سلسلہ کا تعارف کروایا اور ان میں سے ہر ایک کو دو دو کتب اسلامی اصول کی فلاسفی قیمتاً پیش کی گئیں.ان اکابر میں بڑے بڑے وکیل، تاجر، اور حج شامل تھے.چیف جسٹس سر شادی لال اور جسٹس بخشی ، نیک چند ، جیسے کھلے کھلے اسلام دشمنوں سے بھی ان کے مکان پر جا کر ملا اور سلسلہ کے کوائف سے آگاہ کیا اور کتب قیمتاً دیں.انہی دنوں مسز نائیڈو بھی لاہور آئی ہوئی تھیں ان سے بھی ملاقات کی گئی ، کتب قیمتاً دی گئیں اور سلسلہ کا تعارف کروایا گیا.حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی ان دنوں لاہور میں تھے.ان سے روزانہ مشورہ لیا جاتا اور کا ر کر دگی بیان ہوتی تو بہت خوش ہوتے.(48)
حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خوشنودی کا والا نامہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں جب یہ رپورٹ پہنچی تو حضور نے اپنے قلم سے عزیزم کے دلنواز لفظ سے مخاطب کر کے جو میرے نام خوشنودی کا والا نامہ بھجوایا تو اس وقت کے پرائیویٹ سیکرٹری ، میرے واقف زندگی رفیق مکرم صوفی عبد القدیر صاحب جن کی نظر سے گزر کر وہ والا نامہ میرے قادیان پہنچنے پر ملاتو کہا کہ میں اپنی تمام خدمات اور کار کردگی آپ کے نام کرنے کو تیار ہوں کہ حضور نے جس خوشنودی کا آپ سے اظہار کیا ہے وہ خوشنودی مجھے حاصل ہو جائے.مشاورت کے اجلاس میں بھی حضور نے اس عاجز کی اس خدمت کا تحسین بھرے الفاظ میں ذکر فرمایا.حضور کا یہ والا نامہ محترم سردار صاحب لکھتے ہیں کہ مکرم مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت کے پاس ہے.حضرت خلیہ یا مسیح الثانی بی اندر کا درس القرآن 8 اگست تا8 ستمبر 1928ء کے یادگار ایام میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے قرآنی علوم و معارف اور اسرار ونکات پر مشتمل مسجد اقصیٰ قادیان میں سورۃ یونس سے سورۃ کہف تک کا درس دیا.اس درس کو محفوظ کرنے کیلئے حضور نے جن جید علماء اور زود نویسوں کی جماعت متعین فرمائی ان میں حضرت سردار مصباح الدین صاحب کا نام بھی شامل تھا.( بحوالہ اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 54 طبع اول) اس فہرست میں حسب ذیل اصحاب شامل تھے: حضرت مولوی سرور شاہ صاحب ، مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ.مولوی ارجمند خان صاحب (49)
، مولوی غلام محمد صاحب بد و ملی ، مولوی ظہور حسین صاحب، مولوی ابوالعطاء صاحب، بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی، ابو البشارت مولوی عبد الغفور صاحب، مولوی محمد یار صاحب عارف، مولوی عبد الرحمن صاحب مصری ، مولوی ظفر السلام صاحب، سردار مصباح الدین صاحب، مولوی علی محمد صاحب اجمیری، شیخ چراغ دین صاحب.تعیناتی بطور اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری (173 ر پورٹ مجلس مشاوت 1929 ، صفحہ 188) وقت وقت پر پیدا ہونے والی ضروریات کے مطابق سلسلہ کی مختلف ذمہ واریاں ادا کر رہا تھا که مکرم صوفی عبد القدیر صاحب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب ۱۷، اکتو بر ۱۹۲۶ء سے فارغ ہو گئے تا که دو تبلیغی فرائض کی سرانجام دہی کیلئے تیاری کریں اور مکرم شیخ یوسف علی صاحب بی اے کو قائمقام پرائیویٹ سکرٹری مقرر کیا گیا اور سردار مصباح الدین صاحب کو شیخ صاحب موصوف کی جگہ اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر کیا گیا.( بحوالہ احمد یہ گزٹ قادیان مورخه ۲۶ اکتوبر ۱۹۲۶ء) ادھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دفتر کی ضروریات بڑھیں اور دفتر کا کام دوحصوں میں بٹ گیا.دفتر اور حضور کا کام پرائیویٹ سیکرٹری کے پاس رہا اور جماعت کی آمدہ ڈاک کی تعمیل کا کام حضرت سردار صاحب لکھتے ہیں اس عاجز کے سپر د ہوا.اسی سال اگست میں حضور ڈلہوزی کے سفر پر تشریف لے گئے.حضرت ام المومنین" بھی ہمراہ تھیں.اس سفر میں عاجز کو بھی قافلہ میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا.حضرت سردار صاحب لکھتے ہیں: ایک روز دفتر سے سیر کیلئے چھٹی ملی.اس قافلہ کے ہم دو افراد خوبصورت پہاڑوں کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے اور چلتے چلتے اتنی دور نکل گئے کہ واپسی کا راستہ (50)
بھول گئے.پہاڑ جنگلوں میں ایسے گم ہوئے کہ دن ڈھل گیا مگر ہمیں قیام گاہ کا راستہ نہ ملا.بھٹکتے بھٹکتے دور سے ایک چھوٹی سی بستی پر نظر پڑی جہاں سے اپنے راستہ کی راہنمائی حاصل کی.اس طرح صبح کے بھولے شام ڈھلے اپنی قیام گاہ پر پہنچے.اس دوران حضور بہت پریشان رہے اور ادھر اُدھر تلاش کیلئے خدام کو دوڑایا.حضرت ام المومنین کا بھی فکر کے مارے برا حال تھا.بار بار پوچھتی تھیں کہ کچھ پتہ چلا.قیام گاہ پہنچتے ہی ہم نے فوراً حضرت ام المومنین کی خدمت میں اطلاع دی تو آپ کمال شفقت سے پیش آئیں اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائیں اور اپنی فکرمندی اور بے چینی کا اظہار فرمایا.“ تعیناتی بطور پروفیسر جامعہ احمدیہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ابھی ڈاک کی تعمیل بجالا رہا تھا کہ جامعہ احمدیہ کے انتظامات پائیدہ تکمیل کو پہنچ گئے اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے مورخہ ۲۰ مئی ۱۹۲۸ء کو اس درس گاہ کا افتتاح فرمایا، حضرت سردار صاحب تحریر فرماتے ہیں: گرچه خوردیم نسبتے بزرگ حضور انور نے اس عاجز کو بھی جامعہ احمدیہ کے سٹاف میں شامل فرما دیا.جامعہ کے اولین سٹاف کے ارکان حضرت مولوی سرور شاہ صاحب، حضرت سید میر محمد اسحاق ย صاحب ، حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب اور حضرت مولوی ارجمند خان صاحب کا مجھے رفیق کار ہونے کا شرف حاصل ہو گیا.بزرگ اساتذہ کے ذمہ تو دینی تعلیم اور عربی درسگاہوں کی فنی تدریس تھی.انگریزی مضمون پڑھانا اس عاجز کے سپر دہوا.اس خدمت پر لگنا نہ صرف زندگی میں موجب عزت و رفعت ہوا بلکہ عاقبت میں بھی اجر بخش ہونے کی امید دلا گیا.اور وہ یوں کہ مغربی ممالک میں جن مبلغین کے ذریعہ کار ہائے (51)
عظیم ہوئے وہ اس عاجز کے شاگرد تھے ان میں سے جو کوئی بھی رخصت پر آتا تو اظہار کرتا کہ استاذ مکرم دینی اور عربی تعلیم ان علاقوں میں جو کام آئی سو آئی آپ سے چار حروف انگریزی کے جو پڑھے ہوئے تھے ان سے بہت مدد ملتی رہی.سواللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ان کو عطا کئے جانے والے اجر میں سے اس عاجز کو بھی کچھ حصہ عطا ہو 66 جائے گا.انشاللہ تعالی.“ ہوٹل جامعہ احمدیہ کے سپر نٹنڈنٹ محترم سردار مصباح الدین صاحب پہلے سپر نٹنڈنٹ ہوسٹل جامعہ احمد یہ مقرر ہوئے.بعد میں 1947ء کے عرصہ میں شیخ محبوب عالم صاحب خالد ،صاحبزادہ مولوی ابوالحسن قدسی اور مولوی خان ارجمند خان صاحب مقرر ہوئے.مسجد اقصیٰ میں ذکر حبیب کے ہفتہ وارا جلاس (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 108) 1932-33ء میں محترم سردار صاحب کو مسجد اقصیٰ قادیان میں ذکر حبیب کے موضوع پر ہفتہ وار اجلاس منعقد کروانے کی توفیق ملی.ان اجلا سات میں جن خوش نصیب بزرگوں نے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کی زیارت اور صحبت کی سعادت پائی ہوئی تھی ان میں سے کسی ایک کو باری باری دعوت دی جاتی کہ وہ جلسہ میں آکر حضرت اقدس کی صحبت کی باتیں حاضرین جلسہ کو سنائیں.اس سرور بخش ذکر سننے والوں سے مسجد اقصیٰ کا صحن بھر جاتا.اس صحبت روحانی کے انوار سے بہرہ ور ہونے سے پہلے محترم سردار صاحب موضوع سخن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ذکر حبیب حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا دیا ہوا عنوان ہے.اس ذکر پر ان کے بیان و کلام میں جو دل آویزی تھی وہ انہی سے مخصوص تھی لیکن.گر چه تفسیر زباں روشن است لیک حسن بے زباں روشن است (52)
ترجمہ: اگر چہ (اسکی) زبان تو روشن بیان ہے ہی لیکن (اسکا) بے زبان حسن تو تابناک ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے بیان میں جو دل آویزی تھی وہ محض انکے حسن بیان کی وجہ نہ تھی بلکہ خود حضرت اقدس مسیح موعود کا حسن و جمال ایسا تھا کہ جس کی بھی نگاہ پڑ جائے وہ متوالا ہی ہو کر رہ جائے.ظاہر ہے وہ ساقی تو اب جا چکا تھا لیکن مے کی طلب تو میخواروں کی نہیں مٹی تھی.لاریب کیف و سرور بڑھانے کیلئے ساقی و ساغر کا التزام ضروری سہی لیکن میخواروں کیلئے مقصود بالذات نہیں اسے تو غرض مے سے ہے، بس وہ طلب پوری ہو جائے تو ساقی وساغر بدل جانے سے بھی کیف وسرور میں کوئی فرق نہیں پڑتا.ذکر حبیب کی اس مجلس کے انوار و برکات کے حوالہ سے اس کیفیت کے اظہار میں رقم طراز ہیں کہ دیکھئے ابھی ظاہر ہوگا کہ اس نئے پیمانہ کے گردش میں آنے پر کیف و سرور سے بے خودی کا یہ عالم ہوگا کہ منہ کو لگاتے ہی کہہ اٹھیں گے.کیا بھول ہوئی ہم سے، ہم منہ کو لگا بیٹھے آنکھوں یہ لگانا تھا پیمانہ کو کیا کہیے ان روح پرور مجالس کے ذکر میں اس صحبت کی باتوں کا حسن بھی اسی صورت کا ہے جیسے کہ قدرتی مرغزار اور لالہ کا ہوتا ہے کہ اس میں سبزہ اور پھولوں کے جدا جدا رنگ نہیں ہوتے.سو اس صحبت کی باتوں کی بہار آفریں گلگشت میں جہاں جہاں نظر پڑے گی یہی کیفیت پائی جائے گی.از سر تا قدم ہر کجا کہ مینگرم کرشمہ دامن دل میکشد که جاں ایں جا است ترجمہ: سر سے پاؤں تک جہاں بھی دیکھتا ہوں دامن دل کا اشارہ کھینچتا ہے کہ محبوب یہیں اسی وجود میں ہے.(53)
اونی سرخ شال کا تبرک ذکر حبیب کے اس جلسہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے بھی ذکر حبیب فرمایا.آپ حضرت ام المومنین کے بھائی تھے.حضرت اقدس مسیح موعود کے گھر کے فرد تھے.حضرت اقدس کے عاشق تھے.ان کے منہ سے ذکر حبیب اس طرح اثر ڈال رہا تھا کہ وہ اس وقت ایسا محسوس کر رہے تھے کہ گویا حضرت اقدس کی ہی صحبت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ویسا ہی سماں ہے.اجلاس میں شامل ہونے والوں کو ایسی فضا محسوس کراتے تھے کہ جس فضا کا خود حضرت اقدس نے ذکر فرمایا بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں کھلے ہیں پھول میرے بوستاں میں سیح وقت اب دنیا میں آیا دکھایا خدا نے عہد کا دن ہے جو اب ایمان لایا مبارک وہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی مے ان کو ساقی نے پلادی فسجان الذى اخرى الا عادی حضرت سید میر محمد اسماعیل صاحب نے جب حالات سنانے شروع کئے تو ایک صحبت کے بجائے کئی صحبتوں تک سلسلہ جاری رہا اس کا ذکر اخبار میں بھی چھپتا رہا.حضرت خلیفہ امسیح الثانی اس پروگرام سے بہت خوش ہوئے.ذکر حبیب کے جلسے تقریباً دو سال تک جاری رہے، بعد میں بھی حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ذکر حبیب کے موضوع کو جلسہ سالانہ کے موقع پر جاری وساری (54)
رکھا.ذکر حبیب کے ان جلسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری کرنے پر ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب اس قدر خوش ہوئے کہ جس جلسہ میں حضرت اقدس مسیح موعود کی سیرت اور شمائل پر تقریر ہوتی مسجد اقصیٰ کا صحن سامعین سے بھرا ہوا ہوتا تھا.انہوں نے بھرے مجمع میں اس عاجز سردار مصباح الدین پرخوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود کی ایک سرخ رنگ کی شال مجھے عطا فرمائی اور اعلان فرمایا کہ دوستو گواہ رہنا کہ میں یہ متبرک شال سردار مصباح الدین صاحب کو دے رہا ہوں.ابا جان کے خط کا مضمون چنیوٹ ۱۶۰۰ستمبر جان پدر السلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ آنعز یز کا ۱۴ / تاریخ کا خط ملا.حالات مندرجہ سے آگاہی ہوئی.لو پہلے حضرت اقدس کی شمال کا ٹکڑا بھیج رہا ہوں.یہ شمال مخدومی مکرمی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم مغفور نے ایک بھرے جلسہ میں یہ اعلان کر کے دی تھی کہ دوستو گواہ رہنا کہ یہ شمال میں ان کو دے رہا ہوں.اس جلسہ کی تقریب یہ تھی کہ قادیان میں حضرت مسیح موعود کے حالات زندگی ، آپ کی سیرت اور آپ کے منہ سے سنی ہوئی باتیں سنانے کے لئے ایک ہفتہ وار جلسہ عشاء کی نماز کے بعد مسجد اقصیٰ میں ذکر حبیب“ کے نام سے کروایا کرتا تھا.یہ جلسے شاید سال دو سال تک ہوتے رہے اور جن جن لوگوں نے حضرت اقدس کی محبت پائی تھی وہ باری باری حالات سناتے تھے.حضرت میر صاحب مرحوم مغفور نے جب حالات سنانے شروع کئے تو ایک صحبت کے بجائے کئی صحبتوں تک سلسلہ جاری رہا اور (55)
لوگ سیر نہ ہوتے تھے.سو میر صاحب نے اپنی تقریروں کے دوران ایک دن جلسہ میں میری خدمت سے خوش ہو کر یہ انعام مجھے عنایت فرمایا.ذکر حبیب کے جلسوں کا جو میں انعقاد ان دنوں کروایا کرتا تھا اُس کا ذکر اخبار میں بھی ہوتا رہا اور حضرت امیر المومنین اور دوسرے بزرگ بھی اس خدمت سے بے حد خوش ہوتے رہے.میں یہ بھی زائد کر دوں کہ اس شال کا ذکر تذکرہ میں حضرت کے مجموعہ الہامات کی کتاب میں بھی ہے.اس وقت تذکرہ میرے پاس نہیں اس لئے حوالہ نہیں بتلا سکتا.تذکرہ جن دنوں میں پڑھ رہا تھا تو اُس وقت میں نے گھر میں عزیزان کو بتلایا تھا کہ دیکھو یہ ہمارے پاس والی شال کا ذکر ہے.حضرت کی ایک یا دو بار اس شال کا ذکر ہے.بس مختصر حالات ہیں.جس شیشے میں اسے لگاؤ گے اس کے نیچے یعنی کپڑے کے نیچے جس جگہ اسے چسپاں کرو گے یہ ضرور لکھنا: حاصل کرده از سردار مصباح الدین سابق مبلغ لندن خدمت لنگر خانہ حضرت مسیح موعود باقی انشاللہ پھر...والسلام..ابا جان حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب کے ساتھ جامعہ میں ایک عرصہ تک ساتھ رہا تھا ، یہی دیرینہ رفاقت ایک بار پھر انکی نگرانی میں لے آئی جبکہ وہ ناظر ضیافت تھے اور وہ تاحیات انکے مد و معاون رہے ،لیکن عجب اتفاق تھا حضرت میر صاحب نے سردار صاحب کو آمادہ کیا کہ وہ اپنی معاشی ضروریات کے تحت دیولالی (بمبئی) برٹش آرمی کے افسران کو اردو زبان کی تدریس کے لیے چلے جائیں.لیکن سردار صاحب اسکے لیے دل سے تیار نہیں تھے.ادھر حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کا اصرار بڑھا.جیسے ہی وہ بمبئی پہنچے حضرت میر صاحب کا انتقال ہو گیا.حضرت میر صاحب کے ساتھ (56)
سردار صاحب کی بے حد دوستی تھی.انہوں نے ایک اعتماد کے ساتھ ان کے سپر دلنگر خانے کی ذمہ داری سونپ رکھی تھی.حضرت میر صاحب انکے بزرگ بھی تھے اور مشیر بھی.حضرت میر صاحب کی ساری اولاد جنہوں نے اپنے والد بزرگوار کے سردار صاحب کے ساتھ مشفقانہ سلوک کا نظارہ دیکھا تھا وہ بھی ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے رہے.محترم سردار صاحب کو ایک بار مسجد مبارک میں اعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی.اعتکاف کے ایام میں مکرم سید میر داوود احمد صاحب مرحوم و مغفور پورا عشرہ سحری اور افطاری تیار کروا کر بھجواتے رہے.فرائض افسر جلسه سالانه حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب زندگی بھر جلسہ سالانہ کے افسر انچارج رہے.انہوں نے ہمیشہ مکرم سردار صاحب کو اپنے ساتھ رکھا اور جلسہ کے فرائض میں ان کو بطور افسر استقبال رکھا.اس زمانہ میں مہمان اکثر بذریعہ ریل سفر کر کے آتے تھے.جلسہ کے مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے اس موقعہ پر پیشل گاڑیوں کا انتظام ہوتا تھا اس لیے افسر استقبال کی ذمہ داری میں بھی اضافہ ہو جاتا تھا.افسر استقبال کا دفتر ریلوے اسٹیشن پر ہی ہوتا تھا.قادیان کا ریلوے اسٹیشن ان دنوں خاص رونق اور گہما گہمی کا مرکز بن جاتا.جلسہ جہاں بے شمار روحانی فیوض اور برکات لیکر آتا وہاں بے شمار لوگوں کیلئے محنت اور مزدوری کے مواقع بھی پیدا ہو جاتے.مکرم ٹھکید ارعبداللطیف صاحب نائب افسر ہوا کرتے تھے.سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی دن میں کئی بار مہمانوں کی آمد کی رپورٹ طلب فرماتے.ایک موقع پر حضور نے دفتر استقبال سے ٹیلیفون پر رپورٹ طلب فرمائی تو سردار صاحب اس وقت دفتر میں نہیں تھے.دفتر استقبال کے کارکن نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے جو اعداد و شمار بتائے اس سے ر مطمئن نہیں ہوئے اور فرمایا کہ یہ اعداد و شمار غلط ہیں.پھر دریافت فرمایا کیا یہ رپورٹ سردار حضور صاحب کی ہے؟ (57)
کارکن جو ٹیلیفون پر تھا سخت گھبرا گیا.افراتفری میں کہہ دیا کہ ہاں حضور یہ رپورٹ سردار صاحب کی ہے.اس پر حضور سمجھ گئے کہ کارکن گھبرا گیا ہے.اس کو فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ رپورٹ سردار صاحب کی ہے تو مان لیتا ہوں لیکن یہ ہے غلط اس لیے سردار صاحب سے کہو کہ مجھے فورأفون کریں.سردار صاحب نے حضور سے رابطہ کیا اور صیح رپورٹ پیش کی اور غلط رپورٹ کی معذرت کی.اسپر حضور نے فرمایا میں تو پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ رپورٹ افراتفری میں دی گئی ہے.مکرم سردار صاحب ڈیڑھ سال قادیان سے باہر رہے اس دوران حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات ہو گئی.اسی سال جنگ عظیم کا خاتمہ بھی ہوا اور ملک ہندوستان تقسیم کی وجہ سے فسادات کی لپیٹ میں آجانے کے بعد ربوہ میں جب پہلا جلسہ سالانہ ہوا تو حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب افسر جلسہ سالانہ مقرر ہوئے.مکرم شاہ صاحب نے مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب کو افسر استقبال مقرر فرمایا.حضرت شاہ صاحب کے سردار صاحب کے ساتھ مشفقانہ تعلقات تھے.قادیان سے بھی اور انگلستان سے بھی.اسطرح اُن کے ساتھ ایک دیرینہ تعلق تھا.انہوں نے سردار صاحب کو بھی استقبالی ٹیم میں شامل کر لیا.یہ انکی شفقت تھی جبکہ جملہ نگرانی مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب ہی ادا فرمارہے تھے.پاکستان آنے کے بعد چنیوٹ میں سکونت قادیان سے ہجرت کے بعد مکرم سردار صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ انکی زندگی شروع سے ہی مرکز سے وابستہ رہی ہے اس لیے بقیہ زندگی بھی مرکز میں ہی گزاریں گے اور مرکز قادیان کا قافلہ جہاں بھی ڈیرہ ڈالے گا وہیں کے ہو رہیں گے.یہ محض جذباتی بات نہ تھی بلکہ یہ ایمان تھا کہ مرکز سلسلہ سے وابستگی کے بغیر زندگی ، زندگی نہیں.چنانچہ ایسا ہی کیا.جیسے مرکز سلسلہ نے ہجرت سے قادیان کے بعد لاہور سے منتقل ہو کر چنیوٹ میں پڑاؤ ڈالا وہ بھی مع اہل وعیال چنیوٹ منتقل ہو گئے.دیکھتے ہی دیکھتے چنیوٹ میں مرکزی دفاتر اور ہائی سکول کھل گئے اور مرکزی مفکر، علماء، مدرس، (58)
مبلغین، بزرگانِ دین اور صحابہ حضرت مسیح موعود چنیوٹ کے گلی کوچوں میں چلتے پھرتے نظر آنے لگے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے چنیوٹ کا کوئی کو چہ نہیں ہوگا جسے اپنے بابرکت قدموں سے نہ چھوا ہو.چنیوٹ (محلہ گڑھا) میں مندر والی گلی بہت معروف تھی جہاں حضرت سردار صاحب کا مسکن تھا.اس گلی میں حضرت مفتی صاحب کا اکثر گزررہتا تھا.ہماری والدہ مرحومہ کو ہر چند فکر رہتی تھی کہ جب حضرت مفتی صاحب گزر رہے ہوں تو کوئی ہمسائی چھت کے پرنالے سے گندہ پانی نہ بہارے محلہ کی سب عورتیں چونکہ ہماری والدہ مرحومہ کی بہت عزت کرتی تھیں اس واسطہ سے اور حضرت مفتی صاحب کی سبز پگڑی کی وجہ سے ان کی پہچان رکھتی تھیں اور احتیاط کرتی تھیں.پاکستان بننے کے بعد اگرچہ سردار صاحب نے چنیوٹ کو اپنا مسکن بنالیا تھا لیکن انکا دل حقیقت میں مرکز سے ہی وابستہ رہا اور ایک لحظہ کیلئے بھی اس نئے مسکن کو نہیں اپنا یا.انکے لیے یہ بات برداشت سے باہر تھی کہ کوئی انہیں قادیان اور ربوہ سے ہٹ کر کسی اور مسکن کا باسی کہے.اُنکا تصور تھا کہ اگر چہ میں چنیوٹ میں آمکین ہوا ہوں اور اُسی کے کوچہ اور بازار میں نظر آتا ہوں لیکن میرادل، میرا دماغ ، میری روح اور میرے جسم کا ہر عضو قادیان اور ربوہ کے ساتھ پر دیا جا چکا ہے.اسی لیے وہ برداشت نہیں کیا کرتے تھے کہ کوئی اپنا ہو یا پرایا انہیں اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ سے منسوب کرے اگر چہ انہوں نے ہجرت کا دور چنیوٹ میں ہی گزارا لیکن اس رنگ میں گزارا کہ اگر صبح یہاں تو شام ربوہ میں کم ہی دن ہونگے کہ انہوں نے ربوہ کی گہما گہمی کو چھوڑ ا ہو.ربوہ کی ہر خوشی ، انکی خوشی تھی ، ربوہ کا ہر دکھ ان کے سینے کا دکھ بن جاتا.سالہا سال، زندگی بھر کوئی جمعہ ایسا نہیں آیا جو انہوں نے ربوہ جا کر نہ پڑھا ہو.پھر انکا یہ بھی معمول کہ جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے ہر ملنے والے کے گھر جاتے اور حال احوال دریافت کرتے ، ہر بیمار کی خبر گیری فرماتے.شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش اور انکی دیگر چھوٹی بڑی خوشیوں میں گرم جوشی سے شرکت فرماتے اور حسب توفیق تحفہ تحائف دیتے.ربوہ سے چھ میل دور رہتے ہوئے بھی جبکہ انہیں سواری کی بھی کوئی سہولت میسر نہ تھی اور نہ ہی (59)
ان کے پاس کوئی پیسہ ہوتا پھر بھی نہ جانے کیسے ربوہ پہنچتے اور ہر جنازہ میں شرکت کرتے اور ہر تدفین میں حصہ لیتے.ربوہ میں ان کے جاننے والے اس دور کے مکیں خوب گواہ ہونگے جنہوں نے سردار صاحب کو اکثر ربوہ کی دھول میں تیز تیز چلتے دیکھا ہوگا.تیز چلنا ان کی عادت تھی.یہ سب کچھ کیا تھا ؟ یہ خلافت اور مقام خلافت کی محبت تھی جو انہیں اس صحرا نوردی پر اکساتی رہتی تھی.وہ اپنے دل میں اسی لیلی کو چھپائے اس ریگزار میں خاک چھاننے پر مجبور تھے.حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا اکثر ہماری والدہ مرحومہ انہیں یہ فرمایا کرتی تھیں کہ اپنی صحت کا خیال کریں اور اس عمر میں اس طرح اکیلے گھر سے نہ نکلا کریں.لیکن ان کی لگن کو کون جان سکتا تھا اور کون اُن کو منع کر سکتا تھا.ہماری والدہ مرحومہ اپنی محبت میں یہ کہتی رہیں لیکن ان کا اپنے روزمرہ کے اس معمول میں کوئی فرق نہ آیا.ایک روز حسب معمول محترم ابا جی جمعہ کی نماز کیلئے چنیوٹ سے ربوہ تشریف لے گئے ، ربوہ کے اڈہ سے اتر کر پیدل چلنے لگے.شدید گرمی تھی اور بلا کی تپش، ایک دوست نے انہیں مسجد اقصیٰ جاتے ہوئے دیکھا تو اپنی سائیکل پر پیچھے بٹھالیا، جو نبی وہ مسجد اقصیٰ کے قریب پہنچے تو پتھریلی زمین پر اتنی بری طرح گرے کہ کولھے کی بوڑھی ہڈیاں چکنا چور ہوگئیں.لہذا ان کو فیصل آباد لے جانا پڑا ان کا آپریشن ہوا لیکن اس کے بعد وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہو سکے.ربوہ کے شب و روز کے حوالہ سے ان کی دلچسپیاں اُن کے شوق ، ان کی فدائیت کے رنگ، ان کے جذبے اور والہا نہ پین دیوانگی کی حد تک ان میں کارفرما تھے.جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ربوہ کا افتتاح فرما یا اس تاریخی موقع پر انہوں نے اپنے کنبے کو خاص اہتمام سے اکٹھا کیا اور تانگہ کی سواری سے ربوہ پہنچے اور افتتاحی تقریب میں شمولیت کی سعادت پائی.اسی طرح جب مسجد مبارک کاسنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا اس موقع پر بھی سارے کنبہ کو ساتھ لیا اور دعا میں شامل ہوئے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے اس بابرکت (60)
تقریب کے شرکاء کے نام اکٹھے کئے تھے ، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں.جس سال حضرت ام المومنین کی وفات ہوئی خاکسار ( بشیر الدین ) ان دنوں لاہور میں نوکری کے لیے سرگردان تھا کہ مجھے والد محترم کا ایک دستی رقعہ ملاجس میں یہ پیغام تھا کہ حضرت اماں جان کی آخری گھڑی آن پہنچی ہے، اس لیے جیسے تیسے بن پڑے کسی سے کرایہ مانگ کر فور ار بوہ پہنچو.مکررتا کید ہے کہ اس موقع کو ضائع نہ کرنا الحمد للہ اس تاکیدی ارشاد پر مجھے عمل کی توفیق بھی مل گئی.انداز تحریر حضرت سردار صاحب کے قلم میں بہت روانی تھی ، زور تھا، تصویر کشی تھی.انہوں نے زندگی بھر اپنے قلم سے بھر پور کام لیا.علمی مضامین بھی لکھے، قدم قدم پر جدائی کا داغ دینے والے دوست احباب اور بزرگوں کی یادوں اور انکی شخصیت کے ہو بہوخا کے قرطاس پر کھینچے اور جہاں تک ممکن ہوا انہیں اخبار الفضل کی زینت بھی بنایا.ان کے اولین استاد اور احمدیت سے روشناس کروانے والے بزرگ حضرت حافظ محمد فیض الدین صاحب سیالکوٹی صحابی حضرت مسیح موعود کا خاندانی تعارف اور سیرت بھلا اُن سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے.ڈاکٹر عبد الرحمن کامٹی صاحب نے حضرت سردار صاحب سے خواہش کی کہ وہ حضرت حافظ صاحب کے حالات زندگی لکھ کر دیں.انہوں نے لکھ کر اس عاجز (مرتب) کو بھجوائے.اس مسودہ کو ڈاکٹر کامٹی صاحب نے حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب کے سپر د کر دیا جو والد بزرگوار سردار صاحب کے شاگردوں میں سے تھے تا کہ اسے مرتب کر کے چھپوا دیں.چنانچہ انہوں نے اس سارے مواد کو مناسب رنگ میں ڈھال کر حیات فیض کے نام سے شائع کروا دیا.حضرت حافظ صاحب کے ساتھ حضرت سردار مصباح الدین صاحب کا جو دیر یہ تعلق اور محبت تھی اس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے وہ سردار صاحب پر بہت اعتما در کھتے تھے.جب حافظ صاحب کو اپنی لڑکیوں کی شادی کرنا مقصود تھی تو انہوں نے قادیان میں دومناسب رشتے تلاش کرنے کو لکھا (61)
کہ میں اپنی لڑکیوں کی شادی قادیان میں ہی کرنے کی خواہش رکھتا ہوں.محترم سردار صاحب نے تعلیم الاسلام پور ڈنگ ہاؤس میں زیر تعلیم دو لڑکوں کے نام اور کوائف لکھ کر حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں بھجوادئے.بعد ازاں حضرت خلیفہ اسیح اوّل کی منظوری سے بڑی لڑکی میمونہ بیگم کا عقد ماسٹر علی محمد صاحب بی اے بی ٹی سے اور چھوٹی لڑکی غلام فاطمہ بیگم کا ڈاکٹر عبد الرحمن کامٹی صاحب سے طے پا گیا.کسر صلیب کا نفرنس میں شرکت 1978 ء میں لندن میں کسر صلیب کا نفرنس ہوئی.اس تاریخی تقریب میں حضرت سردار صاحب کو بھی شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی.تاریخی اعتبار سے یہ حقیقت تھی کہ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور مکرم سردار مصباح الدین صاحب غفر اللہ لہ، یہ اس وقت صرف دو ایسے زندہ وجود تھے جو 1924ء میں ویمبلے کا نفرنس میں بھی شامل تھے اور 1978ء میں صلیب کانفرس میں ان کی شمولیت کا پہلا موقع اسطرح پیدا ہوا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث گرمیوں میں مری تشریف لیجایا کرتے تھے.محترم سردار صاحب کا بھی موسم گرما میں مری جانے کا معمول تھا.ان کے بیٹے سردار ناصر الدین صاحب ساقی ایک عرصہ سے مری جماعت کے صدر تھے.اس طرح انہیں حضور کی مجلس عرفان میں بیٹھنے کا موقع ملتا رہتا تھا.لیکن محترم سردار صاحب ایک عرصہ سے کان کی شنوائی کی کمزوری کی وجہ سے اونچی آواز سے سنتے تھے لہذا ان مجالس کا وہ اکثر حصہ سن نہ پاتے.اس کیفیت کے باوجود وہ ان مجالس کی برکات اور فیوض سے بہرہ ور ہونے کی سعی فرماتے.ایک روز اسی مجلس میں حضور انور نے برادرم سردار ناصر الدین صاحب کو فرمایا کہ سردار صاحب سے تو اونچی آواز میں بات کرنی پڑتی ہے اور مزہ بھی نہیں آتا اس لیے تم ان کو کان کا آلہ لیکر دو، دوسر النڈن میں بشیر الدین کولکھو کہ وہ سردار صاحب کو کسر صلیب کانفرنس کے موقعہ پر بلائے.اس طرح حضور کے اس ارشاد پر کسر صلیب کا نفرنس میں انکو شمولیت کا شرف حاصل ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث (62)
کے ساتھ اس سفر میں چودھری ظہور احمد صاحب سابق ناظر دیوان صدرانجمن احمد یہ ربوہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے.انہوں نے اس عاجز ( بشیر الدین سامی ) کو بتایا کہ سردار صاحب ایک روزلنڈن مشن ہاؤس اسوقت تشریف لائے جبکہ عمومی طور پر حضور سے ملاقات کا وقت نہیں ہوتا تھا، محترم سردار صاحب نے صاحبزادہ میاں انس احمد صاحب سے کہا کہ حضور سے ملنا ہے.میاں انس صاحب نے معذرت کر دی کہ اس وقت ملاقات نہیں ہو سکتی.چودھری صاحب نے بتایا کہ میاں صاحب کی بات پورے طور پر ان کے کان تک نہیں پہنچی تھی کہ میں نے میاں صاحب کو فور اُردو کا کہ میاں یہ کیا کر رہے ہو یہ تو اگلے وقت کے لوگ ہیں یہ اس طرح کی پابندیوں سے نہیں ملا کرتے.محترم سردار صاحب کو ابھی لے جاؤ.دوسری بات جو انہوں نے خاص طور پر بیان کی وہ یہ کہ کانفرنس کے موقع پر جو انگلش فلمساز مقرر تھا تو اس نے خاص طور پر استفسار کیا کہ His Holinass کے علاوہ سفید پگڑی میں کون بزرگ تھے جو سر محمد ظفر اللہ خان سے بھی بڑی عقیدت سے ملے اور ہنر ہولینس کے ساتھ تو ملتے ہوئے بہت عقیدت سے جھکے ہوئے اور ہاتھ چومتے ہوئے اس فلم میں ریکارڈ ہوئے ہیں.حضرت چوہدری صاحب نے بتایا کہ میں نے محترم سردار صاحب کا تعارف پیش کرتے ہوئے اسے بتایا کہ یہ ۱۹۲۴ء میں اس مشن ہاؤس میں مبلغ تھے اور یہ میرے استاد بھی رہے ہیں.یاد داشت والد بزرگوار سردار صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایسا حافظہ عطا فرمایا تھا کہ جو کچھ انہوں نے بزرگوں سے سنا اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ بشریت کی امکانی حد تک انکے حافظہ میں محفوظ تھا.اس لیے جو بھی وہ لکھتے تھے یا بیان فرماتے تھے ان میں واقعاتی تسلسل ہوتا تھا.کہیں بھی حقیقت سے ہٹ کر انہیں روانی کو قائم رکھنے کیلئے ادھر اُدھر سے الفاظ شامل نہیں کرنے پڑتے تھے.اُن کی تحریر میں یہ وصف ہر جگہ نمایاں ہے.تاریخ احمدیت کے شروع کے ادوار کے تذکروں کیلئے مکرم سردار صاحب کی یاداشتیں ایک سند تھیں.اہم واقعات، روایات شخصیات اور مناظر کو محفوظ کرنے میں اکثر مورخ (63)
میری یونجی احمدیت کی رہنمائی کر دیا کرتے.مثلا و میلے کا نفرنس کے موقع پر لیے گئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ساتھ گروپ فوٹو میں شامل احباب کی نام بنام پہچان انہی کے بس میں تھا.اسی طرح مولانا ابوالمنیر صاحب جو لمبے عرصہ تک تصنیف کے کاموں سے منسلک رہ کر خدمات بجالاتے رہے وہ بھی ان کی یادداشتوں سے استفادہ فرمایا کرتے تھے.مولانا صاحب بھی ان کے شاگردوں میں سے تھے اور ہمیشہ انکے لیے عزت و احترام کے جذبات رکھتے تھے.همی جہاد ریویو آف ریلیجنز میں ان کے رشحات قلم شامل ہیں.خاص طور پر 1928ء کی اشاعت میں ان کے شذرات کا کالم باقاعدگی سے چھپتا رہا.اس کے علاوہ انہوں نے اپنے ہمعصر دانشوروں سے قلمی جہادکا سلسلہ جاری رکھا.جس کسی نے بھی احمدیت کی مخالفت میں قلم اٹھا یا وہ ان کے قلم کی زد سے نہ بچ سکا.مخالفین کے نظریات کے جوابات کو احمدیت کے اعتقادات ،قرآنی دلائل اور برہان سے سجا کر قلمی جہاد کی نذر کرتے چلے جانا یہ ان کی عادت میں شامل تھا.ان کے قلمی معرکوں میں مولانا مودودی صاحب کا نام بھی شامل ہے.جنہوں نے ایک مرتبہ تحریری معذرت کر لی تھی کہ میں آپ سے کسی قسم کی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا.اسی طرح ایک موقع پر جناب جسٹس قدیر الدین احمد صاحب نے اخبار جنگ میں ایک عالمانہ مضمون آنحضرت سلیم بحیثیت تکمیل مظہر نبوت ورسالت کے عنوان سے شائع کروایا.محترم سردار صاحب نے یہ مضمون ذوق اور جذبہ سے پڑھا اور اس پر تقریباً سو صفحات پر مشتمل نہایت جامع تبصرہ لکھا ( اس کا مسودہ مرتب کے پاس محفوظ ہے) اس کا جواب دراصل جسٹس صاحب کے متعلق ان کے اظہار خیال پر مبنی تھا اور یہی حصہ اس تفصیل وضاحت کا موجب بھی بنا.محترم سردار صاحب نے جسٹس صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے جو انداز تحریر اپنا یا ، اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں.لکھتے ہیں کہ : (64)
" رسول کریم صلی یا ستم کی شان ارفع و اعلیٰ کے متعلق ایک دہقان بھی حب رسول الی ایم کے جذبہ سے کچھ زبان پر لائے تو بھی محاسن نبوی سیا ہی ہم سے معمور ہوتا ہے.جب ایک معیاری عالمانہ علم و عرفان سے شان رسول ملالہ تم پر اظہار کر رگا تو یقیناوہ شان ارفع رسول کریم صلی ا یتیم کا مظہر ہی ہوگا.ہاں اپنا تاثر یہ ہے کہ جو کچھ آپ کے قلم اور زبان سے نکلا ہے ذہنی کاوش کی دریافت نہیں ہے.یہ حاصل تدبر فی القرآن ہے.اس تمہید کے بعد احمدیت کے سو سالہ تاریخ کے دوران ملاؤں کے غیظ وغضب بھری قلم و زبان نے جو مسلسل زہر اگلا ، اس کے حوالہ سے جماعت احمدیہ کے مؤقف کو قرآنی معارف اور احادیث کی روشنی میں بالوضاحت پیش کر کے حضرت سردار صاحب نے پاکستان کی عدالت عالیہ تک سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کا پیغام پہنچا کر حجت تمام فرمائی.اسی عریضہ میں آگے چل کر خلافت علی منہاج نبوت کے ذکر میں حضرت اقدس مسیح موعود کی متابعت میں جسٹس صاحب کو پر شوکت الفاظ میں لکھتے ہیں کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود کی خلافت کو علی منہاج نبوت ہی مانتے ہیں اور اس خلافت کے ظہور میں آج نوے ( بوقت تحریر ) برس کا عرصہ ہمارے سامنے گزر چکا ہے.اس عرصہ میں اس خلافت کے ظہور میں آنے کی منہاج اور مساعی جمیلہ کی شان ، اسکے ثمرات اور اثرات جو ہمارے سامنے آچکے ہیں وہ اس امر پر برہان بر ہنہ ومبینہ ہیں کہ یہی خلافت علی منہاج نبوت جس کا ذکر حدیث میں بزبان نبوی صلی یا پیام ہوا.اس خلافت کی نوے سالہ تاریخ کے سامنے ہوتے ہوئے کوئی بھی سلیم الطبع ، ذرہ بھر بھی تو دل میں شبہ نہیں لا سکتا کہ یہی وہ خلافت علی منہاج نبوت ہے جس کا امت کی عمر میں بزبان نبوی سالی یہ تم پانچویں دور پر شروع ہونے کا ذکر ہوا ہے.ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است !“ (65)
والد صاحب وسیع مطالعہ رکھتے تھے.مختلف کتب، رسائل اور روزمرہ کے اخبارات انگریزی اور اردو کا مطالعہ ان کی روح کی غذا تھی.اخبارات باقاعدگی سے خود جا کر لاتے اور صفحہ بہ صفحہ پڑھتے.جہاں کوئی اچھا مضمون یا شعر پسند آجاتا اس کا تراشہ رکھ لیتے اور مضمون نگار کو اپنے تبصرہ سے نوازتے.کراچی کے ایک علمی وادبی مجلہ تقاضے نے فرعون نمبر نکالا، اس پر اس مجلہ کے مدیر اعلیٰ پیام صاحب کو اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اپنی سخن وری پر میری سخن شناسی بھی دیکھ لیں جیسے شعراء اپنی نظم میں ایک شعر یا مصرع کو نظم کی جان قرار دیتے ہیں فرعون نمبر میں آپ کا اداریہ اس تمام نمبر کی جان ہے.اگلی ایک نہایت ضروری بات کے ذکر میں لانے سے پہلے گفتہ آئید در حدیث دیگر اں کے ذیل ، آپ کی مہارت سخن گوئی کے ضمن میں بتلاتا جاؤں کہ منفتاح کے نام سے ہی آپنے ضیاء کے جماعت احمدیہ کے ساتھ ظالمانہ روش کا کھل کر ذکر کر دیا ہے.اور جیسا کہ آپ نے اظہار کیا ہے انشاللہ جماعت تو با سلامت دریا پار ہو جائے گی.مگر فرعون غرق ہو کر ہی رہے گا.اگلی بات تقاضے کے کراچی میں قیامت صغری نمبر میں قادیانیوں کا کلمہ کے تحت جو حافظ مبارک علی قاسمی کے خط اور اس پر جو اظہار کیا ہے اس سے وہ بات ابھری ہوئی ہے اور آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اس بات کے سامنے آنے پر میرے دل میں یہ دعا ڈالی گئی ہے اور جس احساس سے اللہ کے حضور کرنے لگ گیا ہوں.وہ دعا اور میرے انداز، اثر سے خالی رہنے والے نہیں.66 آگے چل کر مدیر اعلی صاحب کو ایک اور حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی صداقت کا نزول ہو تو خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ لا (66) (سورة الكهف: آیت 30)
اس آیت کریمہ میں اس صراحت سے اظہار کے باوجود کہ حق میری طرف سے نازل ہوا ہے اور قبول کرنے اور ماننے کیلئے ہی نازل کیا گیا ہے لیکن پھر بھی بندوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہو تو قبول کرونہ چاہو تو نہ قبول کر وہ کسی پر جبر نہیں.سوحق کے قبول اور رڈ کے بارے میں یہ پوزیشن ہے.لیکن قبول کرنے والوں پر صرف اس حق کو قبول کرنے کا ہی حکم ہے.بلکہ یہ بھی کہ اس حق کے پھیلا نے دوسروں تک پہنچانے ، دوسروں کے قبول کروانے میں وہ اس مامور من اللہ کی طرح مکلف ہوتے ہیں کہ اس حق کی اشاعت انکی زندگی کا نصب العین ہو جائے.یہ جو کچھ ہم پر ظاہر ہے کہ حق کو قبول کرنے کے بعد مومن خود مبلغ ہو جاتا ہے.ظاہر ہے دوسروں کو حق کے قبول کرنے کی دعوت دینے والے کے عمل اور قبول سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ سب کی نگاہ میں خود اس صداقت پر ایمان لانے والا اور اس پر عمل کرنے والا ہے.یہ حق کو قبول کرنے والوں کا اصل مقام ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ جو انسانوں کا خالق ہے وہ اسکی کمزوریوں سے بھی آگاہ ہے کہ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں وہ حق کو قبول تو کر لیتے ہیں لیکن کچھ ایسی کمزوریاں ان سے لاحق ہوتی ہیں کہ وہ قبولیت حق کا دوسروں کے سامنے اظہار نہیں کرتے.تو اللہ تعالیٰ نے ایسی پوزیشن کو بھی شرائط کے ساتھ روا رکھا ہے.جیسا کہ سورۃ مومن کے چوتھے رکوع کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے درباریوں میں سے ایک مومن کا ذکر کیا ہے.جس کے متعلق یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں: يَكْتُمُ ايْمَانَةٌ (الغافر : ٢٩) وہ حضرت موسیٰ پر ایمان لا چکا تھا لیکن دوسروں پر ظاہر نہیں کرتا تھا.لیکن وہ اُن کو کہتا ہے کہ دیکھو تم موسیٰ کے قتل کے درپے ہو گئے ہو حالانکہ وہ خدا کی طرف سے آنے کے متعلق نشان تمہارے سامنے لا چکا ہے.جسے تم سمجھتے ہو وہ کا ذب ہے تم اسکے قتل کے در پے نہ ہو کیوں کہ اس کے کذب کا وبال ہی اس پر موت وارد کر دے گا اور سنو اگر وہ صادق ہے تو اسکو صادق نہ ماننے سے اور اسکے در پے آزار ہونے سے جو وبال ہے وہ تم پر وارد ہو جائے گا.یہ کہنے کے ساتھ اُن کو وعظ کیا ہے اور (67)
خوف خدا ر کھنے کو کہا ہے.تو اس مومن کے نمونہ سے اللہ تعالیٰ نے ان معذور حال بندوں کو جو ایمان کے اظہار کی قدرت نہیں پاتے ان کیلئے یہ روا ہے وہ اپنا ایمان ظاہر نہ کریں لیکن ان کا عمل اور قول ایسا نہ ہو کہ وہ اس بات کا مظہر ہو کہ لوگ اسے بھی اپنے میں سے ہی ہونے والا شمار کر لیں.ان کا کوئی عمل اور کوئی قول ہرگز ہرگز ایسا نہ ہو جو اسکی طرف سے انکار کا تصور دیدے.اس تفصیلی وضاحت کے بعد مدیر موصوف کو توجہ دلاتے ہیں کہ آپ نے حافظ مبارک علی قاسمی کے الزام کہ قادیانی حضرت مرزا صاحب کو محمد رسول اللہ صلی یا پیام قرار دیتے ہیں.اس کے جواب میں یہ لکھ دیا: دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا مرزا صاحب نے خود کو محمد رسول اللہ قرار دیا؟ ہمیں اعتراف ہے کہ احمدیہ فرقے کا لٹریچر ہماری نظر سے نہیں گزرا.اس لیے اس کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے.“ محترم سردار صاحب مدیر موصوف کے ان دو فقرات کے سٹینڈ پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس الزام کے درست ہونے یا نہ ہونے کے متعلق کوئی سٹینڈ لینے کیلئے احمدیہ لٹریچر کا نظر سے گزرنا ضروری نہیں.کسی حقائق آگاہ ذہن ودہن سے نکلنا تو در کنار کسی گڈریے کے ذہن میں بھی نہیں گزرسکتا.سوسال سے جب سے جماعت احمدیہ کا وجود نمود میں آیا ہے ذی علم طبقہ کا ذکر ، گڈریے جیسا فہم و ادراک والا طبقہ جماعت کے گردو پیش چلا آ رہا ہے.انہوں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا ایک حرف بھی نہیں پڑھا اور وہ پورے شعور سے اس الزام کی تردید کر دیگا کہ احمدیوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے علم و شعور سے بلا روک ٹوک کہیں گے کہ احمدی مرزا صاحب کو محمد رسول اللہ نہیں قرار دیتے...آپ کا تو معیار علم بلند ہے.کہ آپ صحافی ہیں، اخبار نویس ہیں ، جن کی نگاہ محدود نہیں ہوتی وہ ماضی اور مستقبل پر نگاہ رکھنے والے ہوتے ہیں.وہ اس بات سے (68)
بے خبر ہوں کہ جماعت احمدیہ حضرت مرزا صاحب کو رسول اللہ نہیں قرار دیتی.اس بے خبری کی وجہ سے آپ کوئی رائے نہیں دے سکتے.احمد یہ لٹریچر کے نظر سے گزرنے کے باوجود کم سے کم آپ اپنے علم کی آگاہی سے ہی پر زور انداز سے کہہ دیتے.یہ الزام ہی سراسر افتراء ہے.“ حضرت سردار صاحب کے یہ چند رشحات قلم کے نمونے ہیں جس نہج پر انہوں نے زندگی بھر اپنے قلمی جہاد کو جاری وساری رکھا.ریعت حضرت مرزا ناصر احمد علی ی مسیح الثالث 8نومبر 1965ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا انتقال پر ملال ہوا.جونہی یہ افسوس ناک خبر سردار صاحب کو پہنچی تو سب افراد خانہ کو اکٹھا کیا اور فرمایا میں دعا کرتا ہوں اور آپ سب بھی میرے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کریں کہ اللہ میاں! ہم تیرے سہارے بڑھ رہے ہیں تو ہمارا مددگار ہو، اور ہمیں نئی خلافت کیلئے اپنی رہنمائی کے ساتھ مد کر نا اور ہم میں نفاق پیدا نہ کر نا.اس دعا کہ بعد سب اہل خانہ کے ساتھ تانگہ میں بیٹھ کر ربوہ پہنچے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث حضرت مرزا ناصر احمد کے دست مبارک پر شرف بیعت حاصل کیا.اہلیہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ (مرحومہ) محترم سردار صاحب کی اہلیہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ ان کی زندگی میں ہی وفات پا گئی تھیں.مرحومہ مغفورہ کے بارے میں وہ اخبار الفضل ۵ جنوری ۱۹۶۸ء میں لکھتے ہیں کہ مرحومہ، ایک دہقان کی لڑکی تھی.دودھ دوہنا، چرخہ کا تنا، چکی پینا، چولہے کا کام کرنا اور دیگر امور خانہ داری سے عہدہ برا ہونا یہ انکی سرشت میں داخل تھا.ایسی مؤثر شخصیت تھیں کہ ان سے تعلق رکھنے والیوں کا کہنا تھا کہ ان میں ایسی کشش ہے کہ جی چاہتا ہے کہ ادھر یہ کوئی بات منہ سے نکالیں ادھر ہم پوری (69)
کریں.اپنے والدین کے گھر سے قرآن کریم کے کچھ ہی سپارے پڑھ کر آئی تھیں.قادیان آنے کے بعد محترمہ بیگم جی اہلیہ مولوی غلام نبی صاحب مصری سے قرآن کریم پڑھا اور ترجمہ بھی پڑھا اور دینی مسائل کی واقفیت بھی حاصل کر لی.انہیں پختگی ایمان میں العجائز کا مقام حاصل تھا.عملی دائرہ میں نہ صرف پنجوقتہ نماز کی پابند تھیں بلکہ نماز تہجد سے بھی بہرہ ور تھیں.قرآن کریم غذائے روح تھی، درود شریف پڑھنا خاص وظیفہ تھا، لڑکے لڑکیوں کو قرآن کریم پڑھانا زندگی بھر کا محبوب مشغلہ تھا.رویاء صالحہ اور کشوف کی نعمت سے بھی بہرہ ور تھیں.رویاء میں آنحضرت صلی ایتم اور حضرت مسیح موعود کی زیارت سے مشرف تھیں.ساری زندگی اس دنیا کی کوئی زینت کوئی کشش انہیں اپنی طرف مائل نہ کرسکی.سادہ بالعموم سوتی لباس زیب تن رہا.عامتہ الناس کو میسر آنے والی غذا پر شکر بھرے دل سے قانع رہیں.غرضیکہ زینت الحیات الدنیا سے مرحومہ نے اپنا دل مستغنی رکھا.حضرت امام مہدی پر ایمان کی سعادت پالینے کے بعد دنیوی نعماء میں کمی یا حرماں کا احساس دل کے قریب تک نہیں آنے دیا.نظافت اور طہارت کے بارے میں مرحومہ بڑی حساس تھیں اور دل و نگاہ کی پاکیزگی میں غض بصر ہی شعار تھا.گھر سے جب بھی باہر نکلتیں ،راستہ میں جہاں کوئی سائل ہاتھ پھیلاتا، وہیں کچھ نقدی اس کے ہاتھ پر رکھ دیتیں.گھر میں کثرت سے مہمان داری رہتی تھی.ہمت اور کشادہ دلی کا یہ عالم تھا کہ کتنے ہی مہمان آجائیں پوری خوش دلی سے انکی مدارت کرتیں.قادیان میں تو اپنا مکان تھا لیکن پاکستان آجانے کے بعد ربوہ میں اپنا مکان نہ تھا.اس لیے جلسہ سالانہ کے ایام میں کسی چھولداری یا خیمہ میں ڈیرہ کرنا پڑتا.جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے جذبہ اور روایت کو قائم رکھا.تینوں دنوں کے دوران اپنے ڈیرے پر آنے والے مہمانوں کی خدمت کا شوق پورا کرتی رہتیں.شوہر کی خدمت ، مرحومہ کا زندگی بھر نصب العین رہا.خود پھٹا پرانا پہن لیا لیکن شوہر کی وضعداری میں کوئی فرق نہ آنے دیا.مرحومہ موصیہ تھیں.نہ صرف اپنا حساب صاف رکھنے میں حساس تھیں بلکہ میرے حساب کے بقایا جات صاف کرنے کیلئے عورتوں کے تعاون (70)
سے کمیٹیوں کے ذریعہ قسط وار رقوم ادا کرتی رہتیں.مرحومہ نے ۶۵ سال کی عمر میں وفات پائی.حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے بہشتی مقبرہ میں تشریف لا کر نماز جنازہ پڑھائی.تدفین کے بعد حضرت مولانا ابوالعطاءصاحب نے دعا کروائی.والد محترم سردار صاحب کا سفر آخرت والد محترم سردار صاحب عمر کے آخری حصہ میں بھی چنیوٹ میں ہی رہنا اس لحاظ سے پسند کرتے تھے کہ یہ ربوہ کے قریب ہے.چنیوٹ سے باہر رہنے میں انہیں گھبراہٹ رہتی تھی کہ ایسانہ ہو کہ کوچ کا وقت آجائے اور وہ خاک جس خاک سے ملنے کی آرزو رکھتی ہے وہ کسی مسافت کی وجہ سے ادھر ادھر بکھر جائے.مگر چنیوٹ میں چوبارہ کی رہائش ان کے چلنے پھرنے کیلئے موافق نہ تھی.اس لیے انہیں با امر مجبوری کراچی اپنے بڑے بیٹے عبدالسبحان مرحوم کے ہاں منتقل ہونا پڑا.مگر کراچی کے گزرے ہوئے ایام انکے لیے کوئی خوشگوار نہ تھے.ایک تو چلنے پھرنے کی معذوری دوسرے مرکز سے دوری اور پھر دیرینہ ملنساروں کی جدائی.یہ ساری کیفیات اُنہیں ماہی بے آب کی طرح تڑپاتی رہتی تھیں.گھر والوں کو ہر دم یاد دلاتے رہے کہ جب کوچ کا وقت آجائے ، اس خاک کو اسی خاک میں لیجائیں جس خاک سے ملنے کا شروع دن سے عہد باندھا تھا.1988ء میں اُن کی صحت زیادہ گرنی شروع ہو گئی.آہستہ آہستہ خوراک میں بھی غیر معمولی کمی ہو گئی.ہسپتال لیجایا گیا لیکن دو دن کے بعد فرمایا کہ مجھے گھر واپس لے چلو.گھر آکر حالت زیادہ بگڑ گئی ، اگست کی پہلی تاریخ تھی صبح سے ہی قبلہ رخ لیٹنا شروع کر دیا، گھر والوں نے بستر کی مناسبت سے انہیں ٹھیک سے لٹادیا لیکن خدا جانے کونسی طاقت تھی جس سے وہ گھسٹ گھسٹ کر پھر چار پائی کے درمیان قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئے.ایک بجے حالت بگڑ گئی ڈاکٹر کو بلایا گیا.اسنے کہا اب یہ تھوڑی دیر کے مہمان ہیں ، خدا جانے یہ آواز اُن کے کان تک کیسے پہنچی یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے لقاء کی خوشخبری پاچکے تھے کہ والد محترم سردار صاحب پہلے خوب ہنسے اور پھر ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئے اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا الیہ راجعون.(71)
بلانے والا ہے سب سے پیارا، اسی پہ اے دل تو جان فدا کر میت حسب وصیت بہشتی مقبرہ ربوہ پہنچائی گئی.3 اگست 1988ء کو بعد نماز عصر حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد، مورخ احمدیت نے نماز جنازہ پڑھائی اور مکرم مولا نانسیم سیفی صاحب نے قبر تیار ہونے پر دعا کروائی.تعزیت نامے سید نا حضرت خلیفہ المسح الرابع کی طرف سے 5.اگست کو 1988ء کو عاجز کے نام حسب ذیل تعزیت کا خط ملا : پیارے عزیزم بشیر الدین سامی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کے والد صاحب کی وفات کا بہت صدمہ ہوا.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ دے اور آپ سب کو صبر جمیل کی توفیق دے.میری طرف سے تمام عزیزوں کو تعزیت کا پیغام پہنچا دیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع (72)
تعزیت منجانب صاحبزادہ مرز اوسیم احمد صاحب از قادیان بخدمت مکرم بشیر الدین احمد سامی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته یہ خبر پڑھ کر کہ آپ کے والد محترم سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان مورخہ یکم اگست 1988ء کو وفات پاگئے ہیں ، دلی صدمہ پہنچا.انا للہ وانا الیہ راجعون.خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ دے.آپ کو اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.ہم اس اندوہناک غم میں آپ کے برابر کے شریک ہیں خدا تعالیٰ آپ سب کا حافظ وناصر ہو ، مرحوم بہت خوبیوں کے مالک تھے سلسلہ کی بڑی خدمت کی ہے خدا تعالیٰ جنت میں مقام عطا کرے.نماز جنازہ انشاللہ پڑھادی جائے گی.والسلام خاکسار مرز ا وسیم احمد حضرت سردار صاحب عظیم بزرگوں کی محفلوں کی رونقوں میں زندگی گزارنے کے عادی تھے.ان محفلوں کی رونقیں ایک ایک کر کے ان کے سامنے سے اوجھل ہو گئیں.انہوں نے ہر جانے والے کی جدائی پر اپنی عقیدت کے آنسو بہائے.ان رونقوں کی ایک لمبی فہرست ہے.حضرت میر محمد اسحاق صاحب ، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ، حضرت خلیفہ اسیح الثانی ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث"، حضرت ملک غلام فرید صاحب ، حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر ، حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ، حضرت محمود علی صاحب عرفانی ، حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکمل، حضرت حکیم (73)
مولوی فضل الرحمن صاحب ، حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال حضرت ذوالفقار علی خان صاحب حضرت مولانا محمد دین صاحب ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ، حضرت نواب عبداللہ خان صاحب حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب.غرضیکہ ایک قافلہ تھا جس کو انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھا.ہر جدائی کا غم سہا، ہر ایک کی قبر پر مٹی ڈالی اور آنسو بہائے.مگر ان کے پرانے ساتھیوں میں سے اب کوئی بھی ان کی اپنی قبر پر مٹی ڈالنے والا نہ رہا اور وہ اس قافلہ کی آخری یاد گار شخصیت تھے جن کو مسجد لندن کی بنیادی خدمت کی سعادت حاصل ہوئی تھی.ان کے کاغذات میں سے ایک منظوم تراشہ شاید انہی جذبات کا غماز ہے.قدم قدم پہ جدائی کا داغ دے کے مجھے اتر گئے میرے کتنے ہی یار قبروں میں نہ باغ میں رہا سبزہ نہ پھول شاخوں پر چلی گئی میری ساری بہار قبروں میں کدھر گئے وہ میرے اشک پونچھنے والے کہاں چھپے ہیں میرے غم گسار، قبروں میں والد صاحب کے تعلقات (سیف الدین سیف) والد محترم سردار صاحب کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا.ان میں اڑوس پڑوس والے بھی شامل تھے اور محلے والے بھی.پھر اس سے باہر نکل کر بڑے بڑے دانشور علم دوست،سوشل اور سیاسی حلقوں کے ذی اثر حضرات اور سرکاری اہل کار سبھی شامل تھے.جناب نصیر احمد فاروقی صاحب جو حکومت پاکستان کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ، خاص طور پر جب صدر ایوب کے زمانے میں وہ پرنسپل سیکرٹری تھے تو پاکستان میں بہت معروف ہوئے.محترم سردار صاحب سے اس حد تک (74)
عقیدت رکھتے تھے کہ انہیں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بلا کر اپنے ہاں ٹھہراتے انکی خدمت کرتے اور ان کی دعاؤں کا فیض پاتے.اسی طرح حضرت صاحبزادہ ایم ایم احمد صاحب سے بھی دعاؤں کا تعلق قائم تھا.اگر چہ وہ بھی ایک وقت میں صدر پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری رہے.مگر ان کے ساتھ جو محبت کا تعلق تھا وہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی وجہ سے تھا.خاندان حضرت مسیح موعودؓ کے افراد سے فرداً فرداً ، سردار صاحب کے دلی محبت وانس سے بھر پور تعلقات تھے.حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب ، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت سید حافظ محمود اللہ شاہ صاحب اور حضرت نواب عبداللہ خان صاحب کے ساتھ ایک گونا گوں محبت تھی.اور ان سب کی شفقت ان کے لیے باعث صد افتخار تھی.اسی طرح وہ متبرک وجود جو اپنے اپنے وقت پر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کی وصیت کے مطابق قدرت ثانیہ کے مظہر ہوئے انکے ساتھ انکی عقیدت اور محبت کا تو رنگ بالکل ہی جدا تھا.حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب انکی زندگی میں وفات پاگئے.انکے بھائی صاحبزادہ میاں عبدالرحیم صاحب خالد تو اپنے انگلستان میں طالب علمی کے زمانہ میں انکے ساتھ تبلیغی کاموں میں محمد بھی رہے تھے.حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب کے سبھی بچے محترم سردار صاحب کے لیے اپنے والد بزرگوار کے تعلق کی وجہ سے عزت و احترام رکھتے تھے.بقضائے الہی جب حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا انتقال ہوا ، سردار صاحب کراچی میں تھے اور اپنی معذوری کے باعث سفر کے قابل نہ تھے.اس سانحہ پر جو انہوں نے تعزیت کا خط مکرم میاں عباس احمد خان صاحب کے نام لکھا وہ خط سیرت و سوانح دخت کرام میں طبع شدہ ہے.اسکو پڑھ کر ، جہاں اس متبرک خاندان کے ساتھ ان کے غم اور جذبات کا پتہ چلتا ہے وہاں انکے تعلق، اخلاص ومحبت کا بھی خوب اندازہ ہوتا ہے.سوانح دخت کرام کے صفحہ 167 پر یہ خط اس طرح مندرج ہے.مکرم محترم سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان کراچی سے تحریر فرماتے ہیں: (75)
کراچی 9 مئی 1978ء بسم اللہ الرحمن الراحیم مجی عزیزی میاں عباس احمد سلمہ اللہ تعالیٰ اسلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ پیارے ! جس قضا کے کسی وقت آور دہونے کا دلوں کو دھڑکا لگا چلا آ رہا تھا وہ قضائے الہی تھی.نہ ٹلنے والی تھی نہ ٹلی اور وارد ہوگئی.انا للہ وانا الیہ راجعون.عزیزم ! جس دل توڑ صدمہ اور الم کے آور د ہونے پر آپ سے مخاطب ہوں ، پیارے! اس صدمہ اس غم و الم کا اثر آپ کی جاں حزیں تک ہی نہیں ، اک جہان آپ کا شریک حال ہے.فرشتے شریک حال ہیں.عزیزم میں کیا بتلاؤں کہ شراکت کیلئے مدارج ہوتے ہیں.اسی نسبت سے رنج و راحت میں شراکت ہوتی ہے.ایک شریک حال ایسا بھی ہوتا ہے جو خون کے رشتہ کے دائرہ سے باہر کا ہوتا ہے لیکن رنج و غم رسیدہ جانتے ہیں کہ وہ بھی صدمہ اور غم والم میں یکساں شریک حال ہے.پیارے خود ہی جانتے ہو کہ آپ کے گھرانے سے حضرت مسیح موعود سے نسبت غلامی اور روحانی کی بناء پر شراکت رنج و راحت ہے لیکن ان لاکھوں میں بعض نفوس کی خوش نصیبی میں یہ سعادت بھی آئی کہ آپ کے گھرانے سے ذاتی تعلق بھی حاصل رہا اور آپ خود جانتے ہیں کہ آپ کے ابا جان سے نہ صرف مجھے ہی اپنی ذات میں کسی آن بھی مدہم نہ ہونے والی الفت اور محبت تھی بلکہ الحمد للہ ! انہیں بھی مجھ سے یکساں درجہ کی انس و محبت ، رغبت تھی.اس درجہ کہ آپ کے علم اور احساس میں بھی جگہ پا چکی ہوئی تھی.عزیزم اس بارے میں ذکر کروں کہ آپکے ابا جان کی رحلت ہو جانے پر جب میں انکی قبر پر مٹی ڈال رہا تھا تو آپ نے مجھے کہا.ابا جان کو آپ سے محبت تھی اور آپ کی امی جان جن کی اس وقت رحلت پر صدمہ رسیدہ ہونے پر آپ سے مخاطب ہوں میرے علم میں یہ بات آتی رہی کہ کسی کی زبان سے میراذ کر بھی کسی وقت انکے سامنے ہو جا تا تو آپ فرماتیں : (76)
”میرے میاں کے وہ بڑے پیارے محب اور رفیق رہے ہیں.“ آپ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی شادی کی عمر کو پہنچ گئی تھی تو مجھے گرامی نامہ لکھا کہ: " آپ کے بھائی کی یہ بی بی میرے پاس امانت ہے دعا کریں کہ میں اس امانت سے سبکدوش ہو جاؤں“ اللہ اللہ ! خدا نے انہیں ”وخت کرام قرار دیا.ان کے وجود سے ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول رحمت و برکات کا سلسلہ جاری تھا.آہ ، حضرت اقدس کے وجود کا ایک لخت ہمارے اندر موجود تھا.آج اسے بھی اللہ تعالیٰ نے بلا لیا ہے.اچھا! بلانے والا خالق و مالک.طوعاً کرہاً اس سے موافقت ہی ہمارا شیوہ بنتا ہے.وما توفیقی الا بالله جب کبھی ربوہ آنے پر پسر عزیز عبد القادر سے بھی ملنا ہوا تو اس نے آپ کے دل میں مجھ فقیر کی یاد کا اظہار کرنے کی مجھے اطلاع دی اور گو جسماً آپ سے فاصلہ پر رہنا ہی مقدر ہوتا تھا.لیکن دل میں ہمیشہ آپ کو اپنے دل اور نظر میں سامنے پائے رکھا ہے.آپ کیلئے دعا کی توفیق بھی پائی.جلد آ رہا ہوں.خدا حافظ.والسلام خاکسار شفیق دعا گو مصباح الدین نوٹ : آپ کے بنگلہ کی روڈ کا نام ذہن سے اتر چکا ہے.عزیز میاں مبارک ( حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ) کے خط میں یہ خط بھیج رہا ہوں کہ وہ آپ کو پہنچا دیں.مکرر آپ کو عزیز سے میرا حال معلوم ہو چکا ہے.بس صاحب فراش ہوں دعا کریں.(77)
تعلقات قادیان کے زمانہ سے ہی سردار صاحب کا لالہ ملاوامل کے ساتھ بہت ملنا جلنا تھا اور ایک دوسرے کیلئے نیک جذبات رکھتے.لالہ ملا وامل کا سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کی کتب میں اکثر ذکر آیا ہے.اختلاف عقیدہ و مذہب کے باوجود وہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ اخلاص و محبت رکھتے تھے اور وہ بہت سے نشانات کے شاہد تھے.سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود انہیں اپنی دوسری شادی پر اپنے ساتھ دہلی لے کر گئے تھے.آپ کے تعلق داروں میں پٹھانکوٹ کے ایک بہت بڑے ہندو رئیس بھی تھے جو رائے صاحب بہادر کا خطاب رکھتے تھے ، رائے بہادر صاحب کا ایک عرصہ سے اصرار چل رہا تھا کہ وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ سیر کی غرض سے پٹھانکوٹ تشریف لائیں.چنانچہ ایک موقع پر انکے ہاں مع اہل و عیال مہمان ہوئے.رائے بہادر صاحب نے اپنی حویلی میں بغیر کسی تکلف کے ٹھہرایا، خدمت مدارت کی اور پہاڑوں کی سیر بھی کروائی.حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب آف سکندر آباد کے ساتھ حضرت سردار صاحب کا ایک عرصہ سے روحانی تعلق قائم تھا.انکے ایک صاحبزادے علی محمد عبد اللہ صاحب بھی انہی دنوں انگلستان میں طالب علم تھے، جن دنوں سردار صاحب وہاں کے مبلغ تھے.اور وہ انکے ساتھ مشن کے کاموں میں ہاتھ بھی بٹایا کرتے تھے.حضرت سیٹھ صاحب کا اکثر اصرار رہتا کہ سردار صاحب ان کے پاس سکندر آباد آئیں تا کہ وہ انکی کچھ خدمت کر سکیں.ان کی اس خواہش کی تکمیل میں ایک موقع پر ان کا سکندر آباد جانا ہو گیا.جب وہ بذریعہ ریل گاڑی سکندر آباد پہنچے تو جیب میں دیکھا تو بٹوہ غائب تھا.بس آنے جانے کی یہی پونچی تھی جو کوئی جیب کتر ا لے اُڑا تھا.حضرت سیٹھ صاحب کے ہاں پہنچے تو اس نقصان کا نہ تو ذکر کیا اور نہ ہی چہرے سے اس پریشانی کو ظاہر ہونے دیا.بے تکلفی سے ان کی مہمانی اور صحبت سے لطف اٹھانے لگے.مگر یہاں پہنچتے ہی انہوں نے ایک خط قادیان گھر میں لکھ دیا کہ اس طرح میرا نقصان ہو گیا ہے اسلیے بذریعہ تار رقم بھجوا دیں..چنانچہ ہماری (78)
والدہ مرحومہ نے فی الفور انتظام کر کے رقم بھجوا دی.جب اس رقم کا منی آرڈر ڈا کیہ لیکر حضرت سیٹھ صاحب کے پاس آیا تو سیٹھ صاحب بہت حیران ہوئے کہ سردار صاحب نے یہ رقم کیوں منگوائی ہے.انہوں نے سردار صاحب سے پوچھا تو انہوں نے حقیقت حال سنادی، حضرت سیٹھ صاحب نے شکوہ کیا کہ آپ نے مجھے بتایا ہوتا خواہ مخواہ اپنی اہلیہ کو پریشان کیا.اتنی سی رقم میرے لیے کوئی زیادہ نہیں تھی.محترم سردار صاحب نے وضاحت فرمائی کہ سیٹھ صاحب میں پہلی بار آپ کا مہمان ہوا اور آتے ہی اپنی اس ناگہانی ضرورت کو پیش کرتا، یہ میرا ضمیر نہیں مانتا تھا.یہ سوچ کر کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو صاحب ثروت لوگوں سے تعلق پیدا کر کے فوائد حاصل کرتے ہیں کہیں میں بھی ان لوگوں میں شمار نہ ہو جاؤں.حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب ان کی اس توضیح سے متاثر تو ہوئے لیکن یہی فرمایا سردار صاحب میں آپ کے متعلق ایسے بھلا کیسے سوچ سکتا تھا.پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب محترم سردار صاحب کی بے حد عزت و احترام دل میں بسائے ہوئے تھے ،اکثر خط و کتابت بھی رہتی تھی.اپنی دینی و علمی کوششوں کیلئے اُن کو دعا کیلئے بھی لکھتے رہتے تھے.پاکستان تشریف لاتے تو باوجود انتہائی مصروفیت کے وقت نکال کر وہ محترم سردار صاحب کو ملنے کیلئے چنیوٹ حاضر ہوتے.جب سردار صاحب چلنے پھرنے کی معذوری کی وجہ سے کراچی منتقل ہو گئے تو ان سے وہاں بھی ملاقات کا موقع پیدا کر لیتے.بلکہ انکی معذوری کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے انکو ایک اچھے ہسپتال میں داخل کروادیا اور مزید آپریشن کے تمام اخراجات خود برداشت کئے.1978ء میں جب کسر صلیب کا نفرنس کیلئے انگلستان آئے تو اس موقع پر بھی انہوں نے محترم سردار صاحب کو اپنے گھر پر بلوا کر مہمان نوازی کی.سائنس میگزین کے ایڈیٹر جناب قاسم محمود کی نظر کا مبہوت کن واقعہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو ابا جی محترم سردار صاحب کے ساتھ جو عقیدت تھی اس کی ایک جھلک اس مبہوت کن واقعہ میں نظر آتی ہے جس کا ذکر پاکستان کے سائنس میگزین کے معروف ایڈیٹر (79)
جناب قاسم محمود صاحب نے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی سائنس کے میدان میں خدمات اور کار ہائے نمایاں پر اپنے خطاب میں کیا.یہ واقعہ فلم بند بھی ہوا اور مسلم احمد یہ ٹیلیویژن پر دکھایا گیا.جناب قاسم محمود صاحب لکھتے ہیں: ڈاکٹر صاحب کا لاہور سے ٹیلیفون آیا کہ آپ میری ہمشیرہ کے گھر پہنچ جائیں.پتہ آپ اُن سے خود پوچھ لیں.گلیوں میں مکان تھا جس کے دروازے پر پردہ لٹک رہا تھا.کچھ مشتاق حضرات ڈاکٹر صاحب سے ملنے کیلئے موجود تھے.جس کمرے میں ہم بیٹھے ہوئے تھے، بیٹھک کہنا چاہئے جو ہمارے متوسط طبقہ میں ہوا کرتا ہے.دیواروں پر خوبصورت قرآن کریم کے طغرے آویزاں تھے.لیجئے ڈاکٹر صاحب کی سواری آگئی لیکن وہ بیٹھک میں نہیں آئے جہاں ہم سب بیٹھے ہوئے تھے.اُنہیں چپکے سے ساتھ والے بغلی کمرے میں لیجایا گیا.دونوں کمروں کے درمیان کواڑ تھے اور بند تھے.پھر بھی ایک تھوڑی سی جھری رہ گئی تھی.خوامخواہ میری نظریں اس طرف کو جھی ہوئی تھیں.ایک اونچی سی کرسی پر ایک بت رکھا ہوا تھا.سر پر پگڑی لمبی سفید داڑھی.میں نے سمجھا کہ یہ بت مرزا صاحب کا ہی ہو سکتا تھا.میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب جھک کر اوتار کی قدم بوسی کر رہے ہیں.کسی نے کواڑ بند کر دیا اور میں خفیف سا ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا.جو خیالات میں ڈاکٹر صاحب کیلئے رکھتا تھا وہ بت پرستی سے بڑی طرح متزلزل ہو گئے گو یا دنیا ہی بدل گئی.ڈاکٹر صاحب اپنی ہمشیرہ ، بھانجی ، بھانجیوں سے مل کر بیٹھک میں آئے.اُن کی مہربانی انہوں نے سب سے پہلے مجھے ہی قریب بلا یا اگر چہ میں اندر سے گھلا ( کھولا ہوا تھا.میں نے جلدی سے اجازت لی اور وہاں سے اٹھ آیا.میں نے وہ رات کا نٹوں پر بسر کی.کتنا عظیم انسان جو بات بات پر قرآنِ کریم کے حوالے دیتا ہے.بت پرست ہوسکتا ہے، سمجھ میں نہ آئے.دوسرے (80)
دن مجھ سے نہ رہا گیا ، اور میں نے انکی ہمشیرہ کو فون کیا اور وہ بہت خوشی سے پیش آئیں.وہ بہت خوش تھیں کہ ان کے بھائی جان نے غریب نوازی کی تھی اور عرصہ دراز کے بعد ان کے گھر آئے تھے ورنہ پہلے باہر ہی ہوٹلوں میں ٹھہر کر چلے جاتے تھے.کہنے لگیں کہ میرا بھائی بہت خوش خوراک ہے میں نے ان کی پسند کی تین ڈشیں بنائی تھیں لیکن آپ جلدی چلے گئے.میں نے جسارت کر لی کہ بتائیں ہمارے کمرہ میں آنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب بغلی کمرہ میں کس کے پاس گئے تھے.کہنے لگیں یہ ایک بہت ہی ذاتی سی بات ہے.سختی سے منع کر رکھا ہے مگر آپ نے پوچھا ہے تو بتا دیتی ہوں.یہ اُن کے آخری استاد ہیں جو بقید حیات ہیں باقی سب اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں.کیا بتاؤں بھائی جان اپنے استادوں کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ کوئی کر ہی نہیں سکتا.یہ آخری استاد ہیں سکول کے زمانے کے 80 یا85 سال کے تو ہونگے.بھائی جان کو انہوں نے چھوٹی کلاسوں میں پڑھایا ہے.پتہ نہیں فارسی ، عربی ، تاریخ یا جغرافیہ پڑھایا ہے.مجھے معلوم نہیں پہلے وہ جھنگ (چنیوٹ ) میں رہتے تھے اور جب مصروفیت اجازت دیتی تھی ، ڈاکٹر صاحب ان سے ملنے کیلئے چنیوٹ چلے جاتے تھے پھر مصروفیت زیادہ بڑھیں تو انہیں کراچی بلوالیا اور کورنگی میں ایک کوارٹر لے دیا ہے.حسب توفیق خدمت کرتے رہتے ہیں اپنے استاد کی قدم بوسی کیلئے وہ خود کراچی آتے جاتے ہیں.ان کے پاس پیش ہوتے ہیں.لیکن کل صبح ہی بھائی جان نے لاہور سے ٹیلیفون کیا تھا کہ ماسٹر صاحب کو کورنگی سے ایسی گاڑی بھجوا کر بلوالوں جس میں انہیں کوئی تکلیف نہ ہو.اس لیے ہم نے گاڑی بھجوا کر انہیں بلوالیا وہ تو بس پانچ منٹ میں واپس چلے گئے تھے.میں آپکو بتاؤں میرا بھائی فرشتہ ہے فرشتہ !!“ جناب قاسم محمود صاحب نے جب اپنا مبہوت کن واقعہ ختم کیا تو سامعین نے بھر پور تالیوں سے (81)
ڈاکٹر صاحب کی عظمت اور سعادت مندی کی جی بھر کر داد دی.اس جاندار واقعہ کے سفید پگڑی اور سفید لمبی داڑھی والے مرکزی کردار محترم سردار مصباح الدین صاحب تھے جن کا ڈاکٹر صاحب بے حد احترام کرتے تھے.یہاں اس بات کا بھی ذکر کر دینا ضروری ہے کہ جناب قاسم محمود صاحب کی نظروں نے ایسا دھوکہ کیوں کھایا جس سے ان کے خیالات ڈاکٹر صاحب کیلئے متزلزل ہوئے.امر واقعہ یہ تھا کے حضرت سردار صاحب کے کولھے کی ہڈی اس بری طرح ٹوٹ چکی تھی کہ باوجود آپریشن کے وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتے تھے.جس کی وجہ سے وہ وہیل چیئر استعمال کرنے لگے.ادھر کان کی شنوائی بھی اس بری طرح متاثر تھی کہ کان کے ساتھ ہی لگ کر بات ہوسکتی تھی اور وہ بھی بہت مشکل کے ساتھ.انکی وہیل چیئر اونچی سطح کی تھی وہ ہمیشہ سفید پگڑی پہنتے تھے، سفید داڑھی تھی اور سفید شلوار قمی.ڈاکٹر صاحب جو انتہائی مصروفیت کے عالم میں تھے اور کسی انگلی ہی فلائٹ سے واپس جانے والے تھے ان کی سعادت مندی کی انتہا تھی کہ انہوں نے اپنے اس بزرگ کو پہلے ملنا پسند فرمایا تا کہ چند ساعت ہی سہی وہ ان سے مل سکیں.یہ ڈاکٹر صاحب کی ان سے آخری ملاقات تھی.جس کیلئے ڈاکٹر صاحب کو یقینا مکمل جھکنا پڑا اور خیریت معلوم کرنے اور دعا کیلئے کہنے کے لیے کانوں کے قریب ہونا پڑا.یہ وہ نظارہ تھا جس کو ایک اجنبی ایک چھوٹی سی جھری میں سے دیکھ کر غلط نہی میں پڑ گیا.بزرگوں کا احترام دراصل ڈاکٹر صاحب کی گھٹی میں ہی تھا.اس واقعہ کی تفصیل کے بعد ڈاکٹر صاحب کے خطوط سے ان کے عجز و اخلاص کا اظہارا اپنی جگہ ہے.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب/ 119اکتوبر 1979ء کے عریضہ میں والد بزرگوار سردار صاحب کو لکھتے ہیں: د گرامی قدر زاد عنا یتکم ! آپ کا خط پڑھ کر رقت طاری ہوئی.اللہ تعالیٰ نے ایسے وجود بھی پیدا کئے ہیں جو محض اللہ ایسی محبت رکھتے ہیں.یہ احمدیت اور اسلام کا اثر ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور صحت میں برکت دے اور آپ جیسی ہستیاں ہمیشہ کیلئے (82)
اس سلسلہ میں پیدا ہوں جو محض اللہ کی خاطر اس قدر محبت اور شفقت اپنے دل میں رکھتی ہیں.“ اسی طرح اپنے ایک خط 17 اکتوبر 1979ء میں نوبل انعام ملنے پر لکھتے ہیں : پاک پروردگار کی ذات نے آپ کی دعاؤں کو نوازا اور انہیں قبولیت بخشی جس سے کسی مسلمان کو پہلے نہیں نوازا تھا.اس کی پاک ذات کا کس طرح شکر کروں.انشاء اللہ خود حاضر ہو کر آپ کی شبانہ دعاؤں کیلئے اظہار تشکر کروں گا.اللہ تعالیٰ ہمارے خلیفہ کی عمر اور ان کے فیضان میں برکت دے.“ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اپنے ایک خط مورخہ 20 جولائی 1982ء میں لکھتے ہیں: گر انقدر قبلہ سردار صاحب! آپ کا عزیزم رشید کے نام ابھی ابھی خط ملا.آپ کی بیماری کا انتہائی صدمہ ہوا اللہ تعالٰی آپ کو سلامت رکھے.حضرت چودھری صاحب کی طرح آپ کے فیضان اور دعا کی توفیق کو سلامت رکھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے بارے میں آپ کا فرمان درست ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ” آفتاب نصف النہار پر آیا ہوا، اچانک غروب ہو گیا.“ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے دیرینہ تعلق تھا اور خط و کتابت کا سلسلہ قائم تھا.انگلستان میں بھی اکھٹے رہے.حضرت چودھری صاحب اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: مکرم سردار صاحب! آپکا والا نامہ مل گیا تھا.خاکسار نہایت نادم ہے کہ میرا کوئی کلمہ آپ کے لیے اذیت کا موجب ہوا.انسان خطا کار ہے اور میں تو نہایت پر تقصیر ہوں ، نہ دل سے معافی کا خواستگار ہوں.میرے دل میں آپکا بے حد احترام ہے.آپ کے ہدیہ کا نہایت ممنون ہوں.اولین فرصت میں حاضر ہو گیا ہوں تا کہ آپکو زحمت انتظار نہ ہو.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ ناصر ہو.“ (83)
حضرت چودھری صاحب اور کیفیت عجز و نیاز 16/ جون 1971ء کو حضرت چوہدری صاحب ہیگ سے لکھتے ہیں : مکرمی سردار صاحب آپکا والا نامہ مورخہ یکم جون شرف صدور لا یا.جزاکم اللہ.میرے ایک بھائی نے اپنی تکلیف کے وقت میں لکھا میرے لیے دعا کرو.اللہ تعالی میرے حال پر رحم فرمائے اور میری بینائی درست فرمائے.انکے درد سے اس عاجز کا دل بھی پر درد ہوا، اور بارگاہ الہی میں التجا شروع کی: اے ارحم الرحمن ! تو نے فرمایا ہے ادعونی استجب لکم.یہ تیرا ایک بندہ لاچار اور عاجز ہے یہاں تک کہ اس نے ایک میرے جیسے نابکار سے بھی کہا.میری تکلیف بہت بڑھ گئی ہے تم بھی میرے لیے دعا کرو.اے اللہ! یہ اس کا اس عاجز پر احسان ہے اور حسن ظن ہے.تیرے فضلوں کی حد نہیں تو اپنے محسن اور متقی بندوں کی فریاد کے ساتھ اس عاجز کی فریاد بھی سن اور اسے قبول فرما کر اپنے اس دردمند عاجز بندے کے دکھ دور فرما اور اسے بینائی بخش اور اندھیروں سے نکال کر نور میں داخل کر “ جب انہوں نے اطلاع دی کہ آپریشن بفضل تعالیٰ کامیاب ہو گیا ہے تو میرے دل کی وہ کیفیت ہوئی جس کا کچھ پر تو اس عریضہ میں ہے جو میں نے ان کی خدمت میں لکھا: "سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم.اس خاکسار کو ان کے آپ کے ساتھ رشتے کا علم نہیں تھا لیکن اخوت دینی کا رشتہ تو تھا اور اخوت انسانی کا رشتہ بھی ہوا.اب آپ کے والا نامہ کے ساتھ اُن کا والا نامہ بھی ملا ہے کہ عینک کے معاملہ میں کچھ اندیشے کی صورت ہے اور میرا دل اس خبر سے خائف و ترساں ہے.میں پھر کمال عاجزی اور تزلزل سے دہلیز پر گرا ہوں.یا ارحم الراحمین! تو نے اپنے عاجز بندے کے دل میں جو جھلک امید اور خوشی کی پیدا کی ہے اسے اپنے لطف و احسان سے روشن فرما (84)
کہ تیرے آگے کوئی چیز انہونی نہیں.تیری تو شان ہے.ہر چه خواهد میکند عجزش که دید غرض آپ کے والا نامے کے جواب میں ذرا پردہ عجز ونیاز کی کیفیت سے سرکا دیا ہے.ورنہ من آنم کہ من دانم.اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے اور جو مہلت باقی ہے اسے اپنی رضا کے مطابق صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور خاتمہ بالخیر کرے.آمین! خاکسار ظفر اللہ خان 19/فروری1980ءکو لکھتے ہیں : مکرم سردار صاحب! آپ کے دونوں والا نامے شرف صدور لائے.جزاکم اللہ.یہ عاجز جانتا ہے کہ چنیوٹ کوئی اتنا بڑا شہر نہیں اور آپ ایک معروف ہستی ہیں.جب خاکسار خط و کتابت کے قابل تھا آپ کے پتے کی دریافت کی حاجت نہ تھی.مصباح منزل لکھنے کے بغیر بھی عریضہ آپ کی خدمت میں فجر باریابی حاصل کر لیتا تھا.آپ کے پہلے والا نامے کے جواب میں تاخیر کی وجہ آپکے پستہ سے ناواقفیت نہیں تھی.صورت حال یہ ہے کہ کچھ عرصہ سے خاکسار کے طبی مشیر نے ہاتھ سے لکھنے پر پابندی عائد کر دی ہے.آپ کے شکوے کے بعد خاکسار طبی ہدایت کو پس پشت ڈال کر حاضر خدمت ہو گیا ہے.باقی رہا آپ کے پہلے والا نامے کا فلسفیانہ حصہ.خاکسار کو فلسفے کے ساتھ مس نہیں نہ رغبت ہے.یہی کافی ہے کہ بوجوہ آپ کی دینی خدمات کے آپ کا احترام کرتا ہوں.باوجود طبی تنبیہ کے یہ تحریر اس کا ثبوت ہے اور اپنے تئیں بیچ (85)
، عاصی، گنہ گار، نابکار جانتا ہوں.آپ کے حسن ظن کا ممنون ہوں.جزاکم اللہ خیرا ! اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ ناصر ہو.آمین.“ والسلام خاکسار ظفر اللہ خان حضرت ملک غلام فرید صاحب والد بزرگوار سردار صاحب کے پرانے رفقاء میں سے تھے.بہت قریب کے تعلق دار تھے.انگلستان میں ایک ساتھ خدمت اسلام کی سعادت پائی.حضرت ملک صاحب اپنے ایک خط مورخہ 18 نومبر 1973ء میں اپنی صحت کے بارے میں محترم اباجی سردار صاحب کو لکھتے ہیں : ”میرے بھائی موت کتنی آسان ہو گئی ہے.میری عمر 76 سال ہوگئی ہے اور میں کئی عوارض کا شکار ہوں.شنوائی کم ، بائیں آنکھ سے پانی اتر رہا ہے، دانتوں میں سخت درد ہوتا ہے، سر میں چکر آتے رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان تک جاتے ہوئے راستہ میں تین بار ٹھہر نا پڑتا ہے.ٹانگیں جواب دے رہی ہیں.کیا آپ میرے لیے دعا نہیں کرینگے؟ اللہ کریم اگلے جہان میں بھی ہماری جوڑی کو سلامت رکھے.خاکسار غلام فرید ملک نوٹ: اسی خط میں انہوں نے 1924ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے قافلہ کے ممبران، انگلستان کے مبلغین اور بیرون انگلستان کے شرکا مبلغین کی نام، بنام تفصیل لکھی ہے.(86)
مورخہ 5 نومبر 1973ء کے خط میں لکھتے ہیں: آپکا محبت نامہ ملا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.خط کیا تھا قر طاس پر موتی بکھرے ہوئے ہوتے ہیں.میں سخت پریشان رہتا ہوں آپ کے خط سے کچھ تسلی ہوئی.اللہ آپ کا بھلا کرے یہ اللہ کا بڑا ہی مجھ پر فضل ہے کہ اس نے مجھے ایسے نیک ایسے ہمدرد ایسے دعا گو احباب عطاء فرمائے ہیں یہ بہت بڑی دولت ہے.آپ کا پہلا خط جو ہر شخص کے پڑھنے کے قابل ہے اور جس کو پڑھنے کی خصوصاً ان احباب کو خاص ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود کے مقام کے متعلق موشگافیاں کرتے رہتے ہیں اور خود الجھنوں میں رہتے ہیں اور دوسروں کو رکھتے ہیں.خاکسار غلام فرید ملک وہ ایک وقت میں اپنے بیٹے کے پاس حیدر آباد (سندھ) میں تھے.وہاں سے لکھتے ہیں: سردار صاحب میرے بھائی ! اپنی جماعت ، اللہ کے مسیح کی جماعت کی بے بسی کی یہ حالت دیکھ کر اور اخبارات میں پڑھ کر اللہ کے حضور روتا ہوں.مسیح کی روح جنت میں کتنی بے قرار ہوگی اور متی نصر اللہ متی نصر اللہ پکارتی ہوگی.اپنی بیماری ، اپنے بیٹے اور اہلیہ ( کی بیماری) نے معذور کر رکھا ہے.آپ تو میرے پیارے محترم ہیں، اللہ کے حضور دعا کرنے والے، رونے والے بھائی ہیں.خدارا! جہاں جماعت کے لیے دعا کرتے ہیں میرے اور میرے عزیزوں کیلئے بھی دعا کریں.مولانا جلیل صاحب کو میرا سلام کہئے اور دعا کیلئے عرض کریں.ربوہ کے حالات سے مفصل اطلاع دیں میں یہاں جنگل میں پڑا ہوں.خاکسار غلام فرید ملک“ (87)
میری یونجی محترم مکرم حکیم مولوی فضل الرحمن صاحب انکے سکول کے ساتھیوں میں سے تھے، اکٹھے وقف کیا ایک ساتھ آگے پیچھے خدمت دین کیلئے بیرون ملک کیلئے نکلے.1924ء میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی جلسہ مذاہب میں شرکت کیلئے وہاں تشریف لے گئے تو حکیم فضل الرحمن صاحب بھی لنڈن تشریف لائے.اس موقع پر حضور نے ان سے اظہار خوشنودی کے طور پر ایک خوبصورت فاخرہ جبہ جو زیب تن کیا ہوا تھا ان کو عطاء فرمایا.اسی متبرک جبہ میں ان کی یہ مرسلہ تصویر محترم ابا جی سردار صاحب کے کاغذات کی ایک نشانی ہے.مکرم عبد الواحد صاحب / 6 جون 1982ء کو محترم سردار صاحب سے اپنی ایک ملاقات اور پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: محترمی و مکر می سردار صاحب! آپ سے ملاقات کر کے آپ کو یاد کر کے قادیان کا منظر آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے.آپ کا وجود ان پیاری یادوں میں سے ہے جنہوں نے قادیان میں بحیثیت طالبعلم پہلی بار آنے پر خاکسار کی رہنمائی کی.ہمیشہ آپ کے لیے دعا کرتا ہوں اللہ پاک آپ کی عمر اور صحت میں برکت دے.حضرت میاں عزیز احمد صاحب بلا ناغہ نماز عصر کے بعد خاکسار کے پاس آیا کرتے تھے.خواہ شدت کی گرمی ہو یا جما دینے والی سردی افتان و خیزاں ضرور پہنچ جایا کرتے.علمی ، مذہبی مزاحی گفتگو ہوتی.اسکے بعد حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری جو میرے والے کوارٹر کے ساتھ رہا کرتے ، کے پاس مجلس لگتی.اسکے بعد بہشتی مقبرہ جاتے مغرب کی اذان ہو جاتی مسجد مبارک میں نماز ادا کرتے اور ہم اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے.حضرت میاں صاحب کی یاد میں میں نے تین چار مضمون دو الفضل میں اور دو لاہور میں شائع کرائے.مجھے تاریخیں یاد نہیں.انہیں اشعار سے متعلق ایک ریٹائرڈ افسر صاحب نے لاہور میں ایک مختصر نوٹ چھپوا یا.میں نے مذکورہ (88)
سارے اشعار چھپوا کر ان کا نوٹ مکمل کیا.مطلوبہ اشعار شامل ہیں.دعاؤں میں یاد رکھیں.خاکسار آپکے لیے دعا کرتا ہے.خاکسار عبد الواحد نشیں، بے ریائم ازرو اخلاص گفت اے کلام تو فروغ دیده بر ناو پیر درمیان انجمن معشوق ہر جائی مباش گاه با سلطان باشی گاه باشی با فقیر اے ہمنشیں معذور میدانم ترا فتمش طلسم امتیازی ظاہری ہستی اسیر من که شمع عشق را در بزم دل افرو ختم سوختم خود را و پیمان دونی هم سو ختم ترجمہ: میرے مخلص دوست نے اخلاص سے کہا کہ تیر اکلام جوان اور بوڑھے کی آنکھ کی روشنی ہے.انجمن میں ہر جگہ معشوق نہ بن بھی تو بادشاہ کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی گدا کے ساتھ.اے دوست میں تجھے معذور سمجھتا ہوں تو امیتاز کے ظاہری طلسم میں گرفتار ہے میں نے عشق کی شمع کو دل کی بزم میں روشن کر لیا ہے،خو دکو مٹادیا اور دوسرے ہر بندھن کو بھی جلا دیا ہے.حضرت میاں عزیز احمد صاحب نے مندرجہ بالا اشعار سنائے اور فرمایا یہ اشعار ڈاکٹر صاحب نے فی البدیہہ کہے.جناب ڈاکٹر احسان حقی پاکستان کے نامور مصنف اور دانشور ہیں.حلقہ ابلاغ کی جانی پہچانی شخصیت ہیں.ستارہ امتیاز کا اعزاز رکھتے ہیں.والد بزرگوار سردار صاحب کے عقیدت مندوں میں (89)
سے تھے.وہ دمشق سے اپنے خط مورخہ 10اکتوبر 1983ء میں لکھتے ہیں: برادر مکرم جناب مصباح الدین احمد صاحب! آپ کا گرامی نامہ پڑھ کر بے حد خوش ہوا.55 سال بعد ایک مہربان دوست کی خیریت کی خبر سنے کی خوشی آپ ہی اندازہ کر سکتے ہیں.سن 1973 سے لیکر سن 1983ء تک میں پانچ دفعہ پاکستان آیا ہوں اور ہمیشہ ریڈیو ٹیلیویژن اور اخباروں میں میرا ذکر آیا ہوتا تھا.اور میں اپنی طرف سے پرانے دوستوں کی تلاش کیا کرتا تھا.علی گڑھ کے چند پروفیسروں سے ملاقاتیں ہوئیں.اس سال میں فروری اور مارچ کے مہینوں میں پاکستان میں گورنمنٹ کا مہمان رہا اور صدر صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں.مگر بد قسمتی سے میرے پاس آپ کا پتہ معلوم نہ تھا ورنہ میں خود آپ سے ملنے چنیوٹ میں حاضر ہوتا.باقی رہا میری اردو زبان کے بارے میں جو کچھ آپ نے فرمایا ہے بجا ہوتا اگر میری یہ زبان میرے خون میں جاری نہ ہوتی.اگر چہ آجکل میری اردو زبان اس قدر نفیس نہیں جس قدر پرانے زمانے میں تھی ، تاہم پڑھ لکھ لیتا ہوں.میں نے پاکستان کے متعلق پانچ کتابیں لکھی ہیں لہذا مجھے ستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوزا گیا.مجھے پاکستان سے بہت محبت ہے اور میں اسکو اسلام کا قلعہ سمجھتا ہوں.خدا اسکو خطروں سے محفوظ رکھے.10/10/1983 احسان حقی (دمشق) (90)
حافظ مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری اپنی (سوانح حیات ) حضرت مختار ، سوانح حیات و منظوم کلام میں ایک جگہ اباجی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں.وہ جوان ذی خرد مصباح دین روشن خیال وہ طلبگار ضیائے دل کشائے قادیاں صوفی پاکیزه طینت، فلسفی و حق پرست بسر پابند آئین وفائے قادیاں روز شب سرمست و سر شار مے ذکر حبیب دم به دم محو ثنائے مقتدائے قادیاں خیر خواه خلق و نیک اطوار و خوش طبع و خلیق تابع حکم جناب رہنمائے قادیاں (سوانح حیات و منظوم کلام صفحه ۲۶۸) نوٹ : یہاں تک سامی صاحب نے اپنے والد صاحب کے متعلق کچھ نوٹ لکھے ہوئے تھے میں نے صرف ٹائپ کیا ہے.(صفیہ بشیر سامی) (91)
محترمہ حاکم بی بی صاحبہ (مرحومہ) صاحب (مرحومه) بشیر الدین سامی صاحب اپنی والدہ محترمہ صاحبہ کے متعلق لکھتے ہیں: 1919-20ء میں جب میری والدہ محترمہ اماں جی حاکم بی بی صاحبہ شادی کے بعد قادیان آئیں تو وہ احمدی نہیں تھیں.انہوں نے نہ تو کلام اللہ پڑھا ہوا تھا اور نہ ہی اردو لکھنا پڑھنا جانتی تھیں.کہتے ہیں جیسے ہی قادیان آئیں ، تو محترمہ بیگم جی صاحبہ کی تربیت میں انہوں نے کلام اللہ ناظرہ ، اردو، اور دیگر دینی باتیں سیکھ لیں.اوّل اوّل مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کے مکان میں ٹھہریں.اڑوس پڑوس کا ماحول اخوت اور محبت کا ایک مثالی ماحول تھا.قرب وجوار میں مولوی غلام نبی صاحب، مکرم فضل محمد صاحب بابا ہر سیاں والے، مولوی بقا پوری صاحب ،مکرم عبد الرحمن صاحب مہر سنگھ، مکرم عبید اللہ صاحب بسمل، مکرم فضل الرحمن صاحب حکیم، اور مکرم ابوا العطاء صاحب جالندھری جیسے بزرگ گھرانے آباد تھے.1922ء میں جب حضرت امام جماعت احمد یہ ثانی ( ہماری دلی دعا ئیں آپکے لیے ) نے اباجی سردار مصباح الدین صاحب کو انگلستان کے مشن میں خدمت کیلئے بھجوایا.تو مکرم بابا ہر سیاں والے از خود اماں جی اور ان کی بیٹی فاطمہ کا خاص خیال رکھتے اور اپنی بچیوں حلیمہ بیگم اور سردار بیگم کو ان کی دیکھ بھال کیلئے مقرر کر دیا تا کہ ان کی بیٹی فاطمہ کے ساتھ جا کر کھیلا کریں.اماں جی کے بطن سے جب چوتھا بیٹا پیدا ہوا تو اس وقت حلیمہ بیگم اور سردار بیگم بڑی ہو چکی تھیں ان کو جب پتہ چلا تو تحفہ تحائف کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کو دیکھنے گئیں.لیکن وہ کیا جان سکتی تھیں کے قدرت کو آگے جا کر کیا منظور ہوگا.(92)
1936ء کے قریب اگر چہ اماں جی اپنے نئے مکان میں چلی گئیں ، جو انہوں نے بادیاں دا باغ کے سامنے بنوایا تھا.لیکن محبتیں اور تعلق بدستور قائم رہے.ایک دن بادیاں دے باغ کے ایک پیٹر کے سائے میں سخت گرمی اور تپش سے بچنے کیلئے ایک خاتون بیٹھی تھیں جس کی گود میں ایک شیر خوار بچہ تھا اور گرمی کی شدت سے بالکل بے ہوش پڑا تھا.وہ خاتون زار وزار رورہی تھی.اتفاق سے میں بھی وہاں کھیل رہا تھا ، جب میں نے یہ ماجرا دیکھا تو بھاگ کر اماں جی کو بتایا.وہ بھاگم بھاگ میرے ساتھ آئیں.اس خاتون کو جا کر تھاما دلاسا دیا.بچے کو گود میں لیا اور فوراً اپنے گھر لے آئیں، اسے ٹھنڈک پہنچائی.دیکھتے ہی دیکھتے اس بچے نے آنکھیں کھول دیں.اماں جی نے ہمیں ریتی چھلہ کی طرف دوڑایا کہ اس بچی کے باپ خواجہ ناصر احمد صاحب کو بلا کر لائیں.اُن دنوں وہ وہاں فروٹ کا کاروبار کرتے تھے.سالوں پر پھیلے ہوئے بظاہر یہ دو عام سے واقعات نظر آتے ہیں.لیکن قدرت کی شان دیکھیں کہ وہی لڑکی جو اماں جی کے ہاں نوزائیدہ بچے کو دیکھنے کیلئے تحفوں کے ساتھ گئی تھی.بالآخر اسی بچے کی ساس بہنیں ( یعنی حلیمہ بیگم اہلیہ شیخ محمد حسن صاحب آف لندن ) اور شیر خوار بچہ جو بادیاں دے باغ میں اپنی ماں کی گود میں بے ہوش پڑا تھا، جس کو اماں جی نے گود لیا اور ٹھنڈک پہنچائی وہ بچہ خواجہ منیر احمد صاحب آف ربوہ ہیں اور وہ اس بچے کے سدھی بنے جس نے انہیں بچپن میں اپنی ماں کی گود میں بے ہوش پایا تھا.جبکہ عزیزم منیر شہزاد احمد کے ساتھ ان کی بیٹی شازیہ بیاہی گئی اور اب اللہ تعالی کے فضل سے اس کی گود میں اماں جی کا پڑپوتا شاہزیب کھیل رہا ہے.( جب یہ مضمون سامی صاحب نے لکھا تھا تو ایک ہی بیٹا تھا اب ماشا اللہ تین بیٹے ہیں ) اللہ تعالیٰ خادم دین بنائے اور صحت و سلامتی سے رکھے.نصف صدی پہلے تپ دق ایک ایسا مہلک مرض تھا کہ جس گھر میں آجا تا تھا وہ کنبے کا کنبہ ہلاکت کی لپیٹ میں ہوتا.ایک موقعہ پر ہمارے گھر کے سامنے باغ میں کسی دیہات سے ایک تپ دق کا (93)
مریض آگیا.اس کے لواحقین اسے بے یار و مددگار چھوڑ گئے.مریض چلنے پھرنے سے قاصر تھا.مرض انتہا کو پہنچ چکا تھا، کوئی بھی شخص ایسی حالت میں مریض کے پاس کھانا یا پانی لیجانے سے گھبراتا تھا.اماں جی کو جب پتہ چلا کہ ان کے پڑوس میں ایک بے بس انسان انتہائی مہلک مرض میں مبتلا بے یارو مددگار پڑا ہے تو فورا تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس اجنبی مریض کی تیمارداری کیلئے مستعد ہو گئیں.اس کی باقاعدہ خبر گیری کی کھانا پہنچایا، پانی کا انتظام کیا اور دعائیں بھی کیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا رحم نازل فرمائے ، بعد میں مولا کی تقدیر سے وہ مریض چل بسا.ہمارے گھر کے سامنے آنے جانے والے دیہاتیوں کا اکثر گز رہتا تھا.چونکہ بہت بڑا آموں کا باغ تھا، گرمی کی وجہ سے را بگیر اس باغ میں ستانے کیلئے رکھتے تھے یہاں تک کہ دن ڈھل جاتا.کیونکہ پانی کا کنواں اس باغ کے ورلے کنارے تھا اس لیے باغ میں رکنے والے راہگیروں کیلئے تازہ پانی حاصل کرنے کیلئے ہمارا گھر ہی سامنے تھا.اماں جی ان سب را بگیروں کیلئے اپنے محن کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھتیں اور پانی کانل دن بھر چلتا رہتا.اس کے علاوہ ہم بچوں کی ڈیوٹی لگا تیں کہ باغ کے بڑے پیڑ کے نیچے ہر وقت بڑے بڑے مٹکے پانی کے بھرے رکھیں.تقسیم ہند کے موقعہ پر قادیان کے گردو نواح کے تمام دیہات مسلمانوں سے خالی ہو رہے تھے.میں اپنے گھر کے سامنے باغ کے سب سے بوڑھے پیڑ کے نیچے کھڑا تھا کہ دیکھا کہ ہر چو وال کی سڑک پر، جو ہمارے گھر کے سامنے سے ریتی چھلہ کو جاتی ہے، حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال کی کوٹھی کی جانب سے ایک بہت بڑا قافلہ نمودار ہوا.دیکھتے ہی دیکھتے اس قافلہ نے ”باو یاں دے باغ میں پڑاؤ ڈال دیا.یہ سب بھانبڑی گاؤں کے پناہ گزین تھے.مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب شامل تھے.ساز وسامان سے لدے پھندے گڈے، گائے بھینسیں ، ڈنگر وغیرہ.اس سارے ماحول نے اس بوڑھے باغ کو دیکھتے ہی دیکھتے آباد کر دیا.دن ڈھل گیا اور رات ہو گئی.باغ میں الاؤ جلنے لگے، جس باغ میں رات کا سناٹا رہا کرتا تھا، آج کی رات وہ روشنیوں کا شہر (94)
بن چکا تھا.آدھی رات گزری ہوگی کہ موسلا دھار بارش ہو نے لگی.ہم ابھی سوئے ہی تھے کہ دروازے کھٹکنے لگے باہر دیکھا تو گاؤں کا گاؤں بارش سے بچنے کیلئے امڈ پڑا تھا.اماں جی نے گھر کے سب دروازے کھول دئے.گاؤں والوں نے بھی سمجھداری سے کام لیا.عورتوں اور بچوں کو اندر بھجوادیا اور مرد باغ میں ہی اپنے گڑوں پر بوریاں تان کر رات بسر کرنے لگے.بارش تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی.قادیان کی بارشوں کا حال سبھی قادیانی حضرات جانتے ہیں.وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارشیں بھی اسی طرح بے تحا شا برستی چلی آئی ہیں.اس کے نظاروں کا حال بھی اظہر من الشمس ہے.بارش کے اس سے اماں جی نے گھر کے تمام بستر ، چار پائیاں ،غرضیکہ ہر چیز اپنے ان مہمانوں کے سامنے پیش کر دی.گھر کا کوئی کمرہ اپنے بچوں کیلئے علیحدہ نہیں کیا ، یوں لگتا تھا کہ بھانبڑی کا بھانبڑی ہمارے گھر کا کنبہ ہے.جہاں جہاں جگہ ملی چولہے جلا دئے گئے.اماں جی کہیں بچوں کا دودھ گرم کر رہی تھیں ، روٹیاں ہیں کہ مسلسل پکتی جا رہی تھیں.سٹور میں سردیوں کیلئے جمع شدہ ایندھن ان کے سپر د تھا.گاؤں کی عورتیں بہت باہمت تھیں، شیر خوار بچے گود میں تھے.بارش سے گیلی ہو رہی تھیں مگر ہر کام مستعدی سے کر رہی تھیں زیورات سے بھری ہوئی تھیلیاں ان سے سنبھالی نہ جاتی تھیں.بلا تکلف انہوں نے یہ تھیلیاں اماں جی کے پاس امانتا ڈھیر کر دیں.تقریباً ایک ہفتہ یہ سلسلہ چلتا رہا مجھے یاد نہیں کب رات ہوتی تھی ، کب دن چڑھتا تھا.اتنے بڑے میلے میں دن رات کا کوئی تصور ہی باقی نہ تھا.ادھر بارش کا زور اس قدر تھا کہ زیادہ عرصہ پورے گاؤں کو چند گھروں میں سمیٹنا مشکل ہو رہا تھا.چولہے چوبیس گھنٹے جلنے کے باوجود ضرورت پوری نہیں کر رہے تھے.بالآخر جانے کس طرح تختوں کی بنی ہوئی کشتیوں پر تیرتے ہوئے خدام لنگر خانہ سے روٹیاں لائے.جب تقسیم ہو رہی تھی تو کوئی چھینا جھپٹی نہ تھی.بھا نبھڑی کے لوگ اپنے چودھریوں کے مشوروں پر چلتے تھے.ہر جگہ اپنے وفد کو آگے کرتے (95)
تھے.ان میں کوئی بھگدڑ نہ تھی ایک منظم قافلہ تھا.ہم ان کے اس وفد کو لیکر صدر انجمن احمد یہ کے دفتر گئے.یہ عاجز بھی ساتھ گیا.وہاں سید ولی اللہ شاہ صاحب سے ملایا.ان کے سامنے اس وفد نے اپنی ضروریات کو اس طرح پیش کیا جیسا کہ یہ ان کا حق ہے.(بے شک ان کا حق تھا احمدیت ہے ہی ایک ایسا معاشرہ جس میں بلا امتیاز مذہب و عقیدہ سب کو برابر کا حق حاصل ہے.) سید ولی اللہ شاہ صاحب نے انہیں تسلی دی اور ہمدردی سے سمجھایا کہ تحریک جدید انجمن احمد یہ ہوٹل میں چلے جائیں.وہاں رہائشی کمرے بھی ہیں اور کھلی جگہ بھی.بارش سے کافی حد تک بچاؤر ہے گا.لیکن ان کا اصرار تھا کہ انہیں اسی جگہ رہنے دیا جائے اور دیگر ضروریات بھی اسی جگہ پوری کی جائیں.چونکہ سہولت کے تقاضے یہی تھے اس لیے وہ بورڈنگ ہاؤس میں منتقل ہو گئے.اس کے بعد قادیان کے محلوں میں فساد انتہا کو پہنچ گیا.محلے خالی ہو کر سمٹنے لگے.اس افراتفری کو دیکھ کر بھانبھڑی کے سر براہوں نے پیدل قافلہ کی صورت میں پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا.ہر چند کہ جماعت نے منع کیا کہ پیدل قافلہ اس وقت خطرہ سے خالی نہیں لیکن وہ روانہ ہو گئے.شام تک یہ اطلاع ملی کہ اس قافلہ پر راستہ میں حملہ ہوا ہے.نہ جانے کس قدر نقصان ہوا اور وہ کس حال میں پاکستان پہنچے.قیام پاکستان کے بعد اماں جی نے پاکستان میں چنیوٹ محلہ گڑھا کو اپنا مسکن بنایا.اس گھنی اور الجھی الجھی آبادی میں زیادہ تر جالندھر اور پانی پت کے مہاجر آ کر آباد ہوئے.اس نئے ماحول میں بہت جلد اماں جی نے اپنی جگہ بنالی اور دیکھتے ہی دیکھتے محلہ کی عورتیں، بچے اور بچیاں ان کے پاس آنے لگیں.صبح سے لیکر دن ڈھلے تک کوئی وقت بھی ایسا نہ تھا جب اڑوس پڑوس کی عورتیں اور بچے سبق پڑھنے کیلئے حاضر نہ ہوں.ان کی یہ شہرت شہر میں پھیلی اور اب اس ماحول میں وہ ” بے بے“ کے نام سے پہچانی جانے لگیں.آج بھی اس گھر کو وہی عزت اور احترام حاصل ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالی کے فضل سے اماں جی کی وجہ سے حاصل ہے.جب 1953ء میں فسادات کی لہر دوڑی اور چنیوٹ سے احمدیوں کور بوہ جانا پڑا اس افراتفری میں مکان کو کھلا چھوڑنا پڑا.لیکن جب حالات ساز (96)
گار ہوئے اور واپس اپنے گھروں میں آئے تو اڑوس پڑوس کا یہ اخلاص تھا کہ انہوں نے اس گھر کے احترام کی وجہ سے کسی قسم کا نقصان نہ ہونے دیا.دراصل پاکستان کے یہی وہ مخلص عوام ہیں جو پاکستان کی سالمیت کیلئے ایک تعویذ کی حیثیت رکھتے ہیں جو عقائد کے اختلافات کے باوجود ہمدردی محبت اور بھائی چارہ کی اقدار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں.(97) (بشیر الدین احمد سامی )
دادا جان اور دادی جان کا ذکر خیر راشدہ شان اپنے دادا ابا جی سردار مصباح الدین صاحب مرحوم (سابق مبلغ انگلستان ) اور دادی اماں حاکم بی بی صاحبہ مرحومہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں چونکہ اُنکے بیٹوں کی اولاد میں پہلی بچی تھی تو دادا دادی نے اپنی پوتی کو بے حد تو جہ اور پیار دیا بلکہ یہ کہوں تو زیادہ اچھا ہے کہ میں اپنے چچاؤں اور پھوپی کی چھوٹی بہن بن گئی.کیونکہ ان سب کے پیار کو دیکھتے ہوئے دادا دادی کی خواہش پر میرے والدین نے مجھے اُن کے پاس ہی رہنے دیا.یہ میرے ماں باپ کی بہت بڑی قربانی تھی جو انہوں نے بڑے شوق اور خوشی سے دی.میرے دادا دادی نے بھی اس کا حق ادا کیا اور جہاں میری بی اے تک تعلیم مکمل کروائی وہاں بہت اچھی طرح سے میری شادی کی ذمہ واری بھی نبھائی.میں اب تحدیث نعمت کے طور پر اُنکی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کروں گی جن سے ہماری زندگیوں میں دین اور دنیا وی حدود کی پاسداری کرنے کی صلاحیتیں پیدا ہوئیں.اماں جی اور اباجی ( میرے دادا دادی) یعنی ہمارے گھر کا ماحول بہت پاکیزہ اور دینی تھا.اباجی واقف زندگی تھے اور مبلغ بھی رہ چکے تھے.اماں جی باوجود اس کے کہ کوئی سکول کی پڑھی لکھی خاتون نہیں تھیں مگر شادی کے بعد جب قادیان آئیں تو باترجمہ قرآن کریم اور دین کی تعلیم حاصل کی تھی.اس تھوڑی تعلیم سے انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے اپنے آپ کو اس قابل کر لیا کہ نہ صرف ہمیں بلکہ اور بہت سے بڑوں اور بچوں کو قرآن کریم کی دولت سے مالا مال کیا.یہی نہیں دینی تربیت کا درس بھی ہم نے اُن سے ہی حاصل کیا.اماں جی نمازی، تہجد گزار اور ہر وقت درود شریف کا ورد (98)
کرنے والی خاتون تھیں.پیار محبت کا درس اُن سے ملا.اماں جی ابا جی کو ہم نے دیکھا کہ جب بھی اُن کو کہیں جانا ہوتا وہ دونوں اکٹھے جاتے.اماں جی اباجی کے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کام خود انجام دیتی تھیں یا اپنی نگرانی میں ہم سے کرواتیں.اباجی ہمیشہ سفید کپڑے اور سفید چاولوں کی مایا لگی ہوئی پگڑی پہنتے اور پگڑی کو سکھانے کی ہماری ڈیوٹی ہوتی.ہمیں خاص ہدایت ہوتی کے پگڑی کے کونے نہ پکڑے جائیں بلکہ ایسے سکھایا جائے کہ اسکا کوئی کونا نا نکلے.ہر کام میں سلیقہ سکھایا جاتا.رمضان شریف میں باقاعدگی سے سحری اور افطاری کا خاص اہتمام ہوتا.تراویح ، درس قرآن کریم کے لیے سب بچوں کو ساتھ لیکر چلتے.اباجی چنیوٹ کے محلہ کی چھوٹی سی مسجد میں باقاعدگی سے باجماعت نماز ادا کرتے ، اذان بھی دیتے اور قرآن کریم اور حدیث کا درس دینے کی بھی سعادت نصیب ہوتی.ابا جی اور اماں جی سے لوگ دعائیں کرواتے تھے اور الحمد للہ انکی بے شمار دعائیں ہم نے بارآور ہوتے بھی دیکھیں.میری امی ابوجی کراچی میں قیام پذیر تھے.ابو جی کو ٹائیفائڈ ہو گیا.تین ماہ شدید بیماری اور تکلیف میں گزرے.آخر ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اگر تین دن خیریت کے گزر گئے تو سمجھیں بلاٹل گئی.پھر ابا جی نے دن رات دعائیں کیں، اپنے سر پر پگڑی نہیں رکھی.اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ ریز رہے.اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے.اُس نے اباجی کی گریہ وزاری قبول فرمائی اور میرے ابو جی ٹھیک ہو گئے.پھر اسی طرح میری چی سیدہ ، جو کہ تقریباً ساٹھ سال سے او پر ہی ہونگی ، کو فالج ہو گیا.بہت پریشانی ہوئی.دعا ئیں تو سب نے بہت کیں مگر ابا جی نے اپنے اللہ میاں کو اپنی دعاؤں سے منایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اُس بزرگ کے آنسوں اور آہوں کو قبولیت بخشی.اس ناممکن کو اللہ نے ممکن میں بدل دیا اور میری چی اپنے پاؤں پر پھر کھڑی ہوگئیں.جبکہ ڈاکٹر کہتے تھے کہ اگر اس عمر میں ایسا ہو جائے تو مریض ٹھیک نہیں ہو سکتا.ہمارے اپنے ہی گھر میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جو اماں جی (99)
اور اباجی کی دعاؤں سے ہی حل ہوئے.کئی معجزے ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھے.میرے ایک چچا ناصر ساقی مری میں مقیم تھے.اکثر گرمیوں میں ساری فیملی مری چھٹیاں گزار نے چلی جاتی تھی.اس دفعہ بھی ایسے ہی ہوا.میں اپنے سسرال میں تھی.ابا جی کو بہت مشکل لگ رہا تھا کہ میں وہاں نہیں ہوں.مجھے چنیوٹ سے لاہور لینے آئے اور میں دونوں بچوں کے ساتھ سردی اور گرمیوں کے سارے کپڑے رکھے اور مری چلے گئے.چھٹیوں کے بعد واپسی بھی ابا جی کے ساتھ ہی تھی کہ میں نے چنیوٹ ہی جانا تھا مری سے.جب پنڈی پہنچے تو دیکھا ہمارا سوٹ کیس راستہ میں کسی نے اتار لیا.میرا زیور اور تمام سامان اُس میں تھا.بہت پریشانی ہوئی.اباجی نے مجھے شیخ عبدالمجید صاحب کے گھر چھوڑا اور خود اسی وقت واپس مری روانہ ہوئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں ہی رہ گیا ہو.گورنمنٹ ٹرانسپورٹ تھی ، اُس میں بھی شکایت لکھوائی.پریشانی تو بہت تھی مگر ہم گھر آگئے.ابا جی نے دعاؤں کی انتہا کر دی.سجدوں میں آنسوؤں کی بارش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ماہ کے بعد میرا سوٹ کیس مجھے گھر آ کر کوئی دے گیا اور الحمد للہ ہر چیز محفوظ مجھے مل گئی.یہ سب میرے بزرگوں کی دعائیں ہی تو ہیں جو ایسے معجزے ہوتے ہیں.ابا جی کو وضو کر وانے کی بھی ہماری ڈیوٹی ہوتی کہ وہ کرسی پر بیٹھ جاتے اور ہم بالٹی میں سے پانی ڈال کر وضو کرواتے.پانی چونکہ نچلی منزل سے تل میں سے لیکر آتے تھے، بالٹیاں بھر بھر لانا تھوڑا مشکل لگتا تھا مگر ابا جی پوری بالٹی سے وضو کرتے.کبھی اگر ہم کہتے اباجی پوری بالٹی ابھی ہمارا جملہ بھی پورا نہ ہوتا کہ مسکرا کر دیکھ لیتے.اب ہم بھی جان گئے تھے کہ یہ اُنکی روٹین ہی ایسی ہے جیسے کھلے پانی سے وضو کرتے ویسے کھلے دل سے اباجی نمازیں بھی بہت لمبی لمبی پڑھتے تھے.گرمیوں میں میں اُن کو نماز پڑھتے ہوئے پنکھا ہلاتی تو کہتی ابا جی نماز تھوڑی چھوٹی پڑھا کریں.جواب تو وہ نہ دیتے مگر ہلکا سا مسکرا کر میرے سر پر ہاتھ رکھ دیتے.آج میں یہ کہتی ہوں تو فخر محسوس کرتی ہوں کہ ابا جی اور اماں جی کی دعائیں جی بھر کر مجھے لگی ہوئی ہیں، مجھے ہی نہیں آگے میرے بچوں کیلئے بھی اُن (100)
بزرگوں کی دعاؤں سے ہم فیضیاب ہورہے ہیں.خلافت سے کتنی وابستگی تھی وہ آج بھی مجھے وہ دن یاد دلاتی ہے جس دن یہ نا گہانی خبر ہمارے گھر تک پہنچی پیارے حضور خلیفہ المسیح الثانی کے بارہ میں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آگئی ہے اور وہ اب اس دنیا میں ہمارے ساتھ نہیں رہے.اُسی وقت ابا جی نے ساری فیملی کو جن میں سب بچے اور بڑے شامل تھے اپنے پاس بلایا اور یہ افسوس ناک خبر سنائی سب کو کہا ہاتھ اُٹھا ئیں اور دعا کروائی کہ یہ ہماری جماعت کے لیے بہت مشکل گھڑی ہے.اللہ تعالیٰ اس گھڑی کو آسانیوں میں بدل دے.دو تانگے کروائے اور ساری فیملی کو لے کر ربوہ آگئے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث" کے ہاتھ پر بیعت کی اور شکرانے کے نفل ادا کئے.ہم سب بچوں کو خلافت کی اہمیت کے بارہ میں بتایا اور سمجھایا.ابا جی اماں جی کی دعاؤں کا سلسلہ صرف ہم تک ہی محدود نہیں تھا.مجھے یاد ہے کہ ابا جی کی ڈاک جو آتی تھی اس میں زیادہ تر لوگوں کے دعا کی درخواست پر مشتمل خطوط ہوتے.اُن میں چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب، ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور ملک غلام فرید صاحب کے اسی طرح اور بزرگان کے خطوط ہوتے.دونوں اماں جی اور اباجی ہمیشہ جمعہ ربوہ پڑھنے جاتے اور ہر جمعہ کے بعد اپنے چند ملنے والوں کے گھر ضرور جاتے.خاص طور پر مولوی غلام نبی صاحب کے گھر ، صوفی ابراہیم صاحب کے گھر ، خالہ جی صوفیہ رحمانی صاحبہ کے گھر ، خالہ جی فاطمہ صاحبہ کی والدہ رقیہ رانجھا صاحبہ کے گھر.غرض اسی طرح اور کئی نام لکھ سکتی ہوں جن سے وہ بہت پیار کرتے تھے اور وہ سب لوگ بھی اُن سے بہت پیار سے ملتے تھے.پھر چنیوٹ میں اپنے محلہ میں بھی سب سے بہت تعلق تھا.بچوں کو قرآن مجید پڑھانا اور اُن میں کوئی فرق نہیں تھا کہ احمدی بچے ہیں یا غیر احمدی.کبھی کسی بچے سے ذاتی کام نہیں لیتی تھیں.غریبوں کی مدد کرنا اور لوگوں کے کام آنا اپنا فرض سمجھتی تھیں.کوئی سوالی سوال کرے یہ ممکن نہیں (101)
تھا کہ اماں جی اُس کی حاجت پوری نہ کریں، خود بھی کوئی بہت خوشحال نہیں تھیں مگر کسی کی مدد کے لیے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ خود کے پاس کچھ ہے کہ نہیں.ایک مرتبہ کوئی چوڑیاں بیچنے والی اماں جی کی سہیلی کے بھائی کے بیٹا پیدا ہوا.سردی شدید تھی.اُس نے اماں جی سے مدد مانگی.اماں جی نے اپنا کمبل کاٹ کر آدھا اُس کو دیا کہ بچے کو لپیٹ لو.ساتھ دودھ کے پیسے اور ضرورت کی کئی چیزیں دیں.ایک اور مستحق عورت کے ہاں بچی کی پیدائش پر اپنے ہاں سے نئے پرانے کپڑے کاٹ کر بچی کے فراک اور ضرورت کی چیزیں بنا کر دیں ساتھ ہی اُس کو کچھ عرصہ تک کھانا بھی گھر سے پکا کر بھجواتی رہیں.ارد گرد تمام غیر احمدی پانی پت، کرنال کے اور جالندھر کے لوگ آباد تھے.جہاں بہت عزت اور قدر کرنے والے لوگ تھے وہیں جہالت کی بھی انتہا تھی.مخالفت چھپ کر کرتے تھے.رات کو دروازے کے آگے کبھی کوئی تعویذ بھی کچھ پکا کر اور کبھی کچا گوشت رکھ جاتے.مگر اماں جی صبح اُٹھ کر ان سب کے سامنے کھلی جگہ پر رکھتیں اور آگ لگا دیتیں.جلسے کی آمد ہوتی تو بہت پہلے تیاری شروع ہو جاتی.قادیان والا جوش اور جذبہ جاگ جا تا.وہاں تو اپنے گھر تھے کھلی جگہ تھی مگر اب چنیوٹ سے ربوہ جانا ہوتا.ہمیشہ اپنا ٹینٹ لگواتیں پوری فیملی کے ساتھ اور جو بھی رہنا چاہتا خوشی سے رکھتیں اور وہاں بھی مہمان داری کی خدمت احسن طریق سے نبھائیں.مہمان نوازی کے عنوان سے مجھے ایک بات اُن کی کبھی نہیں بھولتی.اباجی پہلے سے بتائے بغیر کسی مہمان کو لے آئے.گھر میں کوئی چیز نہیں تھی ، جانے کہاں سے دودھ پتی کا انتظام کیا.جلانے کے لیے جب کچھ نہ ملا تو جس پیڑھی پر بیٹھی تھیں اُس کو توڑا، آگ جلائی اور مہمان کو چائے پیش کر دی.الحمد للہ! میں آج خود نانی اور دادی کے مقام تک پہنچ چکی ہوں میں اور میرے بچے بفضلِ خدا (102)
اُن کی دعاؤں سے فیضیاب ہو رہے ہیں.میں اپنے بزرگوں کے لیے دل سے دعا کرتی ہوں اور پوری کوشش کرتی ہوں کہ اُن سے ہی سیکھی ہوئی سخاوت، ہمدردی، بردباری لوگوں کے کام آنا، مہمانوازی اور وہ تمام نیکیاں کرنی جو اُن سے میں نے سیکھی ہیں، آگے لیکر چل سکوں.اُن تمام رشتوں کو جیسے انہوں نے نبھائے نبھا سکوں اور سب کو سکھ اور سکون پہنچا سکوں.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ جہاں تک ممکن ہو پیار محبت اور مسکراہٹیں لوگوں کو دے سکوں اور اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں میں سے ہوں.آمین.(103) ( راشدہ شان کینیڈا)
محترمه حاکم بی بی صاحب مرحومه والدہ محترمہ بشیر الدین احمد سامی صاحب مرحوم آج میں اپنی اس ماں کا ذکر کروں گی جن کی دعا، شفقت اور بے لوث پیار بفضل الہی مجھے شادی کے بعد نصیب ہوا.یعنی اماں جی حاکم بی بی صاحبہ اہلیہ سردار مصباح الدین صاحب (سابق مبلغ انگلستان) جو میرے شوہر محترم بشیر الدین سامی صاحب کی والدہ تھیں.شادی کے وقت سامی صاحب مرحوم کی نوکری پشاور میں تھی اس لیے میں شادی کے فورا بعد پشاور چلی گئی تھی.وہاں سے لندن آگئی میں تو دور تھی مگر وطن میں میرے میکے اور سسرال والوں کا آپس میں ایک دوسرے سے بے حد محبت اور پیار کا رشتہ شروع ہو گیا جو ہمیشہ ہمیش کیلئے مضبوط تر ہوتا گیا.اس طرح میں بے شک چنیوٹ میں اپنے سسرال کے گھر نہیں رہی مگر آنا جانا ملنا اور محبت پیار میں کوئی کمی نہیں تھی.میں دور تھی یا پاس، اماں جی اور ابا جی کی طرف سے پیار کی بارش ہمیشہ میرے اوپر برسی.میں نے بھی دل و جان سے اُن سے پیار کیا اور ہمیشہ اُن کی دعائیں لیں.اماں جی جب چنیوٹ میں شدید بیمار ہو گئیں سے اُن سے پیار تو کچھ عرصہ کے لیے وہ ہمارے پاس پشاور آگئیں، ڈاکٹروں سے جتنا ممکن تھا علاج کیا مگر مرض لا علاج ہو چکا تھا.کینسر اپنی آخری حدود کو چھو چکا تھا.ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق ان کو ہم واپس چنیوٹ لیکر آگئے.یہ اُن کی زندگی کا آخری سفر تھا.میری شادی کے تین سال بعد اُنکی وفات ہوئی.میں نے بہت کم وقت اُن کے ساتھ گزارا مگر یقین کریں مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں ہمیشہ اُن کے ساتھ ہی رہی ہوں.سامی صاحب مرحوم کی بات اپنی اماں جی سے شروع ہوتی تھی اور اماں جی پر ختم ہوتی تھی.جن دنوں اماں جی میرے پاس پشاور آئیں، میری بڑی بیٹی کے بعد میرے (104)
دوسرے بچے کی ولادت ہونے والی تھی.انہوں نے خواب میں دیکھا کہ میری گود میں چاند ہے اور نام منیر احمد تجویز کر دیا.اماں جی کی وفات کے پورے پانچ ہفتوں بعد اللہ تعالی نے اُن کی دعاؤں سے بیٹا دیا جس کا نام ہم نے منیر شہزاد احمد رکھا.ہمیشہ سامی صاحب نے اپنے بہن بھائیوں سے پیار کیا اور ہمیں بھی دور ہونے کے باوجود دوری محسوس نہیں ہونے دی.اپنی نند مسرت اور باقی سسرالی رشتے داروں سے میرا بہت بہت پیار کا رشتہ قائم ہے، الحمد للہ.سامی صاحب کی وفات کے بعد بھی تمام رشتے میرے لیے بہت محترم ہیں.سامی صاحب سے کچھ سنی ہوئی باتیں اور کچھ اپنی نند مسرت کوثر سے پوچھ کر اماں جی کی سیرت پر کچھ لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں.اللہ کرے کہ میں یہ بطور تحدیث نعمت جو کچھ لکھ رہی ہوں، اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے قبول فرمائے.آمین.اماں جی مرحومہ کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک نامور زمیندار گھرانے سے تعلق تھا.کہتے ہیں کہ اُن کے ہاں اولا دزندہ نہیں رہتی تھی.جب اماں جی مرحومہ کی پیدائش ہوئی تو بچی کی سلامتی کے لیے دادا کے حوالے کر دیا.اماں جی نے بتایا کہ میں سات سال کی تھی تو میری شادی ہو گئی مگر رخصتی نہیں ہوئی تھی پھر جب میں نو برس کی ہوئی تو میرے ماموں اور ممانی مجھے میرے سسرال میں لیکر گئے اور پھر ساتھ ہی واپس لے آئے.جب میں تیرہ (13) سال کی ہوئی تو میری رخصتی ہو گئی اور میں نے سسرال سیالکوٹ میں رہنا شروع کر دیا.چونکہ میرے شوہر قادیان میں زیر تعلیم تھے اس لیے اکثر میرے والد صاحب مجھے لے آتے اور میرے سسر آ کر لے جاتے.ایک مرتبہ جب میں اپنی والدہ کے ساتھ سیالکوٹ سے واپس آرہی تھی تو ایک عورت ہمارے گاؤں کی میری والدہ کو کہنے لگی کہ تمہارا روپیہ کھرا ہے ( یعنی تمہارا داماد بہت اچھا ہے) والدہ نے جواب دیا ہاں میرا روپیہ بہت اچھا ہے.اماں جی مرحومہ نے ایک اور دلچسپ بات اپنے بارے میں بتائی کہ میں اور میری سہلیاں نہر میں نہا رہی تھیں اور ایک دوسری سے ہنسی مذاق بھی کر رہی تھیں کہ دور سے ایک نوجوان کو آتے (105)
دیکھا.لڑکیاں ایک دوسری کو کہنے لگیں کہ ہوسکتا ہے یہ تمہیں لینے آیا ہو.وہ کہتی ہیں میں نے پہچانا نہیں جب انہوں نے ہمارے ہی گھر کا پتہ پوچھا تو میں چھپ گئی کہ وہ میرا ہی مکلاوہ لینے آئے تھے.جب میں اپنے سسرال میں تھی تو ایک ہندو عورت آئی اور اُس نے پوچھا کہ تمہارا خاوند کہاں رہتا ہے.جب میں نے بتایا کہ وہ قادیان پڑھنے گیا ہوا ہے تو وہ بہت حیران ہوئی اور کہا تم وہاں نہ جانا کہ جو وہاں جاتا ہے وہ اپنا مذہب بدل لیتا ہے.میں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا میری توبہ میں کبھی اپنا مذ ہب نہیں بدلوں گی اور نہ ایسی جگہ جاؤں گی.اماں جی کہتی تھیں کہ ابھی تمہارے اباجی کی تعلیم مکمل بھی نہیں ہوئی تھی تو وہ مجھے لینے آگئے مگر گھر والے مجھے کسی صورت قادیان بھجوانے کے لیے تیار نہیں تھے.ایک تو گھر والے میرے ساتھ پیار بہت کرتے تھے دوسرے اُن کو ڈر تھا کہ میں وہاں جا کر مذہب نہ بدل لوں.جب تمہارے ابا جی نے مجھ سے پوچھا ئیں تو دل سے تیار تھی فورا ہاں کر دی.گھر والوں نے دھمکی دی کہ اگر جانا ہی ہے تو گھر سے کوئی سامان آپ اپنے ساتھ لیکر نہیں جاسکتے.میں نے سارا زیور اور اپنے تمام کپڑے گھر والوں کو واپس کر دیے اور کہا جہاں میرا شوہر ہو گا وہاں میں رہونگی.ہم میاں بیوی خالی ہاتھ اسٹیشن آگئے میرے سر ٹرین تک آئے کہ ہم اپنا ارادہ بدل لیں لیکن اب ہمیں کوئی نہیں روک سکتا تھا.جب میں قادیان پہنچی تو پہلے پہل میں مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کے مکان میں ٹھہری.اب میری ذمہ داریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.گھر داری کیا ہوتی ہے اور کھانا کیسے بنتا ہے، مجھے بالکل نہیں آتا تھا.میں صرف ساگ بنا سکتی تھی اُس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں آتا تھا.پڑھائی بھی میں نے کوئی نہیں کی ہوئی تھی صرف قرآن مجید کے پندرہ سپارے پڑھی ہوئی تھی.ایک مرتبہ محمد حسن صاحب کی بیگم نے ہماری دعوت کی.وہ کافی پڑھی لکھی اور ہنر مند بی بی تھیں.اُن کی اپنی لائبریری تھی.جب میں اُن کے گھر گئی انہوں نے سمجھا کہ شائد میں بھی کوئی پڑھی لکھی ہوں جبکہ میں ایک لفظ بھی نہیں جانتی تھی.وہ اپنی لائبریری دکھاتی رہیں اور ایک ایک (106)
کتاب کے بارے میں بتائی گئیں میں دل میں بہت شرمندہ تھی کہ کیا بتاؤں کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی جو وہ بتا رہی ہیں.ایک دفعہ میں کسی کے گھر گئی.ساتھ والے گھر سے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے تقریر کرنے کی آواز آ رہی تھی.میں سُن کر گھر آگئی.اُس وقت تک میں حضور کو نہیں جانتی تھی اور نہ احمدیت کے بارے میں کچھ علم تھا.گھر آکر بتایا کہ وہاں کوئی مولوی مانگنے والا آیا ہوا تھا.تمہارے اباجی نے مجھے سمجھایا کہ ایسے نہیں کہتے وہ ہمارے حضور ہیں.میری ان کم علمیوں کی وجہ سے میں کافی دل برداشتہ ہوگئی اور چوری چوری قاعدہ پڑھنا شروع کر دیا.ایک دن اچانک تمہارے اباجی آگئے.اُس وقت جب کہ میں قاعدہ پڑھ رہی تھی میں تو ڈر گئی کہ جانے اب یہ کیا کہیں گے مگر تمہارے ابا جی بہت خوش ہوئے.پھر آہستہ آہستہ کچھ دین کی بھی سمجھ آنے لگی اور جب میں نے احمدیت قبول کر لی تو میری دنیا ہی بدل گئی.اماں جی کہتی ہیں کہ تمہارے اباجی نے حضور خلیفہ المسیح الثانی کو کھانے کی دعوت دے دی.میں، جو کھانا بنانے میں بالکل اناڑی تھی ،مشکل میں پڑ گئی.اللہ کا نام لیا.کباب بنانے کیلئے قیمہ منگوایا.پانی سے دیچی بھری اور اُس میں قیمہ ڈال کے پکنے کو رکھ دیا.انتظار کرتی رہی کب پانی خشک ہو اور کباب بناؤں.پانی بھی خشک ہو گیا بہت کوشش کی کہ کباب بنا سکوں مگر کامیاب نہیں ہوئی.آخر مائی راجو کو مدد کے لیے بلایا مگر کباب پھر بھی نہ بنے تو مائی راجو کی مدد سے دوبارہ بازار سے چیزیں منگوا کر کھانا تیار کیا اس طرح میں نے حضور کی پہلی دعوت کی.پھر وقت کے ساتھ ساتھ میں تھوڑی بہت سمجھدار بھی ہو گئی اور بچوں کی ماں بھی بن گئی.آج بھی وہ زمانہ یاد کرتی ہوں تو تمام گزرے منظر آنکھوں کے آگے آتے ہیں.میری پہلی تربیت کرنے والی محترمہ بیگم جی صاحبہ تھیں.اُنہوں نے قرآن مجید ناظرہ، اردو اور دیگر دینی باتیں سکھائیں.جب تمہارے ابا جی سردار مصباح الدین صاحب مبلغ ہو کر لندن چلے (107)
گئے تو پھر مجھے خط لکھنا آ گیا.سب سے پہلا خط میں نے حضور کی خدمت میں لکھا.اُس زمانہ میں لوگ ایک دوسرے سے خط لکھواتے تھے ، میں نے خود لکھا.حضور نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا تم نے بعد میں آکر اتنا اچھا لکھنا شروع کر دیا.اس تعریف نے میری مدد کی اور میرے مضمون مصباح میں چھپنے شروع ہو گئے.جب تمہارے ابا جی جب مبلغ ہو کر انگلستان چلے گئے تو مجھے صرف ہیں (20) روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا جس سے میں نے بچت کر کے دس مرلے زمین خرید کر گھر بنایا اور گھر کی ہر چیز بنائی.جب تمہارے ابا جی لندن سے واپس آئے تو ہاتھ میں صرف ایک گڑیا پکڑی ہوئی تھی.میرے منہ سے نکلا آپ تو ایسے لگتا ہے جیسے ساتھ والے گاؤں سے آئے ہیں.پھر وہ زمین اور مکان بیچ کر محلہ دار الفتوح میں چار کنال زمین خریدی.دو کنال چھوٹے بھائی (ڈاکٹر سراج الدین ابا جی کے چھوٹے بھائی نے بھی احمدیت قبول کر لی تھی) کو دی اور دو کنال میں ہم نے گھر بنایا.چونکہ زمینداری میرے خون میں تھی اس لیے ہمیشہ گھر میں دودھ دینے والا جانور رکھا.پھر مجھے اُس ہندو عورت کی بات یاد آئی جس نے کہا تھا کہ قادیان نہ جانا وہاں جو جاتا ہے واپس نہیں آتا.میرے اندر احمدیت ایسے رچ بس گئی کہ اُس کے بعد کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو مجھے پیچھے دیکھنے پر مجبور کرتی.میں اپنے گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے جہاں دین سے مالا مال کیا وہاں دُنیاوی لحاظ سے بھی کوئی کمی نہیں رہنے دی.الحمد للہ.ہم دونوں کبھی واپس اپنے گھروں میں نہیں گئے.ہم نے کبھی اپنے ددھیال اور تفصیال نہیں دیکھے.میرے اب تمام رشتے اور بہن بھائی وہی تھے جو میرے قرب جوار میں رہتے تھے ، مثلاً مولوی غلام نبی صاحب ،مصری ، مکرم فضل محمد صاحب ہرسیاں والے، مولوی محمد ابراھیم صاحب بقا پوری، مکرم عبد الرحمن صاحب مہر سنگھ، مکرم عبداللہ صاحب بسمل، مکرم فضل الرحمن صاحب حکیم اور مکرم ابوالعطاء صاحب جیسے بزرگ گھرانے آباد تھے.یہ سب میرے اپنے تھے جو دکھ سکھ کے بھی (108)
ساتھی تھے.مولوی احمد خان نسیم صاحب اور نذیر احمد رحمانی صاحب جو سکول ٹیچر تھے، اب یہ سب میرے رشتہ دار اور اُن کی بیویاں اپنوں سے زیادہ پیار کرنے والی اور ہمدرد اور میرے دکھ سکھ کی ساتھی تھیں.اماں جی نے ایک اور واقعہ سنایا کہ تمہارے بڑے بھائی کی بسم اللہ کروائی تو حضور خلیفہ المسیح الثانی کو گھر بلوایا کہ وہ بسم اللہ کروائیں.اُس کے لیے بھائی کو تیار کیا کہ یہ لو ایک روپیہ جب حضور آپ کو پڑھائیں گے آپ نے یہ نذرانہ دینا ہے.ہوا یہ کہ جیسے ہی حضور تشریف فرما ہوئے بچے نے فورا رو پیز نکال کر حضور کو پیش کر دیا کہ یہ روپیہ آپ لے لیں مجھے پڑھنا نہیں آتا.اب حضور کی شفقت دیکھیں بچہ کے ہاتھ میں روپیہ پکڑایا اور پیار سے کہا کوئی بات نہیں اگر تمہیں پڑھنا نہیں آتا تو میں سکھاتا ہوں.پھر بچے نے آرام سے سبق سیکھا.بڑی بیٹی کی شادی میں بھی اظہار شفقت کرتے ہوئے حضور نے شرکت فرمائی.کن کن باتوں کا ذکر کروں.وہ دن ایسے تھے کہ ہماری زندگیاں اب اللہ تعالیٰ کی عبادت اور حضرت رسول کریم صلی ایتم کی رسالت اور حضرت مسیح موعود کے فرمان اور خاندان حضور خلیفہ اسیح الثانی کی اطاعت اور جاں نثاری میں گزرتی تھیں.اماں جی مرحومہ رویا ء صالحہ بلکہ کشوف کی نعمت سے بھی بہرہ ور تھیں رویاء میں آنحضرت صلی ا یتیم اور حضرت مسیح موعود کی زیارت سے مشرف ہوتی رہیں.پھر ایک دم زندگی نے کروٹ بدلی اور ہماری دنیا الٹ پلٹ ہوگئی.قادیان جو ہماری زندگی تھا، جو ہمارے ارمانوں اور خوشیوں کا گہوارہ تھا، جس کے لیے ہم نے اپنا گھر بار ماں باپ بہن بھائی سب چھوڑے تھے ، وہاں سے ہجرت کر کے نئی دنیا پاکستان میں آکر آباد ہوئے.ہم اور ہماری طرح ہماری جماعت کے بہت سارے احباب نے چنیوٹ میں ڈیرے ڈال دئے.اماں جی اور ابا جی نے چنیوٹ میں محلہ گڑھا کو اپنا مسکن بنالیا.اُس کی خاص وجہ یہ بھی تھی کہ قادیان کے ان احباب سے جو ہمارے دکھ سکھ کے ساتھی تھے، ہم دور نہیں رہ سکتے تھے.(109)
میری یونجی پاکستان پہنچ کر غربت نے گھر میں ڈیرا ڈال دیا.آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، کنبہ بہت بڑا تھا.اباجی نے ساری زندگی وقف میں ہی گزاری لیکن الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے ہر مشکل میں ہماری مدد کی.ہماری مہمان نوازی اور میل ملاقات میں کوئی فرق نہیں ہوا.اماں جی اپنے محلہ میں اور اردگرد کے لوگوں میں بہت مقبول ہوئیں.لوگ بہت عزت کرتے تھے اُس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ہر چھوٹے بڑے کے کام آتی تھیں.ایک واقعہ تو ایسا بھی ہے ایک فیملی جن کی اولاد نہیں تھی جب بیٹا پیدا ہوا تو وہ اماں جی کی گود میں ڈال گئے اور کہا کہ یہ آپ کا بیٹا ہے.رہتا وہ اپنے والدین کے ساتھ تھا مگر کپڑے اماں جی سے لے کر پہناتے تھے.باوجود اس کے کہ ہمارے گھر کے گردونواح میں زیادہ تر جالندھر اور پانی پت کے مہاجر آباد تھے مگر بہت جلد اماں جی نے اُن کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی.جہاں سے بھی گزرتیں ہر دوکان دار اور ہر ملنے والا بے بے سلام کہہ کر گزرتا.صبح شام قرآن مجید پڑھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا.اُس میں چھوٹے بڑوں کی تمیز نہیں تھی جو چاہے آ سکتا تھا.اماں جی سب کی ماں تھیں اور سب کو شوق سے پڑھاتی تھیں.اماں جی نماز روزے کی پابند، تہجد گزار، اللہ تعالیٰ پر یقین کامل، درود شریف کا ورد کرنا بلکہ ہرمشکل وقت کو ٹالنے کے لیے کئی کئی سو مرتبہ درود شریف پڑھتیں اور جب کام ہوجاتا تو شکرانے کے طور پر پھر درود شریف کا ورد کرتیں.وصیت کا چندہ باقاعدگی سے دیتیں بلکہ باقی چندوں میں بھی کبھی سستی نہ ہونے دیتیں.گھر میں یہ اصول بنا دیا گیا تھا کہ پہلے چندہ ادا کریں بعد میں اپنی ضروریات کا سوچیں.سادگی استقدر تھی کہ سونا چاندی تو ایک طرف کبھی مصنوعی زیور بھی نہیں پہنتی تھیں.قادیان کے جلسوں کا اپنا ایک مزہ تھا، اُن یادوں کو کون بھول سکتا ہے.تمام مہمان ہمارے گھر میں اس مزے سے رہتے جیسے کہ مالک ہوتے تھے.پھر ہمیں جہاں جگہ ملتی سو جاتے لیکن اب ہمیں خود مہمان بن کر ربوہ جانا ہوتا.مگر اماں جی نے یہاں بھی جلسے کے دنوں میں مہمان نوازی کی روایت کو قائم دائم رکھا.ہر سال جلسہ پر اپنا ٹینٹ لگواتیں اور وہی بہاریں مہمان نوازی کی ، عبادتوں کی (110>>
پھر لوٹ آتیں.سب کے لیے اُس چھوٹے سے ٹینٹ کے دروازے کھلے ہوتے.تمام پھل، ڈرائی فروٹ اور مہمان نوازی کا تمام سامان ساتھ ہوتا.غرض یہاں بھی بڑوں بچوں کی تمام ضروریات پوری کرتی رہتیں.بے شک ہم چنیوٹ میں رہتے تھے مگر ربوہ ہم سے دور نہیں تھا بلکہ ابا جی کا تو روزانہ کا معمول تھا کہ وہ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے ربوہ جاتے اور ہر جمعہ کو اماں جی اور ابا جی جمعہ پڑھنے کے بعد بزرگوں کو ملتے اور بیماروں کی بیمار پرسی کرتے.اُسی لحاظ سے ربوہ سے جو بھی خرید وفروخت کے لیے آتا وہ اماں جی کا مہمان ضرور ہوتا اور یہ سب مہمان بن بلائے ہوتے کسی کی بھی آنے سے پہلے اطلاع نہ ہوتی.مالی لحاظ سے کافی تنگی تھی مگر اماں جی آنے والے مہمانوں کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھیں اور ہمارے ابا جی کو جو بھی احمدی ملنے والا یا جانے والا بازار میں مل جاتا اُن کو دعوت دے کر گھر لے آتے.مسرت کہتی ہیں کہ : ”بھابی ! اماں جی مرحومہ کی دریا دلی کہاں تک بتاؤں.بے شک اپنے گھر میں تنگی تھی مگر جب دیکھا کہ بیٹوں کے گھروں میں بھی تنگ دستی ہے تو بڑے بیٹے کے دو بچوں راشدہ اور اُس کے بھائی طہ کو اپنے پاس رکھا.یہاں تک کہ راشدہ کی تو بی اے تک تعلیم اور شادی بھی کی اُس کو اپنی بیٹی کی طرح ہی رخصت کیا.طہ کو بھی میٹرک تک تعلیم دلوائی اور اسی طرح دوسرے بیٹے کے بھی دو بچوں کی پرورش کا ذمہ لیے رکھا.پوتے پوتیوں کے ساتھ والہانہ پیار کرتی تھیں.پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں نے اپنی بہوؤں اور دامادوں کو بھی جی بھر کے پیار اور دعائیں دیں.ایک پوتی کی اپنے ہاتھوں شادی کی.سب کو اپنے گھروں میں خوشحال دیکھ کر گئیں الحمد للہ.موصیہ تھیں بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اُن کے نقش (111)
قدم پر چل سکیں اور جن قربانیوں سے اُنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنی پوری فیملی سے جدائی کی زندگی کائی اور مرتے دم تک وہ کسی بہن بھائی کو نہیں ملیں.“ اللہ کرے کہ اُن کی پوری آل اولاد اور آگے اُنکی پوری نسل اُس احمدیت کی مضبوط ڈوری سے بندھے رہیں اور عہد بیعت کو احسن رنگ میں نبھانے والے ہوں اور ہم نیکیوں سے اور دعاؤں سے انہیں ثواب پہنچاتے رہیں.اللہ تعالی اُن کے درجات بلند کرے آمین.(صفیہ بشیر ساقی) (112)
محترم سردار مصباح الدین احمد صاحب (مرحوم) کی اولاد 1 فاطمہ صاحبہ (جن کی شادی شاہ محمد صاحب سے ہوئی ) اولاد آمنہ بیگم، شاہدہ بیگم ، بشری بیگم، بشارت الرحمن ان کی اہلیہ روحی فضل الرحمن ان کی اہلیہ نیم.2 سردار عبدالسبحان صاحب سامی مرحوم اہلیہ ناصرہ بیگم صاحبہ (مرحومہ) اولاد: را شد ریحانہ اہلیہ شیخ شان محمد صاحب ( جو اپنی فیملی میں اکیلے احمدی ہوئے نہایت مخلص احمدی ہیں)، عابدہ بشری اہلیہ ملک عبد الرزاق صاحب ( کراچی ) طه مصطفی سامی صدر جماعت لانڈھی ان کی اہلیہ شگفتہ پروین مرحومہ (کراچی)، طاہرہ جبیں اہلیہ سید طاہر احمد صاحب ( کراچی ) یسری ، اہلیہ ملک منور احمد صاحب (کراچی) ، شہانہ کوثر (مرحومہ) ، فرزانہ تبسم اہلیہ چودھری خالد احمد صاحب ( کراچی ) ، مزمل شاہ ان کی اہلیہ نیلوفر (کراچی).4 بیٹا سردار عبد القادر صاحب مرحوم ( 1974ء تک چنیوٹ جمات کے جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر کام کیا ، 1974ء کے فساد کی وجہ سے چنیوٹ سے جانا پڑا.چھ مہینے ربوہ گزارنے کے بعد جب واپس آئے تو 1999ء تک اپنی چنیوٹ جماعت کے صدر رہنے کی سعادت ملی.پھر جرمنی آکر بھی خدا کے فضل سے اصلاح وارشاد میں اور رشتہ ناطہ میں معاون کے طور پر اپنی آخری سانس تک کام کرتے رہے ) اہلیہ سعیدہ بیگم صاحبہ مرحومہ بنت ڈاکٹر سراج الدین صاحب مرحوم ( دونوں میاں بیوی کی وفات میں صرف میں دن کا فرق ہے اور دونوں ہی جرمنی کے قبرستان میں مدفون ہیں.) (113)
اولاد وقار النساء اہلیہ مرزا ظہور احمد صاحب (کراچی) نجم النساء مرحومہ اہلیہ ظفر احمد صاحب (لندن)، نجم النساء کا بیٹا عمران ظفر ابن ظفر احمد خان (ماشا اللہ اپنی جماعت کے ایک فعال ممبر ہیں.نائب قائد حلقہ انر پارک پھر عمومی سیکرٹری سے ریجنل عمومی سیکرٹری مقامی ، ایڈیشنل مہتم عمومی یو کے سے ہوتے ہوئے اب خدا کے فضل سے مہتم عمومی یوکے، کے عہدہ پر فائز ہیں.اللہ تعالی سے دُعا ہے کہ وہ مزید خدمت دین کرنے کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے.آمین.) قمر النساء اہلیہ قاضی صاحب (جھنگ)، عبد الشکور سہیل مرحوم ان کی اہلیہ بشری شاہ (جرمنی) ، عبد الصبور سلمان ان کی اہلیہ روحی (جرمنی) ، عامر صاحب ان کی اہلیہ نرمین (لندن).4 ناصر الدین احمد سامی صاحب مرحوم مدفون ربوہ ، اہلیہ امتہ الحفیظ صاحبہ.مرحوم بھائی جان نے جتنا عرصہ بھی مری میں قیام کیا وہاں سٹی بینک مری میں اپنے حلقہ کے صدر رہے.ان کے وقت میں جب بھی خلفاء کا مری میں قیام ہوتا تو آپ کے گھر مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا.صرف اپنے خاندان کے لوگ ہی نہیں سب احمدی بھائی خصوصار بوہ سے آنے والے حضرات بھائی جان کے مہمان ضرور ہوتے.اولاد: مبارکہ اہلیہ شیح مبارک احمد صاحب، مبارک احمد ان کی اہلیہ امتہ انصیر ( کراچی ) ، عارفہ اہلیہ شفیق احمد صاحب، بریرہ اہلیہ مبارک احمد ملتی فلائٹ آفیسر سرگودھا، قدسیہ اہلیہ بابر صاحب (بحرین) بشیر الدین احمد صاحب سامی مرحوم ( مدفون بروک ڈ ڈلندن ) اہلیہ صفیہ بشیر احمد سامی.اولاد: لبنی عالیہ اہلیہ چودھری گوہر مقصود (لندن) ہنیر شہزاد ان کی اہلیہ شازیہ صاحبہ ( کینڈا)، بلال بشیر احمدان کی اہلیہ مبشرہ ساجدہ بلجیم)، سارہ خان صاحبہ اہلیہ عبدالمصور خان (لندن)، عکاشہ بدر احمدان (114)
کی اہلیہ عروج احمد (لندن) اولاد مسرت کوثر جن کی شادی چودھری مبارک احمد سلیم صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی امتہ الحی نسیم اہلیہ ملک عبد الحفیظ صاحب ( آسٹریلیا)، قرۃ العین قومی اہلیہ ملک عبدالسمیع صاحب (جرمنی) ، صائمہ نورین اہلیہ شیخ اظہر احمد خالد (امریکہ)، در ثمین ظہیر خالد صاحب (کراچی)، صدف اہلیہ احمد و دود چودھری (لندن)، حیدر سلیم ٹیپو ان کی اہلیہ روبی ( ربوہ ) ، خرم سلیم صاحب ان کی اہلیہ سمیر ا صاحبہ (جرمنی).7 بیٹا سردار ظفر اقبال صاحب اہلیہ آمنہ صاحبہ بنت ڈاکٹر سراج الدین صاحب.اولاد: فرحت اہلیہ قاضی منور احمد صاحب (جرمنی) ، ندرت اہلیہ عبداللہ صاحب (جرمنی) سمیرا اہلیہ خرم سلیم (جرمنی)، جری اللہ ان کی اہلیہ رابعہ صاحبہ مرحومہ (جرمنی).اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ جو بھی ابا جی سردار مصباح الدین صاحب اور حاکم بی بی صاحب کی آل اولاد ہے سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے.یہ سب ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہوں.جس جماعت کے لیے انہوں نے اپنی جان مال اور اپنے جذبات کی قربانی کی ہے ہم سب اُس کی قدر کرنے والے ہوں.ہم اُن راہوں پر چلنے والے ہوں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب میں لیکر جائیں.آمین.(115)
ابا جی سردار مصباح الدین صاحب کے نام چند معززین کے خطوط (116)
مکتوب از محترم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالی عنہ ۱۶ جون ۱۹۴۱ بسم الله الرحمن الرحيم فکری سردار حساب - السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپکا والد نامہ مورخہ یکم جون شرف صدور الد یا.جزاکم اللہ.آپکے حسن ظن کا ممنون ہوں.میں خوب جانتا ہوں کہ میں ایک عاجز گنہ گار پُر تقصیر انسان ہوں.میرے ایک بھائی نے اپنی تکلیف کے وقت میں لکھا میرے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالٰی میری حالت پر رحم فرمائے اور میری بینائی درست فرمائے.انکے دور دے اس عاجز کا دل بھی پر دو نو اور بارگاہ ابھی میں التجا شروع کی اسے ارحم الراحمین تونی فرمایا ہے ادعونی استجب لکم یہ تیرا ایک بندہ لاچار اور عاجز تھے یہاں تکے اس نے ایک میرے جیسے نا کبھار سے بھی کہا ہے میری تکلیف بہت بڑھوتی ھے تم بھی میرے لیے دعا کرو.اے اللہ یہ اُس کا اُس عاجز پر احسان ہے اور حسن ظن ہے تیرے فضلوں کی حد نہیں تو اپنے حسن اور تنقی بندروں کی فریاد کے ساتھ اس عاجز کی فریاد بھی سن اور اسے قبول فرما کر اپنے اس در دید عاجز بندے کے دکھ کو دور فرما اور اسے بینائی بخش اور اندھیروں سے نکال کر نور میں داخل کر.وہ خاک کو وقتا فوقتاً یاد دھانی بھی کرتے رہے گو اس کی ضرورت نہیں تھی.جب انہوں نے اطلاع دی کہ اب ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ آپریشن ہو سکتا ہے.اور پھر اطلاع دی کہ آپریشن ہونے والا ہے اور پھر اطلاع دی کہ آپریشن ہو گیا ہے اور بفضل الله کامیاب ہوا ہے تو میرے دل کی وہ کیفیت ہوئی جس کا کچھ پر تو اس طریقے میں ھے جو میں نے انکی خدمت میں لکھا.فسبحان اللہ و بحمدہ و سبحان اللہ العظیم.اس خاک ارکو انکے آپکے ساتھ رشتے کا علم نہیں تھا.لیکن اخوت دینی کا رشتہ تو تھا ہی.اور اخوت انسانی کا رشتہ بھی ہوا.اب آپکے والد نامے کے ساتھ بھی انھا وال نامہ بھی ملا ہے کہ عینک کے معاملے میں کچھ اندیشے کی صورت تھے اور میرا دل مخالف و ترسان ھے.میں پھر کمال عاجزی اور تذلل سے دہلیز پر گرا ہوا ہوں.یا ارحم الراحمین تو نے اپنے عاجز بندے کے دل میں جو جھلک را بید اور خوشی کی پیدا کی جھے اپنے لطف و احسان سے روشن تر فرما اور اس کی تکمیل فرما کہ تیرے آگے کوئی چیز انہونی نہیں.تیری تو شان تھے پرچہ خواہد میکند عجزش کہ دید! غرض آپکے والد نا ہے کے جواب میں ذرا سا پردہ عجز و نیاز کی کیفیت سے سر کا دیا ہے.ورنہ من آنم کہ من دانم - اللہ تعالٰی ہم سب پر رحم فرمائے اور جو مہلت باقی ہے اسے اپنی رضا کے مطابق صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور خاتمہ بالخیر کرے.آمین.والسلام فاکار ظفر اللہ خان (117)
مزن 8 Campion Rond SWIJ London 19-1-1979 کریں + سوشاید پھر ایک دن کے لئے merin کا سفر ملتوی کرنا پڑے.سفر ایک ہی دن واقع ہے اس کے فرزند یا ہے کہ آپ دو میں سے ایک صاحب نہا سفر ملتوی نیانه نه گری اشاره دارد تا تیم اسلام میک کر دی تو ارشد غر تر موسیو تے آپ کا عنایت نامہ دیا.پڑھ کر رقت طاری ہوئی موتہ کیا نے نے ایسے وجود بھی پیدا کئے ہیں جو محض اللهی مورچہ ایسی محبت رکھتے ہوں.یہ احمدیت رود و سلام کا اثر ہے.اللہ صل على محمد وعلى آل محمد وعلى المسيح الموعود اللہ کہتاہے آپ کی عمر اور صحت میں برکت دے.- اور آپ جیسی ہستیاں ہمیشہ کے لئے اس سلسلہ میں ہوا ہوں جو محض اللہ کی خاطر اس تو محبت اور شفقت اپنے دل میں رکھتی ہوں.جن دیاری کے الزام کے لئے آپ نے لکھا ہے رٹ والے ایسا ہی ہوگا کہ میں آج امریکہ Shatri میں لکچر دینے کے لئے جاتا ہوں.بہت مانوی سے دعا کی درخواست کرتا ہوں کو یکھر کا میاب ہوں.اور مسیح کے شاگردوں کے لوگ ر میکنی بائیں.جنازه در کھٹے ہیں جائے گا.امریکہ کے بعد mmercia کا دورہ ہے.کئی main ہے خون دیا کہ چونکہ جناب pate کا اور آپ (118)
ندن 8 Campin Rd.SU 17/10/1979 ترین 17110179 گران و در ان اداکار اسلم مسی که دوستانه پاک ہو گا ملاک است سنا آپ کی دعائیں کو توانا اور انہیں قبولیت بخشی - اور وہ عزت اور قبولیت بخشی جس سے کسی مسلمان کی پہلے نہیں نواز اتمام اسکی پاک راست کا کسی عام شکر ادا کروں.انشارانه خود حاضر ہو کر آپ کی مبان مبارک کے لئے انہار تشکر کروں گا.الہ مقالے ہمارے پیارے خلیفہ کی عمر اور ان کے فیضان میں برکت + میں آپ کے کھے بہت دعا کرتا ہوں ہو میانه مند باسم بسم الله الرحمن الرحيم محمد اللی علیه السلام داریم و علی عبد العلم الورود قلد که بزرگوام و دوم علیکم السلام سمينة الحمد لله تم احمد اللہ کہ آپ کی دعائیں نظر بار ہوئیں.مواد کریم نے اپنے مفصل درمان کے نوازا ، در سلام شاب کی فتون و کاوشوں کو دنیادی رنگ میں بھی سرفراز فرمایا.ہے مید کریم مستور بھی شکر ادا کریں کم سماعت پر لئے ہولی کا سے باعث بہ یک و ترقی کرے اور عصمت و عمر میں بہت اللہ کیلئے ان دا مارا خاندان در سیم کا سلسلم اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیں.اللہ تالے آپ کی اک عمر میں سو سب برکت نے مہارے جانا نا رہے ہیں.ہمارے بچوں کو جو اپنی دعاواں میں خضر یہ یاد رکھیں جزاکم اور اس (119)
ترین 8-6-1980 گران قدر حضرت مولانا اسلام می کرد کشته شده و میرات الکان ایتا نام ملا.آپ کے خطہ روم کی غذا ہوتے ہیں.اس نے بار بار آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.میرا خیال تھا کہ شاید اسی عرصہ میں پارک کا کتے کے پورا گرام ہوگا.اس لئے گا ملاقات کر جائے گا.لیکن پروگرام بدل گیا ہے.جناب شاہ اردن نے یاد کیا ہے اور میں وہاں جاتا ہوں.اسکے بعد امریکہ کا دورہ ہے.پاکت نا صلہ کے موقع پر انسٹا وائر ملاقات ہوگئی ہے آپ نے جو تحریر فریایا ہے.بالکل درست ہے.اور آپ نے جو تحریک فرائی ہے.سورۃ العظمیٰ اور سورہ انشراح کے اس ایک بار ہی کے لئے آپ کا پیر پر شکریہ ادا کرتا ہوں آپ نے میں قلبی کیفیت کا جو ذکر زنا باع وی اس قدر درست ہے کہ بیان نہیں کھو سکتا.آپ نے میرے احساسات کی کسی زالت بزرگ است اسی دوران کیا راکش اور ibya ہیں دورہ ہوا.ہم پاک نایس پر خیال کرتے ہیں کہ وب اسلام سے بے بہرا ہے.یہ غلط ہے.میں بیان نہیں کرسکتا که حرب میں کرکے لکھے لوگ کسی تو جو قرآن کریم بھی رکھے ہوئے ہیں.قرآن کریم ان کی زبانوں پر برتا.اور ان کا عراب انہیں معا ما - ان ملکوں میں جہاں خرامیاں بل میں لیکن ہمارے ملک کی طلا کے منافق نہیں ملتے.اب دمون این بھی وقت دانہ توقع ہے کہ اسی ذوق کے مسلمان ملیں گے یہ ات روانی ی کرتے ہیں.این میں برکت 45 اور مسیح موعود کی جماعت میں آپ کی طرح کے بزرگ دعاؤں کے لئے طلب گار ہوں.میرواگار آپ کا عمر اور آپ کے لیفان خاک دیر سے (120)
الغنى غنى النفس حیران کن انکشاف یہاں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں جہاں آپ فرماتے ہیں: نورالدین کے بھیرہ میں کچھ مکانات تھے اور کچھ زمینیں ، اب انہیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ وہ مکانات یا زمین کس کے پاس ہیں اور میں بھی کہ نہیں ؟ یہ ایمان اور تقویٰ اللہ تعالیٰ صرف اپنے خاص بندوں کو ہی عنایت فرماتا ہے.“ (حیات طیبہ ) یہ ہی بات صادق آتی ہے اِن دونوں بزرگوں پر.اماں جی اور اباجی کے بارے میں تو میں پہلے سب لکھ چکی ہوں کہ کیسے دونوں بیعت کے بعد اپنے تمام رشتہ داروں اور مال اسباب کو چھوڑ کر خالی ہاتھ قادیان آگئے تھے.اماں جی مرحومہ کی وفات پر اُن کے میکے سے اُن کی بہن اور بھائی آئے تھے.اماں جی کی وفات کے بعد بھی چنیوٹ میں میرے سسرال والوں سے ملنا ر ہا.چونکہ اماں جی کی فیملی زمیندار تھی اس لیے وہ اکثر اپنے باغوں میں سے آم اور کنوں اور موسمی فروٹ لاتے رہتے.ابا جی کے ایک بھائی ڈاکٹر سراج الدین صاحب (مرحوم) الحمد للہ احمدی تھے مگر باقی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے لیکن پھر بھی اُن چاز اداور تایا زاد بھائیوں کے ساتھ کبھی کبھار ملنا جلنا تھا.2007ء یا 2008ء کا واقعہ ہے کہ ایک دن میرے جیٹھ ناصر بھائی جان جو اپنی فیملی کے ساتھ ریٹائرمنٹ کے بعد چنیوٹ میں رہتے تھے ، فرماتے ہیں کہ : ایک دن گرمیوں کی ایک شام کسی نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا.کہتے ہیں آنے والے سے آنے کا سبب جب پوچھا تو انہوں نے کہا آپ مجھے نہیں جانتے میں (121)
مشتمل سیالکوٹ سے آیا ہوں اور میں ایک پٹواری ہوں اور آپ کی زمینوں کے بارے میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کے آپ کے خاندان کی زمینیں جو تقریباً 60 کنال پر مش ہیں اور دو کنال کا گھر ہے جس پر آپ کے چچا کے بیٹوں نے قبضہ کیا ہوا ہے ، اُن میں آپ کا بھی حصہ ہے.میں نے بڑی مشکلوں سے آپ کو ڈھونڈا ہے.چونکہ آپ کے والد صاحب پانچ بھائی تھے، اس لیے بارہ بارہ کنال آپ سب کے حصہ میں ہیں اور اس طرح گھر میں بھی آپ حصہ دار ہیں.ساتھ وہ سارے کاغذات بھی لیکر آئے تھے جو اُس زمین کے ساتھ تعلق رکھتے تھے.تقریباً سو سال سے زیادہ عرصہ کے بعد وہ انکشاف بہت بڑا تھا، یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ہماری بھی کوئی زمینیں ہیں.تایا کے بیٹوں کے ساتھ تعلقات اچھے تھے مگر انہوں نے کبھی اس بات کا اظہار نہیں ہونے دیا کہ ہمارے پاس کوئی زمینیں بھی ہیں.سب سے بڑی بات یہ کہ اماں جی اور اباجی نے احمدیت قبول کر کے سب کچھ دین کی راہ میں قربان کر دیا اور بھول گئے کہ ہمارے پیچھے بھی کچھ ہے.ساری زندگی انتہائی غربت میں گزاردی، نہ خود پیچھے مُڑ کر دیکھا اور نہ بچوں کو کسی آس میں رکھا.چاہتے تو بہت خوش حال زندگی گزار سکتے تھے مگر دینی غیرت کی بھی انتہا تھی ، دین کو دنیا پر مقدم رکھا.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجے بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے.آمین.“ اُس غیر احمدی پٹواری کے کہنے پر میرے جیٹھ ناصر بھائی جان وہاں گئے.اپنے آبا ؤ اجداد کا گھر بھی دیکھا اور زمینیں بھی.ظاہر ہے خوشی تو بہت ہوئی واپس آکر ہم سب کو بتا یا.پھر اُس پٹواری کے کہنے پر اپنی زمینوں کا حصہ اپنے تایا زاد بھائیوں سے لینے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کورٹ میں یہ کہہ دیا کہ یہ سب احمدی ہیں اس لیے ان کا کوئی حصہ نہیں بنتا.میرے جیٹھ ناصر بھائی جان کافی عمر رسیدہ ہیں اور بہت بیمار بھی ہیں، ان زمینوں کیلئے بھاگ دوڑ بھی نہیں کر سکتے.پھر بھی بھائی جان نے (122)
اپنی پوری کوشش کی ہے کہ ان تمام معاملات کا کوئی حل نکل آئے.لیکن اُن زمینوں کیلئے بہت بھاگ دوڑ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، اگر مل جائے تو الحمد للہ.اس دنیا وی دولت کو ٹھکرا کر اماں جی اور ابا جی نے دین کی دولت کمائی یہی ہمارے لیے کافی ہے.اللہ کرے کہ اُن کی پوری نسل اس دولت کی حفاظت کر سکے اور اپنے سینوں پر اسی کے میڈل لگائے رکھیں.اس کتاب کے چھپنے سے پہلے جب کہ بھائی جان ناصر سامی ہسپتال میں شدید بیمار تھے تو سیالکوٹ سے وکیل کا فون آیا کہ ناصر صاحب آپکو مبارک ہو آپ کے حصے کی زمینوں کا فیصلہ آپ لوگوں کے حق میں ہو گیا ہے اور اب آپ آئیں اور دستخط وغیرہ کا جو کام ہے وہ کر لیں.اپنی ہوش میں یہ خوش خبری تو سن لی کہ کھوئی ہوئی جائداد واپس مل گئی ہے، مگر اس کی اللہ تعالیٰ نے مہلت نہیں دی کہ جا کر وہ جائداد اپنے نام کروا سکتے کیونکہ دو دن کے بعد بھائی جان اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے.اس طرح یہ زمینوں کا قصہ ، قصہ پارینہ بن گیا.جو چیز بڑوں نے اللہ تعالیٰ کے نام پر چھوڑ دی تھی وہ کیسے مل سکتی ہے) ( صفیہ بشیر ساقی) (123)
مکرم و محترم ساقی صاحب مرحوم آن گنت چہروں کو جب دست ہوس نے نو چا میں نے یزداں کے کلیجے کو دہلتے دیکھا سامی صاحب کی خوبیوں میں سرفہرست اپنی زندگی صرف دین کیلئے وقف رکھنا اور خدمت خلق کو اپنا مقصد بنانا ہیں.زندگی کے نشیب و فراز میں لپٹی ہوئی سو گوار حقیقتیں بھی ہیں اور خوشگوار لمحات بھی.احسان ومروت سے بھر پورحسین یادیں بھی ہیں اور ان یادوں سے درد اور کسک کا احساس بھی ملتا ہے.ہرلمحہ کوشش تو کی کہ سامی صاحب کے بارے میں کچھ لکھوں مگر میرے قلم میں بھلا اتنی ہمت کہاں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں ، ہاں سوچ میں کبھی کمی نہیں آئی.اُن یادوں اور محبتوں کے سہارے کوشش کرنے لگی ہوں کہ آج میں سامی صاحب کے بارے میں کچھ لکھ سکوں.سامی صاحب نے ہمیشہ خدا تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ اور ہر حال میں خدا تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے عاجزی اور انکساری سے بہت خوشگوار مطمئن اور کامیاب زندگی گزاری اور ہم سب کو بھی اچھی زندگی گزارنے کے سلیقے سکھائے.الحمد للہ.اللہ پاک سے ہر وقت اُن کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعائیں کرتی رہتی ہوں.سامی صاحب کی پیدائش 22 نومبر 1932ء کو قادیان میں سردار مصباح الدین صاحب مرحوم سابق مشنری انگلستان) کے ہاں ہوئی.آپکی والدہ ماجدہ کا نام حاکم بی بی صاحبہ تھا.آپ پانچ بھائی اور دو بہنیں تھیں.قادیان کی ہجرت کے بعد سامی صاحب کے والدین نے اپنا ٹھکانا چنیوٹ میں بنایا.ہجرت کے بعد جماعت کے بعض دفاتر کا عارضی قیام چنیوٹ میں ہوا اور عارضی طور پر تعلیم (124)
الاسلام ہائی سکول بھی شروع ہو گیا.سامی صاحب نے میٹرک کا امتحان بھی تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ سے ہی پاس کیا.کالج کی پڑھائی کیلئے وسائل نہیں تھے اور ابھی عمر بھی کم تھی.اس لیے سامی صاحب نے ربوہ میں جو مرکزی دفاتر قائم ہو چکے تھے ان میں وقتی طور پر دفتر حفاظت مرکز میں کام شروع کر دیا جو بعد میں بیت المال میں تبدیل ہو گیا.تھوڑا عرصہ کام کیا تھا کہ بیمار ہو گئے اور کام چھوڑنا پڑا.اس بیماری کے دوران حضرت خلیفہ مسیح الثانی مصلح موعود نے خاص شفقت اور مہربانی سے دو مرتبہ تین تین سو کی گرانقدر رقم عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا اور جلد صحت مند ہو گئے.الحمد للہ.حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم جو کہ سامی صاحب کے ساتھ بہت محبت کا سلوک کرتے تھے، اُنہوں نے کوشش کر کے آپکو ملازمت کیلئے کراچی بھجوا دیا.وہاں جا کر نیوی کے ہیڈ کواٹر میں ، جو بعد میں ایئر ہیڈ کوارٹر میں تبدیل ہو گیا ، ملازمت شروع کر دی.1953 کا ایک تاریخی واقعہ نوبت خانہ کی ریکارڈنگ.ایک تاریخی یاد داشت سامی صاحب 11 مارچ 1997ء کے روز نامہ الفضل ربوہ ، میں اپنی ایک یادداشت یوں تحریر فرماتے ہیں: سال 1953 ء جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ہنگاموں سے پر تھا.احمدیت کے خلاف کئی طوفان اُٹھائے گئے.ان کے بالمقابل، نئے ، جوش، نئے ولولوں کی تہوں میں یقین سے بھرے ہوئے پر سکون دھارے اپنی ہی رو میں تھے.کون تھا جو انہیں تھام سکتا ؟ ادھر ربوہ کی بستی حضرت بانی سلسلہ کی اس پیش خبری کا منظر پیش کر رہی تھی : اور دور دور سے تیرے پاس لوگ آئیں گے کہ راستے میں گڑھے پڑ جائیں گے.“ (125)
28 دسمبر 1953ء کی سہ پہرتھی اور 42 ہزار مخلصین کا پر شوکت جم غفیر مکمل سکوت میں گم تھا.حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفتہ اسیح الثانی کی پر جلال آواز سیر روحانی کے موضوع پر نوبت خانوں کی تھاپ کے ساتھ گونج رہی تھی.دینی نعروں کی پر عظمت تکرار جلوے دکھا رہی تھی.یہ سب صدا ئیں جلسہ گاہ کے بالمقابل پہاڑ سے ٹکرا کر جب واپس لوٹتی تھیں تو گونج کی صورت میں لوٹ پوٹ ہو جاتی تھیں.آخر خدا کی نوبت تھی جو آسمانی بادشاہت کے موسیقاروں کے حوالے کی جا رہی تھی.نوبت پر ضرب پڑتی تھی.تو اس کی تال سے کان پھٹتے تھے.پہاڑوں کے دل لرزتے تھے.اس تجربہ سے وہی نفوس محفوظ ہو سکتے تھے جو اس وقت جلسہ گاہ میں موجود تھے.یہ پر جلال خطاب آج جماعت کے پاس آڈیو کیسٹ پر محفوظ ہے.یہ ہم تک آڈیو کیسٹ کی صورت میں کیسے پہنچا ؟ اس حصے کا تاریخی پس منظر، میرے سامنے ہے جس کو قارئین الفضل تک پہنچانے اور تاریخ میں محفوظ کرنے کے لیے یہ چند لفظ تحریر کر رہا ہوں.اس تاریخی جلسہ کے اختتام کے بعد حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ السیح الثانی نے دفتر والوں سے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے آپ کے اس خطاب کو آڈیو پر محفوظ کیا ہے؟ جواب نفی میں ملا.حیرت تھی تحریک جدید انجمن احمدیہ کے پاس اس وقت ریکارڈ کے لیے دو مشینیں موجود تھیں.اس کے باوجود یہ تقریر ریکارڈ نہ ہوسکی، ایسی صورت میں حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ اسیح الثانی کو کس قدر دکھ اور صدمہ ہوا ہو گا خدا بہتر جانتا ہے.ساری سہولتیں میسر ہونے کے باوجود یہ کوتاہی سرزد ہو چکی تھی.لیکن اس مشین کی خرابی کی وجہ سے ریکارڈنگ نہ ہو سکی.اس وقت اس کی وجہ - یہی بیان ہوئی کہ ریکارڈنگ کے لیے ایک مشین جلسہ گاہ میں موجود تھی.لیکن اس مشین (126)
میری یونجی کی خرابی کی وجہ سے ریکارڈنگ نہ ہو سکی اور دوسری مشین جو درست حالت میں تھی اس کوفوری طور پر مہیا نہ کیا جاسکا یا اس کو استعمال میں لانے میں کوئی دشواری پیش آئی.ہر صورت میں کو تاہی عیاں تھی.حضور نے مزید دریافت فرمایا کہ باہر سے کسی اور دوست نے اس خطاب کو ریکارڈ کیا ہے؟ تو معلوم ہوا کہ بورنیو سے مکرم ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے اپنی مشین پر محفوظ کیا تھا اور وہ ربوہ سے کراچی جاچکے ہیں.ایک دو روز میں ان کا بحری جہاز بورنیو کے لیے روانہ ہو نے والا ہے.حضرت صاحب کے علم میں جب یہ بات آئی تو دفتر کے ایک کارکن کو ( جن کا نام راقم کو اب یاد نہیں فوری طور پر ریل گاڑی سے کار آمد مشین کے ساتھ کراچی بھجوایا کہ جاؤ اور بدرالدین صاحب کو پکڑو.چنانچہ وہ دوست کراچی تشریف لائے تو مکرم ڈاکٹر بدرالدین صاحب رخت سفر باندھ رہے تھے.( اب تو اس دنیا سے رخت سفر باندھے بھی انہیں مدتیں گز گئیں ) مکرم ڈاکٹر صاحب کا بحری جہاز انگلی شام کو بندرگاہ چھوڑ رہا تھا جس پر اُن کا سفر کرنا ضروری تھا.ورنہ اگلے جہاز کے لیے چار ماہ کراچی میں انتظار کرنا پڑتا.بہر حال دفتر کے اس کارکن نے ڈاکٹر بدرالدین صاحب کو آلیا جب کہ وہ احمد یہ ہال میں مہمان تھے.ان کے پاس پچھلا پہر اور رات ہی باقی تھی.اس میں انہوں نے احمد یہ ہال کی اوپر کی گیلری میں اپنی مشین کو لگایا.اس طرح یہ معرکتہ الآراء خطاب دفتر والوں کی مشین پر رات بھر میں منتقل ہوا.یہ عاجز اُن دنوں احمدیہ ہال میں مقیم تھا.اس لیے مکرم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ریکارڈنگ کے دوران موجود رہا اور ضرورت کے مطابق مدد بھی کی.اُسی واسطہ سے یہ عاجز اس واقعہ کا شاہد ہے.ایسانہ ہوسکتا تو آئندہ آنے والی نسلیں اس عظیم الشان ولولہ انگیز خطاب کو اپنے کانوں سے سننے سے محروم رہ جاتیں.الفضل ربوہ کے توسط سے اس تاریخی حقیقت کو (127)
رقم کر رہا ہوں کہ اس خطاب کی اصل (ماسٹر کاپی ) مکرم ڈاکٹر بدالدین صاحب کے پاس تھی.خدا کرے کہ ان کے ورثاء کے پاس اب بھی محفوظ ہو “ (بشیر الدین سامی) (الفضل ربوہ،اا مارچ 1997ء) سامی صاحب 1954ء میں کراچی گئے.ملازمت کے ساتھ الحمد للہ اُن کو کراچی کی جماعت میں دین کا کام کرنے کی بھی سعادت ملی.وہ ایک منتظم، معتمد، ناظم مال اور نائب معتمد کی ذمہ داریاں علی الترتیب انجام دیتے رہے.1954ء میں ہی اُن کو مجلس خدام الا احمد یہ کراچی کا معتمد مقرر کیا گیا.سامی صاحب کو کراچی میں آٹھ سال دین کی خدمت کا موقعہ ملا.جس میں اخبار الصلح کے کام کا زمانہ بھی آتا ہے.چار سال تک متواتر علم انعامی حاصل کرنے کا اعزاز بھی آپ کے دور میں ملتا رہا.سب سے اہم خدمت اُن کو شعبہ اعتماد میں سر انجام دینے کا موقعہ ملا.میرے سامنے وہ رپورٹ پڑی ہے جس میں سامی صاحب کو کراچی سے الوداع کرتے وقت سپاس نامہ پیش کیا گیا.اور اُس میں سامی صاحب کی بے شمار قابلیتوں اور صلاحیتوں کا ذکر ہے اور ایک قائد صاحب کے الفاظ میں: سامی صاحب ایک ایسے عہدہ دار ہیں جن کے سپر د کام کر کے آرام کی نیند سویا جا سکتا ہے“.الحمد للہ.سامی صاحب کا کراچی کا ہی ایک خوشگوار واقعہ ہے.کراچی میں مجلس عاملہ کے چند خدام کو حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ اُن کی میز پر کھانے کا شرف حاصل ہوا.کہتے ہیں ہم کھانے کی میز پر بیٹھے تھے اور منتظر تھے کہ پیارے آقا کی آمد آمد ہے، آپس میں ہم سر گوشیاں بھی کر رہے تھے کہ اتنے میں ڈرائنگ روم کا پردہ سر کا اور ایک لمحہ بھر میں حضرت صاحب ہمارے درمیان تشریف فرما تھے.پاؤں میں چونکہ جوتا بھی نہیں پہن رکھا تھا اس لیے آمد کا پتہ نہ چل سکا.جو کرسی حضور (128)
مخصوص تھی اُس پر نہیں بیٹھے بلکہ خدام کے درمیان ہی ایک کرسی پر تشریف فرما ہو گئے.یوں عاجز نے خود کو حضور کے سامنے والی کرسی پر پایا.ہماری حالت عجیب تھی.حضور ہماری ہچکچاہٹ بھانپ گئے اور بے تکلفی سے کھانے کا ارشاد فرمایا.ایسے میں ہم نے کیا کھایا یہ ہم ہی جانتے ہیں.اسطرح کا ایک واقعہ ربوہ کا بھی ہے.بیان کرتے ہیں: ربوہ میں قیام کے بعد پنجاب کے صحافی نمائندوں کے ساتھ جب حضرت مصلح موعودؓ کی پہلی پریس کانفرنس منعقد ہوئی تو ربوہ ان دنوں چھوٹے چھوٹے خیموں پر مشتمل خانہ بدوشوں کا ایک ڈیرہ تھا.معزز مہمانوں کیلئے اس موقع پر بڑا شامیانہ لگایا گیا تھا اور انتظامات کی نگرانی مکرم سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سپر د تھی.مکرم ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنی مدد کیلئے دسویں جماعت کے طلباء کو اپنے ساتھ رکھا.اس کلاس میں نسبتاً میں سب سے چھوٹا یا کہہ لیجئے خاموش طبع تھا.ہیڈ ماسٹر صاحب کی جب نظر مجھ پر پڑی تو بلایا اور فرمایا کہ حضور کی میز پر تم سروس دو گے.اس سعادت کے اچانک میرے حصہ میں آنے کی وجہ سے میری پیشانی پسینہ سے بھیگ گئی.میری اس گھبراہٹ کے باوجود ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھ سے حضرت صاحب کے سامنے پھل وغیرہ اور دوسری چیزیں چنواد ہیں.“ اسی طرح سامی صاحب کے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ساتھ گزرے کراچی کے چند اور واقعات یوں ہیں: روزنامه الفضل ربوہ 27 ستمبر 1995ء میں یوں بیان کرتے ہیں: ود گنجہائے گرانمایہ! تحریر فرماتے ہیں کہ ایک اور ملاقات کا چسکا بھی بدستور قائم ہے.یہ ان دنوں کی بات ہے جب سلح روز نامہ اخبار کے طور پر چھپ رہا تھا.اس اخبار کی انتظامیہ خدام الاحمدیہ کراچی تھی.خدام لمصلہ (129)
نے اخبار کوروز نامہ تو بنا دیا لیکن وسائل اتنے محدود تھے کہ اس کی مارکیٹنگ کی کوئی صورت نہ تھی اور مجلس پر اخراجات کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا.حضور انور جب ربوہ سے کراچی تشریف لائے تو مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نے اس سلسلہ میں مشورہ حاصل کرنے کا پروگرام بنایا.مکرم چوہدری عبد اللہ خان صاحب امیر جماعت، مکرم ملک مبارک احمد صاحب، مکرم چوہدری عبد المجید صاحب اور خاکسار کو ساتھ لیا اور حاضر خدمت ہو گئے.دل میں ڈرتے تھے کہ جس ولولہ سے اخبار کو روزنامہ نیوز پیپر بنایا ہے اس پر پورا اتر نا اب مالی وسائل کے لحاظ سے تو ممکن نہیں رہا تھا.کس دل گردے سے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کریں گے.لیکن جب مکرم مرزاعبد الرحیم بیگ صاحب نے اپنا عند یہ عرض کر دیا تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ کس حکیم نے کہا ہے کہ زیر باری قبول کرتے رہو اور اخبار کو چھاپتے رہو.بس یہ سننا تھا ہماری جان میں جان آئی اور چند منٹوں میں یہ ملاقات ختم ہوئی.حساب کتاب کے جو بستے ہم ساتھ لے گئے تھے اسی طرح بند کے بند لے کر واپس ہوئے.اب یادوں میں تھوڑا اور آگے چلتا ہوں.1954ء میں حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفہ اسح الثانی " پر چاقو سے حملہ ہوا.آپ نے مارچ 1955ء میں علاج کے لیے انگلستان جاتے ہوئے کراچی میں قیام فرمایا.یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں اچھی رہائش ایک عظیم مسئلہ تھا.باوجود کوشش کے جماعت احمدیہ کراچی کوئی حسب منشار ہائش کا انتظام نہ کر سکی.مجبوراً کراچی شہر سے دور مالیر کی بستی میں قیام کا بندوبست ہو سکا.یہ علاقہ شہری آبادی سے الگ تھلگ تھا.وہاں گرینڈ ہوٹل کے عقب میں ایک بہت بڑی حویلی تھی.اس میں داخل ہو کر یوں لگتا تھا جیسے مدتوں اس میں کوئی رہا نہ ہو.صحن کی بے ترتیبی ، درودیوار کا اُتر ا پلستر یہ سب اس حویلی کی سنسانی کا پتہ دینے والے مناظر تھے.حضرت صاحب جب بھی کراچی تشریف لاتے تو جملہ انتظامات خدام الاحمدیہ کے سپرد ہوا (130)
کرتے تھے.مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب قائد تھے.خاکساران کے ساتھ معتمد تھا.اس لحاظ سے انتظام اور رابطہ کے لیے فرائض میں اور بھی اضافہ ہو جاتا تھا.حضرت صاحب کا قیام چونکہ کراچی شہر سے دور دراز علاقہ میں تھا اور اس دور میں آمد رفت کے زرائع بھی محدود تھے.شاذ شاذ ہی احباب کے پاس اپنی سواری ہوا کرتی تھی.حسب معمول اپنے دنیاوی کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے ایک رفیق مکرم عبدالمجید بٹ صاحب برادر اصغر مکرم عبد الحکیم اکمل صاحب مربی سلسلہ ہالینڈ کے ہمراہ ہم رہائش گاہ واقعہ مالیر کی طرف جارہے تھے کہ محسوس کیا کہ اس شاہراہ پر دونوں جانب فاصلے فاصلے پر پولیس کے سپاہی تعینات ہیں.حیران ہورہے تھے کہ عام طور پر اس قسم کے حفاظتی انتظام حکومت کے سر براہان کے لیے ہی مخصوص ہوتے ہیں ، جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے.حفاظتی انتظامات رہائش گاہ تک پھیلے ہوئے پائے.پولیس کے منتظمین اس حویلی کے اندر باہر بھی مستعد نظر آئے.خدام بھی چاک چو بند تھے.حضرت صاحب کی رہائش اوپر کی منزل پر تھی.ملاقات کے لیے نچلے حصے میں ایک کمرہ مخصوص تھا.عام ، سادہ سا کمرہ جس میں کرسیاں بچھی تھیں.مکرم عبد الرحیم درد صاحب بھی اس موقع پر اپنی دانشمندیوں اور فراستوں کو اپنی سادگی میں چھپائے چھپائے پھرتے تھے.بوجہ علالت یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت صاحب کو اوپر کی منزل سے نیچے لایا گیا.آپ سفید عمامہ سفید قمص شلوار کوٹ زیب تن فرمائے ہوئے تھے اور حسب معمول ہاتھ میں چھڑی تھی.حالانکہ چند روز قبل جب جماعت نے صدر ریلوے اسٹیشن پر استقبال کیا تھا تو آپ شب خوابی کے لباس میں تھے.کمبل سے گھٹنے ڈھکے ہوئے تھے ہسر پر گرم سکارف تھا جو کانوں کو ڈھانپتے ہوئے نیچے تک سرک گیا تھا.آپ کو کار تک لیجانے کے لیے وہیل چیئر لائی گئی تھی.چند لمحے گزرے تھے کہ جناب غلام محمد صاحب گورنر جنرل پاکستان کی سیاہ فلیگ کا راس حویلی میں داخل ہوئی.گیٹ پر موجود خدام نے سیلوٹ کیا جس کا انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا.کار رض (131)
استقبالیہ کمرہ کے سامنے روکی گئی.مکرم درد صاحب اس معزز مہمان کے استقبال کے لیے آگے تشریف لائے.گورنر جنرل سوٹ میں ملبوس تھے، جناح کیپ پہن رکھی تھی اور کار کی پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے.چہرہ پر سنجیدگی اور وقار تھا.اور نظریں اشتیاق سے لبریز تھیں.خاکسار نے حضرت صاحب" کی طرف نگاہ ڈالی تو آپ کی پیشانی پر صحت مندانہ روپ نکھرا ہوا نظر آیا.گورنر جنرل کی کار کا دروازہ ملٹری ایڈیٹر نے کھولا اور بازوؤں سے تھام کر جناب غلام محمد صاحب کو اپنی نشست سے اٹھایا.جسم میں لرزہ تھا.کھڑا ہونے کی سکت نہ تھی ، پاؤں زمین پر سکتے نہ تھے.قد لانبا ہمگر کوئی جھول نہ تھی.منہ سے پانی اور جھاگ سی نکلتی تھی جسے ایڈیٹرز سفید رومال سے صاف کر رہے تھے.یہ نحیف و نزار مہمان ، آج اپنے چند لرزتے ہوئے قدموں کے ساتھ حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ اسیح الثانی کے سامنے تیمارداری کے لیے حاضر تھا.اس پر رقت طاری تھی ، استقبالیہ کمرہ کی خامشی میں ڈوبی ہوئی کئی ہلچلوں کی دھوم باہر تک سنائی دے رہی تھی.اس کیفیت میں کہاں تک لب ہے، اگر ہلے بھی تو ذرہ سی جنبش نے نجانے جذب و شوق کی کتنی داستا نہیں کہہ ڈالی ہونگی.چند ساعتوں کی یہ ملاقات پلک جھپکتے ختم ہو گئی.حضرت امام جماعت احمدیہ کا یہ بیمار اور بے کس تیمار دار جن سہاروں اور لرزتے ہوئے قدموں سے حاضر خدمت ہوا، انہی پر واپس اپنی شاہی سواری میں بیٹھا دیا گیا.چہرہ پر بلا کی خاموشی سنجیدگی ، متانت اور گہری اداسیوں کے آثار نمایاں تھے.یوں لگتا تھا جیسے اپنی آس اور پیاس بجھا کر اس اطمینان کو پالیا ہے جو نہ حاصل ہوتا تو اسے حسرت ہی رہ جاتی.جذ بہ وشوق ، افسردگی و یاس میں ڈوبی ہوئی اس تاریخی ملاقات کا منظر جب بھی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے تو دل سے اک ہوک سی اٹھتی ہے.واہ! کس قدر روح پرور نظارہ تھا.آہ ! کس قدر دلخراش جدائی تھی !! جناب غلام محمد صاحب صبح سے ہی عیادت کے لیے بے تاب تھے.حضور کا بے حد اصرار تھا کہ (132)
آپ اپنی صحت کا خیال کریں اور تکلیف نہ اٹھائیں لیکن جناب غلام محمد صاحب کی بھی اپنی ایک ہی ضد تھی کہ وہ آئیں گے.چنانچہ عزم و استقلال کے اس پیکر نے اپنی تمام خستہ حالیوں کے باوجود تیمارداری کا شوق پورا کیا.کتنی پیاری تھی ضد جس نے حسرت مٹا کر ہی دم لیا.حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا حضرت خلیفہ المسح الثانی جب انگلستان سے واپس تشریف لائے تو آپ کی کوٹھی تعمیر ہو چکی تھی.واپسی کا پروگرام کسی قدر سرعت اور خاموشی میں طے پایا تھا.اس موقع پر خاکسار کے سپرد جماعت کراچی کی طرف سے دو اہم ذمہ داریاں عائد ہوئیں.اوّل یہ کہ حضرت صاحب کی سفر سے بخیریت واپسی کے لیے دو بکرے جماعت کی طرف سے صدقہ کئے جائیں.چنانچہ خاکسار چند خدام کے ساتھ بکرا پیڑی گیا اور زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اپنے ہاتھ سے دو جانور صدقہ کے لیے ذبح کئے اور پھر گوشت مستحقین میں تقسیم کروایا.وقت اتنا کم تھا کہ شام کی پرواز سے حضور کی تشریف آوری تھی اور جماعت کے درجن بھر کارکنان خدام چوہدری عبد اللہ خان صاحب کی معیت میں استقبال کے لیے ائیر پورٹ پر جاچکے تھے.خاکسار کے سپرد چونکہ رہائش گاہ کی دیکھ بھال کے اہم انتظامات کر دیئے گئے تھے اور مستعد خدام کا ایک گروپ بھی ساتھ تھا اس طرح یہ دونوں ذمہ داریاں مختصر وقت میں خوش اسلوبی سے طے پائیں.حضور انور جب واپس تشریف لائے تو صحت اچھی تھی اور معمول کے مطابق مصروفیت اور ملاقاتیں شروع ہوگئیں.ایک روز خاکسار جب اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے قیام گاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ مولوی عبدالحق صاحب بابائے اردو انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے ہیں.مولوی صاحب کی زندگی کا یہ بہت نازک دور تھا.تجردانہ زندگی، عمر کے تقاضے، اردو کالج اور ٹرسٹ کے تعلقات میں کشیدگی یہ ساری باتیں یکدم ان کی شخصیت پر براہ راست اثر انداز ہورہی تھیں.مالی حالت اس جگہ جا پہنچی تھی جہاں سے شروع ہوئی تھی.یعنی نان نفقہ کا بندوبست بھی (بواسطہ چو ہدری محمد ظفر اللہ خان (133)
صاحب ) جماعت احمدیہ نے کیا تھا اور مولوی صاحب کو اپنی علمی استعدادوں کو اردوئے معلیٰ کی خدمت کے لیے یکسوئی کے ساتھ ابھرنے کا موقع فراہم کیا تھا تا وہ اپنی ذہانتوں کو قلم کے ذریعہ قوم کے سامنے پیش کر سکیں.یہی وہ عوامل تھے جو انہیں بابائے اردو کا مقام عطا کر گئے.آج پھر ان پر وہی ادبار آن پڑی تھی.تنگ دستی ، دل رفتگی نے ان کا سینہ چھلنی کر دیا تھا.انہیں علم تھا کہ ابتداء میں بھی کس نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھا تھا.اُس وقت تو ان کے کندھے جو ان اور مضبوط تھے لیکن اب تو یہ کندھے بوڑھے اور نحیف تھے.یقینا عافیت کی ایک ہی جگہ تھی.حاجت برائی ، دکھ درد کہنے کی ایک ہی جا تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی شفقتوں اور عنایتوں کو وہ کب بھولے تھے.آج پھر وہی کشش انہیں اس دربار میں لے آئی تھی اور وہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی شفقتوں اور عنایتوں سے جھولی بھر کر واپس لوٹے.(134)
سپاس نامه 1960ء میں کراچی کا ایر ہیڈ کوارٹر پشاور منتقل ہو گیا.کراچی کی جماعت نے آپ کی خدمات کو انتہائی قابل قدر انداز میں سراہا اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.سامی صاحب کو 1960ء میں کراچی سے الوداع کہتے ہوئے خدام الاحمدیہ کی طرف سے پیش کردہ سپاس نامہ پیش خدمت ہے : بسم الله الرحمن الرحيم نحمده وَنُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ وعلى عبده المسيح الموعود صاحب صدر و معزز حضرات! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته آج ہم اپنے ایک ایسے بھائی کو الوداع کہنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں جسے اس کے بھائی نے پہلی دفعہ کراچی آتے وقت یہ نصیحت کی تھی کہ اس شہر میں جا کر تم مجلس کی سرگرمیوں میں ضرور حصہ لینا لیکن اس نے اپنے بھائی کو یہ کہ کر خاموش کر دیا تھا کہ میں تو وہاں سب سے پچھلی صف میں بیٹھنے والوں میں سے ہوں گا اور کوئی بھی مجھے نہ تو جاننے والا ہوگا اور نہ ہی مجلس کے کاموں میں شریک ہونے کی تلقین کرنے والا ہو گا.اور آج ہم اس موقع پر جبکہ وہ ہم سے ایک غیر معین عرصہ کیلئے جدا ہو رہا ہے ماضی کے آٹھ سالوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ گو وہ ہمیشہ پچھلی صف میں ہی بیٹھنے کی کوشش کرتا رہا لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے نہ صرف یہ کہ خود اُسے خدمت احمدیت کی توفیق بخشی بلکہ وہ متعد د خدام کو مجلس کی پہلی صفوں میں لانے کا موجب بھی بنا.ایک منتظم، معتمد حلقہ، نائب ناظم مال اور نائب معتمد کی ذمہ داریاں علی الترتیب سرانجام دینے کے بعد نومبر ۱۹۵۴ء میں محترم بشیر الدین احمد صاحب سامی مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے معتمد مقرر (135)
لمصل ہوئے تھے.اس شعبہ میں انکی خدمت کے چار سال کا یہ بظاہر کامیاب و کامران دور اپنے اندر اور متعدد تلاطم خیز طوفانوں کو لیے ہوئے ہے.اور ان کارکنوں میں جنہوں نے ان طوفانوں کا مقابلہ کیا، قائدین کے بعد سامی صاحب کی ذات کو ایک خاص نمایاں مقام حاصل ہے.اصلح ، کے زمانہ میں جبکہ قائد صاحب کو اپنے وقت اور اپنی توجہ کا ۸۸ فیصدی حصہ اسکی ایڈ منسٹریشن پر خرچ کرنا پڑتا تھا.سامی صاحب نے اپنی دانشمندی اور فراست کے تحت قائد ، عہدیداران اور عام خدام کے درمیان اس رابطہ کو قائم رکھا.مجلس کی ترقی کے لیے ضروری تھا اور یہ اس کا ہی نتیجہ تھا کہ کسی نے بھی کبھی بھی ایک دوسرے کا خلا محسوس نہ کیا.اس دوران وہ واقعہ بھی پیش آیا جسے کوئی احمدی بھی بھی فراموش نہیں کر سکتا.یعنی حضرت اقدس امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی پر ایک بد بخت نے چاقو سے حملہ کیا.جس کے نتیجہ میں حضرت اقدس کو یورپ بغرض علاج جانا پڑا.حضور کی روانگی اور واپسی پر مجلس کے ذمہ ایک اہم ڈیوٹی لگائی گئی تھی اور وہ تمام خدام جن کو اس سعادت میں شرکت کرنے کا موقع ملا تھا، اس بات کے ہمیشہ گواہ رہیں گے کہ راز داری کی وہ امانت جو جماعت نے قائد صاحب کے ذریعہ سامی صاحب کے کندھوں پر ڈالی تھی اُسے انہوں نے کس خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.اس قسم کا ایک آزمائشی دور مجلس پر اُس وقت آیا جب 1955 ء کے آخر میں one unit بن جانے کے باعث کراچی کے وہ کارکن جو سالہا سال سے خدمت کی سعادت حاصل کئے ہوئے تھے لاہور چلے گئے.اسوقت قائد محترم چوہدری عبدالمجید صاحب کی نئی ذمہ داریوں میں سب سے زیادہ بوجھ اٹھانے والی ہستی سامی صاحب کی ہی تھی.لیکن سب سے بڑا کارنامہ جو محترم سامی صاحب کے دور خدمت میں شعبہ اعتمادکو سر انجام دینے کا موقعہ ملا.وہ اس رپورٹ کی تیاری ہے جو محترم قائد صاحب کی زیر ہدایت شعب اعتماد میں تیار کی گئی اور جس کے متعلق حضرت اقدس امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے فرمایا کہ: ”یہ میرے پروگرام کاcatalogue ہے“.(136)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عرصہ میں علم انعامی حاصل کرنے کا سہرا وقت کے قائد کے سر ہے.لیکن یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اس کا بہت بڑا حصہ سامی صاحب کی جد و جہد، ان تھک محنت اور مسلسل تگ ودو کا شامل ہونا رہا ہے.محترم سامی صاحب کی خوبیاں صرف اسی حد تک محدود نہ تھیں کہ انہوں نے انتظامیہ کو چلانے اور مجلس کو آگے بڑھانے کی لیے محنت سے کام کیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے ایسے مواقع پر جبکہ مجلس کے نہایت اہم کارکن بھی جذبات کی رو میں بہہ جاتے تھے، سیدھے راستہ کیطرف اُنکی رہنمائی کی.چنانچہ ایک موقعہ پر جبکہ مجلس عاملہ کے اکثر ممبران نے قائد کی ذات پر اُسوقت حملے کرنے شروع کر دیئے تھے.جبکہ وہ اپنی مدت قیادت ختم کر چکا تھا.تو اُس وقت صرف سامی صاحب کی وہ واحد ذات تھی جس نے کھڑے ہو کر جذبات کی فروانی کو غلط راستے پر بہنے سے بچا کر مجلس کو ایک ایسی غلط روایت قائم کرنے سے محفوظ کر لیا جو نا معلوم کسقدر چپقلشوں کا دروازہ کھول دیتی.ان خوبیوں اور ان خدمات کو شمار کرنا جو محترم سامی صاحب میں پائی جاتی ہیں یا اُنہوں نے انجام دی ہیں.یقیناً کسی فرد واحد کے لیے انتہائی دشوار ہے.لیکن یہ دو حقیقتیں کہ ان کی خدمات کی وجہ سے مسلسل چار سال معتمد جیسے اہم عہدہ پر برقرار رکھا اور یہ وہی سال ہے جب مجلس کراچی علم انعامی حاصل کرتی رہی.اور یہ کہ جس سال انکی صحت کے باعث بامر مجبوری یہ قدم اُٹھانا پڑا ، اسی سال مجلس اس انعام کو حاصل نہ کرسکی جسے وہ سالہا سال سے حاصل کرتی آئی تھی.یہ دو مثالیں اسوقت کی معمولی سی جھلک دکھانے کے لیے کافی ہیں جس پر پہنچنے کی خدا تعالیٰ نے محترم سامی صاحب کو تو فیق دی ہے.آج جب کہ ہم رسمی طور پر انہیں الوداع کہہ رہے ہیں ہم ایک بار پھر انکے برادر حقیقی کے الفاظ میں ان سے درخواست کرتے ہیں کہ احمدیت کو آج ان دردمند دلوں کی ضرورت ہے جو اپنا سب (137)
کچھ قربان کر کے اُس کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا کر اسے قائم کر دیں.آج اسے ان دماغوں کی ضرورت ہے جو خود سوچیں اور اسکی ترقی کے لیے جدو جہد کر سکیں.حضرت اقدس امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی کی بیماری احمدیت کے ان فرزندوں کو جن کے دل میں خدا تعالیٰ کے لیے غیرت ہے اور وہ خالق و مخلوق کے ٹوٹے ہوئے رشتے کو جوڑنا چاہتے ہیں یہ پکار کر کہ رہی ہے کہ اب وقت پچھلی صفوں میں بیٹھ کر زندگی گزارنے کا نہیں.آگے بڑھ کر کام کرنے کا ہے اور ہمیں امید ہے کہ آپ پشاور جا کر اس ٹریننگ اور اس تجربہ کو احمدیت کی خدمت کے لیے استعمال کرینگے جو آپ نے کراچی میں حاصل کیا ہے.اس کے ساتھ ہی ہم خدا تعالیٰ سے دعا بھی کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا ! تو نے آج تک اپنے فضل اور احسان کے بے شمار دروازے سامی صاحب پر کھولے ہیں.یہاں تک کہ ایک قائد کے الفاظ میں سامی ایک ایسا عہدیدار ہے جسکے سپر د کوئی بھی کام کر کے آرام کی نیند سو یا جاسکتا ہے.لیکن اب ان پر اور زیادہ رحمتوں اور فضلوں کی بارش برسانا تا کہ وہ اس خودی اور احساس برتری وغیرہ سے بچ سکیں جو انسان کے تنزل کا موجب ہوتے ہیں.تا وہ خدمت احمدیت کو اپنے آخری سانس تک سرانجام دیتے چلے جائیں.آمین.والسلام اراکین مجلس خدام الاحمدیہ کراچی (138) 19/3/60
پشاور کی جماعتی ذمہ داریوں کا سلسلہ الحمد للہ یہاں پشاور میں بھی خدام الا احمد یہ پشاور کے معتمد مقرر ہوئے.پشاور کو حلقہ وار منظم کرنے والی ٹیم کے ساتھ بطور جنرل سیکرٹری کام کرنے کا موقعہ ملا.1969 ء میں قائد مجلس خدام الاحمدیہ مقرر ہوئے اور جماعت احمدیہ پشاور کے سیکرٹری تحریک جدید بھی رہے.کئی بار وقف عارضی کے لیے پشاور کے قریب قریب شہروں میں بھی جانا ہوتا رہا.خاص طور پر ٹوپی اور حضرو کے نام مجھے یا درہ گئے ہیں.سامی صاحب نے جہاں بہت دیانت داری سے اپنی سروس کو نبھایا اور اُتنی ہی لگن اور دلجمعی سے جماعت کی خدمت کرنے کی بھی توفیق ملی اُس کے ساتھ ساتھ اتنی ہی محنت سے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا.منشی فاضل ، ادیب فاضل اور بی اے تک تعلیم حاصل کی.شادی کے بعد ایم اے کیا.مارچ 1964ء کو ان کی ذاتی زندگی میں میری ذمہ داریاں بھی شامل ہوگئیں اور الحمد للہ ان ذمہ داریوں کو بھی بہت احسن طریقہ سے نبھایا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.آمین.چونکہ سامی صاحب کی نوکری پشاور میں تھی اس لیے شادی کے بعد میں بھی اُن کے ساتھ پشاور چلی گئی.اسطرح ہماری نئی زندگی کا آغاز پشاور سے ہوا.جب ہمارے بچے سکول جانے کی عمر کے ہوئے تو فکر ہوا کہ کیسے سکول میں داخل کریں.جب سکولوں کا جائزہ لیا تو بہت مایوسی ہوئی ، ہم دونوں میاں بیوی اسی فکر میں رہتے اور روزانہ سکولوں کے بارے میں بات چیت ہوتی ، ارد گرد کے لوگوں کو ملک سے باہر جاتے ہوئے بھی دیکھ رہے تھے.کیونک ہم پشاور میں تھے.اکثر لوگ براستہ افغانستان اور ایران باہر چلے جاتے تھے.ایک دن میں نے دل کی بات کہہ دی کہ کیوں نہ ہم ملک سے باہر جانے کی کوشش کریں.باہر جانے کی بات شاید اس لیے بھی میرے منہ سے نکل آئی کہ میرے ابا جان اور ددھیال کی ساری فیملی باہر تھی.اُن سب کے بچوں کو میں نے بہت اچھی تعلیم حاصل کرتے دیکھا تھا، باہر جانے کی بات سامی صاحب کے دل کو بھی لگی.پھر ہم نے بہت (139)
سوچ سمجھ کر غور کیا کہ آج کے بعد میں سالوں میں ہم کس پوزیشن میں ہونگے اور کتنی آمد ہوگی ، ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ہوگا.ان سب سوالوں کے بعد یہی سوچا ملک سے باہر جانے کی کوشش کرنی چاہئے اور پھر سامی صاحب نے اپنے والدین سے اجازت مانگی تو اُنکی والدہ صاحبہ نے کہا کہ میں نہیں چاہتی کہ میرا کوئی بچہ ملک سے باہر جائے سو ہم نے اپنا ارادہ بدل دیا.اُن دنوں سامی صاحب ایم اے کی تیاری کر رہے تھے، الحمد للہ ، کامیاب ہو گئے.کچھ عرصہ بعد اماں جی وفات پا گئیں.سامی صاحب کے والد صاحب پشاور ہمارے پاس آئے اور ایک دن سامی صاحب کو بلا کر کہا کہ اگر آپ لوگ ملک سے باہر جا کر اپنی زندگی بنانا چاہتے ہو تو مجھے خوشی ہوگی اور جو مدد میں کر سکتا ہوں وہ ضرور کروں گا.سو اللہ تعالی کا نام لیکر کوشش شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ نے مدد بھی فرمائی.سامی صاحب کا پاسپورٹ تیار ہو گیا اور سامی اپنے آفس سے ریٹائر ہونے کی انتظار میں تھے.ادھر میرے ہاں تیسرے بچے کی ولادت ہونے والی تھی.میرے بیٹے کی پیدائش کے پورے ایک ماہ کے بعد ہم نے سات سال پشاور میں رہنے کے بعد اُس کو خدا حافظ کہہ دیا اور ربوہ آگئے.ربوہ میں میری امی جان کے گھر میں ایک کونے میں میرے لیے رہنے کی جگہ بنوائی اور پورے چھ ماہ کے بعد سامی صاحب اُس خطر ناک سفر کے لیے تیار ہو گئے.جس کا ہمیں ایک ذرہ بھی احساس نہیں تھا کہ ہم کتنی مشکل اور کٹھن راہ پر نکل رہے ہیں.ربوہ اسٹیشن سے روانگی میں اور میرے بچے اور سامی صاحب کے والد صاحب اُن کو خدا حافظ کہنے کیلئے پشاور تک گئے.یہ سفر پشاور سے افغانستان ایران سے ہوتے ہوئے بائی روڈ جرمنی تک کا تھا.کیونکہ آخری منزل جرمنی ہی تھی.اُس سفر والے دن سامی کو شدید تیز بخار تھا مگر جانا تھا کیونکہ سب کچھ طے تھا.ہم نے سامی صاحب کو کوچ میں سوار کروا کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا اور پشاور سے واپس اپنے گھر ربوہ آگئے.سامی صاحب کے جانے کہ بعد احساس ہوا کہ کتنی مشکل را ہیں چنی ہیں ہم نے.میں تو گھر (140)
میں اپنے بچوں کے ساتھ تھی لیکن سامی کہاں ہیں کچھ علم نہیں تھا.یہاں ایک بات بتاتی چلوں کہ اس زمانہ میں فون عام نہیں تھے مگر سامی صاحب کی ایک یہ عادت ضرور تھی کہ وہ جب بھی گھر سے باہر ہوتے یا ئیں اُن سے علیحدہ ہوتی وہ ہر روز بلا ناغہ مجھے خط لکھتے اور اب بھی جس خطر ناک سفر پر وہ تھے جہاں بھی ہوتے دو لائن لکھ کر پوسٹ کر دیتے.اُن کے پاس کوئی زادراہ نہیں تھا.راستے میں فروخت کے لیے وہ کچھ سامان ساتھ لیکر گئے تھے جو بیچ کر گزارا کرنا تھا اور مجھے ڈاک کے ذریعے اپنی خیریت کی اطلاع کرنی ہوتی.وہ سامان کون خرید تا سب سامی کی طرح کے لئے پٹے مسافر تھے اور بھی جو لوگ تھے اس طرح کا سامان لیکر نکلے تھے.شکر ہے کھانے پینے کا گزارا ہورہا تھا.سو ان مشکلات کی وجہ سے میرا ان سے رابطہ ٹوٹ گیا.پھر کافی دنوں کے بعد ترکی سے خط آیا جس میں خیریت کی اطلاع کم تھی ڈرانے والی باتیں زیادہ تھیں.ظاہر ہے میرا تو پہلے ہی دن کا سکون اور راتوں کی نیند حرام ہو چکی تھی ہر وقت دعاؤں پر زور تھا.ترکی سے یوگوسلاویہ، رومانیہ، بلغاریہ، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ سے ہوتے ہوئے تقریباً تین ماہ کے بعد بفضلہ تعالیٰ جرمنی پہنچ گئے.قیام جرمنی راستے میں کئی ساتھی بنے جنہوں نے اچھا ساتھ بھی دیا اور کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے سامی صاحب کا مال بھی لوٹا.شکر الحمد للہ ہمیں احمدی ہونے پر فخر ہے کہ ہر جگہ ہمارے مشن ہاؤس ہیں جو اپنے گھر کی طرح ہی ہوتے ہیں.سامی صاحب بھی جاتے ہوئے جماعت کی طرف سے ایک ایسا ہی خط لیکر گئے تھے تاکہ مشن ہاؤس میں کچھ دیر قیام کر سکیں.لیکن وہاں ایک سامی نہیں وہاں تو اور بھی سامی صاحب جیسے پناہ لیے ہوئے تھے اور حکومت کی طرف سے یہ اجازت نہیں تھی کہ آپ اس طرح لوگوں کو رہائش کیلئے مسجد میں رکھیں، اس لیے سامی صاحب کو بھی مربی صاحب نے اپنا ٹھکانا ڈھونڈنے کے لیے کہہ دیا جو ان کے لیے بہت مشکل تھا.زبان کا مسئلہ اور کوئی جان پہچان نہیں (141)
جو زاد راہ تھی وہ بھی کم سے کم ہوتی جارہی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی اُس کی طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہیں ڈالتا اور کبھی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو انسانوں کے روپ میں مدد کے لیے بھی بھیج دیتا ہے.ایسا ہی سامی صاحب کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا سلوک ہوا.کہتے ہیں کہ جب میں تین چار ماہ کی مسافت سے شدید تھکا ہوا رہائش اور مالی مشکلات میں پھنسا ہوا تھا اللہ تعالیٰ کے آگے مسجد میں سجدہ ریز تھا اپنے پیارے رب سے التجا کے بعد سلام پھیرا تو حیران رہ گیا کہ ایک ایسا چہرہ نظر آیا جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا.اُن کو دیکھ کر پہلے تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا.جب غور سے دیکھا تو میرا دل اُچھل کر میرے حلق تک آگیا اور میں دھیرے سے اُٹھا اور اُن کے سامنے کھڑا ہو گیا.پہلے تو انہوں نے مجھے پہچانا نہیں کیونکہ میں سفروں کا تھکا ہوا تھکن اور پریشانی کا مارا ہوا تھا.ویسے بھی اس سے پہلے میری بہت کم ملاقات ہوئی تھی.میں نے سلام دعا کے بعد اپنا تعارف کروایا، اُنہوں نے پہچان کر گلے لگایا اور خیریت پوچھی اور کہا تم یہاں کیسے؟ میں تو پہلے ہی ڈھونڈ رہا تھا کہ مجھے کوئی تنکے کا سہارا ملے اور یہ میرے لیے شہتیر تھے.یہ تھے میرے خالہ زاد بھائی چوہدری سمیع اللہ صاحب شفا میڈیکو والے.اُن کے بہت بڑے بڑے بزنس تھے ساری دنیا میں وہ آسانی سے سفر کر سکتے تھے.سامی صاحب کہتے ہیں کہ میری ساری بات چیت سُن کر کہا کہ بتاؤ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ میں نے جواب دیا آپ بتائیں ؟ میں کیا کروں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کہاں سے شروع کروں.سامی کہتے ہیں کہ اُن کا جواب سُن کر میرا دل اندر سے اُچھل پڑا.بھائی جان نے کہا میں تمہیں لندن لے جاتا ہوں.میں تو اُن کا منہ دیکھتا رہ گیا کہ اتنی بڑی بات جو میں دل سے چاہتا تھا مگر میری سوچ سے بھی باہر تھا میں نے جواب دیا اگر بھائی جان یہ ممکن ہو تو میرے لیے بہت بہتر ہے.بھائی جان نے کہا ہے تو بہت مشکل مگر میں آج ہی شام لندن جا رہا ہوں تم تیار ہو جاؤ اور میرے ساتھ چلو.دل میں میں نے سوچا میں نے کیا تیار ہونا ہے میں تو اُن سے بھی پہلے تیار ہو کر اُن کی انتظار میں بیٹھ گیا.میں اپنے (142)
دھڑکتے دل کے ساتھ بھائی جان سمیع اللہ کے ساتھ جرمنی کے ائیر پورٹ پہنچ گیا.بھائی جان کے ساتھ اُن کا ایک اور بزنس مین بھی تھا جو اُن کے سفر اور ملک سے باہر کے تمام امور کی دیکھ بھال کرتا تھا.میری ذمہ داری بھی اُس کو سونپ دی اور مجھے بھائی جان ایک طرف لیکر بیٹھ گئے.اُن دنوں ائیر پورٹ سے ہی ویزا لینا ہوتا تھا مگر بہت مشکل سے ملتا تھا.مجھے بھی ویزے سے انکار ہو گیا مگر میں نہیں جانتا کن مشکلات سے اور کیسے میر اویز الگا پانچ چھ گھنٹے کی تگ ودو کے بعد مجھے چھ ماہ کا ویزا مل گیا اور اسطرح میں بہت جدوجہد کے بعد ایک مشفق اور مہر بان کی وجہ سے لندن کی سرزمین پر پہنچ گیا.الحمد للہ.لندن میں آمد لندن میں میرے ابا جان کو آئے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا اور وہ اپنے بھانجے اور اسکی فیملی کے ساتھ رہتے تھے.اُن کے علاوہ بھی میرے کافی رشتے دار تھے سو میرے دل کو سکون آیا کہ کم از کم اب اپنوں میں تو ہیں.اب بات جدائی کی تھی.جدائی کا تو احساس اُس وقت ہی تھا جب یہ گھر سے چلے تھے.سب کام سوچنے کی حد تک تو سب ٹھیک ہوتا ہے لیکن جب عملی طور پر کام شروع ہوتا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ یہ ہم نے کیا کیا؟ سامی جب لندن پہنچ گئے تو ہمیں پاکستان میں یہ احساس ہو گیا کہ اب آپ تو لندن پہنچ گئے ہمیں کب بلائیں گے.پاکستان میں بیٹھ کر یہ نہیں سوچتے کہ جو گیا ہے وہ کن مشکلات سے گزر کر گیا ہے اور اب وہ کس حال میں ہوگا ؟ فکر تھی تو یہ تھی کہ اب آپ ہمیں کب بلائیں گے؟ اور ادھر سامی صاحب کا یہ حال تھا کہ آتے ساتھ ہی کام کی تلاش پیسوں کی خود بھی ضرورت اور ہماری بھی فکر.اس لیے جو بھی پہلا کام ملا شروع کر دیا اور پہلا کام انتہائی مشکل ترین ملا.دسمبر کا مہینہ شدید سردی کی راتیں اور راتوں کو ہی بریڈ فیکٹری میں بریڈ کو لاریوں میں لوڈ کرنا.بارش یا برف باری کچھ بھی ہو ہفتہ میں ساتوں راتیں یہ کام کرنا ہوتا اور سامی صاحب نے زندگی میں آفس جاب کے علاوہ کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا اس لیے اس کام پر ایک ہفتہ سے زیادہ کام نہیں کر سکے (143)
اور بیمار ہو گئے.یہاں میں اپنے چچا جان احمد حسن مرحوم کا اور چچی جان کا ضرور ذکر کروں گی ( اللہ تعالیٰ اُن دونوں کی مغفرت فرمائے ) کہ اُن مشکل ترین دنوں میں سامی صاحب کا بہت ساتھ دیا.پہلے والا کام دلوانے میں اُن کا ہاتھ تھا اور سامی کی بیماری میں تیمار داری اور پھر نئی جگہ کام دلوایا.چونکہ ابھی تک سامی میرے رشتہ داروں کے گھر میں ہی ٹھہرے ہوئے تھے.کام لگتے ہی میرے چچا اور چچی نے اُن کے لیے کام کے قریب رہائش کی تلاش کی.خود جا کر تسلی کی کہ جن لوگوں کے گھر اور ساتھ رہنا ہے وہ کیسے لوگ ہیں.(چونکہ یہاں پر ہر کوئی گھر نہیں خرید سکتا تھا خاص طور پر نئے آنے والوں کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے زیادہ تر لوگ ایک کمرہ کرایہ کا لیکر گھر والوں کے ساتھ ہی رہتے تھے ) خوش نصیبی سے اگر اچھے گھر والے مل جائیں تو زندگی اچھی گزر جاتی ہے ورنہ جہاں اور نقل مکانی کرنے والوں کو مشکلات ہوتیں ہیں یہ بھی بہت بڑی سردر دی ہوتی ہے.الحمد للہ سامی صاحب کو بہت اچھی اور ہمدرد ایک پاکستانی فیملی مل گئی اور دن میں ہی شفٹ والا کام مل گیا.اسطرح اب یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے اور آہستہ آہستہ مالی لحاظ سے بھی خود کفیل ہو گئے اور باقاعدہ ہر ماہ کا خرچہ مجھے اور اپنے ابا جی کو بھیج دیتے.دوسال کے وقفہ کے بعد اب ہماری باری تھی لندن آنے کی.سامی صاحب کے پاس کوئی لیگل پیپر نہیں تھے جو وہ مجھے بھیجتے.ایمیگریشن کیلئے سامی صاحب خود مشکلات کا سامنا کر رہے تھے اُس زمانہ میں کوئی اسا علم نہیں ہوتی تھی.جو بھی آتا ایر پورٹ پر اُس کو چھ ماہ کا ویزہ مل جاتا تھا.اُس کے بعد چھپ چھپا کر کام شروع کر دیتا تھا اور اگر پکڑا جاتا تو ڈیپورٹ ہو جاتا یا کیس پاس ہو جا تا تو رہنے کی اجازت بھی مل جاتی.سامی صاحب بھی اس مشکل کا سامنا کر رہے تھے مجھے کیسے بلاتے.مجھے خطوط میں یہ ہی لکھتے کہ کوشش کرو کہ پاکستان میں کوئی تمہاری مدد کر دے.سچ پوچھیں مجھے خود کوئی سمجھ نہیں تھی کہ میں کیا کروں آخر پھر ایک بار میں اپنے خالہ زاد بھائی چودھری سمیع اللہ صاحب کے پاس گئی.یہاں میں ایک بات ضرور لکھنا چاہوں گی کہ جب سامی صاحب کی بھائی جان سمیع اللہ صاحب نے مدد کی اُس وقت بھی اور جب میں اُن کو ملنے گئی ہم دونوں بہن بھائی کی کچھ نہ کچھ ناراضگی چل رہی تھی مگر اُن کے (144)
بڑے پن کو میں ہمیشہ سلام کرتی ہوں اور آج بھی نمازوں میں اُن کیلئے دعا کرتی ہوں انہوں نے سب باتوں کو بھلا کر پہلے سامی صاحب کی اور پھر میری مدد کی حامی بھر لی.میں نہیں جانتی تھی کہ لندن کیسے جانا ہے صرف اتنا جانتی تھی کہ انشاء اللہ جانا ضرور ہے.اللہ کا نام لیکر پھر بھائی جان سمیع اللہ کے پاس گئی اور کہا کہ بھائی جان جیسے سامی صاحب کو لندن چھوڑ کر آئے ہیں میری بھی مدد کریں.پہلے تو بہت غصہ سے مجھے دیکھا پھر کہنے لگے تم میری ایسی بہن اور کزن ہو جس کے ساتھ میں ناراضگی کے باوجود اس کی بات نہیں ٹال سکتا ، کہنے لگے بولو کیا چاہتی ہو؟ غرض میں نے اپنی ساری قصہ کہانی سنائی اور کہا بھائی جان جو بھی کرنا ہے آپ نے ہی کرنا ہے.میں یہ دل سے جانتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے بعد اگر کوئی میری مدد کر سکتا ہے تو وہ بھائی جان سمیع اللہ ہی کر سکتے ہیں.بھائی جان نے کہا کہ میں پوری کوشش کرونگا آگے تمہاری قسمت.میرا اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ تھا اور یہ کہ محنت اور جدوجہد میں ہمیشہ برکت ہوتی ہے اور میں نے محنت اور جدو جہد کی ٹھان لی تھی.میرا خدا بھی میری مدد کر رہا تھا.نہیں جانتی بھائی جان نے کیسے اور کن کن لوگوں سے بات کی فوری طور پر خود سے کرایہ کا بھی انتظام کیا اور مجھے جہاز میں سوار کر وا دیا.بھائی جان خود تو ائیر پورٹ پر نہیں آئے مگر گھر سے اپنی کار میں ہی رخصت کیا اور ایک تفصیلی خط بھی ساتھ لکھ دیا جس میں جہاز کا نقشہ اور راستہ میں آنے والی متوقع مشکلات اور ان کا حل سمجھایا ہوا تھا.میں آج جو بھی ہوں اور میرے بچے بھی جس جس پوزیشن پر ہیں ان سب میں میرے بھائی جان سمیع اللہ صاحب کا بہت بڑا حصہ ہے اور اس احسان کو میں ہمیشہ دعاؤں کے ذریعہ ادا کرتی رہتی ہوں.اللہ پاک اُن کو جزائے خیر دے.بھائی جان صرف میرے لیے ہی نہیں بلکہ وہ ہر ایک کے کام آنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ اُنکو انکی نیکیوں کا احسن رنگ میں بدلہ دے.اب میں تھوڑا سا اس بات کا ذکر کرلوں جو میں نے ربوہ میں دو سال اپنی امی جان اور اپنی دو بہنوں اور بھائی کے ساتھ گزارا تھا.سامی صاحب جب لندن کے لیے روانہ ہوئے تو بلال میرا بیٹا چھ ماہ کا تھا، منیر تین سال کا اور لبنی پانچ سال کی تھی.بچے پہلے پہل تو اپنے ابو کو بہت بہت یاد کرتے (145)
تھے مگر میری بہنوں عزیز ، بشری اور میرے بھائی خالد کے پیار نے بچوں کے دل جیت لیئے اور اُمی جان نے پیار اور مزے مزے کے کھانوں سے ہمیں بہلا لیا.عزیز نے منیر کو بشریٰ نے لبنی کو اور بلال کو تو نہ صرف گھر والوں بلکہ حق ہمسائیوں نے بھی گود لے لیا تھا.ہر روز رات کو خالد جب تک بچوں کو سوڈا واٹر نہ پلا لے وہ سوتے نہیں تھے.اتنا لاڈ پیار دیا کہ جب میں لندن کے لیے تیار ہوئی تو بچوں نے لندن آنے سے انکار کر دیا.جہاز میں بھی ایک ہی رونا تھا ماموں کے پاس جانا ہے ابو پاس نہیں جانا.لندن آکر کافی وقت لگا اُن کو اور اپنے آپ کو سنبھالنے میں.میں زندگی بھر اُن دوسالوں کو جوا اپنی امی اور بہنوں اور بھائی کے ساتھ گزارا بھی نہیں بھول پاؤں گی.وہ میری زندگی کا سرمایہ تھا جن کی یاد ہر وقت میرے ساتھ رہتی ہے.ربوہ میں جب ہم رہتے تھے تو بلال جو اُس وقت دو سال کا ہوگا اُس کا ایک لطیفہ لکھ دیتی ہوں.امی جان گھر میں باورچی خانہ بنوا رہی تھیں.کچن مکمل ہونے کی خوشی میں مزدوروں کیلئے لڈومنگوا کر اُن کو دیئے کہ کام ختم ہو تو کھا لیں.مزدور نے پکڑ کر ایک الماری میں رکھ دیئے.رکھتے ہوئے بلال نے دیکھ لیا وہ میٹھے کا بہت شوقین تھا اُس کو یہ تو علم نہیں تھا کہ کس کے ہیں.میں کھاؤں یا نہ کھاؤں.اُس کو یہ پتہ تھا کہ لڈو یہاں پڑے ہیں ، اُس نے وہاں سے لڈو اُٹھائے کچھ خود کھائے اور کچھ باہر جا کر بچوں میں بانٹ دیئے.ایک مزدور نے جب دیکھا کہ باہر بچوں کا میلہ کیوں لگا ہوا ہے تو پتہ چلا چھوٹے چھوٹے بچے سب لڈو کھا رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں.میرے ابا جان کو یہ لطیفہ بہت پسند تھا اور ہمیشہ سب کو سناتے اور کہتے یہ لڈو چور ہے.میرا بچوں کے ساتھ لندن آنا چالیس سال پرانی باتیں لکھنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر بہت کچھ بھول چکی ہوں.پاکستان سے تو یہی طے تھا کہ مجھے کوئی بھی ائیر پورٹ پر لینے نہیں آئے گا.میں نے اپنے تینوں بچوں کے ساتھ پہلی بار جہاز کا سفر شروع کیا.بچے راستہ بھر الٹیاں کرتے رہے.ائیر ہوسٹس جو بھی کھانے کو دیتی یہ سمجھ (146)
کر نہیں کھاتے تھے کہ شاید اس میں شراب ہو یا وہ گوشت ہو جو ہم نہیں کھا سکتے.یہاں تک کہ چاکلیٹکو دیکھ کر تو بالکل ہی ہاتھ نہیں لگاتے تھے اور اب میرے سمیت کوئی چا کلیٹ کو چھوڑتا نہیں.جب میں ائیر پورٹ پر اتری تو بچے نڈھال ہو چکے تھے دل میں میں خود بھی بے حد ڈری ہوئی تھی.یہ بھی جانتی تھی کہ ائیر پورٹ کے باہر مجھے کوئی لینے نہیں آئیگا.میں نے خود ہی ہمت کر کے گھر تک جانا ہے.امیگریشن میں کوئی خاص مشکل نہیں ہوئی.گھر سے چلتے وقت اباجی (سامی صاحب کے والد صاحب) نے تاکید کی کے سفر میں يَا حَى يَا قَيُّومُ برحمتك استغیث پڑھتے جانا.میں نے عمل کیا، الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر مدد فرمائی.پاکستان سے اور لندن سے کافی سمجھایا ہوا تھا کہ باہر جب نکلو گی تو ٹیکسی کیسی ہوگی اور تم نے کیسے بات کرنی ہے اور پیسے بھی تم نے گھر آکر دینے ہیں.اللہ کا نام لیا، باہر آئی ٹیکسی والے کو گھر کا ایڈریس دکھایا.اُس نے ہمیں بہت آرام سے اپنی ٹیکسی میں بٹھا یا.ہمارے اندر تو پاکستان کی ٹیکسی اور وہاں کے ڈرائیوروں کا ڈر بیٹھا ہوا تھا.ڈر رہی تھی کہ نہ جانے کیا ہو جائے گا جب کہ انگلش کا مجھے ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا.لندن کے گلی کوچوں سے بھی ناواقف تھی.اللہ تعالیٰ کا نام لیا اور اُس انجان اجنبی گورے ڈرائیور کے ساتھ چل پڑی.لیکن اُسی اجنبی گورے نے اتنا ساتھ دیا کہ میرا ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا ہوا ایڈریس دیکھ کر مجھے میرے گھر کے دروازے پر جا اُتارا جہاں میرے اپنے سب دروازے کے باہر ہی میرا انتظار کر رہے تھے.ٹیکسی والے کو اُسکا کرایہ دیا اور شکریہ ادا کیا.اب آج جس مقام پر میں ہوں سوچتی ہوں کہ اگر ان سب مشکلات کا پہلے سے علم ہوتا تو شاید میں کبھی اتنی ہمت نہ کر پاتی جتنی میں نے چالیس سال پہلے کر لی ہے.سامی صاحب نے میرے آنے سے پہلے ایک فلیٹ کرایہ پر لیا ہوا تھا.ہم ایک رات اپنی کزن کے گھر جہاں میرے ابا جان بھی رہتے تھے گزار کر اگلے دن اپنے اُس گھر میں آگئے جو سامی (147)
صاحب نے لیا ہوا تھا.یہ گھر تین منزلوں پر مشتمل تھا اور نیچے تہہ خانہ بھی رہائش کے قابل تھا.جن کا یہ گھر تھا تین بچوں کو لیکر وہ فیملی پاکستان جا چکی تھی ( اس نظریہ سے پاکستان گئے تھے کہ بیوی بچے پاکستان میں رہیں گے اور وہ خود واپس آجائیں گے ) اور پورا گھر سامی صاحب کی نگرانی میں دے کر چلے گئے.جن میں سے اوپر والی دومنزلیں سنگل لڑکوں کو کرایہ پر دی ہوئی تھیں جن کا کرایہ لینا بھی سامی صاحب کی ہی ڈیوٹی تھی.تہہ خانہ اور فرسٹ فلور ہمارے پاس تھا جس کا کرایہ صرف دو پاؤنڈ ہفتہ کا تھا.ہم ویز اوغیرہ سے بھی بے فکر تھے کہ ہماری کوئی شکایت نہیں کرے گا اور زندگی آرام سے گزر جائے گی.لیکن ایسا نہ ہوا ایک دن اچانک پولیس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اُس لڑکے کے بارے میں پوچھا جو اوپر والے فلیٹ میں رہتا تھا.لڑکے نے جیسے ہی پولیس کی آواز سنی اُس نے پچھلی دیوار سے چھلانگ لگائی اور بھاگ گیا.پولیس والوں نے سوچا ہوگا جس نے دروازہ کھولا ہے لگے ہاتھوں اس کی جانچ پڑتال کر لیتے ہیں.سامی صاحب ابھی کام سے آئے ہی تھے.پولیس والوں نے ان کا پاسپورٹ مانگا دیکھا اور چلے گئے.ہم ڈر گئے اور کچھ دنوں کے لیے گھر چھوڑ کر دوسرے شہر اپنے کزن کے گھر چلے گئے.وہاں کتنا رہ سکتے تھے ایک ہفتہ کے بعد گھر آگئے.بچوں نے سکول جانا شروع کر دیا ہوا تھا اس لیے زیادہ دن گھر سے باہر نہیں رہ سکتے تھے.لیکن اب ہماری مشکلات اور امتحان کا وقت شروع ہو گیا تھا.دو ماہ ڈرتے ہوئے گزر گئے کہ اچانک سامی صاحب بیمار ہو گئے.پہلے تو لگا کہ معمولی سی بات ہوگی مگر ایسا نہ ہوا گلے میں شدید درد اور تیز بخار ہو گیا.نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا.ابھی اِن کو گئے کچھ دن ہی ہوئے تھے میری بیٹی لبنی کو ملیر یا بخار ہو گیا.بخار اتنا تیز تھا کہ لبنی کو بھی ہسپتال میں داخل ہونا پڑا.اس دوران مالک مکان بھی اپنی فیملی کے ساتھ واپس آگئے کہ اُن کے بچے وہاں سیٹل نہیں ہو سکے اور ہم شفٹ ہو کر اُسی گھر میں دوسری منزل پر آگئے.اب میرے گھر کے دو افراد الگ الگ ہسپتالوں میں پڑے ہیں اور میں باری باری ہسپتالوں کے چکر لگا رہی ہوں.منیر اور بلال کو کبھی (148)
ساتھ لیکر جاتی اور کبھی اپنی لینڈ لیڈی کے پاس چھوڑ کر جاتی لبنی کے ہسپتال والوں نے اجازت دی ہوئی تھی کہ میں لینی کومل کر بچوں کو وہاں چھوڑ کر سامی صاحب کو ملنے جاسکتی ہوں واپسی پر میں بچوں کو لے آتی تھی.آمدنی کا سلسلہ رک گیا بچوں کا وظیفہ ابھی شروع ہی نہیں ہوا تھا.تھوڑ اساسامی صاحب کی بیماری کا الاؤنس ملتا تھا جس میں گزارا کرتی تھی.لینی تقریباً پندرہ ہمیں دن کے بعد گھر آگئی مگر سامی صاحب دو ماہ کے بعد گھر آئے لیکن میرے لیے یہ بہت مشکل وقت تھا.اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دعا کی کہ اللہ پاک اب کسی اور امتحان میں نہ ڈالنا.ہم نے پشاور میں گھر بیٹھ کر ملک چھوڑنے کی منصوبہ بندی کر لی تھی.اُس وقت یہ احساس تو تھا کہ مشکلات ہونگی لیکن کتنی ہونگی یہ علم نہیں تھا.سامی صاحب کو ہسپتال سے آئے ہوئے دو ہفتے ہی ہوئے تھے کام پر بھی جانا نہیں شروع کیا تھا کہ ایک دن آدھی رات کو تقریباً وہی پولیس والے گھر آگئے جو ان کا پاسپورٹ چیک کر کے گئے تھے.اُس رات کو اور اس بات کو میں لفظوں میں نہیں بیان کر سکتی ڈر کے مارے ہماری جان نکل گئی.ایسا کبھی دیکھا تھانہ بھی سوچا تھا جو ہمارے ساتھ ہو گیا.روتے بلکتے بچوں کو پکڑ کر میں نے پولیس والوں کی منت سماجت کی کہ ہمیں بھی ساتھ ہی لے جائیں.سامی صاحب اور پولیس والوں نے ہمیں ساتھ لے کر جانے سے انکار کر دیا.میں دیکھتی رہ گئی اور میرے شوہر کو جو شہزادوں کی طرح کی زندگی گزارنے والا تھا، over stay ہونے کے جرم میں پولیس پکڑ کر لے گئی.میں اُن کے لیے کچھ بھی نہ کرسکی ، میں تو رو بھی نہیں سکتی تھی کہ بچوں کو کون دیکھے گا؟ میں جس کو ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں آتا تھا کسی کو جانتی تک نہیں تھی.بعض رشتہ دار تو پہلے ہی دبے لفظوں میں کہتے تھے کہ کیوں آگئے ہیں؟ اُن دنوں بہت کم لوگوں کے گھروں میں فون ہوتا تھا.ہمارے پاس کسی ایسی سہولت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، میں آدھی رات کو بچوں کو اکیلے چھوڑ کر باہر فون بوتھ پر جگہ جگہ فون کرتی رہی مگر مجھے کوئی واقف کار نہیں ملا.وہ رات میں نے کانٹوں پر گزاری صبح اپنے ابا جان کو فون کیا کہ یہ تو پتہ چلے (149)
کہ سامی ہیں کہاں.پولیس والے کچھ بتا کر گئے تھے کہ ہم ان کو فلاں جگہ لے کر جا رہے ہیں جس کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی ہاں ایک چٹ میرے ہاتھ میں دے گئے تھے جس کو میں نے سنبھال لیا تھا.ابا جان آگئے.انہوں نے اپنے جاننے والوں سے بات کی.اُدھر ربوہ کے ہمارے ہمسائے بھائی حمید ( جن کے ساتھ خون کا رشتہ تو نہیں تھا مگر تعلق بھائیوں جیسا ہی تھا) کو بلا یا اللہ تعالیٰ مدد کرتا گیا سب اکٹھے ہو گئے.ابا جان کے ملنے والے عزیز دین صاحب نے ایک وکیل یزدانی صاحب سے تعارف کروا دیا جنہوں نے اب ان کا کیس لڑنا تھا اور بھائی حمید نے ایک سوشل ورکر صدیقی صاحب سے میرا تعارف کروا دیا کہ جو بھی مشکلات ہیں اُن کو بتاؤں اس طرح لوگ میرے اردگرد مدد کیلئے تیار ہو گئے.پہلا کام یزدانی صاحب کا تھا کہ وہ سامی کے پاس جائیں اور تفصیل اُن سے پوچھیں اور کام شروع کریں مگر سامی صاحب نے انکی کوئی بھی مدد لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے ڈیپورٹ کر دیں واپس پاکستان بھیج دیں.میں ایک دن بھی اس جیل میں نہیں رہنا چاہتا.یزدانی صاحب نے بہت سمجھایا کہ آپ فکر نہ کریں ہم آپ کے بیوی بچوں کو اور آپ کو واپس نہیں جانے دیں گے.صرف آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں.سامی صاحب نے صاف انکار کر دیا.یزدانی صاحب نے مجھے اپنے گھر بلایا.میں اپنے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لیکر ان کی رہائش گاہ پر گئی تو انہوں نے مجھے سمجھایا کہ تمہارے میاں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہے تو ہم کیس کو آگے کیسے لیکر جائیں.اب تم اُن کو ملنے جاؤ اور اُن کو سمجھاؤ کہ وہ ڈیپورٹ ہونے کی ضد نہ کریں.آخر مجھے وہاں جانا پڑا جہاں جانے سے جان نکل جاتی ہے.ہم جیسے لوگوں کو تو ان سے ملنا بھی مشکل لگتا ہے جو جیل سے نکل کر آیا ہو اور آج میں خود وہاں جارہی تھی.خوف اور پریشانی سے میرا بُرا حال تھا مگر بہت ہمت اور خود اعتمادی سے مجھے سارے کام کرنے تھے.میں پھر اپنے چھوٹے بیٹے بلال کی اُنگلی پکڑ کر اس راہ کی طرف چل پڑی جہاں میری زندگی کا ساتھی سلاسل کے پیچھے بند تھا.نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں گی، کیسے اندر جانا ہوگا؟ کچھ نہ کچھ ہمارے وکیل نے مجھے سمجھا دیا تھا.(150)
جب میں وہاں پہنچی اونچی اونچی دیوار میں چاروں طرف پولیس پہرے دار، اندر جانے کیلئے چھوٹا سا دروازہ.میری اور میرے بیٹے کی تلاشی ہوئی ، فارم پر کیا اور اندر چلی گئی.سامنے ہی ایک کرسی پر سامی سر جھکائے بیٹھے ہوئے تھے، تین سال کے بیٹے بلال کو دیکھ کر مسکرائے گلے لگایا اور آنکھوں میں آنسو آ گئے.مجھے تو یہ سمجھا کر بھیجا گیا تھا کہ تم نے کتنا مضبوط ہونا ہے.میں نے تسلی کے دو بول بولنے کی کوشش کی تو کچھ سننے سے پہلے ہی کہنے لگے: تمہارے ابو اس ملک میں رہتے ہیں تم یہاں رہ جاؤ.پر میرے لیے کچھ نہ کہنا میں واپس جانا چاہتا ہوں اور آج ہی وکیل کو کہو کے میرا کیس آگے نہ لے کر جائے.میں ایک دن بھی یہاں نہیں رہ سکتا.“ میں نے کہا: اگر آپ جائیں گے تو میں اور بچے بھی ساتھ ہی جائیں گے مگر اُس کے لیے بھی کوئی کارروائی کرنی پڑے گی.“ غرض چھ ہفتے سامی صاحب کو وہاں گزارنا پڑے.اس دوران سامی نے اندر رہ کر شاید ہمیں مرتبہ قرآن کریم پڑھا ہوگا.اُن کے لیے بہت مشکل وقت تھا مگر جو مشکلات مجھے بچوں کے ساتھ تھیں ان کا تو کچھ پوچھیں ہی نہیں.کوئی خرچ پاس تھا نہ کہیں سے کسی مالی مدد کی امید تھی.لوگوں کی باتیں بھی برداشت کرنی پڑتی تھیں کہ جانے کیوں لوگ بلا سوچے سمجھے گھر سے نکل آتے ہیں وغیرہ وغیرہ.اُن دنوں کی یادیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں.اس دوران میرے ابا جان رات کو میرے گھر آ جاتے اور صبح وہاں سے کام پر چلے جاتے جو میرے گھر سے تقریب دو تین گھنٹے کی مسافت پر تھا.یہ دور میرے ابا جان کے لیے بھی انتہائی مشکل وقت تھا.میں سامی صاحب کو ہفتے میں دو بار جا کر مل آتی.بچے جب پوچھتے ابو کہاں ہیں تو اُن کو یہ ہی بتایا کہ وہ پھر بیمار ہو گئے ہیں اور اب وہ فوجی ہسپتال میں ہیں، فوجی ہسپتال اس لیے بتانا پڑا کہ بلال گھر آ کر اپنی بہن اور بھائی کو بتا تا تھا کہ (151)
جہاں اب ابو ہیں وہاں بہت پولیس ہوتی ہے.وکیل اپنا کام کر رہے تھے.ایک اور بڑی مشکل یہ تھی کہ سامی صاحب کے بارے میں پاکستان میں اُن کی فیملی کو نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں ہیں.اُن کے ضعیف والد پریشان ہو جائیں گے اور اباجی کی عادت تھی کہ اُن کو اپنے بیٹے کا ہر دوسرے دن خط ملنا چاہئے تھا اور سامی اُن کو لکھتے بھی تھے.اب اُس کا یہ حل نکالا کہ سامی خط مجھے لکھ کر دے دیتے اور میں پوسٹ کر دیتی.اباجی شکوہ کرتے کہ تم بدل گئے ہو.یہ کیسے سوکھے سوکھے خط لکھتے ہو لیکن مجبوری تھی جو ہم اُن کو نہیں بتا سکتے تھے اور ادھر میں کس حال میں تھی ایک پیسہ بھی میرے پاس نہیں تھا.جن کے گھر میں میں رہتی تھی وہ کپڑوں کے سٹال لگاتے تھے انہوں نے میری یہ مدد کی کہ میرے اپنے وہ کپڑے جو میری شادی کے تھے وہ اپنے سٹال پر رکھ کر نیچے اور مجھے کچھ پیسے ملے.ساتھ ہی میں نے مشین پر سلائی کا کام شروع کر دیا جو کہ مجھے ذرا بھی نہیں آتا تھا لیکن کام والوں کی ڈانٹ ڈپٹ کھا کر کچھ نہ کچھ کما لیتی تھی.صدیقی صاحب نے میری بہت مدد کی اللہ اُن کو جزائے خیر دے.میرا پاسپورٹ بنوایا.میری کوئی آمدن نہیں تھی، بچوں کے چائلڈ وظیفے لگوائے.چھ ہفتوں کے بعد سامی صاحب ضمانت پر گھر آگئے.ضمانت کے لیے میں اپنے پھوپھی زاد بھائی محمد اسماعیل صاحب کی ہمیشہ احسان مندر ہونگی کہ اُنہوں نے اپنا مکان ضمانت کیلئے دیا.الحمد للہ.میں اس دوران اپنی مسجد میں دعا کیلئے بھی برابر فون کرتی تھی.اُن دنوں مولا نا عبد الوہاب آدم صاحب سے میری بات ہوتی تھی.لیکن نہ وہ ہمیں اور نہ ہم انہیں جانتے تھے.کیونکہ تعارف کا ہمیں موقعہ ہی نہیں ملا اور مصیبتوں میں مبتلا ہو گئے.ہمیں بہت اچھے لوگوں کی مددملی.ضمانت پر سامی گھر بھی آگئے مگر ابھی مقدمہ کی تلوار سر پر لٹک رہی تھی.شکر الحمدللہ کہ اب ہم پوری فیملی اکٹھے تو تھے اور ہر مشکل کو آسانی سے سہنے کی طاقت بھی رکھتے تھے.مشکل یہ بھی تھی کہ جب ہم پاکستان سے آئے تھے تو پوری طرح کشتیاں جلا کر آئے (152)
تھے یعنی اپنے گھر کی ہر چیز ہم نے مستحق لوگوں میں بانٹ دی تھی.ضرورت کی کوئی چیز ہمارے پاس نہیں تھی.یہاں رہنا بھی دشوار تھا اور پاکستان جانا بھی اب کوئی آسان کام نہیں تھا اور اب جس گھر میں ہم رہتے تھے وہ بھی ہم چھوڑنا چاہتے تھے.اُس میں بھی صدیقی صاحب نے ہماری مدد کی اور ہم وہاں سے کرایہ کے دوسرے مکان میں چلے گئے.صدیقی صاحب کے رشتہ دار تھے وہ بھی صدیقی صاحب تھے.اُن کے گھر ہم ایک سال رہے.اُنہوں نے بھی دُکھ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کبھی ہمارا پانی بند اور کبھی گیس بند.بلال اب ماشاء اللہ تقریباً چار سال کا ہوگیا تھا مگر اسکوگود میں ہی اُٹھانا ہوتا کہ نیچے بچوں کے پاؤں کی آواز آتی ہے.یہاں تک کہ وہ مالک مکان یہ کرتے کہ جب ہم گھر پر نہیں ہوتے تھے تو ہماری ڈاک اور کمروں کی تلاشی لیتے.ہمارے کسی دروازے کو تالا نہیں لگا ہوا تھا.پھر بھی اُن کا ہر وقت ایک اصرار ہوتا کہ گھر خالی کر دیں.ہم گھر خالی کر کے نہیں جا سکتے تھے کیونکہ ہمیں ہوم آفس کا نوٹس آ گیا تھا کہ پندرہ دن کے اندر آپکو واپس اپنے ملک جانا ہوگا، کرایہ وغیرہ ہم دیں گے.یہ 1974ء کی بات ہے انہیں دنوں پاکستان میں ہم احمدیوں کے خلاف ربوہ میں اور دوسری جگہوں پر ہنگامے ہورہے تھے ہمارے وکیل نے کچھ اس کو base بنایا اور کچھ اپنے دلائل سے قائل کیا.الحمد للہ فیصلہ ہمارے حق میں ہو گیا اور ہمیں کونسل نے فلیٹ دے دیا جس سے ہم بہت خوش تھے.ہمیں لگتا تھا کہ انشااللہ اب ہماری مشکلات کم ہو جائیں گی.دو سال ہم نے انتہائی مشکلات میں گزارے تھے.اب جو فلیٹ ہمیں ملا تھا وہ پورے کا پورا انگریزوں کا علاقہ تھا، میرے تینوں بچوں نے سکول جانا شروع کر دیا ، سامی صاحب کو بھی کسی فیکٹری میں کام مل گیا اور ساتھ انہوں نے ڈرائیونگ بھی پاس کر لی یہ نہیں بتاؤں گی کتنی بار فیل ہوئے) سستی سی گاڑی بھی خرید لی تو سوچا کیوں نہ ٹیکسی چلانا شروع کر دوں.تھوڑی آمدنی اچھی ہوگی تو ہاتھ کھل جائے گا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کل ہمارے ساتھ کیا ہوگا.انسان تو اپنے طور پر بہتری کی سوچتا ہے لیکن ابھی ہمارے امتحان ختم (153)
ہونے کا وقت نہیں آیا تھا ہم بے شک لیگل ہو گئے تھے مگر جس علاقہ میں ہم آکر بسے تھے انہوں نے ہمیں بالکل قبول نہ کیا اور ہمارے لئے مشکلوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے.ہر روز ہماری کار کے شیشے توڑ جاتے ہمارے گھر کی کھڑکیاں توڑ جاتے.سامی صاحب کا گھر سے نکلنا مشکل کر دیا.ہمارے گھر کوئی مہمان نہیں آسکتا تھا.ایک دفعہ تو ہمارے مہمان کو زخمی بھی کر دیا.یہ زیادتیاں سفید فام غنڈوں نے پاکستانی کی زندگی اجیرن بنا دی یہاں تک پہنچ گئیں کہ مارچ سے اب تک گیارہ حملے ، پولیس غنڈوں کو پکڑنے میں ناکام، ہمارے گھر کی نیوز لندن - نمائندہ جنگ.گذشتہ مارح سے مفید کام مقامی پولیس ان منڈوان کی کاروائیوں کو بند کرانے میں ناکام رہی.نے ایک پاکستان بشیراللہ بن احمد کی زندگی اجیرن بنادی ہے.ہے اور اس نے ن ہی اس سے میں کوئی گرفتاری کی ہے انگریزی نیوز TV اور بشیر الدین احمد شام سے اپنی بیوی اور اپنے پانچ بچوں کے اب مسٹر بشیر الدین احمد نے ایک نہایت درمندانہ اپیں شیر ساتھ ام یکنفیٹڈ روڈ کینٹنگ ٹاؤن، لندن ای - 14 میں پولیٹن کمشنر آف پولیس سر را بوٹ نیک فی سے کی ہے جبس تقیم ہیں.اس مدت میں بشیر احمد اسکے معاندان اور ان کی ن انہوں نے کہا ہے کہ وہ اچھی بیوی بچوں کی زندگی اور میں بھی آئی.پیپر اور اردو پیپر ملاک پر سب لاک 1 تھلے ہو چکے ہیں جنکی تفصیلی اطلاے سکون کی خاطرات پر تم کیا کہ اس سلسہ میں فوری کاروائی بشیر احمد نے چیف الیکٹر پلا سٹو پولیس اسٹیشن، چیف الیکٹر میں کی مگر انہیں اندیشہ ہے کہ اب سفید نام فنڈ سے ان ایک مرته ج ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ر اور دوسرا یہ کہ ہم سب گھر کے نمبر پارلیمنٹ مسٹر نائیجل امسیر زنگ اور اپنے علاقہ سے کونسلر دست پر ان کے مکان کے باہر منہ سے حملہ کر چکے ہیں جس کے میں تھے ستریدی کو دی ہے مگر اس کے باوجود سفید فام غنڈوں کے موں نے خاندان اور انکے خاندان اور انکی املاک مجھے خلاف تخریبی کاروائیوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور ابنک ملات ان دونوں کو ہسپتال جانا پڑا تھا.تو ہمارے لیٹر آگ ڈال بکس میں بچے گئے.شکر الحمد للہ کہ میں سامنے ہی کھڑی تھی جو فوری آگ دیکھ لی اور میں نے اُس آگ کو بجھایا.اگر میری نظر نہ پڑتی اور خدانخواستہ جالی کے پردہ کو آگ پکڑ لیتی تو ہمیں باہر نکلنے کو کوئی راستہ نہیں تھا کہ ہم پہلی منزل پر رہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں سے ہماری پوری فیملی کو بچالیا.میں ڈر اور خوف کے مارے ساری ساری رات جاگ کر گزار دیتی تھی کہ اکثر وہ گینگ رات کو حملہ کرتے تھے.آخر کونسل اور پولیس والے اس حد سے بڑھتی ہوئی غنڈہ گردی کو کنٹرول نہ کر سکے تو ہمیں پانچ سال کی مشکلات کے بعد وہاں سے دوسرے گھر میں منتقل کر دیا.اس دوران میری فیملی میں بھی اضافہ ہو چکا تھا یعنی تین کے بجائے اب میرے پانچ بچے ہو گئے تھے.الحمد للہ.پھر الحمد للہ ہمارے سکھ کے دن شروع ہو گئے.بہت اچھا بہت بڑا نیا گھر ہمیں ملا.میری تمام مشکلوں کا مداوا ہو گیا اور اب ہم تمام پچھلی باتوں کو بھول کر اپنی اور اپنے بچوں کی ترقیوں کا سوچنا (154)
چاہتے تھے.میں نے سامی صاحب کو کہا اب میں بہت تھک گئی ہوں، یہ گھر میرا مستقل گھر ہے.اب میں زندگی بھر یہاں سے نہیں جاؤں گی.سامی صاحب کو ریلوے میں کام مل گیا بچے بھی بڑے ہو رہے تھے.میں اور سامی صاحب دس سال کے بعد دو چھوٹے بچوں کے ساتھ 1983 ء کے سالانہ جلسہ پر ربوہ بھی گئے اور سامی اپنے اباجی اور بہن بھائیوں کو بھی مل کر آئے.یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کے اس دوران میرا بھائی اور امی جان بھی لندن آچکے تھے.میری تین بہنیں پاکستان میں تھیں لیکن اگر ماں باپ اور بھائی پاس ہوں تو باقی کمی اتنی نہیں رہتی اور خالد میرے بھائی کی شادی بھی ہو گئی.یہ سب مسجد کے قریب ہی رہتے تھے جب کہ ہم کافی دور تھے.پھر بھی بچوں کا اکثر آنا جانا ہو جاتا تھا.1984 ء میں مجھے اچھی طرح یاد ہے جب پیارے آقا حضور خلیفتہ امسیح الرابع ” ہجرت کر کے لندن تشریف لائے تو ہم مسجد سے کافی دور رہتے تھے.حضور کے آنے سے حضور کے خطبات اور مجلس عرفان اور اس قسم کے بے شمار پروگرام ہوتے تھے جن سے ہم محروم رہتے تھے.ایک دن سامی صاحب نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر ظفر صاحب نے خالد کو اپنے فلیٹ کی آفر کی ہے جو اُس نے انکار کر دیا ہے.کیا تم مسجد کے قریب جانا چاہتی ہو کیونکہ ہم اور بچے دینی ماحول سے دور ہیں اور حضور کے تمام خطابات سے بھی محروم رہ جاتے ہیں.اور ہاں یہ بھی ساتھ بتا دیتا ہوں وہ گھر پرانا ہے اور کوئی وہ سہولت اُس میں موجود نہیں ہے جو اس وقت تمہارے پاس ہے.سچ پوچھیں میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گئی ، یہ اُس گھر کی بات کر رہے تھے جو پوری زندگی کے بعد میری پسند کا گھر ملا، بالکل نیا بنا ہوا گھر.نئے کارپٹ ، نیا کچن بہت ہی پیارا گھر اور پھر بہت دکھوں کے بعد ملا، اب پھر گھر چھوڑنے کی بات اور جب مسجد کا سوچتی تو اور پریشان ہو جاتی.آخر میں نے کچھ دن کی مہلت مانگی دعا استخارہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو گئی اور پھر ہم نے وہ گھر جو مجھے بہت عزیز تھا چھوڑ دیا اور اُس گھر میں آگئے جس میں وہ کچھ بھی نہیں تھا جو میں چھوڑ کر جا رہی تھی.ہم مسجد کے بالکل قریب (155)
ایک عارضی گھر میں منتقل ہو گئے.سچ تو یہ ہے کہ اس فیصلہ سے میں اور ہماری پوری فیملی بہت خوش تھی.ہم سب حضور کے بہت قریب ہو گئے.جب ہم مسجد سے بہت دور تھے پھر بھی میری کوشش ہوتی تھی کے بچوں کا کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کے ساتھ واسطہ رہے.اُس کا حل ہمارے پاس یہ ہی تھا کہ میرے بیٹے تو امی ابا جان اور اپنے ماموں کے ساتھ مسجد چلے جاتے.اپنی بیٹی لبنٹی کو لوکل جماعت کے ساتھ منسلک رکھا.ہر میٹنگ اور ہر پروگرام میں اُس کو لیکر جاتی اور ہر پروگرام میں وہ حصہ بھی لیتی.جب حضور پاکستان سے لندن آگئے اور اُسکو یہ علم ہوا کہ لجنہ بھی ڈیوٹی دینے جاتی ہیں تو اُس نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں بھی حضور کے گھر ڈیوٹی دینا چاہتی ہوں.ابھی اُس نے ڈرائیونگ پاس کی تھی تو وہ ایسٹ لندن یعنی گرین سٹریٹ سے اکیلے ڈرائیو کر کے حضور کے گھر ڈیوٹی پر آتی کبھی کبھار میں بھی اُس کے ساتھ آتی مگر زیادہ تر وہ خود ہی اکیلے آتی.مجھے فکر بھی ہوتی کہ ابھی وہ اتنی بڑی بھی نہیں ہوئی تھی لیکن الحمد للہ میری بیٹی لبنی کو خدا کے فضل کرم کے ساتھ حضور خلیفہ اسیح الرابع" کی خدمت کا بہت اچھا موقع ملا.خاص طور پر اب لبنی کی بات کر رہی ہوں تو حضور پیارے آقا کے ساتھ اُس کے بھولے پن کا قصہ بھی سنا دیتی ہوں.جب وہ پہلی یا دوسری بار ڈیوٹی پر گئی تو پیارے آقا نے تعارف کی غرض سے ابو کا نام پوچھا تو بتا دیا.دادا کا بھی نام ٹھیک بتا دیا.ابو کے بھائیوں کا نام پوچھا کہ تمہارے ابو کے بڑے بھائی کا کیا نام ہے تو بنی کا جواب تھا بڑے تایا ابو کا نام ہے کراچی والے تایا ابو اور ایک ہیں چنیوٹ والے تا یا ابو.حضور نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ انکے نام کیا ہیں تو اُس کا جواب یہ تھا کہ حضور اُن کے یہ ہی نام ہیں.حضور نے پھر ہنستے ہوئے فرما یا کل اپنے ابو سے پوچھ کر آنا.پھر ہم نے اُسے سمجھایا کے وہ ابو سے بڑے ہیں اس لیے نام نہیں لیتے.مگر اُن کے یہ نام ہیں اور دوسرے دن لبنی نے جا کر حضور کو پوری بات بتائی.پیارے آقالینی کے اس بھولے پن پر بہت محظوظ ہوئے.پیارے آقا تو سب سے ہی بہت پیار کرتے تھے جس کو بھی پوچھیں اس کا یہ ہی جواب ہوگا.(156)
میرے ساتھ حضور” بہت پیار کرتے ہیں، میرا بھی یہ ہی جواب ہے کہ پیارے حضور ”ہماری فیملی کے ساتھ بھی بہت پیار کرتے تھے ، جب بھی لینی جاتی اس کو کہتے تم چوزے کا پلاؤ بنا کر کھایا کرو اس کو کھانے سے تم تھوڑی موٹی ہو جاؤ گی، کیونکہ بنی بہت ہی دبلی پتلی تھی.اس لیے اس کو یہ نسخہ بتایا کرتے تھے.میرا ایک آپریشن ہوا کافی سیریس تھا، الحمد للہ کامیاب ہو گیا جب میں گھر آگئی تو مجھے جیسی گنہگار کو گھر فون کر کے میری خیریت معلوم کرتے.میرے لیے یہ بہت بڑی سعادت تھی.پھر جب بھی میں ملتی یہ ہی کہتے کہ بچ گئی ہو تم نے مر جانا تھا.پیارے حضور کے بارہ میں لکھوں تو اُن کے احسانوں کا کوئی شمار نہیں ہے.بلال کو حضور کے ساتھ صبح کی سیر پر ساتھ جانے کی بھی سعادت ملی.حضور ہر روز صبح فجر کی نماز کے بعد سیر کے لیے جاتے اُس میں جانے کیلئے اجازت لینی ہوتی تھی.جس میں میرے بیٹے منیر اور بلال دونوں کو اجازت تھی.منیر تو با قاعدگی سے نہیں گیا مگر بلال کو یہ سعادت حاصل ہے کے وہ بلا ناغہ گیا اور وہ لوگ جو حضور کے ساتھ مزاح سے لطف اندوز ہوتے تھے وہ بچے کبھی نہیں بھول سکتے.منیر نے پرائیویٹ سکیر ٹری کے آفس میں مہدی صاحب کے ساتھ ڈاک کھولنے کا کام شروع کیا.پھر جب ایم ٹی اے شروع ہوا تو پھر ایم ٹی اے پر کام کرنے کی سعادت ملی.سارہ میری بیٹی کو بھی ایم ٹی اے پر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.الحمد للہ.باقی فیملی کو بھی حضور کی شفقت اور پیار کا بہت حصہ ملا.الحمد للہ.سب کو جی بھر کے آقا کے زیر سایہ رہنے اور خدمت دین کی توفیق ملی اور آپ کی طرف سے ہم پر حسن و احسان کا بھی سلسلہ جاری رہا.مسجد کی قربت سے ہمیں بہت انعام ملے.عکاشہ اور لبنی تو اپنے ابو کی طرح ہر وقت جماعت کے کام کو فضل الہی جان کر خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں.الحمد للہ.ماشاللہ بچے بڑے ہو گئے.ہماری بڑی بیٹی لبنی کی شادی ہو گئی، سامی صاحب بھی ریٹائر ہو گئے.ایک دن ہم سب کو اپنے پاس بلایا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ اب باقی کی زندگی صرف دین کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں.دنیاوی کوئی کام نہیں کرنا چاہتا.اب آپ لوگ بتائیں میں کون سی (157)
میری یونجی راہ پکڑوں.کیا آپ سب میری پینشن پر گزارا کر سکیں گے؟ کیونکہ اگر آج میں دین کے حق میں فیصلہ کر لوں گا تو پھر کبھی بھی دنیاوی کام ہرگز نہیں کرونگا.بھلا ہماری کیا مجال تھی کہ ہم دین کا راستہ روک کر دنیا کی بات کرتے.الحمد للہ ویسا ہی ہوا جیسا سامی صاحب نے چاہا.مجھے آج اس بات کی خوشی ہے کہ ہم کبھی سامی صاحب کی ذمہ داریوں میں حائل نہیں ہوئے.سامی صاحب کی خدمت دین سامی صاحب دنیا داری کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان، خلفاء کی اطاعت اور دین کی خدمت ہی اُن کی زندگی کا مقصد تھا.تحدیث نعمت کے طور پر کہتے خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ میں نے تین امراء کی انتظامیہ میں ادنی ترین رکن رہنے کی سعادت حاصل کی.چوہدری عبداللہ خان صاحب کراچی ، خان شمس الدین خان صاحب پشاور اور آفتاب احمد خان صاحب بر طانیہ.الحمد للہ تیس سال تینوں کے ساتھ دس دس سال کام کیا.1984ء حضور خلیفة امسیح الرابع کی آمد کے بعد لندن کی جماعت میں بہت سے عہدوں پر کام کیا.لکھوں تو بہت بڑی لسٹ بن جاتی ہے مختصر بیان کر دیتی ہوں.اخبار احمدیہ کے دس سال تک ایڈیٹر رہے.برطانیہ کی تقریبات کی رپورٹنگ برائے اخبار الفضل، اخبار احمدیہ، اخبار الفضل ربوه اخبار انٹر نیشنل لندن، اخبار بدر قادیان کیلئے کی.14 سال تک امام مسجد لندن مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کے ساتھ اعزازی طور پر معاون مددگار رہے اور امام صاحب کی معاونت میں بہت سارے شعبوں میں کام کرنے کی توفیق پائی لیکن لندن میں سامی صاحب یہ سب کام کرنے کے لیے جس جگہ پر بیٹھ کر کام کرتے تھے، جو خوشی اُن کو وہ جگہ دیتی تھی وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی کہ کیسے خوشی اُن کے چہرے اور لفظوں سے ٹپکتی تھی.وہ کہتے جہاں امام صاحب کے دفتر میں میرے بیٹھنے کی جگہ ہے اُس دیوار پر لگی تصویر مجھے کام کرنے کی طاقت بخشتی ہے.وہ تصویر ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور صحابہ کرام اور بزرگان سلسلہ کے ساتھ والد صاحب سابق امام مسجد فضل لندن جناب (158)
سردار مصباح الدین صاحب مرحوم کی.سامی صاحب اپنے والد صاحب سے بے حد پیار کرتے اور حضرت مصلح موعودؓ سے گہری عقیدت رکھتے تھے.سامی صاحب اس آفس میں کام کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے لیکن اُن کی نظر میں کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں تھا.ہر وہ کام جو اُن کے ذمہ لگایا جاتا اُس کو اپنا فرض سمجھ کر کرتے وہ اپنی ذات کو بھول جاتے.کام کو اللہ کی دین سمجھتے.زندگی کا آخری کام جماعت احمدیہ کا 1902 ء سے 2000 ء تک کا ریکار ڈا کٹھا کرنا تھا.میں نے اُن کو دن رات سر جھکائے بے شمار کتب، اخبار، رسائل سے مواد تلاش کرتے دیکھا.جب کہ اُن کو اپنی بیماری کا بھی علم ہو چکا تھا.کہتے جانے کب بلاوا آ جائے تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتا ہوں.ایک کام جس سے وہ بے حد خوش تھے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جامعہ احمدیہ، جو لندن میں مکرم مولانا لئیق احمد طاہر صاحب پرنسپل کی زیر نگرانی قائم ہونا تھا، میں سامی صاحب کو سیکرٹری پرنسپل جامعہ کے لیے اعزازی طور پر نامزد کیا تھا.یہاں میں سامی صاحب کی ایک بہت بڑی خوبی بیان کرنا چاہتی ہوں.آپ نے خدا کے فضل سے جماعت کا بہت کام کیا ہر جگہ کیا.مگر جب وہ گھر آتے تو کبھی میں سوال کرتی سامی آج کی کوئی خاص بات ! تو ہمیشہ اُن کا جواب ہوتا میں کوئی بات نہ سننے جاتا ہوں اور نہ مجھے کسی بات کا علم ہوتا ہے.میں اپنے کام سے کام رکھتا ہوں اور اپنا کام ختم کر کے گھر آجاتا ہوں.سامی صاحب کی خدمت خلق آپ چونکہ خود کافی دکھ اور تکلیفیں اُٹھا چکے تھے اس لیے اب کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے.انہوں نے اپنی زندگی دوسروں کے لیے وقف کر چھوڑی تھی.سوشل ویلفیئر اُن کا شوق ہو گیا تھا.اب وہ بہت سارے بچوں کے باپ اور بھائی بنے ہوئے تھے.اُن بچیوں کے گھر کوئی جھگڑا ہو تا سیدھی وہ ہمارے گھر کا رُخ کرتیں.سامی اُن کی صلح کرواتے اور گھر چھوڑ کر آتے.ایک (159)
سکھ فیملی گھر کے قریب رہتی تھی.وہ ہماری بہت عزت کرتے تھے.اُن کے ایک بیٹے کی شادی کا مسئلہ تھا ، وہ ماں اور بڑے بھائی کے کنٹرول میں نہیں تھا.وہ ہمارے پاس آئے کہ آپ اُس کو سمجھا ئیں کیونکہ وہ صرف آپ کی بات مانتا ہے اور کسی کی نہیں سنتا.پھر سامی نے اور میں نے اُس کو سمجھایا.لڑکی نے انڈیا سے آنا تھا.وہ بچی انڈیا سے سیدھی ہمارے گھر آئی.ہم ہی اُس کو گرودوارے لیکر گئے اور اُس کی رخصتی ہوئی.اب جب بھی کبھی جھگڑا ہوتا تو وہ سیدھی بھاگ کر ہمارے گھر آجاتی.پھر ہم اُس کی صلح کرواتے اور گھر چھوڑ کر آتے.رنجیت نے ہی ایک نوجوان لڑکے سعید صاحب کی ملاقات سامی صاحب سے اس لیے کروائی کہ اُس کی بیوی کو پاکستان سے بلوا نا تھا اور قانونی معاملات تھے جو سامی صاحب نے حل کروائے اور اُس کی بیوی پاکستان سے ہمارے ہی پاس آئی.اُنہوں نے ایک کمرہ کرایہ کا لیا ہوا تھا وہاں رہتے تھے مگر ہمارا گھر اُن کے والدین کا گھر بن گیا، کیونکہ وہ سامی صاحب کو کہتی تو بھائی جان تھی مگر یہ اس کو ایک باپ کی طرح ہی پیار کرتے تھے.جب ان کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے تو سعید صاحب کوئی بی کا حملہ ہو گیا جس کی وجہ سے اُن کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا.جتنا عرصہ وہ ہسپتال میں رہے، میں اُن کا کھانا بناتی اور یہ آکر اُن کو ہسپتال میں کھانا دے کر آتے اور ساتھ اُتنی دیر اُن کی بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال بھی ہم کرتے رہے.اب اُن کے وہ چاروں بچے بھی ماشا اللہ جوان ہو گئے ہیں ہمارے ساتھ وہی پیاراور لگاؤ ہے جو اپنے تنہیال یا ددھیال والوں سے ہوتا ہے.اس طرح ان کے ایک دوست جن کا نام یوسف صاحب تھا سیالکوٹ سے تھے، اکیلے رہتے تھے.ہمارے گھر اُن کا کافی آنا ہوتا تھا، اُنکی فیملی پاکستان میں تھی جن کے لیے وہ بہت اداس رہتے تھے.سامی اُن کی فیملی کو بلوانے میں مدد کر رہے تھے ، ہوم آفس والوں کے ساتھ کارروائی ہو رہی تھی.جدوجہد کے آخری مراحل تک پہنچنے والے تھے کہ یوسف صاحب ایکدم بیمار ہو گئے.ایک دن جب سامی صاحب کام پر تھے تو ان صاحب کا فون آیا کہ باجی آپ گھر پر ہیں؟ میں آپ کے (160)
گھر آ رہا ہوں.جب وہ ہمارے گھر آئے تو شدید بیمار سانس لینا دشوار ہو رہا تھا.میں گھبرائی جلدی سے پانی دیا.لیکن وہ بہت جلدی میں تھے مجھے تین سوپونڈ پکڑا کر کہنے لگے.باجی یہ میری امانت رکھ لیں.اور بہت جلدی میں گھر سے چلے گئے.شام کو جب سامی صاحب کام سے آئے تو میں نے ساری بات بتائی یہ اُسی وقت ایک غیر احمدی دوست کو لے کر اُس کے پاس گئے.اُن کی حالت بہت خراب تھی فوری ہسپتال لیکر گئے.ڈاکٹروں نے دیکھتے ہی جواب دے دیا کہ ان کی کڈنی فیل ہو گئی ہے اور یہ کچھ دیر کے ہی مہمان ہیں آپ ان کی وصیت لکھ لیں.سامی کہتے ہیں کہ ہمیں اچھا نہیں لگا کہ ہم ابھی ان سے پوچھ کر لکھنے لگ جائیں.میرے ساتھ جو دوست تھا اس کے مشورہ سے سوچا کہ کل ہم ایک دو اور دوستوں کو ساتھ لیکر آئیں گے تو سب کچھ پوچھ کر لکھ لیں گے.اگلے دن جب یہ سب دوست گئے ہیں تو وہ بیچارے اللہ کو پیارے ہو چکے تھے.یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ سب حیران پریشان رہ گئے.کیونکہ ہمارے پاس اُن کی تمام معلومات تھیں اس لیے سامی صاحب نے پاکستان میں اُن کے گھر اطلاع دی.دوسرے دن جمعہ تھا.سب دوستوں نے مل کر چندہ اکٹھا کیا اور اُن کی میت پاکستان بھجوائی اور ساتھ وہ تین سو پونڈ جو ایک دن پہلے میرے ہاتھ میں پکڑا کر گئے تھے.یہ تمام غیر از جماعت لوگ سامی صاحب کی بہت عزت و احترام کرتے تھے.سامی اُن سب کے امین بھی تھے.1982ء کی بات ہے کہ ایک دن اچانک خبر ملی کہ محترم محمود احمد مختار صاحب کی وفات ہوگئی ہے.یہ خبر ہمیں کچھ لیٹ ملی.بہت افسوس ہوا.سوچا چلیں افسوس کیلئے جاتے ہیں ، سامی صاحب کی اُن کے ساتھ کچھ تو شاید پاکستان سے ہی واقفیت تھی اور کچھ یہاں مسجد اور جماعتی پروگراموں کی وجہ سے تعلق تھا.افسوس کے لیے ہم وٹفورڈ گئے.چونکہ کچھ دن گزر چکے تھے اس لیے اب اور لوگ نہیں تھے.سامی صاحب تو مردوں میں اور میں اُنکی بیگم کے پاس بیٹھ گئی جو بہت افسردہ تھیں، باتوں باتوں میں وہ اپنی مشکلات کا بھی اظہار کر رہی تھیں.مالی مشکلات اور جو اُن کا گھر تھا اُس کی کچھ (161>>
قانونی پریشانیاں.میں اُن کی تمام باتیں سنتی رہی.پھر میں سامی صاحب کے پاس گئی اور اُن کی تمام پریشانیوں کا بتایا اور پوچھا کہ کیا آپ اِن لوگوں کی کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ سامی صاحب نے جواب دیا ہاں کیوں نہیں اگر وہ چاہتے ہیں تو جو مجھ سے ہو سکا ضرور کروں گا.پھر میں واپس آئی اور زرینہ (مرحومہ) بیگم سے پوچھا کہ اگر آپ ہماری مدد لینا چاہتی ہیں تو سامی صاحب آپ کی مدد کیلئے تیار ہیں اور جو بھی ہم سے ممکن ہوا وہ ضرور کریں گے.زرینہ بیگم نے اپنے تمام ضروری کاغذات اور معلومات وغیرہ سامی صاحب کو دیے.مرحوم محمود صاحب کے چھ بچے تھے.دو بیٹے اور چار بیٹیاں جن میں سے جو سب سے بڑی بچی تھی اُس کی شادی تو ہو چکی تھی مگر اُس کے شوہر ابھی پاکستان سے نہیں آئے تھے.محمود صاحب کی فیملی کو بھی ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا پاکستان سے آئے ہوئے اس لیے وہ سب یہاں کے قانون اور لوگوں کو زیادہ نہیں جانتے تھے.کیونکہ ہم ان مشکلات سے گزر چکے تھے اس لیے جانتے تھے یہ فیملی کس مشکل سے گزررہی ہے، مدد کی حامی بھر لی.ہمارے پرانے ملنے والے بیرسٹریز دانی صاحب سے رابطہ کیا جنہوں نے بہت پہلے ہمارا بھی کیس جیتا تھا اُس وقت سے ہمارے اُن کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے.جب بھی سامی صاحب کو کسی کی مدد کرنی ہوتی اُن سے قانونی مدد ضرور لیتے تھے.اُن سے وقت لیا اور محمود صاحب مرحوم کی بڑی سے چھوٹی بیٹی بشری کو ساتھ لیا.یزدانی صاحب سے قانونی معاملات طے کیے.اب مجھے یاد نہیں کہ کتنی بار ہمیں وکیلوں سے ملاقات کرنی پڑی.ہاں یہ ضرور ہے کہ الحمد للہ جو جوبھی اُن کی مشکلات تھیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب حل ہو گئیں.اب اس فیملی کے ساتھ ہمارے بہت قریبی تعلقات ہو چکے تھے.زرینہ بیگم صاحبہ اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے بھی بہت فکر مند تھیں.اس میں بھی جہاں تک ہو سکا مدد کی.ہم اُس وقت ایسٹ لندن میں تھے اور وہ وٹفورڈ میں بہت زیادہ فاصلہ تھا مگر جب بھی انہوں نے ہمیں پکارا ہم اُسی وقت اُن کے پاس گئے.پھر یہ تعلق رشتہ داری میں بھی بدل گیا.اُن کی ایک بیٹی کی شادی میری بہن کے بیٹے سلیم کے ساتھ ہوئی.یہ ہم (162)
نے ہی کروائی جو الحمد للہ بہت خوش خرم زندگی گزار رہے ہیں.اب اُن کے بھی تین بیٹے ہیں.پھر زرینہ اہلیہ محمود احمد مختار مرحوم بہت سخت بیمار ہو گئیں.کینسر جیسے موذی مرض نے گھیر لیا.اس وقت بھی سامی ساحب نے اُن بچوں کا بہت ساتھ دیا.آخری دنوں میں ہم تقریباً ہر روز شام کو اُن کے پاس وٹفورڈ ہسپتال جاتے رہے.اُس آخری وقت بھی مرحومہ نے ایک ہی بات کی کہ میرے بعد میرے بچوں کا آپ ضرور خیال رکھیں.جہاں تک ہو سکا سامی صاحب نے اُن کی اس بات کا خیال رکھا.آج بھی جب بچیاں ملتی ہیں بہت پیار اور خلوص سے ملتی ہیں.الفضل انٹرنیشنل میں جب میرا پہلا مضمون چھپا تو کچھ عرصہ کے بعد جرمنی سے میری ایک سکول کی دوست کا مجھے فون آیا.جب ہم پشاور میں رہتے تھے تو وہ بھی وہاں ائیر فورس کے ملازم ہو کر آئے تھے.وہ کچھ عرصہ میرے گھر بھی رہی.اُس نے سامی صاحب کا افسوس کیا اور کہا کہ صفیہ الفضل میں سامی صاحب کے بارہ میں جو مضمون تم نے لکھا وہ میں نے پڑھا ہے لیکن ادھورا ہے.کیا تمہیں یاد نہیں کہ جب ہم پشاور تمہارے پاس آئے تھے تو میں نے بھائی سامی سے درخواست کی تھی کہ میرے میاں احمدی نہیں ہیں ان کا کچھ خیال کریں.جمعہ پر اور کچھ تبلیغی پروگراموں میں ساتھ لیکر جائیں اور پھر الحمد للہ بھائی جان کی کوششوں سے میرے شوہر نے بیعت کی اور آج ہم اور میری ساری اولا دان کو دعا دیتے ہیں.جب ہم لندن آئے تو میرے سب بچوں نے بروک وڈ میں جا کر اُن کی قبر پر دعا کی.اللہ تعالیٰ کا احسان مانا کہ شکر ہے ہمارا ایک ایسے نیک سیرت انسان سے واسطہ ہوا جس نے ہمارے باپ کو دین کا سیدھا راستہ دکھایا آج ہماری نسلیں حقیقی اسلام میں پھل پھول رہی ہیں.وقت گزرنے کے ساتھ بے شمار باتیں اور یادیں انسان بھول جاتا ہے.میں بھی جو آج یہ سب کچھ لکھ رہی ہوں جتنا مجھے یاد آرہا ہے وہی لکھ رہی ہوں یقینا ابھی بھی بہت کچھ ہو گا جو مجھے یاد نہیں.لیکن ہاں یہ ضرور جانتی ہوں کہ خدا کے فضل سے سامی صاحب کے کھاتہ میں بے شمار ایسی نیکیاں (163)
ضرور ہیں جو اُنہوں نے لوگوں کے ساتھ کی ہیں اور وہ لوگوں کو یاد بھی ہیں.الحمد للہ.آپ کو عبادت اور دعاؤں پر بہت یقین تھا.ہمیشہ پورے روزے رکھتے.رات کو عبادت کا شوق تھا.اکثر صبح اُٹھ کر مجھے جو خواب سناتے تھے.اُن میں ہم یا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتے تھا.بلکہ ہمیشہ حضرت مصلح موعود یا خلیفہ رابع یا وہ تمام بزرگ جن کا تعلق قادیان سے ہوتا.بہت کم گو تھے مگر جب قادیان کی باتیں شروع ہو جا تیں تو کبھی نہیں تھکتے تھے.سادہ مزاج کے مالک تھے مگر بہت نفیس اور سلیم الطبع انسان تھے.سامی صاحب کی آخری بیماری سامی صاحب کی بیماری بھی اچانک ظاہر ہوئی.ڈاکٹروں کے پاس جاتے رہے چیک اپ بھی ہوئے میں ہمیشہ اُن کے ساتھ ہی ہوتی تھی.جس دن ڈاکٹروں نے اس موذی مرض کینسر کی تشخیص کی اُس وقت بھی میں ساتھ ہی تھی.میں تو دل میں کانپ گئی مگر اپنے ہوش قائم رکھے.سامی نے ڈاکٹروں کی بات سُن کر چہرے پر کوئی گھبراہٹ ظاہر نہیں ہونے دی.صرف اتنا کہا کہ میں کوئی آپریشن نہیں کروانا چاہتا.جتنی بھی زندگی خدا تعالیٰ نے مجھے دی ہے میں دین کے کام میں صرف کرنا چاہتا ہوں.لیکن ایسا نہیں ہوا.ڈاکٹروں نے ایک چھوٹا سا کی ہوں، آپریشن ضروری سمجھا جو صرف ایک دن کا تھا.اپنے ڈاکٹر دوستوں سے بھی مشورہ کیا.پیارے آقا سے دعاؤں کی درخواستیں بھی کرتے رہے.سب نے بہت تسلیاں بھی دیں.پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے پروگرام بنالیا.جس دن آپریشن کیلئے جانا تھا صبح مجھے خواب سنائی کہ رات بار بار ایک شعر میری زبان پر آتا رہا اک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے اور پھر واقعی ہماری کوئی پیش نہیں چلی.چل بھی کیسے سکتی تھی.اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.آپریشن نہیں کروانا چاہتے تھے.آپریشن ہوئے ، ایک نہیں کئی ہوئے.پھر کوئی شکوہ کوئی شکایت (164)
زبان پر نہیں لائے.تین ماہ پندرہ دن کی بیماری بہت تحمل سے گزاری.کسی تکلیف کا اظہار نہیں کرتے تھے.پہلے ہی کم بولتے تھے مگر اب تو بالکل خاموش ہو گئے.کمزوری حد سے بڑھ گئی تھی.جب بھی ملنے جاتی پہلا سوال اُن کا یہ ہوتا.مسجد کی کوئی خبر ؟ حضور کا کیا حال ہے؟ سب دوست احباب کا پوچھتے.جب میں اُن کو بتاتی کے سب لوگ آپ کے لیے دعائیں کرتے ہیں تو آبدیدہ ہو جاتے.وفات سے دو دن پہلے اشارہ سے مجھے اور میرے بیٹے عکاشہ کو بلا یا ہم دونوں نے کان اُن کے منہ کے پاس کئے تو خواب سنائی کہ ابھی ابھی دیکھا ہے حضرت مصلح موعود اور میرے ابا جی مجھے لینے کے لیے آئے ہیں.آپ سب نے صبر سے کام لینا ہے.آنسو قدرتی بات ہے مگر پھر بھی صبر کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا، صبر کرنا.اور ہم نے خدا تعالیٰ کے فضل سے صبر سے ہی کام لیا.آج جو میں یہ سب لکھ رہی ہوں، یہ میر اماضی بن کر رہ گیا ہے.کاش کہ میرے بس میں ہو تو ان یادوں اور باتوں کو پنجرے میں بند کر لیتی.جب وقت گزر رہا ہوتا ہے تو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ یہ ماضی بن کر پیچھا کرتارہے گا.وہ دن بہت اچھے تھے ، سب ساتھ تھے.یوں محسوس ہوتا تھا کہ بس یہ ہی زندگی ہے اور ہمیشہ ایسے ہی چلتی رہے گی.آج اس حسین خواب کو گزرے سالوں بیت گئے ہیں.اب یہ بہت پرانی یادیں اور باتیں لگتی ہیں.کبھی لگتا ہے کہ یہ گزری ہوئی زندگی ایک خواب تھی یا اب خواب ہے، اور آنکھ کھلے تو سب ویسا ہی ہو جائے.سامی ہم سے جدا ہو گئے.سامی نام تھا محبت کا ، شفقت کا ، رحمدلی کا، فرمانبردار بیٹے ، پیار کرنے والے بھائی شفیق باپ، اور بہترین خاوند کا.اُنکی کون کون سی خوبی بیان کروں.ہر ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے.کوئی کام کہے جب تک وہ کر نہیں لیتے اُن کو چین نہیں آتا تھا.دوسروں کے کام آنا ہی اُن کی زندگی کا مقصد تھا.دادا، نانا بن کر بہت خوش تھے.اپنے پوتوں نواسے نواسیوں سے بے حد پیار تھا، بچوں سے بھی بہت احترام سے بات کرتے تو اور تم لفظ اُن کو.(165)
اچھا نہیں لگتا تھا.ہمیشہ آپ کہتے چاہے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا.آج سامی ہم میں موجود نہیں ہیں.مگر میں اُن کو ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بھول پائی.کیسے بھولوں کہ ہزاروں احسان ہیں مجھ پر.سامی اعلی تعلیم یافتہ تھے.دینی لحاظ سے بھی اور دنیاوی لحاظ سے بھی.بہت دھیما مزاج کم گو قلم کار اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.میرے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا.دنیاوی تعلیم یا دینی تعلیم دونوں بہت معمولی تھیں.مگر سچ تو یہ ہے کہ کبھی بھی مجھے کسی بات کا احساس نہیں ہونے دیا.پیار سے بن بتائے میری تربیت کرتے رہے.بغیر کہے میرے داغ دھبے دھوتے رہے.اس کے باوجود ہر معاملہ میں مجھ سے مشورہ کرتے کوئی بھی کام مجھے بتائے بغیر نہ کرتے.حقیقی معنوں میں مجھے میرے تمام حقوق سے زیادہ دیا.بہت یاد آتی ہے اُن کی.زندگی ادھوری ہوگئی ہے.مگر میں ہر پل اُن کی مغفرت کی دُعا کرتی ہوں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوں.اللہ پاک سے دعا گو ہوں کہ مجھے اور میرے سب بچوں کو اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے.اور ہر اُس نیکی کو کرنے کی توفیق دے جو سامی صاحب کرنا چاہتے تھے.آمین.کیسے بھول سکتی ہوں میں وہ گھڑی جب وفات سے تھوڑی دیر پہلے آپ نے کہا تھا آج میں اللہ کے حضور حاضر ہونے والا ہوں.وہ لمحہ، وہ گھڑی ، وہ منگل کا دن.آٹھ بج کر پندرہ منٹ اکتیس جولائی ۲۰۰۱ ء ہماری جدائی کی شام، نہ بھولنے والی کھوں بھری شام نہیں بھول پاؤں کی بھی نہیں کبھی بھی نہیں.سامی صاحب کی بہت خواہش تھی کہ میرا جنازہ حضور خلیفہ امسیح الرابع" پڑھا ئیں.الحمدللہ.اللہ تعالیٰ نے اُن کی یہ آرزو بھی پوری کر دی.آپ کے لیے ہر پل دُعا کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور میرا بھی انجام بخیر ہو.آمین ثم آمین.بیماری کے دوران بہت ہی خاموش رہتے تھے.میں اُن کو کہتی جب ہم آپ کے پاس نہیں ہوتے تو آپ کچھ لکھا کریں (میں جانتی تھی کہ اُن کے پاس لکھنے کی ہمت بھی نہیں تھی ) میرے بار بار (166)
کہنے سے ایک دن کہنے لگے تمہارے پاس پین اور پیپر ہے.میرا جواب تھا کہ جی ہے.مجھے کہتے ہیں بہت دل کرتا ہے لکھوں، مگر طاقت نہیں ہے.تم لکھو میں لکھواتا ہوں : میں نے لکھنا شروع کیا تو بولے لکھو! ہسپتال میں سامی کے ساتھ ڈھلتی ہوئی ایک شام ! میرے گھر کی بہارو! انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں کب بلا وا آ جائے.جو بھی اللہ کی رضا ہو اُس پہ راضی ہوں صبر اور تحمل سے وقت گزار ہیں.خدا کرے کہ آپ سب کو زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہو.میری زندگی کا اب کوئی اعتبار نہیں کہ سانس آئیگا.اللہ پر بھروسہ ہے کہ میں صحت مند ہو کر گھر آؤنگا.اور آپ سب کی خوشی میں شامل ہونگا.جو بھی مشکل پیدا ہو اُسکو محبت پیار سے حل کریں.سب بھائیوں کو چاہئے کہ اگر تقدیر آگئی تو ماں اور بہنوں کو ہمیشہ عزت دیں اور پیار سے رکھیں.مجھے اپنے سب بچوں سے پیار ہے.لیبنی سے، منیر سے ، بلال سے، سارہ سے اور عکاشہ سے اور اسی طرح شازیہ سے مبشرہ سے، گوہر اور مصور سے اور اُن سب کے بچے میرے ہر دل عزیز ہیں.خدا کرے کہ مجھے تو فیق ملے اور میں صحت مند ہو کر ان میں آکر بیٹھوں.آپ سب کو میرا بہت پیار.آخر میں میری آپ سب بچوں کو ایک ضروری نصیحت ہے کہ ہمیشہ آپ سب بہن بھائی اک دوسرے کا احترام کریں اور سلوک سے رہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ، ناصر ہو.8/7/2001 آپ کے ابو (اپنے ہاتھ سے دستخط کئے اور تاریخ لکھی ) نماز جنازه (167) بشیر الدین احمد سامی
میرے بھائی نے بتایا کہ حضور انور نے میرے ساتھ ہاتھ ملا کر تعزیت کی.پھر جنازے کے بعد حضور نے ازراہ شفقت چہرہ دیکھ کر سامی صاحب کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دُعائیں دیں.ہمارے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے.اللہ تعالیٰ سامی صاحب کے درجات بلند فرمائے.آمین.الفضل انٹر نیش میں بھی یہ افسوس ناک خبر شائع ہوئی سید نا حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲؎ اگست ۲۰۰۱ء کو قبل از نماز ظہر مسجد فضل لندن کے احاطہ میں مکرم بشیر الدین احمد ساقی صاحب آف نیو مالڈن (لندن) کی نماز جنازہ پڑھائی.آپ چند ماہ کی لمبی بیماری کے بعد ۳۱ جولائی ۲۰۰۱ء کو ۶۸ / سال کی عمر میں وفات پا گئے.إِنَّا الله وَ إِنَّا إِليهِ راجعون.آپ مکرم سردار مصباح الدین صاحب مرحوم سابق مبلغ انگلستان کے بیٹے اور مکرم محمد اسلم خالد صاحب کار کن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے بہنوئی تھے.۲۲ نومبر ۱۹۳۲ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.قیام ربوہ کے ابتدائی زمانہ میں دفتر حفاظت مرکز اور دفتر بیت المال میں خدمت کی توفیق پائی.۱۹۵۴ء میں آپ پاکستان بحریہ میں ملازم ہوئے اور کراچی میں قیام کے دوران ۱۹۶۰ء تک مختلف خدمات کی توفیق پائی.ناظم اعلی خدام الاحمدیہ کراچی کے طور پر بھی کام کیا اور بہترین خادم ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا.۱۹۶۰ ء میں پشاور چلے گئے اور وہاں بھی قائد خدام الاحمدیہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی.۱۹۷۰ء میں انگلستان آگئے.یہاں بھی خدمات کا سلسلہ جاری رہا.مجلس انصار اللہ برطانیہ میں قائد عمومی اور نائب صدر بھی رہے.دس سال تک اخبار احمدیہ کی ادارت کی.مرکزی جرائد کے برطانیہ میں نمائندہ مقرر تھے.آپ نے اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے.(168)
آمین.الفضل انٹر نیشنل ۷ تا ۱۳ ستمبر ۲۰۰۱ء) سامی صاحب کی وفات پر انفضل ربوہ میں اعلان 16 اگست 2001ء مکرم ناصر الدین سامی صاحب مصباح منزل محلہ گڑھا چنیوٹ لکھتے ہیں: برادرم بشیر الدین احمد سامی ابن سردار مصباح الدین احمد (مرحوم ) 31 جولائی شام آٹھ بجے لندن کے وقت کے مطابق وفات پاگئے.مرحوم میرے چھوٹے بھائی تھے.قیادت خدام الاحمدیہ کراچی اور لوکل انجمن میں بھر پور خدمات انجام دیں.پشاور میں بھی مختلف عہدوں پر سلسلہ عالیہ کے لیے تندہی سے خدمت بجالاتے رہے.1970ء میں لندن تشریف لے گئے.جماعتی خدمات کی تو فیق ملتی رہی.لندن میں مرحوم کے سپر داخبار احمدیہ کی ادارت آئی.جسے الفضل انٹر نیشنل کے طلوع تک پوری ذمہ داری سے نبھایا.لندن میں جماعت احمدیہ کی تاریخ مرتب کرنے کے لیے بھی آپ نے خدمات ادا کیں.وفات سے چند ماہ قبل حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جامعہ احمدیہ کیلئے سیکرٹری منتخب کیا.جسے مرحوم مرض الموت کی وجہ سے نبھا نہ سکے.مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ صفیہ بیگم کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الرابع اید اللہ بنصرہ العزیز نے 2 اگست کولندن میں نماز جنازہ پڑھائی اور و ہیں تدفین ہوئی.احباب مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات نیز لواحقین کو صبر جمیل عطا ہونے کیلئے دعا کریں.حضور علیہ المسیح الرابع کی طرف سے تعزیت نامہ (169)
لندن 2001-8-2 بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم مکرمہ اہلیہ صاحبہ بشیر الدین سامی صاحبہ، لندن السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کے میاں اور جماعت کے مخلص کارکن مکرم بشیر الدین سامی صاحب کی وفات پر حضور انور نے آپ سے ہمدردی اور دلی تعزیت کا اظہار فرماتے ہوئے مرحوم کی مغفرت اور درجات کی بلندی کیلئے دعا کی ہے.اناللہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام بخشے.آپ اور آپ کے بچوں اور دوسرے عزیز ان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اپنی امان میں رکھے.آمین.بلانے والا ہے سب سے پیارا، اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر حضور انور کی طرف سے تعزیت نامہ ارسال ہے.والسلام خاکسار منیر جاوید روزنامه الفضل ربوہ 26 ستمبر 2001ء مکرم منصور احمد شاہ صاحب لکھتے ہیں : (170)
مکرم بشیر الدین احمد صاحب سامی ابن محترم سردار مصباح الدین صاحب سابق مربی انگلستان چند ماہ کی علالت کے بعد 31 جولائی 2001ء کو 68 سال کی عمر میں لندن میں وفات پاگئے.مرحوم سامی صاحب نے قیام ربوہ کے ابتدائی ایام میں مختلف جماعتی دفاتر میں کام کیا.بعد ازاں کراچی چلے گئے جہاں خدام الاحمدیہ میں خدمت کی توفیق پائی.1970ء میں لندن آگئے یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت دین کا سلسلہ جاری رہا.مجلس انصار اللہ میں مختلف حیثیتوں میں کام کرنے کا موقع ملا.دوسال تک نائب صدر انصار اللہ برطانیہ رہے.چھ سال تک نائب سیکرٹری اشاعت رہے.چودہ سال تک امام صاحب مسجد فضل لندن کے دفتر میں معاونت کی توفیق پائی.علاوہ ازیں جماعتی اخبارات و جرائد کی خریداری کے سلسلہ میں کام کا موقع ملا.اخبار الفضل انٹرنیشنل کے نمائندہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی.آپ جماعت کے ماہوار رسالہ اخبار احمدیہ کے دس سال تک ایڈیٹر رہے.جماعتی لائبریری کے قیام میں بھی بہت کام کیا نیز شعبہ تاریخ انگلستان کی کمیٹی کے ممبر بھی رہے.الغرض آپ نے مختلف خدمات دینیہ کی بھر پور توفیق پائی.سید نا حضرت خلیفہ ایسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2 اگست 2001ء (بوجہ بارش) محمود ہال لندن میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں احباب نے بکثرت شرکت کی.بعد ازاں احمد یہ قبرستان بروک وڈ میں تدفین عمل میں آئی.مرحوم نے اپنی اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں اپنی یادگار چھوڑی ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی تو فیق عطا فرمائے آمین.(171)
پیارے بشیر بھائی محترم منصور بی ٹی صاحب مرحوم کی سامی صاحب کی یاد میں ایک سوگوار نظم جو وہ اُن کی وفات کے چند دن کے بعد لکھ کر فریم کروا کر مجھے دے کر گئے تھے : ہم سے جدا ہوئے ہیں ہمارے بشیر بھائی جنت کو ہیں سدھارے پیارے بشیر ساقی خاموش تھی طبیعت تبسم تھا پیارا پیارا ڈھونڈیں کہاں تمہیں اب پیارے بشیر ساقی گفتگو تھی شیریں، اخلاق تیرے احسن دل موہ لینے والے پیارے بشیر سامی تو بندہ محترم تھا تو صاحب قلم تھا شاہد ہے اک زمانہ پیارے بشیر ساقی دینِ متیں کی خدمت پیش نظر ہمیشہ تھوڑے ہیں تجھ سے خادم پیارے بشیر ساقی بزم ادب ہے ویراں محفل ہے سونی سونی جب اُٹھ گئے جہاں سے پیارے بشیر ساقی (172)
یاروں کے یار تھے تم کتنا تھا پیار سب سے کہاں چھپ گئے ہو جا کر پیارے بشیر ساقی ہیں سوگوار کتنے تیرے فراق میں سب اے کاش ! جانتے تم پیارے بشیر ساقی تیری جدائی میں تو منصور بھی ہے گھائل غم دے کے سو گئے ہو پیارے بشیر ساقی (۴ را گست ۲۰۰۱ء) (173)
کچھ تعزیت نامے سامی صاحب کی وفات پر تعزیت کے بہت خطوط آئے.وہ سارے تو میں یہاں نہیں لکھ سکتی لیکن چند ضرور لکھنا چاہتی ہوں.چودھری عبدالمجید صاحب سابق قائد کراچی سے تحریر فرماتے ہیں: 814/8 عزیز آباد کراچی، پاکستان بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم عزیزه محترمہ بیگم بشیر الدین احمد سامی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط مورخہ 28/8/2001 پرسوں بروز ہفتہ ملا.جواب تو میں اُسی وقت لکھنا چاہتا تھا مگر قلم ساتھ نہیں دے رہا تھا.آج سب سے پہلا کام یہی خط لکھ رہا ہوں تا کہ مزید دیر نہ ہو جائے.مجھے آپ کے غم اور مرحوم بھائی کی جدائی کا صدمہ بہت جانکاہ ہے.مگر حضرت مسیح موعود کی زبان سے جو اپنے بیٹے مبارک احمد کی وفات پر کلمہ نکلا، اُسی کو دہراتے ہوئے دلی تعزیت کرتا ہوں.بلانے والا ہے سب سے پیارا، اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر مرحوم سامی صاحب دینی اور دنیاوی لحاظ سے ایک مثالی انسان تھے.وہ ایک کم گو ، ہنس مکھ، ہمدرد اور دوستوں کے دوست تھے.اسکے ساتھ بہت مخلص اور خدمت دین کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے.میں جب خدام الاحمدیہ کراچی کا قائد تھا تو وہ میرے دست راست معتمد کے طور پر خدمت دین میں میرے معاون و مددگار رہے.چنانچہ جن دوسالوں میں خاکسار قائد رہا اُن دونوں سالوں میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی سفارش پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے دست مبارک سے جلسہ سالانہ پر علم انعامی حاصل ہوتا رہا.میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس اعزاز میں مرحوم بھائی سامی صاحب کی محنت، کوشش اور والہانہ خدمت کا خاصا حصہ تھا.اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا کہ مولا کریم مرحوم بھائی کی مغفرت فرمائے.جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور (174)
درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے اور اُن کے اہل و عیال ، خصوصاً آپ اور اُن کے آل اولاد پر اپنی حمتیں اور برکتیں نازل فرما تار ہے.ہر آن و ہر مقام ان کا حافظ و ناصر رہے اور دینی و دنیاوی نعمتیں اور ترقیات عطا فرما تار ہے.آمین اللھم آمین.وہ اپنے اخلاق اور کردار کی وجہ سے یقینا بہشتی ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کے جنت الفردوس میں درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے ، آمین اللهم آمین اور آپ کا حافظ و ناصر رہے.آمین الهم آمین.ان دو دنوں میں جب سے آپ کا خط ملا ہے کئی بار پڑھتا رہا ہوں اور پرانی یادیں خصوصاً اُنکی معصوم صورت آنکھوں کے سامنے آتی رہی.وہ ہشاش بشاش نظر آتے رہے جو اُن کے انجام بخیر ہونے کی علامت معلوم ہوتی ہے.اے خدا تو ایسا ہی کر.آمین.میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حسب توفیق کرنے سے دریغ نہ کرونگا.جب خط لکھنے کا ارادہ کیا تھا تو ایسے لگتا تھا کہ چند الفاظ سے زیادہ نہ لکھ پاؤں گا.مگر اب خط کافی لمبا ہو گیا ہے.اس لیے ختم کرتا ہوں.کراچی میں جو دوست محترم سامی صاحب سے شناسا ہیں اُن سب کو مطلع کر دیا گیا ہے.گھر میں سب کو درجہ بدرجہ سلام ودعا اور پیار کا تحفہ پہنچے.خدا حافظ والسلام خاکسار چوہدری عبدالمجید (175)
مکرم چوہدری رکن الدین صاحب کراچی سے تحریر فرماتے ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ بہن صفیہ بیگم صاحبہ محمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاته آج الفضل میں برادرم محترم بشیر الدین احمد سامی صاحب کی ہم سے جدائی کی خبر پڑھ کر طبیعت بہت خراب ہوئی.انا للہ وانا الیہ راجعون.بلانے والا ہے سب سے پیارا، اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر میں آپ کے اس غم میں شامل ہوں.دُعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین.جیسا کہ آپ کو علم ہے مرحوم میرے بہت ہی پرانے دوست اور ساتھی تھے اور یہ دوستانہ غالباً پچاس سالوں پر محیط ہے.اس دوران مرحوم کی اعلیٰ صفات کا خاکسار ہمیشہ مداح رہا.نہایت مخلص دوست خدمت کا بے حد شوق غرض کہ مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے اور عمر بھر اپنی روزی کمانے کے ساتھ ساتھ خدمت دین کرتے رہے.مجھے انکی جدائی کا بہت رنج ہے.لیکن یہ زندگی عارضی ہے ہم سب اس سفر پر رواں ہیں اور بالآخر وہاں ملاقات ہو جاتی ہے.میرا بہت ہی پیارا دوست بچھڑ گیا ہے.بھائی بشیر الدین سامی صاحب کی جدائی کا صدمہ ایسا ہے کہ بھلایا نہیں جاسکتا اور میر اتو نصف صدی کا ساتھ تھا.پہلے کراچی میں اور پھر پشاور میں ساتھ رہے اور لندن میں کئی مرتبہ سارا سارا دن ہم اکٹھے گھومتے پھرتے رہے.بھلا ایسی پیاری یادیں کوئی بھلا سکتا ہے.ویسے بھی عزیزم محترم بہت خوبیوں کے مالک تھے.دوستوں کے ساتھ تو وہ ایسے گھل مل جاتے تھے گویا اپنے سگے ہیں بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر.واقعی وہ صاحب بصیرت اور اعلیٰ درجہ کے احمدی تھے.جیسا کہ آپ نے لکھا اللہ تعالیٰ نے اُن کو رحلت سے پہلے ہی بتا دیا کہ اُن کا آخرت میں کن ہستیوں کے ساتھ (176)
ملاپ ہوگا.اُنکی اہلیہ اور بچوں کو اللہ تعالیٰ ہی صبر دے اور اپنی بارگاہ سے اس صدمہ کو برداشت کرنے کی توفیق دے.آمین.کتنے پیارے دوست تھے جب خاکسار 1990ء میں لندن گیا تو تمام لندن کی سیر کروائی.گو وہاں اور بھی بہت سے پرانے دوست موجود ہیں لیکن مرحوم کی خوبیوں کا شمار کرنا محال ہے.بہت ہی محبت کرنے والے انسان تھے.لندن آؤں گا تو آپ سب سے ضرور ملوں گا.انشاء اللہ.پیاری بہن میں اور میری اہلیہ صاحبہ آپ سب کے غم میں شامل ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ سب کو صبر دے اور مرحوم کے درجات بلند سے بلند کرتا جائے.آمین.سچی بات یہی ہے کہ لندن جاتے وقت دو ہی آرزوئیں رہیں.حضور پر نور سے بار بار ملاقات کی خواہش اور پیارے بھائی بشیر الدین سامی صاحب سے بار بار ملاقات کرنا.فی الحال تو بس ایک ہی ہستی ایسی ہے جن سے ملاقات کا شوق لندن جانے کا سبب ہوگا.والسلام خاکسار مورخہ 25 اگست 2001ء رکن الدین (177)
امریکہ سے ڈاکٹر صلاح الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم ڈیر آپا صفیہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ آپ سے رات بات ہوئی تھی.بھائی جان اللہ کو پیارے ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.غالب نے کیا حقیقت بیان کی تھی کہ سب سے زیادہ دکھ اور غم تو ساتھی کے جانے کا ہوتا ہے.یہ تو پورے خاندان کو معلوم ہے کہ آپ اور ساقی صاحب ایک دوسرے کے بہترین ساتھی تھے.ایسی مثالیں بہت کم ہوتی ہیں.پھر دنیا میں سب سے زیادہ تعلق بچوں کا ماں باپ کے ساتھ ہوتا ہے.مجھے کچھ اس کا اندازہ ہے.جب میرے ابا فوت ہوئے تو میں لاہور میں پڑھتا تھا.رات کو جب میں کمرے میں پڑھائی کر رہا ہوتا تو خیال ابا جان کی طرف جاتا تو میں نے رو پڑنا.یہی حال مجھے جیسے بچوں کا ہوتا ہے.منیر، بلال بنٹی ، سارہ اور عکاشہ محترم بھائی جان تو اپنے بچوں کیلئے بہت ہی شفیق تھے اور حلیم بھی.میرے ابا جان نے اپنی وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل ڈاکٹر احمد خان صاحب سے کہا کہ مزہ تو سیہ ہے کہ انجام بخیر ہو.ایک دن تو جانا ہی ہے.حضور نے بھی ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ کی طرف سے بلاوا اس دن آئے جو اُس کی رضا کا دن ہو.محترم بھائی جان کے بارہ میں پختہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب وہ اللہ کے حضور حاضر ہوئے تو وہ اُسکی رضا کا دن تھا.میں یہ اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ میں آپ لوگوں سے ہزاروں میل دور تھا اور کسی سے بھی کوئی رابطہ نہ تھا.صبح تقریباً نماز کے وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ ہال میں عورتیں جنازہ پڑھنے کیلئے صفوں میں کھڑی ہیں.آپ اور ہماری دوسری رشتہ دار عورتیں بھی صفوں میں کھڑی ہیں.اتنے میں اعلان ہوتا ہے کہ یہ جنازہ حمید کا ہے.جب میں صبح اٹھا تو تھوڑا پریشان ہوا.مگر کسی بھی صورت خیال بھائی جان (178)
سامی کی طرف نہ گیا.آج میں نے حساب لگا یا تو یہ سامی صاحب کی وفات والا ہی دن تھا.میرے خیال میں "حمید" کا مطلب تعریف ہوتا ہے.اور حمد سے نکلا ہے میرے نزدیک تو اللہ کی طرف سے یہ خوشخبری ہے.سب سے بڑھ کر آپ کیلئے اور پھر ہمارے لیے بھی.آپ میں بے شمار خوبیاں تھیں.ہر خوبی ایک ایک کر کے دماغ میں آتی ہے اور دل میں اُترتی ہے.سب سے بڑھ کر کہ آپ ایک اچھے انسان تھے.جب بھائی جان اس دنیا میں تھے تو جب بھی ملتے بہت ہی پیار سے اور محسوس ہوتا کہ واقعی دل سے پیار کرتے ہیں.خاص کر مسجد فضل لندن میں جب آپ نے فائلیں اٹھائی ہوئی ہوتیں اور ملاقات ہوتی.اس خواب کے بعد تو آپ کے ساتھ اور سامی صاحب کے ساتھ دل اور قریب آ گئے.جب اللہ نے ان کو حمید “ کہہ دیا.خدا کرے کہ وہ ہم سب کی غلطیوں کو درگزر فرماتے ہوئے ہم سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے.آمین.جب بھی بھائی سامی صاحب سے ملاقات ہوتی بہت ہی چاہ سے ملتے اور مسکراتے ہوئے چاہت سے چائے پوچھتے.یہ خوبیاں آپ میں اور سب بچوں میں ہیں.مجھے وہ دن یاد ہے جب حضرت آصفہ بیگم صاحبہ کے جنازہ سے اگلے روز بڑی عید تھی اور عید کا کھا نا سب رشتہ داروں اور عزیزوں نے آپ کے گھر کھایا تھا اور سامی صاحب نے خود مجھے انور اور اظہر کو پلیٹ لا کر دی.کیونکہ ہم بعد میں پہنچے تھے.محترم ابا جان ، پھوپھی جان دونوں کے صبر کرنے کا حوصلہ بہت بلند ہے.کبھی ایسے مواقع پر صبر کا دامن نہیں چھوڑا.اللہ ان دونوں کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے.آمین.جب اللہ کی طرف سے ایسا موقع آتا ہے ، دل غم زدہ ہوتا ہے تو اللہ دعائیں قبول فرماتا ہے.مجھے بھی اپنی ڈھیروں دعاؤں میں یا درکھیں کہ اللہ مجھ جیسے پر بھی اپنا فضل فرمائے.آمین.والسلام دعا گو صلاح الدین (179)
پاکستان سے سامی صاحب کی بہن مسرت کو لکھتی ہیں : بسم اللہ الرحمن الرحیم پیاری بھابی جان ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اُمید ہے بفضلِ خدا آپ ہر طرح خیریت سے ہونگے.آپ کا خط مل گیا تھا جس میں میر - نہایت ہی پیارے بھائی کے آخری لمحات قلم بند تھے.کیا پڑھا کیا نہیں پڑھا.میرا پیارا بھائی اس دنیا سے رخصت ہو گیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.اپنی بہن کو کچھ کہے بغیر کچھ سنے بغیر.ابھی تو اگلے زخم ہرے تھے، آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ اُن کے ساتھ اور آنسو شامل ہو گئے.بس اللہ میاں ہم کو اور آپ سب کو صبر کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.مجھے تو یقین ہی نہیں آتا کہ میرا بھائی رخصت ہو گیا ہے.نہ میں نے بیمار پرسی کی نہ میں نے عیادت کی نہ ہی میں نے اُن کو آخری سفر پہ جاتے دیکھا کس طرح یقین کروں ، کس طرح یقین کروں.مجھے تو اُسی طرح خوش لباس میں ہر وقت نظر آتے ہیں ،کس طرح بھول جاؤں اور کس طرح نہ بھولوں، یقین کروں نہ کروں ، آخر کرنا ہی ہے کہ پیارا بھائی وہ جو مجھ سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گیا ، جدا ہو گیا.خدایا تو اُن پر بیش بہا اپنی رحمتیں کرنا اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرنا.اپنے ماں باپ بہن بھائی سے جاملے.آخر کار ہم نے بھی اُس کے پاس ہی جانا ہے.خدایا تو بڑے بڑے فضل کرنا آمین.اُن کے بچوں کا حافظ ناصر ہونا.اُنکی پیاری ساتھی صفیہ سامی اب اکیلی رہ گئی ، اکیلی رہ گئی.بہت اچھا وقت گزارا بہت پیار کرنے والے بے لوث خدمت کرنے والے شوہر ! اللہ میاں آپ کو ہمت دے طاقت دے.اب زندگی تو اس طرح جوں توں کر کے ہی گزرنی ہے.ساتھی بڑی ہی نعمت ہوتی ہے، یہ ہم سے کوئی پوچھے.اولاد نیک بڑی نعمت ہے مگر زندگی کا ساتھی اگر چلا جائے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے.الفضل میں اعلان کے بعد ناصر بھائی جان کے پاس (180)
بہت افسوس کے خطوط اور افسوس کرنے والے بھی بہت آرہے ہیں.اللہ میرے بھائی کو جنت الفردوس میں جگہ دے.آمین.میں دیر سے خط لکھ رہی ہوں.یہ نہیں کہ بھائی چلا گیا ہے تو بھابی کو بھول گئی ہوں.مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا لکھوں کیا افسوس کروں کہ میرے بھائی فوت ہو گئے ہیں.معذرت خواہ ہوں، دل پریشان ہے غمگین ہے ، اداس ہے.کس طرح اپنے بھائی کوبھول جاؤں ، زندگی نے وفانہ کی اور میں اپنے بھائی سے مل نہ سکی.افسوس صد افسوس.دل چاہتا ہے آپ کے گلے لگ کر اتنا روؤں ، اتنا روؤں کے ساون بھادوں کی جھڑیاں لگ جائیں.خدا یا تو ہمیں صبر کی تو فیق عطا فرما.آمین.ناصر بھائی جان پر بھی اپنے بھائی کی جدائی کا بہت صدمہ ہے.بھائی بھائی ہوتے ہیں.خدایا سب کو صبر کی توفیق عطا فرما.آمین.بھائی کی تربت پر جائیں تو انکی بہن کا سلام ضرور دیں.والسلام آپکی غمزدہ بہن مسرت کوثر سلیم (181)
مکتوب از محترمہ امتہ القدوس ( قوسی ) صاحبہ پیاری بہن صفیہ سامی صاحبہ! بسم اللہ الرحمن الرحیم اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط ملا.آپ نے میری شاعری کے بارہ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے سب سے پہ میں اس کیلئے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں.آپ نے اپنے جو حالات لکھے ہیں اور جس طرح ان کا مقابلہ کیا ہے، ایک مومن کی شان تو یہی ہے.راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہو زندگی میں پیچ وخم تو آتے رہتے ہیں.اصل سہارا تو خدا کی ذات کا ہی ہوتا ہے.انسان تو بے چارہ خود مجبور ہوتا ہے.وہ کسی کا کیا سہارا بنے گا! کسی کے شعر کا ایک مصرعہ ہے.مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑا یا تو کیا کرو گے تو ایسے لڑکھڑاتے ہوئے سہاروں سے اُمید ہی کیوں رکھی جائے.مگر یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے دوست احباب، عزیز واقرباء کا ساتھ چاہتا ہے.یہ میں نے مانا کہ بوجھ اپنا ، اُٹھا کہ چلنا ہے سب کو تنہا پر پھر بھی احباب ساتھ ہوں گے، تو دل کو کچھ حوصلہ رہے گا محبتوں اور چاہتوں کا، یہ مان ہی تو متاع دل اگر بھرم یہ بھی ٹوٹ جائے، تو پھر مرے پاس کیا رہے گا ہے (182)
میری یونجی آپ نے لکھا ہے کہ آپ لکھنا نہیں جانتیں.لیکن میرا خیال ہے کہ میں آپ سے لکھنا سیکھوں.اللہ تعالیٰ آپ کو سکون قلب عطا فرمائے اور آپ کی اولاد در اولاد اور احباب واقرباء کی طرف سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو.آمین.لوگوں کو مسکراہٹیں چہرے کی ہیں پسند 03-05-06 محفل میں کس لئے کریں درد جگر کی بات والسلام خاکسار امت القدرون امتہ القدوس ( قوسی) (183)
امتہ الباری ناصر صاحبہ کا لکھا ہوا ایک خواب جس نے میرے دل کو چھوا، وہ لکھنے لگی ہوں ! میں نے دیکھا ہے کہ تم پیار سے کہتے ہو مجھے جان من کیا ہوا کس بات پہ افسردہ ہو کونسا غم ہے جو اندر سے تمہیں کھاتا ہے ، کس نے توڑا ہے کوئی مان جو رنجیدہ ہو قہقہے، شوخی، مزاح بھول گئی ہو یکسر کیا ہوئی زندہ دلی کس لیے پڑ مردہ ہو بات بے بات اُچھل آتے ہیں کیسے آنسو موسم گل میں بھی خاموش ہو آزردہ ہو کس کے لہجے کی تپش نے تمہیں جھلسایا ہے ڈس گیا کونسا دکھ درد جو سنجیدہ ہو اپنی ہی ذات میں کیوں قید کیا ہے خود کو لگتا ہے برسوں کی بیمارستم دیدہ ہو؟ میرا یہ خواب فقط خواب ہی رہ جائے گا خوشیاں تو اس سے ملا کرتی ہیں جو زندہ ہو ایک پتھر ہے جو سینے سے لگا رکھا ہے خود تو زخمی ہوں کوئی اور نہ زخمیدہ ہو (184)
مكتوب حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ واصل الا من الله خلقا نصرة انا فتحنا لك فتحا مينا سم الله البحر الم2 نحْمَدُه وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكريم رام یا فون کندن 7.10.97 مکرم مدیر اب اخبار احمدیہ ہوئے اسم میری مردانه لاله در کاند آپ کی طرف سے اخبار احمدیہ کا شمارہ کا ماہ اگست مطار عود رحمه الله تعالى احسن الجزرده ماشاء اللہ اچھا رسالہ ہے اللہ تعالٰی آپ اور آپ کے معاونین کو مزید محنت کا توفیق دے اور رہنے کو زوال فضلوں سے نواز سے مٹانی کو لیت بوروروم بارٹ الله اللهم زد و بارک الله ایا را 12.10.97.موس ا بشیر الدین احمد اسامه الاب (185)
محترم مولانا عطاء الجيب صاحب را شد امام مسجد فضل لندن کے سامی صاحب کے نام خطوط AHMADIYYA MUSLIM ASSOCIATION U.K.AHMADIYYA MUSLIM CENTENANT The London Mosque 16 Gressenhall Road.London SW18 5QL Tel: 01-870 8517 Telex: 28604 ref 1292 Fax: 01-870 1095 Cables: Islamabad London Date: 21-3-89.کردم و قوم جناب بشیر الدین احساسی السلام علیکم دواته البدرانه آپ کو اخبار احمدیہ لندن کے دردرمہ کا ایڈیٹر تور کیا جا تا ہے.اور تھالا جبار کھا کر کے اور احسن رنگ بین نام کی توفیق دے آمین کرم تمیم اللہ بھٹی آپ کے ساتھ بطور نائب مدیر کام کریں کے انٹ کو یہ تقاری خانار عسلب 24/3/89 رشد امام مسجد فضل - لندن (186)
م الله الجزا! AHMADIYYA MUSLIM ASSOCIATION U.K.AHMADIYYA MUSLIM CENTENARY The London Mosque 16 Gressenhall Road London SW18 5QL Tel: 01-870 8517 Telex: 28604 ref 1292 Fax: 01-870 1095 Cables: Islamabad London Date: 27-8-89 برادرم کرم شبیه ترین اسامی الدين السلام علیکم ورسم البرام بھی زبانی شکریہ کے علاوہ میں آپ کا تحریری شکریہ ادا کرنا از موی کیتا ہوں.اور تعالٰی نے آپ کو اپنے فضل کے علی امور کے موقع پر بہت سی همت در فرض شناسی کے بھر پور خدمت کی توفیق علی زمانی جس کے لیے آپ مبارکباد اور شکر کے مستحق میں ارتعا لا آپ کو اسکی بہترین برادر ملازمائے اور مزید خدمات کی توفیق دے آئیں.دلی دعاؤں کے ساتھ ا فادار علا البسه 218189 (187)
انت الي الرحيم Ahmadiyya Muslim Association UK.The London Mosque.16 GRESSENHALL ROAD, LONDON SW18 50L Tel:01-870 8517 Telex:28604.Ref.1292.Fax:01-870 1095, Cables:Islamabad London.22nd November, 1988.MR.BASHIRUDDIN SAMI Dear brother, Assalamo Alaikum, I am pleased to inform you that Hazoor Aqdas has very kindly approved your appointment as NT for Jalsa Gah department 1989.This Jalsa is going to be held in the Centenary Celebrations Year and would require much more efforts on our part.I would urge you, therefore, to make plans for your department as Soon as possible and get them approved.Insha Allah,We will hold a meeting to discuss Jalsa Gah arrangements on Wednesday, 30th November, 1988 at 7.00 p.m.in Nusrat Hall.Kindly attend the meeting punctually and bring along the plan for your department in writing.Wassalam, Yours sincerely A.M.RASHED Officer Jalsa Gah 1989.(188)
الله الرحمن الرحيم The London Mosque 16 20 Gressenhall Road, London SW18 5QL Telephone: 01 870 8517 Telex: 28604 Ref: 1292 Cables: ISLAMABAD LONDON He The 18-8-90 برادرم کرم بشیر الدین اس می السلام علیکم در متر این کار الحرثہ کے جماعت ہوکے کا ملبر سالروز بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.اس ملبہ کے انتظامات کے سلسلہ میں ناظم تیاری پروگرام و اشاعت کے 20 طور پر آپ نے جس محنت اور محبت و شوق ہے کام کیا ہے اس کے لیے میں دلی طور پر ممنون ہوں.مزید برآں آپ نے جس ذمہ داری سے اس فرض کو ادا کیا ہے وہ بھی قابل رشک اور مثالی ہے.میں آپ کا دلی شکریہ ادا کرتے ہوئے دعا گو ہوں که در تعالی آپ کا خدمات کو قبول فرمائے اور مزید مقبول خدمات کی توفیق علار تاتا رہے این فالار عاليه 18/8/90.(189)
اب میں اپنے والدین کی سیرت اور ان کے کچھ حالات لکھوں گی جو میری زندگی کا سرمایہ ہے اور یہی ہے جس پر مجھے فخر اور ناز ہے.امی جان علیمہ بیگم.ابا جان شیخ محمد حن صاحب ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم (شاد عظیم آبادی) (190)
میرا نکن امی جان ابا جان کی سیرت پر میں کچھ لکھوں میرے پاس ایسے الفاظ کہاں کہ اُن بابرکت وجودوں پر میرا اقلم چلے.سوچتی ہوں کہ کیسے لکھوں کہ کچھ تو اُنکی سیرت پیش کرنے کا حق ادا کرسکوں، میں اپنی پوری کوشش کرونگی.لیکن تھوڑا سا پہلے اپنے بارے میں لکھ دوں کہ میں خود بھی اپنے والدین کے پاس تقریباً چودہ سال کی عمر میں آئی تھی.میری امی جان گھر کا کام کر رہی تھیں ، میری بڑی بہن امی سے آم مانگ رہی تھی.امی نے کہا تم کھڑکی میں سے دیکھو جب بیچنے والا آئے گا تو مجھے بتانا.پھر میری بڑی بہن گھر کی پہلی منزل پر کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے آموں والے کا انتظار کرتی ہوئی سر کے بل کھڑکی سے باہر گری اور گرتے ہی بے ہوش ہو گئی.لوگوں نے شور مچایا ، امی جان نے باہر دیکھا تو اپنی ہی موہنی صورت خون میں نہائی پڑی دیکھی.کیونکہ وہ سر کے بل گری تھی اُس کے سر میں شدید چوٹ آئی.اُسی وقت بچی کو ہسپتال لیکر بھاگے.خون میں لت پت بچی کو امی ابا جان گود میں لیکر دوڑتے رہے، کوئی ڈاکٹر اُس کے علاج کے لیے تیار نہ تھا.ہر جگہ سے انکار کے بعد پھر وہاں کوئی برٹش ہسپتال تھا ، اُن ڈاکٹروں نے جب میری بہن کو دیکھا بے ہوش اور خون میں نہائی ہوئی بچی ، انہوں نے اُس کو فوراً داخل کیا ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ بچنے کی امید بہت کم ہے.اُس ہسپتال کے انگریز ڈاکٹر تھے انہوں نے بفضل الہی میری بہن کی جان بچائی.میری امی کو اُس کے ساتھ ہسپتال میں دو اڑھائی ماہ رہنا پڑا.میری بہن کی عمر چار سال تھی جب کہ میں تقریباً ڈیڑھ دوسال کی ہونگی.ہماری جائنٹ فیملی تھی.اُوپر کی منزل میں میری امی اور نیچے میرے تایا تائی میرے دادا اور تین چچا بھی رہتے تھے.میرے دادا جان کے علاوہ کوئی بھی احمدی نہیں تھا.تایا تائی کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی ، اس طرح میں اُن کی لاڈلی اور آنکھ کا تارا بن گئی.میری امی جان کی بھی اس لحاظ سے مدد ہو گئی کہ وہ پوری طرح سے اس بے حد بیمار بچی کی پوری طرح سے دیکھ بھال کر سکیں.ویسے بھی گھر ہی کی تو بات تھی.سب ہی (191>>
گھر میں تھے میں اوپر نیچے گھومتی رہتی مگر سوتی اپنی تائی کے ساتھ تھی.میری امی کی غیر موجودگی میں میری تائی اماں کو میرے ساتھ اتنا پیار ہو گیا کہ وہ ایک پل بھی اپنے سے جدا نہ کرتیں.جب میری امی جان بہن کے ساتھ گھر آ گئیں تو بھی میری بہن اتنی کمزور تھیں کہ اُس کو پورے وقت امی کی ضرورت تھی اور میں پوری طرح سے تائی اماں کی گود میں چلی گئی.آہستہ آہستہ میری بہن کچھ بہتر ہوتی گئی.ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھائی سے بھی نواز دیا.افسوس کہ بھائی رشید چھ ماہ کا ہوکر اللہ کو پیارا ہو گیا.میں نے اپنی امی کو چی کہنا شروع کر دیا کہ میرے سب کزن یہی کہتے تھے اور میری تائی میری اماں ہو گئی کہ اس کو سب اماں ہی کہتے تھے.میرے دادا جان کی وفات ہوگئی ، میرے تایا اور دو چچا ایسٹ افریقہ نیروبی چلے گئے.اب میری تائی کے پاس میں اور میرے سب سے چھوٹے چارہ گئے.میرے ابا جان جو کام کی غرض سے لدھیانہ سے باہر تھے.امی کو بھی ان کے ساتھ جانا پڑا مگر میں اب اپنی اماں کو چھوڑ کر بھلا کہاں جانے والی تھی.میری امی نے بھی سوچا ہوگا کہ یہ میری جیٹھانی میرے اتنا کام آئی ہیں ان کا دل نہ دکھے، بے اولاد تھیں، دوسری مائیں اپنے بچوں کو اُن کے پاس آنے نہیں دیتی تھیں.اس لیے میری امی جان اُن کا دل بھی نہیں دکھانا چاہتی تھیں، مجھے اُن کے پاس چھوڑ دیتی تھیں.میری تائی اماں میری امی سے بھی بہت پیار کرتی تھیں.تائی اماں بھی وہ جوسب کے ساتھ بے انتہا پیار کرنے والی پانچ وقت کی نمازی دعا گورحم دل ہر چھوٹے بڑے کی خدمت کرنے والی.اس لیے سب اسکو اماں ہی کہتے تھے.پھر میں تو اس لحاظ سے بھی لاڈلی ہو گئی کہ میں اُس کی گود میں تھی.میری جائز ناجائز ہر خواہش پوری کرنا اُس نے اپنی ذمہ داری سمجھ لی تھی ، جس کا میری عادتوں پر بھی اثر ہوا.ضدی ہونا، اپنی ہر بات منوانی بگلی میں ہر پھیری والا جو بچوں کی چیزیں کھلونے یا کھانے کی چیزیں فروخت کرنے والا ہر کوئی ضرور ہمارے گھر کے آگے آکر آواز لگا تا.اُن کو یہ علم ہو چکا تھا کہ یہ بچی ہمیں کچھ خریدے بغیر جانے نہیں دیتی.میرے لیے اماں نے الگ سے پیسے رکھے ہوئے تھے کہ (192)
مجھے بار بار مانگنے کی ضرورت نہ پڑے، ( مجھے یہ سمجھانا تھا کہ مانگنا بری بات ہے ).کھانے کا اگر گرم لقمہ میرے منہ میں چلا گیا تو میرے منہ کے اندر پھونکیں مارنی.سکول داخل کیا تو سکول میں جس کو میں پسند کرونگی اُس سے ہی پڑھنا ہو گا ( اب سوچتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ مجھے ایک لفظ یاد نہیں جو میں نے اپنی آٹھ سال کی عمر تک پڑھا ہو ) اُس زمانے میں کسی کے پاس چھتری نہیں ہوتی تھی سوائے میرے سکول سے گھر آنے کے وقت تک میری اماں دروازے میں بڑی بے تابی سے میرا انتظار کر رہی ہوتی کہ میری بچی پڑھائی کر کے آ رہی ہے، گھر آتے ہی مجھے پنکھے کی ہوا دینی ،غرض میں لاڈوں کی پلی کو کچھ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ دنیا میرے گھر کے باہر بھی ہے.میری امی مجھے پڑھانا چاہتیں یا کبھی اماں کو کہتیں کہ بھابی اس کو کچھ پڑھایا بھی کریں تو میری اماں کا جواب ہوتا رہنے دو بہو ساری زندگی پڑی ہے پڑھ لے گی.ابھی کچھ نہ کہو میری بیٹی پر بوجھ نہ ڈالو کمزور ہو جائے گی.میری امی جان کبھی قادیان یا فیروز پور سے آتیں تو مجھے ساتھ لیکر جانا چاہتیں ہم دونوں کے رونے دھونے کے آگے اُن کی کوئی پیش نہ جاتی.اگر میں چلی بھی جاتی تو کچھ ہی دنوں بعد میری اماں آکر مجھے لے آتیں.اب میں اپنی تائی اماں کی بہت بڑی کمزوری بن چکی تھی جس کے بغیر اُن کا جینا بہت مشکل تھا.میری تائی اماں کا تعلق پانی پت کرنال سے تھا.جب میری اماں وہاں اپنے والدین کے گھر مجھے لے کر جاتیں تو وہاں بھی مجھے اتنا ہی پیار ملتا جتنا کہ میری اماں کرتی.بلکہ سچ بتاؤں تو مجھے یہ تو یاد نہیں کہ میری عمر کیا ہوگی.مگر تھوڑا یہ ضرور یاد آتا ہے کہ کوئی گود سے نیچے ہی نہیں اتر نے دیتا تھا اور میں سارا سارا دن گودوں میں چڑھی رہتی ، اُس وقت تک اُس گھر میں میرے علاوہ اور کسی کا کوئی بچہ نہیں تھا، اس لیے سب کچھ میں ہی میں تھی.وہاں کرنال میں اُن کے گھر سے دوسرے محلہ میں نواب زادہ لیاقت علی خان کا گھر تھا.وہاں کوئی ہاتھیوں کا سالانہ میلہ ہوتا تھا جس میں وہ اپنے آس پاس والوں کو بھی بلاتے تھے.ہاتھیوں کو (193)
سجانا اور اُن کے اُوپر بیٹھنے کی رتھ بنائی ہوتی جس میں خاص خاص لوگ بیٹھتے تھے.میری اماں نے مجھے میرے ماموں اور نانا کے ساتھ وہاں بھی بھجوایا.پانی پت کرنال کی بات کر ہی رہی ہوں تو یہ بات بھی یاد آتی ہے کہ وہاں جو سب سے زیادہ بہتات تھی وہ تھی بندروں کی ، ہر وقت ہر چیز اُن سے چھپا کر رکھی جاتی تھی.صبح آنکھ کھلتے ہی پہلے بندر نظر آتے تھے جتنا بھی کھانے کی چیزوں کو چھپا کر رکھ لیں وہ ڈھونڈ لیتے تھے.گھر کے دروازے بند کریں تو روشندان سے آ جاتے بلکہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی تو وہ چھوٹے نوزائدہ بچوں تک کو اُٹھا کر لیجاتے تھے.کرنال کی اور وہاں اُن سب رشتہ داروں کی میرے پاس بہت پیاری پیاری یادیں موجود ہیں اور وہ ہمیشہ رہیں گی.بے لوث پیار کوکون بھول سکتا ہے؟ پارٹیشن سے پہلے کی بات ہے ایک مرتبہ کوئی مانگنے والی عورت جس نے گود میں ایک بچہ کو اٹھا یا ہوا تھا ہمارے گھر آئی.وہ بہت رو رو کر اپنی رام کہانی سنارہی تھی جس کی مجھے کوئی سمجھ نہیں تھی.پھر میری اماں نے کہا بیٹی اس کو کچھ دو.اماں میرے ہاتھ سے صدقہ وغیرہ اکثر دلواتی رہتی تھیں.مجھے یاد نہیں میں نے اسے کیا دیا ہوگا.اماں نے اتنا بتایا کہ بیٹی جنگ لگی ہوئی ہے.اب ان کے پاس گھر نہیں ہے.میں بہت حیران تھی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس گھر نہیں ہے.پھر کچھ ہی دنوں کے بعد میری اماں نے مجھے بتایا کہ بیٹی اب انڈیا آزاد ہو جائے گا.یہ بات میری سمجھ سے بالکل باہر تھی کہ انڈیا اب آزاد ہو جائے گا اور پاکستان بن جائے گا.گورے واپس چلے جائیں گے.اب اکثر کر فی بھی لگنے لگے.اپنی اماں کو ڈرا ہوا اور فکر مند دیکھتی تو میری بھی جان نکل جاتی مگر میری سمجھ سے یہ سب باہر تھا کہ گورے کیا ہیں اور آزادی کیا ہے؟ وہ تو میرے چچا منظور نے ایک دن ہمیں جلدی سے گھر سے بھاگنے کیلئے کہا کہ شر پسند آ گئے ہیں حملہ ہو گیا ہے، جلدی جلدی بھا گو.ہم جیسے تھے جو چیز جہاں پڑی تھی ویسے ہی چھوڑی اور ایک چھت سے دوسری پر پھلانگتے ہوئے ہم سات یا آٹھ گلیاں جب گزر گئے تب مجھے نہیں معلوم کہ کس نے ہمیں دوبارہ واپس گھر (194)
جانے کیلئے کہا.ہم پھر اُسی طرح دیواریں پھلانگتے ہوئے واپس اپنے گھر آئے تو میری اماں نے وہ جو میری تھیلی میں پیسے تھے اور میری چاندی کی پازیب جوعید کیلئے بنوائی تھی ، وہ اُٹھائی.ابھی میری اماں آگے بڑھنے ہی لگی تھی میرے چانے میرا اور میری اماں کا ہاتھ پکڑا اور پھر اُن ہی راستوں پر دوبارہ بھاگے کہ اب واقعی شر پسندوں نے ہلہ بول دیا تھا.ہم لاشوں کے بازار سے گزرتے ہوئے کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں بھاگ رہے تھے.یوں ہی بھاگتے بھاگتے ہم اپنے ابا جان کی پھوپھو کے گھر پہنچ گئے.ہمارے علاوہ اور بھی ہمارے رشتہ دار وہاں پہنچ چکے تھے مگر سب کو اپنا اپنا فکر تھا.اُس وقت کوئی کسی کا ہمدرد نہیں تھا بلکہ ہر کوئی اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا، ایک میں تھی جس کا ہاتھ مضبوطی سے میری اماں نے پکڑا ہوا تھا اور اُس مشکل گھڑی میں یہ دعا سکھائی جو آج بھی جب میں پڑھتی ہوں تو اپنی اماں کے لیے دعا کرتی ہوں.دعا ہے: لا إله إلا أنتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ ہم ایک آن میں گھر والے ہونے کے باوجود مہاجر ہو گئے.اب اُس مانگنے والی عورت کی طرح ہمارے پاس بھی گھر نہیں تھا.ہم بھی اُن مہاجروں تک پہنچ چکے تھے جو مہاجروں کا کیمپ بنا دیا گیا تھا اور اب وہ قافلہ کی صورت میں پاکستان جانے کی انتظار میں تھے.نہیں جانتی کہ کتنے دن ہم اُس کیمپ میں رہے مگر یہ ضرور یاد آتا ہے کہ کتنی خوفناک گھڑیاں تھیں.آج بھی آنکھیں بند کروں تو اُن سرچ لائٹوں کی روشنیوں کو دیکھ سکتی ہوں جو رات بھر ہمارے اوپر ڈالی جاتی تھیں اور ہر تھوڑی دیر کے بعد یہ آواز آتی کہ ہوشیار شر پسند آگئے اور ہم سب ڈر کے مارے ایک دوسرے کہ ساتھ لپٹ جاتے.اُن دنوں کی دھندلی دھندلی یادیں میرے ذہن میں باقی ہیں مگر یہ دھندلی دھندلی یادیں بھی نہایت خوفناک اور تکلیف دہ ہیں.میں نے لوٹ مار قتل غارت اور آتشزنی کے بہت سے واقعات دیکھے ہیں (میرے سب بچوں نے یو کے میں ہی آنکھ کھولی ہے.وہ پاکستان کی اہمیت کو نہیں جانتے میں ، جس نے ہر ہر قدم پر لاشیں دیکھی ہیں اور پاکستان کو بنتے دیکھا ہے اُس کی اہمیت (195)
اور قدر جانتی ہوں.آج بھی ربوہ اور پاکستان میرے دل میں بستا ہے، گو کہ میری اپنی بھی پوری زندگی اب اس ملک کے ساتھ ہی وابستہ ہو گئی ہے ) آخر وہ گھڑی آگئی جب ہم نے ٹرین میں بیٹھ کر پاکستان جانا تھا.وہ بھی آج تک میرے ذہن پر نقش ہے ، ایک ٹرین اور بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے ہوئے ہزاروں لوگ.رونے کی آوازیں لڑائی ، دھکم پیل ، ہنگامہ شور ، لوگ ایک دوسرے سے بچھڑے ہوئے ہم نے بھی ایک دوسرے کا مضبوطی سے ہاتھ پکڑا ہوا، اس ڈر سے کہ ہم بچھڑ نہ جائیں اور ٹرین میں جگہ بھی مل جائے.موقعہ اور جگہ دیکھ کر میرے چچانے مجھے اور میری اماں کو زبردستی ٹرین کے ڈبہ میں دھکا دیا جہاں پہلے ہی لوگ ایک دوسرے کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے.ہم ماں بیٹی بھی اُن میں شامل ہو گئے مجھے او پر سامان والی برتھ پر جگہ ملی جہاں مجھے اٹکا دیا گیا اور پورے راستہ میری اماں نے مجھے ہاتھوں کے سہارے سے سنبھالے رکھا.اب بھوک کے مارے میرا بُرا حال تھا اور کچھ لوگ اپنے بچوں کو کھانا دے رہے تھے.( آج بھی مجھے اپنے ندیدے پن پر ہنسی آتی ہے کہ میں اُن کھانے والوں کو کیسے دیکھ رہی تھی ) اور میری اماں کی آنکھوں سے آنسو نہیں تھم رہے تھے کہ اُس کی نازوں کی پلی جس کے لیے وہ ہر وقت اُس کی خوشی اور خواہش پوری کرنے کے لیے تیار رہتی تھی وہ لوگوں کے کھانے کو حسرت سے دیکھ رہی ہے.میرے چچا جان نے بھی بہت مشکل حالت میں سفر طے کیا.ٹرین کے دو ڈبوں کو جہاں جوڑا جاتا ہے اُس خطر ناک جگہ پر وہ بیٹھ کر آئے ، ذرا سے جھٹکے سے لوگ وہاں سے گر کر ٹرین کے نیچے آ جاتے تھے.الحمد للہ ، اللہ تعالیٰ نے اپنی حفاظت میں رکھا.یہ تو نہیں جانتی کہ سفر میں کتنا وقت لگا ہوگا مگر اپنی اماں کے چہرے کی خوشی سے ظاہر ہو گیا کہ ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے ہیں.جب سٹیشن پر گاڑی رکی تو ہم غم کے ماروں کو جوسب سے پہلی خوشی ملی وہ یہ تھی سٹیشن پر میرے ابا جان موجود تھے.میرے ابا جان اکیلے فیروز پور میں رہتے تھے (196)
جیسے ہی حالات خراب ہوئے وہ سب سے پہلے لاہور پہنچ گئے.اس طرح وہ ہر گاڑی کو جو بھی لئے پٹے لوگوں کی آتی وہ اُن میں ہمیں ڈھونڈتے تھے اور آج ہم انہیں مل گئے.پارٹیشن کے وقت میں آٹھ سال کی تھی.میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں اور ساتھ اپنی اماں اور چھا جان کا بھی کہ آج جو میری زندگی ہے وہ اللہ کے فضل کے بعد ان دو محترم ہستیوں کی وجہ سے ہے اُن دونوں نے جس جانفشانی اور پیار سے میری حفاظت کی تو میں آج زندہ ہوں ورنہ اُس وقت تو ہر کوئی اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا.قدم قدم پر بچوں اور بڑوں کی لاشیں پڑی تھیں.میری اماں جن کے ساتھ میرا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا وہ تو پنجاب کی رہنے والی بھی نہیں تھی.اردوان کی زبان تھی چاہتیں تو اپنی جان بچا کر بھاگ جاتیں مگر انہوں نے اس پیار کے رشتے کی حفاظت کی اور اپنی جان سے بڑھ کر کی.بچپن میں تو ایسی باتوں کا احساس نہیں ہوتا لیکن آج سوچتی ہوں تو ہر پل اپنی اماں کے لیے دعا گو ہوں.میں اپنے چچا کیلئے بھی دل سے دعا کرتی ہوں کہ اس وقت صرف واحد یہ ہی ایک نشانی سلامت ہے اور مجھے بے حد پیارے ہیں.( میری امی جان اور میری تین بہنیں اُن دنوں قادیان میں تھیں جن کو پھر میرے ابا جان خود جا کر لے آئے تھے) پارٹیشن کے بعد پھر ہماری ساری فیملی لاہور میں ایک ہی گھر میں اکٹھی ہوگئی.وہاں سے پھر سب نے اپنے ٹھکانے ڈھونڈ لیے.میری اماں، میں اور چا کراچی چلے گئے.وہاں ایک سال بعد میرے تایا جی بھی افریقہ سے آگئے اور ساتھ میری اماں کا ویزہ بھی لیکر آئے.میرے تایا جی نے آنے سے پہلے میری اماں کو نہیں بتایا تھا کہ وہ مجھے ساتھ لے کر نہیں جارہے بعد میں آکر بتایا پھر مجھے بھی نہیں بتایا کہ میں نہیں جا رہی.میں ہر وقت دیکھتی تھی کہ میری اماں روتی رہتی ہیں، جب میں پوچھتی تو کوئی بہانہ بنا دیتیں.میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اب جدائی کا وقت آ گیا ہے.میں آج بھی اپنی اُس وقت کی آنکھ سے دیکھ سکتی ہوں کہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر ایک نو سالہ بچی پورا منہ کھول کر دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہے اور اُس کی اماں ٹرین کے ڈبہ سے آدھی سے زیادہ باہر جھکی (197)
ہوئی دونوں ہاتھوں کو ہلا رہی ہے.یہ نقشہ بھی میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا.جب بھی اُن سوچوں میں جاتی ہوں تو وہ کرب وہ دکھ میری زندگی کا حصہ بن جاتا ہے.کسی کا کہا ہوا ہے جو لکھنے لگی ہوں.میری اماں نے جاتے ہوئے کیا کہا ہوگا.اتنا تو مجھے یاد ہے، کچھ اُس نے کہا تھا کیا اُس نے کہا تھا، یہ مجھے یاد نہیں ہے میں اپنی امی جان کے پاس آگئی جن کو میں بچی کہتی تھی.شروع شروع میں تو ان میں سے کوئی بھی مجھے اچھا نہیں لگتا تھا، میں اکیلی گھر بھر میں راج کرنے والی ہر وقت اپنی بات منوانے والی کبھی کسی کو خاطر میں نہ لانے والی.اب اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر مجھے گھبراہٹ ہوتی تھی ، مگر میرے ابا جان میری بہنیں امی جان سب میرا پورا خیال رکھتے.میں اپنی اماں کی بگڑی ضدی بچی اُن میں کہاں فٹ ہو سکتی تھی.نماز پڑھو، یہ کرو، ایسے کرو.یہ سب پابندیاں میرے بس کی بات نہ تھی.مجھے بہت غصہ آتا تھا، میں پوری پوری رات رو کر گزارتی تھی ،کھانا کھانا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا.مجھے یاد ہے امی ابا جان کو میری فکر بھی بہت ہوتی تھی کیسے اس کو کنٹرول کریں گے.میری نسبت باقی میری بہنیں سعادت مند سبھی ہوئی تھیں.پھر آہستہ آہستہ میری تربیت ہونے لگی ، سکول بھی جانا شروع کر دیا.کچھ نہ کچھ فرماں بردار بھی ہو گئی.احمدیت کی باتیں بھی کانوں میں جانے لگیں ، سکول بے شک جارہی تھی پڑھنا تو آتا ہی نہیں تھا جو میں پڑھتی.میری امی جان کی محنت رنگ لانے لگی ، میری بہنیں بھی پیار کرتی تھیں.اللہ نے ہمیں چار بہنوں کے بعد بھائی بھی دیا جس سے میری کافی حد تک توجہ بٹ گئی تھی.بھائی کے آنے سے ہم سب بہت خوش تھے، میرا بھائی چھ ماہ کا تھا تو میرے ابا جان افریقہ چلے گئے.میں بظاہر دیکھنے میں ٹھیک لگتی تھی ، مگر بہت کمزور ہوگئی تھی.شاید میں اپنی اماں کی جدائی کو برداشت نہ کر پائی تھی.اُدھر میری اماں کا بھی کچھ ایسے ہی حال تھا دو سال ہم نے بڑی مشکل سے گزارے کہ وہ واپس پاکستان آگئیں، آتے ہی مجھے لینے آگئیں.اب میری امی نہیں (198)
چاہتی تھیں کہ میں جاؤں مگر نہیں جانتی میرا رونا یا میری اماں کا پریشر یا ہم دونوں کے ملاپ نے میری امی جان کو مجبور کر دیا کہ میں دوبارہ اُن کے ساتھ لاہور چلی گئی.اب میں گیارہ یا بارہ سال کی تھی سکول پھر ختم ہو گیا لیکن اب صرف یہ فرق ہوا کہ مجھے اماں نے گھر داری سکھانی شروع کر دی.کھانا کیسے بناتے ہیں ،صفائی کے سلیقے سویٹر بنانے اور اسطرح کے بہت سارے چھوٹے چھوٹے کام وہ مجھ سے کرواتیں تھیں ، وہ خود بہت سلیقہ شعار سلائی کڑھائی کی ماہر تھیں.اماں نے اپنے گن کچھ نہ کچھ میرے اندر ڈالنے کی کوشش کی اور مجھے احساس بھی نہ ہوا کہ میں کافی گھر داری جان چکی تھی.میں لاہور میں اپنی اماں کے پاس تھی.گھر میں میرے بڑے تایا جان اور اُن کی پوری فیملی بھی تھی.گھر اُن کا ہی تھا ہم اُن کے گھر میں رہتے تھے.بہت بڑا گھر تھا کچھ اور لوگ بھی رہتے تھے.میرے اور تایا جان کے علاوہ سب غیر احمدی تھے.اُن ہی دنوں 1953ء کے فسادات شروع ہوئے.دشمن یہ ارادہ کئے ہوئے تھے کہ سب احمدیوں کا نام ونشان مٹادیا جائے.ہمارا گھر انار کلی میں تھا.سب جانتے تھے کہ یہاں احمدی فیملی رہتی ہے، غیر احمدی جلوس بنا کر ہمارے گھر کی طرف آتے تھے کہ ہم آگ لگا دیں گے.پھر سب گھر والوں نے ڈرتے ہوئے مجھے میری اماں کے میکہ یعنی میرے ماموں کے گھر اور تایا جان کو بھی کہیں اور بھجوادیا.یہاں سے میری زندگی کا رُخ بدلنا شروع ہوا.یقین کریں میں بالکل نہیں جانتی کہ کیوں میرا دل چاہنے لگ گیا کہ میں واپس اپنے بہن بھائیوں کے پاس چلی جاؤں اور پھر یہ بھی مجھے احساس ہوا کہ میں تو احمدی ہوں مجھے اپنی امی جان اور بہن بھائی یاد آنے لگے.اُدھر میری اماں کا بھی واپسی کا پروگرام بن گیا چونکہ لاہور میں جماعت کے خلاف کافی بڑے حالات تھے میری اماں چاہتی تھی کہ مجھے میرے گھر پہنچا دیا جائے.میری اماں اور باقی ساری فیملی احمدی نہیں تھی اس لیے اُن کا یہ خیال کہ یہ بچی اب جوان ہوگی تو اس کی شادی کا مسئلہ ہوگا.اس لیے بہتر ہے اب اس کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ دیں.میری اماں نے خود آکر مجھے ربوہ چھوڑا اور سمجھایا کہ اب تم نے مجھے یاد نہیں کرنا.یہی تمہارا گھر ہے اور پھر وہ ہمیشہ کے (199)
لیے افریقہ چلی گئیں.وہاں سے اکثر پیار بھرے خطوط آتے رہے ، میں بھی جواب میں اپنی یاد کا رونا روتی تھی، اُن کی یاد تو مجھے آج بھی آتی ہے.اُن کی وفات بھی افریقہ میں ہی ہوئی ،فوت ہونے سے پہلے میری شادی کے لیے زیور اور کچھ سوٹ خرید کر میرے ابا جان کو دیئے اور کچھ اُن کے تکیہ کے نیچے سے میرے نام کی چیزیں نکلیں جن پر میرا نام لکھا تھا.وہ میرے پیار کو اور میں اُسے بھول نہیں سکتے تھے.آج بھی میں ہمیشہ ہر نماز میں اُن کیلئے دعا کرتی ہوں.یہاں سے اب میری دوسری اور اصل زندگی کا آغاز ہوتا ہے.میری پیاری امی جان امی جان حلیمہ بیگم صاحبہ مرحومہ (اہلیہ شیخ محمد حسن صاحب مرحوم) جو نہایت ہی رحیم ، اپنے نام کی طرح حلیم شفیق مشفق ، دعا گو بزرگ ہستی تھیں.میری والدہ وہ خوش نصیب خاتون تھیں جن پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ان کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی.آپ کے والدین حضرت میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے اور والدہ برکت بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں ۱۸۹۵ء میں حضرت اقدس مسیح موعود کی بیعت سے مشرف ہو کر اصحاب مسیح میں شامل ہو چکے تھے.میری امی جان فروری ۱۹۱۳ء میں ہرسیاں میں پیدا ہوئیں.اس خاندان نے لگ بھگ ۱۹۱۷ ء میں قادیان ہجرت کی اور دار الفضل میں رہائش اختیار کی.اس طرح امی کو بہت کم عمری سے قادیان دارالامان کی بابرکت فضاؤں میں رہنا نصیب ہوا.گھر کا ماحول بہت سادہ ، دیندار اور علم پرور تھا.آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا عبد الغفور ابو البشارت صاحب (۱۸۹۸ء تا ۱۹۶۱ء) سلسلہ کے جید مناظر اور مبلغ تھے.ایک بھائی مکرم صالح محمد صاحب (۱۹۰۶ ء تا ۱۹۷۵ء) کو بحیثیت تاجر مبلغ افریقہ میں خدمات کا موقعہ ملا.ایک بھائی مکرم میاں عبد الرحیم صاحب دیانت ( ۱۹۰۳ء تا ۱۹۸۰ء) قادیان میں درویش رہے.محترم محمد عبد اللہ صاحب 19/4/1911 کو ہرسیاں میں پیدا ہوئے.سب سے چھوٹے بیٹے محترم عبدالحمد صاحب (شاہین سوئیس نیو یارک) امریکہ اپریل (200)
1928ء کو قادیان میں پیدا ہوئے اور 4 ستمبر 2014ء کو نیو یارک میں 86 سال کی عمر میں وفات پا گئے اناللہ وانا الیہ راجعون.کل پانچ بھائی اور چار بہنیں تھیں.امی نے پانچویں جماعت تک سکول میں تعلیم پائی.قادیان کے ماحول اور گھر کی تعلیم و تربیت کا اثر تھا کہ دینی علوم میں ماہر تھیں اور قرآن پاک سے محبت تھی.اسی طرح در ثمین، کلام محمود اور دیگر شعرا کے پاکیزہ اشعار وردزبان رہتے.ایسی ہستی کی خوبیوں کا احاطہ کرنا اتنا آسان نہیں ان کی زندگی پر تو جتنا بھی لکھا جائے کم ہے.میں جو بھی الفاظ استعمال کرونگی وہ کم ہونگے.مگر اُن کی شخصیت کی تصویر کشی کے لیے انہی کی زندگی کے وہ سچے اورا چھوتے واقعات لوں گی جو حقیقت پر مبنی ہوں اور اُس حسن کو نکھار سکیں جن کی وہ حقدار ہیں.میری امی کی شادی ۱۹۳۵ء میں لدھیانہ میں ہوئی.میری امی جان جب شادی ہو کر آئیں تو گھر میں صرف میرے دادا جان اور تایا جان احمدی تھے.ابا جان کو تھوڑ ا عرصہ ہوا تھا احمدیت قبول کئے ہوئے.( ابا جان کا احمدیت کو قبول کرنا ، شادی ، اور باقی ساری باتیں اُن کے بارے میں جب لکھوں گی تو ساری تفصیل سے لکھوں گی.یہاں صرف اُمی جان کے متعلق لکھنا چاہتی ہوں ) امی جان بہت تقویٰ شعار اور خدا سے بے حد پیار کرنے والی بے حد صابر شاکر کبھی کسی کا برانہ چاہنے والی پیاری ہستی تھیں، ہر ایک سے محبت کرنے والی اور جس سے ایک مرتبہ تعلق ہو جائے اس کو ہمیشہ نبھانے والی.ان کا ایک خاص وصف خدا تعالیٰ پر توکل تھا.میرے ابا جان کی پوری فیملی غیر از جماعت اور تعلیم سے نابلد تھی.وہاں میری امی جان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی کی بیٹی، مربی بھائیوں کی بہن ، خود بھی اُس زمانہ کی پانچ جماعت پاس تھیں اور باقی ساری فیملی بھی اُن کی پڑھی لکھی تھی.اب جب میری امی اس نئے ماحول اور نئے گھر میں گئیں تو میرے دادا جی تو بہت خوش تھے کہ ایک اور احمدی فرد کا گھر میں اضافہ ہو گیا ہے مگر باقی گھر والوں کے لیے بہت تکلیف دہ بات تھی کہ اب یہ احمدی بڑھتے جارہے ہیں.پہلے صرف تایا جی ، داداجی ، پھر میرے ابا جان احمدی وئے اور اب یہ مرزا ئین بھی گھر میں آگئی ہے.نہ جانے یہ ہمارے ساتھ کیا کرے گی.لیکن میری ہو (201>
میری یونجی امی جان نے اپنے لیے اس ماحول کو مشکل نہیں بنایا بلکہ ان سب کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ وہ سب میری امی جان کے گن گانے لگے.اپنے حسن سلوک سے سب کے دل جیت لیے.ہر شخص اُن کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا.خاص طور پر میرے دادا جان کی خوشی کی انتہا نہ تھی.مگر زیادہ بات نہیں کرتے تھے.دعاؤں پر زور تھا کہ اللہ کرے کہ میری اس بہو کا آنا سارے گھر کیلئے با برکت ہو.اُمی جان کے طور طریقوں سے گھر کی فضا میں تھوڑ ا سکون سا ہو گیا کہ امی نے ساری مخالفت میں اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہر بات کو سمجھداری سے سنبھال لیا اور کوئی موقع اُن کو نہیں دیا کہ وہ کوئی اعتراض کر سکیں.پھر امی جان کی سمجھ داری کی تعریفیں شروع ہو گئیں.ہر معاملہ میں امی جان سے مشورہ لینا ضروری ہو گیا.اب کوئی بھی کام کرنے سے پہلے کہا جاتا بہو سے پہلے پوچھیں ، میری امی اس گھر کی مشیر ہو گئیں.( میری امی کو سب بہو کہہ کر بلاتے تھے ) امی جان کی اس گھر میں شادی سے جو کمزور سا احمدیت کا پودا تھا اُس کی آبیاری شروع ہو گئی.امی جان کے رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کے جو ہر کھل کر سامنے آنے شروع ہو گئے.احمدی اور غیر احمدی سب امی کی عزت کرتے اور راہنمائی حاصل کرتے.ابا جان کی ایک پھوپھی حاجن تھیں جن کی گھر میں بہت عزت کی جاتی تھی.وہ احراریوں کے لیڈر عطاء اللہ شاہ بخاری کی بہن بنی ہوئی تھیں.وہ میری امی کی شدید مخالفت کرتی تھیں.میری امی کو سختی سے منع تھا کہ جب وہ اس گھر میں ملنے کیلئے آئیں تو میری امی اُن کے سامنے نہ جائیں.مگر میری امی جان ہمیشہ اُن کو گھونگٹ نکال کر سلام کرنے آجاتیں.کیونکہ امی جان نے تعلیم ہی یہ پائی تھی کہ ؎ گالیاں سن کر دعا دو، پا کے دکھ آرام دو آرام دینا اور لوگوں کو سکھ پہنچانا اُن کی زندگی کا مقصد تھا.ہر ایک کی مدد کرنا اُن کا شیوہ تھا.کسی کا دکھ یا تکلیف اُن کی برداشت سے باہر تھی.جہاں اُن کولوگوں کو سکھ پہنچانے کا گر آتا تھا وہیں اپنا دکھ چھپانا بھی وہ بہت اچھی طرح سے جانتی تھیں.ہوا یوں کہ ہمارے ایک غیر احمدی تایا جی جو محلہ کے (202)
چوہدری بھی تھے اُن کے گھر کوئی شادی تھی اور جانا ضروری تھا.والد صاحب شہر سے باہر گئے ہوئے تھے.سب گھر کی عورتوں نے امی جان کو جانے کیلئے مجبور کیا.اس وقت امی کی گود میں مجھ سے چھوٹا میرا بھائی رشید تھا.اُس کی طبیعت پہلے ہی کچھ خراب تھی جس وجہ سے وہ شادی میں نہیں جانا چاہتی تھیں.مگر سب کے مجبور کرنے پر امی جان شادی میں چلی گئیں.وہاں جا کر بچے نے قے کی جس کی وجہ سے اُس کی حالت زیادہ خراب ہوئی.امی جان یہ سوچ کر کہ شادی میں بدمزگی پیدا نہ ہو کوئی بہانہ بنا کر گھر آگئیں.پھر ایک دو دن کے بعد بچہ کی وفات ہو گئی.امی کے صبر اور قربانی کی مثال ملنی بہت مشکل ہے.اُن کو اپنے جذبات پر قابورکھنا بہت اچھی طرح آتا تھا.امی جان پیار و ایثار کا دامن ہر وقت تھامے رہتیں ، سب کے دلوں میں آسانی سے جگہ بنالیتیں.دوسروں کی ضرورت کو بہت جلد بھانپ لیتی تھیں.میرے ابا جان کے دو بھائی تو پہلے ہی افریقہ میں تھے ، جب تیسرے بھائی کے جانے کا وقت آیا تو سب سے بڑا مسئلہ اُس رقم کا تھا جو سفر کے لیے اُن کو چاہئے تھی.رقم دینے کیلئے گھر میں سب نے جواب دے دیا ، جب میری امی جان کو علم ہوا تو اُنہوں نے فوراً اپنا سارا زیور نکال کر میرے ابا جان کو کہا کہ یہ زیور محمود کو دے دیں تا کہ وہ اپنا ٹکٹ وغیرہ کا انتظام کر لے.میرے ابا جان کو یہ پسند نہ آیا کہ میری بیوی اپنا سارا زیور نکال کر دے دے.ابا جان جانتے تھے کہ عورتوں کو زیور کتنا پیارا ہوتا ہے لیکن میری امی جان نے کہا زیور تو پھر بھی بن سکتا ہے مگر ابھی جو ضرورت ہے وہ پوری ہونی چاہئے.پھر اپنا سارا زیور چچا جان کو دے دیا جس سے اُنہوں نے اپنا ٹکٹ لیا اور اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے.میرے چا ہمیشہ میری امی جان کی اس نیکی کی تعریف کرتے اور اپنے بچوں کو ایثار کا سبق دیتے.باوجود اس کے کہ گھر میں سب غیر احمدی تھے مگر پھر بھی سب غیر احمدی رشتہ داروں نے قادیان کی زیارت بھی کر لی تھی ، خاص طور پر میری تائی اماں کا چکر تو میری وجہ سے لگتا ہی رہتا تھا.مجھے چھوڑنے آنا یا لے کر جانا.مجھے یاد ہے کہ میں اُن دنوں اپنی امی جان کے پاس قادیان میں تھی.میری امی شروع دن سے (203)
میری یونجی ہی شکست نہ ماننے والی روح اور صبر سکون کا مجموعہ تھیں.حالات سے لڑنے کی بے پناہ توانائی اُن میں تھی.میرے ابا جان فیروز پور میں تھے اور امی جان قادیان میں.اُن دنوں شاید ہندومسلم فساد شروع ہو چکے تھے.ہم چار بہنیں اور امی ہی رہتے تھے.جگہ کا تو مجھے یاد نہیں کہ کون سی تھی مگر اتنا یاد ہے کہ امی ہمیں سلا کر خود سر پر پگڑی پہنے ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا لیے پوری رات چھت پر گزار دیتی تھیں.( اللہ ان کو اجر عظیم عطا کرے) پھر جب پاکستان بن گیا ، زندگیوں میں بے شمار اتار چڑھاؤ آئے.کچھ دیر کیلئے ہم پنڈی بھٹیاں اپنی خالہ جی صالحہ (مرحومہ) کے ساتھ رہے اور وہاں اُن سے میں نے قرآن کریم پڑھا.پھر ہم گھوم پھر کے کچھ دیر کیلئے فیصل آباد رک گئے ، جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی یعنی ہم چار بہنوں کے بعد بھائی سے نوازا اور اس بھائی کے آنے پر بھی امی کی بے مثال قربانی ہے.جن دنوں میرا بھائی دنیا میں آنے والا تھا ، ان ہی دنوں مرکز سے رضا کار بھجوانے کی تحریک ہوئی.محاذ پر جانے کیلئے جن صاحب کا نام تجویز ہوا وہ اپنی کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے جانہیں سکتے تھے.انہوں نے تجویز کیا کہ ان کی جگہ کسی دوسرے شخص کو بھجوادیا جائے اور وہ اس کا خرچ برداشت کریں گے.جماعت کی نظر انتخاب میرے ابا جان پر پڑی لیکن میرے ابا جان کی مجبوری یہ تھی کہ سب بچے چھوٹے چھوٹے تھے اور امی امید سے تھیں.جماعت کی تجویز اور اپنی ساری فکروں کا اظہار جب امی جان کے ساتھ ابا جان نے کیا تو امی کا جواب یہ تھا کہ اگر آپ کو محاذ پر جانے کا کہا جارہا ہے تو آپ کو ضرور جانا چاہئے ، آپ میری فکر نہ کریں.دنیا میں بے شمار ایسی بھی عورتیں ہوتی ہے جو جنگلوں میں بچوں کو جنم دیتی ہیں، آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور ضرور جہاد میں شامل ہوں.یہ حوصلہ افزا جواب سن کر ابا جان نے جانے کی تیاری کر لی.ہمارا گھر فیصل آباد کی مسجد کے بالکل سامنے تھا ، اُن دنوں وہاں کے مربی مکرم مولوی اسماعیل صاحب دیا گڑھی تھے.مولوی صاحب اور اُنکی بیگم خالہ جی نے ہمارا بہت خیال رکھا.وہ یہ جانتے تھے کہ (204)
ابا جان جارہے ہیں اور امی کس حال میں ہیں اس لیے وہ ہر وقت ہماری مدد کیلئے تیار رہتے تھے.بعد میں میرے بھائی محمد اسلم خالد کی پیدائش 20 فروری 1950ء کو ہوئی.میں اُس وقت گیارہ سال کی تھی.میں اپنی امی جان کی مددگار بھی تھی.جانے سے پہلے ابا جان مجھے ایک دن اُس دائی کا گھر دکھانے کیلئے لے گئے کہ جب تمہاری امی اس عورت کو بلانے کیلئے کہیں تو یہ برکت بی بی کا گھر ہے تم اس کو لینے آجانا.وقت آنے پر میری امی نے کہا جاؤ جا کر خالہ جی کو بلا کر لاؤ.خالہ جی آئیں تو میں خالوجی کے ساتھ برکت بی بی کو بلانے چلی گئی.رات کا وقت تھا.ایک جیسی ساری گلیاں تھیں.میں آدھی سوئی آدھی جاگی ہوئی بھول گئی کہ کہاں جانا ہے، اب خالو جی بار بار مجھے پوچھ رہے ہیں کہ بیٹی بتاؤ کونسا گھر ہے ، بیٹی کو خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا بتاؤں کہاں جانا ہے اور کون سا گھر ہے؟ گھر ڈھونڈتے ہوئے ایسا بھی ہوا کہ سامنے ریت کا ڈھیر پڑا ہوا تھا اندھیرے میں خالو جی کو لگا کہ پانی ہے.جب ریت سے سائیکل ٹکرایا تو ہم دونوں منہ کے بل ریت پر گرے.ریت جھاڑتے ہوئے اُٹھ کر پھر برکت بی بی کا گھر ڈھونڈنا شروع کیا.یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ برکت بی بی نام یا درہ گیا تھا.پھر ہمیں چوکیدار کی آواز آئی ! جاگتے رہو! ہم فوراً اُس آواز کی طرف گئے اور اُن سے برکت بی بی کا گھر پوچھا.وہ ہمیں برکت بی بی کے گھر تک لیکر گئے.الحمد للہ ! پھر ہم اُس برکتوں والی برکت بی بی کو گھر لیکر آئے.آج میں اپنی اُمی جان کے بارے میں سوچ کر حیران اور پریشان ہوتی ہوں کہ کیسے انہوں نے اتنے مشکل مراحل میں اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھا ہو گا.خاوند پاس نہیں ، مالی مجبوریاں اپنی جگہ.بچے سب چھوٹے چھوٹے تھے.نہیں جانتی اُس مشکل وقت میں وہ کیا دعائیں کرتی ہوں گی.میں امی جان کی بہادری اور ہمت کو سلام کرتی ہوں.کاش کہ میری امی جان نے اتنے مشکل وقت نہ دیکھے ہوتے.اللہ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر دے اور جنت الفردوس میں تمام نیکیوں کا بدلہ دے آمین.حضرت مولوی دیا لگڑھی صاحب اور انکی بیگم کی بہت ساری نیکیاں ہیں جو انہوں نے ہمارے (205)
ساتھ کی ہیں، میری امی جان کی بہت مدد کی.ہمیشہ اُن کیلئے دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اجر عظیم عطا فرمائے.اپنی امی کے بارے میں اتنا ہی کہ سکتی ہوں کہ ایک برد بار اور تحمل والی عورت ہی اتنی بڑی قربانی دے سکتی ہے.جب تین ماہ کے بعد ابا جان واپس آئے تو انکا ایسٹ افریقہ جانے کا پروگرام بن گیا.چونکہ مالی حالات اتنے اچھے نہیں تھے اور بہت مشکل سے گزراوقات ہوتی تھی.ابا جان کی ساری فیملی افریقہ میں ہی تھی سواب ابا جان بھی افریقہ چلے گئے.میری امی جان کے لیے ہر لحاظ سے وہ بہت ہی مشکل دور تھا مگر اُس وفا کی پتلی نے کبھی بھی اپنی زبان سے اُف نہیں کیا ، بڑی بہادری سے ہر مشکل کا سامنا کیا.ابا جان کے افریقہ جانے کے بعد میں بھی اپنی تائی اماں کے پاس واپس چلی گئی.میرے جانے کے کچھ عرصہ بعد امی جان اپنی تینوں بیٹیوں اور بیٹے کے ساتھ ربوہ کی مقدس سرزمین پر آکر آباد ہو گئیں.1953ء مارچ یا اپریل کا مہینہ تھا جب میں اپنی تائی اماں کے پاس سے اپنی امی جان کے پاس مستقل طور پر ربوہ آگئی.آکر میں نے سکول میں داخلہ بھی لے لیا.میری پڑھائی تو کافی متاثر ہو چکی تھی اور میں اپنی عمر کے لحاظ سے بہت پیچھے تھی.کلاس میں سب بچے مجھ سے عمر میں چھوٹے اور پڑھائی میں ہوشیار تھے، جبکہ میں کچھ بھی نہ جانتی تھی.پھر بھی میری امی جان کی خواہش تھی کہ میں کچھ نہ کچھ تعلیم ضرور حاصل کر لوں.میں بھی چاہتی تو بہت تھی مگر اب میرے بس میں نہیں تھا کہ میں اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکوں.کوشش تو کرتی رہی لیکن میری زیادہ توجہ اب گھر کے کاموں کی طرف ہوگئی.جب میں ربوہ آئی تو ہمارا پہلا گھر چھوٹا سا ایک کچے کمرے کا تھا.اس کمرہ میں ہم سب سوتے تھے اور وہی ہمارا باورچی خانہ بھی تھا.تھوڑی سی چار دیواری کر کے چھوٹا سا صحن تھا.ان دنوں سردیوں میں ایک دو مرغیاں بھی ہمارے ساتھ ہی سوتی تھیں.ہمارا وہ گھر شاید کالے کیڑوں کے بسیرے پر آباد تھا اور وہ کیڑے شام ہوتے ہی سینکڑوں کی تعداد میں اپنا حق جماتے ہوئے نکل آتے.وہ اسقدر زیادہ تعداد میں ہوتے کہ ہمیں زمین پر پاؤں نہیں رکھنے دیتے تھے.ہر روز امی (206)
جان چار پائیوں کے چاروں پاؤں کے نیچے پیالوں میں پانی بھر بھر کر رکھتی تھیں مگر وہ پھر بھی داؤں گا کر ہمیں کاٹ جاتے.ان کیڑوں سے ہمارے گھر کی زمین کالی ہو جاتی تھی اور اوپر سے مچھر اپنی خوفناک میوزک کے ساتھ رات بھر تابڑ توڑ حملے کرتے اور کبھی بھی اپنا وار خالی نہ جانے دیتے.اُس وقت کی اذیت ناک راتیں آج کی خوشگوار اور میٹھی یادیں ہیں.ہمارے گھر کے سامنے احاطہ تھا جس میں وہ عورتیں رہتی تھیں جن کے ساتھ کوئی مرد نہیں تھا یعنی بیوائیں یا درویشوں کے خاندان.ان میں ہی میری ممانی جان اور اُن کے بچے رہتے تھے.ماموں جان قادیان میں درویش تھے.اُن کی وجہ سے ہمیں یہ سہولت ملی کہ ہم احاطے سے بالٹیاں بھر بھر پانی لاتے اور نمازوں کے اوقات میں استانی برکت بی بی صاحبہ کے پیچھے باجماعت نمازیں بھی ادا کرتے.ہم اس گھر میں تھوڑا عرصہ رہے وہ گھر غالباً ریلوے اسٹیشن کے قریب تھا.میری امی جان بہت جفاکش اور محنتی خاتون تھیں.ابا جان تو ہمارے افریقہ میں تھے.ہم چار بہنیں اور ایک منا سا بھائی تھا جن کو امی ہر وقت اپنے پروں تلے دبائے ہر سکون پہنچانے کی کوشش میں لگی رہتیں.اس گھر میں کافی مشکلات تھیں.ویسے بھی یہ پہلا پڑاؤ تھا ابھی منزل تو تلاش کرنی تھی.جانے کیسے امی کو خالہ سائرہ اہلیہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب مل گئیں جنہوں نے امی کو مجبور کر کے اپنے گھر کا آدھا حصہ کرائے پر دے دیا اور ہم وہاں شفٹ ہو گئے.کمرہ تو وہاں بھی ایک ہی تھا مگر ساتھ برآمدہ بھی تھا جو ہمارا باورچی خانہ بنا.صحن بھی پہلے سے تھوڑا بڑا تھا، مگر ہم خوش تھے کہ کم از کم کیڑوں سے تو جان چھوٹی تھی اور پہلے سے گھر بھی کچھ بڑا تھا.کچھ مرغیاں یہاں بھی ہمارے ساتھ ہی آئی تھیں.ہماری امی کو نیکی کمانے کا کوئی موقعہ ملے اُس کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں.جیسے ہی یہ علم ہوا کہ اس گھر میں میٹھا پانی نکل سکتا ہے، فوراً گھر میں تل لگوایا.الحمد للہ پانی بھی بہت اچھا میٹھا نکلا.پھر کیا تھا! سب محلہ والوں کو اجازت دی کہ سب یہاں سے پانی لے سکتے ہیں.اُس زمانہ میں نل لگوانا بڑی بات تھی.اکثر تو ماشکی بھی ہمارے گھر سے پانی بھر نے آتے تھے.بعض اوقات تو (207)
ایسے بھی ہوتا کہ عورتیں ہمیں نیند سے اُٹھا کر پانی لینے آجاتیں مگر میری امی کبھی انکار نہ کرتیں.ثواب کمانے کا موقعہ تو وہ جانے ہی نہیں دیتی تھیں.ان ساری باتوں کے باوجود یہ گھر بھی ہماری منزل نہ تھا.خالہ جی سائرہ اور ان کے بچوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہو گئے.ان کے اور ہمارے گھر کے درمیان ایک چھوٹی سی دیوار تھی.جیسے کچے گھر تھے ویسے ہی دیوار بھی کچی مٹی کی بنی ہوئی تھی.خالو جی شیخ محمد عبد اللہ صاحب کا لکڑی کا ٹال گھر کے سامنے ہی تھا.( اللہ تعالی انہیں جنت نصیب کرے.ہمارا اور ہمارے گھر کا بھی خیال رکھتے کہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے.کوئی ان کو نقصان نہ پہنچائے) ان دنوں ویسے بھی بچھی جلائی جاتی تھی.بیچنے والے اونٹوں پر پیچھی لے کر آتے.ہماری امی کی عادت تھی کہ وہ جب چیز لیتیں تو اکٹھی لے لیتیں.ربوہ کے آس پاس کے گاؤں سے دودھ گھی اور گندم بھی لوگ لے کر آتے جو ان دنوں آنوں کے حساب میں ہوتے تھے.گندم اور چاول تو سال بھر کے لیتے تھے.یہ میں اُن دنوں کی بات کر رہی ہوں جن دنوں ربوہ جنگل بیابان تھا.ڈربھی بہت لگتا تھا.خاص طور پر جب آسمان پر دھوئیں کی طرح اٹھتے سیاہ بادل نظر آتے تو جان نکل جاتی تھی.یہ اشارہ ہوتا تھا بہت ہی خوفناک قسم کی آندھی کا.ہم سب کوشش کرتے کہ سب ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیں کیونکہ ڈر ہوتا کہ ہم اس آندھی میں اڑ نہ جائیں.اس آندھی کے بعد ہم سب ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے تھے ، سب کی شکلیں بھوت کی طرح ہو جاتی تھیں.آنکھیں ، ناک، منہ سب مٹی سے اٹ جاتے.آندھی کے ختم ہونے پر سب ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ بھی ہوتے کہ جس رنگ کی آندھی ہوتی ہماری شکلیں بھی اسی رنگ میں رنگ جاتیں لیکن یہ سب مزہ آندھی کے بعد ہوتا.آندھی کے دوران تو ڈر کے مارے جان نکلی ہوتی اور ہماری امی ہم سب کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹے ہوتیں.اکثر آندھی کے بعد بارش ہوتی تو ہمارے کچے گھر کی چھت ٹپکتی.باہر بارش رک جاتی مگر ہمارے گھر کی چھت کئی دنوں تک ٹپکتی رہتی.ہماری امی چھت پر ہوتیں اور (208)
ہم سب بچے مٹی کے تسلے بھر بھر کر امی کو پکڑاتے.امی نے وہی سر پر پگڑی کی طرح دو پٹہ باندھا ہوا ہوتا تا کہ باہر لوگوں کو لگے یہ کوئی مرد ہی کام کر رہا ہے.کچے گھروں سے بلکہ یہ کہنا چاہئے مٹی کے گھروندوں سے نکلنے کا وقت آ گیا.اب کچھ ہم بھی بڑے ہو رہے تھے اور ابا جان کی طرف سے منی آرڈر بھی آنے شروع ہو گئے تھے.ایک دن میری امی جان کو خالہ سائرہ نے کہا سعیدہ کی امی ( امی کو اس طرح ہی وہ بلاتی تھیں میری بڑی بہن کے نام سے ) دار براکات میں ہم زمین لینے لگے ہیں کیوں نہ ہم مل کر ایک کنال لے لیں.دس مرلے ہم اور دس مرلے آپ لے لیں.امی کو یہ بات بہت پسند آئی اور جوز میں انہوں نے پسند کی تو امی جان اور ہم بچوں کو بھی ساتھ لے کر وہ جگہ دیکھنے گئے.امی جان کے مشیر ہم پانچوں بچے تھے.زمین کیا دیکھی !کلر، بیابان، پانی بھی نمکین.دور دور تک کوئی گھر نہ گھر کا نشان.پر یشانی تو بہت ہوئی لیکن پھر تسلی اس بات سے ہوئی کہ جو زمین ہم لے رہے تھے اُس کے ساتھ ایک گھر بنا ہوا تھا.اس فیملی کو ہماری امی جان فیصل آباد سے جانتی تھیں کہ وہاں اُن کے گھر وہ چندہ لینے جاتی تھیں.اس تسلی سے ہماری امی جان نے زمین لینے کی حامی بھر لی.زمین کے بعد اب مکان بنانے کی باری تھی.میرے ابا جان تو یہاں تھے نہیں.میری امی نے سر دھڑ کی بازی لگائی.خود ہی آرکیٹیکٹ بن گئیں ، خود ہی زمین پر نقشہ بنا یا ٹھیکد ارڈھونڈے.ہر روز محلہ دارالرحمت سے مزدوروں کے سر پر کھڑے ہونے کے لیے محلہ دار البرکات جاتیں.دن رات کھڑے ہو کر نگرانی کرتیں.ان دنوں یہ مسافت بہت زیادہ تھی اور کوئی سایہ دار درخت یا سواری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.الحمد للہ ! ہماری امی جان کی محنت بر آئی اور ہمارا گھر بن گیا.گھر بن جانے پر ہم اپنا سامان ریڑھے پر لاد کر اپنے نئے اور مستقل گھر میں آگئے.اب ہم بھی اپنے گھر والے اور پکے گھر والے ہو گئے.امی جان نے سب سے پہلے گھر میں نل لگوایا.بیشک نمکین پانی تھا مگر باقی ضروریات کے لیے پھر بھی پانی کی ضرورت تو تھی.ماشکی سے پینے کا میٹھا پانی لیتے تھے، اکثر میٹھا پانی کم ہو جا تا.ہر (209)
چیز پر ہمسایوں کا حق تھا.جدھر بھی پانی کم ہوتا تو دوسرے گھر سے پانی کا گلاس مانگا جاتا.پھر رات کو ہم نے اپنی امی جان کے ساتھ سروں پر مسئلے اٹھائے محلہ دارالرحمت سے پانی بھر بھر کر لانا شروع کر دیا.اُس وقت بھی امی کے ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا ہوتا، ہر قسم کے کتوں کو ڈرانے کیلئے.اُن دنوں دور دور تک کوئی درخت کا نام و نشان نہیں تھا، میرے چھوٹے بہن بھائی باہر کہیں سے ایک کیکر کا چھوٹا سا پودا لے کر آئے.وہ ہمارے گھر کا پہلا پودا تھا.اس کو ہم صبح شام اپنے وضو اور منہ دھونے والے پانی سے سیراب کرتے تھے.ہماری ساری فیملی اس پودے کے گردگھومتی رہتی اور دیکھتی کہ کوئی نیا پتہ نکلا کہ نہیں.غرض اب اُس پودے کے ساتھ ساتھ ہم سب بھی جوان ہو رہے تھے.میں تو شروع دن سے ہی پڑھائی میں لکھی تھی سو اپنی امی جان کے ساتھ گھر میں ان کا سہارا ابن گئی.میری بڑی بہن چونکہ بچپن میں گرگئی تھی اور سر میں چوٹ لگی تھی اس لیے زیادہ پڑھائی کرنی اس کے لیے مشکل تھی.پھر بھی اس نے مڈل تک پڑھائی کی.باقی تینوں چھوٹے ایک بھائی اور دونوں بہنیں پڑھنے والے نکلے.گھر کے اندر باہر کے کاموں میں وہ بھی مجاہدوں کی طرح ہی ساتھ دیتے.ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی چیز اُسی دن بازار سے لے کر آتے تھے.جب کوئی مہمان آتا فورا بازار بھاگے جاتے.پہلے پہل تو میری بہنیں جاتیں ، پھر وہ بڑی ہوئیں تو خالد کی دوڑ لگی رہتی.پھر سب بہنوں کی فرمائشیں بھی اُس نے پوری کرنی ہوتیں.وہ بیچارہ ہر وقت ہمارے لیے بازاروں میں بھاگا رہتا.ان دنوں ٹی وی وغیرہ تو ہوتا نہیں تھا.شکر ہے گھر میں ایک چھوٹا سا بیٹری والا ریڈیو تھا جس سے خبریں سنتے تھے.الفضل اور مصباح کے علاوہ بھی دنیا بھر کے اخبار اور رسالے ہمارے گھر آتے تھے.خاص طور میں کیونکہ سکول نہیں جاتی تھی، کوشش کرتی کہ گھر کے کام کاج جلدی جلدی ختم کرلوں بلکہ امی جان کو اور اپنی بہنوں کو گھر کے کام نہیں کرنے دیتی تھی.دل میں یہی خیال ہوتا کہ سارے کام میں جلدی جلدی ختم کرلوں گی تو پھر کتا بیں اور رسالے پڑھنے کی اجازت ہوگی.ہمارا نیا گھر ہنئی جگہ اور اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑا صحن تھا.کونے میں ٹائلٹ جہاں اکیلے (210)
جاتے ہوئے ڈر لگتا ، ہمیشہ امی سب کے ساتھ جاتیں اور باری باری سب کے ساتھ باہر کھڑی ہو جاتیں.سانپ اور بچھوؤں سے ڈر، کالی پہلی آندھیوں سے ڈر ہمیں چوروں سے بھی بہت ڈر لگتا تھا.روزانہ نئے قصے کہانیاں سنتے.گرمیوں میں میں اپنی چار پائی سب سے آخر پر بچھاتی اور دوسرے سرے پر میری امی جان کی ہوتی درمیان میں باقی سب.ویسے ہم سب دو دو ہی سوتے تھے.چوروں سے ڈر بھی زیادہ گرمیوں میں ہی لگتا تھا.ساری ساری رات باہر کی دیواروں کی طرف دیکھتے گزرتی.دل کو بہلانے کیلئے چاندنی راتوں اور ستاروں سے باتیں ہوتیں.ہم بہن بھائی ایک دوسرے کو بتاتے کہ بھٹی میرا کون سا ستارہ ہے.ہر کوئی جو زیادہ چمکتا ستارہ ہوتا، اس کا مالک بن جاتا.ہر رات کو وہ اپنا ستارہ ڈھونڈتا اس طرح سوتے جاگتے اور ستاروں سے باتیں کرتے ہماری راتیں گزرتیں.کوئی مہمان آجاتا تو ہماری کوشش ہوتی وہ واپس نہ جائے تا کہ ہمارے گھر میں رونق ہو.ہمارے گھر کا مرد کم سن بچہ محمد اسلم خالد تھا جس کے لیے ہر روز سونے سے پہلے رات کو ہم بہنوں کی لڑائی ہوتی کہ بھائی میرے ساتھ سوئے گا.امی جب بھی رات کو ہمیں آواز دیتیں تو سب کو مردانہ نام سے آواز دیتیں.ساری رات جاگ کر امی گھر میں پہرہ دیتیں.بہادر تو اتنی تھیں کہ سانپ بچھو تو اُن کے لیے معمولی بات تھی.شروع شروع میں تو بچھو ہر وقت نکلتے تھے سانپ بھی کئی بار نکلے، امی ان کو بے دھڑک مار دیتی تھیں.اللہ تعالیٰ نے ہمسائے بھی بہت اچھے دئے تھے.ایک طرف تو وہی خالہ جی سائرہ ان کی بھی چار ہی بیٹیاں تھیں ہم چار بہنیں ایک بھائی.خالہ جی کا بھی ایک ہی بیٹا تھا مگر وہ اُن کے ساتھ نہیں رہتا تھا.ہم سب کا آپس میں بہت میل جول تھا.درمیان میں ایک چھوٹی سی دیوار ہوتی تھی وہ بھی اکثر آندھیوں سے گری رہتی.خالہ جی کے گھر میں ہمیشہ گائے بھینس ہوتی جس سے ہمیں دودھ وغیرہ میں سہولت ہوتی.وہ لوگ زمیندار تھے، مونجی اور گیہوں بھی ہماری اکٹھی ہی آجاتی اور جب کبھی چور، چور کا شور مچانا ہوتا تو وہ بھی ہم سب مل کر ا کٹھے ہی مچالیتے.دو گھر لگتے ہی نہیں تھے.مجھے یاد آتا ہے (211)
کہ کئی دفعہ خالہ جی نے بھینس کا تازہ دودھ دوہتے ہوئے گلاس میں ڈال کر دینا کہ اے لو کڑیو! ( لڑکیو) تازہ دودھ پی لو اور ہم نہ نہ کرتے شوق سے پی بھی جاتے.دوسری طرف کے ہمارے ہمسائے چوہدری غلام حسین صاحب اوور سیر اور اُن کی بیگم بہت اچھے تھے.اُن بیچاروں کی ہمارے اس گھر میں آنے سے کچھ دیر پہلے ہی جوان بیٹی نسیم وفات پاگئی تھی.چونکہ چوہدری غلام حسین صاحب اور انکی بیگم کے چھ بیٹے اور ایک بیٹی تھی.بیٹی کی وفات ہو گئی تو وہ بہت افسردہ رہتے تھے.پھر وہ ہم بہنوں کو بھی اپنی بیٹیوں کی طرح ہی پیار کرنے لگے.خاص طور پر میری چھوٹی بہن بشری کو تو وہ گود میں اٹھا کر لے جاتے ، سب اس کو بہت پیار کرتے تھے.اللہ تعالیٰ کو نہ جانے کیا منظور تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ ہماری خالہ جی جن کا نام مہر النساء تھا اور بہت صابر شاکر طبیعت کی حلیم پیار کرنے والی خاتون تھیں ، وہ بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں.ان کا سب سے چھوٹا بیٹا اُس وقت چار سال کا ہوگا.غرض ان کے گھر کا شیرازہ ہی بکھر گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد خالوجی چوہدری غلام حسین صاحب کی بھی وفات ہو گئی.اب ان کے گھر کوئی عورت نہیں تھی.چھوٹے یا بڑے سب مرد ہی تھے.ہماری امی جان نے ان بچوں کا بہت ساتھ دیا.ہمارے لئے بھی وہ سب بھائیوں کی طرح تھے بلکہ ہم نے ان کو بھائی ہی مانا.آج بھی بھائیوں کی طرح ہی دل میں قدر ہے.ان بھائیوں نے بھی ہمارا بہت ساتھ دیا.پنجابی کی مثل مشہور ہے ہمسائے ، ماں پیو جائے.یہ مثال ہمارے گھروں پر پوری اترتی تھی.امی ہمسائیوں کا بے حد خیال رکھتیں ، ہر روز کھانا اپنی ضرورت سے زیادہ بنا تھیں.ہم بچوں کو تاکید تھی کہ آٹا اپنی ضرورت سے زیادہ گوندھو اور سچ تو یہ ہے کہ وہ جو ہم کھانا بناتے وہ ہر روز ہی ختم ہو جاتا.ہمسائیوں کا کھانا اکثر ہمارے گھر ہی پکتا صرف وہ کھاتے اپنے گھر تھے.پھر جب رمضان شریف آتا تو ہمیشہ دولوگوں کو روزے رکھواتیں.کوشش کرتیں کہ سحری اور افطاری وقت پر تیار ہو.رمضان کے دنوں میں سحری کے بعد نماز کیلئے ہمیں مسجد مبارک لے کر جاتیں اور وہاں سے بہشتی مقبرہ میں دعا کے بعد ہمیں واپس گھر لے کر (212)
آتیں.ظہر کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں ہی درس کیلئے جانا ہوتا، وہاں سے گھر آ کر شام کو افطاری کے بعد پھر مسجد مبارک میں تراویح کیلئے جانا ہوتا.اس طرح خود بھی اور ہمیں بھی پوری طرح رمضان شریف کی برکات سے مستفیض کرتیں.ویسے تو پورا رمضان شریف کا مہینہ ہی برکتوں اور رحمتوں کا ہوتا ہے لیکن آخری عشرہ کی دعائیں اور پھر آخری روزے میں درس قرآن کریم کی دعائیں اور آخری تراویح کی دعا ئیں خاص طور پر میں نہیں بھول سکتی.محترم حافظ محمد رمضان صاحب کی تلاوت اور اُن کا آخری دن تراویح میں دعا کروانا، ہمارا وہ مسجد مبارک جانا اور وہاں رب العزت کے حضور فریادیں ، دعائیں، التجائیں اور گریہ وزاری ایک حشر برپا کیے ہوتا تھا.اتنا درداتنا سوز و گداز اتنی دعا ئیں اتنی تڑپ اتنی آہیں کہ عرش بھی ہل جائے.یہ سب برکتیں ہمیں ربوہ کی مسجد مبارک میں ہی ملتی تھیں.ہماری امی جان خود بھی بہت دعائیں کرتی تھیں اور بزرگوں سے بھی دعائیں کرواتی تھیں.اسی طرح ہمیں بھی یہ عادت ہو گئی کہ مسجد مبارک میں جمعہ کی نماز کے بعد ہم بہنیں حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے گھر اکثر دعا کیلئے جاتے اور شام کو حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کے پاس بھی جاتے رہتے تھے.قرآن مجید کی تو عاشق تھیں، خود بھی تلاوت کرتیں اور ہمیں بھی تلاوت کی تلقین کرتی رہتیں.یہی وجہ تھی کہ گھر میں بچوں کو قرآن مجید پڑھانا شروع کیا اور بے شمار بچوں میں قرآن کریم کی نعمت بانٹی.بچے بہت زیادہ ہوتے تھے اور پھر ہمیں بھی تلقین کرتیں کہ بچوں کو آپ بھی قرآن کریم کا سبق یاد کروائیں.اس طرح کچھ نہ کچھ ہمیں بھی اس ثواب میں شامل رکھتیں.بیماروں کی عیادت کرنا اپنا فرض سمجھتیں تھیں.کسی کی وفات ہو ان کے بارہ میں فکر مند ہوتیں کہ اس نازک اور مشکل وقت میں اُن کی کیسے آرام اور دلجوئی کر سکیں گی اور اگر اُن کو کوئی مالی یا اور کوئی مشکل ہوتی تو اس کو پوری کرنے کی کوشش کرتیں.ان کے کھانے وغیرہ کا پورا خیال رکھتیں.کبھی کسی کو قرض دیتیں تو پھر اُن سے کبھی واپسی کا تقاضا نہ کرتیں.اُن کے وقار کا خیال رکھتیں.اکثر لینے والے خود ہی آ (213)
کر دے جاتے.نام کی طرح دل کی بھی بہت علیم تھیں، دکھ تو کسی کا بھی برداشت نہیں کر سکتی تھیں.انکی انسان دوستی اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کے کچھ واقعات لکھتی ہوں.ہمارا گھر دار البرکات میں جامعہ احمدیہ کے سامنے تھا.ہم ابھی وہاں نئے ہی تھے، ہمارے گھر کے سامنے جامعہ کی عمارت بن رہی تھی اور ساتھ جامعہ کی چار دیواری بھی زیر تعمیر تھی.کام کرنے والے مزدور دو پہر کو کھانے اور سستانے کے لیے اس چھوٹی سی دیوار کے سائے میں آکر بیٹھ جاتے تھے.ایک دن سخت گرمی کے دن دو پہر کو ہماری امی کو کسی مرد کے رونے کی آواز آئی پہلے تو امی کھڑکیوں میں سے خود ہی دیکھنے کی کوشش کرتی رہیں مگر جب کوئی نظر نہ آیا تو میرے بھائی خالد کو امی نے کہا کہ جاؤ جا کر دیکھو کہ کون ہے اور کیوں رورہا ہے؟ خالد گیا اور آکر امی کو بتایا کہ ایک مزدور رو رہا ہے.اس کے گردے میں شدید تکلیف ہے اور وہ ہل نہیں سکتا.امی نے اپنے صحن کے اندر دیوار کے ساتھ جہاں سایہ تھا وہاں چار پائی ڈالی ، میری دونوں بہنیں جو ابھی بہت چھوٹی تھیں اور خالد ، تینوں اس مزدور کو سہارا دیکر گھر لائے.امی نے اسکو خربوزوں کے چھلکوں کا پانی ابال کر دیا اور مجھے یاد نہیں کہ کیا دوائی دی ہوگی مگر یہ یاد ہے کہ شام تک وہ مزدور جو کسی ساتھ والے گاؤں سے آیا ہوا تھا، امی جان کو دعائیں دیتا ہوا گھر گیا.یہ بھی ربوہ میں شروع دنوں کا واقعہ ہے.ہم ربوہ میں چھوٹے سے ایک کمرہ کے گھر میں رہتے تھے ،ساتھ میں ایک چھوٹا سا کچن تھا.اس گھر میں ہم پانچ بہن بھائی اور امی سمیت چھ افراد کا کنبہ رہتا تھا.میری ممانی کی بہن کی دو بیٹیاں جو سیالکوٹ سے ربوہ تعلیم کی غرض سے آئی ہوئی تھیں ان کو گھر لے آئیں ، اب میں ان دونوں بہنوں کے تاثرات لکھتی ہوں.وہ کہتی ہیں: ” ہم دونوں بہنیں ربوہ میں اپنی بڑی بہن کے پاس جو کہ درویش کی بیوی تھیں ، پڑھنے کیلئے سیالکوٹ سے آئی تھیں.میں ساتویں جماعت میں تھی جب کہ میری (214)
چھوٹی بہن چھٹی جماعت میں تھی.جب میری بہن واپس قادیان اپنے شوہر کے پاس چلی گئیں تو ہمارے لیے رہائش کا مسئلہ در پیش ہوا، کوئی بڑا نہیں تھا جس کے پاس ہم رہ سکتے.ہماری خالہ کے بچے آپ کی امی کے بھائی کے بچے تھے آپ کی امی ان کی پھوپھی لگتی تھیں اور ہم نے بھی پھوپھو ہی کہنا شروع کر دیا.وہ ہمارے ساتھ بہت محبت کرتیں اور ہمیں اپنے بچوں کی طرح ہی سمجھتی تھیں.جب اُن کو علم ہوا کہ ہماری بہن کے قادیان جانے کے بعد ہمیں رہائش کی مشکل ہے تو پھوپھی جان ہمیں اپنے گھر لے گئیں.پھوپھا جان یا اور کوئی مرد تو گھر میں تھا نہیں کہ ہمیں پردے کی کوئی مشکل ہوتی سو ہم دونوں بہنیں ان کے گھر چلی گئیں.پھوپھی جان نے ہمارا ہر طرح سے خیال رکھا.وہ ہمیں خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتیں اُن کو ہمیشہ یہ خیال رہتا کہ ان کی ماں ان کے پاس نہیں ہے ، ہماری ہر خوشی کا خیال رکھا.جب ہم سکول جاتے تو پہلے ہمیں ناشتہ دیتیں بعد میں اپنے بچوں کو دیتیں.وہ بہت حساس ہمدرد پیار کرنے والی خاتون تھیں.ہم ان کا پیارا اور خلوص کبھی بھی نہیں بھول سکتے.“ یہ بھی ربوہ میں شروع ایام کی ہی بات ہے.غربت تو ہم سب کے ارد گر د تھی مگر پھر بھی جو احاطہ کے سامنے ہمارا ایک کمرے کا کچا سا گھر تھا (جو اُس وقت کے لحاظ سے تقریباً ڈھائی تین سوروپے میں خریدا تھا ) چھوڑ کر اس سے نسبتاً بہتر گھر میں منتقل ہو گئے.اسی دوران میرے ایک ماموں گجرات سے اپنی نئی نویلی دلہن کو لے کر ربوہ پہنچ گئے.رہنے کوکوئی جگہ نہ تھی اور کوئی کاروبار بھی نہ تھا، وہی گھر میری امی جان نے ان کو دیا اور انہوں نے وہاں دودھ وغیرہ کی دوکان کھول کر اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا.میرے ماموں اور ممانی امی جان کے ہمیشہ شکر گزار رہے ہیں کہ ہماری بہن ہمیشہ ہماری مشکل گھڑی میں کام آئیں.میری امی بہت ذہین و فہیم تھیں ، انسان کو دیکھ کر اس کی شناخت کرلیتیں.علم دوست تھیں.میری (215)
ایک ماموں زاد بہن کو شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کے شوہر نے طلاق دے کر گھر بھیج دیا اور چھ ماہ کی بچی کو خود رکھ لیا.جہاں یہ غمناک حادثہ میری کزن کیلئے پریشانی کا باعث تھا وہاں ساری فیملی بہت دکھی تھی.میری کزن کا اکثر ہمارے گھر آنا ہوتا اور جب بھی وہ آتیں ہم سب اس کے دکھ سے بہت دکھی ہو جاتے.میری امی نے اُس کا یہ حل ڈھونڈا کہ ان کی ہمت بڑھائی اور اپنی تعلیم مکمل کر نے کا مشورہ دیا ان دنوں میٹرک کے داخلے جا رہے تھے اس کو داخلے کی تاکید کی.کیونکہ وہ مالی لحاظ سے بھی کمزور تھیں امی نے کہا تم اپنی بہن کو جس نے مڈل کا امتحان دینا تھا اس کو ٹیوشن پڑھانی شروع کر دو ( یعنی میری بڑی بہن).اس طرح انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی.وہ بہت خوش ہیں ، آج وہ کہتی ہیں کہ میں پھوپھی جان کی نیکی اور وہ دعائیں جو وہ دروازہ سے نکل کر جانے کے بعد تک کرتی رہتی تھیں کبھی نہیں بھول سکتی.یہی میری ماموں زاد ایک واقعہ یوں بیان کرتی ہیں: میں اور میرا بھائی ہدایت پھوپھی جان کے پاس رات کو سونے کیلئے جاتے تھے.چھوٹا سا کچا گھر تھا.پھوپھا جان افریقہ گئے ہوئے تھے اور ابا جان ہمیں پھوپھی جان کے پاس سونے کیلئے بھجواتے تھے.صبح پھوپھی جان الوداع کرنے کیلئے دروازہ میں کھڑی رہتیں اور جب تک ہم اُن کی نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتے وہ کھڑی ہمارے لیے دعائیں کرتی رہتیں اور اُن کے ہونٹ ہلتے ہوئے ہمیں نظر آتے اور ہم بھی پیچھے مڑمڑ کے دیکھتے رہتے.کہتی ہیں کہ ایک بار میں پھوپھی جان کے پاس گئی.انہوں نے کچھ سوجی میدہ کی میٹھی کچوریاں بنا کر الماری میں مہمانوں کیلئے رکھی ہوئی تھیں.اُنہوں نے مجھے بھی دیں اور دوسرے بچوں کو بھی دیں.مجھے بہت اچھی لگیں تو میں نے نکال نکال کر کھانا شروع کر دیں.مجھے تو کچھ نہ کہا مگر آپ ( یعنی مجھے.راقم ) کو مخاطب کر کے کہا صفیہ یہ مہمانوں کیلئے بنائی ہوئی ہیں.تمہیں پتہ ہے بازار دور ہے کوئی کچھ لانے والا بھی نہیں ہوتا.اُس وقت میں فکرمند ہو جاتی ہوں کہ مہمانوں کے (216)
سامنے کیا رکھوں گی.مجھے اُن کا یہ نرالا انداز سمجھانے کا یا منع کرنے کا بہت اچھا لگا.مجھے کھانے سے بھی منع نہیں کیا اور اپنی مجبوری بھی بتادی کہ اگر یہ سب ابھی ختم ہو گیا تو فوری طور پر بازار جانا اور کچھ لا نا ممکن نہیں تھا.ربوہ میں ہمسائیوں کے متعلق تو میں کچھ پہلے ہی لکھ چکی ہوں.چونکہ پرانی باتیں لکھتے ہوئے مجھے بہت مزا آرہا ہے اور یادیں بھی تازہ ہو رہی ہیں اس لیے دل نہیں چاہتا کہ کوئی بھی پرانی بات جو مجھے یاد آ رہی ہو وہ نہ لکھوں.دونوں طرف کے ہمسائیوں کی چھوٹی چھوٹی سی دیواریں ہوتی تھیں اور دیواروں کے اُوپر ایک الگ سے چھوٹی سی اینٹ رکھی ہوتی.ضرورت کے وقت اُس اینٹ کو بجایا جا تا کہ خالہ جی بھوک لگی ہے، کیا پکایا ہے؟ خالہ جی پہلے ہی تیار بیٹھی ہوتیں کہتیں بچوں کو بھوک لگی ہوگی، ان کی کون سی ماں بیٹھی ہے.ہمسائیوں کے ساتھ ہمسائیوں جیسا سلوک ہی نہیں تھا اپنوں سے بھی زیادہ پیار تھا.دونوں طرف والے ایسے ہی ہمسائے تھے کس کے گھر کیا پکا سب کو علم ہوتا.جب تک ایک دوسرے کو دے نہ دیا جائے خود کھا ہی نہیں سکتے تھے.پکانے سے پہلے ہی یہ سوچ کر کھانا بنتا تھا کہ ہمسایوں کا بھی حق ہے.ہمسائے، ہمارے ہمسائے نہیں بلکہ ہم سب ایک کنبہ کی طرح رہتے تھے.ہمارے سب دکھ سکھ ایک تھے.الحمد للہ.آج میں یہ پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ مجھے نہیں یاد کہ کبھی امی کے پاس کوئی حاجت مند آیا ہو اور اسکی حاجت پوری نہ ہوئی ہو.حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنا اپنا فرض سمجھتی تھیں.پیار اور ایثار کا دامن ہر وقت تھامے رہتیں.ہماری ایک بہت ہی عمر رسیدہ ہمسائی جو آنکھوں کی بینائی سے محروم تھیں اپنے گھر والوں سے بہت دکھی رہتی تھیں.اکثر اپنے گھر سے نکلتے ہی آواز دینا شروع کر دیتیں (بسم اللہ ) امی کو وہ اس نام سے ہی پکارتی تھیں.گھر کے آندر آتے ہی ان کی فرمائشیں شروع ہو جاتیں.پہلے کھانا کھاتیں پھر ہم سب کے آگے اپنا سر کرتیں کہ بہت خارش ہو رہی ہے.میرے بال صاف کرو.اُن کی عمر کا (217)
لحاظ کرتے ہوئے وہ جو کام بھی کہتیں وہ ہمیں ضرور کرنا ہوتا تھا اور جاتے ہوئے جو وہ دعائیں دیتیں ہمیں اور ہماری امی کو ان دعاؤں سے ہر کام کا صلہ مل جاتا.اُس نا مساعد دور میں بھی ہمارے گھر میں بجلی کا پنکھا لگا ہوا تھا.محلے کی عورتیں اکثر ہمارے گھر آتی جاتی رہتی تھیں.امی اپنی سہیلیوں کو کھینچ کھینچ کر بلاتیں کہ آؤ اور دو پہر پنکھے کے نیچے گزارو.کبھی کبھی تو سہیلیاں ایسے بھی آتیں کہ جانے کا نام نہیں لیتی تھیں.ہماری امی تو ثواب کما رہی ہوتیں مگر کبھی کبھی میرا چھوٹا شرارتی بھائی امی کے کان کے پاس آکر کہتا امی خالہ گھر کب جائیں گی ؟ گھر میں فرج تھا اس میں پانی رکھتیں اور برف بنا بنا کر کوشش کرتیں کہ ہر ایک کو برف مل جائے.ہمارا گھر کالج روڈ پر جامعہ احمدیہ کے سامنے تھا.جمعہ پر جاتے ہوئے بہت سارے لوگ ہمارے گھر کے آگے سے گزرتے.گرمیوں میں خاص طور پر جمعہ والے دن پانی کے حمام میں برف ڈال کر باہر رکھ دیتیں تا کہ لوگ گرمی میں ٹھنڈا پانی پی سکیں.لوگ پانی پیتے اور دعائیں دیتے ہوئے گزر جاتے.ربوہ اور امی جان کی یادوں میں جہاں اتنا کچھ لکھ دیا ہے تو میں اپنے اُس ریگستان کو کیسے بھول سکتی ہوں جہاں ہم گرمیوں کی ہر شام میں ہم اندھیرا ہونے کا انتظار کرتے اور چاندنی راتوں میں سب لڑکیاں اپنے محافظوں کے ساتھ سیر کے لیے نکل آتیں.عمروں کے لحاظ سے ٹولیاں بن جاتیں، محافظوں میں ہماری مائیں ہوتیں اور لڑکیوں میں سید سردار حسین صاحب کی بیٹیاں اور ہماری خالہ جی سائرہ کی بیٹیاں.ہم سب ہمجولیاں ہوتیں.وہاں ان چاندنی راتوں میں میری چھوٹی بہنوں نے سائیکل چلانا بھی سیکھا.یہ ہماری جامعہ کی گراؤنڈ تھی جو چٹیل میدان تھا، مجھے اچھی طرح تو یاد نہیں اُس وقت غالباً چند کمروں کی بلڈنگ ہی پورا جامعہ تھا.ہم سب بڑے ہو گئے ، شادیاں شروع ہوگئیں ، میری بڑی بہن کی شادی ہو گئی.ہمارے ہمسائے بھائیوں کی بھی شادیاں ہو گئیں.میری امی جان نے اور ہم سب نے بھر پور حصہ بھی لیا بلکہ اُن نئی بہوؤں کو بھی ماں کی طرح پیار دیا.عید پر جیسے ہمیں چوڑیاں اور مہندی لگواتیں اُسی طرح اُن (218)
بہوؤں کا بھی خیال کرتیں.پھر ہم بہنیں بھی چڑیاں دا چنبہ ہوگئیں.ربوہ میں ہمیں کلر سے گھبراہٹ تھی، چوروں اور آندھیوں سے ڈرتے تھے.اکثر سوچتے تھے کہ کیا کبھی ہم بھی اپنے ابا جان کے پاس جا سکتے ہیں؟ وہ سچ ہو گیا اب ایسے نکلے ہیں کہ باہر کے ہی ہو کر رہ گئے.میں صرف دس سال ربوہ میں رہی ہوں باقی ساری زندگی ربوہ سے باہر ہی گزری ہے مگر نہ دل سے یاد یں جاتی ہیں اور نہ وہاں کی باتیں ختم ہوتی ہیں.جس جامعہ کے گراؤنڈ کو ریگستان کہتی تھی وہاں آج اتنی بڑی پھلوں اور پھولوں کی نرسری ہے جو سارے ربوہ کو گل و گلزار بنا رہی ہے اور ساتھ ہی جامعہ کی اتنی بڑی بلڈنگ ہے جس سے گوہر پارے تیار ہو کر ساری دنیا کو سیراب کر رہے ہیں اور روشنیاں بن کر چمک رہے ہیں.ربوہ جاتی رہتی ہوں مگر ہمارے والے ربوہ میں اور آج کے ربوہ میں زمین آسمان کا فرق ہے.لہلہاتے درخت، پھول، سبزہ ، رونقیں.دل تو چاہتا کے پھر اپنے اسی گھر میں واپس چلی جاؤں جو ہمارا گھر تھا.میرے ماں باپ کا گھر، میری بہنوں اور بھائی کا گھر، جس کی مجھے بہت یاد آتی ہے.جہاں رات بھر چاندنی راتوں کا نور دیکھتے ، ستاروں کو گنتے ، چوروں سے ڈرتے دن نکل آتا تھا.ان بیتے دنوں کی یاد مجھے بہت ستاتی ہے.میں جانتی ہوں کہ آج بھی خدا کے فضل سے ربوہ کے سر پر وہی چاند اور روشن ستارے چمک رہے ہونگے جن کو میں اپنا کہتی تھی.خدا کرے کہ چاند اور وہ روشن ستارے میرے تمام ربوہ کے باسیوں کو سکھ اور سکون پہنچاتے رہیں اور ہمیں مرکز سے خوشی کی خبریں آتی رہیں.آمین.میرا بھی جواب نہیں ! اپنی امی جان کے متعلق لکھ رہی تھی ربوہ کے ذکر نے مجھے اصل مضمون کی طرف سے ہٹادیا.ربوہ کی بات ہو تو جذباتی ہو جاتی ہوں، دوبارہ واپس امی جان کی طرف آتی ہوں.1974ء میں ہماری جماعت پر جب بہت مشکل وقت آیا تو ربوہ کی نسبت باہر کی جماعتوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.زیادہ تر لوگ اپنے مرکز کی طرف ہی رخ کر رہے تھے.اسی طرح باقی لوگوں کی طرح چنیوٹ میں میرے سسرال والے بھی مشکلات میں گھر گئے.اپنا تمام گھر بار (219)
میری یونجی اسی طرح کھلا چھوڑ چھاڑ سیدھے ربوہ امی جان کے گھر آگئے.دس بارہ افراد کا کنبہ ایک گھر میں رکھنا بہت مشکل تھا.مگر میری امی جان نے بہت خندہ پیشانی سے ان کو خوش آمدید کہا اور تمام کھانے وغیرہ کا انتظام بھی گھر پر ہی کرتی رہیں.امی جان کا گھر ہی لنگر خانہ بنارہا لیکن جب تقریباً دو ماہ کا لمبا عرصہ اُن کو رہنا پڑا تو پھر کھانا گھر میں بھی بنتا اور کچھ لنگر سے بھی آجاتا، لیکن امی نے ان کی رہائش اپنے گھر ہی رکھی.خالہ جی سردار جن کے ساتھ امی جان کا خون کا رشتہ تو نہیں تھا مگر پیار اُن تمام رشتوں سے زیادہ تھا جو بہت قریب کے رشتے ہوتے ہیں.یہ دونوں بہنیں بھی تھیں اور بہت پکی سہلیاں بھی تھیں.بچپن بھی ایک گھر میں گزرا تھا.خالہ جی جب لاہور سے مستقل ربوہ میں آکر آباد ہوگئیں تو میری امی جان بہت خوش ہو ئیں ، گھر بھی قریب قریب تھے.بس اب کیا تھا ہر وقت دونوں بہنیں صبح سویرے اُٹھتیں تھیلا پکڑتیں اور بازار کا رخ کرتیں.واپسی پر پہلے ہمارا گھر آتا تھا ہمارے ہی گھر میں بیٹھ کر دونوں بہنیں سبزی وغیرہ بناتیں اور جانے کیا آہستہ آہستہ باتیں کرتی جاتیں اور مسکراہٹ ہونٹوں پر ہوتی.دونوں کا ایک جیسا قد ، ایک جیسے برتھے پہنتیں، پہچانی ہی نہیں جاتیں تھی کہ کون خالہ جی ہیں اور کون سی ہماری امی ہیں.بہت پیار تھا دونوں بہنوں کا ، اچھی اچھی باتیں ہمیں بتا تیں اور ہمیشہ اچھے مشوروں سے بھی نواز تی تھیں، اللہ پاک دونوں کی مغفرت فرمائے.آمین.اب میں امی جان کا ایک ایسا واقعہ لکھوں گی جو شاید ہی کسی کے ساتھ پیش آیا ہو.یہ بھی ربوہ میں شروع دنوں کی بات ہے جب کہ ٹائلٹ میں نہ فلش سسٹم تھا اور نہ ہی کموڈ وغیرہ کی کوئی سہولت تھی.جمعدار نی ٹوکری لیکر آتی تھی اور گند وغیرہ اُٹھا کر لے جاتی تھی.ہماری جمعدار نی ماں بننے والی تھی ہماری امی جان کو علم تھا.ہم بچے یہ سب کچھ نہیں جانتے تھے، کیونکہ اُس زمانہ میں بچوں کے سامنے ایسی باتیں نہیں کی جاتی تھیں.مگر ہم یہ ضرور دیکھتے تھے کہ ہماری امی جمعدار نی کا اتنا خیال کیوں رکھتی ہیں.کھانے سے پہلے ہمیشہ اسکے لیے اچھی چیز نکال کر رکھتیں.آہستہ آہستہ (220)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امی نے اس کو کہنا شروع کر دیا کہ اب تم نہ آیا کرو، اپنے شوہر کو بھیجا کرو لیکن وہ خود ہی آتی رہی.ایک دن جب کہ وہ بالکل آخری دنوں میں تھی تو ایک دن وہ ٹوکری اُٹھانے لگی مگر وہ اُس کو سنبھال نہ سکی اور ساری کی ساری ٹوکری اس کے اوپر گر گئی.وہ پوری کی پوری گند سے بھر گئی.اُس نے وہ سارا کوڑا اکٹھا کیا اور امی جان نے اس کی مدد کی.وہ یہ الفاظ بار بار کہتی گئی کہ بی بی پیچھے ہو جاؤ آپکو گند لگ جائے گا.امی جان نے اسی وقت میرے چھوٹے بھائی کو اس کے گھر بھیجا اور خود اس کو پانی سے نہلایا اور اپنے کپڑے نکال کر اس کو پہننے کو دیئے ، گرم گرم چائے بنا کر دی.جب تک اس کے گھر سے اس کو کوئی لینے نہیں آیا اس کو آرام کروایا.وہ کہنے لگی بی بی اگر میں کسی اور گھر میں ہوتی تو نہ جانے میرے ساتھ کیا سلوک ہوتا.غیروں کے ساتھ اگر وہ اتنی محبت اور جانفشانی سے ملتیں تھیں تو اپنے تو پھر اپنے ہوتے ہیں.وہ اپنے بہن بھائیوں سے بہت محبت کرتی تھیں.ایسا ہی ایک واقعہ ہے کہ جب وہ لندن سے پاکستان ربوہ گئی ہوئی تھیں تو اُن کو اپنے بھائی کی بیماری کا علم ہوا جو قادیان میں درویش تھے ( ماموں جان محترم عبد الرحیم صاحب درویش ) امی جان اپنے بھائی کی بیماری کاشن کر رہ نہ پائیں اور اُن کی تیمارداری کیلئے قادیان چلی گئیں.امی کے ساتھ اُن کا ایک بھتیجا اور بھتیجی بھی ساتھ گئے ، امی جان کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس آ گئیں.آنے کے کچھ ہی دنوں بعد میرے ماموں جان کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور وہ کٹر چیرٹی ہسپتال امرتسر میں داخل ہو گئے.اب پاکستان سے اتنی جلدی کوئی نہیں جاسکتا تھا کہ ویزا اتنی جلدی ملنا ممکن نہیں تھا لیکن میری امی جان کے پاس برٹش پاسپورٹ تھا اس لیے اُن کیلئے کوئی مشکل نہیں تھی.وہ فور وہاں امرتسر ہسپتال پہنچ گئیں.پھر اُن کا ایک بھتیجا بھی وہاں اُن کے پاس پہنچ گیا.امی بتاتی تھیں کہ میں دو ہفتے وہاں رہی ہوں جو بہت ہی مشکل ترین وقت تھا.ایک تو پردہ کرنا، پھر کھانے کی مشکل صرف نان اور چنے لا کر کھاتے رہے.کہتی تھیں کہ بے شک بہت مشکل تھا لیکن ساتھ ہی مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میں نے اپنے بھائی کی تیمارداری کی اور (221)
اُن کے پاس کچھ دن رہنے کا موقعہ بھی مل گیا.انشا اللہ ، ہماری امی جان کی بہت ساری ادائیں اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں گی اور جو اد ا سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والی ہوگی اور پیارے محبوب حضرت محمد صلی اینم کی زیارت ہوگی وہ ہے امی جان کا بے شمار بچوں کو قرآن مجید پڑھانا.صبح شام دونوں وقت بچے پڑھنے کیلئے آتے تھے.بچوں کو ، پھر ان کے آگے بچوں کو بھی پڑھایا.ان کے پڑھانے کا انداز بھی نرالا تھا.بجائے ڈانٹ ڈپٹ کے ٹافیاں اور میٹھی گولیاں رکھی ہوئی ہوتیں.بچے شوق سے آتے اور خوشی خوشی پڑھ کر جاتے.ایک دن اچانک میری امی جان نے جن سے قرآن کریم پڑھا تھا، وہ استانی جی امی کو ملنے آئیں.آگے بچوں کی قرآن مجید پڑھتے ہوئے قطار لگی دیکھی تو بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ آج مولوی صاحب ( غالباً مولوی غلام نبی صاحب) کی روح بہت خوش ہو رہی ہوگی.آگے تم بھی بچوں کو قرآن مجید پڑھا رہی ہو.چونکہ بیگم جی نے مولوی صاحب سے قرآن مجید پڑھا 61 تھا.( یہ مکرم احمد خان نسیم صاحب کی ہمشیرہ تھیں اور مولوی صاحب اُن کے بہنوئی تھے ).میرے ابا جان کی استانی بھی میری امی جان ہی تھیں ان کو بھی قرآن مجید امی نے ہی پڑھایا.اپنے نواسوں اور نواسیوں کو قرآن مجید پڑھاتے ہوئے ہمیشہ دعا مانگتی تھیں کہ اللہ مجھے اتنی زندگی دے دے کہ میں اپنے بیٹے کے بچوں کو قرآن مجید پڑھا دوں.الحمد للہ.ان کی یہ خواہش بھی اللہ نے پوری کی خالد کے چاروں بچوں کو امی جان نے قرآن مجید پڑھایا.انتظار میں ہوتیں کہ کب ان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق ملے گی.اگر امی جان رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں سے احسن طریقہ سے پیش آتی تھیں تو اپنے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہونگی؟ ہمارے ابا جان ہمیشہ پاکستان سے باہر رہے.خدا تعالیٰ پر توکل اتنا کہ کبھی لوگوں کی کہی کہلائی باتوں پر یقین نہیں کرتی تھیں.ابا جان 17 سال افریقہ میں رہے.کبھی سات سال بعد یا کبھی چھ سال بعد آتے.لوگ امی جان کو بہت دل برداشتہ کرتے.خاص طور پر یہ کہ تم لوگ یہاں بیٹھے ہو تمہارے میاں نے وہاں (222)
دوسری شادی کر لی ہو گی.مگر ہماری امی جان کی زبان پر کبھی شکوہ نہ آیا، یا دل شکنی نہیں ہوئی.امی ابا جان کا آپس میں پیار اور اعتماد کا جو رشتہ تھا وہ ان کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیتا تھا.وہی پیار اور اعتماد ہماری امی نے ہمیں سکھایا.ہمیشہ ہمارے او پر اعتماد کیا اور بھروسہ کیا.ہماری پرورش میں ہماری امی جان نے انتھک محنت کی.بغیر کہے دل کی بات جان جاتیں.دنیا بھر کی فرمائشیں پوری کرنے کی کوشش کرتیں.کبھی بیمار ہوتیں تو بھی اپنی ذمہ داریوں کو نہ بھولتیں.اس زمانہ میں بھی باپ کی غیر موجودگی میں بچوں کو پالنا کوئی آسان بات نہیں تھی.بچوں کی تربیت کا خیال ان کی پڑھائی اور باہر کی دنیا سے محفوظ رکھنا وغیرہ.بے جا روک ٹوک نہیں کرتی تھیں مگر دین کے معاملہ میں کبھی نرمی نہیں کرتی تھیں.نمازوں کی پابندی، ناصرات یا لجنہ کے پروگراموں میں کبھی ناغہ نہ ہونے دیتیں بلکہ ناصرات کے اجلاس تو ہوتے ہی ہمارے گھر تھے.جہاں امی جان نے زندگی کے ہر مشکل سے مشکل امتحان میں کمزوری نہیں دکھائی اور بے حد بردباری اور تحمل سے ہر امتحان میں پاس ہوئیں.ایسے ہی انہوں نے اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارتے ہوئے انکی زندگیوں کے ساتھی ڈھونڈنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی.ابا جان پاکستان میں رہتے نہیں تھے سو بچوں کی شادیوں کی ذمہ داریاں بھی امی جان کے ہی حصہ میں آئیں.کچھ شادیوں میں ابا جان شامل ضرور ہوئے.الحمد للہ.سب بچے اپنے اپنے گھروں میں خوشگوار زندگیاں گزار رہے ہیں.ہاں یہ بھی سچ ہے کہ ان نیک کاموں میں میری خالہ صادقہ نے ہر مشکل ، خوشی غمی میں اپنی بہن کا بھر پور ساتھ دیا.اللہ ان کو جزائے خیر دے.آمین.ابا جان 1969ء میں لندن آگئے اور امی بھی 1974ء میں ابا جان کے پاس لندن آگئیں.ہمارے گھر کا سب سے چھوٹا بچہ اب ماشا اللہ جوان ہو گیا تھا.وہ بھی امی ابا جان کے پاس لندن میں ہی تھا اُس کی شادی کی خوشی ہم سب نے مل کر دیکھی.(223)
جماعت کے کاموں میں امی نے ہمیشہ حصہ لیا.پاکستان میں بھی میٹنگ پر با قاعدگی سے جاتی تھیں.چندہ لینے کی ڈیوٹی اکثر امی کے حصہ میں ہی آتی تھی.لندن آکر بھی گو باہر جانے کی ڈیوٹی تو نہ کی مگر یہاں بھی قرآن مجید گھر پر بچوں کو پڑھانا، میٹنگوں پر جانا ہوتا رہا.جب تک اللہ تعالیٰ نے اُن کو ہمت دی ابا جان امی کو لیکر ہر جمعہ پر جاتے تھے.ہمیشہ مسجد میں فرش پر بیٹھتی تھیں.اکثر ڈیوٹی والی عورتیں اُن کو کرسی پیش کرتیں مگر ہمیشہ اُن کا جواب ہوتا میں نے جس زمین میں جانا ہے اُسی پر سجدہ کروں گی ، مجھے کرسی نہیں چاہیے.باقاعدہ بسوں پر مسجد جاتے اور اسی طرح میٹنگ پر بھی چلے جاتے.چندوں میں کبھی دیر نہیں ہونے دیتی تھیں.وصیت 113 کی کی ہوئی تھی.پردہ کی اتنی پابند تھیں کہ زندگی کے آخری دم تک برقعہ پہنا.اپنی امی جان کی قربانی، ایثار کا ایک اور واقعہ بیان کرتی ہوں.ابا جان اور امی جان اُن دنوں Clapham میں رہتے تھے.وہاں سے ہر روز بس میں بیٹھ کر ابا جان کے ساتھ خالد کے گھر ٹوٹنگ جاتے تھے.امی جان شام کو بچوں کو پڑھاتیں اور رات کو خالد اپنی کار میں گھر چھوڑ جاتا.امی جان کا گھر 19 ویں منزل پر تھا اس لیے خالد اُن کو ہمیشہ لفٹ سے گھر کے اندر تک چھوڑ کر جاتا کہ ایسے نہ ہو لفٹ خراب ہوا اور امی ابا جان کو کوئی پریشانی ہو.ایک دن خالد کو کوئی کام تھا اور وہ پہلا دن تھا کہ اُن دونوں کو لفٹ کے اندر کر کے چلا گیا.امی ابا جان جب اوپر گئے اور دروازے کو چابی لگائی تو دروازہ پہلے ہی کھلا تھا.جیسے ہی انہوں نے پاؤں اندر رکھا چور بھاگ گئے.جو جو بھی اُن کے ہاتھ آیا وہ پہلے ہی لے جاچکے تھے.گھر کا سارا سامان بکھرا ہوا تھا، ظاہر ہے دونوں ڈر گئے اُلٹے پاؤں باہر آگئے.اُن دنوں میں امی ابا جان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی پھر بھی 15 منٹ تو لگ ہی جاتے تھے لیکن رات کے وقت اور پھر گھر میں چوری بھی ان سب باتوں کے ساتھ وہ دونوں بہت خوف زدہ میرے گھر پہنچے.دونوں کا ڈر کے مارے بُرا حال تھا.اُن کو بٹھایا پانی دیا اور ساری بات سنی پھر اُسی وقت پولیس کو فون کیا.خالد اور سامی صاحب بچوں کولیکر سب وہاں پہنچ گئے چور پوری طرح گھر کا صفایا کر گئے ، امی ابا جان صرف انا للہ کا ورد کرتے رہے (224)
کپڑوں کی الماری اور دراز وغیرہ ہر جگہ چوروں کا ہاتھ لگ چکا تھا.پھر ایک دو دن کے بعد امی جان اور گل میری بھائی گھر کی صفائی کر رہے تھے.جب بکھرے ہوئے کپڑے اُٹھائے تو ایک دو پٹہ جس کا گولا سا بنا ہوا تھا اُس کو کھولا تو یہ وہ تھا جس میں امی جان نے گل کا اور اپنا زیور رکھا ہوا تھا.الحمد للہ سارا زیور محفوظ مل گیا.بہت خوشی ہوئی کہ دونوں ماں بیٹیوں کا جتنا بھی زیور تھا وہ مل گیا.اُن دنوں حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” نے ٹلفورڈ اسلام آباد کی زمین کیلئے چندہ کی تحریک کی ہوئی تھی.جب زیور مل گیا تو امی جان اور گل نے اپنی رضامندی سے وہ سارا زیور اُس تحریک میں دے دیا.اللہ تعالی اُن کی یہ نیکی قبول فرمائے.آمین.وہ لوگوں کی سچی ہمدرد تھیں.گھر میں کوئی مہمان آجائے تو ان کی خوشی انتہا کو پہنچ جاتی.ہر ایک کے غم اور خوشی میں شامل ہونا ان کی فطرت تھی ، بہت نرم دل تھیں.کسی کی آنکھ کا آنسوان کی آنکھ کا آنسو بن جاتا.ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر کے راحت محسوس کرتیں.طبیعت کی سادہ ہر قسم کے تکلفات سے پاک تھیں.ہر کام خود اپنے ہاتھ سے کرنے کی عادی تھیں.انسانیت کی بھلائی ہی ان کا شیوہ تھا.ہمیشہ کوشش کرتیں کہ ان کے ہاتھ یا زبان سے کسی کوکوئی تکلیف نہ پہنچے.بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیاران کی زندگی کا معمول رہا کبھی تو ی تم نہ کہتیں ہمیشہ سب کو آپ ہی کہتیں.میرا بھی نام نہیں لیتی تھی مجھے بھی ہمیشہ آپ ہی کہہ کر بلاتیں.میری امی ابا جان نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا م اپنی جوان بیٹی بشری کی وفات کا دیکھا.یہ غم اُن کی زندگی کا بہت بڑا غم تھا.امی نے تو پھر وہی اپنی ہمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے برداشت کیا.زبان سے بے شک اُف نہیں کیا لیکن راتوں کی نیندیں ختم ہو گئی تھیں.تقریباً ہر روز جب بھی آنکھ لگتی تو بشری ہی نظر آتی.ابا جان کی وجہ سے زیادہ غم کی بات نہیں کرتی تھیں.مگر میرے ابا جان آسانی سے نہ برداشت کر سکے بلکہ اُن کو اس صدمہ کی وجہ سے زبان پر ہلکا سا فالج کا حملہ ہو گیا جس کی وجہ سے تقریباد و سال تک وہ اچھی طرح بات کرنے سے محروم ہو گئے.پھر آہستہ (225)
آہستہ فرق پڑا اور مکمل طور پر ٹھیک ہو گئے.الحمد للہ.امی میرے ابا جان کی بہت خدمت گزار تھیں.ان کی خدمت میں کبھی کوئی کسر نہیں آنے دیتی تھیں.چھوٹے سے چھوٹا کام بھی ابا جان کی اجازت کے بغیر نہیں کرتی تھیں.امی اباجان نے ایک دوسرے کی بے حد عزت کی، خدمت کی، ایک دوسرے سے تعاون ، محبت، ہمدردی ، احترام و تکریم اور ایثار کا ایک نمونہ بنے رہے.یہ کہوں تو سچ ہوگا کہ ان کو دیکھ کر رشک آتا تھا ماشاء اللہ.دونوں کی زندگی بہت جفاکشی اور قربانیوں سے بھر پورگزری ہے.اباجان لندن کے جلسہ سالانہ پر ایک مہینہ پہلے لنگر خانہ کے کام کیلئے اسلام آباد چلے جاتے تھے.امی ہمیشہ ان کا کھانا گھر سے تیار کر کے بھجواتیں.کھانے میں ابا جان کے دوستوں کا حصہ ضرور ڈالتیں.سچ تو یہ ہے کہ اباجان نے بھی امی جان کی جی بھر کے خدمت کی.چونکہ دونوں فلیٹ میں اکیلے رہتے تھے ، دونوں ہی ایک دوسرے کا سہارا بنے رہے.بے شک وہ دونوں اکیلے اپنے فلیٹ میں رہتے تھے مگر ہم سب باری باری جاتے رہتے تھے لیکن میرے بھائی خالد اور اس کی بیوی بچوں کو زیادہ خدمت کرنے کی توفیق ملی.حقیقت میں اُس نے بیٹا ہونے کا حق ادا کیا جی بھر کے خدمت کی.اللہ تعالیٰ اس کو ان تمام نیکیوں کا اجر عظیم عطا کرے.آمین.اب میں امی کی آخری بیماری کا ذکر کرتی ہوں.آپ بہت لمبی بیمار نہیں ہوئیں.کمر میں تکلیف ہوئی لیکن پھر بھی ہلکے پھلکے اپنے کاموں میں مصروف رہتیں.اُن کی بیماری کا ایک واقعہ لکھ دیتی ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس حد تک باہمت اور مہمان نواز تھیں.آپ کی کمر میں زیادہ تکلیف ہوئی تو خالد کو فون کر کے بتایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہے.اُس نے ڈاکٹر کو فون کیا اور ساتھ خالد نے کہا باہر کا دروازہ کھلا ہی رہنے دیں.تھوڑی دیر کے بعد جب ڈاکٹر صاحب گھر آئے تو امی نے ہاتھ میں بڑے پکڑی ہوئی تھی اور ڈاکٹر صاحب کو کھانا پیش کر رہی تھیں.ڈاکٹر صاحب نے پوچھا بیمار کون ہے؟ تو بولیں میں ہوں.ڈاکٹر صاحب یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ بالکل ٹھیک ہیں.ڈاکٹر صاحب ہمارے اپنے احمدی دوستوں میں سے ہی تھے، اُنہوں نے خالد کو بتایا کہ اپنی امی (226)
جان کو کہو اب مہمان نوازی کو رہنے دیں اور اپنا خیال رکھیں.اُن کے لیے زیادہ چلنا پھرنا اچھا نہیں ہے.جن دنوں امی جان کو تکلیف شروع ہوئی میں خود اُن دنوں ہسپتالوں کے چکر میں تھی کیونکہ سامی صاحب شدید بیمار تھے.امی جان کا پہلے بہت اصرار تھا کہ میں نے سامی صاحب کو ملنے ہسپتال جانا ہے.لیکن سامی کہتے کہ امی ابا جان کو میرے پاس نہ لانا میں اُن کو صحت مند ہو کر خود ملنے جاؤں گا، اس حالت میں وہ مجھے دیکھیں گی تو اُن کو تکلیف ہوگی.اللہ تعالیٰ کو اُن دونوں کا اس دنیا میں ملنا منظور نہ تھا.ان کی وفات ہوگئی اور میری امی جان جنازے میں بھی شامل نہ ہوسکیں جس کا انہیں شدید صدمہ تھا.امی جان کی تکلیف شدت پکڑ گئی.مجھے اپنی عدت اور غم بھول گیا.سامی صاحب کے ہسپتال کے چکر ابھی ختم ہی ہوئے تھے کہ امی جان کے شروع ہو گئے ، پھر پورے پانچ ہفتوں کے بعد امی جان کی وفات کا صدمہ سہنا پڑا.کیا بتاؤں کہ کون ساغم زیادہ تھا اور کون ساغم کم.اس ماں کا جس نے مجھے زندگی دی، جینے کے گر سکھائے یا اس کا جو میری زندگی کا ساتھی تھا، جس نے زندگی بھر ساتھ نباہنے کا وعدہ کیا تھا.میں اُن دو ہستیوں سے محروم ہوگئی جن کے گرد میری زندگی گھومتی تھی.میں بظاہر نارمل تھی پر دل کے اندر تنہا غم سے چور، پارے کی طرح ڈولتی تھی.امی جان کا گھر میں آخری دن جس دن تکلیف زیادہ بڑھی اور ہسپتال جانے کی تیاری کی تو ہسپتال جانے سے پہلے مجھے ساری باتیں سمجھا ئیں اور بتایا کہ یہاں میرا پاسپورٹ ہے، فلاں جگہ پر پیسے پڑے ہیں.ساری چیزیں جب اکٹھی ہو گئیں تو کہنے لگیں کہ تمہارے ابا جان کو یہ چیزیں نہیں ملیں گی.اس لیے سب سنبھال کر خالد کو دے دینا.پھر کہا اب تم فون ملاؤ، بیٹیاں جو پاکستان میں تھیں اُن سب کو باری باری فون کیا اور خدا حافظ کہا.پھر امریکہ میں اپنے بہن بھائیوں کو فون پر خدا حافظ کہہ کر ہسپتال چلی گئیں.ایمبولنس میں جاتے ہوئے اپنے ہاتھ سے الیس الله بکاف عبدہ کی انگوٹھی اتار کر مجھے دی اور کہا وہاں ہاتھ کبھی صاف نہ ہوں تو اس انگوٹھی کو پہنا اچھا نہیں ہوگا.میں اور خالد کی بڑی بیٹی طاہرہ (227)
ہم دونوں امی جان کے ساتھ تھے.وہاں ہسپتال میں بھی پردے کی فکر.مرد نرس سے کوئی کام کروانا نہیں چاہتی تھیں.بے شک ہل نہیں سکتی تھیں مگر سب ملنے والوں کے ساتھ ایسے ہی بات کرتیں جیسے کوئی بات ہی نہیں.جو رات ان کی زندگی کی آخری رات تھی اس سے پہلی شام کو میں اُن کے پاس تھی.ابا جان گھر تھے اور بہت پریشان اور نڈھال تھے.میں نے امی سے کہا ابا جان کو بلوالوں؟ کہنے لگیں نہیں اُن کو آرام کرنے دو کیوں اُن کو بے آرام کرتی ہو.ساتھ ہی میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں کیوں تمہیں کیا لگتا ہے میں دنیا سے جارہی ہوں؟ میرا دل ڈر گیا.میں نے جواب دیا نہیں امی میرا مطلب ہے کہ ابا جان آپ کے پاس آجائیں.بولیں اُن کو بے آرام نہ کرو.جاتے جاتے بھی ابا جان کی فکر تھی.آنکھوں.ނ اتنی فکروں والی ، ہر ہر قدم پر ہمارا سوچنے والی، ہمارے دکھوں میں دیکھی ، خوشیوں میں خوشی منانے والی، رات رات بھر جاگ کر ہمارے لیے دعائیں کرنے والی ، بظاہر ہماری آنکہ اوجھل ہو گئیں ہیں لیکن وہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتی ہیں.کوئی پل کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا جب میں یہ نہ محسوس کروں کہ امی ہمارے پاس نہیں.ہر وقت ساتھ رہتی ہیں.یادوں میں، دعاؤں میں.اُن کی دعائیں، اُن کی باتیں ، ان کی یادیں جو ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں وہ ہر وقت ہمارے پاس ہیں.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں اللہ تعالیٰ اُن کو وہاں بھی اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے.خدا کرے کہ اگلے جہاں میں بھی ہمیشہ آپ خدا تعالیٰ کے پیار کی جنت میں رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے اور جنت الفردوس میں اپنے پیاروں کے ساتھ اعلیٰ مقام عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ پیاری امی جان کی ساری اولاد کو ان کی نیکیوں کا وارث بنائے اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پہ چلنے کی توفیق عطا کرے آمین.امی جان کی وفات سے مجھے یوں لگا جیسے میں دعاؤں کے سرچشمے سے محروم ہو گئی ہوں.اللہ تعالیٰ اُنکی مغفرت فرمائے.صرف امی جان کی ہی خوبیاں بیان کرنے لگوں اور لکھتی چلی جاؤں تو کبھی ختم نہ ہوں.(228)
میرے ابا جان شیخ محمد حسن صاحب کا خاندانی پس منظر میرے بھائی محمد اسلم خالد نے ابا جان کے پاس بیٹھ کر اُن کی زندگی میں اُن کے کچھ حالات لکھے تھے اُن میں سے ہی مختصر کر کے میں لکھ رہی ہوں : ہم لدھیانہ میں دو منزلہ گھر جس میں رہتے تھے، اُس کے ماتھے پر ھل مِنْ فَضْلِ رَبّی لکھا ہوا تھا.جس کو ویکفیلڈ گنج کہتے تھے، کوچہ نمبر 9 تھا.ویکفیلڈ گنج کو عام طور پر صرف فیل گنج کے نام سے ہی بلایا جاتا تھا.میرے والد صاحب کا نام نور محمد تھا اور والدہ صاحبہ کا نام مکرمہ فاطمہ بی بی صاحبہ تھا.دادا کا نام محمد بخش صاحب اور پڑدادا کا نام قادر بخش تھا.ہمارے بڑے بھائی مکرم غلام نبی صاحب مرحوم بتاتے تھے کہ گاؤں کا نام ”شیخاں دا گھد الا تھا.شاید اسی لیے آگے سب شیخ کہلائے یا ممکن ہے کہ آباؤ اجداد ہندوؤں سے مسلمان ہوئے ہوں.واللہ اعلم.والد صاحب کی تاریخ پیدائش کا کوئی اندازہ نہیں.ہمارے خاندان کو آلی والیوں کا خاندان بھی کہا جاتا تھا.اسکی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد کتکہ کے کھلاڑی تھے اور اکثر کٹریل جوان ہوا کرتے تھے.میں نے اپنے دادا کے بھائی دیکھے ہیں بہت جاہ وجلال والے تھے.لوگ ان کے پاس اپنے فیصلے وغیرہ کروانے آیا کرتے تھے.سرخ وسفید چہرہ تھا.مانگ درمیان میں نکالا کرتے.ان کا نام رحیم بخش تھا.میری والدہ فاطمہ بی بی جن کو ہم بی بی کہتے تھے بڑی وضع دار خاتون تھیں.گھر میں نہ صرف اپنے بچوں کی کثرت تھی بلکہ ہمارے والد کی عادت تھی کہ رشتہ داروں میں اگر کوئی یتیم ہوتا تو اسے گھر لے آتے.اٹھارہ بیس افراد ہر وقت گھر میں ہوتے تھے.اتنے بچوں کو قابو میں رکھنا ایک (229)
میری یونجی مضبوط اعصاب والی خاتون کا تقاضا کرتا ہے اور وہ ہماری والدہ کو اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھے تھے.رعب اور دبدبہ کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس ایک لمبی چھڑی بھی رکھی ہوتی تھی.گلی محلہ کے لوگ بھی عزت سے پیش آتے.یہاں تک کہ محلہ کے اوباش لڑکے سڑکوں پر کھڑے ہوتے تو بی بی کو دیکھ کر راہ سے ہٹ جاتے.میں نے لڑکوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بی بی آرہی ہے راستہ سے ہٹ جاؤ.ہمارا گھر قبرستان کے قریب تھا اور اکثر غمزدہ لوگ اپنے عزیزوں کی تدفین کیلئے ہمارے گھر کے قریب سے گزرتے.والدہ صاحبہ کو علم ہو جاتا کہ کوئی میت آئی ہے تو آپ کا طریق تھا کہ فوراً کوئی نہ کوئی مشروب بنا کر لے جاتیں اور غم زدہ لوگوں کو پلاتیں اور ڈھارس بندھاتیں.غریبوں ، ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کی مدد کیلئے بے چین ہو جاتیں.اکثر رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلتیں اور غریب گھروں میں جا کر ان کی مدد کرتیں.مجھے یاد ہے جب آپ کی وفات ہوئی تو سوگوار لوگوں میں غریب لوگوں کا ایک ہجوم تھا.بچپن کی شرارتوں پر تو سب ہی کو سرزنش ہوتی ہے.ایک بار میں بھی اسی ڈر سے کہ آج اپنی خیر نہیں ڈرا اور سہا گھر پہنچا.بی بی کا سامنا ہوا تھر تھر کانپنے لگا.اپنا زخمی ہاتھ پیچھے چھپارکھا تھا کہ بی بی نے میری حالت کا اندازہ لگا لیا اور مجھے کہا کہ ہاتھ دکھاؤ کیوں چھپا رہے ہو.انگلی ڈور سے کٹی ہوئی تھی اور خون بہہ رہا تھا.یہ دیکھ کر سخت گیر ماں کا بہت اس کی اپنی ہی مامتا کی تپش میں پگھل گیا.سخت بے چین ہو ئیں اور پانی کی پٹی رکھنے لگیں.مجھے یہ بھی یاد ہے کہ بی بی نے مسجد فضل لندن کی تحریک میں اپنی سونے کی بالیاں چندہ میں.دیں.الحمدللہ کہ آج مجھے اور میرے بچوں کو اس مسجد میں خدمت کی توفیق ملی.ایک بار حضرت خلیفتہ امسیح الثانی لدھیانہ سے گزر رہے تھے کہ والدہ صاحبہ بھی تشریف لے گئیں.میری عمر اسوقت تقریباً چھ سال ہوگی، والدہ صاحبہ نے مجھے اٹھا کر حضور کا دیدار کر وایا تھا.حضور کو دیکھ کر میری والدہ نے ایک فقرہ کہا کہ دیکھو کس قدر نورانی چہرہ ہے.میں نے پلٹ کر دیکھا (230)
تو ان کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے.بی بی کی جب وفات ہوئی تو میری عمر تقریباً دس یا بارہ سال کی ہوگی اس لیے بہت کم باتیں یاد ہیں لیکن جو یا د ہیں وہ انکے لیے دعا بن کر رہ گئی ہیں.ان کی وفات کے بعد ان کی سہیلیاں ملتیں تو بہت پیار کرتیں اور کہتیں کہ یہ ہماری فاطمہ کی نشانی ہے.ہر ایک کے دل میں گھر کیا ہوا تھا.میرے والد صاحب کا نام محترم نور محمد صاحب تھا.گھر کے معاملات کا پورا بندو بست والدہ صاحبہ کے ہاتھ میں تھا اس لیے بے فکر تھے.ویسے بھی خاموش طبع تھے.بہت غریب پرور، ہر کسی پر ترس کھانے والے.پیشہ جلد بندی تھا.یہ کوئی ایسا پیشہ نہیں کہ اتنی دولت آ جائے کہ وہ حاتم طائی بن جائیں.دل کے بہت حلیم تھے غم زدہ اور ضرورت مندوں کو دیکھ کر نہ صرف انکی مدد کرتے بلکہ بہت سے یتیم رشتہ داروں کو اپنے گھر لے آتے.ان کی دیکھا دیکھی دوسرے ضرورت مند بھی آپ کے پاس آجاتے.سب مل کر جو ہوتا گزارا کرتے اور بہت اچھا گزارا ہوتا رہا.چونکہ خود بھی قبیل دار تھے اور دیگر ضرورت مندوں کے کام بھی آتے اس لیے کبھی بھی دولت کے انبار دیکھنے میں نہیں آئے اور نہ ہی کوئی جائداد بنا سکے.لدھیانہ میں ایک آبائی گھر تھا اور اسی میں رہائش پذیر رہے.ہمارے والد بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے.اکثر کرتہ کے بٹن بے ترتیب اور اوپر نیچے لگے ہوتے.توکل کی انتہائی بلندیوں پر قدم رکھتے تھے.بارہاد دیکھا کہ پاس کچھ بھی نہیں لیکن تو کل کیا اور اللہ تعالیٰ نے غیب سے ایسے سامان کئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ کبھی نہیں بھولتا.میں اور میرا بھائی احمد حسن اپنے والد کے ساتھ عید پڑھنے گئے.واپسی پر سواری کے لیے پیسے بھی نہ تھے اور پیدل ہی کھیل کو د میں مصروف گھر کو آنے لگے.مجھے لگتا ہے اس دن والد صاحب کی جیب بالکل خالی تھی.لوگ اپنے بچوں کو قسم قسم کی چیزیں لے کر دے رہے تھے اور ہم خاموش والد صاحب کی طرف نگاہ جمائے ہوئے تھے.انکے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ اور تو میں انہیں کہیں لے جانہیں سکتا.کہنے لگے آئیں آپ کو دریا کی سیر کرائیں.(231)
ہمارا دھیان کچھ عید کے ہنگاموں سے ہٹ کر دریا کی سیر پر لگ گیا.والد صاحب کے ساتھ پیدل ہم دریا پر پہنچے.وہاں تو کوئی ایسی دیکھنے والی چیز نہ تھی.ان دنوں فیروز پور در یا پر پل بن رہا تھا اور اس کے مزدورں نے مل کر عید منانے کا پروگرام بنا رکھا تھا.ان میں سے ایک پٹھان مزدور کی نظر ہم پر پڑی تو وہ ہمارے والد صاحب کے پاس آکر اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہنے لگا.بابا تم ادھر کدھر بچوں کے ساتھ پھرتا ہے آج تو عید کا دن ہے؟ والد صاحب غالباً خاموش رہے.اس پر اس نیک دل پٹھان نے کہا آؤ ہمارے ساتھ عید مناؤ ہم نے پلاؤ بنایا ہے.وہ ہمیں اپنے ساتھ لے گیا اور ہم نے بڑے مزے لے لے کر کھانا کھایا.جب ہم آنے لگے تو اس پٹھان نے ایک آنہ مجھے اور ایک آنہ میرے بھائی کو عیدی دی.بچپن میں تو ہم اس لیے خوش تھے کہ ہماری عید ہوگئی لیکن آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد کر کے خوش ہوتے ہیں کہ کس طرح اس نے جنگل میں ہماری عید کے سامان کئے.کچھ اسی طرح کا سلوک اللہ تعالیٰ کا ہمارے غریب پرور باپ کے ساتھ تھا.گئے تو ہم پیدل تھے لیکن واپسی کے لیے اللہ تعالیٰ نے تانگہ کے لیے رقم کا انتظام بھی فرما دیا.وہ پٹھان کا دیا ہوا آنہ مجھے کبھی نہیں بھولتا اور بھولے بھی کیسے کہ اس میں اللہ پر توکل کرنے اور پھر اس کی ہم پر پیار کی نظر بھولنے ہی نہیں دیتی.ایک بار خاکسار اپنے والد صاحب کے ساتھ جارہا تھا کہ راستہ میں والد صاحب کو سانپ نے ڈس لیا.والد صاحب بہت دعا گو اور اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ کرنے والے تھے.سارے راستہ دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکتے رہے اور مجھے یاد ہے کہ حقہ کی نلکی سے جلی ہوئی راکھ بھی اس پر لگائی تھی لیکن جو دعائیں پڑھتے رہے ان میں لَا إِلَهَ إِلَّا انْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ اور بکثرت درود شریف شامل تھا.الحمد للہ کہ سانپ کے کاٹے کا کوئی بھی بداثر آپ پر نہ ہوا.ایک بار والد صاحب قادیان جانے کے لیے گاڑی میں تشریف فرما تھے کہ گاڑی چلنے سے قبل اتر آئے.غالباً کوئی القاء ہوا ہوگا.اس ٹرین کا لاڈ وال اور پھلوار کے درمیان ایکسیڈنٹ ہو گیا.(232)
اسطرح اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے آپ کو محفوظ رکھا.ایک بار ایسے بھی ہوا کہ خاکسار اور والد صاحب نے کوٹ کپورہ سے مگسر کے لیے جانا تھا.ٹرین آنے والی تھی اور ٹکٹ لینا باقی تھے.والد صاحب نے ٹکٹ با بوکو دوٹکٹ دینے کیلئے پیسے دیئے ، اندر سے جواب آیا بابا پیسے اور دو یہ توکم ہیں.والد صاحب کے پاس وہی رقم تھی، مجھے کہنے لگے کہ تم ٹرین پر چلے جاؤ میں پیدل آجاتا ہوں لیکن میرا اصرار تھا کہ نہیں آپ ٹرین پر جائیں اور میں پیدل آ جاؤں گا.نہ جانے کیوں میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ کتنے پیسے کم ہیں.انہوں نے بتایا کہ دو آنے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو مجھے کوئی سخت سی چیز محسوس ہوئی دیکھا تو دو آنہ کی رقم نکلی.وہ دو آنے بابو کو دیے تو ہم دونوں اللہ کے فضلوں سے مغلوب ٹرین میں اکٹھے سفر پر روانہ ہوئے.آج تک سمجھ نہیں آئی کہ رقم میری جیب میں کہاں سے آئی.والد صاحب جسمانی لحاظ سے اتنے مضبوط نہ تھے.ایک مرتبہ کسی نے حضرت مسیح موعود “ کو گالی دی آپ کو شدید دکھ اور ضعف ہوا اور آپ بے ہوش ہو گئے.ہماری پھوپھی ( جو عطاءاللہ شاہ بخاری کی منہ بولی بہن تھیں) جب بھی ملنے آتیں تو گلی میں داخل ہوتے ہی بین ڈالنا شروع کر دیتیں اور کہتیں کہ : ”مرزے نے میرے پراواں نوں لٹ لیا یعنی مرزا (صاحب) نے میرے بھائیوں کولوٹ لیا ہے.احمدیت کا ہمارے گھر میں نفوذ یہ معین کرنا کہ ہمارے گھر میں احمدیت کیسے داخل ہوئی ایک مشکل امر ہے البتہ میرے والد صاحب محترم صوفی احمد جان صاحب کے مریدوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے دعوی سے پہلے یہ شعر پڑھا تھا کہ ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر خدا کیلئے تم مسیحا بنو خدا (233)
دعوی سے قبل ہی منشی احمد جان صاحب کی وفات ہوگئی لیکن آپ کے مریدوں نے حضرت مسیح موعود کے دعویٰ پر شرف بیعت حاصل کیا.حضرت مسیح موعود کی زندگی میں یا اس کے بعد کسی وقت والد صاحب نے احمدیت قبول کی.اس کا با قاعدہ ریکارڈ موجود نہیں والدین ہماری ہوش سے بہت پہلے احمدیت قبول کر چکے تھے.ہماری والدہ بچپن میں وفات پاگئیں اور اب والد صاحب کے ساتھ کثیر تعداد بچوں کی رہ گئی.احمدیت کی مخالفت، بچوں کی شادیاں اور دیگر پریشانیاں درمیان میں حائل ہونے لگیں.بچوں کی شادیاں غیر از جماعت گھرانوں میں ہوئیں.ہم اس ملے جلے ماحول میں آگے بڑھنے لگے.بچوں کی شادیوں سے گھر کا شیرازہ بکھرنے لگا.والد صاحب کی طبیعت بہت نرم تھی جس کا جدھر دل چاہا اس نے وہی راہ اختیار کی.ہمارے بڑے بھائی جو کہ خود احمدی ہو چکے تھے لیکن شادی غیر از جماعت میں ہوئی.اسی طرح ایک اور بڑے بھائی نے احمدیت قبول نہ کی بلکہ لوگوں کے زیراثر مخالفت بھی کرتے رہے.اس طرح ہم چھ بھائیوں میں سے تین احمدیت کی طرف آگئے اور تین غیر از جماعت کی طرف چلے گئے.بہنوں کی شادیاں بھی غیر از جماعت لوگوں میں ہوئیں.لیکن ہماری ایک بہن نے فارم بیعت پر کر کے بھجوادیا تھا لیکن مخالفت والے گھر میں بیاہی گئیں اس لیے ان کی ساری اولا ددوسری جانب چلی گئی.انا للہ وانا الیہ راجعون.مجھے بیعت کی تو فیق ملنا غالباً ۱۹۳۰ء کی بات ہے ملک میں کئی قسم کی تحریکات چل رہی تھیں.میری طبیعت بھی جو شیلی تھی.ہر جلسے جلوس میں شامل ہوتا تھا.دوستیاں بھی ایسے لوگوں کے ساتھ تھیں جو چور اُچکے، ہر وقت نشہ کرنے والے تھے جنہیں کمزوروں پر ہاتھ اٹھانے میں کوئی عار نہ تھی.ڈاکے ڈالتے اور ہر قسم کی دہشت گردیوں میں حصہ لیتے تھے.میری اگر چہ ایسے لوگوں کے ساتھ دوستیاں تو تھیں لیکن خدا کے فضل سے کبھی بھی کسی پر زیادتی نہیں کی بلکہ ان کو بھی روکنے کی کوشش کرتا.ایک بار ایک شخص نے، (234)
جب کہ خاکسارا اپنے دوستوں میں بیٹھا تھا، طعنہ دیا کہ تم خود کو اتنے پارسا نہ سمجھو کہ کبھی شراب کو چھوا تک نہیں.خاکسار ابھی خاموش ہی تھا کہ میرے ساتھیوں میں سے ایک کھڑا ہوگیا اور اس شخص کو برا بھلا کہا اور اس نے میری صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کبھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لیا.چونکہ پوچھ کچھ کرنے والا کوئی نہ تھا بس خود کو زمانہ کی رو پر چھوڑ رکھا تھا.اُن دنوں کشمیر موومنٹ چلی تو ہم بھی احرار جماعت میں شامل ہو گئے اور اس جلوس میں شامل ہوئے جو اسلام کے نام پر جہاد کرنے والوں کا تھا.حکومت نے گرفتاریاں کیں تو ہم نے بھی خود کو اسلام کے نام پر قربانیاں پیش کرنے والوں میں پیش کر دیا.تین ماہ کی سزا ہوئی.مولوی گھروں کو چلے گئے اور ہم جیلوں میں.میرے ساتھی بھی میرے ساتھ ہی تھے پہلے ہمیں ایک ماہ لدھیانہ جیل میں رکھا پھر لاہور بورسٹل جیل میں منتقل کر دیا گیا.یہاں ایک بات ضمناً یاد آگئی کہ جب ہمیں جیل سے ٹرانسفر کر رہے تھے تو ہم نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے ہوئے گزرے جسکی آواز ہمارے گھروں تک پہنچی.یہ آواز سن کر عزیز واقارب اسٹیشن پر پہنچنے لگے.پولیس ہمیں کہتی کہ نعرے مت لگاؤ.ہم نے کہا نعرے تو لگیں گے.جس کی خاطر ہم یہاں آئے ہیں اب اس کی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم نعرے بھی لگائیں.اسٹیشن پر مجھے ملنے کے لیے صرف میری بہن سکینہ آئی.میں نے سن رکھا تھا کہ بہنیں بھائیوں کے لیے بے چین ہو جاتی ہیں اس دن اس صداقت کا سورج طلوع ہوتے دیکھا.خیر ہم جیل بھیج دئے گئے.تھوڑے عرصہ بعد ہماری ضمانتوں کی کوشش کی گئی لیکن خاکسار نے باہر آنے سے انکار کر دیا.میرے ساتھی جیل کی سلاخوں سے لپٹ لپٹ کر رویا کرتے اور مجھے کہتے تھے کہ تمہاری وجہ سے ہم جیل بھگت رہے ہیں ورنہ آج ہم آزاد ہوتے.رمضان المبارک انہی ایام میں آ گیا.چونکہ میری صحت خدا کے فضل سے بہت اچھی تھی.میں نے روزے رکھنے کا ارادہ بھی کر لیا.صبح سحری کے وقت جو کھانا دیا جاتا نہایت بدمزہ ہوتا.روٹی میں سری کے سوسو دانے نظر آتے.مگر مجبوری تھی، الحمد للہ رمضان کے پورے روزے رکھے ، جیل کی مشقت اور روزوں سے جسمانی لحاظ (235)
سے بہت کمزور ہو گیا تھا باہر آیا تو بہت لاغر ہو چکا تھا.طبیعت کی سختی نرمی میں بدل گئی اور رجحان عبادت کی طرف مائل ہو گیا.جیل سے شہر تک احرار کا جھنڈا اٹھائے نعرے لگاتے سٹیشن پر پہنچے.گھر آئے تو کسی نے بھی گرم جوشی کا اظہار نہ کیا.ہمارے گھر کے پاس امام باڑہ کی مسجد تھی.میں نماز کے لیے اس مسجد میں جانے لگا.وہاں ایک بزرگ جن کا نام مکرم رحیم بخش صاحب تھا، نماز پڑھنے آتے تھے.پیشہ کے لحاظ سے راج کا کام کرتے تھے، بہت کم گو تھے.کانوں سے اُونچا سنتے تھے.ایک روز مجھے ظہر یا عصر کی نماز کے بعد بلا کر مسجد کے ایک کونے میں لے گئے اور کہنے لگے کہ اب تم سارا کچھ دیکھ آئے ہو.یہ سارے شیطانوں کے ٹولے ہیں جو مختلف رنگ بدلتے رہتے ہیں.میں تمہیں بتا تا ہوں کہ مرزا صاحب سچے ہیں ان کو مان لو! میں یہ بات سن کر حیران رہ گیا کہ خود تو مانتے نہیں اور مجھے ماننے کو کہہ رہے ہیں.میں نے کہا کہ آپ کیوں نہیں مان لیتے.انہوں نے کہا سنو! میں جو تمہیں بتا رہا ہوں وہی ٹھیک ہے میری بات چھوڑو.اس پر کہنے لگے میں نے ایک خواب دیکھا ہے سن لو.اس پر انہوں نے اپنی خواب سنائی.تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد میری آنکھ لگ گئی.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک باغ میں ہوں.میں نے دیکھا کہ نبیوں کے مختلف تخت لگے ہیں.میں دریافت کرتا ہوں کہ یہ کن لوگوں کے تخت ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ نبیوں کے تخت ہیں.میں آگے بڑھتا ہوں تو ایک بہت عالیشان تخت مجھے دکھایا گیا.میں نے پوچھا کہ یہ کس کا تخت ہے؟ بتایا گیا کہ یہ حضرت رسول کریم صلی یا ان کا تخت ہے.تخت کے نیچے حضرت مرزا صاحب تشریف فرما ہیں.میں نے سلام کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اسپر آپ نے فرمایا آپ کو نہیں علم کہ اس زمانہ میں رسول کریم صلی لا ا سکیم کے تخت کی نگرانی کرنے پر میری ڈیوٹی لگی ہے.اس کے بعد انہوں نے میری کمر سے کرتا اٹھایا اور کمر پر ہاتھ پھیرا جس سے میری آنکھ کھل گئی.اس خواب سے مجھ پر یہ بات کھل گئی کہ مرزا صاحب سچے ہیں اس لیے تم ان کو مان لو.(236)
یہ حیران کن خواب سن کر میں مسجد سے باہر آیا تو سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ایک غیر از جماعت کا مجھے یوں کہنا ضرور سچ ہے.چونکہ ہم انہیں بچپن سے جانتے تھے کہ وہ ایک سچ بولنے والے شخص ہیں.وہ خاموش طبع شخص تھے اور اپنی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے.کچھ عرصہ کے بعد جلسہ سالانہ بھی آرہا تھا میرے بڑے بھائی غلام نبی صاحب نے مجھے کہا کہ اب تم زندگی کے سارے رخ دیکھ ہی آئے ہواب قادیان چلو.میں جانے کے لیے تیار ہو گیا.ایک تو اس خواب کا اثر تھا پھر یہ بات تو پکی تھی کہ احمدیت گھر میں موجود ہی تھی.والدین تو تھے ہی احمدی اب تو صرف میری بھٹکی ہوئی روح کو کسی کے سپرد کرنے کی بات تھی.بھائی غلام نبی صاحب کے ساتھ قادیان گیا.جانے سے قبل رشتہ دار عزیزوں نے بہت روکا کہ وہاں جنت دوزخ ہے، جادو کر دیں گے وغیرہ وغیرہ.خیر میں قادیان چلا گیا وہاں جلسہ سننے کا موقعہ ملا.لوگوں کا آپس میں محبت پیار دیکھا.حضرت مسیح موعود کے مزار پر گیا.دیکھا کہ لوگ آتے ہیں دعا کر کے چلے جاتے ہیں.کوئی پھول نہیں چڑھاتے.کسی قسم کی کوئی بدعت نہیں.میں نے چونکہ بڑے بڑے میلے اور عرس دیکھے ہوئے تھے اس لیے یہاں کی دنیا ی کچھ اور تھی.جلسہ سالانہ پر بیعتوں کا وقت آیا تو اس وقت تک مجھ میں بہت تبدیلی آچکی تھی اور آخر وہاں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی سعادت پائی.الحمد للہ.ایک نئے دور کا آغاز میری بیعت کے بعد گھر میں ملے جلے جذبات کا رد عمل ہوا.والد صاحب بہت خوش ہوئے اور ان کا حوصلہ بہت بلند ہوا.لیکن وہ بھائی اور بھا بھیاں جو احمدی نہیں تھیں مخالفت میں زور دکھانے لگے لیکن سبھی میری طبیعت سے بھی واقف تھے اس لیے مخالفت زیر ز میں کرتے.مخالفت ہمیشہ کسی سکیم کے تحت ہوتی.گھر کی تقریبات میں اور دیگر فیصلوں میں ہمیشہ امتیازی سلوک روا ر کھتے اور یہ سلوک زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہوتا.محلہ والوں نے بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کر دیا.دکانوں پر بورڈ لگا کر رکھ لیے کہ مرزائیوں کو سود انہیں دیا جائے گا وغیرہ.(237)
میری بیعت کے بعد ہمارے گھر کی ایک بار پھر سے مخالفت شروع ہو گئی ، والد صاحب کی کمزوری کی حالت تقویت میں بدلنے لگی.اب انہیں حوصلہ ہوا کہ میرے ساتھ بھی کوئی ہے.اسی طرح میرے چھوٹے بھائی منظور نے بھی بیعت کر لی جس سے مزید حوصلہ بڑھا.ہم سے بول چال بند ہوگئی.پورا محلہ ایک طرف اور ہم ایک طرف کٹ کے رہ گئے.میرے وہ ساتھی جو جیل میں ساتھ تھے، طعنہ دیتے کہ وہاں ہمیں تمہاری وجہ سے جیل کاٹنی پڑی اور خود باہر جا کر مرزائی ہو گئے.پھر اللہ تعالیٰ نے مزید کرم کیا اور خالہ زاد بھائی کو دین کی روشنی دکھائی اور اس نے جماعت احمدیہ کو دل سے قبول کر لیا.میرے خالہ زاد بھائی غلام محمد صاحب سابق خادم مسجد فیصل آباد ( لائلپور ) جنہوں نے فیصل آباد کی مسجد میں بہت لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی پھر انکی اولاد کو آگے چل کر احمدیت کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں پیش کرنے کی توفیق ملی.انکے ایک پوتے عزیزم وحید کو احمدیت کی راہ میں جام شہادت نصیب ہوا اور خود بھائی غلام محمد صاحب کو اسیر راہ مولا کی سعادت بھی نصیب ہوئی.وہ میرے بھائی میرے بہت قریب تھے.چونکہ وہ بھی ایک احمدی باپ کے ہی بیٹے تھے لیکن جماعت کے ساتھ کوئی بہت تعلق نہ تھا، میرے احمدی ہونے سے وہ بھی کھل کر میرے ساتھ شامل ہو گئے.اس طرح ہم دونوں کی دوستی پروان چڑھنے لگی.ہم مل کر احمد یہ مسجد، جو کہ ہمارے گھر سے تین چار میل کے فاصلہ پر تھی ، جایا کرتے.اس کے بعد ہم شہر سے نکل جاتے.بائیکاٹ کا ٹوٹنا ایک روز ہم دونوں نے شہر سے باہر ہجوم دیکھا جہاں ایک کبڈی کا میچ ہورہا تھا.وہاں ہم بھی رک گئے.دیکھا کہ ہمارے محلہ کی ٹیم کا کسی دوسرے محلہ کے ساتھ مقابلہ ہورہا ہے اور ہماری ٹیم بری طرح بار رہی تھی.اس ہجوم میں سے کسی معتبر کی نظر ہم پر پڑی تو وہ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ کپڑے اتار و اور میدان میں آجاؤ.ہم نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمارا تو آپ کے ساتھ بائیکاٹ ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ہمیں کھیلنے کے لیے کہیں.انہوں نے کہا اس وقت محلہ کی غیرت کا سوال (238)
میری یونجی ہے.یہ مولوی تو یونہی فساد پیدا کرتے ہیں تم ان کی باتوں کو چھوڑو.آخر ان کے مجبور کرنے پر ہم میدان میں آئے.ہم دونوں بھائیوں نے مشورہ کیا کہ یہ تو کوئی تصرف الہی لگتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے.ہم دونوں دعا میں مصروف ہو گئے : رَبِّ كُلُّ شَيءٍ خَادِمُكَ اور اللهم إنا نجعلک کی دعائیں پڑھتے رہے اور قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے نظارے دیکھتے رہے.جلد ہی مخالف فریق نے ہاتھ کھڑے کر دئے اور اپنی ہار مان لی اور کہا یہ تو ہماری گردنیں توڑ دیں گے.بس پھر کیا تھا وہی محلے والے جو بات کرنے پر بھی راضی نہ تھے اور دکانوں پر ہمارا جانا بند تھا، اپنے ہی کندھوں پر اٹھا کر ہمیں جلوس کی شکل میں محلہ میں لیکر آئے اور خوب خاطر مدارات کی.دراصل اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود کے غلاموں کی فتح کا نشان دکھانا چاہتا تھا.اس فتح کے بعد بائیکاٹ کی پابندی خود بخود ختم ہوگئی.میرا شادی سے انکار میری شادی کی بات میرے تایا کی بیٹی سے بہت پہلے طے ہو چکی تھی جو کہ احمدی نہ تھیں.یہ میری بیعت کے کچھ عرصہ بعد کا واقعہ ہے.جمعہ کا روز تھا ہم طے شدہ پروگرام کے تحت بارات لے کر جانے کیلئے تیار تھے.ادھر لڑکی والوں کے مہمان بھی دور دور سے آئے ہوئے تھے.دیگیں پکی ہوئی تھیں.جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں.غرض شادی کی پوری تیاری تھی کہ احمدیت کی مخالفت نے سراٹھا لیا.ہمارے محلہ کے ایک احراری مولوی تاج دین انصاری نے احرار کا گروپ لیا اورلڑکی والوں کے گھر جا کر لعن طعن شروع کر دی کے تم اپنی بیٹی مرزائیوں کو دیتے ہو ، شرم کرو.اس طرح مخالفت کی آگ بھڑ کائی.ان کے زور دینے پر لڑکی کے والد فقیر محمد ہمارے گھر آئے اور مجھے ایک کاغذ دیا کہ اس پر دستخط کر دو جس پر لکھا تھا کہ میں احمدی نہیں ہوں اور ساتھ تسلی دلائی کہ یہ تحریر عارضی ہوگی تا کہ وقت گزر جائے اور شادی پر مخالفین کے منہ بند ہو جا ئیں.وہ اپنی طرف سے اسے معمولی سا مسئلہ سمجھتے ہوئے کاغذ چھوڑ کر چلے گئے لیکن میرے لیے یہ زندگی اور موت والی بات تھی.جمعہ کے (239)
بعد گھر واپس آئے تو طے پایا کہ سب بابا عبد اللطیف کے گھر اکٹھے ہوں.لطیف صاحب کے گھر پنچایت لگی.میرے تمام رشتہ دار میرے ارد گرد جمع ہو گئے اور مجھے مجبور کرنے لگے کہ یہاں دستخط کر دوا گر کوئی پوچھے تو کہہ دینا میری برادری کا مجھ پر دباؤ تھا اس لیے میں نے ایسا کیا.اب وقت گزارلو بعد میں جو جی میں آئے کرنا.اس طرح کی کئی تجاویز پیش ہوتی رہیں اور دباؤ بڑھتا چلا گیا.میری اُس وقت کی حالت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے.دل چاہتا تھا کہ یہاں سے بھاگ جاؤں لیکن ایسا کرنا بہت مشکل تھا بس اللہ پر توکل کئے ڈٹا رہا.لڑکی والے بھی وہاں پہنچ گئے اور مجھ پرمزید دباؤ بڑھنے لگا.تحریر والی بات چھوڑ کر اب زبانی اقرار کرنا ہی کافی سمجھا جانے لگا.جب کوئی صورت دکھائی نہ دی تو لڑکی کے والد نے اپنی پگڑی میرے قدموں میں رکھ دی.میں نے پگڑی اُٹھا کر اُن کے سر پر رکھ دی.سب نے یہ سمجھا کہ میں مان گیا ہوں لڑکی کے باپ نے پوچھا کیا تم مان گئے ہو کہ تم مرزائی نہیں ہو؟ میں نے کہا ہاں! میں یہ تو مانتا ہوں کہ میں مرزائی نہیں مگر بفضل خدا احمدی ضرور ہوں.یہ جواب سن کر لڑکی کا باپ سخت غصہ میں آ گیا اور کہنے لگا کہ اگر یہ نہیں مانے گا تو یہاں تین خون ہو جائیں گے.میں نے ان کو سمجھایا کہ میں اتنی دنیا کے سامنے کھڑا ہوکر یہ اعلان کر رہا ہوں کہ میں احمدی ہوں آپ بھی ہمت کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ میں نے لڑکی دینے کا وعدہ کیا ہے جتنی بھی مخالفت ہو یہ شادی ہوگی.اس پر وہ خاموش ہو گئے اور میٹنگ برخاست ہوگئی.جب یہ کاروائی ہو رہی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میری حوصلہ افزائی کا سامان کیا.جن کے گھر میٹنگ ہورہی تھی یعنی با با لطیف صاحب جو کہ خود غیر احمدی تھے اور اس وقت ان کی عمر کم از کم ستر برس کے قریب ہوگی.مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے کہ میری اتنی عمر ہو گئی ہے میں نے ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا کہ لڑکی والے اپنی پگڑیاں اتار کر لڑکے کے پاؤں میں رکھیں اور وہ اپنے ایمان پر قائم رہے.میرا مشورہ تمہیں یہی ہے کہ تم اپنا ارادہ پکا رکھو.مجھے تمہارا پیر ومرشد کامل لگتا ہے.مجھے ان کی بات سے مزید تقویت ملی.اس اعصابی دباؤ سے اللہ تعالیٰ نے میرے حوصلہ کے سامان پیدا کئے.میرے انکار (240)
پر لڑکی والوں کے گھر سراسیمگی پھیل گئی اور استقدر رعب پڑا کہ رات کو ان کی طرف سے ایک وفد آیا جس نے میرے والد صاحب کو کہا کہ نور محمد آپ کوئی حرجانہ وغیرہ کا مقدمہ تو نہیں کرنے والے.والد صاحب نے ان کو تسلی دی کہ ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں.اس انکار پر شادی تو ختم ہوگئی مگر پورے شہر میں یہ بات عام ہوئی اور احمدیت کی تبلیغ کا سبب بنی.جب یہ بات جماعت میں پھیلی تو خدشہ کا اظہار کیا گیا کہ کہیں غیر از جماعت مل کر مجھے مجبور نہ کر دیں اس لیے بھی تشویش تھی کہ میں نیا نیا احمدی ہوا ہوں، کہیں کمزوری ایمان کا مظاہرہ نہ کر دوں.میں نے دوستوں کو سمجھایا بھی کہ اگر کمزوری دکھانی ہوتی تو اس وقت دکھا دیتا جس وقت لڑکی کے باپ نے پگڑی میرے پاؤں پر رکھی تھی.پھر یہ بھی بات سامنے آئی کہ کہیں سوتے میں میرا انگوٹھا لگوا کر مشہور نہ کر دیا جائے کے میں نے ارتداد اختیار کر لیا ہے.بہر حال دوستوں کے مشورہ سے مجھے اُسی رات باؤ رحمت اللہ صاحب کے بیٹے غلام ربی صاحب کے گھر بھجوادیا گیا.الحمد للہ کہ اللہ نے اپنے فضلوں سے احمدیت پر قائم رہنے کی توفیق سے نوازا.اگر چہ ہمارے گھر میں احمدیت تو پہلے بھی تھی لیکن میرے احمدی ہونے سے نیز شادی سے انکار پر ایک ہیجان سا پیدا ہو گیا.غیر از جماعت دوستوں، عزیزوں پر گہری چوٹ لگی جس پر ہمیشہ کیلئے ان سے دوری کے سفر کا آغاز ہوا.دوسری جانب جماعت کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ قرب کی راہیں کھلنے لگیں.احباب جماعت میں یہ بات بڑی عزت کا مقام رکھتی تھی کہ اتنی مخالفت کے باوجود یہ نواحمدی اپنے ایمان پر قائم رہا.اس طرح غیر از جماعت کے ہر گھر میں اس بات کا چرچا ہونے لگا بلکہ لوگ مجھے دیکھنے کی خواہش رکھتے اور انگلیاں اٹھاتے کہ یہ وہ لڑکا ہے جس نے اپنے مذہب سے باہر شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے.(241)
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کی پہلی تقرری مبلغ بننے پر شیخ صاحب کی سب سے پہلی تقرری لدھیانہ میں ہوئی.مجھے آج بھی وہ نوجوان چہرہ دکھائی دیتا ہے.کالی داڑھی ایک جوشیلا مبلغ ، دلائل سے لیس میدان عمل میں آتا ہے.غالباً ۳۴ یا ۱۹۳۳ء کی بات ہے ان کی آمد پر مناظروں کا سلسلہ شروع ہوا.اس کا مرکز ہمارا گھر بنا.ہمارے مکان کی چھت پر مناظرے ہوتے رہے.ایک کے بعد ایک مولوی بدلتا لیکن کوئی بھی احمدیت اور اسلام کی سچائی کی تاب نہ لاتا بلکہ مخالفین روز مرہ کی ذلت دیکھ کر مفتی نعیم کے پاس گئے اور صورت حال بتائی کہ قادیان سے ایک نوجوان مولوی آیا ہوا ہے.اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے آپ آکر اس سے بات کریں.لیکن اس نے بھی آنے سے انکار کر دیا.مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے اپنی کتاب کیفیات زندگی کے صفحہ نمبر 25 پر لدھیانہ میں اپنی پہلی تقرری کا ذکر کیا ہے.آپ کا قیام ہمارے دادا نور محمد صاحب کے ہاں ہوا.تعلیمی فراغت کے بعد جیغی فرائض کی انجام دہی مکرم شیخ مبارک احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: دہ تبلیغی ٹرینگ یعنی مشنری کالج سے جب کامیابی سے فراغت ہوئی تو ہندوستان کے مختلف علاقوں اور شہروں میں تقرری ہوتی رہی.یاد پڑتا ہے کہ سب سے پہلے لدھیانہ شہر میں نظارت دعوت وتبلیغ نے خاکسار کو بطور مبلغ بھجوایا.لدھیانہ میں خاکسار کا قیام محترم صوفی سید عبد الرحیم صاحب جو ان دنوں جماعت کے جنرل سیکرٹری تھے، کے مکان پر ہوا.وہ ریلوے میں ملازم تھے.آپ حضرت مسیح موعود کے ایک مخلص صحابی حضرت عنایت علی شاہ صاحب کے بیٹے تھے.محلہ ویکفیلڈ گنج میں حضرت صوفی احمد جان کے مرید اور ان سے خاص عقیدت رکھنے والے احباب کی رہائش تھی اور (242)
احمدیوں کے بھی متعدد گھرانے تھے.اُن میں سے ایک دوست میاں نور محمد صاحب جلد ساز کی مشہور و معروف شخصیت تھی اور وہ حکومت کے رجسٹر ڈ جلد ساز تھے.اس وجہ سے حکومت کے رجسٹروں اور کتابوں کی جلد بندی کا کام ان کے سپر دتھا.اُن کا اپنا مکان تھا جو دو منزلہ تھا.شام کے وقت بالا خانہ کی چھت پر تبلیغی مجلسیں موسم گرما میں قائم ہوتیں.ان کے بڑے بیٹے میاں غلام نبی صاحب اور محمد حسن صاحب بھی اپنے باپ کے کام میں جلد سازی میں شریک تھے.شہر میں ان کی دوکان بھی تھی.خاکسار کا جتنا عرصہ لدھیانہ میں قیام رہا، بالعموم روزانہ بعد نماز مغرب میاں نور محمد صاحب کے مکان پر تبلیغی مجالس کا انعقاد ہوتا رہا.روزانہ ہی کوئی نہ کوئی غیر احمدی مولوی یا ان کے مدرسوں کا کوئی طالب علم شریک ہوتا.مجھے اچھی طرح یاد ہے اور اس وقت کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے.مکان کے بالا خانہ کی اوپر کی چھت پر اپنے اور غیر از جماعت احباب جمع ہوتے اور سوال وجواب کی مجلس قائم ہوتی.ڈیڑھ دو ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا.بعض اوقات اگر مجھے اس جگہ پہنچنے میں دیر ہو جاتی تو ویکفیلڈ گنج کے نوجوان لیمپ لے کر شام کے وقت صوفی صاحب کے مکان پر آکر مجھے لے جاتے.ان تبلیغی مجالس کی وجہ سے لمبا عرصہ کے قیام لدھیانہ سے اس شہر کے احمدی احباب سے بالخصوص گہر ا موانست کا تعلق پیدا ہو گیا.مجھے ہمیشہ اس بات سے خوشی ہوئی اور مسرت رہی کہ اس عاجز کی تقرری اور تبلیغی جدوجہد کا آغاز اس شہر سے ہوا جہاں بیعت کا آغاز ہوا.ولله الحمد خاکسار نے اپنے لیے اس شہر میں تقرری کو مبارک فال گردانا.متعدد مرتبہ دار البیعت میں جانے ، نمازیں ادا کرنے اور ذکر الہی کرنے کی توفیق پا تا رہا.لدھیانہ سے سلسلہ کی بہت سی روایات وابستہ ہیں.حضرت مسیح موعود کا یہاں متعدد مرتبہ قیام، (243)
اشتہارات کی طباعت کا ذکر تاریخ احمدیت میں نمایاں طور پر پایا جاتا ہے.لدھیانہ کے بعض احباب سے گہرا تعلق رہا تقسیم ملک کے بعد میاں نور محمد صاحب کے خاندان کے افراد پاکستان آکر لاہور میں آباد ہو گئے.غلام نبی صاحب ان کے بڑے بیٹے تھے.بعد میں خاکسار نے ان کے بھائی محمد حسن صاحب کو نیروبی کے قیام کے دنوں میں سواحیلی ترجمۃ القرآن کی اشاعت کے مکمل ہونے پر جلد سازی کے کام کیلئے ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر سے کہہ کر نیروبی بلایا.آج کل یہ دوست لندن میں ہیں.جماعتی کاموں میں خاص دلچسپی لیتے ہیں.“ کیفیات زندگی از شیخ مبارک احمد صاحب صفحه 31-30) مکرم شیخ صاحب کا تبادلہ ور مکرم مولانا احمد خان نیم صاحب کی تقرری جلد ہی شیخ صاحب کا تبادلہ ہو گیا اور آپ مشرقی افریقہ تشریف لے گئے.آپ کی جگہ مولانا احمد خان نسیم صاحب آگئے اور مناظروں کا سلسلہ پھر سے جاری ہو گیا.اب یہ بات پورے شہر کے لیے چیلنج تھی کہ احمدیوں کے دلائل کا جواب نہیں دیا جا سکتا.یہ مناظرے میرے لیے بہت تقویت کا باعث بنے.روز مرہ کی شکست سے تنگ آئے لوگ بے چین تھے کہ ایک دن علاقہ کے ایک شریف النفس پہلوان جن کا نام احمد دین پہلوان تھا، یہ مشہور زمانہ پہلوانوں کی حویلی تھی.احمد دین وہ پہلوان تھے جو پٹیالہ میں گاما پہلوان (رستم زماں) اور امام بخش پہلوان کے اکھاڑے میں امامت کے فرائض ادا کرتے رہے ) ان کا پیغام آیا کہ آپ گھر میں بند ہو کر ہی بات کرتے ہیں یا سر عام بھی بات کر سکتے ہیں.اس بات کا ذکر ہم نے مولوی صاحب سے کیا تو آپ نے کہا ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں اگر امنِ عامہ کی ضمانت مل جائے تو ہم سر عام بھی بات کرنے کو تیار ہیں.اس پر نیک نیت پہلوان صاحب نے امن بحال رکھنے کی ضمانت تحریر دے دی جس پر ان کی حویلی پر مناظرہ طے پا گیا.خاکسار اور مولانا احمد خان نیم صاحب کے علاوہ میرے خالہ زاد بھائی غلام محمد (244)
صاحب بھی ساتھ تھے.ہم جب حویلی پہنچے تو ایک جم غفیر تھا.انداز ایک ہزار کے قریب لوگ ہوں گے.ہم نے اپنی جانب سے ایک غیر از جماعت دوست کو وقت کی پابندی کے لیے مقرر کیا جن کا نام سردار محمد صاحب تھا.مناظرہ ہوتا رہا.ایک موقعہ پر آکر مولوی صاحب نے اعتراض کیا کہ مرزا صاحب نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس کا کسی حدیث میں بھی ذکر موجود ہے؟ ان کے اس اعتراض پر مولانا احمد خاں صاحب نسیم نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں جو کتاب ہے وہ مجھے دیں میں اس میں سے نکال کر دکھاتا ہوں.مجھے کتاب کا نام تو یاد نہیں البتہ مصر کی طبع شدہ تھی اور حدیث کی کتاب تھی.بہر حال مولوی صاحب نے سارے مجمع میں بلند آواز میں حدیث پڑھ کر سنائی کہ وہ نبی اللہ ہوگا ، وہ نبی اللہ ہوگا، وہ نبی اللہ ہو گا.مخالف مولوی کو فرار کی کوئی راہ نہ ملی تو کہنے لگے کہ یہ تو حاشیہ میں لکھا ہے اس پر احمد خاں صاحب نسیم نے جواب دیا کہ یہ میں نے تو نہیں چھاپی ، مصر کی چھپی ہوئی ہے اور آپ کی کتاب ہے.اس پر مخالف مولوی کو چپ ہونا پڑا.اس شرمندگی سے بچنے کیلئے شور شرابہ ہونے لگا تو پہلوان صاحب کھڑے ہوئے اور لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ خبر دار اگر یہاں کسی نے فساد پیدا کرنے کی کوشش کی، ہم نے امن وامان کی ضمانت دے رکھی ہے اگر کسی نے ایسا کیا تو ہم نپٹ لیں گے.اس طرح فساد ہونے سے رہ گیا.پہلوان صاحب نے ہمیں کہا کہ اب آپ جاسکتے ہیں.اس طرح الحمد للہ حجت تمام کرتے ہوئے ہم واپس لوٹے.مناظرہ کے دوران بعض احمدی احباب بھی پہنچ گئے تھے جن میں سے ایک نام یاد ہے اور وہ تھے صوفی عبدالرحیم صاحب.انہی دنوں کی بات ہے کہ مولوی احمد خاں صاحب کے ساتھ پروگرام بنا کہ عیسائیوں کے مشن ہاؤس جا کر تبلیغ کی جائے.لہذا پروگرام کے تحت ہم ادھر پہنچے.عیسائی مشنری سے گفتگو ہوتی رہی وفات مسیح اور دیگر موضوعات پر بات چلی.وہاں بیٹھے ایک عیسائی بول اُٹھے کہ میں کئی مسلمان لیڈروں کے پاس گیا لیکن مجھے تسلی بخش جواب کسی نے نہ دیا.آج آپ آئے ہیں تو میری تسلی ہوئی (245)
ہے.میں ایک پکا مسلمان تھا لیکن مجھے مسلمان علماء نے جواب دینے کے بجائے اسلام سے بدظن کرد یا اور میں عیسائی ہو گیا.آپ کے دلائل سے میری آنکھیں کھل گئی ہیں.اس کے بعد انہوں نے بہت سے سوال کئے.آخر پر کہنے لگے کہ مجھے اب احمدیت قبول کرائیں.لہذا ان کو وہاں سے نکالنے کا پروگرام بنایا.خاکسار اور بھائی غلام محمد صاحب رات کو چھپتے چھپاتے ان کے گر جا پہنچے.ہم لمبی لمبی گھاس میں چھپ کر بیٹھ گئے اور وہ اپنا سامان ہمیں لا کر دیتے گئے.رات ہی رات ہم ان کو قادیان لے گئے.چند دن وہ مزید ز یر تبلیغ رہے بالا آخر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے.قادیان میں خاکسار کی شادی کی تحریک عاجز کی شادی اپنے عزیزوں میں طے پائی تھی.وہاں بات ختم ہونے سے پورے شہر میں چرچا ہوا تھا.اب نئی جگہ بات چلانے کے لیے مولانا احمد خاں صاحب نسیم نے تجویز پیش کی.مولانا صالح محمد صاحب سے ان کی بہن کے بارہ میں ذکر کیا ، پھر بات آگے چلانے کی غرض سے مجھے قادیان کا سفر کرنا پڑا.میرے ساتھ بڑے بھائی غلام نبی اور میرے تایا زا درحیم بخش صاحب بھی تھے.قادیان میں حضرت میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے کی صاحبزادی مکر مہ حلیمہ بیگم صاحبہ کا رشتہ زیر غور تھا.لڑکی والوں نے خاکسار کا خاصا انٹرویولیا.کم و بیش ہر بات کا جواب ان کی امیدوں کے برعکس تھا.انہوں نے میری تعلیم کا پوچھا تو جواب نفی میں تھا، کاروبار کا پوچھا تو کوئی ایسا کام نہ تھا جو میں بیان کرتا.والد صاحب کا ہاتھ بٹاتا تھاوہ بتا دیا.آمد انداز اپندرہ بیس روپے بتادی.خاکسار کے بڑے بھائی مجھ سے ناراض ہوئے کہ باتوں کا جواب تمہیں اس طرح نہیں دینا چاہے تھا.کم از کم اپنی آمدنی تو معقول بتاتے.خاکسار ان کی سرزنش پر خاموش رہا.میں بے فکر تھا کہ جو کچھ بتایا ہے سچ تو بتایا ہے.لڑکی والوں کی تسلی نہیں ہو رہی تھی.خاکسارا پنا بیان دے کر وہیں چار پائی پر لیٹ گیا.بھائی غلام محمد صاحب مرحوم " آپا صالحہ کے شوہر مجھے ملنے آئے تو مجھے سو یا ہوا پایا.میری بے فکری پر لڑکی والوں کو حیرت ہوئی اور ہمیں جواب دے دیا.ہم اگلے روز نا کام لاری کے اڈہ (246)
پر پہنچے ابھی ہم بس میں بیٹھنے ہی لگے تھے کہ سائیکل پر کوئی نو جوان آیا کہ ہمیں واپس بلایا ہے.جب بات بنتی دکھائی نہ دی تو آخر یہ طے پایا تھا کہ دعا کر لی جائے.سچ پوچھیں مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کس کس نے کس الحاح سے دعا مانگی ہوگی.لیکن اگلے روز میرے سامنے نکاح کے فارم رکھ دئے کہ یہاں دستخط کر دو.مجھے بتایا گیا کہ رات مولانا احمد خاں صاحب نیم کو حضرت رسول کریم ﷺ کی زیارت ہوئی جس وجہ سے اس رشتہ کو با برکت سمجھا گیا.الحمد للہ.یقینا یہ رشتہ ہم سب کے لیے بہت با برکت ثابت ہوا.رشتہ طے ہونے کے بعد ۱۹۳۴ء میں جلسہ سالانہ پر جمعہ کے بعد حضرت خلیفہ المسح الثانی نے نکاح پڑھایا.آپ نے صرف دو نکاح پڑھائے ایک ہمارا اور دوسرا مرزا مہتاب بیگ صاحب کا.اس کے بعد بقیہ فارم حضور نے مولانا سرور شاہ صاحب کو دے دیے کہ وہ اعلان فرما ئیں.ہماری شادی ۱۹۳۵ء میں مجلس شوری کے ایام میں طے پائی.خاکسار کے خسر حضرت میاں فضل محمد صاحب آف ہر سیاں مجھ جیسے انسان کے لیے یہ بہت بڑی سعادت تھی کہ ایک صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی میرے عقد میں آئے.آپ نے جو برکات و فیوض حضور اقدس سے پائے ان میں سے اس عاجز کو بھی حصہ ملا.الحمد للہ علی ذالک.آپ اپنے بچوں سے بڑھ کر خاکسار سے پیار کرتے تھے.آپ کی وفات کے وقت خاکسار نیروبی میں تھا جبکہ دیگر عزیز واقارب آپ کے پاس موجود تھے.میری اہلیہ نے مجھے بتایا کہ جب بھی میں آپ کے پاس جاتی تو آپ کا ضرور پوچھتے کہ بچے کی کوئی خیر خبر آئی ہے، وہ تو بہت دور چلا گیا ہے.پھر عاجز کی تصویر منگوا کر کافی دیر اپنے سینہ سے لگارکھی اور دعائیں دیتے رہے.ایسی محبتیں نصیبوں سے ملتی ہیں.مجھے بھی آپ سے عجیب سی محبت ہوگئی تھی.جب پارٹیشن ہوئی تو آپ نے خاکسار کے ساتھ ہی ہجرت کی تھی.اسوقت آپ کافی ضعیف ہو چکے تھے.لڑکوں میں پاکستان کا طویل سفر بہت تکلیف دہ تھا.خاکسار کو خیال آیا (247)
بھا گا گیا اور چار پائی اٹھالا یا پھر خیال آیا کہ اس پر بستر بھی ہونا چاہے جس پر کہیں سے گڈا اور تکیہ لے کر آیا.اس طرح آپ کا سفر قدرے آرام سے گزرا.جو آپ نے مجھے دعائیں دیں اس کے آگے چار پائی اور گدہ کیا چیز ہے.اس اظہار سے ہی شرمندہ ہوں.اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے اس عاجز اور آپ کی تمام اولاد کو آپ کی دعاؤں کے فیض سے نوازتا چلا جائے.میری اہلمی اور دشمن کے ارادوں کی ناکامی میری شادی کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ ایک عجیب واقع پیش آیا.میری غیر از جماعت بھابی کا بھائی چوری کا سونا لایا جس کا مجھے کچھ علم نہ تھا.اسے سنار کے پاس بیچنے کیلئے کسی کی ضمانت چاہئے تھی.میرے بڑے بھائی نے مجھے اس کے ساتھ جانے کو کہا.سنار نے سونا دیکھتے ہی کہا کہ یہ چوری کا ہے.میں نے کہا ایسا تو نہیں ہو سکتا جس پر سنار نے کہا اگر آپ ضمانت دیتے ہیں تو میں لے لیتا ہوں.خاکسار نے اعتماد میں دستخط کر دئے.تقریباً ایک ہفتہ بعد تحقیق ہونے پر علم ہوا کہ سونا واقعی چوری کا تھا.سنار نے میرا نام بھی پولیس کو دے دیا اور تھانے والوں نے میری ضمانت کی وجہ سے مجھے پکڑا اور پولیس مجھے گرفتار کر کے لے گئی.احمدیت کے تمام مخالفین کو خوشیاں منانے کا موقع مل گیا.چور کو حوالات میں بند کر دیا گیا اور مجھے رات تھانہ میں گزارنا پڑی لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی حفاظت میں ہی رکھا اور کوئی تکلیف نہ ہو نے دی بلکہ آرام کے سامان فرمائے.تھانہ کے سپاہیوں نے پوچھا کیوں بھائی کیسے آنا ہوا کیا جرم کیا خاکسار نے وجہ بتائی اس پر کہنے لگے کچھ کھایا پیا بھی ہے یا نہیں.خاکسار نے کہا ابھی تو کچھ نہیں کھایا اس پر کہنے لگے وہ ہنڈیا بنی ہے خود ہی کھانا ڈالو اور کھاؤ.خاکسار نے اللہ کی نعمت جانتے ہوئے کھانا کھایا.پھر سپاہی پوچھنے لگے کہ کیوں بھائی شہری ! لیٹنا کہاں ہے؟ خاکسار نے جواب دیا آپ جہاں کہیں گے سو جائیں گے.اس پر کہنے لگے وہ ایک نواڑی پلنگ چوری کا آیا ہوا ہے اس پر سو جاؤ.خاکسار نے اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت جانا.(248)
میں نے سپاہیوں کو آپس میں باتیں کرتے سنا کہ یہ کیسا مجرم آیا ہے جو ہماری روٹیاں کھا گیا ہے اور اب پلنگ پر سویا ہوا ہے.یہاں پر تو ہر آنے والے کی تھوڑی بہت مرمت کرنا پڑتی ہے.یہ تو کوئی خاص ہی مجرم ہے.دراصل یہ سب اللہ تعالیٰ کی جانب سے انتظامات تھے.الحمد للہ.اگلے روز میرے بڑے بھائی مجھے چھڑانے کیلئے تشریف لے آئے.تھانیدار نے مجھے پوچھا کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی خاکسار نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور گھر کو چل پڑے.جب ہم تانگہ پر سوار ہو کر گھر آ رہے تھے تو دوسری جانب سے تانگے پر ایک وفد دیکھا جسے میرے خلاف تیار کیا گیا تھا جو یہ ثابت کرنے جارہے تھے کہ ہمارا تعلق ڈاکوؤں سے ہے اور اس کو کسی صورت نہ چھوڑ ا جائے.میری واپسی دیکھ کر انہیں بہت مایوسی ہوئی.جب مجھے پولیس پکڑ کر لے گئی تو خاکسار کے والد جنہیں ہم سب چاچا کہا کرتے تھے اپنی نوبیاہتا بہو ( خاکسار کی اہلیہ) کے پاس گئے اور کہنے لگے.بہو دعا کرو معاملہ گڑ بڑ ہو گیا ہے.زیور چوری کا نکلا ہے.اس پر خاکسار کی بیگم نے جواب دیا کہ مجھے تو کوئی فکر نہیں چونکہ میں نے خواب میں ( یعنی اس عاجز کو ) اچکن اور پگڑی میں دیکھا ہے اور یہ عزت کی نشانی ہے اور بعد میں آنے والے حالات نے باعزت بری ہونے کی تعبیر ظاہر کر دی.الحمد للہ.دار البیعت کی چھت ڈلوانا ہمارے گھر سے دار البیعت ( جہاں حضرت مسیح موعود نے پہلی بیعت لی ) قریباً کم میل کے فاصلہ پر تھا.اس وقت مولوی برکت علی صاحب لائق ہمارے علاقہ کے مبلغ سلسلہ تھے.دارالبیعت کی چھت خستہ حالت میں تھی.نئی چھت ڈلوانے پر میری ڈیوٹی لگی.مستری جوں ہی چھت ڈالنے کی کوشش کرتا پڑوسی کام رکوا دیتے.خاکسار سائیکل دوڑاتا ہوا مولوی برکت علی صاحب کے پاس گیا.اُن کی جان پہچان والا ایک شخص رمضان نامی کونسل میں کام کرتا تھا.آپ اسے ساتھ لے کر آئے.اُس نے پڑوسی کو سمجھایا کہ چھت ڈالنے دو اور فساد نہ کرو جس پر وہ مان گیا.(249)
ابھی وہ وہاں سے گیا ہی تھا کہ پڑوسی نے پھر سے ہنگامہ کر دیا میں نے پھر سائیکل دوڑائی اور مولوی برکت علی صاحب کو اطلاع دی جس پر آپ پھر اس شخص کو لے کر پہنچے.اس پر رمضان صاحب نے وہاں کھڑے ہو کر دار البیعت کی چھت ڈلوائی.جزاهم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء فی الدنیا و الآخرہ.ایک ہندو بوڑھے مسافر کی مدد خاکسار ممبئی سے لدھیانہ کیلئے آ رہا تھا.جس ٹرین میں خاکسار سفر کر رہا تھا وہ مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی.اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کے اس لائن پر ٹرین آٹھ دن کے بعد آتی تھی.ہماری ہوگی میں ملٹری کے فوجی جوان بیٹھے ہوئے تھے.جس کی وجہ سے کسی کو اندر آنے کی جرات ہی نہ ہوتی.جو کوئی مسافر آتا اس کو ڈرا دھمکا کر بھیج دیتے.اسٹیشن پر ایک بوڑھا شخص سر پر ایک ٹرنک اٹھائے اندر آنے کیلئے منتیں کر رہا تھا.وہ کہ رہا تھا کہ بھائی مجھے خدا کیلئے اندر آ جانے دیں، میں بھوکا ہوں اور اگر آج میں ٹرین میں نہ بیٹھ سکا تو اگلی ٹرین آٹھ دن کے بعد آئے گی.لیکن اُس کی اس التجا کو کون سنتا تھا.دروازہ پر بیٹھے نو جوانوں نے ”چل چل بابا یہاں کوئی جگہ نہیں ہے بھاگ جاؤ“ کہہ کر اُسے بھگانا چاہا مگر اس کی التجائیں سُن کر مجھے بہت ترس آیا اور سوچ لیا کہ اسے ضرور اندر لانا ہے.خاکسار اُس وقت سونے والی برتھ پر تھا، وہاں سے نیچے اُتر ا اور بابا کو آواز دی کہ ”لا وبابا رنک مجھے پکڑا ؤ ڈبہ کے سب مسافر مجھے حیرت سے دیکھنے لگے لیکن بفضل تعالیٰ خاکسار تمام مسافروں کی مخالفت کے باوجود مسافر کو اندر گھسیٹ کر لے آیا اور اپنی سونے والی برتھ اُس کو دے دی اور خود کہیں بھی جگہ ڈھونڈ کر بیٹھ گیا.اب بابا حیران پریشان مجھے دیکھ رہا تھا.میں نے اُس کو کہا تم فکر نہ کرو اور سو جاؤ.بابا حیران تھا کہ کچھ دیر پہلے میں منت سماجت کر رہا تھا اور اب میں سونے والی برتھ پر آرام سے بیٹھا ہوں.ہندو بابا مجھے سارا راستہ دعائیں دیتا رہا.(250)
بوڑھی حاجن کی چیخ و پکار یہ واقعہ بھی مبئی کا ہی ہے.ممبئی ساحل پر جہاز حاجیوں کو لے کر آیا تھا جس میں خاکسار کے دور کی رشته دارخواتین بھی حج کر کے آئی تھیں.خاکسار اپنے دوسرے عزیزوں کے ساتھ انہیں ٹرین پر سوار کرنے کے لیے چلا گیا.ان حاجنوں کے پاس بہت زیادہ سامان تھا.ریلوے کے ملازمین زیادہ سامان کے پیسے مانگ رہے تھے اور ٹرین چلنے والی تھی.خاکسار نے ریلوے والوں کو سمجھایا کہ ان کو جانے دیں ہم آپ کا حساب برابر کر دیں گے جس پر وہ راضی ہو گئے.اتنے میں ٹرین کے چلنے کا وقت ہو گیا.جلدی جلدی اُن کا سامان اندر پھینکا، حاجنوں کو سوار کرایا.ایک بہت بوڑھی تھی اُس کو کہا تم میرے کندھوں پر بیٹھ جاؤ میں اُٹھا کر تمہیں چڑھا دوں.بوڑھی حاجن نے جواب دیا ابھی تو میں سارے گناہ بخشوا کر آ رہی ہوں اب میں کیسے تمہارے کندھوں پر بیٹھ جاؤں.اتنے میں ٹرین چل پڑی، میرے پاس کوئی چارہ نہ رہا.اس حاجن کو اپنی کمر پر ڈال کر بھا گا اور چلتی ٹرین پر سوار کر دیا.اگر چہ اس نے بہت شور شرابہ کیا لیکن مجھے امید ہے اس کی چیخ و پکار میں دعاؤں کا عصر ضرور شامل ہوگا.بعد میں ریلوے والوں نے بھی کچھ نہیں کہا بغیر کسی ادائیگی کے ہمیں جانے دیا.ایک گواہ ہمارے ایک مبلغ سلسلہ غالباً مولوی محمد دین صاحب کی شہادت ایک بحری جہاز کے ڈوبنے سے ہوئی تھی.میں اُن دنوں ممبئی میں ہی مقیم تھا جہاں کے امیر جماعت مکرم قاضی عبد الرشید صاحب تھے ( والد محترم قامته راشد صاحبہ اہلیہ محترم امام عطاء المجیب راشد صاحب) جماعت پریشان تھی کہ کس طرح پوری صورت حال کا علم ہو.مکرم قاضی صاحب نے خاکسار کو کہا اس حادثہ میں بچ جانے والا کوئی شخص لے کر آؤں جو آنکھوں دیکھا حال بیان کر سکے.اس جہاز پر مسافروں کو سوار کرنے (251)
والا، لال ہی نامی ہندو ایجنٹ تھا.خاکسار اس کی دکان پر گیا اور ایک بچ کر آنے والے ہند وکو قاضی صاحب کے پاس لیکر آیا جس نے جہاز ڈوبنے اور مکرم مولوی صاحب کے حالات بتائے.اس کے مطابق اس نے مولوی صاحب مرحوم کے حلیہ کا شخص دیکھا تھا لیکن جب ایمر جینسی ہوئی تو لوگوں نے چھلانگیں لگانی شروع کر دیں.اس افراتفری میں کسی کوکسی کی کوئی خبر نہ رہی.قاضی صاحب نے سارے حالات سننے کے بعد اس ہند وکو اپنی پگڑی تحفتاً دے دی.ممبئی میں سیکرٹری تبلیغ کی سعادت ممبئی میں ہماری جماعت کی مجلس عاملہ کیلئے الیکشن ہوئے تو میرا نام سیکرٹری تبلیغ کیلئے پیش ہوا اور کثرت سے مجھے ووٹ ملے.مکرم قاضی عبد الرشید صاحب نے مجھے مبارک باد دی.خاکسار نے اپنی مجبوری بتائی کہ کسی علم والے کو ایسے عہدہ کیلئے چنیں میں تو اس عہدہ کے قابل نہیں ہوں.قاضی صاحب نے یہ بات جماعت کے سامنے رکھی اور دوبارہ نام پیش کرنے کو کہا لیکن جماعت نے پھر میرا ہی نام کثرت رائے سے منظور کیا.اس پر قاضی صاحب فرمانے لگے کہ اب آپ ہی سیکرٹری تبلیغ رہیں گے لکھائی پڑھائی کا کام میں کر دیا کروں گا.الحمد للہ کہ کچھ عرصہ کام کی تو فیق بھی ملی اور جماعتی جلسوں کے اشتہارات اور دیگر جگہوں پر اس عاجز کا نام سیکرٹری تبلیغ چھپنے لگا.ایک فرشتہ سیرت ڈپٹی کمشنر کی نوازشات خاکسار فیروز پور قلعہ میں ملازم تھا.یہ ایک آرمی ڈپو تھا جہاں مختلف قسم کے کام کرنے پڑتے تھے.ایک روز کمشنر صاحب نے اپنے بچوں کے استاد بابا فاضل صاحب کو میرے پاس بھجوایا.اُنہوں نے اپنے بچوں کی کچھ کتابیں کا پیاں مرمت کرنے کو دیں.خاکسار نے مرمت کر کے واپس دے دیں.بابا فاضل میرے پاس آئے اور کہا کہ صاحب ان کی لاگت کا پوچھ رہے ہیں.میں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا بچوں کا کام کرنے کی میں کوئی اجرت نہیں لیتا.کمشنر صاحب نے مجھے ملنے (252)
کی خواہش کی تو اُن کے اصرار پر بھی میں نے اُن سے پیسے نہیں لیے.میری یہ بات اُن کے دل کو لگ گئی کہنے لگے اگر میرے لائق کوئی کام ہو تو ضرور بتائیں میں ہر بارا نکا شکر یہ ادا کردیتا.پارٹیشن ہوگئی بچوں کے ساتھ ہم لاہور آ گئے.حالات بہت خراب تھے نہ کوئی رہنے کی جگہ اور نہ کوئی کارو بار تھا.پھر کسی نے مجھے بتایا کہ تمہارا کمشنرز دوست فیصل آباد میں الاٹ منٹ آفیسر لگا ہوا ہے تم وہاں جاؤ شاید تمہارا کوئی کام بن جائے.میں فیصل آباد پہنچا پتہ چلا کہ وہ کچہری میں ملیں گے خاکسار وہاں پہنچا تو دیکھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں اور آپ کے ارد گر دلوگوں کا کافی ہجوم تھا.جب وہ میرے پاس سے گزرنے لگے تو میں نے اُن کو سلام کیا.وہ مجھے دیکھ کر ایک دم بہت حیران ہوئے اور ساتھ ہی فرمایا ! کیا مجھ سے کوئی کام ہے؟ میں نے اپنی ضرورت بتائی اُنہوں نے اپنے آفیسر کو ہدایت دی کے اس کو جو بھی یہ چاہتا ہے دے دیا جائے.ماتحت آفیسر نے بات سنی ان سنی کر دی.کچھ عرصہ بعد میں پھر اُن کے آفس گیا، مجھے کوئی اندر ہی نہیں جانے دیتا تھا.اچانک اُن کی نظر مجھ پر پڑی اور مجھے اندر بلوایا ، میری پوری بات سنی اور شاپ کلرک کو بلایا.اُس کو کہا تم ساتھ جاؤ اور جو بھی یہ کہتا ہے دلوا دو.اس طرح مجھے فیصل آباد میں امین پورہ بازار میں عین مسجد فضل کے سامنے ایک لوہے سے بھری ہوئی دوکان الاٹ ہو گئی.اب سوچتا ہوں کہاں بچوں کی چند کتابوں کی مرمت اور کہاں اتنے بڑے بڑے احسانات یہ سب اللہ تعالیٰ کے کرم ہیں.اگر میں اُن کتابوں کے اُس وقت پیسے لے لیتا تو آج یہ کمشنر صاحب مجھے کبھی بھی نہ پہچان پاتے جنہوں نے میرے اوپر اور بھی کئی احسان کئے.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے.حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر دعا اور رویا میں اُن دنوں بے روز گار تھا اور اپنی نسبتی بہنوں کے بیٹوں یعنی نور محمد نسیم سیفی صاحب اور چوہدری سمیع اللہ صاحب (شفاء میڈیکو لاہور ) کے پاس دہلی میں مقیم تھا.جبکہ یہ دونوں اپنی تعلیمی اغراض سے وہاں ہوسٹل میں مقیم تھے.ایک روز خاکسار کو خیال آیا کہ حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر (253)
جانا چاہئے.اس ارادہ سے خاکسار گھر سے نکلا اور پوچھتا ہوا تقریباً تین میل پیدل چلتا ہوا مزار تک جا پہنچا.مزار پر بیٹھے ایک مجاور نے پھول ڈالنے کی پیش کش کی ، میرا انکار اس کو اچھا نہ لگا اور باتیں بنانے لگا.اس نے کہا کہ آئے ہیں بڑے دعا کرنے ، نہ پھول چڑھائے اور نہ کوئی چندہ دیا.سچ تو یہ تھا کہ اُس وقت خود میری ایسی حالت تھی کہ کسی سواری کیلئے بھی میرے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا.میں نے دعا کی اور پھر پیدل ہی گھر تک آیا.گھر پہنچا تو میرے پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے تھے اور ساتھ تیز بخار ہو گیا.تھکان اور بخار کی وجہ سے لیٹتے ہی مجھے کوئی ہوش نہیں رہی کہ میں کہاں ہوں، سوئے ہوئے خواب میں مجھے آواز آئی کہ: ” جب تم بادشاہ بنو گے تو خاندانِ مسیح موعود“ کو نہ بھولنا ایکدم میری آنکھ کھلی تو میری حیرت کی انتہا نہ تھی کہ کہاں میں اور کہاں بادشاہت کی خوشخبریاں مل رہی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے احسان ہیں، اُس وقت تو تعبیر کا اتنا احساس نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے میری اس خواب کو پورا تو کرنا تھا، الحمد للہ.اُس نے میری اس خواب کو بڑی شان سے پورا کیا، جب مجھے عاجز کو حضرت مسیح موعود کے لنگر خانہ میں پوری دنیا پر پھیلے خاندان مسیح موعود کی خدمت کی توفیق ملی.الحمد للہ.ایک دہریہ سے گفتگو میرے ساتھ ایک یعقوب نامی شخص کام کرتا تھا.وہ دہر یہ خیالات رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ کی ہستی پر اعتراض کرتا بلکہ اس کی ذات ہی کا منکر تھا.خاکسار کی پوری کوشش تھی کہ اُس کی باتوں کا تسلی بخش جواب دے سکوں لیکن اُس کی شوخیاں حد سے زیادہ بڑھنے لگیں.ایک دن اُس نے بڑے طنز سے کہا کہ دیکھو کتنی شدید گرمی ہے.تم اپنے خدا سے کہو کہ بارش برسا دے.یہ بات کہہ کر وہ پیچھے ہی پڑ گیا.وہ اپنی شوخی اور ضد میں بڑھتا چلا گیا.خاکسار نے اُسے سمجھایا کہ خدا تعالیٰ ہماری خواہشوں کا تو پابند نہیں.اس وقت باہر کسانوں کی فصلیں پڑی ہیں (254)
اگر بارش ہو تو اُن کے خراب ہونے کا خدشہ ہے.وہ میری باتوں کو سمجھنے کے بجائے مجھے کو سنے لگا کہ تم اپنے خدا سے کہو کہ بارش برسا دے.خاکسار اُس کی ہجوسنتا رہا لیکن ساتھ ہی دل ہی دل میں طبیعت دعا کی طرف مائل ہوگئی اور میں نے دعا شروع کر دی.اسی رات بادل آئے ، گرج چمک ہوئی لیکن بارش نہ ہوئی.میرے دل میں خدشہ تھا کہ جب کام پر جاؤں گا تو سب سے پہلے اسی کا سامنا کرنا پڑے گا.ویسے ہی ہوا کام پر جاتے ہی اُس کا سامنا ہوا اور ساتھ ہی اُس نے طعنہ دیا کہ رات تمہارا خدا گر جا تو بہت لیکن برسا نہیں.وہ بات بات پر طنز کرتا رہا، اُس نے میرا بیٹھنا محال کر دیا.دن کے گیارہ بجے کا وقت ہو گا شدید گرمی پڑ رہی تھی.مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوئی ، اُس کی باتوں سے تنگ آکر باہر نکل گیا اور آسمان کی طرف منہ اُٹھالیا اللہ تعالیٰ کو اُس کی غیرت کا واسطہ دے کر التجا کی کہ اے خداوہ دہر یہ تیری ذات کا منکر ہے اور مجھے طعنے پر طعنے دے رہا ہے.اب تو ہی اُس کا منہ بند کر.میری عاجزی کو ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ نہ جانے کہاں سے آسمان پر بادل آئے اور میرے چہرہ پر بارش کے قطرے گرنے لگے.خاکسار نے پھر التجا کی کہ خدا یا وہ اس طرح کی بارش سے تو نہیں مانے گا زور دار بارش ہو تو شاید اسکا منہ بند ہو جائے.پھر کیا تھا اتنی زور سے بارش ہوئی اور ساتھ ہوا کے تیز جھونکے چلنے لگے.دہر یہ اُس وقت برآمدہ میں بیٹھا تھا بارش اور ہوا کے تھپیڑے اُس کے منہ پر جا جا کر لگنے لگے جس پر وہ بے اختیار بول اُٹھا کہ میں مان گیا ہوں کہ تمہارا خدا زندہ ہے اور ساتھ ہی یہ تفریق بھی کر دی کہ ایسا سلوک صرف مرزا صاحب کے ماننے والوں کے ساتھ ہی ہے.دوسروں کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہو سکتا.ابا جان کہتے ہیں میں نے اُس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا میں تو صرف اپنے رب کی حمد اور اُس کے فضلوں اور رحمتوں سے مغلوب ہو کر سجدہ ریز تھا اور حمد کے گیت گا رہا تھا.ا (255)
حضرت پیر منظور محمد صاحب میں،حضرت پیر منظور محمد صاحب جنہوں نے قاعدہ میسر نا القران لکھا ہے، کی خدمت میں بغرض دعا حاضر ہوا تھا کہ ہماری ملاقات کے دوران ایک اور دوست بھی تشریف لے آئے جو کسی سرکاری محکمہ کے بڑے آفیسر تھے.انہوں نے بھی کسی خاص مقصد کیلئے دعا کی درخواست کی اور ساتھ ہی کچھ نوٹ پیش کر دیئے.آپ نے جواب دیا کہ میں دعا تو ضرور کروں گا لیکن یہ رقم آپ اٹھا لیں اور حضرت خلیفہ مسیح کی خدمت میں پیش کریں.اسلام کی ترقی کیلئے یہ رقم کام آئے گی.یہ کہہ کر آپ نے ایک خطیر رقم لینے سے انکار کر دیا.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر یہ بھی ممبئی کا ہی واقعہ ہے ایک بار چند دوست ساحلِ سمندر کی سیر کو گئے ہوئے تھے.ہمارے ساتھ نیز صاحب بھی تھے.میں اور ایک واقف زندگی دوست مکرم لطیف صاحب، مولانا نیر صاحب کے ساتھ ایک دیوار پر بیٹھ گئے.مکرم نیر صاحب نے ہمیں فرمایا کہ آپ جائیں اور سیر کریں میں یہاں بیٹھ کر آپ کیلئے دعا کروں گا.پھر ہم سمندر کی سیر کو چلے گئے اور ہمیں محترم مکرم نیر صاحب کی دعائیں لگتی رہیں.فجز اھم اللہ تعالیٰ.قائد اعظم محمد علی جناح سے مصافحہ اللہ تعالیٰ نے بن مانگے ہی ہمیشہ مجھے وہ کچھ دیا جس کی ہر انسان دل میں خواہش رکھتا ہے.ایک دن میں لدھیانہ ریلوے اسٹیشن پر تھا کہ اُس وقت جو ٹرین آئی اُس میں سے قائد اعظم محمد علی جناح تشریف لائے جہاں وہ اور لوگوں کے ساتھ مصافحہ کر رہے تھے وہاں مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہوئی کہ میں نے بانی پاکستان اور ایک عظیم مفکر سے ہاتھ ملایا.(256)
فرقان فورس میں شمولیت ۱۹۵۰ء میں جبکہ فرقان فورس اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی مرکز سے رضا کار بھجوانے کی تحریک ہوئی.ان دنوں خاکسار فیصل آباد (لائلپور ) میں مقیم تھا.محاذ پر جانے کا کیلئے مکرم عبد الرحمن صاحب گڈیاں والے) کا نام تجویز ہوا.وہ اپنی کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے نہیں جاسکتے تھے.لہذا تجویز ہوئی کہ اُن کے بدلے کسی دوسرے شخص کو بھجوا دیا جائے اور وہ اُس کا خرچ برداشت کریں گے.اور پھر جماعت کی نظر انتخاب اس عاجز پر پڑی لیکن میری مجبوری یہ تھی کہ عزیزم محمد اسلم کی ولادت کا وقت بہت قریب تھا اور میرا جانا ناممکن تھا.باقی بچے بھی سب بہت چھوٹے تھے.اس حالت میں اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر جانا ممکن نہیں تھا.جماعت کی تجویز اور اپنے سب خدشات کا ذکر اپنی اہلیہ سے کیا تو انہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور کہنے لگیں کہ اگر آپ کو محاذ پر جانے کیلئے کہا جا رہا ہے تو آپ کو ضرور جانا چاہئے آپ میری فکر نہ کریں.دنیا میں بے شمار ایسی عورتیں ہونگی جو بچوں کو جنگلوں میں جنم دیتی ہیں ، میں تو گھر میں ہوں آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں اور جہاد میں ضرور شامل ہوں.اپنی اہلیہ کے جواب سے اور اُس کے اس جذبہ سے میرا حوصلہ بہت بڑھ گیا اور جانے کا ارادہ کر لیا.میری اہلیہ تمام وقت میری دعاؤں میں رہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر سے نوازے.آمین.محمد اسلمہ کا نامہ فرقان فورس کی خدمات کے دوران ہی عزیزم اسلم کی پیدائش ہوئی.میں نے وہیں سے حضور کی خدمت میں عزیزم کا نام رکھنے کی درخواست کی جس پر حضور نے نام محمد اسلم تجویز فرمایا.یہاں میں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب میں محاذ پر جانے لگا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ملنے گیا.آپ نے خاکسار کا نام پوچھا تو جواب میں عاجز نے کہا محمد حسن حضور نے فرمایا کیا محمد اسلم ؟ خاکسار نے کہا نہیں حضور محمد حسن.حضور نے پھر فرمایا اچھا اچھامحمد اسلم.تیسری بار پھر حضور کو اپنا (257)
میری یونجی نام بتا یا کہ محمد حسن ہے، حضور ! اور جب محاز سے خط لکھ کر نام کی درخواست کی تو جواب میں محمد اسلم نام تجویز کر کے بھجوایا.میری غیر موجودگی میں جماعت نے میری اہلیہ اور بچوں کا بہت خیال رکھا.خاص طور پر مکرم برادرم محمد اسمعیل صاحب دیا لگڑھی مبلغ سلسلہ نے بہت خدمت کی جزاھم اللہ احسن الجزاء.خاکسار کو تین ماہ خدمت کی توفیق ملی.جنوری تا مارچ تک کام کیا.کافی سخت کام تھا درختوں کو کاٹنا پانی بھر بھر کر لانا.ہمارے انچارج مکرم حفیظ صاحب تھے.مکرم امیر صاحب کا ہمیں ربوہ بھجوانا یہ بھی ۱۹۵۰ء کی ہی بات ہے کہ پاکستان میں شدید سیلاب آیا اور وسیع پیمانہ پر تباہی ہوئی.مکرم امیر صاحب فیصل آباد کو سخت تشویش ہوئی اور اُنہوں نے ربوہ کی خیر و عافیت دریافت کرنے کیلئے دو افراد پر مشتمل وفد تیار کیا جس میں یہ عاجز اور ملک بشیر صاحب شامل تھے.مکرم شیخ عبد القادر صاحب محقق ( جن سے بعد میں رشتہ داری کا تعلق ہو گیا) نے ہمارے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر مکرم امیر صاحب نے فرمایا کہ میری نمائندگی میں تو یہ دو جا رہے ہیں اگر آپ نے اپنی ذاتی حیثیت سے شامل ہونا ہے تو اجازت ہے.اس طرح ہم تین افراد ربوہ کی خیریت دریافت کرنے کیلئے روانہ ہوئے.ہم اپنے ساتھ دودھ کے ڈبے تحفہ لے کر گئے.ہم تینوں نے رجوعہ تک بس میں سفر کیا.اُس سے آگے سیلاب کی وجہ سے کوئی سواری نہیں جاسکتی تھی.وہاں سے ہم پیدل چل نکلے اور راستہ بھر سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے ، گہرے پانیوں سے گزرتے ہوئے جب ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوئے تو حیران ہوئے کہ ربوہ خدا کے فضل سے بالکل محفوظ تھا سیلاب کی وجہ سے تجارت کے ٹرک ربوہ میں رک گئے تھے ان کی وجہ سے اہل ربوہ کو پھلوں اور دیگر اشیاء کی فراوانی تھی.ہم حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اُس وقت آپ امیر مقامی کے فرائض بجا لا رہے تھے.حضور اُن دنوں سندھ کے دورہ پر تھے.آپ نے ہمارا بڑی (258)
محبت سے استقبال کیا.اگلے دن اپنے گھر پر ہماری ناشتہ سے عزت افزائی کی اور اپنی دعاؤں سے رخصت کیا نیز کچھ لٹریچر بھی دیا کہ ساتھ لے جائیں.کتابوں کا گم جانا اور ملنا میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان کا تعلق ہے.ہمیشہ پاک پروردگار کا سایہ اور رحمت کی چادر او پر رہتی ہے.یہ اُن دنوں کی بات ہے جب جامعہ احمدیہ احمد نگر میں تھا.مکرم حکیم خورشید احمد صاحب احمد یہ لائبریری میں کام کرتے تھے اُنہوں نے مجھے تقریباً بارہ کتابیں جلد بندی کے لیے دیں.میں اُن دنوں فیصل آباد ( لائلپور) میں رہتا تھا.کتا بیں تیار ہونے پر خاکسار بس پر سوار ہوا اور کتابیں بس کی چھت پر رکھ دیں.جب میں احمد نگر پہنچا اور کتابیں دیکھیں تو چند کتابوں کے سوا باقی کتا بیں کہیں راستہ میں گر گئیں تھیں.مجھے بہت فکر ہوئی کتابوں کے گم ہونے کا بہت سخت صدمہ ہوا.پھر ایک دم میں نے حوصلہ کیا اور کتابوں کو ڈھونڈنے کا پکا ارادہ کر لیا اور اسی پکے ارادے کے ساتھ اللہ کا نام لیکر وہیں احمد نگر سے مولوی صاحب سے اُن کی سائیکل لی اور پھر لائل پور والے روٹ پر چل نکلا.راستہ بھر ہر شخص کو پوچھتا جارہا تھا لیکن کوئی امید نہیں نظر آرہی تھی.ہر انکار پر میری مایوسی بڑھتی جا رہی تھی لیکن میں دعائیں کرتا ہوا آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا.رجوعہ کے قریب کچھ مزدور سڑک بنا رہے تھے.ان کے پاس رکا اور کتابوں کا پوچھا ان میں سے ایک نے بتایا کہ یہ ایک کتاب ہمیں یہاں سڑک سے ملی ہے اور ایک کتاب ہم نے اس گاؤں کے جوائی (داماد) کے پاس دیکھی ہے.یہ گاؤں وہاں سے ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا اور میں اس شخص کا نام پوچھتا چھا تا اس کے گھر تک پہنچ گیا.وہ شخص ابھی گھر نہیں پہنچا تھا لیکن اُسکی بوڑھی ماں موجود تھی اُس کو میں نے اپنی ساری بات بتائی.اُس نے میری ساری بات سنی اور بڑی محبت سے بٹھایا اور گرم گرم دودھ پیش کیا جسے پی کر میری جان میں جان آئی کیونکہ میں صبح سے بھوکا پیاسا کتابوں کی پریشانی میں کھانا پیناسب بھول چکا تھا.پھر وہ شخص بھی آگیا اور آتے ہی پوچھا کہ کیا آپ کتاب لینے آئے ہیں؟ میں نے کہا (259)
میری یونجی جی ہاں اور اس طرح الحمد للہ مجھے دو کتابیں مل چکی تھیں.اُس شخص نے مجھے ایک اور راہ دکھائی اور کہا دوسرے گاؤں کے سکول ماسٹر کومل لیں ہوسکتا ہے وہ آپ کی کوئی مدد کر دے.کیونکہ سکول کی چھٹی کے وقت بچے اُس سڑک سے گزرتے ہیں.ہو سکتا ہے اُن بچوں میں سے کسی کو کوئی کتاب ملی ہو اس لیے آپ اُس سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کو ضرور مل لیں اور ساتھ اُس نے ایک رقعہ بھی ہیڈ ماسٹر صاحب کے نام مجھے لکھ کر دے دیا.وہ خاتون جس نے مجھے گرم گرم دودھ پلایا تھا اُس کو کافی تیز بخار تھا.میں نے اُس سے وعدہ کیا کہ میں لائل پور جا کر تمہیں 693 کی گولیاں لا کر دونگا.ان دنوں یہ دوائی بخار کو توڑنے کیلئے استعمال ہوتی تھی.میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو مل کر پھر ادھر سے ہی گزرنا تھا اس لیے اپنی کتا بیں ادھر ہی چھوڑ دیں اور رقعہ لے کر سکول والے گاؤں چلا گیا.ہیڈ ماسٹر جن کا نام علی احمد تھا بہت ہی شریف انسان تھے.انہوں نے فوراہی سکول کے بچوں سے رابطہ کیا اور اس طرح آہستہ آہستہ ساری کتابیں اسی گاؤں سے مل گئیں.میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے اجازت چاہی کہ میں لائل پور سے اُس بوڑھی عورت کے لیے دوائی لے آؤں.جب ماسٹر صاحب کو یہ علم ہوا کہ میں صرف دوائی لینے جارہا ہوں تو انہوں نے دوائی بھی میرے ہاتھ پر رکھ دی اور کہا اب آپ رات کو یہاں آرام کریں صبح کو چلے جائیں.اتنی دھوڑ دھوپ میں کافی تھک گئے ہونگے.اس طرح وہاں رات بھر آرام کے بعد ماسٹر صاحب کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے پہلے والے گاؤں پہنچا اور بیمار خاتون کو دوائی دی.جس پر وہ بہت خوش ہوئی اُس نے مجھے مکئی کی روٹی سرسوں کے ساگ کے ساتھ میری دعوت کی.وہاں سے میں اُن دونوں ماں بیٹے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کتابیں لیکر اپنی اصل منزل کی طرف چل پڑا.دل میں مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کیسے اللہ تعالیٰ نے کرم کیا یہ ایک معجزہ سے کم نہیں تھا کہ اس طرح سے بکھری ہوئی کتابیں مل جائیں.یہ صرف اللہ تعالیٰ کے احسان ہیں مجھ پر کہ اُس نے اس ناممکن کو ممکن میں بدل دیا.میں نے جامعہ احمدیہ کی یہ کتابیں واپس کر کے نفل ادا کئے کہ اُس ذات پاک نے میری لاج رکھی اور ناممکنکو ممکن کر دکھایا.الحمد للہ.(260)
حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور خواب کی تعبیر یہ بھی فیصل آباد کا ہی واقعہ ہے.میں ربوہ دفاتر کی کتابیں جلد کیا کرتا تھا.ایک روز ایک صاحب نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ذاتی ڈائری ، جس پر بہت سے لوگوں کے دعا کی غرض سے نام لکھے ہوئے تھے ، مجھے ٹھیک کرنے کے لیے دی.میں نے نوٹ بک ٹھیک کر کے واپس کر دی.مفتی صاحب نے اپنے آدمی کو واپس بھجوایا کہ اس پر جو بھی خرچ ہوا ہے وہ بتا ئیں.میں نے کہا کہ مجھے کوئی پیسہ نہیں لینا بس میرا بھی نام ان خوش قسمت لوگوں میں لکھ لیں جن کے لیے آپ دعائیں کرتے ہیں.یہ تو مجھے علم نہیں کہ میرا نام آپ نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ نہیں ، میں نے ایک بار خواب میں دیکھا کہ مفتی صاحب اپنی ڈائری کے ورق پلٹ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے آپ کا نام انگریزی میں لکھ لیا ہے.ایک دن ربوہ میں اچانک میرا سامنا مفتی صاحب کے ساتھ ہوگیا اور میں نے اپنا خواب بیان کیا.جس پر مفتی صاحب کچھ دیر کیلئے خاموش ہو گئے اور پھر فرمایا کہ آپ کو علم ہے کہ آپ نے خواب میں کس کو دیکھا ہے؟ ”محمد“ اور ”صادق کو.یہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ ہوکر رہے گا.میرے خواب اور مفتی صاحب کی تعبیر کا وقت یوں آ گیا کہ کچھ ہی دنوں کے بعد افریقہ نیروبی جانے کے سامان پیدا ہو گئے وہاں بھی دین کی خوب خدمت کرنے کا موقعہ ملا اور وہاں سے سولہ سال بعد 1969ء میں لندن پہنچا.ایک سچا خواب 1958ء میں خاکسار افریقہ سے چھٹی گزارنے کی غرض سے پاکستان آیا.لاہور میں 14 اگست آزادی پاکستان کی تقریبات تھیں.ہم قذافی سٹیڈیم میں بیٹھے تھے کہ ایک پرانا جانے والا شخص جس کا نام غلام محمد کا شمیری تھا ملا.اس نے مجھے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنا ایک خواب سنایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میاں طاہر احمد خلیفہ بن گئے ہیں.میں نے خواب سنا اور بات ختم ہو گئی.حضرت خلیفۃ (261)
لمسیح الثانی کی وفات کے بعد حضرت مرزا ناصراحمد صاحب ” خلیفہ بن گئے.جب آپ کی وفات کے بعد حضرت حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ خلیفہ بنے تو تب مجھے اس کی خواب کی سچائی پر یقین ہو گیا کہ کس طرح بعض اوقات اللہ تعالیٰ آنے والے واقعات کی خبریں دے دیتا ہے.(ابا جان کے لکھوائے ہوئے حالات مکمل ہوئے ) ابا جان کا لندن تشریف لانا ابھی تک میں وہی لکھ رہی تھی جو ابا جان نے خود لکھوایا تھا.لیکن 1969ء میں میرے اباجان افریقہ نیروبی سے جب سولہ سال بعد آئے تو کچھ عرصہ بعد سامی صاحب اور میں بھی بچوں کے ساتھ لندن آگئے.پھر میری اُمی جان اور میرا چھوٹا بھائی خالد بھی آ گیا اس طرح ( ہم جو ہمیشہ سے اپنے ابا جان سے دور تھے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ ہماری فیملی اکٹھی ہو گئی اور ہم نے اپنی امی جان اور ابا جان کو اکٹھے زندگی گزارتے دیکھا.میرے ابا جان کی زندگی تین چیزوں کے گرد گھومتی تھی.مسجد، جماعت اور خدمت خلق.ان کاموں کو کرنے کیلئے ہمیشہ دیانت داری اور تقویٰ سے کام لیا.دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھا.ابا جان کی وہ خواب جو مفتی محمد صادق صاحب کے بارے میں دیکھی تھی اُس کی تعبیر کا وقت یوں آگیا کہ پہلے افریقہ نیروبی میں دین کی خدمت کی.بے شمار جگہوں پر ابا جان کا نام انگریزی میں لکھا گیا اور جب لندن آگئے پھر تو زندگی کا ایک ہی مقصد بنا رہا، دین کی خدمت.باوجود اس کے کہ بہت معمولی تعلیم تھی مگر جو بھی اُن کو صحبت نصیب ہوئی وہ غیر معمولی تھی.سب سے زیادہ احمدیت کی تعلیم نے اُن کے دل و دماغ کو جلا بخشی.یہاں ایک واقعہ یاد آ گیا ہے سوچتی ہوں.جیسے کہ پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ ابا جان افریقہ سے کبھی چار سال بعد اور کبھی پانچ سال بعد آتے تھے.اُن دنوں اکثر بحری جہازوں سے ہی سفر ہوتا (262)
میری یونجی تھا.اس لیے کافی سامان لانے کی سہولت ہوتی تھی.ہمارے ابا جان جب بھی آتے تو کراچی سے تار دیتے کہ میں فلاں دن چناب ایکسپریس سے آ رہا ہوں تو ہم اُن کو لینے اسٹیشن پر جاتے.خود تو ہم سب تانگے میں آتے لیکن سامان چونکہ بہت ہوتا تھا اس لیے سامان ریڑھے پر آتا تھا.اب محلے والوں کو علم ہو چکا تھا کہ اگر ریڑھے پر سامان آیا تو ضرور خالد کے ابا جان آئے ہوں گے.ایک با را با جان لندن سے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر بڑی وین پر پاکستان آئے.چونکہ وین پر گئے تھے اس لئے کافی سامان لے آئے.پشاور پہنچ کر پھر گھر ٹیلی گرام دی کہ میں فلاں وقت پشاور سے چناب ایکسپرس سے ربوہ پہنچ رہا ہوں.ہوا یہ کہ وہ ٹیلی گرام گھر والوں کو نہیں ملی.ابا جان ربوہ اسٹیشن پر پہنچ کر حیران کھڑے ہیں.سامان پھر ریڑھے کا ہی تھا اور وہاں نہ تانگہ نہ ریڑھا.پریشان کھڑے تھے کہ ربوہ کے کچھ لوگوں نے ابا جان کو پریشان کھڑے دیکھا تو انہوں نے مدد کی اور ایک ریڑھے کا بندو بست کر دیا.آپ ریڑھے پر بیٹھے گھر کی طرف آ رہے تھے کہ محلہ والوں نے دیکھ لیا.بھاگے ہوئے آئے اور ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا کہ آپ کے ابا جان ریڑھے پر بیٹھ کر آرہے ہیں.گھر والوں کی ہنسی اپنی جگہ اور شرمندگی اپنی جگہ.ابا جان کا غصہ اپنی جگہ لیکن جب اُن کو یہ علم ہوا کہ اُن کا کوئی پیغام ہی نہیں ملا تو ان کا سارا غصہ رفع دفع ہو گیا کہنے لگے کہ ریڑھے پر بیٹھ کر گھر آنے کا مزہ اپنی جگہ ہے.یہ ہے میرے ابا جان کی سادگی کا بہت خوبصورت واقعہ.اب پھر دوبارہ اصل مضمون کی طرف آتی ہوں.اخبار احمدیہ انگریزی میں لکھے گئے نام کی تعبیر کا وقت ایسے شروع ہوا کہ لندن میں اخبار احمد یہ اور الفضل انٹرنیشنل کی ٹیم کے ساتھ ، جب تک اتنی ہمت رہی کہ گھر سے باہر جاسکیں، کام کیا اور بے شمار مرتبہ نام انگریزی میں لکھا گیا.ابا جان کے خواب کا اس رنگ میں پورا ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی.ابا جان سر جھکا کر چلنے والے فقیرانہ مزاج کے انسان تھے.اب اخبار احمد یہ کا ذکر ہو ہی گیا ہے تو اس کے (263)
بارے میں ضرور کچھ تفصیل لکھوں گی کہ اس اخبار کے ساتھ میرا بھی بہت دلی اور گہرا تعلق ہے.اس اخبار کے بانی بشیر احمد رفیق خان صاحب ( سابق امام مسجد فضل ،لندن ) ہیں.اُن کی زیر نگرانی یہ اخبار جاری ہوا.محترم مکرم مولانا بشیر احمد رفیق صاحب اپنی کتاب چند خوشگوار یادیں میں تحریر کرتے میں کہ خاکسار اس اخبار کا بانی تھا.اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو ایک لمبے عرصہ تک اس اخبار کا ایڈیٹر ہونے کا شرف عطا فرمایا اور باقاعدگی سے اس کیلئے مضامین بھی لکھتے رہنے کی توفیق ملی.فالحمد لله ) یہ اخبار ہوتے ہوتے میرے ابا جان کے پاس آ گیا.اب مجھے اس کا سال اور مہینہ تو یاد نہیں ہاں یہ ضرور یاد ہے کہ ابا جان مسجد فضل جا کر اخبار احمدیہ کی پرنٹنگ میں طاہر سفیر صاحب کی مدد کرتے رہے.پھر مظفر کھوکھر صاحب کا ہاتھ بٹاتے رہے.اُس وقت اخبار احمد یہ محمود ہال میں تیار ہوتا تھا.پہلے الگ الگ صفحات کو اکٹھا کر کے staple کرتے تھے.پھر ہر اخبار کو فولڈ کرتے اور کاغذ میں لپیٹ کر پوسٹ کر دیا جاتا تھا.پلاسٹک کے لفافوں کا استعمال اس وقت دور کی بات تھی.یہ سارا کام ان دنوں چوہدری رشید صاحب کی زیر نگرانی ہوا کرتا تھا.جماعت کے چھوٹے چھوٹے بچے اس کار خیر میں بہت مددگار و معاون تھے جو آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں.پھر ایک ایسا وقت آیا کہ میرے بھائی محمد اسلم خالد کو اخبار احمدیہ کا منیجر بنا دیا گیا.جس پر یہ کام مسجد کے بجائے گھر سے ہونے لگا.اس طرح گھر کے تمام افراد خانہ کو اس کام میں شامل ہونے کی سعادت ملنے لگی.امی ابا جان اُن دنوں انیسویں منزل پر رہتے تھے.اخبار پرنٹ ہونے پر اسے گھر لے کر آنا اور پھر تیار کر کے پوسٹ آفس تک پہنچانے کے تمام مراحل سے گزرنا شامل تھا.کبھی لفٹ ٹھیک ہے اور کبھی خراب لیکن کام ہر حالت میں جاری رہتا.جن بھی مشکل یا آسان مراحل سے (264)
یه اخبار گزرتا رہا ان یادوں کے ساتھ اپنے مرحوم ماں باپ کی یادیں وابستہ ہیں کہ کیسے کیسے حالات میں اپنے سب بچوں کو ساتھ لیکر اس کام کا علم اٹھائے رکھا.پھر وقت نے ایک اور کروٹ لی جب میرے مرحوم شوہر بشیر الدین سامی صاحب کو اردو حصہ کا ایڈیٹر بنادیا گیا الحمد للہ سامی صاحب کو اس کام کی سعادت چودہ سال تک ملتی رہی.اسطرح ہم بفضلہ تعالیٰ ایک کے بعد ایک اخبار احمدیہ کا حصہ بنتے چلے گئے.ماضی کے جھروکوں سے دیکھوں تو سامی صاحب اخبار کی تیاری میں مصروف کمپیوٹر پر بیٹھے ہیں.کمپیوٹر میں سامی صاحب کی مدد گار سارہ ہماری بیٹی تھی.رات دیر تک کاغذات کی جانچ پڑتال جاری ہے.پھر اخبار کی فائنل approval کیلئے مکرم امام صاحب یا امیر صاحب مکرم آفتاب احمد خان صاحب ( مرحوم ) کے پاس لے جارہے ہیں.ترسیل کا کام امی ابا جان کی ذمہ داری تھی اور مینیجر میرا بھائی خالد تھا.اس طرح اخبار احمد یہ چھپنے تک ہمارے گھر میں ہی تیار ہوتا تھا.اس لیے اخبار پرنٹ ہونے تک امی اباجان سامی صاحب سے بار بار پوچھ رہے ہوتے کہ بتائیں اخبار کی کیا پوزیشن ہے کب تک چھپ کر آئے گا.پھر جب اخبار تیار ہو کر امی ابا جان کے گھر پہنچ جاتا تو سب بچے یعنی لبنی ہنیر ، بلال ، سارہ اور عکاشہ پھر خالد کے چھوٹے چھوٹے بچے طاہرہ ، صباسب امی ابا جان کے ساتھ مل کر پوسٹ کی تیاری میں لگ جاتے.امی جان بچوں کو مزے مزے کے کھانے اور سویٹ سے خوش رکھتیں اور بور ہونے سے بچاتیں وہیں ابا جان اپنی زندگی کے خوشگوار قصے اور سبق آموز کہانیاں سنا کر مصروف رکھتے.سب بچے اُن گزرے دنوں کی بہت ہی پیاری یادوں کو اکثر دہراتے رہتے ہیں.اب جب بھی اخبار احمد یہ گھر آتا ہے تو اپنے پیاروں کی بہت سی یادیں ساتھ لاتا ہے.اب بھی ماشاء اللہ بہت اچھی ٹیم ہے.ہمارے اخبار نے بہت بہت ترقی کی ہے.اللہ تعالیٰ سب کام کرنے والوں کو جزائے خیر دے اور جماعت کے ہر کام میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقیاں ہوتی رہیں.(265)
حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر مانگی دعا اور رؤیا کے پورا ہو نیکا وقت کہ ”جب تم بادشاہ بنو گے تو خاندانِ مسیح موعود کو نہ بھولنا“ الحمد للہ! ابا جان کو جلسہ سالانہ کے دنوں میں ایک ماہ قبل اسلام آباد جانے کا حکم مل جاتا کہ جا کر کچن کھول دیا جائے.وہاں مختلف ٹیمیں کام کے سلسلے میں آنی شروع ہو جاتیں اور مہمانوں کی آمد بھی کافی پہلے ہی شروع ہو جاتی.مہمان تو چند دنوں میں برکتیں اور رحمتیں سمیٹ کر چلے جاتے لیکن ابا جان اور دوسرے انتھک محنتی خادم دین لنگر خانہ میں ایک ماہ پہلے کام شروع کرتے اور ایک ماہ بعد تک انجام دیتے.جلسہ کے تمام انتظامات کا معائنہ کرنے کیلئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ” خود تشریف لاتے اور جائزہ لیتے خاص طور پر کچن کی صفائی اور کھانے کا معیار پر اُن کی گہری نظر ہوتی.ابا جان کے ساتھ پنجابی میں باتیں کرتے.ابا جان بتاتے ہیں کہ ایک دن حضور تشریف لائے تو میں سامنے نہیں تھا بلکہ اُن کے پیچھے تھا.آتے ہی پوچھا حسن صاحب کہاں ہیں نظر نہیں آرہے.مجھے جلدی سے آگے کیا تو حضور نے از راہ شفقت و دلداری فرمایا: د حسن صاحب آپ تو یہاں کے مڈ ہیں ، مڈ ابا جان فرماتے ہیں کہ ایک صبح حضور سیر سے تشریف لا رہے تھے تو میرا حضور کے ساتھ سامنا ہو گیا.کہتے ہیں کہ میں نے بے تکلفی سے پوچھ لیا کہ حضور آپ چنے کھانا پسند کریں گے.حضور نے از راه شفقت فرمایا ہاں ہاں لائیں بلکہ اپنے ساتھ چلنے والے احباب کیلئے بھی فرمایا کہ ان کو بھی دیں.جس پر میں نے سب کو جیب سے نکال کر چنے پیش کئے.دوسرے دن میں کاموں میں مصروف تھا کہ حضور کا پھر ادھر سے گزر ہوا تو حضور نے دریافت کیا کہ چنے والے دوست کہاں ہیں نظر نہیں آرہے.مبارک ساقی صاحب مرحوم نے حضور کی توجہ میری طرف مبذول کروائی کہ حسن صاحب یہ کھڑے ہیں، حضور نے مجھے دیکھا اور فرمایا چنے نہیں کھلا ئیں گے؟ ابا جان فرماتے ہیں کہ میں نے جلدی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چنے حضور کے ہاتھ پر رکھ (266)
دیئے.الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے میری اس خواب کی سچائی کو بڑی شان سے پورا کیا.اور اس عاجز کو حضرت مسیح موعود کے لنگر خانہ میں پوری دنیا میں پھیلے خاندان مسیح موعود کی خدمت کی توفیق ملی.مکرم عثمان چینی صاحب ابا جان چینی صاحب کے بارہ میں ایک واقعہ یوں بیان فرماتے تھے کہ : ایک بار چینی صاحب میرے پاس تشریف لائے اور اپنی مشکل بیان کی کہ کھانے میں مرچ بہت زیادہ ہوتی ہے کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ مجھے کم مرچ والا کھانا بنا دیا جائے.ابا جان فرماتے ہیں کہ میں نے عزیزم ارشاد صاحب آف کراچی سے بغیر مرچوں کہ کھانا بنوا دیا.جب اُن کی خواہش کے مطابق اُن کو کھانا ملا تو وہ بہت خوش ہوئے اور ساتھ ہی پھر میرے پاس آئے اور دریافت فرمایا کے اس کھانے کے کتنے پیسے ہونگے؟ میں اُن کی بات سن کر حیران ہوا اور کہا چینی صاحب! یہ حضرت مسیح موعود کا لنگر ہے پیسے کیسے؟ یہ کوئی ہوٹل تو نہیں ہے.اس پر چینی صاحب کا جواب تھا کہ نہیں ہمیں اپنے کھانے کے پیسے ملتے ہیں اور یہ جو آپ نے بنایا ہے وہ میرے کہنے پر بنایا ہے.سو پیسے دینے ضروری ہیں.ابا جان کہتے ہیں میں مشکل میں پڑ گیا.آخر جب وہ نہ مانے تو میرا جواب پھر یہ ہی تھا کہ آپ اپنی تسلی کیلئے جو بھی آپ مناسب سمجھیں دفتر جا کر رسید کٹوا لیں.لیکن اُن کی ان باتوں کا میری طبیعت پر بہت اثر ہوا اور میری دعا اور خواہش ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں ایسے نیک اور تقوی شعار لوگوں کی کبھی کمی نہ آنے دے.آمین.جلسہ کی باتیں شروع ہو گئی ہیں تو اب ان ہی یادوں کو جاری رکھتی ہوں.کچھ پہلے لکھ چکی ہوں مزید ان سنہری دونوں کی یاد میں اضافہ ایسے کرتی ہوں کہ ابا جان تو جلسہ کی ڈیوٹی کیلئے پہلے ہی گھر سے چلے جاتے تھے.اُن دنوں بنکوی صاحب مرحوم ، ڈار صاحب مرحوم، منصور بی ٹی صاحب مرحوم اور مظفر کھوکھر صاحب اور ان کے ساتھ بہت بڑی ٹیم کچن میں ہوتی تھی.پھر جولوگ دن رات وہاں کام کرتے اُن کو وہاں ٹینٹ میں رہنے کی بھی سہولت ہوتی تھی.ہمارے ابا جان کو بھی یہ سہولت خدا (267)
کے فضل سے میسر تھی.ابا جان کا اُن دنوں میں اسلام آباد کچن میں کام کرنا ہماری زندگیوں کا سنہری دور تھا.جلسہ کے دنوں میں وہ ایک قسم کا ہمارا گھر بن جاتا تھا.جلسہ میں دو پہر کا وقفہ اور شام کو جلسہ کے بعد امی جان کے پاس ٹینٹ میں مختلف ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا اور ہمارے ابا جان کو ہر شخص کی خدمت کر کے خوشی ہوتی.وہ صرف گھر والوں کی خدمت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اُن کی خدمت کا دائرہ بہت وسیع تھا.اُن کو لوگوں کی خدمت کرنے سے سکون حاصل ہوتا تھا لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ وہ خود وہاں لنگر سے کھانا نہیں کھاتے تھے.اکثر اپنا کھانا وہ گھر سے لیکر جاتے جب زیادہ عرصہ رہنا ہوتا تو اپنا کھانا خود پکا کر کھاتے اور لوگوں کو بھی کھلاتے تھے.اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ابا جان کو شوگر کی تکلیف تھی لیکن وہ پر ہیز سے اس تکلیف کو کنٹرول میں رکھتے تھے.اس لیے وہ کوشش کرتے کہ وہی چیز کھائیں جو اُن کی صحت کیلئے ٹھیک ہو.امی جان بھی جلسہ پر جانے سے پہلے مہمان نوازی کیلئے کھانے کا بے شمار سامان لیکر جاتیں.بچوں کا ہمیشہ خیال رکھتیں اور اُن کو اچھی سے اچھی چیز کھانے کیلئے دیتیں.سچ پوچھیں تو جلسہ کی اتنی اچھی اچھی یادیں ہیں کہ دل کرتا ہے بیان کرتے چلے جائیں.لندن میں رہنے والے پرانے لوگ ابا جان کو بھائی حسن صاحب کے نام سے جانتے تھے.لطیفہ کچن کا ایک چھوٹا سا لطیفہ بھی لکھ دیتی ہوں.ابا جان کہتے ہیں کہ ایک نو جوان آیا کہ میں کچن میں آپ کے ساتھ کوئی کام کرنا چاہتا ہوں.میں نے سوچا اس کو کیا کام دوں جس سے یہ شروع کر سکے.میرے پاس ہری مرچیں پڑی تھیں میں نے اُسے کہا جاؤ یہ مرچیں دھو کر لاؤ.تھوڑی دیر تک میں انتظار کرتا رہا.پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ برتن دھونے والے صابن کی جھاگ سے سنک بھرا ہوا ہے اور وہ ایک ایک مرچ کو صابن سے مل مل کر دھو رہا ہے.مجھے اُس کی اس قدر صفائی پسند طبیعت پر بہت ہنسی آئی.اس سے مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ہمارے نو جوانوں کو گھروں میں کام کرنے کی کوئی (268)
عادت نہیں ہوتی.بہر حال اس نوجوان نے تھوڑی بہت ٹریننگ کے بعد بہت اچھا کام کرنا شروع کر دیا.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ میرے ابا جان کا بہت دلی اور پیار کا گہرا رشتہ تھا.ابا جان فرماتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کے ساتھ میری بہت چھوٹی سی ملاقات فیصل آباد میں ہوئی تھی.پھر اس کے بعد جب میں نیروبی میں تھا تو وہاں چوہدری صاحب کا آنا ہوا.کہتے ہیں کہ جب میری ملاقات چوہدری صاحب سے ہوئی تو میں نے اپنا ایک خواب سنایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میں آپ کی ٹانگیں دبا رہا ہوں.چوہدری صاحب نے فرما یا خواب تو ہم دونوں کیلئے ہی بہت اچھی ہے لیکن اس کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے دبوانا اچھا نہیں لگتا.پھر ابا جان فرماتے ہیں کہ تقدیر نے ہم دونوں کو لندن میں اکٹھا کر دیا اور میرے خواب کی تعبیر ظاہر ہونے لگی.ابا جان فرماتے ہیں کہ چوہدری صاحب نے ایک کتاب حضرت محمدصلی ما اینم کی سیرت پر لکھی.میں نے ایک کتاب کی جلد بندی کر کے اُن کی خدمت میں پیش کر دی جو انہیں بہت پسند آئی، چند دنوں کے بعد مکرم اکرم غوری صاحب (مرحوم) نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ چوہدری صاحب نے اپنی کچھ کہتا ہیں اپنے خاص لوگوں کو دینی ہیں اُن کی جلد بندی کردیں لیکن مقررہ وقت تک کر دیں.الحمد اللہ میں نے اُن کے مقررہ وقت سے پہلے تیار کر کے اُن کی خدمت میں پیش کر دیں.آپ نے مجھے دو پاؤنڈ دیے.میں کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ آپ نے مجھے خاموش کروادیا.پھر دوبارہ مجھے بلوایا اور فرمایا ایک ایک کتاب مجھے پکڑاتے جاؤ اور آپ دستخط کر کے دیتے گئے.اب اُن کا پیار مجھے نا چیز سے بڑھتا گیا.ایک دن کسی کا نکاح تھا آپ نے ہاتھ میں لڈو پکڑا ہوا تھا اور مسجد میں ایسے گھوم رہے تھے جیسے کسی کو تلاش کر رہے ہوں.میں آخر میں جوتیوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا.سیدھے آکر لڈو میرے ہاتھ پر رکھ دیا.(269)
پھر ایک دن آپ نے اپنا بستر مجھے ٹھیک کرنے کو کہا.میں بہت خوش ہوا.جلدی جلدی بستر ٹھیک کیا.بستر دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا لگتا ہے تمہاری بیوی تمہارا بستر ٹھیک کرتی ہے.جب میں بستر ٹھیک کر رہا تھا تو دیکھا کہ آپ نے اپنی پتلون تہ کر کے تکیہ کے نیچے رکھی ہوئی تھی تا کہ اُسکی تہ ٹھیک رہے.ایک دن میں آپ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا کہ ڈاکٹر عبد السلام صاحب تشریف لائے ، جو بہت خوش نظر آرہے تھے.آپ نے آ کر چوہدری صاحب کو خوشخبری سنائی کہ ان کو کوئی بہت بڑا اعزاز ملا ہے اور میرے سامنے ہی حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو مضمون تیار کر کے اسی وقت مطلع کیا گیا.اُس وقت مجھے نوبل انعام کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا.جب ڈاکٹر صاحب تشریف لے گئے تو پھر چوہدری صاحب نے مجھے نوبل انعام کے بارے میں تفصیل سے ساری بات سمجھائی.بہت مرتبہ انہوں نے اپنی محبت اور شفقت سے نوازا.مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی خدمت کرنے کی توفیق دی.اکثر اُن کے ساتھ ملاقات رہتی.میرے ہاتھ کے بنے ہوئے پکوڑے اُن کو بہت پسند تھے.صرف ایک یا دو سے زیادہ نہیں لیتے تھے.پھر اُن کو وہ پکوڑے پسند تھے جو اچھی طرح مڑ کنے crispy سے بنے ہوئے ہوں.کبھی کبھی آپ اپنے کسی مہمان کی آمد پر مجھے فرماتے حسن صاحب آج میرے مہمان آ رہے ہیں.اُن کی خواہش ہے پکوڑے کھانے کی اس لیے آپ پکوڑے بنا کر لے آئیں.ابا جان فرماتے ہیں کہ حضرت چوہدری صاحب کے ساتھ اکثر ملاقات رہتی لیکن ایک دن ایسا بھی آیا جو میری زندگی کا یادگار دن بن کر ظاہر ہوا.آپ فرمانے لگے: د حسن صاحب مجھے علم ہے کہ آپ میرے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں.آج میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں.“ غالباً اسی محبت کے اظہار کی خاطر جب آپ آخری بارلندن سے پاکستان تشریف لے گئے تو اس (270)
عاجز کیلئے اپنا ایک استعمال شدہ سوٹ چھوڑ گئے.خدا کرے کہ ہماری محبت اگلے جہان میں بھی پروان چڑھتی رہے.پھر جب چوہدری صاحب پاکستان جارہے تھے تو اُن کی اجازت سے اُن کی وہ کرسی جس پر وہ ہمیشہ بیٹھتے تھے، ابا جان گھر لے آئے اور اُس کی اچھی طرح سے مرمت کر کے رکھ لی.ہمیشہ اپنی زندگی میں اُس پر ہی بیٹھتے تھے.یہاں تک عقیدت تھی کہ جب ہم یا بچے یا کوئی بھی ملنے والا آتا تو اُس کو تبرک کیلئے کہتے کہ یہ چوہدری صاحب کی کرسی ہے آپ بھی اس پر بیٹھیں.اللہ کرے کہ اگلے جہاں میں بھی ان پیاروں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ جگہ ملے.آمین.متفرق یادیں جیسا کہ میں پہلے لکھ چکی ہوں میری امی جان شادی کے بعد بہت کم میرے ابا جان کے ساتھ رہی ہیں.ابا جان اکثر اپنے کام کے سلسلے میں اپنے گھر سے باہر رہتے اور امی جان بچوں کے ساتھ اکیلی ہی رہتی تھیں.لیکن اب جب سے لندن آئے ہیں یہ دونوں اکٹھے زندگی گزار رہے ہیں.ا میرے اباجان نے زندگی کی تمام کمیوں کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے.چھوٹی چھوٹی سی کچھ کچھ باتیں اُن کی لکھتی ہوں : ایک بار ہم سب لندن فضل مسجد سے نماز جمعہ پڑھ کر مسجد کے باہر جنگلے کے پاس کھڑے تھے.جنگلے کے ساتھ صرف ایک اینٹ کی منڈیر سی بنی ہوئی ہے جس پر امی جان اُس جنگلے کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر کھڑی تھیں.ہم سب اُمی جان کو خدا حافظ کر کے اپنے گھر آنے لگے.جیسے ہی میں نے ہاتھ ہلا یا امی نے مجھے دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ ہلایا اور بے دھیانی میں بھول گئیں کہ وہ ایک منڈیر پر پاؤں رکھے ہوئے ہیں.بس وہ ایک سیکنڈ ایسا خوفناک تھا کہ میری امی جان کو میں نے گرتے ہوئے دیکھا.اُن کا سر تو میرے ہاتھوں میں آ گیا لیکن باقی جسم کنکریٹ والے فرش پر گرا اور اُن کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی.ایمبولنس آئی امی ہسپتال چلی گئیں.ہڈی ایک دو جگہ سے ٹوٹی تھی.کافی لمبا عرصہ اُن کو ہسپتال میں رہنا پڑا.اب یہاں سے میرے ابا جان کی امی جان کیلئے دن رات خدمت میں (271)
شروع ہوئی.جتنا عرصہ امی جان ہسپتال میں رہیں ابا جان سارا سارا دن اُن کے پاس گزارتے اور ہسپتال جاتے ہوئے اپنی ٹرالی پھل فروٹ سے اور چاکلیٹ سے بھر کر لے جاتے.امی جان کے ساتھ ساتھ باقی مریضوں کی بھی تیمار داری کرتے.تمام مریض بھی اباجان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے.مریضوں کے ساتھ ساتھ نرسوں اور ڈاکٹروں کو بھی کوئی نہ کوئی تحفہ دیتے رہتے اور اُن کو خوش رکھتے.جب امی جان گھر آگئیں تو بے شک یہاں کی گورنمنٹ کی طرف سے اُن کو یہ سہولت تھی کہ کھانا بنانے اور گھر کے کام کاج کیلئے میڈ آتی تھی.اگر چہ میرا بھائی اور بھابی بھی اُن کے بہت قریب تھے لیکن گھر میں چوبیس گھنٹے ابا جان نے اُن کو خوب خوب سنبھالا.اسی طرح ایک بار شروع شروع کی بات ہے جب امی جان بس میں سوار ہوئیں تو اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور گر گئیں.ہاتھ کو شدید چوٹ آئی ، بہت عرصہ ہاتھ پر پلستر لگارہا.ابا جان نے امی جان کو بہت اچھی طرح سے سنبھالا.اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میرے بھائی خالد اور بھابی نے اُس وقت بھی بہت خدمت کی تھی اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ مجھے اپنے والدین کی خدمت کا ویسے موقعہ نہیں ملا جیسا کہ میرے بھائی اور بچوں کو ملا.آٹھ دن بعد یا پندرہ دن کے بعد میرا بھی جانا رہتا تھا.میں کافی فاصلے پر رہتی تھی.بہت جلدی جلدی چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ جانا ممکن نہیں تھا.میرے ابا جان کو بازار سے سودا سلف لانے کا بہت شوق تھا.وہ اکثر ٹرالی لیکر مارکیٹ جاتے.ٹرالی بھر کر پھل، سبزی اور خاص طور پر مچھلی ضرور ہوتی جو انہیں بہت مرغوب تھی.فروٹ اور سبزی وہ اپنے لیے نہیں لاتے تھے.وہ ٹرالی لیکر پہلے خالد کے گھر جاتے اُن کی ضرورت کی چیزیں اُن کو دیتے پھر اپنے گھر آ کر تھوڑا تھوڑا فروٹ تمام ہمسائیوں کو دیتے.ہمسائے تمام انگریز ہی تھے لیکن وہ سب امی ابا جان سے بہت خوش تھے.بے شک امی ابا جان دونوں کو یہاں کی زبان نہیں آتی تھی لیکن تحفے تحائف کی زبان نے اُن کی بہت ساری مشکلات کو دور کر دیا تھا.جب بھی میرے گھر آتے وہی ٹرالی بھری ہوئی ہوتی یا پھر جب میں فون کرتی کہ میں آ رہی ہوں تو دونوں کا پہلا یہ سوال (272)
ہوتا کیا کھاؤ گی کیا پکا ئیں.سچ پوچھیں اُن کا یہ جواب سن کر میں ہمیشہ شرمندہ ہو جاتی اور کہتی امی جان میں کھانا کھا کر آؤں گی یا میں آکر بنا لوں گی اور جب میں واپس آتی تو ایک تھیلا میرے ہاتھ میں ضرور پکڑاتے چاہے اُس میں ہری مرچ اور ٹماٹر ہی کیوں نہ ہوں.جو بھی گھر میں پڑا ہوتا وہی تھیلے میں ڈال دیتے تھے.اللہ تعالیٰ اُن دونوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے بہت ہی پیار کرنے والے اور مہمان نواز میرے والدین تھے.ابا جان مسجد جاتے تو امی جان سے فرمائش ہوتی آج مولی یا آلو کے پراٹھے بنا دو.اگر کچن میں ہیں تو کچن والی ٹیم اور اگر اخبار الفضل انٹرنیشنل کی ٹیم ہے تو اُن کیلئے گھر سے ضرور کچھ نہ کچھ بنوا کر لے جاتے.کئی بار ایسا ہوتا کہ میں اپنی امی کو فون کرتی اور پوچھتی امی آپ کیا کر رہی ہیں تو جواب ہوتا تمہارے ابا کی فرمائش پر کڑھی بنا رہی ہوں.آج اُنہوں نے مسجد لیکر جانی ہے.مسجد جانا ابا جان کی زندگی کا ایک ایسا شوق یا پیار تھا جس کے بغیر انسان زندہ نہ رہے.ایسے ہی اُن کیلئے مسجد جانا اور وہاں کام کرنا اور صفائی کرنا بہت اچھا لگتا تھا.ابا جان کہتے لوگ اس کام سے گھبراتے ہیں اور یہی کام میری بخشش کا ذریعہ ہیں.ابا جان ایک بار فرش صاف کر رہے تھے کسی نوجوان نے کہا آپ کیوں کر رہے ہیں رہنے دیں.ابا جان نے جواب دیا تم نہیں جانتے میں مسیح کا ایک ادنی چاکر ہوں اس لیے کر رہا ہوں.آپ مجھے یہ کام کرنے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خاندان حضور کے ساتھ بہت ہی پیار اور عقیدت تھی.جب حضرت خلیفتہ اسیح الرابع " شروع شروع میں لندن آئے تو ابا جان کچن میں اپنی ٹیم کے ساتھ کام کرتے تھے.طوبی ، مونا، بی بی فائزہ اور بی بی شوکی کے بچے بہت چھوٹے چھوٹے تھے.اُوپر نیچے بھاگے پھرتے تھے.ابا جان کہتے ہیں کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آ کر کہتے انکل پانی پینا ہے.میں اُن کو پانی دیتا جو بچ جاتا وہ میں پی لیتا کہ نجانے ان میں سے کل کون خلیفہ بن جائے گا.اُس وقت میں تو دنیا میں نہیں ہونگا لیکن میں نے تبرک ضرور پیا ہوگا.(273)
حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے آنے کے بعد جلسے لندن میں شروع ہو گئے تو مہمانوں کا بھی لندن میں تانتا بندھ گیا.امریکہ، جرمنی ، کینیڈا، اور پاکستان کے علاوہ بھی دنیا بھر سے مہمان آنے شروع ہو گئے اور جس کی بھی دور یا نزدیک کی رشتہ داری ہوتی وہ وہیں جگہ بنالیتا.اسطرح امی ابا جان کے گھر بھی جلسہ کے دنوں میں بہت بہت مہمان آتے اور خوب رونق رہتی.میرا بھائی خالد اور ڈاکٹر صلاح الدین صاحب، جو یہاں لندن میں ہی ہوتے تھا، ان سب کی ڈیوٹی ہیتھرو ایئر پورٹ سے مہمانوں کو لانے اور پھر چھوڑ کر آنے میں لگتی تھی.جلسہ ختم ہونے کہ بعد جب میرے ابا جان اسلام آبادا اپنی ڈیوٹی سے واپس آجاتے تو اُن کا کام یہ ہوتا کہ وہ مہمانوں کولندن کی سیر کرواتے.گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی جیبوں کو اچھی طرح بادام ، چنے اور کچھ میٹھی چیزوں سے بھر لیتے.ساتھ جانے والوں کی خوب خوب خدمت کرتے.اپنا اور مہمان کا دن بھر کا پاس لے لیتے اور خوب خوب پورے لندن کی سیر کرواتے.گھر میں بھی امی جان کے ساتھ مل کر مدد کرتے.قرآن کریم سے پیار یہ لکھ چکی ہوں کہ میرے ابا جان کے بچپن میں کوئی خاص تعلیمی ماحول نہ تھا.لیکن جیسے ہی احمدیت کے نور سے آشنا ہوئے تعلیم کی کوئی کمی نہیں رہی الحمد للہ.دینی معلومات کافی وسیع تھیں.در ثمین اور کلام محمود کے شعر زبانی یاد تھے اور ان اشعار کا بر موقع و بر محل استعمال فرماتے تبلیغ کیلئے اُن کو کبھی مشکل نہیں ہوئی ، ہر مسئلہ کا حل اُن کے پاس موجود ہوتا.جب میری امی جان لندن آئیں تو اس وقت ابا جان نے ان سے قرآن مجید پڑھا.امی جان کو آپ اپنی استانی مانتے تھے.جب آپ نے قرآن مجید ختم کیا تو امی جان کیلئے خاص طور پر سوٹ لے کر آئے.جلد بندی کے ماہر تھے.جماعت کے لوگ اپنے پرانے بہت ہی خستہ حال قرآن مجید کے نسخے لیکر آتے تو ان کو بڑی محنت اور پیار سے تیار کرتے اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کو سنبھال کر رکھنے کی تاکید فرماتے.جتنی دیر قرآن کریم اُن کے ہاتھ میں رہتا دعاؤں میں مشغول رہتے.اگر ترجمہ والا ہوتا تو ترجمہ اور تفسیر کا (274)
میری یونجی باقاعدگی سے مطالعہ کرتے.اُن کی زندگی کا جو آخری رمضان شریف تھا اُس میں مجھے فون کیا اور فرمانے لگے کہ مبارک ہو اس رمضان شریف میں میں نے دو بار قرآن کریم ختم کیا ہے.یہ بات بتاتے ہوئے ابا جان کے ہر لفظ سے جو خوشی کا اظہار ہورہا تھا مجھے ہمیشہ یادر ہے گا.لوگ کوشش کرتے کہ آپ جو اُن کا کام کرتے ہیں، اس کام کی اجرت لیں.لیکن ابا جان کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا میں یہ کام پیسوں کیلئے ہر گز نہیں کرتا بس آپ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.ابا جان کی پسندیدہ دعا تھی جزاکم اللہ.فرماتے تھے مجھے لوگوں سے کیا لینا ہے مجھے تو اللہ سے بخشش چاہئے.جماعت کی بہت سی قیمتی کتابوں کی جلد بندی کی ، پرانے تمام الفضل اکٹھے کر کے جلد بندی کی.ہر کتاب کے آخر میں اپنی ہی ایک مہر بنائی ہوئی تھی ، وہ لگاتے تھے : ( طالب دعا : محمد حسن) میرے ابا جان کو دعا کے علاوہ کبھی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوئی.الحمد للہ.ہمیشہ لوگوں کی مدد کی.ہمیشہ ہمیں ایک بات کی نصیحت کی کہ دینے والا ہاتھ ، لینے والے ہاتھ سے ہمیشہ اچھا ہوتا ہے.ނތ میرے ابا جان بہت بہادر، باہمت اور بارعب شخصیت کے مالک تھے.وہ اللہ تعالی کے سواکسی سے نہیں ڈرتے تھے.لوگ اُن کی بہت عزت کرتے تھے.ہم خود بھی اپنے ابا جان سے کھل کر بات نہیں کر سکتے تھے لیکن میرے ابا جان پر جب اپنی بیٹی کی وفات کے غم کا پہاڑ ٹوٹا توا ایکدم اُن کی دُنیا ہی بدل گئی.اُن کے بولنے والی صلاحیت پر فالج کا حملہ ہو گیا اور وہ بالکل خاموش ہو گئے.وہی میرے ابا جان جو 80 یا 90 سال کی عمر میں بھی جوان لگتے تھے، ایکدم بوڑھے ہو گئے.سارا سارا دن سر جھکائے کرسی پر بیٹھے رہتے تھے.تقریباً دو سال کے بعد کچھ اُنکی طبیعت بحال ہوئی تو سامی صاحب اور امی جان کے صدمہ نے انہیں نڈھال کر دیا.اُمی جان کی وفات کے بعد اباجان خالد کے گھر آگئے.امی ابا جان ویسے تو ہم سب بچوں کے ساتھ بہت پیار کرتے تھے مگر خالد اور اس کے (275)
بیوی بچے کافی عرصہ ساتھ رہے اور بعد میں بھی اُن کی خدمت میں پیش پیش رہے، تو قدرتی بات ہے پھر ایک ہی بیٹا جو اپنے ماں باپ کا خدمت گزار بھی ہو ،سوامی اباجان کے دل میں بھی اُس کی بہت جگہ تھی.اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ خالد اور اُسکی بیوی بچوں کو دونوں جہاں میں اپنے ماں باپ کی خدمت کرنے کا بہترین اجر ملے.آمین.آخر میں ابا جان کو شوگر نے بہت کمزور کر دیا ، پھر دل کی بھی تکلیف ہو گئی.ڈیڑھ دو ماہ ہسپتال میں رہے.بہت ہمت اور جواں مردی سے بیماریوں کا مقابلہ کیا.بیماری میں بھی دعاؤں پر زور رہا.اللہ تعالیٰ پر کامل توکل اور بھروسہ کرتے تھے.درود شریف کا ورد کرتے رہتے.وہی شخص جو بچپن میں احرار کا جھنڈا اٹھائے جیلوں میں گھوم رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے اُسے ایک، نیک دیندار اور اللہ تعالی پر توکل اور تقویٰ سے بھری ہوئی زندگی گزارنے کی توفیق دی.اُسے سچے خواب دیکھنے کی سعادت ملی.حضرت مسیح موعود کے جانثار ، خلافت کے پرستار ، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے، غریبوں کے ہمدرد ، اپنے تمام رشتہ داروں سے پیار کرنے والے، ہمارے بہت ہی مہربان پیارے ابا جان 5 فروری 2003 کو ہمیں چھوڑ کر اپنے بخشش کرنے والے رحمان رحیم اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے.ان له وانا الیہ راجعون.امی جان اور ابا جان دونوں کا جنازہ لندن میں حضرت خلیفہ ایح الرابع" نے پڑھایا اور بوہ میں موجود خلیفہ حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پڑھایا ، دعا کروائی اور تدفین میں شمولیت فرمائی.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امی جان و ابا جان کو جنت الفردوس میں اعلی سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے.امی ابا جان کی خواہش بھی تھی اور اُن دونوں کی وصیت بھی تھی کہ دونوں بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوں اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس خواہش کو بھی پورا کیا.اللہ تعالیٰ کی اُن پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آمین.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اُن کی بتائی ہوئی نصیحتوں پر عمل کر سکیں آمین.ہم وہ خوش نصیب بچے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسے برگزیدہ والدین عطا کیے.الحمد للہ.(276)
مخلصین کی یاد یں اور دعائیں درج ذیل مضمون بھائی منصور احمد بی ٹی صاحب نے ابا جان کی وفات کے بعد لکھا تھا.منصور بھائی میرے ابا جان اور سامی صاحب دونوں کے ہی بہت پیار کرنے والے دوست بھائی تھے.اللہ تعالیٰ منصور بھائی کی بھی مغفرت کرے اب تو وہ بھی اُن دونوں دوستوں کے پاس پہنچ چکے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے.آمین ثم آمین ) بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ہمارے پیارے بھائی جی! جو بادہ کش تھے پڑانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی اسم گرامی ، شیخ محمد حسن - صالح بزرگ، پابند صوم وصلوٰۃ ، خادم احمدیت ، موصی ،جنہیں ہم ”بھائی جی کے محبت بھرے الفاظ میں مخاطب کرتے تھے ، چند روز بیمار رہ کر مورخه ۵ فروری ۲۰۰۳ء بروز بدھ شام کے نو بجے بھر پور ترانوے (۹۳) سالہ زندگی گزارنے کے بعد ہمیں ہمیشہ کا داغ مفارقت دے کر مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.اناللہ واناالیہ راجعون.(277)
بھائی جی سے سلسلہ ملاقات کا آغاز اُن کی برطانیہ میں آمد سے شروع ہوا.ابتداء ہی سے بھائی جی نے اپنے آپ کو اخبار احمدیہ سے منسلک کر لیا اور اُن کا نام نامی بھی جماعت میں پہچانا جانے لگا.بتدریج بھائی جی کی خوبیاں پر دہ نہاں سے نکل کر عیاں ہونے لگیں جن میں احمدیت سے والہانہ عشق نمایاں تھا.وہ اپنی بعض روایات بہت سادگی سے بیان فرماتے.مگر سننے والے جانتے تھے کہ اُن سادہ سی روایات کے پس منظر میں دلیرانہ واقعات مضمر ہیں.پیشتر اس کے میں کسی روایت کا ذکر کروں مناسب سمجھتا ہوں کہ عرض کرتا چلوں کہ قبولیت احمدیت سے قبل بھائی جی مجلس احرار ( لدھیانہ ) کے اُن چند سر کردہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے جو کہ مجلس احرار کی عاملہ نے اپنی چرب زبانی سے اپنے ارد گرد جمع کر رکھے تھے اور اُن کے دلوں میں احمدیت کے خلاف نفرت و حقارت کا بیج بو دیا ہوا تھا اور وہ لوگ یقین رکھتے تھے کہ اس طرح وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں.جب اُن کی بے جا حرکتوں کے نتیجے میں نقض امن کا خطرہ پیدا ہو گیا تو اُس وقت کی نگران حکومت نے انہیں جیل بھجوا دیا.بھائی جی بھی چونکہ پیش پیش تھے اس لئے وہ بھی گرفت میں آگئے.تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی.اُسی قید کے دوران جب انہوں نے احمدیت کی مخالفت پر غور کیا تو طبعاً چونکہ سعید فطرت تھے، ضمیر نے ملامت کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے اور پھر حضرت مسیح موعود کے مظہر قول کے مطابق کہے " جس کی فطرت نیک ہے وہ آئیگا انجام کار بھائی جی آئے اور آغوش احمدیت میں آگرے.بعد ازاں اپنی تمام تر کاوشیں احمدیت کیلئے وقف کر دیں.جوں جوں صُحبت صالحین میسر آنی شروع ہوئی توں توں اُن کی محبت پروان چڑھتی گئی.قیام پاکستان کے بعد فیصل آباد کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا.جہاں پر اُن کی خوش نصیبی نے انہیں حضرت محمد احمد صاحب مظہر (مرحوم) جیسے امیر جماعت کی صحبت سے نوازا.جذبہ محبت و (278)
خدمت جب بھائی جی جیسا ہو اور اسکی آبیاری مکرم محترم مظہر صاحب جیسے صاحب بصیرت، عالم با عمل اور مشفق استاد کی ہوتو وہ کلی کیوں گلاب نہ بنے! باوجود اس کے کہ بھائی جی بہت ہی معمولی تعلیم یافتہ تھے مگر اُن کو جو صحبت نصیب ہوئی وہ غیر معمولی تھی.یہی وجہ ہے کہ آپ پنجابی زبان میں سادہ دلائل سے ایسی پر حکمت بات کہہ جاتے جو دلوں میں کھب جاتی.المور دنیا کی ادائیگی کیلئے انہوں نے’جلد سازی کا کاروبار شروع کیا خود اندازہ لگائیے کہ رہنا فیصل آباد میں اور کارو بار’جلد سازی! کیا آمدنی ہوگی ؟ مگر وہ اُسی حال میں مست تھے.اپنے ہنر میں کمال حاصل تھا، اس لیے بتدریج شہرت فیصل آباد سے باہر کے شہروں میں بھی بڑھنے لگی اور پھر ربوہ کا قیام ہو گیا تو اُن کی شہرت کے ساتھ ساتھ اُن کی ذاتی مقبولیت بھی شامل حال ہوتی گئی اور بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچی جس کی جھلک درج ذیل واقعہ سے عیاں ہوتی ہے.سنایا کرتے تھے کہ : ایک دفعہ کوئی دوست ربوہ سے تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا کہ میں حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب کے خدام میں سے ہوں.انہوں نے مجھے بھیجا ہے کہ اس کتاب کی جلد بنادیں.میں نے جب وہ کتاب دیکھی تو کافی پرانی ہونے کے باعث اور اق شکستہ ہو رہے تھے.اور اُس میں صرف نام ہی نام ہیں کوئی مضمون نظر نہیں آتا.تب میں نے اُس دوست سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ مفتی صاحب نے ان لوگوں کی فہرست بنائی ہوئی ہے جن کیلئے وہ ہمیشہ دعا کرتے ہیں.میں نے وہ کتاب لے لی اور نہایت احتیاط سے اُس کے اوراق کو ترتیب دیا.اور اُس کی جلد کر دی.وہ دوست جزاکم اللہ کہہ کر ربوہ روانہ ہو گئے.میں نے بھی کچھ عرض نہ کیا کہ اتنا خرچ ہوا ہے.اگلے روز دیکھا تو وہ دوست پھر تشریف لائے اور فرمایا کہ مفتی صاحب کو آپ کا کام بہت پسند آیا ہے اور وہ دریافت کر رہے ہیں کہ جلد کے کتنے پیسے ہیں؟ میں نے اُن سے عرض کیا کہ میری طرف سے مفتی صاحب کی خدمت میں (279)
بعد از سلام عرض کر دیں کہ جو دعائیہ فہرست انہوں نے بنارکھی ہے اُس کے آخری صفحہ پر میر ابھی نام لکھ لیں یہی میری فیس ہے.“ اللہ اللہ ! کیا انکساری ہے اور کتنی پیاری فیس طلب کر لی.ایک دفعہ فرمانے لگے کہ : ย میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے میرا نام انگریزی میں لکھا ہے.میں حیران تھا کہ یہ کیسا خواب ہے.میں تو انگریزی زبان نہیں جانتا.نہ جانے اس کا کیا مطلب ہے.چند ہفتے بعد مجھے ربوہ جانے کا اتفاق ہوا.حضرت مفتی صاحب سے نیاز حاصل کرنے اُن کی خدمت میں حاضر ہوا.دوران گفتگو میں نے اپنا خواب بھی سنایا اور اُن سے پوچھا کہ مفتی صاحب ایدا کی مطلب ائے ( اس خواب کا کیا مطلب ہے ) چند لمحے کی خاموشی کے بعد حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ شیخ صاحب کیا آپ کو علم ہے کہ آپ نے کس کو دیکھا ہے؟ آپ نے محمد اور صادق کو دیکھا ہے یہ ہوکر رہے گا.میں اپنے خواب کی تعبیر سن کر خاموش ہو گیا اور چلا آیا.بعد ازاں حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ میں نے فیصل آباد کو خیر باد کہا اور افریقہ چلا گیا اور پھر افریقہ سے مجھے انگلستان آنا پڑا اور اخبار احمدیہ کی طباعت میں مجھے خدمت کی توفیق ملنا شروع ہوئی.حسن اتفاق ہے کہ لندن کے جنگ اخبار میں اخبار احمد یہ کے بارے میں تبصرہ ہوا.مگر یہ تبصرہ اردو حصہ کے بجائے انگریزی حصے میں شائع ہوا.جہاں میرا نام انگریزی میں چھپا.تب مجھے اپنا خواب اور حضرت مفتی صاحب کی تعبیر یاد آئی.“ انگلستان میں بہت سے احمدی خاندان افریقہ سے آئے ہیں.بھائی جی اکثر احباب کو بہت اچھی طرح جانتے تھے.اُن بزرگوں کی اولادیں آجکل جماعت احمد یہ برطانیہ کے مختلف عہدوں (280)
پر فائز ہیں اور خلوص دل سے دینی خدمات بجالا رہے ہیں.دوسال قبل جب ہمارے موجودہ امیر جماعت جناب رفیق احمد صاحب حیات امارت کے عہدے پر فائز ہوئے تو بھائی جی نہایت محبت بھری نظر سے مکرم امیر صاحب کو دیکھ رہے تھے.ہم دونوں مسجد کے احاطے میں کرسیوں پر بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ مکرم امیر صاحب ایک دفتر سے نکل کر دوسرے دفتر کی طرف تیز تیز قدموں سے چل رہے تھے.بھائی جی نے پنجابی میں مجھے یہ بات بتائی کہ جب رفیق اور لئیق چھوٹے تھے تو بہت شرارتیں کرتے تھے.اُن کے ابا بشیر حیات صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ شیخ صاحب آپ ہی ان کو ڈانٹیں.چنانچہ جب بھی مجھے مناسب معلوم ہوتا میں اِن دونوں کی اصلاح کرتا اور اب دیکھو یہ امیر جماعت بن گئے.یہ ساری بات انہوں نے قدرے فاخرانہ انداز میں از راہ محبت بتائی.میں نے موقع کی مناسبت اور اُن کی خوشی کو محسوس کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ آپ کی تربیت ہی کا نتیجہ ہے.برطانیہ میں ورود کے بعد آپ اخبار احمدیہ سے منسلک ہو گئے.آہستہ آہستہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا.ماہانہ اجلاسات کے بعد ہلکی سی چائے پیش کی جاتی تھی.بھائی جی نے بھی کچن میں اپنے جو ہر دکھائے.معلوم ہوا کہ اُن کے ہاتھ کے پکوڑے ذائقہ دار ہوتے ہیں.چنانچہ اُن سے پکوڑوں کی فرمائش ہونے لگی اور جوں جوں چائے کے ساتھ پکوڑوں کی خوشبو آنے لگی ، کچن میں رونق بڑھنے لگی.ڈاکٹر ولی احمد شاہ صاحب کی سرکردگی میں ہماری چھوٹی سی کچن ٹیم اہتمام پکوڑہ کیا کرتی.کسی ایک جمعہ کے بعد بھائی جی نے مکرم محترم حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمت میں پکوڑے پیش کیے اور بقول بھائی جی کے کہ اُنہوں نے ایک چھوٹا سا’روڑ ا ( کڑک پکوڑہ ) اُٹھالیا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں.پھر تو یہ سلسلہ مستقل سی صورت اختیار کر گیا.کچھ عرصہ کے بعد جب شیخ صاحب پکوڑے پیش کرنے کیلئے گئے تو مکرم چوہدری صاحب نے بہت محبت سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ شیخ صاحب مجھے تکلیف سی ہو جاتی ہے ، آج تو میں لے لیتا ہوں مگر آئندہ مجھے (281)
پکوڑے نہ دیں.چنانچہ بھائی جی مکرم چوہدری صاحب کی خواہش کے پیش نظر اُن کو پکوڑے دینے نہ گئے.مگر اگلے ہی ہفتے کسی خادم نے آکر پیغام دیا کہ بھائی جی کو چوہدری صاحب بلا رہے ہیں اور دروازے کے پاس اُن کے منتظر ہیں.بچارے بھائی جی جس حالت میں تھے ویسے ہی پہنچے.چودھری صاحب نے فرمایا: ” جب میں پچھلے جمعہ اپنی تکلیف کا ذکر کر کے اوپر فلیٹ میں گیا تو مجھے اس بات سے رنج پہنچا کہ میں نے اپنی تکلیف کا ذکر کر کے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے اور اپنے جذبات کو آپ کی محبت پر ترجیح دی ہے.ایسا کریں آپ مجھے پکوڑے دے دیا کریں.“ بھائی جی کی طبیعت پر جو ایک ہفتہ کی افسردگی تھی ، یک دم دور ہوگئی اور پھر سلسلہ از سر نو شروع ہو گیا.مکرم شیخ مبارک احمد صاحب افریقہ سے ربوہ اور پھر وہاں سے لندن بحیثیت مشنری انچارج یو کے مقرر ہوئے.لندن میں افریقہ سے آئے ہوئے احمدی خاندان مسجد کے گردونواح میں بس چکے تھے.انہی میں ہمارے بھائی جی بھی تھے.لوگ بھائی جی کی گونا گوں خوبیوں سے خوب واقف تھے.محمود ہال کے بالائی فلیٹ پر مکرم محترم حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی قیام رکھتے تھے.مکرم چوہدری صاحب کی ڈاک معرفت مسجد فضل ہی آتی تھی جو اُن کو فلیٹ پر پہنچا دی جاتی.مکرم شیخ صاحب نے یہ خدمت مکرم بھائی جی کے سپرد کر دی اور وہ اس کو بخوشی سرانجام دیتے.اس وسیلے سے بھائی جی کا مکرم چوہدری صاحب کے پاس روزانہ آنا جانا شروع ہو گیا اور یہ تعلق بڑھنا شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ مکرم چوہدری صاحب نے مستقلاً لندن کو خیر باد نہ کہ دیا.اپنی روانگی سے قبل مکرم چوہدری صاحب نے اپنا ایک تھری پیس سوٹ اور کچھ (282)
مشروبات بھائی جی کو عطا کیے.مکرم حضرت چوہدری صاحب کیم نمبر ۱۹۸۵ء لاہور میں وفات پا گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.پانچ ستمبر ۱۹۸۵ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرم چوہدری صاحب کا ذکر خیر کیا.خطبہ جمعہ سے بہت پہلے بھائی جی تشریف لائے.آپ اُس وقت مکرم چوہدری صاحب کا عطا کردہ سوٹ زیب تن کئے ہوئے تھے.آپ مسجد فضل میں اُس مقام پر بیٹھ گئے جس جگہ مکرم چوہدری صاحب عموماً نماز ادا کیا کرتے تھے.یہ ہمارے بھائی جی کا مکرم چوہدری صاحب کو خراج عقیدت تھا.بعد از نماز جمعہ جب میں اُن سے بغلگیر ہوا تو وہ اشک ، جن کو نہ جانے کب سے آنکھوں میں چھپا رکھا تھا، بے اختیار بہہ نکلے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ کسی اے سوٹ پہچانیا ائے“ میں نے عرض کیا جی.ماضی کی یاد ان کی رگ رگ میں سائی ہوئی تھی.حضرت سیدنا خلیفہ اسیح الرابع” کی لندن تشریف آوری کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف ممالک سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا.نتیجہ امور ضیافت میں یکدم اضافہ ہو گیا اور ہماری محدود افراد پر مبنی ناتجربہ کا ررضا کارانہ ٹیم بہت مصروف ہو گئی.بھائی جی باوجودا اپنی پیرانہ سالی کے اہم رکن تھے.مکرم ولی شاہ صاحب کی مشفقانہ قیادت میں اُس ٹیم نے اکرام ضیف کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مہمانوں کی خدمت کو اپنا شعار بنالیا.حضور اقدس کے قدم رنجہ فرمانے کے تھوڑے عرصے بعد اسلام آباد معرض وجود میں آیا اور حضور اقدس کے حکم اور رہنمائی میں جلسہ سالانہ برطانیہ کا انعقاد وہاں قرار پایا جس میں لنگر خانہ حضرت مسیح موعود نے اہم کردار ادا کرنا تھا.ضیافت کی ناتجربہ کاری ، وسائل کی کمی ، فاصلے کی دوری قطعاً مانع نہ ہوئی اور سید نا حضور انور کی رہنمائی میں جلسے کامیابی اور کامرانی کی منازل بسرعت طے کرنے لگے.(283)
بھائی جی کو ایام جلسہ سالانہ سے قریباً چار ہفتے پہلے اسلام آباد بھجوا دیا جاتا جہاں وہ ابتداء میں تنہا ہی استقبال، رہائش، مہمان نوازی اور سٹور کے نمائندہ ہوتے.دن ہو یا رات وہ اپنی ذمہ داری کو باحسن طور نبھاتے.سب آنے والے مہمان ، کارکن اُن سے اپنی ضرورت بیان کرتے اور وہ بصد شکر اُسے پورا کرتے.اُن کا مختصر سا کمرہ، جہاں تقریباً ہر چیز میسر آجاتی ، بہت بڑی نعمت تھا.اُس حجرہ کی چار پائی پر جماعت کے بڑے بڑے عہدہ دار استراحت فرماتے.بعد ازاں بھائی جی ہمیں اُن آرام کرنے والے بزرگوں کی باتیں سناتے.الغرض ایک لمبے عرصے تک وہ جگہ بھائی جی کے نام سے منسوب رہی.وقت کے ساتھ ساتھ اب اُس جگہ بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں.مگر جو پرانے بادہ کش ہیں وہ جانتے ہیں کہ اُس جگہ پر کیا کیا پرلطف اور تاریخی حکایات بیان ہوئیں.وہاں کی مجالس کا نشہ ہی کچھ اور تھا.قیام اسلام آباد کے دوران نہ صرف مہمان ہی بھائی جی کی خدمت کے معترف تھے بلکہ خدام الاحمدیہ کے وہ نوجوان جو وہاں اُن دنوں مختلف خدمات پر مامور تھے ، بھائی جی کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ اُن کی شفقتوں سے بھی وافر حصہ پاتے.اُن کی محبت کا یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں: ایک رات شدید سردی تھی.میں بھائی جی کے حجرے میں پڑی ہوئی چار پائی کے نیچے ایک میٹرس پر کمر سیدھی کرنے لیٹ گیا کہ محترم بھائی جی نے فرمایا کہ منصور سو گئے ہو.“ میں نے نفی میں جواب دیا.کہنے لگے سردی بہت ہے، ہم یہاں گرم کمرے میں لیٹے ہوئے ہیں اور باہر خدام ڈیوٹی پر ہیں، اُن کی کچھ خدمت کی جائے.چنانچہ ہم دونوں نے مل کر دودھ پتی کی چائے بنائی اور ساتھ میں انڈے ابالے اور رات کے دو ڈھائی بجے کے قریب ہم نے مختلف مقامات پر خدام کو جب چائے اور انڈے پیش کئے تو اُن نوجوانوں کی خوشی اور مسرت کی حد نہ رہی اور چہروں پر رونق آ گئی.وہ نو جوان وفور جذبات میں گلے لپٹ لپٹ جاتے.کوئی بطور شکریہ (284)
چاکلیٹ پیش کرتا اور کوئی ٹافی.میں اُن نوجوانوں کو کہتا کہ در حقیقت بھائی جی ہی آپ کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ یہ خیال اُن کے دل میں آیا تھا.رات جب خاکسارا اپنی ڈیوٹی منتظم طعام گاہ کے بعد بھائی جی کے حجرے میں آتا کہ اُن دنوں اُن کی چار پائی کے نیچے ہی خاکسار اپنا بستر بچھاتا تھا تو بھائی جی گرم دودھ کا پیالہ بھر کے لاتے اور فرماتے: دوتسی روٹی تے کھاندے نہیں، کم از کم اے دودھ ہی پی لو“ میں مذاقا عرض کرتا کہ بھائی جی یہ پیالہ صرف میرے لیے ہے کہ پورے اسلام آباد کیلئے؟ ایسا کریں کہ آپ خود بھی پئیں اور میں انہیں بھی اس ضیافت میں شامل کرتا.گا ہے لگا ہے اپنے گھر سے قیمے بھرے پر اٹھے منگواتے اور ہم سب کارکنان کو بقول اُن کے بر کی لے لو کے حکم سے نوالے دیتے.کبھی گھر سے پھل منگواتے اور ہمیں کھلاتے.الغرض کہ اُن کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ ہم اُن کی ضیافت سے بھی محظوظ ہوتے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسلام آباد کے مختلف مقامات اور ائمور کا معائنہ فرماتے ہوئے جب کبھی کچن سے گزرتے تھے تو اُس وقت بھائی جی اُن کو مٹھی بھر بھنے ہوئے چنے پیش کرتے تھے جسے حضور اقدس " بصد شوق قبول فرماتے.بس اُنکی وہ بے تکلفانہ اور سادہ سی پیش کش اب قصہ پارینہ بن کر رہ گئی ہے.پچھلے دواڑھائی سال میں ہمارے بھائی جی کو چند صدمے ایسے برداشت کرنے پڑے جن کا اُن کی طبیعت پر بہت گہرا اثر ہوا.صبر و استقلال سے وہ انہیں برداشت کرتے رہے.مگر آخر دل ہی تو تھا ، سنگ وخشت نہ تھا، جو درد سے بھر نہ آتا خصوصاً اپنی نوجوان بیٹی کی پاکستان میں وفات اور پھر چند ماہ بعد اپنے نیک سیرت اور پیارے داماد جناب بشیر الدین احمد سامی کی وفات اُن کیلئے بہت تکلیف دہ تھی.سامی صاحب میرے عزیز دوستوں اور ساتھیوں میں سے تھے.ایک روز اُنہی کے (285)
متعلق کچھ ذکر ہورہاتھا کہ ٹھنڈی سانس بھر کے مجھ سے کہا: د منصور ! اے دن اُدے جان دے نہیں سی.“ ( یہ وقت اُن کے جانے کا نہ تھا) پھر والدہ خالد کی وفات نے تو رہی سہی ہمت بھی ختم کر دی اور وہ بتدریج خاموش ہوتے چلے گئے.مگر اس دوران بھی خدمت دین کو پیش نظر رکھا اور الفضل انٹرنیشنل کی ڈسپیچ ٹیم کے سرگرم رکن رہے.یہ سلسلہ اُن کی وفات سے چند ماہ قبل تک جاری رہا.قسمت بھی انسان سے بعض اوقات عجیب مذاق کرتی ہے.ہوا یہ کہ اُن کی آخری بیماری میں خاکسار حتی الوسع عیادت کرتا رہا.بلکہ ۵ فروری بروز بدھ ظہر کی نماز سے قبل میں نے بذریعہ فون خالد صاحب سے رابطہ قائم کیا اور حال دریافت کیا.اُنہوں نے نہایت افسردگی سے اپنے ابا کی آخری سانسوں کے بارے میں اطلاع دی.خاکسار حوصلہ افزائی کی سعی کرتا رہا.اُسی روز شام کے سات بجے میرا اپنا سانس اچانک اُکھڑنا شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے خاکسار غش کھا کر گر گیا.ہسپتال پہنچایا گیا.یہ وہی ہسپتال تھا، جہاں ہمارے بھائی جی آخری سانسیں لے کر شام کے نو بجے خالق حقیقی سے جاملے تھے.مجھے جب ہوش آیا تو رات کے نو بج چکے تھے.اگلے بارہ چودہ گھنٹے ICU ہی میں گزارے.اُس کے بعد ہسپتال والوں نے مجھے جس وارڈ میں بھجوایا ، یہ وہی وارڈ تھا جہاں ہمارے بھائی جی نے آخری سفر اختیار کیا تھا.وائے حسرت! کہ جس پیاری ہستی کے ساتھ کئی سال گزرے تھے باوجود ” قرب مکانی“ کے مجھے جنازے کی توفیق نہ ملی اور اب یہ حسرت مدام بن چکی ہے.صرف اسی پر اکتفانہ ہوا بلکہ ہسپتال میں مجھے ایک Male nurse دوا دے رہے.،Male تھے کہ اُن کا ایک اور کارکن ہاتھ میں تین جوس کے ڈبے تھامے ہوئے آ گیا تو Male nurse نے اُس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو اُس کا رکن نے جواب دیا کہ یہ مسٹر محمد کیلئے ہیں تو اُس نے کہا یہ مریض تو مسٹر احمد ہے محمد نہیں ہے.تو کارکن نے پھر کہا کہ مسٹر محمد حسن کے ہیں اور اُن کیلئے لایا ہوں.تب Male (286)
nurse نے قدرے ڈانٹتے ہوئے کہا: یہ محمد حسن نہیں بلکہ مسٹر احمد ہے ان ڈبوں کو لے جاؤ.“ اُن کی گفتگو سے میں محظوظ ہو رہا تھا.ہسپتال والوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ مسٹر احمد مسٹر محمد کو جانتا ہے.مگر میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ واہ بھائی جی واہ.جاتے جاتے بھی اپنے منصور کی ضیافت کر گئے.کتنا خیال رہتا تھا اُن کو میرا.جان مالک حقیقی کو پیش کر دی دوسری طرف اپنی محبت کا ایک اور نقش گہرا کر گئے.فقیرانہ دعا ہے کہ ؎ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے (منصور احمد بی ٹی ) ( یہ سب پیار کرنے والے اب ایک جگہ جنت الفردوس میں اکٹھے ہو نگے.اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے.آمین ) (287)
میرے تایا جی محترم شیخ غلام محمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو میں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے.ایک حق اللہ، دوسرے حق العباد حق اللہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت ، اس کی اطاعت، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر ، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے.گویا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو سکنے میں تو یہ دو ہی فقرے میں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی ( ملفوظات جلد چهارم : ۲۱۴) مشکل ہیں.“ نیز فرماتے ہیں: "پھر میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کیلئے کچھ بھی ہمدردی نہیں.اگر ایک بھائی بھو کامرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کیلئے تیار نہیں ہوتا.یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں.حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبر گیری اور اُس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شور با زیادہ کرلو تا کہ اُسے بھی دے سکو.اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں لیکن اس کی کچھ پرواہ نہیں.یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی میں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں “ (ملفوظات جلد چہارم : ۲۱۵) (288)
ملفوظات کے یہ حوالے میں نے اس لیے تحریر کئے ہیں کہ کبھی کبھی زندگی میں ایسے ایسے لوگ یا رشتہ دار ملتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کے ان ملفوظات کی تصویر ہوتے ہیں.جوحقوق اللہ اور حقوق العباد پر پورے اترتے ہیں.ہماری جماعت میں ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ ہونگے.میں اپنی یادوں کا ایک اور پنا کھولتی ہوں اور اُن بزرگوں کی مثال تحدیث نعمت کے طور پر پیش کرتی ہوں جنہوں نے یہ احسن سلوک ہمارے ساتھ کیا.جیسا کہ میں پہلے لکھ چکی ہوں کہ قیام پاکستان کے بعد جب ہم نے فیصل آباد میں آکر رہائش اختیار کی تو ہمارا گھر بالکل ہماری احمد یہ مسجد کے سامنے تھا اور مسجد کے سامنے ہی میرے ابا جان کی دکان تھی جس میں وہ بک بائنڈنگ کا کام کرتے تھے.ابا جان کے ساتھ اُن کے خالہ زاد بھائی شیخ غلام محمد صاحب مرحوم بھی کام کرتے تھے.تایا جی اور ابا جان نے ایک ساتھ ہی بیعت کی تھی.اُس وقت سے ان دونوں بھائیوں میں سگے بھائیوں سے بھی زیادہ پیار تھا.صرف فرق یہ تھا کہ میرے ابا جان کی شادی قادیان میں اُس وقت کے لحاظ سے پڑھی لکھی لڑکی سے ہوئی جبکہ میرے تایا جی کے والدین بھی گاؤں کے رہائشی تھے اور شادی بھی ایک غیر احمدی گاؤں کی لڑکی سے ہوئی تھی جو شادی کے بعد احمدی ہو گئی تھی.اب ہم فیصل آباد میں تھے تو یہاں بھی میرے تایا جی کی فیملی پاس کے گاؤں میں رہتی تھی.تایا جی کی بیوی اور بچے تو گاؤں میں رہتے تھے مگر ہمارے تایا جی مسجد میں سوتے تھے.پانچ وقت کی اذان دیتے تھے.دھیمے مزاج ، ہمدرد اور نیک انسان تھے.ابا جان اور تایا جی کا آپس میں بہت پیار تھا.ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ دونوں سگے بھائی نہیں ہیں.قیام پاکستان کے بعد تو ابا جان کے مالی لحاظ سے حالات بہت ہی خراب رہے.جس بھی کام کو شروع کرتے کہیں بھی کامیابی نہیں ہوتی تھی.پھر فرقان فورس کا پروگرام بن گیا.جب وہاں سے واپس آئے تو اپنے بھائیوں سے مشورہ کیا تو اُن سب کی رائے کے مطابق افریقہ کا پروگرام بن گیا.کیونکہ میرے سب تایا، چا مع اپنی فیملی کے وہیں تھے.اس لیے گھریلو حالات سدھارنے کا ایک (289)
یہی بہتر راستہ تھا.اباجان نے اللہ تعالیٰ کے بعد میرے تایا جی کو ہمارا نگران بنا یا اور چلے گئے.تایا جی خود بھی مالی لحاظ سے ہماری ہی طرح تھے.فرق صرف یہ تھا کہ اُن کی فیملی گاؤں میں تھی اور گاؤں کی زندگی شہروں سے بہت مختلف ہوتی ہے.وہاں اُن کو وہ مشکلات نہیں تھیں جو ہمیں تھیں.دودھ، دہی، سرسوں کا ساگ ، سبزی ہکئی کا آٹا اور جلانے کیلئے ایندھن وغیرہ سب وہاں با افراط تھا.تا یا جی اور اُن کی فیملی نے حقوق العباد کا حق ادا کیا.گاؤں سے ہمارے لیے ہر وہ چیز آتی تھی جس کی ہمیں ضرورت ہوتی.تایا جی ہر جمعہ کو اپنے گھر جاتے تھے اور واپسی پر ہماری تائی اور تایا جی سروں پر ایندھن کے بورے اُٹھائے آتے.اکثر ساگ ہکئی کی روٹی اور مکھن وغیرہ بھی لیکر آتے.جب ابا جان افریقہ گئے تو میرا بھائی بہت چھوٹا تھا بلکہ کچھ مہینوں کا تھا.تایا جی اُس کو بہت پیار کرتے اور اکثر رات کو اُسے گود میں لیکر باہر سیر کروا کر لاتے.تایا جی کھانا ہمارے ساتھ ہی کھاتے تھے.ہماری امی جان اُن کو سالن اور روٹی دیتیں تو کبھی دوسری بار نہ مانگتے جتنا بھی ڈال دیا بس وہ کھا کر اُٹھ جاتے.امی بہت کہتیں کہ بھائی اور لے لیں مگر شائد وہ جانتے تھے کہ اس سے زیادہ ہوگا ہی نہیں.جتنا مناسب ہوگا اتنا دے دیا، بس وہی کافی ہے.میری امی جان صحابی حضرت مسیح موعود کی بیٹی اور مربی بھائیوں کی بہن تھیں.چونکہ قادیان کی تعلیم یافتہ تھیں اس لحاظ سے پردہ کی بہت پابند تھیں.ہمارے تایا جی اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے.جب بھی وہ گھر آتے ہمیشہ دروازہ میں پہلے آواز دیتے پھر تھوڑی دیر رک کر انتظار کرتے اور ہماری آواز پر کہ تایا جی آجائیں، گھر میں قدم رکھتے.یہ تو میرے تایا جی تھے مگر ابا جان کے دوست احباب نے بھی حقوق العباد ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں آنے دی.گھر کے سامنے مسجد کی دیوار کے ساتھ چاچا جی عبدالکریم صاحب مرحوم کی دوکان تھی جہاں وہ درزی کا کام کرتے تھے اور ساتھ ہی چاچا جی شیخ محمد یوسف صاحب مرحوم کا چینی کا ڈ پو تھا.ہماری اُس وقت کی غربت میں اُنہوں نے بھی پورا پورا ساتھ دیا.اُن دنوں چینی کھد رقسم کی بوریوں (290)
میں آتی تھی ، چاچا جی یوسف صاحب نے وہ کھدر ہمارے گھر بھجوادیا کہ بچوں کے گرم کپڑے بنا لیں.چاچا جی فضل کریم صاحب جب رات کو دوکان بند کرتے تو شام کو ایک سلائی کی مشین ہمارے گھر بھجوا دیتے کہ رات کو بچوں کے کپڑے سی لیں اور صبح آ کر مشین لے لیتے.ہماری امی جان رات بھر بیٹھ کر سلائی کرتیں.آج جب میں یہ سب لکھ رہی ہوں تو آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے.سوچتی ہوں کن کن تکلیفوں اور مشکلات میں ہماری ماں نے وقت گزارا ہوگا.اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی سہولتیں عطا کی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ میرے والدین کو اجر عظیم عطا فرمائے.یہ واقعہ میں کئی بار لکھ چکی ہوں جتنی بار بھی لکھوں مجھے کم لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا احسان ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا سوائے دعا کے.مکرم مولوی اسماعیل صاحب دیا گڑھی مرحوم اور اُن کی بیگم خالہ جی کا ذکر نہ کروں یہ ممکن نہیں.اُن کی آنکھ ہر وقت ہمارے گھر پر ہوتی تھی.ہماری کوئی بھی ضرورت ہواُس کو پورا کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے.خاص طور پہ جب میرے ابا جان محاذ پر گئے تو بعد میں میرے بھائی محمد اسلم خالد کی پیدائش ہوئی.اُس مشکل گھڑی میں انہوں نے ہماری امی جان کی پوری مدد کی.اس طرح ہماری امی جان اپنی جفا کشی اور اپنے محسنوں کے حسن سلوک سے اُس مشکل ترین وقت سے گزریں.آخر ابا جان کے منی آرڈر آنے شروع ہو گئے تو ابا جان کی رضا مندی سے ہمارے تایا جی نے ہماری فیملی کو ربوہ منتقل کر دیا.ہمیں ربوہ منتقل کرنے کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ تایا جی نے ہمیں چھوڑ دیا بلکہ وہاں ربوہ میں بھی ہمیں مستقل گاؤں سے ساگ ہمکئی کی روٹیاں، گنے کے رس کی کھیر اور گنوں کی ترسیل جاری رہی.میرے تایا زاد بھائی تیس یا چالیس میل کی مسافت سائیکلوں پر طے کر کے یہ سب دینے آتے تھے.اتنا ہی نہیں پھر وہ ہمیں اپنے گاؤں بھی لیکر گئے.وہاں میرے تایا زاد بھائی اور بہن کی شادی تھی جو ہمارے لیے بالکل نیا تجربہ تھا.گاؤں کی زندگی ہماری زندگیوں سے بہت مختلف تھی.ہم نے وہاں کھیتوں میں جا کر کپاس کے ڈوڈوں میں سے روٹی نکالی، تازی تازی مولیاں زمین سے (291)
نکالیں، ساگ تو ڑا، گنے توڑے، غرض بہت مزے کیے.پھر سب سے بڑی بات بھینسوں کا دودھ دوھنا وغیرہ ، پھر اُس دودھ کو مٹی کی بڑی ساری ہنڈیا میں مٹی کے چولہے پر رکھ کر پکایا جاتا ، دن بھر پک پک کر اُس کے اوپر جو ملائی آتی اُس کا دہی بنایا جاتا اور صبح ہی صبح اُس کا مکھن بنتا.باقی کی لسی محلے والے لینے آتے یا خود بھی استعمال کرتے.پھر ہمیں جو ہماری تائی جی نے گرما گرم مکئی کی مکھن لگی روٹی او پر سرسوں کا ساگ او پر پھر مکھن اور گھر کی بنی سی کے ساتھ دیا، اُس کا مزا آج بھی سوچ سکتی ہوں.سب سے مشکل تھا اُ پل تا پنا اورگاؤں میں ٹائلٹ کا نہ ہونا.لیکن پھر بھی ہم نے اس گاؤں میں بہت بہت مزے کئے.گاؤں کی شادیاں بھی دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے تایا جی کو بہت فرمانبردار، نیک اور دین دار اولاد سے نوازا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ” جب لندن تشریف لائے تو اُن کے بچوں نے اُن کو ایک جلسہ سالانہ پر لندن بھی بھجوایا وہ یہاں آکر میرے امی ابا جان کے پاس ہی رہے.اباجان نے اُن کو پورے لندن کی سیر بھی کروائی.ایک چھوٹا سا لطیفہ بھی لکھ دیتی ہوں.تایا جی باہر جاتے ہوئے تو قمیص شلوار پہن لیتے تھے مگر گھر میں وہ اپنی وہی دھوتی پہنتے تھے.خالد کے بچے بہت چھوٹے تھے.ایک دن اپنی دادی اماں کو پوچھنے لگے دادی جان یہ والے دادا جی سکرٹ کیوں پہنتے ہیں؟ یہ بات بچوں کو سمجھانی بہت مشکل تھی کہ یہ سکرٹ کیوں پہنتے ہیں.میرے تایا جی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ہر بات پر پورا اترنے والے انسان تھے.سکول کی ایک جماعت بھی نہیں پڑھے تھے مگر دعوت الی اللہ کا انہیں بہت شوق تھا.کوئی مخالف اُن کے آگے ٹھہر نہیں سکتا تھا.ہر مسئلہ کا جواب اُن کے پاس موجود ہوتا.ساری زندگی مسجد میں اذانیں دے کر اور مسجد کی خدمت کر کے گزار دی.بہت مدت ہوئی سب نے گاؤں چھوڑ دیا ہوا ہے.اب آدھی سے زیادہ اولاد جرمنی میں مقیم ہے اور باقی فیصل آباد کریم نگر میں آکر آباد ہو گئے ہیں.میرے تایا جی مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑے اعزاز سے بھی نوازا ہے، اُن کے بیٹے عبد (292)
الستار صاحب کے 28 سالہ بیٹے مکرم عبد الوحید صاحب ( یعنی تایا جی کے پوتے ) کو کریم نگر میں قصائی کی چھریوں سے مار مار کر شہید کر دیا گیا.آپ کے تین چھوٹے بچے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اُس عظیم بیٹے کو اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے شہادت کا رتبہ نصیب کیا.گو یہ بہت بڑا غم اُن کی ساری فیملی کیلئے تھا مگر یہ غم بھی انہوں نے بڑی ہمت اور حوصلہ سے برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے.لیکن عبد الوحید کی والدہ یہ غم نہ برداشت کر سکیں کچھ ہی عرصہ بعد اپنے بیٹے کے پاس جنت میں چلی گئیں.تا یا جی اور وہ سب لوگ جنہوں نے ہمارے ساتھ احسن سلوک کرتے ہوئے اور حقوق العباد پر عمل کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دیا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اُن سب کو اجر عظیم عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے.آمین.(293)
میرے بہن بھائی ماشاء اللہ ہم چار بہنیں اور ایک بھائی ہیں.سب سے بڑی بہن سیدہ شمیم صاحبہ اہلیہ شیخ عبدالمجید صاحب جنہیں پیار سے سب چھیمو ، کہتے تھے.ایک مرتبہ امی نے کوئی چھوٹی سی چیز دی کہ یہ لو ساتھ والی خالہ کو دے آؤ لیکن ہاں کوئی بھی کھانے والی چیز کسی سے بھی لے کر مت کھانا ، جو بھی کھانا ہوگا وہ میں تمہیں لے کر دوں گی.چھیمو بھاگی ہوئی ساتھ والی خالہ کو وہ چیز دے کر آگئی اور بہت خوشی سے بتایا کہ خالہ آم کھا رہی تھی مجھے دیا اور میں نے نہیں لیا امی اب آپ مجھے آم دیں.اُمی نے کہا کہ تم کھڑکی میں سے دیکھو جب آم والا آئے گا تو مجھے بتانا.امی جان پاس ہی کام کر رہی تھیں.امی جان کی توجہ نہیں رہی کہ بچی کھڑکی میں کھڑی ہے.آچانک نیچے سے شور کی آواز آئی جب باہر جھانکا تو اپنی ہی پیاری بیٹی نیچے خون میں نہائی نظر آئی.وہ سر کے بل گری پڑی تھی اور سرکھل کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا.اس کی کافی حد تک تفصیل پہلے لکھ چکی ہوں.پندرہ دن کومہ میں رہنے کے بعد میری بہن نے جب آنکھ کھولی تو پہلا لفظ اللہ کہا.دو ماہ ہسپتال میں رہ کر آئی.اپنی ڈاکٹر کا نام آج تک نہیں بھولی (انگریز ڈاکٹر مس براؤن ).الحمد للہ گرنے سے بظاہر تو کوئی اتنا بڑا فرق نہیں پڑا صرف اتنا ہوا کہ بات کرنے کی صلاحیت تھوڑی سی کم ہو گئی.بات تھوڑی اٹک اٹک کے کرنے لگیں لیکن باقی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے مزید بڑھا دیں تعلیمی لحاظ سے مڈل تک تعلیم حاصل کر لی.اُس کے ساتھ ساتھ جو شوق تھے وہ بہترین کپڑے کی گڑیاں بنانا، انڈوں کے خول لیکر اُن کے اندر روٹی بھر کے گڑیا کا خوبصورت منہ بنانا، اُن کے کپڑے سینا، پتوں کے اپر نیل پالش لگا کر اُن کی جیولری بنانا.ہارسنگار کا بھی بے حد شوق تھا.پورا دن اُس کا اِن ہی کاموں میں گزرتا.گھر کے کاموں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی جس سے اُس بے چاری کو ڈانٹ پڑتی تھی.اُس کی نسبت میں (294)
جس کو نہ پڑھائی ، سلائی ، سنگار کسی بھی طرح کا کوئی شوق نہیں تھا.شوق تھا تو صرف گھر کے کاموں کا اور صفائی کا.کچے گھر تھے.اُن کی لپائی کرنا ، دیواروں کی لپائی صحن کی لپائی ہٹی کے چولہوں کی لپائی، کپڑے دھونا.غرض تمام وہ کام جو مشقت والے ہوں اُن کو کرنے میں مجھے مزا آتا تھا.آپا کو ڈانٹ پڑتی تھی کہ تم بھی کوئی کام کر لیا کرو جبکہ میں کسی کو کرنے ہی نہیں دیتی تھی.ان ساری مشقتوں کا مجھے صرف یہ ہی ایک فائدہ تھا کہ میں پھر تھک ہار کے ناول اور افسانے پڑھ سکتی تھی.وہ نازک سی خوبصورت چھیمو جوان ہو گئی جو میری آپا ہے.بہت نیک دین دار دعاؤں میں نمازوں میں کسی طرح کمی نہ آنے دیتی.اُن دنوں میں حضور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ملاقات اتنی آسان نہیں ہوتی تھی.ایک تو آپ کی ناساز طبیعت کی بھی ایک وجہ تھی دوسرے اتنے لوگ ملنے والے ہوتے تھے کہ جلدی جلدی ملاقات ہوئی مشکل تھی.مگر میری آپا نہ معلوم کیسے ملاقات کا وقت لے لیتی تھیں.ساتھ تبرک بھی لینا نہیں بھولتی تھیں.آپا اب چھیمو نہیں تھیں بلکہ وہ اب سیدہ شمیم ہوگئی تھیں.اُن کی شادی ایک بہت ہی معزز خاندان میں ہوئی.بھائی جان بھی انتہائی مخلص، جماعتی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہنے والے تبلیغ کا بے حد شوق ، ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہیں." آیا، حضرت خلیفہ المسح الثالث سے ملاقات کا ایک واقعہ یوں بیان کرتی ہیں : ” جب ہم پنڈی میں تھے تو شیخ صاحب کے کام کے بارہ میں بے حد پریشان تھے جب کام نہیں تو مکان بھی نہیں ہوتا تھا.چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بے سروسامانی کی حالت میں تھے.حضور کا قیام اُن دنوں مری میں تھا.ہم ملاقات کیلئے گئے.جب میں اندر حضور کے سامنے گئی تو بے اختیار رونے لگی.دعا کیلئے الفاظ نہیں تھے ، پاؤں میں گر گئی.اتنا روئی کہ حضور کا چہرہ بھی سرخ ہو گیا.مجھے کہا کہ بیٹھ جاؤ.میں بیٹھ گئی.آپ نے مجھے اپنا رومال دیا کہ یہ رومال تم لے لو.مجھے اتنی سمجھ نہیں (295)
آئی ، میرا جواب تھا نہیں آپ رومال رہنے دیں بس دعا کر دیں.حضور نے فرما یا رکھ لو یہ تبرک ہے.میں نے جلدی سے پکڑ لیا.پھر حضور نے اپنی ایک سرخ رنگ کی ڈائری نکالی اُس میں ہمارا نام لکھ لیا.اُس ملاقات کے بعد جیسے ہماری زندگی ہی بدل گئی.شیخ صاحب نے فیکٹری میں 25 ( پچیس سال نوکری کی.جس نے بھی نکالنے کی کوشش کی اُس کا انجام خراب ہوا.یہاں تک کہ ایک مخالف ہر وقت گالیاں دیتا اور کہتا تھا کہ میں تمہاری ناک کاٹ دونگا.اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اُس کا ایکسیڈنٹ ہوا اور ناک کٹ گئی.پھر وہی کہنے لگا آپ سچے آپ کا پیر سچا.ہمارے ساتھ اس طرح کے بے شمار واقعات ہوئے جن سے زندہ خدا کے زندہ نشانات دیکھنے کو ملے.الحمد للہ ہمیشہ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اپنے حلقہ میں پانچ سال بہترین صدر کا سرٹیفیکیٹ ملا.سیکرٹری تربیت اور خدمت خلق کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں.اوجڑی کیمپ کا واقعہ ہوا جو بہت ہی افسوس ناک تھا.کہتی ہیں کہ میری ڈیوٹی صدر ہسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال پر لگی.پوچھتے پوچھتے میں ایک رشید نامی مریض کے پاس جب پہنچی اور پوچھا کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ؟ وہ بہت تلخی سے بولا تم میرے لیے کیا کر سکتی ہو یہاں جو بھی آتا ہے تصویریں بنوا کر چلا جاتا ہے.تم عورت ہو کر کیا کر سکتی ہو؟ جاؤا پنا کام کرو.میں نے جب بہت اصرار کیا تو کہنے لگا تین دن سے میں شدید تکلیف میں ہوں میرے کندھے کے اندر گولی ہے جس کو کوئی ڈاکٹر سنجیدگی سے نہیں لیتا.آتے ہیں پوچھ کر چلے جاتے ہیں.میں نے جواب دیا تم فکر نہ کرو میں تمہاری مدد کروں گی.وہ طنزیہ مسکرایا.میں نے اپنے ہیڈ کوارٹر اطلاع کی اور مریض کی تکلیف بتائی.تھوڑی ہی دیر کے بعد ڈاکٹر محمود الحسن صاحب تشریف لے آئے.اُن کو دیکھ کر ہسپتال کے تمام ڈاکٹر اکٹھے ہو گئے.اُس مریض کا فوری آپریشن ہوا.دوسرے دن جب (296)
میں اُس کے پاس گئی تو وہ مجھے دیکھ کر حیران ہور ہا تھا کہ یہ معمولی سی عورت ہے جس نے اتنا بڑا کام کر دیا.میں نے پوچھا رشید صاحب کچھ اور چاہئے تو جواب تھا صرف جوس اور بہت بہت شکریہ.پھر میں نے اُس کو بتایا کہ میں جس جماعت سے تعلق رکھتی ہوں یہ سب اُس کی وجہ سے ہے میں تو صرف ڈیوٹی پر ہوں.الحمد للہ ہمارے کام اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور اُسی کی سب برکتیں ہیں.جرمنی میں سمعی بصری کا بہت کام کیا.1982ء سے 2003ء کے تمام خطبات سن کر ہم دونوں میاں بیوی نے مختصر کر کے کیسٹوں کی شکل میں ریکارڈ کئے.ان دنوں جماعتی طور پر اشاعت کے کام میں بہت مصروف ہیں.جرمنی میں عورتوں کے میگزین خدیجہ میں کتابت بھی کرتی ہیں اور مضمون بھی لکھتی ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کی کتاب ”سیرت خاتم النبیین کومختصر کر کے سیرت حضرت رسول کریم سنایی پیام پر کتاب لکھی ہے جو کہ شائع ہونے کیلئے جاچکی ہے.اب اُس کتاب کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا جائے گا.وو کہتی ہیں: دس سال سے اپنے شوہر کے تمام وہ مضمون جو وہ لکھ کر مختلف اخباروں کو چھپنے کیلئے ارسال کرتے ہیں اُن سب کی کتابت اور پروف ریڈنگ اور E.mail میں کرتی ہوں.تین چار اخباروں میں ویکلی مضمون جاتے ہیں.ایک دو میں ڈیلی اشاعت کیلئے جاتے ہیں.بھائی جان کو کمپیوٹر پرلکھنا کھایا.ابھی ابھی محترمہ امتہ ائی بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی " پر مضمون ٹائپ کر کے دے چکی ہوں.ساتھ میں رشتہ ناطہ اور وصیت کی سیکرٹری بھی ہوں.“ پچھلے دنوں میرا جرمنی جانا ہوا تھا، آپا کا آفس دیکھا.اُس کو آفس نہیں بلکہ پریس کہنا چاہئے.چاروں طرف کتابیں، پیپر، دو کمپیوٹر، پرنٹر.اگر پرنٹر میں انک ختم ہوگئی تو وہ خود ہی اُس میں inject کرتی ہیں.غرض دونوں میاں بیوی دن رات خدمت دین میں مصروف ہیں.میں نے دیکھا کہ (297)
جب بھی رات کو آنکھ کھلی تو دونوں میاں بیوی بیٹھے ہیں اور کمپیوٹر چل رہے ہیں.مجھے یقین نہیں آیا یہ وہی چھیمو ، ہے نازک سی جس کے سر پر بہت گہری چوٹ آئی تھی ، اُس میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور قابلیت کی sim ڈال دی ہے.آج سچ پوچھیں تو میں اپنی بہن پر بہت فخر محسوس کرتی ہوں.تقریباً 76 سال کی عمر میں یہ سب سیکھ کر اُس نے اپنے بڑھاپے کو کارآمد ہی نہیں بنالیا ہے بلکہ بہت سے بڑی عمر والوں کیلئے نمونہ بن گئی ہیں.greeting card وہ خود بناتی ہیں ، غرض یہ جو میں لکھ رہی ہوں تھوڑے کام ہیں.وہ تو اپنی کتاب خود لکھیں تو بات بنتی ہے.آپا کے ماشا اللہ چار بچے ہیں.بیٹا شیخ عبدالوحید ان کی بیگم امتہ العظیم، بیٹا شیخ سلیم احمد ان کی بیگم شگفتہ، بیٹی قراۃ العین اہلیہ شمائل، بیٹی خولہ مجید صاحبہ.الحمد للہ سب صاحب اولاد ہیں.مجھ سے چھوٹی بہن امتہ العزیز صاحبہ اہلیہ منظور احمد صاحب.یہ بہن مجھ سے چھ سال چھوٹی ہے.میرے بعد میرا بھائی رشید پیدا ہوا تھا جو چھ ماہ کا ہو کر فوت ہو گیا تھا.یہ بہن ہم دونوں بڑی بہنوں سے اچھی رہی اور اس نے اپنی تعلیم مکمل کی.عزیز امی جان کی طرح ہی بہت باہمت اور ارادوں کی بہت مضبوط ہے.جس کام کا سوچ لیتی اُس کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے.یہ بچپن سے ہی بہت محنتی تھی.جیسے میں گھر کے کاموں میں زیادہ امی جان کا ہاتھ بٹاتی تھی اس طرح یہ باہر کے کاموں میں مدد گار تھی.جب تک خالد بڑا نہیں ہوا باہر بازار کے کام عزیز ہی کرتی رہی عزیز کے سہارے کیلئے بشری بھی ساتھ ہوتی.چھوٹے بڑے کام عزیز کے سپرد ہوتے تھے.یہ میں ربوہ میں شروع کے دنوں کی باتیں کر رہی ہوں.ربوہ والے گھر جس کے گھنے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر گرمیوں میں ہم سب ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے ساتھ کھیلتے.کیرم بورڈ اور لوڈو کی بازیاں ہوتیں.ڈھیروں خربوزوں کے بیچ کھاتے.وہ درخت بھی تو اِن نے منے ہاتھوں کا ہی لگایا ہوا تھا.عزیز بڑی تھی ، بشری اور خالد دونوں کا ساتھ (298)
تھا.باہر کھلے میدان سے بالشت بھر کیکر کا پودا نکال کر لائے تھے جس نے ہماری گرمیوں کی تبتی دھوپ میں سایہ کا کام کیا.پنکھے تو ان دنوں میں ہوتے نہیں تھے لیکن ان ننھے ہاتھوں سے لگایا ہوا یہ درخت ہمارے لیے باعث رحمت بنا رہا.قوت برداشت انتہا کی تھی.صبر وشکر کرنے والی اور کم گوعزیز کی شادی بھی ایک بہت بڑے کنبہ میں ہوئی.جوائنٹ فیملی میں بھی بہت سے لوگ دیور، جیٹھ، دیورانی ، جیٹھانی ، شادی شدہ نند ، سب کے ایک دو بچے بھی تھے.یہ سب ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے.اسی گھر میں میری بہن نے اسی ماحول میں اپنے دونوں بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی.الحمد للہ خود بھی دین کے کاموں میں ہمیشہ سرگرم رہی ہے.اپنے حلقہ دارالذکر قیادت کی ایک لمبے عرصہ سے ناصرات کی سیکرٹری مال کے طور پر ذمہ داری ادا کر رہی ہے.عزیز اور منظور اس وقت گھر کے بڑے اور سر براہ ہیں اور اُن کے گھر میں بڑوں کا درجہ ماں باپ کا ہی ہوتا ہے اس لیے ہر بڑے کام کو کرنے سے پہلے ان بڑوں کا مشورہ لینا ضروری ہوتا ہے.میں نے لندن میں رہ کر اپنے پانچ بچوں کی شادیاں کی ہیں اور الحمد للہ پانچوں بچوں کی شادیوں میں میری بہن نے پاکستان میں رہ کر میری بے حد مدد کی.اللہ تعالیٰ اُس کو جزائے خیر دے.ماشاء اللہ اس کے دو بچے ہیں بیٹی حمیرا اہلیہ ناصر احمد ( ماشاء اللہ ان کے تین بچے ہیں ) بیٹا کاشف منظور احمد.یہ سب بچے شارجہ میں رہتے ہیں.چوتھے نمبر کی بہن بشری عنبر اہلیہ رفیق احمد صالح صاحب ہے.بشری میری سب سے چھوٹی اور لاڈلی بہن تھی.لیکن ہوا یہ کہ جیسے ہی اُس کی شادی ہوئی اُس کے کچھ دنوں بعد ہی اُمی ابا جان لندن آگئے.اسطرح وہ بابل کے گھر سے پوری طرح وداع ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے جلدی جلدی چار بچوں کی ماں بھی بنا دیا.اُس کی صحت کافی خراب رہنے لگی.یعنی سر میں شدید درد، در دشقیقہ جو برداشت سے باہر ہو جاتی تھی.مکرم رفیق صاحب (میرے بہنوئی ) نے وہاں کافی علاج کروایا لیکن کوئی فرق نہیں ہوا.پھر رفیق نے اُس کو تین ماہ کیلئے لندن بھجوایا تا کہ وہ اپنے والدین کو بھی مل لے اور کوئی (299)
علاج بھی ہو سکے.وہ تین ماہ میری بہن یہاں لندن میں ہمارے پاس ہی رہی.زیادہ وقت میرے ساتھ ہی گزارا.وہ بہت چھوٹے چھوٹے چار بچوں کو چھوڑ کر آئی تھی.بچوں کو بے حد یاد کرتی تھی لیکن ساتھ ہی وہ اپنے شوہر کی بھی شکر گزار تھی جس نے اتنے چھوٹے بچوں کو سنبھالنے کی ذمہ واری لی اور اُس کو اپنے والدین کی ملاقات کیلئے یہاں بھجوادیا.ہم دونوں بہنیں رات رات بھر جاگیں اور اتنی باتیں کیں کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں.ہنسنا اور رونا بھی شامل رہا.بچھڑے لمحوں کو پل پل یاد کیا.ہم دونوں نہیں جانتے تھے کہ یہ پل دوبارہ زندگی میں کبھی نہیں آئیں گے.اُس کے لندن سے جانے کے دو تین سال بعد ایک دن فون کی گھنٹی بجی.فون اُٹھایا تو وہی ہنستی کھلکھلاتی ہوئی آواز ہنسی مذاق کی باتیں.آخر میں ایک دم چپ ہوگئی.کہنے لگی آپا آپ بیٹھ جائیں اب میں آپ کو ایک ایسی خبر سنانے لگی ہوں جس کیلئے آپ یقیناً تیار نہیں ہونگی.مگر بہت ضروری بات ہے جو سب سے پہلے آپ کو ہی بتا رہی ہوں.مجھے بالکل یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا انکشاف کرنے جا رہی ہے.میں پھر بھی اُس کی سنجیدگی کو نہ سمجھ سکی.تھوڑی دیر چپ ہو کر کہتی ہے آپا مجھے کینسر ہے اور کل میرا آپریشن ہے.اب آپ امی ابا جان کو جیسے بھی مناسب سمجھیں بتادیں.میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.کیا بتاؤں ایسے مواقع پر ہم دور بیٹھنے والوں کی کیا حالت ہوتی ہے.دعا ئیں ،صدقات جو کچھ ہوسکتا تھا، کیا لیکن وہ کہتے ہیں ناے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی وہ شاید ہماری تھی ہی نہیں.وہ شروع دن سے اللہ کی پیاری تھی.اُس کو تو اللہ ہم سب سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا.ہم گھر والے ہی نہیں اُس کو سب باہر والے بھی اُتنا ہی پیار کرتے تھے.ہرفن مولی تھی.کون سا کام تھا جو وہ نہیں کر سکتی تھی.پڑھائی میں گریجوایٹ تھی.سلائی کڑھائی ، صفائی ، کھانوں کی نئی نئی تراکیب کو آزمانا اُس کا شوق تھا.مزاح کی دلدادہ لیکن اپنے درد کو ہمیشہ چھپا کر رکھنے والی ،سب کے کام آنے والی میری بہن آج اس دنیا میں نہیں ہے.اُس کے نام کا پہلا حرف (300)
بشری کی (ب) لکھنا بھی میرے لیے انتہائی مشکل ہورہا ہے لیکن اُس کے بے شمار احسانوں میں سے صرف ایک کا ذکر کر دیتی ہوں.یہ پشاور کا ذکر ہے.جب لینی میری بڑی بیٹی کوئی پانچ یا چھ ماہ کی ہوگی.مہینہ کی آخری تاریخیں تھیں.ہم جیسے جوتنخواہ دار ہوتے ہیں اُن کیلئے یہ آخری تاریخیں بہت دشورا ہوتی ہیں.کچھ اسی طرح کی ہمیں بھی کوئی بہت بڑی پریشانی تھی.سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں کہ اچانک ایک دن صبح ہی صبح پوسٹ مین آیا کہ آپ کا منی آرڈر آیا ہے.ہم بہت حیران ہوئے کہ یہ کہاں سے ہوسکتا ہے.یہ منی آرڈر میری بشری نے بھیجا تھا.ساتھ ایک خط بھی ملاجس میں لکھا ہوا تھا کہ آپا کئی دنوں سے پیسے جمع کر رہی تھی کہ کوئی اچھی سی چیز خریدوں گی لیکن آج سوچ سوچ کر مجھے یہ ہی اچھا لگا کہ یہ رقم میں آپ کو ارسال کر دوں.ہو سکتا ہے آپ کو مجھ سے زیادہ ضرورت ہو یا پھر نیناں ( لبنی کا پیار کا نام ) کو میری طرف سے کوئی اچھا سا تحفہ لے دیں.اب اس وقت مجھے یہ یاد نہیں کہ رقم کتنی تھی.ہاں یہ ضرور یاد ہے کہ وہ اُس وقت ہمارے لیے لاکھوں تھے.سوچتی ہوں کتنی دور بیٹھی میری بہن اپنی ضروریات کو قربان کر کے اپنی بہن کے بارے میں سوچ رہی ہے.ایک بار ہی ایسے نہیں ہوا بلکہ میری بہنوں اور بھائی نے ہمیشہ ہی ایک دوسرے کو پیار بھی دیا اور ایک دوسرے کیلئے ایسے ہی سوچا.الحمد للہ.جب میری شادی ہوئی تو میرے تینوں بہن بھائی بہت چھوٹے تھے.اس لحاظ سے اُن تینوں کے ساتھ میرا بہت پیار بھی تھا.پھر اُسی طرح سامی صاحب نے بھی میری بہنوں اور بھائی کو ویسے ہی پیار دیا جیسے کہ کوئی سگا بھائی دے سکتا ہے.بشری کے ساتھ تھوڑا زیادہ اس لیے بھی کہ وہ لکھنے کا شوق رکھتی تھی اور سامی صاحب نے بھی اُردو میں ایم اے کیا ہوا تھا.لکھتے وہ بھی تھے اس لیے دونوں ہم ذوق بھی تھے جس کی وجہ سے ان کا قلمی رشتہ بھی تھا.آج بھی میرے پاس سامی صاحب کے لکھے ہوئے وہ خطوط، جو انہوں نے میری بہنوں اور خالد کے نام لکھے تھے ، موجود ہیں.یہ خط خطوط (301)
مجھے یادوں کے حسین سفر پر لے جاتے ہیں بشری کی شادی ہوئی اور اپنے پیا کے گھر گئی.اُس نے پوری کوشش کی کہ اپنے سسرال والوں کا دل جیت سکے اور اس میں کامیاب رہی.اللہ تعالیٰ نے بہت ہی پیارے چار ڈلاروں سے نواز امگر خود زندگی کی بازی ہار گئی.اُس کے غم میں میں نے اپنی ماں کو پگھلتے دیکھا اور اپنے باپ کو اپنی بیٹی کے غم میں گھلتے دیکھا ہے.ہم سب اُس شدید بیمار بچی سے بہت دور تھے.یہاں سے سب کا جانا بھی اتنا آسان نہیں تھا.ایک بار خالد ملنے گیا پھر سامی صاحب نے مجھے تیار کیا کہ جاؤ اپنی بہن کومل آؤ.میں ایک ماہ اُس کے پاس رہ کر آئی.بہت باتیں کیں ، دل کی باتیں پرانی اور نئی باتیں.اتنی تکلیف میں بھی میرا خیال رکھتی.سامی صاحب کا شکریہ ادا کرتی کہ بھائی جان نے آپ کو میرے لیے بھیجا ہے.میری بہن عزیز کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ اُس نے اپنی بہن کی بہت بہت خدمت کی.اپنا گھر اور بچے چھوڑ کر اُس مشکل وقت میں اُس کے بچوں کا سہارا بنی.بشری نے آخری سانس بھی اپنی بہن کے بازوؤں میں ہی لی.زیادہ کیا لکھوں بس سامی صاحب کا وہ مضمون جو اُس کی وفات پر انہوں نے لکھا تھا وہ لکھ دیتی ہوں: مکرمہ بشری رفیق صاحبه نسبت دور کی ہو یا نزدیک کی نسبت ہی ہوتی ہے.وہ تو تھی بھی میری نسبتی بہن یعنی مکرم رفیق احمد صالح صاحب آف اسلام آباد کی اہلیہ، مکرم شیخ محمد حسن صاحب لدھیانوی آف لندن کی بیٹی بشری بیگم جس نے لمبے عرصے تک کینسر جیسی موذی مرض سے جنگ کی اور بالآخر 29 ستمبر 1997ء کو عازم ملک عدم ہوئی.اس صابرہ شاکرہ کا ذکر خیر مجھ پر واجب ہے.اس لیے بھی واجب ہے کہ میرے ساتھ اس کا قلمی رشتہ بھی تھا.موصوفہ نے نصرت گرلز کالج ربوہ سے تعلیم و تربیت پائی اور ان تمام شمائل حسنہ سے خود کو سجایا جو اس مکتب کا خاصہ ہیں.پھر شادی کے بعد اپنی شگفتہ مزاجی ، فراخ دلی سے، مزاح سے اور مزاح کی گہرائی سے اپنے مجازی خدا کے گھر کے درودیوار کو آراستہ پیراستہ (302)
کیا.جہاں پھر غنچے کھلے، ہوا چلی، تازہ چمن ہوئے نرگس، گلاب و یاسمین، گل نسترن ہوئے انسانی زندگی اتار چڑھاؤ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی.اس کی زندگی میں بھی یہ سب کچھ تھا مگر گردشوں کو صبر وتحمل اور توکل کی مضبوط چٹان بن کر اُن کا رخ موڑ دیا کرتی تھی.اس کی نیکیوں اور حسن سلوک کی باتوں کو اگر موضوع بنایا جائے تو یہ بیان طویل ہو جائے گا.اس لیے اختصار کا سہارا لے کر اس کی زندگی کی شام سے شروع کرتا ہوں.وہ جب بستر مرگ پر تھی.اپنی بیماری کی نوعیت سے پورے طور پر آگاہ تھی.اُس نے اپنی بہنوں (صفیہ بشیر سامی ، امتہ العزیز منظور ) سے کہا؛ مجھے جانا تو ہے ہی، آخر سبھی کو جانا ہے.مجھے بچوں کے متعلق میرے شوہر رفیق نے کہہ رکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد تیری نگہداشت میں ہیں.اب جبکہ میری آگے جانے کی تیاری ہے.میں کس منہ سے انہیں کہوں کہ ان بچوں کا اب آپ نے خیال رکھنا ہے.اس لیے میں آپ بہنوں کو بھی نہیں کہتی کہ آپ خیال رکھنا.(اگرچہ آپ خیال رکھیں گی ) لیکن میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ میں کیوں نہ اپنے بچوں کو اس کے حوالے کر کے جاؤں جس نے مجھے دیے ہیں.اُس کی زندگی کی آخری صبح تھی.اُسے علم تھا کسی بھی لمحہ بلا وا آ جائے گا کہ اُس کی ممانی جو کہ اُس کی ساس بھی تھیں، کا انتقال ہو گیا.یعنی اس کے شوہر رفیق کی والدہ ماجدہ فاطمہ بیگم صاحبہ.اس حالت میں بھی اس کے صبر و ہمت کا اندازہ کرنا مشکل ہے جبکہ وہ اپنے شوہر کو اور اپنی چھوٹی بیٹی بینا کو اپنی ساس کے جنازے کے ساتھ ربوہ جانے کیلئے خدا حافظ کہ دیتی ہے.اور.....پھر......پہلا جنازہ ربوہ پہنچ چکا تھا.ادھر دن ڈھلا اُدھر اُس کی زندگی کی بھی شام ہوگئی اور وہ اس شام کے دھند لکے میں رخصت ہو گئی.اُس کے پاس اُس وقت اُس کی بہن امتہ العزیز ، بیٹا شمر اور عمر اور (303)
بیٹی سعدیہ موجود تھی.اس کا جسم خاکی ہسپتال میں پڑا تھا.خاندان میں سے کوئی بھی بڑا مرد وہاں موجود نہ تھا.سبھی ربوہ جاچکے تھے.اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے اُسے لاوارث نہیں چھوڑا.جماعت احمدیہ کے نظام کی برکت اللہ تعالیٰ کی مدد سہارا بن کر ظاہر ہوئی.اسلام آباد کی بہن صادقہ خالد صاحبہ نے لجنہ اور جماعت کے تعاون سے رات رات میں اس کی پالکی سجا کر صبح ہوتے ہی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد ربوہ روانہ کر دی.اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے پاس کن کن راہوں سے آتا ہے اور اپنی ربوبیت اور موجودگی کا پتہ دیتا ہے.زندگی بھر موصوفہ نے اپنوں اور بیگانوں کی خدمت میں ہی راحت پائی تھی.آج دم آخر بھی اس نے اپنا فرض ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور وہ حق ادا کر دیا جس کیلئے زندگی میں انسان کہہ دیتا ہے.حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا مگر جانے والی نے حق تو یہ ہے کہ حق ادا کر دیا اور یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ میں خود بھی کچھ لمحوں کی مہمان ہوں، میرا خاوند پاس نہ ہوا، میری نھی بیٹی میرے پاس نہ ہوئی تو کیا ہوگا؟ اللہ اللہ اللہ تعالیٰ کے سہاروں پر چلنے والے کیسے کیسے اپنی پہچان چھوڑ جاتے ہیں.اس کی بیماری جبکہ حد سے بڑھ چکی تھی اُس کا واحد بھائی محمد اسلم خالد لندن سے اُسے ملنے کیلئے حاضر ہوا.بشری نے اُسے اپنی خواب سنائی.وہ خواب اُسکی زندگی کا خلاصہ ہے ، اُس کی زندگی کا مطلوب ہے اور اُس کی زندگی کا حاصل.اس خواب کے بیان سے بڑھ کر مجھ جیسا انسان ذکر خیر کیلئے اور کیا الفاظ تراشے گا.وہ بیان کرتی ہیں کہ اُس نے خواب میں دیکھا: ایک شیشے کا جار (مرتبان ) ہے جو کہ سامنے دکھائی دے رہا ہے اور میں نے روزہ رکھا ہوا ہے.جار او پر کو چلا جاتا ہے.میں نے پھر روزہ رکھا، تو جار پھر سے اوپر چڑھ جاتا ہے.اس پر میں نے کہا اللہ میاں جی ! میں نے اتنی تضرعات کیں اور تو نہیں (304)
سنتا.اس پر جار پھر سے نیچے اترتا ہے اور اس میں سے آواز آتی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ بول رہا ہے: تیری تضرعات کو اور مسخر کر کے اور بھی کام دیں گے“.بشری نے اپنے بھائی کو بتایا کہ مجھے اس فقرہ کی نہیں سمجھ آئی.دراصل یہ خواب اور اس خواب کی کیفیت ہی اس کے اوصاف حمیدہ کے بیان پر محیط ہے.اس لیے کوئی لفظ زائد کئے بغیر یہی کہوں گا کہ ولایت اور بھلا کسے کہتے ہیں! اللہ تعالیٰ اس کو غریق رحمت کرے.اس کی تربت پر اس کے فضلوں کی بارشیں برستی رہیں اور اس کے بچوں کو اپنی کفالت اور حفظ وامان میں رکھے.برادرم رفیق احمد صالح کو صبر جمیل سے نوازے.انہوں نے اپنی اہلیہ کی بیماری کے دوران علاج معالجہ اور دعاؤں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی.جنت سے بشریٰ مرحومہ کا خط اپنے بچوں کے نام یہ خط سامی صاحب مرحوم نے بشریٰ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد اُس کے بچوں کے نام لکھا تھا: میرے پیار کے آنچل میں چھپے ہوئے ستارو! میں تم کو سلام کہتی ہوں.آج پھر وہی وادیاں ، وہی فضائیں، مچلتی ہوائیں اور خاموشیوں کی صدائیں، بلا رہی تھیں مجھے اسی لیے تو چلی آئی ہوں.بینا! کہاں ہو تم ، سعدی کو آواز دو.میں کب سے آواز میں لگا رہی ہوں.مجھے پتہ ہے تم جاگ رہی ہو اور وہ بھی سوئی ہوئی نہیں ہے.میں غسل خانہ سے فیقے کے نغموں کی گنگناہٹ بھی سن رہی ہوں.انکے گیتوں میں اب وہ پہلے سامدھر پن نہیں ہے.ایسے لگتا ہے جیسے کوئی نغمہ دو گھاٹیوں میں الجھ کر رہ گیا ہو اور کبھی تو ایسے بھی لگتا ہے کہ وہ کھنگ رہے ہیں یا گلے سے لتا منگیشکر کی آواز نکل رہی ہے.رفیع اور مکیش کی آواز میں سہگل (305)
اور طلعت محمود کی کا نپتی ہوئی آواز میں شامل ہو گئی ہیں.میں دیکھ رہی ہوں بینا ! تم نے کب سے ناشتہ چن رکھا ہے.پان دان بھی ساتھ ہے اور پیک دان بھی.تمباکو، کتھا، چھالیہ، چونا.یہی کچھ تو تمہارے ابو کو پسند ہے.مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان پچکاریوں کی رنگینی نے اُن کے موتی جیسے دانتوں کا کیا حشر کر رکھا ہے.ایک کے بعد ایک جھڑ رہا ہے.کیا میں سچ نہ کہا کرتی تھی کہ آپ مجھے یاد کیا کرینگے اور اُداسیاں بے چین کر دیا کرینگی.جب مجھے اپنے پاس نہ پاسکو گے تو ایسے میں کوئی دکھ بھرا گیت، کوئی پیار کا نغمہ گلے سے باہر نہیں نکل سکے گا.ایک گلوری ہی تو ہوگی جوحلق کا ساتھ دیگی یا پھر میری روح کی بے چینیاں ہونگی جو ساتھ دینگی اور زندگی کا احساس دلایا کرینگی اور ایسے لگا کرے گا جیسے میں پاس ہی تو ہوں.ہاں ! میں پاس ہی ہوں اور پاس نہیں بھی ہوں.اس لیے کہ میری آواز میں تو ہیں مگر آج ان کو آپ سن نہیں سکتے.وہ آوازیں جو آپ کے کانوں میں رس گھول دیا کرتی تھیں، آج فضاؤں میں تیر رہی ہیں.انہی یادوں کے پر وبال مجھے آج اُڑا لائے ہیں اور یہ بتانے آئی ہوں کہ میری تو ہر بگڑی بگڑی بنانے والے نے بنائی ہے.مجھے تو اس دنیا میں بھی ، جہاں سورج چمکتا تھا، چاندنی ہوا کرتی تھی ، ہوائیں چلا کرتی تھیں ، بارشیں برسا کرتی تھیں، برف گرتی تھی، کبھی کبھار آندھی اور جھکڑ بھی چلا کرتے تھے ،سب کچھ اُسی ذات پاک نے دیا تھا.کچھ پتا ہے آپکو یہاں آندھیاں نہیں اُٹھتیں، جھکڑ بھی نہیں چلتے.سورج اور چاند میں جو چمک دیکھا کرتی تھی وہ سچ سچ اُن کی اپنی نہیں تھی.وہ تو وہ تھی جو میں اب محسوس کر رہی ہوں.کاش میں تم سب کو بھی محسوس کروا سکتی، وہ روشنی کچھ اور ہی ہے جس کی ٹھنڈک میں خاص راحت اور لطف (306)
ہے.جب میں اُس گگن تلے رستی بستی تھی جس کے تلے میرا پیار پلا کرتا تھا، اُس سے بھی اُس نور کی تلاش میری جستجو ہوا کرتی تھی.کبھی کبھار اُس نور کی شعاع مجھ پر آن بھی پڑی تھی.بس اُس نور پر مرتی ہوں جسکی میں ہوئی ہوں.خدا کرے آپ سب بھی اُسی نور پر فدا ہوں.یقینا آپ کو بھی لازوال نعمتوں میں سے وافر حصہ ملے گا.اُسکی نعمتوں کا حساب نہیں.وہ کیا ہیں؟ وہ وہی ہیں جو قرآن پاک میں لکھی ہیں.اُن کو سمجھنے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ کے وعدے کتنے عظیم الشان ہیں.کس کس رنگ میں پورے ہوئے دیکھ رہی ہوں.سوچتی ہوں کونسا ئر نکالوں، کونسا راگ گاؤں کس کے پر الفاظ کے زیر و بم اٹھاؤں کہ ایک ایک بات آپ سب کے کانوں میں رس گھول دے.جس سے میں لطف اندوز ہوں، چلو تمہیں اب نوروں نہلائے ہوئے جم غفیر کا نظارہ کر دوں.وہ سب صورتیں میرے سامنے ہیں، جنہیں پہلے سے جانتی تھی اور وہ بھی جنہیں دیکھنے کی حسرت ہوا کرتی تھی.بس یہاں سب کی ایک ہی رٹ لگی ہے.سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم.سبھی ایک ہی چشمے سے آب کوثر اُڑا رہے ہیں.فیقے ! یہ سب کچھ ملتا ہے.جی بھر کر ملتا ہے.مگر جی کے مزاج بھی کچھ اور ہیں.جہاں سے جو بھی طلب شروع ہوتی ہے.وہ پھر دوسری طلب سے جاملتی ہے اسطرح یہ عمل جاری وساری ہے.اس لیے تو یہ لازوال نعمتیں کہلاتی ہیں.جو زندگی کا ایک لمحہ وارد ینے سے انسان کو ملتی ہیں.ہاں میں بھول ہی چلی تھی.ویسے یہاں کوئی بھی کچھ نہیں بھولتا.ایک طرح کی یکسوئی ہے.اور ہر کوئی اس کیفیت کے مزے لوٹ رہا ہے.ہاں تو میں یہ کہنا چاہتی تھی کہ میں فرفر عربی بولتی ہوں.(307)
یہاں کی زبان عربی ہے.جن کی ترجمانی بھائی جان کا قلم کر رہا ہے.بات چل نکلی ہے تو دو دو ہاتھ اُن سے بھی کر لیتی ہوں.یہاں کوئی ٹھنڈ ونڈ نہیں ہے بھائی.بس راحت ہی راحت ہے.یہاں کانپنے واپنپنے کی بھی ضرورت نہیں ہے.یہاں لطف و کرم کا امتزاج ہی ایسا ہے کہ روح کو گہرائی تک تسکین سے بھر دیتا ہے.یاد ہے نا سعدی ، بینا.جب تمہارے خالو اسلام آباد آئے تھے.کسقد رسردی تھی.اُس روز ہمارے چولہے کی لپٹ میں اتنی بھی سکت نہ تھی کہ چائے بن سکتی.میں تو شرمندہ ہی تھی کہ کیا کروں ؟ اور وہ سمجھ رہے تھے کہ میں چائے کے سارے آداب بھول گئی ہوں.بھلا ایسا بھی کیا تھا.میری تو زندگی کا ہر لمحہ مہمان نوازی کے آداب بجالاتے گزرا ہے.تمہیں پتا ہے نا ! سعدی، بینا، کتنے مہمان آجائیں اس چو لہے کی آنچ کا مزاج کبھی نہیں بگڑا تھا.کبھی اُس نے آنکھ مچولی نہیں کھیلی تھی.مگر اُس دن تو اُس نے کمال ہی کر دیا تھا.میں نے بھائی جان کو ادھر اُدھر باتوں میں لگائے رکھا تا کہ کسی طرح چائے کا دال دلیہ ہو جائے.اُدھر وہ شام بھی بہت ہی سر د تھی.اگر فیقہ جی لکڑی ، کوئلے میں پھونکیں نہ مارتے ، میرا تو بھرم دھرے کا دھرا رہ جاتا.مجھے کیا پتہ تھا.سچ سچ نہیں پتہ تھا کہ وہ رات پھر نہ آئے گی ، جیون بھر نہ آئے گی.مگر اسکے علاوہ وہ رات ضرور آگئی جس نے آخر آنا ہی تھا.جس رات کو میں اکثر رات سمجھا کرتی تھی.مگر جب دیکھا تو وہ اجالا تھی.نور ہی نور تھی.ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نومولود نے پہلی بارنٹی زندگی میں آنکھ کھولی ہے.اُس وقت مجھے ایسی راحت محسوس ہوئی اور ایسے لگا کہ میں جہان سے کیا اُٹھی کہ میرا نصیب ہی جاگ اُٹھا.وہ نصیب جس کیلئے ہر خواہش قربان کی جاسکتی ہے.تم بھی کوشش کیا کرو وہ نصیب پانے کیلئے جس میں (308)
یکسوئی ہے.اُس مہمان سرا میں جن نعماء کو ہم اپنا حاصل سمجھا کرتے تھے وہ سب کچھ ہیں.مگر وہ ویسی نہیں.وہ نور علی نور ہیں.بس اُسی کی عطا ہیں، جس نور پر ہم فدا ہیں.یہاں فدائیت کا بھی ایک اور ہی عالم ہے.جس کا مزہ بھی کچھ اور ہے.جب بھی پری بن کر تمہارے خوابوں میں اتر آیا کروں.وہ سب کچھ پوچھ لیا کرو.ڈھیروں باتیں ہیں اور اب تو میں تم سب کو بھی میں ڈھیر ہی لگتی ہوں ہٹی کا ڈھیر.مگر مٹی کا ڈھیر لگنے کی بات اور ہے اور حقیقت کچھ اور.میں تو اُس سویرے کی ایک نہلائی ہوئی کرن ہوں جو ایک پھیلتی ہوئی روشنی ہے.تم بھی تو اُسی کرن کی روشنیاں ہو.تمہارے خالو تمہیں ملنے آئے تھے.وہ ان چٹانوں کی اوٹ میں بھی آئے تھے.جن کی کوکھ میں اب میری سراء گاہ ہے.مجھے سلام کرنے آئے تھے.اُن کا سلام جب میری روح تک پہنچا تو میں خوشی سے اچھل پڑی اور پکاری ؛ یہ سلام کس نے آکھیا ہے.اس سلام نے میرے درجات کو اُوپر اُٹھا دیا تھا.تمہارے خالو دونوں ہاتھ اُٹھائے جانے کیا مانگ رہے تھے.مگر مجھے ساتھ ساتھ ملتا جا رہا تھا.اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے جو میری روح کو سیراب کر رہے تھے.اُسوقت میری روح میں بھی ایک ہلچل تھی.کہنے ہی والی تھی.ہم مرگئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر لیکن نہ کہہ سکی.آخر اتی دور سے سمندروں کو چیرتے ہوئے ، ہواؤں کے دوش پر اڑتے ہوئے میرے ہی لیے تو آئے تھے تو میں پھر اُن سے ایسا کیوں کر کہتی.(309)
میرے صابر و شاکر حوصلہ مند فیقو! جب بھی موقعہ ملے دعائے خیر کیلئے آیا کرو.تم عید پر آتے ہو.میں خوش ہوتی ہوں.میں اور بھی خوش ہوگی تم عید منا یا بھی تو کرو.تم سب کی بہت ذمہ داریاں بھی ہیں.اُن کو نبھانا بھی ایک عبادت ہے اور یہ عبادت میرے لیے دعا بھی ہے.سعدی، بینا کی علمی کامیابیوں پر خوش ہوں اور شمر کیلئے بے چین بھی.خدا کرے کہ وہ بھی قدم بقدم کامیابیاں حاصل کرے.کام کاج میں اُسکی لگن اپنی جگہ ہے لیکن اتنا مگن بھی نہ ہو کہ اپنی شدھ بدھ بھی نہر ہے.اپنی صبحیں عبادت سے سجاؤ.پھر خود کو بھی سنوارو.اُجلے ستھرے بن کر ، بودے شودے واہ کر سرمہ شرمہ پا کر باہر نکلو تا کہ باہر کی دنیا میں ہر چیز اُجلی اور ستھری دکھائی دے.عمر تم سے بھی کہتی ہوں.اچھے کھلاڑی بنو اور اپنے شوق پورے کرو.اُس سیٹ پر جاؤ جہاں انسان کو عزت اور شہرت ملتی ہے.تم بھی کوئی ایسی ہی سیٹ تلاش کرو.تم سے بھی یہی کہوں گی کہ اپنی ہر لگن میں خود کو نہ بھولو.چاہنے والی چیزوں کو اُس حد تک چاہو کہ تسکین بخشیں.مگر اس حد تک نہیں کہ تمہاری کامیابی کی راہیں روک کر کھڑی ہو جائیں.اللہ تعالیٰ تم سب کا نگہبان ہو ، حامی و ناصر ہو عالم ابدی سے (310) تمہاری امی جان
سعدی کا اپنی امی کو خراج تحسین آپ کو ایسی بیماری نے گھیر لیا ہے جو آپ کو چھوڑے گی نہیں“ ڈاکٹر نے افسردہ سے لہجے میں یہ انکشاف کیا..." کیا میرے بچنے کی کوئی اُمید ہے؟“ ایک بہت حوصلہ مند آواز ڈاکٹر کی سماعت سے ٹکرائی.ڈاکٹر حیران تھا کہ یہ خاتون کس طرح اپنی زندگی کے چند باقی دنوں کے بارے میں سوال کر رہی ہے.اُس نے بات بدلنے کیلئے کہا : آپ فکر کیوں کرتی ہیں معجزے بھی تو اسی دنیا میں ہوتے ہیں.“ اتنے میں ایک اور سوال جس نے ڈاکٹر کو جواب دینے پر مجبور کر دیا: آپ کی میڈیکل کیا کہتی ہے؟“ جی...میری میڈکل سائنس کے مطابق تو دو تین ماہ مزید اور...اور فضا میں خاموشی چھا گئی.وو اور پھر..اُس خاتون نے اپنا دایاں ہاتھ ڈاکٹر کی میز پر رکھتے ہوئے ، جس کی انگلی میں آلیس اللہ یکاف عبده چاندی کی انگوٹھی چمک رہی تھی، ڈاکٹر کو جملہ مکمل کرنے کیلئے نہایت حوصلہ مند اور مضبوط آواز میں پوچھا.اور پھر بس ! ڈاکٹر نے نظریں چراتے ہوئے کہا.وہ خاتون، وہ میری حوصلہ مندامی جب اپنی زندگی کے چند دن لے کر باہر آئیں تو اُن کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ تھی جیسے ڈاکٹر نے انہیں کوئی خوشخبری سنائی ہو.البتہ ابو کچھ بجھے ہوئے تھے.ہمارے پوچھنے پر ابو تو خاموش ہی رہے لیکن جب ہماری سوالیہ نظروں کوٹا لناممکن نہ رہا تو امی نے کہا: ڈاکٹر کہتا ہے ٹکٹ کٹاؤ.....تے لین بناؤ اور مسکرا دیں.(311)
یہ 14 جنوری 1997ء کی بات ہے.اس کے بعد علاج شروع ہوا تا کہ ان دو تین مہینوں کو کچھ وسعت دی جاسکے.کیونکہ اس سے قبل بھی امی کا ایک کینسر کا اپریشن اور Chemotherapy ہو چکی تھی اس لیے دوبارہ کرناممکن نہ تھا.اب دماغ کے کسی گوشے میں Secondaires نے سر اُٹھایا اُس کا صرف Radiotherapy ہی طریقہ علاج بچا تھا.چنانچہ وہ شروع ہو گیا.اس تمام عرصہ میں امی نے جس حوصلہ اور ثبات قدمی کا نمونہ پیش کیا اُس پر سب ڈاکٹر ز کا یہی کہنا تھا کہ موت کو اس طرح اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر یہ واحد خاتون ہیں جو اس قدر پر سکون ہیں اس ثابت قدمی اور حوصلہ کا کیا راز تھا؟ یہ وہ تو کل تھا جو امی کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا..یہ یقین اور کامل یقین تھا جو راضی برضا آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبدہ سے خوشخبریاں پا کر اور اپنے دل و دماغ پر لا إله إلا الله مُحمد رسُولُ اللہ کا نورسجا کر اس راستے پر چل پڑی تھیں جو اُن کو اپنے پیاروں سے پیارے کی طرف لے کر جارہا تھا.ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی.امی کے ایک طرف ہم تھے جو سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار تھے اور دوسری طرف وہ جو قربانی مانگ رہا تھا.یہ دو پیار کرنے والوں کے درمیان انوکھی ہی جنگ تھی جس کا مرکز ایک ہی ہستی ، میری امی تھیں.آخری سانس تک ہم نے جیتنے کی اُمید نہیں چھوڑی تھی.ہم نے اُسی ہستی کے آگے امی کی زندگی کی بھیک مانگی.ہم لڑے، ہم روئے ، ہم تڑپے، مگر جیت اُسی لا فانی ہستی کی ہوئی تھی.امی نے اس تمام عرصے میں نہ ہمارا ساتھ چھوڑا نہ اُس خدا کا.کبھی کوئی نا اُمیدی کی بات نہیں کی اور نہ ہی اُس ہستی سے ملنے کی امید کو چھوڑا.کبھی میرا دل چاہتا کہ تھک گئی ہوں گی تو میرے کندھے پر سر رکھ لیں لیکن امی کو خدائے واحد و یگانہ کے سوا اور کسی کے آگے جھکنا منظور ہی نہ تھا.کسی نے تعویذ دیا کہ آپ بے شک کھول کر دیکھ لیں اس میں کلمہ طیبہ ہی لکھا ہے.جسم کے ساتھ لگا رہے گا تو بیماری ختم ہو جائے گی ، تو امی نے یہ کہ کر کہ کلمہ تو میری روح پر لکھا ہوا ہے جسم تو مٹی کا ڈھیر ہے.اپنے ایمان کا ایسا معیار بتلایا کہ جو قابل رشک اور قابل تقلید ہے.امی کا یہی کامل ایمان تھا جو 29 ستمبر 1997ء کی رات ساڑھے گیارہ بجے امی کو ہمیشہ کیلئے امر کر گیا.(312)
میری سوچ جب بھی ماضی کے راستوں کا سفر کرتی اسلام آباد کے گھر پہنچتی ہے تو وہاں ایک نہایت خاموش طبع ، صابر، شاکر ، نہایت نرم دل خوش مزاج، خوش اخلاق ، ہر دلپسند ، ہر دلعزیز ، نہایت مہمان نواز ، کفایت شعار، عجز و انکساری سے بھر پور ، قناعت پسند، سلیقہ شعار اور گھر یلوسی بشری سے ملاقات ہوتی ہے.جس کی زندگی کے تین ہی ستون تھے.شوہر کی کامل فرمانبرداری ، بچوں سے بے لوث محبت اور گھر.ہماری زندگیوں کا وہ واحد سہارا، ہر خوشی ہر غم اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک ہی سوال ہوتا ہے اور ہمارے ہزاروں سوالوں کا ایک جواب: آلیس الله بکاف عبده....کیا اللہ اپنے بندے کیلئے کافی نہیں..میری امی کی بہت خواہش تھی کہ میرا آخری اور مستقل ٹھکانہ ربوہ میں ہی ہولیکن بظاہر ایسا ممکن نہیں لگتا تھا اس لیے کہ امی کی وصیت نہیں تھی.اللہ تعالیٰ نے اس وقت ایسے سامان پیدا کر دئے کہ ہم امی کو ربوہ ہی لیکر گئے.29 ستمبر کی صبح ہماری دادی جان بھی خدا تعالیٰ کو پیاری ہو گئیں تھیں اور سب رشتہ دار اُن کا جنازہ لیکر ربوہ چلے گئے.میرے ابو اور چھوٹی بہن بینا بھی دادی جان کے جنازے کے ساتھ چلے گئے تھے اور امی کے پاس میں اور میرے دونوں بھائی میری خالہ اور ہمارے بہت ہی محترم جمیل شمائل بھائی تھے.جب امی کی وفات کی خبر ربوہ فضل منزل پہنچی تو وہاں سب کی عجیب ہی کیفیت تھی....اور ابو جو کہ دل کے مریض بھی ہیں.اُن کیلئے تو ایک طرف زندگی دینے والی ماں اور دوسری طرف زندگی بھر کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کرنے والی بیوی.....فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا.....وہیں رہیں یا واپس آئیں؟ پھر ہماری خالہ جنہیں ہم نے ہمیشہ آنٹی ہی کہا ہے مگر وہ ہمیشہ ہمارے لیے ماں کے روپ میں ہی رہی ہیں.انہوں نے اور ابو نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم امی کو لیکر ربوہ جاتے ہیں اور ہم یہاں انتظامات میں لگ گئے.میری امی کو ایک شعر ہمیشہ ہی اچھا لگا کرتا تھا.ایک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیب دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے (313)
اور میری بینا وہاں ابو کے پاس کبھی ابو کو Lexotanil دیتی اور کبھی زبان کے نیچے Angised رکھتی.اپنے آنسو اور کرب تو اس نے جیسے اپنے حوصلے کو دئے تبھی تو وہ ابو کو اس قدر غم کی حالت میں سنبھال سکی تھی.پوری رات کھلے آسمان تلے ابو کی چار پائی پر ابو کے سرہانے بیٹھے امی کو ستاروں میں ڈھونڈتی رہی..امی کے پاس کوئی جماعتی عہدہ تو نہیں تھا لیکن قرآن پاک کا ترجمہ جاننے ، اپنے گھر اجلاس کروانے اور بھر پور شمولیت کرنے اور ہمیں ہر چیز میں حصہ دلانے ، باقاعدگی سے جمعہ پر مسجد لے کر جانے اور نہایت ملنسار ہونے کی وجہ سے جماعت میں پہچانی جاتی تھیں.اسلام آباد کی جماعت کے بھر پور تعاون سے 30 ستمبر کی صبح 8 بجے ہمارے گھر کے سامنے امی کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں بہت لوگوں نے شرکت کی.محلے کی خواتین یہاں تک کہ صفائی کرنے والی خواتین بھی آکر گلے لگ لگ کر روتی رہیں کہ وہ اتنی محبت سے بات کرنے والی تھیں وہ کیوں اتنی جلدی چلی گئیں.دو پہر دو بجے ہم ربوہ پہنچے اور عصر کی نماز کے وقت میری دادی جان اور میری پیاری ماں دونوں کا ایک ساتھ جنازہ ادا کیا گیا.میری دادی جان کو بہشتی مقبرہ میں اور میری پیاری ماں کو عام قبرستان میں منوں مٹی تلے سپر د خاک کر دیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ ہماری ماں کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم سب اُس کی تمام وہ خواہشیں جو بھی وہ ہم سے دل میں رکھتی تھیں اُن کو پورا کر سکیں اور جو بھی ہماری امی کے اندر خوبیاں تھیں ہم اُن کو اپنا سکیں.اللہ اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.آمین ثم آمین.سعدی (صدیقہ فیصل) الحمد للہ کہ بشریٰ کی دونوں بیٹیوں اور دونوں بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے.بڑی بیٹی عزیزہ صدیقہ سلطانہ کی شادی مکرم فیصل طاہر صاحب سے ہوئی ہے.ان کے دو بچے ہیں.چھوٹی بیٹی عزیزہ ثمینہ سلطانہ کی شادی عرفان احمد صاحب سے ہوئی (314)
ہے.ان کا ایک بیٹا ہے.بڑا بیٹا عزیزم شمر مہدی اور ان کی بیگم عزیزہ امامہ ہیں.ان کا ایک بیٹا فضل احمد ہے.چھوٹا بیٹا عمر مہدی اور ان کی بیگم صفیہ ہیں.ان کی ابھی شادی ہوئی ہے.یہ سب بچے اپنی فیملیز کے ہمراہ پاکستان میں مقیم ہیں.عزیزم محمد اسلم خالد مجھے یاد ہے جب میرے بھائی کی ولادت ہوئی ، ہم بہت خوش تھے.چار بہنوں کے بعد بھائی اللہ تعالیٰ دے تو کون خوش نہیں ہوتا.ابا جان کے افریقہ جانے کے بعد میرا یہ حال تھا کہ ہر مغرب کی نماز کے بعد جب لوگ نماز پڑھ کر باہر نکل رہے ہوتے تو میں اپنے بھائی کو گود میں اٹھا کر بھاگ کر مسجد کے دروازے کے باہر کھڑی ہو جاتی ( کیونکہ احمدیہ مسجد ہمارے گھر کے سامنے ہی تھی ) اور ہر نمازی کو کہتی میرے بھائی پر دعا کر کے پھونک ماردیں.میں حیران ہوتی ہوں مجھے کسی نے بھی ایسا کرنے سے نہیں روکا.شاید یہ میرا غیر احمدی ماحول میں رہنے کا اثر تھا یا واقعی میرا اپنے بھائی کے ساتھ پیار تھا اور میں اُس کو ہر شر سے بچانے کا یہ ہی راستہ جانتی تھی.میں یہ تو نہیں کہ سکتی کہ وہ لاڈلا نہیں تھا، بہت لاڈلا تھا لیکن اُس کے ساتھ ساتھ اُمی جان کی یہ بھی بہت کوشش اور خواہش تھی کہ وہ ایک ذمہ دار شخص بنے اس لیے اُس پر بے شمار ذمہ داریاں ڈالی ہوئی تھیں.کوئی بھی بہن باہر کسی کام کیلئے جائے ، امی جان کی آواز آتی بھائی کو ساتھ لیکر جائیں.بہنیں بھی سارا دن آواز لگاتیں بھائی بھاگ کر میرا یہ کام کر دو پھر دوسری کی باری غرض.سب کی فرمائشیں پوری کرنا بھی اُس کی ذمہ داریوں میں سے ایک تھی اور وہ کبھی خوشی سے اور کبھی غصہ سے کام کر دیتا.جب بڑی بہنوں کیلئے کوئی رشتہ آتا اور لوگ ہو کر چلے جاتے تو امی جان پہلے بھائی کو پوچھتیں کہ یہ لوگ تمہیں کیسے لگے؟ ہمارے لیے اُس کی رائے بہت معنی رکھتی تھی.ویسے تو پورا سال ہی اُس کو صبح ہی صبح نماز کیلئے اُٹھا تھیں کہ محلہ کے بچوں کے ساتھ ملکر در و دشریف صل على نبينا کیلئے جاؤ اور وہ جاتا لیکن رمضان شریف میں صبح ہی صبح پیا اور پرات بجا کر سحری (315)
کیلئے اُٹھانا بھی اُسکی ٹریننگ کا حصہ تھا.محلہ کے لڑکوں میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے سب لڑکے اُس کا خیال رکھتے اور بھائیوں کی طرح پیار کرتے تھے.پڑھائی سے فارغ ہو کر خالد بھی لندن آ گیا الحمد للہ.امی ابا جان نے اُس کی شادی کی خوشیاں دیکھیں جو ہماری پیاری بھا بھی گل نسرین سے ہوئی.ماشاء اللہ چار بچے ہیں بیٹی طاہرہ ، دوسری بیٹی صباح البشری، تیسری بیٹی قیصرہ خالد، بیٹا محمد احمد.الحمد للہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں.جماعت کے کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے.اخباراحم بیدار با جان کے ساتھ پچپن میں کام کرنا تو بہت پہلے سے ہی جاری تھا لیکن جب سے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ” لندن میں تشریف لائے ، ہم سب کی زندگیاں ہی بدل گئیں.ابا جان اور خالد کیونکہ مسجد کے بہت قریب تھے اس لیے اُن باپ بیٹوں کا تو پہلا گھر ہی مسجد تھی.شروع دن سے حضور کے پرائیوٹ سیکرٹری صاحب کے ساتھ جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیاں شروع ہو گئیں پھر یہاں سے خالد نے سامی صاحب مرحوم کو بھی اپنے ساتھ لگایا.پھر حضور کی ڈاک لکھنے والی ٹیم میں بھی خالد نے سامی صاحب کو اپنے ساتھ لگایا.یہ صرف ابتدا کی بات کر رہی ہوں پھر تو سب نے اپنی اپنی جگہ دین کی خدمت میں کہیں بھی کوئی کمی نہیں آنے دی.اب میں خالد کے بارہ میں کیا لکھوں اور کہاں تک لکھوں ؟ صرف اتنا ہی کہ سکتی ہوں کہ میرے بھائی نے 2006ء سے اپنی زندگی وقف کر دی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ اُس کی تمام نیکیاں قبول کرے صحت والی لمبی زندگی دے.دین اور دنیا کی تمام سہولتیں اُسے عطا فرمائے.خالد گل بھابی اور اُس کے بچوں نے امی ابا جان کی بہت خدمت کی.بچوں کی بات کرتی ہوں تو مجھے یاد ہے خاص طور پر جب امی جان گھر میں تھیں اور شدید بیمار تھیں، اُن دنوں میں طاری اور صبا نے بہت خدمت کی.اُس وقت وہ بہت چھوٹی بچیاں تھیں لیکن اُنہوں نے خدمت بڑوں کی طرح ہی کی.اللہ تعالیٰ بچیوں کو جزائے خیر دے.عزیزہ قیصرہ کو امی (316)
ابا جان ہر روز دو تین میل کی مسافت طے کر کے قرآن مجید پڑھانے جاتے رہے.قیصرہ کو بھی اپنے دادا جان کی خدمت کا خوب موقع ملا.اب میں محمد احمد کی بات کرتی ہوں جس کے دادا دادی اپنے پوتے سے بے حد پیار کرتے تھے.پوتے نے بھی اپنا حق ادا کیا کہ جب اُمی جان کی وفات ہوئی اور اُن کی میت کو ائیر پورٹ پر لیکر جانا تھا تو اپنی چھوٹی سی عمر یعنی صرف نو سال کی عمر میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر خود اپنی دادی جان کو اُنکی منزل مقصود تک پہنچایا.اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ ان بچوں کو اللہ تعالیٰ زندگی کی تمام خوشیاں نصیب کرے اور کامیابیاں عطا کرے آمین.خالد میرا بھائی لکھتا ہے کہ حضور حضرت خلیفہ امسیح الرابع " کی ہومیو پیتھی کتاب کا جب پہلا ایڈیشن شائع ہوا تو حضور انور نے از راہ شفقت اس عاجز کو بھی ایک کتاب عنایت فرمائی اور اس پر تحریر فرمایا: عزیزم محمد اسلم خالد سلمہ اللہ کیلئے پر خلوص دعا کے ساتھ.آپ نے ان کاموں میں جو پر خلوص حصہ ڈالا اللہ اس کی دونوں جہاں میں بہترین جزاء دے.آپکو بھی اور آپ کے خادم خلق ابا جان کو بھی “.حضرت خلیفہ امسیح لرابع " کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کے بارہ میں لکھتا ہے کہ : 7 دسمبر 2000ء کو خاکسار اور فیملی کی حضور کے ساتھ ایک نا قابل فراموش ملاقات ہوئی.ان دنوں حضور شدید بیماری کے بعد صحت مند ہوئے تھے اور چیدہ چیدہ ملاقاتیں شروع ہوئی تھیں.ہم بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل تھے جنکو ملاقات کی اجازت ملی.یہ ملاقات 41 گیسٹ ہاؤس میں ہوئی.اس ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ حضور نے ہم سب کو تحفے اپنے ہاتھ سے دئے.ایک ایک تحفہ فردا فرد بلا کر دیا.پھر باتیں امی ابا جان کی شروع ہو گئیں.حضور نے اچانک ایک بات کی جو موضوع سے (317)
بالکل ہٹ کر تھی.فرمانے لگے کہ ان کیلئے ( امی ابا جان ) لمبی عمر کی دعا نہ کیا کریں.یہ دونوں ہی جنت کی روحیں ہیں اور یہ ضرور جنت میں ہی جائیں گے.ان کیلئے یہ دعا کیا کریں کہ جب وقت آئے تو خیر برکت والا ہو.ایسی بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی.بہت خوشی کی بات تھی کہ خلیفہ وقت امی ابا جان کے بارہ میں جنت کی خوش خبری دے رہے ہیں.اس پر خاکسار نے جزاکم اللہ کہا اور فورا عرض کیا کہ حضور ایسی دعا کا متمنی تو یہ خاکسار بھی ہے.جس پر حضور نے فرمایا کیوں نہیں ضرور! خدا کرے کہ آپ کو اور آپ کی بیگم اور بچوں کو جنت الفردوس میں آپ کے والدین کا قرب نصیب ہو.آمین ثم آمین.“ ( محمد اسلم خالد ) (318)
روح کا رشتہ روح کا رشتہ تو روح دینے والے کے ساتھ ہی ہے اور ساتھ ہی اُن محبوب ہستیوں کے ساتھ بھی روح کا رشتہ ہے جن کیلئے یہ زمین و آسمان وجود میں آئے.پھر جیسے اُس نے خون کے رشتے ، خاندانی رشتے ، پیار کے رشتے ، محبت کے رشتے ، انمول رشتے بنائے اسی طرح بے شمار ایسے رشتے ہیں جو ہر انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں.لیکن آج میں جن روح کے رشتوں کی بات کروں گی اُن کا تعلق اُن روحوں سے ہے کہ جب وہ قفس عنصری سے پرواز کر گئیں تو دنیا میں پھیلے کروڑوں فرزندان اسلام کی آنکھوں کو اشکبار کر گئی.وہ دن، وہ گھڑی مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میرے بیٹے نے فون کر کے مجھے ہمارے پیارے حضور حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کی اندوہناک خبر سنائی.تھوڑی دیر کیلئے تو سکتہ ہی طاری ہو گیا.اس خبر کو سننے کیلئے کوئی بھی ذہنی طور پر تیار نہیں تھا.باوجود اس کے کہ کافی دنوں سے بیماری کی خبریں گردش کر رہی تھیں لیکن پھر بھی جیسے ہی خبر کانوں تک پہنچی پہلے تو یقین ہی نہیں آیا پھر جلدی سے ایم ٹی اے لگا یا تسلی نہیں ہو پا رہی تھی.دل تھا کہ بھاگ کر مسجد پہنچنے کیلئے بے چین تھا.لیکن انہیں کی تھی، مجھے کوئی لے کر جانے والانہیں تھا.اس وقت گھر میں میں اکیلی ہی تھی.اشکبار آنکھیں بند کیں تو پھر ایک بار پرانی ہی یادوں میں کھوگئی.جبکہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی بیماری کے بارے میں کافی پریشانی کی خبریں تھیں لیکن پھر بھی اتنی دل ہلا دینے والی خبر سننے کیلئے ہم تیار نہیں تھے.ایک دن شام کو تقریباً سات یا آٹھ بجے سامی صاحب نے ریڈ یولگا یا تو پہلی خبر ہی ی تھی جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی وفات ہو گئی ہے یہ خبر ہم پر بجلی بن کر گری.اُس وقت ہم پشاور میں مقیم تھے.میری بڑی بیٹی لبنی کی پیدائش کے بعد ربوہ سے مجھے آئے ابھی تقریباً پندرہ بیس دن ہی (319)
ہوئے ہونگے اور لینی شاید ابھی پورے دوماہ کی بھی نہیں ہوئی تھی.سامی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ بتاؤ اب ہم کیا کریں جبکہ اس وقت کوئی ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہے، بچی بھی بہت چھوٹی ہے.کیا تم اس چھوٹی بچی کے ساتھ بسوں کو بدل بدل کر رات بھر کا سفر کر لوگی؟ میرا جواب تھا میں ہر حال میں ربوہ جانا چاہتی ہوں اور پیارے آقا کا دیدار کرنا اور جنازہ میں شامل ہونا چاہتی ہوں.اکتوبر کا مہینہ شروع کی سردی کا ہوتا ہے اور ویسے بھی پشاور میں پنجاب کی نسبت تھوڑی زیادہ ہی سردی ہوتی ہے.ہم نے فوری اپنی دو ماہ کی بچی کو کمبل میں لپیٹا اور خود بھی موسم کے لحاظ سے چند کپڑے لیے اور ٹیکسی سے رات کو پنڈی پہنچے.وہاں سے بس پر سرگودھا اور سرگودھا سے ربوہ پہنچے.مسجد مبارک ربوہ کی صبح کی وہ اذان سنی جس کی گونج آج بھی میں اپنے کانوں میں محسوس کر سکتی ہوں.وہ سوز وگداز میں ڈوبی اذان جو میرے کانوں تک آئی، وہ غم بھری رات کا سفر ہمیشہ مجھے یاد رہے گا.یہ ہمارے روحانی رشتوں کا غم بھی ہمیں کہاں چین لینے دیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے زخموں پر فوری مرہم بھی لگا دیتا ہے جب ہم آنے والے خلیفہ کی بیعت کرتے ہیں تو الحمدللہ! ہمارے روحانی رشتے ،ساری وفائیں اور اطاعت سب اُس امام کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ” کے پورے دور میں میں اپنے وطن سے دور رہی ہوں لیکن جب بھی آپ کا لندن کا دورہ ہوا، الحمد للہ ! ہماری اور سب بچوں کی بہت یاد گار ملاقاتیں ہوتی رہیں.لندن میں جب آپ کی وفات کی اچانک خبر ملی تو وہ گھڑی بھی قیامت کی تھی.ہم سب مسجد لندن میں جمع ہو گئے.جب تک نئے خلیفہ کی خوشخبری نہیں آئی دعاؤں میں لگے رہے.پر اللہ تعالی نے روشن کی نئی کرن دکھائی جو دیکھتے دیکھتے آسمان پر چاند اورسورج کی طرح چکی اور ساری دنیا کو روشن کر دیا.جی ہاں میں ذکر کر رہی ہوں حضرت خلیفہ اسیح الرابع” کا، جنہوں نے میرا خیال ہے صرف ایک سال پاکستان میں گزارا اور پھر ہماری خوش نصیبی کہ وہ ہمارے پاس لندن تشریف لے آئے.(320)
اور.......پھر..اُن کے ساتھ روح کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا رشتہ قائم ہوا.پیارے آقا حضرت خلیفہ السیح الرابع 19 اپریل 2003ء کو کروڑوں لوگوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا الیہ راجعون.وہ جوا اپنی جماعت کے ہر فرد کو دعاؤں کا تحفہ دیتے تھے، روحانی سکون دیتے، جماعت کے ہر فرد کو اتنا پیار کرتے کہ ہر فرد واحد کو یہ ہی احساس ہوتا کہ حضور سب سے زیادہ مجھ سے ہی پیار کرتے ہیں.میں اور میری پوری فیملی بھی اُن ہی خوش نصیب لوگوں میں شامل ہے جو پیارے آقا کی زیارت ، پیار، دعاؤں اور مشوروں سے ہر آن سیراب ہوئے ہیں.کچھ باتوں کو دہرانے کی جسارت کروں گی.ان باتوں کا بار بار ذکر کرنے سے بہت مزہ آتا ہے.پیارے آقا کے آنے پر ہماری مسجد فضل لندن میں رونقیں ہی رونقیں ہو گئیں.خطبات ،تقاریر اور مجالس عرفان کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا جن کے فیض و عرفان سے لندن کا ہر احمدی سیراب ہوتا تھا.ہم گھر دور ہونے کی وجہ سے شامل نہ ہونے پر دکھی ہوتے تھے.اُس کا حل سامی صاحب نے یہ نکالا کہ گھر بدل کر مسجد کے قریب چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان بھی پیدا کر دیئے.یہاں میں محترمہ لئیقہ ظفر صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر ظفر محمود صاحب کا شکر یہ ادا کرنا ضروری سمجھتی ہوں.میرے ابا جان اور لیقہ ظفر صاحبہ کے والد صاحب کے تعلقات کی وجہ سے ہمیں محترم ڈاکٹر ظفر ڈار صاحب کی سرجری کے اوپر والا آن فرنشڈ فلیٹ کرایہ پرل گیا.بہت اچھا نیا گھر جو بہت مشکلوں کے بعد ہمیں ملا تھا چھوڑ کر ہم پیارے آقا کے قدموں میں اور مسجد کے در پر آبیٹھے.گھر چھوڑتے ہوئے اُس وقت تو بہت مشکل لگ رہا تھا لیکن بعد میں جب روح کی غذا ملنی شروع ہوئی تو ہر بات بھول گئے.یادرہا تو اتنا کہ صبح و شام ہم نوروں نہاتے رہے ہیں.نمازیں ، تراویح ، درس ، خطبات جمعہ، مجلس عرفان سب کچھ ہماری دسترس میں تھا.اس کے علاوہ جس بات نے ہمیں حضور کے بہت قریب کیا وہ تھا میری بیٹی لبنی کا حضور انور کے (321)
گھر ہر ہفتہ ڈیوٹی دینا.جہاں لینی نے حضور کا بہت پیار پایا وہاں ہمیں بھی اُس پیار کا کچھ نا کچھ حصہ ملتا رہا کبھی کبھی میرا بھی جانا ہوجاتا اور آقا کو بہت قریب سے ملنے اور دیکھنے اور بات کرنے کی سعادت مل جاتی تھی.پھر یہ قربت بڑھتی گئی.میرے بیٹوں کو بھی یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ حضور کے ساتھ صبح کی سیر پر جانے لگے.چھٹیوں میں میرے بیٹے منیر کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے آفس میں ڈاک کی ڈیوٹی مل گئی ، بلال سکیورٹی کی ڈیوٹی کرتا.سامی صاحب بھی صبح شام اپنی کسی نہ کسی ڈیوٹی پر رہتے.کچھ عرصہ کیلئے مجھے بھی اپنے حلقہ میں لجنہ کی صدارت کا عہدہ نبھانے کی سعادت ملی.غرض ہم سب صبح و شام روحانی من و سلویٰ کھاتے الحمد للہ لبنی کی شادی حضور انور کی رضا مندی اور مشورہ سے ہوئی.اُس کے بعد میرے بیٹے منیر کی شادی کا وقت آیا.اُس وقت منیر امریکہ میں تھا.ہم سب کی رضا مندی سے طے پایا کہ رشتے کیلئے پاکستان جایا جائے.میں اور سامی صاحب حضور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع” کے پاس دعا کیلئے گئے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ ہم اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور خواہش یہ بھی ہے کہ بہو پاکستان سے لے کر آئیں.ساتھ ہی حضور کو یہ بھی بتایا کہ جس کمپنی میں میرا بیٹا کام کرتا ہے وہ اُس کی بیوی کو اُسی وقت ویزا دے دیں گے جب اُس کی شادی ہو جائے گی یعنی بیوی کو لانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی.یہ سارے کام مجھے ایک ماہ میں ہی کرنے تھے اور جانا بھی میں نے اکیلے ہی تھا.میرے بیٹے نے صرف پندرہ دن کی چھٹی پر آنا تھا.حضور انور نے فرمایا ہاں ہاں کیوں نہیں تم جاؤ میں پاکستان منگلا صاحب کو فون کرواتا ہوں وہ آپ کی مدد کریں گے اور بی بی با چھی کو بھی اطلاع کر وا دیتا ہوں.تم بے فکر ہو کر جاؤ.اُسی وقت پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بلایا اور تاکید کی کہ منگلا صاحب کو فون کر دیں اور ساتھ ہی بی بی باچھی صاحبہ کو اطلاع کر دیں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے مددفر ما ئیں.آپ نے ربوہ میں میری قیام گاہ کا فون نمبر بھی لے لیا.گو کہ پاکستان میں میری اپنی مصروفیت اور محترمہ بی بی با چھی صاحبہ کا ساتھ ملنے سے مجھے منگلا صاحب کے ساتھ بات کرنے کا موقعہ نہیں ملا.میں اور سامی (322)
صاحب اپنی خوش نصیبی پر حیران کہ ہم تو صرف مشورہ کرنے گئے تھے اور ہم پر اتنا کرم ہو گیا سوچا بھی نہیں تھا.میں ابھی لندن میں ہی تھی کہ میرے جانے کی اطلاع پاکستان پہنچ چکی تھی.ہم نے جلدی جلدی سیٹ بک کروائی.پھر بھی مجھے جانے میں ایک ہفتہ لگ گیا.کچھ دن مجھے لاہور میں لگ گئے.میں ابھی لاہور میں ہی تھی کہ مجھے ربوہ سے فون آنے شروع ہو گئے کہ آپ کہاں ہیں ؟ منگلا صاحب کا فون اور بی بی باچھی صاحبہ کے فون آرہے ہیں.میں لاہور سے بھاگی.مجھے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ سب اتنی جلدی ہوگا.محترمہ بی بی باچھی صاحبہ سے اس سے قبل میری کوئی بہت زیادہ جان پہچان نہیں تھی.میری بیٹی بنی حضور کے گھر ڈیوٹی دینے جاتی تھی تو اس طرح وہاں بی بی صاحبہ کے ساتھ ایک دوبار مختصر سلام دعا ہوئی تھی.احترام کی وجہ سے میں بہت کھل کر نہیں مل سکی تھی.میں قربان جاؤں اللہ تعالیٰ کے جس نے ہمیں ایسی جماعت عطا کی جو کسی رشتہ کے بغیر ہی تمام رشتوں میں بندھی ہوئی ہے اور یہ بے نام رشتے روح کے اندر تک سما جاتے ہیں.میری زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان سے باہر گزرا ہے.اسی وجہ سے ان سب معززین کے ساتھ رابطہ کرنے میں مجھے بہت مشکل محسوس ہورہی تھی.میں بے تکلفی سے بات نہیں کر پا رہی تھی مگر بی بی باچھی صاحبہ کی شفقت اور محبت نے مجھے حوصلہ دیا اور میری کمزوری کو بہت اچھی طرح سے سنبھال لیا.میں تو وہاں کسی کو بھی نہیں جانتی تھی لیکن بی بی باچھی صاحبہ نے میری راہ نمائی کی.سب جگہ میرے ساتھ گئیں.الحمد للہ ایک ماہ کے اندر جس مقصد کو میں لندن سے لیکر گئی تھی کامیاب ہوگئی اور میرے بیٹے کی شادی ان سب معزز اور قابل احترام محسنوں کی شرکت سے انجام پائی.یہ سب میری وجہ سے نہیں ہوا.یہاں پر ہم حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی محبتوں اور شفقتوں سے تو مالا مال تھے ہی، مگر پیارے حضور نے میرے لیے پاکستان میں بھی محبتوں کی بوچھاڑ کر وا دی.جن کو بھی علم ہوتا کہ مجھے حضور نے اس شادی کیلئے بھجوایا ہے میرا کام ہاتھوں ہاتھ ہو جاتا.سب لوگوں نے اتنی محبت دی کہ مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں نے یہ شادی اپنی فیملی کے بغیر اکیلے میں (323)
کی ہے.بی بی باچھی صاحبہ کے ساتھ محبت اور شفقت کا ایسا تعلق بنا کہ اُس کے بعد میں جب بھی پاکستان جاتی اُن کو ملنے جاتی تو میرے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ تیار ہوتا اور ان کا جب بھی لندن آنا ہوتا اگر مجھے کسی وجہ سے ملنے میں دیر ہو جاتی تو پیغام آتا کہ تم ملنے کیوں نہیں آئی ہو.پھر ان محبت کے رشتوں کو مزید تقویت سعدیہ خان (بی بی جمیل صاحبہ کی بیٹی ) کی وجہ سے ملی.سعدیہ بی بی میرے گھر کے قریب رہتی ہیں اور اُن کے بچے اُس وقت جس سکول میں جاتے تھے وہ سکول بھی میرے گھر کے سامنے ہی تھا.اس طرح ہم ایک دوسرے کی ضرورت بھی بن گئے تھے.سامی صاحب ( مرحوم ) سعدیہ کو اپنی بیٹیوں ہی کی طرح پیار کرتے تھے.سعدیہ کیلئے ہمارا گھر کوئی غیر نہیں ہے.اُن دنوں جب محترمہ بی بی باچھی صاحبہ پاکستان سے تشریف لائیں تو سعدیہ کے گھر میں قیام کیا.محترمہ بی بی جمیل صاحبہ اور اُن کی چھوٹی بیٹی (بی بی صوفیہ ) کا قیام بھی سعدیہ کے گھر ہی تھا.ظاہر ہے میری تو یہ خوش نصیبی تھی کہ اکثر ملنار ہتا تھا.سامی صاحب کا جماعتی کاموں کی وجہ سے ہر روز ہی مسجد جانا ہوتا، اس طرح ان معزز مہمانوں کو لفٹ دینے کا اعزاز بھی مل جاتا تھا.ایک دن سعدیہ کا فون آیا کہ کیا آپ نے جمعہ پر جانا ہے؟ اور اگر جانا ہے تو امی کو بھی ساتھ لے لیں.میں نے کہا کیوں نہیں! ہمارے ساتھ محترمہ بی بی باچھی صاحبہ اور محترمہ بی بی جمیل صاحبہ اور انکی بیٹی صوفیہ صاحبہ جمعہ کیلئے گئے اور واپسی بھی ہمارے ساتھ ہی ہوئی.واپسی پر میں نے دعوت دی کہ آج تو آپ سب میرے ساتھ ہی ہیں ہمارے گھر چلیں.کہنے لگیں ، آج نہیں پھر کبھی آئیں گے.میرا جواب تھا کہ یہ تو آپ ہمیشہ ہی کہتی ہیں ، آج میں نے کوئی خاص نہیں گو بھی گوشت بنایا ہے کھانا کھا لیں.ہم نے بھی ابھی کھانا نہیں کھایا ہم سب اکٹھے کھانا کھاتے ہیں.معزز مہمانوں نے پھر کبھی آنے کا کہہ کر مجھے چپ کرا دیا.میں احترام کی وجہ سے زیادہ اصرار نہ کرسکی.سامی صاحب مجھے گھر اُتار کے اُن کو چھوڑنے چلے گئے.میں ابھی کوٹ وغیرہ اتار کے کچن میں آئی ہی تھی کہ دروازہ کھٹکا.کھولا تو سب بیگمات مسکراتے ہوئے سامنے کھڑی (324)
تھیں.محترمہ بی بی باچھی صاحبہ اور محترمہ بی بی جمیل صاحبہ کہنے لگیں لو، اللہ میاں نے تمہاری بات ٹن لی ہے.سعدیہ تو گھر پہ نہیں ہے تمہاری بھی خواہش پوری ہوگئی.میری تو خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی.مگر گھبراہٹ بھی ہوئی کہ معزز مہمانوں کی خاطر داری کا کوئی خاص انتظام نہیں ہے.پہلے سے ہی تیار شامی کباب، پودینے کی چٹنی ، گو بھی گوشت اور گرما گرم پھلکے مکھن لگا کر پیش کئے.میں دل میں شرمندہ ہی تھی مگر معزز مہمانوں نے میری اتنی دلجوئی فرمائی کہ میں کبھی بھول نہ پاؤں گی.اُس کے بعد جب بھی ملاقات ہوتی اُس سادہ سے کھانے کی تعریف ضرور ہوتی.اپنے محترم بھائی حضرت خلیفتہ امسیح الرابع " کی طرح اُن کو بھی لوگوں کا دل جیتنے کا ہنر آتا تھا اس لیے ہر وہ شخص جو ایک باربی بی باچھی صاحبہ کوئل لیتا اُس کو یقین ہو جاتا کہ یہ معزز ہستی صرف اور صرف اتنا پیار مجھ سے ہی کرتی ہیں اور یہ سچ بھی ہے اُنکی شخصیت اتنی دلر با اور پرکشش تھی کہ دل چاہتا ہے کہ کہا جائے کہ وہ صرف میرے ساتھ ہی پیار کرتی ہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا، الحمد للہ ! میں خوش نصیب ہوں کہ میرے حصہ میں بھی آپ کا پیار آیا ہے.اب میں دوبارہ اسی مضمون کی طرف واپس آتی ہوں.جس روحانی رشتے کے ساتھ ہماری روحوں کا رشتہ بھی منسلک ہے یعنی خلافت کا بابرکت وجود.مجھے یاد ہے، حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے شروع شروع کے رمضان کی بات کر رہی ہوں، مسجد فضل لندن میں عصر کی نماز کے بعد درس پھر مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں ہی روزہ افطار ہوتا تھا اور عشاء کی نماز کے بعد تراویح.اس طرح رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹتے ہوئے صبح سحری کا وقت ہو جاتا.روزہ رکھنے کے بعد پھر مسجد فضل کی طرف بھاگتے.فجر کی نماز کے بعد جب نصرت ہال سے باہر نکلتے تو اتنی دیر تک حضور انور نماز پڑھا کر او پر اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے ہو جاتے.ہم سب کے منہ اوپر کو اٹھے ہوئے ہوتے.جتنی دیر حضور بالکونی میں تشریف فرما ہوتے ہم اس بابرکت نظارہ سے محفوظ ہوتے رہتے.اگلے دن جب لینی یا اور کوئی بھی جس کی ڈیوٹی ہوتی اُس کو پوری تفصیل سے یہ فرماتے کہ آج (325)
تمہاری امی اور چھوٹی بہن بھی آئی تھیں لیکن تمہارے بھائی کو نہیں دیکھا.غرض ہمیں دیکھ کر ایک کنبہ کی طرح پہچان جاتے تھے کہ کون آیا اور کون نہیں آیا.اُن دنوں ہماری باتوں کا موضوع تھا تو ایک ہی ، وہ تھے پیارے آقا.اُن کی ہی باتیں، اُن کا ہی ذکر خیر یعنی ہماری زندگیوں کا محور حضور انور ہی تھے.مجھ جیسی ناچیز بیمار ہوئی تو گھر فون کر کے خیریت دریافت کر کے مجھ پر احسان کیا.پھر جب بھی ملاقات ہوتی تو ایک ہی فقرہ دہراتے کہ تم مرنے سے بچ گئی ہو.کیونکہ میرا ،ایک بہت ہی بڑا آپریشن ہوا تھا جس کی ساری تفصیل سے پیارے آقا کو آگاہ کیا گیا تھا اور پیارے آقا نے مجھے حفاظتی تدابیر بھی سمجھائی تھیں.یہ تو میں ہوں لیکن صرف میں ہی نہیں یہاں تو احمد للہ ! ہر فرد ہی اس پیار کے چشمہ سے سیراب ہو رہا تھا.یہاں میں چند اشعار لکھوں گی جو ہم سب کے دلوں کی ترجمانی کرتے ہیں ؎ جس کی الفت میں گرفتار تھے لاکھوں انساں اور وہ ایسا تھا کہ لاکھوں یہ فدا رہتا تھا ہاں وہی شخص جو رہتا تھا دلوں میں ہر دم وہ جو ہر سانس کی ڈوری میں بندھا رہتا تھا ہفت اقلیم میں پھیلائے ہوئے دستِ دعا بھیگی پلکوں سے ہر اک وقف دعا رہتا تھا ” مجھ سے ہی پیار وہ کرتا ہے یہ تھا سب کو گماں اس کا پیار ایسا تھا ہر دل میں بسا رہتا تھا عطاء المجیب راشد صاحب مورخه ۱/۲۲ پریل ۲۰۰۳ء ) اور پھر یہ کروڑوں لوگوں کے دلوں میں روحانی روح پھونک کر، پیار ومحبت کی جوت جگا کر ، دین (326)
کی لگن لگا کر سجدوں میں گریہ وزاری کا سبق سکھا کر، دنیا جہاں میں مسجدوں کی تعمیر اور قرآن کریم کی اشاعت کی تکمیل کروا کر ، قرآن کریم اور حدیث کا درس سنا کر ، سوال و جواب کی مجالس سجا کر ، اردو کلاس لگا کر ، دنیا جہان کا دل جیت کر لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر کر ، اپنی شاعری سے لوگوں کو گرما کر ، ہومیو پیتھی کی میٹھی گولیاں کھلا کر ، تمام ذمہ واریوں کو نبھا کر ، ایک بہت ہی متحرک رہبر اور رہنما، ہم سب کے غموں کو سینہ میں چھپا کر ہم سب کو غم زدہ اور سوگوار چھوڑ کر خود اپنے ربّ رحیم کے گھر جا حاضر ہوا.اللہ تعالیٰ آپ پر ہزاروں رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے.آمین راضی میں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو لیکن اس خبر سے ایک سیکنڈ کیلئے ہم ہزاروں عقیدت مندوں کی دل کی دھڑکنیں بند ہونے کو تھیں جولندن سے باہر تھے وہ ٹی وی کھول کر بیٹھ گئے اور جو جو مسجد فضل پہنچ سکتا تھا اس نے وہاں پہنچنے میں دیری نہیں کی.پھر کون بھول سکتا ہے اُس آنسوؤں سے بھیگی ہوئی شام کی خاموشی کو ،اُس سکتہ کو.ایک عجیب سا ڈر اور خوف.ہزاروں عقیدت مندوں کا ایک جم غفیر مسجد کے باہر دم سادھے بیٹھا تھا اور نئے چاند کے نکلنے کا منتظر تھا.مسجد کے اندر ہاتھ اُٹھائے اپنی دعاؤں کی دور بین لگائے اللہ تعالیٰ سے گریہ وزاری کرتے ہوئے نئے چاند کی بھیک مانگ رہا تھا.ہم غمزدہ تھے ،سو گوار تھے، بے چین تھے خوف زدہ تھے.ہم سب دم سادھے بیٹھے تھے کہ ایک بہت ہی مدبر و پرسوز ، غم اور خوشی میں ڈوبی ہوئی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی جس نے ایک دم خوف اور بے چینی کو امن میں بدل دیا.یہ آواز ہمارے لندن مسجد کے امام صاحب جناب عطاء المجیب راشد صاحب کی تھی ، جس سے الحمد للہ ہم سب مسرور ہو گئے.یعنی نیا چاند آسمان پر طلوع ہو چکا تھا.ہمارے نئے خلیفہ کا انتخاب بفضلہ تعالیٰ بخیر وخوبی انجام پانچ کا تھا.الحمد للہ ہزاروں لوگوں نے پیارے آقا حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ بنصر العزیز کے ہاتھ پر ایک ساتھ بیعت کی.(327)
ا جہاں مجھے پیارے حضور حضرت خلیفہ اسیح الخامس مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ کے خلیفہ ہونے کی خوشی تھی وہاں مجھے اس بات کی بھی خوشی تھی کے سامی صاحب نے دنیا سے جاتے ہوئے میرے کان میں ایک بات کہی تھی کہ کسی سے نہ کروں.سامی صاحب نے کہا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کے آئندہ ہمارے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ہو نگے.مگر یہ بات تم دل میں رکھنا کسی سے بھی ذکر نہ کرنا.میں نہیں جانتی یہ بات انہوں نے کیوں کہی تھی.اب جب انتخاب کے مرحلہ سے ہم گزر رہے تھے تو سامی صاحب کی بات بھی میرے دل و دماغ میں تھی.اس بات کا ذکر میں نے حضور کی وفات کے بعد صرف اپنے چھوٹے بیٹے عکاشہ کے ساتھ ضرور کیا تھا کہ اگر میں نہ رہوں تو میرے بیٹے کو اپنے ابو کی بات کا علم ہو.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے انتخاب کے بعد میں نے اپنے کچھ بچوں کو یہ بات بتائی تھی لیکن آج پہلی بار گھل کر اس کا اظہار کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ یہ روحانی رشتے ہمیشہ ہماری روحوں کو روحانی غذا پہنچاتے رہیں اور میرے بچے اور میری آنے والی پوری نسلیں اس خلافت کی مضبوط ڈور سے بندھی رہیں اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں.اللہ تعالی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا مبارک سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور خلافت کا یہ با برکت سلسلہ ہمیشہ ہمیش کیلئے جاری وساری رہے.آمین ثم آمین.(328)
حرف آخر میں جو اس زمین پر ایک حقیر ذرہ سے بھی کم حیثیت رکھتی ہوں ، بے حد گنہگار ، خطا کار اپنے گناہوں پر ہر وقت پشیمان ، بہت ہی معمولی ،انسان، جاہل، گنوار، ان پڑھ، عاجز ہمسکین ،فقیر، محتاج اور اپنے گناہوں پر ہر وقت خوف زدہ رہنے والی انسان ہوں مجھے حقیر ذرہ پر اُس رحمن اور رحیم نے اتنے اتنے کرم کیے ہیں جن کی میں کسی طور بھی قابل نہیں تھی.میں اُس کے احسانوں اور مہر بانیوں کا جتنا بھی شکر کروں وہ کم ہے.اب میں صرف اور صرف اُن احسانوں کا ہی ذکر کروں گی جو مجھ حقیر ، ناچیز پر قادر مطلق نے کیسے ہیں.اللہ تعالیٰ نے میرے لیے محبتوں کے انبار لگا دئے.جب تک ماں کی گود میں تھی تو یقیناً امی ہر وقت میرا منہ چوم کر پیار کرتی ہوں گی.پھر نا گہانی حالات ہوئے.بہن کے گرنے سے میں اپنی تائی اماں کی گود میں گئی.انہوں نے بھی اپنے پیار کی انتہا کر دی.اُس پیار کا احساس مجھے آج بھی ہوتا ہے، اُس پیار کو میں آج بھی بہت اچھی طرح محسوس کر سکتی ہوں.اللہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے.آمین.پھر اپنی امی جان اور ابا جان کے پاس آکر جو سکھ اور سکون پایا، اتنے عرصہ سے جو ماں باپ کی شفقت سے اور بہنوں اور بھائی کے پیار سے دور تھی، اُس ٹھنڈی چھاؤں میں آکر میں مسحور ہوگئی.میری امی جان نے مجھ پر محنت کی.میں نے جی بھر کر اُن سے پیار پایا اپنی بہنوں اور بھائی سے دل بھر کر پیار کیا.اُن سے پیار اور محبت، عزت پائی.ہمسائیوں اور رشتہ داروں میں کہیں تھانیدار نی اور کہیں وزیر اعظم کا خطاب پایا.ان پیار اور محبتوں کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کب پھر اپنوں سے جدائی کا وقت آگیا اور پیا گھر پہنچ گئی.یہاں بھی الحمد للہ ساس سسر اور نند باقی تمام رشتوں نے دل کھول کر خوش آمدید کہا.زیادہ عرصہ سسرال میں تو نہیں رہی لیکن جب بھی گئی یا وہ (329)
سب میرے پاس تشریف لائے، ہمیشہ اچھی ہی یادوں کے ساتھ رخصتی ہوتی.اس بات کو لے کر آج بھی حیران ہوتی ہوں کہ میں، جس میں کوئی خوبی نہیں تھی ، نہ علمی لحاظ سے، نہ ہی کوئی بہت دینی قابلیت تھی.معمولی سی گھر یلولر کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے بھاگ کھول دئے.پڑھا لکھا ، ادیب، عالم منشی فاضل، گریجوایٹ ، جماعت کی خدمات بجالانے والا نوجوان میرے حصہ میں آیا.بعد میں انہوں نے اردو ایم اے بھی کر لیا.خاموش ، برد بار، خوش اخلاق، پیار، محبت لٹانے والا شوہر پاکر کون ہے جو خوش نہ ہو.میں بھی بہت خوش تھی لیکن بالکل نہیں جانتی تھی کہ وہ کیسے خاموشی سے مجھے بتائے بغیر میری تربیت کرتے رہے.میری ذات جو بکھری بکھری تھی اُس کو سمیٹتے ہوئے میری آبیاری کرتے رہے.میری اوقات سے زیادہ مجھے پیار دیا عزت دی.ہر بات میں مشورہ کرتے تھے.زندگی میں بہت مشکلات آئیں.کوشش کرتے تھے کہ مجھے کم سے کم بتائیں الحمد للہ! میں پانچ بچوں کی ماں بنی.کن کن لفظوں سے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں.اُس ذات نے مجھے دینے میں کہیں کمی نہیں آنے دی.اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم نے اپنے بچوں کی شادیاں کیں.سب سے پہلے ہماری بیٹی لینی عالیہ کی شادی گوہر مقصود صاحب ابن چوہدری عطا اللہ صاحب ( مرحوم ) سے ہوئی جن کے ماشاء اللہ چار بچے ہیں.بڑا بیٹا مصور مقصود ، بیٹی شمامہ صدف ،شہزانہ کنول، شکیبہ، ماشاء اللہ سب اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.الحمد للہ! میری ایک نواسی شمامہ صدف کی شادی ثاقب عزیز صاحب کے ساتھ ہوئی ہے جو شادی کے بعد شارجہ میں مقیم ہے.پھر ہمارا بیٹا منیر شہزاد جس کی شادی خواجہ منیر احمد صاحب ( مرحوم ) کی بیٹی شازیہ سے ہوئی.ان کے ماشاء اللہ تین بیٹے ہیں بڑا بیٹا شہزیب احمد ، جہانزیب احمد اور ز او یار زیب احمد ہیں.تینوں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کینیڈا میں آباد ہیں.تیسرے نمبر پر ہمارا بیٹا بلال بشیر احمد ہے جس کی شادی اویس احمد صاحب کھو کھر کی بیٹی مبشرہ (330)
ساجدہ سے ہوئی ہے.ان کے بھی تین بچے ہیں.بڑا بیٹا عثمان احمد ، حارث احمد ، بیٹی عروشہ احمد.یہ بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور بیلجیم میں آباد ہیں.پھر ہماری بیٹی سارہ ہے جس کی شادی عبدالمصور خان صاحب ابن عبد المومن خان صاحب سے ہوئی ہے.ان کے بھی تین بچے ہیں.بڑا بیٹا عبد ایمن خان، جہانگیر احمد خان، بیٹی انیقہ خان.پھر ہمارا آخری بچہ عکاشہ احمد جس کی شادی اُس کے ابو کی وفات کے بعد ہوئی.عکاشہ احمد کی شادی خواجہ عبد الکریم صاحب کی بیٹی عروج سے ہوئی.ان کے بھی ماشاء اللہ تین بچے ہیں.بڑا بیٹا امان احمد، علیشہ احمد اور سب سے چھوٹا میرا پوتا رحیم احمد ہے.مجھے اپنے نواسے نواسیوں ، پوتے پوتیوں سے بے حد پیار ہے اور ماشاء اللہ وہ سب بھی مجھے بہت پیار کرتے ہیں.الحمد للہ! کتنے کرم ہیں مجھ پر.اگر میں ساری زندگی بھی اُس خالق مالک کے آگے سجدہ ریز رہوں تو بھی ایک ذرہ بھر اس شکریہ کا حق نہیں ادا کر سکتی.سامی صاحب دنیا سے کیا گئے میں تو بالکل بے سہاراسی ہوگئی تھی.آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا کہ اب کیا ہو گا.سب بچے اپنے اپنے گھروں میں ہیں ، میں کیا کروں گی.مجھے تو آج تک یہ نہیں علم تھا کہ بجلی یا فون کا بل کیسے ادا کرنا ہوتا ہے.بینک کے کارڈ سے پیسے لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.میں تو مشین میں کارڈ ڈالتے ہوئے ڈرتی تھی کہ جانے کیا ہو جائے گا.سامی صاحب اکثر مجھے کہتے تھے کہ تم یہ باتیں سیکھ لو لیکن میں ہمیشہ ہنس کر بات کو بدل دیتی کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں یہ سب سیکھوں.لیکن اللہ تعالیٰ سب جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے.وہی جس پر مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ بھروسہ تھا وہ صبح شام میری تربیت کرتا تھا، مشکل اور آسان راہوں کی پہچان کرواتا تھا.جب وہ ہی میرا ساتھ چھوڑ گیا تو میری دنیا نے تو اندھیر ہونا ہی تھا.لیکن قربان جاؤں اُس ذات پاک کے جس نے خود میرا ہاتھ پکڑ لیا.مجھے اس سے زیادہ طاقتور سہارا کہاں سے مل سکتا تھا.جانے والے کی یاد تو دل سے کبھی بھی نہیں گئی لیکن جب اللہ میرا سہارا بن (331)
گیا تو مجھے کوئی بھی مشکل مشکل نہیں لگی.آج میں بہت خود مختار ہوں.بینکوں میں خود جاتی ہوں.تمام اپنے کام خود کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے تو اوروں کے بھی کام کر جاتی ہوں.پھر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اُس نے اولا د بے حد فرماں بردار دی ہے.مجھے کمپیوٹر کے کورس کروائے ، میں جو ایک لفظ نہیں لکھ پاتی تھی آج خود ٹائپ کرتی ہوں اور جو جی میں آئے لکھتی ہوں.یہ تو سب چھوٹے چھوٹے احسان ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کئے.اب جو میں لکھنا چاہتی ہوں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئی لکھنے لگی ہوں کہ اس میں میری کوئی بڑائی نہیں ہے صرف شکرانے کے طور پر اور اُس کے احسانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اظہار کرنے لگی ہوں.زندگی میں ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ میں بھی کوئی نیکی کا کام کر سکوں مگر زندگی کی دوڑ میں کبھی فرصت ہی نہیں ملی.اب فرصت ملی تو الحمد للہ ! چار بار اعتکاف بیٹھنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی.تین بار بیت الفتوح میں اور ایک بار کینیڈا میں مسجد بیت الاسلام میں.پھر اتنا ہی کرم نہیں کیا اب اللہ تعالیٰ نے اپنے مجھ پر کرم کو انتہا تک پہنچادیا اور مجھ جیسی حقیر، فقیر، انتہائی نالائق ، گنہ گار کو حج کی توفیق بخشی.اب حج کی بات میں نے کی ہے تو اپنی ایک یاد میں بھی آپ سب کو شامل کر لوں.سامی صاحب کی زندگی میں ہم دونوں کبھی شام کو اکیلے بیٹھتے تھے تو میں ہی بات شروع کرتی تھی.کئی بار یہ بات ہمارے درمیان ہوتی.جب میں یہ کہتی سامی جب ہم اپنے بچوں کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو جائیں گے اور اللہ ہمیں تو فیق دیگا تو ہم عمرہ ضرور کرنے جائیں گے اور جس پر ہمیشہ سامی صاحب کا ایک جواب ہوتا تم جب اللہ سے مانگتی ہی ہو تو حج کیوں نہیں مانگتی عمرہ ہی کیوں؟ تو میرا اُن کو جواب ہوتا کہ سامی...حج سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے بہت رش ہوتا ہے.ایک بار پہلے عمرہ کر لیں تو پھر حج بھی کر لیں گے.سامی صاحب کا جواب ہوتا کہ ڈرتی کیوں ہو.تو پھر میرا جواب یہ کہ دیکھیں اگر ہم حج پر جاتے ہیں اور رش میں ہمارا ہاتھ چھوٹ جاتا ہے تو ہم بس ایک دوسرے کو ہی ڈھونڈتے رہیں گے اور اگر ڈھونڈے سے بھی نہ ملے تو کیا ہوگا ؟ مجھے جواب دیتے اللہ مالک ہے بس تم اچھی اچھی دعامانگا (332)
کرو اللہ توفیق دے گا تو ہم حج ضرور کریں گے ، ڈرو نہیں.پھر.....جس ہاتھ کے.چھوٹنے کا ڈر تھا وہ زندگی بھر کا ساتھ ہی چھوڑ کر چلا گیا.سب کچھ ٹوٹ پھوٹ سا گیا.بظاہر حج اور عمرے کے خواب بھی دھرے کے دھرے رہ گئے لیکن وہ جو سچے دل سے حج کی دعائیں مانگنے کی تلقین کرتے تھے وہ دعائیں ضرور اللہ تعالیٰ کے گھر میں جمع ہو چکی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے روپ میں فرشتوں کو میرے لیے مقرر کر دیا ہوا تھا.یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا کیسے؟ مجھے انفیکشن کی وجہ سے بخار تھا اور میں منہ سر لپیٹ کر لحاف میں لیٹی ہوئی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی دوتین بیل کے بعد فون اُٹھایا تو بشری عشرت صاحبہ نے سلام دعا کے بعد میری خیریت پوچھی.میں نے اپنی بیماری کا ذکر نہیں کیا.پھر جب اُنہوں نے یہ کہا کہ آپا ئیں اسلام آباد (ٹلفورڈ ) جا رہی ہوں.سوچا آپ کو بھی ساتھ لے جاؤں.پھر مجھے بتانا پڑا کہ اسوقت تو میری طبیعت بہت خراب ہے، میں تو بستر میں ہوں.میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے پہلی بار پوچھا اور میں نہیں جا رہی اور ساتھ میں نے کہا بشری ! آپ لوگ تو حج اور عمرہ پر اکثر جاتے ہیں کبھی مجھے وہاں جانے کے لیے بھی پوچھیں؟ تو اُن کا جواب تھا کہ آیا ہم تو پھر حج پر جارہے ہیں کچھ اور لوگ بھی ہمارے ساتھ ہونگے.ہماری تو چار پانچ مہینہ پہلے سے سیٹ بک ہو چکی ہیں اب تو کوئی چانس نہیں ہے.میرا جواب تھا کوئی بات نہیں ابھی تو ویسے بھی میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی.جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا اللہ خود ہی سامان پیدا کر دے گا.اس فون کے کوئی پانچ یا چھ دن کے بعد صبح کوئی دس بجے کے قریب پھر فون کی گھنٹی بجی اور وہی جانی پہچانی آواز بشری عشرت صاحبہ کی آئی.سلام کے بعد ایک دم سے کہتی ہیں : " آپا! آپ کو اللہ کے گھر سے بلاوا آیا ہے.“ پہلے تو مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی.پھر انہوں نے ساری بات بتائی کہ میں اُسی دن کے فون کے بعد (333)
ہی کوشش میں لگ گئی تھی.اب اگر آپ نے حج پر جانا ہے تو آج شام تک جواب دے دیں.سچی بات تو یہ ہے کہ میں ایک دم پریشان ہو گئی.اپنی بہو عروج سے بات کی.اُس کا جواب تھا کہ آپ کی طبیعت اتنی ٹھیک نہیں ہے آپ اگلے سال چلی جائیں.اپنے بیٹے عکاشہ کو اسی وقت فون کیا اُس کا بھی یہی جواب تھا کہ موقع اور ساتھ تو بہت اچھا ہے مگر اس وقت آپ ٹھیک نہیں ہیں.مجھے یقین تھا کہ اس وقت میں جس بھی بچے کو پوچھوں گی یہی جواب ہوگا.پھر میں نے اپنے ایک ایسے محترم محسن ( جناب امام مسجد فضل لندن محترم عطاء الحجيب راشد صاحب ) کو فون کیا ، جن سے میں ہر ضروری کام کرنے سے پہلے مشورہ کرتی ہوں.چونکہ وہ پہلے خدا کے فضل سے حج کر چکے ہوئے ہیں.انہوں نے وہاں کے بارے میں مجھے اونچ نیچ سمجھائی اور کہا اللہ مبارک کرے.پھر میں نے نہ اپنے بچوں سے پوچھا نہ بتایا.اُسی وقت بشری کو فون کر دیا کہ مبارک ہو، میں اللہ کے مقدس گھر اور اللہ کے مقدس رسول سنی سی ایم کے دیدار کے لیے تیار ہوں.اب اس مقدس سفر کی تیاری کے لیے صرف بارہ یا پندرہ دن باقی تھے لیکن الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے میرے سارے کام کر دیئے.یہاں میں اُن سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے ہر ہر لمحہ میرا ساتھ دیا اور میرا ہاتھ تھامے رکھا.میرے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں حج کر سکتی ہوں اور نہ ہی میری جیب میں اتنی طاقت تھی کہ میں یہ اہم فریضہ ادا کر سکوں.لیکن جب اللہ تعالیٰ نے میرے نصیب میں دیدار م سایا ہی لکھ دیا تو یقین کریں میں جو ڈر ڈر جاتی تھی، کوئی خوف نہیں رہا.اللہ نے میری اتنی مدد فرمائی کہ اُس وقت مجھے نہ کوئی مالی دشواری ہوئی اور نہ کسی سے مدد کی ضرورت پڑی.اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنادیا اور میری اوقات سے بڑھ کر دیا.اگر لینے والے نے مجھ سے ایک فانی انسان لے لیا تو رحمتوں اور برکتوں کی بوچھاڑ بھی تو کر دی.میرے لیے سودا بہت سستا ہے.اللہ پاک سے ہر پل سامی صاحب کی مغفرت کی دعا کرتی ہوں.انہوں نے اپنی زندگی میں اس دنیا میں میرا بھر پور (334)
ساتھ دیا.اگلے جہان جا کر بھی میرے پیچھے میرے لیے اللہ تعالیٰ کا مضبوط پائدار سہارا قائم کر دیا.یہ سب میں نے اظہار تشکر کے لیے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کبھی ضائع نہیں کرتا.مجھے بھی بے انتہا نعمتوں سے نوازا ہے.آخر میں ایک بار پھر اسی بات کو دوہرانے لگی ہوں کہ اگر بچے اپنے ماں یا باپ کو ، جب وہ اکیلے رہ جاتے ہیں، اچھی طرح سنبھال لیں تو اُن کی زندگی کے آخری دن اچھے گزر جاتے ہیں.میرے بچوں نے پل پل میرا ساتھ دیا.اس عمر میں مجھے بہت کچھ سکھایا اور اپنے ابو کی کمی کو محسوس نہیں ہونے دیا.میں تہہ دل سے اپنے بیٹوں ، بیٹیوں ، بہوؤں اور دامادوں کی شکر گزار ہوں اور ایسے ہی اپنے پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں کی بھی کہ جب کبھی بھی مجھے ضرورت محسوس ہوئی تو سب نے میری مدد کی.میری خوشیوں میں سب خوش ہوئے.میری معمولی سی تکلیف سے بھی سب پریشان ہوئے.میں اپنے تمام بچوں ، بچوں کے بچوں اور آنے والی پوری نسل کیلئے دعا کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان سب کو دین کی راہوں پر چلائے اور دنیا میں بھی یہ بہترین انسان ہوں.دین اور دنیا کی خدمت کرنے والے ہوں.صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ کے چند اشعار بطور نصیحت لکھتی ہوں ؎ نفس قابو رکھنا ہوگا دل کو سمجھانا ہوگا اپنے روگ چھپانے ہونگے دوجوں کو بہلانا ہوگا کتنے دکھیارے لوگوں کے زخموں کو سہلانا ہوگا سب کا درد بٹانا ہوگا (335)
اچھی فصلیں چاہتے ہو تو اچھے بیج ہی بونا ہو گا ہنسو گے، ساتھ ہنسے گی دنیا، بیٹھ اکیلے رونا ہوگا یہ میری 73 سال کی بہترین پونچی ہے جس میں دکھ بھی آئے اور سکھ بھی.ہر انسان کی زندگی میں خوشیاں بھی آتی ہیں اور غم بھی یہ دونوں ہی زندگی کا حصہ ہیں، اور ہر ایک کا اپنا اپنا مزہ ہے.دکھ دل کو گداز کرتا ہے.مجھے ایسا لگتا ہے ہر انسان کو زندگی میں ہمیشہ اچھی اچھی چیزوں کی ہی توقع نہیں رکھنی چاہئے.ہمیں دکھ سکھ ، صحت، بیماری، کامیابی ، نا کامی بھی کیلئے ہمیشہ تیار رہنا چاہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر امتحان میں کامیاب کرے.آمین.میرے سر پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا سایہ رحمت رہا.اُسی مضبوط سہارے کے ساتھ میں نے اپنی یہ زندگی گزاری ہے.اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کب تک میں نے ابھی اور اس دنیائے فانی میں وقت گزارنا ہے.مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہو گا.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.سب پڑھنے والوں سے میری درخواست ہے کہ میری مغفرت کیلئے ضرور دعا کریں.جیسے اس دنیا میں رب العالمین میر اپل پل سہارا بنا.اگلے جہاں میں بھی مجھے اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے.آمین ثم آمین.خدا حافظ.صفیہ بشیر احمد سامی اہلیہ بشیر الدین احمد سامی (مرحوم) (336)
محبتوں کے نصیب کلام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ میرے درد کی جو دوا کرے، کوئی ایسا شخص ہوا کرے وہ جو بے پناہ اُداس ہو، مگر ہجر کا نہ گلہ کرے مری چاہتیں مری قربتیں جسے یاد آئیں قدم قدم تو وہ سب سے چھپ کے لباس شب میں ، لپٹ کے آہ و بکا کرے بڑھے اُسکا غم تو قرار کھودے، وہ میرے غم کے خیال سے اُٹھیں ہاتھ اپنے لئے تو پھر بھی میرے لئے ہی دعا کرے قصص عجیب و غریب ہیں، یہ محبتوں کے نصیب ہیں مجھے کیسے خود سے جدا کرے، اُسے کچھ بتاؤ کہ کیا کرے طے کرے یونہی سوچ سوچ میں وہ فراق کے فاصلے میرے پیچھے آ کے دبے دبے، میری آنکھیں موند ہنسا کرے بڑا شور ہے میرے شہر میں کسی اجنبی کے نزول کا وہ میری ہی جان نہ ہو کہیں، کوئی کچھ تو جا کے پتہ کرے یہ تو میرے دل ہی کا عکس ہے، میں نہیں ہوں پر مری آرزو کو جنون ہے مجھے یہ بنا دے تو پھر جو چاہے قضا کرے بھلا کیسے اپنے ہی عکس کو، میں رفیق جان بنا سکوں کوئی اور ہو تو بتا تو دے، کوئی ہے کہیں تو صدا کرے اُسے ڈھونڈتی ہیں گلی گلی، میری خلوتوں کی اُداسیاں وہ ملے تو بس یہ کہوں کہ آ، میرا مولا تیرا بھلا کرے (337)
عجب محسن ہے تو بحر الا یا دی ، پڑھتے ہوئے مسلسل یہ احساس ہوتا رہا کہ متوکل علی اللہ کمزور و بے بس انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے مضبوط کنڈے کو ایک طرف سے ہاتھ ڈالا ہوا ہے اور دوسرے سرے کو قادر و توانا زندہ خدا نے خود تھام رکھا ہے جو اپنے بندوں کو اپنی خاص اور خالص محبت کی چاشنی سے آشنا کرنے کے لئے اپنا سہارا دے کر آزمائشوں سے کامیاب گزارتا ہے، خود کار خیر کی توفیق دے کر انعام و اکرام کی بارش کر دیتا ہے.مانگنے کا سلیقہ دیتا ہے اور قبولیت کے شمار بھی عطا فرماتا ہے.بزرگوں کی دعاؤں کے فیوض نسلوں کے لئے جاری فرما دیتا ہے اور حمد وشکر پر بڑھاتا چلا جاتا ہے.ان عنایات خداوندی کو جھولی میں سمیٹنے والی اس کتاب کی مصنفہ صفیہ سامی کہتی ہیں کہ انہیں اپنا نام بھی لکھنا نہیں آتا.اس سادگی پر مرنے کی بجائے جینے کا حوصلہ مانتا ہے اور دل ان کے لئے جزائے خیر کی دعا کرتا ہے.امۃ الباری ناصر ) Meri Poonji by Safia Basheer Sami - London