Mazameen-eNasir

Mazameen-eNasir

مضامین ناصر

Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے قبل از خلافت مضامین اور تقاریر کو نظارت اشاعت صدرانجمن احمدیہ پاکستان نے مجموعہ کی صورت میں شائع کیا ہے۔ اس خوشنما اور خوش رنگ گلدستہ کا مطالعہ قارئین کو حضور رحمہ اللہ کے عشق قرآن، بے پناہ خدمت دین کے جو ش و ولولہ، اسلام اور نظام خلافت کے حقیقی عرفان، علمی بصیرت اورگہرے  دینی فہم سے آگاہی فراہم کرتا ہے۔ دو سو صفحات سے زیادہ ضخیم اس ٹائپ شدہ مجموعہ کے آغاز میں فہرست مضامین موجود ہے۔


Book Content

Page 1

مضامین ناصر سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد لمه الله تعالى خليفة المسيح الثالث رحمه

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ پیش لفظ حضرت حافظ مرزا ناصراحمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نومبر ۱۹۶۵ء میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے.آپ کا دور خلافت تاریخ احمدیت کا ایک درخشندہ ، تابناک اور مبارک دور ہے.اس میں عظیم الشان فتوحات ہوئیں.خدا تعالیٰ نے احمدیت کو ہمہ جہت غیر معمولی ترقیات اور رفعتیں عطا فرمائیں.جماعت کی اس ترقی کا گراف حیرت انگیز طور پر بڑھا اور بڑھتا رہا.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے آپ کو قبل از خلافت بھی عظیم اور مقبول خدمات کی توفیق عطا فرمائی اور آپ بسطة في العلم و الجسم کے مصداق تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے کثیر و عمیق مطالعہ کے نتیجہ میں آپ کو علمی بصیرت اور دقائق و معارف پر قابل تعریف دسترس حاصل تھی اور ان روحانی خزائن سے آپ کو حصہ وافر نصیب تھا.طالمود میں مذکور پیشگوئی کہ " مسیح کی وفات ہوگی پھر آپ کی بادشاہت آپ کے بیٹے اور پھر پوتے کو منتقل ہو گی بھی مشار الیہ ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام انا نبشرك بغلام نافلة لك میں بھی یہ خوشخبری دی گئی کہ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ” مجھے اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا.“

Page 3

66 آپ کو قرآن کریم سے عشق تھا.آپ فرماتے ہیں کہ ”میں نے اپنی عمر میں سینکڑوں مرتبہ قرآن کریم کا نہایت تدبر سے مطالعہ کیا ہے.آپ کی قبل از خلافت تقاریر ومضامین میں قرآنی تعلیمات اور اس کے انوار اور معارف اور علم و عرفان کے خزانے ہیں.ان کو یکجا کر کے شائع کیا جا رہا ہے.یہ خوشنما، خوشبو دار اور رنگا رنگ گلدستہ ہدیہ قارئین ہے.

Page 4

صفحہ نمبر ۴۶ ۴۸ ۸۴ ۸۶ ۸۸ i فهرست عناوین مضامین ناصر ہمارا ایک اہم فرض عناوین جماعت احمدیہ کے خلاف ہندوؤں کی چال منافقین کا نیا فتنہ اور اس کے متعلق قرآن شریف کی شہادت حقیقت جہاد عیسائیت اور اسلام میں ایک نمایاں امتیاز بدر کا زمانہ اور مصلح موعود کا زمانہ.چند مشابہتیں اشتراکیت کے اقتصادی اصول کا اسلامی اقتصادی اصول سے موازنہ اگر کوئی حیات چاہتا ہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے.( مسیح موعود علیہ السلام) اطاعت جلسہ سالانہ کے لئے رضا کاروں کی ضرورت سیلاب کی تباہ کاریاں اور مجالس خدام الاحمدیہ کا اولین فرض نمبر شمار 11

Page 5

عناوین جماعت احمدیہ کی اشاعت علوم کے لئے شاندار جد و جہد نئی پود کے فطری قومی کو اس طور پر ترقی دینا نہایت ضروری ہے کہ وہ بڑے ہو کر قوم و ملک کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں قرآن مجید کی آخری تین سورتوں کی نہایت لطیف اور جامع دعائیہ تفسیر صفحہ نمبر ۹۳ 1+4 1.9 ۱۱۴ ۱۲۱ ۱۳۲ ۱۳۵ ۱۳۸ ۱۴۱ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۴۸ ۱۵۲ ۱۵۹ ۱۶۳ ۱۷۳ زبان انسانی کردار کے دو بد نما داغ گھر کی حرمت کھانا پینا نمبر شمار بعثت مامورین کی غرض اور انصار اللہ اواخر ۱۸۹۹ء کے بعد تین سال کے اندر ظاہر ہونے والے نشانات ماہنامہ انصاراللہ دوسرے سال میں معارف و حقائق کی دولت ہماری اہم ذمہ داری اور اس کی ادائیگی کا طریق ۱۲ حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد اور انصار اللہ کی اہم ذمہ داری ایک ماہ تک روزانہ نماز تہجد ادا کرنے اور تین سو مرتبہ درود شریف پڑھنے کی مبارک تحریک صدمہ اور مصیبہ رمصیبت کے اوقات میں صحیح طرز عمل قرآن مجید کی پر حکمت تعلیم اور اس کی وضاحت ۱۳ سالانہ اجتماع اور زعماء صاحبان کا فرض と ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ IA < ۱۹ ۲۰ ۲۱ Σ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷

Page 6

!!! نمبر شمار ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ } } } } ۳۵ ۳۶ ۳۷ عناوین خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری نصائح جلسہ سالانہ کے انتظامات سے تعارف يَا رَبِّ فَاسْمَعُ دُعَائِي تفسیر آیات سورۃ العنکبوت رکوع ۷ تفسیر آیات.سورۃ اخلاص خلافت ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی بے انداز ا ہمیت انبیاء کرام اور ان کے متبعین کا عمل وکردار احمدی بچوں کا مقام اور ان کے فرائض انبیاء کے خلفاء کا انتخاب عمر بھر کے لئے ہوتا ہے صفحہ نمبر ۱۷۴ ۱۸۲ ۱۹۵ ۱۹۸ ۲۰۱ ۲۰۵ ۲۱۰ ۲۱۴ ۲۲۶ ۲۳۱ ☆☆

Page 7

ہمارا ایک اہم فرض عزیز مکرم صاحبزادہ مرزا نا صراحمد سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالى خلف الرشید حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ پہلا مضمون ہے.جوایڈ میٹر افضل کی تحریک پر انہوں نے لکھا.احباب کرام گلشن احمد کے اس تازہ پھول کی خوشبو سے اپنے دماغ معطر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ وہ اپنے فضل وکرم سے صاحبزادہ صاحب موصوف کو لمبی عمر عطاءفرمائے اور جماعت کے لئے آپ کے وجود کو نعمت غیر مترقبہ ثابت کرے.(ایڈیٹر ) جبکہ دنیا کفر وضلالت کے سمندر میں گھری ہوئی تھی.گمراہی کا طوفان ہر سو پھیل رہا تھا.بے دینی کا بادل مشرق و مغرب میں چھایا ہوا تھا اور ہر جہت میں لامذہبی کی ہوائیں چل رہی تھیں ہاں جبکہ نہ صرف یہ کہ مسلمان مغز اسلام کو بھلا چکے تھے بلکہ دیگر مذاہب بھی شمشیر بر ہنہ لئے اسلام کو ہلاک کرنا چاہتے تھے.اور ان کی ہر سعی اس بات میں تھی کہ کسی نہ کسی طرح بستان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر ایک درخت کو جڑ سے اکھیڑ کر اس خوبصورت بستان کو اُجاڑ دیں اور کسی نہ کسی طرح آب حیات کے اس چشمہ کو جسے خدا تعالیٰ کے پاک مقدس رسول نے جاری کیا تھا خشک کر کے اسلام کے نام تک کو دنیا سے مفقودکر دیں ہاں ! اس وقت جبکہ تو حید کا نام تک دنیا سے مٹ چکا تھا اور اس کی جگہ شرک نے لے لی تھی.بادخزاں نے چمن اسلام پر ایک دہشت ناک اثر کیا تھا اور دنیا کی نظروں میں قریب تھا کہ مخل اسلام ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے معدوم ہو جائے.جبکہ شیطان نے اپنی پوری طاقت کو جمع کر کے اور

Page 8

پورے اسباب کو مہیا کرتے ہوئے اسلام سے آخری جنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اس وقت خدائے رحیم و کریم کے رحم نے جوش مارا اور اس نے اپنے بندوں پر نظر لطف فرماتے ہوئے ایک عظیم الشان رسول کو مبعوث فرمایا جوآ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر اتم اور جمیع انبیاء گذشتہ کے جملہ کمالات اور خوبیوں کو اپنے اندر جمع رکھتا تھا.وہ نبی دنیا میں آیا اور ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کرنے کے لئے آیا.وہ دلوں میں نور بھرنے اور توحید کو قائم کرنے کے لئے اپنے ساتھ سچائی کا ایک سورج لا یا اور اپنے گردو پیش کے لوگوں پر اپنا روحانی اثر ڈالنا شروع کیا.اس نے اسلام کے چشمہ کو جو خشک ہوتا نظر آتا تھا پھر نئے سرے سے جاری کیا.اس نے نہ صرف چمن اسلام کے مرجھائے ہوئے پودوں کو دوبارہ سرسبز کر دیا بلکہ نئے بیج بوئے.اس نے شیطان سے آخری جنگ کرنے کے لئے لوگوں کو تیار کرنا شروع کیا اور جب چند ایک نفوس اس کے نور سے منور ہو گئے.جب چمن اسلام میں نوزاد پودے لہلہانے لگے.جب ایک چھوٹی سی جماعت شیطان سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئی تو جیسا کہ نبیوں کی سنت ہے اس کا کام بھی ختم ہو چکا اور وہ اس دار فانی سے جدا ہو کر اپنے محبوب حقیقی کی گود میں چلا گیا.ہاں بے شک وہ اس دار فانی سے جدا ہو مگر کیا اس نے اپنے کام کو ادھورا چھوڑ دیا؟ کیا قبل اس کے کہ فتح مندی کا سہرا اس کے سر پر لہرا تا.وہ اس جہان سے گذر گیا ؟ نہیں اور ہر گز نہیں.اس نے اپنے چشمہ کا ساقی اور چمن کا مالی اپنے حلقہ بگوشوں کو مقرر کیا اور یوں شیطان سے جنگ کرنے کا بوجھ ہمارے کندھوں پر رکھ گیا اور اس طرح ہمارا اہم فرض تبلیغ ہوئی.اور گو کہ اس کا جسم ہم سے جدا ہے مگر اس کی روح ہم میں کام کر رہی ہے اور ہمارا کام اس کا کام ہے اور آخر فتح کا سہرا اُسی کے سر پر ہے.اب جبکہ ہمارا اہم فرض تبلیغ ہے تو میں اس کے متعلق چند ایک ضروری باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.اول.یہ کہ صرف دلائل سے کوئی نہیں مانا کرتا.اور کسی چیز کو صرف دلیلوں کے زور سے منوانے کی کوشش کرنا قلوب کو مسخر نہیں کر سکتا.جب تک ہم اسلامی احکام پر چل کر اور اس کی نواہی سے

Page 9

بچ کر اپنے آپ کو نمونہ نہ بنائیں اس وقت تک دلائل بالکل بے اثر اور سمجھانا بالکل فضول ہو گا جس وقت تک کہ ہمارے چہروں پر نور نہ چمکتا ہو اور ہمارے اخلاق اعلیٰ اور اسلام کے مطابق نہ ہوں.اس وقت تک دلائل کارآمد نہیں ہو سکتے.اگر ہمارے اندرا خلاق فاضلہ نہ ہوں اور روحانیت نہ پائی جائے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ تم نے اسلام کو قبول کر کے وہ کونسی بات حاصل کی جو مجھ میں نہیں ہے اور وہ کونسی شے ہے جسے تم نے اسلام سے حاصل کیا ہے؟ اور میرامذہب مجھے وہ شے نہیں دے سکتا.آخر اسلام میں کوئی فضیلت پائی جاتی ہو تو میں اپنے آبائی مذہب کو ترک کر کے اسلام قبول کروں.پس سب سے پہلی بات جو ایک مبلغ یا یوں کہو کہ ایک احمدی کے اندر ہونی ضروری ہے وہ اخلاق فاضلہ اور روحانیت ہے تا وہ اشاعت اسلام کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو سکے.دوم.یہ کہ صرف اخلاق فاضلہ سے بھی کوئی نہیں مانا کرتا بلکہ اخلاق فاضلہ کے ساتھ دلائل و براہین کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے قبول کرنے والوں میں بھی ایک حد تک اخلاق پائے جاتے ہیں.اگر صرف اخلاق ہی کسی مذہب کی سچائی پر دال ہوں تو حق و باطل میں فرق کرنا مشکل ہو جائے.کیونکہ اخلاق کی باریکیوں کو سمجھنا ہر ایک کا کام نہیں.پس دلائل کا وجود بھی ضروری ہے لیکن کوئی بات اثر نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ دل سے نہ نکلی ہو اور محبت سے بھر پور نہ ہو جو کلمہ دل سے نکلے.وہ دل پر ہی بیٹھتا اور اثر کرتا ہے اور جو صرف زبان سے کہا جائے.وہ ایک کان میں پڑتا اور دوسرے کان سے بغیر اثر کئے نکل جاتا ہے.محبت ہی سے دلوں کے قلعے فتح کئے جا سکتے ہیں.پس دوسری بات جو ایک احمدی کے لئے ضروری ہے.وہ یہ ہے کہ تبلیغ کرتے وقت اس کا لفظ لفظ درد میں ڈوبا ہوا اور محبت سے معمور ہونا چاہیے.تا اس کی دلیل کارگر ہو اور اس کی محنت رائیگاں نہ جائے.سچائی اپنا اثر پیدا کرے.مخاطب ہلاکت سے بچ جائے اور وہ بھی اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائے اور خدا کے فضلوں کا وارث بنے.سوم.یہ کہ ہر احمدی کو دیوانہ وار تبلیغ کرنی چاہیے.یہ دیوانگی ہی ہے جس سے انسان کا میاب ہوسکتا ہے.تم تبلیغ کرتے ہی چلے جاؤ خواہ دوسرا مانے یا نہ مانے.تم کہتے ہی چلے جاؤ.خواہ دوسرا انکار

Page 10

ہی کرتا رہے.خواہ مخاطب کا دل پتھر جتنا ہی سخت کیوں نہ ہو؟ خواہ تمہارے محبت بھرے دلائل پانی کی مانند ہی نرم کیوں نہ ہوں.مگر آخر پانی بھی تو ایک پتھر پر بار بار گرتے رہنے سے اسے گھسا دیتا ہے.پھر کیا تمہاری بار بار کی تبلیغ اس کے دل پر اثر نہ کرے گی.یقیناً اثر کرے گی.اور ایک دن وہی دل جو پتھر کی طرح تھا.تمہارے آگے موم کی مانند نرم ہو جائے گا اور وہ سرکش روح جو کسی طرح بھی قابو نہ آتی تھی.تمہاری محبت بھری تبلیغ کے سامنے اطاعت کی گردن جھکا دے گی.دیکھو! خدا تعالیٰ کے رسولوں میں بھی اس قسم کی دیوانگی پائی جاتی تھی اور اسی وجہ سے کافران کا نام مجنون رکھتے تھے.اور کہتے تھے کہ (نعوذ باللہ ) یہ مجنون و دیوانہ ہیں.اپنی دھن میں ہی ہر وقت لگے رہتے ہیں.اور ہر وقت اپنا راگ گاتے رہتے ہیں.لوگوں کی مارلوگوں کا گالی دینا ان کو اپنے کام سے روکتا نہیں.وہ اپنے ہی کام میں ہر وقت مست رہتے ہیں.اور اعلائے کلمتہ اللہ میں محو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فدا نفسی کے حالات زندگی پر نظر ڈالو.ایک واحد تن تنہا شخص اٹھا جو اپنی قوم کے مذہب کے خلاف مذہب رکھتا تھا اور ایک معمولی اختلاف نہیں بلکہ بعد المشرقین کا اختلاف اور دن رات جیسا فرق اس کے اور اس کی قوم کے مذہب میں تھا.وہ ایک تھا.تمام قوم اس کے مخالف تھی.وہ کمزور تھا.قوم مضبوط تھی مگر باوجود اس کے پھر بھی وہ کامیاب وکامران ہوا.وہ جو بالکل تن تنہا تھا چند دن کے بعد ایک عظیم الشان جماعت کا آقا وسردار نظر آیا.وہ کیا شے تھی جس نے یہ تغیر پیدا کیا؟ وہ یہی خدا کے عشق کی مخموریت اور اس کے نام کا جنون تھا.پس اس دیوانگی سے ہی ہم بھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر سکتے اور تبلیغ کے فرض کو پوری طرح ادا کر سکتے ہیں.دنیا میں بیداری کی ایک رو پھیل رہی ہے.دنیا کا ہر مذہب دنیا کی ہر قوم خواہ وہ عیسائی ہو کہ ہندو مسلم ہو کہ سکھ.حتی کہ چوہڑے بھی بیداری کی طرف آرہے ہیں.دنیا کا ہر فرد بشر حق کا متلاشی اور سچائی کا خواہاں نظر آتا ہے.انسانوں کے قلوب کو خدا تعالیٰ کے فرشتے ہلا رہے ہیں.اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی بچے مذہب میں داخل ہو کر خدا تعالیٰ کے قرب کو حال کریں.پس اُٹھو! اُٹھو! اور اس زریں موقع کو غنیمت سمجھو.کمریں کس لو.اور مالی و جانی قربانی کرنے

Page 11

کے لئے تیار ہو جاؤ جبکہ ایک دنیاوی حسن کا عاشق اپنے مال پر لات مارتے ہوئے جنگلوں اور بیابانوں پہاڑوں اور میدانوں میں پھر سکتا ہے.جان جوکھوں میں ڈالتا اور کسی خطرہ سے خوف نہیں کھاتا تو پھر کیا ہم خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرنے.اعلائے کلمتہ اللہ اور اشاعت اسلام کے لئے اپنی جانیں اور اپنے مال قربان نہیں کر سکتے.کیا ہماری غیر تیں اس قدر مردہ ہو چکی ہیں کہ اسلام کو بے انتہا مصیبتوں سے گھرا ہوادیکھتے ہوئے بھی ہم خدمت اسلام کے لئے مالی قربانی کر کے فقیرانہ زندگی بسر نہیں کر سکتے.نہیں اور ہرگز نہیں.ہماری غیرتیں زندہ ہیں اور ہمیں اپنے ایک ایک پیسہ کو خدمت اسلام میں خرچ کرنے کے لئے تیار ہونا چاہیے.بادلوں کی طرح ہم دنیا پر چھا جائیں.ہوا کی طرح اس کرہ ارض کو گھیر لیں.بجلی کی مانند ایک آن کی آن میں ہر جگہ پہنچ جائیں.احمدیت پھیلے اور اسلام کا بول بالا ہو.آمین خاکسار مرزا ناصر احمد اخبار الفضل قادیان دارالامان ۱۰ مئی ۱۹۲۷ صفحه ۹۰۸)

Page 12

جماعت احمدیہ کے خلاف ہندوؤں کی حال آج اس آخری جنگ کا وقت ہے.جو خدا اور شیطان کے درمیان ہونی تھی جو حق اور باطل کے درمیان چھڑنی تھی اور جس میں شیطان نے اپنی تمام فوجوں کو جمع کر کے سچائی کے مٹانے میں مصروف ہونا تھا اور خدا تعالیٰ نے اپنی تو حید کو دنیا میں کامل طور پر پھیلانا تھا.آج اس آخری فیصلہ کا دن ہے جس کی خبر پہلے نوشتوں میں آئی ہے اور جس کے بعد اس کرہ ارض پر گویا اسلام ہی اسلام نظر آئے گا.ان مذا ہب میں سے جو نور سے نفرت کرنے والے اور ظلمت سے پیار.ہاں اُن مذاہب میں سے جو آج باطل کی فوج کہلانے کے حقدار ہیں.دو مذہب ایسے ہیں جو اسلام کے بدترین دشمن ہیں اور جن کا نمبر حق کی مخالفت اور سچائی کی تکذیب میں دیگر مذاہب سے بہت بڑھا ہوا ہے.جن کا دن رات کا کام ہی اسلام کے مٹانے کی کوشش کرتے رہنا اور جن کا شیوہ ہی خدا تعالیٰ کے دین کے خلاف زہر اگلنا ہے.ان میں سے ایک عیسائیت ہے اور دوسرا ہندومت.میں اس وقت عیسائیوں کی ان مساعی کے متعلق کچھ نہیں لکھنا چاہتا جو وہ اسلام کی مخالفت میں کرتے ہیں.ہاں ہندوؤں کے متعلق میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ہر جائز و نا جائز طریق سے اسلام کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں اور چونکہ انہوں نے مذہب اور سیاست کو ایک ہی بنالیا ہے.اس لئے بوجہ اس کے کہ وہ بہت مالدار ہیں اور مسلمانوں کا لہو چوس چوس کر جونک کی طرح موٹے ہو رہے ہیں.وہ اپنے مذہب کی اشاعت میں پانی کی طرح روپیہ بہاتے ہیں اور ان میں ایسے لوگ شامل ہیں جن کے نزدیک روپیہ کی طمع اور لالچ دے کر کسی کو ہندو بنانا نا پسندیدہ نہیں.یتیم بچوں اور اکیلی دو کیلی عورتوں کو بہکا کر لے جانے سے انہیں عار نہیں.خلاف واقعہ باتیں سنا کر اور مسلمانوں کے مظالم کے جھوٹے قصے بنا کرلوگوں تک پہنچانے اور اس طرح پر ان کو اسلام سے متنفر کرنا تو ان کے نزدیک ایک معمولی بات ہے غرضیکہ ہر قسم کے

Page 13

جائز و نا جائز طریق سے یہ لوگوں کو اپنے اندر داخل کرنے میں لگے رہتے ہیں.جب انہوں نے دیکھا کہ جماعت احمد یہ ایک ایسی جماعت ہے کہ باوجود اس کے تعداد میں تھوڑی اور مال میں کم ہونے کے وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس کے قوی دلائل کے مقابل ان کے بودے دلائل ٹھہر نہیں سکتے اور یہ جماعت ان کے ناجائز وسائل کو دنیا کے سامنے ظاہر کر دیتی ہے جس سے ان کی اشاعت باطلہ میں روک پڑتی ہے تو انہوں نے اندر ہی اندر بہت پیچ و بل کھائے اور جب کوئی اور صورت نظر نہ آئی تو ایک طرف دیگر فرقہ ہائے مسلماناں کو ان کے خلاف برانگیختہ کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف اپنی گندی فطرت کے مطابق ان کے امام یا خود جماعت کے متعلق اپنے اخباروں میں گندے مضامین شائع کرنے لگے.مجھے اس وقت ان عبارات کے نقل کرنے کی کچھ ضرورت نہیں.کیونکہ ہر وہ شخص جو ان کے اخباروں کو پڑھتا ہے وہ ان عبارات سے خوب واقف ہے اور ان کی گندی فطرت کو اچھی طرح جانتا ہے.پھر اُن میں سے بعض ہوشیار آدمیوں نے اپنے زعم کے مطابق اس جماعت کو کمزور کرنے کے لئے ایک یہ چال چلی کہ ایسے مضامین شائع کرنے شروع کئے جن میں جماعت احمدیہ کی بہت زیادہ تعریف کی گئی تھی اور باوجود دشمن ہونے کے ایسے الفاظ استعمال کئے گئے تھے جیسے ایک قوم اپنی دوسری دوست قوم کے حق میں کہتی ہے.ان مضامین سے ان کے دو مطلب تھے جن میں سے ایک کو تو خود مضمون نگاروں نے اپنے مضامین میں بھی ظاہر کیا اور وہ اپنی قوم کو برانگیختہ کرنا اور مقابلہ کے لے تیار کرنا تھا اور ان کو یہ محسوس کروانا تھا کہ تمہارے مقابل پر ایک ایسی قوم بھی ہے جو تم سے زیادہ مالدار ہے (جو بالکل غلط ہے ) اور تم سے زیادہ قربانی کرنے والی ہے اور اگر اس وقت تم اپنی پوری طاقت اور پوری توجہ سے ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے تو تم ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتے اور اگر اس وقت تم نے ان کے مقابلہ میں سستی کی تو ان کی فتح اور تمہاری شکست ہوگی اور پھر تم کبھی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکو گے اور دوسرا فائدہ جو وہ ایسے مضامین سے حاصل کرنا چاہتے تھے اور جسے ایک سرسری نظر سے محسوس نہیں کیا جا سکتا.وہ یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کو ست کر دیا جائے اور اپنے فرض سے غافل کر

Page 14

کے یہ لوگ اپنا کام فارغ البالی سے کر سکیں.کیونکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب کسی قوم کی تعریف کی جائے اور اس کی خوبیوں کو اچھے پیرایہ میں ظاہر کیا جائے.تو آہستہ آہستہ اس قوم کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم نے اپنا فرض احسن طور پر ادا کر دیا ہے اور یہ کہ اپنے بوجھ اور ذمہ داری کو ہم نبھا چکے ہیں اور ہم پر اب کسی قسم کا الزام نہیں جس کا یقینی نتیجہ ستی اور اپنے فرض سے غفلت ہوتی ہے اور کسی قوم کا یہ خیال کہ اب ہم انتہا کو پہنچ گئے ہیں.تنزل نہیں !نہیں ! بلکہ موت کے مترادف ہوتا ہے.مگر میں ہندو قوم کو بتادینا چاہتا ہوں کہ وہ مذاہب جن کی بنیاد خدا اپنے ہاتھوں سے رکھتا ہے اور جن کا بڑا ستون حق اور سچائی ہوتا ہے.وہ کبھی اس قسم کی چالوں میں نہیں آسکتے اور جو خدا تعالیٰ کی گود میں پرورش پانے والے ہوتے ہیں اور جن کی ربوبیت کرنے والا وہ یکتا خدا ہے جس نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا.روحوں کو بھی اُس نے ہی پیدا کیا اور مادہ بھی اسی کی مخلوق بننے سے باہر نہ رہا.وہ لوگ کبھی اس قسم کے جالوں میں نہیں پھنسا کرتے اور میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بجائے اس کے کہ ہم اس قسم کی تدابیر سے سست ہوں.ایسی باتیں اور ایسے مضامین تو ہمارے اندر چستی پیدا کرنے والے ہوتے ہیں اور ہماری کمزوریوں کو ہم پر ظاہر کر کے اور آگے قدم بڑھانے کی روح پھونکتے ہیں.پھر میں با نگ بلند ان کو یہ بھی سنا دیتا ہوں کہ خواہ وہ حق کو مٹانے کے لئے ایڑیوں تک زور لگا ئیں.اپنے سارے مالوں کو اسی کام کے لئے وقف کر دیں اور خواہ وہ باطل کی تائید کے لئے اپنی جانیں تک دے دیں اور دنیا کا کوئی حیلہ اور تدبیر نہ چھوڑیں جس کو انہوں نے باطل کے پھیلانے میں استعمال نہ کیا ہو.تب بھی ہرگز ہرگز وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور کبھی وہ حق کو دنیا سے مٹا نہیں سکتے اور کس طرح وہ خدا کے دین کو اپنے مونہوں کی پھونکوں سے بجھا سکتے ہیں.جبکہ خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ اپنے پورے کمال سے چھکے اور دنیا کے کناروں تک پھیل جائے اور کون ہے جو خدا کے لکھے کو مٹا سکے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا مقابلہ کر سکے؟ میں اپنے احمدی بھائیوں سے بھی یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ وقت نازک ہے اور دشمن پورے زوروں پر.بادشند کے جھونکے چمن اسلام کے نازک پھولوں کو ٹکر اٹکرا کر گرانا چاہتے ہیں.اور شیطان

Page 15

۹ اپنی تلوار کوننگا کئے اسلام پر آخری حملہ کر رہا ہے.اس وقت ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے مالوں اور طاقتوں اور وقتوں کو فضول ضائع نہ کریں اور اپنی ہر کوشش کو اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر دیں اور بالخصوص میں اپنے نو جوان بھائیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خاص طور پر دین کی طرف توجہ کریں اور کوئی موقع اشاعت اسلام کا ضائع نہ ہونے دیں تا ایسا ہو کہ ہمارے ہی ہاتھوں سے اسلام کی فتح ہو اور ہم ہی شیطان کو مغلوب کرنے والے ٹھہریں.کیونکہ اسلام نے تو ضرور فتح پانی ہے.مگر ز ہے قسمت کہ اسلام کے فاتح سپاہیوں میں ہمارا نام جلی قلم سے لکھا جائے اور خدا ہم سے راضی ہو اور ہم اس سے راضی.آمين اللهم آمين اخبار الفضل قادیان دار الامان - یکم نومبر ۱۹۲۷ء صفحه ۱۳)

Page 16

منافقین کا نیا فتنہ اور اس کے متعلق قرآن شریف کی شہادت اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا (النساء : ۱۴۶) ایسے کچھ بگڑے کہ اب بننا نظر آتا نہیں آہ کیا سمجھے تھے ہم اور کیا ہوا ہے آشکار ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) شیطان کے حملے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر موجودہ زمانہ تک یعنی جب سے کہ اسماء الہی کی تجلی دنیا میں ظاہر ہونی شروع ہوئی ہے اس وقت سے آدم ثانی کے ظہور تک شیطان بھی اپنی ساری فوجوں سمیت اپنے شیطانی کاموں میں ہمہ تن مشغول رہا ہے اور مشغول ہے.وہ کونسا حربہ ہے جو ابلیس نے نہ اٹھا رکھا ہو.وہ کبھی سامنے سے مخالفانہ رنگ میں حملہ کرتا ہے کبھی پیچھے سے منافقت کی نقاب میں چھپتا ہوا حملہ آور ہوتا ہے.وہ کبھی دائیں سے حملہ کرتا اور ہمیں اعمالِ صالحہ سے روکنے کی کوشش کرتا ہے.کبھی بائیں جانب سے حملہ کرتا اور اَعْمَالِ سَيِّئَه کی ترغیب دیتا ہے اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا خبیث کا طیب سے فرق کیا جائے.خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو اور باوجود انتہائی کوششوں کے شیطان اپنی آخری جنگ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت سے اسے کرنی تھی بُری طرح پسپا ہو.اسلام، ہدایت اور روشنی پوری شان سے دنیا پر حکومت کریں اور کفر گمراہی اور تاریکی دور ہو.وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير.سنو ابلیس مختلف طریقوں سے ایمان پر حملہ آور ہوتا ہے اور گونا گوں رنگوں سے وہ انسان کے سامنے آتا اور قرب الہی اور رضائے الہی کے راستہ کو اس کے لئے مسدود

Page 17

کرنے کی کوشش کرتا ہے.مگر اس وقت مجھے ابلیس کے صرف منافقانہ حربوں کے متعلق کچھ کہنا ہے.وَ بِاللَّهِ التَّوْفِيقِ جماعت احمدیہ کے خلاف نیا فتنہ انبیاء دنیا میں صلح اور محبت قائم کرنے کے لئے آتے ہیں.اور یہ صلح اور محبت رضائے الہی کے حصول کا ایک زینہ ہوتی ہے.انبیاء اور ان کی جماعتیں افراد سے نہیں بلکہ شیطانی کاموں سے نفرت کرتی ہیں اور اس نفرت کا دلیری سے اظہار کرتی ہیں.ہم خدا کے پیارے حضرت مسیح علیہ السلام کی جماعت بھی ایک نئے فتنہ میں سے گزر رہے ہیں.اور ضروری تھا کہ ایسا ہوتا خدا تعالیٰ کے مونہہ کی باتیں پوری ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام الہی وعدہ کی بناء پر فرماتے ہیں.یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.“ پس ضروری ہے کہ ہمیں ابتلاؤں میں سے گزرنا پڑے.ہمیں خوف یہ نہیں کہ کہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو نقصان نہ پہنچے.ہماری بحیثیت جماعت فتح مقدر ہے اور ہو کر رہے گی.انشاء اللہ العزیز.اگر ہمیں کوئی خوف ہے تو صرف یہ کہ کہیں ہم ان ذمہ داریوں میں ستی نہ دکھا ئیں جو ایسے وقت ہم پر عائد ہوتی ہیں اور ان ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم منافقین کے متعلق قرآنی تعلیم کو جماعت اور غیروں کے سامنے رکھیں.تا ان پر اس قسم کے فتنہ کی حقیقت ظاہر ہو جائے اور تا ہر عقلمند جان لے کہ ایسے فتنوں کے اٹھانے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کیا ارشاد فرماتا ہے.قرآن میں منافقین کا ذکر قرآن کریم میں نفاق سے بچنے پر جس قدر زور دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے شاید ہی کسی اور گناہ سے بچنے کے متعلق اس قدر تاکید سے اور اس قدر تکرار سے کہا گیا ہو.اللہ تعالیٰ قرآن

Page 18

۱۲ کریم میں منافقین کا پورا نقشہ کھینچتا ہے اور ان کی بہت سی ایسی صلاحیتیں بتاتا ہے جن سے ایک مومن اور منافق میں فرق کیا جا سکے.ان علامات میں سے میں چند ایک احباب جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں تا کمزوروں کو قوت ایمانی حاصل ہو اور تا جماعت جان لے کہ کس طرح یہ علامات موجودہ منافقین پر صادق آتی ہیں اور کس طرح موجودہ منافقین گزشتہ منافقین کے رنگ میں رنگین ہیں اور تا آئندہ کے لئے بھی جماعت ایسے فتنوں کے وقت ان کے مقابلہ کے لئے اپنے کو پہلے سے بھی زیادہ تیار پائے.منافقین کی پہلی علامت اللہ تعالیٰ سورۃ توبہ میں منافقین کی علامات میں سے ایک یہ بیان فرماتا ہے.إن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمُ (التوبة: ۵۰) کہ اگر مومنین کوکوئی بھلائی پہنچے.اُن کے مال اُن کی اولا دوں یا ان کی کوششوں میں برکت ڈالی جائے تو منافقین حسد کے مارے جل اٹھتے ہیں اور جماعت اور مومنین کی ترقی سے انہیں بہت دکھ پہنچتا ہے.منافقین جماعت احمدیہ کے حالات پر نظر ڈالنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ آیت انہی کے متعلق نازل کی گئی تھی.مومنین کا تعجب اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ منافقین کا حسد اس ذات کے ساتھ ہے جس کی ترقی خاص طور پر فضل الہی پر دلیل ہے.یعنی حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات.اللہ تعالیٰ آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام فرماتا ہے.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا فرماتے ہیں..ع کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت ะ د, دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان دعاؤں کے قبول ہونے کی بشارت بھی دی جاتی ہے.مگر جب الہی وعدہ ایک حد تک پورا ہوتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا ئیں شرف قبولیت

Page 19

۱۳ پاتی ہیں.تو منافقین حسد کے مارے جل اٹھتے ہیں اور اعتراض شروع کر دیتے ہیں کہ انہوں نے کوٹھیاں بنوا لیں موٹریں رکھ لیں.زمینیں لے لیں.جائدادیں بنا لیں.کاش احمدی کہلا کر انہیں کم از کم الہی وعدوں اور اپنے آقا کی دعاؤں کا ہی کچھ پاس ہوتا.دوسری علامت دوسری علامت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ لَا يَأْتُونَ الصَّلوةَ إِلَّا وَهُمُ كسالى (التوبة :۵۴) یعنی منافقین خوشی سے نمازوں کے لئے نہیں آتے.پھر سورۃ النساء : ۱۴۳ میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلوةِ قَامُوا كُسَالی یعنی وہ نماز کے لئے آتے ہیں.خوشی نہیں پاتے.سنتا ہوں کہ مصری صاحب نے بھی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالی کولکھا ہے کہ میں ایک عرصہ سے آپ کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتا تھا اور اگر کبھی مجبور پڑھتا ہوں.تو گھر جا کر دہرا لیتا ہوں.میں سمجھتا ہوں جب سے مصری صاحب کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے.اسی وقت سے مصری صاحب میں نفاق کی بُو پائی جاتی ہے اور یہ آیت کریمہ اسی وقت سے ان کے نفاق پر مہر لگارہی ہے کیونکہ مسجد مبارک کی نماز جہاں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نماز ادا فرماتے ہیں.منافقوں کے لئے ایک ابتلا ہے جو شخص مسجد مبارک کی نماز میں راحت اور شلج قلب محسوس نہیں کرتا اس کے ایمان کا حال ظاہر ہے.مسجد مبارک کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام ہے کہ مُبَارِكْ وَّ مُبَارَكٌ وَ كُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكَ يُجْعَلُ فِيهِ یعنی وہ برکت دی گئی ہے اور برکت دینے والی ہے اور ہر برکت اس کے اندر رکھی گئی ہے.جب شیخ صاحب مسجد مبارک میں آ کر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے پیچھے نماز ادا کرنے میں انشراح نہیں پاتے.تو اُن کے لئے یہ بھی کہاں ممکن کہ وہ نماز سے قبل چند منٹ مسجد میں بیٹھ کر ذکر الہی میں خرچ کریں.مسجد مبارک مسجد ہے ان نمازیوں کی جو نماز اور ذکر الہی میں سکون دل اور روح کی تسلی پاتے ہیں.مصری صاحب اگر کبھی یہاں نماز ادا بھی کرتے تھے.تو کسالی ہونے کی وجہ سے وہ اس مبارک مسجد کے فیوض سے قطعا فیض حاصل نہ کر سکتے تھے.

Page 20

تیسری علامت ۱۴ تیسری علامت منافقین کی یہ بتائی کہ وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَرِهُونَ (توبة :۵۴) یعنی منافقین دین کی راہ میں مالی قربانی خوشی سے نہیں کرتے اور اپنی قربانی کے بعد ان کے دل میں بشاشت کی بجائے قبض پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر بجالا نا تو در کنار.کہ اس نے ان کو یہ توفیق دی کہ وہ اس کی راہ میں مال خرچ کر کے ثواب حاصل کریں.الٹا اللہ تعالیٰ پر احسان جتانے لگتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا أَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فُسِقِيْنَ (التوبة: ۵۳) یعنی خوشی سے دو یا نا خوشی سے اللہ تعالیٰ ان مالی قربانیوں کو قبول نہ کرے گا.اور یہ اس لئے کہ تم وہ لوگ ہو.جنہوں نے اطاعت امام سے انکار کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ یہ پسند ہی نہیں کرتا کہ یہ لوگ اس کی مالی یا جانی خدمت کریں ( كَرِهَ اللهُ انْبِعَاثَهُمْ (التوبة:(۴۶) اور یہی وجہ ہے کہ منشائے الہی کے ماتحت ان میں سے اکثر مالی و جانی قربانی کرنے سے محروم رکھے جاتے ہیں.مصری صاحب پر بھی یہ علامت چسپاں ہوتی ہے.چنانچہ مجلس شوریٰ میں شامل ہونے والے احباب جانتے ہیں کہ جتنی دفعہ مجلس شوری میں وصیت کے متعلق یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ جائداد کے علاوہ آمد کا بھی دسواں حصہ وصیت میں دیا جائے.مصری صاحب اس کی سخت مخالفت کرتے رہے ہیں اور اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں بھی اس کے خلاف رائے دیتے رہے ہیں.چوتھی علامت چوتھی علامت منافقین کی یہ قرار دی کہ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقْتِ (سوره توبة: ۵۸) یعنی منافقین میں سے بعض کو یہ اعتراض کرتے بھی سنا جائے گا.کہ مال کے بارہ میں دیانت سے کام نہیں لیا جا تا اول تو ان بندہ خدا سے کوئی پوچھے کہ تم خود تو چندوں و دیگر قربانیوں میں ست ہو.تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ تم اس بارے میں اعتراض کرو.جب خوشی سے چندہ دینے والوں کو

Page 21

ܬܙ اطمینانِ قلب حاصل ہے تو تم کون ہو اعتراض کرنے والے.اللہ تعالیٰ اعتراض کرنے کی وجہ بتا تا ہے کہ یہ خود اس مال پر نظر رکھتے ہیں.چاہتے ہیں.ہماری تنخواہیں اور گریڈ بڑھ جائیں.ہماری لڑکیاں اعلیٰ عہدہ پر نوکر رکھ لی جائیں.یا سلسلہ کی طرف سے کوئی ایسا کام نہ شروع کیا جائے جس سے ہماری تجارت کو نقصان پہنچے.وغیرہ وغیرہ.اگر ان کی یہ خواہشیں پوری نہ ہوں تو مخلصین پر اور امام جماعت پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو سلسلہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی جماعت سے اس قدرا خلاص ظاہر کرنے والے ہو.اگر تم ان دعووں میں بچے ہوتے تو تمہیں چاہیے تھا کہ تم حَسْبُنَا اللہ کہ کر خاموش ہو جاتے اور قومی مال پر نظر بد نہ رکھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسے منافق طبع افراد کو خشک دل کے نام سے موسوم فرماتے ہیں.یعنی جن کے دل تقویٰ کے پانی سے سیراب نہ کئے گئے ہوں.آپ فرماتے ہیں.میں ایسے خشک دل لوگوں کو چندہ کے لئے مجبور نہیں کرتا جن کا ایمان ہنوز نا تمام ہے.“ ( الحکم ۳۱ / مارچ ۱۹۰۵ء) پس ہم میں سے بھی جو اس قسم کے اعتراض کرنے کا عادی ہو وہ منافقت کی ایک رگ اپنے اندر رکھتا ہے او منافقین کا تو یہ شیوہ ہی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی علیہا السلام فرماتے ہیں.دو کسی کہنے والے نے کہا ہے کہ خلیفہ مسیح نے جو تحریک جدید جاری کی ہے.یہ اپنے لئے روپیہ جمع کرنے کے لئے کی ہے.“ (الفضل ۳ جولائی ۱۹۳۷ء) پانچویں علامت پانچویں علامت جس سے ایک منافق شناخت کیا جا سکتا ہے.یہ ہے کہ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنَّ (التوبة: 1) منافقین اعتراض کرتے ہیں کہ یہ رسول یا اس کا جانشین (جس کے زمانہ میں بھی یہ ہوں ) گویا ایک مجسم کان ہے.لوگ اس تک رپورٹیں پہنچاتے ہیں.اس نے اپنے جاسوس سی آئی ڈی چھوڑ رکھے ہیں.جھوٹی سچی خبریں اس تک

Page 22

۱۶ پہنچائی جاتی ہیں اور وہ ان کو صحیح تسلیم کر لیتا ہے اور ہم بے چاروں سے خواہ مخواہ ناراض ہو جاتا ہے وَغَيْرُ ذَالِكَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہمارا نبی یا اس کا خلیفہ بے شک ہے تو کان.مگر ان معنوں کی رُو سے نہیں جو تم لے رہے ہو.بلکہ وہ خیر و بھلائی کا کان ہے.اسے کسی سی آئی ڈی کی بھلا کیا ضرورت ہے.مومنین خود اس تک تمام اہم خبریں پہنچاتے ہیں اور اسے اپنا قومی فرض جانتے ہیں اور بیشک یہ ان کی خبروں کو صحیح سمجھتا ہے.اگر ان کی باتوں کو نہ مانے تو کیا تمہارے جیسے منافقین کی باتوں کو صحیح سمجھا کرے اور اس کا کان ہونا جماعت کے لئے تو مفید اور بابرکت ہے البتہ تمہارے جیسے منافقین کے لئے اس کا یہ فعل بے شک عَذَابِ اَلِیم بن جاتا ہے.اب اس میں تعجب کی کیا بات.اگر بعینہ یہی اعتراض منشی فخر الدین بھی حضرت امیر المومنین ایده اللہ تعالیٰ پر کریں.اپنے بیان میں جو ۱۸ار جولائی ۱۹۳۷ء کے ”الفضل میں چھپ چکا ہے.انہوں نے لکھا ہے.” جبکہ اسی خیال کے ماتحت خفیہ آدمی کئی ایک میرے ارد گرد چھوڑ رکھے تھے.تھے.اور اگر ملیں تو یہ چند شکایات جو میں نے ان سی.آئی.ڈی کو حضرت صاحب تک اپنی آواز پہنچانے کا ذریعہ سمجھ کر بیان کی ہیں.“ چھٹی علامت چھٹی علامت ایک منافق کی یہ بتائی کہ وَلَبِنُنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ (التوبة: ۶۵) کہ اگر ان منافقین سے ان کی منافقانہ باتوں کے متعلق دریافت کیا جائے.تو جواب میں اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے کہتے ہیں.یہ تو معمولی بات تھی.ہنسی مذاق میں ہمیشہ ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اس عذر سے تمہارا گناہ کم نہیں ہو جاتا.بلکہ اور بھی خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے کہ تم ہمیشہ سے ہی خدا تعالیٰ ، اُس کی آیات اور اُس کے رسول سے استہزاء کرتے چلے آئے ہو.اوّل اللہ تعالیٰ اُس کی آیات اور اس کے رسول سے ٹھٹھا کرنا اور پھر کس دلیری سے یہ کہنا کہ ہمیشہ اس قسم کے مذاق کی باتیں ہوتی رہتی ہیں.بد بختو ! کیا

Page 23

۱۷ تمہارے مذاق کا نشانہ خدا اور اس کا مقرر کردہ امام اور اس کی پاک جماعت ہی رہ گئے ہیں اور تمہیں اس ناپاک کھیل کے لئے کوئی اور موضوع نہیں ملتا.منشی فخر الدین نے پہلے بعینہ منافقین کے قدم پر قدم مارا.اپنے بیان میں لکھتے ہیں.اور کس دلیری سے کہ ” بے تکلفانہ انداز میں میرے جیسے بے تکلف آدمی کے مونہہ سے صدہا ایسی باتیں نکلتی ہیں جنہیں معمولی عقل کا آدمی بھی کوئی وقعت نہیں دیتا.کہا گیا ہے کہ میں نے مولوی ظفر محمد صاحب سے کہا کہ تم ان خدمات کے بدلہ میں ناظر بنا دیے جاؤ گے.اوّل تو یہ مجھے یاد نہیں پھر ممکن ہے مذاق میں میں نے اس سے بھی بڑھ کر الفاظ کہے ہوں.خود مولوی ظفر محمد صاحب مجھ سے مذاق کر لیتے ہیں.“ (الفضل ۱۸ جولائی) اس بیان سے ظاہر ہے کہ مذاق (اگر مذاق کے لفظ کوضرور ایسی بات پر استعمال کر کے بدترین بدمذاقی کا ثبوت دینا ہو ) مولوی ظفر محمد صاحب سے نہیں کہا گیا بلکہ حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ پر استہزا کیا گیا ہے.کیونکہ مذاق مولوی ظفر محمد صاحب کی خدمات پر نہیں بلکہ ان کے صلہ اور بدلہ پر ہے., کہ ”بدلہ میں انہیں ناظر بنا دینا چاہیے تھا.اب خدمات کا انعام‘ یا بدلہ تو مولوی ظفر محمد صاحب کے ہاتھ میں نہ تھا.اس کا دینا یا نہ دینا تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں تھا اور یہ مذاق بھی حضور کی ذات سے نہ تھا بلکہ خلیفتہ اسیح علیہما السلام ہونے کی حیثیت سے تھا.اور اس حیثیت سے یہ مذاق خلیفہ وقت سے نہ تھا بلکہ خدا کے مقدس مسیح سے تھا.پھر یہی نہیں بلکہ یہ مذاق تھا اللہ تعالیٰ کی آیات سے اور خود اللہ تعالیٰ سے ہنسی کرنے کے مترادف تھا.یوں تو جو ہنسی اور استہزا رسول یا اس کے جانشین سے کیا جائے وہ دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات سے ہی ہوتا ہے کیونکہ رسول اور خلفائے راشدین اللہ کے جلال کے مظہر اور اس کی آیات کے حامل ہوتے ہیں.پھر اس پر استہزاء جس کے متعلق خود خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح کو بشارت دی ہو کہ وہ حسن واحسان میں تیرا نظیر ہو گا.کس قدر ظلم عظیم ہے.مگر یہاں تو خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی ذات سے استہزا ہے.اس کی آیت سے اس لئے کہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق

Page 24

۱۸ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وحی فرمائی کہ میں تجھے رحمت کا نشان دیتا ہوں.( تذکرہ صفحہ ۹، ۱۰) یعنی آپ آیت اللہ ہیں اور آپ سے استہزا آیت اللہ سے استہزا ہے اور اللہ تعالیٰ سے استہزا اس طرح کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ( تذکرہ صفحہ ۱۴۱) ایسی ذات کے ساتھ اگر استہزا خود خدا تعالیٰ سے استہز انہیں تو اور کیا ہے؟ آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کے عذر ( جو عذر گناہ بدتر از گناہ کا مصداق ہوں) کیوں کرتے ہو.اللہ خوب جانتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد یا اس کے اظہار کے بعد تم پھر کفر کے گڑھے میں گر چکے ہو.ساتویں علامت ساتویں بات منافق کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے.وَيَحْلِفُونَ بِاللهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَمَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَكِنَّهُمْ قَوْمُ يَفْرَقُونَ (التوبة: ۵۶ ) باوجود اس کے کہ منافقین ہمیشہ منافقت کی باتوں اور منافقت کے اعمال سے الہی سلسلہ کے نقصان کے درپے رہتے ہیں.جب ان پر نفاق کا شبہ ہو اور لوگ ان کی حرکات کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں اور صاحب فراست مومن ان میں نفاق کی بُو پائیں.تو وہ اس خوف سے کہ کہیں پردہ فاش نہ ہو جائے قسمیں کھا کھا کر بیان کرتے ہیں کہ ہم تو مومن ہیں.ہم مخلص احمدی ہیں سلسلہ کے کاموں میں آگے آگے رہنے والے ہیں اور خدا گواہ ہے کہ ہم اے مومنو! تم ہی میں سے ہیں.کیونکہ بزدلی اور خوف اور گیدڑ پن“ منافقین کی روح کا ایک جزو بن چکا ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ یہ لوگ سلسلہ کی حقانیت کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ان میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ کھلے بندوں مخالفین کے گروہ میں جاشامل ہوں.اس وقت تک کہ خود خدائی ہاتھ ان کو اپنی جماعت سے اس طرح پکڑ کر علیحدہ کر دے جس طرح ایک مکھی دودھ میں سے نکال کر باہر پھینک دی جاتی ہے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَحْذَرُ الْمُنْفِقُونَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُوْرَةٌ تُنَبِّتُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ (التوبة (٢٤)

Page 25

۱۹ یعنی منافقین کو صرف خوف ہی نہیں ہوتا بلکہ خوف کے ساتھ ایک پہلو استہزا کا بھی ہوتا ہے تا اپنے خوف پر ایک حد تک پردہ ڈال سکیں.یہ حالت خاص منافق کے ساتھ لازم ہے اور یہ ایک ہی علامت منافق اور مومن میں فرق کرنے کے لئے کافی ہے.ہمارے وقت کے منافقین میں بھی یہی بات ملتی ہے.وہ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم لوگ احمدیت میں شامل ہیں اور نفاق کی لعنت ابھی تک ہم پر نہیں پڑی جیسے کہ منشی فخر الدین نے لکھا.” کیا پرانا خادم ہونے کی حیثیت سے حضرت صاحب کا فرض نہ تھا کہ مجھے بلا کر مربیانہ طور پر سمجھا دیتے“ (الفضل ۱۸ جولائی) فرضگو یا سب حضرت صاحب پر عائد ہوتے تھے خودان لوگوں پر کوئی فرض نہ تھا.نہ انسانیت کا نہ شرافت کا نہ احمدیت کا.پھر فخر الدین صاحب نے اپنے خط میں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو لکھا.اب اگر حضور سنت نبوی کے ماتحت لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ کر اس سیاہ کار کو بخش کر اپنی چھاتی سے لگالیں تو بھی اور اگر میری اصلاح کے لئے مزید کسی سرزنش اور زجر و توبیخ کی ضرورت سمجھیں.تو بھی میرا ہر حالت میں شلح قلب اور شرح صدر ہے اور میرے 66 لئے دونوں مساوی اور موجب رحمت وسعادت ہیں.وَاللهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ “.(الفضل ۲۶ جون) کس طرح قسمیں کھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم لوگ تو مومن ہیں اور یہ ایسے وقت جبکہ نفاق اپنی انتہاء کو پہنچ چکا تھا اور خود ان کے دل یہ خوف محسوس کر رہے تھے کہ کہیں ہمارا پردہ فاش نہ ہو جائے اور اسی کی وجہ سے منشی فخر الدین نے اپنی بعض گفتگو میں استہزا کا رنگ اختیار کیا اور وہ گندمنہ سے نکالا جس کو نقل کے طور پر زبان پر لانا بھی ایک شریف آدمی گوارا نہ کرے گا.إِلَّا مَا شَآءَ اللہ.ہمارے لئے تو یہ استہزاء اور یہ گند جو ان لوگوں کے خوف پر دلالت کر رہا تھا ایمان کو بڑھانے والا ہی ہے کہ کس طرح تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں منافقین کا نقشہ کھینچا ہے اور پھر وہ کس طرح ہر پہلو سے منافقین سلسلہ پر صادق آتا ہے.سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَلِيمِ الْخَبِيْرِ

Page 26

آٹھویں علامت آٹھویں بات منافقین کے متعلق خدا تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَ الْأَعْزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (المنافقون: 9) گوبز دلی منافقین کے ساتھ ہر وقت لگی ہوئی ہے مگر ان میں چونکہ تکبر بھی ہوتا ہے اس لئے وہ بعض وقت اپنی کوئی ہستی بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں اور انہیں یہ دھوکا ہو جاتا ہے کہ جماعت میں ان کا کوئی رسوخ ہے اور یہ کہ جماعت ان کی بات پر کان دھرے گی.مندرجہ بالا آیت کریمہ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوہ بنو مصطلق کے وقت ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کا نفاق ظاہر ہو گیا اور اس میں جو عجب اور تکبر تھا اور اُسے جو یہ غلطی لگی ہوئی تھی کہ وہ مسلمانوں میں بہت معزز اور مکرم ہے اس کے اظہار کا موقعہ اسے مل گیا اور اس نے اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ یہاں اس سفر کی حالت میں مسلمانوں میں سے صرف ایک چھوٹا سا گروہ موجود ہے اور وہ بھی مہاجرین کا.مدینہ چل لینے دو.وہاں مسلمانوں کی اکثریت کی مدد سے میں جوایک رسوخ رکھنے والا انسان ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منصب نبوت سے گویا معزول کرا دوں گا.یہ صرف ایک تاریخی واقعہ ہی نہیں بلکہ ایک گہر اسبق اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور منافقت کے اس پہلو کا اظہار ہمیں ہر فتنہ نفاق میں نظر آئے گا.صرف ابن سلول ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معزولیت کے خواب نہ دیکھا کرتا تھا بلکہ اس کے توابع میں سے ہمارے سامنے بھی بعض منافق ایسا کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں کیا مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقا حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ کی معزولیت کے خواب نہ دیکھا کرتے تھے؟ یا کیا آج شیخ مصری صاحب اپنے تکبر اور عزت کے گھمنڈ میں اس وہم میں مبتلا نہیں ہیں کہ خلیفہ ثانی کو خلافت سے معزول کر وا دیں گے اور سنتا ہوں کہ وہ اور ان کے ساتھی اسی کوشش میں اشتہار پر اشتہار شائع کر رہے ہیں.اور ابن سلول کی طرح بآواز بلند پکار رہے ہیں.لَئِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ یعنی اگر ہمیں جماعت کے سامنے اپیل کا

Page 27

۲۱ موقعہ مل جائے پھر دیکھنا.ضرور ہماری بات سنی جائے گی.اور ہم عزت اور رسوخ رکھنے والے (اپنے زعم میں ) ضرور کامیاب ہوں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اصل عزت تو خدا اور اس کے رسول کی ہے پھر خلیفۃ الرسول کی جو رسول کا جانشین ہو.مگر منافق اپنی فراست کی کمی کی وجہ سے اس کے معلوم کرنے سے قاصر ہیں اور حالات اور مومنین کی چاروں طرف سے پھٹکار ان کو بتا دے گی کہ عزت صرف خدا اور رسول ہی کی ہے.ہم دور کیوں جائیں خود جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ عزت صرف خدا اور رسول اور مومنین کی ہے.منافقین کے حصہ میں سوائے ناکامی اور ذلت کے اور کچھ نہیں.نویں علامت نویس علامت منافقین کی یہ بتائی کہ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْ ضُوكُمْ ۚ وَاللَّهُ وَرَسُوْلُه أَحَقُّ أَنْ تُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ (التوبة:۶۲) کہ اے جماعت مومنین منافق تمہارے پاس قسمیں کھا کھا کر اپنے شکوے بیان کریں گے تا وہ تمہاری ہمدردی حاصل کر سکیں.چونکہ منافق کو یہ گمان ہوتا ہے کہ اس کا جماعت میں رسوخ ہے اور تکبر کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو بہت بڑی ہستی خیال کرتا ہے.اس وہمی رسوخ کی بنا پر وہ افراد جماعت کے پاس زبانی یا بذریعہ اشتہارات اپیل کرتا ہے.اور خیال کرتا ہے کہ اس طرح وہ مومنین کی رضا کو حاصل کر لے گا اور خدا کے قائم کردہ رسول یا اس کے خلیفہ کو اسی کی جماعت سے شکست دلانے میں کامیاب ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ حقیقی مومن ہوتے تو چاہیے تھا کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ، اس کی کتاب پر ایمان لاتے اس کی بشارتوں کو جو اس نے اپنے مسیح علیہ السلام کے واسطہ سے جماعت کو مصلح موعود کے متعلق دی تھیں ان کو صحیح تسلیم کرتے ، اور جماعت میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش نہ کرتے ، اور خدا تعالیٰ سے لڑائی نہ لیتے.اور پھر خدا تعالیٰ کے رسول یا اس کے جانشین کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوشاں نظر آتے تا سلوک کی وہ راہیں طے کر سکیں جو بوجہ

Page 28

کمزوری ایمان اور ذاتی کوتاہیوں یا فطرتی کمزوری کے سالک کے بغیر طے کرنی مشکل ہیں.مگران لوگوں نے گمراہی کا طریق اختیار کیا.کیا انہیں علم نہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑائی مول لیتا ہے اس کا انجام نار جہنم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.چاہیے کہ یہ بھی اور پہلے منافقین بھی تو بہ اور استغفار سے کام لیں اور غضب الہی کو خریدنے والے نہ بنیں.دسویں علامت دسویں بات منافقین کے متعلق یہ فرمائی کہ ان میں ایک کمینہ بخل پایا جاتا ہے.وَيَقْبِضُوْنَ أَيْدِيَهُمُ (التوبة : ۶۷) اب منافقین اور ان کی زندگیاں احباب جماعت کے سامنے ہیں.ان میں سے اکثر میں تو یہ بیماری اس قدر نمایاں ہے کہ جسے بھی ان کی زندگی کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہو گا.اسے اس بات میں ذرہ بھی شک نہ ہو گا.اور جن میں یہ بیماری بظاہر اتنی نمایاں نہیں.اگر ان کے حالات کا قریب سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ بھی حقیقی سخاوت سے محروم کئے گئے ہیں.کیونکہ یہ ایک خود غرض گروہ ہے جو اگر کہیں سخاوت بھی کرتا دیکھا جائے تو اس کے پردے میں بھی اپنی ہی بھلائی ڈھونڈ رہا ہو گا اور ایک دور بین نگاہ سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہے گے.نمونہ کے طور پر ایک مثال حال کے منافقین کی ہی دیکھیں.اور دوسروں کو اس پر قیاس کر سکتے ہیں.مکرمی محتر می ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے اپنی ۴ جولائی والی تقریر میں مصری صاحب کے متعلق کہا کہ ایک شخص پرسوں مجھ سے ذکر کر رہا تھا کہ میں دس سال تک ان کا دوست رہا.مگر اس عرصہ میں انہوں نے پانی کا ایک گلاس تک کبھی مجھے نہ پوچھا".گیارہویں علامت گیارہویں علامت منافق کی یہ بتائی کہ جب کوئی نفاق کی بات ان کے منہ سے نکلے یا کوئی منافقانہ عمل ان سے سرزد ہو اور اس کے متعلق رسول یا اس کا جانشین تحقیق کرائے تو بعض دفعہ منافق

Page 29

۲۳ سرے سے ہی انکار کر جاتے ہیں اور دلیری سے کہہ دیتے ہیں خدا کی قسم ہم نے تو ایسا نہیں کہا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ منافق کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَحْلِفُونَ بِاللهِ مَا قَالُوا (التوبة : ۷۴ ) وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے ایسی باتیں نہیں کہیں.یعنی بعض دفعہ تو وہ یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں.( جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جنسی میں ایسی بات ہوگئی ہوگی.اور جب سمجھیں کہ یہ حربہ بھی کارگر نہ ہو گا تو صاف جھوٹ بول دیتے ہیں اور صاف انکار کر دیتے ہیں کہ ایسی کوئی بات ہوئی ہی نہیں.منشی فخر الدین صاحب نے بھی اس قسم کا جھوٹ بولنے میں منافقانہ دلیری سے کام لیا.(شاید یہی ایک میدان ہے جس میں منافق دلیر ہوتا ہے ) چنانچہ انہوں نے دورانِ گفتگو میں اشتہار کے متعلق سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور سید عز یر اللہ شاہ صاحب سے کہا.اَسْتَغْفِرُ الله - نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِك جو بھی ایسی ایسی حرکات ظہور میں آئیں.وہ ضروری نہیں ہیں کہ میری طرف سے ہوں.مجھ کو بدنام کرنے کے لئے دوسرے دشمن ایسی ایسی باتیں میری طرف منسوب کرتے ہیں.جب بھی ایسی حرکات ظہور میں آئیں تو کیا ان الزامات کے صحیح ہونے کا میں ہی ذمہ دار ہوں.میری طرف سے لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِین ہے.“ ( الفضل ۲۶ / جون ۱۹۳۷ء) حالانکہ بعد میں واقعات نے ثابت کر دیا کہ یہ دعویٰ سراسر جھوٹ تھا.دراصل اس میں خلاف واقعہ باتیں کوئی نئی چیز نہیں.غیر مبایعین کی تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر اب تک اس منافقانہ دروغ گوئی سے پر نظر آئے گی.بارہویں علامت بارہویں علامت منافقین کی یہ قرار دی کہ گو زبان سے یہ گروہ ہمیشہ دعویٰ کرتا رہتا ہے کہ ہم مومن ہیں.ہم تم میں سے ہیں.مگر ان کے دل میں چور ہوتا ہے.اور يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ

Page 30

۲۴ عَلَيْهِمْ (المنافقون: ۵) ہر آواز جو اٹھائی جائے اسے اپنے خلاف سمجھتے ہیں.اگر دو آدمی آپس میں مل کر باتیں کر رہے ہوں تو ان کو شبہ گزرتا ہے کہ یہ انہیں کے خلاف چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں.اگران کے کان میں یہ بھنک پڑ جائے کہ امام وقت کے پاس بعض مومنین نے منافقین کی بابت کوئی رپورٹ کی ہے تو ان میں سے ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ بس میرے خلاف سی آئی ڈی چھوڑی ہوئی ہے.چنانچه منشی فخر الدین صاحب نے بھی اپنے بیان میں کہا.” پھر مولوی عبد الاحد اور ماسٹر غلام حیدر اور مولوی تاج الدین وغیرہ کا الگ کھڑے ہو کر سر گوشیاں کرنا وغیرہ سب امورا ایسے ہیں جو مجھے اس امر کا باور کرنے کے لئے کافی ہیں.کہ یہ لوگ سی.آئی.ڈی تھے.صرف یہی نہیں کہ وہ لوگ جاسوس تھے.بلکہ ان سرگوشیوں سے یہ بھی نتیجہ نکالا کہ یہ جاسوسی بھی اس بات کی کر رہے تھے کہ منشی فخر الدین منافقانہ باتیں تو نہیں کرتا حالانکہ ہی.آئی.ڈی اگر ہو بھی تو کئی باتوں کے لئے ہوسکتی ہے.مثلاً یہ کہ منشی فخر الدین لین دین کے معاملہ میں کیسا ہے.وغیرہ وغیرہ.اول یہ بدلنی کہ یہ لوگ جاسوس ہیں پھر یہ بدظنی کہ خلیفہ امسیح علیہا السلام کے مقرر کردہ جاسوس ہیں اور تیسرے یہ بدظنی کہ یہ لوگ منشی فخر الدین وغیرہ کی منافقت“ کی وجہ سے جاسوس مقرر کئے گئے ہیں.بھلا اگر تم منافق نہیں.تو ان جاسوسوں - سے تمہیں نقصان کا کیا ڈر ہے.سچ ہے..جہل کی تاریکیاں اور سوئے ظن کی تند باد جب اکٹھے ہوں تو پھر ایماں اُڑے جیسے غبار ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) تیر ہوئیں علامت تیر ہوئیں علامت جس سے ایک منافق شناخت کیا جا سکتا ہے.وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الْمُنْفِقُونَ وَالْمُنْفِقْتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ (التوبة: ۶۷) یعنی منافقوں کے گروہ ایک دوسرے میں سے ہیں.اگر کوئی کہے کہ ہمیں کس طرح پتہ لگے کہ ایک شخص جو نظام جماعت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے.وہ ایک نیک نیت راہ گم گشتہ مومن نہیں بلکہ نفاق کے گند میں لتھڑا ہوا منافق ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ فتنہ نیا فتنہ نہیں.اس سے پہلے بھی نفاق کے فتنے ظاہر ہوتے

Page 31

۲۵ رہے ہیں تم دیکھو.ان نئے مصلحین کا تعلق (خصوصاً نفاق ظاہر ہونے کے بعد ) کن گروہوں سے ہے.اگر یہ لوگ اصلاح کا دعویٰ کرنے کے باوجود پیغامیوں سے یا مستریوں سے تعلق رکھتے ہیں.اگر ان کے اشتہار پیغا می تقسیم کرتے ہیں.اگر منشی فخر الدین مستری عبدالکریم سے دوستانہ گفتگو میں منہمک نظر آتے ہیں تو بات صاف ہے کہ یہ لوگ بھی ان ہی لوگوں میں سے ہوں گے اور چونکہ ان پرانے منافقین کی منافقت روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے اور اس میں تمہیں کوئی شک نہیں.اس لئے تمہیں اس نئے گروہ کے نفاق میں بھی شبہ نہ ہونا چاہیے اور ان کے معاملہ میں تمہیں نرمی نہ دکھانی چاہیے.(فَاغْلُظْ عَلَيْهِمُ ( اگر تمہیں اس میں شک نہیں کہ مستری عبد الکریم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کا منکر ہے.اگر تم اس میں شبہ کی گنجائش نہیں پاتے کہ پیغامی پارٹی اللہ تعالیٰ کے رسول اور نبی کی حقیقی تعلیم کو چھپانے والوں اور اس تعلیم کی حقانیت میں شک کرنے والوں کا فرقہ ہے تو تمہیں اس میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ شیخ مصری صاحب اور ان کے چیلے بھی پہلے منافقین کی طرح شیطانی ہاتھ میں ایک ہتھیار ہیں اور ان کا انجام بھی وہی ہو گا جو پہلوں کا ہوا.سوعبرت کا مقام ہے.چودھویں علامت چودھویں علامت منافق کی اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے.فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يحكمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ (النساء ۲۲) چونکہ اس کی تفسیر اور اس کا منافقین پر اطلاق احباب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطبہ میں پڑھ چکے ہیں.مجھے اس کے متعلق زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.البتہ ضمناً ایک بات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ مقدمہ کے متعلق منشی فخر الدین نے کہا ہے کہ (۱) پہلے خلفاء لوگوں کی تکالیف چھپ چھپ کر معلوم کرتے تھے مگر (۲) یہاں معاملہ اور ہے.(الفضل ۲۸ / جولائی) گو بظاہر اس فقرہ کا پہلا حصہ سچ ہے اور دوسرا حصہ صحیح نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ پہلا حصہ بھی جن معنوں میں لیا گیا ہے وہ خلفاء راشدین پر ایک بہتان ہے اور اس کا ازالہ ضروری ہے.اس میں شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء علیہم السلام سب ہی حسب ضرورت پوشیدہ طریقوں سے

Page 32

۲۶ حاجتمندوں کی تکالیف کا علم حاصل کرتے اور ان کے دور کرنے کے ذرائع استعمال کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں.مگر یہ کہنا بالکل خلاف واقعہ ہو گا کہ پہلے خلفائے راشدین چھپ چھپ کر منافقین کی تکالیف معلوم کیا کرتے تھے.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابن سلول کی تکالیف کا چھپ چھپ کر علم حاصل کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (النساء:۵۳) که تو اس دنیا میں مومنین میں سے کسی کو منافقین کی (ان کی منافقت کا علم ہوتے ہوئے ) مدد کر تے نہ پائے گا، پس کیا وہ جلیل القدر ہستیاں قرآنی حکم کے خلاف عمل کیا کرتی تھیں.منشی فخر الدین کا پہلے خلفاء کا اس رنگ میں ذکر کرنا اگر دھوکہ دہی نہیں تو جہالت ضرورت ہے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَنْ يُصِيْبَكُمُ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِمَ أَوْ بِأَيْدِينَا (التوبة:۵۲) جولوگ یہ امید رکھتے ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ منافقین کو ان کے ہاتھوں سے عذاب دلوائے ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ چھپ چھپ کر ان منافقین کی تکالیف معلوم کیا کرتے تھے صریح ظلم نہیں تو اور کیا ہے.پندر ہوئیں علامت پندرہویں علامت یہ ہے کہ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَ تَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ (التوبة: ١٠٧) یعنی جن لوگوں نے رسول خدا کے مقابل پر ایک مسجد ضرار بنائی ہے جس کی غرض یہ ہے کہ رسول خدا اور مومنوں کو تکلیف میں ڈالا جائے اور رسول کا کفر کیا جائے اور مومنوں کے اندر تفرقہ پیدا کیا جائے اور دشمنان خدا کو اسلام کے خلاف ایک اڈا جمانے کا موقع دیا جائے.یہ لوگ بڑی بڑی غلیظ قسمیں کھائیں گے کہ ان کی نیت نیک ہے اور ان کی غرض سوائے اصلاح کے اور کچھ نہیں مگر اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے اور کذاب ہیں.یہاں مسجد ضرار کے ذکر میں اس آیت کے پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی گونا گوں منافقانہ کوششوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ان لوگوں نے ایک مسجد ضرار بنا رکھی ہے یا دوسرے الفاظ میں منافقین کی کلب بنائی ہے جہاں منافقین کا گروہ اکٹھا ہو کر منافقانہ منصوبے سوچتا اور منافقانہ پروگرام

Page 33

۲۷ تیار کرتا ہے اور ان کی کارروائیوں کا خلاصہ چار الفاظ میں بیان فرمایا ہے.(۱) ضِرار.یعنی وہ منافقانہ کام ایسے ہوتے ہیں جن سے منافقین کا مطلب اپنے ذاتی جھگڑوں کا بدلہ لینا ہوتا ہے.یعنی منافقین کو شکایت ہوتی ہے کہ بیت المال میں سے ہمیں کافی حصہ نہیں ملتا.تنخواہیں نہیں بڑھائی جاتیں یا ہمارے رشتہ داروں کو کارکن نہیں مقرر کیا جاتا اور اس حرص اور ذاتی اور وہمی شکایتوں کی بنا پر منافقین ایسے منصوبے سوچتے ہیں جن سے جماعت کو نقصان پہنچے.نیز ضرار کے یہ معنے بھی ہوں گے کہ منافقین کے کام جماعت کے خلاف ایسے ہوں گے کہ جماعت کو ان میں نقصان ہوگا.مگر اس میں ان کا اپنا بھی فائدہ نہ ہوگا.مثلاً پولیس میں بغیر اجرت یا موہوم اجرت کے بدلہ میں سلسلہ کے متعلق جھوٹی رپورٹیں دینا وغیرہ.(۲) دوسرے كفرًا.علیحدہ مسجد یا کلب بنانے کی یہ غرض ہوگی کہ تا مومنین سے ان کی حرکتیں پوشیدہ رہیں اور اندر ہی اندروہ اپنے منافقانہ لائحہ عمل کو پورا کرتے رہیں.اور جہاں تک ان کے منافقانہ لائحہ عمل کا تعلق ہو گا وہ کفر کی تعریف کے نیچے آنے والا ہو گا یعنی ان لوگوں پر سلسلہ اور خلیفہ وقت کے احسان ہیں.ان منافقین کا منافقانہ عمل اس احسان اور نعمت کا کفران ہوگا.مثلاً سلسلہ کی طرف سے تنخواہ لے کر کام کرتے رہو پھر جب بھا گو تو قرآن کریم کا ترجمہ ساتھ لے بھا گواوراس کی اشاعت سے جو آمد ہوا سے ذاتی مال سمجھ کر کھا جاؤ.یا اگر سلسلہ کی کسی تعلیم گاہ کے افسر اعلیٰ ہوتو تنخواہ تو بیت المال سے لو اور تعلیم دیتے وقت بچوں کو منافقانہ باتوں کی تلقین کرو جو اس تعلیم کی غرض کو فوت کرنے والی ہوں وغیرہ وغیرہ.(۳) وَتَفْرِيقًا منافقین کی کارروائیوں کی تیسری شق ان اعمال پر مشتمل ہوگی جس کے نتیجہ میں جماعت میں تفرقہ پیدا ہونے کا خدشہ ہو اور اس طرح منافقین کی یہ کوشش ہوگی کہ اس اتحاد کو جو نبی کے ذریعہ قائم کیا جاتا ہے اور اس برادری اور اخوت کو جو نبی کے ذریعہ پیدا کی جاتی ہے کمزور کر دیا جائے مثلاً تقسیم مال پر اعتراض کر کے (يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَتِ (التوبة: ۵۸) یادین کی باتوں میں ہنسی کر کے اور ٹھٹھے سے کام لے کر وغیرہ وغیرہ.(۴) وَارْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللهَ وَرَسُولَهُ مِن قبل (التوبة: ۱۰۷) تا ان لوگوں کو جو اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے لڑ رہے تھے.حملہ کا ایک نیا ٹھکا نہ مل جائے.یعنی اس دوا ینٹ

Page 34

۲۸ کی علیحدہ مسجد یا کلب بنانے سے چوتھی غرض منافقین کی یہ ہوتی ہے.یا یوں کہو کہ منافقین کی چوتھی قسم کے کام یہ ہوتے ہیں کہ وہ ہر طریقے سے ان دشمنوں سے ساز باز کرتے ہیں.جو پہلے سے جماعت مسلمین کی مخالفت پر کھڑے ہوتے ہیں اور اس طرح دشمنان دین کی طاقت کا موجب ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ (المنافقون: ۵) کے وہ مصداق ہو جاتے ہیں یعنی ہر دھمکی اور جنگ کے اعلان کو وہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں نیز یہی وجہ ہے کہ منافق جہاد میں ستی دکھاتا ہے.ان چار الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی علامات اور ان کے کاموں کا اجمال کے ساتھ نقشہ کھینچ دیا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باوجود ان تمام باتوں کے تم منافقین کو ہمیشہ قسمیہ کہتے سنو گے کہ ہمارا تو جماعت کی خیر خواہی سے مطلب ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دیدہ دلیری کا اور کیا جواب ہوسکتا ہے.سوائے اس کے کہ خدا گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اور واقعات بتا دیں گے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں.عجیب بات ہے کہ مصری صاحب نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَیٰ یعنی ان کی آنکھیں نبی کی جماعت میں بگاڑ ہی بگاڑ دیکھتی ہیں.اور اپنے نفس میں اصلاح ہی اصلاحپاتی ہیں.چنانچہ ایک اشتہار میں وہ لکھتے ہیں.جماعت کے اندر ایک بہت بڑا بگاڑ مشاہدہ کر کے جو بہت سے لوگوں کو دہریت کی طرف لے جاچکا ہے اور بہتوں کو لے جانے والا ہے.اس کی اصلاح کی ضرورت محسوس کر کے بلکہ اس کو ضروری جان کر اٹھایا ہے.“ ہمارا جواب یہ ہے کہ اگر ان کی حالت ( الفضل ۳ جولائی ۱۹۳۷ء) عے شائد تمہارے فہم کا ہی کچھ قصور ہو“ کی مصداق نہیں تو پھر.وَ اللهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكُذِبُونَ (الحشر: ١٢) خدا کی گواہی یہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے اور کذاب ہیں.

Page 35

۲۹ اپنے دشمنوں کے مقابلہ کے لئے قرآنی خزانہ ان گنت آسمانی دلائل کا حامل ہے.میں نے مندرجہ بالا پندرہ علامات صرف بطور نمونہ لکھی ہیں.میں سمجھتا ہوں.ایک عقلمند انسان کے لئے منافقین کی شناخت کے لئے یہ پندرہ قرآنی دلائل کافی ہیں.مومنانہ رحمت کے ماتحت میں ان نئے منافقین اور ان کے ساتھ پرانے منافقین سے بھی یہی کہوں گا کہ اب بھی تو بہ کر لیں.کہ سچی توبہ بارگاہ ایزدی میں ضرور قبول ہوتی ہے.اور کوشش کریں کہ آپ إِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوا وَ أَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوا بِاللهِ وَ اَخْلَصُوا دِيْنَهُم لِلَّهِ (النساء : ۱۴۷) کے مصداق نہیں.نہ کہ مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کے مصداق کہ ے عقل پر پردے پڑے سو سو نشاں کو دیکھ کر نور سے ہو کر الگ جایا کہ ہوویں اہل نار اخبار الفضل قادیان دارالامان - ۸ ستمبر ۱۹۳۷ء صفحه ۴ تا ۹) ☆ ☆☆

Page 36

حقیقت جہاد سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ستائیس برس پہلے کا ایک قیمتی مقالہ (ادارہ) اب تک جہاد پر جو مضامین لکھے گئے ہیں ان میں صرف یہ بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ جہاد بالسیف کب اور کن شرائط کے ماتحت جائز ہے اور یہ کہ اشاعت اسلام کے لئے تلوار چلانے کی اجازت نہیں دی گئی اور بس.میں نے یہ راستہ نہیں لیا.میرے نزدیک بجائے اس بات پر زور دینے کے کہ جہاد بالسیف کب اور کیوں جائز ہے زیادہ زور اس بات پر دینا چاہیے کہ اسلام میں جہاد کے معنی کیا ہیں اور اشاعت اسلام کے متعلق قرآن کریم نے کیا احکام بتائے ہیں؟ جب ہم اشاعت دین کے متعلق اسلامی تعلیم لوگوں کے ذہنوں میں اچھی طرح راسخ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا کہ اسلام نے اشاعت دین کے ہتھیاروں میں تلوار کو نہیں رکھا، اس کا استعمال اور ہے اور یہ اپنے محل پر ہی استعمال ہونی چاہیے.پس میں اس مختصر سے نوٹ میں یہ بتاؤں گا کہ جہاد کے معنے لغت میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا ہے اور اسلامی اصطلاح میں جہاد کے معنے ہیں نفسِ امارہ ، شیطان ، اور دشمن آزادی مذہب کے خلاف تمام طاقتوں کو لگانا.اسلام میں جہاد نفس سے شروع ہوتا اور شیطان پر ختم ہوتا ہے.شیطان کے خلاف جہاد کرنے کے دوران میں بعض ایسی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ مجبوراً تلوار چلانی پڑتی ہے اور اس لئے چلانی پڑتی ہے کہ مکمل مذہبی آزادی کو دنیا میں قائم کیا جائے.تا جو شخص بھی مسلمان ہو وہ صرف اس لئے مسلمان ہو کر اسلام کی حقانیت اس پر کھل گئی ہے.نہ اس لئے کہ اسلام کا نام زبان پر لائے بغیر اسے چارہ نہیں.میں نے اشاعت مذہب کے مسئلہ پر نسبتاً بسيط بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ اشاعت اسلام کرتے ہوئے مخالفین کے سامنے صرف دو چیزوں کو پیش کرنا جائز ہے، قرآنی نمونہ اور

Page 37

۳۱ قرآنی دلائل اور یہ کہ انہیں پیش کرتے ہوئے کمال حکمت اور نرمی سے کام لینا چاہیے.پھر اس کے بعد جہاد بالسیف پر مختصر سا تبصرہ ہوگا.وَمَا تَوْفِيقِى إِلَّا بِاللَّهِ جہاد کے معنی لغت کی رو سے جهاد کا لفظ جَهَدَ سے مشتق ہے اور جھد کا معنی ہیں مشقت برداشت کرنا اور جہاد کے معنی ہیں کسی کام کے کرنے میں پوری طرح کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ کرنا.تاج العروس میں ہے وَحَقِيْقَةُ الْجِهَادِ كَمَا قَالَ الرَّاغِبُ الْمُبَالَغَةُ وَاسْتِفْرَاغُ الْوُسُعِ وَالْجُهْدِ فِيمَا لَا يُرْتَضَى وَهُوَ ثَلَاثَةٌ أَضْرُبٍ مُجَاهَدَةُ الْعَدُةِ الظَّاهِرِ وَالشَّيْطَانِ وَالنَّفْسِ وَتَدْخُلُ الثَّلَاثَةُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ - یعنی جیسا کہ راغب نے کہا ہے جہاد کے حقیقی معنی ہیں کسی قسم کی کمی اٹھا نہ رکھنا اور اپنی ساری طاقتوں کو خرچ کرنا اور نفس پر بار ڈال کر اس کام کو کرنا.اور جہاد کی تین قسمیں ہیں.عدو ظاہر کا پوری کوشش سے مقابلہ کرنا، شیطان کے مقابلہ میں اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا اور اس بات میں پورا زور لگا دینا کہ دنیا سے شیطانی باتوں کا قلع قمع ہو جائے ، اسی طرح نفس سے جنگ میں پوری کوشش سے کام لینا اور آیت کریمہ وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ (الحج: ۷۹) جہاد کی مذکورہ بالا تینوں قسموں کی طرف اشارہ کرتی ہے.لسان العرب میں بھی جہاد کے معنی الْمُبَالَغَةُ وَاسْتِفْرَاعُ الْوُسْعِ ہی لکھے ہیں.یعنی کوشش کو انتہاء تک پہنچانا اور اپنی طاقتوں کو کلی طور پر کسی کام میں لگا دینا.پس عربی زبان میں جہاد کے معنی اپنی طاقتوں کو کلی طور پر اپنے مد مقابل کے خلاف لگا دینے کے ہوئے.اسلامی اصطلاح میں جہاد کے معنی عربی زبان میں جہاد کے معنی یہ تھے کہ جس چیز کے خلاف جہاد کیا جائے خواہ وہ کوئی چیز ہی کیوں نہ ہو اس جہاد میں اپنی ساری طاقتوں کا لگا دینا.کیا اسلامی اصطلاح میں جہادان عام معنوں

Page 38

۳۲ میں استعمال کیا گیا ہے یا اسلام نے ان عام معنوں کو محدود کر کے جہاد کو خاص معنوں میں استعمال کیا ہے؟ اسلام نے جہاد کے معنوں میں تو کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی.البتہ ان چیزوں کو جن کے خلاف جہاد کی تلقین کی ہے اسلام نے تین میں محدود کر دیا ہے یعنی (۱) نفس کے خلاف جہاد کرنا ، (۲) شیطان کے خلاف جہاد کرنا اور (۳) دنیا سے شیطانی تعلیمات کو مٹا کر اسلامی تعلیمات کو رائج کرنا اور بعض استثنائی صورتوں میں جب کوئی اور چارہ نہ رہے تو پھر مذہبی آزادی کے دفاع کے لئے دشمن کے خلاف تلوار اٹھانا.شیطان کا اپنی ساری قوتوں کو اس بات میں خرچ کرنا کہ اسلامی تعلیمات دنیا سے مٹ جائیں لغت کی رو سے ایک جہاد ہوگا مگر اسلامی اصطلاح میں یہ جہاد نہیں.اسلامی اصطلاح میں جہاد صرف تین چیزوں کے خلاف اپنی ساری توجہ کو مبذول کرنے اور تمام طاقتوں کو خرچ کرنے کا نام ہے اور یہ تین چیزیں یہ ہے.(۱) نفس امارہ بالسوء اور (۲) شیطان اور اس کی تعلیمات اور (۳) عدو ظاہر یعنی ایسا دشمن جو اسلام کو تلوار سے مٹانا چاہے.اللہ تعالیٰ سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: ۷۰) یعنی جو لوگ ہماری خاطر اور ہماری بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق جہاد کرتے ہیں ہم ان پر اپنے قرب کی راہیں کھول دیتے ہیں.اس آیت کریمہ میں لفظ جَاهَدُوا کے مفعول کا ذکر نہیں اور ہر چیز جو مفعول بننے کی اہل ہو اس کا مفعول بن سکتی ہے.لیکن گو جَاهَدُوا کے مفعول کا ذکر نہیں مگر جہاد کے ساتھ فینا کی قید لگا دی ہے جس کے معنی ہیں ہماری خاطر اور ہماری رضا کو حاصل کرنے کے لئے اور ہماری ہدایات کے مطابق اور یہ فینا کی قید ہی ہے جس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں جہاد کی تین چیزوں کے خلاف کیا جاتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا کی تفسیر تفسیر کشاف میں یوں کی گئی ہے اطلق الْمُجَاهَدَةَ وَلَمْ يُقَيّدْهَا بِمَفْعُولٍ لِيَتَنَاوَلَ كُلَّ مَا يَجِبُ مُجَاهَدَتَهُ مِنَ النَّفْسِ الْأَمَّارَةِ بِالسُّوءِ وَالشَّيْطَانِ وَاَعْدَاءِ الدِّينِ یعنی جَاهَدُوا کے لفظ کو مطلق رکھا ہے اور کسی مفعول کے ذکر سے اسے مقید نہیں کیا.تا ہر وہ چیز جس کے خلاف مجاہدہ کرنا واجب ہے اس کا مفعول بن سکے.یعنی

Page 39

۳۳ نفس امارہ ، شیطان اور اعداء دین.اسلامی تعلیم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم یا تو نفس امارہ کو مارنے کی تلقین کرتی ہے اور اس جہاد پر بہت زور دیا گیا ہے.اسی کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے یا يُّهَا الَّذِينَ أَمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۚ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ (المائدة:۱۴) اے مومنو! سب سے قبل تم اپنے نفسوں کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اگر تم صحیح راستہ پر قائم ہوجاؤ تو تمہیں دوسروں کی گمراہی کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی.(اس جہاد کا تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا) اور یا اسلامی تعلیم شیطانی تعلیمات کو دنیا سے مٹانے کی تلقین کرتی ہے تا اسلامی تعلیم دنیا میں قائم ہو جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ المنكر (ال عمران : 1) یعنی تم دنیا میں بہترین امت ہو اس لئے کہ تم سے پہلی امتوں میں سے بعض نے اصلاح نفس تو کی تھی مگر سا راز در رہبانیت پر خرچ کیا تھا.انہوں نے اپنے نفس کے خلاف تو جہاد کیا تھا مگر شیطانی تعلیمات کو دنیا سے مٹانے کی کوشش نہ کی تھی اور بعض نے دوسروں کو تو خیر کی طرف بلایا تھا اور شیطانی تعلیمات کے خلاف تو جہاد کیا تھا مگر وہ اپنے نفسوں کو بھول گئے تھے.تم پچھلی سب امتوں سے بڑھ گئے ہو اور سب سے بلند مرتبہ ہو اس لئے کہ تم نے پہلے اپنے نفسوں کی اصلاح کی اور خدا تعالیٰ پر حقیقی ایمان لائے ، ایسا ایمان کہ اس کے بعد رسول کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کئے بغیر تم رہ نہ سکتے تھے.پھر جب تم مجاہدہ نفس میں کامیاب ہو گئے تو دنیا میں اس لئے نکلے کہ تم شیطان کے خلاف جنگ کرو اور اپنے گمراہ بھائیوں کو راہ ہدایت پر چلاؤ.لہذا تم خیر الام ہوئے.پس دوسروں کو ہدایت کی طرف بلانا اور شیطانی تعلیمات کو دنیا سے مٹانے کی پوری کوشش کرنا، یہ دوسری قسم کا جہاد ہے.پھر تیسری چیز جس کے خلاف اسلام نے جہاد کی تعلیم دی ہے وہ دشمن ہے.جو تلوار کے زور سے اسلامی تعلیم کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہے.اسے دشمن کے خلاف بعض شروط کے ساتھ تلوار چلانے کی اجازت دی گئی ہے جن کا ذکر آگے آئے گا.خلاصہ کلام یہ ہے کہ لغت کی رو سے جہاد کے معنی یہ تھے کہ جس چیز سے بھی جہاد کیا جائے اس

Page 40

۳۴ کے خلاف اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو لگانا.لغت ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ یہ جہاد کن چیزوں کے خلاف ہونا چاہیے.لغت کی رو سے شیطانی جہاد بھی جہاد ہے، دنیوی جہاد بھی جہاد ہے اور دینی جہاد بھی جہاد ہے.اسلامی اصطلاح میں لفظ جہاد کے معنے تو وہی رہتے ہیں جو لغت میں تھے یعنی ان تھک کوشش اور سارے قویٰ کی توجہ اس چیز کی طرف لگا دینا جس کے خلاف جہاد ہورہا ہو مگر اسلامی اصطلاح نے ان چیزوں کو جن کے خلاف دینی جہاد کرنا چاہیے تین میں محدود کر دیا ہے.نفس، شیطانی تعلیمات اور تلوار کے زور سے مذہبی آزادی کو مٹانے والا دشمن.جہاد کی تین قسمیں اسلامی اصطلاح میں جہاد کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے ہمیں معلوم ہوا تھا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق جہادتین چیزوں کے خلاف کیا جاتا ہے.پس یہ تین قسم کا جہاد ہوا.اول وہ جہاد جو نفس کے خلاف کیا جائے اور اسے اسلامی اصطلاح میں ” جہاد کبر" کہتے ہیں.دوم وہ جہاد جو شیطان اور شیطانی تعلیموں کے خلاف کیا جائے اور اس کا نام ”جہاد کبیر“ ہے.سوم وہ جہاد جو دشمن آزادی مذہب کے خلاف کیا جائے اور یہ جہاد اصغر کے نام سے موسوم ہے.جهاداً كبير مجاہدہ نفس کو خود آنحضرت ﷺ نے جہادا کبر کہا ہے.حدیث میں آتا ہے عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَجَعَ مِنْ بَعْضِ غَزَوَاتِهِ فَقَالَ رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْاَكْبَرِ (کشاف) یعنی نبی کریم ﷺ ایک جنگ ( غزوہ تبوک) سے واپس لوٹ رہے تھے تو آپ نے فرمایا ہم جہادِ اصغر یعنی جنگ سے واپس آرہے ہیں اور جہاد کبر یعنی مجاہدہ نفس کی طرف جا رہے ہیں.مجاہدہ نفس تینوں قسم کے جہادوں میں سب سے بڑا اور سب سے افضل ہے اور اسلام نے ہمیں یہی حکم دیا ہے کہ جہاد کی ابتدا ء اپنے نفس سے کرو اور جب اس میں ایک حد تک کامیاب ہو جاؤ پھر

Page 41

۳۵ اشاعت اسلام یا جہاد کبیر کی طرف متوجہ ہو.چنانچہ فرمایا یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ (المائدة: ١٠٦) اے مومنوا ! ( جنہیں یہ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں کوشش کرنے والا خدا تعالیٰ کے قرب کو پالیتا ہے ) سب سے قبل اپنے نفسوں کی فکر کر دو اور مجاہدہ نفس اور تزکیہ نفس میں لگے رہو.دوسروں کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی اگر تم خود راه راست پر گامزن ہو.پس اپنے نفسوں کی اصلاح میں لگے رہو اور انہیں خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر چلاؤ تا اگر اس کا فضل تمہارے شامل حال رہے تو تم نجات پاسکو.لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اصلاح نفس کی طرف تو بہ کم کی اور اشاعت اسلام میں لگے رہے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اول تو دوسروں پر تمہاری تبلیغ کا کوئی اثر نہ ہوگا اور اگر ہو بھی تو وہ تو ہدایت پا جائیں گے مگر خود تم ہلاک ہو جاؤ گے.پس تمہارا اولین فرض اصلاح نفس ہے.یہ فرض ادا کرنے کے بعد دوسرے فرائض کی طرف متوجہ ہونا.شیخ اسمعیل حقی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں فَلَا تَشْتَغِلُوا قَبْلَ تَزْكِيَتِهَا بِتَزْكِيَةِ نُفُوسِ الْخَلْقِ ( تفسیر روح البیان ) چاہیے کہ تم اپنے نفوس کی اصلاح اور تزکیہ سے پہلے خلق خدا کے نفوس کی اصلاح میں نہ لگ جاؤ.اور تفسیر کشاف میں ہے گانَ الْمُؤْمِنُونَ تَذْهَبُ أَنْفُسُهُمُ حَسْرَةً عَلَى أَهْلِ الْعَدُوِّ وَالْعِبَادِ مِنَ الْكَفَرَةِ يَتَمَنَّوْنَ دُخُولَهُمْ فِي الْإِسْلَامِ فَقِيلَ لَهُمْ عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ وَمَا كَلَّفْتُمُ مِنْ إِصْلَاحِهَا وَالْمَشْيِ بِهَا فِي طُرُقِ الْهُدَى - مومنین اس غم میں گھل رہے تھے کہ اسلام کے جانی دشمن کیوں اسلام قبول نہیں کرتے اور اپنی دشمنی پر کیوں اڑے ہوئے ہیں.پس انہیں کہا گیا کہ اشاعت اسلام سے قبل تمہیں اپنے نفسوں کی اصلاح کی فکر چاہیے اور چاہیے کہ کسی اور کام سے پہلے تم اپنے نفسوں کو ان راہوں پر چلاؤ جو قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہیں.احادیث میں بھی جہادا کبر کی طرف بہت تاکید سے توجہ دلائی گئی ہے.ترمذی میں ہے اِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ - مسند احمد بن حنبل میں الله اس حدیث کے آخر میں فِی طَاعَةِ الله بھی ہے.یعنی نبی کریم علیہ فرماتے ہیں کہ حقیقی مجاہد یا بہترین مجاہد جو دوسری اقسام کے مجاہدین پر فضیلت رکھتا ہے وہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنے والا

Page 42

۳۶ ہے.اس سے بھی مجاہدہ نفس کی افضلیت ظاہر ہے.ضمناً یہ بات بھی ذکر کر دینا ضروری ہے کہ مختلف احادیث میں مختلف چیزوں کو سب سے بڑا جہاد کہا گیا ہے.کبھی آپ یہ فرماتے ہیں کہ حج سب سے افضل جہاد ہے اور کبھی فرماتے ہیں کہ ظالم بادشاہ کے سامنے سچی باتیں کہنا سب سے افضل جہاد ہے اور کبھی یہ کہ دین کی راہ میں مارا جانا سب سے افضل جہاد ہے.پس ان احادیث میں بظا ہر تناقض ہے اور اس کو اس وقت تک حل نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ ہم جہاد کی ان تین قسموں کو اپنے سامنے نہ رکھیں.میں ان احادیث کا اپنی اپنی جگہ ذکر کروں گا اور ان کا اپنی اپنی جگہ پر رکھنا ہی ان کا حل ہے.فَتَدَبَّرُوا.بخاری میں ہے عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ يَارَسُولَ اللَّهِ نَرَى الْجِهَادَ أَفْضَلُ الْعَمَلِ اَفَلَا نُجَاهِدُ فَقَالَ لَكِنْ أَفْضَلُ الْجِهَادِ حَجٌ مَبْرُورٌ - حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ یارسول اللہ ! ہم عورتیں دین کی خاطر جنگ کو تمام نیکیوں سے افضل خیال کرتی ہیں، پس کیا ہم جنگ میں شرکت نہ کیا کریں.تو آپ نے جواب دیا ( اور جواب بہت جامع اور قابل غور ہے ) کہ سب سے افضل جہاد حج مبرور ہے.سوال میں تھا أَفْضَلُ العَمَلِ “ سب نیک کاموں سے افضل، جواب میں آپ فرماتے ہیں.افضل الْجِهَادِ “.اس جواب میں بڑے لطیف طریق پر سائلہ کی غلطی کو دور کیا گیا.سوال یہ کیا گیا نیکی کے کاموں میں سے صرف ایک کام کو ہم جہاد کہتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی خاطر جنگ کرنا ہے.جواب یہ دیا جاتا ہے کہ تم صرف جنگ کو جہاد کیوں کہتی ہو تمام نیک کام جہاد میں شامل ہیں کیونکہ جواب میں أَفْضَلُ الْعَمَلِ حَجٌ مَبْرُورٌ کی بجائے "أَفْضَلُ الْجِهَادِ حَجٌ مَبْرُورٌ فرمایا.اگر یہ صحیح ہونے کے بعد سوال پوچھا جاتا تو یہ ہوتا کہ ہم عورتیں جہاد کی مختلف قسموں میں سے جنگ کو افضل سمجھتی ہیں.کیا ہم جنگ نہ کیا کریں؟ تو اس کا جواب آپ یہ دیتے ہیں کہ تم جنگ کو افضل الجہاد سمجھنے میں غلطی کرتی ہو افضَلُ الْجِهَادِ تو مجاہدہ نفس ہے اور مجاہدہ نفس کے لئے جن اعمال کی ضرورت ہے ان میں سے عورتوں کے لئے حج مبرور سب سے افضل ہے ( حقیقت تو یہ ہے کہ حج مبرور میں تمام نیکیاں

Page 43

۳۷ ہی شامل ہو جاتی ہیں.فَتَدَبَّرُوا) کیونکہ تزکیہ نفس کو دوسری قسم کے جہادوں پر برتری حاصل ہے کیسے صاف الفاظ میں جہادا کبر کی افضلیت ثابت کی گئی ہے.مذکورہ بالا حدیث سے یہ دھوکہ نہ کھانا چاہیے کہ صحابہ کرام لفظ جہاد کو صرف جنگ کے لئے استعمال کرتے تھے.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حقیقت جہاد سے اچھی طرح واقف تھے.چنانچہ ایک روایت ہے قَالَ بَعْضُ الصَّحَابَةِ لِمَنْ سَأَلَهُ عَنِ الْغَزْوِ إِبْدَءُ بِنَفْسِكَ فَاغْزُهَا وَابْدَأُ بِنَفْسِكَ فَجَاهِدُ (لطائف المعارف لا بن رجب الحنبلی صفحه ۲۴۱ ) یعنی ایک صحابی سے کسی نے جنگ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ پہلے اپنے نفس سے جنگ کرو اور پہلے اپنے نفس کے خلاف جہاد کرو پھر کسی اور جہاد کی فکر کرنا“.خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاد کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کی پوری اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کی راہ میں اپنی تمام طاقتوں کا خرچ کرنا.جہاد نفس، شیطان اور دشمن آزادی مذہب سے کیا جاتا ہے.مجاہدہ نفس تمام جہادوں سے افضل ہے.جو شخص اس جہاد کو تو چھوڑ دیتا ہے اور صرف دوسرے جہادوں کی طرف توجہ کرتا ہے وہ اسلامی تعلیم کے خلاف چلنے والا ہے.باقی رہا یہ سوال کہ مجاہدہ پنفس کا کیا طریق اور سلوک کی کونسی راہیں ہیں تو اس چھوٹے سے نوٹ میں اس کا تفصیلی جواب دینا محال ہے.مختصر یہ کہ پڑھو قرآن، پھر پڑھو قرآن ، پھر پڑھو قرآن اور اس کے اوامر ونواہی پر غور کرو اور پھر اس تعلیم پر عمل کر و مجاہد نفس بن جاؤ گے.جہاد کبیر دوسرے درجہ پر جہاد کبیر ہے اور یہ اسی پر فرض ہے جو پہلے جہادا کبر کر چکا ہو اور اس میں ایک حد تک کامیاب ہو چکا ہو جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جہاد کی ابتداء جہاد نفس سے کرنی چاہیے.فرمایا وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (سورة الفرقان: 14) تو قرآن کریم کو لے کر کھڑا ہو اور قرآنی دلائل کے ساتھ ان کافروں سے جہاد کبیر کر اور ان تک اسلامی تعلیم پہنچا اور ان کے دلوں سے شیطانی تعلیموں کو مٹا ڈال کہ نور کے مقابلہ پر ظلمت ٹھہر نہیں سکتی.اور اسے جہاد کبیر اس لئے کہا کہ فَإِنَّ مُجَاهَدَةَ

Page 44

۳۸ 66 السُّفَهَاءِ بِالْحُجَجِ اَكْبَرُ مِنْ مُجَاهَدَةِ الْاَعْدَاءِ بِالسَّيْفِ “.( روح البیان ) جاہل کافروں کا مقابلہ دلائل کے ساتھ کرنا یقیناً تلوار سے دشمنوں کا مقابلہ کرنے سے افضل ہے.اس آیت کریمہ میں جہاد کے معنی صرف اور صرف اشاعت اسلام کے ہی ہو سکتے ہیں.یہ مگی آیت ہے اور جہاد بالسیف کی اجازت سے قبل نازل ہوئی تھی.قرآن کریم نے بار بار اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مجاہدہ نفس کے بعد دلائل کے ساتھ اسلام کو پھیلانا بہت ضروری ہے.ہم اس وقت تک حقیقی صفائی کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اپنے ماحول کو صاف نہ کر دیں.پس مجاہدہ نفس کے بعد اشاعتِ اسلام بہت بڑا جہاد ہے اس لئے کہ ہمارا اپنا ماحول صاف ہو جائے اور ہم ہرقسم کی کدورتوں سے بچ جائیں اس لئے کہ مخلوق خدا راہ راست پر آئے اشاعت اسلام ایک اہم فریضہ ہے.اشاعت اسلام کی خواہش دراصل مجاہدہ نفس میں سے ہی پھوٹتی ہے جب انسان حقوق اللہ کو کامل طور پر اور احسن طور پر بجالاتا ہے، جب انسان کامل توحید کو پکڑتا اور کامل اطاعت میں راحت پاتا ہے جب انسان احکام الہی کی پابندی کرتا ہے اور حقوق العباد منشائے الہی کے مطابق پورے کرتا ہے.جب مجاہدہ نفس کرتے کرتے اسے پہلے خدا تعالیٰ سے محبت ہوتی اور پھر خدا تعالیٰ کے واسطہ سے اس کے بندوں سے اُسے اُلفت ہوتی ہے تو معا اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ سبحان اللہ مجھے کیا کیا روحانی نعمتیں میسر آئی ہیں مگر اُف غضب ہو گیا خدا تعالیٰ کے کتنے بندے ہیں جو ان نعمتوں سے محروم ہیں تب وہ آستانہ الہی پر جھکتا ہے اور گریہ وزاری کرتا ہے کہ اے خدا! تیرا بڑا احسان ہے کہ تو نے اپنے قرب اور اپنی رضا کی راہیں مجھ پر کھولیں اور بے انتہاء روحانی نعمتوں سے مجھے لطف اندوز کیا مگر اے ہادی خدا! تیرے کتنے ہی بندے ہیں جو خود تجھ سے بھی بے خبر ہیں روحانی نعمتوں کا تو کیا کہنا اے خدا! میری رہبری کر اور مجھ پر ان راہوں کو کھول جن سے میں تیری تعلیم کو تیرے اُن گمراہ بندوں تک پہنچا سکوں.تب اسے الہام ہوتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ (الحج: ۷۹،۷۸)

Page 45

۳۹ یعنی اے میرے مومن بندے بیشک اشاعت اسلام کی خواہش تو پسندیدہ ہے مگر کیا تو مجاہدہ نفس کی منازل طے کر چکا ہے؟ کیا تو نے توحید کامل کو پالیا ہے جس کا قرآن تجھے سبق دیتا ہے؟ بندہ جوا با عرض کرتا ہے کہ ہاں میرے خدا میں نے اپنی طاقت کے مطابق اطاعت کامل کو اختیار کیا ہے.کیا تو نے دوسرے حقوق اللہ کو پورا کیا ہے؟ بندہ عرض کرتا ہے ہاں میرے رب اپنی استطاعت کے مطابق میں نے ایسا کیا ہے.کیا تو نے اپنے اعمال کو درست کیا ہے؟ بندہ عرض کرتا ہے ہاں میرے رب میں نے اپنی طاقت کے مطابق ایسا کیا ہے.تب خدا کہتا ہے کہ اے میرے بندے جا اور دنیا کے سامنے اپنا نمونہ پیش کر اور انہیں بتا کہ اسلامی تعلیم نے مجھے یہ بنا دیا ہے خدا مجھ سے راضی ہے تمہارے ساتھ میرا سلوک اچھا ہے.اگر تم بھی ایسا بنا چاہتے ہو تو آؤ اسلامی تعلیم پر عمل کرو لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:۲۲).اور جب تو نے دوسروں کے سامنے اپنا نمونہ پیش کر کے انہیں تبلیغ کی اور اسلام کی طرف بلایا تو تو نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا.مگر ساری دنیا ابوبکر صدیق کے رنگ کی نہیں ہوتی جو اُسوہ سے فائدہ اٹھا سکے.کچھ لوگ عمر کی طرز کے بھی ہوتے ہیں جنہیں منوانے کے لئے دلائل عقلیہ کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے فرمایا وَ جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا قرآن کریم دلائل عقلیہ سے بھرا پڑا ہے.اسلامی تعلیم کی حقانیت ان دلائل عقلیہ سے ثابت ہوتی ہے.جولوگ دلائل عقلیہ کے محتاج ہیں ان کے سامنے یہ دلائل پیش کر اور ان دلائلِ بینہ کے زور سے اسلام کی طرف بلا.پس اسلام نے تبلیغ کے دو طریق بتائے ہیں اول اسوہ حسنہ یعنی اپنے اخلاق و اعمال کو قرآنی رنگ میں رنگین کر لینا.دنیا خود بخود اسلام کی طرف کچھی چلی آئے گی.دوم ان دلائل عقلیہ کو دنیا کے سامنے پیش کرنا جن سے قرآن کریم نے اپنی صداقت ثابت کی ہے.اسلام کی طرف بلانے کے صرف اور صرف یہ دو طریق ہیں.کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ لوگوں کو اسلام کی طرف ڈنڈے سے ہانک کر لاؤ.اگر لوگ تمہارے اُسوہ حسنہ کو دیکھیں اور آنکھیں بند کر لیں، اگر وہ ان دلائل عقلیہ کوسنیں اور

Page 46

سمجھنے سے انکار کر دیں تو دیکھنا ایک طرف یہ خیال کہ دلائل اس قدر واضح اور تین ہیں اور دوسری طرف یہ خیال کہ نمونہ اس قدر اعلیٰ پیش کیا گیا ہے.مگر لوگ پھر بھی حق کو قبول نہیں کرتے.تمہارے دلوں میں کبر اور دنیا داروں کی سی سختی نہ پیدا کرے بلکہ چاہیے کہ اس اسلامی نمونہ اور ان عقلی دلائل کو پیش کرتے ہوئے اُدْعُ إلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِإِنَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ (النحل :۱۲۶) مخالفین میں سے عقل مندوں کو اپنے رب کے راستہ کی طرف ایسے دلائل قطعیہ سے بلاؤ کہ ان کے شبہات دور ہو جائیں اور مخالفین میں سے جو عوام ہیں ان کے سامنے عام فہم دلائل رکھو کہ وہ باریکیوں کے سمجھنے سے قاصر ہیں.اور مخالفین میں سے کج بحثوں کے ساتھ نرمی سے بحث کرو تا وہ چڑ کر اسلام سے اور بھی دور نہ جا پڑیں.آیت وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کے معنی تفسیر کشاف میں یوں بیان کئے گئے ہیں بِالطَّرِيقِ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ طُرُقِ الْمُجَادَلَةِ مِنَ الرِّفْقِ وَاللَّيْنِ مِنْ غَيْرِ فَطَاظَةٍ وَلَا تَعْنِيفِ ، یعنی مخالفین سے بحث کرنے کا جو بہترین طریق ہے اس سے کرو یعنی محبت اور نرمی سے.اور بحث کرتے ہوئے ترش کلامی اور سختی سے پر ہیز کرو.علامہ سندی نے اپنی کتاب ” اللائحات البرقیات میں اس کی یوں تفسیر کی ہے وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی أَى بِالْمُجَادَلَةِ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ وَهِيَ الْمُجَادَلَةُ الْحَقَّانِيَّةُ الَّتِي بِالرِّفْقِ وَاللَّيْنِ وَالصُّلْحِ وَالْعَفْوِ وَالسَّمْح وَالْكَلَامِ بِقَدْرِ الْعُقُولِ وَالنَّظْرِ إِلَى عَوَاقِبِ الْأُمُورِ وَالصَّبْرِ وَالتَّانِي وَالتَّحَملِ وَالْحِلْمِ وَغَيْرُ ذَالِكَ مِنْ خَوَاصِ الْمُجَادَلَةِ “.یعنی مخالفین سے مذہبی بحث بہترین طریق سے کر اور وہ وہ حقانی بحث ہے جس میں محبت ، نرمی ، چشم پوشی، عفو اور فراخ دلی سے کام لیا جاتا ہے.اور جس بحث میں مخاطب کی سمجھ کے مطابق بات کی جاتی ہے اور نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جاتا اور صبر اور بردباری اور متانت اور تحمل سے کام لیا جاتا ہے.پس دشمن کے سامنے اعلیٰ نمونہ اور دلائل عقلیہ قطعیہ پیش کر کے اُسے اسلام کی دعوت دینی چاہیے اور یہ نمونہ اور دلائل اس کے سامنے ایسے رنگ میں پیش کرنے چاہئیں کہ جس کا اس پر زیادہ سے زیادہ اثر ہواور تبلیغ کرتے وقت کسی قسم کی سختی اور ترش کلامی نہیں کرنی چاہیے کجا یہ کہ اسے تلوار سے اسلام

Page 47

کی دعوت دی جائے.ام لیکن اگر دشمن نہ گھائل کر دینے والے نمونہ کو دیکھے، نہ قائل کر دینے والے دلائل کو سنے اور نہ نرمی سے کچھ فائدہ اٹھائے بلکہ نرمی سے اور بھی تیز ہو تو یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان یہ سمجھتے ہوئے کہ تعلیم بہت اعلیٰ ہے اور مخالفین کا اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے کہیں اسلامی تعلیم کی اشاعت جبر وتشدد سے نہ کرنے لگ جائیں، اسلام کو خطرہ سے محفوظ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ لَا إِكْرَاهَ في الدين (البقرۃ: ۲۵۷) یعنی اگر دشمن تمہارے نمونہ کو نہیں دیکھتا نہ دیکھے.تمہارے واضح اور بین دلائل کو نہیں سنتا نہ سنے اور نرمی کے مقابلہ میں سختی کرتا اور گالی گلوچ پر اتر آتا ہے اُسے ایسا کرنے دو.مگر دیکھنا تم دین کے معاملہ میں جبر کبھی روا نہ رکھنا.یہ کسی صورت میں بھی جائز نہیں.دین میں جبر کی ممانعت کیوں کی ؟ قرآن کریم کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کے موافق دلائل بھی ہمارے سامنے پیش کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے جب دین میں جبر کی ممانعت کی تو ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ایسا کیوں نہیں کرنا چاہیے.میں اس وقت اکراہ کے خلاف قرآن کریم کے بتائے ہوئے تین دلائل پیش کرتا ہوں.اول.جبر فی الدین ممنوع ہے.اس لئے کہ جبر کی ضرورت نہیں.قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (البقرۃ: ۲۵۷) اسلامی تعلیم کے آنے کے بعد حق و باطل، راستی و گمراہی میں فرق اس قدر نمایاں ہو گیا ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ صبر اور استقلال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر تم تبلیغ کرو اور تمہارے دشمنوں پر اسلامی تعلیم کا اثر نہ ہو.اب تک نیک نتائج کا نہ پیدا ہونا یہ بتا تا ہے کہ یا تو تم نے صحیح طریق پر تبلیغ نہیں کی اور یا پھر صبر اور استقلال سے تبلیغ نہیں کی ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حق و باطل میں اتنا نمایاں فرق ہو اور اسے صحیح رنگ اور صحیح طریق پر مخالفین کے سامنے پیش کیا جائے اور پھر بھی وہ نہ مانیں.إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ

Page 48

۴۲ دوم.خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت کو مذہبی آزادی بخشی ہے.ہمارا کسی مذہب کی پیروی کرنا یا نہ کرنا خود ہمارے اختیار میں ہے اور یہ مذہبی آزادی ہی ہے جس نے انسان کو فرشتہ سے بھی کہیں بڑھ کر بنا دیا ہے.پس جب خود خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت کو مذہبی آزادی بخشی تو ہم کون ہوتے ہیں جو اس سے اس آزادی کو چھینیں اور اس طرح خدا تعالیٰ پر یہ الزام لگائیں کہ گویا اس نے انسانی فطرت کو آزاد بنانے میں ایک غلطی کا ارتکاب کیا تھا اور ہم اس سے اس آزادی کو چھین کر اس غلطی کا ازالہ کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے سرزد ہوئی.(عِيَاذًا بِاللهِ) فرمایا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيْعًا (یونس: ۱۰۰ ) اگر خدا تعالیٰ یہ چاہتا کہ ہر زمانہ اور مکان کے لوگ اُس کی باتوں پر ایمان لے آتے اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیم پر عمل کرتے تو یقیناً ہر انسان ایسا ہی کرتا اور دین کے بارہ میں ان میں کوئی اختلاف نہ ہوتا.مگر خدا تعالیٰ کی حکمت نے یہی تقاضا کیا کہ وہ انسان کی فطرت کو اس بارہ میں آزاد بنائے.اب جب خدا تعالیٰ کی مشیت ہی یہی تھی کہ انسانی فطرت آزاد ہو تو پھر اگر ہم اس مشیت الہی کے خلاف کسی انسان کو کسی مذہب کے ماننے پر مجبور کریں تو ہم خدا تعالیٰ پر ایک الزام لگا کر ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کریں گے.پس دین کے معاملہ میں جبر سخت نا پسندیدہ ہے.سوم.کسی تعلیم پر ایمان لانے کے معنی ہیں دل سے یہ اقرار کرنا کہ یہ تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور پھر اس اقرار کے مطابق اپنے اعمال کو ڈھالنا.صرف منہ سے اقرار کرنے کا نام ایمان نہیں.پس اكراه فی الدین اس لئے بھی جائز نہیں کہ حقیقی ایمان جبر سے پیدا ہی نہیں ہوسکتا.جبر سے ہم زبانوں کو منوا سکتے ہیں جبر سے دل نہیں مانا کرتے.فرمایا فَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (یونس:۱۰۰) بیشک تو اتنا جبر تو کر سکتا ہے کہ لوگوں کی زبانیں ایمان لے آئیں مگر کیا تیرے لئے یہ ممکن ہے کہ تو جبر کو اس حد تک پہنچا دے کہ لوگ حقیقی رنگ میں ایمان لے آئیں اور ایمان ان کے دل کہ گہرائیوں میں اتر جائے.اگر جبر کے بعد بھی وہ دل سے ایمان نہ لائے تو وہ ایمان لائے ہی نہیں اور اگر وہ جبر کے بعد بھی مومن نہ بنیں تو پھر جبر کا فائدہ ہی کیا.ایمان کا تعلق

Page 49

۴۳ دل سے ہے اور دل پر دنیا کی کوئی طاقت جبر نہیں کر سکتی.پس جہاں تک دل کا تعلق ہے ایمان کے بارہ میں جبر ہو ہی نہیں سکتا.جو چیز ممکن ہی نہیں اس کی کرنے کی کوشش ہی کیوں کرنا.پس اکراہ فی الدین تین وجوہ سے نا جائز ہے.حق و باطل میں فرق عیاں ہے، جبر کی ضرورت ہی نہیں.جبر کی کوشش کرنا خدا تعالیٰ کی ذات پر بہت بڑا الزام لگانا ہے کہ نعوذ باللہ انسانی فطرت کو مذہبی آزادی دینے میں اس نے ایک غلطی کا ارتکاب کیا.جبر زیبا ہی نہیں.ایمان کا تعلق دل سے ہے، دل پر جبر ہو نہیں سکتا.جبر در اصل ممکن ہی نہیں.پس اس میں ذرہ بھی شک نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام نے پوری مذہبی آزادی ہر قوم اور ہر فرد کا حق تسلیم کیا ہے اور دین میں جبر کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اسے اس قدرنا پسند کیا ہے کہ اگر کوئی قوم دوسری قوم سے ان کے اس حق کو چھیننا چاہے تو اس ظالم قوم کے خلاف خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم جنگ کو جائز بلکہ ضروری قرار دیا ہے جیسا کہ آگے جا کر قرآنی آیات سے ثابت کیا جائے گا.انشاءاللہ جہاد کبیر کی فضیلت جہاد کبیر کی فضیلت اس ایک بات سے عیاں ہے کہ ”مجاہدہ نفس اور تبلیغ “ جب مل گئے تو امت محمدیہ کو خیر الام بنادیا.فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِہ (ال عمران : 11) کہ تم تمام امتوں سے افضل ہو اس لئے کہ جب تم تزکیہ نفس کر چکتے ہو اور مجاہدہ نفس کی منازل ایک حد تک طے کر چکتے ہو تو تم دوسروں کے نفوس کے تزکیہ کی فکر میں لگ جاتے ہو اور انہیں نیک اعمال کے کرنے پر ابھارتے ہو اور بُرے کاموں سے روکتے ہو.پس تم خیر الام ہوئے اور تمہاری جزاء بھی خیر الجزاء ہے گو مجاہدۂ نفس کے بعد ہے مگر کتنا اہم فریضہ ہے تبلیغ و تربیت، جس نے امت محمدیہ کو خیر الام بنادیا.حدیث میں ہے عَنِ النَّبِي الا الله أَنَّهُ سُئِلَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ مَنْ خَيْرُ النَّاسِ قَالَ امِرُهُمُ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاتْقَاهُمْ لِلَّهِ وَ اَوْصَلُهُمْ که آنحضرت علیہ خطبہ پڑھ رہے تھے تو آپ

Page 50

۴۴ سے سوال کیا گیا کہ سب سے افضل انسان کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو نیکیوں پر سب سے زیادہ تحریص دلانے والا ہو اور بدیوں سے سب سے زیادہ روکنے والا ہو اور پھر ساتھ اس کے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بھی سب سے زیادہ ادا کرنے والا ہو.یعنی جو شخص مجاہدہ نفس میں دوسرے لوگوں پر فوقیت لے گیا اور پھر فریضہ تبلیغ کے ادا کرنے میں بھی وہ سب سے آگے رہا یہ وہ شخص ہے جو سب لوگوں سے زیادہ افضل ہے.اور محض جہاد کبیر کے دائرہ کے اندر وہ شخص سب سے زیادہ افضل ہوگا جو اس جہاد میں اپنے نفس و مال کو قربان کرتا ہے.حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا - أَلَا إِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ كَلِمَةُ حَقَّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَابِرٍ ( مسند احمد بن حنبل جلد ثالث صفحہ ۱۹) دیکھو سب سے بڑا جہا دایک جابر اور ظالم بادشاہ کو حق کی بات پہنچانا ہے.انسان جب جنگ میں جاتا ہے تو امید ہوتی ہے کہ وہاں سے بیچ کر واپس لوٹے گا، اس کا مال وغیرہ تو گھر میں محفوظ ہی ہوتا ہے.مگر جابر اور ظالم بادشاہ کے پاس کچی کچی باتیں کہنے والے کا غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی مارا جائے گا اور اس کا خاندان بھی تباہ ہوگا ، اس کی جائیداد بھی غصب کر لی جائے گی.اشاعت حق میں اس قدر قربانی کرنے والا یقینا دوسرے مبلغین پر فوقیت رکھتا ہے پس یہ حدیث حضرت عائشہ والی حدیث کے خلاف نہ ہوئی جس میں حج مبرور کو افضل الجہاد کہا گیا تھا.وہاں مجاہدہ نفس کے متعلق بات ہورہی تھی یہاں اشاعت حق کا ذکر ہے.اس وقت تک مجاہدہ نفس، اشاعت اسلام اور ان کے احکام کے متعلق ذکر ہوا ہے.اسلام نے جہاد کو نفس سے شروع کیا ہے اور پھر اسے طبعی اور فطرتی پھیلاؤ دیا ہے.پہلے اپنے نفسوں کی درستی کرو پھر غیروں کے نفسوں کی درستی کی طرف متوجہ ہو.ان کے سامنے پیش کیا کرنا ہے؟ اپنا نمونہ اور قرآنی دلائل، اپنا نمونہ اور قرآنی دلائل پیش کیسے کرتے ہیں؟ حکمت اور نرمی سے.اگر دشمن حکمت کی باتوں کی قدر نہ کرے اور نرمی سے فائدہ نہ اٹھائے تو ؟ پھر بھی دین میں جبر نہیں کرنا.کہ اوّل اس کی ضرورت نہیں، دوم اس سے خدا تعالیٰ کی ذات پر الزام آئے گا کہ اس نے اسلامی فطرت کو آزاد بنانے میں غلطی کھائی.سوم ایمان دل میں پیدا ہوتا ہے اور دلوں پر جر ممکن نہیں.لیکن اگر دشمن لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کو

Page 51

۴۵ نہ مانے ، اگر وہ تلوار کے زور سے یا تو اپنے مذہب میں داخل کرنا چاہے یا کسی دوسرے مذہب میں داخل ہونے سے روکے تو پھر کیا کرنا ہے؟ اس کے متعلق یادر ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الذِيْنِ اشاعتِ مذہب کے لئے ایک بنیادی اصول ہے.جو ا سے تلوار سے تو ڑنا چاہتا ہے اسے تلوار سے ہی منع کیا جائے گا کہ وہ ایسا نہ کرے خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم.اس آخری مسئلہ پر انشاء اللہ آئندہ کبھی بحث ہوگی.وَمَا تَوْفِيقِى إِلَّا بِاللهِ (رساله ریویو آف ریلیجنز اپریل ۱۹۳۹ء صفحه ۱۱ تا۲۵) (الفرقان ربوہ.جون ، جولائی ۱۹۶۶ء صفحہ ۵ تا۱۶)

Page 52

{ ۴۶ عیسائیت اور اسلام میں ایک نمایاں امتیاز وه جرم و سزا‘ کے بارے میں اسلام کی پاکیزہ تعلیم تورات نے ہر موقع و ہر حل پر سزا کا سبق دیا.ہر قصور کے نتیجہ میں سزا کا مترتب ہونا لازمی قرار دیا.انجیل نے اس کے برعکس صرف علم اور در گذر پر زور دیا.یہودیت و عیسائیت نے انسانی قوی کی تمام شاخوں میں سے صرف ایک شاخ پر زور دیا اور باقی شاخوں کو کلیتا نظر انداز کر دیا.ان ہر دو کے بالمقابل ایک پاک اور کامل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو انسانی درخت کی ہر ایک شاخ کی پرورش کرتا ہے.کبھی تو عفو اور درگذر کی تعلیم دیتا ہے مگر اس شرط سے کہ عفو کرنا قرین مصلحت ہو.اور کبھی مناسب محل اور وقت کے مجرم کو سزا دینے کے لئے فرماتا ہے.اور بہترین تعلیم یہی ہے کیونکہ ”خدا تعالیٰ کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں.یعنی جس رنگ اور طرز پر دنیا میں خدا تعالیٰ کا فعل نظر آتا ہے.ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل کے مطابق تعلیم کرے.نہ یہ کہ فعل سے کچھ اور ظاہر ہو اور قول سے کچھ اور ظاہر ہو.خدا تعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور درگذر نہیں.بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزایاب بھی کرتا ہے.ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے.ہمارا خدا صرف حلیم خدا نہیں بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کا قہر بھی عظیم ہے.سچی کتاب وہ کتاب ہے جو اس کے قانون قدرت کے مطابق ہے اور سچا قول الہی وہ ہے جو اس کے فعل کے مخالف نہیں.ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ حلم اور درگذر کا معاملہ کیا ہو اور کوئی

Page 53

۴۷ عذاب نہ آیا ہو.اب بھی نا پاک طبع لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ایک عظیم الشان اور ہیبت ناک زلزلہ کی خبر دے رکھی ہے جو ان کو ہلاک کرے گا اور طاعون بھی ابھی دور نہیں ہوئی.پہلے اس سے نوح کی قوم کا کیا حال ہوا.لوط کی قوم کو کیا پیش آیا.سو یقیناً سمجھو کہ شریعت کا ماحصل تخلق بِاَخلاقِ اللہ ہے.یعنی خدائے عزوجل کے اخلاق اپنے اندر حاصل کر نا بھی کمال نفس ہے.اگر ہم یہ چاہیں کہ خدا سے بھی بڑھ کر کوئی نیک خلق ہم میں پیدا ہو.تو یہ بے ایمانی اور پلید رنگ کی گستاخی ہے اور خدا کے اخلاق پر ایک اعتراض ہے.“ روزنامه الفضل قادیان دارالامان مورخه ۵/ دسمبر ۱۹۴۴ ، صفحه ۵) ☆☆

Page 54

۴۸ بدر کا زمانہ اور مصلح موعود کا زمانہ چند مشابہتیں وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ اَذِنَّةً فَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.( ال عمران : ۱۲۴) بدر کا زمانہ جو چند باتیں میں عرض کر نا چاہتا ہوں ان کا تعلق اسلامی تاریخ میں اس زمانے سے ہے جو بدر کا زمانہ کہلا سکتا ہے جسے بڑے بڑے مؤرخ ایک خاص دور کا نام دیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے.اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آیا اور اس وقت اس کے پورا ہونے کے اسباب پیدا کئے گئے اور وہ ظاہر ہوئے.بدر کے میدان میں اور جنگ بدر کے ساتھ اس کا ظہور شروع ہو گیا.بدر کا زمانہ اسلامی تاریخ میں ایک اہم زمانہ ہے کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں کفار کی موت اور اسلام کی زندگی کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کیا گیا.ایک طرف کفار ایک ہزار کا لشکر لے کر اپنے تجربہ کار جرنیلوں اور سرداروں کو لئے ہوئے بغض اور کینہ کے ساتھ اسلام کو مٹانے کے لئے نکلے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ مسلمانوں کو یہ بھی نہ بتایا جائے کہ ان کا مقابلہ کفار کے لشکر کے ساتھ ہوگا یا کفار کے قافلہ کےساتھ.چنانچہ قرآن مجید میں اِحدَى الطَّائِفَتَین کا ذکر آتا ہے کہ کفار کے دوگروہوں میں سے ایک کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو گا.عام طور پر مسلمانوں کا یہی خیال تھا کہ کفار کا جو قافلہ شام سے مال تجارت لے کر آ رہا ہے.ہماری مٹھ بھیڑ اس سے ہو گی.وہ یہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ آج ان تین سو تیرہ صحابیوں کے ذریعہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط اور کفر کو تباہ و برباد کر دے

Page 55

۴۹ گا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سمیت بدر کی وادی میں خیمہ زن ہوئے تو اس وقت آپ نے بتایا کہ ہمارا مقابلہ اس لشکر کے ساتھ ہے جو پورے ساز وسامان اور کیل کانٹے سے لیس ہوکر مکہ سے آیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں.اے لوگو.مشورہ دو کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے.آپ کے صحابہ کی جان شاری کا ثبوت وہ تقاریر ہیں.جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ طلب کرنے پر کیں کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے.ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور اس وقت تک دشمن آپ کے پاس نہیں پہنچ سکے گا.جب تک کہ وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ آئے.تب خدا کی بات پوری ہوئی اور اگلے دن بدر کے میدان میں ایک ہزار کفار کا مقابلہ تین سو تیرہ مسلمانوں سے ہوا.اس نازک وقت میں اُن نہتے اور قلیل التعداد مسلمانوں کو ان الفاظ میں آپ نے بشارت دی کہ خوش ہو.آج مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے سامنے لا کر ڈال دیئے.روح تو ان میں پہلے ہی نہیں تھی.اب ان کے جسم بھی پاش پاش کر دئیے جائیں گے.چنانچہ چند ہی گھنٹوں میں بدر کا میدان کفار کی لاشوں سے بھرا ہوا تھا اور چوٹی کے سردار جو کفار کے مردہ جسم میں کچھ حرکت باقی رکھ سکتے تھے وہ ہلاک ہو چکے تھے اور قرآن کریم کا دعویٰ سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ( القمر : ۴۶) حرف بحرف پورا ہو چکا تھا.دونوں زمانوں کی مشابہت جس طرح اسلام کے پہلے دور میں بدر کا زمانہ خاص اہمیت رکھتا ہے.اسی طرح اسلام کے دوسرے دور میں مصلح موعود کا زمانہ ایک خاص اہمیت رکھتا اور بدر کے زمانے کے ساتھ مشابہت تامہ رکھتا ہے جس طرح بدر میں کفر کی تباہی اور اسلام کے غلبہ کی بنیا درکھ دی گئی تھی.اسی طرح خدا تعالیٰ نے مصلح موعود کے زمانے میں کفر کی تباہی اور اسلام کے غلبہ کے اسباب پیدا کر کے ثابت کر دیا کہ اسلام کے دور ثانی میں یہ زمانہ دور اول کے بدر کے زمانہ کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے.جہاں معنوی لحاظ سے مصلح موعود کا زمانہ بدر کے زمانہ سے مشابہت رکھتا ہے.میں نے خیال کیا

Page 56

کہ ظاہری لحاظ میں بھی ان دونوں میں کوئی مشابہت ضرور ہوگی.چنانچہ میں نے اس پر غور کیا تو مجھے چند ظاہری مشابہتیں نظر آئیں جو یہ ہیں.تاریخی مطابقت (۱) جس طرح بدر کا زمانہ چودہ مارچ کو شروع ہوتا ہے (سیرۃ النبی مصنفہ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) اسی طرح مصلح موعود کی خلافت کا زمانہ بھی چودہ مارچ کو ہی شروع ہوتا ہے.تیرہ مارچ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو جمع کیا کہ مجھے مشورہ دو کہ ہم یہ فیصلہ کن لڑائی لڑیں یا نہ لڑیں.اسی طرح تیرہ مارچ ۱۹۱۴ء کو پورے ۱۲۹۱ سال بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ جمع ہوئے تا وہ فیصلہ کریں کہ مصلح موعود کو خلیفہ منتخب کریں یا نہ کریں جس طرح وہاں چودہ مارچ کو مشورہ کے بعد چودہ مارچ کو مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور دوسرے احمدی احباب نے حضرت مصلح موعود کی بیعت کی اور اس طرح مصلح موعود کے زمانے کی ابتدا چودہ مارچ سے ہوئی.مقاصد کی مطابقت (۲) پھر جب ہم ان پیشگوئیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں جو بدر کے متعلق قرآن مجید میں بیان کی گئیں ہیں تو ان میں ایک پیشگوئی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَيُرِيدُ اللهُ اَنْ تُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَفِرِينَ (الانفال: (۸) یعنی بدر کا نشان اس لئے ہوگا تا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ ہوتا کفر کی جڑیں کاٹ کر رکھ دی جائیں اور حق اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہو.دوسری جگہ جنگ بدر کو یوم الفرقان بھی کہا گیا ہے کہ اس دن صداقت کھل جائے گی اور باطل بھاگ جائے گا.اسی طرح جب خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو مصلح موعود کی خبر دی.تو اس میں بھی لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْل الباطل کے مقابلے میں ہمیں بالکل یہی الفاظ نظر آتے ہیں.اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مصلح موعود کا نشان تجھے اس لئے عطا ہو گا.تاکہ دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور

Page 57

۵۱ باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے“ (تذکرہ صفحہ ۱۳۹) وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَفِرِينَ کے مقابلے میں فرمایا کہ ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے“ جو الفاظ بدر کے متعلق قرآن مجید میں آئے ہیں مصلح موعود کی پیشگوئی کے الفاظ بعینہ اُس کا ترجمہ معلوم ہوتے ہیں اور جو غرض بدر کی بیان فرمائی گئی ہے کہ اس سے اسلام کی جڑوں کو مضبوط کر دیا جائے گا اور کفر کی جڑوں کو کاٹ کر رکھ دیا جائے گا.وہی مقصد مصلح موعود کے ظہور کا بیان کیا گیا ہے.الہی نصرت (۳) بدر کے موقع سے لے کر احزاب تک اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے ذریعہ مدد کر نے کے تین وعدے فرمائے ہیں.(۱) آنِى مُمِدُّكُمْ بِأَلْفِ مِنَ الْمَلَكَةِ مُرْدِفِيْنَ (الانفال: (۱۰) کہ میں ایک ہزار ملائکہ سے تمہاری مدد کروں گا.(ب) آنْ تُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَثَةِ الفِ مِنَ الْمَلَيْكَةِ مُنَزَلِينَ (ال عمران : ۱۲۵) که خدا تین ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کو آئے گا.( ج ) يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ الفِ مِنَ الْمَلَكَةِ مُسَوَّمِيْنَ (ال عمران: ۱۲۶) کہ خدا تعالیٰ پانچ ہزار نشان شدہ فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا.جب ہم مصلح موعود کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو اس زمانے میں بھی خدا تعالیٰ نے اسی طرح آپ کی مدد فرمائی.(۱) جب ملکانہ میں ارتداد کا فتنہ زوروں پر تھا تو اس وقت حضرت مصلح موعود نے اسلام کی حفاظت کے لئے جماعت کو دعوت دی اور کفر کے مقابلے کے لئے اس وقت تقریباً ایک ہزار رضا کار آگے آئے اور انہوں نے ان تیروں کو اپنے پر لیا جو دشمن اسلام کے قلب پر مارنا چاہتا تھا.اس طرح وہ فتنہ ہمیشہ کے لئے مٹا دیا گیا.بدر کے زمانے میں یقیناً ایک ہزار ملائکہ مسلمانوں کی مدد کے لئے نازل ہوئے تھے مگر مخالفوں نے یہی کہا ہوگا کہ وہ فرشتے کون تھے.اور کہاں سے آئے تھے اور انہوں نے کیا کیا.باتیں ہماری سمجھ سے بالا ہیں.خدا تعالیٰ نے اسلام کے دور ثانی میں مصلح موعود کے زمانہ کو بدر کے زمانہ سے مشابہت دے کر ظاہری صورت میں بھی اس نشان کو پورا کر دیا.دشمنوں نے اسلام پر حملہ کروایا اور

Page 58

۵۲ مصلح موعود کو ایک ہزار کا لشکر دے کر اس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے کچل دیا.(۲) پھر جب دوسرے موقع پر احرار کا فتنہ اٹھا تو اس شورش کے زمانے میں خاص طور پر جن لوگوں نے احرار کا مقابلہ کیا ان کی تعداد تین ہزار تھی اور اس طرح خدا نے ثابت کر دیا کہ اگر تم اسلام کے پہلے دور میں تین ہزار ملائکہ کے نازل ہونے کا انکار کرتے ہو تو ہم مصلح موعود کے زمانے میں جو اسلام کے دور ثانی میں بدر کا زمانہ ہے تین ہزار والنٹیر کے ذریعے ظاہری رنگ میں بھی اس نشان کو پورا کر دیتے ہیں.(۳) پھر خدا تعالیٰ نے پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے مقابلہ میں مصلح موعود کو تحر یک جدید کی پانچ ہزاری فوج عطا فرمائی جو خاص نشان اپنے ساتھ رکھتی ہے جو زمانہ کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کے لئے قائم رہے گا.انشاء اللہ تعالی.یہ ایک معجزہ ہے جو مصلح موعود کے زمانہ کی بدر کے زمانے سے مشابہت قائم کر دیتا ہے.حق و باطل کے دو گروہ پھر جنگ بدر میں کفر اور اسلام کے جن دو گروہوں کے درمیان مقابلہ ہوا قرآن مجید میں اس کو فتان کے نام سے پکارا ہے.میں نے جب قرآن مجید پر غور کیا تو جس جس جگہ بھی مسلمانوں کا ایک فئة “ اور اس کے مقابلے میں کفار کو دوسرا فئة “ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے.وہ تمام مقامات جنگ بدر ہی کے متعلق ہیں.قرآن مجید نے مسلمانوں اور کفار کی کسی اور جنگ کو ہستان کے نام سے نہیں پکارا.دوسری طرف جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کشف کو دیکھتے ہیں جس میں ایک لاکھ کی فوج مانگنے پر پانچ ہزاری فوج کا وعدہ دیا گیا تو وہ کشف یہ ہے.د کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں.ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے.میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کر کے کہا مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا.تب میں نے اُس دوسرے کی طرف رُخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اُسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے وہ میری اس بات کوسن کر بولا.ایک لاکھ

Page 59

۵۳ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا جب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر چہ پانچ ہزار آدمی تھوڑے ہیں پر اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں.اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً بِإِذْنِ الله - (تذکرہ صفحہ ۱۸۱) پس یہاں بھی فئتان کا لفظ استعمال کر کے مصلح موعود کے زمانہ کو جس کے زمانہ میں یہ پانچ ہزاری فوج قائم ہوگی بدر کے زمانے سے صراحتا اور وضاحنا مشابہت دی گئی ہے.بارش برسنا (۵) ایک اور ظاہری مشابہت یہ ہے کہ جنگ بدر کے دن اللہ تعالیٰ نے بارش کے ذریعہ سے مسلمانوں کی معجزانہ مددفرمائی تھی.مصلح موعود کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ الخَ کی پیشگوئی فرمائی.اور جو ظاہری صورت میں ایک معجزانہ طریق پر لدھیانہ میں بھی پوری کی گئی.یہ چند مشابہتیں ہیں جو مصلح موعود کے زمانہ اور بدر کے زمانہ میں پائی جاتی ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے بدر کے زمانہ میں اسلام کو اتنی قوت عطا ہوگئی تھی کہ آئندہ کبھی کفر نے سر نہیں اٹھایا.بلکہ اس کا سر ہمیشہ کے لئے کچل کر رکھ دیا گیا.بے شک بعد میں جنگیں ہوئیں.بے شک بعد میں بھی مسلمانوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن اسلام کی بنیادیں ہمیشہ کے لئے مضبوط کر دی گئیں.اسی طرح احمدیت کے غلبہ کی تکمیل کے لئے شاید ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہے مگر جو عمارت اس لمبے عرصہ میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والی ہے اس کی بنیاد میں مصلح موعود کے زمانے میں مضبوط کر دی گئیں ہیں اگر بدر کے میدان میں کفر کی موت اور اسلام کے غلبہ کی بنیادیں نہ رکھ دی جاتیں تو وہ نتائج کبھی نہ نکلتے جو بعد میں اسلامی فتوحات کی صورت میں رونما ہوئے.اس طرح کے دور ثانی میں بھی مصلح موعود کا زمانہ حقیقتا وہی زمانہ ہے جو دو راول میں بدر کا زمانہ تھا.پس ہمیں چاہیے کہ اس زمانہ کی اہمیت کو کبھی نہ بھولیں اور جس طرحخدا وہاں فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کا شکر ادا کر سکو جو بدر کے مقام پر تم پر کئے گئے.اسی طرح ہمیں چاہیے کہ خدا تعالیٰ کا تقویٰ

Page 60

۵۴ اختیار کریں اور اس کے احسانات کا شکر ادا کریں جو مصلح موعود کے ذریعہ اسلام کی فتوحات کی بنیاد میں رکھ کر اس نے ہم پر کئے.اور خدا کرے کہ ہمارے مال ہمارے لئے فتنہ کا موجب نہ ہوں بلکہ جب بھی دین کے لئے مال خرچ کرنے کی تحریک ہو ہم خوشی خوشی اپنے مالوں کو قربان کر دیں اور ہم اپنی سرحدوں کو دور دور تک مضبوط کریں تا کہ شیطان ہم پر حملہ آور نہ ہو سکے اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کریں.شقاق اور تفرقہ سے بچیں تاہم ان فضلوں کے وارث ہوں جو مصلح موعود کے ذریعہ اس زمانے میں نازل ہونے والے ہیں اور ہم اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی جان اور اپنی ہر ایک چیز خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے باہر نکل آئیں.(الفرقان قادیان اپریل ۱۹۴۵ء صفحه ۱۸ تا ۲۲) ☆☆

Page 61

۵۵ اشتراکیت کے اقتصادی اصول نقادی اصول کا اسلامی اقتصادی اصول سے موازنہ تقریر ارشاد فرموده جلسه سالانه ۲۷ / دسمبر ۱۹۴۵ء) انبیاء کے بعثت کی غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قوم اور ہر زمانہ میں انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے ہیں.جن کے آنے کی غرض ایک طرف بنی نوع انسان کا اپنے خالق اور رب سے حقیقی تعلق کا قیام اور دوسری طرف انسان کے تمدنی اور معاشرتی تعلقات کو استوار کر کے عدل وانصاف کی بنیادوں پر قائم کرنا ہوتی رہی ہے.اقتصادی نظام کا قیام ہر نبی اپنی امت کے لئے ایک اقتصادی نظام قائم کرتا ہے جس کے بغیر اقتصادی مظالم کو دور نہیں کیا جاسکتا.حضرت آدم علیہ السلام کی موعودہ جنت جس میں کوئی شخص بھوکا پیاسا تھا نہ نگا.اور جس میں ہر شخص کے پاس سردی گرمی کے بچاؤ کے لئے رہنے کی جگہ تھی.اسی اقتصادی نظام کے نتیجہ میں پیدا ہوئی.اس میں شک نہیں کہ امتداد زمانہ کی وجہ سے لوگ اس تعلیم کو بھلا بیٹھے.ظلمتوں اور ظلموں کی

Page 62

اندھیر نگری پھیل گئی.امیر نے غریب کا خون چوسنا شروع کر دیا.طاقتور کمزور کو کچلنے کے درپے ہوا.بڑوں نے چھوٹوں پر مظالم ڈھائے جسے بھی موقعہ ہاتھ آیا اس نے اپنے بھائی کو اپنا غلام بنایا.جب یہ مظالم اپنی انتہاء کو پہنچے تو بعض رحم دل لوگوں نے ایسی دنیوی تحریکات شروع کیں جن کا مقصد دنیا سے اقتصادی ظلم کو مٹانا تھا مگر جن کا طریق کا رخوداپنے اندر ہزاروں برائیاں اور خرابیاں لئے ہوئے تھا.انہیں تحریکات میں سے ایک تحریک اشتراکیت یعنی کمیونزم بھی ہے جو ایک تمدنی نظام ہونے کے لحاظ سے ابتدائے دنیا سے چلی آتی ہے.چنانچہ Therapentea اور The cssenes اسی نظام کے پابند تھے.یونان میں ارسطو اور افلاطون اس نظریہ کے مؤید ر ہے ہیں.نیا نبی ڈکشنری آف سوشلزم تصنیف ڈاکٹر اے ایس راپورپورٹ ) اشتراکیت اور اسی قسم کی دوسری تحریکیں فیج اعوج یعنی بعد نبوت کے زمانہ میں پیدا ہوتی اور اسی میں پنپتی ہیں.بظاہر ان کا مقصد اقتصادی مساوات کا قیام ہے.مگر چونکہ لامذہبیت کی بنیادوں پر ایک غیر فطری عمارت کھڑا کرنا چاہتی ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کو یہ محبوب نہیں اس لئے جب ایک طرف بندگان خدا پر مظالم اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں.اور دوسری طرف شیطان ایسی تحریکات کے ذریعہ لامذہبیت کی رو پیدا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کا رحم جوش میں آتا ہے اور اس کی طرف سے ایک نیا نبی دنیا کی طرف مبعوث کیا جاتا ہے.جو حقیقی اقتصادی نظام کو قائم کر کے بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات کو پھر سے عدل وانصاف پر قائم کرتا ہے اور اس دنیوی جنت میں گزار کر انہیں اخروی جنت کی طرف لے جاتا ہے.اشتراکیت صبح کا ذب ہے جو صبح صادق کے آنے کی خوشخبری دیتی ہے.یہ وہ جھوٹا عدل وانصاف ہے جو حقیقی عدل و انصاف کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے.اور جوں جوں نور نبوت زور پکڑتا جاتا ہے.اشتراکیت ایسی تحریک اپنے ہی اندھیروں میں غائب ہو کر بعد نبوت کا انتظار کرتی ہے.(اس طرح وہ ایک رنگ میں گویا ارہاص یعنی رستہ کا نشان بھی ہوتی ہے.جو اصل منزل کا پتہ دیتا ہے.)

Page 63

صبح صادق کا طلوع ۵۷ جب دنیا اسلامی تعلیم کو بھلا بیٹھی.دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا.روحانیت مفقود ہوگئی.تمدن اور معاشرت روحانی اصول پر قائم نہ رہے.ظلمت اپنی انتہاء کو پہنچ گئی تو اشتراکیت نے کارل مارکس کے نظریوں میں اپنا جنم لیا.کارل مارکس ۵ مئی ۱۸۱۸ء میں پیدا ہوا.اور ۱۴ / مارچ ۱۸۸۳ کو مرا.آج اشتراکیت سے مراد مارکس کے اقتصادی نظریوں سے ہے اور روس کا یہ دعوی ہے کہ وہ کارل مارکس کے اقتصادی نظریوں پر عمل پیرا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ اشتراکیت کے باپ کے مرنے کے معا بعد صبح کا ذب کے غائب ہوتے ہی ۱۸۸۹ء میں جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الأَنْبِيَاءِ نے جماعت احمدیہ کی بنیا درکھی.اور وہ صبح صادق طلوع ہوئی جس کے سامنے صبح کا ذب کا وجود ٹھہر نہیں سکتا.مارکس کا نظریہ (Marxism is dead p.24) مارکس کا نظریہ ہے کہ سرمایہ داری میں غریب مزدور کے حقوق پامال کئے جارہے ہیں.اس سے بارہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور صرف چھ گھنٹے کی مزدوری دی جاتی ہے.اس نے اپنے اس نظریہ کی بنیاد اس فلسفیانہ اصول پر قائم کی ہے کہ کمیت بڑھتے بڑھتے ایک خاص نقطہ پر پہنچ کر کیفیت میں تبدیل ہو جاتی ہے.روپیہ جب پیداوار میں لگایا جاتا ہے تو اس کی کثرت ایک خاص مقام پر سرمایہ داری کی شکل اختیار کر لیتی ہے.جس میں سرمایہ دار مزدور کو لوٹتا اور سرپلس ویلیوSurplus Value کوخود ہضم کر جاتا ہے.سرمایہ داروں کی پارٹی جتنی جتنی امیر ہوتی جائے گی.مزدور کی غربت میں اتناہی اضافہ ہوتا چلا جائے گا.جوں جوں سرمایہ داری ترقی کرتی جائے گی.غریب کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی چلی جائے گی اور ایک ایسا وقت آئے گا جب غریب کے لئے یہ حالت نا قابل برداشت ہو جائے گی.اس وقت وہ بغاوت پر اترے گا اور سرمایہ داری کو ہٹا کر جماعت مزدوراں کی حکومت قائم کرے گا.یہ

Page 64

۵۸ ایک اہل تقدیر ہے جو صرف ایک ملک میں نہیں بلکہ سارے ممالک میں ہوکر رہے گی.مزدور کے اقتدار حاصل کر لینے پر ایک نیا اقتصادی نظام قائم ہوگا.جس کا مقصد یہ ہوگا کہ اقتصادی تفریق کو مٹا کر اس کی جگہ اقتصادی مساوات قائم کی جائے.اقتصادی مساوات کے قیام کے ذرائع مارکس نے اقتصادی مساوات کے قیام کے لئے مندرجہ ذیل ذرائع بتائے ہیں.(۱) پیداوار اور ذرائع پیداوار پر قبضہ حکومت مزدوراں تمام پیداوار، ذرائع پیداوار یعنی ساری زمینوں اور سب کارخانوں پر قبضہ کرے اس طرح گویا سب کے سب قلاش بن کر مساوی ہو جائیں گے.(۲) طاقت کے مطابق کام حکومت مزدوراں ہر ایک سے اس کی طاقت کے مطابق کام لے.جو کام کرنے سے انکار کرے بھوکا مرے.بظاہر یہ ایک پسندیدہ اصول ہے.نکما بیٹھ رہنا فطرت کے بھی خلاف ہے اور تمدنی اصول کے بھی منافی مگر کام کی جو تعریف ان لوگوں کے نزدیک ہے وہ قابل قبول نہیں.مثلاً یہ لوگ تبلیغ دین کو کام تصور نہیں کرتے.ان کی حکومت میں ہر وہ شخص جو سچائی کے پھیلانے کے لئے اپنی زندگی وقف کر دے.ایک ناکارہ وجود ہے.جس کی ان کے نزدیک کوئی قیمت نہیں اور جسے بہر حال یا تو اپنے دینی جوش کو چھوڑ نا ہوگا یا جام شہادت پینا پڑے گا.حکومت مزدوراں میں ایک مزدور اپنے کتے کو تو روٹی دینا جائز قرار دیتا ہے مگر ایک مبلغ کے سامنے اپنے دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑے بھی رکھنا پسند نہیں کرتا.بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پسند کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حکومت ایسے شخص کو باغی قرار دے گی اور اسے بغاوت کی سزا بھگتنی پڑے گی.

Page 65

(۳) ضرورت کے مطابق آمد ۵۹ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق اشیاء مہیا کی جائیں.( بیج نرائن صفحہ ۱۸۲) ظاہر ہے کہ اگر اس نظر یہ کوعملی جامہ پہنایا جائے تو کام کا شوق اور اس کی رغبت روز بروز کم ہوتی چلی جائے گی.جب ایک شخص تھوڑا کام کر کے بھی اپنی تمام ضروریات حاصل کر سکتا ہو تو وہ کیوں خواہ مخواہ زیادہ مشقت برداشت کرے.کہنے کو تو ایم لارن نے ۱۹۲۰ء میں بڑے فخر سے اس بات کا اظہار کیا کہ روسی حکومت نے مزدوریاں اجناس میں تقسیم کر کے مارکس کے اصول کو عملی جامہ پہنایا ہے.مگر تجربہ نے روسی حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ اس طرح کام نہیں کیا جا سکتا اور انہیں مجبور ہو کر ضرورت کے مطابق مزدوری کی بجائے کام کے مطابق مزدوری دینی پڑی.اگر الف ایک حصہ کام کرتا ہے اور ب دس حصہ.تو روسی حکومت باوجود اس کے الف کی ضرورت ب کی نسبت دس گنا زیادہ ہے.ب کو الف کی نسبت دس گنا مزدوری دیتی ہے.یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ذاتی منافع کا خیال انسانی فطرت کا ایک جزو ہے.جب تک ذاتی منفعت سامنے نہ ہو.کوئی شخص شوق اور رغبت سے کسی کام میں دلچسپی نہیں لے سکتا.مارکس کا مذکورہ بالا اصول فطرت انسانی کے اس حصہ کو نظر انداز کر رہا ہے اور اسی لئے روسی حکومت مزدوراں اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی.اور اسے مجبوراً فطری اصل کی طرف واپس آنا پڑا.اگر وہ مذکورہ بالا اصول پر قائم رہتی تو یقیناً ملکی پیداوار بڑھنے کی بجائے گرتی چلی جاتی.آج جو روس کو اس بات پر فخر ہے کہ ملکی پیداوار آگے کی نسبت دس ہیں گنا زیادہ ہوگئی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ مارکس کے اصول پر گامزن ہے.اس کی وجہ یقینا یہ ہے کہ انہوں نے مارکس کے اصول کے خلاف اصول فطرت کو اپنا لائحہ عمل بنایا.بجائے اس کے کہ وہ اپنا یہ اصول بناتے کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے.انہوں نے اپنا یہ اصول بنایا کہ ہر ایک کو اتنا دیا جائے جتنا وہ کام کرتا ہے چنانچہ خود I Godov نے اپنے مضمون روسی حکومت میں کام اور مزدوریاں میں اسے تسلیم کیا ہے.(U.S.S.R Speaks for Itself p.102)

Page 66

عجیب بات ہے کہ دنیا میں آج ایک ہی حکومت ہے جس کا یہ دعوی ہے کہ وہ مارکس کے اصول پر قائم ہے.مگر خود یہی حکومت عملاً اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ مارکس کے اقتصادی اصول کم از کم مذکورہ بالا اصول ) نا قابل عمل ہیں.روس کی ساری تحریک اسی وجہ سے اتنی نا کام ہوئی ہے کہ وہ اس دوسرے اصول پر عمل پیرا ہوئے.(۴) نفع ممنوع اور سود جائز نفع کو ممنوع قرار دیا.اس لئے کہ ان کے نزدیک نفع پر رو پیدلگا کر سرمایہ دار مزدوروں کو لوٹتے ہیں.مگر سود کو جائز قرار دے دیا.حالانکہ نفع میں مزدور کے لوٹے ہوئے مال کا اتنا حصہ نہیں.جتنا کہ سود میں ہے.نفع پر روپیہ لگا کر کام کرنے والا چونکہ خود اس کام میں شریک ہوتا ہے.اس کی نگرانی اور تنظیم میں عملاً حصہ لیتا ہے اس نے نفع میں اس کی محنت کا بھی ایک حصہ ہے جس کے معاوضہ کا وہ حق دار ہے اور جسے خود روسی اشتراکیت بھی ناجائز قرار نہیں دیتی.مگر سود پر روپیہ دینے والا سودی رقم کے ایک فیصدی کا بھی حق دار نہیں.کیونکہ اس نے اس کام میں جس پر سودی روپیہ لگایا گیا ہے عملاً کوئی حصہ نہیں لیا.پس جو رقم بھی وہ بطور سود حاصل کرتا ہے.وہ ساری کی ساری مزدور کا لوٹا ہوا مال ہے.جس کی حفاظت کے لئے حکومت مزدوراں قائم کی گئی تھی.مگر جس کے مال کو خودلوٹ کر حکومت مزدوراں اس شخص کے حوالہ کرتی ہے جس سے اس نے سودی روپیہ لیا ہے.۱۹۲۱ء میں خود روسی حکومت کے اقرار کے بموجب ( روسی وزیر مالیات کی تقریر جو اس نے سپرین سویٹ کے سامنے فروری ۱۹۴۱ء میں کی) تیرہ ارب روپیہ حکومت نے لوگوں سے قرض لیا.اگر وہ تھوڑی شرح پر بھی سود دیتے ہوں.تو کم از کم ۲% تو ضرور دیتے ہوں گے.۲% کے حساب سے ۱۹۴۱ء میں حکومت نے ۲۶ کروڑ روپیہ بطور سود مختلف لوگوں کو دیا.یہ ساری کی ساری ایسی رقم ہے.جسے اشترا کی نظریہ کی رو سے مزدوروں کا لوٹا ہوا مال سمجھنا چاہیے مگر نفع کی یہ اجازت نہیں دے سکتے.Webb اپنی مشہور کتاب Soviet Communism V2

Page 67

۶۱ P1122 میں لکھتا ہے.روسی حکومت ایسے لوگوں کو شاباش دینے کی بجائے جو ایک جگہ سے چیز خرید کر دوسری جگہ اسے نفع پر بیچتے ہیں.انہیں مجرم گردانتی اور اس جرم پر انہیں سزا دیتی ہے.اور اسی جگہ ذرا آگے چل کر وہ کہتا ہے ” حکومت کا اپنے قرضوں پر سود ادا کرنا اور سیونگز بنک میں روپیہ جمع کرا کے اس پر سود لینا منع نہیں.یہ اب بھی ہو رہا ہے“.عقل سلیم کے نزدیک تو بعض حد بندیوں کے ساتھ نفع کی اجازت ہونی چاہیے.کیونکہ اپنے حدود کے اندر رہتے ہوئے اس کے نتیجہ میں کسی دوسرے پر ظلم نہیں ہوتا اور سود کو ناجائز قرار دینا چاہیے.اس سے بہت سی اقتصادی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.جن کا ذکر آگے کیا جائے گا.انشاء اللہ (۵) ورثہ نا جائز اقتصادی مساوات کے قیام کے لئے مارکس نے چوتھا اصول یہ قائم کیا کہ مرنے والے کا مال اس کی وفات کے بعد اس کے اعزاء واقارب میں تقسیم نہ ہو.کیونکہ اس طرح ورثہ حاصل کرنے والوں کو نہ کسی ضرورت کے پیش نظر یہ مال ملے گا اور نہ کسی کام کے معاوضہ میں.اگر ورثہ کے اصول کو تسلیم کر لیا جائے.یا کم از کم اگر اس اصول کو مارکس کے دماغی خطرات کے ساتھ تسلیم کر لیا جائے تو پھر دولت بعض ہاتھوں میں جمع ہونی شروع ہو جائے گی.امیر و غریب کی تفریق قائم ہو جائے گی.ان کی درمیانی خلیج وسیع تر ہوتی رہے گی اور ہو سکتا ہے کہ چند نسلوں کے بعد سرمایہ دار ملکوں کی طرح اشترا کی حکومت میں بڑے بڑے مالدار اور سرمایہ دار پیدا ہو جائیں.1847.Communist Manifecto P میں جس کی تشکیل میں مارکس اور Engets دونوں کا حصہ ہے.جماعت مزدوراں کا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ تمام حقوق وراثت کو ناجائز قرار دیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ فی نفسہ ورثہ اقتصادی لحاظ سے اچھے نتائج پیدا کرتا ہے نہ کہ برے.اگر ورثہ کی تقسیم کے اصول اچھے ہوں گے تو نتائج اچھے نکلیں گے.اگر ورثہ برے اصول پر تقسیم کیا جائے گا تو برے نتائج پیدا ہوں گے.ورثہ کو فی نفسہ بُرا قرار دینا ایک حماقت ہے.جس کے نتیجہ میں اشتراکیت ان اچھے نتائج کے

Page 68

۶۲ حصول سے محروم ہو گئی جو اس سے حاصل کئے جاسکتے تھے.اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسانی فطرت کے لطیف جذبات کو پائمال کر کے انسان کو با اخلاق بنانے کی بجائے اسے ایک وحشی کے مقام پر لا کھڑا کیا.ماں باپ کا بچوں سے پیار بچوں کی والدین سے محبت ، بھائی بہن کی بھائی بہنوں سے اخوت.یہ سب فطری جذبات ہیں.جن کا اس دنیا میں آخری اظہار مرنے والے کی اس تمنا میں ہوتا ہے کہ اس کی کمائی میں اس کے عزیز واقارب شریک ہوں.مگر نہیں.لطیف عائلی جذبات کے لئے اشتراکیت میں کوئی جگہ نہیں.(۶) نظام زرمٹا دیا اقتصادی مساوات کے قیام کا چھٹا ذریعہ مارکس کے نزدیک یہ ہے کہ زر سکتے یا روپے کے نظام کو درہم برہم کر دیا جائے.اور اس کی جگہ تمام لین دین اجناس کی صورت میں ہو.مزدور کو روزانہ کے کام کی ایک پر چی مل جائے اور اس کے مطابق وہ اشیاء وصول کر سکے.یہ اس لئے کہ اگر روپیہ میں مزدوری دی جائے تو امیر و غریب میں تفریق پیدا ہونے کا اندیشہ ہے.زیادہ روپیہ حاصل کرنے والا خواہ یہ زیادتی اس کی ضرورت کے مطابق ہی کیوں نہ ہو، امیر سمجھا جائے گا اور کم نقدی لینے والا خواہ یہ اس کی ضرورت کو پورا ہی کیوں نہ کر دیتی ہو.غریب سمجھا جائے گا.نیز جس شخص کو روپیہ دیا جاتا ہے وہ اپنی مرضی سے کم یا زیادہ خرچ کر سکتا ہے اور ضروریات زندگی میں تنگی برداشت کرتے ہوئے عشرت کے بعض ایسے سامان خرید سکتا ہے.جو ایک دوسرا شخص نہیں خرید سکتا جس کی آمد روپیہ میں اس کی نسبت کم ہو.روسی اشتراکیت کے پروگرام کی وضاحت کرتے ہوئے ۱۹۱۹ء میں Bucharin نے کہا کہ ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ روپیہ کی اہمیت اسی نسبت سے کم ہوتی جارہی ہے جس نسبت سے کہ اصول مزدوری ترقی کر رہے ہیں.گو اس میں بہت سی مشکلات ہیں مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پیداوار پر مزدوری کا ضبط جوں جوں بڑھتا جائے گا.توں توں روپیہ کی ضرورت کم ہوتی چلی جائے گی.اور آخر کا ر روپیہ کا استعمال کلی طور پر مفقود ہو جائے گا.اسی طرح Krestinski نے ۱۹۱۹ء میں

Page 69

۶۳ یہ اعلان کیا کہ کوئی شخص بھی اس میں شک نہیں کر سکتا کہ اشترا کی تمدن میں نظام زر نہیں رہے گا.اس کا استعمال کلی طور پر مفقود ہو جائے گا.ہم بے زرا قتصادیات کا ایک نیا ورق الٹیں گے.۱۹۲۰ء اور ۱۹۲۱ میں روسی اشتراکیت نے بہت سے نئے قوانین بنائے.کام کی پیمائش کا نیا پیمانہ ایجاد کیا گیا.اور اس کا نام Tred رکھا گیا.جو ایک دن کی اوسط درجہ کی محنت کے برابر ہے.بعد میں سٹالن نے ہر دو کوقتل کروا دیا.Tred لا پتہ ہو گیا اور نظام زرواپس آگیا اور V.I.Maghaluk جنوری ۱۹۳۶ء میں بڑے فخر سے بیان کیا.کہ پرچی کے طریق اور اجناس کی شکل میں مزدوری ادا کرنے کے رواج کو اڑا دینے سے ہمارا سکہ روبل اشترا کی اصول پر مزدوری ادا کرنے کا واحد ذریعہ بن گیا ہے.نیز یہ کہ اس طرح ہم اشترا کی تمدن کی خوشنما اور سہانی صبح کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں.آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس چیز کو ابتداء میں جب مارکس کے نظریوں کی برائی میدان عمل میں واضح نہیں ہوئی تھی.اور اس کے نظرئیے روسی حاکموں کے دماغ پر حاوی تھے.اشترا کی اقتصادیات کے لئے ضروری قرار دیا جاتا تھا.جس کے بغیر اقتصادی مساوات کا حصول ممکن نہیں.اس کو چھوڑ کر اور اس کی بجائے سرمایہ داری کے نظام زرکو قبول کر کے اس پر یہ فخر کرنا کہ اس طرح ہم اشتراکیت کی روشن صبح کے قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں.حیا کی کس قدر کمی پر دلالت کرتا ہے.(۷) شخصی ملکیت اشتراکیت شخصی ملکیت کا حق تسلیم نہیں کرتی.مارکس اور Engels کمیونسٹ مینوفیسٹو میں لکھتے ہیں کہ اس لحاظ سے اشترا کی نظرئیے کا خلاصہ ایک فقرہ میں بیان کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ انفرادی ملکیت کو اڑا دیا جائے.(36 A Kind book of Marxism page ) اسی میں آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ خلاصہ یہ کہ تم ہمیں اس بات پر ملامت کرتے ہو کہ ہم تمہاری ملکیت اڑانا چاہتے ہیں.یقیناً ہم یہی کرنا چاہتے ہیں.40 A Kind book of Marxism page ) غالبا یہ اس

Page 70

۶۴ ترکہ انفرادی حق ملکیت کو اگر تسلیم کر لیا جائے.تو ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسان اپنی ماہانہ آمد سے جتنا بھی بچا سکے.اسے اجازت ہو کہ وہ اس رقم سے جائیداد بنالے.جس کے نتیجہ میں کچھ عرصہ کے بعد بعض لوگ بہت سے مکانوں وغیرہ کے مالک ہو جائیں گے اور بعض دوسروں سے اقتصادی لحاظ سے فوقیت حاصل کر لیں گے اور یہ مساوات کے ان معنی کے خلاف ہے جو مارکس اور اینجل کے دماغ میں ہیں.اسی وجہ سے انہوں نے ورثہ کی اجازت بھی نہیں دی.روس میں ابتداء میں اس کے مطابق عمل شروع کیا گیا.مگر یہ اصول نبھ سکتا تھا نہ نبھا.آہستہ آہستہ اسی انفرادی حق ملکیت کو جس کے مٹانے کے لئے حکومت مزدوراں قائم کی گئی تھی تسلیم کر لیا گیا.اور ایسا ہی ہونا چاہیے تھا.جب حکومت مزدوراں نے مزدوری میں اس قدر تفریق جائز رکھی کہ ایک مزدور کی اوسط تنخواہ ۲۵۰ روبل یعنی اندازاً اکتیس روپیہ مقرر کی اور حکومت کے بعض افسروں کو بیس ہزار سے تمہیں ہزار روبل ماہانہ دینے لگے.یعنی اڑھائی ہزار سے پونے چار ہزار روپیہ.تو یقیناً اس قدر کثیر معاوضہ لینے والے اپنی تمام آمد کو کھانے پینے اور پہنے پر خرچ نہیں کر سکتے.اگر ایسے لوگوں کو ذاتی جائیداد بنانے کی اجازت نہ دی جائے تو اتنی کثیر رقم ماہانہ انہیں دینا ایک مذاق بن جاتا ہے اور وہ غرض پوری نہیں ہوسکتی جس کے لئے اس تفریق کو جاری کیا گیا.پس ذاتی جائیداد بنانے کی اجازت دینی پڑی.مگر اس اجازت کے نتیجہ میں اشتراکیت کا پروگرام کہاں گیا.روسی حکومت اس قسم کی باتیں شائع کرنا پسند نہیں کرتی.اس لئے صرف چند مثالیں ہی دی جاسکتی ہیں.V.P Kolyakov اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے.رہنے کا مکان اور اس کی اشیاء گھر کے مویشی اور مرغیاں وغیرہ زمیندار کی ملکیت ہی رہتی ہیں“.Andrew Smith اپنی کتاب کے صفحہ ۴۵ تا ۴۷ پر لکھتا ہے میں نے روس میں مسٹر N.Vassiber اور اس کی بیوی کو بیس پچپیس فٹ کے ایک کمرہ میں رہتے دیکھا.جس میں ان میاں بیوی کے علاوہ چار اور اشخاص بھی مقیم تھے.یہ میاں بیوی عام مزدوروں میں سے تھے اور میں نے Gaypayoo فیکٹری کے ایک بڑے افسر کو ایک سات کمروں کے مکان میں رہتے بھی دیکھا.جس میں ہر قسم کے تعیش کے سامان موجود تھے.ان کا بچہ نہ تھا.یہ دونوں اور ان کی دو نوکرانیاں اتنے بڑے مکان میں رہتی تھیں“.

Page 71

غالبا یہ افسر ایسے ہی لوگوں میں سے تھا.جنہیں ہمیں تمہیں ہزار روبل ماہانہ تنخواہ ملتی ہے.حقیقت یہی ہے کہ جب تک انسانی فطرت میں جذبات لطیفہ پائے جاتے ہیں اور جب تک ذاتی منفعت اس کی فطرت کا ایک حصہ ہے اس وقت تک انسان اس اصل پر کار بند نہیں ہوسکتا کہ ہر ایک سے اس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے.مگر ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق معاوضہ دیا جائے.کام کا شوق پیدا کرنے اور اس پر ابھارنے کے لئے زیادہ کام پر زیادہ مخواہ ضرور دینی پڑے گی.دماغی قابلیتوں کے نتیجہ میں جس شخص کے کام کا نتیجہ زیادہ ہو گا.اسے معاوضہ بھی زیادہ ہی دینا پڑے گا.ورنہ دماغی قابلیتیں ترقی کی بجائے تنزل کی طرف گریں گی.جن کی آمد زیادہ ہوگی وہ روز مرہ کی ضروریات پر کھلا خرچ کرنے کے بعد بھی ضرور بچائیں گے.اگر حکومت سود کی اجازت دیتی ہوگی تو یہ لوگ اس روپیہ کوسو د پر لگا دیں گے اور اس طرح ان کے روپیہ میں روز افزوں زیادتی ہوتی چلی جائے گی.یا اگر انفرادی حق ملکیت کو حکومت تسلیم کرے گی.تو یہ اس سے جائیداد پیدا کریں گے.اگر حکومت ان ہر دو کی اجازت نہیں دے گی.تو اپنی قابلیتوں کے جو ہر دکھا کر دوسروں سے کچھ زیادہ کمانے کی تمنا بھی ان کے دلوں میں پیدا نہ ہوگی.اگر سود اور انفرادی ملکیت کو حکومت تسلیم کر رہی ہو.مگر حق ورثہ کو جائز نہ قرار دیتی ہو تو ایسے لوگ یہ حسرت لے کے مریں گے کہ کاش ہم اپنی محنت کی کمائی سے اپنی اولاد کو فائدہ پہنچاتے.ایسا ہونا لازمی ہے سوائے اس کے کہ حکومت مزدوراں انسان کو مشین بنانے میں کامیاب ہو جائے.اشتراکیت کے اصول کی ناکامی مذکورہ بالا سات اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر اشتراکیت انسان، انسان کی اقتصادی تفریق کو مٹانا اور اقتصادی مساوات کو قائم کرنا چاہتی ہے.میں نے نہایت اختصار کے ساتھ ان اصول کی خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر روسی حکومت ہی نے جو مارکس کی اشتراکیت کہلاتی ہے.ان اصول پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے تو مارکس کے نظریے مرچکے ہیں.اور دنیا میں

Page 72

۶۶ ان کا کوئی ٹھکانا نہیں.اگر روسی حکومت مارکس کے اصول پر ہی قائم ہے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مارکس کے اصول عوام کی اقتصادی حالت کو سدھار سکے ہیں نہ ان میں مساوات قائم کر سکے ہیں.مزدور کی حالت کو سدھار اس لئے نہیں کہ آج بھی روس کا مزدور نہایت تنگی کی زندگی گزار رہا ہے.اس کی اوسط آمد قوت خرید کے لحاظ سے چھپیں تمہیں روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں.آج ہندوستانی مزدور اس سے کہیں زیادہ کماتا ہے.پھر بھی اُسے تن ڈھانکنے کو کافی کپڑا میسر نہیں آتا.بسا اوقات پیٹ کاٹنا ہی پڑتا ہے.چہرہ پر مُردنی کے آثار چھائے رہتے ہیں.روسی مزدور کا کیا حال ہوگا.ہم اندازہ تو کر سکتے ہیں.مگر وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتے.غیر ممالک میں رہنے والوں کو جن روسیوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے.وہ یا تو گورنمنٹ کے افسر یا فوج کے سپاہی ہیں.ان لوگوں کی اقتصادی حالت اور ان کی اقتصادی حالت سے روسی عوام کا اندازہ لگانا درست نہیں.روبل کی پراپیگینڈا قیمت اس موقع پر روبل کی قیمت کے متعلق کچھ کہنا ضروری ہے.روسی حکومت نے ایک پونڈ کی چھبیس روبل قیمت رکھی ہے.اس لحاظ سے ایک روبل کی قیمت آٹھ آنہ بنتی ہے.اس لحاظ سے روسی مزدور کی اوسط تنخواہ ایک سو پچیس روپے ماہانہ بنتی ہے.مگر یہ اس کی محض پراپیگنڈہ قیمت ہے.کیونکہ کسی سکہ کا کسی دوسرے سکہ کے مقابلہ میں مبادلہ اور چیز ہے اور قوت خرید کے لحاظ سے اس کی قیمت اور شے ہے.اگر ہم قوت خرید کے لحاظ سے روبل پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۳۷ء ۱۹۳۸ء میں ایک سیر آٹے کی قیمت روس میں چار روبل تھی.اور انگلستان میں پانچ پنس.اور لاہور میں ایک آنہ.دیگر اشیاء خوردنی میں بھی کم و بیش ایسا ہی فرق ہے.پس جہاں تک اشیاء خورونوش کا سوال ہے قوت خرید کے لحاظ سے ایک روپیہ بارہ روبل کے برابر بنتا ہے.اگر کپڑے وغیرہ کو مدنظر رکھا جائے تو ایک روپیہ دس روبل کے برابر بنتا ہے.ہو سکتا ہے کہ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اتنا زیادہ فرق نہ ہو.اس لئے اگر ہم سب اشیاء کو ملا کر قوت خرید کے لحاظ سے ایک روپیہ آٹھ روبل کے برابر سمجھیں.یعنی ایک

Page 73

۶۷ روبل دوآنہ کے برابر ہو تو ہمارا یہ فیصلہ روس کے حق میں ہی ہوگا.اس لحاظ سے اگر ایک روسی مزدور کی اوسط تنخواه ۲۵۰ روبل تسلیم کی جائے.تو قوت خرید کے لحاظ سے اس کی تنخواہ انداز اکتیس روپے بنتی ہے.یعنی وہ ۲۵۰ روبل سے اتنا ہی آٹا، گھی ، گوشت ، کپڑا وغیرہ خرید سکتا ہے.جتنا کہ ہم ہندوستان میں اکتیس روپے میں خرید سکتے ہیں.اس سے عیاں ہے کہ حکومت مزدوروں کے قیام کے باوجو دروس کے مزدور کی اقتصادی حالت کچھ زیادہ خوشکن نہیں.چند شہادات ہمارا یہ بیان محض خیالات پر مبنی نہیں.اس کی بنیاد ان حقائق پر ہے.جو خود روسی افسروں اور روس سے اچھی واقفیت رکھنے والوں نے دنیا پر ظاہر کئے ہیں.چنانچہ مذکورہ نرخوں کا بیان سر والٹر شرین کی کتاب I search for the truth in Russia سے لیا گیا ہے.اقتصادی مساوات کو بھی قائم نہیں کیا.۱۹۱۷ء میں لینن نے اعلان کیا تھا کہ بڑے سے بڑے افسروں کی تنخواہیں بھی ایک اچھے مزدور کی اوسط تنخواہ سے بڑھنی نہیں چاہئیں.(پراودا ۲۰ را پریل ۱۹۱۷ء)F.Broekway workers front کے صفحہ ۲۵ پر لکھتا ہے کہ روس میں بھی جہاں ۱۹۱۷ء میں جماعت مزدوراں نے شاندار اقتدار حاصل کیا آمد میں روز افزوں تفریق اور حق ورثہ کا نئے سرے سے اجراء یہ واضح کرتا ہے کہ روسی اشتراکیت اشترا کی سماج کی وحدت سے (جس میں فرقے اور فرقہ وارا نہ جھگڑے نہیں ہیں).رجعت قہقری کرتے ہوئے سرمایہ داری کی طرف جارہی ہے.کامریڈ Goon اپنی کتاب کے صفحہ ۲۶،۲۵ پر لکھتا ہے کہ ”عام مزدوروں کی تنخواہ ۸۰ سے ۴۰۰ روبل تک.نولڑ کیوں کی تنخواہ پچاس سے ساٹھ روبل تک.اور مکان اچھے کاریگروں کی تنخواہ تین سو سے آٹھ سو روبل تک.ماہرین فن اور ذمہ دار جگہوں پر کام کرنے والے افسروں کی تنخواہ بیس ہزار سے تہیں ہزار روبل تک ہے.اسی طرح وہ کہتا ہے کہ مزدوروں کی پنشن ۲۵ سے ۸۰ روبل تک اور بڑے افسروں کی بیواؤں کی

Page 74

۶۸ پنشن اڑھائی سو سے ایک ہزار روبل تک ہے“.کامریڈ Goow کے بیان سے دو باتیں واضح ہیں.اول یہ کہ ایک ہی قسم کے کام کرنے والوں کی تنخواہوں میں بھی نمایاں فرق پایا جاتا ہے.دوم یہ کہ مختلف کام کرنے والوں کی تنخواہوں میں اس سے بھی بڑا فرق ہے.کہاں ۵۰ روبل لینے والے نوکر، کہاں ہیں ہزار روبل لینے والا افسر.KOLOKHOZ مختلف فارمز پر کام کرنے والے زمینداروں کی آمد میں بھی یہ ہر دو فرق نمایاں ہیں.ایک فارم کے چرواہاBeissemboyov نے سال میں ۲۵۲۰ من گندم اور ۳۲۰ روبل کمائے.اس کے برعکس Borodin کے سارے خاندان نے ۱۹۶ من گندم اور ۶۹۳۲ روبل کمائے.اگر گندم کو روبل میں تبدیل کیا جائے.اور ایک من گندم کی قیمت ۱۳۰ روبل سمجھے جائیں (اس لئے کہ سر والٹر کے بیان کے مطابق ایک من آٹے کی قیمت ۱۶۰ روبل بنتی ہے.لیکن آٹا گندم سے مہنگا ہوتا ہے تو Beissemboyov کی سالانہ آمد ۳۳۰۸۰۰ بنتی ہے.یعنی اس نے ۲۷۵۶۶ روبل ماہانہ کمایا.اس کے برعکس Borodin کی سالانہ آمد ۳۲۴۱۲ اور ماہانہ آمد ۲۷۰۱ روبل بنتی ہے.انہیں فارموں پر دودھ دو بہنے والی عورتیں اوسطاً دو اڑھائی سوروپے ماہانہ کماتی ہیں.ب.پھر اس مقصد کے حصول کے لئے اشتراکیت جس طریق کار کو پسند کرتی اور اختیار کرتی ہے وہ بغاوت اور جبر کا طریق کار ہے.ظاہر ہے کہ جو کام بھی جبر سے کروایا جائے گا اسے بشاشت سے نہ کیا جائے گا.ناممکن اور مضر مساوات مساوات اپنے کلیہ منطقی معنی کے لحاظ سے ناممکن الحصول ہے.اس لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ جتنا ایک شخص کو کھانے کو دیا جائے.اتنا ہی دوسرے کو دیا جائے.جتنا کپڑا جتنی تعلیم

Page 75

۶۹ جتنی طبی امداد ایک شخص کو ملے.اتنی ہی دوسرے کو ملے.اس معنے میں مساوات ناممکن الحصول ہی نہیں غیر مفید اور مضر بھی ہے.پیدائش انسانی مساوات کے اس اصول پر نہیں ہوئی.کسی کا قد چھوٹا ہے کسی کا لمبا.قدرت نے کسی کو دُبلا پے سے نوازا ہے کسی کو موٹاپے سے.بعض کی حتوں میں تیزی پائی جاتی ہے بعض کے جذبات کند ہیں.کسی کی دماغی قوتوں کو شاہین کی پرواز عطا کی گئی ہے کوئی زمین پر رینگتے ہوئے بھی پھولا نہیں سماتا.ان حالات میں منطقی مساوات کو تاہ قد کے انسان کے کوٹ کو ٹخنوں تک لمبا کر کے یا طویل قامت شخص کے پاجامہ کو گھٹنوں تک اونچا کر کے ہی حاصل کی جاسکتی ہے.خوراک میں یہ مساوات کم خور کو اتنا ٹھسا کر کہ غذا اس کے لئے مہلک بن جائے.یا ایک پیٹو کو اتنی کم مقدار میں غذادے کر کہ زندہ رہنا ہی اس کے لئے مشکل ہو جائے ہم اسے حاصل کر سکتے ہیں.خیالات کی دنیا میں اس مساوات کا قیام ایک بلند پرواز شاعر کو کند ذہن انسان کے ماحول میں رکھ کر یا ایک کند ذہن کو آسمانوں کی بلندی پر پہنچا کر جہاں کی شفاف فضا میں اس کیلئے زندہ رہنا مشکل ہو جائے قائم کی جاسکتی ہے.پس ہر ایک کو ایک جتنا دینا کسی ایک ملک کے لئے بھی چنداں مفید نہیں.اس لئے ہمیں مساوات کے کوئی اور معنی کرنے ہوں گے جس کے مطابق اس کے قیام کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہوگا.اسلام میں مساوات کی تعریف مارکس نے مساوات کی جو تعریف کی ہے.وہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں عقلاً نادرست تھی اور عملاً ناکام رہی.اسلام اس قسم کی مساوات کو صحیح تسلیم نہیں کرتا.اسلام کے نزدیک مساوات کی یہ تعریف ہے کہ (۱) ضروریات زندگی کے حصول میں سب مساوی ہوں.یعنی وہ کم سے کم غذا جس سے انسان کے جسمانی اور دماغی قومی پورے طور پر نشو نما پاسکیں یا اپنی طاقتوں کو بحال رکھ سکیں ہر شخص کو مانی

Page 76

چاہیے.وہ کم سے کم کپڑا جس سے انسان سردی گرمی کے اثرات سے محفوظ رہ سکے اس کا حق ہے اور (۲) یہ کہ ہر شخص اس بات میں مساوی ہونا چاہیے کہ اسے جسمانی اور دماغی قولی کو کمال تک پہنچانے کے سامان مہیا ہوں.اس کے راستہ میں کوئی ایسی دنیوی روک نہ ہو.جس کی وجہ سے اگر وہ فطر تا پیشہ ور ہے تو اپنے پیشہ میں وہ کمال حاصل نہ کر سکے جو اسباب و ذرائع کے مہیا ہونے پر کر سکتا تھا.اگر کسی کے دماغی قویٰ میں آگے نکلنے کی اہلیت ہے.تو اسے وہ تمام ذرائع میسر آنے چاہئیں جن کے نتیجہ میں اس کی فطری طاقتیں ذات قوم اور بنی نوع انسان کے لئے مفید بن سکیں.سب اشیاء اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں پس اسلام امراء کے اموال چھین کر ان کی جائیدادیں ضبط کر کے ہر انسان کو کمترین معیار زندگی پر ٹھہرا کر مساوات پیدا نہیں کرتا.جس کے نتیجہ میں موجودہ زخم پر تو مرہم کا پھا یہ رکھا جاتا ہے.مگر اس کے نتیجہ میں دوسری جگہ دوسرا پھوڑا پیدا کر دیا جاتا ہے.اسلام کے اقتصادی اصول غرباء کی ضروریات کو تو پورا کرتے ہیں مگر امراء کو کنگال نہیں بناتے.اسلام کے اقتصادی نظریہ کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ دین اسلام کے نزدیک زمین و آسمان اور ان کی تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں.جن میں شرعاً وقانو ناہر ایک کا ایک جیسا حصہ ہے.ہر انسان اس بات میں آزاد ہے کہ وہ اپنے یا اپنوں کے زور بازو کے نتیجہ میں ان اشیاء میں سے جتنا حاصل کر سکتا ہو کر لے فرمايا: وَتَبَرَكَ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (الزخرف: ۸۶) فرمایا: خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (البقرة: ۳۰) نیز فرمایا: قُلِ اللهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ ۖ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْ ءٍ قَدِيرٌ (ال عمران : ۲۷) یعنی زمین و آسمان کی بادشاہت اور اقتدار اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے اور اس کی طرف سے یہ سب

Page 77

21 چیزیں بطور امانت انسانوں کے سپرد ہیں.اس لئے سب انسان بادشاہوں اور ظاہری ملکیتیوں کے متعلق اپنے آپ کو آزاد نہیں کہہ سکتے.جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے.انہیں ان امانتوں کے صحیح مصرف کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہونا ہوگا.امانت کے اس مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا.اَن نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشْوا(هود: ۸۸) کہ کیا تو ہمیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ ہم اپنے مالوں میں جو چاہیں کریں اگر فِي أَمْوَالِنَا درست ہو اگر ہم اپنے اموال کے حقیقی مالک ہوں تو شعیب علیہ السلام کی قوم کا یہ اعتراض صحیح ہوگا.کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ حقیقی مالک کے اختیارات میں دخل اندازی کرے.لیکن اگر في أَمْوَالِنَا ہی درست نہیں.اگر ہم نے نہ اُن مالوں کو پیدا کیا نہ اُن قومی کو جن کے ذریعہ سے ہم نے یہ مال جمع کئے.نہ ہم اپنی مرضی سے امیر کے گھر پیدا ہوئے جس کے اموال سے ہم نے حصہ پایا تو اَنْ نَّفْعَلَ مَا نَشَاءُ بھی درست نہیں ہو سکتا.اگر ہم اپنے مالوں کے امین ہیں نہ کہ مالک تو ہم پر بعض پابندیاں بھی عائد ہوں گی.اور ہم اللہ تعالیٰ کے مال کو جہاں ہم چاہیں گے خرچ نہیں کر سکیں گے.اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق ہمیں ان اموال کو خرچ کرنا پڑے گا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ بلد میں فرمایا.يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا تُبَدًا ( البلد : 4 ) کہ انسان اس پر فخر کرتا ہے کہ اس نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کر ڈالا اور اس کا خیال ہے کہ مال کو اس قدر فراخ دلی کے ساتھ خرچ کر دینے کی وجہ سے دنیا اسے عزت کی نگاہ سے دیکھے گی اور خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی وہ مقبول ہوگا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا ہر گز نہیں.محض مال خرچ کر دینا کوئی خوبی نہیں.خوبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق اور بنی نوع انسان کے مفاد کی خاطر ا سے خرچ کیا جائے.مال جمع یا خرچ کرنے کے متعلق اسلام کی ہدایات اسلام نے مال جمع کرنے یا خرچ کرنے کے متعلق جو ہدایات دی ہیں.ان کی دوغرضیں ہیں.اول یہ کہ سیاسی اور اخلاقی عدم مساوات کا دروازہ بند کیا جائے اور دوم یہ کہ ہر فرد بشر کے لئے

Page 78

۷۲ ضروریات زندگی مہیا ہو سکیں.غلامی کو یک قلم مٹا کر اسلام نے بنی نوع انسان کو صرف سیاسی اور تمدنی لحاظ سے ہی مساوات کے مقام پر کھڑا نہیں کیا.اس سے اقتصادی عدم مساوات کو بھی دور کیا ہے اور Exploitation of man by man کو یکسر مٹا دیا اور یہ اصول جاری کیا کہ ہر انسان کی اقتصادی جد و جہد اپنے لئے ہونی چاہیے نہ کہ کسی غیر کیلئے اس جدو جہد میں انسان آزاد ہونا چاہیے نہ کہ غلام.اسلام کے اقتصادی اصول مندرجہ ذیل عنوانوں کے نیچے آتے ہیں.(۱) کسب معاش میں کامل آزادی اور مساوی حقوق جسمانی و دماغی قومی کی آزادانہ نشو و نما اسی کے ذیل میں آتا ہے.(۲) اگر یہ آزادانہ انفرادی جدو جہد بعض افراد کی ضروریات پوری نہ کر سکے تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کمی کو پورا کرے.جو کوشش کے بعد رہ جاتی ہے یا اگر بعض افراد اس اقتصادی جدو جہد کے قابل نہ ہوں تو ان کا سارا بوجھ حکومت اپنے سر لے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان مقروض مرتا ہے تو اس کا قرضہ میرے ذمہ ہے.(۳) ایسے انتظام کے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ انفرادیت اور عائلی زندگی کے لطیف جذبات کچلے نہ جائیں.(۴) یہ انتظام بین الاقوامی ہو.ملکی نہ ہو.(۵) یہ انتظام طوعی ہو جبری نہ ہو.(۶) ایک حصہ جبری بھی ہے مثلاً زکوۃ ، مکاتبت وغیرہ.غلامی کا انسداد اول آزادانہ کسب معاش کے راستہ میں غلامی ایک روک تھی.غلام جو کچھ بھی کماتا ہے اپنے آقا کے لئے کماتا ہے.اس کے پسینہ کی کمائی میں اس کا اپنا کوئی حصہ نہیں ہوتا.دنیا کی پرانی اور نئی سب تہذیبیں غلاموں کا خون چوس چوس کر اپنے اقتصادی عروج کو پہنچتی رہی ہیں.یہ مضمون اپنی ذات میں ایک وسیع مضمون ہے اور تنگی وقت مجھے اس کی تفاصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتی بہر حال یہ ایک واضح بات ہے کہ غلامی کو مٹا کر اسلام نے تمام بنی نوع انسان کے لئے کسب معاش کے آزادانہ راستے کھولے ہیں.

Page 79

حکومت کا فرض ۷۳ دوم.اسلام نے حکومت وقت کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی رعایا میں سے ہر ایک کی ضروریات زندگی پورا کرنا اپنے ذمہ لے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ ہی میں ایسے رجسٹر کھولے گئے تھے جن میں رعایا کے اقتصادی کو الف درج کئے جاتے تھے اور جو شخص بھی مالی امداد کا محتاج ہوتا تھا.حکومت کی طرف سے اس کو امداد پہنچائی جاتی تھی.اس کے لئے اسلام نے امراء پر بعض جبری ٹیکس لگائے ہیں.اول زکوۃ کا حکم دیا.جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس قدر جائیداد کسی انسان کے پاس سونے چاندی کے سکوں یا اموال تجارت وغیرہ کی قسم میں سے ہو اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو.حکومت اس سے انداز اڑھائی فی صدی جو اقل حد ہے.سالانہ ٹیکس لے لیا کرے گی.جو ملک کے غرباء اور مساکین کی بہبودی پر خرچ کیا جائے گا.یا درکھنا چاہیے کہ یہ ٹیکس صرف آمد پر نہیں لیا جاتا بلکہ سرمایہ اور آمد ہر دو پر لیا جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کی مقدار نفع کے پچاس فی صدی تک پہنچ جائے.اس کے متعلق اسلامی نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ امراء کی دولت میں غرباء کے حقوق اور ان کی محنت بھی شامل ہے.اس لئے ایک ایسا قاعدہ مقرر کر دیا گیا ہے جس کے مطابق ہر سال بطور زکوۃ غرباء کا حق امراء سے لے لیا جاتا ہے.دوسرا جبری ٹیکس اسلام نے خمس کی صورت میں لگایا ہے.یعنی اس نے کانوں کی پیداوار میں حکومت کا پانچواں حصہ مقرر کر دیا ہے.اس پیداوار پر اگر ایک سال گزر جائے تو مالکان کو مس کے علاوہ زکوۃ بھی دینی پڑے گی.مگر چونکہ ان جبری ٹیکسوں سے تمام بنی نوع انسان کی ضروریات پوری نہیں کی جاسکتی تھیں اس لئے ان ضروریات کے پورا کرنے کے لئے اسلام نے طوعی چندوں کا دروازہ کھولا.تاہر محتاج کی حاجت روائی بھی ہو جائے اور ان طوعی چندوں میں حصہ لینے والے اپنی اخروی زندگی کے لئے زاد راہ بھی جمع کر سکیں.اسلام کے دور اول میں یہ چندے حسب ضرورت حکومت

Page 80

۷۴ ہنگامی طور پر جمع کرتی رہی ہے.مگر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے وقت دنیا میں ایک اقتصادی انقلاب پیدا ہو چکا ہے اور امیر وغریب کا امتیاز پہلے سے کہیں زیادہ ہو گیا ہے.جسے محض ہنگامی چندوں سے مٹایا نہیں جاسکتا.اس لئے جیسا کہ ہم آگے چل کر دکھا ئیں گے.ان طوعی چندوں کو مستقل بنیادوں پر کھڑا کر دیا گیا ہے.بعض اور طریقوں سے بھی اسلام نے امیر وغریب کے امتیاز کو کم سے کمتر کیا ہے.ورثہ کے متعلق قوانین ورثہ کے متعلق مفصل اور معتین قوانین مقرر کئے گئے ہیں.ورثہ میں سے ۱٫۳ حصہ وصیت کے ذریعہ دوسری جگہ جا سکتا ہے.اس ذریعہ سے مال کی بہترین تقسیم میں مزید دروازہ کھولا گیا ہے.ایک امیر کی وفات کے بعد اسلامی شریعت اس کی تمام جائیداد کو اس کے خاندان میں تقسیم کر دیتی ہے اور یہ حکم اس غرض کے ماتحت رکھا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جائیداد کسی ایک کو نہ دے.بلکہ یہ اس کے ورثاء میں تقسیم کی جائے.شریعت نے اس تقسیم میں اولاد کا بھی حق رکھا ہے.ماں باپ کا بھی حق رکھا ہے.خاوند کا بھی حق رکھا ہے اور بعض حالتوں میں بھائیوں اور بہنوں کا بھی حق رکھا ہے.ان قوانین ورثہ کو بدلنے کی اجازت نہیں دی.تا مرنے والا کسی ایک رشتہ دار کے حق میں اپنی تمام جائیداد نہ کر جائے اور دولت غیر محدود وقت کے لئے کسی ایک خاندان میں جمع نہ ہو.اس حکم کے نتیجہ میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جس کی بڑی سے بڑی جائیداد یا بڑی سے بڑی دولت کے تین چار نسلوں ہی میں حصے بخرے نہ ہو جائیں.سود کی ممانعت (ب) اسلام نے سود کو منع قرار دیا اور اس طرح تجارت کو محدود کر دیا.یا درکھنا چاہیے کہ دنیا کی اقتصادی تباہی کا سب سے بڑا موجب یہی سود ہے.سود کے دو عجیب خواص ہیں.جب مالدار ا سے لیتا ہے تو یہ اس کے اموال میں حیرت انگیز اضافہ کر دیتا ہے.کیونکہ ایک مالدار اپنے اثر ورسوخ اپنی

Page 81

۷۵ واقفیت اور اپنی ساکھ کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں روپیہ بنکوں وغیرہ سے سود پر لے سکتا ہے.اور اس روپیہ سے وسیع پیمانہ پر کاروبار چلا کر اپنی دولت کو کئی گنا بڑھا لیتا ہے.اور جب ایک غریب بہبزار دقت سودی قرضہ اٹھاتا ہے.تو اس کے جال میں ایسا پھنستا ہے کہ مرتے دم تک اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا اور یہی سودی رو پید اس کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے.امیر اس سودی روپے سے ہزاروں ہزار لوگوں کو ہمیشہ کی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور غریب اسے لے کر خود ایسا غلام بنتا ہے کہ کبھی اس سے آزادی حاصل نہیں کر سکتا.اگر دنیا کے مالداروں کی فہرست بنائی جائے تو اکثر مالدار وہی نکلیں گے جنہوں نے سود کے ذریعہ ترقی کی ہوگی اور اگر دنیا کے غرباء کی فہرست بنائی جائے یا کم از کم یہ تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستان کے غرباء کی فہرست بنائی جائے تو ان کی اکثریت ایسے غریب کسانوں کی ہوگی جن کی غربت رہینِ سود ہوگی.اسلام نے سود کی وسیع تعریف کی ہے.جس سے بعض ایسی چیزیں بھی جو عرف عام میں سود نہیں سمجھی جاتیں سود کے دائرہ عمل میں آجاتی ہیں اور وہ سب ناجائز ہو جاتی ہیں.اسلام کے نزدیک سود کی یہ تعریف ہے کہ ہر وہ کام جس پر نفع یقینی ہو، جس کے کرنے میں خطرات مول نہ لئے جائیں، اس تعریف کی رو سے monopoly a trust یعنی حق تجارت بلا شرکت غیر جائز نہیں ہوگی.یعنی بڑے بڑے تجار کا یہ سمجھوتہ کہ وہ باہمی مشورہ سے ایک جیسی قیمتیں مقرر کریں گے اور ایک دوسرے سے مقابلہ نہ کریں گے ناجائز ہوگا.اس لئے کہ اس کے نتیجہ میں مہنگے داموں اشیاء فروخت کی جاتی ہیں اور حاجتمند ضرورت سے زیادہ قیمت دے کر ان اشیاء کو خریدنے پر مجبور ہوتا ہے.خریدار گھاٹے میں رہتے ہیں اور ایسے امیر تاجر بڑا نفع کماتے اور بہت امیر ہو جاتے ہیں.کارٹل یعنی اس قسم کے بین الاقوامی سمجھوتے بھی اس وجہ سے ناجائز ہوں گے.اسلام نے ان سب چیزوں کو اس لئے نا جائز قرار دیا تھا تا دنیا کی دولت پر کوئی ایک طبقہ قابض نہ ہو جائے.بلکہ مال تمام لوگوں میں چکر کھاتا رہے.غرباء کے لئے بھی اپنی اقتصادی حالت درست کرنے کی راہیں کھلی رہیں.

Page 82

24 مال روک رکھنے کی ممانعت (ج) اسلام نے ایک حکم یہ بھی دیا ہے کہ تم مال کو روک کر نہ رکھو کہ جب مہنگا ہوگا اور قیمت زیادہ ہوگی اس وقت ہم اس مال کو فروخت کریں گے.یا د رکھنا چاہیے کہ خود مال کو روک رکھنے سے بھی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.جب مانگ زیادہ ہو لیکن اشیاء مطلوبہ اس کی نسبت سے کم ہوں تو قیمتیں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں.خریداروں میں مقابلہ شروع ہو جاتا ہے.امیر جو زیادہ قیمت خرچ کر سکتے ہیں وہ زیادہ قیمت دے کر ایسی اشیاء کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غریب ایسی چیز کو خرید کے بھی گھاٹے میں رہتا ہے اور نہ خرید کے بھی.قیمتیں گرانے کی ممانعت (و) پھر اسلام نے قیمتیں گرانے کی بھی ممانعت کی ہے ظاہر ہے کہ ایک امیر تاجر ہی جس کی آمد کے ایک سے زائد ذرائع ہوں نا مناسب اور نا جائز حد تک کسی ایک چیز کی قیمت گرا سکتا ہے.کسی ایک شے میں نفع نہ لینا یا ایک حد تک نقصان برداشت کر لینا ایسے تاجر پر کوئی بڑا بار نہیں.اس کی آمد کے اور ہزاروں ذریعے ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں وہ غریب تاجر یقیناً دیوالیہ ہو جائیں گے جو اپنی ضروریات زندگی بھی بمشکل اس تجارت سے حاصل کر رہے ہوں گے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ بازار کا دورہ کر رہے تھے کہ ایک باہر سے آئے ہوئے شخص کو دیکھا کہ وہ خشک انگور نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کر رہا تھا.جس قیمت پر مدینہ کے تاجر انہیں فروخت نہ کر سکتے تھے.آپ نے اُسے حکم دیا کہ یا تو اپنا مال منڈی سے اٹھا کر لے جائے یا پھر اُسی قیمت پر فروخت کرے جس مناسب قیمت پر مدینہ کے تاجر بھی ایسے انگور فروخت کر سکتے تھے.جب آپ سے اس حکم کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے جواب دیا کہ اگر اس طرح اسے فروخت کرنے کی اجازت دی گئی تو مدینہ کے تاجروں کو جو مناسب قیمت پر مال فروخت کر رہے ہیں نقصان پہنچے گا.

Page 83

کم قیمت پر مال خریدنے کی ممانعت جہاں اسلام نے منڈی کی قیمت سے کم قیمت پر مال بیچنا منع فرمایا.وہاں کم قیمت پر مال خرید نے سے بھی منع کیا.آنحضرت ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ لوگ شہر سے باہر تجارتی قافلوں کو ملیں اور قبل اس کے کہ شہر کی منڈی کے بھاؤ انہیں معلوم ہوں.ان کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم قیمت پر ان سے مال خرید لیں.اسی طرح آپ نے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ شہری لوگ ناواقف دیہاتیوں کے لئے بیع کریں.خلاصہ یہ کہ یہ پانچوں چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ بعض لوگ نا جائز طور پر دولت اپنے قبضہ میں کر لیا کرتے ہیں اور بعض دوسرے لوگ ناجائز نقصان برداشت کرتے ہیں.یہ تمام باتیں آزادانہ اقتصادی جد و جہد کے راستہ میں روک تھیں.اگر ان کی اجازت دے دی جاتی تو امیر وغریب کا امتیاز اور نا قابل برداشت حد تک بڑھ جاتا اور غرباء ایک باطنی غلامی کے شکار ہو جاتے.پس اسلام نے ان چیزوں کو منع فرما کر اپنی تعریف کے مطابق اقتصادی مساوات کو قائم کیا ہے.لطیف فطری جذبات کا خیال سوئم : اسلام کے اقتصادی قوانین انفرادیت اور لطیف فطری جذبات کا خیال رکھتے ہیں.اکثر چندوں کو طوعی رکھ کر ایک طرف افراد کی روحانی ترقی اور قرب الہی کے حصول کے رستے کھولے ہیں اور دوسری طرف وَفِی اَمْوَالِهِمُ حَقٌّ کا اصول قائم کر کے کہ امراء کے اموال میں غرباء کی کمائی کا بھی ایک حصہ ہے اور حکومت کو ضروریات زندگی کے مہیا کرنے کا ذمہ دار قرار دے کر حاجتمندوں کو احساس دنایت سے بچایا.ورثہ کی تقسیم کے معتین قوانین بنا کر اس بات کی حفاظت کی کہ اموال بعض خاندانوں میں جمع ہونے نہ شروع ہو جائیں تو ورثہ کی اجازت دے کر جذبات قرابت واخوت کو سیر کیا.امراء کو عیش و عشرت کی زندگی گزارنے سے روک کر انہیں تمدنی لحاظ سے غرباء کی ہی صف میں لا کھڑا کیا.وہ امیر جو ناچ گانے کی مجلس میں شریک ہوتا ہے نہ اسے شراب کی عادت ہے نہ وہ ریشم پہن سکتا ہے نہ وہ

Page 84

ZA سونے چاندی کے زیور استعمال کر سکتا ہے نہ اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے اپنے ایک مہمان کے لئے سو سو اونٹ ذبح کرسکتا ہے جو سادہ کھانا کھاتا ہے.سادہ کپڑوں میں ملبوس نظر آتا ہے.غرضیکہ ہر طرح سادہ زندگی گزارتا ہے.اس میں اور اس غریب میں جس کی تمام ضروریات زندگی پورا کرنا حکومت کا فرض ہے کوئی بڑا فرق نہیں رہ جاتا.اس طرح امیر و غریب میں مساوات ہی قائم نہیں ہوتی ہر ایک کو انفرادی آزادی بھی میسر آتی ہے.وہ آزادی جس میں دینی اور دنیوی ترقی کی راہیں ہر دو کے لئے یکساں کھلی ہیں.بین الاقوامی تمدن کی بنیاد چهارم اسلامی اقتصادیات میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی تمدن کی بنیاد رکھتی ہے.دنیا میں آج تک کوئی ایسی اقتصادی تحریک جاری نہیں ہوئی.جسے صحیح معنوں میں بین الاقوامی کہا جاسکتا ہو.سرمایہ داری اور امپیریلزم کے ملکی ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہوسکتا.اشتراکیت جسے لوگ بین الاقوامی تحریک سمجھتے ہیں اور جس کا کبھی خود بھی یہی دعویٰ تھا بین الاقوامی تحریک نہیں سمجھی جاسکتی.اس لئے کہ آج اشتراکیت روسی اشتراکیت کا نام ہے اور روسی اشتراکیت کے مقاصد میں سے یہ ایک مقصد نہیں کہ دنیا میں اشتراکیت کو قائم کیا جائے.مارچ ۱۹۲۶ء میں جب مسٹر آر ہا ؤرڈ نے سٹالن سے یہ سوال کیا کہ کیا سویٹ یونین نے عالمگیر اشتراکی انقلاب کے ارادے اور اس کا پروگرام اب چھوڑ دیا ہے.تو سٹالن نے جواب دیا کہ دنیا میں اس قسم کا انقلاب پیدا کرنے کا ہمارا کبھی بھی ارادہ نہ تھا.(سویٹ یونین ۱۹۳۶ء صفحه ۵۰-۵۱) اگر روسی اشتراکیت کا ایسا کوئی ارادہ بھی ہوتا تو بھی اس کے لئے ایسا کرنا ناممکن نہ تھا.اس کے ثبوت میں صرف یہ ایک دلیل ہی کافی ہے (اور ایک سے زائد دلائل دینے کی اس وقت گنجائش بھی نہیں ) کہ روی اقتصادیات روبل پر قائم ہے.اور بین الاقوامی نقطہ نگاہ سے روبل کی قیمت ایکسچینچ ریٹ پر رکھی گئی ہے.ایکسچینج ریٹ کے نتیجہ میں طاقتور ممالک غریب ملکوں کو لوٹنے کی کوشش کرتے

Page 85

۷۹ ہیں.مثلاً جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں.روسی حکومت نے ایک روبل کی قیمت آٹھ آنے مقرر کی ہوئی ہے.روس میں ایک روبل سے صرف ایک پاؤ آٹا خریدا جاسکتا ہے.لیکن ہندوستان میں اٹھنی سے پانچ سیر سے بھی اوپر آٹا خریدا جا سکتا تھا.(۱۹۳۷ء کی قیمتوں کے لحاظ سے ) اگر روس باہر کے ملکوں سے آٹا خریدے تو وہ اپنے ملک کے لحاظ سے بیس گنا زیادہ آٹا خرید رہا ہوگا.بالفاظ دیگر دوسرے ملک کو ایک اور بیس کی نسبت سے نقصان پہنچا رہا ہو گا.پس جس ملک کی اقتصادیات غیر ممالک کولوٹنے کی تاک میں ہو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے کو بین الاقوامی تحریک کہے.اسلام اس کے برعکس بوجہ ایک مذہبی تحریک ہونے کے ملک ملک نسل نسل اور قوم قوم میں کوئی امتیاز نہیں کرتا.اسلام عالمگیر تبلیغ اور اشاعت کی بنیادوں پر قائم ہے اور اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ جس طرح وہ اپنے پہلے دور میں دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیل گیا اور ایک شاندار بین الاقوامی برادری اس نے قائم کی اپنے دور ثانی میں وہ تمام دنیا پر چھا جائے گا اور وحدت اقوامی کے قائم کرنے والی تحریک صرف اسلامی تحریک ہی ہوگی.اقتصادی لحاظ سے بھی اسلام نے کسی ایسی چیز کو جائز قرار نہیں دیا، جس سے طاقتور ملک غریب ممالک کو لوٹ سکے.اسلام rate of exchange کے مخالف ہے.(اسلام کا اقتصادی نظام ) اور بین الاقوامی تجارت کو مبادلہ اشیاء کے اصول پر قائم کرنا چاہتا ہے.پنجم :.اسلام کا اقتصادی نظام طوعی ہے.مگر کچھ حصہ جبری ہے.مگر یہ چیز بھی انصاف پر مبنی ہے.بہترین نظام وہی ہوتا ہے جس میں کچھ حصہ منصفانہ جبر پرمبنی ہو اور کچھ حصہ طوعی ہو.جن کا سارا مال جبر آلے لیا جاتا ہے انہیں کوئی اخلاقی یا روحانی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.ہاں یہ خطرہ ضرور پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں بعض رذیل خصائل ان میں پیدا ہو جا ئیں.غاصبوں کے خلاف غصہ کی آگ ان کے دلوں میں پیدا ہو.ان کے اموال سے فائدہ اٹھانے والوں کے متعلق انتقام کی آگ ان کے سینوں میں شعلہ زن رہے اور جب بھی رد عمل کا ان کو موقعہ ملے وہ غرباء پر پہلے سے بھی زیادہ مظالم ڈھانے لگیں.جبری نظام بتدریجی نہیں ہوتا.جسے اقتدار حاصل ہو.غلبہ مل جائے.وہ اپنے اقتدار اور غلبہ سے فوری فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے.آہستگی سے کام کرنے کی اسے ضرورت نہیں ہوتی اور یہ

Page 86

۸۰ آنا فانا آنے والی آندھی نسلوں کی اقتصادی تباہی کا موجب بن جاتی ہے.اگر آج بھی وہ روس کا مزدور بہت سے سرمایہ دار ممالک کے مزدور کی نسبت کم مایہ ہے تو یقیناً اس کی ایک وجہ وہ جبری انقلاب ہے.جو آنا فانا چند دنوں کی بغاوت کے نتیجہ میں اس ملک میں قائم ہوا.خلاصہ کلام خلاصہ کلام یہ کہ اسلام ہی کے اقتصادی قوانین ہیں جس میں دنیا کی اقتصادی فلاح کا راز مضمر ہے.مگر اسلام کے پہلے دور میں بوجہ اس کے کہ سیاسی اور تمدنی اسباب اسے میسر نہ تھے اور بوجہ اس کے کہ اسلام کے پہلے اور دوسرے دور کے درمیان ظلمتوں کا ایک دور آنے والا تھا.آج سے قبل طوعی چندے مستقل بنیادوں پر قائم نہیں کئے گئے تھے.اسلام کے دوسرے دور میں اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرنے والا ہے جن میں اسلامی طوعی اقتصادیات مستقل بنیادوں پر کھڑی ہو جائیں.پس اس دوسرے دور کے متعلق جسے نظام نو بھی کہا جاسکتا ہے.کچھ کہنا ضروری ہے.اسلام کا نظام نو ۱۸۷۴ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کشف میں دکھایا کہ ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا.جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا.اور اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا.جو نہایت چمکیلا تھا.وہ نان اس نے مجھے دیا اور کہا ” یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.حضور علیہ السلام نے اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ حضور کو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والی ایک جماعت عطا کرے گا اور یہ کہ رزق کی پریشانی آپ کو اور آپ کے درویشوں کو پراگندہ نہیں کرے گی.یہ بالکل ابتدائی زمانہ کا الہام ہے.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا اور جماعت احمدیہ کی بنیاد بھی ابھی نہ رکھی گئی تھی.اس الہام میں بھی ایک نئے اقتصادی دور کی طرف ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے.

Page 87

ΔΙ ایک زبر دست اقتصادی تحریک ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نظام وصیت کا اجراء کیا.نظام وصیت اسلام کے طوعی چندوں کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے والا نظام ہے.ہر شخص اپنی مرضی سے اور بلا جبر و اکراہ اپنی کل جائیداد کا دسویں حصہ سے لے کر تیسرے حصہ تک اشاعت دین اور مصالح دین کے لئے دیتا ہے تا ان اموال سے جماعت احمد یہ تیموں ، بیواؤں اور محتاجوں کی خبر گیری کر سکے.یہ ایک زبردست اقتصادی تحریک ہے.جو اپنے دائرہ میں اتنی وسعت رکھتی ہے کہ دنیا کی کوئی اقتصادی تحریک بلا استثناء تحریک اشتراکیت طاقتور انتظام ہے کہ دنیا کا کوئی نظام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.۱۹۰۵ء میں یہ نظام قائم کیا گیا اور 9 مارچ ۱۹۰۷ء کو حضور علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے الہام کیا کہ ” ہزاروں آدمی تیرے پروں کے نیچے ہیں“.(تذکرہ صفحہ ۶۵۰) ان روحانی معنوں کے علاوہ جو اس الہام میں پائے جاتے ہیں.یہ الہام نظام وصیت یعنی نئے نظام اقتصادیات کی کامیابی کی شاندار بشارت بھی اپنے اندر رکھتا ہے.وہ ہزاروں انسان جواب سے تربیت حاصل کریں گے اپنی جائیدادوں کے ۱۰ را حصہ سے لے کر ۳ را تک اِس نظام نو کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے دیں گے اور یہ نظام اتنا مضبوط اور اس قدر وسیع ہو جائے گا کہ صرف یہی ایک نظام ہو گا جو تمام دنیا کے بھوکوں کی بھوک دور کرنے والا بنے گا اور تمام محتاجوں کی حاجت روائی کرے گا.خواہ یہ محتاج منتظم ہو کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے ہوں.یعنی سائل ہوں یا بوجہ اپنی کمزوریوں کے سوال کرنے کی جرات بھی نہ رکھتے ہوں.خواہ یہ ایسے لوگ ہوں جن پر ان کی اقتصادی مصیبت اس قدر بڑھ چکی ہو کہ وہ سوال پر اُتر آئیں.خواہ یہ ایسے لوگ ہوں جن کی عزت نفس سوال پر موت کو ترجیح دیتی ہو.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ۱۹۰۷ء کے ایام جلسہ میں حضور علیہ السلام کو فرمایا کہ یايُّهَا النَّبِيُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر كم اے نبی تو اور وہ ہزاروں آدمی جو تیرے پروں کے نیچے ہیں تم سب بھوکوں اور محتاجوں کو کھلا ؤ اور ان کی حاجت روائی کرو.نبی سے خطاب بتاتا ہے کہ یہ ذمہ داری نظام جماعت پر ہے.اب یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ بہت سے دوسرے اقتصادی نظام (خصوصاً نظام اشتراکیت) یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ان کے

Page 88

۸۲ ذریعہ سے دنیا کی اقتصادی بیماریاں دور ہوں گی اور ان میں سے بعض نظام بظاہر کا میاب بھی ہور ہے ہیں.مثلاً نظام اشتراکیت بہت زور پکڑ رہا ہے.روس جیسے وسیع ملک میں کامیاب ہورہا ہے اور دیگر مغربی اور مشرقی ممالک میں اس کی جڑیں مضبوط ہوتی نظر آرہی ہیں.ان حالات کو دیکھ کر دل ڈرتے ہیں کہ خدا جانے ہماری کمزوریاں نظام نو کے جلد تر دنیا میں پھیل جانے کے راستہ میں روک نہ ہوں.ایک عظیم الشان بشارت ہمارے دلوں کو تسلی دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے الہام کے ساتھ ہی ایک اور الہام کے ذریعہ ایک عظیم الشان بشارت جماعت احمدیہ کو دی اور وہ یہ کہ دبد به خسرویم شد بلند زلزله در گور نظامی فگند یعنی میری بادشاہت کا دبد بہ بلند ہوا.نظامی کی قبر میں زلزلہ پڑا.نظامی کون ہے اور اس کی قبر سے کیا مراد ہے.ان سوالات کے جواب اس الہام کے سمجھنے کی کنجی ہیں.میرے نزدیک نظامی سے مراد کارل مارکس ہے جو ایک نئے نظام یعنی اشتراکیت کا بانی ہونے کی وجہ سے نظامی یعنی نظام والا ٹھہرایا گیا ہے اور نظامی کی قبر سے مراد روسی اشتراکیت ہے.حال ہی میں بیج نرائن نے مارکس کے نظریوں پر ایک کتاب قلمبند کی ہے.جس میں اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ مارکس کے نظریے مرچکے ہیں.کتاب کا نام ہی اس نے Marxism is dead یعنی مارکس کے اصول مُردہ ہو چکے ہیں رکھا ہے.اگر مارکس کے نظریئے مر چکے ہیں تو ان کو کس نے مارا اور ان کی قبر کہاں ہے.بیج نرائن نے اپنی کتاب کے ایک باب کا عنوان ہی یہ رکھا ہے.روس مارکس کے نظریوں کی قبر کھودنے والے.Russia the grave digger of Marxism‘.اس کتاب کے پڑھنے والے پر کم از کم ایک بات اتنی واضح ہو جاتی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا.اور وہ یہ کہ روس میں مارکس کے اصول جاری کرنے کی کوشش کی گئی.مگر بعض وجوہ کی بنا پر جن کی تفصیل میں جانا اس وقت مشکل ہے.روس کو مارکس کے اصول چھوڑ کر ایک دوسری قسم کی اشتراکیت کو جاری کرنا پڑا.

Page 89

۸۳ جو اشتراکیت ایک طرف تو سرمایہ داری کے قریب سے قریب تر ہوتی چلی جارہی ہے اور دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ روسی اشتراکیت ایک بہت بڑی طاقت بن رہی ہے.جس کے متعلق یہ خطرہ پیدا ہو رہا ہے کہ کہیں وہ دنیا کے نظام میں ایک خطر ناک تہلکہ نہ مچادے.۱۹۰۷ء میں جب دنیا کے سب اشترا کی مارکس کی غلامی کو فخر سمجھتے اور اس کے اصول کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اپنی جانوں، عزتوں اور مالوں کی قربانیاں دے رہے تھے اور دنیا میں ایک انقلاب کے آثار نمودار ہورہے تھے.سرمایہ دار ممالک اس خوف سے تھرا رہے تھے کہ کہیں مارکس کی اشتراکیت ان ممالک کے نظام کو تہہ و بالا نہ کر دے.اس وقت خدا کے رسول نے اپنی جماعت کو یہ خوشخبری دی کہ تمہیں خوف کا مقام نہیں.یہ نئے نظام کا مدعی کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گا.کامیابی سے قبل ہی دنیا سے مٹ جائے گا اور اس نظامی کی قبر سے ایک نئی اشتراکیت پیدا ہوگی جسے ہم روسی اشتراکیت کہہ سکتے ہیں.دنیا کو اگر خطرہ پیدا ہوگا تو نظامی یعنی مارکس سے نہیں بلکہ روسی اشتراکیت یعنی نظامی کی قبر سے خطرہ پیدا ہو گا مگر تم گھبرانا نہیں ہم تمہیں بشارت دیتے ہیں کہ جب یہ نظامی کی قبر یعنی روسی اشتراکیت تمہارے مقابلہ میں آئے گی تو اس وقت اس قبر میں زلزلہ پیدا ہوگا اور وہ تباہ و برباد ہو جائے گی اور میری ہی بادشاہت کا دبدبہ بلند ہوگا.نظام وصیت کا میاب ہو کر رہے گا.اللہ اکبر اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ در اصل احمدیت کا آخری ٹکراؤ اشترا کی روس کے ساتھ مقدر ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ زار روس کا عصا میرے ہاتھ میں دیا گیا ہے.اشترا کی نظام میں یقیناً یہ خوبی ہے کہ وہ سرمایہ داری کی بھیانک تصویر کے خلاف ایک بھاری رد عمل ہے.مگر پنڈولم کی حرکت کی طرح وہ دوسری انتہا کی طرف نکل گیا ہے.اور شاید سرمایہ داری سے بھی زیادہ خطر ناک بننے والا ہے.سے (روز نامه الفضل قادیان ۳/ جنوری ۱۹۴۶ء صفحه ۳ تا ۶) (روز نامه الفضل قادیان ۴ /جنوری ۱۹۴۶ء صفحه ۳ تا ۶)

Page 90

۸۴ اگر کوئی حیات چاہتا ہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے.امام موبایلی اسلام ؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا." وَلَا تَعْجَبُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنتُم مُّؤْمِنِينَ “ ( تذکره صفحه (۲۵) یعنی اپنی کمزوری کو دیکھ کر تعجب میں نہ پڑو کہ یہ کیسے ہوگا.اور دشمن کے سازوسامان کو دیکھ کر اور ابتلاؤں کے اوقات میں دل مت چھوڑو.ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ تم ہی دنیا کے میدان میں فتح پاؤ گے.بشرطیکہ تم اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے.پس ان كُنتُم مؤْمِنِين دین و دنیا کی فلاح اور کامرانی کی کنجی ہے.جس کا کامل مظاہرہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہماری زندگی زیادہ سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے مشابہ ہو.اسی لئے نہایت زور کے ساتھ بار بار حضور علیہ السلام کو یہ الہام ہوا.وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - جس سے یقیناً یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند کریم ان سب دوستوں کو جو حضور علیہ السلام کے طریق پر قدم ماریں بے شمار برکتیں دے گا.اور ان کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ پائے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا.آؤ دیکھیں حضور کا طریق زندگی کیا تھا.حضور کا طریق زندگی خدا کی راہ میں اور اسلام کے لئے وقف زندگی تھا جیسا کہ خود حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

Page 91

۸۵ پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دکھ ہو گا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا.اس لئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں.اور یہ بات پہنچا دوں آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے کہ اگر کوئی حیات چاہتا ہے اور حیات طیبہ اور ابدی زندگی کا طلب گار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی میری موت میری قربانیاں میری نماز یں اللہ ہی کے لئے ہیں اور حضرت ابراہیم کی طرح اس کی روح بول اٹھے.اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ.جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا.خدا میں ہو کر نہیں مرتا.وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو.تم دیکھتے ہو.کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل اور غرض سمجھتا ہوں.پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو خدا کے لئے پسند کرتے اور خدا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں.“ ( ملفوظات) پس میں انگریزی دان و عربی دان نو جوانوں سے جو قیادت کی اہلیت رکھتے ہوں اور تقریر کا ملکہ ان میں ہو.پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدم پر قدم ماریں اور جہاں ہم میں سے بعض احمدیت کے بعض دوسرے شعبوں کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.وہاں ایک جماعت خدام الاحمدیہ کے لئے زندگی وقف کرنے والی بھی ہو.مصلح موعود تیز روامام ہے.ہمیں شست گام نہیں ہونا چاہیے.زندگی وقف کرنے میں دیر نہ لگانی چاہیے.تاہم اپنے نئے دور کے پروگرام کو ابتدا ہی سے مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر سکیں.إِنْشَاءَ اللَّهُ وَهُوَ الْمُسْتَعَانُ.خاکسار.مرزا ناصر احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ روزنامه الفضل قادیان دارالامان مورخه ۲۷ /جنوری ۱۹۴۶ء صفحه ۳) ☆ ☆☆

Page 92

۸۶ اطاعت نظام روحانی ہو یا مادی، دینی ہو یا دنیاوی اطاعت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا.اطاع وہ شیرازہ ہے جس سے پراگندہ موتی ایک خوبصورت ہار کی شکل اختیار کرتے ہیں.اس کے بغیر اجتماعی ترقیات ناممکن الحصول ہیں.أطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم (النساء: ۶۰).ہمیں یہی سبق دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے روحانی مدارج حاصل کرتے ہیں اور اولوالامر کی اطاعت سے قوم میں دنیاوی شان وشوکت پیدا ہوتی ہے.اور اطاعت رسول ہر دو کے لئے ضروری ہے.جس کے بغیر نہ ہم خدا کی اطاعت کر سکتے ہیں اور نہ اولوالامر کی حقیقی فرمانبرداری.اللہ تعالیٰ یہ اپنے ہر بندے پر نازل نہیں کرتا.مگر وہ اپنے ہر بندے کے لئے اپنے رسول کے ذریعہ أَوَامِرُ نَوَاهِی ضرور بھیجتا ہے جن پر کار بند ہو کر قرب الہی کے دروازے کھلتے ہیں.اولوالامر کی اطاعت بھی دنیا میں حقیقی ترقیات کا باعث تب ہی بن سکتی ہے جب وہ رسول کی ہدایت کے ماتحت ہو.پس اطاعت رسول کے بغیر دینی و دنیاوی ترقیات میں رشتہ قائم نہیں رہ سکتا اور ضلالت اور غضب الہی کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں.اسلام نے اسی لئے اطاعت و فرمانبرداری پر بار بار اور تاکید کے ساتھ زور دیا ہے.مگر اطاعت اس کا نام نہیں کہ ڈنڈا ہمارے سر پر ہو اور ہم کہا مانتے جائیں.اس قسم کی اطاعت تو ایک گدھا بھی کرتا ہے.پھر انسان اور گدھے میں فرق ہی کیا رہا.اطاعت تو اس کا نام ہے کہ فرمانبرداری میں لذت اور سرور حاصل ہو اور تنہائی کی گھڑیاں بھی ہمیں خائن اور باغی ثابت نہ کریں.فرمانبرداری تو اسے کہتے ہیں کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہہ نکلیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر بچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نو ر اور روح

Page 93

AL میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر طاعت کی ضرورت ہے.مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ھواء نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ھواء نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بنا سکتی ہے.صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلعم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی.یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاسکتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے اور اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں.مسلمانوں کو ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں.پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے.اس میں یہی تو سر ہے.اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہوسکتی جب تک اطاعت نہ کی جائے.“ اطاعت کا یہی وہ مقام ہے جس پر مجلس خدام الاحمدیہ ، خدام کو کھڑا دیکھنا چاہتی ہے.اس کے بغیر جماعت وہ روحانی اور دنیوی ترقیات حاصل نہیں کر سکتی جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے.روزنامه الفضل لاہور مورخہ ۲۸ رمئی ۱۹۴۸ ء صفحه ۵)

Page 94

۸۸ جلسہ سالانہ کے لئے رضا کاروں کی ضرورت مہمان نوازی حفاظت خاص اور پہرہ کے انتظام کے لئے اپنے نام پیش کریں احباب جماعت نے آج مورخہ ۲۰ / دسمبر ۱۹۵۱ء کے الفضل میں حضرت ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ ملاحظہ کیا ہو گا.جس میں حضور نے باہر کی جماعتوں سے مہمان نوازی کے کام کے علاوہ صرف حفاظت کے کام کے لئے اڑھائی صد رضا کا ر طلب کئے ہیں.یہ تعداد بڑی آسانی سے مہیا ہو جائے گی.مگران رضا کاروں کا جلد سے جلد ربوہ پہنچنا ضروری ہے.نیز جہاں تک ممکن ہو بذریعہ تار اس کی اطلاع دفتر مرکز یہ خدام الاحمد یہ ربوہ بھیجی جانی چاہیے.اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ رضا کار ہر لحاظ سے اپنے کام کے اہل ہوں اور وہ شرائط پوری کرتے ہوں جن کا ذکر حضور نے فرمایا ہے.جس کے لئے حضور کا ارشاد حضور کے اپنے الفاظ میں پیش ہے.اگر ایسے دوست بطور رضا کاراپنی خدمات پیش کر سکیں.جو پہلے بھی اس قسم کے کام کرتے رہے ہیں تو کام زیادہ سہولت سے ہو سکے گا.ہمیں جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمان نوازی کے فرائض سرانجام دینے والے کارکنان کی بھی ضرورت ہے.ان کا کام یہ ہوگا کہ وہ آنے والے مہمانوں کو کھانا کھلائیں اور ان کی مہمان نوازی کریں.پس دوستوں کو میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کریں.اور باہر کی جماعتوں سے بھی میں خواہش کرتا ہوں کہ وہ بھی اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں..اس کے علاوہ جلسہ سالانہ کے موقع پر حفاظت اور نگرانی کا کام بھی بڑا اہم ہوتا ہے اور آج کل کے حالات کے لحاظ سے تو وہ اور بھی اہم ہو گیا ہے پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعتیں موزوں خدام کا انتخاب کر کے ان کے نام خدام الاحمدیہ کے دفتر مرکزیہ میں پیش کریں تا کہ یہاں آنے پر ان کو

Page 95

۸۹ حفاظت اور نگرانی کے کام پر لگایا جا سکے.مگر یہ شرط ہوگی کہ کوئی احمدی خادم ایسا نہ ہو جو پانچ سال پہلے کا احمدی نہ ہو یا کسی احمدی کی نسل میں سے نہ ہو.اور پھر اس کی سفارش جماعت کا پریذیڈنٹ کرے اور لکھے کہ یہ شخص اعتماد کے قابل ہے.اسے حفاظت کے کام پر لگایا جائے.اس غرض کے لئے کم سے کم پانچ سوالنٹیر ربوہ کا اور بیرونی جماعتوں کا ہونا چاہیے اڑھائی سو خدام کراچی راولپنڈی لاہور ملتان پشاور سیالکوٹ، شیخوپورہ منٹگمری، گوجرانوالہ گجرات اور دوسری جماعتیں پیش کریں..میں اس موقع پر خدام الاحمدیہ کو بھی تحریک کرتا ہوں کہ وہ اپنے نام بطور والنٹیئر ز دفتر خدام میں بھجوا دیں.اور یہاں کے خدام کو چاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو حفاظت اور پہرہ کے لئے پیش کریں.یا درکھنا چاہیے کہ ان خدام کو ڈبل کام کرنا پڑے گا..پس ایسے ہی نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو ہمت والے ہوں.محنتی اور مستعد ہوں اور جوان دنوں جلسہ گاہ اور سڑکوں پر پہرہ بھی دیں اور مہمان نوازی کے فرائض بھی سرانجام دیں.تین چار دن انہیں کام کرنا پڑے گا اور یہ کوئی زیادہ عرصہ نہیں.اتنے دن اگر انسان کو چوبیس گھنٹے بھی جاگنا پڑے تو وہ جاگ سکتا ہے.بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ کام کو پورے طور پر چلانے کے لئے پانچ سو والنٹیئرز ضروری ہیں...اگر کوئی چھوٹی جماعت پانچ خدام پیش کر سکتی ہے تو وہ پانچ آدمی پیش کر دے.اگر کوئی دس خدام پیش کر سکتی ہے تو وہ دس پیش کر دے.ان کا کام حفاظت اور نگرانی اور پہرہ کی ڈیوٹی ادا کرنا اور مہمانوں کی خدمت کرنا ہوگا..باہر کی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے خدام کی تعداد سے دفتر مرکزیہ کو اطلاع دیں.کیونکہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے.مگر آدمی وہی ہوں جو کم سے کم پانچ سالہ احمدی ہوں یا نسلی احمدی ہوں اور جن کے متعلق پریذیڈنٹ، سیکرٹری اور زعیم تینوں اس بات کی تصدیق کریں کہ وہ ہر قسم کی قربانی اور محنت سے کام لیں گے اور کسی قسم کی غفلت ستی یا غداری کا ارتکاب نہیں کریں گے.“ روزنامه الفضل لاہور ۲۱ / دسمبر ۱۹۵۱ء صفحه ۲)

Page 96

سیلاب کی تباہ کاریاں اور مجالس خدام الاحمدیہ کا اولین فرض ہمارے ملک میں سال کے وسطی ایام بارش اور سیلاب کی ہلاکت خیزیوں کے باعث اکثر تشویش ناک شکل اختیار کر لیتے ہیں اور عوام کو ہر دفعہ ہی ایک نئی قیامت سے دوچار ہونا پڑتا ہے.چنانچہ حال ہی میں لائکپور، لاہور، جھنگ، منٹگمری ، خوشاب اور میانوالی کے اضلاع میں جو بارشیں ہوئی ہیں.ان سے صوبہ کے ایک وسیع رقبہ میں حشر بپا ہو گیا ہے.سینکڑوں مکانات منہدم ہو چکے ہیں اور ہزاروں دیہاتی باشندے اپنی رہائش گاہوں کو سیلاب کی نذر کر کے انتہائی کسمپرسی اور بے چارگی کے عالم میں مارے مارے پھر رہے ہیں.اس دردناک صورت حال کا تقاضا تھا کہ ملک کے تمام سیاسی اور مذہبی ادارے بلا تفریق نظریہ و مسلک ان ستم رسیدوں کے بچاؤ اور اعانت کی کوئی فوری تدابیر اختیار کر کے عملی کام شروع کر دیتے.مگر جہاں تک ہماری معلومات ہیں اس اہم کام کی طرف پوری توجہ نہیں دی گئی اور اس سلسلہ میں پہلی آواز اگر بلند ہوئی ہے تو مجلس خدام الاحمدیہ کے مرکز سے بلند ہوئی ہے.جو اس کی فراست، معاملہ فہمی اور ملی جذبہ خدمت کا ایک نمایاں ثبوت ہے.مجلس خدام الاحمدیہ کے محبوب قائد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سَلَّمَهُ اللهُ تَعَالیٰ نے اس بارہ میں خدام کے نام جو پیغام ارسال فرمایا ہے اس کا مکمل متن درج ذیل ہے.(ایڈیٹر ) برسات کا موسم شروع ہو چکا ہے.بارشیں کافی ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے مکانات خصوصاً کچے مکان گر رہے ہیں غریب طبقہ استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ فوری طور پر خود مکان بنا سکے.

Page 97

۹۱ خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر اس امر کی دیکھ بھال کرتے رہیں.جہاں کہیں اس قسم کے حادثے ہوں وہاں فوری طور پر منظم امداد پہنچا ئیں.مقامی حکام سے رابطہ پیدا کر کے غرباء کی مدد کریں.گزشتہ سال سیلاب کے ایام میں خدام الاحمدیہ نے متعدد مقامات پر اس قسم کی مددکی تھی.ابھی سے انہیں ہوشیار رہنا چاہیے.اس بارہ میں اپنے پروگرم بنالینے چاہئیں تا وقت پر سہولت سے کام ہو سکے.جن مقامات کے قریب دریا بہتے ہیں یا جو سیلاب کے وقت اس کی زد میں آسکتے ہیں وہاں پر خدام کو خاص طور پر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.ان حادثات کی زد میں جو لوگ بھی آتے ہیں ان سب کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے.اس قسم کے حادثات کے پیش آنے پر فوری طور پر امدادی کام شروع کر دینا چاہیے اور مرکز کوفوری طور پر اور صحیح حالات کی اطلاع دینی چاہیے.مرکز میں بیرونجات سے آمدہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ اس پیغام کے پہنچتے ہیں مجلس خدام الاحمدیہ کے ایثار پیشہ ارکان نے متعدد مقامات میں یہ کام شروع کر دیا ہے.مثلاً لائکپور کی مجلس کے متعلق معاصر نوائے وقت نے اپنی ۲۵ اور ۲۶ جولائی کی اشاعتوں میں یہ دو اطلاعات شائع کی ہیں کہ.کپور ۲۲ / جولا ئی شعبہ خدمت خلق خدام الاحمدیہ لائکپور کی اطلاع کے مطابق لیبر کالونی میں طالب حسین ، عاشق حسین اور کرم بی بی کے بارش سے منہدم مکانات کی مرمت میں امداد دی گئی.اس ادارے کے کارکن کل محلہ اسلام آباد میں یہ خدمت سرانجام دیں گئے.انکپور ۲۴ جولائی.آج خدام الاحمدیہ کے چودہ افراد کی ایک پارٹی نے اسلام آباد اور مائی دی جھگی میں بارش سے منہدم مکانات کی مرمت میں مکینوں کا ہاتھ بٹایا.انجمن نے متاثرہ آبادیوں کے غرباء سے اپیل کی ہے کہ ان کی خدمات سے استفادہ کریں اور خدام الاحمدیہ کے شعبہ خدمت خلق کو اطلاع دیں.خدمت خلق کی یہ مساعی قابل تحسین بھی ہے اور قابل رشک بھی.مگر ہم یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اسلام اور احمدیت کا نظریہ خدمت دنیا بھر کے نظام ہائے اخلاق ، تمدن و سیاست اور روحانیت واقتصاد سے ممتاز مقام رکھتا ہے.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی قلم نے اسے بے حد لطیف پیرایہ میں

Page 98

اُجاگر کیا ہے.آپ تحریر کرتے ہیں.۹۲ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبى (النحل: ٩١) یعنی خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی.پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں.کشتی نوح صفحہ ۲۸.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۰) یا در رکھیے مجلس خدام الاحمدیہ اس بلند مقام اور نصب العین کی دعوت دینے کے لئے اٹھی ہے اور اپنے قیام کے دن سے اس دعوت پر عمل پیرا ہے.لہذا اب جبکہ ہمارے ملک میں سیلاب اور بارشیں ہر طرف منڈلا رہے ہیں.مجلس کے ارکان کا اولین فرض اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ اسلامی خدمت کے اس پاک جذبہ سے معمور ہو کر آگے بڑھیں اور دنیائے الفت و محبت میں ایک ایسی مثال قائم کر دیں کہ آسمان کی تقدیریں بدل جائیں اور زمین عدل و انصاف کی شمعوں سے جگمگا اٹھے.بالآخر ہمیں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس مجرم ہوں گی اگر وہ اپنی قابل قدر سرگرمیوں سے ملکی پریس کو بے خبر رکھنے کی کوشش کریں گی کیونکہ قوم کے دوسرے افراد میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لحاظ سے اس امر کی اہمیت اصل کام سے بہر حال کسی طرح کم نہیں.اور یہ مرحلہ ایسا ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ افراد کی شمولیت ہی وسیع نتائج پیدا کر سکتی ہے.(ماہنامه خالد اگست ۱۹۵۵ء) ☆☆

Page 99

۹۳ جماعت احمدیہ کی اشاعت علوم کے لئے شاندار جد و جہد ( تقریر بر موقع جلسه سالانه ۱۹۵۵ء) جماعت احمدیہ کے زیرانتظام اور زیر نگرانی اس وقت تک اتنے تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں کہ اس مضمون کے لئے نوٹ لیتے ہوئے مجھے بھی حیرت ہوئی کہ باوجود غربت اور مفلوک الحالی کے ہماری جماعت کس جواں ہمتی سے ان اداروں کو کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہے.اگر ان اداروں کے اخراجات کو الگ الگ کر کے دیکھا جائے تو طبائع پر ان کا زیادہ اثر نہیں ہوتا.لیکن ان سب کے مجموعی اخراجات کو دیکھا جائے تو یقینا سنجیدگی سے دیکھنے والوں کی نگاہوں میں یہ جماعت کا ایک عظیم الشان اور حیرت انگیز کارنامہ ہے.جماعت کے تعلیمی اداروں کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.(۱) دینی ادارے (۲) دنیوی ادارے.پہلی قسم کے اداروں میں سے مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ اور جامعتہ المبشرین کے ادارے ہیں.یہ ادارے خالص مذہبی اور دینی نقطہ نگاہ سے جاری کئے گئے ہیں.جامعتہ المبشرین میں پاکستان اور دوسرے ممالک کے لئے مبلغین تیار کئے جاتے ہیں.اسی طرح بیرونی ممالک سے آنے والے طلباء کی تعلیم و تربیت کا کام بھی اسی ادارہ کے سپرد ہے.مدسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے سپرد

Page 100

۹۴ جامعۃ المبشرین میں داخلہ کے لئے طلباء کو تیار کرنا ہے.ان کے مقابل پر دنیوی تعلیم کے ادارے ہیں.پاکستان میں جماعت کے ان اداروں کو چھوڑ کر جو احباب جماعت یا انجمنیں چلارہی ہیں جماعت کی براہ راست نگرانی اور انتظام میں چلنے والے دنیوی تعلیم کے ادارے یہ ہیں.(۱) تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ (۲) تعلیم الاسلام کالج ربوہ (۳) نصرت گرلز ہائی سکول ربوه (۴) جامعہ نصرت ربوہ ( ۵ ) تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ (۶) نصرت گرلز ہائی سکول سیالکوٹ شہر.پاکستان کے علاوہ دوسرے سات ممالک میں بھی بعض تعلیمی ادارے جاری کئے گئے ہیں جو نہایت کامیابی سے چل رہے ہیں.اس وقت تک ان کی تعداد تمیں تک پہنچ چکی ہے.ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: ا.گولڈ کوسٹ مغربی افریقہ انٹر میڈیٹ کالج.۱.سکول.۲.نائیجیریا.سکول.۱۰ ۳.سیرالیون.سکول.۴ ۴.مشرقی افریقہ سکول.۵.سنگا پور ملایا.سکول.۵.۶ فلسطین سکولا ے.انڈونیشیا.سکولا ان تمام اداروں کے اخراجات کا ایک عام خاکہ پیش کرنے کے لئے میں گزشتہ سات سال کی ایک یونٹ مقرر کرتا ہوں.کیونکہ پارٹیشن کے بعد ۴۸، تو قریباً انتقال مکانی میں ہی گزرا.باقی سات سال کے عرصہ میں جماعت احمدیہ نے جامعتہ المبشرین کے علاوہ پاکستان کے تعلیمی اداروں پر سولہ لاکھ پچاس ہزار دوسو بیالیس روپے ایک آنہ خرچ کیا ہے.جامعتہ المبشرین کے صحیح اعداد و شمار مجھے نہیں مل سکے ( یہ ادارہ تحریک جدید کے ماتحت ہے لیکن ایک عام اندازہ کے مطابق اس پر دولاکھ اسی ہزار

Page 101

۹۵ روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے.گویا مجموعی طور پر پاکستان میں قائم شدہ جماعت کے تعلیمی اداروں پر گزشتہ سال کے قلیل عرصہ میں 9 لاکھ روپیہ سے زائد رقم خرچ کی جاچکی ہے.بیرونی ممالک میں قائم شدہ تعلیمی اداروں پر جماعت سات لاکھ روپیہ سالانہ سے زیادہ خرچ کر رہی ہے.ان سب اخراجات کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کی میزان ۷ لاکھ روپیہ سے زیادہ بن جاتی ہے اور یہ کوئی معمولی رقم نہیں خصوصاً اس جماعت کیلئے جس کو ۴۷ء میں اپنا مرکز چھوڑنا پڑا.دنیا داروں کی نگاہ میں اس کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا تھا اور مرکزی چندوں کی آمد لاکھوں روپیہ سالانہ سے گر کر چندسور و پیہ سالانہ پر آرہی تھی.مقامی لوگ جنہیں ہجرت کی تکالیف برداشت نہیں کرنی پڑیں انہیں ان مصائب اور تکالیف کا اندازہ نہیں ہوسکتا جو اس جماعت کو پیش آئیں.ہاں وہ لاکھوں لوگ جنہیں مشرقی پنجاب چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا خوب جانتے ہیں کہ یہ سات سال کا عرصہ مہاجروں نے کس طرح گزارا ہے.لیکن کہاں یہ دنیا داروں کی نظر میں پٹی ہوئی اور تباہ شدہ جماعت اور کہاں خدا تعالیٰ کا یہ فضل کہ اس جماعت نے خدا تعالیٰ کی ہی دی ہوئی توفیق سے صرف تعلیمی اداروں پر ۷۰ لاکھ روپیہ کے قریب رقم صرف گزشتہ سال کے عرصہ میں خرچ کی.تعمیر کا خرچ اوپر دئیے ہوئے اندازہ کے علاوہ ہے.صرف تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی عمارت پر اس وقت تک پانچ لاکھ روپیہ کے قریب رقم خرچ کی جاچکی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو عمارت تیار کی گئی ہے سرکاری عمارات سے ان کا مقابلہ کیا جائے تو وہ گورنمنٹ کے شیڈول کے مطابق چودہ پندرہ لاکھ روپیہ سے کم مالیت کی نہیں.اللہ تعالیٰ نے جماعت کے روپیہ میں اس قدر برکت دی ہے کہ گورنمنٹ جس عمارت پر چودہ پندرہ لاکھ روپیہ خرچ کرتی ہے اس قسم کی عمارت ہم چار پانچ لاکھ روپیہ کی لاگت میں تیار کر لیتے ہیں.قادیان سے پاکستان میں ہجرت کر کے آنے کے بعد ہمارا کالج عارضی طور پر ڈی.اے.وی کالج لاہور کی عمارت میں کھلا.وہاں ایک دفعہ یہ شور اٹھا کہ ہمیں یہ عمارت چھوڑ دینی چاہیے.میں ان دنوں وزیر تعلیم مغربی پنجاب کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ گورنمنٹ نے سرگودھا اور منٹگمری میں دو کالج

Page 102

۹۶ بنائے ہیں اور ان پر ۳۵ لاکھ روپیہ کے قریب رقم خرچ کی ہے آپ ہمیں اس رقم کا ۲۵ فیصدی دے دیں تو نہ صرف ہمارا کالج بن جائے گا بلکہ گورنمنٹ کو پتہ لگ جائے گا کہ اس کا روپیہ کہاں جاتا ہے.تو وہ کہنے لگے آپ کو کالج بنانے کے لئے روپیہ نہیں دیا جا سکتا.پس ہر دیکھنے والے کے لئے یہ یقینا معجزہ سے کم نہیں کہ گزشتہ سات سال کے عرصہ میں جماعت احمدیہ نے نہ صرف تعلیمی اداروں کو جاری رکھنے پره ۷ لاکھ روپیہ سے زائد رقم خرچ کی بلکہ ان اداروں کی تعمیر پر جو اخراجات آئے وہ بھی برداشت کئے اور خدا تعالیٰ کا جو فضل اس جماعت کے شامل حال رہا وہ بھی کسی معجزہ سے کم نہیں کہ اس نے کم سے کم لاگت میں بڑی لاگت کی عمارات تیار کر لیں.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيُهِ مَنْ يَّشَآءُ.اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ ایک غریب جماعت اس قدر توجہ اور اس قدر رو پیدان تعلیمی اداروں پر کیوں خرچ کر رہی ہے.اس ”کیوں“ کا جواب ہراحمدی کو ملنا چاہیے ایک جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب فتح اسلام کے مندرجہ ذیل اقتباس میں دیا گیا ہے.آپ فرماتے ہیں.”اے حق کے طالبو اور اسلام کے پے مجبو! آپ لوگوں پر واضح رہے کہ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں یہ ایک ایسا تاریک زمانہ ہے کہ کیا ایمان اور کیا عمل جس قدرا مور ہیں سب میں سخت فساد واقع ہو گیا ہے اور ایک تیز آندھی ضلالت اور گمراہی کی ہر طرف سے چل رہی ہے.وہ چیز جس کو ایمان کہتے ہیں اس کی جگہ چند لفظوں نے لے لی ہے جن کا محض زبان سے اقرار کیا جاتا ہے اور وہ امور جن کا نام اعمال صالحہ ہے ان کا مصداق چند رسوم یا اسراف اور ریا کاری کے کام سمجھے گئے ہیں اور جو حقیقی نیکی ہے اس سے بکلی بے خبری ہے.اس زمانہ کا فلسفہ اور طبیعی بھی روحانی صلاحیت کا سخت مخالف پڑا ہے.اس کے جذبات اس کے جاننے والوں پر نہایت بداثر کرنے والے اور ظلمت کی طرف کھینچنے والے ثابت ہوتے ہیں.وہ زہریلے مواد کو حرکت دیتے اور سوئے ہوئے شیطان کو جگا دیتے ہیں.ان علوم میں دخل رکھنے والے دینی امور میں اکثر ایسی بد عقیدگی

Page 103

۹۷ پیدا کر لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اصولوں اور صوم وصلوٰۃ وغیرہ عبادت کے طریقوں کو تحقیر اور استہزاء کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں.ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے وجود کی بھی کچھ وقعت اور عظمت نہیں.بلکہ اکثر ان میں سے الحاد کے رنگ سے رنگین اور دہریت کے رگ وریشہ سے پُر اور مسلمانوں کی اولاد کہلا کر پھر دشمن دین ہیں.جولوگ کالجوں میں پڑھتے ہیں اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہنوز وہ اپنے علوم ضرور یہ کی تحصیل سے فارغ نہیں ہوتے کہ دین اور دین کی ہمدردی سے پہلے ہی فارغ اور مستعفی ہو چکتے ہیں.یہ میں نے صرف ایک شاخ کا ذکر کیا ہے جو حال کے زمانہ میں ضلالت کے پھلوں سے لدی ہوئی ہے.مگر اس کے سوا صد ہا اور شاخیں بھی ہیں جو اس سے کم نہیں...یہ کرسچین قوموں اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کارروائیاں ہیں کہ جب تک ان کے اس سحر کے مقابل پر خدا تعالیٰ وہ پُر زور ہاتھ نہ دکھائے جو معجزہ کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہو اور اس معجزہ سے اس طلسم سحر کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادوئے فرنگ سے سادہ لوح دلوں کو خلاصی حاصل ہونا بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے.سوخدا تعالیٰ نے اس جادو کے باطل کرنے کے لئے اس زمانہ کے بچے مسلمانوں کو یہ معجزہ دیا کہ اپنے اس بندہ کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی برکات خاصہ سے مشرف کر کے اور اپنی راہ کے باریک علوم سے بہرہ کامل بخش کر مخالفین کے مقابل پر بھیجا اور بہت سے آسمانی تحائف اور علوی عجائبات اور روحانی معارف و دقائق ساتھ دیئے تا اس آسمانی پتھر کے ذریعہ سے وہ موم کا بت توڑ دیا جائے جو سحر فرنگ نے تیار کیا ہے.سواے مسلمانو! اس عاجز کا ظہور ساحرانہ تاریکیوں کے اٹھانے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے کیا ضرور نہیں تھا کہ سحر کے مقابل پر معجزہ بھی دنیا میں آتا ؟ کیا تمہاری نظروں میں یہ بات عجیب اور انہونی ہے کہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ کے مکروں کے مقابلہ پر جو سحر کی حقیقت تک پہنچ گئے ہیں ایک ایسی حقانی چمکا ر دکھاوے جو معجزہ کا اثر رکھتی ہو؟

Page 104

۹۸ اے دانشمند و! تم اس سے تعجب مت کرو کہ خدا تعالیٰ نے اس ضرورت کے وقت میں اور اس گہری تاریکی کے دنوں میں ایک آسمانی روشنی نازل کی اور ایک بندہ کو مصلحت عام کے لئے خاص کر کے بغرض اعلاء کلمہ اسلام واشاعتِ نور حضرت خیر الا نام اور تائید بھیجا.مسلمانوں کے لئے اور نیز ان کی اندرونی حالت کے صاف کرنے کے ارادہ سے دنیا میں فتح اسلام صفحہ ۲ تا ۷.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳ تا ۶ ) اس کے علاوہ تذکرہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا مجموعہ ) پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے اداروں کو بعض اصولوں پر قائم کیا ہے.مثلاً آپ کا ایک الہام ہے.أَنْتَ مَدِينَةُ الْعِلْمِ مَقْبُولُ الرَّحْمَنِ “.(صفحہ ۳۶۸) یعنی تو علم کا شہر ہے، پاک اور خدا تعالیٰ کا مقبول ہے.قرآنی محاورہ کے مطابق اس الہام کی متعدد تشریحات ہوسکتی ہیں.کیونکہ کلام الہی میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ ہر موقع کے مطابق ایک نیا مفہوم پیدا کرتا ہے.مثلاً قرآنی محاورہ کے مطابق اس کے ایک معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ اَنتَ صَاحِبُ مَدِينَةِ الْعِلْمِ کہ آپ علوم کے دارالخلافہ کے شہنشاہ اور ان علوم کے منبع اور مبدء ہیں جنہیں جماعت احمد یہ جاری کرنا چاہتی ہے.ان علوم میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ قائم کی گئی یو نیورسٹی اور دارالعلوم میں سکھائے جائیں گے یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ شعراء اس کے پاس بھی نہیں پھٹکتے جیسے آپ کا ایک الہام ہے کہ در کلام تو چیزیست که شعراء را در آن دخلی نیست “.اسی طرح آپ کا ایک الہام ہے رَبِّ عَلِمُنِي مَا هُوَ خَيْرٌ عِندَكَ “ کہ اے اللہ! تو مجھے وہ کچھ سکھا جو تیرے نزدیک میرے لئے بہتر ہے.66 دنیا میں بعض علوم ایسے بھی ہیں جو انسان کے لئے بابرکت نہیں ہوتے یا اُسے اُن کی ضرورت نہیں ہوتی.مثلاً بعض علوم محض فلسفیانہ مباحث ہیں یا ایسے نظریات ہیں جو ہر وقت بدلتے رہتے ہیں.اگر کسی علم کے چند ماہرین پائے جاتے ہیں تو ان میں سے نہ صرف ہر ایک کے نظریات مختلف ہوں

Page 105

۹۹ گے بلکہ وہ ہر وقت بدلتے رہیں گے.آج بھی مختلف سائنسدانوں نے مختلف نظریات دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اگر آج ایک سائنسدان نے ایک نظریہ پیش کیا ہے تو دس بیس سال کے بعد دوسرا سائنسدان اس سے مختلف بلکہ بعض اوقات اس کے بالکل متضاد نظریہ پیش کر دے گا.یہ سب چیزیں شاعرانہ نظریات ہیں، حقائق پر مشتمل نہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قائم کردہ یو نیورسٹی میں جو علوم پڑھائے جائیں گے ان میں شعراء کو کوئی دخل نہیں ہوگا.پھر یہ علوم حقائق الاشیاء پر مشتمل ہوں گے جیسا کہ آپ کے ایک الہام " رَبِّ اَرِنِی حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ“ میں بتایا گیا ہے.یعنی اے اللہ ! تو مجھے ہر چیز کی گنہ اور حقیقت دکھا دے.میں یہاں پر ایک لطیف نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام فرمایا کہ رَبِّ اَرِنِى حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ “ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نہیں تھے.نہ آپ کوئی عظیم فلاسفر تھے.آپ ایک معمولی سے گاؤں کے رہنے والے تھے جو ریل اور پختہ سڑک سے بہت دور واقع تھا اور ذاتی طور پر بھی آپ کو اپنے محدود حلقہ کے سوا کوئی نہ جانتا تھا.بایں ہمہ آپ نے اپنی کتابوں میں بعض ایسے نکات بیان کئے ہیں کہ آج سالہا سال کی تحقیقات کے بعد بڑے بڑے سکالر ان کے خلاف کوئی اور نظریہ قائم نہیں کر سکے.مثلاً ۱۸۹۶ء میں آپ ضمنی طور پر اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں.غرض جسمانی صدمات بھی عجیب نظارہ دکھاتے ہیں.جن سے ثابت ہوتا ہے کہ روح اور جسم کا ایک ایسا تعلق ہے کہ اس راز کو کھولنا انسان کا کا م نہیں“.دوسری بات آپ نے یہ بیان فرمائی کہ.اس سے زیادہ اس تعلق کے ثبوت پر یہ دلیل ہے کہ غور سے معلوم ہوتا ہے کہ روح کی ماں جسم ہی ہے.حاملہ عورتوں کے پیٹ میں روح کبھی اوپر سے نہیں گرتی.بلکہ وہ ایک نور ہے جو نطفہ میں ہی پوشیدہ طور پر مخفی ہوتا ہے اور جسم کی نشو و نما کے ساتھ چمکتا جاتا ہے.

Page 106

رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۸۵.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلده اصفحہ ۳۲۱) ۱۹۵۵ء میں آکر امریکہ کے ایک عظیم بیالوجسٹ Edmond W.Sinnoat Dean of Yale's Graduate School نے روح اور مادہ کے تعلق کے بارے میں ریسرچ کی اور اس کے بعد ایک کتاب ”دی بیالوجی آف دی سپرٹ تحریر کی.اس کتاب کا خلاصہ ویکلی ٹائم آف امریکہ مجریہ ۱ را کتوبر ۵۵ ء میں چھپا ہے.اس خلاصہ کے دو اقتباسات قریباً ان دو اقتباسات کا ترجمہ ہیں.مثلاً وہاں لکھا ہے اس وقت تک سائنس اس کی وضاحت نہیں کر سکی.یعنی یہ ایسا راز ہے جس کے متعلق بیالوجسٹ مذکور نے تسلیم کیا ہے کہ اب تک سائنسدان اسے پانہیں سکے.یادر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ انسان اسے قیامت تک بھی نہیں پاسکے گا.لیکن بہر حال سائنسدانوں نے اس حد تک تسلیم کر لیا ہے کہ سائنس اب تک اس راز کو پانہیں سکی.آگے جا کر خلاصہ لکھنے والا بیان کرتا ہے.تنظیم کا یہ اصول نہ صرف انسان کا ارتفاع کرتا ہے بلکہ اس کے مذہب کے لئے تین بنیادی چیزیں مہیا کرتا ہے یعنی بے ترتیب ہیولی میں ترتیب پیدا ہو جاتی ہے.مادہ میں روح پیدا ہو جاتی ہے اور بے اثر اور غیر جانبدار عناصر میں شخصیت ابھر آتی ہے تنظیم کا یہ اصل جس کو کسی طور پر بھی الفاظ میں بعینہ نہیں ڈھالا جا سکتا میں بلا خوف تردیدا سے خدا تعالیٰ کی ایک صفت سمجھتا ہوں“.گویا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ قائم کئے گئے دارالعلوم کے بیت الفکر کی ایک مثال دی ہے کہ آپ نے ۱۸۹۶ء میں یہ بتایا کہ روح جسم سے نکلتی ہے اس کے قریباً ۶۰ سال بعد سائنسدانوں نے جو معرکہ مارا اس کا نتیجہ وہی تھا جو آپ نے ۱۸۹۶ء میں بیان فرما دیا تھا.پھر د نیوی اداروں میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی علم ، طالب علم کے دماغ کے مطابق ہوتا ہے اور کوئی نہیں ہوتا اس لئے بعض اوقات طالب علم اس سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا جو اسے اٹھانا چاہیے.مثلاً ایک لڑکے کارجحان ڈاکٹری کی طرف ہے لیکن باپ اسے انجینئر نگ کی تعلیم دلانا چاہتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا

Page 107

1+1 ہے کہ وہ باوجود اپنی پوری محنت کے اس علم کو پوری طرح حاصل نہیں کر سکتا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ قائم کی ہوئی یو نیورسٹی کے علوم میں یہ نقص نہیں ہوگا.یہاں یہ صورت نہیں ہوگی کہ آپ کا رجحان تو ڈاکٹری کی طرف ہو لیکن رستہ آپ کو فلسفہ کا دکھایا جائے.بلکہ ان علوم میں طالب علم کے لئے بھلائی ہی بھلائی ہوگی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام رَبِّ عَلِمُنِي مَاهُوَ خَيْرٌ عِندَكَ یعنی اے اللہ! مجھے وہی کچھ دیکھا جو تیرے نزدیک بہتر ہے میں بتایا گیا ہے، خدا تعالیٰ ہر ایک شخص کی علمی استعداد اور اس کے دماغی رجحان کو جانتا ہے اس لئے یہاں ایسے علم کی تعلیم دی جائے گی جو طالب علم کے ذہن کے عین مطابق ہو اور اس میں اس کے لئے بھلائی ہی بھلائی ہوگی اس تعلیم میں یہ نقصان نہیں پایا جائے گا کہ وہ دماغ کے غیر مناسب ہونے کی وجہ سے کسی پر برا اثر ڈالتی ہو.پھر تذکرہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مَدِينَةُ الْعِلْمِ کے دو علاقے یا دو محلے ہیں.ایک علاقہ یا محلہ کا نام بیت الفکر ہے اور دوسرے کا نام بیت الذکر ہے.ان دونوں کا لطیف امتزاج اس شہر کی آبادی کا موجب ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام میں بتایا گیا ہے کہ ذُو عَقْلٍ مَتِيْنِ....بَيْتُ الْفِكْرِ وَبَيْتُ الذِّكْرِ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ( تو آج ہمارے نزدیک قوی العقل ہے.کیا ہم نے تجھے ) بیت الفکر اور بیت الذكر ( عطا نہیں کئے ) اور جو شخص اس بیت الذکر میں باخلاص و بقصد تعبد وصحت وحسن ایمان داخل ہوگا وہ سوء خاتمہ سے امن میں آجائے گا“.- گویا یہ یو نیورسٹی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس زمانہ میں قائم کی گئی ہے اس کے دو حصے ہیں.ایک بیت الفکر کہلاتا ہے.یعنی یہ حصہ ان علوم پر مشتمل ہے جو کوئی اپنی عقل وتدبر، غور وفکر اور دنیوی جدو جہد سے نکالتا ہے اور اس کے ذریعہ حقائق الاشیاء معلوم کرتا ہے.دوسرا حصہ بیت الذکر کہلاتا ہے اور یہ حصہ ان علوم پر مشتمل ہے جو ذاتی کاوش اور جد و جہد کے نتیجہ میں حاصل نہیں

Page 108

۱۰۲ ہوتے بلکہ دعا، انابت الی اللہ اور خشیت اللہ کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی روشنی میں اس مَدِينَةُ الْعِلْمِ میں تعلیم حاصل کر نیوالوں کو ان خرابیوں اور نقائص کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو دنیوی یو نیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو پیش آتے ہیں بلکہ جو طالب علم اس یو نیورسٹی میں داخل ہوگا وہ بدامنی ، فساد، ظلم اور ہلاکت سے محفوظ رکھا جائے گا.دنیوی سائنسدانوں نے ایٹم بم ایجاد کیا اور وہ اس کامیاب ایجاد پر نازاں تھے.لیکن اب وہ خود اس ایجاد پر پشیمانی کا اظہار کر رہے ہیں.لیکن اسی قسم کا خطرہ اس مَدِينَةُ العِلم میں نہیں.کیونکہ عقل تو خود اندھی ہے جب تک اسے دین کی روشنی نہ دی جائے.یہ انسان کو ہلاکت کے گڑھے میں گرا دیتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس مَدِينَةُ الْعِلْمِ میں بیت الفکر کے محلہ کے ساتھ ساتھ بیت الذکر کا محلہ بھی آباد کر دیا.تا محض عقل کے استعمال کے نتیجہ میں جو خطرات انسان کو پیش آسکتے تھے وہ بیت الذکر یعنی دینی حصہ کے ساتھ دور ہو جائیں.پھر جس طرح دنیوی یو نیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء کو جُبہ فضلیت پہنایا جاتا ہے اسی طرح اس مَدِينَةُ العِلم کے رہنے والوں کا بھی ایک جُبہ فضلیت ہے.چنانچہ لکھا ہے: رویا میں دیکھا کہ میں ایک فراخ اور خوبصورت اور چمکدار جُبہ پہنے ہوئے چند ( تذکره صفحه ۶۴۹) آدمیوں کے ساتھ ایک طرف جا رہا ہوں.اور وہ چغہ میرے پاؤں تک لٹک رہا ہے.اور چمک کی شعاعیں اس سے نکل رہی ہیں“.گویا د نیوی تعلیمی اداروں نے جو اپنا جبہ فضلیت تیار کیا ہے وہ تو کالے رنگ کا ہے لیکن اس مَدِينَةُ الْعِلْمِ کے رہنے والوں کو جو جُبہ فضلیت دیا جائے گاوہ نہایت خوبصورت اور چمکدار ہوگا.اس سے نورانی شعاعیں نکلیں گی.وہ نہ صرف پہننے والے کی شان کو ظاہر کرے گا بلکہ اپنی چمک اور نور سے دوسروں کی ہدایت کا بھی موجب ہوگا.میں اس موقع پر جماعت کے احباب سے دو درخواستیں کرنا چاہتا ہوں میری ایک درخواست تو جماعت کے دینی اداروں کے متعلق ہے.جماعت ان پر ہزاروں روپیہ سالانہ خرچ کر رہی ہے.

Page 109

۱۰۳ احباب جماعت کو خدا تعالیٰ کی دی ہوئی اس توفیق پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اُن سے فائدہ اٹھانا چاہیے.انہیں چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ زندگیاں وقف کر کے مرکز میں آئیں اور ان اداروں میں تعلیم حاصل کریں اور اس کے بعد سلسلہ کی خدمت میں لگ جائیں.یاد رکھنا چاہیے کہ وقف محض دینی ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ دونوں طرح کا ہوتا ہے، دینی بھی اور دنیوی بھی.آپ کسی ترقی یافتہ قوم یا ملک کو دیکھ لیں ، اس میں آپ کو کثرت سے واقف زندگی ملیں گے.چند ماہ ہوئے مشہور انگریزی رسالہ ریڈرز ڈائجسٹ میں ایک کتاب کا خلاصہ چھپا ہے.اس میں ایک عورت کا ذکر کیا گیا ہے جو 1916ء میں بیمار ہوئی.ڈاکٹروں نے اسے مشورہ دیا کہ اس کا شہری فضا میں رہنا اس کی صحت کے لئے مضر ہے.اسے اپنی صحت کو بحال کرنے کے لئے ایسے علاقہ میں چلا جانا چاہیے جو میدانی بھی نہ ہو اور پہاڑی بھی نہ ہو.بلکہ درمیانی قسم کا علاقہ ہو.پھر وہ شہر سے دور ہو.یہی ایک صورت ہے جس کی وجہ سے اس کی زندگی محفوظ رہ سکتی ہے اور اس کی صحت بحال ہوسکتی ہے.چنانچہ اس نے ڈاکٹروں کی اس نصیحت پر عمل کرنے کے لئے اپنے خاوند کو بھی چھوڑا، اپنے دوسرے عزیزوں اور وطن کو خیر باد کہا اور قریب کے ایک علاقہ میں جس میں ڈاکٹروں کی بتائی ہوئی خوبیاں پائی جاتی تھیں چلی گئی.یہ علاقہ تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے تھا.۱۹۱۶ء میں اس علاقہ کے اردگرد پچاس میل میں صرف ایک شخص تھا جو دستخط کرنا جانتا تھا.باقی لوگ دستخط بھی نہیں کر سکتے تھے اور وحشت کا یہ حال تھا کہ روزانہ سینکڑوں لوگ قتل ہوتے تھے.وہ عورت بریکار بھی نہیں رہ سکتی تھی اس لئے اپنا وقت گزارنے کے لئے اس نے وہاں ایک سکول جاری کیا.اس نے دوسرے علاقوں کے بعض لوگوں کو خطوط لکھ کر عطا یا اکٹھے کئے اور اس سکول کے اخراجات چلانے کا انتظام کیا.اب تو وہاں اور سکول بھی جاری کئے گئے ہیں.لیکن ۱۹۱۶ء میں پہلا سکول یہی تھا جو وہاں جاری کیا گیا.اس عورت کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ ہر بچے سے جس کو وہ پڑھاتی تھی زبانی طور پر یہ وعدہ لیتی تھی کہ اگر اس کے ادارے، قوم یا علاقہ کو اس کی ضرورت پڑے تو وہ وہیں آئے گا کسی اور جگہ نہیں جائے گا.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک طالب علم طب میں نہایت ذہین اور ہوشیار تھا.اسے طب میں اتنا ملکہ

Page 110

۱۰۴ حاصل تھا کہ جب اس عورت نے وظیفہ دے کر اس کی اعلیٰ پڑھائی کا انتظام کیا اور اُس نے طب کی اعلیٰ ڈگری حاصل کر لی تو بعض فرموں نے اسے اغلبا دس لاکھ ڈالرسالانہ تنخواہ کی پیشکش کی جو ہمارے ملک کے لحاظ سے پنتالیس لاکھ روپیہ سالانہ بنتا ہے.مگر اس عورت نے اسے لکھا کہ تم اپنے علاقہ میں آجاؤ کیونکہ یہاں اور ڈاکٹر موجود نہیں.چنانچہ وہ اس پیشکش کو ٹھکرا کر وہاں آگیا.پھر وہ کوئی بھاری فیس بھی نہیں لیتا تھا.وہ چھکڑوں پر رات کے بارہ بارہ بجے برف سے ڈھکے ہوئے راستوں پر سفر کر کے مریض کو دیکھنے جاتا اور اس کا علاج کرتا.جب واپس آتا تو وہ لوگ پانچ سیر گندم یا مکی اس کے چھکڑے میں رکھ دیتے.یہ وہ فیس تھی جو وہ اپنے علاقہ کے مریضوں سے لیتا اور جس کے مقابلہ پر اس ا نے لاکھوں روپیہ سالانہ کی تنخواہ کی پیشکش ٹھکرا دی.یہ واقف زندگی نہیں تھا تو اور کیا تھا.اس طرح کی اور مثالیں بھی مل سکتی ہیں.پس وقف محض مذہبی ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ مذہبی اور دنیوی دونوں قسم کا ہوتا ہے اور واقفین ہر قوم، ہر ملک اور ہر زمانہ میں پائے جاتے ہیں.اصل میں وقف، زندگی اور حیات کے کامل مظاہرہ کا نام ہے.جب کسی کی دینی روح عروج اور کمال کو پہنچ جاتی ہے تو وہ دین کا واقف زندگی بن جاتا ہے اور جب اس کی دنیوی روح عروج اور کمال کو پہنچ جاتی ہے تو وہ دنیا کا واقف زندگی بن جاتا ہے.جب ایک شخص کی قوتوں اور اس کے روپیہ کی اس کی قوم اور ملک کو ضرورت ہو اور وہ اس کی خاطر اپنا ذاتی مفاد ترک کر دے اور اس کی خدمت میں لگ جائے تو یہ اس کی دنیوی روح کے کمال اور عروج کا مظاہر ہوتا ہے اور وہ واقف زندگی کہلاتا ہے اور جب اس میں دین کی روح اپنے کمال اور عروج کو پہنچ جاتی ہے اور وہ دین کی خاطر اپنا ذاتی مفاد ترک کر دیتا ہے تو وہ روحانی واقف زندگی بن جاتا ہے.وقف کی روح اور زندگی کو جماعت میں قائم رکھنے کے لئے جماعت کے افراد کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرنا چاہیے.چاہے وہ مرکزی ہدایات کے ماتحت کام کرنے کے اہل نہ بھی ہوں اور وہ یہاں رہ کر کام نہ بھی کر سکیں.لیکن جماعت میں اس قسم کا ذہنی

Page 111

۱۰۵ رجحان پایا جانا چاہیے اور اس کے نوجوانوں کی ایسے رنگ میں تربیت ہونی چاہیے کہ جب بھی قوم انہیں بلائے وہ اپنا سب مفاد ترک کر کے آجائیں.اس روح کو قائم رکھنے کے لئے آپ زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہاں آئیں اور اپنے ان دینی اداروں سے فائدہ اٹھا کر اس جہاں میں بھی اور اگلے جہان میں بھی سرخرو ہوں.دوسری درخواست میں دنیوی اداروں کے متعلق کرتا ہوں.اس وقت تک ہمارے سبہ اداروں نے محض خدا تعالیٰ کے فضل سے تعلیمی لحاظ سے ایک خاص مقام حاصل کر لیا ہے.اس میں شک نہیں کہ ہماری کمزوریاں بہت زیادہ ہیں.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری تھوڑی بہت جو کوشش ہوتی ہے اس میں اتنی برکت ہوتی ہے کہ وہ نمایاں ہو جاتی ہے.جن احباب کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائیں انہیں اپنے کالج سے فائدہ اٹھانا چاہیے.یہ ان کی اپنی چیز ہے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے یہاں نہ بھیجیں.آپ کا اس ادارہ پر بہت زیادہ حق ہے.آپ کا یہ اپنا ادارہ ہے اور آپ اس پر خرچ کر رہے ہیں.آپ کا یہ حق ہے کہ آپ اپنا حق ضرور حاصل کریں اور آئندہ نسل کو زیادہ سے (الفرقان تعلیمی نمبر جنوری ۱۹۵۶ء صفحه ۹ تا ۱۵) زیادہ تعلیم یافتہ بنائیں.☆☆

Page 112

نئی پود کے فطری قومی کو اس طور پر ترقی دینا نہایت ضروری ہے کہ وہ بڑے ہو کر قوم و ملک کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکیں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں یوم والدین کی تقریب کے موقع پر صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی تقریر ربوه ۲۴ ستمبر کل صبح تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں ”یوم والدین کی تقریب نہایت اہتمام سے منائی گئی.اس موقع پر تقریب کے صدر کی حیثیت سے محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے (آکسن ) پرنسپل تعلیم الاسلام کالج نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے فطری قومی کو اس طور پر ترقی دیں کہ وہ بڑے ہو کر قوم و ملک کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں.آپ نے فرمایا.اس اہم مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے والدین اور طلباء دونوں پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.والدین کا فرض ہے کہ وہ تربیت کے ذریعہ اولاد کے فطری قومی کو ضائع ہونے سے بچائیں اور طلباء کا فرض ہے کہ وہ والدین اور اساتذہ کی طرف سے عائد کردہ قیود اور پابندیوں کا پورا پورا احترام کرتے ہوئے اپنے فطری قومی اور صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور اس طرح اپنے آپ کو قوم و ملک کے لئے نافع وجود بنانے کی پوری کوشش کریں.آپ نے فرمایا ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَانِ کا یہ کم سے کم تقاضا ہے جسے پورا کرنا والدین اور طلباء کا اولین فرض ہے.

Page 113

۱۰۷ 66 یوم والدین کی تقریبات صبح ۷ بجے سے دس بجے تک جاری رہیں.جن میں طلبہ کے والدین اور سر پرست حضرات نے شریک ہو کر اپنے نونہال بچوں کے درمیان باہم ورزش، تلاوت قرآن مجید اور تقاریر کے مقابلے اور ورزش جسمانی کا مظاہرہ دیکھا.آخر میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کے متعلق ہیڈ ماسٹر صاحب کی مختصر سی رپورٹ اور تقسیم انعامات کے بعد صاحب صدر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے طلبہ اور ان کے والدین سے خطاب کرتے ہوئے انہیں نہایت احسن پیرائے میں ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.آپ نے اپنی تقریر کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ”حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ “ سے کیا.آپ نے فرمایا.محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے وطن کے لئے بہترین چیز پیش کرے اور وہ یہی ہے کہ آپ لوگ جو اس درس گاہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.ملک کے لئے قربانیاں کریں اور والدین کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ آپ سے ملک کی خاطر قربانیاں کرائیں.لیکن بغیر تیاری کے قربانی پیش کرنے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا.وہ تیاری یہی ہے کہ تعلیم و تربیت کے زمانے میں اساتذہ اور والدین کی طرف سے آپ کی آزاد روی پر جو پابندیاں لگائی جائیں آپ ان کا خیر مقدم کریں.ان پابندیوں کا مقصد آپ کے فطری قومی اور صلاحیتوں کو ترقی دینا ہوتا ہے کیونکہ فطری صلاحیتوں کو ترقی دیئے بغیر آپ قوم و ملک کے لئے نافع وجود نہیں بن سکتے.اگر آپ فطری قومی کو ترقی نہ دیں تو پھر ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ ملک نام ہے افراد کے مجموعہ کا.جب افراد کی ہی تربیت ٹھیک نہ ہو اور وہ اس قابل نہ ہوں کہ قوم کی صحیح رنگ میں خدمت کرسکیں تو پھر ملک کی ترقی میں رکاوٹ پڑنی لازمی ہے.پس آپ ابھی سے اپنے دل میں یہ بٹھا لیں کہ آپ نے یہ کوشش کرنی ہے کہ آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں آپ کا ملک دنیا کے چوٹی کے ملکوں میں شمار ہونے لگے.ترقی کے لحاظ سے دنیا کی قو میں ہم سے بہت آگے ہیں.اب آپ کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا ملک ان سب سے آگے نکل جائے.محترم صاحبزادہ صاحب نے فرمایا.یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے کہ آپ نہ کر سکیں.دینی علوم میں دسترس کی وجہ سے آپ کو ایک سہولت حاصل ہے.جس سے دوسری قو میں محروم ہیں.دین کی

Page 114

وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے دماغوں میں جو روشنی رکھی ہے اس کی وجہ سے آپ سب سبقت لے جاسکتے ہیں.آپ اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا ایک عملی نمونہ بنالیں.اور پھر کوشش کریں کہ ساری دنیا آپ کے ذریعہ اسی رنگ میں رنگی جائے.ہم میں سے ہر ایک کا وجود چمکتے ہوئے ستاروں کی مانند ہو.جب بھی دنیا کو اندھیرے سے نجات کی ضرورت پڑے تو وہ ہماری طرف ہی رجوع کریں.آخر میں آپ نے احمدی طلبہ کو قرآن مجید کے ترجمہ اور حضرت مسیح موعود کی کتب کے مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تعلیم الاسلام کالج کی طرف ستے چھپیں چھپیں روپے کے دو انعاموں کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ان دونوں امتحانوں میں آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کے طالبعلم حصہ لیں اور حصہ لینے والوں کی تعداد کم از کم سو ہو.جو طلباء ان امتحانوں میں اول آئیں گے اور چھپیں چھپیں روپے کے انعام کے مستحق قرار پائیں گے.آپ کی تقریر کے بعد مکرم ہیڈ ماسٹر صاحب نے محترم صدر صاحب اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور دعا کے بعد یہ بابرکت تقریب اختتام پذیر ہوئی.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ رستمبر ۱۹۵۶ء صفحه ۱ و ۸)

Page 115

1+9 قرآن مجید کی آخری تین سورتوں کی نہایت لطیف اور جامع دعائیہ تفسیر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سَلَّمَهُ الله کے درس قرآن پاک کا ایک نہایت قیمتی اقتباس امسال رمضان کے بابرکت ایام میں مسجد مبارک ربوہ میں پورے قرآن مجید کے جس خصوصی درس کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں سورۃ احقاف سے سورۃ الناس تک درس محترم جناب صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے ( آکسن ) نے دیا تھا.۲۸ مارچ ۱۹۶۰ ء مطابق ۲۹ / رمضان المبارک ۱۳۷۹ھ کو محترم صاحبزادہ صاحب موصوف نے قرآن مجید کی آخری تین سورتوں یعنی سورۃ الاخلاص سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی ایسی پُر معارف دعائیہ تفسیر بیان فرمائی کہ جسے سن کر سامعین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی.آپ کی بیان کردہ یہ تفسیر اُن جامع دعاؤں پر مشتمل ہے جو ان سورتوں سے مستنبط ہوتی ہیں.قرآن مجید روحانی علوم و معارف کے ایک بکر نا پیدا کنار کی حیثیت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ان تین سورتوں میں جو دعا ئیں سکھائی ہیں.ایک ہی وقت میں ان سب کا احاطہ کرناممکن نہیں ہے.تاہم یہ دعائیہ تفسیر مختصر ہونے کے باوجود اپنی ذات میں اس قدر لطیف اور جامع ہے کہ اس میں قریب قریب وہ تمام جماعتی دعائیں آجاتی ہیں جن سے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے افراد کو ان سورتوں میں بیان کردہ مضامین کے پیش نظر اپنی

Page 116

11+ زبانوں کو ہر وقت تر رکھنا چاہیے.تا خدائی افضال اور رحمتوں کے وہ مورد بنے رہیں اور وہ روحانی انقلاب جس کا خدا نے وعدہ فرمایا ہے جلد دنیا میں ظاہر ہو کر اسلام کو پورے کرہ ارض پر غالب کر دے.لہذا یہ دعائیہ تفسیر افادہ احباب کی غرض سے ذیل میں شائع کی جارہی ہے.(ادارہ) اے ہمارے اللہ ! اے ہمارے رب ! تو ازلی ابدی خدا ہے خالق و مالک اور حتی وقیوم ہے.تو اپنی ذات میں اکیلا اور منفرد ہے.ذات اور صفات میں کوئی تیرا ہمتا اور ہمسر نہیں.حقیقی محسن تو ہی ہے اور تو ہی سب تعریفوں کا حقیقی مستحق ہے.تو بلند درجات والا اور غیر محدود ہے.تیری غیر محدود نعمتیں تیری ان گنت مخلوق پر ہر آن اور ہر لحظہ جاری ہیں.تیرے قرب کے دروازے غیر محدود ہیں اور ہمیشہ کھلے رہتے ہیں.کوئی مقام قرب ایسا نہیں جس سے آگے قرب کا کوئی اور مقام نہ ہو.اے صمد خدا! تو کسی کا محتاج نہیں اور سب مخلوق تیری محتاج ہے ہم بھی تیرے ہی محتاج ہیں اور تیرے ہی سامنے اپنی ضرورتوں اور احتیا جوں کو پیش کرتے ہیں.اے لَمْ يَلِدْ خدا! اے لَمْ يُولَدُ خدا! تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا.تو نے اپنی صفات کسی سے ورثہ میں حاصل نہیں کیں اور نہ کوئی اور ان صفات کو تجھ سے ورثہ میں حاصل کرے گا.کوئی ہستی اور کوئی وجود تیرا مماثل اور مشابہ نہیں.اپنی ذات اور اپنی صفات میں تو یکتا ہے.اے ہمارے خدا! جو واحد و یگانہ ہے، اے ہمارے رب جواز لی اور ابدی ہے، تو نے ہی محمد رسول اللہ ﷺ کو ایک کامل اور مکمل شریعت دے کر دنیا کی طرف بھیجا ہے.تو نے ہی آپ کو روحانی دنیا کے لئے سورج بنایا ہے.ہم تیرا واسطہ دے کر تجھ سے ہی یہ دعا کرتے ہیں کہ تو ہمیں اپنی اس روشنی کی سب برکتوں سے مالا مال کر.اے خدا روحانی علوم کے یہ دریا اور دنیوی ترقیات کی یہ فراوانی ہمیں خود پسندی کی طرف نہ لے جائے اور عیش وعشرت میں نہ ڈبودے.اے خدا! ہم پر ایسا فضل کر کہ جس طرح تو اپنے سورج کو آہستہ آہستہ اور بتدریج نصف النہار تک لے جارہا ہے.ہم بھی تیری صفت ربوبیت کے ماتحت آہستہ آہستہ اور بتدریج روحانی کمالات تک پہنچتے رہیں.اے خالق خدا،

Page 117

خیر و برکات کے جو سامان تو نے پیدا کئے ہیں انسان اپنی غفلت اور سستی کی وجہ سے ان میں سے اپنے لئے کبھی شر کے سامان بھی پیدا کر لیتا ہے.اے خدا ، تو ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے فضل اور تیری ہی رحمت سے ہر شر سے محفوظ رہیں.اے خالق و مالک خدا دنیا والے آج دنیوی سہاروں اور دنیاوی سامانوں پر بھروسہ کر رہے ہیں.اے ہمارے رب تو ہماری پناہ بن جا، تو ہمارا ملجا ہوجا، ہمارا بھروسہ تیرے سوا اور کسی پر نہیں.اے خدا تو نے اپنے قرآن میں نفع کی ہر بات اور ترقی کا ہر اصول رکھا ہے.تو ہی ہمیں توفیق دے کہ ہم قرآنی تعلیم کو کبھی نہ چھوڑیں تا ایسا نہ ہو کہ یہ دونوں جہان ہمارے لئے جہنم بن جائیں.اے ہمارے رب! تیرا مسیح ثریا سے ہمارے لئے علوم قرآنی لے کر آیا اور تیرے خلیفہء اول نے ہمیں ان علوم کے سکھانے میں اپنی زندگی بسر کی.اے خدا تیرے ہزاروں ہزار صلوۃ اور سلام ہوں ان پر اور اے خدا، تیرے خلیفہ ثانی نے تجھ سے الہام پا کر تیرے قرآن کے علوم کو سیکھا، اور دن رات ایک کر کے اور اپنے آرام کی گھڑیوں کو قربان کر کے علوم قرآنی کے ان خزانوں سے ہماری جھولیاں بھریں اور ہمارے دل کو ان سے منور کیا.اے خدا، آج وہ بیمار ہیں اور ہم بے بس ، مگر تو تو شافی اور کافی خدا ہے، تجھے تیرے ہی منہ کا واسطہ تو ہمارے پیارے امام کو شفا دے اور بیماری کا کوئی حصہ باقی نہ رہنے دے.آپ کی زندگی میں برکت ڈال اور آپ کی قیادت اور رہنمائی میں دنیا کے کناروں تک اپنے دین کی اشاعت کی ہمیں توفیق بخش اور ہم میں سے جو افراد اس وقت آپ کی خدمت کر رہے ہیں ان پر بھی اپنا فضل اور رحمت نازل فرما.اے محسن خدا! تو نے ہی افراط و تفریط کی دو پہاڑیوں کے درمیان اسلام جیسا خوبصورت میدان بنایا ہے.اے خدا! ایسا کر کہ ہم اسلام کی تعلیم سے کبھی منحرف نہ ہوں، ہمارا قدم اس میدان سے کبھی باہر نہ نکلے.اے ہمارے رب ! روحانی فیوض تو نے ہم پر موسلا دھار بارش کی طرح برسائے ہیں.ایسا نہ ہو کہ یہی روحانیت ہم میں کبر و نخوت کے جذبات پیدا کر کے ہمارے لئے ہلاکت کا باعث بن جائے.

Page 118

۱۱۲ اے خدا تو نے آسمان سے دودھ اتارا ہے.اے خدا ہمارے پیالے اس دودھ سے ہمیشہ بھرے ہی رہیں.اے ہمارے رب! ان وعدوں کے مطابق جو تو نے اپنے رسول علے سے کئے تھے تو نے اپنی تقدیر کی تاروں کو ہلانا شروع کیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسلام کی لائی ہوئی تعلیم ساری دنیا میں پھیل جائے اور محمد مال وسط آسمان میں سورج کی طرح چمک کر ساری دنیا کو منور کر دیں.اے خدا ہمیں اعمال صالحہ کی توفیق دے، ہماری دستگیری فرما اور اس روشنی سے زیادہ سے زیادہ متمتع فرما، اور ہمارے ان بھائیوں کو جو تیری تعلیم کو پھیلانے کیلئے دنیا کے کونے کونے اور ملک ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اپنی رحمتوں سے نواز، اُن کے تقویٰ میں برکت دے، ان کی قلموں اور ان کی زبانوں پر اپنے انوار نازل کر ان کی کوششوں کو دجال کے ہر شر سے محفوظ رکھ.اے خدا! ایسا کر کہ تیرے یہ کمزور بندے ہر فرد بشر کے دل میں تیری توحید کی میخ اور محمد رسول اللہ علیہ کا جھنڈا گاڑ دیں.اے خدا، اپنے فضل سے تو ایسے سامان پیدا کر کہ یہ انوار جو تیری طرف سے بنی نوع انسان کی ترقیات کے لئے نازل ہوئے ہیں دنیا کی نظر سے کبھی اوجھل نہ ہوں اور تا ابد دنیا کے ہر گھر اور ان گھروں کے سب مکینوں کے دلوں سے لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کا نعرہ بلند ہوتا رہے.اے قدیر وحکیم خدا! جس طرح تو نے اپنے مسیح کے لئے چاند اور سورج کو گرہن لگایا ہے ایسا ہو کہ اسی طرح تمام مذاہب باطلہ کے نعلی سور جوں اور چاندوں کو بھی گرہن لگ جائے.اے ہمارے ربّ! تو ہمیں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مددگاروں میں سے بنا اور ان آفات اور عذابوں سے ہمیں ہمیشہ بچا جو آپ کے مخالفوں کے لئے مقدر ہو چکے ہیں اور شرک اور بدعت اور ظلم کی ہر قید و بند سے ہمیں ہمیشہ محفوظ رکھ.اے خدا ہمیں نیکی اور تقویٰ پر ہمیشہ قائم رکھ اور بدخصلت وساوس پیدا کرنے والوں سے ہمیں ہمیشہ پناہ دے تاہمارا بیعت کا تعلق اور غلامی کا رشتہ جوہم نے تیرے رسول ، تیرے مسیح اور تیرے خلفاء سے باندھا ہے وہ ہمیشہ مضبوطی سے قائم رہے.وہ اے خدا ! ہمارے بیماروں کو شفادے، ہمارے کمزوروں کو طاقت بخش، ہمارے غریبوں کو مالدار بنا، ہمارے ضرورتمندوں کی ہر ضرورت کو پورا کر اور ہمارے جاہلوں کی جھولیاں دینی اور دنیوی

Page 119

۱۱۳ علوم سے بھر دے.اے خدا، ابتلاؤں میں ہمیں ثابت قدم رکھ اور کامیابیوں میں ہمیں مزاج کے منکسر اور طبیعت کے غریب بنا اے خدا تیرے اور تیرے رسول کے خلاف نہایت گندہ اور مکروہ اور نا قابلِ برداشت لٹریچر شائع ہو رہا ہے ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس فتنہ سے محفوظ رکھ اور اس کے خلاف قلمی اور لسانی جہاد کی ہمیں توفیق دے اور اس میں ہمیں کامیاب فرما.اے خدا، ایسا نہ ہو کہ حاسدوں کی کوششیں ہمارے قومی شیرازہ کو بکھیر دیں اور ہم میں لا مرکزیت آجائے.اے خدا حاسد اپنے حسد میں جلتے ہی رہیں.ہمارا قومی شیرازہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے اور ہمارا مرکز تا ابد بنی نوع انسان کی بھلائی اور خدمت کا مرکز بنار ہے.اے خدا ہما را قادیان ہمیں جلد کامیابی وکامرانی کے ساتھ واپس دلا.اے ہمارے اللہ ! اے ہمارے رب! ہم تیرے ہی آستانہ پر جھکتے ہیں، تجھ پر ہی ہمارا تو کل ہے تو ہی ہمارا سہارا ہے، ہمیں بے سہارا نہ چھوڑ یو يَا رَبَّ الْعَالَمِيْن.روزنامه الفضل ربوده یکم مئی ۱۹۶۰، صفحه ۳ و۴ ) ☆☆

Page 120

۱۱۴ زبان محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے ( آکسن ) صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے ماہنامہ انصار اللہ میں اوامر و نواہی کے زیر عنوان ایک نہایت ہی عالمانہ قیمتی اور مفید سلسلہء مضامین کا آغاز فرمایا ہے.ماہنامہ انصار اللہ کے پہلے دوشماروں میں اس کی دو قسطیں شائع ہوئی ہیں.جو اپنی ہمہ گیر افادیت کے پیش نظر اس قابل ہیں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے.لہذا ہم ماہنامہ انصار اللہ کے شکریہ کے ساتھ ذیل میں شائع کر رہے ہیں.(ادارہ) اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سے اعضاء دیئے ہیں.آنکھ دی ہے جس سے ہم رنگوں اور شکلوں کو دیکھتے ہیں.کان دیئے ہیں جن سے ہم صوتی لہروں کو سنتے ہیں.ناک دی ہے جس سے ہم خوشبو اور بد بوسونگھتے اور حظ اٹھاتے یا تکلیف محسوس کرتے ہیں.ہاتھ دیئے ہیں جن سے ہم پکڑنے کا کام لیتے ہیں اور زبان دی ہے جس سے ہم چکھتے اور بولتے ہیں وغیرہ وغیرہ ان سب اعضاء میں زبان کو ایک خاص اور بڑا اہم مقام حاصل ہے.اس لئے کہ ہم اس سے صرف چکھتے ہی نہیں بلکہ بولتے اور بیان بھی کرتے ہیں.آنکھیں صوتی لہروں کوسن نہیں سکتیں.کان خوبرو اور بدرو میں امتیاز نہیں کر سکتے.یہی حال دوسرے اعضاء کا ہے.جن کا عمل غیر محدود دائرہ میں بند ہے.زبان کا حال اس سے مختلف ہے.ہمارا ہر وہ عضو جو اپنے محسوسات کو ہمارے دماغ تک پہنچاتا ہے اور خود ہمارا دماغ جوان محسوسات کو سمجھتا ان پر غور و فکر کرتا اور ان سے نتائج اخذ کرتا ہے، وہ ان نتائج کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے زبان یا بیان کا محتاج ہے اور قوت بیان ہی ہے جو انسان کو چرند

Page 121

۱۱۵ پرند اور دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.خَلَقَ الْإِنْسَانَ - عَلَّمَهُ الْبَيَانَ الرحمن : ۴، ۵ ) آداب ہم دیکھیں کہ ہمارے ہادی و مطاع محمد رسول اللہ ﷺ نے زبان کی استواری اور صحیح استعمال کے لئے ہمیں کیا ہدایات فرمائی ہیں، ہم پر اس بارہ میں کون سی پابندیاں عائد کی ہیں اور اس کے صحیح استعمال کے لئے کون سے راستے آپ نے ہم پر کھولے ہیں.اس تعلق میں میں پہلے نواہی کولوں گا اور پھر اوامر کو میں پہلے بڑے ہی اختصار کے ساتھ اوامر کا ذکر کروں گا اور پھر اس کے بعد ان میں سے ہر ایک کو لے کر نسبتا تفصیلی نوٹ آپ دوستوں کے سامنے پیش کروں گا.إِنْشَاءَ اللَّهُ وَبِاللَّهِ التَّوْفِيقِ اس وقت اس سلسلہ میں میں مندرجہ ذیل ہیں نواہی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جن کے ماخذ قرآن کریم اور احادیث نبوی مے ہیں.مگر ان کے حوالہ جات میں انشاء اللہ اپنے تفصیلی نوٹ میں پیش کروں گا.(۱) جھوٹ مت بولو.یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے.بہت سی بدیوں اور بداعمالیوں کا یہ منبع ہے اور نفاق کی ایک بڑی علامت.(۲) جھوٹے وعدے نہ کرو.غلط امیدیں دلا کر اپنے کام نکالنا تمہاری شان سے بعید ہے.اَوْفُوا بِالْعُقُودِ تمہارا طرۂ امتیاز اور عِدَةُ الْمُؤمِن كَاخُذِ الْكَتِ تمہارا مقام ہے.(نوٹ ) جھوٹ کا تعلق ماضی کے واقعات سے ہوتا ہے اور جھوٹے وعدے مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں.مذکور بالا ہر دو نواہی سے اسلام نے ماضی اور مستقبل سے تعلق رکھنے والے ہر دو قسم کے جھوٹ کے دروازے بند کر دیئے ہیں.(۳) غیبت کی باتیں نہ کرو.تمہاری فطرت صحیحہ اسے پسند نہیں کرتی کہ کسی شخص کی پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی باتیں کرو خواہ بچی ہی کیوں نہ ہوں جنہیں وہ پسند نہیں کرتا.(۴) تہمت کے بول نہ بولو کہ جھوٹ اور افترا کا یہ مجموعہ ایک نہایت ہی گھناؤنا عیب ہے.(۵) چغلی نہ کھاؤ.ادھر کی اُدھر لگانے سے تمہیں تو کچھ حاصل نہیں ہوگا.مگر اس سے اسلامی

Page 122

اخوت کی جڑیں ضرور کھوکھلی ہو جائیں گی.(1) دورخی باتیں نہ کرو کہ یہ تمہاری بزدلی کا ایک بھیانک مظاہرہ ہوگا اور فتنے کے کئی دروازے اس سے کھلیں گے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ بھی جو دور نے ہیں.یعنی اس کے پاس جا کر ایک بات اور دوسرے کے پاس (اس کو خوش کرنے کے لئے ) دوسری بات کہنے والے قیامت کے دن خدا کے شریر ترین بندوں میں شمار ہوں گے.(۷) خوشامدانہ باتیں نہ کرو کہ (۱) خوشامد مبالغہ اور افراط کی طرف لے جاتی ہے.اور مبالغہ اور افراط جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے.(ب) خوشامد سے ظاہر و باطن ایک نہیں رہتا.دل میں کچھ ہوتا ہے زبان پر کچھ اور.(ج) خوشامد سے تم اپنے محدوح میں خوشامد پسندی اور اخلاقی گراوٹ پیدا کرنے کا موجب بنتے ہو.(۸) لایعنی باتیں نہ کرو بے تعلق باتوں میں الجھ کر وقت کو ضائع اور نیکیوں کو برباد نہ کرو.آنحضرت ﷺ نے فرما یالا یعنی باتوں کو چھوڑ نا مرد مومن کے اسلام کا ایک اچھا نمونہ ہے.(۹) فضول باتوں سے پر ہیز کرو.اتنی ہی بات کرو جتنی کی ضرورت ہے.ایک بول سے مقصد حاصل ہوتا ہو تو دو بول نہ بولو.ارشاد نبوی ہے کہ بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے قوت گویائی کی بہتات کو ( ذکر الہی کے لئے محفوظ رکھا ، مگر اپنے مال کی کثرت میں سے خدا کی راہ میں (بے دھڑک ) خرچ کیا.(۱۰) گناہ کی باتیں نہ کرو کہ گناہ اور بدی کی باتوں، ایکٹریسوں کی خوبصوری کے افسانوں، شراب خوری کی مجالس کے قصوں اور فسق و فجور کی کہانیوں سے بدی سے نفرت کا فطری میلان کم ہو جاتا اور حجاب اٹھ جاتا ہے.بدی کی باتیں بدی کی راہیں کھولتی ہیں.(۱۱) خود رائی اور خود نمائی کے لئے دوسروں پر نکتہ چینی نہ کرو.تعلمی و تنقیص کا خمیر صرف سڑاند ہی پیدا کرتا ہے.دوسروں کے حقیقی نقائص بھی ہماری بڑائی کی دلیل نہیں بن سکتے.(۱۲) جھگڑالو نہ بنو.بات بات پر جھگڑا کرنا بھی کوئی بات ہے.اونچی آواز سے بولنا غصہ سے باتیں کرنا اور لمبی لمبی تقریریں ناحق کو حق نہیں بنا سکتیں

Page 123

(۱۳) تصنع اور بناوٹ سے باتیں نہ کرو.اسلام دین فطرت اور ایک سیدھا سادہ مذہب ہے اور سیدھی سادی با موقع اور برمحل باتوں ہی کو پسند کرتا ہے.انتخاب الفاظ میں تکلف ، بیان میں تصنع اور بناوٹ اسے پسند نہیں.(۱۴) مخش کلامی ، بد زبانی اور گالی گلوچ سے پر ہیز کرو.کہ یہ خبیث اور کمینگی کی علامتیں ہیں.ہمارے نبی اکرم ﷺ نے بد زبانی سے بچنے پر اس قدر زور دیا ہے کہ رؤسائے کفر جو بدر کے میدان میں مارے گئے تھے.انہیں گالی دینے سے بھی صحابہ کرام کو منع فرما دیا تھا.(۱۵) کسی پر لعنت مت بھیجو.انسان کو خدا سے دور لے جانے والی دو ہی چیزیں ہیں.کفر اور ظلم، کا فرو ظالم کے علاوہ کسی اور پر لعنت بھیجنا ہمارے خدا اور ہمارے نبی ﷺ کو پسند نہیں.نبی اکرم ﷺ کو اس بات کا اس قدر خیال تھا کہ آپ نے ایک موقع پر جب اپنے ایک صحابی کو اپنی سواری پر لعنت بھیجتے سنا تو اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم اس ملعون سواری کے ساتھ ہماری معیت میں سفر کر رہے ہو.(۱۶) افشائے راز نہ کرو کہ اس سے دوستوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں.یہ بھی یادرکھو کہ راز صرف وہی نہیں جسے بات بیان کرنے والا راز کہے.بلکہ ہر وہ بات جو تم سے کہی گئی ہے کسی کا راز ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص تم سے کوئی بات کہہ کر چلا جاتا ہے تو اس کی بات تمہارے پاس بطور امانت رہ جاتی ہے.پس امانت میں خیانت نہ کرو.یہ ایک کمینہ اور تکلیف دہ حرکت اور عادت ہے.(۱۷) تمسخر واستہزاء کی باتیں نہ کرو اور کسی کو بھی اپنے سے حقیر نہ سمجھو.(۱۸) ہنسی ٹھٹھے کی باتوں ہی میں زندگی گزار دینے کو اپنا مقصد نہ بناؤ.مزاح اپنی حدود میں رہے تو بُرا نہیں مگر اسلام پیشہ ور مسخروں کو پسند نہیں کرتا اور نہ خدا نے انسان کو اس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے.(۱۹) شعر و شاعری بُری نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شعر میں بھی حکمت کی باتیں ملتی ہیں.مگر اپنی سب ذمہ داریوں کو بھلا کر اور مقصد حیات کو پس پشت ڈالتے ہوئے شعرو شاعری ہی میں اپنی زندگی گنوادینا مومن کو زیب نہیں دیتا.زبان اس میدان میں بھی جب اپنی حدود کو پھلانگ جاتی ہے تو شیطان کے پاؤں میں لڑکھڑاتی ہوئی نظر آتی ہے.

Page 124

۱۱۸ (۲۰) کسی کے لئے یہ زیب نہیں کہ وہ اپنے علم وفہم سے بالا تر بحثوں میں اُلجھے کہ اس سے فتنوں کے دروازے کھلتے ہیں.تحقیق اور ریسرچ کا دروازہ تو ہر ایک کے لئے کھلا ہے.مگر محض فلسفیانہ بخشیں جن کا انسان کی دینی یا دنیوی فلاح کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو ان میں الجھے رہنے سے بھی منع کیا گیا ہے.کام کی بات کرو اور زبان کے چسکے سے پر ہیز کرو.ہماری زبان پر ہمارے خدا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پابندیاں عائد کی ہیں.ان میں سے ہیں نواہی آپ کے سامنے مختصر طور پر پیش کر دی گئی ہیں.تفصیلی بحث انشاء اللہ بعد میں ہوگی.اس سے قبل زبان سے متعلق ہیں نواہی کا ذکر کیا گیا تھا.اب میں ایسی باتوں کو لیتا ہوں جو زبان سے کرنے کی ہیں.(۱) خدا تعالیٰ کے ذکر سے اپنے اوقات کو معمور رکھو اور اس کی حمد کے ترانے ہر وقت گاتے رہو.اس حمد و ثناء میں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ کہ ہر کام میں مشغول رہتے ہوئے ہر وقت اس کے ذکر سے زبان کے اعصاب اور دل کی تاروں کو حرکت دینا ہی سب سے بڑی نیکی ہے.حمد وثنا کے ہلکے پھلکے بول میزان جزا و سزا میں بڑے ہی وزنی ثابت ہوتے ہیں اور دلوں کے اطمینان کا باعث.(۲) قرآن پڑھو کہ تلاوت قرآن میں بڑی برکت ہے، قرآن جو اللہ کے ذکر سے بھرا ہوا ہے، قرآن جو ہمارے لئے ایک مکمل ہدایت ہے.قرآن جو خدائے واحد و یگانہ کی رحمانیت کو حرکت میں لاتا ہے، قرآن جو زبان اور اعمال کی کجیوں کو دور کرتا ہے، قرآن جب ہمارے دل میں اتر تا اور ہماری زبانوں پر جاری ہوتا ہے تو اس کی برکت سے ہماری زندگی کی ساری الجھنیں سلجھ جاتی ہیں.قرآن دلوں میں تقویٰ پیدا کرتا اور انہیں مظہر بناتا ہے، قرآن خود کلید قرآن ہے.پس قرآن پڑھو، قرآن پڑھو.(۳) پیارے نبی ﷺ پر ہمیشہ درود بھیجتے رہو.خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی اکرم علی پر ہر آن اور ہر لحظہ درود اور سلام بھیج رہے ہیں.مظہر صفات الہیہ اور فرشتہ صفت بنو اور اس نبی پر ہمیشہ درود بھیجتے رہو.اس کی برکت سے ہماری زبانوں سے حکمت و معرفت کی نہریں جاری ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.الله

Page 125

۱۱۹ جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.(الحکم ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء) (۴) نماز پڑھو اور اپنی اولادوں اور متعلقین کو نماز کی تلقین کرتے رہو.اپنی نمازوں کو خدا تعالیٰ کے لئے بناؤ کہ یہ نمازیں صحیح معنوں میں برائیوں سے روکنے والی بنیں اور تاہم خدا کی نگاہ میں اس اعانت کے مستحق ٹھہریں.(۵) ہمیشہ سچ بولو اور سیدھی بات کرو جس میں کسی قسم کا کوئی پیچ اور کجی نہ ہو، تا اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کر دے اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے.(1) دعائیں کرو، بہت ہی دعائیں کرو اور سوز اور گریہ وزاری سے دعائیں کرو، تکبر کے ہر جذ بہ کو دل سے نکال کے انکساری اور فروتنی کے ہر جذبے سے دل کو معمور کر کے دعائیں کرتے ہوئے اپنے مولا کے حضور جھک جاؤ کہ ہم کچھ بھی نہیں اور وہ سب کچھ ہے.دعا سے خدا ملتا ہے.دعا سے کامیاب زندگی حاصل ہوتی ہے.(۷) استغفار کرتے رہو.اپنے لئے اپنے اقارب اور اپنے بھائیوں کے لئے کثرت سے استغفار کرو کہ ہمارا خدا غفور رحیم ہے اور استغفار روحانی ترقیات کی کلید ہے.(۸) میٹھے بول بولو محبت سے بھرے ہوئے بول.تمہاری زبانوں سے دنیا کو ہمیشہ سکھ پہنچے.تمہارے بول دلوں کی راحت کا موجب ہوں کہ چند میٹھے بولوں سے دلوں کو موہ لینا بڑا ہی ستا سودا ہے.(۹) نیکیوں کی تلقین کرتے رہو.عدل و انصاف کی ، شجاعت و مروت کی ، احسان کی تلقین ، رحم اور محبت کی تلقین کرتے رہو کہ یہی وہ باتیں ہیں جن سے تم خیر امت ٹھہرائے گئے ہو.(۱۰) بدیوں سے رکنے کی تلقین کرتے رہو.غیبت سے، ریا سے،خست اور تنگدلی سے، بخل سے، فخر و مباہات سے ، کبر و غرور سے بچے رہنے کی تلقین کرتے رہو.تمہاری زبان گند عفونت اور بدی کو دور کرنے والی ، مٹانے والی ہو، بدی پھیلانے والی نہ ہو.تمہارے منہ سے وہ پھول جھڑیں جن کی

Page 126

۱۲۰ مہک سے زمین و آسمان کی فضا معطر ہو جائے انسانیت کو تم پر فخر ہو اور نبی اکرم ﷺ کوتم پر ناز.(۱۱) سچی شہادت دو کہ اس کے بغیر دنیا میں نہ عدل وانصاف قائم ہوسکتا ہے نہ تم قَوَّامِينَ لِلَّهِ ٹھہر سکتے ہو.(۱۲) وعدے کر و سچے وعدے کرو.زبان اور جوارح میں تضاد نہ ہو.زبان نے جو کہا، جوارح نے کر دکھایا.معصیت و گناہ کے وعدے نہ کرو.تَخَلَّقُوا بِاخْلَاقِ اللَّهِ کو یا در کھتے ہوۓ وَعْدًا حَسَنًا نیکی اور بھلائی کے وعدے کیا کرو اور نیکی کے ان وعدوں کو پورا کرو کہ وعدوں کا پورا نہ کرنا دل میں نفاق کا بیج بو دیتا ہے اور منافق کا ٹھکانا جہنم کے بدترین گوشہ میں ہے.( روزنامه الفضل ربوہ مورخہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۶۰ صفحه ۳ ۴۰) (روز نامه الفضل ربوہ مورخہ ۲۰ / دسمبر ۱۹۶۰ء صفحه ۳)

Page 127

۱۲۱ انسانی کردار کے دو بد نما داغ سُوْرَةُ الْهُمَزَةُ کی نہایت لطیف تغییر محترم جناب صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے آکسن صدر مجلس انصار اللہ مرکز بیہ نے ۲۸ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو انصار اللہ کے چھٹے سالانہ اجتماع کے موقع پر قرآن مجید کا درس دیتے ہوۓ سُوْرَةُ الْهُمَزَةُ کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی تھی.اس میں آپ نے انسانی کردار کے دو بدنما دھبوں پر روشنی ڈال کر نہایت احسن پیرائے میں ان کی مضرت کو واضح فرمایا اور اس طرح اسلامی تعلیم کی بعض پر حکمت تفصیلات ذہن نشین کرائیں.محترم صاحبزادہ صاحب موصوف کا یہ پر معارف درس افادہ احباب کی غرض سے ہدیہ احباب کیا جاتا ہے.(ادارہ) اگر مذہب صرف اور صرف اعتقادات کے مجموعہ سے ہی عبارت ہوتا اور بعض مخصوص اعتقادات سے ماوراء مذہب کا اور کوئی وسیع تر مفہوم متحقق نہ ہوتا تو پھر فلسفہ اور مذہب کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو جاتا.ارسطو، افلاطون، کانٹ ، ہیگل، روسو، ڈیکارٹ اور اسی قبیل کے سینکڑوں فلسفی دنیا میں گزرے ہیں.ایسی صورت میں ان کے پیش کردہ نظریات اور انبیاء کی تعلیموں کے درمیان اصولی طور پر کسی واضح امتیاز کی نشاندہی ممکن نہ ہوتی.لیکن ایسا نہیں ہے.مذہب ہمیں صرف صحیح اعتقادات ہی نہیں سکھا تا بلکہ وہ ایک لائحہ عمل بھی پیش کرتا ہے اور ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اس لائحہ عمل کے مطابق ڈھالیں اور اس طرح دنیا میں ہر طرح ایک کامیاب زندگی بسر کریں.ابتداء ہی سے ہر قوم اور ہر زمانے کی ضرورت کے مطابق مذہب کی شکل میں آسمانی ہدایت نازل ہوتی رہی ، یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی عالمگیر بعثت کے ذریعہ مذہب اپنے کمال کو پہنچا اور

Page 128

۱۲۲ اس طرح بنی نوع انسان کو اسلام کی شکل میں زندگی کا بہترین اور کامل ترین لائحہ عمل میسر آیا.اس لائحہ عمل کی وجہ سے آپ کے ماننے والوں کی زندگیوں میں جو انقلاب رونما ہوا اور وہ جس بلند کر دار اور خوبصورت اعمال سے متصف ہو کر دنیا کیلئے ہدایت و رہنمائی کا موجب بنے وہ ایک ایسی تابندہ حقیقت ہے کہ دنیا اعمال و افعال اور سیرت و کردار کی اس خوبصورتی پر ہمیشہ فخر کرتی رہے گی.انسانی کردار میں خوبصورتی پیدا کرنے اور پھر اس کے رنگ روپ اور حسن کو نکھارنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ قبیح اوصاف جو بد نما داغ اور دھبوں کی حیثیت رکھتے ہیں پہلے انہیں منایا اور دور کیا جائے.اس کے بعد اوصاف حمیدہ کے خوشنما نقوش کو ابھارا اور ان کو زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بنایا جاتا ہے.اس وقت قرآن مجید کی جس سورۃ کا میں درس دینا چاہتا ہوں اس میں انسانی کردار کے ایسے ہی دو بدنما دھبوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اس کے حسن کو خاک میں ملا دیتے ہیں اور اس کی سب رعنائی ختم ہو کر رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ سُوْرَةُ الْهُمَزَةُ میں فرماتا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ تُمَزَةِ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَدَهُ - يَحْسَبُ أَنَّ مَالَةَ أَخْلَدَهُ - كَلَّا لَيُنْبَذَنَ فِي الْحُطَمَةِ - وَمَا أَدْرِيكَ مَا الْحُطَمَةُ - نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ - إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ فِي عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ - ہر غیبت کرنے والے اور عیب چینی کرنے والے کے لئے عذاب (ہی عذاب) ہے.جو مال کو جمع کرتا ہے اور اس کو شمار کرتا رہتا ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس (کے نام کو ) باقی رکھے گا، ہرگز ایسا نہیں (جیسا وہ خیال کرتا ہے ) وہ یقیناً ( اپنے مال سمیت حُطَمہ میں پھینکا جائے گا اور (اے مخاطب ) تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ حُطَمہ کیا شے ہے.یہ اللہ تعالی کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کے اندر تک جا پہنچے گی.پھر وہ آگ سب طرف سے بند کر دی جائے گی تا کہ اس کی گرمی ان کو اور بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو اور ( وہ لوگ اس وقت ) لمبے ستونوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہوں گے.خدا تعالیٰ نے ان آیات میں انسانی کردار کے دو دھبوں پر اختصار کے ساتھ لیکن بہت جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے اور ان کی مضرت کو بڑی ہی عمدگی کے ساتھ واضح فرمایا ہے.وہ دو دھبے غیبت

Page 129

۱۲۳ اور عیب چینی ہیں.یہ سورۃ اللہ تعالیٰ نے اس لئے نازل فرمائی ہے کہ وہ ہمیں یہ سمجھائے کہ غیبت کا دھبہ اور عیب چینی کا دھبہ انسان میں کیسے پیدا ہو جاتا ہے اور اس کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟ پھر ہمیں اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ جن کا کرداران دو دھبوں کی وجہ سے داغ دار ہو کیا سلوک کرتا ہے؟ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تلقین فرمائی ہے کہ ہمیں ان دونوں برائیوں سے بچنا چاہیے.خدا تعالیٰ کے کلام کی بھی عجیب شان ہے.اس سورۃ میں پہلا لفظ ویل استعمال ہوا ہے.یہ لفظ اپنے معنوں کے لحاظ سے ایسا ہے کہ اس میں بیک وقت ایک قسم کی ہلاکت کی خبر بھی ہے اور ساتھ ہی ان وجوہات کا بھی ذکر ہے جن کے نتیجے میں غیبت اور عیب چینی کی بد عادتیں پیدا ہوتی ہیں.ویل کا لفظ عذاب یا ہلاکت کے نازل ہونے پر بولا جاتا ہے اور جس کے حق میں یہ لفظ بولا جائے اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کو اپنے مال یا عزت یا راحت اور چین کے بارہ میں کوئی شدید تکلیف پہنچے گی.اب یہاں یہ لفظ غیبت کرنے والے اور عیب چینی کرنے والے پر استعمال ہوا ہے سو یہاں مراد یہ ہے کہ وہ تمام چیزیں جنہیں انسان اچھا سمجھتا ہے اور جن کے متعلق اس کا گمان یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے لئے عزت ، فخر اور راحت و آرام کا موجب ہیں.جن کے حاصل ہونے پر اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس کی عزت بلند ہوگئی ہے اور اس کا مرتبہ بڑھ گیا ہے.بسا اوقات ان کا غلط استعمال ہی غیبت اور عیب چینی کی بد عادتیں پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے.ایسی ہی چیزوں کے نتیجے میں جو بظاہر بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں اور انسان انہیں اپنے لئے عزت اور راحت کا موجب سمجھتا ہے.غیبت اور عیب چینی کا دروازہ کھل جاتا ہے.بالآخر یہ چیزیں ہلاک کر دی جاتی ہیں اور وہ انسان ان سے محروم و بے نصیب ہو کر سخت اذیت اور عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو انسان کے لئے بڑائی کا موجب ہوتی ہے اگر اس کو غلط نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے اور غلط رنگ میں اسے استعمال کیا جائے تو پھر وہی چیز انسان کو غیبت اور عیب چینی کی برائیوں میں مبتلا کر کے اس کی ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے.

Page 130

۱۲۴ مثال کے طور پر تقوی اللہ ہی کو لیں.اس کے معنی ہیں خدا تعالیٰ سے صحیح معنوں میں ڈرنا.اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا اور اس طرح مقامات قرب کو حاصل کر کے عنداللہ فائز المرام ہونا.یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ وصف ہے لیکن جب انسان اسے غلط نقطہ نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے اور اس کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا تو اس کے نتیجے میں ہی اس کے اندر غیبت اور عیب چینی کی بد عادتیں پیدا ہو کر اس کے لئے تباہی کا موجب بن جاتی ہیں.اس کی واضح مثال ہمیں انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے زمانوں میں ملتی ہے.ہمیں ہر نبی کی بعثت کے وقت کچھ لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو اس نبی کی بعثت سے قبل ایک حد تک مقام قرب حاصل کر چکے تھے.لیکن جس وقت اس نبی نے دعوی کیا تو اس کے بالمقابل دنیا میں شیطان کو بھی اپنے کل پرزے نکالنے کا موقع ملا اور اس نے ان کے دل میں آکر کہا تمہیں تو بڑا قرب کا مقام حاصل تھا.تم خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہوتے تھے.اگر یہ منصب کسی کو ملنا ہی تھا تو تمہیں ملنا چاہیے تھا.نبی بنتے تو تم بنتے یہ دوسرا شخص کہاں سے نبی بن گیا.سو گویا جو نیکی پہلے سے ان میں موجود تھی اس نے تکبر کی شکل اختیار کر لی اور انہیں لے ڈوبی اور بالآخر ان کی تباہی کا موجب بن گئی.اس خیال کے پیدا ہوتے ہی کہ انہیں خود پہلے سے بڑا مقام حاصل ہے انہوں نے اپنے مقام قرب کے گھمنڈ میں اس نبی کی غیبت شروع کر دی.اس میں کیڑے ڈالنے لگے اور عیب چینی تک نوبت جا پہنچی.وہ کہنے لگے یہ غریب ہے، بے علم ہے، جاہل ہے، مجنون ہے، اس میں یہ عیب ہے، اس میں وہ عیب ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود ایک حد تک نیکی کا مقام حاصل ہونے کے وہ خدا تعالیٰ کی درگاہ سے دھتکارے گئے اور بحجز خسران اور تباہی کے ان کے حصہ میں اور کچھ نہ آیا.اسی طرح اس دنیا میں کسی کا ترقی کر جانا اور کوئی رتبہ حاصل کر لینا اس میں بعض اوقات تکبر پیدا کر دیتا ہے اور وہ دوسروں کو ذلیل سمجھنا شروع کر دیتا ہے.ہوتے ہوتے غیبت اور عیب چینی اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے یا پھر خاندانی شرف غرور کا جامہ پہن کر انسان کو ان برائیوں میں ملوث کر دیتا ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.سوترقی کرنا ، رتبہ حاصل کرنا ، اعلیٰ خاندان سے ہونا یا اور کسی نوع کی برتری کامل جانا سب اپنی ذات میں اچھی چیزیں ہیں.لیکن جب انسان انہی

Page 131

۱۲۵ چیزوں کو غلط نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا تو اس کے نتیجے میں کبر ونخوت اور پھر غیبت اور عیب چینی کی بری عادتیں سراٹھا کر اس کی تباہی کا موجب بن جاتی ہیں.الغرض اس سورۃ کے آغاز میں ہی ویل کا ایک لفظ ایسا ہے جو ان تمام وجوہات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جن کے نتیجے میں کبر و غرور پیدا ہوتا ہے اور پھر غیبت اور عیب چینی کا رستہ کھلتا ہے.پھر ساتھ ہی اس لفظ میں ان چیزوں کے بُرے انجام کی وعید بھی موجود ہے.یہ وجوہات بتاتی ہیں کہ کبر وغرور اور غیبت وعیب چینی کے زہر کا تریاق منکسر المزاجی اور تواضع ہے.منکسر المزاجی یا تواضع کے معنی ہیں کہ فطرت کے اندر یہ خیال پیدا ہونا کہ مجھے جو مقام بھی حاصل ہے خواہ وہ دینی ہو یاد نیوی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے اس میں میری کوئی خوبی نہیں جب تک انسان میں یہ حالت قائم رہتی ہے اس کے لئے دین میں بھی اور دنیا میں بھی فلاح کے راستے کھلے رہتے ہیں.برخلاف اس کے جب اس انکسار اور تواضع کے مقابلہ میں کبر و غرور پیدا ہو جاتا ہے تو غیبت اور عیب چینی کی عادتیں پاؤں جمائے بغیر نہیں رہتیں.اللہ تعالیٰ کہتا ہے اور دنیا کی تاریخ بھی اس بات پر شاہد ہے کہ وہ بیچ کہتا ہے اور کون ہے جو اس سے بڑھ کر سچ کہے ) کہ وہ مقام، وہ رتبہ، وہ مال، وہ عزت ، وہ وجاہت، وہ علم ، وہ خاندانی شرف یا اور کوئی بڑائی جو کبر وغرور اور عیب چینی کا دروازہ کھولتی ہے وہ قائم نہیں رہے گی ، وہ یقیناً مٹا دی جائے گی.بس وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ تُمَزَةٍ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر غیبت کرنے والے اور ہر عیب چینی کرنے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہر اس چیز کے متعلق جس کے نتیجے میں بالآخر غیبت اور عیب چینی پیدا ہوتی ہے ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ اسے مٹا دیا جائے گا وہ باقی نہیں رہے گی.اگر انسان متقی ہو کر اپنے تقویٰ پر گھمنڈ کرتے ہوئے غیبت اور عیب چینی کی طرف راغب ہوگا تو تقویٰ کی راہیں اس پر مسدود کر دی جائیں گی اور اسے ہمارے دروازے سے دھتکار دیا جائے گا.اسی طرح اگر کوئی انسان اپنے علم یا معرفت کی وجہ سے غیبت اور عیب چینی کا مرتکب ہوتا ہے اور اس طرح دوسروں کے علم اور معرفت پر انگشت نمائی کرتا ہے تو وہ علم اور وہ معرفت اس کے پاس نہیں رہے گی اور وہ ان سے

Page 132

بےنصیب کر دیا جائے گا.اگر وہ اپنے مال کی وجہ سے غیبت اور عیب چینی کا رستہ اختیار کرتا ہے تو ہم اسے یہ بتاتے ہیں کہ یہ مال اس کے پاس، اس کے خاندان کے پاس اور اس کی اولاد کے پاس رہ نہیں سکتا وہ مٹے گا اور ضرور مٹے گا.اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھانے کے لئے ایک بڑی بھیانک مثال بیان فرمائی ہے اور وہ مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس کے پاس تقویٰ بھی نہیں ، جس کے پاس علم و معرفت بھی نہیں ، جس کے پاس حسب و نسب کا شرف بھی نہیں ، لے دے کر اگر اس کے پاس کچھ ہے تو وہ مال ہے جیسا کہ فرمایا الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَدَهُ - يَحْسَبُ اَنَّ مَالَةَ اَخْلَدَهُ.(الهمزة:۴۳) اس سے ظاہر ہے کہ خود اس کو بھی دعویٰ نہیں ہے کہ مجھ میں تقویٰ ہے یا مجھے خاندانی شرف حاصل ہے یا میں علم و معرفت سے بہرہ ور ہوں.اس کا دعویٰ اتنا ہی ہے کہ میرے پاس مال ہے وہ کہتا ہے میں بڑا امیر ہوں، میں لکھ پتی ہوں اور کروڑ پتی ہوں.سو گویا اس کے پاس بڑائی کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے مال.اس مال کو وہ غیبت اور عیب چینی کی وجہ بنالیتا ہے.تو یہ سب سے بڑی اور گندی مثال ہوئی.اس کے پاس تقویٰ بھی نہیں، اس کے پاس شرافت بھی نہیں ، اس کے پاس علم بھی نہیں صرف اور صرف مال ہے اور کہنے کو بے حساب مال ہے کہ ہر وقت اسے گنتا رہتا ہے اور اس مال کے گھمنڈ میں کہنا شروع کر دیتا ہے کہ فلاں تو بڑا غریب ہے، اور پھر غربت کی ساری برائیاں اس کی طرف منسوب کرتا چلا جاتا ہے.یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مثال بیان کرتے ہوئے الَّذِي جَمَعَ مَالًا فرمایا ہے یعنی مال“ کا لفظ یہاں نکرہ آیا ہے ”المال نہیں کہا بلکہ ”مالا “ کہا ہے.سو اس بارے میں یادرکھنا چاہیے کہ تنوین عربی زبان میں تین معنوں کی طرف اشارہ کرتی ہے.اول اس میں تحقیر کے معنی پائے جاتے ہیں.ان معنوں کی رو سے خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ وہ تھوڑ اسا مال جمع کرتا ہے اور پھر بھی کبر وغرورا اختیار کر لیتا ہے.تھوڑا اس لئے کہ دنیا کا مال خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو آخرت کے مقابلے میں تھوڑا ہے.پھر کروڑوں کروڑ ہونے کے باوجود بھی وہ اس لئے تھوڑا ہی کہلائے گا کہ وہ بظا ہر زیادہ ہونے کے باوجود اس کی چند روزہ زندگی میں ہی کام آ سکتا ہے.وہ پچاس سال کام آ سکتا ہے، ساٹھ

Page 133

۱۲۷ سال کام آ سکتا ہے، ستر سال کام آسکتا ہے، اسی سال کام آسکتا ہے، حد ہے سو سال کام آسکتا ہے.سوسال بھی آخری حد ہے کیونکہ کتنے لوگ ہیں جو سو سال تک زندہ رہتے ہیں سوکتنا ہی مال کیوں نہ ہو استفادہ کے لحاظ سے بھی وہ آخرت کے مقابلہ میں تھوڑا ہے.انسان جو زادِراہ آخرت کے لئے فراہم کرتا ہے وہ ان گنت سالوں تک اس کے کام آنا ہے ، سو سال کے لئے نہیں، ہزار سال کے لئے نہیں، لاکھ سال کے لئے نہیں، کروڑ سال کے لئے نہیں، ارب سال کے لئے نہیں، بلکہ اتنے سالوں کے لئے کہ جن کا ہم شمار بھی نہیں کر سکتے اس لئے کہ آخرت کی زندگی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے.تو وہ مال جو کروڑوں کروڑ اور اربوں ارب سال سے بھی زیادہ زمانوں تک کام آنے والا ہے اس کے مقابلہ میں دنیا کا مال خواہ وہ بظاہر کتنا ہی بے حساب کیوں نہ ہو استفادہ کے لحاظ سے بالکل حقیر اور بے حیثیت نہیں تو اور کیا ہے ! اصل مال تو وہی ہے جس سے ہم نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے اور زیادہ سے زیادہ لمبے عرصے تک فائدہ اٹھاتے چلے جانا ہے.جس مال نے ہمیں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر یا حد ہے سوسال تک فائدہ دیاوہ مال زیادہ ہے یا وہ مال زیادہ ہے جس نے ہمیں اربوں اور کھر بوں سالوں سے بھی بڑھ کر زمانوں تک فائدہ دیتے چلے جانا ہے.تو تنوین سے اس طرف اشارہ کیا کہ وہ خواہ کتنا ہی زیادہ مال جمع کر لے وہ پھر بھی تو تھوڑا ہی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک اور جگہ فرماتا ہے فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (التوبة: ۳۸) کہ دنیا کا مال و متاع خواه وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو آخرت کے مقابلہ میں حقیر ہی ہے تھوڑا ہی ہے قلیل ہی ہے.دوسرے تنقیح (یعنی فتح کی بات) اور تنقیص (یعنی کمی اور نقص کی بات ) کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تو بھی ہم تنوین لاتے ہیں.اس لحاظ سے جَمَعَ مَالًا کے معنی ہوں گے کہ اس نے بڑا ہی خبیث قسم کا مال اور حرام قسم کا مال اکٹھا کر لیا اور پھر اس مال کو اس نے کبر وغرور کا ذریعہ بنالیا حالانکہ مال بھی وہ ایسا ہے جس میں سے خباثت کی بو آ رہی ہے.وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِی اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ کہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ ہرا میر کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے.یہ شخص مال جمع کرتا ہے اور اس میں جو دوسروں کا حق ہے وہ انہیں دیتا نہیں.سو گو یا حرام مال جمع کرتا

Page 134

۱۲۸ ہے اور پھر بھی فخر کرنے لگ جاتا ہے کہ میرے پاس بڑا مال ہے اور میں بڑا امیر کبیر ہوں.حالانکہ اگر اس کی طبیعت میں غرباء اور یتامیٰ اور مساکین کا درد ہوتا، اور وہ اپنے مال میں سے ان کا حق نکال کر انہیں دیتا تو اس کے لئے فخر کا کوئی موقع ہی نہ پیدا ہوتا اور یہ نکتہ اس کی سمجھ میں آجاتا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مال مجھے اس لئے دیا ہے کہ میں کچھ نیکیاں کماؤں اور اس طرح اگلے جہان کے لئے کچھ زاد راہ فراہم کروں لیکن اس نے یہ نکتہ نہیں سمجھا اور ایسا مال جمع کیا جو فتیح تھا اور سراسر حرام.اس پر بھی اس کی یہ حالت ہے کہ فخر کی وجہ سے ہمارے بندوں سے اپنے آپ کو فائق سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ تم میرے مقابلے میں ذلیل ہو.عربی زبان میں تنوین کے تیسرے معنی تعظیم کے ہیں.سو اس آیت میں تعظیم کا مفہوم حرام مال جمع کرنے والے کے اپنے نقطہ نگاہ سے ہے، اس لحاظ سے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک شخص جو بہت سا مال جمع کرتا ہے بیوقوفی سے اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھتا ہے.اس کی نگاہ اس طرف نہیں جاتی کہ یہ حرام کا مال ہے اس میں سے دوسروں کا حق ادا نہیں ہوا.وہ اس طرف بھی دھیان نہیں دیتا کہ آخرت کے مقابلے میں یہ بہت ہی قلیل ہے.برخلاف اس کے وہ اسی خیال میں مگن ہے کہ یہ لاکھ یا دو لاکھ روپے بہت بڑے سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں.یہ میرے کام آئے گا اور میں اس سے خوب فائدہ اٹھاؤں گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہو گالا کھ دولاکھ روپیہ بڑا لیکن کیا تم اس دنیا میں ہی نہیں دیکھتے کہ آج جو امیر ہے کل وہ دیوالیہ ہو جاتا ہے تو جس چیز کے متعلق یقینی او حتمی طور پر یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ وہ ہمارے کام آئے گی اس پر فخر کرنے کا کیا مطلب !! آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَحْسَبُ اَنَّ مَالَةَ اخْلَدَہ کیا اس کو یہ گمان ہے کہ اس کا مال اس کے لئے اور اس کے خاندان کے لئے دائمی زندگی اور دائمی راحت کا موجب ہوگا.فرماتا ہے گلا نہیں ایسا ہر گز نہیں ہوگا.لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ وہ حُطَمَة میں گرایا جائے گا.وَمَا أَدْريكَ مَا الْحُطَمَة خدا تعالیٰ کہتا ہے ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ حُطَمَة سے مراد کیا ہے؟ نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْدَةِ - إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ - يہ حُطَمَة خدا تعالیٰ کی جلائی ہوئی آگ ہے

Page 135

۱۲۹ جس میں اسے پھینکا جائے گا جو خوب بھڑک رہی ہے اور جس طرح تنور کو چاروں طرف سے بند کر دیا جاتا ہے اور اس کی آگ میں بہت شدت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ دیر تک قائم رہتی ہے یہ آگ بھی اسی طرح ہے.جس چیز کو تم عارضی طور پر باعث فخر سمجھتے ہو اس کے نتیجے میں تمہارے دلوں میں ایک ایسی آگ جلائی جائے گی جو نہ مٹنے والی ہوگی.الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ.کے معنی ہیں جو دلوں کے اندر تک پہنچے گی.اس میں اس طرف اشارہ کیا کہ تم غیبت اور عیب چینی کے مرتکب ہو کر ہمارے بعض مخلص اور مقرب بندوں یا منکسر المزاج بندوں کو طعنے دیتے ہو اور اس طرح ان کے دلوں میں ایک آگ جلانا چاہتے ہو تو یا درکھو اس کے مقابلے میں ہم ایسے حالات پیدا کر دیں گے کہ خود تمہارے اپنے دل میں ایک آگ بھڑک اٹھے گی جو اس قسم کی شدید آگ ہوگی جیسی کہ تنور کے اندر ہوتی ہے اور جو چاروں طرف سے بند ہونے کے باعث خوب شدت کے ساتھ بھڑکتی ہے.وہ آگ تمہیں چین نہیں لینے دے گی.چنانچہ دنیا میں ہمارا مشاہدہ یہی ہے کہ حاسد ہمیشہ حسد کی آگ میں جلتے ہیں اور جومحسود ہوں ، جن کی عیب چینی اور غیبت کی جائے وہ عزت پر عزت حاصل کرتے چلے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں معزز ہی کرتا ہے بشرطیکہ غیبت اور عیب چینی کے مقابلے میں ان کا رد عمل وہ ہو جس کی ان سے اسلام توقع رکھتا ہے.یہ نہ ہو کہ وہ غیبت کے مقابلے میں غیبت شروع کر دیں اور عیب چینی کے مقابلے میں عیب چینی پر اتر آئیں.جس قدر ان کی غیبت اور عیب چینی کی جائے اتنے ہی ان کے دل میں خشیت اور تقویٰ کے خیالات پیدا ہوں.اتنے ہی وہ اپنے غلطی خوردہ بھائی کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہوں.اس کے لئے دعائیں کرتے ہوں.علیحدگی میں اس کو سمجھاتے ہوں.الغرض جو اس کی عزت کو خاک میں ملانے کے درپے ہیں وہ ان کی عزت کے پاسبان ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے محسودلوگوں کی عزت بلند کرتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت بٹھاتا ہے اور وہ معزز ہی ہوتے چلے جاتے ہیں.برخلاف اس کے حسد کرنے والے اور غیبت اور عیب چینی کے مرتکب ہونے والے اندر ہی اندر آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور وہ آگ بھڑکتی ہی چلی جاتی ہے ختم ہونے میں نہیں آتی.اس طرح وہ ایک نہ ختم ہونے والی اذیت میں مبتلا رہتے ہیں.

Page 136

ان آیات میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے نہایت زور دار پیرائے اور نہایت درجہ پر اثر انداز بیان میں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمیں ہرگز کسی انسان کی غیبت کرنے یا عیب چینی کرنے کی اجازت نہیں ہے.یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ تخصیص نہیں فرمائی کہ کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان کی غیبت یا عیب چینی نہیں کرنی چاہیے بلکہ جو اسلام کے پیرو ہیں ہدایت یہ کی گئی ہے کہ کسی انسان کی بھی خواہ وہ مسلمان ہو، ہندو ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو، زرتشتی ہو چتی کہ خدا کا منکر اور دہر یہ ہو، الغرض کوئی ہو کسی فرد بشر کی بھی غیبت نہیں کرنی اور اس کے بارہ میں کسی قسم کی بھی عیب چینی کا مرتکب نہیں ہونا.اس بارہ میں تم دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اپنے اعمال کی درستی کی طرف متوجہ رہو اور نیک اعمال بجالا کر آخرت کے لئے زاد راہ فراہم کرنے کی فکر میں لگے رہو.اگر کسی کے اندر کوئی نقص دیکھو تو قرآن اور حدیث میں بیان کردہ طریق کے مطابق احسن طریق پر اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کرو.کسی دوسرے کے نقص کو دیکھ کر تمہارے اندر فخر کے جذبات کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں؟ یہ تو ہے ہی نامعقول بات.کسی کا نیچا ہونا تمہاری بلندی کا معیار کیسے بن سکتا ہے؟ تمہاری اپنی بلندی کا معیار تو تمہارے اپنے کردار کی بلندی ہے، تمہارے تقویٰ کی بلندی ہے، تمہارے اندر خشیت کے جذبے کی بلندی ہے، اسلام کے تمام احکام پر عمل پیرا ہو کر احسن تقویم پر فائز ہونے کی بلندی ہے.تمہیں تو کہنا یہ چاہیے کہ کسی دوسرے کا عیب میرے حسن کی طرف اشارہ نہیں کرتا.میراحسن اگر نمایاں ہوگا تو خودا پنی باطنی خوبی کی وجہ سے نمایاں ہوگا.کیسی پیاری تعلیم ہے اور کیسی پر حکمت ہیں اس کی تفصیلات ! لیکن اب دنیا اسلام سے اس قدر دور جا پڑی ہے کہ لوگوں کی اس طرف توجہ نہیں.بعض اوقات لوگ اس قسم کی باتوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے حالانکہ اسلام کی واضح تعلیم کی رو سے ایسی باتیں کرنا معصیت میں داخل ہے.یہ دیکھ کر میرے دل میں درد پیدا ہوا کہ میں اپنے دوستوں، بھائیوں اور بزرگوں کی خدمت میں عرض کروں کہ ہم کو اسلام نے ان چیزوں سے بڑی تختی کے ساتھ منع کیا ہے.ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہم کبھی کسی کی غیبت نہ کریں ، عیب چینی کے مرتکب نہ ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ

Page 137

۱۳۱ بنصرہ العزیز نے اپنے بچوں کی آمین کے طور پر ایک نظم لکھی ہے جو کلام محمود میں چھپی ہوئی ہے اس کا ایک شعر مجھے بہت پیارا لگتا ہے اور وہ یہ ہے.برائی دشمن کی بھی نہ چاہیں ہمیشہ خیر ہی دیکھیں نگاہیں یعنی خدایا میرے بچوں کو ایسا بنا کہ ان کی نگاہ کسی کے عیب پر کبھی نہ جائے ، ہمیشہ دوسروں کی خوبی ان کے سامنے آئے.یہ بڑی ہی پیاری تعلیم ہے.اس تعلیم کو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے.جب ہمیشہ اپنے بھائیوں کی خوبیوں پر ہی ہماری نظر پڑے گی تو ہمارے اپنے اندر بھی وہ خوبیاں پیدا کرنے کا جذ بہ ابھرے گا.اس طرح ہمارے بھائیوں کی خوبیاں ہماری ترقی کا باعث بن جائیں گی.بھائیوں کی عیب چینی کبھی ہماری ترقی کا باعث نہیں بن سکتی.ہاں اُن کی خوبیاں اگر ہم ان کو خوشی اور پسندیدگی کے جذبات سے دیکھیں ہمارے لئے کامیابی اور فلاح کا دروازہ کھول سکتی ہیں.خدا تعالیٰ ہمیں غیبت اور عیب چینی کی بد عادتوں سے بچائے اور ہمیں دوسروں کی خوبیاں دیکھ کر خود اپنے اندروہی خوبیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین (ماہنامہ انصار اللہ جنوری ۱۹۶۱ء صفحه ۲۵ تا ۳۳) ☆☆

Page 138

۱۳۲ گھر کی حرمت حرمت کعبہ کے ساتھ ساتھ اسلام نے ہر گھر کو ایک حرمت عطا کی ہے.انسان کا گھر ایک قلعہ ہے جس پر خدائی احکام کے پہرہ دار پہرہ دے رہے ہیں.اسلام نے اس طرح امیر وغریب کے ایک اور غلط فرق کو مٹا دیا ہے.مگر کام کی ان باتوں کو ہم اکثر بھول جاتے ہیں حالانکہ ان کے بغیر ہم اُن مکارم اخلاق کے حامل نہیں ہو سکتے جنہیں اسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے.نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری بعثت کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ میں اخلاق اور آداب کی تعمیل کروں.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کو کبھی فراموش نہ کریں، ہمیشہ اس پر عمل پیرا ہوں تا دنیا ہمیں ایک مہذب ترین عاشق رسول ہی کی حیثیت سے دیکھے اور پہچانے.(1) پہلا حکم یہ دیا کہ دوسروں کے گھروں میں اپنا تعارف کرائے اور گھر والوں کی اجازت حاصل کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو کہ اس سے بہت سے دنیوی فسادات اور جھگڑے مٹ جائیں گے اور انسان بہت سے ایسے مواقع سے بچ جائے گا جن کی وجہ سے وہ انتہام کا نشانہ بن سکتا ہو کہ یہ چوری یا بدنظری کی غرض سے آیا ہے.نیز بہت سوں کو بدظنی کے مواقع سے بچائے گا اور آپس کے تعلقات میں کشیدگی پیدا نہ ہوگی.(۲) اجازت کا یہ طریق بتایا کہ اپنا تعارف کراتے ہوئے گھر والوں کو سلام کر وا گر وہ سلام سن کر اور تمہیں پہچاننے کے بعد اندر آنے کی اجازت دے دیں تو ان کے گھروں میں جاؤ ورنہ واپس لوٹ آؤ.احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ سلام کہنا ضروری ہے، دروازہ کھٹکٹا نایا گھروں کو آواز دینا کافی نہیں.احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اگر پہلے سلام پر جواب نہ ملے تو وقفہ وقفہ کے بعد تین دفعہ سلام کہنا چاہیے اور اگر پھر بھی جواب نہ ملے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ گھر والے کسی کام میں ایسے مشغول ہیں کہ سلام

Page 139

۱۳۳ کی آواز ان کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی.پس تمہیں چاہیے کہ اس صورت میں دوسروں کے کاموں میں حارج نہ ہو اور واپس چلے آؤ، یہ نہیں کہ پھر بیسیوں سلاموں کی بھر مار کر دو کیونکہ تمہارے معاشرہ کی اسی میں بھلائی ہے اور نیکی کی یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی مل کر تزکیہ نفس کیا کرتی ہیں.(۳) اگر تمہار اسلام سن کر صاحب خانہ یہ جواب دے کہ اس وقت فرصت نہیں ، ملنے سے معذور ہوں تو تمہیں چاہیے کہ تم واپس چلے جاؤ اور ملاقات پر اصرار نہ کرو اور دھرنا مارکر نہ بیٹھ جاؤ کہ ہم تو ملاقات کر کے ہی جائیں گے صاحب خانہ کا یہ جواب اسلام کی نگاہ میں کوئی بداخلاقی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر کا مالک ہے اور اپنے حالات اور مشاغل کو خوب جانتا ہے.اور تم نہیں جانتے کہ وہ کس قدر ضروری کاموں میں مصروف ہے.البتہ اگر تم ملاقات کے لئے دھرنا مار کر بیٹھ جاؤ گے تو یہ تمہاری پاکیزگی اخلاق کے خلاف ہوگا اور بداخلاقی کا ایک معیوب مظاہرہ اس نکتہ کو نہ سمجھتے ہوئے ہم نے بہتوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ”جی فلاں شخص بہت ہی بداخلاق ہے ہم اس کی ملاقات کو اس کے گھر گئے مگر اس نے ملنے سے انکار کر دیا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تو بداخلاق نہیں البتہ تمہاری ذہنیت بداخلاقی کی غمازی کر رہی ہے.(۴) اگر صاحب خانہ گھر پر موجود نہ ہو تو گھر والوں کی غیر حاضری میں ان کے گھر میں نہ جاؤ اور مواقع اتہام سے بچو اور مواقع سوءظن سے دوسروں کو بچاؤ ،سوائے اس کے کہ گہرے تعلقات کی بنا پر یا کام کی اہمیت کے پیش نظر صاحب خانہ نے تمہیں پہلے سے اپنی غیر موجودگی میں اپنے گھر میں انتظار کرنے کی اجازت دی ہو.(۵) اگر کوئی گھر مستقل یا عارضی طور پر غیر آباد ہو اور وہاں کسی کی سکونت نہ ہو تو ایسے گھروں میں بھی مالک کی اجازت کے بغیر مت داخل ہو کہ تمہارا یہ عل بھی بعض معاشرتی الجھنوں کا باعث بن سکتا ہے.(1) اگر گھر غیر آباد ہوں مگر عملاً تمہارے قبضہ میں ہوں اور اُن میں تمہارا کوئی سامان پڑا ہو تو ایسے گھروں میں خود اپنی ہی مرضی سے جاسکتے ہو مگر یہ کبھی نہ بھولنا کہ تمہارے ظاہر و باطن کو خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور یہ پابندیاں تمہیں تکلیف میں ڈالنے کے لئے نہیں لگائی گئیں.یہ ہدا یتیں تو اس

Page 140

۱۳۴ لئے دی گئی ہیں کہ اپنے معاشرہ میں تم احتیاطی تدابیر اختیار کرو اور معاشرہ کی ہر قسم کی الجھنوں سے محفوظ رہو.(۷) گھروں پر بیرونی پہرہ کے علاوہ اندرونی پہرہ دار بھی مقرر کئے گئے ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا کہ تمہارے نوکر اور وہ نابالغ بچے جو تمہارے ساتھ ہی تمہارے گھروں میں رہتے ہیں اُن کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ تین وقتوں میں تمہارے کمروں میں بلا اجازت نہ آیا کریں یعنی اول نماز فجر سے پہلے ، دوم بعد دو پہر جو تمہارے قیلولہ کا وقت ہوتا ہے اور جب تم شب خوابی کے لباس میں ہوتے ہو اور سوم نما ز عشاء کے بعد کیونکہ یہ تمہارے اندرونی پردہ کے اوقات ہیں.ہاں ان اوقات کے علاوہ نوکر چا کر اور گھروں میں رہنے والے بچے اجازت کے بغیر تمہارے کمروں میں آئیں جائیں تو کوئی حرج نہیں.ان احکام میں اس طرف بھی اشارہ کیا کہ غفلت کے اوقات میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا مومن کے فرائض میں سے ہے.مومن پر کسی وقت بھی کلی غفلت طاری نہیں ہوتی اسی وجہ سے شیطان ہمیشہ اس سے مایوس رہتا ہے.(۸) یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تمہارے رشتہ دار اور تمہارے دوست وغیرہ ہی نہیں بلکہ خود تمہارے بچے بھی جب بڑے ہو جائیں اور اپنے گھر آباد کر لیں تو ان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ پہلے بتائے ہوئے احکام کی پابندی کریں.دیکھو کس طرح خدا تعالیٰ نے ہماری چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھا ہے اور ہمارے گھروں پر اپنے احکام کے پہرے کھڑے کر دیئے ہیں تا ہمیں کوئی تکلیف نہ پہنچے.ان باتوں کو دیکھ کر دل سے بے اختیار خدا کی حمد نکلتی ہے اور ہمارا رواں رواں اس کے شکر سے بھر جاتا ہے اور ہمارا ذرہ ذرہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الْحَمْدُ لِلہ کی صدا بلند کرنے لگتا ہے.اے خدا تو ہم ناچیز بندوں کے اس ترانہ حمد کو قبول فرما اور اپنی رحمتوں سے ہمیں نواز.آمین (ماہنامہ انصار اللہ مارچ ۱۹۶۱ء صفحه ۲۶،۲۵) ☆☆

Page 141

۱۳۵ کھانا پینا اسلام بڑا ہی پیارا مذہب ہے.اس نے ہمارے دنیوی کاموں کو بھی اگر ہم اس کے بتائے ہوئے احکام پر چلیں ، مذہبی رنگ دے دیا اور ثواب کا موجب ٹھہرایا ہے.انسانی زندگی کا مقصود خدا کی عبادت اور اس کی رضا کا حصول ہے جس کیلئے صحیح تعلیم کا جاننا اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے اور حصول علم کے لئے جو محنت کرنی پڑتی ہے اور اعمال صالحہ بجالانے پر انسانی جسم کو جو مشقت اٹھانی پڑتی ہے.اس کے لئے جسمانی قوت و توانائی ضروری ہے.نہیں تو پھر مسیح کی طرح یہ کہنا پڑے گا کہ روح تو چاہتی ہے مگر جسم برداشت نہیں کرتا.اب جسم کی صحت و سلامتی کا انحصار بہت سی چیزوں پر ہے جن میں سے ایک کھانا پینا ہے.اسی لئے بعض صلحائے امت کا یہ قول مشہور ہے کہ کھانا بھی مذہب کا ایک جزو ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا (المومنون: ۵۲) یعنی صاف اور ستھری اور میزان میں پوری اترنے والی (balanced) غذائیں کھاؤ تا بشاشت سے اعمال صالحہ بجالا سکو اور علم و عمل کے میدان میں تمہاری کوششیں ان تھک ہوں.پس جس کھانے میں نیت رضائے الہی ہو وہ چوپایوں کا کھانا نہیں ہوسکتا اور خدا کے لئے کھانا وہ کھانا ہے جس میں شرع کے بتائے ہوئے احکام اور دین کے سمجھائے ہوئے آداب ملحوظ ہوں.آؤ دیکھیں یہ آداب کیا ہیں :.(1) صرف حلال ہی نہیں بلکہ طیب کھانا کھاؤ.جس کے کمانے ، پکانے اور کھانے میں مکروہات میں سے کوئی چیز شامل نہ ہو اور جو صحت کو قائم رکھنے والا اور ان ضروریات کو پورا کرنے والا ہو جن کا تقاضا جسم موجودہ دور زندگی میں کر رہا ہے.یادرکھنا چاہیے کہ بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی طیبات مختلف ہیں.

Page 142

۱۳۶ (۲) نماز سے پہلے وضو ضروری ہے، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، پس ہاتھوں کو خوب اچھی طرح دھو کر کھاؤ کہ اس سے روح کی پاکیزگی کا تقاضا بھی پورا ہوگا اور جسمانی صحت بھی قائم رہے گی.(۳) اپنے حالات ، عادات، رواج، یا وقتی ضرورت کے ماتحت کھانے کے برتن زمین پر رکھ کر کھاؤ، یا دستر خوان بچھا کر ، یا میز پر مگر اس بات کا خیال رکھو کہ کھانا وقار کے ساتھ چنا جائے اور وقار کے ساتھ کھایا جائے.بے تکلف اور بے ریا.(۴) کھانے پر وقار کے ساتھ بیٹھو.لیٹ کر یا خدا تعالیٰ کی ان نعمتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کھانا نہ کھاؤ.(۵) زبان کے چسکے کے لئے نہ کھاؤ، تقویٰ کی نیت سے اور اس ارادہ سے کھانا کھاؤ کہ کھانے سے ہمارے جسم میں قوت پیدا ہوگی اور نیک اعمال بجالانے میں سہولت.اگر اس نیت سے کھاؤ گے تو ضرورت کے مطابق کھاؤ گے، ضرورت سے زیادہ نہ کھاؤ گے.جب کھانا برائے کھانا نہ ہوگا تو پھر جب بھوک لگے گی کھاؤ گے اور اتنا نہ کھاؤ گے کہ بد ہضمی ہو جائے.(۶) جو کھانا بھی چنا جائے اسے خوشی سے کھاؤ اور اسی سے لذت اور قوت حاصل کرو اور اچھے کھانوں کے حریص نہ ہو اور جہاں تک ہو سکے دوسروں کو کھانے میں شامل کرو کہ ہمارے پیارے رسول نے فرمایا ہے کہ اگر بہت سے مل کر کھائیں تو خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالتا ہے.نیز فرمایا کہ اچھا کھانا تو وہی ہے کہ جسے بہت سے لوگ مل کر کھائیں خواہ وہ گھر والے ہی کیوں نہ ہوں.ہم نے دیکھا ہے کہ بعض گھروں میں باپ یا ماں اچھے اچھے کھانے اپنے لئے چھپا کر رکھ لیتے ہیں اور بچوں کو دکھاتے تک نہیں.اسلام اسے پسند نہیں کرتا.(۷) کھانا شروع کرنے سے پہلے اونچی آواز میں بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پڑھو اور کھانا ختم کرنے پر اونچی زبان سے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ کہو.اور کھانے کے دوران نیکی کی باتیں اور خدا تعالیٰ کے حمد اور شکر کے تذکرے کرتے رہوتا کھانے کے ساتھ ساتھ خدا کی حمد بھی تمہارے جسموں کا جزو بن جائے اور تمہاری نسلیں بھی اس کی وارث ہوں.

Page 143

۱۳۷ (۸) دائیں ہاتھ سے کھاؤ تا تمہارا حساب بھی تمہیں دائیں ہاتھ میں ملے.کھانے کو نمکین چیز سے شروع کرو.( عام طور پر ) اور اگر آخر پر میٹھا بھی کھاؤ تو بعد میں منہ نمکین کر لیا کرو.(۹) چھوٹے چھوٹے لقے لو اور انہیں خوب اچھی طرح چباؤ کہ اس طرح تھوڑے کھانے سے جسم زیادہ قوت حاصل کرے گا اور جب تک ایک لقمہ اچھی طرح چبا کر کھا نہ لو دوسرا لقمہ منہ میں نہ ڈالو کہ یہ بات وقار کے بھی خلاف ہے اور صحت کے لئے بھی مضر.(۱۰) کسی کھانے کی مذمت نہ کرو.جو چیز مرغوب ہے اور طبیعت کے موافق ہے اسے کھالو اور جو طبیعت کے موافق نہیں اسے نہ کھاؤ مگر مذمت نہ کرو کہ یہ بات بھی تکبر کا ایک پہلو لئے ہوئے ہے کہ جو چیز میری طبیعت کے موافق نہیں مگر دوسروں کی طبیعت کے موافق ہے وہ گھٹیا اور بُری ہے.انانیت کا یہ مظاہرہ ہمارے خدا کو پسند نہیں.(۱۱) اپنے سامنے سے کھاؤ، بے وقری اور حرص کے ساتھ رکابی میں ادھر اُدھر ہاتھ نہ مارو.(۱۲) کھانا اس طرح نہ کھاؤ کہ اس کا کچھ حصہ ضائع ہو جائے جس طرح کہ آج کی مہذب دنیا کر رہی ہے کہ یہ بھی کفران نعمت ہے.(۱۳) ہاتھ سے کھاؤ یا چھری کانٹے سے کھاؤ مگر تکلف سے پر ہیز کر واور کسی ایک طریق کو اپنی بڑائی کا معیار یا دوسرے کی حقارت کی وجہ نہ بناؤ.(۱۴) کھانے میں پھونک نہ مارو کہ ایک تو اس سے دوسروں کو کراہت پیدا ہوگی.دوسرے خود تمہاری صحت پر بھی اس کا بُرا اثر پڑے گا.اسی طرح منہ سے کوئی چیز نکال کے کھانے کی رکابی میں نہ رکھو کہ اس سے بھی رسول اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے.(۱۵) کھانے کے دوران میں زیادہ پانی نہ پیو، البتہ کچھ پانی پینا صحت ہاضمہ کے لئے ضروری ہے.(ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل ۱۹۶۱ء صفحہ ۲۷ تا ۲۹) (بقیہ مضمون میسر نہیں ہوسکا) ☆☆

Page 144

۱۳۸ بعثت مامورین کی غرض اور انصار اللہ مورخہ ۲۴٫۲۳ اکتوبر ۱۹۶۱ء کو احمد یہ ہال کراچی میں مجالس انصاراللہ کراچی سابق سندھ، بلوچستان و کراچی کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا تھا.اس موقع پر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے اجتماع میں شامل جملہ انصار کے نام جو ایمان افروز پیغام ارسال فرمایا وہ انصار اللہ کے لئے ان کے اہم اور بنیادی فرائض کی یاددہانی کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے لہذا افادہ عام کی غرض سے پیغام کا مکمل متن ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے.یہ پیغام اجتماع میں مکرم شیخ محبوب عالم صاحب خالد قائد عمومی مجلس مرکز یہ نے پڑھ کر سنایا تھا.(ادارہ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ احباب کرام! السّلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے افسوس ہے کہ اس اجتماع میں شریک ہونے کی خواہش اور کوشش کے باوجود میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہو سکا.کچھ عرصہ سے میری صحت ٹھیک نہیں، پھر بھی میرا ارادہ تھا کہ میں مرکزی مصروفیات کے باوجود اس تقریب میں خود شریک ہوتا.مگر عین آخری وقت میں حضرت نواب عبداللہ خان صاحب کی وفات اس ارادہ کی تکمیل میں حائل ہو گئی.میں نے فون پر مکرم چوہدری احمد مختار صاحب سے بھی اس خدشہ کا اظہار کر دیا تھا کہ شاید اس کی وجہ سے میں اس اجتماع میں شریک نہ ہوسکوں.

Page 145

۱۳۹ دوستوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہیے کہ مامورین کی بعثت کی اصل غرض تزکیہ نفس ہوتی ہے یعنی دلوں کی صفائی.تا ان میں خدا بس جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی مقصد کے لئے تشریف لائے تھے.حضور علیہ السلام نے فرمایا.میں نہیں چاہتا کہ چند الفا ظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رٹ لئے جائیں.اس سے کچھ فائدہ نہیں.تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے.ہماری یہ غرض ہر گز نہیں کہ میچ کی وفات حیات پر جھگڑے اور مباحثے کرتے پھرو.یہ ایک ادنی سی بات ہے.ہمارا کام اور ہماری غرض ابھی اِس سے بہت دور ہے.اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ.اس لئے ہر ایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ میں اور ہوں“.( ملفوظات جلد دوم صفحه ۷۲-۷۳ ) خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور انصار اللہ کے قیام کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ تا ہر مجلس مخصوص طور پر اپنے اراکین میں یہی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرے.انصار اللہ کی طرح خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی اپنی جگہ اس مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہیں.مگر جماعت احمد یہ میں انصار اللہ کو جو مقام حاصل ہے اس کی وجہ سے انصار پر ان سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ سب کی نظریں ان پر ہیں.انصار کا طریق عمل خدام واطفال کے لئے نمونہ کا کام دیتا ہے.اس لئے میں اپنے انصار بھائیوں سے عرض کروں گا کہ وہ ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں اور نماز باجماعت ادا کرنے ، قرآن مجید کے معارف سیکھنے، تقویٰ، راستبازی اور دیگر اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے اور سلسلہ کی مالی تحریکات اور دوسرے نیک کاموں میں حصہ لینے کی ایک دوسرے سے بڑھ کر کوشش کریں اور اس طرح اپنے اندر ایسی نیک تبدیلی کر لیں کہ خدام و اطفال تو الگ رہے دنیا کی دوسری قومیں بھی ان سے نیک اثر قبول کریں.مگر اس کے لئے بہت زیادہ توجہ ، بہت زیادہ احتیاط، اور بہت زیادہ

Page 146

۱۴۰ محاسبہ نفس کی ضرورت ہے.جب ہم اپنے اندر یہ رنگ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو دنیا خود اس امر کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائے گی کہ ایک زندہ اور فعال جماعت یہ ہے.اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے اور ہمارے دلوں کو دھو دے تا وہ خودان میں جلوہ گر ہو جائے.آمین بالآخرمیں دوبارہ پھر معذرت خواہ ہوں.آپ سب محبت سے اور ایثار کر کے اور تکلیف اور مشقت اٹھا کر چاروں طرف سے جمع ہوئے ہیں.میری دلی خواہش بھی یہی تھی کہ میں آپ کی اس مجلس میں حاضر ہوتا، آپ سے ملتا، کچھ سنتا اور کچھ سنا تا، مگر حالات نے مجبور کر دیا جس کا مجھے دلی صدمہ ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی توفیق عطا فرمادے کہ پھر کسی موقعہ پر ہماری یہ دلی خواہش پوری ہو.آمین فقط آپ کا بھائی مرزا ناصر احمد صدر انصار اللہ مرکزیہ ۲۰ ستمبر ۱۹۶۱ء (ماہنامہ انصار اللہ اکتوبر ۱۹۶۱ ء صفحہ ۱۶، ۱۷) ☆☆

Page 147

۱۴۱ اواخر ۱۸۹۹ء کے بعد تین سال کے اندر ظاہر ہونے والے نشانات خدائے ذوالجلال قادر وقدوس حتی وقیوم نے اپنے بندے کی تضرعات کو سنا اور اس کی دعاؤں کو بپا یہ قبولیت جگہ بخشی اور اس تین سال کے عرصہ میں جو یکم جنوری ۱۹۰۰ء سے شروع ہو کر ۳۱ دسمبر ۱۹۰۲ء کو ختم ہوتا ہے اپنے عاشق محمد ﷺ کے فدائی اور اسلام کے سچے خادم کی صداقت پر گواہی دینے کے لئے ایک نہیں بلکہ بیسیوں ایسے نشان دکھلائے جو انسانی ہاتھ سے بالا تھے اور جن کی نظیر کوئی انسان پیش نہیں کرسکتا.ان سب نشانات کا ذکر اس مختصر سے نوٹ میں نہیں کیا جاسکتا.تفصیل کے لئے دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان تین سالوں کے الہامات کا مطالعہ کریں اور جو اشتہارات اور کتب اس زمانہ میں آپ نے لکھیں اور جو کلمات طیبہ اس تین سال کے عرصہ میں آپ کی زبانِ مبارک سے نکلے ان کو تدبر سے پڑھیں.اس مختصر سے نوٹ میں میں صرف چند ایک نشانات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اس قدرشان و شوکت کے حامل اور خدائے قادر کی قدرتوں کو اس طور پر ظاہر کرنے والے ہیں کہ ان میں سے ایک ایک نشان کسی مدعی کی صداقت کے لئے کافی وشافی ہے، اگر آنکھ بلینا اور دل نور روحانیت سے منو رہو.(۱) اراپریل ۱۹۰۰ء عیدالاضحی کا دن تھا دو ایک روز قبل سے ہی حضور علیہ السلام خاص دعاؤں اور خصوصی مجاہدہ میں مشغول تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو (جو ایک گاؤں کے رہنے والے تھے جس کے ماحول میں عربی تو کجا اردو زبان بھی بولی اور کبھی نہ جاتی تھی.آپ کی ساری عمر ایسے حالات میں سے

Page 148

۱۴۲ گزری تھی کہ کبھی آپ کو عربی بولنے کی مشق کا موقعہ نہ ملا تھا ) ارشاد فرمایا کہ عربی میں تقریر کرو.خدا تعالیٰ نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے بھی دل میں ڈالا کہ حضور سے عرض کریں کہ حضور عید الاضحیٰ کے موقعہ پر تقریر فرماویں.حضور نے یہ عرض قبول کی اور فرمایا کہ مجھے عربی میں تقریر کرنے کا حکم ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا ہے کہ عربی کی اس تقریر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے اور یہ ایک ایسا کلام ہوگا کہ انسانی فصاحت اس کا مقابلہ نہ کر سکے گی.کیونکہ خدا نے فرمایا که كَلامٌ أَفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنُ رَبِّ كَرِيمٍ آپ کی دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ ایک ایسا علمی معجزہ عطا فر مایا کہ کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.حضور فرماتے ہیں: تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی.ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر الہام الہی کے بیان کر سکے.جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام ”خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو کے قریب ہوگی.سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ نکل رہا تھا.مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا.کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا.خود بخود بنے ہوئے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے.اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا....یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا“.(حقیقۃ الوحی صفحه ۳۶۲-۳۶۳.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۷۶) خطبہ الہامیہ جو کتابی صورت میں چھپا ہوا ہے اس کا پہلا باب یعنی پہلے ۳۸ صفح الہامی ہیں.

Page 149

۱۴۳ بقیہ دو باب حضور نے بعد میں ایزا د فرمائے.(۲) اس عرصہ میں دوسرا علمی معجزہ اللہ تعالیٰ نے یہ عطا فر مایا کہ ان مخالف علماء کے مقابلہ میں جو حضور کو جاہل اور کم علم قرار دیتے تھے اور جو کہتے تھے کہ ایسا شخص جو عربی زبان سے نابلد ہے اور قرآنی حقائق و معارف سے بے بہرہ ہے اصلاح خلائق کے لئے کس طرح بھیجا جا سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے جواب دیا کہ میرا یہ بندہ عالم ہے یا جاہل اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جبکہ میں سب علوم پر حاوی ہوں اور قرآنی علوم کی کنہ کو جاننے والا اور سکھانے والا ہوں.میں خود اپنے اس بندے کو فصیح و بلیغ عربی بھی سکھاؤں گا اور قرآنی حقائق و معارف بھی بتاؤں گا اور تم اس کا مقابلہ نہیں کر سکو گے.کیونکہ وہ مجھ سے سیکھتا، مجھ سے بولتا اور مجھ سے لکھتا ہے اور تم محض اپنی ناقص عقلوں سے کام لے رہے ہو.چنانچہ آپ نے فصیح و بلیغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی ایک تغیر لکھی.جس میں اس سورۃ کے معارف اور حقائق بیان کئے اور اسی سورۃ سے اپنے دعوی کو بھی ثابت کیا.اس تفسیر کو اعـجـاز المسیح “ کے نام سے ۲۰ فروری ۱۹۰۱ ء کو شائع کیا اور اس کے ٹائٹل پیج پر بڑی تحدی کے ساتھ ساری دنیا کے علماء اور فصحاء کو یہ ایک الہامی چیلنج دیا کہ:.فَإِنَّهُ كِتَابٌ لَيْسَ لَهُ جَوَابٌ فَمَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَتَنَمَّرَ فَسَوْفَ يَرَى أَنَّهُ تَنَدَّمَ وَتَدَمَّرَ “ یعنی ”یہ ایسی کتاب ہے کہ کوئی شخص اس کا جواب لکھنے پر قادر نہیں ہو سکے گا اور جس شخص نے بھی اس کتاب کا جواب لکھنے پر کمر باندھی اور تیاری شروع کی وہ 66 سخت نادم اور ذلیل ہوگا“.حضور علیہ السلام اپنی اس تصنیف کے متعلق فرماتے ہیں:.میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کی کہ اس کتاب (اعجاز مسیح کو علماء کے لئے معجزہ بنادے اور یہ کہ کوئی ادیب اس کی مثل نہ لا سکے.اور انہیں اس کے انشاء کی توفیق ہی نہ ملے اور میری دعا اُسی رات خدا تعالیٰ کی جناب میں قبول ہو گئی.اور میں نے ایک مبشر خواب دیکھی اور میرے رب نے مجھے یہ بشارت دی اور فرمایا.مَنَعَهُ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَاءِ -

Page 150

ママ یعنی جو مقابل پر آئے گا اس کو آسمانی روکوں کے ساتھ مقابلہ سے روک دیا جائے گا.تو میں سمجھ گیا کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دشمن لوگ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے اور نہ ہی اس جیسی بلاغت اور فصاحت یا حقائق و معارف کا نمونہ دکھا سکیں گے اور یہ بشارت مجھے رمضان شریف کے آخری عشرے میں ملی تھی.اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۹،۶۸) یہ ایک زبر دست اور انسانی ہاتھوں سے بالاعلمی نشان ہے جس کی نظیر آج تک کوئی نہیں لایا اور قیامت تک اس کی نظیر کوئی نہیں لا سکے گا.اللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ - (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۳ تا ۱۵) (بقیہ مضمون میسر نہیں ہوسکا) ☆

Page 151

۱۴۵ ماہنامہ انصار اللہ “ دوسرے سال میں احباب خریداری بڑھانے کی ہر ممکن کوشش فرمائیں ماہنامہ انصار اللہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی عمر کا ایک سال کامیابی کے ساتھ پورا کر چکا ہے چنانچہ نومبر ۱۹۶۱ء میں دوسرے سال کا پہلا شمارہ شائع ہوا جو احباب کے پاس پہنچ چکا ہے.انصار اللہ کے گزشتہ سالانہ اجتماع میں شامل ہونے والے نمائندگان مجالس نے ایک قرارداد میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ انشاء اللہ جلد ہی ماہنامہ انصار اللہ کی اشاعت دو ہزار تک پہنچادیں گے.امید ہے احباب اس وقت حسب وعدہ ماہنامہ کی اشاعت بڑھانے اور نئے خریدار پیدا کرنے کے لئے جدو جہد میں مصروف ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت دے اور اس نیک کام میں ہمارے ساتھ تعاون کے لئے انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرمائے.آمین جن خریدار اصحاب کا چندہ ماہنامہ انصار اللہ اکتوبر نومبر میں ختم ہو چکا ہے یا دسمبر میں ختم ہورہا ہے ان کی اطلاع کے لئے فرداً فرداً ان کی خدمت میں خطوط روانہ کر دیئے گئے ہیں.ان اصحاب سے توقع ہے کہ وہ نئے سال کے لئے ماہنامہ کا چندہ ہمیں انشاء اللہ جلد بھجوا دیں گے تانئے سال کے آغاز میں ماہنامہ کو مالی دشواریوں کا سامنا نہ ہو.ماہنامہ انصار اللہ ایک بلند پایہ تربیتی رسالہ ہے جسے ہر احمدی گھرانے میں موجود ہونا چاہیے.یہ رسالہ اصل لاگت سے کم قیمت پر دیا جا رہا ہے تاہر ایک دوست اسے آسانی کے ساتھ خرید سکے.اس اعلان کے ذریعہ میں احباب جماعت میں پر زور تحریک کرتا ہوں کہ وہ از راہ کرم ماہنامہ انصار الله کی خریداری بڑھانے کی ہر ممکن کوشش فرمائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.آمین امراء جماعت و پریذیڈنٹ اصحاب نیز عہدیداران مجالس اس امر کے طرف از راہ کرم خصوصی صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ (ماہنامہ انصار اللہ دسمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۲۶) توجہ فرمائیں.

Page 152

۱۴۶ معارف و حقائق کی دولت مجالس انصار اللہ ضلع نواب شاہ کا پہلا سالانہ اجتماع مورخه ۱۷ و ۱۸ مارچ ۱۹۶۲ء محراب پور میں منعقد ہوا تھا اس موقع پر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب ناظم اعلی مجالس انصار اللہ سابق سندھ و بلوچستان کی درخواست پر انصار اللہ کے نام جو بیش قیمت پیغام ارسال فرمایا اور جو اجتماع کے افتتاحی اجلاس میں پڑھا گیا وہ افار باب کی غرض سے ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے.(ادارہ) برادران! اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ گزشتہ سے پیوستہ سال بھی میں باندھی کے اجتماع میں شریک ہونے سے قاصر رہا اور ناظم اعلیٰ مجالس انصار اللہ سابق سندھ و بلوچستان کے پیہم اصرار کے باوجود اس سال بھی میں مجلس مشاورت کے قرب اور دیگر مرکزی مصروفیات کی وجہ سے آپ کے اس اجتماع میں شریک نہیں ہورہا جس کا مجھے افسوس ہے.مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب قائد اصلاح و ارشاد مجلس انصار اللہ مرکزیہ کو اس اجتماع میں شرکت کے لئے بطور نمائندہ بھجوا رہا ہوں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کامیاب بنائے اور اس میں شریک ہونے والے جملہ احباب اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی محسوس کریں.آمین.ہم ناچیز بندوں پر اللہ تعالے کا بے انتہا کرم ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانہ کے مامور کو پہچاننے کی سعادت بخشی جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ أَبْنَاءِ فَارَسَ کے مطابق دنیا میں اس وقت آیا جبکہ دنیا سے اسلام اٹھ چکا تھا.فرمان نبوی کے مطابق وہ موعود مرسل دنیا میں دوبارہ اسلام لایا اور اس نے ہمیں اپنی بیش بہا تصانیف کے ذریعہ اسلام سے از سر نو روشناس کرایا.علوم سماوی کے ان بیش بہا خزائن کے متعلق حضور فرماتے ہیں:.مجھ کو خدا نے بہت سے معارف اور حقائق بخشے اور اس قدر میری کلام کو معرفت

Page 153

۱۴۷ کے اسرار سے بھر دیا، کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی طرف سے پورا تائید یافتہ نہ ہواس کو یہ نعمت نہیں دی جاتی.نیز فرماتے ہیں: ( انجام آتھم صفحه ۴۹ طبع دوم ) ” مجھے جو دیا گیا وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اور معارف الہی کے خزانے ہیں، جن کو بفضلہ تعالیٰ اس قدر دوں گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے.(ازالہ اوہام صفحہ ۵۶ ۸ طبع اوّل) پس آئیں قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ کے ساتھ ساتھ ان بیش بہا خزائن سے بھی ہم صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں جو دراصل انہیں کی تفسیر ہیں.ہم حضور کی تصانیف کو پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ بار بار اور کثرت سے پڑھیں اور ان معارف و حقائق کی دولت سے مالا مال ہوں جو حضور نے ان میں بیان فرمائے ہیں تاہم ان کی روشنی میں اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہوکر ایک نئی زندگی حاصل کریں (اللهم آمين ) کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ایسا ہی یہ عاجز بھی خالی نہیں آیا بلکہ مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بہت سا آب حیات خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو بھی دیا ہے.بے شک جو شخص اس میں سے پیئے گا زندہ ہو جائے گا.بلاشبہ میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر میرے کلام سے مردے زندہ نہ ہوں اور اندھے آنکھیں نہ کھولیں اور مجزوم صاف نہ ہوں تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے (ازالہ اوہام صفحه ۴ ۱۸ طبع سوم ) نہیں آیا“.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور خدمت دین کی توفیق عطا کر کے اپنی رضا کے عطر سے ممسوح کرے.آمین والسلام دستخط (مرزا ناصر احمد) صدر مجلس انصار اللہ مرکز یہ ربوہ (ماہنامہ انصار الله اپریل ۱۹۶۲ء صفحه ۲۱ ۲۲)

Page 154

۱۴۸ ہماری اہم ذمہ داری اور اس کی ادائیگی کا طریق مجالس انصاراللہ ضلع خیر پور کا دوسرا سالانہ اجتماع کیم و۲ جون ۱۹۶۳ء کو گوٹھ غلام محمد کے مقام پر منعقد ہوا تھا.مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب ناظم اعلی انصار اللہ کی درخواست پر محترم صاحبزاہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ مرکز یہ نے اس اجتماع کے نام جو بصیرت افروز پیغام ارسال فرمایا اس کا مکمل متن افادہ احباب کی غرض سے ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے.(ادارہ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ برادران کرام! السّلام عليكم ورحمة الله وبركاته یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ مجالس انصار اللہ ضلع خیر پورا پنا دوسرا سالانہ اجتماع یکم و۲ جون ۶۳ ء کو گوٹھ غلام محمد کے مقام پر منعقد کر رہی ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو گونا گوں برکات کا حامل بنائے اور یہ جماعت کی ترقی کا موجب ہو.اس اجتماع کے موقعہ پر مکرم قریشی عبدالرحمن صاب ناظم اعلیٰ انصاراللہ نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ انصار اللہ کے نام ایک پیغام بھجواؤں.چنانچہ ان کی خواہش کے احترام میں چند سطور درج ذیل ہیں.اس موقعہ پر میں اپنے انصار بھائیوں سے یہ بھی عرض کروں گا کہ کسی نصیحت کوسُن لینے سے ہی کام نہیں بنتا بلکہ اصلی چیز عمل ہے لہذا اس طرف خاص توجہ دی جائے.

Page 155

۱۴۹ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الـداریـت: ۵۷) یعنی جن وانس کی آفرینش کا مقصد وحدہ لاشریک کی پرستش ہے.خدا تعالیٰ ہر قسم کی طاقت کا مالک ہے وہ قادر مطلق ہے.اگر چاہتا تو ہر انسان کے اندر ایسا مادہ رکھ دیتا جو ہمیشہ انسان کو اسی کی یاد میں محو کئے رکھتا جیسا کہ اس نے فرشتوں کے ساتھ کیا.مگر اُس نے انسان کے ساتھ ایسا نہیں کیا بلکہ اُس نے انسان کے اندر مختلف قسم کی طاقتیں پیدا کر کے اسے اختیار دے دیا کہ خواہ وہ بُرائی کی طرف چلا جائے اور خواہ وہ اپنی اصلاح کر کے نیکی کا راستہ اختیار کرے.گویا وہ انسان کو دونوں قسم کی قو تیں عطا کر کے پھر یہ کہنا چاہتا ہے کہ کون ہے جو مقصدِ حیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مولائے حقیقی کی طرف مائل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے ، وہ صرف اصول مقرر کر کے اور ہمارے لئے راہ ہدی ہی متعین کر کے خاموش نہیں ہور ہا بلکہ اس نے انبیاء کی رسالت سے ہر زمانہ میں اصول ہدایت کی تجدید کا بندوبست کر دیا ہے.نبی یا مصلح دنیا میں آکر لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے، چنانچہ اس کی آواز پر صرف وہی روحیں لبیک کہتی ہیں جو مادہ بد کو مغلوب کر کے مادہ خیر کے تابع ہو جاتی ہیں.اس زمانہ میں جبکہ دنیا اپنی گمراہی اور ضلالت کی انتہا تک پہنچ چکی ہے اُس ارحم الراحمین خدا نے ہم پر اپنا فضل فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا اور ہم کو اس خدائی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دی.لیکن اس کے ساتھ ہی ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوگئی اور وہ ہے اس خدائی آواز کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلا کر بنی نوع انسان کو حلقہ بگوش اسلام بنانے کی ذمہ داری.اس ذمہ داری کی ادائیگی اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ ہم ہر حال میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عزم کر لیں ، مال و دولت کی محبت ، اولاد سے پیار، دنیا کی بے جا آرام طلبی، جھگڑے اور فساد اس راہ میں حائل ہوں گے اور چاہیں گے کہ ہمیں اس راہ سے ہٹا دیں مگر آپ ان چیزوں کو ہرگز خاطر میں نہ لائیں اور اپنے اُس عہد کو پورا کریں جو بیعت کے وقت آپ نے کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ

Page 156

السلام فرماتے ہیں: ۱۵۰ ”دیکھو! دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک تو وہ جو اسلام قبول کر کے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں.شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے.نہیں.صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے.انھوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کردے انہوں نے حاصل کیا یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے.کوئی امران کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا.میرا مطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہو جاتے ہیں گویا دنیا کے پرستار ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ اور قابو پالیتا ہے دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں.یہ وہ گروہ ہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے.مال چونکہ تجارت سے ہی بڑھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيْمٍ (الصف:۱۱) سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے، جو دردناک عذاب سے نجات دیتی ہے.پس میں بھی خدا تعالیٰ کے ان ہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيْمٍ “.(الحکم ۱۷ار جولائی ۱۹۰۲ء) ایک دوسری جگہ حضور فرماتے ہیں: میں پھر کہتا ہوں کہ ست نہ ہو.اللہ تعالیٰ حصول دنیا سے منع نہیں کرتا بلکہ حَسَنَةُ الدُّنْیا کی دعا تعلیم فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان بے دست و پا ہو کر بیٹھ رہے بلکہ اس نے صاف فرمایا ہے لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم: ٤٠) اس لئے مومن کو چاہیے کہ وہ جد و جہد سے کام کرے.لیکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے یہی

Page 157

۱۵۱ کہوں گا کہ دنیا کو مقصود بالذات نہ بنالو دین کو مقصود بالذات ٹھہراؤ اور دنیا اس کے لئے بطور خادم اور مرکب کے ہو“.( ملفوظات جلد ۲ صفحه ۹۲) اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے.آمین.مرزا ناصر احمد صدر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ ۲۲ رمئی ۱۹۶۳ء (ماہنامہ انصار الله ر بوه جون ۱۹۶۳ء صفحه ۲۱ تا ۲۳) ☆☆ ☆☆

Page 158

۱۵۲ حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد اور انصار اللہ کی اہم ذمہ داری محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ نے مورخہ ۲۰ رمئی ۱۹۶۳ ء کو احمدیہ ہال کراچی میں انصار اللہ کے ایک اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ان کی اہم ذمہ داریوں کی طرف نہایت بصیرت افروز پیرائے میں توجہ دلائی تھی.آپ کی اس پر معارف تفصیلی تقریر کا خلاصہ منتظم صاحب عمومی مجلس انصار اللہ کراچی نے اپنے الفاظ میں ہمیں بغرض اشاعت ارسال فرمایا ہے.حضرت میاں صاحب موصوف نے جن امور کی طرف توجہ دلائی ہے اور جو اختصار کے ساتھ اس خلاصہ میں درج کر دیئے گئے ہیں وہ اس قد راہم ہیں کہ ان کا احباب جماعت تک پہنچنا از بس ضروری ہے.لہذا ہم منتظم صاحب عمومی مجلس انصاراللہ کراچی کے شکریہ کے ساتھ یہ خلاصہ ہدیہ قارئین کر رہے ہیں.(ادارہ) اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین جب دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو وہ ایک آسمانی مشن لے کر دنیا میں آتے ہیں.ایک خاص مقصد ان کے سامنے ہوتا ہے جس کی تعمیل کے لئے وہ ایک عظیم الشان جدو جہد کا آغاز کرتے ہیں اور اس وقت تک دم نہیں لیتے جب تک کہ وہ مقصد به تمام و کمال پورانہ ہو جائے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب سید ولد آدم رسول اکرم علیہ انبیائے ماسبق کی پیشگوئیوں کے مطابق ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی کامل ترین شریعت لے کر مبعوث ہوئے تو آپ نے اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے اعلان فرمایا مجھے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں انسانیت کے اس دور جدید

Page 159

۱۵۳ میں سن بلوغ کو پہنچے ہوئے انسانی ذہن کے سامنے ایسا لائحہ عمل رکھوں کہ جو اسے دینی اور دنیوی لحاظ سے ترقی کی معراج تک پہنچانے کا ضامن ہو اور انہیں ان کے مقصد حیات میں کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہو.آپ نے فرمایا اسی لئے مجھے وہ شریعت دی گئی ہے جو ہر لحاظ سے کامل ہے اور جس میں کسی ترمیم یا تنسیخ کی گنجائش نہیں اور اسی لئے یہ قیامت تک جاری رہے گی.خدا تعالیٰ کا یہ بے مثل کلام جو مجھ پر نازل ہوا ہے اور جو قرآن مجید کی شکل میں ہمیشہ ہمیش کے لئے محفوظ کر دیا گیا ہے.حقائق و دقائق اور علوم و معارف سے پُر ہے.اس سے نہ صرف روحانی بیماریاں دور ہو کر روحانی لحاظ سے انسان کو صحت و تندرستی اور قوت و توانائی ملتی ہے بلکہ دنیوی مشکلات اور معاشرہ کی الجھنوں کا علاج بھی اسی میں مضمر ہے.آئندہ روحانی بیماریوں اور معاشرہ کی الجھنوں کو دور کرنے کے سلسلہ میں ذہنی وفکری اور علمی و عملی لحاظ سے جو اشکال بھی پیش آئیں گے انہیں قرآن حل کرتا چلا جائے گا.آپ کے دعوئی سالت اور اس آخری اور کامل شریعت پر جو لوگ ایمان لائے انہوں نے آپ کے دعویٰ کی ہمہ گیر نوعیت اور زمانی و مکانی اعتبار سے اس کی بے انداز وسعت کے عین مطابق اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ ہمارا محض ایمان لے آنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمارا فرض ہے کہ جس طرح آنحضرت ﷺ نے بنی نوع انسان کی روحانی و مادی فلاح کے لئے اپنی جان گداز کر دکھائی ہے اسی طرح ہم بھی اس راہ میں اپنی زندگیاں وقف کر دکھا ئیں اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اپنی عزتیں اور اپنی جانیں قربان کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں.اگر آنحضرت ﷺ کے صحابہ ذاتی فلاح کو ہی کافی سمجھتے تو وہ اپنے گھروں میں بیٹھ رہتے اور اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھال کر آئندہ زندگی کے متعلق مطمئن ہو جاتے.لیکن انہوں نے اسے کافی نہیں سمجھا.وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلى الله ہ صرف ہماری اصلاح اور ہماری فلاح کے لئے ہی تشریف نہیں لائے ہیں.آپ کی بعثت کا مقصد اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ ہے.آپ تمام جہان اور تمام زمانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم صرف اپنی فلاح پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی فلاح کو اپنا طمح نظر بنا ئیں.یہی وجہ ہے وہ آنحضرت ﷺ کے مشن کو کامیاب بنانے کی خاطر اپنا سب کچھ

Page 160

قربان کرنے کو تیار ہو گئے.۱۵۴ اُدھر کفر نے یہ سکیم بنائی کہ کمزور وضعیف اور نحیف و نزار صحابہ کی طرف سے جو خدائی آواز بلند ہوئی ہے اسے طاقت کے بل پر دبا دیا جائے.کفار نے فی الواقعہ اس آواز کو دبانے میں اپنی پوری طاقت صرف کر ڈالی.دوسری طرف صحابہؓ نے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم کر چکے تھے پوری مستعدی، ذمہ داری اور فرض شناسی کا ثبوت دیا.کوئی چیز بھی ان کے اس عزم کے بروئے کار آنے میں روک نہ بن سکی.وہ خدا تعالیٰ کی آواز کو جسے انہوں نے اسی کے حکم سے بلند کیا تھا بلند سے بلند تر کرتے چلے گئے.انہوں نے اس راہ میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا.اُن کی اس قربانی پر خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق وہ عظیم الشان معجزہ ظاہر فرمایا کہ جس پر آج بھی دنیا والے حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہتے.اُس نے جاہ وحشمت رکھنے والی قوموں کے خونخوار اور جابر سرداروں کو مسلمانوں کی ٹوٹی ہوئی زنگ آلود تلواروں سے ہلاک کروا ڈالا اور بہت قلیل عرصہ میں مسلمانوں کو بحر و بر کا مالک بنا دیا.خدا تعالیٰ نہیں چاہتا تھا اور اُس کے منشاء کے مطابق مسلمان بھی اس بات کو گوارا کرنے کے لئے تیار نہ تھے کہ اسلام کے مقابلہ میں کفر کامیاب ہو.وہ بدر کے میدان میں اس یقین کے ساتھ گئے تھے کہ ہم ۳۱۳ کے ۳۱۳ بھی مارے گئے تب بھی اسلام نا کام نہیں ہوگا.ایسی صورت میں خدا ایک اور قوم کو کھڑا کر دے گا وہ کفر کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دے گی.یہی وہ عزم اور یقین تھا جو خدائی نصرت کے ماتحت مسلمانوں کو کامیاب کرتا چلا گیا.صحابہ نے جس والہانہ جذبے کے ساتھ قربانیاں پیش کیں تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.ان کا یہ والہانہ جذبہ ہی تھا جس کے زیر اثر وہ تھوڑے ہوتے ہوئے بھی عظیم لشکروں کے سامنے ڈٹ جاتے تھے اور بالآخر فتح یاب ہو کر ہی واپس لوٹتے تھے.پھر انہی صحابہ میں سے وہ جانباز پیدا ہوئے جو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے.جغرافیائی حدود پھاند کر اور سمندر عبور کر کے وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں پہنچے اور وہاں اسلام کا پیغام پہنچا کر اور مختلف اقوام کو اسلام کی آغوش میں لا کر آنحضرت ﷺ کے مشن کو پورا کیا.

Page 161

۱۵۵ ہمیں بھی خدا تعالیٰ نے ایک مامور کو جسے اس نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مبعوث کیا ہے ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.وہ مامور اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے اور تبلیغ واشاعت کے ذریعے اسے ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے آیا ہے.ہم بھی کسی صورت اس بات پر اکتفا نہیں کر سکتے کہ ہم نے خدا کے مامور کو مان لیا ہے اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر اعمال درست کر لئے ہیں.بے شک یہ بھی ایک اہم فرض ہے اور اس کو ادا کرنا بھی ضروری ہے لیکن جس مامور کو ہم نے مانا ہے اس کی بعثت کی صرف اتنی ہی غرض نہیں ہے.اس کی بعثت کی غرض ساری دنیا کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا کر تمام بنی نوع انسان کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے.انہیں محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں لا کر خدائے واحد کا پرستار بنانا ہے.پس ہمارا کام یہیں ختم نہیں ہو جاتا کہ ہم مامور پر ایمان لا کر اپنی زندگیوں کو اسلامی احکام کے مطابق بنالیں.ہمیں اس سے آگے قدم بڑھا کر ایک بہت بڑی منزل سر کرنی ہے.ہمیں اس مامور کی لائی ہوئی روشنی یعنی حقیقی اسلام کو دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پھیلانا ہے اور دنیا کے چپہ چپہ پر خدا کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے.یہ کام اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بہت عظیم جدوجہد اور عظیم قربانیوں کا متقاضی ہے.ہم اس وقت تک چین سے بیٹھ ہی نہیں سکتے جب تک کہ یہ عظیم مقصد پورا نہ ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بعثت کا مقصد مختصراً ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں.پہلا کام مسیح کا یہ ہے کہ اس کا آنا) مسیح کا آنا اس لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے کہ تا تمام قوموں پر دین اسلام کی سچائی کی حجت پوری کرے تا دنیا کی ساری قوموں پر خدائے تعالیٰ کا الزام وارد ہو جائے.اسی کی طرف اشارہ ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ مسیح کے دم سے کا فر مریں گے.یعنی دلائل بینہ اور براہین قاطعہ کی رو سے وہ ہلاک ہو جائیں گے.دوسرا کام مسیح کا یہ ہے کہ اسلام کو غلطیوں اور الحاقات بے جاسے منزہ کر کے وہ تعلیم جو روح اور راستی سے بھری ہوئی ہے خلق اللہ کے سامنے رکھے.

Page 162

۱۵۶ تیسرا کام مسیح کا یہ ہے کہ ایمانی نور کو دنیا کی تمام قوموں کے مستعد دلوں کو بخشے اور منافقوں کو مخلصوں سے الگ کر دیوے.سو یہ تینوں کام خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے سپرد کئے ہیں اور حقیقت میں ابتدا سے یہی مقرر ہے کہ مسیح اپنے وقت کا مجد دہوگا اور اعلیٰ درجہ کی تجدید کی خدمت خدائے تعالیٰ اُس سے لے گا اور یہ تینوں امور وہ ہیں جو خدائے تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے جو اس عاجز کے ذریعہ سے ظہور میں آویں سو وہ اپنے ارادے کو پورا کرے گا اور اپنے بندہ کا مددگار ہوگا.(ازالہ اوہام صفحه ۵۹،۵۸- روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۳۲،۱۳۱) اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بعثت کے مقصد کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا ہے.اوّل اسلام کی حقانیت دوسری قوموں پر ثابت کرنا.دوم بطور حکم فیصلہ کر کے اعتقادی اختلافات کو دور کرنا.سوم اپنی قوت قدسیہ کے ذریعے عملی طور پر ایک جماعت قائم کرنا اور اس جماعت کی عملی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھالنا.ان ہر سہ گونا مقاصد سے ظاہر ہے کہ ہمیں سب سے اوّل جماعت کے ساتھ وابستہ رہ کر اپنی عملی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا ہے اور پھر اسلام کو دوسری قوموں تک پہنچا کر ان پر حجت پوری کرنی ہے.اس کام کو باحسن وجوہ انجام دینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور حکم اعتقادی اختلافات کو دور کر کے امن کی بنیاد قائم فرما دی ہے.آپ کو حکم بھی قرار دیا گیا ہے اور امن کا شہزادہ بھی یہ دونوں مترادف الفاظ ہیں.اس لئے کہ حکم اختلاف دور کرنے والے کو کہتے ہیں اور جو اختلاف دور کرتا ہے وہی امن قائم کرنے والا ہوتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اعتقادی اختلاف کو دور کر کے قیام امن کی راہ ہموار کر دی ہے اور دوسری طرف صداقتِ اسلام کے ایسے محکم دلائل ہمیں دیئے ہیں کہ جن کے آگے دوسرے مذاہب والے ٹھہر ہی نہیں سکتے.اب ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو ایسا بنا ئیں کہ ہم سر سے پا تک اسلام کی عملی تصویر ہوں.ہم اسلام کا جو اپنی گردن پر بشاشت کے ساتھ اٹھا ئیں اور اپنی روز مرہ کی زندگیوں میں زندہ خدا پر زندہ ایمان کا مظاہرہ کریں اور اس طرح اپنی ہستی پر پورا پورا

Page 163

انقلاب وارد کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی تفسیر قرآن کی روشنی میں اسلام کا پیغام دوسرں تک پہنچائیں.اگر کوئی احمدی ایسا نہیں کرتا تو وہ اپنے فرائض میں کوتا ہی کرنے والا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہے.ہمیں جماعت کے کاموں میں ہمیشہ خدا تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرت نظر آتی ہے اور دل عجیب کیف و سرور سے بھر جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قدم قدم پر جماعت کو اپنی خاص تائید و نصرت اور فضل ورحمت سے نوازا ہے.ہم عملاً مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع اور پیروی کی برکت سے خدائی نصرت کو جذب کیا ہے اور جماعت کو اس سے مالا مال فرمایا ہے.جب خدا نے ہمیں اپنی خاص تائید و نصرت کا حامل بنایا ہے تو پھر ہمیں ڈرکس بات کا ہے.قدرت کے عناصر بھی خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مسخر کر دیئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.اسی طرح دوسرے عناصر کا حال ہے.۱۹۴۷ء کے فسادات جب عروج پر تھے تو اس وقت بھی خدا تعالیٰ کی اسی موعودہ تائید و نصرت کی وجہ سے ہمارے دل مطمئن تھے کہ وہ ضرور اس جماعت کی حفاظت کرے گا.پس جیسا کہ خدا تعالیٰ اپنے عدہ کے مطابق ہمیشہ ہماری حفاظت کرتا رہا ہے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس کے دین کی خدمت کرنے میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں.اس کے دین کو دنیا میں پھیلائیں اور پھیلاتے چلے جائیں یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ علیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ تمام و کمال پوری ہو جائے.ان کے اس بنیادی فرض کے ضمن میں میں انصار اللہ کو ان کی ایک اہم ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص طور پر توجہ دیں اور انہیں دین کا خادم بنائیں.انصار اللہ میں سے اکثر صاحب اولاد ہیں.وہ اپنے بچوں سے بے غرض محبت کرتے ہیں اور اپنے بچوں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی ان سے محبت کریں اور ان کے اطاعت گزار

Page 164

۱۵۸ بنیں.اگر کسی کا بچہ آوارہ ہو جاتا ہے تو اس کے والدین کو بہت دکھ ہوتا ہے لیکن ایک باپ اپنے بچے سے جتنی محبت کرتا ہے خدا اپنے بندہ سے اس سے کہیں بڑھ کر محبت کرتا ہے.اگر اس کا کوئی بندہ اس سے غافل ہو جائے تو اسے یہ بات بہت شاق گزرتی ہے.پس ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے باپوں سے بڑھ کر خدا تعالیٰ سے محبت کریں اور اپنے بچوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دیں اور اس کے حقیقی عبد بن کر اس کے دین کی خدمت کو لازم پکڑیں.اسی طرح انصار اللہ کو چاہیے کہ وہ اپنی دوسری ذمہ داریوں کو بھی پوری مستعدی اور حسن کارکردگی کے ساتھ ادا کریں.انہیں اپنی تنظیم کو مضبوط کرنا چاہیے اور اسی طرح مالی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی پوری کوشش کرنی چاہیے نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے مطالعہ کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سب کتب اللہ تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت کے ماتحت لکھی ہیں اور یہ حقائق و معارف سے اس طرح پر ہیں جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے.آپ نے قرآن کریم کے دریا کے زور دار بہاؤ کو اس خوبصورتی سے مختلف چینلز میں منتقل کیا ہے کہ ہر قوم اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور اپنی روحانی پیاس بجھا کر اعلیٰ ترقیات حاصل کر سکتی ہے.مسیح موعود کے متعلق یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ خزا نے تقسیم کرے گا لیکن لوگ ان خزانوں کو قبول نہیں کریں گے.ان خزانوں سے مراد روحانی خزائن ہیں نہ کہ دنیوی اموال.ہمیں ان روحانی خزائن سے خود بھی اپنی جھولیاں بھرنی چاہئیں اور دوسروں کو بھی یہ خزانے دینے چاہئیں تا کہ وہ بھی محروم نہ رہیں.ان سے نہ صرف ہم مالا مال ہوں بلکہ وہ بھی مالا مال ہوں اور ان کے بھی دامن استعداد پُر ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انہیں کماحقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جلد ایسے حالات رونما فرمائے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض کو یہ تمام و کمال پورا کرنے والے ہوں.(ماہنامہ انصار اللہ ربوہ جولائی ۱۹۶۳ء صفحه ۲۵ تا ۳۰)

Page 165

۱۵۹ ایک ماہ تک روزانہ نماز تہجد ادا کرنے اور تین سو مرتبہ درود شریف پڑھنے کی مبارک تحریک درود شریف کا ورد بے انتہا برکتوں کا حامل ہے جماعت کے ہر فرد کو چاہیے کہ اس تحریک میں ضرور شامل ہو ( مجالس انصار اللہ ضلع تھر پارکر کے سالانہ تربیتی اجتماع کے موقع پر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا پیغام) مورخہ ۵ ، ۶ اور ے جولائی کوضلع تھر پارکر ( سابق سندھ ) کی مجالس انصاراللہ کا سالانہ تربیتی اجتماع بمقام احمد آباد اسٹیٹ منعقد ہوا.اس موقع پر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے صدر محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے جو ایمان افروز پیغام بھجوایا اور آپ کے نمائندہ خصوصی مکرم شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم.اے قائد عمومی مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے اجتماع میں پڑھ کر سنایا.وہ افادہ احباب کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.احباب کرام السّلام عليكم ورحمة الله وبركاته مجھے یہ معلوم کر کے نہایت خوشی ہوئی کہ ضلع تھر پارکر کے انصار اللہ کا ایک اجتماع ان دنوں احمد آبا دا سٹیٹ میں منعقد ہورہا ہے.ایسے دینی اجتماع اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بابرکت ثابت ہوا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو بھی اپنے فضل سے نوازے اور اس میں شریک ہونے والوں کے

Page 166

۱۶۰ لئے اسے ہر طرح سے با برکت ثابت کرے.آمین یہ اجتماع سابق سندھ کی ضلعی مجالس کا اس سال چوتھا اجتماع ہے.اس کے انعقاد کے لئے مقامی عہدیداروں کے علاوہ مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب ناظم اعلیٰ مجالس انصار اللہ سابق سندھ مبارک باد کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب احباب کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس اجتماع کو کامیاب بنانے میں مدددی ہے.آمین مجھ سے اس امر کی خواہش کی گئی ہے کہ میں اس میں شریک ہونے والے احباب کے نام مرکز میں بھجواؤں.اس لئے یہ چند سطور مکرم شیخ محبوب عالم صاحب خالد قائد عمومی مجلس انصاراللہ مرکز یہ جو اس اجتماع میں میرے نمائندہ خصوصی اور مرکزی نمائندہ کے طور پر شریک ہورہے ہیں کے ہاتھ آپ کے نام بھجوا رہا ہوں.میں نے پچھلے دنوں بحیثیت صدر ، صدرانجمن احمد یہ احباب جماعت سے پر زور اپیل کی ہے.کہ یکم اگست سے ۳۱ /اگست تک اسلام کے غلبہ اور فتح ونصرت اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کامل و عاجل شفایابی کی دعاؤں کے ساتھ نماز تہجد بالالتزام ادا کرنے کا عہد کریں اور یہ عہد کریں کہ وہ اس عرصہ میں روزانہ کم از کم تین سو مرتبہ درودشریف پڑھیں گے.میں آج اس پیغام میں بحیثیت صدر انصار اللہ آپ سب احباب کو اس امر کی پر زور تحریک کرتا ہوں کہ آپ نہ صرف خود سب کے سب اس مبارک تحریک میں شامل ہوں بلکہ اپنے اعزہ اور اقربا کو بھی اور اہل وعیال کو اس میں شامل کریں.یہ ایک بہت مبارک تحریک ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اور اس تحریک میں شامل ہونے والوں کے لئے بہت مبارک ثابت ہوگی.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب: ۵۷) اے مومنو! تم محمد رسول اللہ اللہ کے بغیر خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اس لئے تمہیں چاہیے کہ کو تم حضور کے اس احسان عظیم پر شکر وامتنان کے جذبات کے ساتھ حضور علیہ پر کثرت سے درود بھیجتے رہو.تا اس طرح تمہیں جہاں حضور ﷺ کے علومرتبت کا احساس ہو وہاں

Page 167

۱۶۱ درود شریف کے ذریعہ تم اللہ تعالیٰ کے بے انتہا انوار و افضال کے وارث بھی بن جاؤ.نیز اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے الہا نا فرمایا صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلدِ آدَمَ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ کہ تم محمد ﷺ سید ولد آدم اور خاتم النبین پر اور آپ کی آل پر دور د بھیجتے رہو.اس سے مخاطب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی نہیں.بلکہ حضور کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہونے والا شخص مخاطب ہے.اس لئے ہم سب کا فرض ہے کہ حضور ﷺ پر صلى الله کثرت سے درود بھیجتے اور دعائیں کرتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کثرت سے حضور پر درود بھیجتے تھے کہ حضور علیہ السلام پر بعض اوقات محویت واستغراق کا عالم طاری ہو جاتا ایک ایسی ہی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں.ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت علی کے پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا.کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی را ہیں نہایت دقیق رہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں.جیسا کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (المائدة: ۳۶) تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو ستے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں هَذَا بِمَا صَلَّيْتَ عَلَى مُحَمَّدٍ.( یہ سب کچھ محمد ﷺ پر درود بھیجنے کی وجہ سے ہے.ناقل ) (حقیقۃ الوحی صفحه ۱۲۸ حاشیه ) نیز براہین احمدیہ حصہ چہارم کے صفحہ ۵۰۲ پر حضور علیہ السلام فرماتے ہیں.اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمدؐ کی طرف بھیجی تھیں.صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 168

۱۶۲ پس درود شریف کا ورد جہاں حضرت رسول اکرم ﷺ کی احسان مندی کا اعتراف ہے وہاں بے انتہا برکتوں کا حامل بھی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اس مبارک تحریک میں حصہ لے اور اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، رات اور دن میں کم از کم تین سو مرتبہ حضرت رسول اکرم پر درود بھیجتا رہے.اللہ تعالیٰ ہم عاجز بندوں کو اس کی توفیق دے اور اپنے خاص فضلوں سے نوازے.اسلام کو جلد فتح اور غلبہ نصیب کرے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو کاملہ عاجلہ صحت عطا فرمائے اور حضرت رسول اکرم ﷺ کی برکت سے ہم میں سے ہر ایک کو بے شمار انوار سماوی سے مالا مال فرمائے.آمین اللهُم صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكُ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ فقط والسلام خاکسار مرزا ناصر احمد صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ ۳ جولائی ۱۹۶۳ء (روز نامه الفضل مورخہا ا ر جولائی ۱۹۶۳ ء صفحه ۳) ☆☆

Page 169

۱۶۳ صدمہ اور مصیبت کے اوقات میں صحیح طرز عمل قرآن مجید کی پر حکمت تعلیم اور اس کی وضاحت مورخہ ۸۵۷ ستمبر ۱۹۶۳ء کومسجد احمد یہ لائلپور میں مجالس انصار اللہ ضلع لائلپور کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا تھا اس میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے عظیم جماعتی سانحہ کے پیش نظر ایک بصیرت افروز تقریر کے دوران قرآن مجید کی روشنی میں اس امر کو وضاحت سے بیان کیا تھا کہ صدمہ اور مصیبت کے اوقات میں مومنوں کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے.آپ کی اس بصیرت افروز تقریر کا خلاصہ افادہ ا حباب کی غرض سے ذیل میں ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے احباب کو چاہیے کہ اس کے بغور مطالعہ کے بعد اس میں بیان کردہ قرآنی تعلیم پر کماحقہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں.(ادارہ) ہمارے دل بے حد اداس ہیں اور بجاطور پر اداس ہیں اس لئے کہ ایک نہایت ہی محبوب اور نہایت درجہ واجب الاحترام ہستی ہم سے جدا ہوگئی ہے.یہ صدمہ واقعی بہت بڑا اور بہت عظیم ہے.اس پر غم واندوہ اور حزن و ملال کا لاحق ہونا ایک قدرتی امر اور بشری تقاضا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام کی تاریخ میں مسلمانوں کو سب سے بڑے صدمہ کا سامنا اس وقت ہوا تھا جب سرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفی ﷺ کا وصال ہوا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اس کی رضاء کے ماتحت اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمائی.

Page 170

۱۶۴ آنحضرت ﷺ نوع انسان میں سے اکمل ترین انسان تھے.سب اولین و آخرین پر آپ کو فضیلت دی گئی تھی.آپ جیسا مقدس و مطہر اور بدرجہ اتم صفات جلال و جمال کا مظہر نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ قیامت تک کبھی ہو گا.آپ اکمل ترین شریعت لائے.اس شریعت پر عمل کر کے انسان روحانی علو وارتفاع کے اعتبار سے ایسا انسان بن جاتا ہے کہ آپ کی آمد سے پہلے کوئی انسان کسی شریعت پر عمل کر کے ایسا انسان نہیں بنا.پھر آپ کی لائی ہوئی شریعت ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی ہے.آپ کا مرتبہ اس قدر بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ تھا اور خلق عظیم کے انتہائی بلند مقام پر فائز ہونے کے باعث آپ کے وجود باجود میں ایک ایسی جاذبیت اور کشش ودیعت کی گئی تھی کہ جن خوش نصیب لوگوں کو آپ کی صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا وہ آپ پر پروانہ وار اپنی جانیں فدا کرنے کو ایک سعادت عظمی سمجھنے لگے.جب آپ اپنا مشن حیرت انگیز طور پر پورا کرنے کے بعد اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے تو آپ کے اصحاب پر قیامت ٹوٹ گئی اور انہیں یوں محسوس ہوا کہ یہ دنیا اندھیر ہوگئی ہے.وہ دل میں سوچتے تھے کہ اب ہمارے زندہ رہنے سے کیا فائدہ.جب حضور ہی جن کے دم سے ہماری زندگی تھی فوت ہو گئے تو پھر ہم کیوں زندہ ہیں.موت ہمیں بھی اپنی آغوش میں کیوں نہیں لے لیتی.اس وقت عرب کا ایک حصہ مرتد ہو گیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آپ فوت نہیں ہو سکتے وہ حیران تھے کہ یہ ہو کیا گیا ہے.ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا اور انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے.دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کا یہ حال تھا کہ آپ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا جو شخص کہے گا کہ آنحضرت معہ فوت ہو گئے ہیں اس کا سر اڑا دوں گا.جب محبت کے جوش میں لوگوں کی دیوانگی اور وارفتگی اس حد تک پہنچ گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللهَ حَتى لَا يَمُوتُ ـ جو شخص محمد کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد وفات پاگئے لیکن جو شخص خدا کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی.

Page 171

۱۶۵ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں آنحضرت عے کی سب سے زیادہ محبت تھی اور انہوں نے آنحضور پر اپنا سب کچھ قربان کر دکھایا تھا.دل میں سب سے زیادہ محبت کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ روشنی بھی حضرت ابو بکر ہی کے دماغ میں تھی.آپ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف یہ نہیں سکھایا کہ محمد رسول اللہ (محمد خدا کے رسول ہیں ) بلکہ اس نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ لَا اِلهَ إِلَّا الله یعنی یہ کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں.آنحضرت عﷺ بھی دوسرے نبیوں کی طرح انسان ہی تھے اس لئے وہ اپنا مشن پورا کر کے دوسرے نبیوں کی طرح فوت ہو گئے.اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے تم زندہ خدا کے ساتھ تعلق پیدا کر چکے ہو جو کبھی نہیں مرتا.اس میں شک نہیں صدمہ بے حد ہے اور دل حد درجہ اداس ہیں لیکن تم حتی و قیوم خدا پر ایمان رکھتے ہو تمہیں جدائی کے صدمہ کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینی چاہیے.یعنی یہ سوچنا چاہیے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد اب خدا ہم سے جو کام لینا چاہتا ہے ہم وہ بدل و جان انجام دیں اور اس کے حضور میں سرخرو ٹھہریں.پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کا صدمہ کوئی ایسا صدمہ نہیں جو صرف آپ کے صحابہ اور آپ کے زمانہ ہی کے لوگوں تک محدود تھا.آپ کا وجود قیامت تک کے لئے فیض رساں وجود ہے.آپ کی ذات والا صفات جس طرح اس زمانہ کے لوگوں کے لئے فیض رسانی کا باعث تھی اسی طرح ہمارے لئے بھی فیض رسانی کا باعث ہے جس وقت بھی ہمارے دلوں میں حضور کے وصال کی یاد تازہ ہوتی ہے ہمارے دل بھی درد کی کسک محسوس کئے بغیر نہیں رہتے اور ہم غم میں ڈوب کر رہ جاتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعو علیہ السلام اپنے آقا و مطاع آنحضرت علﷺ کے ساتھ کمال درجہ عشق اور آپ کی کمال درجہ اطاعت کے باعث آپ میں اس درجہ فنا ہو گئے تھے کہ آپ میں اور آپ کے آقا میں کوئی مغائرت باقی نہیں رہی تھی.اسی لئے آپ نے فرمایا.مَنْ فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفَى فَمَا عَرَفَنِي وَمَا رَأَى - حضرت مسیح موعود کے اس مقام فنافی الرسول کی وجہ سے ہی آپ کے وصال کے خیال سے بھی ہمارے دل تڑپ اٹھتے ہیں.یہ دونوں صدمے انتہائی شدید صدمے ہیں اور گاہے گاہے ان کی یاد اجاگر ہو کر ہمیں تڑپا

Page 172

۱۶۶ دیتی ہے.لیکن انسان بالطبع قریب ترین صدمے سے زیادہ متاثر ہوتا ہے.جب بھی اس کا کوئی قریبی ہمدرد غمخوار، مشورہ دینے والا اور ہر موقع پر احسان کرنے والا وجود اس سے جدا ہو جاتا ہے تو اس کا دل درد محسوس کرتا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ صدمہ اس کے لئے نا قابل برداشت ہے.حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ صدمہ آنحضرت عیﷺ اور پھر آپ کے نائب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے صدموں کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتا.جب ایسے ایسے وجود باجود دنیا سے چلے گئے تو پھر اور کون ہے جو دنیا میں ہمیشہ ہمیش باقی رہ سکتا ہے.اصل حقیقت یہی ہے کہ کسی محسن کی وفات پر صدمہ ضرور ہوتا ہے لیکن انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اس صدمہ میں گھلنے اور اسی میں غلطاں و پیچاں رہنے کی بجائے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نصیحت کے مطابق ان نئی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہو جو اس محسن کی وفات کی وجہ سے اس پر عائد ہوتی ہیں اور ان کی بجا آوری میں ہی اطمینانِ قلب اور رضائے الہی کو تلاش کرے.آج قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کی وجہ سے ہم پھر ایک عظیم صدمہ سے دو چار ہیں.ہمارے دل خون کے آنسو رو ر ہے ہیں اور ان کے احسانات اور ان کے کارنامے یاد آ آکر ہمیں بے چین کئے دے رہے ہیں.اس صدمہ کی وجہ سے ہمارا غمگین اور اداس ہونا ایک قدرتی امر ہے لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ ہمیں اس صدمہ کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے بلکہ سوچنا یہ چاہیے کہ اب ہماری ذمہ داریوں میں پہلے کی نسبت اضافہ ہو گیا ہے اور ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو ادا کر کے رضائے الہی حاصل کریں.اس میں شک نہیں کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہونے کے باعث بہت عظیم المرتبت اور رفیع الدرجات تھے.آنحضرت معہ کا فرمان ہے کہ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں.ان میں سے تم جس کی بھی اقتدی کروگے ہدایت پا جاؤ گے.مراد یہ ہے کہ جس طرح ستاروں سے جہت معلوم کی جاتی اور صحیح راہ اختیار کی جاتی ہے اسی طرح میرے صحابہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہ بتائیں گے اور ان سے

Page 173

۱۶۷ فیضیاب ہو کر تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو گے.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قرب اور آپ کی اقتداء بھی وہی اثر اور وہی فیض اپنے اندر رکھتی ہے اور آپ کے فیض سے سب سے زیادہ چمکنے والے ستارے حضور علیہ السلام کی مبشر اولا دہی ہے جن کے دل میں خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے محبت کا بیج بویا.اس محبت الہی کے طفیل ان سے ہم نے پھل پایا اور راہنمائی حاصل کی.یہ امران کے رفیع الدرجات ہونے پر دال ہے.حضور علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک درخشندہ گوہر تھے.اُن کی رحلت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی محبت کا ایک درخت یہاں سے کاٹ کر جنت میں لگا دیا گیا ہے اور ہم اس درخت اس کے عافیت بخش سائے اور اس کے شیر میں پھلوں سے محروم ہو گئے ہیں.اس محرومی پر ہمارا افسردہ اور غمزدہ ہونا ناگزیر ہے لیکن اس صدمہ میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں اب بدرجہ اولیٰ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک خود آسمان روحانیت کا ستارہ بنے جس سے دوسرے لوگ رہنمائی حاصل کریں.ایک دنیا ابھی تک گمراہی کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے.خدا کی بیشمار مخلوق ہے جسے ہم نے راه راست پر لانا ہے اور کتنی ہی سعید روحوں کو خدا کی محبت کا پانی پلا کر انہیں اس کے آستانے پر جھکانا ہے.غم کی موجودہ کیفیت میں ہمیں اپنا عزم بلند رکھنا چاہیے اور گھبرانا نہیں چاہیے.اور گھبرانے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ ہمارا سارا بھروسہ اور تو کل ہمارے اپنے حسی و قیوم اور قادر وتوانا خدا پر ہے.ہمارا خدا ایسا علیم وخبیر اور قادر وقد وس خدا ہے کہ اس کمرہ میں ہوا کی جو لہریں اٹھ رہی ہیں اسے نہ صرف ان کا علم ہے بلکہ وہ اس کے ارادہ اور منشاء کے تحت ہی وقوع پذیر ہورہی ہیں.کوئی پتہ بھی اس کے علم ، ارادے اور اذن کے بغیر نہیں ہلتا.کوئی شخص فوت نہیں ہوتا جب تک خدا کا منشاء نہ ہو.پس حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا کام پورا کر کے خدا کے منشاء کے مطابق ہی ہم سے جدا ہوئے ہیں.ہم غمگین ضرور ہیں لیکن مایوس یا فکر مند ہر گز نہیں اس لئے کہ خدا نے خود کہا ہے کہ یہ جماعت ساری دنیا میں پھیلے گی اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں میں سے ہر انسان کے دل میں

Page 174

۱۶۸ اس کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کی محبت کی چنگاری پیدا ہوگی اور اس سے بالآخر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہلوائے گی.اللہ تعالیٰ ہر آن ثبوت دے رہا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے.وہ ہماری نا چیز مسائی کے عظیم الشان نتائج پیدا کر رہا ہے پھر بھی اگر ہم میں سے کوئی اس کے اس غیر معمولی سلوک کی قدر نہیں کرتا اور صدمہ کے زیر اثر مایوسی کے گڑھے میں گرتا ہے تو وہ بڑا ہی بد بخت اور بدقسمت ہے.چونکہ صدمہ اور غم کے اوقات اکثر انسان پر آتے رہتے ہیں اور ان کا آنا حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس امر کی بھی وضاحت فرمائی ہے کہ ایسے اوقات کو کس طرح بسر کرنا چاہیے.اس نے واضح طور پر بتایا ہے کہ جب کو ئی مصیبت یا غم کا موقع ہوتا ہے تو مومن کیا طرز عمل اختیار کرتا ہے اور برخلاف اس کے ایک منافق کا رد عمل کیا ہوتا ہے.جہاں تک مومنوں کے طر یہ عمل کا تعلق ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ (البقرة: ۱۵۷) مومن وہ لوگ ہیں کہ جب بھی اُن پر کوئی مصیبت آئے (تو وہ دل برداشتہ نہیں ہوتے بلکہ ) کہتے ہیں ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں.یعنی وہ ایسے صدمہ اور مصیبت کے وقت میں محض قال سے ہی نہیں بلکہ اپنے حال سے پکارتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کے لئے ہیں.ہمارے اگلے اور پچھلے، ہمارے چھوٹے اور بڑے، وہ لوگ جو ہمارے ممنونِ احسان ہیں یا جن کا ہم پر احسان ہے وہ سب خدا ہی کی طرف سے آئے اور اسی کی مرضی اور ارادہ کے تحت انہوں نے اس جہان کو چھوڑا اور ہم خود بھی اسی کے حکم اور ارادہ کے ماتحت ایک مقررہ وقت پر اس جہان کو چھوڑ کر اس کے پاس واپس لوٹنے والے ہیں.سو گویا مومن صدمہ اور غم کے وقت گھبراتے یا پریشان نہیں ہوتے بلکہ ان کے دل مطمئن ہوتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے.خدا کی مرضی اور ارادہ سے ہی ہو رہا ہے اور بالآخر اسی میں ہماری بہتری کا سامان مضمر ہے.اس لئے وہ ہر حال میں الحمد للہ کہتے ہیں اور انجام کار بہتری اور بھلائی اور فلاح ونجاح کے امیدوار رہتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کر کے دعاؤں میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ خدا اپنے فضل سے اس صدمہ یا مصیبت کو دور کر

Page 175

۱۶۹ کے ان کے لئے فضل اور رحمت ، امن اور سکون ،ترقی اور خوشحالی کی گھڑیاں بھیج دے.مومن ہر حال میں جنت میں ہی ہوتا ہے اور ہر دم اور ہر آن للہیت کا ہی نعرہ لگاتا ہے.وہ اس جہان میں بھی جنت میں ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی اسے جنت ہی ملتی ہے.فرق صرف اتنا ہے کہ چونکہ یہ دنیا دارالا بتلاء ہے اس لئے اللہ تعالیٰ مومنوں کو کہتا ہے کہ اس دنیا میں ہم تمہیں جنت کی جو جھلک دکھاتے ہیں اس میں راحت و آرام کے ساتھ کچھ ٹیسیں بھی ہوں گی اور کچھ درد کی کسک بھی.لیکن تمہارا کام یہ ہے کہ تم ان عارضی ٹیسوں اور درد کی کسک میں بھی للہیت کا نعرہ بلند کرو اور کہو کہ اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ یعنی ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں اگلے جہان میں ایسی جنت ملے گی جس میں کوئی دکھ، کوئی در داور کوئی ٹیں نہیں ہوگی اور یہی وَاِنَّا اِلَيْهِ رُجِعُونَ کا مطلب ہے.انا للہ سے مراد یہ ہے کہ مومن کبھی دل برداشتہ اور مایوس نہیں ہوتا بلکہ صدمہ، دکھ اور مصیبت کو خدا تعالی کی طرف سے ایک عارضی امتحان تصور کر کے اس پر صبر کرتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو پوری مستعدی کے ساتھ ادا کر کے کامیابی کے لئے خدا ہی کی طرف رجوع کرتا اور اسی سے امداد کا طالب ہوتا ہے.اس کے نتیجہ میں نہ صرف اس دنیا میں صدمہ، دکھ اور مصیبت کی گھڑیاں ٹل جاتی ہیں بلکہ اگلے جہان میں بھی وہ کبھی نہ ختم ہونے والے سکھ چین اور امن و آسائش کا حقدار بن جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ اس دنیا سے اُس دنیا کی طرف جاتے ہوئے اتنی تکلیف بھی محسوس نہیں کرتے تھے جتنی ہم ایک کمرہ سے اٹھ کر دوسرے کمرہ کی طرف جانے میں محسوس کرتے ہیں.پوری بشاشت کے ساتھ اس انتقال مکانی کا خیر مقدم کرنا ان کی فطرت ثانیہ بن چکا تھا چنانچہ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ مٹھی بھر صحابہ نے لاکھوں کے لشکر کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور ان کی صفیں کی صفیں اس طرح کاٹ کر رکھ دیں جس طرح گاجر مولی کو کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے.وہ ہنسی خوشی جام شہادت نوش کرنے میں ایک راحت محسوس کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اپنے عمل سے انا للہ کا تقاضا پورا کرنے کے بعد وَ إِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کے خدائی وعدہ کے تحت ابدی جنت ہمارا انتظار کر رہی ہے.

Page 176

۱۷۰ سو إِنَّا لِلہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رو سے ہم اپنے رب سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے عمل سے یہ ثابت کریں گے کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں.ہمارا حال ہمارا مستقبل ہمارا ماحول یعنی یہ پوری کائنات اور اس کی ہر چیز خدا ہی کی پیدا کردہ ہے اور وہی اس کا مالک ہے.جب وہ ہمیں کچھ دے گا تو ہم اس کی حمد کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور اگر وہ اس چیز کو واپس لے لے گا تو بھی ہم اس کی رضا پر راضی رہیں گے کیونکہ یہ ہمارا ایمان ہے کہ وہ اس عارضی آزمائش کے بعد ہم پر اس دنیا میں ہی ضرور اپنا فضل نازل کرے گا اور پھر وَ اِنَّا اِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کے وقت اس جہان میں بھی ہم پر اپنی رحمت اور فضل کا سایہ رکھے گا.برخلاف اس کے منافقوں کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب مومنوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں اور انہیں مشکل اور مصیبت میں دیکھ کر ذمہ داریوں سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم اُن کی خاطر دکھ اٹھائیں اور اُن ذمہ داریوں کو ادا کریں جو خواہ مخواہ ہم پر ٹھونس دی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے رد عمل کا ذکر سورۃ توبہ کی آیت ۵۰ میں کیا ہے.فرماتا ہے.إن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ اَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُوْنَ (التوبة: ۵۰) (اے رسول) اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو ان منافقوں کو بُرا لگتا ہے اور اگر تجھ پر کوئی مصیبت آجائے تو وہ کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی سے پیش آنے والے حالات کا انتظام کر لیا تھا اور وہ خوشی کے مارے ( اپنی ذمہ داریوں سے ) پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں.آیت کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ یہاں خوشی کے مارے پیٹھ پھیر کر چلے جانے سے مراد ذمہ داریوں سے منہ پھیر کر چلا جانا ہے کیونکہ منافق بیچ میں گھس کر ہی نقصان پہنچاتے ہیں الگ ہو کر نہیں.اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی مومنوں پر کوئی مصیبت آتی ہے کوئی مالی نقصان ہو جائے یا کوئی بزرگ فوت ہو جائے تو جہاں مومن اِنَّا لِلہ کہہ کر خدا کی طرف رجوع کرتے اور اس سے دعائیں مانگتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں پہلے سے بھی زیادہ مستعد ہو جاتے ہیں وہاں منافق اس مصیبت یا مشکل کے نازل ہونے پر خوش ہوتے ہیں اور ذمہ داریوں سے منہ پھیر کر ایک

Page 177

طرف ہو جاتے ہیں تا کہ مومنوں کی مشکلات میں اور اضافہ ہو.اس کی واضح مثال ہمیں آنحضرت ﷺ کے وصال کے وقت ملتی ہے.جب خدائی مقدرات کے تحت آنحضرت ﷺ کا وصال ہوا تو مومنوں پر تو مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ایسے نازک وقت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں سنبھالا اور انہیں ان کا فرض یا د دلا کر پہلے سے بھی بڑھ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی چنانچہ وہ شدید صدمہ اور غم واندوہ کے باوجود اپنی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہو گئے.لیکن برخلاف اس کے منافقوں نے آپ کی وفات پر خوشی کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ چلو اب زکوۃ کی ادائیگی سے بچے.بجائے اس کے کہ یہ کہتے کہ اتنا بڑا حسن جو خدا نے ہم کو دیا تھا وہ فوت ہو گیا ہے اب ہم اس کی خاطر اور زیادہ قربانیاں کریں گے اور اس کے کام کو آگے بڑھانے میں اپنی جانیں لڑا دیں گے، انہوں نے کہا یہ کہ چلو چھٹی ہوئی ، قومی ضرورتوں کے لئے مال خرچ کرنا پڑتا تھا، اب اس سے تو نجات ملی.منافقین کا یہ گروہ آنحضرت مع کے زمانہ میں بھی تھا اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں بھی تھا.اسی طرح یہ گروہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مصروف کار رہا اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں اس گروہ کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں.سو جب صدمہ اور مصیبت کے وقت میں خدا ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم نہ صرف زبان سے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت دیں ہمارا فرض ہے کہ صدمہ اور غم واندوہ کے موجودہ وقت میں جبکہ ہماری ایک نہایت محبوب اور واجب الاحترام ہستی ہم سے جدا ہو گئی ہے ہم نہ صرف زبان سے بلکہ اپنے عمل سے اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے خوب دعائیں کریں کہ وہ ہماری حفاظت فرمائے اور پہلے سے بھی بڑھ کر قربانیوں اور دین کی خاطر جانفشانیوں کی توفیق سے نوازے اور پھر اپنی ذمہ داریوں کو جن میں پہلے کی نسبت اور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے کما حقہ ادا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوجائیں.نیز ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم قرآن مجید کے اس واضح ارشاد کے پیش نظر کہ مومنوں پر مصیبت کے وقت منافق اور بھی

Page 178

۱۷۲ زیادہ تیز ہو جاتا ہے ہم بھی چوکس ہو جائیں اور اس بات پر کڑی نظر رکھیں کہ وہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں.اگر کسی منافق کی طرف سے کوئی ایسی بات ہوتی دیکھیں تو اس کا تدارک کریں اور مرکز کو بھی اس کی اطلاع بھیج کر اسے خبر دار کر دیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صدمہ اور غم واندوہ کے موجودہ وقت میں قرآنی تعلیم کی روشنی میں صحیح راہ عمل اختیار کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم دین کی خاطر پہلے سے بھی بڑھ کر قربانیاں کرنے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے والے ثابت ہوں.آمین ☆☆ (ماہنامہ انصار الله ر بوه تمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۲۵ تا ۳۲)

Page 179

۱۷۳ سالانہ اجتماع اور زعماء صاحبان کا فرض جیسا کہ قبل ازیں اعلان کیا چکا ہے انصار اللہ کا نواں سالانہ اجتماع ذکر الہی اور انابت الی اللہ کی مخصوص روایات کے ساتھ انشاء اللہ العزیز یکم ،۳،۲ نومبر ۱۹۶۳ء بروز جمعہ، ہفتہ، اتوار ربوہ میں منعقد ہوگا.اس میں شریک ہونے کی افادیت اور تزکیہ نفوس و تطہیر قلوب کے لحاظ سے اس کی غیر معمولی اہمیت اظہر من الشمس ہے.جملہ ناظمین، زعماء اعلیٰ اور زعماء صاحبان کا فرض ہے کہ وہ احباب کو بکثرت شمولیت کیلئے مسلسل تحریک فرماتے رہیں.اس امر کی ذمہ داری براہ راست ان پر عائد ہوتی ہے کہ ان کی اپنی مجلس یا مجالس کے اراکین زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس میں شریک ہو کر تربیت و اصلاح کے اس انمول موقع سے كَمَا حَقُہ مستفیض ہوں.یہ امر بھی خاص طور پر مد نظر رہے کہ مجلس شوریٰ انصار اللہ میں شرکت کے لئے نمائندگان کے اسماء گرامی کے متعلق اطلاع مرکز میں زیادہ سے زیادہ ۲۰ راکتو بر تک پہنچ جانی چاہیے.مزید برآں یہ امر بھی از حد ضروری ہے کہ سالانہ اجتماع کا چندہ فوری طور پر مرکز میں بھجوا دیا جائے تا کہ اجتماع کے انتظامات جلد از جلد اور بسہولت پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں.جَزَاهُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ مرزا ناصر احمد (صدر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ ) (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اکتوبر ۱۹۶۳ ، صفحہ ۲۰) ☆☆

Page 180

۱۷۴ خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری نصائح یہ پُر مغز اور قیمتی مقالہ محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدرانجمن احمد یه ر بوه نے مورخہ ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۳ء کو خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے بائیسویں سالانہ اجتماع کے موقع پر تلقین عمل کے پروگرام میں بنفس نفیس پڑھ کر سنایا.یہ نہایت درجہ قیمتی اورمفید نصائح جو زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے اپنے الفاظ پر مشتمل ہیں.خدام الاحمدیہ کے لئے ایک مستقل لائحہ عمل کی حیثیت رکھتی ہیں.اور ہمیشہ ہمارے پیش نظر اپنی چاہئیں.ادارہ خالد محترم صاحبزادہ صاحب کا بے حد ممنون ہے جنہوں نے از راہ شفقت یہ مقالہ خالد کو اشاعت کے لئے مرحمت فرمایا.فجزاه الله احسن الجزاء (ادارہ) حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاص اغراض و مقاصد کے لئے جماعت میں مجلس خدام الاحمدیہ کا اجراء فرمایا تھا اور خود اس مجلس کا لائحہ عمل تجویز فرما کر اس معتین اور محدود دائرہ میں خدام کو آزادانہ جد و جہد کرنے کی ہدایت فرمائی تھی اور خدام کے لئے ان راہوں کی نشان دہی خود کی تھی جن پر انہیں چلنا تھا اور انہیں تاکید فرمائی تھی کہ کوئی نیا پروگرام بنانا تمہارے لئے جائز نہیں“.( الفضل ۱۰ ر ا پریل ۱۹۳۸ء) پس آپ کا پروگرام وہی ہے جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ہے اور آپ کا فرض ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات ہر وقت سامنے رکھیں اور ان کی روشنی میں اور ان کے مطابق مقررہ دائرہ کے اندر رہتے ہوئے اپنے پروگرام بنائیں.حضور کی علالت کے دنوں میں آپ کی یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے.کیونکہ کوئی وفاشعار خادم کو ئی با ادب اور فرمانبردار بچہ عارضی جدائی کے ایام میں جو بوجہ سفر یا بیماری ہوں اپنے آقا اور روحانی باپ کے ارشادات کو نظر انداز نہیں کیا کرتا اور آج میں آپ

Page 181

۱۷۵ بھائیوں کو جن کا صدر میں ایک لمبا عرصہ تک رہ چکا ہوں.آپ کی اسی بنیادی ذمہ داری کی طرف توجہ دلا نا اپنا اولین فرض سمجھتا ہوں.تا ایسا نہ ہو کہ دنیا آپ کو اپنے آقا کا بے وفا خادم یا اپنے روحانی باپ کی ناخلف اولاد سمجھے.پس یاد رکھیں کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک فقال جماعت، ایک فدائی جماعت، ایک ایثار اور قربانی کرنے والی جماعت دیکھنا چاہتے ہیں.جو یہ نہ بجھتی ہو کہ زبان کے رس میں ہی ساری کامیابی ہے کیونکہ اصل چیز باتیں کرنا نہیں بلکہ کام کرنا ہے.(الفضل ۱۰ راپریل ۱۹۳۸ء) پس اپنے دلوں میں سے ہر قسم کی نمود کا خیال مٹا کے محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے اور فخر و مباہات کے خیالات سے پاک ہو کر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرو اور دنیا کے لئے ایک نیک مثال قائم کرو اور آپ میں سے ہر ایک یہی خیال کرے کہ میں ہی احمدیت کا ستون ہوں.اگر میں ذرا بھی ہلا اور میرے قدم ڈگمگائے تو جماعتی نظام اور امام ہمام کے ارشادات کی چھت کو نقصان پہنچے گا.اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو کہ ایمان انسان کی جوانی کو بڑھا تا اور حوصلوں کو بلند کرتا ہے.پس مایوسی کے خیالات اپنے دل میں نہ آنے دو اور اپنے حوصلے کو بلند رکھو.اور یہ عزم اور ارادہ لے کر کھڑے ہو کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنا اور اندھیرے میں بھٹکتی ہوئی دنیا کو اس قادر و توانا کی معرفت سے مالا مال کرنا ہے.اسلام کا کامل نمونہ بن کر حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ.پھر تمہیں ذاتی نصرت بھی حاصل ہوگی اور طفیلی بھی.حضور ( مصلح موعود ) فرماتے ہیں کہ : و ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس وقت ایک ذہنی آزادی عطا کی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصہ کے اندر ہی (خواہ ہم اُس وقت زندہ رہیں یا نہ رہیں لیکن بہر حال وہ عرصہ غیر معمولی طور پر لمبا نہیں ہوسکتا) ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہو جائے گی.اگر ہم اس خیال کو جماعت کے افراد کے ذہنوں میں پورے طور پر زندہ رکھیں اور اسے مضبوط کرتے چلے جائیں تو ایک منٹ کے لئے بھی ہماری جماعت کے نوجوانوں

Page 182

کے دلوں میں غلامی کا خیال پیدا نہیں ہو سکتا“.(الفضل ۱۳ راپریل ۱۹۳۸ء) یا درکھو کہ جب کسی قوم کے نو جوانوں میں یہ روح پیدا ہو جائے کہ اپنے قومی اور مذہبی مقاصد کی تعمیل کے لئے جان دے دینا وہ بالکل آسان سمجھنے لگیں اس وقت دنیا کی کوئی طاقت انہیں نہیں مارسکتی.(الفضل ۱۷ را پریل ۱۹۳۹ء) پس خدام الاحمدیہ کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ممبروں میں قو می اور ملی روح پیدا کریں.پس اپنی زندگی میں جنت کی کیفیات پیدا کرو اور باہم تعاون کے ساتھ رہو...جماعتی نظام کو نمایاں کرو اور شخصی وجود کو اس کے تابع رکھو.اور ہمیشہ اس اصول پر کار بندر ہو کہ ”جہاں میری ذات کا مفاد میری قوم کے مفاد سے ٹکرائے وہاں قومی مفاد کو مقدم کروں گا اور اپنی ذات کو نظر انداز کروں گا“.(الفضل ۱۷ار اپریل ۱۹۳۹ء) ایسا پروگرام بناؤ کہ جماعت کے نو جوان اسلامی تعلیم سے زیادہ سے زیادہ واقفیت پیدا کریں.دینی و دنیوی علوم کو عام کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو پڑھا لکھا نہ ہو.اس سے ذہن صیقل ہوں گے اور اخلاق بلند.پس قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے پڑھانے کا انتظام کرو اور قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنا اپنے پروگرام کا خاص (الفضل اراپریل ۱۹۳۸ء) یہ بھی یا درکھو کہ علم گدھوں کی طرح کتابیں لاد دینے سے نہیں آجا تا.آوارگی کو دور کرنے سے حصہ بناؤ“.علم بڑھتا ہے اور ذہن میں تیزی پیدا ہوتی ہے“.(الفضل اار مارچ ۱۹۳۹ء) پس آپ کا فرض ہے کہ خدام ، اطفال سے آوارگی کو دور کریں اور اپنے رہن سہن میں وقار کو قائم کریں اور شرم اور حیا سے اپنی زندگیاں گزار ہیں.کوئی احمدی خادم یا طفل گلیوں میں مارا مارا نہ پھرے، گالیاں نہ دے اور ایک دوسرے کی گردن میں باہیں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نہ دیکھا جائے کہ یہ سب باتیں وقار اور اسلامی آداب کے خلاف ہیں.ورزش بے شک کرو کہ ورزش انسان کے کاموں کا حصہ ہے.ہاں گلیوں میں بے کار پھرنا،

Page 183

122 بیٹھے باتیں کرنا اور بخشیں کرنا آوارگی ہے اور ان کا انسدا دخدام الاحمدیہ کا فرض ہے.یہ بھی نہ بھولو کہ ”نماز کے بغیر اسلام کوئی چیز نہیں“.(الفضل ۲۲ /اپریل ۱۹۳۸ء) نماز اور باجماعت نماز اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں میں سے ایک خاص فضل ہے.( الفضل ۲۳ را پریل ۱۹۴۱ء) پس نمازوں کو ان کی شرائط کے ساتھ ادا کرو اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنو.”سچائی کو اپنا معیار قرار دو“.(الفضل، ار ا پریل ۱۹۳۸ء) کہ سچ کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے“.( الفضل ۲۲ را پریل ۱۹۳۹ء) اور دیانت کو اپنا شعار بناؤ کہ ” بہترین اخلاق جن کا پیدا کرنا کسی قوم کی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے وہ سچ اور دیانت ہیں.جس قوم میں سچ پیدا ہو جائے اور جس قوم میں دیانت آ جائے وہ قوم نہ کبھی ذلیل ہو سکتی ہے اور نہ کبھی غلام بنائی جاسکتی ہے.سچائی اور دیانت دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کوذلیل بناتا اور ان دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو غلام بنا تا ہے“.پس نو جوانوں میں قومی دیانت ،تجارتی دیانت اور اخلاقی دیانت پیدا کرو کہ ”جس قوم میں قومی دیانت بھی ہو تجارتی دیانت بھی ہو اور اخلاقی دیانت بھی ہو وہ قوم تو ایک پہاڑ ہوتی ہے....اور وہ دنیا کے لئے ایک تعویذ ہو جاتی ہے“.(الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۳۹ء) اگر سچ اور صداقت اپنی وسعتوں کے ساتھ تمہیں اپنی حفاظت میں لے لے، اگر دیانت اپنی سب اقسام میں تمہارے وجودوں میں اپنے کمال کو پہنچ جائے تو تم میں غدار کبھی پیدا نہیں ہوں گے اور تمہارا ہر فر دموت کو غداری پر ترجیح دے گا.اپنے ذہنوں کو جلا دو اور اپنی ذہانتوں کو تیز کرو اور واقعات کی دنیا میں قیاسات سے کام لینا چھوڑ دو کہ یہ ایک ایسا مرض ہے جس کے نتیجہ میں افراد کا ذہنی ارتقاء مارا جاتا ہے.یادرکھو کہ سچا ایمان اور سچا اخلاص اعلیٰ توجہ اور فراست و ذہانت پیدا کرتا ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”ہمارے نو جوانوں کو ذہین بننا چاہیے اور ان کی نظر وسیع ہونی چاہیے، وہ جب بھی

Page 184

۱۷۸ کوئی کام کریں انہیں چاہیے کہ وہ اس کے سارے پہلوؤں کو سوچ لیں اور کوئی بات بھی ایسی نہ رہے کہ جس کی طرف انہوں نے توجہ نہ کی ہو.یہی نقص ہے جس کی وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ روحانیت میں بھی ہمارے آدمی بعض دفعہ فیل ہو جاتے ہیں...حقیقی دین تو ایک مکمل عمارت کا نام ہے مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم مکمل عمارت کا فائدہ صرف ایک دیوار سے حاصل کرنا چاہتے ہو.(الفضل ۲۱ / مارچ ۱۹۳۹ء) سچ یہ ہے کہ وسعتِ نظر اور ذہن رسا حقیقی نظم و ضبط اور کامل اطاعت پیدا کرتا ہے اور ذہین اور وسیع النظر نو جوان ہی تنظیم کے سب مطالبوں کو پورا کر سکتا ہے.یہ بھی نہ بھولو کہ محبت بے شک پہلی چیز ہے جو ذہانت پیدا کرتی ہے.مگر دوسرا حصہ ذہانت کا سزا سے مکمل ہوتا ہے“.(الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۳۹ء) پس اپنے فرائض کو تندہی اور خوش اسلوبی سے سرانجام دو اور اگر کبھی کوئی کوتاہی یا خطا ہو جائے تو بشاشت کے ساتھ سزا اور ذریعہ اصلاح کو قبول کرو.کہ ہمارے امام کا فرمان ہے اور یہی سچ ہے کہ ” سزا نوع انسان کے لئے ایک رحمت کا خزانہ ہے.(الفضل ۲۱ / مارچ ۱۹۳۹ء) وقار عمل کو اپنا طرہ امتیاز بناؤ اور ہاتھ سے کام کرنے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھو.کسی کام کو ذلیل نہ سمجھو.ایک پروگرام کے ماتحت سڑکوں پر بھرتی ڈال کر انہیں ہموار کرو اور محلہ کے گڑھوں کو پر کرو.چاہیے کہ ہماری گلیاں ظاہری گندگی سے بھی پاک ہوں اور ہمارے محلوں میں کوئی گڑھا نظر نہ آئے تاکہ روحانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ہم جسمانی بیماریوں سے بھی محفوظ رہیں.دنیا بعض کا موں کو بُرا اور معیوب سمجھتی ہے تم کسی جائز کام کے متعلق یہ نہ سمجھو کہ وہ برا ہے.کیونکہ کام کرنے کی عادت ڈالنا ہی نہایت ضروری ہے.تا جو لوگ سُست ہیں وہ بھی چست ہوجائیں اور ایسا تو کوئی بھی نہ رہے جو کام کرنے کو عیب سمجھتا ہو.جب تک ہم یہ احساس نہ مٹادیں کہ بعض کام ذلیل ہیں اور ان کو کرنا بہتک ہے یا یہ ہاتھ سے کما کر کھانا ذلت ہے.اس وقت تک ہم دنیا سے غلامی کو نہیں مٹا سکتے.(الفضل ۱۷ / مارچ ۱۹۳۹ء)

Page 185

۱۷۹ پس چاہیے کہ جس طرح تمہارے دل ہر ناپاکی سے منز ہ ہوں اسی طرح تمہارا ماحول بھی ہر گندگی اور نجس سے پاک ہو.یہ بھی یاد رکھو کہ وہ لوگ جو خدمت خلق کو اپنا مقصود قرار دیتے ہیں وہی ہر قسم کی عزت کے مستحق ہیں“.(الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۳۸ء) پس ”غریبوں اور مسکینوں کی بلکہ ہر قوم کے غریبوں اور بیکسوں کی.تادنیا کو معلوم ہو کہ احمدی کتنے بلند ہوتے ہیں“.(الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۳۸ء) پس اپنے فوائد کو بھلا کر دوسروں کو نفع پہنچانا اپنا نتہا قرار دو.تا اس رنگ میں بھی مظہر خدا بن جاؤ.یہ خیال رہے کہ تمہارے جسموں کے بھی تم پر کچھ حقوق ہیں.پس اپنی صحت کا خیال رکھو اور ایسی کھیلیں کھیلو جو نہ صرف جسمانی قوتوں کو بلکہ ذہنی قوتوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں اور آئندہ زندگی میں بھی کام آئیں اور متوازن غذا کا خاص طور پر خیال رکھو تا تمہارے جسم میں چستی اور پھر تی پیدا ہو.تمہارے اعضاء درست رہیں اور تمہاری ہمتیں بلند ہوں تا تمہارے کندھے ان ذمہ داریوں کو استقلال اور مداومت کے ساتھ اٹھا سکیں جو ذمہ داریاں تمہارے پیارے اور محبوب امام نے تم پر جو خدام الاحمدیہ ہو ڈالی ہیں.”اگر تم یہ کام کرو تو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے...مگر خدا تمہارا نام جانے گا اور جس کا نام خدا جانتا ہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں (الفضل.اراپریل ۱۹۳۸ء) آپ کو ایک لحظہ کے لئے بھی یہ حقیقت نہیں بھلانی چاہیے کہ آپ کا قیام اس لئے کیا گیا ہے کہ جماعت کو مضبوطی اور ترقی حاصل ہو.اگر آپ کے کسی کام یا حرکت کی وجہ سے جماعت میں تفرقہ اور ہوسکتا.شقاق پیدا ہو.تو آپ سے زیادہ کوئی شقی اور بد بخت نہ ہوگا.ہمارے پیارے امام ( حضرت مصلح موعود ) بڑے ہی درد کے ساتھ ہمیں نصیحت فرماتے ہیں کہ پس خدام الاحمدیہ کو اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہیے.اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو خدا تعالیٰ کے سامنے تو وہ جوابدہ ہوں گے ہی.میرے سامنے بھی وہ جوابدہ ہوں گے.یا جو بھی امام ہوگا اس کے سامنے انہیں جواب دہ ہونا پڑے گا.کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل

Page 186

۱۸۰ کرنے کیلئے مہیا کئے ہیں.اس لئے مہیا نہیں کئے کہ جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اس کو (الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۴۵ء) بھی ضائع کر دیا جائے“.میں اس بات کا اظہار کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ آپ احمدی پہلے ہیں اور خدام الاحمدیہ بعد میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک احمدی کو جو دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں وہ احمدی بننا چاہیے.حضور فرماتے ہیں.وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں.اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں اور کوئی فساد اور شرارت اور بد چلنی ان کے نزدیک نہ آسکے.وہ پانچ وقت نماز با جماعت کے پابند ہوں ، وہ جھوٹ نہ بولیں ، وہ کسی کو زبان سے ایذا نہ دیں، وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنے کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.غرض ہر ایک قسم کے معاصی اور جرائم اور نا کر دنی اور ناگفتنی اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں.اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خدا تعالیٰ سے ڈریں اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر یک نا پاک اور فسادانگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچائیں اور پنج وقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں اور ظلم اور تعدی اور غبن اور رشوت اورا تلاف حقوق اور بیجا طرف داری سے باز رہیں اور کسی بد صحبت میں نہ بیٹھیں“.(اشتہار ۲۹ مئی ۱۸۹۸ء) چاہیے کہ تمہارے دل فریب سے پاک اور تمہارے ہاتھ ظلم سے بری اور تمہاری آنکھیں ناپا کی سے منزہ ہوں اور تمہارے اندر بجز راستی اور ہمدردی خلائق کے (اشتہار ۲۹ مئی ۱۸۹۸ء) اور کچھ نہ ہو.

Page 187

۱۸۱ ”خدا غنی بے نیاز ہے.اس سے ڈرو اور اس کا فضل پانے کے لئے اپنے صدق کو دکھلاؤ.خدا تمہارے ساتھ ہو“.(اشتہار ۴ را کتوبر۱۸۸۹ء) دوستو ! اٹھو اور ہوشیار ہو جاؤ کہ اس زمانہ کی نسل کے لئے نہایت مصیبت کا وقت آگیا ہے.اب اس دریا سے پار ہونے کے لئے بجز تقویٰ کے اور کوئی کشتی نہیں.مومن خوف کے وقت خدا کی طرف جھکتا ہے.کہ بغیر اس کے کوئی امن نہیں.اب دکھ اٹھا کر اور سوز و گداز اختیار کر کے اپنا کفارہ آپ دو.اور راستی میں محو ہو کر اپنی قربانی آپ ادا کرو.اور تقویٰ کی راہ میں پورے زور سے کام لے کر اپنا بوجھ آپ اٹھاؤ کہ ہمارا خدا بڑا رحیم و کریم ہے کہ رونے والوں پر اس کا غصہ تھم جاتا ہے.مگر وہی جو قبل از وقت روتے ہیں.نہ مُردوں کی لاشوں کو دیکھ کر.” تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۷۳ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۶۲۸، ۶۲۹ بار دوم ) اور ایسے تقویٰ کی راہ پر قدم مارو کہ وہ رحیم و کریم خوش ہو جائے.اپنی خلوت گاہوں کو ذکر الہی کی جگہ بناؤ.اپنے دلوں پر سے ناپاکیوں کے زنگ دور کرو.بے جا کینوں اور بخلوں اور بدزبانیوں سے پر ہیز کرو اور قبل اس کے کہ وہ وقت آوے کہ انسانوں کو دیوانا سا بنا دے بیقراری کی دعاؤں سے خود دیوانے بن جاؤ.عجب بد بخت وہ لوگ ہیں کہ جو مذہب صرف اس بات کا نام رکھتے ہیں کہ محض زبان کی چالا کیوں پر سارا دارو مدار ہو اور دل سیاہ اور ناپاک اور دنیا کا کیڑا ہو.پس اگر تم اپنی خیر چاہتے ہو تو ایسے مت بنو...تقویٰ سے پورا حصہ لو اور خدا ترسی کا کامل وزن اختیار کرو اور دعاؤں میں لگے رہو تا تم پر رحم ہو...دنیا کے لئے بڑی گھبراہٹ کے دن ہیں.مگر دنیا نہیں سمجھتی لیکن کسی دن سمجھے گی.( تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ ۷۴ ۷۵ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۶۳۰،۶۲۹) (ماہنامہ خالد ر بوه نومبر دسمبر ۱۹۶۳ء صفحه ۲۱ تا ۲۷) ☆☆

Page 188

۱۸۲ جلسہ سالانہ کے انتظامات سے تعارف بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ جلسہ سالانہ کی ابتدا ہر سال ماہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ سلسلہ عالیہ کے مرکز دائمی قادیان ضلع گورداسپور میں منعقد ہوتا تھا.جس میں ہزاروں احمدیوں کے علاوہ جو ملک کے ہر حصہ سے شامل ہوتے ایک کثیر تعداد غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب کی بھی شریک ہو کر فائدہ اٹھاتی تھی.لے قادیان سے ہجرت کے بعد جماعت احمدیہ پاکستان کے نئے مرکز ربوہ ضلع جھنگ میں بڑی شان وشوکت سے منعقد ہوتا ہے.جلسہ سالانہ کی داغ بیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مقدس دور میں ۱۸۹۱ء میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ڈالی گئی تھی جبکہ اس میں پچھتر احباب شریک ہوئے.دوسرے سال ۱۸۹۲ء میں جبکہ سالانہ جلہ کی بنیاد با قاعدہ طور پر کھی گئی تھی تین سو چھپیں احباب نے شرکت کی.اس چھوٹی سی ابتدا سے شروع ہو کر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے جلسہ میں ۷۰-۶۰ ہزار کے قریب لوگ شامل ہوتے ہیں اور یہ تعداد ہر سال ہزاروں کے اضافہ سے بڑھ رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جبکہ شمع احمدیت کے پروانے لاکھوں کی تعداد میں اس مبارک تقریب میں شمولیت کے لئے اکناف عالم سے جاں نثارانہ بصد خلوص پرواز کرتے ہوئے حاضر ہوا کریں گے.انشاء الله جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد جلسہ سالانہ کی اغراض میں تربیتی اور تبلیغی ہر دو مقاصد شامل ہیں جہاں تک جلسہ کی اصل لے قادیان میں اب بھی ہر سال با قاعدگی سے جلسہ سالانہ منعقد ہوتا ہے.

Page 189

۱۸۳ کارروائی اور تقاریر کے انتظام کا تعلق ہے.یہ انتظام نظارت اصلاح وارشادصدرانجمن احمدیہ کے سپر د ہوتا ہے.لیکن مہمانوں کے استقبال اور ان کی رہائش اور خور و نوش وغیرہ کا انتظام افسر جلسہ سالانہ کے سپرد ہے.اور یہ دونوں شعبے نظارت علیا صدرانجمن احمد یہ ربوہ کی عمومی نگرانی کے ماتحت کام کرتے ہیں.اس ٹریکٹ کی اشاعت کا مقصد اس ٹریکٹ کی اشاعت کا اصل مقصد یہ ہے کہ سالانہ جلسہ میں شریک ہونے والے احباب جماعت مرکزی انتظامات سے پوری طرح متعارف ہوں اور جلسہ سالانہ کے ایام میں ابتدائی معلومات کے نہ ہونے کی وجہ سے بلاضرورت پریشان نہ ہوں.انہیں اس ٹریکٹ کے مطالعہ سے پتہ لگ جائے گا کہ کس ضرورت کے لئے کسے ملنا چاہیے اور اس کا دفتر کس جگہ ہے.اس طرح وہ بہت سی پریشانیوں سے بچ جائیں گے.احباب کی خدمت میں ایک ضروری گزارش ہے کہ وہ ہر کام کے لئے افسر جلسہ سالانہ کے پاس نہ آئیں بلکہ انہوں نے مختلف انتظامات کے لئے جو افسران مقرر کر دیئے ہیں.براہ راست ان سے رابطہ پیدا کر کے کم سے کم وقت میں اپنی ضرورت پوری کر لیں.مثلاً اگر کسی کو روشنی کی ضرورت ہے تو وہ افسرجلسہ سالانہ کے پاس آنے کی بجائے منتظم صاحب روشنی کے پاس جائیں یا پانی کی ضرورت ہے تو منتظم صاحب آب رسانی سے اپنی ضرورت بیان کر کے اس کا ازالہ کرائیں.وَعَلَى هَذَا الْقِيَاسِ.اس سلسلہ میں کسی دوسرے کے پاس جانے سے صرف وقت ضائع ہوگا.احباب کو دقت اور پریشانی سے بچانے کے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ جلسہ سالانہ کے مختلف شعبہ جات دفتر انصار اللہ مرکزیہ میں ہوں گے اور نمایاں بورڈ پر ان کا نام درج ہوگا.افسر جلسہ سالانہ کے ماتحت کام کی تقسیم افسر جلسہ سالانہ کے ماتحت مہمانوں کے استقبال، رہائش اور خورونوش اور اس سلسلہ میں دوسرے بہت سے کام ہوتے ہیں جنہیں مختلف شعبہ جات میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور سہولت کے لئے

Page 190

۱۸۴ ربوہ کے تین حلقے بنادیئے گئے ہیں.ہر حلقہ کے مہمانوں کی ضروریات حلقہ کا ناظم پوری کرتا ہے.یہ حلقے حسب ذیل ہیں.(۱) نظامت دار الصدر:.اس حلقے میں محلہ جات دارالصدر شرقی ، غربی و جنوبی اور دارالفضل شامل ہیں.(۲) نظامت دار الرحمت:.یہ نظامت محلہ جات دار الرحمت شرقی ، وسطی اور جنوبی پر مشتمل ہے.(۳) نظامت دار العلوم : محلہ جات دار البرکات، دار النصر اور دارالیمن کا انتظام اس نظامت متعلق ہے.ان تینوں حلقہ جات کا انتظام افسر جلسہ سالانہ کی نگرانی میں تین علیحدہ علیحدہ افسروں کے سپرد ہے.جو ناظم کہلاتے ہیں.ان ناظمین کے علاوہ چھ اور ناظمین بھی افسر جلسہ سالانہ کی اعانت کے لئے کام کرتے ہیں.یعنی ناظم سپلائی، ناظم تعمیرات، ناظم رہائش، ناظم مہمان نوازی، ناظم تصدیق پر چی خوراک.تنظیمی شعبہ جات تنظیمی شعبہ جات کی تقسیم حسب ذیل ہے.(۱) انتظام استقبال (۲) انتظام روشنی (۳) انتظام آب رسانی (۴) انتظام دیگ (۵) انتظام تنور (۶) انتظام تقسیم روٹی (۷) انتظام تقسیم سالن (۸) انتظام تقسیم پر ہیزی (۹) انتظام مہمان نوازی ( یعنی مہمانوں کو کھانا کھلانا اور ان کے آرام کا خیال رکھنا ) (۱۰) انتظام طبی امداد (۱۱) انتظام صفائی (۱۲) انتظام پہرہ (۱۳) انتظام بازار (۱۴) انتظام سٹور (۱۵) انتظام معائنہ و پڑتال (۱۶) انتظام امور متفرقہ.ان شعبہ جات کی نگرانی علیحدہ علیحدہ افسروں کے سپرد ہے.جو اپنے اپنے حلقہ کے ناظم کے ماتحت کام کرتے ہیں.انتظام سالانہ جلسہ کے مختلف افسروں کے فرائض و اختیارات کا ڈھانچہ حسب ذیل ہے.افسر جلسه سالانه افسر جلسہ سالانہ مہمان نوازی کے جملہ شعبہ جات کا افسر اعلیٰ ہے.جس کا کام یہ ہے کہ تینوں حلقوں کے ناظمین ، ناظم سپلائی ، ناظم تعمیرات، ناظم رہائش، ناظم مہمان نوازی، ناظم تصدیق پر چی

Page 191

۱۸۵ خوراک اور ناظم اجرائے پر چی خوراک اور تمام منتظمین کے کام کی نگرانی کرے اور بوقت ضرورت مناسب ہدایات جاری کرے.جن کی پابندی تمام ناظمین اور منتظمین پر واجب ہوگی.افسر جلسہ سالانہ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ہر روز صبح و شام تمام حالات کی رپورٹ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور ناظر صاحب اعلیٰ صدر انجمن احمد ی ربوہ کی خدمت میں پیش کرے.نظامت حلقہ ناظم حلقہ کا کام اپنے حلقہ میں مذکورہ بالا تمام شعبہ جات کا انتظام اور نگرانی کرنا ہے.وہ افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے اپنی نظامت کے دائرہ کے اندر اندر جملہ مہمانان کی جائز ضر رویات پوری کرنے کا ذمہ دار ہے اور اگر کسی جگہ کوئی خرابی یا نقص پیدا ہوتا ہوا نظر آئے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے فوری طور پر دور کرنے کیلئے مناسب اور مؤثر ذرائع استعمال کرے.پس کسی نظامت میں قیام کرنے والے مہمان اگر کوئی نقص دیکھیں تو وہ اس کی اطلاع فوری طور پر ناظم متعلقہ کو دیں.تا کہ وہ اپنے حلقہ میں موقعہ پر ہی نقص کو دور کر سکیں.نظامت سیلائی ناظم سپلائی جلسہ سالانہ کا کام ہے کہ جلسہ سالانہ کی جملہ ضروری اشیاء اجناس خورونوش، ایندھن ، برتن، کسیر، پرالی اور دوسری چیزیں کافی عرصہ پہلے افسر جلسہ کی ہدایت کے ماتحت مہیا کرے اور جلسہ کے دوران میں اگر کسی چیز کی فوری طور پر کمی یا ضرورت محسوس ہو تو وہ بھی مناسب مقدار میں فراہم کرے.نیز جلسہ سالانہ کے اخراجات کی ہر قسم کی ادائیگیاں کرے اور ان کا حساب رکھے.اس نظامت کا براہ راست مہمانان سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے.نظامت تعمیرات منتظم صاحب تعمیرات کا فرض ہے کہ افسر جلسہ سالانہ کی منشاء اور مہمانوں کی ضرورت کے مطابق جملہ عمارات ، رہائش غسل خانے وغیرہ تعمیر کرائے.

Page 192

نظامت رہائش وسٹور ۱۸۶ مہمانوں کی آرام دہ رہائش کا ضروری اور مناسب انتظام کرنا اس نظامت کا کام ہے.رہائش کے لئے کام مہیا کرنا اور پھر جماعت وار ان کے قیام کے لئے جگہ کی تعیین کرنا، کمروں میں کسیر یا پرالی بچھانا،مہمانوں کے سامان کی حفاظت کا انتظام کرنا ان کے کھانے کے لئے پیالے،آبخورے، بالٹیاں اور گھڑے پہلے سے مناسب تعداد میں ان کی قیام گاہوں پر موجود رکھنا نظامت رہائش کے فرائض میں سے ہے.جماعتوں میں قیام کرنے والے احباب کے علاوہ جولوگ ربوہ کے مکانوں میں انفرادی طور پر رہائش رکھنا چاہتے ہوں اور جن کے لئے افسر جلسہ سالانہ نے علیحدہ مکان یا کمرے دینے کی ہدایت کی ہو.ایسے لوگوں کو جلسہ پر ربوہ آنے سے قبل بذریعہ ڈاک اس نظامت کی طرف سے اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کے لئے فلاں محلہ میں فلاں کے مکان میں قیام کا انتظام کیا گیا ہے اور پھر ان مہمانوں کے ربوہ پہنچنے پر انہیں ان مکانات میں پہنچانا بھی نظامت رہائش کا فرض ہے.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مہمانوں کی ضرورت کے لئے پیالے، آبخورے، لوٹے اور گھڑے مہیا کئے جاتے ہیں.یہ سامان بھی ناظم صاحب رہائش کی تحویل میں ہوتا ہے.لیکن اس کے لئے ناظم صاحب مہمان نوازی کی طرف سے پرچی جاری کی جاتی ہے.مہمان حضرات اپنی ضرورت کے لئے ناظم صاحب مہمان نوازی سے ان کے دفتر میں مل کر سامان کے لئے پر چی حاصل کر لیں اور نظامت رہائش وسٹور اس پرچی میں مندرجہ تعداد کے مطابق سامان جاری کر دے گی.پس سامان کے حصول کے لئے ناظم صاحب مہمان نوازی کی پر چی لازمی چیز ہے.نظامت تصدیق پر چی خوراک کھانے کی صحیح اور مناسب تقسیم کے لئے یہ ضروری ہے کہ کھانا صرف اسی مقدار میں حاصل کیا

Page 193

جائے جس کی ضرورت ہو.ضرورت سے زیادہ کھانا حاصل کرنا نہ صرف کھانا ضائع کرنا ہے بلکہ اس سے دوسروں کا حق مارے جانے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے.اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ کھانے کی پر چی جاری کرنے سے پہلے اچھی طرح پڑتال کر لی جائے کہ کس جگہ کتنے افراد کا کھانا درکار ہے.چنانچہ اس غرض کے لئے نظامت تصدیق پر چی خوراک قائم ہے.اس نظامت سے ہر قیام گاہ کے لئے ایک فارم جاری کیا جاتا ہے جس پر دونوں وقت مہمان نواز مہمانوں کی تعدا د درج کرتا ہے.افسر تصدیق پر چی خوراک بسا اوقات خود اور عموماً اپنے نائین و معاونین کے ذریعہ تسلی کر لیتا ہے.یہ اس کے فرائض میں داخل ہے.مہمانوں کو بھی اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے.مرکزی قیام گاہ کے علاوہ جو مہمان مختلف محلہ جات میں احباب کے گھروں میں قیام پذیر ہوتے ہیں.ان کی پڑتال کے لئے محلہ جات میں معاونین تصدیق پر چی خوراک موجود ہوتے ہیں.پس احباب کو کھانے کی پرچی حاصل کرنے سے قبل تصدیق ضرور کر لینی چاہیے.تا کہ خوراک کی پرچی جاری کرنے میں کسی قسم کی روک نہ ہو.ایسے کارکنان کی فہرست ڈیوٹی شیٹ میں تفصیل سے درج کر دی گئی ہے.نظامت اجرائے پر چی خوراک ۲۳ دسمبر کی شام سے یکم جنوری کی شام تک مہمانوں کے لئے جلسہ سالانہ کے انتظام کی طرف سے کھانا پیش کیا جاتا ہے.جس کے حصول کے لئے اپنے حلقہ کے انتظام سے ایک پر چی حاصل کرنی ضروری ہوتی ہے.کارکنان کو ہدایت ہے کہ پرچی کے بغیر کھانا نہ دیں.اس لئے پریشانی سے بچنے کے لئے پرچی حاصل کر لی جائے.اس سلسلہ میں یہ بھی گزارش ہے کہ پر چی صرف اتنی تعداد کی حاصل کی جائے.جتنے افراد کے کھانے کی ضرورت ہو صرف اتنا ہی کھانا لینا چاہیے اور اگر کسی وجہ سے کھانا فاضل ہو جائے تو اسے پھینکنے یا ضائع کرنے کی بجائے لنگر خانہ میں اسی وقت واپس پہنچا دینا چاہیے تاکسی اور مستحق کے کام آسکے.یہ سلسلہ کا مال ہے.اس کی حفاظت ہم سب پر واجب ہے.اس

Page 194

۱۸۸ کے ضیاع سے اللہ تعالیٰ کے رزق کی بے حرمتی ہونے کا ڈر ہے.جو کسی طرح بھی مناسب نہیں.نظامت مہمان نوازی اس نظامت کے فرائض میں مہمانوں کی ضروریات کی دیکھ بھال اور ان کی سہولت کے سامان فراہم کرنا شامل ہے جو جماعتیں اکٹھی ٹھہرتی ہیں ان پر اس نظامت کی طرف سے چند معاونین کے ہمراہ ایک مہمان نواز مقرر ہوتا ہے جس کا فرض ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو وقت مقررہ پر صحیح طور پر کھانا کھلائے اور ان کے سونے کے لئے پر الی مہیا کرے.اسی طرح ان کی غیر حاضری میں ان کے سامان کی حفاظت کرے.معزز مہمانوں کو اپنی ضروریات سے متعلقہ مہمان نواز کو وقت پر آگاہ کر کے ان کے پورا کرنے کے لئے کہنا چاہیے.جو مہمان متفرق پرائیویٹ قیام گاہوں میں مقیم ہوں.انہیں اگر پیالے، آبخورے، لوٹے، گھڑے اور پرالی وغیرہ کی ضرورت ہو تو وہ ناظم صاحب مہمان نوازی سے ضرورت کے مطابق چٹ حاصل کر کے نظامت رہائش سے حاصل کر سکتے ہیں.امید ہے اس سلسلہ میں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی.انتظامات مندرجہ بالا چھ مرکزی نظامتوں کے علاہ چند ایسے انتظامات بھی ہیں جن کا مہمانان سے براہ راست تعلق ہوتا ہے.اس سلسلہ میں ان کے کام اور طریق کار کے متعلق بھی مختصر درج کر دیا جاتا ہے تا مہمان حضرات کو کارکنان کے فرائض کا علم رہے.انتظام استقبال والوداع جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ربوہ آنے والے احباب کو سرگودھا، لائکپور، ہنڈے والی اور چک جھمرہ میں گاڑی بدلنی پڑتی ہے.چنانچہ مہمانوں کو موقعہ پر گاڑی بدلنے میں سہولت دینے کے لئے اور اسی

Page 195

۱۸۹ طرح ریلوے سے متعلق دوسرے امور میں پریشانی سے بچانے کے لئے ان جگہوں پر ناظم استقبال کی طرف سے معاونین مقرر ہوتے ہیں جن کے بازؤوں پر پلتے لگے ہوتے ہیں لہذا اگر ان مقامات پر کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو ان معاونین سے ان کا ذکر کیا جائے یہ انشاء اللہ آپ کی پوری مدد کریں گے.ربوہ میں میں منتظم صاحب استقبال کا دفتر دو جگہ پر ہوتا ہے.(۱) ریلوے سٹیشن ربوہ اور (۲) اڈہ لاری ربوه ۲۳ دسمبر سے دونوں جگہوں پر کام شروع کر دیا جاتا ہے اور یہ دفاتر ۲۴ گھنٹے کھلے رہتے ہیں.یہاں پر متعین کارکنان کا فرض ہے کہ وہ مسافروں کو گاڑی سے اترنے اور گاڑی میں سوار ہونے میں مدد دیں.ضرورت ہو تو ان کے ٹکٹ خرید دیں.اس امر کی نگرانی کریں کہ تلی اور مزدور معروف اجرت سے زائد مطالبہ نہ کریں.قلیوں کے بازؤوں پر ان کا نمبر درج ہوتا ہے اور دفتر استقبال میں ان کی مقررہ اجرتوں کی فہرست ہوتی ہے کسی ایسے قلی سے سامان نہ اٹھوایا جائے جس کے بازؤوں پر ناظم صاحب استقبال کی طرف سے مقرر کردہ نمبر موجود نہ ہو.کسی قلی کو مقررہ اجرت سے زائد اجرت نہ دی جائے.سامان اٹھواتے وقت قلی کا نمبر یا درکھنا ضروری ہے تا ضرورت کے وقت اسے پکڑا جا سکے.اسی طرح ان کا رکنان کا فرض ہے کہ مہمانان کو ان کے جائے قیام کا پتہ بتا ئیں اور اگر ضرورت ہو تو اپنا آدمی ساتھ کر دیں.جو انہیں بحفاظت منزل مقصود پر پہنچا کر آئے.فرودگاہ مہمانان کا ایک نقشہ دفتر استقبال میں موجود ہوگا.قلیوں اور سواری والوں کے اجرت نامے ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں.اگر کوئی شکایت پیدا ہوتو دفتر منتظم استقبال سے فوری رابطہ پیدا کر کے اس کا ازالہ کرایا جا سکتا ہے.اسی طرح مہمانوں کی واپسی کے وقت بھی یہ نظامت مذکورہ امور کی پوری پوری نگرانی کرے گی.احباب ہر قسم کی ضرورت ان کے سامنے بلا تکلف پیش کر سکتے ہیں.انتظام روشنی جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامات یعنی لنگر خانوں، رہائش گاہوں، پرائیویٹ قیام گاہوں وغیرہ میں مناسب طور پر روشنی کا انتظام نہایت ضروری ہے.

Page 196

۱۹۰ ایسے مکانات جو نظام جلسہ کی تحویل میں دے دیئے گئے ہوں گے وہاں اگر بجلی نہ ہوگی تو منتظم صاحب روشنی کی طرف سے دیے یا لالٹین وغیرہ کا انتظام ہوگا.لیکن جو مہمان مختلف گھروں میں از خود اپنے طور پر قیام کریں گے ان کے لئے روشنی وغیرہ کا انتظام کرنا خود صاحب خانہ کا فرض اور اس کی میزبانی کا حصہ ہے.ایسے مقامات پر منتظم صاحب روشنی کوئی چیز نہیں دے سکیں گے.لنگر خانوں اور قیام گاہوں کے علاوہ ان دنوں میں تمام اہم راستوں پر بھی روشنی کا انتظام کیا جاتا ہے.انتظام آب رسانی سالانہ جلسہ کے ایام میں مہمانان کی ضرورت کے لئے مناسب مقدار میں تمام ضروری مقامات پر پانی مہیا کیا جاتا ہے.خصوصاً کھانے کے وقت میٹھا پانی مہیا کرنے کی خاص ضرورت ہوتی ہے.پانی کے لئے گھڑے، لوٹے وغیرہ نظامت مہمان نوازی کے توسط سے نظامت رہائش وسٹور سے حاصل کئے جاسکتے ہیں.انتظام معائنہ طعام پوری کوشش کی جاتی ہے کہ مہمانوں کے لئے جو کھانا تیار ہو وہ ہر لحاظ سے معیاری ہو.اس میں مصالحہ پوری مقدار میں اور خالص ڈالا جائے.ناظم صاحب متعلقہ خود اس کی نگرانی کرتے ہیں.لیکن احتیاطی طور پر اس غرض کے لئے ایک خاص افسر مقرر کیا جاتا ہے.جس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ تمام تیار شدہ کھانا دیکھ کر اس کی تقسیم کی منظوری دے اور اگر کھانے کی تیاری میں کسی قسم کی کمی یا نقص نظر آئے تو اسے دور کرنے کی فوری ہدایت دے.دراصل یہ افسر ایک رنگ میں مہمانوں کا نمائندہ ہوتا ہے جوان کی طرف سے ان کی خوراک اپنی نگرانی میں تیار کراتا ہے.افسر مذکور کا فرض ہے کہ معائنہ کے نتیجہ کی رپورٹ دونوں وقت افسر جلسہ سالانہ کو پیش کرے.

Page 197

انتظام پر ہیزی ۱۹۱ بیمارا حباب کے لئے پر ہیزی کھانا ڈاکٹر کی تصدیق پر مہیا کیا جاتا ہے.اس کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ڈاکٹر کی تصدیق اور سفارش کے بعد ناظم متعلقہ یا افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے جاری کردہ پرچی ہو.کارکنان کو ہدایت ہے کہ وہ بغیر اس پر چی کے کھانا جاری نہ کریں.انتظام طبی امداد احباب کی سہولت کیلئے ہر نظامت حلقہ میں ایک ڈاکٹر متعین ہوتا ہے معمولی قسم کی بیماریوں یا ہنگامی حادثات کے موقعہ پر اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.مستقل اور خطر ناک مریضوں کو فضل عمر ہسپتال میں جا کر با قاعدہ علاج کرانا چاہیے.پر ہیزی کھانے کے حصول کے لئے بھی ڈاکٹر پر چی کی تصدیق کرے گا.انتظام صفائی مہمانوں کی جائز ضرورت کے لئے مناسب جگہوں پر مناسب تعداد میں بیت الخلاء بنوا دیئے گئے ہیں.ہمیں توقع ہے کہ اس سلسلہ میں احباب کو کوئی خاص دقت نہیں ہوگی.اور یہ امید رکھی جاتی ہے کہ ربوہ میں آنے والے احباب اور خود اہالیان ربوہ ان دنوں میں خصوصاً صفائی کا خاص خیال رکھیں گے.راستوں میں کسی قسم کی گندگی اور پانی نہیں پھیلایا جائے گا.جس سے راہ چلنے والوں کو تکلیف ہو.نہ ہی بچوں کو راستوں میں پاخانہ بیٹھنے کی اجازت دی جائے گی.یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اپنی مقدس بستی کو پاک اور صاف رکھنے کی کوشش کریں بے شک انتظام جلسہ اس کے لئے مناسب تعداد میں خاکروب مہیا کرے گا لیکن وہ اپنے فرض کی ادائیگی میں آپ احباب کے تعاون سے ہی کامیاب ہوسکتا ہے.انتظام پہرہ گیٹ خوراک کی بروقت اور مناسب طریق پر تقسیم کے لئے تینوں لنگر خانوں کے گیٹ پر پہرہ کا

Page 198

۱۹۲ انتظام کرنا پڑتا ہے.بعض احباب کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ تقسیم خوراک کی کھڑکی سے با قاعدہ پر چی دے کر خوراک حاصل کرنے کی بجائے براہ راست دیگ سے سالن اور تنور سے روٹی لے لیں.بے شک یہ کھانا آپ کے لئے ہی تیار کرایا جاتا ہے.لیکن اگر اس کی تقسیم مناسب وقت پر اور یکساں نہ کی جائے تو بہت سے مہمان تکلیف اٹھا ئیں گے اور اس طرح اصل انتظام کو نظر انداز کر کے خود لنگر خانہ کے اندر چلے آنے سے کام کرنے والوں کے کام میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے.لہذا احباب سے درخواست ہے کہ اگر گیٹ پر ڈیوٹی والے اندر جانے سے روکیں تو وہ ان کے ساتھ تعاون فرماتے ہوئے زبردستی اندر جانے کی کوشش نہ کریں.گیٹ کے کارکنان کو ہدایت ہے کہ وہ کھانا لینے والوں کو ایک قطار لگا کر مہذب شہریوں کی طرح سہولت اور اطمینان سے کھانا لینے کی ہدایت کریں.پس ان کے ساتھ تعاون کرنا خود اپنے لئے سہولت مہیا کرنا ہے.اثر دہام میں پینے اور دبنے سے بچنے کے لئے بوڑھوں اور بچوں کو پہلے کھانا دلانا بھی ہمارے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہوگا.اور ہم اپنے بھائیوں سے ہمیشہ ہی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی توقع رکھتے ہیں.انتظام بازار جلسہ کے ایام میں ربوہ کے بازاروں میں ہجوم ہوتا ہے.جس کی وجہ سے مردوں کو عموماً اور خواتین کو خصوصاً چلنا مشکل ہوتا ہے.اسی طرح بازار کی صفائی کا خیال رکھنا ، خراب اور مضر صحت اشیاء کی فروخت پر پابندی عائد کرنا ، نرخوں کی نگرانی کرنا کہ دوکاندار زیادہ دام وصول نہ کریں.ہر قسم کے جھگڑے سے لوگوں کو دور رکھنا.غرض یہ اور اسی قسم کے کئی اور امور پیش آتے ہیں.ان سب کی دیکھ بھال کے لئے ایک خاص افسر مقرر کیا جاتا ہے جو منتظم بازار کہلاتا ہے بازار سے متعلق جملہ امور کی نگرانی اس کے فرائض میں داخل ہے.اگر کوئی ایسی دقت پیش آئے جس کا تعلق بازار سے ہو تو اسے منتظم صاحب بازار کے نوٹس میں لا کر دور کرانا چاہیے.

Page 199

دفتر معلومات ۱۹۳ جلسہ سالانہ کے انتظامات کے بارہ میں دریافت طلب امور کے متعلق ضروری واقفیت بہم پہنچانے کے لئے دفتر معلومات کھولا گیا ہے.بیرون سے مہمانان کے نام آنے والی ڈاک یہ دفتر وصول کر کے مہمانوں تک پہنچائے گا.اسی طرح اس دفتر کا یہ بھی فرض ہے کہ جو گمشدہ اشیاء اس دفتر میں پہنچیں پوری کوشش کر کے انہیں مالکان تک پہنچائیں.اسی طرح احباب کو بھی چاہیے کہ انہیں جو چیز گمشدہ ملے.اسے بجائے اس کے کہ خود کسی کے حوالے کریں اس دفتر میں پہنچا دیں.تا چیز اصل مالک تک پہنچائی جاسکے.سر دست یہ صیغہ نظامت رہائش وسٹور کے ساتھ متعلق.عام فرائض و طریق کار ہے.جیسا کہ او پر مندرجہ ڈھانچہ سے ظاہر ہے.ہر شعبہ میں علیحدہ علیحدہ منتظم اور معاونین مقرر ہیں جو اپنے اپنے شعبہ کے فرائض انجام دیتے ہیں.جلسہ کے تمام کارکنوں کے بازؤوں پر ان کے عہدوں کا نشان ایک پیج کے طور پر لگا ہوتا ہے.اور ہر کارکن کا فرض ہے کہ کام کے اوقات میں اپنا بلکہ لگا کر رکھے تاکہ مہمان اور دوسرے کا رکن اسے پہچان سکیں اور بوقت ضرورت اس سے امداد لے سکیں.ہر کارکن کا فرض ہے کہ وہ صحیح رنگ میں مہمانوں کی خدمت اور مہمان نوازی کا خیال رکھے.شکایت پیدا ہونے پر افسر بالا کے پاس رپورٹ کر کے شکایت کا ازالہ کرایا جا سکتا ہے.زائرین سے ہماری توقع خاکسار جہاں اپنے جملہ کارکنوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ پوری تندہی اور جانفشانی سے کام کرتے رہیں گے اور جلسہ میں شریک ہونے والے احباب کی خدمت میں اپنی ساری توجہ اور طاقت صرف کردیں گے اور ان کو آرام پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں گے.وہاں جلسہ میں شریک ہونے والے احباب سے بھی یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ جلسہ میں کام کی کثرت اور انتظامات کی

Page 200

۱۹۴ ہنگامی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کارکنوں کی غلطیوں اور فروگزاشتوں سے حتی الوسع عفوا ور چشم پوشی سے کام لیں گے اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالیں گے جو کہ ان کی طاقت سے باہر ہو.حقیقت یہ ہے کہ ایک جہت سے ہم سب خدا تعالیٰ کے جاری کردہ لنگر کے مہمان ہیں اور دوسری جہت سے ہم سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خادم کی حیثیت میں میزبان ہیں.یہ وہ اجتماع ہے جس میں مہمان اور میزبان کی تمیز نہیں خدا تعالیٰ ہی ہمارا میزبان ہے.اس نے ہی اپنے فضل سے روحانی اور مادی مائدہ ہمارے سامنے رکھا ہے.خوش نصیب ہیں ہم جن کو اس خوان نعمت سے حصہ ملا ہے جو اس نان درولیش میں شریک ہیں.دعا ہے کہ خدائے رؤف و رحیم آپ کو ہر طرح خیریت سے صحت سے، حفاظت سے اپنے مرکز میں لائے اور یہاں کے رہنے والوں کو بھی صحت و عافیت کے ساتھ اور خلوص نیت سے آپ کی خدمت کی توفیق عطا کرے اور خدائے مہربان صحت و حفاظت کے ساتھ دینی اور دنیوی برکات سے مالا مال کر کے آپ کو اپنے اپنے ٹھکانوں پر واپس پہنچائے اور اہالیان ربوہ کا بھی ہر طرح حافظ و ناصر ہو اور ہم اپنی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کے اس الہام کے جلوے دیکھیں کہ لَا يَأْتِي عَلَيْكَ يَوْمُ نُقْصَانِ فقط آپ کا مخلص خادم مرزا ناصر احمد افسر جلسہ سالانہ ربوہ فولڈر شائع کردہ افسر جلسه سالانه ربوہ ضلع جھنگ صفحه ۱ تا ۲۳)

Page 201

۱۹۵ يَا رَبِّ فَاسْمَعُ دُعَائِي اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار احسان ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کو دنیا کے ہر بر اعظم اور ہر ملک میں قائم کر کے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے راہ استوار کر رہا ہے.اشاعت اسلام کی عمارت کی بنیادوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جا رہا ہے جب تک ہم اپنی حقیر کوششوں (جن کی توفیق بھی محض اسی کے فضل پر منحصر ہے) کے شاندار نتائج کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دل اس کی حمد و ثناء سے معمور ہو جاتے ہیں.مگر ملک ملک اور قریہ قریہ میں جماعت کی یہ وسعت ہماری ذمہ داریوں میں بھی بڑا اضافہ کر رہی ہے اور بسا اوقات ہماری پریشانیاں اور ہمارے دکھ بھی عالمگیر نوعیت کے بن جاتے ہیں.ابھی پچھلے سال جب زنجبار میں فتنہ و فساد نے سراٹھایا تو زنجبار کے احمدیوں کے لئے دل بہت ہی پریشان رہا اور دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلیں کہ خدائے تو انا انہیں ہر شر سے محفوظ رکھے.پھر جب کلکتہ وغیرہ میں فساد ہوئے تو دل بہت ہی بے چین ہوا اور سینہ پر یاں سے خضوع و خشوع کا ایک چشمہ پھوٹا اور اپنے بھائیوں کی جانی و مالی سلامتی کے لئے ہمارا ذرہ ذرہ اپنے رب کے حضور جھکا اور اس سے مدد اور نصرت اور صبر کے طالب ہوئے.پھر جب ٹانگانیکا میں کوئی آگ بھڑ کی تو دل میں ایک اور ٹیس اٹھی کہ کس طرح ہم اپنے رب کے جوش کو اپنے ابتہال اور تضرع سے حرکت میں لائیں کہ وہ ہمارے غم اور ھم کی طرف اپنی رحمت اور قدرت سے متوجہ ہو.اے خدا! اپنے ان سب پاک بندوں کو جنہیں تو نے اپنے فضل خاص سے دنیا کی بھلائی اور بنی نوع انسان کی ہمدردی اور خدمت اور خدا تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے قیام کے لئے چنا ہے.جن کے دن نیکی کے کاموں میں بسر ہوتے ہیں اور جن کی راتیں بنی نوع

Page 202

۱۹۶ انسان کی اصلاح کے لئے دعاؤں میں گزرتی ہیں.ہاں اپنے ان نیک بندوں کو ہر شر پسند اور دنیوی معاشرہ کی ذمہ داریوں اور زندگی کے فیشن سے دور ہو جانے والے گروہ کے ہر فتنہ اور ہر شر اور ہر بدند بیر سے محفوظ رکھ اور اپنے فرشتوں کی فوجیں اُن کی مدد اُن کی نصرت اور اُن کی حفاظت کے لئے آسمان سے نازل فرما.اور اس شر پسند گروہ کے عمل غیر صالح‘اور شیطانی تدبیر اور ظالمانہ قوت اور طاقت اور خبیثا نہ نخوت و غرور اور ظلم و عدوان کو اس طرح پیس ڈال جو پیں ڈالنے کا حق ہے.اور اپنے ان مظلوم بندوں کو جو تیری توحید اور محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت و جلال کو دنیا میں قائم کرنے کا عہد باندھے ہوئے ہیں اور ان کے اموال اور ان کے گھروں کو جن کی رفعت اور بلندی کا تیری طرف سے وعدہ ہے کیونکہ تیرے ذکر سے وہ گھر معمور اور تیری راہ میں خرچ کئے جانے کی وجہ سے وہ مال پاک اور مطہر ہیں اپنی رحمت اور قدرت اپنے قہر اور عزت کے نام پر اپنی پناہ میں لے لے اور ہر نقصان سے انہیں امن دے اور ہر تباہی سے انہیں محفوظ رکھ اور ہر غم سے انہیں نجات دے.انہیں امن اور سلامتی میں رکھ ، انہیں امن اور سلامتی میں رکھ.يَارَبَّ الْعَالَمِین.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کا ذکر کرنا مناسب ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں.میں اپنی جماعت کے لئے اور پھر قادیان کے لئے دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا.(۱) زندگی کے فیشن سے دور جاپڑے ہیں.(۲) فَسَحِقْهُمْ تَسْحِيْقًا فرمایا میرے دل میں آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے.اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بيت الدعا پر لکھی ہوئی ہے اور وہ دعا یہ ہے.يَا رَبِّ فَاسْمَعُ دُعَائِي وَمَزَقَ أَعْدَائِكَ وَاَعْدَائِي وَاَنْجِزُ وَعْدَكَ وَانْصُرُ عَبْدَكَ وَأَرِنَا أَيَّامَكَ وَ شَهِرُ لَنَا حُسَامَكَ وَلَا تَذَرُ مِنَ الْكَافِرِينَ شَرِيرًا اس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے.

Page 203

۱۹۷ پھر فرمایا ہمیشہ سے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اس کے ماموروں کی راہ میں جو لوگ روک ہوتے ہیں ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر اور یقین بڑھتا ہے کہ وہ کس طرح ان امور کو ظاہر کر رہا ہے.پھر فرمایا کہ اس کے بعد رؤیا ہوئی کہ ایک عورت قرآن پڑھ رہی تھی.اس سے اپنی جماعت کی نسبت تفاول کی نیت سے پوچھا کہ پہلی سطر پر اول کیا لفظ ہے تو اس نے کہا کہ غَفُورٌ رَّحِيمٌ میں نے سمجھا کہ یہ جماعت کے لئے ہے“.(تذکرہ صفحہ ۴۷۲-۴۷۳) مجھے یقین ہے کہ مخلصین جماعت فساد زدہ علاقوں میں بسنے والے بھائیوں اور ان شعار اللہ کو جو خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی توحید پر تین دلیل ہیں اپنی دعاؤں میں ہمیشہ ہی یا درکھتے ہوں گے.میں یہ درخواست بھی کروں گا کہ ان ایام میں بیت الدعا کی مذکورہ بالا دعا پر خاص طور پر زور دیں کہ وہ صادق الوعد ہے اور اپنے وعدہ کو ضرور پورا کرے گا اور جو بھی اس کے ارادہ کے خلاف ارادہ اور اس سے دشمنی رکھتا ہے وہ بھی اس سے دشمنی رکھے گا اور اپنی قدرت کے ایک ہی ہاتھ سے ان دشمنوں کے ہر شر اور ہر منصوبہ کو کچل کر رکھ دے گا اور پیس ڈالے گا.اے خدا ہماری گریہ وزاری کوسن اور ہمیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے.آمین مرزا ناصر احمد ناظر خدمت درویشاں ۲۵/۱/۱۹۶۴

Page 204

۱۹۸ تفسیر آیات سورۃ العنکبوت رکوع ۷ لمصلہ (از افاضات حضرت امیر المومنین اصلح الموعود ایدہ اللہ الودود ) وَمَا هَذِهِ الْحَيُوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهُوَ وَلَعِبُ وَ إِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ - فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الذِينَ فَلَمَّا نَخْهُمُ وقفت إلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ لِيَكْفُرُوا بِمَا أَتَيْتُهُمْ وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ.أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا أَمِنَّا وَ يُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللهِ يَكْفُرُونَ - وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكُفِرِيْنَ.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۖ وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ - (العنكبوت: ۶۴ تا ۷۰ ) اور یہ ورلی زندگی صرف ایک غفلت اور کھیل کا سامان ہے اور اُخروی زندگی کا گھر ہی درحقیقت اصلی زندگی کا گھر کہلا سکتا ہے.کاش کہ وہ لوگ جانتے.اور جب وہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اپنی عقیدت کو خالصتاً اللہ تعالیٰ) کے لئے کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں.مگر جب وہ ان کو خشکی کی طرف نجات دے کر پہنچا دیتا ہے تو اچانک پھر شرک کرنے لگ جاتے ہیں تا کہ ہم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس کا انکار کر دیں (اور اس انعام کو خدا کے سوا دوسرے شریکوں کی طرف منسوب کر دیں) اور اس (عارضی تو بہ ) کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ( اللہ تعالیٰ ان کو چھوڑ دیتا ہے اور ) وہ ایک عرصہ تک دنیوی سامانوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.پس ایک دن یہ بخشش ختم ہو جائے گی اور ) وہ (اپنی حقیقی جزا کو ) دیکھ لیں گے.کیا انہیں معلوم نہیں کہ ہم نے حرم ( یعنی مکہ ) کو امن کی جگہ بنادیا ہے اور ان لوگوں کے اردگرد

Page 205

۱۹۹ سے ( یعنی مکہ کے باہر سے) لوگ اُچک لئے جاتے ہیں تو کیا وہ جھوٹ پر تو ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں.اور جو شخص اللہ تعالیٰ ) پر جھوٹ باندھ کر افتراء کرتا ہے اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے یا (اس سے) جو سچی بات کو اس وقت جھٹلاتا ہے جب وہ اُس کے پاس آجاتی ہے.کیا ایسے کافروں کی جگہ جہنم میں نہیں ہونی چاہیے.اور وہ (لوگ) جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے اور اللہ تعالیٰ) یقینا محسنوں کے ساتھ ہے.تفسیر فرمایا.انسان یا تو آرام اور سکون حاصل کر رہا ہوتا ہے یا مختلف طریق پر اپنی قوتوں کو بروئے کا رلا رہا ہوتا ہے.فرمایا کہ اگر تم اس حقیقت کو سمجھتے کہ دنیا دار آخرت کی تیاری کے لئے رکھی گئی ہے اور اس کی حیثیت لہو ولعب کی سی ہے تو تم دنیا پر لات مار کر محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی اختیار کر لیتے اور سمجھتے کہ مادی ترقیات، روحانی ترقیات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.مگر تم نے تو دار آخرت پر دنیوی زندگی کو ترجیح دے دی اور چند کھوٹے پیسوں کے لئے آسمانی دولت کو رد کر دیا.فرمایا کہ دیکھو جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں اور کشتی بھنور میں پھنس جاتی ہے تو وہ اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے اپنے بچاؤ کی دعا کرتے ہیں.کوئی دیوتا انہیں یاد نہیں آتا.لیکن جب کشتی بھنور سے نکل جاتی ہے تو پھر شرک کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور ہمارے انعامات کا انکار کر دیتے ہیں اور اس کامیابی کو اپنی تدبیر یا کسی دیوتا کی طرف منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں.فرمایا بیشک ہم انہیں ایک عرصہ تک تو بہ کا موقعہ دیتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں وہ دنیوی سامانوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں لیکن ایک دن وہ ان مواقع سے بھی محروم ہو جائیں گے اور پھر دیکھ لیں گے کہ ان کا کوئی جھوٹا معبودان کی مدد نہیں کر سکے گا اور وہ عذاب کی طوفانی موجوں سے رہائی کی کوئی صورت نہیں پائیں گے.فرمایا کہ خود خانہ کعبہ کا وجود تو حید باری کا کافی ثبوت ہے.دیکھو دعائے ابراہیمی کی وجہ سے ہی انہیں امن میسر

Page 206

آیا ، دعائے ابراہیمی کی وجہ سے ہی انہیں رزق ملا، اور دعائے ابراہیمی کی وجہ سے ہی انہیں عزت اور شہرت نصیب ہوئی، تو انہیں سوچنا چاہیے کہ ابراہیم نے بیت اللہ کی تعمیر کیا اس لئے کی تھی کہ انسان اپنی جبینِ نیاز ربّ العالمین کی بجائے پتھر کے بے جان بتوں کے آگے جھکا دے.کعبہ کی بناء تو خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے رکھی گئی تھی.پھر کیوں ان کی خطا کار پیشانی ہمیشہ باطل کے سامنے جھکتی ہے اور کیوں وہ احسان ناشناسی کا بدترین نمونہ پیش کرتے ہیں.فرمایا کہ منکرین اسلام میں دو بڑے عیب ہیں ، ایک تو خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں اور دوسرے الہی صداقتوں کو جھٹلاتے ہیں اس لئے ان کے لئے تباہی اور نا کامی مقدر ہو چکی ہے.فرمایا حسن انجام تو ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اس کی خاطر ہر قسم کے ابتلاؤں کو برداشت کرتے ہیں.ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہیں آتی.قربانیوں کی راہ میں ان کا قدم بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور ان کی یہ جدو جہد ہمارے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہوتی ہے.ہمارا بھی ان سے حسن سلوک ہوتا ہے، علم وعرفان اور قرب الہی کے راستے ان پر کھولے جاتے ہیں، کامیابی اور عروج کی غیر متناہی راہیں ان پر وا کی جاتی ہیں اور ان کا ہر قدم انہیں زیادہ سے زیادہ خدائی برکات اور انوار کا مورد بنادیتا ہے.ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم بھی اس کے محسن بندے بنیں اور ا بتلاؤں کے طوفانوں میں ایمان کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اپنی جانی اور مالی قربانیوں کے ذریعہ اخلاص اور فدائیت کے نمونہ پیش کریں تو اللہ تعالیٰ یقیناً ہماری مدد کے لئے آسمان سے اترے گا اور وہ ہمیں ایک پیارے بچے کی طرح اپنی گود میں اٹھالے گا.اے خدا! ہم تجھ سے ہی اس کی تو فیق چاہتے ہیں.عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا.(مرزا ناصر احمد ) (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ فروری ۱۹۶۴ء صفحه ۲۲ تا ۲۴)

Page 207

۲۰۱ تفسیر آیات.سورۃ اخلاص لمصلہ (از افاضات حضرت امیر المومنین اصلح الموعود ایدہ اللہ الودود ) امیر الورود) الموعودايده بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ - وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ - (الاخلاص) میں اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہےشروع کرتا ہوں.ہم ہر زمانہ کے مسلمان کو حکم دیتے ہیں کہ ) تو ( دوسرے لوگوں سے ) کہتا چلا جا کہ ( پکی اور اصل ) بات یہ ہے اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے.اللہ وہ ہستی ) ہے جس کے سب محتاج ہیں (اور وہ کسی کا محتاج نہیں ) نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے.اور (اس کی صفات میں ) اس کا کوئی بھی شریک کار نہیں.تفسیر :.اس سورۃ میں اختصار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توحید کامل اور اس کی صفات اور شان کو بیان کر دیا گیا ہے.اس طرح اپنے معنی میں یہ سورۃ قرآن کریم کا مکمل خلاصہ ہے کیونکہ قرآن کریم کے مضامین کا نقطہ مرکزی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو ثابت کیا جائے اور اس کی صفات اور جلالت شان کو بیان کیا جائے اور قل کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس خلاصہ کو یادر کھے.اپنی نسلوں کو اس کی وصیت کرے اور دنیا میں اس کا اعلان اور اس کی اشاعت کرتا رہے یہاں تک کہ دنیا ایک مرکزی نقطہ پر جمع ہو جائے.اس سورۃ میں تین امور پر روشنی ڈال کر اللہ تعالیٰ کی کامل تو حید کو پیش کیا گیا ہے.بتایا کہ (۱) اللہ تعالیٰ موجود ہے (۲) اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں منفرد ہے یعنی وہ اکیلا ہے دو یا تین خدا نہیں اور (۳) وہ پاک ذات واحد فی الصفات اور بے مثل ہے.اس کی صفات میں کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں.

Page 208

چنانچہ فرمایا اللهُ اَحَدٌ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ ہر رنگ میں اور ہر طرح وہ اپنے وجود میں ایک ہی ہے.نہ وہ کسی کی ابتدائی کڑی ہے اور نہ آخری سرا.نہ کسی کے مشابہ ہے اور نہ کوئی اس کے مشابہ.وہ ایک ایسی ذات ہے کہ جب اس کا تصور کریں تو دوسری کسی ذات کا خیال بھی دل میں نہ آسکے.پس اَحَدٌ وہ صفت ہے جو سب خلق سے منزہ ہے اور در حقیقت اللہ تعالیٰ کی اصل شان شانِ احدیت ہے.خدا تعالیٰ کا اپنی ذات میں یکتا ہونا دو قسم کی نفی کرتا ہے.اول یہ کہ وہ دو سے ایک نہیں ہوا اور دوم یہ کہ وہ ایک سے بھی دو نہیں ہوا.وہ نہ تو تنوع ذاتی اختیار کر سکتا ہے اور نہ اس تنوع کو مٹانے سے پھر ایک ہوتا ہے.یعنی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایک سے (۲) بیٹا اور (۳) روح القدس بن گیا اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ تینوں پچھلے پاؤں لوٹ کر پھر ایک ہو گئے ہیں.اس طرح ہر مشر کا نہ خیال کا کلیۂ استیصال کر دیا گیا ہے.اللهُ اَحَدٌ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اللہ ہے اور وہ اپنی ذات اور صفات میں ایک ہے.اس دعوئی پر یہ عقلی اور واقعاتی دلیل دی کہ اللهُ الصَّمَدُ اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں مگر باقی سب چیزیں اس کی محتاج ہیں اور جب ساری چیزیں اس کی محتاج ہیں اور وہی سب کی ضروریات پوری کرتا ہے تو پھر کسی اور اللہ کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چیز جو ہمیں دنیا میں نظر آتی ہے تغیر پذیر ہے اور اپنی ہستی کے قیام کے لئے دوسری اشیاء کی محتاج ہے اور یہ احتیاج بتا رہی ہے کہ دنیا اور اس کی اشیاء اپنی ذات میں قائم نہیں بلکہ اپنی ہستی کے قیام کے لئے دوسروں کی محتاج ہیں.پس کسی ایسی ہستی کا ماننا جوان محتاج ہستیوں کو معرض وجود میں لانے والی ہوا اور ایک ہمہ گیر قانون کے ماتحت ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو ضروری ہے.پس اس کا رخانہ عالم کے قیام و بقاء کے لئے اللهُ الصَّمَدُ کی ضرورت ثابت ہوئی.الصَّمَدُ کے معنی الدَّائِم اور اَلرَّفِيعُ کے بھی ہیں.پس فرمایا کہ وہ ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی.نہ اس سے پہلے کوئی وجود تھا اور نہ اس کے بعد کا ہم تصور کر سکتے ہیں.وہی اول بھی اور آخر بھی اور وہ احدیت کی شان رکھنے والی پاک ذات رفیع الدرجات ہے اور غیر محدود بلندیوں کی

Page 209

۲۰۳ مالک.اس کی بلندیوں تک، اس کی رفعتوں تک انسان کی پرواز تخیل بھی نہیں پہنچ سکتی اور جب ہم نے حصول قرب کے لئے اس رفیع الدرجات خدا کی طرف پرواز کرنی ہے تو پھر جس قدر بھی پرواز کریں کم ہے کیونکہ ہمارا اللہ غیر محدود رفعتوں کا مالک ہے اور ہم پر قرب کی غیر محدودرا ہیں کھلی ہیں اور غیر محدود روحانی ترقیات کے دروازے ہم پر کھولے گئے ہیں ہمارا روحانی سفر کبھی ختم نہیں ہوتا.یہ بھی یادر ہے کہ تو حید رحمانیت کا منبع ہے اور صمدیت کے اندر رحمانیت مضمر ہے.ہر چیز اپنی ربوبیت کے لئے اسی کی محتاج ہے اس کے لئے کسی عمل کی ضرورت نہیں.انسان اور غیر انسان سب ہی اپنے وجود اور اپنی بقاء کے لئے اسی کی رحمانی ربوبیت کے محتاج ہیں اور جب انسانوں میں سے نیک و بد سب کا وہ رب ہے اور وہ رب اور رحمان ہے پر ہیز گاروں کا بھی اور گناہگاروں کا بھی تو ہمیں کسی کفارہ کی ضرورت نہیں اور نہ کسی تناسخ کی ہمیں احتیاج ہے.ہم نے بتایا ہے کہ اگر تو حید نہ ہو تو رمانیت پیدا نہیں ہوسکتی.چنانچہ اس کی ایک موٹی مثال یہ ہے کہ جو قو میں توحید کی قائل نہیں وہ رحمانیت کی بھی قائل نہیں.مثلاً ہند و تو حید کو نہیں مانتے لہذا وہ رحمانیت کے بھی قائل نہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ انسان کو اس کے گناہوں کی سزا ضرور ملے گی.گناہ کی معافی کے لئے وہ اللہ تعالیٰ کا محتاج نہیں، مسئلہ تناسخ کا محتاج ہے.اسی طرح عیسائی تو حید کے قائل نہیں اور گناہوں کی معافی کے لئے کفارہ کو ضروری خیال کرتے ہیں.مگر اسلام کہتا ہے کہ اللهُ الصَّمَدُ اس کا فیض جاری ہے اور ہر چیز اس کی رحمانیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور اس کی محتاج ہے پس تو حید و رحمانیت لازم و ملزوم ہیں اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو نہ کسی کفارہ کی ضرورت ہے اور نہ تناسخ کی.خدائے احد، صمد اور رحمان ہی ان کے لئے کافی ہے.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ الصَّمَدُ کے لئے بطور دلیل ہے اور بتایا کہ احتیاج دو باتوں کے سبب پیدا ہوتی ہے.اول ابتدائی تعلقات کی وجہ سے اور دوم آئندہ کے تعلقات کی وجہ سے (۱) ابتدائی تعلقات سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کے نیست سے ہست میں آنے کا کوئی سبب ہو، ایسی ہستی محتاج ہوتی ہے.اپنے سبب کی کیونکہ اگر وہ سبب نہ ہوتا تو اس کا وجود ظاہر نہ ہوسکتا اور (۲) آئندہ کے تعلقات

Page 210

۲۰۴ سے مراد یہ ہے کہ اس کی کوئی اولا د ہو.کیونکہ اولاد کا ہونا نہ صرف عورت کی احتیاج کو ثابت کرتا ہے بلکہ اولا د کا وجود خود اپنے نفس کے فانی ہونے کا بھی ثبوت ہوتا ہے.چنانچہ دنیا میں کوئی ایسی ہستی جو اپنی پیدائش کی غرض کے پورا ہونے تک زندہ رہنے والی ہو اولاد نہیں رکھتی اور نہ اس کی نسل آگے چلتی ہے.جیسے سورج، چاند، پہاڑ، زمین وغیرہ لیکن انسان، حیوانات، نباتات اپنی ضرورت کے پورا ہونے سے پہلے مر جاتے ہیں.اس لئے ان کی نسل بھی چلتی ہے.پس اس آیہ میں یہ بتا کر کہ خدا تعالیٰ کی ذات کسی دوسرے کی نسل سے نہیں اور نہ اس سے کوئی نسل چلی ہے.اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ وہ غیر فانی ہے اور اپنے ذات میں مکمل ہے اور احد ہے کیونکہ اس آیہ نے مذکورہ بالا دونوں قسم کے تعلقات کی نفی کر دی اور اس طرح ایک طرف تو اس کی صمدیت کا ثبوت دے دیا اور دوسری طرف اس کی احدیت کا.پھر فرمایا کہ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ یعنی صرف یہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی کا بیٹا نہیں یا خدا تعالیٰ کا آگے کوئی بیٹا نہیں بلکہ اس کا مماثل اور مشابہ بھی کوئی نہیں.نہ اس کی ذات میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ اس کی صفات میں اس کا کوئی شریک ہے کیونکہ ساری دنیا میں ہمیں ایک ہی قانون چلتا ہوا نظر آ رہا ہے.کوئی دو مستقل اور متوازی سکیمیں اور قانون دنیا میں نہیں چل رہے جس سے کسی کفو کا ہمیں ثبوت ملے.نیز قانون جب ایک ہی ہے تو دو مماثل ہستیاں جو ایک سی خدائی طاقت رکھتی ہوں ان کا وجود باطل ہو جاتا ہے.یہ سورۃ دہریت اور عیسائیت جیسے خطرناک فتنوں کو مٹانے اور اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی احدیت کو ثابت کرنے کے لئے اور تمام قوموں کو ایک نقطہ ء مرکزی پر جمع کرنے کے لئے نازل کی گئی وو ہے کیونکہ وہ خدا رب العالمین خدا ہے اور سزاوار ہے اس بات کا کہ سب اقوام عالم اس ”ایک اور یکتا کے جھنڈے تلے جمع ہوں اور ساری دنیا اس کی حمد کے ترانہ سے گونجنے لگے.اے خدا! اپنے اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں ہمیں اپنا خادم بنا.آمین (مرزا ناصر احمد ) (ماہنامہ انصار الله ر بوه مارچ ۱۹۶۴ء صفحه ۳۹ تا ۴۱)

Page 211

۲۰۵ خلافت اسلام کا دعویٰ ہے کہ انسانی پیدائش کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا وجود دنیا میں پیدا کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہو اور صفات الہیہ کو ظاہر کرنے والا ہو.چنانچہ فرمایا انّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرة: ۳۱) یعنی انسانی پیدا کس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ کہا کہ میں دنیا میں ایک ایسی مخلوق پیدا کر نے لگا ہوں جو میری نمائندہ ہوگی اور میری صفات کی مظہر ہوگی.اس طرح ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں یہ فرمایا هُوَ الَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَّيْفَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كفرة (الفاطر: ۴٢٠) یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے تم کو دنیا میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے اور تم میں یہ قوت اور طاقت رکھی ہے کہ اگر تم چاہو تو اس کی صفات کا مظہر بن سکتے ہواور یہ ایک بہت بڑا مرتبہ ہے جو تمہیں دیا گیا ہے.پس جو شخص اس مرتبہ کی قدر نہیں کرے گا اور اپنے اعمال کو اس کے مطابق نہیں بنائے گا اُسے اپنی اس غفلت کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا.نبی اکرم ﷺ نے بھی فرمایا کہ تَخَلَّقُوا بِاَخلاقِ الله یعنی اے مسلمانو! صفات الہیہ کو اپنے اندر پیدا کرو.پس انسانی پیدائش کی غرض ہی یہ ہے کہ پیدائش عالم کا صحیح مقصد حاصل ہو اور اس کے دونوں سروں پر خدا تعالیٰ کی صفات جلوہ گر ہوں.پیدائش کے ایک سرے پر تو ہمیں صفات الہیہ کا ایک طبعی ظہور اس کے بنائے ہوئے قوانینِ قدرت میں نظر آتا ہے.اس نے اپنی صفات کے طبعی ظہور سے عالمین کو پیدا کیا ،سمندر بنائے ، دریا جاری کئے ، جزیروں کو پیدا کیا، پہاڑ بنائے.اس کی قدرت نے زمین کے اندر مختلف قسم کی کانیں پیدا کیں پھر نباتات کی ایک وسیع دنیا معرض وجود میں آئی.قسما قسم کے درخت اور بوٹیاں اگائیں اور ہر قسم کے غلہ وغیرہ کو پیدا کیا.پس پیدائش عالمین کی وسعتوں اور اس کی گہرائیوں میں خدائی صفات کارفرما نظر

Page 212

آرہی ہیں.ع جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا دوسری طرف اس نے ایک ایسا وجود پیدا کیا جو ان چیزوں کے استعمال میں خدائی صفات کو بطور نائب خدا بروئے کارلائے اور اس طرح پر پیدائش عالم کے دونوں سروں پر خدا تعالیٰ کی صفات جلوہ نما ہوں.اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ان تمام جہانوں کا اصل اور حقیقی مالک تو خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے انہیں پیدا کیا اور جس کے قبضہ ء اقتدار سے وہ باہر نہیں.لیکن اس ملکیت کو اس نے ایک طور پر اور نیابت کے رنگ میں آگے بحیثیت مجموعی انسان کے سپرد کیا ہے.پس اسلامی اصول کے لحاظ سے ملکیت دو قسم کی ہے.اصل اور حقیقی ملکیت تو خدا تعالیٰ کی ہے مگر ظلی ملکیت اور تنفیذ ی حکومت بطور نائب کے بنی نوع انسان کی ہے.پس چونکہ ملکیتیں دوستم کی ہیں حقیقی اور خالی اس لئے آگے نائب بنانے کے بھی دو ہی طریق ہو سکتے ہیں.ایک تو حقیقی مالک کا بنایا ہوا نا ئب ہوگا یعنی نبی اللہ اور ایک وہ نائب ہوگا جسے بنی نوع انسان نے اپنا نائب بنایا ہو یعنی حاکم وقت مگر اسلام نے نیابت کی ایک تیسری صورت بھی پیش کی ہے اور وہ دونوں قسم کے مالکوں کی مشترکہ نیابت پر دلالت کرتی ہے اور اسی کو اسلامی اصطلاح میں خلیفہ کہتے ہیں.ایک جہت سے وہ مالک حقیقی کا بنایا ہوا نا ئب ہوتا ہے اور ایک جہت سے وہ فلمی مالکوں یعنی بندوں کا تسلیم کردہ حاکم ہوتا ہے.پس خلافت کے متعلق اسلامی نظریہ یہ ہے کہ خلیفہ بنا تا تو خود خدا ہی ہے لیکن اس انتخاب یا تعیین میں وہ امت مسلمہ کو بھی اپنے ساتھ شریک کرتا ہے.یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ انتخاب بالواسطہ ہوتا ہے اور یہ واسطہ وہ امت مسلمہ ہے جو مضبوطی کے ساتھ اپنے ایمانوں پر قائم اور اپنے ایمان کے مطابق اعمال صالحہ بجالانے والی ہو.یعنی اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے دلوں پر تصرف کر کے اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق خلیفہ کا انتخاب کرواتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ جب خلیفہ کا انتخاب امت مسلمہ کی رائے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہو چکے تو پھر امت مسلمہ کو یہ حق نہیں رہتا کہ وہ اس خلیفہ کو اپنی مرضی سے معزول کر سکے.اس لئے کہ یہ ایک مذہبی انتخاب تھا جو اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی کے ماتحت کیا گیا اور اس انتخاب میں

Page 213

۲۰۷ الہی تصرف کا ہاتھ تھا اور جسے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہوا سے کوئی انسان معزول نہیں کر سکتا.پس اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کے عزل کو خود اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.جب بھی وہ دیکھے کہ خلیفہ کے بدلنے کی ضرورت ہے وہ خود اُسے وفات دے دے گا اور اپنی مرضی اور تصرف کے مطابق امت مسلمہ کے ذریعہ نئے خلیفہ کا انتخاب کروا دے گا.پس روحانی خلفاء بندوں کے ہاتھوں معزول نہیں ہو سکتے اور جو ایسا سمجھے اس کے اندر نفاق اور بے حیائی کا مادہ ہے.اسی لئے حضرت خلیفہ المسیح الاول نے بعض کمزور ایمان والوں کو مخاطب کر کے فرمایا تھا.” مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی کی طاقت ہے کہ وہ معزول کرے...معزول کرنا تمہارے اختیار میں نہیں.خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں یہ خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے.پس مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا اور اپنے مصالح سے بنایا ہے.خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.اس لئے تم میں سے کوئی مجھے معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتا...تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کر دو.تم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے...میں پھر یاد دلاتا ہوں کہ قرآن مجید میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ اللہ ہی خلیفے بنایا کرتا ہے...میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا ہی نے بنایا ہے جس طرح ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے مجھ کو نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر میں تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رِدا کو مجھ سے چھین لے.( بدر اور ا ا جولائی ۱۹۱۲ء) میرے مذکورہ بالا بیان سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ چونکہ روحانی خلیفہ کا معزول کرنا بلا واسطہ اور بلا شرکت غیرے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور گونئے خلیفہ کے انتخاب میں امت مسلمہ کو ایک رنگ میں شریک کیا گیا ہے مگر اس انتخاب کے وقت بھی خدائی تصرف سے اسی کی مرضی پوری ہوتی ہے اس لئے ایک خلیفہ کی زندگی میں نئی خلافت کے متعلق سازشیں کرنا یا منصوبے باندھنا یا باتیں

Page 214

۲۰۸ پھیلانا یا اس ضمن میں کسی شخص کا نام لینا خواہ وہ شخص پسندیدہ ہو یا غیر پسندیدہ اسلامی تعلیم کے حددرجہ خلاف اور انتہائی بے شرمی اور بے حیائی کی بات ہے اور پاک باز مومن اس قسم کی منافقانہ اور خبیثانہ باتوں سے ہمیشہ پر ہیز کرتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کا وہم اور خیال بھی ان کے ذہن میں نہیں آتا اور اگر کسی منافق طبع کو وہ اس قسم کی بات کرتے سنتے ہیں تو سختی سے ایسے شخص کی باز پرس کرتے ہیں.یہاں میں یہ ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہمارے امام حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک نہایت ہی شفیق باپ ہیں اور اپنی اولاد پر آپ کے بہت ہی احسان ہیں جن کا شمار بھی ہمارے لئے ممکن نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑا احسان جو آپ نے اپنی اولاد پر کیا وہ دعائیں ہیں جو آپ نے اپنی اولاد کے لئے کیں اور جماعت سے کروائیں.پھر ان دعاؤں میں سے بھی بڑی ہی پیاری وہ دعا ہے جو میں درج ذیل کرتا ہوں.حضور ایدہ اللہ فرماتے ہیں.منافقین کہتے ہیں کہ میں اپنی اولاد میں سے کسی کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں حالانکہ خلیفہ خدا بناتا ہے.اگر میری اولاد میں سے کوئی ایسا خیال بھی دل میں لائے گا تو وہ خدا کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا.پس میں تو کہتا ہوں کہ یہ بھی دعا کرو کہ میری اولاد کے دل میں بھی کوئی ایسا وسوسہ نہ ہو اور خدا ان کے دلوں کو بھی پاک رکھے کیونکہ جو خدا کا مال لینا چاہتا ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو یقینا سزا پائے گا“.(الفضل یکم نومبر ۱۹۵۶ء) خدا شاہد ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور جماعت کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمارے دلوں کو اس قسم کے منافقانہ اور خبیثا نہ وسوسوں سے پاک رکھا ہے اور دعا ہے کہ وہ قادر وتوا نا خدا ہمیشہ ہی ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرما تا رہے اور ہمارے دل اور دماغ کے دروازے شیطان اور اس کے چیلوں کے لئے کبھی نہ کھلیں اور پھر یہ دعا ہے کہ اے ہمارے رب ! اے ہمارے شافی خدا! ہم اپنے باپ اور اپنے امام کے ان احسانوں کا بدلہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے کہ ہم کمزور ہیں.مگر تو تو بڑی طاقتوں والا ہے تو ہی اپنے فضل سے بہترین اور احسن جزا دے اور خود اپنے ہی دست شفا سے آپ کو صحت کاملہ عاجلہ عطا فرما اور اس پاک و مطہر وجود، اس محبت کرنے

Page 215

۲۰۹ والے وجود اور تیرے حضور ہمارے لئے گریہ و زاری سے دعائیں کرنے والے اس پیارے وجود کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھ.يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِين ☆☆ (ماہنامہ انصار الله ر بوه اپریل ۱۹۶۴ء صفحه ۲۷ تا ۳۰)

Page 216

۲۱۰ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی بے انداز اہمیت محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ نے انصار اللہ کے نویں سالانہ اجتماع منعقدہ یکم تا ۳ رنومبر ۱۹۶۳ء کے موقع پر احباب کو اپنے اختتامی خطاب سے نوازنے سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب وملفوظات کی عظمت واہمیت پر بہت ہی دلنشین انداز میں روشنی ڈالی تھی اور احباب کو ان کا بار بار اور بالاستیعاب مطالعہ کرنے اور اس طرح ان کی زندگی بخش تاثیرات سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی تھی.آپ کے اختتامی خطاب کا یہ ابتدائی حصہ افادہ عام کی غرض سے ذیل میں ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے.(ادارہ) قبل اس کے کہ میں وہ بات شروع کروں جو مجھے اس وقت آپ دوستوں کے سامنے رکھنی ہے میں ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں جماعت کے دوستوں تک یہ خوشخبری پہنچا دوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلد پنجم بھی شائع ہوگئی ہے اور یہ کہ احباب اس موقع پر ملفوظات کی دیگر جلدوں کے ساتھ یہ جلد بھی حاصل کر سکتے ہیں.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات، تقاریر، اور ارشادات اس وقت کئی شکلوں میں ہمارے سامنے ہیں.ایک تو وہ کتب ہیں جو حضور نے اپنے قلم معجز رقم سے خود تحریر فرما ئیں.دوسرے وہ مسحور کن نظمیں ہیں جو حضور نے عربی یا فارسی یا اردو میں لکھیں.ان نظموں کے مجموعے عربی ، فارسی اور اردہ میں علیحدہ علیحدہ چھپے ہوئے ہیں.ان کی اپنی ایک خصوصیت اور جدا گانہ شان ہے.مثلاً در نشین اردو ایک چھوٹی سی کتاب ہے.بچے بھی اسے بہت شوق سے پڑھتے ہیں اور

Page 217

۲۱۱ اس سے بہت لطف اٹھاتے ہیں.اگر یہ ہمارے گھروں میں موجود ہو اور ہمارے توجہ دلانے پر بچے اسے بار بار اور بکثرت پڑھتے رہیں تو یہ امران کی تعلیم و تربیت میں بے حد مد ثابت ہوسکتا ہے.اس لئے کہ ہر وہ مضمون جو حضور نے اپنی کتب میں شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے اسے اختصار کے ساتھ اور اشارہ حضور نے ان نظموں میں ادا فرما دیا ہے.مزید برآں وہ اشتہارات ہیں جو حضوڑ نے اپنی زندگی میں حسب ضرورت وقتا فوقتاً شائع فرمائے.یہ امر دیگر ہے کہ وہ اشتہارات فی الوقت دستیاب ہو سکتے ہیں یا نہیں.لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ان کی اپنی ایک شان اور ان کا اپنا ایک مزہ ہے.مثلاً آتھم کی پیشگوئی صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ان تمام اشتہارات کو پڑھنا نہایت ضروری ہے جو اس تعلق میں حضور نے اس وقت لکھے اور شائع فرمائے.ان کے علاوہ حضور کے وہ ارشادات وفرمودات ہیں جو ملفوظات کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں اور ان کا اپنا ایک مزہ اور اپنا ایک لطف ہے.ان کا مطالعہ کرتے وقت بالکل یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں اور حضور بہت دلنشین انداز میں مختلف موضوعات اور مختلف مسائل پر گفتگو فرمارہے ہیں.حاضرین میں سے کوئی ایک بات پوچھتا ہے حضوڑ جواب دیتے ہیں.کسی کے دل میں کوئی شبہ پیدا ہوتا ہے.حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ہو جاتا اور حضور رفع شک کی خاطر اس کے متعلق تقریر شروع فرما دیتے ہیں.الغرض ملفوظات کا مطالعہ کرتے وقت ایک قاری پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ گویاوہ ایک اور ہی عالم میں پہنچا ہوا ہے.یہ ملفوظات ان پر معارف مجالس کی تحریری روداد ہیں جن میں حضور سامعین کی فکری نہج اور ان کی ذہنی اور فکری الجھنوں کوملحوظ رکھ کر مختلف مسائل پر گفتگو فرمایا کرتے تھے.ایک جگہ حضور نے فرمایا ہے کہ میرے پاس آکر لمبا عرصہ رہا کرو کیونکہ میں ایک ہی وقت میں ہر ایک کی فکری نہج اور ضرورت کے مطابق بات نہیں کر سکتا اور نہ یہ عملاً کسی انسان کے لئے ممکن ہے.میں ایک وقت میں کسی کی چینی کیفیت کے مطابق بات کر رہا ہوتا ہوں اور دوسرے وقت میں کسی اور شخص کی ذہنی کیفیت کو ملحوظ رکھ کر بات کر رہا ہوتا ہوں اگر کوئی شخص صرف چند گھنٹے ہی میری صحبت میں رہے اور پھر چلا جائے تو اس امر کا

Page 218

۲۱۲ امکان ہے کہ اس کی ذہنی و فکری الجھنیں دور نہ ہوں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت میں ایک دوسرے گروہ کی ذہنی الجھنوں کو دور کرنے میں مصروف ہوں اور تمہیں اس سے پورا فائدہ نہ ہو.لیکن اگر تم یہاں آکر لمبا عرصہ رہو گے تو تمہیں ایسے مواقع ضرور میسر آجائیں گے کہ جب میں تمہاری اپنی فکری نہج کے مطابق بات کر رہا ہوں گا.اس طرح تمہاری اپنی ذہنی الجھنیں دور ہو جائیں گی اور تم اطمینان قلب کی دولت سے مالا مال ہو کر اپنے گھروں کو واپس جاؤ گے.تو ملفوظات جو حضور کے ایسے ہی پر معارف ارشادات پر مشتمل ہیں ان کا اپنا ایک مزہ اور ان کی اپنی ایک جدا گانہ شان ہے اور وہ بڑا ہی عجیب مزہ اور بہت ہی نرالی شان ہے.میں اس مزہ اور اُس شان کی کیفیت کیا بیان کروں اور کیونکر بیان کروں جبکہ الفاظ میں اسے بیان کرنا ممکن ہی نہیں.اسے بیان نہیں کیا جاسکتا ہاں مطالعہ کر کے محسوس کیا جاسکتا ہے.اپنی تو یہ حالت ہے کہ ملفوظات کی جلدیں ہمیشہ سرہانے رکھی رہتی ہیں اور جو نہی ضروری اور فوری کاموں سے ذرا بھی فرصت ہوتی ہے تو انہیں پڑھنا شروع کر دیتا ہوں.کتاب کھولنے کی دیر ہوتی ہے کہ ایک جہان آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.کہیں دعا کے متعلق گفتگو ہورہی ہے، کہیں عیسائیت کے رد میں دلائل بیان ہورہے ہیں.کہیں استغفار کی اہمیت ذہن نشین کرائی جارہی ہے، کہیں جماعت کو ایک رنگ میں نصیحت کی جا رہی ہے، کہیں دوسرے رنگ میں نصائح ہورہی ہیں.جس طرح ایک گلہ بان اپنی بھیڑوں کے گلہ پر ہر سمت اور ہر طرف نگاہ رکھتا ہے کہ کوئی ادھر نہ بھٹک جائے اور کوئی اُدھر نہ بھٹک جائے اسی طرح یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے ہر قسم کی نیکیوں پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور گھیر گھیر کے حضور نے انہیں ایک چھوٹی سی جگہ میں ہمارے لئے محفوظ کر دیا ہے اور جب ملفوظات کی شکل میں یہ سب نیکیاں یکجائی طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہم ان سے بڑا ہی لطف اٹھاتے ہیں.یہ وہ بیش بہا خزانہ ہے جس سے ہماری نسلیں قیامت تک روحانی حظ اٹھاتی رہیں گی.انشَاءَ اللهُ تَعَالٰی.ملفوظات کی اشاعت ایک بڑا ضروری کام تھا.پہلے ایک جلد شائع ہوئی.پھر بہت سے دوستوں نے مزید جلدیں شائع کرنے کی طرف توجہ دلائی.میری اپنی بڑی خواہش تھی کہ جلد تر تمام ملفوظات کی اشاعت کا انتظام ہو.میں سوچتا تھا کہ حضور کے ملفوظات کا ایک چھوٹا سا حصہ شائع ہوا

Page 219

۲۱۳ ہے.ابھی ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو تا حال کتابی شکل میں اشاعت پذیر نہیں ہوا.اسے بھی شائع ہونا چاہیے.دوستوں کے ساتھ میری بھی آرزو ملی اور ہم نے شمس صاحب سے کہا کہ آپ اس طرف توجہ دیں اور تمام کے تمام ملفوظات جلد شائع کرنے کا انتظام کریں.چنانچہ مزید جلدیں شائع ہونی شروع ہوئیں اور اب یہ پانچویں جلد شائع ہوئی ہے.خیال ہے کہ دس یا گیارہ جلدوں میں یہ ملفوظات مکمل ہوں گے.ہزار ہا مسائل ہیں جو ان میں آجاتے ہیں.بعض جگہ اثر و جذب میں ڈوبے ہوئے ایسے ایسے فقرے ہیں کہ ان میں سے ایک ہی فقرہ ایک سعید انسان کی کایا پلٹنے کے لئے کافی ہے.آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہم ماہنامہ انصار اللہ میں بھی بعض اوقات چھوٹے چھوٹے فقرے شائع کرتے ہیں وہ اکثر و بیشتر انہیں ملفوظات میں سے لئے جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ہر اس گھرانہ میں جس میں احمدیت کے ساتھ محبت اور اخلاص پایا جاتا ہے کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ ملفوظات کا موجود ہونا بھی از حد ضروری ہے.ان سے بچے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.چھوٹی عمر کے بچے جن کی عقل میں اتنی تیزی نہیں ہوتی بڑی بڑی کتابوں میں درج شدہ مضامین کو یکدم نہیں سمجھ سکتے.لیکن ایک چھوٹی عمر کا بچہ جو عبارت پڑھنی جانتا ہو وہ اس قابل ہوتا ہے کہ ملفوظات کے ایک بڑے حصہ کو سمجھ سکے اور درنشین اردو سے فائدہ اٹھا سکے.میں سمجھتا ہوں درنشین اردو کا تو ہر بچہ کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے اور ملفوظات کا ہر احمدی گھر میں موجود ہونا ضروری ہے.میرے نزدیک ملفوظات خریدنے اور ان سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کے متعلق تحریک کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ جس طرح میرے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے کلام سے محبت کا جذبہ موجزن ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک کے دل میں حضور علیہ السلام اور حضور کی بیش بہا کتب اور ارشادات سے محبت کا ایسا ہی جذبہ موجزن ہے.لہذا میں آپ کے جذبہ محبت کے پیش نظر تحریک کرنا نہیں بلکہ یہ اطلاع دینا چاہتا تھا کہ ملفوظات کی جلد پنجم شائع ہو گئی ہے دوست اسے یہاں سے حاصل کر کے جائیں.(ماہنامہ انصار الله ر بوه جون ۱۹۶۴ء صفحه ۲۸ تا ۳۰)

Page 220

۲۱۴ انبیاء کرام اور ان کے متبعین کا عمل وکردار انتہائی بلندی اور انتہائی پستی کی دو واضح مثالیں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے انصار اللہ کے نویں سالانہ اجتماع منعقدہ یکم تا ۳ نومبر ۱۹۶۳ء کے موقع پر اجتماع کے آخری روز انصار کو اختتامی خطاب سے نوازا تھا.افادہ عام کی غرض سے آپ کا یہ نہایت ہی اہم خطاب ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے.(ادارہ) جب انبیاء علیہم السلام کے حالات و واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ماننے والوں نے دورا ہیں اختیار کیں انہیں ہم دو متضادانتہاؤں سے تعبیر کر سکتے ہیں.ان میں سے ایک تو تسلیم و رضا اور قربانی وایثار کی نہایت ارفع و اعلیٰ مثال کی حیثیت رکھتی ہے.دوسری طرف تفریط کی راہ انکار وابی اور پہلو تہی کی بدنما مثال کے مترادف ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور دیگر الہامات میں ان دونوں متضاد انتہاؤں کی واضح اور نمایاں مثالوں کا ذکر کر کے ہمیں ان سے آگاہ فرمایا ہے.نیز نبی اکرم علیہ نے بھی اپنی احادیث مبارکہ میں ان مثالوں پر کافی روشنی ڈالی ہے.نافرمانی کی بدترین مثال قرآن مجید نے تفریط کی ایک انتہائی بد نما مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمان قوم کو پیش کیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ میں فرماتا ہے.يُقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَسِرِينَ - قَالُوْا يَمُوسَى اِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهَا ۚ فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دْخِلُونَ - قَالَ رَجُلنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ ۚ فَإِذَا

Page 221

۲۱۵ (المائدة: ۲۲ تا ۲۷) دَخَلْتُمُوْهُ فَإِنَّكُمْ غَلِبُونَ وَعَلَى اللهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ - قَالُوا يمُوسَى إِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُوْنَ.قَالَ رَبِّ إِنِي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي فَافْرُقُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَسِقِينَ - قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً : يَتِيْهُونَ فِي الْأَرْضِ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفُسِقِينَ.اے میری قوم ( یعنی قوم موسیٰ ) تم اس پاک کی ہوئی زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھی ہے اور اپنی پیٹھوں کے رُخ نہ لوٹ جانا ورنہ تم نقصان اٹھا کر لوٹو گے.انہوں نے (جواب میں ) کہا کہ اے موسیٰ! اس (ملک ) میں یقیناً ایک سرکش قوم رہتی ہے اور جب تک وہ لوگ اس میں سے نکل نہ جائیں ہم اس میں ہرگز ہرگز داخل نہ ہوں گے.ہاں اگر وہ اس میں نکل جائیں تو ہم یقیناً داخل ہو جائیں گے.(تب) جو لوگ اللہ سے ڈرتے تھے ان میں سے دو شخصوں نے جن پر اللہ نے احسان کیا تھا انہیں کہا کہ تم ان پر حملہ آور ہو کر ان کے خلاف ( چڑھائی کرتے ہوئے ) اس دروازہ میں داخل ہو جاؤ.جب تم اس میں داخل ہو جاؤ گے تو تم یقیناً غالب آجاؤ گے اور اگر تم مومن ہو تو اللہ ہی پر تو گل کرو.پھر ہم کہتے ہیں کہ اسی پر ) تو کل کرو.انہوں نے کہا کہ اے موسیٰ جب تک وہ لوگ اس میں ہیں ہم اس زمین میں کبھی بھی داخل نہ ہوں گے اس لئے تو اور تیرارب ( دونوں ) جاؤ اور (ان سے) جنگ کرو ہم تو بہر حال اسی جگہ بیٹھے رہیں گے.(موسٹی نے ) کہا کہ اے میرے رب ! میں اپنی جان کے سوا اور اپنے بھائی کے سوا کسی اور پر ہر گز تصرف نہیں رکھتا اس لئے تو ہمارے درمیان اور باغی لوگوں کے درمیان امتیاز کردے.(اللہ نے فرمایا تو انہیں اس ملک سے چالیس سال تک کے لئے یقینی طور پر محروم کر دیا جاتا ہے.وہ زمین میں سرگرداں ہو کر پھرتے رہیں گے.پس تو باغی لوگوں پر افسوس نہ کر.فی الوقت میں ان آیات کی تشریح کرنا نہیں چاہتا صرف دو ایک باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے بشارت پا کر اپنی قوم سے کہا کہ اس ارض مقدسہ میں داخل ہو جاؤ.بات یہ ہے کہ جب یہ حکم دیا گیا اس وقت وہ ارض مقدس نہیں تھی.اس میں داخل

Page 222

۲۱۶ ہونے کا حکم اسی لئے دیا گیا تھا کہ وہ زمین ناپاک تھی ، وہ گناہوں سے بھری ہوئی تھی ، وہاں کے رہنے والے اپنے رب کو بھول چکے تھے ، اس سے اپنا تعلق منقطع کر چکے تھے، اس کے قرب کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور اس کے لئے اپنے دلوں میں کوئی اخلاص نہیں رکھتے تھے.خدا تعالیٰ نے اپنے بندے موسیٰ سے کہا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں اس زمین کو مقدس بناؤں.پس تو اپنی قوم سے کہہ دے کہ تم جاؤ اور اپنے خونوں سے اس زمین کو مقدس بناؤ اور وہاں آباد ہو کر اس کی فضا کو خدا تعالیٰ کے ذکر سے اُس کی تحمید سے اُس کی تمجید سے اور اُس کی تکبیر سے بھر دو.تمہارے ایسا کرنے سے وہ زمین مقدس بن جائے گی.پہلے وہ زمین مقدس نہیں تھی.اس میں داخل ہونے کے بعد جب وہ خدا تعالیٰ کی ہدایات پر عمل کرتے تو وہ زمین مقدس ہو جاتی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معرفت ان سے کہا کہ ہم نے تم پر انعام کرنے کا فیصلہ کیا ہے سو تم اس ارض میں داخل ہو اور اس طرح داخل ہو کہ وہ زمین تمہارے خونوں سے سیراب ہو کر اور اس کی فضا تمہارے ذریعہ ذکر الہی سے معمور ہو کر مقدس بن جائے.لیکن ہوا کیا ؟ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں نے اس راز کو نہیں سمجھا.انہوں نے خدائی حکم کے جواب میں کہا تو یہ کہا کہ اگر خدا تعالیٰ نے انعام کے طور پر ہمیں یہ زمین دینی ہے تو پھر ہمارا خون بہانے سے کیا مطلب؟ اے موسیٰ تیرا خدا اور تو جا اور اس زمین پر قبضہ کر.جو قو میں وہاں رہتی ہیں اور جن کے متعلق تو کہتا ہے کہ وہ گنہ گار ہیں انہوں نے اپنے گناہوں سے اس زمین کو نا پاک اور منحوس بنادیا ہے تو جا کر اپنے خدا کی مدد سے ان کو ہلاک کر.جب وہ زمین ناپاک وجودوں سے خالی ہو جائے گی تو ہم ناکارہ اور قربانی سے جی چرانے والے مقدس وجود وہاں جا کر آباد ہو جائیں گے اور ہمارے وہاں جا کر آباد ہونے سے وہ زمین ارض مقدسہ بن جائے گی.یہ تھا وہ جواب جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے خدائی حکم سننے کے بعد دیا.ان کا یہ جواب سن کر اللہ تعالیٰ نے کہا تمہارا کردار اور تمہاری ذہنیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ تمہیں کسی جگہ بھی آباد نہ کیا جائے اور کوئی جگہ بھی تمہارے وجود سے ناپاک نہ ہو.جب تک تمہارے

Page 223

۲۱۷ وجود میں پا کی داخل نہیں ہو جاتی، جب تک تم صحیح معنوں میں پاک اور مطہر نہیں ہو جاتے اس وقت تک کے لئے ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ تم خانہ بدوشوں کی طرح مارے مارے پھرتے رہو کیونکہ مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمُ أَرْبَعِينَ سَنَةً کے تحت ہم نے چالیس سال کے لئے اس زمین میں تمہارا داخلہ بند کر دیا ہے اور يَتِيَهُونَ فِي الْأَرْضِ کے مطابق تم زمین میں سرگرداں ہو کر ادھر اُدھر پھرتے رہو گے.اُن کی نافرمانی کی انہیں یہ سزا ملی.چالیس سال کا زمانہ ہمیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس نافرمان قوم سے کہا کہ تمہاری نسل سے یہ انعام واپس لیا جاتا ہے.اب ایک اور قوم پیدا ہوگی وہ ہوگی تمہیں میں سے لیکن ہو گی ایک نئی قوم.اسے اس انعام کا وارث بنایا جائے گا.وہ بچے جو آج کے بعد پیدا ہوں گے اور دس یا پندرہ سال بعد اس حال میں تم سے تربیت حاصل کریں گے کہ مسلسل دس پندرہ سال تک سرگرداں رہنے اور مارے مارے پھرنے کے بعد تمہارے اندر ندامت کا احساس پیدا ہو چکا ہو گا اور تم یہ سمجھ چکے ہوگے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اپنے آپ کو ایک بڑی اور عظیم الشان نعمت سے محروم کر لیا ہے تو وہ تربیت یافتہ بچے بڑے ہو کر اس بات کے اہل بن جائیں گے کہ ہم انہیں اپنے انعام سے نوازیں.دس پندرہ سال بعد تمہارے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ اگر چہ ہم اس نعمت سے محروم ہو گئے ہیں ہمارے بچوں کو تو اس نعمت سے محروم نہیں رہنا چاہیے.اس احساس کے ساتھ تم جس قوم کی تربیت کرو گے وہ وہ قوم ہوگی جو ارض مقدس میں داخل ہونے کے لئے اپنے خون بہائے گی اور اپنے خون سے سیراب کر کے اسے مقدس بنائے گی.وہ وہ قوم ہوگی جس کے دل کی گہرائیوں سے ذکر الہی بلند ہوگا جو خدا کی حمد کرنے والے، اس کی بزرگی اور کبریائی بیان کرنے والے، اس کی عظمت کو ظاہر کرنے والے اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم کرنے والے ہوں گے.وہی وہ قوم ہوگی جو اس انعام کو حاصل کرے گی.جہاں تک تمہارا تعلق ہے تم اپنی ذہنیت، اپنے کردار اور اپنے انکار کی وجہ سے محروم کر دئیے گئے ہو.سو قربانی و ایثار سے پہلو تہی اور نافرمانی کی یہ وہ بدترین مثال ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کی ان آیات میں کیا ہے.

Page 224

۲۱۸ اطاعت، فرمانبرداری اور فدائیت کا اعلیٰ ترین نمونہ اس کے بالمقابل ایک دوسری انتہا یعنی تسلیم ورضا، اطاعت وفرمانبرداری اور محبت و فدائیت کی بہترین اور اعلی ترین مثال جو تاریخ عالم میں ہمیں نظر آتی ہے وہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کی مثال ہے.آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر یہ اعلان فرمایا کہ میں تمام جہان کے لئے یعنی دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا یعنی ایک چھوٹا سا چند ہزار مربع میل کا رقبہ نہیں بلکہ دنیا کا ہر ملک اور ہر وہ جگہ جہاں دنیا کی کوئی نہ کوئی قوم رہتی ہے براعظم بھی اور چھوٹے چھوٹے جزائر بھی سب کو میرے لئے مسجد بنایا گیا ہے.خشکی اور تری غرض دنیا کے چپہ چپہ کی تقدیس ہمارا کام ہے.ہر جگہ اور ہر مقام پر خدا تعالیٰ کا نام بلند کر کے ہم نے وہاں اپنی پیشانیوں کو رگڑنا ہے اور جب زمین ہماری سجدہ گاہ بنے گی تو وہ پاک ہو جائے گی.تب ایک نیا آسمان ہوگا اور نئی زمین ہوگی.نئی زمین ان معنی میں کہ اس وقت ساری زمین پر خدائے واحد کا نام لیا جائے گا اور نیا آسمان ان معنی میں کہ آسمانوں کے وہ دروازے جو پچھلی قوموں نے اپنے پر بند کر لئے تھے ان کے قفل کھول دیئے جائیں گے.اس اعلان کے ذریعہ سے آپ نے صحابہ کو باور کرایا کہ ان دروازوں میں سے جس دروازہ پر بھی تم دستک دو گے وہ دروازہ تمہارے لئے کھولا جائے گا جب تم دعا کے لئے ہاتھ اٹھاؤ گے تو گویا دعا کے دروازے پر تمہاری دستک ہوگی سو وہ دروازہ آسمان کا کھل جائے گا اور تمہاری دعائیں قبول ہوں گی.اسی طرح معجزات، نشانات اور تائیدات آسمانی کے دروازے کھولے جائیں گے اور آسمان سے فرشتے نازل ہو کر تمہاری مدد اور نصرت کریں گے.الغرض آسمان کے وہ سارے دروازے جو قبولیت دعا کے ہیں، جور و یا وکشوف کے ہیں، جو معجزات اور نشانات کے ہیں.جو پیشگوئیوں اور بشارتوں کے ہیں، جو فرشتوں کے نازل ہونے اور دلوں میں تسکین پیدا کرنے کے ہیں، جو دشمنوں کے دلوں پر خوف طاری کرنے کے ہیں ان میں سے آسمان کا ہر دروازہ جو پہلے مقفل تھا وہ کھول دیا جائے گا.ان دروازوں کے کھل جانے سے گویا ایک نیا آسمان معرض وجود میں آجائے گا.اسی طرح پر زمین بھی ایک نئی زمین ہوگی کیونکہ اس کے.

Page 225

۲۱۹ کونہ کونہ اور چپہ چپہ سے خدا تعالیٰ کا ذکر بلند ہو رہا ہوگا ، اس کے انعام کی عظمت ظاہر ہو رہی ہوگی.سو آنحضرت علی کے ذریعہ اس نئی زمین اور نئے آسمان کا وعدہ مسلمان کو دیا گیا.بنی اسرائیل کو تو ایک چھوٹی سی زمین فتح کرنے کے لئے کہا گیا تھا.وہ کام اس اتنے بڑے اور عظیم الشان کام کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا کہ مسلمانوں نے دنیا کے ہر ملک کو فتح کرنا ہے اور کرنا بھی ہے اپنے رب کے لئے.یہاں ایک چھوٹی سی جگہ کو فتح کرنے کا سوال نہیں ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو حکم دیا گیا تھا یہاں تو ساری دنیا کو فتح کرنے کا حکم ہے.قوم موسیٰ کے بالمقابل کتنا بڑا کام ہے اور کتنی بڑی ذمہ داری ہے جو امت مسلمہ کے کندھوں پر ڈالی گئی یہ اسی عظیم الشان کام اور عظیم الشان ذمہ داری کا رد عمل تھا کہ جب بدر کے میدان میں آنحضرت علی نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ دنیا کی نگا ہیں اس وقت اس بات پر ہیں کہ تم تعداد میں تھوڑے ہو، کمزور ہو، نہتے ہو، تمہاری تلوار میں ٹوٹی ہوئی ہیں، تمہارے نیزے گند ہیں، تمہارے پاس سواریاں نہیں ہیں صرف ستر اونٹ اور دو گھوڑے ہی تو ہیں.پھر تمہیں غذا بھی پوری میسر نہیں.تمہارے مقابلہ پر کفار مکہ کا لشکر جرار کھڑا ہے جو تعداد میں تم سے تین گنا زیادہ ہے اور سواریوں کے لحاظ سے دس گنا زیادہ ہے کیونکہ ستر کے مقابلہ میں سات سو اونٹ ان کے پاس ہیں اور ستر گھوڑے ان کے علاوہ ہیں.پھر جن کے نیزوں کی انیاں تیز اور چمکدار اور دل میں خوف پیدا کرنے والی ہیں، جن کی تلواریں بہترین لوہے کی بنی ہوئی ہیں اور وہ ہاتھ جوان تلواروں پر ہیں وہ عرب کے مانے ہوئے سرداروں کے ہاتھ ہیں.دنیا کی نگاہیں ظاہری سامانوں کے اس باہمی تقابل کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھ رہی ہیں کہ اپنے ایمان اور اخلاص کی بنا پر خدا تعالیٰ کے ان وعدوں پر جو اس نے تم سے کئے ہیں تمہاری نظر ہے یا نہیں؟ تو صحابہؓ کا جواب یہ تھا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ پر ایمان لائے ، آپ کی حقانیت ہمارے دلوں میں جاگزیں ہے.یہ فوج کیا چیز ہے.دنیا کی ظاہر بین نگاہ میں تو یہ امکان بھی آسکتا ہے کہ شاید ہاریں یا جیت جائیں یا اگر جیتنا ممکن نہ ہو تو شکست اتنی فاش نہ ہو کہ ہم کلی طور پر تباہ ہو جائیں ہمارے دلوں کی کیفیت تو یہ ہے کہ آپ اگر حکم دیں تو ہم اپنے گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں جو قطعی اور یقینی موت ہے.ہم اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ آپ کے ایک اشارے پر اس طرح موت کے منہ میں چلے جائیں.

Page 226

۲۲۰.سو یہ دوسری انتہا تھی یعنی اطاعت اور فدائیت کی بہترین مثال جو بجز آنحضرت ﷺ کی قوم کے اور کسی نبی کی قوم نے نہ دکھائی.انہوں نے محض زبان سے دعوی ہی نہیں کیا بلکہ آنحضرت علی کے وجود باجود اور اسلام کی شکل میں انہیں جو نعمت دی گئی تھی اس کی انہوں نے قدرومنزلت کو سمجھا اور ہر وہ قربانی دی اور پوری انشراح صدر کے ساتھ دی جس کا ان سے مطالبہ کیا گیا.ان کے اس انتہائی بلند کردار اور اعلیٰ ترین ذہنیت کے نتیجہ میں دنیا نے یہ نظارہ دیکھا کہ یہ مسکین لوگ یہ نا دار وغریب لوگ جن کی غربت کا یہ حال تھا کہ جب عبادت میں اپنے رب کے سامنے جھکتے تھے تو عورتوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ذرا دیر کے بعد سجدوں سے سر اٹھایا کرو کیونکہ تمہارے سامنے مردوں کی جو صفیں ہیں ان کے تن پوری طرح ڈھکے ہوئے نہیں ہیں اور سجدہ کرتے وقت وہ ننگے ہو جاتے ہیں، یہی مسکین اور غریب لوگ دیکھتے ہی دیکھتے بحروبر کے مالک بن گئے.یہ ایک نادار اور بے کس اور بے در قوم تھی لیکن جب انہوں نے اپنے خدا کی آواز پر والہانہ لبیک کہا اور اس انعام کی دل سے قدر کی جو خدا تعالیٰ انہیں دینا چاہتا تھا، جب انہوں نے اپنے دلوں کو اخلاص سے بھر لیا ، جب انہوں نے اپنے اعمال کو صلاحیت کے روشن سے پالش کر کے درخشندہ بنادیا اور خدا تعالیٰ کے حقیقی عبد بن گئے اور اس کی صفات کے مظہر بن گئے تب یہی لوگ دنیا کے جس میدان میں بھی نکلے فتح و ظفر ان کے قدم چومتی چلی گئی ، جہاں بھی گئے قلیل التعداد ہونے کے باوجود فاتح کی حیثیت سے گئے.بدر کا میدان تو ایک ابتدا تھی.خدا تعالیٰ نے صدیوں تک ان کے ساتھ یہی سلوک کیا اور دنیا صدیوں تک ان کی فتح و ظفر کا نظارہ دیکھتی چلی گئی.قیصر و کسریٰ کو انہوں نے زیر کیا، افریقہ پر وہ چھا گئے ، سپین کو انہوں نے فتح کیا، سلی کو انہوں نے اپنا رنگیں بنایا.ادھر مشرق کا رخ کیا تو ہندوستان چین اور اس کے اوپر کے علاقوں میں گھستے چلے گئے حتی کہ روس کے ایک بڑے علاقے میں بھی جا گھسے.جہاں بھی گئے تھوڑی تعداد میں گئے ، کمزور حالت میں گئے لیکن اس یقین کے ساتھ گئے کہ ہم کمزور ہونے کے باوجود فتحیاب ہوں گے اور اس لئے فتحیاب ہوں گے کہ جس خدا پر ہم ایمان لائے ہیں اور جس کی اطاعت کو ہم نے لازم پکڑا ہے وہ کمزور نہیں ہے وہ کہتا ہے کہ تم فاتح ہو قدم بڑھاتے ہوئے فاتحانہ انداز میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ.چنانچہ وہ مشرق و مغرب میں فاتحانہ انداز میں بڑھتے چلے گئے.انہوں نے ملک ہی فتح نہیں کئے بلکہ قوموں کے دلوں کو بھی فتح کر دکھایا.

Page 227

۲۲۱ احیاء وغلبہ اسلام کی ایک نئی بنیاد اس کے بعد بد قسمتی سے مسلمانوں پر پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین نہیں رہا.ان کے دل اخلاص سے خالی ہو گئے.قرآن کو انہوں نے مہجور کی طرح چھوڑ دیا.خدا تعالیٰ کو جو قادر مطلق ہے وہ ایک انسان کی طرح عاجز و مجبور ہستی سمجھنے لگے.قبولیت دعا کے وہ منکر ہو گئے.الہی تائیدات کو تمسخر اور تحقیر کی نظر سے دیکھنے لگے.اس طرح انہوں نے اپنے پر آسمان کے دروازے بند کر لئے.وہ زمین جس کو انہوں نے اپنے خون سے، وہ زمین جس کو انہوں نے اپنی زبانوں سے، وہ زمین جس کو انہوں نے اپنے دل کے اخلاص سے، وہ زمین جس کو انہوں نے اپنی خداداد ذہانت و فراست سے پاک کرنا اور مقدس بنانا تھا اسے انہوں نے اپنے اعمال واخلاق اور عقیدہ کے بگاڑ کی وجہ سے منحوس قرار دے ڈالا.جب وہ خود ہی بگڑ گئے تو پھر ان کے لئے یہ زمین ، وہ زمین نہ رہی جو محمدعا ہے کی پیدا کردہ تھی اور نہ ان کے لئے وہ آسمان، آسمان ہی رہا جس کے دروازے آنحضرت علی ذریعہ کھولے گئے تھے.تب اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے آنحضرت مہ کے غلاموں میں سے ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمایا جو آپ کا عاشق صادق تھا اور فنافی الرسول کے ایسے مقام پر پہنچا ہوا تھا کہ جس مقام تک نہ اس سے پہلے کبھی کوئی پہنچا اور نہ آئندہ قیامت تک کوئی پہنچے گا.اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کے ذریعہ سے اسلام کو پھر دنیا میں غالب کرے گا اور اسلام پھر اسی شان کے ساتھ تمام دنیا پر چھا جائے گا.جس شان کے ساتھ اس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے دنیا پر محیط ہوکر اخلاص سے، محبت سے، ہمدردی سے، خدا ترسی سے اور قرب الہی کے بل پر حکومت کی تھی.اسی حکومت کے از سرنو احیاء اور قیام کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا.اسلام کی اس عالمگیر حکومت کے از سر نو قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو چنا ہے.آپ جو اپنے آپ کو احمدیت کی طرف منسوب کرتے ہیں، آپ جو دعویٰ رکھتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے محبت ہے، آپ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ان تمام بشارتوں پر ایمان لائے ہیں جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیں، آپ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم

Page 228

۲۲۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حکم تسلیم کرتے ہیں اور آپ کے حکم کے آگے ہماری گرد نہیں خم ہیں، آپ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے کی وجہ سے ہمارے دلوں میں اسلام کی محبت جوش ماررہی ہے، آپ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے دل حضرت نبی اکرم ﷺ کی فدائیت میں تڑپ رہے ہیں، آپ جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ اس لئے ہر دم اور ہر آن بے چین رہتے ہیں کہ خدا کی تو حید دنیا سے مٹ چکی ہے، آپ اور صرف آپ ہی ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بشرطیکہ آپ اپنے عہدوں کو پورا کر نیوالے ہوں اسلام کو پھر دنیا میں غالب کرنے کا فیصلہ کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس ارض مقدس کی طرح جو موسی" کی قوم کو دی گئی تھی چھوٹی سی بشارت نہیں دی.آپ کو تو اتنی زبر دست اور عظیم الشان بشارتیں دی گئی ہیں کہ جب انسان ان کو پڑھتا ہے تو ایک طرف اسے اپنی کمزوری اور بے بضاعتی کا احساس ہوتا ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی غیر محدود قدرتوں اور طاقتوں کا احساس بھی اس کے دل میں پیدا ہوئے بغیر نہیں رہتا.ان بشارتوں میں سے چند بشارتیں اس وقت میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان بشارتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.(1) سچائی مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں گواہی دوں اور میری گواہی بے وقت نہیں بلکہ ایسے وقت میں ہے جبکہ دنیا میں مذاہب کی کشتی شروع ہے.آخر کار اسلام کو غلبہ ہے.میں زمین کی باتیں نہیں کہتا کیونکہ میں زمین سے نہیں ہوں بلکہ میں وہی کہتا ہوں جو خدا نے میرے منہ میں ڈالا ہے.زمین کے لوگ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ شاید انجام کا رعیسائی مذہب دنیا میں پھیل جائے یا بدھ مذہب دنیا پر حاوی ہو جائے مگر وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں یادر ہے کہ زمین پر کوئی بات ظہور میں نہیں آتی جب تک وہ بات آسمان پر قرار نہ پائے.تو آسمان کا خدا مجھے بتلاتا ہے کہ آخر اسلام کا مذہب دلوں کو فتح کرے گا “.(ملفوظات) (۲) میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مُردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے...میں بھی کا اس غم سے فنا ہو جا تا اگر میرا مولیٰ اور میرا آقا قادر و توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا

Page 229

۲۲۳ اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے، مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قا در فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کر دوں.سواب اس نے چاہا ہے کہ ( دلائل اور براہین کے ذریعہ ) ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کوموت کا مزہ چکھاوے.سواب دونوں مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا.اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو تسلیم کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزد یک آتے ہیں جو سچائی کا آفتاب مغرب سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.اور بعد اس کے تو بہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے.اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور جونور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام،اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ نہ وہ ٹوٹے گا اور نہ کند ہوگا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دئے“.(اشتہا ر ار جنوری ۱۸۹۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ے طبع باردوم) (۳) خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین پر پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر اک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط اور یہ ہو جائے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو.یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.(تجلیات الہیہ صفحہ ۲۱ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۰،۴۰۹)

Page 230

۲۲۴ (۴) خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے نا کام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے.لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے...وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دل میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اے منکر و اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو، اگر تمہیں اس فضل واحسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو اور اگر تم پیش نہ کر سکو ( اور ہرگز پیش نہ کر سکو گے ) تو اس آگ سے ڈرو کہ 66 جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے.(اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء مجموعہ اشتہارات جلد اصفحہ ۹۷ طبع بار دوم ) احیاء و غلبہ اسلام کے ضمن میں ہماری ذمہ داری یہ چند اقتباسات مختصر میں نے آپ دوستوں کے سامنے اس لئے رکھے ہیں کہ آپ یہ دیکھیں کہ آپ کے ساتھ آپ کے رب نے کس قدر محبت کے وعدے کئے ہیں اور آپ کی عظمت کو (بوجہ اس کے کہ آپ خدا کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں ) دنیا میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر دیا ہے کہ آپ ہی وہ گروہ ہوں گے جن کی وجہ سے اور جن کی کوششوں اور جن کی قربانیوں

Page 231

۲۲۵ کے نتیجہ میں اور جن کے اخلاص اور ایثار کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ تمام دنیا میں اسلام کو غلبہ دے گا اور آپ ہی وہ جماعت ہوں گے جونئی زمین بنانے والے ہوں گے اور آپ ہی وہ لوگ ہوں گے جو آسمان کی بلندیوں پر چڑھ کر اس کے ہر دروازہ پر دستک دیں گے اور آپ کے لئے ہر دروازہ کھولا جائے گا.اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا آپ نے اپنے رب کو موسیٰ کی قوم کی طرح یہ جواب دینا ہے کہ جا تو اور تیرا رب لڑ ہم اس قربانی کے لئے تیار نہیں یا آپ نے آنحضرت علم کے صحابہ کی طرح اپنے رب سے یہ کہنا ہے کہ تیرے بندہ نے تو ہم سے بہت تھوڑی قربانیاں کی ہیں اگر یہ ہمیں حکم دے تو ہم اپنا سارا مال، اپنا سارا وقت اور اپنی ساری عزتیں تیری راہ میں قربان کر دیں گے اس لئے کہ تیرا نام دنیا میں بلند ہو اور آنحضرت ﷺ کی عظمت کا نعرہ تمام دنیا میں گونجنے لگے.اے خدا تو ہمیں ایسا ہی بنا.الله (ماہنامہ انصار اللہ جولائی ۱۹۶۴ء صفحہ ۲۵ تا ۳۴) ☆☆

Page 232

۲۲۶ احمدی بچوں کا مقام اور ان کے فرائض مرتبہ منیر الدین احمد صاحب سابق ناظم اطفال الاحمد بہ ربوہ ) محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۶۴ء کا افتتاح کرتے ہوئے ایک بہت قیمتی تقریر فرمائی تھی جس کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے تقریر سے پہلے مہتم صاحب اطفال مکرم مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے مجلس اطفال الاحمدیہ کی سالانہ رپورٹ پیش کی.بعد ازاں محترم میاں صاحب نے تقریر کرتے ہوئے اطفال الاحمدیہ کو بیش قیمت نصائح سے نوازا.آپ نے فرمایا:.جب بھی کوئی احمدی بچہ میرے سامنے آتا ہے تو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کئے ہوئے وعدے یاد آ جاتے ہیں اور میرا دل اس بچے کے لئے عزت و احترام کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور ان وعدوں کے نتیجہ میں جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ان کا احساس ذہن میں آجاتا ہے.کیونکہ ہمیں ان بچوں کی اس رنگ میں پرورش کرنی ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرنے والوں میں شامل ہوں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے ہیں.مجلس اطفال الاحمدیہ کی سالانہ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے محترم میاں صاحب نے فرمایا اس رپورٹ کا ہم دو نقطہ ہائے نگاہ سے جائزہ لے سکتے ہیں.پہلا نقطہ نگاہ ماضی اور حال کا مقابلہ ہے.اس لحاظ سے ہر میدان اور ہر شعبہ میں ترقی ہوئی ہے اور رپورٹ سن کر دل خوش ہے کہ بچے اب پہلے سے بلند تر مقام پر جا کھڑے ہوئے ہیں.لیکن اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے کہ آئندہ ہم نے جو کچھ حاصل کرنا ہے اور جو ہمارا مقصد ہے اس کے لحاظ سے ہم نے کیا کام کیا ہے.اس لحاظ سے جب غور کریں تو

Page 233

۲۲۷ معلوم ہوگا کہ ابھی ہم نے بہت کچھ آگے بڑھنا ہے.ہمارے بلند مقصد کے مقابلہ پر ہماری ترقی کی رفتار بہت ہی کم ہے اور اصل مقصد تک پہنچنے میں بہت دیر لگے گی.پاکستان میں بہت سی جماعتیں ایسی ہیں کہ جہاں ابھی تک مجالس اطفال کا قیام عمل میں نہیں آیا.ایک سکیم کے مطابق عمل ہونا چاہیے.جہاں مجالس قائم نہیں وہاں قائم کی جائیں اور جہاں قائم ہیں ان کو زندہ رکھا جائے.اطفال الاحمدیہ کے امتحانات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ امتحانات میں پانچ ہزار اطفال شامل ہوئے یہ تعداد خدا کے فضل سے اچھی ہے اور منتظمین مبارک باد کے مستحق ہیں مگر ابھی اس میں بھی ترقی کی گنجائش ہے اور اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے.چاہیے کہ ہر طفل ان امتحانات میں شامل ہو.اس سلسلہ میں یہ بات خاص طور پر یا درکھنی چاہیے کہ امتحانات میں شامل کرنا صرف منتظمین کا ہی کام نہیں بلکہ تمام اطفال کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ سب مل کر کوشش کریں اور ہر بچہ یہ عہد کرے کہ اس نے پانچ اور بچوں کو امتحانات میں شامل کرنا ہے.اس طرح یہ تعداد آسانی کے ساتھ پچیس ہزار تک جا پہنچے گی.صرف تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے.آپ بجائے وقت ضائع کرنے کے علمی اور دینی کاموں میں حصہ لیں.بچوں میں کام کرنے کی قابلیت ہوتی ہے مگر ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ کیا کرنا ہے.بڑے لوگوں کی امداد اور نگرانی سے ان کو صحیح لائن پر لگایا جاسکتا ہے.ذہنی کام کرنے اور مطالعہ سے بڑی قابلیت پیدا ہوتی ہے.کوئی بچہ بیکار نہ ر ہے.ہر وقت کام کرتے رہنا چاہیے.کسی بچہ کا وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے.کوئی نہ کوئی کام کرتے رہنا چاہیے.اس دنیا کی ۶۰-۷۰ سال کی عمر کچھ بھی نہیں.اصل زندگی موت کے بعد ہمیں ملے گی مرنے کے بعد ایک سو سال گزریں گے.ہزار سال گزریں گے.لاکھ سال گزریں گے مگر ہم وہاں زندہ ہی رہیں گے.ہمیں اس دنیا کی بجائے اگلی زندگی کیلئے سامان جمع کرنے ہیں.جولوگ اس دنیا میں خدا کی ناراضگی والے کام نہیں کرتے.آخرت میں خدا تعالیٰ ان سے محبت کرے گا اور کہے گا کہ دنیا میں ان لوگوں نے مجھے یا د رکھا اور میرے حکموں کی تعمیل کی اور لوگوں کی

Page 234

۲۲۸ لعن طعن و گالی گلوچ سے نہیں ڈرے.آج ان کو میرا قرب اور رضا حاصل ہے.اگر ہماری زندگیاں بھی ایسی ہو جائیں تو سمجھو ہم نے اپنے مقصد زندگی کو پالیا.محترم صاحبزادہ صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا تین یا چار کتا ہیں ہماری ضرورت کو پورا نہیں کر سکتیں.یہ ہماری غفلت ہے کہ ہماری اس قسم کی کتب کی تعداد سینکڑوں تک نہیں پہنچ سکی.مذہب میں وسعت ہے.مختلف موضوعات پر کتب لکھی جاسکتی ہیں.مثلاً دانت کی صفائی کا حکم اور اس کا فائدہ اطفال کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے.بڑوں کی کس طرح عزت کرنی ہے.اسلام اور قرآن میں زندگی کے ہر پہلو کے متعلق تعلیم موجود ہے.نہایت سادہ اور عام فہم رنگ میں یہ باتیں بیان ہونی چاہئیں.پہلے انبیاء کے ماننے والوں میں سے حضرت اسمعیل علیہ السلام کا واقعہ ایسا ہے کہ اس پر غور کرتے ہوئے اس وقت بھی جی چاہتا ہے کہ اس بچہ سے پیار کریں.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے پیارے بیٹے اسمعیل کو کہا اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت میں تمہاری قربانی دینا چاہتا ہوں تو بچے نے فورا اپنے آپ کو پیش کر دیا.اس واقعہ میں بچوں کے لئے بھی اور بڑوں کے لئے بھی ایک عظیم الشان قربانی کا سبق ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خواب دیکھا تو اس کی تعبیر کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے بڑھاپے کی اولا د اور اکلوتے بچے کو فوراً خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے.حضرت ابراہیم تو خدا کے نبی تھے.انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کو پہچانا ہوا تھا.انہوں نے تو دل میں اس قربانی کے لئے کوئی انقباض محسوس نہ کیا.مگر آپ نے سوچا میں تو تیار ہوں بیٹے سے بھی پوچھ لینا چاہیے وہ بھی اس قربانی کے لئے تیار ہے یا نہیں.چنانچہ حضرت اسمعیل سے انہوں نے فرمایا فَانْظُرُ مَا ذَا تَرای خدا کا ایسا حکم ہے تمہاری اس بارہ میں کیا رائے ہے؟ حضرت اسمعیل کو بچہ تھے مگران کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی تھی کہ نہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں سوچ لوں اور اس بات کو اگلے سال پر نہیں ڈالا بلکہ کہا یابَتِ

Page 235

۲۲۹ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ (الصفت :۱۰۳) یہ کتنا زبردست کارنامه ہے جو حضرت اسمعیل نے بچپن میں انجام دیا.اس طرح بہت سی مثالیں دوسرے انبیاء کے ماننے والوں میں بھی ہمیں ملتی ہیں.ہمیں آنحضرت ﷺ کے وقت میں دو کم سن بچوں کی یاد آتی ہے جو اصرار کر کے جنگِ بدر میں شامل ہوئے اور ابو جہل کو قتل کر دیا.اس واقعہ کو یاد کر کے اب بھی ہم ان کی جرأت و دلیری پر داد دیتے ہیں.انہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک غیر معمولی کارنامہ سر انجام دیا.آخر میں محترم صاحبزادہ صاحب نے اس امر پر زور دیا کہ اگر بچوں نے کھیل کود میں اس عمر کو گزار دیا تو بعد کی زندگی میں انہیں مشکل پیش آئے گی.لیکن سکول اور کالج کی زندگی میں اپنے او پر ختی کرو گے تو بڑی عمر ہنسی خوشی سے گزرے گی.اس طرح دنیا کی زندگی میں قربانی کرو گے تو موت کے بعد حیات طیبہ نصیب ہوگی اور ابد الآباد کی زندگی کے لئے اس دنیوی زندگی میں ہی تیاری کرنی چاہیے.یہ زندگی ایک قسم کا امتحان ہے اس کا نتیجہ موت کے بعد نکلے گا جس طرح تم سکول اور کالج میں امتحان کے دن محنت اور سختی سے گزارتے ہو گر نتیجہ نکلنے پرتم کو ایک لمبی خوشی نصیب ہوتی ہے.اسی طرح تمہاری زندگی کا حال ہے.الہی سلسلہ کے بچے فقید المثال ہوتے ہیں.آپ لوگ اسلام کے بچے ہیں.مسیح موعود کی جماعت کے بچے ہیں.جسمانی لحاظ سے ماں باپ والدین ہیں.مگر روحانی لحاظ سے مسیح موعود اور رسول کریم ﷺ کی طرف آپ منسوب ہوتے ہیں.اگر تم حقیقی احمدی بن جاؤ تو دنیا میں کوئی بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور دنیا ہمیشہ تمہیں یاد رکھے گی.یادرکھو مسیح موعود کی طرف منسوب ہونا تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.ان کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی تم ان کی حقیقی اولاد بن سکتے ہو.انسان کی زندگی کو ایسا بنایا گیا ہے کہ اگلے جہان میں بھی عمل کا سلسلہ اور ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا.آخر میں آپ نے بچوں کی تربیت سے متعلق بعض امور پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا بچوں کی تربیت کے لئے آنحضرت عمل کا نمونہ ہمارے لئے قابل تقلید ہے.آپ کی صاحبزادی حضرت

Page 236

۲۳۰ فاطمۃ الزہرہ جب حضور سے ملنے آتیں تو حضور ان کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کا عزت و احترام فرماتے.اس لئے کہ سارے ماں باپ اپنے بچوں سے ایسا سلوک کریں.شروع سے ہی بچوں کی عزت و احترام کرنا چاہیے.بچوں کو گالی گلوچ نہیں دینا چاہیے بلکہ ان سے محبت سے پیش آنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو والدین بچوں پر سختی کرتے ہیں وہ مشرک ہیں.اولاد کے لئے دعا کرنی چاہیے.اولا واللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور نعمت تو سکون اور اطمینان کا باعث ہوتی ہے.آپ نے فرمایا احمدی بچے بڑے اچھے ہیں.ہم نے کئی ملکوں کے بچے دیکھے ہیں مگر احمدی بچوں کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا.اس کے باوجود یہ خواہش ہے کہ ہمارے بچے ابھی اور ترقی کریں.صحابہ کی طرح وہ دنیا کے لئے رحمت کی بارش ثابت ہوں.آمین ☆☆ تشخید الا ذبان ربوہ فروری ۱۹۶۵ ء صفحه ۵ تا ۸ )

Page 237

۲۳۱ انبیاء کے خلفاء کا انتخاب عمر بھر کے لئے ہوتا ہے از روئے لغت لفظ خلیفہ ایسے شخص پر بولا جاتا ہے جو دوسرے کا قائم مقام ہو کر اسی کے کام کو کرنے والا ہو.اسلامی اصطلاح میں خلیفہ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے.”خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ امام جو اس کے نبی کا قائم مقام ہو کر نبی ہی کے کام کو کرنے والا ہو.جس کا فیصلہ دینی معاملات میں آخری فیصلہ سمجھا جائے.جو شریعت کو قائم کرنے والا ، احکام شریعت کا اجراء کرنے والا ، مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والا اور اس بات کی نگہداشت رکھنے والا ہو کہ مسلمان اسلامی صراط مستقیم سے نہ بھنکیں“.قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب نظام خلافت پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہیں.اس تفصیل میں جانا اس وقت میرا مقصود نہیں.میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خلیفہ کا تقر رکسی محدود زمانہ کے لئے نہیں ہوتا.یہ تقر ر زندگی بھر کے لئے ہوتا ہے.مندرجہ ذیل دلائل سے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے.منصب خلافت کے لئے موزوں ترین ہستی کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.یہ امر آیت استخلاف کے جملہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (سورہ نور : ۵۶ ) سے عیاں ہے کیونکہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے اور وہ خود اس بات کا ذمہ وار ہے کہ جب تک مومنوں کی جماعت بحیثیت مجموعی اپنے ایمان پر قائم رہے گی اور اسی کے مطابق

Page 238

۲۳۲ اپنی زندگیوں کو ڈھالے گی اللہ تعالیٰ ان میں نبی کا خلیفہ بناتا رہے گا اور اس انتخاب کو اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ میں رکھے گا.جس طرح اس سے قبل اس نے بنی اسرائیل میں انبیاء کے انتخاب کو اپنے ہاتھ میں رکھا تھا.مسنداحمد بن حنبل میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ مُقْمِصُكَ قَمِيصًا فَلَا تَخْلَعُهُ “ ( جلد ۶ صفحه ۷۵ ) حضرت نبی کریم نے اس حدیث میں حضرت عثمان کو نصیحت فرمائی تھی کہ جب تیرے زمانہ خلافت میں ایک فتنہ بپا ہوگا اور بعض بیوقوف تجھ سے مطالبہ کریں گے کہ تو اپنے خلعت خلافت کو کسی اور کے حق میں اتار دے تو اس وقت یادرکھنا کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کے ہاتھ میں ہے اور جو خلعت خدا نے تجھے دیا ہے اسے لوگوں کے کہنے سے اتار نا ٹھیک نہیں.اس حدیث نبوی میں بھی مذکورہ بالا قرآنی اصل کی تفسیر بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.اسی اصول کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں فرماتے ہیں.و آنحضرت علی نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا.اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ کو خوب معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرما دے گا.کیونکہ یہ خدا ہی کا کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں“.(الحکم ۱۳ را پریل ۱۹۰۸ء) پس اگر یہ صحیح ہے کہ خلیفہ النبی کا انتخاب خود خدا فرماتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت، نحضرت ﷺ کی ایک حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اقتباس سے ثابت کیا گیا ہے، تو پھر یہ بھی عیاں ہے کہ جو قمیص خدا پہنائے اُسے بندے نہیں اتار سکتے.اگر ہم یہ تسلیم نہ کریں تو پھر یا تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے وقت انتخاب غلطی سے کسی نا اہل کو اپنے نبی کا خلیفہ بنادیا اور اب ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی غلطی کی تصحیح کریں ( وَالْعِيَاذُ بِاللهِ ) اور یا ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ گو وقت انتخاب منتخب خلیفہ اس عہدہ کا اہل تھا مگر ایک عرصہ گزرجانے کے بعداب وہ اس کا اہل نہیں رہا اس لئے اسے اس کے منصب خلافت سے اتار کر اب کوئی نیا انتخاب ہونا چاہیے.

Page 239

۲۳۳ اندریں صورت یہ لازم آتا ہے کہ ہم یا تو وقت انتخاب اللہ تعالیٰ کو صفت علیم وخبیر سے عاری مانیں کہ وہ جانتا ہی نہ تھا کہ یہ شخص کسی وقت منصب خلافت کا اہل نہیں رہے گا.یا ہم اس وقت جب خلیفہ وقت ہماری نظروں میں منصب خلافت کا اہل نہیں رہا، اللہ تعالیٰ کو صفت قدرت سے خالی سمجھیں کہ اس کا منتخب کردہ خلیفہ اپنے منصب کا اہل نہیں رہا.تاہم وہ اسے عہدہ خلافت سے علیحدہ نہیں کر سکتا اور اپنے مومن بندوں کے گروہ کوفتنہ میں ڈال رہا ہے.( وَالْعِيَاذُ بِاللهِ ) جب یہ ساری صورتیں کسی نہ کسی خرابی کو مستلزم ہیں تو ماننا پڑے گا کہ یہ صورتیں غلط ہیں اور درست مسئلہ یہی ہے کہ خدا کا مقرر کردہ خلیفہ ساری زندگی تک اس منصب پر سرفراز رہتا ہے.حقیقت یہی ہے کہ جو شخص خلیفہ النبی کے انتخاب کو اپنا انتخاب سمجھتا ہے وہ تعلیم قرآنی و احکام اسلامی سے بے بہرہ ہے اور جو یہ خیال کرتا ہے کہ جب بھی کوئی گروہ کھڑا ہو کر خلیفہ وقت کو معزول کرنا چاہے ہمیں اس کی آواز پر لبیک کہنی چاہیے اس میں صرف ایمان ہی کی کمی نہیں عقل کی بھی کمی ہے کہ اسلام میں ایسے فتنہ کا دروازہ کھولتا ہے جسے ہماری عقل بھی صحیح تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.(الفرقان ربوہ مئی، جون ۱۹۶۵ ء صفحه ۱۰۰،۹۹) ☆☆

Page 239