Mazhab Kay Naam Per Khoon

Mazhab Kay Naam Per Khoon

مذہب کے نام پر خون

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
جہاد

Book Content

Page 1

و قُتِلَ اَصْحَبُ الْأَخُدُودِ - النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ - اِذْهُمُ عَلَيْهَا قُعود..وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودُ (البروج) مذہب کے نام پر خون مرزا طاہر احمد

Page 2

انتساب اُن معصوم روحوں کی یاد میں جو اس دنیا کی زندگی میں انسان کے ظلم و استبداد کا نشانہ بنی رہیں

Page 3

۲۱ ۲۲ ۳۴ ۵۹ ง 22 ۹۹..۱۱۳ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۳۹ ۱۴۸ فهرست مذہب کے نام پرخون پیش لفظ پیش لفظ (جدید ایڈیشن) مذہب کے نام پرخون اشاعت اسلام کے دو نظریئے اشاعت اسلام کے بارہ میں مولانا مودودی اور بعض غیروں کے نظریات اشاعت اسلام پر جبر کا الزام تاریخی شواہد کی روشنی میں ! ناصحین گذشتہ اور اس دور کے خدائی فوجدار اقتدار کی تڑپ قتل مرتد مودودی نظر میں تشدد کے کچھ اور شاخسانے مودودی دور حکومت کی ایک امکانی جھلک احرار علماء میدان عمل میں ایک واقعاتی جھلک فسادات کا مقصد اور طریق کار خدمت اسلام کی بعض جھلکیاں اجتماع ضدین

Page 4

۱۶۳ ۱۸۰ ۱۸۴ ۲۱۵ ۲۵۳ ۲۷۴ بعض حقیقی خطرات ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے!!! دین سے الٹے پاؤں پھر جانے سے متعلق اسلامی تعلیم ارتداد کی سزا کا مسئلہ کائنات کے لئے رحمت اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح

Page 5

پیش لفظ عقائد کا اختلاف تو دنیا میں ہمیشہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا اور انسان اس بارہ میں کلیت آزاد ہے اور اپنے دلی یقین کے مطابق جو عقیدہ چاہے اپنائے اور اپنی نجات جن نظریات میں چاہے تصور کرے مگر یہ حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا کہ اپنے عقائد کو جبر کسی پر ٹھونسنے کی کوشش کرے یا ایسے عقائد کے مطابق عمل پیرا ہو جو ظلم اور تعدی کی تعلیم دیتے ہوں.یہ طریق جب بھی اختیار کیا جائے گا ہمیشہ ایک لامتناہی فساد کا سلسلہ شروع ہو جائے گا.اختلافات معقول حد تک دور کرنے یا سچائیوں کو پھیلانے کا ایک اور صرف ایک طریق ہے کہ امن اور سلامتی کے ماحول میں ہر تعصب سے پاک ہوکر ایک دوسرے تک اپنے خیالات کو پہنچایا جائے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو دیانتداری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے.جس قدر اختلافات شدید ہوں گے اسی قدر اس معاملہ میں حلم ، بردباری اور متانت کی زیادہ ضرورت ہوگی.اور اس بات کی ضرورت ہوگی کہ اشد ترین مخالف کے معاملہ میں بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور نظریاتی اختلافات پر سیخ پا ہو کر نعرہ ہائے جنگ بلند کرنے کی عادت ترک کر دی جائے.لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے دوسرے مشرقی ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی ایسی پاکیزہ اور پرامن فضاء کا فقدان ہے اور ایک ایسے کم تربیت یافتہ گھوڑے کی طرح جو ذراسی تیز قدمی کے اشارہ پر اپنی چال کے سب قواعد

Page 6

بھول کرسر پٹ ہو جانے کا عادی ہو ہم بھی اپنی اختلافی گفتگو میں ضبط اور بردباری کے سب دائرے تو ڑ کر نکل جاتے ہیں.ان چند صفحات میں ان نظریات اور طریقہ ہائے عمل کا ایک تجزیاتی مطالعہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے جو بار ہا ملکی فضا کو مکۃ رکرنے کا موجب بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں.مرزا طاہر احمد

Page 7

پیش لفظ (جدید ایڈیشن) ۱۹۵۳ء میں پاکستان کی سرزمین میں فرقہ واریت کے جو کڑوے بیج بوئے گئے تھے بعد کے سیاسی طالع آزماؤں نے ان کی آبیاری کی اور آج یہ حال ہے کہ سارے ملک میں فرقہ واریت کی خاردار جھاڑیاں پھیل گئی ہیں جن سے لاکھوں افراد لہولہان ہوئے اور ملک سے امن اور یکجہتی رخصت ہو گئے ہیں اور آج عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گرد اور جہاد کو جارحیت کے مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن کیا واقعی اسلام دہشت پسندی اور قتل و غارت گری کی تعلیم دیتا ہے؟ ہرگز نہیں.اسلام کے تو معنی ہی امن وسلامتی کے ہیں.قرآن کریم کی تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تو فرد، معاشرہ ، قوم اور بین الاقومی سطح پر صلح و آشتی اور امن وسلامتی کی ضمانت دیتے ہیں لیکن پھر یہ فاسد افکار کیسے مسلمانوں کے اذہان میں داخل ہوئے اور کون اس کا ذمہ دار ہے اسلام کے نادان دوست یا متعصب مستشرقین؟ ان سوالات کا جواب آپ کو اس کتاب میں ملے گا.یہ کتاب سب سے پہلے دسمبر ۱۹۶۲ء میں اردوزبان میں شائع ہوئی تھی.۱۹۸۹ء میں اس کا انگریزی ترجمہ MURDER IN THE NAME OF ALLAH کے نام سے شائع ہوا تو اہل مغرب کی اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے اس میں متعدد ابواب کا اضافہ کیا گیا.زیر نظر ایڈیشن میں ان ابواب کا اردو ترجمہ شامل کر دیا گیا ہے.یہ کتاب اردو اور انگریزی کے علاوہ عربی، روسی اور دنیا کی مشہور زبانوں میں اب تک شائع ہوئی ہے اور متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہورہا ہے.اس کا مطالعہ آپ کو اصل حقائق تک پہنچنے میں مدد دے گا.انشاء اللہ العزیز ناشر

Page 8

مذہب کے نام پرخون بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تحمدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ انسان کی تاریخ خاک و خون میں لتھڑی پڑی ہے.اس دن سے لے کر آج تک جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا اس قدر خون ناحق بہایا گیا ہے کہ اگر اس خون کو جمع کیا جائے تو آج روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے کپڑے اس خون میں رنگے جاسکتے ہیں بلکہ شائد اس پر بھی وہ خون بیچ رہے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لباس بھی لالہ رنگ کرنے کے لئے کافی ہو مگر مقام حیرت ہے کہ اس پر بھی آج تک انسان کی خون کی پیاس نہیں بجھی ! قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل وہ پہلا خون ناحق ہے جس کا ذکر قرآن اور بائیبل نے آج تک ہمیں عبرت دلانے کے لئے محفوظ کر رکھا ہے اور یہ ذکر اس دن تک محفوظ رہے گا جس دن آخری انسان صفحہ ہستی سے نابود کیا جائے گا اور زمین کی صف لپیٹ دی جائے گی.لیکن انسان جب تاریخی پس منظر میں انسانی کردار کا مطالعہ کرتا ہے اور پھر آج کی دنیا میں اپنے حال ، اپنے گرد و پیش پر ایک نظر دوڑاتا ہے تو یہ انکشاف ایک طعنہ بن کر اس کے دل میں پھانس کی طرح چھنے لگتا ہے کہ انسان پہلے بھی ظالم تھا اور آج بھی ظالم ہے.پہلے بھی جابر تھا اور آج بھی جابر ہے.اس کی سفا کی کی داستان طویل ہے اور اس داستان کے ابواب لامتناہی ہیں اور وہ خون کی پیاس جو قابیل کے دل میں بھڑ کی تھی آج بھی ان گنت سینوں میں بھڑک سکتی ہے.یہ وہ آگ ہے کہ جو ہزاروں سال کی سیرابی کے بعد بھی ٹھنڈی نہ ہوسکی! انفرادی قتلوں کی مثالیں بھی لا تعداد ہیں ، بے شمار ہیں اس خون اجتماعی کی مثالیں بھی جو قوموں نے قوموں کے بہائے سمندر کی نہ تھکنے والی لہروں کی طرح ایک خطہ ارض کے بسنے والوں نے دوسرے خطہ ارض کے بسنے والوں پر چڑھائیاں کیں اور ہجوم در ہجوم اور غول در غول غارت گروں کے لشکر نے ممالک کی تسخیر کے لئے نکلے.قیصر نے بھی خون بہایا اور کسری نے بھی.اسکندراعظم کے

Page 9

مذہب کے نام پرخون ہاتھ بھی خون سے رنگین ہوئے اور نیرو کے بھی.اور ہلاکو اور چنگیز کے ہاتھوں بغداد کی تباہی آج تک تاریخ کے اوراق کو شفق رنگ بنائے ہوئے ہے.یہ خون کبھی عزت و ناموس کے نام پر کئے گئے کبھی بغض و عناد کی بناء پر کبھی رزق کی تلاش میں نکلی ہوئی فاقہ کش قوموں نے یہ مظالم ڈھائے اور کبھی محض تسخیر عالم جابر شہنشاہوں کا مطمح نظر تھی.پھر ایسا بھی بہت مرتبہ ہوا کہ یہ خون ریزیاں خود خدا کے ہی نام پر کی گئیں اور مذہب کو آڑ بنا کر سفا کا نہ بنی نوع انسان کا خون بہایا گیا.یہ سب کچھ ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے اور اپنے کردار کا یہ رخ دیکھ کر انسان کا دل بسا اوقات یاس و ناامیدی سے بھر جاتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا اسی لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا ؟ ایک مذہب تھا کہ جس سے یہ توقع تھی کہ انسان کو انسانیت کے آداب سکھائے گامگر خود اس کا دامن بھی خون آلود نظر آتا ہے.یہ سوال طبعاً دل میں پیدا ہوتا ہے اور معاً خلق آدم کے اس واقعہ کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے جس کا ذکر قرآن اور بائیبل دونوں میں موجود ہے.قرآن کریم اس واقعہ کو یوں بیان فرماتا ہے کہ:.وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرة : ۳۱) اس وقت کو یاد کر ، جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں.فرشتوں نے کہا کہ کیا تو وہاں ایک ایسا شخص بنائے گا جو اس میں فساد کرے اور خون بہائے حالانکہ ہم تو تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور قدوسیت کے گن گاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا میں زیادہ جانتا ہوں ان امور کو جن کی تمہیں کچھ 66 خبر نہیں.“ خدا تعالیٰ اور فرشتوں کا یہ مکالمہ پڑھ کر کچھ دیر کے لئے تو انسان ایک عجیب شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ مذہب کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے تو بظاہر فرشتوں ہی کی بات درست معلوم

Page 10

مذہب کے نام پرخون ہوتی ہے اور انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ اگر فرشتوں کا قول درست تھا تو خدا تعالیٰ نے پھر کیوں ان کے مشورہ کو ٹھکرا دیا اور اس اعتراض کو دفرما دیا جو اس کی نیابت یعنی سلسلہ نبوت پر وارد ہوتا تھا اور سب سے بڑھ کر اس کے حقیقی نائب یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اس کی زد میں آتے تھے.ایک طرف اگر ہم مذہب کی تاریخ کا مطالعہ کریں خواہ دنیا کے کسی حصہ سے تعلق رکھتی ہو، شمال کی ہو یا جنوب کی ہمشرق کی ہو یا مغرب کی ہمیں مذہب کے نام پر کئے ہوئے ایسے ایسے ہولناک مظالم کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے پڑھنے سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور نظر مذہبی قدروں سے مایوس ہوکر تھکی ہاری لوٹ آتی ہے.اس وقت دل میں کچھ اس قسم کے خیالات منڈلانے لگتے ہیں کہ ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے مذہب جس سے توقع تھی کہ وہ انسانیت کو فساد اور خون ریزی سے نجات دلائے گا وہ تو خود ہی انسانیت کے خون میں ملوث نظر آتا ہے.دوسری طرف جب خدا تعالیٰ کے اس قطعی فیصلہ کی طرف انسان کی نظر اٹھتی ہے کہ مذہب ہرگز فساد اور خون ریزی کی غرض سے قائم نہیں کیا جارہا بلکہ یہ خیال کم علمی کی پیدا وار ہے اور سراسر بے بنیاد ہے تو اگر چہ تعجب کم نہیں ہوتا مگر یاس کی تاریکی میں امید کی ایک کرن پھر روشن ہو جاتی ہے.انسان خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ خدا تعالیٰ کے اس فیصلہ کو دیکھتا ہے کہ وہی نائب حقیقی جس سے متعلق فرشتوں نے اس شبہ کا اظہار کیا تھا کہ وہ زمین میں فساد کرے گا خدا تعالیٰ کے حضور مصلح عظم کا مقام پاتا ہے اور اس کے مذہب کا نام ہی ”اسلام“ رکھا جاتا ہے یعنی سلامتی اور امن کا مذہب.سوال مگر پھر بھی قائم رہتا ہے یہ مانا کہ عالم الغیب خدا کا فیصلہ درست ہے اور باقی سب اندازے غلط مگر پھر وہ مقام کونسا ہے جہاں پہنچ کر تاریخ مذاہب پر دوڑنے والی ایک سرسری نظر ٹھوکر کھا جاتی ہے اور وہ مغالطہ کیا ہے جس میں پڑ کر بعض مذہب کے مخالفین یہ کہ دیا کرتے ہیں کہ مذہب امن کے نام پر فساد اور سلامتی کے نام پر خون ناحق کی تعلیم دیتا ہے.قرآن کریم نہایت ہی لطیف پیرائے میں اس مغالطہ کی نشاندہی کرتا ہے اور بڑی وضاحت

Page 11

مذہب کے نام پرخون کے ساتھ بار بار مذاہب کی تاریخ کے مختلف حوالہ جات سے یہ ثابت فرماتا ہے کہ مذہب کے نام پر ظلم کرنے والے ہمیشہ یا تو لا مذہب ہوا کرتے ہیں یا پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر حقیقی مذہب کا شائبہ بھی باقی نہیں ہوتا اور جن کے مذہب امتداد زمانہ سے بگڑ کر کچھ کا کچھ بن چکے ہوتے ہیں یا پھر ایسے مذہبی علماء اس ظلم کے ذمہ دار ہوتے ہیں جن کا مذہب سے تعلق محض نام کا ہوتا ہے اور ان کے دل روحانیت ، رحمت ، شفقت اور خدمت خلق کے پاکیزہ مذہبی جذبات سے عاری ہوکر چالا کی ، ریا کاری اور سفا کی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں.پس ایسے مذہبی راہنماؤں کی بداعمالیاں مذہب کی طرف منسوب کرنا مذہب پر ایک بڑا بھاری ظلم ہے اور حق بات یہی ہے کہ وہ خدا جو تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے کسی مذہب کے ماننے والوں کو اپنے بندوں پر ظلم کی تعلیم نہیں دے سکتا.قرآن کریم نے تاریخ عالم سے بعض مثالوں کو پیش فرما کر تصویر کا رخ ہی یکسر بدل دیا ہے اور پانسے کو ایسا پلٹا ہے کہ الزام دینے والے خود موردالزام بن گئے.چنانچہ قرآن کریم اپنے دعوی کی تائید میں انبیاء کے ابتدائی زمانہ کو ایک معیار اور کسوٹی کے طور پر پیش فرماتا ہے اور بار بارمختلف انبیاء کی جماعتوں کا ذکر کر کے ان کے تاریخی حالات سے یہ استدلال فرماتا ہے کہ مذہب کی طرف سے اگر کوئی ظلم روا رکھا جاتا تو ظاہر بات ہے کہ سب سے زیادہ ظلم کرنے والے خود مذہب کے بانی ہوا کرتے یا ان کے وہ متبعین ہوتے جنہوں نے اس مذہب کو خود اس مذہب کے بانی سے سیکھا اور اسی سے تعلیم پائی اور اسی کے اسوہ کے مطابق اپنے اعمال اور اخلاق کو ڈھالا نہ کہ وہ لوگ جو ان لوگوں کے بہت بعد پیدا ہوئے اور یا تو انہوں نے مذہب کو بگڑی ہوئی حالت میں دیکھا اور اسی کی تقلید کرتے رہے یا اپنی اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے اپنے ہی خیالات کی پیروی کرتے رہے اور اپنی مذہبی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا لیکن بظاہر یہ سب کچھ مذہب ہی کے نام پر کیا گیا.مذہب کی جو تاریخ قرآن کریم بیان فرماتا ہے اس میں بار بار ہمیں ایسے نظارے نظر آتے ہیں کہ ظلم تو کیا جارہا ہے مذہب کے نام پر مگر کیا جارہا ہے لا مذہب لوگوں کی طرف سے.تشد د تو کیا جا رہا ہے خدا کے نام پر مگر کیا جا رہا ہے ایسے لوگوں کی طرف سے جو خدا کے حقیقی تصور سے ہی نا آشنا تھے.چنانچہ قرآن کریم حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام سے متعلق فرماتا ہے کہ جب نوح نے

Page 12

مذہب کے نام پرخون دنیا کو ہدایت اور نیکی کی طرف بلایا تو نوع ظالم نہیں تھے بلکہ وہ لوگ ظالم تھے جو بزور باز ونوع کی آواز کو دبا دینا چاہتے تھے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت نوح کے پیغام کوسن کر کہا :.لَبِنْ لَمْ تَنْتَهِ لِنُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ (الشعراء: ۱۱۷) کہ اے نوح! اگر تم اپنے اس مذہب سے باز نہ آئے اور اپنا موجودہ رویہ تبدیل نہ کیا تو ضرور سنگسار کر دیئے جاؤ گے.گویا قرآن کریم کی رو سے مذہب کے نام پر ظلم سچے مذہب کے ماننے والوں پر ہوا ہے بچے مذہب کے ماننے والوں نے نہیں کیا.پھر حضرت نوح کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال آتی ہے کہ حضرت ابراہیم نے امن اور محبت اور ہمدردی اور حلم کے ساتھ دنیا کو خدا کے سچے رستے کی طرف بلایا.ان کے ہاتھ میں کوئی تلوار نہیں تھی ، کوئی تشدد کا حربہ نہیں تھا، کوئی ظلم کا ذریعہ نہیں تھا لیکن ابراہیم کی قوم کے سرداروں نے بھی وہی کچھ کہا جو اس سے پہلے نوح“ کے زمانہ کے لا مذہب لوگوں نے کہا تھا.لَبِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ (مریم: ۴۷ ) کہ اگر اپنے اس عقیدہ اور تبلیغ سے باز آجاؤ تو ٹھیک ہے ورنہ میں تمہیں ضرور سنگسار کر دوں گا.یہ الفاظ آذر نے حضرت ابراہیم سے کہے تھے.اب دیکھئے کہ بعینہ وہی الفاظ جو حضرت نوح کے زمانے کے لامذہب لوگوں نے حضرت نوح سے متعلق استعمال کئے تھے.حضرت ابراہیم کے زمانے کے لا مذہب لوگوں نے بھی حضرت ابراہیم سے متعلق انہیں الفاظ میں دھمکیاں دیں، اسی طرح تحقیر کا نشانہ بنایا گیا، ویسا ہی ان سے تمسخر کیا گیا اور پہلوں کی طرح ان کو بھی زد و کوب کیا گیا اور عذاب دیئے گئے مگر وہ حلم اور صبر کے ساتھ ثابت قدم رہے.حضرت ابراہیم پر بھی ایک مخالفت اور فتنے کی آگ بھڑ کا دی گئی اور ظاہرا رنگ میں بھی ان کو جلتی ہوئی آگ میں ڈال کر زندہ جلانے کی کوشش کی گئی.حضرت لوط کے وہ منکرین جو مذہب کی حقیقت سے نا آشنا تھے انہوں نے بھی مذہب ہی کا نام لے کر حضرت لوط اور حضرت لوط کے مانے والوں پر ظلم ڈھائے اور ان کو بھی اسی قسم کی دھمکیاں دی گئیں.چنانچہ حضرت لوط کے نہ ماننے والوں نے آپ کو اپنے ملک سے نکالنے کی دھمکی دی اور

Page 13

مذہب کے نام پرخون بار بار حملہ کر کے چڑھ آتے رہے اور دھمکاتے رہے اور ڈراتے رہے کہ کسی طرح یہ اپنے مذہب کی پر امن تبلیغ سے باز آجائیں.اور حضرت شعیب کے مخالفین نے بھی یہی طریق اختیار کیا اور حضرت شعیب سے کہا لَنُخْرِجَنَّكَ يُشْعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَ فِي مِلَّتِنَا قَالَ اوَ لَوْا كُنَّا كرِهِينَ (الاعراف: ۸۹) کہ اے شعیب ! یا تو ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنے شہر سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب میں ضرور واپس آجاؤ گے.یعنی تم پر اتنی شدت کی جائے گی ، اتنی سختی کی جائے گی کہ زندگی تم پر اجیرن ہو جائے گی.تم نے ارتداد کا جو طریق اختیار کیا ہے یعنی ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی پیروی شروع کر دی ہے یہ طریق تمہیں بہر حال بدلنا پڑے گا اس لئے ہم تمہیں یہ موقع دے رہے ہیں اور تمہیں متنبہ کر رہے ہیں.” او کو كُنا كرهين ؟ حضرت شعیب نے فرمایا کہ کیا اس صورت میں بھی ہمارا دل تمہارے مذہب کی تائید نہ کرتا ہو؟ کیا اس طرح بھی دنیا میں کسی کو کسی مذہب کا پیرو اور پابند کیا جاتا ہے؟ دل گواہی دیتا ہو کہ وہ مذہب جھوٹا ہے اور بے اختیار اس مذہب سے بھاگ کر کسی پر امن مذہب کی امان میں آجانا چاہتا ہو تب بھی کیا اسے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے دل کی گواہی کے خلاف اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک ایسے عقیدہ کو قبول کر لے جس پر اس کا دل تسلی نہیں پاتا؟ و قتل مرتد کے خلاف حضرت شعیب کی یہ ایک ایسی چٹان کی طرح مضبوط اور نا قابل تردید دلیل ہے کہ آج تک اس کا جواب کسی سفاک سے بن نہیں پڑا کیونکہ ہر انسانی عقل اور ہر انسانی دل اس امر پر ہمیشہ سے شاہد ہے کہ تلوار کو نہ کبھی پہلے دلوں پر حکومت نصیب ہوئی نہ کبھی آئندہ ہوگی.اسے ہڈیوں اور گوشت پوست پر تو اختیار حاصل ہو جاتا ہے مگر عقل اور جذبات اور عقائد کی دنیا تک اس کی کوئی رسائی نہیں.یہ انسانی فطرت کی ایک غیر مبدل آواز ہے اور یہ بنیا دی فطرت وہی ہے جو آدم کو عطا ہوئی تھی اور دنیا کا سب سے آخری انسان بھی اسی فطرت پر مرے گا.انسان کی یہ فطرتی آواز کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی اور وہ مظلوم جن کو مذہب کے نام پر مذہب سے نا آشنار ہنماؤں نے مرتد ٹھہرا کر واجب القتل قرار دیا ہے ان کے دلوں کی آواز ہمیشہ اسی طرح بلند ہوتی رہے گی کہ کیا تم ہمیں اپنے بگڑے ہوئے عقائد کو ماننے پر اس وقت بھی مجبور کر رہے ہو جبکہ ہمارا دل ان سے یکدفعہ

Page 14

مذہب کے نام پرخون بے زار ہو چکا ہے؟ مگر حسرت کا مقام ہے کہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے اور مذہب کے نہ ماننے والوں نے ہر نبی اور اس کی قوم پر ارتداد کے فتوے لگائے ، انہیں واجب القتل قرار دیا اور ظلم وستم کی وہ وہ راہیں ایجاد کیں کہ ان کے ذکر سے بھی انسانیت شرما جاتی ہے پھر دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے متبعین سے بھی یہی ہوا اور فرعون نے بھی وہی کہا جو اس سے پہلے گزشتہ قوموں کے نام نہاد مذہبی لیڈر کہا کرتے تھے اور وہی ظلم کی راہ اختیار کی جو خدا کے برگزیدہ بندوں سے متعلق ازل سے ظالم اختیار کرتے آئے تھے.چنانچہ فرعون نے اپنے متبعین کو حکم دیا:.أَقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ (المومن: ٢٦) کہ اے میرے مطیع اور فرمانبردار ارباب اقتدار! ان لوگوں کو جو موسی پر ایمان لائے 66 جبر کے ساتھ باز رکھو اور ان کے بیٹوں کو تو قتل کر دو اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھو.“ پس دیکھئے کہ مذہب کے نام پر جرم ارتداد کی یہ سزا بھی انبیاء کی جماعتوں نے نہیں دی بلکہ انبیاء کی جماعتوں کو دی گئی.پھر اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی کیسے کیسے مظالم کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ دشمنوں نے عملاً ان کو سولی پر چڑھا کر مارنے کی کوشش کی اور ان کے ماننے والوں پر بھی کئی قسم کے مظالم ڈھائے.پس یہ سلسلہ ظلم وستم جو آج تک مذہب کے نام پر روا رکھا گیا ہے اور جس کا نام ہمیشہ ارتداد کی سزا رکھا گیا اس کی ہر گز کوئی سند بھی مذہبی صحیفوں میں نہیں ملتی.میری مراد ہے ان صحیفوں میں نہیں ملتی جو صحیفے خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء پر اتارے ان کی بگڑی ہوئی صورت میں انبیاء کے گزر جانے کے سینکڑوں سال بعد اگر بعد کے بددیانت لوگوں نے ان میں کتر بیونت کر کے یا اپنے خیالات ٹھونس کر ان میں ظلم کی تعلیم بھر دی ہو تو خدائی صحیفے اس سے بری الذمہ ہیں.قرآن کریم نے تاریخ مذاہب کے ناقابل تردید حوالہ جات سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انبیاء اور ان پر ایمان لانے والے مخلصین دنیا کے مظلوم ترین لوگ تھے جن پر شدید مظالم ڈھائے گئے لیکن انہوں نے نہایت صبر اور استقامت کے ساتھ محض خدا کی خاطر ان مظالم کو برداشت کیا.اس تاریخ کو

Page 15

مذہب کے نام پرخون پڑھنے کے بعد دنیا کا کوئی انسان جو ذراسی عقل بھی اپنے اندر رکھتا ہو یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مذہب کی طرف سے مذہب کو چھوڑنے پر ظلم روا رکھا جاتا رہا ہے.خدا کے انبیاء “ تو ایک مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب میں داخل ہونے کی تعلیم دیتے ہیں.جب وہ خود یہ تعلیم دیتے ہیں تو وہ یہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ محض اس بناء پر کہ کوئی شخص کسی مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب میں داخل ہورہا ہے اس پر کسی قسم کا ظلم یا جبر روا رکھا جائے.قرآن کریم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ظلم صرف انہی پر نہیں کیے جاتے جو انبیاء پر ان کے دور اول میں ایمان لاتے ہیں بلکہ انبیاء کے گزرنے کے سینکڑوں سال بعد بھی ان کے ماننے والوں پر بسا اوقات اس زمانہ کے ظالم لوگ ظلم کرتے ہیں اور یہ ظلم بھی مذہب ہی کے نام پر کیا جاتا ہے مگر حقیقیہ خدا تعالیٰ کی مرضی یا تائید ان کو حاصل نہیں ہوتی اور مذہب سے اس ظلم کو دور کا علاقہ بھی نہیں ہوتا.چنانچہ اس ضمن میں قرآن کریم اصحاب کہف کی مثال بیان فرماتا ہے.یہ وہ عیسائی لوگ تھے جو تین صدیوں تک عیسائیت کے مخالفین کے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے.ان کو اتنا تنگ کیا گیا ، ایسے ایسے شدید مظالم ان پر ڈھائے گئے کہ ان کی یاد سے آج بھی سینوں میں دل خون ہو جاتے ہیں.میں نے خود وہ عمارتیں دیکھی ہیں جن عمارتوں میں ان عیسائیوں پر ظلم ڈھائے جاتے تھے.ان کو کولی سیم COLLISIUM کہا جاتا ہے.پرانے رومن زمانوں میں یہ ایک قسم کے تھئیٹر ز ہوا کرتے تھے یعنی تماشا گا ہیں.جہاں پہلوانوں کی لڑائیاں یا شیروں اور بھینسوں کی لڑائیاں ہوا کرتی تھیں.جس زمانہ کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے اس زمانہ میں انہی تماشا گاہوں کو عیسائیوں پر ظلم کرنے کا ایک ذریعہ بنالیا گیا اور ایک طرف تو پنجرے میں بھوکے شیر یا دوسرے جنگلی درندے جن کو کئی کئی دن فاقے دے کر رکھا جاتا تھا بند ہوا کرتے تھے اور دوسری طرف پنجروں میں وہ عیسائی بند ہوتے تھے جن سے متعلق اس زمانے کے مذہبی رہنماؤں کا یہ فتویٰ تھا کہ یہ مرتد ہیں کیونکہ انہوں نے ایک دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کر لیا ہے.چنانچہ ایک طرف تو پنجروں میں یہ مرتدین“ تھے.وہ بھوکے تھے ، وہ بھی ننگے تھے ، وہ بھی کئی کئی دن تک پانی اور روٹی سے محروم رکھے جاتے تھے جس سے ان کی کمزوری اس حد تک بڑھ جاتی تھی کہ ان کے لئے کھڑا ہونا دشوار ہو جاتا تھا.اور اس کے برعکس

Page 16

مذہب کے نام پرخون بھوکے اور پیاسے درندے اور بھی خون خوار ہو جاتے تھے اور بھوک کی شدت سے غضبناک ہو کر ایک وحشیانہ جنگلی چیخ کے ساتھ بجلی کی کوندوں کی طرح اپنے شکار پر لپکتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہڈیاں تک چبا جاتے تھے تب وہ تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہال قہقہوں سے گونج جا تا تھا کہ ہاں یہ ہے مرتدین کی سزا.اور اس شام وہ قہقہے لگاتے ہوئے ، مذاق کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹا کرتے تھے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ فتنہ ارتداد کو مٹانے کا بس یہی ایک مؤثر طریق ہے.کبھی بھوک کے ستائے ہوئے بھینسے ان پر چھوڑے جاتے تھے جنہیں غیر مانوس ماحول اور انسانوں کے جم غفیر کا اجنبی منظر وحشت سے دیوانہ کر دیتا تھا.اور جب وہ ان مظلوم عیسائیوں کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھتے تھے تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا اور بے پناہ نفرت اور غیظ و غضب کی آگ ان کے سینوں میں بھڑک اٹھتی تھی اور سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتی تھی.چنانچہ وہ سر پھینک کر اپنے نفس کی مخصوص انتظامی آواز کے ساتھ جو چو پاؤں کے سانس کی نسبت سانپوں کی پھنکار کے زیادہ مشابہ ہوتی ہے اپنے نحیف و نزار شکار پر حملہ آور ہوتے تھے اور کبھی انہیں اپنے سینگوں میں پروتے اور کبھی اپنے عموں کے نیچے روند ڈالتے تھے اور ان مظلوموں کی درد میں ڈوبی ہوئی آہیں تماش بینوں کے شور میں کھو جاتی تھیں لیکن ان ”مومنین کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور ان فاقہ کشوں کے نحیف لڑکھڑاتے ہوئے قدم ان کے ایمانوں کو ڈگمگا نہ سکے.پس وہ بے مثال ایمانی جرات کے ساتھ یقینی موت کی طرف بڑھتے رہے اور کبھی تو درندوں کے منہ کا نوالہ بن گئے اور کبھی جنگلی بھینسوں کے سینگوں کا ہار ہو گئے.یہ ظلم مختلف وقتوں میں برابر تین صدیوں تک عیسائیوں پر توڑے گئے یہاں تک کہ جب انہوں نے دیکھا کہ روئے زمین پر ہمارے لئے کوئی سر چھپانے کی جگہ نہیں تو وہ سطح زمین کو چھوڑ کر زیر زمین غاروں میں چلے گئے.وہ غاروں کے چوہوں اور کیڑوں مکوڑوں اور سانپوں اور بچھوؤں میں تو رہ سکتے تھے مگر سطح زمین پر بسنے والے انسانوں میں ان کے لئے کوئی جگہ نہ تھی کیونکہ یہ موذی جانور جبہ پوش مذہبی رہنماؤں کی نسبت ان کے لئے کم خطر ناک تھے.ان زیر زمین بسنے والے اصحاب کہف کے علاوہ قرآن کریم ایسے ابتدائی موحد عیسائیوں

Page 17

مذہب کے نام پرخون کا بھی ذکر کرتا ہے جنہیں لامذہب حکمرانوں کی طرف سے مذہب ہی کے نام پر زندہ آگ میں جلا دیا گیا محض اس جرم کی پاداش میں کہ وہ خدائے عزیز وحمید پر ایمان لائے تھے.چنانچہ ان کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ البروج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج - وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ - وَشَاهِدٍ وَ مَشْهُودٍ - قُتِلَ أَصْحَبُ الْخُدُودِ - النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ - إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُود - وَ هُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُود - وَ مَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السمواتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (البروج:۲تا۱۰) جس کا آزاد تر جمہ یہ ہے کہ:.قسم ہے برجوں والے آسمان کی اور موعود دن کی اور ایک عظیم الشان گواہی دینے والے کی اور اس عظیم الشان ہستی کی جس کی گواہی دی گئی کہ خندقوں والے ہلاک ہو گئے یعنی خندقوں میں وہ آگ بھڑ کانے والے جس میں خوب ایندھن جھونکا گیا تھا.اور کیا ہی ہولناک تھا وہ وقت جب وہ ان کھائیوں کے کنارے بیٹھے ہوئے جلتے ہوئے مومنین کا نظارہ کر رہے تھے اور ان سے ان کی ناراضگی کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہ تھی کہ وہ خدائے عزیز و حمید پر جو آسمان اور زمین کا مالک ہے ایمان لے آئے تھے اور خدا تعالیٰ ہر چیز پر نگران ہے.“ قرآن کریم اس امر کے ثبوت میں کہ مذہب کے نام پر ظلم کرنے والے دراصل خود بے دین ہوا کرتے ہیں ایک اور نا قابل تردید ثبوت پیش کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ خدا کے نام پر خدا ہی کی عبادت سے روکتے ہیں اور ان کا یہ ظلم ان مومنین کے نزدیک تمام جسمانی اذیتوں سے بڑھ کر ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ اللهِ اَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا (البقرة:۱۱۵) کہ ان مذہب کے جھوٹے دعویداروں سے بھی زیادہ ظالم کوئی ہو سکتا ہے کہ خدا کا نام

Page 18

مذہب کے نام پرخون لے لے کر خدا ہی کی عبادت سے روکتے ہیں اور مسجدوں میں اس کے ذکر کو بلند کرنے ،، سے منع کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ ویران ہو جا ئیں.“ غرضیکہ قرآن نے نہایت لطیف پیرایہ میں مذہب پر پڑنے والے اس خونی الزام کو رڈ فرمایا ہے اور یہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ اس مقدس نام پر دنیا میں مکروہ ترین مظالم ڈھائے گئے سچے مذاہب کے بچے متبعین کو اس ظلم و تعدی سے کلیۂ بری الذمہ قرار دیا ہے.یہ تو گزشتہ انبیاء کے ساتھ انسانوں کا سلوک تھا جب کہ ابھی خدا کے نور کا کامل ظہور نہیں ہوا تھا لیکن جب اس کامل ظہور کا وقت آیا اور جزیرہ نمائے عرب کے افق سے وہ ابدی صداقتوں کا سورج طلوع ہوا تو بھی ان بے دین ظالموں نے اپنے تیور نہ بدلے.جب وہ دنیا کا سردار آیا جس کی ہزاروں سال سے آدم زادوں کو انتظار تھی اور جس کی راہ تکتے تکتے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اس دنیا سے گزر گئے.وہ جس کی خاطر کائنات کو پیدا کیا.جس کی شریعت سب شریعتوں سے زیادہ روشن اور جس کی شان سب نبیوں سے بلند اور بال تھی.وہ انسانیت کا شرف ، وہ خدا کے جلال اور جمال کا مظہر ، وہ سب نبیوں سے زیادہ معصوم نبی جب دنیا میں ظاہر ہوا تو اس کو بھی ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا اور ایسے دردناک ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کی نظیر تاریخ مذاہب میں نظر نہیں آتی.وہ سارے مظالم جو گزشتہ انبیاء" پر علیحدہ علیحدہ توڑے گئے تھے اس ایک نبی اور اس کی جماعت پر توڑے گئے.انہیں چلچلاتی دھوپ میں تپتی ریت پر ننگے بدن لیٹا یا گیا اور ان کی چھاتیوں پر دہکتے ہوئے پتھروں کی سلیں رکھی گئیں.انہیں مکہ کی پتھر یلی گلیوں میں مرے ہوئے جانوروں کی طرح رسیاں باندھ کر گھسیٹا گیا.سال ہا سال تک ان کے مقاطعے کئے گئے.انہیں بھوک اور پیاس کی شدید اذیتیں پہنچا ئیں گئیں.کبھی ان کو تنگ اندھیری کوٹھریوں میں قید کیا گیا اور کبھی ان کے اموال و متاع لوٹ کر گھروں سے نکال دیا گیا.کبھی بیویوں کو خاوندوں سے چھڑا یا گیا کبھی خاوندوں کو بیویوں سے علیحدہ کر دیا گیا.مقدس حاملہ عورتوں کو اونٹنیوں سے گرا کر ان پر قہقہے لگائے گئے اور وہ اس صدمے سے جاں بحق ہو گئیں.ان پر عبادت کے دوران اونٹوں کی اوجھڑیاں پھینکی گئیں.ان کو گالیاں دی گئیں اور گلیوں کے اوباشوں نے ان کی تحقیر اور تذلیل کی.دنیا کے ذلیل ترین آوارہ

Page 19

مذہب کے نام پرخون لونڈوں نے جھولیوں میں بھر بھر کر ان پر پتھر برسائے.یہاں تک کہ دنیا کا مقدس ترین خون طائف کی گلیوں میں بہنے لگا.ان کو زہر دیئے گئے.ان پر شعلہ آسا جنگوں کی آگ بھڑکا دی گئی اور تلواروں کے نیچے قربانیوں کی طرح ذبح کیا گیا.ان پر تیروں اور پتھروں کی بارشیں برسائی گئیں اور احد کی سر زمین گواہ ہے کہ سنگ دل سفاکوں نے کائنات کی معصوم ترین ہستی کا بدن پے در پے زخموں سے چھلنی کر دیا.ہاں ان کو نیزوں میں پر دیا گیا اور ان کے سینے چیر کر ان کے جگر چھالئے گئے اور وہ کام جو روم کے سفاک بادشاہ جنگل کے درندوں سے لیا کرتے تھے عرب کے درندہ صفت انسانوں نے خود کر کے دکھا دیئے.مذہب کے نام پر یہ بے مثال خون ریزی صرف اس لئے کی گئی کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ربنا الله ” ہمارا رب اللہ ہے اور مذہب کے نام پر یہ خون ریزی صرف اس لئے کی گئی کہ مشرکین مکہ کے نزدیک یہ لوگ مرتد تھے.چنانچہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا اور آپ کے ماننے والوں کا نام مشرکین نے صابی رکھ دیا تھا.صابی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنا آبائی دین چھوڑ کر کوئی نیا دین اختیار کر لے.چنانچہ اس فتنہ ارتداد ( نعوذ باللہ من ذالک) کو دبانے کے لئے انہوں نے وہ سارے طریق اختیار کئے جو ان سے پہلے مذہب کے نہ ماننے والے انبیاء اور ان کی جماعتوں کے خلاف اختیار کرتے آئے تھے.ایک لمبا زمانہ ہے ان تکلیفوں کا جو مذہب کے نہ ماننے والوں نے مذہب کے علمبرداروں کو دیں بلکہ ایک ایسی قوم کو دیں جو مذہب کے آسمان پر چاند اور سورج بن کر چمکے تھے ، جو مذہبی ارتقاء کی انتہا تھے ، جن کے طے شدہ مقامات سے آگے اور کوئی مقام نہ تھا ، جن سے بہتر لوگ نہ کبھی کسی پہلے مذہب نے پیدا کئے تھے نہ آئندہ کبھی اس دنیا میں ظاہر ہو سکتے ہیں لیکن وہ نبی ، وہ خالق کائنات کا شاہکار اور اس کے شیدائی نہایت ہی صبر اور حلم کے ساتھ اور غیر معمولی قوت برداشت کے ساتھ ان مظالم کو سہتے رہے اور اُف تک نہ کی اور اپنے دکھوں اور اپنی قربانیوں اور اپنے بہتے ہوئے خون سے یہ ثابت کر دیا کہ ظالم اور فسادی مذہب کے مخالفین ہوا کرتے ہیں مذہب کے ماننے والے نہیں.صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ صبر وتحمل کی صفات کے لاثانی اظہار کے بعد رحم اور شفقت اور

Page 20

مذہب کے نام پرخون عفو کے وہ کمال دکھائے کہ عقل انسانی حیران ٹکٹکی باندھے دیکھتی ہے کہ یہ کون لوگ تھے اور کیسے ان ارفع مقامات تک جا پہنچے.چنانچہ اس وقت جب کہ خدائی نصرت کے وعدوں کے ایفاء کا وقت آیا اور کفار مکہ کی گردنیں ان کے ہاتھ میں دی گئیں.جب دس ہزار قدوسیوں کی چمکتی ہوئی تلواروں کی زد میں عرب کے سفاک سرداروں کے بدن کانپنے لگے تو مکہ کی اینٹ اینٹ گواہ ہے کہ تاریخ عالم نے ایک عجیب معاملہ دیکھا اور قتل عام کے فرمان کے بجائے مکہ کی فضاؤں میں لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (یوسف: ۹۳) کے شادیانے بجنے لگے.اس روز دنیا کے ظالم ترین انسان معاف کئے گئے.تپتی ریت پر بے کس غلاموں کو لٹانے والے بھی معاف کئے گئے.چلچلاتی دھوپ میں مکہ کی گلیوں میں ناداروں کو گھسیٹنے والے بھی معاف کئے گئے.اس روز معصوم انسانوں پر پتھروں کی بارش برسانے والے بھی معاف کئے گئے اور قاتل اور فسادی اور بد عہد اور لٹیرے بھی معاف کر دیئے گئے اور ابھی کچھ مدت نہ گزری تھی ان سنگ دلوں کو بھی معاف کر دیا گیا جنہوں نے معزز انسانوں کے سینے چیر کر ان کے دل اور جگر چہالئے تھے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور تک کی ساری مذہبی تاریخ بھی مٹا دی جائے اور آپ کے وصال سے لے کر آج تک کی تاریخ کو بھی ملیا میٹ کر دیا جائے تو بھی اس بزرگ نبی کی چند سالہ تاریخ ہی اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مذہب انسان کو ہر گز نفرت نہیں سیکھا تا ظلم و تعدی اور شقاوت اور سفا کی کے سبق نہیں دیتا بلکہ اس کے برعکس رحم اور شفقت اور صبر اور بردباری کی تعلیم دیتا ہے.صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ وہ رحمةٌ لِلعالمین ظلم کے انسداد کے لئے ایک قدم اور آگے بڑھا اور خدا سے وحی پا کر ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ اعلان عام کر دیا کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ دین کے نام پر کوئی جبر جائز نہیں اور اس کی ضرورت ہی کیا ہے.قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ - حق اپنے نورانی چہرہ کے ساتھ ممتاز ہو گیا اور کھی کے ساتھ اس کے اشتباہ کا کوئی سوال باقی نہیں رہا.

Page 21

۱۴ مذہب کے نام پرخون یہ اعلان اس پس منظر میں ایک عجیب اعلان نظر آتا ہے.ایک طرف تو ظالم ہیں جو ظلم وتعدی کے ساتھ چند کمزور اور نا تواں لوگوں کو ارتداد کے جرم کی سزا میں صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں اور مجبور کر رہے ہیں کہ یہ نیا مذہب چھوڑو اور اپنے پہلے مذہب میں واپس آجاؤ اور دوسری طرف اس مذہب کے ماننے والے جب قوت پکڑ جاتے ہیں تو باوجود اس قوت کے ان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ لا إِكْرَاةَ في الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ، فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرُوةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا (البقرة: ۲۵۷) کہ دین میں کوئی جبر نہیں حق اپنی تمام صداقتوں کے ساتھ واضح ہو چکا ہے اور کجی کا رستہ ایک ایسا رستہ ہے جسے حق کے ساتھ مشتبہ نہیں کیا جاسکتا....پس جو خدا تعالیٰ پر ایمان لائے گا اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے ایک مضبوط کڑے پر اس کا ہاتھ پڑ جائے جس کڑے کے لئے ٹوٹنانہ لکھا ہو.یہ اعلان کتنا شاندار اور کیسا پر امن اعلان ہے! پس اے مذہب کے نام پر ظلم کرنے والو! تم مذہب کی حقیقت ہی سے نا آشنا ہو.مذہب تو دلوں کی تبدیلی کا نام ہے.مذہب کوئی سیاسی جماعت نہیں ، مذہب کوئی قوم نہیں ، مذہب کوئی ملک نہیں ، مذہب تو وہ پاک روحانی تبدیلی پیدا کرنے کے لئے آتا ہے جو دلوں کی گہرائیوں میں ہوتی ہے اور جس کا تعلق روح کے ساتھ ہے.کوئی تلوار اور کوئی طاقت اور کوئی جبر اور کوئی تشد دخواہ کتنا ہی ہیبت ناک کیوں نہ ہو دلوں کو تبدیل کرنے کی اتنی بھی طاقت نہیں رکھتا جتنی ایک حقیر چیونٹی بلند و بالا پہاڑوں کو اپنی جگہوں سے ٹلانے کی رکھتی ہے.پھر ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان فرمایا کہ وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَ مَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الكهف:۳۰) کہ کہ دو کہ حق تو تمہارے رب کی طرف سے آچکا اس کے بعد کسی جبر کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.حق تو کہتے ہی اس چیز کو ہیں جو دلوں کو اپنی صداقت کے ساتھ منوائے جس کا لوہا روحیں مانیں.جس کا جسم کے جبر و تشدد کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو.پس فرمایا کہ یہ اعلان کر دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے آپکا فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ اب تمہیں اختیار ہے چاہو تو ایمان لاؤ چاہو تو ایمان نہ لاؤ.پھر ایک دوسری جگہ فرمایا : إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا (الدهر : ٣٠) کہ یہ تو ایک نصیحت کی بات ہے فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلى رَبِّهِ سَبِيلًا پس اس نصیحت سے متاثر ہو کر جو

Page 22

۱۵ مذہب کے نام پرخون چاہے وہ اپنے رب کا رستہ پکڑ لے کتنی عمدہ اور پیاری تعلیم ہے.حیرت ہوتی ہے کہ اس کے بعد بھی لوگ یہ تصور کس طرح کر سکتے ہیں کہ مذہب ظلم اور جبر اور تشدد کی تعلیم دیتا ہے.ایک اور مقام پر مزید وضاحت کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُلِ اللَّهَ اعْبُدُ مُخْلِصًا له ديني (الزمر: ۱۵) کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو اعلان کر دے کہ میں تو اپنے رب کی پورے خلوص کے ساتھ عبادت کرتا ہوں یعنی میرا تو سب کچھ اسی کا ہو گیا ہے اور میرا دین اسی کے لئے خالص ہے.فَاعْبُدُوا مَا شِنْتُم مِّن دُونِهِ (الزمر : ۱۲) رہے تم تو جس کی چاہو اس کے سوا عبادت کرتے پھرو مجھے تو اپنا رستہ مل گیا ہے.کیسی عجیب تعلیم ہے امن کی.اس کے ہوتے ہوئے مذہب کے نام پر کسی ظلم کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.پھر فرمایا لکم دینكُمْ وَلِيَ دِينِ (الکافرون : ۷) کہ تمہارے لئے تمہارا دین ہے وکی دینِ میرے لئے میرا دین ہے.چنانچہ مذہب کے علمبردار ہمیشہ بلا استثناء ایک ہی دعویٰ رکھتے رہے اور اس دعوے کا ہمیشہ اپنے اعمال سے ثابت کرتے چلے آئے.مذہب کے نہ ماننے والے بھی اس کے مقابل پر ایک ہی نعرہ رکھتے رہے کہ ظلم اور جبر کے ساتھ اس فتنہ ارتداد کا دروازہ بند کر دو اور ہمیشہ ایک ہی طرح کے طریق پر عمل کرتے رہے یعنی ظلم اور جبر اور تشدد کے ساتھ عملاً انہوں نے مذاہب کو دبانے کی کوشش کی.اسی مضمون کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے خدا تعالیٰ نے ایک اور جگہ یعنی سورہ یونس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرما یاؤ کو شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا (یونس: ۱۰۰) اگر تیرا رب چاہتا تو اس کو جبر کی کیا ضرورت تھی وہ تو مالک ہے، خالق ہے، کامل اختیار رکھتا ہے اپنی تخلیق پر.اگر وہ چاہتا لَا مَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُهُمْ جَمِيعًا سطح ارض پر ہر طرف ہر جگہ رہنے والے ایک دن میں ایک ہی آن میں ایمان لے آتے.تو یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ ایسا کامل قدرتوں کا حامل خدا تلوار کے زور سے کسی کو مومن بنانے کی کوشش کرے؟ اگر اس کی تقدیر کا تقاضا یہی ہوتا کہ سب انسانوں نے ، خواہ ان کی مرضی ہو یا نہ ہو ایمان ضرور لانا ہے خواہ ان کے دل ٹیڑھے ہوں یا سید ھے انہوں نے اسلام ضرور قبول کرنا ہے تو اس کا بس ایک ارادہ ، ایک حکم ہی کافی تھا پھر کون تھا جو اس کی اطاعت سے سرمو فرق کر سکتا ؟ مگر خدا تعالیٰ کی کتاب ازلی میں یہ مقدر نہیں

Page 23

مذہب کے نام پرخون تھا.تخلیق آدم میں کارفرما اس کی باریک در بار یک حکمتوں کے تقاضے کچھ اور تھے.ان حکمتوں کے تقاضے کیا تھے؟ یہی کہ ہر شخص ایمان لانے یا نہ لانے کے فیصلہ میں آزاد ہے اور کوئی کسی دوسرے کو اس بارے میں مجبور نہیں کر سکتا.چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تعلیم دی گئی وہ بھی آ فَانتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنينَ (يونس:۱۰۰) کیا تو لوگوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ ایمان لے آئیں؟ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ (یونس : ۱۰۱) حالانکہ صورت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی ایمان نہیں لا سکتا مگر اس وقت جبکہ خدا کا اذن ہو جائے.یعنی صرف وہی لوگ ایمان لائیں گے جن سے متعلق خدا کا یہ فیصلہ ہو کہ یہ اس لائق ہیں کہ انہیں ایمان کی نعمت سے متمتع کیا جائے مگر سخت حسرت اور افسوس کا مقام ہے کہ باوجود اس کے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بغیر استثناء کے سارے کے سارے مذہبی آزادی کی تعلیم دیتے رہے اور اپنے اعمال سے اور اپنی زندگیوں سے یہ ثابت کر دکھایا کہ بچے مذہب کے نام لیوا مظلوم بن کر زندہ رہا کرتے ہیں ظالم بن کر نہیں اور مذاہب اخلاق سے دلوں کو فتح کیا کرتے ہیں تلوار کے زور سے نہیں مگر بعد کے آنے والے بڑے بڑے جبہ پوشوں نے جو مذہبی علماء یا پیر فقیر کہلاتے تھے کہیں وہ راہب کا نام استعمال کرتے تھے کہیں پادری کا.کہیں انہیں منتری کہا جاتا تھا کہیں مہنت.مذہب کے ان اجارہ داروں نے جو درحقیقت مذہب کی رو سے کلینہ نا آشنا تھے اپنے مظلوم انبیاء کا نام لے لے کر ان کی ہی ناموس کی حفاظت کا ادعا کرتے ہوئے ایسے ایسے مظالم دنیا میں ڈھائے کہ انسانیت ان کو دیکھ کر سرنگوں ہو جاتی ہے.حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا اور آپ کے ظہور کے بعد بھی ایسا ہی ہوا اور آج تک ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے.آج سے چند سو سال پہلے عیسائیت نے یا یوں کہنا چاہیے کہ بگڑی ہوئی عیسائیت کے بگڑئے ہوئے علمبرداروں نے ، بڑے بڑے پادریوں نے اور بڑے بڑے بشپس اور کارڈینلز نے مذہب کے نام پر عیسائی دنیا میں جو ظلم کئے ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں اور اس دور میں انسانوں کو دکھ دینے کے جو جو طریقے عیسائی مذہب کے علمبرداروں نے ایجاد کئے وہ اتنے خوفناک ہیں کہ ان کو معلوم کرنے کے بعد انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ کیا انسانیت ذلت کی ایسی اتھاہ گہرائیوں میں بھی اتر سکتی ہے؟ کیا دل سختی میں اتنے بھی بڑھ سکتے

Page 24

۱۷ مذہب کے نام پرخون تھے کہ ہیرے کی کنیوں سے زیادہ سخت ہو جائیں لیکن ایسا ہی ہوا اور خود عیسائی مؤرخین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائیت کے نام پر جو مظالم بعض مظلوم بندوں پر ڈھائے گئے انسانیت ان کے تصور سے شرماتی ہے.انگلستان میں مجھے خود ان ظلم کے آلات میں سے بعض کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے.لندن میں ایک نمائش ہے جس کا نام ہے میڈم ٹو سو MADAME TOUSSAUD یعنی میڈم ٹوسو کی بنائی ہوئی چیزوں کی نمائش.وہاں ایک فرانسیسی خاتون مادام توسو نے بھی دنیا کے بڑے بڑے نیک آدمیوں کے بت بھی بنا کر رکھے ہوئے ہیں اور بد آدمیوں کے بھی.یہ بت ایسی عمدگی سے بنائے ہوئے ہیں کہ بالکل زندہ انسانوں کے مشابہ نظر آتے ہیں اور بعض دفعہ یہ دھو کہ لگ جاتا ہے کہ بت نہیں ہیں بلکہ انسان ہیں.چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اجنبی کسی سپاہی کو کھڑا دیکھ کر اس سے رستہ پوچھنے کے لئے بڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ زندہ سپاہی نہیں بلکہ سپاہی کا بت ہے.چنانچہ بڑے بڑے نیک کام کرنے والوں یا مشہور لوگوں کے بت بھی وہاں موجود ہیں اور بڑے بڑے سفاک اور ظالم انسانوں اور بد نام مجرموں کے بت بھی وہاں موجود ہیں.صرف یہی نہیں بلکہ ان ظالموں کے آلات ظلم کو بھی اپنی اصلی صورت میں اکٹھا کر کے رکھا گیا ہے چنانچہ وہ اصل مشینیں بھی وہاں موجود ہیں جن کے ذریعہ عیسائیت کے علمبر دار بعض لوگوں کو ارتداد کی سزا میں دکھ دیا کرتے تھے یا ارتداد کے جرم کا اقبال کروانے کے لئے مظالم ڈھایا کرتے تھے تا کہ ان ظلموں اور دکھوں سے تنگ آکر وہ لوگ اپنے جرم ارتداد کو تسلیم کر لیں.وہ مظالم اتنے خوفناک تھے کہ بلاستثناء لوگ یا تو ان ظلموں کی حد سے بڑھی ہوئی اذیت سے سسک سسک کر وہیں جان دے دیا کرتے تھے اور یا پھر اپنے جرم کے اقبال ہی کو غنیمت جانتے تھے.وہ یہ بہتر سمجھتے تھے کہ انہیں زندہ آگ میں جلا دیا جائے بہ نسبت اس کے کہ سپین کی انکوئیزیشن یا فرانس کی انکوئیزیشن کے ہاتھوں میں وہ نا قابل برداشت ظلم سہہ سہہ کر جان دے دیں.ان مشینوں میں سے جو لنڈن کے عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہیں بعض ایسی ہیں جن کے او پر پردہ پڑا ہوا ہے اور یہ لکھا ہوا ہے کہ عورتیں اور بچے ان کو نہ دیکھیں یعنی وہ ظلم کے طریقے اتنے خوفناک ہیں کہ منتظمین کے نزدیک عورتوں اور بچوں کا ان کو دیکھنا بھی ایک نا قابل برداشت امر ہے

Page 25

۱۸ مذہب کے نام پرخون اور ان کی طبیعت پر نہایت گہرا اور مہلک اثر چھوڑنے کا موجب بن سکتا ہے.میں نے خود اپنی آنکھوں سے ان مشینوں کو دیکھا اور میں نے سوچا کہ انسان بھی خدا تعالیٰ کی کیسی حیرت انگیز تخلیق ہے کہ ترقی اور تنزل دونوں میں انتہاء تک پہنچ جاتا ہے.ایک طرف تو اسلام.جب بلند پروازی اختیار کرتا ہے تو بام نبوت پر قدم رکھ دیتا ہے اور اپنے آقا ، خالق اور مالک سے ہمکلام ہو جاتا ہے اور دوسری طرف جب وہ گرتا ہے تو بگڑے ہوئے مذہبی جبہ پوش علماء کی صورت میں دنیا پر ایک لعنت بن کر گرتا ہے.ایک طرف مجھے اس مظلوم مسیح کی تصویر نظر آئی جو صلیب کی خوفناک اذیتوں سے کراہتے ہوئے ایلی ایلی لِمَا سَبَقْتَنِی کی دردناک آواز بلند کر رہے تھے.انہوں نے صرف اس جرم کی سزا میں صلیب کی اذیتیں برداشت کیں کہ ان کی قوم کے نزدیک وہ ارتداد اختیار کر چکے تھے.دوسری طرف وہ سفاک عیسائی جبہ پوش مذہبی رہنما مجھے نظر آئے جنہوں نے اسی مظلوم کے نام پر بے کس اور بے اختیار انسانوں پر اسی ارتداد کے جرم میں ایسے ایسے خوفناک مظالم ڈھائے کہ صلیب کا ظلم بھی ان ظلموں کے سامنے بے حقیقت ہو کر رہ جاتا ہے.میں نے سوچا کہ کیا کے اس اعلان عام کے بعد کہ اے بنی نوع انسان ! خوش ہو جاؤ کہ اسلام ہمیشہ ہمیش کے لئے امن کا اعلان کرتا ہے اور مذہبی ظلم و تشدد کا ہمیشہ ہمیش کے لئے قلع قمع کرتا ہے.لا اكره في الدِّينِ دین میں کوئی جبر نہیں ، دین کے نام پر دکھ دینا حرام ہے.قد تبَيَّنَ الرُّشْدُ.اسلام کا تو یہ حال ہے کہ گویا عقل و دانش کا ایک درخشندہ سورج طلوع ہو گیا.ایک واضح اور کھلی کھلی ہدایت آگئی.میں نے سوچا کہ اس واضح اور غیر مبہم امن کے اعلان کے بعد بھی کیا کسی مسلمان کے ذہن میں یہ تصور آسکتا ہے کہ اسلام مذہب کے نام پر جبر روا رکھتا ہے تو میری نظر اس زمانہ کے علماء کی طرف اٹھی اور شرم سے جھک گئی اور میرا دل درد سے بھر گیا کہ آج اس زمانہ میں بھی ایسے مذہبی رہنما موجود ہیں جو اس رَحْمَةٌ لِلعالمین کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.....وہ جسے زندگی بھر دردناک مظالم کا نشانہ بنایا گیا لیکن ظلم کا جواب اس نے ظلم سے نہ دیا بلکہ کمال صبر اور عفو اور مغفرت کے وہ نمونے دکھائے کہ مافوق البشر دکھائی دیتے ہیں.یر اسی رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِین کی غلامی کا دم بھرتے ہوئے بھی اس کی تمام صفات حسنہ سے

Page 26

۱۹ مذہب کے نام پرخون عاری ہیں.ان کے دل رحمت سے خالی اور ظلم سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کے سینوں میں غیظ و غضب کے سمندر موج زن ہیں اور مذہب کے نام پر سختی اور تشد دکو روا رکھنا تو اب ان کے عقائد میں داخل ہو چکا ہے.وہ اسی آسمانی پانی کا واسطہ دے کر جو دلوں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے آیا تھا بے علم عوام کے سینوں میں غیظ و غضب کی آگ بھڑکا دیتے ہیں.وہ اسی امن کے شہزادہ کا نام لے لے کر جس نے عرب کی خونی سرزمین سے اپنے خون کی قربانیاں دے کر قتل ناحق کو یکسر مٹاڈالا تھا اسی کے ماننے والوں کو بے کسوں کے قتل پر آمادہ کرتے ہیں.وہ اسی امین کی محبت کو انگیخت کر کے جس کے گھر غارت گروں نے لوٹ لئے دنیا کو غارت گری کی تعلیم دیتے ہیں.وہ جس نے غیروں اور بد کرداروں کی بیبیوں کی عصمت کی بھی حفاظت کی.ہاں وہ سب حیاداروں سے زیادہ حیا دار جو بے حیائی کو یکسر نابود کرنے کے لئے آیا تھا آج اسی عصمت مجسم کی ناموس کے نام پر سال ہا سال کی بیا ہتا عورتوں کو اپنے خاوندوں پر حرام اور غیروں پر حلال کر دیتے ہیں.وہ عابدوں کا سردار جس نے باطل مذاہب کے معبدوں کی بھی حفاظت کی آج ان مذہبی رہنماؤں نے خود اسی کا کلمہ پڑھنے والے عابدین کے ایک گروہ کی مسجدوں کے انہدام کے فتوے دیئے.اور یہ سب ظلم جسے وہ نبیوں کا سردار مٹانے کے لئے آیا تھا خود اسی مظلوم نبی کے نام پر کئے جانے لگے.کیا کوئی بھی مسلمان یہ تصور کر سکتا ہے کہ اگر آج ہمارا آقا ہم میں موجود ہوتا ( خدا کی بے شمار رحمتیں اور درود ہوں اس محسن پر ) تو وہ اپنی امت کے اس حال کو دیکھ کر خوش ہوتا ؟ نہیں نہیں.ایسا مت خیال کرو کیوں کہ یہ اس حسن و احسان کے مجسمہ کی تو ہین ہے.کیا کوئی بھی مسلمان یہ وہم دل میں لاسکتا ہے کہ وہ اپنی امت کے علماء کو تلقین کرتا کہ سٹیجوں پر چڑھ کر ایک دوسرے کے بزرگوں کی تذلیل اور توہین کرو اور انہیں کہتا کہ ہاں اور گالیاں دو.گندے بہتان لگاؤ اور الزام تر اشو اور پرده دار، عفت مآب بیبیوں کے نام لے لے کر ایسے مغلظات بکو کہ ایک لا مذہب بھی ان کو سن کر شرمانے لگے.کیا کوئی بھی مسلمان یہ وہم دل میں لاسکتا ہے کہ وہ سلامتی کا شہزادہ اپنے علماء کو ایسے ہیجان آمیز خطبات دینے کی تلقین کرتا جس سے بستیوں کا امن اٹھ جائے اور ایسی شعلہ نوائیوں کا حکم دیتا کہ جس سے بے کسوں اور کمزوروں کے گھروں اور اموال کو خود ان کے سمیت نظر آتش کر دیا

Page 27

مذہب کے نام پرخون جاتا اور کہتا کہ ابھی بس نہ کرو اور مرتدین کی مسجدیں مسمار کر دو جن کے اسلام کا کوئی جز تمہارے اسلام سے مختلف ہے اور ان کے مردوں کو بھی قتل کر دو اور ان کی عورتوں کو بھی کیونکہ فتنہ ارتدا دکومٹانے کا بس یہی ایک روحانی طریق ہے.خدارا اپنے دلوں کو ٹولو اور جواب دو کہ کیا کوئی بھی مسلمان ایک لمحے کے لئے یہ تصور کر سکتا ہے؟ نہیں اور یقینا نہیں.مجھے اس خدا کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور مکہ کی گلیوں کی ایک ایک اینٹ گواہ ہے جن پر مظلوم غلاموں کو ارتداد کی سزا میں مرے ہوئے جانوروں کی طرح گھسیٹا گیا تھا اور صحرائے عرب کی ریت کے سلگتے ہوئے ذرے گواہ ہیں اور وہ جھلستی ہوئی پتھر کی سلیں گواہ ہیں جنہیں ان بے کسوں کی چھاتیوں پر رکھا جاتا تھا کہ یہ اطوار سید ولد آدم کے اطوار نہیں اور یہ اخلاق اس مقدس رسول کے اخلاق نہیں.اور مجھے قسم ہے اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور طائف کی سنگلاخ زمین کا ایک ایک پتھر گواہ ہے جس پر سید ولد آدم کا خون ٹپکا تھا کہ میرے مظلوم آقا نے کبھی مذہب کے نام پر جبر کی تعلیم نہیں دی.عفت کے نام پر عصمتوں کو لوٹنے کا حکم نہیں دیا اور عبادت کی آڑ میں معبدوں کو مسمار کرنے پر انگیخت نہیں کیا.پھر کیوں نہ میری آنکھ شرم سے جھک جائے اور کیوں نہ میرا دل درد سے بھر جائے کہ اسی مقدس ذات کی طرف منسوب ہونے والے آج بھی ایسے بے درد را ہنما موجود ہیں.

Page 28

۲۱ أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ اِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (الحج:٢٠) اشاعت اسلام کے دو نظریے ! مذہب کے نام پرخون آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اشاعت اسلام کے طریق کے بارہ میں دنیا میں دو نظریات پائے جاتے ہیں:.ا.معاندین اسلام کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگیں جارحانہ جنگیں تھیں اور اسلام تلوار کے زور سے پھیلا.۲.غیر جانبدار تحقیق یہ ہے کہ:.مگر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اشاعت اسلام کی غرض سے تلوار نہیں اٹھائی اور آپ کی تمام جنگیں مدافعانہ جنگیں تھیں.اسلام پھیلا ہے تو محض آپ کی روحانی اور اخلاقی قوتوں سے.

Page 29

۲۲ مذہب کے نام پرخون اشاعت اسلام کے بارہ میں مولانا مودودی اور بعض غیروں کے نظریات ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ بعض مسلمان رہنما جبر و تشدد کے نظریہ کو صرف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ ہمارے پاک آقا کو بھی اس میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے دین اور اس کی قوت قدسیہ کو بھی اپنے کھو کھلے دلائل اور کرم خوردہ قوتوں کی طرح ایسا کمزور جانتے ہیں کہ گویا اگر تلوار اس کے قبضہ قدرت میں نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی وہ عظیم روحانی تبدیلی پیدا نہ کر سکتا جو عرب سے پھوٹنے والے اس روحانیت کے سرچشمہ نے چند سالوں میں کر کے دکھا دی تھی.ان کے نزدیک اس مظلوم نبی کی دفاعی جنگیں محض اپنے مذہب کو پھیلانے کے لئے ایک جارحانہ اقدام تھا اور اس کی مکی زندگی کا دور محض ایک ناطاقتی کی دلیل تھی.چنانچہ جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی نہایت واشگاف الفاظ میں رقم طراز ہیں :.”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے وعظ و تلقین کا جو مؤثر سے مؤثر انداز ہو سکتا تھا اسے اختیار کیا.مضبوط دلائل دیئے ، واضح حجتیں پیش کیں، فصاحت و بلاغت اور زور خطابت سے دلوں کو گرمایا.اللہ کی جانب سے محیر العقول معجزے دکھائے.اپنے اخلاق اور پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا اور کوئی ذریعہ ایسا نہ چھوڑا جو حق کے اظہار و اثبات کے لئے مفید ہوسکتا تھا لیکن آپ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپ کی صداقت کے روشن ہو جانے کے باوجود آپ کی دعوت

Page 30

۲۳ مذہب کے نام پرخون قبول کرنے سے انکار کر دیا.لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی اور شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا.طبیعتوں سے فاسد مادے خود بخود نکل گئے.روحوں کی کثافتیں دور ہو گئیں اور صرف یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نور صاف عیاں ہو گیا بلکہ گردنوں میں وہ سختی اور سروں میں وہ نخوت بھی باقی نہیں رہی جو ظہور حق کے بعد انسان کو اس کے آگے جھکنے سے باز رکھتی ہے.عرب کی طرح دوسرے ممالک نے بھی جو اسلام کو اس سرعت سے قبول کیا کہ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہوگئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے لے “ إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یعنی وہ گندہ اور سخت بہیمانہ الزام جو اسلام کے اشد ترین متعصب دشمنوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر لگایا جا تا تھا جسے یورپ کے یاوه گومستشرقین گزشتہ صدی تک عیسائی دنیا میں اچھالتے رہے اور اسلام سے دلوں کو متنفر کرتے رہے وہ آج خود ایک مسلمان راہنما کی طرف سے اس مقدس رسول کی پاک ذات پر لگایا جا رہا ہے ایک ایسے راہنما کی طرف سے جسے ” مزاج شناس رسول “ “ ہونے کا دعویٰ ہے.گوالفاظ کو میٹھا بنانے کی کوشش کی گئی ہے، گوتلوار کی اس مزعومہ فتح کو پر شوکت بنا کر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے مگر گولی وہی کڑوی اور نا پاک اور زہریلی گولی ہے جو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھینکی جاتی تھی.یہ وہی پتھر ہے جو اس سے پہلے جارج سیل اور سمتھ اور ڈوزی نے آنحضرت پر پھینکا تھا اور وہی الزام ہے جو مسٹر گاندھی نے آنحضور پر اس وقت لگایا تھا جب وہ اسلام کی تعلیم سے ابھی پوری طرح آشنا نہیں تھے اور محض دشمنان اسلام کی کہی ہوئی باتوں کوسن کر یہ تاثر قائم کر لیا تھا.چنانچہ مسٹر گاندھی کے الفاظ میں:.اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج الجہاد فی الاسلام صفحہ ۷ ۱۳، ۱۳۸ 66

Page 31

۲۴ مذہب کے نام پرخون بھی تلوار ہے.“ اور ڈوزی کہتا ہے کہ :."محمد" کے جرنیل ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن لے کر تلقین کرتے تھے.“ اور سمتھ کا دعویٰ ہے کہ جرنیلوں کا کیا سوال خود ' آپ ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن لے کر مختلف اقوام کے پاس جاتے ہیں.اور جارج سیل یہ فیصلہ دیتا ہے کہ :.” جب آپ کی جمعیت بڑھ گئی تو آپ نے دعوی کیا کہ مجھے ان پر حملہ کرنے اور بزور شمشیر بت پرستی مٹا کر دین حق قائم کرنے کی اجازت منجانب اللہ مل گئی ہے“ ان سب دشمنان اسلام کی آوازوں کو سنئیے اور پھر مولا نامودودی کی مندرجہ بالا عبارت کا مطالعہ کیجئے.کیا یہ بعینہ وہی الزام نہیں جو اس سے پہلے بیسیوں دشمنان اسلام نے رسول معصوم کی ذات پر لگایا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ خطر ناک اور اس سے بھی زیادہ آپ کی قوت قدسیہ پر حملہ کرنے والا.آپ دشمنان اسلام کی عبارتیں پڑھ کر دیکھ لیجئے کہیں بھی آپ کو آنحضرت کی قوت قدسیہ کی مزعومہ کمزوری اور معجزات کی ناطاقتی کا ایسا ہولناک نقشہ نظر نہیں آئے گا جیسا مولانا مودودی نے کھینچا ہے یعنی آپ کی مسلسل تیرہ سال کی دعوت اسلام تو دلوں کو فتح کرنے سے قاصر رہی مگر تلوار اور جبروت نے دلوں کو فتح کر لیا.وعظ و تلقین کے مؤثر سے مؤثر انداز تو صحرائی ہواؤں کی نظر ہو گئے مگر نیزوں کی آنی نے دلوں کی گہرائیوں تک اسلام پہنچا دیا.آپ کے مضبوط دلائل تو عقل انسانی میں جاگزیں نہ ہو سکے مگر گرزوں کی مار ، خودوں کو توڑ کر ان کی عقلوں کو قائل کر گئی.واضح بحثیں ان کی قوت استدلال کو متاثر نہ کر سکیں مگر گھوڑوں کی ٹاپوں نے ان کو اسلام کی صداقتوں کے تمام راز سمجھا دیئے.فصاحت بلاغت بے کار گئی اور زور خطابت دلوں کو اس درجہ گرما نہ سکا کہ اسلام کا نور ان کے دلوں میں چمک اٹھتا حتی کہ خود عرش کے خدا کی طرف سے

Page 32

مذہب کے نام پرخون ظاہر ہونے والے محیر العقول معجزے بھی خائب و خاسر رہے اور ایک ادنی سی پاک تبدیلی بھی پیدا نہ کر سکے لیکن ” جب داعی اسلام نے تلوار ہاتھ میں لی...إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون - کس قدر مضحکہ خیز ہے یہ تصور اور کیسے تحقیر آمیز الفاظ ہیں کہ جن کو پڑھ کر رونا آتا ہے کہ یہ ایک اسلامی را ہنما کے قلم سے نکلے ہیں جو رسول کی محبت کا دعویدار ہے.مولانا کے ان الفاظ کو پڑھیے اور میزان الحق کے کینہ تو ز مصنف پادری فنڈر کے ان الفاظ کا مطالعہ کیجئے :.اب حضرت محمد تیرہ سال تک نرمی و مہربانی کے وسائل سے اپنے دین کی اشاعت میں کوشش کر چکے تھے.لہذا اب سے آنحضرت” النَّبِيُّ بِالسَّيْفِ کہلائے یعنی نبی تیغ زن بن گئے اور اس وقت سے اسلام کی مضبوط ترین و کارگر دلیل تلواری قرار پائی لے اگر ہم حضرت محمدؐ اور ان کے تابعین کے چال چلن پر غور کریں تو ایسا معلوم ہوگا کہ اب وہ خیال کرنے لگ گئے تھے کہ عقبہ کے موضوع و مقبول اخلاقی قواعد کی پابندی ان کے لئے ضروری نہ تھی.اب خدا ان سے فقط یہی ایک بات طلب کرتا تھا کہ اللہ کی راہ میں لڑیں اور تیغ و تیر اور خنجر و شمشیر سے قتل پر قتل کرتے رہیں ہے.“ اور اس کے بعد یہ مصنف مسیح کی مظلومی کا بڑے فخر سے نعوذ باللہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزعومہ جبر کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:.آپ کو خداوند یسوع مسیح کلمۃ اللہ اور حضرت محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم.راقم ) میں سے ایک کو پسند کرتا ہے.یا تو اس کو پسند کرنا ہے جو نیکی کرتا پھرا یا اس کو جو النَّبِی بِالسَّيْفِ “ کہلاتا ہے..پڑھیے:.پھر مولانا مودودی کی تائید میں ایک اور اسلام دشمن مسٹر ہنری کو پی کے مندرجہ ذیل الفاظ وو اور اپنی نبوت کے تیرہویں سال آپ نے اس امر کا اظہار کیا کہ خدا نے ا (میزان الحق صفحه ۴۶۸) ۲ (میزان الحق صفحه ۴۹۹) سے (تنمه میزان الحق)

Page 33

۲۶ مذہب کے نام پرخون مجھ کو نہ صرف بغرض مدافعت جنگ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ اپنا دین بزور شمشیر پھیلانے کی بھی اجازت دی ہے...“ اور ڈاکٹر اے سپر نگر کے یہ الفاظ پڑھیئے جو مولانا مودودی کی ہم خیالی میں اس رائے کا اظہار کرتے ہیں:.”اب پیغمبر (صلعم) نے فتنہ کے دفع کرنے کے لئے اپنے دشمنوں سے جنگ کرنے کا قانون خدا کے نام سے شائع کیا اور اس وقت سے یہ قاعدہ آپ کے (نعوذ باللہ ) خونی مذہب کا نعرہ جنگ ہو گیا.“ وہ دشمنان اسلام جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ترین معاندین میں شمار ہوتے ہیں.بغض وعناد سے جن کے سینے کھولتے ہیں جو نفرت کی آگ میں جلتے ہیں اگر وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جبر کا الزام لگا ئیں تو تعجب نہیں.غم تو بہت ہوتا ہے مگر تعجب نہیں.ہاں تعجب ان پر ہے اور حیف ہے ان پر جو اس معصوم اور مظلوم رسول کی پیروی کا دم بھر کر بھی آپ کی مقدس ذات پر بربریت کا الزام لگانے کی جسارت کرتے ہیں.مولانا مودودی کے نزدیک نہ کبھی پہلے اسلام میں یہ طاقت تھی کہ محض اپنے حسن و جمال سے تلوار کی مدد کے بغیر دلوں کو فتح کر سکے اور نہ آج یہ طاقت ہے.چنانچہ اپنے رسال حقیقت الجہاد میں رقم طراز ہیں:.کوئی ایک مملکت بھی اپنے اصول و مسلک کے مطابق پوری طرح عمل نہیں کر سکتی جب تک کہ ہمسایہ ملک میں بھی وہی اصول و مسلک نہ رائج ہو جائے.لہذا مسلم پارٹی کے لئے اصلاح عمومی اور تحفظ خودی دونوں کی خاطر یہ ناگزیر ہے کہ کسی ایک خطہ میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے پر اکتفاء نہ کرے بلکہ جہاں تک اس کی قوتیں ساتھ دیں اس نظام کو تمام اطراف میں وسیع کرنے کی کوشش کرے.وہ ایک طرف اپنے ے اہل عرب کی سپین کی تاریخ از هنری کو پی جلد اول صفحہ ۳۹ مطبوعہ بوسٹن.ماخوذ از مقدمہ تحقیق الجہاد صفحہ ۳۱ ماخوذ از مقدمه تحقیق الجهاد حواله تاریخ محمدی صفحه ۲۰۷ مطبوعہ الہ آبا دا ۱۸۵ء

Page 34

۲۷ مذہب کے نام پرخون افکار و نظریات کو دنیا میں پھیلائے گی اور تمام ممالک کے باشندوں کو دعوت دے گی کہ اس مسلک کو قبول کریں جس میں ان کے لئے حقیقی فلاح مضمر ہے.دوسری طرف اگر اس میں طاقت ہوگی وہ لڑ کر غیر اسلامی حکومتوں کو مٹا دے گی اور ان کی ا لڑکرتی جگہ اسلامی حکومت قائم کرے گی.“ اس عبارت کو جناب مولانا صاحب کی پہلی عبارت کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے بے اختیار گاندھی جی کی یہ رائے ذہن میں ابھر آتی ہے کہ:.”اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے کہ اس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور 66 آج بھی تلوار ہے.“ اور آنحضرت کی اس مصنوعی خیالی تصویر کی طرف دھیان منتقل ہو جاتا ہے جو واشنگٹن ارونگ نے اپنی مصنفہ سیرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پہلے ہی صفحہ پر چسپاں کی ہے اور جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہاتھ میں تلوار لئے اور ایک ہاتھ میں قرآن لئے ہوئے دکھایا گیا ہے اور معادل میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ مولانا کے نزدیک بھی اسلام اور اس کے مقدس رسول کا تصور واشنگٹن اور نگ کے تصور سے کچھ مختلف نہیں ہے.پس ایک طرف تو یہ مسلمان عالم ہے کہ دنیا کے معصوم ترین نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اشد ترین مخالفین کا ہمنوا ہو کر ظلم اور تعدی اور جبر اور بغاوت کے الزام لگا رہا ہے اور دوسری طرف ہمیں بے شمار ایسے انصاف پسند غیر مسلم مفکرین کا گروہ نظر آتا ہے جو باوجود شدید اختلاف کے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہرگز تلوار کے زور سے نہیں پھیلا بلکہ اپنے ظاہری و باطنی حسن اور عظیم اخلاق قوت کے زور سے دلوں پر فتح یاب ہوا.چنانچہ مولانا اور معاندین اسلام کے محررہ بالا اقتباسات کے بعد بے محل نہ ہوگا کہ ہم بعض انصاف پسند غیر مسلموں کی رائے بھی پیش کر دیں.یہ سب کے سب اسلام کے حامی و مداح نہیں ہیں بلکہ بعض ایسے بھی ہیں کہ خفیف سے خفیف موقع سے فائدہ اٹھا کر بھی اسلام پر حملہ کرنے سے نہیں چوکے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دفاعی جنگوں پر گہری تنقیدی نظر ڈالنے کے بعد انہیں بے اختیار یہ تسلیم کرنا پڑا کہ:.

Page 35

۲۸ مذہب کے نام پرخون اکثر متعصب مخالفین اسلام خصوصا گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے اور ملک میں آتش فتنہ و فساد کے بھڑ کانے والے کہا کرتے ہیں کہ حضرت محمد صاحب مدینہ جا کر طاقت وقوت حاصل کر کے اپنی اس بناوٹی تعلیم رحم و مروت کو باقی نہ رکھ سکے بلکہ اپنے زندگی کے اہم مقصود ( طلب دنیا، حکومت و مرتبہ، مال و دولت وغیرہ) کے حصول کے لئے بڑے زور کے ساتھ تلوار و قوت کا استعمال کیا بلکہ ایک خونی پیغمبر بن کر دنیا میں تباہی و بربادی مچائی اور اپنے اس بناوٹی صبر وضبط کے معیار سے گر گئے لیکن یہ ان کو تاہ بین مخالفوں کی (جن کو خواہ مخواہ کا بغض اسلام اور مسلمانوں سے ہے) تنگ نظری اور پکپاشت رو پی اگیان کا پردہ جوان کی نگاہوں پر پڑا ہوا ہے اور بجائے نور کے نار حسن کے فتح.اچھائی کے برائی ہی تلاش کرتے رہتے ہیں اور ہر ایک خوبی کے اعلیٰ مرتبہ تعلیم کو ایسی بری شکل وصورت میں پیش کرتے ہیں جن سے ان کی بد باطنی اور سیاہ قلبی کا بخوبی پتہ چلتا ہے.“ یہ اقتباس ایک غیر مسلم مقرر جناب پنڈت گیا نیندر صاحب دیو شر ماشاستری کی ایک تقریر سے لیا گیا ہے جو انہوں نے ۱۹۲۸ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر گورکھ پور میں فرمائی تھی.کچھ آگے چل کر یہی پنڈت صاحب اسلام کی فیصلہ کن طاقت کے بارہ میں اپنی تحقیق کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :.مخالفین اندھے ہیں.ان کو نظر نہیں آتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) کی تلوار رقم ومروت تھی.دوستی اور درگزر تھی جو مخالفین پر پورے طور پر کارگر ہوتی اور ان کے قلب کو پاک وصاف کر کے مثل آئینہ بنا دیتی جس کی کاٹ اس مادی تلوار سے بڑی زبر دست اور تیز ہوتی ہے ،، اس اقتباس کے بعد کسی رائے زنی یا موازنہ کی ضرورت نہیں رہتی مگر دل سے بے اختیار یہ لے دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظر میں صفحہ ۵۷ ے دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظر میں صفحہ ۶۱

Page 36

۲۹ وو مذہب کے نام پرخون آہ نکل جاتی ہے کہ کاش مولانا مودودی اپنے آقا کے بارہ میں اتنے ہی انصاف سے کام لیتے جتنا کرشن کے ایک غلام نے لیا ہے.ایک نہیں بلکہ بیسیوں حضرت کرشن کے غلاموں نے جب تاریخ اسلام پر غور کیا تو ہمارے آقا کی بے پناہ قوت حسن و احسان کو محسوس کیا اور یہ کہے بغیر ان سے بن نہ پڑی کہ :.”لوگ کہتے ہیں کہ اسلام شمشیر کے زور سے پھیلا مگر ہم ان کی اس رائے سے موافقت کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ زبردستی سے جو چیز پھیلائی جاتی ہے وہ جلدی ظالم سے واپس لے لی جاتی ہے ( تعجب ہے کہ مولانا کی نظر مزاج شناس نبوت“ انسانی فطرت کے اس ظاہر و باہر نکتہ کو نہیں پاسکی.ناقل ) اگر اسلام کی اشاعت ظلم کے ذریعے ہوئی ہوتی تو آج اسلام کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا.لیکن نہیں.ایسا نہیں ہے بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام دن بدن ترقی پر ہے.کیوں؟ اس لئے کہ بانی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) کے اندر روحانی شکتی تھی.منش ماتر ( بنی نوع انسان ) کے لئے پریم تھا.اس کے اندر محبت اور رحم کا پاک جذبہ کام کر رہا تھا.نیک خیالات اس کی راہنمائی کرتے تھے ، مگر مولانا صاحب پھر بھی مصر ہیں کہ اسلام کی فیصلہ کن طاقت کا راز آپ کے روحانی اعجاز میں نہیں بلکہ تلوار میں مضمر تھا.حیف ! صد حیف!! کہ آپ کی مقدس زندگی کا وہ معجزہ جو ایک غالی آریہ کی نظر سے بھی اوجھل نہ رہ سکا مولانا کی ” پر بصیرت آنکھ اسے دیکھنے سے محروم رہ گئی.” آریہ مسافر کی اسلام دشمنی سے کون واقف نہیں ہے.یہ آریہ مذہب کا وہ ترجمان ہے جو ہمیشہ اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ رہا مگر جب اس کے ایک مقالہ نویس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کی وجوہ پر غور کیا تو تلوار کی قوت کے الزام کو ایک فرسودہ اور بے بنیادا تہام کے طور پر ٹھکرا دیا اور آپ کے غلبہ کی وجہ محض یہ قرار دینے پر مجبور ہو گیا کہ آپ کی زندگی ایک مجسم معجزہ تھی چنانچہ وہ لکھتا ہے اور انسانی فطرت کی کیسی سچی اور پاک گواہی ہے کہ:.لے از قلم ایڈیٹرست آپریشن لاہور مورخہ ۷ / جولائی ۱۹۱۵ ء ماخوذ از برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ ۱۲، ۱۳

Page 37

وو مذہب کے نام پرخون وہ شخص جس نے قریش کو ایمان کا جام شہادت پلا یا ایک معجزہ تھا.اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) کی زندگی ایک معجزہ نہ ہوتی تو کون ہم کو ولید (غالباً خالد بن ولید مراد ہیں.ناقل ) کی بے غرضانہ خدمات سے مستفید کرتا.حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) نے جوش ایمان کا دریا موجزن کیا اور عرب کی جنگلی آبادی کو ایک واحد خدا کا پرستار بنایال ،، پھر لاہور میں ہونے والے آریہ سماج کے ایک جلسہ میں پروفیسر رام دیو صاحب سابق پروفیسر گروکل کانگڑی وایڈیٹر و یدک میگزین نے ہمارے آقا و مولا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائے جانے والے اس مکروہ انتہام کو غلط قرار دیتے ہوئے کہ آپ نے اسلام تلوار سے پھیلا یا تھا ان الفاظ میں اپنی تحقیق کا اظہار کیا:.دو لیکن مدینہ میں بیٹھے ہوئے محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) نے ان میں جادو کی بجلی بھر دی.وہ بجلی جو انسانوں کو دیوتا بنادیتی ہے...اور یہ غلط ہے کہ اسلام محض تلوار سے پھیلا ہے.یہ امر واقعہ ہے کہ اشاعت اسلام کے لئے کبھی تلوار نہیں اٹھائی گئی.اگر مذہب تلوار سے پھیل سکتا ہے تو آج کوئی پھیلا کر دکھا دے گے.اس آخری فقرہ میں کیسی لازوال سچائی بھری ہوئی ہے اگر مذہب تلوار سے پھیل سکتا ہے تو آج کوئی پھیلا کر دکھا دے.“ ہمارے مقدس آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر جبر کا الزام لگانے والوں کے لئےلمحہ فکریہ اور چیلنج ہے اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مذہب کو پیدا کیا کہ جب سے سلسلہ نبوت جاری ہوا ہے نہ کبھی پہلے کسی جابر متشدد نے اس چیلنج کا جواب دیا نہ آج دے سکتا ہے نہ کبھی آئندہ دے سکے گا اور ایک مودودی نہیں پچاس کڑور مودودی بھی مل کر کوشش کریں تب بھی ایک انسان کے دل سے بھی تلوار کی قوت سے اس کا مذہب نکال نہیں سکتے.ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آریہ مسافر اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۲، ۳ حواله برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ ۲۴ اخبار پر کاش بحوالہ برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ ۱۱

Page 38

۳۱ مذہب کے نام پرخون اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کے مخالفین کی طرف سے مذہب کو بزور تبدیل کرانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ تلوار اٹھائی گئی مگر ہر بار خائب و خاسر رہی.وہ ہاتھ شل ہو گئے اور وہ تلوار میں ٹوٹ گئیں اور مذہب ان کے سائے تلے بے خوف پھیلتا اور پھولتا اور پھلتا رہا.پھر ان سب نبیوں کے سردار کے کب شایاں تھا کہ اس معصوم گروہ کے کامیاب طریقہ تبلیغ کو چھوڑ کر نا کام ظالموں کا وطیرہ اختیار کرتے نہیں.ایسا مت کہو کہ یہ میرے آقا پر توڑے جانے والے سب فلموں سے زیادہ ظلم ہے اور ایسا صریح ظلم ہے کہ غیر بھی بے اختیار پکار اٹھے کہ نہیں ایسا نہیں ہوا.چنانچہ موسیو اوجین کلوفل نے آپ سے متعلق لکھا:.محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) نے تمام دنیا کو فتح کرنا اور اسلام کا بول بالا کرنا چاہا مگر غیر مذاہب والوں پر کسی قسم کا جبر وستم کرنا روا نہیں رکھا.ان کو مذہب اور رائے کی آزادی عطا کی اور ان کے تمدنی حقوق قائم رکھے لے “ مسٹر گاندھی کو بھی جن کی فراست بڑی گہری تھی مزید تحقیق کے بعد آخر اپنی اس رائے کو تبدیل کرنا پڑا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور اپنے اخبار ” ینگ انڈیا کی ایک اشاعت میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ :.میں جوں جوں اس حیرت انگیز مذہب کا مطالعہ کرتا ہوں حقیقت مجھ پر آشکارا 66 ہوتی جاتی ہے کہ اسلام کی شوکت تلوار پر مبنی نہیں.“ اور ڈاکٹر ڈی.ڈبلیو.لائٹز نے بھی خود قرآن ہی سے اس الزام کی تردید میں ایک مضہ استدلال کرتے ہوئے لکھا:.فی الواقع ان لوگوں کی تمام دلیلیں گر جاتی ہیں جو محض اس بات پر قائم ہیں کہ جہاد کا مقصد تلوار کے ذریعے سے اسلام کا پھیلا نا تھا کیونکہ بخلاف اس کے سورہ حج میں صاف لکھا ہے کہ ”جہاد کا مدعا مسجدوں اور گر جاؤں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں اور زاہدوں اور عابدوں (تپشیر وں ) کی خانقاہوں ( تپسیا شالاؤں) کو بربادی سے محفوظ رکھنا ہے.“ لے اسلام اور علمائے فرنگ صفحہ ۹ بحوالہ برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ ۱۱ ۲؎ ایشیا تک کوارٹر لی ریویوا کتوبر ۱۸۸۶ء

Page 39

مذہب کے نام پرخون پس تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے کا الزام لگانے والوں سے میں خو د قرآن ہی کے الفاظ میں پوچھتا ہوں "أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلَى قُلُوبِ أَقْفَالُهَا (محمد:۲۵) کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ یا دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں!“ مگر مولانا کو کون سمجھائے کہ وہ اس دعویٰ پر مصر ہیں اور ببانگ دہل مصر ہیں اور فنڈ ر اور سیل اور ہنری کو پی اور سمتھ اور ڈوزی اور سپر نگر کی ہمنوائی میں مصر ہیں اس اعلان پر کہ:.یہی پالیسی تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا.عرب جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی سب سے پہلے اسی کو اسلامی حکومت کا زیر نگیں کیا گیا.اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول اور مسلک کی طرف دعوت دی مگر اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا.آنحضرت کے بعد حضرت ابو بکر پارٹی کے لیڈر ہوئے تو انہوں نے روم اور ایران دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا اور حضرت عمر نے اس حملہ کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچادیالے “ 66 اگر یہ تحریر کسی اشترا کی تاریخ نویس کی ہوتی اور یہ پالیسی مارکس یالین یا سٹالن کی طرف منسوب کی جاتی اور مسلم پارٹی کی جگہ ” کمیونسٹ پارٹی کے الفاظ ہوتے تو مجھے کچھ تعجب نہ ہوتا اور میں بغیر کسی قلبی ہیجان کے اس عبارت کو پڑھ کر آگے گزر جا تا اور خیال بھی نہ کرتا کہ یہ کسی نے کیا لکھا ہے کاش ایسا ہی ہوتا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا.افسوس کہ ایسا نہیں ہے.اور یہ ایک مسلم راہنما کی تحریر ہے جو واشگاف الفاظ میں اس مقدس ذات پر یہ اتہام لگا رہا ہے جس کی غلامی کا دعویٰ کرتا ہے.یہ مولانا مودودی کی تحریر ہے الفاظ واضح اور غیر مہم ہیں.الزام سخت گھناؤنا اور بھونڈا ہے اور صرف ایک الزام نہیں بلکہ الزام پر الزام لگایا گیا ہے.اس تحریر کا پڑھنا بھی مجھ پر سخت گراں ہے اور اس کا لکھنا بھی.اور نا قابل بیان اذیت پہنچتی ہے جب اس فقرہ پر نظر پڑتی ہے حقیقت جہاد صفحه ۶۵

Page 40

۳۳ مذہب کے نام پرخون کہ دعوت اسلام تو بھیجی مگر :.اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا...66 آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پالیسی تو ایک معصومانہ پالیسی تھی جو ایک نوزائیدہ بچہ کے دل کی طرح پاک وصاف تھی.آپ نے تلوار اسی وقت اٹھائی جب آپ پر حد سے بڑھ کر مظالم توڑے گئے.آپ کے ہاتھ سلامتی کے ہاتھ تھے اور جارحیت کی تلوار سے سراسر نا آشنا تھے.شریف النفس غیروں نے بھی جب آپ کی اس پالیسی پر نگاہ کی تو اسے کلیتہ سلامتی اور امن اور دفاع کی پالیسی قرار دیا چنانچہ مودودی صاحب کے مندرجہ بالا الفاظ پڑھنے کے بعد اب ایک سکھ معاصر کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیے:.ابتدا میں آنحضرت کے مخالفین نے جب آپ کا جینا اجیرن بنا دیا تو آپ نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ چلے جاؤ یعنی اپنے کسی ہم وطن بھائی پر ہاتھ اٹھانے کی بجائے حضور نے اپنا پیارا وطن چھوڑ نامنظور کر لیا.لیکن آخر کا ر جب ان پر ظلم اور جبر کی حد کر دی گئی تو مجبوراً آپ نے اپنی اور اسلام کی حفاظت میں تلوار اٹھائی یہ پر چار کہ دین کی اشاعت کے لئے جبر کرنا جائز ہے ان احمق لوگوں کا عقیدہ ہے جنہیں نہ دین کی سمجھ ہے نہ دنیا کی.وہ حقیقی سچائیوں سے دور ہونے کی وجہ سے اس اللہ عقیدہ پر فخر کرتے ہیں اے.اس پر میں کوئی مزید تبصرہ نہیں کرتا قارئین کا دل خود گواہی دے گا کہ دونوں میں سے کون سچا ہے ایک سکھ جریدہ نگار یا مزاج شناس نبوت“؟ نواں ہندوستان دہلی اشاعت ۴۹.۱۱.۱۷

Page 41

۳۴ مذہب کے نام پرخون اشاعت اسلام پر جبر کا الزام تاریخی شواہد کی روشنی میں گزشتہ باب میں مولانا مودودی کا جو اقتباس نقل کیا گیا ہے (لیکن جب وعظ وتلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی یہ ان کی کتاب الجہاد فی الاسلام سے اخذ کیا گیا ہے.اس کتاب کے مطالعہ سے انسان بغیر کسی دقت کے اس نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کی ذہنی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس کا فکر اس کے ذاتی رجحانات اور قلبی کیفیات کا تابع ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل ایک منصف اور قاضی کے طور پر عطا فرمائی ہے جو اس کے جذبات اور علم پر یکساں عدل کو جاری کرتی ہے اور اگر ایک طرف ان دونوں کو ایک دوسرے پر ناجائز دسترس سے باز رکھتی ہے تو دوسری طرف ان کے اندرونی توازن کو بھی قائم کرتی ہے لیکن اگر کسی کی نظر وفکر کا یہ قاضی غلط تربیت کی بناء پر غیر منصف ہو جائے یا آزاد نہ رہ سکے اور خود اپنے ہی جذبات کا غلام ہو کر رہ جائے تو ایسے شخص کی ذہنی دنیا میں ایک انتشار ، لا قانونی اور بدنظمی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں.اگر یہ غیر آزاد یا غیر منصف عقل کسی ایسے شخص میں پائی جائے تو جاہل مطلق ہو یا جذبات سے بالکل عاری ہو تو انسان کو بحیثیت اجتماعی اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا.مگر جس قدر بھی ایسے شخص کے پاس علمی موادزیادہ ہو یا جذبات کی فراوانی ہو اسی قدر یہ غلط نتائج اخذ کر کے دنیا کے لئے ایک مصیبت اور ابتلاء کا موجب بن سکتا ہے.جب یہ قاضی کمزور ہو تو کبھی تو یہ اپنے جذبات کا غلام بن جاتا ہے اور کبھی ظاہری علم کا کبھی تو ایک بھٹکتے ہوئے شاعر یا ایک جنونی کے بھیس میں ظاہر ہوتا ہے کبھی ایک خشک فلسفی یا ایک روحانیت سے عاری عالم کا روپ دھار لیتا ہے اور ان میں سے ہر صورت بنی نوع انسان کے لئے

Page 42

مذہب کے نام پرخون ایک مصیبت اور خطرہ بن جاتی ہے.مولا نامودودی کی بعض کتب مثلاً ” الجہاد فی الاسلام“ کے مطالعہ سے میں نے یہ تاثر قائم کیا ہے کہ ان کے ہاں عقل کا قاضی آزاد نہیں بلکہ مخصوص ذاتی رجحانات کا تابع ہے.یہی وجہ ہے کہ اپنے مهیا شدہ علمی مواد سے جو نتائج اخذ کرتے ہیں وہ سخت مضطرب بلکہ باہم برسر پیکار ہیں.اسلام سے متعلق مولانا پہلے سے یہ تہیہ کئے بیٹھے ہیں کہ اس مذہب معصوم کو اگر پھیلا یا جا سکتا ہے تو تلوار کے زور سے مگر مشکل درمیان میں یہ آن پڑتی ہے کہ اول تو قرآن اس نظریہ کے مخالف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کے خلاف ہے دوسرے غیروں کی نظر کا کچھ کچھ ڈر وہ کیا کہیں گے کہ اسلام ایک ایسا بہیمانہ مذہب ہے.بہر کیف مولانا عجیب تذبذب میں مبتلا ہیں جو چاہتے ہیں وہ پوری طرح کہہ نہیں سکتے اور جو کہہ سکتے ہیں وہ دل کی پوری آواز نہیں.اسی الجھن میں پھنس کر مولانا نے ایک پیچ در پیچ طریق مافی الضمیر کے اظہار کا نکالا ہے.زیر بحث کتاب میں ابتداء تو اس دعویٰ سے کرتے ہیں کہ اسلام مذہب میں جبر کو روانہیں رکھتا مگر انتہاء اس کے بالکل برعکس دعویٰ پر جا کر ہوتی ہے.اس کتاب کے شروع میں سارا زور یہ ثابت کرنے پر صرف کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگیں مدافعانہ جنگیں تھیں اور ان کی غرض یہ تھی کہ انسان کی آزادی ضمیر قائم کی جائے ، جبر و تشدد کے ذریعہ اسلام کو دبانے کے لئے مخالفین کی تمام نا پاک کوششیں ناکام بنادی جائیں اور حق کو ان کی عائد کردہ قیود سے آزاد کیا جائے.ایک قدم آگے یہ پڑھ کر انسان کا دل خوش ہو جاتا ہے کہ بڑا ہی پاک مذہب ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ایسی آزاد اور پر امن تعلیم دیتا ہے اور انسان کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی خیالات میں پوری طرح آزاد ہے اور اس پر دوسرے مذہبی نظریات ٹھونسنے کے لئے ہر قسم کا جبر ناجائز ہے لیکن افسوس کہ یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی اور مودودی صاحب یہاں پہنچ کر پینترا بدلنے لگتے ہیں اور استدلال کا سارا دھارا اس طرف پھر جاتا ہے کہ کسی طرح اسلام کے ساتھ تشدد کے نظریات کو باندھا جائے.آپ یہ پڑھ کر حیران تو ضرور ہوں گے کہ اگر پہلے اس نظریے کو تسلیم کر لیا جائے کہ اسلام کی جنگیں محض خود حفاظتی کی جنگیں تھیں اور مذہب میں جبر کے استعمال کے خلاف ایک

Page 43

مذہب کے نام پرخون عملی احتجاج کے طور پر تھیں تو پھر اسی سانس میں یہ کہنے کی گنجائش ہی کہاں رہتی ہے کہ اسلام خود مذہب کے نام پر جبر روا رکھتا ہے.یہ سمجھنا آپ کے لئے اور میرے لئے مشکل ہو تو ہومگر مودودی صاحب کے لئے مشکل نہیں.چنانچہ اس مقام پر اس امر کی پوری تسلی کر لینے کے بعد کہ مخالفین اسلام کا منہ دندان شکن جواب دے کر بالکل بند کر دیا گیا ہے، اب اپنوں میں بیٹھ کر دل کی بات کا اظہار شروع کرتے ہیں اور ایک حیرت انگیز قلب ماہیت TRANSFORMATION میں سے گزرتے ہوئے قرآن و حدیث کو من مانے معنی پہنا کر اور نا قابل فہم وجوہ جواز پیش کر کے آخر اس نتیجہ تک پہنچ ہی جاتے ہیں کہ مسلمان بنانے کے لئے تو جنگ بہر حال جائز نہیں مگر بری باتوں سے روکنے کے لئے ضرور جائز بلکہ فرض ہے.اور چونکہ غیر اسلامی ممالک اور تمدن میں بری باتیں ہوتی ہی ہیں اس لئے اسلام ہر گز یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی اپنے ملک میں آپس میں بری باتیں کرتا رہے.اس جبر کو تو انسانی آزادی میں دخل نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اسلام پھیلانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو محض بری باتوں سے روکنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے.ایک اور قدم آگے یہ فرما کر مولانا اپنے ذاتی رجحانات کے بہت قریب آجاتے ہیں مگر ابھی دل کی پوری بات نوک قلم پر نہیں آئی.بھلا اس میں کیا لطف ہوا کہ کسی کو بزور شمشیر بری باتیں کرنے سے منع کر کے انسان اپنا رستہ پکڑ لے.جب ایک دفعہ بری باتوں سے روکنے کی غرض سے تلوار ہاتھ میں پکڑ ہی بیٹھے تو پھر کیا اسی پر بس کر دیں گے؟ نہیں بلکہ اس کی کوئی اور غرض ہونی چاہیے اور وہ غرض ڈھونڈنی بھی کچھ مشکل نہیں.اگر قرآن کریم کی صرف ایک آیت کو محل سے بے محل کر کے اسے حسب منشا معنی پہنا دیئے جائیں تو با آسانی ایسا ہو سکتا ہے.چنانچہ یہی آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے مودودی صاحب فرماتے ہیں:." حَتَّى يُعطوا الجِزْيَةَ میں اس قتال کی غرض و غایت کو اچھی طرح بیان کر دیا گیا ہے ( جس قتال کو بری باتوں سے روکنے کی غرض سے شروع کیا گیا تھا.ناقل ) اگر حتی يُسْلِمُوا کہا جاتا تو البتہ غایت قتل یہ ہوتی کہ انہیں تلوار کے زور سے مسلمان بنایا جائے لیکن حَتَّى يُعطوا الْجِزْيَةَ نے بتا دیا کہ ان کا ادائے جزیہ پر راضی ہو جانا قتال کی

Page 44

۳۷ مذہب کے نام پرخون آخری حد ہے اور اس کے بعد پھر ان کی جان و مال پر کوئی حملہ نہیں کیا جاسکتا خواہ وہ اسلام قبول کریں یا نہ کریں لے “ قارئین اب تک میرے اس تمہیدی بیان کا مطلب بخوبی سمجھ چکے ہوں گے کہ غیر آزاد عقل کو جب علم پر کچھ دسترس حاصل ہو تو وہ دنیا کے سامنے عجیب مضطرب اور مہلک نتائج پیش کرتی ہے.تمسخر کی انتہاء ہے کہ ابتداء تو اس بیان سے شروع ہوتی ہے کہ اسلام ایک آزادی ضمیر کا مذہب ہے اور اسلامی جنگوں کی غرض صرف یہ تھی کہ مخالفین کی طرف سے مذہبی آزادی کو کچلا جارہا تھا.وسط میں جا کر یہ نظریہ پیش کیا جاتا ہے کہ دراصل اسلام کے دو حصے ہیں اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا.بزور اچھی باتوں کا حکم دینا تو چونکہ آزادی ضمیر کے خلاف ہے اس لئے اسلام ایسا نہیں کرتا مگر بری باتوں کو چونکہ کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا اس لئے دنیا کے کونے کونے سے بزور شمشیر مٹانے کے لئے جنگ کا حکم دیتا ہے اور آخر پر نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ چونکہ بری باتوں کو مٹانے کی غرض سے جنگ کی گئی تھی اس لئے اسلام جزیہ لے کر راضی ہو جاتا ہے اور پھر ان کی جان و مال پر کوئی حملہ نہیں کیا جاسکتا خواہ وہ اسلام قبول کریں یا نہ کریں.یہاں پہنچ کر مولا نا کونصف اسلام یعنی بری باتوں سے روکنا بھی بالکل بھول جاتا ہے کیونکہ جز بیل گیا اور اصل غرض و غایت پوری ہوگئی.چنانچہ یہ ذکر کرنا بھی یاد نہیں رہتا کہ اس جگہ اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے سے کیا مراد ہے.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں یا دونوں میں سے ایک.آخری چھلانگ لیکن ابھی تک بھی مولانا اپنے مافی الضمیر کو پوری طرح ادا نہیں فرما سکے اور ایک آخری چھلانگ لگانی باقی ہے.مودودی فکر یہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ اشاعت اسلام کو تلوار سے کوئی واسطہ نہ ہوا اور تشدد کے بغیر بھی کوئی مذہب دنیا میں پھیل سکے.چنانچہ قال کی غرض و غایت جزیہ حاصل کرنا بیان فرما کر یہ ثابت فرمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اشاعت اسلام کے لئے تلوار بہر حال ناگزیر تھی.چنانچہ انگریزی کے اس محاورہ کے مطابق کہ بلی بیگ سے باہر نکل آئی“ CAT IS OUT OF THE BAG دل کی بات آخر با ہر نکل ہی آتی ہے اور مولانا اچانک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الجہاد فی الاسلام صفحہ ۹۳

Page 45

۳۸ مذہب کے نام پرخون مقدس نام پر اس الزام کے ساتھ جست لگاتے ہیں لیکن جب معجزات کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے تلوار ہاتھ میں لی اور معاوہ سب کچھ کہہ ڈالتے ہیں جواب تک سینہ میں دبا پڑا تھا (افسوس کہ اس مقام سے پہلے اگر مولانا کے قدم تمسخر کی حدود میں اٹھ رہے تھے تو اس چھلانگ کے ساتھ ہی صریح ظلم وستم کی حد میں داخل ہو جاتے ہیں ) اور اپنے مخصوص رنگ میں رات کو دن اور دن کو رات بتاتے ہوئے اشاعت دین کے اسی خونی تصور کو عین راستی اور حق دکھاتے ہیں.آخری نتیجہ ان تمام سیاہ کئے ہوئے صفحات کا یہ نکلتا ہے کہ:.و جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے." کچھ دیکھا آپ نے کہ کہاں سے چلے تھے اور کہاں جا نکلے.کس غرض سے تلوار پکڑی تھی اور کہاں استعمال ہونے لگی ؟ مولا نا کی اس ڈپلومیسی کو دیکھ کر خود بخود ذہن ان ممالک کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو اپنے دفاع کی غرض سے ہتھیار لے کر جارحانہ مہمات میں استعمال کرنے لگتے ہیں.مولا نا کو اختیار ہے کہ جو چاہیں کریں اور جس طرح چاہیں سوچیں.صرف اتنی احتیاط لازم تھی کہ حاسد دشمن کے لئے جو پہلے دن سے ہی اسلام اور داعی اسلام پر بشدت حملہ آور ہے اور موقع کی تلاش میں ہر آن چوکس و ہوشیار ہے خود اپنے ہاتھ سے قلعے کے دروازے نہ کھول دیتے ! اگر مولانا نے قرآن وحدیث کا مطالعہ نہ کیا ہوتا یا انہیں تاریخ اسلام کی کچھ بھی واقفیت نہ ہوتی تو میں اس خیال سے تسلی پالیتا کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں لاعلمی میں کہہ رہے ہیں مگر افسوس کہ یہ کہنے کی بھی گنجائش باقی نہیں.علم سب اپنی جگہ پر ہے اور سب کچھ جان رہے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ تاریخ اسلام کا ایک ایک ورق ، ایک ایک لفظ اس نظریہ کو جھٹلا رہا ہے کہ اشاعت اسلام میں تلوار کوکوئی ذرہ بھر بھی دخل تھا.اسی نظریہ پر مصر ہیں اور ببانگ دہل مصر ہیں اور نہیں بتا سکتے کہ اگر دلوں کے زنگ دھونے کے لئے تلوار ایسی ہی ضروری تھی تو ابو بکر اور عمر اور عثمان اور علی کے دلوں کے زنگ کس تلوار الجہاد فی الاسلام صفحہ ۱۳۸

Page 46

۳۹ مذہب کے نام پرخون نے دھوئے تھے اور کس تلوار نے بلال حبشی کے دل میں توحید کا نور داخل کیا تھا ؟ پھر وہ تلوار کونسی تھی جس نے زید بن حارث اور زبیر بن العوام کو مسلمان کیا ؟ اور وہ کونسی تلوار تھی جو حمزہ اور طلحہ کے دل کو ایمان بخش گئی ؟ عبد الرحمن بن عوف اور ابو عبیدہ بن عبد اللہ ، عثمان بن مظعون اور سعد بن ابی وقاص کے دل کس تلوار کی آب سے مصفی کئے گئے ؟ اور وہ سارے مہاجرین اور وہ سارے انصار جن کی تعداد ہزار تک جا پہنچتی ہے اور جن سے متعلق خود مولانا کو بھی تسلیم ہوگا کہ ان کے قبول اسلام میں کسی تلوار کے دخل کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا.کس طرح تطہیر قلوب کے اس ضروری ہتھیار کے بغیر پاک دل ہونے میں کامیاب ہو گئے.کس طرح ان کے زنگ کھرچے گئے اور نیا رنگ چڑھانے کے لئے دل صقیل کئے گئے ؟ مولانا ! تاریخ اسلام پر ایک نظر ڈال کر بتائیے کہ کیا یہ درست نہیں کہ یہ مہاجرین وانصار جن کے قبول اسلام میں تلوار کے دخل کے آپ بھی منکر ہوں گے.یہی تو وہ اسلام کا پھل تھے جو پھل لگانے کے لئے بانی اسلام دنیا میں تشریف لائے ، یہ وہی تو ہیں جنہیں اسلام کا رسول فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر سکتا تھا کہ اے بنی آدم ! یہ ہیں وہ کائنات کا خلاصہ جسے پیدا کرنے کے لئے کائنات کو خلعت وجود بخشی گئی ، یہی ہیں جنہیں آسمان ہدایت کے ستارے کہا گیا اور انہیں میں کچھ تھے جن سے متعلق بدر کے میدان میں پیغمبر اسلام نے روروکر خدا کے حضور دعا کی کہ اللَّهُمَّ إِن أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةِ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا ”اے اللہ ! اگر اس جماعت کو تو نے ہلاک ہونے دیا تو زمین میں پھر کبھی تیری عبادت نہ کی جائے گی.“ میہ وہی عباد کی سرتاج جماعت تھی جن کے دل رب العرش کی تخت گاہ بن گئے اور سینے خدا کے ذکر سے معمور ہو گئے.یہ کون لوگ تھے اور یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ کیا یہ وہی عرب کے بسنے والے آزاد منش نہ تھے جن کے دل الا ما شاء اللہ قبول اسلام سے پہلے طرح طرح کی بدیوں کے پھندے میں گرفتار تھے اور شرک کا زنگ ان پر تہہ بہ تہہ چڑھا ہوا تھا جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روحانی پانی سے دھویا اور پاک وصاف کیا.پھر ان کے ظاہر و باطن کو خدا تعالیٰ کے رنگ میں خوب رنگین کر دیا یہاں تک کہ یہ رنگ ان کی روح کی گہرائیوں تک اتر گیا اور ایسا وافر ہوا کہ پیشانیوں

Page 47

مذہب کے نام پرخون سے پھوٹنے لگا مگر ایک مرتبہ بھی اس عظیم روحانی انقلاب کے دوران میں داعی اسلام کو آلات جنگ کی ضرورت پیش نہ آئی.کیا وہ بعد کے آنے والے مسلمان جو اسلام کے ایک عام روحانی غلبہ کے بعد مسلمان ہوئے ان ستاروں کی خاک پا کے برابر بھی تھے؟...مولا نا! آپ کہاں چلے گئے اور کن ویرانوں میں بھٹک گئے ؟ سینے کہ میں خدا کی عظمت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین اپنی اشاعت کے لئے کسی دوسرے سہارے کا محتاج نہ تھا.آج بھی نہیں ہے، آئندہ بھی کبھی نہ ہو گا.یہ آپ نے کیا کہا کہ تلوار کا کام ” قلبہ رانی“ ہے.اور یہ آپ نے کیا کہہ دیا کہ تلوار قبول ہدایت سے پہلے دلوں کے زنگ کو دور کرتی ہے.کیا آپ فطرت انسانی کی الف بے سے بھی واقف نہیں؟ کیا آپ اس کھلی ہوئی حقیقت سے بھی آشنا نہیں کہ تلوار سچائی کے بیچ کے لئے قلبہ رانی نہیں کرتی بلکہ خود نفرت اور بغاوت کے بیچ ہوتی ہے اور فطرت انسانی کے انگ انگ کو زہر آلود کر دیتی ہے.نہیں نہیں.اسلام ہرگز تلوار کے زور سے دلوں پر قبضہ نہیں کرتا بلکہ خود اپنی ذات میں ایک کامل روحانی طاقت ہے جو اپنے حق کے زور سے ہر سرکش سے سرکش سر کوخم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے.بتائیے کہ عمر کا سرکس نے ختم کیا تھا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار نے یا سورہ طلہ کی چند آیات کی تلاوت نے؟ مولا نا کو اپنے اس متشد د نظریہ کی تائید میں کہ اسلام تنہا نہیں بلکہ تلوار کے سہارے سے ہی پھیل سکتا ہے تاریخ اسلام سے اگر کوئی دور کی گواہی مل سکتی ہے تو وہ صرف یہ کہ جب اسلام کو فتح مکہ کے بعد سیاسی غلبہ نصیب ہو گیا اور جنگ حنین نے حملہ آور دشمنوں کی رہی سہی طاقت بھی ختم کر دی تو اسلام بڑی تیزی سے پھیلنے لگا.یہ ہے وہ تنہا تاریخی دلیل جس کے کھونٹے پر یہ سارا نظریہ ناچ رہا ہے.آیئے ہم کچھ دیر کے لئے اس دلیل کو تسلیم کر کے دیکھیں کہ ان بعد کے آنے والے مسلمانوں کے دلوں کو تلوار نے کس درجہ زنگ سے پاک کیا تھا.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ وہی بعد کے آنے والے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سب سے پہلی خدمت اسلام یہ کی که اسلامی حکومت کے خلاف ایک عام علم بغاوت بلند کر دیا اورلشکر در لشکر مرکز اسلام کی طرف چڑھ

Page 48

۴۱ مذہب کے نام پرخون دوڑے.مولانا! آئیے اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجئے کہ اگر یہی وہ لوگ تھے جن کے سر تلوار نے خم کئے تھے اور جن کے دلوں کو زنگ سے خوب صاف کر کے اسلام کا نور قبول کرنے کے لئے تیار کیا تھا تو یہ زنگ تو دوڑا چلا آتا ہے اور دلوں کو پھر ہر سمت سے اپنی طرف لپیٹ میں لے رہا ہے اور دیکھئے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس مشکل وقت میں اسلام کے لئے دشمن کے تیروں کے سامنے اپنے سینے سپر کئے.کیا وہی ابو بکر اور عمر اور عثمان اور علی نہیں تھے جن کے دلوں سے جاہلیت کے زنگ کو کسی تلوار نے نہیں چھڑا یا تھا ؟ میں نے مندرجہ بالا استدلال محض اس مفروضہ کو کچھ دیر تسلیم کرتے ہوئے پیش کیا ہے کہ یہی وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں اسلام محض اپنی صداقتوں کے زور سے نہیں بلکہ تلوار کی مدد سے داخل ہوا تھا.تلوار نے پہلے ہل چلایا پھر اسلام نے بیج بو دیا لے تب کہیں جا کر اسلام کی فصل پیدا ہوئی.پس میں مولانا کو اس فصل کا پھل دکھا رہا تھا جو مبینہ طور پر تلوار کے ہل کی پیداوار تھی.اب میں قارئین کے سامنے وہ حقائق پیش کرتا ہوں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل عرب کے قبول اسلام میں نہ پہلے ، نہ درمیان میں ، نہ بعد میں کبھی بھی تلوار کو دخل نہیں ہوا.سب سے پہلے میں اسی گروہ کو لیتا ہوں جو سب سے بعد میں مسلمان ہوئے اور جن سے متعلق یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے براہ راست تلوار کے خوف سے یا بالواسطہ اس کے اثر سے اسلام قبول کیا لیکن تاریخی حقائق پیش کرنے سے پہلے اس ضمن میں چند ایک تعارفی کلمات گوش گزار کر نے ضروری سمجھتا ہوں.تاریخ اسلام کے غیر متعصب آزاد مطالعہ کے بعد انسان اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسلام کے پھیلانے میں تلوار کبھی بھی رسول اللہ لی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مددگار نہیں ہوئی بلکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا.مسلمانوں کی دفاعی جنگیں جو سخت مجبوری کے عالم میں انسانی جان کی حفاظت کی غرض سے لڑی جارہی تھیں اسلام کے بسرعت پھیلنے کے راستہ میں در حقیقت روک بن رہی تھیں اور یہ رکاوٹ کئی طریق پر پیدا ہوتی تھی.مثلاً:.(1) ان لڑائیوں کو اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کا ایک ذریعہ بنالیا گیا تھا اور شریر النفس لے مولانا مودودی اس طریق اشاعت کو اپنی کتاب الجہاد فی الاسلام کے صفحہ ۱۳۸ ،۱۳۹ پر پیش فرماتے ہیں.

Page 49

۴۲ مذہب کے نام پرخون لوگ فرضی مظالم مسلمانوں کی طرف منسوب کر کے سخت اشتعال انگیز نظموں کے ذریعہ عرب میں آتش غیظ و غضب بھڑکا رہے تھے.چنانچہ کعب بن اشرف سے متعلق روایت آتی ہے کہ یہ بد بخت جنگ بدر کے بعد خاص طور پر اس غرض کے لئے مکہ پہنچا تھا کہ اپنی نظموں کے ذریعہ قریش کی آتش انتقام کو بھڑکائے.اسی طرح یہی کعب بن اشرف دوسرے قبائل عرب میں بھی مسلمانوں کے خلاف زہر یلامواد پھیلا تا رہا.اس کے علاوہ قریش کی طرف سے بھی مسلسل مسلمانوں کو بد نام کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی رہی اور انہیں نعوذ باللہ ایک خونی لٹیروں کے گروہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا.(۲) حملہ آوروں میں سے جو مقاتل بھی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جاتے تھے ان کے پسماندگان عرب دستور کے مطابق انتقام کی قسمیں کھاتے تھے اور سارا کنبہ یا قبیلہ ان موتوں کا اسلام ہی کو ذمہ دار ٹھہراتا تھا اور ناحق یہ دین مظلوم ان کی نفرت کا نشانہ بن جاتا تھا.(۳) ان مخالفانہ حالات میں عرب کی اکثر آبادی تک اسلام کا پیغام پہنچانا اور دلوں سے غلط فہمیوں کو دور کرنا ایک امر محال بن گیا تھا جس کے نتیجہ میں لازماً تبلیغ ایک بہت ہی تنگ دائرے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی.(۴) جن لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچ سکا تھا اور وہ اس کی سچائی کے قائل بھی ہو چکے تھے ان میں سے بھی ایک کمزور دل طبقہ محض اس مخالفانہ ماحول سے ڈر کر اس کے اظہار سے رکا ہوا تھا اور ان لڑائیوں کی ایک دہشت دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی.(۵) انفرادی طور پر دشمنی کا ڈر نہ ہونے کی صورت میں بھی اسلام میں شمولیت ایک خاص جرات اور مردانگی چاہتی تھی کیونکہ اس شمولیت کا مطلب مسلمانوں کی دفاعی جنگوں میں ان کے ساتھ شریک ہونے کے مترادف تھا اور مسلمانوں کی کمزوری کے پیش نظر دوسرے الفاظ میں اس کا یہ مطلب تھا کہ کوئی جان بوجھ کر آنکھوں سے دیکھتے ہوئے موت کے منہ میں قدم رکھ دے.(۶) خود حفاظتی کے اقدامات کے سلسلہ میں مسلمانوں کا اتنا وقت صرف ہو جاتا تھا کہ انہیں تبلیغی مشاغل کے لئے بہت کم فرصت ملتی تھی.اگر میرا مندرجہ بالا دعویٰ درست ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ جو نہی جنگ اپنے

Page 50

۴۳ مذہب کے نام پرخون ہتھیار ڈال دے اسلام کی اشاعت کی رفتار تیز تر ہو جائے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعینہ ایسا ہی ہوا اور اسلام کے آخری غلبہ سے پہلے بھی صلح کے دور میں اشاعت اسلام کی رفتار غیر معمولی طور پر تیز ہوگئی.اگر کوئی شخص شبہ پر تل ہی بیٹھے تو فتح مکہ کا دن وہ پہلا دن ہے جس کے بعد یہ شبہ کیا جا سکتا ہے کہ تلوار کے ذریعہ حاصل شدہ غلبہ کے نتیجہ میں اسلام قبول کرنے کی طرف لوگوں کا میلان ہوا مگر صلح حدیبیہ کے دور پر تو یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ صلح خود ظاہر نظر میں ایک کمزوری کی دلیل تھی اور دشمن اسے اپنی فتح کا نام دیتا تھا.اب دیکھئے کہ دعوی نبوت سے لے کر صلح حدیبیہ تک جو مصیبتوں اور بدامنی کا دور تھا تقریباً انیس سال کے عرصہ میں جس قدر لوگوں نے اسلام قبول کیا اس سے کہیں زیادہ تعداد میں صلح حدیبیہ کے دوسالہ دور میں لوگ مسلمان ہوئے.یہ موازنہ حیرت انگیز ہے مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ ایسا ہی ہوا.زیادہ سے زیادہ مسلمان مردوں کی تعداد جو صلح حدیبیہ سے پہلے کسی جنگ میں شریک ہوئی ہے وہ تقریباً تین ہزار افراد بنتی ہے.یہ بڑے سے بڑے تخمینہ کے مطابق اسلامی فوج کے ان سپاہیوں کی تعداد ہے جنہوں نے جنگ احزاب میں حصہ لیا.اس کے مقابل پر فتح مکہ کے موقع پر مسلمان لشکر کی تعداد دس ہزار قدوسیوں پر مشتمل تھی.ان مزید سات ہزار میں سے بہت ہی کم تھے جو جنگ احزاب اور صلح حدیبیہ کے درمیان مسلمان ہوئے اور یقیناً بھاری اکثریت نے صلح حدیبیہ کے دوسالہ امن کے دور میں ہی اسلام قبول کیا.چنانچہ حضرت عمرو بن العاص اور حضرت خالد بن ولید سیف اللہ بھی اسی دور کے مسلمانوں میں سے ہیں.یہ موازنہ صاف ثابت کرتا ہے کہ جارحانہ جنگوں کا تو کیا سوال خود یہ دفاعی جنگیں بھی اشاعت اسلام کے لئے سخت مضر ثابت ہو رہی تھیں.کجا یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس غرض سے کسی قسم کے جنگ و جدال کا خیال بھی دل میں لاتے.اس کے علاوہ اس موازنہ سے یہ امر بھی صاف طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ جب فتح مکہ اور پھر جنگ حنین کے بعد امن کا دور آیا تو اہل عرب کا جوق در جوق مسلمان ہونا کسی غلبہ کے اثر سے نہ تھا بلکہ صلح حدیبیہ کے دور کی طرح مسلمانوں کی پر امن تبلیغ کے نتیجہ میں تھا.اب رہا یہ سوال کہ ان بعد کے مسلمانوں نے حضرت ابوبکر کی حکومت کے خلاف کیوں

Page 51

مذہب کے نام پرخون بغاوت کی ؟ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے.دراصل اس دور کے اکثر مسلمانوں کو جو بدوی قبائل.تعلق رکھتے تھے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تربیت پانے کا کوئی موقع نہ مل سکا تھا بلکہ اکثر بدقسمت ان میں سے ایسے تھے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورانی چہرہ کو ایک نظر دیکھا بھی نہ تھا.اس زمانہ میں سفر ایسے پر مشقت ہوا کرتے تھے کہ یہ ممکن نہیں تھا کہ دور دور کے قبائل کے تمام افراد فرداً فرداً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اس لئے عرب کے طریق کے مطابق مختلف قبائل یا تو کوئی تبلیغی وفدا اپنے ہاں بلوا لیتے تھے یا اپنے وفود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھجوا دیا کرتے تھے جو کافی بحث مباحثہ کے بعد کسی نتیجہ تک پہنچتے تھے اور پھر وفد کا جو بھی فیصلہ ہوتا تھا قوم اس کے پیچھے چلتی تھی.یہی وجہ تھی کہ ان میں سے بہت سے ایسے نو مسلم تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تربیت تو در کنار صحابہ کبار سے بھی تربیت حاصل نہ کر سکے تھے.اس پر مزید ابتلاء یہ آن پڑا کہ وہ سب ہادیوں کا راہنما اور ہدایتوں کا سورج ان بدقسمتوں کے قبول اسلام کے تھوڑی ہی دیر بعد غروب ہو گیا اور ایک نسبتی اعتبار سے افق عرب پر اندھیرا چھا گیا.تاریخ کے ان اوراق میں ہمارے لئے ایک گہرا سبق ہے کہ جب قومیں اپنے وقت کے نبی کا انکار کرتی ہیں اور بزور اس نور کو بجھانے کی کوشش کرتی ہیں تو اس دنیا میں ایک سخت دردناک سزا ان کو سیلتی ہے کہ ان کی اکثریت کو اس وقت ایمان نصیب ہوتا ہے جب وہ نبی ان سے جدا ہونے کو ہوتا ہے یا پھر اس سے بھی دیر میں اس نبی کے جدائی کے بہت بعد.پس کیا ہی بدنصیب ہیں وہ عشاق جو وصل کے دور میں تو ایک قابل صد محبت وجود سے نفرت کر رہے ہوں مگر جب فراق کی گھڑی آ پہنچے یا ہجر کی راتیں مسلط ہو جائیں تو ان کے قلوب میں شعلہ عشق بھڑک اٹھے.آئیے ! اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعوی نبوت سے لے کر آپ کے وصال تک کی تاریخ اسلام تک ایک متجسسانہ نظر ڈال کر دیکھیں کہ کسی دور میں شائد کسی اور طریق سے جبری طور پر مسلمان بنانے کا کوئی ثبوت ملتا ہو مثلاً ہوسکتا ہے کہ فتوحات کے معا بعد خوف زدہ مخالفین کو بشدت اسلام قبول کرنے کی تلقین کی گئی ہو یا ان کی جان بخشی یا آزادی کے لئے مسلمان ہونا بطور شرط

Page 52

کے رکھ دیا گیا ہو.مذہب کے نام پرخون حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو فتح مکہ تک تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:.اوّل وہ انتہائی مظلومی کا دور جو دعویٰ نبوت سے لے کر ہجرت تک ممتد ہے اور جسے عرف عام میں مکی دور کہا جاتا ہے.دوسرے وہ مدنی دور جو سنہ ہجرت سے لے کر صلح حدیبیہ تک پھیلا ہوا ہے ، یہ دور بھی دراصل ایک سخت مظلومی ہی کا دور ہے کیونکہ اگر چہ مسلمانوں کو دفاع کی اجازت دے دی گئی تھی مگر وہ اپنے دشمن کے مقابل پر کیا بلحاظ تعداد اور کیا بلحاظ جنگی ساز و سامان کوئی بھی حیثیت نہ رکھتے تھے.خطہ عرب میں صرف مدینہ ہی ایک ایسی بستی تھی جہاں مسلمان جمعیت آباد تھی اور اس ایک بستی پر بھی ان کا مکمل قبضہ نہ تھا بلکہ یہود کے تین متمول قبائل اس کے ایک بڑے حصہ پر قابض تھے اور اوس وخزرج کے تمام افراد بھی حلقہ بگوش اسلام نہ ہوئے تھے.ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے ایک مضبوط پہلوان کے مقابل پر ایک کمزور بچہ کو اپنے دفاع کی اجازت دے دی جائے.وہ پہلوان تو زرہ بکتر میں ملبوس ہو ، اس کے ہاتھ میں نیزہ ہو اور تلوار زیب کمر ہو اور ایک قد آور جنگی گھوڑے پر سوار ہومگر وہ بچہ ننگے پاؤں ، نیم عریاں ، ایک ٹوٹی ہوئی تلوار لے کر اس کے مقابل پر نکلے.سارے عرب کی قوت تو مدینہ میں بسنے والے ان چند مسلمانوں کے مقابل پر بہت ہی زیادہ تھی.صرف جنگ بدر ہی میں حملہ آور دشمنوں اور مسلمانوں کی دفاعی فوج کا موازنہ کیا جائے تو وہ کچھ اسی قسم کا موازنہ ہو گا.پس اس دور کو بھی میں سخت مظلومی کا دور ہی کہوں گا.مانا کہ دفاع کی اجازت مل چکی تھی.تیسرا دور وہ دور ہے جو صلح حدیبیہ سے شروع ہو کر فتح مکہ تک پھیلا ہوا ہے.یہ صلح اور امن کا دور تھا جس میں کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا تاہم یہود اور بعض دیگر قبائل کی عہد شکنیوں کے نتیجہ میں بعض غزوات وسرا یا وقوع پذیر ہوئے.مگی دور دور اول سے متعلق جو تیرہ سال کی انتہائی مظلومی کا عرصہ ہے اسلام کے اشد ترین معاندین بھی یہ دعوی نہیں کرتے کہ اس دور میں اسلام کی طرف سے کسی بھی غرض کے لئے تلوار اٹھائی گئی ہو.ہاں یہ ضرور تھا کہ دشمنان اسلام کی تلواروں کے خوف کے باوجود بہت سے متلاشیان حق اسلام میں

Page 53

مذہب کے نام پرخون داخل ہوتے رہے.پس مکہ میں ہونے والے تمام مسلمان جو بعد میں مہاجرین کہلائے اس الزام سے قطعا بری ہیں کہ ان کے قبول اسلام میں تلوار کو کوئی دخل تھا.ہجرت تا صلح حدیبیہ دوسرے دور سے متعلق اس خیال سے کہ اس دور میں مسلمانوں نے اپنے دفاع کے لئے تلوار اٹھائی.شائد بعض بدظن طبیعتیں یہ کہہ سکیں کہ ہوسکتا ہے اس دفاعی تلوار کے خوف سے اسلام پھیلا ہومگر اس دور کے اسلام قبول کرنے والوں پراگر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ بھی ڈالی جائے تو یہ واہمہ اس طرح معدوم ہو جاتا ہے کہ جیسے طلوع آفتاب پر رات کی تاریکی.اس دور کے وہ مسلمان جو مدینہ کے باشندے تھے انصار کہلاتے تھے اور یہ تقریبا سارے کے سارے اوس اور خزرج کے قبائل سے تعلق رکھتے تھے.اس کے علاوہ چند افراد نے یہود میں سے اسلام قبول کیا تھا اور کچھ وہ مسلمان تھے جو مدینہ کے علاوہ دوسری بستیوں کے رہنے والے تھے.مکہ میں بھی اسلام کی ترویج کلیتہ بند نہ ہو سکی تھی اور کفار مکہ کی شدید ایذاء رسانی کے باوجود وہاں قبول اسلام کا سلسلہ ہنوز جاری تھا.اس مدنی دور کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت انصار پر مشتمل تھی اور انصار کا بلا جبر و اکراہ اسلام قبول کرنا بھی ایک ایسی واضح اور نکھری ہوئی حقیقت ہے کہ دوست تو دوست دشمن بھی یہ کہہ نہیں سکتے کہ انصار کو مہاجرین کی تلوار نے مسلمان بنایا تھا یا ان کے قبول اسلام میں تلوار کو ذرہ بھر بھی کوئی دخل تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اوس و خزرج کے ساتھ سرے سے کوئی جنگ ہی نہیں لڑی.پس بزور شمشیر مسلمان بنانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا.یہود میں سے مسلمان ہونے والوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور ان میں سے بھی کسی پر اس شک کی گنجائش موجود نہیں کہ وہ تلوار کے خوف سے مسلمان ہوا ، بلکہ ان کا مسلمان ہونا ایسے شدید مخالف اور خطرناک حالات میں ہوا جبکہ خود مسلمانوں کا مستقبل بھی بظاہر سخت مخدوش تھا.بیرونی قبائل کے نو مسلمین بھی جن کی تعداد انصار کی نسبت بہت ہی تھوڑی تھی قطعاً کسی تلوار کے خوف سے مسلمان نہیں ہوئے بلکہ سخت خطرناک حالات میں اسلام قبول کیا.اب رہیں اس دور کی جنگیں اور مہمات تو ان کے نتیجہ میں تلوار کے ڈر سے مسلمان

Page 54

۴۷ مذہب کے نام پرخون ہونے والوں کی زیادہ سے زیادہ امکانی تعداد جنگی قیدیوں کی ہی ہوسکتی ہے.اس امر کی چھان بین کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہجرت سے لے کر صلح حدیبیہ تک کے تمام غزوات وسرا یا پر نظر ڈالیں.ان غزوات وسرا یا کی کل تعداد پچاس ہے.غَزْوَهِ یا سَرِیہ سے بعض لوگ غلطی سے جنگ مراد لے لیتے ہیں لیکن یہ خیال لاعلمی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.غزوہ سے مراد محض ایسی مہم ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس شریک ہوئے.خواہ لڑائی ہو ، چور ڈاکو کا تعاقب ہو یا دیکھ بھال کے لئے کوئی پارٹی باہر جائے وغیرہ وغیرہ.اسی طرح سریہ سے مراد بھی مہمات ہی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ سریہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں ہوئے.اس کے علاوہ تبلیغی سفر بھی غزوہ اور سر یہ میں شمار ہوتے ہیں اور کسی صحابی کی انفرادی مہم بھی سر یہ ہی کہلاتی ہے.چنانچہ اس دور میں کل پچاس غزوات وسرا یا ہوئے جن میں سے جنگ کہلانے کے مستحق صرف تین ہیں :.جنگ احد، جنگ بدر اور جنگ احزاب.ان پچاس میں سے ۴۲ میں کوئی اسیر نہیں ہوا.جن آٹھ میں اسیر ہوئے ان میں سے قابل ذکر تعداد جنگ بدر کے اسیروں کی ہے.کل ۷۲ اسیر تھے جن میں سے دو پرانے جرموں کی پاداش میں قتل کئے گئے اور باقی سب کو فدیہ لے کر آزاد کر دیا گیا.ان میں سے بعض کا فدیہ یہ تھا کہ انصار بچوں کولکھنا سکھا دیں.جنگ احد میں کوئی دشمن قید نہیں ہوا نہ ہی جنگ احزاب میں کوئی قید ہوا.غزوہ بنی مصطلق میں سو سے او پرزن ومردا سیر ہوئے مگر سب کو بلا معاوضہ و بلا شرط آزاد کر دیا گیا.اس کے علاوہ چند ایک سریوں میں ایک ایک دو دو قیدی ہاتھ آئے جو بلا معاوضہ و بلا شرط رہا کئے گئے.یہ سب حقائق وہ ہیں جو خود مولا نا کو بھی تسلیم ہیں.مگر میں کہتا ہوں کہ اگر بفرض محال یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ سب جنگی قیدی بزور شمشیر مسلمان بنا لئے گئے تھے تو بھی ان کی تعداد اتنی قلیل اور نا قابل ذکر ہے کہ اس کی مہاجرین اور انصار کے سواد اعظم کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں اور اس کو بنیاد بنا کر وہ نتیجہ بہر حال مترتب نہیں ہوتا جو مولانا مودودی نے مرتب فرمایا ہے.یہ انہیں زیب نہیں دیتا.ایسی باتیں تو ان متعصب معاندین کا شیوہ ہے جو اپنے بغض باطنی سے مجبور ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام تراشی کے لئے تنکوں کے

Page 55

سہارے ڈھونڈا کرتے ہیں.۴۸ مذہب کے نام پرخون تیسرا دور صلح حدیبیہ تا فتح مکہ اس دور میں ہونے والے غزوات وسرایا کی تعداد بائیس ہے.ان میں سے صرف تین ایسے تھے جن میں جنگی قیدی ہاتھ آئے.ایک سریہ سمی ( جمادی الآخرے ہجری) ہے جس میں حضرت زید بن حارثہؓ نے بنید ڈاکو اور اس کے ساتھی لیٹروں پر چڑھائی کی اور سولٹیروں کو اسیر بنایا مگر تو بہ کا وعدہ لے کر چھوڑ دیا اس کے علاوہ سریہ بنو کلاب اور سر یہ بشیر بن سعد انصاری میں چند گنتی کے قیدی ہاتھ آئے مگر ان کے حالات نامعلوم ہیں.پس اس امر میں کوئی بھی شک نہیں کہ ہجرت سے لے کر فتح مکہ تک ایک بھی قیدی کو بزور شمشیر مسلمان بنانے کا ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی ان سے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ تلوار نے تو صرف زنگ صاف کیا تھا اس کے بعد اسلام کا رنگ ان کے دلوں پر چڑھایا گیا کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ انہیں پھر اسی زنگ آلود شرک کی دنیا میں واپس جانے کی اجازت دے دی گئی.پھر کیا مولا نا مودودی بتا سکتے ہیں کہ آخر وہ لوگ کون تھے جن کو اپنی تمام اخلاقی اور روحانی قوتوں کی ناکامی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ تلوار کی چمک دکھلا کر مسلمان بنایا تھا؟ وہ کب پیدا ہوئے؟ کس جگہ کے رہنے والے تھے؟ کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے؟ کیا انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ؟ اور اگر ان کا وجود محض مولانا کے تصور کی پیداوار ہے اور یقیناً انہی کے تصور کی پیداوار ہے تو پھر کیوں سید ولد آدم پر ایسی سنگین اور بے بنیاد الزام تراشی سے نہیں رکھتے ؟ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مذہب میں جبر کے قائل ہوتے تو کیوں نوک خنجر پر ان بے بس قیدیوں کو مسلمان نہ بنالیا؟ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ مؤخر الذکر دونوں ادوار کے قیدیوں کی تعداد میں یہود قبائل بنو قینقاع، بنونضیر اور بنو قریظہ کے قیدیوں کا شمار شامل نہیں جن کے ساتھ مختلف وقتوں میں مسلمانوں کو مقابلہ کرنا پڑا.ان کا مختصر ذکر اب علیحدہ طور پر کیا جا رہا ہے.اس حصہ مضمون کا تعلق محض اس الزام سے ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ اسلام اخلاقی قوتوں کی بجائے تلوار کے زور سے ہوا تھا.اور ہم اس وقت صرف اس امر کی چھان بین کر رہے ہیں کہ اس تمام جنگی دور میں کل کتنے ایسے قیدی ہاتھ آئے تھے جن کو بزور مسلمان

Page 56

۴۹ مذہب کے نام پرخون بنالیا گیا تھا یا جن کے قبول اسلام پر یہ شبہ بھی پڑسکتا ہے.اب تک جو ہم نے جستجو کی ہے اس سے تو معاملہ بالکل برعکس نظر آ رہا ہے.بجائے اس کے کہ ہم قیدیوں کے گروہ کے گروہ دیکھیں جو مسلمانوں کی تلواروں کے نیچے کا نپتے ہوئے لَا إِلهَ إِلَّا اللہ پڑھ رہے ہوں ، نظریہ آتا ہے کہ مسلمانوں کی تلواروں کی وجہ سے نہیں بلکہ دشمن کی تلواروں کے خوف کے باوجود اہل عرب مسلسل مسلمان ہوتے چلے جارہے ہیں اور ہم دیکھتے یہ ہیں کہ باوجود اس کے کہ مظلوم مسلمان عملاً مدینہ کی ایک چھوٹی سی بستی میں قید ہیں اندر باہر سے بھی محفوظ نہیں اندر بیٹھے ہوئے یہود جب موقع پاتے ہیں شرارت کرتے ہیں اور باہر سے بھی محفوظ نہیں کیونکہ سارا عرب ان کی جان کا دشمن ہو رہا ہے مگر پھر بھی کچھ سر فروش ایسے ہیں جو مسلمان ہو ہو کر اس جماعت میں شامل ہوتے چلے جاتے ہیں.اگر مخالفت کو ایک آگ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے تو مدینہ میں مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ ایک بھڑکتی ہوئی آگ کے بیچ گویا ایک نقطہ کی طرح تھے جسے جلا کر بھسم کر دینے کے لئے اس آگ کی شوریدہ لپٹیں بار بار بلند ہوتیں اور اس کی طرف لپکتی تھیں.ایک غضب ناک اور مشتعل عرب کے درمیان مدینہ کی کمزور مسلمان اقلیت کی فی الواقع یہی مثال تھی.یہ میں اس دور کا ذکر کر رہا ہوں جسے دشمنان اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طاقت اور شمشیر کا دور کہتے ہیں.پس اس دور میں جو لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آ بیٹھتے تھے وہ تو جلانے والوں کو چھوڑ کر جلنے والوں میں شامل ہونے آیا کرتے تھے.اکثریت کو چھوڑ کر اقلیت کی طرف بھاگتے تھے اور جو لوگ مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کر سکتے تھے اور مخالف ماحول ہی میں رہنے پر مجبور تھے ان کی مثال بھی کچھ اس قسم کی تھی جیسے وحشی بھیڑیوں کے ایک غول میں کوئی بھیڑ یا برضا و رغبت اچانک بھیٹر بن جائے.اس بے چارے کے متعلق یہ کہنا کہ ایک چھوٹے سے بھیڑوں کے گلہ نے جو ایک بھیڑیوں سے بھرے ہوئے جنگل میں گھرا ہوا تھا اسے ڈرا دھمکا کر اور مجبور کر کے بھیٹر بنایا ہے اور اس سے زیادہ تمسخر آمیز دعوئی اور کیا ہوسکتا ہے؟ یہود قبائل اور ان کے قیدیوں کا ذکر میں اس لئے الگ کر رہا ہوں کہ اس اندرونی خطرہ کی طرف بھی قارئین کی توجہ مبذول کراؤں جو ہر وقت مدینہ کے اندر سے انہیں لاحق تھا.یہ تینوں

Page 57

مذہب کے نام پرخون قبائل ایسے بدعہد ، کمینہ فطرت اور دغا باز تھے کہ امن میں بھی مسلمانوں کو چین نہیں لینے دیتے تھے اور جنگ کے زمانے میں تو ان کی شرارتیں غیر مشکوک غداری میں بدل جاتی تھیں.چنانچہ مسلمانوں سے دوستی کے معاہدہ کے باوجود اس وقت جبکہ مٹھی بھر مسلمان جنگ بدر میں حملہ آوروں سے برسر پیکار تھے.قبیلہ بنوقینقاع نے مدینہ بلوہ کیا اور فساد برپا کیا اور سراسر جھوٹی اور سراسیمہ کرنے والی خبریں پھیلائیں.آج بھی اس جرم کی سزا ہر رحمدل سے رحمدل حکومت کے نزدیک قتل کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی خصوصاً اس معاہدہ کے پیش نظر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی دور کے پہلے سال ہی میں یہودسمیت مدینہ کی تمام اقوام سے کیا تھا.یہ تمام غدار قتل کئے جانے کے سزا وار تھے.سیرت ابن ہشام جلد اوّل ( مطبوعہ مطبع بولاق مصریہ ) کے صفحہ ۱۷۸ پر یہ معاہدہ درج ہے.اس معاہدہ کی شرائط میں سے تین یہ تھیں :.”جنگ کے دنوں میں یہودی مسلمانوں کے ساتھ مصارف میں شریک رہیں گے.کوئی شخص اپنے معاہد کے مقابل پر مخالفانہ کارروائی نہیں کرے گا.مدینہ کے اندر کشت و خون کرنا اس معاہدہ کرنے والی سب قوموں پر حرام ہوگا.“ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے از راہ شفقت محض جلا وطنی کی سزا پر اکتفاء فرمائی.میرا ایمان ہے کہ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ بعد کے حملہ آوروں کے ساتھ مل کر یہ بدعہد یہود مسلمانوں کو اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچا ئیں گے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو یہ سزا بھی نہ دیتے اور بالکل معاف فرما دیتے بہر حال امر واقعہ یہ ہے کہ اس قبیلے کو باوجود غلبہ کے بزور شمشیر مسلمان نہیں بنایا گیا.دوسرا یہودی قبیلہ جسے ارتکاب بغاوت پر اور اس جرم کی پاداش میں ، کہ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی ، جلا وطن کیا گیا، قبیلہ بنونضیر تھا.چونکہ مسلمانوں کے خلاف شرارتوں میں اور عہد شکنی میں سارا قبیلہ شامل تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی کوشش ایک منظم سازش کا نتیجہ تھی.اس لئے دراصل یہ کینہ تو بھی عہد شکنی کے نتیجہ میں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدام قتل کے جرم میں انصاف اور خود بائبل کے قانون کے مطابق بھی جو یہود کا قانون تھا، اپنی زندگی کے حق سے محروم ہو چکے تھے لیکن ان کے ساتھ بھی اس لحاظ سے

Page 58

۵۱ مذہب کے نام پرخون غیر معمولی نرمی کا سلوک کیا گیا اور صرف شہر بدر کرنے پر اکتفاء کی گئی اور بہر حال یہ امر یقینی طور پر ثابت ہے کہ وہ تلوار کے زور سے مسلمان نہیں بنائے گئے.تیسرا بدقسمت یہودی قبیلہ بنوقریظہ ہے.اس قبیلہ کی غداری باقی تمام قبیلوں سے زیادہ سنگین تھی کیونکہ اس وقت جبکہ جنگ احزاب کے موقع پر دل ہلا دینے والے خطرات نے مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور مدینہ میں محصور قلیل التعداد مسلمانوں اور کفار کے عظیم حملہ آور لشکر کے درمیان صرف ایک تنگ خندق حائل تھی انہوں نے انتہائی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطرناک بدعہدی کی اور دشمن کے ساتھ خفیہ سازشیں کرنے لگے.اگر کوئی شخص آج اس خطرہ کا کچھ تصور باندھنا چاہے تو اس کا صرف ایک ہی طریق ہے کہ قرآن کریم کی ان آیات کا مطالعہ کرے جن میں خود خدا تعالیٰ اپنے الفاظ میں اس کا نقشہ کھینچتا ہے:.اذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَ مِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ إِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ القُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنُونَ - هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَارًا شَدِيدًا (الاحزاب:۱۱، ۱۲) جب وہ دشمن ) تمہارے اوپر سے بھی ( حملہ کرتے ہوئے ) آئے اور نیچے سے بھی (یعنی بلندی کی طرف سے بھی اور ڈھلوان کی طرف سے بھی.یا معنوی لحاظ سے جب تمہاری نجات کے سارے دروازے بند ہو گئے.زمین بھی تنگ ہو گئی اور آسمان بھی ) اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل ( مارے دہشت کے ) گلوں تک پہنچ گئے اور تم خدا کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے.یہ تھا وہ مقام اور وہ وقت جبکہ مومن آزمائے گئے اور شدید زلازل کے جھٹکوں میں انہیں مبتلاء کیا گیا.یعنی جس طرح خوفناک زلزلوں کے جھٹکوں کے وقت عمارتوں کی مضبوطی آزمائی جاتی ہے اور ان عمارتوں کے سوا جن کی دیواروں میں سیسہ پلایا گیا ہو یا فولادی بندھنوں سے مضبوط کی گئی ہوں اور وہ گہری بنیادوں پر مضبوط چٹانوں کی طرح قائم ہوں باقی تمام عمارتیں ان جھٹکوں کا شکار ہوکر پیوند خاک ہو جاتی ہیں.اسی طرح مومنین کی اس عمارت کے لئے ایک دل ہلا دینے والی آزمائش کا دن تھا.

Page 59

۵۲ مذہب کے نام پرخون یہ وہ وقت تھا کہ خدا تعالیٰ اہل مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:.تم ( اس شدید خطرہ کو دیکھ کر ) اللہ تعالیٰ پر طرح طرح کے گمان کرنے لگ گئے تھے.“ پس ایک طرف تو قرآنی بیان کے مطابق بیرونی خطرہ ایسا شدید تھا دوسری طرف اندرونی خطرہ کی یہ حالت تھی کہ منافق کھلم کھلا مومنوں کے حوصلے پست کرنے میں مصروف تھے.اسی اندرونی خطرہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں فرماتا ہے:.وَإِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُ إِلَّا غُرُورًا وَاذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَا هُلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا.....الآيه (الاحزاب : ۱۳ ، ۱۴) اور جب منافق اور دلوں کے مریض یہ کہہ رہے تھے کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھو کہ کے سوا اور کوئی وعدہ نہیں کیا اور جب ان میں سے ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ یثرب کے رہنے والو! ( بھاگنے کا تو کیا سوال ) تمہارے لئے ٹھہرنے تک کی کوئی جگہ نہیں اس لئے (اپنے پہلے دین میں ) پھر جاؤ.پس ان ہولناک ابتلاؤں کے وقت جبکہ مسلمانوں کو خطرات نے اوپر سے بھی آلیا تھا اور نیچے سے بھی.اندر سے بھی اور باہر سے بھی.بنو قریظہ جن کو معاہدہ کی رو سے مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے تھا، ان کی کمینگی اور غداری کا یہ حال تھا کہ حملہ آوروں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف عہد و پیمان کرنے لگے.چنانچہ اس غداری کے نتیجہ میں جنگ احزاب کے بعد جب مسلمانوں نے ان پر غلبہ پالیا اور سزا کی تعیین کا وقت آیا تو ان بدبختوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ رحمۃ للعالمین کے ہاتھ میں چھوڑنے کی بجائے حضرت سعد بن معاذ کے ہاتھ میں دے دیا جن کے حکم سے سارے مرد تہ تیغ کئے گئے.یہاں سوال زیر بحث یہ ہے کہ کیا ان کو بھی بزور شمشیر مسلمان بنایا گیا؟ نہیں! ہرگز نہیں.پھر کیا میں مولانا سے یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں ہوں کہ آخر وہ کون لوگ تھے جو اسلام کی تلوار کے اثر سے مسلمان ہوئے؟

Page 60

۵۳ مذہب کے نام پرخون مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ تاریخ کے سبق کے دوران یونیورسٹی آف لنڈن کے تاریخ کے ایک متعصب پروفیسر نے اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم کا الزام لگایا.میں اور میرے ایک عزیز دوست میر محمود احمد صاحب ناصر اسے برداشت نہ کر سکے اور جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے.اس پر اس پروفیسر نے کہا کہ یہاں بحث کا وقت نہیں تم کو جو کچھ کہنا ہو میرے کمرہ میں آکر کہنا.مگر ہم نے اسے یہ جواب دیا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے آقا پر حملہ تو تم برسر عام کرو اور جواب ہم علیحدگی میں دیں؟ چنانچہ جب ہم نے اس بارے میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی تو ایک یہودی طالب علم اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے یہ اعلان کیا کہ اگر چہ میں یہودی ہوں اور سب سے زیادہ مجھے اس بات کا غصہ ہونا چاہیے تھا مگر یہ بحث سننے کے بعد میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس واقعہ سے ہرگز کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ اول تو یہ فیصلہ ان کا نہیں تھا دوسرے سعد بن معاذ کا فیصلہ بھی میرے نزدیک درست تھا اور وہ غدار اسی لائق تھے کہ تہ تیغ کئے جاتے.“ آج تک اس شریف النفس یہودی کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں اور میں تادم مرگ اس کا ممنون احسان رہوں گا اور ہمیشہ دل سے اس کے لئے دعا نکلتی رہے گی کہ اس نے انصاف کو ہاتھ سے نہ چھوڑا اور غیر معمولی شرافت اور جرات کا اظہار کرتے ہوئے میرے محبوب آقام کی بریت کی.مگر میری نظر ان لوگوں کی طرف لوٹتی ہے جن کے نزدیک بانی اسلام کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی اور دوسرے میں قرآن تھا تو سینہ میں دل خون ہونے لگتا ہے.فتح مکہ صلح حدیبیہ تک کا دور ختم ہوا اور فتح مکہ کا دن آگیا جو دراصل حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر سے ہر تشدد کے الزام کو دور کرنے کا دن تھا.اس دن آنحضور نے کفار مکہ پر ایک عظیم فتح حاصل کی مگر کسی ایک شخص کو بھی تلوار کے زور سے مسلمان نہ بنایا.پس میں اسی دن کا واسطہ دے کر یہ الزام لگانے والوں سے پوچھتا ہوں کہ جب وہ نبیوں کا سردار دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا اور مکے کو اس کی شوکت اور جلال نے ڈھانپ لیا تو وہ جبر کی تلوار کیوں زیر نیام چلی گئی.کیوں فتح مکہ کے دن جب مشرکین مکہ کی گردنیں اس رسول کے ہاتھ میں دی گئیں.

Page 61

۵۴ مذہب کے نام پرخون جب تلواروں کے سائے تلے سرکشوں کے سر خم کرنے کا وقت آیا اور نوک خنجر پر ایمان قلوب میں اتارنے کی مبارک گھڑی آ پہنچی.وہ ساعت جب کہ مسلمان فاتحین کے خوف سے عرب سرداروں کے جسم لرزاں تھے اور سینوں میں دل کانپ رہے تھے.جب مکہ کی بستی ایک دھڑکتا ہوا دل بن گئی تھی تو کیوں اس فاتحین کے سردار نے شمشیر کی قوت سے ان کو مسلمان نہیں بنالیا ؟ اگر ایسا نہیں کیا اور یقینا نہیں کیا تو پھر حیرت ہے کہ کس دل کے ساتھ یہ لوگ اس سب محبوبوں کے محبوب اور اس بے مثال دلوں کے فتح کرنے والے سے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کی ہر قوت جاذبہ کی ناکامی کے بعد تلوار کی قوت کارگر ثابت ہوئی.مولانا کے دل کا حال میں نہیں جانتا کہ یہ لکھتے ہوئے اس پر کیا گزری تھی یا کیا گزرسکتی تھی مگر اے کاش ! کہ ان کا قلم پھٹ جاتا اور سیا ہی خون ہو جاتی.فتح مکہ کا دن تو وہ دن ہے کہ جو ابد الآباد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات سے جبر و تشدد کے الزام کی نفی کرتارہے گا.اس دن کی گواہی ایک ایسی پر شوکت اور بلند بانگ گواہی ہے کہ کتنی ہی صدیاں گزرگئیں مگر آج بھی مؤرخین کے کان اس کو سنتے اور ان کے دل اس پر ایمان لاتے ہیں.یہ گواہی تو عیسائیوں نے بھی سنی اور اہل ہنود نے بھی اسے قبول کیا.پھر حیرت ہے کہ مولانا کے کان اس بے مثال دن کی آواز سننے سے کیوں محروم رہ گئے ؟ اسی دن کی گواہی کا ذکر کرتے ہوئے ایک عیسائی مستشرق مسٹر سٹینلے لین پول لکھتے ہیں :.اب وقت تھا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) خونخوارانہ فطرت کا اظہار کرتے.آپ کے قدیم ایذا دہندے آپ کے قدموں میں آ پڑے ہیں.کیا آپ اس وقت اپنے بے رحمانہ طریقہ سے ان کو پامال کریں گے؟ سخت عقوبت میں گرفتار کریں گے یا ان سے انتقام لیں گے.یہ وقت اس شخص کے اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہونے کا ہے.اس وقت ہم ایسے مظالم کے پیش آنے کے متوقع ہیں جن کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہوں اور جن کا خیال کر کے اگر ہم پہلے ہی سے نفرین و ملامت کا شور مچائیں تو بجا ہے.مگر یہ کیا معاملہ ہے؟ کیا بازاروں میں کوئی خون ریزی نہیں ہوئی ؟

Page 62

۵۵ مذہب کے نام پرخون ہزاروں مقتولوں کی لاشیں کہاں ہیں؟ واقعات سخت اور بے درد ہوتے ہیں (کسی کی رعایت نہیں کرتے ) اور یہ ایک واقعی بات ہے کہ جس دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) کو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی وہی دن آپ کو اپنے نفس پر سب سے زیادہ عالی شان فتح حاصل کرنے کا دن بھی تھا.قریش نے سال ہا سال تک جو کچھ رنج اور صدمے دیئے تھے اور بے رحمانہ تحقیر و تذلیل کی مصیبت آپ پر ڈالی تھی آپ نے کشادہ دلی کے ساتھ ان تمام باتوں سے درگذر کی اور مکہ کے تمام باشندوں کو ایک عام معافی نامہ دے دیاہے ،، یا شائد ہمارے بعض علماء کے دل کی آواز یہ کہے کہ مکہ کے تمام باشندوں کو ایک عام معافی نامہ دے دیا اور اہل مکہ کو بزور مسلمان بنانے کا ایک عظیم الشان موقع خود اپنے ہاتھوں سے کھو دیا.مگر واقعات سخت اور بے درد ہوتے ہیں اور کسی کی رعایت نہیں کرتے.ہاں مگر واقعات سے آنکھیں موند لی جائیں تو....؟ اور واقعات سے آنکھیں موندی جا رہی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر دفاعی جنگوں کو جارحیت اور تشدد کی جنگیں قرار دیا جارہا ہے اور حد یہ ہے کہ یہ بے بنیاد الزام واضح تاریخی حقائق کے باوجود لگایا جاتا ہے.فتح مکہ سے لے کر وصال نبوی تک ممکن ہے کہ کوئی یہاں پہنچ کر اس وہم میں مبتلا ہو جائے کہ جبری مسلمان کہیں فتح مکہ کے بعد کی جنگوں میں نہ بنائے گئے ہوں.مگر فتح مکہ کے بعد کی جنگوں پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اس وہم کی قلعی کھل جاتی ہے جو غالب کے اس شعر کی مصداق ہے کہ تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے یہ تماشا نہ ہوا ! چنانچہ فتح مکہ کے بعد کے غزوات وسرا یا کے اعدادوشمار یہ ہیں :.فتح مکہ کے بعد ایسے سرایا جن میں نہ کوئی لڑائی ہوئی نہ کوئی اسیر ہوا نہ مال غنیمت ہاتھ آیا.۳ انتخاب قرآن مقدمه صفحه ۶۷

Page 63

۵۶ ایسے غزوات یا سرا یا جن میں جنگی قیدی ہاتھ آئے = ۴ جنگی قیدیوں کی کل تعداد = ۶۰۰۰ + ۶۲ + اسیرانِ بنو طی +۱ مذہب کے نام پرخون اس دور میں اسیروں کی تعداد گزشتہ سب ادوار سے غیر معمولی طور پر زیادہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ صرف ایک جنگ حنین ہی میں چھ ہزار کی تعداد میں دشمن اسیر ہوئے.آئیے ہم دیکھیں کہ ان اسیروں سے رحمةٌ لِلعالمین نے کیا سلوک کیا.کیا سب تہ تیغ کر دیئے گئے یا نوک خنجر پر مسلمان بنالئے گئے؟ نہیں.ایک بھی نہیں بلکہ بلا استثناء سارے کے سارے غیر مشروط طور پر رہا کر دیئے گئے.جنگ حنین کے چھ ہزار اسیروں کو رحمة للعالمین نے نہ صرف غیر مشروط طور پر رہا فرما دیا بلکہ ان میں سے بعض کو خلعتیں بھی عطا فرما ئیں اور انعام واکرام سے نوازا.رحم وکرم کی حد یہ ہے کہ ان میں سے بعض قیدیوں کا فدیہ بھی اپنی جیب سے ادا فرمایا.اسی قسم کے رحم و کرم کا سلوک بنی طے کے اسیران سے کیا اور حاتم کی بیٹی کو تو غیر معمولی اکرام کے ساتھ رخصت فرمایا.اس کے علاوہ اس دور میں سریہ عیینہ بن حصین میں قبیلہ بنو تمیم کے باسٹھ اسیر مدینہ لائے گئے مگر اس قبیلہ کے سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رحم کی درخواست کی جس پر اس رحم مجسم نے ان سب کو رہا فرما دیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ جو سلوک جنگی قیدیوں سے روا رکھا وہ نہایت کریمانہ اور فیاضانہ تھا.ظالم تو ظلم کا بہانہ ڈھونڈا کرتا ہے مگر آپ رحم وکرم کا بہانہ ڈھونڈ تے نظر آتے ہیں.بنو ہوازن کے قیدیوں کو معاف کرنے کا واقعہ بھی عجیب ہے اور اسی ایک واقعہ ہی سے مفتوحین کے بارے میں آپ کے جذبات اور طرز فکر کا پوری طرح اندازہ ہو جاتا ہے.ان قیدیوں کے بارہ میں رحم کی درخواست کی غرض سے بنو ہوازن کا ایک وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو حضرت حلیمہ دائی کا واسطہ دے کر جو اسی قبیلہ کی تھیں آپ سے معافی کا طلب گار ہوا.اس وقت آپ نے ان سے نہیں پوچھا کہ اب ہار کھا جانے کے بعد تمہیں اپنے قبیلہ کی وہ دائی یاد آ گئی جس نے مجھے دودھ پلایا تھا مگر جب تم مکہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے یا جب حسنین کی وادی میں مجھ پر اور میرے ساتھ چند نرغے میں آئے ہوئے فدائیوں پر تیروں کی بارش برسارہے تھے تو اس وقت کیا تمہیں یاد نہ آیا کہ یہ تو

Page 64

۵۷ مذہب کے نام پرخون و ہی معصوم یتیم بچہ ہے جس نے ہمارے قبیلہ میں پرورش پائی تھی ؟ نہیں.آپ نے ایسا کوئی سوال نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ جس قدر قیدی میرے اور بنو عبدالمطلب کے حصہ کے ہیں ان کو لے جاؤ وہ آزاد ہیں.یہ چند کلمات آپ کے بے مثال خلق اور گہری فراست پر وسیع روشنی ڈالتے ہیں.اول تو ایک دور کی رضاعی ماں کی یاد میں اس قبیلہ کے بعد میں آنے والے ظالموں کو جوا اپنی طرف سے تو آپ کو ہلاک کرنے کی پوری کوشش کر چکے تھے اس طرح معاف فرما دینا ایک بے حد پیارا اور کریمانہ فعل ہے، دوسرے آپ کا یہ فرمانا کہ صرف بنو عبد المطلب کے حصہ کے قیدی آزاد ہیں آپ کی فراست اور خلق کے بعض اور پہلوؤں پر بھی عجیب روشنی ڈالتا ہے.معلوم ہوتا ہے گو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل تو یہی چاہتا تھا کہ سب کو معاف کر کے آزاد کر دوں مگر چونکہ حضرت حلیمہ کی رضاعت کا تعلق محض آپ کی ذات یا زیادہ سے زیادہ اس واسطہ سے آپ کے خاندان کے ساتھ ہوسکتا تھا اس لئے آپ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ ایک ذاتی تعلق کی بناء پر باقی مسلمانوں کو بھی اس احسان کا پابند کر دوں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ آپ کے رحم و کرم کی خصلت تمام انسانوں میں اپنی وسعت اور گہرائی کے لحاظ سے بے مثال تھی لیکن غیر متوازن نہ تھی.آپ ایک ایسے رحم دل انسان کی طرح نہ تھے جو اپنے رحم و کرم کے جوش میں دوسروں کے حقوق بھی لوگوں کو بخش دیتا ہے چنانچہ آپ نے ایسا نہ کیا بلکہ جو طریق اختیار کیا وہ جو دو کرم کے آسمان پر ہمیشہ چاند ستاروں کی طرح چمکتا رہے گا.آپ جانتے تھے کہ اگر اس بارہ میں لوگوں سے مشورہ کرنے کے بجائے میں نے قیدیوں کو آزاد کرنے کی ایک عملی مثال قائم کر دی تو کسی مسلمان گھر میں کوئی قیدی نہ رہے گا.پس آپ نے ایسا ہی کیا اور جب آپ کے اس فرمان کی خبر عشاق کے کانوں تک پہنچی کہ ”میرے اور بنو عبد المطلب کے حصہ کے سب قیدی آزاد ہیں، تو انہوں نے بے اختیار عرض کی کہ اے ہمارے محبوب مَا كَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللهِ “ 66 جو کچھ ہمارا ہے وہ تو سب رسول اللہ ہی کا ہے اور یہ کہتے ہوئے قیدیوں کو آزاد کرنے میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے لگے اور فضا نعرہ ہائے جنگ اور زخمیوں کی چیخ و پکار کے بجائے آزادی کے ترانوں سے گونج اٹھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے حد رحیم و کریم تھے.بنو طے کے قیدیوں کی آزادی بھی

Page 65

۵۸ مذہب کے نام پرخون آپ کے خلق کے ایک خاص پہلو پر روشنی ڈالتی ہے.ان قیدیوں کو صرف اس وجہ سے بغیر کسی معاوضہ کے آزاد کر دیا گیا کہ عرب کے ایک مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی جو خود ان قیدیوں میں شریک تھی اپنی آزادی صرف اس شرط پر قبول کرنے کے لئے تیار تھی کہ باقی قیدیوں کو بھی ساتھ رہا کیا جائے.چنانچہ ایک گزرے ہوئے حاتم کی سخاوت کے نام پر اس کی قوم کے شریروں کو رہا کر دیا گیا اور اس موقع پر بنوعبد المطلب کے قیدیوں کی کوئی شرط نہ رکھی کیونکہ یہاں جس بناء پر قیدیوں کو رہا کیا جارہا تھا وہ سارے عرب میں مشترک تھی.حاتم کی سخاوت ایک قومی سرمایہ تھی جس پر فخر کرنے میں سارا عرب شریک تھا.ان حالات پر جب نظر پڑتی ہے تو بے اختیار دل آپ پر درود بھیجنے لگتا ہے اور کسی طرح یقین نہیں آتا کہ اس سراپا رحمت و شفقت اور سب کریموں سے بڑھ کر کریم نبی پر بھی کوئی یہ الزام لگا سکتا ہے کہ آپ کی کوئی ایک جنگ بھی اسلام پھیلانے کی غرض سے تھی یا اس غرض سے تھی کہ تلوار کے پھل سے دلوں کی زمین میں ہل چلا کر اسلام کا بیج بویا جائے.نظریات کی اشاعت کے یہ تصورات تو کارل مارکس ، لین ، سٹالن کے تصورات تھے.پھر مولا نا کیوں نہیں سوچتے کہ اس اشترا کی سطح سے بہت بالا تھے اس سید ولد آدم کے خیالات ، جس کی اور ان سدرۃ المنتہی کی بلندیوں تک تھی اور جو تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ اور ارفع مقام تک جا پہنچا تھا.مولانا کی سوچی ہوئی پالیسی کو اس روحانی پالیسی سے کوئی نسبت نہیں ہے جو آپ کی پاک اور شفاف فطرت پر انوار سماوی کی صورت میں نازل ہوئی تھی.ہاں اس رسول کی پالیسی سے جس کی فراست خدا کی فراست تھی اور جسے خدائے لطیف و خبیر کی طرف سے ایک نہایت باریک بین نظر عطا ہوئی تھی ، بھلا مولانا کی دھندلائی ہوئی ارضی سوچ کو کیا نسبت ہوسکتی تھی ؟ وہ عالم پاک ہے تو یہ دنیا خاک.مولانا نے جو کچھ کہا بہت برا کہا اور ناحق کہا.انہیں کب یہ حق پہنچتا تھا کہ اپنے گھناؤنے تصورات کو اس انسان کامل کی طرف منسوب کرتے.حصول اقتدار کا کیا یہ صرف ایک ہی حیلہ رہ گیا تھا ؟

Page 66

۵۹ مذہب کے نام پرخون فَذَكِّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِرَ - لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرِ (الغاشية : ۲۲ ، ۲۳) پس (اے محمد) نصیحت کر.تو محض ایک ناصح ہے.ان پر داروغہ نہیں.(فرمان خداوندی) ناصحین گذشته اور اس دور کے خدائی فوجدار یہ کوئی مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین اور مبشرین کی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے.“ (ارشاد مولوی مودودی)

Page 67

۶۰ مذہب کے نام پرخون ناصحین گذشتہ اور اس دور کے خدائی فوجداروں کی ایک جماعت انسانی دستور کے مطابق ہر سچا عاشق اپنے محبوب کا چہرہ حسین دیکھتا ہے اور سچا غلام اپنے آقا کی طرف خوبیاں منسوب کرتا ہے.یہ رجحان انسانی فطرت میں اس شدت سے پایا جاتا ہے کہ بسا اوقات ایک عاشق کی آنکھ اپنے محبوب میں وہ حسن بھی دیکھنے لگتی ہے جس کا وہاں کوئی وجود نہیں ہوتا.عشق ہو تو سیاہ فام لیلیٰ بھی حسین دکھائی دینے لگتی ہے اور لیلیٰ کے کتے میں بھی حسن کے سوا کچھ نظر نہیں آتا.اس کے برعکس نفرت کی آنکھ سے ہر حسن اوجھل ہو جاتا ہے اور ہر عیب بڑا دکھائی دینے لگتا ہے.کسی عرب شاعر نے اسی مفہوم کو بڑی عمدگی سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ :.وَ عَيْن الرَّضَا عَنْ كُلِّ عَيْبٍ كَلِيْلَةٌ كَمَا أَنَّ عَيْنَ السُّخْطِ تُبْدِي الْمَسَاوِيَا رضامندی کی آنکھ ہر عیب کو دیکھنے سے عاجز ہوتی ہے اسی طرح جیسے ناراضگی کی آنکھ برائیوں کو بڑا کر کے دکھاتی ہے.“ 66 انسانی فطرت کے اس دستور کے پیش نظر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اشاعت اسلام کے بارہ میں مولانا مودودی صاحب کے بھیانک نظریات پر نظر پڑتی ہے تو طبعا دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مولا نا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا دعوی کرتے ہیں پھر فطرت انسانی کے سراسر خلاف ایسی انوکھی راہ کیوں اختیار کی کہ اس حسین چہرہ میں عیب دیکھنے لگے جس میں بہت سے

Page 68

۶۱ مذہب کے نام پرخون غیروں کو بھی حسن کے سوا کچھ نظر نہیں آیا ؟ اس الجھن کے تین ہی حل میری سمجھ میں آتے ہیں:.اول یہ کہ یہ غلامی کے سب دعوے غلط ہوں اور حقیقتاً مولا نا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور کا بھی تعلق نہ ہو.گزشتہ باب میں جو کچھ گزر چکا ہے اگر اسے دیکھ کر کوئی دوست یہ نتیجہ بھی اخذ کر لیں تو بے جا نہ ہوگا.مگر میں سمجھتا ہوں اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں کسی بھی مسلمان کہلانے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمد ادشمنی کا الزام ایک بہت ہی سنگین الزام ہے اور خواہ کیسے ہی قرائن موجود کیوں نہ ہوں کم از کم میری طبیعت کسی دشمن پر بھی الزام لگانے کے لئے تیار نہیں.میں خود اس مظلوم فرقہ سے تعلق رکھتا ہوں جس کے قلوب میں اگر چہ اس محبوب ترین نبی کے لئے اتھاہ اور بے پناہ محبت کے سوا کچھ نہیں مگر پھر بھی ظالموں کی طرف سے اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کا الزام لگایا جاتا ہے.اس لئے میں یہ جانتے ہوئے کہ اس الزام کا زخم کتنا گہرا اور دردناک ہوتا ہے مودودی صاحب پر یہ الزام لگانے سے اجتناب کرتا ہوں.دوم :.دوسراصل یہ ہو سکتا ہے کہ مودودی صاحب کی نظر عیب و ہنر کے ادراک کے قابل ہی نہ ہو اور جس طرح بعض لوگ کلر بلائنڈ COLOUR BLIND ہوتے ہیں اور بعض رنگوں میں تمیز نہیں کر سکتے مودودی صاحب بھی اخلاق کے حسن و فتح میں تمیز کرنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں.یہ امر قرین قیاس ہے بلکہ عین ممکن ہیں کہ جہاں تک اخلاقی قدروں کا تعلق ہے مولانا کی قوت ممیزہ امکانی حل میں مضمر ہے.سوم:.اردو میں ایک محاورہ ہے دھن سوار ہونا جسے انگریزی میں اویسیشن (OBSESSION) کہا جاتا ہے یعنی دل و دماغ پر ایک خیال کا ایسا چھا جانا کہ دائیں بائیں آگے پیچھے کی ہوش نہ رہے.انسانی نظر و فکر کی یہ ایک انتہائی مہلک بیماری ہے جو تپ دق کی طرح اس کی صلاحیتوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے اور اپنے ساتھ اور بہت سی نظری بیماریاں لے آتی ہے.بدقسمتی سے مودودی صاحب بھی اسی مرض کا شکار ہو چکے ہیں اور دھن ان پر یہ سوار ہے کہ خلق خدا کی گردنیں

Page 69

۶۲ مذہب کے نام پرخون اپنے ہاتھ میں لے کر ڈنڈے کے زور سے اصلاح خلق کے وہ وہ کام کر دکھا ئیں کہ جو ان سے پہلے کبھی کسی راستباز نبی سے بھی سرانجام نہ پائے تھے.یہی وہ دھن ہے جس کے نتیجہ میں وہ ٹھوکر پر ٹھوکر کھاتے ہیں اور دھند کی طرح یہ ان کی راہ میں حائل ہو کر انہیں وادی وادی بھٹکاتی پھرتی ہے بلکہ بسا اوقات ہلاکت کی ان راہوں تک جا پہنچاتی ہے جن پر آدم سے لے کر آج تک دشمنان حق ہمیشہ چلتے رہے ہیں.اسی دھن کے زیر اثر کبھی تو وہ قتل مرتد کے عقیدہ کے قائل ہو کر ان ازلی ابدی ظالموں کے مسلک کی تائید کرتے ہیں جنہوں نے انبیاء علیہم السلام اور ان کی جماعتوں کی محض اس لئے مخالفت کی تھی کہ وہ اپنے پہلے دین سے پھر چکے تھے اور کبھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں تلوار پکڑا کر اشاعت اسلام کو نعوذ باللہ اسی تلوار کا مرہون منت قرار دیتے ہیں اور چونکہ تلوار کی ضرورت نصیحت کی افادیت کو باطل ثابت کرتی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ اگر نصیحت کی افادیت کو تسلیم کر لیا جائے تو تلوار کی ضرورت باقی نہیں رہتی اس لئے مودودی صاحب تلوار باقی رکھنے کے لئے نصیحت کی افادیت سے انکار کرنے پر مجبور ہیں.زیر نظر باب میں مودودی صاحب کے یہی نظریات قارئین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں جو نصیحت کو فضول اور بے کار شے قرار دے کر مذہب میں تلوار کے استعمال کے لئے ایک وجہ جواز تراشتے ہیں.چنانچہ مودودی صاحب فرماتے ہیں:.ان کو آپ محض پند و نصیحت سے چاہیں کہ اپنے فائدوں سے ہاتھ دھولیں تو یہ کسی طرح ممکن نہیں.ہاں اقتدار ہاتھ میں لے کر آپ بجبر ان کی شرارتوں کا خاتمہ کر دیں لے “ بظاہر یہ اصلاح کا ایک نہایت کارآمد طریق نظر آتا ہے.خصوصاً پند و نصیحت کے دشوار گزار رستوں کے مقابل پر اس طریق کی آسانی اپنے اندر ایک گونہ کشش رکھتی ہے.کہاں تو اصلاح خلق کی خاطر درویشانہ نصیحت کرتے ہوئے در بدر کی ٹھوکریں کھانا اور ہر در سے دھتکارے جانا مگر پھر بھی ایک ایسے دیوانے عاشق کی طرح بے مثال صبر اور ہمت کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم رہنا جس کا نعرہ ہر آزمائش کے وقت یہی ہوتا ہے کہ :.لے حقیقت جہاد صفحہ ۱۰

Page 70

۶۳ مذہب کے نام پرخون یہ تو نے کیا کہا ناصح نہ جانا کوئے جاناں میں ہمیں تو راہرووں کی ٹھوکریں کھا نا مگر جانا اور کہاں تلوار کے زور سے آن واحد میں جوق در جوق لوگوں کو صالح مسلمان بنادینا؟ اول الذکر طریق کی مشکلات کو مؤخر الذکر طریق کی آسانی کے ساتھ کوئی بھی نسبت ہے؟ طریق اول یعنی نصیحت اختیار کر کے کوئی جانتے بوجھتے ہوئے کیوں وہ کٹھن راہیں اختیار کرے جن پر قدم مارنے کا نتیجہ سوائے اس ذلت ورسوائی کے کچھ نہیں ہوتا جو اس سے پہلے ناصحین کے دیکھتے نصیبوں میں لکھی جاتی رہی اور جس کا ذکر قرآن کریم ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے:.انَّ الَّذِينَ أَجْرَهُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ وَ إِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَا مَرُونَ - وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ الْقَلَبُوا فَكِهِينَ وَ إِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هُؤُلَاءِ لَضَالُونَ - وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَفِظِينَ (المطففين : ۳۰تا۳۴) ترجمہ:.یقیناً مجرم لوگ مومنین سے تمسخر کیا کرتے تھے.اور جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو تحقیر آمیز اشارے کرتے تھے اور اپنے اہل وعیال کی طرف اتراتے ہوئے لوٹتے تھے اور جب ان کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے یقینا یہی لوگ ہیں جو پکے گمراہ ہیں حالانکہ وہ ان پر داروغہ مقرر نہیں کئے گئے تھے.غالباً یہی وجہ ہے کہ مودودی صاحب ہر گز اس اصل کے قائل نہیں کہ اصلاح خلق کی خاطر خواہ مخواہ ایسی پر مشقت زندگی اختیار کی جائے جس کا نتیجہ جگ ہنسائی اور رسوائی کے سوا کچھ نہ ہو.لوگ ہنسی مذاق کا نشانہ بنائیں.سر مٹکا ئیں اور آنکھوں سے اشارے کریں کہ ان دنیا کی اصلاح کرنے والوں کو تو دیکھو کہ جن کے پاس نصیحت کے سوا کوئی ہتھیار نہیں اور کمزوری کا یہ حال ہے کہ ہم جب چاہیں انہیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں اور دعوے یہ ہیں کہ ہم محض نصیحت کے ذریعہ دنیا کے دل جیت لیں گے.غرضیکہ یہ تمسخر اور تحقیر کرتے ہوئے لوگ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اتراتے ہوئے اپنے گھروں کولوٹ جایا کریں اور جب کبھی بھی ان ناصحین کا ذکر آئے وہ ان کو سخت گمراہ اور راہ حق سے بھٹکے ہوئے قرار دیا کریں.پھر ایسی نصیحت کا بھلا کیا فائدہ؟ مفت کی رسوائی اور ذلت کے سوا

Page 71

۶۴ مذہب کے نام پرخون ماحصل کچھ بھی تو نہیں.اس کے برعکس ایک طریق ایسا ہے جسے اپنانے سے خلق خدا کی خوب خوب اصلاح ہو سکتی ہے اور وہ طریق مودودی صاحب کے الفاظ میں یہ ہے:.”جو کوئی حقیقت میں خدا تعالیٰ کی زمین سے فتنہ وفساد کو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلق خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لئے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول 66 ہے.اسے اٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے غلط کارلوگوں سے اقتدار چھین کر صیح اصول اور طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے لے “ یہ ہے وہ اصلاح خلق کا مودودی نظریہ جو بعینہ اشترا کی نظریہ بھی ہے اور بظاہر بہت ہی زوداثر اور کار آمد دکھائی دیتا ہے لیکن اس سے متأثر ہونے کے بعد طبعاً دل میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ نظریہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اور اپنے دور رس نتائج کے اعتبار سے بنی نوع انسان کے لئے عظیم الشان فوائد کا حامل ہے تو لازماً خالق فطرت نے انبیاء علیہم السلام کو اصلاح کا یہی مؤثر طریق سکھایا ہو گا اور کتب مقدسہ اٹھ بندے اٹھ تلوار اٹھا“ کے نعرہ ہائے جنگ سے بھر پور ہوں گی یہاں تک کہ ہر دوسرے تیسرے فرمان الہی کے بعد بشدت یہ تقاضا کیا جاتا ہو گا کہ اے خدائی فوجدارو! نصیحت ایک بے کار چیز ہے اس کا خیال تک دل میں نہ آنے دو اور اگر تم بندگان خدا کی اصلاح کا ایک موہوم تصور بھی رکھتے ہو تو حکومت وقت کا تختہ الٹ دو اور بزوران کی شرارتوں کا خاتمہ کر دو مگر حیف ہے اس مکتبہ خیال کے حامیوں پر کہ ایسا ہرگز نہیں.حیف کہ معاملہ برعکس ہے اور اس مسئلہ پر خالق فطرت کا فیصلہ مذکورہ بالا اشترا کی اور مودودی نظریہ کے بالکل خلاف نظر آتا ہے.خدا تعالیٰ کی نظر میں تو نصیحت ایک ایسی کارآمد چیز ہے کہ اس عالمگیر نقصان کے زمانہ میں بھی جبکہ انسانیت بحیثیت مجموعی گھاٹے کی طرف جا رہی ہوگی صرف وہی نیک عمل والے مومن کا میاب ہوں گے جن کی شان یہ ہوگی کہ:.وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر : ٤) وہ حق اور صبر کے ساتھ نصیحت کریں گے حقیقت جہاد صفحہ ۱۱

Page 72

مذہب کے نام پرخون صحیفہء فطرت پر ایک نظر ڈالنے ہی سے انسان اس حقیقت کو پا جاتا ہے کہ روحانی اور اخلاقی انقلابات بر پا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو جو ذریعہ اختیار کرنے کی تلقین فرماتا ہے وہ محض حق بات کی نصیحت کرنا ہے.دعا کے ساتھ اور صبر کے ساتھ ،صبر کے ساتھ اور دعا کے ساتھ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کے پورا ہونے کا دن آجائے کہ :.وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الاعراف:۱۲۹) انجام کار متقیوں ہی کی فتح ہوگی.خدا تعالیٰ کے تمام فرستادہ نبی اسی مکتبہ خیال کے حامی تھے اور ان کا اصلاح خلق کا تصور جبری اصلاح کے اشترا کی تصور کے بالکل برعکس تھا.قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کے اس مقدس گروہ کو مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین اور مبشرین کی ایک جماعت کے طور پر پیش کرتا ہے جن کے طریق کار کا ذکر بنی نوع انسان کی راہنمائی کی خاطر ہمیشہ ہمیش کے لئے اس مقدس صحیفہ میں محفوظ کر دیا گیا ہے.پس اس الہی بیان کے مطابق حضرت نوح کا انقلابی ہتھیار بھی نصیحت تھا اور حضرت ابراہیم کا بھی.حضرت شعیب کا بھی اور حضرت صالح" کا بھی.حضرت لوط بھی ناصح ہی بن کر آئے تھے اور حضرت موسیٰ “ اور حضرت عیسی بھی اور سب سے آخر پر مگر ان سب سے کہیں بڑھ کر سید ولد آدم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی محض ایک ناصح کے طور پر ہی ایک عظیم ترین عالمگیر روحانی انقلاب بر پا کرنے کے لئے اس دنیا میں تشریف لائے تھے.پھر میں اس مقدس زمرہ انبیاء کی اس اجماعی سنت کو کیسے یکسر نظر انداز کر ڈالوں اور مودودی صاحب کے اس اشترا کی دعویٰ کو تسلیم کرلوں کہ ”جو کوئی حقیقت میں خدا تعالیٰ کی زمین سے فتنہ وفسادکو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلق خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لئے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے.“ دیکھئے حضرت نوح کی قوم نے جب آپ پر کھلی کھلی گمراہی پھیلانے کا الزام لگایا تو آپ نے قرآن کریم کے بیان کے مطابق انہیں یہی جواب دیا کہ :.يُقَومِ لَيْسَ في ضَللَهُ وَلَكِنِى رَسُولُ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ - أَبَلِغُكُم بِسُلْتِ رَبِّي وَ انْصَحُ لَكُمْ وَاَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (الاعراف: ۶۲، ۶۳)

Page 73

۶۶ مذہب کے نام پرخون ”اے میری قوم میں گمراہ نہیں ہوں بلکہ ربّ العالمین کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہوں اور ( میرا کام یہ ہے کہ) تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچاتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں اور اپنے رب کی طرف سے مجھے ان امور کا علم دیا گیا ہے جنہیں تم نہیں جانتے.“ یہ ہے وہ خطاب جو اللہ تعالیٰ کے بیان کے مطابق حضرت نوح نے اپنی قوم سے کیا مگر مودودی نظریہ کے مطابق ان کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ” میں تو خدا کا رسول ہوں اور بزور شمشیر اپنے صالحین کی جماعت تم پر مسلط کر دوں گا اور خواہ تم ہاتھ اٹھاؤ یا نہ اٹھاؤ وہ بہر حال تمہارے غیر صالح ہاتھوں سے اقتدار چھین لیں گے.“ پھر دیکھئے حضرت ہوڈ پر جب عاد قوم نے بے وقوف ہونے کا الزام لگایا تو جوابا آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم میری نصیحت کے بے ضرر طریق کو دیکھ کر مجھے بیوقوف نہ سمجھتے رہنا یہ تو ایک عارضی روپ ہے ورنہ دراصل میں تو ایک جابر اور متشد د انسان ہوں اور ایک دن خدا کے باغیوں سے عنان حکومت چھین کر اپنی صالح جماعت کے سپرد کر دوں گا بلکہ سنت انبیاء کے مطابق آپ کا جواب بھی نہایت ہی پاکیزہ تھا اور اس میں سنگدلی اور جبر و تشدد کے ارادوں کا شائبہ تک نہ تھا.قرآن کریم وہ جواب ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ :.يُقَومِ لَيْسَ فِي سَفَاهَةٌ وَلَكِنِّى رَسُولُ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ - أَبَلِّغُكُم بِسُلْتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحُ آمِينَ (الاعراف: ۲۹،۶۸) اے میری قوم! مجھ میں بیوقوفی کی تو کوئی بات نہیں میں تو تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں.اپنے رب کے پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے ایک ناصح کی حیثیت رکھتا ہوں اور امین ہوں.پھر حضرت ہوڈ کے بعد حضرت صالح کو بھی قوم نے ٹھکرادیا اور طرح طرح کے الزام لگائے مگر آپ کا جواب بھی یہی تھا کہ :.يُقَومِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّصِحِينَ - (الاعراف: ۸۰)

Page 74

۶۷ مذہب کے نام پرخون اے میری قوم! دیکھو میں تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا چکا اور نصیحت کر چکا ہوں لیکن تم ناصحین سے محبت کرنے والے لوگ نہیں ہو.پھر حضرت لوط کی جماعت نے بھی حضرت لوط کی قوم کا اقتدار جبر سے نہ چھینا بلکہ نصیحت کرتے چلے گئے یہاں تک کہ اس قوم کی عقوبت کا وقت آ پہنچا تب اس سے پیشتر کہ عذاب ظالموں کی اس بستی کو گھیر لیتا اللہ کے اذن سے حضرت لوط اور آپ کے ساتھی ہمیشہ کے لئے اس بستی کو چھوڑ کر چلے گئے تب وہ ہولناک صبح طلوع ہوئی جس سے ہمیشہ ظالموں کو ڈرایا جاتا ہے.فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ (الصافات: ۱۷۸) دیکھو ! کیسی بری صبح ہوتی ہے ان کی جن کو عذاب الہی سے ڈرایا جاتا ہے.اور حضرت شعیب نے بھی دشمنوں کی ایذا رسانی کے باوجود نصیحت ہی سے کام لیا اور جب مخالف ظلموں سے باز نہ آئے فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَ قَالَ يُقَومِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ بِسُلْتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ فَكَيْفَ أسى عَلَى قَوْمٍ كَفِرِينَ (الاعراف: ۹۴) تو وہ ان لوگوں سے الگ ہو گئے اور کہا کہ اے میری قوم! میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا چکا ہوں اور نصیحت کر چکا پس کس طرح ایک کا فرقوم پر ( جو مسلسل انکار پر مصر ہے ) اپنے غم کا اظہار کروں.غرضیکہ تمام انبیاء کا مقام ناصحین کا مقام تھا اور جب ان کا انکار کیا جاتا تھا تو وہ اپنے ربّ کے حضور جھکتے اور گریہ وزاری کرتے تھے اور بزور شمشیر مخالفین سے عنان حکومت چھینے کی بجائے وہ یقین رکھتے تھے کہ ان کا فرض صرف محبت اور نرمی اور عجز اور نصیحت کے ساتھ اصلاح کرنا ہے اور باقی خدا کا کام ہے.وہ مالک حقیقی ہے اور جسے چاہتا ہے حکومتوں کا وارث بنادیتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح ان کا نعرہ بھی یہی تھا کہ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (الاعراف: ۱۲۷) اور اپنی قوم کو یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ استَعِينُوا بِاللهِ وَاصْبِرُوا (الاعراف: ۱۲۹) اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو اور صبر کرو اِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الاعراف: ۱۲۹) یقیناً ساری زمین خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث کر دیتا ہے ( یہ ہمارا کام نہیں کہ اپنے زعم میں اپنے آپ کو صالحین کہہ کر بزور شمشیر اقتدار حاصل کریں ) ہاں ہم اتنا ضرور جانتے ہیں وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ کہ انجام کار فتح بہر حال متقیوں کو

Page 75

۶۸ مذہب کے نام پرخون نصیب ہوگی.حضرت موسیٰ کے بعد حضرت عیسی نے بھی اپنی ساری زندگی نصیحت میں صرف کر دی اور کبھی اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینے کی سکیمیں نہ بنائیں اور آخر میں سب نبیوں کا سردار بھی ناصح بن کر ہی لوگوں کو نیکی کی طرف بلانے کے لئے آیا دارو نے یا خدائی فوجدار کی حیثیت کبھی اختیار نہ کی اللہ تعالیٰ نے بھی خود آپ کو ناصح ہی کا نام دیا اور فرمایا:.فَذَكِّرْ ۖ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَاكِرَ - لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرِ (الغاشية: ۲۲، ۲۳) پس (اے محمد) نصیحت کر تو محض ایک واعظ ہے اور ان (لوگوں) پر داروغہ مقرر نہیں.مگر مودودی صاحب اس دعویٰ پر مصر ہیں کہ وہ اور ان کی جماعت:.مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین اور مبشرین کی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے.لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ.اور اس کا کام یہ ہے کہ دنیا سے ظلم، فتنہ و فساد، طغیان اور نا جائز انتفاع کو بزور مٹادے لے “ خدا تعالیٰ تو اپنے بزرگ ترین رسول کو بھی یہی نصیحت فرما تا رہا ہے کہ:.وَمَا جَعَلْنَكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (الانعام: ۱۰۸) نہ تو ہم نے تجھے ان پر داروغہ مقرر کیا ہے اور نہ تو ان کے اعمال کا ذمہ دار ہے.مگر مودودی صاحب داروغنگی ہی کے نہیں بلکہ فوجداری حقوق اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے محفوظ کروا رہے ہیں.کس قدر تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس مصلح اعظم کو تو فوجداری حقوق نہ سونپے جس کی خاطر کا ئنات کو پیدا کیا تھا مگر مودودی صاحب اور ان کے صالحین کی جماعت کو اس عطائے خاص کے لئے چن لیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر شفقت و رحمت دل سے جب دردناک دعائیں اٹھتی تھیں کہ اے میرے آقا! مجھے توفیق بخش کہ میں سارے جہان کی ہدایت کا موجب بن جاؤں تو آپ کو تو خدا تعالیٰ یہی جواب دیتا رہا کہ :.ا فَانْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (يونس:١٠٠) لے حقیقت جہاد صفحہ ۵۸

Page 76

۶۹ مذہب کے نام پرخون کیا تو لوگوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ ایمان لے آئیں.اور آپ کے منکرین سے متعلق یہی اطلاع دیتا رہا کہ:.وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا أَشْرَكُوا وَمَا جَعَلْنَكَ عَلَيْهِمْ حَفِيفًا ۚ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ (الانعام: ۱۰۸) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ کبھی شرک نہ کرتے.اور تجھے ہم نے ان پر داروغہ مقرر نہیں کیا نہ ہی تو ان پر نگران ہے.مگر مودودی صاحب نے جب اصلاح خلق کا ارادہ کیا تو معا جبر و اکراہ کی ساری قوتیں انہیں سونپی گئیں اور تمام فوجداری اختیارات انہیں ودیعت کئے گئے تاکہ دنیا سے ظلم ،فتنہ وفساد، ناجائز انتفاع اور طغیان کو بزورمٹا ڈالیں.کس قدر افسوس ہے اور کیسا تعجب ہے کہ فتنہ و فساد مٹانے اور خلق خدا کی اصلاح کرنے کا یہ طریق تمام انبیاء گزشتہ کی نظر سے پوشیدہ رہا اور کسی نے بھی اس انمول راز پر اطلاع نہ پائی یا پھر شائد (نعوذ باللہ ) خدا تعالیٰ ہی سے چوک ہوئی.ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ اس نے اصلاح خلق کا ارادہ کیا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ وہ یہ بھول جاتا رہا کہ محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے ، یہاں تک کہ نبی آخر زماں، سب نبیوں کا سردار بھی آیا اور گزر گیا مگر پھر بھی خدا تعالیٰ کو نصیحت کی بے مائیگی یاد نہ آئی اگر کچھ یاد آیا تو اصلاح خلق کا وہی از لی اور ابدی گر کہ:.فَذَكِّرُ إِنْ نَفَعَتِ الذِكرى (الاعلى: ١٠) نصیحت کر یقیناً نصیحت فائدہ بخشتی ہے.اگر مودودی صاحب راستی پر ہی ہیں تو بھی بخدا مجھے اس مودودی سچائی کی کچھ بھی پروا نہیں کیونکہ اصلاح خلق کا وہ راز جو میرے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل نہیں ہوا اگر دس کروڑ مرتبہ بھی کسی مودودی دل پر نازل ہو تو دس کروڑ مرتبہ ہی با نگ دہل میں اس کا انکار کرتا چلا جاؤں گا.میں تو وہی حربہ اختیار کروں گا جو مصلح اعظم ، حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا اور ہر دوسرے حربہ کو پاؤں کی ایک ٹھوکر سے رڈ کروں گا.

Page 77

مذہب کے نام پرخون اقتدار کی تڑپ مودودی صاحب کی مختلف کتب کے مطالعہ کے بعد میں اس یقینی نتیجہ تک پہنچا ہوں کہ موصوف کی نفسیات کے تجزیہ کا ما حصل ان تین لفظوں میں سمٹا ہوا ہے اقتدار کی تڑپ“.یہ اقتدار کی تڑپ ایسی بے حد و بے پناہ ہے کہ ان کے ہر نظریہ حیات پر مسلط ہو چکی ہے.ان کے نزدیک عبادت الہی کا مفہوم بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ خدا کے بعض بندوں کو صالح بنا کر دوسرے بندگان خدا پر حکومت کرنے کا اہل بنایا جائے اور عبادتوں کے روحانی پہلو کی طرف ذرا بھی ان کی نگاہ نہیں اٹھتی.وہ بھول جاتے ہیں کہ عبادت کی بنیادی غرض بندے کا خدا تعالیٰ سے وصال کرانا ہے یعنی اس مقصد کا پورا کرنا ہے جس کی خاطر جن وانس پیدا کئے گئے.وہ بھول جاتے ہیں کہ عبادت کا ئنات کی تخلیق کا مقصود ہے کسی ثانوی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ عبادت جن و انس کی خاطر پیدا نہیں کی گئی بلکہ جن و انس عبادت کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷) ہم نے عبادت کی خاطر ہی جن وانس پیدا کئے ہیں مگر مولانا کا اصرار ہے کہ :.” یہ نماز اور روزہ.یہ زکوۃ اور حج دراصل اسی تیاری اور تربیت کے لئے ہیں.جس طرح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی اپنی فوج، پولیس اور سول سروس کے لئے آدمیوں کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں پھر ان سے کام لیتی ہے.اسی طرح اسلام بھی ان تمام آدمیوں کو جو اس ملازمت میں بھرتی ہوں پہلے خاص طریقہ سے تربیت دیتا ہے پھر ان سے جہاد اور حکومت الہی کی خدمت لینا چاہتا ہے ے “.لے حقیقت جہاد صفحہ ۱۶

Page 78

مذہب کے نام پرخون عبادت کا اس خوفناک حد تک مادی نظر یہ یقیناً دنیا کے کسی مذہب نے کبھی پیش نہیں کیا.مگر جب اقتدار کی بے پناہ تمنا ہر نظریہ حیات پر مسلط ہو چکی ہو تو بعید نہیں کہ عبادت الہی بھی فوج، پولیس اور سول سروس کی ٹریننگ کی طرح نظر آنے لگے.اور یہ اقتدار کی تمنا ایسی بے صبر و بے قرار تمنا ہے کہ کسی مشکل اور لمبی ( مگر درست ) راہ کو اختیار کر کے حصول مقصد کی اجازت نہیں دیتی.اشتراکیت کا بھی یہی دعویٰ تھا کہ انقلاب کے لئے لمبے جمہوری طریق کو اختیار کرنا عبث ہے بلکہ کمیونسٹ پارٹی اپنے نیک مقصد کے حصول کی خاطر جب بھی موقع پائے حکومت وقت کا تختہ الٹ کر عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے.مولانا کا بھی بعینہ یہی دعوئی ہے.سرموفرق نہیں.چنانچہ مودودی فرمان اپنے متبعین کو یوں پابند کرتا ہے کہ:.جس سرزمین میں بھی تمہاری حکومت ہو وہاں خلق خدا کی اصلاح کے لئے اٹھو حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو.ناخدا ترس اور شتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماروائی کا اقتدار چھین لولے“.حیرت کی بات ہے کہ مولانا اقتدار کی تمنا میں ایک ہزاروں سال کے آزمودہ عام اخلاقی نکتہ کو سمجھنے سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ دعاوی خواہ کتنے ہی بلند بانگ ہوں اور نیتیں خواہ بظاہر کیسی ہی نیک کیوں نہ ہوں ملک کی کسی پارٹی کولٹر کر حکومت پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ورنہ دنیا میں ایک ایسا فساد عظیم برپا ہو جائے گا کہ تا قیامت مٹ نہ سکے گا اور خانہ جنگیوں کی ایسی آگ بھڑ کے گی کہ بجھائے نہ بجھے گی.اوّل تو اس امر کا فیصلہ کہ جس مقصد کے لئے کوئی پارٹی کھڑی ہوئی ہے وہ نیک ہے بھی یا نہیں خود اسی پارٹی پر نہیں چھوڑا جا سکتا.دوسرے اگر بالفرض اسے نیک تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس فیصلہ کا اختیار بھی اسی پارٹی کو نہیں دیا جا سکتا اور نہ یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ان کے مد مقابل تمام لوگ تو یقیناً بد کردار، ناہنجار، نا خدا ترس اور ظالم و سفاک ہیں لیکن خدائی فوج داروں کی اس پارٹی کا ہر مبر صالح اور خدا ترس ہے اور نفس کی ملونی اور حرص و ہوا سے کلیتہ پاک ہے اور بحیثیت مجموعی یہ پارٹی حقیقت جہاد صفحه ۱۵

Page 79

۷۲ مذہب کے نام پرخون خالصتا اصلاح خلق کی نیت سے ہی میدان عمل میں کو دی ہے لیکن اس احتمال کو کوئی کہاں لے جائے کہ بسا اوقات ایسی پارٹیاں جو نیک نیتوں کے بلند بانگ دعاوی لے کر اٹھتی ہیں بہت جلد اقتدار کی ہوس ان پاک ارادوں کو ڈگمگا دیتی ہے اور پاکیزہ نیتوں کو بھسم کر دیتی ہے.خود مودودی صاحب ہی کے الفاظ میں ذرا فطرت انسانی کی اس بے اختیاری کا قصہ سنیے:.دو لیکن حکومت اور فرمانروائی جیسی کچھ بد بلا ہے ہر شخص اس کو جانتا ہے.اس کے حاصل ہونے کا خیال کرتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اٹھنے لگتے ہیں.خواہشات نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلق خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے لے “ پس جب خود مولانا کو بھی یہ تسلیم ہے کہ اقتدار کی تمنا تو خیر الگ رہی اس کے حاصل ہونے کا خیال ہی ایک نہایت خطرناک تبدیلی دل میں پیدا کر سکتا ہے تو اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ ان کے تیار کردہ صالحین اس خطرناک مقام سے محفوظ گزر جائیں گے.اگر کہیں کہ ان کی نیک نیتی کی ضمانت اس وجہ سے لی جاسکتی ہے کہ وہ اس ٹرینگ میں سے گزر چکے ہوں گے جو اس ”سول سروس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے یعنی تمام عبادات اسلامی بجالانے والے ہوں گے.تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا نے یہ فرض کہاں سے کر لیا صرف ان کی اسلامی جماعت کے اراکین ہی نماز ، روزہ، حج ، زکوۃ وغیرہ کے فرائض ادا کرتے ہیں اگر احمدیوں کی عبادتیں آپ کے نزدیک عبادتیں نہ بھی ہوں تو کیا بریلوی کلیتہ ان عبادات کے تارک ہیں یا دیو بندی ان سے بیزار ہو چکے ہیں ؟ کیا شیعہ خیال کے مسلمانوں کی عبادتیں عبادتیں نہیں اور اہل قرآن ان کو یکسر ترک کر بیٹھے ہیں ؟ پھر ان سب کو کیوں حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھی اپنے اپنے رنگ میں بزور شمشیر ہر وقت اس حکومت وقت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرتے رہیں جو ان کے مکتب خیال کے مطابق فاسد نظریات پر مبنی ہو.پھر غیر مسلم بھی تو اپنی اپنی جگہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں.اگر وہ ایسا نہ سمجھتے تو کیا فوج در فوج اسلام میں نہ داخل ہو جاتے ؟ اس لئے ان کو بھی اصولاً یہ حق ملے گا کہ حکومت وقت کا تختہ الٹنے کے لئے ہر وقت حقیقت جہاد صفحه ۱۵

Page 80

۷۳ مذہب کے نام پرخون ریشہ دوانیوں میں مصروف رہیں.نیک ارادوں یا اصلاح خلق کے بہانے صالحین کی مختلف پارٹیوں کو حکومتوں کا تختہ الٹنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی.کسی کی صالحیت کے بارہ میں ان کے اختلافات ایسے شدید اور سنگین ہو سکتے ہیں کہ اگر دونوں کو تسلیم کر لیا جائے تو کوئی پارٹی بھی صالح نہ رہے.اسی مثال پر غور کر لیجئے کہ مولانا کے نزدیک احمدیت کا اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں یہ امت محمدیہ میں فساد بر پا کرنے کے لئے انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے جو انہوں نے اس غرض سے لگایا تھا کہ مسلمانوں کو جہاد سے متنفر کیا جائے اور ان کی قوت عمل کو زائل کر دیا جائے.احمدیت کا بیج اس لئے بویا گیا ہے کہ مسلمانوں میں باہم اختلافات پیدا کر دیے جائیں اور مار آستین کی طرح یہ جماعت اسلام میں شامل ہو کر ایک خفیہ مگر سخت مہلک حملہ کے ذریعہ اسلام کی بیخ کنی کر دے.مگر میرے نزدیک جماعت احمد یہ خالصتاً اسلام کے غلبہ اور احیائے نو کی خاطر قائم کی گئی ہے اس کا بیج انگریز نے نہیں بلکہ اس خدا نے اپنے ہاتھ سے بویا ہے جس نے امت محمدیہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کی اصلاح کے لئے ایک مہدی عطا کرے گا اور ایک ایسا مسیح نازل فرمائے گا جو اپنے نا قابل تردید دلائل کے ذریعہ ( صلیب کو پارہ پارہ کر دے گا.پس میرے نزدیک یہ جماعت اسی مہدی اور مسیح کی جماعت ہے.چنانچہ ایک طرف تو یہ بنی نوع انسان کی اصلاح کی غرض سے بے غرضانہ اور درویشانہ وعظ ونصیحت کے کام میں مصروف ہے اور دوسری طرف زمین کے کناروں تک عیسائیت سے مصروف پیکار ہے اور ہر میدان میں اسے شکست دے رہی ہے.میں بھلا کس طرح باور کروں کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے.کیا انگریز کے خود کاشتہ پودے کا یہی کام تھا کہ وہ انگریز کے مذہب یعنی عیسائیت کے پودے کی بیخ کنی کر دے اور ہر سر زمین سے اس کی جڑیں اکھاڑ پھینکے جہاں جہاں یہ پہنچے تثلیث کے پودے سوکھنے لگیں اور توحید کے بیج بوئیں جائیں.یہ پیج سرسبز اور شاداب لہلہاتی ہوئی کونپلوں کی صورت پھوٹیں اور جلد جلد بڑھنے لگیں.تنومند اور جوان ہوں اور پھولیں اور پھلیں.ان کے پھول حسین اور معطر ہوں.پھل خوش منظر اور میٹھے.اور سبز شاخوں کے سائے تسکین بخش ہوں.سعید روحیں پرندوں کی طرح ان کی ڈالی ڈالی پر وحدت کے گیت گائیں.

Page 81

۷۴ مذہب کے نام پرخون اگر انگریز کے خود کاشتہ پودوں نے یہی کام سرانجام دینے تھے تو کاش انگریز اپنے دور حکومت میں ان صفات کے اور بھی دو چار خود کاشتہ پودے لگا جاتے تا کہ اسلام کل زندہ ہونے کے بجائے آج زندہ ہو جا تا اور عیسائیت کل مرنے کے بجائے آج مرجاتی.اب دیکھئے احمدیت کے بارے میں میرا یقین اور ایمان اس فتویٰ سے کتنا مختلف ہے جو مولانا مودودی اس جماعت کے بارے میں صادر فرماتے ہیں.میں تو اس جماعت کی عمارت کو اس گہرے عشق پر قائم دیکھتا ہوں جو غیر متزلزل طور پر اس جماعت کے بانی کے دل میں خدا اور اس کے رسول کے لئے جاگزیں تھا اور جس کا اظہار آپ اپنے ایک شعر میں اس طرح فرماتے ہیں کہ :.بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخد اسخت کا فرم میں تو خدا کے بعد محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے عشق میں مخمور ہوں.اگر کفر یہی ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.“ مگر مولانا کے نزدیک اس جماعت کی جڑیں سرزمین انگلستان میں پیوستہ ہیں.کیا کوئی بھی نسبت ہے ان دونوں اعتقادات میں؟ پھر اس مثال کو الٹا کر اس طرح بھی ملاحظہ فرما لیجئے کہ مولانا کے نزدیک ”جماعت اسلامی“ اس لئے قائم کی گئی ہے کہ ”صالحین کی ایک جماعت تیار کی جائے جو اسلامی عبادات کو لمبے عرصہ تک نہایت سختی کے ساتھ ادا کرنے کے بعد اس قابل ہو جائے کہ اسلام ان سے کہہ سکے کہ :.’ہاں اب تم روئے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو.لہذا آگے بڑھو لڑ کر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دو اور حکمرانی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو.“ چنانچہ مولانا کی کوششوں سے روئے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندوں کی جماعت تیار ہو چکی ہے اور اب صرف اس بات کا انتظار ہے کہ کب اتنی طاقت پیدا ہو کہ لڑ کر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر کے حکمرانی کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے جائیں.مولا نا سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت خالصہ دنیا کی اصلاح اور اسلام کا بول بالا کرنے کی غرض سے

Page 82

۷۵ مذہب کے نام پرخون قائم کی گئی ہے تا کہ غیر اللہ کا تصور مٹادیا جائے اور نوک شمشیر سے اللہ کا تصور دلوں پر کندہ کر دیا جائے.مگر میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہ بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے کہ مودودی جماعت کے اراکین’ روئے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندئے ہیں.میرا یہ ایمان ہے کہ اگر چہ ہمیں یہ حق تو حاصل ہے کہ ہم عقائد کی رو سے کسی جماعت یا مذہب سے متعلق یہ فیصلہ کریں کہ وہ حق وصداقت رو یا پر مبنی ہے مگر ہمیں یہ حق ہر گز نہیں پہنچتا کہ اس دنیا میں اپنے متعلق یہ فتویٰ دیں کہ ہم نیک اور صالح ہیں سوائے اس کے کہ صالحیت کے غیر مشکوک آثار ظاہر ہوں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی علامات نظر آنے لگیں.جس طرح وہ پہلے اپنے پیارے صالحین سے ہمکلام ہوتا رہا ہے اب بھی ہمکلام ہو جس طرح وہ پہلے امت کے صوفیاء اور بزرگان پر ظاہر ہوتا رہا ہے اب بھی دعویداران صالحیت پر ظاہر ہو.ان کی نصرت فرمائے اور اپنی قولی اور فعلی شہادت سے یہ بات ثابت فرما دے کہ صالحیت کا دعوی کرنے والے واقعی صالح ہیں ورنہ انسان ریا کاری اور خوش فہمیوں کے چکر میں ایسا پھنسا ہوا اور فطرت انسانی کے پاتال تک کی خبر رکھتا ہے کہ کون صالح ہے اور کون غیر صالح ہے.پس میرے نزدیک مودودی صاحب کا یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے اور یہ بھی بالکل غلط ہے کہ ”جماعت اسلامی اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.کیونکہ اگر اس جماعت کے وہی عقائد ہیں جو مولانا مودودی کے ہیں تو یہ اسلام کا بول بالا نہیں کر رہی بلکہ اسلام کو دنیا کی نظروں میں حقیر کر رہی ہے اور طبیعیتوں کو اس پاک مذہب سے سخت متنفر کر رہی ہے.پاکستان کی مسلمان اکثریت کے ماحول میں بیٹھے ہوئے مولانا مودودی اسلام کے بول بالا ہونے کے جس قدر نعرے چاہے لگا لیں مگر ذرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اشاعت اسلام اور آپ کی پالیسی کے بارہ میں اپنے نظریات لے کر غیر اسلامی ملکوں میں تبلیغ کے لئے تو نکل کر دیکھیں خوب کھل جائے گا کہ ان نظریات سے اسلام کا کس قدر بول بالا ہو رہا ہے.ذرا اس عقیدہ کو ہاتھ میں لے کر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک آسمان پر زندہ موجود ہیں کسی عیسائی ملک کو اسلام کی طرف بلا کر تو دیکھیں اور اس ہتھیار سے کسر صلیب کی کوشش تو کریں پھر میں ان سے پوچھوں گا کہ بتائیے یہ مودودی نظریات اسلام اور اس کے مقدس رسول کے نام کا بول بالا کر رہے ہیں یا صورت برعکس ہے.

Page 83

مذہب کے نام پرخون سچ یہی ہے اور اسی پر میرا ایمان ہے کہ ان نظریات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخت ہتک لازم آتی ہے اس لئے میں مودودی جماعت کو ہرگز اسلام کا دوست نہیں سمجھتا.صرف یہی نہیں بلکہ مجھے اس جماعت میں اور اس کے طریقہ کار میں اشتراکیت کی بو آتی ہے اور اس کا بیج سرزمین روس میں بویا ہوا دکھائی دیتا ہے اور روحانیت کا کلی فقدان نظر آتا ہے.اب دیکھ لیں کہ ہمارے دعاوی ہمیں اپنی نظر میں کتنے معصوم اور کتنے نیک دکھائی دیتے ہیں مگر جب ایک دوسرے کی نظر سے ان کو دیکھیں تو...الْآمَانُ وَالْحَفِيظ ! اس مثال کو اگر امت کے باقی فرقوں پر پھیلا دیا جائے اور ہر ایک کا ہر ایک سے اسی طرح موازنہ کیا جائے تو اس نظریہ کی قلعی کھل جائے گی کہ انسانوں کی اصلاح کی خاطر اور فساد اور ظلم اور طغیان کو دنیا سے دور کرنے کے لئے لڑ کر حکومت پر قبضہ کرنا جائز ہے.میں جب اس مودودی نظریہ کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ مشہور مقولہ یاد آ جاتا ہے کہ:.ر جہنم کا راستہ نیک نیتوں کی اینٹوں سے بنا ہوا ہے“ اور آخری حتمی فیصلہ طلب کرتے ہوئے جب میں قرآن کریم پر نظر دوڑاتا ہوں تو اس آیت پر نظر ٹھہر جاتی ہے کہ؛.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ - أَلَا إِنَّهُمُ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ (البقرة : ۱۲ ، ۱۳) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو مصلحین کی جماعت ہیں.خبردار! یہی فسادی ہیں مگر جانتے نہیں.اللہ اللہ ! کتنا پیارا کلام ہے اور اس چھوٹے سے کلمہ میں کیسی کیسی ابدی صداقتیں بھری ہوئیں ہیں.اس آیت کا ایک ایک جز اپنے اندر فطرت انسانی کے گہرے راز لئے ہوئے ہے.جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو مصلحین کی جماعت ہیں.خبردار! یہی فسادی ہیں مگر جانتے نہیں !

Page 84

مذہب کے نام پرخون قتل مرتد مودودی نظر میں مولانا کی حصول اقتدار کی تمنا ہر قید و بند سے آزاد ہے اور ہر میدان میں ان کی متشد دطبیعت کے پہلو بہ پہلو جولانی دکھاتی ہے.ان کا قتل مرتد کا عقیدہ بھی اسی کا کھلایا ہوا ایک گل ہے اور اپنے مخصوص طریق کے مطابق یہ اس عقیدہ کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں.چنانچہ اس موضوع پر ایک رسالہ ”مرتد کی سزا اسلامی قانون میں قلم بند فرمایا ہے جس میں نہایت دلیری سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس نظریہ کو منسوب کیا ہے اور حضرت ابوبکر کی اس فوج کشی سے نظیر پکڑی ہے جو آپ نے منکرین زکوۃ کی بغاوت فرو کرنے کے لئے فرمائی تھی.جہاں تک مولا نا کے پیش کردہ نقلی اور عقلی دلائل پر تفصیلی بحث کا تعلق ہے یہ امر ایک علیحدہ کتاب کا متقاضی ہے.پس میں یہاں اس کے چند ایک پہلوؤں کے ذکر پر ہی اکتفا کروں گا.اگر چہ یہ درست ہے کہ اور بھی علماء اسلام نے جو یقیناً نیک دل اور صاف نیت تھے اس مسئلہ میں ٹھو کر کھائی ہے مگر ان کی ٹھوکر اور مولانا مودودی کی ٹھوکر میں ایک بھاری فرق ہے اور میں پہلے اسی فرق کی طرف ناظرین کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں.ان علماء کی غلطی محض ایک فقہی غلطی تھی اور ان کے نفس کے تشدد کا اس میں کوئی دخل نہ تھا.چنانچہ باوجود اس کے کہ وہ دیانتداری سے اس بات کے قائل تھے کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے ان کے ہاں مسلمان کی تعریف ایسی وسیع تھی کہ اس سے

Page 85

مذہب کے نام پرخون امت محمدیہ میں کسی قتل عام کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا اور اس حکم کا اطلاق اسی صورت میں ہوسکتا تھا کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے مذہب سے آکر اسلام میں شامل ہو پھر مرتد ہو جائے اور واضح طور پر کہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں.اس پر بھی خود اس نظریہ کے حامل علماء میں سے بعض کا یہ فتویٰ تھا کہ ایسے شخص کو تو بہ کے لئے غیر معین مدت تک مہلت دینی چاہیے.اس سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ان کی یہ غلط نہی اس خواہش کی بناء پر نہ تھی کہ خلق خدا کی گردنیں ان کے ہاتھ میں آجائیں اور وہ دل کھول کر خدائی کریں.ہرگز انہیں یہ ذوق و شوق نہیں تھا کہ وہ زبردستی پہلے کلمہ گو مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگا کر انہیں کا فر قرار دے لیں پھر قتل مرتد کا عقیدہ دامن میں لے کر گھات لگائے بیٹھے رہیں کہ کب اقتدار ہاتھ میں آئے اور کب ہم مرتدین کے خون کے دریا بہا دیں.مگر یورپ کی تاریک صدیوں کے رہنمایان مذاہب کی طرح جن کے نزدیک عیسائیت سے ارتداد کی سزا قتل تھی اور عیسائیت سے مراد وہ عیسائیت تھی جو ان کے مکتب خیال کے مطابق ہو.مودودی صاحب کے نزدیک بھی اسلام سے ارتداد کی سزا قتل ہے اور اسلام سے مراد وہ اسلام ہے جسے مودودی صاحب یا ان کے کوئی جانشین اسلام قرار دیں.چنانچہ مودودی دور حکومت میں اس امر کا آخری فیصلہ بہر حال کسی مودودی حکمران ہی کے ہاتھ میں ہوگا کہ کون مسلمان اور کون مرتد کے حکم میں آتا ہے.یہ فیصلہ کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب غیر مشکوک طور پر مولانا کی تصنیفات میں دیا جا چکا ہے.مگر اس بارہ میں مولانا کے تصورات قلم بند کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ حتی الامکان اختصار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس الزام سے بریت ثابت کروں کہ نعوذ باللہ آپ بھی اس عقیدہ کے قائل تھے کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے کی سزا اسلامی قانون میں عمل ہے.اگر کسی شخص کی طرف کوئی خیال یا فعل منسوب کیا جائے تو طبعاً دل میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ دعوی یا فعل اس شخص کے معلوم اخلاق اور شمائل کے مطابق ہے یا نہیں.اس کسوٹی پر ہم بہت سے امور کو روزمرہ کی زندگی میں پر کھتے ہیں اور اس کا اطلاق صرف انسان پر ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر چیز پر ہوتا ہے.مثلاً اگر کوئی آپ سے کہے کہ میں نے جنگل میں ایک گھوڑا دیکھا جو شیر کو چیر پھاڑ کر کھا رہا

Page 86

۷۹ مذہب کے نام پرخون تھا یا ہرن کا ایک بچہ دیکھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک چیتے پر حملہ کر کے اس کے ٹکڑے اڑا دیئے تو آپ ایک لمحہ کے لئے بھی یہ باور نہیں کر سکتے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا کیونکہ یہ دعوی گھوڑے اور ہرن کی معلوم خصلت کے صریحاً خلاف ہے.اسی طرح یہ قتل مرتد کا عقیدہ ظاہراً ایک ایسا غیر طبعی اور غیر منصفانہ فعل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اس نظریہ کو بہر حال منسوب نہیں کیا جاسکتا.آپ کا تو پیغام ہی یہی تھا کہ دنیا والے اپنے تمام مذاہب چھوڑ کر آپ کا مذہب قبول کر لیں پھر آپ خود کس طرح تبدیلی مذہب پر کسی قسم کے جبر کو روا ر کھنے کی اجازت دے سکتے تھے.جب لوگ کوئی دوسرا مذہب چھوڑ کر آپ کے مذہب میں داخل ہوتے تھے اور اس جرم کی پاداش میں ان کو مارا یا ستایا جاتا تھا تو آپ اسے صریح ظلم قرار دیتے تھے اور انسان کی آزادی ضمیر کے خلاف ایک سخت غیر منصفانہ اقدام سمجھتے تھے.پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ سب عادل انسانوں سے بڑھ کر عدل کرنے والا اور سب منصفوں سے زیادہ منصف مزاج اپنے معاملہ میں اس معیار کو بالکل فراموش کر ڈالے جب لوگ کسی کو تبدیلی مذہب پر ماریں تو انہیں سخت ظالم قرار دے اور جب اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسری طرف جائے تو اس کے قتل کا فتویٰ جاری کرے.اس قسم کی پالیسی تو کسی دنیا کے سیاست دان کی طرف منسوب کرنا بھی اس کی سخت ہتک سمجھی جاتی ہے کجا یہ کہ اسے سب نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا جائے.اس کے علاوہ اگر آپ کے عمومی خلق کی طرف بھی جس کی بعض جھلکیاں پہلے گزر چکی ہیں نگاہ کی جائے تو اس عقیدہ کو آپ کی طرف منسوب کرنے کی گنجائش نہیں رہتی.جس طرح سورج سے متعلق خواہ ہزار دلائل دیئے جائیں کوئی یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ وہ روشنی کی بجائے تاریکی برساتا ہے اسی طرح اس انسان کامل کی طرف یہ غیر فطری فعل منسوب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں.لیکن اگر کوئی کہے کہ یہ سرے سے نا انصافی ہے ہی نہیں تو اس کا جواب میرے پاس سوائے ایک سخت حیران خاموشی کے اور کچھ نہیں.دوسرا امر قابل غور یہ ہے کہ قرآن کریم جو مذاہب کی تاریخ پیش کرتا ہے اس پر ایک نظر ڈالنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ انبیائے گزشتہ میں سے ایک نے بھی کبھی ارتداد کی سزا موت یا جلا وطنی تجویز نہیں کی.اس کے برعکس بلا استثناء ان کے تمام مخالفین نے ارتداد کی سزا موت یا جلا وطنی تجویز کی

Page 87

مذہب کے نام پرخون اور اسی کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ان کے اس طریق کو سخت نا پسند یدہ اور قابل سرزنش قرار دیتا ہے اور اس کی سزا یقینی ہلاکت اور عتاب الہی تجویز فرما تا ہے.پھر میں یہ کس طرح تسلیم کرلوں کہ میرے مقدس آقا نے ان تمام معصوم انبیاء کی سنت کو ترک کر کے نعوذ باللہ ان کے مخالفین کی ناپسندیدہ اور ناجائز سنت کو اپنا لیا اور اس کو صحیح قرار دیا.یہ میرے نزدیک سورج کی طرف تاریکی منسوب کرنے سے بھی زیادہ ناممکن ہے.مگر اس پہلو پر چونکہ کتاب کے پہلے باب ہی میں نہایت تفصیل سے روشنی ڈال دی گئی ہے اس لئے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا.تیسرا فیصلہ کن امر یہ ہے کہ قرآن کریم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کی جو تاریخ پیش کرتا ہے وہ واضح طور پر اس خیال کو باطل اور بے بنیاد قرار دے رہی ہے اور آنحضرت کے زمانہ کی قرآن کریم کی پیش کردہ تاریخ سے متعلق مسلمان علماء تو کیا تمام یورپین مستشرقین بھی خواہ کیسے ہی متعصب کیوں نہ ہوں یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ بغیر کسی شک کے قابل قبول ہے.قرآن کریم کے پیش کردہ جن تاریخی حقائق کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ان کا تفصیلی ذکر انشاءاللہ اس باب کے آخر پر کیا جائے گا.بہر حال یہ تینوں دلائل اکیلے اکیلے بھی ایسے وزنی اور ٹھوس اور واضح ہیں کہ ان کے مقابل پر ہر دوسری دلیل ٹھکرائی جانے کے لائق ہے.اور امور کو چھوڑ کر صرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت انصاف پر ہی نظر کی جائے تو قتل مرتد کے نظریہ کی عمارت ریت کے قلعہ کی طرح خود بخود دمسمار ہو جاتی ہے.مودودی صاحب اگر اس کے مقابل پر یہ دلیل پیش فرمائیں کہ بہت سے جید علمائے اسلام اس نظریہ کے قائل تھے تو مولانا کے اس استدلال کو میں ایسا ہی سمجھتا ہوں جیسے کوئی شاخ کو اؤل اور جڑ کو آخر کر دے.یہ علماء خواہ کتنے ہی بڑے مقام پر کیوں نہ ہوں پھر بھی امور شریعہ میں غلطی سے پاک نہیں تھے مگر ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلطی سے پاک تھے اس لئے اگر چودہ سوسال میں مختلف اوقات میں پیدا ہونے والے تمام علماء بھی بیک آواز کوئی ایسی بات کہیں جسے تسلیم کر لینے سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت، امانت، دیانت اور عدالت پر کوئی حرف آتا ہو تو میں اسے تسلیم کرنے کے لئے ہر گز تیار نہ ہوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ علماء

Page 88

ΔΙ مذہب کے نام پرخون اپنے اعلیٰ اور بلند مرتبوں کے باوجود ٹھوکر کھا سکتے ہیں اور کھاتے رہے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات حسنہ غیر مشکوک ہیں.ان علماء کے شدید باہمی اختلافات ہی اس امر کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ یہ خطاء سے پاک نہ تھے.اگر دس رائیں ایک دوسرے سے مختلف ہوں تو بہر حال ایک ہی درست ہوگی اور باقی نو غلط ہوں گی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بھی درست نہ ہو.بہر حال قطع نظر اس سوال کے کہ علماء کہیں انفرادی یا اجتماعی ٹھو کر کھا سکتے ہیں یا نہیں ایک امر جو ہر شک سے بالا ہے اور یقیناً درست ہے وہ یہی ہے کہ شاخیں جڑ پر قربان کی جاسکتی ہیں جڑ شاخوں پر نہیں.کوئی حدیث جس کے راوی خواہ کتنے ہی بچے ہوں اگر قرآن کریم کی کسی آیت کے یقینی طور پر خلاف ہو تو قرآن کریم کے مقابل پر اسے کسی حالت میں بھی ترجیح نہیں دی جاسکتی.اسی طرح ہر وہ اجماع یا کثرت رائے جو قرآن کریم کے کسی بیان کے یقینی طور پر خلاف ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر برے رنگ میں روشنی ڈالے، بغیر کسی تردد کے معا ٹھکرا دینے کے قابل ہے.اس وضاحت کے بعد اب ہم مضمون کے اس حصہ کی طرف واپس آتے ہیں جہاں ہم نے اسے چھوڑا تھا.سوال زیر بحث یہ تھا کہ مودودی صاحب کے نزدیک مسلمان کہلانے والوں کے اس انبوہ کثیر میں سے کون کون سے فرقے مرتد شمار ہوں گے تا کہ اس امر کا کچھ اندازہ کیا جاسکے کہ اگر کبھی انہیں اقتدار نصیب ہو تو خلق خدا میں سے کتنوں کی گردنیں ان کے ہاتھ میں آجائیں گی.مولانا کے نزدیک احمدی تو خیر ” مرتد ہیں ہی اور بہر حال ایک ”غیر مسلم اقلیت ہیں لیکن یہ ارتداد اور کفر محض انہی تک محدود نہیں ، ان کے علاوہ اہل قرآن یعنی پرویز صاحب کے مکتب خیال لوگ بھی غیر مشکوک طور پر کافر، دائرہ اسلام سے خارج یا بالفاظ دیگر مرتد متصور ہوں گے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.ان کا کفر قادیانیوں سے بھی زیادہ سنگین شمار ہو گا (اس لحاظ سے ممکن ہے انہیں نسبتا زیادہ تکلیفیں دے کر مارا جائے ) چنانچہ جماعت اسلامی کے ترجمان تسنیم“ میں شائع ہونے والا مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کا ایک فتوی ملاحظہ فرمائیے.یہ فتویٰ ان دنوں کا ہے جب ابھی مولانا امین احسن اصلاحی مودودی صاحب سے برگشتہ نہیں ہوئے تھے اور ان کا دایاں باز و شمار ہوتے تھے.مولانا اصلاحی صاحب فرماتے ہیں:.

Page 89

۸۲ مذہب کے نام پرخون د بعض لوگ اسلامی شریعت کے اختلافات کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اس ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا تو کوئی امکان نہیں ہے البتہ قرآن کریم کے اصولوں پر اس ملک میں حکومت قائم کرو.اگر یہ مشورہ دینے والوں کا مطلب یہ ہے کہ شریعت صرف اتنی ہی ہے جتنی قرآن میں ہے باقی اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ شریعت نہیں ہے تو یہ صریح کفر ہے اور بالکل اسی طرح کا کفر ہے جس طرح کا کفر قادیانیوں کا ہے بلکہ کچھ اس سے بھی سخت اور شدید ہے.“ چلئے احمدیوں اور اہل قرآن کا جھگڑا تو نپٹا لیا گیا.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کفر اور ارتداد بس انہی دو فرقوں پر ختم ہو جاتا ہے؟ تو اس سوال کی تحقیق میں ہم جوں جوں مودودی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں یہ حقیقت کھلتی چلی جاتی ہے کہ مودودیت کے سوا مودودی نگاہ میں ہر دوسری چیز کفر ہی کفر ہے.آئیے ! مسلمانوں کے مسلمان فرقوں کا حال دیکھتے ہیں کہ مودودی صاحب کے نزدیک ان کا اسلام کتنے پانی میں ہے.اس انبوہ کثیر پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے مودودی صاحب فرماتے ہیں:.یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں.نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مقابل تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے اس لئے یہ مسلمان ہیں.نہ انہوں نے حق کو حق جان کر اسے تسلیم کیا ہے اور نہ باطل کو باطل جان کر اسے ترک کیا ہے.ان کی کثرت رائے کے ہاتھ میں باگیں دے کر اگر کوئی شخص یہ امید رکھتا ہے کہ گاڑی اسلام کے راستے پر چلے گی تو اس کی خوش فہمی قابل داد ہے ہے.پھر فرماتے ہیں:.جمہوری انتخاب کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے دودھ کو بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے.ماخوذ از مزاج شناس رسول صفحه ۳۷۲ بحواله تسنیم ۱۵ اگست ۱۹۵۲ء مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ ۱۳۰

Page 90

۸۳ مذہب کے نام پرخون اگر دودھ زہریلا ہو تو اس سے جو مکھن نکلے گا قدرتی بات ہے کہ وہ دودھ سے زیادہ زہریلا ہوگا...پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تو اس طرح حکومت الہی قائم ہو جائے گی ان کا گمان غلط ہے.دراصل اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہو گا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی لے ،، اگر ابھی تک غیر مودودی ” مسلمانوں سے متعلق مولانا کے فتوی کی وضاحت نہ ہوئی ہو تو مزید وضاحت کی غرض سے ایک اور اقتباس پیش ہے:.یہاں جس قوم کا نام مسلمان ہے وہ ہر قسم کے رطب و یابس سے بھری ہوئی ہے.کیریکٹر کے اعتبار سے جتنے ٹائپ کافروں میں پائے جاتے ہیں اتنے ہی اس قوم میں بھی موجود ہیں.عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینے والے جس قدر کا فرقو میں فراہم کرتی ہیں غالباً اسی تناسب سے یہ بھی فراہم کرتی ہے.رشوت ، چوری، زنا، جھوٹ اور دوسرے تمام ذمائم اخلاق میں یہ کفار سے کچھ کم نہیں ہے کے ،، کیا ان فتووں کے بعد بھی کسی مزید کفر کے فتویٰ کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے.اگر رہتی ہے تو شائد اس خیال سے کہ یہ فتویٰ عامتہ الناس یعنی 999 فی ہزار سے متعلق ہوگا.مسلمان علماء اور دیگر زعماء پر چسپاں نہیں ہو سکتا مگر یہ خیال درست نہیں کیونکہ مودودی صاحب کی نظر میں ہر غیر مودودی ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جانے کے لائق ہے:.خواہ مغربی تعلیم و تربیت پائے ہوئے سیاسی لیڈر ہوں یا علماء دین ومفتیان شرع مبین دونوں قسم کے راہنما اپنے نظریہ اور اپنی پالیسی کے لحاظ سے یکساں گم کردہ راہ ہیں.دونوں راہ حق سے ہٹ کر تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں...ان میں 66 سے کسی کی نظر بھی مسلمانوں کی نظر نہیں ہے." مسلمان اور موجودہ سیاسی شماش حصہ سوم صفحه ۱۳۲ مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحه ۱۶۶ مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحه ۹۵

Page 91

مذہب کے نام پرخون قارئین کرام خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ اگر راہ حق سے ہٹ جانے کا نام ارتداد نہیں تو اور کیا ہے؟ مودودی صاحب کے مندرجہ بالا دونوں فتوے پڑھ کر مجھے وہ کہانی یاد آجاتی ہے کہ کسی بادشاہ کو ایک گھوڑا بہت عزیز تھا.وہ بہت بیمار ہو گیا.بادشاہ کو کہاں برداشت تھی کہ اس کی موت کی خبر سنے.حکم دے دیا کہ جو بھی یہ منحوس خبر سنائے گا مارا جائے گا مگر ساتھ ہی اس کا بھی پابند کر دیا کہ ہر آدھ گھنٹے کے بعد صحت کی اطلاع بھجواتے رہو لیکن مشیت ایزدی کے سامنے بھلا بادشاہ بے چارے کی کیا چلتی تھی؟ ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اس گھوڑے نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی.تب افسران در بارشاہی بہت فکر مند اور پریشان ہوئے کہ کون بادشاہ کے سامنے حاضر ہو کر اس گھوڑے کی موت کی خبر سنائے اور خود اپنی موت کا پروانہ لے کر آئے..آخر انہوں نے ایک غریب اور بے کس آدمی کو پکڑ کر مجبور کیا کہ وہ بادشاہ کو جا کر یہ منحوس خبر سنائے.اب اگر وہ ان کی بات کا انکار کرتا تو ان افسران شاہی کے ہاتھوں مارا جا تا اگر مان جاتا تو بادشاہ کے عتاب کا نشانہ بنتا.غرضیکہ غریب سخت شش و پنج میں مبتلا ہو گیا.گویا اب اس کے لئے ایک کہاوت کے مطابق دو ہی راستے تھے یا تو ساحل پر کھڑا رہے اور تعاقب کرنے والے شیطان کے ہاتھوں مارا جائے یا پھر گہرے نیلے سمندر میں کود کر اس کی لہروں کی آغوش میں جا سوئے.وہ غریب اور بے زور تو تھا لیکن تھا بہت ذہین.آخر اس نے اس پھندے سے رہائی کی ایک راہ سوچ لی اور گھوڑے کی موت کی خبر بادشاہ تک پہنچانے پر آمادہ ہو گیا.لیکن اس نے یہ خبر کچھ اس طرح سے سنائی کہ اے جلالتہ الملک ! بادشاہ سلامت ! مبارک صد مبارک ہو اب تو آپ کا گھوڑا بہت آرام میں ہے.بادشاہ نے خوش ہو کر پوچھا کہ اس اچھی خبر کی کچھ تفصیل تو بتاؤ.اس نے دست بستہ عرض کی کہ حضور! پہلے تو وہ درد کی شدت سے مسلسل تڑپ رہا تھا اب بڑے سکون سے لیٹا ہوا ہے.پہلے تو اس کا انگ انگ پھڑک رہا تھا اب تو وہ پلک تک نہیں جھپکتا.پہلے تو دور دور تک اس کے دل کے دھڑ کنے کی آواز سنائی دیتی تھی اب تو چھاتی پر کان لگا کر بھی سنو تو آواز نہیں آتی.پہلے تو اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا اب تو ایسا سکون ہے کہ سانسوں کا جھنجھٹ ہی ختم ہوا.بادشاہ نے جب یہ سنا تو تلملا کر بولا کہ اوکم بخت ! یہ کیوں نہیں کہتا کہ وہ مرگیا تب اس نے عرض کی

Page 92

۸۵ مذہب کے نام پرخون کہ حضور! یہ میں نہیں کہتا یہ تو آپ کہہ رہے ہیں بھلا میری کیا مجال کہ ایسا منحوس لفظ اپنی زبان پر لاؤں.پس اگر کوئی قوم گم کردہ راہ ہو.راہ حق سے ہٹ چکی ہو.تاریکیوں میں بھٹک رہی ہو.اس کی نظر مسلمان کی نظر نہ رہی ہو.جتنے ٹائپ کافروں میں پائے جاتے ہوں اس میں پائے جاتے ہوں تو اس قوم کو کا فرنہیں تو اور کیا کہا جائے گا؟ مگر شائد مودودی صاحب کہ دیں کہ دیکھو تم ہی کہہ رہے ہو میں تو نہیں کہتا.اس لئے اب بھی اگر کسی کو یقین نہ آئے کہ ایسا ہونا ممکن ہے تو جماعت اسلامی سے الگ ہو جانے والوں سے متعلق ارتداد کا فتویٰ اس کی تسلی کے لئے کافی ہوگا:.یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں ایک ہوں 66 نہیں.یہاں پیچھے ہٹ جانے کے معنے ارتداد کے ہیں لے ، پس اگر جماعت اسلامی سے علیحدہ ہو کر کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جانے کا نام ارتداد ہے تو دوسری جماعت کا نام ”کفر نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟ لیکن اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو مودودی صاحب ہی درست فرمائیں کہ وہ ان مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم الغیب مانتے ہیں اور آپ کے مادی جسم کا انکار کرتے ہیں.اور ان مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں جن کے نزدیک اولیاء اللہ کی قبروں پر جا کر اپنی مرادیں مانگنی جائز ہیں.اور وہ ان مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ باقی سب خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو غاصب کہتے ہیں اور ان پر اور دیگر صحابہ پر بشمولیت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تبرا بھیجتے ہیں اور لعنتیں ڈالتے ہیں.ویسا جواب نہ دیں جیسے گھوڑے کے مرنے کی خبر دی گئی ہے بلکہ بادشاہ کے الفاظ میں بتائیے کہ ان کو کیا کہتے ہیں.پیدائشی مسلمان یہاں پہنچ کر ایک نہایت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مرتد کی سزا قتل ہے اور یہ بھی مان لیا جائے کہ مودودی صاحب کے نزدیک ان کی جماعت کے سوا باقی سب روئداد جماعت اسلامی حصہ اوّل صفحہ ۸

Page 93

۸۶ مذہب کے نام پرخون مسلمان کہلانے والے کا فر ہیں تو بوجہ اس کے کہ انہوں نے یہ کفر اپنے ماں باپ سے ورثہ میں لیا ہے خودمولانا کے نزدیک بھی انہیں مرتد قرار نہیں دیا جا سکے گا بلکہ پیدائشی کا فرشمار ہوں گے.اس لحاظ سے مولا نا پر یہ بڑی زیادتی معلوم ہوتی ہے کہ ان کی طرف یہ عقیدہ منسوب کیا جائے کہ وہ تمام پیدائشی مسلمانوں کو جن کے ماں باپ بھی ان کے نزدیک کافر ہیں بیک وقت کا فر ہی سمجھتے ہیں اور مرتد بھی.یہ کس طرح ممکن ہے؟ مجھے خود یہ تسلیم ہے کہ معقولیات کی دنیا میں ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے لیکن اگر معقولیات کی دنیا ہی نہ ہوا گر تشدد کی پادشاہی ہو اور عام عقل انسانی کو مجال نہ ہو کہ وہاں پر مار سکے تو کیا تب بھی ایسا ہونا ممکن نہیں ہے؟ یہاں تو تشدد کی پادشاہی ہے اور معاملات ملک اس دستور کے مطابق طے پاتے ہیں کہ خیر د کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خیر د جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے وو پس اس دستور کے مطابق ہر وہ ” کا فر“ جو مسلمان کہلاتا ہے اور اپنی قسم کے ہی مسلمان کافروں کے گھر میں پیدا ہوا مرتد کہلائے گا اور واجب القتل ہوگا کیونکہ اگر ان کے جان و مال پر دسترس حاصل کرنی ہے تو سوائے اس کے چارہ نہیں رہتا کہ اولاً انہیں پیدائشی مسلمان قرار دیا جائے پھر یہ اصرار کیا جائے کہ وہ بالغ ہونے کے بعد خود ہی کافر ہوئے ہیں کیونکہ ان کے والدین نے ان کی ایک کافرانہ ماحول میں تربیت کی تھی اس لئے یہ سارے پیدائشی مسلمان کا فر“ مرتد ہیں اور واجب القتل ہیں.دیکھئے ! کیسا عجیب دستور پادشاہی ہے کہ جہاں تک مودودیت اور غیر مودودیت کا تعلق ہے غیر مودودیت کفر ہے مگر جہاں تک اس اختیار کا تعلق ہے کہ ایک پیدائشی کا فرمودودیت کے سوا کوئی اور مذہب اختیار کرلے وہ پیدائشی ” کا فر پیدائشی مسلمان کے حکم میں آ جاتا ہے.یہ کرشمہ سازی صرف یہیں پر آکر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک طرف ایک ایسے ”مرد“ کے قتل کا جواز جو پہلے اپنی مرضی سے کفر چھوڑ کر مسلمان ہوا تھا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جب اسے علم تھا کہ یہ ایک یکطرفہ راستہ ہے اور اس سے واپسی ممکن نہیں تو پہلے مسلمان ہی کیوں ہوا تھا.تو دوسری طرف ایک

Page 94

مذہب کے نام پرخون پیدائشی مسلمان سے تبدیلی مذہب کا حق یہ کہ کر چھین لیا جاتا ہے کہ اگر چہ یہ درست ہے کہ اس مجبور انسان کا اپنی پیدائش کے حالات پر کچھ اختیار نہیں تھا اور تقدیر الہی سے بندھا بندھا یا ایک مسلمان گھر میں پیدا ہو گیا تھا.مگر پھر بھی اسے تبدیلی مذہب کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس طرح تو بڑی مشکل پڑ جائے گی.چنانچہ انہی لا یخل مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے مولا نا فرماتے ہیں:.لا اکراہ فی الدین کے معنی یہ ہیں کہ ہم کسی کو اپنے دین میں آنے کے لئے مجبور نہیں کرتے اور واقعی ہماری روش یہی ہے! مگر جسے آکر واپس جانا ہوا سے ہم پہلے ہی 66 خبر دار کر دیتے ہیں کہ یہ دروازہ آمد و رفت کے لئے کھلا ہوا نہیں ہے لہذا اگر آتے ہو تو یہ فیصلہ کر کے آؤ کہ واپس نہیں جانا ہے ورنہ براہ کرم آؤ ہی نہیں.“ مجھے لا إكراه فی الدین کی یہ تفسیر پڑھ کر اہل قرآن کے لیڈر پرویز صاحب کا وہ فقرہ یاد آ جاتا ہے جس میں انہوں نے دوسرے الفاظ میں مودودی صاحب کے اس نظریہ کو یوں بیان کیا ہے:.مودودی صاحب کا اسلام بھی گویا ایک چوہے دان ہے ”آ تو سکتا ہے چوہا مگر جا نہیں سکتا.غالباً پرویز صاحب کی یہی ستم ظریفیاں ہیں جو انہیں مودودی نظر میں اس قدر مقہور و مغضوب بنارہی ہیں ) مگر قطع نظر اس امر کے اس تفسیر میں مولانا نے اس آیت کریمہ کا عملاً مذاق اڑایا ہے اگر کوئی نادان یا مجبور اس فیصلہ کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے یہ سوال کر بیٹھے کہ درست ہے جو آپ نے فرمایا مگر حضرت میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں.میں تو پیدا ہی مسلمانوں میں ہوا تھا مجھے کیا خبر تھی که یه one way traffic یعنی یکطرفہ راستہ ہے اور مجھ غریب کو کیا خبر تھی کہ مودودی دور حکومت میں پیدا ہوں گا.تو اس سوال کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں دہراتے ہوئے مولا نا ایک عجیب وغریب جواب دیتے ہیں.مولانا کی ساری عبارت درج ذیل ہے:.پیدائشی مسلمان اس سلسلہ میں ایک آخری سوال اور باقی رہ جاتا ہے جو قتل مرند کے حکم پر بہت سے دماغوں میں تشویش پیدا کرتا ہے وہ یہ کہ جو شخص پہلے غیر مسلم تھا پھر اس نے باختیار خود اسلام قبول کیا اور اس کے بعد دوبارہ کفر اختیار کر لیا اس سے متعلق تو

Page 95

۸۸ مذہب کے نام پرخون آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے جان بوجھ کر غلطی کی.کیوں نہ ذمی بن کر رہا اور کیوں ایسے اجتماعی دین میں داخل ہوا جس سے نکلنے کا دروازہ اسے معلوم تھا کہ بند ہے.لیکن اس شخص کا معاملہ ذرا مختلف ہے جس نے اسلام خود نہ قبول کیا ہو بلکہ مسلمان ماں باپ کے گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے اسلام آپ سے آپ اس کا دین بن گیا ہو.ایسا شخص اگر ہوش سنبھالنے کے بعد اسلام سے مطمئن نہ ہو اور اس سے نکل جانا چاہے تو یہ بڑا غضب ہے کہ آپ اسے بھی سزائے موت کی دھمکی دے کر اسلام کے اندر رہنے پر مجبور کرتے ہیں.یہ نہ صرف ایک زیادتی معلوم ہوتی ہے بلکہ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ پیدائشی مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اسلام کے اجتماعی نظام کے اندر - پرورش پاتی رہے.اس شبہ کا ایک جواب اصولی ہے اور ایک عملی ہے.اصولی جواب یہ ہے کہ پیدائشی اور اختیاری پیروؤں کے درمیان احکام میں نہ فرق کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی دین نے کبھی ان کے درمیان فرق کیا ہے ہر دین اپنے پیروؤں کی اولاد کو فطرتاً اپنا پیرو قرار دیتا ہے اور ان پر وہ سب احکام جاری کرتا ہے جو اختیاری پیروؤں پر جاری کئے جاسکتے ہیں.یہ بات عملاً بالکل ناممکن ہے اور عقلاً بالکل لغو ہے کہ پیروان دین یا سیاسی اصطلاح میں رعایا اور شہریوں کی اولاد کو ابتداء کفار یا اغیار (pliens) کی حیثیت سے پرورش کیا جائے اور وہ بالغ ہو جائیں تو اس بات کا فیصلہ ان کے اختیار پر چھوڑ دیا جائے کہ آیا وہ اس دین کی پیروی یا اس سٹیٹ کی وفاداری قبول کرتے ہیں یا نہیں جس میں وہ 66 پیدا ہوئے ہیں.اس طرح تو کوئی اجتماعی نظام کبھی دنیا میں چل نہیں سکتا ہے ،، میں اس سوال کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں کہ مولانا کے اس مخصوص طرز استدلال سے عقل انسانی مطمئن ہو سکتی ہے یا نہیں.میں ذاتی طور پر اس نتیجہ تک پہنچا ہوں کہ جب بھی وہ کسی بار یک مسئلہ کی فضاء میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی نظر قابل رحم حد تک دھندلا جاتی ہے اور مختلف شکلوں اور تصاویر میں فرق نہیں کر سکتی.ان کے اسلامی نظریہ ریاست پر جو دھند طاری ہے اور جس کی بناء پر لے مرتد کی سزا اسلامی قانون میں صفحہ ۷۶ ۷۷

Page 96

۸۹ مذہب کے نام پرخون انہوں نے فاش نوعیت کی بنیادی غلطیاں کی ہیں اس وقت ان کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ورنہ ایک کتاب اندر کتاب بن جائے.البتہ اس استدلال سے متعلق جو ابھی قارئین کی نظر سے گزرا ہے میں مولانا کی توجہ ایک چھوٹی سی فروگذاشت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جس کی درستی ان کے نظریہ استبداد میں مزید وسعتیں پیدا کرنے کا موجب ہوگی.اس دلیل کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ”ہر دین اپنے پیروؤں کی اولا دکو فطرتا اپنا پیر وقرار دیتا ہے.اس لئے مسلمان کہلانے والوں کی اولاد (خواہ اس اولاد کے ماں باپ مودودی صاحب کی نظر میں عملاً کا فر ہی ہوں ) بہر حال اسلام کی جائداد کہلائے گی.پس جب اسلام کی ملکیت ان پر ثابت ہو گئی تو سن بلوغت کے بعد انہیں کس طرح اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ جو چاہیں بن جائیں.یہ نظریہ قائم فرماتے وقت غالباً مولانا کی نظر سے وہ ارشاد نبوی اوجھل رہ گیا تھا کہ :.مَا مِنْ مُوْلُودٍ إِلَّا يُوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُبَوَّدَانِهِ أَوْ يُنَصِرَانِهِ أَوْ يُمحِسَانِه (البخاری) ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یہ اس کے ماں باپ کا دخل ہوتا ہے جو اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں.اگر مولانا کا مذکورہ بالا استدلال درست ہے تو پھر اس کے نتیجہ کو مسلمان کہلانے والوں کی اولا د تک ہی کیوں محدود رکھا جائے.ساری دنیا کے بچے اسلام کی وراثت ہیں ان کو کیوں اس سعادت سے محروم رہنے دیں اور کیوں ان کے ماں باپ کو یہ اختیار دے دیں کہ سن بلوغ تک پہنچنے سے پہلے پہلے انہیں ابتداء کفار یا اغیار کی حیثیت سے پرورش کریں.تعجب ہے کہ یہ حدیث ان کی نظر سے کس طرح رہ گئی؟ یہ دلیل تو نعوذ باللہ تشدد پسندوں کی بنیادی دلیل ہونی چاہیے تھی کیونکہ اس کی پہنچ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ کفار تک بھی ممتد ہے اور دنیا کے کونے کونے میں ہر مذہب وملت ، ہر کالے گورے پر اس کا وار یکساں پڑتا ہے.اگر نعوذ باللہ اس کے وہی معنی لئے جائیں جو مودودی طرز استدلال سے نکلتے ہیں تو پھر ایک بھی کافر بچہ ہاتھ سے نکل کر نہیں جاسکتا.بہر حال میرا کام صرف توجہ دلا نا تھا آگے مولا نا کو اختیار ہے میں تو نہ انہیں زبر دستی کسی بات

Page 97

مذہب کے نام پرخون کا قائل کر سکتا ہوں نہ اس بات کا خود قائل ہوں کہ اعتقادات اور خیالات کے بارہ میں کوئی زبردستی کی جاسکتی ہے.میرے نزدیک تو یہ ناممکن ہے کہ کوئی سچا مذہب صداقت کی تعلیم دیتے ہوئے کسی کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرے.کیا کبھی سچ کے بیچ سے جھوٹ کی کونپلیں پھوٹ سکتی ہیں یا جھوٹ کی گٹھلی سے صداقت کا درخت اگا ہے؟ کیا کبھی گندم کے دانوں سے کچلے کے پودے نکلتے دیکھے ہیں؟ اگر ایسا ہونا ممکن نہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اسلام جو کہ ایک مجسم صداقت ہے خود بنی نوع انسان کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرنے لگے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا شخص جس کا دل اسلام کی صداقت کا قائل نہ رہا ہو اور خدا کی لاشریک وحدانیت کو تسلیم نہ کرتا ہو اور اپنی حماقت سے اس عقیدہ پر تسلی پا گیا ہو کہ مسیح خدا کا بیٹا تھا اور اس کی خدائی میں شریک تھا تو ایسے شخص کے سامنے اسلام تلوار لے کر کھڑا ہو جائے کہ پہلے کہا کیوں تھا کہ خدا ایک ہے.اب تو خواہ تم مانو نہ مانو تمہیں یہی کہنا پڑے گا کہ وہ ایک ہے.ایک ہے.اگر وہ یہ سوال کر بیٹھے کہ حضور جب میرا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ ایک نہیں تو میں کس طرح یہ گواہی دے دوں کہ وہ ایک ہے.تو یہ جواب سن کر یہ کہتی ہوئی اسلام کی تلوار اس کی گردن پر گرے گی اور اس کا سر قلم کر دے گی کہ راستی پسند کہیں کا، جھوٹ نہیں بولتا.اگر چہ یہ درست ہے کہ خدا ایک ہے، اور اس میں بھی قطعا کوئی شک نہیں کہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں.مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منافقین نے یہی سچی گواہی دی تو محض اس لئے کہ ان کے دل یہ گواہی نہیں دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں.قرآن کریم میں سورۃ منافقون کی پہلی آیت میں اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُه وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكَذِبُونَ (المنافقون: ٢) جب تیرے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو خدا کا رسول ہے مگر باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ ) جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے اللہ یہ گواہی دیتا ہے

Page 98

۹۱ مذہب کے نام پرخون کہ یہ منافق یقیناً جھوٹ بولتے ہیں.پس خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ منافق یہ جھوٹ بولنا چھوڑ دیں مگر مولانا مودودی اس عقیدے کے قائل ہیں کہ صداقت کے نام پر بزور شمشیر لوگوں کو جھوٹ بولنے کی تلقین کی جائے.میں چونکہ اس نظریہ کا قائل نہیں اس لئے مولانا کو مجبور نہیں کر سکتا کہ میری بات مان لیں میرا مذہب تو سیدھا سادھا یہی ہے کہ لکم دینکم ولی دینِ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین.ضمناً میں یہاں اس شبہ کا بھی ذکر کر دوں کہ ہو سکتا ہے کہ مولانا یہ فرمائیں کہ اس آیت میں جن منافقین کا ذکر ہے وہ تو سرے سے ایمان ہی نہیں لائے تھے اور مولا نا جن لوگوں کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں وہ قسم صرف ان منافقین کی ہے جو ایک دفعہ یہ جان بوجھ کر کہ یہ راستہ آمد و رفت کے لئے کھلا ہوا نہیں پھر بھی اسلام لے آئے تو میں مولانا سے درخواست کروں گا کہ مندرجہ بالا آیت قرآنی سے ملی ہوئی انگلی دو آیات پر بھی نظر ڈال لیں تو سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے.اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّهُمُ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ - ذلِكَ بِأَنَّهُمُ امَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطِيعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ (المنافقون: ۴،۳) انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور (اس ذریعہ سے لوگوں کو ) راہ خدا سے روک رہے ہیں.یقیناً بہت ہی برا ہے جو وہ کرتے ہیں.یہ اس وجہ سے ہے کہ (پہلے تو ) وہ ایمان لائے پھر کافر ہوئے.اس کے نتیجہ میں ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی پس وہ سمجھتے نہیں.ان ہر دو آیات کے مضمون سے یہ یقینی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ:.اول:.یہ منافقین جن کا ذکر کیا گیا ہے مرتد تھے.پہلے ایمان لائے اور پھر کافر ہو گئے.دوم:.ان کا یہ فعل کہ باوجود اس امر کے کہ یہ اسلام سے پھر گئے تھے پھر بھی گواہی دیتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں ، خدا تعالیٰ نے سخت نا پسند فرمایا.ان کو جھوٹا“ 66 کہا اور فرمایا کہ ” بہت ہی برا ہے جو وہ کرتے ہیں.“ سوم:.خدا تعالیٰ نے ان کی اس منافقانہ گواہی کو اسلام کے لئے مفید نہیں بلکہ سخت نقصان دہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس طریق سے یہ لوگوں کو راہ خدا سے روک رہے ہیں.

Page 99

۹۲ مذہب کے نام پرخون لیکن مودودی صاحب کا عقیدہ اس کے بالکل برعکس ہے.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے جھوٹے ہیں بہت برا کرتے ہیں.مودودی صاحب کا اصرار ہے کہ ایسا ہی کرو.دل سے بے شک نہ مانومگر منہ سے یہی گواہی دیتے رہو کہ حمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے رسول ہیں ورنہ گردن مار دیئے جاؤ گے.چنانچہ راستی پسندی کا طعنہ دیتے ہوئے ایسے مرتد سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:.وہ اگر ایسا ہی راستی پسند ہے کہ منافق بن کر رہنا نہیں چاہتا بلکہ جس چیز پر اب ایمان لایا ہے اس کی پیروی میں صادق ہونا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو سزائے موت کے لئے کیوں پیش نہیں کرتا ؟“ یه راستی پسندی کا طعنہ دے کر منافقت کی تلقین کرنا بھی مولانا کا شاہکار ہے.پس خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جھوٹو منافق نہ بنو اور مولانا کا ارشاد ہے راست باز آئے کہیں کے ، منافق بن کر جان کیوں نہیں بچاتے ؟ اور خدا تو فرماتا ہے کہ اس قسم کی منافقت لوگوں کو راہ خدا سے روکتی ہے (اور اسلام کے لئے تو سخت نقصان دہ ہے) مگر مولانا کا اصرار ہے کہ اگر ایسے مرتدین کو سچ بولنے کی اجازت دے دی جائے تو اسلام قائم ہی نہیں رہ سکتا اس طرح تو کوئی اجتماعی نظام کبھی دنیا میں چل نہیں سکتا.“ کیا اس اختلاف کے بارہ میں کسی رائے زنی کی ضرورت رہتی ہے؟ میں نے اس باب کے شروع میں یہ بحث اٹھائی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز قتل مرتد کے غیر فطری اور غیر منصفانہ نظریہ کے قائل نہ تھے اور اس امر کا اظہار کیا تھا قرآن کریم اس بارہ میں آپ کے اسوہ پر غیر مشکوک روشنی ڈالتا ہے.پس آئیے اب ہم اس مسئلہ پر قرآن کریم سے فیصلہ طلب کریں کیونکہ قرآنی فیصلہ سے بہتر اور یقینی اور کوئی فیصلہ نہیں.سورۃ المنافقون (جس کی چند آیات او پر نقل کی گئی ہیں ) ہی دراصل وہ سورۃ ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا.یہ سورۃ قتل مرتد کے مسئلہ کو بحیثیت مسئلہ ہی واضح نہیں کرتی بلکہ اس بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو بھی پیش کرتی ہے اور مسئلہ کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے ہر شک رفع کرتی ہے.اس سورۃ میں یقینی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے مرتدین کی خبر دی گئی تھی جو منافق بن کر ل مرتد کی سزا صفحه ۵۳

Page 100

۹۳ مذہب کے نام پرخون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کی گواہی دیتے تھے مگر خدا نے ان کے سارے پول کھول دیئے مگر باوجود اس کے ان کے قتل کے بارہ میں نہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو اس جرم میں قتل کروایا.ممکن ہے مولا نا یہ شبہ پیدا کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ فرما کر کہ منافقین جھوٹے ہیں، دوسری آیت کو اس طرح شروع فرماتا ہے اتخذوا إيمَانَهُمْ جُنَّةٌ.انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے.یہ ڈھال دراصل ارتداد کی سزا یعنی قتل سے بچنے کے لئے تھی اور وہ مسلمانوں کو دھو کہ اس لئے دے رہے تھے کہ کہیں ہمارے ارتداد کا علم ہو گیا تو ہمیں قتل ہی نہ کر دیں.بظاہر تو یہ ایک راہ فرار نکل آئی ہے مگر مولا نا ذرا کچھ آگے چل کر تو دیکھیں اس سورۃ نے ایسی ناکہ بندی کر رکھی ہے کہ واہمہ تک کو گزرنے کی مجال نہیں.چنانچہ انہی مرتدین کا ذکر جاری رکھتے ہوئے کچھ آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَ إِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَسُولُ اللهِ لَووا رُءُوسَهُمْ وَ رَأَيْتَهُم و و و و و وور يصدون وهم مستكبرون (المنافقون: 1) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول خدا تمہارے لئے (خدا سے) بخشش مانگیں گے تو سر مٹکانے لگتے ہیں اور تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے ہیں.اس آیت کے ہوتے ہوئے اتَّخَذُوا ايْمَانَهُمْ جُنَّةٌ سے یہ مراد لینی کہ وہ قسمیں اس خوف سے کھاتے تھے کہ قتل نہ کر دیئے جائیں ایسی صریح زیادتی ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا زیادتی ہوگی.اس آیت سے جو واضح غیر مبہم نتائج نکلتے ہیں وہ یہ ہیں کہ :.(1) ان مرتدین کے لئے کسی قسم کے خوف کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا بلکہ جب انہیں کہا جاتا تھا کہ آؤ تو بہ کر لو تو سر مٹکاتے تھے ، منہ پھیر لیتے تھے اور سخت تکبر سے پیش آتے تھے.کیا موت سے ڈرا ہوا انسان یہ مظاہرہ کیا کرتا ہے؟ اگر انہوں نے کسی خوف کی وجہ سے یہ جھوٹ بولا ہوتا تو پھر تو یہاں یہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ سن کر ڈر کے مارے ان کے حواس خطا ہونے لگتے ہیں اور پھر وہ بڑے زور سے قسمیں کھاتے ہیں کہ استغفر اللہ ! اللہ ! باللہ ! تاللہ! ہم تو مومن ہیں اور اگر تم نہیں مانتے تو ہم اب تو بہ کر لیتے ہیں.

Page 101

۹۴ مذہب کے نام پرخون (۲) یہ لوگ کوئی غیر معروف لوگ نہیں تھے بلکہ مسلمان جانتے تھے کہ یہ مرتدین کون ہیں تبھی تو جا کر ان کو نصیحت کرتے تھے کہ تو بہ کر لو اور اگر بفرض محال پہلے نامعلوم بھی تھے تو اب اس سورۃ کے نزول کے بعد بہر حال معلوم ہو چکے تھے.(۳) خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ آؤ تو بہ کرو ورنہ قتل کر دیئے جاؤ گے بلکہ یہ فرمایا کہ آؤ میرا رسول تمہارے لئے بخشش مانگے گا.اگر ارتداد کی سزا اقتل تھی تو کیا یہ آیت اسی طرح ہونی چاہیے تھی؟ مگر اب تو ارتداد پر طرہ یہ کہ ان مرتدین کی طرف سے سخت گستاخی بھی سرزد ہونے لگی.مسلمانوں کی کھلی کھلی تحقیر کرنے لگے.سر مٹکانے لگے.منہ پھیر نے لگے.تکبر کرنے لگے.یہاں پہنچ کر ایک متشد دضرور یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ اب اگلی آیت میں ان کے قتل کا حکم آجائے گا بلکہ شائد عذاب دے کر مارے جانے کی تلقین ہومگر افسوس کہ اس کے لئے ایک اور مایوسی کا منہ دیکھنا باقی ہے کیونکہ نہ تو اگلی آیت میں نہ اس سے اگلی آیت میں نہ اس سے اگلی آیت میں حتیٰ کہ بقیہ ساری سورۃ ہی میں کہیں ان کے قتل کا حکم نہیں ملتا.قتل کا حکم تو ایک طرف رہا ابھی تو انہیں اور ڈھیل دی جارہی ہے اور آگے چل کر اللہ تعالیٰ ان سے متعلق فرماتا ہے کہ وہ مرتد صرف مسلمانوں کی ہی تحقیر نہیں کرتے بلکہ ظالم سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی سخت تحقیر کر رہے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے:.يَقُولُونَ لَبِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لِيُخْرِجَنَّ الْاَعَةُ مِنْهَا الْأَذَلَ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المنافقون: 9) کہتے ہیں جوں ہی ہم مدینہ واپس پہنچے معزز ترین شخص (یعنی بد بخت منافقوں کا سردار عبد اللہ بن اُبی بن سلول ) ( نعوذ باللہ ) ذلیل ترین انسان کو مدینہ سے نکال دے گا حالانکہ عزت خدا ہی کی ہے اور اس کے رسول کی اور مومنوں کی مگر منافقین نہیں جانتے.اس آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک غزوہ کے موقع پر جس میں بعض مرتد منافقین بھی مسلمانوں کے ساتھ لشکر کشی میں شریک تھے.عبد اللہ بن اُبی بن سلول نے

Page 102

۹۵ مذہب کے نام پرخون اپنی محفل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق مندرجہ بالا ناپاک الفاظ استعمال کئے.اس بد بخت کا مطلب یہ تھا کہ مدینہ واپس جا کر وہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مدینہ سے نکال دے گا.یہ بات جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی اور آپ نے تحقیق فرمائی تو یہ لوگ جھوٹ بول گئے اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نو عمر لڑکے کی گواہی پر اعتبار کر لیا ہے مگر خدا تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ سورۃ المنافقون میں یہ معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر واضح فرما دیا اور اس گواہی کی تصدیق فرمائی.یہ ایک ایسا جرم تھا کہ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر محبت رکھنے والے کو شدید غیرت آجاتی ہے اور دل کھولنے لگتا ہے اور طبعاً انسان یہ سوچتا ہے کہ کم از کم اس بد بخت کو تو ضرور کوئی سزا دی جائے گی کیونکہ اس کا جرم صرف جرم ارتداد ہی نہیں رہا بلکہ یہ ذلیل ترین مرتد دنیا کے معزز ترین رسول کے خلاف انتہائی گستاخی کا مرتکب ہوا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ یہ کلمات اس نے ایک فوج کشی کے دوران میں کہے جو قوموں کی زندگی میں ایک ہنگامی دور ہوا کرتا ہے اور ایسے وقت میں سپہ سالار کے خلاف ایسے الفاظ صریح غداری کے مترادف سمجھے جاتے ہیں جس کی سزا موت ہے.خصوصاً ایک مخصوص پارٹی میں بیٹھ کر ایسی بات کرنا تو اور بھی زیادہ بھیانک جرم بن جاتا ہے اور ایک سازش کا پستہ دیتا ہے مگر کیا اس موقع پر ایک رنج اور غصہ سے بھرے ہوئے دل کو یہ پڑھ کرسخت حیرت نہیں ہوتی کہ کوئی ایسی سزا نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمائی گئی اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تجویز فرمائی.یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی جناب مودودی صاحب یہ تاویل بھی نہیں کر سکتے کہ اس وقت کمزوری کا دور تھا اور اس شخص کی طاقت بہت زیادہ تھی کیونکہ یہ دو تو خودمولانا کے الفاظ میں وہ دور تھا:.جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے تلوار ہاتھ میں لی.....تو رفتہ رفتہ 66 بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا.طبیعتوں سے فاسد مادے خود بخو دنکل گئے.چنانچہ یہ اسی تلوار کے دور کی بات ہے جبکہ بدی و شرارت“ کا زنگ چھوٹ رہا تھا اور طبیعتوں سے فاسد مادے نکل رہے تھے.

Page 103

۹۶ مذہب کے نام پرخون مگر قطع نظر مولانا کی اس رائے کے تاریخی شواہد بتارہے ہیں کہ اس بات کے وہم تک کی گنجائش نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ اس کے خوف کی وجہ سے اسے معاف فرما دیا.اول تو ایسے خیال کو دل میں جگہ دینا ہی اس مقدس رسول کی سخت ہتک ہے دوسرے اس بد بخت کی طاقت کی قلعی تو اسی امر سے کھل جاتی ہے کہ اس کا اپنا بیٹا اپنے باپ کو چھوڑ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی خاک کا غلام بنا ہوا تھا اور اس کی فدائیت کا یہ عالم تھا کہ جب اس نے اپنے باپ سے متعلق یہ شرم ناک بات سنی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے اس کے دل میں ایک عجیب ہیجان پیدا کر دیا اور محبوب کی ہتک ہوتے دیکھ کر غیرت ایسی بھڑ کی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ اگر آپ نے میرے بد بخت باپ کے قتل ہی کا فیصلہ فرمایا ہے تو مجھے حکم دیجئے کہ میں خود اسے اپنے ہاتھ سے قتل کروں لیکن اس بیٹے کی پیشکش کو بھی اس رحم مجسم نے ٹھکرا دیا اور کیسی رحمت بے پایاں تھی کہ دنیا کے معززترین انسان نے ایک تنگ انسانیت ذلیل ترین مرتد کو بھی معاف فرما دیا اور پھر اس کے بعد بھی ایک عجیب واقعہ ہوا جس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے.جس معصوم کے خلاف وہ جرم کیا گیا تھا اس نے تو معاف فرما دیا مگر مجرم کا بیٹا اسے معاف نہ کر سکا اور جب مدینہ کی حدود میں وہ قافلہ داخل ہورہا تھا اور قریب تھا کہ عبد اللہ بن اُبی بھی داخل ہو تو یہ بیٹا جس کا سینہ ابھی تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کے خیال سے کھول رہا تھا آگے بڑھا اور اپنے باپ کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا.اپنی تلوار نیام سے نکال لی اور کہا کہ خدا کی قسم! میں آج تیرا سر قلم کر دوں گا اور مدینہ کی گلیوں میں گھنے نہ دوں گا جب تک تو یہاں اعلان نہ کرے کہ میں دنیا کا ذلیل ترین انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معزز ترین انسان ہیں.اپنے بیٹے کے چہرہ پر ایک نظر ڈالتے ہی وہ سمجھ گیا کہ یہ جو کہتا ہے سچ کر دکھائے گا.پس اس کی نظریں جھک گئیں اور اپنے کئے پر معذرت کرنے لگا.اس پر بھی شائد اسے نجات نہ ملتی مگر جانتے ہو کہ اس کی نجات کو کون آیا ؟ وہی سب محبوبوں کا محبوب رسول اور وہی سب در گذر کرنے والے انسانوں سے زیادہ در گذر کرنے والا.وہ جو ابراہیم کی دعاؤں کا ثمرہ تھا اور جس کے ظہور کی موٹی نے بھی خبر دی تھی.ہاں وہی دلوں کو بے اختیار موہ لینے والا جس کی محبت کے داؤ ڈ گیت گا تا رہا.وہی

Page 104

۹۷ مذہب کے نام پرخون رحمت مجسم اس مجرم باپ کو اس کے بیٹے کے ہاتھوں سے بچانے کے لئے آگے آیا.آپ کی اونٹنی جب قریب پہنچی اور آپ نے یہ ماجرا دیکھا تو فوراً اوٹنی کو آگے بڑھا کر اس کے بیٹے کو منع فرماتے ہوئے راستہ چھوڑنے کی تلقین فرمائی.یہ تھا آپ کا سلوک ایک ایسے مرتد کے ساتھ جو سب مرتدین کا سردار تھا جس کے ارتداد کی خود خدا نے گواہی دی اور جو اپنی زبان سے اپنی انتہائی ذلت پر ہمیشہ کے لئے مہر لگا گیا لیکن جرم ارتداد کی سز اقتل قرار دینے والوں کو میں بتاتا ہوں کہ میرے محبوب آقا کا کرم یہیں پر ختم نہیں ہو جا تا بلکہ اس کے اور بھی اعلیٰ اور ارفع مقام آتے ہیں.یہ وقت گذر گیا اور نہ اس وقت نہ اس کے بعد کسی نے اس مرتدوں کے سردار یا اس کے ساتھیوں کے خلاف تلوار اٹھائی یہاں تک کہ اس نے طبعی موت سے اپنے بستر پر جان دی.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے سلوک سے یہ ثابت فرما دیا کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل نہیں اور یہ گواہی قرآن کریم میں ابد الآباد تک لکھی گئی.آپ کا یہ سلوک ایسے مرتدین کے ساتھ جن کے ارتداد کے بارہ میں شک کا کوئی شائبہ بھی باقی نہیں رہا تھا کیونکہ یہ ارتداد کا فتوی کسی انسان نے نہیں لگایا تھا بلکہ خود اس عالم الغیب خدا نے لگایا تھا جو دلوں کے ہر راز سے واقف ہے اور سب گواہوں سے زیادہ سچا گواہ ہے ، صرف یہی نہیں کہ آپ نے اس دنیا میں اسے ارتداد کی کوئی سزا نہیں دی بلکہ رحمت کی حد یہ ہے کہ اس کی موت پر آپ کو یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ کہیں وہ آخرت کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائے.حیرت ہے کہ آپ کا دل اسی کینہ ور کے لئے بے چین ہو گیا جو ہمیشہ آپ سے دشمنی کرتا رہا.جس کا سینہ آپ کی ترقی کو دیکھ کر بغض اور عناد سے بھر جا تا تھا اور جس کا دل آپ کے حسد میں ہمیشہ جلتا رہا.آپ اس کی موت پر اس ارادہ سے اس کے جنازہ کے لئے نکلے کہ اپنے خدا کے حضور گریہ وزاری کر کے اور اس کے غیر محدود درحم اور عفو کا واسطہ دے کر اپنے اس بد بخت دشمن کے لئے بخشش کے طالب ہوں گے.آپ کے اس مقدس ارادہ کا اس طرح پتہ چلتا ہے کہ جب آپ جنازہ کے لئے نکلے تو حضرت عمر نے جنازہ نہ پڑھنے کا مشورہ عرض کیا لیکن جب آپ کو مصر پایا تو وہ آیت قرآنی پیش کی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

Page 105

۹۸ مذہب کے نام پرخون إِنْ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمُ (التوبة:٨٠) کہ اگر تو ان کے لئے یعنی منافقوں کے لئے ستر مرتبہ بھی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہیں کرے گا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب دیا وہ ایسا پیارا ہے کہ جان آپ پر نچھاور ہونے لگتی ہے اور روح قدم بوسی کرتی ہے.آپ نے فرمایا: عمرا خدا تعالیٰ نے ستر مرتبہ فرمایا ہے میں ستر سے زیادہ مرتبہ بخشش مانگ لوں گا.پس اے میرے آقا پر جبر و تشدد کا الزام لگانے والو! آؤ تم کہاں ہو آؤ کہ میں تمہیں اس لاثانی دل کے ساتھ متعارف کرواؤں جس کا رحم ابراہیم کے رحم سے بڑھ کر تھا اور جس کی بخشش کے سامنے مسیح کی بخشش کی کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی.وہ جو زمین کے ذلیل ترین کیڑوں کے ہاتھوں بھی ستایا گیا اور جس نے ظالم ترین سفاکوں کو بھی معاف کر دیا.آؤ اور اس کریم فطرت کا نظارہ کرو اور اس حلیم دل کو دیکھو کہ جس کا صبر صبر ایوبی کو شرماتا ہے.ہاں وہی حسن کامل کا مظہر تام جو اپنے ہر خلق میں ہر دوسرے نبی سے افضل تھا.اس کے نورانی دسکتے ہوئے چہرہ کی طرف نگاہ کرو اور بتاؤ کہ کیا یہ وہی ہے جس کی تصویر تم نے اپنے ظلماتی قلموں سے کھینچ رکھی ہے؟ کیا یہ وہی ہے جس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور ایک ہاتھ میں قرآن ہے؟ کاش تمہاری نگاہیں شرم سے جھک جائیں اور ندامت سے تمہاری آنکھیں خوننا بہ پڑکانے لگیں.مگر تمہارے دل پارہ پارہ نہیں ہوتے !!!

Page 106

۹۹ مذہب کے نام پرخون تشدد کے کچھ اور شاخسانے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی جو تصویر مولانا مودودی نے کھینچ رکھی ہے اسے دیکھ کر ایک تھوڑی سی سمجھ رکھنے والا انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ تصویر ہر غیر مسلم کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے کافی ہے مودودی صاحب کے اسلام کا تصور سودا کے اس جملہ میں سمٹ آتا ہے کہ :.لا نابے غنچے میرا قلمدان سودا ایک ہجو گو شاعر تھے اور جب کسی مخالف سے اپنی مرضی منوا نا مقصود ہوتی تو سنے میں آیا ہے کہ دھمکی کے طور پر یہ فقرہ کہا کرتے تھے.مولانا کے اسلامی تصور کا ٹیپ کا مصرعہ بھی کچھ اسی قسم کا بنتا ہے کہ:.لا نابے غنچے میری تلوار پس ابھی ان کی تلوار کی دھمکی ختم نہیں ہوئی اور ابھی تشدد کے کچھ اور شاخسانے باقی ہیں:.ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور جب تشدد کا چکر ایک مرتبہ چل پڑا تو تشدد کے سوا اسے کوئی چیز روک نہیں سکتی.اب سنگ گراں راہ میں یہ آیا ہے کہ اس بھیانک تصور کو پیش کرنے کے بعد تبلیغ کے تو سارے دروازے بند ہو گئے.چوہے دان میں تو ” چوہا اس وقت پھنسا کرتا ہے جب اسے متنبہ نہ کیا گیا ہو مگر یہاں تو وہ متنبہ کر دیا گیا ہے.اور پیدائشی مسلمانوں کا حال بھی وہ دیکھ چکا.عبادات کی قواعد بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں رہی.ریزی ہوتی بھی اس نے دیکھ لی اور بغاوت کی عام تعلیم سے بھی واقف ہو گیا.پھر وہ کیا ایسا ہی سر پھرا چوہا ہے کہ ضرور ” چوہے دان“

Page 107

مذہب کے نام پرخون کے اندر آئے گا این بیشہ مبر گماں کہ خالی است باید که پلنگ خفته باشد ہمسایہ کا حق مگر یہ سنگ گراں بظاہر کیسا ہی کوہ گراں کیوں نہ نظر آئے مودودی صاحب کی پر تشدد پالیسی کے سامنے یہ سب روکیں بیچ ہیں اور خس راہ کی طرح اڑ جاتی ہیں چنانچہ غیروں کے لئے آپ ایک تین نکاتی پروگرام تجویز فرماتے ہیں.اس کا پہلا جز حقوق ہمسائیگی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور دوسرے لفظوں میں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چوہا اگر ہمارے پاس نہیں آسکتا تو ہم تو چوہے کے پاس جاسکتے ہیں.آپ ہمسایہ کا فر ملکوں پر حملہ کرنے کی ایک وجہ جواز پیش فرماتے ہیں جو آپ ہی کے الفاظ میں سننے کے لائق ہے:.اسلام یہ انقلاب ایک ایک ملک یا چند ملکوں میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں بر پا کرنا چاہتا ہے.اگر چہ ابتداء مسلم پارٹی کا فرض یہی ہے کہ جہاں جہاں وہ رہتے ہوں وہاں کے نظام حکومت میں انقلاب پیدا کریں لیکن ان کی آخری منزل مقصود ایک عالمگیر انقلاب کے سوا کچھ نہیں لے ،، یہاں مجھے بھی مولانا سے اتفاق ہے کہ اسلام کی آخری منزل مقصود ایک عالمگیر انقلاب کے سوا کچھ نہیں مگر اختلاف یہ ہے کہ انقلاب سے مولانا کی مراد بعینہ اشتراکی انقلاب سے ہے حتی کہ نعرہ بھی وہی ہے مگر میرے نزدیک اسلام کی آخری منزل مقصود ایک روحانی عالمگیر انقلاب رونما کرنا ہے.مولانا کا اسلامی انقلاب قدم بقدم اشتراکیت کی ڈگر پر چل رہا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک جگہ گذارش کی تھی اگر آپ مسلم پارٹی کی بجائے کمیونسٹ پارٹی پڑھنا شروع کر دیں تو مجال ہے کہ کوئی اشترا کی سمجھ سکے کہ لین کی آواز ہے کہ مودودی صاحب کی.اشتراکی انقلاب کی بنیاد بھی ذات پر مبنی نہیں عدل پر ہے اور مودودی صاحب کا انقلاب بھی اسی مرکزی تصور کے گرد بلکہ اسی کے حقیقت جہاد صفحہ ۶۳

Page 108

1+1 مذہب کے نام پرخون بہانے گھومتا ہے اور حد یہ ہے کہ وجہ جواز بھی دونوں کی ایک ہی سی ہے اور ہمسایہ کے حقوق کا تصور بھی بعینہ ایک ہے دیکھئے مودودی صاحب فرماتے ہیں:.”انسانی تعلقات و روابط کچھ ایسی ہمہ گیری اپنے اندر رکھتے ہیں کہ کوئی ایک مملکت بھی اپنے اصول و مسلک کے مطابق پوری طرح عمل نہیں کر سکتی جب تک کہ ہمسایہ ملک میں بھی وہی اصول و مسلک رائج نہ ہو.لہذا مسلم پارٹی کے لئے اصلاح عمومی اور تحفظ خودی دونوں کی خاطر یہ ناگزیر ہے کہ کسی ایک خطہ میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے پر اکتفاء نہ کرے لے “ آپ نے یہ ہمسایہ ملکوں کے حقوق کے بارہ میں مودودی صاحب کا ”اسلامی تصور ملاحظہ فرمالیا کہ کیا اس میں اور اشترا کی تصور میں کوئی فرق ہے؟ اب آگے چلئے کہ یہ مقصد حاصل کس طریق پر ہوگا تو وہ طریق یہ نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو یہ مسلم پارٹی تمام ممالک کے باشندوں کو یہ دعوت دے گی کہ اس مسلک کو قبول کریں جس میں ان کے لئے حقیقی فلاح مضمر ہے دوسری طرف اگر اس میں طاقت ہوگی تو وہ لڑ کر غیر اسلامی حکومتوں کو مٹادے گی.“ تشدد اور گھٹیا بزدلی کا جو امتزاج اس آخری فقرہ میں پایا جاتا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے.اگر اس میں طاقت ہوگی تو وہ لڑ کر...یا دوسرے لفظوں میں جہاں کوئی کمزور دیکھا اسے مارکوٹ کر منوالے گی اور جہاں طاقتور نظر آیا وہ دعوت نامہ نکال کر پیش کر دے گی.کمزور مظلوم سے متعلق جس پر حملہ کیا جارہا ہو تو اس پالیسی کا تصور قابل برداشت ہے کیونکہ اس کے اختیار ہی میں نہیں ہے کہ وہ اس حملہ کو روک سکے.وہ اگر اپنے آپ کو کمزور پا کر اس ڈر سے کہ مجھے لڑائی میں اور بھی زیادہ مار نہ پڑ جائے چپ سادھ لے تو انسان اسے معذوری کا نام دے سکتا ہے مگر ایک حملہ آور کی یہ پالیسی کہ ایک جیب میں چھرا ہو اور دوسرے میں دعوتی کارڈ اس کے لئے جو نام میرے ذہن میں آتا ہے وہ اگر میں نے لکھ دیا تو مولا نا ضرور ناراض ہوں گے اور سخت ناراض ہوں گے مگر وہ بھی بے چارے حقیقت جہاد صفحه ۶۴

Page 109

مذہب کے نام پرخون مجبور ہیں اگر عقائد بگاڑ دیئے گئے ہوں اور دلائل اور اخلاق حسنہ اور قربانی اور دعا اور نصیحت اور صبر کے تمام ہتھیاروں کے ٹکڑے اڑ چکے ہوں تو اسلام تو بہر حال کسی طرح پھیلانا ہی ہے نا ! اللہ تعالیٰ نے بھی مختلف قسم کے جانور پیدا فرمائے ہیں.بعض پرندے ہوتے ہیں جن کے پاس صرف پیار کے گیت ہوتے ہیں اور معصوم حسن کی بے آواز دعوتیں.اور بعض درندے ہوتے ہیں جن کے پاس وحشت ناک حملوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا.یہ امتزاج شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں کہ ایک ہاتھ میں تلوار ہو اور ایک میں دعوتی کارڈ.مجھے یاد ہے کہ ہائی کورٹ کے سامنے لارڈ لارنس کا ایک بت تھا جس کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی اور دوسرے میں قلم یعنی قلم کی حکومت مانور نہ تلوار کی سزا پاؤ گے.مگر فرق یہ ہے کہ اس کا تعلق محض ان لوگوں سے تھا جو پہلے ہی سے بزور تلوار اس کے محکوم بنائے جاچکے تھے.اور قلم بھی ان ہی لوگوں کے لئے تھا جن کے لئے تلوار تھی مگر ایسا عجوبہ روزگار بت ابھی بننے کو ہے جس کے ایک ہاتھ میں ایک برہنہ چمکتی ہوئی تلوار ہو جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا دعوتی کارڈ بھی لڑکا ہوا ہو اور دوسرے ہاتھ میں محض ایک خوشنما مرصع دعوتی کارڈ ایک چاندی کی طشتری میں سجا ہوا ہو.تلوار والا ہاتھ تو ایک نحیف وزار، نیم مرده، نیم زندہ مفلوک الحال شخص کی طرف اٹھا ہوا ہو اور طشتری والا ہاتھ دوسری سمت میں ایک دیو ہیکل تنومند، گرانڈیل جو ان کی خدمت عالیہ میں وہ چاندی کی طشتری پیش کر رہا ہو.لیکن اس طشتری میں ایک چھوٹا سا کارڈ اگر اس مضمون کا بھی لکھ کر رکھ دیا جائے کہ حضور ابھی ہم کمزور ہیں جب طاقتور ہوں گے تو پھر حاضر خدمت ہوں گے تو اس بارہ میں کیا خیال ہے؟ لیکن اگر کہیں اندازہ میں غلطی ہوگئی اور انقلابی نظر نے دھوکہ کھایا.کسی طاقت ور پر تلوار اٹھ گئی تو پھر ؟.بہر حال مودودی صاحب کی اشاعت اسلام کا تصور یہ ہے اور اس بارہ میں خود مختار ہیں.پابند تو ہم لوگ ہیں جنہیں کچھ بولنے کی اجازت نہیں اور اس تصور کا خلاصہ سیدھے سادھے الفاظ میں یہی ہے کہ چونکہ تم ہمارے ہمسایہ ہو اور ہمارا فرض ہے کہ ہر طرح سے تمہاری بہبود کا انتظام کریں اور بہر حال تمہیں ہلاکت سے بچائیں اس لئے ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ اگر تمہیں اپنے سے کمزور پائیں تو

Page 110

۱۰۳ مذہب کے نام پرخون آنکھیں بند کر کے ہڑپ کر جائیں.دوسرے دو نکات اس تبلیغی پروگرام کے دوسرے دو نکات احتیاطی تدابیر کے طور پر ہیں.پہلے کا تعلق غیر مسلموں کے اس حق سے ہے کہ وہ مسلمانوں کو تبلیغ کرسکیں.اس کا جواب تو واضح ہی ہے:.اس مسئلہ کا فیصلہ تو بڑی حد تک قتل مرتد کے قانون نے خود ہی کر دیا ہے ( یعنی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری) کیونکہ جب ہم اپنے حدود اقتدار میں سے کسی ایسے شخص کو جو مسلمان ہو اسلام سے نکل کر کوئی دوسرا مذہب و مسلک قبول کرنے کا حق نہیں دیتے تو لا محالہ اس کے معنی یہی ہیں کہ ہم حدود دار الاسلام میں اسلام کے بالمقابل کسی دوسری دعوت کو اٹھنے اور پھیلنے کو بھی برداشت نہیں کر سکتے لے “ دلیل بڑی واضح ہے اور قارئین سمجھ ہی گئے ہوں گے.مختصراً اپنے الفاظ میں بھی بیان کر دیتا 66 ہوں.جب مودودی صاحب کے اسلام نے اپنے لئے مندرجہ ذیل حقوق محفوظ کر والئے ہوں:.(۱) تبلیغی دعوت بھیجوانا.(۲) کوئی قبول کرے نہ کرے جس کسی پر اختیار چلے حملہ کر دینا اور بزور حکومت چھین لینا.(۳) اگر اپنوں میں سے کوئی شخص دوسرا مذ ہب قبول کرے تو اسے قتل کر دینا.تو پھر ظاہر ہے کہ دوسرے مذہب کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ بھی یہی تین طریق اختیار کرلے.وہ کوئی سچا ہے جو اسے یہ حقوق پہنچتے ہوں ! مودودی صاحب تو سچے ہیں.کافروں کو کافروں میں تبلیغ کرنے کی ممانعت آخری نکته جومودودی صاحب اشاعت اسلام کے سلسلہ میں پیش فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر بعض کا فروں نے کافروں میں ہی تبلیغ شروع کر دی تو ممکن ہے بعض کا فر دوسرے کافروں کو قائل کر کے ان کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیں اس لئے ان کا فروں کو یہ حق کہاں سے مل گیا کہ کافروں میں تبلیغ کریں.یہ الفاظ میرے ہیں دلیل مودودی صاحب کی ہے.اب مودودی صاحب کے الفاظ میں بھی اس دلیل کو سن لیجئے :.لے مرتد کی سزا اسلامی قانون میں صفحہ ۳۲

Page 111

۱۰۴ مذہب کے نام پرخون اب ظاہر ہے کہ جب اسلام کا اصل موقف یہ ہے تو اس کے لئے اس بات کو پسند کرنا تو در کنار گوارا کرنا بھی سخت مشکل ہے کہ بنی آدم کے اندر وہ دعوتیں پھیلیں جو ان کو ابدی تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں.وہ داعیان باطل کو اس بات کا کھلا لائسنس نہیں دے سکتا کہ وہ جس آگ کی طرف خود جارہے ہیں اس کی طرف دوسروں کو بھی کھینچیں لے مودودی صاحب کے الفاظ بھی آپ نے ملاحظہ فرمالئے اب میں اس پر مزید کیا کہوں حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں یہاں سوال یہ نہیں تھا کہ کافروں کو مسلمانوں میں تبلیغ کی اجازت ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ تھا کہ کافروں کو کافروں میں تبلیغ کی اجازت ہے یا نہیں مگر مودودی صاحب کے نزدیک اسلام داعیان باطلہ کو اس امر کی اجازت بھی نہیں دیتا.دلیل کچھ اس طرح پر قائم کی گئی ہے کہ یہ کس طرح اجازت دی جاسکتی ہے کہ جس کفر کی آگ میں وہ خود پڑے ہوئے ہوں اس کی طرف دوسروں کو بھی کھینچیں حالانکہ صورت حال یہ بنتی ہے کہ جس آگ میں ایک قسم کے کافر پڑے ہوئے ہیں اسی آگ میں دوسری قسم کے کا فر بھی پڑے ہوئے ہیں اور جہاں تک ان کے آگ میں ہونے کا تعلق ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں.اس لئے مودودی صاحب کی دلیل در اصل یہ بنے گی کہ اسلام “ یہ بھی برداشت نہیں کرسکتا کہ ایک وسیع آگ میں جلنے والے کفار اس آگ کی دوسری سمت سے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں.اگر اس بات کی اجازت دے دی جائے تو بے چارے اس آواز پر لبیک کہنے والے جل جائیں گے اور اسلام یہ ظلم کس طرح برداشت کر سکتا ہے؟ پس بنی نوع انسان کی گہری ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ اول تو کچھ پچکار کر کچھ ڈرا دھمکا کر لوگوں کو اس آگ کے ٹکڑے سے نکالنے کی کوشش کی جائے لیکن اگر کوئی نہ مانے تو کم از کم یہ ضرور کیا جائے کہ لڑ کر بزور شمشیر اس خطہ نار پر اقتدار حاصل کر لیا جائے.اور پھر جب اقتدار حاصل ہو جائے تو تلوارتانے ہوئے سنتری ان جلتے ہوئے کفار پر نگران کھڑے ہو جائیں اور ایک آواز دینے والا ا مرتد کی سز ا صفحه ۳۵

Page 112

۱۰۵ مذہب کے نام پرخون یہ آواز دے کر کہ ” خبر دار ! تم میں سے کوئی دوسرے کو اپنی طرف نہ بلائے ورنہ گردن مار دی جائے گی.اس طریق پر تو تم سارے لوگ جل جاؤ گے اور یہ سوچ کر بھی ہماری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں.اس لئے جس کروٹ پر جہاں جل رہے ہو و ہیں اسی کروٹ پر جلتے رہو ورنہ مار مارکر ہم ٹکڑے اڑا دیں گے.شرم نہیں آتی ہمیں دکھ دیتے ہوئے ؟ ظالم کہیں کے!“ یہ آواز سن کر پھر کس کی مجال ہے کہ دم مارے اور جگہ تبدیل کرے؟ لیکن اگر اس جبس دوام سے سخت گھبرا کر اور عواقب سے بے خوف ہو کر کوئی ” جلنے والا یہ سوال کر بیٹھے کہ ” اے شاہ اقتدار ! آپ نے ہم سے تمام آزادیاں چھین لیں اور پابہ زنجیر کر دیا محض اس لئے کہ کسی طرح ہمیں آگ کے اس خطے سے نکالیں جسے ہم آگ کا خطہ نہیں سمجھتے اور اس سوزش کے عذاب سے بچالیں جس کی جلن کو ہم محسوس نہیں کرتے.اے شاہ اقتدار ! ہم اس آگ کو تو آگ نہیں سمجھتے مگر یہ تلوار کے زور سے ہمارے ہاتھوں سے حکومتیں چھین کر اور آزادیوں کو سلب کر کے جو آگ آپ نے ہمارے سینوں میں بھڑ کائی ہے وہ ہمیں جلا کر خاکستر کئے دیتی ہے.اس کے بدلہ میں ہم نے کیا پایا؟....کیا ہم ابھی تک اسی طرح اسی خطہ نار میں موجود نہیں جس سے آپ ہمیں نکالنا چاہتے تھے؟ بس اب آپ یہاں کھڑے نظارہ کیا کر رہے ہیں؟ آگے بڑھئے اور اگر آپ کی ہمدردی کے دعوے بچے ہیں تو یا تو ہمیں اس خطہ نار سے نکال لیجئے جو آپ کے نزدیک خطہ نا ر ہے تاکہ ہمیں آزادی کے سانس نصیب ہوں یا پھر اس آگ ہی کو ٹھنڈا کر دیجئے جو خود آپ نے ہمارے سینوں میں بھڑکائی ہے.“ یہ دردناک پکار سن کر وہ آواز دینے والا یہ جواب دے گا کہ ان دونوں کیفیتوں میں سے ایک کو بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا.اسلام ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا.زیادہ سے زیادہ جس چیز کو وہ بادل ناخواستہ گوارا کرتا ہے وہ بس یہ ہے کہ جو شخص خود کفر پر قائم رہنا چاہتا ہو ا سے اختیار ہے کہ اپنی فلاح کے راستہ کو چھوڑ کر اپنی بربادی کے راستہ پر چلتا رہے اور یہ بھی وہ صرف اس لئے گوارا کرتا ہے کہ زبر دستی کسی کے اندر 66 ایمان اتار دینا قانون فطرت کے تحت ممکن نہیں لے ،، مرتد کی سز ا صفحہ ۳۵

Page 113

مذہب کے نام پرخون یہ جواب سن کر جو کچھ اس سوالی کے دل پر بیتے گی اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہر صاحب دل انسان کرسکتا ہے.کیا وہ اس آتش زار کی دیواروں سے سر نہ پٹکے گا کہ جب یہ بزرگ جانتے تھے کہ ز بر دستی کسی کے دل میں ایمان اتار دینا قانون فطرت کے تحت ممکن نہیں“.تو پھر یہ اب تک مجھ سے کیا سلوک فرماتے رہے ہیں؟ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس کا فر کو اپنے آتش زار کی دیواروں سے سر پھٹکنے دیجئے اور اک ذرا وہ بھی سن لیجئے جو یہ جواب سن کر میرے دل پر گزری ہے.غالب کے اس مصرعہ کے مطابق کہ ہے دل شوریدہ غالب طلسم پیچ و تاب واقعی دل مختلف قسم کے جذبات کے ہیجان سے ایک طلسم پیچ و تاب بن رہا ہے اور حیرت ہے اور غصہ ہے اور غم ہے اور سخت تلملاہٹ ہے کہ آخر کیوں وہ غیر فطری افعال جن کے کرنے کی خودمودودی صاحب کو بھی جرات نہ ہو سکی آپ نے اس جرات اور دھڑلے کے ساتھ ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کئے ہیں؟ خود تو اپنے تصور کی دنیا میں، اس دنیا میں جہاں تشدد کی بادشاہی تھی اور تلوار میں لہرا رہی تھیں اور گردنیں کائی جارہی تھیں جب اس مقام تک پہنچے جو اس جدو جہد کا آخری مقام تھا اور وہ قلعہ جب سامنے آیا جس کا سر کیا جانا ہی مقصود تھا تو ہاتھ لزر گئے اور قدم ڈگمگا گئے اور اس سراسر غیر فطری فعل کے دعوی کی بھی جرات نہ کر سکے.اس وقت انہیں اپنی فطرت کی یہ آواز سنائی دی کہ زبر دستی کسی کے اندر ایمان اتار دینا قانون فطرت کے تحت ممکن نہیں.“ میں ان سے یہ پوچھتا ہوں کہ یہ فطرت کی آواز کیوں گنگ تھی جب میرے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ نا پاک الزام لگا رہے تھے کیوں نہ انہیں اس وقت یہ آواز سنائی دی جب ان کا قلم یہ زہر اگل رہا تھا کہ :.وو قوم نے آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی......تو رفته رفته بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا.“

Page 114

1+2 مذہب کے نام پرخون کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے تو بہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا اگر وہ اس دعوئی میں سچے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار کی طاقت سے دلوں کے زنگ کو دور کیا تھا تو پھر یہ جھوٹ ہے کہ زبر دستی کسی کے اندر ایمان اتار دینا قانون فطرت کے تحت ممکن نہیں.اور اگر یہ سچ ہے اور یہی سچ ہے تو پھر وہ جھوٹ تھا کہ میرے آقا نے تلوار کی دھار سے قلوب کے زنگ کو کھر چاتھا.مگر ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ اپنے لئے تو پیمانہ فطرت ہے اور آقا" کے اخلاق کو ہر غیر فطری پیمانے سے ناپا جا رہا ہے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام لگا بیٹھے تھے تو کم از کم اخلاق اور وفا کا تقاضا یہ تھا کہ پھر خود بھی اسی الزام کی چھری کے نیچے اپنی گردن رکھ دیتے ،صحابہ رضوان اللہ علیہم کے عشق کا تو یہ حال تھا کہ ہر اس وار کو جو ان کے محبوب آقا پر کیا جاتا تھا اپنے ہاتھوں پر، اپنے دلوں پر لیتے تھے.تاریخ سے ثابت ہے کہ جنگ احد کے موقع پر حضرت طلحہ کا ہاتھ ان تیروں کو روک روک کر جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھینکے گئے تھے ہمیشہ کے لئے بے کار ہو گیا تھا مگر مولانا کا یہ حال ہے کہ تیر روکنے کا تو کیا سوال آنحضرت کے شدید ترین دشمنوں کی ہمنوائی میں آپ پر مہلک اعتراضوں کے تیر برسا رہے ہیں اور جب وہی تیر خود ان کی طرف پھینکے جاتے ہیں تو دامن بچا کر الگ جا کھڑے ہو جاتے ہیں.تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيری...یہ تو بہت بری تقسیم ہے! ضِيزُى قتل مرتد ظلم نہیں رحم ہے یہ بہت ہی بری تقسیم ہے مگر تقسیم تو تقسیم کرنے والے پر منحصر ہوا کرتی ہے اور تقسیم کرنے والے کی طرز فکر اپنے فکر کی ہر تخلیق پر اپنی مہر ثبت کرتی چلی جاتی ہے.جس طرح ایک صانع یا ایک مصور یا ایک شاعر اپنی صنعت یا تصویر یا شعر سے پہچانا جاتا ہے اور جس طرح وہ صنعتیں یا تصاویر یا اشعار مختلف حالات اور کیفیات کا نتیجہ ہونے کے باوجود ایک خاص رنگ اپنے بنانے والے کا اپنے اندر رکھتے ہیں اسی طرح مودودی صاحب کی بھی ہر تخلیق پر ان کا ایک خاص رنگ غالب ہے اور یہ رنگ سرخ ہے.ہر دیکھنے والا اس رنگ کو سرخ ہی دیکھتا ہے اور یہی وہ رنگ ہے جس میں مودودی آنکھ اسلام کو رنگین دیکھنے کی عادی بن چکی ہے.مگر خدا جانے کیوں کبھی کبھی مولا نا اس رنگ کا نام سبز

Page 115

مذہب کے نام پرخون رکھ دیتے ہیں اور تماش بینوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ جسے تم سرخ دیکھ رہے ہو دراصل یہ سبز ہے.قتل مرتد کے بارے میں مولانا کے تصورات سے تو قارئین روشناس ہو ہی چکے ہیں اور ان کے اس عقیدہ پر بھی ابھی ابھی اطلاع پاچکے ہیں کہ زبر دستی کسی کو مسلمان نہیں بنایا جا سکتا.اس مؤخر الذکر عقیدہ کالازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب زبر دستی مسلمان بنایا ہی نہیں جاسکتا تو پھر اس سلسلہ میں زبر دستی کرنا بھی خلاف عقل اور ممنوع ہوگا.مگر مولا نا اس نتیجہ کو تسلیم کرنے پر کسی طرح رضامند نہیں ہوتے اور اپنی مخصوص طرز استدلال کے ذریعہ اپنے دل کو قائل کر لیتے ہیں کہ ایمان کی اشاعت کے لئے ہر قسم کا جبر جائز ہے اور اگر اشاعت کے لئے نہیں تو اسی عذر پر یہ جبر جائز ہے کہ مومنوں کا ایمان محفوظ رہے چنانچہ اس خود حفاظتی کے بہانے ہمسایہ ملکوں پر حملہ کرنا بھی نہ صرف جائز بلکہ بس چلے تو از بس ضروری ہے.ہاں ایک مقام پر جا کر یہ اس عقلی تقاضا کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور وہ مقام قتل کا فر کا مقام ہے اور خود مولانا کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ایمان نہ لانے کے جرم میں کا فر کو قتل نہیں کیا جاسکتا.لیکن آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والا معاملہ ہے.ایک عقلی اعتراض سے تو بیچ نکلے دوسرا آپڑا.مشکل اب یہ در پیش ہے کہ جرم کفر میں اگر ایک کا فر کو قتل کی سزا نہیں دی جاسکتی تو پھر مرتد کو اسی جرم کی سزا میں کیوں مارا جارہا ہے؟ کیا اسے زبر دستی مسلمان بنایا جاسکتا ہے؟ اگر صرف یہ کہا جائے کہ ایسے شخص کا سوسائٹی میں رہنا سوسائٹی کے لئے نقصان دہ ہے تو جواباً یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح دوسرے کفار کا سوسائٹی میں رہنا سوسائٹی پر برے رنگ میں اثر انداز نہیں ہوتا اسی طرح اس نئے کافر کا حال ہوگا.اور اگر وہاں برداشت کیا جا سکتا ہے تو یہاں بھی برداشت کر لیں.جو پابندیاں آپ دوسرے کفار پر عائد کرتے ہیں اس کو کافر پر بھی عائد کر دیجئے.زیادہ سے زیادہ گھر بدر بلکہ ملک بدر کر دیجئے.عمر قید کی سزا دے دیجئے.یہ قتل کا بھلا کیا جواز ہوا یہ تو صریح نا انصافی اور ظلم ہے.تو یہ جواب سن کر مولا نا ہمیں خبر دیتے ہیں کہ نادانو ! آنکھ کے اندھو! یہ ظلم نہیں یہ تو رحم ہے.دکھائی نہیں دیتا تو پوچھ ہی لیا کرو.اپنے الفاظ میں اس رحم کی تفصیل مولا نا یوں بیان فرماتے ہیں:.اس کے لئے دو ہی علاج ممکن ہیں یا تو اسے اسٹیٹ میں تمام حقوق شہریت سے

Page 116

۱۰۹ مذہب کے نام پرخون محروم کر کے زندہ رہنے دیا جائے یا پھر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جائے.پہلی صورت فی الواقع دوسری صورت سے شدید تر سزا ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لا یموت فِيهَا وَلَا يخيلی کی حالت میں مبتلا رہے.....اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس کو موت کی سزا دے کر اس کی اور سوسائٹی کی مصیبت کا بیک وقت خاتمہ کر دیا جائے لے، کیا یہ بعینہ اس سرخ پوش کی آواز کی سی آواز نہیں ہے جو مجمع میں کھڑا حاضرین کو یہ یقین دلا رہا ہو کہ اندھو.نابیناؤ.مان لو کہ میرے کپڑوں کا رنگ سبز ہے.“ لیکن اگر رنگ واقعی سبز ہے اور ہم نے غلطی کھائی ہے تو مولانا کو میرا مشورہ یہی ہے کہ ذرا دھیمی آواز میں بات کریں.اگر اس آتش زار کے بسنے والے کفار کے کانوں تک یہ آواز جا پہنچی جن کا ابھی کچھ دیر پہلے تذکرہ گزرا ہے تو کیا انہیں اس خیال سے دھکا نہیں لگے گا کہ دعوے تو یہ تھے کہ جو کچھ کیا جارہا ہے تمہاری ہی ہمدردی اور بہبود کی خاطر ہے مگر جب قسمتوں کی تقسیم کا وقت آیا تو رحم تو اپنوں کی جھولی میں ڈال دیا اور ظلم ہمارے دامن میں.حالانکہ جرم دونوں کا ایک ہی نوعیت کا تھا.وہ کفار مولانا سے متعلق کیا کیا نہ خیال دل میں لائیں گے اور کیسے کیسے ظن ان پر نہ کریں گے؟ اس لئے بہتر ہے کہ یہ اپنی آواز کو دھیما کریں اور کیوں نہ بس اسی امر پر اکتفاء ہو جائے کہ قتل سے کچھ دیر پہلے صرف مرتدین کے کانوں ہی میں سرگوشی کر دی جائے کہ میاں غلط نہی میں مبتلا نہ رہنا.فی الواقع تم ستے چھوٹے ہو اور تم سے استثنائی طور پر رحم کا سلوک کیا گیا ہے اور جاتے جاتے مزید ہمدردی کے اظہار کے طور پر ان کا ہاتھ بھی دبا دیا جائے اور رازداری کے رنگ میں نظریں ملا کر مسکراتے ہوئے ، اور اگر حسن اتفاق سے کوئی کافر وہاں موجود ہو تو اس کی طرف سر کا اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ بھی بڑھا دیئے جائیں کہ دیکھتے نہیں ان لوگوں کا کیا حال ہے؟ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَخيلى نہ تو یہ مرتا ہے نہ زندہ رہتا ہے.مگر مودودی صاحب یہ ہمدردانہ سلوک تجویز فرماتے ہوئے غالباً ایک بات بھول گئے کہ اسلام کے نزدیک موت فی ذاتہ انجام نہیں ہے بلکہ اس کے بعد پھر ایک زندگی ہوگی جس کا نام اسلام لے مرتد کی سز ا صفحه ۵۱

Page 117

+11 مذہب کے نام پرخون حیات آخرت رکھتا ہے.اس لئے دراصل یہ اس مرتد کی مصیبت کا خاتمہ نہیں فرمارہے ہوں گے بلکہ اسے سیدھا جہنم واصل کر رہے ہوں گے.ان کی اس دنیا کی امکانی زندگی سے متعلق (جس سے مولانا اس مصیبت زدہ کو نجات دلا رہے ہیں ) تو یہ ایک انسانی رائے تھی کہ وہ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى والی حالت کی مصداق ہے مگر جہاں اسے اب بھجوا رہے ہیں اس سے متعلق تو خدا فرماتا ہے کہ لا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى (الاعلی : ۱۴) نہ تو وہ ( بد بخت ) اس میں مرے گا نہ زندہ رہے گا.صرف اسی پر بات ختم نہیں ہو جاتی بلکہ موازنہ اس سے بھی بدتر ہے.مولانا تو اسے جس آگ سے نجات دینے کے لئے از راہ شفقت مار رہے تھے وہ خود ان کے ہاتھوں کی بھڑکائی ہوئی تھی اور زیادہ سے زیادہ ہم اسے نار صغری کہہ سکتے ہیں یعنی چھوٹی آگ مگر اب جس آگ کی طرف اسے بھجوا رہے ہیں اس کا نام خود خدا تعالیٰ نے النَّارُ الكُبرى “ رکھا ہے یعنی بڑی آگ.پس مولانا کا یہ مصیبتوں سے نجات دلانے کا عجیب طریق ہے کہ ایک لا یموتُ فِيْهَا وَلَا يَحْیی کی حالت سے نکال کر دوسری شدید تر لا يموت فيها ولا تخیلی کی حالت میں دھکیل رہے ہیں اور ایک ملکی آگ سے نجات دے کر دوسری بڑی آگ میں جھونک رہے ہیں اور ابھی یہ خاص رحمت اور نرمی کا سلوک.اور یہ اعلان بھی جاری ہے کہ یہ رنگ سرخ نہیں ہے سبز ہے.ہے کافر کو تو پھر کچھ امید ہوسکتی تھی کیونکہ ابھی اس نے اپنی طبعی موت تک خدا جانے کتنے برس دیکھ بھال کے کاٹنے تھے اور خدا جانے کتنے مواقع اسے میسر آنے تھے کہ حق و باطل میں تمیز کر کے اخروی نجات کو پالیتا مگر یہ مجبور مرتد کہ جس کی رگ جان کاٹنے کے ساتھ ہی نجات کی سب امید میں منقطع کر دی گئیں دوسری دنیا میں آنکھ کھولتے ہی جب جہنم کی طرف لے جایا جارہا ہوگا تو خدا جانے ان ہاتھ دبانے والوں سے متعلق کیا سوچ رہا ہو گا جنہوں نے قتل سے پہلے اسے یہ یقین دلایا تھا کہ یہ سب کچھ اس کی فلاح اور بہبود ہی کی خاطر کیا جارہا ہے.آخر میں میں پھر قارئین کی یاد تازہ کرنے کی غرض سے اشاعت اسلام کے بارہ میں مودودی صاحب کی پالیسی کے تمام نکات کو مختصراً بیان کر دیتا ہوں:.(۱) غیر اسلامی ممالک کو دعوتی کارڈ بھجوائے جائیں مگر طاقت پاتے ہی خصوصاً ہمسایہ

Page 118

مذہب کے نام پرخون ممالک پر حملہ کر دیا جائے.(۲) کافروں کو مسلمانوں میں تبلیغ سے منع کر دیا جائے.(۳) کافروں کو کافروں میں تبلیغ سے منع کر دیا جائے.اس کے علاوہ میرے نزدیک لاز ماقتل مرتد کا مسئلہ بھی اسی پالیسی کا جز ہے اور دراصل یہ چار نکاتی پروگرام کہلانا چاہیے تھا مگر مشکل یہ ہے کہ مولا نا کو مجھ سے اتفاق نہیں.میرے نزدیک یہ اس پالیسی کا حصہ اس لئے ہے کہ طبعا قتل کے خوف سے بہت سے مسلمان دوسرے مذاہب اختیار کرنے سے رک جائیں گے.مثلاً پچھلے دنوں پاکستان میں ایک خاصی تعداد میں مسلمانوں نے عیسائیت اختیار کی.اگر یہ طریق قتل رائج ہوتا تو شائد مشکل سے ان مرتدین میں سے ایک آدھ ہی ایسا راستباز نکلتا کہ منافق بن کر زندہ رہنا پسند نہ کرتا مگر مولانا کے نزدیک یہ اس پالیسی کا حصہ نہیں ہے اور اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس طرح مسلمانوں میں منافق پیدا کئے جائیں.چنانچہ لکھتے ہیں :.قتل مرتد کو یہ معنی پہنانا بھی غلط ہے کہ ہم ایک شخص کو موت کا خوف دلا کر منافقانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں.دراصل معاملہ برعکس ہے.ہم ایسے لوگوں کے لئے اپنی جماعت کے اندر آنے کا دروازہ بند کر دینا چاہتے ہیں جو تکون کے مرض میں مبتلا ہیں اور نظریات کی تبدیلی کا کھیل تفریح کے طور پر کھیلتے رہتے ہیں...لہذا یہ عین حکمت و دانش ہے کہ ہر اس شخص کو جو اس جماعت کے اندر آنا چاہے پہلے ہی مطلع کر دیا جائے کہ یہاں سے پلٹ کر جانے کی سزا موت ہے تا کہ وہ داخل ہونے سے پہلے سو مرتبہ سوچ لے کہ اسے ایسی جماعت میں داخل ہونا چاہیے یا نہیں.اس طرح جماعت میں آئے گا ہی وہ جسے کبھی باہر جانا نہ ہوگالے ،، مجھے یاد ہے قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان کی اشترا کی پارٹی کا بھی بعینہ یہی طریق تھا وہ اپنی خفیہ سوسائٹیوں کا ممبر بنانے سے پہلے ہر آنے والے کو یہ تنبیہ کردیا کرتے تھے کہ میاں ! باہر جانے کی سزا موت ہوگی.زراعتی کالج لائلپور کا ایک طالب علم جسے میں جانتا تھا بے چارہ اسی جرم میں مرتد کی سز ا صفحه ۵۱، ۵۲.

Page 119

مذہب کے نام پرخون مارا گیا تھا.مگر یہ تو ضمنا مجھے ایک بات یاد آ گئی تھی جو میں نے کردی کیونکہ اس سے میرے اس نظریہ کو مزید تقویت پہنچتی ہے کہ مودودیت میں اشتراکیت کا رنگ غالب ہے.کچھ بعید نہیں کہ مولانا نے کچھی عمر میں لینن یا مارکس کے بعض اردو ترجمے پڑھ لئے ہوں اور آئندہ زندگی کے تصورات ڈھالنے میں انہوں نے ضرورت سے زیادہ کام کیا ہو مگر اس ذکر کو میں چھوڑتا ہوں.اس وقت اصل مبحث یہ نہیں تھا.میں مولانا مودودی کی قتل مرتد کی وہ توجیہ لکھ رہا تھا جسے سننے کے بعد پھر میرا یہ حق نہیں رہتا کر قتل مرتد کے عقیدہ کو بھی اشاعت اسلام کی پالیسی کا ایک جز بناؤں.چنانچہ میں نے ایسا نہیں کیا اور محض تین نکاتی پروگرام پیش کیا ہے.پس اب اس حصہ مضمون کو ختم کرتا ہوں مگر جانے سے پہلے مودودی صاحب مجھے اجازت دیں کہ ان کی پیش کردہ مندرجہ بالا تو جیہہ سے متعلق ایک دو سوال پیش کر دوں.وہ سوال یہ ہیں کہ :.اول :.اگر آپ کا یہ دعویٰ درست ہے کہ قتل مرتد کا اصل مقصد یہی ہے کہ آپ ایسے لوگوں کے لئے اپنی جماعت کے اندر آنے کا راستہ بند کر دینا چاہتے ہیں تو یہ فرما ئیں کہ عام انسانی طریق پیدائش کے ذریعہ اس مزاج کے جو مسلمان آپ کی سوسائٹی کے اندر مسلسل داخل ہوتے رہیں گے ان کی روک تھام کے لئے آپ نے کیا تجویز سوچی ہے اور دوم :.اگر عین حکمت و دانش یہی ہے کہ ہر اس شخص کو جو جماعت کے اندر آنا چاہے پہلے ہی مطلع کر دیا جائے کہ یہاں سے پلٹ کر جانے کی سزا موت ہے تو وہ کون سے ذرائع ہیں جن کو اختیار کر کے پیدائش سے پہلے ہی مسلمانوں کو خبر دار کر دیا جائے گا کہ اگر آنا ہے تو ” سومر تبہ سوچ کر آؤ لازم تھا کہ خلاف فطرت عقائد کی توجیہات بھی خلاف فطرت ہی ہوں.

Page 120

۱۱۳ مذہب کے نام پرخون مودودی دور حکومت کی ایک امکانی جھلک تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا! گزشتہ صفحات کے مطالعہ سے قارئین پر وہ تصور خوب واضح ہو چکا ہوگا جو مولانا مودودی اسلام، اسلام کے رسول ، اسلام کی اشاعت اور اسلام کے اقتدار کے بارہ میں رکھتے ہیں.اب میں ان صفحات میں اس امکانی مودودی حکومت کا ایک مختصر سا خاکہ کھینچ کر دکھاتا ہوں جو مودودی صاحب کے حصول اقتدار کے بعد کسی اسلامی یا غیر اسلامی ملک کے پردہ پر رونما ہوگی.میرے غیر اسلامی کہنے پر تعجب نہ کریں کیونکہ حقیقت یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ پہلے کسی اسلامی ملک میں ظہور پذیر ہونے کی بجائے یہ انقلاب کسی غیر مسلم اکثریت کے ملک میں ظاہر ہو جائے کیونکہ جب ہر مسلم پارٹی اپنے اپنے ملک میں یہ مزعومہ اسلامی انقلاب لانے کی کوشش میں مصروف ہوگی اور حصول اقتدار کا ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جارہا ہوگا تو کون کہہ سکتا ہے کہ کہاں یہ انقلاب پہلے آئے گا ؟ سعودی عرب میں یا غانا میں ؟ مصر میں یا لبنان میں؟ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟ بہر حال جب بھی جس طرح بھی اور جہاں بھی یہ اسلامی حکومت رونما ہوگی اس کے کچھ مخصوص نقوش ہوں گے جن پر اس وجود کے طرزفکر کی نہ مٹنے والی مہر ثبت ہوگی جس کے ذہن نے اس کا تصور قائم کیا اور جس کی کوششیں تصورات کے عالم سے اسے عالم وجود میں لے آئیں.سب سے پہلا عملی قدم جو حصول اقتدار کے بعد اٹھایا جائے گا وہ غالباً یہ ہوگا کہ اسلام کے عنوان کے تحت مودودی

Page 121

۱۱۴ مذہب کے نام پرخون عقائد کی ایک فہرست شائع کی جائے گی اور یہ اعلان عام کیا جائے گا کہ کسی معین مدت کے اندراندروہ تمام مسلمان جوان ان عقائد کے قائل ہیں نزدیک ترین تھانوں یا عدالتوں میں اپنے نام درج کروادیں.اگر وقت مقررہ کے اندر کوئی مسلمان رجسٹر ہونے سے رہ گیا تو اپنی جان ، مال اور عزت کا وہ خود ذمہ دار ہوگا نیز اس عرصہ کے اندراندر تمام رعا یا ہتھیار جمع کروا دے.اس اعلان کے بعد حکومت فوری طور پر قتل وغارت کی تیاری میں مصروف ہو جائے گی اور مودودی فوج اور مودودی پولیس اپنے ہتھیاروں کو صیقل کرلے گی اور ایک ایسے جہاد کے لئے کمر ہمت کسنے لگے گی جس میں محنت اور مشقت تو بہت ہوگی مگر شہادت کا کوئی خطرہ نہ ہوگا کیونکہ اس معین دن سے پہلے پہلے دشمن کو نہتہ کیا جا چکا ہوگا.ایک بے چین عرصہ انتظار کے بعد آخر وہ دن آجائے گا جبکہ کروڑوں ایسے مرتدین کی گردنیں مودودی تلواروں کے لئے حلال کر دی جائیں گی جو مرتدین پہلے پیدائشی مسلمان کہلاتے تھے چنانچہ ایک آواز دینے والے کی آواز پر خدا جانے کتنی تلوار میں اٹھیں گی اور گریں گی اور کتنے سرتن سے جدا ہوں گے اور کتنے بدن خاک و خون میں غلطاں ہوں گے ! اگر مولانا مودودی کے اقوال اور افعال میں کوئی فرق نہیں ، اگر وہ وہی سب کچھ کر بھی سکتے ہیں جو وہ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہوگا اور نہ جانے کتنی تلوار میں ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ اٹھیں گی اور ہزار مرتبہ گریں گی اور سرتن سے جدا ہوتے رہیں گے اور بدن خاک و خون میں غلطاں ہوں گے.وہ وقت ایسا ہوگا کہ اگر خاوند نے تو بہ کر لی یا راستی کی راہ سے ہٹ گیا تو خودا سے تو زندہ رکھا جائے گا مگر اس کی بیوی اس کی آنکھوں کے سامنے تہ تیغ کی جائے گی اور اگر بیوی نے توبہ کرلی یا جھوٹ بول کر منافقت کی راہ اختیار کی تو وہ خود زندہ رکھی جائے گی مگر اس کا راستباز خاوند اس کی آنکھوں کے سامنے ہلاک کیا جائے گا بچے بلا استثناء زندہ رکھے جائیں گے اور بہر حال اپنی ماں یا باپ یا ماں باپ دونوں کو مرتا ہوا دیکھیں گے اور ان دودھ پیتے بچوں کے بلکنے سے جن کی بے قرار آنکھیں مرتد ماؤں کو ترسیں گی اور ان یتیم لڑکوں اور لڑکیوں کی گریہ وزاری سے جن کی روتی ہوئی آنکھیں پھر کبھی ان مرتد باپوں کو نہ دیکھ سکیں گی....پاکستان کی بستی بستی ، قریہ قریہ سے وہ نعرہ ہائے درد

Page 122

۱۱۵ مذہب کے نام پرخون بلند ہوں گے کہ ان کی چیخ پکار کنگرہ عرش کو ہلا دے گی اور ایک طرف تو چین کی دیواریں کا نہیں گی اور دوسری طرف یورپ پر لرزہ طاری ہوگا.اور جب ان چند ایک صالحین کے باز وگردنیں مارتے مارتے شل ہو جائیں گے تو انہی مرتدین سے وسیع و عریض کھائیاں کھدوا کر ان میں سرخ آگ بھڑکائی جائے گی اور رہے سہے مرتدین کو زندہ آگ میں جلا دیا جائے گا اور اس آگ کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی لپٹیں پاکستان کی شمال اور جنوب مشرق و مغرب کو روشن کر دیں گی.پس وہ کیسی مبارک صبح ہوگی جب افق پاکستان سے مودودیت کا یہ سرخ سویر اطلوع ہوگا! مگر یہ تو محض ایک ابتداء ہے اور انتہاء سے پہلے ابھی کئی ایک منازل طے کرنی باقی ہیں.اگر سب سے پہلا انقلابی ملک پاکستان ہوا تو ابھی تو کتنے ہی اسلامی ممالک کے وسیع وعریض خطے پاکستان کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے پھیلے پڑے ہیں جہاں مرتد مائیں مرتد بچے“ 9966 جن رہی ہیں اور ابھی تو ہندوستان کے چھ کروڑ مرتدین کا صفایا باقی ہے.ابھی باقی ہے وہ نوحہ جو پہاڑوں کے سینے پھاڑ دے گا اور آسمان کے پردے چاک کر دے گا اور وہ گر یہ باقی ہے جسے سن کر زمین کی چھاتیوں کا دودھ خشک ہو جائے گا اور آسمان کے ستارے سینہ کوبی کریں گے اور جس کے درد سے چاند سورج کی آنکھیں بھی روتے روتے اندھی ہو جائیں گی! پھر کیا اس وسیع قتل و غارت کے بعد جبکہ تمام اسلامی ممالک اکثر مسلمان آبادیوں سے خالی ہو چکیں گے.ان ذی اقتدار حقیقی مسلمانوں کی پیاس بجھ جائے گی اور ہوس اقتدار کی آگ ٹھنڈی پڑ جائے گی ؟ اگر ان بلند عزائم کو دیکھا جائے جو مولانا کے دل میں جوش مارتے ہیں اور نوک زبان اور قلم سے جاری ہوتے رہتے ہیں تو اس سوال کا جواب نفی میں ہے.نہیں.ابھی یہ پیاس نہیں مجھے گی اور یہ آگ ٹھنڈی نہ ہوگی جب تک کہ کفار حکومتوں کو دعوت اسلام بھجوانے کے بعد ان کے اصرار کفر پر یا اس کا انتظار کئے بغیر ہی انہیں بزور شمشیر مقہور نہ کر لیا جائے.ابھی تو ان کے غضب کی بجلی کو یورپ پر بھی گرنا ہے اور امریکہ پر بھی.چین پر بھی اور جاپان پر بھی.آسٹریلیا پر بھی اور نیوزی لینڈ پر بھی.ابھی تو اس کے کوندوں نے افریقہ کے صحراؤوں پر لپکنا ہے اور سیاہ جنگلوں کو آگ لگانی ہے.ابھی تو اس نے روس کو نذرآتش کرنا ہے اور سائبیریا کی یخ بستہ تر ائیوں کو شعلہ ایمان بخشنا ہے.ابھی تو کتنے ہی

Page 123

117 مذہب کے نام پرخون قتل و غارت کے بازار گرم ہونا باقی ہیں ! ابھی مودودی تلواروں نے کتنے ہی اور گھاٹوں کا سرخ پانی پینا ہے اور میں یہ سوچتا ہوں کہ جب یہ مودودی اسلام زمین کے چپہ چپہ کو لالہ رنگ کر چکے گا تو ہزاروں ہزار میل کے ویرانوں میں کسی تنہا صالح مسلمان“ کی صدائے اذان کیسی بھلی معلوم دے گی اور میں سوچتا ہوں کہ مولانا کے امن عالم کا اسلامی تصور کرتا بھیا نک ہے جس امن کی تصویر چپ چاپ خاموش قبرستانوں میں نظر آتی ہے اور جس کا دوسرا نام زندگی کا فقدان ہے.موت ہے.منافقین کی ایک عالمگیر جماعت اور اگر یہ قتل و غارت کا بازار گرم نہ ہوا تو صرف ایک صورت میں.....صرف ایک صورت میں کہ دنیا کے پردہ پر منافقین کی ایک عظیم عالم گیر جماعت ظہور پذیر ہو ور نہ اس تلوار سے بچنے کا کوئی امکان نہیں.ناظرین اسے افسانہ یا شاعری خیال نہ کریں اگر چہ یہ درست ہے کہ جب مودودی عزائم کا عمل کی دنیا میں نقشہ کھینچ کر دیکھا جائے تو وہ ایک ہولناک افسانہ معلوم ہوتا ہے یا ایک خوفناک خواب یا ایک شاعر کا دل ہلا دینے والا تصور مگر افسوس کہ نہ تو یہ خواب ہے نہ کوئی افسانہ نہ شاعرانہ تصور بلکہ ایک جیتی جاگتی بظاہر سوچنے کی طاقت رکھنے والی علم دین و فہم رسالت رکھنے کی دعویدار ہستی کے وہ نظریات ہیں جو وہ آج اسلام کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے اور اس تحدی کے ساتھ کہ جب بھی موقع ملا ان دعاوی پر عمل کر کے دکھایا جائے گا.یہ ہے وہ اسلام کے عالم گیر غلبہ کا دن جو مودودی تصور کی کھڑکیوں سے جھانک رہا ہے.کیا نعوذ باللہ اسی دن کو کھینچ لانے کے لئے آج سے تقریبا چودہ سو برس پہلے افق عرب سے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نیر عالم تاب کا ظہور ہوا تھا؟ اے کاش ! مولانا مودودی اپنے مذہب کو اسلام کے سوا کوئی اور نام دے لیتے اور ہمارے آقا کے نام کو اپنے اس کر یہ المنظر تاریک و تار تصور سے ملوث نہ کرتے لیکن اگر ایسا کرتے تو کون ان کی پیروی کرتا اور کون ان کو اس نئے مذہب کے نام پر ووٹ دیتا؟ اس لئے ان کے سامنے صرف ایک راہ باقی تھی اور وہ راہ یہی تھی کہ اپنے آمرانہ خیالات کو ہمارے معصوم آقا کی طرف منسوب کر کے رائج کرتے.پس انہوں نے ایسا ہی کیا اور امن اور سلامتی کے اس رسول کے نام کو بھی اس کشت و خون کے میدان میں گھسٹینے سے گریز نہیں کیا جس رسول کا ایک ایک سانس امن کا پیغام لے کر آتا تھا ،

Page 124

112 مذہب کے نام پرخون جس کے مذہب کا نام ہی اسلام تھا ! میں نے عمداً اس امکانی نقشہ کو کھینچتے ہوئے حتی الامکان اختصار اور احتیاط سے کام لیا ہے اور صرف انہی نقوش کی تصویر کشی کرنے پر اکتفاء کی ہے جو واضح اور غیر مشکوک طور پر مولانا کی مختلف کتب میں ملتے ہیں اور جن کے اقتباسات گذشتہ صفحات میں قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاچکے ہیں.ویسے مودودیت کے مزاج کو سمجھ لینے کے بعد یہ کچھ مشکل نہیں رہتا کہ انسان ہر دائرہ حیات میں ایک امکانی مودودی حکومت کی صحیح صحیح تصویر اتار سکے.مثلاً اس دور کے تمدنی حالات کا نقشہ کھینچا جا سکتا تھا یا ڈنڈے کے زور سے عبادات کروانے پر جو مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوسکتی ہے اس کا ذکر کیا جاسکتا تھا.اسی طرح اس حکومت کے بین الاقوامی تعلقات پر بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا تھا اور ان کوششوں کا تصور بھی باندھا جاسکتا تھا جن کے ذریعہ ملک سے بددیانتی، رشوت ستانی اور بد معاملگی کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی.اسی طرح ملک کے سیاسی حالات کا نقشہ پیش کرنا بھی کچھ مشکل نہ تھا.ایک ایسا ملک جس کی بناء ہی نظریہ تشدد اور خونریزی پر ہو وہ بغاوتوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور اگر اس ملک میں منافقین کی کثرت ہو تو پھر تو یہ خطرہ غیر متناسب طور پر بڑھ جاتا ہے بلکہ جوں جوں وقت گزرتا جائے ایسی حکومت کے خلاف رد عمل تیز تر ہوتا ہی چلا جاتا ہے.پس ان تمام امکانی خطرات کے بارہ میں بہت کچھ لکھا جاسکتا تھا جو ایسی حکومت کو یقیناً پیش آسکتے ہیں اس کے علاوہ دوسری قسم کی سازشوں کا تصور بھی باندھا جا سکتا تھا اور اس خفیہ نظام جاسوسی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا تھا جس کے ذریعہ سے حکومت ان سازشوں اور بغاوتوں کا پتہ لگاتی اور عذاب دینے کے ان ذرائع کا ذکر بھی خالی از دیچسپی نہ ہوتا جو ایسی حکومت نے مزید معلومات یا خالص صداقت معلوم کرنے کے لئے بہر حال اختیار کرنے تھے مگر میں ان سب امور سے قطع نظر کرتا ہوں اور قارئین کے انفرادی رجحان یا ذوق پر معاملہ چھوڑتا ہوں تاہم اگر کسی دوست کومزید تجسس ہو تو مؤخر الذکر امر کے بارہ میں واقعاتی نقشے اشترا کی انقلاب کی تاریخ یاHISTORY OF THE PRIESTCRAFT IN ALL AGES ” ہسٹری آف دی پر یسٹ کرافٹ ان آل ایجے میں بکثرت مل سکتے ہیں جن کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہوگا.

Page 125

66 مذہب کے نام پرخون مہلت اور معافی نامہ کا ایک فرمان عام آخر پر یہ باب ختم کرنے سے پہلے اگر میں اس عام مہلت اور معافی نامہ کا ذکر نہ کروں جسے جاری کرنے کے امکان کا مودودی صاحب اظہار فرما چکے ہیں تو یہ ان سے نا انصافی ہوگی جیسا کہ میں نے باب کی ابتداء میں ہی اس رائے کا اظہار کر دیا تھا کہ میرا خیال ہے کہ مودودی حکومت اقتدار حاصل کرتے ہی ایک عام فرمان جاری کرے گی اور یہی دستور ہر انقلاب حکومت کا ہوا کرتا ہے اور اس فرمان کے مطابق مسلمانوں کو بعض مخصوص عقائد مد نظر رکھتے ہوئے بحیثیت مسلمان رجسٹر ہونا پڑے گا.کم و بیش اسی مضمون کے فرمان جاری کرنے کے امکان کا اظہار مودودی صاحب نے اپنی کتاب ” مرتد کی سزا.....کے آخر میں فرمایا ہے.فرق یہ ہے کہ میرے نزدیک تو جولوگ اس وقت مودودی اصطلاح کے مطابق مسلمان قرار نہیں دیئے جاسکیں گے وہ بہر حال تہہ تیغ کئے جائیں گے مگر مودودی صاحب نے اس امکان کا ذکر کیا ہے کہ چونکہ اس طرح ایک بے نظیر اور بے شمار قتل عام لازم آئے گا اس لئے ممکن ہے ان کو فی الفور قتل کرنے کی بجائے صرف امت سے خارج کر کے کا فرذمیوں کی طرح زندہ رہنے پر مجبور کرنے کو ہی کافی سمجھا جائے لیکن اس کے بعد اگر بقیہ مسلمانوں میں سے کوئی مسلمان اعتقاداً یا عملاً کافر ہو تو اسے بہر حال قتل کیا جائے.مگر مولانا کے اس شاہانہ معافی نامہ کے باوجود میں نے اپنے پیش کردہ نقشہ میں جو قتل عام کا مختصر سا خاکہ کھینچا ہے اس کی بعض وجوہ ہیں :.ا.اول تو یہ کہ خود مولانا کی طرف سے بھی کسی یقینی معافی نامے کا اعلان نہیں ، مشکل سے صرف ایک امکانی حل کا ذکر ہے اور مجھے یقین ہے کہ حصول اقتدار کے بعد اس نرمی کے سلوک کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوگا کیونکہ خود مولا نا ہی کے الفاظ میں :.حکومت اور فرمانروائی جیسی کچھ بد بلا ہے ہر شخص اس کو جانتا ہے.اس کے حاصل ہونے کا خیال کرتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اٹھنے لگتے ہیں.خواہشات نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلق خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے لے “ حقیقت جہاد صفحہ ۱۵

Page 126

119 مذہب کے نام پرخون ۲.دوسری وجہ میرے اس یقین کی یہ ہے کہ اس معافی نامہ کو صادر فرمانے پر آمادگی میں مولانا سے ایک غلطی ہو گئی ہے جسے وہ جلد یا بدیر محسوس فرمالیں گے یا شاید ان کا ہم خیال اس طرف ان کی توجہ مبذول کروادے.غلطی یہ ہے کہ اگر اسلامی قانون میں مرتد کی سزا قتل ہے اور وہ پیدائشی مسلمان بھی جو بڑے ہو کر اعتقاداً یا عملاً اسلام سے منحرف ہو چکے ہوں اس قانون شریعت کی رو سے واجب القتل ہیں تو مولانا کو یہ اختیار کہاں سے حاصل ہو گیا کہ وہ ان مجرموں کو معاف کرتے پھریں.کیا وہ کوئی نئی شریعت بنا ئیں گے یا شریعت کے کسی حکم کو منسوخ یا تبدیل کرنے کا حق رکھتے ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر کوئی چارہ نہیں اس کے سوا کہ یا تو اس شریعت سے منحرف ہو کر خود مرتدین کے زمرہ میں جا بیٹھیں یا پھر بادل ناخواستہ قتل عام کا حکم جاری فرما ئیں خواہ کروڑوں کروڑ آدمی اس کی زد میں آئیں.۳.مولا نا ایک اور بات بھی بھول گئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب خود مولا نا کوتسلیم ہے کہ ان دوصورتوں میں سے کہ وو یا تو اسے اسٹیٹ میں تمام حقوق شہریت سے محروم کر کے زندہ رہنے دیا جائے یا پھر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جائے.پہلی صورت فی الواقع دوسری صورت سے شدید تر سزا ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لَا يَمُوتُ فِيْهَا وَلَا يَخيی کی حالت لے میں مبتلا رہے..تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ جب مولا نانرمی اور رحم کے مزاج میں ہوں تو دوصورتوں میں سے ایسی سزا تجویز فرمائیں جو فی الواقع دوسری صورت سے شدید تر سزا ہو.ان وجوہ کی بناء پر میں مجبور تھا کہ اپنے پیش کردہ نقشہ کو اسی طرح پیش کروں جس طرح میں نے پیش کیا ہے کیونکہ مودودی حکومت کے ساتھ قتل و غارت کا تصور تشدد کی ایسی مضبوط آہنی زنجیروں سے جکڑا جا چکا ہے کہ خود ان زنجیروں کا خالق بھی اگر چاہے کہ انہیں کھول کر یا تو ڑ کر اس تصور کو الگ کر دے تو یہ اس کے قبضہ قدرت میں نہیں.گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر ! حقیقت جہاد صفحه ۵۱

Page 127

مذہب کے نام پرخون اس معذرت کے بعد اب میں وہ الفاظ نقل کرتا ہوں جو خود مودودی صاحب کے الفاظ ہیں تا کہ اگر میں نے کسی نتیجہ تک پہنچنے میں غلطی کھائی ہو تو احباب خود درستی فرمالیں:.اگر آگے چل کر کسی وقت اسلامی نظام حکومت قائم ہو (خیال رہے کہ یہ مضمون ۱۹۴۲ء میں لکھا گیا تھا.ناقل ) اور قتل مرتد کا قانون نافذ کر کے ان سب لوگوں کو بزور اسلام کے دائرے میں مقید کر دیا گیا جو مسلمانوں کی اولا دہونے کی وجہ سے اسلام کے پیدائشی پیر و قرار دیئے جاتے ہیں تو اس صورت میں بلاشبہ یہ اندیشہ ہے کہ اسلام کے نظام اجتماعی میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعدا د شامل ہو جائے گی جس سے ہر وقت ہر غداری کا خطرہ رہے گا.“ میرے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ وَاللهُ الْمُوَقِّقُ لِلضَّوَابِ کہ جس علاقہ میں اسلامی انقلاب رونما ہو وہاں کی مسلمان آبادی کو نوٹس دے دیا جائے کہ جو لوگ اسلام سے اعتقاداً وعملاً منحرف ہو چکے ہیں اور منحرف ہی رہنا چاہتے ہیں تاریخ اعلان سے ایک سال کے اندر اندر اپنے غیر مسلم ہونے کا باقاعدہ اظہار کر کے ہمارے نظام اجتماعی سے باہر نکل جائیں.اس مدت کے بعد ان سب لوگوں کو جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں مسلمان سمجھا جائے گا.تمام قوانین اسلامی ان پر نافذ کئے جائیں گے.فرائض و واجبات دینی کے التزام پر انہیں مجبور کیا جائے گا اور پھر جو دائرہ اسلام سے باہر قدم رکھے گا اسے قتل کر دیا جائے گا.اس اعلان کے بعد انتہائی کوشش کی جائے کہ جس قدر مسلمان زادوں اور مسلمان زادیوں کو کفر کی گود میں جانے سے بچایا جا سکتا ہے بچا لیا جائے.پھر جو کسی طرح نہ بچائے جاسکیں انہیں دل پر پتھر رکھ کر ہمیشہ کے لئے اپنی سوسائٹی سے کاٹ پھینکا جائے اور اس عمل تطہیر کے بعد اسلامی سوسائٹی کا آغاز صرف ایسے مسلمانوں سے کیا جائے جو اسلام پر راضی ہوں لے ،، ل مرتد کی سز ا صفحہ ۸۱،۸۰

Page 128

۱۲۱ مذہب کے نام پرخون اس اقتباس میں میرا بس اتنا تصرف ہے کہ نوٹس والے حصے کو تحریر سے پیوستہ لکھنے کی بجائے الگ پہرا بنا کر لکھا گیا ہے ورنہ مضمون اور الفاظ من وعن مودودی صاحب کے ہی ہیں.دیکھئے اس اصلاح خلق کے تصور میں کس قدر بچگانہ خوش فہمی پائی جاتی ہے.جیسے کوئی جنوں پر یوں کی دنیا میں بس رہا ہو.حکومت نہ ہوئی الہ دین کا چراغ ہو گیا اور اصلاح خلق نہ ہوئی برف کے محل کی تعمیر ہو گئی لیکن اگر واقعی ایسا ہی ہے اور حکومت الہ دین کا چراغ ہی ہے اور اصلاح خلق برف ہی کا محل ہے جس کی تعمیر اس چراغ کے جن کے لئے مشکل نہیں تو میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ چراغ کھویا گیا؟ مجھے اس وقت انبیاء گذشتہ کا بہت خیال آرہا ہے.کتنے ہی ان میں سے ایسے تھے جن کی ساری زندگی سخت مظلومی کی حالت میں کئی.کاش ان کو بھیجتے وقت بھی خدا تعالیٰ یہ چراغ ان کے ہاتھوں میں تھما دیتا! کچھ ان کے دکھ دور ہوتے کچھ دنیا کے دلدر تاریکیاں چھٹ جاتیں اور ہر طرف ہدایت کا نور بکھر جاتا.یہ اقتباس پڑھنے کے بعد میرا یہ قیاس اور بھی قوی ہو گیا ہے کہ مودودی صاحب نے بچپن میں ضرور مارکس یا لین کے اردو تر جمے پڑھے ہیں اور روسی انقلاب کی تاریخ بھی دیکھی ہے جن سے ان کی طبیعت میں بہت ولولے پیدا ہوئے ہیں اور نئے نئے خیال دل میں آئے ہیں کہ اچھا یوں بھی ہوسکتا ہے؟ گذشتہ مصلحین تو پھر یونہی بھولے بھٹکے رہے یہ نہ کسی سے ہوا کہ ایک انقلابی پارٹی بنالیتا جس کا نعرہ یہ ہوتا کہ ہم آئے تو اصلاح کرنے ہی ہیں مگر یہ سمجھنے کے لئے زیادہ غور کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اصلاح خلق کی کوئی اسکیم بھی حکومت کے اختیارات پر قبضہ کئے بغیر نہیں چل سکتی“.الہذا اس پارٹی کے لئے حکومت پر قبضہ کئے بغیر کوئی چارہ نہیں لے ،، چنانچہ ہم پہلے حکومت پر قبضہ کریں گے اس کے بعد تمہاری اصلاح کا کام شروع کریں گے اور تم دیکھو گے کہ حکومت ہاتھ آتے ہی ہم مار مار کر تمہارے دلوں کو کیسا صاف اور ستھرا کر دیتے ہیں.اس ذکر میں مجھے قرآن کریم اور مولانا کے درمیان ایک اور اختلاف یاد آ گیا.قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ جب اصلاح کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو پھر سختی کا وقت شروع ہوتا ہے اور جب سختی کا وقت شروع ہو جاتا ہے تو پھر اصلاح کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.فرعون امنتُ آمَنتُ کہتا ڈوب گیا مگر لے حقیقت جہاد صفحہ ۵۹

Page 129

۱۲۲ مذہب کے نام پرخون اس کا ایمان قبول نہ ہوا.اسی مضمون کو دوسری جگہ قرآن کریم یوں بیان فرماتا ہے :.فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَفِرُونَ (المؤمن : ٨٦) لیکن جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے تو ان کے ایمان نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہ دیا.کچھ یہ خدا کی سنت ہے جو اس کے بندوں کے بارہ میں چلی آتی ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں کا فر گھاٹے میں پڑ گئے.مودودی نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے اور اس نظریہ کے مطابق ڈنڈا پہلے ہے اصلاح بعد میں ہے.بلکہ حقیقی ایمان تو نصیب ہی اس وقت ہوتا ہے جب تلوار دلوں کے زنگ دور کر دے.یہ بحث تو خیر یونہی ضمنا نکل آئی ذکر یہ ہو رہا تھا کہ مودودی صاحب کے یہ تصورات کہاں سے آئے ہیں.قرآن کریم سے اگر نہیں تو پھر کہیں سے تو آئے ہیں یا محض اپنی ہی ایجاد ہے؟ مشکل یہ ہے کہ ایجادا سے ہم کہ نہیں سکتے کیونکہ اس قسم کے اصلاحی تصورات پہلے ہی سے دنیا میں موجود ہیں.دیکھنا صرف یہ باقی تھا کہ کہاں موجود ہیں.چنانچہ اس ضمن میں جو کچھ مجھے معلوم تھا وہ تحریر کر دیا.اب آخر پر میں اس رد عمل کو لیتا ہوں جو مولانا کے مندرجہ بالا مجوزہ انقلابی اعلان کو پڑھ کر مختلف طبائع پر ہو سکتا ہے.ایک تاثر تو وہی ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کر دیا ہے یعنی انسان اسے زیادہ سے زیادہ ایک معمر بزرگ کا بچپن سمجھ سکتا ہے لیکن اس کے علاوہ میں سوچتا ہوں کہ بفرض محال اگر واقعی کوئی ایسا انقلابی دن کسی بدقسمت ملک نے دیکھا تو اس اعلان کو پڑھنے کے بعد لوگوں کا رد عمل کیا ہو گا.میرا خیال ہے موٹی طبیعت کے اجڈ قسم کے آدمی تو یہ اعلان پڑھ کر قاصد کے منہ پر ماریں گے کہ جاؤ جاؤ بڑے آئے ہو اصلاح کرنے والے کہیں کے.خدائی فوجدار بنے پھرتے ہو.تمہیں کس نے ٹھیکہ دیا ہے میرے مذہب کا؟ گھر جا کر بیٹھو اور اگر پھر اس طرف کا رخ کیا تو....یہ وہی طبقہ ہے جس سے متعلق غالب کہتا ہے کہ 66

Page 130

۱۲۳ مذہب کے نام پرخون رندان در میکدہ گستاخ ہیں زاہد زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں کے یہ طبقہ میں سمجھتا ہوں کہ مزید مہلت دیئے بغیر اسی وقت حکومت کے رجسٹروں میں ” کا فر“ شمار کر لیا جائے گا.دوسرا ایک بڑا طبقہ میرے خیال میں ایسا ہو گا جو ایک سال سخت پریشانی کے عالم میں مبتلا رہنے کے بعد جز یز تو بہت ہو گا مگر آخر غیر مسلم ہونے کا اعلان کر دے گا.یہ مؤخر الذکر طبقہ وہ ہے کہ جس کا پہلا رد عمل عام طور پر جان بچانے کے خیال کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے.یہ وہی طبقہ ہے جس سے متعلق مودودی صاحب کو یہ خوف ہے کہ اگر فوری طور پر مرتد کی سز اقتل قرار دے دی گئی تو یہ فوراً منافق مسلمان بن جائے گا.اب رہا میرا رد عمل تو میں ابھی سے کھول کھول کر بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تو اس اعلان میں غیر مسلم“ کے الفاظ سے آپ کی مراد یہ ہے کہ کوئی مسلمان آپ کے مخصوص عقائد کو ماننے سے انکار کر دے اور آپ کے استبداد کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے لئے ہر گز تیار نہ ہو.اگر کفر سے یہ مراد ہے کہ کوئی محبت کرنے والا اپنے محبوب آقا کی طرف پھینکے جانے والے اس مکر وہ الزام کو ٹھوکر میں مارے کہ آپ نے معجزات اور قوت قدسیہ کی ناکامی کے بعد تلوار کے زور سے اسلام کو پھیلا یا تھا تو پھر مجھے آج ہی ” زمرہ کفار میں لکھ لیجئے.اور بخدا اگر اس کفر کی سز ا سوسائٹی سے کاٹ پھینکا جانے کی بجائے سولی پر لٹکایا جانا بھی ہو اور ایک ملک کا اقتدار ہی نہیں روئے زمین کی ساری طاقتیں بھی آپ کی مٹھی میں جمع ہو جائیں اور ہولناک مظالم کے بھتنے آپ کی انگلیوں اور پلکوں کے اشاروں پر ناچنے لگیں تو بھی میرا جواب یہی ہوگا کہ بعد از خدا بعشق محمد محمد محترم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم خدا تعالیٰ کے بعد میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں.اگر کفر یہی ہے تو خدا کی قسم ! میں سخت کافر ہوں.

Page 131

۱۲۴ مذہب کے نام پرخون قربان تست جان من اے یار یار محسنم با من کدام فرق تو کر دی کہ من کنم ے میرے یار محسن! تجھ پر میری جان قربان ہو تو نے لطف و احسان میں کب مجھ سے کوئی فرق کیا ہے جو میں کروں.در گوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کسے کہ لافِ تعشق زند منم ہاں اے میرے پیارے رسول ! اگر تیرے کوچہ میں عشاق کا سر قلم کرنے کا ہی دستور ہو تو وہ پہلا شخص جو نعرہ عشق بلند کرے گا میں ہوں گا میں ہوں گا!

Page 132

۱۲۵ احرار علماء میدان عمل میں ایک واقعاتی جھلک مولانا مودودی کے اقتدار کا خواب تو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا مگر اُن کے نظریات کی تشہیر نے اور ان کے ہمنوا بعض اور علماء کی آتش نوائیوں نے آج سے چند سال پہلے پاکستان کو اس خواب کی تعبیر کی ایک جھلک دکھائی تھی مذہب کے نام پرخون

Page 133

مذہب کے نام پرخون فسادات کا مقصد اور طریق کار بدقسمتی سے اس زمانہ کے بعض علماء کے دلوں میں ایسی سختی آچکی ہے کہ وہ انسانیت کی اعلیٰ اقدار رحمت اور شفقت، ہمدردی اور خلوص کے ان جذبات سے بالکل عاری ہو چکے ہیں جو ہر سچے مذہب کی روح رواں ہوا کرتے ہیں.یہاں نام بنام ایسے تمام علماء کے مذہبی تصورات کی تفاصیل میں جانے کا موقع نہیں.یہ علماء جب ان ذاتی نظریات کو اسلام کی طرف منسوب کر کے لاعلم عوام میں پھیلاتے ہیں تو ہر طرف فتنہ وفساد اور شرانگیزی کا ایک طوفان بے تمیزی برپا ہو جاتا ہے.۱۹۵۳ء کا سال پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک تاریک سال کے طور پر لکھا جائے گا.یہ وہی سال ہے جب کہ بعض دینی علماء کو اپنے دینی افکار کو عملی جامہ پہنانے کا خوب دل کھول کر موقع ملا تھا.ان کا اسلامی تصور جو پہلے ان کے سینوں کی کوٹھڑیوں میں مقید تھا اور ملکی قوانین کی زنجیروں میں پابند رہا کرتا تھا ان سب قیدوں سے آزاد ہو کر اور انسانیت اور تہذیب اور شرافت کے سب بندھن توڑ کر میدان عمل میں آیا.وہ پنجاب کے طول و عرض میں قریہ قریہ پھرنے لگا.ابتداء مچھپ چھپ کر دن کی روشنی سے گھبراتا ہوا، قانون کی زد سے بدن چراتا ہوا، پھر رفتہ رفتہ کھلتے کھلتے بے باک ہوتا چلا گیا اور مختلف قصبات اور شہروں کے گلی کوچوں میں آزادانہ دندنانے لگا یہاں تک کہ ۶ / مارچ ۱۹۵۳ء کا وہ دن آ گیا جو سال کا سب سے تاریک دن تھا.اگر دن کے پردہ میں کبھی کوئی رات طلوع ہوئی ہے تو یہ وہی رات تھی جو دن کا لبادہ اوڑھے ہوئے چلی آئی تھی.اگر کبھی سورج نے نور کی بجائے ظلمات کی بارش کی ہے تو یہ وہی سورج تھا جو تاریکیاں بکھیر تا ہوا افق مشرق سے سراٹھارہا تھا.یہ نور کی کرنیں نہیں تھیں بلکہ درد و الم کے تیر تھے.یہ آسمان سے اتر نے والی ضیاء بارشعاعیں نہیں تھیں

Page 134

۱۲۷ مذہب کے نام پرخون بلکہ ظلم وستم کی پر چھائیاں تھیں جو ایک جھوٹی چمک کے ساتھ سینوں اور دلوں کو برما رہی تھیں.یہ وہی منحوس دن تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے تحقیقاتی عدالت کے فاضل حج یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ 66 اس دن کے واقعات کو دیکھ کر سینٹ بارتھولومیوڈے یاد آتا تھالے “ سینٹ بارتھولومیوڈے“ فرانس کی تاریخ کا وہ دن ہے جس کے ذکر سے آج بھی فرانس شرماتا ہے یہ وہ دن ہے جس کا چہرہ رات کی طرح سیاہ تھا.یہ وہ رات تھی جب ملک کے رومن کیتھولک مذہبی راہنماؤں اور بادشاہ وقت کی باہمی سازش سے پروٹسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھنے والے کمزور اور بے کس عیسائیوں کا ایک سفاکانہ قتل عام کیا گیا اور اس بے دردی سے ان کو مارا گیا کہ اہل فرانس ہی نہیں انسان بحیثیت مجموعی اس کے ذکر سے شرمانے لگتا ہے.اس دن کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر ولیم ہاوٹ اپنی کتاب ” ہسٹری آف پریسٹ کر یفٹ ان آل ایجر“ میں لکھتے ہیں :.قاتلوں کے شور، مظلوموں کی آہ وفغاں اور زخمیوں کی چیخ و پکار سے قیامت بر پاتھی.مقتولوں کے جسم کھڑکیوں سے باہر پھینکے اور بازاروں میں سڑکوں پر گھسیٹے گئے اور اس سلسلہ میں بچوں اور بوڑھوں مردوں اور عورتوں میں کوئی امتیاز روا نہ رکھا گیا.ان کے ناک کان وغیرہ کاٹے گئے اور یہ سب کچھ خدا کی عزت و عظمت کو قائم کرنے کے لئے کیا گیا.چنانچہ فاضل جوں کی رائے میں ۶ / مارچ ۱۹۵۳ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں سینٹ بار تھولومیوڈے کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ :.لے انسانوں کے بڑے بڑے مجمعوں نے جو معمولی حالات میں معقول اور سنجیدہ شہریوں پر مشتمل تھے ایسے سرکش اور جنون زدہ ہجوموں کی شکل اختیار کر لی تھی جن کا واحد جذ بہ یہ تھا کہ قانون کی نافرمانی کریں اور حکومت وقت کو جھکنے پر مجبور کر دیں.اس کے ساتھ ہی معاشرے کے ادنی اور ذلیل عناصر موجودہ بدنظمی اور ابتری سے فائدہ اٹھا کر جنگل کے درندوں کی طرح لوگوں کو قتل کر رہے تھے.ان کی املاک کولوٹ رہے تھے اور ۱۹۵۳ء کے فسادات کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۷۱

Page 135

۱۲۸ مذہب کے نام پرخون قیمتی جائداد کو نذرآتش کر رہے تھے محض اس لئے کہ یہ ایک دلچسپ تماشہ تھا ( کیا اسی قسم کا تماشہ جیسے رومن امراء کالیسیم میں بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے؟ ناقل ) یا کسی خیالی دشمن سے - ،، بدلہ لیا جار ہا تھا.پوری مشینری جو معاشرہ کو زندہ رکھتی ہے پرزہ پرزہ ہو چکی تھی لے ایک مسلمان کے دل میں اس دن کے ہولناک واقعات پر نظر ڈالتے ہی معاخیال پیدا ہوگا کہ جب اسلام بلا شبہ امن اور محبت کی تعلیم دیتا ہے تو پھر ایسا کیوں ہوا اور کیوں مذہبی راہنماؤں کے ایک مخصوص گروہ نے یہ قابل شرم حالات پیدا کر دیئے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم کی پیش کردہ مذہبی تاریخ سے ثابت کیا جا چکا ہے اس قسم کے فتیح افعال کبھی بھی مذہب کی خاطر نہیں کئے جاتے بلکہ مذہب کے نام پر کئے جاتے ہیں.مذہب تو ایک قربانی کا بکرا ہوا کرتا ہے جو بدنامی کے داغ تھوپنے کے لئے استعمال ہوتا ہے پس پردہ مقاصد ہمیشہ کبھی تو اقتدار کی ہوس اور کبھی لیڈری کی خواہش کبھی نام و نمود اور کبھی بغض اور حسد ہوتے ہیں.چنانچہ ۱۹۵۳ء کے فسادات کی چھان بین کے بعد تحقیقاتی عدالت کے فاضل جج بھی اسی قطعی نتیجہ تک پہنچے کہ احرار علماء نے مذہب کے نام پر جو غیر مذہبی افعال کئے ان کی اغراض بھی کچھ اور تھیں.چنانچہ اسی ذکر میں وہ لکھتے ہیں:.احرار کے رویہ کے متعلق ہم نرم الفاظ استعمال کرنے سے قاصر ہیں.ان کا طرز عمل بطور خاص مکروہ اور قابل نفرین تھا اس لئے کہ انہوں نے ایک دنیاوی مقصد کے لئے ایک مذہبی مسئلہ کو استعمال کر کے اس مسئلہ کی توہین کی ہے “.ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کریں اور پاکستان کے استحکام کے متعلق عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچا ئیں.اس شورش کا مقصد واضح ہے کہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر فرقہ واراختلاف کی آگ کو بھڑ کا یا جائے اور مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کر دیا جائے گے ،، تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۹۳ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۲۷۸،۲۷۷ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۵۰ 66

Page 136

۱۲۹ مذہب کے نام پرخون پس پاکستان کے دو منصف مزاج فاضل ترین ججوں کے فیصلہ کے مطابق جس تک وہ نہایت غور و خوض اور چھان بین کے بعد پہنچے :.اسلام ان کے لئے ایک حربہ کی حیثیت رکھتا تھا جسے وہ کسی سیاسی مخالف کو پریشان کرنے کے لئے جب چاہتے بالائے طاق رکھ دیتے اور جب چاہتے اٹھا لیتے.کانگرس کے ساتھ سابقہ پڑنے کی صورت میں تو ان کے نزدیک مذہب ایک نجی معاملہ تھا اور وہ نظریہ قومیت کے پابند تھے لیکن جب وہ لیگ کے خلاف صف آراء ہوئے تو ان کی واحد مصلحت اسلام تھی جس کا اجارہ انہیں خدا کی طرف سے ملا ہوا تھا.ان کے نزدیک لیگ اسلام سے بے پرواہ ہی نہ تھی بلکہ دشمن اسلام بھی تھی.ان کے نزدیک قائد اعظم ایک کافر اعظم تھے لے ،، پھر فرماتے ہیں :.یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اب احراریوں نے احمدیوں کے خلاف نزاع کو اپنے اسلحہ خانہ سے ایک سیاسی حربے کے طور پر باہر نکالا اور جو واقعات اس کے بعد پیش آئے وہ اس امر کی بین شہادت ہیں کہ وہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے نہایت فہیم و چالاک ہیں.انہوں نے سوچا کہ اگر عوام کے جذبات کو احمدیوں کے خلاف برانگیختہ کر دیں گے تو کوئی ان کی مخالفت کی جرات نہیں کرے گا اور ان کی اس سرگرمی کی جتنی بھی مخالفت کی جائے گی اسی قدر وہ ہر دل عزیز اور مقبول عام ہو جائیں گے اور بعد کے واقعات سے یہ ثابت ہو گیا کہ ان کا یہ مفروضہ بالکل صحیح تھائے “ پس بلا شبہ یہ ثابت ہے کہ از منہ گزشتہ کی طرح ۱۹۵۳ء میں بھی جو فساد برپا کیا گیا وہ مذہب کے نام پر تو ضرور تھا مگر مذہب کی خاطر نہ تھا اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک دین اس سے کلیہ بری الذمہ ہے.یہاں یہ اہم سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ مخصوص را ہنما کس طرح ایک قلیل التعداد فرقہ کے رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۲۷۳،۲۷۲ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۲۷۵

Page 137

مذہب کے نام پرخون خلاف اس قدر خوفناک آتش غیظ و غضب بھڑکانے میں کامیاب ہو گئے کہ فاضل جوں کو اس پر ایک نظر ڈالنے سے سینٹ بارتھولومیوڈے کی یاد آ گئی.تو اس اہم سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بعینہ اسی طرح ہوا جس طرح ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اور تاریخ مذاہب کا ہر خونی باب جس میں کی ہولی کھیلنے والوں کے طریق کا تذکرہ موجود ہے ، اس موضوع پر بڑی وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالتا ہے.اس طریق کار کی ایک جھلک تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں بھی نظر آتی ہے.فاضل جج اسی طریق کار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزام لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلہ میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خاں نے جنہیں قائد اعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے لیکن عدالت ہذا کا صدر ( سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور حال وزیر قانون مرکز یہ مملکت پاکستان ) جو اس کمیشن کا مبر تھا اس بہادرانہ جدو جہد پر تشکر وامتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خاں نے گورداسپور کے معاملہ میں کی تھی.یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر وباہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات سرانجام دیں ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک، ناشکرے پن کا بین ثبوت ہے لے “.ان علماء کی طرف سے احمدیت پر بس یہی ایک بے بنیاد الزام نہیں لگایا گیا بلکہ جھوٹے پرا پیگینڈے کا ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا گیا اور ہر حادثہ اور ہر سازش کو جماعت احمدیہ پر تھوپا جانے لگا.جنگ شاہی کے دردناک حادثہ کی ذمہ داری بھی احمدیوں پر ڈالی گئی اور راولپنڈی کی سازش بھی احمدیوں کی طرف ہی منسوب کی گئی ! خان لیاقت علی خان کے ناپاک قتل کا الزام بھی مظلوم احمد یوں ا تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۲۰۹ "

Page 138

مذہب کے نام پرخون کے سر ہی دھرا گیا اور کبھی انہیں ہندوستان کا جاسوس کہا گیا اور کبھی ان پر گندے اخلاقی الزام لگائے گئے اور کبھی پاکستان کا غدار بتایا گیا اور افتراء اور ظلم کی کوئی حد نہ رہنے دی.یہاں تک کہ احمدیوں پر یہ طومار بھی باندھا گیا کہ ہم نعوذ باللہ اپنے محبوب ترین نبی ، اپنے مقدس آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں اور آپ کو گالیاں دیتے ہیں مگر منصف جج صاحبان نے جب الزامات کی گہری چھان بین کی تو صورت حال کو بالکل برعکس پایا.چنانچہ جنگ شاہی کے حادثہ سے متعلق وہ مسٹر انور علی ڈی.آئی.جی ہی.آئی.ڈی کا یہ تبصرہ نقل فرماتے ہیں کہ :.دو یہ بیان بالکل جھوٹ ہے کہ جنگ شاہی یا لاہور چھاؤنی کے ہوائی حادثوں میں مرزائیوں کا ہاتھ تھا کیونکہ جنگ شاہی کے حادثہ میں جو اشخاص ہلاک ہوئے ان میں جنرل شیر خان تھے جو خود مرزائی تھے.احرار کی تقریریں صرف زہریلی ہی نہیں بلکہ 66 ناشائستہ اور مکروہ ہیں لے ،، راولپنڈی سازش سے متعلق فاضل ججوں نے لکھا:.مولوی محمد علی جالندھری نے ۱۵ را پریل ۱۹۵۱ء کومنٹگمری کا نفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اس امر کی تحریری شہادت موجود ہے کہ راولپنڈی سازش سے احمدیوں کا تعلق موجود ہے، یہ بلاشبہ مہمل بات تھی.پھر فرماتے ہیں:.وو یہ واضح طور پر نفرت کی تلقین تھی اور نفرت بھی نہایت مکر وہ قسم کی کیونکہ نہ تو مولوی محمد علی ایسے اہم تھے کہ ایسی شہادت ان کے قبضہ میں ہوتی اور نہ کوئی تحریر اس کے بعد مقدمہ سازش کے ٹربیونل کے سامنے پیش کی گئی لیکن اس قسم کی شبہ انگیز خبر نہایت آسانی سےلوگوں کے دماغوں میں گھر کر لیتی ہے ہے “.پھر خان لیاقت علی خان کے قتل کا الزام احمدیوں پر دھرتے ہوئے :.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۲۱ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۳۲۹

Page 139

۱۳۲ مذہب کے نام پرخون وو قاضی احسان احمد شجاع آبادی نے یہ کہہ دیا کہ قائد ملت کے قتل میں (جو گزشتہ 66 اکتوبر میں ہوا تھا ) احمدیوں کا ہاتھ تھالے “.مگر اس الزام کا بودا پن ایسا ظاہر و باہر تھا کہ فاضل جوں نے اس پر محض یہ طنز یہ فقرہ چست کرنا ہی کافی سمجھا کہ:.ان لوگوں کی تعریف کرنی پڑتی ہے کہ یہ تمام قومی مصائب کی تحقیقات کے گمشدہ سلسلے دریافت کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں کے “ پھر مظفر گڑھ کی ایک تقریر میں ایک نہایت مشہور احراری لیڈر نے جواب اس جہان سے کوچ کر چکے ہیں احمدیوں پر بہتان باندھا کہ :.’ ایک احمدی جاسوس ایک شخص کو پال داس کی معیت میں گرفتار کیا گیا ہے اور میں 66 نے حکومت کو اس سلسلہ میں عمدہ معلومات مہیا کی ہیں سکے ،، اس الزام کو اپنی رپورٹ میں درج فرما کر فاضل ج تحریر فرماتے ہیں:.کیا عام سیدھے سادے لوگ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ بزرگ جو اپنی کہن سالی کے بوجھ سے زیر بار ہونے کے باوجود شمشیر کی طرح تیز ہے گوپال داس کے ساتھی کے متعلق ایسی کہانی تصنیف کرے گا جس کو سچائی سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ؟ اگر یہ سچ ہو تو کیا اس سے غداروں کے خلاف شدید جذبات مشتعل نہ ہوجائیں گے؟ اگر آپ یہ جانتے ہوئے کہ اس تقریر کی بناء جھوٹ پر ہے اس کو نظر انداز کر رہے ہیں تو یہ مقرر کے سفید بالوں کا احترام تو شائد ہولیکن آپ اس مرض سے تغافل کر رہے ہیں جو اس نے آپ کی 66 قوم میں پھیلا دیا ہے کے “ چنانچہ بڑے بڑے سفید ریش احرار علماء سٹیجوں پر چڑھ کر جھوٹ پر جھوٹ بولنے لگے اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۳۶ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۳۳۵ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۳۳ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۳۳۰

Page 140

مذہب کے نام پرخون الزام پر الزام تراشنے لگے اور :.جتنا وقت گزرتا گیا تقریروں کا لہجہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا..احرار نے اپنی پوری توجہ احمدیوں کی بدگوئی پر مرتکز کر دی اور نہایت شرمناک دشنام طرازی کا آغاز کر دیا لے “.احرار کی جن تقاریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسٹر انور علی نے نہایت شرمناک دشنام طرازی کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ان کا پورا تعارف اس مختصر تعریف میں نہیں ہوسکتا بلکہ حقیقہ وہ ایسی انسانیت سوز ہیں کہ ایک عام انسان سے متعلق بھی اگر وہ الفاظ استعمال کئے جائیں جو مقدس بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ سے متعلق کئے گئے تو کوئی شریف انسان انہیں سننے کی تاب نہیں لاسکتا اور تمام احرار لیڈر بشمولیت مولوی محمد علی جالندھری و ماسٹر تاج الدین انصاری و ابوذر بخاری اس دشنام طرازی اور بدکلامی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے لگے اور تعجب ہے کہ پھر بھی اسی نبیوں کے سردار کی جانشینی کا دعویٰ کرتے تھے جس کی زبان کوثر و تسنیم کی طرح پاک اور صاف اور شریں تھی اور جس کی تعلیم یہ تھی کہ :.وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام:١٠٩) خبر دار ) ان معبودان باطلہ کو (بھی) گالیاں نہ دو جنہیں یہ لوگ خدا کے سوا شریک ٹھہرا رہے ہیں مبادا یہ اپنی جہالت سے خدا کو برا بھلا کہنے لگ جائیں“.مگر یہاں تو کوئی باطل معبود بھی مقابل پر نہیں تھا بلکہ اسلام کا ایک ایسا فدائی تھا جس نے ,, 66 اپنی ساری زندگی خدمت اسلام میں صرف کر دی اور جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے خدا کے فرمان کے مطابق مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ کیا اور جس کا فخر صرف یہ تھا کہ وہ احمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہے اور اسی کے دین کی اشاعت کے لئے مبعوث ہوا ہے.ہاں یہ جنگ انسانیت شرمناک دشنام طرازی اسی مرزائے قادیان سے متعلق کی گئی جس کی جان عشق محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں گداز رہا کرتی تھی اور جو کبھی تو سوز محبت سے بے قرار ہو کر اپنے محبوب آقا سے یوں گویا ہوا کرتا تھا کہ:.ے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۲۰ بحوالہ مسٹر انور علی ڈی.آئی.جی سی.آئی.ڈی

Page 141

۱۳۴ مذہب کے نام پرخون جانم فداشوڈ بُره دین مصطفی این است کامِ دل اگر آید میترم میرے دل کی ایک ہی تمنا ہے کہ اگر مجھے موقع میسر آئے تو میری جان محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی راہ میں فدا ہو.اور کبھی در دفراق سے بے تاب ہو کر اپنی قلبی کیفیات کا اظہار یوں کرتا تھا کہ:.أَنْظُرْ إِلَى بِرَحْمَةٍ وَتَحَلُّنٍ يَا سَيِّدِى أَنَا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ يَا حِب إِنَّكَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّةً فِي مُهْجَتِي وَ مَدَارِكِي وَ جَنَانِ مِنْ ذِكْرِ وَجْهِكَ يَا حَدِيقَةً بَهْجَتِي لَمْ أَخْلُ فِي لَحْظُ وَلَا فِي أَن جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيران (ترجمہ) ” میرے پیارے ! میری طرف ایک رحمت اور شفقت کی نظر ڈال.دیکھ میرے آقا! میں تو ایک ادنی غلام ہوں.اے میرے محبوب ! تو اپنی محبت کے ساتھ میری روح اور میرے دل و دماغ میں سرایت کر گیا ہے.اے میری مسرتوں کے باغ! میں تیری یاد سے کسی آن اور کسی لحظہ بھی خالی نہیں رہتا.گویا میرا جسم ایک شوق غالب کے ساتھ تیری سمت اڑا چلا جا رہا ہے.اے کاش اڑنے کی طاقت ہوتی ! اے کاش اڑنے کی طاقت ہوتی.!! اسی خاتم النبیین کے فدائی اور آپ کے متبعین کے متعلق احرار را ہنماؤں نے فحش کلامی کو اپنی انتہاء تک پہنچادیا اور ہر وہ گندی گالی جو پنجاب کی گلیوں میں سنائی دی جاسکتی ہے آپ کو دی

Page 142

۱۳۵ مذہب کے نام پرخون جانے لگی یہاں تک کہ فاضل ججوں نے جب ان کے بعض اقتباسات احرار اخبارات اور پولیس رپورٹوں میں ملاحظہ کئے تو ایک خاص تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے وہ یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ:.ایک اردو اخبار مزدور ملتان سے شائع ہوتا ہے جس کا ایڈیٹر سید ابوذر بخاری ہے جو مشہور احراری لیڈر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بیٹا ہے اس نے اپنی اشاعت ۱۳ رجون ۱۹۵۲ء میں ایک مضمون شائع کیا جس میں جماعت احمدیہ کے امام کے متعلق عربی خط میں ایک ایسی پست اور بازاری بات لکھی کہ ہماری شائستگی ہمیں اس کی تصریح کی اجازت نہیں دیتی.اگر یہ الفاظ احمدی جماعت کے کسی فرد کے سامنے کہے جاتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ کسی کی کھوپڑی تو ڑ دی جاتی تو ہمیں اس پر ذرا بھی تعجب نہ ہوتا جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ پر لے درجے کے مکروہ اور مبتذل ذوق کا ثبوت ہے اور ان میں اس مقدس زبان کی نہایت گستاخانہ تضحیک کی گئی ہے جو قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے لے “ پس یہی وہ طریق کار ہے جس کے ذریعے ان راہنماؤں نے مغربی پاکستان کے طول و عرض میں احمدیوں کے خلاف مخالفت کی ایک آگ بھڑکا دی اور خود جلتے ہوؤں کا تماشا کرنے کے لئے کنارے بیٹھ رہے اور جیسا کہ دنیا کا دستور ہے مسلمان شرفاء کی اکثریت اگر چه سخت نفرت اور ناپسندیدگی کے ساتھ اس ” خدمت اسلام کو دیکھتی رہی مگر سخت مجبور و ناچار تھی کیونکہ یہ شرفاء جانتے تھے کہ علماء ایک لمبے عرصہ کی کھلی بدزبانی کے زور سے ( جسے یہ زور خطابت کا نام دیتے تھے ) عامی جذبات میں سخت ہیجان پیدا کر چکے ہیں اور آج ہر وہ شخص جو اس ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کرے گا خود بھی اسی ظلم و استبداد کا نشانہ بن جائے گا.یہ کوئی فرضی خوف نہیں تھا بلکہ عملاً ایسا ہوتا بھی رہا.چنانچہ ایک موقع پر جبکہ ایک غیر احمدی منصف مزاج پولیس افسر نے ایک ہنگامہ آرائی کو روکنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف بھی افتراء پردازی اور اشتعال انگیزی کا ایک ہنگامہ گرم کر دیا گیا اور پولیس کے خلاف یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ :.پولیس نے رضا کاروں کو منتشر کرتے ہوئے قرآن مجید کی توہین کی.اس کو ٹھوکریں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۸۷

Page 143

مذہب کے نام پرخون لگائیں.اس کے اوراق پھاڑ دیئے اور ایک چھوٹے سے لڑکے کو ہلاک کر دیا.دہلی دروازہ کے باہر جلسہ ہوا جس میں ایک لڑکا پیش کیا گیا جو اپنے ہاتھوں میں قرآن مجید کے چند پھٹے ہوئے اوراق لئے ہوئے تھا.اس نے بیان کیا کہ میں کلام الہی کی اس تو ہین کا عینی گواہ ہوں.ایک مولوی نے (غالباً مولوی محمد یوسف صاحب) یہ اوراق ہاتھ میں لے کر حاضرین کو دکھائے اور ایک نہایت پر تشدد تقریر کی جس سے غصہ سے بھرا ہوا مجمع اور بھی زیادہ غضبناک ہو گیا.واقعہ کی یہ بناوٹی کہانی ہر جگہ جوش میں بھرے ہوئے لوگوں کا موضوع گفتگو بن گئی اور چند ہی گھنٹوں کے اندر جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی جس سے پولیس کے خلاف غیظ ونفرت کے جذبات برانگیختہ ہو گئے لے “.اور صرف جذبات ہی برانگیختہ نہیں ہوئے بلکہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق:.اسی غلط افواہ سے اشتعال کے نتیجہ میں سید فردوس شاہ ڈی.ایس.پی کی وفات کا حادثہ ہوا.ان پر چھروں اور لاٹھیوں سے حملہ کر کے وہیں ہلاک کیا گیا.سید فردوس شاہ کے جسم پر ۵۲ زخموں کے نشان تھے کے “.یہ تھا ان مذہبی راہنماؤں کا طریق کارجو خدا تعالیٰ کے سب سے سچے بندے اور راستبازوں کے سردار حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے لے کر اور آپ کے قرآن کو ہاتھوں میں تھامے ہوئے دنیا میں جھوٹ کی اشاعت کر رہے تھے اور صرف احمدی ہی ان کی مشق ستم کا نشانہ نہیں بنے بلکہ ہر وہ شریف النفس اور جرات مند پاکستانی بھی ان کی افتراء پردازی کا شکار ہونے لگا جس نے ان کی اس بے راہ روی کے خلاف آواز اٹھائی اور ہر وہ پولیس کا سپاہی جو ان کی راہ میں حائل ہونے لگا ان کی اینٹوں کا نشانہ بن گیا اور یہ صورت حال اتنی شدید ہوگئی کہ شرفاء میں اس کے خلاف آواز اٹھانے تک کی سکت باقی نہ رہی.چنانچہ فاضل جج اپنی رپورٹ میں گوجرنوالہ کی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۵۸ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۶۰

Page 144

مذہب کے نام پرخون ” جب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ٹرین کو روانہ کر دینے کی دوسری کوشش کی تو ان پر حملہ کر دیا گیا جس سے دو چار اور پولیس مین زخمی ہو گئے جن میں ایک انسپکٹر بھی تھا اسی دن شام کو پانچ ہزار کے ایک جوش میں بھرے ہوئے ہجوم نے ریلوے اسٹیشن سے کچھ فاصلہ پر سندھ ایکسپریس کو روک لیا.سپر نٹنڈنٹ پولیس چھ پیادہ کانسٹیبلوں کو ساتھ لے کر اس مقام پر پہنچے مگر ان پر اینٹوں اور پتھروں کی بوچھاڑ کی گئی.چونکہ اس وقت اندھیرا ہو چکا تھا اور اگر ہجوم منتشر نہ ہوتا تو تشدد پر اتر آتا اور ٹرین کے مسافروں کی پریشانی کا باعث ہوتا.اس لئے سپر نٹنڈنٹ پولیس نے تین پیادہ کانسٹیبلوں کو حکم دیا کہ بارہ راؤنڈ ہوا میں چلائیں.اس سے ہجوم منتشر ہو گیا اور کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہوا اور اس کے بعد معززین شہر کا ایک اجلاس ریلوے اسٹیشن پر طلب کیا گیا.اگر چہ ان میں سے ہر ایک اس غنڈے پن کی مذمت کر رہا تھا لیکن کسی قسم کی عملی امداد کرنے پر آمادہ نہ تھا کہ مبادا وہ کافر یا مرزائی قرار دیا جائے لے “.یہ خوف کوئی فرضی خوف نہیں تھا اور عملی امداد کرنے کی سزا بڑی سنگین تھی.چنانچہ تحقیقاتی عدالت کے جج اسی قسم کے ایک جرات مندانہ اظہار شرافت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.اسی شام کو ایک غیر احمدی عبدالحی قریشی کو جس نے ہجوم کو تشدد سے منع کیا تھا زدوکوب کیا گیا اور اس کا گھر لوٹ لیا گیاہے “.یہی وجہ تھی کہ بعض ایسے غیر جانبدار اخبارات بھی جو اس غیر اسلامی ہنگامہ کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اس کے خلاف جرات مندانہ اظہار رائے سے گریز کرتے رہے.چنانچہ جب صورت حال کو قابو سے نکلتے دیکھ کر حکومت نے آخر کچھ مضبوط اقدام کرنے کا فیصلہ کیا اور ہوم سیکرٹری نے بعض اخبارات کے ایڈیٹروں کو بلوا کر انہیں اس امر پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ نفاذ قانون کے سلسلہ میں حکومت کی کوششوں کی تائید کریں تو مسٹر حمید نظامی نے جو اس وقت نوائے وقت کے ایڈیٹر تھے.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۸۲ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۷۷

Page 145

۱۳۸ مذہب کے نام پرخون یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر وہ اپنے اخبار میں اس خیال کا اظہار کریں گے تو حکومت اور مسلم لیگ کے منظور نظر اخبارات اپنی اشاعت بڑھانے کے لئے سب سے پہلے انہیں 66 احمدی قرار دے کر نشانہ ملامت بنا ئیں گے لے “، پس یہی وہ خوف تھا جس نے پاکستان کے طول و عرض میں شرفاء کی آواز کا گلا گھونٹ رکھا تھا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا.یہ خوف غالب آتا چلا گیا اور احتجاج کی آواز دیتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ صوبہ سرحد کے سوا تقریباً تمام مغربی پاکستان احرار کے چنگل میں آگیا اور خدمت اسلام کے حیرت انگیز کارنامے دنیا کو دکھائے جانے لگے.صوبہ سرحد ان کی زد سے محض اس لئے بچا کہ اس صوبہ کی حکومت ایک مضبوط حکومت تھی اور قانون کے آہنی شکنجہ کی پکڑ بہت سخت تھی.اور مشرقی بنگال اس سے اس لئے محفوظ رہا کہ اس حصہ ملک کے علماء اور عوام اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے عام طور پر مذہبی معاملات میں گالی گلوچ اور بازاری تقریروں کو بالکل پسند نہیں کرتے بلکہ الا ماشاء اللہ دلائل کی دنیا تک اپنے اختلافات کو محدود رکھنے کے عادی ہیں.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۳۷۳

Page 146

۱۳۹ مذہب کے نام پرخون خدمت اسلام کی بعض جھلکیاں تمام انبیاء اور ان کی پاک جماعتوں نے صداقت کو پھیلانے کے لئے اپنے اپنے رنگ میں جدو جہد کی ہے اور ان کی کوششوں کا ذکر تمام کتب مقدسہ میں آج تک محفوظ ہے خصوصاً قرآن کریم نے ان کے طریق تبلیغ اور ان ذرائع کی نہایت ہی صاف اور پاکیزہ تصویر کھینچی ہے جنہیں وہ دنیا کو ہدایت اور نور کی طرف بلانے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں اور اس تصویر کشی میں ایک ایک نقش ایسا روشن اور اجا گر کر دیا ہے کہ گویا آج ان مقدس لوگوں کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اشاعت دین میں مصروف دیکھ رہے ہوں.آپ ان سب کے حالات پر ایک نگاہ ڈالئے اور پھر اس خدمت اسلام“ کی طرف بھی ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھئے جسے ۵۳ - ۱۹۵۲ء کی تحریک ختم نبوت“ کے بانی مبانی خدا تعالیٰ اور اس کے بزرگ ترین رسول خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے نام پر بجالا رہے تھے.تحقیقاتی عدالت کے فاضل جج اپنی رپورٹ میں ان کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.۲۵ جولائی ۱۹۵۲ ء کو قصور میں نماز جمعہ کے بعد ایک جلسہ ہوا جس کے مقررین میں ایک عالم شاہ بدمعاش بھی تھا.اس کے بعد چھاتی پیٹتا ہوا ایک جلوس نکالا گیا ایک آدمی نعرہ لگاتا تھا ظفر اللہ کنجر اور دوسرے آواز ملا کر چلاتے تھے ”ہائے ہائے“.اس کے بعد عالم شاہ اور ایک اور آدمی کہیں سے ایک گدھی لے آئے جس پر بیگم ظفر اللہ کے الفاظ لکھ دیئے.پھر اس پر ایک آدمی کو سوار کرایا اور اس آدمی کو جوتیوں کا ہار پہنا دیا.یہ شخص ٹاپ ہیٹ سر پر رکھے تھا جس پر غلام حمد مرز الکھا تھا.یہ جلوس احمدیوں کے ایک کارخانہ کے سامنے رکا اور پندرہ منٹ تک یہ نعرہ لگا تا رہا ”مرزائیت کو تباہ کرو.

Page 147

ظفر اللہ کنجر ظفر اللہ کتا ” ظفر اللہ سور“ 66 مذہب کے نام پرخون خدارا اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ ہمارے مقدس آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق تبلیغ سے اس طریق کو کوئی دور کی بھی نسبت ہے؟ ہر سچا مسلمان بلکہ ہر سلیم الفطرت انسان کا دل یہ گواہی دے گا کہ نہیں یقینا نہیں.یقیناً نہیں.یقینا نہیں.ظلمت کو بھی نور سے اتنی دور کی نسبت نہیں جتنی اس طریق تبلیغ کو ہمارے آقا کے پاکیزہ طریق سے تھی.پھر دل کیوں خون کے آنسو نہ روئے یہ سوچ کر کہ اسلام کا یہ مذاق کسی دشمن اسلام نے نہیں اڑایا بلکہ ان لوگوں نے اڑایا جو علمائے اسلام ہونے کے دعویدار تھے.چنانچہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسٹر انور علی ڈی.آئی.جی نے لکھا کہ:.”مذہبی جنونیوں اور مولویوں نے طاقت پکڑ لی ہے اور غنڈے بھی میدان میں کود پڑے ہیں.،، کیا اس کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ انبیاء سے مل سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء اور ان کے حامیوں نے غنڈوں کی حمایت حاصل کر کے خدمت دین کے لئے کوئی اس نمونہ کا جلوس نکالا ہو؟ کیا مذہب کے تصور کی اس سے زیادہ تحقیر ممکن ہے؟.....مگر یہ تو اس قسم کے سینکڑوں مظاہروں میں سے صرف ایک ادنی سا نمونہ ہے.جوں جوں وقت گزرتا گیا علماء کی تقریریں زیادہ اشتعال انگیز ہوتی چلی گئیں اور بے شمار سینوں میں آتش غیظ و غضب بھڑ کنے لگی اور وہ کثیر التعداد لاعلم عوام جنہیں اپنے آقا کے اسوہ حسنہ کی کچھ بھی خبر نہ تھی ان علماء کے بتائے ہوئے طریق پر ” خدمت اسلام میں مصروف ہو گئے اور ہر اس نیک رسم کی بیخ کنی کی جانے لگی جسے دنیا میں قائم کرنے کے لئے عرب کے افق سے وہ بے مثال نور کا سورج ابھرا تھا.چنانچہ سیالکوٹ کا اسی قسم کا ایک مشتعل ہجوم :.منڈیروں پر سے اینٹیں پھینکنے لگا جن کی وجہ سے پولیس نے ان گاڑیوں کے پیچھے پناہ لی جو دار الشہابیہ کے سامنے سٹرک پر کھڑی تھیں.خشت باری کی وجہ سے ڈسٹرکٹ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۳۵۶ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۲۵۶

Page 148

۱۴۱ مذہب کے نام پرخون مجسٹریٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور اسسٹنٹ سپر نٹنڈنٹ پولیس کے چوٹیں آئیں.ایک ،پولیس کے چوٹیں آئیں سب انسپکٹر پولیس کے چھرا گھونپ دیا گیاہے “.اور اسی شہر میں ایک اور مقام پر :.تیسرے پہر ہجوم نے ایک اے ایس آئی اور ایک کانسٹیبل پر یورش کی.اے ایس آئی کاریوالور اور کانسٹیبل کی بندوق چھین لی اور ان کی وردیاں جلا دیں.ایک اور پیادہ کانسٹیبل کسی کیس کی مملوکات لئے جار ہا تھا اس پر حملہ کیا گیا اور مملوکات چھین لی گئیں.دو احمد یوں 6 کے چھرا گھونپ دیا اور تین دوسرے احمدیوں کے مکان لوٹ لئے گئے ہے ،، جب انسان ان حالات کو پڑھتا ہے تو بے اختیار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایک اے.ایس.آئی اور ایک کانسٹیبل پر یورش سے اسلام نے کس میدان میں فتح حاصل کی ؟ اور ان دو احمد یوں اور اس انسپکٹر پولیس کے خون سے جن کو چھرا گھونپا گیا اسلام کی رگوں میں کون سا تازہ خون دوڑنے لگا؟ اور اس لوٹے ہوئے مال سے جو ان تین احمدیوں کے گھروں سے لوٹا گیا اسلام کے خزانوں میں آخر کیا اضافہ ہوا ؟ اور کیا اسلام کا خدا واقعی عرش سے اس ماجرا کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا جو دار الشہابیہ کی گلیوں میں گزرا؟ اور وہ پتھر جو دار الشہابیہ کے بالا خانوں سے چند مسلمان پولیس افسروں پر برس رہے تھے کیا واقعی رضائے الہی کے جذب کرنے والے پتھر تھے؟ ایک انسان یہ سوچنے پر بے اختیار مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا نعوذ باللہ سید ولد آدم کا طریق تبلیغ بھی اسی طریق کے مشابہ تھا؟ مگر اس مقام پر انسان کا فکر طائف کی گلیوں سے ٹکرا کر ناکام و نامراد واپس آجاتا ہے اور اسے اس نظارہ کی کوئی نظیر بھی آنحضرت کی مقدس زندگی میں نظر نہیں آتی.اگر وہ کچھ دیکھتا ہے تو یہی کہ خدا کا وہ سب سے پیارا رسول نہتہ اور یکہ و تنہا، ایک بے پناہ عزم اپنے دل میں لئے اپنے رب پر توکل کرتے ہوئے عرب کی سنگلاخ ترین زمین پر آباد ایک بدقسمت بستی میں اس امید پر داخل ہوتا ہے کہ شاید یہ لوگ اس آسمانی پیغام کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں جسے مکہ کے سرکش سرداروں نے ٹھکرا دیا تھا.اس کے ہونٹوں پر کوئی سخت کلمات نہیں ، اس کے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہیں ، اس کی جھولی ے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۷۶ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۷۸

Page 149

۱۴۲ مذہب کے نام پرخون سنگریزوں سے خالی ہے.اس کے ہونٹوں پر محبت میں ڈوبی ہوئی ابدی صداقتوں اور توحید کالا زوال پیغام ہے اور اس کی جھولی آسمانی رحمتوں سے بھر پور ہے.وہ یہ منادی کرنے آیا ہے کہ اپنے ربّ پر ایمان لے آؤ.وہ انہیں نیک باتوں کا حکم دینے کے لئے آیا ہے اور بری باتوں سے رکنے کی تلقین کرتا ہے.وہ انہیں بڑے پیار سے نصیحت کرتا ہے کہ ظلم اور تعدی سے باز آجاؤ اور غصب اور چوری اور لوٹ مار سے پر ہیز کرو مگر اس رسول کی طرف سے توحید اور سلامتی اور امن کے اس پیغام کوسن کر اس بد بخت بستی کے بدقسمت سردار عبدیالیل کی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور وہ اپنے خداؤں کی یہ ہتک برداشت نہیں کر سکتا اور اپنی آنکھ کے اشاروں سے گلیوں کے اوباش لونڈے اس کے پیچھے لگا دیتا ہے.ان کے ہونٹوں پر غلیظ گالیاں ہیں.ان کے ناپاک ہاتھوں میں پتھر ہیں اور ان کی جھولیاں سنگریزوں سے بھری ہوئی ہیں مگر اس مقدس رسول کا عزم غیر متزلزل ہے اور اپنے انداز تبلیغ سے سرمو بھی انحراف نہیں کرتا.ان بے رحم پتھروں کی چوٹوں سے اس کا انگ انگ دکھنے لگتا ہے اور اس کے دل کے دکھ کا سوائے خدا کے اور کوئی راز دان نہیں.اس کا خون طائف کی گلیوں میں بے محابا بہنے لگتا ہے مگر آسمانی آقا کے سوا کسی کو اس خون کی خبر نہیں جو اس کے دل سے اس غم سے ٹپک رہا تھا کہ کہیں یہ ظالم لوگ اس ظلم سے ہلاک نہ ہو جا ئیں.اور ان سب دکھوں اور گالیوں اور صدموں کے جواب میں جو وہ ان ننگ انسانیت ظالموں کے ہاتھوں سے اٹھاتا ہے اس کے دل اور اس کے دماغ اور اس کی زبان پر ایک ہی دعا جاری اور طاری و ساری ہے کہ اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اے میرے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دے دے کہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ کیا کر رہے ہیں.یہ تھا وہ طریق تبلیغ جسے آپ نے اختیار کیا.مخالف اپنے طریق ظلم وستم پر جمے رہے اور آپ اپنے طریق رحم و شفقت پر قائم - لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِی دِین کی ایک عجیب تصویر نظر آتی تھی.ظالموں پر تو یہ دشت سوار تھی کہ جس طرح بن پڑے آپ کو ہلاک کر دیں اور آپ کو یہ غم تھا کہ کہیں ظالم ہلاک نہ ہو جا ئیں.آپ نے صرف فلاح اور کامرانی کی طرف زبانی دعوت پر ہی اکتفاء نہ کی بلکہ اس راہ میں دن بھر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد ساری ساری رات اپنے

Page 150

۱۴۳ مذہب کے نام پرخون خدا کے حضور روروکر کاٹ دی کہ اللّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لا يَعْلَمُونَ !! یہاں تک کہ اس دردمند دل کے گہرے سوز و گداز کو دیکھ کر خدا تعالیٰ بھی عرش سے پکارا تھا:.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ٤) کہ اے میرے عزیز ترین بندے! کیا تو اس غم میں اپنی جان ہلاک کر دے گا کہ یہ ایمان نہیں لاتے ؟ یہ تھا وہ طریق تبلیغ جو آپ نے اختیار کیا اور یہی وہ دعا ئیں تھیں اور یہی آپ کے سینے کے وہ پر پیچ و تاب غم تھے جو ایک دن عرب کی سرزمین پر خوش خبریاں بن کر ظاہر ہوئے اور بشارتیں بن کر فارس کے افق پر چمکے! جھوٹ کہتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرے آقا کا یہ طریق تبلیغ ضائع گیا اور بہتان باندھتا ہے وہ شخص جس کے نزدیک اس کی سب دردمندانہ دعا ئیں فضا میں پراگندہ ہوگئیں اور دور مظلومیت رائیگاں گیا اور اگر کچھ کام آیا تو تیر کام آئے اور تلواروں نے فائدہ دیا.کاش کہ وہ یہ جانتا کہ گوتیر ہی کام آئے مگر نیم شبی دعاؤں کے وہ تیر جو کبھی خطا نہیں جاتے اور تلواروں ہی نے فائدہ دیا مگر صبر و استقلال ، شرافت و نجابت، براہین اور معجزات کی ان تلواروں نے جن کی دھار قلوب کی اتھاہ گہرائیوں تک مار کرتی ہے.کہاں ہیں وہ علماء جو تاریخ اسلام سے واقفیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہاں ہیں وہ خدام دین جو خدمت اسلام کی تمنائیں لئے ہوئے ہیں؟ کیا کوئی ہے ان میں جو خدمت دین کی ان کٹھن وادیوں کو طے کر سکے جنہیں ہمارے آقا اور اس کے سچے عشاق کی جماعت نے تقریباً چودہ سو برس پہلے طے کر کے دکھایا تھا ؟ کیا کوئی ہے ان میں جو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریق تبلیغ کو اختیار کر سکے جس کا اختیار کرنا ہزار مشقتوں اور لاکھ مصائب و آلام کو دعوت دینا ہے اور اس کی پیروی میں صبر و استقلال، حلم و رشد ، شرافت و نجابت اور رحمت و شفقت کے وہ اعلیٰ نمونے دکھائے جنہوں نے پر وحشت صحرائی دلوں کو بھی رام کر لیا تھا اور جس کے دام محبت میں طائف کا عبد یا لیل بھی آخر اسیر ہوکر رہا.جس کے دشمن فدائی بن گئے اور خون کے پیاسے غلامانِ در

Page 151

۱۴۴ مذہب کے نام پرخون کون ہوتا ہے حریف مئے مردانگن عشق ہے مکر رلب ساقی پہ صلا میرے بعد مگر یہ عجیب بدقسمتی کا دور ہے کہ حریف مئے مرد افگن عشق تو کوئی نہیں ہوتا ہاں اس کیف و مستی کے سب خواہاں ہیں جو صرف اس مئے عشق ہی میں مضمر ہے اور وہ نہیں جانتے کہ امل قوانین قدرت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا.میں اپنے مضمون کے تسلسل کو توڑ کر کہیں اور نکل آیا ہوں.دراصل آج سے چودہ سو برس پہلے کے انداز تبلیغ کی دلنشینی نے مجھے اپنے اندر ایسا جذب کر لیا کہ میں کچھ دیر کے لئے اسلام کے اس شاندار ماضی میں محو ہو گیا جس کی یاد میرا سرمایہ حیات ہے اور بھول گیا کہ میں تو اپنے گرد و پیش کی ، اس ملک کی اور آجکل کی باتیں کر رہا تھا اور زیر نظر وہ طریقہ تبلیغ تھا جس کا نظارہ ہم نے ۱۹۵۳ء میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ذکر ان قافلہ ہائے جور و ستم کا ہو رہا تھا جو ہمارے دلوں کو پامال کرتے ہوئے گزرے تھے.اور جس کی بعض جھلکیاں کچھ اس طرح ہیں:.ایک بڑا ہجوم اس مسجد کی طرف جا رہا تھا اس کو راستے میں روک لیا گیا.کمشنر کی ہدایت کے مطابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ہجوم کو منتشر ہونے کا حکم دیا لیکن وہ افسروں پر پل پڑا.پولیس کو اس ہجوم پر لاٹھی چارج کا حکم دیا گیا جس کے جواب میں آس پاس کے مکانوں سے اینٹیں برسائی گئیں.مسٹر خلیل الرحمن اسسٹنٹ سپر نٹنڈنٹ پولیس کے سر پر شدید زخم آیا اور پولیس کی ایک گاڑی توڑ پھوڑ دی گئی ہے.اور صرف اینٹیں برسانے پر ہی اکتفاء نہیں کی گئی بلکہ علماء کے بتائے ہوئے تبلیغ اسلام کے طریق پر عمل پیرا ہوتے ہوئے:.ے مارچ کو موضع نند پور میں شورش پسندوں کے ایک ہجوم نے ایک شخص محمد حسین کو یہ مجھ کر قتل کر دیا کہ وہ احمدی ہے.تفتیش سے معلوم ہوا کہ متوفی کے ایک دشمن نے اس کو قتل کرانے کے لئے چال چلی تھی کے “.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۷۸ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۸۳

Page 152

۱۴۵ مذہب کے نام پرخون پھر ان مسجدوں کو نذرآتش کرنا بھی تبلیغ اسلام کا ایک جزء سمجھا گیا جومحض اس لئے تعمیر کی گئی تھیں کہ ان میں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کی جائے.چنانچہ راولپنڈی میں :.4 مارچ کو لیاقت باغ میں ایک اور جلسہ منعقد ہوا.ایک ہجوم نے جلسہ کے بعد منتشر ہوکر مری روڈ کا رخ کیا اور احمدیوں کی ایک مسجد کو اور ایک چھوٹی موٹر کار کو آگ لگادی لے “.جب علما ء ہی یہ درس دیتے ہوں کہ خدمت اسلام کا بہترین ذریعہ لوٹ مار اور قتل و غارت ہے تو عوام الناس ثواب کمانے کے لئے ایسے منفر د مواقع بھلا کب ہاتھ سے جانے دیتے ہیں.ایسی خدمت کا موقع بھلا روز روز کہاں میسر آتا ہے کہ دنیا بھی سنور جائے اور عاقبت بھی.چنانچہ مسجد اور کار کو آگ لگانے کے بعد :.اسی شام کو کچھ دیر بعد لوٹ مار اور آتش زنی کے مزید واقعات بھی رونما ہوئے.احمد یہ کمرشل کالج، نور آرٹ پر لیں اور پاک ریسٹوران شہر کے مختلف حصوں میں واقع تھے.لیکن لوگ زبردستی ان میں گھس گئے اور انہوں نے مختلف اشیاء کولوٹنے ، جلانے اور تباہ کرنے کی کوشش کی.ایک غیر احمدی نوجوان نور آرٹ پریس میں ملازم تھا اس کو احمدی سمجھ کر چھر امارا گیا اور وہ اسی زخم کی وجہ سے ہلاک ہو گیاہے “.پھر وہ وقت آیا کہ یہ تبلیغ اسلام کا جذبہ بے پناہ اور بے اختیار ہو گیا اور نظم وضبط کے ہر دائرہ کو توڑ ڈالا.احمدی اور غیر احمدی میں کوئی تمیز باقی نہ رہی اور جاندار اور بے جان کا فرق مٹ گیا.تخریب کی ہر کاروائی اسلام کی فتح متصور ہونے لگی حتیٰ کہ اسی مقدس نام پر بلا امتیاز مذہب معصوم بیبیوں کو بے آبرو کیا گیا.لائل پور میں :.دس ہزار کے ایک ہجوم نے ضلع کی کچہریوں پر حملہ کر دیا.کھڑکیاں توڑ ڈالیں.مجسٹریٹوں کو عدالتیں بند کرنے پر مجبور کر دیا اور پھر ڈپٹی کمشنر کے گھر میں گھس گئے.تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۸۵ رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۸۵

Page 153

۱۴۶ مذہب کے نام پرخون لائل پور کاٹن ملز کی ایک خوردہ فروشی کی دکان لوٹ لی گئی “.(خدا جانے اس کے کتنے معصوم بچوں نے بھوک سے بلک بلک کر وہ رات گزاری ہو گی.کیا یہ سب خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر کیا گیا.ناقل ) ریل کی پٹڑی توڑ دی گئی اور تین ٹرینیں ریلوے اسٹیشن کے قریب روک لی گئیں.ریلوے سٹیشن پر دکانوں اور مسافروں کو لوٹا گیا.ٹرین میں بعض عورتیں بے آبرو کی گئیں اور ایک کیبن مین کو بری طرح زخمی کیا گیاہے “.اور آسمان نے سخت حیرت و استعجاب اور دکھ کے ساتھ یہ نظارہ دیکھا کہ تبلیغ اسلام کا یہ بھی ایک طریق ہے!!! اوکاڑہ بھی اس طرز ستم میں لائل پور سے کچھ پیچھے نہیں تھا جہاں :.تین ہزار کا ایک ہجوم ریلوے سٹیشن پر پہنچا اور اس نے ڈاؤن پاکستان میل کو تین گھنٹے تک روکے رکھا.ہجوم نے ڈبوں کی کھڑکیاں توڑ ڈالیں اور ٹرین کو روکنے والی ویکیوم کی زنجیریں توڑ ڈالیں اور مسافر عورتوں کو بے آبرو کیا گیاہے “.ان واقعات کو نقل کرتے ہوئے جو میرے دل کی کیفیت ہے میں اسے بیان نہیں کر سکتا.وہ الفاظ میرے قبضہ قدرت میں نہیں جو مختلف متلاطم اور متقابل جذبات کے یکجا ہونے کی وجہ سے میرے سینہ کے ہیجان کا نقشہ کھینچ سکیں مگر میں ہر منصف دل سے سوال کرتا ہوں جو دنیا کے کسی بھی مقدس رسول کی طرف منسوب ہوتا ہو کہ کیا کسی ایک رسول کی روح بھی اس تصور سے خوش ہو سکتی ہے کہ اس کے تقدس کے نام پر عورتوں کو بے آبرو کیا جائے؟.....میرے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت ظلم توڑے گئے ہیں مگر شائد یہ ظلم ان سب ظلموں سے بڑھ کر ہے!!! مجھے ان عوام پر غصہ نہیں آتا جن کے ہاتھوں سے یہ ظلم سرزد ہوئے اور ان مسجدوں کے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۸۸ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۱۹۰

Page 154

۱۴۷ مذہب کے نام پرخون جلانے والوں سے کوئی کہ نہیں.چھرا گھونپنے والوں کو بھی میرا دل معاف کر سکتا ہے اور بے اختیار اپنے مطالع کی پیروی میں دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللّهُمَّ اهْدِ قَوْمَنَا فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ”اے اللہ ! ہماری قوم کو ہدایت دے کہ یہ نہیں جانتے“ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر میرے جذبات کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کاخر کنند دعوی حبّ پیمبرم ”اے دل تو ان کی خاطر بھی ملحوظ رکھ کہ آخر یہ لوگ میرے ہی رسول کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں.“ مگر بڑے ہی بھاری عزم کی ضرورت ہے ان علماء کو معاف کرنے کے لئے جو سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو غلط راستوں پر چلانے کے ذمہ دار ہیں اور ان نیک مقاصد کی بیخ کنی کرتے ہیں جن کا پودا اس مقدس رسول نے خود اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا.ہاں ایک تصور ہے جو ہر غصہ کو ٹھنڈا کر رہا ہے اور ایک یاد ہے جو ہر جذ بہ نفرت کو کا لعدم کر رہی ہے.وہ تصور رحمة للعالمین کے پُر رحمت دل کا تصور ہے اور وہ یاد فتح مکہ کے دن کی یاد ہے! یہ تصور اور یہ یاد ہر نفرت اور ہر غصہ کو گداز کر کے ایسے جذبات در دو غم میں تبدیل کر دیتی ہے کہ دل سے آہوں کا دھواں اٹھنے لگتا ہے اور دعائے نیک کے سوا کوئی خواہش باقی نہیں رہتی.خدا جانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے یہ دعائے نیک کس شدت اور کس کرب کے ساتھ اٹھتی ہوگی کہ عرش کا خدا بھی پکارا ٹھا! لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلَا يَكُونُوا مُؤْمِنينَ (الشعراء: ۴) کیا تو ا پنی جان اس غم میں ہلاک کر لے گا کہ یہ ایمان نہیں لاتے !!!

Page 155

۱۴۸ مذہب کے نام پرخون اجتماع ضدین ( ان مخصوص متشد د راہنماؤں کے نظریات ایک عجیب و غریب اجتماع ضدین کا منظر پیش کرتے ہیں.زود رنجی اور سخت بے حسی ، وہمی خطرات کا پیچھا اور حقیقی مخطرات سے لا پروائی ان کی شخصیت کے نمایاں خدو خال ہیں ! ) گزشتہ ابواب کے مطالعہ سے قارئین پر بخوبی واضح ہو چکا ہوگا کہ مذہب کے نام کو بعض خود غرض مذہبی راہنما جس بے دردی سے استعمال کرتے ہیں شاید ہی کوئی اور نام اس بے دردی سے استعمال ہوا ہو.بایں ہمہ مذہب کو ہرگز ان مظالم اور خونریزیوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا جو اس کے نام پر کی جاتی رہی ہیں اور آج بھی کی جاتی ہیں.کیا دیانت کے نام پر اگر بددیانتی کی جائے تو دیانت کے پاکیزہ چہرہ پر کوئی داغ لگ سکتا ہے؟ دراصل انفرادی یا قومی اعمال کسی فرد یا قوم کے ذہنی رجحانات اور قلبی کیفیات کے آئینہ دار ہوا کرتے ہیں.یہ جو ہم اپنے گردو پیش میں معاشرہ کی تصویر دیکھتے ہیں یہ ہمارے ہی تصورات اور اخلاق کے خدو خال ہیں اور بحیثیت قوم ہمارے باطن کا وہ عکس ہے جو آئینہ قدرت ہمیں دکھا رہا ہے.جس قدر کسی قوم کا باطن پاک وصاف ہو گا اور جیسے جیسے قومی اخلاق پر صفات الہی کا رنگ چڑھتا جائے گا اُسی قدر یہ تصویر زیادہ جاذب نظر اور دلکش بنتی چلی جائے گی.یہ تصویر خود بخود قوم کے اخلاق بننے اور بگڑنے کے ساتھ ساتھ بنتی اور بگڑتی رہتی ہے اور قومی اخلاق کے بننے اور بگڑنے میں مذہبی علماء کے اخلاق کا غیر معمولی دخل ہوا کرتا ہے.بڑی ہی قابل رشک اور خوش قسمت ہوتی ہے وہ قوم جس کے راہنماؤں کے اخلاق تقوی اللہ کی مضبوط اور غیر متزلزل چٹان پر قائم ہوں اس کے سوا ہر دوسری بنیاد نا قابل اعتماد ہے اور وہ قوم بڑی ہی بدقسمت ہوا کرتی ہے جس کے راہنماؤں کی اخلاقی اور نظریاتی عمارت اس چٹان پر قائم نہ ہو اور وہ عدل اور انصاف، امانت اور دیانت، وسیع

Page 156

۱۴۹ مذہب کے نام پرخون حوصلگی اور علم کی اعلیٰ صفات سے عاری ہو چکے ہوں.کیا اس سے بڑھ کر بھی کسی مذہبی قوم پر کوئی ادبار آ سکتا ہے کہ اس کے راہنما تنگ نظر اور بے حوصلہ ہو جائیں اور اپنے باہمی اختلافات میں میزانِ عدل سے کام لینا ترک کر دیں؟ جن نظریات کو قائم کرنے کے وہ دعویدار ہوں خود اپنے اعمال سے انہی کی بیخ کنی کر رہے ہوں.اگر ایسا ہو تو اس قوم کے دن لکھے جاتے ہیں.ایسی قوم یقیناً بد قسمت ہوتی ہے اور ان کے علماء ایسی روحانی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو دن بدن بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں.ان کے دل و دماغ کو ایک گھن سا لگ جاتا ہے جو اندر ہی اندر ان کی صلاحیتوں کو چاٹ جاتا ہے اور تمام نظام عقل و خرد کو مفلوج کر دیتا ہے.خود غرضی ان کی پہچان ہوتی ہے اور تنگ حوصلگی طرہ امتیاز.ہر دوسرے شخص کے عقائد پر یہ خدائی فوجدار بن کر نگران ہو جاتے ہیں اور خدا کی غلامی کے نام پر یہ دنیا کو اپنے نظریات کی غلامی پر مجبور کرتے ہیں.ان کی طبیعت سخت متضاد خصوصیات کی حامل ہوتی ہے اور ایک طرف تو کسی دوسرے فرقہ کے ائمہ اور بزرگان سے متعلق سخت گندی اور ننگ انسانیت زبان استعمال کرنے سے بھی ان کے نزد یک کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی اور دوسری طرف اُن باتوں پر بھی بھڑک اٹھتے ہیں جو ان کے لئے باعث انبساط ہونی چاہیے تھیں.چنانچہ یہ بے دھڑک مخالف فرقوں کے بزرگان پر گند اچھالتے ہیں بلکہ ان کی مقدس ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں سے متعلق بھی نہایت نا پاک حملے کرنے سے باز نہیں آتے اور یوم آخرت کو بالکل بھلا بیٹھتے ہیں.اگر چہ نقل کفر کفر نباشد کا مقولہ درست ہے مگر پھر بھی میری بساط سے باہر ہے کہ میں اس زبان کے چند نمونے یہاں پیش کر سکوں جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں.اگر قارئین کو ذاتی طور پر کسی ایسی تقریر سننے کا یا ایسی کتاب پڑھنے کا تلخ تجربہ نہیں ہوا اور وہ اس بارہ میں کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہوں تو تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں وہ اس مذہبی طرز کلام کے چند نمونے ملاحظہ فرما سکتے ہیں.ہر چند کہ فاضل ججوں کا قلم بھی اس قبیل کی تمام ہرزہ سرائیوں کو نقل کرنے کا متحمل نہیں ہوسکا.بہر کیف ایک طرف تو ان کا احساس اتنا کند ہو جاتا ہے کہ ہر قسم کی شدید ترین دل آزاری اور بہتان طرازی ان کے نزدیک ایک اظہار واقعی بن جاتا ہے اور وہ عام انسانی شرافت سے بھی بہت

Page 157

مذہب کے نام پرخون نیچے اتر آتے ہیں اور دوسری طرف ان کے جذبات اس قدر زود حس اور بھر کیلے ہو جاتے ہیں کہ بعض فرقوں کی مسجدوں کی تعمیر بھی برداشت نہیں ہوتی اور جلتی پر تیل کا کام کر جاتی ہے.پھر ان کی آتش غضب نہیں ٹھنڈی ہوتی یہانتک کہ وہ مسجد نظر آتش یا مسمار نہ کر دی جائے اور یہاں اور وہاں سمندری یا راولپنڈی یا سرگودھا میں ایک یا دو مسجد میں گرا کر یا جلا کر وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی ایک عظیم الشان خدمت سر انجام دی ہے اور ان کے دلوں میں اس فتح عظیم کے نقارے بجنے لگتے ہیں.ایک طرف تو وہ ان تمام خطرات سے یکسر آنکھیں موند لیتے ہیں جو ایک مدت سے اسلام کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اور اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی اس شدت سے اس مظلوم مذہب پر حملہ آور ہیں کہ ان کے خیال سے بھی ایک صاحب دل مسلمان کی راتوں کی نیند حرام ہو جانی چاہئیے اور دوسری طرف بعض وہمی اور غیر موجود خطرات کے پیچھے اس جوش و خروش کے ساتھ پڑے ہوئے ہیں جیسے کوئی بھوت کے تصور کے پیچھے لٹھ لے کر بھاگ رہا ہو اور کہے کہ میں دم نہیں لوں گا اور چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کہ اے میرے تصور کے بھوت ! میں لاٹھیوں سے مار مار کر تیرا کچومر نہ نکال دوں.چنانچہ وہ روز مرہ کی زندگی میں اپنے شہروں میں، اپنے قصبات میں ، اپنے گاؤں کی گلیوں میں بلکہ ان گھروں میں بھی دیکھتے ہیں جن میں وہ رہتے ہیں کہ بد دیانتی قوم میں اس طرح سرایت کر گئی ہے جیسے سمندر میں ڈوبے ہوئے سوت کے کپڑے میں پانی (سوائے ان کے جو تقویٰ اللہ کا لباس اوڑھے ہوئے ہوں اور ہر قسم کے شیطانی نفوذ سے پاک ہوں ) وہ رشوت ستانی کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن پاتے ہیں اور چوری اور ڈا کہ اور ظلم اور بدنظری اور بے حیائی کوگھل کھیلتا ہوا دیکھتے ہیں اور اسلام پر یہ ظلم ان کی نظروں کے سامنے ان کی سماعت کی حدود میں ان کے آگے اور ان کے پیچھے، ان کے دائیں اور ان کے بائیں توڑے جاتے ہیں.وہ مسجدوں کو ویران پاتے ہیں اور دلوں کو خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد سے خالی دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ مذہبی دنیا نہایت سرعت کے ساتھ لامذہبیت کی طرف دوڑی چلی جارہی ہے اور شوریدہ سری اور دہریت کا سیلاب ہے کہ امڈتا چلا آتا ہے.وہ مذہب کی سرزمین کو کناروں سے کاٹتا ہوا اور گھاؤ ڈالتا ہوا لحظہ لحظہ آگے بڑھ رہا ہے اور اہل مذہب کی زمین چاروں طرف سے دن بدن سمٹتی اور تنگ ہوتی چلی جاتی ہے.

Page 158

۱۵۱ مذہب کے نام پرخون وہ یہ سب کچھ دیکھتے ہیں لیکن ناموسِ مذہب اور احیائے دین کے لئے رگِ حمیت جوش میں نہیں آتی اور امت محمدیہ کی اخلاقی تعمیر نو کے لئے وہ ذرہ بھی درد دل محسوس نہیں کرتے.محض خشک فتووں پر اکتفاء ہے.حالانکہ یہ گھٹن وہ گھن ہے جس نے اسلام کے جسم کو ایک کرم خوردہ لکڑی کی طرح کھوکھلا کر رکھا ہے! حق تو یہ تھا کہ وہ ان خوفناک بیماریوں سے مسلمانوں کو نجات دلانے کے لئے مستعد اور کمر بستہ ہو جاتے اور اس راہ میں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کی کچھ پرواہ نہ کرتے.سخت کرب اور اضطراب اور گہرے دکھ اور جذبہ ہمدردی کے ساتھ وہ لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے.وہ اپنے آقا کی امت کے بیمار افراد سے کم از کم ویسی ہی محبت کا اظہار کرتے جیسی ایک ماں اپنے بیمار بچے سے کرتی ہے.دیکھو وہ اس کو بچانے کیلئے ہر امکانی کوشش کرتی ہے کبھی ڈاکٹروں کی طرف دوڑتی ہے، کبھی حکیموں کے دروازے کھٹکھٹاتی ہے اور کبھی اپنے بچے کو چھاتی سے لگا کر اس کی بلائیں لیتی ہے.اور اگر ایسی ہی نادار ہو کہ علاج کے لئے کوئی پیسہ نہ رکھتی ہو تو فاقے کاٹ کر یا بھیک مانگ کر بھی اپنے جگر گوشے کے لئے دوا لے آتی ہے اور دن کی تھکی ہاری راتوں کو بھی چین سے نہیں سوتی اور آنکھ لگ بھی جاتی ہے تو خوف وہر اس سے بار بار ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتی ہے اور بچہ پر ہراساں اور ترساں نگاہیں ڈالتی ہے اور جب اس کی بے قراری کو دیکھ کر کسی پہلو قرار نہیں آتا تو روتی اور گڑ گڑاتی ہوئی سجدے میں جا گرتی ہے کہ اے میرے آقا! اے میرے آقا! مجھ سے تو کچھ بن نہیں پڑتا ، میں تو بے بس ہوئی جاتی ہوں، تو ہی فضل فرما اور میرے بلکتے ہوئے لال کو شفا دے دے !!! یہی جذبہ ہمدردی ہے جو قوموں کی شفایابی کا موجب بنتا ہے اور اکھڑے ہوئے سانسوں کو قائم کر دیتا ہے، جو اخلاق کی بجھتی ہوئی شمعوں کو پھر روشنی بخشتا ہے اور مذہب کے مٹتے ہوئے نقوش کو پھر سے اجاگر کر دیتا ہے.اس کے سوا کوئی چارہ نہیں.کوئی بھی تو چارہ نہیں.یہی وہ جذبہ محبت ہے جو بنی نوع انسان کی ہمدردی میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے سینوں میں موجزن رہا اور یہی وہ جذبہ محبت ہے جو عرب کے ایک اقی نبی کے دل سے رحمتوں کا سر چشمہ بن کر پھوٹا اور ایک عالم کو سیراب کر گیا.اور وہ آسمانی پانی یہی ہے جس نے صدیوں کے

Page 159

۱۵۲ مذہب کے نام پرخون گندے دلوں کی میل کو اس طرح الگ کر دیا جیسے بھٹی گندے کپڑوں سے میل کاٹ کر الگ پھینک دیتی ہے لیکن افسوس ہے کہ اس طرف کسی کی نگاہ نہیں اٹھتی اور دل سخت ہو گئے.درد میں ڈوبی ہوئی تقریروں کی جگہ خشمگی فتووں نے لے لی اور سینہ دعا سے اس طرح خالی ہو گیا جیسے وہ گھونسلہ جسے پرندہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ گیا ہو.کچھ تو وہ ہیں جو ناصح ہونے کا دعوی ہی ترک کر بیٹھے اور خدائی فوجدار بن کرامت کی اصلاح کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور کچھ وہ ہیں جو ناصح تو رہے مگر نصیحت کے اطوار بدل دیئے.سخت کلامی ان کا شیوہ ہو گیا اور جبر و تشدد ذرائع اصلاح.اور کسی نے پلٹ کر نہ دیکھا کہ کیا کبھی پہلے بھی ان راہوں پر چل کر بنی نوع انسان کی اصلاح ہوئی تھی ؟ افسوس کہ دراصل اسلام کی سچی محبت ہی باقی نہیں رہی ورنہ ممکن نہ تھا کہ یہ دردناک منظر دیکھ کر علماء کے دل پگھل نہ جاتے.کوئی ویرانی سی ویرانی ہے کہ چاروں طرف مذہب کی روح پسپا ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور لامذہبیت کی موت دلوں پر قبضہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے مگر علماء ان حالات سے صرف نظر کئے ہوئے اسی ڈگر پر چلے جاتے ہیں اور اپنی روش پارینہ کو بدلنے کے لئے تیار نہیں.انہیں کون سی زبان سمجھائے کہ روحانیت کی دنیا میں سخت کلامی اور تشددکا سکہ نہ کبھی پہلے چلا تھا، نہ آج ، نہ کبھی آئندہ چلے گا لیکن برا ہو اس کم مائیگی کا کہ روحانیت کی دنیا میں چلنے والے سکوں سے تو ان کا دامن ہی تہی ہے.ہرایسی بے لوث خدمت اسلام ان پر دوبھر ہے جس کے سرے پر اقتدار، ذاتی منفعت یا نام ونمود کے طعے نہ لگے ہوں اور ہر مشکل کام پر ان کا اجتماع مشکل ہے.آج ایک با نگ تکفیر کے سوا اور کوئی بانگ انہیں میدانِ عمل میں ایک ہاتھ پر جمع نہیں کر سکتی ! بیرونی حملے یہ تو اندرونی حملوں کا حال ہے اور بیرونی حملوں کی یہ کیفیت ہے کہ چھوٹے چھوٹے کمزور مذہب بھی جنہیں ہم دیر ہوئی مردہ سمجھ کر پیچھے چھوڑ آئے تھے وہ گو یا مردوں میں سے جی اٹھے ہیں اور بپھرے ہوئے شیروں کی طرح اسلام پر حملے کر رہے ہیں.عیسائیت کو ہی دیکھ لو کہ جس کے عقائد کی بنیا د سخت کمزور اور کھوکھلے مفروضوں پر مبنی ہے اور جس کے دعاوی متضاد اور باہم دگر دست بگریباں ہیں اسلام کے خلاف دنیا کے کونے کونے میں اعلانِ جنگ کر رہی ہے.گیدڑ تو شیروں کی طرح دندناتے پھرتے ہیں اور شیر گیدڑوں کی طرح کھو ہوں

Page 160

۱۵۳ مذہب کے نام پرخون میں دبکے بیٹھے ہیں.عیسائی پادریوں نے اسلام اور اسلام کے مقدس رسول کے خلاف اتنی کتا بیں شائع کی ہیں کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی بھی اتنی تعداد نہیں ہے اور وہ ہر زاویہ سے ہر تیکھے ہتھیار کے ذریعہ اسلامی عمارت کی ایک ایک اینٹ پر ضر میں لگا رہے ہیں.وہ آنحضرت کی مقدس ذات پر بھی حملہ آور ہیں اور امہات المؤمنین پر بھی سخت نا پاک حملے کرتے ہیں.وہ اسلام کو ایک جابر اور قاہر مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں اور قرآن کریم کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دل کی گھڑی ہوئی باتیں قرار دیتے ہیں.ان کا علم تاریخ بھی اسلام پر حملہ آور ہے اور علم فلسفہ بھی.ان کا علم منطق بھی اسلام پر حملہ آور ہے اور علم طبیعات بھی اور ان کی تہذیب نے اسلامی تہذیب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہیں مگر افسوس ہے کہ ہمارے علماء کو اس خطرہ پر بھی کوئی آگا ہی نہیں اور اگر ہے تو جواب کی طاقت نہیں پاتے سوائے اس کے کہ حکومت سے مطالبہ کریں کہ اس ملک میں ان کا فروں کی تبلیغ کو بزور بند کر دیا جائے.یہ نہیں سوچتے کہ آخر کہاں کہاں اور کس کس ملک میں ان کی تبلیغ کو بزور بند کروا سکیں گے اور مغربی تہذیب اور علوم وفنون کے چور دروازوں پر وہ کون سے پہرے بٹھا ئیں گے جو بزور شمشیر شکوک کے ریلے کو مسلمانوں کے دل تک پہنچنے سے روک دیں.اور کیا صرف دفاع پر ہی اسلام کے احیاء کی ضمانت لی جا سکتی ہے؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ ابھی تک دنیا کی بھاری اکثریت اسلام کے نام سے بے بہرہ ہے.ابھی تو بر صغیر ہندو پاکستان میں ہی اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہوا.ابھی تو ہمیں امریکہ کو بھی اسلام کا پیغام دینا ہے اور روس کو بھی ، چین کو بھی اور جاپان کو بھی.ایشیا کے اکثر ممالک بھی ابھی تک اسلام سے کوسوں دور ہیں اور افریقہ کی بھی کثیر آبادیوں کو اسلام کی خبر نہیں اور براعظم آسٹریلیا میں تو مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.پس کیا اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے ضروری نہیں کہ ان دور دراز پھیلی ہوئی وسیع آبادیوں کو اسلام کا پیغام پہنچایا جائے اور ان جہل اور لاعلمی کے تہہ در تہہ پردوں کو اٹھادیا جائے جو دنیا کی آنکھ اور اسلام کے حسین چہرہ کے درمیان صدیوں سے حائل پڑے ہیں.اور مغرب کے دل کو بھی فتح کر کے اپنے آقا کے قدموں میں لا ڈالا جائے اور مشرق کے دل کو بھی.اور کیا اسلام کی سر بلندی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ اپنی مسجد اور قباؤں کی محدود حدود میں

Page 161

۱۵۴ مذہب کے نام پرخون بیٹھ کر عبادت کے تمام ظاہری ارکان کو ایک غیر روحانی سختی کے ساتھ ادا کر دیا جائے؟ مگر افسوس کہ ان بیرونی خطرات کی طرف بھی ان علماء کی آنکھ نہیں اٹھتی اور اندرونی خطرات کی طرف بھی نہیں اور اگر اٹھتی ہے تو سخت تھکی اور ہاری ہوئی مایوس نگاہ یا ایک ایسی لاتعلق خالی نظر جو کسی خطرہ کے ادراک کی طاقت نہ رکھتی ہو.یہ مطلق اس امر کا خیال نہیں کرتے کہ آج جبکہ اسلام کو سخت اندرونی اور بیرونی خطرات درپیش ہیں جو اسلامی جسم کے ایک ایک عضو، ایک ایک بند ، ایک ایک جوڑ پر چوٹیں لگا رہے ہیں اور کتنے ہی وحشی درندے ایک عرصہ گذر گیا کہ اسلام کی رگِ جان سے خون چوس رہے ہیں ان کے نزدیک صرف ایک ہی خطرہ اسلام کو لاحق ہے.یہ خطرہ فرقہ ہائے اسلام میں پائے جانے والے مختلف عقائد کا خطرہ ہے.کہیں تو شیعہ عقائد کا خطرہ بن کر ظاہر ہوتا ہے کہیں سنی عقائد کا ہوا بن کر نکلتا ہے کبھی یہ بریلوی عقائد کے وحشت ناک حلیے میں نظر آتا ہے کبھی یہ اہلحدیث یا اہل قرآن کے عقائد کے ڈراؤنے خواب بن کر راتوں کی نیند حرام کرتا ہے.گو یا خطرہ صرف ایک ہی ہے جو ہزار بھیس بدلتا ہے.یعنی اسلام کو صرف اسلام سے خطرہ ہے.جہاں تک احمدی عقائد کا تعلق ہے اس خطرہ نے تو گو یا آفت ڈھا رکھی ہے اور اس طرح ہر سمت سے ان علماء کوگھیر لیا ہے جیسے ایک ڈراؤنا خواب ایک بچہ کے دل کو گھیر لیتا ہے اور وہ اپنے تصور میں ان وہمی بلاؤں سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے اور نہیں جانتا کہ حقیقی خطرہ ان خوابوں سے نہیں بلکہ اس سانپ سے ہے جو اس کے دل کے قریب گنڈل مارے بیٹھا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ بچہ تو نیند کی حالت میں ہوتا ہے اور یہ جاگے ہوئے ہیں اور بچہ تو ڈرانے والی صورتوں سے ڈرتا ہے اور یہ ان صورتوں سے ڈر رہے ہیں جو ان کے لئے ترقی اور اسلام کے احیائے نو کا پیغام لے کر ابھری ہیں.صرف اسی پر بس نہیں بلکہ جان بوجھ کر ان صورتوں کی طرف وہ نقوش منسوب کرتے ہیں جن کے تصور سے انہیں ڈر محسوس ہو.چنانچہ احمدی لاکھ کہیں اور خدا کا مقدس نام لے لے کر قسمیں کھا ئیں کہ ہم اپنے محبوب ترین آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین یقین کرتے ہیں اور تمام انبیاء سے افضل اور برتر جانتے ہیں.آپ کے دام محبت میں سرتا پا گرفتار ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ آپ کی شریعت آخری اور کامل اور تمام بنی نوع انسان اور ہر زمانہ کے لئے ہے مگر یہ علماء نہیں مانتے اور

Page 162

۱۵۵ مذہب کے نام پرخون اس کے بالکل برعکس خیالات منسوب کر کے ہمیں بھیانک صورت میں دیکھنے کے خواہشمند ہیں.یہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے اس بیان کی طرف بھی مطلق نگاہ نہیں کرتے کہ :- ”ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیاوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالی اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے ،، سیدنا ومولانا سید الکل وافضل الرسل حضرت خاتم النبین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کون سا درجہ باقی ہے.سو واضح ہو کہ وہ ایک اعلیٰ مقام اور برتر مرتبہ ہے جو اُسی ذات کامل الصفات پر ختم ہو گیا ہے جس کی کیفیت کو پہنچنا بھی کسی دوسرے کا کام نہیں چہ جائیکہ وہ کسی اور کو حاصل ہو سکے گے ،، ختم نبوت کے مسئلہ پر تفصیلی بحث کا یہاں موقع نہیں جو دوست اس بارہ میں جماعت احمد یہ کے مسلک سے واقفیت حاصل کرنا چاہیں وہ کسی وقت بھی سلسلہ کے مرکز سے لٹریچر منگوا کر تفصیلی اور یقینی معلومات حاصل فرما سکتے ہیں.مگر میں ضمناً یہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ ہم اس خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے اور جو ہر چیز پر قادر ہے کہ ہم حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو اس مقام سے ایک ذرہ بھی زیادہ یا کم نہیں سمجھتے جو مقام حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے آنے والے بادی ، مہدی اور مسیح کو دیا ہے.ہمارے اور ہمارے دوسرے بھائیوں کے درمیان اس مسئلہ میں صرف اتنا فرق ہے کہ وہ جس مہدی اور مسیح کی آمد کے انتظار میں ہیں ہمارے نزدیک وہ مہدی اور مسیح آچکا.اب ظاہر ہے کہ اگر اس آنے والے کی ا ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷۰،۱۶۹ توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲

Page 163

مذہب کے نام پرخون انتظار سے ختم نبوت کی مہر نہیں ٹوٹتی تو اس کی آمد پر ایمان لانے سے وہ مہر کس طرح ٹوٹ سکتی ہے؟ اور یہ تمام جھگڑا بس اسی بات پر پکایا جاسکتا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم نبوت کی آیت ہوتے ہوئے بھی آنے والے مسیح کو بی اللہ کہا اور آپ ختم نبوت کی مہر توڑنے والے نہ ہوئے تو اس صادق و امین کے اس بچے کلام پر ایمان لانے والا کس طرح اس مقدس مہر کو توڑنے والا قرار پایا؟ حیرت ہے اور پھر حیرت ہے.....مگر یہ بحث اس مضمون سے الگ ہے اور میں یہاں ایک محال مفروضہ کے طور پر یہ کہتا ہوں که اگر احمدی ختم نبوت کے منکر بھی ہوں ( نَعُوذُ بالله من ذلك) تو کیا اسلام کو یہی ایک خطرہ در پیش ہے اور احمدیوں کے قتل و غارت سے کیا عیسائیت کی یلغار رک جائے گی؟ اور چہار دانگ عالم میں کیا اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے گا ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی صداقت اور دیانت کے معیار پھر کل عالم اسلامی میں قائم ہو جائیں گے اور کیا مسلمانوں کے اس کے بعد باہم تمام اختلافات مٹ جائیں گے اور علماء تکفیر بازی ہمیشہ کے لئے ترک کردیں گے؟ کیا شیعہ سنی پھر بھائی بھائی بن جائیں گے اور بریلویوں اور دیو بندیوں کے جھگڑے قیامت تک کے لئے طے ہو جائیں گے؟.اور کیا احمدیوں کے قتل و غارت کے بعد ڈاکہ، چوری اور رشوت ستانی کی لعنتیں ہمیشہ کے لئے اسلامی ممالک کو خیر باد کہہ دیں گی؟ مسجدمیں پھر سے آباد ہوں گی اور تہذیب نو کے بداثرات سے سوسائٹی یک دفعہ پاک ہو جائے گی ؟ کیا اس کے بعد بیبیوں کے چہرہ سے اٹھتا ہوا نقاب پھر گرنے لگے گا ؟ سینما ہال اجڑ جائیں گے اور رقص و سرود کی محفلیں ویران ہو جائیں گی؟ اور احمدیوں کے تہہ تیغ ہونے کے بعد کیا واقعی یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور ایشیا اور آسٹریلیا کی غیر مسلم آبادیاں دیوانہ وار اسلام کی طرف دوڑی چلی آئیں گی؟ کاش ایسا ہو سکتا !!! اور اگر ایسا ہوسکتا تو دنیا دیکھتی کہ کوئی سچا احمدی بھی اس راہ میں گردن کٹوانے سے گریز نہ کرتا.ہم دوڑتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے ایسی مقدس موت کے سمندر میں چھلانگیں لگا دیتے کیونکہ ہماری تو عبادتیں اور ہماری قربانیاں، ہماری زندگی اور ہماری موت محض اس لئے ہے کہ اسلام کونئی زندگی عطا ہو.اگر آج ہماری موت سے اسلام کو زندگی عطا ہو جائے تو ہم آج اسی وقت ، اسی لمحہ مرنے کے لئے تیار ہیں.

Page 164

۱۵۷ مذہب کے نام پرخون بہر حال ان علماء کا یہ عجیب حال ہے کہ ختم نبوت کا وہ فرضی انکار جو احمد یوں نے کبھی نہیں کیا آج ان کے لئے اسلام کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے اور اسلام کی زندگی اور موت کے وہ ان گنت مسائل جن سے وہ ہر روز اپنے شہروں، اپنے قصبات اور اپنے دیہات کی گلی گلی میں دو چار ہوتے ہیں ان کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے ! ان کی زود حسی اور بے حسی کا یہ اجتماع ضدین ایک عجیب تمسخر آمیز صورت اختیار کر لیتا ہے جب ہم انہیں ایک طرف تو پاکستان بننے تک بلکہ بعد میں بھی اس نظریہ کا قائل پاتے ہیں کہ بس اکھنڈ ہندوستان ہی مسلمان کے مفاد کا ضامن ہو سکتا ہے اور مسٹر گاندھی اور و لبھائی پٹیل اور پنڈت نہرو کی قیادت میں کانگرس کی صفوں میں ” چپ و راست....چپ و راست کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور دوسری طرف چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کی پاکستان کی مرکزی کابینہ میں شمولیت ان کی آنکھ کا پھوڑا بن جاتی ہے اور اقوام متحدہ میں ان کا پاکستان کی طرف سے نمائندگی کرنا انہیں اسلام کے لئے ایک ہولناک خطرہ نظر آتا ہے.علماء کی اس طرز فکر پر کبھی ہنسی آتی ہے تو کبھی رونا آتا ہے.مقدور ہو تو ایک ایک عالم کو سامنے بٹھا کر پوچھوں کہ بتاؤ تو سہی کہ گاندھی کی پیروی سے اسلام کس طرح زندہ ہو سکتا تھا اور اب ظفر اللہ خاں کی نمائندگی سے مرکس طرح سکتا ہے؟ کیا اسلام کا ان امور سے کوئی دور کا بھی واسطہ ہے؟....اسلام اگر زندہ ہو سکتا ہے تو ہر مسلمان کے سینہ میں شمع ایمان کے جلنے سے زندہ ہو سکتا ہے اور مرسکتا ہے تو انہیں شمعوں کے بجھ جانے سے.پھر کیا گاندھی کی پیروی سے یہ سب شمعیں ایک ایک کر کے جلنے لگی تھیں اور کیا آج ظفر اللہ کی نمائندگی کے جھونکوں سے معایہ شمعیں بجھنے لگی ہیں؟ کیا ساٹھ کروڑ مسلمانوں کے ایمان کی زندگی اور موت بس انہی دو حادثات پر موقوف تھی یا ہے؟ کیا یہ علماء نہیں جانتے کہ اسلام کو پیش آمدہ خطرات کا کسی وزیر کی وزارت سے دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ یہ خطرات محض اس نازک صورتِ حال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے علامہ حالی نہایت درجہ درد کے ساتھ رقمطراز ہیں.اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت یہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے

Page 165

۱۵۸ مذہب کے نام پرخون جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے جس دین کے مدعو تھے کبھی سیزر و کسری خود آج وہ مہمان سرائے فقراء ہے وہ دین ہوئی بزمِ جہاں جس سے چراغاں اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے اُس دین میں خود تفرقہ اب آکے پڑا ہے جس دین نے تھے غیروں کے دل آکے ملائے اُس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر غناء بھی اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غناء ہے جو دین کہ گودوں میں پلا تھا حکماء کی وہ عرضہ تیغ جُہلا و سفہاء ہے جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے ہے دین ترا اب بھی وہی چشمہ صافی دینداروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے

Page 166

۱۵۹ یاں راگ ہے دن رات تو واں رنگ شب و روز مذہب کے نام پرخون محفل اعیاں ہے وہ بزم شرفا ہے چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے دولت ہے نہ عزت، نہ فضیلت نہ ہنر ہے اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے (مسدس حالی) یہ علامہ حالی کی زبان سے مسلمانوں کی زبوں حالی کا اس وقت کا نقشہ ہے جب ابھی حالت اس سے بہتر تھی.اب تو صورت حال اور بھی دگرگوں ہو چکی ہے اور اقبال کی پیش کردہ تصویر حقیقت سے نسبتا زیادہ قریب ہے.ان کے نزدیک مسلمانوں کے :- ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں بادہ آشام نئے بادہ نیا کم بھی نئے حرم کعبہ نیا بت بھی نئے تم بھی نئے کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے طبع آزاد قید رمضاں بھاری ہے تم ہی کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے؟ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

Page 167

17.مذہب کے نام پرخون جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ? ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے ہو کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟ شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو میں علماء سے پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کی یہ سخت درد ناک حالت اس مقام تک اسی لئے پہنچی کہ ظفر اللہ خاں نے ایک دن پاکستان کا نمائندہ بننا تھا؟ اور کیا یہ تمام مسلمان جن کا ذکر علامہ حالی اور علامہ اقبال نے کیا ہے بس اسی وجہ سے اس خستگی کا شکار ہو گئے کہ ایک قلیل التعداد جماعت پر ختم نبوت“ کے انکار کا الزام لگایا جانا تھا؟ اس وقت علماء کو اسلام کے متعلق جو خطرات نظر آرہے ہیں وہ اگر چہ سچ بھی ہوں تو ان کی مثال ان حقیقی خطرات کے سامنے جو ان کو نظر نہیں آرہے ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص ایک حملہ آور ہولناک درندے سے تو آنکھیں بند کر لے اور پیٹھ موڑ کر بیٹھ جائے اور ایک حسین پھول پر میٹھی ہوئی حسین تتلی کو اپنی جان کا سخت دشمن سمجھ کر سخت خوفزدہ نگاہیں اس پر ڈالے اور کبھی خوف سے پیچھے ہٹ جائے اور کبھی غصہ سے آگے بڑھے تاکہ اسے اپنی انگلیوں میں مسلے اور پاؤں تلے روند ڈالے یا پھر بعینہ اس شخص کی طرح کہ جسے کمزور پر توسخت غصہ آتا تھا مگر طاقتور کو دیکھ کر اس کا دل

Page 168

171 مذہب کے نام پرخون جذبات رحم و درد سے بھر جاتا تھا.وائے افسوس! نہ تو یہ آریوں کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں نہ عیسائیوں کے خلاف.نہ انہیں مشرک یورپ پر غصہ آتا ہے نہ دہر یہ روس پر.اور اندرونی برائیوں کے کوہ ہائے گراں کو بھی دور کرنے کی ہمت نہیں پاتے.ہاں غصہ آتا ہے تو ان کمزور قلیل التعداد احمدیوں پر جن کا جرم صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی نہایت صفائی اور شان کے ساتھ پوری ہو چکی ہے جس میں ایک مہدی اور ایک مسیح کے آنے کی خوشخبری دی گئی تھی.وہی مہدی اور وہی مسیح جس کے ہاتھوں سے آخری زمانہ میں عیسائیت اور دیگر مذاہب پر اسلام کا غلبہ مقدر تھا! پس ان کو انہی قلیل التعداد احمدیوں پر غصہ آتا ہے جو اسلام کی تبلیغ کے لئے ساٹھ کروڑ مسلمانوں کا درد اپنے سینوں میں لئے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرآن لے کر نکل کھڑے ہوئے ہیں جن کے مقابل پر آج ہر جگہ عیسائیت کے پاؤں اکھڑے چلے جارہے ہیں اور اسلام آگے بڑھ رہا ہے.جنہوں نے یورپ کے دل میں بھی مسجدیں بنا دیں اور افریقہ کے تاریک و تار جنگلوں میں بھی کلمات تکبیر بلند کئے اور جن کو یہ فخر حاصل ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سیاہ براعظم اسلام کے نور سے بڑی تیزی کے ساتھ منور ہورہا ہے.کہاں وہ راتیں کہ جب عیسائی پادری یہ سمجھا کرتے تھے کہ چند سالوں کے عرصہ میں وہ سارے افریقہ کو عیسائی بنالیں گے اور کہاں یہ دن کہ آج ایک عیسائی کے بدلہ میں دس افریقن مشرکین اسلام قبول کر رہے ہیں.ہاں اسی جرم کی پاداش میں یہ احمدی اس وقت اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور ان کا علاج بھی وہی ایک علاج ہے جو ہمیشہ سے ایسے مجرموں کا ہوتا چلا آیا ہے یعنی مسائل کو بالائے طاق رکھ دو اور نصیحت کا خیال تک نہ دل میں آنے دو.ہاں تلوار میں اٹھاؤ اور ان کے مردوں ، عورتوں اور بچوں کو تہہ تیغ کر دو یہاں تک کہ ان کا نشان تک دنیا میں باقی نہ رہے یا پھر یہ ”منافقت کی زندگی اختیار کر لیں اور ان علماء کی ملت میں لوٹ جائیں جن کے ایماء پر ان کے قتل عام کا جشن منایا جارہا ہو.لیکن ان علماء کی ملت کونسی ملت ہے اور یہ اتحاد تا بگے؟ ہم احمدیت سے تو بہ کر کے وہ کونسا

Page 169

۱۶۲ مذہب کے نام پرخون مذہب اختیار کریں جس سے سب علماء کے دل یکساں ٹھنڈے ہو سکیں.کیا حضرت علی کی محبت کا دعوی کریں اور ابو بکر ، عمر اور عثمان کو گالیاں دینے لگیں ؟ کیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم الغیب خدا کی طرح عالم الغیب مانے لگیں اور آپ کے جسم عصری سے انکار کر دیں.یا پھر آپ کی نورانیت کو یکسر فراموش کر کے بشریت پر بیکار زور دینے لگیں اور نعوذ باللہ ! آپ کے مقام کو ایسا گرائیں کہ بڑے بھائی سے زیادہ رتبہ نہ سمجھیں.کیا ایسے اہل حدیث ہو جائیں کہ قرآن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں یا ایسے اہل قرآن کہ اپنے آقا کی مقدس احادیث کو یکسر ٹھکرا دیں؟ آخر وہ کونسی ملت واحدہ ہے جس کا فرد بزور شمشیر احمدیوں کو بنانا مقصود ہے؟

Page 170

مذہب کے نام پرخون بعض حقیقی خطرات گزشہ صفحات کے مطالعہ کے بعد شاید کوئی یہ خیال کرے کہ علماء کا دین میں تشدّ داور جبر کو جائز قرار دینے کا مسئلہ اور قتل مرتد کا مسئلہ یہ دونوں ایسے امور ہیں جن کا ایک چھوٹے سے مسلمان فرقہ سے تعلق ہے اور کیا فرق پڑتا ہے اگر ساٹھ کروڑ کی مسلمان آبادی میں سے چند لاکھ احمدی مرد عورتیں ، بوڑھے اور بچے تہہ تیغ کر دیئے جائیں.کم از کم اس کے بعد باقی مسلمان تو امن اور چین کے سانس لیں گے.مگر یہ خیال ایک واہمہ سے بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتا اور اس زمانہ کے بہت سے علماء کی افتاد طبع سے ناواقفیت کی دلیل ہے.اگر چہ یہ درست ہے کہ ہر طاقتور غیر مسلم کے مقابل پر ان کی قوت عمل مفقود ہو جاتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرے مسلمان فرقوں کے خلاف بھی ان کا غصہ اس آسانی سے فرو ہوسکتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ امت کے تمام علماء ایک ہی طرز فکر کے عادی ہیں (خدا وہ وقت نہ لائے ! ) مگر مشکل یہ ہے کہ شریف غیر جانبدار آواز اکثر کمزور ہوا کرتی ہے اور یہ لوگ ہر تکلیف کے موقع سے دامن بچالیتے ہیں.پس میں اس وقت صرف ان علماء کی بات کر رہا ہوں جواکثر فتوی بازی میں مصروف رہتے ہیں اور تکفیر جن کا دل پسند مشغلہ ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے ان کے افکار اور احساسات اکثر اجتماع ضدین ہوتے ہیں.چنانچہ ایک طرف تو قوت عمل اتنی کمزور پڑ چکتی ہے کہ جس مشکل میدان میں بھی اسلام کو جہاد کی ضرورت ہو اس سے کوسوں دور رہتے ہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں گفتار کے غازی بن کر کود پڑتے ہیں.چنانچہ ان جہاد کی تعلیم دینے والوں کو آپ جہاد کشمیر کے وقت سرحدوں کے قریب بھی پھٹتا نہ دیکھیں گے.ہاں ! آپ دیکھیں گے کہ بسا اوقات عین حالت جنگ میں جبکہ مظلوم اور بے بس کشمیری مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے چنگل سے رہائی دلانے کے لئے سرحد

Page 171

۱۶۴ مذہب کے نام پرخون کے غیور مسلمان برسر پیکار تھے.انہی علماء میں سے ایسے بھی اٹھے جنہوں نے اس جہاد آزادی کو حرام جنگ قرار دیا اور اس جرم کی پاداش میں حکومت وقت انہیں نظر بند کرنے پر مجبور ہوگئی لیکن میدان جہاد کے خطرات کے مقابل پر قید تنہائی کے سکون کو انہوں نے اپنے لئے زیادہ پسند کیا.یہ علماء ہر اس مسئلہ سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں جس سے ان کی زود رنج طبیعت سخت برافروختہ ہو سکے اور پھر یہ باہم مسلمان فرقوں کے درمیان افتراق اور مناقشت کو ہوا دے سکیں.برائیوں کو دیکھنے میں یہ نہایت دور بین بلکہ ستم ایجاد نگاہ رکھتے ہیں اور خوبیاں ان کی نظر سے پہاڑ اوجھل رہتی ہیں.ان کی ساری بجلیاں صرف مسلمان کا شانوں پر ٹوٹتی ہیں.ان کا اجماع کبھی باہمی محبت کی بناء پر نہیں ہوتا بلکہ کسی تیسرے کا بغض ان کو اکٹھا کرنے کا موجب بنتا ہے.چنانچہ بھی تو آپ اجماع امت احمدیوں کے خلاف دیکھیں گے اور کبھی شیعوں کے خلاف کبھی بریلویوں کے خلاف یہ اجماع ہوگا اور کبھی دیو بندیوں کے مقابل پر اور کبھی سب مل کر اہل قرآن کے خلاف اجماع کا نظر فریب منظر پیش کریں گے.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک باغ کے مالک نے دیکھا کہ ایک سیڈ ، ایک پٹھان اور ایک میراثی اس کے باغ کا پھل توڑ رہے ہیں.ان تینوں کے مقابل وہ اپنے آپ کو بہت کمزور پاتا تھا چنانچہ اس نے آگے بڑھ کر انہیں السلام علیکم کہا اور دست بستہ عرض کی کہ قبلہ شاہ صاحب اور محترم خان صاحب آپ دونوں تو خیر معزز لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ، پس آپ جو چاہے کریں کہ آپ ہی کا باغ ہے مگر یہ میراثی کس برتے پر اس باغ میں آنے کی جرات کر سکا اس لئے آپ بزرگان اگر میرا ساتھ دیں تو کیوں نہ ہم مل کر پہلے اس چور کی مرمت کر لیں پھر آپ مختار ہیں جس طرح چاہیں اور جہاں سے چاہیں اس باغ کا پھل توڑیں.اس پر ان تینوں نے مل کر اس میراثی کو پکڑ لیا اور مار مار کر وہیں ڈھیر کر دیا.شاہ صاحب اور خان صاحب اس کے بعد پھر پھل کی طرف متوجہ ہوئے.اس پر مالی شاہ صاحب کو الگ لے گیا اور گذارش کی کہ حضرت یہ سب کچھ آپ ہی کا ہے مجھے آپ پر تو کوئی اعتراض نہیں کہ آپ آل رسول ہیں مگر اس پٹھان پر بہت غصہ آ رہا ہے کہ اس کو تیسری جگہ پر یہ حق کہاں سے مل گیا کہ میرے باغ کا پھل برباد کرے.شاہ صاحب ذرا سید ھے سادے آدمی تھے اُن کی سمجھ میں یہ بات آگئی چنانچہ اُن دونوں نے خان صاحب کو پکڑ لیا اور رسوں

Page 172

۱۶۵ مذہب کے نام پرخون سے باندھ کر اُن کی خوب مرمت کی اور ادھ موا چھوڑ گئے.اس کے بعد شاہ صاحب پھل کی طرف لیکے اور مالی نے انہیں کمزور اور تنہا پا کر اُن کی گردن داب لی اور مار مار کر بے حال کر دیا.اگر ناظرین ذرا بھی غور کریں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان علماء کی War Strategy یعنی جنگی داؤ پیچ اس مثال کے بہت مشابہ ہیں.فرق ہے تو صرف یہ کہ اس باغ کے یہ آپ خود ہی مالک بن بیٹھے ہیں.بہر حال اس امر میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ یہ تشدد اور قتل مرتد کی آوازیں بلند کرنے والے علما ء دل میں مستحکم ارادے لئے بیٹھے ہیں کہ جب بھی ان کو کسی مخالف فرقہ پر اقتدار حاصل ہوا یہ بزور اس کا صفایا کر دیں گے.ختم نبوت کے انکار کے الزام میں احمدیوں کے خلاف ہنگامہ آرائی کے کچھ مناظر آپ دیکھ ہی چکے ہیں.اس وقت یہ علماء یک زبان ہو کر عوام سے کہتے تھے کہ کافر ہیں تو یہی احمدی ہیں اور مرتد ہیں تو یہی ، اور ان کے خاتمہ کے ساتھ ہی اسلام کے تمام دکھوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور ہم بھائیوں کی طرح باہم گلے مل کر بیٹھیں گے.ہمارے اختلافات اندرونی ہیں اور یہ ایک بیرونی اختلاف ہے.ہمارے اختلافات فروعی ہیں اور یہ ایک بنیادی اختلاف ہے.مگر انہی دنوں کی بات ہے جب یہ تحریک اپنی پوری قوت کے ساتھ جاری ہو چکی تھی تو ” جماعت اسلامی“ کا ترجمان تسنیم اہل قرآن کے خلاف یہ فتویٰ دیئے بغیر نہ رہ سکا کہ :- اگر یہ مشورہ دینے والوں کا مطلب یہ ہے کہ شریعت صرف اتنی ہی ہے جتنی قرآن میں ہے باقی اس کے علاوہ جو کچھ ہے شریعت نہیں ہے تو یہ صریح کفر ہے اور بالکل اُسی طرح کا کفر ہے جس طرح کا کفر قادیانیوں کا ہے بلکہ کچھ اس سے بھی سخت اور شدید تر ہے.“ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی ساری توجہ جماعت احمدیہ پر مرکوز تھی.اب تو خیر ہر طرف تکفیر کی گرم بازاری ہے اور کفر و ایماں کا جو مقدمہ تھا آج پھر اسی کی روبکاری ہے مذہب کے میدان میں ایک عام بلکہ مچ گیا ہے.زید کی لاٹھی ہے تو بکر کا سر.عمرو کی داڑھی

Page 173

۱۶۶ مذہب کے نام پرخون ہے تو بکر کا ہاتھ ، اور ہر ایک کا گریبان دوسرے کے ہاتھوں پارہ پارہ ہو رہا ہے.چنانچہ اس وقت میری نظر کے سامنے ایک کتابچہ ہے جس کا عنوان ہے دیوبندی مولویوں کا ایمان“.یہ (مولانا) عبد المصطفیٰ ابو یحی محمد معین الدین شافعی قادری رضوی تھانوی نے تصنیف فرمایا ہے.اس کے سرورق کے اندرونی صفحہ پر ہی مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کے بارہ میں غیر مبہم الفاظ میں یہ فتویٰ شائع کیا گیا ہے کہ وہ ختم نبوت کے قائل نہ تھے.اگر چہ الفاظ ایسے مہذبانہ نہیں مگر مفہوم یہی ہے.اس کے بعد کتاب کا اصل مضمون شروع ہوتا ہے اور مولوی اسمعیل صاحب دہلوی کو مرکزی حیثیت دے کر تکفیر کا نشانہ بنایا گیا ہے (عبارت چونکہ نہایت مغلق اور دقیانوسی ہے اس لئے تحریر کے نمونے پیش کرنے سے حتی المقدور احتراز کر رہا ہوں ) اس کے بعد دیو بند کے دوسرے ائمہ سے متعلق نام بنام تکفیر کے فتوے ہیں.مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو بھی بغیر شک کے کا فرقرار دیا گیا ہے اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو بھی.مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی دیو بندی کے کفر کی تو بناء ہی مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کی طرح عقیدہ ختم نبوت کا انکار قرار دی گئی ہے.چنانچہ ان کے کئی ایک اقتباسات درج کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب کلیۂ ختم نبوت کے منکر تھے (حالانکہ جس طرح یہ جھوٹ ہے کہ احمدی ختم نبوت کے قائل نہیں اسی طرح یہ بھی صریح بہتان ہے کہ مولانامحمد قاسم نانوتوی ختم نبوت کے منکر تھے ) مگر چونکہ ختم نبوت کی تشریح ان کے نزدیک احمدیوں کی طرح مولا نا عبد المصطفى...شافعی قادری وغیر ہم کی تشریح ختم نبوت کے خلاف ہے اس لئے اس رسالہ کے مصنف عبد المصطفیٰ جناب مولوی محمد قاسم صاحب سے متعلق فرماتے ہیں:.مسلمانو! دیکھو اس ملعون ، نا پاک شیطانی قول نے ختم نبوت کی کیسی جڑ کاٹ دی ہے..اب یہ ملاحظہ فرمائیے کہ مولوی قاسم نانوتوی منکر ختم نبوت ہے اور منکرین ختم نبوت کے حق میں مولوی رشید احمد و مولوی خلیل احمد وغیرھم وہابیہ نے کفر کے فتوے دیئے...66 مگر میں یہ کہتا ہوں کہ اب یہ ملاحظہ فرمائیے کہ وہی ختم نبوت کے انکار کی چھری جو بھی

Page 174

۱۶۷ مذہب کے نام پرخون بک عظیم الشان اجماع کے ساتھ خصوصاً احرار ماہرینِ فن کے ہاتھوں احمدیوں کے دل پر چلائی جاتی تھی اب کس آزادی سے انہی لوگوں کے دل پر چلنے لگی جو یہ چھری چلانے میں مشاق سمجھے جاتے تھے.یہ تو محض ایک ادنیٰ نمونہ ہے.افسوس کہ میں جگہ کی قلت کی وجہ سے اس رسالہ کے صفحہ ۱۵ کی وہ عبارت درج نہیں کر سکتا جس کا عنوان ہے:.”مرزائیوں قادیانیوں کی طرح دیوبندیوں وہابیوں کے عقیدوں کا مختصر نمونہ“ یہ عبارت بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.اور شورش کا شمیری کی وہ عبارت بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے جو رسالہ ” کا فرساز ملا کے سرورق پر درج ہے:."جو شخص اکابر دیوبند کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر کرتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ شقی القلب ہے.بد بخت ہے.بد زبان ہے.ذلیل ہے.فروتر ہے.بلکہ ہم یہاں تک کہنے کو تیار ہیں کہ وہ دھوپ چھاؤں کی اولاد ہے.“ اس رسالہ کے صفحہ ے کی عبارت بھی خاص طور پر قابل توجہ ہے جس میں شورش کاشمیری صاحب کے چٹان ۱۹۶۲ء کے مقالہ افتتاحیہ کی یہ دھمکی درج ہے کہ :- ان کا فرگروں سے ہماری یہ درخواست ضرور ہے کہ اپنی زبانوں کو بند کریں ورنہ ایسا نہ ہو کہ ان کا پوسٹ مارٹم کرنے کی ضرورت محسوس ہو.ہم یہ ایک لحظہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص ان لوگوں کو کافر کہے جو اس ملک میں ایک صدی یا اس سے بھی زائد عرصہ سے اسلام کے صحیح خدمت گذار ہیں...کم سے کم مطالبہ یہ ہے کہ حکومت ان کی زبانیں بند کر دے.ہمیں اس قسم کے فیض درجت حامی سنت.مائی بدعت شیخ الحدیث اور ابوالفضل کہلانے والے پٹواریوں کی ضرورت نہیں.یہ فتنہ پرداز ہیں اور فتنہ رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے.“ پھر اسی رسالہ کے صفحہ 9 پر فی سبیل اللہ فساد کے زیر عنوان شورش کا شمیری صاحب کی ایک نظم درج ہے جو دلچسپی سے خالی نہیں.اس میں بریلویوں پر دین فروشی کی روٹیاں کھانے اور

Page 175

۱۶۸ مذہب کے نام پرخون شرع پیمبری بیچ کھانے کا الزام لگایا گیا ہے اور لارڈ کلائیو کا خانہ دار قرار دیا گیا ہے.پھر آگے چل کر اسی رسالہ میں بریلویوں کو لیگ اور قائد اعظم کے دشمن کے طور پر دکھایا گیا ہے.اس رسالہ کے علاوہ دیو بندیوں کا شائع کردہ ایک اور دو ورقہ بھی میری نظر سے گزرا ہے جس کا عنون ہے:.دو رضا خانی فتنہ پردازوں کا سیاہ جھوٹ“ اس میں مدیر چٹان آغاشورش کاشمیری کی یہ عبارت درج ہے:- ”ہم نے ان آنکھوں کے سامنے مولانا محمد علی ، مولانا حسین احمد ( مدنی )، ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خاں، مولانا حسرت موہانی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور ان کے صفات و کمالات کے دوسرے انسانوں کو بھڑووں اور دیوثوں کی اولاد کے ہاتھوں رسوا ہوتے دیکھا ہے.“ چند سطور کے بعد فرماتے ہیں :- ” ہم رب ذوالجلال کو گواہ بنا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہیں گالی دینے والے پھر وہ لوگ بھی 66 تھے جو اُن کی بیت الخلاء کی اینٹ سے بھی کمتر درجہ کے لوگ ہیں.“ اس کے جواب میں بریلوی رسالہ ”شورش کی شورش کے صفحہ ۳ پر ایک نظم چھپی ہے جس کے چند شعر درج ذیل ہیں:.گزری ہے اُس بازار“ ہی میں جس کی زندگی ہم کو سنا رہا ہے وہ باتیں کھری کھری“ ہاتھوں میں لے کے پرچم گستاخی رسول کرنے لگا ہے دہر پہ ظاہر شناوری جھانکا نہ اس نے اپنے گریبان میں کبھی آئی نظر نہ اس کو کبھی اپنی کافری

Page 176

۱۶۹ مذہب کے نام پرخون میں پوچھتا ہوں اس سے کہ اے بانی فساد کب سے ملی ہے تجھ کو سند علم دین کی پرشاد “ مندروں کے بتا کون کھا گیا ہندو کی مہر کس کی جبیں پر بتا ”بھارت کی جے“ کے نعرے لگاتا رہا ہے کون خود سوچ کس نے بیچی ہے شرع پیمبری آزادی وطن کا مخالف بتا تھا کون تھی کانگرس کے ساتھ بتا کس کی دوستی نہرو کو ”یا رسول بتا کس نے تھا کہا روندی تھی کس نے سوچ رسالت کی برتری نانوتوی پر کفر کا فتویٰ لگے نہ کیوں کیونکر یہ مان لیں کہ مسلماں ہے تھانوی کس نے کہا ہے ”باب نبوت نہیں ہے بند“ کی قادیانیوں کی بتا کس نے رہبری کس نے سکھائی ہے تجھے توہین مصطفیٰ سیکھے ہیں تو نے کس سے یہ آداب کافری ہم وارث سموم و خزاں ہی سہی مگر تم سے ملی ہے کون سے پھولوں کو تازگی ہم فتنہ و فساد کے خوگر سہی مگر تم نے تو چھین لی ہے ہزاروں کی زندگی انسانیت کے نام پر دیتے ہو گالیاں اس پر بھی کہہ رہے ہو بڑے ہیں بریلوی

Page 177

مذہب کے نام پرخون ننگے ہوئے ہو خود ہی شرافت کے نام پر تہذیب و شرم تم میں ذرا بھی نہیں رہی پھیلائے فتنے ختم نبوت کی آڑ میں کرتے ہو نام امن پہ تم فتنہ پروری چندے بٹورتے ہو نبوت کے نام پر تم کر رہے ہو نام نبی پر گداگری نعروں سے ہے امیر شریعت کوئی بنا راس آ گئی کسی کو ”خطابت کی ساحری یہ بریلویوں اور دیو بندیوں کی ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی کا ایک لمبا سلسلہ ہے اور دونوں طرف کی طرز کلام طبیعت پر سخت گراں گزرتی ہے مگر ایک بات اسے پڑھنے سے بالکل ظاہر وباہر ہے کہ اکثر علماء کی باہمی تکفیر بازی کی عمارت محض جذبات غیظ و غضب پر مبنی ہے.جس سمت بھی وہ ان جذبات کا دھارا پھیر دیں وہی فرد یا جماعت یا فرقہ کافر، مرتد ، واجب القتل اور مغضوب علیہم بن جاتا ہے.چنانچہ وہ تمام الزامات جو ۱۹۵۳ء کے فساد کے دوران میں احمدیوں پر لگا کر انہیں واجب القتل قرار دیا جاتا تھا ملزمین خود ایک دوسرے پر لگانے لگے.احمدیوں کے خلاف بریلویوں اور دیو بندیوں کی طرف سے مشترکہ طور پر یہ الزامات لگا کر عوامی جذبات کو خطرناک حد تک مشتعل کیا جاتا تھا کہ :- (۱) احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں.(۲) احمدی ہتک رسول کرتے ہیں.(۳) احمدی انگریزوں کے پٹھو ہیں.(۴) احمدی پاکستان کے خلاف ہیں.(۵) احمدی جہاد کے خلاف ہیں.(۲) احمدی غیر مسلموں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں.

Page 178

مذہب کے نام پرخون (۷) احمدیت مذہب کے نام پر ایک دکانداری ہے.اب بعینہ یہی الزامات دیو بندی اور بریلوی ایک دوسرے پر لگانے لگے ہیں اور عوام کو پھر انہی ذرائع سے مشتعل کرنے میں مصروف ہیں.خصوصاً بعض دیوبندی علماء تو ختم نبوت کے انکار کے الزام میں خطرناک حد تک بریلوی غضب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور یہ تمام علماء جو کل تک اُمت کے ایک عظیم الشان اجماع کا دعویٰ لے کر ایک قلیل التعداد جماعت کے پیچھے پڑے ہوئے تھے آج خود اس اجماع کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں.ہتھیار بھی وہی ہیں ، ہتھیار چلانے والے بھی وہی.فنون جنگ میں بھی کوئی تبدیلی نہیں.ہاں بدلا ہے تو ہدف بدل گیا ہے.بے اختیار احرار سے متعلق تحقیقاتی عدالت کے جوں کے وہ الفاظ یاد آ جاتے ہیں کہ :- اسلام ان کے لئے ایک حربہ کی حیثیت رکھتا تھا جسے وہ کسی سیاسی مخالف کو پریشان کرنے کے لئے جب چاہتے بالائے طاق رکھ دیتے اور جب چاہتے اٹھالیتے.کانگرس کے ساتھ سابقہ پڑنے کی صورت میں تو ان کے نزدیک مذہب ایک نجی معاملہ تھا اور وہ نظریہ قومیت کے پابند تھے لیکن جب وہ لیگ کے خلاف صف آراء ہوئے تو ان کی واحد مصلحت اسلام تھی جس کا اجارہ انہیں خدا کی طرف سے ملا ہوا تھا.اُن کے نزدیک لیگ اسلام سے بے پروائی نہ تھی بلکہ دشمن اسلام بھی تھی.اُن کے نزدیک قائد اعظم ایک کا فراعظم تھے.“ یہ الفاظ فاضل ججوں نے احرار سے متعلق استعمال کئے ہیں اور ان کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں مگر عمو مامذہبی دنیا پر جب علماء کے احوال پر نظر پڑتی ہے تو وہاں بھی انسان یہ نتیجہ نکالے بغیر نہیں رہ سکتا کہ:- اسلام ان کے نزدیک ایک حربہ کی حیثیت رکھتا ہے جسے وہ کسی مخالف کو پریشان کرنے کے لئے جب چاہتے ہیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اٹھا لیتے ہیں.“ ان علماء کی خلوص نیت پر پھر یقین آئے تو کس طرح جبکہ احمدیت کے خلاف بھی وہی حربے استعمال ہوتے ہیں جو بریلویوں کے خلاف ، اور بریلویوں کے خلاف بھی وہی حربے استعمال ہوتے

Page 179

۱۷۲ مذہب کے نام پرخون ہیں جو دیو بندیوں کے خلاف.پھر طر ز کلام بھی وہی انوکھی طرز کلام ہے جس کے اختیار کا تو کیا سوال ذکر تک سے گھن آتی ہے.ایک طرف آغا شورش بعض مشہور مذہبی راہنماؤں سے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ دھوپ چھاؤں کی اولاد ہیں اور دوسری طرف انہیں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ :- اگر بریلوی دھوپ چھاؤں کی اولاد ہیں تو تو اپنے متعلق کیا وثوق سے کہہ سکتا ہے.کیا اپنی دفعہ تو پاس کھڑا تھا ؟ کیا معلوم تو اندھیرے کی اولاد ہو یا لے ، پھرا اپنی ایک نظم میں کوئی سید محمد ایوب تنہا کپور تھلوی شورش صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.احمد رضا کی شان سے تو آشنا کہاں جا سونگھ ہندؤوں کی لنگوٹی سڑی ہوئی ستے ترا رسول ہیں سنتے ترا خدا جس نے ذرا دکھا دیئے وہ تیری پارٹی کر کے غلط بیانیاں جھوٹے جہان کے ہوتا ہے اب ذلیل تو گھر گھر گلی گلی تو نے تو دم بھرا ہے سدا کفر کا خبیث تکبیر کی خبر تجھے نمرود مسلم کے ساتھ کب سے ہوا ہے تو کھتری ہے کہاں جا ہندوؤں کے ساتھ کہیں کر ہری ہری ایوب جی ہے وقت کی قلت بہت یہاں باتیں وگرنہ اور بھی کرتے کھری کھری سے سید محمد ایوب تنہا صاحب بہت مصروف الاوقات آدمی معلوم ہوتے ہیں.اگر وقت کی شورش کا آپریشن، بجواب ” کا فر ساز ملا، پیش کردہ حافظ محمدحسین حافظ لائل پور صفحہ ۶ ے رسالہ ”شورش طرف بھاڑے کا جو مصنفہ غلام المشائخ جناب شاہ محمد عاصی سرہندی و جناب سید محمد ایوب تنها کپور تھلوی صفحه ۸،۷

Page 180

۱۷۳ مذہب کے نام پرخون قلت نہ ہوتی تو خدا جانے اور کون سی کھری کھری‘ باتیں سناتے.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سیکرٹری انجمن جماعت اہل سنت مصری شاہ لاہور کے پاس نسبتاً زیادہ وقت ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ انہوں نے دیو بندی علماء خصوصاً شورش صاحب کو دل کھول کر باتیں کھری کھری سنائی ہیں بلکہ اپنے مضمون ”شورش کی شورش“ کو بکثرت ٹھوس حوالہ جات سے مزین کیا ہے اور ہر بات کی دلیل پیش کی ہے.چنانچہ ان کھری کھری باتوں کے ضمن میں آپ دود یو بندی علماء کے باہمی اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:.وو مولاناحسین احمد صاحب نے مسلم لیگ میں مسلمانوں کی شرکت کو حرام قرار دیا اور قائد اعظم کو کافر اعظم کا لقب دیا اور مولوی حسین احمد کے اسی فتوی کی بناء پر مولوی شبیر احمد عثمانی نے کہا تھا کہ :- وو یہ پرلے درجے کی شقاوت قلبی ہے کہ قائد اعظم کو کافر اعظم کہا جائے.“ شورش صاحب ! ذرا آنکھیں کھول کر دیکھئے کہ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کو کافر، ابوجہل، سور، پرلے درجے کاشقی ، احمق اور قائد اعظم کو کافر اعظم کہنے والے کون ہیں؟ علمائے بریلی یا علمائے دیوبند....؟ شورش صاحب! اب بتائیے کہ بقول آپ کے علماء سوء.کا فر گر.دین فروش.یاوہ گو.بے لگام.فتنہ گر.شقی القلب.بد بخت و بد زبان.اور دھوپ چھاؤں کی اولاد علماء بریلی ہیں یا چشم بد دور آپ کے دیو بندی علماء ؟ لے ، پھراگلے صفحہ پر ایک دیو بندی عالم کے ایک فتویٰ سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” بتائیے دیوبندی مذہب اور اس فتویٰ کی رو سے ساری دنیا بالخصوص پاکستان میں آپ سمیت کتنے مسلمانوں کا نکاح قائم اور اولا دحلال ہوسکتی ہے؟ علمائے اہل سنت پر تکفیر کا الزام لگانے والو ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ تمہاری کا فرگری و تکفیر بازی کا فتنہ کیسا متعدی ہے کہ جس کی رو سے دنیائے اسلام کا کوئی فرزند مسلمان و شورش کی شورش صفحہ ۸

Page 181

۱۷۴ مذہب کے نام پرخون حلال زادہ نہیں ہوسکتا ہے، اور کچھ آگے چل کر مولوی ظفر علی خان صاحب کے کچھ اشعار نقل کرتے ہیں جن میں احرار کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے:.گالیاں دے جھوٹ بول احرار کی ٹولی میں مل نکتہ یوں ہی ہوسکے گا حل سیاسیات کا خالصہ کا ساتھ دے جب یہ شریعت کا امیر کیوں نہ کہئے اس کو ”بابا ٹل “سیاسیات کا پس یہ ایک لمبا اور افسوسناک سلسلہ سب وشتم ہے جو ایک دوسرے کے خلاف جاری ہے اور تمام الزام حتی کہ طرز کلام بھی وہی ہے جو احمدیت کے خلاف آج تک اختیار کی جاتی رہی.کیا علماء بتا سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس دنیا میں خدا اور اس کے رسول کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے؟ معاملہ صرف سب وشتم تک آ کر رک نہیں جاتا اور محض ایک عام اشتعال انگیزی پر ہی اکتفاء نہیں بلکہ یہ امریقینی ہے کہ جب ایک لمبے آرزوؤں کے دور کے بعد ان میں سے کسی گروہ علماء کو اقتدار نصیب ہوگا تو یہ مخالف فرقوں کے قتل عام سے قطعاً گریز نہیں کریں گے.جب حصول اقتدار سے قبل بھی مذہب کے نام پر قتل ، غارت گری اور آگ لگانے کی بکثرت مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ حصول اقتدار کے بعد اس طرزعمل میں کوئی فرق آ جائے گا.جب باہمی نفرت کا یہ عالم ہو، جب اشتعال انگیزی ہر حد سے گزر جائے اور ان شدید جذبات غیظ و نفرت پر مستزاد یہ ہو کہ اقتدار بھی حاصل ہو جائے اور تمام ملکی قوتیں ان کے مد مقابل ہونے کی بجائے پس پشت جا کھڑی ہوں تو پھر بھلا کیسے ممکن ہے کہ اس مقام فتح وظفر پر پہنچ کر یہ علماء ظلم و تعدی سے دفعہ اپنے ہاتھ روک لیں گے.ایسے وقت میں ظلم و ستم کی راہ میں صرف ایک ہی روک حائل ہوسکتی ہے کہ رب العالمین کے جلال کی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو جائے اور تقوی اللہ کا مضبوط ہاتھ انہیں اس اقدام سے باز لے شورش کی شورش صفحه ۹

Page 182

۱۷۵ رکھے لیکن اگر یہ سب کچھ خدا تعالیٰ ہی کی عظمت اور وقار قائم کرنے کے لئے کیا جارہا ہو اور تقوی اللہ کا یہی مفہوم ان کے ذہن میں ہو.جب ذاتی رجحانات تشدد کو مذہبی عقائد ہی کا نام دیا جانے لگا ہو اور جب یہ ساری تعلیم جبر و تشدد خدا ہی کے نام پر اسی کی طرف منسوب کر کے پیش کی جاتی ہو تو پھر سوائے قادر مطلق خدا کے قہری ہاتھ کے، ہے کوئی ہاتھ جو ان صاحب اقتدار علماء کو اپنے ارادوں کی تعمیل سے باز رکھ سکے؟ اس سلسلہ میں جہاں تک مولانا مودودی کے عقائد کا سوال ہے ان کا ذکر کسی قدر تفصیل سے پہلے گزر چکا ہے، رہے باقی علماء تو طوالت کے خوف سے ان کا علیحدہ علیحدہ ذکر تو یہاں ممکن نہیں ہاں اس ضمن میں تحقیقاتی عدالت کے فاضل جوں کی تحقیق کا ما حصل خود انہی کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے :- اسلامی مملکت میں ارتداد کی سزا موت ہے.اس پر علماء عملاً متفق الرائے ہیں.(ملاحظہ ہوں مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیت العلمائے پاکستان.مولانا احمد علی صدر جمعیت العلمائے اسلام مغربی پاکستان.مولانا ابوالاعلیٰ مودودی بانی و سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان.مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ لاہور و رکن جمعیت العلمائے پاکستان.مولا نا داؤ دغزنوی صدر جمعیۃ اہل حدیث مغربی پاکستان.مولا نا عبد العلیم قاسمی جمعیۃ العلمائے اسلام پنجاب اور مسٹر ابراہیم علی چشتی کی شہادتیں ) اس عقیدے کے مطابق چودھری ظفر اللہ خان نے اگر اپنے موجودہ مذہبی عقائد ورثہ میں حاصل نہیں کئے بلکہ وہ خود اپنی رضامندی سے احمدی ہوئے تھے تو ان کو ہلاک کر دینا چاہیے.اور اگر مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری یا مرزا رضا احمد خاں بریلوی یا ان بے شمار علماء میں سے کوئی صاحب (جو فتوے (14.EX.D.E) کے خوبصورت درخت کے ہر پتے پر مرقوم دکھائے گئے ہیں ) ایسی اسلامی مملکت کے رئیس بن جائیں تو یہی انجام دیو بندیوں اور وہابیوں کا ہوگا جن میں مولانا محمد شفیع دیوبندی ممبر بورڈ تعلیمات اسلامی ملحقہ دستور ساز اسمبلی پاکستان اور مولانا داؤ د غزنوی بھی شامل ہیں اور اگر مولانا محمد شفیع دیو بندی رئیس مملکت مقرر ہو جائیں تو وہ ان لوگوں کو جنہوں نے دیوبندیوں کو کافر قرار دیا ہے

Page 183

مذہب کے نام پرخون دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں گے اور اگر وہ لوگ مرتد کی تعریف میں آئیں گے یعنی انہوں نے اپنے مذہبی عقائد ورثے میں حاصل نہ کئے ہوں گے بلکہ خود اپنا عقیدہ بدل لیا ہو گا تو مفتی صاحب ان کو موت کی سزا دیں گے.جب دیوبندیوں کا ایک فتویٰ (13.EX.D.E) جس میں اثنا عشری شیعوں کو کافر قرار دیا گیا ہے عدالت میں پیش ہوا تو کہا گیا کہ یہ اصلی نہیں بلکہ مصنوعی ہے لیکن جب مفتی محمد شفیع نے اس امر کے متعلق دیو بند سے استفسار کیا تو اس دار العلوم کے دفتر سے اس فتویٰ کی ایک نقل موصول ہو گئی جس پر دار العلوم کے تمام اساتذہ کے دستخط ثبت تھے اور ان میں مفتی محمد شفیع صاحب کے دستخط بھی شامل تھے.اس فتوے میں لکھا ہے کہ جولوگ حضرت صدیق اکبر کی صاحبیت پر ایمان نہیں رکھتے ، جو لوگ حضرت عائشہ صدیقہ کے قاذف ہیں اور جو لوگ قرآن میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں وہ کافر ہیں.مسٹر ابراہیم علی چشتی نے بھی جنہوں نے مطالعہ کیا ہے اور اپنے مضمون سے باخبر ہیں اس رائے کی تائید کی ہے ان کے نزدیک شیعہ اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے کافر ہیں کہ حضرت علی نبوت میں ہمارے رسول پاک کے شریک تھے.مسٹر چشتی نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا ہے کہ اگر کوئی سنی اپنا عقیدہ بدل کر شیعوں کا ہم خیال ہو جائے تو آیا وہ اس ارتداد کا مرتکب ہو گا جس کی سزا موت ہے؟ شیعوں کے نزدیک تمام سنی کافر ہیں اور اہل قرآن یعنی وہ لوگ جو حدیث کو غیر معتبر سمجھتے ہیں اور واجب التعمیل نہیں مانتے متفقہ طور پر کافر ہیں اور یہی حال آزاد مفکرین کا ہے.اس تمام بحث کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ شیعہ سنی ،دیوبندی ، اہل حدیث اور بریلوی لوگوں میں سے کوئی بھی مسلم نہیں اور اگر مملکت کی حکومت ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو جو دوسری جماعت کو کا فر مجھتی ہے تو جہاں کوئی شخص ایک عقیدہ کو بدل کر دوسرا اختیار کرے گا اُس کو اسلامی مملکت میں لازماً موت کی سزادی جائے گی اور جب یہ حقیقت مد نظر رکھی جائے کہ ہمارے سامنے مسلم کی تعریف کے معاملے میں کوئی دو عالم بھی متفق الرّائے نہیں ہو سکے تو اس عقیدے کے نتائج کا

Page 184

122 مذہب کے نام پرخون قیاس کرنے کے لئے کسی خاص قوت متخیلہ کی ضرورت نہیں.اگر علماء کی پیش کی ہوئی تعریفوں میں سے ہر تعریف کو معتبر سمجھا جائے پھر انہیں تحلیل و تحویل کے قاعدے کے ماتحت لایا جائے اور نمونے کے طور پر الزام کی وہ شکل اختیار کی جائے جو گلیلیو کے خلاف ان کو یزیشن کے فیصلے میں اختیار کی گئی تھی تو ان وجوہ کی تعداد بے شمار ہو جائے گی جن کی بناء پر کسی شخص کا ارتداد ثابت کیا جا سکے لے “ پس ان حالات کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ اگر ان مسلمان فرقوں میں سے کسی ایک کے علماء کے ہاتھ میں اقتدار آجائے تو باقی تمام فرقوں کے افراد کا قتل عام جائز قرار نہیں دیا جائے گا.یقیناً ایسا ہی ہوگا مگر اس فرق کے ساتھ کہ اُس وقت کفر وارتداد کے فتوے انفرادی طور پر شائع ہونے کی بجائے حکومت وقت کے بلیٹینز (BULLETINS) کی صورت میں شائع ہوا کریں گے یا وزراء کی پریس کانفرنس میں شاید ان کا اعلان کیا جائے اور یہ تمام فتوے یکطرفہ ہوں گے اور کسی مخالف عقیدہ کے عالم کو یہ حق نہ ہو گا کہ مسلمان حکومت کے کسی عالم کے خلاف فتویٰ جاری کر سکے بلکہ فتویٰ کا کیا سوال اُس کے لئے تو اپنی جان عزیز بچانا بھی ناممکن ہوگا سوائے اس کے کہ تقیہ سے کام لے اور اگر وہ ایسا ہی راستی پسند ہے کہ منافق بن کر رہنا نہیں چاہتا بلکہ جس چیز پراب ایمان لایا ہے اس کی پیروی میں صادق ہونا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو سزائے موت کے لئے کیوں پیش نہیں کرتا ؟“ بلیٹینز کی سرگرمی کے ساتھ ساتھ گلوٹینز (گردن اڑانے کا ایک آلہ) کی حرکت بھی تیز تر ہوتی چلی جائے گی اور دھڑا دھڑ سر دھڑ سے جدا ہونے لگیں گے.اور جیسا کہ ہر ایسے تشد د کے دور میں ہوا کرتا ہے اُن راستی پسندوں کے سوا بھی جو منافق بن کر زندہ نہیں رہنا چاہتے اور گیدڑ کی سوسالہ زندگی پر شیر کی نصف گھنٹہ کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو ارتداد کے الزام میں ماخوذ کئے جائیں گے یعنی وہ لوگ جن کے دشمن انہیں حکومت وقت کے ہاتھوں مروانے کے لئے اُن پر کفر کے الزام لگا ئیں گے ( جیسا کہ پہلے بھی لگتے آئے ہیں اور آج بھی لگ رہے ہیں ) اور عدالتوں میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۲۳۶، ۲۳۷

Page 185

۱۷۸ مذہب کے نام پرخون کثرت کے ساتھ حلفیہ گواہ پیش ہوا کریں گے کہ فلاں ابن فلاں نے بریلوی یا دیو بندی یا مودودی عقائد کے خلاف (جس کسی کی بھی حکومت ہو ) یہ یہ کفر بکے تھے.چنانچہ ایسے ملزمین کے انکار پر لازماً انہیں پولیس کی تحویل میں مزید تحقیق کے لئے دے دیا جایا کرے گا اور انہیں طرح طرح کی خوفناک اذیتیں دے کر پوچھا جائے گا کہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر بتاؤ کہ تم نے فلاں کلمہ کفر کہا تھا یا نہیں.پس کچھ تو وہ ہوں گے جو خدا کو حاضر و ناظر جان کر اُس کلمہ کفر سے انکار کریں گے اور اس ”جھوٹ“ کی پاداش میں خوفناک اذیتیں سہہ سہہ کر جان دے دیں گے اور کچھ وہ ہوں گے جو ان ظلموں سے تنگ آکر آخر خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ اقرار کر لیں گے کہ ہاں ہم نے یہ کلمہ کفر بکا تھا اور اس اظہار صداقت کی پاداش میں ان کی گردنیں شمشیر یا گلوٹین کے ایک وار سے اُڑادی جائیں گی.اگر چہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ”اسلامی حکومت“ کی اس عملی تصویر کو دیکھ کر غیر اسلامی دنیا سخت برافروختہ اور متنفر ہوگی اور ”اسلام“ کے خلاف شدید نفرت کے جذبات سینوں میں بھڑک اٹھیں گے حتی کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین تعلیم کو ، جو دراصل سراپا امن اور سلامتی کی تعلیم ہے، مجسم وحشت اور بربریت کے نام دیئے جانے لگیں گے اور دنیا اس دین سے سخت برگشتہ ہو جائے گی.اور وہ افریقہ بھی جواحدیت کے دلنشین پیغام کو سن کر اسلام کی طرف تیز قدموں کے ساتھ دوڑا چلا آرہا ہے اپنے قدم روک لے گا بلکہ اُلٹے پاؤں پھر جائے گا اور وہ امریکہ بھی جس کے ہزاروں باشندوں کو احمدیت اسلام کی آغوش میں کھینچ لائی ہے سخت مشکوک نظروں سے اس مقدس تعلیم کو دیکھنے لگے گا اور یورپ کی بھی وہ تمام ریاستیں جہاں احمدی مبلغین پانچ وقت نعرہ ہائے تو حید بلند کرتے ہیں یک دفعہ اسلام کے نام سے بیزار ہو جائیں گی مگر برسر اقتدار علماء کی بلا سے یہ سب کچھ ہوتار ہے، اُن کو تو اسلام کی سربلندی " مرتدین کے زیر زمین ہونے میں ہی نظر آئے گی.پس ان کی بلا سے اگر اسلام کی تبلیغ غیر مذاہب میں رکتی ہے تو رکتی پھرے اور ان کی بلا سے اگر مسلمان بڑھنے کی بجائے کم ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں.جب تک کروڑوں کروڑ مسلمان ارتداد کے الزام میں قتل نہیں کئے جائیں گے ان کے نزدیک اسلام فتح یاب اور ظفر مند نہیں ہوسکتا.یہ ہے اس زمانہ کے علمائے اسلام کے نزدیک اسلامی ریاست کا تصور اور فتح اسلام کا

Page 186

۱۷۹ مذہب کے نام پرخون نقشہ.کیا یہی تصور نعوذ باللہ ہمارے آقا بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دل میں بھی تھا ؟ مولا نامودودی کے عقب میں کتنے ہیں وہ علماء جو اس سوال کا یہ جواب دے سکیں کہ :- ہاں یہی تھا وہ تصور.وہ تصور یہی تھا.یہی تھا..! اس امکانی جواب کے تصور سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ آخر کب تک امت کے علماء اپنے مقدس و مطہر رسول کی طرف (خدا تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور درود ہوں اُس کی ذات اور اُس کی آل پر ظلم وتشد د کے تصورات منسوب کرتے رہیں گے؟ ، آخر کب تک انصاف کے نام پر ظلم اور امن کے نام پر بدامنی کی تعلیم دی جاتی رہے گی؟ اور کب تک رحمت کے نام پر جور و ستم اور تقدس کے نام پر با پردہ بیبیوں کی بے آبروئی کا درس دیا جاتا رہے گا؟ سب وشتم کی غیر اسلامی رسومات آخر کب ترک کی جائیں گی ؟ اور کب مخالف فرقوں پر بے بنیادالزام لگانے کا سلسلہ بند ہوگا ؟ یہ راتیں کب ختم ہوں گی اور وہ دن کب آئیں گے جب خدا کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے خون کی ہولی نہیں کھیلی جائے گی ؟ اور میں سوچتا ہوں کہ کیا اسی طرح سپین کی انکویزیشن کی تاریخ دہرائی جاتی رہے گی اور مادام توسو کے ایوان ہائے وحشت آباد ہوتے رہیں گے؟ اور جب میں یہ سوچتا ہوں تو معاً قرآن کریم کی اس آیت کی طرف میرا ذہن منتقل ہو جاتا ہے کہ :- وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج - وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ - وَ شَاهِدٍ وَ مَشْهُودٍ - قُتِلَ أَصْحَبُ الأخدود - النَّارِ ذَاتِ الْوُقُودِ (البروج: ۲ تا ۶ ) مجھے برجوں والے آسمان اور موعود دن اور شاہد اور مشہود کی قسم ہے کہ کھائیوں والے ہلاک ہو گئے.یعنی کھائیوں میں وہ آگ جلانے والے جن میں خوب ایندھن جھونکا گیا تھا.“

Page 187

۱۸۰ مذہب کے نام پرخون ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے!!! ۱۹۵۳ ء کا سرخ دور گزر گیا اور کتنے ہی بے کسوں کے خون نے احمدیت میں ایک نیا رنگ بھر دیا اور اس کی رگوں میں قربانیوں کا تازہ اور پاکیزہ خون دوڑنے لگا.اس دور میں احمدیوں کا حال کچھ اسی طرح تھا جس طرح ایک بچہ بھیانک خطرات سے دہشت زدہ ہو کر اپنے بازو کھولے ہوئے ماں کی طرف بے محابا لپکتا ہے.پس وہ بھی اپنے رحمن و رحیم خدا کی آغوش میں پناہ لینے کے لئے اس کی طرف دوڑے اور سخت گریہ وزاری کے ساتھ اس کے حضور عاجزانہ دعاؤں میں لگ گئے.بہت سے ایسے کمزور جو کبھی نمازوں میں بھی غفلت کر جاتے تھے اپنے بستروں سے راتوں کو اٹھ اٹھ کر سجدوں میں گرنے لگے اور اپنی سجدہ گاہوں کو خون کے آنسو رو رو کر تر کر دیا یہاں تک کہ آسمان سے ان پر سکینت نازل ہوئی اور خدا ان کے دلوں میں اتر آیا اور ہر آن ان کے ساتھ رہنے لگا.پس وہ ہر خطرے سے بے خطر ہو گئے اور ہر خوف ان کے دلوں سے جاتا رہا.انہوں نے وہ سب کچھ پالیا جس کے حصول کے لئے بنی آدم پیدا کئے گئے تھے.حتی کہ وہ تہی دست بھی جن کے گھر لوٹے گئے تھے اور عمر بھر کے جمع شدہ اثاثے چھینے گئے تھے ایمان و عرفان کی دولت سے مالا مال ہو کر اس سودے پر خوش ہو گئے.وہ جانتے تھے کہ چند حقیر پیسوں کے بدلہ میں انہوں نے وہ دولت پائی ہے جو قارون کے خزانوں کو بھی میسر نہ تھی.وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں فقر اور غناء کا جو مقام انہیں نصیب ہوا ہے وہ قیصر و کسری کے مقدر میں بھی نہ تھا! انہوں نے بخوشی اس راہ میں جانیں دیں، چھرے ان کے سینوں میں بھونکے گئے ، وہ آگ

Page 188

۱۸۱ مذہب کے نام پرخون میں جلائے گئے ، وہ مارے اور پیٹے گئے اور طرح طرح کی جسمانی اذیتیں انہیں دی گئیں لیکن وہ اس راہ میں ثابت قدم رہے جیسے ان سے پہلے بھی ہمیشہ وہ لوگ ثابت قدم رہتے آئے ہیں جن کے دل اس ایمان اور یقین سے پر ہوا کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ وہ حق اور راستی کی راہ میں برداشت کر رہے ہیں.جو جانتے ہیں کہ اُن کے دلوں میں بنی نوع انسان کی بہبودی کے سوا اور کوئی جذبات نہیں.اُن کے اقوال بھی اس امر کی گواہی دیتے ہیں اور ان کے افعال بھی.اور ان کی ساری زندگی ہمدردی اور شفقت اور خوش خلقی اور صبر اور تقوی اللہ کے ساتھ بسر ہوتی ہے.اگر چہ یہ درست ہے کہ اُن میں سے بعض کمزور اس امتحان کی دشوار گزار راہوں میں آخر تک وفانہ دکھا سکے اور عشق کے مشکل ترین مقامات پر کچھ یہاں رہ گئے اور کچھ وہاں.مگر ایسے کمزوروں کی تعداد بہت تھوڑی تھی.شاید ہزار یا دس ہزار میں سے ایک مگر ان کی علیحدگی نقصان کا موجب ہونے کی بجائے جماعت کے لئے مزید تقویت کا موجب ثابت ہوئی اور مزید برکتوں کا پیش خیمہ بنی.جماعت کا سوادِ اعظم بہر حال انتہائی صبر اور استقلال کے ساتھ اپنے عہد و پیمان پر قائم رہا.انہوں نے بخوشی اس راہ میں جانیں دیں اور انتہائی صبر کے ساتھ ہر ذلّت کو قبول کیا.ان کے منہ کالے کر کے انہیں گلیوں میں پھرایا گیا اور گند اور کیچڑ ان پر اچھالے گئے ، اُن کے سوانگ بھرے گئے اور جوتیوں کے ہار اُن کے گلوں میں ڈالے گئے.وہ دنیا کی ہر مکر وہ گالی اور گندے الزام کا نشانہ بن گئے اور خود اپنے محلوں ہی کی گلیوں میں پھر نا اُن کے لئے دشوار ہو گیا.اُن کے اُن معصوم بچوں پر بھی آوازے کسے جانے لگے جو نہیں جانتے تھے کہ کس جرم کی سزا انہیں دی جارہی ہے.وہ ہر روز مدرسوں اور بازاروں سے زخمی دل اور آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ گھروں کولوٹتے تھے.عجیب وغریب اجنبی ناموں سے اُن کو پکارا جاتا تھا اور دوسرے بچے اپنے ماحول کی تقلید میں اُن پر تالیاں پیٹتے تھے اور مرزائی کتا کی آواز میں جگہ جگہ بلند ہوتی تھیں.یہ سب کچھ اُن کی سمجھ سے بالا تر تھا.پس وہ سر پھینکے، دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ، چھوٹے چھوٹے تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے گھروں کی پر امن چار دیواری کی طرف بڑھتے تھے مگر اُن مختصر صحنوں کی سلامتی بھی بسا اوقات گلی سے پھینکے ہوئے پتھروں سے یک دفعہ جھنجھنا کر ٹوٹ جاتی تھی یا غلاظت کے پلندوں اور قتل کی دھمکیوں پر مشتمل

Page 189

۱۸۲ مذہب کے نام پرخون خطوط سے مکۃ رہونے لگتی تھی.احمدی ماں باپ نے یہ سب کچھ دیکھا اور اپنے بچوں کے زخم بھی اپنے سینوں پر کھائے مگر ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی! آخر یہ حیرت انگیز ماجرا کیوں کر گزرا اور یہ عظیم الشان صبر کی طاقت انہوں نے کہاں سے پائی ؟ وہ کون سا مستحکم یقین تھا جو ان آڑے وقتوں میں اُن کے دلوں کا سہارا بن گیا ؟ اگر وہ دروغ گو اور فتنہ پرداز اور جھوٹے اور دقبال تھے.اگر احمدیت ایک دکانداری تھی اور یہ سب سلسلہ انگریز کی غلامی اور دنیا کی لالچ کی خاطر قائم کیا گیا تھا تو اس پیغام کی خاطر دنیا کی ہر لالچ کو انہوں نے کیسے ٹھکرا دیا اور اپنے اموال اپنی آنکھوں کے سامنے کیسے لٹتے دیکھے؟ اپنی جان اور عزت کے لئے ہر خطرہ کیونکر مول لے لیا اور کیوں انہوں نے غیر متزلزل عزم اور صبر کے نمونے دکھائے جن کی توفیق صرف صادق اور راستباز کو عطا ہوتی ہے؟ اِس کی وجہ در حقیقت وہی وجہ تھی جس کا ذکر کرتے ہوئے بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام فرماتے ہیں:.قوم کے ظلم سے تنگ آ کے مرے پیارے آج شور محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے اور اُن خطرناک دنوں میں بھی ہمارے دل اس یقین سے پُر تھے کہ آخر ایک دن محبت کو نفرت پر فتح نصیب ہو کر رہے گی.یہ بگڑے ہوئے تیورضرور بدلیں گے اور یہ روٹھے ہوئے بھائی ضرور منیں گے، جذ بہ دل آخر کام کرے گا اور اخلاق کی کشش انہیں بہر حال ہمارے سینوں کی طرف کھینچ لائے گی.ہمارے کانوں میں امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا یہ سکینت بخش پیغام نغمہ ریز تھا اور آج بھی ہے کہ :-

Page 190

۱۸۳ کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل برمانے دو مذہب کے نام پرخون یہ درد رہے گا بن کے دوا.تم صبر کرو وقت آنے دو جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں جل جانے دو تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے بادل آفات و مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو پس آفات و مصائب کے بادل آئے اور چلے گئے.اُن کی بجلیاں ہمیں جلا نہ سکیں بلکہ قطرات محبت پڑکا کر چلی گئیں.یہ بادل پھر بھی آتے رہیں گے اور چھاتے رہیں گے مگر ہمیشہ یہ ہمیں اپنی بجلیوں سے بے خوف قطرات محبت کی انتظار میں آنکھیں بچھائے ہوئے پائیں گے اور وہ دن بہت دور نہیں کہ یہ قطرات محبت ایسے برسیں گے کہ سب کدورتیں دھل جائیں گی تب رحمت کے آسمانی پانی سے جل تھل ایک ہو جائیں گے اور اس رحمت کے پانی پر خدا کا عرش پھر سے قائم ہوگا!

Page 191

۱۸۴ مذہب کے نام پرخون دین سے اُلٹے پاؤں پھر جانے سے متعلق اسلامی تعلیم قال الليل صل الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اكتبوا في من تلفظ بِالإِسْلام میرے پاس مردم شماری کے طور پر ان تمام لوگوں کے نام لکھ کر لاؤ جو اپنے آپ کو " مسلمان کہتے ہوں.قرون وسطی کی مسیحیت میں ارتداؤ سے جو مخصوص مفہوم لیا جاتا تھا اور جسے اس زمانہ میں اسلام کے نام پر مولانا مودودی نے بڑی وضاحت اور شد ومد سے پیش کیا ہے جبکہ عربی زبان میں ارتداد کے اس مخصوص مفہوم کے لئے سرے سے کوئی لفظ ہی موجود نہیں ہے.اس میں شک نہیں کہ ابتدائی زمانہ کے بعض مسلم فقہاء کے نزدیک اسلام سے اُلٹے پاؤں پھر جانا سزائے موت کا مستوجب بنانے والا جرم تھا لیکن ان فقہاء کے نزدیک مسلم کی تعریف اتنی فراخ دلی کی آئینہ دار تھی کہ جو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا اسے اس تعریف کی رو سے دین سے الٹے پاؤں پھر جانے والا قرار دیا ہی نہیں جا سکتا تھا.خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری راہنمائی کے لئے ہمیں مسلم کی دو تعریفیں عنایت فرمائی ہیں.پہلی تعریف کی رو سے آپ نے مدینہ کی پہلی مردم شماری کے وقت ہدایت فرمائی کہ میرے پاس مردم شماری کے طور پر ان تمام لوگوں کے نام لکھ لاؤ جن کا ہر فرد اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو.ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا جو شخص بھی ہمارے قبلہ کی طرف رُخ کر کے ہماری طرح نماز پڑھتا ہے اور ہمار از بیجہ کھاتا ہے وہ مسلمان ہے.اس کے جان و مال کی حفاظت کے اللہ اور ۲۰۱ صحيح البخارى كتاب الجهاد باب كتابة الامام الناس

Page 192

۱۸۵ مذہب کے نام پرخون اس کے رسول ذمہ دار ہیں.اللہ کی اس ذمہ داری کی ہر گز خلاف ورزی نہ کرو.لیکن مولانا مودودی اور دوسرے علماء نے جو مسلم ممالک میں آمریت یا مطلق العنان بادشاہت پر مبنی حکومتوں کے زیر دست اور مؤید ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ اس سیدھی سادی تعریف میں اپنی طرف سے بھی بعض شرائط کا اضافہ کر ڈالا ہے.اگر حضرت امام غزالی ۴۵۰ ه تا ۵۰۵ ھ مطابق ۱۰۵۸ء تا ۱۱۱۳ء) کے الفاظ کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ایسے علماء نے جنت پر گنے چنے مولویوں کے مختصر ٹولے کا خصوصی استحقاق جتانے کی خاطر اللہ کی رحمت بے پایاں کو محدود کر کے رکھ دیا ہے.پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس جناب جسٹس محمد منیر نے جو ۱۹۵۳ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کے پریذیڈنٹ تھے.ایسے علماء کی اس تمام تر تگ و دو کے نتائج پر خلاصہ ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں:.66 علماء کی بیان کردہ مختلف تعریفوں کو پیش نظر رکھ کر کیا ہماری طرف سے کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟ بجز اس کے کہ دین کے کوئی دو عالم اس بنیادی امر ( یعنی مسلمان کی تعریف) پر متفق نہیں ہیں؟ اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اس عالم کے نزدیک مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جا ئیں گے سے ،، جسٹس منیر کے اس فکر انگیز اظہارِ خیال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سرزنش کی روشنی میں پڑھا جائے جو آپ نے ایک خاص موقع پر اسامہ بن زید کو فرمائی تھی تو اصل حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے.ابن الحق نے لکھا ہے کہ غزوہ غالب بن عبداللہ الکبی میں اسامہ بن زید اور ایک اور شخص صحیح البخارى كتاب الصلوة باب استقبال القبلة 66 الغزالي فيصل التفرقة بين الاسلام والزندقة قاهره١٩٠١ء رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب (اردو ) ۱۹۵۳ صفحه ۲۳۶،۲۳۵

Page 193

۱۸۶ مذہب کے نام پرخون نے ایک آدمی کو اپنی زد میں لا کر ہلاک کر ڈالا.خود اُسامہ بن زید کے اپنے الفاظ میں اس واقعہ کی تفصیل یہاں درج کرنا مناسب ہوگا وہ کہتے ہیں :- میں اور ایک انصاری اُس آدمی کو اپنی زد میں لائے.جب ہم دونوں نے اس پر اپنے ہتھیار اٹھائے تو اس نے کہا اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ إِلَّا اللهُ ( یعنی میں اقرار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ) لیکن ہم نے اس بات کا یقین نہ کر کے اپنے ہتھیار رو کے نہیں اور اسے قتل کر دیا.پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ہم نے آپ کو پورا واقعہ بتایا.آپ نے فرمایا ”اسامہ إِلَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ سے اعراض پر تمہیں کون بری الذمہ قرار دے گا ؟ اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے یہ کلمہ محض قتل سے بچنے کے لئے اپنی زبان سے ادا کیا تھا.آپ نے پھر فرمایا ” اُسامہ! لا إلهَ إِلَّا الله سے اعراض پر تمہیں کون بری الذمہ قرار دے گا ؟“ اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں ”قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، آپ برابر یہی جملہ ( یعنی لا إلهَ إِلَّا الله سے اعراض پر تمہیں کون بری الذمہ قرار دے گا؟) دہراتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ آج سے پہلے میں نے اسلام قبول نہ کیا ہوتا اور یہ کہ میں اسے قتل نہ کرتا.پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے موقع عنایت فرمائیے میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ اب کبھی کسی ایسے شخص کو قتل نہ کروں گا جو لا إلهَ إِلَّا اللہ کہتا ہوگا.آپ نے فرمایا: اسامہ میرے بعد ( یعنی 66 میری وفات کے بعد ) بھی یہی کہو گے.میں نے عرض کیا ہاں آپ کے بعد بھی لے ،، حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ کلمہ پر ایمان رکھنے اور اس کی شہادت دینے والوں کی زندگیوں کے بارہ میں میری تشویش کے باوجود میرے بعد ایسے لوگوں کو غلط کارلوگ اسلام کے نام پر قتل کرنے سے باز نہیں آئیں گے اور ان بے چاروں کو بلا وجہ اپنی زندگیوں سے ہاتھ عبدالملک بن ہشام سیرۃ رسول الله ( گونجن ۱۸۵۶ ء تا ۱۸۲۰ء) صفحہ ۹۸۴ متر جمہاے گوئیلام و 'دی لائف لے آف محمد لندن، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ۱۹۷۰ ء صفحہ ۶۶۷

Page 194

۱۸۷ مذہب کے نام پرخون دھونا پڑیں گے اسی لئے آپ نے اسامہ سے یہ عہد لیا کہ وہ آپ کے وصال کے بعد بھی کسی کلمہ گو کو قتل نہیں کریں گے.مسند احمد بن حنبل میں درج شدہ روایت کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید سے یہ بھی فرمایا.کیا تم نے اس شخص کا جسے تم نے قتل کر د ی دل چیر کر یہ تسلی کرلی تھی کہ واقعی اس کا دل ایمان سے خالی ہے؟.مراد اس سے آپ کی پیتھی کہ دل کا حال تو خدا جانتا ہے.ایک انسان دوسرے انسان کے دل کا بھید کیسے جان سکتا ہے؟ اس لئے ایمان کے معاملہ میں زبانی اقرار ہی کافی ہے اور اس اقرار سے ہی اقرار کرنے والے کے جان و مال کو تحفظ حاصل ہو جاتا ہے اس کے باوجود اقتدار کے بھو کے ملاں سیاسی اغراض کے پیش نظر مسلمانوں کو اپنے ان مسلمان بھائیوں کے قتل پر اکساتے رہتے ہیں جن کا نقطۂ نظر ان کے اپنے نقطۂ نظر سے قدرے مختلف ہو اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے ان کا دل چیر کر معلوم کر لیا ہے کہ ان کا ایمان بناوٹی اور مصنوعی ہے.اُلٹے پاؤں پھر جانے کے لئے قرآن نے ارتداد کا لفظ استعمال کیا ہے.اس لفظ سے ہی ظاہر ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے متعلق یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ وہ مرتد ہے.امام راغب اصفہانی نے واضح فرمایا ہے کہ لفظ ارتداد کے معنی ہیں اپنے قدموں کو اس حد تک واپس لے جانا جہاں سے چل کر کوئی شخص آیا تھا..ظاہر ہے اپنے قدموں سے چل کر واپس جانا ، جانے والے کا اپنا اختیاری فعل ہے وہ اگر واپس جائے گا تو خود چل کر واپس جائے گا.اس لئے اپنے مرتد ہونے کا وہ خود تو اقرار یا اعلان کر سکتا ہے لیکن کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس کی مرضی کے برخلاف اس کو مرتد ٹھہرائے یا قرار دے.ارتداد کا لفظ خاص طور پر اسلام سے کفر کی طرف واپس لوٹنے کے لئے بولا جاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی درج ذیل آیات سے ظاہر ہے :- إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّ وَا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى (محمد: ۲۶) ترجمہ:- وہ لوگ جو ہدایت ظاہر ہونے کے بعد اُس سے پھر گئے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِینِهِ (المائدة: ۵۵) ترجمہ: اے ایمان والو! جو شخص تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے.مسند امام احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۶۰ - المفردات فی غریب القرآن

Page 195

۱۸۸ مذہب کے نام پرخون رڈ کا لفظ فعل لازم ہے اس کا مادہ ہے ردد اس کا فعل متعدی ہوتا ہی نہیں.ایک آدمی خود تو دین سے پھر سکتا ہے کوئی دوسرا شخص اس پر ارتداد کوٹھونس کر اسے مرتد نہیں بنا سکتا.دین سے پھر جانا ایک رضا کارانہ عمل ہے.اس میں کسی بیرونی آلۂ کار یا واسطے کی شرکت و مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آزادانہ ارادے اور مرضی کا ہونا وہ ما بہ الامتیاز ہے جو ارتداد کو اس کے مسیحی اور مودودی تصور سے الگ کر دکھاتا ہے.ارتداد کے پس پردہ اُلٹے پاؤں پھر جانے والے کا رضا کارانہ ارادہ اور مرضی لازمی طور پر کار فرما ہوتی ہے جبکہ مسیحی اور مودودی تصور جیسا کہ ہم گزشتہ باب میں واضح کر چکے ہیں اس سے یکسر مبرا ہے.اس انوکھے تصور کی رو سے ارتداد دوسروں کی اپنی مرضی کے برخلاف ان پر ٹھونسا جاتا ہے اور انہیں زبردستی مرتد قرار دیا جاتا ہے.ان کے نزدیک ارتداد اور پھر اس کی سزا کے لئے ایک بیرونی اتھارٹی یعنی مقتدرہ کا ہونا ضروری ہے.وہ صاحب اقتدار ادارہ چرچ کی شکل میں مذہبی بھی ہوسکتا ہے اور حکومت کی شکل میں غیر مذہبی بھی.بات واضح کرنے کی خاطر از راہ امتثال کہا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ تصور پھانسی یا قتل کے مترادف ہے جبکہ ارتداد خودکشی کے ذیل میں آتا ہے.ایک شخص دوسرے کو پھانسی دے سکتا یا قتل کر سکتا ہے اُس کو خود کشی کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا.سورۃ الکافرون جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی تھی ، آزادی ضمیر سے متعلق براہ راست ایک پالیسی بیان کی حیثیت رکھتی ہے.اس سورۃ میں رسول اللہ سے کہا گیا کہ آپ کا فروں کو بتا دیں کہ زندگی گزارنے اور بسر کرنے کے اُن کے طریق اور آپ کے طریق میں باہمی میل ملاپ یا اشتراک و تعاون کی کوئی گنجائش نہیں ہے.مذہب کے بنیادی تصورات ہی میں نہیں بلکہ ان کی تفصیلات میں نیز زندگی کے دیگر پہلوؤں میں بھی دونوں کے درمیان بعد المشرقین پایا جاتا ہے اس لئے دونوں میں کسی مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.لہذا یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ لكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دِينِ (الكافرون :) ترجمہ : - تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین.یعنی اے کا فرو! تم اپنے دین پر عمل پیرا ر ہو اور میں اپنے دین پر عمل پیرا رہوں.دونوں

Page 196

۱۸۹ مذہب کے نام پرخون اپنے اپنے دین پر قائم رہنے اور اُس پر عمل کرنے میں آزاد ہیں.جس کسی کو جو مذہب پسند ہوا سے اس مذہب کو اختیار کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی پوری پوری آزادی حاصل ہونی چاہیے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بار بار بتایا گیا کہ اگر کفار آپ کے لائے ہوئے پیغام کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تو آپ اس پر دلگیر نہ ہوں.آپ ان کے ایمان لانے یا نہ لانے کے ذمہ دار نہیں ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُ قُلْ تَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ (الانعام: ۲۷) ترجمہ.تیری قوم نے اُس پیغام کو جو ہم نے تیرے ذریعہ بھیجا ہے مسترد کر دیا ہے حالانکہ وہ پیغام سراسر سچائی پر مبنی ہے تو اُن سے کہہ دے میں تم پر نگران مقرر نہیں کیا گیا ہوں.یہ اعلان مکی دور میں کیا گیا تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین کو مذہب کے نام پر تعزیر وتعذیب کا نشانہ بنایا جا رہا تھا.بعد ازاں جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو اس امر کے باوجود کہ وہاں آپ کو قوت و اقتدار حاصل تھا مذہبی آزادی کا یہ چارٹر علی حالہ قائم رہا.نہ صرف یہ کہ یہ چارٹر منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ زیادہ واضح اور قطعی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا.پہلی مدنی سورۃ جس میں آزادی ضمیر کے موضوع پر زیادہ تفصیل سے بحث کی گئی ہے سورۃ البقرۃ ہے.اس سورۃ کی آیت ۷ ۲۵ اس موضوع سے متعلق واضح ترین اعلان پر مشتمل ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة: ۲۵۷) ترجمہ:- دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں.ہدایت اور گمراہی کا فرق خوب الانبیاء کی آیت ۱۰۸ ، یونس کی آیت ۱۰۹، بنی اسرائیل کی آیت ۵۵ ، الزمر کی آیت ۲۴ ، الشورا ی کی آیت ۷ بھی اسی موضوع سے متعلق ہیں.لفظ وکیل کی تشریح امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر ( قاہرہ ۱۳۰۸ ھ ) جلد چہارم صفحه ۳۶،۲۶ میں نیز محمد عبدہ کی تفسیر القرآن میں اور محمد رشید رضا کی تفسیر المنار ( بیروت ۱۳۳۷ھ ) جلد هفتم صفحات ۵۰۱ تا ۵۰۳، ۲۶۲، ۲۶۳ میں دیکھی جاسکتی ہے.

Page 197

۱۹۰ مذہب کے نام پرخون ظاہر ہو چکا ہے.پس جو شخص ( اپنی مرضی سے ) نیکی سے روکنے والے کی بات ماننے سے انکار کرے اور اللہ پر ایمان رکھے تو اس نے ایک نہایت مضبوط اور قابل اعتماد چیز کو جو بھی ٹوٹنے کی نہیں مضبوطی سے پکڑ لیا.اور اللہ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.یہ ایک ایسے نبی کی طرف سے انتہائی پر اعتماد اعلان ہے جس نے ایک ایسے شہر میں ایک نئی امت کی بنیاد ڈالی ہے جس میں اسے کلی اقتدار اعلیٰ حاصل ہے.اس امر کے پیش نظر کہ کہیں جہاد کے مسئلہ کو غلط رنگ دے کر غلط فہمی نہ پیدا کی جائے یہ امر مسلمانوں کے ذہن نشین کرایا جارہا ہے کہ نیکی ، ایمان اور اعمال صالحہ بجالانے میں مضمر ہے ( آیات ۱۷۰ تا ۲۴۲).اس کے بعد آیت الکرسی یعنی آیت ۲۵۶ میں اللہ تعالیٰ کی ارفع و اعلیٰ شان اور اس کی قوت و جبروت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور پھر آیت الکرسی کے معابعد مذہب میں کوئی جبر نہیں، کا اعلان عام کیا گیا ہے.قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے یہ سمجھ سکتے تھے کہ خدا مسلمانوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ طاقت کے بل پر اسلام پھیلا ئیں کیونکہ اس میں انہیں امت کے دشمنوں سے لڑنے اور خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے کے لئے کہا گیا ہے چنانچہ ان کی یہ غلط فہمی دور کرنے کے لئے اس آیہ کریمہ میں مسلمانوں کو ہر قسم کے ابہام سے مبر انہایت درجہ واضح الفاظ میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اشاعت اسلام کی غرض سے طاقت استعمال کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لائیں.اس آیت کی اہمیت کا اندازہ ایک حدیث سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو جامع ترمذی میں درج ہے اُس حدیث کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۃ البقرہ قرآن کی چوٹی ( یعنی اس کا بلند ترین حصہ ) ہے.جو شخص بھی اس کی دس آیات کی تلاوت کو اپنا معمول بنائے گا شیطان اس کے گھر میں داخل نہیں ہو سکے گا وہ دس آیات یہ ہیں سورۃ البقرۃ کی پہلی چار آیات ، آیت الکرسی، اس کے معابعد کی دو آیات یعنی ۲۵۸،۲۵۷ اور آخری تین آیات ) ان دس آیات میں اس آیہ کریمہ کو شامل فرمانے سے جس میں دین کے معاملہ میں جبر جائز نہیں ، کا اعلان عام کیا گیا ہے یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ اس اعلان عام کو ہمیشہ ہمیش کے لئے بنیادی اہمیت حاصل ہے.اس اصول کو کہ دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں بدر کی فتح کے بعد بڑی شد و مد کے ساتھ دہرایا گیا.پہلے سورۃ النساء کی آیت ۲۱ میں اس کا اعادہ ہوا اور پھر سب سے آخر میں نازل

Page 198

۱۹۱ مذہب کے نام پرخون ہونے والی سورۃ یعنی سورۃ المائدہ میں اس اصول کو ایک بار پھر دہرا کر اس کی اہمیت ذہن نشین کرائی گئی.اب جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتدار نہ صرف مدینہ بلکہ ملکہ میں بھی پورے طور پر قائم ہو چکا تھا اس امر کو صراحت کے ساتھ واضح کرنا ضروری تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل ذمہ داری ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آپ اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچادیں.چنانچہ فرما یا :- وَاطِيعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلغُ الْمُبِينُ (المائدة : ٩٣) ترجمہ : - تم اللہ کی بھی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور ہوشیار رہو اور (اگر اس تنبیہ کے بعد بھی ) تم پھر گئے تو جان لو ہمارے رسول کے ذمہ تو کھول کھول کر پہنچا دینا ہی ہے.نیز آخر میں پھر اسی بات کو دہراتے ہوئے مزید فرمایا:- مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلاغُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ (المائدة: ١٠٠) ترجمہ:- رسول پر تو صرف بات کا پہنچانا واجب ہے.اور جو بات تم سے ظہور میں آجاتی ہے اس کو بھی اور جو تم سے ابھی عملاً ظہور میں نہیں آئی اس کو بھی اللہ خوب جانتا ہے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ مذہبی اعتقاد ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے.یہ صرف اور صرف خدا ہی ہے جو اس کو بھی جانتا ہے جسے انسان اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے اور اس کو بھی جانتا ہے جسے اس نے اپنے عمل سے ظاہر نہیں کیا یعنی دل کے مخفی خیالات اور ارادوں سے خدا ہی واقف ہوتا ہے.نہ حکومت کو اور نہ سر بر آوردہ مذہبی افراد کو یہ مقدرت حاصل ہے اور نہ ان کے دائرہ کار میں شامل ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں کے بھیدوں سے آگاہ ہو سکے یہ جان سکیں کہ دلی طور پر وہ کس بات پر ایمان رکھتے ہیں اور کس بات پر نہیں.اس آیت سے منافقین کی طرف ذہن کا منتقل ہونا ایک قدرتی عمل ہے.منافقین سے مراد مدینہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے محض دکھاوے کے طور پر ہی اسلام قبول کیا تھا اسی لئے ان کا ایمان مشکوک تھا.قرآن میں منافقین کا متعدد جگہ ذکر آتا ہے لیکن چار مقامات ایسے ہیں جہاں منافقوں کا

Page 199

۱۹۲ مذہب کے نام پرخون مرتدوں کے طور پر ذکر کیا گیا ہے.اس ضمن میں پہلا حوالہ سورۃ محمد میں واقع ہوا ہے.سورۃ محمد ایک مدنی سورۃ ہے جس میں اسلام کے رو سے جنگ کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے.اس میں بتایا گیا ہے که مؤمن تو ایسی وحی کو جس میں انہیں اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے بخوشی قبول کرتے ہیں لیکن برخلاف اس کے منافقین یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں مقتل کی طرف ہانک کر لے جایا جارہا ہے.اس طرح حقیقی مومنوں کو ، ان لوگوں کے مقابلہ میں جن کا ایمان جھوٹ پر مبنی اور کھوکھلا ہے ممیز و ممتاز کر کے دکھلایا گیا ہے.ان امور پر روشنی ڈالتے ہوئے اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے :- انَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَنُ سَوَّلَ لَهُمْ وَ اَمَلى لَهُمْ - ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنْطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ وَاللهُ يَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ.(محمد : ۲۷،۲۶) ترجمہ:- وہ لوگ جو ہدایت ظاہر ہونے پر اس سے پھر گئے شیطان نے ان کا عمل ان کو اچھا کر کے دکھلایا ہے اور ان کو جھوٹی امیدیں دلائی ہیں.یہ اس لئے ہوا کہ وہ ان لوگوں سے جو خدا کی تعلیم کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہاری بعض باتوں میں اطاعت کریں گے اور اللہ ان کی راز داری کو جانتا ہے.مندرجہ بالا آیات میں ان منافقوں کے لئے جو مرتدوں کے زمرہ میں آتے ہیں کسی سزا کا ذکر نہیں کیا گیا ہے.ایسے منافقوں کے ذکر کا دوسرا حوالہ خود سورۃ المنافقون میں وارد ہوا ہے.یہ سورۃ ۶ ہجری مطابق ۶۲۸ء کے اواخر میں نازل ہوئی تھی.اس سورۃ میں منافقوں کی غداری اور بے ایمانی کا پردہ چاک کیا گیا ہے اور ان کے ایمان لانے کے اعلانیہ دعوے کو سراسر فریب اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا گیا ہے.یہ ایک اعلانیہ سرزنش تھی جو انہیں اس وقت کی گئی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- إذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكَذِبُونَ اِتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ - ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ امَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطِيعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ b

Page 200

۱۹۳ مذہب کے نام پرخون فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ - وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُم وَ اِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِم ط b كَانَّهُمْ خُشُبُ مُسَنَدَةٌ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ هُمُ الْعَدُو فَاحْذَرُهُم - b قتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ - وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَقَوا رُءُوسَهُمْ وَ رَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ - سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ اسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ b b اَم لَمْ تَسْتَغْفِرُ لَهُمُ لَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفُسِقِينَ (المنافقون: ۲ تا ۷) جب تیرے پاس منافق آتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم قسم کھا کر گواہی دیتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے مگر ساتھ ہی اللہ قسم کھا کر گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں.انہوں نے اپنی قسموں کو ( تیری گرفت سے بچنے کے لئے ) ڈھال بنالیا ہے اور وہ اللہ کے رستہ سے لوگوں کو روکتے ہیں.جو کچھ وہ کرتے ہیں بہت برا ہے.یہ کام وہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ پہلے ایمان لائے پھر انہوں نے انکار کر دیا جس کے نتیجہ میں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور اب وہ سمجھتے نہیں..وہ پکے دشمن ہیں پس تو ان سے ہوشیار رہ تو ان کے لئے استغفار کرے یا نہ کرے ان کے لئے سب برابر ہے کیونکہ اللہ ان کو کبھی معاف نہیں کرے گا.اللہ اطاعت سے نکل جانے والی قوم کو کا میابی کا منہ نہیں دکھاتا.منافقوں کے متعلق آخری دو حوالے آخر میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ایک سورۃ ( یعنی سورة التوبة ) میں وارد ہوئے ہیں.جیسا کہ فرمایا :- b لا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَابِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبُ طَائِفَةٌ بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (التوبة: ٦٦) اب کوئی عذر نہ کرو تم نے ایمان لا کر کفر کیا.اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر دیں اور ایک دوسرے گروہ کو سزا دے دیں اس لئے کہ وہ مجرم تھے تو یہ ہمارا کام ہے.منافقوں میں سے جنہیں معاف کیا جانا تھا ظاہر ہے کہ یہ وہ منافق تھے جنہوں نے تو بہ کر لی

Page 201

۱۹۴ مذہب کے نام پرخون تھی اور مخلص مسلمان بن گئے تھے.جہاں تک اُن منافقوں کا تعلق ہے جنہیں سزا ملنی تھی ان کے متعلق اگلی آیات میں سے ایک آیت میں مذکور ہے :- وَعَدَ اللهُ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ وَالْكَفَارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَلِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ (التوبة: ٦٨) اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کفار سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے وہ اس میں رہتے چلے جائیں گے وہی ان کے لئے کافی ہے.اللہ نے ان کو دھتکار دیا ہے اور ان کے لئے ایک قائم رہنے والا عذاب مقدر ہے.اور آخر میں مزید فرمایا :- ج يَحْلِفُونَ بِاللهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَ هَمُوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا اَنْ اَغْنُهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ ۚ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ وَ إِنْ يَتَوَلَّوا يُعَذِّبُهُمُ اللهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِي وَلَا نَصِيرٍ ( التوبة : ٧٣) وہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بات نہیں کہی حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہی ہے اور اسلام لانے کے بعد کفر کیا ہے اور ایسی باتوں کا ارادہ کیا ہے جن کو وہ حاصل نہیں کر سکتے اور انہوں نے مسلمانوں سے صرف اس لئے دشمنی کی کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کو اپنے فضل سے مالدار بنادیا تھا.پس اگر وہ تو بہ کریں تو ان کے لئے اچھا ہوگا اور اگر وہ پیٹھ پھیر کر چلے جائیں تو اللہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب دے گا اور اس جہان میں نہ کوئی ان کا دوست ہوگا اور نہ مددگار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافقوں کا سردار ہے لیکن آپ نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا.اس سے بڑھ کر یہ کہ جب اس نے وفات پائی تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی.نماز جنازہ پڑھانے کے واقعہ کا حضرت عمرؓ نے ان الفاظ میں ذکر کیا:- لے اس آیہ کریمہ میں ارتداد اختیار کرنے والے منافقوں کو ملنے والی سزا کا زیادہ پرزور انداز میں ذکر کیا گیا ہے.

Page 202

۱۹۵ مذہب کے نام پرخون ” جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی میت کے قریب آکر کھڑے ہوئے اور نماز جنازہ پڑھانے لگے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ دشمن خدا کی نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سن کر مسکرائے اور پھر فرمایا عمر! میرے پاس سے ہٹ کر پیچھے ہو جاؤ، مجھے نماز پڑھانے یا نہ پڑھانے دونوں کا اختیار دیا گیا ہے اور میں نے نماز پڑھانے کو پسند کیا ہے.مجھے کہا گیا ہے چاہیں تو ان کے لئے معافی کی درخواست کریں اور چاہیں تو نہ کریں، اگر ان کے لئے ستر بار بھی معافی کی درخواست کی تو میں انہیں معاف نہیں کروں گا.اگر میں جانتا کہ ستر سے زیادہ مرتبہ دعائے مغفرت کروں تو اسے معاف کر دیا جائے گا تو میں ستر سے زیادہ مرتبہ بھی اس کے لئے دعائے مغفرت کرتا.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنازے کے ساتھ تشریف بھی لے گئے اور اس وقت تک وہاں ٹھہرے رہے جب تک کہ اسے دفن نہ کر دیا گیال ، اس بات کا امتحان کہ دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں اس امر میں مضمر ہے کہ ہر شخص مذہب تبدیل کرنے میں آزاد ہو.اس بارہ میں یک طرفہ آزادی، آزادی نہیں کہلا سکتی.یک طرفہ آزادی سے مراد یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کی تو آزادی ہو لیکن اسے ترک کرنے کی آزادی نہ ہو.قرآن مجید میں ارتداد کا براہ راست ذکر دس مقامات پر کیا گیا ہے.ایک تو اس کا ذکر سورۃ النحل میں ہے جو ایک مکی سورۃ ہے.باقی نو بار اس کا مدنی سورتوں میں ذکر آتا ہے.ان جملہ آیات میں سے کسی ایک آیت میں بھی اس بارہ میں خفیف سا اشارہ بھی نہیں ملتا کہ دین سے اُلٹے پاؤں پھر جانے والوں کے لئے موت کی سزا مقرر ہے.ارتداد کے متعلق واضح ترین بیانوں میں سے ایک بیان سورۃ البقرہ کی آیت ۱۴۳ میں درج ہے یروشلم سے مکہ کی جانب تحویل قبلہ کا واقعہ ۲ ہجری میں پیش آیا.اس بارہ میں ابن اسحق نے تحریر کیا :- ” جب قبلہ کی تحویل شام کی سمت سے کعبہ کی سمت ہوئی تو یہود مدینہ میں سے رفاعہ بن قیس، ↓ ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۹۲۷

Page 203

۱۹۶ مذہب کے نام پرخون فردم بن عمرو، کعب بن اشرف، رافع بن ابی رافع ، کعب کا حلیف حجاج بن عمر و ، ربیع بن الربيع بن ابی الحقیق اور کنانہ بن الربیع بن ابی الحقیق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے محمد ! آپ جس قبلہ پر تھے اُس سے کس چیز نے آپ کو پھیر دیا، آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ آپ ملت ابرا ہیمی اور دینِ ابراہیمی پر ہیں ، جس قبلہ پر تھے اس پر لوٹ آئیں ہم آپ کی پیروی کریں گے اور آپ کو سچا مان لیں گے.حقیقت یہ ہے کہ وہ آپ کو دین حق سے برگشتہ کر دینا چاہتے تھے.چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِى كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللهُ (البقرة : ۱۴۴) ہم نے اس قبلہ کو جس پر تو پہلے قائم تھا صرف اس لئے مقرر کیا تھا تا کہ ہم اس شخص کو جو اس رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے اس شخص کے مقابل پر جو ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے ایک ممتاز حیثیت میں جان لیں اور یہ امر ان لوگوں کے سوا جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے دوسروں کے لئے ضرور مشکل ہے.“ تحویل قبلہ کے وقت ایڑیوں کے بل پھر جانے والے یعنی ارتداد اختیار کرنے والے ان لوگوں کے لئے قرآن مجید نے کوئی سزا مقرر نہیں کی اور تاریخ میں بھی کسی ایسے مرتد کا کوئی ذکر نہیں ملتا جسے تحویل قبلہ کے بعد ارتداد کی بناء پر کوئی سزا دی گئی ہو.سورۃ آل عمران ۲ ہجری مطابق ۶۲۴ عیسوی میں بدر کی فتح کے بعد نازل ہوئی تھی.اس سورۃ کی مندرجہ ذیل دو آیات میں مدینہ کے بعض یہودیوں کے مرتد ہو جانے کا ذکر آتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- (1) ياهل الكِتبِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُونَ الْحَقِّ وَ اَنْتُم تَعلَمُونَ - (ال عمران: ۷۲) رووو ↓ ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۳۸۱

Page 204

۱۹۷ مذہب کے نام پرخون اے اہل کتاب ! تم جانتے بوجھتے ہوئے کیوں حق کو باطل کے ساتھ ملاتے اور حق کو چھیاتے ہو؟ (۲) وَ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ أمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجَهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا أُخِرَةَ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (ال عمران: ۷۳) اور اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ مؤمنوں پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس پر دن کے ابتدائی حصہ میں تو ایمان لے آؤ اور دن کے پچھلے حصہ میں اس سے انکار کر دو.شاید اس ذریعہ سے ) وہ پھر جائیں.ابن الحق نے ان یہودیوں کے نام بھی درج کئے ہیں جنہوں نے سورۃ آل عمران کی آیت ۷۳ میں مذکور منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا تھا.چنانچہ اس نے لکھا:- عبد اللہ بن ضیف، عدی بن زید اور الحارث بن عوف نے متفقہ طور پر اس امر کا فیصلہ کیا کہ وہ ایک وقت میں تو جھوٹ موٹ یہ ظاہر کریں گے کہ وہ محمد اور اس کے ساتھیوں کے پیغام پر ایمان لے آئے ہیں اور پھر ان کے ذہنوں میں الجھن پیدا کرنے کے لئے دوسرے وقت میں اس کا انکار کر دیں گے.مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح وہ مسلمانوں کو اس امر کی ترغیب دیں گے کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے مذہب سے منحرف ہو جا ئیں.ان تینوں یہودیوں میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی.پھر سورۃ النساء میں بھی اس امر کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :- إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ اَمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا (النساء: ۱۳۸) اور جولوگ ایمان لائے پھر انہوں نے انکار کر دیا، پھر ایمان لائے اور پھر انکار کر دیا، پھر کفر میں اور بھی بڑھ گئے، اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کر سکتا اور نہ انہیں نجات کا کوئی رستہ ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۳۸۴

Page 205

۱۹۸ مذہب کے نام پرخون دکھا سکتا ہے.اگر دین سے پھر جانے کی سزا موت ہو تو ایک مرتد بار بار ایمان لانے اور بار بار اس سے پھر جانے کی عیاشی کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے؟ اور پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایک شخص جسے ارتداد اختیار کرنے کی بناء پر موت کی سزا دے دی گئی ہو اس کے لئے تو یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ مرنے کے بعد پھر ایمان لائے اور پھر اس سے منکر ہو جائے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل کے پیچھے خدائی تصرف کار فرما ہوتا تھا.جس طرح آپ نے خدائی احکام پر عمل کر کے دکھایا اسے سنت کہتے ہیں.سنت کو شریعت کے دوسرے اہم ماخذ کی حیثیت حاصل ہے.شریعت کے اس اہم ماخذ یعنی سنت کی رو سے بھی اسلام ترک کر کے اس کی بجائے کوئی اور دین اختیار کرنے کی کوئی سزا نہیں ہے.جن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی سزادی ، سیرت اور احادیث کی کتب میں ان کے نام محفوظ ہیں اور ان لوگوں کے نام بھی محفوظ ہیں جنہوں نے آپ کی زندگی میں اسلام ترک کر کے ارتداد اختیار کیا.اسی ضمن میں ایک بدو ( یعنی ایک صحرانشین عرب باشندہ) کے متعلق لکھا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کر کے اسلام میں داخل ہوا.ابھی وہ مدینہ میں ہی تھا کہ بخار میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بیمار ہو گیا.بیماری سے گھبرا کر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ اسے بیعت کے عہد سے آزاد کر دیں.اُس نے وقفہ وقفہ سے تین دفعہ یہ درخواست کی اور تینوں دفعہ اُس کی یہ درخواست منظور نہ ہوئی.آخر وہ خود ہی مدینہ سے چلا گیا اور کسی نے اس کا بال بھی بیکا نہ کیا.اس کے چلے جانے کا ذکر سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا مدینہ تو ایک بھٹی کی طرح ہے جو زر خالص سے میل کچیل اور فضلہ کو دور کر دیتی ہے یعنی زر خالص باقی رہ جاتا ہے اور میل کچیل کے خود بخو دا لگ ہوجانے سے اسے پھینک دیا جاتا ہے.ابن اسحق نے بیان کیا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہوتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کے امیروں اور سرداروں کو ہدایت فرمائی تھی کہ صرف اُن لوگوں سے ہی جنگ لے صحیح البخاری (مطبوعه قاهره جلد اول کتاب ۳

Page 206

۱۹۹ مذہب کے نام پرخون کی جائے جو ان کی راہ میں مزاحم ہوں.مندرجہ ذیل مجرم اس حکم سے مستثناء تھے.ان کے بارہ میں آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ جہاں بھی ملیں حتی کہ اگر وہ خانہ کعبہ کے پردوں کے پیچھے بھی چھپے ہوئے ہوں انہیں قتل کر دیا جائے لے.ا.عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ۲، ۳، ۴.عبد اللہ بن خطل ( جو بنی تمیم ابن غالب کا آدمی تھا ) اور اس کی گانے بجانے اور ناچنے والی دو باندیاں.وہ دونوں اسلام کے خلاف ہجویہ اشعار گا گا کر لوگوں کو سنایا کرتی تھیں.ان میں سے ایک کا نام فرئئی تھا.دوسری باندی کا نام ابن اسحق نے درج نہیں کیا.۵ - الحویرث بن نفیذ بن وہب بن عبد بن قصی مقیس بن صبابہ ے.سارہ.یہ خاندان بنی عبد المطلب کے ایک شخص کی لونڈی تھی.عکرمہ بن ابو جہل ہے.ان میں سے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین وحی میں سے ایک تھا وہ مرتد ہو گیا اور غداری کا مرتکب ہو کر مدینہ سے بھاگ نکلا اور کفار مکہ سے جاملا.چونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی املا کر دہ وحی الہی کو ضبط تحریر میں لاتا تھا اور اس لحاظ سے اسے بہت قابل اعتماد حیثیت حاصل تھی اس لئے اس کی غداری کی وجہ سے قریش مکہ کے ذہنوں میں وحی الہی کے مستند ہونے کے متعلق شکوک و شبہات کا پیدا ہونا لازمی تھا.اس لحاظ سے اس کا غداری کا جرم کوئی معمولی جرم نہ تھا.جب فتح مکہ کے بعد مکہ میں امن بحال ہو گیا تو اس کے رضاعی بھائی عثمان بن عفان نے اس کی طرف سے بیچ میں پڑ کر اس کے لئے جان بخشی کی سفارش کی.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف فرما دیا ہے.اگر ارتداد کی کوئی قرآنی سزا مقرر ہوتی تو آپ ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۸۱۸ ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۸۱۹ سے ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۸۱۸، ۸۱۹

Page 207

مذہب کے نام پرخون عبد اللہ بن سعد کو کبھی معاف نہ فرماتے.ایسی سزاؤں کے متعلق جو قرآنی حدود کا درجہ رکھتی ہیں سفارش کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولی موقف کا ایک واقعہ سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ بنی مخزوم کی ایک عورت پر چوری کا الزام ثابت ہو گیا.جب اسامہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کی سزا معاف کئے جانے کی سفارش کی تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کیا تم ایک ایسی سزا معاف کئے جانے کی سفارش کرتے ہو جو خدا کی مقرر کردہ ہے.بخدا اگر فاطمہ بنت محمد کبھی چوری کی مرتکب ہوتی تو میں یقیناً اس کا ہاتھ بھی کٹوا دیتا.جہاں تک عبد اللہ بن خطل کا تعلق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک انصاری کے ہمراہ ایک علاقہ میں زکوۃ کی وصولی کے لئے بھیجوایا تھا.اُس انصاری کو اُس کی خدمت کے لئے ساتھ بھجوایا گیا تھا.جب راستہ میں ان دونوں نے ایک جگہ قیام کیا تو عبد اللہ بن خطل نے سونے سے پہلے اس انصاری کو حکم دیا کہ وہ ایک بکری ذبح کر کے اس کے لئے کھانا تیار کرے.جب عبد اللہ بن خطل نیند سے بیدار ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس انصاری نے نہ تو بکری ذبح کی ہے اور نہ کھانے کا کوئی اور انتظام ہی کیا ہے اس پر وہ بہت غضبناک ہوا.وہ اس انصاری کو قتل کر کے وہاں سے بھاگ نکلا اور قریش مکہ سے جاملا اور ساتھ ہی اسلام سے اپنے مرتد ہونے کا اعلان بھی کر دیاہے.وہ اس انصاری مسلم کے قتل کی پاداش میں سعید بن حریث المخزومی اور ابو برزہ اسلمی کے ہاتھوں قتل ہوا.ابن خطل کی گانے بجانے والی دو باندیوں میں سے ایک کو ہجویہ اشعار گا گا کر لوگوں میں اشتعال پھیلانے کے جرم میں قتل کیا گیا اور دوسری لڑکی کو کسی کی طرف سے سفارش پیش ہونے پر بعد میں معافی دے دی گئی ہے.اب رہا الحویرث بن نقیذ کا معاملہ.شخص بہتبار بن الاسود بن المطلب بن اسد کی اس پارٹی ے ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۸۱۹ ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۸۱۹ سے ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۸۳۰

Page 208

مذہب کے نام پرخون میں شامل تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کو اس وقت رستہ میں جالیا تھا جب آپ مکہ سے مدینہ تشریف لے جارہی تھیں.الحویرث نے حضرت زینب کے اونٹ کا تنگ کاٹ دیا جس کی وجہ سے آپ نیچے آگریں.آپ حاملہ تھیں گرنے کی وجہ سے آپ کا حمل ضائع ہو گیا اور آپ کو مکہ واپس جانا پڑا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی لوگوں کو اس حکم کے ساتھ مکہ بھجوایا کہ اگر ہبار بن الاسود یا الحویرث بن نقیذ کہیں ملیں تو انہیں قتل کر دیا جائے لے لیکن الحویرث ان کی زد میں آنے کے باوجود بیچ نکلا.ایک اور اطلاع کی رو سے ہشام نے لکھا ہے کہ حضرت عباس بن عبد المطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم کو ایک اونٹ پر سوار کر کے انہیں مکہ سے مدینہ لے جارہے تھے.الحویرث نے ان کے اونٹ کو اس طرح بھگایا کہ دونوں صاحبزادیاں نیچے آگریں.بالآخر حضرت علی نے اسے قتل کیا ہے.مقیس بن صبابہ کا واقعہ یہ ہے کہ وہ مکہ سے مدینہ آیا.اس نے کہا میں تم لوگوں کے پاس ایک مسلمان کی حیثیت سے آیا ہوں اور اپنے بھائی کے قتل کے قصاص کا طالب ہوں.اس کے بھائی کو ایک انصاری نے غلطی سے قتل کر دیا تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مقیس کو اس کے بھائی ہشام کے قتل کا خوں بہا ادا کر دیا جائے.خوں بہا لینے کے بعد وہ کچھ عرصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتار ہالیکن موقع ملتے ہی اس نے اپنے بھائی کے قاتل کو قتل کر ڈالا اور پھر ارتداد اختیار کر کے وہاں سے بھاگ نکلا اور مکہ جا پہنچا ہے.بعد میں مقیس کو تعمیلہ بن عبد اللہ نے ایک انصاری کو جان سے مار دینے کے جرم میں قتل کیا.وہ دوہرے جرم کا مرتکب ہوا تھا.اس نے اپنے بھائی کے قتل کا خوں بہا وصول کر لیا تھا اس کے باوجود اس نے اپنے بھائی کے قاتل کو مارڈالا.اے ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۴۶۹،۴۶۸ ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۸۱۹ سے ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول الله - الزرقانی شرح مواہب اللہ نیہ ( قاہرہ ۱۳۲۵ھ ) جلد دوم صفحہ ۳۱۵ نیز دیکھئے حضرت مولوی شیر علی کی کتاب قتل مرتد اور اسلام (امرتسر ۱۹۲۵ء) صفحه ۱۱۹ ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۷۲۸ ه ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۸۱۹

Page 209

مذہب کے نام پرخون سارہ جسے گڑ بڑ پھیلانے کے جرم میں قتل کی سزا کا مستحق قرار دیا گیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قتل نہیں ہوئی اور بعد میں بھی زندہ رہی.فتح مکہ کے موقع پر عکرمہ بن ابو جہل یمن کی طرف بھاگ نکلا تھا.اس کی بیوی ام حکیم مسلمان ہوگئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لئے معافی اور جاں بخشی کی خواستگار ہوئی.آپ نے اس کی درخواست قبول فرماتے ہوئے عکرمہ کو معاف فرما دیا.ان تمام واقعات میں بھی ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام سے محض ارتداد اختیار کرنے والے کسی شخص کو کوئی سزا دی ہو.۱۱ ہجری مطابق ۶۳۲ عیسوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے معا بعد نو خیز مسلم حکومت کو ایک بہت بڑے بحران سے دو چار ہونا پڑا.جزیرہ نمائے عرب کے بعض حصوں میں لاقانونیت کی کیفیت پیدا ہوگئی اور بہت سے قبائل نے زکوۃ ادا کرنے سے انکار کر کے مدینہ سے اپنا تعلق منقطع کر لیا.یہ باغیانہ تحریک الروہ کے نام سے موسوم ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ حضرت ابوبکر کو سب سے اہم معاملہ یہ در پیش تھا کہ آپ اس بے چینی اور افراتفری کا خاتمہ کریں لیکن پہلا اور سب سے مقدم کام آپ کا یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وصال سے قبل جس فوجی مہم کا حکم دیا تھا آپ اس مہم کے سلسلہ میں لشکر روانہ کریں چنانچہ آپ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد دوسرے ہی روز اسامہ بن زید بن حارث کی کمان میں اسلامی لشکر کو شامی سرحد کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا.اسامہ اور ان کے لشکر کے روانہ ہونے کے بعد اکثر قبائل نے مدینہ کی حکومت سے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا.صرف مکہ اور مدینہ اور ان کے ملحقہ علاقے ہی تھے جو مرکزی حکومت کے زیر نگیں باقی رہ گئے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبائل میں جن لوگوں کو اپنے نمائندوں کے طور پر مقرر کیا تھا وہ ان کے علم بغاوت بلند کرنے پر اپنی جگہوں سے بھاگنے اور مدینہ واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے یہ ہر لحاظ سے بھر پور نوعیت کی کھلی کھلی بغاوت تھی.باغیوں کے خلاف جنگ کرنے کے فیصلہ کے بعد حضرت ابوبکر نے بعض وفادار قبائل کی ابن ہشام کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۸۱۹

Page 210

۲۰۳ مذہب کے نام پرخون طرف یہ پیغام بھجوایا کہ وہ اس موقع پر مرکزی حکومت کی مد کو پہنچیں.آپ ابھی ان کی طرف سے کمک کا انتظار ہی کر رہے تھے کہ اس اثناء میں خارجہ بن حصم نے یو نیناہ بن حصم الفزاری اور الاقرابن حابس التمیمی کی سرکردگی میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا.پہلے تو مسلمان افراتفری کے عالم میں بھاگ نکلے لیکن انہوں نے فوراً ہی دوبارہ جمع ہو کر خارجہ کے آدمیوں پر بھر پور حملہ کیا اور انہیں بھاگنے اور شکست کھانے پر مجبور کر دیا.ذوالقصہ کے مقام پر ہونے والی اس جھڑپ سے پہلے عرب قبائل کا ایک وفد ز کوۃ کے مسئلہ پر حضرت ابوبکر کے ساتھ گفت و شنید کرنے مدینہ آیا تھا لیکن آپ نے ان کے ساتھ گفت وشنید سے انکار فرما دیا.بعض ابتدائی اور نمایاں حیثیت رکھنے والے مہاجرین نے حضرت ابوبکر کے اس فیصلہ سے اتفاق نہ کیا کہ آپ زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں کے خلاف جنگ کریں گے.اس امر سے کہ یہ قبائل گفت وشنید کے خواہاں تھے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مرتد نہیں ہوئے تھے اور یہ کہ وہ مدینہ سے تعلق منقطع کرنا نہیں چاہتے تھے البتہ وہ اپنے اوپر مدینہ کی سیاسی بالا دستی اور کنٹرول کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے.جہاں تک باغی قبائل کے طرز عمل کا تعلق ہے اللہ اور رسول پر ایمان ما بہ النزاع نہیں تھا.مابہ النزاع صرف ایک امر تھا یعنی زکوۃ (ٹیکس) کی ادائیگی سے انکار.بعض معروف اور نامور صحابہ نے حضرت عمر کی سرکردگی میں باغیوں کے خلاف جنگ کرنے سے متعلق حضرت ابوبکر کے فیصلہ پر اعتراض کیا.بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے کہا ” ان لوگوں کے خلاف آپ کو جنگ کرنے کا کیا حق ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا مجھے اس وقت تک ہی جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ لَا إِلَهَ إِلَّا الله نہ پکار اٹھیں.اگر وہ زبان سے لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دیتے ہیں تو انہیں از خود میری طرف سے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت مل جاتی ہے لے باغی قبائل کے وفد کی مدینہ سے روانگی کے بعد حضرت ابوبکر نے مسلمانوں کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا :- وفد نے دیکھ لیا ہے کہ مدینہ میں اب تم کتنی تھوڑی تعداد میں ہو.تمہیں اس بات کا لے محمد ادریس الشافعی کی کتاب ”کتاب الائتم جلد ۸ صفحہ ۲۵۶‘ ایڈیشن شائع کردہ محمد ظاہری النجار قاہرہ

Page 211

۲۰۴ مذہب کے نام پرخون کوئی علم نہیں ہے کہ وہ دن کو تم پر حملہ کرتے ہیں یا رات کو.ان کا ہراول دستہ مدینہ سے زیادہ دور نہیں ہے.وہ ہم سے چاہتے تھے کہ ہم ان کی تجاویز قبول کرلیں اور ان کی شرائط کے مطابق ان کے ساتھ معاہدہ طے ہولیکن ہم نے ان کی یہ درخواست مستر د کر دی ہے.پس ان کے حملہ کو پسپا کرنے کے لئے تیاری کروٹ " ہوا بھی یہی انہوں نے تین دن کے اندر اندر مدینہ پر حملہ کر دیا.جنگ رڈہ کے نتیجہ میں بہت خون خرابہ ہوا.بعد میں آنے والے مؤرخین کے لئے یہ بات نا قابل فہم تھی اور اس کی کوئی توجیہہ ان کے ذہن میں نہ آتی تھی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی وفات کے بعد سر زمین عرب میں اتنی زیادہ جنگوں کی ضرورت کیوں پیش آئی.انہوں نے اس کا سبب اپنی طرف سے اس امر کو قرار دے ڈالا کہ اسلام کے خلاف التر وہ نامی ایک مذہبی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تھی ہے.حالانکہ یہ مذہبی تحریک تھی ہی نہیں بلکہ مرکزی حکومت کے خلاف ایک کھلی کھلی بغاوت کے علاوہ اس کی اور کوئی حیثیت نہ تھی.اُدھر بعد میں آنے والے فقہاء کو ایسے مسلمانوں کے قتل کے بارہ میں جن پر کفر اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہو قرآن وسنت سے کوئی سند نہ مل سکی تھی اور نہ مسلمان سیاسی طاقتوں کے خلاف جنگ کرنے کے بارہ میں کسی سند جواز تک ان کی رسائی ہوسکی تھی اس لئے انہوں نے خود تحقیق کی زحمت اٹھائے اور سر دردی مول لئے بغیر مؤرخوں کے اس مفروضہ کو کہ اسلام کے خلاف ایک مذہبی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تھی درست تسلیم کر لیا.مسلمان باغیوں کے خلاف حضرت ابوبکر کی جنگ کی قانونی حیثیت پر بحث کرتے ہوئے حضرت امام شافعی کہتے ہیں.رڈہ کہتے ہیں کسی پہلے سے اختیار کئے ہوئے مذہب کو ترک کر کے عدم ایمان کی حالت میں جا گرنے کو اور پہلے قبول کی ہوئی ذمہ داری پوری کرنے سے انکار کرنے کو سے لیکن مرتدوں کو سزا دینے یا ان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے ان کا محض ارتداد کافی نہیں ہے لے ابو جعفر محمد بن جریر الطبری تاریخ الرسول والملک ایڈیشن شائع کردہ M.J.GORJE(لائیڈن ۱۹۶۴ء) جلد چہارم صفحہ ۱۸۷۴ سی.ایچ.بیکر THE EXPANSION OF THE SARACENS دی کیمبرج میڈیول ہسٹری نیو یارک میکملن ۱۹۱۳ء) جلد ۱۱ صفحه ۳۳۵ سے محمد ادریس الشافعی کتاب الام جلد ۸ صفحه ۲۵۶،۲۵۵

Page 212

۲۰۵ مذہب کے نام پرخون بلکہ کسی معاہدے کی خلاف ورزی یا نقض عہد کے ذریعہ جرم کی نوعیت اور اس کی شدت میں اضافہ کا ہونا ضروری ہے.ایک بالکل مختلف مکتب فکر کے عالم دین ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی تفسیر میں معاملہ کو یہ کہہ کر صاف کر دیا.جن قبائل نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا وہ مرتد نہیں تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے تو انہیں استعارہ مرتد کہا تھا لے،، مستشرقین میں سے ویل ہاؤسن WELL HAUSEN کے نزدیک ردّہ کی تحریک مدینہ کی لیڈرشپ کے خلاف بغاوت کی حیثیت رکھتی تھی.اس میں اسلام کے خلاف بغاوت کا عنصر شامل نہ تھا.اکثر قبائل ٹیکس ادا کئے بغیر اللہ کی عبادت جاری رکھنا چاہتے تھے.کیتانی CAETNI نے بھی ویل ہاؤسن سے اس امر میں اتفاق کیا ہے.وہ کہتا ہے رڈہ تحریک ارتداد نہیں تھی بلکہ ان لڑائیوں کا تعلق خالصہ سیاست سے تھا.ویل ہاؤسن اور کیتانی کی پیروی کرتے ہوئے بیکر BECKER جس نتیجہ پر پہنچا ہے وہ خود اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:.محمد کی اچانک وفات نے مرکز گریز رجحانات کو ایک نئی تقویت پہنچائی.اس ساری تحریک کی اصل نوعیت اگرچہ اس دور کے معاصرین کی نگاہوں سے پوشیدہ تھی لیکن وہ ایک مؤرخ کے ذہن میں بڑی شدت سے آئے بغیر نہیں رہتی.الرڈہ کی علیحدگی پسند تحریک مرکزی قیادت کے لئے ایک ناگزیر ضرورت کو جنم دینے کا موجب ہوتی تھی اور اس ناگزیر ضرورت نے مدینہ کی ریاست کو ایسی زبر دست قوت سے مالا مال کر دکھایا تھا کہ جس کے آگے کسی مخالف قوت کا ٹھہر نا ممکن نہ تھا.اگر ناگزیر ضرورت مدینہ کی ریاست کو ناقابل تسخیر قوت سے مالا مال نہ کر دکھاتی تو پورا عرب مخصوص علاقائی جزئیات کی دلدل میں غرق ہو کر رہ جاتا.ردّہ کے خلاف لڑائی دراصل مرتدوں کے خلاف لڑائی نہ تھی کیونکہ قبائل کو اسلام پر اعتراض نہ تھا ، اعتراض تو انہیں اس خراج (یا ٹیکس ) پر تھا جو مدینہ کو ادا کیا جاتا تھا.اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ فی الحقیقت عرب پر سیاسی غلبہ کی جنگ تھی ہے ،، عبدالحمید هبت اللہ ابن الحدید شرح نہج البلاغہ ایڈیشن محمد ابوالفضل ابراہیم ( قاہر ۱۹۵۶۰ تا ۶۴) جلد ۸ صفحه ۸۷ سی.ایچ بیکر کی مذکورہ کتاب صفحہ ۳۳۵

Page 213

وو ۲۰۶ مذہب کے نام پرخون مسٹر برنارڈ لیوئس BERNARD LEWIS نے اس بارہ میں بالوضاحت لکھا ہے کہ یہ بات عیاں ہے کہ "التردہ کی تحریک اس امر کی آئینہ دار ہے کہ بعد میں آنے والے مؤرخوں نے جن کا نقطۂ نظر مذہبی عصبیت کا رنگ اپنے اندر لئے ہوئے تھا رونما ہونے والے واقعات کی اصل نوعیت اور اہمیت کو مسخ کر کے رکھ دیا.مسٹر برنارڈ لیوئس نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے مزید لکھا ہے :- ابوبکر کی جانشینی کو تسلیم کرنے سے قبائل کے انکار کے ہرگز یہ معنی نہ تھے کہ وہ لوگ جو اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے اپنے سابقہ مشرکانہ مسلک کی طرف واپس لوٹ گئے تھے بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ طرفین میں سے ایک کی وفات سے سیاسی معاہدہ از خود کالعدم ہو گیا ہے.جو قبائل مدینہ کے قرب وجوار میں آباد تھے وہ تو سوچ سمجھ کر حقیقی معنوں میں اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے تھے ان کے مفادات پوری امت مسلمہ کے مفادات سے اس قدر ہم آہنگ تھے کہ امت سے جدا گانہ ان کی اپنی کوئی تاریخ مرتب ہونے کا سوال ہی نہ تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ان کی اپنی کوئی علیحدہ تاریخ مرتب ہی نہیں ہوئی.محمد کی وفات کے نتیجہ میں باقی قبائل کے نقطہ نظر کے مطابق مدینہ کے ساتھ ان کے سیاسی تعلقات کا متاثر ہونا ایک لازمی امر تھا.وہ سمجھتے تھے کہ اب مدینہ کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے یا نہ رکھنے میں وہ آزاد ہیں.وہ اپنے آپ کو ابوبکر کے انتخاب کو تسلیم کرنے کا کسی لحاظ بھی پابند نہیں سمجھتے تھے اور اس لئے بھی نہیں سمجھتے تھے کہ انہوں نے ان کو منتخب کرنے میں سرے سے حصہ نہیں لیا تھا.چنانچہ انہوں نے فوراہی ٹیکس کی ادائیگی بند کر دی اور معاہدے کے نتیجہ میں قائم ہونے والے تعلقات کو معطل کر دیا.مدینہ کی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے ابو بکر کو نئے معاہدے کرنے پڑے لے “ حضرت علی ۶۶۱ء میں شہید ہوئے.آپ کی شہادت کے ساتھ ہی ایک ایسے مسلمان حکمران کا نظریہ جس کی ذات میں مملکت اور مذہب کی سربراہی مجتمع ہو رخصت ہو گیا.سیاسی حکمرانوں کی برنارڈ لیوئس کی کتاب THE ARABS IN HISTORY (لندن ۱۹۵۸ء) صفحه ۵۲،۵۱

Page 214

۲۰۷ مذہب کے نام پرخون حیثیت سے بنوامیہ کے خاندانی دور حکومت (۶۶۱ تا ۷۵۰ء) کا آغاز حضرت امیر معاویہؓ سے ہوا.ان حکمرانوں میں خلفائے راشدین کے مذہبی تقدس کا شائبہ بھی نہ تھا.انہیں کم و بیش محض دنیوی بادشاہ ہی قرار دیا جاتا تھا.اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ شریعت کے نگرانوں کی حیثیت سے علماء کوکئی لحاظ سے وہی مرتبہ اور مقام حاصل ہوتا چلا گیا جو شاہ قسطنطین کے عیسائی ہونے کے بعد علمائے عیسائیت CLERGY کو حاصل ہوا تھا.قرونِ وسطیٰ کے یورپی علمائے عیسائیت کی طرح علمائے اسلام کی بھی ان کے علم وفضل کی وجہ سے بہت عزت کی جانے لگی.ایک آمر یا غیر ہر دلعزیز حکمران اپنے سیاسی اقتدار کو قانوناً جائز ثابت کرنے کے لئے ان علماء کی تائید وحمایت حاصل کرتا اور اس طرح اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھتا.رفتہ رفتہ یہ علماء حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کرنے لگے.وہ خود تو اقتدار اپنے ہاتھوں میں نہ لیتے تھے لیکن سیاسی اقتدار پر اثر انداز ہوئے بغیر بھی نہ رہتے تھے.اس نئی صورتِ حال میں سیاسی اور معاشرتی بغاوتوں اور باغیانہ رویوں کو مذہب کی بنیاد پر جائز قرار دیا جانے لگا اور جلد ہی ایسے حالات پیدا ہوتے چلے گئے کہ حصولِ اقتدار کی خاندانی لڑائیوں اور رقابتوں کا مذہبی عقائد سے متعلق اختلافات پر گہرا اثر پڑنے لگا جس کے نتیجہ میں نت نئے مذہبی فرقے وجود میں آنے کا سلسلہ شروع ہوا.تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کی شہادت (۶۶۴۴) کے بعد امت میں جو دو بڑے فرقے خارجی ازم اور شیعہ ازم ابھر کر سامنے آئے.ان کا آغاز جانشینی پر ہونے والے تنازعات کے شاخسانوں کے دوران ہی ہوا.خارجی وہ پہلے مسلمان تھے جو اس نظریہ کے بانی مبانی تھے کہ ایک مسلمان جو پکا گناہگار ہو مسلمان نہیں رہتا یعنی یہ کہ گناہگار مسلمان اور کافر میں کوئی فرق نہیں ہوتا.مزید برآں خارجیوں کو ایک اور ناروا امر کو جائز قرار دینے میں اولیت کا مقام حاصل ہے.چنانچہ یہ خارجی ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کے خلاف جہاد بالسیف کا اعلان کیا اور اس لئے کیا کہ ان کے یعنی خارجیوں کے نزدیک وہ پکے اور سچے مسلمان نہ تھے.خارجی پہلے حضرت علی کے طرف دار تھے لیکن بعد میں وہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے مابین ثالثی کی تجویز سے اختلاف کر کے حضرت علی کا ساتھ چھوڑ کر ان سے علیحدہ ہو گئے.اس ثالثی کے ذریعہ حضرت عثمان کی شہادت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اختلافات کو طے کرنا مقصود تھا.وہ کہتے تھے

Page 215

۲۰۸ مذہب کے نام پرخون که ان الحكم الالله یعنی فیصلہ کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے.انسانوں کی قائم کردہ ثالث کا فرض ادا کرنے والی خصوصی عدالتوں کو یہ حق پہنچتا ہی نہیں کہ وہ حکم بنیں.پھر عقائد کے مخصوص سلسلہ کو بلا کم و کاست اور بلا چون و چرا تسلیم کرانے میں بھی مرکزی کردار خارجیوں نے ہی ادا کیا.کسی کو مسلمان تسلیم کرنے یا اس کے اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے کی شرائط کے بارہ میں بھی وہ بہت متشڈ دواقع ہوئے تھے اور وہ اس بات پر بھی بہت زور دیتے تھے کہ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے سلسلہ میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ متعلقہ شخص کے اپنے مسلمان ساتھیوں اور غیر مسلم ساتھیوں کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں.خارجیوں کے گروپ یا جمعیت کو اسلام میں نمایاں طور پر پیدا ہونے والے پہلے فرقہ کی حیثیت حاصل ہے.یہ خارجی ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اس اصول کو مسترد کیا کہ کسی کے مسلمان شمار ہونے کی وجہ جواز صرف اس کا ایمان ہے.وہ اس بات کے سختی سے قائل تھے کہ ایک ایسا مسلمان جو پکا گناہگار ہو فی الاصل مسلمان رہتا ہی نہیں.اس پر مستزاد یہ کہ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ایسے پکے گناہگار مسلمان کے از سر نو ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اسے اس کے اہلِ خانہ سمیت قتل کر دینا ضروری ہے.وہ تمام غیر خارجی مسلمانوں کو اسلام کے باغی اور سراسر غیر مسلم قرار دیتے تھے.برخلاف اس کے قبل ازیں ہم اس امر کا مطالعہ کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کے منافقوں کا بھی علم تھا اور آپ یہ بھی جانتے تھے کہ عبد اللہ بن ابی ان کا لیڈر ہے.اس کے باوجود آپ نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی.آپ نے تو یہ کبھی نہیں دیکھا اور نہ کبھی اسے چنداں اہمیت دی کہ کسی مسلمان کا علم کس پایہ اور مرتبہ کا ہے.خارجیوں کے نظریات براہ راست قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے متصادم تھے.ان کا یہ اعلان کہ فیصلہ کرنا اور حکم لگانا اللہ کا کام ہے نہ کہ انسان کا (لَا حُكْمَ الأَلله) لے سنت کے سراسر خلاف تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے سعد بن معاذ کو حکم مقررفرمایا تھا اور بطور حکم انہوں نے جو سزا سنائی تھی اس پر باقاعدہ عمل بھی کیا گیا تھا.سعد کے فیصلہ کے متعلق صحیح مسلم کی حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے امام النووی ( وفات ۱۲۷ ہجری لے مقالات اشعری جلد اول صفحه ۱۹۱ ابن ہشام کی سیرۃ رسول اللہ صفحہ ۶۸۹،۶۸۸

Page 216

۲۰۹ مذہب کے نام پرخون مطابق ۷۴۴ عیسوی) نے لکھا ہے : مسلمانوں کو اپنے باہمی تنازعات کے بارہ میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ تحکیم کے ذریعہ ان کا فیصلہ کریں لے حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر دو مسلمان گروہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوں تو دوسرے مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان میں صلح کرا دیں.چنانچہ قرآن مجید کہتا ہے :- إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات: ١١) مؤمنوں کا رشتہ آپس میں بھائی بھائی کا ہے پس تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان جو آپس میں لڑتے ہوں صلح کرا دیا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.مسلمانوں کو کا فرقرار دینا اور پھر انہیں اس بناء پر سزا دینا کہ ان کے ایمان کا معیار کسی خاص مستند شخصیت کے معیار سے مختلف ہے.اس نوع کی تکفیر بازی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس قسم کی تکفیر بازی کا نظریہ اپنی بنیاد اور اصل کے لحاظ سے سراسر غیر اسلامی ہے.خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لاتا ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رسالت پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہے..صرف اور صرف یہی وہ تعریف ہے جس پر کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کو پرکھا جاسکتا ہے.تکفیر کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے مسٹر برنارڈ لیوٹس لکھتے ہیں :- کھلی کھلی بغاوت کا بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بغاوت کرنے والے از خود تکفیر کی زد میں آجاتے ہیں.۹۲۳ عیسوی میں قاضی القضاۃ بہل نے قرامطی باغیوں کو کافر قرار دینے سے اس بناء پر انکار کر دیا تھا کہ وہ اپنے خطوط اللہ تعالیٰ کے نام اور رسول پر صلوۃ و سلام سے شروع کرتے تھے.صرف اتنی بات سے ہی ان کا مسلمان ہونا مسلم تھا.حضرت امام شافعی کی فقہ میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھنے والا خواہ وہ بغاوت ہی کا کیوں نہ مرتکب ہوا ہو اس امر کا سزاوار ہے کہ اسے مسلمان تسلیم کیا لے صحیح مسلم مع شرح النووى ( لاہور ۱۹۵۸، ۱۹۶۲) جلد دوم صفحه ۱۱۲، ۱۱۳ (لا صحیح البخاری و صحیح مسلم کتاب الایمان

Page 217

۲۱۰ مذہب کے نام پرخون جائے اور اس کے مطابق ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جائے یعنی یہ کہ اس کے اہلِ خانہ اور اس کے مال و متاع کی حفاظت ضروری ہے اور یہ کہ اگر وہ قیدی بن جائے تو سرسری سماعت کے ذریعہ اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا یا اسے بطور غلام فروخت نہیں کیا جاسکتا ہے ،، تکفیر بازی سے کی بنیاد در اصل فقہاء نے ڈالی تھی.جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں یہ تو حضرت علی کو برا بھلا کہنے اور انہیں خطا کا رٹھہرانے کے سلسلہ میں خارجیوں کا ایک بہانہ تھا لیکن فقہاء نے خارجیوں کی اس ایچ اور نرالی منطق کو اپنا تو لیا لیکن وہ خود مسلمان کی کوئی متفقہ تعریف متعین نہیں کر سکے.اگر کوئی شخص ان مسلمانوں کی تعداد معلوم کرنا چاہے جنہوں نے اسلام ترک کر کے کسی اور دین کو اختیار کر لیا تھا اور اس بناء پر انہیں قتل کر دیا گیا تھا تو اسے تیرہ سوسالہ اسلامی تاریخ کو کھنگالنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ جہاں بھی ملے گا کوئی ایک آدھ واقعہ ہی شاذ کے طور پر ملے گا اور اس کے پیچھے بھی سیاسی وجوہ کارفرما ہوں گی.قاہرہ میں MAIMONIDES کوقتل کرنے کی ناکام کوششیں کی گئی تھیں گے.نیز لبنان میں MARONITE کے امیر یونس سے اور اسی طرح تبریز میں رشید الدین کو قتل کئے جانے کے واقعات ملتے ہیں لیکن یہ گنتی کے چند واقعات ہیں اور نہ ہونے کے برابر ہیں.ہندوستان کی مغلیہ سلطنت میں ایسا صرف ایک واقعہ ریکارڈ کیا گیا ہے وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک پرتگیزی راہب نے اسلام قبول کر لیا تھا پھر وہ اپنے دین کی طرف واپس لوٹ گیا.اسے اور نگ آباد میں قتل کیا گیا.اس کے قتل کی وجوہات بھی مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھیں.اس کے متعلق شدید شبہ کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ قبولِ اسلام کی آڑ میں پرتگیزیوں کے لئے بطور برنارڈ لیوکس کی کتاب ”اسلام ان ہسٹری صفحہ ۲۳۳ برنارڈ لیونس کی کتاب ” اسلام ان ہسٹری صفحه ۲۱۷ تا ۲۳۶ نیز کتاب دی جیوز آف اسلام صفحه ۵۳، ۵۴ سے برنارڈ لیوئس کی کتاب ”دی جیوز آف اسلام صفحہ ۱۰۰ ICNAZ GOLDZIHER کی کتاب ” محمد اینڈ اسلام ( ترجمہ انگریزی یا لے یونیورسٹی پریس ۱۹۱۷ء) صفحہ ۷۴ نوٹ ۳ ۵ برنارڈ لیوئس کی کتاب ”دی جیوز آف اسلام صفحہ ۱۱۱ سر جادو ناتھ سرکار کی کتاب ”شارٹ ہسٹری آف اور نگزیب (مطبوعہ کلکته ۱۹۵۴ء) صفحه ۱۰۶،۱۰۵

Page 218

۲۱۱ مذہب کے نام پرخون جاسوس خدمات بجالا رہا تھا.۱۲۴ یا ۱۲۵ هجری مطابق ۷۴۶ یا ۷ ۷۴ عیسوی میں جذابن درہم کو ہشام بن عبد الملک کے حکم سے کوفہ یا واسط میں قتل کیا گیا.اس کے خلاف خلق قرآن اور جبر و اختیار کے معتزلی عقائد کو پھیلانے اور عام کرنے کا جرم عائد کیا گیا تھا.۱۶۷ یا ۱۶۸ ہجری مطابق ۷۸۸ عیسوی میں عراقی شاعر بشار بن برد پر زندقہ کا الزام لگایا گیا اور پھر اسے زد و کوب کر کے بطیحہ کے قریب دلدل میں پھینک دیا گیا.۳۰۹ ہجری مطابق ۹۳۰ عیسوی میں الحسین بن منصور الحلاج کو کفریہ کلمات کہنے کی پاداش میں سولی دی گئی.اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے دعوی کیا تھا کہ اللہ تعالی نے اس کی ذات میں حلول کر لیا ہے.۵۷۸ ہجری مطابق ۱۱۹۹ عیسوی میں الملک النظاہر کے حکم سے شہاب الدین سیحی السہر وردی کو قتل کیا گیا.اُس کا جرم یہ تھا کہ وہ خیال کرتا تھا کہ ہر چیز جو موجود ہے یا حرکت میں ہے اپنا ایک وجود رکھتی ہے وہ ایک صداقت ہے.وہ خدا کی ہستی کے ثبوت میں بھی نور یا روشنی کی علامت کو پیش کرتا تھا.سترھویں صدی کا شہید محمد سعید سرمد نامی ایک شخص تھا.وہ کا شان میں یہودی والدین کے گھر پیدا ہوا پیدا ہوا تھا.اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ ایک یہودی ربی تھا.یہ عظیم ایرانی شاعر وحدت جو ہر کا قائل MONIST تھا اور مادہ کے علیحدہ وجود کو تسلیم نہ کرتا تھا.اسے اور نگ زیب کے عہد حکومت (۱۶۵۸ ء تا ۱۷۰۷ء) میں قتل کیا گیا.اس کا مزار جامع مسجد دہلی کے سامنے سڑک کے اس پار واقع ہے.سینکڑوں مسلمان روزانہ اس مزار پر پھول چڑھاتے اور فاتحہ پڑھتے ہیں.افغانستان میں دو احمدیوں کو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے اس دعوے کو درست تسلیم کرنے کی پاداش میں کہ امت میں جس مسیح کے آنے کا وعدہ کیا گیا تھا میں وہی مسیح موعود ہوں قتل کیا گیا.ان میں سے ایک حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب تھے.یہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے شاہ افغانستان امیر حبیب اللہ خان کی رسم تاجپوشی اپنے ہاتھوں سے ادا کی تھی.انہیں ۱۹۰۳ ء میں سنگسار کر کے شہید کیا گیا.اسی طرح مولوی نعمت اللہ خان کو ۱۹۲۴ء میں شہید کیا گیا.دونوں کو یہ مہلت دی گئی تھی کہ وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی“ کے دعاوی کا انکار کر کے اپنی جان بچا

Page 219

۲۱۲ مذہب کے نام پرخون لیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا.سوڈان میں محمد محمود طہ کو ۱۹۸۵ء میں پھانسی دی گئی.وہ یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ قرآن مجید میں درج جو قوانین مدینہ میں نازل ہوئے تھے وہ آئندہ زمانوں کے لئے قابل عمل نہیں ہیں.یہ بات خاص طور پر نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ مملکت ترکیہ کے عثمانی سلطان نے ہر چند کہ وہ ایک مذہبی سلطنت کا سر براہ اور تمام مسلمانوں کا خلیفہ تھا.بہاء اللہ (۱۸۱۷ء تا ۱۸۹۲ء) کو ارتداد کی بناء پر قتل کرنے کا حکم نہیں دیا.بہاء اللہ نے اپنے آپ کو باب کی پیشگوئی کے بموجب آنے والا موعود قرار دے کر بہائی مذہب کی بنیاد ڈالی تھی کے بہائی مذہب اسلام سے کلی طور پر مختلف تھا اور ہنوز مختلف ہی ہے.اس مذہب کی رو سے (نعوذ باللہ ) قرآن مجید اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی لائی ہوئی تعلیم کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب یہ تعلیم دنیا کے لئے کارآمد نہیں ہے.بہاء اللہ کو حیفا کے نزدیک علمہ کے مقام پر قید کیا گیا اور پھر اسے فلسطین کے اُس حصہ میں جواب اسرائیل کہلاتا ہے قید میں رکھا گیا.برخلاف اس کے جب ایک یہودی راہب ستبا تائی زیوی (۱۹۲۷ ء - ۱۶۷۶)SABBATAI ZEVI نے ۱۹۴۸ء میں مسیح ہونے کا دعوی کیا تو سلطنت عثمانیہ کے شیخ الاسلام نے اس کے قتل کا حکم صادر کیا.اسے گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن محض موت سے بچنے کی خاطر اپنے دعوے سے تائب ہونے کا اعلان کر کے وہ مسلمان ہو گیا.بہاء اللہ نے دعوی یہ کیا تھا کہ اس کے وجود میں خدا کا ایک نیا ظہور ہوا ہے.اس دعوے کے ساتھ ہی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا تھا لیکن اس کے ارتداد کے باوجود اسے قتل نہیں کیا گیا کیونکہ اس کا وجود دسلطنت عثمانیہ میں قانون کی حکمرانی اور امن وامان کے لئے خطرہ کا موجب نہیں تھا.جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں ارتداد کے مسئلہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس کے نزدیک تو اس کی حیثیت ایک اجنبی مسئلہ کی ہے.اسی لئے اسلام کی رو سے اس دنیا میں ارتداد کی سرے سے کوئی سزا مقرر نہیں ہے.اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۵۳ء کے فسادات کے سلسلہ میں پنجاب ایکٹ دوم مجریہ ۱۹۵۴ ء کی رو سے جو تحقیقاتی عدالت قائم کی گئی تھی اس میں پیش ہونے والے علماء نے بڑے شدومد سے اس امر پر اصرار کیا کہ ایک اسلامی مملکت میں اسلام سے لیکن مرزا محمد علی باب نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اسے 9 جولائی ۱۸۵۰ء کو تبریز میں قتل کیا گیا.

Page 220

۲۱۳ مذہب کے نام پرخون ارتداد اختیار کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی سزا موت مقرر ہے.ان علماء کے نام یہ ہیں:- مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیۃ العلمائے پاکستان پنجاب.مولانا احمد علی صدر جمعیۃ العلمائے اسلام مغربی پاکستان.ابو الاعلیٰ مودودی بانی و سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان.مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ لا ہور ورکن جمعیۃ العلمائے پاکستان.مولا نا داؤد غزنوی صدر جماعت اہل حدیث مغربی پاکستان.مولانا عبد الحلیم قاسمی جمعیتہ العلمائے اسلام پنجاب اور مسٹر ابراہیم علی چشتی ہے.مذکورہ بالا علماء کے اس اصرار پر کہ اسلام میں ارتداد کے لئے قتل کی سزا مقرر ہے تحقیقاتی عدالت نے تبصرہ کرتے ہوئے جس رائے کا اظہار کیا وہ خود اس کے اپنے الفاظ کی رو سے یہ ہے :- اس عقیدے کے مطابق چوہدری ظفر اللہ خاں نے اگر اپنے موجودہ مذہبی عقائد ورثے میں حاصل نہیں کئے بلکہ وہ خود اپنی رضامندی سے احمدی ہوئے تھے تو ان کو ہلاک کر دینا چاہیے.اور اگر مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری یا مرزا رضا احمد خاں بریلوی یا ان بے شمار علماء میں سے کوئی صاحب [ جو فتوی (14.EX.D.E) کے خوبصورت درخت کے ہر پتے پر مرقوم دکھائے گئے ہیں] ایسی اسلامی مملکت کے رئیس بن جائیں تو یہی انجام دیو بندیوں اور وہابیوں کا ہوگا جن میں مولا نا محمد شفیع دیوبندی ممبر بورڈ تعلیمات اسلامی ملحقہ دستور ساز اسمبلی پاکستان اور مولا نا داؤ دغزنوی بھی شامل ہیں.اور اگر مولانا محمد شفیع دیو بندی رئیس مملکت مقرر ہو جائیں تو وہ ان لوگوں کو جنہوں نے دیو بندیوں کو کا فرقرار دیا ہے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں گے اور اگر وہ لوگ مرتد کی تعریف میں آئیں گے یعنی انہوں نے اپنے مذہبی عقائد ورثے میں حاصل نہ کئے ہوں گے بلکہ خود اپنا عقیدہ بدل لیا ہو گا تو مفتی صاحب ان کو موت کی سزا دے دیں گے.جب دیو بندیوں کا ایک فتویٰ (13.EX.D.E) جس میں اثنا عشری شیعوں کو کا فرومرتد قرار دیا گیا ہے عدالت میں پیش ہوا تو کہا گیا کہ یہ اصلی نہیں بلکہ مصنوعی ہے لیکن جب مفتی محمد شفیع نے اس امر کے متعلق دیو بند سے استفسار کیا تو اس دارالعلوم کے نے منیر کمیشن رپورٹ صفحہ ۲۱۹،۲۱۸

Page 221

۲۱۴ دفتر سے اس فتوی کی ایک نقل موصول ہوگئی جس پر دارالعلوم کے تمام اساتذہ کے دستخط ثبت تھے اور ان میں مفتی محمد شفیع صاحب کے دستخط بھی شامل تھے.اس فتوے میں لکھا ہے کہ جو لوگ حضرت صدیق اکبر کی صحابیت پر ایمان نہیں رکھتے ، جولوگ حضرت عائشہ صدیقہ کے قاذف ہیں اور جو لوگ قرآن میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں وہ کافر ہیں.مسٹرا براہیم علی چشتی نے بھی جنہوں نے اس مضمون پر وسیع مطالعہ کیا ہے انہوں نے بھی اس رائے کی تائید کی ہے ان کے نزدیک شیعہ اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے کا فر ہیں کہ حضرت علی " نبوت میں ہمارے رسول پاک کے شریک تھے.مسٹر چشتی نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا ہے کہ اگر کوئی سنی اپنا عقیدہ بدل کر شیعوں کا ہم خیال ہو جائے تو آیا وہ اس ارتداد کا مرتکب ہو گا جس کی سزا موت ہے؟ شیعوں کے نزدیک تمام سنی کا فر ہیں اور اہلِ قرآن یعنی وہ لوگ جو حدیث کو غیر معتبر سمجھتے ہیں اور واجب التعمیل نہیں مانتے متفقہ طور پر کافر ہیں اور یہی حال آزاد مفکرین کا ہے.اس تمام بحث کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ شیعہ سنی ، دیو بندی، اہل حدیث اور بریلوی لوگوں میں سے کوئی بھی مسلم نہیں اور اگر مملکت کی حکومت ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو جو دوسری جماعت کو کا فر بجھتی ہے تو جہاں کوئی شخص ایک عقیدے کو بدل کر دوسرا اختیار کرے گا اُس کو اسلامی مملکت میں لاز مأموت کی سزا دی جائے گی اور جب یہ حقیقت مدنظر رکھی جائے کہ ہمارے سامنے مسلم کی تعریف کے معاملے میں کوئی دو عالم بھی متفق الرائے نہیں ہو سکے تو اس عقیدے کے نتائج کا قیاس کرنے کے لئے کسی خاص قوت متخیلہ کی ضرورت نہیں.اگر علماء کی پیش کی ہوئی تعریفوں میں سے ہر تعریف کو معتبر سمجھا جائے پھر انہیں تحلیل و تحویل کے قاعدے کے ماتحت لایا جائے اور نمونے کے طور پر الزام کی وہ شکل اختیار کی جائے جو گلیلیو کے خلاف انکیو زیشن کے فیصلے میں اختیار کی گئی تھی تو ان وجوہ کی تعداد بے شمار ہو جائے گی جن کی بناء پر کسی شخص کا ارتداد ثابت کیا جاسکے لیے ،، ے رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے فسادات پنجاب اردو ایڈیشن صفحه ۲۳۶، ۲۳۷

Page 222

۲۱۵ مذہب کے نام پرخون ارتداد کی سزا کا مسئلہ قبل ازیں ہم کتاب ہذا کے بعض ابواب میں قرآن مجید اور تاریخ اسلام کے متعدد حوالوں کی رو سے عقیدہ قتل مرتد کا باطل ہونا واضح کر چکے ہیں.اس عقیدہ کے حق میں بالعموم جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ہم نے ان کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کا رڈ پیش کیا تھا.اس ضمن میں عکرمہ کی روایت اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں منکرین زکوۃ سے متعلق رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ بھی لیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اس سے قطعا یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ جولوگ اسلام ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لیں اسلام نے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا ہے.ہم نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ اس روایت اور ان واقعات سے عقیدہ قتل مرتد کے حامی جواستدلال کرتے ہیں اس کا اصل حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے.اب اس باب میں ہم قتل مرتد کے حامیوں کے پیش کردہ بعض مزید دلائل کا جائزہ لے کر واضح کریں گے کہ یہ دلائل بھی اپنے اندر قطعاً کوئی وزن نہیں رکھتے.یہ اندازہ لگانا آسان نہیں ہے کہ اسلام میں جبر کا نظریہ کیسے داخل ہوا یعنی آیا کسی اسلامی سرزمین میں اس نظریہ نے جنم لیا یا یہ نظریہ ہے تو مستشرقین کے دماغ کی پیداوار لیکن انہوں نے بعد میں اسے اسلام کی جھولی میں ڈال دیا.اسلامی تاریخ کی روشنی میں اس سارے معاملہ کا گہری نظر سے جائزہ لینے کے بعد میں جس نتیجہ پر پہنچا ہوں اس کی رو سے میں پوری دیانتداری سے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اولاً یہ نظریہ خود اسلامی دنیا کی اپنی پیداوار ہے اور ہمارا اسے مستشرقین کے ذہن کی اختراع قرار دینا ہرگز درست نہیں ہے.انہوں نے اس نظریہ کو خود مسلمانوں سے اخذ کیا اور پھر اسے مسلمانوں ہی کے خلاف استعمال کر کے اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.اس وقت اور اس زمانہ میں جبکہ ابھی مستشرقین کا کہیں نام ونشان نہ تھا قرون وسطی کے اسلامی طرز فکر میں جبر کا نظریہ

Page 223

۲۱۶ مذہب کے نام پرخون موجود تھا.بنو امیہ کے دور اقتدار کے آخری حصہ میں یہ نظریہ معرض وجود میں آیا اور پھر عباسیوں کے دور میں یہ مسلسل پھلتا پھولتا رہا اور اس طرح زیادہ مضبوطی سے جڑ پکڑتا چلا گیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ عباسی حکمران اسلام کے دشمنوں ہی کے خلاف نہیں بلکہ خود اپنے لوگوں کے بھی خلاف طاقت استعمال کرنے اور انہیں دبا کر رکھنے کے خواہاں تھے.اپنے زیر اثر علماء سے وہ کبھی کبھار ہی نہیں بلکہ اکثر اور بار بار طاقت کے استعمال کے حق میں فتوے حاصل کیا کرتے تھے.پس اسلام میں جبر کا نظریہ خلافت راشدہ کے بعد کے زمانہ میں علی الخصوص بغداد کی حکومتوں کے انداز حکمرانی ، ان کے مخصوص طرز عمل اور پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوا اور انہی کے دور میں اس نے جڑ پکڑی اور خوب پھولا پھلا.مغرب کے اہل علم جو بیرونی طور پر ہی نہیں بلکہ دور بیٹھ کر اسلام کے بارہ میں تحقیق کر رہے تھے غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ جبر کا نظریہ ایک اسلامی نظریہ ہے.اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو جبر کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرے سے اسلامی نظریہ ہے ہی نہیں.یہ بعد میں قائم ہونے والی بعض مسلمان حکومتوں کو اپنی مخصوص روش اور طرز عمل کے جواز کے طور پر اور اس کے لئے بنیاد فراہم کرنے کی خاطر وضع کیا گیا تھا.یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلمان ملکوں میں یہ نظریہ ایک ایسے دور میں رائج ہوا کہ جب ساری دنیا میں عقیدے کی اشاعت اور اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کے لئے طاقت کے استعمال کو جائز سمجھا جاتا تھا اور ایسا سمجھنے سے کوئی قوم بھی مستی بی تھی.بہر حال یہ بات واضح ہے کہ یہ الزام کہ اسلام اپنے عقائد اور نظریات کی اشاعت کے لئے طاقت کے استعمال کا حامی ہے اور اپنے متبعین کو اس کی ترغیب دلاتا ہے اسلامی تعلیمات کے اصل ماخذوں کے براہ راست مطالعہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ بعد میں قائم ہونے والی بعض مسلمان حکومتوں کے طرز عمل کے جائزے کے بعد اسے گھڑا گیا ہے.اب جبکہ ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے جس میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت جملہ اسلامی لٹریچر کھلے عام دستیاب ہے اور دنیا کی بہت سی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم بھی شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں اور ان تمام ماخذوں تک مغربی مستشرقین کو براہِ راست رسائی حاصل ہے ان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس الزام کو بار بار

Page 224

۲۱۷ مذہب کے نام پرخون دہرائیں اور بہ اصرار دہراتے چلے جائیں.ان کو چاہیے کہ وہ خود اصل ماخذوں تک پہنچیں یعنی وہ قرآن مجید کی تعلیمات، احادیث نبوی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی نمونہ کا براہ راست مطالعہ کریں تا کہ اصل حقیقت ان پر کھل سکے.اس کتاب میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ ہم اس سارے مسئلہ کا ایک خاص نقطہ نگاہ سے جائزہ لیں اور وہ نقطہ نگاہ یہ ہے کہ ہم یہ نہ دیکھیں کہ کسی زمانہ کے مسلمانوں نے کیا طرز عمل اختیار کیا بلکہ یہ دیکھیں کہ اس بارہ میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کیا ہیں اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات اور اپنے عملی نمونہ کے ذریعہ ان تعلیمات کو کس رنگ اور کس پیرائے میں دنیا پر آشکار فرمایا.کسی مذہب کی تعلیمات کو اس کے متبعین کے طرز عمل کی روشنی میں جانچنے کا رجحان اس لحاظ سے بہت گمراہ کن ہے کہ اس کے نتیجہ میں لوگ اکثر غلط نتائج اخذ کر کے اس مذہب کی اصل اور حقیقی تعلیمات کے بارہ میں عجیب و غریب نظریات اپنا لیتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا.دنیا بھر میں اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایک عرصہ کے بعد تمام مذاہب کے متبعین ان کا اثر قبول کرنا ترک کر دیتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بالآخر ان کے اعمال اپنے اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق نہیں رہتے ، مذہب کی تعلیم اور متبعین کے اعمال میں مطابقت مفقود ہو کر رہ جاتی ہے.اس کی بہت سی مثالیں آج بھی ہمارے سامنے موجود ہیں.ہر کوئی آج کے زمانہ کے بدھسٹوں اور ابتدائی دور کے بدھسٹوں کے اعمال کا موازنہ کر کے اور اسی طرح ہند و حکومتوں کے اعمال وکردار کا جائزہ لے کر نیز دوسرے مذاہب کے موجودہ زمانہ کے متبعین اور ان کے ابتدائی پیروؤں کے افعال و اعمال کا باہم مقابلہ کر کے دیکھ سکتا ہے کہ ان میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے بعض جگہ تو اصل تعلیم اور متبعین کے اعمال و کردار میں فرق اتنا زیادہ نظر آتا ہے کہ دونوں میں کسی تعلق یا نسبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مزید برآں یہ امر بھی بہت ضروری ہے کہ سیاست اور مذہب کو باہم خلط ملط نہ کیا جائے.کسی قوم کے سیاسی کردار کو اس کے مذہب کی تعلیمات کا آئینہ دار نہیں سمجھنا چاہیے.اگر چہ ہر قوم کا یہ فرض متصور ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم پر عمل پیرا ہو لیکن ایسی صورت میں جبکہ قوم ان تعلیمات کو

Page 225

۲۱۸ مذہب کے نام پرخون فراموش کر بیٹھے اور من مانی کرنے پر اتر آئے تو اس کے متضاد کر دار کو اس کے مذہب کی تعلیم اپنے اندر منعکس کرنے والا آئینہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ ہے وہ پس منظر جس کی روشنی میں ہمیں عقیدہ قتل مرتد کے حامیوں کے دلائل کا جائزہ لینا ہے.مرتد کی تعریف قرآن مجید کہتا ہے:.وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمُ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرُ فَأُولَبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ أُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة: ۲۱۸) اگر ان کی طاقت میں ہو تو تم سے لڑتے ہی چلے جائیں تاکہ تمہیں تمہارے دین سے پھرا دیں اور تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے اور پھر کفر کی حالت میں مر بھی جائے تو ( وہ یادر کھے کہ ) ایسے لوگوں کے اعمال اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اکارت جائیں گے اور ایسے لوگ دوزخ ) کی آگ میں) پڑنے والے ہیں.وہ اس میں ( دیر تک ) رہیں گے.اس سے ظاہر ہے کہ جو شخص بھی تلوار کے خوف سے ( یا سزا دہی کی تکلیف سے ڈرکر ) اسلام کو ترک کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو ایسا کرنا اور کر گزرنا اس کا بنیادی حق ہے.دوسرے اس سے یہ امر بھی ظاہر وباہر ہے کہ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کو مرتد قرار دے.خود اپنے آپ کو مرتد قرار دینے کا اختیار صرف اس شخص کو حاصل ہے جو اسلام کو ترک کرنے کا فیصلہ کرتا ہے.قرآن مجید میں کہیں بھی کسی کو مرتد قرار دینے کا حق دوسروں کو نہیں دیا گیا.مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص اپنے مذہب کو ترک کرنے میں آزاد ہے لیکن اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو مرتد قرار دے.اسلامی تعلیم کی رو سے نہ مذہبی علماء نہ مفتی و ملاں ، اور نہ کوئی غیر روادارانہ رویہ رکھنے والا فرد یا ایسی کوئی حکومت الغرض کوئی بھی کسی کو از خود گھڑ گھڑا کر مرتد نہیں بنا سکتا.جو بھی مرتد ہو گا خود اپنی مرضی سے ہوگا کوئی دوسرا اسے زبر دستی مرتد نہیں ٹھہرا سکتا.ارتداد کے متعلق قرآن مجید کی بعض دیگر آیات قرآن مجید اس ضمن میں مزید کہتا ہے:.

Page 226

۲۱۹ مذہب کے نام پرخون إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطنُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ - (محمد (۲۶) وہ لوگ جو ہدایت ظاہر ہونے اور اسے پالینے کے بعد اس سے پھر گئے شیطان نے ان کو ان کا عمل اچھا کر کے دکھایا ہے اور ان کو جھوٹی امیدیں دلائی ہیں.اس ضمن میں قرآن مجید نے اپنی بعض دیگر آیات میں یہ بھی فرمایا ہے:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةَ أَذِلَةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لابِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - (المائدة: ۵۵) اے ایماندارو! تم میں سے جوشخص اپنے دین سے پھر جائے تو ( وہ یا درکھے اللہ اس کی جگہ جلد ہی ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مؤمنوں پر شفقت کرنے والے ہوں گے اور کافروں کے مقابلہ پر سخت ہوں گے.وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے.یہ اللہ کا فضل ہے.وہ جسے پسند کرتا ہے اسے یہ فضل دے دیتا ہے اور اللہ وسعت بخشنے والا اور بہت جاننے والا ہے.مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِةِ إِلَّا مَنْ ُأكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَينُ بِالْإِيمَانِ وَ لكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عظيم - (النحل : ١٠٧) جو لوگ بھی ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کریں سوائے ان کے جنہیں کفر پر مجبور کیا گیا ہو لیکن ان کا دل ایمان پر مطمئن ہو ( وہ گرفت میں نہ آئیں گے ) ہاں وہ جنہوں نے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا ہو ان پر اللہ کا بہت بڑا غضب نازل ہوگا اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب مقدر ہے.

Page 227

۲۲۰ مذہب کے نام پرخون اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا (النساء: ۱۳۸ ) اور جولوگ ایمان لائے اور پھر انہوں نے انکار کر دیا ، پھر ایمان لائے اور پھر ا نکار کر دیا، پھر کفر میں اور بھی بڑھ گئے اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا اور نہ انہیں نجات کا کوئی راستہ دکھائے گا.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۖ وَسَيَجْزِى الله الشکرِينَ (آل عمران:۱۴۵) اور محمد صرف ایک رسول ہے.اس سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں.پس اگر وہ وفات پا جائے یا قتل کیا جائے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے؟ اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جائے وہ اللہ کا ہر گز کچھ نقصان نہیں کر سکتا اور اللہ شکر گزاروں کو ضرور بدلہ دے گا.قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات سے ان کے مفہوم کو کھینچ تان کر کسی لحاظ سے بھی یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ ان میں مرتدوں کے لئے قتل کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے.سورۃ التوبہ کی بعض متعلقہ آیات عقیدہ قتل مرتد کے حامیوں کی طرف سے اس تلاش میں کہ قرآن مجید کی کم از کم ایک آیت ہی ایسی مل جائے کہ جس سے یہ ثابت کرنے میں مددمل سکے کہ ارتداد کی سزا موت ہے کچھ کم دوڑ دھوپ اور سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا.تلاشِ بسیار کے بعد ان کی طرف سے قرآن مجید کی نویں سورۃ یعنی سورۃ التوبہ کی آیات ۱۲، ۱۳ کا سہارا لینے کی کوشش کی گئی ہے.یہ دکھانے کے لئے کہ ان کی یہ کوشش بھی کس قدر بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے ہم اس سورۃ کی آیات ۳ تا ۱۴ ذیل میں درج کرتے ہیں.یہ آیات اپنا مفہوم خود واضح کر رہی ہیں.ان سے ہر اس شخص کی کوششیں بری کار ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتیں جو ان سے من مانا کوئی مفہوم اخذ کر کے ان کے برخلاف کچھ اور ثابت کرنا چا ہے.

Page 228

۲۲۱ مذہب کے نام پرخون آیت ۳- وَآذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَقِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللهَ بَرِى مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِنْ تُبْتُم فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى اللهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ - اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام لوگوں میں حج اکبر کے دن یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اور اسی طرح اس کا رسول بھی مشرکوں (کےسب الزاموں ) سے بری ہو چکے ہیں.سواگر ( فتح مکہ کا نشان دیکھ کر ) تم تو بہ کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا اور اگر تم پیٹھ پھیر لو تو تم ہرگز اللہ کو ہرا نہیں سکتے اور تو کفار کو خبر دے کہ ان کے لئے دردناک عذاب مقدر ہے.آیت ۴ - إِلَّا الَّذِينَ عَهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَ لَمْ ط يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ - ہاں مشرکوں میں سے جن سے تم نے معاہدہ کیا ہے اور پھر انہوں نے تم سے بالکل عہد شکنی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی کی مدد نہیں کی تم ان کے عہد کو عہد کی مدت مقررہ تک نبھاؤ.اللہ یقیناً متقیوں کو پسند کرتا ہے.آیت ۵- فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَ خُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَ اقْعُدُوا لَهُمْ كُلَ مَرْصَرٍ ۚ فَإِنْ تَابُوا وَ أَقَامُوا الصَّلوةَ ط وَاتَوُا الزَّكوة فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ.پس جب وہ چار مہینے گزر جائیں جن میں لڑائی سے منع کیا گیا تھا تو مشرکوں کے اس خاص گروہ کو جہاں بھی پاؤ قتل کرو اور ان کو گرفتار کر لو اور ان کو ان کے قلعوں میں محصور کر دو اور ہر گھات کی جگہ پر ان کے لئے بیٹھو.پس اگر وہ تو بہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو ان کا راستہ کھول دو.اللہ یقیناً بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.آیت ۶ - وَ اِنْ اَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَاجِرُهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلمَ اللَّهِ

Page 229

۲۲۲ مذہب کے نام پرخون ثُمَّ ابْلِغْهُ مَا مَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ - اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دے یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اس کو اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دے کیونکہ وہ ایسی قوم ہے جو (حقیقت کو نہیں جانتی.آیت ۷- كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدُ عِنْدَ اللهِ وَ عِنْدَ رَسُولِمَ إِلَّا الَّذِينَ b عَهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ - اللہ اور اس کے رسول مشرکوں سے کس طرح عہد و پیمان کر سکتے ہیں سوائے ان مشرکوں کے جن کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے پاس عہد کیا تھا.پس جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ معاہدہ پر قائم رہو.اللہ متقیوں ( یعنی عہد توڑنے سے بچنے والوں ) کو ہی پسند کرتا ہے.آیت - كيفَ وَ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلَّا وَ لَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبِي قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَسِقُونَ - ہاں دوسرے مشرکوں کو کوئی رعایت کیسے دی جاسکتی ہے کیونکہ وہ اگر تم پر غالب آجائیں تو تمہاری کسی رشتہ داری یا معاہدہ کی پرواہ نہیں کریں گے.وہ تم کو اپنے منہ کی باتوں سے خوش رکھتے ہیں حالانکہ ان کے دل ان باتوں سے ) انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر عہد و پیمان کو توڑنے والے ہوتے ہیں.آیت ۹ اِشْتَرَوُا بِأَيْتِ اللهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ ۖ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ - انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلہ میں ایک حقیر سی قیمت وصول کی ہے اور اس کے راستہ سے لوگوں کو روکا ہے.یقینا ان کے اعمال بہت برے ہیں.روووور آیت ١٠ - لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ الَّا وَلَا ذِمَّةً وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ -

Page 230

۲۲۳ مذہب کے نام پرخون کسی مومن کے بارہ میں وہ رشتہ داری کا پاس نہیں کرتے اور نہ عہد و پیمان کا ، اور وہ حد سے بڑھے ہوئے ہیں.آیت اا - فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَ اتَوُا الزَّكوة فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْأَنْتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ پس اگر وہ تو بہ کر لیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوۃ دیں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں اور ہم اپنی آیات کو علم والی قوم کے لئے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں.آیت ۱۲.وَ اِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَبِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ.اور اگر یہ لوگ) اپنے عہد و پیمان کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین پر لا طعن کریں تو (ایسے) سرداران کفر سے لڑائی کرو تا کہ وہ شرارتوں سے باز آجائیں.آیت ۱۳ - اَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُوا بِإِخْرَاجَ الرَّسُولِ وَهُمْ بدء وكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ اَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ - (اے مومنو! ) کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور رسول کو (اس کے گھر سے) نکالنے کا فیصلہ کر لیا اور تم سے ( جنگ چھیڑنے میں ) انہوں نے ہی ابتداء کی ، کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہوتو سمجھ لو کہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو.آیت ۱۴.قاتِلُوهُمْ يُعَذِّبُهُمُ اللهُ بِأَيْدِيكُمْ وَ يُخْزِهِم وَ يَنْصُرُكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ - ان سے لڑو.اللہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دلوائے گا اور ان کو رسوا کرے گا اور تمہیں ان پر غلبہ دے گا اور اس ذریعہ سے مومن قوم کے دلوں کو (صدمہ اور خوف سے) نجات دے گا.ہم نے سورۃ التوبہ کی آیات ۳ تا ۱۴ اس لئے درج کی ہیں تا کہ ان میں جو مضمون بیان ہوا

Page 231

۲۲۴ مذہب کے نام پرخون ہے وہ پورے سیاق و سباق کے ساتھ سامنے آجائے اور اس کے بارہ میں قطعاً کوئی شبہ باقی نہ رہے.قبل اس کے کہ ہم ان آیات کے اصل مضمون کی طرف آئیں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ لوگ جو سورۃ التوبہ کی آیات ۱۱، ۱۲ کے اصل مضمون سے اعراض کرتے ہوئے ان سے زبردستی یہ استنباط کرتے ہیں کہ ارتداد کی سزا قتل ہے وہ اس امر کی کوئی وضاحت نہیں کرتے کہ ان کے اس استنباط اور قرآن مجید کی متعدد دوسری آیات میں جو ز بر دست تضاد پایا جاتا ہے اسے کیونکر حل کیا جاسکتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ وہ اس تضاد کو دور کر ہی نہیں سکتے.جو لوگ اس امر کے حامی ہیں کہ ارتداد کی سزا قتل ہے انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مذکورہ بالا جملہ آیات مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں (ملاحظہ ہو آیت ۳) اور یہ وہ زمانہ تھا جب کہ قریش مکہ اسلام کو بزور شمشیر صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے لئے کھلی کھلی دشمنی کی راہ پر گامزن ہو چکے تھے.سو یہ آیات ان مشرکوں کے بارہ میں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کو جان بوجھ کر توڑا تھا اور اسلام کا تمسخر اڑانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی.ان آیات میں ایسے لوگوں کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو اسلام پر ایمان لانے کے بعد اس سے پھر گئے ہوں اور جنہوں نے اسلام کو ترک کرنے کا اعلان کیا ہو.مومنوں کو مخاطب کر کے ذکر تو صرف اس امر کا کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ معاہدہ کرنے اور پختہ عہد باندھنے کے بعد اسے عمدا توڑ دیا ہے وہ تمہارے دین کے ساتھ دشمنی میں حد سے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اور اسے بزور شمشیر مٹانے پر تل گئے ہیں.اور پھر جارحیت کی ابتداء بھی انہوں نے ہی کی ہے تمہیں ان سے لڑنے کی تو اجازت ہے لیکن یہ اجازت صرف ان کے سرداروں کے خلاف لڑنے تک محدود ہے کیونکہ ان کے عہد و پیمان سب جھوٹے اور سراسر بے وقعت ثابت ہو چکے ہیں.نیز یادر ہے کہ یہ اجازت تمہیں اس لئے دی گئی ہے تا کہ وہ تمہارے خلاف جارحانہ اقدامات سے باز آجائیں.یہ ہے صحیح مفہوم ان آیات کریمہ کا جسے توڑ مروڑ کر قتل کی سزا کے حامیوں نے اپنا مؤقف درست ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے.ان آیات میں خفیف سے خفیف اشارہ بھی ان لوگوں کی طرف نہیں ہے جنہوں نے اسلام پر ایمان لانے کے بعد سے ترک کر دیا ہو اور انہیں جبر ااسلام میں واپس -

Page 232

۲۲۵ مذہب کے نام پرخون لانے کی کوشش کی جارہی ہو.جن لوگوں کا ان آیات میں ذکر ہے ان کا قرآن مجید کی ایک اور سورۃ میں بھی تذکرہ کیا گیا ہے.ہم اس سورۃ کی متعلقہ آیات بھی ذیل میں درج کر رہے ہیں تا کہ یہ بات اور زیادہ واضح ہو جائے کہ سورۃ توبہ کی آیات ۳ تا ۱۴ میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ ہرگز مرتد نہیں تھے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو سرے سے ایمان ہی نہیں لائے تھے بلکہ اسلام کو بزور شمشیر مٹانے کے لئے جنہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی تھی.چنانچہ قرآن مجید ایک اور سورۃ میں مومنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:.عَسَى اللهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً ۖ وَاللَّهُ قَدِيرٌ وَ اللهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ - لَا يَنْهُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ - إِنَّمَا يَنْهُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ اَخْرَجُوكُم مِّنْ دِيَارِكُمْ وَ ظَهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمُ اَنْ تَوَلَّوهُمْ ۚ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ - (الممتحنة: ۸ تا ۱۰) ج قریب ہے کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جو کافروں میں سے تمہارے دشمن ہیں محبت پیدا کر دے اور اللہ اس پر قادر ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور بے انتہاء رحم کرنے والا ہے.اللہ تم کو ان لوگوں سے نیکی کرنے اور عدل کا معاملہ کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دینی اختلاف کی وجہ سے نہیں لڑے اور جنہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا.اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.اللہ تم کو صرف ان لوگوں سے ( دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دینی اختلاف کی وجہ سے جنگ کی اور جنہوں نے تم کو گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر تمہارے دوسرے دشمنوں کی مدد کی اور جو لوگ بھی ایسے لوگوں سے دوستی کریں وہ ظالم ہیں.عارضی ایمان اور ایمان لانے سے عارضی انکار قرآن مجید کی ایک اور آیت میں مذکور ہے :-

Page 233

۲۲۶ مذہب کے نام پرخون وَ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتَبِ أمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا أُخِرَةُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (آل عمران: ۷۳) اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ مومنوں پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس پر دن کے ابتدائی حصہ میں تو ایمان لے آؤ اور اس کے پچھلے حصہ میں اس سے انکار کر دو.شاید اس ذریعہ سے وہ ( یعنی مسلمان اپنے دین سے ) پھر جائیں.اس آیت میں اہل کتاب سے مراد یہود مدینہ ہیں.ان کی یہودیانہ انداز کی یہ ایک چال تھی کہ اس طرح مسلمانوں میں شبہات پیدا کئے جائیں.وہ یہ امید رکھتے تھے کہ شاید اس طرح بعض مسلمان شبہات کا شکار ہو کر اسلام ترک کرنے پر آمادہ ہو جائیں.اگر ارتداد کی سزا موت ہوتی تو پھر یہودیوں کے لئے اپنے اس منصوبہ پر عمل پیرا ہونا کیونکر ممکن ہو سکتا تھا.اگر ارتداد کے جرم میں کسی ایک کو بھی قتل کیا گیا ہوتا تو دوسروں کے لئے یہ امر ایک روک بن جاتا اور وہ اس مرتد کے نقش قدم پر چلنے سے باز رہتے.ایسی صورت میں یہودی ایسا منصوبہ بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے.ان کا یہ منصو بہ صاف بتارہا ہے کہ ارتداد کی سز اقتل کا نظریہ بہت بعد کے زمانہ کی پیداوار ہے.قتل کی سزا کے حامیوں کا کہنا یہ ہے کہ اس آیت میں صرف یہودیوں کے ایک منطقیانہ نظریہ کا ذکر کیا گیا ہے جس پر انہوں نے کبھی عمل نہیں کیا.اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ محض ایک نظریاتی بات تھی تو بھی یہ آیت اس امر کا ایک بین ثبوت ہے کہ ارتداد کی اس دنیا میں کوئی سزا مقرر نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی ایسی سزا ( یعنی قتل کی سزا) مقرر ہوتی تو یہودی ایسے کسی نظریہ کو کیوں ہوا دیتے.مزید برآں یہ کہنا ہی غلط ہے کہ یہ نظریہ پر مبنی محض ایک مفروضہ تھا کیونکہ کتب احادیث میں اس امر کا ذکر موجود ہے کہ خیبر اور عرینہ کے بارہ یہودی راہبوں کی طرف سے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا گیا تھا ( بحوالہ تفسیر بحر المحیط جلد دوم صفحہ ۴۹۳).تمام تفاسیر اس امر پر متفق ہیں کہ سورۃ التوبۃ ، فتح مکہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیانی زمانہ میں نازل ہوئی تھی.اس سے یہ بات دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتی کہ یہودیوں نے اپنے اس منصوبہ پر اُس زمانہ میں عملدرآمد کیا جبکہ اسلام عرب میں پوری مضبوطی کے

Page 234

۲۲۷ مذہب کے نام پرخون ساتھ قائم ہو چکا تھا.اگر ارتداد کی سزا قتل مقر رتھی تو ایسی صورت میں یہودی خود کشی پر مبنی ایسی احمقانہ حکمت عملی کیسے وضع کر سکتے تھے؟ مسلمانوں کو وہ اس امر کی ترغیب کیسے دلا سکتے تھے کہ وہ اپنے مذہب پر اس رنگ میں عمل پیرا ہوں کہ دن میں تو اس کی صداقت کا اعتراف کریں اور دن کے آخری حصہ میں اس امر کا انکار کر دیا کریں درآنحالیکہ وہ جانتے تھے کہ جو مسلمان بھی اس طرح اپنا مذہب تبدیل کریں گے و قتل کر دیئے جائیں گے؟ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگ اس عقیدہ کے حامی ہیں کہ ارتداد کی سزا قتل ہے ان کا ایک عجیب وطیرہ یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث کو دور از کارتاویلات کا سہارا لے کر غلط معانی پہناتے ہیں.اور اس طرح بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں حالانکہ یہ وہ احادیث ہیں جن سے ان کے نظریہ کی قطعاً کوئی تائید نہیں ہوتی.وہ جان بوجھ کر ایسی احادیث کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو اس امر پر شاہد ناطق ہیں کہ اس زندگی میں ارتداد کی سرے سے کوئی سزا ہے ہی نہیں.اس ضمن میں ہم بات کو اس کے اختتام تک پہنچانے کی غرض سے ایک ایک کر کے اُن احادیث کو لیتے ہیں جو ارتداد کے لئے سزائے قتل کے حامیوں کی طرف سے بالعموم پیش کی جاتی ہیں.(0) ابو قلابہ، حضرت اُن کی سند پیش کر کے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکال یا عرینہ کے لوگوں سے، جو آپ کے ساتھ ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تھے، فرمایا کہ وہ مدینہ کے باہر جا کر آپ کی اونٹنیوں کے رکھوالے کے پاس قیام کریں گے.ان لوگوں نے اونٹنیوں کے رکھوالے کو قتل کر دیا اور اونٹنیوں کے گلہ کو ہانک کر لے گئے.اگر چہ یہ بات صحیح ہے کہ وہ سب مرتد ہو گئے تھے لیکن ان کو جو سزا دی گئی تھی وہ ارتداد کی پاداش کے طور پر نہیں دی گئی تھی بلکہ اونٹنیوں کے رکھوالے کو قتل کرنے کی وجہ سے دی گئی تھی.(ب) جہاں تک ابن خطل کا تعلق ہے وہ بلا شبہ ان چار میں سے ایک تھا جنہیں فتح مکہ کے موقع پر قتل کیا گیا تھا اور وہ تھا بھی مرتد لیکن یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے ہمسفر کو قتل کر دیا تھا.ظاہر ہے اس کے قتل کا حکم ارتداد کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے دیا گیا تھا کہ وہ خود قتل کا مجرم ثابت ہو چکا تھا.

Page 235

۲۲۸ مذہب کے نام پرخون ہے.( ج ) ایک اور واقعہ جو بالعموم پیش کیا جاتا ہے مقیس بن صابہ کے قتل سے متعلق.اس نے اپنے بھائی ہشام کی موت کا بدلہ لینے کے لئے ایک انصاری کو قتل کر دیا تھا حالانکہ اس کا بھائی ذی قرد کے غزوہ کے موقع پر ایک اتفاقی حادثہ کے نتیجہ میں مرا تھا.اس واقعہ کے بعد مقیس مرتد ہو گیا.اسے ایک انصاری کو قتل کے جرم میں موت کی سزادی گئی تھی.مذکورہ بالا تینوں واقعات میں جن تین اشخاص کو قتل کی سزادی گئی تھی ان میں سے ہر شخص پہلے کسی اور کو قتل کر چکا تھا.تینوں نے بے شک ارتداد اختیار کر لیا تھا لیکن اس امر سے کیسے آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں کی وہ تینوں ہی قاتل تھے اور تینوں کو ان کے اس جرم کی پاداش کے طور پر قتل کیا گیا تھا نہ کہ ان کے ارتداد کی بناء پر.اب ظاہر ہے قاتلوں کے خلاف قتل کی سزا کے نفاذ کو ارتداد کی طرف کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے.(1) جولوگ اس نظریہ کے حامی ہیں کہ ارتداد کی سزا قتل ہے وہ اس نظریہ کے ثبوت میں ایک حدیث پر بہت انحصار کرتے ہیں جس میں ارتداد اختیار کرنے کی پاداش کے طور پر ایک عورت کے قتل کئے جانے کا ذکر ہے.اس حدیث کے بارہ میں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ حدیث انتہائی نا قابل اعتبار ہے.حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ارتداد کی بناء پر کسی عورت کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا.فقہ کی مشہور کتاب بدایہ میں مذکور ہے:.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارتداد کی پاداش میں عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا تھا کیونکہ اس بارہ میں تعزیری احکام کا اصل الاصول یہ ہے کہ سزا دہی کے عمل کو آخرت پر ہی چھوڑ دیا جائے کیونکہ اگر اس زندگی میں ارتداد کی کوئی سزا دی جائے تو ایسا کرنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں مداخلت کے مترادف ہوگا.یہ ایک ایسا مقدمہ ہوگا کہ جس میں اس امر کے متعلق باز پرس ہوگی جس کی باز پرس کرنا خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے.اس اصول کو صرف اس وقت توڑنا جائز ہوگا جبکہ مقصد متعلقہ شخص کو ( جنگ کے دوران ) جارحیت جاری رکھنے سے روکنا ہو.چونکہ عورتیں اپنی فطرت کے لحاظ سے جنگ کرنے کی اہل نہیں ہوتیں اس لئے ایک مرتد عورت کو سزا دینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.“

Page 236

۲۲۹ مذہب کے نام پرخون عجیب بات ہے کہ مودودی صاحب جیسے عالم بھی ایسی ضعیف حدیثوں پر انحصار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے جنہیں بڑے بڑے نامور علماء مستر د کر چکے ہیں حالانکہ مودودی صاحب جیسے عالموں کے متعلق بالعموم سمجھا یہی جاتا ہے کہ ایسی ضعیف حدیثوں پر انحصار کرنے سے جو قباحتیں پیدا ہوتی ہیں ان سے وہ بخوبی آگاہ ہوں گے.(ر) عبد اللہ بن سعد کا واقعہ ہم قبل ازیں صفحہ ۱۹۹ پر بیان کر چکے ہیں.اگر ارتداد کی کوئی سزا مقرر ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس ارشاد کی رو سے کہ کوئی شخص بھی قانون سے بالا نہیں ہے اس کے نفاذ میں کسی رو رعایت کے کبھی روادار نہ ہوتے اور اس بارہ میں ہرگز بھی پس و پیش سے کام نہ لیتے.آپ کے نزدیک خدائی قوانین کے نفاذ اور ان پر عمل درآمد کو بنیادی اہمیت حاصل تھی اور یہ کہ ان کے نفاذ سے سرمو انحراف کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا.اندریں صورت اگر ارتداد کی سزا قتل تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان بن عفان کی سفارش پر عبد اللہ بن سعد کو کیسے معاف کر سکتے تھے.صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ ارتداد کی پاداش میں قتل کی سزا کے ہم یہ کی سزا حامیوں کو اپنے اس نظریہ کو درست ثابت کرنے میں نہ تو قرآن مجید سے کوئی مددملتی ہے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے.وہ اپنے اس نظریہ کی تائید میں قرآن مجید اور احادیث نبوی کا کوئی واضح اور ناقابل تردید حوالہ پیش کر ہی نہیں سکتے لیکن کئی اور ڈھب ہیں جنہیں اختیار کرنے کے وہ عادی ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ ان کے دیگر دلائل کا بھی تفصیل سے جائزہ لے کر یہ دکھایا جائے کہ ان کے دوسرے دلائل بھی اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتے.ان کے یہ دلائل براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی فیصلوں پر مبنی نہیں بلکہ آپ کے صحابہ کی آراء پر مبنی ہیں.شروع میں ہی یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ صحابہ کرام کے تبصروں یا آراء کی ان کی ذاتی توضیحات سے بڑھ کر اور کوئی حیثیت نہیں ہے.ان کو قرآن مجید کے احکام کی طرح واجب العمل قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے.زیادہ سے زیادہ انہیں ذاتی آراء ہی قرار دیا جا سکتا ہے.اس وضاحت کے بعد ہم سزائے قتل کے حامیوں کے دیگر دلائل کی طرف آتے ہیں.

Page 237

۲۳۰ مذہب کے نام پرخون (ل) زکوۃ کی ادائیگی سے متعلق بڑے پیمانے پر رونما ہونے والے واقعات کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں (ملاحظہ ہوں صفحات ۲۰۲ تا ۲۰۶).عبس اور ذبیان وہ دو قبائل تھے جنہوں نے مدینہ پر حملہ آور ہو کر جارحیت کا آغاز کیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت اسامہ کے اپنی مہم سے واپس آنے سے قبل ہی فوج کشی کر کے ان کے خلاف جہاد کیا.اس سے ظاہر ہے کہ مرتدین جارح تھے کیونکہ وہ لڑائی میں پہل کر کے کھلی کھلی جارحیت کے مرتکب ہوئے تھے.انہوں نے نہ صرف یہ کہ زکوۃ ادا کرنے سے انکار کیا تھا بلکہ وہ مسلمانوں پر تلواریں سونت کر حملہ آور بھی ہوئے تھے.وہ مرتد ہی نہیں بلکہ اسلامی حکومت کے باغی بھی تھے.انہوں نے اپنے درمیان رہنے والے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا تھا ، ان میں سے بعض کو زندہ جلا ڈالا تھا اور جنہیں قتل کیا تھا ان کے ناک ، کان اور بعض دیگر اعضاء کاٹ کر ان کا مثلہ بھی کیا تھا.جو لوگ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ قرار دیتے ہیں کہ مرتد کی سزا قتل ہے وہ یا تو تاریخی حقائق سے ناواقف ہیں یا باغیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل پر پردہ ڈال کر عمد الوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں.(ب) پھر ارتداد کے لئے سزائے قتل کے حامی یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر ارتداد کی کوئی سزا مقرر نہ تھی تو مسیلمہ کذاب کو اس کے حال پر کیوں نہ چھوڑ دیا گیا.حقیقت یہ ہے کہ مسیلمہ سیاسی اقتدار کا خواہاں تھا.وہ بنو حنیفہ کی معیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا بھی تھا اور اس نے اس شرط پر آپ کی اطاعت قبول کرنے کی پیشکش کی تھی کہ آپ اسے اپنا جانشین مقرر فرماویں.آپ نے جواباً فرمایا تھا میں اسے (مسیلمہ کو ) کھجور کے درخت کی ایک شاخ بھی دینے کے لئے تیار نہیں.یہ جواب سن کر مسیلمہ واپس چلا گیا اور اس امر کا مدعی بن بیٹھا کہ آدھا عرب اس کی ملکیت ہے.اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خط بھی بھجوایا جس میں اپنے اس دعوے کا اعلان کیا کہ ”میں اقتدار میں تمہارا شریک اور حصہ دار مقرر کیا گیا ہوں.آپ نے اس خط کے جواب میں سورۃ الاعراف کی آیت ۱۲۹ قال موسى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللهِ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ فَ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ -

Page 238

۲۳۱ مذہب کے نام پرخون لکھوا بھیجی جس میں اس امر کا ذکر ہے کہ ملک تو اللہ کا ہے اپنے بندوں میں سے وہ جس کو چاہتا ہے اس کا وارث کر دیتا ہے اور اچھا انجام متقیوں کے ہی ہاتھ رہتا ہے.مسیلمہ نے اپنے دعوی نبوت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید کو پکڑ لیا.پھر ان کا ایک ایک عضو کاٹ کر بہت اذیت ناک طریق پر ان کو قتل کیا اور اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے جسم کے ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے انہیں نذر آتش کر دیا.ارتداد کے لئے سزائے قتل کے حامی قتل کے اس بھیانک جرم کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیلمہ کا ایک ہی جرم تھا کہ وہ مرتد ہو گیا تھا.سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر اس نے خود ایک بے گناہ کے قتل کا ارتکاب نہ کیا ہوتا تو کیا محض ارتداد کی بناء پر اسے قتل کر دیا جاتا ؟ کیا قتل کے ارتکاب،سفاکی سے ایک ایک عضو کو کاٹنا اور فساد فی الارض کی پاداش میں اسے عدالتی کارروائی کا سزاوار نہیں ٹھہرایا گیا اور کیا انصاف کے تقاضے ان وجوہات کی بناء پر پورے نہیں کئے گئے؟ اس امر کی خفیف سے خفیف شہادت بھی موجود نہیں ہے کہ یہ سننے کے بعد کہ مسیلمہ نے آپ کی نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اس بناء پر اسے قتل کئے جانے کا سزاوار ٹھہرایا ہو یا اپنے کسی صحابی کو اسے قتل کرنے کا حکم دیا ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسیلمہ کے خلاف سزا کا کوئی حکم صادر ہونے کی کوئی شہادت تلاش کرنے میں ناکامی کے بعد مولانا مودودی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مزعومہ خواہش کا سہارا لینا پڑا ہے.اس خود ساختہ اور نام نہا دخواہش کے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ آپ نے اپنی وفات کے آخری لمحات میں اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ مسیلمہ کا خاتمہ کر دیا جائے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کسی خواہش کا اظہار فرمایا ہوتا تو یہ یقین کرنا ناممکنات میں سے ہے کہ خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی اس خواہش کو نظر انداز کر دیا اور آپ کی اس خواہش کے احترام میں مسیلمہ کے خلاف فوجی مہم کا آغاز نہ فرمایا ہوتا ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ آنحضور اس خواہش کا اظہار فرماتے اور حضرت ابوبکر اسے پورا کرنے میں تاخیر سے کام لیتے.سوچنے والی بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر نے اُس وقت تک کیوں انتظار کیا جب تک کہ مسیلمہ نے خود جارحیت کا آغاز نہ کیا اور مسلمانوں کے خلاف کھلی کھلی بغاوت پر نہ اتر آیا؟

Page 239

۲۳۲ مذہب کے نام پرخون چنانچہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسیلمہ نے ایک زبردست فوج جمع کی جو بنو حنیفہ کے چالیس ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھی اور پھر مدینہ کی طرف پیشقدمی کر کے خود جارحیت کا آغاز کیا.چنانچہ جب وہ جارحیت کا آغاز کر بیٹھا تب حضرت ابو بکر نے اس کی کھلی کھلی بغاوت اور حضرت حبیب بن زید کے قتل کی بھیانک واردات کے جواب میں اس کے خلاف اسلامی لشکر کو کوچ کرنے کا حکم دیا.(ج) ایک اور واقعہ جسے بطور مثال پیش کیا جاتا ہے نبوت کے ایک اور جھوٹے مدعی طلیحہ سے متعلق ہے.اس نے صرف نبوت کا جھوٹا دعویٰ ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس نے عکاشہ بن محصن اور ثابت بن ارقم انصاری کو قتل کر ڈالا تھا.حضرت خالد بن ولید نے اس کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے قبل ایک سفیر کے ذریعہ اسے یہ پیغام بھجوایا کہ وہ صلح کرلے اور خون خرابے سے باز رہے.سزائے قتل کے حامی اس امر کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگر ارتداد کی سزا قتل ہوتی تو پھر طلیحہ کو معافی دینے کی غرض سے اس کے پاس کسی سفر کو بھیجنے میں کوئی شک نہ تھی.( د ) ایسا ہی معاملہ اسود عنسی کا ہے.اس نے ارتداد اختیار کر کے علم بغاوت بلند کیا.اسی پر بس نہیں بلکہ اس نے یمن کے مسلمان گورنر شہر بن باذان کو قتل کر کے اس کی بیوہ سے زبر دستی شادی کر لی ، خود یمن کا حاکم بن بیٹھا اور پورے یمن میں اپنے حاکم ہونے کا باقاعدہ اعلان کروایا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بغاوت کا علم ہوا تو آپ نے معاذ بن جبل اور دوسرے مسلمانوں کو ایک خط کے ذریعہ اس کا مقابلہ کرنے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ وہ بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ ایک لڑائی میں مارا گیا.اس کی موت کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ایک روز بعد مدینہ پہنچی.(ه) اسی طرح لقیط بن مالک از دی مرتد ہو گیا اور اس نے بھی نبی ہونے کا دعوی کیا.اس نے جعفر اور عباد کو جو سرکاری اہل کاروں کے طور پر عمان میں مقرر تھے وہاں سے نکال باہر کیا.اس کا بھی دوسرے مدعیانِ نبوت کی طرح مذہب سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا.وہ بھی ارتداد کی آڑ میں اپنے سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا.اس کی غرض یہ تھی کہ اسلامی مملکت میں رہنے کے باوجود اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرے، اقتدار پر قبضہ جمائے اور اس طرح سیاسی غلبہ حاصل کرے.

Page 240

۲۳۳ مذہب کے نام پرخون اس صورتِ حال میں ارتداد کا سوال ہی سراسر بے محل اور بے معنی ہے.اس کا اصل جرم تھا ہی علی الاعلان بغاوت.لمحہ بھر کے لئے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ لقیط بن مالک از دی اور اس کے ساتھیوں نے اسلام سے ارتداد اختیار نہیں کیا تھا بلکہ وہ مسلم ریاست کے خلاف صرف بغاوت کے مرتکب ہوئے تھے.ایسی صورت میں حکومت بغاوت فرو کرنے کے لئے اقدام کرتی یا نہ کرتی ؟ ظاہر ہے کہ بغاوت فرو کرنے کے لئے اس نے اقدام کرنا ہی تھا.ملک میں افراتفری پھیلانے اور فساد برپا کرنے کی سزا قرآن مجید نے قتل مقرر کی ہے، مجردار تداد کی یہ سزا ہرگز مقر ر نہیں ہے.(و) ارتداد کی بناء پر قتل کی سزا کے حامی ام قرفہ کے واقعہ کا بھی حوالہ دیتے ہیں.یہ عورت حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں مرتد ہو گئی تھی.اس کے تیس بیٹے تھے اور وہ انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر مسلسل اکساتی رہتی تھی.اسے اس کی غداری اور قتل و غارت گری کی بناء پر قتل کر دیا گیا تھا.اس کو یہ سزا اس کے ارتداد کی وجہ سے ہر گز نہیں دی گئی تھی.(ز) خوارج کے خلاف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مہم جوئی کا بھی اکثر حوالہ دیا جاتا ہے.خوارج وہ لوگ تھے جنہوں نے زمین میں فساد برپا کیا تھا.انہوں نے بہت سے مسلمان مردوں اور عورتوں ہی کو نہیں بلکہ حضرت علی کے مقرر کردہ گورنر ، اس کی ایک غلام عورت اور حضرت علی کے سفیر کوموت کے گھاٹ اتار دیا تھا ( خوارج کے متعلق بحث صفحہ ۲۰۷، ۲۰۸ پر کی گئی ہے ).(ہ) حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری یمن میں گورنر مقرر ہوئے.اس ضمن میں ایک واقعہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کیونکہ سزائے قتل کے حامی اپنے نظریہ کی تائید میں اس واقعہ کو بھی پیش کرتے ہیں.واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب یہ دونوں ( حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ) اپنی تقرری کے بعد یمن روانہ ہونے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا.لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرو اور انہیں مشکل میں نہ ڈالو.ان کے ساتھ خوش دلی سے کلام کرو اور ایسا رویہ اختیار نہ کرو جو انہیں ناگوار گزرے اور انہیں تم سے دور کرنے کا باعث ہو.ایک دن حضرت معاذ، حضرت ابو موسیٰ اشعری سے ملنے آئے.انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص کو لوگوں نے رسی سے جکڑا ہوا ہے.جب حضرت معاذ نے اس شخص کے بارہ میں

Page 241

۲۳۴ مذہب کے نام پرخون دریافت کیا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ ایک یہودی ہے جو مسلمان ہو گیا تھا لیکن اب یہ مرتد ہو کر پھر اپنے مذہب کی طرف واپس لوٹ گیا ہے.راوی نے مزید بیان کیا گزشتہ دو تین ماہ سے مسلمان اس شخص کے ساتھ بحث کر کے اسے سمجھا رہے ہیں کہ وہ پھر مسلمان ہو جائے لیکن اس پر اثر ہی نہیں ہوتا.اس پر حضرت معاذ نے کہا.میں سواری سے اس وقت تک نہیں اتروں گا جب تک اس شخص کو قتل نہ کر دیا جائے.نیز یہ بھی کہا کہ یہ خدا اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے.حضرت معاذ کے قول کا آخری حصہ ان کی ذاتی رائے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا.انہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق خدا اور رسول کا جو منشاء سمجھا اسے بیان کر دیا.قانون کی نگاہ میں ایسی ذاتی آراء اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتیں تا وقتیکہ واضح حقائق کی روشنی میں باقاعدہ حوالہ جات کی رو سے ان کا باوزن ہونا ثابت نہ کر دیا جائے.(اسی باب میں آگے چل کر اس اصول کو قدرے وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے).آئیے اب ہم اس حدیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لیتے ہیں.حضرت معاذ کا مذکورہ بالا قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کے سراسر خلاف ہے کہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرو اور ایسا طرز عمل اختیار نہ کرو جو انہیں منحرف کرنے کا موجب بنے.ایک ایسے بنیادی مسئلہ کے بارہ میں جس سے انسانی حقوق براہ راست طریق پر متاثر ہور ہے ہوں معاذ کے قول کی اصابت کو جانچے بغیر اس بارہ میں صرف ایک حدیث پر انحصار کرنا اپنے اندر کوئی معقولیت نہیں رکھتا.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں تک اس حدیث، اس کے سلسلہ اسماء الرجال اور اس کے مستند ہونے کا تعلق ہے اس بارہ میں بہت سے شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں.جب شکوک وشبہات کی وجہ سے کسی حدیث کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہو تو اصولاً ایسی حدیث کو بکلی مستر دکر دیا جاتا ہے.اس ضمن میں یہ امر بھی یادرکھنا چاہیے کہ یہ احادیث ظہور اسلام کے تین چار صدیوں بعد جمع اور مرتب کی گئی تھیں.اندریں صورت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یادداشت میں غلطی کے امکان کو کلی طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا.ایک حدیث کی رو سے اس یہودی کو معاف کی زیر ہدایت قتل کیا گیا.ایک اور حدیث کی رو سے معاذ نے خود اسے اپنے ہاتھ سے قتل کیا.بنیادی اہمیت کے ایک واقعہ میں جب

Page 242

۲۳۵ مذہب کے نام پرخون ایسے بنیادی اختلافات پیدا ہو جا ئیں تو اس قسم کی احادیث کو مستند احادیث کے طور پر کیسے قبول کیا جاسکتا ہے.لوگ کسی کی کہی ہوئی بات کو تو بھول سکتے ہیں لیکن اگر وہ کسی واقعہ کے عینی شاہد ہوں تو انہیں کم از کم اتنا تو یادر ہے گا کہ بالآخر اس مرتد کا انجام کیا ہوا اور یہ کہ اس کے ساتھ کیا گزری.کسی حدیث کی صحت کو جانچنے کے مسلمہ اصول اب ہم اس حدیث کی طرف آتے ہیں جسے سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے کیونکہ اس مکتب فکر کی طرف سے جو ارتداد کی پاداش کے طور پر سزائے قتل کا حامی ہے اسے معتبر گردان کر اس پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے.اس مکتب فکر کے استدال کا تمام تر انحصار اس حدیث پر ہوا ہے.خاص اس حدیث پر بحث کو عمدا اس لئے مؤخر کیا گیا ہے تاکہ مسئلہ زیر بحث پر سلسلہ وار دیگر مواد کے زیر غور آنے کی ترتیب میں فرق نہ آئے اور آخر میں خاص اس حدیث کے تمام پہلوؤں پر تدبر اور تفکر کا مالہ و ما علیہ کے رنگ میں تحقیق و تدقیق کا حق ادا ہو سکے لیکن اس حدیث کے تفصیلی جائزہ سے پہلے اس بارہ میں بعض اصولوں کے انطباق سے متعلق بعض پہلوؤں کی وضاحت ضروری ہے.یہ وہ مسلمہ اصول ہیں جو ہر زمانہ کے مسلمان علماء کے نزد یک قابل قبول رہے ہیں اور ان اصولوں کو تسلیم کرنے سے کبھی کسی عالم نے انکار نہیں کیا.یہ اصول قرآن مجید اور کسی حدیث کے مابین یا خود متعدد حدیثوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات کو حل کرنے میں بہت مدد گار ثابت ہوتے ہیں.مختصر اوہ اصول یہ ہیں :- (۱) خدا تعالیٰ کا کلام سب سے فائق اور سب سے مقدم ہے.(۲) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا درجہ ہے جسے بالعموم سنت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.(۳) اس کے بعد درجہ ہے احادیث کا جو روایت در روایت ہم تک پہنچی ہیں اور روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد فرمودہ الفاظ پر مشتمل ہیں.(() اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد فرمودہ الفاظ کا مستند ہونا ہر لحاظ سے مسلّم ہو اور اس کے مسلم ہونے پر کسی قسم کے اعتراض کی سرے سے کوئی گنجائش نہ ہو تو ایسے الفاظ فی الاصل وہ الفاظ ہیں جو خدائے قادر نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کہلوائے.

Page 243

۲۳۶ مذہب کے نام پرخون جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور قرآن مجید میں کوئی تناقض نہ ہو تو ایسی حدیث مستند تسلیم کی جاتی ہے.(ب) اس مسلمہ حقیقت کے بارہ میں دورائیں ہو ہی نہیں سکتیں کہ جب کبھی کوئی نام نہاد حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جائے لیکن وہ قرآن مجید کے واضح حکم سے ٹکراتی ہو یعنی اس سے متناقض ہو تو ایسی حدیث کو جھوٹی حدیث قرار دے کر مستر د کر دیا جاتا ہے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر مشتمل تسلیم نہیں کیا جاتا.(ج) اگر ایسی کسی حدیث سے قرآن مجید کے کسی حکم کی واضح خلاف ورزی نہ ہوتی ہو اور دونوں میں مطابقت کی گنجائش موجود ہو تو بہترین طریق یہی ہے کہ ایسی حدیث کو مستر د کر نے سے پہلے دونوں میں مطابقت کی راہ تلاش کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے.(د) ایک ایسی حدیث کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہو قرآن کے ساتھ مطابقت تلاش کرنے میں اس امر کو ہر آن ذہن میں مستحضر رکھنا ضروری ہے کہ ایسی حدیث کی خاطر قرآن مجید کی واضح تعلیمات کے بارہ میں کسی مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے بلکہ مخلصانہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ حدیث کی ایسی تشریح کی جائے جو تعلیمات قرآنی کے عین مطابق ہو.پس جب بھی کبھی کسی حدیث کے بارہ میں شبہ ہو تو اسے قرآن مجید کی کسوٹی پر گسنا اور اس کے مطابق اسے پرکھنا ضروری ہے.(ر) اگر قرآن مجید اور حدیث میں کوئی تناقض نہ ہو تو اس امر کی تعیین کہ معتبر ہونے کے لحاظ سے یہ کس درجہ کی حدیث ہے اس کے ماخذوں اور راویوں کے سلسلہ اسماءالرجال کی صحت و اصابت کے مطابق لیا جائے گا.(س) ایسی حدیث کا دوسری مستند اور بہت وسیع پیمانے پر معتبر تسلیم کی جانیوالی احادیث سے بھی موازنہ کیا جائے گا تا کہ یہ تسلی ہو سکے کہ یہ حدیث دوسری حدیثوں سے متناقض نہیں ہے.(ص) اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ کسی حدیث کے مستند ہونے کی تحقیق و تفتیش کا ایک قابل اعتمادطریقہ یہ بھی ہے کہ خود اس حدیث کی داخلی شہادت کا بہت تنقیدی نظر سے مطالعہ کیا جائے.

Page 244

۲۳۷ مذہب کے نام پرخون اگر حدیث کے مندرجات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم المرتبت تشخص سے ٹکراتے ہیں جو آنحضور کے طرز عمل سے ابھرتا ہے اور جس کی آنحضور کی حیات طیبہ کے ایک ایک لمحہ سے تائید و توثیق ہورہی ہے تو ایسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط طور پر منسوب ہونے کی وجہ سے یا منطق کے اصولوں اور عقل عمومی کے برخلاف ہونے کی بناء پر مستر دکر دی جائے گی.عکرمہ سے مروی زیر بحث حدیث مندرجہ بالا اصولوں کی روشنی میں اب ہم اس زیر بحث حدیث کا جائزہ لیتے ہیں ، حدیث یوں بیان کی جاتی ہے :- عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: أُتِي عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بِزَنَادِقَةٍ فَأَحْرَقَهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُخْرِقْهُمْ، لِنَهْي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ وَلَقَتَلْتُهُمْ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ بَلَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ عکرمہ سے مروی ہے کہ بعض زندیق حضرت علی کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے انہیں زندہ جلا دیا.حضرت ابن عباس تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر میں ہوتا تو میں انہیں ہرگز نہ جلا تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ اس مناہی کے مطابق کہ اللہ کے عذاب سے (کسی کو) عذاب نہ دو بلکہ میں انہیں قتل کر دیتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق کہ جواپنادین بدل دے اسے قتل کر دو.“ یہ حدیث الفاظ کی کسی قدر تبدیلی کے ساتھ ترمذی، ابوداؤد، النسائی ، اور ابن ماجہ کے مجموعہ ہائے احادیث میں بھی ملتی ہے.قرآن مجید سے تناقض ایک فہیم اور سمجھدار انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ اس حدیث اور قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات میں کوئی مطابقت معلوم کر سکے :- لے سورة البقرة : آیات ۷ ۱۰۰،۵ ،۲۵۷،۲۱۸،۱۰۹، ۲۷۳ سورۃ آل عمران : آیات ۲۱، ۸۶،۷۳ تا ۱۴۵،۹۲ جامع صحیح بخاری کتاب استتابة المرتدين و المعاندين باب حكم المرتد و المرتدة

Page 245

۲۳۸ سورة النساء آیات ۱۴۶،۱۳۹،۱۳۸٬۸۳ سورة المائدة آیات ۵۵، ۹۱،۶۲ تا ۹۳، ۱۰۰،۹۹ سورة الانعام آیات ۶۷، ۱۰۵ تا ۱۲۶،۱۰۸ سورۃ الاعراف : آیات ۱۲۴ تا ۱۲۹ سورة التوبه : آیات ۱۱ تا ۱۴ سورة يونس : آیات ۱۰۰ تا ۱۰۹ سورة الرعد : آیت ۴۱ سورة الحجر : آیت ۱۰ سورة النحل آیات ۱۰۵،۸۳ تا ۱۲۶،۱۰۷ سورۃ بنی اسرائیل : آیت ۵۵ مذہب کے نام پرخون سورة الكهف : آیت ۳۰ سورة مريم : آیت ۴۷ سورة طه : آیات ۷۲ تا ۷۴ سورة الحج : آیت ۴۰ سورة النور : آیت ۵۵ سورة الفرقان : آیات ۴۲ تا ۴۴ سورة الشعراء : آیت ۱۱۷ سورة القصص : آیت ۵۷ سورة العنكبوت : آیت ۱۹ سورة الزمر : آیات ۳۰ تا ۴۲ سورة المؤمن : آیات ۲۷،۲۶ سورة الشورى : آیات ۸،۷، ۴۹،۴۸

Page 246

سورة محمد : آیت ۲۶ سورة ق : آیت ۴۶ ۲۳۹ مذہب کے نام پرخون سورۃ الد ریت : آیت ۵۷ سورة التغابن : آیات ۹ تا ۱۳ سورة التحريم : آیت ۷ سورة الغاشية : آیات ۲۲، ۲۳ مندرجہ بالا آیات میں سے بعض آیات حوالہ کے طور پر گزشتہ صفحات میں پہلے بھی پیش کی جاچکی ہیں مزید وضاحت کی خاطر بعض آیات اب ذیل میں درج کی جاتی ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَ مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ - كَيْفَ يَهْدِى اللهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَ جَاءَهُمُ الْبَيِّنتُ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ - أُولَبِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللهِ وَالْمَلَكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ - خُلِدِينَ فِيهَا ۚ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ يُنظَرُونَ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذلِكَ وَ أَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيم - إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كَفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَ أوليكَ هُمُ الضَّالُّونَ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَ لَوِ افْتَدَى بِهِ أُولَبِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَ مَا لَهُم مِّنْ تصِرِينَ.(آل عمران : ۸۶ تا ۹۲) اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرنا چاہے تو ( وہ یادر کھے ) وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا.جو لوگ ایمان لانے کے بعد (پھر ) منکر ہو گئے ہوں اور شہادت دے چکے ہوں کہ ( یہ ) رسول سچا ہے اور ان کے پاس دلائل بھی آچکے ہوں انہیں اللہ کس طرح ہدایت پر

Page 247

۲۴۰ مذہب کے نام پرخون لائے اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا.یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب ہی کی لعنت ہو.وہ اس میں رہیں گے.نہ تو ان پر سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی ،سوائے ان لوگوں کے کہ جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور اصلاح کرلیں اور اللہ یقیناً بہت سننے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.جو لوگ ایمان لانے کے بعد منکر ہو گئے ہوں اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے ہوں ان میں سے کسی سے زمین بھر سونا بھی ، جسے وہ فدیہ کے طور پر پیش کرے، ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا.ان لوگوں کے لئے دردناک عذاب ( مقدر ) ہے اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا.ان آیات کریمہ سے بھی یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کو اس کے ارتداد کی بناء پر کوئی سزا نہیں دے سکتا.”وہ اس میں ہی رہتے چلے جائیں گے“ کے الفاظ سے واضح طور پر اگلے جہان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی یہ کہ اسلام سے ارتداد اختیار کرنے والے کو اگلے جہان میں سزا ملے گی نہ کہ اس جہان میں.خیالی گھوڑے دوڑا کر کتناہی کھینچ تان سے کام لیا جائے کوئی سمجھدار انسان مرتد پر اللہ کی لعنت“ کے ذکر سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا کہ اسے اس امر کی اجازت مل گئی ہے کہ جو بھی اس کی اپنی نگاہ میں مرتد ہو اسے وہ قتل کر دے.اس موضوع سے متعلق جملہ دیگر آیات کی طرح ان آیات میں بھی مرتد کو قتل کی سزا دینے کا سرے سے کوئی ذکر نہیں ہے.اگر مرتد کو قتل کی سزا دینا یا بالفاظ دیگر دوسروں سے اسے قتل کی سزا دلوانا مقصود ہوتا تو معین الفاظ میں اس سزا کا اسی طرح ذکر کیا جاتا جس طرح تمام دوسری حدود کے ضمن میں قرآن میں واضح طور پر معین سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے.برخلاف اس کے قرآن مجید نے تو ایسے مرتدوں کے لئے تو بہ واستغفار اور ان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے معافی کے امکان کا ذکر کیا ہے.یعنی اگر ایسے مرتد تو بہ کر کے پھر اسلام قبول کر لیں تو خدا تعالیٰ انہیں معاف کر دے گا.سوچنے والی بات یہ ہے کہ کوئی مرتد جسے سزا کے طور پر قتل کردیا گیا ہو اس دنیا میں تو بہ کر کے تلافی مافات کس طرح کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے جسے قتل کر دیا گیا ہو اس کے لئے تو یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ تو بہ واستغفار کے ذریعہ تلافی کر سکے.تلافی کے امکان کا ذکر صاف

Page 248

۲۴۱ مذہب کے نام پرخون بتا رہا ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے ہی نہیں.ارتداد کے لئے سزائے قتل کے حامی ذرا اس امر پر بھی غور کریں کہ اگر ان کی پیش کردہ حدیث کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس حدیث اور قرآن میں جو واضح تضاد پایا جاتا ہے اسے وہ کس طرح دور کریں گے؟ وہ خاص طور پر مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں اپنے موقف پر دوبارہ غور کریں اور خالی الذہن ہو کر پوری غیر جانبداری سے ان آیات کے اصل مفہوم کا پھر سے جائزہ لیں.پھر اسی پر بس نہیں قرآن مجید نے اس مسئلہ پر بار بار روشنی ڈالی ہے.مثال کے طور پر ایسی مشکوک حدیث کو قرآن مجید کے درج ذیل واضح اور غیر مبہم احکام سے زیادہ باوزن کیسے قرار دیا جاسکتا ہے:.وَ لَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ - (يونس: ١٠١،١٠٠) اور اگر اللہ (ہدایت کے معاملہ میں ) اپنی ہی مشیت کو نافذ کرتا تو جس قدر لوگ زمین پر موجود ہیں وہ سب کے سب ایمان لے آتے.( پس جب خدا بھی مجبور نہیں کرتا ) تو کیا تولوگوں کو اتنا مجبور کرے گا کہ وہ مومن بن جائیں.اور اللہ کے دیئے ہوئے اذن کے سوا کسی شخص کے اختیار میں نہیں کہ وہ ایمان لے آئے.اور وہ اپنا غضب ان لوگوں پر نازل کرتا ہے جو عقل رکھتے ہوئے اس سے کام نہیں لیتے.جب خدا تعالیٰ خودلوگوں کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا تو ہم کون ہیں کہ ہم تلوار ہاتھ میں لے کر لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں یا مودودی صاحب کے تیار کردہ چوہے دان لگا کر لوگوں کو پھانسنے کی کوشش کریں اور جو لوگ ان میں آپھنسیں انہیں ان میں سے نکلنے نہ دیں.مرتد کے لئے سزائے قتل کے حامیوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ سینکڑوں سال بعد جمع کی گئی احادیث میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بعض احادیث کو بھی جو واضح اور کھلے طور پر قرآن مجید کی تعلیم کی تردید کر رہی ہوتی ہیں لفظ لفظ درست تسلیم کر لیتے ہیں.

Page 249

۲۴۲ مذہب کے نام پرخون سنت نبوی کی صریح خلاف ورزی ہمارے قانون کا دوسرا ما خذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور اسوہ حسنہ ہے جسے سنت رسول کا نام دیا گیا ہے.اس ضمن میں ہم اس دعوے کا کھوکھلا پن که ارتداد کے جرم کی پاداش کے طور پر بعض کو قتل کی سزادی گئی تھی ، پہلے ہی واضح کر چکے ہیں.دعوی نبوت کے بعد قریش کے ظالمانہ رد عمل کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا موقف کیا تھا؟ یہی تو تھا کہ آپ کو خدائی پیغام پر ایمان لانے ، پر امن طور پر اس کا اعلان کرنے اور دوسروں تک اُسے پہنچانے دیا جائے اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے.مکہ والوں نے آپ کو اس امر کی اجازت نہ دی.جن لوگوں نے آپ پر ایمان لانا شروع کیا انہیں انہوں نے سزا کا مستوجب گردانا اور پھر سزا دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.جہاں تک مکہ والوں کا تعلق تھا ان کے نزد یک جو لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لائے ہوئے پیغام پر ایمان لے آئے تھے وہ بت پرستی کے اعتقاد سے ارتداد اختیار کر کے مرتد ہو جاتے تھے اسی لئے وہ انہیں سزا کا مستوجب گردانتے تھے.اس کے بالمقابل اگر دیکھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام زندگی بنیادی انسانی حقوق کی حمایت جاری رکھی.آپ کا اول دن سے یہی موقف تھا اور تادمِ آخر یہی موقف رہا کہ ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ وہ اپنی پسند کا مذہب اختیار کر سکے اور کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہ کرے.گویا جہاں تک مذہب کی تبدیلی کا تعلق ہے یہ اختیار کلیہ ہر شخص کو خود حاصل ہونا چاہیے کہ وہ جس مذہب کو ترک کرنا چاہے اسے ترک کر سکے اور جس مذہب کو اختیار کرنا چاہے اسے اختیار کر سکے.اس اختیار کو استعمال کرنے میں کسی دوسرے کی مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے.حقیقت یہ ہے کہ جہاد کا یہی اصل اور حقیقی مفہوم ہے اور یہی وہ جہاد ہے جسے تاریخ مذاہب کی رو سے تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنے مخالفین کے خلاف زندگی بھر جاری رکھا.قرآن مجید نے انبیائے ماسبق کے حوالے سے اس جہاد کا بار بار ذکر کیا ہے ( حوالہ کے لئے دیکھیں سورۃ البقرۃ آیت ۵ ، سورۃ الانعام آیت ۱۱۳ ،سورۃ الانبیاء آیت ۴۲ ،سورة الفرقان آیت ۳۲ ،سورۃ لیسین آیات ۳۱،۸، سورۃ الزخرف آیت (۸) پھر قرآن کریم نے مختلف انبیاء کا نام لے کر بھی ان کے اس جہاد پر

Page 250

۲۴۳ مذہب کے نام پرخون روشنی ڈالی ہے.ان انبیائے کرام میں سے بعض کے اسماء اور ان کے جہاد کے ذکر پر مشتمل آیات کے حوالے یہ ہیں :.حضرت ابراہیم (سورۃ الانعام آیات ۷۵ تا ۷۹، سورۃ مریم آیت ۴۷، سورۃ الانبیاء آیات ۶۹-۶۱-۵۹-۵۳ ۷۰ ، سورۃ الصفت آیات ۸۹ تا ۹۱، ۹۸) حضرت الیاس (سورۃ الصفت آیات ۱۲۶ تا ۱۲۷) حضرت لوط (سورۃ الشعراء آیات ۱۶۶ تا ۱۶۸، سورۃ النمل آیت ۵۷، سورۃ الحجر آیت اے ) حضرت نوح (سورۃ الاعراف آیت ۶۰ ، سورۃ یونس آیت ۷۲ ، سورۃ ہود آیات ۲۶، ۲۷، سورۃ الشعراء آیت ۱۱۷ ،سورۃ نوح ۲ تا ۲۱) حضرت موسیٰ (سورۃ الاعراف آیات ۱۰۶،۱۰۵ - ۱۲۴ تا ۱۲۷ ، سورۃ یونس آیات ۷۶ تا ۷۹، سورۃ بنی اسرائیل آیات ۱۰۲، ۱۰۳ سورة طه آیات ۴۴، ۴۵ - ۵۰ تا ۵۳.سورۃ الشعراء آیات ۱۹ تا ۳۴) حضرت عیسی ( سورة آل عمران آیات ۵۲ تا ۵۶ ، سورۃ المائدہ آیت ۱۸ ،سورۃ مریم آیت ۳۷، سورة الزخرف آیت ۶۵) ان جملہ انبیاء علیہم السلام کی تمام تر جدو جہد کس خاطر تھی؟ دراصل انبیاء علیہم السلام کے مخالفین کا ایک ادعا ہمیشہ یہ ہوا کرتا تھا کہ انبیاء کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان کے ساتھیوں اور دیگر ہمعصر لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دلائیں.وہ اپنے مخالفین کے اس سراسر ناروا اور ناواجب ادعا کے خلاف جدو جہد کرنے کو اپنا فرض سمجھتے تھے.حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کا یہ حق ہے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کرے.اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے مذہب کی طرف سے محبت کا پیغام پر امن طریق پر پھیلانے کی کوشش کرتا ہے تو کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ایسی پرامن مساعی میں طاقت کے بل پر زبر دستی مزاحم ہو اور ان مساعی کے سلسلہ کو منقطع کرنے پر نکل جائے.انبیاء علیہم السلام کے اس انتہائی معقول اور انسانیت دوستی کے آئینہ دار موقف پر ان کے مخالفین کا رد عمل ہمیشہ ہی بہت نامعقول اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہوا کرتا تھا.وہ انبیاء علیہم السلام کے انتہائی معقول اور سر تا پا جائز

Page 251

۲۴۴ مذہب کے نام پرخون موقف کو مستر د کر دیا کرتے تھے اور اپنے اس انتہائی نامعقول موقف پر اڑے رہتے تھے کہ انہیں (یعنی انبیاء کو ہر گز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے ان کا مذہب تبدیل کرائیں.وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر انبیاء اپنے طرز عمل اور تبلیغی جدو جہد سے باز نہ آئے تو پھر انہیں خود مرتد ہونے اور دوسروں کو مرتد کرنے کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے اور وہ سزا انبیاء کے مخالفین کے نزدیک موت یا جلا وطنی کے سوا اور کوئی نہ تھی.اپنے مخالفین کے اس ادعائے باطل کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عظیم الشان جد و جہد کی وہ جملہ انبیائے ماسبق کے طرز عمل اور جد و جہد سے پوری پوری مطابقت رکھتی تھی.ایک معقول اور سمجھدار انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقدس مشن کا جسے آپ نے زندگی بھر جاری رکھا کیسے انکار کر سکتا ہے اور مذکورہ بالا بنیادی اصول کے بارہ میں آپ کے نہایت مضبوط موقف کو کیسے چیلنج کر سکتا ہے.زیر بحث حدیث ، قرآن مجید ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور متعدد مستند احادیث سے اس درجہ متناقض ہے کہ اسے جھٹلانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا.اس حدیث کا غیر معتبر ہونا اس قدر ظاہر وباہر ہے کہ اس بارہ میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.ماخذوں اور راویوں کے قابل اعتماد ہونے کے معیار جس حدیث کے درست ہونے سے انکار کیا گیا ہے وہ بظاہر تو ائمہ احادیث بخاری ، ترمذی، ابوداؤد ، النسائی اور ابن ماجہ کے نزدیک مستند شمار ہونے کے قابل نظر آتی ہے کیونکہ یہ احادیث کے چھ مسلمہ مجموعوں میں سے پانچ مجموعوں میں شامل ہے لیکن اس کے مستند ہونے کا معاملہ اس سے آگے نہیں بڑھ پا تا بلکہ یہیں تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے.کسی حدیث کے مستند قرار پانے کے لئے صرف اتناہی کافی نہیں ہے کہ وہ احادیث کے کسی مستند مجموعے میں شامل ہے.بعض اور بھی پہلے سے طے شدہ معیار ہیں جن پر کسی حدیث کا پورا اتر نا اس کے مستند ہونے کے لئے ضروری ہے.ان میں سے سب سے اہم معیار یہ ہے کہ اسماء الرجال میں شامل مختلف مراحل کے درمیانی راویوں کی شہرت، ان کے چال چلن اور طرز عمل کا گہری نظر سے تفصیلی جائزہ لیا جائے.ایسے علمائے احادیث ہو گزرے ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا امر کے مطالعہ اور تحقیق

Page 252

- ۲۴۵ مذہب کے نام پرخون میں اپنی عمریں کھپا دیں.ان علماء کی تحقیق میں انتہائی عرق ریزی کی بدولت ہی آج ہمارے لئے یہ امر بالکل ممکن ہے کہ ہم کسی بھی حدیث کے اسماء الرجال میں سے ہر راوی کی حیثیت اور مرتبہ کا تفصیلی جائزہ لے سکیں.آیئے ہم اب زیر بحث حدیث کے متعلق اس امر کا جائزہ لیں کہ یہ حدیث مقررہ معیاروں پر کس حد تک پورا اترتی ہے.سو یہ حدیث آحاد اور غریب کی اصطلاح کے تحت آنیوالی احادیث میں سے ایک ہے ( یعنی یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے راویوں کا صرف ایک ہی سلسلہ ہے اور جوصرف ایک ہی ماخذ پر جا کر مختم ہوتا ہے ).احادیث کے جن پانچ مجموعوں میں یہ حدیث شامل ہے ان پانچوں نے راویوں کے سلسلہ کو صرف ایک ہی ماخذ تک پہنچا کر اسے اس سے ہی ماخوذ قرار دیا ہے اور وہ ہے عکرمہ لکھنو کے مولوی عبدالحی مرحوم نے خاص طور پر عکرمہ کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ چونکہ محض بخاری نے اس کی روایت کردہ حدیث کو اپنے مجموعہ احادیث میں شامل کر لیا تھا اس لئے دوسرے ائمہ حدیث نے خود براہ راست تحقیق کئے بغیر ان کی پیروی پر ہی اکتفا کیا اور عکرمہ کی حدیث کو اپنے مجموعوں میں شامل کر لیا.یہ صحیح ہے کہ ایک حدیث راویوں کے صرف ایک ہی سلسلہ سے مروی ہونے کے باوجود بھی مستند اور قابل اعتبار ہو سکتی ہے تاہم اس میں بھی کلام نہیں ہے کہ ایسی حدیث کو اس درجہ قابل اعتماد قرار نہیں دیا جاسکتا جتنا قابل اعتماد ان احادیث کو قرار دیا جاتا ہے جو راویوں کے ایک سے زیادہ قابل اعتبار سلسلوں سے مروی ہوں.راویوں کے صرف ایک ہی سلسلہ سے مروی احادیث کو قانون کا درجہ رکھنے والے ایسے فرمانوں پر جو حقوق، ذمہ داریوں اور جرم وسزا سے متعلق ہوں اثر انداز نہیں ہونے دیا جاتا.جہاں تک حدود پر اثر انداز ہونے کا تعلق ہے سو اس بارہ میں اور بھی زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے.حدود کا لفظ ایک اصطلاح ہے جو محض ان سزاؤں کے لئے بولی جاتی ہے جو معین طور پر قرآن مجید میں بیان کر دی گئی ہیں.ارتداد کے لئے موت کی سزا کے حامی اپنے نظریہ کو قرآنی احکام پر مبنی قرار دے کر اسے حدود کے تحت آنے والی سزاؤں کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں.ہم ان کے اس دعوے کو پہلے ہی سر تا پا غلط ثابت کر چکے ہیں.وو

Page 253

۲۴۶ مذہب کے نام پرخون عکرمہ زیر بحث حدیث کا اصل راوی کس حیثیت کا مالک تھا؟ حدیث کی صحت جانچنے کے سلسلہ میں اس امر کا جاننا بھی از بس ضروری ہے.عکرمہ حضرت ابن عباس کا ایک غلام تھا اور شاگرد بھی.جہاں تک اس کے شاگرد ہونے کا تعلق ہے وہ ایک ایسا شاگرد تھا جس کا پڑھائی سے دل اچاٹ تھا اور بہت پیچھے رہ جانے والے انتہائی پھسڈ کی قسم کے شاگردوں میں اس کا شمار ہوتا تھا.اپنی اس حیثیت کی اس نے یہ کہہ کر خود تصدیق کی ہے کہ حصول علم کے بارہ میں اس کی عدم دلچسپی اور بلا اجازت مسلسل غیر حاضری پر حضرت ابن عباس بہت برافروختہ ہو جایا کرتے تھے اور وہ اسے اپنے درس میں حاضر رہنے پر مجبور کرنے کے لئے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیا کرتے تھے.مزید برآں عکرمہ اسلام کے خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مخالف تھا اور خوارج کی طرف میلان رکھتا تھا.خوارج کی طرف اس کا میلان اس زمانہ میں بہت بڑھ گیا تھا جب حضرت علی اور حضرت ابن عباس کے درمیان اختلافات ابھر نے شروع ہوئے.جہاں تک عباسی خلفاء کا تعلق ہے وہ سیاسی خدشات کے پیش نظر اُن تمام لوگوں کے شدید مخالف تھے جو حضرت علی کی اولاد اور ان کی نسل کے کسی نہ کسی رنگ میں حامی یا ساتھی شمار ہوتے تھے.چنانچہ جب عباسیوں کا دور شروع ہوا تو عکرمہ کو حضرت علی سے اس کی مخاصمت اور خوارج کے ساتھ اس کی راہ و رسم کے باعث ایک بالغ نظر عالم کی حیثیت سے بہت شہرت اور عزت و عظمت حاصل ہوئی.ذہبی کا بیان ہے کہ چونکہ مکرمہ خوارج میں سے تھا اس لئے اُس کی بیان کردہ احادیث مشکوک اور نا قابل اعتبار ہیں.ارتداد کی سزا کے بارہ میں سند کا درجہ رکھنے والے امام علی بن المدائینی کی بھی عکرمہ کے بارہ میں یہی رائے ہے.یحی بن بکر کہا کرتے تھے کہ مصر، الجزائر اور مراکش کے خوارج عکرمہ کے مؤید اور پکے ساتھی تھے.یہ بات بالعموم دیکھنے میں آئی ہے کہ ارتداد کے لئے سزائے موت سے متعلق احادیث بصرہ، کوفہ اور یمن سے چلی ہیں.حجاز ( یعنی مکہ اور مدینہ ) کے لوگ ایسی احادیث سے بالکل بے خبر اور لاعلم تھے.اس حقیقت سے آنکھیں موند لینا ممکن نہیں ہے کہ عکرمہ کی بیان کردہ زیر بحث حدیث ایک عراقی حدیث کے طور پر مشہور ہے.مشہور و معروف مکی امام طوس بن قیسان کہا کرتے تھے کہ

Page 254

۲۴۷ مذہب کے نام پرخون عراقی حدیثیں بالعموم مشکوک ہوتی ہیں.ایک بہت بڑے عالم دین بھی بن سعید الا نصاری نے عکرمہ کی نا قابل اعتبار حیثیت کی بناء پر اس کی شدید مذمت کی ہے.انہوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ وہ ایک کذاب تھا.اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کے نزدیک پرلے درجہ کا جھوٹا اور بے پر کی اڑانے والا تھا.عبد اللہ بن الحارث نے ایک بہت دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جس کے وہ عینی شاہد تھے.وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ علی بن عبد اللہ بن عباس سے ملنے ان کے گھر گئے.وہ یہ دیکھ کر سخت حیران ہوئے کہ ان کے گھر کے دروازے کے باہر کسی نے عکرمہ کو ایک لمبے کھمبے کے ساتھ جکڑ کر باندھ رکھا ہے.انہوں نے اس ظالمانہ حرکت پر اپنے دلی صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے علی بن عبد اللہ بن عباس سے کہا کیا تمہارا دل خوف خدا سے خالی ہے؟ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عکرمہ اپنی پارسائی کی شہرت اور عزت و احترام کی وجہ سے ایسے ظالمانہ اور ذلت آمیز سلوک کا مستحق نہیں ہے چہ جائیکہ اپنے مرحوم آقا کے فرزند کے ہاتھوں ہی اسے ایسی ذلت اٹھانی پڑے.اپنے اس سلوک کو درست ثابت کرنے کے لئے علی بن عبد اللہ بن عباس نے جوابا کہا عکرمہ اس قدر گستاخ واقع ہوا ہے کہ اسے میرے مرحوم والد ابن عباس کی طرف سراسر جھوٹی اور من گھڑت باتیں منسوب کرنے میں بھی کوئی عار نہیں ہے.عکرمہ کے چال چلن اور اوضاع و اطوار کے متعلق علی بن عبد اللہ بن عباس سے بڑھ کر اور کس کی گواہی معتبر ہو سکتی ہے؟ اس بارہ میں تعجب بے محل ہوگا کہ احادیث جمع کرنے والوں میں اولیت کا شرف رکھنے والے بزرگ ، فقہ کے نامور امام حضرت امام مالک بن انس (۹۵ تا ۱۷۹ ہجری) جنہیں پوری اسلامی دنیا میں عزت و احترام اور تعظیم و تکریم کا بہت بلند مقام حاصل ہے فرما یا کرتے تھے عکرمہ کی بیان کردہ احادیث سراسر غیر معتبر ہیں.درج ذیل نامور علماء نے علی الاعلان کہا ہے کہ عکرمہ میں مبالغہ آرائی کا میلان کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا (۱) امام یحی بن سعید الانصاری (۲) علی بن عبد اللہ بن عباس (۳) عطا بن ابی ربیعہ.سو یہ ہے وہ شخص جس سے ہمارا واسطہ آن پڑا ہے اور جس کی اکیلی گواہی اور سند کے ساتھ مذہب تبدیل کرنے والوں کی زندگی اور موت کا معاملہ اٹکا ہوا ہے اور تا قیامت اٹکا رہے گا.

Page 255

۲۴۸ مذہب کے نام پرخون رض ابن عباس حدیثیں روایت کرنے والوں کے سلسلہ میں جب بھی سرفہرست حضرت ابن عباس کا نام آتا ہے تو مسلمان علماء کی بھاری اکثریت مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتی.وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ جھوٹی حدیثیں گھڑنے والوں کا یہ عام وطیرہ تھا کہ وہ حضرت ابن عباس کے نام اور ان کی شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راویوں کے اپنے من گھڑت سلسلہ کو ان سے جاملاتے تھے تا کہ ان کی وضع کردہ حدیث مستند شمار ہو سکے.اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان تمام حدیثوں کو جو حضرت ابن عباس کے نام سے شروع ہوتی ہوں گہری نظر سے جانچا اور پرکھا جائے.مزید برآں اگر کسی راوی نے حضرت ابن عباس کی کہی ہوئی بات کو آگے پوری دیانتداری سے بیان کیا ہو تو بھی اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت ابن عباس نے جو کچھ کہا آگے عکرمہ نے بوجہ انسان ہونے کے اس کا مطلب سمجھنے میں غلطی کی ہو.یہ بات درج ذیل مثال سے بخوبی واضح ہوسکتی ہے :.لے فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَد قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ المَيْتَ يُعَذِّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا ، فَقَالَتْ: رَحمَ اللهُ عُمَرَ، وَاللَّهِ مَا حَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ لَيُعَذِّبُ المُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ وَقَالَتْ: حَسْبُكُمُ القُرْآنُ: وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ابن عباس" کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مرے ہوئے شخص پر رونا پیٹنا اس وفات یافتہ شخص کو عذاب میں مبتلا کرنے کا موجب ثابت ہوتا ہے.ابن عباس مزید کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر وفات پاگئے تو میں نے یہ حدیث حضرت عائشہ کے سامنے بیان کی.انہوں نے کہا اللہ عمر کو معاف بخاری کتاب الجنائز

Page 256

۲۴۹ مذہب کے نام پرخون کرے.خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ہرگز نہیں کہی.آپ نے صرف یہ فرمایا تھا کہ اگر کسی کافر کے ورثاء اس کی نعش پر روتے پیٹتے ہیں تو ان کے اس فعل سے اس کی سزا میں اضافہ ہو جاتا ہے نیز حضرت عائشہ نے دلیل کے طور پر یہ بھی کہا کہ قرآن کا یہ فرمان ہمارے لئے کافی ہے کہ ” کوئی بوجھ اٹھانے والی ہستی دوسری ہستی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی.“ اگر حضرت عمرؓ کے مرتبہ اور مقام کا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے (ایسا خواہ شاذ کے طور پر ہی ہوا ہو ) تو حضرت ابن عباس کی روایت کا مطلب سمجھنے میں معمولی راویوں سے غلطی سرزد ہونے کا امکان کس قدر زیادہ ہوسکتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو آگے پہنچانے میں غلطی کے ایسے وسیع امکانات کی موجودگی میں ایک سمجھدار انسان صرف اس ایک حدیث کی شہادت پر کیسے انحصار کر سکتا ہے اور اس سے زندگی اور موت کے معاملات اور بنیادی انسانی حقوق سے متعلق دور رس اہمیت کے حامل نتائج کیسے اخذ کر سکتا ہے.مزید برآں یہ بھی احتمال ہے کہ عکرمہ نے یہ حدیث خود گھڑی ہو اور منسوب اسے حضرت ابن عباس کی طرف کر دیا ہو جیسا کی علی بن ابن عباس کے بیان کے مطابق ایسا کرنا اس کا عام وطیرہ تھا.داخلی جانچ پڑتال کے مختلف پہلو جب ہم زیر غور حدیث کے نفس مضمون کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے مندرجات کا کئی لحاظ سے غلط ثابت ہونا اظہر من الشمس ہوئے بغیر نہیں رہتا.اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :- (۱) حضرت علی" جیسے عظیم المرتبت انسان کے متعلق یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ اسلام نے کسی بھی انسان کو سزا کے طور پر آگ کا عذاب دینے سے واضح طور پر منع کیا ہے.(ب) جو کوئی بھی اپنا دین بدل لے“ کے الفاظ اس درجہ کی عمومیت کے حامل ہیں کہ انہیں ایک نہیں کئی توضیحات کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے اور ان کا اطلاق مردوں،عورتوں ، اور بچوں

Page 257

۲۵۰ مذہب کے نام پرخون سب پر ہوسکتا ہے جبکہ امام ابوحنیفہ اور فقہ کے بعض دوسرے مکاتیب کے نزدیک ایک مرتد عورت کو کسی حال میں بھی قتل نہیں کیا جا سکتا.(ج) اس حدیث میں عربی کا لفظ ”دین“ استعمال کیا گیا ہے.یہ ایک عمومیت کا حامل لفظ ہے جس سے مراد کوئی بھی مذہب ہو سکتا ہے.ضروری نہیں کہ اس سے مراد صرف اسلام ہی ہو.خود قرآن میں مشرکوں کے مذہب کو دین قرار دیا گیا ہے.(حوالہ کے لئے دیکھیں سورۃ الکافرون).اس حدیث میں عمومیت کی حامل جو زبان استعمال کی گئی ہے اس کی روشنی میں اس حدیث کے اطلاق کو صرف ایک ایسے مسلمان تک کیسے محدود کیا جاسکتا ہے جو اپنا مذہب ترک کرنے کا اعلان کردے؟ ٹھیٹھ قانونی اصطلاحات کی روشنی میں اس حدیث کے مطابق تو جو شخص بھی اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب کا پیرو ہو اسے موت کے گھاٹ اتارنا ہوگا.اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک یہودی اگر عیسائی ہو جاتا ہے تو اسے قتل کرنا ہو گا، اسی طرح جو عیسائی مسلمان ہو جاتا ہے اسے بھی قتل کرنا ہوگا اور اس لا مذہب ملحد کو بھی قتل کرنا ہو گا جو اپنا آبائی مسلک ترک کر بیٹھے اور اس کی بجائے کوئی اور مذہب اختیار کر لے.اسی پر بس نہیں بلکہ جو کوئی شخص بھی مسلم مملکتوں کی جغرافیائی حدود کے پرے کسی اور علاقہ میں یعنی کہیں بھی اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے اس پر بھی اس حدیث کا اطلاق ہوگا.خواہ وہ آسٹریلیا کا قدیمی باشندہ ہو یا قدیمی افریقن نسل کا کوئی پست قامت انسان یا جنوبی امریکہ کا کوئی ریڈ انڈین ہو وہ جو نہی اپنا مذہب ترک کر کے کوئی نیا مذ ہب اختیار کرے اس کو اسی لمحہ قتل کر کے موت کے گھاٹ اتارنا ہوگا.اسلام تبلیغ واشاعت پر بے انتہاء زور دیتا ہے حتی کہ ہر مسلمان کا یہ فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے کر مجاہد فی سبیل اللہ بنے.اب یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ آجکل کے بہت سے نامور مسلم علماء تنگ نظری پر مبنی قتل مرتد کے عقیدے سے چمٹ کر اسلامی جہاد کی روح یعنی تبلیغی جہاد کی نفی کرنے پر تلے ہوئے ہیں.ان علماء کے نزدیک اسلام کہتا ہے کہ جوشخص بھی اپنا مذ ہب تبدیل کرتا ہے (اور یہاں مذہب سے ان کی مراد اسلام ہے ) اسے فوری طور پر قتل کر دیا جائے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کے متعلق کیا حکم ہے جو دوسرے مذاہب کے ماننے والے ہیں اور

Page 258

۲۵۱ مذہب کے نام پرخون اپنا مذہب تبدیل کر لیتے ہیں؟ کیا ان مذاہب کے ماننے والے ایسے لوگوں کو بھی قتل کیا جائے گا ؟ اسلام نے تو تمام مسلمانوں کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ پُر امن ذرائع سے کام لے کر تمام غیر مسلموں سے اُن کا مذہب تبدیل کرانے کی جد و جہد میں مسلسل مصروف رہیں اور اس مقدس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں.یہ کام اس قدر اہم ہے اور مسلسل جد و جہد کا اس درجہ متقاضی ہے کہ ہر مسلمان کو اس امر کا مکلف کیا گیا ہے کہ وہ آخری سانس تک اس جد و جہد میں مصروف رہے اور کبھی اور کسی حال میں بھی اس سے غافل نہ ہو.مثال کے طور پر قرآن مجید فرماتا ہے :- أدع إلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ - (النحل: ١٢٦) (اے رسول ! ) تو لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ سے اپنے رب کی راہ کی طرف بلا اور اس طریق سے جو سب سے اچھا ہو ان سے بحث کر.تیرا رب ان کو بھی جو اس کی راہ سے بھٹک گئے ہوں بہتر جانتا ہے اور ان کو بھی بہتر جانتا ہے جو ہدایت پاتے ہیں.جو لوگ سراسر تعصب پر مبنی قتل مرتد کے ظالمانہ عقیدے کے حامی ہیں وہ اس امر پر کبھی دھیان نہیں دیتے کہ اس عقیدہ کے نتیجہ میں بین الاقوامی روابط اور بین المذاہب انسانی تعلقات کا بری طرح متاثر ہونا ناگزیر ہے.حیرت ہوتی ہے کہ وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اسلام کے بارہ میں انہوں نے خود جو نقطہ نظر اپنایا ہے وہ عملاً کیسی غیر منصفانہ صورت حال کو جنم دینے کا موجب بنتا ہے.اس نقطہ نظر کی رو سے بظا ہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے جبکہ صرف مسلمانوں کو اس حق سے محروم کیا گیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو مطلب اس کا بجز اس کے اور کچھ نہیں بنتا کہ اسلام کو یہ امتیازی حق حاصل ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو تو اپنا حلقہ بگوش بنائے لیکن دوسرے مذاہب کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ وہ مسلمانوں کو بذریعہ تبلیغ اپنے اندر داخل کر سکیں کیونکہ جو مذہب بھی کسی مسلمان کو اپنا حلقہ بگوش بنائے گا

Page 259

۲۵۲ مذہب کے نام پرخون عقید ہ قتل مرتد کے حامی ایسے مسلمان کی فوڑا گردن اڑا دیں گے.اس عقیدہ کی روشنی میں اسلامی تصور عدل کی کیسی افسوسناک صورت ابھر کر دنیا کے سامنے آتی ہے.آخر میں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ارتداد نام ہے کسی شخص کے ایسے مذہب سے واضح اور کلی انکار کا جس کے ساتھ وہ پہلے وابستہ تھا.عقائد کے بارہ میں اختلافات کو خواہ وہ کتنی ہی شدید نوعیت کے کیوں نہ ہوں ارتداد کا نام نہیں دیا جاسکتا.مزید برآں خود اسلام کی رو سے کسی کو ارتداد کی سزا دینا صرف اور صرف خدائے قادر کے اختیار میں ہے کیونکہ جو شخص بھی اسلام کو ترک کر کے اپنے مرتد ہونے کا خود اعلان کرتا ہے وہ صرف اور صرف اسلام کو بھیجنے والے کا مجرم ہے نہ کہ کسی اور کا.وہ ارتداد جس کے ساتھ واضح طور پر کسی اور قابل تعزیر جرم کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو اور اس طرح اس کے نئے نئے شاخسانے نہ نکالے گئے ہوں اس دنیا میں ایسے ارتداد کی کوئی سزا مقرر نہیں ہے.اس لحاظ سے محض ارتداد اس دنیا میں قابل سزا جرم شمار ہی نہیں ہوتا.یہی وہ تعلیم ہے جو خدا اور اس کے رسول نے دی ہے اور یہی وہ نظریہ ہے جس کی حنفی فقہا ہے فتح القدیر کے چیپی کے، حافظ ابن قیم ، ابراہیم نخعی ، سفیان ثوری اور بہت سے دوسرے فقہاء نے تصدیق کی ہے.مودودیوں کا اس حدیث کے بارہ میں ( جسے وہ مستند سمجھتے ہیں ) متفق علیہ ہونے کا دعویٰ محض ایک فسانہ ہے اس سے زیادہ اس کی اور کوئی حیثیت نہیں ہے.لهداية فتح القدير جلد ۴ صفحه ۳۸۹ جلد ۳ صفحه ۵۸۰ چیلپی شرح فتح القدير صفحه ۳۸۸

Page 260

۲۵۳ مذہب کے نام پرخون کائنات کے لئے رحمت وہ اپنی عیاری کی وجہ سے خوب جانتے تھے کہ مسلمانوں کے جذبات کسی موضوع پر اس قدر آسانی سے اور تیزی و تندی سے برانگیختہ نہیں کئے جاسکتے اور ان کے غیظ و غضب کو بیدار نہیں کیا جاسکتا جس قدر رسول پاک صلعم کی حقیقی یا خیالی تو ہین پر کئے جاسکتے ہیں لہذا انہوں نے یہ ظاہر کرنا شروع کیا کہ ان کی سرگرمیوں کا مقصد یہ ہے کہ رسول پاک کی نبوت کی حفاظت کی جائے اور آپ کی ناموس پر احمدیوں کے حملوں کا مقابلہ کیا جائے.یہ چال کامیاب ہوگئی اور حاضرین کی کثیر تعداد ان کے جلسوں میں شریک ہونے لگی اور چونکہ بعض احراری مقرر الفاظ وفقرات کے انتخاب اور تشبیہہ و استعارہ کے استعمال میں بڑے ماہر واقع ہوئے ہیں اور اپنی تقریروں میں طنز و ظرافت کے چھینٹے بھی خوب دیتے ہیں (خواہ وہ ظرافت کتنی ہی مبتنذل کیوں نہ ہو ) لہذا وہ روز بروز مقبول عام ہونے لگے.“ (جسٹس منیر ) اہانت انبیاء کا سلسلہ ایک بہت قدیم سلسلہ ہے.یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود بعثت انبیاء کا سلسلہ قدیم ہے کیونکہ کوئی ایک نبی بھی ایسا مبعوث نہیں ہوا کہ جس کے ساتھ اس کی قوم نے استہزاء و اہانت کا سلوک روا نہ رکھا ہو حتی کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے رَحْمَةٌ لِلعلمین قرار دے کر پوری کائنات کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اپنی قوم کی طرف سے استہزاء و اہانت کا نشانہ بنے.آپ کے ساتھ نہ صرف آپ کی زندگی کے مکی دور میں استہزاء کا سلوک کیا گیا اور ہدف ملامت بنا یا گیا بلکہ مدینہ میں بھی اس کا سلسلہ جاری رہا اور اس امر کے باوجود جاری رہا کہ وہاں آپ استہزاء و اہانت کرنے والوں کو سزا دینے کی پوری لے منیر کمیشن رپورٹ اردو صفحہ ۲۷۶

Page 261

۲۵۴ مذہب کے نام پرخون مقدرت رکھتے تھے.مدینہ کے یہودی تو تھے بھی بہت زبان دراز اور تیز وطرار اور ان کا استہزاء کا انداز بھی بہت مبتنذل نوعیت کا ہوتا تھا.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑانے اور آپ کو استہزاء کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رحمة للعلمين صلى اللہ علیہ وسلم نے نہ یہود کو اور نہ دوسرے استہزاء کرنے والوں کو اس جرم کی کبھی کوئی سزا دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جانے کے بعد قریش مکہ نے اسلام کی اشاعت اور روز افزوں ترقی کو روکنے کے لئے یہود مدینہ کے ساتھ ساز باز کا سلسلہ شروع کیا اور جلد ہی دونوں کے درمیان با قاعدہ گٹھ جوڑ قائم ہو گیا.منافقین بھی پانچویں کالم ( یعنی جاسوسوں ) کے روپ میں وہاں موجود تھے جنہوں نے مخبریاں کر کر کے اندر ہی اندر جڑیں کاٹنے کی مساعی جاری رکھی ہوئی تھیں.خفیہ ریشہ دوانیوں کے ذریعہ جنگ کی آگ بھڑ کانے کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرنے کی غرض سے پیغام رسانی اور دیگر خفیہ رابطوں کا ایک جال بچھایا ہوا تھا.باتوں کو پر لگا کر افواہیں پھیلانے والے شاعرا اپنی جگہ مصروف کار تھے.میکسم روڈنسن MAXIME RODINSON نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ ان شاعروں کی حیثیت اپنے دور کے صحافیوں کی سی تھی اور کار میخائل CARMICHAEL نے انہیں جلتی پر تیل ڈالنے والے یعنی جنگ کی آگ بھڑ کانے والے قرار دیا ہے.بہر حال اس وقت اسی قسم کے شاعر تھے جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعہ مدینہ کے مسلمانوں کو یہ جتلا جتلا کر مطعون کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا کہ انہوں نے باہر سے آوارد ہونے والے ایک اجنبی کی اطاعت قبول کر کے اپنی عزت خاک میں ملا دی ہے.ابو عفک نامی ایک شاعر ے حوالہ کے لئے دیکھیں میکسم روڈنسن کی کتاب ”محمد " صفحہ ۱۷۴ متر جم رینے کارٹر ( نیو یارک ۱۹۷۱ء) (ب) جوئیل کار میخائل JOEL CARMICHAEL نے لکھا ہے بدوؤں میں ایک قبائلی شاعر محض شعر گوئی نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی حیثیت جنگ کی آگ بھڑ کانے والے کی ہوتی تھی.اس کی نظموں کو باقاعدہ جنگ کا آغاز تصور کیا جاتا تھا.حوالہ کے لئے دیکھیں کتاب SHAPING OF ARAB A STUDY IN ETHNIC IDENTITY (- NEWYORK 1967 P.38

Page 262

۲۵۵ مذہب کے نام پرخون نے قیلہ کے فرزندوں (یعنی اوس اور خزرج) کو اپنی ایک نظم میں طعنہ دیتے ہوئے کہا:- میں اس دنیا میں ایک طویل زندگی گزار چکا ہوں لیکن میں نے کوئی گھرانہ یا لوگوں کا کوئی قبیلہ ایسا نہیں دیکھا جو اپنے اتحادیوں کے ساتھ (جب وہ مدد کے لئے پکاریں) یکجا ہو کر فرزندان قبیلہ سے بڑھ کر وفاداری کا ثبوت دے سکے.پہاڑوں کا ریزہ ریزہ ہو جانا تو ممکن ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ اوس و خزرج ہتھیار ڈال کر کسی اور کی اطاعت قبول کر لیں.پراب ( میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں ) ان کے درمیان باہر سے ایک شتر سوار آیا اور اس نے ان میں ایک عجیب و غریب قسم کا فرق پیدا کر دکھایا.وہ کہتا ہے تمہیں یہ کرنے کی اجازت ہے اور یہ کرنے کی اجازت نہیں.ہر چیز اور ہر بات میں وہ اپنا حکم چلاتا ہے.اے فرزندانِ قبیلہ تم تو اقتدار اور قوت کو اہمیت دینے اور ماننے والے تھے تم نے ماضی میں متبع کی اطاعت کیوں نہ قبول کی لے ، اس اقتباس کے آخری الفاظ سے شاعر کا مطلب یہ تھا کہ متبع تو جنوبی عرب کا ایک طاقتور بادشاہ تھا جس کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا.تمہارے آباء واجداد نے اس کے آگے تو سر تسلیم خم نہ کیا لیکن اب تمہیں ہو کیا گیا ہے کہ تم نے مکہ سے آنے والے ایک مہاجر کے تمام دعاوی کو قبول کر کے اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ہے.اس دوران مالک بن الضیف کی جگہ کعب یہودیوں کا سردار منتخب ہو گیا اُس نے بھی جنگ بدر میں قریش کی تباہی پر اپنے دلی ملال اور اذیت کا اظہار کیا.اس نے ایک مرثیہ لکھا جس میں نوحہ کرتے ہوئے کہا :- 66 ے اوس وخزرج ! تم اپنے درمیان سے اس بے عقل شخص کو نکال باہر کرو تا کہ اس کی لایعنی باتوں سے محفوظ رہ سکو.تم مجھے اس بات پر مطعون کرتے ہو کہ میں ان 1 سیرۃ رسول اللہ ابن ہشام صفحہ ۹۹۵ انسان العیون مصنفہ علی بن برہان الدین الحلبی صفحہ ۱۱۶ سے سیرۃ رسول اللہ ابن ہشام صفحہ ۴۵۹

Page 263

۲۵۶ مذہب کے نام پرخون لوگوں کی ہلاکت پر آنسو بہاتا ہوں جو مجھ سے محبت اور اخلاص کا تعلق رکھتے تھے.(تمہارے اس طعنہ کی مجھے کوئی پرواہ نہیں ) میں جب تک زندہ ہوں میں ان لوگوں کے اوصاف کو یاد کر کر کے آنسو بہاتا اور ان کی ہلاکت پر نوحہ کرتا رہوں گا جو مکہ کے عالی نسب گھرانوں کی آن بان اور عزت و آبرو کے مظہر تھے لے “ ظاہر ہے اس قسم کے سوقیانہ اور بازاری انداز کلام اور بے لگام دشنام طرازی کی آئینہ دار مہم کا اصل مقصد یہ تھا کہ ایک طرف تو انصار اور مہاجرین کے درمیان اور دوسری طرف خود انصار میں سے اوس و خزرج کے درمیان افتراق کا بیج بو کر ان میں پھوٹ ڈالی جائے اور انہیں با ہم ایک دوسرے کے خلاف لڑنے پر اکسایا جائے.جب یہو دمدینہ کو یہ مہم کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر آئی تو قبیلہ بنو قینقاع کے شاس بن قیس نامی ایک معمر یہودی نے ایک یہودی نوجوان کو حکم دیا کہ وہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اوس اور خزرج کے مابین ماضی میں لڑی گئی جنگ بعاث کے واقعات ان کے درمیان جا کر بیان کرے اور اس جنگ کے دوران دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو نظمیں کہی تھیں وہ انہیں گا گا کر سنائے تا کہ پرانی دشمنی پھر عود کر آئے اور اس طرح ان کے جذبات ایک دوسرے کے خلاف پھر بھڑک اٹھیں.جب اس نوجوان نے شرانگیزی کی نیت سے وہ نظمیں باری باری اوس اور خزرج کو سنانے اور ان کے جذبات بھڑ کانے کا سلسلہ شروع کیا تو رفتہ رفتہ اوس اور خزرج کے درمیان پرانی دشمنی پھر ابھر نے لگی اور ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ بالآخر دونوں قبیلوں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور لگے ایک دوسرے کو مقابلہ اور مبارزت کی دعوت دینے.دونوں نے ایک دوسرے کو کہنا شروع کر دیا ”اگر تم یہی چاہتے ہو تو بے شک جنگ کر کے دیکھ لو، تم جنگ کے لئے تیار ہو تو ہمیں بھی تیار پاؤ گے.جب بات اور آگے بڑھی تو دونوں گروہ غصہ سے بھر گئے اور لگے ایک دوسرے کو للکارنے کہ کچھ فاصلہ پر واقع سیاہ پتھر یلے مقام (الحزه ) کو ہم میدان جنگ مقرر کرتے ہیں.دونوں طرف ہتھیار سنبھالو ہتھیار سنبھالو کا شور پڑ گیا اور سب اس میدان کی جانب نکل کھڑے ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو ل ابن ہشام

Page 264

۲۵۷ مذہب کے نام پرخون آپ بعض صحابہ کو اپنے ہمراہ لے کر بعجلت وہاں تشریف لائے.آپ نے اوس و خزرج کے آمادہ پرکار لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :- يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ اللَّهَ اللَّهَ أَبِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِ كُمْ بَعْدَ أَنْ هَدَاكُمُ اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، وَأَكْرَمَكُمْ بِهِ، وَقَطَعَ بِهِ عَنْكُمْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ.وَاسْتَنْقَذَكُمْ بِهِ مِنَ الْكُفْرِ، وَأَلَّفَ بِهِ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ یعنی اے مسلما نو ! خدا کو یاد کروا اور اس سے ڈرو.کیا تم جاہلیت کے دعووں کی بناء پر ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر تل گئے ہو حالانکہ میں تم میں موجود ہوں؟ یاد کر واللہ نے تمہیں اسلام ایسی راہ ہدایت عطا کی اور اس کے ذریعہ تمہیں عزت بخشی اور اس کے ذریعہ سے تمہیں کفر سے نجات دلائی اور تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے الفت پیدا کر دکھائی (یعنی کیا اس کے بعد بھی تم ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی جرات کرو گے؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سن کر اوس و خزرج کے لوگ رو پڑے.انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا.انہوں نے جان لیا کہ یہ دشمن کی ایک چال تھی.وہ ہمیں ایک دوسرے سے لڑوا کر تباہ کرنا چاہتا تھا.وہ آپس میں گلے مل مل کر ایک دوسرے سے معذرت کرتے رہے اور خدا تعالیٰ کا شکر ادار کرتے رہے کہ اس نے اپنے فضل سے انہیں تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا.پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں وہاں سے واپس چلے آئے.اس موقع پر قرآن مجید کی یہ آیات نازل ہوئیں :- يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ يَرُدُّوكُمْ بَعْدَ إيمَانِكُمْ كَفِرِينَ وَ كَيْفَ تَكْفُرُونَ وَ اَنْتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ أَيْتُ اللهِ وَ فِيكُمْ رَسُولُهُ وَ مَنْ يَعْتَصِمُ بِاللهِ فَقَدْ هُدِى إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ - يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ - وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ سیرۃ رسول اللہ از ابن ہشام

Page 265

۲۵۸ مذہب کے نام پرخون فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا - (آل عمران: ۱۰۱ تا ۱۰۴) ترجمہ: اے مومنو! اگر تم ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی تھی کسی فریق کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کافر بنادیں گے اور تم کس طرح کفر کرو گے جبکہ تم وہ لوگ ہو جنہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول (موجود) ہے.اور جو شخص اللہ کی پناہ لے تو ( سمجھو کہ ) اسے سیدھی راہ پر چلا دیا گیا.اے ایماندارو! اللہ کا تقویٰ اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کرو اور تم پر صرف ایسی حالت میں موت آئے کہ تم پورے فرمانبردار ہو اور تم سب ( کے سب ) اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور پراگندہ مت ہو اور اللہ کا احسان جو (اس نے ) تم پر کیا ہے یاد کرو کہ جب تم (ایک دوسرے کے دشمن تھے ، اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں تم اس کے احسان سے بھائی بھائی بن گئے.یہ امر ظاہر وباہر ہے کہ یہ تھی مدینہ میں یہود کی طرف سے پھیلائی ہوئی شرانگیزی اور مفسدہ پردازی کی وہ فضا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شاعروں کے پراپیگینڈے کے سلسلہ کو بند کرنے کا فیصلہ فرمایا اور انہیں قتل کرنے کے لئے بعض رضا کا ر طلب فرمائے.وہ امن و امان کے لئے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے تھے.یہ کہنا کہ انہیں اس لئے قتل کیا گیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے اور آپ کی توہین کرتے تھے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کرنے والوں کو موت کی سزا کا مستوجب ٹھہرانے کے لئے ان فتنہ پرداز شاعروں کے قتل کو بطور مثال استعمال کرنا کھلی بددیانتی ہے یا پھر اسے تاریخی حقائق سے لاعلمی اور عدم واقفیت پر محمول کرنا ناگزیر ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب (جس کے لئے سب کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ) نہ قرآن کی رو سے ایسا جرم ہے کہ جس پر حد جاری ہو سکتی ہو اور نہ سنت کی رو سے ایسا جرم قرار پاسکتا ہے جس کی سزا موت ہو.محض توہین رسالت تا وقتیکہ اضافی مجرمانہ عوامل و حالات موجود نہ ہوں قابل سزا جرم ہے ہی نہیں.ارتداد کی طرح اس کی سزا دینا بھی صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اللہ اور اس کے رسولوں کی عزت و ناموس کے قیام کے سلسلہ میں

Page 266

۲۵۹ مذہب کے نام پرخون قرآن مجید نے مختلف مذاہب و مسالک کے ماننے والوں کے درمیان باہمی خیر سگالی پر زور دیا ہے.اس کا منشاء یہ ہے کہ جملہ اہلِ مذاہب ایک دوسرے کے معبودوں اور بزرگوں کو برا بھلا نہ کہیں اور از روئے اخلاق ایک دوسرے کی دل آزاری سے بچیں.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے :- ولا تسبوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسْبُوا اللَّهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَا لِكُلِ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَتَهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام: ١٠٩) ترجمہ : اور تم انہیں جنہیں وہ اللہ کے سوا ( دعاؤں میں ) پکارتے ہیں گالیاں نہ دو.وہ دشمن ہو کر جہالت کی وجہ سے اللہ کو گالیاں دیں گے.اس طرح ہم نے ہر ایک قوم کے لئے اس کے عمل خوبصورت کر کے دکھائے ہیں.پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے جس پر وہ انہیں اس کی خبر دے گا جو وہ کرتے تھے.کسی کے لئے احترام ، عزت و توقیر اور محبت کے جذبات کا تعلق براہ راست دل سے ہوتا ہے.رہا جبر ، سو اس سے دوسروں کے منہ تو بند کئے جاسکتے ہیں اور دہشت بھی پھیلائی جاسکتی ہے لیکن اس کے نتیجہ میں محبت کی بجائے گستاخی اور بے ادبی کے جذبات ہی جنم لیتے اور پنپتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ دل سے تعلق رکھنے والے معاملات میں قرآن مجید نے مثبت پہلو پر زور دیا ہے.جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تعلق ہے قرآن فرماتا ہے:.إنَّ اللهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ، يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا - إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينَا - وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَ إِثْمًا مُّبِينًا - (الاحزاب : ۵۷ تا ۵۹) ترجمہ:- اللہ یقیناً اس نبی پر اپنی رحمت نازل کر رہا ہے اور اس کے فرشتے بھی (یقیناً اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں پس ) اے مومنو! تم بھی اس نبی پر درود بھیجتے اور ان کے لئے دعائیں کرتے رہا کرو اور (خوب جوش و خروش سے ) ان کے لئے سلامتی مانگتے رہا کرو.وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اللہ ان کو اس دنیا میں اور

Page 267

۲۶۰ مذہب کے نام پرخون آخرت میں اپنے قرب سے محروم کر دیتا ہے اور اس نے ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر چھوڑا ہے.وہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی قصور کیا ہو تکلیف دیتے ہیں ان لوگوں نے خطر ناک جھوٹ اور کھلے کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر اٹھا لیا ہے.سب سے متعلق قرآن مجید کی تعلیم بالکل واضح ہے.قرآن مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ کافروں کے جھوٹے خداؤں (بتوں وغیرہ) کو بھی برا بھلا نہ کہیں.اور پھر اس نے ایسے لوگوں کے لئے کوئی سزا مقرر نہیں کی جو رسول کی گستاخی اور توہین کے مرتکب ہوتے ہیں.ان کے لئے اللہ نے اپنے قرب سے محرومی کا عذاب مقدر کر چھوڑا ہے.اب رہا یہ سوال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک روارکھا جو آپ کی گستاخی اور اہانت کے مرتکب ہوئے اور جنہوں نے آپ کو اذیتوں پر اذیتیں پہنچائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو رحمۃ للعلمین کے انتہائی بلند مرتبہ پر فائز فرمایا تھا اور آپ کو پوری نوع انسانی کے لئے اسوۂ حسنہ قرار دیا تھا.ایسے لوگوں کے ساتھ آپ کا سلوک آپ کے اس رفیع الشان مقام کے عین مطابق تھا.اس ضروری وضاحت کے بعد آئیے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا.اس شخص نے آپ کی اہانت کرنے اور اپنے انتہائی قابل اعتراض طرز عمل سے آپ کو اذیت پہنچانے میں انتہا کر دی تھی.غزوہ بنی المصطلق (۶ ہجری مطابق ۷ ۷۳ء) سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چشمہ مریسیع کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے.وہاں مہا جرین اور انصار میں ایک ناخوشگوار جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا.ہوا یوں کہ حضرت عمرؓ کا ایک ملازم جس کا نام حجاہ بن مسعود تھا انصار کے ایک حلیف شخص سنان و برا لجہنی ایک بات پر باہم الجھ پڑے.بقول ابن اسحق جھگڑے نے جب طول پکڑا تو الجنی نے آواز دی يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ( یعنی اے گروہ انصار میری مددکو پہنچو ).جاہ بھی بلند آواز میں پکارا يَا مَعْشَرَ المُهَاجِرِينَ ( یعنی اے مہاجرین کے گروہ میری مدد کرو).اس پر عبد اللہ بن ابی بن سلول بلا وجہ طیش میں آگیا.اس وقت ایک نوجوان زید بن ارقم کے علاوہ کچھ اور

Page 268

مذہب کے نام پرخون لوگ بھی اس کے ساتھ تھے.معاملہ کو سلجھانے اور باہم صلح کرانے کی بجائے اُس نے کہا اچھا اب ان لوگوں ( یعنی مہاجرین ) کے حو صلے اس قدر بڑھ گئے ہیں! انہوں نے ہمارے وطن میں ہماری فوقیت کو متنازعہ بنایا اور ہمارے شہروں میں ہم پر ہی اکثریت اور طاقت حاصل کرنا چاہی.ہم اہلِ مدینہ اور جلا بیپ قریش ( قلاش قریشیوں ) پر تو یہ مثل صادق آتی ہے کہ سمن كَلْبَكَ يَأْكُلَك ( یعنی اپنے کتے کو کھلا کھلا کر موٹا کرتا کہ وہ تجھے ہی پھاڑ کھائے ).خدا کی قسم جب ہم یہاں سے مدینہ واپس پہنچیں گے تو جو سب سے زیادہ معزز ہے وہ ذلیل ترین شخص کو مدینہ سے نکال کر رہے گا.پھر وہ اپنے لوگوں کے پاس گیا اور ان سے کہا یہ سب تمہارا اپنا کیا دھرا ہے.تم نے انہیں ( یعنی مہاجرین کو ) اپنے علاقوں پر قابض ہونے دیا.تم نے انہیں اپنے مکانوں، جائیدادوں اور مال و منال میں حصہ دار بنایا.اگر تم اپنا ہاتھ کھینچ لو یعنی تم ان سے اپنی جائیدادیں اور اپنا مال واپس لے لو تو تم انہیں کسی اور جگہ کا رخ کرنے اور وہاں پناہ لینے پر مجبور کر سکتے ہو.زید بن ارقم جو اس وقت اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا اس کی یہ باتیں سن رہا تھا.اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر الف سے کی تک سارا واقعہ آپ کو کہہ سنایا.اس وقت حضرت عمرؓ بھی وہاں موجود تھے انہوں نے آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا آپ تعباد بن بشر کو حکم دیں کہ وہ جا کر عبد اللہ بن ابی کو قتل کر دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمر یہ کیسے ہوسکتا ہے ! لوگ کیا کہیں گے؟ وہ یہی کہیں گے کہ محمد خود اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتا اور موت کے گھاٹ اتارتا ہے.نہیں نہیں ، میں ایسا نہیں ہونے دوں گا.آپ اس وقت تک دشمنوں سے تو فارغ ہو ہی چکے تھے آپ نے فرما یا لوگوں کو کوچ کا حکم دو.اس صورتِ حال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت فکر مند تھے.قبائلی عصبیت کی بناء پر الجہنی کا انصار کو اپنی مدد کے لئے پکارنا اور جاہ کا اسی انداز میں بآواز بلند مہاجرین کو اپنی مدد کے لئے بلا نا کوئی معمولی بات نہیں تھی.اس واقعہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن کو یومِ بُعاث اور جنگ بسوس BASUS کی طرف پھیر دیا.یہ جنگ چالیس سال تک جاری رہی تھی.آپ کو فکر یہ لاحق ہوئی کہ اگر عبداللہ بن ابی اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوجا تا تو انصار اور مہاجرین قدیم قبائلی جنگوں ابن ہشام غزوہ بنی مصطلق

Page 269

۲۶۲ مذہب کے نام پرخون کی طرف لوٹ کر ایک دوسرے کے ساتھ جنگوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ میں پھر الجھ سکتے تھے اور اسلامی اتحاد کا وہ پیغام جس نے ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے متحارب قبائل کو ایک متحد اور طاقتور عرب قوم میں تبدیل کر دکھایا تھا تحت ربود ہو کر رہ جاتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس درجہ فکرمند تھے کہ آپ نے صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے وہاں سے فوری طور پر کوچ کر جانے کا حکم دے دیا.ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جس وقت آپ نے کوچ کا حکم دیا وہ ایسا وقت تھا جس میں آپ بالعموم سفر پر روانہ نہیں ہوا کرتے تھے.عبد اللہ بن اُبی نے اس وقت جو فتنہ کھڑا کرنا چاہا تھا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :- يَقُولُونَ لَبِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لِيُخْرِجَنَّ الْأَعَدُّ مِنْهَا الْأَذَلَ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ - (المنافقون: ٩) ترجمہ:- وہ ( یعنی منافقین ) کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو جو مدینہ کا سب سے معزز آدمی ہے وہ مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی کو اُس سے نکال دے گا.اور عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو ہی حاصل ہے لیکن منافق جانتے نہیں.جب عبد اللہ بن ابی کے بیٹے (جس کا نام بھی عبد اللہ ہی تھا ) کو اس سارے واقعہ کاعلم ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :- مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے میرے والد عبد اللہ بن ابی کی کرتوت کے بارہ میں جو سنا ہے اس کی وجہ سے آپ انہیں قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.اگر یہ صحیح ہے تو آپ حکم فرمائیے اور مجھے اجازت دیجئے میں خود اس کا سرقلم کر کے آپ کی خدمت میں پیش کر دوں گا.قبیلہ خزرج کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اس قبیلہ کا کوئی آدمی اپنے باپ کا اتنا فرمانبردار نہیں ہے جتنا میں اپنے والد کا فرمانبردار ہوں.میں ڈرتا ہوں اس بات سے کہ اگر آپ نے میرے سوا کسی دوسرے شخص کو انہیں قتل کرنے کا حکم دیا اور اس نے انہیں قتل کر دیا تو شاید میں اپنے نفس پر قابو نہ پاسکوں اور کسی وقت کوئی جذ بہ ایسا ابھرے کہ میں اپنے باپ کے قاتل کا لوگوں میں چلنا پھرنا برداشت نہ کرسکوں اور

Page 270

۲۶۳ مذہب کے نام پرخون اس طرح ایک کافر کا بدلہ لینے کی خاطر ایک مومن کو قتل کر بیٹھوں اور دوزخ کا مستحق بن جاؤں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں ، میں تو ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنا چاہتا ہوں اور جب تک وہ ہمارے ساتھ ہیں میں ان کی مصاحبیت کو برقرار رکھنے کے حق میں ہوں.“ یہی وجہ ہے اگر چہ بعد کے زمانوں میں بعض اسلامی ملکوں میں اہانت رسول کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے موت کی سزا کا نفاذ بھی عمل میں آیا تا ہم مسلمان حکمران اس جرم کے ارتکاب میں موت کی سزا دینے سے گریزاں رہتے تھے.خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب بعض اہانت کرنے والے اس امر کے خواہشمند ہوتے تھے کہ انہیں موت کی سزا دی جائے تاکہ وہ اپنے ہم مذہبوں میں شہید شمار ہوسکیں، وہ موت کی سزا قطعا نہیں دیتے تھے.مسلمان حکمران اچھی طرح جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی ، دیگر منافقین اور یہودیوں کے ساتھ اس معاملہ میں بالعموم نرم سلوک ہی روا رکھا اس لئے مسلمان حکمران بھی اس بارہ میں سختی سے پہلو تہی کرنے کو ہی ترجیح دیتے تھے.اسپین کے شہر قرطبہ میں ۸۵۰ اور ۸۵۹ عیسوی کے درمیانی عرصہ میں بعض جنونی قسم کے جو شیلے اور کٹر عیسائیوں نے ایولو جیس EULOGIUS نامی ایک شخص کی سر براہی میں اپنے آپ کو ایک گروپ کی شکل میں منظم کر لیا تھا.اس گروپ کے اراکین نے عمد ایہ وطیرہ اختیار کر رکھا تھا کہ وہ جان بوجھ کر علی الاعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتے اور بڑی دیدہ دلیری سے آپ کی توہین کے مرتکب ہوتے.اس طرز عمل سے غرض ان کی یہ ہوتی تھی کہ وہ موت کو گلے لگا کر اور اس طرح شہادت کا رتبہ پا کر عیسائیوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جائیں.قرطبہ کے مسلمان قاضی ان کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دیتے.وہ انہیں اس جرم میں قید کی سزا دے دیا کرتے تھے.مشہور امریکی مورخ ول ڈیورینٹ WILLDURENT نے ایسے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:.قرطبہ کا آئزک ISSAC نامی ایک عیسائی راہب ایک قاضی کے پاس گیا اور ل ابن ہشام واقعات غزوہ بنی المصطلق

Page 271

مذہب کے نام پرخون ۲۶۴ اس کے سامنے اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا.لیکن جب قاضی نے بخوشی اس تک اسلام کا پیغام پہنچایا اور اسلامی تعلیم کو کسی قدر وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہا تو اس عیسائی راہب نے قاضی کی بات کو کاٹتے ہوئے یک دم کہنا شروع کر دیا کہ تمہارے نبی نے جھوٹا دعویٰ پیش کر کے تمہیں دھوکا دیا ہے.خدا کی ناراضگی کا مورد بنے وہ شخص جو بہت سے بدنصیبوں کو اپنے ساتھ لے کر واصل جہنم ہوا.قاضی نے اسے سرزنش کی اور ڈانٹتے ہوئے اس سے پوچھا کیا تو نشہ میں ہے؟ راہب نے جواب دیا ”میرے ہوش و حواس بالکل ٹھیک ہیں میں فاتر العقل نہیں ہوں مجھے موت کی سزا دی جائے.قاضی نے اسے موت کی سزا نہیں دی بلکہ جیل بھجوا دیا.ساتھ ہی اندلس کے حکمران عبد الرحمن الثانی سے اجازت طلب کی کہ اسے مخبوط الحواس قرار دے کر رہا کر دیا جائے.“.سلطنت عثمانیہ کے مفتی اعظم شیخ الاسلام ابوالسعو د آفندی نے سلطان سلیمان ذی شان کے عہد حکومت میں سزائے موت کی اجازت ضرور دی تھی لیکن انہوں نے اس سزا کو اس امر کے ساتھ مشروط کیا تھا کہ اس سزا کا مستوجب صرف وہ شخص ہو گا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں علی الاعلان بار بار گستاخی کرنے کا عادی ہو.شیخ الاسلام نے اس امر پر باصرار زور دینے کے لئے کہ کسی کے خلاف موت کی سزا کا حکم لگانا معمولی بات یا ہنسی کھیل نہیں ہے عام مروجہ طریق سے ہٹ کر اسے کڑی شرط کے ساتھ مشروط کرنا ضروری خیال کیا.وہ صاف اور واضح طور پر چاہتے یہ تھے کہ بات بات پر بغض و عناد پر بنی قانونی چارہ جوئی کو روز مرہ کا معمول بنانے والے غیر سنجیدہ طریق عمل سے بہر طور اجتناب کیا جائے.اسی لئے انہوں نے یہ قطعی حکم ساتھ لگایا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی ملزم کو محض ایک یا دو آدمیوں کے کہنے پر عادی مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا.کسی کا عادی دی سٹوری آف سویلیز یشن“ مصنفہ ول ڈیورنٹ پبلشر سائمن اینڈشسٹر مطبوعہ ۱۹۵۰ء جلد چہارم صفحه ۳۰۱ THE STORY OF CIVILISATION VOL.4 P.301 SIMON AND SHUSTER NEWYORK 1950

Page 272

۲۶۵ مذہب کے نام پرخون مجرم ہونا صرف اس وقت ہی پایہ ثبوت کو پہنچے گا جب ذاتی اغراض سے پاک اور مبرا قابل اعتماد مسلمان ایک غیر جانبدار کی حیثیت سے حکام مجاز کے سامنے اس کے عادی مجرم ہونے کا ناقابل تردید ثبوت پیش کریں.اس کی خاطر فتویٰ میں ایک اہم تاکیدی و انضباطی شق کا اضافہ کیا گیا تھا.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابوالسعود نے سزائے موت کا ایسا مشروط فتویٰ قرآن اور حدیث کی سند موجود نہ ہونے کے شدید احساس کے تحت دیا تھا.وہ جانتے تھے کہ سب ( یعنی اہانت رسول ) کی سزا دینا صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.فتویٰ اغلباً سیاسی دباؤ کے تحت دیا گیا تھا کیونکہ مفتی اعظم نے فتویٰ میں ایک امر کی وضاحت کر کے اس کے مؤثر ہونے کی خود ہی نفی کر دی.انہوں نے لکھا کہ جو لوگ سرے سے ایمان ہی نہیں لائے وہ اپنے اس عدمِ ایمان یعنی کفر کو اپنے عقیدے کی رو سے درست سمجھتے ہیں اس لئے اس بارہ میں اپنے عدم ایمان کا اظہار انہیں مجرم نہیں بنا سکتا.یعنی کافروں کی طرف سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ کے پیغمبرانہ مشن کا انکار گستاخی نہیں ہے اس لئے ایسے انکار کو ارتکاب جرم پر محمول نہیں کیا جاسکتا.کسی مسلمان کے ایمان کی کیفیت (یعنی مرتبہ و مقام ) اور رسول اللہ کے لئے اس کے جذ بہ احترام کی کیفیت کو قانونی تعریف کے دائرے میں محصور نہیں کیا جاسکتا یعنی ایمان کی کیفیت اور جذ بہ احترام کی کیفیت کی کوئی قانونی تعریف ممکن نہیں ہے.مزید برآں کسی کا فر پر بندوق تان کے نہ تو اسے اسلام لانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور نہ اس سے حضرت اقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زبر دستی احترام کروایا جا سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ارتداد اور سب کی اس دنیا میں کوئی سزا مقرر نہیں کی.اسی لئے اس امر کے باوجود کہ عبد اللہ بن اُبی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں تحقیر آمیز الفاظ استعمال کئے آپ نے اسے اس گستاخی اور اہانت کی کوئی سزا نہیں دی.اس ضمن میں یہ امر بھی خاص طور پر قابل غور ہے کہ مذہب کا رُخ سیاست کی طرف موڑنے والے علماء ان دو جرائم (ارتداد اور سب) کی مزعومہ سزا کو بڑی آسانی سے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.وہ مذہبی مفادات کو مادی مقاصد کے لئے استعمال کر کے ان کی حرمت کو نقصان پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے.اپنی سیاسی اور مادی اغراض کو پورا کرنے کے لئے مذہبی عقائد

Page 273

۲۶۶ کو سراسر غلط اور نار وارنگ میں استعمال کرنا ان کا عام وطیرہ ہوتا ہے.لے مذہب کے نام پرخون آج تو علمائے دیوبند اور علمائے اہل حدیث احمدیوں پر یہ الزام عائد کرنے میں بہت پیش پیش ہیں کہ احمدی ( نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں لیکن وہ اس احساس سے عاری ہیں کہ وہ احمد یوں پر یہ سراسر جھوٹا الزام لگا کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماررہے ہیں اور خود اپنی تباہی کا اپنے ہاتھوں سامان کر ہے ہیں.اصل صورت حال یہ ہے کہ دیو بندی ، اہل حدیث اور امام عبدالوہاب مجدی کے پیر ونجد کے سوا باقی دنیا میں سینوں کے بالمقابل (جو اپنے آپ کو سوادِ اعظم کہتے ہیں ) اقلیت میں ہیں.برصغیر پاک و ہند سمیت پورے عالم اسلام میں اکثریت سنیوں ہی کی ہے.سنیوں کی طرف سے دیو بندیوں اور اہل حدیث پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرا کر آپ کی تو ہین کے مرتکب ہوتے ہیں.اُدھر دیو بندی اور وہابی علماء سواد اعظم یعنی سنیوں کو (جو غالب اکثریت میں ہیں ) کافر سمجھتے ہیں.ان کا کہنا یہ ہے کہ سنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی صفات منسوب کرتے ہیں جن سے شرک لازم آتا ہے اور وہ ایسا کرنے کے باعث اور کچھ نہ سہی مشرک بنے بغیر نہیں رہتے.مثال کے طور پرستی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا زمین پر سایہ نہ پڑتا تھا، وجہ اس کی وہ یہ بتاتے ہیں کہ آنحضور تو تھے ہی مجسم نور.اسی طرح جب ترکی کے شاعر سلیمان چلیبی آف بصرہ (۱۴۱۰ء) نے میلا د شریف کی محفلیں منعقد کرنا شروع کیں اور ان کے انعقاد کا رواج چل نکلا تو حسب رواج ہر محفل درود و سلام پر ختم ہوتی تھی اور سب حاضریں " يَا نَبِي سَلَام عَلَيْكَ “ کا ورد کرتے تھے رفتہ رفتہ اس خیال نے با قاعدہ عقیدے کی شکل اختیار کر لی کہ اس وقت چونکہ محفل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آموجود ہوتی ہے اس لئے لازمی ہے کہ جملہ حاضرین احتراماً کھڑے ہو جایا کریں اور پھر ” یا نیٹی سَلَام عَلَيْكَ “ کا ورد کر کے آپ کی خدمت میں سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کیا کریں.اسی طرح بریلوی حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضری دے کر وہاں آنحضور سے دعائیں مانگنے کو جائز سمجھتے ہیں.وہاں احتراماً جھکتے اور روضہ مبارک کی جالیوں کو چومتے مثال کے لئے دیکھیں منیر انکوائری کمیشن رپورٹ (اردو تر جمہ ) صفحہ ۲۷۸،۲۷۷ لے ،،

Page 274

۲۶۷ مذہب کے نام پرخون ہیں.دیو بندیوں اور اہلِ حدیث کے نزدیک سنیوں (بریلویوں وغیرہ ) کے یہ اور اس جیسے دوسرے عقائد اور مذہبی رسوم و رواج شرک کی ذیل میں آتے ہیں.ادھر سینیوں کا کہنا یہ ہے کہ وہابی تاریخی قبرستان جنت البقیع کو مسمار کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے گنبد کو بھی مسمار کرنا چاہتے تھے لیکن دنیائے اسلام میں رونما ہونے والے شدید رد عمل کے پیش نظر وہ ایسا کرنے سے باز رہے.الغرض صحابہ کی قبروں، مقابر اور قبوں وغیرہ کو مسمار کر کے انہیں پیوند زمیں کرنے کی بناء پر دنیا بھر کے سنی افراد وہابیوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تخفیف کا الزام عائد کرتے ہیں.بریلوی تو یہ بھی سمجھتے اور علی الاعلان اس کا اظہار کرتے ہیں کہ دیوبندی علماء مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولا نا اشرف علی تھانوی ختم نبوت کے منکر تھے.چنانچہ مولا نا عبد المصطفیٰ ابوسعی محمد معین الدین شافعی ، قادری ، رضوی ، تھانوی اپنے ایک کتابچہ بعنوان ” دیوبندی مولویوں کا ایمان میں ان کے ایک مستند قول کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.مسلمانو ! دیکھو اس ملعون ، نا پاک ، شیطانی قول نے ختم نبوت کی کیسی جڑ کاٹ دی ہے..اب یہ ملاحظہ فرمائیے کہ مولوی قاسم نانوتوی منکر ختم نبوت ہے اور منکرین ختم نبوت کے حق میں مولوی رشید احمد ومولوی خلیل احمد وغیر ہم " وہابیہ نے کفر کے فتوے دیئے بلے، تحفظ ناموس رسالت کے نام پر بریلویوں اور دیو بندیوں کے درمیان ہونے والے مناظروں اور بحثوں میں شرم و حیا اور شرافت کی وہ مٹی پلید ہوئی ہے اور دونوں طرف سے ایسی غیر شائستہ، سوقیانہ اور بازاری زبان استعمال ہوتی رہی ہے کہ اس کا ہلکے سے ہلکا نمونہ پیش کرنا بھی طبائع پر گراں گزرے بغیر نہیں رہتا.شورش کا شمیری نے جو دیوبندی مکتب فکر کے زبردست حامی تھے ” کا فرساز ملاں“ کے نام سے ایک کتابچہ شائع کیا.اس میں شورش نے لکھا کہ جو کوئی دیو بند کے عظیم لیڈر کو کافر قرار دیتا ہے وہ کذاب ہے.اس کتابچہ میں اس کے علاوہ اور بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بریلوی علماء کو بے نقط سنائی گئی ہیں.انہیں دین فروش قرار دے کر لکھا ہے کہ دین فروشی ہی ان کا اصل ذریعہ معاش لے کتابچہ دیوبندی مولویوں کا ایمان مطبوعہ لائلپور.جامع مسجد

Page 275

۲۶۸ مذہب کے نام پرخون ہے اور یہ کہ وہ لارڈ کلائیو کے خانہ زاد غلام ہیں نیز مسلم لیگ اور قائد اعظم کے بھی دشمن ہیں.اپنے ایک اور کتا بچہ میں شورش کا شمیری نے بریلویوں کے متعلق لکھا یہ مولا ناحسین احمد مدنی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے بیت الخلاء کی اینٹ سے بھی کم تر درجہ کے لوگ ہیں.اس قسم کے سوقیانہ حملوں کا بریلویوں نے جو جواب دیا وہ سوقیانہ پن میں اپنی جگہ کچھ کم نہیں ہے.اہل سنت و الجماعت یعنی بریلویوں کے علماء دیوبندی علماء پر اور دیوبندی علماء بریلوی علماء پر ہتک رسول کا الزام لگاتے ہیں.دونوں ہی ایک دوسرے کے نزدیک گستاخ رسول ہیں.اب رہے اہل قرآن وہ جماعت اسلامی کے نزدیک احمدیوں سے بھی بدتر ہیں.بخشا شیعوں کو بھی نہیں گیا.ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ و مقام کو گرانے اور کم کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے.ان کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ ان کے عقیدہ کی رو سے حضرت علی رسول اللہ کی نبوت میں شریک تھے.یہاں کینیڈا کے سکالر ولفریڈ کینٹویل سمتھ WILFRED CANTWELL SMITH کی رائے کا ذکر بھی بہت ضروری ہے.وہ بر صغیر آئے ، ہندوستان اور پاکستان کے مسلم معاشرہ کا بہت قریب سے بنظر غائر مطالعہ کیا.واپس جا کر ” جدید ہندوستان میں اسلام“ ISLAM IN MODERN INDIA کے نام سے کتاب لکھی.اس میں وہ مسلمانوں کے مذہبی مزاج کے ایک پہلو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.مسلمان اللہ کی ذات پر حملہ برداشت کر لیں گے لیکن رسول کی ذات پر حملہ ان کے نزدیک ناقابلِ برداشت ہے.دہریے ان کے درمیان موجود ہیں.دہریت پر مبنی کتابیں بھی شائع ہوتی ہیں.اسی طرح آزاد خیال سوسائٹیوں کی بھی ان میں کمی نہیں ہے ، یہ سب ان کے نزدیک گوارا ہے لیکن محمد کی شان میں گستاخی پر معاشرے کے آزاد خیال طبقے بھی بھڑک اٹھیں گے.کتابچه رضا خوانی فتنہ پردازوں کا سیاہ جھوٹ“ تفصیل کے لئے دیکھیں اسی کتاب کا صفحہ

Page 276

۲۶۹ مذہب کے نام پرخون جنون کی حد تک پہنچی ہوئی شعلہ باز عصبیت فوراً ابھر کر سامنے آجائے گی لے ، مسلمانوں کے تشخص اور مزاج کے بارہ میں پروفیسر کینٹ ول سمتھ کا یہ اندازہ درست نہیں ہے.انہوں نے بعض مخصوص واقعات سے عمومی نتائج اخذ کر کے اور انہیں قاعدہ کلیہ کی شکل دے کر سارے ہی مسلمانوں کو اس کی لپیٹ میں لے لیا ہے.دراصل پروفیسر کینٹ ول سمتھ نے بعض ملاؤں اور مخصوص اغراض کی حامل سیاسی لیڈرشپ کی کارستانی اور اس کے شاخسانے کو عمومی رنگ دے دیا ہے.یہ دونوں طبقے ( مذہبی ملاں اور مخصوص اغراض کے حامل سیاسی لیڈر ) اپنی عیاری کی وجہ سے خوب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے جذبات کسی موضوع پر اس قدر آسانی اور تیزی و تندی سے برانگیختہ نہیں کئے جاسکتے اور ان کے غیظ و غضب کو بیدار نہیں کیا جاسکتا جس قدر رسول پاک صلعم کی حقیقی یا خیالی تو ہین پر کئے جاسکتے ہیں کے یہ دونوں طبقے اس بات سے فائدہ اٹھا کر جذبات کو بھڑ کانے کے اصل ذمہ دار ہوتے ہیں.بلاشبہ امیر اور غریب، پڑھے لکھے اور ان پڑھ، نیک اور بدسارے ہی مسلمان محبت رسول کے بارہ میں یکساں جذبات رکھتے ہیں.یہ امرایسا ہے کہ اس کے متعلق ان کے درمیان کسی اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.سب ہی کے نزدیک فنافی الرسول کے مقام کو روحانی مجاہدہ میں نقطۂ عروج کی حیثیت حاصل ہے اور کوئی مسلمان بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند ترین روحانی تجربہ معراج کے نام سے موسوم ہے جس میں آپ گروہ در گروہ فرشتوں کے جلو میں روحانی ارتفاع کی منزلیں طے کرتے ہوئے حضرت احدیت میں اس مقام رفیع تک جا پہنچے کہ جہاں جبرائیل علیہ السلام کو بھی رسائی کی اجازت نہ تھی لیکن اقتدار کی بھوکی مسلم قیادت (لیڈرشپ ) مسلمانوں کے اس متفقہ عقیدہ سے فائدہ اٹھاتے اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کرتے وقت اس امر کو عمد افراموش کر دیتی ہے کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ( یعنی محمد اللہ کے رسول ہیں ) مسلمان کے ایمان کا دوسرا جزو ہے پہلا اور سب سے مقدم جزو بہر حال لا إلهَ إِلَّا اللہ ہے جس کے معنی ہیں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.لے اسلام ان ماڈرن انڈیا مصنفہ پروفیسر کینٹ ول سمتھ لاہور ، سیکنڈ ایڈیشن ۱۹۴۷ء منیر انکوائری کمیشن رپورٹ اردو تر جمہ صفحہ ۲۷۶

Page 277

۲۷۰ مذہب کے نام پرخون حفظ مراتب کو محوظ رکھتے ہوئے جہاں تک محبت الہی اور محبت رسول کا تعلق ہے ایک امر کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ کوئی پیمانہ ایسا موجود نہیں ہے کہ جس سے کسی کے دل میں پائی جانے والی محبت اور احترام کو مانپا جا سکے.محبت الہی اور محبت رسول میں سرشار رہنے والے ایک عارف کے جذبات محبت کی صحیح عکاسی دنیا کی کسی بھی زبان کے الفاظ میں نہیں ہوسکتی.صوفیائے کرام نے جو اللہ اور رسول کی محبت میں سرشار تھے اپنے جذبات محبت کو الفاظ کا جامہ پہنانے میں دیوان کے دیوان بھر دیئے اور اس کام میں اپنی زندگیاں لگادیں لیکن ان کی محبت کی اصل گہرائی اور گیرائی کو ان کا خدا جانتا تھا یا وہ خود.ملاں جذبات محبت میں ڈوبی ہوئی منظوم حمد یا نعت کو پڑھ تو سکتا ہے لیکن بغور پڑھنے کے با وجودان جذبات کی گہرائی میں اتر نہیں سکتا اسی لئے وہ اس کے صحیح مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے.یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا نام غلام احمد تھا.فی الحقیقت آپ تھے ہی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام.سبحان اللہ کیا ہی بڑا اعزاز اور کیا ہی بڑا مرتبہ تھا اور کیا ہی بلند شان تھی احمد کی اس غلامی کی جو منجانب اللہ حضرت بانی سلسلہ کو عطا ہوئی.اس کا کچھ اندازہ آپ کے تین اشعار سے لگایا جاسکتا ہے.آپ نے اپنے ان تین اشعار میں دو قسم کے معترضین کو بہت ہی شاندار جواب دیا ہے.ان میں سے ایک تو وہ معترضین ہیں جو آپ پر رسول اللہ لی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کا الزام لگاتے ہیں اور دوسرے وہ معترضین ہیں جو پروفیسر کینٹ ول سمتھ کی طرح مسلمانوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ محبت الہی کو چنداں اہمیت نہیں دیتے.آپ ان ہر دو قسم کے معترضین کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :- بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم کے خدا تعالیٰ کے بعد میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں اور اگر یہی کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.لے قربان تست جانِ من اے یار محسنم با من کدام فرق تو کر دی کہ من کنم سے ۱۸۹۱ء حضرت مرزا غلام احمد کی تصنیف ”ازالہ اوہام جلد اوّل صفحہ ۱۷۶ - امرتسر ۱۹۱ آئینہ کمالات اسلام تصنیف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ ء آخری صفحہ

Page 278

۲۷۱ مذہب کے نام پرخون اے میرے یار محسن اور اے میرے محبوب ! تجھ پر میری جان قربان ہو، تو نے لطف و احسان میں کب مجھ سے کوئی فرق کیا ہے جو میں کروں.در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند اول کے کہ لاف تعلق اعد منکم کے رند ہاں اے میرے پیارے رسول ! اگر تیرے کوچہ میں عشاق کا سرقلم کرنے کا ہی دستور ہوتو وہ پہلا شخص جو نعرہ عشق بلند کرے گا میں ہوں گا.میں ہوں گا.دائرہ اسلام میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اپنے آقاومطاع حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کی حیثیت میں افضل الرسل اور مختار کل ہونے پر اپنے کامل یقین و ایمان کا اعلان کرتے ہوئے اخلاص سے مملو نہایت درجہ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں :.”ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالی اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سید نا ومولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.،، نیز حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ مزید فرماتے ہیں :- ستید ناو مولانا سید الکل وافضل الرسل حضرت خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کون سا درجہ باقی ہے.سو واضح ہو کہ وہ ایک اعلیٰ مقام اور برتر مرتبہ ہے جو اُسی ذات کامل الصفات پر ختم ہو گیا ہے جس کی کیفیت کو پہنچنا بھی کسی دوسرے کا کام آئینہ کمالات اسلام تصنیف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۹۳ ء آخری صفحه ازالہ اوہام.تصنیف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی (امرتسر ۱۸۹۱ء) صفحه ۱۶۹

Page 279

۲۷۲ مذہب کے نام پرخون نہیں چہ جائیکہ وہ کسی اور کو حاصل ہو سکے لے،، مندرجہ بالا تحریرات کے مصنف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اور آپ کے پیروؤں کو اس زمانہ کے مسلمانوں نے غیر مسلم قرار دے دیا ہے.اور بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ اور آپ کے پیروؤں کو غیر مسلم قرار دینے والے خود کیا ہیں؟ اس کا حال اور ان کی ایمانی اور عملی حالت کا نقشہ شاعر مشرق علامہ سرمحمد اقبال (۱۹۳۸-۱۸۷۵ء) نے اپنی مشہور نظم ” جواب شکوہ میں کھینچا ہے ہے.ڈاکٹر اقبال نے شاعر فلسفی ، سیاسی مدبر اور مجموعی لحاظ سے بیسویں صدی عیسوی کے ہندوستانی اسلام کی بہت ہی نمایاں شخصیت ہونے کے باوجود ایک طرف تو اس امر کا اقرار کیا کہ اس زمانہ کے مسلمان عملاً اسلام سے اس درجہ دور ہو چکے ہیں کہ بد اعمالیوں میں یہود پر بھی سبقت لے گئے ہیں، ان کی اس درجہ بڑھی ہوئی بد اعمالیاں دیکھ کر یہود بھی شرما جاتے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کی مذہبی اور اخلاقی حالت تو اس درجہ ابتر ہو چکی ہے کہ انہیں اپنے اسلاف کے مدفن تک پیچ کھانے میں کوئی عار نہیں ہے اور دوسری طرف انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ مسلمانوں اور احمدیوں میں تفریق کو روا رکھنا ضروری ہے.چنانچہ ۱۹۳۶ء میں انہوں نے انڈین نیشنل کانگرس ( جس پر ہندو چھائے ہوئے تھے ) کے معروف لیڈر پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام (جو بعد میں آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم بنے ) ایک کھلا خط لکھا اور اس میں مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا جائے.سیکولر انڈیا کے دستور میں ایسے کسی مطالبہ کی گنجائش کہاں تھی لہذا اس مطالبہ کو نظر انداز کر دیا گیا.لیکن دیوبندی علماء نے اسے اپنے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا ہے.ادھر بھارت میں ہندوؤں نے رام راج کے نام پر آفت ڈھائی ہوئی ہے.انہوں نے ایودھیا میں پولیس کی حفاظت میں بابری مسجد پر قبضہ کرنے اور اسے شہید کرنے کے بعد رام جنم بھومی مندر میں تبدیل کر دیا ہے.ہندوؤں کا ایک طبقہ یہ مطالبہ بھی کر رہا ہے کہ بنارس اور کاشی کی مسجدوں کو بھی مندروں میں تبدیل کیا جائے.ہندوؤں کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں مسلم پرسنل لاء ( فقہی قوانین ) کوکالعدم قرار دیا جائے.ل توضیح مرام تصنیف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صفحه ۲۴ تفصیل کے لئے دیکھیں اس کتاب کا صفحہ ۱۶۰،۱۵۹

Page 280

۲۷۳ مذہب کے نام پرخون جولوگ خدا تعالیٰ کے ماموروں اور امن و آشتی کے شہزادوں کا انکار کر کے ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں اور اپنی اس روش سے باز نہیں آتے انہیں بالآخر ایسے ہی حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے.نا اتفاقی ان میں گھر کر لیتی ہے.چونکہ وہ امن میں خلل انداز ہور ہے ہوتے ہیں اس لئے وہ خود امن کی برکات سے محروم کر دیئے جاتے ہیں.تشدد اور دہشت گردی پھیلانا ان کا شیوہ بن کر رہ جاتا ہے.

Page 281

۲۷۴ مذہب کے نام پرخون اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح میرے نزدیک اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح ایک عجیب و غریب اصطلاح ہے.نہ معلوم یہ اصطلاح ہے کیا اور یہ کیوں وضع کی گئی ہے.اس بارہ میں حیرت کا اظہار بے سبب نہیں ہے اس لئے کہ اسلام اور دہشت گردی میں با ہم کوئی جوڑ بنتا ہی نہیں.اگر اسلام اور دہشت گردی میں کوئی تعلق ہوسکتا ہے تو اسی نوعیت کا ہو سکتا ہے جس نوعیت کا تعلق روشنی اور تاریکی کے درمیان ہے یا زندگی اور موت کے درمیان ہے یا پھر امن اور جنگ کے درمیان ہے.دو متضاد چیزیں یکسر مختلف بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود ان معنوں میں ایک دوسرے سے متعلق ہوتی ہیں کہ ایک کا ذکر دوسری کا احساس دلانے کا موجب بنتا ہے.اسی طرح اسلام اور دہشت گردی میں بعد المشرقین کے با وجود باہم ایک گونہ تعلق تو ہے لیکن اس تعلق کو قربت یا یکسانیت سے ہر گز تعبیر نہیں کیا جاسکتا.اسلام اور دہشت گردی کا ایک دوسرے سے واسطہ تو پڑتا ہے لیکن یہ اس نوعیت کا ہی واسطہ ہوتا ہے جس نوعیت کا واسطہ دو مخالف اطراف میں موجود ایسے لوگوں کے مابین ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے مد مقابل صف آراء ہوں.اسی لئے اسلام اور دہشت گردی باہم متصادم تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہنسی خوشی با ہم قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلتے نظر آئیں.تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بہت سے مواقع پر بعض مسلمان ایسے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو دہشت پسند سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں.ایسے لوگ کبھی تو افراد کے کسی گروہ کی طرف سے یا مسلمانوں کی اکثریت والے کسی ملک کی طرف سے دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.لیکن اس ضمن میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایسے مسلمانوں کے علاوہ بھی دنیا میں کچھ ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی اور

Page 282

۲۷۵ مذہب کے نام پرخون اسی قسم کی دوسری تخریبی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں.اب کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ اسی اصول کو بروئے کار لاتے ہوئے جس کی بناء پر اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح وضع کی گئی ہے ہر دیگر دہشت گردی کے لئے اسی طرح کی اصطلاح استعمال کی جائے اور اس طرح سکھ دہشت گردی، ہندو دہشت گردی ، بدھسٹ دہشت گردی ارواح پرستانہ دہشت گردی اور لامذہبیت پر مبنی دہشت گردی کی ایک طویل فہرست معرض وجود میں آجائے.بد قسمتی سے فی زمانہ دنیا بھر میں قسم ہا قسم کی جو دہشت گردی پھیلی ہوئی ہے اور روز بروز زور پکڑتی جارہی ہے اس سے چشم پوشی آسان نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ بزعم خود کسی برتر نظریہ یا کسی مقدس مقصد کے نام پر دنیا میں کئے جانے والے ظلم و تشد د قتل و غارت اور خون خرابے سے بے خبر رہنا کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے.اس زمانہ میں کون ایسا ذی ہوش ہے جس کی حالات پر نظر نہیں.بہت ہی دل دوز اور خونیں واقعات ہر روز ہر کسی کے علم میں آتے ہیں اور وہ اگر چاہے بھی تو ان سے بے خبر نہیں رہ سکتا.دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ کی صورت اختیار کر چکی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کا وسیع تناظر میں گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے.جب تک ہم تشدد اور مار دھاڑ کے پس پردہ کارفرما قوتوں سے پوری طرح آگاہ نہیں ہونگے اس وقت تک ہم اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکیں گے کہ بعض مسلم جماعتیں اور مسلم ممالک بھی دوسروں کے دیکھا دیکھی بعض مقاصد کے حصول کی خاطر دہشت گردی کا سہارا کیوں لے رہے ہیں.میں پورے غور وفکر کے بعد اس حتمی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آج قریباً ہر قسم کا فرقہ وارانہ تشدد جود نیا میں کہیں اور کسی بھی شکل میں پایا جاتا ہے اس کی نوعیت لازمی طور پر سیاسی ہے.مذہب فی ذاتہ کہیں بھی مفاد پرستی کا کردار ادا نہیں کر رہا برعکس اس کے دنیا میں داخلی یا خارجی سیاسی مقاصد کی خاطر خود مذہب کو مفاد پرستی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے.مثال کے طور پر نسلی بنیادوں پر پھیلائی جانے والی دہشت گردی ہی کو لے لیں.اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو اس تجزیہ کا آخری نتیجہ یہی نکلے گا کہ اس کی نوعیت بھی لازمی طور پر سیاسی ہی ہے.اسی طرح نسبتاً چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی دہشت گردی کی مثالیں بھی ملتی ہیں جو مروجہ سماجی نظاموں

Page 283

مذہب کے نام پرخون اور ثقافتوں کے خلاف نفرت کی آئینہ دار اور کھلی کھلی بغاوت کی پیدا وار ہیں.انہیں بالعموم فاتر العقل لوگوں اور لاقانونیت کے علمبرداروں کی کارستانیوں سے تاویل کیا جاتا ہے.ان چھوٹی چھوٹی مثالوں کے علاوہ دہشت گردی کی ایک خاص قسم بھی ہے جس کا تعلق مافیا کی اس پر تشد دجد و جہد سے ہے جو اس نے اقتدار پر قبضہ جمانے اور غلبہ حاصل کرنے کے لئے جاری کی ہوئی ہے.یہ وہ دہشت گردی ہے جسے مافیا کے مختلف طبقوں نے ایک دوسرے کے خلاف بھی جاری رکھا ہوا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ یہ دہشت گردی در اصل حصول اقتدار کی جد و جہد کا ہی حصہ ہے اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً سیاسی ہی ہے.جب ہم نام نہاد اسلامی دہشت گردی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس دہشت گردی کے تعلق میں اگر چہ ظاہری طور پر تو نام اسلام کا ہی لیا جارہا ہے لیکن اس کے پس پردہ بعض سیاسی قوتیں اپنی مطلب براری کے لئے مصروف کار ہیں.ان کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ مذہب کی آڑ میں سیاسی فوائد حاصل کریں اور لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر اقتدار پر قبضہ جمائیں اور اسی بہانے اسے مستحکم سے مستحکم تر کرتے چلے جائیں.پھر نام نہاد اسلامی دہشت گردی کے تعلق میں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ اکثر و بیشتر حالتوں میں پس پردہ تار ہلانے اور سیاسی فائدے اٹھانے والے خود مسلمان بھی نہیں ہوتے.ان کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ خود آگے آئے اور نمایاں ہوئے بغیر مسلمانوں کو دہشت گردی پر اکسائیں اور اس طرح اپنا اُلّو سیدھا کریں.اب ہم نام نہاد اسلامی دہشت گردی کی بعض مخصوص مثالوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تا کہ با قاعدہ تشخیص کے ذریعہ اندرونی مرض کا پتہ لگایا جا سکے.سب سے پہلے ہم ایران کی مثال لے کر یہ دیکھتے ہیں کہ خمینی ازم کیسے معرض وجود میں آیا.یہ سب جانتے ہیں کہ شاہ کے زمانہ اقتدار میں وہاں اقتصادی سرگرمی اور گہما گہمی کا دور دورہ تھا.صنعتی اور اقتصادی ترقی کے انتہائی ٹھوس اور کارآمد منصوبوں پر عمل درآمد کے نہایت محتاط اقدامات ملک کے خوش آئند اور درخشندہ مستقبل کی ضمانت دے رہے تھے اور محسوس یوں ہو رہا تھا کہ عنقریب خوشحالی اور فارغ البالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے.لیکن کیا انسان محض روٹی کے سہارے، جو سیری اور سیرابی کی ضامن ہو ہر لحاظ سے ایک مطمئن

Page 284

۲۷۷ مذہب کے نام پرخون زندگی بسر کر سکتا ہے؟ جہاں تک شاہ کے آمرانہ دور اقتدار میں زندگی بسر کرنے والے ایرانیوں کا تعلق ہے ان کی طرف سے اس سوال کا ایک ہی جواب تھا کہ ”نہیں“.وہ ملکی معاملات کو چلانے میں پوری ذمہ داری کے ساتھ حصہ لینے کے متمنی تھے.وہ محض اس بات پر اکتفا کرنے کے لئے تیار نہ تھے کہ انہیں پیٹ بھر کر روٹی ملتی رہے اور ان کی دیگر ضروریات پوری ہوتی رہیں.عزت نفس اور شخصی وقار کی خواہش اور ظلم و تشدد کے ایک انتہائی مربوط نظام سے چھٹکارے کی تمنا نے انہیں مضطرب کر چھوڑا اور وہ حالات میں تبدیلی کی خاطر سب کچھ کر گزرنے پر تل گئے.یہ صورتِ حال اس امر کی آئینہ دار تھی کہ ایک پر تشد د خونی انقلاب کے لئے زمین پوری طرح ہموار ہو چکی ہے.جنونی کیفیت کی حامل جس افراتفری نے ایران کو ہر چہار اطراف میں ایک سرے سے لے کر دوسرے تک ہلا کر رکھ دیا وہ ناگزیر نتیجہ تھی اولاً طویل سیاسی گھٹن کا نیز بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی پامالی کا اور ثانیاً وہ نتیجہ تھی ایران کے اندرونی معاملات میں ایک عظیم مغربی طاقت کی مفاد پرستی پر مبنی ناجائز مداخلت کا.پورا ملک اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر تھا کہ شاہ کے آمرانہ دور اقتدار کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی پوری پوری تائید وحمایت اور امداد واعانت حاصل ہے.اس کے خلاف عوام کا جذبہ حقارت و انتقام کچھ ایسا بھڑکا کہ شاہ کی حکومت اور اقتدار کا تختہ اُلٹنے اور ان اندرونی طاقتوں کو جو کسی نہ کسی رنگ میں بادشاہت کے قیام و دوام کی ذمہ دار تھیں ، ملیا میٹ اور تہس نہس کرنے پر بھی سر نہ پڑا.امریکی حمایت و امداد کا احساس شاہ میں بدترین قسم کے آمرانہ رُجحانات کو ابھارنے کا باعث ہوا تھا.شروع شروع میں تو شاہ کے رعب اور دبدبہ نے اپنا اثر جمایا اور لوگ مرعوب ہوئے بغیر نہ رہے لیکن رفتہ رفتہ رعب اور دبدبہ کا منفی اثر ظاہر ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ رُعب نے خوف اور دہشت کی شکل اختیار کر لی.وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بغاوت کا خدشہ بڑھتا اور نتیجہ شاہ کا رویہ درشت سے درشت تر ہوتا چلا گیا.یہ درشت رویہ رفتہ رفتہ ایران کو ایک پولیس سٹیسٹ میں تبدیل کرنے کا موجب بنا.یہ بات ایرانیوں کے ذہن نشین ہوتی چلی گئی کہ اس پولیس سٹیٹ کو حکومت امریکہ کی بھر پور تائید و حمایت اور امداد و اعانت حاصل ہے اور یہ کہ شاہ کی حیثیت محض کٹھ پتلی کی سی ہے جس کے

Page 285

۲۷۸ مذہب کے نام پرخون تار امریکہ کی پر کار اور بلا کی متحرک انگلیوں سے بندھے ہوئے ہیں.یہ چیز ایک دھما کہ خیز صورت حال کو جنم دینے کا موجب بنی.یہ صورتِ حال ایک ایسے انقلاب کے لئے ساز گار تھی جو نفرت و حقارت کی بھسم کر دینے والی آگ کے نتیجہ میں برپا ہوتا ہے.اس صورت حال کا آیت اللہ خمینی نے بھر پور فائدہ اٹھایا.اپنے لائے ہوئے انقلاب کو ایک مخصوص رنگ دینے کی غرض سے انہوں نے جو نظریہ پیش کیا وہ شیعہ اسلام سے ماخوذ تھا.بعض باتیں اس تعلق میں غور طلب ہیں.اول یہ کہ کیا یہ شیعہ اسلام کی محبت تھی جو امریکہ کے خلاف نفرت کو بھڑ کانے کا موجب بنی یا دیگر وجوہ کی بنا پر امریکہ کے خلاف جو نفرت بھڑک اٹھی تھی اس سے فائدہ اٹھانے کے اصل مقصد کو چھپانے کی غرض سے اسلام کے نام کو ایک ظاہری آڑ اور پردے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا؟ اگر خمینی صاحب نے اسلام کا علم بلند نہ کیا ہوتا تو کیا کسی اور نام پر بھی انقلاب کا بر پا ہونا ممکن ہوتا؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر خمینی صاحب نے صورتِ حال سے فائدہ نہ اٹھایا ہوتا اور اپنے انقلاب کو اسلامی رنگ نہ دیا ہوتا تو شدید نفرت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اس صورتِ حال سے کسی غیر مذہبی نظریے یعنی نیشنل ازم اور سائنٹیفک سوشل ازم کے بل پر بھی اسی طرح کامیابی سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا اور ان غیر مذہبی نظریات پر مبنی انقلاب برپا کیا جا سکتا تھا؟ اصل بات یہ ہے کہ اُس وقت ایران میں جو قو تیں عوام پر اثر انداز ہورہی تھیں خمینی پہل کرنے میں ان پر سبقت لے گئے.اگر دیگر قوتیں پہل کرنے سے نہ چوکتیں تو خمینی کو مات دے کر اپنا ڈنکا بجانے میں کامیاب ہو جاتیں.اسی لئے تو ایران میں صورتِ حال انتہائی پیچیدہ اور گنجلک نوعیت کی تھی.اشتراکیت یا بائیں بازو کے کسی اور فلسفیانہ نظریہ کی مخالفت کو انقلاب بر پا کرنے والی قوت محرکہ کا درجہ حاصل نہ تھا.یہ درجہ تو شاہ اور اس کے خوشامدیوں کی مخالفت کے جذبۂ بے پناہ کو حاصل تھا اور یہ جذبہ برسر کار جملہ قوتوں میں یکساں طور پر موجزن تھا.اسی لئے باہم مخالف و متضاد نظریات کی حامل قوتوں کا مقصد ایک ہی تھا اور وہ یہ کہ شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس کے اقتدار کی ہر نشانی کو مٹا دیا جائے.چونکہ اس امر کا امکان موجود تھا کہ انقلاب کی باگ ڈور خمینی کے ہاتھوں سے نکل کر کہیں بائیں بازو کی قیادت کے ہاتھوں میں نہ چلی جائے اس لئے خمینی صاحب کو پہل کرنے کے

Page 286

۲۷۹ مذہب کے نام پرخون بعد بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا پڑا.شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد انہوں نے نہ صرف سابق شاہ کے تمام حامیوں کو ملیا میٹ کرنے کا بیڑا اٹھایا بلکہ امریکی اثر جہاں جہاں بھی سرایت کر چکا تھا وہ اسے وہاں سے جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے پر تل گئے.یہ ایک ایسی مہم تھی جو بائیں بازو کے نظریۂ حیات کے لئے تقویت کا موجب ہو سکتی تھی.اگر اس نظریہ حیات کو پنپنے اور پاؤں جمانے کی مہلت مل جاتی تو اس نظریۂ حیات کے حامیوں کے لئے خمینی کے ہاتھوں سے اقتدار کی باگ ڈور چھینا اور اسلامی نظریہ کی بجائے مارکسزم اور لینن ازم کے جھنڈے گاڑنا چنداں مشکل نہ رہتا.خوش قسمتی سے خمینی بہت طاقتور اور سمجھدار واقع ہوئے تھے.انہوں نے اسلامی نظریہ کی دو دھاری تلوار کو دائیں بازو کے امریکی طریہ سیاست کے خلاف ہی نہیں بلکہ بائیں بازو کے روسی نظریہ سیاست کے خلاف بھی بہت مؤثر طور پر استعمال کیا اور بڑی حد تک کامیاب رہے.یوں تو بہت کچھ کہا اور کیا گیا ہے لیکن یہ امر ظاہر و باہر ہے کہ ایران میں برپا ہونے والے انقلاب میں جس چیز نے رہنمائی کا کام دیا وہ جو کچھ بھی ہوا سے بہر حال اسلام قرار نہیں دیا جاسکتا.آپ اگر چاہیں تو زیادہ سے زیادہ اسے خمینی ازم کا نام دے سکتے ہیں.وہ قو تیں جو ایرانی انقلاب میں پس پردہ کارفرما ہیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہر گز بھی مذہبی نہیں ہیں.یہ سب سیاسی قوتوں کا کیا دھرا ہے جنہوں نے کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے سیاسی مقاصد کے حصول کی غرض سے شاہ کے خلاف ایرانیوں کے رد عمل سے جی بھر کر فائدہ اٹھایا ہے اور خوب خوب ہاتھ رنگے ہیں.بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں زک اٹھانے اور غلامی کے جال میں پھنسنے کے خلاف ایرانیوں میں جو شعوری جذبہ پیدا ہوتا رہا ہے اس کی تاریخ بہت طویل زمانہ پر پھیلی ہوئی ہے.اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ایرانیوں کی بہت غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے.اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ صدیوں پہلے اپنی ارض وطن کے عربوں کے قبضہ میں جانے کے دکھ کو فراموش نہیں کر سکے ہیں اسی لئے اس بارہ میں درگزر سے کام لینے کی طرف وہ مائل نہیں ہیں.بظاہر تو شکست اور مغلوبیت کے زخم بہت زمانہ پہلے مندمل ہو گئے تھے اور نظر یہی آتا تھا کہ مذہب کے اشتراک اور دوسرے ممالک کے خلاف دشمنی کے مشترکہ جذبہ نے عربوں اور ایرانیوں کے باہم

Page 287

۲۸۰ مذہب کے نام پرخون شیر وشکر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چند صدیوں تک ایران پر عربوں کے تسلط کے خلاف ایرانیوں میں بے چینی اور بے اطمینانی کی کیفیت اندر ہی اندر اپنا اثر دکھاتی رہی ہے اور ہنوز دکھاتی چلی آرہی ہے.پھر اس امرکوملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ ظہور اسلام سے قبل ایران کو تہذیب و تمدن کے ایک عظیم گہوارے کی حیثیت حاصل تھی اور اس کی یہ برتر و اعلیٰ حیثیت اُس کے لئے بجا طور پر باعث فخر تھی.ایرانی تہذیب ان تہذیبوں میں سے ایک عظیم تہذیب تھی جنہوں نے کرہ ارض کے مختلف حصوں میں آباد نوع انسانی پر اپنے اثرات کے بہت گہرے نقوش ثبت کئے.ظہور اسلام کے وقت عربوں کے نزدیک دنیا دو عظیم خطوں پر مشتمل تھی.ان میں سے مغربی خطہ سلطنت روما کے زیر تسلط تھا اور مشرقی خطہ پر ایران کے کسری حکمران تھے اور دور دور تک ان کی حکمرانی کا سکہ بیٹھا ہوا تھا.اہل ایران کے لئے اپنے اس درجہ شاندار ماضی کی یادیں اگر چہ اسلامی اخوت کے زبر دست اثر کی وجہ سے خاصی حد تک دھندلا گئی تھیں لیکن کلی طور پر وہ محو نہیں ہوسکیں.ان کا مخفی اثر ہمیشہ جاری رہا ہے بالخصوص ایرانی دانشوروں کے قلوب و اذہان پر ماضی کی عظیم ایرانی تہذیب کے سائے ہمیشہ پڑتے اور اپنا اثر دکھاتے رہے ہیں.ایرانیوں اور عربوں کی باہمی لڑائیوں اور بالخصوص عرب علاقوں میں ایرانیوں کی انتظامی یلغاروں نے عربوں کی آئندہ نسلوں کے ذہنوں پر بہت برے اور تکلیف دہ اثرات مرتب کئے اور دلوں پر ایسے گہرے زخم لگائے کہ وقت اور زمانہ اپنی تمام تر اند مالی خاصیتوں کے باوجود انہیں پورے طور پر مندمل نہیں کر سکا.فطرتِ انسانی کی رو سے ایسا ہونا ایک قدرتی امر ہے.بسا اوقات دنیا میں انسانوں کے لئے ماضی سے اپنا تعلق منقطع کرنا اور خاص طور پر عزت نفس کو مجروح کرنے والے بیتے ہوئے واقعات کو فراموش کرنا بہت مشکل ہو جایا کرتا ہے.تاریخ کے ایسے تکلیف دہ ابواب کبھی مستقلاً بند نہیں ہوا کرتے بلکہ مختلف اوقات میں بار بار کھلتے رہتے ہیں.عربوں اور ایرانیوں کے مابین ماضی بعید میں ہونے والے جھگڑوں اور ان کے اثرات کے ذکر کے بعد اب ہم دور جدید یعنی ماضی قریب اور زمانہ حال کی طرف رجوع کرتے ہیں.باہمی تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور ناہمواری کی کیفیت ایرانیوں کے عربوں کے ساتھ تعلقات تک ہی محدود

Page 288

۲۸۱ مذہب کے نام پرخون ی تھی بلکہ بعد ازاں ان کے انگریزوں کے ساتھ تعلقات اس سے بھی زیادہ ناہمواری اور اس کے برے اثرات سے دو چار رہے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی فوجوں کے ہاتھوں ایرانیوں کو انتہائی بھیانک قسم کے جبر و تشدد سے دو چار ہونا پڑا.جہاں تک عربوں کے ساتھ مخاصمت کا تعلق ہے اس میں مشترکہ ثقافت اور مشتر کہ مذہبی رشتہ مسلسل صحت مندانہ اثر ڈال کر تلافی اور اندمال کی راہیں استوار کر دیا کرتا تھا.برخلاف اس کے برطانوی تسلط کے زمانہ میں انگریز حاکموں اور ایرانی محکوموں کے درمیان اختلاف اور بغض و عناد کی خلیج تنگ ہونے کی بجائے وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی.دونوں کے درمیان کوئی ایسی معاشرتی ، ثقافتی یا مذہبی یکسانیت بھی نہ تھی جو دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں پل کا کام دے سکتی.برطانوی تسلط کے زوال پذیر ہونے کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس میں بڑی طاقتوں نے اپنے پھوؤں اور کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعہ تیسری دنیا کے ملکوں پر بالواسطہ اپنا تسلط جمانے اور انہیں اپنے قابو میں رکھنے کی طرح ڈالی.اس طرح ایک نئے رنگ کی سامراجیت معرض وجود میں آئی.نئی سامراجیت کے اس دور میں ایران، برطانیہ کی سر پرستی اور تسلط میں تو نہ رہا لیکن چار و ناچار وہ چلا گیا امریکہ کی سر پرستی اور تسلط میں.اس کے نتیجہ میں جس نئے دور کا آغاز ہوا اس میں شاہ ایران امریکی سامراج کے ایک مہرے اور نشان کے طور پر منظر عام پر آیا.اس نئی سامراجیت کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ بیک وقت باہم متضاد نظریات کی حمایت کر کے اور ان میں عمداً ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے میں لگی رہتی تھی.آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے.چنانچہ پولینڈ ، نکاراگوائے، اسرائیل اور جنوبی افریقہ کی مثالیں اس پر شاہد ناطق ہیں.نفرت و حقارت کا وہ جذبہ جو ثمینی کے لائے ہوئے انقلاب سے یکدم بھڑک اٹھا تھا وہ صرف امریکی ظلم و تشدد ہی کی پیدا وار نہ تھا بلکہ وہ تیل اور گیس کے زیر زمین پوشیدہ خزائن کی طرح صدیوں سے دلوں کی گہرائیوں میں اکٹھا ہو رہا تھا.یہ بات خاص طور پر سمجھنے اور نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یکدم بھڑک اٹھنے والا نفرت و حقارت کا یہ جذبہ اپنی اصل کے لحاظ سے ہرگز بھی مذہبی نہ تھا اور نہ مذہب نفرت و حقارت کو پھیلانے کا موجب ہوا کرتا ہے.یہ مفاد پرست لوگ ہی ہوا کرتے ہیں جو کبھی

Page 289

۲۸۲ مذہب کے نام پرخون مذہب کے نام پر اور کبھی کسی اور نام پر اپنی اپنی مطلب براری کے لئے دلوں میں پہنچنے والی نفرت سے فائدہ اٹھایا کرتے ہیں.اگر خمینی نے اسلام کے نام پر اس نفرت سے اپنی مطلب براری کے لئے فائدہ نہ اٹھایا ہوتا تو یقیناً ایران کا کوئی کمیونسٹ لیڈر آگے آکر سماجی انصاف کے نام پر اس سے فائدہ اٹھا لیتا اور وہاں کمیونسٹ انقلاب برپا کر دکھاتا.الغرض برپا ہونے والے انقلاب کو مذہبی یا غیر مذہبی جو نام بھی دیا جاتا اس کے پس پردہ کارفرما عوامل ایک ہی ہوتے ان میں سر موکوئی فرق نہ آتا.یہ تو ان عوامل کے بروئے کار آنے پر صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے والے پر منحصر ہوتا کہ وہ کس مذہبی یا غیر مذہبی نام پر انقلاب بر پا کرتا ہے.میں نے ان لوگوں کو جو مینی کی خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف زیادتیوں اور دوسرے ملکوں میں کی جانے والی انتقامی کاروائیوں کو اسلامی قرار دیتے ہیں، بارہا تو جہ دلائی ہے کہ اسلام کا بحیثیت مذہب ایرانی بے اطمینانی کے انتقامی مظاہرے سے کوئی تعلق نہیں ہے.اہلِ مغرب کو تو ایک لحاظ سے آیت اللہ خمینی کو اپنا دشمن سمجھنے کی بجائے اپنا محسن سمجھنا چاہیے کیونکہ صورتِ حال ایسی بن چکی تھی کہ اگر آیت اللہ خمینی نے اس صورتِ حال سے مطلب براری کے رنگ میں فائدہ نہ اٹھایا ہوتا اور اپنے حامی ملاؤں کے گروہ کو ملک پر مسلط کرنے کے لئے اسے اسلامی رنگ نہ دیا ہوتا تو لازماً بائیں بازو کی طرف رجحان رکھنے والے ایرانی لیڈر صورت حال سے فائدہ اٹھا کر کمیونسٹ انقلاب بر پا کرنے میں کامیاب ہو جاتے.وہی ایران جو آج ہمیں سرخی مائل سبز نظر آتا ہے پھر وہ ہمیں تمام تر سرخ نظر آ رہا ہوتا.یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ ایران کی کمیونسٹ قیادت جسے ڈاکٹر مصدق نے پروان چڑھایا تھا شاہ کی معزولی کے وقت اس قدر کمزور ہو چکی تھی کہ ایرانی تاریخ کے اس موڑ پر کوئی مؤثر اور انقلابی کردار ادا کرنا اس کے لئے ممکن نہ تھا.حقیقت یہ ہے کہ کمیونسٹ لیڈر شپ اس وقت بھی بڑی منظم اور تربیت یافتہ تھی اور وہ موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے پر تول رہی تھی.اگر آیت اللہ خمینی موقع سے فائدہ اٹھانے میں سبقت نہ لے جاتے تو انجام کا را ایران میں کٹر مارکسسٹ حکومت قائم ہوئے بغیر نہ رہتی.ایسی صورتِ حال مشرق وسطی پر تباہ کن اثرات مرتب کرنے کا موجب بنتی کیونکہ یہ پورا خطہ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود فوجی لحاظ سے بہت کمزور ہے.اس لحاظ سے ثمینی انداز کا

Page 290

۲۸۳ مذہب کے نام پرخون اسلام مغرب والوں کو کتنا ہی قابل نفرین کیوں نہ نظر آئے انہیں تو اسے اپنے لئے باعث رحمت قرار دینا چاہیے.جسے وہ اپنے لئے خطرہ سمجھ رہے تھے اس میں ان کے لئے ایک رحمت پوشیدہ تھی.انہیں اپنا نقطہ نظر بدل کر آیت اللہ خمینی کے کردار کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے.ہو سکتا ہے کہ موضوع زیر بحث سے ایران عراق جنگ کا کوئی تعلق نظر نہ آئے لیکن دنیائے اسلام کے بعض حصوں میں جو دھما کہ خیز واقعات رونما ہورہے ہیں ان کی اصلیت اور نوعیت کو سمجھنے میں اس جنگ سے بہت کچھ روشنی اور رہنمائی حاصل ہوسکتی ہے.دونوں ملک اس امر کے دعویدار ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور علی الاعلان اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے نفرت کرنے ، ایک دوسرے کو تباہ کرنے اور ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کی جملہ کارروائیوں میں اسلام کے مقدس نام سے ہی رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور یہ کہ وہ اسی کی عطا کردہ روشنی میں آگے قدم بڑھاتے ہیں.میدانِ جنگ میں عراق کے جتنے سپاہی بھی مارے گئے عراقی ذرائع ابلاغ نے انہیں شہید قرار دے کر ان کی عظمت کے ترانے گائے اور جو ایرانی عراقیوں کے ہاتھوں مارے گئے انہیں ڈنکے کی چوٹ کا فر قرار دیا گیا اور بقول عراقی ذرائع ابلاغ وہ سب جہنم رسید ہوئے.اُدھر سرحد پارا ایران میں کھیت رہنے والے ایرانی فوجیوں کے حق میں اور عراقی فوجیوں کے خلاف ایسی ہی کتھا سنائی جاتی رہی.جب میدانِ جنگ میں گولی لگنے سے کوئی عراقی سپاہی مارا جا تا تھا تو ایرانی فوجوں کی طرف سے میدانِ جنگ اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھتا تھا اور اگر گولی ایرانی سپاہی کو لگتی اور وہ مارا جا تا تو عراقی فوجی اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کرتے.دنیا حیران تھی کہ طرفین میں سے اسلام کس کے ساتھ ہے اور کس کے ساتھ نہیں ہے؟ کس کے نعرے اصلی ہیں اور کس کے کھو کھلے؟ ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہو کر جو چیز ثابت ہوتی اور ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی اور عراقی سپاہی جنہوں نے اپنی اپنی جگہ ایک مقدس مشن کی خاطر میدانِ جنگ میں جانیں قربان کیں دونوں ہی اپنی اپنی لیڈرشپ کے فریب میں آئے ہوئے تھے.دونوں ہی طرف کے نعرے کھو کھلے تھے.اسلام نہ اس طرف تھا نہ اُس طرف.

Page 291

۲۸۴ مذہب کے نام پرخون قرآن مجید کا فرمان ہے :- ( إِنَّ اللهَ يُدْفِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَانٍ كَفُورٍ - أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ - الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقَّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَ لَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمُ بِبَعْضٍ لَهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوتَ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ - (الحج: ۳۹ تا ۴۱) اللہ یقیناً ان لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں ان کا دفاع کرتا رہے گا.اللہ یقیناً ہر خیانت کرنے والے اور انکار کرنے والے کو پسند نہیں کرتا.وہ لوگ جن سے بلا وجہ جنگ کی جارہی ہے اُن کو بھی جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے، اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کو اُن کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا اور اگر اللہ کفار میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے شرارت سے باز نہ رکھتا تو گر جے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے برباد کر دیئے جاتے اور اللہ یقینا اس کی مدد کرے گا جو اس کے دین کی مدد کرے گا.اللہ یقیناً بہت طاقتور اور غالب ہے.(ب) كلما أوقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَاهَا اللهُ وَ يَسْعَونَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ - (المائدة : ۶۵) جب کبھی بھی انہوں نے لڑائی کے لئے کسی قسم کی آگ بھڑکائی ہے تو اللہ نے اسے بجھا دیا ہے اور وہ ملک میں فساد کے لئے دوڑے پھرتے ہیں اور اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا.(ج) وَ اِنْ طَابِفَتنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۚ فَإِن بَغَتْ ج احديهما على الأخرى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِى حَتَّى تَفِيءَ إِلَى اَمرِ اللهِ فَإِنْ

Page 292

۲۸۵ مذہب کے نام پرخون فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُم وورودر تُرْحَمُونَ.(الحجرات : ۱۱،۱۰) اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں میں صلح کرا دو.پھر اگر صلح ہو جانے کے بعد ان میں سے کوئی ایک، دوسرے پر چڑھائی کرے تو سب مل کر اس چڑھائی کرنے والے کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے.پھر اگر وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو عدل کے ساتھ ان دونوں لڑنے والوں میں صلح کرا دو اور انصاف کو مد نظر رکھو.اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.مومنوں کا رشتہ آپس میں صرف بھائی بھائی کا ہے.پس تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان جو آپس میں لڑتے ہوں صلح کرا دیا کرو.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.جنگ کے دوران دونوں ہی متحارب قوموں ( عراق اور ایران ) نے قرآن مجید کی مندرجہ بالا تعلیمات کو نظر انداز کیا اور وہ ان تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کی مرتکب ہوئیں.مکہ میں سالانہ حج کے موقع پر ایران کی طرف سے حج پر آنے والے مسلمانوں کی وساطت سے خمینی انداز کے انقلاب کا پیغام باقی اسلامی دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی گئی.بدقسمتی سے یہ کوششیں بعض اوقات بہت ہی ناروا اور ناگوار واقعات پر منتج ہوئیں.یہ واقعات دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بے حد پریشانی اور فکر مندی کا باعث ہوئے.مثال کے طور پر ۷ ۱۹۸ ء کے حج کے موقعہ پر مکہ میں جو کچھ ہوا اور صورتِ حال کے مقابلہ کے لئے سعودی عرب کی حکومت نے دو انتہائی نوعیت کے اقدام کئے مغربی ذرائع ابلاغ نے انہیں خوب اچھالا لیکن برخلاف اس کے قرآن مجید تمام مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے:.19 وَ لا تُقْتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقْتِلُوكُمْ فِيهِ ۚ فَإِن قَتَلُوكُم ط فَاقْتُلُوهُمْ كَذلِكَ جَزَاءُ الْكَفِرِينَ.(البقرة : ١٩٢)

Page 293

۲۸۶ مذہب کے نام پرخون اور تم ان سے مسجد حرام کے قرب و جوار میں اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ خود تم سے اس میں جنگ کی ابتداء نہ کریں اور اگر وہ وہاں بھی تم سے جنگ کریں تو تم بھی انہیں قتل کرو.ان کا فروں کی یہی سزا ہے.اُدھر ان تمام بڑی طاقتوں نے جو اسرائیل کی کھلم کھلا یا پوشیدہ طور پر مدد کر رہی ہیں (اور ان میں امریکہ خاص طور پر بہت پیش پیش ہے ) خمینی اور خمینی ازم سے کچھ کم فائدہ نہیں اٹھایا ہے.وہ اس طرح کہ انہوں نے خمینی کے لئے کوئی چارہ کار نہ رہنے دیا سوائے اس کے کہ وہ ایران عراق جنگ کو طول دے اور دیتا چلا جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس جنگ نے مسلم دنیا کی توجہ اس کانٹے (یعنی اسرائیل) کی طرف سے ہٹا کر جو ان کے پہلو میں چھا ہوا ہے اور جس کی چبھن سے مسلسل ٹیسیں اٹھ رہی ہیں یکسر ایک نئے مسئلہ کی طرف پھیر دی.ایک بیرونی دشمن کی دشمنی کا احساس تو مٹ کر رہ گیا اُلٹا ہوا یہ کہ خود مسلمانوں میں باہم بدظنی اور بے اعتمادی کی فضا پنپنے لگی.اور ہوتے ہوتے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ایسا نفاق پڑا کہ وہ ایک دوسرے سے پھٹ کر رہ گئے.اسرائیل کا خطرہ ایک معمولی اور بے حیثیت خطرہ کی شکل اختیار کر گیا.اس کے بالمقابل مسلمانوں کے ایک طبقہ کے لئے دوسرے طبقہ کے خوف نے اس قدر اہمیت اختیار کر لی اور اس میں اس قدر شدت پیدا ہوگئی کہ ہر بیرونی دشمن کا اصلی یا خالی خوف نگاہوں سے اوجھل ہوئے بغیر نہ رہا.دومسلمان ملکوں کے درمیان جنگ کی صورت میں سادہ مزاج سپاہی کو مغالطہ دینے کے لئے اکثر و بیشتر دونوں طرف یہ نعرہ لگتا رہا کہ اسلام خطرے میں ہے.دراصل عراق اور ایران کے مابین جنگ کے دوران جو کچھ وقوع پذیر ہور ہا تھا اس کی حیثیت اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ عرب و عجم کا قدیمی بغض و عناد پھر عود کر آیا تھا.کفر و اسلام کی باہمی آویزش یا شیعہ سنی مناقشہ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا.بلکہ یہ عرب و عجم کے مابین ہزاروں سال پرانے تنازعات کے اعادہ کا ہی کرشمہ تھا جو زمانہ دراز سے دبے ہوئے تھے.یہی وجہ ہے کہ وہ عرب بھی جو پہلے عراق اور سعودی عرب سے نالاں رہتے تھے ایران کے بالمقابل عراق کی حمایت میں پیش پیش نظر آنے لگے.اُس وقت ایران کے بڑھتے ہوئے خطرے اور چیلنج کے بالمقابل عربوں کے لئے اپنی ہستی کو برقرار رکھنے کا سوال اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور ایک طرح سے

Page 294

۲۸۷ مذہب کے نام پرخون ان کے لئے زندگی اور موت کو مسئلہ پیدا ہو گیا تھا.ظہور اسلام سے پہلے خود عربوں کے مابین معمولی معمولی باتوں پر جنگیں چھڑ جایا کرتی تھیں اور پھر وہ اس قدر طول پکڑ جایا کرتی تھیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتی تھیں.اسلام نے آکر ان جنگوں کا خاتمہ کر دیا.اس نے انہیں باہمی اخوت کے ایک ایسے رشتہ میں باندھ دیا جو باہمی دشمنیوں، اونچ نیچ اور تفریق کے ہر امکان سے مبرا تھا.لیکن جب مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ترک کر دیا تو وہ جو پہلے بھائی بھائی تھے پھر ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور قبائلی لڑائیاں پھر پوری شدت کے ساتھ عود کر آئیں.پس آج دنیائے اسلام میں جن مناقشات نے سراٹھایا ہوا ہے اور یہ مناقشات جو گل کھلا رہے ہیں ان کا اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے.انہیں اسلام کی طرف منسوب کرنا یا اصل کے اعتبار سے انہیں اسلامی قرار دینا ہر گز بھی درست نہیں ہے.یہ تو قرونِ وسطیٰ کی جاگیر دارانہ ذہنیت اور رجحانات کے از سر نو احیاء کا معاملہ ہے اور اسے اسی نظر سے دیکھنا چاہیے.اس بارہ میں اسلام کو درمیان میں لانا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے.بڑی طاقتوں نے کہنے کو تو عراق ایران جنگ کی مذمت کی اور بار بار مطالبہ کیا کہ فریقین جنگ بند کر دیں اور خون خرابے سے باز آجائیں لیکن ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ بڑی طاقتیں خود عراق اور ایران دونوں کو مسلسل ہتھیار مہیا کر رہی تھیں اور جو خون خرابہ ہورہا تھا اس کی خود ذمہ دار تھیں.جنگی ہوائی جہاز ، راکٹس، میزائلز، تو ہیں، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں نیز دیگر تباہ کن ہتھیار دونوں متحارب قومیں بے دریغ استعمال کر رہی تھیں.اب ظاہر ہے کہ یہ تباہ کن ہتھیار خود ان متحارب قوموں کے اپنے اپنے ملک میں تو نہیں بن رہے تھے.مشرق وسطی کے تیل اور مغربی ہتھیاروں کے مابین علی الاعلان یا در پردہ ساز باز ہوئی جس کے نتیجہ میں جنگ کی آگ بھڑکی اور بھڑکتی ہی چلی گئی.آخری تجزیہ کی رو سے جنگ کی آگ کو اُس تیل نے ہی بھڑ کا یا جسے عراق اور ایران پیدا کر رہے تھے اور وہ اس طرح کہ مغرب و مشرق کی غیر مسلم طاقتوں نے ان متحارب قوموں کے تیل کو ہتھیاروں میں تبدیل کر کے جنگ کی آگ کیلئے ایندھن فراہم کیا.جہاں تک مغربی طاقتوں کا تعلق ہے ان کے لئے یہ ہر گز بھی خسارہ کا سودا نہ تھا.انہوں نے پرانے اور متروک ہتھیاروں کے عوض دھڑا دھڑ تیل خریدا.اس سے زیادہ فائدہ مند

Page 295

۲۸۸ مذہب کے نام پرخون تجارتی سودا اور لین دین بھلا اور کیا ہوسکتا تھا.ان طاقتوں نے دومسلمان ملکوں کو باہم لڑا کر ان کا تو کچومر نکال کر رکھ دیا اور خود دونوں ہاتھوں سے ان کی دولت سمیٹ سمیٹ کر اپنی تجوریاں بھر لیں.جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں اس جنگ کے دوران مسلمان اپنے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کو فراموش کر بیٹھے.الٹا ہوا یہ کہ مسلمان مسلمان کا گلا کا تھا اور اس کا خون بہاتا رہا.اسلامی دنیا کا تیل خود اسلامی دنیا کی اقتصادیات کو نذر آتش کرنے اور اسے تباہ و برباد کرنے میں بے محابا استعمال ہوا.گزشتہ ایک صدی کے دوران محنت شاقہ کے شمر کے طور پر جو اقتصادی ترقیاں حاصل ہوئی تھیں کالعدم ہو کر رہ گئیں.جہاں تک ترقی اور خوشحالی کا تعلق ہے آگے بڑھنے اور پیشقدمی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ایران اور عراق وقت کی رفتار کے برعکس پیچھے کی طرف دوڑنے لگے اور نتائج وعواقت کی پرواہ کئے بغیر اندھا دھند پیچھے کی طرف دوڑتے ہی چلے گئے.یہ تو صحیح ہے کہ تمام جنگوں کے اقتصادی ترقی ، مادی اور انسانی وسائل ، ثقافتی پیش رفت اور صنعت و حرفت پر تباہ کن اثرات مترتب ہوتے ہیں اور ایک طرح سے سب کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے، ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر دونوں ہی جنگ کی تباہ کاریوں سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں، لیکن ترقی یافتہ ممالک پر جنگ کے تباہ کن اثرات کی نوعیت ترقی پذیر ممالک کے مقابلہ میں قدرے مختلف ہوتی ہے.ترقی یافتہ ملکوں میں جنگی صنعت کو خود ملکی وسائل اور اتحادیوں کے وسائل کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اس لئے تباہی کے باوجود جنگی صنعت کی رفتار ترقی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہوتا ہے.اس میں شک نہیں کہ جنگ کے بڑھتے ہوئے تقاضوں ، بے پناہ دباؤ اور تنازع للبقا میں پیدا ہو نیوالی شدت ان بڑے ممالک کے وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہوتی ہے.اس کے باوجود اُن کے سائنسی اور ٹیکنیکل علم میں اضافہ کی رفتار پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے اور وہ اس میدان میں دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں.جنگ کے زمانے میں ٹیکنیکل علوم اور مہارت میں جو بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اس کو جنگ کے فوراً بعد اقتصادیات کو بحال کرنے اور ہر شعبہ زندگی میں قوم کے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس طرح جنگ کے تباہ کن اثرات کو مٹانے کی راہ بآسانی ہموار کی جاسکتی ہے.اسی لئے ترقی یافتہ ملکوں کے لئے تباہ کن

Page 296

۲۸۹ مذہب کے نام پرخون جنگیں سائنسی اور صنعتی ترقی کے میدانوں میں نئے تعمیری نظریات کو جنم دینے اور تعمیر و ترقی کی نئی راہیں کھولنے کا موجب بنتی ہیں.لہذا طویل جنگوں کے نتیجہ میں ترقی یافتہ قومیں بھی مالی کمزوری کا شکار تو ہوتی ہیں لیکن وہ ساتھ کے ساتھ نئے نئے علوم سے مالا مال ہونے کے باعث ایک بہتر مستقبل تعمیر کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں.افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے بالمقابل جو قو میں سائنسی اور اقتصادی پسماندگی کا شکار ہونے کے باوجود جنگوں میں کودنے کی عیاشی مول لیتی ہیں انہیں بالکل اور ہی قسم کے حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے.ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ اپنا سب کچھ بیچ کر داؤ پر لگا دیں.پھر اسی پر بس نہیں وہ سائنسی اور صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ملکوں سے جنگی ساز وسامان کی مسلسل بہم رسانی کے سمجھوتے کر کے اپنے مستقبل تک کو ان کے پاس رہن رکھ دیتے ہیں.اگر پسماندہ قومیں ایک دفعہ جوش میں آنے کے بعد ذرا ہوش سے کام لیں اور اس طرح مکمل تباہی کو خود دعوت نہ دیں تو تیسری دنیا میں لڑی جانے والی کوئی جنگ نہ تو اتنا طول پکڑے جتنا کہ عراق ایران جنگ نے پکڑا اور نہ وہ اتنے تباہ کن اثرات کی حامل ہو جتنی تباہ کن اثرات کی حامل یہ جنگ ثابت ہوئی.یہ قومیں جنگ کے دوران ایک دوسرے کے خلاف جس وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور جس کی لپیٹ میں کبھی کبھی دوسرے ملک بھی آجاتے ہیں اس کی ذمہ داری ان قوموں کو بھی قبول کرنی چاہیے جو انہیں ہتھیار اور اسلحہ مہیا کرتے ہیں اور اس طرح جنگ کی آگ کو بھڑکاتے اور اسے طول دینے کا موجب بنتے ہیں.اب جبکہ عراق ایران جنگ کے بارہ میں سب کچھ کہا اور کیا جا چکا ہے یعنی تمام واجب الا دا قرضوں کا تصفیہ ہو چکا ہے اور تبادلہ کی جانے والی اشیاء کا شمار بھی کر لیا گیا ہے، اس امر پر بھی غور کرنا مناسب ہوگا کہ آخر کار اس جنگی مخاصمت میں فائدہ کس نے اٹھایا اور نقصان میں کون رہا.یہ تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ اس جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مغرب میں اسلام کو ایک وحشیانہ مذہب قرار دے کر اس کی مذمت کی جارہی ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ اسلام نعوذ باللہ دہشت گردی کا علمبردار ہے، عدم رواداری اور نفرت کی تعلیم دیتا ہے اور خود اپنے متبعین کو مخالف و متحارب کیمپوں میں تقسیم کر کے انہیں ایک دوسرے کا دشمن ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیتا ہے.خود دو

Page 297

۲۹۰ مذہب کے نام پرخون متحارب مسلمان قوموں ( ایران و عراق) کے طرز عمل کی روشنی میں اس سر تا پا غلط پراپیگینڈے پر حیرت کا اظہار بے محل ہے.اس کے علاوہ بعض اضافی فائدے بھی ہیں جو ان قوموں ہی کو پہنچتے ہیں جو خود جنگ کی منصوبہ بندی کرتی ہیں، اسے عملی جامہ پہناتی ہیں اور مسلم امہ کے متحارب حصوں کو تباہی پھیلانے والے آلات مہیا کرتی ہیں.66 طرفہ تماشہ یہ ہے کہ گزشتہ دہائی میں مغربی ذرائع ابلاغ نے ”اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح کے علاوہ اسی طرح کی ایک اور عجیب و غریب اصطلاح بھی وضع کی ہے اور وہ ہے اسلامی ایٹم بم کی اصطلاح.پاکستان پر الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ اس کے پاس یہ بم موجود ہے.بات یہی ہے کہ جو مغربی ذرائع ابلاغ ”اسلامی دہشت گردی کی سراسر غلط اور دور از کار اصطلاح وضع کر سکتے ہیں ان کے زرخیز دماغوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ اسلامی ایٹم بم کی اصطلاح بھی وضع کر کے اسے زیادہ سے زیادہ ہوا دیتے اور پھیلاتے.اس لحاظ سے تو ہوسکتا ہے کہ جنگ کے دوران ہلاکت پھیلانے والے مختلف ہتھیاروں اور نت نئے طریقوں کے ساتھ ”اسلامی“ کا سابقہ لگا کر اور قتل و غارت گری کے خود اپنے ایجاد کردہ تمام پہلوؤں کو اسلام کی طرف منسوب کر کے مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے اسے مزید بد نام کرنے کا سلسلہ چل نکلے لیکن سوال یہ ہے کہ اسی انداز پر مسیحی ایٹم بم ، ہندو ایٹم بم نسلی مغائرت کا ایٹم بم یا شنٹو بم وغیرہ کا تذکرہ کیوں سننے میں نہیں آتا؟ عجیب بات یہ ہے کہ ہزاروں مذہبی بموں کا تذکرہ چھیڑنے کے امکان کے باوجود مغربی ذرائع ابلاغ نے صرف ایک مذہبی بم کو چنا ہے اور اس کے خلاف آواز بلند کر کے زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، اور وہ ہے ان کا مزعومہ اسلامی ایٹم بم ، حالانکہ مسیحی اور یہودی ایٹم بموں کے مقابلہ میں جن کا وجود حتمی اور یقینی ہے اس مزعومہ اسلامی ایٹم بم کا وجود سرے سے ہی مشکوک اور غیر یقینی ہے.جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اسلامی ملکوں میں تشد د پر یقین رکھنے والے جو عناصر برسر کار ہیں وہ اپنے طرز عمل کے لحاظ سے حقیقی معنوں میں اسلامی ہیں ہی نہیں.تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب بھی اسلامی ملکوں میں بعض عناصر دہشت پھیلانے والی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث

Page 298

۲۹۱ مذہب کے نام پرخون پائے جاتے ہیں تو صرف انہیں ہی مذہبی قرار دے کر اسلامی دہشت گرد کیوں ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے مذا ہب سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد بھی دنیا میں موجود ہیں اور ان کے دہشت گردی کے واقعات اکثر و بیشتر سنے میں آتے رہتے ہیں.وہ طاقتیں جو ایران اور عراق کو مسلسل ہتھیار مہیا کر کے ان کے مابین جنگ کو طول دینے کے ذمہ دار ہیں وہ جان و مال کے بے انداز ضیاع اور اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والے نا قابل بیان مصائب کی ذمہ داری سے کیسے بچ سکتی ہیں.ان کے اپنے در پردہ مقاصد کچھ ہی ہوں وہ اپنی اس روش سے خمینی ازم کو تقویت پہنچانے میں اور اس کے زیادہ لمبا عرصہ تک زندہ رہنے میں اس کی ممد و معاون ہی ثابت ہوں گی.اگر متحارب ملکوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا اور انہیں اپنے محدود وسائل پر انحصار کرنے دیا جا تا تو خمینی ازم کا زوال و انحطاط بہت پہلے ہی شروع ہو جاتا.دوسری چیزوں کے علاوہ عراق ایران جنگ نے قومیت کے جذبہ کوبھی بہت تقویت پہنچائی ہے جس نے ایرانیوں کی توجہ کو داخلی مسائل سے ہٹا کر اسے ایک خارجی اور بیرونی دشمن کی طرف پھیر دیا ہے.اب اگر ایران میں زیادہ شکوک و شبہات نہ پھیلیں اور وہ خمینی ازم کے لئے ایک کھلے چیلنج اور بغاوت کی شکل اختیار نہ کریں تو یہ امر باعث تعجب ہوگا.ایران کے اندر انقلاب کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے اور اس کے مثبت و منفی پہلوؤں کو جانچنے کا زبردست رجحان پیدا ہو چکا ہے.ہر چند کہ ملک میں ممتاز مقام رکھنے والے اہل افراد کے ایک بڑے حصہ کا صفایا ہو چکا ہے پھر بھی جو دانشور زندہ بیچ رہے ہیں وہ لازماً موجودہ انقلاب سے حاصل ہونے والے فوائد اور پہنچنے والے نقصانات کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور ہوں گے.اس لحاظ سے ایران میں ایک نئے نظام کے قیام کی طرف حرکت کے فوری آثار کا نمودار ہونا بعید از امکان نہیں ہے.جنگ کے دوران ایرانیوں کے لئے ضرورت اس امر کی تھی کہ عوام کا حوصلہ بلند رہے اور قوت مقاومت میں کمی نہ آنے پائے.اس ضرورت کو جنگ کی آگ کو زیادہ سے زیادہ بھڑ کانے کے ذریعہ پورا کیا گیا.جب ایرانیوں کا حوصلہ جواب دے جاے گا تو نتیجہ غیر یقینی صورت حال کا پیدا ہونا ناگزیر ہوگا.موجودہ برسر اقتدار طبقہ کی بجائے خواہ بائیں بازو والے آگے آئیں یا دائیں بازو والے،

Page 299

۲۹۲ مذہب کے نام پرخون یا بین بین چلنے والے باقی ماندہ افراد آگے آنے کی کوشش کریں، غلبہ پانے اور آگے آنے کے لئے جنگ زرگری کا چھڑنا یقینی بن جائے گا.کوئی نہیں بتا سکتا کہ جنگ زرگری کا انجام کیا ہوگا اور یہ کہ ایران کے لئے ابھی اور کیا کچھ دیکھنا مقدر ہے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ایران میں حالات کیا رُخ اختیار کریں گے وہی علام الغیوب ہے.میں اہلِ ایران کے لئے صرف دعا ہی کر سکتا ہوں کہ ان کے مصائب و مشکلات کا دور جلد ختم ہو.ان کے لئے ایک نئے اور پر امن دور کا آغاز ہو اور وہ ان کے لئے حقیقی خوش حالی کا دور ثابت ہو.اہلِ ایران بہت بہادر ہیں.قدرت نے انہیں اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا ہے.ماضی میں بھی انہوں نے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے ہیں اور اب بھی اٹھا رہے ہیں.ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ حالیہ دور میں دکھ اٹھانے کے سوا ان کے ہاتھ اور کچھ نہیں آیا.میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور جملہ مصائب و مشکلات سے انہیں نجات بخشے.آمین اب ہم ایران میں آیت اللہ خمینی کے لائے ہوئے انقلاب کے ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں.انہوں نے نہ صرف ایرانی مسلمانوں کے اندازِ زیست کو بدلنے کا بیڑا اٹھایا بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ ہمسایہ ملکوں میں بھی ایسا ہی انقلاب لانے کی بھر پور کوشش کریں گے.انہوں نے دنیائے اسلام پر یہ بات بھی واضح کی کہ وہ فلسطینیوں کی مدد کر نے اور اسرائیلی فوجوں کو شکست دینے کی جد و جہد میں زیادہ مضبوط اور موثر کردار ادا کریں گے.ظاہر ہے کہ مسلمان ممالک اور اسرائیل میں سے کوئی بھی اپنے ہاں ایرانی انقلاب کو خوش آمدید کہنے پر آمادہ نہ تھا اس لئے پرامن اور قانونی ذرائع سے مسلم ممالک میں ایرانی انقلاب کو منتقل کرنا ممکن نہ ہوسکا اور ایران کو اس بارہ میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا.اس میں شک نہیں کہ فلسطین کے معاملہ میں وہ ایک حد تک کامیابی سے ضرور ہمکنار ہوئے.جیسا کہ میں پہلے بھی واضح کر چکا ہوں علاقہ میں کی جانے والی دہشت پسند سرگرمیاں (خواہ وہ اسلام کے خلاف کی گئی ہوں یا مغربی طاقتوں کے نمائندوں کو ان کا نشانہ بنایا گیا ہو ) اسلام کی رو سے درست قرار نہیں دی جاسکتیں کیونکہ اسلام دہشت پسند سرگرمیوں کی اجازت ہی نہیں دیتا.ان سرگرمیوں کو اگر سند جواز عطا کی تھی تو صرف اور صرف ایرانی انقلاب کے فلسفہ نے عطا کی تھی.مسلم ممالک میں عسکری قوت اور طاقت کے استعمال کے تذکرے اکثر سننے میں آتے

Page 300

۲۹۳ مذہب کے نام پرخون ہیں.قبل اس کے کہ ہم یہ سمجھیں کہ تشدد کے استعمال کا یہ انوکھا تصور ہے کیا حالات کا احتیاط سے تجزیہ کرنا ضروری ہے تقریباً تمام مسلمان ملکوں کے ملاؤں میں تنگ نظری اور عدم رواداری کی طرف رجحان بہت بڑھ رہا ہے اور اس کے زیر اثر تشدد آمیز طرز عمل بہت زیادہ مقبول ہوتا جارہا ہے.اس کی ذمہ داری سعودی عرب کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے.وہ اپنے آپ کو پوری مسلم دنیا کا مرکز بنانے میں کوشاں ہے اور اس نے مذہب کی آڑ میں اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دینے کا تہیہ کر رکھا ہے.چونکہ اسے اسلام کے مقدس ترین شہروں ( مکہ اور مدینہ ) کا متولی ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے اس لئے یقیناً وہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اس صورتِ حال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر اپنی اہمیت اور اپنے اثر ورسوخ کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینے کی کوشش کرے.سعودیوں کے مذہبی فلسفہ کا ماخذ وہابیت ہے اور وہابیت وہ تحریک ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کے محبت و مودت کے آئینہ دارا اسلام سے بڑھ کر زمانہ وسطی کے غیر روادارانہ اسلامی تصورات پر مبنی ہے.سعودی اثر ورسوخ کا پھیلاؤ مرہون منت ہے تیل کی آمدنی سے حاصل ہونے والی بے انداز دولت کا اور دنیا بھر کے بنکوں میں جمع شدہ بے حد و بے حساب سرمائے کا.سعودی عرب کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اپنے بے حد و بے حساب سرمائے سے اسے جو سود حاصل ہوتا ہے اس کا ایک حصہ وہ مسلمان ملکوں کو مالی امدا دفراہم کرنے پر خرچ کرتا ہے لیکن اکثر و بیشتر یہ امداد ان ملکوں کی بیمار معیشت کو سنبھالا دینے پر خرچ نہیں کی جاتی بلکہ یہ خرچ کی جاتی ہے مسجدوں کی تعمیر اور ایسے دینی مدارس کے قیام پر جن پر سعودی چھاپ کے عالم تیار ہو کر نکلیں اور سعودی اثر ورسوخ کو پھیلانے اور وسعت دینے کی خدمت سر انجام دیں.یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی آپ کو سعودی امداد پانی کی طرح بہتی نظر آئے گی وہاں آپ مسلمان ملاؤں کے تنگ نظری اور عدم رواداری پر مبنی رویے اور طرزعمل کو خوب پنپتا اور پھلتا پھولتا دیکھیں گے.جب عیسائی دنیا ان تنگ ملاؤں کو غیر اسلامی اقدار کی مذمت کرتے اور غیر مسلم حکومتوں کے خلاف جہاد جہاد کا شور ڈالتے دیکھتی ہے تو وہ یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ ان ملاؤں کی جہاد ! جہاد! کی پکار جلد ہی حالت جنگ میں تبدیل ہو کر ایک بھیانک روپ دھار لے گی لیکن ان

Page 301

۲۹۴ مذہب کے نام پرخون کے اس تصور کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا کیونکہ عملاً جو کچھ دیکھنے میں آتا ہے وہ اس تصور سے یکسر مختلف ہے.یہ صیح ہے کہ مسلمان ملاں غیر مسلم طاقتوں کی مکمل تباہی کا راگ بہت الاپتے ہیں اور ان کی طرف سے جہاد! جہاد! کا شور بھی بہت سننے میں آتا ہے لیکن اس تعلق میں جب وہ غیر اسلامی طاقتوں کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد مسیحی ، یہودی، بدھسٹ یا ناستک طاقتوں سے نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی دانست میں بعض مسلمان فرقوں کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں جو ان کے نزدیک مسلمان کہلانے کے باوجود غیر مسلم شمار کئے جانے کے قابل ہوتے ہیں.ملاؤں کے نظریہ کے مطابق ان کے اپنے فرقے کے سوا تمام دوسرے مسلمان فرقے اپنی ماہیت کے اعتبار سے غیر مسلم ہوتے ہیں یا وہ ایسے عقائد کے حامل ہوتے ہیں جو بقول ان کے انہیں اللہ اور اس کے مقبول بندوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننے کا اہل بنانے والے ہوتے ہیں.اللہ کے مقبول بندوں سے ان کی مراد وہ خود اور ان کے ہمنوا ہوتے ہیں.ان کی نگاہ میں غیر مسلم اسلام کے اصل دشمن نہیں ہیں بلکہ بقول ان کے اصل دشمن تو خود دنیائے اسلام کے اندر موجود بعض مخصوص مسلمان فرقے ہیں.ایک مسلمان فرقہ کے افراد کی طرف سے جب جنگجویانہ رجحانات کا اظہار ہوتا ہے تو ان کا رخ غیر مسلموں سے کہیں زیادہ دوسرے مسلمان فرقوں کے افراد کی طرف ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے مرتد کی سزا قتل کے مزعومہ عقیدے پر بہت زور دیا جاتا ہے.یہ ان کا ایک بہت ہی مہلک ہتھیار ہے اُن مسلمانوں کے خلاف جو کسی ملک کی مسلمان اکثریت کے عقائد سے قدرے مختلف عقائد رکھنے والے ہوں.ایسے فرقوں کے افراد کوموت کی سزا دو مرحلوں میں دی جاتی ہے.پہلے مرحلہ میں ان کے عقائد کو غیر اسلامی عقائد قراردیا جاتا ہے.اس کے نتیجہ میں وہ مرتدوں کے زمرے میں شمار کئے جانے کے سزاوار ہو جاتے ہیں.دوسرے مرحلہ میں اس امر پر زور دے کر کہ مرتد کی سزا قتل ہے انہیں قتل کئے جانے کا سزاوار ٹھہرایا جاتا ہے.ہرغیر جانبدار مبصر اس امر سے اتفاق کرے گا کہ یہ بڑھتا ہوا جنگجویانہ رجحان خود مسلمانوں میں فساد کے بیج بونے اور گڑ بڑ پھیلانے کا موجب بنا ہوا ہے نیز یہ کہ یہ رجحان ہی ایک فرقہ کے ماننے والوں کے دلوں میں دوسرے فرقہ کے ماننے والوں کے خلاف انتہائی شدید نفرت پھیلانے کا اصل ذمہ دار ہے.

Page 302

۲۹۵ مذہب کے نام پرخون جہاں تک غیر مسلم طاقتوں کا تعلق ہے وہ بہر طور مطمئن رہیں کہ فی زمانہ اسلامی دنیا کے نام نہاد جنگجویانہ رجحانات سے انہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس طرف سے وہ بالکل محفوظ ہیں.اس کے ثبوت کے لئے مغربی ملکوں اور بالخصوص امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات و روابط پر نگاہ ڈالنا ہی کافی ہے.اس بات کا تصور ہی ممکن نہیں کہ سعودی عرب اور اس کے زیر اثر ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی کبھی خواب میں بھی جرات کر سکتے ہیں.سعودی نظام حکومت کی بقا کا سو فیصد انحصار امریکہ پر ہے.حکمران خاندان کی قریباً تمام کی تمام دولت امریکن بنکوں اور مغربی دنیا کے دوسرے بنکوں میں جمع ہے.سچی بات تو یہ ہے کہ داخلی اور خارجی تحفظ کے لئے سعودی عرب کا امریکہ پر انحصار اس قدر ظاہر و باہر اور اظہر من الشمس ہے کہ اس بارہ میں مزید کچھ کہنے کی حاجت ہی نہیں.مذکورہ بالا یہ دو عوامل ہی اس بات کی ضمانت کے لئے کافی ہیں کہ نہ تو خود سعودی عرب اور نہ اس کے زیر اثر اس کا کوئی اتحادی مسلم ملک مغرب کے غیر مسلم ممالک کے لئے خطرہ کا باعث ہو سکتا ہے.مزید برآں فی زمانہ مسلم ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی جنگی ساز وسامان کی تیاری میں خود کفیل نہیں ہے.ہر مسلمان ملک اپنی دفاعی اور دیگر جنگی ضروریات کے لئے مغرب یا مشرق کی کسی نہ کسی بڑی طاقت کا سہارا ڈھونڈ نے اور اس پر انحصار کرنے پر مجبور ہے.یہ حقیقت بھی اس امر کی کافی سے زیادہ ضمانت ہے کہ غیر مسلم طاقتوں کے ساتھ ان مسلمان ملکوں کے تعلقات پرامن بقائے باہمی کے ہی آئینہ دار نہیں ہیں بلکہ باہمی تحفظ کے احساس کو بھی اجاگر کرنے والے ہیں.یہی اصول لیبیا اور شام ایسے ممالک پر بھی صادق آتا ہے جن کے تعلقات مغربی ملکوں کی نسبت مشرقی طاقتوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ اور فراخ دلا نہ ہیں.کوئی ایک شخص بھی جسے جدید انداز جنگ کی تھوڑی بہت بھی سمجھ ہو ایسا نہیں ملے گا کہ جو اس نام نہاد اسلامی عسکری قوت کو مغربی طاقتوں کے لئے کسی لحاظ سے بھی خطرے کا باعث قرار دے سکے.البتہ ان بڑھتے ہوئے رجحانات سے ایک نوع کا خطرہ ضرور لاحق ہے اور اس کے بارے میں بعض لوگوں کا فکرمند ہونا ایک قدرتی امر ہے.اسلامی عسکری قوت سے وہ خطرہ خود عالم اسلام کو لاحق ہے بلکہ صرف لاحق ہی عالم اسلام کو ہے.یہ نجی نوعیت کا ایک ایسا خطرہ ہے جو خود عالم اسلام کے اندر

Page 303

۲۹۶ مذہب کے نام پرخون کی طرف جھانک رہا ہے اور ہر جگہ مسلمانوں کے اپنے امن کو برباد کر رہا ہے.آج عالم اسلام میں جس عدم رواداری ، تنگ نظری ، تنگ دلی اور تعصب کا دور دورہ ہے اس نے عالم اسلام کے امن کو تہ و بالا کر رکھا ہے.افسوس! صد افسوس!! مجھے اس حقیقت کا احساس ہے کہ اپنے محدود و مخصوص معنوں کی رو سے دہشت گردی“ کا لفظ ایسے افعال کے لئے بولا جاتا ہے جو خوف دلانے اور دہشت پھیلانے والے ہوں جیسے بموں کے دھماکے اور ان سے متعلق واقعات وغیرہ.لیکن میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ دہشت گردی کے لفظ کو صرف ایسے افعال و واقعات تک محدود سمجھا جائے.میرے نزدیک جب بھی بعض حکومتوں کی طرف سے خود اپنے اہل ملک کی مخالفانہ آواز کو دبانے کے لئے ظالمانہ اقدامات کئے جائیں تو ایسے ناروا اقدامات کو بھی دہشت گردی کے مفہوم میں شامل سمجھنا چاہیے اور ان کی بھی دیگر نوعیتوں کی دہشت گردی کی طرح وسیع پیمانے پر پرزور اور بھر پور مذمت ہونی چاہیے.میں حکومتوں کے تمام ایسے ظالمانہ اقدامات کو جو وہ خود اپنے ہی اہل ملک کے دائیں یا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد یا طبقوں کے خلاف کرتی ہیں بدترین قسم کی دہشت گردی سمجھتا ہوں.جب دہشت گردی کی کارروائیاں دوسرے ملکوں کی حکومتوں کے خلاف روا رکھی جاتی ہیں اور جگہ جگہ کئے جانے والے دھماکوں اور ہوائی جہازوں کے اغوا کی شکل اختیار کرتی ہیں تو ایسے واقعات کی طرف ہر کوئی توجہ دیتا ہے اور ان کی مذمت کرتا ہے.انتہائی سنگدلی کی آئینہ دار ایسی دہشت گردی کے جولوگ شکار ہوتے ہیں عالمی رائے عامہ ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی ہے اور اسے کرنا بھی چاہیے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ زبانی ہمدردی پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ آئندہ ایسے واقعات کے اعادہ کو روکنے والے تعمیری اقدامات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مؤثر ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں.یہ سب کچھ صحیح اور درست ہے اور ایسا کرنا از بس ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں لوگ جو خودا اپنی ہی سخت گیر اور بے رحم حکومتوں کے ہاتھوں اذیتیں برداشت کر رہے ہیں کسی شمار قطار میں ہیں؟ کیا کسی نے ان کے دکھوں اور اذیتوں کے ازالہ کے لئے کچھ سوچا ہے؟ ان کی دکھ بھری چیخ و پکار شاذ کے طور پر ہی ملک کے باہر سنی جاتی ہے.ان کی احتجاج بھری آوازوں کو سنسر شپ

Page 304

۲۹۷ مذہب کے نام پرخون کے انتہائی سخت اقدامات کے ذریعہ دبا دیا جاتا ہے.اگر ایمنسٹی انٹر نیشنل اور فلاح عامہ کے دیگر بین الاقوامی ادارے ظلم و تشد د تعذیب و تعذیر اور حقوق انسانی کے برملا اتلاف کے ایسے اندوہناک واقعات کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں تو عالمی حکومتوں کی طرف سے ایسے واقعات کی بہت نرم لہجے میں مذمت کی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد اس امر کے باوجود کہ ظلم بدستور جاری رہتا ہے ، بات آئی گئی ہو جاتی ہے.کوئی اس طرف دھیان نہیں دیتا کہ مداوا کی کوئی صورت نکالی جائے.ایسے واقعات کو بالعموم متعلقہ ممالک کے اندرونی معاملات سمجھ کر نظر انداز کرنے کے بعد یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے.ایسے مظالم کو دہشت گردی قرار دینے کی بجائے الٹا انہیں ایسا رنگ دیا جاتا ہے جس سے وہ دہشت گردی کو دبانے والی مساعی شمار ہوسکیں اور اس طرح دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ امن وامان کو برقرار رکھنے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے.یہ روش بجائے خود ظلم کی پشت پناہی کے مترادف ہوتی ہے.میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ حکومتوں کے ایسے جملہ تعزیری اقدامات جو وہ عوامی سطح پر مقبول تحریکوں یا متوقع طور پر زور پکڑنے والی مخالفت کو دبانے اور اس کا گلا گھونٹنے کے لئے کرتی ہیں ہرگز بھی قانونی اقدامات نہیں ہوتے.اکثر صورتوں میں حکومتیں ایسے اقدامات جائز قانونی حدود میں رہ کر نہیں بلکہ انہیں عمداً تو ڑ کر اور ان سے تجاوز کر کے ہی بروئے کارلاتی ہیں.یہ اقدامات جلد ہی ایسے متشدد اور ظالمانہ افعال کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جن کا مقصد خود اپنے ہی لوگوں کے غیر مطمئن اور شا کی لوگوں کے دلوں میں دہشت بٹھانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا اسی لئے حکومتوں کے ایسے اقدامات کو دہشت گردی کے زمرہ میں شامل کرنا از بس ضروری ہے.حقیقت یہ ہے کہ نوع انسانی نے حکومتی سطح پر کی جانے والی اس دہشت گردی کے ہاتھوں عمومی تخریب کاری اور اغوا وغیرہ کے تمام تر واقعات سے کہیں بڑھ کر دکھ اٹھائے اور ظلم سہے ہیں.جہاں تک اسلام کا تعلق ہے وہ ہر قسم اور ہر نوع کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے.وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی ( وہ کسی فرد یا گروہ کی طرف سے کی جائے یا خود حکومتوں کی طرف سے ہو ) کے جواز کا قائل نہیں ہے.دہشت گردی جس نوع کی بھی ہو اس کے نزدیک بہر حال قابل مذمت ہے.

Page 305

۲۹۸ مذہب کے نام پرخون اس میں شک نہیں کہ اسلامی دنیا میں بعض اضطراب زدہ خطے ہیں.وہاں کے بعض حلقے تنظیمیں اور حتی کہ بعض حکومتیں بھی دہشت گردی ، تشدد اور تخریب کاری میں ملوث نظر آتی ہیں.فلسطین ، لبنان، لیبیا اور شام کے بارہ میں اکثر اس نوعیت کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں.دہشت گردی کے تعلق میں جن لوگوں کا ذکر آتا ہے اکثر مذہباً مسلمان ہی ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ سارے کے سارے ہی مسلمان ہوں.مثال کے طور پر فلسطینیوں میں بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا عہد باندھا ہوا ہے لیکن مذہباً وہ ہیں عیسائی.کم علمی یا سہل پسندی کی وجہ سے مغربی ذرائع ابلاغ ان سب کو ہی اسلامی دہشت گرد کے طور پر پیش کرتے ہیں.اسی طرح لبنان میں مسلمان دہشت گرد بھی ہیں اور عیسائی دہشت گرد بھی ہیں، پھر اسرائیلی ایجنٹس اور سپاہی بھی ہیں.یہ سب انسانی حسیات کو خوف زدہ کرنے والی دہشت پسند سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں لیکن لبنان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے تعلق میں آپ یہودی یا مسیحی دہشت گردی کا تذکرہ کبھی نہیں سنیں گے.تشدد کے تمام واقعات کو اکٹھا کر کے اور انہیں ایک لیٹے لپٹائے پیکٹ کی شکل دے کر اور اس پر ”اسلامی دہشت گردی کا لیبل لگا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.جہاں تک سلمان رشدی کا تعلق ہے کوئی صحیح الدماغ شخص جو حقیقی علوم قرآنی سے کسی حد تک بہرہ ور ہو امام خمینی سے اس امر میں اتفاق نہیں کر سکتا کہ اس کے خلاف سزائے موت کا فتویٰ اسلامی احکام پر مبنی ہے.قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں گستاخی کی ایسی کسی سزا کا نام ونشان نہیں ملتا.جہاں تک خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی کا تعلق ہے اس کا ذکر قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں آتا ہے:- وَلَا تَسُبُوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُوا اللَّهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام : ۱۰۹) ترجمہ: اور تم انہیں جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں گالیاں مت دو نہیں تو وہ دشمن ہوکر جہالت کی وجہ سے اللہ کو گالیاں دیں گے.اس سے بھی ظاہر ہے کہ کسی شخص کو یہ اختیار نہیں دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی

Page 306

کسی کو کوئی سزا دے.۲۹۹ مذہب کے نام پرخون پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی حضرت مسیح علیہ اسلام کی والدہ حضرت مریم کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے تھے اس کا ذکر قرآن مجید نے درج ذیل آیت میں کیا ہے :- وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا - ( النساء: ۱۵۷) ترجمہ:.نیز ان کے کفر کے سبب سے نیز ان کے مریم پر ایک بہت بڑا بہتان باندھنے کی وجہ سے“.یہاں بھی سوائے اس سزا کے جو خدا تعالیٰ خود دے گستاخی کی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی.یہ امر افسوسناک ہے کہ امام خمینی نے ایسا فتوی دے کر اسلام کا دفاع کرنے کی بجائے غیر ارادی طور پر اسلام کو بدنام کیا ہے اور اس طرح آزاد دنیا میں اسلام کے مقدس نام کو بقہ لگانے کا موجب ہوئے ہیں.جامعہ از ہر قاہرہ کی جامع مسجد کے امام صاحب پہلے ہی امام خمینی کے فتویٰ کو خلاف شرع قرار دے چکے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے شیعہ مسلمان بھی ایسے ہیں جو اس معاملہ میں امام خمینی سے متفق نہیں ہوں گے.ان تمام باتوں کے باوجود اس بارہ میں اصل مسئلہ کو نظر انداز کرنا انصاف کے منافی ہوگا.میں سمجھتا ہوں یہ سراسر نا مناسب ہے ( اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض سیاستدانوں اور عالموں نے ایسا ہی کیا ہے ) کہ سلمان رشدی کی بجائے صرف امام خمینی کو برا بھلا کہا جائے حالانکہ سلمان رشدی وہ شخص ہے جس نے انتہائی مبتندل اور گری ہوئی زبان میں ایک ایسی کتاب لکھی ہے جو دنیا بھر کے کروڑوں کروڑ مسلمانوں کے لئے دل آزاری اور قلبی اذیت کا موجب ہوئی ہے.پھر اسی پر بس نہیں اس کتاب نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پائی جانے والی پرامن فضا کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے.اور جیسا کہ قومی اخبارات میں شائع ہونے والے خطوط کے تبصروں سے اندازہ ہوتا ہے اس نے نسلی عدم رواداری کا پٹ کھول کر کچھ کم قیامت نہیں ڈھائی ہے.یہ بات پورے طور پر واضح ہو جانی چاہیے اور اس بارہ میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہنا

Page 307

مذہب کے نام پرخون چاہیے کہ میں دہشت گردی کا خواہ وہ کسی قسم اور نوعیت کی ہو ہرگز بھی حامی نہیں ہوں.ایک دہشت گرد خواہ کسی بھی رنگ ونسل اور مذہب سے اس کا تعلق ہو اور اس کا مقصد بظاہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو وہ بہر حال قابل مذمت ہے.اسلام کسی بھی نوع کے فساد کو پسند نہیں کرتا اسی لئے اسلام اور دہشت گردی میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے.کرنل قذافی تیل سے حاصل ہونے والی دولت کے بل پر جس منظم دہشت گردی کے حامی ومویّد ہیں بھلا مذہب سے اس کا کیا تعلق ہے؟ اسی طرح ماضی میں شام جس قسم کی دہشت گردی میں ملوث رہا ہے اس کی مذہبی حیثیت کیا ہے؟ کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اسلام اور سائنٹیفک سوشل ازم میں مابہ الامتیاز کیا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کرنل قذافی کی گرین بک (سبز کتاب) صرف بیرونی جلد کی حد تک ہی سبز رنگ کی ہے؟ جہاں تک کتاب کے مندرجات کا تعلق ہے وہ از اول تا آخر سرخ ہیں.اگر ایران یا لیبیا کے بنیاد پرست مسلمانوں کی دہشت پسند سرگرمیوں کو اسلامی دہشت پسندی“ کے نام سے موسوم کیا جائے تو ان کے اسلام کا رنگ سیاہی مائل سبز قرار پائے گا یعنی ان کا مذہب اسلام اور کمیونزم کا عجیب و غریب آمیزہ ہوگا.سوچنے والی بات یہ ہے کہ اسلام کی کوئی بھی تصوراتی شکل خود اس کی اپنی شکل سے بنیادی طور پر مختلف کیسے ہوسکتی ہے؟ حیرت اس بات پر ہے کہ اسلام بیک وقت سبز بھی ہو اور سرخ بھی ، یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر اور کچھ نہیں تو لیبیا کی دہشت گردی کو بھیں بدلی ہوئی قوم پرستانہ دہشت گردی قرار دیا جاسکتا ہے.اس ضمن میں کیوبا کے فیدل کاسترو FIDEL CASTRO یاد آئے بغیر نہیں رہتے.وہ ظلم و تشدد اور قوم پرستانہ دہشت گردی کی دوڑ میں کرنل قذافی سے بہت آگے بلکہ ان کے پیشرو ہیں.لیکن ایسا کبھی سنے میں نہیں آیا کہ کسی نے ان کی دہشت گردی کو مسیحی دہشت گردی قرار دیا ہو.ا بات میں سے بات نکلتی ہے.دہشت گردی کی بحث کے دوران تاریخ کے بہت سے پہلو افق ذہن پر بھرے بغیر نہیں رہتے.خود عیسائیت ہی کو لے لیں وہ ظلم و تشد داور تعزیر وتعذیب کے آئینہ دار افعال میں ملوث رہی ہے.بعض عیسائی بادشاہ تو اس گمراہ کن خیال کے پیش نظر کہ وہ

Page 308

+1 مذہب کے نام پرخون دین مسیحی کی خدمت کر رہے ہیں ظلم و تشدد اور تعزیر وتعذیب کے وحشیانہ افعال کا بے دریغ ارتکاب کرتے رہے.کیا بلیک ڈیتھ “ کے زمانہ (۴۹-۱۳۴۸ ء ) میں بہت سے یہودی اپنے گھروں میں زندہ نہیں جلا دیئے گئے تھے؟ سپین میں بے دینی کے خاتمہ کی مہم کے دوران بعض عیسائی پادریوں کی انگیخت پر اور انہی کی ہدایت و رہنمائی میں خوف اور دہشت کا ایک طویل دور مسلط رہا جس میں کسی کی بھی جان محفوظ نہ تھی.مختلف اوقات میں بہت سی بے بس اور لا چار عورتوں کو جادو گر نیاں قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور کہا یہ گیا کہ جادو اور جادوگروں سے نمٹنے کا یہی مسیحی طریق ہے.اگرچہ ظلم و تشدد کے ایسے بہت سے واقعات کا عیسائیت سے براہ راست تعلق تھا اور اسی کے ایماء ومنشاء کے مطابق ظلم و تعدی کا سلسلہ جاری رہا لیکن اس امر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انسانیت کے خلاف یہ جرائم ایک ایسے تاریک دور کی پیداوار تھے جس میں جہالت کا دور دورہ تھا.آخر وہ وقت کب آئے گا کہ جب انسان ایک شخص کے کردار و اعمال اور اس کے مذہب کے درمیان فرق کرنا سیکھے گا ؟ اگر کوئی شخص ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کرنے کا مرتکب ہوتا ہے اور مذہب کو اس کے پیروکاروں کے عمل و کردار کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر بہت سے سوالات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے کیونکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کا طرز عمل تو ملک بہ ملک، قریہ یہ قریہ اور زمانہ بہ زمانہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا چلا آیا ہے حتی کہ بسا اوقات ایک شخص کا طرز عمل دوسرے شخص کے طرز عمل سے مختلف ہوتا ہے.کس قدر مختلف تھا مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا عمل چلی کے پنوشے PINO CHEY یا جنوبی افریقہ کے حکمرانوں کے عمل سے.حالانکہ موخر الذکر بھی مسیح علیہ السلام کے حواریوں کی طرح اپنے دعوے کی رو سے مسیحی اقدار ہی کے علمبردار ہیں.اب ان دونوں میں سے مسیحیت کا ترجمان کس کو مانا جائے؟ کیا ہم اس بات کے مجاز ہیں کہ ہم پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کو جن میں لاکھوں آدمی مارے گئے انسانیت کے خلاف مسیحی جنگیں قرار دیں؟ صرف دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی اکیلے روس کو جس جانی نقصان سے دو چار ہونا پڑا وہ اکسٹھ لاکھ نفوس سے متجاوز تھا.اُس جنگ میں بوسنیا کی مجموعی آبادی کا تین چوتھائی حصہ صفحہ ہستی سے نابود ہو گیا، منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کی شکل میں جو

Page 309

مذہب کے نام پرخون مالی نقصان ہوا وہ اس قدر زیادہ تھا کہ اس کا اندازہ لگا ناممکن ہی نہیں ہے.کیا اس درجہ بے حد و حساب نقصان کو مسیحیت کی عملی کارگزاری شمار کیا جائے یا پھر ہم مسیحیت کی قدر و قیمت اور عظمت کو ان ابتدائی مسیحیوں کے عمل و کردار کی روشنی میں پر کھیں جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر مارنے والے کے سامنے اپنا دوسرا گال بھی پھیر دیا کرتے تھے.یہ ابتدائی مسیحی کون تھے؟ وہی جنہیں درندوں کے سامنے زندہ پھینک کرموت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا تھا یا جنہیں ان کے گھروں سمیت زندہ جلا دیا جاتا تھا.ان مصائب کو ان کے لئے جھیلنا آسان تھا لیکن یہ امر بے حد مشکل تھا کہ وہ تشد د کا جواب تشدّ دسے دیں.مجھ سے اگر کوئی پوچھے تو میں مسیحیت کی قدر و قیمت اور عظمت کو پر کھنے کے لئے ابتدائی مسیحیوں کے عمل و کردار کا ہی انتخاب کروں گا.یہ عجیب انصاف ہے کہ اگر کوئی مسلمان جنگ کرے تو مغرب میں اسے اسلامی دہشت گردی کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے لیکن جب کسی اور ملک میں جنگ و جدال کی کیفیت رونما ہو تو اسے سیاسی تنازعہ قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے.آج کے اس ترقی یافتہ زمانہ میں آخر عدل کا یہ دہرا معیار کیوں رائج ہے اور اس کی وجہ جواز کیا ہے؟ ہر شخص حیرت زدہ ہو کر سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا کرسچین سویلیزیشن ( مسیحی تہذیب) کی بظاہر پرسکون سطح کے نیچے اسلام کے خلاف نفرت و حقارت کالا و ا کھول رہا ہے؟ کیا یہ سب کچھ مسلمان طاقتوں کے خلاف صدیوں پرانی مسیحی جنگوں کا ہی ایک نیا روپ ہے یا پھر یہ مستشرقین کی وہی پرانی زہر آلود شراب ہے جسے نئے پیالوں میں ڈال کر پیش کیا جا رہا ہے؟ یہ نظریہ کہ اسلام کو ( نعوذ باللہ ) تلوار کے زور سے پھیلا یا گیا انتہائی غلط اور قابل اعتراض ہے.مسلمان حکومتوں کی جنگوں کو سیاست اور بین الاقوامی روابط کے مسلمہ اصولوں کے مطابق پر کھنا چاہیے نہ کہ مذہبی تعصب کی بنیاد پر.تشدد کا بار بار پھوٹ پڑنا اس امر کی علامت ہے کہ معاشرہ اس مریض کی طرح ہے جو بیک وقت متعدد امراض کا شکار ہو.آج مسلم دنیا حیران و پریشان اور سرگردان ہے کہ کس طرف رخ کرے اور کس سمت میں پناہ تلاش کرے.عوام بہت سے امور کے بارہ میں مطمئن نہ ہونے کے باعث بے چینی اور بے اطمینانی کا شکار ہیں لیکن یہ وہ امور ہیں جن پر ان کا سرے سے کوئی کنٹرول

Page 310

مذہب کے نام پرخون نہیں ہے.وہ اپنے بدعنوان لیڈروں یا بیرونی طاقتوں کے ایجنٹوں اور پٹھوؤں کے ہاتھوں میں مرده بدست زندہ کے مصداق ایک کھلونے کی طرح ہیں.وہ چاہیں تو انہیں اپنے ساتھ لئے پھریں اور چاہیں تو زمین پر بیچ دیں.بدقسمتی یہ ہے کہ بہت سے مسلمان ملکوں کے لیڈر جب ظلم و تشدد پر اترتے ہیں تو اپنے ظالمانہ اقدامات کے حق میں سند جواز اسلام ہی میں سے ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے زمانہ اقتدار میں ہوا.خونریز انقلابات اسلامی فلسفہ حیات کے لئے بالکل اجنبی ہیں.اس مخصوص فلسفہ حیات پر چلنے والے اسلامی ملکوں میں ایسے انقلابات کے لئے پاؤں جمانے کی کوئی جگہ نہیں ہوسکتی.ایک مذہبی آدمی ہونے کی حیثیت میں اور ایک ایسی جماعت کا روحانی سر براہ ہونے کی حیثیت میں جس کے متبعین ایک صدی تک دہشت گردی اور ظلم و تشدد کا نشانہ بنے رہے ہیں میں ہر قسم اور ہر نوع کی دہشت گردی کی انتہائی پر زور مذمت کرتا ہوں کیونکہ اس بات پر میرا پختہ ایمان ہے کہ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ کوئی بھی سچاند ہب خواہ اس کا کوئی بھی نام ہو خدا کے نام پر بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کا خون بہانے کی اجازت نہیں دے سکتا.خدا سرا پا محبت ہے، خدا امن ہی امن ہے.محبت سے کبھی نفرت جنم نہیں لے سکتی.اور امن کبھی جنگ کی طرف دھکیلنے کا موجب نہیں بن سکتا.

Page 311

۱۵ ١٩٠ آیات قرآنیہ اشاریہ مذہب کے نام پرخون مرتبہ: نور اللہ خان مربی سلسلہ احادیث نبو یه سالی یا ایمان اسماء مقامات کتابیات

Page 312

سورة البقرة آیات قرآنیہ مذہب کے نام پرخون سورة المائدة وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ...(۳۱۲) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَليكة...(۳۱) وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ اللهِ...(۱۱۵) 1.وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا...(۱۴۴) ۱۹۶ وَلَا تُقْتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى...(۱۹۲) ۲۸۵ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُم...(۵۵) ۲۱۹،۱۸۷ كلما أوقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ...(۶۵) ۲۸۴ وَاطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا...(۹۳) ۱۹۱ ما عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلغ (١٠٠) سورة الانعام وَ كَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَ هُوَ الْحَقُّ...(۶۷) وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ...(۲۱۸) ۲۱۸ وَمَا جَعَلْنَكَ عَلَيْهِمْ حَفِيفًا...(۱۰۸) لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ...(۲۵۷) ۱۳، ۱۸۹۸۷،۲۲،۱۴ وَلَا تَسبُوا الذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ...(۱۰۹) ۱۹۱ ۱۸۹ ۶۹،۶۸ سورة آل عمران ياهل الكتب لم تَلْبِسُونَ الْحَقِّ...(۷۲) ١٩٦ سورة الاعراف ۲۹۸،۲۵۹،۱۳۳ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الكتب...(۷۳) ۲۲۶،۱۹۷ يُقَومِ لَيْسَ فِي ضَللَةٌ وَلكِنِّي...(۶۳،۶۲) وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا...(۹۲۳۸۶ ) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا...(۱۰۱ تا ۱۰۴) ۲۳۹ ۲۵۷ يُقَومِ لَيْسَ في سَفَاحَة...(۶۸، ۶۹) يقوم لَقَد ابلغتكم يسلتِ رَبِّي...(۸۰) ۶۶ ۶۶ وَمَا مُحَمَّد إِلَّا رَسُولُ...(۱۴۵) سورة النساء ۲۲۰ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثم...(۱۳۸) ۲۲۰،۱۹۷ وَ بِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا (۱۵۷) ۲۹۹ لَنُخْرِجَنَّكَ يُشْعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ...(۸۹) ۶ فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يُقَومِ لَقَد أَبْلَغْتُكُم...(۹۴) ۲۷ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (۱۲۷) ۶۷ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللهِ وَ اصْبِرُوا...(۱۳۹) ۲۳۰،۶۷،۶۵

Page 313

مذہب کے نام پرخون ۲۱۹ ۱۵۱ 16 ۱۴ ۲۸۴ ۲۱ سورة يوسف سورة التوبة وَآذَانٌ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ...(۳) ۲۲۱ إِلَّا الَّذِينَ عُهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ...(۴) ۲۲۱ فَإِذَا السَلحَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ...(۵) ۲۲۱ وَ إِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَاجِرُهُ...(۲) ۲۲۱ وو كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ الله...(۷) ۲۲۲ لا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (۹۳) سورة النحل مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِةٍ...(١٠) ادع إلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ...(١٣٦) سورة الكهف و قُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُم...(۳۰) سورة مريم لين لم تَنْتَهِ لاَرْجُنَّكَ (٤٧) سورة الحج إِنَّ اللهَ يُنفِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا...(۴۱۳۳۹) أذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا...(۴۰) ۲۲۲ ۲۲۲ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۲۳ ۲۲۳ ۲۲۳ كيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ...(۸) اشْتَرَوا بأيتِ اللهِ ثَمَناً قَلِيلًا...(۹) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلَّا وَلَا ذِمَّةً...(١٠) فَإِن تَابُوا وَ أَقَامُوا الصَّلوةَ...(۱۱) وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ...(١٢) الا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا...(١٣) وووو ވ މވވ الله...(۱۴) قَاتِلُوهُم يعد بهم حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ (٢٩) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ...(٦٦) وَعَدَ اللهُ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ...(۶۸) يَحْلِفُونَ بِاللهِ مَا قَالُوا...(۷۴) إِن تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةٌ...(۸۰) سورة يونس وَ لَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَأمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ...(١٠٠) ۳۶ ۱۹۳ ۱۹۴ ۱۹۴ ۹۸ ۲۴۱،۶۸،۱۶،۱۵ سورة الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (۴) ۱۴۳ ، ۱۴۷ لَبِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَنُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ (۱۱۷) سورة الاحزاب اذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُم...(۱۲،۱۱) ۵۱ وَ اذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ...(۱۳، ۱۴) ۵۲ إِنَّ اللهَ وَ مَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي...(۵۷ تا ۲۵۹۵۹ سورة الصافات وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ (۱۰۱) ۲۴۱،۱۶ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذِرِينَ (۱۷۸) ۶۷

Page 314

سورة الزمر قُلِ الله أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي (۱۵) فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُم مِّن دُونِهِ (١٦) سورة المومن ۱۵ اقْتُلُوا ابْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ (۲۶) - فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ...(٨٦) سورة محمد ۱۲۲ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلى قُلُوبِ اقْفَالُهَا (۲۵) ۳۲ إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ...(۲۶، ۲۷) ۲۱۹،۱۹۲،۱۸۷ سورة الحجرات مذہب کے نام پرخون إذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ...۲ تا ۷) ۱۹۳ ،۱۹۲ اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ الله...(٤،٣) ٩١ وَ إِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالُوا يَسْتَغْفِرُ لَكُم...(٢) ٩٣ يَقُولُونَ لَبِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ...(۹) ۹۴، ۲۶۲ سورة الدهر ان هذه تذكرة...(۳۰) سورة المطففين ۱۴ إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا...(۳۰ تا ۳۴) ۶۳ سورة البروج وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج - وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ...(۲ تا ۶) ۱۷۹ وَإِنْ طَابِفَتَنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا...(۱۰، ۱۱) ۲۸۴ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج - وَالْيَوْمِ الْمَوْعُود...(۲ تا ۱۰) ۱۰ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ...(۱۱) ۲۰۹ سورة الذريت مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (۵۷) سورة النجم ۷۰ سورة الاعلى فذكر إِنْ نَفَعَتِ الذِّكرى (١٠) لا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى (۱۴) سورة الغاشية ۶۹ ۱۱۹ ،۱۱۰ ،۱۰۹ تِلكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيزى (۲۳) سورة الممتحنة عَسَى اللهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ...( ۸ تا ۱۰) سورة المنافقون إذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ...(۲) 1+2 ۲۲۵ و فذكر إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكر...(۲۲، ۲۳) سورة العصر وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (۴) سورة الكافرون لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دِينِ (۷) ۶۸ ،۵۹ ۶۴ ۱۸۸ ،۱۴۲ ،۱۵

Page 315

أَكْتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَظَ بِالْإِسْلَامِ احادیث نبویہ صل الا امینم ۱۸۴ سورۃ بقرۃ قرآن کی چوٹی ہے.مذہب کے نام پرخون اللهُمَّ إِن أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةِ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي مدینہ تو ایک بھٹی کی طرح ہے جو ز پر خالص سے میل کچیل الْأَرْضِ أَبَدًا - ۳۹ ۱۹۰ ۱۹۸ اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّ اللهَ لَيُعَذِّبُ المُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ..۱۴۳ ،۱۴۲ ۲۴۸ اور فضلہ کو دور کر دیتی ہے.اگر فاطمہ بنت محمد کبھی چوری کی مرتکب ہوتی تو میں یقیناً اس کا ہاتھ بھی کٹو ادیتا.لا تُعَذِبُوا بِعَذَابِ اللَّه...مَنْ بَدَّلَ دِینَهُ فَاقْتُلُوهُ ۲۳۷ مجھے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک مَا مِنْ مُوْلُودِ إِلَّا يُوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُبَوَّدَانِهِ کہ لوگ لا إلهَ إِلَّا الله نہ پکار اُٹھیں.أَوْ يُنطِرَانِهِ أَوْ يُمَجْسَانِهِ ۸۹ جو شخص اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لاتا ہے اور محمد (سانی پلیم) ٢٠٣ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ اللَّهَ اللَّهَ أَبِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ کی رسالت پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہے.۲۰۹ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِ كُمْ.احادیث بالمعنى ۲۵۷ اکال یا عرینہ کے لوگوں کو ارشاد فرما نا کہ وہ مدینہ کے باہر جا کر آپ کی اونٹنیوں کے رکھوالے کے پاس جا کر قیام کریں..۲۲۷ مسیلمہ کذاب کی جانشینی کے مطالبہ پر فرمانا کہ میں اسے کھجور اسامہ لا الہ الا اللہ کے اعراض پر تمہیں کون بری الذمہ قرار دے گا؟ ۱۷۶ کے درخت کی ایک شاخ بھی دینے کے لئے تیار نہیں.۲۳۰ میرے پاس مردم شماری کے طور پر ان تمام لوگوں کے نام لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کر و اور انہیں مشکل میں لکھ لاؤ جن کا ہر فرد اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو ۱۸۴ نہ ڈالو.۲۳۴ ،۲۳۳ جو شخص بھی ہمارے قبلہ کی طرف رُخ کر کے ہماری طرح حضرت عمر کے عبد اللہ بن ابی کے قتل کروانے کے سوال پر آنحضرت کا جواب.نماز پڑھتا ہے اور ہمار از بیجہ کھاتا ہے وہ مسلمان ہے.۱۸۴ کیا تم نے اس شخص کا جسے تم نے قتل کر دیا دل چیر کر یہ تسلی عبد اللہ بن ابی کے بیٹے کا اپنے باپ کو قتل کرنے کی کر لی تھی کہ واقعی اس کا دل ایمان سے خالی ہے؟ ۱۸۷ اجازت طلب کرنے پر آپ کا اس کو جواب.۲۶۱ ۲۶۳

Page 316

اسماء ابو السعو د آفندی مفتی اعظم مذہب کے نام پرخون ۲۶۵،۲۶۴ ۱۶۸ ۲۰۰ ،۱۶۲ ،۷۷ ،۴۳ ،۴۱،۳۸،۳۲ ابوالکلام آزاد ابو برزہ اسلمی ابوبکر صدیق ،حضرت ۲۰۲،۱۷۶ تا ۲۰۶،۲۰۴، ۲۱۴، ۲۳۰،۲۱۵تا۲۳۳ ۲۰۴ ۱۷۳ ۲۵۰ ۲۴۴ ۱۳۵،۱۳۳ ۳۹ 79 ۲۵۴ ۲۲۷ ۲۳۳ ۱۳۲ ۲۱۳ ،۱۷۵،۱۷۲ ابو جعفر محمد ابن جریر الطبری ابو جہل ابو حنیفہ، امام ابوداؤد، امام ۶۲،۱۳ ،۱۱،۶،۲ ۱۵۹،۵ ۲۶۳ ۲۷۸ تا ۲۸۶،۲۸۳ ۲۹۹،۲۹۸،۲۹۲ آنا آدم علیہ السلام آذر آئزک ISSAC (سپین کا راہب) آیت الله مینی، امام ۲۴۳ ،۱۵۹٬۹۸،۹۶،۶۵،۵ ۲۱۴ ،۲۱۳ ،۱۷۶ ۱۷۵ ۲۵۲ ۱۹۵، ۱۹۷ تا ۲۶۲،۲۶۰،۱۹۹ ۲۴۶،۲۳۷ تا ۲۴۹ ۲۵۲ ابوذر بخاری ،سید ابو عبیدہ بن عبد اللہ ابوعفک (شاعر ) ۲۴۴ ابراہیم علیہ السلام، حضرت ابراہیم علی چشتی ، مسٹر ابراہیم مخفی ابن اسحاق ابن عباس ، حضرت ابن قیم ، حافظ ابن ماجه، امام ابن ہشام ابو قلابه ۱۹۵۰۵۰ تا ۱۹۷ ، ۱۹۹، ۲۰۲،۲۰۱ ابو موسی اشعری ۲۵۵،۲۰۸ تا ۲۶۱،۲۵۷، ۲۶۳ احسان احمد شجاع آبادی، قاضی ابوالاعلی مودودی (امیر جماعت اسلامی) احمد رضا خان بریلوی ،مرزا ۲۹، ۳۲ تا ۴۱، ۴۸،۴۷، ۵۹،۵۴ تا ۶۶، ۶۸ تا ۷۲ احمد علی ، مولانا (صدر جمعیۃ العلما اسلام مغربی پاکستان) ۱۷۵، ۲۱۳ ۷۴ تا ۷۸ ، ۸۰ تا ۹۱٬۸۹ تا ۹۳ ، ۹۵ ۹۶، ۹۹ تا ۱۲۳، اسامہ بن زید بن حارث ۱۸۵ تا ۱۸۷، ۲۳۰،۲۰۲ ۲۴۱،۲۳۱،۲۲۹،۲۱۳ ،۱۸۵،۱۸۴ ،۱۷۹،۱۷۵ ،۱۲۵

Page 317

مذہب کے نام پرخون ۲۶۳ ۱۳۰،۱۲۷ ایولوجیس (EULOGIUS) ب.پ.ت.ث بارتھولومیوڈے سینٹ برنارڈ لیوکس ، مسٹر ۲۱۰،۲۰۹،۲۰۶ ۲۱۱ ۱۸۲ ،۱۳۵ بشار بن برد ( عراقی شاعر ) 1 ۱۲۲،۱۰۶،۵۵ ۱۶۶ ۲۳۲ ۲۶۷ ،۱۶۹،۱۶۶ ۸ تا ۱۰ بشیر الدین محمود احمد ، مرزا بشیر بن سعد انصاری ۴۸ بلال حبشی ، حضرت ۳۹ بنوامیہ بنو اوس ۲۵۵،۴۶۰۴۵ تا ۲۵۷ بنو تمیم ۵۶ بنوتیم ١٩٩ بنو حنیفہ ۲۳۲،۲۳۰ بنو خزرج ۲۶۲،۲۵۶،۲۵۵،۴۶،۴۵ بنوطے ۵۷،۵۶ بنو عبد المطلب ۱۹۹،۵۸،۵۷ بنو قریش ۲۴۲،۲۲۴ ،۲۰۰ ، ۱۹۹،۶۱،۵۵۰۵۴ بنو قریظہ ۲۰۸،۵۲،۵۱،۴۸ بنو قینقاع ۴۸ تا ۲۵۶،۵۰ بنو کلاب ۴۸ ٢٠٣ ۲۱۰ اسد اللہ خان غالب (معروف شاعر ) اسکندر اعظم اسماعیل دہلوی ، مولوی اسود عنسی اشرف علی تھانوی ، مولوی اصحاب کہف الاقرا بن حابس التمیمی اکناس گولڈ زیر (ICNAZ GOLDZIHER) ۱۶۰،۱۵۹،۱۵۷ ۲۴۳ ۲۰۲ ۲۳۳ ۲۰۱ ۲۰۷ ΔΙ ۲۲۷ ۱۴۰،۱۳۳ ،۱۳۱ ۲۱۱،۲۱۰ ۱۸۶ ۲۰۴ الطاف حسین حالی ، سید الیاس علیہ السلام ام حکیم ( عکرمہ کی بیوی ) ام قرفه أم كلثوم بنت محمد صلى شماليه ولم امیر معاویہ، حضرت امین احسن اصلاحی، مولانا انس ، حضرت انور علی مسٹر ، ڈی آئی جی ہی آئی ڈی اور نگ زیب (مغل بادشاہ) اے گوئیلام ( مترجم سیرت رسول اللہ ) ایم.جے.جارج(M.J.GORJE )

Page 318

۴۸ تا ۵۰ جهجاه بن مسعود مذہب کے نام پرخون ۲۶۰ ۲ ۵۷،۵۶ ۱۹۷ ۲۱۱ ۳۲۲،۲۳۱ ۱۹۶ ۱۷۴ ،۱۹۸ ۲۶۸،۱۷۳،۱۶۸ ۲۱۱ ۵۷،۵۶ ۳۹ چنگیز خان حاتم طائی الحارث بن عوف حبیب اللہ خان (شاہ افغانستان) حبیب بن زید ( صحابی رسول اللہ ) حجاج بن عمر و حسرت موہانی ،مولانا حسین احمد مدنی ،مولانا الحسین بن منصور الحلاج حلیمہ سعدیہ حمزہ ، حضرت حمید نظامی (ایڈیٹر اخبار نوائے وقت) ۱۳۷ الحویرث بن تقید بن وہیب بن عبد الله بن قصی ۱۹۹ تا ۲۰۱ ۲۰۳ ۲۳۲،۴۳،۳۰ ۱۴۴ خارجہ بن حصم خالد بن ولید خلیل احمد ، مولوی و بابی خلیل الرحمن ،اسسٹنٹ سپر نٹنڈنٹ پولیس ،مسٹر خمینی ، دیکھئے آیت اللہ مینی خوارج ۲۴۶،۲۳۳ ،۲۰ ۵۶ ۲۰۰ ۲۱۲ ۲۰۹ ٣٠١ ۱۳۳ ۲۵۵ ۲۴۴ ۲۰۱ ۲۳۶ 41 ۱۶۶ ۲۱۰ ۳۲،۲۴،۲۳ ۲۶۹ ۲۱۱ ۲۳۲ بنو ہوازن ( قبیلہ) بنی مخزوم بہا اللہ بہل ، قاضی القضاه پنوشے (PINO CHEY) تاج الدین انصاری متبع ترمذی امام تمیلہ بن عبداللہ ثابت بن ارقم انصاری ثناء اللہ امرتسری ، مولوی ج - چ - ح - خ جادو ناتھ سرکار سر (مصنف) جارج سیل ( مستشرق) جبرائیل علیہ السلام ۲۷۲،۱۶۹،۱۵۷ ۲۵۴ جد ا بن در هم جعفر جواہر لعل نہرو، پنڈت جوئیل کار میخائل (JOEL CARMICHAEL)

Page 319

مذہب کے نام پرخون س ش ص ض ۲۰۲،۱۹۹ ۲۶۴ ۲۱۲ ۳۲،۲۵ ۵۸،۳۲ ۵۴ ۳۹ ۲۰۸،۵۳،۵۲ ۲۰۰ ۲۵۲ ۲۹۹،۲۹۸ ۲۶۶ ۲۶۴ ۳۲،۲۴،۲۳ ۲۶۱،۲۶۰ ۹۹ ۲۰۵،۲۰۴ ۲۵۶ سارہ ( بنی عبدالمطلب کی لونڈی) سائمن (SIMON) سبا تائی زیوی (راہب) سپر نگر سٹالن سٹینلے لین پول، مسٹر (مستشرق) سعد بن ابی وقاص سعد بن معاذ سعید بن حریث المخترومی سفیان ثوری سلمان رشدی سلیمان چلیبی ( ترکی شاعر ) سلیمان ذیشان (بادشاہ) سمتھ (مستشرق) ستان و بر المبینی سودا، مرزا رفیع (شاعر) سی ایچ بیکر سیزر شناس بن قیس شاہ محمد عاصی سر ہندی (مصنف رسالہ شورش عرف بھاڑے کاٹو ) ۱۷۲ ۹۶ ۲۱۳ ،۱۷۵ ۳۲،۲۴ ،۲۳ ۲۳۰ ۲۴۶ ۱۸۷ ١٩٦ ۳۰ ١٩٦ ۲۱۰ د ڈ ذ ر ز ۲۸۲،۲۸۱،۲۷۹۵۲۷۶ ۱۹۵ ۲۵۰ ۲۵۴ ۳۹ ۲۶۱ ۴۸،۳۹ ۲۰۱ داؤدعلیہ السلام، حضرت داؤد غزنوی ،مولانا (صد راہل حدیث) ڈوزی ( مستشرق) ڈی.ڈبلیو.لائٹر ، ڈاکٹر ذبیان (قبیله) ذہبی راغب اصفہانی، امام رافع بن ابی رافع رام دیو، پروفیسر ربیع بن الربيع بن ابی الحقيق رشید احمد گنگوہی،مولوی رشید الدین (تبریزی) رضا شاه پهلوی (شاه ایران) رفاعہ بن قیس ریڈ انڈین رینے کارٹر ( محمد کتاب کا مترجم) زبیر بن العوام زید بن ارقم زید بن حارث زینب بنت محمد صلی الیا می بینم

Page 320

مذہب کے نام پرخون ۲۳۲ ۲۶۱ ۲۰۱ ۲۱۳ ،۱۷۵ عباد عباد بن بشر عباس بن عبد المطلب ۱۷۳ ۲۶۴ ۶۷،۶۵،۶ شبیر احمد عثمانی ، مولوی شسٹر (SHUSTER) شعیب علیہ السلام ، حضرت شورش کاشمیری ، آغا ۱۷۲،۱۶۸،۱۶۷، ۱۷۳، ۲۶۸،۲۶۷ عبد العلیم قاسمی ، مولانا عبد الحمید ہہت اللہ ابن الحديد (مفسر صبح البلاغہ ) ۲۰۵ عبدالحی قریشی ۱۳۷ عبدالحی لکھنوی، مولوی ۲۴۵ عبد الرحمن الثانی ( حکمران چین) ۲۶۴ عبد الرحمن بن عوف ۳۹ عبداللطیف شہید،صاحبزادہ سید ۲۱۱ عبدالله (عبد اللہ بن ابی بن سلول کا بیٹا ) ۲۶۲ عبداللہ بن ابی بن سلول (رئیس المنافقین) ۹۴، ۹۶، ۱۹۴، ۱۹۵، ۲۶۰،۲۰۸تا۲۶۵،۲۶۳ عبد اللہ بن الحارث ۲۴۷ عبد اللہ بن خطل ۲۲۷ ،۲۰۰،۱۹۹ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح ۲۲۹،۲۰۰،۱۹۹ عبداللہ بن ضیف ۱۹۷ عبدالمصطفی ابو کیا محمد معین الدین تھانوی ، مولانا ۱۶۶ ۲۶۷ ۱۸۶ ۲۶۶ ۱۴۳ ،۱۴۲ عبدالملک بن ہشام عبدالوہاب نجدی (امام اہلحدیث) عبدیالیل ،سردار ۲۱۱ ۲۳۲ ۱۳۱ ۲۰۱ ۶۶۶۵ ۳۰۳ ۱۰۷ ،۳۹ ۲۳۲ ۲۴۶ شہاب الدین بیکی السهروردی شہر بن باذان ( میمن کا مسلمان گورنر ) شیر خان، جنرل شیر علی ، حضرت مولوی صالح علیہ السلام، حضرت ضیاء الحق ، جنرل (صدر پاکستان) طـظ حضرت طلیحہ ( مدعی نبوت) طوس بن قیسان ، امام ظفر اللہ خاں ، چوہدری ۲۱۳،۱۷۵،۱۶۰،۱۵۷ ، ۱۴۰ ، ۱۳۹،۱۳۰ ۱۷۴ ،۱۹۸ ۱۳۹ ظفر علی خان، مولانا ع غ عاد ( قوم) عالم شاہ عائشہ رضی اللہ عنہا ۲۴۹،۲۴۸،۲۱۴ ، ۱۷۶،۸۵

Page 321

مذہب کے نام پرخون ۱۸۵ ۸۷،۸۱ ۱۳۹،۱۳۳ غزالی ،امام ۱۲ ۲۳۰ عبس ( قبیلہ کا نام) عثمان بن عفان ، حضرت ۴۱،۳۸، ۱۹۹،۱۶۲، ۲۲۹،۲۰۷ غلام احمد پرویز ( اہل قرآن ) غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت، مرزا ۲۷۲ ۲۷۰،۲۱۱،۱۸۲ ،۱۵۵ ،۱۴۷ ۲۰۱،۲۰۰ ۲۰۰ ۱۸۹ ۱۹۹ ۱۹۶ ۱۳۶ ۱۲۱۷ ۳۲،۲۵ ۳۰۰ ¿ ۳۰۰ ۱۸۰،۱ ۲۵۵ ۲۹ ف - ق - ک - گل ۲۸۰،۱۸۰،۱۵۸،۱ فاطمہ بنت محمد صلی اشیا کی تم فاطمہ (بنی مخزوم کی عورت) ۳۹ ۱۹۷ ۲۶۸،۱۶۸،۱۳۵ ۲۴۷ ۲۳۲ عثمان بن مظعون عدی بن زید عطا اللہ شاہ بخاری (احراری لیڈر) عطا بن ابی ربیعہ عکاشہ بن محصن عکرمہ بن ابو جہل ۱۹۹ ، ۲۰۲، ۲۱۵، ۷ ۲۳، ۲۴۵ تا ۲۴۹ فخر الدین رازی، امام فرتنی ( عبد اللہ بن خطل کی گانے والی باندی) فردم بن عمر و فردوس شاہ ڈی ایس پی ،سید فرعون فنڈر پادری فیدل کاسترو (FIDEL CASTRO) قابیل قارون قائد اعظم دیکھئے محمدعلی جناح قذافی ، کرنل قیصر روم قبیلہ کرشن جی علیه السلام کسری (ایران کا بادشاہ) ،۲۰۶،۲۰۱،۱۷۶ ، ۱۶۲ ،۸۵،۴۱،۳۸ علی ، حضرت ۲۶۸،۲۴۹،۲۴۶،۲۳۷ ،۲۳۳ ،۲۱۴ ،۲۱۰،۲۰۷ ۲۴۹،۲۴۷ ۲۵۵ ۲۴۶ ۲۱۲ ،۹۸،۹۷ ، ۴۱ ،۴۰،۳۸،۳۲ علی بن عبد اللہ ابن عباس علی بن برہان الدین المحلبی علی بن المدا ئینی علی محمد باب، مرزا عمر، حضرت ۲۶۱،۲۶۰،۲۴۹،۲۴۸،۲۰۳ ، ۱۹۴ ،۱۶۲ ۴۳ ،۶۸،۶۵،۲۵،۱۸،۷ ۳۰۱،۲۹۹،۲۴۳ ،۹۸،۹۰ ،۷۵ ۵۶ ۱۸۵ عمر و بن العاص،حضرت عیسی علیہ السلام، حضرت عیینہ بن حصین غالب دیکھئے اسد اللہ خاں غالب غالب بن عبد اللہ الکلی

Page 322

مذہب کے نام پرخون والد 7 والد الدهب الله 6 الله الله لله والله الهم ۱۵۱ تا ۱۵۶ ، ۱۵۹ ، ۱۶۱ ، ۱۶۲ ، ۱۶۹، ۱۷۹،۱۷۸، ۱۸۲، ۱۸۴ تا ۱۹۱، ۱۹۴ تا ۲۰۶، ۲۰۸، ۲۰۹، ۲۱۲، ۲۱۴، ۲۱۷ ۲۲۰ ۲۲۷ تا ۲۳۷، ۲۴۱، ۲۴۲، ۲۴۴ ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۵۳ ۲۵۴، ۲۵۶ تا ۲۷۱، ۲۹۳ ۲۰۵ له الله 971 ۲۰۹،۲۰۴ ،۲۰۳ ۲۱۳ ،۱۷۶،۱۷۵ ۲۴۵،۲۴۴ ۲۷۲،۱۶۸،۱۶۰،۱۵۹ ۱۷۲ الد لد ۱۷۲ ۱۸۹ ۲۱۱ ۲۱۳ ،۱۷۶،۱۷۵ ۲۰۳ ۱۸۹ ۱۶۸ الله له الله ا محمد ابو الفضل ابراہیم محمد احمد قادری (صدر جمیعت علمائے اسلام ) ۲۶۸،۱۷۳ ،۱۷۱ ، ۱۶۸،۱۳۰،۱۲۹ محمد اور میں شافعی ، امام محمد ادریس ، مفتی محمد بن اسماعیل بخاری ، امام محمد اقبال، علامہ سر محمد ایوب تنها کپورتھلوی ،سید محمد حسین محمد حسین حافظ لائلپوری محمد رشید رضا محمد سعید سرمد شہید محمد شفیع دیوبندی ، مولانا مفتی محمد ظاہری النجار محمد عبده محمد علی ، مولانا الله ۲۵۵،۱۹۶،۴۲ ۲۶۸،۱۶۸ ١٩٦ ۲۰۵ ۱۵۷ ،۳۱،۲۷،۲۳ ۲۱۴ ،۱۷۷ ۱۳۲ ۲۸ ۱۰۲ ۲۳۳،۲۳۲ ۲۴۳،۶۷،۶۵،۵ الله ا الله.۶۰ ۱۲۱،۱۱۲،۱۰۰،۵۸،۳۲ 71671 ۱۲۱،۱۱۲،۵۸،۳۲ ۲۵۵ ۲۴۷ ،۱۸،۱۶،۱۵،۱۳ ،۱۱،۳ ،۲ کعب بن اشرف کلائیو، لارڈ کنانہ بن الربيع بن ابی الحقيق کیتانی (CAETNI ) مستشرق گاندھی ، مسٹر گوپال داس گیانیندر دیوشر ما شاستری، پنڈت لارنس، لارڈ لقیط بن مالک از دی لوط علیہ السلام ، حضرت لیاقت علی خان قائد ملت لیلی لینن مادام توسو مارکس، کارل مالک بن الضيف مالک بن انس، امام محمد صل للہ السلام حضرت ۲۱ تا ۳۵، ۳۷، ۳۹ تا ۴۱ ۴۳ تا ۵۰ ۵۳ تا ۶۱ محمد علی جالندھری ، مولوی ۶۵، ۶۸، ۶۹، ۷۴ تا ۸۱ ، ۹۰،۸۵ تا ۱۰۷، ۱۱۶، ۱۲۳، محمد علی جناح، قائد اعظم

Page 323

مذہب کے نام پرخون محمد قاسم نانوتوی، مولانا (بانی دیوبند) ۲۶۷،۱۶۹،۱۶۶ محمد محمود طه ۲۱۲ محمد منیر، جناب جسٹس ، چیف جسٹس ۲۵۳،۱۸۵ محمد یوسف، مولوی ۱۳۶ النووی، امام نیرو واشنگنٹن ارونگ ( مستشرق) ولبھائی پٹیل ۲۰۸ ۲ ۲۷ ۱۵۷ محمود احمد ناصر، میر ۵۳ ول ڈیورینٹ (WILL DURENT) امریکی مورخ ۳۶۳، ۲۶۴ مریم علیہا السلام ۲۹۹ ولفریڈ کینٹویل سمتھ ۲۷۰،۲۶۹،۲۶۸ مسیلمہ کذاب ۲۳۰ تا ۲۳۲ ولیم باوٹ ، مسٹر ۱۲۷ مصدق، ڈاکٹر (ایرانی لیڈر) ۲۸۲ ویل ہاؤسن (WELL HAUSEN) مستشرق ۲۰۵ معاذ بن جبل ۲۳۲ تا ۲۳۴ ہابیل مقیس بن صبابه ۲۲۸،۲۰۱ ،۱۹۹ ہتار بن الاسود بن المطلب بن اسد ۲۰۱،۲۰۰ الملک النظاہر مودودی دیکھئے ابوالاعلیٰ مودودی ۲۱۱ ہشام (مقیس بن صابہ کا بھائی ) ۲۲۸،۲۰۱ ہشام بن عبد الملک ۲۱۱ ۲ ۳۲،۲۶،۲۵ ۴۸ ۶۶ ۲۴۶ ۲۴۷ ۲۱۰ ۲۰۳ ہلاکو خان ہنری کو پی ،مسٹر ہنید ( ڈاکو) ہود علیہ السلام ، حضرت سیحیی بن بکر حیی بن سعید الانصاری یونس (MARONITE کے امیر ) یونیناہ بن حصم الفزاری ۲۴۳ ،۹۶،۶۸،۶۷ ،۶۵،۷ ۳۱ موسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیو اوجین کلوکل میکسم روڈنسن ۲۵۴ (MAXIME RODINSON) ۲۱۱ ۱۷۲ ۲۴۴ ۲۴۳،۶۶،۶۵،۵،۴ ن.وہ نعمت اللہ خان ، مولوی نمرود النسائی ، امام نوح علیہ السلام، حضرت

Page 324

۱۵ مقامات مذہب کے نام پرخون ۲۷۲ ۲۷۲ ۲۵۵،۱۹۶،۱۹۰، ۵۰ ، ۴ ۷ ، ۴۵ ،۴۲،۳۹ ۲۶۸،۲۶۶،۱۵۳ ۲۸۱ ۲۶۶،۲۴۶ ۲۱۱ ۲۱۶،۲ ۲۷۲ ۱۳۸ ۲۶ ٣٠١ ۱۸۹ ایودھیا بابری مسجد ( ایودھیا ) بدر برصغیر پاک و ہند برطانیہ بصره بطیہ بغداد بنارس بنگال ( مشرقی) بوسٹن بوسنیا بھارت ( دیکھئے ہندوستان) بیروت پاکستان ۱۱۱، ۱۱۳ تا ۱۱۵، ۱۲۵ تا ۱۳۱، ۱۳۸،۱۳۵ ،۱۷۳ ،۱۷۰ ،۱۶۰ ، ۱۵۷ ۱۵۳ ،۱۴۶ ۳۰۳،۲۹۰ ،۲۶۸ ،۲۱۳ ،۱۸۵ ،۱۷۵ ۱۲۶، ۲۱۲،۱۸۵،۱۳۴ تا ۲۱۴ ۲۸۱ ۲۱۲،۲۱۰ ۲۶۶،۲۱۲ آ.ا.ب.پ.ت ۲۵۰،۱۵۶،۱۵۳ ،۱۱۵ ۱۰۷ ،۴۷ ،۱۲ ۲۹۸،۲۸۸،۲۸۶،۲۸۱،۲۱۲ ۱۷۸،۱۶۱،۱۵۶،۱۵۳ ،۱۱۵ ۲۱۱ ۲۲۷ ۲۴۶ ۲۵۶ ۲۶ ۲۷۱،۲۷۰،۲۰۱ ،۲۷۷ ،۱۷۸،۱۵۶،۱۵۳،۱۱۵ ۲۹۵،۲۸۶،۲۸۱،۲۷۸ ۷۴ ،۱۷ آسٹریلیا أحد اسرائیل افریقہ افغانستان اکال الجزائر الحرة الہ آباد امرتسر امریکہ اندلس ( دیکھئے سپین) انڈیا ( دیکھئے ہندوستان) انگلستان اورنگ آباد ( ہندوستان ) ۲۱۰ پنجاب اوکاڑہ ۱۴۶ پولینڈ ایران ۲۷۶،۳۲ تا ۲۸۵،۲۸۳ تا ۳۰۰،۲۹۲ تبریز الشيا ۱۵۶،۱۵۳ ترکی

Page 325

مذہب کے نام پرخون ۱۵۰،۱۴۵،۱۳۱،۱۳۰ ۳۰۱،۱۶۱،۱۵۳ ،۱۱۵،۷۶ ۲۸۰،۳۳،۳۲ ،۱۲ ۱۱۵ س.ش.ط.ع.غ ۳۰۰،۲۶۴ ،۲۶۳ ،۱۷۹،۱۷ ۱۶۴ ،۱۳۸ ۲۹۵،۲۹۳ ،۲۸۶،۲۸۵،۱۱۳ ۱۵۰ ۲۱۲ ۱۴۰ ۲۹۸،۲۹۵،۱۹۵ راولپنڈی روس روم سائبیریا سپین سرحد، صوبہ سرگودھا سعودی عرب سمندری سوڈان سیالکوٹ شام طائف ۲۰، ۱۴۱ تا ۱۴۳ عراق ۲۹۱۲۸۵،۲۸۳ ۲۸۶ ۱۱ تا ۲۲،۲۰،۱۹،۱۳، ۴۳،۴۲،۳۹،۳۰،۲۳ ۱۵۳،۱۱۵ ۲۶۷ ۱۳۱ جاپان ج - چ - ح - خد-فرز جنت البقيع (مدين ) جنگ شاہی (پاکستان) ۳۰۱،۲۸۱ ۲۵۰ ۱۵۳،۱۱۵ جنوبی افریقہ جنوبی امریکہ (براعظم) چکی چین حدیقہ ۴۵،۴۳ تا ۵۳،۴۸ ۲۴۶ ۵۶،۴۳،۴۰ ۲۱۲ ۱۹۹ ۲۱۴ ،۲۱۳ ۳۳ ۲۱۱ ،۱۹۸،۱۵۱،۱۴۳ ،۱۴۱،۱۴۰،۱۱۶،۶۰ ، ۵۴ ،۴۹،۴۴ ۱۳۶ ۲۰۲ تا ۲۸۶،۲۸۰،۲۶۲،۲۵۵،۲۳۰،۲۲۶،۲۰۵ ۲۲۷۲۲۶ ۲۱۲ ۲۳۲ ۱۱۳ عله ( فلسطین) عمان غانا ۲۱۳ ،۱۷۶،۱۶۶ ۲۰۳ ۲۲۸ ۲۷۲ حجاز حسین حیفا خانہ کعبہ خیبر دار العلوم (دیوبند) دہلی دہلی (جامع مسجد ) دہلی دروازه (لاہور) دیوبند ذوالقصه ذی قرد رام جنم بھومی مندر ( ایودھیا )

Page 326

لم مذہب کے نام پرخون ۲۶۹،۲۰۹،۱۷۵،۱۷۳ ،۳۰،۲۹ ۲۶۷ ،۱۴۶،۱۴۵،۱۱۱ ۲۰۴ ۲۹۸،۲۱۰،۱۱۳ ۲۴۵ ۲۰۶،۱۸۶،۵۳ ،۱۷ ۱۴۵ ۳۰۰،۲۹۸،۲۹۵ لاہور لائلپور (فیصل آباد) لائیڈن (ہالینڈ) لبنان لکھنو لندن لیاقت باغ (راولپنڈی) ليبيا مدینہ منورہ ۳۰،۲۸، ۴۵،۳۳ ۴۶ ۴۹ تا ۵۲، ۵۷،۵۶، ۹۴ تا ۹۶، ۱۹۱،۱۸۹،۱۸۴، ۱۹۵، ۱۹۶، ۱۹۸ ، ۱۹۹، ۲۰۱ تا ۲۰۸،۲۰۶، ۲۲۴، ۲۹۳ ،۲۶۱،۲۴۶،۲۳۲ ،۲۳۰،۲۲۷ ،۲۲۶ ۲۴۶ ۱۴۵ ۲۶۰ ۲۸۷،۲۸۶،۲۸۲ ۲۴۶،۱۱۳،۲۹ ۱۷۳ ۱۳۲ مراکش مری روڈ مریسیع (چشمه) مشرق وسطی مصری شاہ (لاہور) مظفر گڑھ مکہ معظمه ۱۱ تا ۴۰،۳۲،۲۶،۲۰،۱۳ تا ۴۳، ۴۹،۴۸،۴۶،۴۵، ۵۳ تا ۱۴۱۰۵۶، ۱۴۷ ۱۷ ۵۳ ۱۴۳ ۱۲۷ ،۱۷ ۲۹۸،۲۹۲ ،۲۱۲ ۱۳۳ فق یک گ ۲۰۳ ،۲۰۱،۱۹۸،۱۸۹ ،۱۸۵ ۲۹۹،۲۱۰ ۲۶۳ ۲۰۷ ۱۳۹ ۲۱۱ ۲۷۲ ۱۶۳ ۲۱۰ ۲۴۶،۲۱۱ ۲۶۸ ۳۰۰ ۱۳۶ ۱۳۰ ۲۸ ،۲۲۴ ،۲۲۱،۲۰۲ ،۲۰۱ ، ۱۹۹ ، ۱۹۸ ،۱۹۵ ،۱۹۱ ۲۹۳،۲۸۵،۲۵۶،۲۵۴ ،۲۴۶،۲۴۲ ،۲۲۷ ۲۲۶ ۳۰ فاران فارس فرانس فلسطین قادیان قاہرہ قاہرہ (جامعہ ازہر ) قرطبه قسطنطين قصور کاشان کاشی کشمیر کلکتہ کوفه کینیڈا کیوما گوجرانوالہ گورداسپور گورکھ پور گور و کل کانگڑی (انڈین یونیورسٹی)

Page 327

مذہب کے نام پرخون ۲۱۱ ،۱۳۱،۱۳۰،۱۱۵ ،۱۱۳ ،۱۱۱،۳۲ ۲۷۲،۲۶۹،۲۶۸ ،۲۱۰ ، ۱۶۹ ، ۱۵ ۷ ، ۱۵۳ ۵۲ ۱۹۵ ۲۴۶،۲۳۳ ،۲۳۲ ۱۷۸،۱۶۱ ،۱۵۶ ،۱۱۵ ، ۷۸ ،۲۳ واسط ہندوستان یثرب یروشلم یمن یورپ IA ۱۳۵ ۱۳۱ ۲۱۱ ۲۸۱ ۱۴۴ ۱۱۵ ۲۶۴ ،۲۵۴ ،۲۰۴ ملتان نتگمری (ساہیوال) نکاراگوائے نند پور ( موضع ) نیوزی لینڈ ن.و.ہی نیو یارک

Page 328

۱۹ مذہب کے نام پرخون کتب احادیث کتابیات شرح نہج البلاغه از ابی الحدید ) صحیح بخاری ۸۹، ۱۸۴، ۱۸۵، ۱۹۸، ۲۰۹، ۷ ۲۳، ۲۴۸ البدایہ شرح الہدایہ (فقہ کی کتاب) صحیح مسلم صحیح مسلم مع شرح النووی جامع ترمذی سنن ابن ماجه سنن ابو داؤد سنن النسائی مسند احمد بن حنبل ۲۰۹،۲۰۸ ۲۰۹ ۲۳۷ ،۱۹۰ ۲۳۷ ۲۳۷ ۲۳۷ انسان العيون ( مصنفہ علی بن برہان الدین المعلمی ) مقالات اشعری (جلد اوّل) ۲۰۵ ۲۵۲،۲۲۸ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئینہ کمالات اسلام ازالہ اوہام توضیح مرام ۲۵۵ ۲۰۸ ۲۷۱،۲۷۰ ۲۷۱،۲۷۰،۱۵۵ ۲۷۱،۱۵۵ کتب تاریخ وسیرت کتب اسلامیات تفسیر وفقه سیرت رسول الله (از عبد الملک بن ہشام) ۱۸۹ ۱۸۶ ،۵۰ ۱۹۵ تا ۱۹۹،۱۹۷ تا ۲۵۵،۲۰۸،۲۰۲ تا ۲۶۱،۲۵۷، ۲۶۳ تفسیر القرآن ( از محمد عبده) تفسیر کبیر ( از امام فخر الدین رازی) تفسیر بحر المحيط ( جلد دوم) تفسیر المنار (از محمد رشید رضا) المفردات فی غریب القرآن ( از امام راغب اصفهانی) فتح القدیر ( جلد چهارم) چیلپی شرح فتح القدیر الزرقانی شرح مواہب اللہ نیہ ۱۸۹ ۲۲۶ ۱۸۹ 1^2 ۲۵۲ ۲۵۲ ۲۰۱ سیرت محمد ( از داشتنکمان ارونگ) ۲۷ دنیا کا ہادی اعظم غیروں کی نظریں (مرتبہ سردار جوند سنگھ ) ۲۸ برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول (از مهاشه فضل حسین) ۲۹ تا ۳۱ تاریخ محمدی ( از ڈاکٹر اے سپر نگر) ۲۶ تاریخ الرسول و الملک ( از ابوجعفر محمد ابن جریر الطبری) ۲۰۴ کتاب الام ( از امام محمد اور لیس الشافعی ) ۲۰۴ ،۲۰۳ اہل عرب کی سین کی تاریخ ( مصنف ہنری کو پی ) ۲۶

Page 329

فيصل التفرقة بين الاسلام والزندقة (الغزالى) رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ۱۸۵ ۱۲۷ تا ۱۳۵،۱۳۳ تا ۱۴۱، ۱۴۴ تا ۱۴۶ ۲۶۹،۲۶۶،۲۵۳ ،۱۸۵،۱۷۷ THE LIFE OF MUHAMMAD ISLAM IN HISTORY(از برنارڈلیوئس) ۱۸۶ ۲۱۰ اسلام اور علمائے فرنگ مذہب کے نام پرخون متفرق کتب انتخاب قرآن ( از شیلے لین پول) بائیبل تحقیق الجہاد ( از مولوی چراغ علی ) THE ARABS IN HISTORY (از برنارڈ لیوئس) ۲۰۶ الجہاد فی الاسلام ( از مولانا مودودی ) ۳۱ ۵۵ ۵۰،۲،۱ ۲۶ ۴۱،۳۸،۳۷،۳۵،۳۴ ،۲۳ ،۶۴ ،۶۲،۳۲،۲۶ حقیقت جہاد ( از مولانا مودودی) ۷۰۰۶ تا ۷۲ ، ۱۰۰ ، ۱۱۸،۱۰۱ ۱۱۹، ۱۲۱ دیو بندی مولویوں کا ایمان از عبد المصطفیٰ تھانوی) ۲۶۷،۱۶۶ ۲۶۸ ۸۵ ۱۷۲ ۱۷۲ رضا خوانی فتنہ پردازوں کا سیاہ جھوٹ روئیداد جماعت اسلامی (حصہ اول) شورش کا آپریشن ( از حافظ محمد حسین ) شورش عرف بھاڑے کاٹو ( از شاہ محمد عاصی سر ہندی ) ۱۷۴ ،۱۷۳ ،۱۶۸ ۲۰۱ ۲۶۷ ،۱۷۲،۱۹۷ ۳۰۰ ۱۰۳ ،۸۸ ۱۰۹،۱۰۵،۱۰۴ ،۹۲ ۱۵۹،۱۲۰،۱۱۱ ۲۶۹ ۲۱۰ ISLAM IN MODREN INDIA (از کینٹ ول سمتھ ) THE JEWS OF ISLAM (از برنارڈلیوئس) HISTORY OF THE PRIEST CRAFT IN ۱۲۷ ،۱۱۷ ALL AGES (از ولیم ہاوٹ) THE EXPANSION OF THE SARACENS, THE CAMBRIDGE MEDIEVAL HISTORY ۲۰۵،۲۰۴ ۲۵۴ (ازسی.ایچ بیکر) MOHAMMAD (از میکسم روڈنسن) MOHAMMAD AND ISLAM (از اکناس گولڈ زیر ۲۱۰ شورش کی شورش (بریلوی رساله ) THE SHAPING OF THE ARABS, A STUDY IN ETHNIC IDENTITY (از جوئیل کار میخائیل) ۲۵۴ SHORT HISTORY OF ORANGZAIB (از سر جادو ناتھ ) ۲۱۰ قتل مرتد اور اسلام (از حضرت مولانا شیر علی) کافر ساز ملاں ( از شورش کا شمیری) گرین بک ( سبز کتاب.از کرنل قذافی ) مرتد کی سزا اسلامی قانون میں مرتد کی سزا ( از مولانا مودودی) مسدس حالی ( از مولانا الطاف حسین حالی) THE STORY OF CIVILIZATION ۲۶۴ (ازول ڈیورنٹ)

Page 330

مسلمان اور موجودہ سیاسی مزاج شناس رسول ۲۱ ی کشمکش ( از مولانا مودودی) ۸۲، ۸۳ چٹان ( ہفت روزہ رسالہ ) میزان الحق ( از پادری فنڈر ) اخبارات ورسائل آریہ مسافر (اخبار.ایڈیٹروز یر چند) ایشیا تک کوارٹرلی ریویو اکتوبر ۱۸۸۶ء پرکاش (اخبار) تسنیم ( جماعت اسلامی کا تر جهان رساله ) ۸۲ ۲۵ ۳۰،۲۹ ۳۱ I ۳۰ ۱۶۵،۸۲ ست اپریشن (اخبار) مزدور (اردو اخبار ملتان) نواں ہندوستان (دہلی) نوائے وقت (اخبار) و یدک میگزین ینگ انڈیا (اخبار) مذہب کے نام پرخون 171.172 ۲۹ ۱۳۵ ۳۳ ۱۳۷ ۳۱

Page 330