Language: UR
الٰہی جماعتوں کی مخالفت ایک طبعی امر ہے ، جماعت احمدیہ کی صد سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہزار ہا طوفانوں اور مخالفتوں کے مقابل پر جماعت کی عالمگیر اور روزافزوں ترقیات سے زچ ہوکر مخالفین احمدیت جھوٹ جیسی نجاست کو بھی روا سمجھنے لگتے ہیں ۔ مثلاً جماعت احمدیہ کو انگریز کا ایجنٹ مشہور کرنا۔دراصل اس افسانہ کی بنیاد مئی 1967ء میں پاکستان کے شہر سرگودھا سے پڑی تھی تب مؤرخ احمدیت مولانا موصوف نے اس کا حق واجب کے طور پراس باطل اور بے بنیاد افسانہ کا کماحقہ پوسٹ مارٹم کیا تھا اور اگست 1997ء میں قادیان سے کتابی شکل میں طبع کیا گیا تھا۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن دسمبر 2005ء میں نظارت نشر و اشاعت قادیان کا طبع کردہ ہے تا افراد جماعت بھی اور حق آشنا علماء و عوام الناس بھی ان علمائے سوء کی چالوں اور بہتانوں سے آگاہ ہوکر گمراہ ہونے سے محفوظ رہیں۔
مذہب کے نام فسانہ چونکا دینے والے حقائق جو پہلی بار منظر عام پر آ رہے ہیں دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت پر الناشر نظارت نشر واشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان
نام کتاب مذهب کے نام فسانه تصنیف مولانا دوست محمد شاهد سن اشاعت بار اول : اگست 1997ء اشاعت بار دوم تعداد مطبع شائع کردہ : دسمبر 2011ء 1000 فضل عمر پر لیس پر نٹنگ قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان- 143516 ضلع گورداسپور، پنجاب (بھارت) ISBN: 978-81-7912-338-6
پمفلٹ کا تنقیدی جائزہ عنوان فہرست که صفحہ فن کذب طرازی کی شرعی بنیاد؟ 1 دسواں جھوٹ فرضی کتاب کے نام پر جعلی حوالہ کی 4 گیارھواں جھوٹ اختراع اور اس کی تشہیر سرگودھا کا انگریزی پمفلٹ 4 بارھواں جھوٹ ملتان سے اس کے اردو ترجمہ کی اشاعت 8 غدر کے چھ سال بعد 12 تیرھواں جھوٹ صفحہ عنوان 32 34 پہلا جھوٹ 12 چودھواں جھوٹ 37 38 45 50 دوسرا جھوٹ 13 حضرت امام جماعت احمدیہ کا حقیقت 59 افروز تبصره تیسرا جھوٹ 14 جھوٹی کہانی کے اٹھائیس سال چوتھا جھوٹ 20 | فسانہ سازی کی ایک نادر مثال پانچواں جھوٹ 21 جھوٹی کہانی بنانے والوں کا ادعا 61 72 74 چھٹا جھوٹ 21 خدائے ذوالعرش کا عملی جواب 175 ساتواں جھوٹ 26 درد دل سے ایک دعوت قوم کو 77 آٹھواں جھوٹ 28 حواشی 80 80 نواں جھوٹ 29
بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ مخالفین احمدیت نے جماعت کی روز افزوں ترقی کو دیکھتے ہوئے ہندوستان میں بھی مخالفت کی نئی لہر پیدا کی ہے اگر چہ جماعت کے متعلق اٹھائے جانے والے تمام تر اعتراضات وہی پرانے ہیں جن کو سو سال سے مخالفین احمد بیت اٹھاتے آرہے ہیں جن کے جوابات بھی جماعت کی طرف سے بار ہا مرتبہ شائع ہوئے ہیں.اس مخالفت کی نئی لہر میں جمعیت العلماء ہند کے صدر جناب اسعد مدنی صاحب نے جماعت احمدیہ کو انگریزوں کا کاشت کردہ پودا ثابت کرنے کے لئے ایک نیا شوشہ یہ اٹھایا ہے کہ پادریوں کی رپورٹ پر ایک انگریز نے ہندوستان کے چار اشخاص کا انٹر ویولیکر اُن میں سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے چنا.اس کے لئے انہوں نے شورش کاشمیری کے حوالہ سے نیز ” بھٹو اور قادیانی مسئلہ کے حوالہ سے یہ بات پیش کی ہے.اس افسانہ کی بنیاد مئی ۱۹۷۷ء میں سرگودھا میں پڑی تھی.مؤرخ احمدیت محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے اس باطل افسانہ کا مکمل پوسٹ مارٹم کیا ہے جس کو ’مذہب کے نام پر فسانہ " کے عنوان سے کتابی صورت میں 1997 میں قادیان سے شائع کیا گیا ہے واقعی محترم موصوف کی یہ گراں قدر خدمت قابل تحسین ہے.نظارت نشر واشاعت اس کتاب کو من وعن دوبارہ شائع کر رہی ہے تا کہ افراد جماعت اور حق آشنا علماء شر کی گھنونی چالوں سے آگاہ ہو سکیں.خدا تعالیٰ اسے بہتوں کے لئے ہدایت کا موجب بنائے.آمین.ناظر نشر واشاعت صدر انجمن احمد سه قادیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم انتساب ان حق کے طالبوں کے نام جو کلام اللہ میں برادران یوسف کی من گھڑت اور بناوٹی کہانی کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے اور اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں اور یوسف دوراں کی یہ آسمانی آواز خوب غور سے سنتے ہیں کہ اوائل میں یوسف نادانوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہو گیا تھا مگر خدا نے اس کو ایسی عزت دی کہ اس کو اسی ملک کا بادشاہ بنا کر قحط کے دنوں میں وہی لوگ غلام کی طرح اس کے بنادیئے جو غلامی کا داغ بھی اس کی طرف منسوب کرتے تھے.پس خدا تعالیٰ مجھے یوسف قرار دے کر یہ اشارہ فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی میں ایسا ہی کروں گا.اسلام اور غیر اسلام میں روحانی غذا کا قحط ڈال دوں گا اور روحانی زندگی کے ڈھونڈ نے والے بجز اس سلسلہ کے کسی جگہ آرام نہ پائیں گے اور ہر ایک فرقہ سے آسمانی برکتیں چھین لی جائیں گی اور اسی بندہ درگاہ پر جو بول رہا ہے ہر ایک نشان کا انعام ہو گا.پس وہ لوگ جو اس روحانی موت سے بچنا چاہیں گے وہ اسی بندہ حضرت عالی کی طرف رجوع کریں گے اور یوسف کی طرح یہ عزت مجھے اس تو ہین کے عوض دی جائے گی بلکہ دی گئی جس تو ہین کو ان دنوں میں ناقص العقل لوگوں نے کمال تک پہنچایا ہے اور گو میں زمین کی سلطنت کے لئے نہیں آیا مگر میرے لئے آسمان پر سلطنت 66 ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی.“ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم طبع اول صفحہ ۷۸ - ۷۹ تالیف حضرت بانی جماعت احمدیہ )
/////////// فن کذب طرازی کی شرعی بنیاد؟ مذہب کے نام پر فسانہ //////// فکر ونظر اور قول و فعل میں راست گوئی جملہ مذاہب عالم بالخصوص دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار ہے.مگر اس دور کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ احراری اور دیوبندی علماء کے بعض اکابر نے یہ نظریہ قائم کر کے فن کذب طرازی کی شرعی بنیا درکھ دی ہے کہ بعض اوقات کذب صریح واجب ہو جاتا ہے.چنانچه مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے جنہیں حضرت قلب العالم ختم الاولیا دو المحد ثین، فخر النقباء والمشائخ حضرت عالی مادائے جہاں مخدوم الکل مطاع العالم قرار دیا جاتا ہے حسب ذیل فتوی دیا کہ:.احیائے حق کے واسطے کذب درست ہے مگر تا امکان تعریض سے کام لیوے اگر نا چار ہو تو کذب صریح بوئے اسی طرح دیو بندی علماء شیخ الاسلام“ جناب مولوی حسین احمد صاحب مدنی کی رائے میں:.جھوٹ بعض اوقات میں فرض اور واجب ہو جاتا ہے.“.بالکل یہی خیالات بانی جماعت اسلامی سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی کے ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں.راستبازی و صداقت شعاری اسلام کے اہم ترین اصولوں میں سے ہے اور جھوٹ اس کی نگاہ میں ایک بدترین برائی ہے.لیکن عملی زندگی کی بعض ضرورتیں ایسی ہیں جن کی خاطر جھوٹ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ بعض 1
حالات میں اس کے وجوب تک فتوی دیا گیا ہے.ان فتاویٰ کے مطابق مخالف احمدیت علماء مدت سے جماعت احمدیہ کے خلاف جھوٹ ، بہتان طرازی اور افتراء پردازی کا بازار گرم کئے ہوئے تھے.حتی کہ تصویر سازی کو ناجائز سمجھنے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے اپنے ہاتھوں بوگس فوٹو بنانے اور کھلے بندوں شائع کرنے شروع کر دیئے اور یہ سب ختم نبوت“ کے مقدس نام کی آڑ میں کیا جار ہا تھا.ھے کے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولبی ان نام نہاد محافظین ختم نبوت ' کی ساری سرگرمیاں صرف حضرت بانی سلسلہ یہ کو گالیاں دینے اور احمدیوں کے خلاف فتنہ برپا کرنے کے لئے وقف تھیں اور وہ اس کو ”جہاد“ کا نام دیتے تھے اور اب بھی دیتے ہیں.حق تعالیٰ نے ان کے حقیقی چہرہ سے نقاب اتارنے کے لئے یہ سامان فرمایا کہ بریلوی علماء خم ٹھونک کر ان کے خلاف میدان میں آگئے اور انہیں للکارا کہ وہ کانگرس اور برطانیہ دونوں کے خود کاشتہ پودا اور تنخواہ دار ایجنٹ رہے ہیں اور انہوں نے دیو بندی لٹریچر ہی سے ثابت کر دکھلایا کہ ان کی تبلیغی جماعت اور جمعیت علماء اسلام انگریز کے ایماء سے قائم ہوئی تھی.کے سرحد کے ایک احراری رہنما جناب سید عبد اللہ شاہ صاحب مدیر روز نامہ الفلاح پشاور کی چشمد ید شہادت ہے کہ مولانا غلام غوث ہزاروی سے ملاقات پہلی دفعہ ۱۹۳۷ء میں ہوئی.مولانا غلام غوث ہزاروی کے دورخ تھے.ایک طرف وہ مجلس احرار سرحد /// 2
////// کے صدر تھے اور مجلس احرار کو ہندوؤں سے با قاعدہ روپیہ ملتا تھا کیونکہ کانگریس کی حمایت کرتے تھے.دوسری طرف ان کا تعلق سنٹرل انٹیلی جنس سے تھا.وہ کانگریس کے خلاف رپورٹیں دیا کرتے تھے.مگر بظاہر وہ ایک دینی عالم تھے.بہترین مبلغ اور انگریز کے خلاف بے خوفی سے تقریر کیا کرتے تھے دراصل انگریز میں ایک کمال تھا کہ وہ اپنے لوگوں سے ایسا کام لیتا تھا.لوگوں کے سامنے اسے گالیاں دو تا کہ لوگ اسے حکومت کے خلاف سمجھیں اور اس کے سامنے کھل کر بات کریں.اس وجہ سے مولا نا کو کانگریس کا وظیفہ الگ اور انٹیلی جنس کا وظیفہ الگ ملتا تھا.“ (میری زندگی کی یاد داشتوں کا چوتھا حصہ.صفحہ ۳۸.مولفہ سید عبداللہ شاہ.مدیر روز نامہ الفلاح پشاور ).3
فرضی کتاب کے نام پر جعلی حوالہ کی اختراع اور اس کی تشہیر پاکستان کے احراری اور دیوبندی علماء نے بریلوی الزامات سے عوام کی توجہ ہٹانے اور بانی سلسلہ احمدیہ کے عیسائیت کے خلاف عدیم المثال جہاد پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک فرضی حوالہ اختراع کیا اور مئی ۱۹۴۷ء میں اسے ایک انگریزی پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا.یہ پمفلٹ جمعیۃ العلماء اسلام سرگودھا کی طرف سے خالد پر لیس سرگودھا میں چھپوایا گیا.سرگودھا کا انگریزی پمفلٹ SOME THING TO PONDER OVER KHALID PRESS SARGODHA The Year 1857 was the turbulent period when the English swept away the last vestiges of the Muslim regine in India.The Muslims started a Holy war (Jehad), All the people rigent from Bahadur Shah Zafar to a commoner took an active part under the leader ship of the Ulema.Had the tractors not been exploited by persons like Sadiq from the Deccan, Jafar from Bengal and Mirza Murteza from the Punjab the Muslim world would have been a different shape As, out of all the nations, Only the Muslims were in the foremost ranks to fight off 4
//////////// the English,so, after 12 Years when the English Govt.had firmly established itself through treachery, treason and cruelty a commission from England was sent to India in 1869 to study the Muslim mind towards the English and work out plans to bring them round.The commission stayed for full one year in India to have firsi hand knowledge about them.In 1870 a Conference was hald in London in which, besides the representatives of the commission the missionary digiritories working in India were especially invited to particicpate.Both the parties submitted separate reports which were published under the title of, arrival of the British Empire in India? an extract of it is given below:- Sir William Hunter's Report:- It is an artiol of faith with the Muslims that they can never accept a heretic foreign rule and it is their religious duty to wage a war (Jehad) to rid the country of it.This Conception of the Holy war is the basis of their enthusiasm, fanaticism and will to secrifice and for this they are ever ready for Jehad.This type of belief can always array them against the Govt.5
Report of Missionary Fathers:- Majority of the papulation of the country blindly follow their Pirs---their spiritual leaders.If at this stage we succeed in finding out who would be ready to declare himself a Zilli Nabi (apostolic prophet) some then the large number of people shall rally round him.But for this it is very difficult to persuade some one from the Muslim masses.purpose this problem is solved the prophet hood of such a person can flourish under the patrouage of the Govt.he have already overpowered the native Govts mainly persuing a policy of seeking help from the traitors.That was a different stage for at that time.The military point of view.But,now when we have way over every nook of traitors were sought From the country and there is peace and order every where we ought to undertake measures which might create internal unrest among the people of the country.Extract from the printed report.Gentlemen! The English were the bitter enemies of Islam.Glad Stone the then Prime Minister of England delivered a speach in 6
the Parliament He held the Holy Quran in his hand and said,-As long as this book is present on the face of the earth we cannot rule in peace-uttering these words the wretch threw away the Holy Book.According to the koranic teachings Jehad is a sacred duty and a coveted undertaking which enabled the people of the desert of Arabia to over throw the mighty powers of kaiser-o-Kisra.So a conspiracy was hatched to find a traitor who Should instal himself on the pedestal prophethood and declare jehad irreligious and the obedience of the English Govt.a foremost duty of every Muslim.Now it is put to the readers to find out the man who proclarmed Zilli Nabavvat declared jehad irreligious and spent the whole of his life in advocting the service of the British Govt.as a duty of every good Muslim.Issued by:- Jamiat-ul-Ulama-e Islam SARGODHA 7
7//////// //////▬▬TIT ملتان سے اردو تر جمہ کی اشاعت جب مغربی اور مشرقی پاکستان کے انگریزی دان طبقہ میں یہ پمفلٹ بکثرت پھیلایا جاچکا تو کئی سال بعد شعبہ نشر واشاعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان نے اس کا اردو ترجمہ حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا.بسم اللہ الرحمن الرحیم سوچنے کی بات ۱۸۵۷ء وہ پر آشوب دور تھا جبکہ ہندوستان پر مسلمان حکومت کی جگہ انگریزی حکومت لے رہی تھی.اہل اسلام نے انگریزی حکومت کے خلاف علم جہاد بلند کیا.اس مقدس جہاد میں بہادر شاہ ظفر سے لے کر ایک عامی مسلمان تک علمائے اسلام کی قیادت میں ہر کہ ومہ نے حصہ لیا.اگر مسلمانوں سے ہی غداروں کی سر پرستی دکن کے صادق بنگال کے جعفر پنجاب کے مرزا غلام مرتضی نہ کرتے تو آج دنیائے اسلام کا نقشہ اور ہی ہوتا.چونکہ اقوام ہند سے مسلمان ہی سب سے زیادہ انگریز سے برسر پیکار تھا.اس لئے بارہ برس بعد جب کہ ہندوستان پر نصرانی حکومت اپنے ظلم وستم اور بعض نام نہاد مسلمانوں کی امداد کے ذریعے مکمل قبضہ حاصل کر چکی تھی.۱۸۶۹ء میں انگریزوں نے ایک کمیشن لنڈن سے ہندوستان بھیجا تا کہ وہ انگریز کے متعلق مسلمان کا مزاج معلوم کرے اور آئندہ کے لئے مسلمان کو رام کرنے کے لئے تجاویز مرتب کرے.اس کمیشن نے ایک سال ہندوستان 8
/// /// میں رہ کر مسلمانوں کے حالات معلوم کئے.۸۷۰اء وائٹ ہاؤس لنڈن میں کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کمیشن مذکور کے نمائندگان کے علاوہ ہندوستان میں متعین مشنری کے پادری بھی دعوت خاص پر شریک ہوئے جس میں دونوں نے علیحدہ علیحدہ رپورٹ پیش کی.جو کہ ” دی ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا کے نام سے شائع کی گئی.جس کا اقتباس مندرجہ ذیل پیش کیا جاتا ہے:.رپورٹ سربراہ کمیشن سرولیم ہنٹر مسلمانوں کا مذہباً عقیدہ یہ ہے کہ وہ کسی غیر ملکی حکومت کے زیر سایہ نہیں رہ سکتے اور ان کے لئے غیر ملکی حکومت کے خلاف جہاد کرنا ضروری ہے.جہاد کے اس تصور سے مسلمانوں میں ایک جوش اور ولولہ ہے.اور وہ جہاد کے لئے ہرلمحہ تیار ہیں.ان کی کیفیت کسی وقت بھی انہیں حکومت کے خلاف ابھار سکتی ہے.رپورٹ پادری صاحبان ”یہاں کے باشندوں کی ایک بہت بڑی اکثریت پیری مریدی کے رجحانات کی حامل ہے.اگر اس وقت ہم کسی ایسے غدار کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں جو ظلی نبوت کا دعویٰ کرنے کو تیار ہو جائے تو اس کے حلقہ نبوت میں ہزاروں لوگ جوق در جوق شامل ہو جائیں گے.لیکن مسلمانوں میں سے اس قسم کے دعوی کے لئے کسی کو تیار کرنا ہی بنیادی کام ہے.یہ مشکل حل ہو جائے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کے زیر سایہ پروان چڑہایا جاسکتا.ہم اس سے پہلے برصغیر کی تمام حکومتوں کو غدار تلاش کرنے کی حکمت عملی سے شکست 9
دے چکے ہیں.وہ مرحلہ اور تھا.اس وقت فوجی نقطہ نظر سے غداروں کی تلاش کی گئی تھی.لیکن اب جب کہ ہم برصغیر کے چپہ چپہ پر حکمران ہو چکے ہیں اور ہر طرف امن و امان بھی بحال ہو گیا ہے تو ان حالات میں ہمیں کسی ایسے منصوبہ پر عمل کرنا چاہئے جو یہاں کے باشندوں کے داخلی انتشار کا باعث ہو.“ اقتباس از مطبوعہ رپورٹ کانفرنس وہائٹ ہاؤس لنڈن منعقدہ ۱۸۷۰ء دی ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا قارئین کرام :.انگریز دشمن اسلام تھا.گلیڈسٹون وزیر اعظم انگلستان نے پارلیمنٹ میں تقریر کی.قرآن کریم ہاتھ میں لیکر کہا کہ جب تک یہ کتاب دنیا میں موجود ہے ہم اطمینان سے حکومت نہیں کر سکتے.یہ کہہ کر بد بخت کافر نے کلام الہی کو زمین پر دے مارا.قرآنی تعلیمات کی بناء پر مسلمان کے لئے جہاد ایک ایسا مقدس فریضہ اور محبوب مشغلہ تھا جس کے طفیل عرب کے بادیہ نشینوں نے قیصر و کسری کے تخت الٹ دیئے.اس لئے سازش کی گئی کہ مسلمانوں میں کوئی غدار تلاش کر کے دعوی نبوت کرایا جائے اور وہ جہاد کو حرام اور انگریزی حکومت کی تابعداری کو فرض عین قرار دے.قارئین کرام کا فرض ہے کہ وہ تلاش کریں کہ وہ شخص کون ہے جس نے ظلی نبوت کا دعویٰ کیا اور جہاد کو حرام قرار دیا.انگریزی حکومت کی اطاعت کو فرض گرداننے میں ساری عمر گزار دی.10
فاعتبر واياولی الابصار انگریز کے ظلی نبی اور اس کے عقائد سے متعلق معلومات کے لئے مندرجہ ذیل پتہ پر خط و کتابت کیجئے:.شعبہ نشر واشاعت مجلس تحفظ ختم نبوت.پاکستان (ملتان) اردو پمفلٹ کی خفیہ تقسیم سے عوامی ذہن کو متاثر کرنے کا سٹیج بالکل تیار ہو گیا تو ۱۹۷۳ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان نے اپنی مطبوعہ روداد بابت سال ۱۳۹۲ھ کے صفحہ ۴ ۳ میں اس کا بطور خاص ذکر کیا اور اس کے ترجمہ کی اشاعت کو اپنے کارناموں میں شمار کیا.علاوہ ازیں شورش کا شمیری صاحب ایڈیٹر ” چٹان لاہور نے اپنے رسالہ ” مجھی اسرائیل“ میں اس کا ذکر کیا اور اسے ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر میں پھیلا دیا.جس کے بعد اس جعلی حوالہ کو گویا ایک شرعی سند حاصل ہو گئی اور وہ دوسری کتابوں میں بھی درج کیا جانے لگاحتیٰ کہ احراری اور دیو بندی اہل قلم علماء نے عجمی اسرائیل ہی کے حوالے سے اسے نہایت دیدہ دلیری اور بے باکی کے ساتھ اس تحریری موقف میں بھی شامل کر دیا جو انہوں نے اگلے سال اسمبلی ۱۹۷۴ء میں ملت اسلامیہ کے نام نہاد اور خود ساختہ ترجمان کی حیثیت سے پیش کیا تھا اور جسے اردو انگریزی اور عربی متینوں زبانوں میں شائع کیا گیا.حالانکہ احراری پمفلٹ محض جھوٹ کا پلندہ تھا جس میں تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا.جیسا کہ اس کے تنقیدی جائزہ سے معلوم ہوگا.11
//////////// پہلا جھوٹ پمفلٹ کا تنقیدی جائزہ 7//////// ۱۸۵۷ ء کے غدر کو مقدس جہاد سے تعبیر کرنا ( جس کے پس پردہ مسلمانوں کو ہندوؤں کا دائمی غلام بنانے کی سازش کار فرما تھی ) اس مقدس اصطلاح کی شرمناک تحقیر و تذلیل ہے.سرسید احمد خان دہلوی بانی علیگڑھ کالج کی چشم دید شہادت ہے کہ :.اس زمانے میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا ایسے خراب اور بد رویہ اور بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خواری اور تماش بینی اور ناچ اور رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا.بھلا یہ کیونکر پیشوا اور مقتدا جہاد کے گنے جاسکتے تھے.اس ہنگامے میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوئی.پھر کیوں کر یہ ہنگامہ غدر جہاد ہوسکتا تھا.ہاں البتہ چند بد ذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اور اپنے خیالات پورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے کو اور اپنے ساتھ جمعیت جمع کرنے کو جہاد کا نام لے دیا.پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرمزدگیوں میں سے ایک حرمزدگی تھی نہ 66 واقع میں جہاد ا راقم الدولہ سید ظہیر الدین ظہیر دہلوی شاگر د ذوق دہلوی و داروغہ ماہی مراتب بہادر شاہ ظفر ” داستان غدر میں تحریر فرماتے ہیں.وو وقت شب افواج پیاده و سوار متفق کمر بندی ہو گئی اور جیل خانہ پر کے.12
چڑھ گئے اور جیل خانہ تو ڑ کر چوراسی افسر جو قید تھے ان کو قید سے نکال لائے اور ان کی ہتھکڑیاں اور بیٹریاں سب کاٹ لیں اور ان کے ہمراہ جو اور بدمعاش بد پیشہ چونٹے اٹھائی گیرے ڈاکو خونی ، ٹھگ وغیرہ وغیرہ جو جیل خانہ میں قید تھے سب کو رہا کر دیا اور بیٹریاں سب کی کاٹ دیں.اب تمام شہر میں غدر مچ گیا اور ہنگامہ جدال و قتال گرم ہوا.۱۲۱۱ ان غارت گروں میں وہ لوگ ہیں جو میرٹھ سے باغی ہو کر پلٹن اور سوار آتے ہیں اور ان کے ساتھ والے جو بد معاش ہمراہ ہوئے ہیں.اور ان کے شہر کے کوئی چمار دھوبی سے کنجڑے، قصاب کاغذی محلہ کے کاغذی اور دیگر بدمعاشان شہر پہلوان، بانڈی باز اٹھائی گیرے جیب کترے وغیرہ وغیرہ سب رذیل ہیں.کوئی شریف خاندانی ان کے شامل نہیں ہے جو نیک معاش واشرف ہیں وہ اپنے گھروں کے دروازے بند کئے بیٹھے ہیں ان کو یہ خبر تک نہیں کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے.66 دوسرا جھوٹ بہادر شاہ ظفر نے اس مقدس جہاد میں حصہ لیا.یہ دعویٰ بھی سراسر دروغ بے فروغ ہے.چنانچہ بادشاہ نے دیوان خاص قلعہ دہلی میں ۹؍ مارچ ۱۸۵۸ء کو عدالت کے سامنے یہ حلفیہ بیان دیا کہ.13
////// ///// /////// ” جو کچھ گزرا ہے وہ سب مفسدہ پرداز فوج کا کیا دھرا ہے.میں ان کے قابو میں تھا اور کر کیا سکتا تھا.وہ اچانک آپڑے اور مجھے قیدی بنالیا.میں لاچار تھا اور دہشت زدہ جو انہوں نے کہا میں نے کیا.وگرنہ انہوں نے مجھے کبھی کا قتل کر ڈالا ہوتا.‘، ۱۳ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شاہ ظفر کے بیان سے قبل مورخہ ۱۲ فروری ۱۸۵۸ء عدالت کو شاہ کی موجودگی میں بتایا گیا کہ ۱۸۰۳ء میں جب شاہ عالم شہنشاہ دہلی مرہٹوں کے دست ستم کا آماجگاہ بنے ہوئے تھے انہوں نے جنرل لیک صاحب سے انگریزی گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں آنے کی درخواست کی اور ۴ استمبر سے برطانیہ کے پنشن خوار اور رعایا بن گئے.اور برطانوی حکمرانوں نے انہیں مرہٹوں کے ظلم اور قید بامشقت سے چھڑا کر عیش و آرام عطا کیا.نیز بتایا گیا کہ شاہ ظفر نے ۱۸۳۷ء سے دہلی کی فرضی حکومت حاصل کی لیکن ان کا اقتدار خاص قلعہ والوں پر بھی نہیں تھا البتہ اپنے مقربین کو خلعات فاخرہ اور خطابات دینے کی طاقت تھی.وہ اور ان کے اہل خاندان بے شک لوکل کورٹس سے بری تھے لیکن گورنمنٹ انگلشیہ کے زیر نگیں تھے.گورنمنٹ کی طرف سے ان کا ایک لاکھ روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر تھا.جس میں سے ننانوے ہزار روپیہ دلی میں اور ایک ہزار لکھنو میں ان کے اہل خاندان کو ملتا تھا.نیز سر کاری اراضی سے ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ وصول کرنا بھی منظور تھا اور دہلی کے مکانات کا کرایہ اور زمین کا معاوضہ بھی لیتے تھے.(شاہ ظفر نے جرح سے انکار کیا ) تیسرا جھوٹ مستند علماء اسلام کا اس ہنگامہ میں باغیوں کی قیادت کرنا محض جھوٹی کہانی ہے جس کا 14
حقیقت کے ساتھ ذرہ برابر تعلق نہیں.سرسید احمد خان نے تحقیق تشخص کے بعد واضح لفظوں میں یہ حقیقت بیان کی کہ دلی میں جو جہاد کا فتویٰ چھپاوہ ایک عمدہ دلیل جہاد کی سمجھی جاتی ہے مگر میں نے تحقیق سنا ہے اور اس کے اثبات پر بہت دلیلیں ہیں کہ وہ محض بے اصل ہے.میں نے سنا ہے کہ جب فوج نمک حرام میرٹھ سے دلی میں گئی تو کسی نے جہاد کے باب میں فتویٰ چاہا.سب نے فتویٰ دیا کہ جہاد نہیں ہو سکتا.اگر چہ اس پہلے فتوئی کی میں نے نقل دیکھی ہے مگر جب کہ وہ اصل فتویٰ معدوم ہے تو میں اس نقل کو نہیں کہہ سکتا کہ کہاں تک لائق اعتماد کے ہے.مگر جب بریلی کی فوج دلی میں پہنچی اور دوبارہ فتویٰ ہوا جو مشہور ہے اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے بلاشبہ اصلی نہیں.چھاپنے والے اس فتویٰ نے جو ایک مفسد اور نہایت قدیمی بدذات آدمی تھا.جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کولوگوں کے نام لکھ کر اور چھاپ کر اس کو وافق دی تھی بلکہ ایک آدھ مہر ایسے شخص کی چھاپ دی تھی جو تیل ندر مر چکا تھا.۱۵۷ دیو بندی عالم الحاج محمد عاشق الہی صاحب میرٹھی کی کتاب ”تذکرۃ الرشید سے ثابت ہے کہ دیوبند کے چوٹی کے علماء مثلاً مولانامحمد قاسم نانوتوی مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی حاجی امداد اللہ صاحب اور حافظ ضامن صاحب ۱۶ مفسدہ ۱۸۵۷ء کو بغاوت سمجھتے تھے اور وہ نہ صرف اس بغاوت سے علیحدہ رہے بلکہ سرکار انگریزی کے فرمانبردار اور دلی خیر خواہ کی حیثیت سے باغیوں کی سرکوبی میں نمایاں حصہ لیا اور حافظ ضامن صاحب نے تو سرکار انگریزی کے دفاع میں اپنی جان تک کا نذرانہ تک پیش کر دیا.اس امر کے ثبوت کے لئے کتاب کے چند فقرات مطالعہ کیجئے.لکھا ہے کہ:.دد مئی ۵۷ ء کا وہ طوفان جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.15
//////// ہندوستان کیا بلکہ دنیا بھر میں ایسا مشہور و معروف ہے کہ شاید دوسرانہ جو دور بر پا کرنے کے پچھلے کھلے مجمعوں میں چرچے شروع ہوئے تھے.انہوں نے کمپنی کے امن و عافیت کا زمانہ قدر کی نظر سے نہ دیکھا اور اپنی رحم دل گورنمنٹ کے سامنے بغاوت کا علم قائم کیا...اس گھبراہٹ کے زمانے میں جبکہ عام لوگ بند کواڑوں گھر میں بیٹھے ہوئے کا نپتے تھے حضرت امام ربانی اور نیز دیگر حضرات اپنے کاروبار نہایت اطمینان کے ساتھ سرانجام دیتے ان ایام میں آپ کو ان مفسدوں سے مقابلہ بھی کرنا پڑا جوغول کے غول پھرتے تھے.حفاظت جان کے لئے تلوار البتہ پاس رکھتے تھے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بہادر شیر کی طرح نکلے چلے آتے تھے.ایک مرتبہ ایسا بھی اتفاق ہوا کہ حضرت امام ربانی اپنے رفیق جانی مولانا قاسم العلوم اور طبیب روحانی اعلیٰ حضرت حاجی صاحب و نیز حافظ ضامن صاحب کے ہمراہ تھے کہ بندوقچوں سے مقابلہ ہو گیا.یہ نبرد آزما دلیر جتھہ اپنی سرکار کے مخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یا ہٹ جانے والا نہ تھا.اس لئے اٹل پہاڑ کی طرح پرا جما کر ڈٹ گیا اور سر کار پر جانثاری کے لئے تیار ہو گیا.چنانچہ آپ پر فائریں ہوئیں اور حضرت حافظ ضامن صاحب رحمۃ اللہ علیہ زیر ناف گولی کھا کر شہید بھی ہوئے.“ پھر لکھا ہے:.” جب بغاوت وفساد کا قصہ فرو ہوا اور رحم دل گورنمنٹ کی حکومت نے T 16
//////// دوبارہ غلبہ پا کر باغیوں کی سرکوبی شروع کی تو جن بزدل مفسدوں کو سوائے اس کے اپنی رہائی کا کوئی چارہ نہ تھا کہ جھوٹی سچی تہمتوں اور مخبری کے پیشے سے سرکاری خیر خواہ اپنے کو ظاہر کریں انہوں نے اپنا رنگ جمایا اور ان گوشہ نشین حضرات پر بھی بغاوت کا الزام لگایا.....علی حضرت کے قدس سرہ نے اسی قصہ میں اپنے شیدائی بچوں یعنی مولانا قاسم العلوم اور خلف الرشید امام ربانی کو الوداع کہا.....حضرت مولا نا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ دیو بند میں روپوش تھے.ہر چند کہ یہ حضرات حقیقتا بے گناہ تھے مگر دشمنوں کی یاوہ گوئی نے ان کو باغی و مفسد اور مجرم وسرکاری خطا وار ٹھہرا رکھا تھا.اس لئے گرفتاری کی تلاش تھی.مگر حق تعالیٰ کی حفاظت برس تھی اس لئے کوئی آنچ نہ آئی اور جیسا....کہ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار کے دلی خیر خواہ تھے تا زیست خیر خواہ 66 ہی ثابت رہے.‘ ۱۸ غدر کے دس سال بعد ۳۰ رمئی ۱۸۶۷ ء کو دار العلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا.حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کی زندگی میں مدرسہ دیو بند انہی کے دینی نظریات اور سیاسی پالیسی پر قائم رہا جس کا نا قابل تردید ثبوت لیفٹنٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسٹر پامر کے درج ذیل ریمارکس ہیں جو اس نے ۳۱ /جنوری ۱۸۷۵ء بروز یک شنبه مدرسه دیو بند کے معاینہ کے بعد درج ریکارڈ کئے.“ ”جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیہ کے صرف سے ہوتا ہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہو رہا ہے.جو کام پر نسپل ہزاروں روپیہ ماہانہ تنخواہ لے 17
//// ///////// کر کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پر کر رہا ہے.یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار مد معاون سرکار ہے.یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ ایسے آزاد اور نیک چلن ( سلیم الطبع ) ہیں کہ ایک کو دوسرے سے کچھ واسطہ نہیں.کوئی فن ضروری ایسا نہیں جو یہاں تعلیم نہ ہوتا ہو.صاحب مسلمانوں کے لئے تو اس سے بہتر کوئی تعلیم اور تعلیم گاہ نہیں ہوسکتی اور میں تو یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ غیر مسلمان بھی یہاں تعلیم پاوے تو خالی نفع سے نہیں اے صاحب سنا کرتے تھے کہ ولایت انگلستان میں اندھوں کا مدرسہ ہے یہاں آنکھوں سے دیکھا کہ دواند ھے تحریر اقلیدس کی شکلیں کف دست پر ایسی ثابت کرتے ہیں کہ باید و شاید 19 66 ایام غدر میں ممتاز ترین اہل حدیث عالم ” شیخ الکل سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی نے گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ کمال وفاداری کا نمونہ دکھایا اور انگریزوں کے خلاف فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا.چنانچہ ان کے سوانح نگار مولوی فضل حسین صاحب بہاری ”الحیات بعد الممات میں لکھتے ہیں.”میاں صاحب بھی گورنمنٹ انگلشیہ کے کیسے وفادار تھے.زمانہ غدر ۱۸۵۷ء میں جب کہ دہلی کے بعض مقتدر اور بیشتر معمولی مولویوں نے انگریزوں پر جہاد کا فتویٰ دیا تو میاں صاحب نے نہ اس پر دستخط کیا نہ مہر.وہ خود فرماتے تھے کہ ”میاں وہ ہلڑ تھا.بہادر شاہی نہ تھی.وہ بیچارہ بوڑھا بہادر شاہ کیا کرتا.حشرات الارض خانہ برانداز وں نے تمام دہلی کو خراب ویران نتباہ اور برباد کر دیا.شرائط امارت و جہاد بالکل مفقود تھے.ہم نے 18
//// تو اس فتویٰ پر دستخط نہیں کیا مہر کیا کرتے اور کیا لکھتے.مفتی صدر الدین 66 خان صاحب چکر میں آگئے.“ بہادر شاہ کو بھی بہت سمجھایا کہ انگریزوں سے لڑنا مناسب نہیں ہے مگر وہ باغیوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہورہے تھے کرتے تو کیا کرتے ، ۲۰ نواب محمد صدیق حسن خان صاحب قنوجی مجد داہل حدیث“ کہلاتے ہیں.آپ نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ فساد تھا شرعی جہاد ہر گز نہیں تھا.چنانچہ خود فرماتے ہیں.زمانہ غدر میں جولوگ سر کا رانگریزی سے لڑے اور عہد شکنی کی وہ جہاد نہ تھا فساد تھا.یہ بغاوت جو ہندوستان میں بزمانہ غدر ہوئی اس کا نام جہا درکھنا ان لوگوں کا کام ہے جو اصل دین اسلام سے آگاہ نہیں ہیں اور ملک میں فسادڈالنا اور امن کا اٹھانا چاہتے ہیں.جب تک کوئی شخص متصف بہ صفات امام شرعی نہ ہوا ور سب منتظمان وعقلا ملک کا اس پر اتفاق نہ ہو اور وہ خاص قریشی ہو دوسری ذات کا آدمی نہ ہو اور سب اس کو قبول کریں اور اس کی اطاعت اپنے حق میں فرض جانیں اور سب شرائط دعوت اسلام اور جزیہ و جہاد کے موجود ہوں اس وقت جہاد ہوسکتا ہے.سو ان صفات کا امام سینکڑوں برس سے دنیا میں مفقود ہے اور وہ شرائط بالکل معدوم.مجرد موجود ہونے مسئلہ جہاد سے با وجود معدوم ہونے شروط جہاد کے کتب اسلام میں کوئی مسلمان جہادی وہابی باغی نہیں ہو سکتا.19
//////// زمانہ غدر میں سواروں اور تلنگوں نے بعض مولویوں سے زبر دستی جہاد کے مسئلہ پر مہر کرائی.فتویٰ لکھایا.جس نے انکار کیا اس کو مار ڈالا اور اس کا گھر لوٹ لیا.سو وہ مہر کرنے والے اور فتویٰ لکھنے والے بھی غالباً وہی لوگ تھے جو اہل سنت و اہل حدیث کو زبر دستی وہابی نام رکھتے ہیں اور ان کے دشمن جانی ہیں.۲۱ برطانوی ہند کے ممتاز علماء کی طرح خلیفتہ المسلمین ترکی نے بھی یہی فرمان جاری کئے چنانچہ دیو بندی عالم مولوی حسین احمد صاحب مدنی اپنی خود نوشت سوانح میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں.“ ۱۸۵۷ء میں سلطان عبد المجید مرحوم سے فرمان مسلمانوں کے لئے انگریزوں سے نہ لڑنے اور ان کی اطاعت کرنے کا بحیثیت خلافت حاصل کیا اور ہندوستان میں پرو پیگنڈا کیا کہ خلیفہ کے حکم پر چلنا مسلمانوں کے لئے مذہبی حیثیت سے فرض ہے.چنانچہ امیر عبد الرحمن خان والی کابل مرحوم اپنی تزک میں لکھتے ہیں کہ اسی فرمان خلیفہ کی بناء پر سرحدی قبائل ٹھنڈے پڑ گئے تھے.۲۲ چوتھا جھوٹ غدر ۱۸۵۷ء کے ساتھ حیدر آباد دکن کے رسوائے عالم غدار میر صادق کا ذکر کیا گیا ہے.حالانکہ تاریخ کا اورٹی طالب علم بھی جانتا ہے کہ یہ شخص سلطان المجاہدین سلطان فتح علی ٹیپو کی شہادت کے معا بعد ہ رمئی ۱۷۹۹ء کو ہی مارا گیا اور کیفر کردار کو پہنچ گیا تھا جبکہ غدر کا 20
واقعہ اٹھاون سال بعد وقوع پذیر ہوا.///////// پانچواں جھوٹ غدار بنگال میر جعفر جس نے کلایو سے ساز باز کی تھی ۱۸۵۷ء کے غدر سے اس کا بھی ۲۴ کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ وہ ۱۷۶۵ میں یعنی غدر سے قریباً ۸۲ سال قبل جذام سے ہلاک ہو چکا تھا.چھٹا جھوٹ جیسا کہ سرسید احمد خان نے ” اسباب بغاوت ہند“ میں لکھا ہے.پنجاب کے مسلمان سکھوں کے مظالم کے باعث بہت ستم رسیدہ تھے مگر انگریزی سرکار یہاں عوام کے رفاہ میں سرگرم تھی.یہ تھا وہ پس منظر جس میں پنجاب کے دیگر بہت سے محب وطن اور معز ز مسلمان خاندانوں کی طرح حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب رئیس قادیان نے بھی ۱۸۵۷ء کے غدر کے دوران قیام امن کے لئے حکومت وقت کی دل و جان سے امداد کی.دوسرے خاندانوں کو تو اس تعاون کی بدولت انعاموں خلعتوں اور جاگیروں سے نواز ا گیا.مگر حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی خاندانی جاگیر جو سلطان بابر کے عہد حکومت (۱۵۳۰ء) سے چلی آرہی تھی انگریزی حکومت نے ۱۸۵۷ء میں ضبط کر لی.جیسا کہ سرلیپل گریفن Sir Lepel Griffein اور کرنل چارلس فرانس میسی Colonel Charles Francis Massy نے کتاب دی پنجاب چیفس میں لکھا ہے کہ:.21
//// ////// /////// "AT ANNEXATION THE JAGIRS OF THE FAMILY WERE RESUMED." ہے کہ:.نیز منشی دین محمد ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور نے یادگار در بار تاجپوشی کے صفحہ ۲۵۵ پر لکھا قصبہ قادیان جو ابتداء سے اس خاندان کا مستقر چلا آیا ہے.اسلام پور قاضی ما جبھی کے نام سے موسوم تھا جواب کثرت استعمال سے قادیان ہی مشہور ہو گیا ہے.اس خاندان کے ایک بزرگ مرزا گل محمد کو شہنشاہ دہلی کی جانب سے چوراسی مواضعات کی سرداری و جا گیر دی گئی.مگر سلطنت مغلیہ کے انحطاط و زوال کے ساتھ دن بدن وہ بھی رو بہ تنزل ہوگئی اور الحاق کے موقعہ پر اس خاندان کی جا گیر ضبط ہوگئی.“ ان حالات میں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی شخصیت پر غداروں کی سر پرستی“ کا الزام کھلا جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب نے ۱۸۵۷ء میں تو صرف ” پچاس گھوڑے مع ساز و ۲۹ سامان وسواران اپنے خرچ پر دیئے مگر اس دور کی تمام بڑی بڑی مسلم ریاستوں نے اپنے بےشمار سپاہیوں ہتھیاروں اور روپوں کے ذریعہ انگریزی حکومت کی ایسی زبر دست مدد کی کہ انگریز ملک گیر بغاوت کو کچلنے اور ملک میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے.اگر یہ مسلم ریاستیں ۱۸۵۷ء میں انگریز کی پشت پناہی نہ کرتیں تو برصغیر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور پورا ملک ہندوراج کے زیر نگیں ہو جاتا اور مسلمان مستقل طور پر ہندوؤں کے غلام بن جاتے.اس سلسلہ میں بطور نمونہ چند مشہور مسلم ریاستوں کی ۱۸۵۷ء کے دوران کی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے.22
///////// ریاست بہاولپور نواب صاحب بہاولپور ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے پر جوش معین و مددگار تھے.اس موقع پر انہوں نے سرکار انگلشیہ کی نہ صرف مالی امداد کی بلکہ حسب ضرورت اس کی حمایت میں فوج کو بھی حرکت میں لے آئے.۳۰ے اس سے قبل ۱۸۴۸ء کی بغاوت ملتان میں بھی نواب صاحب نے انگریزی فوج کی بڑی مدد کی.ان کی فوج ایڈورڈ صاحب کے ماتحت بیقاعدہ فوج کے پہلو بہ پہلو جنگ میں شریک رہی اور دیوان مول راج کو شکست دے کر باغیوں کو ملتان کی دیوار فصیل کے اندر کر کے شہر کو چاروں طرف سے محصور کر لیا.ان نمایاں خدمات کے صلہ میں گورنمنٹ سے نواب صاحب کو ایک لاکھ سالانہ کی پیشن حین حیات تک ملی اور علاوہ بریں ان کی فوج کو بھی آٹھ لاکھ روپے نقد انعام دیئے گئے ، اسے ریاست بھوپال اس ریاست نے ایام غدر میں برطانوی گورنمنٹ کی بھاری امداد کی جس کے صلے میں پر گنا بیر سیہ کو انگریزوں نے ریاست بھوپال میں شامل کر دیا اور نواب بھو پال کو جی سی ایس آئی کا خطاب بھی عطا کیا گیا.۳۲ ریاست رام پور یادگار در بار تاجپوشی جلد ۲ صفحه ۷۳۸ - ۳۹ے میں غدر میں گورنمنٹ کی وفادارانہ 23
/////////// خدمات کے زیر عنوان لکھا ہے:.زمانہ غدر میں نواب صاحب نے بارہ ہزار فوج زائد رکھ کر بارودسازی کے لئے بے شمار روپیہ خرچ کیا اور نہ صرف ضلع مراد آباد میں ہی بغاوت کے شعلوں کو فرو کیا بلکہ رام پور سے جہادیوں کی شرکت کو روک کر بریلی کے افسروں کے بچاؤ میں بھی سخت کوشش کی.اور نینی تال کے انگریزوں کے لئے بطور مدد خرچ چار ہزار اشرفیاں اور کمبل و پار چات بھیجے.مواضعات پیشی، چند وسی، سہنسپورسنبھل، حسن پورکو باغیوں سے بچا کر آخری دونوں مقاموں کے ٹھا کر دواروں کے مفسدوں کو بھی ان ہی کی فوج نے فرو کیا.علاوہ بریں کئی یورپین حکام کے زن و بچوں کو اپنی حفاظت سے انگریزی کیمپ میں پہنچایا.مراد آباد کے ایک ہنگامہ میں بھی اگر چہ ان کی فوج کے ۴۰ آدمی مارے گئے مگر پھر بھی وہاں نوابی فوج نے ہی امن قائم کیا.اسی طرح امروہہ کے فساد سے جو بدنظمی پھیل گئی تھی.اس کا بھی انتظام کیا.علاوہ بریں نہ صرف روہیلکھنڈ کی نقل و حرکت بلکہ دہلی تک منصو بہ بازی مفسدان کی خبر رسانی کے لئے ہزاروں روپے خرچ کر کے بڑے بڑے انتظامات کئے.چنانچہ جب ہنگامہ غدر فرو ہوا تو گورنمنٹ نے ان وفادار انہ خدمات کے صلہ میں ضلع مراد آبادو بریلی کے چند دیہات جمعی ایک لاکھ ۲۸ ہزار ۵۴۷ روپیه ۶ آنه نسلاً بعد نسل و بطناً بعد بطن علاوہ اس تین لاکھ بارہ سوروپے کے جو ان کو جمع مراد آباد سے وصول 66 ہوا تھا نواب صاحب کو دیئے.“ 24
///////// //////////////// ریاست حیدر آباد دکن ہنگامہ غدر میں اس ریاست نے برطانوی گورنمنٹ کی ایسی مردانہ وار حمایت کی کہ گورنر بمبئی نے ریزیڈنٹ کو لکھا کہ اگر نظام اس وقت باغی ہو جائیں تو پھر ہمارے پاس کچھ نہیں رہتا.۵/اکتوبر ۱۸۶۱ ء کو برٹش گورنمنٹ کی طرف سے بیش بہا خدمات کے صلہ میں دس ہزار پاؤنڈ کے تحائف حضور نظام کی خدمت میں پیش کئے گئے اور انہیں بی سی ایس آئی کا خطاب دیا گیا اور ایک نئے عہد نامے کے مطابق پچاس لاکھ کا قرضہ نظام دکن کو معاف کیا گیا اور شولا پور را پچور دوآبہ کے اضلاع نظام کو واپس دیئے گئے.یہ ساری تفصیل منشی دین محمد صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور کے قلم سے یادگار در بار تاج پوشی صفحه ۴۳ تا ۴۶ میں موجود ہے.”حیات عثمانی “ میں لکھا ہے.اگر نظام حکومت انگریزی کی مدد نہ کرتا تو اس میں ذرہ بھی شبہ نہیں کہ انگریزی حکومت سخت خطرہ میں تھی.شریف الطبع اور منصف مزاج یوروپین مصنفوں اور دوسرے انگریزوں نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا کہ دولت آصفیہ نے اس زمانہ میں حکومت انگلشیہ کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بچالیا اور بعض انگریزی حکام نے یہاں تک کیا کہ اگر نظام حیدرآباد ہمارے ساتھ نہ ہوتے تو ہندوستان میں انگریزی حکومت قائم نہ رہ سکتی.25 66
///////// ساتواں جھوٹ لکھا ہے کہ ۱۸۶۹ء میں انگریزوں نے ایک کمشن لندن سے ہندوستان بھیجا تا کہ وہ انگریز کے متعلق مسلمان کا مزاج معلوم کرے اور آئندہ کے لئے مسلمانوں کو رام کرنے کے لئے تجاویز مرتب کرے.اس کمشن نے ایک سال ہندوستان میں رہ کر مسلمانوں کے حالات معلوم کئے.“ پمفلٹ میں اس کمشن کا سر براہ سر ولیم ہنٹر (Sir William Hunter) کو قرار دیا گیا ہے.یہ سارا بیان محض ذہنی تخیل کی ایجاد ہے.انگلستان اور برطانوی ہندوستان کی تاریخ میں اس نوع کے کسی کمشن کا نام ونشان نہیں ملتا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سرولیم ہنٹر ( ولادت ۱۵ جولائی ۱۸۴۰ء وفات ۶ فروری ۱۹۰۰ء ) جنہیں اس فرضی کمشن کا سر براہ بتایا جاتا ہے.۱۸۶۲ء میں انگلینڈ سے ہندوستان پہنچے اور بنگال سول سروس سے منسلک ہوئے اور ۱۸۸۷ء تک ہندوستان ہی میں رہے اور اسی سال ریٹائر ہوکر انگلینڈ واپس گئے.چنانچہ کتاب "THE NEW CENTURY CYCLOPEDIA OF NAMES" میں لکھا ہے."Hunter, Sir William Wilson, b at Glasgow, July 15, 1840:d.at Oxford, England, Feb.6,1900.British civil servent and author.He entered the Bengal civil service in 1862, holding various 26
/////////// government posts until he retired in 1887 and returned to England.As director general of statistics, he edited (1869-81) a statistical survey of India in 128 volumes, later issuing a nine- volume condensation in the imperial Gazetteer of India (1881) ۳۴ ترجمہ:.ہنٹر ،سرولیم ولسن پیدائش بمقام گلاسگو ، ۱۵ جولائی ۱۸۴۰ء وفات بمقام آکسفورڈ انگلستان 4 فروری ۱۹۰۰ء.ملازم سرکار انگریزی اور مصنف.آپ سرکاری ملازمت بنگال میں ۱۸۶۲ ء میں شامل ہوئے اور مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے.یہاں تک کہ ۱۸۸۷ء میں ریٹائر ہوئے اور انگلستان لوٹ آئے.ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے آپ نے ۱۲۸ جلدوں میں سٹیٹسٹیکل سروے آف انڈیا مرتب کی.(۸۱_۱۸۶۹).بعد ازاں اس کا خلاصہ ۹ جلدوں میں IMPERIAL GAZETEER OF INDIA میں اشاعت کے لئے جاری کیا (۱۸۸۱ء) سرولیم ہنٹر نے ہندوستان میں اپنے پچپچیس سالہ قیام کے دوران متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں ایک مشہور کتاب 'دی انڈین مسلمان ( THE INDIAN MUSALMANS) بھی تھی.جس کا پہلا ایڈیشن جون ۱۸۷۱ء میں اور دوسرا ۱۸۷۲ء میں لندن سے TRUBNER AND COMPANY نے شائع کیا.کتاب میں سر ولیم ہنٹر نے مسلمانوں کی اعلیٰ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی شکایات کا تفصیلی جائزہ لیا.نیز شمال مغربی سرحد میں جہاد کے نام پر وہابیوں کی ہنگامہ آرائیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ان مسلمانوں کا بھی بطور خاص ذکر کیا جو برطانوی ہند کو دارالحرب نہیں بلکہ دار الاسلام سمجھتے تھے.کتاب کے ضمیمہ میں انہوں نے اس مسلک کی تائید میں مرکز اسلام مکہ 27
معظمہ کے مندرجہ ذیل تین مفتیان عظام کے فتاویٰ بھی درج کئے.جمال بن عبداللہ شیخ عمر لکھی.احمد بن زینی دہلان الشافعی حسین بن ابراہیم مالکی.ضمیمہ میں مولوی علی محمد لکھنوی.مولوی عبدالحی لکھنوی.مولوی فیض اللہ لکھنوی.مولوی محمد نعیم لکھنوی.مولوی رحمت اللہ لکھنوی.مولوی قطب الدین دہلوی.اور مولوی لطف اللہ رامپوری کا یہ متفقہ فتویٰ بھی شامل کیا کہ موجودہ حالات میں جب کہ عیسائی حکومت مسلمانوں کے حقوق کی محافظ ہے اس کے خلاف جہاد قطعی نا جائز ہے.اس متفقہ فتوئی پر ۱۷ ربیع الثانی ۱۲۸۷ھ مطابق ۷ار جولائی ۱۸۷۰ء کی تاریخ ثبت تھی.اسی ضمیمہ میں کلکتہ محمد ن سوسائٹی کی طرف سے مولوی کرامت علی صاحب کا فتاوی عالمگیری کی بناء پر یہ فیصلہ بھی درج کیا گیا کہ برٹش انڈیا کے حکمرانوں کے خلاف جہاد در حقیقت جہاد نہیں بغاوت ہے جس کی اسلام میں ہرگز اجازت نہیں.۳۵ آٹھواں جھوٹ پمفلٹ میں بیان شدہ کہانی کے مطابق کمشن مذکور کے نمائندگان اور ہندوستان میں متعین مشنری کے پادریوں کی ۱۸۷۰ء میں وائٹ ہاؤس لندن میں کانفرنس منعقد ہوئی.اس بیان سے پورے افتراء کی قلعی خود بخود کھل جاتی ہے.کیونکہ وائٹ ہاؤس لنڈن میں نہیں امریکہ میں ہے جو ریاستہائے متحدہ کے صدروں کی سرکاری رہائش گاہ ہے اور واشنگٹن ڈی سی کے پنسلوینیا ایوینیو کی جنوبی جانب لافیٹ سکویر کے بالمقابل واقع ہے.واشنگٹن کی اس قدیم ترین پبلک عمارت کی بنیاد ۱۷۹۲ء میں رکھی گئی.۱۸۱۴ء میں اس کی دیواروں پر سفیدی کی سے گئی.اس وقت سے اسے وائٹ ہاؤس کہا جانے لگا.28
///////// نواں جھوٹ ’وائٹ ہاؤس لندن کی مفروضہ کا نفرنس کی نسبت مزید یہ بتلایا گیا ہے کہ اس میں علیحدہ علیحدہ رپورٹیں پیش کی گئیں جو دی ارائیول آف برٹش ایمپائران انڈیا (THE ARRIVAL OF THE BRITISH EMPIRE IN INDIA) کے نام سے شائع کی گئی.حقیقت یہ ہے کہ آج تک انگلستان میں اس نام کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی جس میں ۱۸۷۰ ء کی وائٹ ہاؤس لندن کا نفرنس“ کی رپورٹیں طبع ہوئی ہوں.انگلستان کی انڈیا آفس اور برٹش میوزیم کی لائبریریوں میں اس نام کی کوئی مطبوعہ کتاب موجود نہیں.اور نہ ان کی قدیم فہرستوں میں اس کا کوئی ذکر ہے.یہی صورت امریکہ کی مشہور لائبریری اور کانگریس کی ہے.اس ضمن میں دی برٹش لائبریری لنڈن اور پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے مراسلوں کا عکس ذیل میں ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے.29
///////// *GA Kahlon 27 Pack Axenc Deversedge THE BRITISH LIBRARY AREA AND OPÍA BANNED COLLECTION 1 7807 De Mr Kahlon WW.HUNTER THE ARRIVAL OF THE DRITISIF EMPIRE IN INDIA.Your letter of September in has been passed to us by the foreign as Consinalin Offic Ebay The India Office Library and Record, moved us the above address in 1957, bucur pat of the British Cory in 1943, Alternating with her institution's Depasiment of Onebial Printed Books siul Manuscripts to Sing the Oriental and India Office Collections.We can trace no record of the late you require in any of the British Library's catalogues, vor in a Large American database to which we have access The probably Sa William Wilson Hunter but you gain poolishing details - could in perhaps he a periodical and her than a book.If with can supply publishing details ached my the infe of the periodicé same from and the date, we may be able to made at for you, but withoum diis infororation we cas de nothing, as periodical arises are nos indeed separately.Yan soiry weanmet beide more liep Yours sucesiv Miss Marns European Printed Books 30 0
///////// A M PARIAS ONIVERSITY LIBRARY LAHORE 312276 Dated 13-9-62 Syed Zunur Ahmed Shah, Retired Professor, College of Antal Husbandary C/o zart islah--Irshad, Sud Rabwah.Anjuman Ahendiya Pakistang Dear Sir, Please refer to your lotted No.649 dated 22 August 1967.We regret to have to inform you that the book entitled "The arrival of British Rapire in India by VW.Hunter is not available in our library fo reference of this title could be found In the catalogres of the U.S.Library of Congress * the British Museu The following booke by the same author dealing with the history of India are, however, available with a 1.History of British India.<r.(1954.08 19 The Indian Empire.(5954 941) 31 Yours faithfully, East Librarian.for Librarian.
دسواں جھوٹ ///////// کہانی تخلیق کرنے والوں نے پادری صاحبان کی طرف جو دلفریب رپورٹ ایجاد فرمائی ہے وہ خود اپنے اندر اس کے فرضی ہونے کی متعدد اندرونی شہادتیں رکھتی ہے جن سے صاف کھل جاتا ہے کہ رپورٹ کے الفاظ کسی انگریز پادری کے نہیں احراری پادری کے قلم سے نکلے ہیں.کیونکہ ایک تو اس میں برطانوی استعمار کومستحکم کرنے والوں کے لئے بار بار غدار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کوئی انگریز استعمال نہیں کر سکتا.دوسرے انگریز اور عیسائی پادریوں کے ہاں اپاٹل (APOSTLE) کا لفظ حضرت مسیح کے حواریوں کے لئے مستعمل ہے جنہیں وہ رسول کے نام سے بھی پکارتے ہیں لیکن اپاسٹلک پرافٹ“ (APOSTOLIC PROPHET) کی کوئی اصطلاح ان میں موجود نہیں.ملاحظہ ہو.(The New Lexicon Webster's Dictionary p.43 Lexicon Publication, INC, New York 1991) تیسرے مبینہ رپورٹ میں ظلی نبوت کی اصطلاح استعمال کر کے سارا بھانڈا ہی پھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ ۱۸۷۰ء تک برٹش انڈیا میں یہ اصطلاح سرے سے مروج ہی نہیں تھی.اس کا تصور انیسویں صدی کے آخر میں بانی دارالعلوم دیو بند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ( متوفی ۱۴ را پریل ۱۸۸۰ء) نے اپنی معرکۃ الاراء تالیف ” تحذیر الناس“ میں پیش فرمایا جو پہلی بار ۱۲۹۱ھ /۱۸۷۸ء میں مطبع صدیقی بریلی سے باہتمام مولوی محمد منیر صاحب نانوتوی شائع ہوئی اور دوبارہ آپ کی وفات کے بعد ۱۳۰۹ھ مطابق ۱۸۹۲ء خیر خواہ سرکار پریس ۳۷ 32
سہارنپور سے باہتمام منشی سید حشمت حسین صاحب چھپی.حضرت مولا نا محمد قاسم صاحب نے اس کتاب میں تحریر فر مایا:.7//////// جیسے آئینہ آفتاب اور اس دھوپ میں واسطہ ہوتا ہے جو اس کے وسیلہ سے ان مواضع میں پیدا ہوتی ہے جو خود مقابل آفتاب نہیں ہوتی پر آئینہ مقابل آفتاب کے مقابل ہوتی ہیں.ایسے ہی انبیاء باقی بھی مثل آئینہ بیچ میں واسطہ فیض ہیں.غرض اور انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظل اور عکس محمدی ہے.کوئی کمال ذاتی نہیں پر کسی نبی میں وہ عکس اسی تناسب پر ہے جو نیز فرمایا:.جمال کمال محمدی میں تھا.۳۸ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیت محمد ی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۳۹۷ے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب حقیقت الوحی مطبوعہ ۱۵ رمئی ۱۹۰۷ء کے صفحه ۲۸ پر ظلی نبی کا یہ مفہوم بیان فرمایا.محض فیض محمدی سے وحی پانا“.بار یک نظری سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ یہ اصطلاح تمام غیر مذاہب بالخصوص صلیب پرستوں کے لئے ایک کھلے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے لہذا اس کے معرض وجود میں لانے کا کوئی منصوبہ پادریوں کی طرف سے کیسے بنایا جا سکتا تھا.خصوصاً جب کہ اسلام کی تیرہ سو سالہ تاریخ جھوٹے مدعیان نبوت کے قتل کے واقعات سے رنگین ہے اور آج تک مسلمان علماء مدعی نبوت کو واجب القتل قرار دیتے ہیں.اس صورت میں انگریز پادری اس وہم میں کیسے مبتلا ہو سکتے تھے کہ ادھر ظلی نبوت کا مدعی کھڑا ہوگا ادھر اس کے حلقہ نبوت 33
میں ہزاروں لوگ جوق در جوق شامل ہو جائیں گے.پھر جیسا کہ گزشتہ صفحات کے مطالعہ سے یہ ثابت شدہ حقیقت سورج کی طرح روشن ہو کر سامنے آچکی ہے کہ مفروضہ کمشن سے قبل ہی انگریزی حکومت ملک کے طول وعرض میں ایک مثالی امن و امان قائم کر چکی تھی اور پورا عالم اسلام برٹش انڈیا کے دار الاسلام ہونے اور انگریزی حکمرانوں کی شرعی اطاعت پر متحد ہو چکا تھا اور ان کے خلاف جہاد کو حرام تصور کرتا تھا.لہذا سوچنے کی بات SOME THING TO PONDER) المسلمين (OVER یہ ہے کہ برطانوی حکومت کو استحکام بخشنے کا جو دینی فریضہ خلیفہ تر کی مرکز اسلام مکہ معظمہ کے مفتیان عظام امیر افغانستان برطانوی ہند کے چوٹی کے دیو بندی اہل حدیث اور حنفی علماء کرام بہاولپور بھوپال رام پور اور حیدر آباد دکن کے وفادار مسلم حکمران اور پنجاب کے بہت سے نامور اور ممتاز مسلمان خاندان کمال خوبی اور کامیابی سے انجام دے چکے تھے.اس کے لئے برسوں بعد کسی شخص کو ظلی نبی بنا کر کھڑا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی.؟؟؟ گیارہواں جھوٹ پادری صاحبان کی مفروضہ رپورٹ کے آخری الفاظ یہ بتائے گئے ہیں.اب جب کہ ہم برصغیر کے چپہ چپہ پر حکمران ہو چکے ہیں اور ہر طرف امن و امان بھی بحال ہو گیا ہے تو ان حالات میں ہمیں کسی ایسے منصوبہ پر عمل کرنا چاہئے جو یہاں کے باشندوں کے داخلی انتشار کا باعث ہو.66 34
/// برصغیر کے طول و عرض پر انگریزوں کی حکمرانی اور امن و امان کی بحالی کے بعد انگریز پادری بھلا برطانوی حکومت کو یہ کیونکر مشورہ دے سکتے تھے کہ ملکی امن و امان جس کے لئے اس نے مسلسل بارہ سال تک رات دن کوشش کی اور لاکھوں بلکہ اربوں پاؤنڈ خرچ کئے اسے داخلی انتشار کے ذریعہ تباہ و برباد کر دیا جائے یقیناًیہ سراسر غلط اور سرتا پا جھوٹ ہے.اس دور میں برطانوی حکومت تو ہندوستان کے دلوں کو جیتنے اور ان کو رام کرنے کے لئے تجاویز سوچ رہی تھی جیسا کہ اس پمفلٹ میں اعتراف کیا گیا ہے.اسے اپنی مسلم رعایا کی دلجوئی اور ان کا داخلی اتحاد اس حد تک محبوب تھا کہ اس نے اپنے وائسرائے سر جان لارنس کو اوائل ۱۸۶۸ء میں ہندوستان بھیجا تا کہ افغانستان کی ہمسایہ مسلم مملکت سے گہرے مراسم قائم کریں چنانچہ امیر شیر علی خان والی افغانستان کو ملاقات کے لئے دعوت دی گئی اور ۲۹ / مارچ ۱۸۶۸ء کو بڑی شان وشوکت کے ساتھ انبالہ میں ان کا خیر مقدم کیا گیا.سرجان لارنس نے نہ صرف انہیں فرمانروائے افغانستان تسلیم کیا بلکہ ان کے لئے بارہ لاکھ سالانہ وظیفہ اور ایک معقول تعداد سالانہ آلات حرب مقرر کئے جانے کا اعلان عام کیا.ہیں کہ :.امیر عبد الرحمن خان بادشاہ افغانستان اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتے سلطنتیں ایک عرصہ دراز سے برطانیہ اعظم کی عام پالیسی یہ ہے کہ اسلامی ما جو ہندوستان اور ایشیائی روس کے درمیان مثل دیوار کے حائل ہیں باقی رہیں اور ان کی خود مختاری بخوبی قائم رہے تا کہ روس کی راہ میں ایک اپنی 35 35
دیوار بن جائیں.بخلاف اس کے روس کی پالیسی بالکل اس کے برعکس ہے نہ صرف اس وجہ سے کہ اس کے ملک کے حدود ہندوستان کی سرحد سے مل جائیں بلکہ اسے ہمیشہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر ٹر کی یا ایران یا افغانستان یا ہندوستان کے ساتھ جنگ ہوئی تو اس کی مسلمان رعایا میں عام غدر ہو جائے گا.اس میں شک نہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان سلطنت برطانیہ کی دوستی کو روس کی دوستی پر ترجیح دیتے ہیں اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی باہمی دوستی اور صلح برطانیہ عظم کی دوستی پر منحصر ہے." انیسویں صدی کا ایک مشہور انگریز مورخ سر آلفر ڈ لائل پی سی.کے سی.بی.ڈی سی ال ۱۸۵۷ء کے غدر کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے:.تمام مملکت ہند کی بلا واسطہ حکمرانی کمپنی کے قبضے سے منتقل ہو کر ۱۸۵۸ء میں تاج برطانیہ سے متعلق کر دی گئی.اب اس سلطنت کی فوقیت ایسی مسلم ہو چکی ہے کہ تمام قلمروئے ہند میں کوئی رائے یا کوئی احساس ایسا نہیں ہے جو اس کو تسلیم کرنے میں تامل کر سکے.خاندانی تنازعوں اور ہم چشمیوں کے فنا ہو جانے سے سیاسی زندگی کا ایک عصر جدید شروع ہو گیا.سلطنت ہند کی تکمیل کو تسلیم کر لیا گیا اور اگر چہ نئے نئے سیاسی معیار کی نئی نئی جماعتیں اندرون سلطنت میں پیدا ہوگئی ہیں جو بلحاظ اپنے انتظامی نقطہ نظر و بلحاظ اپنی حوصلہ مندیوں اور بلحاظ اپنی غایت مقصود کے مختلف الخیال ہیں مگر وہ سب تاج برطانیہ کے ساتھ غیر متزلزل وفاداری رکھنے میں بالکل 36
66 متحد القلوب ہیں.‘، ۴۲ ملک گیر امن و آشتی کے اس ماحول میں برطانوی حکومت کے لئے انتشار کا منصوبہ بنانے والے انگریز اور عیسائی پادری ہر گز نہیں ہو سکتے.لہذا مزعومہ رپورٹ بدیہی طور پر وضعی اور جعلی ہے.بارہواں جھوٹ ۱۸۷۰ء میں متحدہ ہندوستان کے لئے پادریوں کو کسی نئی سکیم کے تجویز کرنے اور اس پر غور کرنے کے لئے انہیں لنڈن بلانے کا خیال بھی مجسم جھوٹ ہے.کیونکہ عیسائی مشنری پہلے دن سے ایک ہی بنیادی منصوبہ لے کر ہندوستان کے کونے کونے میں جال پھیلا رہے تھے اور وہ منصوبہ تھا پورے ہندوستان خصوصاً مسلمانوں کو حلقہ بگوش عیسائیت کرنا اور پادری ای ایڈ منڈ کی طرف سے ۱۸۵۷ء کے دوران ملک بھر میں جو چٹھی شائع ہوئی اس میں کھلے لفظوں میں اس کا ذکر موجود تھا.چٹھی کے اختتام میں لکھا تھا.”ہماری تمنا ہے کہ اس ملک میں گر جاؤں کو ہندوستانیوں سے بھرا ہوا دیکھیں جہاں نہ صرف غیر ملک کے لوگ بلکہ تمہارے ہم وطن بھی انجیل کی خوشخبری کی باقاعدہ طور سے منادی کریں...ہم اس وقت کے آنے کی خواہش کرتے ہیں جب کہ لوگ بخوبی اس کو سمجھ جائیں گے.کیوں نہ اسی نسل میں یہ بات ہو.“ سرسید احمد خاں نے اپنی کتاب ” اسباب بغاوت ہند کے آخر میں پوری چٹھی کا ترجمہ شائع کر دیا تھا.یہ وہی رسالہ ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے سید طفیل احمد منگلوری 37
نے لکھا ہے کہ ///////////// سرسید احمد خان اس وقت سرکاری ملازم تھے انہوں نے ہنگامہ ۱۸۵۷ء میں نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ کل اہل ہند کی مدافعت میں پوری جدوجہد کی.اسباب بغاوت ہند لکھ کر بجائے ہندوستانیوں کے خود حکام وقت کو ہنگامہ ۱۸۵۷ء کا ذمہ دار قرار دیا اور رسالہ ”وفا دار مسلمانان ہند“ لکھ کر صد ہا مسلمانوں کی جانیں اور جائدادیں بچائیں.“ ( روح روشن مستقبل صفحہ ے ناشر مکتبہ شیخ الاسلام لغاری روڈ رحیم یارخان ) غدر کے چھ سال بعد ۱۸۶۲ء میں انگلستان کے وزیر اعظم لارڈ پا مرسٹن اور وزیر ہند چارلس وڈ کی خدمت میں ایک وفد پیش ہوا جس میں دارالعوام اور دارالامراء کے رکن اور دوسرے بڑے بڑے لوگ شامل تھے.انگلستان کے سب سے بڑے پادری آرچ بشپ آف کنٹر بری نے اس وفد کا تعارف کرایا.وزیر ہند نے اس وفد سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ:.”میرا یہ ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتا ہے انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے اور ایمپائر کے استحکام کے لئے ایک نیا ذریعہ ہے.“ ۱۴۳ ،، وزیر اعظم لارڈ پامرسٹن نے یہ بھی کہا کہ:.میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب اپنے مقصد میں متحد ہیں.یہ ہمارا فرض ہی نہیں 38
بلکہ خود ہمارا مفاد بھی اس امر سے وابستہ ہے کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کو جہاں تک بھی ہو سکے فروغ دیں اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کو پھیلا دیں.۲۴۳ حضرت بانی جماعت احمد یہ اس دور کے وہ مجاہد اعظم ہیں جنہوں نے پوری عمر عیسائیت کے خلاف جہاد کیا.اور صلیبی علمبر داروں کے چھکے چھڑا دیئے.چنانچہ مولا نا امداد صابری صاحب مجاہدین رد نصاری کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ کی نسبت لکھتے ہیں کہ :.۱۸۷۶ء میں آپ نے جب اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا کہ حکومت کے سایہ میں نہایت پرزور مشنری کام کر رہی ہے اور صلیبی مذہب ساری دنیا میں ایک طوفان عظیم کی طرح جوش مار رہا تھا.اس وقت مرزا جی نے براہین احمدیہ کتاب لکھی.جس کے چار حصے ہیں.اس کتاب کا ذکر حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمتہ اللہ علیہ نے رو نصاری کی فہرست میں ان الفاظ میں کیا ہے.اس عمدہ اور مبسوط کتاب میں دو طریقے سے مذہب اسلام کی حقانیت ނ ثابت کی ہے اول تو تین سو دلائل عقلیہ سے دوئم ان آسمانی نشانیوں.جو نیچے دین کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ضروری ہیں.حق تو یہ ہے کہ 66 اثبات حقیقت اسلام میں یہ عمدہ کتاب ہے.“ مولوی محمد علی صاحب مونگیری نے اپنی کتاب پیغام محمدی حصہ اول مطبوعہ ۱۳۳۱ھ کے صفحہ ۳۰۶ پر کتاب براہین احمدیہ کی نسبت یہ بھی اعتراف کیا کہ عیسائیوں کے مقابلہ 39
7//////// میں جو کچھ لکھا گیا.اس کا جواب کسی پادری سے نہ ہو سکا.“ مولوی سید محمد میاں صاحب ناظم جمیعت علماء ہند نے تسلیم کیا کہ رد عیسائیت بظاہر ایک واعظانہ اور مناظرانہ چیز ہے جس کو سیاست سے بظاہر کوئی تعلق نہیں.لیکن غور کرو جب حکومت عیسائی گر ہو جس کا نقطہ نظر ہی یہ ہو کہ سارا ہندوستان عیسائی مذہب اختیار کرے اور اس کی تمنا دلوں کے پردوں سے نکل کر زبانوں تک آ رہی ہو.اور بے آئین اور جابر حکومت کا فولادی پنجہ اس کی امداد کر رہا ہو تو یہی تبلیغی اور خالص مذہبی خدمت کس قدرسیاسی اور کتنی زیادہ سخت اور صبر آزما بن جاتی ہے.بلاشبہ ردعیسائیت کے سلسلہ میں ہر ایک مناظرہ ہر ایک تبلیغ ، ہر ایک تصنیف اغراض حکومت سے سراسر بغاوت تھی ، ۴۵ ۱۸۹۴ء میں لندن میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں لارڈ بشپ آف گلوسٹر ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ نے احمدیت کے متعلق نہایت درجہ تشویش و اضطراب کا اظہار کر کے دنیا بھر کے عیسائیوں کو مطلع کیا کہ اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں مجھے ان لوگوں نے جو صاحب تجر بہ ہیں بتایا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آرہا ہے اور اس جزیرے میں بھی کہیں کہیں اس کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں.یہ ان بدعات کا سخت 40
مخالف ہے جن کی بناء پر محمد کا مذہب ہماری نگاہ میں قابل نفرین قرار پاتا ہے اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جارہی ہے.یہ نئے تغیرات باسانی شناخت کئے جاسکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارہانہ حیثیت کا بھی حامل ہے.افسوس ہے تو اس بات کا کہ ہم میں سے بعض کے ذہن اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں.(انگریزی سے ترجمہ ) ۴۶ مولانا نور محمد صاحب نقشبندی، چشتی ،مالک اصح المطابع دہلی تحریر فرماتے ہیں.”ولایت کے انگریزوں نے روپے کی بہت بڑی مدد کی اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور پادری اور اس کی جماعت سے کہا عیسی جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو چکا ہے اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں.........اس ترکیب سے اس نے نصرانیوں کو اتنا تنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی.“.مولانا ابوالکلام آزاد نے اخبار وکیل امرتسر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے وصال (۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) پر ایک نہایت موثر اور پر قوت وشوکت شذرہ سپر د قلم فرمایا جس میں لکھا کہ:.” وہ وقت ہر گز لوح قلب سے نسیا منسیا “ نہیں ہوسکتا.جبکہ اسلام 41
/// مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب و وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کوسراہ منزل مزاحمت سمجھ کر مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹ پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے ابتدائی اثر کے پر نیچے اڑائے جو سلطنت کے زیر سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطر ناک اور مستحق کا میابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا.......غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گر انبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر 42
آئے.قائم رہے گا.‘ ۲۸ مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ حقیقت افروز تبصرہ زیر نظر پمفلٹ کی مفتریات سمجھنے کے لئے کافی ہے.ختم نبوت اسلام اور اس کے مقدس جہاد سے غداری کی انتہا یہ ہے کہ احراری اور دیو بندی ملاں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے عظیم الشان مجاہدانہ کارناموں کا تو اعتراف کرنا گناہ سمجھتے ہیں مگر اسلام کے دشمن پادریوں مثلاً مسٹرا کبر مسیح، پادری ظفر اقبال پادری کے ایل ناصر اور ایچ اے والٹر کو اس لئے قلمی مجاہدین میں شمار کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے اس طرح نصیب جرنیل کے خلاف زہریلا اور نا پاک لٹریچر شائع کیا.دوسری طرف پاک و ہند کے ایک مشہور پادری کے ایل ناصر ایم اے آنرز پرنسپل فیتھ تھیولاجیکل سمیزی گوجرانوالہ نے اپنی کتاب ”حقیقت مرزا بقلم خود ۵۰ کا انتساب مخالف احمدیت علماء کے نام سے کیا ہے اور ان کو ز بر دست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:.میں اس مجموعہ کے مندرجہ ذیل علمائے کرام کے نام سے منسوب کرتا ہوں جنہوں نے مرزائیت کی حقیقت کو بے نقاب کر کے ہند و پاکستان میں مسیحیوں اور مسلمانوں کی نا قابل فراموش خدمت سر انجام دی ہے.66 آگے پادری صاحب نے مسیحیوں کی ناقابل فراموش خدمت بجالانے والے سات علماء کرام کے نام لکھے ہیں جو یہ ہیں.43
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مرحوم.پروفیسر الیاس برنی صاحب حیدرآباد دکن - منشی محمد عبد اللہ صاحب.مولوی ایم.ایس.خالد صاحب وزیر آبادی.مولانا سید برکت علی شاہ صاحب وزیر آبادی.پروفیسر غلام جیلانی صاحب برق پی ایچ ڈی.مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی.یہ ناپاک گٹھ جوڑ آج سے نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی مسیحیت (۱۸۹۱ء) سے چلا آرہا ہے.جس سے اس باطل خیال پر بھی ضرب کاری لگتی ہے کہ پادریوں کی تجویز پر آپ کو معاذ اللہ ظلی نبی بنا کر کھڑا کیا گیا تھا جب کہ احمدیت کی پوری تاریخ پادریوں کی اس کے خلاف مخالفانہ کاروائیوں سے بھری ہوئی ہے.اور کون ہے جو اس حقیقت کا انکار کر سکے کہ ۱۹۵۳ ء اور ۱۹۷۴ء کی مخالف احمدیت تحریکوں میں احرار کو عیسائی مشنریوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی.اسی طرح پاکستان کے آمر جنرل ضیاء الحق نے ۲۶ را پریل ۱۹۸۴ء کو احمدیت کے خلاف آرڈینینس جاری کیا تو عیسائی رہنماؤں نے اس کا بھی زبردست خیر مقدم کیا.چنانچہ روز نامہ امروز ے مئی ۱۹۸۴ء صفحہ ے کالم ۳ ۴ نے اس سلسلہ میں حسب ذیل خبر شائع کی ”پاکستان نیشنل کرسچن لیگ کے صدر جیمز صوبے خان نے قادیانیوں کے اسلامی طرز عمل کو غیر قانونی قرار دینے پر صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کی حکومت کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اپنی مسیحی برادری کے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قادیانیوں کو تخریب کار گروہ قرار دے کر ان کی جائیدادوں اور دولت کو ضبط کر لیا جائے.ان کی جھوٹی اور من گھڑت تبلیغ پر مکمل پابندی لگادی جائے.انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ عالمی سطح پر مسیحی مسلم اتحاد کو متحکم بنانے کے لئے دنیا بھر کے تمام مسیحی ممالک اور خصوصاً سپین کے پاس پاکستان سے مسلم علماء اور مسیحی مبلغوں کے وفد بھیجے جائیں.“ 44
///////// ///////////////////////////////// تیر ہواں جھوٹ احراری پمفلٹ میں وزیر اعظم انگلستان گلیڈسٹون (GLAD STONE) سے متعلق ایک مشتبہ اور بے سند واقعہ کی بناء پر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ گویا اس کی ذاتی پالیسی ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے مہلک ثابت ہوئی.یہ تاثر واقعاتی اعتبار سے بالکل غلط ہے کیونکہ برطانوی مملکت کی اصل باگ ڈور براہِ راست قیصرہ ہند ملکہ وکٹوریہ (ولادت ۱۸۱۹ء وفات ۱۹۰۱ء) کے ہاتھ میں تھی جن کے زریں دور میں مسلمانان ہند کے ہر طبقہ اور فرقہ کو اس درجہ مذہبی آزادی اور امن نصیب ہوا کہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے فروری ۱۸۸۷ء میں نہایت درجہ عقیدت اور دھوم دھام سے ملکہ کی پچاس سالہ جو بلی کی پرشکوہ تقریب منائی.۵۱ اس موقع پر مختلف سوسائٹیوں کی طرف سے مبارک باد کے ایڈریس بھی دیئے گئے.فرقہ اہل حدیث نے بھی ایک خصوصی ریز ولیشن میں وائسرائے ہند ہز ایکسی لینسی لارڈ ڈ فرن کے لیفٹنٹ گورنر پنجاب اور ہر آنر ز سر چارلس ایچیسن ۵۳ سی ایس آئی کا خصوصی شکر یہ ادا کیا اور اپنے فرقہ کی طرف سے حسب ذیل ایڈریس پیش کیا :." بحضور فیض گنجور کوئین وکٹوریہ ملکہ گریٹ برٹن و قیصرہ ہند بارک الله فی سلطنتها ہم ممبران گروہ اہل حدیث اپنے گروہ کے کل اشخاص کی طرف سے حضور والا کی خدمت عالی میں جشن جو بلی کی دلی مسرت سے مبارک باد عرض 45 کرتے ہیں.
(۲).برٹش رعایا سے ہند میں سے کوئی فرقہ ایسا نہ ہوگا جس کے دل میں اس مبارک تقریب کی مسرت جوش زن نہ ہو گی اور اس کے بال بال سے صدائے مبارک باد نہ اٹھتی ہوگی.مگر خاص کر فرقہ اہل اسلام جس کو سلطنت کی اطاعت اور فرمانروائی وقت کی عقیدت اس کا مقدس مذہب سکھاتا اور اس کو ایک فرض مذہبی قرار دیتا ہے اس اظہار مسرت اور ادائے مبارک باد میں دیگر مذاہب کی رعایا سے پیشقدم ہے علی الخصوص گروہ اہل حدیث منجملہ اہل اسلام اس اظہار مسرت وعقیدت اور دعائے برکت میں چند قدم اور بھی سبقت رکھتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جن برکتوں اور نعمتوں کی وجہ سے یہ ملک تاج برطانیہ کا حلقہ بگوش ہورہا ہے از آنجملہ ایک بے بہا نعمت مذہبی آزادی سے یہ گروہ ایک خصوصیت کے ساتھ اپنا نصیبہ اٹھا رہا ہے.(۳).وہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ مذہبی آزادی اس گروہ کو خاص کر اسی سلطنت میں حاصل ہے بخلاف دوسرے اسلامی فرقوں کے ان کو اسلامی سلطنتوں میں بھی یہ آزادی حاصل ہے.اس خصوصیت سے یقین ہو سکتا ہے کہ اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام و استحکام سے زیادہ مسرت ہے اور ان کے دل سے مبارک باد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ نعرہ زن ہیں.ہم بڑے جوش سے دعا مانگتے ہیں کہ خدا وند تعالیٰ حضور والا کی حکومت کو اور بڑھائے اور تا دیر حضور والا کا نگہبان رہے تا کہ حضور والا کی رعایا کے تمام لوگ حضور کی وسیع حکومت میں امن اور تہذیب کی //// 46
//// 66 برکتوں سے فائدہ اٹھائیں ، ۴ برصغیر کے شہرہ آفاق مسلمان شاعر جناب اکبرالہ آبادی نے جشن جو بلی پر ایک پر خلوص قصیدہ مبارک با دلکھا جس کے آخری اشعار یہ تھے.خلوص و صدق دل سے ہے دعا ہندو مسلماں کی کہ یارب جب تلک یہ گردش گردوں گرداں ہے فروغ مهر دمہ جب متلک ہے زینت عالم ۵۵ نشاط انگیز جب تک انتظام باد و باراں ہے دل اہل جہاں ہے جب تلک مرکز تمنا کا ہوائے آرزو جب تک محیط قلب انساں ہے خدا کے نام کی عزت ہے جب تک اہل دانش میں تجلی علم کی جب تک چراغ راہ عرفاں ہے ہماری حضرت قیصر رہیں اقبال و صحت سے کہ جن کا آفتاب عدل اس کشور پہ تاباں ہے اسی زمانہ میں اہل حدیثوں کے وکیل ابوسعید محمد حسین ایڈیٹر رسالہ اشاعت السنه نے رسالہ الاقتصاد فی مسائل الجہاد شائع کیا جس میں قرآن وحدیث اور کتب فقہ سے ثابت کیا کہ انگریزی حکومت کے خلاف لڑنا یا ان سے لڑنے والوں کی (ان کے بھائی مسلمان کیوں نہ ہوں ) کسی نوع سے مدد کر نا صریح غدر اور حرام ہے.“ نیز لکھا مفسدہ ۱۸۵۷ء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گناہگار اور بحکم قرآن و حدیث وہ مفسد و باغی بد کردار تھے.اکثر ان میں عوام کا لا نعام 47
/////// تھے.بعض جو خواص و علماء کہلاتے تھے وہ بھی اصل علوم دین ( قرآن و حدیث) سے بے بہرہ تھے یا نا فہم و بے سمجھ.باخبر و سمجھ دار علماء اس میں ہرگز شریک نہیں ہوئے اور نہ اس فتویٰ پر جو اس غدر کو جہاد بنانے کے لئے 66 مفسد لئے پھرتے تھے انہوں نے خوشی سے دستخط کئے ، ۵۶ اس رسالے کو مختلف فرقہائے اہل اسلام کے خواص و عام نے پسند کیا اور پنجاب کے لیفٹنٹ گورنر سر چارلس ایچیسن نے اپنے نام نامی سے اس کا ڈیڈیکیٹ ہو نا منظور فرمایا اور سر کا رانگریزی سے اس کے معاوضہ میں جا گیر بھی ملی.“ ۵۷ 66 ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ۲۲ جنوری ۱۹۰۱ء کوعید الفطر کے روز بوقت شام ہوا.جس پر برٹش انڈیا کے باشندوں خصوصاً مسلمانوں پر غم والم کی رات چھا گئی.اور ہر طرف صف ماتم بچھ گئی اور بقول مولوی بشیر الدین دہلوی' ایسا ماتم ہوا جیسے اپنے کسی عزیز قریب کا ہو نامور مسلم مفکر اور شاعر علامہ الطاف حسین حالی نے ان کی یاد میں ایک طویل مرثیہ لکھا جو بہت دردانگیز تھا چند اشعار ملاحظہ ہوں.ہے تیری نیکی سے امید اے زمیں کے بادشا آسمانی بادشاہت میں خدا دے تجھ کو جا کر لئے تھے سب بیگانوں اور بے گانوں کے دل نیکیوں سے تو نے اپنی فتح اے وکٹوریا جس قدر علمی فتوحات اس زمانے میں ہوئیں دہر کی تاریخ میں ملتا نہیں ان کا پتا تو مبارک تھی کہ تجھ کو صلح تھی دل سے پسند 48
دے گا فرزندی کا اب اپنی خدا خلعت تجھے برکتیں دنیا میں پھیلیں تیرے دم سے جس طرح بس یوں ہی کنج لحد میں دے خدا برکت تجھے ۵۸ ملکہ کی وفات پر لاہور میں ایک ماتمی جلسہ منعقد ہوا جس میں شاعر مشرق ڈاکٹر سرمحمد اقبال نے ایک سو دس شعر کا ترکیب بند پڑھا جسے مطبع خادم العلیم میں چھاپ کر کتابچے کی شکل میں بھی شائع کیا گیا.جناب محمد عبد اللہ صاحب قریشی نے ”باقیات اقبال، ۵۹ کے صفحہ ۷۲ تا ۸۱ میں اسے دوبارہ ریکارڈ کر دیا ہے.پورا مرثیہ پڑھنے کے لائق ہے.ہر شعر سے ملکہ وکٹوریہ کی عظمت اور جلالت مرتبت کا پتہ چلتا ہے اور ہر شعر غم واندوہ میں ڈوبا ہوا ہے.فرماتے ہیں.آئی ادھر نشاط ادھر غم بھی آگیا کل عید تھی تو آج محرم بھی آگیا اقلیم دل کی آہ شہنشاہ چل بسی ماتم کدہ بنا ہے دل داغدار آج تو جس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاہ دل رخصت ہوئی جہان سے وہ تاجدار آج اے ہند تیری چاہنے والی گزر گئی میں ترے کراہنے والی گزر گئی اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا اک غم گسار تیرے کمینوں کی تھی گئی 49
///////// ///////////////////////////////// چودہواں جھوٹ چودھواں جھوٹ جسے چودھویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ کہا جائے تو مناسب ہوگا وہ یہ ہے کہ نام نہاد محافظین ختم نبوت“ کی طرف سے اپنی تحریرات و بیانات میں کھل کر اور اس پمفلٹ میں اشارہ اور بالواسطہ رنگ میں یہ پراپیگنڈا کیا گیا ہے کہ معاذ اللہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کو منسوخ قرار دے دیا ہے.یہ الزام اس بے مثال عاشق قرآن پر شرمناک بہتان ہے جس نے نسخ فی القرآن کے ناپاک عقیدے کو باطل ثابت کرتے ہوئے دنیا بھر میں یہ منادی کی کہ ”جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہو گا سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا شوشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا ئم اس کے لئے پکڑے نہ جاؤ.نیز فرمایا ' قرآن مجید خاتم الکتب ہے.اس میں اب ایک شوشہ یا نفقہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے.‘، ۶۳ اسی طرح فرمایا ” قرآن کا ایک نقطہ یا شوشہ بھی اولین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا.وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو 66 پاش پاش کرے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہو جائے گا.‘، ۱۴ جہاں تک آپ کے فتویٰ جہاد کا تعلق ہے بلاشبہ آپ کی ۱۸۹۸ء اور اس کے بعد کی جملہ کتب واشتہارات میں ان سب مسلم علماء ، زعماء اور مشاہیر کے ان تمام فتاوی کی توثیق کی گئی ہے جو ۱۸۵۷ء سے یہ واضح نظریہ پیش کر رہے تھے کہ موجودہ حالات میں اسلامی نقطہ صلى الله نگاہ سے حکومت وقت کے خلاف جہاد نا جائز اور حرام ہے.اور آنحضرت خاتم الانبیاء علیہ 50
///// کی حدیث مبارک یضع الحرب کی روشنی میں بحیثیت حکم و عدل یہ آپ کی فرائض منصبی میں شامل تھا جسے آپ نے مجاہدانہ شان کے ساتھ انجام دیا.اور بار بار تصریح فرمائی کہ موجودہ حالات میں جب کہ اسلامی شرائط مفقود ہیں جہاد جائز نہیں ہے.اس سلسلہ میں بطور نمونہ آپ کی چند تصریحات درج ذیل کی جاتی ہیں.ا.” فرفعت هذه السنه برفع اسبابها في هذه الايام بباعث شرائط کے نہ ہونے کے موجودہ ایام میں تلوار کا جہاد نہیں رہا.٢.”وامرنا ان نعد للكافرين كما يعدون لنا ولا نرفع الحسام قبل ان نقتل بالحسام اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم کافروں کے مقابل میں اسی قسم کی تیاری کریں جیسی وہ ہمارے مقابلہ کے لئے کرتے ہیں یا یہ کہ ہم کافروں سے ویسا ہی سلوک کریں جیسا وہ ہم سے کرتے ہیں اور جب تک وہ ہم پر تلوار نہ اٹھائیں اس وقت تک ہم بھی ان پر تلوار نہ اٹھائیں..’ولا شک ان وجوه الجهاد معدومه في هذا الزمن وهذه البلاد» ۲۸ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد کی وجوہ یا شرائط اس زمانہ اور ان شہروں میں نہیں پائی جاتیں.۴.اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ میں جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دین متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں.آنحضرت ﷺ کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر نہ کرے ، ۶۹ 66 51
///// ۵.حضرت اقدس کے شعری کلام سے بھی ثابت ہے کہ آپ کے نزدیک جہاد منسوخ نہیں ملتوی ہوا ہے.کیوں بھولتے ہو تم يضع الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا سید کونین مصطفی ہے عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا کے ۶.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کولیفٹنٹ گورنر کی خدمت میں ایک میموریل بھیجا جس میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر مخالفین کی مفتریا نہ مخبریوں کا جواب دیتے ہوئے سلسلہ احمدیہ کے پانچ بڑے اصول بیان کئے جس میں تیسرا اصول یہ بیان کیا کہ آپ دین اسلام کی دعوت محض دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کر رہے ہیں اور خیالات غازیانہ اور جہاد نہ اور جہاد جنگجوئی کو اس زمانہ کے لئے قطعی طور پر حرام اور ممتنع سمجھتے ہیں.اے ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کے اس میموریل پر زبردست تنقید کرتے ہوئے برٹش انڈیا کے مشہور پادری ریورنڈ ایچ.ڈی گرسولڈ (REV H.D.GRISWOLD) نے حسب ذیل تبصرہ کیا.In the five articles of faith which the Mirza Sahib published as his five principal doctrines in a memorial to Sir William Mackworth Young, dated March 5th 1898, the third article reads thus: To preach Islamic truths with reasoning and 52
heavenly signs and to regard ghaza or Jehad as prohibited under present circumstances (italics mine) This reminds us of the Papal attitude toward Queen Elizabeth, which is well nown to all students of her reign.In 1569 Pope Pius V.issued a bull against Elizabeth, absolving her Roman Catholic subjects from their allegiance and commanding then to wage a Papal Jehad against the protestant queen.But this absolute command was soon qualified by the bull of Pope Gregory XIII, issued in 1580, which released the English Catholics from the oblegation to resist Queen Elizabeth and allowed them to continue their allegiance to her until they should be powerful enough to rebel openly.In other words, the bull of Pope Gregory XIII, declared a Papal Jihad against Elizabeth to be impracticable and prohibed under present circumstances.Likewise, according to the Mirza Sahib's article of faith, a jihad against the non-Muslim world is prohibited, not absolutely, but under present circumstances.(Mirza Ghulam Ahmad THE MEHDI MESSIAH OF QADIAN by REV H.D.GRISWOLD ph.D.P 12 Published by The American Tract society LODIANA.1902.) 53
( ترجمہ ) پانچ ارکان ایمان جو مرزا صاحب نے پانچ بنیادی عقائد کے طور پر سرولیم میک ورتھ بینگ کو بتاریخ ۱۵ مارچ ۱۸۹۸ء ایک یادداشت میں تحریر کئے تھے ان میں تیسرے رکن کے الفاظ یہ ہیں.اسلامی صداقتوں کی دلائل اور آسمانی نشانات کے ساتھ تبلیغ کرنا اور جہاد کو موجودہ حالات میں ممنوع سمجھنا.“ یہ بات ہمیں پوپ کے ملکہ الزبتھ کے ساتھ رویہ کی یاد دلاتی ہے جو کہ ملکہ کے دور حکومت کے ہر طالب علم کے علم میں ہے.۱۵۶۹ء میں پوپ پائس (PIUS) پنجم نے ایک فرمان الز بتھ کے خلاف جاری کیا تھا جس میں ملکہ کی رومن کیتھلک رعایا کو ملکہ کے ساتھ وفاداری سے بری قرار دیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ پروٹسٹنٹ ملکہ کے خلاف پاپائی جہاد کریں.لیکن یہ قطعی حکم پوپ گریگری سیز دہم کے فرمان مجریہ ۱۵۸۰ء کے ذریعے مشروط کر دیا گیا جس میں انگریز میتھلکس کو ملکہ الزبتھ کے خلاف طاقت استعمال کرنے کے فرض سے سبکدوش کر دیا گیا اور انہیں ملکہ کے ساتھ وفادار رہنے کی اجازت دے دی گئی یہاں تک کہ وہ اس قدر طاقتور ہو جائیں کہ ملکہ کے خلاف کھلے بندوں بغاوت کر سکیں.بالفاظ دیگر پوپ گریگری سیز دہم کے فرمان نے الز بتھ کے خلاف پا پائی جہاد کو نا قابل عمل اور موجودہ حالات میں ممنوع قرار دیا.اسی طرح مرزا صاحب کے اس رکن ایمان کے مطابق غیر مسلم دنیا کے خلاف جہاد ممنوع ہے قطعی طور پر نہیں بلکہ صرف ”موجودہ حالات کے تحت.ریورنڈ گر سولڈ کے اس تبصرہ کو انگریزی گورنمنٹ کے نیم سرکاری اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ مورخہ ۲۴ اکتوبر ۱۸۹۴ ء کے اس مخالفانہ نوٹ کی روشنی میں مطالعہ کیا جانا 54
///////// ////////// چاہئے.جس کا عنوان یہ تھا.A DANGEROUS FANATIC یعنی ایک خطر ناک مذہبی دیوانہ.اس نوٹ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے گورنمنٹ کو زبر دست اختباہ کیا گیا کہ یہ مذہبی دیوانہ پولیس کی نگرانی میں ہے اس میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کی ترکیب سے ایک خطر ناک مرکز بنا کرتا ہے اس کی باتوں میں ایک دبی ہوئی دہشت ہے.وہ ایک سادہ آدمی نہیں ایک خطر ناک ہلالی ہے اور روز بروز طاقت پکڑ رہا ہے لہذا ہم پر فرض عائد ہو گا کہ مستقبل قریب میں پہلے سے زیادہ اس پر کڑی نگاہ رکھیں.اس دور میں برٹش انڈیا کے عیسائی لیڈر انگریزی حکومت کی سی آئی ڈی اور انگریزی صحافت کے دوش بدوش جماعت احمدیہ کے مخالف علماء بھی پوری طرح سرگرم عمل رہے چنانچہ اول المکفرین مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا.گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا.‘، ۷۲ اسی طرح مولوی محمد کرم الدین صاحب دبیر رئیس بھین ضلع جہلم نے برطانوی حکومت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اکساتے ہوئے لکھا.گورنمنٹ کو اپنی وفادار مسلمان رعایا پر اطمینان ہے اور گورنمنٹ کو خوب معلوم ہے کہ مرزا جی جیسے مہدی مسیح وغیرہ بننے والے ہی کوئی نہ 55
کوئی آفت سلطنت میں برپا کیا کرتے ہیں.مسلمان تو یہ زمانہ مہدی و مسیح کا قرار ہی نہیں دیتے کیوں کہ یہ امن اور انصاف و عدل کا زمانہ ہے اور خلق خدا کو ہر طرح سے اس سلطنت کے سایہ میں امن اور آسائش حاصل ہے.اور مہدی اور مسیح کے آنے کی جب ضرورت ہوگی کہ عنان سلطنت سخت ظالم اور جفا پیشہ بادشاہ کے ہاتھ میں ہوگی اور روئے زمین پر کشت و خون اور فتنہ و فساد کا طوفان برپا ہوگا.اس وقت اس کی ضرورت ہوگی کہ الہ العالمین اپنی مخلوق کی حفاظت اور آسائش دامن گستری کے لئے کسی انصاف مجسم امام بادشاہ اسلام (مهدی و سیح) کو مبعوث فرمائیں لیکن مرزا جی نے تو مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ مہدی ومسیح کا یہی زمانہ ہے اور قادیاں ضلع گورداسپور میں وہ مہدی ومسیح بیٹھا ہوا ہے.وہ کسر صلیب کے لئے مبعوث ہوا ہے تا کہ عیسویت کو محو کر کے اسلام کو روشن کرے اور یہ بھی برملا کہتا ہے کہ خدا نے اسے بتلا دیا ہے کہ سلطنت بھی اسی کو ملنے والی ہے چنانچہ اس نے اپنی متعدد تصانیف میں یہ الہام و کشف سنایا ہے کہ خدا نے اسے بتلا دیا ہے کہ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.بلکہ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ بادشاہ اسے دکھائے بھی گئے ہیں.اور یہ بھی کہتا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت مرزائیوں کو ملے گی کیا عجب کہ ایک زمانہ میں مرزائیوں کو جو اس کی پیشن گوئیاں پورا کرنے کے لئے اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں جیسا کہ اپنے بیان میں وہ لکھ چکا ہے کہ اس کے 56
//////// مرید جان و مال اس پر قربان کئے بیٹھے ہیں ) یہ جوش آجائے کہ اس پیشگوئی کو پورا کیا جائے اور وہ کوئی فتنہ و بغاوت برپا کریں.اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا جی نے مسلمانوں کو نصاری سے سخت بدظن اور مشتعل کر رکھا ہے.وہ دجال سمجھتے ہیں تو نصاری کو خرد جال کہتے ہیں تو ریلوے کو اب سوال یہ ہے کہ یہ ریلوے کس نے جاری کر رکھی ہے؟ جب یہ خرد جال ہے تو اس کے چلانے والے بادشاہ وقت کو ہی یہ دجال کہتے ہیں اور مسلمانوں کو اس کے برخلاف سخت مشتعل کر رہے ہیں.گورنمنٹ کو ایسے اشخاص کا ہر وقت خیال رکھنا چاہئے.‘، ۷۳ آہ! یہ کتنا بڑا حادثہ ہے کہ یہ خدا نا ترس علماء انگریزی دور حکومت میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو واضح الفاظ میں باغی قرار دیتے تھے مگر اس کے برعکس اب آپ کو برطانوی استعمار کے ایجنٹ ۴ کے اور انگریزی نبی کے نام سے یاد کرتے ہیں.الغرض جس زاویہ نگاہ سے بھی تحقیقی نظر ڈالی جائے اس حقیت میں کوئی شبہ نہیں رہ جا تا کہ مذکورہ پمفلٹ اکاذیب و اباطیل کا مجموعہ اور دجل وتلبیس کا بدترین نمونہ ہے اور دل گواہی دیتا ہے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کسر صلیب بانی سلسلہ احمدیہ پر اور جھوٹ احراری دیو بندی ملاؤں پر ختم ہے.احرار کی اس جھوٹی کہانی نے انگریز مورخ ہالویل (HOLWELL) کے اس افسانہ کی یاد تازہ کر دی ہے جو اس نے ۱۷۵۷ء کے شروع میں انگلستان جاتے ہوئے تراشہ تھا اور جسے کلکتہ کے ”بلیک ہول ۵ کے کا نام 57
دیا گیا.اس فسانہ کے زبر دست پراپیگنڈا نے انگریزی حکومت پر اتنی دہشت طاری کر دی تھی کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اپنی تاریخ ہند میں جب اس افسانے کی پر زور تردید فرمائی تو ان کی تصنیف شائع نہ ہو سکی.مگر اب ہر طبقے نے ”بلیک ہول کے واقعہ کو بے اصل مان لیا ہے.یہاں تک کہ تاریخوں میں اس کا نام تک نہیں آتا.ہالویل (HOLWELL) نے فی الحقیقت یہ فسانہ اس لئے تراشہ تھا کہ مسلمان حکمران نواب سراج الدولہ والی بنگال پر حملہ کرنے کی وجہ جواز پیدا کی جاسکے.لارڈ کلایو کی میر جعفر کے ساتھ سازش بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی.کے احرار کے فسانہ نگار کا مقصد وحید بھی اس افسانے سے پورے ملک میں شورش بر پا کر کے ۱۹۵۳ء کی ایجی ٹیشن کو کامیابی کے مراحل تک پہنچانا اور اسے ملت اسلامیہ سے الگ کرانا تھا اور اس پر ۱۹۷۴ء کے واقعات شاہد ناطق ہیں.58
///////// ////////////////////////////// حضرت امام جماعت احمدیہ کا حقیقت افروز تبصره حضرت امام جماعت احمد یہ سید نا خلیفتہ امسیح الرابع نے یکم فروری ۱۹۸۵ء کے خطبہ جمعہ کے دوران احرار کی فرضی کتاب اور جعلی حوالہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.ایک بھی نئی بات ایسی نہیں جو گزشتہ انبیاء کے متعلق نہ کہی گئی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہی گئی ہو.اور بسا اوقات جو اعتراضات حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے جاتے تھے وہی آپ کے عاشق صادق محبت کرنے والے پاکیزہ غلام پر بھی دہرائے جارہے ہیں.چنانچہ حکومت پاکستان نے جو مزعومہ وائیٹ پیپر شائع کیا ہے اس میں بھی بہت زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے اور انگریز کا بنایا ہوا نبی ہے چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں کہ جدید تحقین نے ثابت کر دیا ہے کہ احمدیت انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے جو برطانوی سلطنت کے مفادات کے تحفظ کی خاطر لگایا گیا.وہ جدید تحقین کون سے ہیں؟ ان کا کوئی ذکر نہیں، ان کی تحقیق کیا بتاتی ہے؟ اس کا بھی کوئی ذکر نہیں بلکہ محض ایک فرضی الزام گھڑ کر پیش کر دیا گیا ہے لیکن طرز زبان ایسی اختیار کی گئی ہے جسے مغربی دنیا یا آج کل کے تعلیم یافتہ دوسرے لوگ عموماً قبول کر لیں کہ واقعی یہ ایک بڑی محققانہ زبان ہے کہ آج کے 59
//////// جدید محققین نے ثابت کر دیا ہے.“ ایک تحقیق جو اس ضمن میں ان کی طرف سے شائع کی گئی تھی اس میں ایک ایسی کتاب کا نام لیا گیا جو ان کے بیان کے مطابق انگلستان کے کسی پریس سے شائع ہوئی.اس میں یہ اقرار کیا گیا تھا کہ انگریزوں نے اپنی پارلیمنٹ میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہندوستان کو قابو کرنے کے لئے وہاں ایک جھوٹا نبی کھڑا کیا جائے اور اس کا نام ظلی نبی رکھا جائے.گویا ظلی نبی“ انگریزی محاورہ ہے.اور انہوں نے کہا کہ اصل علاج تو یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک ظلی نبی پیدا کر دیا جائے اور پھر اس کے ذریعہ سارے مسلمانوں کو قابو کر لیا جائے.چنانچہ جب میں نے ( یہ بہت پرانی بات ہے میں اس زمانہ میں وقف جدید میں تھا) یہاں (لنڈن) کے امام صاحب کو لکھا کہ اگر چہ یہ واضح جھوٹی بات ہے لیکن پھر بھی آپ وہ کتاب دیکھیں کہ اس میں کوئی ایسی بات ہے بھی کہ نہیں یا ممکن ہے کہ کسی اور قسم کا ذکر ہوا ہو جسے توڑ مروڑ لیا گیا ہو تو امام صاحب نے جواب دیا کہ اس نام کی تو کوئی کتاب ہی نہیں ہے.میں نے کہا پھر تحقیق کریں اور پریس والوں سے پوچھیں تو جواب یہ ملا کہ ہم نے بہت تحقیق کی ہے کتاب تو در کنار اس نام کا پریس ہی کوئی نہیں.“ 60 60
7//////// /////////// جھوٹی کہانی کے اٹھائیس سال ترمیمات متضاد بیانات اور اضافے ) ہٹلر کے دست راست اور نازی حکومت کے وزیر نشر واشاعت گوبلز پاؤل جوزف (GOEBBELS PAUL JOSEPH) کا اصول یہ تھا کہ بڑے سے بڑے جھوٹ کو مختلف انداز میں دہراتے رہنا چاہئے تاکہ ذہنوں میں اتر جائے اور سچ نظر آنے لگے.مگر احراری اور دیوبندی علماء کے نزدیک کیونکہ احیاء حق کے لئے جھوٹ کو وجوب کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے اس لئے ان کا معیار کذب و افترا گوبلز سے بھی بہت بلند ہے.یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات پمفلٹ میں درج شدہ جعلی کتاب اور فرضی حوالے کو دستاویزی ثبوت کے کی حیثیت سے پیش فرمار ہے ہیں.فانا لله وانا اليه راجعون - ع چه دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد اور چونکہ پوری کہانی ہی سراسر جھوٹی اور بے بنیاد ہے.اس لئے اسے اور زیادہ دلکش اور دلفریب بنانے کے لئے اس میں اضافوں اور ترمیموں کا سلسلہ برابر جاری ہے.زیب داستان کرنے کی مہم سر کرنے کے لئے احراری قلم نے اب تک جو ز ور تحریر کی جولانیاں دکھائی ہیں اس کے بعض دلچسپ نمونے خاص توجہ کے لائق ہیں.ا.سات برس تک احراری مصنف یہ ڈھنڈورا پیٹتے رہے کہ ۱۸۷۰ء کی مشتر کہ برطانوی رپورٹ میں ایک ”حواری نبی کھڑا کئے جانے کی تجویز کی گئی مگر اپریل ۱۹۷۴ء میں یکا یک اس میں یہ اضافہ کیا گیا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں خطرات کا حل یہ تجویز ہوا کہ 61
کسی شخص سے محمد کا حواری نبی ہونے کا دعوی کرایا جائے، ۷۸ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ شاہد و ناطق ہے کہ محمد کے حواری نبی“ کی اصطلاح کبھی استعمال نہیں کی گئی.ایسی صورت میں پادریوں کو بھلا یہ توقع ہی کیسے ہوسکتی تھی کہ مسلمانوں کی طرف سے ایسے مدعی کا کوئی خیر مقدم کیا جائے گا؟ ۲.وہ صاحب جنہوں نے مذکورہ بالا اضافہ کیا انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے درج ذیل بیان شائع کر کے اس شرمناک داستان کو نقطہ کمال تک پہنچادیا کہ:.ایک بزرگ خواجہ احمد صاحب کو لدھیانہ میں مہا راجہ پٹیالہ جے سنگھ نے انگریزوں کی طرف سے پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں ایمان نہیں بیچ سکتا.اس امر کا تذکرہ مرزا غلام احمد کی موجودگی میں ہوا.مرزا صاحب نے مہاراجہ سے مل کر ایمان کا سودا کر لیا.مہاراجہ کا نام جے سنگھ بہادر اور ان کا خطاب امین الملک جو مہاراجہ کو وک انگریزوں نے دیا تھا.“ کے پٹیالہ کی سکھ ریاست کے مفصل حالات منشی دین محمد صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور نے یادگار در بار تاجپوشی میں گیانی گیان سنگھ صاحب نے ” تواریخ خالصہ میں لالہ سوہن لال صاحب نے عمدۃ التواریخ میں اور سرلیپل گریفن اور کرنل چارلس فرانس میسی نے دی پنجاب چیفس (THE PUNJAB CHIEFS) میں بڑی شرح بسط سے لکھے ہیں.ان سب تواریخ سے بالا تفاق ثابت ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا کوئی ہمعصر راجہ جے سنگھ اس ریاست میں حکمران ہی نہیں رہا.نہ کسی سکھ حکمران کو انگریز نے امین الملک کا خطاب دیا.مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی مطبوعہ روداد ۱۹۷۹ء صفحہ ۷ میں یہ انکشاف 62 62
کیا گیا کہ پادریوں نے ظلی نبی کا نہیں بلکہ مہدی اور مسیح کو پیدا کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا چنانچہ لکھا ہے.پادریوں نے انگلینڈ جا کر رپورٹ پیش کی کہ مسلمانان عالم کا جذبہ جہاد اور اعلاء کلمۃ الحق کا جوش اسقدر ہے کہ ضروری ہے کہ اسے ختم کرنے کے لئے کسی مہدی اور مسیح کو پیدا کیا جائے.کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی قرب قیامت میں ظہور پذیر ہوں گے.مسیح ابن مریم آسمان سے نزول فرمائیں گے.مسیح ہونے کا دعوی کرے اور جہاد کو حرام قرار دے.اس سے مسلمانوں میں افتراق پیدا ہوگا اور ان کا جذبہ جہاد کمزور ہو جائے گا.“ ۴.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ دعویٰ ماموریت سے قبل سیالکوٹ میں اپنی والدہ ماجدہ کی وفات تک رہے اور پھر مستقل طور پر قادیان تشریف لے آئے اور خاندانی روز نامچہ میں حضرت والدہ صاحب کی تاریخ وفات ۲ ذی الحج ۱۲۸۳ھ مطابق ۱۸ اپریل ۱۸۶۷ء) درج ہے مگر مدیر صاحب لولاک فیصل آباد کی تاریخ دانی کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے مفروضہ کہانی کو برحق ثابت کرنے کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو ۱۸۷۰ء میں قادیان کی بجائے سیالکوٹ میں مقیم بنادیا.’صاحبزادہ صاحب لکھتے ہیں.پنجاب کے گورنر نے اس کام کی ڈیوٹی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے ذمہ لگائی.چنانچہ نبی کی تلاش کا کام شروع ہوا.آخر قرعہ فال مرزا غلام 63
//////// احمد قادیانی کے نام نکلا جو ڈ پٹی کمشنر سیالکوٹ کی کچہری میں معمولی 신 ملازم تھا، ۵۱ ۵.فیصل آباد کے ایک بریلوی عالم صاحبزادہ محمد شوکت علی چشتی نظامی ایم اے بانی مرکزی جماعت غریب نواز پاکستان نے ۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء کو جامعہ مسجد تو کلیہ فیصل آباد میں مدیر لولاک کے دعوی کی تقلید کرتے ہوئے مفروضہ کہانی کی ایک گمشدہ کڑی دریافت کی اور وہ یہ کہ انگریزی نبی کی تلاش کا کام مولانامحمد قاسم صاحب نانوتوی کے سپر د ہوا تھا نہ کہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے.چنانچہ انہوں نے جلسہ عام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.اس رپورٹ کے مطابق انگریزوں کو یقین ہو گیا کہ جب تک کسی شخص کو نبوت کے مقام پر فائز نہیں کر دیا جا تا ہم اپنے پروگرام میں کلی طور پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.لہذا کسی شخص کو نبوت کے مقام پر فائز کرنے سے قبل راستہ ہموار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس خدمت کو دار العلوم دیوبند انڈیا کے بانی مولوی محمد قاسم نانوتوی نے جمیع مسلمانوں کے عقائد ونظریات کے خلاف خوب نبھایا اور اپنی تحریر سے نئی نبوت کی داغ بیل یوں ڈالی.غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جائے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہو نا بدستور باقی رہے گا.(تحذیر الناس) 64
بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی سے بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا.( تحذیر الناس) بعد حمد وصلوٰۃ کے قبل عرض جواب یہ گزارش ہے کہ اول معنی خاتم النبین معلوم کرنے چاہئیں تا کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو.سو عوام کے خیال میں تو رسول ع خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں.مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں ولکن رسول الله و خاتم النبین.فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے.(تحذیرالناس) مذکورہ عبارات ثابت کر رہی ہیں.اہل فہم وہی لوگ ہیں جو خاتم النبیین کے معنی آخری نبی نہیں کرتے ان میں صرف قاسم نانوتوی ہیں فرنگی حکومت نے خودساختہ نبوت کا راستہ ہموار کرلیا.“ یادر ہے کہ صاحبزادہ محمد شوکت علی صاحب چشتی نظامی کو ان کے حلقہ عقیدت میں قبلہ و کعبہ مرشد برحق اور نشینم اسلام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.اور یہ مقام مدیر لولاک کو حاصل نہیں.لہذا صاحبزادہ محمد شوکت علی صاحب دیو بندی امت کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں.ع مستند ہے میرا فرمایا ہوا لیکن یہ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا.ایک اور بریلوی عالم جناب محمد ضیاء اللہ صاحب قادری مہتم دار العلوم قادریہ سیالکوٹ ) کی ” دور بین نگاه حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی سے بھی آگے پہنچی ہے اور انہوں نے اپنی باطنی قوت سے ۱۸۷۰ء کی مزعومہ دو 65
رپورٹ کے ڈانڈے حضرت سید احمد بریلوی اور حضرت شاہ اسماعیل دہلوی سے ملا ڈالے ہیں جو حضرت نانوتوی کی ولادت سے بھی دو سال پیشتر مئی ۱۸۳۱ء میں شہید ہو چکے تھے.چنانچہ قادری صاحب فرماتے ہیں.سرولیم ہنٹر کی رپورٹ اور تجویز اور پادری صاحبان کی تجویز دونوں کو ذہن نشین رکھ کر اور بعد ازیں سید احمد بریلوی اور مولوی اسماعیل دہلوی نے نام نہاد جوتحریک چلائی اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ انگریزوں نے سب سے پہلے ان دو حضرات کو اپنے مشن میں کامیابی کے لئے چنا.دہلی کی جامع مسجد میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے اسماعیل دہلوی تھے.پادریوں کی پیری مریدی کے سلسلہ والی تجویز اسی اسماعیل دہلوی نے سرانجام دینے کا بیڑا اٹھایا کیونکہ اسماعیل دہلوی نے اپنے آپ کو سید احمد کا مرید ظاہر کرنا شروع کر دیا.اور پیری مریدی کا چکر چلایا.اس سلسلہ میں ایک کتاب صراط مستقیم کے نام سے بھی لکھ دی تا کہ انگریز کو پورا پورا یقین ہو جائے.۸۳ پاپوش ހނ لگائی کرن آفتاب کی جو بات کی خدا کی قسم لاجواب تھی ۶ - اگست ۱۹۹۳ء میں پاکستان کے ایک اہل قلم نے یہ گپ ہانک کر تاریخ سازی کی دنیا میں ایک نیاریکارڈ قائم فرمایا کہ برطانوی ہند کی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر نے 66
//// چار اشخاص کو انٹرویو کے لئے طلب کیا.ان میں سے مرزا صاحب نبوت کے لئے نامزد کئے گئے.“ ۸۴ مؤلف کتاب نے اپنی مایہ ناز تحقیق“ کا سلسلہ اسنادان بدنام زمانہ معاندین احمدیت تک پہنچا کر خاموشی اختیار کر لی ہے جو بیسویں صدی کی پیداوار ہیں اور جن میں سے بعض کو شاعر مشرق نے خنزیر کا لقب بھی دے رکھا ہے.۱۵ علامہ کی یہ تشبیہ گالی نہیں ایک لطیف استعارہ ہے جس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث کا مطالعہ از بس ضروری ہے.تکون في امتي فزعه فيصير الناس الى علمائهم فاذاهم قرده و خنازیر“(کنزل العمال جلدے صفحہ ۱۹۰ از دائرة المعارف النظاميه حيدرآباد دکن مطبوعہ ۱۳۱۴ھ ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اور انتشار کا آئے گا.لوگ اپنے علماء کے پاس راہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندر اور سؤر پائیں گے.یہ جدید پاکستانی محقق ملاؤں کی مفروضہ کہانی کو سہارا دینے کے لئے پہلے تو یہ ذکر فرماتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے سیالکوٹ میں پاور یوں بالخصوص پادری بٹلر سے بڑے تلخ و ترش مناظرے کئے.پھر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد ( جناب آغا شورش کاشمیری صاحب ( مدیر چٹان) کی روایت سے رقمطراز ہیں:.”مرزا نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے سے رابطہ قائم کیا.اس کے پاس عموماً آتا اور دونوں اندر خانہ بات چیت کرتے.بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی طویل 67
ملاقاتیں کیں.پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا.ادھر مرز اصاحب استعفیٰ دے کر قادیان آگئے.اس کے تھوڑے عرصہ بعد مذکورہ وفد انگلستان پہنچا اور لوٹ کر مجوزہ رپورٹیں مرتب کیں.ان رپورٹوں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع 66 کر دیا.۸۶ ایک سیاسی دماغ اور سازشی ذہن جو جھوٹی کہانیاں وضع کرنے میں بھی مشاق ہو کس طرح قلم کی خداداد طاقت وقوت کے بل بوتے پر حق کو باطل ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے؟ مندرجہ بالا روایت اس کی ایک واضح مثال ہے.کیونکہ حضرت اقدس کے سیالکوٹ میں قیام کے زمانہ کے سب سے مستند اور سب سے بڑے عینی شاہد ڈاکٹر سر محمد اقبال کے استاد علامہ سید میرحسن صاحب سیالکوٹی تھے.جنہیں آپ کی خدا نما جوانی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشقانہ تعلق اور عیسائیت کے خلاف آپ کے پر جوش جہاد کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.آپ کے قلم سے اس دور کے مفصل حالات و واقعات ستمبر ۱۹۱۵ء میں آپ کی زندگی ۱۷ میں ہی شائع ہو گئے تھے.پادری بٹلر سے مناظرات اور آخری ملاقات کا تذکرہ آپ نے جن الفاظ میں فرمایا ہے ان سے اصل حقیقت آفتاب صداقت بن کر سامنے آجاتی ہے.علامہ سید میر حسن صاحب تحریر فرماتے ہیں.پادری بٹلر صاحب ایم اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا.یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے 68 68
تھے.ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے.اور آدم کی شرکت سے جو گنہگار تھا بری رہے.مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے.پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے.اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا.پس چاہئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے.پادری بٹلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے.پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی.چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچہری میں تشریف لائے.ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرز اصاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا.چونکہ میں وطن جانے والا ہوں اس واسطے ان سے آخری ملاقات کروں گا چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے.“ ۸۸ ع اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا ے.اس ضمن میں فسانہ سازی کا ایک تازہ شاہکار بھی ملاحظہ ہو جو روزنامہ ”خبریں“ مورخه ۲۷ رمئی ۱۹۹۵ء کے طفیل منظر عام پر آیا ہے.مگر اس سے لطف اندوز ہونے کے 69
7777 لئے ذہن میں یہ رکھنا ضروری ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کا انتقال ۱۹۳۴ء سے چھبیس سال قبل ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو ہوا مگر مجلس ختم نبوت“ کے ہمنوا اور نام نہاد مورخ تحریر فرماتے ہیں:.۱۹۳۴ء میں انگریزوں نے غلام احمد قادیانی کو جب سیالکوٹ کی کچہری سے اٹھا کر جھوٹی نبوت کے منصب پر فائز کر دیا تو امیر شریعت ناموس رسول پر حملہ آور اس نئے فتنہ کی سرکوبی کے لئے میدان میں آئے.۱۹۶۷-۸ء کے احراری پمفلٹ کے مطابق ظلی نبی کی اصطلاح کے موجد پادری صاحبان تھے مگر مدیر صاحب لولاک نے کئی سال بعد اس میں یہ کہہ کر ترمیم کر دی کہ ” مرزا صاحب نے ظلی و بروزی نبی کی اصطلاحات ایجاد کیں.“ ۹.احراری پمفلٹ نے پادری صاحبان کی زبان سے ۱۸۷۰ء میں ظلی نبی کی اصطلاح استعمال کرا کے احراری سازش کو خود ہی طشت از بام کر دیا تھا اور پہلے روز سے ہی گویا بلی تھیلے سے باہر آگئی تھی.اس لئے احرار کے نام نہاد محافظ ختم نبوت نے اپنی کتاب "تحریک ختم نبوت، 21 صفحہ ۲۱۳ میں رپورٹ کا متن دیتے ہوئے ظلی نبی کا لفظ حذف کر دیا.۱۰.اصل پمفلٹ میں ۱۸۶۹ء کے خیالی انگریزی وفد یا کمشن کے ممبروں کا کوئی ذکر نہیں تھا مگر کتاب ”بھٹو اور قادیانی مسئلہ کے فاضل“ 70
مصنف نے اپنی تازہ تصنیف میں اس راز سر بستہ سے پردہ اٹھانے کی کوشش فرمائی اور لکھا ۹۲ کہ یہ کمشن برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، بعض انگلستانی اخبار کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل تھا.حیرت ہے کہ مطبوعہ رپورٹ کے مطابق جب کہ یہ بھاری وفد ایک سال تک ہندوستان کا سروے کرتا رہا مگر کسی نے ہندوستان یا انگلستان کے اخبارات نے اس کی کوئی خبر شائع نہ کی.کتاب کے مصنف نے مزید لکھا:.66 یہ وفد وائسرائے کینگ (CANNING) کے مشیر کی یاد داشت کے بعد گیا تھا.جو ملکی حالات خطرات سے متعلق تھی.اس وفد نے ۱۸۷۵ء میں حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کی.‘ ۹۳ ۱۱.احراری پمفلٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انگریزی کمیشن نے ۱۸۷۰ء میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی مگر یہ صاحب اس کو غلط قرار دیتے ہوئے اصل سال ۱۸۷۵ء بتلاتے ہیں جس سے اس پر اسرار اور مفروضہ کہانی کا سارا جال ہی بکھر جاتا ہے.دوسرے انہوں نے اپنی شان مورخانہ کی عوام کالانعام پر دھاک بٹھانے کے لئے یہ تحقیق پیش کر کے علمی دنیا کو چونکا دیا ہے کہ یہ وفد وائسرائے کیٹنگ (CANNING) کے مشیر کی یادداشت کے بعد گیا تھا.“ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز دعوی ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے بہت کم ہے.وجہ یہ کہ مستند برطانوی تاریخ سے ثابت ہے کہ لارڈ کیننگ 71
//////////// ۱۸۵۶ء سے ۱۸۶۲ء تک پہلے گورنر جنرل اور پھر وائسرائے ہند رہے اور ۱۸۶۲ء میں ہی ہندوستان سے واپسی کے بعد انتقال کر گئے.۹۴ قیاس کن ز گلستان من بهار مرا ع فسانہ سازی کی ایک نادر مثال عصر حاضر کے فرقہ پرست اور کانگرسی علماء کو فسانہ طرازی کے فن میں ید طولی حاصل 66 ہے جس کی ایک نادر مثال اور لا جواب نمونہ ایک عالم دین کے قلم سے ملاحظہ ہو.فرماتے ہیں.اہل تشیع ایک سراب کا تعاقب کر رہے ہیں.وہ جس امام مہدی کی آمد کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ انگریز کی فکری بساط کا ایک مہرہ تھا.شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی اپنی کتاب ”جلاء العیون“ میں معتبر اسناد کے ساتھ شیخ طوسی کے حوالے سے جو دیو مالائی روایات لائے ہیں وہ روایات اسی حقیقت کی آئینہ دار ہیں.ان روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تیسری صدی ہجری کے دوسرے عشرے میں امام حسن عسکری انگریزوں سے روابط بڑھانے کے لئے انگریزی زبان سیکھتے رہے اور دوسری طرف انگریز ایک حسین و جمیل دوشیزہ کو عربی زبان سکھاتے رہے تا آنکہ امام حسن عسکری نے بشیر بن سلیمان بردہ فروش کی خدمات حاصل کیں اور انگریزی زبان میں ایک دوسرے بردہ فروش عمرو بن زید کو خط تحریر کیا جو بشیر بن سلیمان ، عمرو بن زید 72
کے پاس لے کر پہنچا.اس وقت وہ عیسائی دوشیزہ مغرب سے چل کر مشرق کے بردہ فروشوں کی منڈی میں آچکی تھی.بشیر بن سلیمان اس انگریز خاتون کو بردہ فروش عمرو بن زید سے دوسواشرفیوں کے عوض خرید کر امام حسن عسکری کے پاس لے آیا اور امام حسن عسکری نے اسے اپنی زوجیت میں لے لیا.یہ خاتون قیصر روم کے فرزند یشوعا کی دختر نیک اختر تھی.روایت میں کہا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کی مرضی سے خواب میں حضرت حسن عسکری سے اس خاتون کا نکاح کرادیا تھا اور یہ خاتون خواب میں ہی فاطمہ بنت محمد کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئی تھی.امام حسن عسکری کی حبالہ عقد میں آنے کے بعد اس خاتون نے ایک بچے کو جنم دیا.جب بچے کی عمر پانچ برس ہوئی تو وہ بچے کو لے کر غائب ہوگئی.شیعہ مومنین کو ان کے آئمہ مجتہدین نے باور کرایا کہ یہ بچہ امام مہدی تھا، جو اپنی ماں کے ساتھ غار میں چھپ گیا ہے.پھر ایک عرصے تک یہ عقیدہ رہا کہ یہ امام کی غیبت صغری ہے.اس اثناء میں وہ اپنے خفیہ نقیبوں (انگریزوں) کے ذریعے امت کی رہنمائی کرتے رہے.جب وقتی مقاصد ومصالح ختم ہو گئے تب یہ بات لوگوں کو ذہن نشین کرائی گئی کہ اب امام غیبت کبری میں داخل ہو چکے ہیں.اب آپ نقیبوں کے ذریعے رہنمائی کا کام انجام نہیں دیں گے بلکہ قیامت برپا ہونے سے پہلے بنفس نفیس خود حاضر ہو کر امت کی رہنمائی فرمائیں گے.یہ ہے اہل تشیع کے امام زمانہ کی کہانی اور ارباب کلیسا کی کارستانی...73
سچ فرمایا مخبر صادق خاتم المؤمنین خاتم العارفین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ:.يكون في اخر الزمان دجالون كذابون ياتونكم من الاحاديث مالم تسمعوا انتم ولا اباوكم فاياكم واياهم لا يضلو نكم ولا يفتنونكم ،، فرمایا:.آخری زمانے میں ایسے ایسے دجال اور کذاب پیدا ہوں گے جو تمہیں ایسے ایسے عجیب وغریب قصے اور افسانے ۱۷ سنائیں گے جو تمہارے باپ دادا نے بھی نہ سنے ہوں گے.پس ان سے بچ کر رہنا.ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو گمراہ کر دیں اور فتنہ میں ڈال دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے مطابق جماعت احمدیہ کے خلاف دجل و تلبیس کی فتنہ سامانیاں اور مخالفانہ کا روائیاں اس کے قیام سے لے کر اب تک زور وشور سے جاری ہیں.جھوٹی کہانی بنانے والوں کا ادعا جھوٹی کہانی وضع کرنے والوں نے اس کی چھ سال تک تشہیر کرنے کے بعد اگست ۱۹۷۳ء میں یہ دعا کیا کہ:.(انہوں نے ) ” قادیانی امت کے سیاسی جاہ و جلال کو کرہ ارض سے مٹانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور ایسا ہی ہوگا.یہ اس طرح مٹ جائیں گے جس طرح آوارہ عصمتیں مٹ جاتی ہیں.“ ۹۸ 74
///////// ////////////// خدائے ذوالعرش کا عملی جواب اس دعوئی پر اگست ۱۹۹۵ ء تک ۲۲ سال ہو چکے ہیں اس عرصہ میں تعلّی کرنے والوں کی خاک تک اڑ گئی ہے اور خدا نے ان کے دعاوی کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں.مگر احمدیت کا قافلہ جس کا آغاز ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو صرف چالیس نفوس سے ہوا تھا افق سماء پر ستاروں کی طرح دنیا بھر میں جگمگا رہا ہے اور اس کی ضیا پاشی سے کروڑ سے زیادہ قلوب و اذہان بقعہ نور بنے ہوئے ہیں اور ہر طلوع کرنے والا سال اس کی تابانیوں میں حیرت انگیز اضافے کا موجب بن رہا ہے.چنانچہ اس سال جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ برطانیہ کے موقع پر ۳۰ جولائی ۱۹۹۵ء کو جو خوش نصیب افراد جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے اور احمد یہ ٹیلی ویژن انٹر نیشنل کی وساطت سے حضرت امام جماعت احمدیہ کے دست مبارک پر بیعت سے مشرف ہوئے ان کی تعداد آٹھ لاکھ اکتالیس ہزار تین سو پچھیں ہے.ان نو مبائعین میں البانیہ کے پنتالیس ہزار افراد بھی شامل ہیں جب سے دنیا بنی ہے ایسا ایمان افروز واقعہ بھی تاریخ عالم میں رونما نہیں ہوا.برطانوی استعمار کا آفتاب تو ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا لیکن سلسلہ احمدیہ کا سورج پورے جلال اور تمکنت کے ساتھ پوری دنیا پر چمک رہا ہے اور خدا کی قسم وہ کبھی غروب نہیں ہوگا.انشاء اللہ.جماعت احمدیہ کے موجودہ امام سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع نے جلسہ سالانہ ۱۹۸۲ء پر فرمایا تھا.یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا تیری آواز اے دشمن بدلوا دو قدم دور دو تین پل جائے گی 75
////// اس خبر کے عین مطابق ایم ٹی اے کے ذریعہ کل جہان میں احمدیت کی آواز پوری قوت و شوکت کے ساتھ گونج رہی ہے اور یہ اس عالمگیر انقلاب کا نقطہ آغاز ہے جس کے نظارے حضرت بانی جماعت احمدیہ کو جناب الہی کی طرف سے بار بار دکھلائے گئے.چنانچہ آپ نے بیسویں صدی کے آغاز میں فرمایا :.فليسمع من يكن له اذنان وينفخ فى الصورلا شاعة النور وينادى الطبائع السليمة للاهتداء فيجتمع فرق الشرق و الغرب و الشمال والجنوب بامر من حضرة الكبرياء فهناك تستيقظ القلوب ( ترجمہ ) پس سن لے جس کو دوکان دیئے گئے ہیں اور نور کی اشاعت کے لئے صور پھونکا جائے گا.اور سلیم طبیعتیں ہدایت پانے کے لئے پکاریں گی.اس وقت مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب کے فرقے خدا کے حکم سے جمع ہو جائیں گے پس اس وقت دل جاگ اٹھیں گے.اس سلسلہ میں الاشتہار ”مستیقنا بوحى الله القهار“ میں لکھا دو نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے تو بہ کا دروازہ بند ہوگا.کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت کے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.76
//////// اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی کچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں.ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی ، انا درد دل سے ایک دعوت قوم کو اس تحقیقی مقالہ کا اختتام حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے درد بھرے اور مبارک کلمات پر کیا جاتا ہے.آپ نے ۲۹ دسمبر ۱۹۰۰ء کو جب کہ انیسویں صدی عیسوی ختم ہونے کو تھی.”درد دل سے ایک دعوت قوم کو“ کے زیر عنوان اشتہار شائع فرمایا جس میں تحریر فرمایا.دیکھوصد با دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو.وہ تمام مکر 77
/// وفریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگا ؤ.اتنی بد دعا ئیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ.پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بد قسمت انسان دور سے اعتراض کرتے ہیں.جن دلوں پر مہریں ہیں ان کا ہم کیا علاج کریں.اے خدا! تو اس امت پر رحم کر.آمین ، ۱۰۲ نیز فرمایا:.66 دنیا مجھ کونہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا.اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کا ذبوں کے اور مونہہ ہوتے 78 لله
ہیں اور صادقوں کے اور جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو یہ تمہارا کام نہیں کہ 66 مجھے تباہ کر دو ، ۱۰۳ و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين 7777 79 الا
///////////// حواشی - مرثیه گنگوہی صاحب تحریر کرده مولوی محمود الحسن صاحب ناشر مکتبہ قاسمیہ لا ہور.///////// ۲.فتاوی رشید یہ کامل مبوب صفحه ۴۶۰ از مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ناشر محمد سعید اینڈ سنز مقابل مولوی مسافرخانہ کراچی.نقش حیات صفحه ۶۲۵ مولفه مولوی حسین احمد صاحب مدنی ناشر دار الاشاعت کراچی.ماہنامہ ترجمان القرآن مئی ۱۹۵۸ء صفحه ۵۴ رسالہ رسائل و مسائل حصہ چہارم میں اس حوالہ سے متعلق پورا مضمون ہی شامل نہیں کیا گیا ) ۵.ملاحظہ ہو (i) اخبار آزاد لا ہور 11 ستمبر 1952 ء سرورق.(ii) سرورق رسالہ ” عبرتناک موت“ شائع کرده فرزند توحید کراچی - مکتبہ رد مرزائیت آدم مارکیٹ بند روڈ کراچی (iii) QADIANI MOVEMENT BY M.E PROFEESSOR BURNEY نا شرکی پبلیکیشنز.100 برک فیلڈ روڈ ڈر بن جنوبی افریقہ.اکتوبر 1955ء(iv) رسالہ چٹان لاہور 11 مارچ 1969 ، صفحہ 2(۷) رسالہ ختم نبوت کراچی 30-24 مارچ ۱۹۸۷ء جلد ۵ شماره ۴ سرورق.(vi) اشتہار انگریزی نبوت کا صد سالہ جشن منجانب ” انجمن تحفظ نظریہ پاکستان“.(vii) رسالہ ” قومی ڈائجسٹ لاہور جلد ۵ شماره ۴۱ سرورق جولائی ۱۹۸۴ء (viii) ٹو.ان.ون از سید عبدالحفیظ شاہ.سرورق ناشر بیت المکرم گجو ضلع ٹھٹھہ سندھ.مارچ ۱۹۸۹ء..یہ خطاب ابتداء میں شورش کا شمیری صاحب ایڈیٹر چٹان اور لال حسین صاحب اختر کو دیا گیا ( رساله لولاک لائل پور ۲۷ ستمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۲۱٬۶ / جون ۱۹۷۳ء صفحه ۸) 80
.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب دیوبندی مذہب کا علمی محاسبه از مولوی غلام مہر علی صاحبہ گولڑوی صفحه ۲۳۸۶۰-۲۵۲ ناشر کتب خانہ مہر یہ چشتیاں ضلع بہاولنگر.جولائی ۱۹۵۶ء.قبل ازیں ۱۳۸۶ھ بمطابق ۱۹۸۷ء کی روداد میں اس کا ذکر اشارہ کر دیا گیا تھا..اس تحریری موقف میں یہ مبینہ حوالہ جمعیۃ علماء اسلام سرگودھا کے پمفلٹ کی بجائے عجمی اسرائیل کے حوالہ سے درج ہوا ہے جس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ اس کی دریافت کا سہرا جناب شورش صاحب کے سر ہے.ا.اسباب بغاوت ہند صفحہ ۱۰۶.ناشرار دواکیڈمی سندھ مشن روڈ کراچی ۱۹۵۷ء.لا.داستان غدر صفحہ ۷۹.مصنفہ راقم الدولہ سید ظہیر الدین ظہیر دہلوی ناشر اکادمی پنجاب ادبی دنیا منزل لا ہور جون ۱۹۵۵ء.۱۲.ایضا صفحہ ۱۰۸.۱۰۹.۱۳.بہادر شاہ کا مقدمہ صفحہ ۱۶۱.مولفه خواجہ حسن نظامی دہلوی اشاعت جولائی ۱۹۲۰ء.یہ کتاب الفیصل اردو بازارلا ہور نے اپریل ۱۹۹۰ء میں دوبارہ شائع کی ہے.۱۴.ایضا مقدمہ بہادر شاہ ظفر ۹۶-۹۷- ۱۵.اسباب بغاوت ہند صفحہ ۱۰۷.۱۶.مولوی محمد ایوب صاحب قادری نے لکھا ہے کہ ۲۲ مئی ۱۸۵۷ء کو نماز جمعہ کے بعد مولا نا محمد احسن صاحب ( نانوتوی) نے بریلی کی مسجد نو محلہ میں مسلمانوں کے سامنے ایک تقریر کی اور اس میں بتایا کہ حکومت سے بغاوت کرنا خلاف قانون ہے.( مولا نا محمد احسن نانوتوی صفحه ۴۹ ناشر مکتبه عثانیہ پیر الہی بخش کالونی کراچی نمبر ۵ مطبوعہ ۱۹۶۶ء) کا.حاجی امداداللہ کی مراد ہیں.81
//////// ۱۸.تذکرۃ الرشید ص ۷۳ ۷۹ ( مولفہ الحاج محمد عاشق الہی صاحب ناشر مکتبہ عاشقیہ میرٹھ طبع دوم ) ان تاریخی حقائق کے برعکس "مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤں کی غدر ۱۸۵۷ء کے تعلق میں ان بزرگوں کی قلمی تصویر ملاحظہ ہو.لکھا ہے ” ۱۸۵۷ء کا معرکہ کارزار گرم ہوا.فکر ولی اللہ کے عملی وارث علماء دیوبند کے موسس اعلیٰ قطب الاقطاب حضرت حاجی امداد اللہ صاحب، حضرت مولانا قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا گنگوہی کی قیادت میں مسلمانان ہند نے انگریز کے توپ و تفنگ کا مقابلہ کیا اور اکثر بزرگوں نے جام شہادت نوش کیا رو داد مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان ۱۳۹۹ھ.۱۹۷۹ء.صفحہج.طالع و ناشر شعبہ نشر و اشاعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان ).۱۹.مولا نا محمد احسن نانوتوی صفحه ۲۱۷ مولفه محمد ایوب صاحب قادری ایم اے ناشر مکتبہ عثمانیہ کہ ١٩٦٦ء.۲۰ - صفحہ ۷۶.ناشر المكتبه العصریۃ جامع اہل حدیث سانگلہ ہل.۲۱- ترجمان وہابیہ صفحه ۵۴ - ۵۵ تصنیف نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع محمدی لا ہو ر ۱۳۱۲ ھ.۲۲ نقش حیات جلد دوم صفحه ۶۳۱ از مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی ناشر دار الاشاعت مقابل مولوی مسافرخانہ کراچی.۲۳.تاریخ سلطنت خدا داد (میسور ) صفحه ۳۸۲ - تالیف محمود خان محمود بنگلوری پبلیشر ز یونائیٹڈ لاہور بار چہارم ۱۹۴۷ء.۲۴.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۶۶ مدیر اعلیٰ مولانا حامد علی خان ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۸۸ء.۲۶-۲۵.تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو.The Punjab Chiefs Vol.1-2 By: Sir Lepel II griffin, k.c.s.i, 82
///////////////////////// ////////// colonel charles francis massy, Printed At The Civil and Military Gazette-Press 1909.یادگار در بار تاجپوشی ۱۹۱۱ ء حصہ اول و دوم مولفه منشی دین محمد صاحب ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور.مطبوعہ یادگار پریس لاہور.۲۷ - جلد ۲ صفحہ ۴۰.۲۸.جاگیر حضرت مرزا گل محمد صاحب کو نہیں خاندان کے مورث اعلی حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کو با بر بادشاہ کے عہد میں دی گئی تھی.( ناقل ) ۲۹.حیات احمد جلد اصفحہ ۴۵.مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مطبوعہ نومبر ۱۹۲۸ء.۳۰.بہاولپور کی سیاسی تاریخ صفحہ ۲۷ از مسعود حسن شہاب - ناشر مکتبہ الہام بہاولپور.طبع اول ۱۹۷۷ء.۳۱.یادگار در بار تاجپوشی جلد اول صفحه ۲۴۹.۳۲.یادگار تاجپوشی حصہ دوم صفحہ ۶۶۵ - ۳۳.جلد اول صفحہ ۱.مرتبہ ایڈیٹر سالار بمبئی مطبوعہ اعظم اسٹیم پر لیس حیدر آباد دکن دسمبر ۱۹۳۶ء.۳۴ Edited By: Clarence L.Barnhart, Vol.2, P2085.New York 1954.ایضًا انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۱۳ صفحہ ۹۴۵ - ۹۴۶ گیارہواں ایڈیشن.مطبوعہ یونیورسٹی پریس کیمبرج ۱۹۱۰ ء.۳۵ - کتاب انڈین مسلمان ( The Indian Musalmans ) طبع دوم صفحه ۲۱۷ تا ۲۱۹ - 83
//// ///// ۳۶.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۷۹.انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۲۳ صفحه ۳۹۵ مطبوعہ انگلستان ۱۹۵۱ء.۳۷.مولانا محمد احسن نانوتوی صفحه ۲۳۲.مولفه محمد ایوب صاحب قادری ایم.اے ناشر مکتبہ عثمانیہ کراچی نمبر ۵ طبع اول ۱۹۶۶ء.۳۸.تحذیر الناس صفحه ۳۳ مطبوعہ خیر خواہ سرکار پر لیں سہارنپور.۳۹.ایضاً صفحہ ۲۸..تاریخ ہند عہد برطانیہ صفحہ ۶۵۵.مولفہ ہے.سی.مارشیمن اسکوائری.ایس.آئی.مترجم منشی فاضل حکیم سید محمد عبد السلام صاحب ایم.اے ( علیگ ) دار الطبع جامعہ عثمانیہ سرکار عالی حیدرآباد دکن ۱۹۲۳ء.دبد به امیری صفحہ ۲۱۸ متر جم سید محمدحسن بلگرامی.مطبوعہ مطبع سخسی آگرہ طبع دوم ۱۹۰۹ء.۲۲.ہندی مملکت برطانیہ کا عروج اور وسعت صفحہ ۳۶۹.مترجم مولوی سید محمد عبد السلام صاحب ایم.اے ایچ.پی دار الطبع جامعہ عثمانیہ سر کار عالی حیدر آباد دکن ۱۹۲۲ء.۴۳.(ترجمہ)The Mission By: Clark London صفحه ۲۳۴.مطبوعہ ۱۹۰۴ء.بحوالہ انگریز اور بانی سلسلہ احمدیہ مولفہ مولانا عبدالرحیم صاحب درد.۴۴.فرنگیوں کا جال صفحه ۴۳۱ - ۴۳۲ طبع دوم از مولا نا امداد صابری صاحب کتاب کا یہ نسخہ انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے.جسے مولف نے خود مطالعہ کیا ہے.۲۵.علماء حق اور ان کے مجاہدانہ کا رنا ہے.صفحہ ۲۶ مولفہ سید محمد میاں صاحب ناظم جمیعت علماء ہند.ناشر مقصود احمد جالندھری.مکتبہ شیخ الاسلام لغاری روڈ رحیم یار خان ستمبر ١٩٤٦ء.84
The official Report of The Missionary Conference Of The Anglican Commision 1894, _ P.64.۴۷.دیباچه صفحه ۳۰ بر ترجمه مولوی اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ دہلی.بحواله بدر ۱۸ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۲-۳ ایضاً اخبار ملت لاہورے جنوری ۱۹۱۱ء صفحه ۱۳ تا ۱۵ بحواله اخبار الحکم جلد ۱۵ نمبرا.۴۹.قادیانیت کے خلاف قلمی جہاد کی سرگزشت صفحه ۴۲٬۳۰٬۱۲٬۱۰ از اللہ وسایا نا شر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان جولائی ۱۹۹۰ء.۵۰.اشاعت سوم اکتوبر ۱۹۷۴ء.۵۱.یادر ہے یہ جماعت احمدیہ کے قیام سے دو سال قبل کا واقعہ ہے.۵۲.قبل ازیں کینیڈا کے گورنر جنرل تھے ۱۸۸۴ء سے ۱۸۸۸ء تک وائسرائے ہند رہے بعد ازاں اٹلی اور بعض دوسرے ممالک کے سفیر کے فرائض انجام دیئے.۵۳.ولادت ۱۸۳۲ء وفات ۱۸۹۶ ء لاہور کا ایچی سن کالج انہی کا یادگار ہے.۱۸۸۲ء سے ۱۸۸۷ء تک لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کے عہدہ پر رہے.آپ کی کوشش سے سرکاری کاغذات میں وھابیوں کو اہل حدیث لکھا جانے لگا اور دل آزار لفظ ”وھابی کے استعمال سے ممانعت کی گئی (رسالہ اشاعۃ السنہ “ لاہور جلد ۷ صفحہ ۲۰۸ تا ۲۰۹) ۵۴.رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۹ نمبرے صفحہ ۲۰۴ تا ۲۰۹ ایڈیٹر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی.۵۵- کلیات اکبر حصہ اول صفحہ ۷۴ ۷۵ مرتبہ محمد یونس حسرت ایم اے از مطبوعات شیخ غلام علی اینڈ سنز.85
////// ۵۶- رساله الاقتصاد فی مسائل الجہاد حصّہ اوّل مؤلفہ محمد حسین بٹالوی صفحه ۴۹ مطبع وکٹوریہ پریس ۵۷.ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک صفحه ۲۹ - تالیف مسعود عالم صاحب ندوی ناشر مکتبہ نشاة ثانیہ حیدر آباد دکن.۵۸.واقعات دار الحکومت دہلی.حصہ اول صفحہ ۷۸۱.مصنفہ بشیر الدین احمد دہلوی مطبع تشسی مشین پرلیس آگرہ ۱۹۱۹ء.۵۹ ناشر آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور.۲۰.ایضاً سرود رفته مرتبه مولانا غلام رسول صاحب مہر و صادق علی صاحب دلاوری صفحه ۱۸۱ تا ۱۹۱ نا شر شیخ غلام علی اینڈ سنز.ا.لکھا ہے ” مرزا صاحب نے زبانی و الہامی سند کے مفروضے پر جہاد کو منسوخ کر ڈالا ( قادیانیت کا سیاسی تجزیه صفحه ۱۳ از طارق محمود صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ لولاک ناشر شعبہ نشر واشاعت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت شاہ کوٹ.۶۲- کشتی نوح صفحہ ۲۳ طبع اول..ملفوظات جلد ۸ صفحه ۲۴۵ ناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ جون ۱۹۶۵ء.۶۴.آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۷ ۲۵ حاشیہ مطبوعہ فروری ۱۸۹۳ء.۶۵.بخاری صفحہ ۴۹.باب نزول عیسلی صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ مطبع ہاشمی میرٹھ ۱۳۲۸ھ.-۶- حقیقت المهدی صفحہ ۲۸.۲۸ - ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۳۰.۳۱ طبع اول ۶۹.مکتوب حضرت مسیح موعود بنام میر ناصر نواب صاحب مندرجہ رساله در و دشریف صفحه ۲۶.ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۱۹۰۲ء.968
///////// //////////// اے.مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۱۹.۲.اشاعۃ السنہ جلد ۶ انمبر ۶ حاشیه صفحه ۱۶۸ ۱۸۹۳ء.ے تازیانہ عبرت مولفہ مولوی محمد کرم الدین صاحب دبیر صفحه ۹۳-۹۴ مطبوعہ مسلم پرنٹنگ ” پریس لاہور طبع دوم.۴ ہے.یادر ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے ۲۴ فروری ۱۸۹۸ء کو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کے نام جو میموریل شائع کیا اس میں اپنے والد ماجد اور بڑے بھائی کے لئے جنہوں نے ہنگامہ غدر میں مدددی خود کاشتہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے نہ کہ اپنے دعوی کے متعلق.پس جو لوگ اپنی مطلب براری کے لئے اس کو نئے معنی پہناتے ہیں انہیں عوام کو فریب دیتے ہوئے شرم آنی چاہئے.Black Hole- کے.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ ۲۵۹٬۲۵۸ مدیر اعلیٰ مولانا حامد علی خان ناشر غلام علی اینڈ سنز ۱۹۸۷ ء فیروز سنزار دو انسائیکلو پیڈیا صفحه ۲۲۹ ناشر فیروز سنز لاہور طبع سوم طباعت دوم جولائی ۱۹۷۹ء.ے.قادیانیت کا سیاسی تجزیہ صفحہ ۱ از صاحبزادہ طارق محمود.ایڈیٹر ہفت روزہ لولاک فیصل آباد.ناشر شعبہ نشر واشاعت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت.۷۸.خاتم النبین جلد اول صفحہ ۴۸ - مولفہ مصباح الدین صاحب ای بلاک نمبر ۰۴ اسیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی.تاریخ تالیف اکتوبر ۱۹۷۳ء نظر ثانی اپریل ۱۹۷۴ء.۷۹.ایضاً ” خاتم النہین حصہ اول صفحہ ۴۸ - ۴۹.۱۰.ناشر نشر واشاعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان ملتان شہر.87
۵۱.قادیانیت کا سیاسی تجزیہ صفحہ ۱۲.۱۲ مدلل تقریر ص ۵۶ - ۵۷ مولفہ الحاج میاں محمد شوکت علی چشتی نظامی ناشر شعبہ نشر و اشاعت مرکزی جماعت رضائے غریب نواز فیصل آباد.۱۳.نجد سے قادیان براستہ دیو بند صفحه ۶۲ از مولوی محمد ضیاء اللہ صاحب قادری.ناشر قادری کتب خانہ سیالکوٹ.۵۴ ” بھٹو اور قادیانی مسئله صفحه ۴۳-۴۲ از سید محمد سلطان شاه صاحب اشاعت اول اگست ۱۹۹۳ء ناشر میر شکیل الرحمن.جنگ پبلشرز لا ہور.۸۵.” بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل ، صفحہ ۱۷۱ مولفہ شورش کاشمیری.مطبوعات چٹان لاہور طبع اول جولائی ۱۹۷۲ء.بھٹو اور قادیانی مسئلہ صفحہ ۴۲ ۴۳ ۸۷.علامہ نے ۲۵ ستمبر ۱۹۲۹ء کو وفات پائی.علامہ اقبال نے مادہ تاریخ نکالا.”ما ارسلنک الا رحمة للعالمین “.۳۴۷ ھ ( ذکر اقبال صفحه ۲۸۹ از مولانا عبدالمجید سالک.ناشر بزم اقبال لاہور طبع دوم مئی ۱۹۸۳ء.حیات النبی جلد اول صفحه ۲۰ از شیخ یعقوب علی تراب ایڈیٹر الحکم مطبوعہ ہند وستان سٹیم پریس لا ہور ستمبر ۱۹۱۵ء.۸۹.اشاعت خاص ۲۷ مئی ۱۹۹۵ء صفحہ ۲.۹.قادیانیت کا سیاسی تجزیہ صفحہ ۱۳.۹۱ از مطبوعات چٹان میکلوڈ روڈ لاہور.۹۲.بالفاظ جناب شورش صاحب کشمیری.88
۹۳.بھٹو اور قادیانی مسئله صفحه ۴۱ - ۱۴۲ از سید محمد سلطان شاہ صاحب ناشر جنگ پبلیشر ز - The New Caxton Encyclopedia Vol.4, P.1036-1037, The Caxton Publishing Company Ltd.London, 1977.۹۵- " نظر یہ انتظار مهدی صفحه ۱۳ ۱۴ ناشر ندیم بک ہاؤس انار کلی لاہور کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر اسرار احمد امیر تنظیم اسلامی پاکستان کے قلم سے ہے اور نظر ثانی کرنے والے ”مولانا‘ جناب عبد الرشید صاحب ترابی ہیں.۹۶ - مقدمه صحیح مسلم باب في الضعفاء والكذابين و من يرغب عن حديث صفر ۳۰ ناشر خالد احسان پبلشرز لا ہورا پریل ۱۹۸۱ء.۹۷.کلام نبوی کے علاوہ حدیث کے یہ لغوی معنے بھی مسلم ہیں ( معجم الاعظم جز ثانی ۵۶۲ از مولانا حسن الاعظم از هری).چٹان ۲۷ اگست ۱۹۷۳ء صفحہ ۴.99 الفضل ۳۱ جولائی و یکم اگست ۱۹۹۵ء صفحہ ا.ا خطبہ الہامیہ بحوالہ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸۵ - ۶ ۲۸ ( تالیف ۱۹۰۰ دا ۱۹۰ء) ۲۸۵.۲۸۶ اما مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحه ۳۰۴ - ۳۰۵ اشتہار ۱۴ جنوری ۱۸۹۷ء.۱۰۲.ضمیمه اربعین نمبر ۳ ۴ طبع اول صفحه ۷ (۲۹ دسمبر ۱۹۰۰ء) ۱۰۳.اربعین نمبر ۳ صفحه ۱۴.۱۵ طبع اول.89