Meraj Ka Shuhra Afaq Safar

Meraj Ka Shuhra Afaq Safar

معراج کا شہرہ آفاق سفر

اعجازی مشاہدات اور عظیم مذہبی انقلاب
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

مورخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے معراج کے سفر کے متعلق یہ مختصر کتابچہ تیار کیا ہے جس میں معراج کے سفر کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اقتباسات درج کرکے دیگر ماخذوں سے اس روحانی سفر کی تفصیلات پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اس روحانی سفر کے نتیجہ میں کس قدر واضح اور عظیم مذہبی انقلابات کا داغ بیل ڈالی گئی۔ نیز اس کتاب میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے لائے ہوئے علم اور نور سے محروم رہنے والوں کی کوتاہ فہمی اور خام خیالیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔


Book Content

Page 1

معراج کا شہرہ آفاق سفر

Page 2

معراج کا شہرہ آفاق سفر اعجازی مشاہدات اور عظیم مذہبی انقلاب مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت :terailduq YAHI UORD RAHA SAHAT MM THO AOUABBIZIM TOT ETS 900 J8 - OTA АФАНАЯ XUJ

Page 3

3 قرآنی سائنس بسم الله الرحمن الرحیم جس طرح تمام آسمانی کتابوں کا مغز قرآن شریف ہے اسی طرح زندہ خدا کی اس زندہ کتاب کا لطیف ترین خلاصہ سورۃ فاتحہ ہے جس کی آیت الــحــمــد لله رب العالمين میں قرآنی سائنس کے وسیع سمندر کو صرف چار لفظوں سے منعکس کیا گیا ہے جو فی ذاتہ بھاری معجزہ ہے.اور اسکی حقیقی معرفت سورہ آل عمران آیت ۹۲ کے اس عظیم الشان نکتہ سے ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو قیام وقعود ہی میں نہیں، پہلوؤں کے بل بھی آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں، بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے یہ کائنات بے مقصد پیدا نہیں فرمائی.تو پاک ہے پس ہمیں اپنی ناراضگی کی آگ کے عذاب سے بچالے.یہ ہے قرآنی سائنس جس کو پیش نظر رکھ کر قرآنی سائنسدان تمام جہانوں کی ریسرچ کرتا اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بے شمار جلوے دیکھ کر سرتا پا حمد بن جاتا ہے.رب العالمین کی بصیرت افروز تفسیر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.زبان عرب میں رب کا لفظ سات معنوں پر مشتمل ہے اور وہ یہ ہیں.مالک.سید- مدبر - مربی تیم منعم متم.چنانچہ ان سات معنوں میں سے تین معنی خدا تعالی کی ذاتی عظمت پر دلالت کرتے ہیں منجملہ ان کے مالک ہے اور مالک لغت عرب میں اسکو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامہ ہو اور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لا سکتا ہو اور بلا اشتراک غیر اس پر حق رکھتا ہو اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اُس کے معنوں کے بجز خدا تعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پاسکتا کیونکہ قبضہ تا مہ اور تصرف تام اور حقوق نامہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے لئے مسلم نہیں ، ( من الرحمن ، صفحہ ۷.۸.حاشیہ )

Page 4

حضرت اقدس نے اپنی کتب اور ملفوظات میں واضح فرمایا ہے کہ عالم کے معنے یہ ہیں جس سے مدیر بالا رادہ اور کامل و یگانہ صانع پر اس شان سے دلالت کرے اور اس کا علم اور خبر دے کہ کائنات کے صانع پر ایمان لانے کے لئے طالب حق کو مجبور کر دے اور اسے مومن بندوں تک پہنچا دے.حضور نے اعجاز مسیح میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ عالمین سے مراد مخلوق کو پیدا کرنے والے خدا کے سوا ہر بستی ہے، خواہ وہ عالم ارواح سے ہو یا عالم اجسام سے اور خواہ وہ زمینی مخلوق میں سے ہو یا چاند اور ان کے علاوہ دیگر اجرام کی مانند کوئی چیز ہو، یہ سب جناب باری تعالٰی کی ربوبیت کے تحت داخل ہیں.حضور انور کشتی نوح صفحہ ۳۸ حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں:.رب العالمین کیسا جامع کلمہ ہے.اگر ثابت ہو کہ اجرام فلکی میں آبادیاں ہیں تب بھی وہ آبادیاں اس کلمہ کے نیچے آئیں گی " جیسا کہ لغت سے ثابت ہے رب کے معنی مالک کے بھی ہیں.حضور نے اس نقطہ نگاہ سے رب العالمین کے مقام کو جن الفاظ سے واضح فرمایا ہے ان سے عہد قدیم و حاضر کے دہریہ اور محمد فلاسفروں اور مادہ اور روح کو خدا تعالی کی طرح ازلی ابدی ماننے والوں کے نظریات کو پاش پاش کر دیا ہے چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں.اس کا کوئی ایسا کار پرداز نہیں جس کو اس نے زمین آسمان کی حکومت سونپ دی نہو اور آپ الگ ہو.بیٹھا ہو اور آپ کچھ نہ کرتا ہو ( اسلامی اصول کی فلاسفی ) عجائبات عالمین کی تین اقسام حضرت مسیح موعود ارشاد فرماتے ہیں.در حقیقت خدائے تعالیٰ نے اپنے عجیب عالم کو تین حصہ پر منقسم کر رکھا ہے.ا.عالم ظاہر جو آنکھوں اور کانوں اور دیگر حواس ظاہری کے ذریعہ اور آلات خارجی کے توسل سے محسوس ہو سکتا ہے.۲.عالم باطن جو عقل اور قیاس کے ذریعہ سمجھ آ سکتا ہے.۳.عالم باطن در باطن جو ایسا نازک اور لائد رک و فوق الخیالات عالم ہے جو

Page 5

5 تھوڑے ہیں جو اس سے خبر رکھتے ہیں وہ عالم غیب محض ہے جس تک پہنچنے کے لئے عقلوں کی طاقت نہیں دی گئی مگر ظن محض اور اس عالم پر کشف اور وحی اور الہام کے ذریعہ سے اطلاع ملتی ہے اور نہ کسی اور ذریعہ سے اور جیسی عادت اللہ بد یکی طور پر ثابت اور متحقق ہے کہ اس نے ان دو پہلے عالموں کے دریافت کرنے لئے جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے انسان کو طرح طرح کے حواس اور قوتیں عنایت کی ہیں.اس فیاض مطلق نے انسان کے لئے ایک ذریعہ رکھا ہے اور وہ ذریعہ وحی اور الہام اور کشف ہے جو کسی زمانہ میں بکلی بند اور موقوف نہیں رہ سکتا.ایسا خیال بڑا نا پاک خیال ہے جو یہ سمجھا جائے جو خدائے تعالٰی نے انسان کے دل میں تینوں عالموں کے اسرار معلوم کرنے کا شوق ڈال کر پھر تیرے عالم کے وسائل وصول سے بکلی اسکو محروم رکھا ہے“ رمه چشم آریه حاشیه صفحه ۱۲۷ - ۱۳۸) سائنس اور مذہب کا دائرہ اس وضاحت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ حقیقی مذہب اور سائنس میں ہرگز کوئی تصادم نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود نے ببانگ بلند یہ نظریہ پیش فرمایا کہ مذہب خدا کا قول ہے اور سائنس اس کا فعل.نیز پیشگوئی فرمائی.جس طرح صحیفہ فطرت کے عجائب وغرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں بلکہ جدید در جدید پیدا ہوتے جاتے ہیں.یہی حال ان صحف مطہرہ کا ہے تا خدائے تعالی کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو" نیز فرمایا.: ازالہ اوہام صفحه ۳۱۲۲۳۰۵) " اس وقت خدا تعالٰی نے مذہب کو ایک سائنس ( علم ) بنا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ زمانہ کشف حقائق کا زمانہ ہے جبکہ ہر بات کو علمی رنگ میں ظاہر

Page 6

کیا جاتا ہے ( ملفوظات جلد ۳ صفحه ۲۳۵ طبع اول) حضرت اقدس کے مندرجہ بالا اقتباس سے یہ فیصلہ کن راہ نمائی بھی ملتی ہے کہ سائنس کی تحقیقات کا دائرہ عالم ظاہر و باطن تک محدود ہے جس کا تعلق حواس ظاہری ، آلات خارجی اور عقل و قیاس سے ہے لیکن عالم باطن در باطن تک اس کی رسائی نہ پہلے ممکن تھی نہ اب ہوسکتی ہے.اس کا واحد ذریعہ وحی الہام اور کشف ہیں جو زندہ خدا کے زندہ مذہب پر ایمان لانے سے نصیب ہوتے ہیں اور یہ بدیہی امر ہے کہ ان تینوں نعمتوں کا تعلق براہ راست روح سے ہے جس کی تجلیات کا مرکز قلب ہے.عالم باطن در باطن کے حیرت انگیز اثرات سرمہ چشم آریہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ذاتی مشاہدات کی بناء پر روح کی ہیں زبر دست قوتوں کی نشان دہی فرمائی ہے اور لکھا ہے کہ اب تک قریباً پانچ ہزار نادر مکاشفات و عجائبات مجھ پر جناب الہی سے ظاہر ہو چکے ہیں.اس ضمن میں یہ انکشاف کیا ہے کہ.دنیا میں صاحب کشف پر ایسے ایسے اسرار ظاہر ہوتے ہیں کہ ان کی کنہ کو سمجھنے میں بکلی عقل عاجز رہ جاتی ہے.بعض اوقات صاحب کشف صدہا کوسوں کے فاصلہ سے باوجود حائل ہونے بے شمار حجابوں کے، ایک چیز کو صاف صاف دیکھ لیتا ہے بعض اوقات صاحب کشف اپنے عالم کشف میں جو بیداری سے نہایت مشابہ ہے ارواح گزشتہ سے ملاقات کرتا ہے.اور سب سے تعجب کا یہ مقام ہے کہ بعض اوقات صاحب کشف اپنی توجہ اور قوت تاثیر سے ایک دوسرے شخص پر باوجود صد ہا کو سیوں کے فاصلہ کے باذنہ تعالیٰ عالم بیداری میں ظاہر ہو جاتا ہے حالانکہ اس کا وجود عصری اپنے مقام سے جنبش نہیں کرتا.ای طرح صدہا عجائبات کو عارف باللہ پچشم خود دیکھتا ہے." سرمه چشم آریه حاشیه صفحه ۱۲۹ ۱۳۰) اکابر صوفیاء کے نزدیک کشف کی دو قسم ہیں.کشف صغری جس میں سالک قلبی توجہ سے

Page 7

7 زمین و آسماں ، ملائکہ ارواح قبور ، عرش و کرسی اور لوح محفوظ الغرض دونوں جہاں کا حال مشاہدہ کرتا ہے.کشف کبری میں سالک کو نور بصیرت سے ذات حق سبحانہ کی زیارت ہوتی ہے.(اصطلاحات صوفیه صفحه ۱۳-۱۹۱ از " حضرت شاہ حمد عبد الصمد فریدی چشتی ناشر که بکس بیرون موری درواز سرکلر روڈ لاہور ) اس عالم ثالث کو پہلے دونوں جہانوں کے مقابل عدیم المثال برتری حاصل ہے.چنانچہ حضور تحریر فرماتے ہیں.عجائبات اس عالم ثالث کے بے انتہاء ہیں اور اس کے مقابل دوسرے عالم ایسے ہیں جیسے آفتاب کے مقابل پر ایک دانہ خشخاص ( ایضاً حاشیه صفحه ۱۲۹) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا بھر کے سائنسدان عالم ظاہر اور عالم باطن کے رموز و اسرار کی دریافت اور بازی کا ئنات کی تسخیر میں صدیوں سے دیوانہ وار مصروف ہیں اور انہیں اس مقصد میں ایک حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے لیکن اس کی حیثیت کیا ہے حضرت مسیح موعود کے قلم مبارک سے سنئے.فرمایا.یاد رکھو انسان کی ہرگز طاقت نہیں ہے کہ تمام دقیق در دقیق خدا کے کاموں کو دریافت کر سکے انسان کا وہ علم نہایت ہی محدود ہے جیسا کہ سمندر کے ایک قطرہ میں سے کروڑم حصہ قطرہ.جس حالت میں انسان کا علم خدا کی قدرتوں کی نسبت اسقدر بھی نہیں جیسا کہ ایک سوئی کی نوک کی تری ایک بحر اعظم کے پانی سے نسبت رکھتی ہے“ چشمہ معرفت صفحه ۲۶۸ طبع اول معه حاشیه) اقلیم مذہب و سائنس کا آفاقی تاجدار قرآن مجید نے سلسلہ انبیاء میں صرف آنحضرت ﷺ کو نبی امی کا خطاب دیا ہے اور سورۃ جمعہ میں اہل عرب کو امین کہا گیا ہے کیونکہ وہ بعثت نبوی کے وقت علم سے نا آشنا اور محض جاہل تھے مگر آنحضرت ﷺ کو غار حرا کی پہلی وحی میں ہی یہ بشارت دی گئی کہ سب سے کریم خدا کی تجلی آپ

Page 8

8 کے وجود سے ظاہر ہوگی قرآن قلم سے محفوظ ہوگا اور اس کے علوم کی قلموں کے ذریعہ اشاعت ہوگی اور انسان کام کو وہ کچھ سکھلایا جائے گا جس کا پہلے نام ونشان نہ تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے تاریخ عالم کے اس بین الاقوامی تغیر عظیم کا ذکر نہایت ولولہ انگیز میں کیا ہے.فرماتے ہیں:.یورپ کے پاس کوئی ایک چیز بھی نہ تھی.اس نے جو کچھ سیکھا، سپین کے مسلمانوں سے سیکھا اور چین نے جو کچھ سیکھا اور شام والوں نے جو کچھ سیکھا، قرآن سے سیکھا پس دنیا کے تمام علوم قرآن سے ہی ظاہر ہوئے ہیں اور اب قیامت تک جس قدر قلمیں چلیں گی قرآن کریم کی خدمت اور اس کے بیان کردہ علوم کی ترویج کے لئے ہی چلیں گی تغیر کی جلد صح۲۷۳) نیز فرمایا.درخت کا پھیلاؤ خواہ کسقدر بڑھ جائے بیج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح علوم خواہ کس قدر ترقی کر جائیں سہرا مسلمانوں کے سر ہی رہے گا.اور مسلمانوں کا سرقرآن کریم کے آگے جھکا رہے گا کیونکہ یہی وہ کتاب ہے جس نے اعلان کیا کہ علم بالقلم اب دنیا کو قلم کے ذریعہ علوم سکھانے کا وقت آگیا ہے (ایضاً) اگر چہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں مسلم دنیا سائنس اور علوم جدیدہ کو شجر ممنوعہ سمجھنے کے باعث ظلمت کدہ کا نظارہ پیش کر رہی تھی مگر سید نا حضرت مسیح موعود نے اپنے معرکہ آراہ لٹریچر ہے ثابت کر دکھایا کہ قرآن مجید ہر قسم کے علوم کا بجرنا پیدا کنار ہے.دیگر مسلمانوں کے مذہبی زعماء کے بر عکس قرآن مجید سے عہد حاضرہ کے علوم اور ایجادات کا ثبوت دے کر حقانیت رسول عربی پر گویا دن چڑھا دیا.آپ کے بعد خلفاء احمدیت نے قرآن سے موجودہ علوم کے بارہ میں ایسے ایسے اکتشافات فرمائے ہیں کہ مغرب کے دانشوروں کی آنکھیں بھی چکا چوند ہو گئیں اور ڈاکٹر مورس بوکائی ( فرانسیسی دانشور ) کی کتاب ”دی بائبل، دی قرآن اینڈ سائنس میں قرآنی حقائق کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ کتاب کی اشاعت سے مدتوں قبل جماعت احمد یہ پوری

Page 9

9 قوت و شوکت سے پیش کرتی آرہی ہے جس پر جماعتی لٹریچر گواہ ہے.مثال کے طور پر یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ دسمبر ۱۹۵۷ء میں سید نا مصلح موعود ی " تفسیر صغیر' منظر عام آئی جس کے حواشی میں مذہب اور جدید سائنس کے علوم کی نسبت قرآن کی بے شمار آیات سے حیرت انگیز رنگ میں استنباط کیا گیا ہے جس کے اندازہ کیلئے تفسیر صغیر کے انڈیکس پر سرسری نظر ڈالناہی کافی ہے.(ای نقطہ نگاہ سے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ترجمہ قرآن کا مطالعہ ضروری ہے) امریکن خلانوردوں کی گاڑی پہلی بار ۲۰ جولائی ۱۹۶۹ء کو چاند پر پہنچی مگر حضور انور نے تفسیر صغیر میں چودہ سال قبل قرآن کی روشنی میں واضح فرما دیا کہ قرآن نے کائنات کی دوسری مخلوق سے رابطہ کی بھی خبر دی ہے اور سورہ رحمن میں بتایا گیا ہے کہ راکٹ زیادہ سے زیادہ ان سیاروں تک پہنچ سکیں تھے جو زمین سے کھلی آنکھ سے نظر آتے ہیں (اور وہ بھی زمین ہی کے ماحول کو اپنے ساتھ وابستہ کر کے ) چنانچہ آیت و اذ الارض مدت (الانشقاق:۴) کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرمایا: یعنی اس زمانہ میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ بہت سے کرے جو بظا ہر آسمان کے ساتھ وابستہ نظر آتے ہیں وہ زمین کا حصہ ہیں جیسے چاند اور مریخ وغیرہ.یہ سائنس کا انکشاف اس زمانہ میں ہوا ہے پہلے نہیں ہوا تھا بلکہ مزید بات یہ ہے کہ ان گروں کو زمین کا حصہ سمجھ کر بعض لوگ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ راکٹ کے ذریعہ ان تک پہنچ جائیں یا اُن کو بھی رہائش کے لحاظ سے زمین کا ہی حصہ ثابت کر دیں.اگر یہ ہو جائے یا لبعض لحاظ سے چاند اور دوسرے کروں سے ایسے فائدے اٹھائے جاسکیں جس سے زمین متمتع ہو تو اس کا مفہوم یہی ہوگا کہ زمین پھیل گئی ہے." قرآن مجید نے قیامت تک کے لئے آنحضرت ﷺ کا ایک ایسا واقعہ ریکارڈ فرمایا ہے جو مشہور عالم سفر معراج کے بعد پیش آیا اور بتایا سائنس خواہ کتنی ترقی کر لے ، قیامت تک اس میں بیان فرموده صداقت کو غلط ثابت نہیں کر سکے گا کیونکہ وہ چٹان کی طرح غیر متزلزل ہے.یہ واقعہ سورہ بنی اسرائیل آیت ۷۳ میں مذکور ہے اور وہ یہ کہ قریش مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے

Page 10

10 آسمان پر چڑھ جانے کا مطالبہ کیا جس پر خالق کائنات کا شاہی فرمان نازل ہوا.قل سبحان ربي هل كنت الا بشراً رسول" (آیت ۹۳) حضرت مسیح موعود کے مبارک الفاظ میں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ " کہہ دے میرا رب پاک ہے.میں تو ایک انسان رسول ہوں.انسان اس طرح اٹھ کر کبھی آسمان پر نہیں جاتے.یہی سنت اللہ قدیم سے جاری ہے ( الحکم ۱۷ جون ۱۹۰۶، صفحہ ۴) حال ہی میں جلالت الملک شاہ فہد بن عبد العزیز کی طرف سے سعودی حکومت نے قرآن کریم مع اردو ترجمہ و تفسیر شائع کیا ہے جس کے صفحہ ۷۹۲ میں آیت کی تفسیر میں لکھا ہے ”جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو تمہاری طرح ایک بشر ہی ہوں.کیا کوئی بشر ان چیزوں پر قادر ہے؟“ بہر حال حضرت مسیح موعود کی بیان فرمودہ یہ صداقت ہمیشہ جگمگاتی رہے گی..مجمع البحرین علم و معرفت جامع الامین ابر خاورے سالکان را نیست غیر از وے امام زہرواں را نیست جزوے رہبر ہے عالم باطن در باطن کا غیر فانی شاہکار اب تک ہم نے قرآن مجید کی روشنی میں عالم ظاہر و باطن یعنی سائنس کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کے لائے ہوئے علمی کمالات پر روشنی ڈالی ہے.اب قرآن مجید ہی کی رہنمائی سے عالم باطن در باطن کے ایک غیر فانی شاہکار کا ذکر کرتے ہیں.ہماری مراد آنحضرت ﷺ کی عدیم النظیر سیر نورانی یعنی معراج سے ہے.جو وحی الہام اور کشف کے انوار و برکات سے اس طرح لبریز ہے جس طرح آسمان ستاروں سے اور سمندر پانی کے قطروں سے پر ہیں.قرآن مجید اور معراج کا نورانی سفر کتاب اللہ کا علمی معجزہ دیکھئے کہ سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں معراج کا بیان ہی سبحان“ کی صفت سے ہوا ہے جس میں آیت سبحان ربی هل كنت الا بشراً رسولا " كى طرف

Page 11

11 اشارہ مقصود ہے ازاں بعد بعبدہ کا لفظ ہے اور بالکل یہ لفظ اللہ جلشانہ، نے سورہ نجم آیت ۱۱ میں ذکر کر کے کیفیت معراج پر بایں الفاظ روشنی ڈالی ہے کہ فاوحی الی عبده ما اوحی ، یعنی اُس نے اپنے بندے کی طرف وہ وحی کیا جو وحی کیا سورہ بنی اسرائیل ہی میں جناب الہی نے معراج کو الرؤیا قرار دے کر سب حقیقت کھول دی.کیونکہ قرآن کی مشہور لغت " مفردات امام راغب کے مطابق رویاء کے معنی صرف اور صرف خواب کے ہیں (مایری فی المنام).حضرت امام الحافظ ابن حجر عسقلانی (۵۷۷۳ - ۸۵۲ھ) نے صحیح بخاری کی شہرہ آفاق شرح فتح الباری کتاب التفسیر (سورہ اسراء) میں زبان عربی کے چوٹی کے فاضل وادیب علامہ تریری کا یہ قول نقل کیا ہے انما یقال رؤیا فی المنام و اما التي في اليقظه فيقال رؤية - ان طرح واضح لفظوں میں انکشاف فرمایا گیا کہ سفر معراج کا محبط آنحضرت ﷺ کا قلب مبارک تھا جو عالم باطن در باطن کا مسلمہ مرکز ہے اور نبیوں کی رویاء کے وحی ہوتے پر پوری امت کا اجماع ہے ( بخاری.ترندی - تفسیر کبیر - تفسیر مدارک مدارج السالکین ) اس ضمن میں یہ واضح کر کے دن چڑھا دیا کہ "ماكذب الفواد مارای (النجم ) یعنی دل نے جھوٹ بیان نہیں کیا جو اس نے دیکھا.قرآن کریم کا یہ بھی کمال ہے کہ اس نے "عبدہ کہہ کر آنحضرت ﷺ کو عبودیت کے بلند ترین منصب پر ممتاز فرمایا اور ساتھ ہی بار بار بتایا کہ جس طرح خدا زمین و آسمان کا نور ہے اسی طرح آپ کی شان عبود بیت اس درجہ ارفع اور اعلیٰ ترین مقام تک پہنچ چکی ہے کہ آپ بھی سرتا پا نور بن گئے ہیں.چنانچہ سورہ مائدہ آیت ۱۵ میں قد جاء کم من الله نور “ کی منادی کی گئی ہے اور یہی نہیں اس سبحان خدا نے جس نے آپ کو سیر معراج کرائی.آپ کو سورج سے تشبیه دیگر اعلان عام فرمایا ہے کہ آنحضرت کی ذات اقدس نہ صرف مجسم نور ہے بلکہ آنحضرت کی قوت قدی آپ سے وابستہ ہر اک کو نور بنا دیتی ہے.قرآن مجید نے شان عبودیت کی اس جلوہ گری کو ایک اور رنگ میں بھی بے نقاب کیا ہے چنانچہ خاتم الکتب نے موسوی شریعت کے آخری نبی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو " کی " کہا ہے، وہاں خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ جمعہ میں ”مز کی یعنی زکی بنا دینے والے عظیم نبی کی حیثیت سے پیش فرمایا ہے اور یہ بھی

Page 12

12 آفتاب محمدی ہی کی ضیاء پاشیوں کا ایک درخشندہ پہلو ہے.المختصر اللہ جل شانہ نے آپ کو سراج منیر کا لقب دے کر معراج کے خاکی اور مادی ہونے کے تخیل کو ضرب کاری لگادی ہے اور اس کے نورانی سفر ہونے پر ابدی مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.حضرت مسیح موعود کیا خوب فرماتے ہیں.آن شده عالم که نامش مصطفی سید آنکه ہر عشاق حق شمس الضحی نورے طفیل نوری اوست اوست آنکه منظور خدا منظور نور محمدی کی ازلی شان آنحضرت ﷺ کے بلند پایہ صحابی حضرت جابر بن عبد الله ( ولادت ۲۰۲ ء وفات ۱۹۲ء ) سے روایت ہے.میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھ کو خبر دیجئے کہ سب اشیاء سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کون سی چیز پیدا کی.آپ نے فرمایا اے جابر اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کلہ نور الہی اس کا مادہ تھا بلکہ اپنے نور کے فیض سے ) پیدا کیا.پھر وہ نور قدرت الہیہ سے جہاں اللہ تعالی کو منظور ہو ا سیر کرتا رہا اور اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم تھا اور نہ بہشت تھی اور نہ دوزخ تھا اور نہ فرشتہ تھا اور نہ آسمان تھا اور نہ زمین تھی اور نہ سورج تھا اور نہ چاند تھا اور نہ جن تھا اور نہ انسان تھا.پھر جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کئے اور ایک حصے سے قلم پیدا کیا اور دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش ( مسند عبد الرزاق - بحوالہ "نشر الطیب" از مولوی اشرف علی صاحب تھانوی صفحه ناشر تاج کمپنی لاہور ) دوسری روایت حضرت عرباض بن ساریہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیشک میں حق تعالیٰ کے نزدیک

Page 13

13 خاتم النبیین ہو چکا تھا اور آدم علیہ السلام ہنوز اپنے خمیر ہی میں پڑے تھے (یعنی ان کا پتلا بھی تیار نہ ہوا تھا.(مسند احمد، بیہقی ، حاکم ، مشکلوة - بحوالہ " نشر الطیب" از مولوی اشرف علی صاحب تھانوی صفحه ۷-۸) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس حقیقت کو عشق رسول میں ڈوبے ہوئے الفاظ اور دلآویز انداز میں یوں بیان فرمایا ہے.وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو ، وہ ملائک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی و سماوی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا.یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاءمحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.( آئینہ کمالات اسلام) آپ کا یہ عارفانہ شعرای بیان کا لطیف در لطیف خلاصہ ہے.او طفیل اوست نور ہرنبی نام ہر مرسل بنام او جلی یعنی ہر ایک نبی کا نور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے طفیل ہے اور ہر رسول کا نام حضور ہی کی برکت سے منور ہے.تین مکاتب فکر قرن اول سے اب تک معراج کی نسبت تین مکاتیب فکر مسلم سکالرز میں مروج ہیں :.1- حضرت عائشہ ام المؤمنین اور حضرت حسن بصری جیسے اکابر امت کا عقیدہ تھا کہ یہ عالم روحانی میں ہوا اور جیسا کہ یہ ذکر آچکا ہے حضرت ام المؤمنین تو پورے یقین اور جلال سے فرمایا کرتی تھیں کہ دوران معراج آنحضور کا جسد مبارک نہیں تھا.خادم الرسول حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ معراج کا آغاز دوسرے نبیوں کی مانند ایسی کیفیت

Page 14

14 میں ہوا کہ آنحضرت کا قلب بیدار تھا مگر آنکھ سوئی ہوئی تھی ( تفسیر ابن کثیر.آیت اسراء) 2- صحابہ اور سلف صالحین کی ایک بھاری جماعت کے نزدیک اسراء عین بیداری میں روح و جسم دونوں کے ساتھ ہوا تھا.3- ایک تیسرے طبقہ کے نزدیک واقعہ اسراء بیت المقدس تک مع جسم کے بیداری کے ساتھ ہوا لیکن آنحضرت ﷺ بیت المقدس سے آسمان تک عالم خواب میں روح کے ساتھ تشریف لے گئے تھے.(تاریخ الخمیس ”قصہ معراج تالیف قاضی مکہ و مورخ اسلام حضرت الشیخ حسین الدیار بکری متوفی 1550/996ء ) مورخ اسلام حضرت حسین الدیار بکری کی تاریخ انمیں سے یہ بھی ثابت ہے کہ دسویں صدی ہجری تک بعض مشاہیر امت کا یہ نظریہ بھی سند قبولیت پاچکا تھا کہ معراج دوبار ہوا.ایک بار نیند میں اور دوسری مرتبہ بیداری میں اور وہ اس طرح کہ وحی سے قبل اللہ عز و جل نے جو حقیقت خواب میں منکشف فرمائی اسے آغاز وحی کے ایک سال بعد بذریعہ معراج بیداری میں دکھلا دیا گیا.حضرت علامہ نے معراج کے مقام قاب قوسین او ادنیٰ کے بارہ میں اپنا واضح مسلک یہ پیش فرمایا ہے کہ اس سے مراد منزلت اور مرتبت کا قرب ہے نہ مکان کا فسانه تعالى : منزه عنه، وجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ مکان کی حد بندیوں سے بالکل منزہ ہے." تاریخ الخمیس، جلد 1 صفحہ 311 مطبوبه موسسه شعبان بیروت) روایات میں بیت المقدس کے الصخرہ سے معراج سماوی کا تذکرہ بکثرت ملتا ہے.علامہ حسین الدیار بکری نے اس کا ذکر بھی اپنی تاریخ میں خاص اہتمام کے ساتھ کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسی الصخرہ سے فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ اروع مومنین کا عروج وصعود الی السماء بھی اسی سے ہوتا ہے.(صفحہ 310 ) امت کے اہل کشف بزرگ اور سفر معراج تصوف اسلام کی تیرہ سو سالہ تاریخ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ امت کے اہل کشف بزرگوں نے سفر معراج کونورمحمدی یا روح ہی کا سفر قرار دیا ہے خصوصا مسلم سپین کے نامور صوفی

Page 15

15 حضرت ابن عربی نے اپنی تفسیر میں ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اتفہیمات الالہیہ میں اور حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے اس نظریہ کی تائید فرمائی ہے اور جیسا کہ مجدد اسلام حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی روایات معراج میں لکھا ہے کہ "لقی ارواح الانبیاء عليهم السلام (در منثور جلد 4 صفحہ 114) حضرت سلطان الاولیاء شیخ علی ہجویری داتا گنج نے کشف الجو ب باب الروح میں یہی تصریح فرمائی ہے کہ شب معراج میں بشمول حضرت سیدنا عینی سب نبیوں کی ارواح ہی سے ملاقات ہوئی تھی.تمام بزرگ صوفیا کے لٹریچر میں سفر کی اصطلاح حق تعالی کی طرف دل کی توجہ کا نام ہے.ان کے نزدیک سلوک کی راہ میں چار سفر ہیں :- ا.سیر الی اللہ.( منازل نفس سے افق مبین کی طرف ) ۲.سیر فی اللہ.( صفات الہیہ سے متصف ہو کر افق اعلیٰ کی طرف).مقام قاب قوسین.(حضرت احدیت کی طرف عروج.جس کے بعد مقام اوادنی ہے جو ولایت کی انتہا ہے ) سیر باللہ.(فنا سے مقام بقاء تک) امت مسلمہ کے بلند پایہ اہل کشف اولیاء کے نزدیک سدرۃ المنتہی، افق مبین، بیت المقدس اور بیت الحرام بھی روحانی وکشفی اصطلاحیں ہیں.(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اصطلاحات الصوفیه از حضرت کمال الدین الکاشی السمر قندی متوفی 730) بزرگ صوفیاء بہشت سے مراد وحی و الہام لیتے ہیں.ان کی اصطلاح میں عالم مثال سے عالم اجسام میں ظہور نزول اور عالم اجسام سے حضرت احدیت جل شانہ کی طرف ترقی عروج کہلاتا ہے.(اصطلاحات صوفیہ از حضرت خواجہ شاہ محمد عبد الصمد فریدی چشتی صفحہ ۲۲-۷۹) حضرت ابو سہل بن عبدالله تستری (متوفی ۲۸۳ھ) نے فرمایا کہ معراج میں آنحضرت نے بیت المعمور کا جو نظارہ دیکھا اس کا مطلب عارفوں کے دل ہیں جو خدا کی معرفت و محبت سے لبریز رہتے ہیں.وہی بیت التوحید ہیں جن کا حج فرشتے کرتے ہیں

Page 16

16 پھر سورہ نجم کی آیت ما کذب کی تفسیر میں یہ ایمان افروز نکتہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے اپنے رب کا مشاہدہ اپنے دل کی آنکھ سے فرمایا اور جہاں حضرت موسی تجلی طور کی تاب نہ لاتے ہوئے غش کھا کے گر گئے وہاں آنحضرت ﷺ اپنی قلیمی قوت اور بلند مقام اور علو درجہ کے باعث اپنی چشم بصیرت سے جلوہ ربانی دیکھنے میں کامیاب ہو گئے.(تفسیر القرآن العظیم صفر۹۵-۹۲ از حضرت تستری ناشر الكب العربية الكبرى از مصر سال اشاعت (۱۳۲۹ھ) آپ نے اپنی تفسیر میں سدرۃ استھی سے مراد وہ مقام لیا ہے جہاں سب علوم انتہا تک پہنچتے ہیں.قطب دوران غوث اعظم حضرت سید عبد القادر جیلانی کا یہ شعر زبان زد خلائق ہے اب قوسین سیدی على منبر التخصيص في حضرت المجدي میرے آقا نے مجھے کو قاب قوسین کے مقام پر بٹھایا ، اس منبر خاص پر جو دربار مسجد میں ہے.لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ قلندر علی شاہ سہروردی نے بر سر محفل فرمایا کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر معراج کا عالم رویا میں مشاہدہ کیا ہے.( علم لدنی یا علم الہی از سید محمد ریاض الدین سهروردی صفحہ 103 بحوالہ ”سیرت النبی بعد از وصال النبی جلد چہارم صفحہ 218 مؤلفہ محمد عبدالمجید صدیقی ایڈووکیٹ اسلام آباد.ناشر فیروز سنز - 1998ء) حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے ملفوظات فوائد الفواد میں ہے کہ آپ نے ایک بار فر مایا کہ ایک بزرگ نے کہا ہے میں نہیں جانتا کہ آیا شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش وکری اور بہشت و دوزخ کے پاس لے جایا گیا یا یہ سب چیزیں وہاں پہنچا دی گئیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز تھے.یہ بتانے کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ سب چیزیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 17

17 سامنے لائی گئیں تو اس سے حضور کا مرتبہ بلند تر ہو جاتا ہے.یہی مذہب حضرت سرمد رحمۃ اللہ علیہ کا تھا." حضرت سرند ( جو اسی عقیدہ کی بناء پر جامع مسجد دہلی کے سامنے شہید کئے گئے ) پوری عمر پر چم حسین لہراتے اور پوری شان سے یہ فرماتے رہے کہ سرند گوید فلک احمد در شد رود کوثر صفحه 390 391 ) یعنی علمائے ظواہر تو یہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفے احمد مجتنے صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر تشریف لے گئے مگر سرمد کہتا ہے کہ خود آسمان حضور کی خدمت میں حاضر کئے گئے.لیکن تحریک احمدیت کا تصور معراج اس سے بھی بہت بلند، بہت اعلی اور بہت ارفع ہے.چنانچہ حضرت سید نا اصلح الموعود آیت دنی فتدلی کے تغییری ترجمہ میں تحریر فرماتے ہیں:.اور وہ ( یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کے اس اضطراب کو دیکھ کر اور ان پر رحم کر کے خدا سے ملنے کے لئے ) اس کے قریب ہوئے اور وہ (خدا) بھی ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے شوق میں ) اوپر سے نیچے آگیا.(تفسیر صغیر سورۃ حجم : 9) بالفاظ دیگر حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت سرمد جیسے اکابر صوفیاء اور مقمربان بارگاہ الہی کے نزدیک تو آسمان آنحضرت کے حضور حاضر ہوئے مگر تحریک احمدیت کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ آسمان اور جنت اور عرش اور قلم ہی نہیں بلکہ عرش کا خدا بھی اپنے محبوب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشوائی اور استقبال کے لئے نیچے اتر آیا اور قلب محمد پر اس نے اپنے جمال و جلال کے تحت قائم کر لئے.حضرت بانی جماعت احمدیہ اسی نکته معرفت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں.گرچہ منسوبم کند کس سوئے الحاد و ضلال چوں دلِ احمد نے بینم دگر عرشِ عظیم خواہ کوئی مجھے ملحد اور گمراہ ہی کہ دے مگر میں تو احمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دل سے

Page 18

18 بڑھ کر اور کوئی عرش عظیم نہیں دیکھتا.الشیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی معرکہ آراہ اور پُر معارف تصنیف فصوص الحکم میں حضرت ابو یزید بسطامی کا یہ بیان ہمیشہ کے لئے ریکارڈ کر دیا ہے کہ عارف باللہ پر ایسا مقام بھی آتا ہے کہ اگر عرش اور اس کے ماحول کی کائنات دس کروڑ بار بھی اس کے دل کے گوشہ میں سما جائے تو وہ محسوس نہیں کرے گا.سبحان اللہ جب شہ لولاک کے ادنی غلاموں کے قلوب کا یہ عالم ہے تو قلب محمدی کی غیر محدود اور معجز نما وسعتوں کو خالق حقیقی کے سوا بھلا کون جان سکتا ہے؟؟ عرفان معراج کے لئے نور نبوت کی ضرورت سفر معراج کا ذکر خدائے ذو العرش نے اپنی پاک کتاب قرآن مجید میں فرمایا ہے اور قرآن ہی کا فیصلہ ہے کہ لا یمسه الا المطهرون یعنی مطہر لوگ ہی اس کا عرفان رکھتے ہیں اور حدیث نبوی میں مظہر سے مراد صاحب الہام نفوس ہیں (جامع الصغیر للسیوطی ) اسی طرح حضرت امام جعفر صادق" جیسی مقدس و برگزیده شخصیت ( جن پر آیات قرآنی کا نزول حضرت خواجہ فرید الدین عطار کی تذکرۃ الاولیاء سے بالید است تو بہت ہے فرماتے ہیں:.كتاب الله على اربعة اشياء.العبارة والاشارة واللطائف والحقائق.فالعبارة للعوام والاشارة للخواص.واللطائف الاولياء والحقائق للانبياء عرائس البیان جلد 1 صفحہ 3-4 از حضرت الشیخ الکامل باید مد روز جهان ابن علی النصر الی التوفی 1000) یعنی کتاب اللہ چار چیزوں پر مشتمل ہے (1) عبارت (2) اشارت (3) طائف (4) حقائق عبارت عوام کے لئے ، اشارت درگاہ الہی کے خاص مقربوں کے لئے ، لطائف اولیاء کے لئے اور قرآنی حقائق نبیوں کے ساتھ مخصوص ہیں.حضرت محی الدین ابن عربی نے اس ضمن میں یہ لطیف نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ رسول کے مقام کے بارہ میں صرف رسول کو اور نبی کے مقام کے بارے میں صرف نبی کو گفتگو کرنی

Page 19

19 چاہئے.جب انبیاء علیہم السلام کے مقام کا ہمیں ذوق اور آشنائی ہی نہیں تو ہم اس بارے میں گفتگو ہی کیا کر سکتے ہیں.“ ( ترجمه از الیواقیت والجواہر جلد2 صفحہ 47 صفحہ 72 بحوالہ اسلام کا تصور نبوت صفحہ 55 از حکیم محمود احمد ظفر صاحب شائع کرده تمیری کتب خانہ لاہور مطبع دوم 1999ء) ان تصریحات سے صرف ایک ہی نتیجہ نکتا ہے کہ قرآنی حقائق جن میں معراج نبوی کی آیات کو غایت درجہ اہمیت حاصل ہے، نور نبوت کے بغیر نہیں کھل سکتے اور ان تک رسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہی عاشق صادق اور بروز کامل حاصل کر سکتا ہے جو اپنی والہانہ عقیدت کے براق سے تیرہ صدیوں کا فاصلہ طے کر کے بارگاہ محمد یت تک پہنچا اور شہنشاہ نبوت کے نورانی چہرہ کو اپنی کشفی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہو اور یہی بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ ہے چنانچہ آپ نے اپنے پرکیف قصیدہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک کرتے ہوئے عرب و حجم پر انکشاف فرمایا ہے کہ والله ان محمدا كردالة ويه الوصول بدة السلطان والسلسة اني قد رأيت جماله بعیون جسمی قاعدًا بمکانی ورأيت في ريعان عمرى وجهه لم النبي اللہ کی قسم محمد رسول اللہ صلی اللها لمحفظتى لاقانی منظم ہیں اور صرف وسلم در بار خداوندی کے گو یا آپ ہی کے طفیل دربار سلطانی تک رسائی ممکن ہے.بخدا میں نے آپ کے حسن و جمال کو اپنی ظاہری آنکھوں سے اپنے مکان میں بیٹھے دیکھا ہے.میں نے آغاز جوانی میں ہی آپ کا چہرہ مبارک دیکھا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیداری کی حالت میں مجھے اپنی ملاقات کا شرف بخشا.

Page 20

20 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا وجد آفریں تصور معراج قبل اس کے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود و مہدی مسعود کے مقدس الفاظ میں تصور معراج پیش کروں، آپ بھی کے قلم سے سائنس، مذہب اور کشف والہام سے متعلق ایک اہم نوٹ پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور بروز کامل ہونے کی وجہ سے صاحب تجربہ ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں:- یہ ایک فیصلہ شدہ بات ہے کہ اگر علم سائنس یعنی طبیعی خدا تعالٰی کے تمام عمیق کاموں پر احاطہ کر لے تو پھر وہ خدا ہی نہیں.جس قدر انسان اس کی باریک حکمتوں پر اطلاع پاتا ہے وہ انسانی علم اس قدر بھی نہیں کہ جیسے ایک سوئی کو سمندر میں ڈبویا جائے اور اس میں کچھ سمندر کی پانی کی تری باقی رہ جائے اور یہ کہنا کہ اس کی تمام باریک قدرتوں پر اطلاع پانے کے لئے ہمارے لئے راہ کشادہ ہے اس سے زیادہ کوئی حماقت نہیں.باوجود یکہ ہزار ہا قرن اس دنیا پر گذر چکے ہیں پھر بھی انسان نے صرف اس قدر خدا کی حکمتوں پر اطلاع پائی ہے جیسا کہ ایک عالمگیر بارش میں سے صرف اس قدر تری جو ایک بال کی نوک کو بمشکل تر کر سکے.پس اس جگہ اپنی حکمت اور دانائی کا دم مارنا جھوٹی شیخی اور حماقت ہے.انسان باوجود یکہ ہزار ہا برسوں سے اپنے علوم طبیعیہ اور ریاضیہ کے ذریعہ سے خدا کی قدرتوں کے دریافت کرنے کے لئے جان توڑ کوششیں کر رہا ہے مگر ابھی اس قدر اس کے معلومات میں کمی ہے کہ اس کو نا مراد اور نا کام ہی کہنا چاہئے.صد با اسرار غیبیہ اہل کشف اور اہل مکالمہ الہیہ پر کھلتے ہیں اور ہزار ہا راستباز ان کے گواہ ہیں مگر فلسفی لوگ اب تک ان کے منکر ہیں.جیسا کہ فلسفی لوگ تمام مدار ادراک معقولات اور تدبر اور تفکر کا دماغ پر رکھتے.ہیں مگر اہل کشف نے اپنی صحیح رویت اور روحانی تجارب کے ساتھ معلوم کیا ہے کہ انسانی عقل اور معرفت کا سرچشمہ دل ہے جیسا کہ میں پینتیس برس سے اس

Page 21

21 بات کا مشاہدہ کر رہا ہوں کہ خدا کا الہام جو معارف روحانیہ اور علوم غیبیہ کا ذخیرہ ہے دل پر ہی نازل ہوتا ہے.بسا اوقات ایک ایسی آواز سے دل کا سر چشمہ علوم ہوتا کھل جاتا ہے کہ وہ آواز دل پر اس طور سے بشدت پڑتی ہے کہ جیسے ایک ڈول زور کے ساتھ ایک ایسے کنویں میں پھینکا جاتا ہے جو پانی سے بھرا ہوا ہے.تب وہ دل کا پانی جوش مار کر ایک غنچہ کی شکل میں سربستہ اوپر کو آتا ہے اور دماغ کے قریب ہو کر پھول کی طرح کھل جاتا ہے اور اس میں سے ایک کلام پیدا ہوتا ہے وہی خدا کا کلام ہے.پس ان تجارب صحیحہ روحانیہ سے ثابت ہے کہ دماغ کو علوم اور معارف سے کچھ تعلق نہیں ہاں اگر دماغ صحیح واقعہ ہوا اور اس میں کوئی آفت نہ ہو تو وہ دل کے علوم مخفیہ سے مستفیض ہوتا ہے اور دماغ چونکہ منیت اعصاب ہے اس لئے وہ ایسی کل کی طرح ہے جو پانی کو کنویں سے کھینچ سکتی ہے اور دل وہ کنواں ہے جو علوم مخفیہ کا سر چشمہ ہے.یہ وہ راز ہے جو اہل حق سے معلوم کیا ہے جس میں میں خود صاحب تجربہ نے مکاشفات صحیحہ کے ذریعہ << ہوں.چشمہ معرفت صفحہ 271 طبع اول) ان بصیرت افروز اقتباس کی روشنی میں صاحب المعراج کے احقر الغلمان کا عارفانہ تصور معراج ملا حظہ ہو.فرمایا :- ا.سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا جس کو در حقیقت بیداری کہنا چاہئے.ایسے کشف کی حالت میں انسان ایک نوری جسم کے ساتھ حسب استعداد نفس ناطقہ اپنے کے آسمانوں کی سیر کر سکتا ہے.پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس ناطقہ کی اعلیٰ درجہ کی استعداد تھی اور انتہائی نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے وہ اپنی معراجی سیر میں معمورہ عالم کے انتہائی نقطہ تک جو عرش عظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے، پہنچ گئے.سو در حقیقت یہ سیر کشفی تھا جو بیداری سے اسد درجہ پر مشابہ ہے بلکہ ایک قسم کی بیداری ہی ہے.میں اس کا نام خواب ہر گز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنی درجوں میں سے

Page 22

22 اس کو مجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے جو در حقیقت بیداری بلکہ اس کثیف بیداری سے یہ حالت زیادہ اصفی اور اجلی ہوتی ہے اور اس قسم کے کشف میں مؤلف خود صاحب تجربہ ہے." (ازالہ اوہام حصہ اول صفحه 47 48 حاشیہ) مِعْرَاجُ رَسُوْلِنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ آمَرًا إِعْجَازِيًّا مِنْ عَالَمِ الْيَقَظَةِ الرُّوحَانِيَّةِ اللَّطِيفَةِ الْكَامِلَةِ فَقَدْ عُرِجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِسْمِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَهُوَ يَقْطَانُ لَا شَكٍّ فِيْهِ وَلَا رَيْبَ وَلَكِن مَّعَ ذَلِكَ مَا فَقَدْ جِسْمُهُ مِنَ السَّرِيرِ كَمَا شَهِدَ عَلَيْهِ بَعْضُ أَزْوَاجِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ حمامة البشرى صفحه 34 یعنی ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج لطیف اور کامل روحانی بیداری کے عالم کا ایک احجازی واقعہ ہے.آپ جسم سمیت آسمان کی طرف اٹھائے گئے درآنحالیکہ آپ بیدار تھے.اس میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن بایں ہمہ حضور کا جسم مبارک چارپائی پر موجود رہا جیسا کہ آپ کی بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے شہادت دی ہے.( یہاں حضرت ام المؤمنین عائشہ کی طرف اشارہ ہے جن کا یہ حلفیہ بیان اسلامی لٹریچر میں صدیوں سے محفوظ ہے کہ خدا کی قسم واقعہ معراج کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر یہ ہیں موجود تھا).ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا تھا مگر اس ہیں جو بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ صرف ایک معمولی خواب تھا سو یہ عقیدہ ملا ہے اور جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ معراج میں آنحضرت اسی جسد مصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے سو یہ عقیدہ بھی غلط ہے بلکہ اصلی بات اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ معراج کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ ہوا تھا.وہ ایک وجود تھا مگر نورانی.اور ایک بیداری تھی مگر کشفی اور نورانی جس کو اس دنیا سے لوگ نہیں سمجھ سکتے مگر وہی جن پر وہ کیفیت طاری ہوئی ہو ورنہ ظاہری جسم اور ظاہر کی بیداری کے ساتھ آسمان پر جانے کے واسطے تو خود یہودیوں نے معجزہ طلب کیا تھا جس

Page 23

23 کے جواب میں قرآن شریف میں کہا گیا تھائلُ سُبْحَانَ رَبّى هَلْ كُنتُ إِلَّا.بَشَرًا رَّسُولًا.کہ دے میرا رب پاک ہے میں تو ایک انسان رسول ہوں، انسان اس طرح اڑ کر کبھی آسمان پر نہیں جاتے.یہی سنت اللہ قدیم سے جاری ہے." (الحکم جلد 10 نمبر 21 مورخہ 17 جون 1906 ء صفحہ 4) معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معرفت سے لبریز بیان صرف وہی قدسی وجود دے سکتا ہے جو کشفی آنکھ اور نور ثبوت سے فیض یاب ہو.اس نقطہ نگاہ سے ثابت شدہ حقیقت تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ شب معراج میں خدا تک پہنچے، حضرت بانی سلسلہ مصطفیٰ تک پہنچے اور یہی آپ کا معراج تھا.تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا قرآنی سائنس کے خلاف نظریہ جیسا کہ مجدد اسلام حضرت علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب "زاد المعاد میں اپنی تحقیق بیان فرمائی ہے، مسلمان دنیا میں حضرت مسیح کے آسمان پر جانے کا عقیدہ فیج اعوج مے زمانہ کی پیداوار ہے جبکہ عیسائیوں نے قبول اسلام کے ساتھ اپنا یہ حمیدہ بھی ملت اسلامیہ کے جسم میں داخل کر دیا.یہی وہ نظریہ ہے جس کے نتیجہ میں پچھلی صدیوں میں ہزار ہا کلمہ گو فضیلت مسیح کے قائل ہو کر عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے.یہی نہیں جناب ڈاکٹر محمد نادر رضا صدیقی (مصنف "پاکستان میں مسیحیت“ شائع کردہ مسلم اکادمی محمد محمر لاہور) کی سالہا سال کی تحقیقی نے ثابت کر دیا ہے کہ ۱۹۵۳ء.۱۹۷۴ء اور ۳.۱۹۸۴ء کے بعد جبکہ پاکستانی علماء تکفیر نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایجی ٹیشن کی اور بالآخر جبری قوانین کے نفاذ سے احمدیوں پر وفات مسیح اور دوسرے مخصوص نظریات کی تبلیغ و اشاعت پر پابندی لگوادی تو اس کے نتیجہ میں پاکستان کے مسلمان نہایت تیزی سے عیسائیت کے طوفانوں کی

Page 24

24 لپیٹ میں آگئے اور ہر موقع پر ان کی آبادی، ان کے مشنوں، اداروں اور لٹریچر میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور حتی کہ اب یہاں تک نوبت آن پہنچی ہے کہ عالمی عیسائی مشنریوں نے ۱۹۹۷ء کی ایک خفیہ رپورٹ میں پاکستان کو فروغ بیسائیت کے لئے موزوں ترین ملک قرار دیتے ہوئے لکھا "PAKISTAN IS ONE OF THE MOST OPEN LAND FOR THE GOSPEL" دنیا عیسائیت کی زد میں صفحہ ۷۸ مرتبہ محمد انور بن اختر صاحب ناشر مکتبه ارسلان اردو بازار کراچی اشاعت جولائی ۲۰۰۱ء) جناب محمد انور صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۳۳ پر یہ انکشاف کیا ہے کہ قاھرہ میں ۴ تا ۹ اپریل ۱۹۰۶ء کو پادری زدیمر ایڈیٹرمسلم ورلڈ کی تحریک پر مسلمانوں میں اشاعت عیسائیت کے طریقوں پر ایک وسیع کا نفرنس منعقد ہوئی جس کی اشاعت خفیہ رکھی گئی اور صرف مشنری حلقوں تک اسے محد و در کھا گیا جس میں مسلمانوں کو مرتد کرنے کے لئے جو ہدایات دی گئیں.ان میں ایک اہم ہدایت دنیا بھر کے پادریوں کو یہ دی گئی کہ ایک زندہ بچانے والا نہ کہ ایک مردہ پیغمبر تمہاری منادی کا جزو اعظم ہونا چاہئے.(ایضاً صفحہ ۳۲۲۲۵) ڈاکٹر محمد نادر رضا صدیقی اپنی کتاب ” پاکستان میں مسیحیت کے صفحہ ۲۳۶ پر اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں کہ بعض لوگ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ایک ترازو کے پلڑوں میں ایک طرف آدھ کلو کا اور دوسری طرف ایک کلو کا بات رکھا جائے تو وزنی ہاٹ کا پلڑہ نیچے کی طرف آ ئے گا اور نسبتاً ہلکا پلڑا اوپر کی طرف جائے گا.خالد احمدیت حضرت ملک عبد الرحمن صاحب خادم ( وفات دسمبر 1906ء) کے سامنے ایک مناظرہ کے دوران کسی مولوی صاحب نے یہی دلیل پیش کی تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ جب تک مدینہ طیبہ میں آنحضرت کے مدفون ہیں حضرت عیسی کا آدھ کلو کا بنازمین پر نہیں آسکتا.اس پر فریق ثانی کے وکیل دم بخود رہ گئے.لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مسلمان کہلانے والا ' عالم دین اپنی اس لچر اور بیہودہ منطق کو پادریوں کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ گستاخ رسول ہے کیونکہ وہ بالواسطہ طور پر یہ اعلان کرتا ہے کہ معاذ اللہ ہمارے

Page 25

25 پیارے نبی خاتم الانبیا ہے جب شب معراج کے دوران آسمان پر تشریف لے گئے تو خاکم بدہن ) آپ کا بات بھی آدھا کلو رہ گیا اور بجائے شان میں اضافہ ہونے کے کمی واقع ہو گئی.کوئی سچا عاشق رسول محبوب خدا اور شہنشاء نبوت کی یہ شرمناک تو ہین ہرگز برداشت نہیں کر سکتا !!! صاحب المعراج اور معراج کی دردناک مظلومیت قرآنی سائنس کے خلاف اس نظریہ کے قائلین نے عیسائی مذہب کی تائید کے جوش میں آج تک جو روش اختیار کی ہے اس سے معراج اور صاحب المعراج محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مظلومیت کا ایک ایسا نقشہ ابھرتا ہے کہ ہر عاشق رسول کی روح کانپ جاتی ہے اور آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ معراج کو مادی اور خا کی نظر سے دیکھنے والوں نے اس خدا کے کلام کو پوری بے باکی سے پس پشت ڈال دیا ہے معراج دکھلایا ہے حالانکہ خدا کے سوا کوئی بھی اس کا در شہنشاہ نبوت کو نہیں ہو سکتا.خصوصاً اس جدید دور کے ہمار ے جس میں امریکی خلانور تسخیر کائنات کی مہم میں چاند تک جاپہنچے ہیں.پاکستان میں متعدد ایسی کتابیں شائع کی چھتی ہیں جن میں قرآنی حقائق کو طاق نہیاں میں رکھ کر آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت اور کشش ثقل وغیرہ کی تھیوریوں سے معراج کے جسمانی ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے جو قرآن سے سراسر بغاوت ہے.حالانکہ انہیں بر ملا اعتراف ہے دیا کہ سائنسی تحقیق و تجس کا دائرہ محسوسات کی حد تک ہے اور مذہب کا دائرہ تحقیق غیبی امور سے ہے.سائنس کی سرحد جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے مذہب شروع ہوتا ہے.(معراج اور سائنس ، صفحہ 251 252 از آغا اشرف مطبوعہ لاہور 1990ء) یہ سب ماڈرن طرز کے ادیب اور نام نہاد مذہبی سکالر سرے سے امت مسلمہ میں کشف و الہام اور وحی کو ختم نبوت کے منافی سمجھتے اور پرویزی مسلک کے حامل نہیں یا ان کا مذہب یہ ہے کہ اصل قرآن امام مہد کی لائے گا، موجودہ قرآن محض صحیفہ عثمانی ہے اور یا حنفی

Page 26

26 خیال کے ہیں جن کے اکابر نے یہ گستاخانہ فتوی دیا کہ :- لورعض فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وانفه جاز للاستشفاء وبالبول ايضا (رد المحتارعلی در التمار جلد اول صفحه 154 از این عابدین ناشر کتب ماجد یہ کوئه ایضا امداد الفتاوی از تھانوی جلد دوم منفحہ 129 مطبع مجتبائی دہلی 1346 ه ) یعنی (معاذ اللہ ) اگر کوئی شخص نکسیر پھوٹنے پر بطور علاج سورہ فاتحہ کوخون سے لکھ کر اپنے ناک اور چہرے سے لکھ لے تو جائز ہے حتی کہ پیشاب کے ساتھ لکھنا بھی.فانا اللہ وانا اليه راجعون.کون سی آنکھیں جو اس کو دیکھ کر روتی نہیں کون سے دل ہیں جو اس غم سے نہیں ہیں بیقرار اس نوع کی ذہنیتوں کے سرچشمہ سے ” اسلام اور سائنس، " قرآن، سائنس اور سائنسی حقائق ) قرآن اور جدید سائنس سائنسی انکشافات“ اور ”حضور کو معراج کیسے کرایا گیا ، جیسی کتا میں پاکستان میں چھپ چکی ہیں.یہ کتا بیں ایک طرف تحریک احمدیت کے علم تفسیر اور جدید علم کلام کی بازگشت ہیں تو دوسری طرف حیات مسیح کے حوالہ سے معراج کو جسمانی ثابت کرنے کے لئے تالیف ہوتی ہیں.اس ضمن میں میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ پاکستان کے ایک مایہ ناز سکالر جناب پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم سابق صدر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میٹالرجیکل انجینئر زجیسی شخصیت نے جو نوبیل انعام یافتہ اور عالمی شہرت کے معاشی پہلے مسلمان سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام جیسے سفیر توحید کی خدمات کے زیر دست مداح ہیں ، بالکل یہی روش اختیار فرمائی چنانچہ آپ نے اپنی کتاب ” قرآن اور جدید سائنس“ کے صفحہ 197 پر اعتمل رفعه الله اليه ( النساء: 158 ) لکھ کر تیرہ کیا ہے کہ " قرآن اور بائیکل (جدید عہد نامہ ) اس پہلو پر اتفاق کرتے ہیں جیسا کہ مندرج ذیل آتا ہے.غرض خداوند پوری ( حضرت عیسی علیه السلام ) او

Page 27

27 کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھالیا گیا اور خدا کی داہنی طرف بیٹھ گیا (مرقس کی انجیل باب 16 آیت 20 ) پروفیسر صاحب نے یہ حوالہ درج کرنے کے بعد اگلے صفحہ 198 پر سورہ بنی اسرائیل کی معراج کی نسبت پہلی آیت درج کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی اصول پر مبنی ہیں جو ان میں سے ایک پر یقین رکھتا ہے کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے پر یقین نہ کرے ان دونوں آیات میں اہم حقائق یہ ہیں:- -1 حضرت عیسی علیہ السلام کی بغیر موت کے آسمان کی طرف اٹھان جیسا کہ وہ خدا کے بائیں طرف بیٹھ گیا جس کا بائبل کی آیت میں ذکر ہے.-2- حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا کیا تھا.صرف فرق یہ ہے کہ وہ واپس مکہ تشریف لے آئے.“ ( صفحہ 198) آنحضرت کا سفر معراج کتنے وقت پر مشتمل تھا ، اس کی تشریح سعودی عرب میں سے المالية الملک شاہ فہد کی طرف سے چھپنے والے اردو ترجمہ کے صفحہ 765 میں بایں الفاظ کی گئی ہے:.چالیس راتوں کا یہ دور دور از سفر پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصہ میں ہوا.“ چونکہ اس نظریہ پر یہ واضح اشکال پیدا ہوتا تھا کہ زمین والوں پر وقت کی رفتار کا کیوں اثر نہیں ہوا اس لئے ایک اور محقق " آغا غیاث الرحمن انجم صاحب کو یہ دلچسپ تو جیہہ اختراع فرمانا پڑی کہ جب حضور کائنات کے جسم سے باہر کا ئنات آسمانی میں تشریف لے گئے تو کائنات میں سے روح نکل گئی اور یہ ساری کائنات اور کائنات کی تمام چیزیں بے حس و حرکت رہ گئیں.نہ کائنات حرکت کرتی ہے اور نہ کائنات کی کوئی چیز بلکہ جو چیز جہاں پر تھی وہیں پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی.سورج جس سکتے پر پہنچا تھا اس کی گردش وہیں کی وہیں رہ گئی.(حضور کو معراج کیسے کرایا گیا

Page 28

28 23 صفحہ 62 ناشر مکتبہ کا روان کچہری روڈ لاہور، تصنیف و اشاعت 1975 ) ایک اور اہل قلم جناب محمد انور بن اختر نے ”واقعہ معراج اور نظریہ اضافیت میں اس تو جہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے اس " جب کبھی واقعہ معراج کا تذکرہ ہوتا ہے تو جمارے یہاں سائنسی حلقوں سے لے کر علمائے کرام تک سائلی نظر یے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج پر جانا اور ایک طویل مدت گزار کر وائین ہنیہ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زمین پر عدم موجودگی میں وقت کا نہ گزرنا نظریہ اضافیت سے ثابت ہے.مگر میں اس خیال سے اتفاق نہیں کر ہے.اس کی ٹھوس دلیل چند طور بعد پیش کی جائے گی.تا ہم پہلے نظریہ اضافیت سے کما حقہ تعارفی حاصل کر لیا جائے تا کہ طبیعیات سے تعلق رکھنے والوں کے ذہن میں نظریہ اضافیت کے نکات تازہ ہو جائیں اور ایک عام قاری کے لئے نظریہ اضافیت کو سمجھنا آسان ہو جائے ان اول سال اسمان کہا جاتا ہے کہ موجودہ سائین انسانی شعور کے ارتقاء کا عروج ہے لیکن سائنس دان اور دانشور یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ انسان قدرت کی مان و ور تعیت کی تو صلاحیتوں کا ابھی تک صرف پانچ فیصد حصہ استعمیل کرم کا ہے قدرت کی عطا کردہ بقیہ پچانوے فیصد صلاحیتیں انسان سے پوشیدہ ہیں اور علم جو سو فیصد صلاحیتوں کا احاطہ کرتا ہو ، اسے پانچ فیصدی محدود و بنوائی نے کیا و ناممکن امر ہے.واقعہ معراج ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے اور علم ہے جو سائنسی توجیہہ کا محتاج نہیں ہے."قرآن کے سائنسی انکشافات صفحہ 20 ناشر ادارہ اشاعت اسلام بی اردو بازار صدر کراچی) اس تنقیدی نکتہ کو پیش کرنے کے بعد یہ صاحب بھی بہت دور کی کوثر کی پکاتے ہیں یعنی آپ نے آئن سٹائن کے اس نظریہ کے پیش نظر کہ روشنی کی وقیلہ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل

Page 29

29 فی سیکنڈ ہے.ارشاد فرماتے ہیں:- ای جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کرایا.براق برق سے نکلا ہے جس کے معنی میں ملی.جس کی رفتار 1,86,000 ( ایک لاکھ چھیاسی ات میل فی سیکنڈ ہے." (صفحہ 237 ).ا انہ یہ خیال کس درجہ خوفناک اور ہلاکت آفرین ہے، انہی حضرت کے الفاظ میں سنئے.کاتے ہیں.ہمارا مشاہدہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے بہت کم رفتار پر زمین پر آنے والے شہا بے ہوا کی رگڑ سے بھل جاتے ہیں اور فضا ہی میں بھیم ہو جاتے ہیں تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صیح و سلامت اتنا طویل سفر پنک جھپکنے میں کر سکیں.( صفحہ 230 ) یا (2363 ONCOLOGIST مترکی کے ایک سکالا جناب ڈاکٹر نور باقی کے جو ایک ہیں ، 1985 ء علی قرآنی آیات اور سائنسی حقائق، لکھی ہے یہ آپ نے حضرت مسیح موعود کے اس دھونی کی آپ کا نام لئے بغیر پریز اور تصدیق کی ہے کہ " ابھی تک سائنس نے جو پرزور ور یافتیں کی ہیں وہ سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہیں." (اردو ترجمہ صفحہ 129 ناشر انڈین پبلشنگ کارپوریشن کراچی اشاعت چہارم 1998 ء ) بایں ہمہ انہوں نے سائنس بھی کو امام و پیشوا بناتے ہوئے سدرہ اکتی اور جنت الماوی کی یہ تعمیر کی ہے کہ جنت میں کشش ثقل یعنی وزن اور جذب ہونے کی خاصیت بہت کم ہے.جنت میں وقت کا تصور بھی خشش فعل سے اسی طرح مماثلت رکھتا ہے کہ جب ضرورت ہو تو وقت واقعات کے ساتھ ساتھ ہی ہوتا ہے اسی وجہ سے وقت کا کوئی دخل نہیں ہوتا.(صفحہ 281) ان تمام خیال آرائیوں اور مضحکہ خیز ڈھکونسلوں نے اس دجاتی عقیدہ کو اور بھی بے پناہ تقویت دے دی کہ معاذ اللہ حضرت عیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ تو زمانے کے اثرات سے محفوظ رہ کر دو ہزار سال سے خدا کے داہنے ہاتھ میں بیٹھے

Page 30

30 ہیں دوسری طرف خود مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق آنحضرت چند سیکنڈ کے لئے خدا کے دربار میں پہنچے مگر خدا نے انہیں راتوں رات زمین پر واپس بھیج دیا.ایک بھارتی طلا سعید احمد پالن پوری نے 3 ستمبر 1994ء کو بنگلور کے تحفظ ختم نبوت کیمپ میں تقریر کرتے ہوئے گوہر افشانی کی کہ اس دنیا سے آسمان پر جانے والی چار ہستیاں ہیں.حضرت آدم ، حضرت حوا ، آنحضرت محمد اور حضرت عیسی.اول الذکر تینوں ہستیاں دوبارہ زمین پر آئیں اور یہیں ان کی وفات ہوئی' پھر کہا " حضرت عیسی میں دوسشا نہیں تھیں.بشریت اور ملکیت اور ملک (فرشتہ) کا آسمان پر جانا آنا ہوتا رہتا ہے.(روز نامہ سالار بنگلور 5 ستمبر 1994 ، صفحہ 3 کالم 4،3) ایک بد زبان پادری نے اپنی کتاب "مسیح کی شان (مطبوعہ اپریل 1980ء) میں پوری بے باکی سے لکھا ہے کہ تمام نبیوں پر موت کا ڈنک چل گیا اور وہ زیر زمین مدفون ہیں.ان کی قبریں موجود ہیں.وہ نفخ صور کے منتظر ہیں.آسمان پر جانے والا بھی صرف وہی.وہ آسمانی تھا اس نے آسمان پر جگہ پکڑی باقی تمام پیوند خاک ہو گئے مگر وہ زندہ ہے اور ابد تک زندہ رہے گا.اہل اسلام کے مسلمات کی بناء پر وہی ایک زندہ جاوید ہے اور قرآن کہتا ہے مایستوی الاحياء والاموات یعنی زندے اور مردے برابر نہیں ( فاطر آیت 21) پس لا ریب وہ افضل ہے تمام کائنات سے اس کے سوا کوئی نہیں جو زندہ آسمانوں پر رہتا ہو.“ کوئی ہمیں بتائے کہ ختم نبوت“ کے نام نہاد محافظ عملاً اس کے سوا اور کیا تبلیغ کر رہے ہیں.غیرت کی جا ہے عیسی زندہ ہو آسماں پر ہو آسماں پر مدفون ہو زمیں میں شاہ جہاں ہمارا

Page 31

31 رب العرش اور صاحب معراج سے کھلا مذاق نصرانیت کے یہ سفیر معراج کو جس طرح حکایتی رنگ اور فسانوی روپ میں پیش کرتے ہیں اس نے تاریخ اسلام کے اس معجزہ کو بازیچہ اطفال بنا کے رکھ دیا ہے مثلاً اول - قرآن مجید نے جس خدا کو پیش فرمایا ہے وہ محدود نہیں بلکہ کل کائنات اور اس کی کھربوں بلکہ بے شمار کہکشائیں اس کے دست قدرت میں ہیں.وہ ارض و سماء کا مالک ہے اور ہر انسان کے شہرگ کے بھی قریب ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ وعز اسمہ کا فرمانا ہے نحن القرب اليه من حبل الوريد ( ق : 17 ) یعنی ہم اس (انسان ) سے رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں.اس کے مقابل دیگر مذاہب خصوصاً یہودی ازم نے خدا کا عجیب و غریب حلیہ بتایا ہے چنانچہ ایک مغربی مفکر کیرن آرم سٹرانگ نے اپنی کتاب "A HISTORY OF GOD" میں بتایا ہے کہ اس مذہب کے علمبرداروں نے فلک پیمائی کرتے ہوئے خدا کی ٹانگوں تیک کی پیمائش دی ہے.وہ لکھتا ہے کہ اس عجیب و غریب کتاب میں خدا کی پیمائش گڑ بڑا کر دکھ دینے والی ہے.ذہن مفلوج ہو کے رہ جاتا ہے.بنیادی اکائی فرسنگ 180 کھرب انگلیوں کے برابر ہے اور ہر انگلی زمین کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک محیط ہے.“ خدا کی تاریخ ترجمہ اردو صفحہ 173 174 ناشر نگارشات مزنگ روڈ لاہور.2004ء) فرانسیسی محقق مسٹر موریس بوکائیے نے اپنی مقبول عام کتاب ہائیل قرآن اور سائنس“ میں رفع مسیح کے باطل عقیدہ کے تضادات پر ضرب کاری لگاتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کا ذکر دوانا جیل میں ہے اور وہ بھی ایک دوسرے سے مخالف جس سے عیسائی از حد بدحواس ہو جاتا ہے.مسٹر موریس ،اگر مزید ریسرچ کرتے تو انہیں یہ معلوم کر کے خوشی ہوتی کہ امریکہ کی نیشنل کونسل آف چرچز نے 1946ء میں انجیل کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع کیا جس میں مرقس اور لوقا کے متن سے یسوع مسیح کے آسمان پر جانے سے متعلق آیات کو جعلی قرار دے کر خارج کر دیا.یہ ایڈیشن تھامس نیلیسن اینڈ کمپنی نے بیک وقت ٹورنٹو ، نیو یارک اور ایڈنبرا سے شائع کیا.

Page 32

32 بہر کیف مسٹر موریس نے مزید لکھا ہے کہ فی الحقیقت واقعہ جسمانی اعتبار سے رفع مسیح ہوا ہی نہیں کیونکہ خدا تو جس طرح بلندیوں پر اپنے اسی طرح پستیوں پر ہے.یہ تو مرا سر قرآنی نظریہ اور قرآنی سائنس اور فلسفہ ہی کی ترجمانی ہے لیکن قارئین حیران ہوں گے کہ پاکستان کے ایک مسلمان کہلانے والے محترم انجینئر صاحب نے یہ کارنامہ انجام دے کر یہودیوں کو بھی مات کر دیا ہے کہ انہوں نے زمین سے عرش تک کا فاصلہ اور عرش کی وسعت تک مختلف پیمانوں سے ناپ لی ہے جسے قرآن کے سائنسی انکشافات کے مسلمان مصنف نے ایمان افروز سائنسی تحقیق قرار دے کر بلکہ وحی بریانی کا درجہ دیتے ہوئے پنجوں کے صفحے سیاہ کر ڈالے ہیں.تحقیق کے چند نمونے پیش خدمت کرتا ہوں یہ فرماتے ہیں :.زمین کا ایک ہزار سال عرش پر ایک روز کے برابر ہے اور زمین سے عرش تک کا فاصلہ ایک ہزار نوری سال ہے زمین سے عرش تک میلوں میں جو فاصلہ بنا وہ تقریبا 60 ہزار کھرب میل ہے.جو ایک ہزار نوری سال کے برابر ہے.(صفحہ 443-444) جناب انجینئر صاحب نے فلک پیائی کا نیا ریکارڈ قائم کر کے عرش کے رقبہ کی وسعت کا فلک کا رقبہ و تخمینہ یہ لگایا ہے 312 ارب 67 کروڑ 47 لاکھ 58 ہزار 4 سومیل (تقریباً 132 ارب میل) (صفحہ 144) آپ نے چابک دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عرش کی مخامت ان کا نقشہ ان بلغ الفاظ میں کھینچا ہے :- عرش سورج کے حجم (VOLUME) سے تقر یبار پانچ سو 500 ب گنا ہے.(صفحہ 448) ب اکبر الہ آبادی اگر آج زندہ ہوتے تو اس صاحبزادہ کو داد تحقیق دیتے ہوئے.اپنے اس کلام پر ضرور نظر ثانی فرماتے کہ ے کیونکر خدا کے عرش کے قائل ہوں یہ عزیز جغرافیہ میں عرش کا نقشہ نہیں

Page 33

33 دوم :- یہ تو ایک مسلمان ماہر انجینئر کا سائنسی شاہکار ہے.اب تبلیغی جماعت کے ایک مولانا کے ایک معرکہ کا احوال سنئے.آپ نے ایک بارمند خطابت پر تعلق باللہ سے محروم ازلی ہونے کا کھلا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا :- ہم تو اللہ کو براہ راست نہیں جانتے.اللہ براہ راست ہم سے بات نہیں کرتا.اپنا ہاتھ نہیں دکھاتا.نہ جنت دکھائی نہ دوزخ دکھائی.نہ عرش دکھایا نہ آسمان دکھایا.“ دلچسپ اصلاحی واقعات صفحہ 390 - ناشر مکتبہ ارسلان کراچی اشاعت اول جولائی 2003ء) اس حقیقت کو ذہن نشین کر کے اب ”اعلیٰ حضرت" کے علمی اور سائنسی کمالات ملاحظہ ہوں نے سرور دو عالم کی ولادت با سعادت کے متعلق یوں گو ہر افشانی کی ہے.ایک سمندر کی مچھلی نے دوسری سمندر کی مچھلیوں کو جا کر مبارک باد دی کہ کائنات کا سردار آ گیا ہے." ( صفحہ 391) سدرۃ المنتہیٰ کی طرف اشارہ کر کے یہ نکتہ بیان فرمایا کہ:- اللہ نے تخت نیچے اتارا عرش کے 70 ہزار پر دئے ہیں جس پر کوئی مخلوق نہیں پہنچ سکی 70 ہزار پردوں کو چیر کر اللہ تعالیٰ نے ( آنحضرت کو ) اپنے سامنے کیا.(صفحہ 67) سفر معراج کی روایات میں آنحضرت کے مشاہدہ جنت کا بھی ذکر ملتا ہے.اس زمانہ کے ظاہر پرست جبہ پوش چونکہ راندہ درگاہ الہی میں اس لئے خدائے ذوالعرش ان سے ناراضگی کے باعث ہم کلام نہیں ہوتا اس لئے ماوراء الطبعیات کے بیان میں اپنے خیالی جو ہر خوب دکھلاتے ہیں اسی لئے علامہ موصوف نے ایک دفعہ جنت کا منظر پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جنت میں ستر ہزار دروازوں والا مر جان شہر ہے.اس کے ایک محل میں 70 ہزار کمرے ہیں.ہر کمرے میں ستر ہزار چار پائیاں ہیں.ہر چار پائی پر ستر بستر لگے ہوئے ہیں.(صفحہ 559 565t ) یع ناطقہ سر مگر یہاں اسے کیا کہیئے نوم - معراج نبوی ( فداہ ابی و امی ، روحی و جنانی ) کا نقطہ جمال و کمال کیا تھا ؟ اس پر

Page 34

34 بھی صدیوں قبل قرآن مجید کو مصحف عثمان کہنے والے حلقوں میں خوب طبع آزمائی ہوئی اور اس کے جواب میں ایک روایت گھڑی گئی جسے اب زور شور سے پھیلایا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں تشریف لے گئے اور مقام قاب قاسین پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ علی بیٹھے ہیں.( حياة القلوب فارسی جلد دوم صفحہ 273 تالیف قدوة العارفين رئيس المفسرين خاتم المحد ثین علامہ ملا باقر مجلسی ، مطبوعہ مطبع نولکشور.حیات القلوب اردو جلد دوم صفحه 288 مطبوعہ پاکستان) آه معراج اور صاحب معراج کس درجہ مظلوم میں !! اپنوں اور بیگانوں کے اس نوع کے نا پاک حملوں پر حضرت مسیح موعود نے اشکبار آنکھوں سے یہ تڑپا دینے والے اشعار کہے تھے آنکه نفس اوست از هر خیر و خوبی بے نصیب ے ترا شد عیب با در ذات خیر المرسلیس آنکه در زندان ناپاکی ست محبوب و اسیر هست در شان امام پاکبازاں نکتہ چیں وہ شخص جس کا نفس ہر خیر و خوبی سے محروم ہے وہ بھی حضرت خیرالمرسلیس کی ذات میں عیب نکالتا ہے.وہ جو خود ناپاکی کے قید خانہ میں اسیر و گرفتار ہے وہ بھی پاکبازوں کی شان میں نکتہ چینی کرتا ہے.اعجازی مشاہدات اور اس کے عظیم الشان اثرات یہ مقالہ بالکل تشنہ اور نامکمل رہے گا جب تک یہ واضح نہ کیا جائے کہ معراج میں ایسے اعجازی مشاہدات کی جلوہ گری ہوئی جو رب ذوالجلال کے دست قدرت کے بغیر ممکن ہی نہ تھی.اسی لئے اس کے نتیجہ میں ایسے عظیم الشان اثرات ہوئے جن سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تمام مذہبی نظریات میں ایسا تغیر عظیم ہوا کہ اس کی کایا ہی پلٹ گئی.نہ یہ کہ سفر معراج معاذ اللہ دیو مالائی کہانیوں کا ملغوبہ تھا جیسا کہ کشف و الہام اور وحی کے کوچہ سے محض نا آشنا ,

Page 35

بے بصیرت اور روحانی بینائی کے اندھے بتاتے ہیں یا جیسا کہ پادری ولیم سینٹ کلیر ٹو ڈل نے اپنی کتاب ینابیع الاسلام SOURCES OF ISLAM) میں یہ گمراہ کن، زہر یلا اور سراسر باطل پرو پیگنڈا کیا ہے کہ بانی اسلام نے قصہ معراج پہلوی زبان کی ایک کتاب بنام ارتائے ویراف نامک سے مستعار لیا ہے جو اردشیر بابکاں کے زمانہ میں تخمیناً چار سو برس قبل ہجرت کے تصنیف ہوئی تھی.اس کے علاوہ زردشتیوں، ہندوؤں بلکہ بدعتی عیسائیوں کی موضوعہ کتابوں مثلاً وصیت نامہ ابراہیم اور رویائے پولوس میں.مصنف دینا بیج الاسلام نے اس کے بعد لکھا ہے کہ اب خواہ ہندوؤں اور زردشتیوں نے اپنے یہاں ان باتوں کو ان موضوعہ کتابوں کے ذریعہ حاصل کیا ہو یا عیسائیوں کی یہ موضوعہ کتب ان بہت پرستوں کے خیالات پر مبنی ہوں مگر اس میں کسی کو بھی شک نہیں کہ وہ باتیں واہیات اور ہادر ہوا ہیں کوئی واقف کار شخص تو ان کو قبول نہیں کرتا.“ بنا بیچ الاسلام مترجم پادری اکبر سیج صفحہ 118 119 ناشر پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی انار کلی لاہور 1902 ء ) اب جاننا چاہئے کہ قرآن مجید نے سورۃ بنی اسرائیل میں رویائے معراج کا ذکر کرنے سے قبل سورۃ یوسف میں اس اولو العزم پیغمبر کی زندگی کے سب اہم واقعات پر روشنی ڈالی جو بنیادی طور پر آپ کی ایک رویا بنی کے گرد چکر لگاتے اور ان کی واقعاتی تعبیر ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی تفصیل میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ رویاء سن کر نصیحت فرمائی کہ یہ رویاء اپنے بھائیوں کو ہر گز نہ بتانا ورنہ وہ تمہاری شدید مخالفت و مزاحمت کریں گے.قرآنی الفاظ یہ ہیں.اذ قال يوسف لابيه يا ابت اني رايت احد عشر كوكبا والشمس والقمر رايتهم لی ساجدين.قال يا بني لا تقصص رو پاک علی اخوتك فيكيدوا لك كيدا..ان الشيطان للانسان عدو مبين.(يوسف: 6)

Page 36

36 جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے.اُس نے کہا.اے میرے پیارے بیٹے ! اپنی رویاہ اپنے بھائیوں کے پاس مت بیان کرنا ورنہ وہ تیرے خلاف ضرور منصوبہ باندھیں گے.شیطان انسان کا یقیناً کھلا دشمن ہے.تاریخی روایات سے بدیہی طور پر ثابت ہے کہ قریش مکہ کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کی اطلاع دی تو انہوں نے بھی مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کر دیا.اس سے بھی بڑھ کر تعجب خیز بات یہ ہے کہ برادران یوسف نے اپنے بھائی سیدنا یوسف علیہ السلام کو ایک سازش کر کے کنویں میں گرا دیا اور قریش مکہ کے فیصلہ دارالندوہ (7 ستمبر ) کے معا بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صدیق اکبر حضرت ابو بکر کے ساتھ غار ثور میں پناہ لینا پڑی.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رویاء کے نتیجہ میں یہ فوری ردعمل کیوں پیدا ہوا؟ اور فریقین اسے اپنے لئے خطرہ پا کر کیوں اٹھ کھڑے ہوئے؟ وہ حضرات جو قریش مکہ کی مخالفت معراج ہی کو اس کے جسمانی اور مادی ہونے کی دلیل بنائے بیٹھے ہیں ، وہ اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے لیکن حضرت مسیح موعود نے ایک فقرہ میں اس چیستان کو کمال معرفت کے ساتھ حل کر دیا ہے.فرماتے ہیں: وہ تمام قصے جو اللہ جلشانہ نے قرآن مجید میں حضرت آدم سے لے کر نضرت مسیح علیہ السلام تک بیان فرمائے ہیں، خالص غیب کی خبریں ہیں." مزید فرماتے ہیں:.آئینہ کمالات اسلام صفحہ 236 حاشیہ ) اس کا ہر ایک قصہ ہی اخبار غیب ہے.(ایضاً صفحہ 237 حاشیہ) سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس نکتہ معرفت کو مشعل راہ بنا کر تغییر کبیر (سورہ یوسف) میں یہ راز سر بستہ کھول دیا ہے کہ آنحضرت کے وجود باجود میں جہاں تمام نبیوں کی صفات بدرجہ اتم موجود ہیں اُسی طرح آپ حضرت یوسف کے بھی مثیل تھے اور اس

Page 37

37 صورت میں قبل از وقت پیشگوئی کی گئی ہے کہ حضرت یوسف کی رویاء کے مطابق جو واقعات آپ کو بعد میں پیش آئے وہی مستقبل میں آپ کو بھی پیش آنے والے ہیں.حضرت مصلح موعود نے اس ضمن میں قرآن اور تاریخ عہد نبوی کا باریک نظری سے گہرا مطالعہ کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اٹھارہ مشابہتیں حضرت یوسف کے ساتھ بیان فرمائی ہیں.جس کے نتیجہ میں بر دنیا کے معراج کا پس منظر بھی بالواسطہ طور پر کھلے باب کی طرح سامنے آگیا ہے.وجہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یوسف کے واقعات کے ساتھ جو ماثلتیں پیدا ہوئیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امام الانبیاء اور نبیوں کے شہنشاہ ہونے کے باعث یوسفی شان سے ہزاروں درجہ بڑھ کر تھیں.مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام نے حکومت مصر کا وزیر بننے کے بعد اپنے 11 بھائیوں کو معاف کیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے ار ہا جانی دشمنوں کو ضو عام کا اعلان فرمایا جس کی کوئی نظیر صفحہ تاریخ میں نہیں مل سکتی.کمال یہ ہے کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت یوسف ہی کے الفاظ میں ارشاد فرمایا لا تشریب علیکم الیوم“ اسی طرح یہ واقعہ ہے کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو آپ کے بھائیوں نے گھر سے نکال کر کنویں میں اس لئے پھینک دیا کہ یہ بڑا ہونے کی خواہیں دیکھتا ہے، اسے نکال دیں گے تو ذلیل ہو جائے گا.یہی ذہنیت قریش مکہ کی تھی مگر جہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو ہجرت کے بعد ایک بادشاہ کی ماتحتی میں ایک شاندار نیاتی عزت ملی جس کی وجہ سے آپ کے والدین اور گیارہ بھائی آپ کے زیر اقتدار آگئے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کے بعد مدینہ کی آزاد حکومت کا ایسا بادشاہ بنا دیا کہ آپ کے بعد آپ کے غلاموں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے قیصر و کسرٹی جیسی اپنے زمانہ کی دو عظیم ترین مملکتوں کے تاج مثل دیئے گئے اور چین سے ہندوستان تک کلمہ طیبہ کا پھر میرا پوری آب و تاب سے لہرانے لگا..ہوئے وہ قیصر و کسری کے کر و فر بر باد تقیم مکہ کے جب بوریا نشین گئے (حسن رہتائی)

Page 38

38 قرآن مجید نے رویائے معراج سے قبل رویائے یوسفی کا تذکرہ کر کے عرفان محمدیت کی بے شمار راہیں کھول دی ہیں.بایں ہمہ اس قرآنی اسلوب میں اصل حکمت یہ مضمر ہے کہ اگر چہ ہر نبی کی رویاء کا وحی ہونا مسلم ہے مگر عالم رویاء کے نظاروں کی عظمت و جلالت صاحب رویاء نجی کے منصب و مقام کے مطابق ہوتی ہے لہذا رویائے یوسفی اور سفر معراج کی رویائے محمدی میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ سیدنا یوسف بنی اسرائیل کے نبی تھے جن کی نبوت کا دور اُن کے وصال کے بعد ہی اختتام پذیر ہوا مگر جس طرح نورمحمدی ازل سے ہے اس طرح آپ کا زمانہ رسالت ابدیت کی شان رکھتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رویائے یوسفی کا تعلق حضرت یوسف کے اپنے عروج اور اپنے بھائیوں اور والدین کی ذات تک محدود تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج میں نہ صرف آپ کے عالی مقام اور آپ کے عہد میں رونما ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کرایا گیا ہے بلکہ قیامت تک موجود رہنے والی آپ کی امت کے مناظر پر بھی محیط ہے.خود اللہ جل شانہ نے اس ظلمانی دور کا نقشہ کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا ظهر الفساد في البر والبحر (الروم (42) یعنی بر و بحر میں فساد برپا ہو گیا یعنی اہل کتاب اور دوسرے سب بد مذہب خوفناک حد تک بگڑ گئے اور اسلام کا مختصر سا قافلہ جو ابتدا سے برسوں تک مکہ میں محصور تھا جس پر سفاک اور خونخواروں دشمنوں نے جور و جفا کی حد کر دی تھی اور مکہ کی گلیوں میں آنحضرت ﷺ کے جانثاروں کے مقدس خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اور کفار مکہ پکا ارادہ رکھتے تھے کہ سب مسلمانوں کو قتل کر دیں.محمہ کو صفحہ ہستی سے بالکل نابود کر دیں.اس ماحول میں جو شب دیجور نے بڑھ کر پُر ظلمت تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ اللعالمین“ کا منصب عطا ہوا.(الانبیاء:75) اور آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے یہ عالمی اعلان ہوا کہ یایھا الناس انی رسول الله اليكم جميعا.الذى له ملك السموت والارض - (الاعراف : 159 ) اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت حاصل ہے.

Page 39

39 الغرض خدائے ذو العرش نے گھٹا ٹوپ بادلوں سے گھری ہوئی تاریک اور سیاہ رات میں اپنے محبوب مگر امی نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لئے رسول بنایا اور تمام جہانوں کو رحمت عطا کرنے کا عالمگیر، ابدی اور آفاقی مشن سونپا.وہ شہ لولاک جو غار حرا میں اپنے مولی کی پہلی تجی پر ہی ( جو فظ افسر" سے شروع ہوئی ) کانپ اٹھے تھے، اس عالمگیر ذمہ داری پر آپ کے مقدس قلب و دماغ اور روح پر کیا بیتی ہوگی ؟ کوئی ماں کا بیٹا قیامت تک اس کے کروڑویں حصہ کا بھی اندازہ نہیں کر سکتا.رب العرش فرماتا ہے کہ انسان کامل یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو امانت بخشی گئی ، زمین و آسمان اور پہاڑ بھی اسے اٹھانے سے قاصر تھے.(احزاب:73) وہ بوجھ جس کو اٹھا نہ سکے آسمان و زمین اسے اٹھانے کو آیا ہوں کیا عجیب ہوں میں عقل انسانی یہ معلوم کر کے ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے کہ معراج کے یہ لطیف مشاہدات عین اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے جبکہ ساری دنیا سچ مچ رات کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی جیسا کہ ابتدائی کمکی سورت اللیل سے پتہ چلتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:- سر میور کا خیال ہے کہ سورت بالکل ابتدائی سورتوں میں سے ہے.پادری ویری لکھتے ہیں کہ یہ سورۃ ہے تو ابتدائی مگر تبلیغ عامہ کے زمانہ کی ہے یعنی تیسرے، چوتھے یا پانچویں سال کی ہے کیونکہ اس میں منکروں کے لئے عذاب کی خبر ہے.پادری و ھیری کا یہ خیال میرے نزدیک درست معلوم ہوتا ہے.“ (تفسیر کبیر سورة الليل صفحه 44) اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ سورہ نجم جس میں واقعہ معراج کا ذکر ہے پانچویں سال نبوت میں نازل ہوئی.حضرت مصلح موعودؓ نے سورہ الفجر کی تفسیر میں ریورنڈ ویری اور نولڈ کے کی آراء درج کی ہیں اور تحریر فرمایا ہے کہ یور چین اور مسلمان مورخ سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سورۃ ( الفجر ) چوتھے "

Page 40

40 سال کے قریب نازل ہوئی ہے اور یہی وہ سال ہے جس میں کفار مکہ کی طرف منظم مخالفت کا آغاز ہوا.(صفحہ 506) یہی وہ پر ظلمت دور تھا جب چند گنتی کے مسلمان حبشہ میں تھے اور باقی جو مکہ معظمہ میں حضرت سمیت جو بھی چند مسلمان مرد، عورتین یا بچے موجود تھے، ان پر مظالم کے سیاہ اور گھٹا ٹوپ بادل چھائے ہوئے تھے اس لئے اللہ نے واقعہ اسراء و معراج کے زمانہ کو لیل یعنی رات ہی سے موسوم کیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے درج ذیل حقیقت افروز اشعار میں اس کا ذکر کیا گیا ہے اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر شمع ظلمات ینہ وار آئی تاریکی یہ تاریکی اندھیرے پر اندھیرے ابلیس نے کی اپنے لشکر کی صف آرائی ہر سمت فساد اٹھا عصیان میں ڈوب گئے ایرانی و فارانی و فارانی ، رومی و بخارائی عشاق رسول کو معلوم ہے کہ خالق کا ئنات نے اپنے محبوب سے عمر بھر یہ غیر معمولی شفقت بھرا سلوک رکھا کہ نزول قرآن کے ساتھ ساتھ وہی غیر متلو ( کشف والہام اور رویا ) کا سلسلہ بھی ہمیشہ جاری رکھا تا قلب محمدی میں ثبات و استقلال اور بصیرت ایمانی کے انوار سے اور بھی معمور ہو جائے.بالکل اسی دستور ازلی کے عین مطابق معراج کی طرف ارتقاء سے قبل قلب محمدی کو آب زمزم سے دھویا گیا اور پھر بخاری اور دیگر کتب احادیث کے مطابق اس میں حکمت و ایمان بھر دیا گیا جو سونے کے ایک تھال میں رکھا ہوا تھا.اس انقلابی نکتہ معرفت سے معراج کے عدیم المثال سفر کا آغاز ہوا.قلب و روح کے عجائبات بے شمار ہیں اس لئے میرا عقیدہ ہے کہ اس نورانی سفر کے معجز نما مشاہدات و واردات کوثر نبوی کی طرح بے شمار حکمتوں اور اسرار ورموز سے قیامت تک موجزن رہیں گے اور کسی

Page 41

41 کی مجال نہیں کہ ان کا احاطہ کر سکے.وجہ یہ کہ معراج دکھلانے والے رب العرش نے خود واضح فرما دیا ہے فاوحى الى عبده ما اوحی“ (النجم: 11) حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں اس مبارک آیت کا ترجمہ یہ ہے پس اس نے اپنے بندے کی طرف وہ وحی کیا جو بھی وحی کیا.“ حضرت علامہ سیوطی نے واقعات معراج پر مشتمل قدیم روایات میں یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت نے معراج میں سب نبیوں سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ للعالمین اور سب انسانوں کے لئے بیرونذیر بنا کر مبعوث فرمایا ہے.مجھ پر قرآن نازل فرمایا ہے جس میں ہرشئی بیان ہوئی ہے.میری امت سب اسم عالم سے افضل ہے اور اس میں اولین بھی ہیں اور آخرین بھی.(در منثور جلد 4 صفحہ 145) شہنشاہ نبوت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آسمانی خطاب سفر معراج کے خارق عادت نکاروں کی کنہ تک پہنچنے کے لئے آسمانی کلید کا حکم رکھتا ہے اور بغور مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ معراج محمدیت ایک وسیع ترین کائنات ہے جس کے سامنے ہماری مادہ اور ظاہر کائنات اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی جتنی حیثیت ذرہ کو آفتاب سے ہو سکتی ہے.کیونکہ اس کی شمان آیات اللہ کی ہے اور وہ بھی ایسی وحی کے ساتھ جو رب محمد اور قلب محمد کے سوا کوئی نہیں جان سکتا.ذیل میں اس سفر نورانی کے لاتعداد پہلوؤں میں سے صرف چند گوشوں پر نهایت اختصار و اجمال کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی ہے.تدریجی واقعات کے نظارے 1.اس حیرت انگیز سفر میں ہمارے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی عالمی اشاعت کے ابتدائی مراحل سے متعلق باہم تدریجی واقعات مشاہدہ فرمائے اور ان کے سنگ میل.ہجرت مدینہ کی خاص طور پر جھلک دکھلائی گئی چنانچہ مٹر ب میں نماز پڑھنے کا ذکر بھی روایات میں موجود ہے علاوہ ازیں کفار سے دفاعی جنگوں کا بھی قبل از وقت بتلا دیا گیا

Page 42

42 جیسا کہ روایات معراج میں ہے کہ رب العرش نے فرمایا کہ میں نے آپ کو ہجرت اور جہاد وغیرہ خصوصیات سے بھی نوازا ہے.تمہیں فاتح بھی بنایا ہے خاتم بھی.در منشور جلد 4 صفحہ 146 ) حضرت مصلح موعود عالم کشوف کے متعلق خود صاحب تجربہ تھے، آپ نے لکھا ہے :- میرے نزدیک اس کشف میں ہجرت مدینہ کی خبر دی گئی تھی اور بیت المقدس جو آپ کو دکھایا گیا اس سے مراد مسجد نبوی کی تعمیر تھی جس کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیت المقدس سے بھی زیادہ عزت دی جانے والی تھی.(تغییر کبیر سورہ بنی اسرائیل صفحه 294) سید امحمودالمصلح الموعود نے سیر روحانی کے عنوان پر لیکچر دیتے ہوئے دنیا بھر میں منادی کی کہ مسجد نبوی سے فیض یافتہ صحابہ رسول نے کس طرح نئی دنیا نئی زمین اور نئے آسمان پیدا کر ڈالے.چنانچہ فرمایا:.شاہی مسجد اور مکہ مسجد اور جامع مسجد اور موتی مسجد بھلا کیا حقیقت رکھتی ہیں.اس روحانی مسجد نے ایک گھنٹہ میں جو ذکر الہی کا نمونہ دکھا یا وہ ان مساجد میں صدیوں میں بھی ظاہر نہ ہوا مگر افسوس کہ لوگ ان پتھر اور اینٹ کی مسجدوں کو دیکھتے اور ان کے بنانے والوں کی ہمت پر واہ واہ کرتے ہیں لیکن قرآن، حدیث اور تاریخ کے صفحات پر سے اس عظیم الشان مسجد کو نہیں دیکھتے جس کا بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا انجینئر محمد نامی تھا (ع) اور جس مسجد کی بناء سرخ وسفید پتھروں سے نہیں بلکہ مقدس سینوں میں لٹکے ہوئے پاکیزہ موتیوں سے تھی.“ سیر روحانی جلد اول صفحه ۱۹۵)

Page 43

43 الله مسجد اقصیٰ کی تاریخ کا کھلا ورق حضرت مصلح موعود کی یہ بصیرت افروز تعبیر ایک ناقابل تردید واقعاتی شہادت پر مبنی ہے جو ہمالیہ پہاڑ سے بھی بڑھ کر مستحکم ہے اور جس سے ٹکرا کر سب باطل نظریات و افکار ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں اور وہ شہادت یہ ہے کہ کسی مستند تاریخ میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ آنحضرت ﷺ کے عہد میں بیت المقدس شہر میں (جسے یروشلم اور قدس بھی کہا جاتا ہے ) مسجد اقصیٰ کے نام سے یا کسی اور نام سے کوئی مسجد یا عبادت گاہ موجود تھی جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے لئے آنحضرت ﷺ کی امامت میں نماز ادا کرنے کی وسعت موجود ہو.امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر بن الخطاب جب 16 ھ میں بیت المقدس تشریف لے گئے تو الصخرہ (جس پر آنحضرتﷺ کے قدم مبارک رکھنے اور آسمان پر چڑھنے کا قصہ مشہور ہے ) نجاست و غلاظت کے نیچے دب چکا تھا.جس کی وجہ یہ تھی کہ صدیوں قبل شاہ قسطنطین کی والدہ ملکہ میلا نہ (335ء) نے یہود کی مخالفت میں مسخرہ پر قائم عمارت مسمار کر کے اسے گندگی اور کوڑا کرکٹ کے لئے مخصوص کر دیا تھا.آیت اسراء کی تفسیر میں حضرت ابن کثیر دمشقی (المتوفی ۷۷۴ھ) نے صاف لکھا ہے "كانوا قد جعلوها مزبله من اجلها انها قبلة اليهود." حضرت عمر نے اس جگہ کو صاف کرنے کا حکم دیا بلکہ خلیفہ راشد نے خود بھی اپنی قبا کے دامن میں بھر بھر کر مٹی ڈھونا شروع کر دی جس پر آپ کے مقدس قافلہ کے رفقاء اور فوج کے سپہ سالار بھی اس ” وقار عمل میں جوش و خروش سے شریک ہو گئے.یہاں تک کہ الصخرہ" کی چٹان عیاں ہوگئی.حضرت عمر نے چٹان کو خوب صاف کیا اور اسی جگہ مسجد بنانے کا ارشاد فرمایا.حضرت عمر نے چند روزہ قیام کے بعد مرکز اسلام مدینہ میں مراجعت فرمائی اور الصخرہ پر مسجد بنانے کی سعادت اموی بادشاہ عبد الملک بن مروان ( متوفی شوال 288/ اکتوبر 705ء) کو حاصل ہوئی جسے یورپین سکالر مسجد عمر کہتے ہیں لیکن جیسا کہ نامور فرانسیسی محقق لیمان نے ” تمدن عرب میں نشاندہی کی ہے یہ ان کی فاش غلطی ہے.اس مسجد کو عبد الملک بن مروان نے تعمیر کرایا اور اس کی مزید آرائش و تکمیل اس کے جانشین ولید بن عبد الملک کے دو

Page 44

44 عہد میں ہوئی جیسا کہ اسلام کے شہرہ آفاق مورخ علامہ ابن خلدون نے اس کے حالات میں لکھا ہے.یہی وہ مسجد ہے جو آج مسجد اقصیٰ کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس میں بھی چند ہزار نمازیوں ہی کی گنجائش ہے.( مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو دائرہ معارف اسلامیہ" پنجاب یونیورسٹی لاہور زیر لفظ قبة الصخرة جلد 18-1 " صفحہ 233-234 طبع اول 1978 ء ) 1938ء میں بیک وقت لیڈن اور لنڈن سے دی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام (ENCYCLOPAEDIA OF ISLAM) کی تیسری جلد شائع ہوئی تو اس میں مسجد اقصیٰ کے زیر عنوان صاف طور پر لکھا "ACCORDING TO LATE ARAB WRITERS THE MOSQUE WAS BUILT BY THE CALIPH ABDAL-MALIK” یعنی بعد کے عرب مصنفین کی تحقیق کے مطابق اس مسجد اقصیٰ کے بانی اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان تھے.یہ انسائیکلو پیڈیا متعدد چوٹی کے مستشرقین کی محنت و کاوش کا نتیجہ ہے جسے شہرت یافتہ دانشوروں یعنی دین سنگ (WENSINCK) اور اے.آر.گب.A.R) GIBB نے مرتب کیا.اس معلومات افروز کتاب کا دوسرا ایڈیشن 1986ء میں ہالینڈ ، امریکہ اور جرمنی سے بھی منظر عام پر آچکا ہے.المختصر یہ کہ مسجد اقصیٰ کی تعمیری تاریخ نے معراج کے نورانی سفر اور اس کی عدیم المثال روحانی کیفیات پر گویا دن چڑھا دیا ہے.اک نظر خدا کے لئے سيد الخلق مصطفی کے لئے مقام قاب قوسین سے جلوہ محمدی 2.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر انکشاف کیا گیا کہ آپ مظہر اتم الوہیت ہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں :-

Page 45

45 اور جو تشبیہات قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخلقی طور پر خداوند قادر مطلق سے دی گئی ہیں ان میں سے ایک یہی آیت ہے.جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثم دنی فتدلى فكان قاب قوسین او ادنی.یعنی وہ (حضرت سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی ترقیات کا ملہ قرب کی وجہ سے دو قوسوں میں بطور وتر کے واقع ہے بلکہ اس سے نزدیک تر.اب ظاہر ہے کہ وتر کی طرف اعلیٰ میں قوس الوہیت ہے سو جب کہ نفس پاک محمدی اپنے شدت قرب اور نہایت درجہ کی صفائی کی وجہ سے وتر کی حد سے آگے بڑھا اور رویائے الوہیت سے نزدیک تر ہوا تو اس نا پیدا کنار دریا میں جا پڑا اور الوہیت کے بحر اعظم میں ذرہ بشریت گم ہو گیا.اور یہ پڑھنا نہ مستحدت اور جدید طور پر بلکہ وہ ازل سے بڑھا ہوا تھا اور ظلی اور مستعار طور پر اس بات کے لائق تھا کہ آسمانی صحیفے اور الہامی تحریر میں اس کو مظہر اتم الوہیت قرار دیں اور آئینہ حق نما اس کو ٹھہر اویں پھر دوسری آیت قرآن شریف کی جس میں یہی تشبیہ نہایت اصلی و اصلی طور پر دی گئی ہے یہ ہے.ان الذین یبایعونک انما يبايعون الله يد الله فوق ايديهم یعنی جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.واضح ہو کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کیا کرتے تھے اور مردوں کے لئے یہی طریق بیعت کا ہے سو اس جگہ اللہ تعالٰی نے بطریق مجاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو اپنی ذات اقدس ہی قرار دے دیا اور ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا.یہ کلمہ مقام جمع میں ہے جو بوجہ نہایت قرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولا گیا ہے اور اسی مرتبہ جمع کی طرف جو محبت نامہ دوطرفہ پر موقوف ہے اس آیت میں بھی اشارہ ہے.مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى - تو نے نہیں چلایا خدا نے ہی چلایا جب کہ تو نے

Page 46

46 چلایا.ایسا ہی یہ اشارہ اس دوسری آیت میں پایا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا.بھنے ان کو کہدے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر اسراف کیا (یعنی ارتکاب کبائر کیا ) تم خدا کی رحمت سے نومیدمت ہو.وہ تمہارے سب گناہ بخش دے گا.اب ظاہر ہے کہ بنی آدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تو بندے نہیں ہیں بلکہ سب نبی و غیر نبی خدا تعالی کے بندے ہیں لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے موٹی کریم سے قرب اتم یعنی تیسرے درجہ کا قرب حاصل تھا سو یہ بخن بھی مقام جمع سے سرزد ہوا اور مقام جمع قاب قوسین کا مقام ہے جس کی تفاصیل کتب تصوف میں موجود ہے ایسا ہی اللہ تعالٰی نے مقام جمع کے لحاظ سے کئی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے رکھ دیئے ہیں جو خاص اس کی صفتیں ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ نہایت تعریف کیا گیا سو یہ غایت درجہ کی تعریف حقیقی طور پر خدا تعالی کی شان کے لائق ہے مگر خلی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ایسا ہی قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور جو دنیا کو روشن کرتا ہے.اور رحمت جس نے عالم کو زوال سے بچایا ہوا ہے، آیا ہے اور رؤف اور رحیم جو خدائک تعالی کے نام ہیں ان ناموں سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پکارے گئے ہیں اور کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم الوہیت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کا آنا خدا کا آتا ہے چنانچہ قرآن شریف میں اس بارے میں ایک یہ آیت بھی ہے وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا کہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھاگنا ہی تھا.حق سے مراد اس جگہ اللہ جل شانہ

Page 47

47 اور قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.“ مقام خاتم النبین کی عظیم تجلی سرمه چشم آریہ حاشیہ صفحہ 226 تا 230 ) 3- سلسلہ انبیاء میں خاتم النبیین کا منصب اعلیٰ صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا جس کی عظمت و جلالت نشان کا حقیقی تصور خالق کا ئنات کی طرف سے معراج ہی میں رکھا گیا اور دکھلایا گیا کہ جہاں دوسرے تمام نبیوں کی رفعتیں ختم ہوتی ہیں وہاں سے آپ کا مشام شروع ہوتا ہے جس کے بعد خدائے ذوالعرش ہی کی جلوہ آرائی ہے اس اعتبار سے آپ آخری نبی ہی نہیں آخری انسان بھی آنحضور ہی ہیں چنانچہ آپ ہی کا ارشاد مبارک ہے "انا العاقب الذي ليس بعده احد (مسلم) كتاب الفضائل.حديث (125) میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی بھی نہیں.یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اصل حدیث یہی ہے اور احد کی بجائے نبی کا لفظ امام زھری کا شامل کردہ ہے اور اس کی تصریح اگلی چند سطروں میں خود حضرت امام مسلم کے ظلم سے موجود ہے.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر صغیر میں آیت خاتم النبین کی تفسیر کرتے ہوئے سدرۃ المنتہی سے پہلے آسمان تک رونق افروز نبیوں کا نقشہ ” مسند احمد بن حنبل‘ سے دے کر کمال معرفت کے رنگ میں یہ عقدہ کھول دیا ہے کہ اس نقشہ کو دیکھ تو مخلوق کے مقام پر جو شخص کھڑا ہوگا اس کی نظر سب سے پہلے حضرت آدم پر پڑے گی اور سب سے آخر اس کی نظر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑے گی گویا سب نبیوں میں آخری وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دے گا اس کے علاوہ اگر اس حدیث کو لیں کہ آدم ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا تب بھی میں خاتم النبیین تھا تو بھی شجرہ انبیاء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام کے لحاظ سے اوپر کی جگہ حاصل ہوگی پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں

Page 48

48 سب سے اوپر گئے تو مقام محمد کی آخری نبوت کا مقام ٹھہرا.“ حدیث میں ہے کہ اللہ جلشانہ نے معراج کے مبارک سفر کے دوران آنحضرت کو مخاطب کر کے یہ اعزاز بخشا کہ آپ کی امت اولین اور آخرین دونوں گروہوں پر مشتمل ہوگی نیز یہ کہ آپ کو فاتح اور خاتم کے منصب پر فائز کیا.( تفسیر ابن کثیر تفسیر آیت اسراء ) حضرت امیر المؤمنین شیر خدا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطاب عام میں اس فرمان خداوندی کا یہ مفہوم بیان فرمایا کہ الخاتم لما سبق والفاتح لما انغلق “ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۷۲ مطبوعہ بیروت طبع ثانی ۱۹۸۲ء) یعنی پہلے تمام نبیوں کے فیضان ختم ہو گئے آئندہ جو کچھ ملے گا چشمہ محمد ﷺ سے ملے گا کیونکہ آپ فاتح ہیں.آنحضرت مے خود فرماتے ہیں کہ تقسیم میں کرتا ہوں ، عطا کرنے والا اللہ ہے.نبیوں کی امامت کا لطیف فلسفہ 4.حضرت مصلح موعوددؓ تحریر فرماتے ہیں:.اور یہ جو دکھایا گیا کہ آپ نے سب نبیوں کی امامت کرائی اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کا سلسلہ عربوں سے نکل کر دوسری اقوام میں بھی پھیلنے والا ہے اور سب انبیاء کی امتیں اسلام میں داخل ہوں گی اور یہ اشاعت مدینہ میں نجانے کے بعد ہوگی اور اس میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کے علاقہ کی حکومت دی جائے گی." ارواح انبیاء سے ملاقات (تفسیر کبیر سورۃ اسراء صفحه 294) 5- روایت میں ہے لقی ارواح الانبیاء (در منثور جلد 4 صفحہ 144 ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج میں سب نبیوں کی روحوں سے ملاقات فرمائی.ابن عسا کر جلد اول صفحہ ۳۸۸ میں یہ فیصلہ کن روایت ملتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے

Page 49

49 ارشاد فرمایا کہ میں اور جبرائیل بیت المقدس میں اس جگہ پہنچے جہاں سے مجھے معراج ہوا جس میں ارواح عروج کرتی ہیں پھر بتایا کہ اس کے بعد مجھے سب پہلے آدم ملے جن کے سامنے آپ کی ذریت میں ہونے والے مومنوں اور فجار دونوں کی روحیں پیش کی جاتی ہیں.خدائے علیم و خبیر کو علم تھا کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ نظریہ حیات مسیح کے نتیجہ میں ہزاروں کلمہ گو عیسائیت کا شکار ہو جائیں گے اس لئے اللہ جلشانہ نے بشمول حضرت عیسی سب نبیوں کی ارواح سے ملاقات کرا کے بتادیا کہ دوسرے انبیاء کی طرح آسمان پر حضرت مسیح ناصری کی صرف روح ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم مبارک سے معراج کے اس پہلو کی مزید وضاحت سپر دقر طاس کی جاتی ہے.انبیاء تو سب زندہ ہیں مردہ تو ان میں سے کوئی بھی نہیں.معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی لاش نظر نہ آئی تھی...معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کو برابر زندہ پایا اور حضرت عیسی کو حضرت بیٹی کے ساتھ بیٹھے ہوئے پایا." ( آئینہ کمالات اسلام ضمیمہ صفحہ 9) آخری زمانہ کے فتن و مفاسد کی خبر -6- روح محمدی کو اس سفر آسمانی میں اپنی امت کے آخرین“ کے زمانہ میں ابھر نے والے فتن و مفاسد کی اس کثرت سے اطلاع دی گئی کہ عقل انسانی ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے.اس سلسلہ میں حضرت علامہ سیوطی کی تغییر در منثور جلد 4 کے مجموعہ روایات پر سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال اور یا جوج ماجوج کو دیکھا ( صفحہ 152 و 155 ) دنیا ایک حسین بڑھیا کی صورت میں نظر آئی.یہود و نصاریٰ اور سود خود متمثل کر کے دکھلائے گئے کہ آخری دور میں سب عالمی فتنوں کا سر چشمہ یہی لوگ بننے والے تھے.(صفحہ 142 ، 143 ، 147 ) ابن عساکر (مطبوعہ بیروت) جلد اول صفحه ۳۸۸، ۳۸۹ میں مذکور آنحضرت کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نے معراج میں اپنی امت کے وہ لوگ بھی دیکھے جو حلال کو چھوڑ کر حرام کھائیں گے.سودی

Page 50

50 کاروبار کریں گے.دوسروں کی غیبت کرنے والے ہوں گے اور زنا کا ارتکاب کریں گے.اسی طرح تفسیر ابن کثیر (زیر آیت اسراء) کے مطابق امانت میں خیانت کرنے والے نام نہاد مسلمانوں کو بھی آپ نے ملاحظہ کیا اور ان تخریب کاروں کے کرتوت بھی آپ کو دکھلائے گئے جو اپنے خبث باطن کے باعث سڑکوں پر دھرنا مار کے بیٹھ جائیں گے اور کانٹے دار لکڑی کی مانند عوام کے کپڑے پارہ پارہ کر دیں گے.یعنی ان کے مظاہروں سے پوری دنیا کا امن یکسر خطرہ میں پڑ جائے گا.اسی پر بس نہیں سرکار دو عالم کو دور آخرین کے بدقماش ملاؤں کا بھیانک منظر بھی دکھلا دیا گیا چنانچہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ:.ان النبي صلى الله عليه وسلم قال ليلة اسری بی مررت بناس تقرض شفاههم بمقاريض من نار كلما قرضت عادت كما كانت فقلت من هولاء يا جبريل قال هؤلاء خطباء امتك يقولون مالا يفعلون.“ (در منثور جلد 4 صفحه 150) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسراء کی رات میں ایسے لوگوں سے گذرا جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا لیکن وہ پھر بڑھ جاتے تھے.میں نے جبریل سے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں انہوں نے کہا یہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو دوسروں سے کہیں گے مگر خود اس پر عمل نہیں کریں گے.عالمی نظمیہ اسلام کا بر کیف منتظر 7- آيت هو الذي ارسل رسوله بالهدی (سورہ تو بہ وفتح) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں مذاہب عالم پر غلبہ اسلام مہدی امت سے وابستہ کیا گیا ہے.صاحب المعراج صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر معراج میں اس کا پُر کیف نقشہ بھی دکھلایا گیا جو حضرت ابن عباس کی حدیث ( مندرجہ در منثور جلد 4 صفحہ 150 - ” مسند احمد بن حنبل، جلد 1 صفحہ 271) میں موجود ہے اس حدیث کا ترجمہ دیوبندی عالم مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے

Page 51

51 درج ذیل الفاظ میں کیا ہے :- حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب آپ کو معراج کرائی گئی تو بعض ایسے انبیاء پر آپ کا گزر ہوا جن کے ساتھ بڑا مجمع تھا اور بعض ایسوں پر گزر ہوا جن کے ساتھ چھوٹا مجمع تھا اور بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا یہاں تک کہ آپ کا گزر ایک بہت بڑے مجمع پر ہوا.میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں کہا گیا کہ موسیٰ اور ان کی قوم ہیں لیکن اپنا سر اوپر اٹھائیے اور دیکھئے.سود یکھتا کیا ہوں کہ اتنا عظیم الشان مجمع ہے کہ سب آفاق کو گھیر رکھا ہے اور کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے.نشر الطیب صفحہ 54 ناشر تاج کمپنی لاہور ) سیدنا مصلح موعودؓ معرفت و حکمت سے لبریز تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 397 میں تحریر رماتے ہیں:- میرے نزدیک اس کشف ( یعنی معراج.ناقل ) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی سفر کی طرف بھی اشارہ ہے اور یہ بتایا ہے کہ جب اسلام پر تاریکی کا زمانہ آئے گا اس وقت اللہ تعالٰی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے تابع وجود کے واسطہ سے پھر دنیا کی ہدایت کے لئے مقرر کرے گا اور اس تابع کے واسطہ سے وہی برکات مسلمانوں کو پھر لیں گی جو انبیاء بنی اسرائیل کو اور ان کے اتباع کو ملی تھیں.اسی کی طرف سورۃ جمعہ میں بھی اشارہ ہے.“ لیکن جب ہم سورہ جمعہ کی آیت و آخرین منھم لما يلحقوا كا مطالعہ کرتے ہوئے اگلی آیت تک پہنچتے ہیں تو اس کے معابعد یہود کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر تم برگزیدہ لوگ ہو تو موت کی تمنا کر کے اپنا سچا ہونا ثابت کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے ذکر کے ساتھ دعوت مباہلہ میں ایک زبر دست پیشگوئی مضمر ہے اور غالباً اس پیشگوئی کو شرق اوسط کے ایک بزرگ شاعر الشیخ محمد رضا شیمی عراقی نے اپنے اشعار میں کمال خوبی سے بے نقاب کیا ہے :- واكبر ظني لو اتانا محمد للاقي الذي لاقاه من اهل مكة

Page 52

52 اذن لقضى لا منهج الناس منهجي ولا ملة القوم الاواخر ملتي دیوان الشیعی ، صفحہ 107 ناشر مطبع لجنة التأليف والترجمة والتبشير 1940ء) (ترجمہ) میرا ظن غالب ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اگر ہمارے پاس دوبارہ تشریف لے آئیں تو آپ کو آج بھی اپنی امت کے ہاتھوں اُسی قسم کے مصائب سے دوچار ہونا پڑے گا جس طرح آپ اہل مکہ کے ہاتھوں دو چار ہوئے.پیغمبر خدا ہمیں دیکھ کر یقیناً یہ فیصلہ کریں گے کہ لوگ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ میرا بتایا ہوا طریق نہیں اور آخری زمانہ کے لوگوں کا مذہب ہرگز میرا مذ ہب نہیں.یہ عجیب تصرف خداوندی ہے کہ مسلم دنیا کے اسی تاریک ترین دور میں سیدنا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو 1883ء میں بذریعہ رویا بشارت دی گئی کہ عنایت الہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں اور یقین کامل ہے کہ اس قوت ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہو گئے ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتع کرے گا.(مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 20 اشاعت 29 دسمبر 1908ء) زندہ معراج اور زندہ نبی 8 تیسری صدی ہجری کے محدث حضرت ابو بکر بن عمر و حافظ البزار (متوفی 292ھ) نے حضرت علی سے معراج کے باب میں یہ حدیث درج کی ہے کہ رب کریم نے ارشاد فرمایا اے محمد ! یہ آیت پڑھو ھو الذى يصلى عليكم و ملائكته..الخ ( بحوالہ نشر الطيب صفحه 77) مذہبی تاریخ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ مظہر اتم الوہیت ہیں جن پر خدا اور اس کے فرشتے ازل سے ابد تک رحمت بھیج رہے ہیں.حاجی الحرمین سید نا حضرت مولانا نورالدین خلیفة اسح الاول نے ایک بار درود شریف سے آنحضرت ﷺ کے افضل الرسل اور زندہ نبی ہونے

Page 53

53 اثبوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:- زمین گول ہے.اگر ایک جگہ فجر ہے تو دوسری جگہ عشاء ہے.ایک جگہ اگر عشا ہے تو دوسری جگہ شام ہے ایسے ہی اگر ایک جگہ ظہر کا وقت ہے تو دوسری جگہ عصر کا وقت ہوگا غرض ہر گھڑی اور ہر وقت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ثواب پہنچتا رہتا ہے.دنیا میں کروڑ در کروڑ رکوع اور محمود کرتے اور درود پڑھتے اور دوسری دعائیں مانگتے ہیں.اس سے ثابت ہے کہ وہ تمام رسولوں نیوں اور اولیاء کا بھی سردار ہے کیونکہ دنیا میں جس قدر رسول گزرے ہیں ان کی امتیں ان کے لئے دعائیں نہیں کرتیں." حکم 14 جنوری 1908 حوالہ محامد خاتم النبین صفحہ 368 369 مرتبہ حضرت ولا نا محمد اسماعیل صاحب حلالپوری پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان.جنوری 1936ء) درود شریف کا یہ غیر محدود اور لامتناہی سلسلہ اس امر کا بھی بھاری ثبوت ہے کہ روح محمدی کا اور بانی معراج ہرگز ختم نہیں ہوا بلکہ آیت والاخرة خير لك من الاولى (اضی) کی رُو سے بھی ابد الآباد تک کے لئے جاری و ساری ہے حضرت مصلح موعود نے ایک بار اپنے ایک یہ کے دوران پر شوکت الفاظ میں فرمایا: " محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ انسان ہیں جو ایک سیکنڈ میں کروڑوں میل خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھ جاتے ہیں.“ " الفضل" 16 جون 1944 صفحہ 8 کالم 3) 20 فروری 1903ء کو حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے خطبہ کے دوران حضرت مسیح موعود کا درود شریف کی نسبت یہ مشاہدہ سامعین کو بتایا کہ ” میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر اس کی لا انتہا نالیاں ہو جاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں درود شریف کیا ہے؟

Page 54

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عرش کو حرکت دیتا ہے جس سے یہ چور کی تالیاں نکلتی ہیں.جو اللہ تعالی کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف القلم قادیان 28 فروری 1903 صفحہ ۶ کالم 1) صاحب المعراج کے عاشق صادق کی عالمگیر دعوت اس تحقیقی مقالہ کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موجود اور مہدی مسعود کی ایک عالمگیر دعوت پر ختم کرتا ہوں.حضرت اقدس نے تحریر فرمایا: "اے تمام وہ لو گو جو زمین پر رہتے ہو اور اسے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو.میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچاند سب صرف اسلام ہے اور سچا خدا وہی ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور حلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی وردی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسانی نشانیوں کے انعام پاتے ہیں." اللهم صل على محمد وآل محمد وبارك تریاق القلوب " صفحه 5-7)

Page 55

Page 56

حسب فرمائش مکرم چوہدری داد واحمد چیمہ صاحب جرمنی کرم چوہدری محمد ایرانیم چیمہ صاحب مرحوم فرزندان : مکرم عاصم احمد داؤد چیمہ صاحب مکرم حسن وسیم چیمہ صاحب

Page 57

誉,

Page 57