Memona Sofia

Memona Sofia

حضرت میمونہ صوفیہ صاحبہؓ

المعروف ’اُستانی جی‘
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی حضرت میمونہ صوفیہ صاحبہ المعروف اُستانی جی لجنہ اماء الله

Page 2

حضرت میمونہ صوفیہ صاحبہ المعروف اُستانی جی

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لوصد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

استانی میمونه صوفیه 1 پیارے بچو! حضرت میمونہ صوفیہ صاحبہ المعروف اُستانی جی آج ہم آپ کو ایک صحابیہ کی بہت ہی دلچسپ کہانی سناتے ہیں.ہوا یوں کہ ان صحابیہ کے دادا جب بیمار ہو گئے تو اُن کے بیٹے چوہدری حبیب احمد صاحب نے مختلف جگہ سے ان کا علاج کروایا لیکن افاقہ نہ ہوا.دراصل خدا کو اُن کے والد کی جسمانی شفاء کے ساتھ ساتھ چوہدری حبیب احمد صاحب کی روحانی شفاء بھی مقصود تھی.یہی وجہ تھی کہ جب کسی کے کہنے پر ایک حکیم سے دوا لینا شروع کی تو وہ پڑیوں کی شکل میں تھی.چوہدری حبیب احمد صاحب پڑیا کھول کر دوا تو والد صاحب کو کھلا دیتے اور وہ کاغذ جس میں دوا بند ہوتی پڑھنے لگ جاتے ، چند ہی روز میں والد صاحب تو صحت مند ہو گئے لیکن بیٹے کو پڑیوں کے کاغذ پڑھنے کی چاٹ لگ گئی.تمام ٹکڑوں کا چھپا ہوا مضمون ایک ہی بات کے متعلق تھا اور یوں بھی ٹکڑے جوڑنے پر صفحات بن جاتے تھے.سو آپ نے اس حکیم کے

Page 5

استانی میمونه صوفیه 2 پاس جا کر کہا کہ یہ صفحے کس کتاب کے ہیں؟ اور کیا تمہارے پاس باقی حصہ ہے؟ حکیم صاحب نے چوہدری حبیب احمد صاحب کو براہین احمدیہ حصہ اول پکڑا دی.جس کو پڑھتے ہی انھوں نے بیعت کر لی.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے کیسے کیسے سامان کرتا ہے کہ حکیم صاحب کے لئے ردی کتاب ان کی ہدایت کا ذریعہ بنی.چوہدری حبیب احمد صاحب کی ایک بیٹی میمونہ خاتون صوفیہ المعروف استانی جی تھیں.استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ یکم جنوری 1900 ء کو دو دلی ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئیں.آپ اللہ کے فضل سے پیدائشی احمدی تھیں.آپ سات سال کی عمر میں پہلی بار اپنی بڑی بہن محترمہ سکینہ صاحبہ کے نکاح کے موقعہ پر اپنے والدین کے ہمراہ قادیان گئیں.آپ کو قادیان کا پاک ماحول بہت پسند آیا.آپ تقریباً دو ماہ قادیان میں رہیں.گول کمرہ میں رہنے کا شرف حاصل ہوا اور اس طرح روزانہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت بھی نصیب ہوتی رہی.وطن واپس آکر آپ کا وہاں دل نہ لگتا تھا اور قادیان واپس جانے کی دعائیں مانگا کرتی تھیں.آپ دعا کرتیں کہ مولی کریم میری شادی قادیان میں کروا دے خواہ کسی غریب سے ہی کیوں نہ ہو، تاکہ اُس پاک ماحول میں

Page 6

استانی میمونه صوفیه 3 زندگی بسر کرنے کا موقعہ ملے.یہ دعا یقینا سچے دل سے مانگی گئی تھی کیونکہ چندرو سال کی عمر میں ہی استانی میمونہ صوفیہ صاحب، حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے چہیتے شاگر دحکیم غلام محمد صاحب کی دلہن بن کر قادیان آگئیں.استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ ایک کامیاب اور صاحب حیثیت تاجر کی لاڈلی بیٹی تھیں جس نے گھر میں ہر قسم کی فراخی دیکھی تھی لیکن اس نیک خاتون نے اس فراخی کے بدلے دیار حبیب میں سادگی سے رہنے کو تر جیح ترجیح دی.اللہ تعالیٰ نے استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کو ایک بیٹے غلام احمد عطا صاحب واقف زندگی اور ایک بیٹی صادقہ بیگم صاحبہ سے نوازا.وقت بہت سکون سے گزر رہا تھا لیکن اس نیک اور سادہ خاندان کے لئے اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.آپ کے خاوند حکیم غلام محمد صاحب حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر شدھی کی تحریک کو روکنے کے لئے مختلف دیہاتوں میں جاتے.ان سفروں کے دوران آپ بیمار رہنے لگے ، ہر طرح کا علاج ہوا.استانی جی نے بہت خدمت کی لیکن خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا.کمزوری بڑھ گئی تو حکیم غلام محمد صاحب نے اپنے مطب میں بیٹھنا بھی چھوڑ دیا.ایسے کڑے وقت میں اللہ تعالیٰ نے استانی جی کو بڑی جرأت سے یہ فیصلہ کرنے کی ہمت عطا کی کہ بڑے گھر کو کرایے پر اُٹھا کر چھوٹے گھر

Page 7

استانی میمونه صوفیه میں شفٹ ہو گئے لیکن بیماری بڑھتی ہی گئی 22 فروری 1926 ء کو الہی تقدیر پوری ہوئی اور حکیم صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے.آپ کا وصیت نمبر 2 تھا اور آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے.آپ کی قبر پر لگا کتبہ یہ کہ رہا ہے کہ یہ آرام گاہ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے جیتے شاگرد حکیم مولوی غلام محمد صاحب کی ہے." استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کے شوہر خود حکیم تھے.بیماری کے لمبا ہونے اور غالبا خواب کے ذریعے کچھ اشارہ ملنے پر وفات سے قبل اپنی بیوی اور اولاد کے بارے میں وصیت کر دی تھی.جس کی رو سے اور باہمی رضا مندی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے حضرت مرزا شریف احمد صاحب اُن کے ولی مقرر ہوئے.حکیم صاحب کی وفات کے بعد آپ نے فیصلہ کیا کہ جوان بیوہ اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی نگرانی دور رہ کر کرنا مشکل ہے اس لئے استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کو محلہ دار الفضل قادیان کے ذاتی مکان کو کرایے پر اُٹھا کر اُن کو اپنی کوٹھی کی چار دیواری کے اندر ایک علیحد و حصہ (independent portion) رہنے کے لئے دے دیا جس کا ایک دروازہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی کوٹھی میں کھلتا تھا اور ایک باہر کی طرف.یوں استانی جی اور ان کے بچوں کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب

Page 8

استانی میمونه صوفیه 5 اور ان کی اہلیہ بُو زینب بیگم صاحبہ کا سایہ اور تربیت بھی نصیب ہوئی اور خود مختار زندگی بھی.اس سے قبل 1918ء سے مدرستہ البنات قادیان میں ملازمت اختیار کر کے استانی جی نے پڑھانا شروع کر دیا تھا.آپ طالبات کی علمی صلاحیت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اُن کی دینی واخلاقی تربیت پر بھی بہت زور دیتی تھیں.قرآن مجید سے عشق کی حد تک پیار تھا اور بلند آواز میں خوش الحانی سے تلاوت کرنا اُن کا شوق تھا.آپ نے ان گنت لڑکیوں کو قرآن مجید پڑھایا.آپ دور کھڑے ہوئے تلاوت کرنے والی بچی کے لیوں کی جنبش سے ہی تلفظ کی غلطی پکڑ لیتی تھیں.آپ کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ گو آپ نے باقاعدہ حفظ نہیں کیا تھا محض کثرت تلاوت کا نتیجہ تھا کہ خدا کا کلام ذہن نشین ہو گیا تھا.دسمبر 1922 ء میں حضرت مصلح موعود نے لجنہ اماءاللہ کی بنیا د رکھی تو آپ کو بھی ابتدائی 14 ممبرات میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا.جو عہد ان ممبرات نے باندھا وہ آخر وقت تک نبھایا.یہ چودہ ممبرات نبیاد تھیں لجنہ اماءاللہ کی اور گویا اسے پہلی مجلس عاملہ بھی کہا جا سکتا ہے.ان میں سے عہد ارار چکنی گئیں.

Page 9

استانی میمونه صوفیه 6 استانی جی سب سے پہلی سیکرٹری مال تھیں اور 1961 ء تک اسی حیثیت سے کام کرتی رہیں.سیکرٹری مال کے علاوہ ابتداء میں ہی آپ نے قادیان کے محلہ دارالفضل میں بھی کام کیا.لجنہ کے چندوں کے علاوہ تحریک جدید کا چندہ بھی بڑے خلوص اور لگن سے جمع کرتی تھیں.آپ کی کوشش ہوتی کہ اپنے محلے کی فہرست سب سے پہلے اضافہ کے ساتھ پیش کریں.اس پر سیکرٹری مال تحریک جدید اور خود حضرت مصلح موعود کی طرف سے کئی مرتبہ اظہار خوشنودی ہوا.1925ء میں آپ نے مدرستہ الخواتین میں تعلیم حاصل کی.1930 میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.آپ شروع سے ہی اچھی تقریر کر لیتی تھیں.مدرستہ الخواتین کے زمانہ میں تقاریر کی مشق کرواتی رہیں.قیام پاکستان کے بعد لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے یہ محسوس کیا کہ لجنہ کی مہرات کو اور بالخصوص مرکزی عید و داران کو تقاریر کرانے کی زیادہ سے زیادہ مشق ہونی چاہیے تا کہ وہ لجنہ کی تنظیم کو مضبوط کر سکیں اور احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کی جو اہم ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے اُسے پوری طرح نبھا سکیں.14 ممبرات پر مشتمل اس کمیٹی کی ایک ممبر مکرمہ استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ بھی تھیں.(2) استانی جی نے اپنی زندگی میں تمام جلسہ سالانہ میں شمولیت کی جب تک صحت رہی تقریباً ہر جلسہ سالانہ پر تقریر کرنے کا موقعہ ملا.

Page 10

استانی میمونه صوفیه 7 استانی جی بہت جرأت مند خاتون تھیں.اظہار رائے کا خاص ملکہ رکھتی تھیں 1928 ء کی مجلس مشاورت میں قادیان میں زنانہ ہوسٹل کھولنے کا معاملہ زیر بحث لایا گیا تو مستورات کو رائے کا اظہار کرنے کی دعوت حضرت مصلح موعود نے دی.حضور کی اجازت ملنے پر باہمی مشورہ کے بعد استانی جی نے عورتوں کی نمائندگی کی.ایک اور موقعہ پر 1929 میں جب مجلس شوریٰ میں عورتوں کو حق نمائندگی دینے کی تجویز زیر بحث لائی گئی تو حضرت مصلح موعود نے پھر عورتوں کو بھی بولنے کی دعوت دی اور فرمایا:.جو چاہیں بول سکتی ہیں، اب میں چار منٹ تک انتظار کروں گا کہ کوئی عورت بولتی ہے یا نہیں، اس پر استانی جی نے تقریر کی اور کہا کہ جب ہمارے لئے درس گا ہیں اس لئے کھولی جارہی ہیں کہ ہم علم حاصل کریں تو کیا یہ بات ہمارے لئے سدراو نہ ہوگی کہ قوم ہمارے لئے فیصلہ کر دے کہ عورتوں کو مجلس مشاورت کی نمائیدگی کا حق حاصل نہیں جب ہم عورتوں کے سامنے اپنے خیالات پیش کریں گی تو وہ جواب دیں گی کہ تمہارے مذہب نے تو تمہارے لئے مشورہ کا حق بھی نہیں رکھا اس لئے تمہاری بات ہم نہیں سنتیں.(3) استانی جی کی آواز بہت بلند تھی اس لئے اکثر جلسوں میں اعلان کرنا

Page 11

استانی میمونه صوفیه 8 آپ کے سپرد ہوتا.لجنہ اماءاللہ کے قیام کے بعد حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ کے انتظامات کی ذمہ داری لجنہ اماءاللہ پر ڈالی جسے مبرات لجنہ نے احسن طور پر نبھایا.اس جلسہ میں استانی جی نائبہ منتظمہ سٹیج جلسہ گاہ تھیں.(4) حضرت مصلح موعود ہفتہ کے دن عورتوں میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے.ان دنوں درس سننے کے لئے بہت زیادہ عورتیں آیا کرتی تھیں کچھ عرصہ بعد جب مخالفت نے زور پکڑا اور ہر طرف سے مخالفین فتنہ اور شرارت پھیلا رہے تھے تو لجنہ نے فیصلہ کیا کہ اس درس کے موقعہ پر حفاظت کے لئے کچھ مستورات کی ڈیوٹی لگائی جائے جو کسی اجنبی یا مشتبہ عورت کو قریب نہ بیٹھنے دیں.چنانچہ جن خواتین کو مقرر کیا گیا ان میں ایک استانی جی بھی تھیں.اسی طرح حضرت مصلح موعود کے مستورات میں درس کے نوٹس لینے کے لئے دوسری خواتین کے ساتھ آپ کو بھی مقرر کیا گیا.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ فرماتی تھیں طالبات کی تربیت میں سب سے زیادو اور نمایاں کردار استانی جی کا تھا.کسی کی ذراسی بھی بُری حرکت برداشت نہ کر سکتی تھیں ، اسی وقت ٹوک کر اصلاح کر دیتی تھیں.سکول میں ظہر کی نماز با جماعت پڑھاتی تھیں.حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتب کے امتحانات نظارت تعلیم کی طرف سے ہوتے تھے تو استانی جی سب طالبات کو بٹھا کر

Page 12

استانی میمونه صوفیه 9 کتاب پڑھایا کرتی تھیں.نتیجہ نکلتا تو ان کی پڑھائی ہوئی طالبات کے نمبر خودان سے زیادہ ہوا کرتے تھے.نصرت گرلز سکول میں قیام پاکستان کے بعد استانی جی لمبا عرصہ د مینیات اور عربی پڑھاتی رہیں.آپ 1960 میں صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت سے ریٹائر ہوئیں.تو سکول کے سٹاف نے آپ کو الوداعی پارٹی دی.اس پارٹی میں اجتماع پر آئی ہوئی بیرونی نمائندگان بھی شریک ہوئیں.اس موقعہ پر ایک سونے کی انگوٹھی بطور تحفہ آپ کو پیش کی گئی.1939 میں خلافت جوبلی کے موقع پر جماعت احمد یہ لجنہ اماءاللہ کا جو جھنڈا بنا اس کا سوت کاتنے والی خوش قسمت بزرگ خواتین میں آپ کا نام بھی شامل ہے اسی موقعہ پر مستورات کے جلسہ میں حضرت مصلح موعود نے تشریف لاکر لوائے لجنہ لہرایا اور نعرے بھی لگوائے.(5) 1939 میں ہی تحریک جدید کا آغاز فرمایا تو آپ نے اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے جلسہ کرنے کی تحریک بھی فرمائی استانی جی نے پر جوش انداز میں بہنوں کو تحریک جدید میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی.نور ہسپتال قادیان کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے بھی جلسہ میں آپ نے چندہ کی تحریک کی.قادیان کی حفاظت کے لئے قادیان میں رہنے والے درویشوں

Page 13

استانی میمونه صوفیه 10 10 کی بیویوں اور بچوں کی دیکھ بھال اور رہائش کے لئے ربوہ میں دار الخواتین بنا یا گیا.اس کی نگرانی کی ذمہ داری ادا کرنے والی خواتین میں سے ایک آپ بھی تھیں.1958 تا 1961 اور 1965 میں ربوہ میں لجنہ مرکزیہ کے زیر اہتمام تربیتی کلاس اور تعلیم القرآن کلاس کو بھی محترمہ استانی جی نے پڑھایا.اس کے علاوہ لجنہ لاہور کی اور لجنہ فیصل آباد کی تربیتی کلاسوں میں بھی شرکت کی اور پڑھایا.اکتوبر 1952 کو حضرت سید ہ اُمم ناصر صاحبہ نے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام قائم کردہ جنرل سٹور کا افتتاح فرمایا تھا یہ سٹور محترمہ استانی جی کامیابی سے چلاتی رہیں اور ہر سال حصہ داران میں معقول منافع تقسیم کر دیا جاتا رہا.1972 میں آپ کی خرابی صحت کے باعث یہ سٹور بند کر دیا گیا.23 مئی 1952 کو لجنہ مرکزیہ نے فیصلہ کیا کہ چونکہ محترمہ استانی جی نصرت گرلز سکول سے ریٹائر ہوئی ہیں اس لئے انہیں لجنہ مرکزیہ کی انسپکٹرس کے عہدہ پر با قاعدہ تنخواہ دار کارکن کی حیثیت سے مقرر کیا جائے.چنانچہ اس عہدہ پر آپ کی تقرری عمل میں آئی اور آپ بطور انسپکٹرس مختلف مجالس لجنہ میں معائنہ اور دورہ کے لئے جانے لگیں اپنے دورہ میں آپ نئی لجنات

Page 14

استانی میمونه صوفیه بھی قائم کرتی رہیں.11 قیام پاکستان کے بعد آپ قادیان سے ہجرت کر کے اپنی بیٹی محترمہ صادقہ لطیف صاحبہ کے پاس کراچی چلی گئیں.استانی جی کو صدر لجنہ اماءاللہ کراچی منتخب کیا گیا اور بیگم چوہدری بشیر احمد صاحب نائب صدر مقرر ہوئیں.25 اپریل 1949 کو ربوہ میں نصرت گرلز سکول کا اجراء ہوا تو آپ کراچی سے ربوہ آگئیں اس کے بعد وقتا فوقتا کراچی جاتی رہیں.31 مئی 1950 کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے دفتر کی بنیاد رکھنے کے موقع پر آپ نے حضرت اقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ( رفیق ) بزرگ خاتون ہونے کی حیثیت سے اور لجنہ کی کارکن ہونے کی حیثیت سے دعا نے کی حیثیت سے د کے ساتھ بنیاد میں اینٹ رکھی.آپ خدمت خلق کے کاموں میں بھر پور حصہ لیتی رہیں.لجنہ کی طرف سے مستحقین کے لئے لحاف بنانے ہوتے یا عید کے موقع پر کپڑے تقسیم کرنے ہوتے تو کپڑا خرید کر لانے کی ذمہ داری آپ کے سپرد ہوتی جسے آپ احسن طور پر ادا کرتی رہیں.لجعہ مرکز یہ کے قیام کے 50 سال پورے ہونے پر کارکنات کو سندات خوشنودی دی گئیں تو آپ کا نام سر فہرست تھا.آپ نے حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر 1922 میں کئے

Page 15

استانی میمونه صوفیه 12 گئے عہد کو ہر ممکن طریق پر نبھایا اور بنیادی ممبرات لجنہ ہونے کا حق ادا کر دیا 19 جون 1980 کو تقریباً 80 سال کی عمر میں بھر پور زندگی گزارنے کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انتہائی جذبے سے دینی خدمات بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے آپ کے بارے میں فرمایا:.آپ بہت عبادت گزار ، شب بیدار اور بہت دعائیں کرنے والی خاتون تھیں.جوانی میں بیوہ ہوئیں.اپنی محنت سے کما کر اپنے اخراجات پورے کئے.کبھی کسی سے مدد لینا گوارہ نہ تھا.اولاد کی نیک تربیت کی ، ایک بیٹا ہونے کے باوجود اسے دین کی خاطر وقف کیا.قدرت ثانیہ کا بے حد احترام تھا.کوئی اعتراض برداشت نہ کر سکتی تھیں بڑی سادہ اور پاکیزہ زندگی گزاری مردانہ وار ساری مشکلات کا مقابلہ کیا اور حقیقت میں وہ کام کئے جو ایک مرد کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اچھا حافظہ عطا فرمایا تھا.قرآن مجید کثرت سے پڑھتی تھیں.آخری عمر میں قرآن پاک کا اکثر حصہ حفظ ہو چکا تھا.قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ تھا غرض کہ وہ پوری شان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر 66 کے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں.“

Page 16

استانی میمونه صوفیه ہیں کہ :.13 آپ کی نواسی بشری سمیع صاحبہ آپ کے بارے میں لکھتی میں نے جب سے ہوش سنبھالا اماں جی کو لجنہ کے سلسلہ میں دوروں پر جاتے دیکھا، ایسے ہی ایک موقعہ پر میں بھی ان کے ساتھ تھی.ضلع فیصل آباد کی ایک دیہاتی مجلس میں ہم پہنچے ، وہاں ہمارا بہت محبت سے استقبال ہوا.اماں جی نے سب عورتوں اور بچیوں کو نماز اور قرآن شریف کی تلاوت کی تلقین کی.عورتوں کے مسائل بھی سنے اور پھر تمام رات اپنی عبادت میں ان کے لئے دعا گو رہیں دینی تربیت کے ساتھ ساتھ دنیاوی تربیت کے ہر پہلو پر آپ گہری نظر رکھتیں.یتیم بچیوں کو تعلیم دلوا کر ہر وقت شادیاں کروانے کا اماں جی کو جنون تھا.مستحقین کے مطالبات اپنی توفیق سے بڑھ کر پورے کرتیں اور ہم بچے، بچیوں کو بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینے کی ترغیب دیتیں اور برملا کہتی تھیں کہ میں مستحق کا نام پتہ نہیں بتاؤں گی کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ اُس کی نظر تم لوگوں کے سامنے نیچی ہو.یوں ہی مدد کر سکتے ہو تو کرو، ورنہ اللہ مالک ہے پھر مدد کا انداز بھی ایسا پیارا کہ دائیں ہاتھ کو دیتیں تو بائیں ہاتھ کوخبر نہ ہوتی.

Page 17

استانی میمونه صوفیه 14 میری پیاری اماں جی کو اگر عالم باعمل کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا کچی سے پیار تھا ، بچ کہتے ہوئے ڈرتی نہ تھیں خواہ کوئی بھی ہو.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک دفعہ ہماری فیملی ملاقات میں خصوصاً مجھ سے کہا کہ ”آپ اس نانی کی نواسی ہیں جو خلیفہ وقت کے سامنے بھی حق کہتے ہوئے کبھی نہیں گبھرا ئیں اور جن کے سامنے بات کرتے ہوئے مجھے بھی علم ہوتا ہے کہ اگر انجانے میں بھی کوئی غلطی ہو گئی تو استانی جی اس 66 کی نشاندہی ضرور کر دیں گی.“ آپ کی بیچ بولنے کی بے باکی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے تھی نہ کہ تنقید کے لئے.خلافت اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت اور عقیدت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی.ہم سب بچوں کو بار بار خواتین مبارکہ سے ملوا تیں.اماں جی کو صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود کی رضائی والدہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.خدا تعالیٰ کے فضلوں نے ان کو ہر دم عاجزی و انکساری میں بڑھایا.آپ میں ثابت قدمی اور تو کل الی اللہ بھی بہت تھا.ایک موقعہ پر جب بچپن میں آپ کے اکلوتے بیٹے غلام احمد عطا سخت بیمار ہو گئے اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو آپ نے خواب میں دیکھا

Page 18

استانی میمونه صوفیه 15 کہ ان کو ذبح کر رہی ہوں.آنکھ کھلتے ہی ظاہری قربانی بکرا ذبح کر کے تو کر دی لیکن حضرت مصلح موعود کے ارشاد کے مطابق زندگی بھی وقف کر دی.پھر اس قابل اور فرمانبردار بیٹے نے بھی تا دم آخر اس وقف کو احسن طریق سے نبھایا.بڑے ہونے کے بعد جب ہم اماں کو ملنے جاتے تو دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتیں.ہر ایک کو کوئی نہ کوئی تحفہ دے کر دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتیں.صلہ رحمی کا جو تصور آپ کے ہاں تھا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے.سیم ہند کے وقت پاکستان آنے سے پہلے اپنے میاں کے رشتہ داروں کو زمین اور اس کے کاغذات دے آئیں اور پاکستان آکر اس کے عوض کچھ نہ لیا.اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ قربانی قبول کی اور بدلے میں بہت نوازا.“ لجنہ اماءاللہ کی تاریخ میں استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور آپ کی قربانیاں ہمیشہ یادرکھی جائیں گی.

Page 19

استانی میمونه صوفیه 16 حوالاجات (1) مصباح 1980 (صفحہ 25) (2) تاریخ لجنہ جلد دوئم (صفحہ 223-224) (3) تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 239) (4) ہر اول دستہ (صفحہ 106) (5) ہر اول دستہ (صفحه 110)

Page 20

حضرت میمونیہ صوفیہ صاحبہ المعروف اُستانی جی (Hadhrat Memona Sofia Sahiba) Published in UK in 2009 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 20