Language: UR
بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی ر أم المؤمنين حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا لجنہ اماء الله
أم المؤمنين حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لوصد سالہ خلافت جو ہلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تاکہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
حضرت میمونہ پیارے بچو! أم المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنها آج ہم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ایک زوجہ محترمہ حضرت میمونہ کے حالات پڑھیں گے.پہلے ہم آپ کو اُس دور کے کچھ حالات بتا دیں تا کہ آپ کو بات زیادہ سمجھ میں آئے.آپ کو علم ہے کہ جب پیارے آقا ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو مکہ کے لوگوں نے بے حد مخالفت کی اور آپ میرے کو اور آپ ملے پر ایمان لانے والوں کو شدید تکلیفیں دیں.سب سے بڑی تکلیف یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہی نہیں صل الله پہنچانے دیتے تھے.اس لئے آپ علیہ نے مکہ سے ہجرت کی.مکہ آپ علیہ کو بہت پیارا تھا آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو مکہ بہت یاد آتا تھا.ہجرت کے چھ سال بعد ایک دفعہ آپ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.چنانچہ اسی سال آپ مہ عمرے کی نیت سے چودہ سو صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے.
حضرت میمونہ 2 جب آپ ﷺ کا قافلہ مکہ سے نومیل کے فاصلہ پر حدیبیہ کے مقام پر پہنچا تو قریش نے آپ ﷺ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا اور ایک معاہدہ طے پایا کہ اس سال آپ کے واپس چلے جائیں اور اگلے سال طواف کے لئے آسکتے ہیں.اس معاہدے کو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام صلى الله سے یاد کیا جاتا ہے.اگلے سال آپ ﷺ نے اعلان فرمایا کہ ملکہ کے سفر کی تیاری شروع کی جائے اور خاص طور پر حد بیبیہ تک جا کر واپس لوٹ آنے والے ضرور اس سفر پر جا ئیں.(1) آپ ﷺ کو احساس تھا کہ جنہوں نے اُس وقت تکلیف اُٹھائی تھی اب خوشی بھی دیکھیں.اس سفر میں آپ میں اللہ کے ساتھ اُم المؤمنین حضرت ام سلمی بھی تشریف لے گئیں.اور آپ معدے ایک خیمہ میں تین دن ٹھہرے.ایک دن آپ اللہ کے چچا حضرت عباس نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ ان کی بیوی ام الفضل کی بہن بیوہ ہیں اگر آپ ﷺ پسند فرما ئیں تو اُن سے شادی کر لیں.آنحضرت ﷺ نے اس درخواست کو قبول فرمایا اور حضرت جعفر کو رشتہ کا پیغام دے کر حضرت میمونہ کے پاس بھیجا.حضرت میمونہ نے مشورے اور اجازت کے لئے اپنے بہنوئی حضرت عباس کے سامنے یہ رشتہ پیش کیا جو فورا مان گئے.صلى الله
حضرت میمونہ 3 اور شوال 7 ہجری میں سرف کے مقام پر حضرت عباس نے چار سو درہم حق مہر پر نکاح کر دیا.(2) نکاح کے وقت آپ کی عمر چھبیس سال تھی حضرت میمونہ کی ایک بہن لبابة الصغر کی حضرت خالد بن ولید کی والدہ تھیں.(3) صلى الله آنحضرت معہ مکہ میں نہ شادی کے ارادہ سے گئے تھے نہ ہی آپ ﷺ کی ایسی کوئی خواہش تھی.یہ سب مولا کریم کے کام تھے جو وہ اپنے پیارے نبی ﷺ سے لیتا تھا، کہیں محبتیں پیدا کرنے کے لئے کہیں نفرتیں مٹانے کے لئے ، کہیں قبائل کو قریب لانے کے لئے.اللہ تعالیٰ کی حکمتیں آپ اللہ کے دل پر حکومت کرتی تھیں.الله حضرت میمونہ کا تعلق اہل نجد سے تھا جو اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے یہ وہی اہل نجد تھے جنہوں نے دھوکے سے مسلمانوں کے ستر حفاظ قرآن اور قاری شہید کروائے تھے.حضرت میمونہ کی بہن سردار نجد کے گھر تھیں اس نکاح سے اہل نجد سے صلح اور دوستی کا ہاتھ بڑھا، امن کا ایک اور دروازہ کھلا.(4) مکہ میں قیام کے دوران مسلمان تو طواف اور عبادت میں مصروف تھے مگر مخالفین سخت غم وغصہ کے عالم میں تھے.تین دن مکمل ہوتے ہی مکہ
حضرت میمونه 4 والوں نے ایک وفد بھجوایا جس نے حضرت علی سے کہا اپنے آقا سے کہئے کہ وہ ہمارے ہاں سے روانہ ہو جائیں کیونکہ قیام کی مدت مکمل ہو چکی ہے.(5) آنحضرت ﷺ سے کسی طرح بھی معاہدہ کی خلاف ورزی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی چنانچہ آپ عملے کو بھی اس بات کا علم تھا اور واپسی صلى الله کی تیاری شروع ہو چکی تھی لیکن آپ ملنے کی خواہش تھی کہ اگر حضرت میمونہ کا رخصتانہ بھی مکہ میں ہو تو مکہ والوں سے صلح صفائی اور دوستی کا ماحول بن جائے گا.امن کی ایک کوشش سے نئی راہیں نکل سکتی تھیں صلى الله اور ہو سکتا ہے دشمنی میں کمی ہو جائے چنانچہ آپ ﷺ نے ان کے وفد سے کہا اگر تم لوگ اجازت دو تو میں یہاں شادی کی تقریب منعقد کر کے کھانے کی دعوت میں آپ سب کو شامل کروں.اتنی خوبصورت دعوت کا ان بدنصیبوں نے سخت دلی سے انکار کیا.کیونکہ ان کو خوف تھا کہ صلى الله آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کی اچھے اخلاق کی باتیں لوگوں کے دل نہ موہ لیں.آپ ﷺ نے اپنے معاہدے اور ملکہ کے لوگوں کی خواہش کا خیال فرمایا اور اس بات پر اصرار نہ کیا بلکہ ابورافع " سے فرمایا کہ روانگی الله کا اعلان کر دو اور یہ کہ کوئی شخص یہاں شام تک نہ ٹھہرے آپ عمل خود
حضرت میمونہ 5 بھی تیار تھے.اُس وقت حضرت میمونہ کو ساتھ نہیں لے جاسکتے تھے اس لئے ابورافع کو اُن کے پاس چھوڑ ا تا کہ بعد میں ساتھ آئیں اور خود تمام ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے روانہ ہو گئے.مکہ سے قریبا سات میل پر تنعیم کے پاس سرف کے مقام پر قیام فرمایا.ย رض ابورافع جب حضرت میمونہ کو لے کر روانہ ہونے لگے تو غم و غصے میں اُبلتے ہوئے مکہ والوں نے انہیں بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا.ابورافع نے انہیں رُعب سے جواب دیا کہ ابھی ہمارے سوار اور ہتھیار دور نہیں ہیں اس لئے بد عہدی نہ کرو چنانچہ وہ ادھر ادھر ہو گئے اور ابو رافع " حضرت میمونہ کو لے کر سرف پہنچ گئے.یہیں آنحضرت ﷺ سے اُن کی ملاقات ہوئی.سرف میں ایک رات قیام کے بعد آپ میے مدینہ روانہ ہو گئے.(6) رض مدینہ میں اس مبارک دلہن کا استقبال خوش دلی سے کیا گیا.آپ صلى الله مسجد نبوی میں ایک حجرے میں رہنے لگیں.جہاں آج کل آنحضرت علی کا روضہ مبارک ہے وہاں حضرت عائشہ کا حجرہ تھا جس کا دروازہ شمال کی جانب تھا اس سے ملی ہوئی مسجد کے جنوب کی جانب قبلہ والی دیوار کے ساتھ.حضرت سودہ اور حضرت صفیہ کے حجرے تھے اور شمال کی جانب
حضرت میمونہ 6 حضرت اُمّ سلمة ، حضرت ام حبيبة، حضرت زینب بنت خزیمہ حضرت جویریہ ، حضرت میمونہ اور حضرت زینب بنت جحش کے حجرے تھے.انہی حجروں میں حضور علی نے بھی انتہائی سادہ زندگی بسر صلى الله فرمائی.(7) ایک دفعہ حضرت عمر حضور میلے کے گھر گئے اور دیکھا کہ گھر میں کچھ اسباب نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور چٹائی کے نشان پیٹھ پر لگے ہیں.تب عمر کو یہ حال دیکھ کر رونا آیا.آپ ﷺ نے فرمایا اے عمر! تو کیوں روتا ہے.حضرت عمرؓ نے عرض کی آپ کی تکلیف دیکھ کر مجھے رونا آگیا کہ قیصر و کسرٹی جو کافر ہیں آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپ ان تکالیف میں زندگی بسر کرتے ہیں.تب الله حضور ﷺ نے فرمایا کہ :.مجھے اس دنیا سے کیا کام؟ میری مثال اس سوار کی ہے جو شدت گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جارہا ہو اور جب دو پہر کی شدت نے اُس کو سخت تکلیف دی تو وہ اسی سواری کی حالت میں دم لینے کے لئے ایک درخت کے سائے کے نیچے ٹھہر جائے اور پھر چند منٹ کے بعد اسی گرمی میں اپنی راہ لی.صلى الله آپ ع کی بیویاں سوائے حضرت عائشہ کے سب عمر رسیدہ
حضرت میمونہ تھیں بعض کی عمر ساٹھ سال کو پہنچ چکی تھی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا زیادہ بیویاں کرنے کا یہی اہم اور مقدم مقصود تھا کہ عورتوں میں دینی تعلیم کو فروغ دیا جائے اور اپنی صحبت میں رکھ کر علم دین اُن کو سکھایا جائے تا وہ دوسری عورتوں کو اپنے نمونہ اور تعلیم سے ہدایت دے سکیں.(8) آپ کی بیویوں کے زیورات نہ ہونے کے برابر تھے صحابیات بھی آپ ﷺ کی تعلیم پر عمل کر کے زیور نہ بنواتی.آپ ﷺ قرآنی تعلیم کے مطابق فرماتے تھے کہ مال کا جمع رکھنا غریبوں کے حقوق تلف کر دیتا ہے.رہائشی مکان کے متعلق بھی آپ نے سادگی کو پسند کرتے تھے بالعموم آپ اللہ کے گھروں میں ایک ایک کمرہ ہوتا تھا اور چھوٹا سامحن.اس کمرہ میں ایک ری بندھی ہوتی تھی جس پر کپڑا ڈال کر ملاقات کے وقت میں آپ اللہ اپنے ملنے والوں سے علیحدہ بیٹھ کر گفتگو کر لیا کرتے تھے.چار پائی آپ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ زمین پر ہی بستر بچھا کر سوتے تھے.آپ ﷺ کی رہائش کی سادگی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ حضرت عائشہ نے آپ علیہ کی وفات کے بعد فرمایا.رسول اللہ علی کے زمانہ میں ہمیں کئی دفعہ صرف پانی اور کھجور پر گزارا کرنا پڑتا تھا.یہاں تک کہ جس دن بھی آپ کی وفات ہوئی اس دن ہمارے گھر میں سوائے
حضرت میمونہ 8 کھجور اور پانی کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا.(9) صلى الله آپ ﷺ کی ازواج سوائے دو کے مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتی تھیں یہ دو ازواج حضرت زینب بنت خزیمہ اور حضرت میمونہ تھیں.الله ان سب قبائل کی آپس میں دوستیاں نہ تھیں مگر آنحضور ﷺ سے رشتے کی وجہ سے ایک نیا تعلق پیدا ہوا جس کی بنیا د محبوب خدا کی محبت تھی.ازواج میں سے بعض کا تعلق عرب میں موجود دوسرے مذاہب سے تھا مثلاً حضرت صفیہ یہود سے بنی اسرائیلی اور غیر عرب تھیں اور حضرت ماریہ قبطیہ عیسائی اور مصری تھیں، صرف حضرت عائشہ پیدائشی مسلمان تھیں باقی سب نے خو د اسلام قبول کیا تھا.ایک چھتری کے نیچے اتنی مختلف مزاج کی خواتین آنحضرت عملے کی تربیت میں آکر صرف اللہ تعالیٰ ا کی اور اس کے رسول نے کی ہو گئیں.صلى الله قرآن کریم نے جس طرح آنحضرت ﷺ کے لئے قرآن و حکمت سکھانے کا فرض بیان کیا اسی طرح آپ مہ کی بیگمات کے لئے بھی کچھ فرائض بیان فرمائے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہیئے.اخلاق کا یہ معیار ، دستور العمل بہت مشکل ہے.اللہ تعالیٰ صلى الله نبی ﷺ کی بیویوں کو امت کے لئے نمونہ بنانا چاہتا تھا.اس لئے ان سے
حضرت میمونه 9 بہت اعلیٰ اخلاق کی اُمید رکھی اور آپ ﷺ کے گھر میں چن چن کر ایسی خواتین جمع کر دیں جو ان پر عمل کرنے کے قابل تھیں.یہ سارے اللہ تعالیٰ کے کام تھے.قرآن شریف میں نبی کی بیویوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ترجمہ:.اے نبی کی بیو یو! اگر تم میں سے کوئی اعلیٰ ایمان کے خلاف بات کرے تو اس کا عذاب دُگنا کیا جائے گا اور یہ بات اللہ پر آسان ہے.اور تم میں سے جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے گی اور اس (فرمانبرداری کی شان ) کے مطابق کام بھی کرے گی تو ہم اسے انعام بھی دگنا دیں گے.اور ہم نے ہرایسی بیوی کے لئے معزز رزق تیار کیا ہوا ہے.(10) حضرت میمونہ کے اعلیٰ اخلاق پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ ارشاد ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے.(11) إِنَّهَا كَانَتْ إِتْقَانَا اللَّهِ وَ اَوْ صَلُنَا لِلرَّحِيمِ بخدا میمونہ اس دنیا سے چلی گئی وہ ہم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والی اور ہم سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والی تھی.(12) اللہ تعالیٰ نے جن پیاری ہستیوں کو اپنے محبوب کے قریب جمع کر
حضرت میمونه 10 10 دیا تھا اُنہیں یہ صلاحیت بھی عطا فرمائی تھی کہ وہ آپ ﷺ کے قرآن نما اخلاق کا قریب سے جائزہ لے کر اُسے اپنے انداز سے بیان کریں.حضرت میمونہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس کو بتایا کہ آپ ﷺ گھر میں انتہائی محبت اور شفقت سے رہتے ہیں.چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو درگزر فرماتے ہیں اور نرمی سے اصلاح کرتے ہیں.یہ محترم خواتین ایسی کتابیں تھیں جن میں مختلف انداز میں آنحضرت ﷺ کی سیرت لکھی جا رہی تھی محفوظ ہو رہی تھی.ہر ایک نے اپنے مزاج کے مطابق اثر قبول کیا اُسے جذب کیا اور پھر بیان کیا.اگر یہ ذریعہ نہ ہوتا تو ہم اپنے محبوب ، آقا مے کی بہت سی باتیں نہ جان سکتے.حضرت میمونہ کا حافظہ بہت اچھا تھا.بہت جلد بات ذہن نشین کر لیتی تھیں.آپ سے 76 احادیث مروی ہیں.آپ بہت عبادت کرنے والی تھیں آپ نے آنحضور میا اللہ سے سُن لیا تھا کہ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا بہت ثواب ہوتا ہے آپ کوشش کرتیں کہ مسجد نبوی میں نماز پڑھیں بلکہ آپ نے یہ بات دوسری خواتین کو بھی بتائی.مدینہ میں ایک دفعہ ایک عورت سخت بیمار ہوئی اس نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالی نے مجھے شفادی تو بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گی.
حضرت میمونه 11 اللہ تعالیٰ نے اسے شفا دی اور اس نے اپنی منت پوری کرنے کے لئے بیت المقدس جانے کا ارادہ کیا.سفر پر روانہ ہونے سے پہلے حضرت میمونہ سے رخصت ہونے آئی اور تمام ماجرا بیان کیا آپ نے اُسے سمجھایا کہ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا زیادہ ہے تم یہیں رہو اور مسجد نبوی میں نماز پڑھ لو.(13) حضرت میمونہ پر اللہ تعالیٰ کے خاص احسانات میں سے ایک احسان یہ ہوا کہ آپ کو بھی آنحضرت میاں لے کے ایک کشف کا نظارہ دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی (کشف ایسے نظارے کو کہتے ہیں جو جاگنے کی الله صلى الله حالت میں نظر آتا ہے) حضرت میمونہ فرماتی ہیں کہ ایک رات مدینہ میں رسول کریم ﷺ میرے ہاں سورہے تھے.جب آپ ﷺ تہجد کے لئے اُٹھے اور وضو فرمانے لگے تو مجھے آواز آئی کہ آپ ﷺ فرما رہے الله ہیں.لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ - لبيك اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا :- نُصِرُتَ نُصِرُتَ - نُصِرُت اس کے بعد وہ کہتی ہیں جب آپ اللہ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے کہا :.یا رسول اللہ ہے کیا کوئی آدمی آیا تھا ؟ اور آپ کے اس سے
حضرت میمونہ 12 باتیں کر رہے تھے.آپ ﷺ نے فرمایا:.ہاں.میرے سامنے کشفی طور پر خزاعہ کا ایک وفد پیش ہوا.اور میں نے دیکھا کہ وہ شور مچاتے چلے آ رہے ہیں کہ ہم محمد ے کو اُس کے خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ اور تیرے باپ دادوں کے ساتھ ہم نے معاہدے کئے تھے اور ہم تیری مدد کرتے چلے آئے ہیں.مگر قریش نے ہمارے ساتھ بد عہدی کی اور رات کے وقت ہم پر حملہ کر کے جب کہ ہم میں سے کوئی سجدہ میں تھا اور کوئی رکوع میں ہم کو قتل کر دیا اب ہم تیری مدد حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں.جب کشفی طور پر مجھے وہ وفد نظر آیا تو میں نے لَبِّيكَ - لبّيك - لبيك.کہا میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں میں تیری مدد کے لئے حاضر ہوں.میں تیری مدد کے لئے حاضر ہوں.پھر میں نے کہا.نُصِرُتَ نُصِرْتَ.نُصِرُتَ.تجھے عدودی جائے گی.تجھے مدد دی جائے گی.تجھے مدد دی جائے گی.حضرت میمونہ نے کشف میں وفد نہیں دیکھا مگر آپ دینے کی آوز سنی اور چند دن بعد ایسا ہی ہوا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے گواہ بنا دیا.(14) حضرت میمونہ بعض دفعہ غرباء کی مدد کرنے کے لئے قرض لے لیا
حضرت میمونه 13 کرتی تھیں گھر میں کسی نے ٹو کا تو آپ کو اچھانہ لگا اور ضرورت کے وقت قرض لینے کے حق میں اپنے محبوب شو ہر عﷺ کا یہ ارشاد سُنا یا کوئی مسلمان جب قرض لیتا ہے اور اسے اللہ پر بھروسا ہوتا ہے کہ وہ اُسے ادا کر دے گا.اللہ تعالی اپنے نہیں خزانے سے اُس کی ادائیگی کا انتظام کر دیتا ہے.66 آپ کو غلام آزاد کرنے کا شوق تھا ایک لونڈی کو آزاد کیا تو 66 آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تم کو اس کا اجر دے (15) ایک اور واقعہ ہے کہ آپ نے ایک لونڈی کو آزاد کیا مگر اس کے متعلق آپ مے سے پوچھا ہوا نہیں تھا جب آپ کے گھر تشریف لائے ، تو آپ نے عرض کیا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کو معلوم ہے میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا واقعی؟ آپ نے کہا جی ہاں حضور ﷺ نے فرمایا اگر تم کو وہ لونڈی اپنے ماموں کو دیتیں تو تم کو زیادہ ثواب ملتا.(16) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات اتنی با اختیار تھیں کہ اپنی مرضی سے فیصلے کر لیں.مگر اتنی فرمانبردار بھی تھیں کہ فوراً صلى الله حضور ﷺ کو بتا دیا اور آپ علیہ نے یہ محسوس کر کے کہ یہ کام ثواب
حضرت میمونه 14 کی خاطر کیا گیا ہے.زیادہ ثواب والی بات بتا دی کہ اگر قریبی عزیز مستحق ہو تو تھے یا صدقے کی چیز اسے دینا زیادہ ثواب کا باعث ہے.آنحضور ﷺ سے محبت اور ان کے مزاج کو سمجھنے کا ایک واقعہ اس ح ہے کہ ایک دفعہ حضرت میمونہ کے قبیلے بنو ہلال کا ایک وفد صلى الله آنحضرت ﷺ سے ملاقات اور اسلام قبول کرنے کے لئے آیا اس وفد میں زیاد بن عبد اللہ بن مالک عامری بھی تھے جو حضرت میمونہ کے بھانجے تھے.یہ آپ سے ملنے کے لئے آئے تو آنحضور علی گھر پر نہ تھے صلى الله آپ مہ واپس آئے تو ایک اجنبی کو بیٹھا دیکھ کر آپ ﷺ کے چہرو مبارک پر ہلکا سا نا گوار تاثر آیا.حضرت میمونہ معاملہ کو سمجھ گئیں فورا عرض کیا.یا رسول اللہ یہ میری بہن کا بیٹا ہے.بنو ہلال کے وفد میں شریک ہے مجھے ملنے یہاں چلا آیا اس پر آپ میلہ نے خوشی کا اظہار فرمایا اور اُس کے لئے برکت و رحمت کی دعا کی.ایک دفعہ آپ کا ایک رشتہ دار آپ سے ملنے کے لئے آیا اُس کے منہ سے شراب کی بُو آ رہی تھی آپ اللہ نے اس کوشی سے جھڑک دیا اور کہا آئندہ میرے پاس نہ آنا.(17) حضرت میمونہ کو آنحضور ﷺ جیسے محبت کرنے والے شوہر کا
حضرت میمونه 15 ساتھ صرف تین سال متیسر آیا.ان تین سالوں میں وہ دولت سمیٹ لی جو اُن کا قیمتی سرمایہ بن گئی.61 ہجری میں آپ حج کے لئے تشریف لے گئیں وہاں آپ کی طبیعت خراب ہو گئی آپ نے محسوس کیا کہ یہ وقت آخر ہے اپنے عزیزوں سے درخواست کی کہ مکہ سے سرف لے جائیں.یہ وہی جگہ تھی جہاں آپ کی شادی ہوئی تھی.یہیں آپ نے وفات پائی اور قریباً اسی جگہ صلى الله دفن ہوئیں جہاں خیمہ میں حضور نے سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تھی.نماز جنازہ آپ کے بھانجے حضرت عبد اللہ بن عباس نے پڑھائی قبر میں اُتارنے کی سعادت بھی اُنہی کو ملی جب جنازہ اُٹھایا گیا تو آپ نے کہا یہ رسول اللہ ﷺ کی بیوی ہیں جنازہ کو زیادہ حرکت نہ دو با ادب لے چلو.(18) آنحضرت ﷺ کی بیویوں کے دل میں آپ ﷺ کی جو محبت تھی صلى الله اور آپ ﷺ سے جو نیک اثر انہوں نے لیا تھا وہ ہمیشہ اُن کے دلوں پر قائم ہو گیا.اور جب حضرت میمونہ کا آخری وقت آیا تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے اُسی جگہ دفن کیا جائے جہاں میں پہلی دفعہ آنحضور علیہ سے ملی تھی.(19) حضرت میمونہ سے آپ ﷺ کی آخری شادی تھی.اس کے بعد
حضرت میمونہ 16 اللہ تعالیٰ نے مزید نکاح سے منع فرما دیا ( الاحزاب : 53 ) اور مسلمانوں کو منع فرمایا کہ نبی کی بیویوں سے شادی نہیں کر سکتے اُن کا مقام اور مرتبہ ماں کا ہوتا ہے ( الاحزاب : 7) اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہماری محسنات امہات المؤمنین کو اپنے قرب خاص میں جگہ عنایت فرمائے اور حضرت محمد ملنے کا ساتھ نصیب فرمائے.آمین اللھم آمین..
حضرت میمونہ 17 حوالہ جات (1) (زرقانی عمرۃ القضاء) (2) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا صفحہ 227 (3) بخاری کتاب المغازی زیر حدیث عمرۃ القضاء.زرقانی.ابن ہشام (4) ماہنامہ مصباح جولائی 1998ء (5) بخاری کتاب الصلح و كتاب المغازی عمرة القضاء (6) طبقات جلد 8 صفحہ 89 الفضل 26 دسمبر 2003ء (7) تاریخ مدینه منوره از محمد عبد المعبود صفحہ 137 معارف پر لیس لاہور (8) روحانی خزائن جلد 23 چشمہ معرفت صفحه 300,299 (9) دیباچه چه تفسیر القرآن صفحہ 240،239 (10) سورة الاحزاب 31-32 ترجمعہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی) (11) سورۃ الاحزاب 31-32 ( ترجمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ) (12) اصابه جلد 8 صفحه 192 بحوالہ ابن سعد (13) اصابه جلد 8 صفحہ 332 (14) تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 113 ،114 (15) مسند جلد 6 صفحہ 332
حضرت میمونہ 18 (16) تجرید بخاری مترجم جلد اول کتاب الہبہ حدیث نمبر 1126 صفحہ 411 (17) مسند جلد 6 صفحہ 332 (18) بخاری جلد 2 صفحہ 750 (19) ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن
19 حضرت میمونہ
حضرت میمونہ ra (Hadrat Memoona™) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 981 7