Language: UR
حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف رہی۔ آپ نے نہایت جانفشانی سے سلسلہ کے استحکام کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جن کا علمی ، تربیتی اور اخلاقی فیضان ہمیشہ جاری رہے گا۔ آپ ؓ کی سلسلہ کے حالات پر خدا کے فضل سے بڑی گہری نظر تھی جب بھی اہم معاملہ یا واقعہ رونما ہوتا تو آپ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا عام فہم اور مدلل حل یا تشریح تفصیلاً ضبط تحریر میں لاتے اور پھر جماعتی اخبارات ورسائل میں شائع فرماتے۔ آپ کا یہ علمی، تربیتی اور روحانی سلسلہ تحریرات 1913 سے 1963 تک کے طویل عرصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ یوں ہزاروں صفحات پر مشتمل اس مجموعہ سے استفادہ جہاں بہت سے نازک اور دقیق علمی اور معاشرتی موضوعات پر قابل قدر رہنمائی اور روشنی کا وسیلہ ہے وہاں یہ صفحات تاریخ احمدیت کے متنوع موضوعات کے لئے بھی گراں بہاسرمایہ ہے۔اس مجموعہ کی ابتدائی دونوں جلدوں کے آخر تفصیلی انڈیکس بھی موجود ہے۔
(صرف احمدی احباب کیلئے ) مضامین بشیر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے) جلد چهارم (1963-1960)
نام کتاب مضامین بشیر ( 1960ء.1963ء) جلد چهارم طبع اول
iii بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں ایمان کو ثریا ستارے کی بلندی سے لے کر آنے والے مسیح کے متعلق یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ شادی کریں گے اور ان کے ہاں اولا د ہوگی.“ ( مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسی ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پیشگوئی کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے.“ (ضمیمہ رسالہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337) الغرض آنحضور عل اللہ کی اس پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبشر اولاد سے نوازا.جس نے الہی تقدیر کے مطابق غیر معمولی دینی و علمی کارنامے انجام دینے کی توفیق پائی.ان با برکت وجودوں میں سے ایک قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے بھی تھے.10 دسمبر 1892ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس عظیم الشان فرزند کی ولادت کی یہ پیشگوئی فرمائی.يَأْتِی قَمُرُ الْأَنْبِيَاءِ - وَ أَمْرُكَ يَتَأَثْى - يَسَّرَا اللهُ وَجْهَكَ وَ يُنيرُ بُرْهَانَكَ سَيُوْلَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَ يُدْنِي مِنْكَ الْفَضْلَ - إِنَّ نُورِی قَرِیب.یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام بن جائے گا.تیرے لئے ایک لڑکا پیدا کیا جائے گا اور فضل تجھ سے نزدیک کیا جائے گا یعنی خدا کے فضل کا موجب ہوگا....اور میرا نور قریب ہے (شاید نور سے مراد پسر موعود ہو.)‘“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 220) اس پیشگوئی کے پانچ ماہ بعد 20 اپریل 1893ء کو قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت ہوئی جو طبعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے لئے باعث مسرت اور خدا کے فضل و رحم کا موجب ہوئی.حضرت میاں صاحب کو اپنی تمام زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد عالیہ پورا کرنے کی توفیق ملی.بچپن میں ایک دفعہ حضرت میاں صاحب کی آنکھیں خراب ہو گئیں تو حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا
iv بَرَّقَ طِفْلِی بَشِيرٌ جس کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالی کے فضل سے آپ کو معجزانہ شفا عطا ہوئی.برق کے لغوی معنی وسعت، بصیرت اور روشن نظر ہونے کے بھی ہیں.اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو عظیم الشان دینی و علمی استعدادوں سے نوازا تھا.آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی خوب حاصل کی اور ہر میدان میں اپنی علمیت و قابلیت کا سکہ منوایا.قرآن کی تفسیر ہو یا کسی حدیث کی تشریح ، سیرت کی بات ہو یا تاریخ کا کوئی واقعہ اپنی محققانہ رائے سے ہر پیچیدہ مسئلہ کو حل کر کے اسے آسان فہم انداز میں پیش فرمایا.سیرت خاتم النبین ، چالیس جواہر پارے، ہمارا خدا، تبلیغ ہدایت، حجۃ البالغہ اور سلسلہ احمدیہ بطور مشتے از خروارے اس کے عمدہ نمونے ہیں.آپ نے اپنے قلم کے نور سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی و براہین کو ایسے مدلل انداز سے پیش کیا کہ ان کو چار چاند لگا دیئے اور یوں يُنيرُ بُرْهَانَكَ کے صحیح مصداق ٹھہرے.آپ کی تحریر اثر انگیز ، سلیس، عام فہم اور ایسی مربوط ہوتی کہ قاری آپ کی تحریر میں ایسا مگن ہوتا کہ وہ اپنے آپ کو اسی ماحول میں محسوس کرتا ہے جس کا ذکر ہورہا ہو.الغرض حضرت میاں صاحب کے یہ علمی خزانے مختلف مضامین کی صورت میں جماعتی کتب ورسائل میں موجود ہیں.جن سے آپ نے جماعت کی علمی پیاس بجھائی.تربیتی مضامین سے زیادہ تر جماعت کی تعلیم و تربیت کے پہلو آپ کے پیش نظر ہوتے تھے.آپ کے اس علمی و تربیتی و روحانی مائدہ کا سلسلہ 1913ء سے 1963 ء، 50 سال تک جاری رہا اور افراد جماعت اس چشمہ علم ومعرفت سے خوب فیضیاب ہوتے رہے.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے دور میں ان مضامین کو کتابی صورت دینے کا بیڑا اٹھایا اور مضامین بشیر جلد اول 2007ء میں اور جلد دوم 2011ء میں شائع ہوئیں.کتاب ہذا کی جلد سوم میں حضرت میاں صاحب کے 1951 ء سے لے کر 1959 ء کے مضامین اور جلد چہارم میں 1960 ء تا 1963ء میں الفضل اور دیگر اخبار و رسائل میں شائع ہونے والے 400 سے بھی زیادہ مضامین یکجا کر کے کتابی صورت میں پیش کئے جارہے ہیں.1950 ء سے قبل الفضل کے علاوہ دیگر اخبار و رسائل میں شائع ہونے والے مضامین ( جو قبل از میں جلد اول اور دوم کا حصہ نہ بن سکے تھے ) باب پنجم میں بطور ضمیمہ شامل کئے گئے ہیں.اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک مضمون اسلامی خلافت کا نظریہ پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے 3 اپریل 1952ء کے الفضل میں جماعتی موقف دو
بیان فرماتے ہوئے اپنا وضاحتی نوٹ شائع فرمایا تھا، یہ اہم نوٹ بھی اس مضمون کے حاشیہ میں شائع کیا جا رہا ہے.خاکساران مضامین کی جمع و تدوین کے لئے تعاون کرنے والے جملہ احباب کا ممنون ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین مجلس انصاراللہ کے لئے یہ امر باعث سعادت ہے کہ اپنی ڈائمنڈ جوبلی کے 75 سالہ سنگ میل پر جماعت کے عظیم محق و عالم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کے علمی و تربیتی مضامین پر مشتمل یہ کتب شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے.اس تاریخی موقع پر احباب جماعت کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں.اللہ تعالیٰ ان کتب کو ہر لحاظ سے بہت بابرکت اور نافع الناس بنائے اور احباب کو ان مضامین میں سے کما حقہ استفادہ کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
vi
vii عرض ناشر اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلهِ اللہ تعالیٰ کے فضل و تائید کے ساتھ قیادت اشاعت مجلس انصاراللہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خواہش کو مضامین بشیر جلد سوم اور جلد چہارم اشاعت کی صورت میں پورا کرنے کی توفیق پا رہی ہے.ایک دفعہ نے گفتگو کے دوران خاکسار سے کہا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ ”میرے بعد میرے مضامین کو کتابی شکل ضرور دینا“ سو الحمد للہ اس وقت دو جلدیں تیار ہیں اور یہ دونوں جلدیں بالترتیب 1951 ء تا 1959 ء اور 1960 ء تا 1963 ء کے مضامین پر مشتمل ہیں.اس علمی اور روحانی مائدہ کو تیار کرتے وقت قارئین کے افادہ کے لئے درج ذیل امور کو مد نظر رکھا گیا ہے.آیات قرآنیہ میں جہاں بھی ” الخ ، کالفظ استعمال ہوا ہے یا نقطے تھے وہاں آیات مکمل کر دی گئی ہیں.ii.آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کو حوالہ جات سے مزین کر دیا ہے.نیز ترجمہ درج نہ ہونے کی صورت میں ان کا ترجمہ بھی بریکٹ میں دے دیا گیا ہے.-V iii تمام عربی عبارات پر اعراب لگا دیئے ہیں.iv.ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے روحانی خزائن سے دے دیئے گئے ہیں.مشکل الفاظ کے معانی بریکٹ میں دے دیئے ہیں.قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ موعود فرزند ہیں جو قلمی میدان میں آپ کے مد و معاون ثابت ہوئے.آپ کی علمی وفکری خصوصیات اس قدر اعلیٰ و نمایاں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام فرمایا تھا کہ يُنير برهانك ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 172) یعنی یہ فرزند آپ کی برہان ( حجت قاطعہ ) کو واضح اور روشن کرے گا.آپ نے حسب ضرورت دین و دنیا کے قریباً ہر موضوع پر قلم اُٹھایا اور علم و معرفت کے موتی بکھیرے.اسلامی، جماعتی یا ملکی تاریخ کا مسئلہ ہو.آپ نے ہر میدان میں رہنمائی فرمائی.آپ کی تحریر کا ایک خاصہ یہ تھا
viii که بزرگان سلسلہ اور کارکنان کی بیماری پر دعائیہ اعلانات کے ذریعہ یا ان میں سے کسی کی وفات پر صفات حسنہ کا ذکر کر کے جماعت کو ان کی جگہ لینے کی تلقین کرتے رہے.ان متنوع مضامین اور اعلانات واشتہارات کی تعداد ہزاروں میں ہے.صرف جلد سوم اور چہارم میں یہ تعداد 400 سے بھی زیادہ ہے.ان ہر دو جلدوں میں آپ کی طرف سے شائع ہونے والے اعلانات واشتہارات کو ہر باب کے اخیر میں مع حوالہ درج کر دیا گیا ہے جس سے افادہ کیا جا سکتا ہے تاہم ان اعلانات میں اگر کسی فرد کی کوئی سیرت بیان ہوئی ہے یا کوئی اسلامی یا فقہی مسئلہ درج ہوا ہے تو اس کو متن کا حصہ بنادیا گیا ہے.مضامین کو اکٹھا کرنے اور اس کے کچھ حصہ کو کمپوز کروانے میں نے سعادت پائی.لیکن پروف ریڈنگ میں بہت سے دوست احباب نے تعاون فرما یا بالخصوص غلطیوں کی نشاندہی کی.اس دوران نے نہایت عرق ریزی سے کام کیا اور نے اس طرف توجہ دلائی کہ حضرت میاں صاحب کے بعض مضامین روز نامہ الفضل کے علاوہ دیگر اخبار و رسائل کی بھی زینت بنتے رہے ہیں وہ بھی لینے چاہئیں.چنانچہ تلاش کر کے 40 کے قریب مزید مضامین مل گئے.ان کو بھی شامل کتاب کر دیا گیا اور 1950 ء سے قبل الفضل کے علاوہ دیگر اخبار ورسائل میں شائع ہونے والے مضامین کو جو جلد اول اور دوم کا حصہ نہیں بن سکے باب پنجم میں ضمیمہ کے طور پر شامل کتاب کیا گیا ہے.حضرت میاں صاحب کے مضمون ”اسلامی خلافت کا نظریہ میں عزل خلافت کا بھی ذکر ہے اس بارہ نے اس طرف توجہ دلائی کہ اس مضمون پر حضرت سید ناخلیفتہ اسیح الثانی نے اپنا وضاحتی نوٹ 13 اپریل 1952ء کے الفضل میں شائع فرمایا میں تھا.جس میں جماعت کا موقف بیان ہوا ہے.چنانچہ اس اہم نوٹ کو بھی حاشیہ میں دے دیا گیا ہے.اور الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ بِفَضْلِهِ قیادت اشاعت ایسے موقع پر مضامین بشیر کو مکمل کرنے کی سعادت پا رہی ہے جو تاریخ انصار اللہ کا سنگ میل ہے.جس سال مجلس انصار اللہ اپنے 75 سال پورے کرنے جا رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کتب کو تمام احباب کے لئے مفید بنائے اور جس تڑپ اور درد کے ساتھ حضرت میاں صاحب نے یہ علمی تربیتی اور تبلیغی مضامین تحریر فرمائے ہم ان پر عمل کرنے والے ہوں.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے مضامین بشیر جلد اوّل
ix کے پیش لفظ میں بجاطور پر تحریر فرمایا تھا.”حضرت صاحبزادہ صاحب کی سلسلہ کے حالات پر خدا کے فضل سے بہت گہری نظر تھی.جب کبھی بھی کوئی اہم معاملہ یا کوئی واقعہ رونما ہوا تو آپ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا حل یا تشریح تفصیلاً ضبط تحریر میں لائے اور پھر جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع فرمایا.آپ کا یہ علمی ، تربیتی اور روحانی سلسلہ تحریرات 1913ء سے 1963 ء تک کے طویل عرصہ پر محیط ہے اور یہ قیمتی سرمایہ مختلف اخبارات ورسائل میں بکھرا پڑا ہے جس تک ہر فر د جماعت کی رسائی ممکن نہیں.“ اس مائدہ تک ہر فرد جماعت کی رسائی کی خاطر قیادت اشاعت نے چار جلدوں میں اشاعت کی سعادت پائی ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ
X حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا سب سے بڑا عملی مقصد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور ظلیت میں اسلام کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کے عالمگیر غلبہ سے تعلق رکھتا تھا.چنانچہ آپ کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ اسی مقدس جہاد میں گزرا اور یہ جہاد صرف ایک محاذ تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ کو اسلام کے غلبہ کی خاطر دنیا کے ہر مذہب کے خلاف برسر پیکار ہونا پڑا اور آپ نے خدا کے فضل سے ہر محاذ پر فتح پائی تھی کہ آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں تک نے آپ کو فتح نصیب جرنیل کے شان دار لقب سے یاد کیا.(اخبار وکیل امرتسر ماہ جون 1908ء) حضرت مرزا بشیر احمد از مضامین بشیر جلد چہارم صفحه (323)
xi انڈیکس ابواب مضامین صفحہ نمبر باب 1 143 295 437 513 باب اول 1960ء کے مضامین باب دوم 1961ء کے مضامین باب سوم 1962ء کے مضامین باب چهارم 1963ء کے مضامین باب پنجم ضمیمہ مضامین بشیر
xii پس اے عزیز و! آپ اپنے آپ کو چھوٹا یا حقیر نہ سمجھیں.آپ کے اندر خدا کے فضل سے وہ برقی طاقت اپنہاں ہے جو دنیا میں انقلاب پیدا کر سکتی ہے.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ اپنی قدر و قیمت کو پہچانیں اور اپنے ایمان میں وہ پختگی اور اپنے علم وعمل میں وہ روشنی پیدا کریں جو بچے مومنوں کا طرہ امتیاز ہے.بے شک آپ اپنی عمر کے تقاضا کے ماتحت کھیلیں کودیں.ورزشی اور تفریحی باتوں میں حصہ لیں اور دنیا کے کاروبار میں حصہ لیں اور دنیا کے کاروبار کریں مگر آپ کے دل میں ایمان کی شمع ہر وقت روشن رہنی چاہئے اور نماز اور دعا کے ذریعہ آپ کے دل کی تاریں ہر لحظہ خدا کے ساتھ بندھی رہیں کہ جدا ہونے کا نام نہ لیں.( حضرت مرزا بشیر احمد از مضامین بشیر جلد چہارم صفحه 267)
xiii تفصیلی فهرست عناوین صفحہ 1 3 3 4 15 نمبر شمار عنوان باب اول 1960ء 248 | حیات طیبہ کے متعلق آپ کی رائے 249 ” حج بدل کی خواہش رکھنے والے دوست توجہ فرمائیں 250 مجلس تالیف و ترجمہ کی نئی پیشکش شانِ رسول عربی کے متعلق رائے 251 | احباب سے ایک ضروری اپیل جلسه یوم پیشوایان مذاہب کلکتہ پر پیغام 6 حسن یوسف، ید موسیٰ ، دم عیسی داری.آں کہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری عزیز بشارت احمد کی حسرت ناک وفات 8 سیرت طیبہ 9 تَزَوَّجُوُا الْوَلُودَ الْوَدُود 10 | مجلس انصاراللہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام 11 اسلام کا ایک بہادر مجاہد ہم سے جدا ہو گیا 12 جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں 13 رمضان کی برکات 14 رساله سيرة طيبه 15 اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعائیں 16 چوہدری برکت علی خان صاحب مرحوم 17 ڈاکٹر بلی گراہم کو احمدی مبلغ کا چیلنج 6 7 8 9 46 48 50 52 55 57 58 59 60
64 65 67 68 73 76 79 82 86 88 92 93 96 97 100 105 106 108 108 109 110 111 xiv 18 مخیر حضرات توجہ فرمائیں 19 پریشان خاتون توجہ فرمائیں 20 احمدی حاجیوں کے لئے دعا کی درخواست 21 | فاتحہ خوانی اور شکل اور جہلم اور ختم قرآن کی رسوم امن عالم اور پاکستان کے لئے دعا کی تحریک 23 حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی بیماری اور جماعت کی ذمہ داری 24 | خلافت کا نظام 25 عید الاضحی کی تعیین کے متعلق ایک علمی اور عملی مسئلہ 26 ایک نوجوان کے دوسوالوں کا جواب 27 مقبرہ بہشتی کا حقیقی مقام 28 مرحوم شیخ محمد یعقوب درویش بہت دیندار اور مخلص اور وفادار احمدی تھے 29 ایک عزیز کے دوسوالوں کا جواب 30 حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب کے اوصاف 31 غالب کون ہوگا.اشتراکیت یا اسلام؟ 32 ورثہ میں لڑکیوں کو حصہ دینا ضروری ہے 33 ام مظفر احمد لاہور کے ہسپتال میں 34 احباب کرام کا شکریہ 35 ایک غلطی کی تصحیح 36 اتم مظفر احمد کی طبیعت خدا کے فضل سے بتدریج بہتر ہورہی ہے 37 ام مظفر احمد ہسپتال سے عزیز مظفر احمد کے مکان میں آگئیں 38 دوست چندہ امداد درویشاں کو یا درکھیں 39 مرز اسلام اللہ صاحب کہاں ہیں؟
112 118 120 120 121 122 123 124 124 126 126 127 130 136 139 143 145 146 190 190 191 XV 40 مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر افتتاحی خطاب 41 ایک غیبی تحریک 42 غرباء کی امداد کے لئے چندہ کی اپیل 43 حضرت خلیفہ اسیح کے لئے دعا کی تحریک 44 ام مظفر احمد ابھی تک لاہور میں بیمار ہیں 45 کتاب شانِ خاتم النبیین “ کے متعلق رائے 46 حیات بقا پوری حصہ پنجم کے متعلق ایک ضروری توضیح 47 رسالہ ”راہ ایمان نے جماعت کی ایک حقیقی ضرورت کو پورا کیا 48 ام الالسنہ کے متعلق شیخ محمد احمد صاحب کا تحقیق مضمون 49 میاں صدرالدین صاحب درویش کی وفات 50 نام واپس لینے والے دوستوں کو ضروری اختیاہ 51 خدا کی قدرت و رحمت کا ہاتھ 52 دورخی وفاداری کا سوال اور مسٹر کینیڈی 53 میرے استاد حافظ روشن علی صاحب مرحوم 54 اعلانات.اشتہارات اطلاعات باب دوم 1961ء 55 حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے اوصاف حمیدہ 56 در منثور 57 ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کے لئے دعا کی تحریک 58 فدیہ رمضان مبارک 59 ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب مرحوم
192 194 195 196 196 198 200 202 203 204 208 209 211 211 212 213 214 214 215 226 227 232 xvi 60 رمضان کی خاص برکات 61 رمضان تو ربوہ کا رمضان ہے 62 ام مظفر احمد ربوہ واپس پہنچ گئیں 63 فدیہ کی رقوم کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور جزائے خیر دے 64 بعض خاص دعاؤں کی تحریک 65 انصار اللہ کے لئے میرا پیغام 66 ربوہ کے رمضان کا روح پرور نظارہ 67 عید کارڈ کا ایک عمدہ استعمال 68 رمضان کے آخری عشرہ کی پُر سوز اجتماعی دعائیں 69 چندوں کے متعلق جماعت کی اہم ذمہ داری 70 مجلس مشاورت کی تجاویز حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے منظور فرمالی ہیں 1 مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے نام آپ کا پیغام 72 نگران بورڈ کے تعلق میں ضروری اعلان 73 نگران بور ڈ کا ابتدائی اجلاس 74 حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی طبیعت چند دن سے زیادہ علیل ہے 75 میاں محمد یوسف صاحب مردان وفات پاگئے 76 قربانیوں کی رقوم وصول ہو رہی ہیں 77 ربوہ میں میرا ذاتی مکان 78 عید الاضحی کی قربانیاں 79 أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي 80 وقف ایکٹ اور جماعت احمدیہ کے محاصل 81 نگران بورڈ کے بعض اصلاحی فیصلہ جات
xvii 82 ربوہ کے زنانہ اور مردانہ سکولوں کا نتیجہ 3 | احباب جماعت کے لئے ایک ضروری نصیحت 84 حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ کی صحت کے متعلق ایک ضروری اعلان 85 اپنے لئے دوستوں سے دعا کی تحریک 86 بھائیو! اپنے مستقبل پر نظر رکھو اور اپنی اولاد کی فکر کرو 235 236 237 238 238 87 جماعت کے دوستوں اور خصوصاً نو جوانوں کو رسالہ اصحاب احمد ضر ور خریدنا چاہئے 246 88 حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت 89 الْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ 90 ایک ضروری تشریحی نوٹ 91 خدام الاحمدیہ راولپنڈی ڈویژن کے اجتماع پر پیغام 92 نواب زادہ میاں عبداللہ خان صاحب مرحوم 93 احمدیت کا بطل جلیل 94 میں اپنی طرف سے حج بدل کرانا چاہتا ہوں 95 سیرت ابن ہشام 96 ہفتہ تحریک جدید کے موقع پر اہل ربوہ کے نام پیغام 97 نگران بورڈ کا اجلاس منعقدہ یکم اکتوبر 1961ء 98 حضرت سید فضل شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ صاحبہ کی وفات 99 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1961 ء پر افتتاحی خطاب 100 ایک غلطی کا ازالہ 101 حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ کی بعض احباب سے ملاقاتیں 102 " مباحثہ مصر کے متعلق دو گرامی نامے 103 بچوں کی نیک تربیت 248 248 252 255 256 257 260 261 262 263 264 265 271 272 274 274
277 285 288 288 291 295 297 300 301 302 304 349 350 351 351 353 355 356 357 357 358 xviii 104 | مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع پر بصیرت افروز افتتاحی خطاب 105 جامعہ احمدیہ کی نو تعمیر شدہ عمارت کی افتتاحی تقریر پر پر اثر خطاب 106 احمدیہ کالج گھٹیالیاں کے لئے امداد کی تحریک 107 ہمارا 71 واں جلسہ سالانہ اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری 108 | اعلانات.اشتہارات - اطلاعات باب سوم 1962ء 109 | عزیز میاں شریف احمد صاحب مرحوم 110 احمدیہ کالج گھٹیالیاں کے لئے امداد کی تحریک 111 میاں شریف احمد صاحب کے متعلق ایک دوست کا لطیف رویا 112 بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانئے کیا یاد آیا 113 در مکنون 114 | فدیہ دینے والے احباب توجہ فرمائیں 115 حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت 116 ربوہ کے موسم کو بہتر بنانے کی کوشش 117 خدا کے ساتھ رشتہ جوڑنے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کا مہینہ 118 سیرالیون کی تیرھویں سالانہ کانفرنس پر پیغام 119 کچھ اپنے متعلق 120 حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مرحوم 121 قادیان کے درویشوں کو دعاؤں میں یا درکھیں 122 خاندان کے عزیزوں کے لئے دعا کی تحریک 123 اللہ کے کام نیارے
360 362 364 366 371 371 372 372 374 376 377 378 380 383 384 386 388 389 391 393 394 397 xix 124 میرے دعائیہ نوٹ پر دوستوں کا رد عمل اور دوستوں سے دعا کی مزید درخواست 125 مجلس مشاورت کے اجلاس پر ایک طائرانہ نظر 126 مشرقی پاکستان کا مجوزہ وفد 127 نگران بورڈ کے بعض خاص اصلاحی فیصلہ جات 128 | مولوی عبد اللطیف صاحب حج کیلئے روانہ ہو گئے 129 خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ نیکی اور تقویٰ اور عملی قوت کو ترقی دیں 130 وعده جات تحریک جدید کا محاسبہ 131 ربوہ میں دار الیتامی کا قیام 132 مخلصین جماعت حضرت صاحب کے لئے دعاؤں میں لگے رہیں 133 میٹرک میں تعلیم الاسلام ہائی سکول اور نصرت گرلز ہائی سکول کے نتیجے 134 شجر کاری کا ہفتہ اور اہل ربوہ کی ذمہ داری 135 پردے کے متعلق ایک ضروری اعلان 136 فیشن پرستی کی وبا سے بیچ کر رہو 137 کامیاب تبلیغ کے چارستون 138 رپورٹ اجلاس نگران بورڈ منعقدہ 9 ستمبر 1962ء 139 برکات خلافت کے لمبا ہونے کے لئے دعائیں کرو 140 برکات خلافت کے لمبا ہونے کے متعلق میرا نوٹ 141 طلاق اور ضلع کے معاملہ میں مرد اور عورت کے مساوی حقوق 142 جمہوریت کی تشریح ہونی ضروری ہے 143 انڈونیشیا کی احمدی جماعتوں کی تیرھویں سالانہ کانفرنس پر پیغام 144 ملک میں بھوک ہڑتال کی بڑھتی ہوئی وباء 145 نگران بورڈ کا اجلاس منعقدہ 7 /اکتوبر 1962ء
399 402 403 405 406 408 408 409 420 432 433 437 439 439 441 442 488 489 490 491 494 XX 146 یقیناً آنحضرت ہی آخر الانبیاء ہیں 147 خدام اپنی تنظیم میں منسلک ہو کر احمدیت کے پُر زور شیدائی اور فدائی بن کر رہیں 148 الجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کیلئے پیغام 149 حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے متعلق میری دعائیہ تحریک 150 نصرت ہائرسیکنڈری سکول ربوہ کی افتتاحی تقریب پر پیغام 151 خلیفہ عبدالرحیم صاحب کی اچانک وفات 152 نگران بورڈ کے تازہ اجلاس کی رپورٹ 153 خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر افتتاحی خطاب 154 انصار اللہ کا کام اور اس کی بے انداز وسعت 155 سند قبولیت 156 | اعلانات.اشتہارات.اطلاعات باب چہارم 1963 ء 157 خان عبدالمجید خان صاحب آف کپورتھلہ 158 رمضان کا مہینہ شروع ہونے والا ہے دوست اپنی کمریں کس لیں 159 در تمین اردو کا بلاک 160 | آئینہ جمال 161 ایک انتہائی اضطراب کے وقت کی دعا 162 دوستوں کیلئے دعا کی تحریک 163 رمضان کا آخری عشرہ دعاؤں کا خاص زمانہ ہے 164 نگران بورڈ کے تازہ اجلاس کی رپورٹ 165 امتحان میں شامل ہونے والے بچوں کو نصیحت
xxi 166 ایک درویش کا ارادہ حج 167 | غریب طلباء کی امداد کا خاص وقت 168 مولوی ابوالعطاء صاحب اور پادری عبدالحق صاحب کا تحریری مناظرہ 495 496 496 169 علم دین سیکھو اور پھر اسے دلیری مگر موعظہ حسنہ کے رنگ میں اپنے عزیزوں اور 497 دوستوں تک پہنچاؤ 170 کتاب سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب کی ضبطی 171 مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی عظیم الشان اسلامی خدمات 172 بے پردگی کے رجحان کے متعلق جماعتوں کو مزید انتباہ 173 حکومت نے کتاب کی ضبطی کا فیصلہ واپس لے لیا 174 میٹرک کے امتحان میں اعلیٰ نتائج پر خط 175 | ملتان کے دوستوں کے نام میرا پیغام 176 | حیات نور 177 جماعت کے نوجوانوں کو ایک خاص نصیحت 178 | اعلانات.اشتہارات - اطلاعات 179 | صدائے بشیر باب پنجم ضمیمہ مضامین بشیر 180 کرنا مغرب کو پڑے گا اب سر تسلیم خم 181 مجھ سے ناراض ترے صدقے میری جان نہ ہو 182 خدا کس طرح کلام کرتا ہے 183 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش 184 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا نامہ گرامی 185 امانت فنڈ تحریک جدید کے متعلق ضروری اعلان 498 499 500 502 503 504 506 507 510 513 515 516 517 517 519 526 527
529 XXII 530 534 541 545 554 559 186 کتاب ” بچوں کی تربیت پر تبصرہ 187 اخلاق مسیح کی ایک جھلک 188 قوم کے لوگو ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب 189 مستقل سمجھوتہ کے لئے موجودہ فضا کی درستی ضروری ہے 190 امتحان میں پاس ہونے کے گر 191 مفید ترین زندگی 192 | اعلانات.اشتہارات - اطلاعات
مضامین بشیر جلد چهارم باب اوّل 1960ء کے مضامین 1
مضامین بشیر جلد چهارم حیات طیبہ کے متعلق آپ کی رائے حج بدل کی خواہش رکھنے والے دوست توجہ فرمائیں مجلس تالیف و ترجمہ کی نئی پیشکش شانِ رسولِ عربی کے متعلق را احباب سے ایک ضروری اپیل جلسه یومِ پیشوایان مذاہب کلکتہ پر حسن یوسف ید موسی دم عیسی داری.آں کہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری عزیز بشارت احمد کی حسرت ناک وفات سیرت طیبہ.حضرت مسیح موعود کے خلق عظیم کے تین درخشاں پہلو تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُوْدَ مجلس انصار اللہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام اسلام کا ایک بہادر مجاہد ہم سے جدا ہو گیا جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں رمضان کی برکات رسالہ سیرۃ طیبہ ( دین حق ) اور احمدیت کی ترقی کی دعائیں چوہدری برکت علی خان صاحب مرحوم ڈاکٹر بلی گراہم کو احمدی مبلغ کا چیلنج مخیر حضرات توجہ فرمائیں پریشان خاتون توجہ فرمائیں 2
مضامین بشیر جلد چهارم 1 حیات طیبہ کے متعلق آپ کی رائے 3 حال ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک سوانح عمری مصنفہ شیخ عبدالقادر صاحب فاضل حیات طیبہ کے نام سے شائع ہوئی ہے.میں ابھی تک اس کتاب کا مکمل صورت میں مطالعہ نہیں کر سکا.مگر جو حصے بھی اس وقت تک میری نظر سے گزرے ہیں ان کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لٹریچر میں ایک بہت عمدہ اضافہ ہے.غالباً ایک جلد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس قدر جامع اور مرتب سوانح عمری اس وقت تک نہیں لکھی گئی.واقعات کی حتی المقدور تحقیق و تدقیق اور ترتیب اور موقع بموقع مناسب تبصرہ جات نے اس کتاب کی قدر و قیمت میں کافی اضافہ کر دیا ہے اور ضروری فوٹو بھی شامل ہیں.کتاب کا مطالعہ کرنے والا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بلند و بالا شخصیت اور تبلیغ اسلام کے لئے ان کی والہا نہ جد و جہد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.طباعت بھی اچھی ہے.میرے خیال میں یہ کتاب اس قابل ہے کہ نہ صرف جماعت کے دوست اسے خود مطالعہ کریں بلکہ غیر از جماعت اصحاب میں بھی اس کی کثرت کے ساتھ اشاعت کی جائے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو نافع الناس بنائے اور مصنف کو جزائے خیر دے.آمین.(محررہ 22 جنوری 1960ء) روزنامه الفضل ربوہ 15 جنوری 1960ء) وو 2 حج بدل کی خواہش رکھنے والے دوست توجہ فرمائیں میرے اہلِ خانہ یعنی اتم مظفر احمد چونکہ بیمار ہیں اور صاحب فراش ہیں اس لئے انہیں اپنی طرف سے حج بدل کروانے کی شدید خواہش ہے.سو ایسے مخلص اور دعاؤں میں شغف رکھنے والے دوست جو حج بدل کرنے کے لئے تیار ہوں خاکسار کو مطلع فرمائیں.شرائط حسب ذیل ہوں گی :
مضامین بشیر جلد چهارم 4 (1) یہ دوست اپنی طرف سے حج کر چکے ہوں کیونکہ دوسرے کی طرف سے حج بدل وہی کر سکتا ہے جو پہلے اپنی طرف سے یہ فریضہ ادا کر چکا ہو.(2) صحت اچھی ہوتا کہ سفر کی کوفت برداشت کر سکیں.حج بحری جہاز کے ذریعہ کرنا ہوگا.(3) مخلص اور نیک اور دعاؤں میں شغف کرنے والے ہوں جس کے لئے مقامی یا ضلع وار امیر کی تصدیق کے ساتھ درخواست آنی چاہئے.(4) حکومت کی طرف سے حج کی اجازت حاصل ہونے کے بعد خرچ دیا جائے گا اور اجازت کے لئے خود کوشش کرنی ہوگی کیونکہ میں اس طریقے سے آگاہ نہیں.محرره 13 جنوری 1960ء) روزنامه الفضل ربوہ 15 جنوری 1960ء) 3 مجلس تالیف و ترجمہ کی نئی پیشکش ” شانِ رسول عربی کے متعلق رائے یہ ایک نہایت قابل قدر مجموعہ ہے جس کی بہت وسیع اشاعت ہونی چاہئے مجلس تالیف و ترجمہ کی شائع کردہ یہ نئی کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پر معارف اور دلکش و دلآویز تحریرات ( نظم و نثر ) پر مشتمل ہے جن میں آپ نے اپنے آقا ومطاع حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح بیان فرمائی ہے.ان تحریرات کو مکرم مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوئی نے نہایت محنت اور عرق ریزی کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ تصانیف اور سلسلہ کے اخبارات میں شائع شدہ ڈائریوں سے براہ راست مرتب کیا ہے.اس دلکش مجموعہ کو ملاحظہ فرمانے کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کا حسب ذیل الفاظ میں اظہار فرمایا ہے.یہ ایک نہایت قابل قدر مجموعہ ہے.ان اقتباسات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جذبات اور معتقدات اور تصورات ایک مصفی آئینہ کی طرح سامنے آجاتے ہیں اور ان اعتراضات اور شبہات کا قلع قمع ہو جاتا ہے جو اس بارے میں حضرت مسیح
مضامین بشیر جلد چهارم 5 موعود علیہ السلام بائی سلسلہ احمدیہ پر کئے جاتے ہیں.یہ کتاب انشاء اللہ نہ صرف سلسلہ احمدیہ کے متعلق لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے اور صحیح نظریات کو واضح کرنے کے لئے بلکہ خود احمدیوں کے دلوں میں رسول پاک کے عشق کی چنگاری کو زندہ رکھنے کے لئے نہایت مفید ہو گی.اس کی بہت وسیع اشاعت ہونی چاہئے.جماعتوں کے مصنفوں اور مبلغوں اور مربیوں کے لئے بھی اس مجموعہ کی اشاعت انشاء اللہ بہت قابلِ قدر امداد ہوگی.جنہیں ایسے جملہ حوالے یکجائی طور پر مل جائیں گے.“ روزنامه الفضل ربوہ 20 جنوری 1960ء) 4 احباب سے ایک ضروری اپیل رسالہ الفرقان بہت عمدہ اور قابل قدر رسالہ ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی اشاعت زیادہ سے زیادہ وسیع ہو کیونکہ اس میں تحقیقی اور علمی مضامین چھپتے ہیں اور قرآن کے فضائل اور اسلام کے محاسن پر بہت عمدہ طریق پر بحث کی جاتی ہے.ایک طرح سے یہ رسالہ اس غرض و غایت کو پورا کر رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدنظر رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو ایڈیشن کے جاری کرنے میں تھی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی یہ خواہش بڑی گہری اور خدا کی پیدا کردہ آرزو پر بنی ہے کہ اگر ایسے رسالہ کی اشاعت ایک لاکھ بھی ہو تو پھر بھی دنیا کی موجودہ ضرورت کے لحاظ سے کم ہے.پس مخیر اور مستطیع احمدی اصحاب کو یہ رسالہ نہ صرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں خود خرید نا چاہئے بلکہ اپنی طرف سے نیک دل اور سچائی کی تڑپ رکھنے والے غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب کے نام بھی جاری کرانا چاہئے تا اس رسالہ کی غرض وغایت بصورت احسن پوری ہواور اسلام کا آفتاب عالمتاب اپنی پوری شان کے ساتھ ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کرے.یہ معلوم کر کے بہت افسوس ہوا کہ ابھی تک یہ رسالہ مالی لحاظ سے نقصان پر جا رہا ہے.زندہ قوموں کے زندہ رسالے ہر جہت سے زندگی کے آثار سے معمور ہونے چاہئیں.ایسے رسالہ کا مالی تھیٹروں کی وجہ سے بند ہونا بہت قابل شرم ہوگا.روزنامه الفضل ربوہ 21 جنوری 1960ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 5 6 جلسه یوم پیشوایان مذاہب کلکتہ پر پیغام 6 بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود مکرمی محتر می مولوی بشیر احمد صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ کلکتہ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کی تار در باره پیغام یوم پیشوایان مذاہب موصول ہوئی.اس دن کے منانے کی تحریک ہماری جماعت کے موجودہ امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ امسیح الثانی نے فرمائی تھی اور الحمد للہ کہ یہ یوم آج تک بڑی کامیابی اور غیر معمولی برکات کے ساتھ منایا جا رہا ہے.ہماری جماعت کا یہ بنیادی عقیدہ ہے جو قرآنی احکام پر مبنی ہے کہ خدا صرف کسی مخصوص قوم کا خدا نہیں ہے بلکہ ساری دنیا بلکہ سارے نظامِ عالم کا خدا ہے.اس لئے اس نے ہر ملک اور ہر قوم میں اپنے رسول اور اوتار اور مصلح بھیجے ہیں جو اپنے اپنے وقت پر اصلاح کا کام کرتے رہے ہیں.اور قرآن ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ان سب پاکباز روحانی لوگوں کو عزت کی نظر سے دیکھیں.چنانچہ ہم جس طرح اسلام کے بانی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور احمدیت کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا کا پیارا اور مقرب خیال کرتے ہیں.اسی طرح ہندوؤں کے اوتار حضرت کرشن جی اور حضرت رام چندر جی اور بدھ مذہب کے بانی حضرت گوتم بدھ اور سکھ قوم کے بانی حضرت بابا نانک کو بھی خدا کا پیارا خیال کرتے ہیں اور ہمارے دلوں میں ان کی بڑی عزت ہے.اسی طرح ہم یہودیوں کے حضرت موسقی اور عیسائیوں کے حضرت عیسی کو بھی اسی احترام اور عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں.یہی وہ عقیدہ ہے جو دنیا میں حقیقی اتحاد اور اخوت کی بنیاد بن سکتا ہے.اور باوجود بعض خیالات میں اختلاف کے اس بنیادی عقیدہ کی وجہ سے ہم اپنا فرض خیال کرتے ہیں کہ ساری مخلوق کو اپنا بھائی اور اپنے خدا کے بنائے ہوئے انسان سمجھ کر ان کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا سلوک کریں.اس خیال کی بناء پر جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود نے اپنی وفات سے قبل 1908ء میں ایک خاص پیغام کے ذریعہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو صلح کا پیغام دیا تھا.جو پیغام مصلح کے نام سے چھپ چکا ہے، ایسی نوعیت کا ہے کہ جب بھی مختلف مذاہب کے متبعین پر اس پیغام کی صداقت اور اہمیت واضح ہوئی تو اس وقت انشاء اللہ تعالیٰ ایک عالمگیر
مضامین بشیر جلد چهارم 7 صلح کی بنیاد قائم ہو جائے گی.اور خیالات کے باہمی اختلاف بڑی آسانی اور بڑی خوش اسلوبی سے اور بڑی اچھی فضا میں طے پائیں گے.خدا کرے کہ وہ دن جلد آئے اور دنیا ایک عالمگیر امن اور عالمگیر صلح کا نظارہ دیکھے.آمین ( محرره 19 نومبر 1959ء) روزنامه الفضل ربوه 2 فروری 1960ء) حسن یوسف سید موسیٰ ، دم عیسی داری آں کہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری حضرت فخر رسل سید ولد آدم خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی طور پر بلند و بالا شخصیت اور آپ کے افاضۂ روحانی کی کثرت اور فراوانی اس قدر نمایاں اور ممتاز ہے کہ کوئی غیر متعصب شخص جس کے دل میں قدر شناسی کا جو ہر موجود ہو اس سے انکار نہیں کر سکتا.خدا کے فضل سے سارے انبیاء کرام ہی اپنی اپنی جگہ آسمان ہدایت پرستاروں کی طرح چمکتے ہیں اور بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام ”ماہمہ پیغمبراں را چا کریم.مگر حق یہ ہے کہ حضرت سرور کائنات کی آفتابی روشنی کے سامنے ہر دوسری روشنی ماند پڑنی شروع ہو جاتی ہے.اور آپ کو یہ امتیاز دو جہت سے حاصل ہے.اول یہ کہ آپ ہر روحانی کمال میں دوسرے نبی سے افضل وارفع ہیں.اور دوسرے یہ کہ آپ کی روحانی تاثیر اور آپ کا افاضہ تمام نبیوں کے افاضہ سے وسیع تر اور قوی تر ہے.اور آپ کو خدا نے زندگی بھی ایسی عطا کی جس میں آپ کو اپنے ہر فطری جو ہر کو بصورت کمال دکھانے کا موقع میسر آیا.اور یہی اس شعر کا مطلب ہے جو میرے اس مختصر نوٹ کا عنوان ہے.آپ کو یوسف کا حسن حاصل ہے مگر اپنی دلکشی میں یوسف سے بڑھ کر.آپ کو موسی کا ید بیضا حاصل ہے مگر بدخواہ دشمنوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے میں موسی سے بڑھ کر.آپ کو عیسی کا دم شفا حاصل تھا مگر بیماروں کو شفا دینے میں عیسی سے بڑھ کر.اسی لئے آپ خاتم النبیین کے جلیل القدر اور عدیم المثال مقام پر فائز کئے گئے.اور اپنے روحانی معراج میں سدرۃ المنتہی تک پہنچے جس تک کسی انسان اور کسی فرشتہ کی پہنچ نہیں.اور آپ کو افاضہ بھی وہ عطا ہوا کہ آپ کی کچی پیروی انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ انعام بخشنے کی طاقت رکھتی ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ
مضامین بشیر جلد چهارم نے آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے پہلے تو رہ میں ہائے پار اس نے ہیں اتارے میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے 8 لاریب اس زمانہ میں اور اس کے بعد قیامت تک بنی نوع انسان کے لئے اب صرف آپ ہی ایک ناخدا ہیں جن کی کشتی میں بیٹھ کر انسان خدا کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے یا وہ ہے جس نے آپ کے فیض سے فیض پایا ہو.باقی سب تاریکی ہے اور ان کے پیچھے لگ کر رستہ میں ہارنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.اللهمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلَّمَ - يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا- (الاحزاب:57) ( محرره 12 جنوری 1960ء) (ماہنامہ الفرقان ربوہ جنوری، فروری 1960ء) عزیز بشارت احمد کی حسرت ناک وفات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے عزیز بشارت احمد ابن مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمد یہ قادیان کی وفات کی خبر الفضل میں بھجواتے ہوئے آپ کے اوصاف کا یوں ذکر فرمایا.مرحوم بہت مخلص اور موصی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم ترین صحابی حضرت شیخ حامد علی صاحب مرحوم کا نواسہ تھا اور میری رضاعی بہن کا لڑکا تھا.( محررہ 7 فروری 1960ء) روزنامه الفضل ربوہ 9 فروری 1960ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 9 8 سیرت طیبہ حضرت مسیح موعود کے خلق عظیم کے تین درخشاں پہلو مؤرخہ 23 جنوری 1960ء کو جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنا جو نہایت قیمتی اور بصیرت افروز مضمون پڑھا وہ افادہ احباب کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.ادارہ ) أَشْهَدُ أَن لَّا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ آج حضرت میرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام ، مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر نصف صدی سے کچھ اوپر گزرتا ہے.میں اس وقت قریباً پندرہ سال کا تھا اور یہ وقت پورے شعور کا زمانہ نہیں ہوتا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ کے تین خاص پہلو اس قدر نمایاں ہوکر میری آنکھوں کے سامنے پھر رہے ہیں کہ گویا میں اب بھی اپنی ظاہری آنکھوں اور اپنے مادی کانوں سے ان کے بلند و بالانقوش کو دیکھ رہا اور ان کی دلکش دل آویز گونج کوسن رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلق عظیم کے یہ تین پہلو (اول ) محبت الہی ( دوم ) عشق رسول اور (سوم) شفقت علی خلق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہی تین پہلوؤں کے چند جستہ جستہ واقعات کے متعلق میں اس جگہ کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.میرا یہ بیان ایک طرح سے گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کا رنگ رکھتا ہے اور کوزہ بھی وہ جو بہت چھوٹا اور بڑی تنگ سی جگہ میں محصور ہے.مگر خدا چاہے تو ایک مختصر سے بیان میں ہی غیر معمولی برکت ڈال سکتا ہے.وَمَا تَوْفِيْقُ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمِ وَ هُوَ الْمُسْتَعَانُ فِي كُلِّ حَالٍ وَّ حِينٍ - محبت الہی سب سے پہلے اور سب سے مقدم محبت الہی کا نمبر آتا ہے.کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو خالق و مخلوق کے باہمی رشتہ کا مضبوط ترین پیوند اور فطرت انسانی کا جزو اعظم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس روحانی پیوند کا بہت عجیب و غریب رنگ میں آغاز ہوا.اس کا تصور ایک صاحب دل انسان میں وجد کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود کا جوانی کا عالم تھا جبکہ انسان کے دل میں دنیوی ترقی اور مادی آرام و آسائش کی خواہش اپنے پورے کمال پر ہوتی ہے.اور حضور کے بڑے بھائی صاحب ایک معزز عہدہ پر فائز ہو چکے تھے اور یہ بات بھی چھوٹے بھائی کے دل میں ایک گونه رشک یا کم از کم نقل کارجحان پیدا کر دیتی
مضامین بشیر جلد چهارم 10 ہے.ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود کے والد صاحب نے علاقہ کے ایک سکھ زمیندار کے ذریعہ جو ہمارے دادا صاحب سے ملنے آیا تھا حضرت مسیح موعود کو کہلا بھیجا کہ آج کل ایک ایسا بڑا افسر برسر اقتدار ہے جس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں.اس لئے اگر تمہیں نوکری کی خواہش ہو تو میں اس افسر کو کہ کر تمہیں اچھی ملازمت دلاسکتا ہوں.یہ سکھ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہمارے دادا صاحب کا پیغام پہنچا کر تحریک کی کہ یہ ایک بہت عمدہ موقع ہے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے.حضرت مسیح موعود نے اس کے جواب میں بلا توقف فرمایا حضرت والد صاحب سے عرض کر دو کہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر ” میری نوکری کی فکر نہ کریں.میں نے جہاں نو کر ہونا تھا ہو چکا ہوں“ (سیرت المہدی جلداول) یہ سکھ زمیندار حضرت دادا صاحب کی خدمت میں حیران و پریشان ہو کر واپس آیا اور عرض کیا کہ آپ کے بچے نے تو یہ جواب دیا ہے کہ ” میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں.“ شائد وہ سکھ حضرت مسیح موعود کے اس جواب کو اس وقت اچھی طرح سمجھا بھی نہ ہوگا.مگر دادا صاحب کی طبیعت بہت نکتہ شناس تھی.کچھ دیر خاموش رہ کر فرمانے لگے کہ اچھا غلام احمد نے یہ کہا ہے کہ میں نو کر ہو چکا ہوں تو پھر ٹھیک ہے اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا.اور اس کے بعد کبھی کبھی حسرت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ ” سچا رستہ تو یہی ہے جو غلام احمد نے اختیار کیا ہے.ہم تو دنیا داری میں الجھ کر اپنی عمریں ضائع کر رہے ہیں.مگر باوجود اس کے وہ شفقت پدری اور دنیا کے ظاہری حالات کے ماتحت اکثر فکر مند بھی رہتے تھے کہ میرے بعد اس بچہ کا کیا ہوگا ؟ اور لازمہ بشری کے ماتحت حضرت مسیح موعود کو بھی والد کے قرب وفات کے خیال سے کسی قدر فکر ہوا.لیکن اسلام کا خدا بڑا وفادار اور بڑا قدر شناس آتا ہے.چنانچہ قبل اس کے کہ ہمارے دادا صاحب کی آنکھیں بند ہوں خدا نے اپنے اس نوکر شاہی کو جس نے اپنی جوانی میں اس کا دامن پکڑا تھا اس عظیم الشان الہام کے ذریعہ تسلی دی که: أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ “ ( تذکر صفحہ 20 ایڈیشن چہارم) یعنی اے میرے بندے! تو کس فکر میں ہے؟ کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ یہ
مضامین بشیر جلد چهارم 11 الہام اس شان اور اس جلال کے ساتھ نازل ہوا کہ میرے دل کی گہرائیوں میں ایک فولادی میخ کی طرح پیوست ہو کر بیٹھ گیا.اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں میری کفالت فرمائی کہ کوئی باپ یا کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست کیا کر سکتا تھا ؟ اور فرماتے تھے کہ اس کے بعد مجھ پر خدا کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ ناممکن ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں.خلاصه کتاب البریہ جلد 13 صفحہ 194-195 حاشیہ) بلکہ ایک جگہ اس خدائی کفالت کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی شکر کے انداز میں فرماتے ہیں کہ: لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكْلِي وَ صِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِي آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 596) یعنی ایک زمانہ تھا کہ دوسروں کے دستر خوانوں سے بچے ہوئے ٹکڑے میری خوراک ہوا کرتے تھے.مگر آج خدا کے فضل سے میرے دستر خوان پر خاندانوں کے خاندان پیل رہے ہیں.یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر مسجد میں یا اپنے چوبارے میں نماز اور روزہ اور تلاوت قرآن مجید اور ذکر الہی میں مصروف رہتے تھے اور اندر سے ہماری تائی صاحبہ جن کے ہاتھ میں سارا انتظام تھا بچا ہوا ر وکھا سوکھا کھانا آپ کو بھجوایا کرتی تھیں.خدائی نصرت اور خدائی کفالت کے اس عجیب و غریب واقعہ میں ہماری جماعت کے نوجوانوں اور خصوصاً واقف زندگی نو جوانوں کے لئے بھاری سبق ہے کہ اگر وہ بھی پاک و صاف نیت اور توکل علی اللہ کے خالص جذبہ کے ساتھ خدا کے نوکر بنیں گے تو وہ رحیم و کریم آقا جوسب و فاداروں سے بڑھ کر وفادار اور سب قدرشناسوں سے زیادہ قدر شناس ہے وہ انہیں بھی کبھی ضائع نہیں کرے گا.کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے اور وہ اس کے ہاتھ کو تھامنے سے انکار کرتے ہوئے اسے بے سہارا چھوڑ دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: تجھے دنیا میں ہے کس نے پکارا کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا تو پھر ہے کس قدر اس کو سہارا کہ جس کا تو ہی ہے سب سے پیارا (اپنے بچوں کی آمین)
12 مضامین بشیر جلد چهارم غالباً یہ بھی اسی سکھ زمیندار کا بیان ہے جس نے حضرت مسیح موعود کو ہمارے دادا کی طرف سے نوکری کا پیغام لا کر دیا تھا کہ ایک دفعہ ایک بڑے افسر یار کیس نے ہمارے دادا صاحب سے پوچھا کہ سنتا ہوں کہ آپ کا ایک چھوٹا لڑ کا بھی ہے مگر ہم نے اسے کبھی دیکھا نہیں.دادا صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا تو ہے مگر وہ تازہ شادی شدہ دلہنوں کی طرح کم ہی نظر آتا ہے.اگر اسے دیکھنا ہو تو مسجد کے کسی گوشہ میں جا کر دیکھ لیں.وہ تو مسیتہ ہے اور اکثر مسجد میں ہی رہتا ہے اور دنیا کے کاموں میں اسے کوئی دلچسپی نہیں.ہماری تائی صاحبہ کبھی کبھی بعد میں حضرت مسیح موعود کی خدا دا د ترقی کو دیکھ کر اس روایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں کہ میرے تایا ( یعنی ہمارے دادا صاحب) کو کیا علم تھا کہ کسی دن غلام احمد کی خوش بختی کیا پھل لائے گی.(سيرة المهدى وتذكرة المهدى مصنفہ پیر سراج الحق صاحب وسيرة مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب مخلوط) خاکسار جب بھی یہ روایت سنتا ہے تو مجھے لازماً رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد آجاتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ : رَجُلٌ كَانَ قَلْبُهُ مُعَلَّقاً بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتَّى يَعُودَ إِلَيْهِ (سنن ترمذی کتاب الزهد عن رسول اللہ باب ما جاء في الحب فی اللہ ) یعنی وہ شخص خدا کے خاص فضل و رحمت کے سایہ میں ہے جس کا دل ہر وقت مسجد میں لٹکا رہتا ہے.مسجد میں دل لٹکے رہنے سے یہ مراد ہے کہ ایسا شخص خدا کی محبت اور اس کی عبادت میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ اس کا زیادہ وقت مسجد میں ہی گزرتا ہے اور اگر وہ کسی کام وغیرہ کی غرض سے مسجد سے باہر آتا ہے تو اس وقت بھی وہ گویا اپنا دل مسجد میں ہی چھوڑ آتا ہے کہ کب یہ کام ختم ہو اور کب میں اپنے نشیمن میں واپس پہنچوں.ہونے والے مامورین کی یہ بات ایسے حالات سے تعلق رکھتی ہے کہ جب وہ اپنے دعوئی سے قبل ریاضات اور عبادات میں مشغول ہوتے ہیں ورنہ دعوی کے بعد تو ان کی زندگی مجسم جہاد کا رنگ اختیار کر لیتی ہے.جس کا ہر لمحہ باطل کا مقابلہ کرنے اور ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے میں گزرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں خدا کی محبت اتنی رچی ہوئی اور اتنا غلبہ پائے ہوئے تھی کہ اس کے مقابل پر ہر دوسری محبت بیچی تھی اور آپ ارشاد نبوی کا کامل نمونہ تھے کہ: الْحُبُّ فِي اللهِ وَالْبُغْضُ فِي اللهِ (سنن ابوداؤ د کتاب السنۃ باب مجانب اهل الاهواء و هرا
مضامین بشیر جلد چهارم 13 یعنی سچے مومن کی ہر محبت اور ہر ناراضگی خدا کی محبت اور خدا کی ناراضگی کے تابع اور اسی کے واسطے سے ہوتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعودا اپنی ایک فارسی نظم میں خدا کی حقیقی محبت کا پیمانہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ: ہرچہ غیرے خدا بخاطر تست آں بُت تست اے پایماں سر پُر حذر باش زیں بتان نہاں دامن دل ز دست شاں بُرہاں ( براہین احمدیہ حصہ دوم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 127-128) یعنی جو چیز بھی خدا کے سوا تیرے دل میں ہے وہ (اےست ایمان والے شخص ) تیرے دل کا ایک بت ہے.تجھے چاہئے کہ ان مخفی بتوں کی طرف سے ہوشیار رہ اور اپنے دل کے دامن کو ان بچوں کی دست بُرد سے بیچا کر رکھ.یہ ایک عجیب نظارہ ہے کہ ادھر حضرت مسیح موعود نے خدا کی خاطر دنیا سے منہ موڑا اور اُدھر خدا نے آپ کو دین و دنیا کی نعمتیں عطا کرنی شروع کر دیں.بلکہ حق یہ ہے کہ اس نے دونوں جہاں آپ کی جھولی میں ڈال دیئے.مگر آپ کی نظر میں خدا کی محبت اور اس کے قرب کے مقابل پر ہر دوسری نعمت بھی تھی.چنانچہ ایک جگہ خدا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: اے سر و جان و دل و هر ذره ام قربان تو بر دلم بگشا ز رحمت ہر در عرفان تو فلسفی کز عقل مے جوید ترا دیوانہ ہست دور تر هست از خردها آن ره از حریم تو ازیناں هیچ کس آگه نشد پنہان تو بر که آگه شد مشهد از احسانِ بے پایانِ تو عاشقان روئے خود را ہر دو ہر رو و عالم ے دہی عالم پیچ پیش دیده غلمان تو چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد 20 صفحه 391-392
مضامین بشیر جلد چهارم 14 یعنی اے وہ کہ تجھ پر میرا سر اور میری جان اور میرا دل اور میرا ہر ذرہ قربان ہے تو اپنے رحم وکرم سے میرے دل پر اپنے عرفان کا ہر رستہ کھول دے.وہ فلسفی تو دراصل عقل سے کورا ہے جو تجھے عقل کے ذریعہ تلاش کرتا ہے کیونکہ تیرا پوشیدہ رستہ عقلوں سے دور اور نظروں سے مستور ہے.یہ سب لوگ تیری مقدس بارگاہ سے بے خبر ہیں.تیرے دروازہ تک جب بھی کوئی شخص پہنچا ہے تو صرف تیرے احسان کے نتیجہ میں ہی پہنچا ہے.تو بے شک اپنے عاشقوں کو دونوں جہان بخش دیتا ہے مگر تیرے غلاموں کی نظر میں دونوں جہانوں کی کیا حقیقت ہے؟ وہ تو صرف تیرے منہ کے بھوکے ہوتے ہیں.دوست ان شعروں پر غور کریں.حضرت مسیح موعود کس ناز سے فرماتے ہیں کہ اے میرے آسمانی آقا! تو نے بے شک مجھے گویا دونوں جہانوں کی نعمتیں دے دی ہیں مگر مجھے ان نعمتوں سے کیا کام ہے؟ مجھے تو بس تو چاہئے.یہ وہی بات ہے کہ حضرت موسیٰ کو خدا نے نبوت دی.فرعون جیسے جبّار بادشاہ پر غلبہ بخشا.ایک قوم کی سرداری عطا کی مگر پھر بھی ان کی پکار یہی رہی کہ " رَبِّ اَرِنِى أَنْظُرُ إِلَيْكَ (الاعراف:144) یعنی ” خدایا تیرے احسانوں کے نیچے میری گردن دبی ہوئی ہے مگر ذرا اپنا چہرہ بھی دکھا دیجئے ! یہی حال اپنے محبوب آقا حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں حضرت مسیح موعود کا تھا.چنانچہ دوسری جگہ فرماتے ہیں: در رو عالم مرا عزیز توئی و آنچه میخواهم از تو نیز توئی (دیباچہ براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ 16 روحانی خزائن جلد 1 ) یعنی دونوں جہانوں میں میرا تو بس تو ہی محبوب ہے اور میں تجھ سے صرف تیرے ہی وصال کا آرزومند ہوں.قرآن مجید سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے بے نظیر معنوی اور ظاہری محاسن کی وجہ سے بے حد عشق تھا.مگر باوجود اس کے قرآنی محبت کی اصل بنیاد بھی خدا ہی کی محبت پر قائم تھی.فرماتے ہیں: ے دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم ) یعنی قرآن کی خوبیاں تو ظاہر و عیاں ہیں مگر اس کے ساتھ میری محبت کی اصل بنیاد اس بات پر ہے کہ
مضامین بشیر جلد چهارم 15 اے میرے آسمانی آقا! وہ تیری طرف سے آیا ہوا مقدس صحیفہ ہے جسے بار بار چومنے اور اس کے گرد طواف کرنے کے لئے میرا دل بے چین رہتا ہے.ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیل گاڑی میں بیٹھ کر قادیان سے بٹالہ تشریف لے جا رہے تھے ( اور یہ سفر بیل گاڑی کے ذریعہ قریباً پانچ گھنٹے کا تھا ) حضرت مسیح موعودؓ نے قادیان سے نکلتے ہی اپنی حمائل شریف کھول لی اور سورہ فاتحہ کو پڑھنا شروع کیا اور برابر پانچ گھنٹے تک اسی سورۃ کو استغراق کے ساتھ پڑھتے رہے کہ گویا ایک وسیع سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں آپ اپنے از لی محبوب کی محبت و رحمت کے موتیوں کی تلاش میں غوطے لگا رہے ہیں.(سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 106 ) جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کو اس کثرت اور اس تکرار کے ساتھ اپنی وفات کے قرب کے بارے میں الہام ہوئے کہ کوئی اور ہوتا تو اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جاتے.مگر چونکہ آپ کو خدا کے ساتھ کامل محبت تھی اور اُخروی زندگی پر ایسا ایمان تھا کہ گویا آپ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں.آپ ان پے در پے الہاموں کے باوجود ایسے شوق اور ایسے انہماک کے ساتھ دین کی خدمت میں لگے رہے کہ گویا کوئی بات ہوئی ہی نہیں.بلکہ اس خیال سے اپنی کوششوں کو تیز سے تیز تر کر دیا کہ اب میں اپنے محبوب سے ملنے والا ہوں اس لئے اس کے قدموں میں ڈالنے کے لئے جتنے پھول چن سکوں، چن لوں.یہ اسی طرح کی کیفیت تھی جس کے ماتحت آپ کے آقا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں شوق کے ساتھ فرمایا تھا کہ: اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى اللَّهُمَّ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى ( صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) یعنی خدایا! اب میں تیرے قدموں میں حاضر ہورہا ہوں اور تیری قریب ترین معیت کا آرزومند ہوں.خدا نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس محبت کو ایسی قدرشناسی سے نوازا تھا کہ جو اسی کی بے پایاں رحمت کا حق اور اس کی بے نظیر قدرشناسی کے شایانِ شان ہے.چنانچہ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ تَوْحِيدِى وَ تَفْرِيدِى أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ وَلَدِي إِنِّي مَعَكَ يَا إِبْنَ رَّسُول الله ( تذکره صفحه 53 ، 442، 490 ایڈیشن چہارم) یعنی چونکہ اس زمانہ میں تو میری توحید کا علم بردار ہے اور توحید کے کھوئے ہوئے متاع دنیا میں دوبارہ
مضامین بشیر جلد چهارم 16 قائم کر رہا ہے.اس لئے اے مسیح محمدی! تو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے کہ میری تو حید اور تفرید.اور چونکہ عیسائیوں نے جھوٹ اور افتراء کے طور پر اپنے مسیح کو خدا کا اصلی بیٹا بنا رکھا ہے اس لئے میری غیرت نے تقاضا کیا کہ میں تیرے ساتھ ایسا ہی پیار کروں کہ جو اولاد کا حق ہوتا ہے.تا کہ دنیا پر ظاہر ہو کہ محمد رسول اللہ کے شاگرد تک اطفال اللہ کے مقام کو پہنچ سکتے ہیں.اور چونکہ تو میرے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت میں دن رات مستغرق اور اس کی محبت میں محو ہے.اس لئے میں تجھے اپنے اس محبوب کے روحانی فرزند کی حیثیت میں اپنی لازوال محبت اور اپنی دائگی معیت کے تمغہ سے نوازتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ کی اس محبت اور اس معیت اور اس غیرت پر ناز تھا.چنانچہ جب آپ کو 05-1904ء میں مولوی کرم دین والے مقدمہ میں یہ اطلاع ملی کہ ہند و مجسٹریٹ کی نیت ٹھیک نہیں اور وہ آپ کو قید کرانے کی داغ بیل ڈال رہا ہے تو آپ اس وقت ناسازی طبع کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے.یہ الفاظ سنتے ہی جوش کے ساتھ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ: وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے (سیرۃ المہدی حصہ اول) چنانچہ اپنے ایک شعر میں بھی فرماتے ہیں کہ : ے جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال ڈال اے روبہ زار ونزار (براہین احمدیہ حصہ پنجم ) اور اسی نظم میں دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ: ے سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں اے میرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار دوستو ! میں خدا کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی بے نظیر محبت اور پھر حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کی لازوال محبت کی ایک بہت چھوٹی سی جھلک آپ کو دکھا رہا ہوں.اب اس پیج کو اپنے دلوں میں پیدا کرنا اور پھر اس پودے کو خدائی محبت کے پانی سے پروان چڑھانا آپ لوگوں کا کام ہے.قرآن کے اس زریں ارشاد کو کبھی نہ بھولو کہ : الَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقره: 166 یعنی مومنوں کے دلوں میں خدا کی محبت سب دوسری محبتوں پر غالب ہونی چاہئے
مضامین بشیر جلد چهارم 17 محبت الہی کے متعلق حضرت مسیح موعود ایک جگہ ایسے رنگ میں گفتگو فرماتے ہیں کہ گویا آپ اس محبت کی شراب طہور میں مخمور ہو کر اپنے خدا سے ہمکلام ہو رہے ہیں.فرماتے ہیں: میں ان نشانوں کو شمار نہیں کر سکتا جو مجھے معلوم ہیں ( مگر دنیا انہیں نہیں دیکھتی لیکن اے میرے خدا) میں تجھے پہچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے.اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اُچھلتی ہے جیسا کہ ایک شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے لیکن اکثر لوگوں نے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا.“ اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کو گواہ رکھ کر فرماتے ہیں: ضمیمه تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 511) ”دیکھ! میری روح نہایت تو کل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے.سو میں تیری قدرت کے نشان کا خواہش مند ہوں.لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے بلکہ اس کے لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں.“ (ضمیمه تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 511) پھر اسی محبت الہی کے جوش میں اپنے اور اپنے مخالفوں کے درمیان حق وانصاف کا فیصلہ چاہتے ہوئے اپنی جان اور اپنے مال و متاع اور اپنی عزت و آبرو اور اپنے جمیع کاروبار کی بازی لگاتے ہوئے خدا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں اور کس جذ بہ اور ولولہ سے فرماتے ہیں: اے قدیر و خالق و ارض و سما رہنما اے رحیم اے ا و مهربان و که میداری تو بر دلها نظر که از تو نیست چیزے مستتر گر تو می بینی مرا پرفسق و شتر گر تو دیدستی که هستم بد گہر پاره پاره کن من بدکار را کن شاد کن این زمرہ اغیار را آتش افشاں پر در و دیوار من باش تبه گن کارمن
مضامین بشیر جلد چهارم با من از اند آستانت در مرا از بند گانت یافتی قبلہ من یافتی دیده راز را پوشیده دل من آں محبت کر جہاں آں روئے محبت کار گن کے افشاء آں اسرار گن اے کہ آئی سوئے ہر جوینده واقفی از سوز ہر سوزنده زاں تعلق ہا با که با تو داشتم زاں محبت ہا کر در دل کاشتم خود بروں آ پیئے ابراء من اے تو کہف و ملجاء و ماوائے من آتش کاندر دلم افروختی 18 وز دم آن غیر خود را سوختی ہم ازاں آتش رُخ من بر فروز ویں شب تارم مبدل گن بروز (حقیقة المهدی روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 434) یعنی اے میرے قادر و قدیر خدا! اے وہ جو زمین و آسمان کا واحد خالق و مالک ہے.اے وہ جو اپنے بندوں پر بے انتہا رحم کرنے والا اور ان کی ہدایت کا بے حد آرزومند ہے.ہاں اے میرے آسمانی آقا! جو لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے جس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے.اگر تو دیکھتا ہے کہ میرا اندرونہ فسق و فساد اور فتنہ وشر کی نجاست سے بھرا ہوا ہے.اگر تو مجھے ایک بدفطرت اور ایک ناپاک سیرت انسان خیال کرتا ہے تو میں تجھے تیرے جبروت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے بد کار کو پارہ پارہ کر کے رکھ دے اور میرے مخالفوں کے دلوں کو ٹھنڈا کر.تو میرے درودیوار پر اپنے عذاب کی آگ برسا اور میرا دشمن بن کر میرے کاموں کو تباہ و برباد کر دے.لیکن اگر تو جانتا ہے کہ میں تیرا اور صرف تیرا ہی بندہ ہوں.اور اگر تو
مضامین بشیر جلد چهارم 19 دیکھ رہا ہے کہ صرف تیرا ہی مبارک آستانہ میری پیشانی کی سجدہ گاہ ہے.اگر تو میرے دل میں اپنی بے پناہ محبت پاتا ہے جس کا راز اس وقت تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے.تو اے میرے پیارے آقا! تو مجھے اپنی محبت کا کرشمہ دکھا اور میرے عشق کے پوشیدہ راز کو لوگوں پر ظاہر فرمادے.ہاں اے وہ جو کہ ہر متلاشی کی طرف خود چل کے آتا ہے اور ہر اس شخص کے دل کی آگ سے واقف ہے جو تیری محبت میں جل رہا ہے.میں تجھے اپنی اس محبت کے پودے کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو میں نے تیرے دل کی گہرائیوں میں لگا رکھا ہے کہ تو میری بریت کے لئے باہر نکل آ.ہاں ہاں اے وہ جو میری پناہ اور میرا سہارا اور میری حفاظت کا قلعہ ہے.وہ محبت کی آگ جو تُو نے اپنے ہاتھ سے میرے دل میں روشن کی ہے اور جس کی وجہ سے میرے دل و دماغ میں تیرے سوا ہر دوسرا خیال جل کر راکھ ہو چکا ہے.تو اب اسی آگ کے ذریعہ میرے پوشیدہ چہرے کو دنیا پر ظاہر کر دے اور میری تاریک رات کو دن کی روشنی میں بدل دے.اس عجیب و غریب نظم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ جس بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے وہ اتنی ظاہر وعیاں ہے کہ اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں.ان اشعار کے الفاظ اس اسفنج کے ٹکڑے کا رنگ رکھتے ہیں جس کے رگ وریشہ میں مصفی پانی کے قطرات اس طرح بھرے ہوئے ہوں کہ اسفنج کو پانی سے اور پانی کو اسفنج سے ممتاز کرنا ناممکن ہو جائے.مگر میں ان اشعار کی تحدی اور خدائی نصرت پر کامل بھروسہ کے پہلو کے متعلق دوستوں کو ضرور تھوڑی سی توجہ دلانا چاہتا ہوں.یہ اشعار جیسا کہ ہماری جماعت کے اکثر واقف کار اصحاب جانتے ہیں 1899 ء میں کہے گئے تھے جس پر اس وقت ساٹھ سال کا عرصہ گزرا ہے.جس کا زمانہ پانے والے اس وقت ہزاروں لاکھوں لوگ موجود ہوں گے اور یہ عرصہ قوموں کی زندگی میں گویا کچھ بھی نہیں.مگر اس قلیل عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ان غیرت دلانے والے متحد یا نہ الفاظ کے نتیجہ میں جس غیر معمولی رنگ میں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود آپ کے سلسلہ کو ترقی دی اور اس کی نصرت فرمائی اور اسے پھیلایا اور اسے اوپر اٹھایا ہے.اس کا چھوٹا سا نظارہ ہمارے سالانہ جلسوں میں نظر آتا ہے.جبکہ دو تین سو کی تعداد سے ترقی کر کے جماعت احمدیہ کے نمائندے (نہ کہ کل افراد ) جو آج کل جلسہ سالانہ کے موقع پر مرکز سلسلہ میں جمع ہوتے ہیں خدا کے فضل سے قریب ستر اسی ہزار کی تعداد کو پہنچ جاتے ہیں.اور احمدیت کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا دنیا کے اکثر آزاد ملکوں میں بلند و بالا ہوکر اہرارہا ہے.اور جو لوگ اس سے پہلے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ گالیاں دیتے تھے وہ آج مسیح محمدی کے خدام کے ذریعہ حلقہ بگوش اسلام ہو کر آپ پر درود و سلام بھیج رہے ہیں.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا
مضامین بشیر جلد چهارم عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا - (الاحزاب : 57) 20 بالآخر میں اپنے مضمون کے اس حصہ کے متعلق جو محبت الہی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے صرف یہ بات کہہ کر اسے ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی محبت کا جذ بہ آپ کی ذات تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آپ کو اس بات کی بھی انتہائی تڑپ تھی کہ یہ عشق کی چنگاری دوسروں کے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے.چنانچہ آپ اپنی مشہور و معروف تصنیف ”کشتی نوح میں فرماتے ہیں: وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں.اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں، کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 21-22) دوستو! ان الفاظ پر غور کرو اور اس محبت اور اس تڑپ کی گہرائی کا اندازہ لگانے کی کوشش کرو جو ان الفاظ کی تہہ میں پنہاں ہے.آپ یقینا اس کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتے مگر جس قد را اندازہ بھی آپ اپنے ظرف کے مطابق کریں گے اس کے نتیجہ میں لازماً آپ کی روحانیت میں علی قدر مراتب غیر معمولی بلندی اور غیر معمولی ترقی اور غیر معمولی روشنی پیدا ہوگی.عشق رسول محبت الہی کے بعد دوسرے نمبر پر عشق رسول کا سوال آتا ہے.سواس میدان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام عدیم المثال تھا.آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ : بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم (ازالہ اوہام) یعنی میں خدا کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں.اگر میرا عشق کسی کی نظر میں کفر ہے تو خدا کی قسم! میں ایک سخت کا فرانسان ہوں.
مضامین بشیر جلد چهارم 21 یہ خاکسار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں پیدا ہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لئے میری زبان میں طاقت نہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں.مگر میں نے ایک دن مر کر خدا کو جان دینی ہے.میں اسی آسمانی آقا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے دیکھنے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر بلکہ محض نام لینے پر ہی حضرت مسیح موعود کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلی نہ آگئی ہو.آپ کے دل و دماغ بلکہ سارے جسم کا رواں رؤاں اپنے آقا حضرت سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے معمور تھا.ایک دفعہ کا ایک واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنے مکان کے ساتھ والی چھوٹی مسجد جو مسجد مبارک کہلاتی ہے اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے.اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہتی چلی جارہی تھی.اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آکر سنا تو آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت حسان بن ثابت کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے: كُنتَ السَّوَادَ لِـــــــاظـــرى عَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ عَلَيْكَ كُـــنــــتُ أُحَاذِرٌ (دیوان حسان بن ثابت ) یعنی اے خدا کے پیارے رسول ؟! تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہوگئی ہے.اب تیرے بعد جو چاہے مرے، مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہوگئی.راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا اور اس وقت آپ مسجد میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت! یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کو کونسا صدمہ پہنچا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں اس وقت حسان بن ثابت کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرز و پیدا ہورہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا“ دنیا جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سخت سے سخت زمانے آئے.ہر قسم کی تنگی دیکھی.طرح طرح کے مصائب برداشت کئے.حوادث کی آندھیاں سر سے گزریں.مخالفوں کی طرف سے انتہائی تلخیوں
مضامین بشیر جلد چهارم 22 اور ایذاؤں کا مزا چکھا.حتی اس قتل کے سازشی مقدمات میں سے بھی گزرنا پڑا.بچوں اور عزیزوں اور دوستوں اور اپنے جاں شمار فدائیوں کی موت کے نظارے بھی دیکھے مگر کبھی آپ کی آنکھوں نے آپ کے قلبی جذبات کی غمازی نہیں کی.لیکن علیحدگی میں اپنے آقا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق (اور وفات بھی جس پر تیرہ سو سال گزر چکے تھے ) یہ محبت کا شعر یاد کرتے ہوئے آپ کی آنکھیں سیلاب کی طرح بہہ نکلیں.اور آپ کی یہ قلبی حسرت چھلک کر باہر آ گئی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا“ قادیان میں ایک صاحب محمد عبد اللہ ہوتے تھے جنہیں لوگ پروفیسر کہہ کر پکارتے تھے.وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بہت مخلص تھے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو مختلف قسم کے نظاروں کی تصویر میں دکھا کر اپنا پیٹ پالا کرتے تھے.مگر جوش اور غصے میں بعض اوقات اپنا توازن کھو بیٹھتے تھے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے بیان کیا کہ فلاں مخالف نے حضور کے متعلق فلاں جگہ بڑی سخت زبانی سے کام لیا ہے اور حضور کو گالیاں دی ہیں.پروفیسر صاحب طیش میں آکر بولے کہ اگر میں ہوتا تو اس کا سر پھوڑ دیتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بے ساختہ فرمایا ”نہیں نہیں ایسا نہیں چاہئے.ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے.پروفیسر صاحب اس وقت غصے میں آپے سے باہر ہو رہے تھے.جوش کے ساتھ بولے واہ صاحب واہ ! یہ کیا بات ہے.آپ کے پیر (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی شخص بُرا بھلا کہے تو آپ فور مباہلہ کے ذریعہ اسے جہنم تک پہنچانے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کو ہمارے سامنے گالی دے تو ہم صبر کریں؟ پروفیسر صاحب کی یہ غلطی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر کس نے صبر کیا ہے اور کس نے کرنا ہے؟ مگر اس چھوٹے سے واقعہ میں عشق رسول اور غیرت ناموسِ رسول کی وہ جھلک نظر آتی ہے جس کی مثال کم ملے گی.پنڈت لیکھرام کو کون نہیں جانتا.وہ آریہ سماج کے بہت بڑے مذہبی لیڈر تھے اور اس کے ساتھ ہی اسلام کے بدترین دشمن بھی تھے.جن کی زبان اسلام اور مقدس بانی اسلام کی مخالفت میں قینچی کی طرح چلتی اور چھری کی طرح کاٹتی تھی.انہوں نے ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر کھڑے ہو کر اسلام اور مقدس بانی اسلام پر گندے سے گندے اعتراض کئے اور ہر دفعہ حضرت مسیح موعود نے ان کو ایسے دندان شکن جواب دئے کہ کوئی کیا دے گا.مگر یہ صاحب رکنے والے نہیں تھے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پنڈت لیکھرام کا یہ مقابلہ حضرت مسیح موعود کے ایک مباہلہ پرختم ہوا.جس کے نتیجہ میں پنڈت جی حضرت مسیح موعود کی دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھتے ہوئے اور ہزاروں حسرتیں اپنے سینہ
مضامین بشیر جلد چهارم 23 میں لئے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے.انہی پنڈت لیکھرام کا یہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جب مسیح موعود علیہ السلام کسی سفر میں ایک سٹیشن پر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے کہ پنڈت لیکھرام کا بھی ادھر سے گزر ہو گیا.اور یہ معلوم کر کے کہ حضرت مسیح موعود اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں پنڈت جی دنیا داروں کے رنگ میں اپنے دل کے اندر آگ کا شعلہ دبائے ہوئے آپ کے سامنے آئے.آپ اس وقت نماز کی تیاری میں وضو فرما رہے تھے.پنڈت لیکھرام نے آپ کے سامنے آ کر ہندوانہ طریق پر سلام کیا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گویا کہ دیکھا ہی نہیں.اس پر پنڈت جی نے دوسرے رُخ سے ہو کر پھر دوسری دفعہ سلام کیا اور حضرت مسیح موعود پھر خاموش رہے.جب پنڈت جی مایوس ہو کر لوٹ گئے تو کسی نے یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت مسیح موعود نے پنڈت لیکھرام کا سلام نہیں سنا ہوگا حضور سے عرض کیا کہ پنڈت لیکھر ام آئے تھے اور سلام کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا کہ: ”ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے!!! ( سيرة المهدى وسيرة مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب) یہ اس شخص کا کلام ہے جو ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے مجسم رحمت تھا.ہندوؤں میں اس کے روز کے ملنے والے دوست تھے اور سکھوں میں اس کے دوست تھے اور عیسائیوں میں اس کے دوست تھے اور اس نے ہر قوم کے ساتھ انتہائی شفقت اور انتہائی ہمدردی کا سلوک کیا.مگر جب اس کے آقا اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت کا سوال آیا تو اس سے بڑھ کر یگی تلوار دنیا میں کوئی نہیں تھی.اسی قسم کا ایک واقعہ لاہور کے جلسہ وچھو والی“ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.آریہ صاحبان نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں شرکت کرنے کے لئے ہر مذہب وملت کو دعوت دی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے باصرار درخواست کی کہ آپ اس بین الاقوامی جلسہ کے لئے کوئی مضمون تحریر فرمائیں.اور وعدہ کیا کہ جلسہ میں کوئی بات خلاف تہذیب اور کسی مذہب کی دل آزاری کا رنگ رکھنے والی نہیں ہوگی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک ممتاز حواری حضرت مولوی نورالدین صاحب کو جو بعد میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ اول مقرر ہوئے بہت سے احمدیوں کے ساتھ لاہور روانہ کیا.اور ان کے ہاتھ ایک مضمون لکھ کر بھیجا جس میں اسلام کے محاسن بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اور بڑے دلکش رنگ میں بیان کئے گئے تھے.مگر جب آریہ صاحبان کی طرف سے مضمون پڑھنے والے کی باری آئی تو اس بندہ خدا نے اپنی قوم
مضامین بشیر جلد چهارم 24 کے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مضمون میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اتنا ز ہرا گلا اور ایسا گند اُچھالا کہ خدا کی پناہ.جب اس جلسہ کی اطلاع حضرت مسیح موعود کو پہنچی اور جلسہ میں شرکت کرنے والے احباب قادیان واپس آئے تو آپ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور دوسرے احمدیوں پر سخت ناراض ہوئے اور بار بار جوش کے ساتھ فرمایا کہ جس مجلس میں ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہا گیا اور گالیاں دی گئیں تم اس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے؟ اور کیوں نہ فوراً اٹھ کر باہر چلے آئے ؟ تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سنتے رہے؟ اور پھر آپ نے بڑے جوش کے ساتھ یہ قرآنی آیت پڑھی کہ : إِذَا سَمِعْتُمُ أَيتِ اللهِ يُكْفَرُبهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْره (النساء: 141) یعنی اے مومنو! جب تم سنو کے خدا کی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیا جاتا ہے اور ان پر جنسی اُڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فوراً اُٹھ جایا کروتا وقتیکہ یہ لوگ کسی مہذبانہ انداز گفتگو کو اختیار کریں.اس مجلس میں حضرت مولوی نورالدین صاحب ( خلیفہ اول ) بھی موجود تھے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر ندامت کے ساتھ سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے.بلکہ حضرت مسیح موعود کے اس غیورانہ کلام سے ساری مجلس ہی شرم اور ندامت سے کئی جارہی تھی.(سیرۃ المہدی حصہ اول) خان بہا در مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کو جماعت کے سب یا کم از کم اکثر دوست جانتے ہیں.وہ ہماری بڑی والدہ صاحبہ کے بطن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے بڑے لڑکے تھے جوڈ پٹی کمشنر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے اور دنیا کا بڑا وسیع تجربہ رکھتے تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھر حضور کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے بلکہ حضور سے علیحدہ ہی رہے اور حضور کے خاندانی مخالفوں سے اپنا تعلق قائم رکھا.گو بعد میں انہوں نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کے زمانہ میں بیعت کر لی اور اس طرح آپ نے ہم تین بھائیوں کو چار کر دیا.بہر حال خان بہادرمرزا سلطان احمد صاحب کے غیر احمدی ہونے کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کے اخلاق و عادات کے متعلق کچھ دریافت کروں.چنانچہ میرے پوچھنے پر انہوں نے فرمایا کہ: ’ایک بات میں نے والد صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود ) میں خاص طور پر دیکھی ہے.وہ یہ کہ
مضامین بشیر جلد چهارم 25 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف والد صاحب ذراسی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.اگر کوئی شخص آنحضرت کی شان کے خلاف ذراسی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو والد صاحب کو عشق تھا.ایسا عشق میں نے کبھی کسی میں نہیں دیکھا.اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو بار بار دہرایا.“ (سیرة المهدی حصہ اول) یہ اس شخص کی شہادت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل نہیں تھا.جس نے حضرت مسیح موعود کو اپنی جوانی سے لے کر حضور کی وفات تک دیکھا.جس نے اتنی سال کی عمر میں وفات پائی.جس کے تعلقات کا دائرہ اپنی معزز ملازمت اور اپنے ادبی کارناموں کی وجہ سے نہایت وسیع تھا اور جو اپنے سوشل تعلقات میں بالکل صحیح طور پر کہ سکتا تھا کہ: جفت خوش حالاں و بد حالاں شدم مگر حضرت مسیح موعود کی زندگی میں غیر احمدی ہونے کے باوجود اس کے عمر بھر کے مشاہدہ کا نچوڑ اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والد صاحب کو عشق تھا.ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا.“ ایک دفعہ بالکل گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود کی طبیعت کچھ نا ساز تھی اور آپ گھر میں چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت اماں جان نوراللہ مرقدها اور ہمارے نانا جان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہو گیا.حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہو رہی ہے.حج کو چلنا چاہئے.اس وقت زیارتِ حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے.حضرت نانا جان کی بات سن کر فرمایا: یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے.مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا ؟“ ( روایات نواب مبار که بیگم صاحبه ) یہ ایک خالصتاً گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سی بات ہے.لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں اس اتھاہ
مضامین بشیر جلد چهارم 26 سمندر کی طغیانی لہر میں کھیلاتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشق رسول کے متعلق حضرت مسیح موعود کے قلب صافی میں موجزن تھیں.حج کی کس بچے مسلمان کی خواہش نہیں مگر ذرا اس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاک (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے.اور وہاں اس کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بند ہونی شروع ہو جاتی ہیں.رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی آل و اولاد اور آپ کے صحابہ کے ساتھ بھی بے پناہ محبت تھی.چنانچہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعود اپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں سے چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا: آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں“ پھر آپ نے بڑے درد ناک انداز میں حضرت امام حسنؓ کی شہادت کے واقعات سنائے.آپ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.اور آپ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے.اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا.اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپ کا دل بہت بے چین ہورہا تھا.اور یہ سب کچھ رسول پاک کے عشق کی وجہ سے تھا.( روایات نواب مبار که بیگم صاحبه ) چنانچہ اپنی ایک نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کر کے فرماتے ہیں: ے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے تیری الفت سے ہے مامور میرا ہر ذرہ اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225) ی اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر وہ منظوم اور منشور کلام جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں رقم فرمایا ایسے شہد کے چھتے کا رنگ اختیار کر گیا تھا جس میں شہد کی کثرت کی وجہ سے عسل مصفی کے قطرے گرنے شروع ہو جاتے ہیں.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں اور کس محبانہ انداز میں
مضامین بشیر جلد چهارم فرماتے ہیں کہ : عجب نوریست در جان محمد عجب لعلی است در کان محمد اگر خواہی خواہی دلیلے عاشقش باش بست برہان محمد دریں ره گر کشندم در بسوزند نتایم رو ز تو جان ما منور کر دی از عشق ایوان محمد فدایت جانم اے جانِ محمد 27 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 649) یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں خدا نے عجیب نور ودیعت کر رکھا ہے اور آپ کی مقدس کان عجیب وغریب جواہرات سے بھری پڑی ہے.اگر اے منکر و! تم محمد کی صداقت کی دلیل چاہتے ہو تو دلیلیں تو بے شمار ہیں مگر مختصر رستہ یہ ہے کہ اس کے عاشقوں میں داخل ہو جاؤ.کیونکہ محمد کا وجود اس کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے.واللہ! اگر آپ کے رستہ میں مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اور میرے ذرہ ذرہ کو جلا کر خاک بنا دیا جائے تو پھر بھی میں آپ کے دروازے سے کبھی منہ نہیں موڑوں گا.سوائے محمد کی جان! تجھ پر میری جان قربان تو نے میرے روئیں روئیں کو اپنے عشق سے منور کر رکھا ہے.اسی طرح اپنی ایک عربی نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کر کے فرماتے ہیں: أَنْظُرُ إِلَيــيَّ بِرَحْمَةٍ وَتَـحَـنَّـنٍ يَا سَيِّدِى أَنَا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ احِب إِنَّكَ قَدْ دَخُـلُــتَ مَحَبَّةُ فِي مُهْجَتِي وَمَدَارِكِي وَ جَنَانِي مِن ذِكْرِ وَجُهِكَ يَا حَدِيقَةً بَهْجَتِي لَمْ أَخْلُ فِي لَحْظٍ وَّلَا فِى أن
مضامین بشیر جلد چهارم جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَالَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانِ 28 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 594) یعنی اے میرے آقا ! میری طرف رحمت اور شفقت کی نظر رکھ.میں تیرا ایک ادنی ترین غلام ہوں.اے میرے محبوب تیری محبت میرے رگ وریشہ میں اور میرے دل میں اور میرے دماغ میں رچ چکی ہے.اے میری خوشیوں کے باغیچے ! میں ایک لمحہ اور ایک آن بھی تیری یاد سے خالی نہیں رہتا.میری روح تو تیری ہو چکی ہے مگر میرا جسم بھی تیری طرف پرواز کرنے کی تڑپ رکھتا ہے.اے کاش! مجھ میں اُڑنے کی طاقت ہوتی.ان اشعار میں جس محبت اور جس عشق اور جس تڑپ اور جس فدائیت کا جذ بہ جھلک رہا بلکہ چھلک رہا ہے وہ کسی تبصرہ کا محتاج نہیں.کاش ہمارے احمدی نوجوان اس محبت کی چنگاری سے اپنے دلوں کو گرمانے کی کوشش کریں.اور کاش ہمارے غیر احمدی بھائی بھی اس عظیم الشان انسان کی قدر پہچانیں جس کے متعلق ہم سب کے آقا اور سردار حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : " يُدَفَنُ مَعِيَ فِي قَبُرِى (کتاب الوفاء ابن الجوزی) یعنی آنے والے مسیح کو میری روح کے ساتھ ایسی گہری مناسبت اور ایسا شدید لگاؤ ہوگا کہ اس کی روح وفات کے بعد میری روح کے ساتھ رکھی جائے گی.عشق کا لازمی نتیجہ قربانی اور فدائیت اور غیرت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا.ایک جگہ عیسائیوں پادریوں کے ان جھوٹے اور ناپاک اعتراضوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات پر کیا کرتے ہیں کہ: نَحْتُوا لِلرَّسُولِ الْكَرِيمِ بُهْتَانَاتٍ وَأَضَلُّوا خَلْقًا كَثِيرًا بِتِلْكَ الْإِفْتِرَاءِ - وَمَا أَذًى قَلْبِي شَيْءٌ كَاسْتِهْزَ آئِهِمْ فِي شَانِ الْمُصْطَفَى وَ جَرْهِهِمْ فِي عَرْضِ خَيْرِ الْوَرى وَاللَّهِ لَوْ قُتِلَتُ جَمِيعُ صِبْيَانِي وَأَوْلَادِى وَ أَحْفَادِى بِأَعْيُنِنِي - وَ قُطِعَتْ أَيْدِي وَ أَرْجُلِي وَ أُخْرِجَتِ الْحَدَقَةُ مِنْ عَيْنِى - وَأَبْعِدْتُ مِنْ كُلِّ مُرَادِى وَ أُونِى وَأَرَني - مَا كَانَ
مضامین بشیر جلد چهارم 29 عَلَيَّ أَشُقُ مِنْ ذَالِكَ رَبِّ انْظُرُ إِلَيْنَا وَإِلَى مَا ابْتُلِيْنَا.عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس افتراء کے ذریعہ ایک خلق کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے.میرے دل کو کسی چیز نے بھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے ہنسی ٹھٹھانے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک ” کی شان میں کرتے رہتے ہیں.ان کے دلآزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے.خدا کی قسم ! اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے نا پاک حملے کئے جائیں.پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاء عظیم سے نجات بخش.“ 66 ( ترجمه عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 15) کیا اس زمانہ میں اس غیرت اور اس فدائیت کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ اور یہ صرف منہ کا دعویٰ نہیں تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری زندگی اور زندگی کا ہر چھوٹا اور بڑا واقعہ اس عظیم الشان فدائیت پر عملی گواہ تھا.جسے آپ کے مخالف بھی شدید مخالفت کے باوجود قبول کرنے کے لئے مجبور تھے.چنانچہ آپ کی وفات پر جو تعزیتی مقالہ امرتسر کے غیر احمدی اخبار وکیل نے لکھا اس میں مقالہ نگار لکھتا ہے: ”مرزا صاحب کی رحلت نے ان کے بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے.اور اس کے ساتھ ہی مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا بھی جو اس کی ذات کے ساتھ وابست تھی خاتمہ ہوگیا.مرزا صاحب کے لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر نچے اُڑا دیئے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی گچلیاں توڑنے میں بھی مرزا صاحب نے
مضامین بشیر جلد چهارم 30 اسلام کی خاص خدمت سر انجام دی ہے.آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ مرزا صاحب کی یہ تحریر میں نظر انداز کی جاسکیں.“ اخبار وکیل امرتسر جون 1908ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بے مثال قلمی جہاد جو آپ نے اسلام کی صداقت اور قرآن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے عمر بھر کیا وہ بے شک بظاہر علمی نوعیت کا تھا اور بادی النظر میں اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے پہلو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں.مگر غور کیا جائے تو اسلام کو رسول پاک سے اور رسولِ پاک کو اسلام سے کسی طرح جدا نہیں کیا جاسکتا.پس دراصل یہ ساری خدمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق اور آپ کے لائے ہوئے دین کے ساتھ والہانہ محبت ہی کا کرشمہ تھی.یہی وجہ ہے کہ اپنی ان عدیم المثال خدمات کے باوجود جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ایک وفا شعار شاگرد اور ایک احسان مند خادم کی حیثیت میں اپنا ہر پھول آپ کے قدموں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں.اور بار بارعاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آقا ! یہ سب کچھ آپ ہی کے طفیل ہے میرا تو کچھ بھی نہیں.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں: میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحق سے اور اسمعیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسٹی سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب سے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی.ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا.اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا.“ وہ پیشوا تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 411-412) ایک اور جگہ اپنی ایک نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں متوالے ہو کر فرماتے ہیں: ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے اُس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم )
مضامین بشیر جلد چهارم 31 ان اشعار میں حضرت مسیح موعود نے جس رنگ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار وافضال کی وسعت اور ان کے افاضہ اور اس کے مقابل پر اپنی عاجزی اور انکساری اور آپ کے انوار سے اپنے استفاضہ کا ذکر فرمایا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں.دنیا کی تمام برکتوں اور تمام نوروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کی طرف منسوب کر کے اپنے آپ کو ان انوار کے ساتھ اس طرح پیوست کیا ہے کہ جس طرح ایک بڑے طاقت ور پاورسٹیشن کے ساتھ بجلی کی تاریں مل کر دنیا کو منور کیا کرتی ہیں.اسی طرح آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات طیبات کا ذکر کرتے ہوئے دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ: ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان پر لئے آتے ہیں.اور ایک نے ان (میں) سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں.صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598 حاشیہ) الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسا عشق تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی.آپ کی جان اس عشق میں بالکل گداز تھی.ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا اور اپنے حواس ظاہری و باطنی سے محسوس کیا کہ آپ کا ذرہ ذرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خدائے محمد اور دین محمد میں پر قربان تھا.آپ اپنی ایک نظم میں بڑے دردناک انداز میں فرماتے ہیں کہ : دے چکے دل اب تن خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب کیوں نہیں لوگو تمہیں خوف عقار (ازالہ اوہام) پس اس کے سوائے میں اس جگہ عشق رسول کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا.کیونکہ ایک وسیع سمندر میں سے انسان صرف چند چگو ہی بھر سکتا ہے.اس لئے اس عنوان کے تحت اب میرے لئے صرف یہی دعا باقی ہے کہ: اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ و عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِكَ وَسَلِّمُ
مضامین بشیر جلد چهارم يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( الاحزاب : 57) شفقت على خلق الله 32 اب میں خدا کے فضل سے اپنے اس مضمون کے تیسرے حصہ کی طرف آتا ہوں جو شفقت علی خلق اللہ سے تعلق رکھتا ہے.میں نے اس مختصر سے مقالہ کے لئے (اول) محبت الہی اور ( دوم ) عشق رسول اور ( سوم ) شفقت علی خلق اللہ کے عنوان اس لئے منتخب کئے ہیں کہ ہمارے دین و مذہب کا خلاصہ اور ایک مسلمان کے ایمان واخلاق کا مرکزی نقطہ ہیں.حتی کہ ایک مامور من اللہ کی روحانیت اور اس کے اخلاق اور اس کی قدرومنزلت کو پہچاننے کے لئے بھی اس سے بڑھ کر کوئی اور کسوٹی نہیں.منبع حیات یعنی ذات باری تعالیٰ کے ساتھ گہرا پیوند ہو.پیغام الہی کے لانے والے رسول کی محبت روح کی غذا ہو اور مخلوق خدا کی ہمدردی کا جذ بہ دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہو.بس ہمیں آمدنشان کاملاں.“ میں نہایت اختصار کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جذبہ محبت الہی اور عشق رسول کے متعلق بیان کر چکا ہوں.اب مختصر طور پر آپ کے جذبہ شفقت علی خلق اللہ کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں.اس تعلق میں سب سے پہلے میرے سامنے وہ مقدس عہد آتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدائی حکم کے ماتحت ہر بیعت کرنے والے سے لیتے تھے اور جس پر جماعت احمدیہ کی بنیاد قائم ہوئی.یہ عہد دس شرائط بیعت کی صورت میں شائع ہو چکا ہے اور گویا احمدیت کا بنیادی پتھر ہے.اس عہد کی شرط نمبر 4 اور شرط نمبر 9 کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ہر بیعت کرنے والا : عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح “ اور عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے گا.“ اشتہار تکمیل تبلیغ مورخہ 12 جنوری 1889ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 160 جدید ایڈیشن) یہ وہ عہد بیعت ہے جو احمدیت میں داخل ہونے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی حکم کے ماتحت مقر فرمایا اور جس کے بغیر کوئی احمدی سچا احمدی نہیں سمجھا جا سکتا.اب مقام غور ہے کہ جو شخص اپنی بیعت اور اپنے روحانی تعلق کی بنیاد ہی اس بات پر رکھتا ہے کہ بیعت کرنے والا تمام مخلوق کے ساتھ دلی
مضامین بشیر جلد چهارم 33 ہمدردی اور شفقت کا سلوک کرے گا اور اسے ہر جہت سے فائدہ پہنچانے کے لئے کوشاں رہے گا اور اسے کسی نوع کی تکلیف نہیں دے گا.اس کا اپنا نمونہ اس بارے میں کیسا اعلیٰ اور کیسا شاندار ہونا چاہئے اور خدا کے فضل سے ایسا ہی تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار ہافرمایا کرتے تھے کہ میں کسی شخص کا دشمن نہیں ہوں اور میرا دل ہر انسان اور ہر قوم کی ہمدردی سے معمور ہے.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں: میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے ایک والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول.“ اربعین نمبر 1 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 344) یہ ایک محض زبانی دعوی نہیں تھا بلکہ آپ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ مخلوق خدا کی ہمدردی میں گزرتا تھا اور دیکھنے والے حیران ہوتے تھے کہ خدا کا یہ بندہ کیسے ارفع اخلاق کا مالک ہے کہ اپنے دشمنوں تک کے لئے حقیقی ماؤں کی سی تڑپ رکھتا ہے.چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو آپ کے مکان ہی کے ایک حصہ میں رہتے تھے اور بڑے ذہین اور نکتہ رس بزرگ تھے روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں پنجاب میں طاعون کا دور دورہ تھا اور بے شمار آدمی ایک ایک دن میں اس موذی مرض کا شکار ہورہے تھے انہوں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علیحدگی میں دعا کرتے سنا اور یہ نظارہ دیکھ کر جو حیرت ہو گئے.حضرت مولوی صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ : اس دعا میں آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سنے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا.اور آپ اس طرح آستانہ الہی پر گریہ وزاری کر رہے تھے کہ جیسے کوئی عورت در دزہ سے بے قرار ہو.میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق خدا کے واسطے طاعون کے عذاب سے نجات کے واسطے دعا فرما ر ہے تھے اور کہہ رہے تھے الہی ! اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا.“ (سیرت مسیح موعود شمائل و اخلاق حصہ سوم صفحہ 365 مؤلفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) ذرا غور کرو کہ آپ کے مخالفوں پر ایک عذاب الہی نازل ہو رہا ہے اور عذاب الہی بھی وہ جو ایک خدائی پیشگوئی کے مطابق آپ کی صداقت میں ظاہر ہوا ہے اور پیشگوئی بھی ایسی جس کے ٹلنے سے جلد بازلوگوں کی نظر میں آپ کی صداقت مشکوک ہو سکتی ہے.مگر پھر بھی آپ مخلوق خدا کی ہلاکت کے خیال سے بے چین
مضامین بشیر جلد چهارم 34 ہوئے جاتے ہیں اور خدا کے سامنے تڑپ تڑپ کر عرض کرتے ہیں کہ خدایا! تو رحیم و کریم ہے تو اپنی مخلوق کو اس عذاب سے بچالے اور ان کے ایمان کی سلامتی کے لئے اپنی جناب سے کوئی اور رستہ کھول دے.اس سے بڑھ کر یہ کہ جب آریہ قوم میں سے اسلام کا دشمن نمبر یعنی پنڈت لیکھر ام آپ کی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا تو آپ نے جہاں اس بات پر خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور اسلام کی صداقت کا زبر دست نشان ظاہر ہوا ہے طبعا شکر اور خوشی کا اظہار فرمایا وہاں آپ کو پنڈت جی کی موت کا افسوس بھی ہوا کہ وہ صداقت سے محروم ہونے کی حالت میں ہی چل بسے.چنانچہ فرماتے ہیں: ’ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے.درد بھی ہے اور خوشی بھی.درد اس لئے کہ اگر لیکھر ام رجوع کرتا ، زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آ جاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا.اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر (اس کے زخم ایسے ہوتے کہ ) وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی وہ ( بچ جاتا اور ) زندہ ہو جاتا.“ (سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 28) ایک دفعہ عیسائی مشنریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اقدام قتل کا سراسر جھوٹا مقدمہ دائر کیا اور ان مسیحی پادریوں میں ڈاکٹر مارٹن کلارک پیش پیش تھے.مگر خدا نے عدالت پر آپ کی صداقت کھول دی اور آپ اس مقدمہ میں جس میں عیسائیوں کے ساتھ مل کر آریوں اور بعض غیر احمدی مخالفین نے بھی آپ کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ کسی طرح آپ سزا پا جائیں عزت کے ساتھ بری کئے گئے.جب عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو کیپٹن ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جو بعد میں کرنیل کے عہدہ تک پہنچے اور ابھی حال ہی میں فوت ہوئے ہیں آپ سے مخاطب ہو کر پوچھا: ” کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر (اس جھوٹی کارروائی کی وجہ سے مقدمہ چلائیں؟ اگر آپ مقدمہ چلانا چاہیں تو آپ کو اس کا قانونی حق ہے.آپ نے بلا توقف فرمایا کہ ” میں کوئی مقدمہ چلانا نہیں چاہتا میرا مقدمہ آسمان پر ہے.“ سیرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب صفحہ 107) مولوی محمد حسین بٹالوی رئیس فرقہ اہلِ حدیث کو کون نہیں جانتا.وہ جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست اور ہم مکتب ہوتے تھے اور حضور کی پہلی تصنیف ”براہین احمدیہ پر انہوں نے بڑا شاندار ریو یو بھی لکھا تھا.اور یہاں تک لکھا تھا کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں اسلام کی تائید میں کوئی کتاب اس شان کی
مضامین بشیر جلد چهارم 35 نہیں لکھی گئی مگر مسیح موعود کے دعوے پر یہی مولوی صاحب مخالف ہو گئے اور مخالف بھی ایسے کہ انتہا کو پہنچ گئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا اور دجال اور ضال قرار دیا.اور آپ کے مخالف ملک بھر میں مخالفت کی خطرناک آگ بھڑ کا دی.انہی مولوی محمد حسین صاحب کا ذکر ہے کہ وہ ایک دفعہ ڈاکٹر مارٹن کلارک والے اقدام قتل والے مقدمہ میں آپ کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوئے.اس وقت حضرت مسیح موعود کے وکیل مولوی فضل دین صاحب نے جو ایک غیر احمدی بزرگ تھے مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے ان کے خاندان اور حسب و نسب کے متعلق بعض طعن آمیز سوالات کرنے چاہے مگر حضرت مسیح موعود نے انہیں یہ کہہ کرختی سے روک دیا کہ میں آپ کو ایسے سوالات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا.اور یہ الفاظ فرماتے ہوئے آپ نے جلدی سے مولوی فضل دین صاحب کے منہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تا کہ ان کی زبان سے کوئی نا مناسب لفظ نہ نکل جائے.اور اس طرح اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی.اس کے بعد مولوی فضل دین صاحب موصوف ہمیشہ اس واقعہ کا حیرت کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے کہ مرزا صاحب عجیب اخلاق کے انسان ہیں کہ ایک شخص ان کی عزت بلکہ جان پر حملہ کرتا ہے اور اس کے جواب میں جب اس کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے اس پر بعض سوالات کئے جاتے ہیں تو آپ فورا روک دیتے ہیں کہ میں ایسے سوالات کی اجازت نہیں دیتا.(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 248,247) ہے کہ: یہ وہی مولوی محمد حسین صاحب ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس شعر میں ذکر کیا قَطَعْتَ وَدَاداً قَدْ غَرَسُنَاهُ فِي الصَّبَا وَلَيْسَ فُوَّادِي فِي الْوَدَادِ يُقَصِرُ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم ) یعنی تو نے اس محبت کے درخت کو اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا جو ہم نے جوانی کے زمانہ میں اپنے دلوں نصب کیا تھا.مگر میرا دل تو کسی صورت میں محبت کے معاملہ میں کمی اور کوتاہی کرنے والا نہیں.دوستی اور وفاداری کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل حقیقتا بے نظیر جذبات کا حامل تھا.آپ نے کسی کے ساتھ تعلق قائم کر کے ان تعلقات کو توڑنے میں کبھی پہل نہیں کی اور ہر حال میں محبت اور دوستی کے تعلقات کو کمال وفاداری کے ساتھ نبھایا.چنانچہ آپ کے مقرب حواری حضرت عبدالکریم صاحب
مضامین بشیر جلد چهارم روایت کرتے ہیں : 36 حضرت مسیح موعود نے ایک دن فرمایا میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عہدِ دوستی باند ھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا.ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لا چار ہیں.ورنہ ہمارا مذ ہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہوتو ہم بلا خوف لَوْمَةُ لَا ہم اسے اٹھا کر لے آئیں گے.فرمایا عہد دوستی بڑا قیمتی جو ہر ہے.اس کو آسانی سے ضائع نہیں کر دینا چاہئے.اور دوستوں کی طرف سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آئے اس پر اغماض اور حمل کا طریق اختیار کرنا چاہئے.“ ( سیرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب صفحہ 44) اسی روایت کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت مخلص صحابی تھے بیان کرتے تھے کہ اس موقع پر حضرت مسیح موعود نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر ایسا شخص شراب میں بے ہوش پڑا ہو تو ہم اسے اٹھا کر لے آئیں گے اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کریں گے اور جب وہ ہوش میں آنے لگے گا تو اس کے پاس سے اٹھ کر چلے جائیں گے تا کہ وہ ہمیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحه 93) اس سے یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ شرابیوں اور فاسقوں اور فاجروں کو اپنا دوست بنانا چاہئے.بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی دوست ہو اور وہ بعد میں کسی کمزوری میں مبتلا ہو جائے تو اس وجہ سے اس کا ساتھ نہیں چھوڑ دینا چاہئے.بلکہ وفاداری کے طریق پر اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.احباب جماعت غور کریں کہ کیا وہ ان اخلاق پر قائم ہیں اور یا درکھو کہ احمدیت کی اخوت کا عہد دوستی کے عہد سے بھی زیادہ مقدس ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: أَنْصُرُ أَخَاكَ ظَالِماً اَوْ مَظْلُوماً ( بخاری کتاب الاكراه باب يمين الرجل لصاحي إنه أخوة ) یعنی ہر دینی بھائی کی مدد تمہارا فرض ہے خواہ وہ ظالم ہے یا کہ مظلوم ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مظلوم کی مدد تو ہم سمجھتے ہیں مگر ظالم کی مدد کس طرح کی جائے ؟ آپ نے فرمایا ظالم کی مدد سے ظلم سے روکنے کی صورت میں کرو.مگر بہر حال اخوت کے عہد کو کسی صورت میں ٹوٹنے نہ دو.قادیان میں ایک صاحب بڑھا مل ہوتے تھے.یہ صاحب بہت کٹر قسم کے آریہ تھے اور حضرت مسیح
مضامین بشیر جلد چهارم 37 موعود علیہ السلام کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان کی بڑی مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ایک مینار کی بنیا د رکھی تو قادیان کے ہندوؤں نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے پاس شکایت کی کہ اس مینار کی تعمیر روک دی جائے کیونکہ اس سے ہماری عورتوں کی بے پردگی ہوگی.یہ ایک فضول عذر تھا کیونکہ اول تو مینار کی چوٹی سے کسی کو پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے اور پھر اگر کوئی بے پردگی تھی بھی تو وہ سب کے لئے تھی جس میں احمدی جماعت بھی شامل تھی.بلکہ جماعت احمدیہ پر اس کا زیادہ اثر پڑتا تھا کیونکہ یہ مینار احمد یہ محلہ میں تھا.مگر ڈپٹی کمشنر نے حکومت کے عام طریق کے مطابق ہندوؤں کی یہ شکایت تحصیل دار صاحب بٹالہ کے پاس رپورٹ کے لئے بھجوادی تحصیل دار صاحب قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود سے ملے اور مینار کی تعمیر کے متعلق حالات دریافت کئے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ہم نے یہ مینار کوئی سیر و تفریح یا تماشے کے لئے نہیں بنایا بلکہ محض ایک دینی غرض کے لئے بنایا ہے تا کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہو اور تا ایک بلند جگہ سے اذان کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچائی جائے اور روشنی کا انتظام بھی کیا جائے.ورنہ ہمیں اس پر روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں تھی.تحصیلدار صاحب نے کہا یہ ہند و صاحبان بیٹھے ہیں.ان کو اس پر اعتراض ہے کہ ہمارے گھروں کی بے پردگی ہوگی.حضرت مسیح موعود نے فرمایا یہ اعتراض درست نہیں.بلکہ ان لوگوں نے محض ہماری مخالفت میں یہ درخواست دی ہے ورنہ بے پردگی کا کوئی سوال نہیں.اور اگر بالفرض کوئی بے پردگی ہے بھی تو وہ ہماری بھی ہے.پھر آپ نے لالہ بڈھا مل کی طرف اشارہ کیا جو بعض دوسرے ہندوؤں کے ساتھ مل کر تحصیل دار صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے پاس آئے تھے اور فرمایا کہ یہ لالہ بڈھا مل بیٹھے ہیں.آپ ان سے پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ میرے لئے ان کو فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع پیدا ہوا ہواور میں نے ان کی امداد میں دریغ کیا ہو.اور پھر ان سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے نقصان پہنچانے کا انہیں کوئی موقع ملا ہو اور یہ نقصان پہنچانے سے رُکے ہوں.حافظ روشن علی صاحب جو سلسلہ احمدیہ کے ایک جید عالم تھے بیان کیا کرتے تھے کہ اس وقت لالہ بڈھا مل پاس بیٹھے تھے مگر شرم اور ندامت کی وجہ سے انہیں جرات نہیں ہوئی کہ حضرت مسیح موعود کی بات کا جواب دینا تو درکنار حضور کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں.حقیقت یہ مخالفوں اور ہمسایوں پر شفقت کی ایک شاندار مثال ہے.سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 152 و 153 ) ہماری جماعت کے اکثر پُرانے دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چا زاد بھائیوں مرز امام دین اور مرزا نظام دین صاحبان کو جانتے ہیں.یہ دونوں اپنی بے دینی اور دنیا داری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود
مضامین بشیر جلد چهارم 38 علیہ السلام کے سخت ترین مخالف تھے بلکہ حقیقتا وہ اسلام کے ہی دشمن تھے.ایک دفعہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کی محض ایذارسانی کے لئے حضور کے گھر کے قریب والی مسجد کے رستہ میں دیوار کھینچ دی.اور مسجد میں آنے جانے والے نمازیوں اور حضرت مسیح موعود کے ملاقاتیوں کا رستہ بند کر دیا.جس کی وجہ سے حضور کو اور قادیان کی قلیل سی جماعت احمدیہ کو سخت مصیبت کا سامنا ہوا اور وہ گویا قید کے بغیر ہی قید ہو کر رہ گئے.لاچار اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے وکلاء کے مشورہ سے قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی اور ایک لمبے عرصہ تک یہ تکلیف دہ مقدمہ چلتا رہا.اور بالآخر خدائی بشارت کے مطابق حضرت مسیح موعود کو فتح ہوئی اور یہ دیوار گرائی گئی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل نے حضور سے اجازت لینے بلکہ اطلاع تک دینے کے بغیر مرزا امام دین اور مرز انظام دین صاحب کے خلاف خرچہ کی ڈگری حاصل کر کے قرقی کا حکم جاری کرالیا.اس پر مرزا صاحبان نے جن کے پاس اس وقت اس قرقی کی بے باقی کے لئے پورا روپیہ نہیں تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑی لجاجت کا خط لکھا اور یہاں تک کہلا بھیجا کہ بھائی ہوکر اس قرقی کے ذریعہ ہمیں کیوں ذلیل کرنے لگے ہو؟ حضرت مسیح موعود کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ اپنے وکیل پر سخت خفا ہوئے کہ میری اجازت کے بغیر خرچہ کی ڈگری کیوں کرائی گئی ہے؟ اسے فوراوا پس لو.اور دوسری طرف مرزا صاحبان کو جواب بھجوایا کہ آپ بالکل مطمئن رہیں کوئی قرقی نہیں ہوگی.یہ ساری کارروائی میرے علم کے بغیر ہوئی ہے.(سیرت المہدی وسیرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب صفحہ 115 تا 117 ) دوست سوچیں اور غور کریں کہ حضرت مسیح موعود کے شرکاء جن کی دشمنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی حضور کو دکھ دینے کے لئے اور حضور کی مٹھی بھر جماعت کو (اس وقت جماعت مٹھی بھر ہی تھی ) پریشان کر کے منتشر کرنے کے لئے ایک خطر ناک تدبیر کرتے ہیں اور پھر اس تدبیر کو کامیاب بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور جھوٹا سچا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے.مگر جب وہ نا کام ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود کی اطلاع کے بغیر ان پر خرچہ کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے تو بھاگتے ہوئے حضرت مسیح موعود کی طرف رجوع کرتے ہیں.اور ظالم ہوتے ہوئے گلہ کرتے ہیں کہ ہم پر یہ بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مظلوم ہوتے ہوئے بھی اپنے دشمنوں سے معذرت کرتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے وکیل نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ ڈگری جاری کرا دی ہے.یہ سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی) کے اس عدیم المثال سلوک کی اتباع میں تھا جو آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مفتوح اور مغلوب دشمنوں سے
مضامین بشیر جلد چهارم فرمایا تھا.آپ نے فرمایا: إِذْهَبُوا أَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (زرقانی و تاریخ اشميس) یعنی جاؤ تم آزاد ہو.میری طرف سے تم پر کوئی گرفت نہیں 39 39 پھر اپنے دوستوں اور خادموں کے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجسم عفو وشفقت تھے.چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اپنی تصنیف ”سیرت مسیح موعود میں حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی شفقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام کا عربی حصہ لکھ رہے تھے.حضور نے مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اوّل) کو ایک بڑا دو ورقہ اس زیر تصنیف کتاب کے مسودہ کا اس غرض سے دیا کہ فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے مجھے پہنچا دیا جائے.وہ ایسا مضمون تھا کہ اس کی خداداد فصاحت و بلاغت پر حضرت کو ناز تھا.مگر مولوی صاحب سے یہ دو ورقہ کہیں گر گیا.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے ہر روز کا تازہ عربی مسودہ فارسی ترجمہ کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے.اس لئے اس دن غیر معمولی دیر ہونے پر مجھے طبعا فکر ہوا اور میں نے مولوی نورالدین صاحب سے ذکر کیا کہ آج حضرت صاحب کی طرف سے مضمون نہیں آیا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور دیر ہورہی ہے.معلوم نہیں کیا بات ہے.یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے ہی تھے کہ مولوی نورالدین صاحب کا رنگ فق ہو گیا کیونکہ یہ دو ورقہ مولوی نورالدین صاحب سے کہیں گر گیا تھا.بے حد تلاش کی مگر مضمون نہ ملا اور مولوی صاحب سخت پریشان تھے.حضرت مسیح موعود کو اطلاع ہوئی تو حسب معمول ہشاش بشاش مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور خفا ہونا یا گھبراہٹ کا اظہار کرنا تو در کنار اُلٹا اپنی طرف سے معذرت کرنے لگے کہ مولوی صاحب کو مسودہ کے گم ہونے سے ناحق تشویش ہوئی.مجھے مولوی صاحب کی تکلیف کی وجہ سے بہت افسوس ہے.میرا تو یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گم شدہ کاغذ سے بہتر مضمون لکھنے کی توفیق عطا فرمادے گا.“ سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 279,278) اس لطیف واقعہ سے ایک طرف حضرت مسیح موعود کے غیر معمولی جذبہ شفقت اور دوسری طرف اپنے آسمانی آقا کی نصرت پر غیر معمولی تو کل پر خاص روشنی پڑتی ہے.غلطی حضرت مولوی نورالدین صاحب سے ہوئی تھی کہ ایک قیمتی مسودہ کی پوری حفاظت نہیں کی اور اسے ضائع کر دیا مگر حضرت مسیح موعود کی شفقت کا یہ مقام ہے کہ خود پریشان ہوئے جاتے ہیں اور معذرت فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو مسودہ گم ہونے سے
مضامین بشیر جلد چهارم 40 اتنی تکلیف ہوئی ہے اور پھر تو کل کا یہ مقام ہے کہ ایک مضمون کی فصاحت و بلاغت اور اس کے معنوی محاسن پر ناز ہونے کے باوجود اس کے کھوئے جانے پر کس استغنا کے رنگ میں فرماتے ہیں کہ کوئی فکر کی بات نہیں خدا ہمیں اس سے بہتر مضمون عطا فرمادے گا!! یہ شفقت اور یہ تو کل اور یہ تحمل خدا کے خاص بندوں کے سوا کسی اور میں پایا جا نا ممکن نہیں.ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم کا ایک قریبی عزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام زمانہ میں قادیان میں آکر کچھ عرصہ رہا تھا.ایک دن سردی کے موسم کی وجہ سے ہمارے نانا جان مرحوم نے اپنا ایک مستعمل کوٹ ایک خادمہ کے ہاتھ اسے بھیجوایا تا کہ یہ عزیز سردی سے محفوظ رہے.مگر کوٹ کے مستعمل ہونے کی وجہ سے اس عزیز نے یہ کوٹ حقارت کے ساتھ واپس کر دیا کہ میں استعمال شدہ کپڑا نہیں پہنتا.اتفاق سے جب یہ خادمہ اس کوٹ کو لے کر میر صاحب کی طرف واپس جا رہی تھی تو حضرت مسیح موعود نے اسے دیکھ لیا اور پوچھا کہ یہ کیسا کوٹ ہے اور کہاں لئے جاتی ہو؟ اس نے کہا میر صاحب نے یہ کوٹ فلاں عزیز کو بھیجا تھا مگر اس نے مستعمل ہونے کی وجہ سے بہت بُرا مانا ہے اور واپس کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا: واپس نہ لے جاؤ اس سے میر صاحب کی دل شکنی ہوگی.تم یہ کوٹ ہمیں دے جاؤ ہم پہنیں گے.اور میر صاحب سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه 22 یہ ایک انتہائی شفقت اور انتہائی دلداری کا مقام تھا کہ حضرت مسیح موعود نے یہ مستعمل کوٹ خود اپنے لئے رکھ لیا تا کہ حضرت نانا جان کی دل شکنی نہ ہو ورنہ حضرت مسیح موعود کو کوٹوں کی کمی نہیں تھی.اور حضور کے خدام حضور کی خدمت میں بہتر سے بہتر کوٹ پیش کرتے رہتے تھے.اور ساتھ ہی یہ انتہائی سادگی اور بے نفسی کا بھی اظہار تھا کہ دین کا بادشاہ ہو کر اترے ہوئے کوٹ کے استعمال میں تامل نہیں کیا.انسان کے اخلاق کا ایک نمایاں پہلو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سلوک سے تعلق رکھتا ہے.میں اس معاملہ میں زیادہ بیان کرتے ہوئے طبعا حجاب محسوس کرتا ہوں اس لئے صرف اس بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ارشاد نبوی کا کامل نمونہ تھے کہ: خَيْرُ كُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِهِ ( ترندی کتاب المناقب عن رسول اللہ باب فضل از واج النبی صلی اللہ علیہ وسلم) یعنی خدا کے نزدیک تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سلوک کرنے میں
مضامین بشیر جلد چهارم بہتر ہے.41 اس کی تشریح میں اس تاثر کو بیان کرنے میں حرج نہیں جو اس معاملہ میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جماعت کے دلوں میں پایا جاتا تھا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ساری جماعت جانتی ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مقرب صحابی تھے.ایک دفعہ ان کا اپنی بیوی کے ساتھ کسی امر میں اختلاف ہو گیا اور حضرت مفتی صاحب اپنی بیوی پر خفا ہوئے.مفتی صاحب کی اہلیہ نے اس خانگی ناراضگی کا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی بڑی بیوی کے ساتھ ذکر کیا.غالباً ان کا منشاء یہ تھا کہ اس طرح بات حضرت اماں جان تک اور پھر حضرت مسیح موعود تک پہنچ جائے گی.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب طبیعت کے بہت ذہین اور بڑے بذلہ سنج تھے.اس رپورٹ کے پہنچنے پر مفتی صاحب سے فرمایا ” مفتی صاحب جس طرح بھی ہو اپنی بیوی کو منالیں.کیا آپ نہیں جانتے کہ آج کل ملکہ کا راج ہے“.لطیفہ اس بات میں یہ تھا کہ ان ایام میں ہندوستان پر ملکہ وکٹوریہ کی حکومت تھی اور حضرت مولوی صاحب کے الفاظ میں یہ بھی اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود مستورات کے حقوق کا بہت خیال رکھتے اور ان معاملات میں اپنے اہل خانہ کے مشورہ کو زیادہ وزن دیتے ہیں.مفتی صاحب مولوی صاحب کا اشارہ سمجھ گئے اور فوراً جا کر بیوی کو منالیا.اور اس طرح گھر کی ایک وقتی رنجش جنت ارضی والے سکون اور راحت میں بدل گئی.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 102 ) انسان کے اہلِ خانہ میں اس کی اولاد بھی شامل ہے اور اس میدان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ بہت بلند تھا.آپ اپنے بچوں کے ساتھ بڑی شفقت اور بڑی محبت کا سلوک فرماتے تھے.مگر دوسری محبتوں کی طرف یہ محبت بھی محبت الہی کے تابع تھی.چنانچہ جب ہمارا سب سے چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار ہوا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود کو بڑی کثرت کے ساتھ قرب وفات کے الہامات ہور ہے تھے.آپ نے انتہائی توجہ اور جان سوزی سے اس کی تیمارداری فرمائی اور گویا تیمار داری میں دن رات ایک کر دیا.مگر جب وہ قضائے الہی سے فوت ہو گیا تو آپ نے اس کی وفات پر یہ شعر فرما کر کامل صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے پورے شرح صدر کے ساتھ راضی برضاء الہی ہو گئے.اور مرنے والے بچے کو اس طرح بھول گئے کہ گویا وہ کبھی تھا ہی نہیں.فرماتے ہیں : ے برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا ہلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
مضامین بشیر جلد چهارم 42 بچوں کی تربیت کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود نصیحت کرنے اور بُری صحبت بچانے کے علاوہ اولاد کے لئے دعاؤں پر بہت زور دیتے تھے.چنانچہ جو اشعار آپ نے اپنے بچوں کے ختم قرآن کے موقع پر آمین کے رنگ میں فرمائے وہ اس روحانی طریق تربیت کی ایک بڑی دلکش مثال ہیں.میں یہاں صرف نمونہ کے طور پر چند شعر لکھتا ہوں.فرماتے ہیں: ہو شکر تیرا کیوں کر اے میرے بندہ پرور تو نے مجھے دیئے ہیں یہ تین تیرے چاکر تیرا ہوں میں سراسر تو میرا رب اکبر یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں در ہیں یہ میرے بار و بر ہیں تیرے غلام سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ.رَانِي شیطاں سے رکھیو اپنے حضور رکھیو دور جاں پر ز نور رکھیو دل پر سرور رکھیو ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو یہ روز کر مبارک سُبحَانَ مَنْ يَّرَانِي اور دوسری آمین میں فرماتے ہیں: ے میرے مولیٰ مری یہ اک دعا ہے تیری درگاہ میں عجز و بکا ہے ہر مری اولاد جو تیری عطا اک کو دیکھ لوں وہ ہے پارسا ہے تری قدرت کے آگے روک کیا ہے وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے عجب محسن ہے بحر الا یادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي
مضامین بشیر جلد چهارم نجات ان کو عطا کر گندگی برات ان کو عطا کر بندگی ނ رہیں خوشحال اور فرخندگی ނ بچانا اے خدا بد زندگی 43 وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْأَعَادِي یقیناً ہماری کمزوریوں کے باوجود ہماری زندگیوں کی ہر برکت اپنی پاک دعاؤں کا ثمرہ ہے.انسان کے اخلاق میں مہمان کا بھی ایک خاص مقام ہوتا ہے.اس تعلق میں ایک مختصری بات کے بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں.ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو ر ہنے والے تو چکوال کے تھے مگر راولپنڈی میں دکان کیا کرتے تھے.انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود سے ملاقات کے لئے قادیان آیا.سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی.میں شام کے وقت قادیان پہنچا تھا.رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گزرگئی اور قریباً گیارہ بجے کا وقت ہو گیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی.میں نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود کھڑے تھے.ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لائین تھی.میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا.مگر حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں.آپ یہ دودھ پی لیں.آپ کو شائد دودھ کی عادت ہوگی اس لئے یہ دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہیں! یہ خدا کا برگزیدہ پیج اپنے ادنی خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پاتا اور کتنی تکلیف اٹھاتا ہے.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 255) سیٹھی صاحب تو خیر مہمان تھے.مجھے ایک صاحب نے سنایا کہ میں اپنی جوانی کے زمانہ میں کبھی کبھی حضرت مسیح موعود کے ساتھ خادم کے طور پر حضور کے سفروں میں ساتھ چلا جایا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود کا قاعدہ تھا کہ سواری کا گھوڑا مجھے دے دیتے تھے کہ تم پڑھو اور آپ ساتھ ساتھ پیدل چلتے تھے.یا کبھی میں زیا داصرار کرتا تو کچھ وقت کے لئے خود سوار ہو جاتے تھے اور باقی وقت مجھے سواری کے لئے فرماتے تھے.اور
مضامین بشیر جلد چهارم 44 جب ہم منزل پر پہنچتے تھے تو چونکہ وہ زمانہ بہت سنتا تھا حضور مجھے کھانے کے لئے چار آنے کے پیسے دیتے تھے اور خود ایک آنہ کی دال روٹی منگوا کر یا چنے بھنوا کر گزارہ کرتے تھے.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 122 و 123 ) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا ذکر اوپر گزر چکا ہے.وہ بہت ممتاز صحابی میں سے تھے اور انہیں حضرت مسیح موعود کی قریب کی صحبت کا بہت لمبا موقع میسر آیا.وہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود کے اہلِ خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے.میں حضور کو ملنے اندرونِ خانہ گیا.کمرہ نیا نیا بنا تھا اور ٹھنڈا تھا.میں ایک چارپائی پر ذرا لیٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی.حضور اس وقت کچھ تصنیف فرماتے ہوئے ٹہل رہے تھے.جب میں چونک کر جاگا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود میری چار پائی کے پاس نیچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے.میں گھبرا کر ادب سے کھڑا ہو گیا.حضرت مسیح موعود نے بڑی محبت سے پوچھا مولوی صاحب! آپ کیوں اُٹھ بیٹھے؟ میں نے کہا حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں اور میں اوپر کیسے ہوسکتا ہوں؟ مسکرا کر فرمایا آپ بے تکلفی سے لیٹے رہیں میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا.بچے شور کرتے تھے تو میں انہیں روکتا تھا تا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے.اللہ اللہ ! ! شفقت کا کیا عالم تھا.سیرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب صفحہ 26) اب ذرا غریبوں اور سائلوں پر شفقت کا حال بھی سن لیجئے.ایک وہمہحضرت مسیح موعود کے گھر میں کسی غریب عورت نے کچھ چاول چرا لئے.لوگوں نے اسے دیکھ لیا اور شور پڑ گیا.حضرت مسیح موعود اس وقت اپنے کمرہ میں کام کر رہے تھے.شور سن کر باہر تشریف لائے تو یہ نظارہ دیکھا کہ ایک غریب عورت چیتھڑوں میں کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ میں تھوڑے سے چاولوں کی گٹھڑی ہے.حضرت مسیح موعود کو واقعہ کا علم ہوا اور اس غریب عورت کا حلیہ دیکھا تو آپ کا دل پسیج گیا.فرمایا یہ بھوکی اور کنگال معلوم ہوتی ہے.اسے کچھ نہ کہو بلکہ کچھ اور چاول دے کر رخصت کر دو.سیرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب حصہ اول صفحہ 98) اس واقعہ پر کوئی جلد باز شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ بات تو چوری پر دلیری پیدا کرنے والی ہے.مگر دانا لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ جب مال خود حضرت مسیح موعود کا اپنا تھا اور لینے والی عورت ایک بھوکوں مرتی اور کنگال عورت تھی تو یہ چوری پر اعانت نہیں بلکہ حقیقتاً اطعام مسکین میں داخل ہے.حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے حالات میں جبکہ چوری کرنے والا بہت غریب ہو اور انتہائی بھوک کی حالت میں
مضامین بشیر جلد چهارم 45 کوئی کھانے کی چیز اٹھالے تو اسے سارق نہیں گردانا بلکہ چشم پوشی سے کام لیا ہے.ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود سیر سے واپس آکر اپنے مکان میں داخل ہورہے تھے کہ کسی سائل نے دور سے سوال کیا.مگر اس وقت ملنے والوں کی آوازوں میں اس سائل کی آواز گم ہو کر رہ گئی اور حضرت مسیح موعود اندر چلے گئے.مگر تھوڑی دیر کے بعد جب لوگوں کی آوازوں سے دور ہو جانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کے کانوں میں اس سائل کی دکھ بھری آواز کی گونج اٹھی تو آپ نے باہر آکر پوچھا کہ ایک سائل نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو اسی وقت یہاں سے چلا گیا تھا.اس کے بعد آپ اندرونِ خانہ تشریف لے گئے مگر دل بے چین تھا.تھوڑی دیر کے بعد دروازہ پر اسی سائل کی آواز آئی اور آپ لپک کر باہر آئے اور اس کے ہاتھ میں کچھ رقم دی.اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بے چین تھی اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ خدا اسے واپس لائے..(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 286) الغرض حضرت مسیح موعود کا وجود ایک مجسم رحمت تھا.وہ رحمت تھا اپنے عزیزوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے ہمسائیوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے خادموں کے لئے اور رحمت تھا سائلوں کے لئے اور رحمت تھا عامتہ الناس کے لئے.اور دنیا کا کوئی چھوٹا یا بڑا طبقہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے اس نے رحمت اور شفقت کے پھول نہ بکھیرے ہوں.بلکہ میں کہتا ہوں کہ وہ رحمت تھا اسلام کے لئے جس کی خدمت اور اشاعت کے لئے اس نے انتہائی فدائیت کے رنگ میں اپنی زندگی کی ہر گھڑی اور اپنی جان تک قربان کر رکھی تھی.بالآخر ایک جامع نوٹ پر اپنے اس مقالہ کو ختم کرتا ہوں.ہمارے بڑے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم نے میری تحریک پر حضرت مسیح موعود کے اخلاق اور اوصاف کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا.اس میں وہ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت رؤف و رحیم تھے.سخی تھے.مہمان نواز تھے.امجمع الناس تھے.ابتلاؤں کے وقت جبکہ لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے تھے.عفو، چشم پوشی، فیاضی، خاکساری، وفاداری، سادگی ، عشق الہی، محبت رسول ، ادب بزرگانِ دین، ایفائے عہد، حسنِ معاشرت، وقار، غیرت، ہمت اولوالعزمی، خوش روئی اور کشادہ پیشانی آپ کے ممتاز اخلاق تھے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس وقت دیکھا جب میں دو برس کا بچہ تھا.پھر آپ میری
مضامین بشیر جلد چهارم 46 ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا.مگر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آپ سے بہتر ، آپ سے زیادہ خوش اخلاق، آپ سے زیادہ نیک، آپ سے زیادہ بزرگانہ شفقت رکھنے والا ، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق رہنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا.آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور ا سے شاداب کر گئی.“ یہی میری بھی چشم دید شہادت ہے اور اسی پر میں اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.(سیرت المہدی حصہ سوم کی آخری روایت کا ملخص ) اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى مُطَاعِهِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّمُ وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محررہ 3 دسمبر 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 9-10-11 فروری 1960ء) 9 تَزَوَّجُوُا الْوَلُوْدَ الْوَدُوْدَ ایسی عورتوں کے ساتھ شادی کرو جو زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور بہت محبت کرنے والی ہوں اس وقت پاکستان کے ایک طبقہ میں برتھ کنٹرول یعنی تحدید نسل کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے.میں نے اس کے متعلق ایک مختصر سا رسالہ ” خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے لکھا ہے.جس میں زیادہ تر اسلامی تعلیم کی روشنی میں اور کسی قدر اقتصادی اور سیاسی نکتہ نگاہ سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے.دوستوں کو چاہئے کہ نظارت اصلاح وارشادر بوہ سے یہ رسالہ منگوا کر اسے خود بھی پڑھیں اور ملنے والوں کو بھی پڑھا ئیں تا کہ کسی وقتی رو میں بہہ کر کوئی غلط قدم نہ اٹھایا جائے.جو بعد میں قومی نقصان اور ندامت کا موجب ہو.یہ خدا کا فضل ہے کہ ہماری حکومت کی طرف سے اس معاملہ میں کوئی پابندی نہیں بلکہ وہ مخلصانہ جرح و تعدیل کو پسند کرتی ہے.بے شک اس مسئلہ کے بعض پہلو بظاہر کچھ الجھے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ہماری جماعت جو ایک بالکل نوزائیدہ جماعت ہے اور اپنی قومی زندگی کے بالکل ابتدائی مراحل میں سے گزر رہی ہے اس کے لئے تو
مضامین بشیر جلد چهارم 47 بہر حال ہمارے آقا حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی مبارک ارشاد حقیقی مشعلِ راہ ہے کہ: تَزَوَّجُوُا الْوَدُودَ الْوَلُوْدَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ ( سنن ابی داؤ د کتاب النکاح باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء ) یعنی اے مسلمانو! تم ایسی عورتوں کے ساتھ شادی کیا کرو جو زیادہ اولاد پیدا کرنے والی اور اپنے خاوندوں کے ساتھ محبت کرنے والی ہوں.تاکہ تمہارے گھروں میں برکت اور راحت کا ماحول پیدا ہو اور میں تمہاری کثرت پر فخر کر سکوں.پرانی اور دیر سے قائم شدہ قوموں کو تو شاید برتھ کنٹرول اور تحدید نسل کا طریق اتنا نقصان نہ دے مگر ایک نئی قوم اور اٹھتی ہوئی جماعت کے لئے تحدید نسل کا طریق تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے.پس سوائے اشد طبتی ضرورت کے جبکہ مثلاً ماں کی زندگی خطرہ میں ہو احمدی جماعت کے احباب کو برتھ کنٹرول سے پر ہیز کرنا چاہئے.البتہ دو ولا دتوں کا درمیانی عرصہ قرآنی ہدایت کے مطابق مناسب طور پر لمبا کیا جا سکتا ہے.رزق کی تنگی کا سوال بے شک بعض لوگوں کو پریشان کرتا ہوگا.مگر حق یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے رزق کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور رزق کی تنگی اکثر صورتوں میں انسان کی اپنی ہی غلطی کے نتیجہ میں پیش آیا کرتی ہے.جبکہ وہ یا تو پوری توجہ اور محنت سے کام نہیں لیتا اور یا اپنی آمد کو غیر ضروری کاموں میں خرچ کر دیتا ہے اور یا دوسروں کی نقالی میں اپنے پاؤں حد اعتدال سے زیادہ پھیلا دیتا ہے.ورنہ عام حالات میں قرآن مجید کا یہ ارشاد بڑی گہری صداقت پر مبنی ہے کہ : وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا (هود:7) پھر ہمارے دوستوں کو یہ بات بھی ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو حالات کی مجبوری یا اپنی ذاتی ہے تو جہی یا غفلت کی وجہ سے تبلیغ کے ذریعہ سے خدمتِ دین کا موقع نہیں ملتا.لیکن اگر وہ اپنی نسل کی ترقی کے ذریعہ حقیقی اور مجاہد مسلمان پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ان کا یہ فعل بھی گویا ایک طرح تبلیغ کا رنگ رکھے گا اور خدا کے نزدیک بڑے ثواب کا موجب ہوگا.وَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ وَلِكُلِّ أَمْرٍ مَانَوى - ( بخاری کتاب بدء الوحي باب إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ) پس دوست اس رسالہ کو جس کا نام ” خاندانی منصوبہ بندی ہے نظارت اصلاح وارشا در بوہ سے منگوا کر خود بھی پڑھیں اور دوسروں میں بھی تقسیم کریں اور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے اچھے نتائج
مضامین بشیر جلد چهارم 48 پیدا کرے.اور اگر اس مضمون میں کوئی امر مزید وضاحت کا متقاضی ہے تو اس کی بھی توفیق عطا فرما دے.(محرره 3 فروری 1960ء) روزنامه الفضل ربوه 12 فروری 1960ء) مجلس انصاراللہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام انصار اللہ کا ہر فر دقرآن کا عالم اور قرآن کا خادم ہونا چاہئے حال ہی میں مجلس انصار اللہ کراچی کا جو سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے اس کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو پیغام مرحمت فرمایا تھا وہ افادہ احباب کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.) برادران مجلس انصاراللہ کراچی ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں انصار اللہ کراچی کے سالانہ اجتماع کے موقع پر اپنی طرف سے کوئی پیغام بھجواؤں.سو با وجود اس کے کہ آج کل میں بلڈ پریشر اور جسم کی دردوں وغیرہ کی تکلیف میں مبتلا ہوں آپ صاحبان کی مخلصانہ محبت اور حسن ظنی کی قدر کرتے ہوئے ان چند الفاظ میں اپنا مختصر سا پیغام بھجوا رہا ہوں.جیسا کہ میں پہلے بھی بعض موقعوں پر بیان کر چکا ہوں مجھے کراچی کی جماعت سے بہت محبت ہے.کیونکہ اول تو وہ خدا کے فضل سے ایک بہت مخلص اور بہت منظم جماعت ہے اور دوسرے جس طرح ربوہ اس وقت ہمارا روحانی مرکز ہے اسی طرح کراچی پاکستان کا سماجی اور تجارتی اور دنیوی لحاظ سے علمی مرکز ہے.بلکہ ابھی تک وہ بڑی حد تک ملک کا سیاسی مرکز بھی ہے.اس طرح یہ دونوں مقام اپنے اپنے رنگ میں گویا دل کے حکم میں ہیں.اور چونکہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ کراچی کے دوست میری اس آواز کو توجہ اور گوش ہوش سے سنیں گے.میرا موجودہ پیغام صرف قرآن اور قرآن کے لفظ میں مرکوز ہے.بلکہ دراصل قرآن کے معنی ہی
مضامین بشیر جلد چهارم 49 پیغام کے ہیں.کیونکہ عربی زبان میں قرآن اس بات کو کہتے ہیں جو دوسروں کو پہنچانے کے لئے کہی جائے.اور قرآن کا یہ نام بھی اسی لئے رکھا گیا ہے اور وہ خدا کی طرف سے دنیا کے لئے آخری اور عالمگیر پیغام کی صورت میں نازل ہوا ہے جس کے بعد قیامت تک کے لئے کوئی اور شریعت نہیں.البتہ مختلف زمانوں کی ضرورت کے مطابق قرآن کے نئے نئے علوم ہمیشہ ظاہر ہوتے رہیں گے.اسی لئے خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ: إِن مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُةٌ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (الحجر:22) یعنی ہمارے پاس قرآن میں علوم میں بے شمار خزانے موجود ہیں.مگر ہم انہیں زمانہ کی ضرورت کے مطابق مقررہ وقت پر ظاہر کرتے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے.در اصل قرآن ایک بڑی عجیب و غریب کتاب ہے.اس کے ایک تو بالکل سادہ اور سطحی معنی ہیں جو عام مخلوق خدا کے عمل کے لئے ہیں.اور انہی معنوں کے پیش نظر کہا گیا ہے کہ: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِكُرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرِ (القمر: 18) یعنی ہم نے عمل کے لئے قرآن کو بہت آسان صورت دے رکھی ہے تا کہ نصیحت پکڑنے والے لوگ اس پر عمل کرنے میں خوشی محسوس کریں.لیکن قرآن کے بعض معانی بہت گہرے اور بہت وسیع ہیں جن تک صرف اس کی گہرائیوں میں غوطہ لگانے والے لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں.چنانچہ قرآن مجید کا یہ ارشادا نہی گہرے معانی سے تعلق رکھتا ہے کہ : لَّا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعه: 80) یعنی قرآن کی گہرائیوں تک صرف پاک وصاف دل والے لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں.اس طرح قرآن حقیقتا بڑی عجیب و غریب کتاب ہے جو ایک بڑے عالم و فاضل اور ایک فلسفی اور سائنسدان کے لئے بھی اسی طرح روشنی مہیا کرتی ہے جس طرح کہ وہ ایک سادہ ان پڑھ دیہاتی کو رستہ دکھاتی ہے.پس کراچی کے انصار اللہ کے لئے اس وقت میرا یہی پیغام ہے کہ وہ قرآن کے گہرے مطالعہ کی عادت ڈالیں اور اس کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کر ان بے بہا موتیوں کو دنیا کے سامنے لائیں جو اس زمانہ کے علم دوست لوگوں کی علمی پیاس بجھانے کے لئے ضروری ہیں.حضرت مسیح موعود بائی سلسلہ احمد یہ اور آپ کے خلفاء کی تصنیفات ان علمی خزانوں سے بھری پڑی ہیں.ان روشن اور چمکتے ہوئے جواہرات کو اندھیرے میں پڑے ہوئے لوگوں تک پہنچاؤ.اور سائنس کی نئی نئی ایجادوں سے مت
مضامین بشیر جلد چهارم 50 ڈرو کیونکہ جس طرح قرآن خدا کا قول ہے اسی طرح سائنس خدا کا فعل ہے.اور خدا کے قول اور فعل میں کوئی تضاد اور ٹکراؤ ممکن نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ پیارا قول ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو کہ : اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر ہند زاں پیشتر که بانگ برآید فلاں نماند پس اس وقت میرا یہی پیغام ہے کہ انصار اللہ کا ہر فرد قرآن کا عالم اور قرآن کا خادم ہونا چاہئے اور سلامتی ہو ان پر جو اپنے آپ کو قرآن کے دامن سے وابستہ رکھیں.والسلام آپ کا خیر اندیش خاکسار.مرزا بشیر احمد (محرره 16 فروری 1960 ء) (روز نامه الفضل ربوہ 16 فروری 1960ء) اسلام کا ایک بہادر مجاہد ہم سے جدا ہو گیا چودھری فتح محمد صاحب سیال کی المناک وفات آج مؤرخہ 28 فروری 1960ء صبح ساڑھے نو ( am 9:30 بجے کے قریب حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقره: 157) کل شام مغرب کی نماز کے بعد انہیں اچانک دل کا دورہ ہوا اور آج صبح کو اپنے مولا کو پیارے ہو گئے.چوہدری صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ابن صحابی تھے.اور ان کے داماد چوہدری عبداللہ خان صاحب مرحوم بھی گویا پیدائشی لحاظ سے صحابی تھے.اس طرح چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے گویا اوپر اور نیچے ہر دو جانب سے برکت کا ورثہ پایا تھا.چوہدری صاحب مرحوم کو یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ جماعت کی طرف سے پہلے مبلغ کے طور پر انگلستان میں تبلیغ اسلام کے لئے بھجوائے گئے.بلکہ انہیں متعد دمرتبہ تبلیغ کی غرض سے باہر جانے کا شرف حاصل ہوا.انہیں دراصل تبلیغ کا غیر معمولی عشق تھا.اور انہیں خدا نے تبلیغ کا
مضامین بشیر جلد چهارم 51 ملکہ بھی ایسا عطا کیا تھا کہ بہت جلد اپنی تبلیغ سے دوسرے کا دل صداقت کے حق میں جیت لیتے تھے اور زمینداروں پر تو گویا ان کا جادو چلتا تھا.پھر ملکانہ کے علاقہ میں بھی وہ سالہا سال جماعت کی تبلیغی مہم کے نگران اور قائد رہے.اور انہوں نے ایک بہت لمبے عرصے تک مرکزی ناظر دعوۃ و تبلیغ اور ناظر اعلیٰ کے فرائض بھی بڑی کامیابی کے ساتھ ادا کئے اور مقامی تبلیغ کے تو وہ گویا ہیرو تھے جن کے ہاتھ پر بے شمار لوگوں نے صداقت کو قبول کیا.چوہدری صاحب بڑے سادہ مزاج اور بہت بے تکلف طبیعت کے بزرگ تھے.اور گو وہ کام کی تفصیلات کو بعض اوقات بھول جاتے تھے مگر اصولی امور میں وہ حقیقتاً غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے اور ان امور میں ان کی نظر بعض اوقات اتنی گہری جاتی تھی کہ حیرت ہوتی تھی کہ ایسی سادہ طبیعت کا انسان اصولی امور میں اتنا ذہین اور اتنا دور رس ہے.چوہدری صاحب کو ملکی تقسیم کے ایام میں ہندو سیاست کا شکار بن کر قید بھی ہونا پڑا.مگر اس قید کا زمانہ بھی انہوں نے کمال صبر اور بشاشت سے برداشت کیا.بلکہ جیل خانہ میں بھی کئی لوگوں کو (جن میں بعض کافی مخالف تھے ) اپنی مخلصانہ تبلیغ سے رام کر لیا.گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں چوہدری صاحب بالکل نوعمر بلکہ طالب علم تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ انہیں ذاتی تعارف کا شرف حاصل تھا اور حضور ان کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے.ایک دفعہ کسی سفر میں مصاحت کا سوال تھا تو ساتھ جانے والوں کی فہرست دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود کہہ کر چوہدری صاحب کا نام لکھوایا بلکہ نام لکھنے والوں سے کہا کہ شائد آپ لوگوں نے فتح محمد کا نام اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ وہ بہر حال پہنچ جائے گا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ بھی چوہدری صاحب کا بچپن کا ساتھ تھا.چنانچہ رسالہ تفخیذ الاذہان کے اجراء میں اور پھر مجلس انصار اللہ کے قیام میں وہ شروع سے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ رہے.دراصل وہ حضور کے ذاتی دوستوں میں سے تھے اور حضور کے ساتھ بے حد عقیدت رکھتے تھے.اور حضرت خلیفہ اسیح اول کے ساتھ تو ان کا جسمانی رشتہ بھی تھا.یعنی زوجہ اول کے بطن سے حضور کی نواسی (ہاجرہ بیگم مرحومہ ) جو میری رضاعی بہن تھیں چوہدری صاحب کے عقد میں آئیں اور چوہدری صاحب کی زیادہ اولا دانہی کے بطن سے ہوئی.اور بعد میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ بھی چوہدری صاحب کا رشتہ قائم ہو گیا.کیونکہ حضور کی چھوٹی صاحبزادی عزیزہ امته الجمیل سلمہا چو ہدری صاحب
مضامین بشیر جلد چهارم کے فرزند عزیز ناصر محمد سیال واقف زندگی کے ساتھ بیاہی گئی.52 چوہدری صاحب مرحوم ایک بڑے مجاہد اور نڈر اور بہادر مبلغ ہونے کے علاوہ تہجد گزار اور نوافل کے پابند اور دعاؤں میں بہت شغف رکھنے والے بزرگ تھے اور صاحب کشف ور دیا بھی تھے.میں جن دوستوں اور بزرگوں کو عموماً دعا کے لئے لکھا کرتا تھا ان میں چوہدری صاحب مرحوم کا نام بھی شامل تھا.مجھے اس مخلص اور بے ریا اور وفادار بھائی کی وفات کا بڑا صدمہ ہے.مگر : بلانے والا ہے سب اسی سے پیارا اے دل تو جاں فدا کر دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور جماعت کو ان کا بدل عطا فرمائے.اور ان کی اولا داور بیوی اور دیگر لواحقین کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ روزنامه الفضل ربوہ یکم مارچ 1960ء) جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آپ بقائے دوام لے ساقی حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کی وفات کے متعلق میرا نوٹ الفضل میں چھپ چکا ہے.یہ نوٹ میں ایک اور غرض سے لکھ رہا ہوں جو جماعتی ترقی سے تعلق رکھتی ہے.کل جب مجھے چوہدری صاحب مرحوم کے جنازہ کی نماز پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی تو مجھے بعض خیالات کے غیر معمولی ہجوم کی وجہ سے نماز پڑھانی مشکل ہوگئی اور میں بڑی کوشش سے اور طبیعت پر زور دے کرمسنون دعائیں پڑھ سکا.کیونکہ بار بار یہ خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحبت یافتہ لوگ گزرتے جاتے ہیں.مگر ان کی جگہ لینے کے لئے نئے آدمی اس رفتار سے تیار نہیں ہور ہے جیسا کہ ہونے چاہئیں.اور پھر جو نئے لوگ تیار ہو رہے ہیں وہ عموماً اس للمیت اور اس جذبہ خدمت کے مالک نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا طرہ امتیاز رہا ہے.بے شک بعض بہت قابلِ رشک نوجوان بھی پیدا ہور ہے ہیں مگر کثرت وقلت کا فرق اتنا ظاہر وعیاں ہے کہ کوئی سمجھدار شخص اس فرق کو محسوس کئے بغیر
مضامین بشیر جلد چهارم 53 نہیں رہ سکتا.بہر حال میرے دل و دماغ پر اس خیال نے اتنا غلبہ پایا کہ بعض اوقات میں نماز جنازہ میں مسنون دعاؤں کو بھول کر اس دعا میں لگ جاتا تھا کہ خدایا! تیری مُمِنیت والی صفت جب زندوں کو مار رہی ہے تو اپنے فضل و کرم سے اپنی مخینی والی صفت کے ماتحت مرنے والوں کی جگہ لینے کے لئے ہم میں ساتھ ساتھ زندہ وجود بھی پیدا کرتا چلا جاتا کہ جماعت میں کسی قسم کا خلایا کمزوری نہ آنے پائے اور اس کا قدم ہر آن ترقی کی طرف اٹھتا چلا جائے.جنازہ کے دوران میں بلکہ تجہیز و تکفین کے دوران میں بھی میرا قریباً سارا وقت اسی فکر اور اسی دعا میں گزرا.چنانچہ جو شعر اسی نوٹ کے عنوان میں درج کیا گیا ہے وہ بھی اصولی طور پر اس لطیف مضمون کا حامل ہے.شاعر کہتا ہے کہ جو لوگ اکٹھے بیٹھ کر شراب طہور پیا کرتے تھے وہ اب ایک ایک کر کے اٹھتے جاتے ہیں اور پرانی مجلس سونی ہوتی جا رہی ہے.اب اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والوں کو کوئی ایسا آب حیات مل جائے جو ان پر موت کا دروازہ بند کر دے اور اس طرح یہ پاکیزہ مجلس ہمیشہ گرم رہے.میں انہی خیالات میں سرگرداں تھا کہ میرے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز اٹھی کہ اسلام نے یہ آب حیات بھی مہیا کیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران:170) یعنی جو لوگ خدا کے رستے میں زندگی گزارتے ہوئے فوت ہوں اور قربانی کی موت حاصل کریں ان کو ہرگز فوت شدہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں (اور ہمیشہ زندہ رہیں گے ).اور ان کی زندگی کی علامت یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی خدا کی طرف سے ان کو رزق مہیا کیا جاتا ہے جو انسانی زندگی کے بقا اور نشو ونما کا موجب ہے.اس لطیف آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی زندگی نہ صرف اپنی ذات میں کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر شہید کی موت بہت سے دوسرے لوگوں کی زندگی کا باعث بن جاتی اور جماعت کی غیر معمولی ترقی کا موجب ہوتی ہے.اور جاننا چاہئے کہ جیسا کہ قرآن وحدیث میں صریح اشارات پائے جاتے ہیں کہ شہید سے صرف وہی شخص مراد نہیں جو کسی دینی لڑائی میں مارا جائے بلکہ ہر وہ شخص بھی شہیدوں میں داخل ہے جو (1) خدمتِ دین میں زندگی گزارتا ہوا فوت ہو.(2) اور اس کا نمونہ بھی ایسا ہو کہ دوسروں کے لئے ترغیب وتحریص اور
مضامین بشیر جلد چهارم اقوام فی الدین کا موجب بن جائے.مجھے حافظ شیرازی کا یہ شعر بہت پسند ہے کہ: ہرگز نہ میرد آنکه دلش زنده شد بعشق ثبت است بر جریده عالم دوام ما 54 پس میں جماعت کے نوجوانوں کو بڑے دردِ دل کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مرنے والوں کی جگہ لینے کے لئے تیاری کریں.اور اپنے دلوں میں ایسا عشق اور خدمت دین کا ایساولولہ پیدا کریں کہ نہ صرف جماعت میں کوئی خلا نہ پیدا ہو بلکہ ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے طفیل جماعت کی آخرت اس کی اولیٰ سے بھی بہتر ہو.یقیناً اگر ہمارے نوجوان ہمت کریں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مقصد کا حصول ہرگز بعید نہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے جو حضور نے ان شاندار لفظوں میں بیان فرمایا ہے کہ: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے..کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) خدا کرے کہ ہم اور ہماری اولادیں اس عظیم الشان بشارت سے حصہ پائیں اور اسلام اور احمدیت کا جھنڈا دنیا میں بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے.یاد رکھو کہ ایسی زندگی چنداں شاندار نہیں سمجھی جا سکتی کہ انسان ایک بلبلہ کی طرح اٹھے اور پھر بیٹھ جائے اور ساٹھ ستر سال کی عمر میں اس کی فعال زندگی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے.بلکہ اصل شان اس میں ہے کہ انسان کی جسمانی موت کے بعد بھی اس کے آثار اس کی اولاد اور اس کے شاگردوں اور اس کے دوستوں اور اس کے عزیزوں اور اس کے علمی اور عملی کارناموں کے ذریعہ روشن جواہرات کی طرح جگمگاتے رہیں.قرآن نے کیا خوب فرمایا ہے کہ : وَالْبَقيتُ الصَّلحتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَيْرٌ أَمَلاً (الكهف : 47) پس:
مضامین بشیر جلد چهارم بکوشید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا محرره 29 فروری 1960ء) 55 (روزنامه الفضل 3 مارچ 1960ء) رمضان کی برکات گزشتہ پچھپیں تھیں سالوں میں یہ عاجز قریباً ہر سال رمضان کے مہینہ میں دوستوں کی یاد دہانی کے لئے خصوصاً بعض نصائح لکھتا رہا ہے.مگر اس سال جلسہ سالانہ کے بعد سے طبیعت کچھ ایسی خراب چلی آرہی ہے کہ کسی لمبے مضمون کو لکھنے کی ہمت نہیں پیدا ہوتی.اس لئے محض ثواب کی نیت سے ذیل کے چند کلمات لکھ رہا ہوں.امید ہے جو دوست ان کلمات کو غور سے پڑھیں گے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے وہ انشاء اللہ رمضان کی برکات سے محروم نہیں رہیں گے.(1) یا د رکھنا چاہئے کہ رمضان ایک بڑا ہی مبارک مہینہ ہے جو انسان کے دل میں ایک طرف محبتِ الہی کی تپش اور دوسری طرف مخلوق خدا کی ہمدردی اور شفقت پیدا کرنے کی خاص الخاص صلاحیت رکھتا ہے.(2) اس مبارک مہینہ میں تمام وہ صفات اور تاثیرات بصورت اتم ہیں جو ہمارے دین اور مذہب میں عبادت کی جان ہیں.یعنی نماز اور روزہ اور دعا اور ذکر الہی اور تلاوت کلام پاک اور صدقہ اور خیرات.اور اس مہینہ کے آخر میں ایک مخصوص عشرہ انقطاع مِنَ الدُّنْیا اور اِنْقِطَاعٌ إِلَی اللہ کا مقرر کر کے اور پھر اس عشرہ میں ایک مخصوص رات کو دعاؤں اور ذکر الہی کے لئے کلیتہ وقف کر کے رمضان کی عبادتوں میں گویا ایک گونہ معراج کی سی کیفیت پیدا کی گئی ہے.(3) پس دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کی ان ساری برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور حتی الوسع شرعی عذر ( بیماری اور سفر ) کے بغیر روزہ ہرگز ترک نہ کریں.اور شرعی عذر کی صورت میں اپنی حیثیت کے مطابق مسنون طریق پر فدیہ دیں.(4) اس مہینہ میں مقررہ پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ نماز تہجد کا بھی خاص التزام کیا جائے اور جن دوستوں کو توفیق ملے وہ نماز ضحی بھی پڑھنے کی کوشش کریں.جو دن کے لمبے ناغہ میں ذکر الہی کا موقع پانے اور
مضامین بشیر جلد چهارم 56 خوابیدہ روح کو بیدار کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے.اور جس کا وقت نو ساڑھے نو بجے صبح کے قریب سمجھنا چاہئے.تراویح کی نماز جو عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہے وہ تہجد کی نماز کا ہی ایک ادنی قسم کا بدل ہے مگر کمزور اور بیمار لوگوں کے لئے بھی غنیمت ہے.اور جن دوستوں کو دونوں کی توفیق مل سکے وہ دونوں سے فائدہ اٹھائیں.(5) اس مہینہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.اور بہتر یہ ہے کہ قرآن مجید کے دو دو مکمل کئے جائیں ورنہ کم از کم ایک تو ضرور ہو اور ہر رحمت کی آیت پر خدائی رحمت طلب کی جائے اور ہر عذاب کی آیت پر استغفار کیا جائے.(6) اس مہینہ میں دعاؤں اور ذکر الہی پر بھی بہت زور ہونا چاہئے.اور دعا کے وقت دل میں یہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ ہم گویا خدا کے سامنے بیٹھے ہیں.یعنی خدا ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم خدا کو دیکھ رہے ہیں.دعاؤں میں اسلام اور احمدیت کی ترقی اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور درازی عمر اور سلسلہ کے مبلغوں اور کارکنوں اور قادیان کے درویشوں اور ان کے مقاصد کی کامیابی کو مقدم کیا جائے.عمومی دعاؤں میں رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَّقِنَا عَذَابَ النَّار (البقره: (202) بڑی عجیب و غریب دعا ہے اور نفس کی تطہیر کے لئے لا إِلهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَنَكَ لم إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ (الانبياء : 88) غیر معمولی تاثیر رکھتی ہے.اور استعانت باللہ کے لئے يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْتُ ) صحیح ترمذی کتاب الدعوات عن رسول اللہ ) کامیاب ترین دعاؤں میں سے ہے اور سورۃ فاتحہ تو دعاؤں کی سرتاج ہے.(7) برکات کے حصول کیلئے کثرت کے ساتھ درود پڑھنا اول درجہ کی تاثیر رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں کہ ایک رات میں نے اس کثرت سے درود پڑھا کہ میرا دل وسینہ معطر ہو گیا.اس رات میں نے خواب میں دیکھا کہ فرشتے نور کی مشکیں بھر بھر کر میرے مکان کے اندر لئے آرہے ہیں.ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ نور اس درود کا ثمرہ ہے جو تو نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھیجا ہے.(8) روزہ کے دوران میں خصوصیت سے ہر قسم کی لغو حرکت اور بے ہودہ کلام اور جھوٹ اور دھوکا اور بد دیانتی اور ظلم و ستم اور ایذا رسانی اور استہزاء اور گالی گلوچ سے اس طرح اجتناب کیا جائے کہ گویا انسان ان باتوں کو جانتا ہی نہیں.تا کہ رمضان کا یہ روحانی سبق دوسرے ایام کے لئے بھی ایک شمع ہدایت بن جائے.(9) رمضان کی ایک خاص عبادت جو حقوق العباد سے تعلق رکھتی ہے صدقہ و خیرات ہے.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اس طرح صدقہ و خیرات کرتے تھے گویا کہ آپ کا ہاتھ ایک
مضامین بشیر جلد چهارم 57 تیز آندھی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.اور رمضان کے آخر میں صدقتہ الفطر تو بہر حال ہر غریب و امیر خورد و کلاں اور مردوزن پر فرض ہے.(10 ) رمضان کا آخری عشرہ اپنی برکات اور قبولیت دعا کے لئے خصوصی تا ثیر رکھتا ہے.اس لئے اس عشرہ میں نوافل اور ذکر الہی اور دعا اور تلاوت قرآن مجید اور درود پر بہت زور دینا چاہئے.اور جن دوستوں کو توفیق ملے اور ضروری فرائض منصبی میں حرج نہ لازم آتا ہو وہ آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھ کر بھی اس کی مخصوص روحانی برکات سے فائدہ اٹھائیں.ورنہ کم از کم اس عشرہ کی راتوں اور خصوصا طاق راتوں میں خصوصیت کے ساتھ نوافل اور ذکر الہی اور دعاؤں پر زور دیں تا کہ اگر خدا چاہے وہ مبارک رات میسر آ جائے جو عمر بھر کی راتوں سے زیادہ با برکت شمار کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رمضان کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی توفیق دے تا کہ جب رمضان گزر جائے تو خدا کے فرشتے ہمیں ایک بدلی ہوئی مخلوق پائیں اور ہمارے لئے دین و دنیا میں غیر معمولی ترقی کے راستے کھل جائیں.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محرره 5 مارچ 1960ء) روزنامه الفضل ربوہ 9 مارچ 1960ء) 14 رساله سيرة طيبه احباب اور جماعتیں توجہ فرمائیں اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے جو تقریر ذکر حبیب“ کے موضوع پر پڑھی تھی وہ اب سیرۃ طیبہ کے نام سے رسالہ کی صورت میں چھپ رہی ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ کے تین نمایاں پہلوؤں پر مختصر مگر خدا کے فضل سے دلچسپ اور جامع بحث آگئی ہے.جسے حضور کے منتخب اقوال اور حضور کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات کے ذکر سے مزین کیا گیا ہے.یہ تین پہلو ( اول ) محبتِ البی ( دوم ) عشق رسول اور ( سوم ) شفقت علی خلق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں.اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہی تین پہلوا یک مسلمان کے دین ومذہب کی جان ہیں.
مضامین بشیر جلد چهارم 58 لہذا مخلص دوستوں کو چاہئے کہ اس رسالہ کے چھپنے پر اسے نہ صرف زیادہ سے زیادہ اپنی جماعت کے دوستوں میں اخلاقی اور روحانی خیال سے تربیت کے لئے تقسیم کریں بلکہ دوسرے مسلمانوں میں بھی کثرت کے ساتھ اس کی اشاعت کا انتظام کریں.تا کہ اس ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے متعلق غیر از جماعت لوگوں کی غلط فہمیاں اور بدگمانیاں دور ہوں اور ملک میں پرامن فضا کا رستہ کھلے.یہ رسالہ ملک فضل حسین صاحب مالک احمدیہ کتابستان ربوہ چھپوا ر ہے ہیں.اس لئے جو دوست اور جماعتیں اس رسالہ کی خریداری اور اس کی تقسیم میں حصہ لے کر ثواب کمانا چاہیں انہیں چاہئے کہ جلد سے جلد اپنے آرڈر ملک صاحب موصوف کو بھجوا کر مطلوبہ نسخے اپنے لئے ریز رو کروالیں.اس رسالہ کے آخر میں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ کی سیرۃ پر بھی ایک مختصر سا نوٹ بڑھا دیا گیا ہے تا که احمدی مستورات اس سے مخصوص فائدہ اٹھا سکیں.اس سارے رسالے کا حجم 112 صفحات ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس رسالہ کی اشاعت خدا کے فضل سے مفید اور بابرکت ثابت ہوگی.قیمت کے متعلق ملک صاحب بتاسکیں گے یہ خاکسار تو صرف ثواب کے پہلو میں حصہ دار ہے.مالی پہلو سے میرا کوئی تعلق نہیں.( محررہ 6 مارچ 1960ء) (روز نامه الفضل ربوہ 10 مارچ 1960ء) اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعائیں اس سال اپنی بیماری کی وجہ سے خاکسار نہ تو رمضان کی برکات کے متعلق کوئی تفصیلی مضمون لکھ سکا ہے اور نہ ہی دعاؤں کی کوئی خاص تحریک کر سکا ہے.آج رمضان کی اٹھائیس (28) تاریخ ہے اور کل انشاء اللہ تعالیٰ انیسویں تاریخ ہو گی جو غالباً موجودہ رمضان کی آخری تاریخ ہوگی اور پھر یہ رات بھی طاق رات ہوگی.جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق خاص طور پر بابرکت راتوں میں شمار ہوتی ہے.پس میں اس مختصر سے نوٹ کے ذریعہ دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ رمضان کے اس آخری حصہ میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے خاص طور پر دعائیں کریں.تا کہ اللہ تعالیٰ صداقت کے دائمی اور عالمگیر غلبہ کا دن جلد تر لے آئے.آخر ہم کب تک رینگتے رہیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے کہ:
مضامین بشیر جلد چهارم بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر مینار بلند تر محکم افتاد 59 59 اس الہام میں احمدیت کے ذریعہ اسلام کی غیر معمولی ترقی اور سر بلندی کی خبر دی گئی ہے جو ازل سے آخری زمانہ کے لئے مقدر تھی.پس دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کے بقیہ حصہ میں جو غالبا صرف ایک دن اور ایک رات ہے.اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے خاص طور پر دعائیں کریں.باقی جہاں تک دعا کے الفاظ کا تعلق ہے اس کے متعلق میں اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا کہ جن الفاظ سے بھی دعا کرنے والے کے دل میں رقت اور سوز کی کیفیت پیدا ہو ان الفاظ میں دعا کی جائے.لیکن اگر ذیل کے درود کے الفاظ میں دوستوں کے قلوب میں خاص توجہ اور رقت پیدا ہو سکے تو اس زمانہ میں یہ درود بھی بہت خوب ہے اور اس میں سب کچھ آ جاتا ہے.الفاظ یہ ہیں: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَّ عَلَىٰ عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ آل کے لفظ سے تمام بچے اور مخلص متبع شامل ہیں.محررہ 27 مارچ 1960ء) (روز نامه الفضل 29 مارچ 1960ء) چوہدری برکت علی خان صاحب مرحوم جیسا کہ احباب کو الفضل سے علم ہو چکا ہے چوہدری برکت علی خان صاحب سابق وکیل المال وفات پا گئے ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقره: 157) چوہدری صاحب مرحوم جو غالبا گڑھ منکر ( ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے.اولاً انہوں نے قادیان میں آکر کچھ عرصہ اخبار الحکم میں کام کیا.اور پھر صدر انجمن احمدیہ کے عملہ میں شامل ہو کر ہمیشہ کے لئے نوکر شاہی بن گئے.اور اس خدائی نوکری کو انہوں نے زائد از پچاس سال اس اخلاص اور جان نثاری اور وفاداری اور محنت سے نبھایا جو ہر احمدی کے لئے قابل رشک ہے.میں نے ایسے بے ریا اور جاں فشانی سے کام کرنے والے بہت کم لوگ دیکھے ہیں.مجھے امید ہے کہ خدا انہیں اس پاک گروہ میں داخل فرمائے گا جن کے متعلق وہ فرماتا ہے کہ مِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ (الاحزاب: 24) وہ انتہائی عمر تک جب کہ وہ
60 60 مضامین بشیر جلد چهارم قریباً 80 سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اس والہانہ جذبہ کے ساتھ کام کرتے تھے کہ دل سے دعا نکلتی ہے.ان کا آخری کارنامہ پانچ ہزاری مجاہدین تحریک جدید کی کتاب کی تیاری اور اشاعت تھی.ابھی چار پانچ دن کی بات ہے جبکہ وہ بے حد کمزور ہو چکے تھے اور گویا ان کے آخری سانس تھے.انہوں نے میاں عزیز احمد صاحب ایم.اے ناظر اعلیٰ کی زبانی مجھے یہ پیغام بھجوایا کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی وفات سے جو خلاء تبلیغ کے میدان میں پیدا ہوا ہے اسے جس طرح بھی ممکن ہو پورا کرنے کی کوشش کی جائے.تا کہ سلسلہ کے تبلیغی کام میں روک نہ پیدا ہو.میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چوہدری برکت علی خان صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی اولاد کو اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں رکھے اور جماعت کو ان کا بدل عنایت کرے.آمِنینَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ.چوہدری صاحب کو جنازہ بھی ایسا نصیب ہوا جو بہت کم لوگوں کو میسر آتا ہے.کیونکہ ایک تو جمعہ تھا اور دوسرے مشاورت کی وجہ سے بیرونی مہمان بھی بڑی کثرت سے آئے ہوئے تھے.(محررہ 18 اپریل 1960 ء ) روزنامه الفضل ربوه 12 اپریل 1960 ء) ڈاکٹر بلی گراہم کو احمدی مبلغ کا چیلنج احمدیت نے ہوٹزم کا تار پود بکھیر دیا 12 اپریل 1960 ء کے اخبار نوائے وقت لاہور میں اس اخبار کے نمائندہ خصوصی حفیظ ملک صاحب مقیم واشنگٹن امریکہ کا ایک نوٹ شائع ہوا ہے جس میں حفیظ صاحب موصوف نے افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ضرورت اور اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مشرقی افریقہ میں مشہور مسیح مناد ” ڈاکٹر بلی گراہم کی آمد کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان علاقوں میں احمدیہ جماعت کی مساعی کے نتیجہ میں اسلام بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے.اور یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں باقی سب لوگ ڈاکٹر گراہم کی آمد پر خاموش رہے وہاں جماعت احمدیہ نے انہیں بڑی دلیری کے ساتھ چیلنج کیا.مگر گرا ہم صاحب نے اس چیلنج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کنارہ کشی اختیار کی.اس تعلق میں حفیظ ملک صاحب نے یہ جتا کر کہ جماعت احمد یہ ختم نبوت کی مخصوص
مضامین بشیر جلد چهارم 61 تشریح کی وجہ سے مسلمانوں کی صحیح نمائندہ نہیں ہے.بعض دوسری اسلامی جماعتوں کو مشرقی افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کی طرف توجہ دینے کی دعوت دی ہے وغیرہ وغیرہ.مجھے اس جگہ حفیظ ملک صاحب کے اعتراض کا جواب دینا مقصود نہیں.ان کے مضمون سے ظاہر ہے کہ وہ دل میں اسلام کا عمومی رنگ میں در در کھتے ہیں اور انہوں نے اس مضمون میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کی تعریف بھی کی ہے.اس لئے میں اس مشتر کہ کام میں ان کے اعتراض سے کسی قسم کا تعرض نہیں کرنا چاہتا.البتہ انہیں صرف اس قدر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ کم از کم حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی مختصر مگر مشہور تصنیف ” ایک غلطی کا ازالہ کا مطالعہ کرنے کی تکلیف گوارا فرمائیں تو انشاء اللہ ان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ جماعت احمد یہ نہ صرف یہ کہ خدا کے فضل سے ختم نبوت کے عقیدہ کی منکر نہیں بلکہ دل و جان سے اس عقیدہ پر فدا ہے اور سچے دل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کرتی اور آپ کو افضل الرسل اور سید ولد آدم اور دائمی شریعت کا لانے والا آخری نبی مانتی ہے اور قرآنی شریعت میں کسی قسم کے رد و بدل کو قطعی طور پر ہلاکت کا موجب سمجھتی ہے.وَاللهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ - بلکہ اگر محترم حفیظ ملک صاحب اس خاکسار کے رسالہ رسول پاک کا عدیم المثال مقام“ کا ہی مطالعہ فرماسکیں تو یقین ہے کہ ان جیسے سمجھ دار انسان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ختم نبوت کے متعلق ہمارا عقیدہ نہ صرف یہ کہ قرآنی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ امت محمدیہ کے اکثر اولیاء اور صلحاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے لے کر موجودہ زمانہ تک وہی عقیدہ رکھتے چلے آئے ہیں جو جماعت احمدیہ نے پیش کیا ہے.اور جہاں تک ہمارے ایمان کا تعلق ہے خدا جانتا ہے کہ ہمارا رواں رواں محمد اور خدائے محمد اور دین محمد پر قربان ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں: بعد از خدا بعشق محمد مختمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم مگر خیر یہ تو محض ایک جملہ معترضہ تھا جو حفیظ ملک صاحب کی خدمت میں ایک غلط فہمی کے ازالہ کے لئے ضمناً پیش کیا گیا ہے.اصل غرض ڈاکٹر بلی گراہم کے متعلق یہ کہنا ہے کہ انہوں نے قرعہ کے ذریعہ منتخب شدہ مریضوں کی شفایابی کے متعلق ہمارے نیروبی کے مبلغ کے چیلنج کے مقابلہ پر جوشکست کھائی ہے بلکہ جس رنگ میں روحانی مقابلہ سے فرار کا رستہ اختیار کیا ہے (تفصیل کے لئے دیکھو الفضل مؤرخہ 14 اپریل
مضامین بشیر جلد چهارم 62 1960 ء ) وہ انشاء اللہ ان کے مزعومہ سحر کے تار پور کے بکھیرنے کا آغاز ثابت ہوگا.انہوں نے ایک عرصہ سے مسیحی دنیا پر یہ اثر پیدا کر رکھا ہے کہ گویا انہیں غیر معمولی روحانی طاقت حاصل ہے جس سے وہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتے اور بیماروں کو شفا دیتے ہیں.مگر نیروبی میں ہمارے رئیس التبلیغ شیخ مبارک احمد صاحب کے چیلنج نے اور پھر اس چیلنج پر ڈاکٹر بلی گراہم کے کھلم کھلا فرار نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یا تو ان کا دعوی سرے سے ہی باطل تھا اور یا ان کا اثر صرف طاقت لسان اور کسی قدر ہینوٹزم ( یعنی علم توجہ ) تک محدود تھا.جو ساحران فرعون کی طرح محمدی تعصا کی ضرب سے ٹوٹ پھوٹ گیا.ایک مشہور حدیث میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْراً ( بخاری كتاب النکاح باب الخطبة ) یعنی بعض قسم کی تقریر وتحریر میں فصاحت و بلاغت کے زور کی وجہ سے ایک گونہ سحر یعنی جادو کا سا اثر پیدا ہو جاتا ہے.مگر اس کے ساتھ ہی قرآن مجید صراحت سے فرماتا ہے کہ لَا يُفْلِحُ الشجرُ حَيْثُ آتی (طه: 70) یعنی حق کے مقابلہ پر اس قسم کا جادو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.دوسری طرف سائنس کے علوم اور دنیا کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ ہپنوٹزم ( یعنی علم توجہ ) بھی خدا کے پیدا کردہ علموں میں سے ایک علم ہے.جس سے بعض اوقات ایک مشاق انسان جو بعض دوسرے لوگوں کے مقابل پر دل و دماغ کی فائق طاقتوں کا حامل ہوتا ہے ایک کمزور دل والے انسان پر اپنی توجہ کا اثر ڈال کر اس سے وقتی طور پر بعض خاص قسم کی حرکات کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے یا بعض خاص قسم کی بیماریوں کو شفا دے سکتا ہے.(اس کے لئے دیکھو خاکسار کا مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مزعومہ سر کا واقعہ مندرجہ الفضل مؤرخہ 3 جولائی 1959ء) اور یاد رکھنا چاہئے کہ ہمپوٹزم (یعنی علم توجہ ) کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو بعض لوگوں کو کسی قسم کے عشق کے بغیر قدرتی طور پر حاصل ہوتی ہے.مگر یہ قسم عموماً کچھ عرصہ کے بعد خود بخود ختم ہو جاتی ہے اور مجھے ذاتی طور پر اس کی بعض مثالیں معلوم ہیں.مگر بہر حال اس علم کو روحانیت سے کوئی تعلق نہیں.بلکہ مشق وغیرہ کے ساتھ ہر انسان اس میں کم و بیش مہارت حاصل کر سکتا ہے.جس کے لئے مسلمان یا ہند و یا عیسائی یا بدھ یا سکھ وغیرہ کی کوئی خصوصیت نہیں.مگر جب ایسا شخص جب کسی ایسے خدا رسیدہ انسان کے مقابلہ پر آتا ہے جسے خدا کی نصرت اور روح القدس کی تائید حاصل ہوتی ہے تو اس کا سارا سحر دھواں ہو کر اڑ جاتا ہے.چنانچہ جیسا کہ میں اپنے مذکورہ بالا سحر والے مضمون میں لکھ چکا ہوں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک ہندو جو غالباً گجرات کا
مضامین بشیر جلد چهارم 63 رہنے والا تھا قا دیان آیا اور چونکہ وہ علم توجہ یعنی ہمپٹوٹزم کا بڑا ماہر تھا اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو ہم مرزا صاحب کو ملنے جاتے ہیں اور پھر میں ان پر توجہ ڈال کر ان سے ایسی نازیبا اور خلاف وقار حرکات کرواؤں گا کہ ان کے مریدان سے برگشتہ ہو جائیں گے.مگر جب وہ حضرت مسیح موعود کے سامنے آیا اور حضور پر توجہ ڈالی تو شیخ مار کر بے تحاشہ بھا گا.اور جب اس کے ساتھیوں نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں بھاگے تھے تو اس نے کہا کہ جب میں نے مرزا صاحب پر توجہ ڈالی تو مجھے یوں نظر آیا کہ میرے سامنے ایک خوفناک شیر کھڑا ہے جو مجھ پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہے.اگر دوست چاہیں تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر یاد کریں کہ: ے جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زار و نزار الغرض ڈاکٹر بلی گراہم کا سارا سحر ان کی طاقت لسانی اور ان کی ہمسپنوٹزم ( یعنی علم توجہ ) میں مخفی ہے.لیکن یاد رکھو کہ انشاء اللہ جب بھی وہ اس زمانہ کے مصلح اعظم کے کسی بچے اور خدا رسیدہ خادم کے سامنے آئیں گے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے طفیل جن کی خدمت کے لئے احمدیت کی پیدا کی گئی ان کی طاقت لسانی اور ان کی پہنوئزم ان سے چھین لی جائے گی اور غلبہ یقیناً اسلام کو رہے گا.جو خدا کی آخری شریعت اور اس شریعت کی دائمی فتح کا پیغام لے کر آیا ہے.یقین رکھو کہ اب مسیح ناصری کا زمانہ ختم ہو چکا ہے.اب تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) اور آپ کے خادم مسیح محمدی کا زمانہ ہے.پس اسلام کو جو دشمن بھی آپ کے مقابل پر آئے گا خواہ وہ سائنس کی فضا میں اڑنے والا طائر ہے یا کہ اپنی توجہ سے مسحور کرنے والا ساحر ہے یا کہ علوم دین و دنیا کا ماہر ہے وہ یقیناً منہ کی کھائے گا.کیونکہ اب خدا کا یہ ازلی وعدہ کہ کَتَبَ اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلي (المجادلة: 22) ہمیشہ کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کے وجود باجود میں مرکوز ہو چکا ہے.مگر ضروری ہے کہ ہمارے دوست خدا کے ساتھ سچا تعلق پیدا کریں اور اس کے دامن سے وفادار جانثار خادموں کی طرح لیٹے رہیں.تاکہ خدا کی نصرت ان کے ساتھ رہے اور وہ ایک غیور آقا کی طرح ہر وقت اپنے بچے پرستاروں اور دلی جانثاروں کی مدد کے لئے کھڑ انظر آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وہ خدا نہایت وفادار خدا ہے اور وفاداروں کے لئے اس کے عجیب کام ظاہر ہوتے ہیں.دنیا
مضامین بشیر جلد چهارم 64 چاہتی ہے کہ ان کو کھا جائے اور ہر ایک دشمن ان پر دانت پیتا ہے مگر وہ جو ان کا دوست ہے ہر ایک ہلاکت کی جگہ سے ان کو بچاتا ہے اور ہر ایک میدان میں ان کو فتح بخشتا ہے..اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقینا سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے.تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تمہارے لئے جاگے گا.تم دشمن سے غافل ہو گے اور خدا اسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا.تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم پر تمہارا مددگار ہے.تم بغیر اس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 20-22) خدا کرے کہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اور تمام بچے احمدیوں کو قیامت تک خدا کی یہ غیر معمولی نصرت حاصل رہے.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (محررہ 15 اپریل 1960 ء ) (روز نامہ الفضل ربوہ 19 اپریل 1960ء) مخیر حضرات توجہ فرمائیں یہ ایام مستحق طلباء کی خاص امداد کے ہیں آج کل مختلف جماعتوں میں سالانہ امتحان شروع ہیں اور بعض کے شروع ہونے والے ہیں.اس موقع پر پاس ہونے والے طلباء اور طالبات کو کتابوں وغیرہ کے لئے ضرورت ہوتی ہے.گزشتہ سالوں میں کئی غریب بچے اور بچیاں اس قسم کی امداد کے ذریعہ ترقی کر کے جماعت کے مفید وجود بن چکے ہیں.پس جو احباب اس کارِ خیر میں حصہ لے کر ثواب کمانا چاہیں وہ حسب توفیق اور حسب حالات اس کام کے لئے امداد بھیجوا کر عنداللہ ماجور ہوں.آج کل اس قسم کی امداد کی درخواستیں آنی شروع ہوگئی ہیں اور آئندہ ایک دو ماہ میں زیادہ کثرت سے آئیں گی.ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ كَانَ فِي عَوْنِ أَخِيْهِ كَانَ اللَّهُ فِي عَوْنِہ.یعنی جو شخص اپنے بھائی کی امداد کرتا ہے اللہ اس کے اس فعل پر خوش ہو کر اس کی امدادفر ما تا
مضامین بشیر جلد چهارم ہے.پس یہ ثواب کا موقع ہے.(محررہ 25 اپریل 1960ء).......55 65 (روز نامہ الفضل 21 اپریل 1960ء) پریشان خاتون توجہ فرمائیں میرے نام ایک احمدی خاتون کا خط محررہ 17 اپریل 1960 ء موصول ہوا ہے.جس میں انہوں نے اپنا نام اور پتہ نہیں لکھا.لیکن اپنے بعض اعتقادی اور عملی پریشانیوں کا ذکر کر کے مشورہ مانگا ہے.میں سمجھ نہیں سکا کہ انہوں نے اپنا نام چھپانے میں کیا مصلحت سمجھی ہے.احمدی مستورات میں یہ اخلاقی جرات ہونی چاہئے کہ اگر انہیں کوئی مشکل پیش آئے یا کسی معاملہ میں پریشان خیالی لاحق ہو تو کسی قسم کا حجاب محسوس کرنے کے بغیر اس کا اظہار کر دیا کریں.حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان خواتین اپنی ہر قسم کی مشکلات بڑی صفائی اور جرات کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا کرتی تھیں.اور حضور کے مشورے سے فائدہ اٹھاتی اور برکت حاصل کرتی تھیں.بہر حال ہماری اس پریشان بہن نے اپنے خط میں اس قسم کی پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ میں پہلے بہت نیک ہوتی تھی اور اعمال صالحہ بجالانے کی آرزو مند رہتی تھی اور خدا کی ذات پر مجھے کامل تو کل اور بھروسہ ہوتا تھا اور اس کے فضل و رحمت کا سہارا ڈھونڈتی تھی مگر اس کے بعد میرے دل و دماغ میں کئی قسم کے اوہام اور پریشان کن خیالات پیدا ہونے شروع ہو گئے.جس کی وجہ سے میرے ایمان و عمل کی وہ حالت نہیں رہی جو پہلے تھی.گو ساتھ ہی اس پریشان خاتون نے یہ بھی لکھا ہے کہ اب میری حالت پھر کسی قدر بہتر ہے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس قسم کی پریشان خیالی یا تو اعصابی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوا کرتی ہے اور یا ایمانی کمزوری اس کا باعث ہوتی ہے.بعض اوقات نوجوان مرد اور نو جوان عورتیں سنی سنائی باتوں کی وجہ سے ایک رنگ کا رسمی سا اخلاق پیدا کر لیتے ہیں جو ان کے دلوں کی گہرائیوں تک نہیں پہنچتا بلکہ محض سطحی رنگ رکھتا ہے.جس کے بعد ماحول کے بدلنے یا کسی اعصابی تکلیف پیش آنے یا غیر شعوری طور پر کسی بُری صحبت سے متاثر ہونے کے نتیجہ میں ان کے حالات اور خیالات میں تبدیلی آجاتی
مضامین بشیر جلد چهارم 66 ہے.ورنہ سچا ایمان اور سچا اخلاص تو اس مینار کی طرح ہوتا ہے جسے کوئی زلزلہ یا مصیبت کا کوئی دھکایا بدلے ہوئے حالات کا کوئی جھٹکا اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا.پس سب سے پہلے میری نصیحت اس عزیزہ مستورہ کو یہ ہے کہ وہ اپنے نفس اور اپنے ماحول کا جائزہ لیں اور پھر گہری نظر سے غور کریں کہ ان کے حالات میں تبدیلی پیدا ہونے کی حقیقی وجہ کیا ہے؟ لیکن بہر حال مایوس ہرگز نہ ہوں.مومنوں پر بلکہ سچے اور پختہ مومنوں پر بھی بلکہ میں یہاں تک کہتا ہوں کہ اولیاء اللہ پر بھی بعض اوقات قبض و بسط کے حالات آتے رہتے ہیں.کبھی ان کی حالت میں بسط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جب وہ بڑے شوق و ذوق کے ساتھ دوڑتے ہوئے خدا کی طرف بڑھتے ہیں اور نیک اعمال بجالانے میں سبقت کا رنگ پیدا کر لیتے ہیں.لیکن کبھی قبض کی صورت پیدا ہو جاتی ہے جبکہ ان کے دلوں میں اس قسم کی بشاشت اور ذوق وشوق کی کیفیت نہیں رہتی.لیکن سچے مومن ایسی حالت میں بھی طبیعت پر زور دے کر فرائض کی ادائیگی میں سستی نہیں کرتے.ہماری پریشان بہن کو چاہئے کہ وہ بالکل نہ گھبرائیں اور خدا کی وسیع رحمت پر بھروسہ رکھ کر خدا کے دامن سے چمٹی رہیں.اور اگر نوافل کی توفیق نہیں ملتی تو کم از کم فرائض کی ادائیگی میں ہرگز غفلت نہ کریں.فرائض کے میدان میں سب سے مقدم چیز نماز کی ادائیگی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ نماز وہ چیز ہے جس میں میرے لئے آنکھ کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے.اور آپ تصحابہ کو نصیحت فرماتے تھے کہ ایسے رنگ میں نماز ادا کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا کم از کم خدا تم کو دیکھ رہا ہے.ہماری اس پریشان بہن کو یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کی رحمت بہت وسیع ہے.اس نے خود فرمایا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے.آپ ان نعمتوں کا تصور کر کے اپنے دل میں شکر کے جذبات پیدا کیا کریں جو خدا نے آپ پر کر رکھی ہیں.یعنی اسلام میں پیدا کیا ، احمدیت کی توفیق دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا قرب عطا کیا.یہ وہ بابرکت زمانہ ہے جس پر آئندہ آنے والی نسلیں فخر کیا کریں گی اور اسے حسرت کے ساتھ یاد کیا کریں گی.نیز میری یہ بھی نصیحت ہے کہ جب آپ کے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوا کرے تو اس کے لئے تین نسخے اختیار کیا کریں.یعنی یا تو قرآن شریف کی تلاوت کیا کریں جو ہمارے آسمانی آقا کا با برکت کلام اور سرا سر رحمت ہے یا نماز میں دل کی تسلی پانے کی کوشش کیا کریں جو گویا خالق و مخلوق کے درمیان ملاقات کا رنگ رکھتی ہے.اور یا اپنے ماحول کو بدل کر ایسے پریشانی کے وقت میں کسی
مضامین بشیر جلد چهارم 67 نیک یا صالح بندے یا بندی کے پاس کچھ وقت کے لئے بیٹھ جایا کریں لیکن بہر حال مایوس ہرگز نہ ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو ایک جگہ خدا تعالیٰ کی صفتِ عفو کے ماتحت یہاں تک لکھا ہے کہ خدا کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ وہ اپنے بعض ایسے نیک بندوں کے متعلق جن کی نیکی اسے خاص طور پر پسند ہوتی ہے اپنے فرشتوں کو بھی حکم دے سکتا ہے کہ تم میرے اس بندے کی کمزور یوں کو نہ لکھا کرو.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کو اپنے فضل و رحمت کے سائے میں رکھے اور آپ کو دل کا اطمینان اور سکون عطا کرے.آمین.دل کے اطمینان کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے الا بذكر اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 29) یعنی اے مومنو! ہوشیار ہو کر سن لو کہ دل کے اطمینان پانے کا نسخہ صرف خدائے عرش کی یاد ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.( محرر 13 اپریل 1960 ء ) (روز نامہ الفضل ربوہ 21 اپریل 1960ء) 20 احمدی حاجیوں کے لئے دعا کی درخواست اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی احباب بیت اللہ شریف کے حج کے لئے جار ہے ہیں.ان میں ایک شبیر احمد صاحب بی.اے واقف زندگی بھی ہیں جنہیں میرے گھر سے یعنی اُم مظفر احمد اپنے خرچ پر حج بدل کے لئے بھجوا رہی ہیں.شبیر احمد کا ابھی تک حج کے قرعہ میں نام نہیں نکلا لیکن کوشش جاری ہے کہ اگر آخری وقت پر بھی کوئی صاحب نہ پہنچ سکیں تو ان کی جگہ شبیر صاحب کو مل جائے یا اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی اور راستہ کھل جائے.دوست دعا کریں کہ انہیں حج کا موقع میسر آجائے اور اُمّم مظفر احمد کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوا اور خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان کے حج اور ان کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف عطا کرے اور غیر معمولی ثواب سے نوازے اور اُمّم مظفر احمد کے لئے برکت کا موجب ہو.آمین.شبیر صاحب کے ساتھ کئی اور احمدی دوست ( مرد عورت ) بھی حج کے لئے جارہے ہیں.مثلاً مولوی
مضامین بشیر جلد چهارم 68 قدرت اللہ صاحب سنوری صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لڑکے مسعود احمد صاحب خورشید اور غالباً شیخ احمد گل صاحب پر اچھہ بھی حج کے لئے جا رہے ہیں.اسی طرح شیخ رحمت اللہ صاحب آف لائل پور ( حال فیصل آباد) کے خاندان کے متعدد افراد بھی جا رہے ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی کئی احباب جانے کا ارادہ رکھتے ہیں.دوست سب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو اور ان کے حج کوقبول فرمائے اور برکات کا موجب بنائے.آمین (محرره 6 مئی 1960ء) روزنامه الفضل ربوہ 8 مئی 1960ء) فاتحہ خوانی اور قتل اور جہلم اور ختم قرآن کی رسوم ہماری جماعت کو ان رسوم سے اجتناب کرنا چاہئے کچھ عرصہ سے بلکہ غالباً چند صدیوں سے مسلمانوں میں بعض غیر مسنون رسوم راہ پاگئی ہیں جنہیں عام مسلمان اور خصوصاً اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے بزرگوں اور عزیزوں اور دوستوں کی موت فوت کے مواقع پر ایسے رنگ میں اور اس پابندی کے ساتھ اختیار کرتے ہیں کہ گویا وہ اسلامی تعلیم اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا حصہ ہیں.حالانکہ قرآن مجید اور حدیث رسول مقبول اور سنتِ خلفائے راشدین بلکہ بعد کے جلیل القدر ائمہ کے مبارک اسوہ میں ان کا نام ونشان تک نہیں ملتا.ان رسوم میں خصوصیت کے ساتھ مرنے والوں پر فاتحہ خوانی اور قتل اور چہلم اور حلقہ باندھ کر ختم قرآن کی رسوم خاص طور پر بڑے اہتمام کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں نہ صرف موجب ثواب بلکہ ضروری خیال کیا جاتا ہے.اور مجھے بعض خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ کہ شاذ کے طور پر بعض ایسے کمزور اور ناواقف احمدی بھی (خصوصاً مستورات ) جنہیں روحانیت اور علم دین کے لحاظ سے گو یا بادیہ نشین کہنا چاہئے کبھی کبھی ماحول کے اثر کے ماتحت ایسی غیر مسنون رسوم میں مبتلا ہونے کی طرف جھک جاتے ہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراض میں سے ایک اہم غرض حضور کے الہاموں میں یہ بیان کی گئی ہے کہ: يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ یعنی مسیح موعود اسلام کے مٹتے ہوئے نقوش کو دوبارہ زندہ کرے گا اور شریعت کو اپنی اصل صورت میں
مضامین بشیر جلد چهارم نئے سرے سے قائم کرے گا.69 69 پس احمدی بھائیوں اور بہنوں کو اس قسم کی تمام غیر مسنون رسوم سے قطعی پر ہیز کرنا چاہئے ورنہ ہم پر نعوذ باللہ وہ مثل صادق آئے گی کہ چوں کفر از کعبه بر خیز دکجاماند مسلمانی.“ گو میں اس قسم کی غیر اسلامی رسوم میں کبھی شامل نہیں ہوا ( اور میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ میری نسل بلکہ حضرت مسیح موعود کی ساری نسل کو بھی ایسی غیر مسنون رسوم سے بچا کر رکھے اور ہمیشہ حقیقی اور پاک وصاف اسلام پر قائم رکھے ) مگر جو کچھ دوسروں سے ان رسوم کے متعلق سننے میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ فاتحہ خوانی کی رسم تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اس کے جنازہ اور تدفین وغیرہ کے بعد اس کے عزیز واقارب اور دوست و آشنا اور دور ونزدیک کے ملاقاتی مرنے والے کے مقام پر ہمدردی کے خیال سے وقتا فوقتا جاتے ہیں اور ہاتھ اٹھا کر ایک آدھ منٹ ہی میں ہاتھ نیچے کر کے یہ رسم ختم کر دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی جاتی ہے جسے فاتحہ خوانی کا نام دیا جاتا ہے.یا کسی فوت شدہ عزیز یا بزرگ یا قومی لیڈر یا مذہبی رہنما کی قبر پر جا کر اس قسم کی رسمی فاتحہ خوانی کی جاتی ہے.لیکن سارے قرآن کو دیکھ جاؤ اور ساری حدیثوں کو چھان ما رواور عہد نبوی اور زمانہ خلافت راشدہ کی ساری تاریخ کی ورق گردانی کر کے دیکھ لو اس قسم کی فاتحہ خوانی کا کوئی ثبوت بلکہ شائبہ تک نہیں ملتا.بے شک مرنے والوں کے لئے مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعا کرنا مسنون ہے خواہ یہ دعا گھر پر کی جائے یا قبر پر جا کر کی جائے لیکن سورۃ فاتحہ میں تو اپنے لئے دعا ہوتی ہے نہ کہ مرنے والے کے لئے.اور پھر اسے اس قسم کی بے جان رسم کا رنگ دینا تو سراسر بدعت ہے جس کی ہماری شریعت میں کوئی سند نہیں ملتی.کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ جنازہ کی نماز میں بھی تو سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے لیکن اول تو وہ ایک با قاعدہ مسنون نماز کا حصہ ہے دوسرے اس میں یہ سبق دینا مقصود ہے کہ خدایا! ہم اس صدمہ میں بھی تیرے شکر گزار رہتے ہوئے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہتے ہیں اور اپنے نیک انجام کے لئے تجھ سے دعا کرتے ہیں.اس لئے جہاں سورۃ فاتحہ کی تلاوت نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد رکھی گئی ہے وہاں مرنے والے کے لئے دعا نماز جنازہ کی تیسری تکبیر کے بعد آتی ہے.فاتحہ خوانی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: رسمی فاتحه خوانی درست نہیں یہ بدعت ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے.اور دوسری جگہ فرماتے ہیں: اخبار بدر 16 مارچ 1960ء )
مضامین بشیر جلد چهارم 70 سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریم ، صحابہ کرام یا ائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا ؟ جب نہیں تو پھر کیا ضرورت ہے خوامخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی ؟ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں.جو لوگ جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور پر دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھیں.“ (اخبار بدر 9 مئی 1960ء) موت فوت کے متعلق دوسری عام رسم قل کی ہے.مگر یہ بھی ایک سراسر بدعت ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاء راشدین یا صحابہ کرام یا ابتدائی اولیاء وصلحاء عظام کے زمانہ میں قطعاً کوئی سند نہیں ملتی.بلکہ یہ رسم یقیناً ایک بدعت ہے جو بعد میں مُلاں لوگوں نے اپنے فائدہ کے لئے ایجاد کر لی ہے.اس کی تائید میں کوئی قرآنی آیت یا کوئی حدیث یا کسی صحابی یا کسی مستند مسلّمہ امام کا قول نہیں ملتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قل خوانی ( جو مرنے والے کی وفات کے بعد تیسرے دن کی جاتی ہے ) کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے.ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں.دین تو ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں.صحابہ کرام بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے؟ صد ہا سال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 605) الغرض قل کی رسم جو آج کل اتنی عام ہے کہ غیر از جماعت لوگوں میں مرنے والے کی وفات کے بعد اس کے وارثوں کی طرف سے لازماً مجلس قل کا اعلان ہو جاتا ہے.یقینا یہ ایک بدعت سے زیادہ نہیں جس کی کوئی سند اسلامی شریعت میں نہیں ملتی.اس لئے جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کو اس سے قطعی پر ہیز کرنا چاہئے.ورنہ وہ اس سیدھے اور سادے اور پیارے مسلک کو کھو بیٹھیں گے جو ہمیں رسول پاک کے لائے ہوئے اسلام نے سکھایا ہے.تیسری رسم چہلم کی ہے.جس میں کسی عزیز یا دوست یا بزرگ کی وفات کے چالیسویں دن مجلس جمائی جاتی ہے اور کھانا پکا کر مرنے والے کے نام پر لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ.اس رسم کی بھی قرآن و حدیث اور صحابہ کرام اور اولیاء عظام کے اقوال میں کوئی سند نہیں ملتی.محض ایک رسم ہے جو اسلام کے سادہ اور دلکش چہرہ کو بگاڑ کر قائم کر لی گئی ہے جس سے مرنے والے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.مرنے والے کو صرف ان نیک اعمال کا اجر پہنچتا ہے جو اس نے اپنی زندگی میں خود کئے ہوتے ہیں یا ایسے اعمال کا ثواب پہنچتا ہے جو وہ
مضامین بشیر جلد چهارم 71 دنیا میں کیا کرتا تھا یا کم از کم ان کے کرنے کی نیت اور خواہش رکھتا تھا.مگر اپنی وفات کی وجہ سے ان کے جاری رکھنے یا انہیں بجالانے سے معذور ہو گیا.اس صورت میں اگر مرنے والے کی طرف سے اس کا کوئی عزیزیا دوست یا وارث یہ عمل بجالائے اور نیت یہ رکھے کہ اس کا ثواب مرنے والے کو پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایسے عمل کا ثواب مرنے والے کو پہنچ جاتا ہے.مگر شرط بہر حال یہی ہے کہ مرنے والا خود بھی اس عمل کی نیت یا خواہش رکھتا ہو.یا اسے اپنی زندگی میں بجالایا کرتا ہو.ورنہ ایسا ہر گز نہیں کہ کسی بے دین اور بدعمل شخص کی وفات کے بعد اس کی طرف سے نیک عمل بجالا کر یہ امید رکھی جائے کہ اسے اس کا ثواب پہنچ جائے گا.یہ ایک امید خام ہے جس کی شریعت میں کوئی سند نہیں.حدیث میں صاف آتا ہے کہ موت کے ساتھ مرنے والے کا عمل ختم ہو جاتا ہے اور صرف ایسی نیت کا اثر چلتا ہے جس سے کوئی نیک انسان مجبوری کی صورت میں محروم ہو گیا ہو.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام چہلم کی رسم کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ رسم ( نبی کریم اور صحابہ کرام کی ) سنت سے باہر ہے (بدر 14 فروری 1907ء) یہی اصول نیاز والی رسم پر چسپاں ہوتا ہے جس کی کوئی سند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاء راشدین یا صحابہ کرام یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپ کے خلفاء کے زمانہ میں نہیں ملتی.البتہ کبھی کبھی کسی ایسے بزرگ کی طرف سے کھانا پکا کر ہمسایوں اور غرباء کو کھلا نا جو خود اپنی زندگی میں غرباء کی امداد پر عامل رہا ہو جائز ہے.بشرطیکہ اسے رسم کا رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی خاص دل مقرر کیا جائے.جس کے نتیجہ میں لازماً آہستہ آہستہ رسم کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے جسے اسلام ہر گز پسند نہیں کرتا ہے.موجودہ مسلمانوں کی عملی حالت کو انہیں رسوم نے تباہ کیا ہے اور ایک سادہ اور پاک مذہب کی صوت بگاڑ کر رکھ دی ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر حضرت سرور کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) زندہ ہوکر اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں تو آپ نہ تو موجودہ مسلمانوں کے اسلام کو اپنے لائے ہوئے دین کی صورت میں پہچان سکیں گے اور نہ ہی موجودہ زمانہ کے عام مسلمانوں کو اپنی امت کے افراد یقین کر سکیں گے.افسوس صد افسوس کہ بدعتوں کے بے پناہ داغوں نے اسلام کی پیاری صورت کو کس طرح بگاڑ رکھا ہے.!!! چوتھی رسم ختم قرآن کی ہے.اس جگہ قرآن خوانی سے گھروں میں یا نماز کے اوقات میں یا مسجدوں میں کلام پاک کی تلاوت مراد نہیں.وہ تو سراسر رحمت ہے.بلکہ حقیقتاً مومن کی روح کے اطمینان کی کنجی ہے.بلکہ میری مراد اس جگہ ختم قرآن سے وہ رسمی قرآن خوانی ہے جو کسی فوت ہونے والے کے ثواب کی خاطر حلقہ
مضامین بشیر جلد چهارم 72 باندھ کر مکانوں میں یا قبروں پر کی جاتی ہے.اس قسم کی رسمی تلاوت قرآن وحدیث یا صحابہ کرام کے اقوال و افعال میں قطعاً کوئی سند نہیں ملتی.یہ باتیں یقیناً بعد کی ایجاد کی ہوئی بدعتیں ہیں جو لوگوں نے زمانہ نبوی سے دوری کے نتیجہ میں از خود اختراع کرلی ہیں.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں: مردہ پر قرآن ختم کرانے کا کوئی ثبوت نہیں.صرف دعا اور صدقہ میت کو پہنچتا ہے“ دوسری جگہ فرماتے ہیں: (بدر 16 مارچ 1904ء) قرآن شریف جس طرز سے حلقہ باندھ کر پڑھتے ہیں یہ سنت سے ثابت نہیں.ملاں لوگوں نے اپنی آمد کے لئے یہ رسمیں جاری کی ہیں.“ (الحام 10 نومبر 1907ء) الغرض یہ اور اسی قسم کی دوسری باتیں جن کا کوئی ثبوت قرآن مجید یا حدیث یا صحابہ کرام کے اقوال و افعال میں نہیں ملتا اور نہ ہی کسی مامور مجدد کے طریق میں نظر آتا ہے.یہ سب خلاف سنت رسوم اور فیج اعوج کے زمانہ کی بدعتیں ہیں جن سے جماعت احمدیہ کے افراد کو کلیتہ بیچ کر رہنا چاہئے.ایسی باتوں میں پڑنے سے انسان آہستہ آہستہ دین کے مرکزی نقطہ سے اکھڑ جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں آخری زمانہ میں اپنی امت کے فساد کا ذکر فرمایا ہے وہاں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ میری امت بہت سے فرقوں میں بٹ جائے گی اور جب صحابہ نے آنحضور سے پوچھا کہ اس وقت حق پر کون ہوگا تو آپ نے فرمایا کہ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي یعنی حق پر وہ لوگ ہوں گے جو میری اور میرے صحابہ کی سنت اور مسلک پر قائم ہوں گے پس جماعت احمدیہ کو اس مبارک مسلک پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا چاہئے اور اس سے سرِ مو انحراف نہیں کرنا چاہئے.اور خدا کے فضل سے ایسا ہی ہے.والشاذ کالمعدوم.دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ اسلام بڑا پیارا اور عمل کے غرض سے بڑا سادہ مذہب ہے.اسی لئے قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وَلَقَدْ يَسَّرُنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرِ (القمر: 18) یعنی ہم نے قرآنی تعلیم کو عمل کرنے کی غرض سے بہت آسان صورت دی ہے تو کیا اب بھی اے انسان ! تو اس سے نصیحت حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں؟ اسلام یعنی حقیقی اسلام کا خلاصہ یہ ہے ( اور یہی وہ کھونٹا ہے جس کے ساتھ وابستہ رہ کر انسان یقینی طور پر
مضامین بشیر جلد چهارم 73 نجات پاسکتا ہے ) کہ انسان سب سے اول نمبر پر قرآن کو سامنے رکھے اور اس پر مضبوطی سے قائم ہو اور پھر تفصیل کے لئے سنت اور صحیح احادیث سے راہنمائی حاصل کرے.(جس کی تشریح کے لئے حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے فتاویٰ بھی بڑی قابل قدر چیز ہیں) اور اس زمانہ کے مسائل یا گزشتہ اختلافات کی گتھیوں کو سلجھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو مشعلِ راہ بنائے.جنہیں سرور کائنات فخرِ موجودات سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کے لئے حکم و عدل قرار دیا ہے.اس محفوظ قلعہ سے باہر جانے والے انسان کے لئے بالعموم ان معاملات میں اندھیرے میں بھٹکنے اور خلاف شرع رسوم میں الجھنے کے سو اور کچھ نہیں.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ - میں آج کل بیمار ہوں ان مسائل پر سیر کن بحث زیادہ تفصیل چاہتی ہے.اس لئے مجبور ا صرف اسی مختصر نوٹ پر اکتفا کرتا ہوں.جماعت کے مقامی امراء اور ضلع وارامراء کو چاہئے کہ اپنے اپنے حلقہ میں اس بات کی کڑی نگرانی رکھیں کہ کوئی احمدی مرد یا احمدی عورت خلاف سنت رسوم میں پڑ کر احمدیت کے منور چہرے کو داغ دار کرنے کا رستہ اختیار نہ کرے اور مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ اَصْحابی کی حقیقت پر قائم رہے بلکہ نرمی اور محبت اور ہمدردی کے رنگ میں غیر از جماعت اصحاب کو بھی ان خلاف اسلام رسوم کی دلدل سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر وہ مان لیں تو ان کے لئے یقیناً بہتر ہے.ورنہ وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ.( محرره 2 مئی 1960ء) (روز نامہ الفضل 2 مئی 1960ء) امنِ عالم اور پاکستان کے لئے دعا کی تحریک اس وقت بین الاقوام فضا میں خطر ناک شرارے پیدا ہور ہے ہیں چند دن سے یعنی جب سے کہ روس کی اشترا کی مملکت میں امریکہ کا ایک ہوائی جہاز گرایا گیا ہے( اور اس بات کا حقیقی علم خدا کو ہے کہ وہ کن حالات میں گرایا گیا ہے ) دنیا کی بین الاقوام فضا میں خطر ناک شرارے پیدا ہو رہے ہیں.اور روس نے اس معمولی سے واقعہ کی آڑ لے کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور پاکستان اور ترکی اور سویڈن، ناروے کے خلاف سخت دھمکی آمیز پرو پیگنڈہ شروع کر
مضامین بشیر جلد چهارم 74 رکھا ہے اور تازہ خبر یہ ہے کہ چار بڑے سربراہوں کی چوٹی کی کانفرنس جو پیرس میں امنِ عالم کی غرض سے منعقد ہو رہی ہے خطرے میں پڑ گئی ہے.میں نے اس واقعہ کو معمولی سا واقعہ اس لئے نہیں لکھا کہ وہ حقیقتا معمولی ہے.سیاسیات میں کوئی بات بھی حقیقتا اور لازماً معمولی نہیں ہوا کرتی.بلکہ اس کا معمولی یا غیر معمولی اس ماحول پر منحصر ہوتا ہے جس میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے.یا اس کا دار و مداران ملکوں اور قوموں کی ذہنیت پر ہوتا ہے جن کے ساتھ ایسا واقعہ تعلق رکھتا ہے.اگر ذہنیت اچھی اور مصلحانہ ہو تو بڑے بڑے حادثات بھی باہم گفت و شنید کے ذریعہ خوش اسلوبی کے ساتھ سلجھائے جاسکتے ہیں لیکن اگر نیت خراب یا معاندانہ ہو تو چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی ہو ا بنا کر پیش کیا جا سکتا اور لڑائی کی بنیاد بن سکتا ہے.ویسے کون نہیں جانتا کہ آج کل اکثر ملک اپنی حفاظت کے خیال سے یا دوسرے ملکوں کی کمزوریوں سے واقفیت پیدا کرنے کے لئے مخالف ملکوں کے حالات اور ان کی فوجی تیاری سے باخبر رہنے کی غرض سے کسی نہ کسی رنگ میں خبر رسانی یا جاسوسی کا انتظام کیا کرتے ہیں.یہ سیاسیات عالم کا ایک کھلا ہوا راز ہے جس کا امریکہ نے بڑی صاف دلی سے اعتراف کر لیا ہے.مگر روس پھر بھی اس حادثہ کے پیش نظر دوسرے ملکوں کو دھمکی دیئے جا رہا ہے.حالانکہ روس جانتا ہے کہ جس گناہ کا وہ دوسروں پر الزام رکھتا ہے وہ ایک ایسا عام گناہ ہے کہ خود اس کے اپنے ملک میں بھی کثرت کے ساتھ کیا جاتا ہے.فارسی کا ایک مشہور شعر ہے کہ : این گناہ ہیست که در شهر شما نیز کنند ے ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ اخباروں میں یہ خبر چھپی تھی کہ حکومت سوئٹزرلینڈ نے اپنے روسی سفارت خانے کے دو افسروں کو اس الزام میں اپنے ملک سے نکال دیا ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ میں بیٹھے ہوئے روس کے حق میں جاسوسی کیا کرتے تھے.غالبا ان دو روسی افسروں کے فوٹو بھی اخباروں میں چھپے تھے.اور یہ اخباری خبر بھی بالکل تازہ ہے کہ مغربی جرمنی میں ایک بہت بڑی تعدا داشترا کی جاسوسوں کی مشرق کی طرف سے داخل ہو کر جاسوسی کا کام کر رہی ہے.مگر ہمیں ان سیاسی بحثوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہمارا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق ہے.لیکن بین الاقوامی فضا کو خراب ہوتے دیکھ کر ہمارا یہ مذہبی فرض ضرور ہے کہ ہم آج کل امنِ عالم کے لئے خاص طور پر دعائیں کریں اور ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ان دعاؤں میں اسلام اور پاکستان کی حفاظت کے پہلو کو خصوصیت سے ملحوظ رکھیں.آئندہ جنگ اگر اور جب بھی ہوئی تو وہ زمانہ حال کی خطرناک ایجادوں کی وجہ سے بے حد تباہ کن ہوگی.ہمیں دعا
مضامین بشیر جلد چهارم 75 کرنی چاہئے کہ اگر خدانخواستہ کوئی تباہ کن جنگ خدا کے علم میں مستقبل قریب میں مقدر ہے اور اگر انسانیت کا کوئی حصہ اپنی غلط روی کی وجہ سے اس تباہی کو دعوت دے رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اس تباہی کے اثرات سے اسلام اور پاکستان کو محفوظ رکھے.بلکہ اس حکیمانہ شعر کے مطابق اسے ہمارے لئے ترقی کا موجب بنا دے کہ : خدا شتری بر انگیزد که خیر مادر آن باشد ہمیں یہ دعا آج کل بڑے الحاح اور در دو سوز سے کرنی چاہئے.بے شک جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے ہماری جماعت ایک خاص مذہبی جماعت ہے جسے سیاست سے کوئی سروکار نہیں.اور ہم کسی ملک اور کسی قوم کے دشمن نہیں.مگر ہمارا مذ ہب ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ ہم ایسے موقعوں پر ایسے معاملات میں جن کی ظاہری تدبیر ہمارے ہاتھ میں نہ ہو روحانی ذرائع یعنی دعاؤں کے تیروں سے کامیابی اور ترقی کا راستہ کھولنے کی کوشش کریں کیونکہ ہمارے خدا کو ہر قدرت حاصل ہے.اور فتح و ظفر کی ہر کلید خدا کے ہاتھ میں ہے.جس کی زبر دست تقدیر کے مقابلہ پر دنیا کے ظاہری اسباب کچھ حیثیت نہیں رکھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: ے قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے اسی لئے قرآن مجید بڑی وضاحت اور تحدی کے ساتھ فرماتا ہے کہ: كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ بِإِذْنِ اللهِ (البقرة: 250) بس اس وقت دعا کی تحریک کے لئے یہ لکھنا کافی ہے اور مجھے علالت میں زیادہ لکھنے کی طاقت بھی نہیں.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيْمِ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (محررہ 17 مئی 1960ء) روزنامه الفضل ربوہ 21 مئی 1960ء )
مضامین بشیر جلد چهارم 76 حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی بیماری اور جماعت کی ذمہ داری اب حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی بیماری کے موجودہ دور پر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر ابھی تک بیماری میں تخفیف کے کوئی آثار ظاہر نہیں ہوئے.بے شک بعض عوارض میں وقتی طور پر افاقہ کی صورت پیدا ہو جاتی ہے لیکن چند دن کے بعد پھر تکلیف اور بے چینی کا دور شروع ہو جاتا ہے اور بحیثیت مجموعی کمزوری بڑھ رہی ہے جو ایک لمبے عرصہ تک صاحب فراش رہنے کا طبعی نتیجہ ہے.بے شک بیماری انسان کے جسمانی نظام کا کم و بیش لازمی حصہ ہے جس سے کوئی ابنِ آدم مستقلی نہیں مگر اس بیماری کا دوسرا پہلو بھی ناگزیر ہے کہ جماعت آج کل حضور کے پر معارف خطبات اور مجلسی مذاکرات اور خط و کتابت کے ذریعہ تربیتی اور تبلیغی تحریکات سے عملاً محروم ہے.اور اسی طرح صدرانجمن احمدیہ کے ناظر صاحبان اور مجلس تحریک جدید کے وکلا ء صاحبان کے کام کی بھی اس رنگ میں نگرانی نہیں ہو رہی جو حضور اپنی صحت کی حالت میں فرمایا کرتے تھے.وہ سب باتیں جماعتی نقطہ نگاہ سے شدید خطرات کے پہلو ہیں جس کی طرف سے ایک الہی جماعت کو کسی صورت میں غافل نہیں ہونا چاہئے.بے شک جماعت حضور کی صحت کے لئے بڑے درد والحاح سے دعائیں کر رہی ہے ( گو میں کہتا ہوں کہ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز ) اور سنتِ نبوی کے ماتحت صدقے بھی کئے جارہے ہیں.مگر جماعت کی ذمہ داری صرف دعاؤں اور صدقات پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کا فرض ہے کہ امام کی بیماری کے پیش نظر امام کی نگرانی اور امام کی ہدایات اور امام کی روح پرور تحریکات کی کمی کو جہاں تک ہو سکے مزید جد و جہد اور مزید سعی و کاوش اور مزید قربانی و فدائیت کے ذریعہ پورا کرنے کی کوشش کرے.اسلام کا سارا نظام تقدیر وتد بیر کی دوہری تاروں کی عجیب و غریب آمیزش پر مبنی ہے.اس لئے محض تقدیر کے بھروسہ پر بیٹھ رہنا سچے مسلمانوں کا شیوا نہیں.ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اِعْقَلُ ثُمَّ تَوَكَّلُ.یعنی پہلے اونٹ کا گھٹا باندھوا اور پھر تو کل کرو.اور اسی حدیث کی تشریح میں مولانا رومی فرماتے ہیں : توکل زانوئے اشتر بند پس اب جبکہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وَ مَتِّعْنَا بِطُول حَيَاتِهِ کی موجودہ
مضامین بشیر جلد چهارم 77 نازک بیماری پر ایک سال کا طویل عرصہ گزر رہا ہے یہ خاکسارا اپنے بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں ان کا اجتماعی فرض یاد دلاتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ ہماری جماعت کا یہ دور نازک ہے اور بے حد نازک ہے.جب کہ ایک طرف امام کی شدید بیماری ہے اور دوسری طرف دنیا میں غیر معمولی حالات پیدا ہور ہے ہیں اور قومی زندگی کی کشمکش بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.اس لئے انہیں دعاؤں یعنی زندہ اور تڑپتی ہوئی دعاؤں کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کی طرف خاص بلکہ خاص الخاص توجہ دینی چاہئے: (1) جماعت کے عقائد اور خیالات کے متعلق جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور ان غلط فہمیوں نے ہمارے راستہ میں گویا ایک پہاڑ کھڑا کر رکھا ہے.انہیں بار بار کی وضاحت اور تکرار اور دلکش تشریح اور محبت اور ہمدردی کے ذریعہ دور کیا جائے.اور اس میدان میں ایسے والہانہ رنگ میں کام کیا جائے کہ ہمارے اردگرد کے سیاہ بادل جلد سے جلد چھٹ جائیں اور فضا ہر قسم کے تکدر سے پاک ہو جائے اور خدائی کلمہ کا بول بالا ہو.یہ ایک نہایت ضروری فرض ہے جس کے بغیر ہمارے لئے کوئی تسکین نہیں اور نہ کوئی ترقی.(2) افراد جماعت ( مردوں اور عورتوں اور نوجوانوں اور بچوں ) کی تربیت پر اتنا زور دیا جائے اور ایسی توجہ کی جائے کہ ہر احمدی اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا پاک نمونہ بن جائے.اور دنیا کو ان کے وجود میں وہ روحانی کشش نظر آئے جو ہمیشہ سے الہی جماعتوں کا طرہ امتیاز رہی ہے.دیکھو محض نام کا مسلمان یا نام کا احمدی کہلانا کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ نام کا ایمان اور رسمی عمل تو انسان کو خدا کے حضور دوہرا مجرم بنا دیتا ہے.پس اپنے اندر وہ پاک تبدیلی پیدا کرو جو ایک مومن کو مقناطیس بنا دیتی ہے تا کہ دنیا کی زبانیں پکار اٹھیں اور کرشمہ دامن دل کو کھینچے کہ: جا این جا است تم محض منہ کی تبلیغ سے دنیا کے دل فتح نہیں کر سکتے بلکہ دلوں کو فتح کرنے کے لئے تمہارے اندر کچی روحانیت اور خدائے عرش کے ساتھ زندہ اور بولتا ہوا تعلق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر ایسا عمل درکار ہے جو مٹی کو سونا بنادیتا ہے.نمازوں میں پابندی ہو، دعاؤں میں شغف ہو، لین دین میں صفائی ہو ، تجارت میں دیانت ہو، آپس میں محبت اور اتحاد ہو، مخلوق خدا کے ساتھ شفقت اور ہمدردی ہو، خدا کے دین کے لئے مسلسل مالی قربانی کا جذبہ ہو، مرکز کے ساتھ پختہ وابستگی اور جماعتی کاموں میں اتنا شغف اور اتنی یک جہتی ہو کہ تم ایک بنیان مرصوص بن جاؤ اور شیطان تمہارے قلعہ پر نقب لگانے سے مایوس ہو جائے.سوائے مقامی امیر و! اور اے ضلع وارا میرو! اور صوبائی امیر و اوراے وے تمام
مضامین بشیر جلد چهارم 78 لوگو! جو کسی نہ کسی رنگ میں جماعت میں اثر ورسوخ رکھتے ہو کیا آپ میری آواز کو سنتے ہیں؟ اور کیا آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آپ حضرت صاحب کی اس بیماری کے ایام میں اپنے اس فرض کو زیادہ توجہ اور زیادہ بیدار مغزی اور زیادہ للہیت سے ادا کریں گے؟ (3) تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے بیرونی مبلغ جو اس وقت خدا کے فضل سے دنیا کے اکثر آزاد ممالک میں اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں وہ اپنی کوششوں کو دو چند بلکہ سہ چند بلکہ چہار چند بلکہ بے شمار چند کر دیں تا کہ بیرونی ممالک میں اسلام کی سر بلندی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ کا بول بالا ہو.اور اس خدمت پر خدائے عرش ہم پر ایسا خوش ہو جائے کہ ہماری بعض کمزوریوں کے باوجود ہمارے لئے دائمی وعدہ کا دن قریب تر لے آئے جس کی اس نے اپنے مسیح کے ذریعہ ہمیں بشارت دی ہے.پس اے یورپ اور امریکہ اور ایشیا اور افریقہ میں کام کرنے والے مبلغو ! میری اس آواز کو سنو اور اپنی مشتاقانہ اور والہانہ تبلیغ کے ذریعہ اپنے خدا کو خوش اور ہمارے دلوں کو ٹھنڈا اور اپنی عاقبت کو محمود بنانے کی کوشش کرو.بلکہ افریقہ کے پسماندہ ممالک تمہاری توجہ کے زیادہ حق دار ہیں.کیونکہ اس ذریعہ سے تم اپنے رسول (فداہ نفسی) کی اس پیش گوئی کو پورا کرنے والے بنو گے.جس میں کہا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں نخوت یعنی پستی میں پڑی ہوئی اقوام بیدار ہو کر اٹھیں گی اور ان کی ترقی کا دور آئے گا.اور اس ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی بھی پوری ہوگی کہ ایک بحر ذخار جو سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا مغرب سے مشرق کی طرف بہہ رہا ہے.وہ حضور کے دیکھتے دیکھتے پلٹا کھا کر مشرق سے مغرب کی طرف بہنے لگ گیا ہے.(4) پھر میں اس موقع پر اپنے ان بزرگوں اور بھائیوں اور عزیزوں سے بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جو اس جماعت کے مرکزی نظام میں ناظروں یا وکیلوں کے عہدوں پر فائز ہیں کہ حضرت صاحب سے اتر کر ان کا کام انتہائی ذمہ داری کا کام ہے اور گویا وہ جماعت کے نائب گڈریے ہیں انہیں چاہئے کہ اس وقت بہترین گڈریے ثابت ہوں.کیونکہ وہ خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کے جانشین ہیں ( یہ حضرت مسیح موعود کے الفاظ ہیں ) ان کے سب کام انتہائی بیدار مغزی اور تقویٰ اور محنت اور جانفشانی اور انصاف اور للہیت پر مبنی ہونے چاہئیں اور انہیں دوسروں کے لئے بہترین نمونہ بننا چاہئے.ان میں ایک طرف محبت اور شفقت اور اخوت کا زبر دست جذ بہ موجزن ہو اور دوسری طرف چوکسی نگرانی اور حسب موقع اصلاحی قدم اٹھانے میں بھی غفلت نہ برتی جائے.کیونکہ اچھا انتظام انہی دو انتہاؤں کے درمیان پروان چڑھا کرتا ہے.پس اب جبکہ ہمارا امام بیمار ہے اور ہم ایک عرصہ سے اس کے خطبات اور کلمات اور تحریکات اور تفصیلی
مضامین بشیر جلد چهارم 79 نگرانی سے عملاً محروم ہیں.ہمارے لئے دل سوز دعاؤں کے علاوہ اس کی کمی کو پورا کرنے کا یہی واحد ذریعہ ہے کہ ہم اوپر کے بیان شدہ چار طریقوں کو اختیار کر کے خدائی نصرت کے طالب ہوں.اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ خلیفہ وقت کی بیماری نے ہمارے دلوں میں ذمہ داری کا احساس کم نہیں کیا بلکہ بڑھا دیا ہے اور ہم نے اس وجہ سے اپنی کوششوں میں سستی پیدا ہونے نہیں دی.بلکہ اپنے قدم کو تیز سے تیز تر کر کے اس فرض کو پورا کیا ہے جو خدائے عرش نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ دیکھو اس وقت امام بیمار ہے اور گو اس کی دعا اور روحانی توجہ ہمارے ساتھ ہے مگر پھر بھی ہم ظاہری صورت میں اس کی نگرانی اور اس کی روزمرہ کی ہدایات سے بڑی حد تک محروم ہیں.پس نیک اور سعید الفطرت بچوں کی طرح جو باپ کی بیماری میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہو جایا کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ فرض شناسی سے ادا کرتے ہیں تم بھی اپنے کندھوں کو باہم پیوست کر لو اور اپنی کمروں کو کس لو اور اپنے قدموں کو تیز کر دو.تم حضرت خاتم النبین افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اور حضرت مسیح محمدی کی جماعت ہو جن کے متعلق خدا نے قرآن میں وَ آخَرينَ مِنْهُمْ کے الفاظ فرمائے ہیں.پس ایسا عمل دکھاؤ اور دین کے رستے میں ایسی خدمت اور ایسی قربانی اور ایسی فدائیت کا نمونہ پیش کرو کہ دنیا کے اسود و احمر تمہاری طرف بے اختیار کھنچے آئیں.اور آسمان کے فرشتے تم پر رحمتیں بھیجیں.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک روحیں تم پر خوش ہوں اور خدائے ذوالمجد والعلی تمہیں اپنے انوار و برکات سے ڈھانک لے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - (محرره 31 مئی 1960 ء ) 24 خلافت کا نظام روزنامه الفضل ربوہ 4 جون 1960ء) قرآن شریف کی تعلیم اور سلسلۂ رسالت کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی رسول اور نبی کو بھیجتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ ایک آدمی دنیا میں آئے اور ایک آواز دے کر واپس چلا جاوے.بلکہ ہر نبی اور رسول کے وقت خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک تغیر اور انقلاب پیدا کرے.جس کے لئے ظاہری اسباب کے ماتحت ایک لمبے نظام اور مسلسل جدو جہد کی ضرورت
مضامین بشیر جلد چهارم 80 ہوتی ہے.اور چونکہ ایک انسان کی عمر بہر حال محدود ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نبی کے ہاتھ سے صرف تخم ریزی کا کام لیتا ہے اور اس تخمریزی کو انجام تک پہنچانے کے لئے نبی کے وفات کے بعد اس کی جماعت میں سے قابل اور اہل لوگوں میں یکے بعد دیگرے اس کے جانشین بنا کر اس کے کام کی تکمیل فرماتا ہے.یہ جانشین اسلامی اصطلاح میں خلیفہ کہلاتے ہیں کیونکہ خلیفہ کے معنے پیچھے آنے والے اور دوسرے کی جگہ قائم مقام بننے والے کے ہیں.یہ سلسلہ خلافت قدیم زمانہ سے ہر نبی کے بعد ہوتا چلا آیا ہے.چنانچہ حضرت موسی کے بعد یوشع خلیفہ ہوئے اور حضرت عیسی کے بعد پطرس خلیفہ ہوئے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے.بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ سلسلہ خلافت تمام سابقہ نبیوں کی نسبت زیادہ شان اور زیادہ آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہوا.اس نظام خلافت میں نبی کے کام کی تکمیل کے علاوہ ایک حکمت یہ بھی مد نظر ہوتی ہے کہ تاجودھکا نبی کی وفات کے وقت نبی کی نئی نئی جماعت کو لگتا ہے جو ایک ہولناک زلزلہ سے کم نہیں ہوتا.اس میں جماعت کو سنبھالنے کا انتظام ہے.خلفاء کے تقرر اور ان کے مقام کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خلافت کا منصب کسی صورت میں بھی ورثہ میں نہیں آ سکتا.بلکہ یہ ایک مقدس امانت ہے جو مومنوں کے انتخاب کے ذریعہ جماعت کے قابل ترین شخص کے سپرد کی جاتی ہے اور چونکہ نبی کی جانشینی کا مقام ایک نہایت نازک اور اہم روحانی مقام ہے.اس لئے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ گو بظاہر خلیفہ کا انتخاب لوگوں کی رائے سے ہوتا ہے مگر اس معاملہ میں خدا تعالیٰ خود آسمان سے نگرانی فرماتا ہے اور اپنے تصرف خاص سے لوگوں کی رائے کو ایسے رستہ پر ڈال دیتا ہے جو اس کے منشاء کے مطابق ہو.اس طرح گو بظاہر خلیفہ کا تقرر انتخاب کے ذریعہ عمل میں آتا ہے مگر دراصل اس انتخاب میں خدائی مخفی تقدیر کام کرتی ہے اور اسی لئے خدا نے خلفاء کے تقرر کو خود اپنی طرف منسوب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ خلیفہ ہم خود بناتے ہیں.یہ ایک نہایت لطیف روحانی انتظام ہے جسے شاید دنیا کے لوگوں کے لئے سمجھنا مشکل ہو.مگر حقیقت یہی ہے کہ خلیفہ کا تقرر ایک طرف تو مومنوں کے انتخاب سے اور دوسری طرف خدا کی مرضی کے مطابق ظہور پذیر ہوتا ہے.اور خدائی تقدیر کی مخفی تاریں لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظو را ایزدی کی طرف مائل کر دیتی ہے.پھر جب ایک شخص خدائی تقدیر کے ماتحت خلیفہ منتخب ہو جاتا ہے تو اس کے متعلق اسلام کا حکم یہ ہے کہ تمام مومن اس کی پوری پوری اطاعت کریں.اور خود اس کے لئے یہ حکم دیا ہے کہ وہ تمام اہم اور ضروری امور میں مومنوں کے مشورہ سے کام کرے اور گووہ مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں.بلکہ اگر مناسب خیال کرے تو مشورہ کو رڈ کر کے اپنی رائے سے جس طرح چاہے
81 مضامین بشیر جلد چهارم فیصلہ کر سکتا ہے.مگر بہر حال اسے مشورہ لینے اور لوگوں کی رائے کا علم حاصل کرنے کا ضرور حکم ہے.اسلام میں یہ نظام خلافت ایک نہایت عجیب و غریب بلکہ عدیم المثال نظام ہے.یہ نظام موجود الوقت سیاسیات کی اصطلاح میں نہ تو پوری طرح جمہوریت کے نظام کے مطابق ہے اور نہ ہی اسے موجودہ زمانہ کی ڈکٹیٹرشپ کے نظام سے تشبیہہ دے سکتے ہیں.بلکہ یہ نظام ان دونوں کے بین بین ایک علیحدہ قسم کا نظام ہے.جمہوریت کے نظام سے تو وہ اس لئے جدا ہے کہ جمہوریت میں صدر حکومت کا انتخاب میعادی ہوتا ہے.مگر اسلام میں خلیفہ کا انتخاب میعادی نہیں بلکہ عمر بھر کے لئے ہوتا ہے.دوسرے جمہوریت میں صدرِ حکومت بہت سی باتوں میں لوگوں کے مشورہ کا پابند ہوتا ہے مگر اسلام میں خلیفہ کو مشورہ لینے کا حق تو بے شک ہے مگر وہ اس مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں.بلکہ مصلحت عامہ کے ماتحت اسے رڈ کر کے دوسرا طریق اختیار کر سکتا ہے.دوسری طرف یہ نظام ڈکٹیٹر شپ سے بھی مختلف ہے.کیونکہ اول تو ڈکٹیٹر شپ میں میعادی اور غیر میعادی کا سوال نہیں ہوتا.اور دونوں صورتیں ممکن ہوتی ہیں.دوسرے ڈکٹیٹر کو عموما کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں حتی کہ وہ حسب ضرورت پُرانے قانون کو بدل کر نیا قانون جاری کر سکتا ہے مگر نظام خلافت میں خلیفہ کے اختیارات بہر صورت شریعت اسلامی اور نبی متبوع کی ہدایات کی قیود کے اندر محدود ہوتے ہیں.اسی طرح ڈکٹیٹر مشورہ لینے کا پابند نہیں مگر خلیفہ کو مشورہ لینے کا حکم ہے.الغرض خلافت کا نظام ایک نہایت ہی نادر اور عجیب و غریب نظام ہے جو اپنی روح میں تو جمہوریت کے قریب تر ہے مگر ظاہری صورت میں ڈکٹیٹر شپ سے زیادہ قریب ہے.مگر وہ حقیقی فرق جو خلافت کو دنیا کے جملہ نظاموں سے بالکل جدا اور ممتاز کر دیتا ہے وہ اس کا دینی منصب ہے.خلیفہ ایک انتظامی افسر ہی نہیں ہوتا بلکہ نبی کا قائم مقام ہونے کی وجہ سے اسے ایک روحانی مقام بھی حاصل ہوتا ہے.وہ نبی کی جماعت کی روحانی اور دینی تربیت کا نگران ہوتا ہے.اور لوگوں کے لئے اسے عملی نمونہ بننا پڑتا ہے اور اس کی سنت سند قرار پاتی ہے.( ابوداؤد کتاب السیۃ ) پس منصب خلافت کا یہ پہلو نہ صرف اسے دوسرے تمام نظاموں سے ممتاز کر دیتا ہے بلکہ اس قسم کے روحانی نظام میں میعادی تقریر کا سوال ہی نہیں اُٹھ سکتا.(ماہنامہ خالد.خلافت نمبر مئی 1960ء)
مضامین بشیر جلد چهارم عید الاضحیٰ کی تعیین کے متعلق ایک علمی اور عملی مسئلہ 82 عید مکہ مکرمہ کی رؤیت کی بناء پر منائی جائے یا کہ اپنے علاقہ کی رؤیت کے مطابق؟ چونکہ قمری مہینہ کی پہلی رات کے چاند کی رویت میں مختلف ملکوں اور مختلف علاقوں میں ایک حصہ دن یا ایک دن یا دو دن کا فرق ہوتا ہے.اور اس سال مکہ مکرمہ اور مغربی پاکستان کی رؤیت میں دو دن کا فرق پیدا ہو گیا تھا ( گو عرب اور پاکستان میں دو دن کا فرق سمجھ نہیں آیا کیونکہ ان ملکوں میں فاصلہ زیادہ نہیں ) اس وجہ سے نیز بعض دوسری وجوہات کی بناء پر اس سال خصوصیت سے بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ چونکہ حج مکہ مکرمہ کے ساتھ مخصوص ہے اور دنیا بھر میں صرف ایک ہی جگہ ہوتا ہے اور عید الاضحی کی نماز گویا حج ہی کا تتمہ ہے اور اس کے ساتھ ملحق ہو کر آتی ہے.اس لئے کہا جاتا ہے کہ کیوں نہ عالم اسلامی میں یک جہتی اور یک آہنگی پیدا کرنے اور یوم حج کی دعاؤں میں عالمگیر شرکت کا راستہ کھولنے کی غرض سے ہر جگہ عیدالاضحی کی تاریخ مکہ مکرمہ کی رؤیت کے مطابق مقرر کی جائے ؟ خصوصاً جبکہ آج کل تار اور ٹیلی فون اور ریڈیو اور وائرلیس کے ذریعہ اطلاعات کا نظام بھی بہت وسیع اور بے حد سریع ہو گیا ہے.اس کے مقابل پر اکثر احباب کا خیال ہے کہ چونکہ عید الفطر اور عیدالاضحی کی تقریبات کی بنیاد شریعت اسلامی میں قطعی طور پر قمری نظام اور رویت ہلال پر رکھی گئی ہے اور نئے چاند کی رویت لاز ماہر ملک میں کسی قدر مختلف ہوتی ہے اور عید الفطر کے متعلق تو حدیث میں خصوصیت کے ساتھ صراحت آتی ہے کہ صُومُوا لِرُؤيَتِهِ وَ أَفَطِرُو لرؤيته ( صحیح بخاری کتاب الصوم).یعنی روزے رمضان کے چاند کی رؤیت سے شروع کرو اور عید الفطر بھی شوال کے چاند کی رؤیت کے مطابق مناؤ اور عید الاضحیٰ بھی اسی اصول کے مطابق قمری نظام اور رویت ہلال پر مبنی قرار دی گئی ہے.اس لئے جیسا کہ چودہ سو سال سے آج تک بلا استثناء ہر اسلامی ملک میں ہوتا آیا ہے عید الاضحیٰ بھی اپنے علاقہ کی رؤیت کے مطابق منانی ضروری ہے ورنہ شریعت کے ایک بنیادی اصول میں جو سہولت عامہ کی بناء پر مقرر کیا گیا ہے رخنہ پیدا ہو جائے گا.اور غیر حاجیوں نے تو بہر حال یوم حج کی دعائیں اپنی اپنی جگہ پر ہی کرنی ہوتی ہیں جو پھر بھی یوم حج کے مطابق اپنے اپنے گھروں میں کی جاسکتی ہیں.اور یہ عاجز اسی طریق پر عامل رہا ہے وغیرہ وغیرہ.سو چونکہ یہ ایک اہم اور نازک سوال ہے اور صدیوں کے رائج شدہ طریق کو بدلنا بڑے خطرہ کا رستہ ہے اور اس کے بدلنے میں شریعت کے بیان کردہ قمری نظام اور علاقائی رؤیت ہلال کے اصول میں رخنہ پیدا ہوتا ہے اور یہ ساری باتیں بہت قابل غور ہیں.اس لئے اس معاملہ میں ہر امکانی پہلو کی تحقیق کے لئے جماعت کے علماء کو اس بارے میں انتہائی حزم و احتیاط کے ساتھ غور کرکے کسی پختہ نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے.
مضامین بشیر جلد چهارم 83 کیونکہ ایسے امور میں ذرا سی ٹھو کر بدعت کا راستہ کھول سکتی ہے.اس تحقیق میں لازماً قرآن مجید اور احادیث نبوی اور سنتِ صحابہ کے علاوہ ائمہ فقہ کے اقوال کی چھان بین کرنی ضروری ہوگی.اور جہاں تک جماعتِ احمدیہ کا تعلق ہے فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے زمانہ کی سنت کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا.علاوہ ازیں اس مسئلہ کے جغرافیائی پہلو کے متعلق ماہر ریاضیات عزیزم مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب آف لندن بھی بہت مفید مشورہ دے سکتے ہیں.بظاہر دونوں طرف کے دلائل کا خلاصہ بصورت ذیل سمجھا جا سکتا ہے: علاقائی رؤیت کے حق میں مکہ مکرمہ کی رؤیت کے حق میں (1) چونکہ اسلام نے عید الفطر اور عیدالاضحی ہر دو کو قمری نظام (1) حدیث میں صرف عید الفطر کے متعلق صراحت پر مبنی قرار دیا ہے.اور قمری نظام لازماً علاقائی رؤیت ہلال آتی ہے کہ وہ شوال کا چاند دیکھ کر منائی جائے مگر سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے عید الاضحی کو کسی دوسری جگہ کی عید الاضحی کے متعلق ایسی کوئی صراحت نہیں پائی رؤیت سے خواہ وہ جگہ کتنی ہی اہم اور کتنی ہی مقدس ہو وابستہ جاتی.نہیں کیا جا سکتا.ورنہ یہ بات ایک مسلم اسلامی حکم میں نا واجب دخل اندازی ہوگی.(2) اسلام نے عیدوں اور رمضان کو قمری نظام اور رویت (2) عیدالاضحی چونکہ حج کا تتمہ ہے اور حج مکہ مکرمہ ہلال کے ساتھ اس لئے وابستہ کیا ہے کہ اس میں سہولت کے ساتھ مخصوص ہے اور رمضان کی عبادت کی طرح عامہ کا پہلو مد نظر ہے جو دینِ متین کا ایک بنیادی اصول ہر بستی میں الگ الگ نہیں منایا جاتا اس لئے ہے.تا کہ ہر علاقہ کے لوگ اپنے اپنے رؤیت کی بناء پر ( جو عید الاضحیٰ کے معاملہ میں مکہ مکرمہ کی رؤیت مقدم ایک بدیہی امر ہے ) یہ عبادتیں بجالا سکیں اور کسی قسم کی علمی یا ہونی چاہئے.خارجی تحقیق کا سہارا نہ ڈھونڈنا پڑے.(3) یہ خیال کہ حدیث میں صرف عید الفطر کے متعلق (3) مکہ مکرمہ کی رؤیت کی مطابقت اختیار کرنے صراحت آتی ہے کہ رمضان کا چاند دیکھ کر روزے شروع میں بھی بہر حال عید کی بنیاد قمری نظام پر قائم رہتی کرو اور شوال کا چاند دیکھ کر عید مناؤ مگر عید الاضحی کے متعلق ہے اور شریعت کے بنیادی اصول میں فرق نہیں پڑتا ایسی کوئی حدیث نہیں پائی جاتی ایک غلط فہمی پر مبنی ہے.اور صرف علاقائی رؤیت اور مکہ مکرمہ کی رؤیت کا کیونکہ عید الفطر کے متعلق یہ صراحت اس لئے نہیں کی گئی کہ فرق پیدا ہوتا ہے.یہ اصول صرف عید الفطر کے ساتھ مخصوص ہے.بلکہ اس لئے کی گئی ہے کہ عید الفطر رویت ہلال کے معا بعد آتی ہے اور عیدالاضحیٰ دس دن کے وقفہ سے آتی ہے.ورنہ جب عید الاضحیٰ بھی قمری نظام کے ساتھ وابستہ ہے تو لازماً اس کے متعلق بھی رؤیت ہلال کا اصول تسلیم کرنا پڑے گا.
84 مضامین بشیر جلد چهارم (4) اگر مکہ مکرمہ کی رؤیت کی بناء پر تمام دنیا میں عید الاضحی (4) حج میں تمام عالم اسلامی کے نمائندے جمع منائی جائے تو اس کے نتیجہ میں مختلف ملکوں کے قمری حساب ہوتے ہیں اس لئے بھی اس عالمگیر عبادت اور اس میں سخت رخنہ پیدا ہو جائے گا.اور صرف عید کی تاریخ ہی کے تتمہ ( یعنی عید الاضحی ) میں ہم آہنگی اور تطابق نہیں بدلے گی بلکہ چاند کی ساری تاریخیں بدل جائیں گی ضروری ہے.اور ایک غیر قدرتی نظام قائم ہو جائے گا.(5) آج تک گزشتہ چودہ سوسال میں تمام اسلامی دنیا اپنے (5) حج کی اصل تاریخ میں جو توجہ اور شوق و ذوق اپنے علاقہ کی رؤیت کی بنیاد پر عیدالاضحی مناتی آئی ہے اور اور انہماک دعاؤں میں ہو سکتا ہے (خواہ لوگ اپنی اس کے خلاف کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ علاقائی رؤیت اپنی جگہ پر ہی دعائیں کریں ) وہ طبعا کسی دوسری کو ترک کر کے مکہ مکرمہ کی رؤیت پر بنیاد رکھی گئی ہو.اور تاریخ میں نہیں ہو سکتا اس لئے بھی مکہ مکرمہ کے چودہ سو سال کی متواتر سنت کو ترک کرنا بدعت اور فتنہ کا رستہ ساتھ مطابقت مقدم ہے.کھولتا ہے.(6) یہ احساس کہ حج کا دن خاص دعاؤں کا دن ہے اور (6) عید الاضحیٰ کے معاملہ میں مکہ مکرمہ کی رؤیت تاریخیں مختلف ہونے کی صورت میں ان دعاؤں میں کی مطابقت اختیار کرنے میں جو رخنہ چاند کی عالمگیر یک جہتی اور خاص توجہ باقی نہیں رہتی بظاہر کسی حد تک تاریخوں میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق کہا جاتا قابل توجہ نظر آتا ہے.مگر اس کا حل آسانی سے ہو سکتا ہے کہ ہے کہ وہ کسی دوسرے طریق پر باہم سمجھوتے سے جہاں جہاں مکہ مکرمہ کا یوم الجھ معلوم ہو جائے وہاں کے درست کیا جاسکتا ہے.گو دوسرے طریق کی مطابق اس دن بھی مسلمان اپنی اپنی جگہوں پر دعائیں تفصیل نہیں بتائی جاتی.کریں.کیونکہ غیر حاجی بہر حال اپنی اپنی جگہ ہی دعائیں کر سکتے ہیں.اور تمام صلحاء امت اسی طرح کرتے آئے ہیں اور یہ عاجزہ بھی اسی پر عامل رہا ہے.اس طرح یک جہتی بھی رہتی ہے اور قمری نظام کے معاملہ میں بھی کوئی رخنہ نہیں پیدا ہوتا.اس صورت میں بیشک دوسرے مسلمان اپنی رؤیت کے مطابق بھی ذوالحجہ کی نہم تاریخ کو دعائیں کریں.کیونکہ دعاؤں کی تکرار میں کوئی حرج نہیں بلکہ برکت ہی برکت ہے اور توجہ کا جمانا اور انہماک پیدا کرنا تو بہر حال دعا کرنے والے کی اپنی ذہنیت پر منحصر ہے.ورنہ توجہ نہ جمانے والے لوگ تو حج سے بھی خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں.
......مضامین بشیر جلد چهارم 85 (7) یہ خیال کہ مکہ مکرمہ کی رؤیت کے مطابق عید منانے (7) جب اس زمانہ میں ٹیلی فون اور ریڈیو اور تار میں کامل اور عالمگیر یک جہتی پیدا ہو جائے گی پھر بھی غلط اور وائرلیس کے ذریعہ اطلاعات کے ذرائع دنیا ہوگا.کیونکہ جغرافیہ دان جانتے ہیں کہ ہر علاقہ کے طلوع بھر میں بے حد وسیع ہو گئے ہیں.اور یہ سب چیزیں آفتاب اور غروب آفتاب نصف النہار کے وقت خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نعمتیں ہیں جو قرآنی آیت میں لازماً فرق ہوتا ہے.پس بظاہر ایک دن میں عید مناتے وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا (الزلزال : 3 ) ہوئے بھی مختلف علاقوں میں کچھ نہ کچھ فرق بہر حال رہے کے ماتحت ظاہر ہوئی ہیں تو ان سے فائدہ اٹھانا گا.یعنی کہیں صبح ہوگی اور کہیں دو پہر ہو گی اور کہیں شام چاہئے اور ان سے فائدہ نہ اٹھانا ایک گونہ کفرانِ ہوگی اور امریکہ وغیرہ میں تو دن ہی بدل جائے گا.تو اس نعمت میں داخل ہوگا وغیرہ وغیرہ.صورت میں یک جہتی اور عالمگیر صورت پھر بھی قائم نہیں رہتی.اور مکہ مکرمہ کی رؤیت کی مطابقت کی کوشش عملاً ہے سود ہو جاتی ہے.(۸) ریڈیو اور تار اور ٹیلی فون کی سہولت کے باوجود ہر گاؤں اور بستی میں لازماً مکہ مکرمہ کی رؤیت کا علم ہو جانا ممکن نہیں ہے اور افتراق اور اختلاف پھر بھی رہے گا.بلکہ پریشانی بڑھ جائے گی اور سہولت عامہ کا شرعی اصول بھی ٹوٹ جائے گا وغیرہ وغیرہ.اس بات کے اظہار میں غالباً کوئی حرج نہیں کہ یہ خاکسار ابھی تک اس معاملہ میں کوئی قطعی رائے قائم نہیں کرسکا.گو میرا طبعی اور غالب رجحان رائج طریق اور قدیم سنت کو قائم رکھنے کی طرف ہے.اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں شریعت کا بھی یہی منشاء معلوم ہوتا ہے.مگر بہر حال جب ایک سوال پیدا ہوا ہے تو اس کے متعلق تحقیق ہونی چاہئے.میں نے یہ چند سطور علالت کی حالت میں بڑی مشکل سے لکھی ہیں.کیونکہ چند دن سے ہیٹ سٹروک اور بعض دوسرے عوارض کی وجہ سے کمزوری بڑھ گئی ہے اور تحریر کے وقت ہاتھ کانپتا ہے.دوست دعا فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسلام اور احمدیت کی قلمی خدمت سے زندگی بھر محروم نہ ہونے دے.کیونکہ بظاہر میری یہ حقیر سی خدمت میرا سرمایہ حیات ہے اور وہ بھی محض خدا کے فضل و توفیق سے.ورنہ دوسرے اعمال کے لحاظ سے تو خدائے عفو و غفور کی ستاری ہی ستاری ہے اور بس.(محرره 16 جون 1960ء) (روز نامہ الفضل 21 جون 1960ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 20 ایک نو جوان کے دوسوالوں کا جواب 86 کیا ابو جہل کا یہ لقب لَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ کے خلاف نہیں؟ جب حضرت عثمان نے خلافت سے دستبر داری سے انکار کیا تو حضرت امام حسن کیوں اس پر رضامند ہو گئے؟ ( کراچی کے ایک نوجوان میاں عبدالمجید صاحب ناصر نے اپنے ایک خط میں دوسوال لکھ کر بھجوائے ہیں.ان سوالوں کا مختصر سا اصولی جواب دوسرے دوستوں کے فائدہ کے لئے ذیل میں شائع کیا جاتا ہے.) مکرم ومحترم عبدالمجید صاحب ناصر.کراچی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا خط موصول ہوا.اگر آپ سوچنے کی عادت ڈالیں تو آپ کو ان چھوٹے چھوٹے مسائل میں پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ آپ خود ہی انہیں حل کر لیا کریں اور آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو.ہم اپنے نو جوانوں سے یہی توقع رکھتے ہیں.بہر حال بہت مختصر طور پر بلکہ صرف اشارہ کے رنگ میں لکھتا ہوں.(1) پہلا سوال آپ کا یہ ہے کہ جب ابو جہل کا اصل نام اور تھا تو پھر لَا تَنَابَزُوا بالالقاب (الحجرات: 12) کے قرآنی حکم کے خلاف اس کا نام ابو جہل کیوں رکھا گیا ؟ سو اس کے متعلق یہ جاننا چاہئے کہ ابو جہل کیونکہ ایک عظیم الشان رسول بلکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں کھڑا ہوا تھا اور اس نے آپ کی مخالفت کو انتہا تک پہنچا دیا تھا.اور یہ مخالفت بھی حد درجہ مکروہ قسم کی نہایت جاہلانہ طریق کی تھی.اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ نے خدائی منشاء کے ماتحت اس کا نام ابو جہل رکھا.جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ گویا جہالت کا باپ ہے.یعنی جہالت میں انتہا تک پہنچا ہوا ہے اور اس میدان میں گویا نا پاک بچے پیدا کر رہا ہے.اور یہ نام کوئی طعنہ نہیں تھا بلکہ اس کی حالت کے عین مطابق تھا.کیونکہ وہ اپنی ناپاک مخالفت اور جہالت اور فسادی کا رروائیوں میں تمام اخلاقی اور انسانی حدود سے تجاوز کر گیا تھا اور اسے امن اور انصاف اور دیانتداری کا کوئی پاس نہیں رہا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خدا کے عظیم الشان رسول تھے اور تمام صحابہ آپ کے ساتھ اور آپ کے ہم نوا اور تابع تھے اس لئے آپ کا یہ فیصلہ گویا ایک خدائی حج کا فیصلہ تھا اور بالکل حقیقت پر
مضامین بشیر جلد چهارم مبنی تھا.طعن نہیں تھا.87 باقی رہا یہ قرآنی ارشاد کہ وَلَا تَنَابَزُوا بالألقاب (الحجرات: 12) سو یہ بالکل درست ہے.مگر یہ ایسے لوگوں کے متعلق ہے جو بلا سوچے سمجھے دوسرے لوگوں کا بلا وجہ بیاعادتا کوئی نام رکھ دیتے ہیں.اور اس میں طعن اور استہزاء کا طریق اختیار کرتے ہیں.پس فرق ظاہر ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ابو جہل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد کی بجائے نعوذ باللہ مذتم کہ کر پکارا کرتا تھا.سوا بوجہل کا نام خدا کی طرف سے اس کے اس ناپاک طعن کا جواب تھا اسے عام لوگوں کے القاب دینے سے کوئی دور کی بھی نسبت نہیں.(2) دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کو خدائی منشاء اور ارشاد نبوی کے خلاف جانا اور سختی سے انکار کیا.بلکہ اس کی وجہ سے مرنا تک قبول کیا تو حضرت امام حسن نے کیوں خلافت سے دستبرداری دے دی؟ سواس کے متعلق یہ یا درکھنا چاہئے کہ اول تو حضرت عثمان نے اپنے متعلق خدا اور رسول کے اس ارشاد کی تعمیل کی کہ ”خدا تمہیں ایک قمیص پہنائے گا اور لوگ اسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے نہ اتارنا اور اس کے مقابل پر حضرت امام حسنؓ نے اپنے متعلق رسول کے ارشاد کو پورا کیا جو یہ تھا کہ ” میرا یہ بیٹا دو مسلمان گروہوں میں صلح کرائے گا.پس دونوں سرخرو ہو گئے اور کوئی اعتراض نہ رہا.علاوہ ازیں حضرت امام حسنؓ کی خلافت سے دستبرداری اپنی خلافت کے استحکام سے پہلے تھی.اور استحکام سے پہلے کی دستبرداری جو ایک نیک غرض سے کی گئی ہو اور اس میں اعلیٰ جماعتی مفاد مقصود ہوں اور خلیفہ برضائے خود اس پر اتفاق کر جائے قابلِ اعتراض نہیں.قرآن شریف نے وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمْ (النور: 56) کے الفاظ میں یہی ارشاد فرمایا ہے کہ تمکنت کے بعد خلافت کا استحکام ہوتا ہے.اور چونکہ حضرت امام حسن کا یہ فعل تمکنت سے پہلے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق تھا اس لئے اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا.مزید وضاحت کے لئے آپ اس بارے میں میری کتاب ”سیرت خاتم النبین حصہ دوم‘“ کا آخری باب بھی جو خلافت کے متعلق ہے ضرور ملاحظہ کریں.اس سے ظاہر ہوگا کہ حضرت امام حسنؓ کی دستبرداری خلافت کے استحکام اور تمکنت سے پہلے تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق تھی.مگر
مضامین بشیر جلد چهارم 88 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے دستبرداری کا مطالبہ آپ کی خلافت کے استحکام اور تمکنت کے بعد تھا اور باغیوں کی طرف سے تھا.اور پھر یہ مطالبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے صریح خلاف تھا.پس فرق ظاہر ہے.فَافُهُمْ وَ تَدَبَّرُ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ - فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد ( محررہ 11 جولائی 1960 ء) مقبرہ بہشتی کا حقیقی مقام ( روزنامہ الفضل 27 جولائی 1960 ء) دینداری اور قربانی کی شرط پوری کرنے والا خدا کے فضل سے یقینا جنتی ہے لاہور سے اطلاع ملی ہے کہ ایک صاحب نے جو مخلص اور دیندار ہونے کے باوجود جلد بازی میں ذاتی ریمارک پاس کرنے کے عادی ہیں ایک ایسے شخص کے متعلق جو فوت ہو کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکا ہے دوران گفتگو میں اس قسم کے ریمارک کئے کہ اس میں یہ یہ عیب تھا.اور جب حاضر الوقت اصحاب میں سے ایک شخص نے انہیں ٹوکا کہ ایسے فوت شدہ شخص کے خلاف اس قسم کے ریمارک کرنا جو فوت ہو کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکا ہے بہت نا مناسب اور خلاف تعلیم اسلام اور خلاف تعلیم احمدیت ہے تو کہا جاتا ہے ( وَاللهُ اَعْلَمُ ) کہ ان صاحب نے حسب عادت جلدی سے فرمایا کہ اگر وہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکا ہے تو پھر کیا ہوا وہ کبھی بھی اپنے فلاں فلاں عیب کی وجہ سے بخشا نہیں جائے گا وغیرہ وغیرہ.اگر یہ رپورٹ درست ہے ( اور میں یہ بات اگر کے الفاظ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں ) تو نہ صرف اخلاقا اور شرعاً بہت قابلِ اعتراض ہے بلکہ نظام وصیت کی بشارات ربانیہ کے بھی قطعی طور پر خلاف اور سخت قابلِ ملامت ہے.کیونکہ اول تو حدیث میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا صریح ارشاد ہے کہ: اذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْر یعنی اے مومنو! تم اپنے فوت ہونے والے بھائیوں اور بہنوں کا ذکر ہمیشہ خیر کے رنگ میں کیا کرو.اور اگر بالفرض ان میں کوئی کمزوری بھی تھی تو اسے حوالہ بخدا کرتے ہوئے اس کے ذکر سے اجتناب کرو.
مضامین بشیر جلد چهارم 89 پس ان صاحب کی پہلی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے ایک فوت شدہ احمدی کے ذکر خیر کو ترک کر کے ذکرِ شر کا رستہ اختیار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صریح ارشاد کے خلاف قدم مارا کہ اپنے مرنے والوں کو ذکر خیر سے یاد کیا کرو.علاوہ ازیں کسی شخص کی نیکی یا کمزوری کا حقیقی علم صرف خدا کو ہے جو علام الغیوب ہے.اور وہ اس بات کو بھی جانتا ہے کہ کسی انسان کی نیکیوں اور کمزوریوں میں سے کس کو غلبہ حاصل ہے.انسان کی نظر اس معاملہ میں دھوکا کھا سکتی ہے لیکن خدا کبھی دھوکا نہیں کھاتا.کیونکہ وہ دلوں کے پوشیدہ خیالات اور مخفی نیکیوں اور مخفی بدیوں تک کو جانتا ہے.پس عقلاً بھی ایسے معاملات میں امن اور سلامتی کا طریق یہی ہے کہ انسان اپنے مرنے والے بھائی یا بہن کے متعلق حسن ظنی سے کام لے اور اپنی زبان کو بدگوئی سے بچا کر رکھے.کیونکہ بدگمانی اور بد گوئی ہر حال میں بہت بری اور مکروہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ : تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بدگمان سے ڈرتے رہو عقاب خدائے جہان سے شائد تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شائد وہ بد نہ ہو جو تمہیں تمہیں ہے وہ بدنما شائد تمہارے فہم کا ہی کچھ قصور ہو شائد وہ آزمائش رب غفور ہو بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار تم کو نہ علم حقیقت ہے : ہے آشکار پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے ڈرتے رہو عقوبت رب العباد سے دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا وہ اک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا ہے حدیث سیدنا سید الوری در شین اردو)
مضامین بشیر جلد چهارم 90 مگر اس معاملہ میں سب سے بڑی بات جو اعتراض کرنے والے صاحب کے قول کو سخت بھیانک صورت دے دیتی ہے وہ نظام وصیت کی خلاف ورزی سے تعلق رکھتی ہے.جیسا کہ سب دوستوں کو علم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وصیت کا نظام خدا تعالیٰ کے خاص ارشاد اور خاص بشارات کے ماتحت قائم کیا تھا اور اس کے لئے دین داری اور نیکی اور مالی قربانی کی شرط لگائی تھی اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ جولوگ ان شرائط کو پورا کر کے جماعتی نظام کے ماتحت مقبرہ بہشتی میں داخل ہوں گے وہ خدا کے فضل سے یقینا جنت میں جائیں گے.اور اگر ان میں کوئی کمزوری بھی ہوگی ( کیونکہ کوئی نہ کوئی کمزوری کم و بیش اکثر انسانوں میں ہوتی ہے ) تو اللہ تعالیٰ ان کی نیکی اور قربانی اور اپنی ذرہ نوازی کی وجہ سے ان سے عفو اور بخشش کا سلوک فرمائے گا اور انہیں اپنے فضل سے جنت میں جگہ دے گا.اور اسی لئے اس مقبرہ کا نام خدائی بشارت کے ماتحت بہشتی مقبرہ رکھا گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت میں صراحت اور وضاحت سے فرماتے ہیں کہ: ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا.اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں.اس قبرستان کے لئے (خدا کی طرف سے ) بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ مقبرہ بہشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اُنْزِلَ فِيهِ كُلُّ رَحْمَة.یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اُتاری گئی ہے.اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو ( علی قدر مراتب ) اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں.“ رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 316-318) اس زبر دست خدائی بشارت کے ہوتے ہوئے جو شخص مقبرہ بہشتی کے کسی مدفون مرد یا مدفون عورت کے خلاف طعن اور اعتراض کی زبان کھولتا ہے وہ یقینا ایک خطرناک غلطی کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ وہ خدائی نظام وصیت پر بھی ایک ایسی ضرب لگاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف خدا تعالیٰ کی غیر معمولی بشارتوں پر زد پڑتی ہے.بلکہ نظام وصیت کے متعلق بھی جماعت میں بددولی کا رستہ کھلتا ہے اور اس کی کشش کو سخت دھکا لگتا ہے.پس اس شخص کو تو بہ کرنی چاہئے ورنہ وہ یقینا خدا کے حضور خطا کار شمار ہوگا.بے شک جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے کوئی نہ کوئی کمزوری اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے اور خدا کے خاص الخاص لوگوں یعنی نبیوں وغیرہ کے سوا کوئی شخص بھی کمزوریوں سے کلیتہ پاک نہیں.اور ہوسکتا ہے بلکہ بالکل ممکن ہے کہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے والوں میں سے بھی بعض لوگوں میں کم و بیش کمزوریاں پائی جاتی ہوں.مگر جب خدا نے جو عفو و غفور ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 91 اپنے وعدہ کے مطابق انہیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانک لیا اور ان کی کمزوریوں سے درگز رفرمایا اور ان کا انجام اچھا ہو گیا تو اس خوش قسمت جماعت کے خلاف زبان کھولنا اور انہیں ان کے مرنے اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کے بعد نا گوار طعن کا نشانہ بنانا ایسی جسارت ہے جو کچی تو بہ کے سوا ہر گز معاف نہیں ہوسکتی.پس میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ خدا سے ڈرو اور اپنے مرنے والوں اور مقبرہ بہشتی میں جگہ پانے والوں پر اعتراض کر کے اپنی عاقبت کو خطرہ میں نہ ڈالو اور دوسروں کے عیب گننے کی بجائے خود اپنے انجام کی فکر کرو.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس حکیمانہ شعر کو بھی نہ بھولو کہ : ے بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار ( در تمین اردو) خود میرا یہ حال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان متضرعانہ دعاؤں کے باوجود جو حضور نے اپنی اولاد کے متعلق فرمائی ہیں.اور پھر ان خدائی بشارتوں کے باوجود جو حضور کو اپنی اولاد کے متعلق خدا کی طرف سے ملتی رہی ہیں.اور پھر اس بات کے بھی باوجود کہ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل وعیال کو وصیت سے مستثنی قرار دیا ہے.میں ہمیشہ اپنے انجام سے متعلق خائف رہتا اور خدا سے بخشش کی دعا مانگتا رہتا ہوں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیارا قول کبھی میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا کہ حقیقتا نجات خدا کے فضل سے ہے نہ کہ انسان کے اپنے عمل سے.میرا اصل مضمون تو اس جگہ ختم ہو گیا مگر ایک ضمنی سوال کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.وہ یہ کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی خاص جگہ میں دفن ہونا انسان کو جنتی بنادے جبکہ اخروی نجات خدا کے فضل پر موقوف ہے.اور انسان کی نیکی اور دینداری اس کے فضل کی جاذب بنتی ہے؟ سوا اس کے متعلق اچھی طرح خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ مقبرہ بہشتی کی مٹی کسی شخص کو جنتی بنا دیتی ہے بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بار بار صراحت فرمائی ہے.چونکہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کے لئے نیکی اور دینداری اور قربانی کی شرط مقرر کی گئی ہے.اس لئے مقبرہ بہشتی کے تعلق میں خدا تعالیٰ ایسا تصرف فرماتا ہے کہ وہی شخص اس مقبرہ میں دفن ہوتا ہے جو خدا کے علم میں جنتی ہوتا ہے.پس مقبرہ بہشتی کی مٹی کسی کو جنتی نہیں بناتی بلکہ اس کے برعکس وہی شخص اس مقبرہ میں دفن ہونے میں کامیاب ہوتا ہے جو خدا کے علم میں اپنی دین داری اور نیکی کی وجہ سے جنتی ہوتا ہے.اور اس کی نیکیوں کو اس کی کمزوریوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے.چنا نچہ کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک شخص بظاہر موصی ہونے کے باوجود اپنی کسی مخفی بے دینی کی وجہ سے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے سے محروم ہو گیا.دوسری
مضامین بشیر جلد چهارم 92 طرف ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ جو شخص مقبرہ بہشتی میں دفن نہ ہو وہ نعوذ باللہ جنتی نہیں.کیونکہ مقبرہ بہشتی کے علاوہ بھی خدائی رحمت کا دروازہ کھلا ہے.بلکہ ہمارا عقیدہ صرف یہ ہے کہ اس مقبرہ میں دفن ہونے والا خدا کے فضل سے جنتی ہے.اور اگر اس میں کوئی کمزوری ہے تو خدا تعالیٰ اپنی ذرہ نوازی سے اس سے عضواور بخشش کا سلوک فرماتا ہے.جو شخص اس زمانہ میں اپنے لئے خدائی بخشش کو یقینی بنانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ دین داری اور قربانی کی شرط پوری کرتے ہوئے وصیت کے نظام میں داخل ہو جائے.کیونکہ مادیت کے اس زمانہ میں یہی امن اور سلامتی کا یقینی حصار ہے.فَافُهُمْ وَتَدَبَّرُ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ - وَاخِرُ دَعُونَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ - وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا ِباللهِ الْعَظِيم - 28.......روزنامه الفضل ربوہ 12 جولائی 1960 ء) مرحوم شیخ محمد یعقوب در ولیش بہت دیندار اور مخلص اور وفادار احمدی تھے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مکرم شیخ محمد یعقوب درویش صاحب مرحوم کی وفات کی اطلاع الفضل میں بھجواتے ہوئے آپ کے اوصاف کا یوں ذکر فرمایا.مرحوم شیخ محمد یعقوب صاحب چنیوٹ متصل ربوہ کے رہنے والے تھے.لیکن ملکی تقسیم کے وقت خدمت سلسلہ کی غرض سے قادیان چلے گئے تھے اور پھر انہوں نے باوجود لمبی اور تکلیف دہ بیماری کے یہ سا را عرصہ بڑے اخلاص اور صبر واستقلال اور وفاداری کے ساتھ قادیان میں گزارا اور اپنے ایام درویشی میں کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں پیدا ہونے دیا.بلکہ دوسروں کے لئے اخلاص اور وفاداری کا پاک نمونہ قائم کیا.مرحوم اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے بچوں کے پاس علاج کی غرض سے ڈھا کہ مشرقی پاکستان چلے گئے تھے اور وہیں وفات پائی.ان کے بچوں نے جو خدا کی فضل سے باپ کی طرح مخلص ہیں نہ صرف ان کی خدمت اور تیمارداری کا پورا پورا حق ادا کیا اور صرف کثیر سے ان کا جنازہ ہوائی جہاز کے ذریعہ لاہور اور پھر ٹرک کے ذریعہ ربوہ لائے اور باپ کی آخری خدمت سے سبکدوش ہوئے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ
مضامین بشیر جلد چهارم 93 مرحوم کے نوے سالہ والد شیخ تاج محمود صاحب چنیوٹ میں رہتے ہیں اور بہت ہی نیک اور مخلص بزرگ ہیں.جن کا اکثر وقت مسجد میں گزرتا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے ضعیف العمر باپ کو صبر جمیل کی توفیق عطا کرے.اور مرحوم کے چاروں بیٹوں اور دیگر عزیزوں کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور دین و دنیا کی حفاظت سے نوازے.آمیــن يـــا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 15 جولائی 1960 ء) روزنامه الفضل ربوہ 17 جولائی 1960 ء ) 29 ایک عزیز کے دوسوالوں کا جواب (1) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی لمبی بیماری میں کیا حکمت ہے؟ (2) حضرت خلیفہ اول کے بعض بچوں نے کیوں ٹھو کر کھائی ہے؟ عزیز مولوی برکات احمد صاحب را جیکی نے قادیان سے دوسوال لکھ کر بھجوائے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان سوالوں کا جواب اخبار میں شائع کیا جائے.میری طبیعت آج کل کچھ اچھی نہیں رہتی مگر ایک تو مولوی برکات احمد صاحب کے اخلاص و محبت کے احترام میں اور دوسرے دیگر دوستوں کے فائدہ کے خیال سے ذیل کا مختصر سا جواب الفضل میں بھجوا رہا ہوں.بسم الله الرحمن الرحيم عزیزم مکرم مولوی برکات احمد صاحب قادیان نحمده و نصلى على رسوله الكريم السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا خط نمبر 60-7-266/9 موصول ہوا.آپ نے جو دوسوالات اپنے خط میں لکھے ہیں وہ دراصل آپ کے جذبہ محبت کی وجہ سے آپ کے دل میں طبعاً پیدا ہوئے ہیں.ورنہ اگر آپ سوچتے تو عقلاً ان کا جواب آسانی سے سمجھ آسکتا تھا.بہر حال آپ کی خواہش کے احترام میں مختصر طور پر کھتا ہوں: (1) آپ کا پہلا سوال حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی لمبی بیماری سے تعلق رکھتا ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 94 جس کی وجہ سے حضور فی الحال اس رنگ میں جماعت کی نگرانی اور ہدایت نہیں فرما سکتے جیسا کہ صحت کی حالت میں فرماتے تھے.اور آپ لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق تو خدا کی فلاں فلاں بشارات تھیں وغیرہ وغیرہ.سواس کے متعلق یہ تو یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ جسمانی نظام کے ماتحت بیماری ہرانسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور کوئی شخص بھی اس سے مستی نہیں.حتی کہ قرآن مجید نے بعض نبیوں کی بیماریوں اور جسمانی کمزوریوں کا بھی ذکر کیا ہے.باقی رہ بشارات کا تعلق سو وہ خدا کے فضل سے پوری ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں.اور جس غیر معمولی رنگ میں حضرت خلیفہ اصسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں جماعت نے ترقی کی ہے اور دنیا کے چارا کناف میں اسلام پھیل رہا ہے اور ترقی کر رہا ہے وہ ظاہر وعیاں ہے.مگر اصولی طور پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اسلام کامل توحید کا مذہب ہے اور اسلام کا خدا مختلف صورتوں میں مومنوں کو تو حید کا سبق دیتا رہتا ہے.چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کائنات عالم کا مرکزی نقطہ تھے فوت ہوئے اور آپ کا وہ مقام تھا کہ آپ کو خدائے عرش نے مخاطب کر کے فرمایا کہ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاك.اور آپ کی وفات بھی بظاہر بے وقت سمجھی گئی حتی کہ حضرت عمر جیسے انسان کو بھی عارضی طور پر لغزش آگئی.اس وقت حضرت ابو بکر نے جو بلا ریب افضل الصحابہ تھے یہ فولادی نوعیت کے الفاظ فرمائے کہ: أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَى لَا يَمُوتُ.(بخاری کتاب المناقب باب قول عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) یعنی جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں مگر جو شخص خدا کا پرستار ہے وہ تسلی رکھے کہ خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی.اس طرح جب حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ لوگوں میں حضرت خالد کی غیر معمولی فتوحات کی وجہ سے ایک گونه مخفی شرک کے خیالات پیدا ہور ہے ہیں تو آپ نے حضرت خالد کو فوراً معزول کر کے مسلمانوں کو کچی تو حید کا سبق دیا.پس مکرم مولوی صاحب آپ کے لئے بھی ان واقعات میں ایک عبرت ہے اور خدا چاہتا ہے کہ آپ کامل توحید کے دامن کو مضبوطی سے پکڑیں.یہ بات میں نے صرف اصولی رنگ میں لکھی ہے ورنہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بلند مقام کو خوب پہچانتا ہوں.اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ حضور خدا کے فضل سے زندہ سلامت ہیں اور جماعت کے لئے دعا ئیں فرمارہے ہیں اور کبھی کبھی اپنی ہدایات سے بھی نوازتے ہیں.اور جماعت بھی شب وروز حضور کے لئے دعائیں کر رہی ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 95 اور ہم سب امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کو صحت دے کر پھر پہلے کی طرح فعال زندگی عطا کرے گا.اور اگر حضور کے متعلق کوئی وعدہ ابھی تک پورا ہونے والا باقی ہے تو وہ بھی انشاء اللہ ضرور پورا ہوگا.اور بہر حال اسلام کا قدم درجہ بدرجہ ترقی اور بلندی کی طرف اٹھتا چلا جائے گا تا وقتیکہ دائی اور عالمگیر غلبہ کا دن آجائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام اپنی کامل شان میں پورا ہو کہ: بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد (2) آپ کا دوسرا سوال حضرت خلیفتہ اُسی اول رضی اللہ عنہ کی اولاد کے متعلق ہے.آپ نے لکھا ہے کہ آپ سنتے آئے ہیں کہ کسی متقی اور صالح انسان کی اولادکو خداسات پشتوں تک بھوکا نہیں مرنے دیتا.سو بے شک یہ بات عام حالات میں درست ہے مگر آپ کو یہ کس نے بتایا کہ حضرت خلیفتہ امسیح اول کی اولاد بھوکی مر رہی ہے؟ انہیں خدا کے فضل سے کافی رزق مل رہا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ وہ رزق سے محروم نہیں ہوں گے.باقی رہاہدایت اور گمراہی کا معاملہ سواس کو آپ کے موجودہ سوال سے کوئی تعلق نہیں.کیا حضرت نوح کا بیٹا جو ہدایت سے محروم رہا ایک نبی کی اولاد نہیں تھا ؟ اور حضرت سلیمان کا بیٹا جسے خدا نے قرآن میں گوشت کے ایک لوتھڑے سے تشبیہ دی ہے نبی کی اولاد نہیں تھا؟ اور کیا ہمارا بھائی مرز افضل احمد جو احمدیت سے محرومی کی حالت میں ہی فوت ہو گیا ایک مرسل من اللہ کی اولاد نہیں تھا ؟ پس آپ ان دو مختلف باتوں کو خلط ملط کر کے پریشان نہ ہوں کیونکہ رزق کا معاملہ جدا گانہ ہے اور ہدایت اور گمراہی کا معاملہ بالکل جدا گانہ ہے.باقی رہا یہ سوال کہ جب خدا تعالیٰ صالح لوگوں کی اولاد کے لئے مادی رزق کا سامان مہیا کرتا ہے تو روحانی رزق کا سامان مہیا کیوں نہیں کرتا حالانکہ روحانی رزق زیادہ ضروری اور زیادہ افضل ہے؟ سو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے خدا کے مادی نظام اور روحانی نظام کے باریک فرق کو گہری نظر سے مطالعہ نہیں کیا.مادی رزق تو خدا کے خالق ہونے کی صفت سے تعلق رکھتا ہے جو سب مخلوق کے لئے عام ہے اور نیک اور بد سب اس میں حصہ دار ہیں.مگر روحانی رزق کے لئے خدا کی یہ سنت ہے کہ بندوں کی ہدایت کا سامان تو وہ ضرور سب کے لئے یکساں مہیا کرتا ہے مگر جبر سے کام لے کر انہیں زبردستی ہدایت کی طرف کھینچ کر نہیں لاتا تاکہ نیک و بد میں تمیز قائم رہے اور جزا سزا کا استحقاق واضح ہو جائے.اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کے ذکر میں خدا تعالیٰ نے صراحت فرمائی ہے کہ دنیا کا رزق تو ہم سب کو دیں گے مگر دین کے رستہ میں مجرموں کو سزا کے بغیر بھی نہیں چھوڑیں گے.(البقرہ: 127)
مضامین بشیر جلد چهارم 96 پھر آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ابھی تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اولاد زندہ ہے اور بعید نہیں کہ آگے چل کر خدا ان کو ہدایت دے دے اور یہی ہماری دعا ہے.اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے دولڑ کے اور ایک لڑکی اور ایک بیوی ہدایت کی حالت میں ہی فوت ہو کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکے ہیں.پس فرق ظاہر ہے اور آپ آسانی کے ساتھ اس معاملہ میں سوچ سکتے تھے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر رہے.اگر آپ چاہیں تو میرا یہ خط شائع کر سکتے ہیں.فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد 14 جولائی 1960ء روزنامه الفضل ربوہ 24 جولائی 1960ء) حضرت سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کے اوصاف حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب کی علالت کی اطلاع الفضل میں بھجواتے ہوئے آپ کے اوصاف کا ذکر یوں کیا.حضرت سیٹھ صاحب کا وجود بہت مبارک ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو اخلاص اور جذبہ خدمت عطا کیا ہے وہ حقیقتاً قابل رشک ہے.وہ اپنے اخلاص اور نیکی اور خدمات کی وجہ سے اس طبقہ میں شامل ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں سابقون کے لفظ سے یاد کیا ہے.یعنی جو بعد میں آتے ہیں اور اپنی نیکیوں اور قربانیوں کی وجہ سے آگے نکل جاتے ہیں.احباب جماعت کا فرض ہے کہ انہیں اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.مومنانہ اخوت کا یہ اولین فریضہ ہے جسے دوستوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مَنْ كَانَ فِي عَوْن أَخِيْهِ كَانَ اللَّهُ فِي عَوْنِهِ ( محررہ 23 جولائی 1960ء) روزنامه الفضل ربوہ 26 جولائی 1960 ء)
مضامین بشیر جلد چهارم غالب کون ہوگا.اشتراکیت یا اسلام؟ مسٹر خروشیف کا ساری دنیا کو چیلنج 97 آج کل اشترا کی روس کے وزیر اعظم مسٹر خروشیف خاص طور پر جوش میں آکر گرج اور برس رہے ہیں.ہمیں ان کے سیاسی نعروں سے کوئی سروکار نہیں.وہ جانیں اور ان کے مغربی حریف برطانیہ اور امریکہ.گو طبعاً ہمیں مغربی ممالک سے زیادہ ہمدردی ہے کیونکہ ایک تو وہ ہمارے اپنے ملک پاکستان کے حلیف ہیں اور دوسرے جہاں برطانیہ اور امریکہ کم از کم خدا کی ہستی کے قائل ہیں وہاں روس نہ صرف کٹر قسم کا دہر یہ ہے بلکہ نعوذ باللہ خدا پر ہنسی اُڑاتا اور مذہب کے نام و نشان کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہے.لیکن اس وقت جو خاص بات میرے سامنے ہے وہ مسٹر خروشیف کا وہ اعلان ہے جو 7 جولائی 1960ء کے اخباروں میں شائع ہوا ہے.اس اعلان میں مسٹر خروشیف اپنے مخصوص انداز میں دعوی کرتے ہیں کہ بہت جلد اشترا کی جھنڈ ا ساری دنیا پر لہرانے لگے گا اور اشتراکیت عالمگیر غلبہ حاصل کرے گی.چنانچہ اس بارے میں اخباری رپورٹ کے الفاظ درج ذیل کئے جاتے ہیں.آسٹریا 6 جولائی.روسی وزیر اعظم مسٹر خروشیف نے منگل کے دن یہاں کہا ہے کہ مجھے کمیونسٹ ملک کے سوا کسی دوسرے ملک میں جا کر کوئی خوشی نہیں ہوتی.آپ نے مزید کہا کہ میں ساری دنیا پر اشترا کی جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور مجھے اس وقت تک زندہ رہنے کی خواہش ہے.مجھے توقع ہے کہ میری اس خواہش کی تکمیل کا دن دور نہیں.“ 66 (نوائے وقت لاہور 7 جولائی 1960 ء) خواہش کرنے کا ہر شخص کو حق ہے مگر ہم مسٹر خروشیف کو کھلے الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی.مسٹر خروشیف ضرور تاریخ دان ہوں گے اور انہوں نے لازماً تاریخ عالم کا مطالعہ کیا ہوگا.کیا وہ ایک مثال بھی ایسی پیش کر سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی حصہ میں اور تاریخ عالم کے کسی زمانہ میں توحید کے مقابلہ پر شرک یاد ہریت نے غلبہ پایا ہو؟ وقتی اور عارضی غلبہ کا معاملہ جدا گانہ ہے ( کیونکہ وہ نہر کے پانی کی اس ٹھوکر کا رنگ رکھتا ہے جس کے بعد پانی اور بھی زیادہ تیز چلنے لگتا ہے ) جیسا کہ حضرت سرور کائنات فجر رسل صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جنگ احد میں ہوا.مگر لمبا یا مستقل غلبہ کبھی بھی تو حید کے سچے علمبرداروں کے مقابل پر دہریت اور شرک کی طاقتوں کو حاصل نہیں ہوا اور نہ انشاء اللہ کبھی ہو
98 مضامین بشیر جلد چهارم گا.قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ: كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي (المجادلة: 22) یعنی خدا نے یہ بات لکھ رکھی ہے کہ شرک اور دہریت کے مقابل پر اس کی توحید کے علمبر دار رسول ہمیشہ غالب رہیں گے.زیادہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں.حضرت موسی کی طرف دیکھو کہ وہ کس کمزوری کی حالت میں اٹھے اور ان کے سامنے فرعون کی کتنی زبر دست طاغوتی طاقتیں صف آرا تھیں مگر انجام کیا ہوا.اس کے لئے لنڈن کے عجائب خانہ میں فرعون کی نعش ملاحظہ کرو.حضرت عیسی کا یہ حال تھا کہ أَيْلى أَيْلِى لِمَا سَبَقْتَنِي کہتے کہتے بظاہر رخصت ہو گئے.مگر آج ان کے نام لیوا ساری دنیا پرسیل عظیم کی طرح چھائے ہوئے ہیں.حضرت فخر رسل صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھاؤ کہ عرب کے بے آب و گیاہ ریگستان میں ایک یتیم الطرفین بچہ خدا کا نام لے کر اٹھتا ہے اور سارا عرب اس پر یوں ٹوٹ پڑتا ہے کہ ابھی بھسم کر ڈالے گا.مگر دس سال کے قلیل عرصہ میں اس دُر یتیم نے ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور سارا عرب توحید کے دائمی نعروں سے گونج اٹھا.مگر ہمیں اس معاملہ میں گزشتہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں.مسٹر خروشیف نے ایک بول بولا ہے اور یہ بہت بڑا بول ہے.ہم اس کے مقابل پر اس زمانہ کے مامور اور نائب رسول اور خادم اسلام حضرت مسیح موعود بائی سلسلہ احمدیہ کی ایک پیشگوئی درج کرتے ہیں.جو آپ نے خدا سے الہام پا کر آج سے پچپن سال پہلے شائع فرمائی تھی اور اس میں اپنے ذریعہ ہونے والے عالمگیر اسلامی غلبہ کا زور دار الفاظ میں اعلان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ یعنی اسلام اور احمدیت کو تمام زمین میں پھیلائے گا.اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کر دے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی.اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا ء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والوں ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ
مضامین بشیر جلد چهارم خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.“ دوسری جگہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں: 99 (تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409-410) اے تمام لوگوسن رکھو کہ یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.....وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی..دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا ( یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ 66 (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66-67) اور تیسری جگہ روس کے ایک مخصوص تعلق میں اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں (نے) دیکھا کہ گویا زار روس کا سونٹا (عصا) میرے ہاتھ میں ہے اور اس میں پوشیدہ طور پر بندوق کی نالی بھی ہے.“ ( تذکرہ صفحہ 377 ایڈیشن چہارم) اس لطیف رؤیا میں روس کے متعلق یہ عظیم الشان بشارت دی گئی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی توجہ کے نتیجہ میں اسلام قبول کرلے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا جوا برضا ورغبت اپنی گردن پر رکھے گا.اور اس طرح انشاء اللہ اشتراکیت کے موجودہ گڑھ میں بھی دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ اسلام کا جھنڈا لہرائے گا.اور یہ جو اس کشف میں پوشیدہ نالیوں کے الفاظ آتے ہیں ان میں اشتراکی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اس کشف کے سولہ سترہ سال بعد عالم وجود میں آیا.اور اس کی پالیسی کی بنیاد آئرن کرشن اور مخفی کارروائیوں پر رکھی گئی.اب مسٹر خروشیف کو چاہئے کہ اپنے بلند و بالا بولوں کے ساتھ ان خدائی پیشگوئیوں کو بھی نوٹ کرلیں.انسانی زندگی محدود ہے.مسٹر خروشیف نے ایک دن مرنا ہے اور میں بھی اس دنیوی زندگی کے خاتمہ پر خدا کی ابدی رحمت کا امیدوار ہوں.مگر دنیا دیکھے گی اور ہم دونوں کی نسلیں دیکھیں گی کہ آخری فتح کس کے مقدر میں لکھی ہے.روس کا ملک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی دیکھ چکا ہے جوان
مضامین بشیر جلد چهارم ہیبت ناک الفاظ میں کی گئی تھی کہ : " زار بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحال زار 100 (براہین احمدیہ حصہ پنجم ) اب اسلام کے دائمی غلبہ اور توحید کی سربلندی کا وقت آ رہا ہے اور دنیا خود دیکھ لے گی کہ مسٹر خروشیف کا بول پورا ہوتا ہے یا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی فتح کا ڈنکا بجتا ہے.بے شک ہم بے حد کمزور ہیں اور بالکل بے سروسامان.بلکہ پہاڑ کے سامنے گویا ذرہ کے برابر بھی نہیں.مگر اسلام کا خدا بڑا طاقت ور خدا ہے جو ہمیشہ سے كُن فَيَكُونَ کے نظارے دکھاتا چلا آیا ہے.ہاں ہما را خدا وہی تو ہے جس نے اسلام کی نشاۃ اولی ( یعنی تکمیل ہدایت ) کے وقت عرب کے لق و دق صحرا میں بظاہر پانی کا ایک بلبلہ پیدا کر کے اس میں وہ طاقت بھر دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی زبر دست لہریں تمام معلوم دنیا پر چھا گئیں.تو کیا اب وہ خدا اسلام کی نشاۃ ثانیہ ( یعنی تکمیل اشاعت ) کے وقت کمزوری دکھائے گا اور اپنے وعدہ کو بھول جائے گا ؟ ہر گز نہیں ہرگز نہیں.یقیناً جو لوگ زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ الإِسْلَامُ يَعْلُوْا وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ خدا کے فضل و نصرت سے اسلام دنیا بھر میں غالب ہوکر رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہو گا.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محررہ 22 جولائی 1960 ء) (روز نامہ الفضل ربوہ 28 جولائی 1960ء) ورثہ میں لڑکیوں کو حصہ دینا ضروری ہے یہ نہ صرف شریعت کا حکم ہے بلکہ سراسر انصاف و رحمت بھی ہے ایک احمدی خاتون جنہوں نے خط میں اپنا نام ظاہر نہیں کیا لکھتی ہیں کہ جماعت کے ایک حصہ میں اور یا خصوصاً زمینداروں میں لڑکیوں کو حصہ نہ دینے کی بد عادت ابھی تک چل رہی ہے.چنانچہ اس خاتون نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ میرے والد صاحب خدا کے فضل سے بظاہر مخلص اور دیندار ہیں اور صاحب جائیداد بھی ہیں بلکہ بہت معقول جائیدا در کھتے ہیں.مگر انہوں نے مجھے اور میری بہنوں کو حصہ نہیں دیا بلکہ ہمارے
مضامین بشیر جلد چهارم 101 حصہ کی قیمت کی رسید لکھا کر ہمارے بھائیوں کے نام پر روپیہ جمع کرا دیا ہے وغیرہ وغیرہ.اگر یہ شکایت درست ہے ( اور میں یہ بات اگر کے لفظ کے ساتھ ہی کہہ سکتا ہوں گو بظاہر یہ شکایت درست معلوم ہوتی ہے.وَاللهُ اَعْلَمُ ( تو بہت قابلِ افسوس اور قابل ملامت ہے.کیونکہ لڑکیوں کو ورثہ سے محروم کرنا نہ صرف شریعتِ اسلامی کے ایک صریح اور تاکیدی حکم کے خلاف اور گناہ ہے بلکہ حکومت کا بھی جرم ہے.جس نے کچھ عرصہ سے یہ قانون بنا رکھا ہے کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنی لڑکیوں کو شریعت کے مطابق حصہ دیں.بے شک زمینداروں کو اپنی زمین بہت محبوب ہوتی ہے بلکہ اکثر زمیندار تو زمین کے ساتھ ایک گونہ عشق کا رنگ رکھتے ہیں.اور جائز حد تک مال ہر شخص کو ہی پیارا ہوتا ہے مگر کیا اسلام اور ا.احمدیت ہی نعوذ باللہ ایسی ناکارہ چیزیں ہیں کہ ان کے پیار کو ہر دوسری چیز پر قربان کر دیا جائے ؟ قرآن تو فرماتا ہے کہ : الَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقره: 166) یعنی جو لوگ سچے مسلمان ہیں انہیں اپنے خدا اور خدا کے احکام کے ساتھ ہر دوسری چیز کے مقابل پر زیادہ محبت ہونی چاہئے.اور دنیا کے مال اور اولاد کے متعلق خدا فرماتا ہے: اَلْمَالُ وَ الْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَالْبقِيتُ الصَّلحتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ آملاً (الكهف: 47) یعنی مال اور لڑکے (جن کی خاطر تم لڑکیوں کا حق مارتے ہو ) محض اس ورلی دنیا کی زینت ہیں.مگر دائم اور قائم رہنے والی نیکی وہ ہے جو خدا کے حضور ثواب کا موجب اور اگلے جہان کی امید گاہ ہے.پس اگر احمد یوں نے اسلام کو سچا اور محمد رسول اللہ کے دین کو خدا کی آخری شریعت سمجھ کر مانا ہے اور احمدیت کو خدا کی ایک رحمت یقین کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے تو ان کے لئے یہ امتحان کا وقت ہے.یہ دنیا ایک فانی چیز ہے کیا وہ اس چند روزہ زینت کی خاطر اور اس عارضی زندگی کی نمائشی چمک کی وجہ سے خدا کی ابدی رحمت کو جواب دیں گے؟ خدا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ : يُحْيِي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ ( تذکره صفحه 55 ایڈیشن چہارم) یعنی ہمارا یہ مسیح دین کے مٹے ہوئے نشانوں کو زندہ کرے گا اور ترک شدہ شرعی احکام کو دوبارہ دنیا میں قائم کر دے گا.پس اے ہمارے بھٹکے ہوئے بھائیو! اگر آپ میں سے کسی کو اپنے ایمان کی شرم نہیں تو کم از کم اپنے
مضامین بشیر جلد چهارم 102 مقدس امام اور سلسلہ احمدیہ کے بانی کو تو خدا کے حضور شرمندہ ہونے سے بچاؤ.( کیونکہ بعض صورتوں میں خدا کے مرسلوں کو بھی اپنے متبعین کی بعض غلطیوں کے لئے جواب دہ ہونا پڑتا ہے ) میں جانتا ہوں کہ خدا کے فضل سے جماعت کا بہت بڑا حصہ دین سے محبت رکھنے والا اور احکام شریعت کو شوق و ذوق سے ادا کرنے والا ہے مگر کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے.پس جب تک آپ اپنے میں سے ہر فرد کو اسلام کے احکام پر پختہ طور پر قائم نہیں کر دیتے یا کم از کم جب تک جماعت کی بھاری اکثریت اس مقام کو حاصل نہیں کر لیتی اس وقت تک آپ کی اجتماعی ذمہ داری ہرگز ادا شدہ نہیں سمجھی جاسکتی.اور لڑکیوں کو ان کے جائز حق اور شرعی ورثہ سے محروم کرنا تو صرف ایک گناہ ہی نہیں ہے بلکہ کم از کم چھ سنگین گناہوں کا مجموعہ ہے.سب سے اول نمبر پر یہ شریعت کا گناہ ہے کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ کے ایک واضح اور صریح اور قطعی حکم کی نافرمانی لازم آتی ہے.قرآن فرماتا ہے اور کن زور دار الفاظ میں فرماتا ہے کہ: لِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَن وَ الْاَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَطَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (النساء : 8) یعنی لڑکیوں کے لئے ان کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے خدا تعالیٰ نے حصہ مقرر کیا ہے خواہ یہ تر کہ زیادہ ہو یا کہ کم ہو.اور یہ خدا کی طرف سے فرض کیا ہوا حق ہے جو بہر حال لڑکیوں کو ملنا چاہئے.دوسرے نمبر پر حکومت کا جرم ہے.کیونکہ کچھ عرصہ سے پاکستان کی حکومت نے یہ قانون پاس کر رکھا ہے کہ لڑکیوں کو ان کے والدین کے ترکہ میں سے (اور بیویوں کو ان کے خاوندوں کے ترکہ میں سے ) شریعت کے مطابق حصہ ملنا چاہئے.اور چونکہ حکومت کے قانون کی پابندی اُولی الامر کے اصول کے مطابق شریعت کی رو سے بھی لازمی ہے اس لئے یہ گویادوسرا جرم بن جاتا ہے.شریعت کا بھی اور حکومت کا بھی.تیسرے نمبر پر یہ جماعت احمدیہ میں اپنے امام اور خلیفہ وقت کے ساتھ بدعہدی بھی قرار پاتی ہے.کیونکہ چند سال ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کے موقع پر حاضرین جلسہ سے یہ عہد لیا تھا کہ جماعت کے لوگ شریعت کے مطابق حصہ دیا کریں گے.اور اس موقع پر جملہ حاضرین نے جو ہزا ر ہا تھے کھڑے ہو کر اپنے امام کے ساتھ اور امام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ لڑکیوں کو حصہ دیں گے.چوتھے نمبر پر لڑکیوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کرنا بدترین قسم کا ظلم بھی ہے.کیونکہ اس ذریعہ سے
مضامین بشیر جلد چہارم 103 ایک کمزور جنس پر جو اپنی کمزوری اور شرم کی وجہ سے والدین اور بڑے بھائیوں کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی ایک بھیانک قسم کا ظلم روا رکھا جاتا اور اس کا گلا گھونٹا جاتا ہے.پانچویں نمبر پر یہ اکل بالباطل اور حرام خوری میں بھی داخل ہے.کیونکہ اس ذریعہ سے والدین اور لڑکیوں کے بھائی ایک ایسا مال کھاتے ہیں جو دراصل ان کا نہیں بلکہ ان کی بیٹیوں اور بہنوں کا ہے اور وہ محض لوٹ مار کے ذریعہ اس کے مالک بن جاتے اور جائز حق داروں کو محروم کر کے ان پر قابض رہنا چاہتے ہیں.چھٹے نمبر پر یہ اپنے خون اور اپنی نسل کی بہتک بھی ہے کہ ایک باپ کے نطفہ سے پیدا ہونے اور ایک صلب سے نکلنے والی لڑکیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے کہ وہ گویا اپنے باپ کی بیٹیاں اور اپنے بھائیوں کی بہنیں ہی نہیں اور انہیں عملاً نیچ ذات کی لونڈیوں کی طرح سمجھا جائے.حالانکہ اسلام تو وہ مبارک مذہب ہے کہ سچ سچ کے غلاموں کے لئے بھی آزادی کا پیغام لے کر آیا ہے.الغرض لڑکیوں اور بیویوں کو ان کے جائز شرعی حق سے محروم کرنا ایک بہت بڑا گناہ بلکہ چھ گناہوں کا مجموعہ ہے اور بھاری ظلم میں داخل ہے.اور میں تمام مخلص احمدی باپوں اور مخلص احمدی بھائیوں سے قرآنی الفاظ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ : هَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (المائدة:92) یعنی کیا اب بھی تم اس ظلم سے باز نہیں آؤ گے کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کو حصہ دینے سے خاندان کی جائیداد دوسرے خاندانوں میں چلی جاتی ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر سوچو تو مال در اصل خدا کا ہے اور انسان کا ترکہ تو خصوصیت سے خدا کا ہے.پس جب خود خدا اسے ایک خاص رنگ میں تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے تو زید بکر عمر کوکیا حق ہے کہ اس تقسیم میں رخنہ ڈالے؟ اور پھر جب تم نے اسلام کی شریعت کے نیچے اپنی گردنیں رکھ دیں اور احمدیت کی غلامی کو برضاور غبت قبول کر لیا اور اسلام کو خدا کی ایک نعمت جانا تو پھر یہ اب کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک صداقت کو مان کر اس پر عمل کرنے سے انکار کرو.یہ تو ایمان نہیں بلکہ منافقت ہے کہ منہ سے ایک بات کو مانومگر اپنے عمل سے اسے دھتکار دو.قرآن فرماتا ہے لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ (الصف: 3) - یعنی تم منہ سے ایک ایسی بات کیوں کہتے ہو جس پر تم عمل کرنے کو تیار نہیں ؟ بعض لوگ اس موقع پر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر خود لڑکیاں اپنی مرضی سے جائیداد کی جگہ نقد روپیہ لینے کو تیار ہوں تو اس پر کیا اعتراض ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اگر نیک نیتی سے اور پاک وصاف دل سے ایسا کیا جائے اور اس میں کوئی پہلو دھو کے اور فریب کا نہ ہو اور نہ ہی جائیداد کی قیمت لگانے میں چالا کی سے کام لیا
مضامین بشیر جلد چہارم 104 جائے اور لڑکیوں پر کسی قسم کا دباؤ بھی نہ ڈالا جائے تو بے شک فریقین کی رضا مندی اور شرح صدر سے ایسا ہو سکتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کا خوب فرمایا ہے کہ: مگر مشکل یہی ہے درمیاں میں کہ گل بے خار کم ہیں بوستاں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک احمدی نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ یا حضرت! میری بیوی نے اپنی خوشی سے مجھے اپنا مہر معاف کر دیا ہے.حضور نے فرمایا ”ہم ایسی معافی کو جائز نہیں سمجھتے.آپ اپنی بیوی کو مہر ادا کر دیں اور پھر اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشی سے آپ کو مہر کی رقم واپس کر دے تو تب جائز ہوگا.یہ صاحب کہیں سے قرض لے کر دوڑتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کی جھولی میں مہر کی رقم ڈال دی اور پھر چند سیکنڈ انتظار کرنے کے بعد بیوی سے کہا کہ تم نے تو مہر معاف کر دیا ہوا ہے.اب یہ رقم مجھے واپس کر دو.اس نے کہا واہ! اب میں کیوں واپس کروں؟ میں تو سمجھتی تھی کہ آپ نے مہر دینا ہی نہیں اس لئے مفت کا احسان کیوں نہ رکھوں.لیکن اب جب آپ نے مہر دے دیا ہے تو یہ میرا حق ہے میں اسے واپس نہیں کرتی.بس یہی بات میں والدین اور بھائیوں سے بھی کہتا ہوں کہ فرضی معافیوں اور فرضی ادائیگیوں سے اپنے نفسوں کو دھوکا نہ دو.یہ سب باتیں تقویٰ اور دیانت کے خلاف اور چالا کی اور ریا کاری میں داخل ہیں اور مومن کی شان سے کوسوں دور.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں: تم ریا کاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے.کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو؟ پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ.اگر ایک ذرہ تیرگی بھی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکا دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے.کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوئے..نفسانیت کی فربہی کو چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا.کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جوخدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 12) بس اسی پر میں اپنے اس نوٹ کو ختم کرتا ہوں.جن کے کان ہوں گے وہ سنیں گے اور جن کے دل ہوں
مضامین بشیر جلد چهارم گے وہ مانیں گے اور باقی خدا کے حوالے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محررہ 28 جولائی 1960 ء) 105 روزنامه الفضل ربوہ 4 اگست 1960ء ام مظفر احمد لاہور کے ہسپتال میں مخلصین جماعت سے دعاؤں کی درخواست ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت ہم ام مظفر احمد کو لاہور لے آئے ہیں اور میوہسپتال کے حصہ البرٹ وکٹر کے کمرہ نمبرا میں داخل کر دیا ہے.یہاں پہنچتے ہی میوہسپتال کے مشہور سرجن ڈاکٹر امیر الدین صاحب نے ان کا معائنہ کیا اور معائنہ کے بعد تازہ ایکسرے کیا گیا.اس ایکسرے نے اُس ایکسرے کی فی الجملہ تصدیق کی ہے جور بوہ میں لیا گیا تھا.یعنی یہ کہ دائیں ٹانگ کی ہڈی کے بالائی حصہ میں جو ڈاکٹری اصطلاح میں نیک آف فیمر (Neck of Femur) کہلاتا ہے فریکچر ہو گیا ہے.ڈاکٹر امیر الدین صاحب نے فی الحال ام مظفر احمد کی یہ ٹانگ عارضی طور پر ایک لوہے کے فریم میں باندھ دی ہے اور پاؤں کو بھی اوپر اٹھا کر فریم میں لڑکا دیا ہے تا کہ اس ٹانگ پر زور نہ پڑے اور حرکت بھی نہ ہو.ڈاکٹر امیرالدین صاحب کا خیال ہے کہ دو تین دن کے مشاہدہ اور معائنہ کے بعد اصل علاج کیا جائے گا.ان کا یہ بھی خیال ہے کہ درد کی شدت یہ شبہ پیدا کرتی ہے کہ شائد کسی اور جگہ بھی چوٹ کا اثر ہوا ہو جس کا پتہ لینا ضروری ہے.بے چینی بدستور ہے مگر کمزوری کے بڑھ جانے سے اس کے اظہار کی طاقت کم ہوگئی ہے.گزشتہ رات کا اکثر حصہ بے خوابی میں گزرا اور منہ پر کچھ ورم بھی ہے اور اجابت ابھی تک نہیں ہوئی.جیسا کہ احباب کو علم ہے اتم مظفر احمد قریباً 5 سال سے مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر بہت کمزور ہو چکی ہیں اور اکثر وقت درد اور بے چینی میں گزرتا رہا ہے اور چلنے پھرنے سے بھی معذور ہیں.ان کی سابقہ بیماریوں میں ریڑھ کی ہڈی کے ایک منکے کا اپنی جگہ سے سرک جانا (Displaced Disk) اور پتہ میں پتھری اور اعصابی درد اور بلڈ پریشر اور رعشہ وغیرہ شامل ہیں.اس پر موجودہ خطرناک حادثہ نے بہت اضافہ کر دیا ہے اور وہ کافی کمزور ہو چکی ہیں اور بہت فکر مند اور بہت پریشان رہتی ہیں اور ان کی اس حالت کا لازماً
مضامین بشیر جلد چهارم 106 مجھ پر بھی اثر پڑتا ہے.اور میں اپنی انتہائی خواہش کے باوجود اس رنگ میں دین کی خدمت نہیں کر سکتا جس کی میرے دل میں تڑپ ہے.زائد از نصف صدی کی قریب ترین رفاقت کوئی معمولی چیز نہیں ہوتی.اور ایک کی حالت کا دوسرے پر اثر پڑنا لازمی امر ہے اور میں تو ویسے بھی اب ضعیف اور کئی قسم کے عوارض میں مبتلا ہوں.پس مخلصین جماعت اور صحابہ کرام ( جو افسوس ہے کہ اب دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں) سے درخواست ہے کہ وہ اتم مظفر احمد کے لئے خاص توجہ اور اور درد دل سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان کو شفا دے اور میری پریشانی کو دور فرمائے.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ میری اولا د خدا کے فضل سے والدین کی خدمت گزار اور فرمانبردار ہے اور سلسلہ سے اخلاص رکھتی ہے.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو.ہماری زندگی میں بھی اور ہمارے بعد بھی.اور انہیں ہمیشہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے در کا غلام رکھے.کیونکہ اے ہمارے آسمانی آقا: وہ تیرے ہیں ہماری عمر تا چند نوٹ: اس خط کے لکھنے کے بعد اجابت ہوگئی ہے اور تکلیف میں کچھ افاقہ ہے گوضعف اب بھی بہت ہے.(روز نامه الفضل ربوہ 14 اگست 1960 ء ) احباب کرام کا شکریہ ام مظفر احمد کی تشویشناک بیماری میں احباب کرام ( بہنوں اور بھائیوں دونوں ) نے جس رنگ میں ان کے آپریشن کی کامیابی اور ان کی صحت کی بحالی کے لئے دعائیں کیں اور ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا اس پر میرا دل سب مخلصین کے لئے شکریہ کے جذبات سے لبریز ہے.میں اپنے دوستوں پر فطرتاً بہت حسنِ ظن رکھتا ہوں لیکن حق یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے میرے گمان سے بھی بڑھ کر محبت اور ہمدردی کا ثبوت دیا ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ مجھے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیاری حدیث یاد آرہی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ بچے مؤمن آپس میں ایک جسم کا رنگ رکھتے ہیں.جب جسم کا کوئی عضو در دمحسوس کرتا ہے تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ جس طرح میری اس تکلیف اور پریشانی میں مخلصین جماعت نے محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا اور دعائیں فرمائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کی تکلیفوں اور پریشانیوں میں بھی ان کا
مضامین بشیر جلد چهارم 107 حافظ و ناصر ہو اور انہیں اپنے خاص فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے.میرے ہاتھ میں یہی دعا ان کی محبت اور ان کے اخلاص کا واحد بدلہ ہے.ایک دوست نے ہندوستان کے ایک دور دراز شہر سے میری تسلی کے لئے لکھا ہے کہ آپ گھبرائیں نہیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.میں اس مخلص دوست کا ممنون ہوں مگر بتا دینا چاہتا ہوں کہ دراصل میری گھبراہٹ ایک طبعی بات تھی.کیونکہ اول تو دعاؤں کی قبولیت کے لئے دل میں بے چینی پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ دعا ایک محض رسم بن کر رہ جاتی ہے.دوسرے اس وقت اتم مظفر احمد وہ آخری بہو ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اپنے گھر سے رخصت ہو کر حضرت مسیح موعود کے گھر میں داخل ہوئیں.تیسرے میری ان کی رفاقت پر اس وقت قریباً پچپن سال کا عرصہ گزرتا ہے.( کیونکہ میری شادی 1906ء میں ہوئی تھی ) اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ دو جانوں کو گویا ایک جان اور دو قالب کا رنگ دے دیتا ہے.چوتھے وہ بہت مخیر اور غریب نواز ہیں.صدقہ وخیرات میں وہ ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں اور اپنے تعلقات میں بھی انہوں نے کبھی غریب اور امیر میں فرق نہیں کیا.بلکہ غالبا غریبوں کے ساتھ زیادہ ہی تعلقات رکھے ہیں.ان وجوہات سے میرے دل میں ان کی بہت قدر ہے اور ان کی تشویشناک بیماری میں میرے دل میں ان کے لئے بے چینی پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے.اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب گھر میں بیوی بیمار ہو تو خاوند کے لئے دینی کاموں میں عام حالات کی طرح حصہ لینا مشکل ہو جاتا ہے.یہ رعایت وہ ہے جو خود ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کو دی ہے بلکہ اس کی تاکید فرمائی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: وَلَا هُلِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ ( صحیح بخاری کتاب الصوم باب من استم علی احبه ليفطر فيه ) یعنی تمہاری بیوی اور بچوں کا تم پر بھاری حق ہے اسی ہدایت کے ماتحت انسان کا فرض ہے کہ اپنی رفیقہ حیات کی علالت میں اس کے علاج اور اس کی خدمت کا پورا پورا حق ادا کرے اور یہ حق فکر مندی کے بغیر ادا نہیں ہوسکتا.مجھے یاد ہے کہ جب ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد مرحوم بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تیمار داری میں غیر معمولی فکر اور توجہ کے ساتھ حصہ لیا تھا.بالآخر میں پھر دوبارہ احباب جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اتم مظفر احمد کی بیماری میں غیر معمولی محبت اور غیر معمولی ہمدردی کا اظہار کیا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بہترین اجر سے نوازے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.دوست اب بھی دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اتم مظفر احمد کو بعد کی تمام پیچیدگیوں
مضامین بشیر جلد چهارم 108 سے محفوظ رکھے اور مجھے ہمیشہ اپنا صابر اور شاکر بندہ رکھ کر اپنی رضا کے ماتحت خدمت دین کی توفیق دیتا رہے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ 6 ( محررہ 24 جولائی 1960 ء ) ایک غلطی کی تصحیح روزنامه الفضل ربوہ 27 اگست 1960 ء ) ام مظفر احمد کے متعلق میری رپورٹوں میں ڈاکٹر مسعود صاحب کا ذکر آتا رہا ہے.مگر غلطی سے ان کا نام ڈاکٹر محمد مسعود لکھا جاتا رہا ہے حالانکہ جیسا کہ ان کی والدہ محترمہ سے معلوم ہوا ہے ان کا نام ڈاکٹر مسعود احمد ہے اور ان کی خواہش ہے کہ اخبار کے ذریعہ اس کی تصحیح کر دی جائے سوناظرین تصحیح فرمالیں.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ڈاکٹر مسعود احمد کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ ان کا میوہسپتال لاہور سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ نشتر ہسپتال ملتان میں کام کرتے ہیں.وہ اپنی رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزانہ صبح و شام ام مظفر کی عیادت کے لئے آتے رہے ہیں اور آپریشن کے وقت بھی ڈاکٹرا میرالدین صاحب کے ساتھ تھے.فَجَزَاهُ اللَّهُ خَيْراً.جیسا کہ میں ایک سابقہ رپورٹ میں بیان کر چکا ہوں میوہسپتال کا عملہ بھی اس موقع پر بہت ہمدردرہا ہے اور ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب بھی عیادت میں خاص حصہ لیتے رہے ہیں.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ كُلُّهُمْ.محرر: 29 اگست 1960 ء ).......روزنامه الفضل ربوده یکم ستمبر 1960ء) ام مظفر احمد کی طبیعت خدا کے فضل سے بتدریج بہتر ہورہی ہے لاہور 4 ستمبر بوقت سوا نو بجے شب بذریعہ فون : ام مظفر احمد کی طبیعت خدا کے فضل سے آہستہ آہستہ بہتر ہورہی ہے.تین دن ہوئے ڈاکٹر صاحب نے گاؤ تکیہ کے سہارے بستر میں بٹھایا تھا.اُس وقت تو اتم مظفر احمد نے برداشت کر لیا مگر بعد میں بڑی
مضامین بشیر جلد چهارم 109 کوفت ہوگئی.پرسوں گھٹنے کی ورم کی وجہ سے ایکسرے لیا گیا مگر خدا کے فضل سے ہڈی میں کوئی نقص نہیں نکلا.صرف ورم اور درد ہے لیکن بے چینی اور ضعف کا سلسلہ چل رہا ہے اور بعض اوقات بے چینی بہت زیادہ ہو جاتی ہے.اتم مظفر احمد کی بیماری کے ایام میں احمدی بھائیوں اور بہنوں نے جس غیر معمولی محبت اور ہمدردی کا ثبوت دیا ہے اور جس بچی تڑپ کے ساتھ دعائیں کی ہیں اس کی وجہ سے ہم دونوں کے دل بے حد متاثر ہیں.دراصل یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان معجزہ ہے کہ اپنے محبوب آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں اپنے متبعین کے دلوں کو ایسی محبت اور اخوت کی زنجیر میں باندھ دیا ہے کہ رسول پاک کے زمانے کے بعد اس کی نظیر نہیں ملتی.اللہ تعالیٰ تمام بھائیوں اور بہنوں کو بہترین جزا سے نوازے اور انہیں دین ودنیا کے حسنات سے حصہ وافر عطا کرے........روزنامه الفضل ربوہ 7 ستمبر 1960ء) ام مظفر احمد ہسپتال سے عزیز مظفر احمد کے مکان میں آگئیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی اہلیہ محترمہ ام مظفر احمد صاحب کی علالت پر اخبار میں احباب جماعت سے دعا کی درخواست کرتے رہے.19 ستمبر 1960ء کو ان کے گھر آنے پر جو اطلاع دی اس میں تحریر فرمایا.میں اس وقت پھر ایک دفعہ اپنے تمام مخلص دوستوں اور جماعتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے امّم مظفر احمد کی تشویشناک بیماری میں دردمندانہ دعائیں کیں اور مومنانہ اخوت کا زبر دست ثبوت دیا.اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین اجر سے نوازے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.اور سب سے بڑھ کر میرا دل اپنے آسمانی آقا کے شکر سے معمور ہے جس نے ہماری دعاؤں کو سنا اور اپنی بے انداز رحمت سے نوازا.چونکہ اتم مظفر احمد کی طبیعت ابھی تک کافی کمزور ہے اور بے چینی بھی رہتی ہے اور بیمار ٹانگ تا حال حرکت کرنے کے قابل نہیں ہوئی اور وین (Pin) بھی ابھی تک پوری طرح اپنی جگہ پر نہیں جما اس لئے احباب جماعت کامل صحت کے لئے اپنی دعائیں جاری رکھ کر عنداللہ ماجور ہوں.( محرره 20 ستمبر 1960 ) روزنامه الفضل ربوہ 24 ستمبر 1960ء)
مضامین بشیر جلد چہارم دوست چندہ امداد درویشاں کو یاد رکھیں یہ ایک اہم جماعتی ذمہ داری ہے 110 کچھ عرصہ سے (خصوصاً جب سے کہ میں ام مظفر احمد کی بیماری کے متعلق لاہور آیا ہوا ہوں ) دفتری رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ چندہ امداد درویشاں میں کافی کمی آگئی ہے.جس سے مجھے اس قرآنی نکتہ کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے کہ خواہ کوئی کام کیسا ہی مبارک اور اہم ہو اس کے لئے بار بار تذکر یعنی یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ احباب جماعت میں غفلت پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے.سو میں اس مختصر نوٹ کے ذریعہ تمام مخلص بھائیوں اور بہنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ امداد درویشاں کا چندہ ایک اہم جماعتی ذمہ داری ہے جس کی طرف سے مخلصین جماعت کو کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے.جو در ویش ( اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کے مطابق حقیقتا درویش ہیں ) اس وقت قادیان کے مقدس مقامات کو آباد رکھنے کے لئے دھونی رمائے بیٹھے ہیں وہ دراصل اس کام میں ساری جماعت کے نمائندہ ہیں اور ان کی خدمت ایک بھاری جماعتی خدمت ہے جو یقیناً خدا کے حضور بڑے ثواب کا موجب ہے.کیونکہ ان میں سے اکثر بڑی تنگی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں.پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی طاقت اور خدائی توفیق کے مطابق ان کی امداد کریں.یہ امداد موجودہ حالات میں زیادہ تر دو طرح سے کی جاتی ہے: (1) اول جن درویشوں کے عزیز و اقارب پاکستان میں ہیں اور وہ اپنے عزیز درویشوں کی امداد سے محروم ہیں ان کی مالی امداد کا انتظام کرنا.جس میں بوڑھے والدین کی امداد یا بیوہ بہنوں کی امداد یا قریبی عزیزوں کی شادی کے موقع پر امداد یا پاکستان میں تعلیم پانے والے بچوں کی امداد وغیرہ شامل ہے.(2) جو درویش وقتا فوقتا پاکستان آتے رہتے ہیں اور یہاں آکر ان میں سے اکثر قریباً قلاش ہوتے ہیں ان کی پاکستان میں ضروری امداد کا انتظام کرنا تا کہ وہ ربوہ کی زیارت سے مشرف ہوسکیں اور تازہ مذہبی لٹریچر خرید سکیں اور اپنے ویزا کے مطابق اپنے عزیزوں سے بھی ملاقات کر سکیں جن میں سے بعض دور دراز کے شہروں میں آباد ہیں اور ان کے پاس پہنچنا کافی اخراجات کا متقاضی ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ.پس میں جماعت کے مخلص اور مخیر اصحاب سے پھر ایک دفعہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس اہم ذمہ داری کی
مضامین بشیر جلد چهارم طرف توجہ فرما کر ثواب دارین حاصل کریں.حدیث میں آتا ہے کہ: مَنْ كَانَ فِي عَوْن أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي عَوْنِهِ یعنی جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں لگ جاتا ہے.111 اور یہاں تو کسی عام بھائی کی امداد کا سوال نہیں بلکہ خاص حالات میں اپنے ان مخلص بھائیوں کی امداد کا سوال ہے جو ساری جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے قادیان کے مقدس مقامات کو آباد رکھنے کے لئے دار الامان میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں.( محررہ یکم اکتوبر 1960 ء) روزنامه الفضل ربوہ 7 اکتوبر 1960 ء) مرزا اسلام اللہ صاحب کہاں ہیں؟ مرز اسلام اللہ صاحب متوطن قادیان جہاں بھی ہوں مجھے اس روایت کی تفصیل سے اطلاع دیں جو وہ اخبار شجھ چنتک قادیان کے آریہ مینجر یا ایڈیٹر کے متعلق سنایا کرتے ہیں کہ جب وہ طاعون کی مرض میں مبتلا ہوا تو اس نے حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بسمل کو کہلا بھیجا کہ از راہ مہربانی میرا علاج کریں.حضرت بسمل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھ کر حضور سے اجازت چاہی.حضور نے بخوشی اجازت دے دی مگر ساتھ ہی فرمایا علاج بے شک کریں مگر یہ شخص بچے گا نہیں وغیرہ وغیرہ.(2) نیز مرزا سلام اللہ بیگ صاحب مجھے اخبار شجھ چشک کے ایڈیٹروں اور مینجروں کے نام سے بھی مطلع فرمائیں جو غالباًا بھگت رام اور اچھر چند تھے اور ان کا ایک تیسرا ساتھی بھی تھا جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا.(3) یہ بھی لکھیں کہ ان میں سے ایڈیٹر کون تھا اور مینجر کون تھا ؟ مجھے اس اطلاع کی فوری طور پر ضرورت ہے.جَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ محررہ 25 اکتوبر 1960ء) روزنامه الفضل ربوہ 27 اکتوبر 1960ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 112 مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر افتتاحی خطاب مؤرخہ 28 اکتوبر بروز جمعہ پانچ بجے شام مجلس انصار اللہ کے چھٹے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو روح پرور افتتاحی خطاب فرمایا اس کا مکمل متن افادہ احباب کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.(ادارہ) أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.برادران کرام! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے لئے مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں اس مبارک موقع پر حاضرین سے افتتاحیہ خطاب کروں.ایسی تقریب میں افتتاحیہ خطاب ایک بڑی اہم چیز ہے اور میں اپنے اندر اس کی اہلیت نہیں پاتا.یہ مقام صرف امام کا ہے یا امام کے مقرر کردہ نائب کا.مگر شرکت ثواب کی غرض سے ایک نہایت مختصر سا مقالہ اپنے بھائیوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور مجھے اور آپ سب کو اس کے اچھے حصہ پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین اس موقع پر انصار اللہ کے اجتماع کے لئے کسی پیغام کا انتخاب کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے.کیونکہ یہ پیغام بصورت احسن انصار اللہ کے لفظ میں مرکوز ہے جس کے معنی خدائی خدمت گار کے ہیں.قرآن مجید نے انصار اللہ کی اصطلاح اولاً حضرت مسیح ناصری کے مشن کے تعلق میں استعمال کی ہے.جہاں یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ (الصف: (15) کہہ کر اپنے حواریوں سے اپنے خداداد مشن میں مددگار بننے کا مطالبہ کیا.اور اس کے جواب میں حواریوں نے عرض کیا نَحْنُ أَنــــــــــارُ الله (الصف: 15 ) یعنی اے خدا کے مسیح! ہم خدا کے کام میں آپ کے معاون و مددگار بنے کا وعدہ کرتے ہیں.اس کے بعد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ گو بعض حواریوں سے کچھ کمزوریاں اور فروگزاشتیں بھی ہوئیں مگر انہوں نے بحیثیت مجموعی خدا کے رستہ میں تکلیفوں اور مصیبتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے اور اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق حضرت مسیح ناصری کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں بڑی جانفشانی اور بڑے صبر واستقلال اور قربانی سے کام لیا.بلکہ وہ اپنے تبلیغی جوش میں اور بعض بعد میں آنے والے لوگوں کی غلط تشریحات کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصرٹی کے منشاء سے بھی آگے نکل گئے.کیونکہ گومسیح کا مشن صرف بنی اسرائیل کی کھوئی
مضامین بشیر جلد چہارم 113 ہوئی بھیڑوں تک محدود تھا مگر مسیحی مشنری اس حد بندی کو تو ڑ کر دوسری قوموں تک بھی جا پہنچے اور اس تجاوز میں خطرناک ٹھوکر کھائی.مگر اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن ساری قوموں اور سارے ملکوں اور سارے زمانوں تک وسیع ہے.اور پھر محمدی نیابت کی وجہ سے آپ کا مقام بھی مسیح ناصری کی نسبت زیادہ بلند اور زیادہ ارفع ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود خود فرماتے ہیں کہ : ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بڑھ کر غلام احمد ہے پس ایک طرف میدانِ عمل کی غیر معمولی وسعت اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود کے پیغام کی غیر معمولی رفعت آپ صاحبان سے غیر معمولی جد و جہد اور غیر معمولی قربانی کا مطالبہ کرتی ہے.یا درکھو کہ محض انصار اللہ کہلانے سے کچھ نہیں بنتا.اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے اور اپنے بندوں کو ان کے دل کے تقویٰ اور ان کے اعمال کے پیمانے سے ناپتا ہے.آپ کی منزل ابھی دور ہے، بہت دور.کیونکہ یہ ہوائی اُڑان کا زمانہ ہے اور حضرت مسیح موعود کو حضور کے ایک کشف میں ہوا میں اڑنے کا نظارہ بھی دکھایا گیا تھا.جس میں یہی اشارہ تھا کہ جماعت کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ ہوا میں اڑنا ہوگا.پھر آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس وقت جماعت کا امام جس نے سینکڑوں کٹھن منزلوں اور خاردار جھاڑیوں میں سے جماعت کو کامیابی کے ساتھ گزارا ہے اور اس وقت خدا کے فضل سے ہمارے امام کی قیادت میں جماعت کا ہر قدم ترقی کی طرف اٹھتا چلا آیا ہے وہ اب ایک لمبے عرصہ سے بستر علالت میں پڑا ہے.اور آپ لوگ اس وقت حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ بنصرہ کے روح پرور خطبات اور آپ کی زندگی بخش ہدایات اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں آپ کے زریں ارشادات سے بڑی حد تک محروم ہیں اور حضور کی یہ بیماری بشری لوازمات کا ایک طبعی خاصہ ہے.مگر اس حالت میں آپ لوگوں پر یہ بھاری فرض عائد ہوتا ہے کہ جس طرح باپ کی بیماری میں فرض شناس بیچے اپنے کاموں میں زیادہ بیدار اور زیادہ چوکس ہو کر لگ جاتے ہیں.اسی طرح آپ بھی اس وقت کے نازک حالات میں اپنے غیر معمولی فرض کو پہچانیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ امام کی بیاری میں آپ کا قدم ست نہیں ہوا بلکہ تیز ے تیز تر ہوگیا ہے.اور اس کے ساتھ ہی حضرت خلیفہ اسیح کی صحت اور شفایابی اور حضور کی فعال زندگی کی بحالی کے لئے بھی بیش از پیش دعا ئیں کریں تا ہمارا یہ امتحان جلد ختم ہو اور یہ خدائی برات اپنے دولہا کے ساتھ تیز قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتی
مضامین بشیر جلد چهارم 114 چلی جائے.علاوہ ازیں ان ایام میں آپ لوگوں کو جماعت کے اتحاد کا بھی خاص بلکہ خاص الخاص خیال رکھنا چاہئے.قرآن مجید نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بنیان مرصوص کے امتیازی نام سے یاد کیا ہے.اور بنیان مرصوص وہ ہوتی ہے جو آپس میں اس طرح پیوست ہو کہ کوئی چیز اس میں رخنہ نہ پیدا کر سکے اور یہ بات قربانی کی روح کے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی.اگر ہر شخص کو یہ خیال ہو کہ ہر حال میں میری ہی بات مانی جائے اور میری ہی رائے کو قبول کیا جائے تو یہ بدترین قسم کا تکبر ہے جو جماعت کے اتحاد کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ ” سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو اس میں یہی نکتہ مد نظر ہے کہ بعض اوقات انسان کو اتحاد کی خاطر اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوئے بھی اپنی رائے کو چھوڑنا پڑتا ہے.دوستوں کو چاہئے کہ اس نکتہ کو ہمیشہ یادرکھیں.جہاد فی سبیل اللہ کے تعلق میں آپ کا کام دو میدانوں سے تعلق رکھتا ہے.ایک میدان تبلیغ کا میدان ہے یعنی غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانا اور اپنے مسلمان بھائیوں کے دلوں سے احمدیت کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا.یہ ایک بڑا نازک اور اہم کام ہے جس کے لئے آپ صاحبان کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.بے اصول لوگوں نے اسلام اور احمدیت کے متعلق غلط فہمیوں کا ایک وسیع جال پھیلا رکھا ہے.اس جال کے کانٹوں کو اپنے رستہ سے ہٹانا آپ لوگوں کا فرض ہے مگر اس تعلق میں اس قرآنی آیت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ: أدْعُ إِلى سَبيل رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمُ (النحل: 126) یعنی لوگوں کو نیکی کے رستہ کی طرف محبت اور حکمت اور نصیحت کے رنگ میں بلا ؤ اور ایسا طریق اختیار نہ کرو جس سے دوسروں کے دل میں نفرت اور دوری کے خیالات پیدا ہوں.بلکہ اپنے اندر ایک ایسے روحانی مقناطیس کی کیفیت پیدا کرو جس سے سعید لوگ خود بخود آپ کی طرف کھچے چلے آئیں.دوسرا میدان تربیت سے تعلق رکھتا ہے.یعنی اپنے آپ کو اور اپنے دوستوں کو اور سب سے بڑھ کر اپنے اہل وعیال کو اسلام اور احمدیت کی دلکش تعلیم پر قائم کرنا یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے.بلکہ بعض لحاظ سے تبلیغ سے بھی زیادہ نازک اور اہم ہے.جماعت جوں جوں تعداد میں بڑھتی جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے بعد ہوتا جاتا ہے اس کام کی اہمیت بھی بہت بڑھتی جاتی ہے.آپ لوگوں کو عہد کرنا چاہئے کہ
مضامین بشیر جلد چهارم 115 آپ پوری توجہ کے ساتھ اس بات کی کوشش کریں گے کہ اپنی عورتوں کو خلاف شریعت رسموں سے باز رکھیں اور اپنی اولاد کو نیکی کے رستہ پر چلائیں.اور اپنے بچوں میں سے کم از کم ایک بچہ کو علم اور عمل میں اپنے سے بہتر بنانے اور اپنے پیچھے بہتر حالت میں چھوڑنے کی تدبیر کریں.ہمارے سامنے یہ تلخ حقیقت موجود ہے کہ جماعت میں بعض اعلیٰ پائے کے اصحاب جو علم و فضل میں بہت اعلیٰ مقام رکھتے تھے وہ جب فوت ہوئے تو ان کے ساتھ ہی ان کا علمی اور روحانی ورثہ بھی ختم ہو گیا.ترقی کرنے والی جماعتوں کے لئے یہ صورت حال بڑی تشویشناک ہے.پس انصار اللہ کو چاہئے کہ اس بات کا محاسبہ کرتے رہیں اور مسلسل نگرانی رکھیں کہ ان کے پیچھے ان کی اولاد میں دین کا ورثہ ضائع نہ ہو.یہ وہ بات ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنی اولاد کے متعلق بے حد خیال تھا.چنانچہ آپ اپنی ایک نظم میں اپنے بچوں کے متعلق فرماتے ہیں: ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا اس دھو کے میں نہیں رہنا چاہئے کہ چونکہ ہم خود نیک اور دین دار ہیں اس لئے ہماری اولاد بھی لازماً نیک ہوگی.قرآن مجید فرماتا ہے: يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ (يونس:32) یعنی خدا کا یہ قانون ہے کہ مُردہ لوگوں میں سے زندہ لوگ پیدا ہو جاتے ہیں اور زندہ لوگوں کے گھر مردہ بچے جنم لیتے ہیں.چنانچہ حضرت سلیمان کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ : الْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيِّهِ جَسَدًا(ص:35) یعنی جب سلیمان جو خدا کا عظیم الشان نبی تھا فوت ہوا تو اس کے تخت پر ایک گوشت کا لوتھڑا تھا.انسان نہیں تھا.پس یہ مقام خوف ہے اور اس کی طرف انصار اللہ کو خاص توجہ دینی چاہئے.دوستو اور عزیز و اپنے گھروں میں علم اور دین اور تقوی کی شمع روشن رکھوتا ایسا نہ ہو کہ آپ کے بعد یہ روشنی ختم ہو جائے اور صرف اندھیرا ہی اندھیرارہ جائے.مجھے اس وقت حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ بنصرہ کا یہ دردناک شعر یاد آ رہا ہے کہ: ے ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو اسلام آپ کو دنیوی تعلیم حاصل کرنے اور دنیا کے میدان میں ترقی کی کوشش سے نہیں روکتا.چنانچہ
مضامین بشیر جلد چہارم قرآن خود یہ دعا سکھاتا ہے کہ: 116 رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقره: 202) یعنی اے ہمارے خدا تو ہمیں دنیا کی نعمتوں سے بھی حصہ دے اور دین کی نعمتوں سے بھی حصہ دے اور ہمیں اس عذاب سے بچا کہ ہم دوسروں کی ترقی دیکھ کر حسد کی آگ میں جلتے رہیں.پس اسلام دنیا کی نعمتیں حاصل کرنے سے بالکل نہیں روکتا.مگر اسلام یہ حکم ضرور دیتا ہے کہ جہاں دنیا اور دین میں ٹکراؤ ہو جائے وہاں دین کے پہلو کو مقدم کرو.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت کے عہد میں یہ اقرار لیا کرتے تھے کہ ” میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.اور فرمایا کرتے تھے کہ ایک سچے مومن کا یہی مقام ہے کہ دست با کا رو دل بایار.کاش انصار اللہ اس نکتہ کو یا درکھیں اور اسے اپنا حرز جان بنائیں.وہ بے شک دنیا کا علم حاصل کریں، دنیا کا رزق کمائیں اور اس میدان میں ترقی کریں.شادیاں رچا ئیں، اولاد پیدا کریں اور ہر قسم کی جائز تفریحات میں حصہ لیں مگر اس مرکزی نکتہ سے کبھی ادھر اُدھر نہ ہوں کہ دین بہر حال دنیا پر مقدم رہنا چاہئے.اگر یہ نہیں تو ہمارا احمدیت کا دعویٰ جھوٹا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی اور ہر مامور من اللہ کا ایک کلمہ ( یعنی اس کی تعلیم کا ایک مرکزی نقطہ ) ہوا کرتا ہے.مرزا کا کلمہ یہ ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.حضرت خلیفہ اول کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود کی ساری تعلیم کا نچوڑ واقعی ان مختصر سے الفاظ میں مرکوز ہے.اور یقیناً اس پر عمل کرنے والے انسان کی کا یا پلٹ جاتی ہے.آپ لوگ اس پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں پھر سب خیر ہے.ایک ضمنی مگر ضروری بات میں آپ صاحبان سے پردہ کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں خواہ یہ انصار اللہ کے اجتماع کے لحاظ سے کچھ بے موقع ہی معلوم ہو.میں نے گزشتہ ایام میں لاہور کے قیام میں دیکھا ہے اور دوسرے شہروں کے متعلق سنا ہے کہ احمدی نوجوانوں کا ایک طبقہ دوسرے مسلمانوں کی ریس میں پردہ کے معاملہ میں کمزوری دکھا رہا ہے.یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کی طرف جماعت کو بہت توجہ دینی چاہئے.حضرت مسیح موعود کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ: يُحْيِي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ ( تذکرہ صفحہ 55 ایڈیشن چہارم) یعنی محمدی مسیح دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا پھر اگر احمدی نوجوان اس معاملہ میں کمزوری دکھا ئیں اور شریعت کے احکام کو پس پشت ڈالیں تو کتنے
مضامین بشیر جلد چهارم 117 افسوس کی بات ہے.میں یہ بات انصار اللہ سے اس لئے کہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوانوں (لڑکوں اور لڑکیوں ) کی باگ ڈور زیادہ تر انہی کے ہاتھ میں ہے.انہیں اس معاملہ میں اپنے بچوں کو بار بار سمجھانا چاہئے اور جس طرح ایک چوکس چرواہا اپنی بھیڑوں کو گھیر گھیر کر احاطہ کے اندر رکھتا ہے اسی طرح انصار اللہ کا فرض ہے کہ جماعت کے نوجوانوں کو سمجھانے سے اور نصیحت کرنے سے اور غیرت دلانے سے اسلامی پردہ کی حدود پر قائم رکھیں.انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ تمہاری اس فیشن پرستی سے جماعت بدنام ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام تعلیم اور تنظیم پر حرف آتا ہے اور پھر اس وجہ سے تم گنہگار بھی بنتے ہو.اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ عورتوں کو گھروں کے اندر قیدیوں کی طرح بند رکھو.وہ جائز ضرورت سے باہر نکل سکتی ہیں اور تمام جائز کاموں میں حصہ لے سکتی ہیں.تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، نوکری کر سکتی ہیں، سیر و سیاحت کر سکتی ہیں.مگر ہر حال میں پردہ کی حدود قائم رہنی ضروری ہیں.پردہ کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ جس طرح ہر چیز کا ایک جسم ہوتا ہے اور ایک روح ہوتی ہے.اسی طرح پر دہ کا جسم تو یہ ہے کہ اپنی قدرتی اور مصنوعی زینت کو قریبی رشتہ داروں کے سوا کسی غیر مرد پر ظاہر نہ ہونے دیا جائے.اور پردہ کی روح غض بصر ہے یعنی غیر مردوں کے سامنے آنکھوں کو نیچا اور خوابیدہ رکھنا.پس ان دونوں باتوں کوملحوظ رکھنا ضروری ہے.بعض لوگ قرآنی آیت إِلَّا.ظَهَرَ مِنْهَا ( النور : 32) کی غلط تشریح کرتے ہوئے خیال کرتے ہیں کہ عورت کا چہرہ پردہ میں شامل نہیں.مگر یہ ایک صریح غلطی ہے جس کی کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث میں سند نہیں ملتی.عقلاً بھی ظاہر ہے کہ اگر چہرہ کا پردہ نہیں تو پھر پردہ کس چیز کا نام ہے.البتہ چہرہ کا وہ حصہ جو رستہ دیکھنے کے لئے ضروری ہے یعنی آنکھ ، اور اس طرح چہرہ کا وہ حصہ جو سانس لینے کے لئے ضروری ہے یعنی ناک، وہ حسب ضرورت کھلا رکھا جاسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر عورت اپنا سر اور ما تھا اوپر کی طرف سے اور اپنے ہونٹ اور ٹھوڑی اور چہرہ کا ملحقہ حصہ نیچے کی طرف سے ڈھانک کر رکھے تو عام حالات میں منہ کا اسی قدر پردہ کافی ہے.اسی طرح چہرہ کا وہ حصہ جو صحت اور حفاظت وغیرہ کے خیال سے کھلا رہنا ضروری ہے کھلا رہتا ہے اور پردہ بھی ہو جاتا ہے.اور میں نے دیکھا ہے کہ اگر اس قسم کا پردہ صحیح طور پر کیا جائے تو عورت پہچانی نہیں جا سکتی اور پردہ کی غرض و غایت قائم رہتی ہے.حضرت مسیح موعود اس کی شکل کچھ اس طرح بتایا کرتے تھے.دوست اچھی طرح دیکھ کر سمجھ لیں (اس موقع پر حضرت میاں صاحب نے چہرہ کے اوپر کے حصہ پر ایک ہاتھ رکھ کر اور چہرہ کے نیچے کے حصہ پر
مضامین بشیر جلد چهارم 118 دوسرا ہاتھ رکھ کر اور اس کی انگلیاں اوپر کی طرف اٹھا کر پردہ کی عملی صورت ظاہر فرمائی ) ہاں اگر صحت اور حفاظت کے پہلو کو واجبی طور پر ملحوظ رکھتے ہوئے چہرہ کا زیادہ حصہ پردہ میں رہ سکے تو یہ بہتر ہوگا کیونکہ چہرہ بہر حال زینت کا بہترین حصہ ہے.میں امید کرتا ہوں کہ انصار اللہ اپنے نو جوان عزیزوں میں صحیح اسلامی پر دہ رائج کرنے اور انہیں اس پردہ پر قائم رکھنے کی پوری پوری کوشش کریں گے.تا کہ ہماری جماعت دوسرے مسلمانوں کی خلاف شریعت رو سے بہنے سے بچ جائے.بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ انصار اللہ کو صحیح معنی میں انصار اللہ بنائے.وہ دین کے بچے خادم اور جماعت کے مخلص اور فدائی کا رکن بن کر رہیں اور ان کی نسلیں بھی دین کی خادم بنیں.اور خدا تعالیٰ انصار کے اس اجتماع کو ہر رنگ میں مبارک اور کامیاب کرے اور ان کے مشوروں میں برکت ڈالے.تا کہ جو دوست اس وقت یہاں جمع ہیں وہ واپس جاتے ہوئے نئی روح اور نیا ولولہ اور نئی زندگی لے کر جائیں اور جماعت کا قدم ترقی کی طرف اٹھتا چلا جائے.آمین یا ارحم الراحمین.اب ہمیں مسنون طریق پر دعا بھی کر لینی چاہئے.( محررہ 28 اکتوبر 1960ء)......روزنامه الفضل ربوه 3 نومبر 1960ء) ایک غیبی تحریک ہمارے نوجوان دوست توجہ فرمائیں (نوٹ.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے پہلے مقالہ بعنوان ”سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے‘ کے تنقہ کے طور پر یہ ضروری نوٹ رقم فرمایا تھا جو الفضل 2 جنوری 1959 ء میں شائع ہوا.تھا تتمہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے مزید آٹھ عنوان تجویز فرمائے ہیں.ادارہ ) غالباً ایک ماہ کا عرصہ ہوا میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا جس میں مجھے یہ تحریک کی گئی تھی کہ میں نوجوان احمدیوں کو تحقیقی مضامین لکھنے اور اسلام اور احمدیت کی تائید میں علمی لٹریچر تصنیف کرنے کی طرف توجہ دلاؤں چنانچہ اس کی تعمیل میں میرا ایک مضمون الفضل کے جلسہ سالانہ نمبر میں زیر عنوان ” سیف کا کام قلم سے ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 119 دکھایا ہم نے شائع ہوا ہے.میں احمدی عزیزوں کو اس نوٹ کے ذریعہ دوبارہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ الفضل کے جلسہ سالانہ نمبر میں میرا یہ مضمون غور سے مطالعہ فرمائیں اور پھر حسب توفیق اس کارِ خیر میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کریں.جس کی طرف مجھے اپنی رویا میں توجہ دلائی گئی ہے.کیونکہ اس زمانہ میں بھی اسلام کی خدمت کا بہترین اور مؤثر ترین ذریعہ ہے.اپنے اس مضمون میں میں نے مثال کے طور پر ستائیس عنوان بھی تجویز کر کے لکھے تھے جن پر آجکل تحقیقی مضامین لکھنے کی ضرورت ہے.اب میں ان ستائیس عنوانوں پر ذیل کے عنوانوں کا اضافہ کرتا ہوں.احباب ان کو سابقہ عنوانوں کے ساتھ درج کرلیں.یہ زائد عنوان یہ ہیں.(28) ہستی باری تعالیٰ منقولی اور معقولی طریق پر.(29) یوم آخر اور بعث بعد الموت.(30) جنت و دوزخ کی حقیقت.(31) فرشتوں کا وجود اور ان کا کام.(32) تناسخ اور اس کے مقابل پر اسلامی تعلیم.(33) حضرت مسیح موعود کا کرشن ہونے کا دعوی.(34) ہندوؤں میں آخری زمانہ میں ایک اوتار کی بعثت کی پیشگوئی.(35) حضرت بابا نانک کا روحانی مقام.قارئین کرام میرے سابقہ عنوانوں پر مندرجہ بالا آٹھ عنوانوں کا اضافہ فرمالیں.مگر یا درکھیں کہ یہ سب عنوان صرف مثال کے طور پر ہیں اور ان پر حصر نہیں ہونا چاہئے بلکہ وقت اور ماحول کی ضرورت کے مطابق جو مسئلہ بھی سامنے آئے اس کی طرف توجہ دی جائے.مگر جو کچھ لکھا جائے تحقیقی رنگ میں لکھا جائے اور جَادِلْهُمُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: 126) کی آیت مد نظر رہے.(ماہنامہ خالد ر بوہ اکتوبر 1960ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 120 2 غرباء کی امداد کے لئے چندہ کی اپیل دوست اپنے غریب بھائیوں کی خدمت کر کے ثواب کمائیں سردیاں زور پکڑ رہی ہیں اور موسم جلد جلد بدل رہا ہے.اس موسم میں غرباء کی ضروریات لازماً بڑھ جاتی ہیں.کیونکہ ایک تو بعض نے رضائیاں وغیرہ بنانی ہوتی ہیں دوسرے گرم کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور تیسرے خوراک کا خرچ بھی بڑھ جاتا ہے.اس کے علاوہ ربوہ کے غرباء پر جلسہ کے مہمانوں کی وجہ سے بھی کسی قدر زائد بوجھ پڑ جاتا ہے.پس جماعت کے صاحب توفیق اصحاب کو چاہئے کہ اس موقع پر اپنے غریب بھائیوں کی امداد کر کے ثواب کمائیں.اسلام نے امیروں کی دولت میں غریبوں کا بھی حق رکھا ہے.بلکہ ایک حدیث میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امیروں کو مخاطب کر کے یہاں تک فرماتے ہیں کہ شائد خدا تمہیں غریبوں کی وجہ سے ہی زیادہ رزق دے رہا ہے کہ اس طرح غریبوں کی امداد بھی ہو جائے اور تمہیں بھی ثواب کا موقع میسر آجائے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اس خدمت کو غنیمت جانیں.سارارو پیر بوہ میں آنا ضروری نہیں.کچھ روپیہ اپنے آس پاس کے غریبوں کی امداد میں خرچ کیا جائے اور کچھ ربوہ بھجوا دیا جائے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں فراخی پیدا کرے.آمین ( محرره 14 نومبر 1960ء) روزنامه الفضل ربوه 16 نومبر 1960ء) حضرت خلیفہ اسیح کے لئے دعا کی تحریک ربوہ اور قادیان کے جلسہ کے لئے بھی دعا کی جائے حضرت خلیفہ اسی الثانی اید اللہ بصرہ العزیز کی موجودہ بیماری کواب قریباً دو سال ہو چکے ہیں اور اس عرصہ میں حضور مسلسل صاحب فراش رہے ہیں.مگر ابھی تک حضور کی بیماری میں کوئی مستقل اور معتد بہ افاقہ کی صورت پیدا نہیں ہوئی.ابھی کل ہی حضور لاہور کے چند روزہ قیام کے بعد ربوہ واپس تشریف لائے ہیں.
مضامین بشیر جلد چهارم 121 لاہور میں حضور کو لندن کے مشہور ڈاکٹر ہنٹر صاحب اور ہندوستان کے ڈاکٹر کرنل امیر چند صاحب نے دیکھا ہے اور باہم مشورہ سے بعض ہدایات دی ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ شافی مطلق ہے اور جس کے ہاتھ میں ہر بیماری کا علاج ہے اور وہی مریضوں کو شفا اور ڈاکٹروں کے دل و دماغ میں روشنی عطا کرنے والا ہے.اپنے فضل وکرم سے حضرت خلیفتہ اسیح کو شفا دے اور حضور پہلے کی طرح جماعت کی فعال قیادت کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی کشتی کو کامیابی کے ساتھ منزلِ مقصود کی طرف بڑھاتے چلے جائیں.اور اللہ تعالیٰ جماعت کو ان ایام میں ہر کمزوری سے محفوظ رکھے اور اس کے لئے دین و دنیا میں ترقی کا رستہ کھولے.اور اس کی آئندہ نسل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک صحابہ کا وارث بنائے.اور جماعت کے متعلق ان تمام وعدوں کے پورا ہونے کا سامان پیدا کرے جو اس نے اپنے پیارے مسیح کے ذریعہ فرمائے ہیں.آمِنینَ یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ نیز اب قادیان کا جلسہ سالانہ اور ربوہ کا جلسہ سالانہ بھی بہت قریب آگئے ہیں.احباب کرام ان جلسوں کی کامیابی کے لئے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان جلسوں کو ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ کرے.اور سننے والوں کے دل کی کھڑکیاں کھول دے تا کہ وہ ان جلسوں کے برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر واپس لوٹیں.اور جلسہ میں کام کرنے والے کارکنوں کو بھی مقبول خدمت دین کی توفیق دے اور ہم سب کو اپنے فضل وکرم کے سایہ میں رکھے.آمین ( محررہ 20 نومبر 1960ء) روزنامه الفضل ربوہ 22 نومبر 1960 ء ) 44 ام مظفر احمد ابھی تک لاہور میں بیمار ہیں لاہور سے تین دن سے فون پر مسلسل اطلاع آرہی ہے کہ ام مظفر احمد کو پھر پٹنہ کی تکلیف زیادہ ہے جس کی وجہ سے متلی اور درد کے علاوہ بخار بھی ہو گیا ہے اور بے چینی بہت رہتی ہے.دوسری طرف ٹوٹی ہوئی ہڈی کا جوڑ بھی ابھی تک پوری طرح ٹھیک نہیں ہوا اور ذراسی حرکت سے درد ہو جاتی ہے.ڈاکٹر امیر الدین صاحب سرجن جنہوں نے ام مظفر احمد کا آپریشن کیا تھا اور ڈاکٹر کرنل امیر چند صاحب فزیشن جو آج کل لاہور آئے ہوئے ہیں ام مظفر احم کو دیکھ کر مناسب مشورہ دیا ہے اور ڈاکٹر صاحبان نے احتیاطاً بستر میں سیدھا لٹایا ہوا
مضامین بشیر جلد چهارم 122 ہے.ادھر میں قریباً تین ماہ کے قیام کے بعد جلسہ کے قرب کی وجہ سے ربوہ آگیا ہوں اور اس وقت بہت سے کام در پیش ہیں.اور میری غیر حاضری ام مظفر احمد کے لئے لاہور میں مزید بے چینی کا موجب ہو رہی ہے اور خود میں بھی ربوہ میں گویا اکھڑی ہوئی زندگی بسر کر رہا ہوں.گو ایک سچے مومن کا حقیقی تعلق صرف خدا کے ساتھ ہوتا ہے اور وہی اس کا اصل سہارا ہے مگر انسان فطرتا دوسرے تعلقات کے اثر سے بھی آزاد نہیں ہو سکتا اور شریعت نے مومنوں پر ان کے اہلِ خانہ کا بھاری حق رکھا ہے.پس احباب کرام اور اپنے مخلص دوستوں سے میری درخواست ہے کہ ام مظفر احمد کے لئے اور میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے صحت عطا کرے اور ہماری پریشانی دور فرمائے.اور اللہ تعالیٰ عمر کے اس آخری دور میں ایسے حالات سے محفوظ رکھے جو خدمت دین میں روک بن جاتے اور پریشانی کا موجب ہوتے ہیں اور انجام بخیر ہو.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محرره 21 نومبر 1960ء) (روزنامه الفضل ربوہ 23 نومبر 1960ء) کتاب شانِ خاتم النبین “ کے متعلق رائے خاتم حال ہی میں ایک کتاب ” شانِ خاتم النبیین مصنفہ محترمی قاضی محمد نذیر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ شائع ہوئی ہے.دراصل یہ کتاب قاضی صاحب موصوف کی ایک تقریر کی توسیع ہے جو انہوں نے جلسہ سالانہ 1952ء کے موقع پر کی تھی اور میں نے اس تقریر کے خاتمہ پر محترم قاضی صاحب کو اس کامیاب تقریر پر مبارک باد دیتے ہوئے تحریک کی تھی کہ اگر اس تقریر کو مناسب نظر ثانی کے بعد کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے تو انشاء اللہ بہت مفید ہوگا.اور مجھے دلی خوشی ہوئی کہ بالآخر یہ تقریر ایک مستقل رسالہ کی صورت میں شائع ہوگئی ہے.قاضی صاحب نے اس دلچسپ اور علمی تصنیف میں حضور سرور کائنات خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختم نبوت جو ایک ایسا بلند اور ارفع مقام ہے جو نہ صرف تمام دوسرے نبیوں کے لئے گل سرسبد کا حکم رکھتا ہے بلکہ حقیقتا یہ ایک عدیم المثال قدرتی آبشار ہے جس سے پانی حاصل کر کے تمام پہلی اور پچھلی نہریں روحانی کھیتوں کو سیراب کر رہی ہیں.ضمناً اس کتاب میں یہ بحث بھی کافی صورت میں
مضامین بشیر جلد چهارم 123 آگئی ہے کہ ختم نبوت کے مقام کا جو تصور آج کل دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے وہ اس عجیب و غریب مقام کی صحیح اور حقیقی تشریح نہیں ہے اور نہ اس میں اس غیر معمولی بلندی کا نظریہ موجود ہے جو اس عدیم المثال مقام کا مرکزی نقطہ ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس مفید رسالہ کی اشاعت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے کر وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرنے میں ہاتھ بٹائیں گے.محرره 23 دسمبر 1954 ء) روزنامه الفضل ربوہ 30 نومبر 1960ء) وو حیات بقا پوری حصہ پنجم کے متعلق ایک ضروری توضیح حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کی مرتب کردہ حیات بقا پوری حصہ پنجم کے متعلق نظارت امور عامہ ربوہ کا اعلان الفضل میں شائع ہو چکا ہے.جس میں اس کتاب کی اشاعت کو بعض وجوہات کی بناء پرفی الحال روکا گیا ہے.مگر یہ اعلان اپنے اختصار کی وجہ سے حقیقت حال کو پوری طرح واضح نہیں کرتا.دراصل اس کتاب میں حضرت مولوی بقا پوری صاحب نے اپنے بعض الہامات اور رؤیا اور کشوف درج فرمائے ہیں جن میں سے بہت سی باتیں ایمان افروز ہیں.لیکن چونکہ کسی الہام یار و یا کوتحدی کے ساتھ بیان کرنا صرف انبیاءاور مامورین کا کام ہے اور دوسرے لوگوں کو بعض اوقات غلطی لگ سکتی ہے اور غلط تشریح بھی ہو سکتی ہے اور ہر خواب قابل اشاعت بھی نہیں ہوتی اس لئے اس مجموعے میں بعض ایسی باتیں درج ہو گئی ہیں جن کا درج ہونا کسی طرح مناسب نہیں تھا.اور وہ بعض مخلص اور ممتاز خدام سلسلہ کے متعلق جن میں سے بعض وفات پا کر اپنے مولیٰ کے حضور پہنچ چکے ہیں غلط فہمی کا موجب ہو سکتی ہیں بلکہ بعض صورتوں میں فتنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں.حضرت مولوی بقا پوری صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ ایسی باتوں کی نشاندہی پر اپنے اس مجموعے سے خارج کر دیں گے.نظارت امور عامہ کو چاہئے کہ ایسی باتوں کی فہرست تیار کرا کے اصلاح کی غرض سے حضرت مولوی صاحب کو دے دے تا کہ وہ ان باتوں کو اپنے مجموعے سے خارج کر دیں.آئندہ کے لئے بھی ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ جیسا کہ قادیان میں ہوتا تھا.ہر کتاب کی اشاعت سے قبل اس کا مسودہ صدر انجمن احمد یہ یا انجمن تحریک جدید کے کسی مناسب عالم یا کمیٹی کے سامنے پیش کر کے منظوری حاصل کی جائے.تاکہ کوئی قابلِ
مضامین بشیر جلد چہارم 124 اعتراض بات یا کوئی نا قابلِ اشاعت بات ہمارے لٹریچر اور خصوصاً مرکز سے شائع ہونے والے لٹریچر میں راہ نہ پائے.(تحریر کے لئے روز نامہ الفضل 3 دسمبر 1960 ء ملاحظہ فرماویں ) ( محررہ یکم دسمبر 1960ء) (روز نامہ الفضل ربوہ 3 دسمبر 1960ء) رسالہ راہ ایمان نے جماعت کی ایک حقیقی ضرورت کو پورا کیا ایک مختصر سا رسالہ ” راہ ایمان“ کے نام سے شیخ خورشید احمد صاحب اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل نے حسب منشاء حضرت سیدہ ام متین صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ اسیح الثانی لکھ کر شائع کیا ہے.اس رسالہ کی غرض وغایت چھوٹی عمر کی احمدی بچیوں کے لئے اسلام اور احمدیت کے متعلق ابتدائی معلومات مہیا کرنا ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس رسالہ میں بڑی حد تک اس غرض کو پورا کر دیا ہے.کلمہ طیبہ اور ارکانِ اسلام اور نماز روزہ کے مسائل سے شروع کر کے اس رسالے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر سے حالات اور خلافت کا با برکت نظام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ضروری تعلیم اور اخلاق فاضلہ اور سلسلہ احمدیہ کی ہدایات اور مرکزی نظام جماعت وغیرہ کے متعلق مفید معلومات ایسے رنگ میں جمع کر دئے گئے ہیں جو چھوٹی عمر کی بچیوں کے لئے انشاء اللہ بہت مفید ثابت ہوں گے.در حقیقت اس رسالہ نے جماعت کی ایک حقیقی ضرورت کو پورا کیا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے مفید بنائے اور اس کی اشاعت احمدی بچیوں کے لئے با برکت ثابت ہو.آمین محرره 28 نومبر 1960ء ) روزنامه الفضل ربوه 6 دسمبر 1960ء).......ام الالسنہ کے متعلق شیخ محمد احمد صاحب کا تحقیقی مضمون شیخ محمد احمد صاحب کپورتھلہ حال امیر جماعت احمد یہ لائل پور ( حال فیصل آباد ) ایک بہت مخلص اور علم دوست بزرگ ہیں.وہ سالہا سال سے ام الالسنہ کے مضمون کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں اور حال
مضامین بشیر جلد چهارم 125 ہی میں اس موضوع پر ان کے بعض مضامین رسالہ الفرقان میں شائع ہوئے ہیں.نیز اس موضوع پر ریویو آف ریلیجز انگریزی میں بھی اس وقت نو اقساط شائع ہو چکی ہیں اور دسویں قسط سنسکرت زبان کے متعلق ابھی ابھی ریویو کے خاص نمبر میں شائع ہوئی ہے.جس میں سنسکرت کے کثیر حصہ لغت کا سراغ عربی تک پہنچایا گیا ہے.محترم شیخ محمد احمد صاحب کی یہ علمی تحقیق نہایت قابل قدر ہے بلکہ دراصل یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس معرکۃ الآراء تحقیق کا تتمہ ہے جو حضور نے اپنی کتاب من الرحمن میں خدا سے علم پا کر فرمائی ہے.احباب کو چاہئے اس علمی تحقیق میں خاص دلچسپی لیں تا کہ یہ کام اپنی پوری شان کے ساتھ تکمیل کو پہنچ جائے.دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ صرف ایک علمی تحقیق ہی نہیں ہے بلکہ تبلیغ اسلام کا ایک زبر دست حربہ بھی ہے.کیونکہ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوئی ختم نبوت پر اور قرآن کے آخری شریعت ہونے پر زبر دست روشنی پڑتی ہے.قرآن مجید فرماتا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَان قَوْمِهِ (ابراهيم:4) یعنی ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس لئے ضروری تھا کہ وہ عظیم الشان نبی جو ختم نبوت کا تاج پہن کر آیا اور ساری قوموں اور سارے زمانوں کے لئے مبعوث ہوا وہ ایسے ملک میں پیدا ہوتا جس کی زبان تمام زبانوں کی ماں ہوتی.یہی وہ صورت ہے جس میں قرآنی ارشاد بلسان قومہ کا مفہوم صحیح صورت میں متحقق ہوسکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت سے آپ کو ایسی زبان کے ساتھ مبعوث کیا جو تمام زبانوں کی ماں ہے.اور اس طرح گویا آپ کی بعثت عربی زبان کے ذریعہ دنیا بھر کی زبانوں کے ساتھ ہوگئی.پس اتم الالسنہ کی تحقیق ایک محض علمی تحقیق ہی نہیں ہے بلکہ ایک عظیم الشان تبلیغی تحقیق بھی ہے جس کا اسلام کی صداقت کے ساتھ گہرا تعلق ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے ہمارے بھائی شیخ محمد احمد صاحب کو اس میدان میں تحقیق کرنے اور اپنی تحقیق کو کامیاب انجام تک پہنچانے کی توفیق دی اور اس ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ مقدس منشاء اور مقصد پورا ہوا جو کتاب متن الرحمن کی تصنیف میں حضور کو مد نظر تھا.پس جماعت کا فرض ہے کہ اس اہم کام میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لے تا کہ محترم شیخ محمد احمد صاحب نہ صرف اپنی اس تحقیق کو مکمل صورت میں شائع کر سکیں.بلکہ اگر اس میں ابھی تک کوئی امر تکمیل کا متقاضی ہو تو اسے بھی مکمل کر
مضامین بشیر جلد چهارم 126 سکیں.اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو اور ان کو اس خدمت کی بہترین جزا دے.آمین (محرره 4 دسمبر 1960ء).......روز نامه الفضل ربوہ 8 دسمبر 1960ء) 50 میاں صدر الدین صاحب درویش کی وفات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مکرم میاں صدر الدین صاحب درویش کی وفات کی اطلاع الفضل میں بھجواتے ہوئے آپ کے یہ اوصاف تحریر فرمائے.میاں صدرالدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی اور بہت مخلص احمدی تھے.قادیان کی مقامی آبادی میں سے احمدی ہونے والوں میں وہ ابتدا ئی مخلصین میں شامل تھے.غالبا وفات کے وقت عمر نوے اور سوسال کے درمیان ہوگی.باوجود نا خواندہ ہونے کے بہت نیک اور متقی بزرگ تھے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے اور ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.آمین محررہ 25 دسمبر 1960 ء) روزنامه الفضل ربوہ 9 دسمبر 1960ء) نام واپس لینے والے دوستوں کو ضروری انتباہ قافلہ قادیان کے تعلق میں قریباً ہر سال یہ تلخ تجربہ ہوتا ہے کہ بعض دوست شروع میں قافلہ کی شمولیت کے لئے درخواست دیتے ہیں اور اصرار کے ساتھ اپنا نام شامل کرواتے ہیں.لیکن جب انہیں قافلہ کی فہرست میں شامل کر لیتے ہیں تو پھر آخری وقت پر کوئی نہ کوئی عذر پیش کر کے اپنا نام واپس لینے کی درخواست بھجوا دیتے ہیں بلکہ بعض اصحاب تو ایسے وقت پر اپنا نام واپس لیتے ہیں جبکہ ہماری طرف سے حکومت کو قافلہ کی فہرست بھجوا دی گئی ہوتی ہے.اس کے نتیجہ میں ہمیں طبعا بڑی مشکل پیش آتی ہے اور خرچ شدہ رقم بھی ضائع ہو جاتی ہے.سو ایسے دوستوں کے انتباہ کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر آئندہ کوئی صاحب درخواست دینے اور انتخاب میں آجانے کے بعد اپنا نام واپس لیں گے تو مناسب حرجانہ
مضامین بشیر جلد چهارم 127 وصول کرنے کے علاوہ ایسے دوست کو آئندہ کسی قافلہ میں قادیان جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی.سوائے اس کے ایسے ناگزیر حالات پیدا ہو جائیں جن کی وجہ سے ایسے دوست کا قافلہ میں جانا بالکل ناممکن ہو جائے اور امیر صاحب مقامی یا امیر صاحب ضلع اس کی تصدیق فرمائیں کہ واقعہ مجبوری کی صورت پیدا ہو گئی ہے.اسی طرح بعض دوست ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ہماری طرف سے قافلہ کے متعلق قبل از وقت بار بار اعلان ہونے کے باوجود خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور جب ہم انتخاب کرنے لگتے ہیں تو عین اس وقت ہم پر زور ڈالنا شروع کرتے ہیں کہ ہمیں بھی قافلہ قادیان میں شامل کیا جائے.ایسے دوستوں کو بھی یا درکھنا چاہئے که آئنده بعد از وقت درخواستوں پر غور نہیں کیا جائے گا.سوائے ایسی استثنائی صورت کے جو امیر مقامی کی خاص سفارش پر قابل قبول سمجھی جائے گی اور فہرست میں بھی گنجائش ہوگی.ان دونوں باتوں کے متعلق خدائی جماعت کے چوکس ممبروں کو آئندہ بہت محتاط رہنا چاہئے ورنہ شکایت بے سود ہوگی بلکہ ہمیں جائز شکایت کا حق پیدا ہوگا.محررہ 10 دسمبر 1960 ء) روزنامه الفضل ربوہ 13 دسمبر 1960ء) خدا کی قدرت ورحمت کا ہاتھ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے آج کل حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیماری کی وجہ سے بعض اندرونی اور بیرونی فتنہ پرداز مختلف قسم کی ناپاک سکیموں کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے اور نقصان پہنچانے کے در پے ہیں.اور بعض نے حضور کی موجودہ بیماری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر حضور کے خلاف حد درجہ گندہ اور ناپاک اور توہین آمیز اور اشتعال انگیز اور اشاعت فحشاء کا بدترین حامل لٹریچر شائع کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے.اور ہم سے توقع کی جاتی ہے بلکہ ایک رنگ میں ہمیں اکسایا جاتا ہے کہ ہم بھی اس نا پاک کھیل کے میدان میں کود پڑیں.ان لوگوں کا اصل جواب تو یہ ہے کہ:
مضامین بشیر جلد چهارم 128 اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ یعنی اے زمین و آسمان کے خدا! ہم ان لوگوں کے ناپاک حملوں کے خلاف تیرا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور ان کی فتنہ پردازی کے مقابل پر تیری پناہ کے طالب ہیں.دوسری طرف مارشل لاء کی بیدار مغز حکومت بھی یہ سب باتیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی ہے کہ کس ناپاک اور اشتعال انگیز طریق پر ایک عالمگیر مذہبی جماعت کے امام کے خلاف بدترین فحشاء کی اشاعت کی جارہی اور لاکھوں انسانوں کا دل دکھایا جا رہا ہے.وہ اگر فرض شناسی کی آنکھ سے حالات کا مطالعہ کرے گی تو اس کا ضمیر اسے خود حرکت میں آنے پر آمادہ کرے گا.ہمیں اس وقت اس معاملہ میں خدا کے سوا کوئی اور دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں.وگفی بِاللهِ نَصِيرًا(النساء:46) فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الحج: 79) حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا ایک بہت پیارا قول ہے کہ: درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے“ حضرت خلیفۃ السیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خلافت پر اب نصف صدی کے قریب زمانہ گزرتا ہے اور اس طویل عرصہ میں جس طرح خدا نے ہر مرحلہ پر آپ کی نصرت فرمائی اور خدمتِ دین کے معاملہ میں آپ کی کوششوں کو غیر معمولی صورت میں نوازا اور کامیابی پر کامیابی عطا کی اور آپ کے ذریعہ دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت کا رستہ کھولا اور گوروں اور کالوں نے آپ کے ہاتھ سے برکت پائی وہ خدائے عز وجل کی ایک بولتی ہوئی تقدیر ہے جس پر کسی نوع کا دجل پردہ نہیں ڈال سکتا.درخت اپنے پھل سے شہادت دے رہا ہے اور قافلہ خدا کے فضل سے آگے بڑھتا جارہا ہے اور اعتراض کرنے والے لوگ اعتراض کر رہے ہیں اور اعتراض کرتے چلے جائیں گے.مگر دوسری طرف خدا کی یہ بھی سنت ہے کہ اس کی جماعتوں پر گاہے گا ہے خوف اور پریشانی کی گھڑیاں بھی آتی رہتی ہیں.چنانچہ قرآن فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّر الصّبرينَ (البقره: 156) یعنی اے مومنو! ہم تمہیں کبھی کبھی خوف کی گھڑیوں اور بھوک اور مالی تنگی اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے آزمائیں گے تم ایسے موقعوں پر صبر وثبات سے کام لینا.کیونکہ صبر سے کام لینے والوں کے لئے ہماری طرف سے بڑی بڑی بشارتیں ہیں.پس میں اپنے احمدی بھائیوں سے کہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی بیماری سے
مضامین بشیر جلد چهارم 129 ناجائز فائدہ اٹھا کر جو نا پاک مہم بعض لوگوں نے جماعت کے خلاف شروع کر رکھی ہے اس سے ہرگز ہراساں نہ ہوں اور صبر وصلوٰۃ سے کام لیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا کا وعدہ ہے کہ: نُبَدِ لَنَّكَ مِنْ بَعْدِ خَوفِكَ أَمْنًا یعنی ہم تیرے خوف کی حالت کے بعد اسے پھر امن کی صورت میں بدل دیں گے.البتہ یہ ضروری ہے کہ ہم ان ایام میں خصوصیت کے ساتھ خدا کے حضور دعائیں کریں اور اس کی طرف جھکیں اور اس کے دامن سے لپٹ کر اس کی قدرت اور رحمت کے نشانوں کے طالب ہوں.ایک طرف حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی صحت اور شفایابی کے لئے دعائیں کریں تا کہ اللہ تعالیٰ حضور کی موجودہ بیماری کو (جو بشریت کا ایک طبعی لازمہ ہے) اپنے فضل وکرم سے دور فرمائے اور دوسری طرف جماعت کی ترقی اور مضبوطی اور نو جوانوں کی تربیت کے لئے بھی خدا کے حضور خاص طور پر دعائیں کریں اور اس کے لئے ہر ممکن ظاہری تدابیر سے بھی کام لیں تاکہ دعا اور دوا کا اثر مل کر بہترین نتیجہ پیدا کرے.اور اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے نفسوں کا بھی محاسبہ کرتے رہیں اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش میں لگے رہیں.حضرت یوسف علیہ السلام خدا کے ایک پیارے نبی تھے وہ فرماتے ہیں اور کس عاجزی سے فرماتے ہیں کہ: وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي (يوسف: 54) یعنی میں اپنے نفس کو کمزوریوں سے مبرا نہیں قرار دیتا کیونکہ انسانی نفس بسا اوقات ٹھوکر کھا جاتا ہے اور بدی کی طرف جھک جاتا ہے سوائے اس کے خدا اپنے رحم سے سنبھال لے.تو جب خدا کے ایک برگزیدہ نبی کا یہ قول ہے تو ہم کس حساب میں ہیں.پس ضروری ہے کہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ ہم لوگ اپنے نفسوں کا محاسبہ بھی کرتے رہیں.بعض اوقات جماعت کی کوئی کمزوری امام کے لئے ایک امتحان بن جاتی ہے.کیونکہ جس طرح امام کے اعمال کا اثر جماعت پر پڑتا ہے اسی طرح جماعت کے اعمال کا اثر امام پر پڑتا ہے.اور خدا کا یہ بھی ایک قانون ہے کہ: إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (هود: 115) یعنی نیکیوں میں خدا کی طرف سے یہ تاثیر رکھی گئی ہے کہ وہ بدیوں کے اثر کو مٹادیتی ہیں.پس اے میرے عزیز و اور دوستو اور بزرگو اور بھائیو اور بہنوں! اپنے اعمال کا محاسبہ کر کے اپنی بدیوں کو مٹاؤ اور نیکیوں کو بڑھاؤ کہ یہی ہماری ترقی اور ہماری مضبوطی اور ہماری دعاؤں کی قبولیت کا واحد ذریعہ ہے.
مضامین بشیر جلد چہارم 130 ہم ہر لحاظ سے کمزور ہیں مگر ہمارا خدا بڑا طاقت ور خدا ہے.اس سے دعا کرو اور دعا کرتے چلے جاؤ کہ جس مقصد کے لئے اس نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے یعنی اسلام کا احیاء اور اسلام کی اشاعت اور اسلام کا عالمگیر غلبہ، اس مقصد میں ہماری کمزوریوں کی وجہ سے کوئی رخنہ نہ پیدا ہو.وہ ہم پر خوش رہے اور ہماری کمزوریوں کو معاف کرے اور ہماری کوششوں کو بہترین اجر سے نوازے اور ہمارے دشمنوں کو خائب و خاسر کرے اور ہمارا انجام بخیر ہو.مجھے اس وقت اپنا ایک بہت پرانا شعر یاد آرہا ہے جو میں نے سکول کے زمانہ میں کہا تھا.آج پچاس سال کے بعد بھی یہ شعر میرے دل کی آواز ہے بلکہ وہ ہر مخلص احمدی کے دل کی آواز ہونی چاہئے اور وہ شعر یہ ہے کہ: ہوں گنہگار مگر ہوں تو ترا ہی بندہ مجھ سے ناراض ترے صدقے مری جان نہ ہو یقیناً اگر ہم خدا کے بندے بن کر رہیں گے تو خدا ہمارا ہوگا اور جس کے ساتھ خدا ہوا سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيم محرره 12 دسمبر 1960 ء)........روزنامه الفضل ربوہ 17 دسمبر 1960ء) دورخی وفاداری کا سوال اور مسٹر کینیڈی خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کا مسلک بالکل واضح اور پاک وصاف ہے گزشتہ ایام میں جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نئے صدر کے انتخاب کے تعلق میں مسٹر نکسن اور مسٹر کینیڈی کے درمیان زبر دست رسہ کشی ہورہی تھی تو اس وقت مذہبا رومن کیتھولک ہونے کی وجہ سے مسٹر کینیڈی کے متعلق یہ سوال گرما گرم بحث کا موضوع بن گیا تھا کہ چونکہ رومن کیتھولک عقیدہ رکھنے والے لوگ پوپ کی فرمانبرداری کا دم بھرتے ہیں اور اس معاملہ میں بہت سخت رویہ رکھتے ہیں اس لئے اگر کسی موقع پر امریکہ کے مفاد اور پوپ کی ہدایات میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوگئی اور ڈیوائیڈ ڈ فائیڈیلیٹی Divided) (Fidelity کا سوال اٹھ کھڑا ہوا تو ایسے وقت میں مسٹر کینیڈی کا رویہ کیا ہوگا ؟ آیا وہ اس صورت میں اپنے
مضامین بشیر جلد چهارم 131 ملک اور اپنے عہدہ کے مفاد کو مقدم رکھیں گے یا کہ اپنے عقیدہ کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے مذہبی پیشوا پوپ کی ہدایت پر عمل کریں گے؟ مسٹر کینیڈی ایک بہت ہوشیار آدمی ہیں انہوں نے اس بحث میں یہ جواب دے کر اپنی جان چھڑائی کہ اگر کبھی اس قسم کے ٹکراؤ اور تضاد کی صورت پیدا ہوئی تو میں عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے دوں گا.(اخبار ٹائم نیویارک امریکہ صفحہ 11 اشاعت مؤرخہ 26 ستمبر 1960ء) اس جواب سے امریکہ کے بیشتر سیاسی حلقوں میں تسلی کی صورت پیدا ہوگئی اور مسٹر کینیڈی اپنے حریف مسٹر نکسن کے مقابلہ میں کامیاب ہو کر امریکہ کے نئے صدر بن گئے اور آئندہ چار سال تک وہی امریکہ کے مدارالمہام ہوں گے.بلکہ ایک طرح سے دنیا بھر کی سیاست کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں رہے گی.یا یوں کہو کہ سیاست عالم کی رتھ کے بیلوں میں سے ایک بیل کی باگ ڈوران کے ہاتھ میں ہوگی اور دوسرے بیل کی باگ ڈور بدستور روس کے آمر مطلق کے ہاتھ میں رہے گی اور یا جوج ماجوج کی اس کشمکش میں دنیا کا حافظ خدا ہے.لیکن اگر غور کیا جائے تو مسٹر کینیڈی کا یہ جواب ان کے اپنے معتقدات کی رو سے بھی درست جواب نہیں تھا.ان کو حضرت مسیح ناصرٹی کے مشہور قول کے مطابق یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ: جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو (متی باب 22 آیت 21 و 22) مگر شاید مسٹر کینیڈی اپنے ملک کے ووٹروں سے ڈر گئے کہ کہیں حضرت مسیح کے قول کے مطابق جواب دینے سے ان کے لئے امریکہ کے سیاسی حلقوں میں کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو جائے.حالانکہ حضرت مسیح کا نظر یہ بالکل واضح ہے کہ حقوق کے مختلف میدان ہوتے ہیں اور ہر میدان سے تعلق رکھنے والی ذمہ داریاں بھی مختلف ہوا کرتی ہیں اور اگر انسان ان ذمہ داریوں کو سمجھ بوجھ اور دیانتداری کے ساتھ ادا کرے تو کوئی ٹکراؤ کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی.لیکن چونکہ حضرت مسیح ناصری کی بعثت عالمگیر نہیں تھی اور صرف اسرائیلی اقوام تک محدود تھی اس لئے انہوں نے اپنے جواب کو صرف اپنے ملک اور اپنی قوم کے مخصوص حالات تک محدود رکھا اور قیصر روما کی مثال سے آگے نہیں گئے اور نہ ہی اس اصول کی تشریح فرمائی اور غالبا ایسی تشریح ان کے لئے ممکن بھی نہیں تھی.لیکن اسلام اور احمدیت کا مشن عالمگیر ہے اس لئے خدا کے فضل سے ہمارے تعلیم میں اس مسئلہ کی پوری پوری تشریح موجود ہے.اور اسے ایک وسیع اصول کے طور پر بیان کر کے اس کے سارے امکانی
مضامین بشیر جلد چهارم 132 پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے.جس کے نتیجہ میں ہمارا مسلک بالکل ظاہر وعیاں ہے اور ہمیں خدا کے فضل سے کسی پریشانی اور کسی الجھن میں مبتلا ہونے اور کسی کے سامنے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں.نہ صرف یہ کہ ہمارا سراونچا ہے بلکہ ہمارا ضمیر بھی بالکل صاف اور پاک ہے.وَ ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ وَلَا فَخْرَ.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ (النساء:60) یعنی اے مومنو! تم پر واجب ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس کے علاوہ جو لوگ تم میں حاکم ہوں ان کے بھی فرمانبردار ہو.اس اصولی آیت میں جو منکم کا لفظ آتا ہے ( یعنی تم میں ) اس سے یہ شبہ نہیں کرنا چاہئے کہ صرف ایسے حاکموں کی اطاعت فرض ہے جو مومن اور مسلمان ہوں بلکہ یہ آیت ایک اصول کے رنگ میں ہے اور من کا لفظ عربی زبان میں عام طور پر فینی کے معنی میں بھی آتا ہے اور مراد یہ ہے کہ جو لوگ تم میں اُولِسی الامر یعنی صاحب حکومت ہوں ان کی اطاعت ہر سچے مسلمان پر واجب ہے.علاوہ ازیں اس آیت میں حاکم اور محکوم کو ایک گروپ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ تم میں سے بعض حاکم ہیں اور بعض محکوم ہیں.پس جو بھی حاکم ہے اس کی اطاعت کرو اور ظاہر ہے کہ اس حکم میں مسن اور فٹ کی بحث کا سوال پیدا نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بائی سلسلہ احمدیہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قرآن شریف میں حکم ہے اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ (النساء: (60) یہاں اُولی الامر کی اطاعت کا صاف طور پر حکم ہے.اور اگر کوئی کہے کہ منکم میں (غیر مسلم ) گونمنٹ شامل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہوگی.گورنمنٹ جو حکم شریعت کے مطابق دیتی ہے (یعنی اس کے احکام میں شریعت کے احکام سے صریح ٹکراؤ نہیں پایا جاتا ) وہ اسے مِنكُمُ میں داخل کرتا ہے.مثلاً جو شخص ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ دراصل ہم میں داخل ہے.پس اشارۃ النص کے طور پر قرآن سے ثابت ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئے.“ اسی طر حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 261) مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ يَعْصِنِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَمَنْ اللَّهَ وَمَنْ يُطِعِ الْأَسِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي - مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب اطاعت الامارة في غير )
مضامین بشیر جلد چهارم 133 یعنی جو شخص میری اطاعت کرتا ہے وہ دراصل خدا کی اطاعت کرتا ہے اور جو شخص میری نافرمانی کرتا ہے وہ دراصل خدا کی نافرمانی کرتا ہے.اور جو شخص اپنے حاکم کی اطاعت کرتا ہے وہ بھی دراصل میری اطاعت کرتا ہے اور جو شخص حاکم کی نافرمانی کرتا ہے وہ دراصل میری نافرمانی کرتا ہے.اس حدیث میں اطاعت کے فلسفہ پر بڑی روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ دراصل اطاعت کا حق دار تو صرف خدا ہے جو ہمارا خالق و مالک اور افراد و اقوام عالم کا آقا ہے اور باقی سب ظل کے طور پر اس حکم میں آتے ہیں.نبی خدا کا نمائندہ اور اس کا پیغامبر اور لوگوں تک اس کے احکام پہنچانے والا ہے اس لئے اس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے.حاکم خدا کی مخلوق میں نظام اور امن قائم رکھنے والا اور اس کے بندوں کی جان و مال اور آبرو کا محافظ ہے اس لئے اس کی اطاعت بھی خدا کے منشاء کو پوری کرنے والی ہے اور گویا خود اسی کی اطاعت ہے.اس طرح یہ ساری اطاعتیں در حقیقت ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور حاکم کی اطاعت میری اطاعت ہے.اسی اصول کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کی رو سے جس حکومت میں بھی کوئی شخص رہے اس حکومت کا اسے وفادار رہنا چاہئے.یہ خیال کرنا کہ ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں کی اپنی حکومتوں سے وفاداری صرف اسی وقت تک ہو گی جب تک امام جماعت احمدیہ ان کو ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے اول درجہ کی حماقت اور بیوقوفی ہے.اس معاملہ میں امام جماعت احمد یہ کوئی حق ہی نہیں رکھتا.اسلامی تعلیم کو دوہرانا ( اور اس پر لوگوں کو چلانا ) اس کا کام ہے وہ اسے بدل نہیں سکتا.حکومت کی وفاداری ہمارے نزدیک قرآن کریم کا حکم ہے اور قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے.کوئی خلیفہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اس حکم کو بدل دے.کیونکہ خلیفہ ڈکٹیٹر نہیں بلکہ وہ نائب ہے اور نائب اپنے بالا حکام کے احکام کا اسی طرح تابع ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے لوگ.“ 66 اسی طرح ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں کہ: (الفضل مؤرخہ 5 اپریل 1949ء) سرکاری افسروں اور ملازمین پر خصوصیت سے ان ہدایات کی پابندی لازم ہے جو حکومت کی طرف
مضامین بشیر جلد چهارم 134 سے ان کے متعلق جاری ہوں اور جن امور میں حکومت کی طرف سے ان پر پابندی عائد کی جائے ان کی تعمیل میں سرِ مو فرق نہیں آنا چاہئے.ایمان اور دیانت کا یہی تقاضا ہے کہ جب کوئی شخص حکومت کی ملازمت اختیار کرتا ہے تو ملازمت اختیار کرنا ہی اس کی طرف سے اس بات کا عہد ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرائض کو سرگرمی اور اخلاص اور دیانت کے ساتھ ادا کرتا رہے گا.اور حکومت کی جاری شدہ تمام ہدایات کی پوری طرح پابندی کرے گا.اس عہد کی خلاف ورزی اسے حکومت کی طرف سے بھی قابل مواخذہ بناتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رو برو بھی وہ جواب دہ ہوتا ہے اور وہ اپنے ایمان اور تعلق باللہ کو خطرہ میں ڈالتا ہے.“ (اخبار مصلح 18 جون 1953ء) عقلاً بھی یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ جو جماعت عالمگیر مشن رکھتی ہو اور اس نے ہر ملک میں تبلیغ کرنی ہو اور ہر قوم میں اس کے ممبر اور ہم عقیدہ لوگ پائے جاتے ہوں وہ لازماً اسی اصول پر قائم ہوسکتی ہے کہ جس ملک میں کوئی شخص رہے وہ اس کی حکومت کا پوری طرح وفادار رہنا چاہئے.ورنہ ایسی قوم دنیا میں قیامِ امن کا موجب بنے کی بجائے عالمگیر فساد کا باعث بن جائے گی اور دنیا میں ایک ایسی کشمکش شروع ہو جائے گی جو یا تو خود ایسی قوم کو تباہ کر کے رکھ دے گی یا مختلف قومیں آپس میں الجھ کر دنیا کے امن کو برباد کر دیں گی.اور ظاہر ہے کہ کوئی سمجھ دار قوم ایسی خود کشی یا ایسی عالم کشی کا اقدام نہیں کر سکتی.مثلاً جماعت احمدیہ کے افراد عراق اور شام اور مصر اور کینیا اور یوگنڈا اور ٹانگانیکا اور نائیجیریا اور گھانا اور سیرالیون اور سوئیٹرز لینڈ اور ہالینڈ اور جرمنی اور برطانیہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا اور جنوبی امریکہ وغیرہ میں پائے جاتے ہیں اور پاکستان اور ہندوستان سے باہر بھی بعض ممالک میں ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے اور دن بدن بڑھ رہی ہے.اب کیا یہ بات خیال میں آسکتی ہے کہ ایسی قوم دورخی وفاداری یعنی ڈیوائیڈ ڈ فائیڈیلیٹی Divided) (Fidelity کے اصول پر ایک دن کے لئے بھی قائم رہ سکتی ہے؟ بالآخر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدانخواستہ دو ایسے ملکوں میں لڑائی چھڑ جائے جن میں احمدی بستے ہوں اور وہ دونوں اپنی اپنی حکومتوں کی وفاداری کا دم بھرتے ہوں تو اس صورت میں جماعت احمدیہ کی پوزیشن کیا ہوگی ؟ سو یہ سوال بھی کوئی نیا سوال نہیں.نہ یہ سوال ہمارے لئے نیا ہے اور نہ دنیا کے لئے نیا ہے.ہماری طرف سے تو یہ ہمیشہ یہ جواب ہوتا رہا ہے کہ خدا کے فضل سے پھر بھی ہماری یہی پوزیشن ہوگی کہ ہر ملک کے احمدی اپنے ملک کے وفادار رہیں گے.کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ خود ساختہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ خدا کا بتایا ہوا اور رسول کا سمجھایا ہوا عقیدہ ہے جسے کسی صورت میں بدلا نہیں جا سکتا.اگر
مضامین بشیر جلد چهارم 135 اس طرح کوئی احمدی کسی احمدی کے ہاتھ سے مرتا ہے تو ہم مجبور ومعذور ہیں.اصول کو کسی فرد پر قربان نہیں کی جا سکتا مگر فردکو اصول پر قربان کیا جا سکتا ہے.اور قرآن کا خدا یقیناً ایسے فعل کو قابل معافی سمجھے گا جو اس کی بتائی ہوئی تعلیم کے نتیجہ میں حالات کی مجبوری کی صورت میں سرزد ہوتا ہے.اور دنیا کے لئے یہ سوال اس لئے نیا نہیں کہ تاریخ میں ایسی سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں کہ ہندوؤں کو ہندوؤں کے خلاف اور مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑنا پڑا ہے اور اپنے ہم عقیدہ لوگوں کے ہاتھوں دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ قتل ہوئے ہیں اور دنیا کی اکثر لڑائیاں بے اصولی کے نتیجہ میں ظلم و تعدی کے رنگ میں لڑی گئی ہیں.تو پھر اگر کسی وقت احمدیوں کو خدا کے بنائے ہوئے اصول کی خاطر احمدیوں کے خلاف معذوری کی صورت میں لڑنا پڑے تو اس پر کیا اعتراض ہے؟ وہ لڑیں گے بھی اور دل میں دعا بھی کریں گے کہ خدایا تو اپنے فضل و رحمت سے اس جنگ کو ایسے امن کی صورت میں بدل دے جو دنیا میں حق و انصاف کے قیام کا موجب ہو.اور اگر یہ سوال پیدا ہو کہ احمدی ایک امام کے ماتحت ہیں تو پھر اس صورت میں وہ ایک دوسرے کے خلاف کس طرح لڑ سکتے ہیں تو اول تو اس کا اصولی جواب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس حوالہ میں گزرچکا ہے جو اس مضمون میں دوسری جگہ درج ہے.یعنی خلیفہ شریعت کے احکام کے ماتحت ہے نہ کہ ان سے بالا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ : کوئی خلیفہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ خدائی حکم کو بدل دے.کیونکہ خلیفہ ڈکٹیٹر نہیں بلکہ وہ نائب ہے اور نائب اپنے بالا حکام کے احکام کا اسی طرح تابع ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے لوگ (الفضل مؤرخہ 5 اپریل 1949ء) اس تعلق میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت احمدیہ کی خلافت خالص روحانی خلافت ہے جس کا سیاست یا حکومت سے کوئی تعلق نہیں.علاوہ ازیں کیا رومن کیتھولک ملکوں کی کیتھولک ملکوں کے خلاف کبھی لڑائیاں نہیں ہوئیں؟ حالانکہ سب رومن کیتھولک پوپ کے ماتحت ہیں اور ماتحت بھی ایسے کہ اس کے حکم کو گویا خدا کا حکم جانتے ہیں.اور پھر کیا بغداد کی خلافت کے زمانہ میں جس کی امامت کی خلافت کو ساری سنتی دنیا مانتی تھی بعض مسلمانوں نے دوسرے مسلمانوں کے خلاف لڑائیاں نہیں کیں ؟ اور پھر کیا ترکی کی خلافت کے زمانہ میں مسلمان ملکوں نے ایک دوسرے کا خون نہیں بہایا ؟ حالانکہ یہ سب لڑنے والے ایک خلیفہ اور ایک امام کی ماتحتی کا دم بھرتے
مضامین بشیر جلد چهارم 136 تھے.یہ سب حقائق بلند آواز سے بولتے ہوئے حقائق ہیں جن کی صداقت میں کوئی سمجھدار انسان شک نہیں کرسکتا.تو پھر جماعت احمدیہ کے متعلق ہمارے بار بار اعلانات کے باوجود کیونکر شبہ کیا جاسکتا ہے؟ الغرض ہمارا مسلک اس معاملے میں بالکل واضح اور پاک وصاف ہے اور ہم پھر ایک دفعہ با نگ بلند دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے افراد اپنی اپنی جگہ پر ہر اس حکومت کے وفادار ہیں جس کے ماتحت وہ بستے ہیں.پاکستان کے احمدی پاکستان کے وفادار ہیں اور دل سے اس کی خوشحالی اور ترقی کے لئے دعا گو.ہندوستان کے احمدی ہندوستان کے وفادار ہیں اور یہ وہی نصیحت ہے جو مرحوم قائد اعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو کی تھی.انڈونیشیا کے احمدی انڈونیشیا کے وفادار ہیں.دمشق ومصر کے احمدی متحدہ عرب جمہوریہ کے وفادار ہیں.مغربی افریقہ کے احمدی اپنی اپنی حکومتوں کے وفادار ہیں.جرمنی کے احمدی جرمنی کے وفادار ہیں.برطانیہ کے احمدی برطانیہ کے وفادار ہیں اور امریکہ کے احمدی امریکہ کے وفادار ہیں.وعلی ہذالقیاس.یہ خدا کا حکم ہے اور ہمارے دل کی آواز.و ہر کہ گوید دروغ ہست لعین.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محرره 5 دسمبر 1960ء).......(روز نامہ الفضل جلسہ سالانہ نمبر 1960ء) 64 میرے استاد حافظ روشن علی صاحب مرحوم حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم میرے استاد تھے اور جماعت احمدیہ کے علماء کی صف اول میں شمار ہوتے تھے.ان کے ذکر سے دل میں بہت سی شیریں یادیں تازہ ہوتی ہیں جن میں لازماً کچھ تھی بھی ملی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی روح کو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے اور جماعت میں ان کا علمی اور روحانی ورثہ جاری رکھے.حضرت حافظ صاحب کا دماغ بہت روشن اور صاف تھا اور گفتگو نہایت واضح اور مدلل فرمایا کرتے تھے جو سننے والے کے دل میں بیٹھتی چلی جاتی تھی اور پیرا یہ بھی بہت دلکش تھا.مناظرہ میں بھی حضرت حافظ صاحب کو ید طولی حاصل تھا اور جب مخالف مناظر ان کے دلائل سے گھبرا کر پیچھے ہٹتا تھا تو حافظ صاحب کی بمباری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی.گویا حریف کو اس کے گھر تک پہنچا کر ختم کرنا چاہتے ہیں.افسوس ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی طرح حضرت حافظ صاحب صرف سینتالیس (47) برس کی
مضامین بشیر جلد چهارم 137 چھوٹی عمر میں فوت ہو گئے اور دوسری صدمہ کی بات یہ ہے کہ اپنے پیچھے کوئی نرینہ اولاد نہیں چھوڑی مگر کیا ان کے سینکڑوں شاگردان رشید ان کی روحانی اولاد نہیں ہیں؟ آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوا تھا اور لمبے عرصہ تک صاحب فراش رہے مگر ہمت کا یہ عالم تھا کہ کسی قدر تخفیف ہوئی.پھر درس تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا مگر افسوس ہے کہ فالج کے دوسرے حملہ کے بعد دوبارہ نہ اُٹھ سکے.حافظہ غضب کا تھا اور قرآن مجید تو خیر حفظ ہی تھا حدیث اور فقہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے اکثر حوالے بھی ازبر تھے.اگر حضرت خلیفہ اسح اوّل رضی اللہ عنہ کے خصوصی شاگردوں میں انہیں نمبر اول پر شمار کیا جائے تو غلط نہیں ہو گا.طبیعت میں مزاح بھی تھا اور گفتگو میں بڑی شگفتگی ہوتی تھی.حضرت حافظ صاحب اپنے شاگردوں کے صرف استاد ہی نہیں تھے بلکہ مربی اور ہمدرد بھی تھے اور بے تکلفی کے ساتھ ان کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے.اپنے تبلیغی سفروں میں ہمیشہ ایک یا دو یا زیادہ شاگر داپنے ساتھ رکھتے تھے.یہ حضرت حافظ صاحب کے تعلیمی اور تدریسی پروگرام کا حصہ ہوتا تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ساتھ حضرت حافظ صاحب کو بہت محبت تھی اور حضور بھی حضرت حافظ صاحب کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے چنانچہ 1924 ء کے سفر ولایت میں حضور ان کو اپنے ساتھ لے گئے تھے.اس عاجز کے ساتھ بھی حضرت حافظ صاحب کو محبت تھی اور مجھے اپنے مستحق شاگردوں کی امداد کے متعلق توجہ دلاتے رہتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ رسالہ الفرقان کے موجودہ ایڈیٹر محترم مولوی ابو العطاء صاحب کے متعلق ان کی طالب علمی کے زمانہ میں فرمایا کہ یہ نوجوان خرچ کے معاملہ میں کچھ غیر محتاط ہے مگر بڑا ہو نہار اور قابلِ توجہ اور قابل ہمدردی ہے.کاش اگر حضرت حافظ صاحب اس وقت زندہ ہوتے تو محترم مولوی ابوالعطاء صاحب اور محترم مولوی جلال الدین صاحب شمس کے علمی کارناموں کو دیکھ کر ان کو کتنی خوشی ہوتی کہ میرے شاگردوں کے ذریعہ میری یا د زندہ ہے.خدا بخشنے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں“.اس عاجز کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری زمانہ اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی خلافت کا ابتدائی زمانہ جب کہ حضور اپنی صحت اور اپنی تبلیغی اور تربیتی گر مجوشی کے جو بن میں تھے اور ہم لوگوں کی طاقتیں بھی جوان اور خون گرم تھا یاد آتی ہے تو کیا بتاؤں کہ دل پر کیا گزرتی ہے.بس یوں سمجھئے کہ
مضامین بشیر جلد چہارم ے دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے بیٹھے مجھے کیا جانے کیا یاد آیا 138 محرره 26 اکتوبر 1960ء) (ماہنامہ الفرقان ربوہ دسمبر 1960ء)
مضامین بشیر جلد چہارم اعلانات اشتہارات اطلاعات 139 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست مع حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی دیکھنا چا ہے یہاں سے دیکھ سکتا ہے.1-> بشارت احمد کی تشویشناک علالت 2-> بشارت احمد صاحب کیلئے خاص دعا کی تحریک 3-> قربانی کرنے والے احباب توجہ فرمائیں 4-> قربانی کی قیمت میں اضافہ روزنامه الفضل 4 فروری 1960ء) روزنامه افضل 6 فروری 1960ء) روزنامه الفضل 22 مئی 1960ء) روزنامه الفضل 31 مئی 1960 ء ) 5-> قادیان کیلئے حکومت کو درخواست بھجوا دی گئی ہے روزنامه الفضل یکم جون 1960ء) 6-> شبیر احمد صاحب کیلئے دعا کی تحریک 7-> قربانیوں کی رقوم کی تیسری فہرست روزنامه الفضل 3 جون 1960ء) روزنامه الفضل 9 جون 1960 ء ) 8-> الحمد للہ ام مظفر کی طرف سے حج بدل کا فریضہ ادا ہو گیا روزنامه الفضل 17 جون 1960ء) 9-> قافلہ قادیان کیلئے حکومت کو درخواست بھجوادی گئی ہے 10-> عزیز اکبر احمد طارق کیلئے دعا کی تحریک (روز نامہ الفضل 27 جون 1960ء) (روز نامہ الفضل 28 جون 1960ء) 11-> قافلہ قادیان میں جانے والے اصحاب توجہ فرمائیں (روز نامہ الفضل 13 جولائی 1960ء) 12 - اُم مظفر احمد کی تشویشناک علالت (روز نامہ الفضل 28 جولائی 1960ء)
مضامین بشیر جلد چہارم 13 -> أم مظفر احمد کو خدا کے فضل سے نسبتاً افاقہ ہے 140 روزنامه الفضل 2 اگست 1960ء) 14 -> أم مظفر احمد کی خیریت اور احباب کا شکریہ روزنامه الفضل 4 اگست 1960ء) 15 - اُم مظفر احمد کی صحت کے متعلق اطلاع روزنامه الفضل 5 اگست 1960 ء ) 16- اُمّ مظفر احمد کی تشویشناک علالت 17-> اتم مظفر احمد کے علاج کے متعلق ڈاکٹروں کا مشورہ 18-> أم مظفر احمد کی صحت کے متعلق اطلاع 19-> أم مظفر احمد کا آپریشن انشاء اللہ جمعہ کی صبح کو ہو گا 20- اُم مظفر احمد کا آپریشن غالباً ہفتہ یا اتوار کے دن ہوگا 21- اُم مظفر احمد کی صحت کے متعلق اطلاع (روز نامه الفضل 11 اگست 1960ء) (روز نامه الفضل 17 اگست 1960 ء) (روزنامه الفضل 18 اگست 1960ء) روز نامه الفضل 19 اگست 1960 ء) روزنامه الفضل 20 اگست 1960 ء ) روزنامه الفضل 21 اگست 1960ء ) 22-> أم مظفر احمد کا آپریشن آج صبح آٹھ بجے ہورہا ہے 23-> اتم مظفراحمد کا کامیاب آپریشن روزنامه الفضل 23 اگست 1960 ء ) روزنامه الفضل 24 اگست 1960ء) 24- اُم مظفر احمد کی طبیعت خدا کے فضل سے کل کی نسبت بہتر رہی 25-> ام مظفر احمد کی طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے نسبتاً بہتر ہے 26-> اتم مظفر احمد کو بے خوابی اور بے چینی کی شکایت رہی (روز نامہ الفضل 25 اگست 1960ء) (روز نامہ الفضل 26 اگست 1960ء) (روز نامہ الفضل 27 اگست 1960ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 27-> ام مظفر احمد کی حالت خدا کے فضل سے بہتر ہورہی ہے 141 روزنامه الفضل 30 اگست 1960ء) 28-> أمّ مظفر احمد کی حالت خدا کے فضل سے بہتر ہے روزنامه الفضل 2 ستمبر 1960ء) 29- اُم مظفر احمد کی صحت کے متعلق اطلاع روزنامه الفضل 13 ستمبر 1960ء) 30-> اُمّم مظفر احمد کیلئے مزید دعا کی تحریک 31-> اُم مظفر احمد و درد میں کمی اور بے چینی میں بھی کسی قد را فاقہ ہے 32- اُم مظفر احمد کو در داور بے چینی کی بھی کچھ زیادہ شکایت روزنامه الفضل 16 ستمبر 1960ء) روزنامه الفضل 20 ستمبر 1960ء) (روز نامہ الفضل 27 ستمبر 1960ء) 33-> اتم مظفر احمد کی صحت کے متعلق تازہ رپورٹ روزنامه افضل 5 اکتوبر 1960ء) 34-> قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اطلاع روزنامه الفضل 16اکتوبر 1960ء) 35- اُم مظفر احمد کے متعلق تازہ رپورٹ روزنامه الفضل 18 اکتوبر 1960ء) 36-> قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان روزنامه الفضل 9 نومبر 1960ء) 37-> قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان 38-> احباب قافلہ توجہ فرمائیں 39-> قافلہ قادیان کے احباب بخیریت ربوہ واپس پہنچ گئے ( روزنامه الفضل 8 دسمبر 1960ء) روزنامه الفضل 13 اکتوبر 1960ء) روزنامه الفضل 21 دسمبر 1960ء)
مضامین بشیر جلد چهارم یاد رکھنا چاہئے کہ تربیت کا زمانہ بچے کی ولادت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے.اسی لئے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے پیدا ہوتے ہی اس کے دائیں کان میں اذان کے الفاظ دُہرائے جائیں اور اُس کے بائیں کان میں اقامت کے الفاظ دُہرائے جائیں.اس حدیث میں اذان ایمان کی قائم مقام ہے اور اقامت عمل کی قائم مقام ہے.گویا یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے ایمان اور عمل کی تربیت کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور ماں باپ کو شروع سے ہی اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے.بعض والدین اس غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ تو گویا صرف گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے اور بعد میں بھی وہ کئی سال تک دینی اور اخلاقی باتوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا.مگر ایسا خیال کرنا بڑی غلطی ہے.حقیقت یہ ہے کہ غیر شعوری طور پر ولادت کے ساتھ ہی تاثر اور تاثیر کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور والدین کا فرض ہے کہ اسی زمانہ سے بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں اور نگرانی شروع کر دیں.حضرت مرزا بشیر احمد از مضامین بشیر جلد چہارم صفحه (275 142
مضامین بشیر جلد چهارم باب دوم 1961ء کے مضامین 143
مضامین بشیر جلد چهارم در منشور ( یعنی چند بکھرے ہوئے موتی ) رمضان کی خاص برکات بعض خاص دعاؤں کی تحریک انصار اللہ کے لئے میرا پیغام ربوہ کے رمضان کا روح پرور نظارہ رمضان کے آخری عشرہ کی پر سوز اجتماعی دعائیں چندوں کے متعلق جماعت کی اہم ذمہ داری عیدالاضحی کی قربانیاں وقف ایکٹ اور جماعت احمدیہ کے محاصل احباب جماعت کے لئے ایک ضروری نصیحت بھائیو! اپنے مستقبل پر نظر رکھو اور اپنی اولاد کی فکر کرو الْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ احمدیت کا بطل جلیل سیرت ابن ہشام ہفتہ تحریک جدید کے موقع پر اہل ربوہ کے نام پیغام ایک ضروری تشریحی نوٹ ایک غلطی کا ازالہ بچوں کی نیک تربیت 144
مضامین بشیر جلد چہارم 145 حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے اوصاف حمیدہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین صحابہ میں سے تھے اور ان کو یہ غیر معمولی امتیاز بھی حاصل تھا کہ جبکہ حضرت بھائی صاحب بالکل نوجوان بچہ ہی تھے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیک وقت ہندو مذہب ترک کر کے اسلام قبول کرنے اور احمدیت کی نعمت حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اور پھر ایک بہت لمبا عرصہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کا موقع میسر آیا.چنانچہ جب 1908ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لاہور میں وصال ہوا تو اس وقت بھی حضرت بھائی صاحب حضور کے ساتھ تھے بالآخر ملکی تقسیم کے بعد حضرت بھائی صاحب کو قادیان میں درویشی کی نعمت نصیب ہوئی.آج کل چند دن کے لئے پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے.ربوہ کے قیام کے بعد اپنے بچوں کو ملنے کے لئے کراچی جارہے تھے کہ راستے میں خدا کو پیارے ہو گئے.وفات کے وقت عمر غالباً چھیاسی سال تھی.نہایت مخلص اور محبت کرنے والے فدائی بزرگ تھے.بیعت غالباً 1895 ء کی تھی.جنازہ لاہور کے راستہ ربوہ لایا جارہا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت بھائی صاحب کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کی اہلیہ صاحبہ اور اولاد کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.درویشی کے زمانہ میں ان کی اہلیہ صاحبہ نے اپنی ضعیفی کے باوجود حضرت بھائی صاحب کی بڑی خدمت سرانجام دی ہے.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے اور احمدیت کے نوخیز نو جوانوں کو رفقاء کرام کا بابرکت ورثہ پانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اب تو یہ مبارک گروہ بہت ہی کم رہ گیا ہے وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَـان وَ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَام - (نوٹ ) بعد میں حضرت بھائی صاحب کے چھوٹے لڑکے مہتہ عبدالسلام صاحب کا فون آیا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ بھائی جی کے جنازے کو قادیان لے جانے کی اجازت مل جائے.اگر یہ اجازت مل گئی تو بہت اچھا ہوگا کیونکہ حضرت بھائی صاحب مرحوم کی شدید خواہش تھی کہ وہ قادیان میں دفن ہوں اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ پاکستان آتے ہوئے گھبراتے تھے کہ کہیں میری وفات قادیان سے باہر نہ ہو جائے.محرره 6 جنوری 1961ء) (روز نامہ الفضل ربوہ 7 جنوری 1961ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 146 2 وو دُرٌ مَنْثُورُ ( یعنی چند بکھرے ہوئے موتی ) جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ 1960 ء کے مبارک موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مؤرخہ 27 دسمبر کو صبح کے اجلاس میں محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی زیر صدارت ذکرِ حبیب“ کے موضوع پر جو ایمان افروز ، روح پرور اور وجد آفرین تقریر ارشاد فرمائی تھی ذیل میں اس کا مکمل متن ہدیہ احباب کیا جا رہا ہے.(ادارہ) أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرُسُولُهُ.گزشتہ سال کے سالانہ جلسہ میں جو دسمبر 1959 ء کی بجائے جنوری 1960ء میں منعقد ہوا تھا مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کی سیرت کے بعض پہلوؤں پر ایک مضمون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی.یہ ضمون جو بعد میں ”سیرت طیبہ کے نام سے چھپ چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے تین بنیادی پہلوؤں سے تعلق رکھتا تھا.یعنی (اول) محبت الہی ( دوم ) عشق رسول اور ( سوم ) شفقت علی خلق اللہ.اور یہی وہ تین اوصاف ہیں جو ایک سچے مسلمان کے دین و مذہب کی جان اور اس کے اخلاق حسنہ کی بلند ترین چوٹی کہلانے کا حق رکھتے ہیں.اس سال مجھے پھر مرکزی جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کے منتظمین نے ذکر حبیب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ سیرت کے متعلق کچھ بیان کرنے کی دعوت دی ہے.اور گواس سال کا آخری نصف حصہ میری رفیق حیات اتم مظفر احمد کی طویل اور تشویشناک بیماری کی وجہ سے میرے لئے کافی پریشانی میں گزرا ہے اور ان کی تیمارداری کی وجہ سے مجھے کئی ماہ تک ربوہ سے لاہور میں ٹھہر نا پڑا ہے اور بعض دوسری پریشانیاں بھی رہیں مگر میں نے ان روکوں کے باوجود ناظر صاحب اصلاح وارشاد کی دعوت کو اپنے لئے موجب سعادت سمجھتے ہوئے اسے قبول کر لیا.اور اب اپنے دوستوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و اخلاق کے چند پہلو پیش کرنے کے لئے حاضر ہوں.جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ میری گزشتہ سال کی تقریر حضرت مسیح موعود کی سیرت کے تین مخصوص بنیادی پہلوؤں سے تعلق رکھتی تھی جنہیں اپنے با ہمی ربط کی وجہ سے ہم گویا تین لڑیوں والی مالا کا نام دے سکتے ہیں.لیکن اس سال میں حضرت مسیح موعود کے اخلاق و عادات کے چند متفرق اور گویا غیر مربوط
وو مضامین بشیر جلد چهارم 147 گوحقیقتا کسی انسان کے اخلاق بھی فی الواقعہ غیر مربوط نہیں ہوتے ) پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں تا کہ ہمارے دوستوں کو معلوم ہو اور دنیا پر بھی ظاہر ہو جائے کہ محمدی سلسلہ کا مسیح اپنے مربوط اخلاق اور بظاہر غیر مربوط اخلاق دونوں میں کس شان کا مالک تھا.اسی لئے میں نے اپنے موجودہ مضمون کا نام در منشور یعنی چند بکھرے ہوئے موتی“ رکھا ہے.یقینا ان بکھرے ہوئے موتیوں کو بھی ایک گہرے ربط ونظم کی زنجیر باندھے ہوئے ہے جو ایک طرف خالق کی محبت اور دوسری طرف مخلوق کی ہمدردی کے ساتھ فطری طور پر منسلک ہے.لیکن چونکہ بظاہر یہ اخلاق متفرق نوعیت کے ہیں اس لئے میں نے انہیں در منثور کا نام دیا ہے.اور اسی مختصر تمہید کے ساتھ میں اپنے اس مضمون کو خدائے رحمان و رحیم کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أَنِيبُ 1 كم یہ ایک عجیب بات ہے جس میں اہلِ ذوق کے لئے بڑا لطیف نکتہ ہے کہ گو مقدس بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح ناصرتی کے مثیل کی حیثیت میں مبعوث ہوئے اور آپ اپنی جماعت میں زیادہ تر اسی نام اور اسی منصب کے ساتھ پکارے جاتے ہیں مگر باوجود اس کے آپ نے اپنی سیرت اور اپنے اخلاق واوصاف میں حضرت مسیح ناصری کی نسبت اپنے آقا اور مطاع اور اپنے دلی محبوب حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بہت زیادہ ورثہ پایا ہے.چنانچہ خود فرماتے ہیں: پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار (براہین احمدیہ حصہ پنجم ) یعنی گو میں مسیح ناصری کا مثیل بنا کر بھیجا گیا ہوں جنہیں ان کے یہودی دشمنوں نے صلیب پر چڑھا دیا تھا مگر میرا اصل منصب محمدی نیابت سے تعلق رکھتا ہے جس کے ساتھ غلبہ اور کامیابی مقدر ہو چکی ہے.اس لئے جہاں عیسائیوں کے قول کے مطابق حضرت مسیح ناصری تین سال کی مختصر اور محد و دسی مامورانہ زندگی پا کر ایلی ایلی لِمَا سَبَقْتَانِی کہتے ہوئے جاں بحق ہو گئے وہاں خدا تعالیٰ نے مسیح محمدی کو ہر قسم کے موافق و مخالف حالات میں سے گزارا اور گونا گوں اخلاق کا موقع عطا کیا اور آپ کو اپنے مشن میں ایسی بے نظیر کامیابی بخشی کہ دہلی کے ایک مشہور غیر احمدی اخبار کے قول کے مطابق مخالف تک پکارا تھے کہ:
مضامین بشیر جلد چهارم 148 " مرزا مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.اگر چہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.اس کا پُر زور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے....اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں، مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا.“ 2 کرزن گزٹ دہلی.یکم جون 1908ء) اس کے بعد سب سے پہلی بات جو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں اور یہ ان بکھرے ہوئے موتیوں میں سے پہلا موتی ہے وہ اُس پختہ اور کامل یقین کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جو حضرت مسیح موعود کو اپنے خداداد مشن کے متعلق تھا.یہ وصف آپ کے اندر اس کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ آپ کے ہر قول و فعل اور ہر حرکت و سکون میں اس کا ایک زبر دست جلوہ نظر آتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ اپنے اس یقین کی وجہ سے بڑے سے بڑے پہاڑ کے ساتھ ٹکر لینے کے لئے تیار ہیں.بسا اوقات اپنے خدا دادمشن اور اپنے الہامات کے متعلق مؤکد بعذاب قسم کھا کر فرماتے تھے کہ مجھے ان کے متعلق ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ دنیا کی کسی مرئی چیز کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہوسکتا ہے.اور بعض اوقات اپنی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ چونکہ وہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی ہیں اس لئے وہ ضرور پوری ہوں گی.اور اگر وہ سنت اللہ کے مطابق پوری نہ ہوں تو میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ مجھے مفتری قرار دے کر پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا جائے.چنانچہ جب ایک متعصب ہندو لالہ گنگا بشن نے پنڈت لیکھرام والی پیشگوئی پر یہ اعتراض کیا کہ پنڈت لیکھرام کی موت پیشگوئی کے نتیجہ میں نہیں ہوئی بلکہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود نے پنڈت جی کو خود قتل کر دیا تھا تو حضرت مسیح موعود نے جواب میں انتہائی غیرت اور تحدی کے ساتھ فرمایا کہ اگر لالہ گنگا بشن کا واقعی یہی خیال ہے تو وہ اس بات پر قسم کھا جائیں کہ نعوذ باللہ میں نے خود پنڈت لیکھرام کوقتل کرا
مضامین بشیر جلد چهارم 149 دیا تھا پھر اگر اس کے بعد لالہ صاحب ایک سال کے اندر اندر ایسی موت کے عذاب میں مبتلا نہ ہوئے جس میں انسانی ہاتھوں کا کوئی دخل متصور نہ ہو سکے تو میں جھوٹا ہوں گا اور مجھے بے شک ایک قاتل کی سزا دی جائے.چنانچہ آپ نے بڑے زور دار الفاظ میں لکھا کہ: ” میں تیار ہوں نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ گورنمنٹ کی عدالت میں اقرار کر سکتا ہوں کہ جب میں آسمانی فیصلہ سے مجرم ٹھہر جاؤں تو مجھ کو پھانسی دیا جائے.میں خوب جانتا ہوں کہ خدا نے میری پیشگوئی پوری کر کے دین اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے یہ فیصلہ کیا ہے.پس ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ میں پھانسی ملوں.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 75) دوسری جگہ اپنے الہامات کے متعلق یقین کامل کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ مکالمہ الہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے.وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے.اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شخص شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر “ تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412) دوست غور کریں کہ یہ کس درجہ کا ایمان اور کیسا پختہ اور کیسا کامل یقین ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کفر و ایمان کی بازی لگاتے ہوئے پھانسی کے تختہ پر چڑھنے کے لئے تیار تھے.لاریب ایسا ایمان صرف اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے جو اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھ رہا ہوا اور اپنے کانوں سے اس کا کلام سنتا ہو.کوئی شخص اپنی سمجھ کی کمی یا اپنے تدبر کی کوتاہی یا اپنے تعصب کی فراوانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماموریت کے دعوئی میں شک کر سکتا ہے مگر کوئی ہوش وحواس رکھنے والا انسان اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ آپ کو اپنے خدا داد مشن کے متعلق کامل یقین تھا.ایک جلد باز انسان آپ کو دھوکا خوردہ خیال کر سکتا ہے جیسا کہ بعض بظاہر غیر متعصب مغربی مصنفین نے اپنی کو تہ بینی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خیال کیا ہے.مگر کوئی شخص جس میں ابھی تک نور ضمیر کی تھوڑی سی روشنی بھی باقی ہے آپ کو دھوکا دینے والا قرار نہیں دے سکتا.
مضامین بشیر جلد چهارم ·3.150 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے مثال محبت بلکہ عشق کا ذکر میری گزشتہ سال کی تقریر موسومہ سیرت طیبہ میں گزر چکا ہے.یہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے عشق کا تتمہ تھا کہ حضرت مسیح موعود کو تمام دوسرے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ بھی غیر معمولی محبت تھی اور آپ اپنے عظیم الشان مقام کے باوجود ان سب کا بے حد ادب کرتے تھے.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں: ما ہمہ پیغمبراں بچو خاکے ہر اوفتاده چا کریم پردری رسولے کو طریق حق نمود جان ما قرباں براں حق پرورے (براہین احمدیہ حصہ اول) یعنی میں ان تمام رسولوں اور نبیوں کا خدمت گزار ہوں جو دنیا میں خدا کا رستہ دکھانے کے لئے آتے رہے ہیں.اور میں ان کے ساتھ اس طرح پیوستہ ہوں جس طرح ڈیوڑھی کی خاک مکان کے ساتھ پیوستہ ہوتی ہے.میری جان ان سب پرستاران خدا پر ( خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانہ میں آئے ہوں ) دلی محبت کے ساتھ قربان ہے.کیونکہ وہ میری طرح میرے آسمانی آقا کے خادم ہیں.اور چونکہ بعض نا واقف لوگوں کی طرف سے حضرت مسیح ناصری کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خاص طور پر اعتراض کیا گیا تھا کہ آپ نے نعوذ باللہ حضرت عیسی کی ہتک کی ہے اس لئے آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق خاص طور پر فرمایا کہ: بخدا میں وہ سچی محبت اس سے رکھتا ہوں جو تمہیں ہر گز نہیں اور جس نور کے ساتھ میں اسے شناخت کرتا ہوں تم ہر گزا سے شناخت نہیں کر سکتے.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کا ایک پیارا اور برگزیدہ نبی تھا.“ ( دعوت حق مشمولہ حقیقته الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 617) 4 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کی آل و اولاد کے ساتھ بھی حضرت مسیح موعود کو نہایت درجہ عقیدت تھی.چنانچہ صحابہ کرام کے متعلق کسی عقیدت سے اور کس دلی جوش و خروش کے ساتھ فرماتے ہیں:
مضامین بشیر جلد چهارم إِنَّ الصَّحَابَةٌ كُلَّهُمْ كَذكَـاء قَدْ نَوَّرُوْا وَجُهَ الْوَرى بِضِيَاء تَرَكُوا أَقَارِبَهُمْ وَحُبَّ عِيَالِهِمْ جَاءُ وَا رَسُوْلَ اللهِ كَالفُقَرَاءِ ذُبِحُوا وَمَا خَافُوا الْوَرَى مِنْ صِدْقِهِمْ بَلُ أثَرُوا الرَّحْمَنَ عِندَ بَلَاء تَحْتَ السُّيُونِ تَشَهَّدُوا لِخُلُوصِهِمْ شَهِدُوا بِصِدْقِ الْقَلْبِ فِي الْأَمْلَاءِ الصَّالِحُونَ الْخَاشِعُوْنَ لِرَبِّهِمْ الْبَائِتُونَ بذِكرِهِ وَ بُكاء قَوْمٌ كِرَام لَا نُفَرِّقُ بَيْنَهُمُ كَانُوا لِخَيْرَ الرُّسُل كَالْأَعْضَاءِ 151 سر الخلافہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 397) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ سورج کی طرح روشن تھے انہوں نے ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کر دیا.انہوں نے صداقت کی خاطر اپنے رشتہ داروں کو اور اپنے اہل وعیال کی محبت تک کو خیر باد کہہ دیا.اور رسول اللہ کی آواز پر غریب درویشوں کی طرح بے گھر اور بے در ہو کر آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے.وہ خدا کے رستہ میں برضا و رغبت ذبح کئے گئے اور انہوں نے سچائی کی خاطر دنیا کا ذرہ بھر خوف نہیں کیا بلکہ ہر امتحان اور ہر آزمائش کے وقت خدائے رحمان کو ترجیح دی.انہوں نے تلواروں کی جھنکار میں شہادت کے جام تلاش کئے اور ہر مجلس میں صداقت کی گواہی کے لئے بے خوف و خطر تیار رہے.وہ نیک اور متقی اور صرف خدا سے ڈرنے والے لوگ تھے اور خدا کی یاد میں گریہ وزاری سے راتیں گزارتے تھے.وہ ایسی برگزیدہ جماعت تھی کہ ایمان واخلاص کے لحاظ سے ہم ان میں کوئی فرق نہیں کر سکتے.وہ اپنے آقا کے ساتھ دائیں اور بائیں جسم کے اعضاء کی طرح لیٹے رہے اور نصرت اور اعانت اور قربانی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق کس محبت کے ساتھ اور کن زور دار الفاظ میں فرماتے ہیں:
152 مضامین بشیر جلد چہارم حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے.اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے.تباہ ہو گیا وہ دل جو اُس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے.“ 5 ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 654) اسلام کے گزشتہ مجددین کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی غیرت رکھتے تھے.ایک دفعہ لاہور میں ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی نے اپنے بچپن کے زمانہ میں جہانگیر کا شاندار مقبرہ دیکھنے کا شوق ظاہر کیا.اس پر حضرت مسیح موعود نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا: ”میاں تم جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے بے شک جاؤ لیکن اس کی قبر پر نہ کھڑے ہونا کیونکہ اس نے ہمارے ایک بھائی حضرت مجددالف ثانی" کی ہتک کی تھی.“ ( روایات میاں عبدالعزیز صاحب مغل مرحوم ) تین سوسال سے زائد زمانہ گزرنے پر بھی ایک مسلمان بادشاہ کے ایسے فعل پر جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسلامی تاریخ میں گویا ایک عام واقعہ ہے کیونکہ مسلمان بادشاہوں کے زمانہ میں ایسے کئی واقعات گزر چکے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس قدر غیرت ظاہر کرنا اور حضرت مجد دالف ثانی کے لئے بھائی جیسا پیارا لفظ استعمال کرنا اُس یگانگت اور محبت اور عقیدت کی ایک بہت روشن مثال ہے جو آپ کے دل میں امت محمدیہ کے صلحاء کے لئے موجزن تھی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ارشاد میں خود وضاحت فرما دی ہے.حضور کی اس ہدایت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ کسی مسلمان کو جہانگیر کا مقبرہ نہیں دیکھنا چاہئے.وہ ایک جاہ وجلال والا مسلمان بادشاہ تھا اور ہمیں اپنے قومی اکا بر اور بزرگوں کی بھی عزت کرنے کا حکم ہے مگر چونکہ حضرت مسیح موعود اپنے بچوں کے دل میں غیر معمولی اسلامی غیرت اور صلحاء امت کا غیر معمولی ادب پیدا کرنا چاہتے تھے اس لئے آپ نے اس موقع پر اپنی اولاد کو ایک خاص نوعیت کی نصیحت کرنی مناسب خیال فرمائی.
مضامین بشیر جلد چهارم 153 اس تعلق میں ایک اور دلچسپ روایت بیان کرنا بھی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عقیدہ تھا کہ مقتدی کے لئے نماز میں امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے اور آپ اس کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے.کیونکہ سورہ فاتحہ قرآن عظیم کا خلاصہ ہے اور قرآن سے آپ کو عشق تھا.ایک دفعہ آپ اپنی ایک مجلس میں بڑے زور کے ساتھ اپنے اس عقیدہ کا اظہار فرمارہے تھے کہ حاضرین مجلس میں سے کسی نے عرض کیا کہ حضور ! کیا سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ؟ اس پر حضرت مسیح موعود نے اس طرح رک کر کہ جیسے ایک چلتی ہوئی گاڑی کو بریک لگ جاتی ہے جلدی سے فرمایا: و نہیں نہیں.ہم ایسا نہیں کہتے کیونکہ حنفی فرقہ کے کثیر التعداد بزرگ یہ عقیدہ رکھتے رہے ہیں کہ نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں.اور ہم ہرگز یہ خیال نہیں کرتے کہ ان بزرگوں کی نماز نہیں ہوئی.“ (سلسلہ احمدیہ وسیرۃ المہدی حصہ دوم) اس دلچسپ روایت سے جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کو بلکہ غیر از جماعت لوگوں کو بھی یہ لطیف سبق حاصل ہوتا ہے کہ اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے بھی مختلف الخیال نیک لوگوں کا ادب ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے.بزرگوں کا قول ہے اور یہ فقرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبانِ مبارک پر بھی کثرت کے ساتھ آتا تھا کہ: الطَّرِيْقَةُ كُلُّهَا أَدَبٌ یعنی دین اور خوش اخلاقی کا سارا راستہ ادب کے میدان میں سے گزرتا ہے.6 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صبر و استقلال بھی بے مثال نوعیت کا تھا.آپ کو اپنے خدا داد مشن کی انجام دہی کے لئے جن غیر معمولی مشکلات میں سے گزرنا پڑا اور جن خاردار جنگلوں اور جن پر خطر وادیوں اور جن فلک بوس پہاڑوں کو طے کرنا پڑا وہ آپ کی زندگی کے ہر لمحہ میں ظاہر وعیاں ہیں.آپ کی طرف سے ماموریت کا دعوی ہوتے ہی مخالفت کا ایسا طوفان اٹھا کہ الحفیظ وَالْآمَانُ.یوں نظر آتا تھا کہ ایک چھوٹی سی کشتی میں ایک کمزور سا انسان اکیلا بیٹھا ہوا اسے گویا ایک تنکے کے ساتھ چلا رہا ہے اور طوفان کا زورا سے یوں اٹھا تا اور گراتا ہے کہ جس طرح ایک تیز آندھی کے سامنے ایک کاغذ کا پُرزہ ادھر اُدھر اڑتا پھرتا ہے.مگر یہ شخص ہراساں نہیں ہوتا بلکہ خدا کی حمد کے گیت گاتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے.اور اس کا دل اس یقین
مضامین بشیر جلد چهارم 154 سے مامور ہے کہ خدا نے مجھے بھیجا ہے اور وہی میری حفاظت کرے گا.یہ وہ صبر و استقلال تھا جس پر آپ کے اشد ترین مخالف تک پکار اٹھے کہ مرزا صاحب صادق ہوں یا غیر صادق مگر اس میں کلام نہیں کہ وہ جس مشن کو لے کر اُٹھے تھے اس پر اپنی زندگی کے آخری دم تک مضبوط چٹان کی طرح قائم رہے.چنانچہ آپ کی وفات پر ایک ہندو اخبار نے لکھا کہ: مرزا صاحب اپنے آخری دم تک اپنے مقصد پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہیں کھائی.“ اسی طرح ایک عیسائی مصنف نے لکھا کہ: ( آرید اخبار ”اندر“.لاہور ) ”مرزا صاحب کی اخلاقی جرات جو انہوں نے اپنے مخالفوں کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذارسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقیناً بہت قابل تعریف ہے.“ (انگریزی رسالہ احمدیہ موومنٹ مصنفہ مسٹر ایچ.اے والٹر ) اور ایک غیر احمدی مسلمان اخبار نے لکھا کہ : وو مرزا مرحوم نے مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا.“ ( کرزن گزٹ دتی ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ وصف جہاں ایک طرف آپ کے غیر معمولی صبر و استقلال پر شاہد ہے وہاں وہ اس بات کی بھی زبر دست دلیل ہے کہ آپ کو اپنے بھیجنے والے خدا کی نصرت پر کامل بھروسہ تھا کہ جو پودا اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے وہ اسے کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں: اے آنکہ سوئے من بد ویدی بصد تبر از باغباں بنترس که من شارخ مثمرم (ازالہ اوہام) یعنی اے وہ جو میری طرف غصہ سے بھرا ہوا سو خنجر لے کر بھاگا آتا ہے تو آسمانی باغباں سے ڈر کہ میں اس کے ہاتھ سے لگایا ہوا پھل دینے والا پودا ہوں.جماعت احمدیہ کے نوجوانوں اور مقامی جماعتوں کے امیروں اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے عہدہ داروں اور سب سے بڑھ کر جماعت کے مبلغوں اور مربیوں اور مرکزی کا رکنوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام
مضامین بشیر جلد چہارم 155 کے اس غیر معمولی صبر و استقلال اور اس غیر معمولی عزم اور اس غیر معمولی تو کل سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ اگر وہ بھی صبر و ثبات سے کام لیں گے اور خدا کے بندے بن کر رہیں گے اور اپنے آپ کو شمر دار پودے بنائیں گے تو خدا تعالیٰ ان کی بھی اسی طرح حفاظت کرے گا اور ان کے لئے بھی اسی طرح غیرت دکھائے گا جس طرح کہ وہ ہمیشہ سے اپنے نیک بندوں کے لئے دکھاتا چلا آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پنجابی زبان میں الہام ہے اور کیا خوب الہام ہے.خدا تعالیٰ آپ سے حد درجہ محبت کے الفاظ میں مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ: دو ” جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو ہو“ (تذکرہ جدید ایڈیشن صفحہ 390) روحانیت کے میدان میں یہ زریں ارشاد انسان کے لئے سبق نمبر ایک کا حکم رکھتا ہے.کاش ہماری جماعت کے بوڑھے اور نوجوان عورتیں اور مرد اس حقیقت کو اپنا حرز جان بنائیں کہ خدا داری چه غم داری.7% حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں اطاعت رسول کا بھی نہایت زبر دست جذ بہ تھا.اور آپ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اپنے آقا کی اتباع میں لذت پاتے اور اس کا غیر معمولی خیال رکھتے تھے.چنانچہ میں اس موقع پر دو بظاہر بہت معمولی سے واقعات بیان کرتا ہوں کیونکہ انسان کا کیریکٹر زیادہ تر چھوٹی باتوں میں ہی ظاہر ہوا کرتا ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ آپ مولوی کرم دین والے تکلیف دہ فوجداری مقدمہ کے تعلق میں گورداسپور تشریف لے گئے تھے اور وہ سخت گرمی کا موسم تھا اور رات کا وقت تھا.آپ کے آرام کے لئے مکان کی کھلی چھت پر چارپائی بچھائی گئی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سونے کی غرض سے چھت پر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے.آپ نے ناراضگی کے لہجہ میں خدام سے فرمایا: کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے پردہ اور بے منڈیر کی چھت پرسونے سے منع فرمایا ہے.“ (سيرة المهدی) چونکہ اس مکان میں کوئی اور مناسب صحن نہیں تھا آپ نے گرمی کی انتہائی شدت کے باوجود نیچے کے مسقف کمرے میں سونا پسند کیا مگر اس کھلی چھت پر نہیں سوئے.آپ کا یہ فعل اس وجہ سے نہیں تھا کہ پردہ کے
مضامین بشیر جلد چهارم 156 بغیر چھت پر سونا کسی خطرے کا موجب ہو سکتا ہے بلکہ اس خیال سے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے.ایک اور موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرے میں تشریف رکھتے تھے اور اُس وقت باہر سے آئے ہوئے کچھ مہمان بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ کسی شخص نے دروازے پر دستک دی.اس پر حاضر الوقت لوگوں میں سے ایک شخص نے اُٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان صاحب کو اُٹھتے دیکھا تو جلدی سے اُٹھے اور فرمایا: ٹھہریں ٹھہریں، میں خود دروازہ کھولوں گا.آپ مہمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے.“ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل) یہ دونوں واقعات بظاہر بہت معمولی نوعیت کے ہیں مگر ان سے اس غیر معمولی جذبہ اطاعت پر زبر دست روشنی پڑتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اپنے مطاع اور آقا اور محبوب کے لئے جاگزین تھا اور ایک قدرتی چشمہ کے طور پر ہر وقت پھوٹ پھوٹ کر بہتا رہتا تھا.آج کون ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایتوں کو حوظ رکھتا ہے؟ 8.حضرت مسیح موعود کی زندگی تکلفات سے بالکل آزاد تھی.ہمارے ماموں جان یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود کی صحبت میں قریباً ستائیس ( 27 ) سال گزارے اور وہ بڑے زیرک اور آنکھیں کھلی رکھنے والے بزرگ تھے.وہ مجھ سے اکثر بیان کیا کرتے تھے کہ مجھے دنیا میں بے شمار لوگوں سے واسطہ پڑا ہے اور میں نے دنیا داروں اور دینداروں سب کو دیکھا اور سب کی صحبت اُٹھائی ہے مگر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی شخص تکلفات سے کلی طور پر آزاد نہیں دیکھا.اور یہی اس عاجز کا بھی مشاہدہ ہے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی تمام زندگی ایک قدرتی چشمہ ہے جو اپنے ماحول کے تاثرات سے بالکل بے نیاز ہو کر اپنے طبعی بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے.میں ایک بہت معمولی سی بات بیان کرتا ہوں.دنیا داروں بلکہ دین کے میدان میں پیروں اور سجادہ نشینوں میں عام طور پر یہ طریق ہے کہ ان کی مجلسوں میں مختلف لوگوں کے لئے ان کی حیثیت اور حالات کے لحاظ سے الگ الگ جگہ ملحوظ رکھی جاتی ہے.مگر اپنے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں قطعاً
مضامین بشیر جلد چہارم 157 ایسا کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا.بلکہ آپ کی مجلس میں ہر طبقہ کے لوگ آپ کے ساتھ اس طرح ملے جلے بیٹھتے تھے کہ جیسے ایک خاندان کے افراد گھر میں مل کر بیٹھتے ہیں.اور بسا اوقات اس بے تکلفانہ انداز کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود بظاہر ادنی جگہ پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے لوگوں کو غیر شعوری طور پر اچھی جگہ مل جاتی تھی.بیسیوں مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ چار پائی کے سرہانے کی طرف کوئی دوسرا شخص بیٹھا ہوتا تھا اور پائنتی کی طرف حضرت مسیح موعود ہوتے تھے.پانگی چارپائی پر آپ ہوتے تھے اور چادر وغیرہ والی چار پائی پر آپ کا کوئی مرید بیٹھا ہوتا تھا.یا اونچی جگہ پر کوئی مرید ہوتا تھا اور نیچی جگہ میں آپ ہوتے تھے.مجلس کی اس بے تکلفانہ صورت کی وجہ سے بعض اوقات ایک نو وار دکو دھو کا لگ جاتا تھا کہ حاضر مجلس لوگوں میں سے حضرت مسیح موعود کون سے ہیں اور کس جگہ تشریف رکھتے ہیں.مگر یہ ایک کمال ہے جو صرف خدا کے ماموروں کی جماعتوں میں ہی پایا جاتا ہے کہ اس بے تکلفی کے نتیجہ میں کسی قسم کی بے ادبی کا رنگ پیدا نہیں ہوتا تھا.بلکہ ہر شخص کا دل آپ کی محبت اور ادب اور احترام کے انتہائی جذبات سے معمور رہتا تھا.+99 (سیرۃ المہدی و سلسلہ احمدیہ وشمائل مصنفہ عرفانی صاحب) مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ شروع میں جب مہمانوں کی زیادہ کثرت نہیں تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحت بھی نسبتا بہتر تھی.آپ اکثر اوقات مہمانوں کے ساتھ اپنے مکان کے مردانہ حصہ میں اکٹھے بیٹھ کرکھانا کھاتے تھے اور کھانے کے دوران میں ہر قسم کی بے تکلفانہ گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا تھا.گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا دستر خوان بھی بچھ جاتا تھا.ایسے موقعوں پر آپ عموماً ہر مہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتے تھے اور اس بات کی نگرانی فرماتے تھے کہ اگر کبھی دستر خوان پر ایک سے زیادہ کھانے ہوں تو ہر شخص کے سامنے دستر خوان کی ہر چیز پہنچ جائے.عموماً ہر مہمان کے متعلق دریافت فرماتے رہتے تھے کہ کسی خاص چیز مثلاً دودھ یا چائے پالسی یا پان کی عادت تو نہیں.اور پھر حتی الوسع ہر ایک کے لئے اس کی عادت کے موافق چیز مہیا فرماتے تھے.بعض اوقات اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی مہمان کو اچار کا شوق ہے اور اچار دستر خوان پر نہیں ہوتا تھا تو خود کھانا کھاتے کھاتے اٹھ کر اندرونِ خانہ تشریف لے جاتے اور اندر سے اچار لا کر ایسے مہمان کے سامنے رکھ دیتے تھے.اور چونکہ آپ بہت تھوڑا کھانے کی وجہ سے جلد شکم سیر ہو جاتے تھے اس لئے سیر ہونے کے بعد بھی آپ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرے اٹھا کر منہ میں ڈالتے رہتے تھے.تا کہ کوئی مہمان اس خیال سے کہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا ہے دستر خوان سے بھوکا ہی نہ اٹھ جائے.اللہ
مضامین بشیر جلد چهارم 158 اللہ ، کیا زمانہ تھا.اسی طرح جب کوئی خاص دوست آپ کی ملاقات کے بعد قادیان سے واپس جانے لگتا تھا تو بعض اوقات ایک ایک میل یا دو دو میل تک اسے رخصت کرنے کے لئے اس کے ساتھ جاتے تھے اور بڑی محبت اور اکرام اور دعا کے ساتھ رخصت فرماتے تھے.اور مہمانوں کے واپس جانے پر آپ کے دل کو اس طرح رنج پہنچتا تھا کہ گویا اپنا ایک قریبی عزیز رخصت ہو رہا ہے.چنانچہ مہمانوں کے ذکر فرماتے ہیں: مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے تم جب یاد آئے وقتِ رخصت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِـي دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي گر (محمود کی آمین) مہمان نوازی کے تعلق میں مولانا ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی مولانا ابوالنصر مرحوم کے قادیان جانے کا ذکر بھی اس جگہ بے موقع نہ ہو گا.وہ 1905 ء میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان تشریف لے گئے.بہت زیرک اور سمجھدار بزرگ تھے.قادیان سے واپس آکر انہوں نے اخبار ”وکیل امرتسر میں ایک مضمون لکھا جس میں مولانا ابوالنصر فرماتے ہیں کہ : میں نے کیا دیکھا؟ قادیان دیکھا، مرزا صاحب سے ملاقات کی اور ان کا مہمان رہا.مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہئے.اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی.چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا...مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے.آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے.طبیعت منکسر مگر حکومت خیز.مزاج ٹھنڈ ا مگر دلوں کوگر مادینے والا.بردباری کی شان نے انکساری کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے.گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا.
مضامین بشیر جلد چہارم 159 متبسم ہیں.مرزا صاحب کے مریدوں میں میں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں بہت خوش اعتقاد پایا -..مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا کہ ہم آپ کو اس وعدہ پر واپس جانے کی اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں میں جس شوق کو لے کر گیا تھا اسے ساتھ لایا اور شاید و ہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے.“ ( اخبار وکیل امرتسر بحوالہ شمائل مصنفہ حضرت عرفانی صاحب) قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد یعنی ہمارے دادا صاحب کے زمانے کا ایک پھل دار باغ تھا جس میں مختلف قسم کے شمر دار درخت تھے.حضرت مسیح موعود کا یہ طریق تھا کہ جب پھل کا موسم آتا تو اپنے مقیم دوستوں اور مہمانوں کو ساتھ لے کر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور موسم کا پھل اُتروا کر سب کے ساتھ مل کر بے تکلفی سے نوش فرماتے تھے.اس وقت یوں نظر آتا تھا کہ گویا ایک مشفق باپ کے اردگرد اس کے معصوم بچے گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں.اس مجلس میں بھی علم و عرفان کا چشمہ جاری رہتا تھا اور عام بے تکلفی کی باتیں بھی ہوتی تھیں.اور خدا اور رسول کا ذکر تو حضرت مسیح موعود کی ہر مجلس کا مرکزی نقطہ ہوا کرتا تھا.(سلسلہ احمدیہ) 10 مہمانوں کے ذکر کی ذیل میں ایک نہایت دردناک واقعہ کا خیال آ گیا جس کے ذکر سے میں اس وقت رُک نہیں سکتا.افغانستان کے علاقہ خوست میں ایک نہایت درجہ بزرگ عالم رہتے تھے جو رؤسا کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور افغانستان میں ان کے علم اور نیکی اور شرافت اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے ان کا اتنا اثر تھا کہ قابل میں امیر حبیب اللہ خان کی تاجپوشی کی رسم انہوں نے ہی ادا کی تھی.ان کا نام صاحبزادہ مولوی سید عبداللطیف صاحب تھا.صاحبزادہ صاحب نے جب یہ سنا کہ قادیان میں ایک شخص نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو وہ تلاش حق کے لئے کابل سے قادیان تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود کی ملاقات سے مشرف ہوئے.اور چونکہ صیح فراست اور نیک فطرت رکھتے تھے انہوں نے آتے ہی سمجھ لیا کہ حضرت مسیح موعود کا دعوی سچا ہے اور بیعت میں داخل ہو گئے.چند ماہ کے قیام کے بعد جب وہ وطن واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے طریق کے مطابق انہیں رخصت کرنے کے لئے کافی دور تک بٹالہ کے رستہ پر ان کے ساتھ گئے.اور جب جدائی کا آخری وقت آیا تو صاحبزادہ صاحب غم سے اتنے مغلوب ہوئے کہ
مضامین بشیر جلد چهارم 160 زار زار روتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے قدموں میں گر گئے.حضرت مسیح موعود نے ان کو بڑی مشکل سے یہ فرماتے ہوئے زمین سے اٹھایا کہ الآمُرُ فَوْقَ الادب.اس وقت صاحبزادہ صاحب نے بڑی رقت کے ساتھ عرض کیا: ”حضرت! میرا دل کہتا ہے کہ میری موت کا وقت آگیا ہے اور میں اس زندگی میں آپ کا مبارک چہرہ پھر نہیں دیکھ سکوں گا.“ (سیرۃ المہدی روایت 260 و شمائل مصنفہ حضرت عرفانی صاحب) چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ کابل پہنچنے پر امیر حبیب اللہ خان نے کابل کے ملانوں کے فتویٰ کے مطابق ان کو اولا بار بار توبہ کرنے کے لئے کہا اور سخت ترین سزا کی دھمکی کے علاوہ طرح طرح کے لالچ بھی دیئے.مگر جب انہوں نے سختی سے انکار کیا اور ہر دفعہ یہی فرمایا کہ جس چیز کو میں نے حق سمجھ کر خدا کی خاطر قبول کیا ہے اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا تو پھر ان کو ایک میدان میں کمر تک زمین میں گاڑ کر ان پر پتھروں کی بے پناہ بارش برسائی.حتی کہ اس عاشق الہی کی روح اپنے آسمانی آقا کے حضور حاضر ہوگئی اور انسان پر انسان کے ظلم اور مذہب میں بدترین تشدد کا یہ خونین ڈرامہ ختم ہوا.جب حضرت مسیح موعود کو صاحبزادہ صاحب کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے بڑے درد کے ساتھ لکھا کہ : ”اے عبداللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جولوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے..اے کابل کی زمین ! تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بد قسمت زمین ! تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے.“ *11* (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 60-74) چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی بھاری غرض وغایت اسلام کی خدمت اور توحید کا قیام تھی اور اس زمانہ میں حقیقی تو حید کا سب سے زیادہ مقابلہ مسیحیت کے ساتھ ہے جو تو حید کی آڑ میں خطر ناک شرک کی تعلیم دیتی اور حضرت مسیح ناصری کو نعوذ باللہ خدا کا بیٹا قرار دے کر حضرت احدیت کے پہلو میں بٹھاتی ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عیسائیت کے خلاف بڑا جوش تھا اور ویسے بھی آپ کے منصب مسیحیت کا بڑا کام حدیثوں میں کسر صلیب ہی بیان ہوا ہے اس لئے آپ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر
مضامین بشیر جلد چهارم 161 بہت زیادہ زور دیتے تھے.کیونکہ صرف ایک بات کے ثابت ہونے سے ہی عیسائیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے.یعنی وفات مسیح کے نتیجہ میں نہ تو الوہیت مسیح باقی رہتی ہے اور نہ تثلیث کا نام ونشان قائم رہتا ہے اور نہ کفارہ کا مسئلہ اپنی بودی ٹانگوں پر کھڑا رہ سکتا ہے.بیشک وفات مسیح ناصرٹی کا عقیدہ طبعاً حضرت مسیح موعود کی اپنی صداقت کے ثبوت کے لئے بھی ایک پہلا زینہ ہے.مگر اس مسئلہ کی اصل اہمیت جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود اس پر زیادہ زور دیتے تھے وہ موجودہ مسیحیت کے کھنڈن سے تعلق رکھتی ہے.چنانچہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ: تم مسیح کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے (الحکم اگست 1908ء) کاش ہمارے دوسرے مسلمان بھائی اس نکتہ کو سمجھ کر کم از کم مسیحیت کے مقابلہ میں تو ہمارے ہمنوا ہو جائیں.حضرت مسیح موعود کے دعوے کو ماننا یا نہ ماننا دوسری بات ہے.مسیحیت کے باطل عقائد اور اس زمانہ میں ان عقائد کے عالمگیر انتشار کا حضرت مسیح موعود کے دل پر اتنا بوجھ تھا کہ آپ ایک جگہ درد و کرب سے بے قرار ہو کر بڑے جلال سے فرماتے ہیں کہ: میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاری کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مُردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے.اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہو گا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشتِ خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر و توانا خدا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے...اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا.وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں مگر مسیح ایک اور بھی ہے جو اس وقت بول رہا ہے.خدا کی غیرت دکھلا رہی ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں مگر انسان کا ثانی موجود ہے.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 7-8 12 وہ اسی تعلق میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک دلچسپ روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ
مضامین بشیر جلد چهارم 162 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کمرہ میں بیٹھے تھے اور حضور کوئی تصنیف فرمارہے تھے کہ کسی شخص نے بڑے زور سے دروازے پر دستک دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مفتی صادق صاحب سے فرمایا کہ آپ دروازہ پر جا کر معلوم کریں کہ کون ہے اور کیا پیغام لایا ہے.مفتی صاحب نے دروازہ کھولا تو دستک دینے والے صاحب نے بتایا کہ مجھے سید محمد احسن صاحب امروہی نے بھجوایا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری سناؤں کہ فلاں شہر میں ایک غیر احمدی مولوی کے ساتھ مولوی صاحب کا مناظرہ ہوا ہے اور مولوی صاحب نے اسے مناظرہ میں شکست فاش دی ہے اور بہت رگیدہ اور بالکل لا جواب کر دیا.مفتی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں یہ بات پہنچائی تو حضور نے مسکرا کر فرمایا: میں اس زور دار دستک سے سمجھا تھا کہ یورپ مسلمان ہو گیا ہے اور یہ اس کی خبر لائے ہیں.“ (سیرۃ المہدی روایت نمبر 202 وذکر حبیب مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب) یہ غالباً ایک وقتی لطیفہ کی بات تھی مگر اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یورپ کے مسلمان ہونے کا اتنا خیال تھا کہ آپ اپنے لئے حقیقی خوشی صرف اسی بات میں سمجھتے تھے کہ مسیحیت کابت ٹوٹے اور یورپ اسلام کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو جائے.اسی زبر دست جذ بہ بلکہ خدائی القاء کے ماتحت اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں: ہے آسماں پر دعوتِ حق کے لئے اک جوش ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار ارہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمه توحید پر از جاں نثار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے باد صبا گلزار سے مستانہ وار آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار
مضامین بشیر جلد چہارم آسماں سے ہے چلی توحید خالق کی ہوا دل ہمارے ساتھ ہیں گو منہ کریں بک بک ہزار 163 ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحه 131-132 ) میں اس موقع پر یورپ اور امریکہ اور افریقہ کے احمدی مبلغوں سے کہتا ہوں کہ یہ نہ سمجھو کہ غیر احمدی مسلمانوں نے وفات مسیح کی بحث کا میدان چھوڑ دیا ہے اس لئے یہ بحث اب ختم ہو گئی ہے.یہ بحث اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک کہ مسیحیت اپنے موجودہ عقائد کے ساتھ زندہ ہے.پس چاہئے کہ قرآن سے اور حدیث سے اور تاریخ سے اور مسیحی صحیفوں سے اور قدیم کتبات سے اور مدفون گنجینوں سے اور عقلی دلائل سے خدا کی نصرت چاہتے ہوئے مسیح کو فوت شدہ ثابت کرنے کے پیچھے لگے رہوتا وقتیکہ مسیح جو حقیقتاً فوت ہو چکا ہے یورپ اور امریکہ اور دوسری عیسائی قوموں کی نظروں میں بھی فوت شدہ ثابت ہو جائے اور اسلام اور مقدس بانی اسلام کے نام کا بول بالا ہو اور یقین رکھو کہ بالآخر یہ ہوکر رہے گا کیونکہ: قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا 13 حضرت مفتی محمد صادق صاحب ہی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ: ” ہمارے بڑے اصول دو ہیں.اول خدا کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور دوسرے اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا.“ (ذکر حبیب صفحہ 180 ) آپ کی ساری زندگی انہی دو اصولوں کے اردگرد چکر لگاتی تھی.آپ نے خدا کی تو حید کو قائم کرنے اور خالق و مخلوق کے تعلق کو بہتر بنانے میں اپنی انتہائی کوشش صرف کی اور اس کے لئے اپنی تمام طاقتوں کو وقف کر دیا.بسا اوقات فرمایا کرتے تھے کہ دوسرے مذاہب تو خدا کے حقیقی تصور سے ہی بریگانہ ہیں اور کئی قسم کی مشرکانہ باتوں میں پھنس کر اپنی روحانیت کو ختم کر چکے ہیں مگر مسلمان کہلانے والے بھی موجودہ زمانہ کے مادی ماحول کی تاریکیوں میں بھٹک کر خدا کو بھول چکے ہیں اور اس کی عظیم الشان طاقتوں سے نا آشنا ہیں.فرمایا کرتے تھے کہ خدا ایک زندہ حی و قیوم، قادر و متصرف ہستی ہے جو اپنے بچے پرستاروں کے ساتھ دوستانہ اور مربیا نہ تعلق رکھتا ہے.وہ ان کی باتوں کو سنتا اور اپنے شیریں کلام سے ان کو مشرف کرتا اور تکلیف اور مصیبت کے وقت ان کی مدد فرماتا ہے.چنانچہ اس پاک گروہ کا ذکر کرتے ہوئے جس میں آپ خود بھی شامل
مضامین بشیر جلد چهارم تھے فرماتے ہیں: ان سے خدا کے کام کبھی معجزانہ ہیں یہ اس لئے کہ عاشق یار یگانہ ہیں ان کو خدا نے غیروں سے بخشی ہے امتیاز ان کے لئے نشاں کو دکھاتا ہے کارساز جب دشمنوں کے ہاتھ سے وہ تنگ آتے ہیں جب بد شعار لوگ انہیں کچھ ستاتے ہیں جب ان کے مارنے کے لئے چال چلتے ہیں جب ان سے جنگ کرنے کو باہر نکلتے ہیں تب وہ خدائے پاک نشاں کو دکھاتا ہے غیروں یہ اپنا رعب نشاں سے جماتا ہے کہتا ہے یہ تو بندہ عالی جناب ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے 164 (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 16) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف دشمنوں نے سنگین مقدمات بنائے.آپ کو قتل کرنے اور کرانے کی سازشیں کیں.حکومت کو آپ کے خلاف اکسا اُکسا کر آپ پر عرصہ عافیت تنگ کرنے کی سکیمیں بنا ئیں.آپ کی ترقی اور غلبہ کی پیشگوئیوں کے اثر کو مٹانے کے لئے آپ کے متعلق بالمقابل ہلاکت کی پیش خبریاں سنائیں.آپ کو اپنے خدا دادمشن میں ناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا.آپ کے ماننے والوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے مگر ہر مصیبت کے وقت آپ کا اور آپ کی جماعت کا قدم خدا کے فضل ونصرت سے آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.خدا کی غائبانہ مدد کوئی مادی چیز نہیں جو ٹولنے سے محسوس کی جا سکے.وہ ایک نوراور اقتدار کی کرن ہے جو ابتداء میں صرف روحانی آنکھ رکھنے والوں کو نظر آیا کرتی ہے.اسی خدائی نصرت کو یاد کر کے حضرت مسیح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : مجھ پر ہر اک نے وار کیا اپنے رنگ میں آخر ذلیل ہو گئے انجام جنگ میں
مضامین بشیر جلد چهارم 165 اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 20) قطرہ سے دریا بنے کا ایک نظارہ تو اس جلسہ میں بھی نظر آ رہا ہے کہ پچھتر (75) کی قلیل تعداد سے شروع ہو کر اب ہمارے جلسہ میں حاضرین کی تعداد خدا کے فضل سے پچھتر ہزار تک پہنچ گئی ہے اور ثریا کا روحانی نظارہ بھی انشاء اللہ اقوامِ عالم کی ہدایت کے ذریعہ دنیا اپنے وقت پر دیکھ لے گی.14 ریاست کپورتھلہ کا ایک بڑا عجیب واقعہ ہے.وہاں ایک مختصر مگر ایک نہایت درجہ مخلص جماعت تھی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق تھا اور حضور بھی ان فدائی دوستوں کے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے.جیسا کہ اور کئی دوسرے شہروں میں ہوا ہے.کپورتھلہ کے بعض غیر احمدی مخالفوں نے کپورتھلہ کی احمدی مسجد پر قبضہ کر کے مقامی احمدیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی.بالآخر یہ مقدمہ عدالت میں پہنچا اور کافی دیر تک چلتا رہا.کپورتھلہ کے دوست بہت فکر مند تھے اور گھبراگھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتے تھے.حضرت مسیح موعود نے ان دوستوں کے فکر اور اخلاص سے متاثر ہو کر ایک دن ان کی درخواست پر غیرت کے ساتھ فرمایا: گھبراؤ نہیں.اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد تمہیں مل کر رہے گی“ (اصحاب احمد جلد 24 شائع کردہ مجلس انصاراللہ ) مگر عدالت کی نیت خراب تھی اور حج کا رویہ بدستور مخالفانہ رہا.آخر اس نے مقدمہ کا فیصلہ لکھا اور احمدیوں کے خلاف ڈگری دی.مگر ابھی اس نے فیصلہ پر دستخط نہیں کئے تھے اور خیال تھا کہ عدالت میں جا کر دستخط کروں گا.اس وقت اس نے اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں بیٹھ کر نوکر سے بوٹ پہنانے کو کہا.نوکر بوٹ پہنا ہی رہا تھا کہ حج پر اچانک دل کا حملہ ہوا اور وہ چند لمحوں میں ہی ختم ہو گیا.اس کی جگہ جو دوسراج آیا اس نے مسل دیکھ کر احمد یوں کو حق پر پایا اور مسجد احمدیوں کو دلا دی.یہ اسی قسم کا غیر معمولی نشانِ رحمت ہے جس سے قومیں زندہ ہوتی اور نصرت الہی کا کبھی نہ بھولنے والا سبق حاصل کرتی ہیں.کپورتھلہ کی یہ جماعت وہی فدائی جماعت ہے جس کے ایمان اور اخلاص کو دیکھ کر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ : میں امید کرتا ہوں کہ کپورتھلہ کی جماعت جس طرح اس دنیا میں میرے ساتھ رہی ہے اسی طرح
مضامین بشیر جلد چهارم 166 آخرت میں بھی میرے ساتھ ہوگی“ (سیرۃ المہدی روایت 79 نیز اصحاب احمد ذکر حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم ) 15% قادیان میں ایک لڑکا حیدر آباد دکن سے تعلیم کے لئے آیا تھا.اس کا نام عبدالکریم تھا اور وہ نیک اور شریف لڑکا تھا.اتفاق سے اسے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں دیوانے کتے نے کاٹ لیا.چونکہ انبیاء کرام کی سنت کے مطابق حضرت مسیح موعود کا یہ طریق تھا کہ دعا کے ساتھ ساتھ ظاہری تدبیر بھی اختیار فرماتے تھے اور بعض نام نہاد صوفیوں کی طرح جھوٹے تو کل کے قائل نہیں تھے.آپ نے اس لڑکے کو کسولی پہاڑ پر علاج کے لئے بھجوایا اور وہ اپنے علاج کا کورس پورا کر کے قادیان واپس آ گیا اور بظاہر اچھا ہو گیا مگر کچھ عرصہ کے بعد اس میں اچانک مخصوص بیماری یعنی ہائیڈ روفوبیا (Hydrophobia) کے آثار پیدا ہو گئے.حضرت مسیح موعود نے اس کے لئے دعا فرمائی اور ساتھ ہی مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کو حکم دیا کہ کسولی کے ڈاکٹر کو تار دے کر عبدالکریم کی حالت بتائی جائے اور علاج کے متعلق مشورہ پوچھا جائے.کسولی سے تار کے ذریعہ جواب آیا کہ: Sorry! Nothing can be done for Abdul Karim یعنی افسوس ہے کہ بیماری کے حملہ کے بعد عبدالکریم کا کوئی علاج نہیں اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ: ان کے پاس علاج نہیں مگر خدا کے پاس تو علاج ہے“ چنانچہ حضور نے بڑے درد کے ساتھ اس بچے کی شفایابی کے لئے دعا فرمائی اور ظاہری علاج کے طور پر خدائی القا کے ماتحت کچھ دوا بھی دی.خدا کی قدرت سے یہ بچہ حضور کی دعا سے بالکل تندرست ہو گیا یا یوں کہو کہ مردہ زندہ ہو گیا اور اس کے بعد وہ کافی لمبی عمر پا ک فوت ہوا.تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 481) اس واقعہ کے تعلق میں ایک اور ضمنی واقعہ بھی دلچسپ اور قابلِ ذکر ہے.میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم جب لاہور میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور کلاس میں ہائیڈ روفوبیا (Hydrophobia) کی بیماری کا ذکر آیا تو حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم نے اپنے ایک ہم جماعت طالب علم سے عبدالکریم کا واقعہ بیان کیا.ان کے کلاس فیلو نے ضد میں آکر ان سے کہا کہ یہ کوئی بات نہیں.ہائیڈ روفوبیا کا علاج بھی ہوسکتا ہے.
مضامین بشیر جلد چہارم 167 سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے دوسرے دن اپنے کلاس فیلو کا نام لینے کے بغیر مگر اس کے سامنے اپنے انگریز پروفیسر سے پوچھا کہ اگر کسی شخص کو دیوانہ کتا کاٹ لے اور اس کے نتیجہ میں اسے بیماری کا حملہ ہو جائے تو کیا اس کا بھی کوئی علاج ہے؟ پر و فیسر صاحب نے چھٹتے ہی جواب دیا کہ: Nothing on earth can save him.یعنی اسے دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی اس جگہ یا درکھنا چاہئے کہ معجزہ کے یہ معنی نہیں کہ کسی زمانہ اور کسی قسم کے حالات میں بھی کوئی انسان اس جیسا کام نہ کر سکے یا اس جیسی چیز نہ لا سکے.بلکہ اگر ایک مخصوص زمانہ میں کوئی چیز ناممکن کبھی جاتی ہے اور اس زمانہ کا کوئی انسان اس پر قادر نہیں اور وہ اس وقت تک کے حالات کے ماتحت بشری طاقت سے بالا خیال کی جاتی ہے تو اگر ایسی بات کوئی مامور من اللہ اپنی دعا اور روحانی توجہ کے ذریعہ کر گزرے تو وہ یقیناً معجزہ سمجھی جائے گی خواہ بعد کے کسی زمانہ میں وہ چیز دنیا کے لئے ممکن ہی ہو جائے.مثلاً بیماریوں کے علاج کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: دَوَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ إِلَّا الْمَوْتَ (مسند احمد بن حنبل مسند الانصار حديث بريرة الاسلمی رضی اللہ عنہ ) یعنی خواہ لوگوں کو معلوم ہو یا نہ ہو.خدا نے ہر بیماری کے لئے نیچر میں کوئی نہ کوئی علاج مقرر کر رکھا ہے.ہاں جب کسی کی موت کا مقد روقت آجائے تو وہ اٹل ہے جس کا کوئی علاج نہیں.پس اگر آئندہ چل کر مرض ہائیڈ روفوبیا کا کوئی علاج دریافت ہو جائے تو پھر بھی حضرت مسیح موعود کے معجزہ پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے واقعی ایک معجزہ تھا جس کا جواب لانے کے لئے اس وقت کی دنیا عاجز تھی.اس کے مقابل پر بعض منجزات ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر زمانہ میں دنیا کو عاجز کر دینے کی صفت میں لاجواب رہتے ہیں.مثلاً قرآن مجید کے ظاہری اور معنوی کمالات کا معجزہ.اقتداری پیشگوئیوں کا معجزہ.بالمقابل دعا کی قبولیت کا معجزہ.ہر حال میں رسولوں کے غلبہ کا معجزہ وغیرہ وغیرہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا نے ان دونوں قسم کے معجزے عطا فرمائے.16 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آریہ قوم کی دشمنی سب کو معلوم ہے.اس قوم نے ہر میدان میں حضرت مسیح موعود سے شکست کھائی اور سینکڑوں نشان دیکھے مگر اپنی ازلی شفادت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود
مضامین بشیر جلد چهارم 168 کی مخالفت میں ہر آن ترقی کرتی گئی.اس قوم کا ایک فرد قادیان میں رہتا تھا جس کا نام لالہ شرم پت تھا.لالہ صاحب حضرت مسیح موعود سے اکثر ملتے رہتے تھے اور آپ کی بہت سی پیشگوئیوں کے گواہ تھے.مگر جب بھی حضرت مسیح موعود نے ان کو شہادت کے لئے بلایا انہوں نے پہلو تہی کی.یعنی نہ تو اقرار کی جرأت کی اور نہ انکار کی ہمت پائی.مگر کٹر آریہ ہونے کے باوجود حضرت مسیح موعود ان کا بہت خیال رکھتے تھے اور بڑی ہمدردی فرماتے تھے.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مرحوم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ لالہ شرم پت صاحب بہت بیمار ہو گئے اور ان کے پیٹ پر ایک خطرناک قسم کا پھوڑا نکل آیا اور وہ سخت گھبرا گئے اور اپنی زندگی سے مایوس ہونے لگے.جب حضرت مسیح موعود کو ان کی بیماری کا علم ہوا تو حضور خود ان کی عیادت کے لئے ان کے تنگ و تاریک مکان پر تشریف لے گئے اور انہیں تسلی دی اور ان کے علاج کے لئے اپنے ڈاکٹر کو مقرر کر دیا کہ وہ لالہ صاحب کا باقاعدگی کے ساتھ علاج کریں.ان ڈاکٹر صاحب کا نام ڈاکٹر محمد عبداللہ تھا اور قادیان میں اس وقت وہی اکیلے ڈاکٹر تھے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود ہر روز لالہ صاحب کی عیادت کے لئے ان کے مکان تشریف لے جاتے رہے.ان ایام میں لالہ شرم پت صاحب کی گھبراہٹ کی یہ حالت تھی کہ اسلام کا دشمن ہونے کے باوجود جب بھی حضور ان کے پاس جاتے تھے وہ حضور سے عرض کیا کرتے تھے کہ حضرت جی ! میرے لئے دعا کریں اور حضرت مسیح موعود ہمیشہ ان کو تسلی دیتے تھے اور دعا بھی فرماتے تھے.حضرت مسیح موعود کی یہ عیادت اس وقت تک جاری رہی کہ لالہ صاحب بالکل صحت یاب ہو گئے.(شمائل حضرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب) دوست غور کریں کہ اس سے بڑھ کر ایک دشمن قوم کے فرد کے ساتھ رواداری اور ہمدردی اور دلداری کا سلوک کیا ہوسکتا ہے؟ 17.قادیان کے آریوں کا ایک اور واقعہ بھی بڑا دلچسپ اور ایمان افروز ہے.حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق پنڈت لیکھرام کی موت واقع ہوئی تو آریہ قوم کی مخالفت اور بھی تیز ہوگئی اور قادیان کے آریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک اخبار نکالنا شروع کیا جس کا نام ”شجھ چنتک تھا.یہ اخبار جو تین کٹر آریہ سومراج اور اچھر چند اور بھگت رام باہم مل کر نکالتے تھے حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کے خلاف گندے اعتراضوں اور گالیوں اور افتراؤں سے بھرا ہوا ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود نے اس پر ایک رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم" کے نام سے لکھا اور ان لوگوں کو شرافت اور انصاف کی تلقین کی اور کذب
مضامین بشیر جلد چهارم 169 بیانیوں اور افتراء پردازیوں سے باز رہنے کی نصیحت فرمائی مگر ان کی ناپاک روش میں فرق نہ آیا.انہی دنوں کے قریب قادیان میں طاعون کی وبا پھوٹی اور حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر پیشگوئی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مجھے طاعون سے محفوظ رکھے گا اور اسی طرح میرے گھر کے اندر رہنے والے لوگ بھی طاعون سے محفوظ رہیں گے.چنانچہ اس بارے میں خدائی وحی کے الفاظ یہ تھے کہ اپنی أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ (کشتی نوح) یعنی میں جو زمین و آسمان کا خدا ہوں تیری اور تیرے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے والے تمام لوگوں کی طاعون سے حفاظت کروں گا.مگر خدا بُرا کرے تعصب کا کہ وہ انسان کی آنکھوں پر عداوت کی پٹی باندھ کر اسے اندھا کر دیتا ہے.چنانچہ جب اخبار شجھ چنک کے ایڈیٹر اور مینجر وغیرہ نے یہ پیشگوئی سنی تو غرور میں آکر اور جوشِ عداوت میں اندھے ہو کر اچھر چند مینجر اخبار شجھ چنک نے کہا یہ بھی کوئی پیشگوئی ہے.میں کہتا ہوں میں بھی طاعون سے محفوظ رہوں گا“.اس کے چند دن بعد ہی قادیان میں طاعون نے زور پکڑا اور اخبار شبھ چنتک کے سارے رکن اس موذی مرض میں مبتلا ہو گئے.اور جب ان میں سے اچھر چند جس نے یہ بڑا بول بولا تھا اور اس کا ساتھی بھگت رام مر گئے اور سومراج ایڈیٹر شبھ چنتک ابھی بیمار پڑا تھا تو اس نے گھبرا کر قادیان کے ایک قابل احمدی حکیم مولوی عبید اللہ صاحب بہل مرحوم کو کہلا بھیجا کہ میں بیمار ہوں آپ مہربانی فرما کر میرا علاج کریں.مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ایک عریضہ لکھ کر پوچھا کہ سومراج ایڈیٹر شبھ چنتک طاعون سے بیمار ہے اور اس نے مجھے سے علاج کرنے کے لئے درخواست کی ہے حضور کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟ حضرت مسیح موعود نے جواب میں فرمایا: آپ علاج ضرور کریں کیونکہ انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے.مگر میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ یہ شخص بچے گا نہیں.“ چنانچہ بسمل صاحب کے ہمدردانہ علاج کے باوجود سومراج اسی شام کو یا اگلے دن مرکز اپنے بدنصیب ساتھیوں سے جا ملا.(احکام 10 اپریل 1907 بشمول روایت مرزا سلام اللہ بیگ صاحب) اس عجیب وغریب واقعہ میں دو عظیم الشان سبق ہیں.ایک سبق حضرت مسیح موعود کی غیر معمولی انسانی ہمدردی کا ہے کہ اپنے اشد ترین مخالف اور بدترین دشمن کے علاج کے لئے اپنے ایک مرید کو ہدایت فرمائی اور دوسرا سبق خدائی غیرت کا ہے کہ ادھر ان لوگوں نے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پر ہنسی اڑائی بلکہ ان میں
مضامین بشیر جلد چهارم 170 سے ایک نے آپ کے مقابل پر از راہ افتراء ایک جھوٹی پیشگوئی کا بھی اعلان کیا اور ادھر خدا نے فوراً ان سب کو طاعون میں مبتلا کر کے ایک دو دن میں ہی ان کا خاتمہ کر دیا اور خدا کا یہ شاندار وعدہ بڑے آب و تاب کے ساتھ پورا ہوا کہ: كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِى (المجادله : 22) یعنی خدا نے یہ بات مقدر کر رکھی ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ اپنے مخالفوں کے مقابل پر غالب آئیں گے.18% لیکن اس عجیب و غریب دوہرے سین (Scene) کے باوجود جس میں ایک طرف انتہائی مخالفت کا نظارہ ہے اور دوسری انتہائی غلبہ کا منظر ہے.حضرت مسیح موعود نے ہر قوم کے لئے صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھایا اور ہر مذہب وملت کے بانی کو انتہائی عزت و اکرام سے یاد کیا.بلکہ آپ نے عالمگیر امن اور صلح کی بنیا درکھتے ہوئے قرآن مجید سے یہ زرین اصول استدلال کر کے پیش کیا کہ چونکہ خدا ساری دنیا کا خدا ہے اس لئے اس نے کسی قوم سے بھی سوتیلے بیٹوں والا سلوک نہیں کیا.بلکہ ہر قوم کی طرف رسول بھیجے اور ہر طبقہ کی ہدایت کا سامان مہیا کیا.چنانچہ قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ: وَإِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر: 25) یعنی دنیا کی کوئی بھی قوم ایسی نہیں جس کی طرف خدا نے کوئی مصلح نہ بھیجا ہو لیکن خدا کی وحدانیت کا یہ تقاضا تھا کہ جب مختلف قوموں میں ترقی کا شعور پیدا ہو جائے اور ان کے دماغی قومی پختگی حاصل کرنے لگیں اور ایک عالمگیر شریعت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت کا زمانہ آجائے اور دنیا کی منتشر قوموں کو ایک دوسرے کی طرف حرکت پیدا ہو اور رسل و رسائل کے وسائل بھی وسیع ہونے شروع ہو جائیں تو پھر حضرت افضل الرسل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک دائمی اور عالمگیر شریعت نازل کر کے اور بالآخر آپ کے نائب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اس شریعت کی دنیا بھر میں اشاعت کرا کے ساری قوموں کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کیا جائے تا جس طرح دنیا کا خدا ایک ہے اس کا رسول بھی ایک ہو اور اس کی شریعت بھی ایک.اور ایسا ہو کہ مختلف قوموں اور مختلف ملکوں کی قومی اور ملکی تہذیب و تمدن کے جزوی اختلاف کے باوجود ان کا مرکزی نقطہ ایک رہے اور اخوت کی تاریں ساری دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھے رکھیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود اس معاملے میں ایک زبر دست پیشگوئی کا
مضامین بشیر جلد چہارم 171 اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں کہ کس تحدّی سے فرماتے ہیں: ”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس (خدا) کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا اور گی.ہے نامرادر کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی...دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بو یا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ 66 19 ( تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66-67) دوسرے نبیوں کی نبوت تو سب مسلمانوں میں مسلم ہی ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل اور حضرت یعقوب اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام کے سامنے تمام مسلمانوں کی گردنیں عزت و احترام کے ساتھ جھکتی ہیں لیکن اس قرآنی اصول کے مطابق کہ خدا تعالیٰ نے ہر ملک وقوم میں مختلف وقتوں میں اپنے رسول بھیجے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی انکشاف کے ماتحت ہندوستان کے مشہور قدیم مصلح حضرت کرشن کی نبوت کو بھی تسلیم کیا اور انہیں ایک پاکباز خدا رسیدہ بزرگ کے طور پر پیش کیا جو قرآنی زمانہ سے پہلے خدا کا ایک سچا نبی اور اوتار تھا.اور اس طرح آپ نے الہی منشاء کے مطابق ایک اور بڑی قوم کو عالمگیر روحانی اخوت کے دائرہ میں کھینچ لیا.بیشک کرشن جی کو ماننے والے لوگ اس وقت یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی) کے انکار کی وجہ سے ہدایت کے رستہ کو چھوڑ چکے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار صراحت فرمائی ہے کہ اس مذہب کی اصل صداقت پر قائم تھی اور کرشن خدا تعالیٰ کا ایک برحق رسول تھا جو قدیم زمانہ میں آریہ ورت کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا تھا.چنانچہ فرماتے ہیں: راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ( خدا کی طرف سے) ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی ریشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی
مضامین بشیر جلد چهارم 172 طرف سے روح القدس اُترتا تھا.وہ خدا کی طرف سے فتح مند اور باقبال تھا جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا.وہ اپنے زمانہ کا در حقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت سی باتوں میں بگاڑ دیا گیا.وہ خدا کی محبت سے پر تھا اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا.“ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 228-229) اسی طرح آپ نے ہندوستان کے ایک اور بڑے مگر جدید مذہبی بزرگ اور سکھ مذہب کے بانی حضرت بابا نانک علیہ الرحمۃ کی نیکی اور ولایت کو بھی تسلیم کیا اور اس بات کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ حضرت بابا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلی معترف تھے اور انہوں نے ہندو قوم میں اپنے مخصوص صوفیانہ طریق پر نیکی اور پاکبازی اور اخلاق حسنہ اور روحانیت کے پھیلانے کی کوشش کی.چنانچہ حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں: باوانا تک ایک نیک اور برگزیدہ انسان تھا اور ان لوگوں میں سے تھا جن کو خدائے عز وجل اپنی محبت کا شربت پلاتا ہے.بلا شبہ با دانا نک صاحب کا وجود ہندوؤں کے لئے خدا کی طرف سے ایک رحمت تھی جس نے اس نفرت کو دور کرنا چاہا تھا جو اسلام کی نسبت ہندوؤں کے دلوں میں تھی.“ +20% پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 445-446) اسی طرح قرآن کے مندرجہ بالا زریں اصول کے ماتحت جماعت احمد یہ اپنے مقدس بانی کی اقتداء میں چین کے کنفیوشس اور ایران کے زرتشت اور ہندوستان کے دوسرے مذہبی پیشوا گوتم بدھ کی بزرگی کو بھی فی الجملہ تسلیم کرتی اور ان کے متعلق محبت وعقیدت کے جذبات رکھتی ہے.در حقیقت قرآنی تصریح کے علاوہ حضرت مسیح موعود کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جس مذہبی پیشوا اور مامور الہی کو لاکھوں کروڑوں انسانوں نے قبول کر لیا اور ان کی صداقت دنیا میں قائم ہو کر وسیع علاقہ میں پھیل گئی اور راسخ ہوگئی اور غیر معمولی طور پر لمبے زمانہ تک ان کی مقبولیت کا سلسلہ چلتا چلا گیا اس کے متعلق قرآنی صراحت کے علاوہ عقلاً بھی یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ان کی اصل ضرور حق و صداقت پر مبنی تھی.کیونکہ ایک جھوٹے اور مفتری انسان کو کبھی بھی ایسی غیر معمولی قبولیت حاصل نہیں ہوسکتی.حضرت مسیح موعود کی اس بے نظیر تعلیم نے جماعت احمدیہ کے نظریات میں گویا ایک انقلابی صورت پیدا کر کے دنیا میں ایک عالمگیر امن اور آشتی کی بنیاد قائم کر دی ہے.بیشک فی الحال اس نظریہ نے ہماری
مضامین بشیر جلد چهارم 173 مخالفت کا دائرہ بہت وسیع کر دیا ہے اور ہمیں گویا ایک عالمگیر آتش نے گھیرے میں لے لیا ہے.کیونکہ ہر قوم ہمیں اپنا رقیب اور حریف سمجھ کر ہم پر حملہ آور ہو رہی ہے مگر انشاء اللہ یہی نظریہ بالآخر عالمگیر اخوت کی بنیاد بنے گا اور حضرت سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کے نائب اور بروز حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آجائے گی.تب مسیح محمدی کا یہ قول پورا ہوگا کہ : دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ (تذکرۃ الشہا دتين روحانی خزائن جلد 20 صفحه 67) میں شاید اپنے اصل مضمون سے کچھ ہٹ گیا ہوں.کیونکہ میرا مضمون حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے اخلاق و عادات اور آپ کے جستہ جستہ حالات اور آپ کی مجلس کے کوائف اور آپ کے خاص خاص اقوال کے بیان کرنے سے تعلق رکھتا ہے.مگر میں اس جگہ بظا ہرا پنا رستہ چھوڑ کر بعض اصولی باتوں میں منہمک ہو گیا ہوں.لیکن اگر غور کیا جائے تو جو باتیں میں نے کی ہیں ان کا میری تقریر کے موضوع کے ساتھ گہرا نفسیاتی جوڑ ہے.کیونکہ یہ باتیں حضرت مسیح موعود کے فطری رجحان اور پاک نظریات پر بھاری روشنی ڈالتی ہیں اور اس بات کی قطعی دلیل ہیں کہ آپ کا قلب مطہر ایک طرف اپنے خالق و مالک کے ساتھ نہایت گہرا پیوند رکھتا ہے اور دوسری طرف اس کی تاریں دنیا بھر کی مخلوق کو اس طرح اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھیں کہ کوئی فرقہ اور کوئی طبقہ اور کوئی گروہ ان کے مخلصانہ اور محبانہ ارتباط سے باہر نہیں رہا.آپ نے سچائی کی خاطر ہر قوم کی دشمنی سہیری.مگر باوجود اس کے ہر قوم سے دلی محبت کی اور اپنے بے لوث اخلاص کو کمال تک پہنچا دیا.مگر ضروری ہے کہ میں اپنے مضمون کے ابتدائی حصہ کی طرح بعض جزوی پہلو بھی بیان کروں تا کہ اصول کے ساتھ جزیات کی چاشنی بھی قائم رہے اور میں اب انہی کی طرف پھر دوبارہ رجوع کرتا ہوں.21 غالباً 16-1915ء کی بات ہے کہ قادیان میں آل انڈیا بینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر ایچ.اے والٹر تشریف لائے.ان کے ساتھ لاہور کے ایف سی کالج کے وائس پرنسپل مسٹر لوکاس بھی تھے.مسٹر واٹر ایک کٹر سیمی تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک کتاب لکھ کر شائع کر نا چاہتے تھے.جب وہ قادیان آئے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملے اور تحریک احمدیت کے متعلق بہت سے سوالات کرتے رہے اور دورانِ گفتگو میں کچھ بحث کا سارنگ بھی پیدا ہو گیا تھا.اس کے بعد انہوں نے
مضامین بشیر جلد چهارم 174 قادیان کے مختلف ادارہ جات کا معائنہ بھی کیا اور بالآخر مسٹر والٹر نے خواہش ظاہر کی کہ میں بائی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحبت یافتہ عقیدت مند کو دیکھنا چاہتا ہوں.چنانچہ قادیان کی مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قدیم اور فدائی صحابی منشی محمد اروڑا صاحب سے ان کی ملاقات کرائی گئی.اس وقت منشی صاحب مرحوم کے انتظار میں مسجد میں تشریف رکھتے تھے.رسمی تعارف کے بعد مسٹر والٹر نے منشی صاحب موصوف سے دریافت کیا کہ: آپ مرزا صاحب کو کب سے جانتے ہیں اور آپ نے ان کو کس دلیل سے مانا اور ان کی کس بات نے آپ پر زیادہ اثر کیا؟“ منشی صاحب نے جواب میں بڑی سادگی سے فرمایا: میں حضرت مرزا صاحب کو ان کے دعوئی سے پہلے کا جانتا ہوں.میں نے ایسا پاک اور نورانی انسان کوئی نہیں دیکھا.ان کا نور اور ان کی مقناطیسی شخصیت ہی میرے لئے ان کی سب سے بڑی دلیل تھی.ہم تو ان کے منہ کے بھوکے تھے.“ یہ کہہ کر حضرت منشی صاحب حضرت مسیح موعود کی یاد میں بے چین ہو کر اس طرح رونے لگے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی جدائی میں بلک بلک کر روتا ہے.اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ یہ نظارہ دیکھ کر ان کا رنگ سفید پڑ گیا تھا اور وہ محو حیرت ہو کر منشی صاحب موصوف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے اور ان کے دل میں منشی صاحب کی اس سادہ سی بات کا اتنا اثر تھا کہ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ” احمد یہ موومنٹ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور لکھا کہ: مرزا صاحب کو ہم غلطی خوردہ کہہ سکتے ہیں مگر جس شخص کی صحبت نے اپنے مریدوں پر ایسا گہرا اثر پیدا ہم مگر کی کیا ہے اسے ہم دھو کے باز ہر گز نہیں کہہ سکتے.“ احمدیہ موومنٹ مصنفہ مسٹرا بیچ.اے والٹر ) دراصل اگر انسان کی نیت صاف ہو اور اس کے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھلی ہوں تو بسا اوقات ایک پاک باز شخص کے چہرہ کی ایک جھلک یا اس کے منہ کی ایک بات ہی انسان کے دل کو منور کرنے کے لئے کافی ہو جاتی ہے.انبیاء اور اولیاء کی تاریخ ایسی باتوں سے معمور ہے کہ ایک شخص مخالفت کے جذبات لے کر آیا اور پھر پہلی نظر میں ہی یا پہلے فقرہ پر ہی گھائل ہو کر رہ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں :
مضامین بشیر جلد چهارم صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی سے گر دل میں ہو خوف کردگار ہے $22 175 (براہین احمدیہ حصہ پنجم ) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی اور جماعت احمدیہ کے ایک جید عالم تھے فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مردان کا ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کی طب کا شہرہ سن کر آپ سے علاج کرانے کی غرض سے قادیان آیا.یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت ترین دشمن تھا اور بمشکل قادیان آنے پر رضامند ہوا تھا اور اس نے قادیان آکر اپنی رہائش کے لئے مکان بھی احمدی محلہ سے باہر لیا.جب حضرت خلیفہ اول کے علاج سے اسے خدا کے فضل سے افاقہ ہو گیا اور وہ اپنے وطن واپس جانے کے لئے تیار ہوا تو اس کے ایک احمدی دوست نے کہا کہ تم نے حضرت مسیح موعود کو تو دیکھنا پسند نہیں کیا مگر ہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ.وہ اس بات کے لئے رضامند ہو گیا مگر یہ شرط کی کہ مجھے ایسے وقت میں مسجد دکھاؤ کہ جب مرزا صاحب مسجد میں نہ ہوں.چنانچہ یہ صاحب اسے ایسے وقت میں قادیان کی مسجد مبارک دکھانے کے لئے لے گئے کہ جب نماز کا وقت نہیں تھا اور مسجد خالی تھی.مگر قدرت خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ادھر یہ شخص مسجد میں داخل ہوا اور اُدھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھڑ کی کھلی اور حضور کسی کام کے تعلق میں اچانک مسجد میں تشریف لے آئے.جب اس شخص کی نظر حضرت مسیح موعود پر پڑی تو وہ حضور کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی بے تاب ہو کر حضور کے قدموں میں آ گرا اور اسی وقت بیعت کر لی.(سیرت المہدی حصہ اوّل روایت 73) اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر حال میں ہر شخص اسی قسم کا اثر قبول کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتو کوئی شخص بھی صداقت کا منکر نہیں رہ سکتا.بلکہ یہ خاص حالات کی باتیں ہیں جبکہ ایک طرف کسی نبی یا ولی کے چہرہ پر خاص انوار الہی کا ظہور ہورہا ہو اور اس کی قوت مؤثرہ پورے جو بن اور جوش کی حالت میں ہو اور دوسری طرف اثر قبول کرنے والے شخص کا دل صاف ہو اور اس کی قوت متاثرہ پوری طرح بیدار ہو.یہی وجہ ہے کہ جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی پہلی آواز پر ہی قبول کر لیا اور لبیک لبیک کہتے ہوئے آپ کے قدموں میں آگرے اور خدائی رحمت کے طالب ہوئے وہاں ابو جہل ایک ہی شہر میں
مضامین بشیر جلد چهارم 176 پہلو بہ پہلو ر ہتے ہوئے آخر وقت تک آپ کی مخالفت پر جما رہا اور عذاب کے نشان کا طالب ہو کر یہی کہتا ہوا مرگیا کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا.اس سے ظاہر ہے کہ اگر انسان کی اپنی آنکھیں بند ہوں تو اس کے لئے سورج کی روشنی بھی بیکار ہو کر رہ جاتی ہے.حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے: حسن زبصرہ.بلال از جش.صہیب از روم زخاک مکہ ابوجہل.ایں چہ بوا مجھی ست! یعنی یہ عجیب قدرت خداوندی ہے کہ حسن نے بصرہ سے آکر اور بلال نے حبشہ میں پیدا ہو کر اور صہیب نے روم سے اٹھ کر رسول پاک کو قبول کر لیا مگر ابو جہل مکہ کی خاک میں جنم لینے کے باوجو دصداقت سے محروم رہا! پس جو لوگ خدائی نور سے منور ہونا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنی آنکھیں ہمیشہ کھلی رکھیں ورنہ ہزار سورج کی روشنی بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منکروں کے متعلق کس حسرت کے ساتھ فرماتا ہے کہ : يَا حَسْرَةٌ عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وُنَ (يس: 23) یعنی ہائے افسوس لوگوں پر کہ کوئی رسول بھی ایسا نہیں آیا کہ حتی کہ ہمارا خاتم النبیین بھی ) انہوں نے اس کا انکار کر کے اس پر ہنسی نہ اڑائی ہو.*23 حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمدخلیفۃالمسیح الثانی نے ایک دفعہ مجھ سے بیان کیا اور بعض اوقات مجلس میں بھی بیان فرماتے رہے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک ہند و جو گجرات کا رہنے والا تھا ایک برات کے ساتھ قادیان آیا.یہ شخص علم توجہ یعنی پینو ٹزم (Hypnotism) کا بڑا ماہر تھا.اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس وقت ہم لوگ اتفاق سے قادیان آئے ہوئے ہیں چلو مرزا صاحب سے بھی ملتے چلیں.اس کا منشاء یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود پر توجہ کا اثر ڈال کر حضور سے بھری مجلس میں کوئی ایسی نازیبا حرکت کرائے جس سے لوگوں پر حضور کا روحانی اور اخلاقی اثر زائل ہو جائے.جب وہ مسجد میں حضور سے ملا تو اس نے حضور کے سامنے بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ حضور پر اپنی توجہ کا اثر ڈالنا شروع کیا مگر حضرت مسیح موعود پوری دلجمعی کے ساتھ اپنی گفتگو میں مصروف رہے.تھوڑی دیر کے بعد اس شخص کے بدن پر کچھ لرزہ آیا
مضامین بشیر جلد چهارم 177 اور اس کے منہ سے کچھ خوف کی آواز بھی نکلی لیکن وہ سنبھل گیا اور پھر زیادہ زور کے ساتھ توجہ ڈالنی شروع کی.اس پر اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشا مسجد سے بھاگتا ہوا نیچے اتر گیا.اس کے ساتھی اور بعض دوسرے لوگ بھی اس کے پیچھے گئے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا.جب اس کے ہوش ٹھکانے لگے تو بعد میں اس نے بیان کیا کہ میں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں.میں نے ارادہ کیا تھا کہ مرزا صاحب پر توجہ ڈال کر ان سے مجلس میں کوئی نازیبا حرکت کراؤں.مگر جب میں نے ان پر توجہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ میرے سامنے ایک شیر کھڑا ہے.میں اسے اپنا وہم قرار دے کر سنبھل گیا اور پھر دوبارہ توجہ ڈالنی شروع کی.اس پر میں نے دیکھا کہ وہ شیر میری طرف بڑھ رہا ہے جس سے میرا بدن لرز گیا.مگر میں نے پھر اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنی ساری طاقت اور اپنی ساری توجہ مجتمع کر کے اور اپنا سارا زور لگا کر مرزا صاحب پر توجہ ڈالی.اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ شیر خوفناک صورت میں مجھ پر اس طرح حملہ آور ہوا ہے کہ گویا مجھے ختم کرنا چاہتا ہے جس پر میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور میں مسجد سے بھاگ اٹھا.(سیرت المہدی روایت 75.یہی روایت بعد میں کسی قدراختلاف کے ساتھ تفسیر کبیر سورۂ شعراء زیر آیت 34 میں بھی بیان ہوئی ہے) حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرمایا کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بہت معتقد ہو گیا اور جب تک زندہ رہا ہمیشہ بڑی عقیدت کے رنگ میں حضور کے ساتھ خط و کتابت رکھتا رہا اور وہ بیان کرتا تھا کہ مرزا صاحب بڑے خدا رسیدہ بزرگ ہیں جن کے سامنے میری ہینوٹزم کی طاقت بے کار ثابت ہوئی.اس روایت کے تعلق میں ہمارے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ علم توجہ یعنی پہنو نزم دنیا کے علموں میں سے ایک لطیف علم ہے جس کا بنیادی ملکہ انسانی فطرت کے اندر قدرتی طور پر پایا جاتا ہے.مگر یہ ملکہ عموما مخفی اور مستور رہتا ہے.البتہ اسے مناسب مشق کے ذریعہ بیدار کیا جاسکتا اور بڑھایا جا سکتا ہے اور بعض لوگ جن کی قوت ارادی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور ان کے اندر توجہ جمانے یعنی کنسٹریشن (Concentration) کا مادہ زیادہ پختہ ہوتا ہے وہ لمبی مشق کے ذریعہ اس ملکہ میں کافی ترقی کر لیتے ہیں.لیکن بعض مثالیں ایسی بھی دیکھی گئی ہیں کہ بعض لوگوں میں بلکہ شاذ کے طور پر بعض نو عمر بچوں تک میں یہ ملکہ قدرتی طور پر بھی بیدار ہوتا ہے اور وہ کسی قسم کی مشق کے بغیر ہی غیر شعوری رنگ میں توجہ جمانے اور اس کے اثرات پیدا کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں.مگر ایسی قدرتی حالت اگر اسے مشق کے ذریعہ قائم نہ رکھا جائے بالعموم جلد زائل ہو جاتی ہے بلکہ یہ فطری ملکہ بعض جانوروں تک میں پایا جاتا ہے.چنانچہ سانپوں کی بعض اقسام اپنی
مضامین بشیر جلد چہارم 178 آنکھوں کی توجہ کے ذریعہ اپنے شکار کو مسحور کر لیا کرتی ہیں.اس تعلق میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ علم توجہ یعنی پینوٹزم کو حقیقی روحانیت سے جو خدا تعالیٰ کے ذاتی تعلق کا دوسرا نام ہے کوئی واسطہ نہیں.بلکہ یہ علم دنیا کے علموں میں سے اسی طرح کا علم ہے جس طرح کہ طب یا ہیئت یا ہندسہ یا کیمسٹری یا فرکس وغیرہ دنیا کے علوم ہیں اور ہر شخص خواہ وہ کسی مذہب وملت سے تعلق رکھتا ہوا سے حاصل کر سکتا اور اپنی فطری استعداد کے مطابق مناسب مشق کے ذریعہ اس میں کافی مہارت پیدا کر سکتا ہے.چنانچہ مسلمانوں میں سے کئی صوفیا اور ہندوؤں میں سے کئی جوگی اس علم کے ماہر گزرے ہیں اور اس علم کے ذریعہ بیماروں کا علاج بھی کرتے رہے ہیں اور یہی اس علم کا بہترین استعمال ہے اور آج کل یورپ و امریکہ کے لوگ بھی اس علم میں کافی ترقی کر رہے ہیں اور قدیم زمانہ میں جو ساحر حضرت موسیٰ کے مقابل پر آئے تھے وہ بھی غالبا اسی علم کے ماہر تھے مگر عصائے موسوی کے سامنے ان کا سحر ٹوٹ کر پاش پاش ہو گیا.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے: إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَحِرِطَ وَلَا يُفْلِحُ الشَّحِرُ حَيْثُ أَتَى (طه:70) یعنی ان لوگوں نے ایک ساحرانہ چال چلی تھی مگر خدا کے رسولوں کے مقابلہ پر کوئی ساحر کامیاب نہیں ہو سکتا خواہ وہ کسی رستہ سے آئے.$24 اسی تعلق میں مجھے ایک روایت بھی یاد آئی ہے.حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ابتداء میں حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے لدھیانہ میں ملے تو چونکہ حضرت منشی صاحب علم توجہ کے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے اور اس علم کے ذریعہ مریضوں کا علاج بھی کیا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا کہ آپ توجہ کے علم کے ماہر ہیں اس علم میں آپ کا سب سے بڑا کمال کیا ہے؟ منشی صاحب مرحوم بڑے منکسر المزاج صوفی فطرت کے نیک بزرگ تھے انہوں نے ادب کے ساتھ عرض کیا ” حضرت میں یہ کر سکتا ہوں کہ اگر میں کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ تڑپ کر زمین پر گر جاتا ہے“.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: منشی صاحب اس سے اس کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا اور آپ کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا؟ اور اس کے نفس کی پاکیزگی اور خدا کے تعلق میں کیا ترقی ہوئی ؟“
مضامین بشیر جلد چہارم حضرت منشی صاحب بڑی نکتہ رس طبیعت کے بزرگ تھے بے ساختہ عرض کیا: 66 179 حضرت میں سمجھ گیا ہوں.یہ ایک ایسا علم ہے جسے حقیقی روحانیت سے واقعی کوئی تعلق نہیں.“ حضرت منشی احمد جان صاحب وہی بزرگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلیٰ روحانی مقام کو شناخت کر کے اور دنیا کی موجودہ ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے حضور کے دعوئی اور سلسلہ بیعت سے بھی پہلے حضور کو مخاطب کر کے یہ شعر کہا تھا کہ : ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے حضرت مسیح موعود تو خدا کی قدرت نمائی سے مسیح بن گئے مگر افسوس کہ حضرت منشی صاحب اس سے پہلے ہی اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے مولیٰ کے حضور جا پہنچے.25% (سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر 143) دوستو! جیسا کہ میں شروع میں بیان کر چکا ہوں میرے اس مضمون کا عنوان ”در منثور“ ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عادات اور خاص خاص اقوال کے متعلق غیر مرتب موتی.اس لئے اس میں کسی ترتیب کا خیال نہ کریں.خدا تعالیٰ نے بعض صورتوں میں بکھری ہوئی چیزوں میں بھی غیر معمولی زینت ودیعت کر رکھی ہے.چنانچہ آسمان کے ستارے بظاہر بالکل غیر مرتب صورت میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ان میں اتنی خوبصورتی اور اتنی جاذبیت ہے کہ تاروں بھری رات کا نظارہ بعض اوقات انسان کو مسحور کر دیتا ہے.اسی طرح قرآن مجید نے اہل جنت کے نو خیز خدمت گاروں کے متعلق لولُوا مَنْشُوراً کا لفظ استعمال کیا ہے.یعنی وہ اپنی خادمانہ مصروفیت میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے یوں نظر آئیں گے کہ گویا کسی نے مجلس میں موتیوں کا چھینٹا دے رکھا ہے.خالق فطرت حسن و جمال کی آرائشوں کو سب سے بہتر سمجھتا ہے.اس کی بنائی ہوئی چیزوں میں خواہ وہ مرتب ہیں یا بظاہر غیر مرتب بہترین حسن کا نظارہ پایا جاتا ہے اور اس کی یہ بھی سنت ہے کہ بعض اوقات وہ اپنے بندوں کو جلال (Majesty) کے ذریعہ سے مسحور کرتا ہے اور بعض اوقات جمال (Beauty) کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتا ہے.چنانچہ اس کے رسولوں اور رسولوں کے خلیفوں میں بھی جلال و جمال کا لطیف دور نظر آتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام جلالی نبی تھے مگر ان کے آخری خلیفہ حضرت عیسی علیہ السلام جمالی صفات لے کر مبعوث ہوئے.اسی طرح ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
مضامین بشیر جلد چهارم 180 اپنی بعثت کے لحاظ سے جلالی شان کے حامل تھے جن کے نور کی زبر دست کرنوں نے عرب کے وسیع ملک کو گویا آنکھ جھپکنے میں بت پرستی کی ظلمت سے نکال کر تو حید کی تیز روشنی سے منور کر دیا.لیکن آپ کا آخری خلیفہ اور اسلام کا خاتم الخلفاء یعنی مسیح محمدی جمال کی چادر میں لپٹا ہوا آیا.چنانچہ آپ اپنی مشہور نظم میں جس میں آپ نے محبت الہی کے کرشموں کا ذکر کیا ہے فرماتے ہیں: آں مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کر دی که ازیں خاک نمایاں کر دی یعنی لوگ تو مسیح کا ٹھکا نہ آسمان بتاتے ہیں اور اس کے نزول کے منتظر ہیں.لیکن اے محبت الہی ! تیرا یہ کمال ہے کہ تو نے مجھے خاک کے پتلے کو زمین میں سے ہی ظاہر کر کے مسیحیت کے مقام پر پہنچا دیا ہے.دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فلسفہ سلوک تمام کا تمام محبت کے محور کے ارد گرد گھومتا ہے.خدا سے محبت، رسول سے محبت، مخلوق سے محبت ، عزیزوں سے محبت، ہمسائیوں سے محبت ، دوستوں سے محبت ، دشمنوں سے محبت، افراد سے محبت ، قوموں سے محبت ، خدا تک پہنچنے کا رستہ محبت اور پھر اپنے اصلاحی پروگرام کا مرکزی نقطہ بھی محبت.چنانچہ حولہ بالاظم میں محبت کے گن گاتے ہوئے کس جذ بہ کے ساتھ فرماتے ہیں: اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی ذره را تو بیک جلوه گنی چوں خورشید اے بسا خاک کہ تو چوں مہ تاباں کردی جانِ خود کس نه دهد بهر کس از صدق و صفا راست اینست که این جنس تو ارزاں کردی تا نه دیوانه شدم ہوش نیامد بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چه احساس کردی آن مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کردی که ازیں خاک نمایاں کردی گو حقیقت یہ ہے کہ آپ میں جلال و جمال کی ایسی دل آویز آمیزش تھی کہ آپ کے جمال و جلال میں فرق کرنا مشکل ہے.منہ
مضامین بشیر جلد چهارم 181 (البدر 16 اپریل 1904ء) یعنی اے محبت ! تیرے آثار عجیب و غریب ہیں کیونکہ تو نے آسمانی معشوق کے رستہ میں زخم کی تکلیف اور مرہم کی راحت کو ایک جیسا بنا رکھا ہے.تیری طاقت کا یہ عالم ہے کہ ایک ذرہ بے مقدار کو اپنے ایک جلوہ سے سورج کی طرح بنا دیتی ہے اور کتنے ہی خاک کے ذرے ہیں جن کو تو نے چمکتا ہوا چاند بنا دیا ہے.دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کی خاطر صدق و اخلاص کے ساتھ جان نہیں دیتا مگر حق یہ ہے کہ اے محبت ! تو نے اور صرف تو نے ہی اس جان بازی کے سودے کو بالکل آسان کر دیا ہے.میں تو جب تک خدا کے عشق میں دیوانہ نہیں ہوا میرے سر میں ہوش نہیں آیا.پس اے جنونِ عشق ! میرے دل کی تمنا یہ ہے کہ تیرے ہی اردگرد طواف کرتا رہوں کہ تو نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے.وہ مسیح جسے لوگ اپنی غلطی سے آسمان پر بیٹھا ہوا بتاتے تھے تو نے اے محبت ! اپنی کرشمہ سازی سے اسے اس زمین میں سے ہی ظاہر کر دیا ہے.دوسری جگہ اپنی ایک اردو نظم میں سلوک الی اللہ کے مراحل کا ذکر کرتے ہوئے محبت کی تاثیرات کے متعلق فرماتے ہیں: فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفي وجود پس کرو اس نفس کو زیر و زبر از بهر یار تلخ ہوتا ہے ثمر جب تک کہ ہو وہ ناتمام اس طرح ایماں بھی ہے جب تک نہ ہو کامل پیار عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر خطر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آبدار کوئی ره نزدیک تر راہِ محبت سے ، نہیں طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار ہے اس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز کیمیا ہے جس سے ہاتھ آ جائے گا زر بے شمار تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں تیر اندازو! نہ ہونا سست اس میں زینہار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 139-141)
مضامین بشیر جلد چهارم $26 182 اس عدیم المثال محبت کی وجہ سے جو خدا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تھی اور پھر اس محبت کی وجہ سے جو خدا کو آپ کے ساتھ تھی حضرت مسیح موعود کو خدا کی غیر معمولی نصرت اور حفاظت پر ناز تھا.چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ جب ایک آریہ نے اسلام پر یہ اعتراض کیا کہ قرآن نے حضرت ابراہیم کے متعلق یہ بات قانونِ قدرت کے خلاف بیان کی ہے اس لئے وہ قابل قبول نہیں کہ جب دشمنوں نے ان کو آگ میں ڈالا تو خدا کے حکم سے آگ ان پر ٹھنڈی ہو گئی اور حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول نے اس اعتراض کے جواب میں یہ لکھا کہ یہاں آگ سے حقیقی آگ مراد نہیں بلکہ دشمنی اور شرارت کی آگ مراد ہے اور بعض لوگوں نے اس جواب کو بہت پسند کیا.مگر جب مولوی صاحب کے اس جواب کی اطلاع حضرت مسیح موعود کو پہنچی تو آپ نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ مولوی صاحب کو اس کی تاویل کی ضرورت نہیں تھی.خدا کے بنائے ہوئے قانونِ قدرت کا احاطہ کون کر سکتا ہے؟ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک نہایت لطیف اور بصیرت افروز شعر میں فرماتے ہیں کہ : نہیں محصور ہرگز راستہ قدرت نمائی کا خدا کی قدرتوں کا حصر دعوی ہے خدائی کا اور حق بھی یہ ہے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے جو باتیں بظا ہر قانونِ قدرت کے خلاف سمجھی جاتی تھیں وہ آج نئی نئی تحقیقاتوں اور نئے نئے انکشانوں کے نتیجہ میں قانونِ قدرت کے مطابق ثابت ہو رہی ہیں اور پھر خدا اپنے بنائے ہوئے قانون کا غلام نہیں ہے بلکہ اپنے خاص مصالح کے ماتحت اس قانون میں وقتی طور پر مناسب تبدیلی بھی کر سکتا ہے.جیسا کہ وہ خود قرآن میں فرماتا ہے کہ : اللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ (يوسف: 22) یعنی خدا اپنی جاری کردہ تقدیر پر بھی غالب ہے اور اسے خاص حالات میں بدل سکتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا اپنے بنائے ہوئے قانون اور سلسلہ اسباب کو توڑ دیتا ہے بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے تصریح فرمائی ہے مراد یہ ہے کہ بعض اوقات خدا ایسے مخفی د مخفی اسباب پیدا کر دیتا ہے جو دنیا کو نظر نہیں آتے مگر ان کے نتیجہ میں اس کے کسی بد یہی قانون میں وقتی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 114)
مضامین بشیر جلد چهارم 183 پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی تحدی کے ساتھ فرمایا کہ اگر خدا نے اپنے کسی خاص الخاص تصرف سے اپنے پیارے بندے ابراہیم کے لئے دشمنوں کی لگائی ہوئی آگ کو سچ سچ ٹھنڈا کر دیا ہو تو اس میں ہرگز کوئی تعجب کی بات نہیں.حضرت مسیح موعود تو خدا کے مامور و مُرسل تھے یہ صداقت تو وہ ہے جسے امتِ محمدیہ کے اکثر سمجھدار لوگوں نے برملا سلیم کیا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود نے اس موقع پر صرف ایک حقیقت اور ایک فلسفہ کا ہی اظہار نہیں فرمایا بلکہ ایک ربانی مصلح اور ذاتی مشاہدہ سے مشرف انسان کی حیثیت میں بڑے وثوق اور جلال کے ساتھ یہ بھی فرمایا.احباب غور سے سنیں کس شان سے فرماتے ہیں کہ : حضرت ابرا ہیم کا زمانہ تو گزر چکا اب ہم خدا کی طرف سے اس زمانہ میں موجود ہیں.ہمیں کوئی دشمن آگ میں ڈال کر دیکھے خدا کے فضل سے ہم پر بھی آگ ٹھنڈی ہوگی.“ چنانچہ اسی حقیقت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی ایک نظم میں بھی فرماتے ہیں: ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے (سیرۃ المہدی روایت 147) ( تتمه حقیقة الوحی) لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی صراحت فرمائی کہ ہمارا یہ کام نہیں کہ مداریوں کی طرح خود آگ جلا کر اس میں داخل ہونے کا تماشہ دکھاتے پھریں اور خدا کا امتحان کریں.خدا کا امتحان کرنا اس کے ماموروں کی شان سے بعید ہے اور سنتِ انبیاء کے سراسر خلاف.ہاں اگر دشمن خود از راہ عداوت ہمیں آگ میں ڈالے تو ہم پر ضرور آگ ٹھنڈی ہوگی اور خدا ہمیں اس کے ضرر سے بچائے گا.(سیرۃ المہدی روایت 39 اور وایت 147 ) کاش ہماری جماعت کے لوگ ایمان میں ترقی کریں اور خدا کے ساتھ اپنا ذاتی تعلق اس حد تک بڑھا ئیں کہ ان کے لئے بھی خدائی غیرت جوش میں آتی رہے اور وہ نہ صرف دشمنوں کی شرارت سے محفوظ رہیں بلکہ نصرت الہی کے پھریرے اُڑاتے ہوئے ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتے جائیں اور دنیا کے لئے روشنی اور ہدایت کا موجب بنیں.27 ایک طرف تو حضرت مسیح موعود کو خدائی نصرت پر بھروسہ تھا کہ آگ میں پڑ کر سلامت نکل آنے کا
مضامین بشیر جلد چهارم 184 یقین رکھتے تھے مگر دوسری طرف خدا کے رستہ میں ہر قربانی کے لئے اتنے تیار تھے کہ اس کی خاطر ہر تکلیف کو راحت سمجھتے تھے.چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم روایت کرتے ہیں کہ جس دن سپرنٹنڈنٹ پولیس حضرت مسیح موعود کی مکان کی تلاشی کے لئے اچانک قادیان آیا اور ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت مسیح موعود کے پاس بھاگے گئے اور غلبہ رقت کی وجہ سے بڑی مشکل کے ساتھ عرض کیا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس وارنٹ گرفتاری کے ساتھ ہتھکڑیاں لے کر آرہا ہے.حضرت مسیح موعود اس وقت اپنی کتاب ” نور القرآن“ تصنیف فرما رہے تھے.سر اُٹھا کر مسکراتے ہوئے فرمایا: ” میر صاحب! لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا کرتے ہیں ہم سمجھیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے رستہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے.“ پھر ذرا تامل کے ساتھ فرمایا: مگر ایسا نہیں ہوگا.خدا تعالیٰ کی حکومت اپنے خاص مصالح رکھتی ہے وہ اپنے خلفائے مامورین کے لئے اس قسم کی رسوائی پسند نہیں کرتا.“ الحکم جلد 3 نمبر 24 صفحہ 1 و2 بحوالہ ملفوظات جلداول) اللہ اللہ ! کیا شان دلربائی ہے کہ ایک طرف اتنی قربانی کے مسکراتے ہوئے خدا کے رستہ میں ہتھکڑی پہننے کے لئے تیار ہیں اور دوسری طرف خدا کی نصرت پر ایسا بھروسہ کہ پولیس ہتھکڑیاں لے کر دروازے پر کھڑی ہے اور کس بے اعتنائی سے فرماتے ہیں کہ : ”ایسا نہیں ہوگا.میرا خدا مجھے اس رسوائی سے بچائے گا“ +28 اس موقع پر مجھے حضرت مسیح موعود کے بے نظیر تو کل کا ایک اور واقعہ بھی یاد آیا.یہی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اپنے ایک خط میں فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں تو کل کی بات چل پڑی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں.جب سخت جس ہوتا ہے اور گرمی کمال هد ت کو پہنچتی ہے تو لوگ وثوق سے بارش کی امید رکھتے ہیں.ایسا ہی جب میں اپنی صندوقچی کوخالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے.“
مضامین بشیر جلد چهارم 185 اور پھر خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فر مایا کہ: ” جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے تو جو ذوق اور سرور اللہ تعالیٰ پر توکل کا مجھے اس وقت حاصل ہوتا ہے میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا اور یہ حالت بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو.“ ( الحکم جلد 3 نمبر 32 صفحہ 4و5 بحوالہ ملفوظات جلداول) کیسہ تو اہلِ فقر کا ہر وقت خالی رہتا ہے مگر حضرت مسیح موعود کے تو کل کی شان ملاحظہ ہو کہ جس طرح ایک زیرک زمیندار اپنے بار بار کے تجربہ شدہ کنویں کے متعلق یقین رکھتا ہے کہ جب اس کا موجودہ پانی ختم ہونے پر آئے گا تو اس کے زیر زمین سوتے خود بخود کھل جائیں گے اور کنواں پھر پانی سے بھر جائے گا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کا دل اس یقین سے معمور تھا کہ ادھر میری جیب خالی ہوئی اور ادھر آسمان کا غیبی ہاتھ اسے پھر بھر دے گا اور جو کام مجھے خدا نے سپر د کیا ہے اس میں روک پیدا نہیں ہوگی.یہ وہی مقام نصرت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بالکل اوائل میں ہی الہام فرمایا تھا کہ : أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ خدائی الہام شروع سے لے کر آخر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر رحمت کا بادل بن کر چھا یا ر ہا.29.محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے اور مخلص صحابی ہیں اور حضور کے ہاتھ پر ہندو سے مسلمان ہوئے تھے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آخری سفر میں لاہور تشریف لے گئے اور اس وقت آپ کو بڑی کثرت کے ساتھ قرب وفات کے الہامات ہو رہے تھے تو ان دنوں میں میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر ایک خاص قسم کی ربودگی اور نورانی کیفیت طاری رہتی تھی.ان ایام میں حضور ہر روز شام کے وقت ایک قسم کی بندگاڑی میں جو فٹن کہلاتی تھی ہوا خوری کے لئے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضور کے حرم اور بعض بچے بھی ساتھ ہوتے تھے.جس دن صبح کے وقت حضور نے فوت ہونا تھا اس سے پہلی شام کو جب حضور فٹن میں بیٹھ کر سیر کے لئے تشریف لے جانے لگے تو بھائی صاحب روایت کرتے ہیں کہ اس وقت حضور نے خصوصیت کے ساتھ فرمایا:
مضامین بشیر جلد چهارم 186 میاں عبدالرحمن ! اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک روپیہ ہے وہ ہمیں صرف اتنی دور تک لے جائے کہ ہم اسی روپے کے اندر گھر واپس پہنچ جائیں.“ ( روایات بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی) چنانچہ حضوڑ تھوڑی سی ہوا خوری کے بعد گھر واپس تشریف لے آئے مگر اسی رات نصف شب کے بعد حضور کو اسہال کی تکلیف ہو گئی اور دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب حضور اپنے مولیٰ اور محبوب ازلی کے حضور حاضر ہو گئے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کے وصال کا واقعہ اس وقت پچاس 50 سال گزرنے پر بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے.گویا کہ میں حضور کے سفر آخرت کی ابتداءاب بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.مگر اس وقت مجھے اس واقعہ کی تفصیل بتانی مقصود نہیں بلکہ صرف یہ اظہار مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیوی مال و متاع کے لحاظ سے بعینہ اس حالت میں فوت ہوئے جس میں کہ آپ کے آقا حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تھا.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں جو کہ مرض الموت تھی جلدی جلدی مسجد سے اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور جو تھوڑ اسا مال وہاں رکھا تھا وہ تقسیم کر کے اپنے آسمانی آقا کے حضور حاضر ہونے کے لئے خالی ہاتھ ہو گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی زندگی کے آخری دن اپنی جھولی جھاڑ دی تا کہ اپنے آقا کے حضور خالی ہاتھ ہوکر حاضر ہوں.بے شک اسلام دنیا کی نعمتیں حاصل کرنے اور ان کے لئے مناسب کوشش کرنے سے نہیں روکتا بلکہ قرآن خود حسنات دارین کی دعا سکھاتا ہے.مگر انبیاء اور اولیاء کا مقام فقر کا مقام ہوتا ہے جس میں یہ پاک گروہ صرف خدا کا نوکر بن کر قُوتِ لَا يَمُوتُ پر زندگی گزارنا چاہتا ہے.اسی لئے نبیوں کے سرتاج حضرت افضل الرسل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و دنیا کا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی اپنے لئے فقر کی زندگی پسند کی اور ہمیشہ یہی فرمایا کہ: الْفَقْرُ فَخْرِى یعنی فقر کی زندگی میرے لئے فخر کا موجب ہے 30 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے خدا داد فرائض کی ادائیگی میں بھی اصل بھروسہ دعا پر تھا جو فقر ہی کا دوسرا نام ہے.کیونکہ جس طرح اہل فقر ایک حد تک دنیا کے سہاروں سے کام لینے کے باوجو داصل بھروسہ خدا کی غیبی نصرت پر رکھتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود نے اسلام کی خدمت اور صداقت کی اشاعت میں
مضامین بشیر جلد چهارم 187 تمام ظاہری تدابیر کو کام میں لانے اور جہاد فی سبیل اللہ کی کوشش کو انتہا تک پہنچانے کے باوجود اپنا اصل بھروسہ دعا یعنی نصرت الہی کی طلب پر رکھا.آپ کے قلمی جہاد کا لوہا دنیا مانتی ہے جس نے مذہبی مباحث کا بالکل رنگ بدل دیا اور اسلام کے مقابل پر عیسائیوں اور آریوں اور ہر یوں کے دانت کھٹے کر دیئے اور آپ کے مخالفوں تک نے آپ کو فتح نصیب جرنیل“ کے لقب سے یادکیا.(اخبار’وکیل امرتسر جون 1908ء) مگر با وجود اس کے آپ نے اپنا اصل حربہ ہمیشہ دعا کو قرار دیا اور اپنی ظاہری کوششوں کو خدا کی نصرت کے مقابل پر بیج سمجھتے ہوئے ساری عمر یہی اعتراف کرتے رہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی سے ہو گا.چنانچہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا نے مجھے بار بار یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ ہو گا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے.اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے.“ 31 ذکر حبیب مرتبہ حضرت مفتی صاحب صفحہ 179) اپنی وفات کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعا کی طرف بیش از پیش توجہ پیدا ہو گئی تھی کیونکہ ایک طرف خدائی طاقتوں کی وسعت اور دوسری طرف انسانی کوششوں کی بے بضاعتی کے منظر نے آپ کی حقیقت شناس آنکھوں کو زیادہ سے زیادہ آسمان کی طرف اٹھانا شروع کر دیا.چنانچہ آپ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں اپنے رہائشی کمرے کے ساتھ خلوت کی دعاؤں کے لئے ایک خاص حجرہ تعمیر کرایا اور اس کا نام بیت الد عارکھا تا کہ اس میں آپ اسلام کی ترقی اور اپنے خدا داد مشن کی کامیابی کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعائیں کر سکیں اور اپنے آسمانی آقا کے حضور سرخرو ہو کر پہنچیں.اس بارے میں آپ کے ایک مخلص صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ: ” ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں.ستر سال کے قریب عمر کے گزر چکے ہیں.موت کا وقت مقرر نہیں خدا جانے کس وقت آجائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی ہے.ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے.رہی سیف سواس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں.لہذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی
مضامین بشیر جلد چهارم 188 اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنادے.“ روایات حضرت مفتی صاحب مندرجہ ذکرِ حبیب صفحہ 109 110) اللہ اللہ! کیا جذبہ انکساری ہے کہ سلطان القلم اور اس میدان میں فاتح اعظم ہوتے ہوئے بھی خدائی نصرت کے مقابل پر کس عاجزی سے اپنے قلم کی کمزوری کا اعتراف فرما رہے ہیں.یہ وہی انتہائی جذبہ انکساری ہے جس کے ماتحت آپ نے اپنی ایک نظم میں فرمایا ہے کہ: کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر یا گیا درگہ میں بار حق یہ ہے کہ انسان کی کامیابی کا تمام راز خدا کی نصرت میں ہے.یہ نصرت دین کے میدان میں دعا کے ذریعہ ہوتی ہے اور دنیا کے میدان میں خدا کے بنائے ہوئے قانونِ قدرت کے ذریعہ خفیہ طور پر اپنا اثر دکھاتی ہے اسی لئے تمام نبیوں اور تمام ولیوں اور تمام خدا رسیدہ لوگوں نے ہر زمانہ میں دعا پر بہت زور دیا ہے.کیونکہ یہ خالق اور مخلوق کے درمیان روحانی رشتہ کا مرکزی نقطہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ ( سنن الترندی کتاب الدعوات) یعنی دعا عبادت کا اندرونی مغز اور اس کی روح ہے جس کے بغیر انسان کی عبادت ایک کھوکھلی ہڈی کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتی.32 پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ دعاؤں میں بہت توجہ اور انہماک اور در دوسوز کی کیفیت پیدا کریں اور اسے اپنی زندگی کا سہارا بنا ئیں اور اس پر ایک بے جان رسم کے طور پر نہیں بلکہ ایک زبر دست زندہ حقیقت کے طور پر قائم ہو جا ئیں اور یقین رکھیں کہ خدا دعاؤں کو سنتا ہے.مگر جس طرح وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی التجاؤں کو مانتا ہے اس طرح وہ کبھی بعض مصالح کے ماتحت ان کی درخواست کو رڈ کر کے اپنی بھی منواتا ہے.لیکن کسی دعا کا قبول نہ ہونا دعاؤں کی قبولیت کے بنیادی فلسفہ پر کوئی اثر نہیں رکھتا کیونکہ عام لوگوں کے لئے خدا آقا ہے اور آقا کو حق ہے کہ وہ اپنے کسی خادم کی بد اعمالی پر ناراض ہو کر اس کی بعض درخواستوں کو ر ڈ کر دے اور اپنے خاص بندوں کے لئے وہ آقا ہونے کے علا وہ دوست
189 مضامین بشیر جلد چهارم بھی ہے اور دوستی کا یہ تقاضا ہے کہ کبھی انسان اپنے دوست کی بات مانے اور کبھی اسے اپنی بات منوائے.اور ان دونوں حالتوں میں کسی نہ کسی رنگ میں خدا کی رحمت ہی جلوہ گر رہتی ہے.دعاؤں کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں کہ یہ بڑی حکمت کا کلام ہے فرماتے ہیں کہ : کیا ہی قادر و قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا.کیا ہی زبر دست قوتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا.سچ تو یہ ہے کہ اس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں مگر وہی جو اس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے.سو جب تم دعا کرو تو ان جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانونِ قدرت بنا بیٹھے ہیں...کیونکہ وہ مردود ہیں ان کی دعائیں ہر گز قبول نہیں ہوں گی لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے.ان لوگوں کے پیرومت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے....خدا تمہاری آنکھیں کھولے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے.اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں؟ مبار کی ہواس انسان کو جو اس راز کو سمجھ لے اور ہلاک ہو گیا وہ شخص جس نے اس راز کو نہیں سمجھا.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 20-24) بس اسی پر میں اپنے اس مقالہ کو ختم کرتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان روحانی اور اخلاقی اقدار کا وارث بنائے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں نازل ہوئیں اور پھر آپ کے خادم اور نائب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ان کی تجدید ہوئی اور انہوں نے اس زمانہ کے تقاضوں کے مطابق ایک نئی روشنی پائی تا کہ اسلام کا بول بالا ہو اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پھیل جائے اور حضرت مسیح موعود کا یہ الہام اپنی کامل شان اور کامل جلال کے ساتھ پورا ہو کہ : بخرام که وقت تو نزد یک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد پس اے عزیز و اور دوستو! اپنے قدموں میں مضبوطی پیدا کرو کہ ایک بہت بلند مینار کی چڑھائی آپ کا
مضامین بشیر جلد چهارم انتظار کر رہی ہے.وَآخِرُ دَعْوَانَا أن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ( محررہ 17 دسمبر 1960ء) 190 روزنامه الفضل ربوہ 18 جنوری 1961ء ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کے لئے دعا کی تحریک ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب جو محترم خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم کے فرزند اکبر ہیں بیمار ہوکر بور نیو سے ربوہ میں پہنچ چکے ہیں.ڈاکٹر صاحب موصوف بہت ہی نیک اور مخلص اور فدائی احمدی ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ ان کی نیکی اور شرافت قابل رشک ہے.وہ اس وقت دل اور سانس کی تکلیف میں مبتلا ہیں اور حالت تشویشناک ہے.کمزوری بہت بڑھ چکی ہے اور بے چینی بھی بہت ہے.ڈاکٹر صاحب کا بڑا لڑکا عزیز نصیر الدین احمد سیرالیون مغربی افریقہ میں مبلغ ہے.مخلصین جماعت اپنے اس مخلص بھائی کی صحت یابی کے لئے دعا در ددل سے دعا فرمائیں.محررہ 28 جنوری 1961ء) روزنامه الفضل ربوہ 31 جنوری 1961ء) فدیہ رمضان مبارک خدا کے فضل وکرم سے رمضان کا مبارک مہینہ بہت قریب آ گیا ہے بلکہ اس کے شروع ہونے میں صرف چند دن باقی ہیں.جو دوست روزوں کی طاقت رکھتے ہوں اور بیمار یا سفر کی حالت میں نہ ہوں ان کو ضرور روزے رکھ کر رمضان کی عظیم الشان برکات سے فائدہ اٹھانا چاہئے نہ معلوم اگلے رمضان تک کون زندہ رہتا ہے.البتہ جو دوست بیمار ہوں اور حقیقت معذور ہوں ان کے لئے حکیمانہ شریعت نے فدیہ کی رعایت رکھی ہے.لیکن یا درکھنا چاہئے کہ فدیہ کی رعایت صرف ایسے لوگوں کے لئے ہے جو لمبی بیماری یاضعف پیری کی وجہ سے آئندہ روزوں کی گنتی پوری کرنے کی امید نہیں رکھتے.پس جو دوست حقیقتا فدیہ کے حکم کے نیچے آتے
مضامین بشیر جلد چہارم 191 ہوں صرف انہی کو فدیہ ادا کرنا چاہیئے باقی سب کو روزہ رکھنا چاہئے.البتہ اگر کوئی دوست عارضی بیماری یا عارضی سفر کی وجہ سے روزہ ترک کرنے کے لئے مجبور ہوں اور آئندہ گنتی پوری کرنے کی امید بھی رکھتے ہوں وہ بھی اس شرط کے ساتھ فدیہ دے سکتے ہیں کہ مجبوری دور ہونے پر وہ روزوں کی گنتی بھی پوری کر دیں گے.ایسے بھائیوں اور بہنوں کے لئے انشاء اللہ دوہرا ثواب ہوگا.یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ اصل فدیہ تو یہ ہے کہ کسی غریب کو اپنی حیثیت کے مطابق رمضان میں مہینہ بھر کھانا کھلا دیا جائے.لیکن یہ صورت بھی بالکل جائز ہے کہ کھانے کی جگہ اپنے کھانے کی حیثیت کے مطابق نقد رقم ادا کر دی جائے تا کہ کوئی مستحق غریب اس رقم سے اپنے کھانے کا انتظام کر سکے.5 (محررہ 25 جنوری 1961ء).......روزنامه الفضل ربوہ 31 جنوری 1961ء) 6 ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب مرحوم ایک قابل رشک زندگی خدائے عرش کی تقدیر پوری ہوئی اور ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کو میں بچپن سے جانتا ہوں کیونکہ وہ سکول کے زمانہ میں میرے شاگر در ہے ہیں اور اس کے بعد بھی انہوں نے ہمیشہ خط و کتابت اور ملاقات کے ذریعہ تعلق قائم رکھا.میں اپنے ذاتی مشاہدہ اور ذاتی علم کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر بدرالدین صاحب مرحوم بے حد شریف اور بے شر اور مخلص اور نیک فطرت انسان تھے.بچپن سے ہی وہ نمازوں کے پابند ، قرآن کے عاشق اور دعاؤں میں شغف رکھتے تھے اور اصطلاحی طور پر غیر واقف زندگی ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی ساری زندگی عملاً خدمت دین کے لئے وقف رکھی.تبلیغ ان کی روح کی غذا تھی اور سلسلہ کے لئے قربانی اور امام کی فرمانبرداری ان کا طرز کا امتیاز.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم سے بور نیو کے دور دراز ملک میں جا کر آباد ہو گئے اور وہیں اپنی بقیہ زندگی خدمت سلسلہ میں گزار دی اور اس ملک کو اس وقت چھوڑ ا جب انہوں نے سمجھ لیا کہ میرا وقت آچکا ہے اور اب مجھے اپنے آشیانہ میں واپس پہنچ جانا چاہئے.چنانچہ ربوہ پہنچتے
مضامین بشیر جلد چهارم 192 ہی چند دن کے اندر اندر اپنے آسمانی آقا کے حضور حاضر ہو گئے.ان کی زندگی حقیقتا قابل رشک تھی.بے حد شریف، بے نفس، تہجد گزار ، دعا گو، اور قرآن خوان انسان تھے.ان کے سب قدیم وجدید دوست ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں.غالباً تریسٹھ سال کی عمر تھی اور یہ وہی عمر ہے جس میں ہمارے محبوب آقا حضرت سرور کا ئنا تصلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کے وصال کا پیغام آیا تھا.وَ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے اور ان کے بیوی بچگان کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.( محررہ یکم فروری 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوه 7 فروری 1961ء) 6 رمضان کی خاص برکات رمضان کا مہینہ چند دنوں میں شروع ہونے والا ہے.یہ ایک بہت ہی مبارک مہینہ ہے جس میں کئی مقسم کی برکات اور اصلاح نفس اور روحانی تربیت اور ترقی کے مواقع رکھے گئے ہیں.یہ برکات مختصر طور پر حسب ذیل ہیں : (1) نماز جو سب عبادتوں سے مسلمہ طور پر افضل ہے وہ رمضان کے مہینہ میں تہجد اور تراویح اور نوافل کے ذریعہ کئی درجہ وسیع تر اور ارفع تر ہو جاتی ہے.اس طرح رمضان کا مہینہ گویا عروسِ صلواۃ کے سنگھار کا زمانہ ہے جب کہ یہ اپنے آرائشِ جمال اور زیب وزینت کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے.(2) پھر خود روزه یعنی سحری سے لے کر غروب آفتاب تک خدا کے لئے بھوک اور پیاس اور ازدواجی تعلقات سے اجتناب کرنا اپنے اندر غیر معمولی برکات اور تربیت نفس کا سامان رکھتا اور قربانی کا سبق سکھاتا ہے اور اس مہینہ میں اپنے غریب اور نادار بھائیوں کی غربت اور تکلیف کا احساس پیدا کرنے کا لطیف ذریعہ بھی موجود ہے.(3) پھر دعا جو دراصل نماز کا اندرونی مغز اور خالق ومخلوق کے باہمی رشتہ کی سب سے بڑی کڑی ہے اس کا بھی رمضان کے مہینہ میں غیر معمولی موقع میسر آتا ہے.کیونکہ یہ مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا خاص مہینہ ہے جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے زیادہ قریب ہو جاتا ہوں.جو ہستی پہلے ہی
مضامین بشیر جلد چهارم 193 انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اس کے مزید قریب ہونے کی شان کا کیا کہنا ہے.مگر یا درکھو کہ جو دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنے سے خالی ہے وہ کوئی دعا نہیں.جو دعا اسلام اور احمدیت کی ترقی کی تمنا سے خالی ہے وہ کوئی دعا نہیں.جو دعا اپنی اولا د اور اپنے اہل وعیال کو نیکی کے رستہ پر قدم زن ہونے کی آرزو سے خالی ہے وہ کوئی دعا نہیں.بے شک خدا سے اپنے لئے اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کے لئے ہر نعمت مانگوحتی کہ اگر تمہاری جوتی کا تسمہ ٹوٹتا ہے تو وہ بھی خدا سے مانگومگر یہ تین دعا ئیں کبھی نہ بھولو کیونکہ یہ دعائیں مسلمانوں کی قومی زندگی اور اسلام کے احیاء اور نشاۃ ثانیہ کی جان ہیں.(4) پھر ایک برکت رمضان کے مہینہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی زیادہ توفیق ملنے سے تعلق رکھتی ہے.یوں تو ہر سچا مسلمان قرآن مجید پڑھتا ہے مگر رمضان میں اس کی شان بالکل نرالا رنگ اختیار کر لیتی ہے کیونکہ اس مہینہ میں گویا ہر گھر اور ہر در سے تلاوت کی آواز گونجتی ہے.قرآن وہ عظیم الشان خزانہ ہے جس کے متعلق ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس محبت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ : دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے پس دوست اس کعبہ کو بھی نہ بھولیں.(5) پھر ایک برکت رمضان کے مہینہ کی صدقہ و خیرات کی کثرت ہے.اسلام نے مسلمانوں کو اپنی مشکلات سے نجات پانے کے لئے اور اپنے کمزور بھائیوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے صدقہ اور امدادِ غرباء کی بے حد تاکید فرمائی ہے اور وہ رمضان کے متعلق تو خصوصیت سے حدیث میں آتا ہے کہ رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ صدقہ و خیرات میں اس طرح چلتا تھا کہ گویا وہ ایک تیز آندھی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.یہ وہ پانچ عظیم الشان برکتیں ہیں جو رمضان کے مہینہ کے ساتھ خاص ہیں اور ہمارے سب بہنوں اور بھائیوں کو ان پانچوں برکتوں سے رمضان میں پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہمارا دین اور ہماری جماعت اور ہمارے افراد کی ترقی سے اسلام کو استحکام حاصل ہو اور محمدیوں کا قدم ایک بلند مینار پر قائم ہو جائے.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ رمضان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جوں جوں رمضان کا مہینہ گزرتا ہے اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے کیونکہ مومنوں کی مخلصانہ عبادتوں اور دعاؤں اور صدقہ و خیرات کی
مضامین بشیر جلد چہارم 194 کثرت کے ذریعہ خدا گویازمین کی طرف زیادہ سے زیادہ نیچے اتر تا آتا ہے اور عشق و محبت الہی کی وہ بھٹی جو رمضان کے شروع میں سلگائی جاتی ہے زیادہ سے زیادہ دیکنے لگتی ہے.اسی لئے رمضان کا آخری عشرہ خاص برکات رکھتا ہے اور اسی لئے وہ اعتکاف یعنی دنیا سے وقتی اور جزوی انقطاع اور تبتل الی اللہ کے لئے مخصوص کیا گیا ہے اور اسی لئے اس عشرہ میں لیلۃ القدر کی رات بھی رکھی گئی ہے جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ وہ اپنی برکات میں ہزار مہینوں سے بہتر ہے پس : بکوشید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا بہار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا ( محرره 13 فروری 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوه 15 فروری 1961ء) 7 رمضان تو ربوہ کا رمضان ہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی حرم محترم ام مظفر احمد صاحب کی عیادت کے لئے رمضان کے دنوں میں لا ہور تشریف لے گئے جہاں رمضان کا وہ حظ نہ آیا جور بوہ میں آتا ہے اس کا ذکر آپ نے اپنی حرم محترم کی علالت کی اطلاع بھجواتے ہوئے یوں کیا.دوسری طرف یہ عاجز بھی مرکز سلسلہ کی رمضان کی برکات سے محروم ہو رہا ہے.یا روزہ رکھنے سے تو میں پہلے ہی اپنی علالت کی وجہ سے تین چار سال سے معذور ہو چکا ہوں اور فدیہ ادا کر کے خدا کے حق کی خانہ پری کرتا ہوں مگر رمضان کی دیگر برکات سے محرومی بھی بڑی محرومی ہے اور گو ہمارا رحیم و کریم آسمانی آقا انسان کی معذوریوں اور مجبوریوں کو دیکھتا ہے مگر نیکی کے مواقع سے محرومی پھر بھی محرومی ہے.لیکن عاجز انسان خدائی تقدیر کے سامنے بالکل بے بس ہو کر رہ جاتا ہے.اس سال مجھے یہ بھی تجربہ ہوا ہے کہ رمضان تو دراصل ربوہ ہی کا رمضان ہے جہاں روزوں سے محروم انسان کے اوقات بھی عموماً نیکیوں سے معمور رہتے ہیں اور مرکز کی فضاء نوافل اور تراویح اور تہجد اور درسِ قرآن اور تلاوت کلام پاک کی صداؤں سے گونجتی ہے اور روز مرہ کی زندگی میں ایک نمایاں فرق پیدا ہو جاتا ہے.جسے نہ صرف دل کی آنکھ بلکہ ظاہر کی آنکھ بھی کھلے طور پر دیکھتی اور محسوس کرتی ہے.مگر بیر ونجات میں
مضامین بشیر جلد چہارم 195 رہنے والے اصحاب اس بابرکت نظارے سے عموماً محروم رہتے ہیں.بالآخر میں اپنے مخلص بھائیوں اور بہنوں سے جن کی دردمندانہ دعائیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہی ہیں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی پُر سوز دعاؤں میں اتم مظفر احمد کو اور مجھے اور ہماری اولا دکو بھی اس رمضان میں یا درکھ کر عنداللہ ماجور ہوں تا کہ خدا ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنے فضل اور رحمت کے سایہ میں رکھے اور ہمارا حافظ و ناصر ہو اور اس عاجز کو آخر دم تک خدمت دین کے شرف سے مشرف فرما تا رہے.آمین يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - ( محررہ 20 فروری 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 23 فروری 1961ء) 3 8 ام مظفر احمد ربوہ واپس پہنچ گئیں علاج کے بعد حرم محترم کے ربوہ واپس آنے پر جو اعلان الفضل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے دیا اس کے اخیر پر دلجوئی اور عیادت کرنے والے دوست احباب کا شکر یہ ان الفاظ میں ادا کیا.میں اپنے بے شمار بلکہ لا تعداد دوستوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اتم مظفر احمد کی بیماری میں ہمیں اپنی مخلصانہ اور ہمدردانہ دعاؤں سے نوازا.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزائے خیر دے اور مجھے بھی توفیق دے کہ میں ان کے لئے دعا کر کے ان کے احسان کا بدلہ ا تا رسکوں.گوحق یہ ہے کہ احسان ایسا قرضہ ہے جو حقیقت کبھی اتر ہی نہیں سکتا.اِلَّا اَنْ يَّشَاءَ الله - دوست یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اتم مظفر احمد کی باقی ماندہ کمزوری کو بھی اپنے فضل و رحمت سے دور فرمائے اور پتہ کی پتھری کی وجہ سے کوئی مزید پیچیدگی پیدانہ ہو اور مجھے اور میری اولاد کو بھی خدا ہمیشہ اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور کبھی اپنے در سے جدا نہ ہونے دے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ محرره 26 فروری 1961 ء) روزنامه الفضل ربوہ 28 فروری 1961ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 196 فدیہ کی رقوم کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور جزائے خیر دے میں اس موقع پر پھر احباب کرام کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اصل چیز تو روزہ ہے جو مومنوں کے لئے بے شمار برکتوں کا موجب ہوتا ہے مگر ہمارے آسمانی آقا نے اپنی از لی حکمت اور رحمت کے ماتحت بیماروں او رمسافروں کو یہ رعایت دی ہے کہ اگر وہ روزہ نہ رکھ سکیں تو اپنے کھانے کی حیثیت کے مطابق کسی مستحق کو کھانا کھلا دیں یا نقدی کی صورت میں فدیہ ادا کر دیں.میں امید کرتا ہوں کہ جو دوست اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ حقیقی عذر کی بناء پر روزہ کی بجائے فدیہ کا طریق اختیار کرتے ہیں وہ انشاء اللہ ثواب سے محروم نہیں رہیں گے اور نیتوں کا علم خدا کو ہے.میں اسی رمضان میں سب بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور میرے اہل وعیال کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں گے اور دعاؤں میں دین کے پہلو کو ہمیشہ مقدم رکھا کریں گے.میں نے تو جب بھی اپنے لئے یا اپنے عزیزوں کے لئے یا دوستوں کے لئے دعا کی ہے تو اس میں لازماً دین کے پہلو کو مقدم رکھا ہے.( محرره 28 فروری 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوه 30 فروری 1961ء) 0 بعض خاص دعاؤں کی تحریک اور نو جوانوں کی تربیت کا قومی منصوبہ رمضان کا مبارک مہینہ گزر رہا ہے اور اس کا آخری عشرہ بالکل قریب آ گیا ہے.یہ عشرہ گویا رمضان کا نچوڑ ہے جبکہ مومنوں کے مسلسل روزوں اور نفلوں اور تلاوت قرآن پاک اور صدقہ و خیرات کی وجہ سے گویا خدا زمین کے قریب اتر آتا ہے اور اپنے مخلص بندوں کی دعاؤں کو زیادہ سنتا اور زیادہ رحم اور عفو و کرم کی طرف مائل ہوتا ہے.اسی لئے اس عشرہ میں لیلتہ القدر رکھی گئی ہے جو دعاؤں کی قبولیت کی خاص رات ہے.حدیث میں حضرت عائشہ اس عشرہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ : شَدَّ مِثْزِرَهُ وَ أَحْيِىٰ لَيْلَهُ
مضامین بشیر جلد چهارم 197 یعنی رمضان کے آخری دس دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے تھے اور عبادت اور دعاؤں میں غیر معمولی انہماک سے اپنی راتوں کو بھی گویا شب بیداری کے ذریعہ جیتا جاگتا دن بنادیتے تھے.پس اس مبارک عشرہ کی آمد آمد کے پیش نظر میں جماعت کے مخلص دوستوں ( مردوں اور عورتوں اور بچوں ) سے کہتا ہوں کہ اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت کی اتباع میں وہ بھی اپنی کمروں کو کس لیس اور خدا کے آستانے پر گر کر اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے لئے ، جماعت کی ترقی کے لئے ، جماعت کے کمزور طبقہ کی مضبوطی کے لئے ، حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ کی صحت کی بحالی کے لئے خود اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ گریہ وزاری سے دعائیں کریں اور دعائیں کریں اور اس طرح خدا کے سامنے اپنی جھولی کو پھیلائیں کہ اس بے نیاز آقا کا وجود ہم سب کے لئے مجسم نواز بن جائے.ہماری منزل ابھی دور ہے بہت دور.انفرادی لحاظ سے بھی دور اور قومی لحاظ سے بھی دور اور دعا کے سوا ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں.بے شک ظاہری تدابیر اختیار کرنے کا ہمیں حکم ہے اور جو شخص خدا کے بنائے ہوئے سامانوں سے غافل رہ کر محض رسمی قسم کی دعا پر بھروسہ کرتا ہے وہ ہرگز سچا احمدی نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ وہ خدا کا امتحان کرتا ہے اور خدا کا امتحان کرنے والا خود امتحان میں ڈالا جائے گا اور اس کی رحمت سے محروم رہے گا.پس پوری توجہ اور پوری کوشش سے ظاہری تدابیر کو بھی اختیار کرو اور ضرور کر دیگر یقین رکھو کہ: وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللهِ یعنی انسان کے لئے ہر کام میں نصرت کا منبع صرف خدا کی ذات ہے جن جماعتی دعاؤں کی طرف میں اس وقت انفرادی دعاؤں کے علاوہ اپنے دوستوں کو خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں : (1) حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کے لئے دعا اور اس تعلق میں خصوصیت سے یہ دعا کہ حضور کی موجودہ لمبی بیماری کی وجہ سے جماعت میں کسی قسم کی ستی اور کمزوری نہ پیدا ہو.(2) جماعت کے نو جوانوں اور خصوصاً نسلی احمدیوں میں ایمان اور اخلاص اور قوت عمل اور جذبہ خدمت کے لحاظ سے کمی نہ آئے اور ان کا کردار بلند ہو اور ہمیشہ بلند ر ہے.اس تعلق میں یہ خاکسار جماعت کے مقامی اور ضلع وار امیروں کو بھی توجہ دلاتا ہے کہ ان کا یہ ایک نہایت ضروری فرض ہے کہ اپنے حلقہ کے احمدی نوجوانوں اور بچوں کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور اس بات کی کوشش کریں اور نگرانی رکھیں کہ ان کے اندر: سچ بولنے کی عادت، محنت و جفاکشی، دیانت و امانت ، جماعتی کاموں میں ذوق وشوق، نمازوں اور
مضامین بشیر جلد چهارم 198 دعاؤں میں پابندی اور تلاوت قرآن مجید کا کردار پیدا ہو.یہ خصائل احمدی نوجوانوں کے لئے گویا ریڑھ کی ہڈی کا حکم رکھتے ہیں جس کے بغیر ہماری کمر کبھی سیدھی نہیں رہ سکتی اور کبڑا اور پانچ انسان کسی کام کے قابل نہیں رہتا.پس ضروری ہے کہ اس تربیتی پروگرام کو دعاؤں اور ظاہری تدابیر کے ذریعہ ایک قومی منصوبہ کے طور پر اختیار کیا جائے اور وقتاً فوقتاً اس کا محاسبہ ہوتا رہے اور صدر انجمن احمد یہ بھی اس کی نگرانی کرے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دعاؤں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق یہ تھا ( اور یہ کیا ہی مبارک طریق ہے کہ خواہ کسی امر کے لئے دعا کرنی ہو سب سے پہلے سورہ فاتحہ پڑھتے تھے جو ایک بہترین اور جامع ترین دعا ہے اور اس کے بعد درود پڑھتے تھے جس میں دراصل ساری قومی دعائیں شامل ہیں اور پھر ان دو بنیادی دعاؤں کے بعد دوسری دعائیں کرتے تھے اور ہمارے دوستوں کو بھی یہی بابرکت طریق اختیار کرنا چاہئے.بالآخر یہ عاجز خود اپنے لئے اور اپنے اہل وعیال کے لئے بھی احباب جماعت سے دردمندانہ دعا کی درخواست کرتا ہے کہ خدا ہمیں ہمیشہ ایمان اور عمل صالح اور خدمت دین کے مقام پر قائم رکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان متضر عانہ دعاؤں کو قبول فرمائے جو حضور نے اپنی اولاد کے لئے کی ہیں اور ہمارا وجود جماعت کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنے بلکہ ہمیں دوسروں کے لئے نمونہ بننے کی توفیق دے اور ہمارا انجام بخیر ہو.یہ خاکسار سب دوستوں (بہنوں اور بھائیوں) کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتا ہے اور ان کی دین و دنیا میں ترقی کا متمنی.(محررہ 6 مارچ 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 6 مارچ 1961ء) انصار اللہ کے لئے میرا پیغام مکرم قریشی عبد الرحمن صاحب ناظم مجالس انصارالله خیر پور ڈویژن نے اپنی ڈویژن کے سالانہ اجتماع منعقدہ 11 ، 12 فروری 1961 ء کے سلسلہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے انصار اللہ کے نام پیغام ارسال فرمانے کی درخواست کی تھی.حضرت میاں صاحب نے خیر پور ڈویژن کے انصار اللہ کے لئے مکرم
مضامین بشیر جلد چهارم 199 قریشی صاحب کے نام جو روح پرور پیغام رسال فرمایا وہ اپنی جگہ نہایت درجہ اہمیت کا حامل ہے اور اس لحاظ سے جملہ انصار کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے.آپ کے ارسال فرمودہ پیغام کا متن ذیل میں شائع کیا جاتا ہے تا کہ جملہ مجالس آپ کی زرین ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے فرائض کو کماحقہ ادا کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور سرخر ٹھہر ہیں.(ادارہ) خیر پورڈویژن کے انصار اللہ کے لئے میرا پیغام یہی ہے کہ آپ لوگ اُس علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس میں عرب سے باہر بالفاظ دیگر ہندوستان کے ساحل میں سب سے پہلے اسلام کی روشنی پہنچی.اور آپ کے علاقہ کے نام میں ہی خیر کا لفظ آتا ہے اور اسلام کا دوسرا نام بھی خیر ہے.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے علاقے کے احمدیوں کو پوری طرح منظم کریں اور اپنے علاقے میں اس طرح تبلیغ و تربیت کا انتظام کریں کہ جلد سے جلد اصلاح اور رشد کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں.اسلام وہ پیارا مذ ہب ہے کہ اگر اسے صحیح صورت میں پیش کیا جائے اور پیش کرنے والے کا اپنا نمونہ بھی اچھا ہوتو وہ ایک عظیم الشان مقناطیس کی طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتا ہے.پس میری نصیحت یہ ہے کہ آپ لوگ اپنے آپ کو علم و عمل کے لحاظ سے مقناطیس بنا ئیں اور ایسی مشک کا رنگ اختیار کریں جو خود بولے اور عطار کو بولنے کی چنداں ضرورت نہ رہے.اس وقت دنیا میں اسلام کا صرف نام رہ گیا ہے.اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے کہ وہ احمدیت کے ذریعہ اس نام کو پھر حقیقت کی روح سے مشرف کر دے گا.پس آپ خدا کا نام لے کر اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کریں اور دنیا میں صداقت کو پھیلائیں اور غلط فہمیوں کو دور کریں اور اپنے نمونہ سے ثابت کر دیں کہ آپ ایک خدائی جماعت ہیں جو اپنے اندر ایک آسمانی نور رکھتی ہے.آپس میں پورا پورا اتحاد رکھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک کریں اور دعاؤں پر زور دیں.قرآن کی بتائی ہوئی نیکیوں کو اختیار کریں اور بدیوں سے دور رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے اجتماع کو مبارک کرے اور آپ کو دین و دنیا میں ترقی دے.آمین محررہ 28 جنوری 1961ء) (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ مارچ 1961ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 200 12 ربوہ کے رمضان کا روح پرور نظارہ میں سفر کا بہت کچا ہوں یا یوں سمجھ لیجئے کہ مرکز کا سخت دلدادہ ہوں.قادیان کے زمانہ میں میری ساری عمر قادیان میں اور ربوہ کے زمانہ میں ربوہ میں گزری ہے اور بہت کم باہر رہا ہوں اور رمضان کا مہینہ تو میں نے خاص طور پر ہمیشہ مرکز میں گزارا ہے وَالشَّادُ كَالْمَعْدُوْمِ.لیکن اس سال ایسا اتفاق ہوا کہ امّ مظفر احمد کی بیماری کے تعلق میں مجھے اس رمضان کے ابتدائی چند دن لاہور میں گزارنے پڑے اور میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا ایک مچھلی کو تالاب سے باہر نکال کر میدان میں پھینک دیا گیا ہے.بیشک میں تین چار سال سے ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت روزہ نہیں رکھتا اور فدیہ ادا کر کے خدائے رحیم و کریم کی رعایت سے فائدہ اٹھاتا ہوں مگر رمضان میں صرف روزے کا ہی سوال نہیں ہوتا بلکہ اس مبارک مہینہ میں کثیر التعداد برکتوں کے اجتماع کی وجہ سے روزے سے محروم انسان بھی کئی قسم کی برکتوں سے حصہ پاسکتا ہے اور پالیتا ہے.اور پھر خدا کے فضل سے ہمارے مرکز میں کسی ایک فرد کا انفرادی روزہ نہیں ہوتا بلکہ بعض محروم الصوم لوگوں کے باوجود گویا سارے شہر کا اجتماعی روزہ ہوتا ہے اور مرکز کی فضاء اور مرکز کے زمین و آسمان روزے کی گونا گوں برکات سے گونجتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور تلاوت قرآن اور درس قرآن اور درسِ حدیث اور نوافل اور تراویح اور صلوۃ تہجد اور صلوٰۃ ضحی اور تحیات دعا وسلام اور درود اور ذکر الہی سے مرکز کے روز و شب اس طرح معمور نظر آتے ہیں جس طرح ایک برسنے والا گھنا با دل پانی کے قطروں سے معمور ہوتا ہے اور یہ دلکش روحانی کیفیت رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی دل آویزی کے ذریعہ گویا اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے.وَ اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدُ.اس سال مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ مسجد مبارک ربوہ میں اعتکاف میں بیٹھنے والوں میں خاصی تعدادان مخلصین کی ہے جو بیرونی مقامات سے آکر ربوہ میں رمضان کا آخری عشرہ گزارنا چاہتے ہیں اور میرے دل میں یہ زبردست تحریک پیدا ہو رہی ہے کہ کیا اچھا ہو کہ ربوہ کے قریبی اضلاع یعنی لاہور، سرگودھا، لائل پور (حال.فیصل آباد)، شیخو پورہ، گوجرانوالہ اور گجرات وغیرہ سے ہر سال کوئی نہ کوئی دوست ربوہ آکر رمضان کا مہینہ یا کم از کم رمضان کا آخری عشرہ گزارا کریں اور رمضان کی برکات کا وہ روح پرور نظارہ دیکھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں ) جو اس وقت پاکستان میں ربوہ کے سوا اور کسی مقام کو حاصل نہیں.
مضامین بشیر جلد چهارم 201 پس میں اضلاع مذکورہ بالا کے دوستوں اور ان اضلاع کے امیروں سے ( اور اگر ممکن ہو تو دوسرے اضلاع سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایسا انتظام کریں کہ ان کا کوئی نمائندہ ہر سال باری باری ربوہ میں آکر رمضان یا کم از کم رمضان کا آخری عشرہ گزارا کرے.اس غرض کے لئے زیادہ تر ایسے دوستوں کو چنا چاہئے جو مخلص ہوں ، دین کی محبت رکھتے ہوں اور دعاؤں کے عادی ہوں.گو بعض ایسے لوگ بھی پہنے جا سکتے ہیں جو فی الحال ان صفات کے حامل نہیں مگر حامل بنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تا کہ جماعت میں روحانیت کا جذبہ اور دعاؤں کی طرف بیش از پیش رغبت پیدا ہو.میں امید کرتا ہوں کہ اگر مقامی جماعتیں اس تجویز کی طرف توجہ دیں گی تو انشاء اللہ اس ذریعہ سے نہ صرف بیرونی جماعتوں کو بہت فائدہ ہوگا بلکہ مرکز کی جماعت بھی بیرونی جماعتوں کے ساتھ روحانی ربط پیدا کر کے کافی فائدہ اٹھائے گی.لیکن اس تجویز کو پوری طرح کامیاب بنانے کے لئے مرکز کے صیغہ مہمان خانہ کو بھی بیدار ہونا پڑے گا تا کہ جو دوست ربوہ میں رمضان گزارنے کے لئے باہر سے آئیں انہیں رہائش اور کھانے وغیرہ کے معاملہ میں کوئی تکلیف نہ ہو اور مہمان خانہ کے ماحول میں کشش پیدا کی جائے.لنگر خانہ کا انتظام اس سے بہت زیادہ اہم ہے جو بعض لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کیونکہ یہ ان پانچ بنیادی شاخوں میں سے وہ ضروری شاخ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیشہ اپنے انتظام میں رکھا تھا اور زندگی بھر انجمن کی طرف منتقل نہیں کیا تا کہ جو مہمان دین سیکھنے کے لئے مرکز میں آئیں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ: لنگر خانہ تو ہمارا مدرسہ ہے جس کے ذریعہ باہر سے آنے والوں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے.“ یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ حال ہی میں صدر انجمن احمدیہ نے مہمان خان کے انتظام کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی ہے اور ایک ایسے عزیز کو اس کام کی نگرانی کے لئے مقرر کیا ہے جو اس کام کی اہمیت کو سابقہ انتظام کی نسبت بہتر سمجھتا ہے اور خدائی مہمانوں کے اکرام کا جذبہ رکھتا ہے اور گو اصولاً خدائی مہمانوں کی نظر میں مرکز کی کشش مقام و طعام کے خیال سے بالا ہونی چاہئے مگر اس کی وجہ سے میز بانوں کی ذمہ داری کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھ جاتی ہے.بہر حال جماعت کی روحانی تربیت کا ایک عمدہ ذریعہ یہ بھی ہے کہ قریب کی جماعتوں کے نمائندے باری باری مرکز میں آکر رمضان گزارا کریں.میں یقین رکھتا ہوں کہ جو بابرکت نظارہ مرکز میں رمضان کا مہینہ پیش کرتا ہے وہ انشاء اللہ نیک دل لوگوں کے لئے بہت سی برکتوں کے حصول کا موجب ہوگا بشرطیکہ آنے
202 مضامین بشیر جلد چهارم والے دوست عبادت اور دعا اور روحانی غذا کی خالص نیت سے آئیں اور اپنے میزبان بھائیوں کی کمزوریوں کی طرف نہ دیکھیں بلکہ ان اجتماعی خوبیوں کی طرف نگاہ رکھیں جن سے مرکز کا رمضان خدا کے فضل و کرم سے معمور ہوتا ہے.(محررہ 10 مارچ 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوه 14 مارچ 1961 ء )......عید کارڈ کا ایک عمدہ استعمال آج کل عید کے موقع پر دوستوں اور عزیزوں کو عید مبارک کے کارڈ بھجوانے کی رسم عام ہوگئی ہے بلکہ شائد ضرورت سے زیادہ عام ہوگئی ہے.میں اس رسم کو کلیتہ بڑا نہیں کہتا کیونکہ اس کے ذریعہ سے عزیزوں اور دوستوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور دوسرے نیک لوگوں کے دلوں میں دعا کی تحریک بھی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ اس معاملہ میں ضیاع اور فضول خرچی کا رنگ نہ اختیار کیا جائے اور نہ ہی ایسے عید کارڈ بھیجے جائیں جو حسنِ اخلاق کے خلاف یا فضول نوعیت کے ہوں.علاوہ اس طریق میں زیادہ انہماک بھی مناسب نہیں کیونکہ آہستہ آہستہ یہ باتیں ترقی کر کے نہ صرف محض ایک رسم بن کر رہ جاتی ہیں بلکہ فضول خرچی اور روپیہ کے نقصان کا موجب بھی ہو جاتی ہیں.مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ کراچی کی جماعت نے عید مبارک کے جو کارڈ چھپوائے ہیں وہ صرف عید مبارک اور محبت کی یاد کو تازہ کرنے والے ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے ذریعہ ایک بہت عمدہ تبلیغی فائدہ بھی اٹھایا گیا ہے کیونکہ اس عید کارڈ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک ایسی نظم اور نثر کا اقتباس درج کیا گیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے اعلیٰ اخلاق اور کمالات کا مظہر ہے.علاوہ ازیں اس عید اعلیٰ کارڈ میں ایک بیرونی مسجد کی تصویر بھی دی گئی ہے جو جماعت احمدیہ کے ذریعہ ایک افریقی ملک میں تعمیر کروائی گئی ہے اور اس کی اشاعت بھی نیک تحریک کا موجب ہوسکتی ہے.اگر دوسری جماعتیں اور دوسرے دوست بھی جنہیں عید کارڈوں کا شوق ہوا اپنے شوق کو پورا کرنے کے لئے اس قسم کے عید کارڈ چھپوائیں تو خدا کے فضل سے اس کے ذریعہ دوہرا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.یعنی محبت کا اظہار اور یاد کو تازہ کرنے کے علاوہ اس قسم کے عید کارڈ سے دینی اور تبلیغی اور تربیتی فائدہ بھی حاصل کیا جا
مضامین بشیر جلد چہارم 203 سکتا ہے إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.پس جن دوستوں نے ضرور عید کارڈ بھجوانے ہوں انہیں چاہئے کہ اس قسم کے تبلیغی اور تربیتی عید کارڈ چھپوا کر استعمال کریں ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس قسم کی عید کارڈوں کی موجودہ رسم ایک وباء بن کر رہ جائے گی.(محرره 16 مارچ 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 18 مارچ 1961ء).......رمضان کے آخری عشرہ کی پُر سوز اجتماعی دعائیں ماہ رمضان میں اور خصوصاً اعتکاف کے ایام میں بعض بزرگانِ سلسلہ کی خدمت میں احباب جماعت کی طرف سے بہت سے خطوط دعا کے لئے موصول ہوئے جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے.یہ خطوط نہ صرف پاکستان کے احمدی احباب کی طرف سے تھے بلکہ بعض ان میں سے بھارت اور مشرق و مغربی افریقہ اور انگلستان وغیرہ بیرونی ممالک سے آئے تھے.آخری عشرہ میں ان احباب کو جو مسجد مبارک میں معتکف تھے دعا کی یہ درخواستیں سنائی جاتی رہیں اور بالخصوص 29 رمضان المبارک 1380 ھ مطابق 17 مارچ 1961 ء کو نماز جمعہ میں ان سب کے لئے خصوصیت سے دعا کی گئی.چونکہ جمعہ اور اجتماعی دعا کے دیگر مواقع پر قلتِ وقت کے باعث ان سب درخواستوں کو سنانا مشکل تھا اس لئے 29 رمضان المبارک کو مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ان سب خطوط میں بیان کردہ ضروریات اور مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے خطبہ جمعہ کے دوران نہایت جامع الفاظ میں دعا کی جس میں مسجد میں حاضر ہزاروں احباب آمین کہتے رہے.بعد ازاں نماز جمعہ کی دوسری رکعت کے قیام میں اور آخری دو سجدوں میں بھی در دوسوز کے ساتھ دعائیں کی گئیں.دوسری رکعت کے قیام میں جب ہزاروں ہزار نمازی مکرم شمس صاحب کی اقتداء میں یہ مسنون دعائیں پڑھ رہے تھے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے اسی حالت میں ایک نظارہ دیکھا.بعد میں حضرت میاں صاحب نے مکرم شمس صاحب کے نام ایک والہ نامہ میں اس نظارہ کا ذکر کرتے ہوئے رقم فرمایا: " آج جب جمعہ کی دوسری رکعت کے قیام میں آپ نے دعائیں کیں تو میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ میرے سامنے ایک خاص قسم کی روشنی اور چمک پیدا ہوئی ہے.سو میں خدا کے فضل سے امید کرتا ہوں کہ انشاء
مضامین بشیر جلد چهارم اللہ آج کی دعاؤں میں سے بعض قبولیت کا شرف پائیں گی.و نرجوا من الله 204 خطبہ جمعہ کے دوران جن الفاظ میں مکرم مشمس صاحب نے دعائیں کیں وہ الفضل میں دیکھی جاسکتی ہیں.(روز نامه الفضل ربوه 22 مارچ 1961ء).......13 چندوں کے متعلق جماعت کی اہم ذمہ داری مالی خدمت دین کا نصف حصہ ہے میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اس زمانہ میں خصوصاً اور ویسے عموما مالی خدمت دین کا نصف حصہ ہے.اسی لئے قرآن مجید نے اپنی ابتداء میں ہی جو صفت متقیوں کی بیان فرمائی ہے اس میں ان کی ذمہ داریوں کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ: الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4) یعنی متقی تو وہ ہیں جو ایک طرف تو خدا کی محبت میں اس کی عبادت بجالاتے ہیں اور دوسری طرف اپنے خدادا در زق سے دین کی خدمت میں خرچ کرتے ہیں.اس اہم آیت میں گویا دینی فرائض کا پچاس فیصدی حصہ انفاق فی سبیل اللہ کو قرار دیا گیا ہے.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے جہاں جہاں اعمالِ صالحہ کی تلقین فرمائی ہے وہاں ہر مقام پر لاز ما صلوۃ اور زکوۃ کو خاص طور پر نمایاں کر کے بیان کیا ہے.اسی طرح موجودہ زمانہ میں چندوں کی اہمیت اس بات سے بھی ثابت ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ نے سورۃ کہف میں ذوالقرنین کا ذکر فرمایا ہے وہاں اس کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے ہیں کہ : اتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ (الكهف: 97) یعنی اے لوگو مجھے دھات کے ٹکڑے لا کر دو تا کہ میں تمہارے مخالفوں کے حملہ کے خلاف ایک دیوار کھڑی کر دوں.اس جگہ استعارہ کے طور پر دھات کے ٹکڑوں سے چاندی سونے کے سکے مراد ہیں جو دین کے کاموں کو چلانے کے لئے ضروری ہیں اور سب دوست جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
مضامین بشیر جلد چہارم 205 صراحت فرمائی ہے کہ بے شک گزشتہ زمانہ میں بھی کوئی ذوالقرنین گزرا ہو گا مگر اس زمانہ میں پیشگوئی کے رنگ میں ذوالقرنین سے مسیح موعود یعنی میں خود مراد ہوں جو دجالی طاقتوں سے مقابلہ کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.اسی لئے آپ نے چندوں کے بارے میں اتنی تاکید فرمائی ہے کہ ایک اشتہار کے ذریعہ اعلان فرمایا کہ جو شخص احمدیت کا عہد باندھ کر پھر تین ماہ تک الہی سلسلہ کی خدمت کے لئے کوئی چندہ نہیں دیتا اس کا نام بیعت کنندگان کے رجسٹر سے کاٹ دیا جائے گا.اسی طرح حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی چندوں کی ادائیگی کے متعلق انتہائی تاکید فرماتے رہتے ہیں اور اس بارے میں بسا اوقات اتنی گھبراہٹ کا اظہار فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میرے کمزور دل میں خیال گزرتا رہا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ و پھر تحریک اور تاکید تو بے شک بجا ہے مگر حضرت صاحب اتنی گھبراہٹ کا اظہار کیوں فرماتے ہیں؟ لیکن پھر ایسے موقع پر مجھے غزوہ بدر کا وہ واقعہ یاد آجاتا ہے جب خدائی وعدہ کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنی گھبراہٹ اور بے چینی کی حالت میں دعا فرماتے تھے کہ آپ کی چادر مبارک آپ کے کندھوں سے گر گر جاتی تھی اور حضرت ابو بکر آپ کی تکلیف کا خیال کر کے آپ سے عرض کرتے تھے کہ حضور جب خدا کا وعدہ ہے کہ وہ بہر حال نصرت فرمائے گا اور غلبہ دے گا تو آپ اتنے گھبراتے کیوں ہیں؟ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ایک طرف خدا کا وعدہ ہے تو دوسری طرف خدا کا غنا ذاتی بھی ہے اور پھر خدا کی حکیمانہ قدرت نے دنیا میں اسباب وصل کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے.فَكَانَ الرَّسُولُ أَعْلَمُ اور رسول اللہ کا علم و عرفان بہر حال بہتر اور افضل تھا.اسی طرح عقلاً بھی چندوں کی غیر معمولی اہمیت ظاہر وعیاں ہے کیونکہ سلسلہ اسباب و علل کے ماتحت ہر کام کو چلانے کے لئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر کوئی کام سرانجام نہیں پاسکتا.خدمت دین کے اہم رکن تبلیغ اور تعلیم اور تربیت اور تنظیم ہیں اور ان سب کے لئے بھاری اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت موجودہ زمانے میں جب کہ صداقت کے مقابلہ پر باطل کی طاقتیں بے انتہا ساز و سامان اور ان گنت مال وزر سے آراستہ ہیں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) شرک کے بھاری فتنہ اور اس کے مقابل پر توحید کی بے انتہا اہلیت کے پیش نظر فرمایا کرتے تھے اگر کوئی شخص مجھ پر سچے دل سے ایمان لاکر لا إلهَ إِلَّا الله کی حقیقت پر قائم ہو جائے تو وہ خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا.وَ اِن زَنَى وَإِنْ سَرَقَ.ہم جو رسول پاک کے ادنیٰ خادم بلکہ خاک پاہیں تحدی کے
مضامین بشیر جلد چهارم 206 ساتھ اور حمیت کے رنگ میں تو ہر گز کچھ نہیں کہہ سکتے مگر اس نور کی وجہ سے جو اسلام اور احمدیت نے ہمارے دلوں میں پیدا کیا ہے امید رکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا کر سچے دل سے خدا کی عبادت کرتا اور الہی سلسلے میں داخل ہو کر اسلام کی اعانت کے لئے با قاعدہ مالی خدمت بجالاتا ہے وہ اپنی بشری کمزوریوں کے باوجود خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا بشرطیکہ وہ اپنے دل میں کسی قسم کے نفاق کی ملونی نہ رکھتا ہو.وَذَالِكَ ظَنُّنَا بِاللَّهِ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَىٰ أَنَا عِندَ ظَنِّ عَبْدِی بی.اس وقت جماعت بہت سے بوجھوں کے نیچے ہے.ایک طرف کئی پرانے قرضے اس کے سر پر ہیں اور دوسری طرف اسلام کی خدمت اور اشاعت کے لئے کئی نئے اخراجات اسے درپیش ہیں.پس اس وقت دوستوں کی خاص توجہ اور خاص ہمت اور خاص ولولہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: بکوشید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا بہار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کے دوست عموماً اور امراء اور صدر صاحبان خصوصاً ذیل کی تجویزوں پر پوری پوری توجہ کے ساتھ عمل کریں تو انشاء اللہ بہت عمدہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں: (1) ناظر صاحب بیت المال کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں اور ان کی تحریکوں کو دلی توجہ کے ساتھ سنیں اور ان پر عمل کریں اور اگر مقامی حالات کی وجہ سے کسی بات میں اختلاف رائے ہو تو مناسب طریق پر پیش کر کے فیصلہ کرائیں.(2) مقامی جماعتوں کے کارکن اپنی اپنی جگہ اس بات کا تفصیلی جائزہ لیں کہ کیا ان کے حلقہ میں کوئی احمدی ایسا تو نہیں ہے جو حسب ہدایت سلسلہ با قاعدہ چندہ ادا نہ کرتا ہو.یعنی اگر وہ موصی ہے تو اپنی وصیت کے مطابق چندہ نہ دے رہا ہو اور اگر غیر موصی ہے تو مقررہ ریٹ کے مطابق چندہ عام ادا نہ کر رہا ہو اور اگر جماعت میں کوئی نادہندہ ہو یا وہ چندہ تو دیتا ہو مگر مقررہ شرح کے مطابق نہ دیتا ہو تو اسے ہر رنگ میں اور پوری کوشش کے ساتھ پورا چندہ یا پورا حصہ وصیت ادا کرنے پر آمادہ کیا جائے اور اس کوشش کو یہاں تک کامیاب بنایا جائے کہ جماعت میں کوئی فرد ناد ہند نہ رہے.احمدی ہو کر چندہ میں نادہند ہونا ایسا ہے کہ گویا کسی کا آدھا دھڑ مارا ہوا ہو.(3) تجارت پیشہ اور زمیندار اصحاب اور صناعوں اور دیگر پیشہ ور لوگوں کے چندوں کی خاص نگرانی
مضامین بشیر جلد چہارم 207 کی جائے کہ وہ اپنی آمد کے مطابق صحیح صحیح چندہ ادا کرتے ہیں یا نہیں.چندہ کے معاملے میں زیادہ خرابی اسی حصہ میں واقع ہوتی ہے بعض کمزور ایمان لوگ اپنی آمد بتانے سے گریز کرتے ہیں.ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے کہ آپ لوگ بیعت کرتے ہوئے اقرار کر چکے ہیں کہ ” میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا اس لئے آپ کا یہ سودا خدا کے ساتھ ہے اور خدا کے ساتھ سودا کر کے دھو کا کرنے والا بالآخر کبھی کامیاب اور با مراد نہیں ہوتا.(4) جو نئے دوست جماعت میں داخل ہوتے ہیں انہیں شروع سے ہی چندوں کا عادی بنایا جائے.یہ پالیسی درست نہیں ہے کہ نئے لوگوں کے ساتھ چندوں کے معاملہ میں نرمی کرنی چاہئے.جو لوگ ایک دفعہ رعایت کے عادی ہو جائیں وہ پھر الا ماشاء اللہ ہمیشہ رعایت کے ہی طالب رہتے ہیں.پس نئے دوستوں کو شروع میں ہی چندوں کا فلسفہ سمجھا کر اور مناسب رنگ میں تحریک کر کے چندوں کا عادی بنانا چاہئے.(5) عورتوں سے بھی باقاعدہ چندہ وصول کیا جائے.یہ خیال درست نہیں ہے کہ چونکہ عورتوں کی آمدنی خاوندوں کی طرف سے آتی ہے اور خاوند اپنی آمدنی پر چندہ پہلے ہی دے دیتے ہیں اس لئے عورتوں پر چندہ واجب نہیں.خدا کے سامنے ہر شخص اپنے اعمال کا جدا گانہ حساب رکھتا ہے اور ہر شخص کو اپنی اپنی قبر میں جاتا ہے.پس ہر شخص (کو) خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو خدمت دین میں بذات خود حصہ لینا چاہئے.جہاں عورتوں کو ان کے خاوندوں کی طرف سے جیب خرچ ملتا ہے وہاں وہ اس جیب خرچ میں سے چندہ دیں (جیسا کہ وہ ذاتی وصیت کی صورت میں چندہ وصیت دیتی ہیں ) اور جن عورتوں کو کوئی معین جیب خرچ نہیں ملتا وہ اپنے ذاتی خرچ کا اندازہ کر کے چندہ دے دیا کریں بلکہ حق یہ ہے کہ تربیتی نقطہ نگاہ سے عورتوں میں خدمت دین کا براہِ راست جذبہ پیدا کرنا مردوں کی نسبت بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ ان کی گودوں میں قوم کے نونہال پلتے ہیں.اگر وہ دین دار اور خادمِ دین ہوں گی تو لازماً ان کی اولاد پر بھی ان کی نیکی کا اثر ہوگا.بچپن میں اولا د پر ماں کا اثر باپ کی نسبت یقینا زیادہ ہوتا ہے.(6) چھٹا اور سب سے زیادہ پختہ ذریعہ چندوں کی ترقی کا جماعت کی تربیت ہے.اب جماعت پر وہ زمانہ ہے کہ جب براہِ راست بیعت کرنے والے احمدیوں کے مقابل پر نسلی احمدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ظاہر ہے کہ نسلی بیعت میں بالعموم وہ طاقت نہیں ہوتی جو ایسی بیعت میں ہوتی ہے جو خو د سوچ سمجھ کر علی وجہ البصیرت کی جائے.براہِ راست بیعت ایسے درخت کا حکم رکھتی ہے جو پیوند کے ذریعہ تیار ہوتا ہے لیکن نسلی
مضامین بشیر جلد چهارم 208 احمدی تخمی درخت کے حکم میں ہے.اور ہر شخص جانتا ہے کہ جس طرح پیوند کے ذریعہ تیار کیا ہوا پودا اصل درخت کی صفات کا ورثہ پاتا ہے اس طرح تخم سے تیار کیا ہوا پودا ہر گز نہیں پاتا.الا ماشاء اللہ.پس جب تک ہم اپنے بچوں اور اپنے نو جوانوں میں پیوندی پودے والا رنگ پیدا نہیں کریں گے اور ان کے دلوں میں ایمان کی براہ راست چنگاری روشن نہیں ہوگی یہ حصہ الا ما شاء اللہ ہمیشہ جماعت کی کمزوری کا موجب رہے گا.اس لئے جہاں اور سکیموں کی طرف توجہ دی جائے وہاں نظارت اصلاح و ارشاد اور مربیان وقف جدید کے تعاون سے جماعت کی تربیت اور خصوصا نئی نسل کی تربیت کی طرف بھی خاص توجہ ہونی چاہئے.انفرادی اور اجتماعی تربیت قومی ترقی کا سب سے بڑا ستون ہے بلکہ اگر اسے قومی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا جائے تو بے جانہیں ہوگا.اور تربیت کی ترقی کے نتیجہ میں لازما چندہ میں بھی ترقی ہوگی کیونکہ تربیت ہی وہ چیز ہے جس سے قومی ضروریات کا احساس اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو اور ہمارے دلوں میں دین کی غیر معمولی محبت اور جوش پیدا کرے اور ہمیں صحیح معنوں میں خادمِ دین بنائے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (روزنامہ الفضل ربوہ 6 اپریل 1961ء) مجلس مشاورت کی تجاویز حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے منظور فرمالی ہیں احباب جماعت نگران بورڈ کے تعلق میں مجھے اپنی اصلاحی تجاویز سے مطلع فرمائیں احباب جماعت کی اطلاع کے لئے عموماً اور نمائندگان مجلس مشاورت منعقدہ 24 ، 25 ،26 مارچ 1961 ء کی اطلاع کے لئے خصوصاً اعلان کیا جاتا ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مشاورت میں فیصلہ شدہ جملہ تجاویز منظور فرمالی ہیں اور ان پر عمل کئے جانے کا ارشادصدرانجمن احمد یہ اور مجلس تحریک جدید کے نام جاری فرما دیا ہے.چنانچہ سیکرٹری صاحب مجلس مشاورت (پرائیویٹ سیکرٹری ) نے حضور کی منظوری کی اطلاع صدرانجمن احمد یہ اور مجلس تحریک جدید کو بھجوا دی ہے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان جملہ تجاویز کو جماعت احمدیہ کے لئے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ کرے اور جماعت کو ان تجاویز پر عمل
مضامین بشیر جلد چهارم 209 کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس تعلق میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ جو نگران بورڈ مشاورت میں صدر انجمن احمد یہ اور مجلس تحریک جدید اور مجلس وقف جدید کے کام کی نگرانی کے لئے اور ان میں رابطہ قائم رکھنے کے لئے کیا گیا ہے اس کے جو تین ممبر جماعتوں کی طرف سے لئے جانے تھے وہ خاکسار نے با مشورہ امراء جماعت مندرجہ ذیل مقرر کئے ہیں : (1) مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ و علاقائی امیر سرگودھا (2) شیخ بشیر احمد صاحب حج ہائی کورٹ ٹمپل روڈ لاہور (3) چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت شیخوپورہ سوان ہرسہ نمائندگانِ جماعت کی خدمت میں تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اس کام کے تعلق میں ضروری تیاری شروع کر دیں اور اپنے مشورہ سے مجھے مطلع فرمائیں اسی طرح صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ اور صدر صاحب مجلس تحریک جدید اور صدر صاحب مجلس وقف جدید بھی اس کے متعلق ضروری تیاری کر کے مجھے اپنا مشورہ بھجوا دیں.نیز جماعت کی اطلاع کے لئے بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ صدرانجمن احمد یہ اور صدر صاحب مجلس تحریک جدید اور مجلس وقف جدید کے کام کے متعلق اگر کسی صاحب کے ذہن میں کوئی اصلاحی تجویز ہو یا کوئی نقص نظر آتا ہو تو اس کے متعلق بھی خاکسار کو تحریری اطلاع دی جائے.( محررہ 5 اپریل 1961 ء) روزنامه الفضل ربوہ 8 اپریل 1961ء) مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے نام آپ کا پیغام مجلس خدام الاحمدیہ لاہور نے ایک لائحہ عمل مرتب کر کے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں بغرض ملاحظہ اور راہنمائی پیش کیا تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے بعد ملاحظه مجلس خدام الاحمد یہ لا ہور کو جوارشاد فرمایا وہ زریں نصائح پر مشتمل تھا اور دیگر مجالس کے لئے بھی ویسا ہی قابل عمل ہے اور ان کی راہنمائی کا موجب ہے جیسا کہ مجلس لاہور کے لئے.لہذا جملہ مجالس خدام الاحمدیہ کے افادہ کی غرض
مضامین بشیر جلد چهارم 210 سے اسے شائع کیا جاتا ہے.معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ) میں نے مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کا لائحہ عمل اور طریق کارسرسری نظر سے دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے لاہور کے خدام کو اپنی رضا کے ماتحت بہترین خدمت دین کی توفیق دے اور انہیں روح القدس کی نصرت سے نوازے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ.یاد رکھنا چاہئے کہ لائحہ عمل تجویز کرنا بے شک ضروری ہے اور مفید ہے.اس کے ذریعہ انسان کی خدمت اور اس کے طریق کار کا دائرہ معین صورت اختیار کر لیتا ہے اور وہ ادھر ادھر بھٹکنے سے بچ جاتا ہے اور اس کی توجہ ایک خاص نقطہ پر مرکوز ہو کر بہتر نتائج پیدا کرتی ہے.لیکن لائحہ عمل سے بھی زیادہ اہم کام کرنے والوں کی صلاحیت اور اہلیت کا سوال ہے.بہتر سے بہتر لائحہ عمل خراب کام کرنے والوں کے ذریعہ نا کام ہوسکتا ہے اور یاد رکھنا چاہئے کہ اچھے کارکنوں میں پانچ بنیادی اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے.اول محنت کی عادت، دوئم مستقل مزاجی ،سوئم اخلاص، چہارم قربانی اور پنجم دیانت داری کا جذبہ.یہ پانچ باتیں تو دنیا کے میدان سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان سے بھی بڑھ کر خدائی جماعتوں کے لئے تقویٰ اور للہیت کی ضرورت ہوا کرتی ہے.تقویٰ دین داری اور عمل صالح کی روح کا نام ہے اور للہیت سے مراد ہے کہ ہر کام میں خدا کی رضا مقصود ہو.اگر اچھے لائحہ عمل کے ساتھ کام کرنے والوں میں یہ باتیں پیدا ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کی کامیابی میں روک نہیں بن سکتی.پس اس کی طرف خاص بلکہ خاص الخاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ نئی پود یعنی اطفال کی تربیت کا سوال نہایت اہم ہے.کیونکہ اطفال کا وجود خدام کے لئے نرسری کی حیثیت رکھتا ہے اور اچھی نرسری کے بغیر کبھی بھی اچھا باغ تیار نہیں ہوسکتا.پس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ چھوٹی عمر کے بچوں کی تربیت کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں اور ان کے اندر محنت اور دیانتداری اور راست گفتاری اور خلیفہ وقت اور مرکز کے ساتھ محبت کا جذبہ پیدا کریں.یہ وہ اٹھتے ہوئے پودے ہیں جنہوں نے کل کو شمر دار درخت بننا ہے اور قوموں کی رفتار ترقی کو بچوں کی صحیح دیکھ بھال کے بغیر برقرار نہیں رکھا جا سکتا.باقی رہا موجودہ لائحہ عمل کا سوال.سو کام شروع کرنے کی غرض سے وہ مناسب ہے.آگے چل کر عملی تجربہ کے نتیجہ میں اس لائحہ عمل میں مزید اصلاح اور توسیع کا رستہ کھلتا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور آپ ایسی خدمت کی توفیق پائیں جو بعد میں آنے والوں
مضامین بشیر جلد چهارم کے لئے اسوہ حسنہ ہو.(محررہ یکم فروری 1961ء) 211 (روزنامہ الفضل ربوہ 8 اپریل 1961ء) 13 نگران بورڈ کے تعلق میں ضروری اعلان بعض احباب نگران بورڈ کے غور کے لئے اپنی طرف سے بعض تجاویز بھجوار ہے ہیں یا بعض نقائص کی طرف توجہ دلا رہے ہیں مگر غلطی سے ایک ہی کاغذ میں متعدد تجاویز یا متعددا مورلکھ کر بھیج دیتے ہیں.یہ طریق درست نہیں بلکہ ایک کاغذ پر ایک ہی تجویز یا ایک ہی امر لکھ کر بھیجنا چاہئے کیونکہ نگران بورڈ نے بہر حال محکمہ متعلقہ سے رپورٹ لینے اور جواب حاصل کرنے کے بعد کارروائی کرنی ہوتی ہے اور اگر ایک ہی کاغذ میں متعدد امور درج ہوں تو اس معاملہ میں بہت مشکل پیش آسکتی ہے.لہذا جو دوست نگران بورڈ کے غور کے لئے کوئی تجویز یا بات بھجوانا چاہیں انہیں چاہئے کہ ایک کاغذ پر ایک ہی بات لکھ کر بھجوائیں اور اگر ان کے ذہن میں ایک سے زیادہ امور ہوں تو ان کے لئے علیحدہ علیحدہ کا غذات استعمال کریں تا کہ متعلقہ محکموں سے رپورٹ حاصل کرنے میں مشکل نہ پیش آئے.اس کے بغیر کوئی کارروائی نہیں ہو سکے گی.دوست نوٹ فرما لیں.(محررہ 14 اپریل 1961ء)........(روز نامہ الفضل ربوہ 18 اپریل 1961ء) نگران بورڈ کا ابتدائی اجلاس احباب جماعت کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ جس نگران بورڈ کی تجویز گزشتہ مجلس مشاورت میں ہوئی تھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کی منظوری عنایت فرما دی ہے.چنانچہ نگران بورڈ کا پہلا اجلاس 13 اپریل 1961ء کوتحریک جدید ربوہ کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا.سارے ممبر حاضر تھے.اس اجلاس میں صرف ابتدائی امور پر بحث کی گئی اور طریق کار کے متعلق اصولی فیصلہ کیا گیا.
مضامین بشیر جلد چهارم 212 نیز جو تجاویز مختلف دوستوں کی طرف سے نگران بورڈ کے غور کے لئے آئی تھیں وہ اطلاع کی غرض سے بورڈ کے اجلاس میں پڑھ کر سنائی گئیں.ان پر غور انشاء اللہ آئندہ اجلاسوں میں ہوگا.فی الحال بورڈ کے اس فیصلہ کا اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر کسی جماعت یا کسی دوست کو صدر انجمن احمد یہ یا مجلس تحریک جدید یا مجلس وقف جدید کے متعلق کوئی اعتراض ہو یا کوئی نقص نظر آئے تو انہیں چاہئے کہ سب سے پہلے اپنا اعتراض لکھ کر صیغہ کے ناظر یا وکیل یا افسر کے نام بھجوائیں.(اگر مناسب سمجھیں تو بے شک اس کی نقل اطلاع کی غرض سے صدر صاحب صدر انجمن احمد یہ یا پریذیڈنٹ صاحب تحریک جدید یا صدر مجلس وقف جدید کو بھی بھجوادیں تا کہ ان کے علم میں بھی یہ بات آجائے ) اس کے بعد اگر مناسب وقت گزر جانے کے باوجود صیغہ متعلقہ اس معاملہ کی طرف توجہ نہ دے یا توجہ تو دے مگر اس کا فیصلہ اعتراض کرنے والے دوست کی نظر میں تسلی بخش نہ ہو تو اس کے بعد نگران بورڈ کو توجہ دلائی جائے تا کہ بلاوجہ طول عمل نہ ہو.امید ہے سب جماعتیں اور سب دوست اس بات کو مدنظر رکھیں گے.(محررہ 24 اپریل 1961ء) (روز نامہ الفضل ربوہ 26 اپریل 1961ء) 20 حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طبیعت چند دن سے زیادہ علیل ہے احباب جماعت حضور کی صحت کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں جب سے حضرت خلیفہ اسے الانی ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز گزشتہ ایام میں لاہور تشریف لے گئے تھے اور پھر جلد ہی واپس تشریف لے آئے حضور کی طبیعت مسلسل خراب چلی آ رہی ہے اور کمزوری کافی بڑھ گئی ہے.چنانچہ چند دن سے موٹر کی سیر بھی بند ہے اور آج تو ایک ٹانگ میں درد اور بخار بھی ہے.حضور کو پہلے تو یہ دھکا لگا جسے حضور کی حسّاس طبیعت نے بہت محسوس کیا کہ بھارت کی حکومت نے شروع میں امید دلانے کے با وجود بالآخر قادیان کا ویزا دینے سے انکار کر دیا.اس کے بعد جب چند دن ہوئے حضور لا ہور تشریف لے گئے اور حضور کو اوپر کی منزل میں قیام کرنا پڑا تو لاہور کی گرمی نے (ان دنوں میں خاص طور پر زیادہ گرمی تھی ) حضور کو بہت نڈھال کر دیا.چنانچہ جب حضور واپس تشریف لائے تو کافی کمزور نظر آتے تھے.اس کے بعد
مضامین بشیر جلد چهارم 213 ربوہ واپس آنے پر یہ کمزوری کافی بڑھتی گئی اور سیر بھی بند ہوگئی اور کل سے درد اور بخار بھی ہے اور ضعف بہت ہے.عزیز ڈاکٹر مرزا منور احمد سلمہ ( جنہوں نے گزشتہ مشاورت میں حضور کی بیماری کے متعلق ایک مفصل بیان دیا تھا ) اس وقت ایک ضروری کام کے تعلق میں لاہور میں ہیں.ان کو فون کیا گیا ہے کہ بہت جلد واپس آجائیں اور لاہور کے کسی ماہر ڈاکٹر کو بھی ساتھ لیتے آئیں.اطلاع ملتے ہی چند گھنٹوں کے اندراندر آپ واپس تشریف لے آئے.ایڈیٹر ) یہ چند سطور جماعت کی اطلاع کے لئے شائع کی جارہی ہیں تا کہ مخلص احباب دعاؤں کی طرف بیش از پیش توجہ دیں.جو خاص صدقہ کی تحریک گزشتہ مشاورت کے موقع پر ہوئی تھی اس کے مطابق قادیان اور ربوہ اور لا ہور اور لائل پور (فیصل آباد ) اور سرگودھا اور پشاور اور کراچی اور کوئٹہ اور راولپنڈی میں جانور صدقہ کرائے گئے ہیں اور ربوہ اور اس کے علاوہ بہت سی بیرونی جماعتوں کے غریبوں میں نقد امداد کا بھی انتظام کیا گیا ہے مگر حقیقی شفا ہمارے آسمانی آقا کے ہاتھ میں ہے اور اسی کے حضور ہمیں اپنے قیام اور رکوع اور سجود میں دعاؤں کے ساتھ جھکنا چاہئے.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ بَيَدِهِ الشَّفَاءُ وَلَا يُرَدُّ الْقَضَاءُ إِلَّا الدُّعَاءِ (محرره 6 مئی 1961ء) روزنامه الفضل ربوہ 9 مئی 1961ء) میاں محمد یوسف صاحب مردان وفات پاگئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مکرم میاں محمد یوسف صاحب مردان کی وفات کی اطلاع میں تحریر فرمایا.میاں ( محمد یوسف صاحب مرحوم جو قدیم صحابی تھے ضلع امرتسر کے رہنے والے تھے مگر عرصہ دراز سے مردان میں آباد تھے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میاں صاحب مرحوم کو جو بہت مخلص بزرگ تھے غریق رحمت کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے.(محررہ 7 مئی 1961ء) روزنامه الفضل ربوہ 10 مئی 1961ء)
مضامین بشیر جلد چهارم قربانیوں کی رقوم وصول ہو رہی ہیں 214 عید الاضحیٰ جو قر بانیوں کی عید ہے بہت قریب آگئی ہے.یہ عید مومنوں کو اپنی جان اور اپنی اولاد کی قربانی کا سبق دیتی ہے اور اسی سبق کی یاد دہانی کے لئے سنت ابراہیمی کے مطابق ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس موقع پر سچے مسلمانوں کو جانوروں کی قربانی کرنی چاہئے تاکہ ان کے دلوں میں خدا کی خاطر اور قوم کی خاطر موقع آنے پر قربانی کا جذبہ پیدا ہو اور ترقی کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ جس مسلمان کو اس کی طاقت ہو وہ ضرور قربانی دے مگر یہ رعایت رکھی ہے کہ سارے گھر کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کافی ہوسکتی ہے.بکرے یا چھترے کی صورت میں ایک جانور قربان کیا جائے گا اور گائے کی صورت میں سات آدمیوں کی شرکت ہوسکتی ہے.(محرره 18 مئی 1961ء) ربوہ میں میرا ذاتی مکان دوستوں سے دعا کی درخواست روزنامه الفضل ربوہ 20 مئی 1961ء) اس وقت تک میں ربوہ میں صدرانجمن احمدیہ کے ایک مکان میں کرایہ دار کے طور پر رہتا تھا مگر میرے دل میں ایک عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ خدا توفیق دے تو اپنا مکان بنانا چاہئے.کرایہ کے مکان میں رہتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر کے ماتحت ہمیں ہجرت کے امتحان میں ڈالا لیکن اگر میں نے ہجرت کا زمانہ کرایہ کے مکان میں ہی گزار دیا اور گویا ہر وقت پا در رکاب رہا تو میں نے در حقیقت ہجرت کے امتحان کو قبول نہیں کیا.پس میں نے خیال کیا کہ خدائی تقدیر کو قبول کرنے کا یہ ضروری تقاضا ہے کہ جب بھی توفیق ملے اور توفیق بہر حال لازمی شرط ہے کیونکہ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: 287) میں اپنا مکان بنا کر خدا کی تقدیر کوعملا قبول کرنے والا بن جاؤں.سو الـحـمـد لله ثمّ الحمد لله ثم الحمد للہ کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد خدائے مسبب الاسباب نے مجھے تو فیق عطا کی ہے اور میں نے ربوہ میں اپنا مکان بنالیا ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 215 یہ مکان جس کا میں نے نیک فال کے طور پر قرآن مجید کے الفاظ میں ” البشریٰ “ نام رکھا ہے محلہ دار الصدر غربی ربوہ میں واقع ہے اور میں اپنے اس مکان میں 20 اپریل 1961 ء کے دن سے جوحسنِ اتفاق سے میری پیدائش کا بھی دن ہے منتقل ہو گیا ہوں فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً - احباب کرام دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس مکان کو میرے لئے اور میری رفیقہ حیات اتم مظفر احمد کے لئے اور میری اولاد کے لئے اور میرے نئے ہمسائیوں کے لئے اور تمام ربوہ کے لئے دین و دنیا میں مبارک کرے اور ہم سب کو اپنے فضل و رحمت کے ابدی سایہ میں رکھے.آمِنِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.میں نے اس مکان کی تعمیر میں اپنی حیثیت اور اپنے مذاق سے کچھ زیادہ خرچ کر دیا ہے کیونکہ مجھے خیال آیا کہ اب خدا کے فضل سے جماعت کو ہر لحاظ سے ترقی اور وسعت حاصل ہو رہی ہے اس لئے مکان ایسا ہونا چاہئے کہ جس میں حسب ضرورت اور حسب حالات جماعت کے دوستوں کے علاوہ غیر از جماعت معززین بھی ٹھہر سکیں.اسی لئے مکان کی رہائش کی ابتداء میں نے بعض مہمانوں کو ٹھہرانے سے کی ہے.اس جگہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گو کئی باتوں میں برکت اور نحوست کا پہلو ہوتا ہے لیکن تین چیزوں میں یہ متقابل پہلو خصوصیت سے زیادہ نمایاں صورت میں پایا جاتا ہے.ایک شادی دوسرے مکان اور تیسرے سواری.سو یہ بھی ایک وجہ ہے کہ میں اس بارے میں اپنے احباب سے خاص دعا کی گزارش کر رہا ہوں.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنِّيَّاتِ وَاَرْجُوا مِنَ اللَّهِ خَيْرَا (محررہ 17 مئی 1961ء) روزنامه الفضل ربوہ 20 مئی 1961ء) 20 عید الاضحی کی قربانیاں کیا یہ قربانیاں صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مندرجہ بالا موضوع پر ء میں ایک نہایت جامع اور مبسوط مضمون رقم
مضامین بشیر جلد چهارم فرمایا تھا.اس مضمون کا ایک حصہ عید الاضحی کی تقریب کی مناسبت سے درج ذیل کیا جاتا ہے.عید الاضحی کے حکم کا پس منظر 216 اس مسئلہ کے متعلق صحیح اسلامی تعلیم بتانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصر الفاظ میں یہ بتا دیا جائے کہ عیدالانی کس چیز کا نام ہے اور وہ اسلام میں کس طرح شروع ہوئی اور اس کی غرض و غایت اور حکمت کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ تا کہ اس سوال کا پس منظر واضح ہو جائے کیونکہ پس منظر کے بغیر کسی چیز کا صحیح تصور قائم نہیں ہوسکتا.سو جاننا چاہئے کہ: (1) عید ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ایسی اجتماعی خوشی کے دن کے ہیں جو بار بار آئے اور اسلام میں تین عید میں مقرر کی گئی ہیں.ایک جمعہ کی عید ہے جو سات دن کی نمازوں کے بعد آتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت یہ عید ساری عیدوں میں سب سے زیادہ اہم اور زیادہ برکت والی عید ہے.گو تھوڑے تھوڑے وقفہ پر آنے کی وجہ سے لوگ عموماً اس کی قدرکو نہیں پہچانتے.دوسرے عید الفطر ہے جو ہر سال رمضان کی تمہیں روزہ عبادت کے بعد آتی ہے اور اس کا نام عیدالفطر اس واسطے رکھا گیا ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد گویا اس عید کے ذریعہ مومنوں کی افطاری ہوتی ہے اور تیسرے عیدالانی ہے جو ذوالحجہ مہینہ کی دسویں تاریخ کو حج کی عبادت کے اختتام پر ( جونو تاریخ کو ہوتا ہے ) آتی ہے اور پاکستان میں یہ عید عرف عام میں بقر عید کہلاتی ہے اور بعض لوگ اسے بڑی عید بھی کہتے ہیں.(2) عید الاضحی کا نام عید الاضحیٰ اس واسطے رکھا گیا ہے اور حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی وجہ سے اس نام سے یاد فرمایا ہے کہ یہ قربانیوں کی عید ہے.کیونکہ اضحی کا لفظ عربی زبان میں اضحاۃ کی جمع ہے.جس طرح کہ أَضَاحِي لفظ أضْحِيَّةٌ کی جمع ہے جس کے معنی قربانی کے جانور کے ہیں اور اس دن کا دوسرا نام اسلامی اصطلاح میں یوم النحر بھی ہے.جس کے معنی قربانی دینے والے جانور کے ہیں اور یہ دونوں نام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال فرمائے ہیں اور حدیث میں کثرت کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں اور حدیث کی کوئی کتاب بھی ان ناموں کے ذکر سے خالی نہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ ان ناموں کے سوا اس دن کے لئے حدیث میں کوئی اور نام استعمال ہوا ہی نہیں.اس تعلق میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حج والی قربانیوں کے لئے جو حرم کے علاقہ میں ہوئی ہیں قرآن شریف اور حدیث میں ھدی کا لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ اضحی کا لفظ جوعید الاضحی کی قربانیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو غیر حاجی لوگ اپنے اپنے گھروں میں دیتے ہیں.
مضامین بشیر جلد چہارم 217 (3) جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہے عیدالاضحی ہجرت کے بعد دوسرے سال میں شروع ہوئی تھی.(زرقانی و تاریخ الخمیس ) اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں گویا نو دس ”بڑی عید میں آئیں.اس کے مقابل پر حج آپ نے صرف ایک دفعہ کیا تھا اور یہ وہی حج ہے جو حجتہ الوداع کہلاتا ہے.یہ حج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال میں ادا فر مایا تھا (طبری و فتح الباری شرح بخاری ) اور اس کے صرف اڑھائی ماہ بعد آپ وفات پاگئے.(4) قرآن شریف نے صراحت فرمائی ہے کہ حج کی عبادت کا آغا ز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا ( سورۃ حج رکوع 4) جنہوں نے خدائی حکم سے اپنے پلو ٹھے فرزند حضرت اسمعیل کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا کر آباد کیا جہاں زندگی کے بقا کا کوئی سامان نہیں تھا اور حقیقتا یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس خواب کی تعبیر تھی جس میں آپ نے دیکھا تھا کہ میں اپنے بچے کو ذبح کر رہا ہوں.اس موقع پر خدا نے بچے کی قربانی کی جگہ ظاہر میں جانور کی قربانی مقرر فرمائی مگر حقیقت کی رو سے انسان کی قربانی بھی قائم رہی.یہ گویا پہلا انسانی وقف تھا جو خدا کی راہ میں پیش کیا گیا تا کہ خدا تعالیٰ حضرت اسماعیل کو اس موت کے بعد ایک نئی زندگی دے کر اس درخت کی تخم ریزی کرے جس سے بالآخر عالمگیر شریعت کے حامل حضرت سید ولد آدم فخر انبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود باجود پیدا ہونے والا تھا.حج میں قربانی کی رسم اسی اسماعیلی قربانی کی ایک ظاہری علامت ہے تا کہ اس کے ذریعہ اس بے نظیر قربانی کی یاد زندہ رکھی جاسکے جس کے شجرہ طیبہ نے مکہ کی بظاہر بے آب و گیاہ اور بے ثمر وادی میں وہ عدیم المثال ثمر پیدا کیا جس کے دم سے دنیا میں روحانیت زندہ ہوئی، زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ: أَنَا ابْنُ النَّبِيُحَين (تاريخ الخميس) یعنی میں دو ذبح ہونے والی ہستیوں کا فرزند ہوں ان دو قربانیوں میں سے ایک تو اسماعیل کا جسم تھا جو گویا ملکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں آباد کر کے عملاً ذبح کر دیا گیا اور دوسرے اسماعیل کی روح تھی جو خدا کے حضور وقف علی الدین کے ذریعہ قربان ہوئی.عید الاضحیٰ کی قربانیاں اسی مقدس قربانی کی یادگار ہیں مگر اس زمانہ کے روحانی تنزل اور مادی عروج پر انسان کیا آنسو بہائے کہ اس عظیم الشان قربانی کی یاد کو زندہ رکھنا تو در کنار آج اکثر مسلمان عیدالاضحی کا نام تک فراموش کر چکے ہیں.چنانچہ جسے دیکھو عید الاضحی ( قربانیوں کی عید ) کی بجائے جو اس عید کا اصل نام ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 218 عید الضحی ( صبح کے وقت کی عید ) کہتا ہوا سنائی دیتا ہے اور اس افسوس ناک غلطی سے اچھے پڑھے لکھے لوگ حتی کہ بعض اخباروں کے نامہ نگار اور ایڈیٹر صاحبان بھی مستی نہیں.بھلا جولوگ اپنی قربانیوں والی عید کے نام سے قربانی کا لفظ تک حذف کر کے اسے وقف طاق نسیاں کر چکے ہوں وہ اس کی قربانی والی عبادت کو کس طرح یا درکھ سکتے ہیں؟ حالانکہ جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے یہ نام خود ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا رکھا ہوا ہے.(ابوداؤد بحوالہ مشکوۃ کتاب العیدین) (5) یہ دلچسپ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے ( گو شاید اکثر لوگ اسے نہیں جانتے ) کہ عیدالاضحی کی نما زصرف غیر حاجیوں کے لئے مقرر ہے اور حاجیوں کے لئے مقرر ہیں اور نہ یہ نماز حج میں ادا کی جاتی ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ حج خود اپنے اندر ایک بھاری عید ہے کیونکہ اس میں عید کے چاروں عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں.یعنی (الف) عبادت (ب) مومنوں کا اجتماع ( ج ) خوشی (د) عود یعنی اس دن کا بار بارلوٹ کر آنا.اس لئے شریعت نے عید الاضحی کی نماز صرف غیر حاجی مقیم لوگوں کے واسطے رکھی ہے تا کہ جہاں ایک طرف حج کے ایام میں حاجی لوگ حج کی عید منارہے ہوں وہاں غیر حاجی جنہیں کسی مجبوری کی وجہ سے حج کی توفیق نہیں مل سکی وہ اکناف عالم میں اپنی اپنی جگہ پر عید کر کے اور قربانیاں دے کر اس عظیم الشان قربانی کی یاد کو تازہ رکھیں.جس کا حضرت ابرا ہیم کے ہاتھوں سے حضرت اسماعیل کے وجود میں آغاز ہوا اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں اپنے معراج کو پہنچی.پس حدیث میں جہاں کہیں بھی عید الاضحی کی نماز کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی قربانی کا ذکر آتا ہے وہاں لازماً غیر حاجیوں کی قربانی سمجھی جائے گی.عید الاضحی کی قربانی کے عقبی منظر میں اوپر کی پانچ باتیں اتنی نمایاں اور اتنی واضح ہیں اور ان کی تائید میں ایسے روشن اور قطعی ثبوت موجود ہیں کہ کوئی شخص جو اسلامی تعلیم سے تھوڑی بہت واقفیت بھی رکھتا ہو وہ خواہ کسی فرقہ کا ہو ان کے انکار کی جرات نہیں کر سکتا اور اسی لئے میں نے ان باتوں کی تائید میں حوالے اور شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی.لیکن اگر کوئی شخص انکار کرے تو خدا کے فضل سے ان پانچ باتوں میں سے ہر بات کے متعلق یقینی اور نا قابلِ تردید ثبوت پیش کئے جاسکتے ہیں.کیا عید الاضحی کی قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے؟ اس کے بعد میں اصل سوال کو لیتا ہوں.پہلا سوال یہ ہے کہ کیا عیدالاضحی کے موقع پر غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی واجب ہے اور اگر واجب ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ یاد
مضامین بشیر جلد چہارم 219 رکھنی چاہئے کہ اگر واجب یا ضروری کا سوال ہو تو غیر حاجی تو در کنار حاجیوں پر بھی ہر صورت میں قربانی واجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے شریعت نے بعض خاص شرطیں لگائی ہیں.مثلاً خالی حج کرنے والے جو اصطلاحاً افراد کہلاتا ہے قربانی واجب نہیں بلکہ صرف اس صورت میں واجب ہے کہ وہ نہ تو حج اور عمرہ کو ایک ہی وقت میں جمع کرنے والا ہو جسے اسلامی اصطلاح میں تمتع یا قران کہتے ہیں ( قرآن شریف سورۃ بقرۃ آیت 97) اور یا وہ ایسے حاجی پر واجب ہے جو حج کی نیت سے نکلے مگر پھر حج کی تکمیل سے پہلے کسی حقیقی مجبوری کی بناء پر حج ادا کرنے سے محروم ہو جائے (سورۃ بقرۃ آیت 197) اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مالی لحاظ سے قربانی کی طاقت رکھتا ہو ورنہ وہ قربانی کی بجائے روزہ کا کفارہ پیش کر سکتا ہے.پس جب ہر حالت میں حاجیوں کے لئے بھی قربانی فرض نہیں تو یہ کس طرح دعوی کیا جاسکتا ہے کہ غیر حاجیوں کے لئے وہ بہر صورت فرض یا واجب ہے؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے شک قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے مستطیع لوگوں کے لئے قربانی واجب نہ سہی مگر کیا وہ ایسے طاقت رکھنے والے مستطیع لوگوں کے لئے واجب ہے جو غیر حاجی ہوں؟ سو اس سوال کے جواب میں اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض یا واجب یا سنت وغیرہ کی فقہی اصطلاحیں استعمال نہیں کیں.مگر صحیح احادیث سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عیدالاضحی کے موقع پر خود بھی قربانی کی اور اپنے صحابہ کو بھی اس کی تاکید فرمائی.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ : عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشَرَ سِنِينَ يُضَحِبُي نر مندی کتاب الاضاحي عن رسول اللہ باب الدليل على أن الاضحية سنة ) یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں دس سال گزارے اور آپ نے ہر سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر مدینہ میں قربانی کی.بلکہ آپ کو عید الاضحیٰ کی قربانی کا اس قدر خیال تھا کہ آپ نے وفات سے قبل اپنے داما داور چازاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ میرے بعد بھی میری طرف سے عید الاضحی کے موقع پر ہمیشہ قربانی کرتے رہنا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ: عَنْ حَنَشِ قَالَ رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِيُى بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ مَا هَذَا قَالَ إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أَضَحِيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحَى عَنْهُ (سنن ابی داؤ د کتاب الضحايا باب الاضحیة عن الميت ) یعنی منش روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا کہ وہ عید الاضحیٰ کے موقع پر دود نے
مضامین بشیر جلد چہارم 220 قربان کر رہے تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ دو دنبوں کی قربانی کیسی ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ کی طرف سے ( آپ کی وفات کے بعد بھی) قربانی کرتا رہوں.سو میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں.عید الاضحی کے دن قربانی کرنا آپ کا ذاتی فعل ہی نہیں تھا بلکہ آپ اپنے صحابہ کو بھی اس کی تحریک فرماتے تھے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ: عَنِ الْبَراء قالَ خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلَّى ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُتَّتَنَا.(صحیح بخاری، کتاب العیدین ، باب التكبير الى العيد ) یعنی حضرت براء روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عید الاضحی کے دن خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ اس دن پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ انسان عید کی نماز ادا کرے اور پھر اس کے بعد قربانی دے.سوجس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا.اوپر کی حدیث میں ایک طرح سنت کا لفظ بھی آگیا ہے اور چونکہ یہ اصطلاحی طور پر استعمال نہیں اس لئے اس سے وجوب کا پہلو بھی مراد ہو سکتا ہے اور ایک دوسرے موقع پر آپ نے فرمایا کہ: مَنْ وَجَدَ سَعَةٌ فَلَمْ يُضَحٌ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ( مسند احمد بن حنبل مسند المكثرين من الصحابة، مسندابی هریرة رضی اللہ عنہ ) یعنی جس شخص کو مالی لحاظ سے توفیق حاصل ہو اور پھر بھی وہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی نہ کرے اس کا کیا کام ہے کہ ہماری عید گاہ میں آکر نماز میں شامل ہو؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد جس تاکید کا حامل ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر دوسرے ارشاد کو مقبولیت کی برکت حاصل ہوئی اسی طرح اس ارشاد کو بھی صحابہ کرام نے اپنا حرز جان بنایا.چنانچہ حدیث میں لکھا ہے کہ: عَنْ جَبَلَةَ بنِ سُحَيْمٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ الْأَضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ هِبَى فَقَالَ ضَحَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ فَقَالَ أَتَعْقِلُ ضَحَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ ترندی کتاب الاضاحي عن رسول اللہ باب الدليل على ان الاضحية سنة ) یعنی جبلہ ابن قیم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے دریافت کیا
مضامین بشیر جلد چهارم 221 کہ کیا عید الاضحیٰ کی قربانی واجب ہے.انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی قربانی کرتے تھے اور آپ کی اتباع میں صحابہ بھی کرتے تھے.اس شخص نے اپنے سوال کو پھر دو ہرایا اور کہا کہ قربانی واجب ہے؟ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے فرمایا کہ تم میری بات سمجھ نہیں سکتے ؟ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی قربانی کیا کرتے تھے اور آپ کی اتباع میں دوسرے مسلمان بھی کیا کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام صرف ذاتی شوق کی خاطر یا دوستوں اور غریبوں کو گوشت کھلانے کی غرض سے نہیں تھا بلکہ آپ اسے ایک دینی کام سمجھتے اور بھاری ثواب کا موجب خیال فرماتے تھے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ : عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللهِ مَا هَذِهِ الَا ضَاحِيٌّ قَالَ سُنَّةُ أَبْيْكُمْ إِبْرَاهِيمَ قَالُوا فَمَالَنَا فِيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ (ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحیۃ ) یعنی زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ عید الاضحی کی قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ نے فرمایا تمہارے جد امجد ابرہیم کی جاری کی ہوئی سنت ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ پھر ہمارے لئے اس میں کیا فائدہ کی بات ہے؟ آپ نے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے جسم کا ہر بال قربانی کرنے والے کے لئے ایک نیکی ہے جو اسے خدا سے اجر پانے کا مستحق بنائے گی.اس سے بڑھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید کی قربانیوں کے متعلق فرماتے تھے کہ : مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ (سنن الترمذی کتاب الاضاحي عن رسول اللہ باب ما جاء في فضل الاضحية ) یعنی خدا کی نظر میں عید الاضحیٰ والے دن انسان کا کوئی عمل قربانی کے جانور کو ذبح کرنے اور اس کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے.اس حدیث میں خون بہانے“ کے الفاظ میں جانی قربانی کی اہمیت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے.ایک اور موقع پر آپ نے نہ صرف اپنی طرف سے قربانی کی بلکہ مزید تحریک اور تاکید کی غرض سے اپنی امت
مضامین بشیر جلد چہارم کی طرف سے بھی قربانی دی.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ : 222 عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَيْشٍ...ثُمَّ ذَبَحَهُ ثُمَّ قَالَ بِسْمِ اللهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلُ مِنْ مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ وَ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ - ( صحیح مسلم کتاب الاضاحي باب استحباب الضحية وذبحها مباشره بلاتو کيل والتسمية ) یعنی حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ ایک عید کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک دنبہ منگوایا.پھر اسے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ذبح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں یہ دنبہ خدا کے نام کے ساتھ ذبح کرتا ہوں اور پھر دعا فرمائی کہ اے میرے آسمانی آقا! تو اس قربانی کو محمد کی طرف سے اور محمد کی آل کی طرف سے اور محمد کی امت کی طرف سے قبول فرما.کیا ان واضح اور قطعی روایتوں کے ہوتے ہوئے جو اس جگہ صرف نمونہ کے طور پر درج کی گئی ہیں کوئی سچا اور واقف کار مسلمان اس بات کے کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے اور غیر حاجیوں کے لئے عید الاضحیٰ کے موقع پر کوئی قربانی مقرر نہیں؟ بے شک یہ درست ہے کہ قربانی صرف طاقت رکھنے والے لوگوں پر واجب ہے اور بعض احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر سارے گھر کی طرف سے ایک مستطیع شخص قربانی کر دے تو یہ قربانی سب کی طرف سے سمجھی جاسکتی ہے (ابوداؤد ) مگر بہر حال عید الاضحیٰ کے موقع پر حسب توفیق قربانی کرنا ہمارے رسول (فداہ نفسی ) کی ایک مبارک سنت ہے جس کے متعلق ہمارے آقا نے بہت تاکید فرمائی اور اسے بھاری ثواب کا موجب قرار دیا ہے.کیا موجودہ زمانہ میں بھی قربانی ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب او پر گزر چکا ہے کہ کیا عید الاضحی کے موقع پر قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے یا کہ اسے طاقت رکھنے والے غیر حاجیوں کے لئے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے؟ اب میں اس بحث کے دوسرے سوال کو لیتا ہوں یعنی یہ کہ اگر عید الاضحیٰ کے موقع پر غیر حاجیوں کی قربانی کا ثبوت ملتا بھی ہو تو پھر بھی کیا موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ مناسب نہیں کہ بھاری تعداد میں جانور قربان کر کے ضائع کرنے کی بجائے مستحق لوگوں میں نقد روپیہ تقسیم کر دیا جائے جو کئی قسم کی ضرورتوں میں ان کے کام آ سکتا ہے.یا یہ روپیہ کسی قومی اور ملکی مصرف میں لایا جائے ؟ سو اس کے متعلق اصولی طور پر تو صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ نقد روپے کی صورت میں غریبوں کی امداد کرنا موجودہ زمانہ کی ایجاد نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ
مضامین بشیر جلد چهارم 223 علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اس کا طریق موجود اور معلوم تھا اور خود قرآن شریف میں بھی جا بجا اس قسم کی امداد کی تحریک پائی جاتی ہے.تو جب یہ طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بے شمار موقعوں پر استعمال بھی فرمایا تو ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ جب حضرت شارع علیہ الصلوۃ والسلام بلکہ خود ذات باری تعالیٰ نے عید الاضحی کے موقع پر نقد روپے یا غلہ وغیرہ (جو آسانی سے نقدی میں منتقل کیا جاسکتا ہے) کی تقسیم کی بجائے قربانی کا نظام قائم کر کے قربانیوں کی تاکید فرمائی (حالانکہ ان کے سامنے نقد روپے اور غلہ وغیرہ کی تقسیم کا طریق موجود تھا ) تو لامحالہ اس طریق کے اختیار کرنے میں کوئی خاص مصلحت سمجھی جائے گی ورنہ ایک زیادہ معروف اور زیادہ آسان طریق کو چھوڑ کر قربانی کا طریق کیوں اختیار کیا جاتا؟ پس اگر غور کیا جائے تو دراصل یہ فرق اور یہ امتیاز ہی اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قربانی کا نظام مقرر کرنے میں خدا اور اس کے مقدس رسول کے سامنے کوئی خاص غرض مقصود تھی اور پھر یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ خدا کے سامنے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے حالات تھے اور اسے نعوذ باللہ موجودہ زمانہ کے حالات پر اطلاع نہیں تھی.کیونکہ خدا عالم الغیب ہے اور یقینا کسی زمانہ کا کوئی امر بھی اس سے پوشیدہ نہیں سمجھا جا سکتا.یہ استدلال اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دوسری عید یعنی عید الفطر کے موقع پر فطرانہ کی صورت میں غلہ یا نقد روپے کی تقسیم کا نظام قائم فرمایا ہے تو جب آپ تعید کے موقع پر غلہ یا نقدی کا نظام جاری فرما سکتے تھے تو آپ کے لئے اس بات میں کیا روک تھی کہ عید الاضحی کے موقع پر بھی یہی نظام جاری فرما دیتے ؟ پس دونوں عیدوں کے موقع پر انفاق فی سبیل اللہ کے طریق میں ایک بین اور نمایاں فرق قائم کرنا اس بات کی قطعی اور یقینی دلیل ہے کہ خواہ ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے یہ امتیاز بہر حال کسی خاص مصلحت کی بناء پر قائم کیا گیا ہے.وَهُوَ الْمُرَادُ فَافُهُمْ وَ تَدَبَّرُ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينُ - کیا قربانیوں کا کوئی بدل بھی اختیار کیا جا سکتا ہے؟ زمانہ حال کے بعض علماء نے گوہ یقیناً بہت قلیل تعداد میں ہیں لکھا ہے کہ شریعت نے حج کے موقع پر هدى ( یہ یادر ہے کہ ھدی کی اصطلاح سے وہ قربانی مراد ہے جو حاجی لوگ حرم میں کرتے ہیں اور اس کے بالمقابل أضحية غیر حاجیوں کی قربانی کا نام ہے جو وہ اپنے گھروں میں کرتے ہیں ) کی طاقت نہ رکھنے کی صورت میں اسلام نے روزوں کا کفارہ یعنی بدل مقرر کیا ہے (سورۃ بقرہ آیت 197 ) جس کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ اسی اصول پر بعض حالات میں عید کی قربانی کا بدل بھی اختیار کیا جاسکتا ہے.اسی طرح کہا جاتا ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 224 کہ اگر کسی حاجی کے سر میں تکلیف ہو اور اس کے لئے سرمنڈوانا ممکن نہ ہو تو اس کے لئے اسلام میں روزہ یا صدقہ کی صورت میں بدل مقرر کیا گیا ہے (سورۃ بقرہ آیت 197 ) اور اس سے بھی یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ شریعت نے بہر حال بدل کا اصول تسلیم کیا ہے تو کیوں نہ موجودہ زمانہ کے تقاضا کے مطابق عید کی قربانیوں کا بدل اختیار کر لیا جائے.مگر یا درکھنا چاہئے کہ یہ استدلال ایک دھو کے پر مبنی ہے کیونکہ یہ احکام جن کی ذیل میں یہ بدل والے احکام دیئے گئے ہیں حج سے تعلق رکھتے ہیں نہ کہ غیر حاجیوں کی قربانی یعنی أَضْحِيَّة سے.اور ایک امر سے تعلق رکھنے والا حکم بلا دلیل دوسرے حکم پر چسپاں کرنا ہرگز جائز نہیں.علاوہ ازیں یہ احکام خود اس بات کی دلیل ہیں کہ غیر حاجیوں کی قربانی کا کوئی بدل نہیں ورنہ جس طرح بعض صورتوں میں ذی یعنی حج کی قربانی کے لئے بدل رکھا گیا ہے اسی طرح أَضُحية یعنی غیر حاجیوں کی قربانی کا بدل بھی مقرر کیا جا سکتا تھا مگر خدا کی طرف سے حاجیوں کی قربانی کا بدل مقرر کیا جانا اور غیر حاجیوں کی قربانی کا کوئی بدل مقرر نہ کیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس معاملہ میں کسی بدل کا سوال نہیں.دراصل بات یہ ہے کہ چونکہ حج کی بعض صورتوں میں قربانی ضروری رکھی گئی ہے اور حج خود اسلام کے اہم ترین ارکان میں سے ہے اس لئے لازماً حج میں قربانی کی طاقت نہ رکھنے والوں کے لئے قربانی کا کفارہ یعنی بدل مقرر کیا گیا ہے تا کہ غیر مستطیع حاجی یہ کفارہ ادا کر کے اپنے فرض کے معاملہ میں سرخرو ہو جائیں.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے غیر حاجیوں پر قربانی فرض نہیں ہے بلکہ صرف واجب یا سنتِ مؤکدہ ہے اس لئے اس کا بدل نہیں رکھا گیا.یہ بات ایسی ظاہر وعیاں ہے کہ اس میں کسی عقلمند انسان کے لئے شبہ کی گنجائش نہیں.جانوروں کی قلت کے خطرہ کا سوال ایک آخری سوال کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ آج کل عید الاضحیٰ کی قربانی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ملک میں گوشت کھانے والوں کی کثرت اور گوشت کے جانوروں کی نسبتاً قلت ہو گئی ہے اس لئے ملک کے اقتصادی نظام کے ماتحت جانوروں کو بے دریغ ذبح کرنے سے بچانا ضروری ہے ورنہ خطرہ ہے کہ کل کو نہ صرف گوشت کا قحط بلکہ زمیندارہ استعمال کے جانوروں کی قلت بھی ملک کی خوراک کے سوال کو نازک صورت نہ دے دے.یہ سوال بظاہراہم اور قابلِ غور
مضامین بشیر جلد چهارم 225 نظر آتا ہے کیونکہ اس میں شبہ نہیں کہ ایک تو ملکی تقسیم کے فسادات کے دوران میں کئی جانور ضائع ہو گئے اور وسرے مغربی پاکستان میں خالص مسلمان آبادی کے بڑھ جانے سے گوشت کا خرچ بھی لازماً پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے موجودہ حالات میں ایک حد تک جانوروں کی قلت کا اندیشہ ضرور سمجھا جا سکتا ہے.لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اندیشہ اتنا حقیقی نہیں کہ قطع نظر دینی مسئلہ کے اس کی وجہ سے قربانیوں کو روکنے کا خیال پیدا ہو کیونکہ اول تو اگر غور سے دیکھا جائے تو قربانی کرنے والے لوگ غالباً ساری آبادی کے لحاظ سے صرف نصف فیصدی ہوتے ہیں.مثلاً لائکپور (فیصل آباد ) پاکستان کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے اور وہ ہے بھی کافی متمول شہر جس میں بڑے بڑے کارخانے پائے جاتے ہیں بلکہ لائکپور (فیصل آباد) کا سارا ضلع ہی اپنی زرخیز اراضی کی وجہ سے سب سے زیادہ متمول ضلع سمجھا جاتا ہے.اب اس کے اعداد و شمار سے پتہ لگا ہے کہ گزشتہ (یعنی 1959ء کی ) عید الاضحی کے تین دنوں میں لائکپور (فیصل آباد ) شہر میں (بشمول مضافات ) سترہ ہزار (17000 ) جانور ذبح ہوئے ہیں اور کل ضلع لائلپور (فیصل آباد) میں بشمول شہر ستائیس ہزار (27000) قربانیاں ہوئیں.یعنی ضلع بھر میں شہر کی نسبت صرف دس ہزار قربانیاں زیادہ ہیں.اب اگر ضلع لائلپور (فیصل آباد ) کی آبادی پھپیں چھبیس لاکھ سمجھی جائے تو یہ قریباً ایک فیصدی یا اس سے کچھ زیادہ شرح بنتی ہے اور خالص دیہاتی آبادی کی شرح اگر سارے ملک پر پھیلا کر دیکھی جائے تو یقیناً نصف فیصدی بلکہ اس سے بھی کم ہوگی کیونکہ دیہات میں عموماً بہت کم قربانی ہوتی ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ پاکستان کی آبادی کا نوے فیصد حصہ دیہات میں آباد ہے.ان اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ اگر پاکستان میں نسل حیوانی کی افزائش کا خاطر خواہ انتظام ہو جیسا کہ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے تو گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں.ہاں اگر صرف خرچ ہی خرچ ہو اور آمد بڑھانے کی کوئی صورت نہ کی جائے تو ظاہر ہے کہ پھر قارون کا خزانہ بھی مکلفی نہیں ہوسکتا.اور پھر بعض احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک گھر میں ایک سے زیادہ قربانی والے افراد موجود ہوں تو باوجود طاقت رکھنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہونے کے سارے گھر کی طرف سے صرف ایک قربانی کافی ہو جاتی ہے.چنانچہ حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامِ أَضْحِيَةٌ (ابوداؤدکتاب الضحايا، باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی) یعنی اے لوگو! ہر ذی استطاعت گھر کے لئے ایک سال میں ایک جانور کی قربانی کافی ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 226 اسی لئے اکثر فقہاء نے ایک گھر کو بلکہ بعض نے تو قربانی کے لحاظ سے ایک خاندان کو ایک ہی یونٹ قرار دیا ہے.(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) اس کے علاوہ بھی ظاہر ہے کہ قربانی کے ایام میں جانوروں کو عام تجارتی رنگ میں ذبح کرنے کا سلسلہ رک جاتا ہے اور گوشت کی دکانیں عملاً بند ہو جاتی ہیں کیونکہ گوشت کھانے والا طبقہ یا تو خود قربانی کر کے اپنے لئے گوشت مہیا کر لیتا ہے اور یا اسے اس کے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسایوں کی طرف سے گوشت کا ہدیہ پہنچ جاتا ہے.پس اگر ایک طرف عید کے ایام میں قربانی زیادہ ہوتی ہے تو دوسری طرف ان ایام میں عام جانوروں کے ذبح کا سلسلہ کم بھی ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ فرق زیادہ نہیں رہتا.( روزنامہ الفضل ربوہ 21 مئی 1961ء) اَذْهِب الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي بعض دوست اپنے خطوں میں دریافت کرتے رہتے ہیں کہ اب اتم مظفر احمد کی طبیعت کیسی ہے اور ساتھ ہی اس خاکسار کی صحت کے متعلق بھی پوچھتے رہتے ہیں.سو ان دوستوں اور دیگر ہمدرد دوستوں کی اطلاع کے لئے لکھتا ہوں کہ اتم مظفر احمد کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کا جوڑ تو خدا کے فضل سے مل چکا ہوا ہے مگر اس لمبی بیماری کی وجہ سے کمزوری اتنی بڑھ گئی ہے کہ ابھی تک ان میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں آئی اور دو خادمات کے سہارے سے انہیں چند قدم چلا کر کمرے سے باہر اور پھر باہر سے اندر لایا جاتا ہے اور اتنی سی کوفت بھی ان کے لئے بڑی تکلیف کا موجب ہوتی ہے.دوست اس عاجزہ مریضہ کو جس کی مرض پر اب قریباً چھ سال ہونے کو آئے ہیں اپنی مخلصانہ دعاؤں میں یا درکھیں.ان کی بیماری لازم میری صحت پر بھی اثر ڈالتی ہے.علاوہ ازیں خود میں بھی اپنی صحت میں کچھ عرصہ سے کافی انحطاط محسوس کرتا ہوں اور جسم کی طاقت اور اس کے ساتھ ہی دل و دماغ کی طاقت میں کمی آرہی ہے اور اب میں اتنی محنت نہیں کر سکتا جو پہلے کر سکتا تھا اور جلد تھک جاتا ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کو یاد کر کے کچھ تلی پاتا ہوں کہ : ھے جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے یہ تو عام جسمانی حالت کا ذکر ہے لیکن ان دنوں میں مجھے ” ہیٹ سٹروک“ نے خاص طور پر نڈھال کر رکھا ہے.اس سے قبل مجھے دو دفعہ ہیٹ سٹروک ہو چکی ہے.ایک دفعہ قادیان میں ہوئی تھی اور اس کے بعد دوسری
مضامین بشیر جلد چهارم 227 دفعہ چند سال ہوئے ربوہ میں ہوئی تھی جس کے ساتھ ہی کئی ماہ تک پیرا ٹائیفائیڈ رہا تھا جو ایک ملکی قسم کا تپ محرقہ ہوتا ہے اور اب یہ ہیٹ سٹروک کا تیسرا حملہ ہے جس کے ساتھ 1/2-99 کے قریب بخار بھی رہتا ہے اور سر اور کنپٹیوں اور آنکھوں اور گردن کے پٹھوں میں شدید در درہتا ہے اور طبیعت میں بے چینی کا بھی غلبہ ہے.جیسا کہ میں اپنے ایک سابقہ نوٹ میں لکھ چکا ہوں گزشتہ 20 اپریل کے دن یہ خاکسار اڑسٹھ کا ہو گیا تھا اور میری طبیعت پر اس خیال کا بہت بھاری اثر ہے کہ جس مسلمان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کی عمر پالی یعنی شمسی حساب سے وہ ساڑھے اکسٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا وہ خدا کے خاص امتحان کے نیچے ہے کیونکہ خدا اس سے پوچھ سکتا ہے کہ جب میرے نبی نے ساڑھے اکسٹھ سال کی عمر میں ایک دنیا میں عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا تو بتا کہ تو اس عمر میں کیا پونچی کما کر لایا ہے؟ سواے میرے آسمانی آقا! تو اس عاجز پر رحم فرما اور اے دوستو ! تم اس خاکسار کو جو سب احباب کے لئے دعا گو ہے اپنی دردمندانہ دعاؤں میں یا درکھو کہ اس عاجز کی زندگی مفید اور بے لوث ہو اور انجام بخیر - آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - ( محررہ 9 جون 1961 ء ) (روز نامه الفضل ربوہ 11 جون 1961 ء ) وقف ایکٹ اور جماعت احمدیہ کے محاصل حکومت اور انصاف پسند پبلک کی توجہ کے لئے (1) کچھ عرصہ سے بعض مخالف عناصر یہ سوال اٹھارہے ہیں اور اس سوال کو اٹھا اٹھا کر حکومت کے محکمہ متعلقہ کو جماعت احمدیہ کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب پاکستان کی بہت سی ایسی وقف جائیدادوں کو اپنی تحویل میں لیا جا رہا ہے جو خانقاہوں اور مزاروں اور مسجدوں وغیرہ کے ساتھ وابستہ ہیں تو حکومت کو چاہئے کہ جماعت احمدیہ کے جماعتی محاصل اور جماعتی جائیداد کو بھی اپنے قبضے میں لے کر اس کا اسی طرح انتظام کرے جس طرح کہ مزاروں اور خانقاہوں اور مسجدوں وغیرہ کی جائیدادوں اور محاصل کا انتظام کیا جا رہا ہے.(2) یہ سوال مختلف لوگوں کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے اور غلط واقعات اور غلط حالات پیش کر کے نہ صرف جماعت کے خلاف ناگوار پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے بلکہ حکومت کے بالا افسروں کے دلوں میں بھی بدظنی
مضامین بشیر جلد چہارم 228 پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.ہماری طرف سے کئی دفعہ الفضل وغیرہ کے ذریعے اس غلط پراپیگنڈہ کا جواب بھی دیا جا چکا ہے اور وضاحت اور تکرار کے ساتھ بدلائل بتایا جا چکا ہے کہ جماعت احمدیہ کی مرکزی جائیداد اور محاصل کے حالات مسجدوں اور مزاروں اور خانقاہوں اور یتیم خانوں وغیرہ کی جائیدادوں اور محاصل سے اتنے مختلف اور متغیر ہیں کہ ہر دانا شخص ادنی تامل سے اس فرق کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے.لیکن چونکہ اس معاملے میں ملک کے ایک طبقے کی طرف سے پراپیگنڈے کا سلسلہ برابر جاری ہے اس لئے ہم ایک دفعہ پھر ( اور خدا کرے یہ آخری دفعہ ہو ) بادل نخواستہ اس اعتراض کا مختصر اور اصولی جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں.(3) سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ جہاں تک وقف ایکٹ کا سوال ہے.کیا جماعت احمدیہ کی جائیدادیں اور محاصل بھی اس غرض کے ماتحت قانونی طور پر وقف سمجھے جاسکتے ہیں؟ بعض وکیلوں اور قانون دانوں کا خیال ہے کہ وہ محکمہ وقف کی اغراض کے مطابق وقف قرار نہیں دیئے جاسکتے.پھر یہ بھی ہے جماعت احمدیہ کے جماعتی محاصل کسی ایک غرض یا چند اغراض تک محدود نہیں اور نہ وہ محض مقامی ہیں بلکہ نہایت درجہ متنوع اور وسیع اغراض پر پھیلے ہوئے عالمگیر نوعیت رکھتے ہیں.لیکن بہر حال یہ ایک قانونی سوال ہے اور میں قانون دان نہیں ہوں اس لئے میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا اور وقف اور غیر وقف کے سوال کو قانون دانوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں جس کا آخری فیصلہ بہر حال دانش مندانِ حکومت کے ہاتھ میں ہے اور حکومت اپنے قانون کی تشریح اور اس کی غرض وغایت اور اپنے مصالح کو بہتر بجھتی ہے.(4) لہذا اس جگہ میں اس سوال کے صرف اس پہلو پر روشنی ڈالوں گا کہ اگر بالفرض جماعت احمدیہ کی جائیدادیں اور محاصل وقف ایکٹ کے ماتحت وقف ہی قرار دیئے جائیں تو پھر بھی کیا حکومت انہیں جائز طریقے پر اپنی تحویل میں لے سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے محاصل کا طریقہ اور ان کی جائیدادوں کے انتظام کا معیار اور حسابی نگرانی کا طور طریقہ اور پڑتال کا اصول اور اخراجات کا تنوع ( یعنی بے شمار شاخوں میں منقسم ہونا ) اور انتظام کی عالمگیر وسعت اور جماعت کے مخصوص نظریات ایسے ہیں کہ کسی صورت میں بھی اور عقل و دانش کے کسی معیار کے مطابق بھی انہیں ملک کے اندر کی مسجدوں اور مزاروں اور خانقاہوں اور یتیم خانوں وغیرہ کی جائیدادوں اور محاصل اور اخراجات کی نوعیت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا.گورنمنٹ کا یہ بھاری احسان ہے کہ اس نے مزاروں اور خانقاہوں اور مسجدوں اور دیگر مقدس مقامات کی جائیدادوں اور ان کے محاصل کو اپنی تحویل میں لے کر اس اندھیر نگری کو روک دیا ہے جو اس میدان میں ہورہی
مضامین بشیر جلد چهارم 229 تھی.ایسی اکثر جائیداد میں ایک لمبے عرصے سے قریباً قریباً ذاتی جائیدادیں بن کر رہ گئی تھیں اور ان کے محاصل اور اخراجات کا کوئی تسلی بخش انتظام نہیں تھا لیکن اگر اس کے مقابل پر خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کی مرکزی جائیدادیں اور محاصل کے حالات دیکھے جائیں تو عظیم الشان امتیاز اور زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے.وَلَا فَخْرَ.(5) جہاں تک محاصل کی نگرانی اور حسابی کنٹرول کا سوال ہے یہ امتیاز ذیل کے مختصر سے فقرات میں بیان کیا جا سکتا ہے: (الف) جہاں مزاروں اور خانقاہوں اور مسجدوں اور یتیم خانوں وغیرہ کی آمد کسی منظم طریق پر نہیں ہوتی وہاں جماعت احمدیہ کی آمد جو مقررہ چندوں یا جماعتی جائیدادوں کی صورت میں ہوتی ہے وہ مختلف شہروں اور قصبات اور دیہات کے مرکزی یا مقامی عہدیداروں کے ذریعے باقاعدہ جمع ہو کر مرکز میں آتی اور با ضابطہ ریکارڈ کی جاتی ہے.(ب) ربوہ کی انجمن ایک باقاعدہ رجسٹر ڈ باڈی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ ہر رجسٹر باڈی حکومت کی عمومی نگرانی اور اصولی پڑتال کے نیچے ہوتی ہے.( ج ) جماعت احمدیہ کی انجمن کے کام کو چلانے کے لئے بہت سے علیحدہ علیحدہ دفاتر مقرر ہیں جو علیحدہ علیحدہ افسروں کے ماتحت منظم طریق پر کام کرتے ہیں اور ہر دفتر میں کارکنوں اور ماتحت افسروں وغیرہ کا باقاعدہ عملہ مقرر ہوتا ہے اور جملہ افسروں کے اوپر ایک بالا افسر نگران ہے جو مختلف دفتروں اور صیغوں کے کام کی نگرانی کرتا ہے.( د ) جماعت احمدیہ کی انجمن کا بجٹ مقامی جماعتوں کی رپورٹوں کے بعد کافی غور و خوض کے بعد انجمن کے مطبوعہ فارموں پر انجمن کے اجلاس میں با قاعدہ تجویز کیا جاتا ہے.(0) پھر اس بجٹ کو تمام مقامی جماعتوں کے منتخب شدہ نمائندے مرکز میں جمع ہو کر جماعت کی مجلس مشاورت کے موقع پر پورے غور و خوض اور بحث اور جرح قدح کے بعد پاس کرتے ہیں.( و ) انجمن کا ایک باقاعدہ ایڈیٹر مقرر ہے جو مالی اور حسابی لحاظ سے انجمن کے مختلف صیغوں اور دفاتر کا معائنہ کرتا رہتا ہے اور اس معائنہ کی رپورٹ بالا افسر کے پاس جاتی ہے اور حسب ضرورت جواب طلبی بھی کی جاتی ہے اور اس کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے.( ز ) انجمن کے اپنے ایڈیٹر کے علاوہ انجمن کے حساب کتاب اور آمد وخرچ کی پڑتال سرکاری سند یافتہ
مضامین بشیر جلد چهارم 230 رجسٹر ڈ ایڈیٹروں کے ذریعہ بھی کروائی جاتی ہے اور ان کے معائنہ کی رپورٹ انجمن کے ہیڈ آفس میں محفوظ رکھی جاتی ہے (6) پھر انجمن کا خرچ کسی ایک کام اور ایک غرض و غایت تک محدود نہیں بلکہ تعلیم اور تبلیغ اسلام اور تربیت اور تعمیر مساجد اور تراجم قرآن مجید اور اشاعت لٹریچر اور اخباروں اور رسالوں اور کتب کی تصنیف و اشاعت اور امداد غرباء اور دیگر رفاہ کے کثیر التعداد کاموں پر خرچ ہوتا ہے.(7) سب سے بڑی بات یہ ہے اور یہ بات خاص طور پر غور کے قابل ہے ) کہ انجمن کا یہ بیشمار شاخوں والا کام صرف پاکستان کے اندر محدود نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر آزاد ملکوں بلکہ انگلستان، جرمنی ، ہالینڈ، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، سوئٹزرلینڈ ، سپین، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، ٹرینیڈاڈ ، لبنان، کینیا، یوگنڈا، ٹانگانیکا، نایجیریا، گھانا، سیرالیون، لائبیریا، سینیگال، ملایا، جاوا، سماٹرا، سیلی بیز، بور نیو، فنی اور ہندوستان وغیرہ وغیرہ میں نہایت وسیع طور پر پھیلا ہوا ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں جماعت کے مخلص کارکن دن رات تبلیغ اور تربیت اور تعلیم اور اشاعت لٹریچر وغیرہ کے مقدس فرائض سرانجام دے رہے ہیں.(8) پھر یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت مسلمانوں کے بہت سے فرقے ہیں یعنی سنی ، شیعہ، اہل حدیث، اہل قرآن، دیوبندی، بریلوی، احمدی، حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، چشتی ، سہروردی، نقشبندی وغیرہ وغیرہ اور ہر فرقہ اسلامی مسائل کی تشریح میں اپنے اپنے مخصوص نظریات رکھتا ہے جن پر وہ دیانت داری کے ساتھ قائم ہے اور تبلیغ اور تربیت کے میدان میں ان نظریات کو جو عملی اہمیت حاصل ہے اسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.خانقاہوں اور مزاروں اور مسجدوں کی ملحقہ جائیدادوں اور تعلیمی اداروں کا معاملہ بالکل جدا گانہ ہے.ان میں مخصوص مذہبی نظریات اور تشریحات کو ہرگز وہ اہمیت حاصل نہیں جو تبلیغ اور تربیت کے میدان میں انہیں حاصل ہے.پس فرق ظاہر ہے خدا جانتا ہے کہ میں اس جگہ کوئی فرقہ وارانہ سوال نہیں اٹھانا چاہتا مگر ایک تبلیغی جماعت کے لئے جسے تبلیغی اور تربیتی دونوں کام کرنے ہوتے ہیں اس سوال کو جو وزن حاصل ہے اس کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں.ایک شیعہ جب تبلیغ اور تربیت کے میدان میں آئے گا تو لازماً اگر وہ دیانتداری پر قائم رہنا چاہتا ہے تو اس کی تشریح اور اس کا اسلوب بیان ایک سنی سے مختلف ہوں گے اس پر دوسرے اسلامی فرقوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے.(9) اب انصاف کے ساتھ غور کرو کہ اس قسم کے وسیع اور بے شمار شاخیں رکھنے والے مخصوص نظریات
مضامین بشیر جلد چهارم 231 کے حامل عالمگیر کام کو پاکستانی حکومت کا کوئی مقامی ادارہ کس طرح اپنے ہاتھ میں لے سکتا اور اسے کس طرح چلا سکتا ہے؟ بے سوچے سمجھے اور حالات پر غور کرنے کے بغیر کوئی بات منہ سے کہہ دینا آسان ہے اور حکومت کے افسروں کو غلط رپورٹیں دے کر بدظن کرنے کی کوشش کرنا بھی مشکل نہیں مگر ہماری دانا اور بیدار مغز حکومت آسانی کے ساتھ سمجھ سکتی ہے کہ اس قسم کے وسیع اور منقوع اور عالمگیر اور منظم اور مخصوص نوعیت کے کام کے مقابل پر مزاروں اور خانقا ہوں اور یتیم خانوں یا بعض مقامی تعلیمی اداروں کو کیا نسبت ہے؟ ( 10 ) ہماری حکومت خدا کے فضل سے سمجھدار اور معاملہ فہم اور انصاف پسند حکومت ہے مگر بہر حال وہ ایک انسانی حکومت ہے اور بشری تقاضے کے ماتحت بعض لوگوں کے غلط پراپیگنڈے کے نتیجے میں غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتی ہے اس لئے ہم ملک کے شریف اور انصاف پسند طبقہ سے عدل و انصاف کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ وہ خدا کے لئے غلط پراپیگنڈے سے اجتناب کریں اور اس قرآنی ارشاد کو یاد رکھیں کہ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائده:9) یعنی اے مسلمانوں تمہیں کسی قوم یا جماعت کی مخالفت ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل وانصاف کے رستہ قف سے ہٹ جاؤ.تمہارا فرض ہے کہ ہر حال میں انصاف پر قائم رہو کیونکہ یہی تقویٰ کا تقاضا ہے.( 11 ) بالآخر میں نہایت عاجزی سے اپنے آسمانی آقا اور زمین و آسمان کے خالق و مالک خدا سے التجا کرتا ہوں کہ تو غیوں کو جاننے والا ، قادر و مطلق اور مصرف القلوب خدا ہے.تو جانتا ہے کہ ہماری جماعت تیری از لی مشیت کے ماتحت اسلام کی اشاعت اور اسلام کی خدمت کی غرض سے قائم کی گئی ہے اور ہم تیرے افضل الرسل حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنیٰ خادم اور حضور کے در کے حقیر غلام ہیں اور جیسا کہ تو نے خود قرآن میں فرمایا ہے.تو یہ بھی جانتا ہے کہ ابتداء میں ہر روحانی مصلح کی جماعت کئی قسم کی بدگمانیوں اور غلط فہمیوں بلکہ ہنسی مذاق کا نشانہ بنا کرتی ہے.پس اے ہمارے آسمانی آقا! تو ان لوگوں کے دلوں میں نور پیدا کر اور انہیں صداقت کی روشنی سے منور فرما جو ہمارے متعلق دانستہ یا نادانستہ کئی طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں اور ان پر ہمارے دلوں کی حقیقت کھول دے اور تو پاکستان کی حکومت کو بھی ہر حال میں صراط مستقیم پر قائم رکھ اور اس کا حافظ و ناصر ہو اور اسے اندرونی اور بیرونی امن اور استحکام عطا فرما اور ہر نوع کی ترقی سے نواز.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - (محررہ 19 جون 1961ء) روزنامه الفضل ربوه 22 جون 1961ء)
مضامین بشیر جلد چهارم نگران بورڈ کے بعض اصلاحی فیصلہ جات 232 جیسا کہ دوستوں کو علم ہے گزشتہ مجلس مشاورت میں صدر انجمن احمد یہ اور مجلس تحریک جدید اور مجلس وقف جدید کے کاموں کی نگرانی کے لئے نیز ان میں باہم رابطہ قائم رکھنے کی غرض سے ایک نگران بور ڈ قائم کیا گیا تھا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بورڈ کی منظوری عطا فرما دی تھی.چنانچہ اس وقت تک اس بورڈ کے تین اجلاس ہو چکے ہیں.پہلا اجلاس 23 اپریل 1961 ء کو اور دوسرا اجلاس 28 مئی 1961ء کو اور تیسرا اجلاس 2 جولائی 1961ء کور بوہ میں منعقد ہوا.ان اجلاسوں میں دو قسم کے امور پر غور کیا گیا.اول حق تلفی وغیرہ کی شکایتیں جو مختلف کارکنوں اور دیگر اصحاب کی طرف سے موصول ہوئی تھیں.دوسرے صدر انجمن احمدیہ یا مجلس تحریک جدید یا مجلس وقف جدید کے کاموں کے متعلق جو مختلف اصولی اور اصلاحی تجاویز دوستوں کی طرف سے موصول ہوئیں یا ممبران نگران بورڈ کے اپنے خیال میں بوقت اجلاس آئیں.سو ذیل میں بعض مؤخر الذکر اصلاحی تجاویز کے متعلق گزشتہ تین اجلاسوں میں جو فیصلے کئے گئے ہیں انہیں احباب جماعت کی اطلاع کے لئے ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اجلاس 23 اپریل 1961ء (1) فیصلہ کیا گیا کہ یہ ضروری ہوگا کہ اگر کسی کی طرف سے کسی ادارے کے متعلق کسی نقص کی طرف توجہ دلائی گئی ہو تو عام حالات میں اس پر غور کرنے سے قبل محکمہ متعلقہ سے اس معاملہ کی رپورٹ حاصل کی جائے بلکہ عام حالات میں یہ ضروری ہے کہ بورڈ کی طرف سے یہ ہدایت جاری ہو کہ اگر کسی کو کسی ادارے کے کسی کام میں کوئی نقص نظر آئے یا اس کے متعلق اسے کوئی شکایت ہوتو وہ بورڈ میں شکایت کرنے کی بجائے محکمہ متعلقہ کو اس نقص کی طرف توجہ دلالے اور اگر چاہے تو اس کی ایک نقل صدر مجلس متعلقہ ( یعنی صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ، پریذیڈنٹ صاحب تحریک جدید ، صدر صاحب مجلس وقف جدید ) کو بھی بھجوا دے تا کہ ان کے علم میں بھی وہ بات آ جائے.دفتری اور انتظامی پہلو کے لحاظ سے (نہ کہ قضائی معاملات میں ) محکمہ قضا بھی صدرانجمن احمدیہ سے متعلق سمجھا جائے گا اور اس کے متعلق بھی وہی طریق کار ہوگا جو او پر مذکور ہے.اجلاس مؤرخہ 28 مئی 1961ء (1) فیصلہ کیا گیا کہ جماعتوں میں تحریک کی جائے ( اور یہ کام ناظر صاحب اصلاح وارشادسرانجام
مضامین بشیر جلد چہارم 233 دیں کہ مساجد احمدیہ کی برکات اور استفادہ کو صرف پانچ وقت تک محدودنہ رکھا جائے بلکہ مرکز میں اور بیرونی مساجد میں بھی علمی ترقی اور روحانی اور اخلاقی تربیت کی غرض سے جہاں تک ممکن ہو اور مقامی حالات اجازت دیں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جائے.خصوصاً درس قرآن مجید اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلسلہ ضرور حتی الوسع ہر احمد یہ مسجد میں جاری کیا جانا چاہئے.(2) جو مبلغین تحریک جدید رخصت پر بیرون ممالک سے مرکز واپس آتے ہیں اگر رخصت گزار نے کے بعد وہ پاسپورٹ اور ویزا وغیرہ کے حصول کے انتظار میں کچھ وقت بے کارر ہیں (جیسا کہ بعض اوقات ہوتا ہے ) تو ایسے مبلغوں کو ان کی بے کاری کے زمانہ میں اگر ان کے لئے تحریک جدید میں کام نہ ہو تو صیغہ اصلاح وارشاد صدر انجمن احمد یہ یا صیغہ وقف جدید کی طرف عارضی طور پر منتقل کر کے ان سے مفید کام لیا جائے.اس عرصہ میں وہ تنخواہ بدستور تحریک جدید سے لیں گے مگر سفر خرچ وغیرہ وہ صیغہ ادا کرے گا جس کی طرف وہ عارضی طور پر منتقل ہوں گے.ہیں یعنی : (3) تجویز کی گئی کہ چونکہ معلوم ہوا ہے کہ میاں غلام محمد صاحب اختر کے سپر داس وقت بہت سے صیغے الف نظارت دیوان ج نظارت تجارت نظارت زراعت و: نظارت علیا خانی اور یہ سارے کام اگر کما حقہ کئے جائیں تو ایک افسر کی طاقت سے زیادہ ہیں اس لئے صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ کو بورڈ کی طرف سے لکھا جائے کہ کام کو بہتر صورت دینے کے لئے بہتر ہوگا کہ اختر صاحب سے نظارت علیا اور نظارت زراعت کا کام لے لیا جائے اور صرف باقی دو صیغے ان کے پاس رہیں.(4) نظارت اصلاح و ارشاد کو توجہ دلائی جائے کہ بعض بیرونی رپورٹوں سے پتہ لگتا ہے کہ بعض کمزور طبیعت کی احمدی مستورات میں اسلامی تعلیم کے خلاف بے پردگی کی طرف رجحان پیدا ہو رہا ہے اس کے لئے بار بار پردے کے مسائل کو الفضل و دیگر اخبارات ورسائل وغیرہ کے ذریعہ تکرار کے ساتھ واضح کر کے اصلاح کرائی جائے.
مضامین بشیر جلد چهارم 234 اسی تعلق میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ نظارت امور عامہ کو لکھا جائے کہ اگر کسی احمدی خاتون کے متعلق یہ ثابت ہو کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق پر دے نہیں کرتی تو انہیں سمجھانے اور ہوشیار کرنے کے بعد ان کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے.ایسا ہی اگر معلوم ہو کہ کوئی احمدی والد یا احمدی خاوند اپنی بچیوں اور بیوی کو پردہ نہیں کراتا یا اس معاملہ میں اصلاحی قدم نہیں اٹھاتا تو ایک دفعہ ہوشیار کرنے کے بعد اس کے متعلق بھی مناسب کارروائی کی جائے.(5) صدر انجمن احمدیہ کو تاکیدی توجہ دلائی جائے کہ وہ بنگال کی جماعت دور کے علاقہ کی جماعت ہونے کی وجہ سے اصلاح وارشاد اور تربیت کے لحاظ سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے اس لئے کوشش کی جائے کہ بنگال میں مزید مربی مقرر ہوں.نیز سال میں کم از کم دو دفعہ دوعلماء کا وفد بنگال بھیجا جائے جو ایک وقت میں ایک مہینہ تک بنگال کی مختلف جماعتوں کا دورہ کر کے بیداری پیدا کرے.اجلاس مورخہ 2 جولائی 1961ء (1) محسوس کیا گیا ہے کہ امور عامہ کے شعبہ رشتہ ناطہ میں بڑی اصلاح اور توجہ کی ضرورت ہے.اس کی وجہ سے جماعت کے ایک طبقہ میں بے چینی اور تشویش پیدا ہو رہی ہے.صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ کو لکھا جائے کہ اس کے لئے کوئی زیادہ مناسب اور موزوں شخص جو اس کام کی زیادہ اہلیت رکھتا ہو مقرر فرمائیں.(2) دوران اجلاس یہ تجویز کی گئی کہ اگر خدانخواستہ کسی جگہ دو احمدی فریقوں میں جھگڑا ہو تو امیر کو ایسی صورت میں بالکل غیر جانبدار رہنا چاہئے اور وہ کسی فریق کی طرف داری نہ کرے بلکہ حالات کا جائزہ لے کر مناسب صورت میں اصلاح کی کوشش کرے.(3) تجویز ہوئی کہ صدر انجمن احمد یہ اور مجلس تحریک جدید کے صیغہ جات کا گاہے گاہے حسابی آڈٹ کے علاوہ کارکردگی کے لحاظ سے بھی معائنہ ہوتا رہنا چاہئے جو صد رصاحب صدر انجمن احمد یہ اور ناظر صاحب اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کے صیغوں کے متعلق اور وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید کے صیغوں کے متعلق کیا کریں اور حتی الوسع کوشش کی جائے کہ کم از کم تین ماہ میں ایک بار ہر صیغہ کا معائنہ ہو جائے.(4) لاہور کے مختلف کالجوں میں اس وقت بڑی بھاری تعداد احمدی طلباء کی موجود رہتی ہے جو بعض صورتوں میں مختلف کالجوں کے ہوسٹلوں میں اور بعض صورتوں میں پرائیویٹ گھروں میں رہائش رکھتے ہیں اور انہیں وہ اخلاقی اور دینی ماحول میسر نہیں آتا جو نو جوانی کی عمر میں احمدی نوجوانوں کے لئے نہایت
مضامین بشیر جلد چهارم 235 ضروری ہے.اس لئے صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ کو لکھا جائے کہ وہ اس معاملہ میں ابتدائی سروے کرا کے اور خرچ اور انتظامی پہلوؤں پر غور کر کے اگر ممکن ہو تو لاہور میں احمد یہ ہوٹل کے اجراء کے لئے آئندہ مجلس مشاورت میں یہ معاملہ پیش کریں.(5) اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ربوہ کے مقیم لوگوں کے لئے عموماً اور مہمانوں کے لئے خصوصاً مسجد مبارک ربوہ میں عصر کی نماز کے بعد روزانہ (باستثناء جمعہ کے ) قرآن مجید کے ایک رکوع کا با قاعدہ درس ہونا چاہئے.اس کے لئے فی الحال مولوی جلال الدین صاحب شمس کو مقرر کیا جائے اور ان کی غیر حاضری میں کوئی اور مناسب عالم درس دیا کریں تا کہ قرآن کا درس بغیر ناغہ کے جاری رہے اور یہ درس ربوہ کی زندگی کا ایک اہم اور دلکش پہلو بن جائے.(محررہ 5 جولائی 1961ء) روزنامه الفضل ربوہ 8 جولائی 1961ء) 23 ربوہ کے زنانہ اور مردانہ سکولوں کا نتیجہ 28 چند دن ہوئے میٹرک کے نتیجے کا اعلان ہوا تھا جس کی تفصیل الفضل مؤرخہ 6 جولائی اور 8 جولائی میں چھپ چکی ہے.ہمارے لڑکوں کے ہائی سکول کا نتیجہ 65.6 فیصد نکلا ہے اور لڑکیوں کے سکول کا نتیجہ 54.4 رہا ہے.اس پر الفضل میں خوشی کا اظہار کیا گیا ہے کہ بورڈ کے مجموعی تناسب سے یہ نتیجہ بہتر ہے.بے شک یہ درست ہے کہ بورڈ کے مجموعی تناسب سے یہ دونوں نتیجے بہتر ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ نتیجہ ہمارے لئے خوشی یا فخر کا موجب سمجھا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ دونوں نتیجے نہ تو ہمارے گزشتہ تیجوں کے مقابل پر بہتر ہیں اور نہ ملک کے مشہور نامور سکولوں کے مقابل پر کسی طرح بہتر سمجھے جا سکتے ہیں.پس یہ خوشی کا مقام نہیں بلکہ فکر کا مقام ہے اور ہمارے سکولوں کے افسروں کو غور اور مشورہ کر کے اپنے نتیجوں کو بہتر بنانے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے.الفضل کا بھی فرض تھا کہ جھوٹی خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے ان سکولوں کے ذمہ دار افسروں کو اس نقص کی طرف توجہ دلاتا تا کہ آئندہ اصلاح کی طرف قدم اٹھتا.بورڈ کے نتیجے سے بہتر ہونا کوئی خاص خوبی کی بات نہیں بلکہ خوبی یہ ہے کہ ہمارے سکولوں کے نتائج ہر سال بہتر سے بہتر ہوتے جائیں اور ملک کے بہترین سکولوں کے مقابلہ میں بھی نمایاں رہیں.میرا خیال ہے کہ ہمارے سکولوں کے لئے بحیثیت مجموعی
مضامین بشیر جلد چہارم 236 اسی فیصدی سے کم نتیجہ نہ صرف کسی خاص خوشی کا موجب نہیں بلکہ حقیقتا قابل فکر ہے.ہمارے سکول تو ملک بھر میں مثالی سکول ہونے چاہئیں.فیصد تناسب کے لحاظ سے بھی نمایاں ہوں اور اعلیٰ نمبر حاصل کرنے کے لحاظ سے بھی نمایاں ہوں.بے شک ہمارے سکول میں یہ ایک مشکل ہے کہ قومی اور تربیتی سکول ہونے کی وجہ سے ہمیں کمزور طالب علموں کو بھی داخل کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا تناسب فیصد ایک حد تک گر جاتا ہے لیکن پھر بھی اس کمی کو زائد محنت اور زائد توجہ دے کر پورا کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے نتیجے 94ی 95 فیصد نہ نکلیں.جیسا کہ بعض گزشتہ سالوں میں ہمارے نتیجے نکلتے رہے ہیں.الہی جماعتوں میں دنیا کے میدان میں بھی کچھ تو امتیاز ہونا چاہئے.با ایں ہمہ یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ اس سال بھی لڑکوں کے سکول کا ایک بچہ عزیز نعیم الرحمن جومحترم در دصاحب مرحوم کا بچہ ہے بہت اچھے نمبر لے کر پاس ہوا ہے.اسی طرح لڑکیوں کے سکول میں محترم قاضی اکمل صاحب کی پوتی نے اچھے نمبر لئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی زندگیوں اور علم و عمل میں برکت دے اور دوسروں کو بھی ان کی مثال سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے.( محررہ 18 جولائی 1961 ء) روزنامه الفضل ربوہ 19 جولائی 1961ء) احباب جماعت کے لئے ایک ضروری نصیحت میرے علم میں ربوہ کے ایک دوست کے متعلق یہ باتلائی گئی تھی کہ انہوں نے بزعم خود سلسلہ کے ایک ذمہ دار ادارے میں کوئی نقص محسوس کر کے اس کے متعلق خود متعلقہ ادارے کو توجہ دلانے کی بجائے ادھر اُدھر غیر متعلق لوگوں میں معترضانہ باتیں کیں.اس پر ان صاحب کو دفتر نگران بورڈ کی طرف سے ذیل کا نصیحت کا خط لکھا گیا ہے جو افادہ عام کی غرض سے الفضل میں شائع کیا جا تا ہے.بعد نبوی کی وجہ سے نیز قرآنی تعلیم سے ناواقفیت کی بناء پر ہمارے بعض مقامی اور بیرونی دوستوں میں اس بارے میں ناواجب رجحانات پیدا ہو رہے ہیں جن میں اصلاح کی ضرورت ہے.امید ہے کہ مندرجہ ذیل مخلصانہ ہدایت کی روشنی میں مقامی اور بیرونی دوست آئند ہ محتاط رہیں گے.یہ ہر گز کسی کو دعوی نہیں کہ ہمارے ادارے یا خود نگران بورڈ ہی غلطیوں سے بالا ہیں.اداروں سے ضرور غلطیاں ہوتی ہیں مگر ان غلطیوں پر وہ رستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جو قرآنی تعلیم کے صریح خلاف ہے بلکہ اسلامی تعلیم کے مطابق صحیح اصلاحی رستہ اختیار کرنا چاہئے.بہر حال جو خط دفتر
مضامین بشیر جلد چہارم 237 نگران بورڈ کی طرف سے ایک مقامی دوست کی طرف لکھا گیا ہے اس کی نقل شائع کی جاتی ہے.السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مکرمی محترمی! ” میرے نوٹ کے جواب میں آپ کا خط موصول ہوا.معلوم نہیں کہ آپ بھولتے ہیں یا کہ رپورٹ کنندہ بھولتا ہے بہر حال جو ہوا سو ہوا.آئندہ کے لئے میری آپ کو بلکہ جماعت کے ہر فرد کو یہی اصولی نصیحت ہے کہ اگر جماعت کے کسی صیغے میں کوئی نقص نظر آئے یا کوئی امر قابل اصلاح دکھائی دے تو غیر متعلق لوگوں میں بات کرنے کی بجائے صحیح اسلامی طریقہ یہ ہے اور عقل و دانش کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اس صورت میں براہ راست صیغہ متعلقہ کے افسر کو توجہ دلانی چاہئے ورنہ فتنہ ہوگا اور جماعت میں بے چینی کا دروازہ کھلے گا.قرآن مجید نے اپنی ایک آیت میں مومنوں کو اس بارے میں تاکیدی اور واضح نصیحت فرمائی ہے.“ ( محررہ 17 جولائی 1961 ء) فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد صدر نگران بورڈر بوہ روزنامه الفضل ربوہ 20 جولائی 1961ء) 0 حضرت خلیفہ مسیح ایدہ الہ کی صحت سے متعلق ایک ضروری اعلان پاکستان ٹائمز“ کی ایک تشویش پیدا کرنے والی خبر کا ازالہ انگریزی اخبار ” پاکستان ٹائمنز لاہور کی اشاعت مؤرخہ 20 جولائی کے صفحہ 6 پر امام جماعت احمدیہ کی تشویشناک علالت“ کے عنوان کے ماتحت ایک خبر اخبار مذکور کے لائل پور (حال.فیصل آباد ) کے نمائندے کے واسطے سے چھپی ہے جس میں حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی موجودہ بیماری کو تشویشناک رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے.اس خبر سے دوستوں کو پریشان نہیں ہونا چاہئے.یہ تو ظاہر ہے کہ حضور قریب دوسال سے بیمار ہیں اور حضور کی بیماری کے متعلق الفضل میں روزانہ خبر چھپتی ہے اور حضور کی صحت کے متعلق کئی دفعہ دعا کی تحریک بھی ہو چکی ہے مگر یہ بات ہرگز درست نہیں کہ خدا نخواستہ ان دنوں میں حضور کی بیماری کے متعلق کوئی
مضامین بشیر جلد چهارم 238 خاص تشویشناک پہلو پیدا ہوا ہے.معلوم نہیں پاکستان ٹائمنز کے نمائندے نے کس غرض سے یہ خبر چھپوائی ہے بہر حال احباب جماعت مطمئن رہیں اور اس خبر کی وجہ سے پریشان نہ ہوں اور بدستور دعاؤں میں لگے رہیں.( محررہ 20 جولائی 1961 ء ).......روزنامه الفضل ربوہ 22 جولا ئی 1961ء) اپنے لئے دوستوں سے دعا کی تحریک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنے علاج کے لئے لاہور جانے سے قبل الفضل میں دعائیہ درخواست کا اعلان شائع کروایا جس میں تحریر فرمایا:.....احباب کرام میری صحت کے لئے درددل سے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ جو شافی مطلق ہے خدمتِ دین بجالانے والی صحت اور کام کی زندگی عطا کرے.جب سے میں نے تریسٹھ سال کی عمر سے تجاوز کیا ہے اب میں خدا کے فضل سے اڑسٹھ سال سے چند ماہ اوپر ہوں ) میرے دل پر بوجھ رہنے لگ گیا ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم والی عمر پالی مگر ابھی تک حقیقی طور پر نیک اعمال کا خانہ بڑی حد تک خالی ہے.اگر تھوڑی بہت نیکیاں ہیں تو وہ یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا نتیجہ اور آپ کا پاک ورثہ ہیں مگر کمزوریاں سب کی سب میری اپنی کمائی ہیں اور یہ کوئی ایسی پونچی نہیں جو خدا کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہو.پس مخلص احباب اپنی دعاؤں سے میری نصرت فرمائیں کہ میری بقیہ زندگی نیکی اور خدمت دین میں کئے اور انجام خدا کی رضا کے ماتحت اچھا ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 28 جولائی 1961 ء )............روزنامه الفضل ربوہ 30 جولائی 1961 ء) بھائیو! اپنے مستقبل پر نظر رکھو اور اپنی اولاد کی فکر کرو یہ کوئی مضمون نہیں بلکہ بستر پر لیٹے لیٹے یا سہارے سے بیٹھے بیٹھے اپنے مخلص بھائیوں کے نام ایک درد مند دل کی نصیحت ہے جس کا مخاطب سب سے پہلے میرا اپنا نفس ہے اور اس کے بعد ہمارے خاندان کے
مضامین بشیر جلد چهارم 239 افراد ہیں اور پھر ساری جماعت ہے جو خدا کی طرف سے اخوت کی تاروں میں باندھی گئی ہے.یہ ظاہر ہے کہ ہم خدا کے مامور د مرسل کے زمانہ سے دن بدن اور لحظہ بہ لحظہ دور ہوتے جا رہے ہیں اور وقت کے قرب کی زبردست مقناطیسی طاقت سے ہر آن محروم ہورہے ہیں.یہ وہ بھاری نقصان ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد بھی مسلمانوں کو بھگتنا پڑا.چنانچہ اسلام کی ابتدائی تاریخ کا آخری نقشہ آپ لوگوں کے سامنے ہے جسے اس جگہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں.اور اب تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک صحابہ کا زمانہ بھی جلد جلد ختم ہورہا ہے اور یہ روحانی روشنی پہنچانے والے اور تاریکی میں رستہ دکھانے والے چاند ستارے بڑی سرعت کے ساتھ افق قریب میں غروب ہوتے جا رہے ہیں.دوستو اور عزیز و! کیا آپ لوگوں نے کبھی اس نقصان کا جائزہ لیا ؟ اور اس کے تدارک اور تلافی کی تدبیرسوچی ؟ اگر نہیں سوچی تو آخر کب سوچیں گے ؟ کیا اس وقت سوچیں گے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے روحانی چہرہ کو دیکھنے والے اور آپ کی پاک صحبت سے مستفیض ہونے والے اور آپ کے مبارک کلام کو سننے والے لوگ سب کے سب اپنی اپنی قبروں میں جاسوئیں گے؟ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو مگر سوال یہ ہے کہ اس کا علاج کیا ہے؟ ایک سیدھا سادہ علاج مگر بہت مشکل علاج ، بہت ہی مشکل علاج.بلکہ شاید اس زمانہ کے لحاظ سے ناممکن علاج میں بتائے دیتا ہوں.یہ علاج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیر معمولی عبادات اور ریاضات اور صوم وصلوٰۃ اور دردمندانہ دعاؤں اور تلاوت کلام پاک اور مطالعہ حدیث و اقوال بزرگان سلف اور محبت الہی اور عشق رسول اور انقطاع الی اللہ اور شفقت علی خلق اللہ کے عجیب و غریب نظاروں میں ملتا ہے جس کے نتیجہ میں آپ تیرہ سو سال پیچھے آنے کے باوجود آگے نکل گئے.حتی کہ خدا نے آپ کو مخاطب کر کے بڑی محبت واکرام کے ساتھ فرمایا کہ: آسمان سے کئی تخت اترے مگر سب سے اونچا تیر تخت ( رسول پاک کے بعد ) سب سے اوپر بچھایا گیا“ (تذکرۃ ایڈیشن چہارم صفحه 323) اور خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عالم کشف میں اپنے اس خادم اور نائب کی بے نظیر خدمات اور ترقیات کا نظارہ دیکھ کر فرمایا کہ: يُدْفَنَ مَعِي فِي قَبْرِى یعنی میرے سلسلہ کے مسیح کی وہ شان ہے کہ مرنے کے بعد اسے میرے ساتھ جگہ دی جائے گی اس الہام الہی اور اس حدیث نبوی میں یہ عظیم الشان بشارت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اندر غیر معمولی جذب پیدا کرے اور خدا کے خاص فضل و نصرت کا جاذب بنے تو ایک انسان وقت کی حدود کو تو ڑ کر پہلے
مضامین بشیر جلد چهارم 240 آنے والوں سے آگے نکل سکتا ہے.اس بشارت کے فلسفہ کی تشریح میں قرآن مجید نے السَّابِقُونَ الاولون کی دو طیف اصطلاحیں بیان کی ہیں جس میں یہی اشارہ ہے کہ بعض لوگ ( یعنی اوّلون ) تو وقت کے لحاظ سے آگے آکر فضیلت حاصل کر لیتے ہیں مگر بعض خوش قسمت لوگ ( یعنی ســابــقــون ) ایسے بھی ہوتے ہیں کہ پیچھے آتے ہیں مگر آگے پیچھے کی زنجیروں کو توڑ کر پہلے آنے والوں سے آگے نکل جاتے ہیں.جس طرح مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ چھ سال تک شدید مخالفت کرنے کے بعد مسلمان ہوئے مگر باوجود اس کے کہ وہ اپنی شاندار خدمات اور غیر معمولی اوصاف کی وجہ سے مینار کی طرح بلند و بالا حضرت ابوبکر صدیق کے سوا جو ہر جہت سے اول بھی تھے اور سابق بھی تھے تمام صحابہ سے جن میں حضرت عثمان اور حضرت علی اور حضرت ابو عبیدہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر اور قدیم صحابہ بھی شامل تھے آگے نکل گئے.وَالْفَضْلُ بِالْخَيْرَاتِ لَا بِزَمَانِ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وقت اور زمانہ کی قیود کو توڑ کر آگے نکل جانے والوں میں حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کی مثال بھی بیان فرمائی ہے جن کی شہادت کی خبر سن کر آپ نے اپنی ایک نظم میں یہ حکیمانہ شعر فرمائے کہ: صد ہزاراں فرسخ تا کوئے یار دشت پر خار و بلائش صد ہزار شوخی ازاں شیخ عجم بنگر این شوخی ازاں این بیاباں کرد طی از یک قدم دلدار از خود مرده بود از لئے تریاق زہر خورده بود زیر این موت است پنہاں صد حیات زندگی خواهی بخور جام ممات تذکرة الشهادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 60-61) یعنی خدا کے کوچہ تک پہنچنے کے لئے لاکھوں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اس میں کانٹوں کے جنگل ہیں اور ان جنگلوں میں بے شمار قسم کی بلائیں اور تکلیفیں اور آزمائشیں ہیں مگر ذرا اس کا بلی بزرگ کی ہمت اور تیز
مضامین بشیر جلد چہارم 241 رفتاری ملاحظہ کرو کہ اس نے یہ سارے خطرناک جنگل صرف ایک قدم میں ہی طے کر لئے.یہ اس لئے کہ وہ اپنے محبوب خدا کی خاطر اپنے نفس پر موت وارد کر چکا تھا.اس نے رضائے الہی کا تریاق حاصل کرنے کی غرض سے قربانی کا زہر کھا کر اپنے نفس کی لذات کو ختم کر دیا تھا.اس قسم کی موت کے نیچے سینکڑوں زندگیاں پوشیدہ ہیں.لہذا اگر تم خدا کے رستہ میں خاص الخاص زندگی کے خواہاں ہو تو آؤ تم بھی ایسی موت کا پیالہ چکھ کر زندہ جاوید ہو جاؤ پس دوستو اور عزیز و! ایک علاج تو یہی ہے جس سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانہ سے دوری کے اثر کوکسی قدر کم اور صحابہ کرام کی صحبت سے محرومی کی کمی کو کسی قدر پورا کر سکتے ہیں مگر یہ علاج بڑا مشکل، بڑا کٹھن اور بڑی جان جوکھوں کا کام ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ اس کے لئے ایک بڑی تلخ موت کے دروازے میں سے گزر کر از جہاں دباز بیرون از جہاں کا نظارہ پیش کرنا پڑتا ہے بلکہ دراصل اس شعر والی سولی پر چڑھنا پڑتا ہے کہ : درمیان قعر دریا تخته بندم کرده بازمی گوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش اس کے لئے اس پر آشوب مادی زمانہ میں کتنے لوگ تیار ہیں؟ کم ، بہت کم ، بہت ہی کم بلکہ شاید لاکھوں انسانوں میں سے ایک بھی مشکل سے ملے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کشتی نوح کو دیکھو اس پیمانہ پر کتنے احمدی نوجوانوں کو معیاری احمدی سمجھا جا سکتا ہے؟ مجھے جواب دینے کی ضرورت نہیں اپنی آنکھوں سے دیکھو اور اپنے دل سے جواب مانگو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ تعداد خدا کے فضل سے بہت کافی تھی مگر اس کے بعد زمانہ کی دوری اور مخلص صحابہ کی اموات کی کثرت نے قدیم سنت کے مطابق آہستہ آہستہ نقشہ بدلنا شروع کر دیا.حتی کہ باغ احمد میں شیریں پیوندی پودوں کی جگہ سے ملے جلے کھٹے میٹھے تھی پودوں (یعنی نسلی احمد یوں) کی کثرت شروع ہوگئی اور اس کثرت کی شرح فی صد دن بدن خطرناک طور پر بڑھتی جا رہی ہے.اسلام کے دور اول یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فدا نفسی ) کے زمانہ میں بھی اسلام کو یہی خطرہ پیش آیا تھا مگر اس وقت جہاد کا رستہ کھلا ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کے جوش اخلاص و قربانی میں طبعی کمی کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا تھا مگر یہاں ہماری تبلیغ میں بھی بھاری روکیں حائل ہیں.کہیں مالی روکیں، کہیں بیرونی تنظیم کی روکیں اور کہیں اندرونی روکیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
مضامین بشیر جلد چهارم مرا درد ایست اندر دل اگر گوئم زباں سوزد و گردم در کشم ترسم که مغز استخواں سوزد 242 اگر یہ روکیں دور ہو جائیں تو اس وقت حالات ایسے ہیں کہ خدا کے فضل سے قلیل عرصہ میں اسلام اور صداقت کے حق میں بھاری تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک ضروری لازمہ کے طور پر ہمارے نو جوانوں میں اور نسلی احمدیوں میں بھی زندگی کی نئی روح پیدا ہو سکتی ہے.وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللَّـهِ بعَزِيزِ.تاریخ عالم کا یہ ایک ازلی مشاہدہ ہے کہ جب کسی قوم کا خارجی محاذ کمزور پڑ جاتا ہے تو وہ اندرونی خلفشار کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہے.نیکی کی روح میں انحطاط، قربانی کے جذبہ میں کمی ، باہمی اختلافات، عملی کمزوریاں ، اعتراض کرنے میں جلد بازی وغیرہ وغیرہ کئی قسم کی اخلاقی اور روحانی بیماریاں جماعتی معاشرہ میں ابھر نے لگ جاتی ہیں.مگر قربان جائیے اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے اپنی امت کو کسی حالت میں بھی مناسب نگرانی اور مناسب علاج کے بغیر نہیں چھوڑا اور ہر عارضہ کے لئے حکیمانہ شفا اور حکیمانہ ماحول مہیا فرمایا ہے.چنانچہ جب آپ کو ایک وقت اپنے غزوات کے ہجوم کے دوران میں کچھ عرصہ کے لئے مہلت میسر آئی اور آپ نے محسوس کیا کہ کہیں اوپر تلے کے غزوات اور سرایا کی غیر معمولی گہما گہمی سے وقتی فراغت پا کر صحابہ کی جماعت ایک گونه بیکار اور ست ہو کر نہ بیٹھ جائے تو آپ نے اس وقت کمال حکمت سے صحابہ کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ: رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْاكْبَرِ یعنی اب ہم چھوٹے جہاد ( مراد تلوار کے جہاد) سے فارغ ہو کر بڑے جہاد ( مراد اخلاقی اور روحانی تربیت کے جہاد ) کی طرف لوٹ رہے ہیں اللہ اللہ ! یہ کس شان کا کلام تھا جو آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے اس امی نبی کے منہ سے نکلا جس کی حکمت کے سامنے آج کی ترقی یافتہ دنیا کا سارا فلسفہ گرد ہے.تلوار کے جہاد سے واپس لوٹتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اب ہمارے لئے چھوٹے جہاد سے فارغ ہو کر بڑے جہاد میں مصروف ہونے کا وقت ہے جو نفس کا جہاد اور جماعتی تربیت کا جہاد اور قومی تنظیم کا جہاد ہے.اس موقع پر جماعتی تربیت کے سوال کو بڑا جہاد قرار دینے میں دو عظیم الشان نفسیاتی نکتے مضمر ہیں.اول اس میں علم النفس کے اس لطیف اصول کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ کسی سوال کی اہمیت صرف ذاتی ہی نہیں ہوا کرتی بلکہ اضافی اور نسبتی بھی ہوا کرتی ہے جو
مضامین بشیر جلد چهارم 243 ماحول اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ کم و بیش ہوتی رہتی ہے اور چوکس مومنوں کا فرض ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق پیش آمدہ مسائل کی طرف توجہ دیں اور آنکھیں بند کر کے صرف ایک بات کی طرف ہی جھکے نہ رہیں.اس طرح مختلف حالات میں جہاد کبر اور جہادِ اصغر کی تعریف بدلتی رہے گی.کسی وقت جب کوئی ظالم دشمن اسلام کو تلوار کے زور سے مٹانے کے لئے اٹھے گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا تو اس وقت جہاد بالسیف کے ذریعہ اپنا دفاع کرنا اور ترقی کا راستہ کھولنا جہاد اکبر ہوگا.لیکن اگر دشمن علمی اعتراضوں کے ذریعہ اسلام پر حملہ آور ہو گا تو علمی تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی فوقیت ثابت کرنا اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت کرنا اور مالی امداد کے ذریعہ اسلام کی مضبوطی کا انتظام کرنا جہاد اکبر بن جائے گا اور بعض اوقات جب قوم اسلامی تربیت کو کھو کر تنزل کے گڑھے میں گر رہی ہوگی تو ایسے وقت میں مسلمان نو جوانوں کو عمدہ اخلاقی اور روحانی تربیت کے ذریعہ اوپر اٹھانا جہادا کبر ہو گا اور باقی جہاد جہاد اصغر کا رنگ اختیار کر لیں گے اور یہی وہ نفسیاتی نکتہ ہے جس کی طرف ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر والے زریں ارشاد میں توجہ دلائی ہے.یعنی یہ کہ وہی جہادا کبر ہے جو وقت کے تقاضے کے مطابق کیا جائے.علاوہ ازیں حضور کے ارشاد میں یہ یمنی اشارہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو کسی وقت بھی بے کار اور ست ہو کر نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ وقت اور حالات کے تقاضے کے مطابق بہر حال کوئی نہ کوئی دینی جہاد جاری رکھنا چاہئے کیونکہ قوموں کی باہمی دوڑ میں جو قوم بھی سست ہوگی اور رُکے گی وہ فورا گر کر دوسروں کے پاؤں کے نیچے روندی جائے گی.یہ خداک از لی اور اٹل قانون ہے.وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلاً - دوسرا متقابل نکتہ، بہت بڑا نکتہ، بڑا عظیم الشان نکتہ قوموں میں دائمی زندگی پیدا کرنے والا نکتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کے اس ارشاد میں کہ ”اب ہم چھوٹے جہاد سے فارغ ہو کر بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں یہ ہے کہ آپ نے نسبتی لحاظ سے نہیں بلکہ واقعی اور حقیقتا نفس کے جہاد اور تربیت والے جہاد کو تلوار کے جہاد سے افضل قرار دیا ہے اور اسلامی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کرنے والے لوگ جانتے ہیں کہ یہی درست ہے.کیونکہ اسلام مذہب کی اشاعت میں ہرگز ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دیتا جیسا کہ قرآن صاف الفاظ میں فرماتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ - اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ.یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں بلکہ اے رسول ! تمہارا کام صرف یہ ہے کہ خدا کے دین کی طرف حکمت اور پند و نصیحت کے طریق پر بلاؤ.تلوار کے استعمال کی اجازت صرف مظلوم ہونے کی حالت میں دی گئی ہے بلکہ دشمن تلوار کے زور سے اسلام کو مٹانے کا اقدام کرے اور بر بادی پر
مضامین بشیر جلد چهارم 244 مصر ہو ورنہ اسلام کا اصل بنیادی نظریہ پُر امن تبلیغ اور علمی اور روحانی ذرائع کے استعمال سے تعلق رکھتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جونہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات و سرایا سے کسی قدر مہلت پائی آپ نے اسلام کے بنیادی فریضہ کے پیش نظر مسلمانوں میں اعلان فرمایا کہ اب اس فراغت کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں جہادا کبر یعنی نفس کے جہاد اور علمی جہاد اور جماعتی تربیت کے جہاد میں مصروف ہو جانا چاہئے جو ہما را اصل جہاد ہے.پس اے ہمارے دوستو اور بھائیو اور عزیزو! اس وقت ہمارے رستہ میں بھی بعض تبلیغی روکیں حائل ہیں بعض ملکوں میں تو ہمارا رستہ ملکی قانون کے ماتحت بالکل ہی بند ہے اور بعض میں رستہ تو کھلا ہے مگر توسیع کے کام میں بھاری مالی تنگی روک ہے اور ہم اپنے کام کو محدود رکھنے پر مجبور ہیں اور بعض میں قانونی روک تو شاید نہیں ہے مگر ملکی مصالح سد راہ ہو رہے ہیں.ایسی صورت میں کمزور طبائع میں مذہبی جذ بہ کی کمی کا پیدا ہو جانا اور دینی ولولہ کا کمزور پڑ جانا ایک حد تک طبعی امر ہے.اس کمی اور اس کمزوری کو دور کرنے کا وہی حکیمانہ نسخہ ہے جو ہمارے آقا (فدا نفسی) نے بیان فرمایا ہے یعنی اس صورت میں ہمیں جہاد اصغر (یعنی بے وقت جہاد ) سے جہاد اکبر ( یعنی وقت کے مناسب حال جہاد ) کی طرف رجوع کرنا چاہئے.یہ تو ظاہر ہے کہ جہاد کی موٹی اقسام یہ تین ہیں: (1) تلوار کا جہاد یعنی تلوار کے ذریعہ حملہ آور ہونے والے دشمن کا جو اسلام کو تلوار کے زور سے مٹانا چاہتا ہو تلوار سے مقابلہ کرنا.(2) تبلیغ کا جہاد یعنی دلائل و براہین اور روحانی ذرائع سے اسلام کی اشاعت اور استحکام اور ترقی کا انتظام کرنا.(3) تربیت کا جہاد یعنی مسلمانوں کو سچا مسلمان بنانے اور نو جوانوں کو اسلامی طریق کے مطابق تربیت دینے کا انتظام کرنا.جہاں تک تلوار کے جہاد کا سوال ہے نہ تو اس وقت اس کے حالات موجود ہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کے زمانہ میں اس کی اجازت ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحیح بخاری میں مسیح موعود کے نزول کے ذکر کے تعلق میں صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ يَضَعُ الْحَرْبَ یعنی جب میری امت کا مسیح آئے گا تو وہ تلوار کے جہاد کو ملتوی کر دے گا کیونکہ اس کی ضرورت نہیں ہوگی.عقلاً بھی ظاہر ہے کہ تلوار کی ضرورت صرف تلوار کے مقابلہ پر ہی پڑ سکتی ہے ورنہ اسلام تو درکنار کوئی معقول
مضامین بشیر جلد چهارم 245 مذہب بھی اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ یونہی لوگوں کی گردنیں اڑاتے پھرو.باقی رہے دو قسم کے جہاد یعنی تبلیغ کا جہاد اور تربیت کا جہاد.سو وہ بے شک اسلام کی دائمی اور ہمیشہ قائم رہنے والی تعلیم کا ضروری حصہ ہیں اور عام حالات میں ہر الہی جماعت کو رتھ کے دو پہیوں کی طرح ان دونوں قسم کے جہادوں کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے.مگر بعض اوقات مخصوص قومی یا ملکی حالات کے ماتحت یا خاص قسم کے اندرونی یا خارجی تقاضوں کے مطابق ان کے باہمی توازن میں فرق پڑ جاتا اور کمی بیشی ہو جاتی ہے.یعنی بعض حالات میں تبلیغ پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے اور بعض دوسری قسم کے حالات میں تربیت کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پیش آتی ہے خواہ یہ ضرورت اختیاری صورت میں ہو یا کہ مجبوری کی صورت میں جیسا کہ آج کل ملک کے اندرونی حالات کا تقاضا ہے.بہر حال آج کل ہماری بڑی پرابلم جماعت کے نو جوانوں اور خصوصاً نسلی احمدیوں کی تربیت ہے تا کہ انہیں زمانہ کی شرر بار ہواؤں سے بچا کر اور مادیت کے زہریلے اثرات سے محفوظ رکھ کر اسلام اور احمدیت کی روح پر قائم رکھا جا سکے اور یہی میرے اس مضمون کا مرکزی نقطہ اور حقیقی تال ہے اور اسی کی طرف اس وقت اندرونِ ملک میں جماعت کی خاص توجہ مبذول ہونی چاہئے.یہ کام کس طرح سرانجام دیا جائے ؟ اس کے لئے کسی لمبی چوڑی تلقین کی ضرورت نہیں.قرآن وحدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اس معاملہ میں زریں ہدایات سے بھری پڑی ہیں.اصل چیز جس کی ضرورت ہے وہ احساس اور توجہ ہے.اگر جماعت میں نوجوانوں کی تربیت کا احساس پیدا ہو جائے اور وہ اس سوال کی عظیم الشان اہمیت کو سمجھ لے تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے قرب کی وجہ سے نیز خلافت جیسی الہی نعمت کے موجود ہونے کے نتیجہ میں ہمارے اندر ایمان و اخلاص کی زبر دست چنگاریاں موجود ہیں.بس ذراسی ہوا دینے سے وہ بھڑک اٹھنے کے لئے تیار ہیں وَلَوْ لَا تَمْسَسْهُ نَارٌ.پس دوستو اور عزیز و! خدا کے لئے اس طرف توجہ دو اور اپنی اولادوں کے مستقبل کی فکر کرو اور جماعت کے قدم کو نیچے کی طرف جانے سے بچاؤ اور ان کے اندر اسلام اور احمدیت کی ایسی شمع روشن کر دو جس سے ہر اگلی نسل کی شمع خود بخو دروشن ہوتی چلی جائے.اور قرآن کے اس زبر دست انداز کو ہمیشہ یادرکھو کہ قوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس ڈرا دینے والے شعر کو بھی کبھی نہ بھولو کہ : ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں سلسلہ بدنام نہ ہو
مضامین بشیر جلد چهارم 246 میں چاہتا تھا کہ تربیت کے متعلق بھی کچھ تفصیلی ہدایات نوٹ کر دیتا مگر میں نے اپنی موجودہ علالت اور کمزوری اور تکان کی حالت میں یہ نوٹ بھی بڑی مشکل سے رُک رُک کر لکھا ہے اور اب میں تھک گیا ہوں اس لئے فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں.البتہ دوستوں کے مشورہ کے لئے اس قدر بتائے دیتا ہوں کہ یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر کتب تربیتی مضامین سے بھری پڑی ہیں مگر خاص طور پر دوکتا ہیں اس میدان میں بڑی شاندار ہیں انہیں دوست خود بھی ضرور مطالعہ کریں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی ضرور پڑھائیں اور بار بار پڑھاتے رہیں کہ ان سے انشاء اللہ انہیں عظیم الشان فوائد حاصل ہوں گے.یہ دو کتابیں یہ ہیں : (اول) کشتی نوح یا اس کا خلاصہ یعنی ہماری تعلیم ( دوم ) ملفوظات یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائریاں جن کے اس وقت تک دو حصے چھپ چکے ہیں.یہ دونوں کتابیں تربیت کے میدان میں جواہرات کی عدیم المثال کا نہیں ہیں جن کی اس زمانہ میں کوئی نظیر نہیں.انہیں کی ادنی تشریح میں اور بعض مزید قرآن وحدیث کے حوالوں کے لئے اگر اس خاکسار کی تصنیف ” جماعتی تربیت اور اس کے اصول کا بھی مطالعہ کیا جائے اور نوجوانوں کو پڑھا کر اس میں ان کا امتحان لیا جائے تو انشاء اللہ مفید ہوگا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہمارے بچوں کو اور ہماری آئندہ نسلوں کو اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں رکھے اور ہما را انجام اس کی رضا پر ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.( محررہ 15 اگست 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 19 اگست 1961ء) جماعت کے دوستوں اور خصوصاً نو جوانوں کو رسالہ اصحاب احمد “ ضرور خریدنا چاہئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے رسالہ اصحاب احمد جلد نم ( سوانح حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب
مضامین بشیر جلد چهارم 247 قادیانی) پر تبصرہ کرتے ہوئے رسالہ کے مؤلف مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان کے نام حسب ذیل مکتوب ارسال فرمایا جو افادہ احباب کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.(ادارہ) مکرمی و محترمی ملک صلاح الدین صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اصحاب احمد جلد نہم جس میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مرحوم کے حالات اور مشاہدات اور روایات درج ہیں آپ کی طرف سے موصول ہوئی.جَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْراً.میں نے اس کا کافی حصہ پڑھ لیا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور حضرت بھائی صاحب کے درجات کو بلند فرمائے.یہ کتاب خدا کے فضل سے نہایت دلچسپ اور نہایت ایمان افروز ہے.بعض مقامات پر تو میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا میں اس کتاب کو پڑھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں پہنچ گیا ہوں.کئی واقعات ایسے نظر سے گزرے جو میرے چشم دید اور گوش شنید تھے لیکن میں انہیں بھول گیا تھا یا میری یاد مدھم پڑ گئی تھی.اس کتاب کو پڑھنے سے بہت سی دلکش اور روح پرور یادیں تازہ ہوگئیں.حضرت بھائی صاحب کو حضرت مسیح موعود کی قریب ترین صحبت میں رہنے کا لمبا عرصہ موقع ملا تھا.انہوں نے ہر واقعہ کو غور سے دیکھا اور ہر بات کوغور سے سنا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور پھر نہایت دلکش رنگ میں اسے بیان کیا ہے.فَجَزَاهُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء - اس جگہ اس بات کے بیان کرنے میں حرج نہیں کہ اصحاب احمد کی تین جلدیں مجھے خاص طور پر بہت پسند آئی ہیں.ایک وہ جلد جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے حالات اور روایات پر مشتمل ہے اور دوسرے وہ جلد جو حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے مشاہدات اور روایات پر مشتمل ہے اور تیسرے یہ جلد جو حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے مشاہدات اور روایات پر مشتمل ہے..میں جماعت کے دوستوں اور خصوصاً نوجوان عزیزوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اصحاب احمد کی جملہ جلد میں خرید کر ان کا مطالعہ کریں اور اپنے ایمانوں کو تازہ کریں اور خصوصیت سے مذکورہ بالا تین جلدوں کا تو ضرور مطالعہ کریں اس سے انشاء اللہ ان کو ایک نئی روشنی حاصل ہوگی.( محررہ 12 جولائی 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 5 ستمبر 1961ء)
مضامین بشیر جلد چهارم حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت 248 یہ خاکسار سوا مہینہ لاہور میں زیر علاج رہنے کے بعد رستہ میں تین دن ربوہ ٹھہرتا ہوا جابہ (نخلہ ) پہنچ گیا ہوا ہے.حضرت صاحب کو عرصہ سے نہیں دیکھا تھا اس لئے دل میں انہیں دیکھنے کی آرزو تھی.نخلہ پہنچ کر حضور سے ملاقات کی تو میں نے حضور کو پہلے سے کسی قدر کمزور محسوس کیا اور چہرہ پر کچھ نقاہت اور زردی کے آثار بھی تھے جو غالباً اس وجہ سے تھے کہ حضور قریباً اڑھائی ماہ سے اپنے کمرے کے اندر ہی رہے ہیں اور کسی وقت بھی باہر تشریف نہیں لائے.مگر خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ میرے مخلہ آنے کے دوسرے دن ہی محترم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے دل میں خیال آیا کہ حضور کو باہر کی کھلی ہوا میں لانے کی کوئی تدبیر کرنی چاہئے.چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میاں صاحب آئے ہوئے ہیں اور میں نے باہر باغ میں ان کی چائے کی دعوت کی ہے (حالانکہ ابھی تک مجھے اس کی اطلاع تک نہیں تھی ) اگر حضور بھی تشریف لائیں تو ذرہ نوازی ہوگی.خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ حضرت صاحب جھٹ راضی ہو گئے ( حالانکہ اس سے قبل حضور ایسی ہر کوشش کو رڈ فرما دیتے رہے ہیں) چنانچہ شام کے وقت حضور کو کرسی پر بٹھا کر باہر لایا گیا اور حضور چند منٹ تک باغ کی کھلی ہوا میں لکش منظر کے سامنے بیٹھے رہے اور وہیں بیٹھ کر چائے بھی نوش فرمائی.اب امید ہے ( اور خدا کرے ایسا ہی ہو ) کہ حضور کبھی کبھی اس طریق پر سیر کے لئے باہر تشریف لانے کے لئے رضامند ہو جایا کریں گے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جو شافی مطلق ہے اور جس نے خوداپنے محبوب کی زبانی فرمایا ہے کہ دنیا میں ہر بیماری کی دوا موجود ہے حضور کو اپنے فضل و کرم سے صحت عطا کرے اور جماعت کا قدم حضور کی قیادت میں ہر آن ترقی کی طرف اٹھاتا چلا جائے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.(محرره 11 ستمبر 1961ء) الْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ روزنامه الفضل ربوه 14 ستمبر 1961ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی پر ”پیغام صلح میں نا پاک حملہ 8فروری 1961ء کے اخبار ”پیغام صلح میں ایک نا پاک مضمون ” قادیانی خلافت کی دیوار گریہ کے
مضامین بشیر جلد چهارم 249 عنوان کے ماتحت کسی برقعہ پوش کے قلم سے جس نے اپنا نام سبطِ نور ظاہر کیا ہے شائع ہوا ہے اور اتفاقاً آج ہی میری نظر سے گزرا ہے.سبط نور کے الفاظ سے شبہ ہوتا ہے بلکہ ایک حد تک یقین ہوتا ہے کہ یہ دل آزار مضمون حضرت خلیفتہ امیج اول رضی اللہ عنہ کے کسی بچے کی قلم سے ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ہمارے محبوب امام اور خلیفہ اول تھے.ایسی بزرگ ہستی کی اولاد کی طرف سے ایسا گندا اور غلط استدلال سے معمور مضمون شائع ہونا بڑے صدمہ کا موجب ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے دل میں جو احترام حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا تھا اور جس محبت اور ادب کی نظر سے آپ حضرت خلیفہ ثانی کو دیکھتے تھے بلکہ انہیں پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق قرار دیتے تھے وہ سبط نور صاحب کے ماموں جان حضرت پیر منظور محمد صاحب مرحوم کے رسالہ مصلح موعودؓ سے ظاہر ہے اور جماعت کا بچہ بچہ اسے جانتا ہے بلکہ اگر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اولاد کو قسم دے کر پوچھا جائے تو وہ یقیناً اس حقیقت سے انکار کرنے کی جرات نہیں کر سکتی تو پھر اپنے والد محترم کی اتنی تعریف و توصیف اور والد کے محبوب پر اس طرح گندا چھالنے کے کیا معنی؟ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ سبط نور سالہاسال تک حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ الہ کی بیعت میں رہ چکے ہیں اور اگر میں بھولتا نہیں تو حضور کی تائید میں بعض مضامین بھی لکھ چکے ہیں اور حضور کو ایک پاکباز انسان اور اپنا خلیفہ اور امام تسلیم کرتے رہے ہیں تو پھر کیا محض اس وجہ سے کہ حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ نے امام جماعت ہونے کی حیثیت میں ان کی بعض غلطیوں کی بناء پر ان کے خلاف ایکشن لیا ساری گزشتہ باتوں کو بھلا کر حضور کے خلاف زبان طعن دراز کرنا جائز اور شرافت اور نجابت میں داخل سمجھا جا سکتا ہے؟ میرے اس سوال کے جواب میں سبط نور اپنے ضمیر اور اپنے دل سے فتوی پو چھیں اور آتی دور نہ جائیں کہ واپس آنے کا رستہ بالکل بند ہو جائے.پھر سبط نورصاحب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی موجودہ بیماری کو اپنے ناپاک طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے نعوذ باللہ مصلح موعود ہونے کا جھوٹا دعوی کیا تھا او خدا پر افترا باندھا تھا اس لئے خدا نے ان کو بہار اور لاچار اور گویا پانچ کرکے بستر میں لٹا دیا.میں نہیں مجھ سکتا کہ سبط نور کے قلم سے ایسا کمزور اور بودا اعتراض کس طرح نکلا ہے؟ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مصلح موعود والی رویا 1944ء میں دیکھی تھی جس پر اب سترہ سال کا طویل عرصہ گزرتا ہے اور اگر موجودہ بیماری کے دو سال اس میں سے نکال بھی دیئے جائیں تو پھر بھی یہ عرصہ پندرہ سال کا لمبا زمانہ بنتا ہے.کیا سبطِ نور صاحب کو اتنی موٹی سمجھ بھی حاصل نہیں کہ ان پندرہ سالوں میں تو خدا نے سبط نور کے بیان کردہ زمانہ افترا کے
مضامین بشیر جلد چهارم 250 باوجود حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی ہر رنگ میں نصرت فرمائی اور ان کے ہاتھ سے جماعت کو اور اسلام کو غیر معمولی ترقی دی اور خدا اس سارے عرصہ میں ان کی غیر معمولی طور پر مسلسل نصرت فرماتا گیا اور اب پندرہ سال گزرنے کے بعد اسے اچانک اپنا اصول یاد آیا کہ میں تو بھول کر ایک مفتری“ کی تائید کرتا آیا ہوں.الْعَجَبُ ثُمَّ الْعَجَبُ !!! بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی قیادت کے یہ پندرہ سال جو مصلح موعود کے دعوے کے بعد گزرے ہیں یہ خاص طور پر خدا کی غیر معمولی نصرت اور تائیدات سے معمور نظر آتے ہیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خلافت کا کوئی زمانہ اپنے کارناموں کی شان و شوکت کے لحاظ سے ان پندرہ سال کا مقابلہ نہیں کرسکتا.قادیان سے ہجرت تو حضرت مسیح موعود کے الہام کے مطابق مقدر تھی مگر حضرت خلیفہ المسیح کی قیادت میں ہزاروں لاکھوں کی جماعت ہجرت کے قیامت خیز فسادوں میں قریباً قریباً بالکل امن اور خیریت کے ساتھ پاکستان پہنچ گئی.قادیان کی بستی کا مقدس ترین حصہ باوجود ہجرت کے طوفانی حالات کے جماعت کے قبضہ میں رہا اور اب تک ہے.بے شمار مشکلات کے باوجود جماعت کا نیا مرکز ربوہ پوری آب و تاب کے ساتھ مع اپنے مختلف اداروں کے آباد ہوا.زنانہ ڈگری کالج کی بنیا درکھی گئی.کئی نے علمی رسالے جاری ہوئے.پھر اس عرصہ میں جماعت کے تبلیغی مشن بیرونی ممالک میں اس کثرت کے ساتھ کھلے کہ گویا دنیا بھر میں حق کی تبلیغ کا ایک مقدس جال بچھ گیا.1953ء کی خطرناک آگ میں جماعت اس طرح محفوظ رہی کہ یوں نظر آتا تھا کہ فرشتوں نے ان کے لئے اپنی رحمت کے پر پھیلا رکھے ہیں اور پھر اسی زمانہ میں تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر جیسی عظیم المرتبت کتابیں بھی شائع ہوئیں وغیرہ وغیرہ.یہ سب کچھ ان پندرہ سالوں میں ہوا جسے میاں سبط نور صاحب نعوذ باللہ افترا کا زمانہ بتا رہے ہیں.کیا اس سے بڑھ کر کوئی ظلم ممکن ہے؟ حضرت مسیح ناصری کا یہ قول کیسا سچا ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے مگر جو شخص پھل کو دیکھ کر اور چکھ کر پھر بھی درخت کو پہنچاننے سے انکار کرے اس کے متعلق ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح موعود نے افتراء کرنے والوں کے لئے تئیس (23) سال کی میعاد لکھی ہے اس لئے یہ جواب درست نہیں ایک جہالت کا اعتراض ہوگا کیونکہ حضرت مسیح موعود نے یہ میعاد مخصوص طور پر اپنے زمانہ الہام اور ماموریت کے مقابل پر بیان فرمائی ہے اور حضور کی غرض یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تو تئیس سال گزرے مگر مجھے جو آپ کا خادم ہوں الہام کا دعویٰ کرنے پر اس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے ورنہ ہر تاریخ دان جانتا ہے کہ لَوْ تَقَول والی آیت بالکل آخر میں نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ درمیانی زمانہ
مضامین بشیر جلد چهارم 251 میں اتری تھی اس لئے اصل زمانہ گنتی کے لحاظ سے تئیس سال نہیں بلکہ اس سے کافی کم بنتا ہے.علاوہ ازیں زمانہ کی تعیین سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ شروع میں تو خدا ایک مفتری کی تائید اور نصرت کرتا چلا جائے اور مخالفوں کے مقابلہ پر اس کو فتح وظفر سے نوازتار ہے اور پھر آخر میں آکر اسے اچانک پکڑ لے.یہ تو نعوذ باللہ خدا کی طرف سے دھوکا ہوگا اور دلیل ایک کھیل بن جائے گی بلکہ میعاد سے صرف یہ مراد ہے کہ کچھ وقت تک ڈھیل اور مہلت دینے کے بعد (اور اس مہلت کے عرصہ میں بہر حال خدا کی طرف سے کسی قسم کی تائید نہیں ہوتی بلکہ صرف خاموش مہلت ملتی ہے ) خدا تعالیٰ مفتری کو پکڑتا اور تباہ کر دیتا ہے.افسوس ہے کہ سبط نور صاحب اس لطیف فرق کو سمجھنے سے بھی قاصر رہے ہیں.باقی رہا بیماری کا سوال سو وہ بشری لوازمات کے ماتحت ایک طبعی امر ہے.جو شخص دنیا میں پیدا ہوتا ہے وہ بیمار بھی ہوتا ہے اور اجل پوری ہونے پر مرتا بھی ہے اس پر طعن کرتے ہوئے سبط نور صاحب کو خدا سے ڈرنا چاہئے کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے اپنی غیر معمولی تائیدات اور نفرتوں سے مصلح موعود کے دعویٰ کی تصدیق فرما دی تو اب سبط نور صاحب سے ان تائیدات الہی سے کھیلنا اچھا نہیں.خدا نے اپنے فعل سے ان پندرہ سالوں میں ایسی غیر معمولی تائیدات دکھائی ہیں اور ایسی نصرتوں کا مظاہرہ فرمایا ہے کہ ان کی نظیر ملنی مشکل ہے.حق یہ ہے کہ ان پندرہ سالوں کا ایک ایک برس اور ایک ایک ماہ خدائی نصرت کا زبردست گواہ ہے اور خدائی شہادت اعتراض کرنے والوں کے منہ پر کلنک کا ٹیکا لگا چکی ہے.اب بیہودہ اعتراضات کر کر کے اور گند اُچھال اُچھال کر اپنی شرم کو چھپانے کی کوشش کرنا اپنی سیاہی کو بڑھانے کے سوا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا.میں سبط نور صاحب اور ان کے ساتھیوں کو یہ بات بھی بتانا چاہتا ہوں کہ گواس وقت ٹانگوں کی کمزوری کی وجہ سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی چلنے پھرنے سے وقتی طور پر معذور ہیں ( اور ہمارا آسمانی آقا شفا دینے پر قادر ہے ) مگر خدا کے فضل سے حضور جماعت کے کاموں سے کٹے ہوئے نہیں بلکہ حسب ضرورت رپورٹیں سنتے ہیں اور ہدایات دیتے ہیں اور جن کا غذات پر حضور کے دستخط ضروری ہوتے ہیں ان پر اپنے ہاتھ سے دستخط فرماتے ہیں اور باہر سے آئے ہوئے مہمانوں سے ملاقات بھی کرتے ہیں (چنانچہ ابھی کل ہی افریقہ کے ایک غیر احمدی مہمان سے ملاقات فرمائی اور بیرونی تبلیغ کے کام میں خصوصیت سے دلچسپی لیتے ہیں.چنانچہ جب میں نخلہ (جابہ ) میں آیا تو مجھ سے خاص طور پر عزیز میاں مبارک احمد سلمہ کے تبلیغی دورہ یورپ اور امریکہ کے متعلق دریافت فرمایا اور بڑی دلچسپی لیتے رہے.بالآخر میں اپنے دوستوں سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ مخالفوں کے طعن اور استہزاء سے ڈرنا نہیں
مضامین بشیر جلد چهارم 252 چاہئے بلکہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے مقصد کی طرف جرات اور اعتماد کے ساتھ بڑھتے چلے جانا چاہئے.البتہ حضور کی صحت کے لئے بھی درد دل سے دعا کرنی چاہئے.ہمارا خدا شافی مطلق ہے اور اس نے اپنے رسول کی زبانی یہ بھی فرمایا ہے کہ لِكُلِّ دَاعِ دَواءٌ یعنی کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا کوئی علاج نہ ہو.پس دوست دعا کریں اور کرتے رہیں کہ ہمارا آسمانی آقا اپنے فضل سے ڈاکٹروں کو اس دوا کی طرف راہنمائی فرمائے جس میں ہمارے امام کے لئے شفا ہو اور حضور کی بیماری کے ایام میں جماعت کو ہر قسم کی کمزوری سے بچا کر رکھے اور مخالفوں کو ہدایت دے کہ وہ گند اُچھالنے سے پر ہیز کریں یا اپنی قدرت نمائی سے ان کے منہ بند کر دے کیونکہ خدا کو سب قدرت حاصل ہے.بس اس کے سوا اور اس کے بعد میں اس معاملہ میں کچھ نہیں کہوں گا.اگر در خانه کس است حرفے بس است.( محرره 14 ستمبر 1961ء) روزنامه الفضل ربوہ 19 ستمبر 1961ء) ایک ضروری تشریحی نوٹ مولوی عبد المنان صاحب کا خط اور میری طرف سے اس کا جواب کچھ عرصہ ہوا میرا ایک مضمون الفضل میں ”پیغام صلح کے ایک ایسے مضمون کے جواب میں چھپا تھا جو ایک صاحب سبط نور“ کا لکھا ہوا تھا.میں نے اس ہتک آمیز مضمون کا جواب لکھتے ہوئے اپنے مضمون میں اس خیال کا بھی اظہار کیا تھا کہ غالباً پیغام مسلح والا مضمون حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے کسی بچے یا عزیز کا لکھا ہوا ہے.اس پر مجھے مولوی عبدالمنان صاحب عمر کا ایک رجسٹر ڈ خط موصول ہوا کہ پیغام صلح والا مضمون ان کا یا ان کے کسی عزیز کا لکھا ہوا نہیں.چنانچہ میں نے ان کا یہ بریت والا نوٹ الفضل میں بھجوا دیا اور خود انہیں بھی ایک رجسٹر ڈ خط کے ذریعہ اطلاع کر دی.اس پر بعض دوستوں کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ بعض شر پسند لوگ اس خط و کتابت کے متعلق غلط فہمی پھیلا رہے ہیں اور اس بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائی ہو رہی ہے.سو دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں مولوی عبد المنان صاحب کا خط اور اپنا جواب شائع کیا جارہا ہے تا کہ دوست متعلقہ کوائف کے متعلق از خود اندازہ لگا سکیں اور کسی قسم کی غلط فہمی کا امکان نہ رہے.ذیل میں پہلے مولوی عبدالمنان صاحب کا خط
مضامین بشیر جلد چهارم اور اس کے نیچے اپنا خط بلا تبصرہ درج کیا جاتا ہے.مولوی عبد المنان صاحب کا خط بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم ل-61 ماڈل ٹاؤن.لاہور 10 اکتوبر 1961ء بخدمت مکرم صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب 253 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کا مضمون مندرجہ اخبار الفضل مؤرخہ 19 ستمبر 1961 ءزیر عنوان الْحَقُّ وَالْحَقَّ اقول “میں نے بڑے افسوس کے ساتھ پڑھا ہے.اس میں آپ نے اخبار ”پیغام صلح مؤرخہ 8 فروری 1961 ء کے مضمون ” قادیانی خلافت کی دیوار گریہ کو میرے یا برادرم عبدالوہاب عمر کی طرف منسوب کیا ہے.واقعہ یہ ہے کہ وہ مضمون نہ میں نے لکھانہ برادرم عبدالوہاب صاحب عمر نے اور نہ خاندانِ حضرت خلیفہ امبیع الاول کے کسی دوسرے فرد نے ، نہ ہمارے ایما اور علم ہی سے وہ لکھا گیا.ہماری طرف اس مضمون کو منسوب کر کے آپ نے ”سوء ظن سے کام لیا ہے.اس لئے مہربانی فرما کر اخبار الفضل“ میں آپ اپنی طرف سے اس کی تردید شائع کروا دیں.اگر آپ کی طرف سے یہ تردید شائع نہ ہو تو کیا میں سمجھ لوں کہ آپ ہماری مخالفت میں اتنی دور نکل گئے ہیں کہ آپ کے لئے واپسی کے سب راستے بند ہو چکے ہیں.والسلام " خاکسار - عبدالمنان عمر میرا جواب 10 اکتوبر 1961ء بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود مکرم مولوی عبد المنان صاحب عمر السلام علیکم
مضامین بشیر جلد چهارم 254 آپ کا رجسٹر ڈ خط محر ر ہ 10 اکتوبر 1961 ء موصول ہوا.مجھے اس خط سے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ جو نا پاک سلسلہ مضامین سبط نور کے قلمی نام سے ”پیغام صلح ، میں شائع ہورہا ہے اس میں آپ کا یا آپ کے بھائی صاحب کا یا آپ کے کسی عزیز کا دخل نہیں ہے اور نہ یہ مضامین آپ کے ایما سے لکھے جا رہے ہیں.شکر ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اولاد کا کم از کم اس ناپاک سلسلۂ مضامین سے تعلق نہیں ہے.باقی رہا سوء ظن کا سوال جس کے متعلق آپ نے لکھا ہے سو یہ سوء ظن کا سوال نہیں بلکہ غلط فہمی کا سوال ہے کیونکہ حالات پیش آمدہ میں میرے لئے اس معاملہ میں غلط فہمی پیدا ہونا ناگزیر تھا.کیونکہ سبط نور“ کے لفظ سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اولاد کی طرف ہی خیال جاتا ہے.کیونکہ اور کوئی ایسا خاندان میرے علم میں نہیں جو ” نور“ یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب کی اولاد میں سے ہو اور اس نام سے معروف ہو.آپ نے اچھا کیا کہ اس غلط فہمی کو جو بے شمار دلوں میں پیدا ہوئی ہے اپنے خط کے ذریعہ دور کر دیا ہے.میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آئندہ بھی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اولا د کو ایسے ناپاک مضامین سے دور رکھے.مگر آپ کے خط کی ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی.میں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ آپ اتنی دور نہ جائیں کہ واپسی کا رستہ بند ہو جائے اس کا مطلب واضح تھا کہ چونکہ آپ کا تعلق خلافت سے کٹ چکا ہے اس لئے میں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ اس قطع تعلق میں اتنی دوری نہ پیدا ہو کہ آپ کے لئے واپسی کا رستہ مسدود ہو جائے اور آپ خلافت کی طرف واپس نہ لوٹ سکیں.آپ نے میرے فقرے کو الٹا کر میرے متعلق بھی یہی فقرہ دہرا دیا ہے کہ میں بھی اتنی دور نہ جاؤں کہ میرے لئے بھی واپسی کا رستہ بند ہو جائے.میں یہ فقرہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کیونکہ جہاں آپ کی حالت میں خلافت سے علیحدگی کی صورت میں ایک بڑا تغیر آیا ہے وہاں میں تو بفضلہ تعالیٰ شروع سے لے کر ایک ہی مقام پر چلا آیا ہوں یعنی حضرت مسیح موعود کو ظنی اور غیر تشریعی نبی مانتا ہوں اور خلافت سے وابستہ ہوں.پس میرے متعلق تو واپسی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.آپ نے غالباً صرف جوابی طور پر میرے والا فقرہ بلا وجہ دہرا دیا ہے.بہر حال شکر ہے کہ اصل غلط فہمی جو حالات پیش آمدہ کے ماتحت ناگزیر تھی آپ کے خط سے دور ہوگئی ہے.مگر میں یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ اگر آپ کے لئے ممکن ہو اور آپ کو ان مضامین کے لکھنے والے سبط نور
مضامین بشیر جلد چهارم 255 صاحب کا علم ہو کہ وہ کون صاحب ہیں تو ان کو نصیحت کریں کہ آئندہ اس قلمی نام سے اجتناب کریں تا کوئی مزید غلط نہیں نہ پیدا ہو.خاکسار - مرزا بشیر احمد 14 اکتوبر 1961ء روزنامه الفضل ربوہ 21 اکتوبر 1961ء)......خدام الاحمد یہ راولپنڈی ڈویژن کے اجتماع پر پیغام مجالس خدام الاحمدیہ راولپنڈی کے چوتھے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا: ” برادران خدام الاحمد یہ راولپنڈی ڈویژن ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ صاحبان کی طرف سے صوفی رحیم بخش صاحب قائد علاقائی کا خط موصول ہوا جس میں مجھ سے حسب سابق خدام کے اجتماع کے لئے پیغام کی خواہش کی گئی ہے.اول تو میں آج کل بیمار ہوں دوسرے میں ڈرتا ہوں کہ یہ پیغام طلبی اور پیغام رسانی کا سلسلہ کہیں ایک رسم بن کر نہ رہ جائے اور رسموں سے میں بہت گھبراتا ہوں اور اپنے عزیزوں کو بھی اس سے بچانا چاہتا ہوں.لیکن چونکہ راولپنڈی کی جماعت ان جماعتوں میں سے ہے جن کے ساتھ مجھے خاص محبت ہے اس لئے بادل نخواستہ ان کی خواہش کو پورا کر رہا ہوں.اگر آئندہ اس سلسلہ کو سال وار کی بجائے گاہے گاہے کی حد تک محدود رکھا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا یا پیغام بھیجنے والے اصحاب کے انتخاب میں ہر سال تبدیلی ہوتی رہے تاکہ ان کے پیغام باسی نہ ہونے پائیں اور تازگی کی مہک قائم رہے.بہر حال اس وقت میرا پیغام یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک زمانہ سے روز افزوں دوری کی وجہ سے نیز حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیماری کے نتیجہ میں جماعت کے ایک طبقہ میں تربیت کے لحاظ سے کمزوری پیدا ہو رہی ہے.دوسری طرف جوں جوں نسلی احمدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے توں توں اس کمزوری کی رفتار بھی لازما تیز ہوتی جارہی ہے.ان حالات میں آپ لوگوں کا فرض ہے کہ زیادہ توجہ دے کر اور خاص انتظامات کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں.
مضامین بشیر جلد چهارم 256 دراصل ہمارے ذمہ دو کام ہیں ایک تبلیغ اور دوسرے تربیت.یہ دونوں کام ایسے ہیں جیسے کہ رتھ کے دو پیسے ہوتے ہیں جن کے بغیر رتھ کا چلنا محال ہے.البتہ جب کسی وجہ سے کسی جگہ تبلیغ کے کام میں کوئی وقتی روک پیدا ہو جائے تو اس وقت ایک تو تربیت کی طرف زیادہ توجہ دینی شروع کر دینی چاہئے تا کہ جماعت میں ستی اور بیکاری کے آثار نہ پیدا ہوں اور دوسرے بالواسطہ تبلیغ کے رنگ میں ان غلط فہمیوں کے دور کر نے میں لگ جاتا چاہئے جو عوام کی طرف سے ہمارے متعلق ہمیشہ پھیلائی جاتی ہیں.میں یقین کرتا ہوں کہ اگر ہمارے دوست ان دو تد بیروں کو اختیار کریں گے تو صداقت کی ترقی اور اشاعت میں انشاء اللہ کبھی روک پیدا نہیں ہوگی اور محمد یوں کا قدم ایک بلند مینار کی طرف اٹھتا چلا جائے گا اور یہی اس وقت خدائے عرش کی اہل تقدیر ہے.(محرره 17 اگست 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 19 ستمبر 1961ء) نواب زادہ میاں عبداللہ خان صاحب مرحوم اخویم نواب زادہ میاں عبداللہ خان صاحب مرحوم کی وفات پر کثیر التعداد بھائیوں اور بہنوں نے ہمدردی کے تار اور خط بھجوائے ہیں اور کئی ادارہ جات کی طرف سے بھی ہمدردی کے ریزولیوشن پہنچے ہیں.میں ان سب کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہوں اور جَزَاكُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہتا ہوں.میاں عبداللہ خان صاحب ہمارے نسبتی بھائی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کا شرف رکھتے تھے.اس تعلق کی وجہ سے ان کے ساتھ پچاس سال کے طویل عرصہ میں قریب ترین واسطہ رہا اور میں نے انہیں ہمیشہ بہت شریف، بہت متواضع ، بہت نیک اور بہت دیندار پایا.نماز کے بڑی سختی کے ساتھ پابند تھے اور دعاؤں میں خاص شغف رکھتے تھے اور اسلام اور احمدیت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار رہتے تھے.اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی زوجہ محترمہ (ہماری چھوٹی ہمشیرہ) اور نو بچوں کا دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو اور انہیں اپنے مقدس نانا اور دادا اور باپ کی نیک صفات کا وارث بناۓ.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 24 ستمبر 1961ء) روزنامه الفضل ربوه 26 ستمبر 1961ء)
مضامین بشیر جلد چهارم احمدیت کا بطل جلیل حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم و مغفور 257 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ کا الہام ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصهرَ وَالنَّسَب.یعنی شکر گزار ہوا اپنے خدا کا جس نے سرال اور باپ دادا دونوں کی طرف سے تیرا رشتہ اچھی نسل کے ساتھ جوڑا ہے.حضرت میر محمداسحاق صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود کے اسی صہری رشتے کی ایک مقدس کڑی تھے اور ہندوستان کے مشہور صوفی منش بزرگ حضرت خواجہ میر درد کی نسل میں سے تھے.وہ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی تھے اور رضاعت کے رشتے میں حضرت اماں جان کے فرزند بھی تھے.اس طرح ان کے ساتھ ہمارا دوہرا رشتہ تھا.یعنی ایک جہت سے وہ ماموں تھے اور دوسری جہت سے بھائی بھی تھے.ہمارے نانا جان مرحوم حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ غیر معمولی امتیاز بخشا کہ ان کی ایک لڑکی اور دولڑ کے ( اور یہی ان کی گل اولاد تھی ) آسمانِ ہدایت پرستارہ بن کر چمکے اور جس میدان میں قدم رکھا اس میں کمال پیدا کیا.ہمارے بڑے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم گو بظاہر دنیوی تعلیم کی طرف ڈالے گئے اور بالآخر نہایت قابل سول سرجن بن کر سروس سے ریٹائر ہوئے مگر ان کا بھی اصل میدان عمل دین تھا.انہوں نے تصوف میں بہت بڑا درجہ حاصل کیا اور اپنے پیچھے نظم ونثر کا ایسا پُر معارف کلام چھوڑا جو جماعت کی رگوں میں مدتوں تک زندگی کا تازہ اور گرم خون پیدا کرتا رہے گا.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے تصوف کے مقابل پر ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے دین کا ظاہری علم حاصل کیا اور اس کو کمال تک پہنچا دیا.حتی کہ ان کے اس دینی کمال اور دینی خدمات کی وجہ سے ہمارے بڑے ماموں صاحب کے دل میں ان کی اتنی عزت تھی کہ جب حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے اپنی مرض الموت میں ایک قے کی اور اُس قے کے چھینٹے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کے کوٹ پر بھی پڑے تو انہوں نے ان چھینٹوں کو دھونے سے انکار کر دیا اور اپنے اس کوٹ کو اپنے چھوٹے بھائی کے تبرک کے طور پر اپنے پاس محفوظ کر لیا.حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی عقل نہایت درجہ تیز اور دل و دماغ کی طاقتیں انتہائی طور پر روشن
مضامین بشیر جلد چهارم 258 تھیں.مناظرہ میں ان کو یہ کمال حاصل تھا کہ اپنی نو جوانی میں بھی جہان دیدہ اور کہنہ مشق مخالفوں کو چند منٹ میں خاموش کرا کے رکھ دیتے تھے.1918ء میں جبکہ وہ ابھی بالکل نوجوان تھے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایده اللہ بنصرہ نے انہیں بمبئی میں تبلیغ کے لئے بھیجا اور اس سفر میں یہ خاکسار بھی ان کے ساتھ تھا.وہاں ایک بڑے جہان دیدہ بوڑھے پادری نے غیر احمدی مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا لیکن جب حضرت میر محمد اسحاق صاحب کا اس کے ساتھ مناظرہ ہوا تو ان کے سامنے یہ خرانٹ پادری ایک طفلِ مکتب نظر آیا اور مسلمان نوجوانوں نے خوش ہو کر حضرت میر محمد اسحاق صاحب کو گو یا اپنے ہاتھوں میں اُٹھالیا.جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے حضرت میر محمد اسحاق صاحب کا دماغ بڑا صاف اور بڑا روشن تھا.وہ جب بظاہر ایک کمزور بات پر بھی بولنے لگتے تھے تو مضبوط بات کے حاملین ان کے سامنے لاجواب ہو کر رہ جاتے تھے.ایک لطیفے کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت میر صاحب نے قادیان میں وفات وحیات مسیح ناصری پر اپنے شاگردوں کا ایک مناظرہ کرایا.اس مناظرہ کی غرض مناظرے کے میدان میں نو جوانوں کی ٹرینینگ تھی.جماعت کے دوست جانتے ہیں کہ احمدیوں میں وفات مسیح کا مسئلہ اتنا واضح ہو چکا ہے اور اتنی پختہ اور قطعی دلیلوں سے ثابت ہے کہ ایک بچہ بھی جو تعصب سے خالی ہو اس کا انکار نہیں کرسکتا.لیکن چونکہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم بچوں کو مشق کرانے کے خیال سے حیات مسیح کی تائید کرنے والی پارٹی کی طرف سے کھڑے ہو گئے تھے اس لئے انہوں نے اپنے مصنوعی دلائل سے مجلس میں ایسا سماں باندھا کہ بعض کم واقف اور کمزور طبیعت نوجوان پریشان ہو کر بول اٹھے کہ کیا مسیح ناصری واقعی زندہ تو نہیں ہیں؟ مجلس مشاورت میں حضرت میر صاحب کی تقریریں سننے سے تعلق رکھتی تھیں اور جب وہ بولنے کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گھنے بادلوں سے گھرا ہوا آسمان دیکھتے ہی دیکھتے بادلوں کی تاریکی سے بالکل صاف ہو گیا ہے اور کسی بادل کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا.جماعت احمدیہ کے مختلف صیغوں میں سے حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کو دو صیغوں میں خاص طور پر نمایاں خدمت کا موقع ملا.اول بطور ناظر ضیافت کی حیثیت میں اور دوسرے ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ کی حیثیت میں.اور ان دونوں میں ان کا کام اتنا کامیاب اور اتنے شاندار اور اتنے خوبصورت نتائج کا حامل تھا کہ آج تک بعد میں آنے والا کوئی افسران کی گرد کو بھی نہیں پہنچا.ناظر ضیافت کی حیثیت میں وہ یوں نظر آتے تھے کہ گویا ایک گھر کا بزرگ بیٹھا ہوا اپنے بچوں اور عزیزوں اور دوستوں کی مہمانی سے لطف اندوز ہورہا اور ان کو لطف اندوز کر رہا ہے.وہ اکثر جب کسی باہر سے آنے والے دوست کو رستے میں دیکھتے تھے تو اُسے پکڑ کر مہمانخانہ
مضامین بشیر جلد چهارم 259 میں لے آتے تھے کہ چلو پہلے حضرت مسیح موعود کے لنگر میں کھانا کھاؤ اور آرام کرو اور پھر کسی اور جگہ جانا.مہمانوں کی خدمت اور ان کی دلداری اور ان کا اکرام حضرت میر صاحب مرحوم کی روح کی غذا تھی.اگر کبھی صدرانجمن کا بجٹ ختم ہو جاتا تو وہ پھر بھی اپنی مہمانی کے فرائض اُسی محبت اور اُسی جوش و خروش سے جاری رکھتے اور پرائیویٹ چندہ کے ذریعہ مالی کمی کو پورا کر لیتے اور ان کے چندوں کی اپیل ہمیشہ کامیاب رہتی تھی.ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ ہونے کی حیثیت میں بھی حضرت میر محمد اسحاق صاحب کا کام بڑا نمایاں اور شاندار تھا.وہ مدرسہ کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے ، ان سے محبت کرتے ، ان کی دلداری کرتے ، ان کی خدمت کرتے اور غریب بچوں کی مالی امداد کا انتظام بھی کرتے.اور اگر کہیں سفر پر جاتے تو بعض بچوں کو تربیت کی خاطر اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور اپنے عزیزوں کی طرح ان کا خیال رکھتے.ان کے زمانہ کی یہ ایک خصوصیت تھی کہ چونکہ حضرت میر صاحب خود تقریر کے فن میں کمال رکھتے تھے اس لئے ان کی تربیت میں کئی بچے بہت عمدہ مقرر اور عمدہ مناظر بن گئے.اور نوجوان طلباء کی ہمتیں اتنی بلند ہو گئیں کہ کہنہ مشق مولویوں اور پادریوں اور پنڈتوں کے ساتھ ٹکر لینے کے لئے تیار ہو جاتے تھے.درس و تدریس کا بھی حضرت میر صاحب کو بے حد شوق بلکہ عشق تھا.ان کا حدیث کا درس اب تک سننے والوں کے کانوں میں گونج پیدا کر کے ان کے دلوں کو گرما رہا ہے اور ان کی نگاہیں اس ذوق و شوق اور محبت سے درس دینے والے کو بے تابی سے ڈھونڈتی ہیں مگر نہیں پاتیں.حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی ایک خاص یادگار دار الشیوخ تھی.جس میں غریب اور معذور بچے بلکہ بعض بوڑھے بھی کافی تعداد میں رہتے تھے اور حضرت میر صاحب اپنی پرائیویٹ کوشش کے ذریعہ ان کے اخراجات وغیرہ مہیا کر کے انہیں تعلیم دلاتے تھے اور اپنے عزیزوں کی طرح ان کی دیکھ بھال کرتے تھے اور نابینا بچوں کو قرآن مجید کے حفظ کرانے کا انتظام بھی کرتے تھے.حافظ محمد رمضان صاحب جن کی رمضان کے مہینے میں کئی شہروں کی طرف سے مانگ رہتی ہے وہ حضرت میر صاحب مرحوم کی کریمانہ اور رحیمانہ توجہ ہی کا ایک پھل ہیں.افسوس کہ حضرت میر صاحب کی عمر نے زیادہ وفا نہیں کی اور وہ چون 54 سال کی عمر میں ہی جو ایک طرح سے گویا جوانی کی عمر ہے جماعت کو داغ مفارقت دے گئے.ان کی وفات سے تعلق رکھنے والا ایک واقعہ مجھے نہیں بھولتا.جب حضرت میر صاحب اپنے بچپن کے زمانہ میں ایک دفعہ بیمار ہوئے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعا کرنے پر حضور کو ان کے متعلق قرآنی آیت کے الفاظ میں یہ الہام ہوا تھا کہ
مضامین بشیر جلد چهارم 260 سلم قَوْلاً مِّن رَّبِّ رَّحِيمٍ (یس): 59) اور وہ اس خدائی بشارت کے ماتحت اُس وقت صحت یاب ہو گئے لیکن جب ان کی مقدرا جل آ گئی تو یہ عجیب تو ارد ہے بلکہ غیر معمولی تصرف الہی ہے کہ ان کے پہلو میں یسین پڑھنے والے دوست (غالباً حافظ محمد رمضان صاحب ہی تھے ) جب اس آیت پر پہنچے کہ سلم قف قَوْلاً مِّن رَّبِّ رَّحِيمٍ (يس: 59) تو عین اُس وقت حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے خدائی آواز پر لبیک کہا اور اپنی جان جان آفرین کے سپر د کر دی.گویا یہی قرآنی آیت بچپن کے زمانہ میں میر صاحب کی دنیوی زندگی کی بشارت بنی اور اجل مقدر کے وقت اُخروی زندگی کی کامیابی کی بشارت بن گئی.ان کی وفات پر جماعت کا غریب طبقہ اور خصوصاً دار الشیوخ اور مدرسہ احمدیہ کے طلبہ کا طبقہ اس طرح بلک بلک کر روتا تھا کہ گویا وہ سچ مچ یتیم ہوگیا ہے.اور واقعی وہ ایک طرح سے آج تک بھی یتیم ہی چلا جارہا ہے.ہمارا آسمانی آقا ان یتیموں کا حافظ و ناصر ہو.وَ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُوالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.( محررہ 9 جولائی 1961ء).........(الفرقان ربوہ ستمبر اکتوبر 1961ء) میں اپنی طرف سے حج بدل کرانا چاہتا ہوں مخلص دعا گو اصحاب مقامی امیر کی معرفت درخواست بھیجوائیں حج کی خواہش کس سچے مسلمان کو نہیں مگر میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے اپنی اس خواہش کو اس وقت تک ملتوی کرتا رہا اور اب صحت کی یہ حالت ہے کہ حج بدل کے سوا چارہ نظر نہیں آتا.سو جو مخلص احمدی دوست میری طرف سے حج بدل کرنے کے لئے تیار ہوں وہ اپنی جگہ کے مقامی امیر یا ضلع وار امیر کے ذریعہ درخواست بھجوا کر عنداللہ ماجور ہوں.درخواست میں ان باتوں کے متعلق صراحت ضروری ہے: (1) درخواست کنندہ کی بیعت کب کی ہے؟ (2) عمر اور صحت کی حالت کیسی ہے؟ ( حج سمندری جہاز کے رستہ کرنا ہوگا ) (3) کیا اس سے پہلے اپنی طرف سے حج کیا ہوا ہے؟ (4) امیر مقامی کی طرف سے تصدیق ہونی چاہئے کہ درخواست کنندہ نیک اور متقی اور دعاؤں کا عادی ہے.(5) دیگر متفرق امور جو درخواست میں لکھنے ضروری سمجھے جائیں.
مضامین بشیر جلد چهارم 261 دوست دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ میری طرف سے مجوزہ حج بدل قبول فرمائے اور مجھے اس کے بہترین اجر سے نوازے.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ یکم اکتوبر 1961ء) روزنامه الفضل ربوہ 14اکتوبر 1961ء) 41 سیرت ابن ہشام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں ”سیرت ابن ہشام سب سے زیادہ قدیم ،سب سے زیادہ مستند اور سب سے زیادہ مفصل سوانح عمری ہے جو دوسری صدی ہجری میں لکھی گئی.اس کا اردو ایڈیشن حال میں نہایت نفاست کے ساتھ شائع ہوا ہے.اس کتاب کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے اپنے ایک گرامی تار میں حسب ذیل رائے کا اظہار فرماتے ہیں : سیرت ابن ہشام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں زمانہ کے لحاظ سے دوسرا درجہ رکھتی ہے.پہلے درجہ پر امام زہری کا مجموعہ تھا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ترین زمانہ پایا تھا مگر ان کی تصنیف اب نہیں ملتی اس لئے سیرت ابن ہشام کو ہی اول درجہ حاصل ہے.یہ کتاب بڑی مبسوط اور بڑی جامع ہے اور اس کی اکثر باتیں چشم دید روایات پر مبنی ہیں جنہیں مشہور مؤرخ ابن اسحاق نے جمع کیا تھا اور ان کی کتاب نا پید ہونے پر ابن ہشام نے اس مجموعہ کو دوام کی زندگی عطا کی.ابن ہشام کی روایات بڑی مفصل اور بڑی جامع اور بڑی ہمہ گیر ہیں.یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی ساری روایات درست ہیں مگر اس میں کلام نہیں کہ یہ ایک بڑی قابلِ قدر کتاب ہے.آپ نے اس کتاب کو اردو میں پیش کر کے مسلمانوں پر اور اردو لٹریچر پر بڑا احسان کیا ہے.جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.عبارت بہت سلیس اور سادہ اور با محاورہ ہے اور آپ کی طرف سے فٹ نوٹوں نے اس کتاب میں مزید خوبی اور دلکشی پیدا کر دی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو سیرت ابن ہشام بہت پسند تھی.حضور کی کتاب "فصل الخطاب“ کے اکثر واقعات ابن ہشام سے ماخوذ ہیں.حضور نے اپنی ”سیرت ابن ہشام کے نسخے پر جابجا
مضامین بشیر جلد چہارم اپنے قلم سے نوٹ کئے ہوئے تھے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں.(محرره 6 جولائی 1961 ء) 262 روزنامه الفضل ربوہ 8 اکتوبر 1961 ء) ہفتہ تحریک جدید کے موقع پر اہل ربوہ کے نام پیغام دوستو اپنی ذمہ داری کو پہچانو اور تبلیغ اسلام کیلئے بڑھ چڑھ کر چندہ دو مکر می جنرل سیکرٹری صاحب تحریک جدید لوکل انجمن احمد یہ ربوہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ نے تحریک جدید کے ہفتہ کے لئے جو کم اکتوبر سے شروع ہورہا ہے مجھ سے کوئی پیغام مانگا ہے.پیغاموں کے مطالبہ میں غیر معمولی کثرت پیدا ہو جانے کی وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ یہ بھی ایک رسم بن کر نہ رہ جائے.اور جہاں رسم بنتی ہے وہاں عام طور پر حقیقت غائب ہو جایا کرتی ہے.لیکن چونکہ تحریک جدید کے چندہ سے دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا شاندار کام ہو رہا ہے جو حضرت مسیح موعود کی بعثت کا عین مقصد ہے اس لئے میں ثواب کی خاطر سے شریک ہورہا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس ہفتہ کو کامیاب بنائے اور مومنوں کے دلوں پر اس رنگ میں فرشتوں کا نزول ہو کہ خدا کے رستہ میں تبلیغ اسلام کی خاطر زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.یہ کام بہر حال جماعت احمدیہ کا ہے اگر ہم اس کام کو نہیں کریں گے اور اس بوجھ کو نہیں اٹھا ئیں گے تو خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ پھر میں تم سے اس نعمت کو چھین کر کسی اور کے سپرد کر دوں گا.پس دوستو! اپنی ذمہ داری کو پہچانو اور تبلیغ اسلام کے لئے بڑھ چڑھ کر چندہ دو.جن دوستوں نے ابھی تک تحریک جدید کا چندہ نہیں لکھایا وہ آگے آئیں اور اپنی حیثیت اور اخلاص کے مطابق اپنا وعدہ لکھا ئیں بلکہ ممکن ہو تو وعدہ کے ساتھ ہی ادا ئیگی بھی کر دیں.اور جن دوستوں نے وعدہ تو لکھایا ہوا ہے مگر وہ وعدہ ان کی حیثیت کے مطابق نہیں وہ اپنے وعدہ کی رقم کو بڑھا کر اپنے اخلاص کا ثبوت دیں اور صرف لہولگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش نہ کریں.اور جن دوستوں نے وعدہ تو لکھایا ہوا ہے اور وعدہ ہے بھی ان کی حیثیت کے مطابق مگر ابھی تک انہوں نے اپنے وعدہ کی رقم ادا نہیں کی وہ جلد تر اپنے وعدہ کی رقم ادا کر کے اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں.اسلام کا غلبہ تو بہر حال ہوکر رہے گا مگر خوش قسمت ہے وہ انسان جو اس غلبہ
مضامین بشیر جلد چهارم میں حصہ دار بن کر خدا کے سامنے سرخرو ہو اور اس کی نعمتوں کا وارث بنے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.( محرره 23 ستمبر 1961 ء) 263 روزنامه افضل 18 اکتوبر 1961ء) نگران بورڈ کا اجلاس منعقدہ یکم اکتوبر 1961ء بعض اہم اصلاحی فیصلہ جات نگران بورڈ کا چھٹا اجلاس یکم اکتوبر 1961ء کو وکیل المال تحریک جدید ربوہ کے کمرے میں منعقہ ہوا.تمام ممبران یعنی شیخ بشیر احمد صاحب اور مرزا عبدالحق صاحب سرگودھا اور چوہدری محمد انور حسین صاحب شیخوپورہ اور شیخ محمد احمد صاحب لائکپور (فیصل آباد ) اور صدر مجلس وقف جدید اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر ، صدر انجمن احمد یہ ربوہ اور حافظ عبدالسلام صاحب قائم مقام وکیل اعلیٰ تحریک جدید ربوہ اور خاکسار مرزا بشیر احمد شریک اجلاس ہوئے.(1) دعا کے بعد سب سے پہلے حضرت خلیفہ المسح الانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تونی ارشاد محررہ 61-9-16 جس میں حضور نے نگران بورڈ کے متعلق وضاحت فرمائی کہ اسے ہر صیغہ کا معائنہ کرنے اور نگرانی کرنے اور مسلوں کو دیکھنے کا اختیار ہے پڑھ کر سنایا گیا اور ریکارڈ کیا گیا.(2) اس کے بعد نگران بورڈ نے اتفاق رائے سے اس دلی خوشی کا اظہار کیا کہ گوجرانوالہ میں جو چار ضلعوں کے خدام کا تربیتی اجتماع گزشتہ دنوں ہوا ہے وہ خدا کے فضل سے بہت کامیاب رہا ہے اور اس کی وجہ سے اس علاقے کے نو جوانوں میں نئی زندگی کی لہر اور کام کا نیا جذبہ پیدا ہوا ہے.نگران بورڈ تجویز کرتا ہے کہ اس قسم کے اجتماعات مختلف مرکزوں میں ضرور وقفے وقفے کے ساتھ ہوتے رہنے چاہئیں تا کہ جماعت کی بیداری اور نو جوانوں کی تربیت کا موجب ہوں.اسی طرح جو اجتماع عہدیداران جماعت ضلع شیخو پورہ کا گزشتہ دنوں میں شیخو پورہ میں ہوا ہے وہ بھی خدا کے فضل سے بہت کامیاب اور مفید اور نتیجہ خیز رہا ہے.اسی طرح کراچی اور راولپنڈی اور دیگر مقامات کے اجتماعات بھی ایک عرصہ سے بفضلہ تعالیٰ نہایت کامیاب نتائج پیدا کر رہے ہیں.فیصلہ کیا گیا کہ نگران بورڈ کی طرف سے جماعت میں تحریک کی جائے کہ خدام اور
مضامین بشیر جلد چهارم 264 انصار اللہ اور عہدیداران جماعت کے اجتماعات مناسب موقع پر مناسب مقامات میں ضرور وقتا فوقتا منعقد کئے جائیں تا کہ وہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور عہدیداران جماعت کی تربیت اور بیداری کا موجب ہوں اور نیکی اور خدمت اور قربانی اور اتحاد جماعت کے جذبے کو ترقی دیں.(3) صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی گئی کہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں مسیحی مشنریوں کی تبلیغی مساعی کا زور ہو رہا ہے اور جیسا کہ بعض اخباری رپورٹوں سے ظاہر ہے نا واقف مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنی جہالت اور اسلامی تعلیم سے ناواقفیت کی وجہ سے عیسائیت کی آغوش میں جارہا ہے.اس تحریک کو زیادہ تر دووجہ سے تقویت حاصل ہوئی ہے.ایک تو امریکن ایڈ کی وجہ سے جس کے نتیجہ میں ملک میں امریکن مشنریوں کا گویا سیلاب آ رہا ہے.دوسرے اس وجہ سے کہ ملک میں حکومت کے سکولوں کی تعداد بہت کم ہے اور مسلمان بچے اور بچیاں مجبور عیسائی سکولوں میں (خواہ وہ امریکن ہیں یا کہ دوسرے عیسائی سکول ) داخلہ لینے کا رستہ تلاش کرتے ہیں اور پھر کچی عمر میں خاموش طور پر عیسائیت کے خیالات اور تمدن سے متاثر ہوتے ہیں.نگران بورڈ میں فیصلہ کیا گیا کہ اس کے متعلق جماعت کی طرف سے بھی اور حکومت کو توجہ دلانے کے ذریعہ بھی مناسب اور مؤثر تدابیر اختیار کی جائیں.(4) فیصلہ کیا گیا کہ صدرانجمن احمدیہ کو توجہ دلائی جائے کہ کوہ مری میں ایک تبلیغی مرکز ، ایک لائبریری کے قیام کے متعلق مناسب تدابیر اختیار کرے.نوٹ : اس کے علاوہ بعض انفرادی کیسوں میں فیصلہ کیا گیا اور بعض مزید اصلاحی تجاویز بھی کی گئیں جن کی تکمیل کے بعد ان کی اشاعت ہو سکے گی.( محررہ 5 اکتوبر 1961ء)........روزنامه الفضل ربوه 12 اکتوبر 1961ء) 44 حضرت سید فضل شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ صاحبہ کی وفات کل بتاریخ 16 اکتو بر عزیز ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب کی والدہ سیدہ سکینہ بی بی صاحبہ کا جنازہ لاہور سے آیا وہ ربوہ کے مقبرہ بہشتی میں دفن کی گئیں.مرحومہ حضرت سید فضل شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادم اور اول درجہ کے مخلص اور درویش منش بزرگ تھے.مرحومہ نے شروع میں ہی یعنی اپریل 1906ء میں وصیت کر دی تھی چنانچہ ان کی وصیت کا نمبر 150 تھا جس میں
مضامین بشیر جلد چهارم 265 چار اصحاب شامل تھے یعنی حضرت سید فضل شاہ صاحب اور ان کی اہلیہ اور حضرت شاہ صاحب کے بھائی حضرت سید ناصر شاہ صاحب مرحوم اور ان کی اہلیہ.انہوں نے وصیت کے ساتھ ہی وصیت کی رقم بھی ادا کر دی تھی اور گو حضرت شاہ صاحب مرحوم بیعت میں زیادہ قدیم تھے مگر خود مرحومہ کی بیعت بھی کافی پرانی تھی اس لئے صحابہ کے قطعہ خاص میں دفن ہوئیں.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے اور ان کی اولاد کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.وفات کے وقت قمری حساب سے عمر غالباً قریباً پچاسی سال تھی.مجھے اس وقت حضرت سید فضل شاہ صاحب مرحوم کا ایک دلچسپ اور روح پرور واقعہ یاد آ رہا ہے جو انہوں نے مجھے خود بھی سنایا تھا اور بعض دوسرے دوستوں سے بھی سنا گیا.واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک قادیان میں تشریف رکھتے تھے اور حضور کے پاس چند خدام بیٹھے تھے جن میں شاہ صاحب مرحوم بھی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس وقت فرمایا کہ مجھے اسی وقت کشفی طور پر یہ نظارہ دکھایا گیا ہے کہ ان حاضر الوقت لوگوں میں سے بعض میری طرف پیٹھ دے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ فرما کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندرونِ خانہ تشریف لے جانے لگے.اس پر سید فضل شاہ صاحب مرحوم بے قرار ہو کر حضور کے پیچھے گئے اور حضور کا دامن پکڑ کر قریباً روتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت! میں اور وں کے متعلق نہیں پوچھتا مگر خدا کے لئے مجھے یہ بتادیں کہ ان پیٹھ دینے والے لوگوں میں میں تو نہیں ہوں؟“ حضرت مسیح موعود مسکرائے اور فرمایا ”نہیں شاہ صاحب آپ ان میں نہیں ہیں اور یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے.اللہ اللہ! کیا زمانہ تھا اور یہ کس پائے کے بزرگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہوئے.( محرره 17 اکتوبر 1961 ء) LO روزنامه الفضل ربوہ 19 اکتوبر 1961 ء) مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1961ء پر افتتاحی خطاب نو جوانوں اور عزیزوں کو بعض نصائح عزیزان کرام! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مضامین بشیر جلد چہارم 266 اس وقت میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ کے اجتماع کے افتتاح کے لئے حاضر ہوا ہوں.جیسا کہ شاید آپ صاحبان کو علم ہے میں ایسے اجتماعوں میں شرکت کا عادی نہیں ہوں اور علیحدہ بیٹھ کر تحریری خدمت بجالانے یا دفتر میں انتظامی فرائض ادا کرنے پر اکتفا کرتا ہوں.مگر اس وقت امام کے حکم کے ماتحت اپنی طبیعت اور مزاج کے خلاف حاضر ہو گیا ہوں.سب سے اول تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اس اجتماع سے غیر حاضری میرے دل میں بلکہ ہم سب کے دل میں ایک بے چین کرنے والی یاد پیدا کر رہی ہے.کیونکہ خدام الاحمدیہ کے نظام کے بانی مبانی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہی تھے جنہوں نے تئیس سال ہوئے 1938ء میں اس مبارک نظام کی بنیاد رکھی جو خدا کے فضل سے نوجوانوں میں زندگی کی روح پھونکنے اور خدمت کا جذبہ پیدا کرنے اور اتحاد اور تعاون کا سبق دینے میں نہایت درجہ مؤثر اور کامیاب ثابت ہوا ہے.پس سب سے پہلے میں حاضر الوقت خدام سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آؤ اس وقت ہم سب مل کر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی صحت کے لئے دعا کریں تا کہ خدا کے فضل سے حضور پھر پہلے کی طرح ایسے اجتماعوں میں شریک ہو کر اپنے روح پرور خطابوں سے احمدی نوجوانوں کو گرمایا کریں.اس کے ساتھ ہی دوسری ضروری دعاؤں کو بھی شامل کر لیا جائے.اس وقت سب حاضرین نے مل کر اجتماعی دعا کی ) اس کے بعد میں اپنے نوجوان عزیزوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی عمر کے اس دور کو غنیمت سمجھو.بے شک عام حالات میں یہ عمر غفلت کی عمر سمجھی جاتی ہے مگر جو نو جوان اس عمر میں اپنے فرض کو پہچانیں اور اپنے ایمان اور اپنے عمل کو درست رکھیں اور جماعت اور اس کے نظام کے ساتھ پختہ طور پر منسلک رہ کر اپنے آپ کو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید وجود بنا ئیں وہ یقیناً خدا کے فضلوں سے غیر معمولی حصہ پائیں گے.ایک دفعہ ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا مومن افضل ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا وہ شخص سب سے افضل ہے جس کی نوجوانی کی عمر تقویٰ اور دین داری میں گزرے.پس عزیز و خوش ہو کہ آپ عمر کے اس دور میں ہیں جس میں آپ ذراسی کوشش اور تھوڑی سی توجہ سے بھاری افضلیت کا درجہ پاسکتے ہیں.آپ کو یا درکھنا چاہئے کہ خلافت ثانیہ کا دور زیادہ تر نوجوانوں کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا.کیونکہ جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی خدا کی مشیت کے ماتحت خلیفہ چنے گئے تو اس وقت آپ کی عمر صرف پچیس سال کی
مضامین بشیر جلد چهارم 267 تھی جو گویا ایک طرح سے بچپن کی عمر ہے.اور جب نظارتیں قائم ہوئیں تو آپ کے ساتھ ناظروں کے عہدوں پر کام کرنے والے بھی زیادہ تر نوجوان ہی تھے.چنانچہ جب ابتداء 1921ء میں نظارتیں بنی تو ابتدائی ناظروں میں چوہدری فتح محمد سیال صاحب مرحوم اور مولوی عبدالرحیم صاحب در د مرحوم اور سید ولی اللہ شاہ صاحب اور یہ خاکسار شامل تھے.اور میری اور درد صاحب مرحوم کی عمر اس وقت ستائیس اٹھائیس سال سے زیادہ نہیں تھی مگر ہم نے خدا کے فضل سے حضور کی قیادت میں نظارتوں کے کام کو اس طرح سنبھالا کہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں ( وَلَا فَخْرَ ) کہ اس وقت کی نظارت آج کل کی نظارت سے بحیثیت مجموعی زیادہ مضبوط اور زیادہ چوکس اور زیادہ متحد تھی.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ مشاورت میں ایک ناظر کی رپورٹ پیش ہونے پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بڑی خوشی کے ساتھ فرمایا تھا کہ یدر پورٹ ایسی ہے کہ بڑی بڑی حکومتوں کے تجربہ کاروزیروں کے رپورٹوں کے ساتھ مقابلہ کر سکتی ہے.پھر یہ تو مسلمان جانتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) نے خدا کے حکم سے رسالت کا دعوی کیا تو اس وقت بھی آپ کے ماننے والوں میں اکثر نوجوان ہی تھے.چنانچہ حضرت علی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی عمریں دس سال سے لے کر تئیس چوبیس سال کے اندر اندر تھیں مگر انہی نوجوانوں نے ایمانی قوت سے متصف ہو کر دنیا کی کایا پلٹ دی.حدیث میں آتا ہے کہ بدر کے مقام پر جب دشمن رسول ابو جہل جو کفار کے لشکر کا سالار اعظم تھا بڑے جاہ وحشمت کے ساتھ میدان میں نکلا اور اس کے ارد گرد جرار سپاہیوں کا پہرہ تھا تو انصار کے دو نو خیز نو جوانوں نے جن کی عمریں ہیں اکیس سال سے زیادہ نہیں تھیں دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے اس پر اس تیزی کے ساتھ حملہ کیا کہ اس کے پہرہ داروں کے دیکھتے دیکھتے اسے گرا کر خاک میں ملا دیا.پس اے عزیز و! آپ اپنے آپ کو چھوٹا یا حقیر نہ سمجھیں.آپ کے اندر خدا کے فضل سے وہ برقی طاقت پنہاں ہے جو دنیا میں انقلاب پیدا کر سکتی ہے.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ اپنی قدر و قیمت کو پہچانیں اور اپنے ایمان میں وہ پختگی اور اپنے علم وعمل میں وہ روشنی پیدا کریں جو سچے مومنوں کا طرہ امتیاز ہے.بے شک آپ اپنی عمر کے تقاضا کے ماتحت کھیلیں کو دیں.ورزشی اور تفریحی باتوں میں حصہ لیں اور دنیا کے کاروبار میں حصہ لیں اور دنیا کے کاروبار کریں مگر آپ کے دل میں ایمان کی شمع ہر وقت روشن رہنی چاہئے اور نماز اور دعا کے ذریعہ آپ کے دل کی تاریں ہر لحظہ خدا کے ساتھ بندھی رہیں کہ جدا ہونے کا نام نہ لیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بار ہا سنا ہے کہ مومن کا اصل مقام یہ ہوتا ہے:
مضامین بشیر جلد چهارم دست با کار و دل بایار 268 یعنی سچے مومن کی علامت یہ ہے کہ ہاتھ تو اس کا کام میں لگا ہوا ہو خواہ یہ دنیا کا کام ہو یا دین کا ) مگر اس کا دل ہر وقت خدا کے ساتھ بندھا رہے.یقینا خدا کے تعلق کا بہترین ذریعہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال اور لاکھوں کروڑوں مومنوں کے تجربہ سے پتہ لگتا ہے یہی ہے کہ انسان کو خدا کے حضور دعاؤں میں گرے رہنے کی عادت ہو اور ظاہری اسباب کو اختیار کرنے کے باوجود اس کا دل اس یقین سے معمور رہے کہ جو کچھ ہو گا خدا کے فضل سے ہی ہوگا.پس اے عزیز و خوب دل لگا کر اور سنوار سنوار کر نمازیں پڑھو اور دعاؤں کی عادت ڈالو اور ہر کام میں خدا کی نصرت کے طلب گار رہو.آپ لوگ نو جوان ہیں.آپ کے دل میں طبعا دنیا کی ترقی کی امنگیں بھی ہوں گی اور اسلام دنیا میں ترقی کرنے سے نہیں روکتا بلکہ قرآن مجید نے خود یہ دعا سکھائی ہے کہ : رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَ فِي الآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ یعنی اے ہمارے خدا! تو ہمیں دنیا کی نعمتوں سے بھی حصہ دے اور آخرت کی نعمتوں سے بھی حصہ دے اور ہمیں دین و دنیا میں ناکامیوں اور مایوسیوں کی سوزش سے بچا کر رکھ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ خدام الاحمدیہ خدا کے فضل سے اچھا کام کر رہے ہیں اور ان کے اندر عام طور پر بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں.لیکن یہ بیداری ابھی تک ایسی کامل بیداری نہیں ہے جس پر پوری تسلی کا اظہار کیا جا سکے.بعض جگہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور اتحاد کو سخت دھکا لگتا ہے.بعض نوجوان شہروں کی فضا سے متاثر ہو کر اسلام اور احمدیت کی تعلیم پر عمل کرنے میں ستی دکھاتے ہیں اور بعض میں نمازوں کی وہ پابندی نہیں پائی جاتی جو احمد بیت کا شعار ہے.اور بعض کا دنیا داری کی طرف حد اعتدال سے زیادہ رجحان ہے.اور بعض خدام الاحمدیہ کے کام میں اتنی دلچسپی نہیں لیتے جتنی کہ انہیں لینی چاہئے وغیرہ وغیرہ.ان سب مستیوں کو دور کرنا چاہئے اور نہ صرف اپنے محاسبہ سے اپنی ذاتی سستی کو دور کرنا چاہئے بلکہ اپنے دوستوں اور ہمسائیوں پر نظر ڈال کر جس جس احمدی نوجوان میں کوئی اخلاقی یا دینی کمزوری پائی جائے اسے علیحدگی میں سمجھا کر اور نصیحت کر کے اور غیرت دلا کر اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.یہ درست ہے کہ بعض اوقات نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لئے یا زیادہ نقص کی صورت میں اصلاح کی غرض سے تعزیری کا رروائی کرنی پڑتی ہے مگر ہم لوگ چونکہ ایک جمالی مامور ومرسل کے دور میں ہیں اس لئے ہمیں زیادہ تر محبت اور نصیحت اور غیرت دلانے سے اصلاح کا کام لینا چاہئے اور سزا کی طرف صرف
مضامین بشیر جلد چہارم 269 اس وقت رجوع کرنا چاہئے کہ جب اس کے سوا چارہ نہ ہو اور ایک خراب عضو کی وجہ سے دوسرے اعضا کے خراب ہونے کا خطرہ پیدا ہو جائے.حال ہی میں جو خدام الاحمدیہ کے مقامی اور علاقائی اجتماعوں اور تربیتی کورسوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے یہ سلسلہ خدا کے فضل سے بہت ہی مبارک اور مفید نتائج پیدا کر رہا ہے.اور میں دیکھتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں اکثر نو جوانوں میں کافی حرکت اور بیداری کے آثار پائے جاتے ہیں.سو اس سلسلہ کو مزید ترقی دینی چاہئے تا کہ نوجوانوں میں علمی معلومات کے اضافہ کے علاوہ تنظیم اور قوت عمل اور اتحاد کی روح ترقی کرے.اور خدام کو چاہئے کہ ایسے اجتماعوں میں بعض معتمر بزرگوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کو بھی شامل کر کے ان کی نصیحتوں سے فائدہ اٹھائیں.خدام الاحمدیہ کے اجتماعوں اور تربیت کی کلاسوں کے تعلق میں میں اس بات پر خاص زور دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے نو جوانوں کو تقریر اور تحریر میں خاص مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ نے انسان کو زبان اور قلم کے دوز بر دست آلے عطا کئے ہیں اور اس زمانہ میں ان کی قدر و منزلت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور دین و دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لئے زبان و قلم کا اچھا استعمال بہت ضروری ہو گیا ہے.میں اس زمانہ میں بچہ تھا مگر مجھے آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب صحابی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا تقریر وتحریر میں کمال نہیں بھولتا.ان کی زبان اور قلم دونوں میں غضب کا جادو تھا اور ان کی تقریر سننے والا اور تحریر پڑھنے والا گویا وجد میں آجاتا تھا.اگر ہمارے بچے اور ہمارے نو جوان بچپن اور نو جوانی کی عمر سے ہی اپنے ان دو فطری جو ہروں کو مشق کے ذریعہ اُجاگر کرنے کی کوشش کریں تو وہ ملک و ملت کے بہترین خادم بلکہ اگر خدا کا فضل شامل حال ہوتو خادم سے مخدوم بن سکتے ہیں.میں اس جگہ خدام الاحمدیہ سے اسلامی پردے کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں خواہ یہ موقع بظاہر اس کے لئے لا تعلق ہی سمجھا جائے.میں اس مردانہ اجتماع میں پردے کا ذکر اس لئے کرنے لگا ہوں کہ اول تو پردہ میں غض بصر اسلامی پردے کی روح ہے جو سب کے لئے یکساں ہے.پس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ موجودہ بے پردگی کے دور میں غض بصر کے حکم پر بڑی احتیاط اور مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں اور کسی غیر محرم عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھیں.اور اگر کبھی اتفاقا نظر اٹھ جائے تو فوراً نظریں نیچی کر لیں.اس سے انشاء اللہ ان کے اندر تقویٰ کی روح ترقی کرے گی اور ان کے نفسوں میں غیر معمولی پاکیزگی پیدا ہوگی اور ضبط نفس کا مادہ بڑھے گا اور ان کا کریکٹر بلند ہو جائے گا.دوسرے خدام الاحمدیہ کو یہ بھی چاہئے اور یہ ایک بڑی
مضامین بشیر جلد چهارم 270 ضروری قومی خدمت ہے کہ اگر ان کی بہنیں یا دوسری قریبی رشتہ دار لڑکیاں ہائی کلاسوں یا کالجوں میں پڑھتی ہوں اور وہ بیرونی فضا یا آزاد صحبت کے اثر کے ماتحت پر دے کے معاملہ میں غیر محتاط ہورہی ہوں تو نصیحت اور مناسب نگرانی کے ذریعہ ان کے اس غیر اسلامی رجحان کو روکیں.اسلامی پردہ عورتوں کی تعلیم اور ترقی میں ہرگز روک نہیں بنتا.اسلام صرف زینت کے برملا اظہار اور مردوں اور عورتوں کے نا واجب اختلاط کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور اس میں غیور احمدی بچوں کو ہما را ہاتھ بٹا کر ثواب کمانا چاہئے.خدام الاحمدیہ میں ایک شعبہ خدمت خلق کا بھی ہے.یہ شعبہ بھی بڑا مبارک اور اسلامی تعلیم کے عین مطابق ہے.بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق آپ لوگ خلق“ کے مفہوم میں انسانوں کے علاوہ جانوروں تک کو بھی شامل کریں.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک فاحشہ عورت نے ایک ایسے پیاسے کتے کو پانی پلایا جو پیاس کی شدت کی وجہ سے مر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسی نیکی کی وجہ سے اسے بخش دیا اور یہ تو مجھے کہنے کی ضرورت نہیں کہ خدمت خلق میں صرف احمد یوں کی خدمت ہی ملحوظ نہ رکھی جائے بلکہ جیسا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی بار ہارتا کید فرما چکے ہیں یہ خدمت دلی خلوص کے ساتھ ساری قوموں اور ساری ملتوں تک وسیع ہونی چاہئے اور احمدی غیر احمدی، عیسائی، ہندو،سکھ بلکہ کسی مذہب کے ادنیٰ سے ادنی فرد کو بھی اس سے باہر نہ رکھا جائے.کیونکہ یہ سب خدا کی مخلوق ہونے کی وجہ سے خلق کے مفہوم میں شامل ہیں.میں تو بعض اوقات اپنے ذوق کے مطابق خدام الاحمدیہ کے معنے ہی یہ کیا کرتا ہوں کہ وہ احمدی نوجوان جو ساری دنیا کے خادم ہیں.اس خدمت میں یقیناً ہر مذہب وملت کے یتامیٰ اور بیوگان کی خدمت اور غریبوں اور بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت بدرجہ اولی شامل ہے.مگر ایک بات اس خدمت خلق میں ضرور ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جہاں کوئی بڑا حادثہ سیلاب وغیرہ کی صورت میں وسیع پیمانہ پر پیش آئے تو وہاں انفرادی خدمت بجالانے کی بجائے بہتر طریق یہ ہوگا کہ اپنی خدمات علاقہ کے سرکاری انسروں کو پیش کر دی جائیں تا کہ ایک تنظیم کے ماتحت یکجائی طور پر وسیع پیمانہ پر خدمت ہو سکے.خدام الاحمدیہ کے کاموں میں ایک خاص کام وقار عمل بھی ہے.مجھے افسوس ہے کہ اب اس کام کی طرف جماعت کے ایک حصہ میں پہلے جیسی توجہ نہیں رہی.حالانکہ یہ کام نہ صرف بہت مفید ہے اور اس سے ملک وملت کی خدمت بجالانے کا بہت عمدہ موقع ملتا ہے بلکہ اس کام حصہ لینے والوں کا ذاتی کیریکٹر بھی بنتا ہے اور تکبر اور بڑائی کا خیال دور ہو کر اخوت اور مساوات اور ہاتھ سے کام کرنے کی روح ترقی کرتی ہے.پس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ اس کام میں ہرگز مستی نہ پیدا ہونے دیں اور جہاں بھی کوئی ایسی خدمت کا موقع
مضامین بشیر جلد چہارم 271 پیدا ہو وقار عمل کے ذریعہ فوراً آگے آجائیں اور اپنی ظاہری حیثیت اور اپنے سوشل مقام کو بھول کر مزدوروں کی طرح کام کریں.تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی موقعوں پر مسجدوں کی تعمیر میں یا جہاد کی کاروائیوں میں عام مزدوروں کی طرح کام کیا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ انتہائی انکساری سے فرماتے ہیں کہ : میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شاملِ حال ہوا ہے.پس اس خدائے قادر وکریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مُشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 410) پس جب ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سرور کونین اور شہنشاہِ دو عالم تھے اور ہمارے سالارِ قافلہ حضرت مسیح موعود جو حضور کے نائب اور مسیح محمدی تھے ایک مزدور کا لباس پہنے میں کوئی عیب نہیں دیکھتے بلکہ اس خدمت کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں تو ہمیں جو آپ کے ادنی خدام ہیں خدا کے رستے میں خدمت خلق کے لئے بیلچہ ہاتھ میں لے کر اور مٹی کی ٹوکریاں سر پر اٹھا کر مزدور بننے میں کیا عذر ہو سکتا ہے؟ بس اسی پر میں اپنے اس خطاب کو ختم کرتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس اجتماع کو دین ودنیا کے لحاظ سے بابرکت کرے اور آپ کا ربوہ میں چند دن کا قیام مفید نتائج پیدا کرنے والا ثابت ہو.اور جب آپ یہاں سے واپس جائیں تو آپ کی جھولیاں خدا کے فضل اور رحمت سے بھری ہوئی ہوں.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ (محررہ 20 اکتوبر 1961ء) ایک غلطی کا ازالہ روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 4 نومبر 1961ء) خدام الاحمدیہ کے افتتاحیہ مقالہ میں ایک ضروری تفصیح میں نے جو افتتاحیہ مقالہ خدام الاحمدیہ کے مرکز یہ اجتماع میں 20 اکتوبر 1961 ء کور بوہ میں پڑھا تھا ( جوالفضل کی اشاعت مؤرخہ 4 نومبر میں چھپ چکا ہے) اس کے متعلق ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ اس میں جو ابتدائی ناظروں کے نام بیان کئے گئے ہیں اور نیز نظارتوں کے قیام کی جو تاریخ لکھی گئی ہے اس
مضامین بشیر جلد چهارم 272 میں کچھ غلطی واقع ہوگئی ہے.سو یہ درست ہے کہ نظارتوں کا قیام 1921ء میں نہیں ہوا تھا بلکہ 1919ء میں ہوا تھا اس لحاظ سے میری عمر اس وقت ستائیس اٹھائیس سال کی بھی نہیں تھی بلکہ صرف پچیس سال کی تھی اور محترم درد صاحب مرحوم اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال مرحوم اور محترم سید ولی اللہ شاہ صاحب بالکل ابتدائی ناظروں میں شامل نہیں تھے بلکہ کچھ عرصہ بعد میں شامل کئے گئے تھے.البتہ یہ خاکسار ابتدائی ناظروں میں شامل تھا اور میرے علاوہ حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مرحوم اور حضرت مولوی عبد المغنی خان صاحب مرحوم ناظر مقرر کئے گئے تھے مگر دوسرے نوجوان بھی جلد شامل ہو گئے تھے دراصل میر انشاء اس افتتاحیہ میں کسی واقعہ کی معین تاریخ بیان کرنا نہیں تھا بلکہ عمومی رنگ میں نو جوانوں کو خدمت دین کی تحریک کرنا اصل مقصد تھا اور یہ بھی درست ہے کہ اس مقالہ کے لکھنے کے وقت میرے ذہن میں سارے نام محفوظ بھی نہیں تھے.بہر حال میں ان دوستوں کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے ایک تاریخی اصلاح کی طرف توجہ دلائی.دوست یہ اصلاح نوٹ فرما لیں.( محرره 10 نومبر 1961ء) روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 12 نومبر 1961ء) حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ کی بعض احباب سے ملاقاتیں یہ ایک حقیقت ہے کہ چونکہ احباب جماعت حضرت خلیفة البیع الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی علالت کی وجہ سے آج کل حضور کی ملاقات کا زیادہ موقع حاصل نہیں کرتے اس لئے طبعا اپنے اخلاص کی وجہ سے اس معاملہ میں کافی تشنگی محسوس کرتے ہیں اور اس بات کی آرزور رکھتے ہیں کہ حضور کی صحت کے متعلق روز مرہ کی مختصر طبی رپورٹ کے علاوہ کبھی کبھی انہیں حضور کی خاص خاص ملاقاتوں کے حالات بھی پہنچتے رہیں.اس غرض کے ماتحت میں نے کچھ عرصہ ہوا جب حضرت صاحب نخلہ میں تشریف رکھتے تھے ایک چائے کی پارٹی کا ذکر کیا تھا جو محترم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے حضور کی فرودگاہ کے متصل باغ میں دی تھی اور حضور اس میں شامل ہو کر کافی وقت تک ایک کرسی پر تشریف فرما رہے تھے.میرا یہ نوٹ الفضل میں
مضامین بشیر جلد چهارم چھپ چکا ہے.273 اب ذیل میں عزیز مرزا طاہر احمد سلمہ کی مہیا کردہ رپورٹ کی بناء پر بعض اور خوش کن ملاقاتوں کا ذکر درج کیا جاتا ہے.یہ بات تو جماعت کو معلوم ہی ہے کہ حضور اس بیماری میں بھی حسب حالات یعنی جب بھی طبیعت بہتر ہو خلص دوستوں سے ملاقات فرماتے رہتے ہیں.چنانچہ اسی دستور کے مطابق حضور نے 8 نومبر 1961ء کو بھی بعض احباب کو ملاقات کا موقع عطا فرمایا اور بڑے سکون اور خوشی کے ساتھ گفتگو فرماتے رہے.سب سے پہلے حکیم خلیل احمد صاحب مونکھیری کے داماد یعنی محمد اختر حفیظ صاحب نے جو کراچی سے تشریف لائے تھے حضور سے ملاقات کی.یہ ملاقات چند منٹ تک جاری رہی اور اس ملاقات کے دوران میں حضرت صاحب حکیم خلیل احمد صاحب کا تذکرہ فرماتے رہے اور اپنی قدیم یادداشت کی بناء پر فرمایا کہ ایک زمانہ میں حکیم صاحب مونگھیر کے ایک اشد مخالف احمدیت کے اعتراضوں کا بہت عمدہ جواب اخباروں میں بھجوایا کرتے تھے.اس کے بعد مشرقی بنگال کے تین مخلص واقف زندگی طلباء یعنی عبد السلام صاحب اور محمد مسلم صاحب اور انیس الرحمان صاحب کی ملاقات ہوئی.ان کی ملاقات کے دوران میں حضور محترم مولوی عبدالواحد صاحب مرحوم آف برہمن بڑ یہ بنگال اور مکرم چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم اور مکرم مولوی محمد صاحب سابق امیر جماعت ہائے بنگال کا محبت کے ساتھ ذکر فرماتے رہے.سب سے آخر میں حاجی محمد فاضل صاحب ربوہ ملاقات کے لئے آئے.حاجی صاحب چونکہ پنجابی کے شعروں میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں.انہوں نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے چند پنجابی شعر سنانے کی اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر قریباً دس منٹ تک اپنی ایک پنجابی نظم سناتے رہے.جس میں افریقہ اور یورپ اور امریکہ وغیرہ میں احمدی مجاہدین کی شاندار قربانیوں اور کارناموں کا ذکر تھا.حضرت صاحب حاجی صاحب کے مخصوص انداز بیان پر ہنستے بھی رہے.الغرض یہ ساری ملاقاتیں بہت دلچسپ اور مسرورکن رہیں.احباب جماعت کو چاہئے کہ حضرت صاحب کی صحت کے لئے خاص طور پر دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جو شافی مطلق ہے حضور کو پھر پہلے جیسی طاقت اور قوت اور یکسوئی کے ساتھ جماعت کی راہنمائی کی طاقت عطا فرمائے اور حضور گزشتہ کی طرح احباب کو زیادہ کثرت کے ساتھ لمبی لمبی ملاقاتوں میں اپنی زریں
مضامین بشیر جلد چہارم ہدایتوں سے نواز سکیں.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.(محرره 9 نومبر 1961ء ) 274 روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 12 نومبر 1961ء).......وو 48 مباحثہ مصر کے متعلق دو گرامی نامے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے تحریر فرماتے ہیں کہ مولوی ابوالعطاء صاحب نے مجھے اپنے ایک دیرینہ ” مباحثہ مصر“ کا نسخہ دیا ہے.یہ اس مناظرے کی روئیداد ہے جو بعض نامور عیسائی پادریوں کے ساتھ مسیحیت کے بعض عقائد کے متعلق مولوی صاحب نے مصر میں کیا تھا.مناظرہ تو خیر کا سر صلیب کے شاگرد ہونے کی وجہ سے کامیاب ہونا ہی تھا مگر مجھے اس مناظرہ کی روئیداد پڑھنے سے حیرت ہوئی کہ مولوی صاحب نے اس مختصر سے مناظرہ میں کتنا مواد بھر دیا ہے.یہ مناظرہ یقیناً ان احمدی مبلغوں کے بہت کام آسکتا ہے جن کا مسیحی مشنریوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہو.( محرره 4 نومبر 1961ء) بچوں کی نیک تربیت (الفرقان ربوہ دسمبر 1961ء) محترمه مدیره صاحبه رسالہ ” مصباح نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ ”مصباح“ کا ایک تربیتی نمبر نکالنا چاہتی ہیں.اور انہوں نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں اس نمبر کے لئے کوئی مختصر سا نوٹ لکھ کر ارسال کروں.آجکل مجھے بلڈ پریشر کی زیادتی کی تکلیف ہے اور دورانِ سر کا عارضہ بھی رہتا ہے.دوسری طرف جلسہ سالانہ کے قرب کی وجہ سے کام بھی زیادہ ہے مگر میں اس کار خیر کی شرکت سے محروم بھی نہیں رہنا چاہتا.اس لئے چند سطریں مصباحی بہنوں کے لئے لکھ کر بھجوا رہا ہوں.میرے دل و دماغ پر یہ خیال ہمیشہ غالب رہا ہے کہ بعض لحاظ سے تربیت کا پہلو تبلیغ کے پہلو سے بھی زیادہ ضروری اور اہم ہے کیونکہ اگر ہم تبلیغ کے ذریعہ ساری دنیا کو بھی مسلمان بنا لیں یا سارے مسلمانوں کو
مضامین بشیر جلد چہارم 275 احمدی کر لیں مگر وہ پکے اور سچے مسلمان نہ ہوں تو ایسے لوگوں کا ہمیں چنداں فائدہ نہیں بلکہ اس قسم کے لوگ اسلام اور احمدیت کی بدنامی کا موجب ہو سکتے ہیں.لیکن اگر تعداد تو تھوڑی ہو مگر مسلمان ہونے والے یا احمدی بننے والے پکے اور مخلص ہوں تو خدا کے فضل سے اس قسم کی تھوڑی تعداد بھی بڑی طاقت کا موجب ہو سکتی ہے اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ باذن اللهِ (البقره: 250) یعنی کتنے ہی تھوڑی تعداد کے لوگ ہوتے ہیں جو خدا کے حکم سے ( یعنی اس کے احکام پر عمل کر کے ) بڑی بڑی تعداد والوں پر غالب آ جاتے ہیں.پس تربیت کا سوال بڑا ضروری ہے اور بڑا اہم ہے اور مجھے بڑی خوشی ہے کہ مدیرہ صاحبہ رسالہ ” مصباح “ نے اس کی طرف خاص توجہ دینے کا ارادہ کیا ہے.خدا کرے کہ وہ اس ارادہ میں کامیاب ہوں اور احمدی ماؤں میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ وہ اپنے بچوں میں اور خصوصاً اپنی لڑکیوں میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم بچپن کے زمانہ میں ہی ایسی راسخ کردیں کہ وہ اسلام کی جیتی جاگتی تصویر بن جائیں اور انہیں دیکھ کر لوگ خوش ہوں کہ اُن کے چہروں پر دینداری اور روحانیت کا نور نظر آتا ہے.یا د رکھنا چاہئے کہ تربیت کا زمانہ بچے کی ولادت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے.اسی لئے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے پیدا ہوتے ہی اس کے دائیں کان میں اذان کے الفاظ دُہرائے جائیں اور اُس کے بائیں کان میں اقامت کے الفاظ دُہرائے جائیں.اس حدیث میں اذان ایمان کی قائم مقام ہے اور اقامت عمل کی قائم مقام ہے.گویا یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے ایمان اور عمل کی تربیت کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور ماں باپ کو شروع سے ہی اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے.بعض والدین اس غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ تو گویا صرف گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے اور بعد میں بھی وہ کئی سال تک دینی اور اخلاقی باتوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا.مگر ایسا خیال کرنا بڑی غلطی ہے.حقیقت یہ ہے کہ غیر شعوری طور پر ولادت کے ساتھ ہی تاثر اور تاثیر کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور والدین کا فرض ہے کہ اسی زمانہ سے بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں اور نگرانی شروع کر دیں.آجکل علم النفس کی ترقی نے بھی یہی بات ثابت کی ہے جو ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے بظاہرامی ہونے کے باوجود عرب کے صحراء میں فرمائی تھی کہ بچہ کی ولادت کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا انتظام کرو.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو
مضامین بشیر جلد چهارم 276 یہ فرمایا ہے کہ ماؤں کے قدموں کے نیچے بچوں کے لئے جنت ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر مائیں بچپن سے ہی بچوں کی اچھی تربیت کریں اور ان کے اعمال کی نگرانی رکھیں تو وہ ان کو جنت کے رستہ پر ڈال کر ابد الآباد کی نعمتوں کا وارث بنا سکتی ہیں.پس میں اپنے اس مختصر سے نوٹ کے ذریعہ احمدی ماؤں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بچپن سے ہی بلکہ بچوں کی ولادت کے ساتھ ہی ان کی تربیت کا خیال رکھنا شروع کر دیں اور ان کو ایسے رستہ پر ڈال دیں جو جنت کا رستہ ہے تا کہ بڑے ہو کر وہ اسلام اور احمدیت کے بہادر سپاہی بن سکیں اور ان کے دلوں میں خدا کی محبت اور رسول کی محبت اور مسیح موعود کی محبت ایسی راسخ ہو جائے کہ وہ اس کے لئے ہر جائز قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں.تربیت کے معاملہ میں ماؤں کو جن خاص باتوں کا خیال رکھنا چاہئے وہ خدا کے فضل سے قرآن مجید میں تفصیلی طور پر مذکور ہیں اور حضرت مسیح موعود کی کتاب کشتی نوح اور ملفوظات میں بھی ان پر خاص زور دیا گیا ہے.احمدی ماؤں کو چاہئے کہ ان کتابوں کو پڑھیں اور پھر بچوں کی تربیت میں ان کتابوں میں درج شدہ ہدایات پر عمل کریں.اس خاکسار کے دو رسالے بھی تربیت کے معاملہ میں ماؤں کے اچھے مددگار بن سکتے ہیں اور احمدی مائیں ان سے بھی کافی فائدہ اٹھا سکتی ہیں.ان رسالوں نام یہ ہیں.(1) اچھی مائیں (2) جماعتی تربیت اور اس کے اصول.مختصر طور پر احمدی ماؤں کو چاہئے کہ اپنے بچوں میں خصوصیت کے ساتھ مندرجہ ذیل صفات پیدا کرنے کی کوشش کریں.یعنی خدا اور رسول اور مسیح موعود کی محبت.خلافت کے ساتھ وابستگی.نماز کی پابندی.دعاؤں کی عادت.سچ بولنے کی عادت.جماعت کی مالی امداد میں حصہ لینا.بوقت ضرورت اسلام اور احمدیت کے لئے ہر جائز قربانی کے واسطے تیار رہنا.تبلیغ اسلام کا جذبہ.دیانت داری.گالی گلوچ سے پر ہیز.ہمدردی خلق اللہ.مرکز کی طرف سے جاری شدہ تنظیموں یعنی اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ میں منظم ہوکر رہنا وغیرہ وغیرہ.نیز احمدی والدین کو یہ بھی چاہئے کہ جب وہ جلسہ سالانہ یا دوسرے اجتماعوں کے وقت مرکز میں آئیں تو حتی الوسع اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائیں اور ان کو سلسلہ کے مختلف ادارے دکھا کر بتائیں کہ یہاں خدمتِ دین کا یہ یہ کام ہوتا ہے تاکہ ان کے دل میں دلچسپی اور وابستگی پیدا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ
مضامین بشیر جلد چهارم سے بھی ملا ئیں.277 سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ماں باپ کا یہ فرض ہے کہ ہمیشہ اپنے بچوں کی دینی اور دنیوی بہتری کے لئے خدا کے حضور در ددل سے دعائیں کرتے رہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ سب احمدی والدین ضرور ایسا کرتے ہوں گے لیکن جس بات پر میں اس جگہ خاص زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ احمدی والدین کو چاہئے کہ اپنی دعاؤں میں صرف دنیا کی ترقی کو ہی مد نظر نہ رکھیں بلکہ لازماً اپنے بچوں کی دینی اور روحانی ترقی کی دعا کو بھی اپنی روزمرہ کی دعاؤں میں شامل کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ ماں باپ کی دعا بچوں کے حق میں خاص طور پر زیادہ قبول ہوتی ہے اور وہ والدین بڑے بدقسمت ہیں جو اپنے بچوں کو ان دعاؤں سے محروم رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنے کی توفیق دے تا کہ جماعت کی آئندہ نسلیں ہمیں بدنام کرنے والی نہ بنیں بلکہ اسلام اور احمدیت کے نام کو روشن کرنے والی بنیں اور ہم خدا کے حضور سرخرو ہو کر پہنچیں.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ محررہ 18 نومبر 1961ء) (ماہنامہ مصباح ربوہ دسمبر ، جنوری 62-1961ء) مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع پر بصیرت افروز افتتاحی خطاب برادران کرام! انصار اللہ کی ہمہ گیر اصطلاح اور اس کے اہم تقاضے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں انصار اللہ کے اجتماع کا افتتاح کروں.کسی دینی اور علمی اور تربیتی اجتماع میں شرکت کرنا تو بہر حال بڑی خوشی اور برکت کا موجب ہے اور میں اپنے لئے اسے اخروی سعادت کا باعث سمجھتا ہوں لیکن میں چند دن سے بلڈ پریشر کی تکلیف میں مبتلا ہوں اور طبیعت میں یکسوئی نہیں پاتا.علاوہ ازیں مجھے انصار اللہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ ہی بہت حجاب رہتا ہے ایک تو اس لئے کہ میں خود بھی انصار اللہ میں شامل ہوں اور اس ذمہ داری کے لحاظ سے اپنی کمزوریوں کو اچھی طرح جانتا ہوں اور دوسرے اس لئے کہ انصار اللہ کا لفظ ایسے بلند و بالا مفہوم کا حامل ہے کہ ان کی حقیقی
مضامین بشیر جلد چهارم 278 ذمہ داریوں کو شمار کرنا اور انہیں نیکی کی طرف بلانا کوئی آسان کام نہیں ہے.خدام الاحمدیہ کے فرائض تو وقتاً فوقتا خلیفہ وقت کی طرف سے معین کئے جاتے ہیں اور خدام الاحمدیہ کا نام بھی ان کے فرائض کی تعیین کرنے کے لئے کافی ہے.مگر انصار اللہ کی اصطلاح اتنی وسیع اور اتنی ہمہ گیر ہے کہ اس کی تشریح کرنا ایک بہت مشکل امر ہے.انصار اللہ کے معنے ہیں” خدا کے مددگار اور چونکہ خدا ایک غیر محدود ہستی ہے اور اس کی صفات بھی غیر محدود ہیں اور اس کا کام بھی غیر محدود ہے اس لئے انصار اللہ کے کام کا دائرہ بھی حقیقتاً غیر محدود ہے.حق یہ ہے کہ جو جو کام خدا دنیا میں اپنے رسولوں کے ذریعہ لینا چاہتا ہے وہ سب انصار اللہ کے دائرہ عمل میں آتے ہیں.دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی ایسی صفات ہیں جن کا اس دنیا کے نظام کے ساتھ تعلق ہے ان سب میں انصار اللہ کوخدا کا مظہر بنا چاہئے.اس کے بغیر کوئی شخص کامل طور پر انصار اللہ نہیں کہلا سکتا.مگر میں اس جگہ مخصوص طور پر اس مقصد کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے لئے ہمارے آقاو سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث کئے گئے کیونکہ یہی انصار اللہ کا حقیقی کام ہے کہ وہ اپنے آپ کو اُس بلند و بالا مقصد کا اہل بنائیں جو ان مقدس ہستیوں کی بعثت میں مرکوز ہے اور نہ صرف اپنے آپ کو اس کا اہل بنائیں بلکہ حکیمانہ تبلیغ وتلقین اور عمدہ تربیت کے ذریعہ دوسروں کے اندر بھی اس مقصد کی اہلیت پیدا کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ ( الجمعه : 3) یعنی ہمارا یہ رسول لوگوں کو خدائی احکام وفرائض کی تعلیم دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اُن کو ان احکام کی حکمت اور ان کا فلسفہ بھی سکھاتا ہے اور ان کے اندر طہارت اور پاکیزگی اور تقویٰ پیدا کرتا ہے اور ان کی ترقی کے سامان مہیا فرماتا ہے.یہ وہ عظیم الشان مقصد ہے جس کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں انصار اللہ نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اس مقصد کو حاصل نہ کرے.وہ دین کو سیکھے اور دوسروں کو سکھائے.وہ دینی احکام کی حکمت اور فلسفہ کو سکھے اور دوسروں کو سکھائے.وہ اپنے نفس کو ہر قسم کی اخلاقی اور روحانی کمزوریوں سے پاک کرے اور یہی پاکیزگی دوسروں میں بھی پیدا کرے اور بالآخر وہ ترقی کے ان تمام سامانوں کو مہیا کرے جو گری ہوئی قوموں کو اوپر اٹھانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ تزکیہ کے معنے صرف پاک کرنے کے ہی نہیں ہیں بلکہ ترقی دینے اور اوپر اٹھانے کے بھی ہیں.اس لئے
مضامین بشیر جلد چہارم 279 يُزَكِّيهِمْ کے لفظ میں یہ دونوں مفہوم شامل ہیں.یعنی پاک کرنا اور اوپر اٹھانا.اس طرح یہ کل چار مقصد بنتے ہیں اور یہ سارے مقصد انصار اللہ کے مدنظر رہنے چاہئیں.یہ کام اتنے وسیع ہیں کہ اگر انصار اللہ کے ہر فرد کی ساری عمر اور ساری توجہ صرف اسی مقصد کے حصول میں خرچ ہو جائے تو پھر بھی کم ہے.مگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سارے کام سرانجام دیئے.آپ نے ایک امی قوم کو خدائی احکام کا سبق دیا.آپ نے ان کو ان احکام کی حکمت اور فلسفے سے بصورت احسن آگاہ کیا.آپ نے ان کے اندر وہ پاکیزگی اور وہ طہارت پیدا کر دی جو دنیا کی تاریخ میں عدیم المثال ہے.آپ نے عربوں کی گری ہوئی اور پستی میں پڑی ہوئی قوم کو اس طرح اوپر اٹھایا اور ان کے لئے ترقی کے ایسے سامان مہیا کئے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری معلوم دنیا پر چھا گئی اور ایک امی قوم ہوتے ہوئے دنیا کی ایسی استاد بن گئی کہ آج یورپ کے ترقی یافتہ ممالک اس بات کو بر ملا تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری ابتدای بیداری کا باعث وہ علوم ہوئے ہیں جو ہمیں مسلمانوں کے ذریعہ حاصل ہوئے.پس اپنے اس افتتاحیہ خطاب میں تفصیلات میں جانے سے پہلے انصار اللہ کی خدمت میں میری پہلی نصیحت یہی ہے کہ وہ انصار اللہ کے لفظ پر غور کریں اور پھر غور کریں اور پھر غور کریں.اور اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ خدا کے کاموں میں خدا کا مددگار بننے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور خدائی کاموں میں سب سے مقدم کام وہ ہے جو مذکورہ بالا آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا یعنی اوّل کتاب اللہ کی تعلیم.اور دوم احکام الہی کی حکمت اور فلسفہ اور سوم نفوس کی پاکیزگی اور طہارت اور چہارم قومی ترقی کے سامانوں کا مہیا کرنا اور ان پر خود چلنا اور دوسروں کو چلانا.اگر انصار اللہ بظاہر صرف اسی چھوٹی سی نصیحت پر ہی کار بند ہو جائیں تو اس نصیحت کے بعد انہیں در حقیقت کسی اور نصیحت کی ضرورت نہیں رہتی.وہ ان چار باتوں پر عمل کرنے سے سچ مچ انصار اللہ یعنی ” خدا کے مددگار اور خدا کے دست و بازو اور دنیا کی قوم نمبر ایک بلکہ خیر الامت بن سکتے ہیں.پھر ہمارے سلسلہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے کہ: يُحيى الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ یعنی ہمارا یہ معمور د مرسل دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا.اس عجیب و غریب خدائی الہام میں یہ اشارہ ہے کہ مسیح موعود کی بعثت ایسے وقت میں ہوگی کہ جب دین بظاہر مُردہ ہو چکا ہوگا اور غیر قوموں پر اس کا رعب بالکل مٹ چکا ہوگا اور خود مسلمانوں میں بھی شریعت پر
مضامین بشیر جلد چہارم 280 عمل کرنا عملاً ختم ہو چکا ہوگا.گویانہ تو بیرونی قوموں کے مقابلہ پر اسلام کی کوئی حیثیت باقی رہ جائیگی اور نہ خود مسلمان ہی اسلام پر قائم رہیں گے.اور اس دوہری خارجی اور اندرونی مصیبت کی وجہ سے مسلمانوں پر ایک بھاری ابتلاء آئے گا.مگر خدا فرماتا ہے کہ ہمارا یہ مسیح جب دنیا میں آئے گا تو اس کے ذریعہ آہستہ آہستہ پھر مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوگی اور اسلام ایسی ترقی کرنی شروع کرے گا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو پھر دوبارہ حاصل کرلے گا اور مسلمانوں کی اندرونی حالت بھی سدھر جائے گی.سوانصار اللہ کے قیام کا دوسرا مقصد یہ ہونا چاہئے (اور درحقیقت یہ بھی پہلے مقصد ہی کی شاخ ہے ) کہ وہ تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی شان و شوکت کو بڑھائیں اور تربیت کے ذریعہ مسلمانوں کو پھر اس اعلیٰ مقام پر قائم کر دیں جس پر وہ قرونِ اولیٰ میں قائم ہوئے تھے.اس کے بغیر وہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں انصار اللہ نہیں سمجھے جا سکتے.انصار اللہ کے نام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ بھی ایک خاص تعلق ہے.وہ یہ کہ چونکہ حضرت مسیح موعود حضرت مسیح ناصری کے مثیل ہیں اور اسی رنگ میں جمالی طریق پر اسلام کی خدمت کے لئے مبعوث کئے گئے ہیں اس لئے مسیح ناصری کے حواریوں کی طرح آپ کی جماعت کو انصار اللہ کے لفظ سے مخصوص نسبت ہے.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نے خدائی کام میں اپنی مدد کے لئے لوگوں کو بلایا تو اس وقت آپ نے یہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ مَنْ أَنْصَارِيُ إِلَى اللَّهِ یعنی خدا کے کام میں میرا مددگار کون بنتا ہے؟ جس پر حواریوں نے جواب دیا کہ محسن انصار اللہ یعنی ہم انصار اللہ ہیں.چونکہ آپ لوگ بھی ایک طرح سے مسیح محمدی کے حواریوں کے زمرہ میں داخل ہیں.اس لئے آپ کے لئے حواریوں کے جواب کے مطابق انصار اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم سب کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ خدا کا مددگار بنا کوئی آسان کام نہیں.اب میں بعض تفصیلی باتوں کی طرف آتا ہوں.سب سے پہلی بات تو میں اپنے بھائیوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے دوری کی وجہ سے لازماً جماعت میں بعض کمزوریوں کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور نسلی احمدی بڑھ رہے ہیں.ان کا بڑھنا ہمارے لئے یقینا بڑی خوشی کا موجب ہے مگر ساتھ ہی ہم پر یہ بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ان کی تربیت کا خاص خیال رکھیں اور اس بات کی نگرانی رکھیں کہ وہ بعد میں آنے کے باوجود اسلام اور احمدیت کی روح پر قائم رہیں یہ کام سب سے اول نمبر پر والدین کا ہے کہ وہ بچوں کی صحیح طریق پر تربیت کریں اور ان کے دلوں میں دین کی محبت پیدا
مضامین بشیر جلد چہارم 281 کریں اور اعلیٰ اخلاق سکھائیں.دوسرے نمبر پر یہ کام احمد یہ درس گاہوں کے اساتذہ کا ہے جو اپنے اپنے مدارس میں بچوں کے لئے والدین کے قائمقام ہوتے ہیں.اور تیسرے نمبر پر یہ کام مرکزی نگرانی کے ماتحت مقامی عہدیداروں کا ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے احمدیوں اور خصوصاً نوجوان احمدیوں پر اس طرح نگاہ رکھیں جس طرح کہ ایک ہوشیار گڈریا اپنی بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور کوئی فردان کی نظر سے باہر نہ رہے.یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بڑی بھاری ذمہ داری کا کام ہے کیونکہ اسی پر ظاہری اسباب کے لحاظ سے جماعت کی آئندہ ترقی اور اگلی نسلوں کی حفاظت کا دار ومدار ہے.تمام احمدی بلا استثناء ایسے ہونے چاہئیں کہ جن مین یہ تین باتیں لازماً پائی جائیں.اول نمازوں کی پابندی اور نمازیں بھی ایسی جو دعاؤں سے معمور ہوں اور صرف کھوکھلی ہڈی کی طرح نہ ہوں جو گودے سے خالی ہوتی ہے.دوسرے خلافت اور مرکز سے مخلصانہ وابستگی جو گویا ہمارے لئے وہ زبر دست کھونٹا ہے جس کے ساتھ باندھے جانے کے بعد ہم ادھر اُدھر بھٹکنے سے بچ سکتے ہیں.اور تیسرے جماعتی کاموں میں دلچسپی اور ضروری جماعتی چندوں میں حصہ لینا.جو شخص احمدی کہلاتا ہے اور نمازوں اور دعاؤں میں سُست ہے.احمدی کہلاتا ہے اور اسے خلافت اور مرکز کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں.احمدی کہلاتا ہے اور خدائی سلسلہ کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اور نہ ان کاموں کو چلانے کے لئے کوئی مالی قربانی کرتا ہے.وہ ہرگز ہرگز سچا احمدی نہیں سمجھا جا سکتا.میری یہ بات لکھ لو کہ ایسے شخص کا نام آسمان پر کبھی بھی مخلص احمدیوں کی فہرست میں درج نہیں ہوگا.پس اے انصار اللہ ! میری اس نصیحت کو غور سے سنو اور مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہو کہ ان تین نیکیوں کے بغیر کوئی کچی احمدیت نہیں.یعنی نمازوں کی پابندی اور خلافت اور مرکز کے ساتھ مخلصانہ وابستگی اور جماعتی کاموں میں دلچسپی اور ان کو چلانے کے لئے ضروری چندوں میں حصہ لینا.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اخلاص پر قائم ہوتے ہوئے یہ تین نیکیاں اپنے اندر پیدا کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کی بہت سی دوسری کمزوریوں کو معاف فرمادے گا.پھر بیرونی جماعتوں کی رپورٹوں سے پتہ لگتا ہے کہ بعض جگہ مقامی جماعتوں میں اتحاد اور اتفاق کی کمی ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کر کے انشقاق کا بیج بو دیا جاتا ہے اور لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ مومنوں کو بنیان مرصوص بن کر رہنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں بڑے غصہ کے ساتھ فرماتے ہیں کہ: مَنْ شَدَّ شُدَّ فِي النَّارِ
مضامین بشیر جلد چهارم 282 یعنی جو شخص جماعت سے الگ ہوتا ہے اور جماعت میں تفرقہ پیدا کرتا ہے وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنانے کے لئے تیار ہو جائے.خدا رحم کرے ہمارے کتنے بھائیوں نے آج کل چھوٹے چھوٹے اختلافوں کی وجہ سے آگ میں ٹھکانا بنانے کے لئے تیاری کر رکھی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے خیال میں تم پر کوئی ظلم کیا جائے اور تمہارے ساتھ بے انصافی کا طریق برتا جائے اور تمہارا حق مارا جائے تو پھر تم جماعت کے اتحاد کو ہرگز نہ توڑو.اور یا تو صبر سے کام لو اور یا ذمہ وار لوگوں کے سامنے اپنا معاملہ پیش کر کے فیصلہ کرالو اور پھر جو فیصلہ بھی ہوا سے شرح صدر کے ساتھ قبول کرو.میں امید کرتا ہوں کہ وہ تمام انصار اللہ جو اس وقت ربوہ کے مقدس مقام میں جمع ہیں وہ یہاں سے یہ عہد کر کے اٹھیں گے کہ آئندہ جماعت میں اتحاد اور اتفاق کے طریق پر قائم رہتے ہوئے تفرقہ کے رستہ سے اس طرح بچیں گے گویا وہ ایک زہریلا سانپ ہے جس کے ڈسے کا کوئی علاج نہیں.مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ گزشتہ ایام میں شیخوپورہ کے مقام پر جماعت کے عہدیداروں کا ایک تربیتی اجتماع ہوا تھا جو بہت کامیاب رہا یہ ایک نیا خیال تھا.اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان دوستوں کو جزائے خیر دے جن کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور دوسرے دوستوں کو بھی توفیق دے کہ وہ گا ہے گا ہے اپنے علاقہ میں ایسے اجتماع منعقد کر کے جماعت کے عہدیداروں میں کام کی نئی زندگی اور پستی اور بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں.مومنوں کا آپس میں مل کر بیٹھنا اور تبادلہ خیالات کرنا اور جماعتی ترقی کے نئے مفید تجاویز سوچنا بڑا بابرکت کام ہے اور اسے جتنا بھی وسیع کیا جائے کم ہے.میں انصار اللہ کی خدمت میں یہ تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے جو دوست علمی مذاق رکھتے ہوں یا علمی مذاق پیدا کر سکیں انہیں ضرور اسلام اور احمدیت کی تائید میں تحقیقی اور علمی مضامین لکھ کر جہاد فی سبیل اللہ کا ثواب کمانا چاہئے.کچھ عرصہ ہوا میں نے الفضل میں اس کے متعلق ایک مفصل مضمون لکھا تھا اور دوستوں کو تحریک کی تھی کہ وہ اس طرف توجہ دیں جس پر بعض نے تو کسی حد تک توجہ دی ہے مگر اکثر دوستوں نے توجہ نہیں دی.ہمارے دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے ”سلطان القلم کے غیر معمولی لقب سے نوازا ہے.اس میں یہی اشارہ ہے کہ آپ کے متبعین کو بھی قلمی جہاد کی طرف توجہ دینی چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ جس شخص کو خدا تعالیٰ نے ایمان و اخلاص کے ساتھ تحریر وتقریر میں ملکہ عطا کیا ہو اور اسے اس میدان میں اپنی برکت سے نوازا ہو وہ اس زمانہ میں خدمت دین کے لحاظ سے گویا ایک کامل مجاہد
مضامین بشیر جلد چهارم 283 بن جاتا ہے.اس کی زبان میں غیر معمولی تاثیر ہوتی ہے اور اس کا قلم جادو کا اثر دکھاتا ہے.پس اگر آپ لوگ تحریر و تقریر میں ملکہ پیدا کر کے اس میدان میں خدمت کے لئے نکلیں تو آپ کے لئے بہت بڑے ثواب کا موقع ہے.جس انسان میں یہ جو ہر موجود ہے مگر وہ اسے استعمال نہیں کرتا وہ یقینا بڑے گھاٹے کے سودے میں ہے.اس کام کے کرنے کا بہترین طریق یہ ہوگا کہ زمانہ کی ضرورت کے مطابق مرکزی مجلس انصار اللہ کی طرف سے گاہے گا ہے ایسے مضامین کا اعلان کیا جاتا رہے جن پر تحقیقی مقالے لکھنے کی ضرورت ہے.بلکہ اگر ممکن ہو تو ان کتب وغیرہ کا بھی ذکر کر دیا جائے جن سے متعلقہ مضمون کی تیاری میں مددمل سکتی ہو.اس طرح لکھنے والوں کے دل میں مزید تحریک پیدا ہوگی اور وہ بہتر تیاری کر سکیں گے.اس موقع پر ایک خاص بات جس کی طرف میں مرکزی مجلس انصار اللہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ انہیں فی الحال ربوہ اور لاہور اور کراچی میں سالانہ سیمینار یعنی مجالس مذاکرہ جاری کرنے کے انتظام پر غور کرنا چاہئے.یہ تینوں مقامات ایسے ہیں جہاں ایسی مجالس مذاکرہ کے انتظام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اور ان جگہوں میں انتظام کرنے والے مناسب دوست بھی آسانی سے مل سکتے ہیں.فی الحال سال میں ہر جگہ ایک مجلس مذاکرہ کا قیام کافی ہوگا جسے بعد میں حسب حالات بڑھایا جا سکتا ہے.کوئی قرآنی موضوع یا ارض قرآن کا جغرافیہ یا اقوام مذکورہ قرآن یا اسلام کی تاریخ یا تعلیم یا اسلامی فقہ و حدیث یا جدید پیدا شدہ تقاضوں سے تعلق رکھنے والا کوئی مضمون منتخب کر کے مقرر کر لیا جائے اور اس پر عملی مذاق رکھنے والے لوگوں کو دعوت دے کر دوستانہ تبادلہ خیالات کیا جائے.ایک یا دو اصحاب مقالہ پڑھیں اور اس پر دوستانہ رنگ میں گفتگو ہوتا کہ صیح نتائج پر پہنچنے میں مدد ملے اور معلومات میں اضافے کے ذریعہ دماغوں میں روشنی پیدا ہو.میں سمجھتا ہوں کہ ایسی مجالس مذاکرہ انشاء اللہ کئی لحاظ سے مفید اور بابرکت ثابت ہوں گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا رستہ کھلے گا کہ میری جماعت کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ سب دوسری قوموں کا منہ بند کر دیں گے.ایک اور بات میں اپنے بھائیوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انصار اللہ کو اپنے ممبروں میں بلند کیریکٹر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دینی لحاظ سے وہ اسلام اور احمد بیت کا اعلیٰ نمونہ ہوں اور نہ صرف ان کے راحمدیت اعمال سے اسلام کا نور نظر آئے بلکہ ان کے ماتھوں پر بھی گویا اسلام کا لفظ لکھا ہوا دکھائی دینا چاہئے.ان کے ہاتھوں سے تمام دوسرے لوگوں کی عزتیں اور مال محفوظ رہیں.ان کی زبانوں سے محبت اور اخلاص کا شہد ٹپکے اور ان کے کاروبار میں دیانتداری کا پہلو اتنا نمایاں نظر آئے کہ وہ دیانت وامانت کا مجسمہ سمجھے جائیں.اور
284 مضامین بشیر جلد چهارم جب ان کی طرف کوئی بات منسوب کر کے بیان کی جائے تو دوست و دشمن یقین کر لیں کہ یہ بات بہر حال کچی ہوگی.الغرض دیانتداری اور راست گفتاری اور خوش خلقی ہر احمدی کا طرہ امتیاز ہونا چاہئے.ایک آخری خلق جس پر میں اس وقت انصار اللہ کے لئے خاص زور دینا چاہتا ہوں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں مذکور ہے کہ: مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيَفْعَلْ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعُ فَبِقَلْبِهِ وَ ذَالِكَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ مصنف عبدالرزاق کتاب صلاة العيد بين باب اول من خطب ثم صلی) یعنی جو شخص کسی نا پسندیده یا خلاف اخلاق یا خلاف شریعت بات کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ اس بات کو اپنے ہاتھ سے بدل دے.لیکن اگر ایسا کرنے کی اسے طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کے متعلق اصلاح کی کوشش کرے اور اگر اسے یہ طاقت بھی حاصل نہ ہو تو کم از کم اسے بُرا سمجھ کر اپنے دل میں ہی ( دعا کے ذریعہ ) اصلاح کی کوشش کرے.اگر ہمارے تمام انصار بھائی اس ارشاد نبوی کو اپنا شعار بنائیں تو ان کے ماحول میں عظیم الشان تغیر پیدا ہو سکتا ہے اور بدی کبھی جڑ نہیں پکڑ سکتی.اور نہ ہی نوجوانوں کے اخلاق خراب ہو سکتے ہیں.بدی کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا اور بے حس و حرکت رہ کر خاموش رہنا قوموں کی تباہی کا موجب ہوتا ہے.بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مبارک ارشاد پر اپنے اس خطاب کو ختم کرتا ہوں حضور فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں: یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے.ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا.دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اس کو مت کھاؤ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے...جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے اور قمار بازی سے، بدنظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں.جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخ بدر فیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بداثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنی ادنی خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے ہے.شخص
مضامین بشیر جلد چهارم 285 قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اس عہد کو جو اس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے...اور جوشخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے.اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی.ہر ایک جو پیچ در پیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے وہ اس برکت کو ہرگز نہیں پاسکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 18-19 ) پس میں اس مختصر نوٹ پر اپنے اس خطاب کو ختم کرتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے آپ کے اس اجتماع کو ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ کرے اور مجھے اور آپ کو اسلام اور احمدیت کا سچا خادم بنائے اور ہمارا انجام خدا کی رضا پر ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 27 اکتوبر 1961 ء ) روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 3 دسمبر 1961ء) جامعہ احمدیہ کی نو تعمیر شدہ عمارت کی افتتاحی تقریر پر پُر اثر خطاب جامعہ کی نئی عمارت کی تکمیل اور اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی لا سمر مری کا قیام از حد ضروری ہے ربوہ 4 دسمبر 1961ء کی شام نہایت سلیقہ سے وسیع پیمانے پر ترتیب دی گئی ایک پر وقار تقریب میں جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کی پہلی منزل کی تکمیل کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک لمبی دعا اور پُر اثر خطاب سے عمارت کا افتتاح فرمایا.بعدہ حضرت میاں صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اس وقت مجھے قریباً نصف صدی پہلے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جبکہ میں مدرسہ احمدیہ کا مینجر ہوتا تھا.
مضامین بشیر جلد چهارم 286 اس زمانہ میں ایک روز حاجی غلام احمد صاحب کر یام ضلع جالندھر اور میاں امام الدین صاحب، مولوی ابو العطاء صاحب کو مدرسہ میں داخل کرانے کے لئے آئے.اس وقت میں مدر سے کے کچے کمروں میں سے ایک کمرہ میں بیٹھا تھا.حاجی صاحب نے انہیں مدرسہ میں داخل کرنے کی سفارش کی اور میں نے انہیں داخل کر لیا.میں جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے کیونکہ وہ پھل خدا کے فضل سے شیریں ثابت ہوا اور آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو خدمت دین کی توفیق دی.میں نے کچے کمرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ ہر زمانے کا قشر الگ ہوتا ہے.اُس زمانے کے لحاظ سے کچے کمرے ہی قشر کی حیثیت رکھتے تھے لیکن آج کل کے حالات کے لحاظ سے ضروری ہے کہ اچھی عمارت بھی ہو نیز ایک اعلیٰ درجہ کی لائبریری کا بھی اس میں انتظام ہو اور اسی طرح تمام دوسرا سامان اور ضرورت کی چیزیں بھی مہیا کی جائیں.پھر یہ امر بھی نہایت ضروری ہے کہ احباب بچوں کو جامعہ میں تعلیم دلوانے کے لئے یہاں بھجوائیں.جب تک احباب ہر طبقہ کے ذہین اور ہونہار طلباء نہیں بھجوائیں گے خدمت دین کا کام خاطر خواہ طریق پر انجام نہیں پا سکے گا.میرا اپنا بچہ بھی واقف زندگی ہے اور آج کل افریقہ میں سلسلہ کی طرف سے متعین ہے اور میں اس پر خوش ہوں کہ وہ دین کی خدمت کر رہا ہے.پس میں احباب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عمارت کی جلد از جلد تکمیل اور ایک اعلیٰ درجہ کی لائبریری قائم کرنے کے لئے دل کھول کر چندہ بھی دیں اور پھر ہر طبقہ کے ہونہار اور ذہین بچوں کو تعلیم کے لئے جامعہ احمدیہ میں بھیجیں اس ضمن میں محترم میاں صاحب نے ہر طرح سے مکمل لائبریری کے قیام پر خاص زور دیا اور فرمایا کہ: جب تک کسی تعلیمی ادارے کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی لائبریری نہ ہو اس وقت تک اس ادارے کو کامیابی کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا اور تعلیم وتدریس کے خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں ہو سکتے“ آپ نے تدریس کے سلسلہ میں پرانے زمانے کے ایک نہایت مفید طریق کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا: پہلے جب اساتذہ باہر سفر پر جاتے تھے تو ان کے ساتھ بعض شاگردوں کو بھی بھیج دیا جا تا تھا اور وہ سفر میں بھی انہیں درس دیتے رہتے تھے.یہ طریق بہت مفید تھا.اس طرح اساتذہ کے سفر پر جانے سے طلبہ کی تعلیم میں حرج واقع نہیں ہوتا تھا بلکہ اس طرح وہ اساتذہ کے ساتھ ہر وقت رہنے کی وجہ سے وہ کچھ سیکھ لیتے تھے جو مدرسہ کے محدود اوقات میں ان کے لئے سیکھنا ممکن نہ ہوتا تھا آخر میں محترم میاں صاحب نے اس توقع کا ایک دفعہ پھر اظہار کرتے ہوئے کہ احباب جامعہ احمدیہ کی
مضامین بشیر جلد چہارم 287 عمارت کے بقیہ حصہ کی تکمیل اور لائبریری کے قیام کے لئے دل کھول کر چندہ دیں گے اور ہر طبقہ کے بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں علم دین حاصل کرنے کے لئے جامعہ میں بھجوائیں گے تا کہ یہ ادارہ ایک اعلیٰ درجہ کی درس گاہ بن سکے، فرمایا: میں ان الفاظ کے ساتھ جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جامعہ کو بہت بلند پایہ علماء پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ایسے جید علماء جو اپنے علم وفضل کی وجہ سے دنیا پر چھا جائیں اور جو غلبہ اسلام کی خدائی تقدیر کو جاری کرنے کا مؤثر اور کامیاب ذریعہ اور نہایت مفید آلہ کار ثابت ہوں تا وہ عظیم مقصد جس کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ادارہ کو قائم فرمایا تھا ہمیشہ ہی مہتم بالشان طریق پر پورا ہوتا چلا جائے اس پر اثر اور ایمان افروز خطاب کے بعد آپ نے ایک لمبی اور پُر سوز اجتماعی دعا کرائی.اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کا افتتاح عمل میں آیا.تقسیم انعامات افتتاحی تقریر کے بعد جامعہ احمدیہ کے سالانہ جلسہ تقسیم انعامات کی کارروائی عمل میں آئی.چنانچہ حضرت میاں صاحب نے مختلف علمی اور ورزشی مقابلہ جات میں نمایاں امتیاز حاصل کرنے والے طلبہ میں اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمانے کے بعد طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں جامعہ احمدیہ کے طلباء کو اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کا ایک اقتباس یاد دلانا چاہتا ہوں.میں جب بھی اس اقتباس کو پڑھتا ہوں تو ڈر کر رک جاتا ہوں اور ساتھ ہی خوشی سے پھول بھی جاتا ہوں.وہ اقتباس یہ ہے کہ: ”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گئے“ ہمارے طلبہ کو کو یہ بلند مقصد ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے.وہ علم و فضل میں ایسا کمال حاصل کریں کہ آسمان کی بلندیوں میں پرواز کریں اور اس قدر اونچے نکل جائیں کہ کوئی زمین ان تک نہ پہنچ سکے اور وہ سب کا منہ بند کر دیں.یہ مقصد پورا تو ضرور ہوگا اور ہو کر رہے گا لیکن جیسا کہ خدا کا یہ قانون ہے کہ اس کی تقدیروں کے بروئے کار آنے میں ایک خانہ انسانی کوششوں کا بھی ہوتا ہے.میں طلبہ کو انسانی کوششوں کے اس خانہ کی طرف
مضامین بشیر جلد چهارم 288 بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اس خدائی وعدہ کا مصداق بنانے میں اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں“.......روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 5 دسمبر 1961ء) احمدیہ کالج گھٹیالیاں کے لئے امداد کی تحریک جیسا کہ احباب کو معلوم ہے گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ اور اس کے گردونواح کے دوستوں کی پُر زور خواہش پر صدرانجمن احمدیہ نے گھٹیالیاں کے تعلیم الاسلام ہائی سکول کو انٹر میڈیٹ کالج کے درجہ تک توسیع کرنے کی منظوری دی ہے.اس علاقہ میں ہمارا ہائی سکول خدا کے فضل سے ایک عرصہ سے کامیاب نتائج دکھا رہا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ انٹر میڈیٹ کالج بھی اچھے نتائج دکھائے گا اور کامیاب ثابت ہو گا.بعض دوستوں نے اس کالج کے لئے دل کھول کر چندہ دیا ہے مگر ابھی تک اس کی عمارت کی تکمیل اور لائبریری کے قیام بلکہ ضروری عملہ کے تقرر کے لئے بھی رقم کافی نہیں.سومیں اپنے مخیر اصحاب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق اس کالج کو مکمل کرنے کے لئے چندہ دیں اور قومی تعمیر میں حصہ لیں.یہ علاقہ مخلص احمدیوں سے آباد ہے اور اس میں کئی دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بستے ہیں اور بعض مخلص بزرگ اپنے خدا کے حضور حاضر ہو چکے ہیں.پس اس علاقہ کی دینی روایت کو زندہ رکھنا ہما را جماعتی فرض ہے.اچھی درس گاہوں کا قیام ہمیشہ جماعتی مضبوطی کا موجب ہوا کرتا ہے اور اچھے ماحول میں تعلیم پانے والے نوجوان آئندہ چل کر جماعتی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی اہلیت پیدا کر لیتے ہیں.پس مخیر دوست آگے آئیں اور اپنی بلند ہمت سے اس کالج کو نہ صرف اچھی بنیاد پر قائم کر دیں بلکہ ایک مثالی درس گاہ بنادیں.وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزِ - روزنامه الفضل ربوہ مورخہ 13 دسمبر 1961ء) ہمارا 1 7 واں جلسہ سالانہ اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ بالکل سر پر آ گیا ہے اور یہ غالباً ہمارا اکہتر واں (71) جلسہ سالانہ ہوگا.انسانی زندگی کے لحاظ سے تو یہ عرصہ بڑھاپے کی عمر سے تعلق رکھتا ہے لیکن قوموں کی زندگی کے لحاظ سے
مضامین بشیر جلد چہارم 289 عرصہ گویا بچپن اور نو جوانی کا زمانہ ہے.مگر باوجود اس کے ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ہاتھوں جو ترقی اس اٹھتی ہوئی جوانی میں اسلام نے کر لی تھی وہ ایسی حیرت انگیز تھی کہ اب چودہ سوسال گزرنے کے بعد بھی جب اُس زمانہ کی تاریخ کے اوراق کی طرف نظر اٹھتی ہے تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور اس کے مقابل پر جماعت احمدیہ کی موجودہ ترقی وسیع اور غیر معمولی ہونے کے باوجود پیچ نظر آنے لگتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ کاش جماعت احمدیہ کو پرواز کے پر مل جائیں تو وہ اُڑ کر اپنی منزل مقصود کو پہنچ جائے.لیکن خدا کا قانون اٹل ہے.خدا نے جلالی نبیوں اور جمالی نبیوں کے سلسلوں کی ترقی کے لئے الگ الگ طریق مقرر کر رکھا ہے.چنانچہ دیکھ لو کہ سورج اپنے پورے قرص کے ساتھ اکٹھا طلوع کرتا ہے گو شروع میں اس کی روشنی بھی تھوڑی دیر کے لئے دھیمی ہوتی ہے مگر وہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنی تیز شعاعوں کے ساتھ ساری دنیا کو ڈھانپ لیتا ہے لیکن اس کے مقابل پر چاند جو جمالی نوعیت کا سیارہ ہے ایک باریک اور منحنی سی کمز ور شاخ کے طور پر نکلتا ہے اور کئی دنوں میں آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے.بس یہی جمال و جلال کے سلسلوں میں فرق ہے جس کی طرف قرآن مجید نے موسوی اور عیسوی سلسلوں کی مثال بیان کر کے اشارہ کیا ہے.مگر دوستو اور عزیز و ! اس مثال سے تسلی پا کر اپنے قدموں میں سستی نہ پیدا ہو نے دو کیونکہ ایک اور فرق بھی ہے جو ہمیشہ جماعت احمدیہ کے مدنظر رہنا چاہئے.یہ فرق موسوی اور محمدی سلسلوں کا فرق ہے یعنی جہاں حضرت عیسی موسوی سلسلہ کے نبی تھے اور موسوی شریعت کے احیاء کے لئے آئے تھے وہاں خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کا مقدس بانی محمدی سلسلہ کا مسیح ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اسلام کے احیاء اور اسلام کی خدمت کے لئے مبعوث کیا گیا ہے.پس فرق ظاہر ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود اپنے ایک شعر میں اس فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پر میرا سب مدار اس سے ظاہر ہے کہ جہاں حضرت مسیح موعود کو حضرت عیسی علیہ السلام سے ایک خاص مشابہت حاصل ہے وہاں نائب رسول اور مسیح محمدی ہونے کے لحاظ سے ایک نمایاں مغامرت بھی ہے.اور ہمیں اسی مغایرت پر اپنی کوششوں اور اپنی امیدوں کی بنیاد رکھنی چاہئے.گویا جمالی سلسلہ ہونے کے لحاظ سے ہماری ترقی چاند اور آہستہ بڑھنے والے پودے کا رنگ رکھتی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے علم بردار ہونے کے لحاظ سے ہمیں اپنے اندر کچھ سورج کی شعاعوں جیسی تیزی بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 290 چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی مکاشفات اسی بین بین والی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں.ایک جگہ فرماتے ہیں: ”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مرادر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے تذکرہ الشهادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66-67) سو بھائیو اور بہنو! ہمیشہ اس مقصد کو اپنے سامنے رکھو اور دین کے رستہ میں وقت اور جان اور مال کی ایسی قربانیاں دکھاؤ جو صحابہ کی یاد کو زندہ کر دیں اور اپنے ایمان کے زور اور عمل کی قوت سے دنیا پر ثابت کر دو کہ تم اسلام کے نیچے خادم ہو اور خدا کی نصرت تمہارے ساتھ ہے.یہ زمانہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کا احیاء اور اسلام کا عالمگیر غلبہ مقدر ہو چکا ہے.مگر خدا کی ہر تقدیر ایک حد تک انسانوں کی تدبیر کے ساتھ معلق ہوتی ہے.اس تد بیر کو مہیا کرنا آپ لوگوں کا کام ہے.پس نہ صرف اپنے قدموں کو تیز کرو بلکہ اپنی نسلوں کی بھی حفاظت کرو تا کہ جب آپ کی زندگی کا دور ختم ہو تو اگلی نسل آپ کا بوجھ اٹھانے کے لئے پوری طرح تیار ہو اور مایوسی کو اپنے قریب نہ آنے دو کیونکہ کہنے والا با نگِ بلند کہہ چکا ہے کہ: قضاء آسمان است این بہر حالت شود پیدا (محررہ 9 دسمبر 1961ء) روزنامه الفضل ربوه مورخہ 14 دسمبر 1961ء)
مضامین بشیر جلد چہارم اعلانات.اشتہارات اطلاعات 291 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست مع حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1-> دعا کی تحریک رونامه افضل 4 جنوری 1961ء) 2-> حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا تابوت واہگہ بارڈر سے آگے روانہ ہو گیا رونامه الفضل 7 جنوری 1961ء) 3-> حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا تابوت بہشتی مقبرہ میں دفن کر دیا گیا 4-> درویش بھائیوں کیلئے دعا کی تحریک 5-> اتم مظفر احمد کی علالت 6-> قادیان جانے والے احباب کیلئے ضروری ہدایت رونامه الفضل 11 جنوری 1961ء) رونامه الفضل 2 فروری 1961ء) رونامه الفضل 11 فروری 1961ء) ( رونامه الفضل 4 مارچ 1961 ء ) رونامه الفضل 9 مارچ 1961 ء ) 8-> صدقات کا وعدہ کرنے والے دوست فوری توجہ فرمائیں ( رونامہ الفضل یکم اپریل 1961ء) 7- سیدہ ام متین صاحبہ کیلئے دعا کی تحریک 9 > حضرت خلیفہ اسی الثانی اید اللہ تعالی کی حت کیلئے نقد رقوم کی صورت میں صدقہ دینے والے مخلصین جماعت ( رونامہ الفضل یکم اپریل 1961ء) 10-> قادیان جانے والے احباب کیلئے ضروری ہدایات ( رونامہ الفضل 5 اپریل 1961ء) 11-> صوفی علی محمد صاحب درویش کیلئے درخواست دعا رونامه الفضل 6 مئی 1961 ء )
مضامین بشیر جلد چهارم 12- ایک مخلص درویش کی تشویشناک علالت 13-> مستحق طلباء کی امداد کا وقت 292 رونامه الفضل 18 مئی 1961ء) رونامہ الفضل 28 مئی 1961ء) 14-> نگران بورڈ کا دوسرا اجلاس 15-> یہ رقم کیسی ہے؟ 16-> حکیم عبدالرحیم صاحب درویش قادیان وفات پاگئے 17-> قافلہ قادیان کیلئے حکومت کو درخواست بھجوا دی گئی ہے رونامه الفضل 2 جون 1961ء) رونامہ الفضل 3 جون 1961ء) رونامه الفضل 16 جون 1961ء) رونامہ الفضل 9 جولائی 1961 ء ) 18-> نگران بورڈ کے متعلق ایک ضروری اعلان رونامہ الفضل 13 جولائی 1961ء) 19-> ربوہ کے مہمان خانہ میں ٹیلیفون لگ گیا ہے رونامہ الفضل 18 جولائی 1961ء) 20-> مسجد مبارک میں قرآن مجید کا درس شروع ہو گیا 21-> ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب رانجھا کیلئے دعا کی تحریک رونامہ الفضل 19 جولائی 1961ء) رونامه الفضل 11 اگست 1961 ء ) 22-> اخویم میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کیلئے دعا کی تحریک رونامه الفضل 30 اگست 1961ء) 23-> اخویم میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کیلئے دعا کی تحریک رونامه الفضل 16 ستمبر 1961ء) 24-> مولوی عبدالمنان صاحب عمر کی طرف سے اظہار بربیت 25-> قافلہ قادیان کے متعلق ضروری یاد دہانی (رونامه الفضل 17اکتوبر 1961ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 293 26-> قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان 27-> جامعہ احمدیہ کیلئے چندہ کی اپیل (رونامہ الفضل 21 نومبر 1961ء) رونامه الفضل 10 دسمبر 1961ء) رونامه الفضل 19 سمبر 1961ء) 28-> قادیان کے جلسہ سالانہ کی پہلی رپورٹ رونامه الفضل 19 سمبر 1961ء) 29- جلسہ سالانہ قادیان کا دوسرادن رونامه الفضل 21 دسمبر 1961ء)
مضامین بشیر جلد چهارم عید ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ایسی اجتماعی خوشی کے دن کے ہیں جو بار بار آئے اور اسلام میں تین عید میں مقرر کی گئی ہیں.ایک جمعہ کی عید ہے جو سات دن کی نمازوں کے بعد آتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت یہ عید ساری عیدوں میں سب سے زیادہ اہم اور زیادہ برکت والی عید ہے.گو تھوڑے تھوڑے وقفہ پر آنے کی وجہ سے لوگ عموماً اس کی قدر کو نہیں پہچانتے.دوسرے عید الفطر ہے جو ہر سال رمضان کی تمیں روزہ عبادت کے بعد آتی ہے اور اس کا نام عید الفطر اس واسطے رکھا گیا ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد گویا اس عید کے ذریعہ مومنوں کی افطاری ہوتی ہے اور تیسرے عید الاضحی ہے جو ذوالحجہ مہینہ کی دسویں تاریخ کو حج کی عبادت کے اختتام پر ( جونو تاریخ کو ہوتا ہے ) آتی ہے اور پاکستان میں یہ عید عرف عام میں بقر عید کہلاتی ہے اور بعض لوگ اسے بڑی عید بھی کہتے ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد از مضامین بشیر جلد چہارم صفحه (216 294
مضامین بشیر جلد چہارم باب سوم 1962ء کے مضامین 295
مضامین بشیر جلد چہارم 296 عزیز میاں شریف احمد صاحب مرحوم بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانئے کیا یاد آیا در مکنون ربوہ کے موسم کو بہتر بنانے کی کوشش خدا کے ساتھ رشتہ جوڑنے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کا مہینہ سیرالیون کی تیرھویں سالانہ کانفرنس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام اللہ کے کام نیارے میرے دعائیہ نوٹ پر دوستوں کا رد عمل اور دوستوں سے دعا کی مزید درخواست مجلس مشاورت کے اجلاس پر ایک طائرانہ نظر خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ نیکی اور تقویٰ اور عملی قوت کو ترقی دیں پردے کے متعلق ایک ضروری اعلان فیشن پرستی کی وبا سے بچ کر رہو کامیاب تبلیغ کے چارستون طلاق اور خلع کے معاملہ میں مرد اور عورت کے مساوی حقوق جمہوریت کی تشریح ہونی ضروری ہے احمدیت کے ذریعہ اسلام کو ایک بار پھر پہلے جیسی ترقی عطا ہوگی ملک میں بھوک ہڑتال کی بڑھتی ہوئی وباء
مضامین بشیر جلد چهارم عزیز میاں شریف احمد صاحب مرحوم 297 عزیز میاں شریف احمد صاحب کے متعلق مرحوم کا لفظ لکھتے ہوئے (حالانکہ یہ ایک حقیقت بھی ہے اور دعائیہ کلمہ بھی ) دل کو ایک بجلی کا سادھ کا لگتا ہے اور طبیعت اس حقیقت کو فوری طور پر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتی.مگر حقیقت پھر بھی حقیقت ہے اور یہ ایک جگر پاش واقعہ ہے کہ ہم پانچ بھائی بہنوں کی زنجیر میں سے وسطی کڑی جس کے ایک طرف دو بھائی رہ گئے ہیں اور دوسری طرف دو بہنیں ہیں اپنی زنجیر سے کٹ کر عالم ارواح میں پہنچ چکی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ وَ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَام - عزیز میاں شریف احمد صاحب نے بڑی لمبی بیماری کاٹی اور اسے غیر معمولی صبر وشکر اور ہمت کے ساتھ برداشت کیا.گزشتہ ہیں اکیس سال کے طویل عرصہ میں ان پر کئی ایسے موقعے آئے جبکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ بس اب زندگی کا خاتمہ ہے لیکن ہر دفعہ خدائی رحمت کا ہاتھ انہیں گویا بازو سے پکڑ کر موت کے منہ میں سے باہر کھینچ لیتا رہا اور ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام بار بار پورا ہوا کہ.عَمَّرَهُ اللَّهُ عَلَى خِلَانِ التَّوَقُعِ یعنی خدا تعالیٰ اسے توقع (یعنی ظاہری حالات) کے خلاف عمر دے گا.یہ ایک حقیقت ہے کہ میاں شریف احمد صاحب پر گزشتہ ہمیں بائیس سال میں بار بار بیماری نے ایسے حملے کئے کہ کئی دفعہ بظاہر مایوسی کی حالت نظر آنے لگتی تھی مگر خدا تعالے انہیں توقع کے خلاف بچاتا اور عمر دیتا گیا حتی کہ مقدر وقت آ گیا جس سے کوئی ابن آدم بچ نہیں سکتا.یاد رکھنا چاہئے کہ اس الہام میں جو اوپر درج کیا گیا ہے لمبی عمر کا کوئی ذکر نہیں ہے (گو بہر حال ساڑھے چھیاسٹھ سال کی عمر بھی کوئی چھوٹی عمر نہیں) بلکہ صرف توقع کے خلاف عمر پانے کا ذکر ہے اور یہ عمر عزیز میاں شریف احمد صاحب نے پائی بلکہ بار بار پائی.خدا کے کلام میں اکثر کچھ نہ کچھ اخفاء کا پردہ ہوا کرتا ہے.اس پردے کے ماتحت بے شک بعض لوگ بظاہر یہی سمجھتے رہے کہ میاں شریف احمد صاحب کو لمبی عمر ملے گی مگر (اصل خدائی وحی میں لمبی عمر پانے کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ صرف ” توقع کے خلاف‘ عمر پانے کا ذکر تھا اور یہ خدائی پیش خبری ایسے عجیب و غریب رنگ میں پوری ہوئی ہے کہ اب جب حقیقت کھل چکی ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 298 ان الفاظ پر غور کرنے سے ایک خاص قسم کا روحانی سرور حاصل ہوتا ہے اور دل اس ایمان سے بھر جاتا ہے کہ خداحق ہے اور خدا کا کلام حق ہے اور حضرت مسیح موعود خدا کے بچے مامور ومرسل ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَ عَلى مَطَاعِهِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكُ وَسَلِّمْ - عزیز میاں شریف احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بعض لحاظ سے خاص مشابہت تھی.یہ مشابہت جسمانی نوعیت کے لحاظ سے بھی تھی اور اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی تھی.جسمانی لحاظ سے تو ان کا نقشہ اور خد و خال اور رنگ ڈھنگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور اس مشابہت کو ہر غور کی نظر سے دیکھنے والا انسان محسوس کرتا اور پہچانتا تھا.چنانچہ ان کے جنازے کے وقت مجھ سے بعض دوستوں نے از خود بیان کیا کہ ان کا حلیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت ملتا ہے اور یہ مشابہت وفات میں اور بھی زیادہ نمایاں ہو گئی تھی.اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی ہمارے مرحوم بھائی کو بعض لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خاص مشابہت حاصل تھی.مثلاً اہم امور میں فیصلہ کرتے ہوئے یا مشورہ دیتے ہوئے ان کی رائے بہت متوازن اور صائب ہوتی تھی.وہ نہ تو اپنے ایک بھائی کی طرح زبر دست جلالی شان رکھتے تھے ( گو یہ جلال بھی ایک خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے ) اور نہ ان میں دوسرے بھائی کی طرح نرمی اور فروتنی کا ایسا غلبہ تھا جو بعض لوگوں کی نظر میں کمزوری کا موجب سمجھا جاسکتا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح ان کے مزاج میں ایک لطیف قسم کا توازن پایا جا تا تھا.عفوو شفقت کے موقع پر وہ پانی کی طرح نرم ہوتے تھے جو ہر چیز کو رستہ دیتا چلا جاتا ہے.مگر سزا اور عقوبت کے جائز مواقع میں وہ ایک چٹان کی طرح مستحکم تھے جسے کوئی جذبہ یا کوئی خیال اپنی جگہ سے متزلزل نہیں کر سکتا تھا.اور طبیعت میں انتہائی سادگی اور غریب نوازی تھی.کیا عجب کہ ان کی اسی جسمانی اور اخلاقی مشابہت کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام میں اشارہ ہو کہ اب تو ہماری جگہ بیٹھا اور ہم چلتے ہیں“ انہوں نے بہر حال ظاہری اور انتظامی رنگ میں حضرت مسیح موعود کی فوری جانشینی حاصل نہیں کی تو پھر لامحالہ استعارے کے رنگ میں اس الہام کی یہی تشریح سمجھی جاسکتی ہے جس کی طرف او پر اشارہ کیا گیا ہے.عزیز میاں شریف احمد صاحب ایک دفعہ جماعت احمدیہ کے نظام میں قاضی بھی مقرر ہوئے تھے اور محترم شیخ بشیر احمد صاحب حال حج ہائی کورٹ ان کے ساتھ کے قاضی تھے.شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے اس دوران میں میاں شریف احمد صاحب کو بہت پختہ اور صائب رائے پایا جو بہت جلد حقیقت کو پا کر بڑی مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم ہو جاتے تھے.اور ناواجب نرمی اور نا واجب سختی سے کلی طور پر بچ کر رہتے تھے
مضامین بشیر جلد چهارم 299 اور انصاف کے ترازو کو پوری طرح قائم رکھتے تھے.اس طرح ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مکاشفہ بھی پورا ہوا کہ.”اس نے قاضی بننا ہے“ میاں شریف احمد صاحب کی زندگی میں عسر وئیر کے متعدد دور آئے اور ہر دور میں انہوں نے اپنا شاہانہ مزاج قائم رکھا.وہ دل کے درویش تھے مگر مزاج کے بادشاہ تھے.ٹیسر کی حالت کا تو کیا کہنا ہے عسر میں بھی وہ اپنے شاہانہ مزاج کو قائم رکھتے تھے اور اپنے ہاتھ کونگی کے ایام میں بھی روکتے نہیں تھے اور غرباء کی مدد میں بھی بڑی فیاضی سے حصہ لیتے تھے.بعض دفعہ تو ایسا ہوا کہ انہوں نے رستہ چلتے ہوئے کسی غریب کو پاس سے گزرتے دیکھا تو جھٹ جیب میں سے سوروپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا.لینے والا حیرانی میں مبتلا ہو کر اپنی آنکھیں ملتارہا اور یہ درویش بادشاہ خاموشی سے آگے نکل گیا.اپنے خرچ پر کنٹرول نہ کرنے کی وجہ سے وہ بسا اوقات قرض میں بھی مبتلا ہو جاتے تھے مگر ان کی شاہ خرچی کے انداز میں کبھی فرق نہیں آیا.ساری عمر اسی شاہانہ ڈگر پر قائم رہے.غالبا ان کی ولادت کے موقع پر خدائی فرشتوں نے آسمان پر ان کی آئندہ زندگی کا نظارہ دیکھ کر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کانوں میں یہ خدائی الفاظ پہنچائے ہوں گے کہ وہ بادشاہ آتا ہے" دراصل یہ چاروں الہام جو اوپر درج کئے گئے ہیں عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی ذاتی زندگی اور ذاتی سیرت کے مختلف پہلوؤں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے نازل ہوتے تھے مگر تعجب نہیں کہ آگے چل کر ان کی نسل میں ان مکاشفات کے بعض ظاہری پہلو بھی رونما ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی بات خدا کی طرف سے ظاہر کی جاتی ہے وہ بعض اوقات اس کی بجائے اس کی اولا دیا نسل میں پوری ہوتی ہے جیسا کہ ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں قیصر و کسری کے خزانوں کی کنجیاں دیکھیں مگر آپ ان کنجیوں کے ملنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے اور یہ کنجیاں آپ کے خلفاء اور روحانی فرزندوں کے ہاتھ میں آئیں.یا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل کے ہاتھ میں جنت کے انگوروں کا خوشہ دیکھا مگر ابو جہل کفر کی حالت میں ہی مر گیا اور یہ بشارت اس کے لڑکے حضرت عکرمہ میں پوری ہوئی.یا جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مکہ فتح ہوا ہے اور حضور نے مکہ کا انتظام اسیر کے سپر د کیا ہے مگر اسیر آپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا اور آپ نے مکہ فتح ہونے پر اس کے بیٹے عتاب بن اسیر کو مکہ کا حاکم مقرر کیا.یہ قدرت خداوندی کے عجائبات ہیں جن سے روحانی دنیا معمور نظر آتی ہے اور خدا اپنے مصالح کو بہتر سمجھتا ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 300 بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے در مشین والے پنج تن کی درمیانی کری درمیان میں سے کٹ کر آسمان کی طرف پرواز کر گئی اور ہم بہن بھائی پانچ میں سے چار رہ گئے ہیں.دوست دعا کریں کہ فوت ہونے والے بھائی کو خدا تعالیٰ اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی بیگم اور اولاد کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو اور ان کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سچا وارث بنائے اور ہم جواب چار بہن بھائی رہ گئے ہیں ہمیں جب تک ہماری مقدر زندگی ہے اپنی رضا کے ماتحت اسلام اور احمدیت کی خدمت کی توفیق عطا کرتا رہے اور ہمارا انجام اس کے عفو اور رحمت اور شفقت کے قدموں کے نیچے ہو اور ہماری اولاد قیامت تک نیکی اور تقویٰ اور خدمت کے مقام پر فائز رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارتوں سے حصہ پائے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ بالآخر میں ان بے شمار بہنوں اور بھائیوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس صدمہ میں اپنے خطوط اور تاروں کے ذریعہ ہمدردی کا اظہار کر کے اپنی محبت اور وفاداری کا ثبوت دیا ہے.خدا تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے اور اپنے فضل و رحمت سے نوازے.کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا مگر ایک مخلص دوست کی محبت دوسرے کے دل کے لئے مرہم کا کام دے کرمسکن ضرور بن سکتی ہے اور میں ان سب دوستوں کے لئے دعا کرتا ہوں جنہوں نے اس موقع پر ہمارے لئے روحانی تسکین کا سامان مہیا کیا ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ وَكَانَ اللهُ مَعَهُمْ وَ مَعَنَا..(محررہ 5 جنوری 1962ء) (روز نامه الفضل 9 جنوری 1962ء) 2 احمد یہ کالج گھٹیالیاں کے لئے امداد کی تحریک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے گھٹیالیاں میں احمدیہ کالج کے لئے امداد کی اپیل کرتے ہوئے سرزمین سیالکوٹ کے متعلق فرمایا.یہ علاقہ مخلص احمدیوں سے آباد ہے اور اس میں کئی دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بستے ہیں اور بعض مخلص بزرگ اپنے خدا کے حضور حاضر ہو چکے ہیں.پس اس علاقہ کی دینی روایات کو زندہ رکھنا ہمارا جماعتی فرض ہے.اچھی درسگاہوں کا قیام ہمیشہ جماعتی مضبوطی کا موجب ہوا کرتا ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 301 اور اچھے ماحول میں تعلیم پانے والے نو جوان آئندہ چل کر جماعتی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی اہلیت پیدا کر لیتے ہیں.روزنامه الفضل 11 جنوری 1962ء) میاں شریف احمد صاحب کے متعلق ایک دوست کا لطیف رویا محترم با بو قاسم دین صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ اطلاع دیتے ہیں کہ مکرم حکیم سید پیر احمد شاہ صاحب سیالکوٹ نے 25 و 26 دسمبر 1961ء کی درمیانی رات کو خواب دیکھا (یعنی جس کے بعد میاں شریف احمد صاحب صبح آٹھ بجے فوت ہو گئے ) کہ میاں شریف احمد صاحب چار پائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی چار پائی کے ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف رکھتے ہیں اور دوسری طرف حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ ہیں.میاں شریف احمد صاحب کے بازو میں بہت درد ہو رہا ہے اور انہوں نے حضرت مسیح موعودؓ سے عرض کیا کہ میرے بازو میں درد ہوتا ہے.( میاں شریف احمد صاحب وفات سے دو تین دن قبل گر گئے تھے جس سے ان کی کلائی اور بازو میں کافی چوٹ آئی تھی اور ہڈی کی چوٹ کا دل پر خاص اثر پڑا کرتا ہے) جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے بازو کو اپنے ہاتھ سے دبانا شروع کر دیا ہے اور دوسری طرف حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ ان کے دوسرے بازو کو دبا رہی ہیں.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میاں شریف احمد صاحب کو محبت کے ساتھ فرمایا.”بیٹا فکر نہ کرو.تم دس بجے سے پہلے میرے پاس پہنچ جاؤ گے“ با بو قاسم دین صاحب لکھتے ہیں کہ حکیم سید پیر احمد شاہ صاحب یہ رویا بیان کر کے زار زار رونے لگ گئے.حکیم صاحب موصوف بہت مخلص احمدی ہیں اور ان کی یہ رویا بالکل حق ہے اور خدا کی طرف سے ہے جس پر بعد کے واقعات پوری طرح شاہد ہیں کیونکہ دوسرے دن صبح دس بجے سے پہلے ہی میاں شریف احمد صاحب خدا کو پیارے ہو گئے.عزیز میاں شریف احمد صاحب نے جتنی لمبی بیماری کائی (اور یہ بیماری بڑی تکلیف دہ تھی ) اور اس میں جس انتہائی صبر وشکر کا نمونہ دکھا یا وہ ہم سب کے لئے ایک پاک نمونہ ہے.مجھے یقین ہے کہ رسول پاک کے ارشاد کے مطابق یہ بیماری آخرت میں میاں شریف احمد صاحب کے لئے غیر معمولی رفع درجات کا موجب
مضامین بشیر جلد چہارم 302 ہوئی ہو گی.چنانچہ حکیم سید پیر احمد صاحب کی یہ رویا بھی اس پر شاہد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ نے عالم بالا میں ان کی تیمارداری میں حصہ لے کر ان کے ساتھ غیر معمولی محبت کا اظہار فرمایا.اللَّهُمَّ اغْفِرُهُ وَ ارْفَعُ مَقَامَهُ فِي أَعْلَى عِمِّيِّينَ وَكُنْ مَعَ أَهْلِهِ وَ عَيَالِهِ وَ مَعَنَا أَجْمَعِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 12 جنوری 1962ء) روزنامه الفضل 17 جنوری 1962ء) 4 بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانئے کیا یاد آیا عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی وفات پر اب قریباً ہمیں دن گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ان کے متعلق غم و حزن اور نقصان کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور طبیعت میں بہت بے چینی رہتی ہے.ان کی وفات گو میں اکیس سال کی لمبی بیماری کے بعد ہوئی اور اس دوران میں کئی سخت خطرے کے وقت آئے مگر باوجود اس کے ان کی وفات ایسی اچانک ہوئی کہ اب تک ان کی وفات کا یقین نہیں آتا.دوسری طرف وہ دن بھی جلسہ سالانہ کے دن تھے جس کی گوناگوں مصروفیتوں اور ذمہ داریوں میں ان کی وفات یوں محسوس ہوئی کہ گویا ایک تیز رفتار بگولا آیا اور ہمارے سروں پر سے تیزی کے ساتھ گزرگیا اور خدا نے اپنے خاص الخاص فضل سے ہمارے دلوں میں اتنی مضبوطی اور صبر کی کیفیت پیدا کی کہ جلسہ کے سارے کام اپنی پوری شان اور پورے التزام کے ساتھ تکمیل کو پہنچ گئے وَ ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُوالْفَضْل الْعَظِيم - مگر جب جلسہ کا ہنگامہ گزرگیا اور خدا نے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سرخرو کیا اور طبیعت نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی طولانی بیماری اور بیماری کی تکالیف اور پھر ان کی اچانک وفات کے حالات پر سوچنے اور غور کرنے کی مہلت پائی تو ( خدا ہمیں بے صبری سے بچائے اور اپنا صابر و شاکر بندہ رکھے) ان کی جدائی پر غم وحنون کا احساس بڑھ رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پتھروں کی ایک مضبوط عمارت جو پانچ پتھروں کے باہم پیوست ہونے کی وجہ سے اپنے بانی کی وفات کے بعد 54 سال سے ایک پختہ چٹان کی طرح قائم تھی اس میں سے ایک پتھر اور پتھر بھی وسطی پتھر اچانک الگ ہو کر خلا پیدا کر گیا ہے.مگر
مضامین بشیر جلد چہارم ہم اپنے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پیارے الفاظ کے سوا اور کچھ نہیں کہتے کہ.العَيْنُ تَدْ مَعُ وَالْقَلْبُ يَحْزُنُ وَمَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى بِهِ اللَّهَ وَ أَنَا بِفَرَاقِ أَخِيْنَا لَمَحْزُونُونَ 303 ہما را مرحوم بھائی گو پبلک میں نسبتا کم آیا مگر اس میں بہت سی خوبیاں تھیں جو حقیقتا قابل رشک تھیں.سادہ مزاجی، غریب پروری، ہمدردی، تنگی اور تکالیف میں صبر و شکر اور اس پر خدمت دین اور جماعتی اتحاد کا جذ بہ اور اصابت رائے ایسی باتیں ہیں جن سے ان کی روح میں ایک خاص قسم کا جلا پیدا ہو گیا تھا انہوں نے اپنی طویل اور تکلیف دہ بیماری کو جس ہمت اور صبر کے ساتھ برداشت کیا وہ انہیں کا حصہ تھا.میں تو جب گزشتہ بیس بائیس سال کے حالات اور واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ انہوں نے کس ہمت اور ضبط اور صبر وشکر سے ان حالات کو برداشت کیا اور کبھی ایک کلمہ ناشکری کا اپنی زبان پر نہیں لائے.مگر افسوس کہ ہم ان کی خدمت کا حق ادا نہیں کر سکے.بعض باتیں تحریر میں نہیں لائی جاسکتیں اور یہ باتیں اکثر لوگوں کی نظر سے اوجھل ہیں لیکن جو لوگ جانتے ہیں وہ ان کی قدر و قیمت کو پہچانتے ہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں سے دعائیں اٹھ اٹھ کر آسمان کی طرف جاتی ہیں.اپنی لمبی بیماری کی وجہ سے ہمارے مرحوم بھائی کے دل میں بیماروں کی ہمدردی کا خاص جذبہ پیدا ہو گیا تھا.ان کی وفات کے بعد ام مظفر احمد کی ایک خادمہ نے مجھے بتایا کہ جب اُم مظفر ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے میوہسپتال لاہور میں بیمار تھیں اور انہیں بہت تکلیف تھی تو میاں شریف احمد صاحب ان کی عیادت کے لئے قریباً روزانہ آتے تھے.ایک دفعہ ام مظفر احمد بہت بے چین تھیں اور نکور کے لئے گرم پانی کی ضرورت تھی.انہوں نے اپنی خادمہ سے کہا کہ پانی گرم کر کے لاؤ اور میرے بستر میں گرم پانی کی بوتل رکھ دو.خادمہ کو اس کام میں کچھ دیر لگی تو میاں شریف احمد صاحب خود اٹھ کر اور ساتھ والے کمرے میں جا کر پانی گرم کرنے میں مدد دینے لگ گئے اور خادمہ سے کہنے لگے.وو جلدی کر ان کو تکلیف ہے.تو نہیں جانتی کہ بیمار کا دل کتنا حساس ہوتا ہے“ وفات سے چند دن قبل کمزوری کی وجہ سے گر گئے اور بازو میں چوٹ آئی اور کلائی کی ہڈی میں کریک (Crack) آ گیا مگر با وجود اس کے جلسہ گاہ کا انتظام دیکھنے کے لئے موٹر میں گئے اور بعض ہدایات بھی دیں مگر چونکہ ہڈی کی چوٹ کا دل پر اثر پڑتا ہے اور وہ پہلے سے دل کے مریض تھے اور ایک سال قبل دل کا سخت حملہ ہو چکا تھا اس لئے تیسرے دن اچانک داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنی جوڑی تو ڑ کر آسمان کی طرف پرواز کر
مضامین بشیر جلد چہارم 304 گئے.غالبا حکیم سید پیر احمد صاحب سیالکوٹی نے ان کی وفات سے ایک رات قبل جو یہ خواب دیکھی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میاں شریف احمد صاحب کا باز و دبا رہے ہیں اس میں اسی بازو کی تکلیف کی طرف اشارہ تھا.اللہ اللہ ! محبت اور شفقت کا کیا عالم ہے.کاش ہمیں بھی دوسری دنیا میں یہ شفقت اور یہ محبت نصیب ہو.ایک عورت نے ان کی وفات پر خوب کہا کہ.پنجاں دی جوڑی بوڑی ہو گئی بوڑا پنجابی زبان میں اسے کہتے ہیں جس کا کوئی دانت درمیان میں سے ٹوٹ کر خلا پیدا کر دے.سود نیا میں تو یہ خلا پیدا ہو گیا مگر خدا تعالئے ایسا کرے کہ آسمان میں کوئی خلا نہ پیدا ہو.مجھے اس وقت وہ زمانہ یاد آ رہا ہے کہ جب ہم پانچوں بہن بھائی اکٹھے حضرت اماں جان کی آغوش میں حضرت مسیح موعود کے مبارک سائے کے نیچے رہتے تھے.اب دعا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری اولا د نیکی اور تقویٰ اور خدمت دین پر قائم رہتے ہوئے آخرت میں پھر حضور کے قدموں میں اکٹھی ہو اور سرخرو ہو کر آسمان پر پہنچے.آمین میں نہیں جانتا کہ میں نے یہ مضمون ( جب کہ میں پہلے ایک مضمون لکھ چکا ہوں) کیوں لکھا ہے إِلَّا حَاجَةٌ فِي نَفْسٍ يَعْقُوبَ تَضَاهَا محرره 13 جنوری 1962ء) روزنامه الفضل 18 جنوری 1962ء) LO 5 در مکنون ( جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ 1961 ء کے مبارک موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مورخہ 27 دسمبر کو صبح کے اجلاس میں ذکر حبیب“ کے موضوع پر جو ایمان افروز اور روح پرور تقریرارشاد فرمائی تھی ذیل میں اس کا مکمل متن ہدیہ احباب کیا جارہا ہے.ادارہ ) أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اس وقت تک ذکر حبیب“ کے موضوع پر خدا کے فضل سے میری دو تقریریں ہو چکی ہیں.پہلی تقریر جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر 1959ء میں ہوئی تھی جو سیرۃ طیبہ کے نام سے چھپ چکی ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کے تین مخصوص خصائل پر روشنی ڈالی گئی تھی یعنی
مضامین بشیر جلد چهارم 305 (1) محبت الہی اور (2) عشقِ رسول اور (3) شفقت علی خلق اللہ.اس کے بعد دوسری تقریر جلسہ سالانہ 1960 ء میں ہوئی جس کا عنوان در منشور تھا.اس تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض علمی تحقیقاتوں اور بین الاقوامی تعلقات پر اثر ڈالنے والے واقعات کا بیان تھا.سوالحمد للہ ! کہ یہ دونوں تقریریں خدا کے فضل سے کافی مقبول ہوئیں اور ان کا عربی اور انگریزی زبان میں بھی ترجمہ ہو کر بیرونی ممالک میں پہنچ چکا ہے.اس سال مجھے پھر ذکر حبیب“ کے موضوع پر ہی تیسری تقریر کے لئے کہا گیا ہے.مگر گزشتہ ایام میں مجھے ذیا بیطس کا اتنا شدید حملہ رہا ہے کہ میں بلڈ شوگر کی زیادتی کی وجہ سے چلنے پھرنے سے ہی عملاً معذور ہو گیا تھا اور صرف پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر چند قدم چل سکتا تھا.دراصل یہ موذی مرض ایک سرکش گھوڑے کی طرح ہے کہ اگر سوار چوکس اور محتاط ہو کر بیٹھے اور غافل نہ ہو تو یہ گھوڑا قابو میں رہتا ہے اور سوار کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور نہ غفلت کی حالت میں بے قابو ہو کر سوار کو اوندھے منہ گرانے کے درپے ہو جاتا ہے.مگر یہ اللہ کا فضل اور ہمدرد ڈاکٹروں کے لمبے علاج کا نتیجہ تھا کہ بالآخر اس بیماری کے حملہ سے نجات ملی اور میں اس مضمون کے بیان کرنے کے قابل ہوا ہوں.لیکن اس عرصہ میں اتنا وقت گزر گیا کہ میں اس مضمون کے لئے خاطر خواہ تیاری نہیں کر سکا اور اب تک بھی ضعف کی صورت میں اس بیماری کا نتیجہ چل رہا ہے.بہر حال اب جو مواد بھی میسر ہے وہ اپنے حاضرین کے سامنے پیش کر رہا ہوں.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ 1 میں نے اس سال کی تقریر کا نام دُر مکنون رکھا ہے یعنی ” غلافوں میں لیٹے ہوئے موتی “ اس نام میں یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ گو اس وقت دنیا نے حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کو قبول نہیں کیا لیکن وقت آتا ہے کہ آپ کے لائے ہوئے بیش بہا موتیوں پر سے پردے اترنے شروع ہوں گے اور لوگوں کی آنکھوں میں بھی نور کی جھلک پیدا ہوگی تو پھر دنیا ان کی قدرو قیمت کو پہچانے گی کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہمیشگی کی ضمانت لے کر آئے ہیں اور ان کے بعد جوں جوں زمانہ گزرے گا توں توں ان کی قدر و قیمت کی بلندی اور ان کے افادہ کی وسعت میں اضافہ ہوتا جائے گا.حضرت مسیح موعود اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے در دو کرب کے ساتھ فرماتے ہیں کہ.
مضامین بشیر جلد چهارم 306 مروز قوم من نشاسد مقام من روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 184) یعنی آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ دن آتا ہے کہ میرے مبارک اور خوش بخت زمانہ کو یاد کر کر کے لوگ رویا کریں گے.یا درکھنا چاہئے کہ اس جگہ قوم سے جماعت احمد یہ مراد نہیں کیونکہ وہ تو حضرت مسیح موعود پر ایمان لا کر حضور کو شناخت کر چکی اور پہچان چکی ہے ( گو مختلف احمدیوں کی شناخت کے معیار میں بھی فرق ہے) بلکہ اس جگہ قوم سے دوسرے مسلمان اور عیسائی اور ہندو اور بدھ اور سکھ اور دنیا کی تمام دوسری اقوام مراد ہیں جو اس وقت تک آپ کی شناخت سے محروم ہیں.یہ وہی دردناک ڈرامہ ہے جو ہر مرسل ربانی اور مامور یزدانی کے منکروں نے اپنے اپنے وقت میں کھیلا کہ جب کسی روحانی مصلح نے خدا کی طرف سے ہو کر اصلاح خلق کا دعوی کیا اور اس کا دل دنیا کی ناپاکیوں پر پکھل کر خدا کے حضور جھکا اور دنیا میں ایک پاک تبدیلی کا متمنی ہوا تو اس کی قوم نے اس کی مخالفت کی اور اس پر ہنسی اڑائی اور اس کے مقابلہ پر ڈٹ گئی اور اسے تباہ کرنے کے در پے ہو گئی.لیکن جب مخالفت کا ابتدائی زمانہ گزر گیا تو بعد کی نسلوں میں آہستہ آہستہ مدعی کی صداقت کا شعور پیدا ہونے لگا اور اولاً عمومی قدرشناسی اور بعدہ معین تصدیق کے جذبات اُبھر نے شروع ہوئے اور دن بدن ترقی کرتے گئے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمد یہ اپنے نامور پیشر و حضرت مسیح ناصری کی مثال دے کر فرماتے ہیں اور غور کرو کس شان سے فرماتے ہیں کہ.مجھ سے پہلے ایک غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا.اور کس طرح اپنے گمان میں اُس کو سولی دے دی.مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا یا بعد میں ) وہ وقت آیا کہ...وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس 40 کروڑ انسان اس کو سجدہ کرتے ہیں اور بادشاہوں کی گردنیں اس کے نام کے آگے جھکتی ہیں.سومیں نے اگر چہ یہ دعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا میں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا
مضامین بشیر جلد چهارم 307 منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.( عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور کہا گیا کہ یہ ہیں وہ بادشاہ ) جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جوا اُٹھا ئیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا.حاشیہ ) سواے سننے والو! ان باتوں کو یا د رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مُشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا“ تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 408-410) اوپر والے کشف میں جو آئندہ ہونے والے بادشاہوں کو گھوڑوں پر سوار دکھایا گیا ہے اس میں یہ لطیف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ بادشاہ یونہی نام کے بادشاہ نہیں ہوں گے بلکہ جاہ وحشمت والے صاحب اقتدار بادشاہ ہوں گے جن کے ہاتھوں میں طاقت کی باگیں ہوں گی.بہر حال یہ سب کچھ انشاء اللہ اپنے وقت پر روحانی اسباب اور قلوب کی فتح کے ذریعہ پورا ہوگا اور ضرور ہو گا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدائے ارض و سماء کی تقدیر ہر گزٹل نہیں سکتی.وہ ایک پتھر کی لکیر ہے جو کبھی مٹائی نہیں جاسکتی.جس کی صداقت کو دنیا حضرت آدم سے لے کر اس وقت تک ہزاروں لاکھوں دفعہ آزما چکی ہے.مگر ذرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انکساری اور کسر نفسی ملاحظہ کرو کہ دنیا کے سامنے تو خدائی وعدوں پر بھروسہ کر کے یوں گرجتے ہیں کہ جیسے ایک شیر ببر اپنے شکار کے سامنے گر جتا ہے.مگر جب خدا کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے آپ کو ایک نالائق مزدور اور مشتِ خاک کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں.حق یہ ہے کہ اسی دُہرے تصور میں خدائی مرسلوں کی کامیابی اور ان کے غلبہ کا ابدی راز مضمر ہے..2 مگر جہاں خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور مامورں کی نصرت فرماتا ہے اور ان کی ترقی اور غلبہ
مضامین بشیر جلد چهارم 308 کے متعلق اپنے وعدہ کو غیر معمولی حالات میں پورا کرنے کا رستہ کھولتا ہے اور اپنی قدرت نمائی سے تمام روکوں کو دور کرتا چلا جاتا ہے وہاں دوسری طرف وہ مومنوں کی جماعت سے انتہائی قربانی کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور گویا ایک موت کی وادی میں سے گزار کر انہیں کامیابی کا منہ دکھانا چاہتا ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.احباب غور سے سنیں کہ ان الفاظ میں ان کی ترقی کی کلید ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہیں کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.یہ انسان کی بات نہیں.خدا تعالیٰ کا الہام اور رب جلیل کا کلام ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان حملوں کے دن نزدیک ہیں.مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوں گے اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی.بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد اترے گی سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اُس تا زگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھودیں.اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذتمیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی.مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے“ فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 9-10) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری توجہ اور ساری کوشش عمر بھر اسی بات میں صرف ہوئی کہ آپ اپنی جماعت کو اسلام کے لئے مرنا سکھا دیں.چنانچہ آپ کی اس تعلیم کے ماتحت آپ کی جماعت میں سے بہت سے لوگوں نے اسلام کی خدمت میں اس طرح زندگی بسر کی کہ گویا دنیا کے لحاظ سے زندہ درگور ہو گئے اور از جہان و باز بیروں از جہاں“ کا نقشہ پیش کیا اور کثیر التعداد لوگوں نے رسمی اور ظاہری وقف کے ذریعہ بھی اسلام کی خاطر موت کی زندگی قبول کی اور دنیوی ترقیات کو خیر باد کہا.اور بعض نے صداقت کی خاطر جسمانی موت کا مزا بھی چکھا اور شہادت کا درجہ پایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں طبعا ان کی جسمانی جدائی پر صدمہ محسوس کیا وہاں ایک بچے روحانی مصلح کی حیثیت میں ان کی غیر معمولی قربانی پر روحانی مسرت کا بھی اظہار فرمایا.چنانچہ جب صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب مرحوم کو کابل کی حکومت نے احمدیت کی صداقت قبول کرنے کی بناء پر نہایت ظالمانہ طریق پر زمین میں کمر تک گاڑ کر سنگسار کر دیا تو حضرت مسیح موعود نے اس
مضامین بشیر جلد چهارم کی اطلاع ملنے پر لکھا کہ.309 ”اے عبداللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا.اور جولوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گئے“.(تذکرۃ الشهادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 60) اس مقصد کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو بنیادی باتوں پر انتہائی زور دیا.ایک خدا تعالیٰ کی کامل توحید پر ایمان لانا.اور دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ کامل محبت اور آپ کی اطاعت کا سچا عہد کرنا.اور یہی وہ دو باتیں ہیں جن کی کلمہ طیبہ لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ میں تعلیم دی گئی ہے.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان لانے کے بغیر انسان حقیقی تو حید کا سبق کبھی نہیں سیکھ سکتا.نیچر کا مطالعہ اور عقلی دلیلیں انسان کو صرف اس حد تک لے جاتی ہیں کہ کوئی ”خدا ہونا چاہئے لیکن اس کے آگے یہ مقام کہ ”خدا واقعی موجود ہے“ رسولوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے.اور فرمایا کرتے تھے کہ ” ہونا چاہئے اور ” ہے، میں زمین و آسمان کا فرق ہے.کیونکہ جہاں ہونا چاہئے“ کا مقام محض شک یا زیادہ سے زیادہ گمان غالب کا مقام ہے وہاں ” ہے“ کا مقام مستحکم یقین کا مقام ہے اور ان دونوں میں کوئی نسبت نہیں.پھر رسولوں میں سے اپنے آقا اور مطاع اور محبوب حضرت خاتم النبین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت مسیح موعود کا دل خاص طور پر اس پختہ یقین سے معمور تھا کہ چونکہ پہلے تمام نبی اور رسول صرف خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لئے آئے تھے اور اس کے مقابل پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساری قوموں اور سارے زمانوں کے لئے ہے اس لئے کامل توحید الہی کا سبق دنیا کو صرف آپ ہی کے وجود باجود کے ذریعہ حاصل ہوا ہے اور پہلا کوئی نبی ایسا مکمل سبق نہیں دے سکا.چنانچہ ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی محبت کے ساتھ فرماتے ہیں.سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ہے اُس پر ہر اک نظر ہے بدر الرجی یہی ہے
مضامین بشیر جلد چہارم پہلے تو رہ میں ہارے پار اس نے ہیں اتارے میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے 310 ( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 456) الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کے دین و مذہب کے یہی دو بڑے ستون تھے.ایک توحید الہی اور دوسرے رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ).انہی کے ذریعہ آپ نے اپنی جماعت کی اخلاقی اور روحانی تربیت فرمائی اور انہی کے ذریعہ آپ دنیا بھر میں اصلاح کا کام سرانجام دینا چاہتے تھے اور آپ کا سارا تبلیغی اور تربیتی جہاد انہی دو عظیم الشان نکتوں کے ارد گرد گھومتا ہے.خدا ایک ہے.اپنی ذات میں ایک اور اپنی صفات میں ایک.اور ہر جہت سے وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ.اور اُس کے علم اور قدرت کی کوئی حد بندی نہیں.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری صاحب شریعت نبی اور خاتم النبین ہیں جن کو قرآن جیسی کامل کتاب دی گئی جو وحشی انسانوں کو مہذب انسان اور مہذب انسانوں کو با اخلاق انسان اور با اخلاق انسانوں کو باخدا انسان اور باخدا انسانوں کو خدا نما انسان بنانے کے لئے آسمان سے نازل ہوئی ہے.چنانچہ ذات باری تعالیٰ اور اس کے پاک کلام کے متعلق فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں کہ کن زور دار الفاظ میں فرماتے ہیں.یقیناًیہ سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب ( یعنی اپنے آسمانی آقا) کا منہ دیکھ سکیں.میں جوان تھا اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو.اے عزیز و! اے پیارو! کوئی انسان خدا کے ارادوں میں اُس سے لڑائی نہیں کر سکتا.یقینا سمجھ لو کہ کامل علم کا ذریعہ خدا تعالیٰ کا الہام ہے جو خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کو ملا.پھر بعد اس کے اس خدا نے جو دریائے فیض ہے یہ ہرگز نہ چاہا کہ آئندہ اس الہام پر مہر لگا دے اور اس طرح پر دنیا کو تباہ کردے....انسان کی تمام سعادت اسی میں ہے کہ جہاں روشنی کا پتہ لگے اُسی طرف دوڑے اور جہاں اس گم گشتہ دوست کا نشان پیدا ہو اسی راہ کو اختیار کرے.دیکھتے ہو کہ ہمیشہ آسمان سے روشنی اُترتی اور زمین پر پڑتی ہے.اسی طرح ہدایت کا سچا نور آسمان سے ہی اُترتا ہے.کامل اور زندہ خدا وہ ہے جو اپنے وجود کا آپ پتہ دیتا ر ہے اور اب بھی اس نے یہی چاہا ہے کہ آپ اپنے وجود کا پتہ دیوے.آسمانی کھڑکیاں کھلنے کو ہیں.عنقریب صبح صادق
مضامین بشیر جلد چهارم 311 ہونے والی ہے.مبارک وہ جو اب اٹھ بیٹھیں اور اب سچے خدا کو ڈھونڈیں.خدا ہی ہے جو ہر دم آسمان کا نور اور زمین کا نور ہے.اس سے ہر ایک جگہ روشنی پڑتی ہے.آفتاب کا سرچشمہ ) وہی آفتاب ہے.زمین کے تمام جانداروں کی وہی جان ہے.سچا زندہ خدا وہی ہے.مبارک وہ جو اس کو قبول کرئے“.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 443-444) چنانچہ اپنی ایک نظم میں خدا تعالے کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا چشمه خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشا ہے تری چمکار کا دوسری جگہ حضرت افضل الرسل سید ولد آدم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور آپ کے انفاس طیبہ کی برکات اور فیوض کے متعلق اپنے ایک عربی قصیدہ میں فرماتے ہیں.ائِمِينَ مُسَهَدَا يَا قَلْبِي اذْكُرُ أَحْمَدَا عَيْنَ الْهُدَى مُفْنِى الْعِدَا مُحْسِنٌ بَحْرُ الْعَطَايَا وَالْجَدَا بدرٌ مُّنِيرٌ زَاهِدٌ فِي كُلِّ وَصُفٍ حُــمــدا إِحْسَانُهُ يُصْبِي الْقُلُوبَ حُسْنُــــة يُرُوِي الصَّــدا لُبُ نَظِيرَ كَمَالِهِ فَسَتَنـد مَنَّ مُــلَـدَّدًا مَا إِنْ رَأَيْنَا مِثلَهُ نُورٌ مِّنَ اللَّهِ الَّذِي أحْيَ الْـعُــلُـوْمَ تَجَدُّدَا المُصْطَفى وَالْمُجْتَبى وَالْمُقْتَدَا وَالْمُجْتَدَا یعنی اے میرے دل! تو احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یاد کیا کرو جو ہدایت کا سرچشمہ ہے اور حق کے دشمنوں کے لئے تباہی کا پیغام ہے.وہ نیکیوں کا مجموعہ اور شرافت کا پتلا اور احسانوں کا مجسمہ ہے.وہ بخششوں کا سمندر ہے اور سخاوتوں کا بحر بیکراں.وہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور ضیا پاش ہے.اور وہی ہر تعریف اور ہر توصیف کا مستحق ہے.اس کے احسان دلوں کو گرویدہ کرتے ہیں اور اس کا حسن آنکھوں کی پیاس کو بجھاتا ہے.اس کے کمالات کی نظیر تلاش کر کے دیکھ لوتم حیران اور مایوس ہو کر نادم ہو جاؤ گے کہ اس کی
مضامین بشیر جلد چهارم 312 نظیر نہیں ملے گی.حق یہ ہے کہ ہم نے دنیا بھر میں اس جیسا سوتوں کو جگانے والا کوئی نہیں دیکھا وہ خدا کی طرف سے ایک نور بن کر نازل ہوا اور خدا نے اس کے ہاتھ سے دنیا کو روحانی علوم میں نئی زندگی بخشی.وہ خدا کا برگزیدہ ہے اور چُنیدہ ہے اور پیشوائے عالم ہے اور وہ وہی تو ہے جو تمام فیوض کا منبع ہے.4 اسلام کی سکھائی ہوئی کامل اور بے داغ تو حید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیع اور ارفع اخلاقِ فاضلہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک فطرت پر اتنا گہرا اثر تھا کہ آپ کے لئے ساری دنیا بلا امتیا ز قوم و ملت ایک خاندان کا رنگ اختیار کر گئی تھی اور آپ سب کو حقیقتاً اپنے عزیزوں کی طرح سمجھتے تھے اور دشمنوں تک سے محبت رکھتے اور ان کے دلی خیر خواہ تھے.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں.” بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے بھی دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے...حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا فرمایا کرتے تھے.شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے ہم نے دو تین مرتبہ دعانہ کی ہو.ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں بھی کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں.پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہئے کہ ایسی جماعت بنو جس کی نسبت آیا ہے که إِنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَشْقَى جَلِیسُهُمْ.یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ اُن کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور ملنے جلنے والا شخص بھی ان کی نیکی اور ہمدردی سے محروم نہیں رہتا ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 68-69 جدید ایڈیشن) خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سن لیں کہ وہ دنیا میں اسی طرح دشمنوں کے بھی دوست بن کر رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں جس طرح کہ ان کا امام سب کا دوست تھا جس نے دشمنوں کے لئے بھی ہمیشہ دعا کی.تو جب دشمنوں کے متعلق احمدیت کی یہ تعلیم ہے تو پھر خود سوچ لو کہ دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ محبت اور اخوت اور قربانی کا معیار کیسا بلند ہونا چاہئے ! بے شک ہر بچے احمدی کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دنیا سے بدی کو مٹانے کے لئے ہر وقت کوشاں رہے مگر بدی اور بد میں بھاری فرق ہے.اسلام بدی کو پورے زور سے مٹاتا ہے اور بک کو مٹانے کی بجائے نصیحت اور موعظہ حسنہ اور دعا کے ذریعہ اصلاح کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی صحیح رستہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام جیسے بدگو دشمن اسلام کی ہلاکت پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میں اسے بچانا چاہتا تھا مگر وہ میری نصیحت کو ر ڈ کر کے ہلاکت کے گڑھے میں جا گرا.
مضامین بشیر جلد چهارم 5 313 دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں بلا امتیاز قوم وملت بنی نوع انسان کی ہمدردی اور دلداری کا جذ بہ اس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ وہ ایک پہاڑی چشمہ کی طرح جو اوپر سے نیچے کو بہتا ہے ہمیشہ اپنے طبعی بہاؤ میں زور کے ساتھ بہتا چلا جاتا تھا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی مرحوم جو حضرت مسیح موعود کے ایک بہت پرانے اور مقرب صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ منی پور آسام کے دور دراز علاقہ سے دو ( غیر احمدی) مہمان حضرت مسیح موعود کا نام سن کر حضور کو ملنے کے لئے قادیان آئے اور مہمان خانہ کے پاس پہنچ کر لنگر خانہ کے خادموں کو اپنا سامان اتارنے اور چار پائی بچھانے کو کہا.لیکن ان خدام کو اس طرف فوری توجہ نہ ہوئی اور وہ ان مہمانوں کو یہ کہہ کر دوسری طرف چلے گئے کہ آپ یکہ سے سامان اتاریں چار پائی بھی آجائے گی.ان تھکے ماندے مہمانوں کو یہ جواب نا گوار گزرا اور وہ رنجیدہ ہو کر اسی وقت بٹالہ کی طرف واپس روانہ ہو گئے.مگر جب حضور کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو حضور نہایت جلدی ، ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل ہو گیا ان کے پیچھے بٹالہ کے رستہ پر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چل پڑے.چند خدام بھی ساتھ ہو گئے اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں بھی ساتھ ہولیا.حضور اس وقت اتنی تیزی کے ساتھ ان کے پیچھے گئے کہ قادیان سے دو اڑھائی میل پر نہر کے پل کے پاس انہیں جالیا اور بڑی محبت اور معذرت کے ساتھ اصرار کیا کہ واپس چلیں اور فرمایا کہ آپ کے واپس چلے آنے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے.آپ یکہ پر سوار ہو جائیں میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا.مگر وہ احترام اور شرمندگی کی وجہ سے سوار نہ ہوئے اور حضور انہیں اپنے ساتھ لے کر قادیان واپس آگئے اور مہمان خانہ میں پہنچ کران کا سامان اتارنے کے لئے حضور نے خود اپنا ہاتھ یکہ کی طرف بڑھایا مگر خدام نے آگے بڑھ کر سامان اتارلیا.اس کے بعد حضور ان کے پاس بیٹھ کر محبت اور دلداری کی گفتگو فرماتے رہے اور کھانے وغیرہ کے متعلق بھی پوچھا کہ آپ کیا کھانا پسند کرتے ہیں اور کسی خاص کھانے کی عادت تو نہیں ؟ اور جب تک کھانا نہ آ گیا حضور ان کے پاس بیٹھے ہوئے بڑی شفقت کے ساتھ باتیں کرتے رہے.دوسرے دن جب یہ مہمان واپس روانہ ہونے لگے تو حضور نے دودھ کے دو گلاس منگوا کر ان کے سامنے بڑی محبت کے ساتھ پیش کئے اور پھر دواڑھائی میل پیدل چل کر بٹالہ کے رستہ والی نہر تک چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ گئے اور اپنے سامنے یکہ پر سوار کرا کر واپس تشریف لائے.(اصحاب احمد جلد 4 روایت نمبر 44)
مضامین بشیر جلد چهارم 314 اس واقعہ میں دلداری اور انکساری اور اکرام ضیف اور جذبات اخوت کا جو بلند معیار نظر آتا ہے اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں.مگر میں اس موقع پر ربوہ کے افسر مہمان خانہ اور دیگر عملہ کو ضرور توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس لطیف روایت کو ہمیشہ اپنے لئے مشعل راہ بنائیں اور مرکز میں آنے والے مہمانوں کو خدائی مہمان سمجھ کر ان کے اکرام اور آرام کا انتہائی خیال رکھیں اور ان کی دلداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں اور مرکز کے مہمان خانہ کو ایک روحانی مکتب سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اس مکتب کا خادم تصور کریں.اور اگر کسی مہمان کی طرف سے کبھی کوئی تلخ بات بھی سننی پڑے تو اسے کامل صبر اور ضبط نفس کے ساتھ برداشت کریں اور اپنے ماتھے پر بل نہ آنے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب تک زندہ رہے حضور نے لنگر خانہ کے انتظام کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھا تا کہ انجمن کی طرف منتقل ہونے کے نتیجہ میں کسی خدائی مہمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور مہمان خانہ کے دینی ماحول میں فرق نہ آنے پائے.سواب یہ مہمان خانہ جماعت کے ہاتھ میں ایک مقدس امانت ہے اور خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ مرکزی کارکن اس امانت کو کس طرح ادا کرتے ہیں.یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ اب کچھ عرصہ سے مہمان خانہ کے انتظام میں کافی اصلاح ہے مگر نرخ بالا گن کہ ارزانی ہنوز 6.دلداری اور غریب نوازی کا ایک اور واقعہ بھی بہت پیارا اور نہایت ایمان افروز ہے.یہی منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے.اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے.اتنے میں چند معزز مہمان آ کر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑاتی کہ وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ پر پہنچ گئے.اتنے میں کھانا آیا تو حضور نے جو یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا آؤ میاں نظام دین! ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں“.یہ فرما کر حضور مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کوٹھڑی کے اندرا کٹھے بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا.اس وقت میاں نظام دین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے
مضامین بشیر جلد چهارم 315 اور جولوگ میاں نظام دین کو عملاً پرے دھکیل کر حضرت مسیح موعود کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کٹے جاتے تھے.اصحاب احمد جلد 4 روایت نمبر (42) اس لطیف روایت سے تکبر اور نخوت کے خلاف اور دلداری اور مساوات اور اخوت اور غریب نوازی کے حق میں جو عظیم الشان سبق حاصل ہوتا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کمال دانائی سے یہ سبق اپنے قول سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے دیا جو قول کی نسبت ہمیشہ زیادہ اثر رکھتا ہے.آپ کی غریب نواز آنکھ نے دیکھا کہ ایک خستہ حال دریدہ لباس مہمان کو آہستہ آہستہ نام نہاد ”بڑے لوگوں“ نے دانستہ یا نا دانستہ جوتیوں کی طرف دھکیل دیا ہے تو اس غیر اسلامی نظارے سے آپ کے دل کو سخت چوٹ لگی اور اس غریب شخص کے جذبات کا خیال کر کے آپ کا دل بے چین ہو گیا اور آپ نے فوراً سالن کا پیالہ اور روٹیاں اٹھا ئیں اور اس مہمان کو ساتھ لے کر قریب کے حجرے میں تشریف لے گئے اور وہاں اس کے ساتھ مل کر کھانا کھایا.بے شک جس شخص کو خدا نے دنیا میں عزت دی ہے ہمارا فرض ہے کہ عام حالات میں اس کے ظاہری اکرام کا خیال رکھیں لیکن یہ اکرام ایسے رنگ میں نہیں ہونا چاہئے کہ جس میں کسی غریب شخص کی تذلیل یا دل شکنی کا پہلو پیدا ہو.قرآن مجید کا یہ ارشاد کتنا پیارا اور مساوات کی تعلیم سے کتنا لبریز ہے کہ اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ انْقَكُمُ (سورہ حجرات آیت 14 ) یعنی اے مسلمانو! خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز شخص وہی ہے جو زیادہ متقی اور زیادہ نیک ہے.کاش ہماری جماعت اس ارشاد کو اپنا طرۂ امتیاز بنائے اور دنیا میں اخوت اور مساوات کا نمونہ قائم کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں اپنی امت کے غریبوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ اگر نیکی پر قائم ہوں گے تو امیروں کی نسبت پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے ( ترمذی ابواب الزھد ).یہ ایک استعارے کا کلام ہے جس سے ظاہری غریب اور دل کے غریب دونوں مراد ہیں اور پانچ سو سال سے ایک لمبا عرصہ مراد ہے جس کی اصل حقیقت کو صرف خدا جانتا ہے کیونکہ آخرت کی زندگی میں دنیا کے سالوں کے مطابق شمار نہیں ہوگا.وہاں کے وقت کا پیمانہ دنیا کے وقت کے پیمانے سے بہت مختلف ہے.مگر بہر حال اس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ ہمارے آسمانی آقا کوغریب پروری اور غریب نوازی بہت مرغوب ہے اور حضرت مسیح موعود میں یہ صفت بہت نمایاں طور پر پائی جاتی تھی.7% یہ مختصر سے دو واقعات جو میں نے اس جگہ بیان کئے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جمالی صفات
مضامین بشیر جلد چهارم 316 کی بڑی دلچسپ اور روشن مثالیں ہیں اور ایسی مثالوں سے آپ کی حیات طیبہ بھری پڑی ہے جن میں سے بعض گزشتہ سالوں کی تقریروں میں بھی بیان کی جاچکی ہیں.لیکن جہاں آپ کی زندگی کا غالب پہلو جمالی تھا جو محبت اور نرمی اور شفقت اور نصیحت سے تعلق رکھتا تھا اور چاند کی طرح دلکش و دلنواز تھا وہاں کبھی کبھی جہاں ایمانی غیرت کا سوال پیدا ہوتا تھا آپ کی جلالی صفات بھی سورج کی تیز شعاعوں کی طرح بھڑک اٹھتی تھیں.میں اس تعلق میں اس جگہ دو ایسے واقعات بیان کرتا ہوں جو بظاہر بہت چھوٹے ہیں مگر حقیقتا روحانی بمب شیل کا حکم رکھتے ہیں اور ان سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو خدائی الہام پر کس قدر بھروسہ اور خدائی نصرت پر کتنا اعتماد تھا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں گورداسپور میں حضرت مسیح موعود کے خلاف مولوی کرم دین ساکن بھیں کی طرف سے ایک طولانی مقدمہ چل رہا تھا اور کھدر پوش ہندو مجسٹریٹ مقدمہ کولمبا کر کر کے اور قریب قریب کی تاریخیں ڈال ڈال کر حضرت مسیح موعودؓ کو تنگ کر رہا تھا اور افواہ گرم تھی کہ وہ بزعم خود پنڈت لیکھرام کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا ہے.ایک دن اس نے بھری عدالت میں حضرت مسیح موعود سے سوال کیا کہ کیا خدا کی طرف سے آپ کو کوئی ایسا الہام ہوا ہے کہ إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ أَرَادَ إِهَا نَتَكَ یعنی میں اس شخص کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت کا ارادہ کرتا ہے.آپ نے بڑے وقار کے ساتھ فرمایا.’ہاں یہ میرا الہام ہے اور خدا کا کلام.اور خدا کا مجھ سے یہی وعدہ ہے کہ جو شخص مجھے ذلیل کرنے کا ارادہ کرے گا وہ خود ذلیل کیا جائے گا“ مجسٹریٹ نے کہا.اگر میں آپ کی ہتک کروں تو پھر ؟“ آپ نے اُسی وقار کے ساتھ فرمایا.خواہ کوئی کرے وہ خود ذلیل کیا جائے گا“ مجسٹریٹ نے آپ کو مرعوب کرنے کی غرض سے دو تین دفعہ یہی سوال دہرایا اور آپ ہر دفعہ جلالی انداز میں یہی جواب دیتے گئے کہ خواہ کوئی کرے“.اس پر مجسٹریٹ حیران اور مرعوب ہو کر خاموش ہو گیا.(اصحاب احمد جلد 4 روایت نمبر 49) دوست یا درکھیں کہ یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب ملک میں انگریز کی حکومت تھی ہاں وہی انگریز جس کی خوشامد کا جماعت احمدیہ کو جھوٹا طعنہ دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مجسٹریٹ محض انگریزی حکومت کے کھونٹے پر ہی ناچتا تھا.مگر باوجود اس کے جب ایمانی غیرت اور حق کی تائید کا سوال پیدا ہوا تو حضرت مسیح موعود سے بڑھ کر نگی تلوار کو ئی نہیں تھی.آپ نے اپنی ایک نظم میں کیا خوب فرمایا ہے کہ.
مضامین بشیر جلد چهارم بکار دیں نه ترسم از جہانے دارم رنگ ایمان 317 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 649) یعنی میں دین کے معاملے میں سارے جہان سے بھی نہیں ڈرتا کیونکہ میں خدا کے فضل سے اپنے آقا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ رکھتا ہوں.8.اس موقع پر ضمناً نہایت مختصر طور پر اُس سراسر غلط اور بے بنیاد الزام کے متعلق بھی کچھ کہنا غیر مناسب نہ ہوگا جو کئی نا واقف لوگ نادانستہ اور کئی مخالف لوگ دیدہ و دانستہ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ پر انگریزوں کی مزعومہ خوشامد کے متعلق لگایا کرتے ہیں اور اس پس منظر کو قطعی طور پر بھول جاتے ہیں جس میں حضرت مسیح موعود نے پاک وصاف نیت سے اپنے زمانہ کی انگریز حکومت کی تعریف فرمائی ہے.یہ پس منظر مختصر طور پر دو خاص پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے جو ہر انصاف پسند محقق کو ہمیشہ ملحوظ رہنے چاہئیں.اوّل یہ کہ پنجاب میں بلکہ ہندوستان بھر میں انگریزوں کی حکومت سے پہلے کافی طوائف الملو کی کا زمانہ گزرا ہے اور خصوصیت سے پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے نسبتا مستحکم زمانہ کو چھوڑ کر بڑی دھاندلی رہی ہے جس میں دیہاتی علاقوں میں مسلمانوں کو نماز کے لئے اذان تک دینا قریباً قریباً ناممکن تھا اور کئی مسجدیں ،سکھ گوردواروں میں تبدیل کر لی گئی تھیں حتی کہ خود قادیان میں اس وقت بھی دو قدیم مسجد میں گوردوارہ کی شکل میں موجود ہیں.اور عام بدامنی اور مذہبی رواداری کے فقدان کا تو کہنا ہی کیا ہے.یہ سب پُر آشوب نظارے حضرت مسیح موعود کی آنکھوں کے سامنے تھے.ایسے روح فرسا منظر کے بعد امن کا سانس ہمیشہ خاص بلکہ خاص الخاص شکر گزاری کا موجب ہوا کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود سے زیادہ شکر گزار انسان کون ہوسکتا ہے؟ دوسرے یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی سیاسی لیڈر نہیں تھے بلکہ آپ حضرت مسیح ناصری کی طرح خالصتا جمالی رنگ میں مذہبی اور روحانی اصلاح کی غرض سے مبعوث کئے گئے تھے اور طبعاً آپ کی آنکھ ہر بات کو روحانی اور اخلاقی اصلاح کی نظر سے ہی دیکھتی تھی.اور چونکہ مذہبی آزادی دینے کے معاملہ میں حکومت انگریزی کی پالیسی بلاریب بہت قابل تعریف تھی اور یورپ کی کوئی دوسری حکومت اس معاملہ میں انگریزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی.حتی کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ جیسا آزاد ملک اب تک بھی مذہبی آزادی اور مذہبی رواداری کے معاملہ میں انگریز قوم کی برابری نہیں کر سکتا.اس لئے طبعاً ایک روحانی اور مذہبی مصلح
مضامین بشیر جلد چہارم 318 کی حیثیت میں حضرت مسیح موعود نے انگریز حکومت کی تعریف فرمائی اور یہ تعریف اپنے پس منظر اور اپنے مخصوص ماحول کے لحاظ سے بالکل جائز اور درست تھی.بلکہ تعریف نہ کرنا یقیناً ناشکری اور بددیانتی کا فعل ہوتا.بہر حال جو شخص ان دو پہلوؤں کو جو میں نے اس جگہ بیان کئے ہیں مدنظر رکھ کر نیک نیتی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا مطالعہ کرے گا وہ اس بات کو یقیناً آسانی سے سمجھ لے گا کہ حضرت مسیح موعودؓ نے جو کچھ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے کی انگریز کی حکومت کے متعلق لکھا تھا وہ ہرگز ہرگز خوشامد کے رنگ میں نہیں تھا بلکہ وہ صرف انگریزوں کے زمانہ کے قیام امن اور ان کی مذہبی آزادی کی پالیسی کی اصولی تعریف کے طور پر تھا.ورنہ مذہبا حضرت مسیح موعود نے مسیحیت کے باطل عقائد اور عیسائی پادریوں کے دجل اور مغربی ملکوں کی زہر آلود مادیت کے خلاف جو کچھ اظہار فرمایا ہے وہ اس قدر ظاہر وعیاں ہے کہ کسی تشریح کا محتاج نہیں.چنانچہ ایک جگہ اپنی ایک عربی نظم میں بڑی غیرت اور جوش کے ساتھ فرماتے ہیں.أنظُرُ إِلَى الْمُتَنَصِرِينَ وَ ذَانِهِمْ وَانْظُرُ إِلَى مَا بَدَأَ مِنْ أَدْرَانِهِمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُوْنَ تَشَدُّرًا وَيُنَجِّسُوْنَ الْأَرْضَ مِنْ أَوْثَانِهِمُ حَـلَّــتْ بِأَرْضِ الْمُسْلِمِينَ جُنُودُهُمُ فَسَرَتْ غَوَائِلُهُمْ إِلَى نِسْوَانِهِمْ يَا رَبِّ أَحْمَدَ يَا إِلَـهَ مُحَمَّدٍ اِعْصِمُ عِبَادَكَ مِنْ سُمُومِ دُخَانِهِمْ يَا رَبِّ سَحِقُهُمْ كَسَحُقِكَ طَاغِياً وَانُزِلُ بِسَاحَتِهِمْ لِهَدْمِ مَكَانِهِمْ ا رَبِّ مَزْقُهُمْ وَفَرِّقُ شَمْلَهُمْ يَا رَبِّ قَةٍ ودُهُمْ إِلَى ذَوَبَانِهِمْ نور الحق حصہ اول روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 123-126 ) یعنی مسیحیوں کی طرف دیکھو اور ان کے جھوٹے عقائد کو بھی دیکھو اور پھر ان ناپا کیوں کی طرف بھی دیکھو جوان کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں.وہ اپنے ظلموں اور زیادتیوں کے ساتھ ہر بلندی سے کمزور قوموں کی طرف
مضامین بشیر جلد چہارم 319 دوڑے چلے آتے ہیں.اور اپنے عقائد کے بنوں کے ذریعہ خدا کی زمین کو نا پاک کر رہے ہیں.بلکہ ان کے لشکروں نے مسلمانوں کی زمینوں میں بھی ڈیرے ڈال دیئے ہیں.اور ان کے دجالی فتنے مسلمان عورتوں تک میں سرایت کر رہے ہیں.اے احمد کے آقا! اے محمد کے معبود ومسجود خدا! تو اپنے بندوں کو ان کے خطرناک زہروں سے محفوظ رکھ.اے میرے رب! تو ان کی طاقت کو اس طرح توڑ دے جس طرح کہ تو سرکش لوگوں کو توڑا کرتا ہے اور ان کی عمارتوں کو مسمار کرنے کے لئے ان کے میدان میں اتر آ.اے میرے رب! تو ان کے جتھے کو بکھیر کر ان کی جمعیت کو منتشر کر دے اور ان کو تباہی کی طرف گھسیٹ گھسیٹ کر اس طرح پگھلا کر رکھ دے جس طرح کہ نمک پانی میں پگھلتا ہے.کیا مسیحیوں کے عقائد اور عیسائی پادریوں کے طور و طریق کے متعلق ایسے غیرت مندانہ خیالات ظاہر کرنے والا شخص انگریزوں کی عیسائی حکومت کا خوشامدی سمجھا جاسکتا ہے؟ ہر گز نہیں.ہر گز نہیں.باقی رہا انگریز کے زمانہ میں انگریزی حکومت کی وفاداری کا سوال.سو یہ ایک اصولی سوال ہے جسے خوشامد کے سوال کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں اور نہ اس سوال کو انگریزوں کے ساتھ کوئی خصوصی تعلق ہے.ایک پاکباز مسلمان بلکہ ایک نائب رسول روحانی مصلح ہونے کی حیثیت میں حضرت مسیح موعود کا یہ پختہ عقیدہ تھا کہ قطع نظر مذہب وملت کے ہر مسلمان کو اپنے ملک کی حکومت کا وفادار شہری بن کر رہنا چاہئے.یہ وہی زریں تعلیم ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کی زندگی میں جبکہ آپ قریش کی قبائلی حکومت کے ماتحت تھے اور حضرت موسے نے اپنی مصری زندگی میں جبکہ وہ فرعون کی حکومت کے ماتحت تھے اور حضرت عیلے نے اپنی فلسطینی زندگی میں جبکہ وہ قیصر روما کے ماتحت تھے پوری پوری دیانتداری کے ساتھ عمل کیا.اور اسی کی اپنے متبعین کو تلقین فرمائی.اور یہی وہ پُر امن تعلیم ہے جو قرآن حکیم نے اس اصولی آیت میں سکھائی ہے کہ.اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَ أولى الأمرِ مِنْكُمْ (النساء: 60) یعنی اے مومنو! خدا کی اطاعت کرو اور خدا کے رسول کی اطاعت کرو اور پھر اپنے ان حاکموں کی بھی اطاعت کرو جو تم پر مقرر ہوں.اس واضح تعلیم کے ماتحت جماعت احمد یہ جو اب خدا کے فضل سے ایک عالمگیر جماعت ہے اور ایشیا کے اکثر ممالک اور مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ کے اکثر ممالک اور آسٹریلیا اور یورپ کے کئی ممالک اور شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ تک میں پھیل چکی ہے جہاں جہاں بھی ہے قطع نظر حکومت کے مذہب وملت کے اپنے اپنے ملک کی کچی وفادار اور دلی خیر خواہ ہے اور جو شخص ہماری نیت کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے خواہ وہ کوئی
مضامین بشیر جلد چہارم 320 ہو وہ یا تو جھوٹا ہے یا دھوکا خوردہ ہے اس کے سوا کچھ نہیں.وَاللهُ عَلى مَا تَقُولُ شَهِيدٌ وَ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى مَنْ كَذَبَ.9 میں ایک ضمنی مگر ضروری بات کی وجہ سے اپنے مضمون سے ہٹ گیا.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلالی شان کی بعض مثالیں بیان کر رہا تھا.چنانچہ ایک واقعہ مقدمہ مولوی کرم دین سکنہ بھیں سے تعلق رکھنے والا جو عدالت میں پیش آیا بیان کر چکا ہوں.دوسرا جلالی نوعیت سے تعلق رکھنے والا واقعہ بھی اسی عدالت کا ہے.مسٹر چند ولعل مجسٹریٹ نے ایک دن عدالت میں لوگوں کا زیادہ ہجوم دیکھ کر عدالت کے کمرے سے باہر کھلے میدان میں عدالت کی کارروائی شروع کی.اور نہ معلوم کس خیال سے عدالت کی کارروائی کے دوران میں حضرت مسیح موعود سے پوچھا.” کیا آپ کو نشان نمائی کا دعوئی ہے؟“.حضرت مسیح موعود نے جواب میں فرمایا.”ہاں خدا میرے ہاتھ پر نشان ظاہر فرماتا ہے.مجسٹریٹ کے اس سوال میں طعن اور استہزاء کا رنگ تھا.حضرت مسیح موعود نے یہ جواب دے کر تھوڑی دیر سکوت فرمایا گویا خدا کی طرف توجہ فرما رہے ہیں اور اس کی نصرت کے طالب ہورہے ہوں اور پھر بڑے جوش اور غیرت کے ساتھ فرمایا.جونشان آپ چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں“ مجسٹریٹ حضور کا یہ جواب سن کر سناٹے میں آ گیا اور اسے سامنے سے کسی مزید سوال کی جرات نہیں ہوئی اور حاضرین پر بھی اس کا خاص اثر ہوا.(اصحاب احمد جلد 4 روایت نمبر 48) یہ واقعہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی اور بہت سے دوسرے لوگوں کا چشم دید اور گوش شنید ہے جن میں سے بعض غالبا اب تک زندہ ہونگے.افسوس ہے کہ مجسٹریٹ کو اس موقع پر بات شروع کر کے اسے آگے چلانے کی ہمت نہیں ہوئی اور نہ اس نے از خود نشان نمائی کا ذکر چھیڑ نے کے بعد حضرت مسیح موعود کے جلالی جواب پر نشان طلبی کی جرات کی ورنہ نہ معلوم دنیا کتنا عظیم الشان نشان دیکھتی ! مگر کیا خود نشان طلب کرنے کے بعد پھر حق کی آواز سن کر مرعوب ہو جانا اپنی ذات میں ایک نشان نہیں ؟ یقیناً اس وقت کے لحاظ سے یہی ایک عظیم الشان نشان تھا کہ مکذب نے از خود ایک نشان مانگا مگر پھر حضرت مسیح موعود کے جواب سے ڈر کر خاموش ہو گیا.
مضامین بشیر جلد چهارم 321 اس جگہ یہ اصولی بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ نشان نمائی اور معجزات اور کرامات کا دکھانا دراصل خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور رسول یا ولی صرف خدا کی قدرت کا آلہ کار بنتا ہے.ورنہ اسے از خود معجزہ نمائی کی طاقت حاصل نہیں ہوتی.اسی لئے قرآن فرماتا ہے کہ إِنَّمَا الْأَيتُ عِندَ اللهِ (سوره انعام آیت 110 ) یعنی معجزات خدا کے اختیار میں ہیں.وہ جب اور جس طرح چاہتا ہے اپنے رسولوں کے ذریعہ نشان ظاہر کرتا ہے.مگر بعض اوقات خدا تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ وقتی طور پر اپنے نبیوں اور رسولوں میں معجزہ نمائی کی طاقت ودیعت فرما دیتا ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ شق القمر میں یا جنگِ بدر میں کافروں پر کنکروں کی مٹھی بھر کر پھینکنے کے وقت ہوا جبکہ محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے اشارے سے خارق عادت معجزے کی صورت پیدا ہو گئی.ایسے معجزات اصطلاحی طور پر اقتداری معجزات کہلاتے ہیں اور معجزات کی دنیا میں استثناء کا رنگ رکھتے ہیں.سو معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر بھی حضرت مسیح موعود کے ساتھ یہی ہوا کہ شروع میں آپ مجسٹریٹ کے سوال پر صرف یہ اصولی بات فرما کر خاموش ہو گئے کہ ” خدا میرے ہاتھ پر نشان ظاہر فرماتا ہے.لیکن جب خدائی غیرت جوش میں آئی اور اس نے اپنی خاص نصرت سے آپ کے اندر وقتی طور پر اقتداری معجزہ کی طاقت اور کیفیت ودیعت فرما دی تو آپ نے بڑے جوش اور جلال کے ساتھ فرمایا کہ ”جو نشان آپ چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں“ مگر افسوس ہے کہ مجسٹریٹ کے مبہوت ہو کر خاموش ہو جانے کی وجہ سے ہم ایک بڑے نشان سے محروم ہو گئے.10% حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اقتداری معجزات کی تشریح اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام میں فرمائی ہے جہاں آپ انسان کے روحانی سلوک کے تین مدارج یعنی فنا اور بقا اور لقا کا ذکر کرتے ہوئے لقا یعنی ملاقات الہی کے درجہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ.یہ لقا کا مرتبہ تب سالک کے لئے کامل طور پر متفق ہوتا ہے کہ جب ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بو کو بتمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متوازی اور پوشیدہ کر دیوے جس طرح آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسا چھپا لیتی ہے کہ نظر ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا.اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الہی طاقت کا رنگ اپنے اندر کھتے ہیں.جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وسلم نے جنگ
مضامین بشیر جلد چہارم 322 بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو.اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا.....غرض....لقا کا مرتبہ جب کسی انسان کو میسر آتا ہے تو اس مرتبہ کے تموج ( یعنی خاص لہر ) کے اوقات میں الہی کام ضرور اس سے صادر ہوتے ہیں گو درجہ میں خدائی کاموں سے کسی قدر کم تر اور ایسے شخص کی گہری صحبت میں جو شخص ایک حصہ عمر کا بسر کرے تو ضرور کچھ نہ کچھ یہ اقتداری خوارق مشاہدہ کرے گا“ ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 64 تا68) لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار صراحت فرمائی ہے کہ معجزات خواہ خدا کی طرف سے اس کی غیر محدود طاقتوں کے ذریعہ سے دکھائے جائیں جیسا کہ عموماً ہوتا ہے یا استثنائی حالات میں روحانی قوت کے تموّج کے وقت میں اقتداری طور پر خود نبی سے ظاہر ہوں دونوں صورتوں میں خدا کی طرف سے یہ ضروری شرط ہے کہ وہ کسی صورت میں خدا کے وعدے اور خدا کی کتاب (یعنی سنت اللہ ) کے خلاف نہیں ہوتے ورنہ نعوذ باللہ خدا پر اعتراض آتا ہے کہ اس نے اپنے وعدے اور اپنی سنت کے خلاف کیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.تمام دنیا کا وہی خدا ہے جس نے میرے پر وحی نازل کی.جس نے میرے لئے زبردست نشان دکھلائے جس نے مجھے اس زمانہ کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا.اُس کے سوا کوئی خدا نہیں نہ آسمان میں نہ زمین میں.جو شخص اُس پر ایمان نہیں لاتا وہ سعادت سے محروم اور خذلان میں گرفتار ہے.ہم نے اپنے خدا کی آفتاب کی طرح روشن وحی پائی.ہم نے اُسے دیکھ لیا کہ دنیا کا وہی خدا ہے اُس کے سوا کوئی خدا نہیں.کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا.کیا ہی زبر دست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا سچ تو یہ ہے کہ اُس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں مگر وہی جو اُس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے.سو جب تم دعا کرو تو اُن جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانونِ قدرت بنا بیٹھے ہیں جس پر خدا کی کتاب کی مہر نہیں.کیونکہ وہ مردود ہیں اُن کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے.تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 20-21) یا درکھنا چاہئے کہ سنت اور وعدے کی استثناء سے نعوذ باللہ خدا کی قدرتوں کی حد بندی مقصود نہیں کیونکہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق خدا تعالیٰ کی قدرتیں حقیقتاً غیر محدود ہیں جن کا حصر ممکن نہیں.بلکہ سنت
مضامین بشیر جلد چهارم 323 اور وعدے کی مستثنیات سے خدا تعالیٰ کی ذات سے محض اس اعتراض کو دور کرنا مقصود ہے کہ وہ نعوذ باللہ اپنے کلام میں اپنی ایک سنت بیان فرماتا ہے اور پھر خود اس کے خلاف کرتا ہے.ایک وعدہ کرتا ہے اور پھر خوداس وعدے کو توڑتا ہے.ورنہ جہاں تک خدا کی ایسی قدرتوں کا سوال ہے جو حقیقتا قدرت کہلانے کی حقدار ہیں اور ان کی وجہ سے خدا میں کوئی نقص لازم نہیں آتا اور اس کے سبحان (یعنی بے عیب) ہونے کی صفت میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوتا وہ یقینا غیر محدود ہیں.حضرت مسیح موعود اپنے ایک شعر میں کیا خوب فرماتے ہیں کہ.نہیں محصور ہرگز راستہ قدرت نمائی کا خدا کی قدرتوں کا حضر دعوی ہے خدائی کا 11 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا سب سے بڑا عملی مقصد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور ظلیت میں اسلام کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کے عالمگیر غلبہ سے تعلق رکھتا تھا.چنانچہ آپ کی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک لمحہ اسی مقدس جہاد میں گزرا اور یہ جہاد صرف ایک محاذ تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ کو اسلام کے غلبہ کی خاطر دنیا کے ہر مذہب کے خلاف برسر پیکار ہونا پڑا اور آپ نے خدا کے فضل سے ہر محاذ پر فتح پائی گئی کہ آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں تک نے آپ کو فتح نصیب جرنیل کے شان دار لقب سے یاد کیا.(اخبار وکیل امرتسر ماہ جون 1908 ء ) لیکن اس جگہ آپ کی تمام مقدس جنگوں کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں اور نہ میرا یہ مختصر سا مقالہ اس کی تفصیل کا حامل ہو سکتا ہے.مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس نے اپنے قرآنی وعدہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله ( یعنی مسح محمدی کے زمانہ میں خدا اسلام کو سارے دینوں پر غالب کر کے دکھلائے گا) کے عالمگیر نشان کی ایک موٹی اور بدیہی علامت کے طور پر ایک وقت میں ہی سارے مذاہب کو اپنے مسیح محمدی کی خاطر ایک محاذ پر جمع کر دیا تا کہ دنیا بھر کے شکار ایک گولی کا نشانہ بن کر اسلام کے غلبہ کی متفقہ شہادت دے سکیں.اس واقعہ کی تفصیل نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف کتابوں اور اشتہاروں میں آچکی ہے بلکہ خود اُس مخلوط کمیٹی کی رپورٹ میں بھی درج ہے جو جلسہ اعظم مذاہب کے انتظام کے لئے مقرر ہوئی تھی اور مختلف مذاہب کے نمائندوں پر مشتمل تھی.اور یہ ساری رپورٹیں ایک ہی حقیقت کی حامل ہیں اور وہ یہ کہ مذاہب عالم کے اس عظیم الشان جلسہ میں حضرت مسیح موعودؓ کے مضمون کے ذریعہ اسلام کو ایسا غلبہ حاصل ہوا جو فی الواقع بے مثال تھا.میں اس جگہ حضرت مسیح موعود کے قدیم صحابی حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی روایت کا خلاصہ درج کرتا ہوں جس کے
مضامین بشیر جلد چهارم 324 بعض حصے ابھی تک حقیقتا’در مکنون ( یعنی غلافوں کے اندر چھپے ہوئے موتیوں) کا رنگ رکھتے ہیں کیونکہ اس واقعہ کی عمومی اشاعت کے باوجود یہ مخصوص حصے ابھی تک زیادہ معروف نہیں ہیں.حضرت بھائی صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1896 ء کے نصف آخر کا زمانہ تھا کہ اچانک ایک اجنبی انسان سادھو منش بھگوے کپڑوں میں ملبوس شوگن چندر نامی قادیان میں وارد ہوا یہ شخص ایک اچھے عہدے پر فائز رہ چکا تھا اور اب اپنے بیوی بچوں کے فوت ہو جانے کے بعد دنیا سے کنارہ کش ہو کر صداقت اور خدا کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا اور اس بات کی تڑپ رکھتا تھا کہ اسے سچے رستے کا نشان مل جائے.اسی جستجو میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام سن کر قادیان آیا اور بہت جلد قادیان کی مجالس کا ایک بے تکلف ممبر نظر آنے لگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی باتیں سن کر اور خواہش معلوم کر کے فرمایا کہ ہماری تو بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ مذاہب کے اختلاف کا فیصلہ کر کے دنیا کو بچے خدا کا رستہ دکھا ئیں.سواگر آپ لاہور جیسے مقام میں کسی ایسے جلسہ کا انتظام کراسکیں جس میں سارے مذہبوں کے نمائندے شامل ہو کر اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں اور مخلوق خدا کو خدا کا رستہ دکھانے میں مدد دیں تو یہ ایک بہت بڑی نیکی اور خدمت کا کام ہوگا اور دنیا کو اپنے بچے آقا و مالک کا نشان پانے میں مدد ملے گی.اس پر سوامی شوگن چندر لاہور جا جا کر مختلف مذہبوں کے زعماء سے ملتے رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ اور دعا کی برکت سے بالآخر ایک بین الاقوامی جلسے کی تجویز پختہ ہوگئی جس میں دین و مذہب کے اصولوں اور خدا کی ہستی اور خدا کی صفات کے متعلق پانچ ایسے بنیادی سوال مقرر کئے گئے جو ہر مذہب کی جان اور ہر دینی نظر یہ فکر کا نچوڑ ہیں.حضرت مسیح موعود نے ان سوالوں کے جواب میں ایک مفصل مضمون لکھا اور جلسہ سے کئی دن پہلے ایک اشتہار شائع کیا اور اس اشتہار میں بڑی تحدی کے ساتھ یہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ.(1) میرا یہ ضمون سب پر غالب رہے گا.(2) یہ مضمون خدا تعالیٰ کی کبریائی کا موجب ہو گا اور اس کے مقابل پر تمام دوسرے مذاہب خیبر کے یہودی قلعوں کی طرح مفتوح ہوں گے اور ان کے جھنڈے سرنگوں ہو جائیں گے.(3) جوں جوں اس مضمون کی اشاعت ہوگی دنیا میں قرآنی سچائی زور پکڑتی جائے گی اور اسلام کا نور پھیلتا جائے گا جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کر لے.(اشتہار ” سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری 31 دسمبر 1896ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 614-615)
مضامین بشیر جلد چهارم 325 مذاہب عالم کا یہ عظیم الشان جلسہ 26 - 27 - 28 اور 29 دسمبر (1896ء) کی تاریخوں میں لاہور میں منعقد ہوا اور اس میں اسلام اور مسیحیت اور ہندو مذہب اور سناتن دھرم اور آر یہ مذہب اور سکھ مذہب اور بر ہمو سماج اور فری تھنکر اور تھیو سافیکل سوسائٹی وغیرہ کے نمائندوں نے اپنے اپنے عقائد اور خیالات بیان کئے اور سات آٹھ ہزار کی عظیم الشان نمائندہ پبلک نے جس میں ہر طبقے اور ہر ملت کے تعلیم یافتہ اصحاب شامل تھے جلسہ میں شرکت کی اور سب مقررین نے اپنے اپنے مذاہب اور اپنے اپنے نظریات کی خوبیاں سجا سجا کر بیان کیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لکھا ہوا مضمون حضور کے ایک مخلص حواری حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے بلند اور بارعب آواز سے پڑھ کر سنایا اور اس وقت اس مضمون کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بیان کرتے ہیں دوست خود انہی کے الفاظ میں سنیں.حضرت بھائی صاحب فرماتے ہیں کہ.میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ ہندو اور سکھ بلکہ کٹر آریہ سماجی اور عیسائی تک بے ساختہ سبحان اللہ سبحان اللہ پکار رہے تھے.ہزاروں انسانوں کا یہ مجمع اس طرح بے حس وحرکت بیٹھا تھا کہ جیسے کوئی بے جان بت ہو.اور اگر ان کے سروں پر پرندے بھی آ بیٹھتے تو تعجب کی بات نہ تھی.مضمون کی روحانی کیفیت دلوں پر حاوی تھی.اور اس کے پڑھنے کی گونج کے سوالوگوں کے سانس تک کی بھی آواز نہ آتی تھی حتی کہ قدرت خداوندی سے اُس وقت جانور تک بھی خاموش تھے اور مضمون کے مقناطیسی اثر میں کوئی خارجی آواز رخنہ انداز نہ ہو رہی تھی.کاش! میں اس لائق ہوتا کہ جو کچھ میں نے اس وقت دیکھا اور سنا اس کا عشر عشیر بھی بیان کر سکتا کوئی دل نہ تھا جو اس لذت و سرور کومحسوس نہ کرتا تھا.کوئی زبان نہ تھی جو اس کی خوبی و برتری کا اقرار و اعتراف نہ کرتی تھی.نہ صرف یہی بلکہ ہم نے اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کئی ہندو اور سکھ صاحبان مسلمانوں کو گلے لگا لگا کر کہہ رہے تھے کہ اگر یہی قرآن کی تعلیم اور یہی اسلام ہے جو آج مرزا صاحب نے بیان فرمایا ہے تو ہم لوگ آج نہیں تو کل اسے قبول کرنے پر مجبور ہوں گے“ اصحاب احمد جلد 9 از صفحه 252 تا 261) اس مضمون کے متعلق حضرت منشی جلال الدین صاحب بلا نوی مرحوم جنہوں نے جلسہ میں پڑھے جانے کے لئے اس مضمون کی صاف نقل تیار کی تھی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ.” میں نے اس مضمون کی سطر سطر پر دعا کی ہے (اصحاب احمد جلد نهم صفحہ 265)
مضامین بشیر جلد چهارم 326 دوست غور کریں کہ لکھنے والا خدا کا مامور ومرسل ہے اور مضمون وہ جس کے متعلق خدا کا وعدہ ہے کہ وہ سب پر غالب آئے گا مگر پھر بھی خدا کا یہ برگزیدہ مسیح قدم قدم پر اور سطر سطر پر خدا سے دعا کرتا اور اس کی نصرت کا طالب ہوتا ہے تو جب خدا کے مسیح کا یہ حال ہے تو پھر ہم عاجز بندوں کا اپنے کاموں میں کتنی دعاؤں اور کتنے خدائی سہاروں کی ضرورت ہے!! کاش ہم دعا کی قدر و قیمت کو پہچانیں اور اسے اپنی زندگیوں کا لازمہ بنائیں کیونکہ اس کے بغیر کوئی روحانی زندگی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ لطیف مضمون ”اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے.بلکہ انگریزی زبان کے علاوہ بعض دوسری زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ ہوکر یورپ اور امریکہ اور دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں پہنچ چکا ہے اور جہاں جہاں بھی یہ کتاب پہنچی ہے نیک فطرت، علم دوست طبقے نے اس کے مضامین کی غیر معمولی بلندی اور گہرائی سے متاثر ہو کر اس کی انتہائی تعریف کی ہے ( مثلاً دیکھو تبلیغ ہدایت، صفحہ 244 تا 246 ).کاش ہماری جماعت اس بے نظیر کتاب کی اشاعت کی طرف زیادہ توجہ دے تا کہ وہ خدائی نور جو اس مضمون کی تصنیف کے وقت آسمان سے نازل ہوا تھا جلد تر دنیا میں پھیل کر اسلام اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے اور قرآنی صداقت کو دنیا بھر میں پھیلانے کا رستہ کھول دے اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا کیونکہ خدائے عرش اپنے مقدس مسیح کو پہلے سے فرما چکا ہے کہ.” بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 77) سوامی شوگن چندر صاحب کے متعلق حضرت بھائی قادیانی صاحب اپنی روایت کے آخر میں بیان کرتے ہیں کہ یہ سوامی صاحب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان نشان کے سامان پیدا کئے جلسہ کی تمام کارروائی کے دوران میں اور پھر جلسہ کی رپورٹ کی اشاعت تک تو ملتے ملاتے رہے مگر اس کے بعد معلوم نہیں کہ وہ کیا ہوئے اور کہاں گئے گویا خدائی قدرت کا ہاتھ انہیں اسی خدمت کی غرض سے قادیان لایا تھا اور پھر پہلے کی طرح غائب کر دیا.12 اسلام کی ہمہ گیر اور فاتحانہ تبلیغ کے لئے عربی زبان کا اعلیٰ درجے کا علم ضروری ہے کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا تھا اور وہ ایک عجیب و غریب روحانی عالم کی حیثیت رکھتا ہے جس میں بے شمار خزائے
مضامین بشیر جلد چهارم 327 مدفون ہیں جو غور کرنے والوں کے لئے وقتا فوقتا نکلتے رہتے ہیں اور خدا کے فضل سے آئندہ بھی قیامت تک نکلتے رہیں گے.اور گوقرآن کی محکم اور بنیادی تعلیم ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گی مگر نئے نئے انکشافات کے ذریعہ خدا قرآن ہی کی برکت سے ہر قوم اور ہر زمانہ کی روحانی اور اخلاقی ضروریات کو پورا فرما تا رہے گا.لیکن دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی زبان کا درسی علم بہت محدود تھا بلکہ ایک جگہ خود آپ نے اپنے درسی علم کے متعلق لکھا ہے کہ وہ محض شد یو ڈ تک محدود تھا ( نجم الہدیٰ صفحہ 19) لیکن جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل ودماغ میں ایک عالمگیر مصلح کا جو ہر پا کر حضور کو اپنی خاص تربیت میں لے لیا تو دوسرے کمالات بخشنے کے علاوہ قرآنی علوم کی اشاعت کے لئے عربی زبان میں بھی معجزانہ طریق پر کمال کا مرتبہ عطا فرمایا حتی کہ آپ نے عربی زبان میں کثیر التعداد اعلیٰ درجہ کی نہایت فصیح و بلیغ کتابیں لکھیں اور خدا سے اذن پا کر نہ صرف ہندوستان کے علماء کو چیلنج کیا کہ وہ میرے مقابلہ پر آ کر عربی زبان میں ایسی کتابیں لکھ کر پیش کریں جواد بی معیار کے لحاظ سے بھی اور اپنے حسنِ معانی اور روحانی اور اخلاقی لطائف و غرائب کے لحاظ سے بھی لاجواب ہوں بلکہ آپ نے مصر اور شام اور عرب کے علماء کو بھی چیلنج کیا کہ اگر انہیں میرے خدا دادمشن کے متعلق شک ہے اور اس نصرت الہی کے متعلق شبہ ہے جو خدا کی طرف سے مجھے حاصل ہورہی ہے تو اور باتوں کو چھوڑ کر صرف اسی بات میں میرے دعوی کو آزما لیں کہ وہ میرے مقابلہ پر آ کر عربی زبان میں جو خود ان کی اپنی زبان ہے میرے جیسا فصیح و بلیغ عربی کلام جو اسی طرح معنوی محاسن سے بھی لبریز ہو دنیا کے سامنے پیش کریں.مگر کیا ہندوستان اور کیا مصر اور کیا شام اور کیا عرب سب کے سب اس خدائی چیلنج پر بالکل خاموش ہو گئے اور حضرت مسیح موعود کی عربی نظم و نثر کے مقابلہ پر اپنا کلام پیش کرنے سے عاجز رہے.یہ ایک زبر دست نشان اور ایک عظیم الشان معجزہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر خدا نے ظاہر فرمایا کہ گویا ایک ایسی“ کے مقابلہ پر علماء و فضلا کے منہ بند کر دیے.دنیا جانتی ہے کہ عربی ادب کے میدان میں حضرت مسیح موعود کو ابتداء کوئی درجہ حاصل نہیں تھا بلکہ کسی علم کے لحاظ سے تو آپ اپنے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح قریباً قریباً ایسی ہی تھے اور سوائے چند معمولی ابتدائی درسی کتابوں کے کوئی علم نہیں رکھتے تھے.مگر جب خدا نے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے چنا اور دنیا کی اصلاح کے لئے مامور کیا اور خود آپ کا استاد بنا تو پھر اُس نے اِسی اُسی کو دنیا بھر کے عالموں اور فاضلوں کا استاد بنادیا.اور اپنی خاص قدرت کے مقابلہ پر اہل زبان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئیں.چنانچہ ایک جگہ خدا کے اس خاص فضل و رحمت اور خدا کی اس خاص الخاص عنایت اور نصرت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے 66
مضامین بشیر جلد چهارم 328 ہیں.دوست غور سے سنیں :.إِنَّ كَمَا لِي فِى اللَّسَانِ الْعَرَنِي مَعَ قِلَّةِ جَهْدِى وَ قُصُورِ طَلَبِى آيَةً وَّاضِحَةٌ مِّنْ رَّبِي لِيُظْهِرَ عَلَى النَّاسِ عِلْمِي وَ اَدْبِى - فَهَلْ مِنْ مَعَارِضِ فِي جُمُوعِ الْمُخَالِفِينَ - وَإِنِّي ذلِكَ عُلِّمْت أَرْبَعِينَ اَلْفاً مِّنَ اللُّغَاتِ الْعَرَبِيَّةِ - وَ أُعْطِيْتُ بَسْطَةٌ كَامِلَةً فِي الْعُلُومِ الْآدَبِيَّةِ - انجام آنقم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 234) یعنی عربی زبان میں میرا کمال باوجود میری کوشش کی کمی اور میری سعی کی قلت کے خدا کی طرف سے ایک روشن نشان ہے تا کہ اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ لوگوں پر میری خداداد علمی اور ادبی قابلیت ظاہر فرمائے اور مجھے دنیا بھر کے لوگوں پر غالب کر دے.اب کیا میرے سارے مخالفوں ( کیا ہندوستان اور کیا مصر اور کیا عرب اور کیا شام) میں سے کوئی ہے جو میرے مقابلہ پر اس میدان میں کھڑا ہو سکے ؟ اس علمی اور ادنی کمال پر خدا کا مزید فضل یہ ہے کہ اس نے مجھے عربی زبان کی چالیس ہزار لغات کا معجزانہ رنگ میں علم عطا کیا ہے اور مجھے علوم ادبیہ میں کامل وسعت بخشی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی زبان میں خدا تعالیٰ سے غیر معمولی نصرت پانا اور وحی والہام کے ذریعہ اس زبان میں کمال حاصل کرنا اور خدا کی طرف سے چالیس ہزار عربی لغات کا سکھایا جانا ایک زبانی دعویٰ نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسا دعویٰ تھا جس کی صداقت پر آپ کے سارے مخالفوں نے انتہائی مخالفت کے باوجود اپنی خاموشی بلکہ اپنے گریز کے ساتھ مُہر لگا دی اور کوئی ایک فرد واحد بھی اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے آگے نہیں آیا.بلکہ آپ کا یہ دعوی تو ایسا شاندار دعوی تھا کہ اس پر سمجھدار غیر احمدی علماء تک نے واضح الفاظ میں آپ کی تصدیق کی اور آپ کی تعریف فرمائی ہے.چنانچہ بر اعظم ہندو پاکستان کے ایک بڑے عالم اور غیر احمدی مفکر علامہ نیاز فتح پوری اپنے اخبار ” نگار میں لکھتے ہیں کہ :.حضرت مرزا صاحب کی عربی دانی سے مخاطب کا انکار کرنا حیرت کی بات ہے.شاید آپ کو معلوم نہیں کہ مرزا صاحب کے عربی کلام نظم و نثر کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف خود عرب کے علماء اور فضلاء نے کیا ہے.حالانکہ انہوں نے کسی مدرسے میں عربی ادبیات کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی.اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مرز اصاحب کا یہ کارنامہ بڑا ز بر دست ثبوت ان کے فطری اور وہی کمالات کا ہے.اخبار نگار لکھنو ستمبر 1961ء) اس جگہ جو کچھ عرب ممالک کے متعلق بیان کیا گیا ہے اس میں حاشا و کلا ہرگز عرب اقوام کی تحقیر
مضامین بشیر جلد چهارم 329 مقصود نہیں.عرب تو خدا کے فضل سے دین کے معاملہ میں ہمارے اوّلین استاد ہیں.اور ہم نے بلکہ دنیا بھر نے دین کا پہلا سبق عربوں سے ہی سیکھا ہے اور عرب قوم میں ہی تاریخ عالم کا وہ افضل ترین انسان یعنی حضرت خیر الرسل سید ولد آدم صلے اللہ علیہ وسلم پیدا ہوا جس کے سامنے سب اولین و آخرین کی گردنیں خم ہوتی ہیں.مگر اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ خدا ساری قوموں کا خدا ہے اور اس کی یہ بھی سنت ہے کہ وہ اپنی نعمتوں کو بدل بدل کر تقسیم کرتا ہے.پس اگر اس زمانہ میں اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں اور خوشہ چینوں میں سے ایک ہندی خادم کو اصلاح خلق کے لئے چنا ہے تو اس پر عربوں کو بُر امانے کی کوئی وجہ نہیں.بلکہ وسیع اسلامی اخوت کے مطابق یہ نعمت بھی دراصل انہی کے ایک بھائی کے حصہ میں آئی ہے.پس میں اپنے عرب بھائیوں سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ اسلام کی پہلی بارش سے سیراب ہوئے.اب آؤ اور اسلام کی آخری بارش سے بھی حصہ پاؤ اور انشاء اللہ ضرور ایسا ہوگا کیونکہ خدا نے پہلے سے اپنے مسیح کو یہ خوشخبری دے رکھی ہے کہ."يُصَلُّونَ عَلَيْكَ صُلَحَاءُ الْعَرَبِ وَأَبْدَالُ الشَّام “ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 129 ) یعنی اے خدا! کے مسیح وہ وقت آتا ہے کہ عرب کے نیک لوگ اور شام کے اولیاء تیری صداقت کو پہچان کر تجھ پر درود بھیجیں گے.13 اس موقع پر یہ بات بھی خاص طور پر یاد رکھنی چاہئے کہ چونکہ یہ زمانہ علم زمانہ ہے اور قرآنی پیشگوئی کے مطابق اس زمانہ میں زمین اپنے اشقال یعنی تمام وزنی باتیں باہر نکال نکال کر منظر عام پر لا رہی ہے.(سورۃ زلزال آیت 3) اس لئے خدا تعالیٰ نے اس زمانے کے موعود کے لئے بھی یہی پسند فرمایا ہے کہ اسے زیادہ تر علمی معجزات سے ہی نوازا جائے اور پرانے زمانے کی ظاہری چمک دمک والی باتوں سے حتی الوسع اجتناب کیا جائے.حتی کہ حضرت سرور کائنات فجر رسل صلے اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں بھی حضرت موسے کے عصا اور ید بیضاء والے معجزات کی بجائے خدا تعالیٰ نے قرآن کی فصاحت و بلاغت اور قرآن کے عجیب و غریب روحانی اور اخلاقی محاسن والا معجزہ پیش کیا اور ان عظیم الشان پیشگوئیوں پر اپنے افضل الرسل کی صداقت کی بنیا د رکھی جو آج سے تیرہ سو سال قبل سے شروع ہو کر آج تک پوری ہو ہو کر اسلام کی سچائی پر مہر لگاتی چلی آئی ہیں.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریش مغلوب ہوں گے اور مکہ فتح ہوگا اور مکہ فتح ہو کر رہا.
مضامین بشیر جلد چهارم 330 آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارے عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہوگی اور اسلام کی حکومت قائم ہو کر رہی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ماننے والوں کے ہاتھوں سے کسریٰ اور قیصر کی حکومتیں خاک میں ملیں گی اور وہ خاک میں مل کر رہیں.اور ان کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کی روحانی تاثیرات سے میرے پیر و علم ومعرفت میں آسمان کے ستارے بنیں گے اور وہ ستاروں سے بھی آگے پہنچے اور دنیا کے لئے چاند اور سورج کا مرتبہ پایا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بوئے ہوئے بیج سے سینکڑوں سال تک اولیاء اور صلحاء کی ایک ایسی جماعت پیدا ہوتی گئی جس نے آسمانِ ہدایت میں گویا کہکشاں کا سا سماں باندھ دیا.اور بالآخر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ایک لمبے زمانہ کے بعد میری امت میں تنزل کے آثار پیدا ہوں گے اور یا جوج و ماجوج اور غاروں میں چھپے ہوئے صلیبی علم بردار اپنی نیند سے بیدار ہو کر سر اٹھائیں گے اور مسلمانوں کو کچلنے کے لئے ہر بلندی سے بھاگے آئیں گے اور آج وہ بھاگے آرہے ہیں.یہ سب کچھ اور ان کے ساتھ بے شمار دوسری باتیں پوری ہوئیں اور اس طرح مسلمانوں کے تنزل میں بھی اسلام کی صداقت کا سورج چمکا کیونکہ یہ تنزل بھی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق ہے.مگر ہمارا آقا کوئی بے وفا آقا نہیں تھا جو اپنے گرتے ہوئے خادموں کا ہاتھ چھوڑ کر الگ ہو جاتا.اس نے جہاں مسلمانوں کے تنزل کی پیشگوئی فرمائی تھی وہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ جب آخری زمانہ میں مسلمانوں پر غیر معمولی تنزل آئے گا تو خدا تعالیٰ میری امت میں سے ایک مثیل مسیح اور مہدی پیدا کرے گا جو گرتے ہوئے مذہب کو سنبھال کر اور گرتی ہوئی قوم کو سہارا دے کر انہیں پھر اوپر اٹھائے گا.اور اس کے ذریعہ اسلام نہ صرف خطرہ سے بچ جائے گا بلکہ بالآخر دنیا میں ایک انقلابی صورت پیدا ہو گی اور مغرب کے مادہ پرست لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا دم بھر نے لگیں گے.اس وقت یوں نظر آئے گا کہ گویا مشرق سے طلوع کرنے والا سورج مغرب سے چڑھ رہا ہے (بخاری کتاب الفتن ) پس اے تاریکی کو دیکھنے والے لوگو! گھبراؤ نہیں بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اب اس کے بعد روشنی آنے والی ہے.مغرب کے عیسائی ممالک کے اس غیر معمولی انقلاب کی بہترین تصویر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف میں بیان ہوئی ہے جہاں خدا تعالیٰ نے اس انقلاب کا ایک روشن فوٹو کھینچ کر رکھ دیا ہے.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں.
مضامین بشیر جلد چهارم 331 میں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحر ذخار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بل بیچ کھاتا مغرب سے مشرق کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا ہے“.( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 388) مغربی استبداد کی موجودہ حالت کی کوئی تصویر اس سے بہتر نہیں کھینچی جاسکتی.اور پھر لطف یہ ہے کہ جہاں اس بحر ذخار کے متعلق مغرب سے مشرق کی طرف بہنے کا ذکر ہے وہاں اسے سانپ سے تشبیہہ دی گئی ہے جو ایک ڈسنے والا مہلک جانور ہے.لیکن جہاں اس کے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کی طرف بہنے کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس تشبیہ کوترک کر کے اسے صرف ایک پانی کے دھارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے.یہ وہ لطیف اشارے ہیں جن سے خدا کا کلام ہمیشہ معمور ہوا کرتا ہے اور بخدا میں اُس پھوار کی ٹھنڈک ابھی سے عالم تخیل میں محسوس کر رہا ہوں جو آگے چل کر ہماری آئندہ نسلوں کو ہمارے ہونے والے مغربی بھائیوں کے پاک انفاس کی طرف سے پہنچنے والی ہے.بہر حال یہ خدا کا دکھایا ہوا نظارہ ہے جو ضرور ایک دن پورا ہوگا.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں.قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں بھی آخری زمانے کے اس عظیم الشان انقلاب کی بڑی خوشکن تصویر کھینچی ہے جو کمزور دلوں کو ڈھارس دینے اور مضبوط دلوں کو خوشی کے جذبات سے لبریز کرنے کے لئے کافی ہے.فرماتے ہیں.كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ ( صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم علیهما السلام) یعنی اے مسلمانو! تمہارے لئے وہ دن کیسا خوشی کا دن ہوگا کہ جب میری امت کا مسیح ابن مریم تم میں نازل ہوگا اور وہ تمہیں میں سے تمہارا امام ہوگا.مگر یا درکھنا چاہئے کہ خدا کا ہر کام ابتداء میں ایک پیج کے طور پر ہوتا ہے جسے لوگ دیکھ کر شروع میں بالکل حقیر سمجھتے اور اس پر ہنسی اڑاتے ہیں.مگر بالآخر وہی چھوٹا سا بیج آہستہ آہستہ ایک بڑا تناور درخت بن جاتا ہے جس کی شاخوں کے نیچے تو میں آرام پاتی اور پناہ لیتی ہیں.حضرت عیسی کے آغا ز کو دیکھو کہ شروع میں ان کے مشن کی ابتداء کس قدر کمزور اور کتنی مایوس کن تھی مگر اب ان کے پیرو ساری دنیا پرسیل عظیم کی طرح
مضامین بشیر جلد چهارم 332 چھائے ہوئے ہیں بلکہ حضرت سرور کائنات فخر رسل رہی کے آغاز کو دیکھو کہ یہ بنی نوع آدم کا سالا را عظم شروع میں مکہ کی گلیوں میں کس کمزوری اور کسمپرسی کی حالت میں پھرتا تھا اور ملکہ کے قریش اس پر ہنسی اڑاتے تھے مگر جب یہ بظاہر چھوٹا سا پیج عرب کی زمین میں سے پھوٹ کر نکلا تو کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے تمام معلوم دنیا پر رحمت کا بادل بن کر چھا گیا.یہی ترقی انشاء اللہ اسلام کے لئے احمدیت کے دور میں مقدس ہے.جو لوگ زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس جلال اور کس یقین کے ساتھ فرماتے ہیں.دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا.اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہو گا.یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں.یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں“ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں.(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 182 ) میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے 14 (تذکرة الشهادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67) بعض درمیانی باتوں کے ذکر کے بعد میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی دانی کے اعجاز کے بیان کی طرف لوٹتا ہوں.میں بیان کر چکا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص الخاص تائید و نصرت سے حضرت مسیح موعود کو حضور کی درسی تعلیم کی کمی اور عربی علم کی ظاہری بے بضاعتی کے باوجود عربی زبان میں کمال عطا کیا اور معجزانہ طور پر چالیس ہزار عربی لغات کے علم سے نوازا تو اس کے بعد حضور نے عربی میں کثیر التعداد فصیح و بلیغ کتا بیں تصنیف فرما ئیں جو عدیم المثال نظم و نثر کے محاسن سے معمور تھی جن کا جواب لانے سے ہندوستان اور عرب کے علماء اور فصحاء عاجز تھے.مگر ابھی تک حضور نے عربی زبان میں کبھی تقریر نہیں فرمائی تھی.اور نہ اس کے لئے کوئی موقع ہی پیش آیا تھا.لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے 1900ء مطابق 1317ھ میں اس کا بھی ایک بہت عمدہ موقع پیدا کر دیا.یہ عربی تقریر جو حضور نے عید الاضحیٰ کے موقع پر فرمائی خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ چکی ہے اور باوجود اس کے کہ یہ تقریر ایک گھنٹے سے زائد وقت میں بغیر کسی قسم کی تیاری کے بالکل فی البدیہہ طور پر کی گئی عربی کلام کا ایک ایسا نادر نمونہ ہے جسے پڑھ کر عرب
مضامین بشیر جلد چهارم 333 ممالک کے ادیب بھی عش عش کر اٹھتے ہیں.اس عجیب و غریب واقعہ کے متعلق سلسلہ کے اخبارات اور کتب میں کسی قدر تفصیلی بیانات شائع ہو چکے ہیں مگر میں اس جگہ حضرت مسیح موعود کے قدیم نو مسلم صحابی حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی چشم دید اور گوش شنید روایت کا خلاصہ بیان کرتا ہوں.حضرت بھائی صاحب روایت کرتے ہیں کہ عید الاضحی 1900 ء سے ایک دن قبل جو حج کا دن تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ اول) کو کہلا بھیجا کہ میں یہ حج کا دن خاص دعاؤں میں گزارنا چاہتا ہوں اس لئے جو دوست دعا کی درخواست دینا چاہیں آپ ان کے نام لکھ کر اور فہرست بنا کر مجھے بھجوادیں.چنانچہ حضرت بھائی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس دن کثرت کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی وساطت سے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دعا کی درخواستیں پہنچیں اور بعض اصحاب نے براہ راست بھی دعا کی درخواست لکھ کر حضور کی خدمت میں بھجوائی اور چونکہ اس زمانہ میں عید کے موقع پر بیرونی مقامات سے بھی کافی دوست عید پڑھنے اور حضرت مسیح موعود کی ملاقات سے مشرف ہونے کے لئے قادیان آجایا کرتے تھے وہ بھی اس غیبی تحریک میں شامل ہو گئے.اور یہ دن قادیان میں خاص دعاؤں اور غیر معمولی تضرعات اور بڑی برکات میں گزرا.دوسرا دن عید کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز سے پہلے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا ہے کہ.آج تم عربی زبان میں تقریر کرو تمہیں قوت دی جائے گی اور فصیح و بلیغ کلام سے نوازا جائے گا“ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 280) چنانچہ پہلے عید کی نماز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھائی اور اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے ایک مختصر سا خطبہ اردو میں دیا جس میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کو باہم اتفاق اور اتحاد اور محبت کی نصیحت فرمائی اور پھر حضور نے حضرت مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو اپنے قریب آکر بیٹھنے کے لئے ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ.اب جو کچھ میں بولوں گا وہ چونکہ خاص خدائی عطا سے ہے آپ لوگ اسے توجہ سے لکھتے جائیں تا کہ وہ محفوظ ہو جائے.ورنہ بعد میں شائد میں خود بھی نہیں بتا سکوں گا کہ میں نے کیا کہا تھا“ اصحاب احمد جلد 9 روایت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی) اس کے بعد حضور مسجد اقصیٰ قادیان کے درمیانی دروازے میں ایک کرسی پر مشرق کی طرف منہ کر کے
مضامین بشیر جلد چهارم 334 بیٹھ گئے اور عربی زبان میں اپنی تقریر شروع کی جس کا پہلا فقرہ یہ تھا کہ يَا عِبَادَ اللَّهِ فَكَّرُوا فِي يَوْمِكُمْ هذَا يَوْمَ الْأَضُحى فَإِنَّةَ أَوْدِعَ أَسْرَارًا لِأُولِى النهی یعنی اے خدا کے بندو! اپنے اس دن کے معاملے میں غور کرو جو حج اور عید کی قربانیوں کا دن ہے.کیونکہ خدا کی طرف سے اس دن میں عقلمندوں کے لئے بڑی بڑی حکمتیں ودیعت کی گئی ہیں.حضرت بھائی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کرسی پر بیٹھنے اور تقریر شروع کرنے کے بعد یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا اب حضور کسی دوسری دنیا میں چلے گئے ہیں.حضور کی آنکھیں قریباً بند تھیں اور چہرہ مبارک کچھ اس طرح پر منور نظر آتا تھا کہ گویا انوار الہیہ نے اسے پوری طرح ڈھانپ کر غیر معمولی طور پر روشن اور ضیا پاش کر رکھا ہے.اُس وقت حضور کے چہرہ پر نظر نہیں جمتی تھی اور حضور کی پیشانی سے نور کی اتنی تیز شعاعیں نکل رہی تھیں کہ ہر دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں.زبانِ مبارک تو بظاہر حضور ہی کی چلتی ہوئی نظر آتی تھی مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ گویا وہ بے اختیار ہو کر کسی غیبی طاقت کے چلانے سے چل رہی ہے.حضرت بھائی صاحب کہتے ہیں کہ اُس وقت کی حالت لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں.اس وقت کے انقطاع الی اللہ اور توکل اور ربودگی اور بے خودی اور محویت کا یہ عالم تھا کہ اس کی تصویر کھینچنا انسانی طاقت سے باہر ہے.حضور کی اس فصیح و بلیغ معجزانہ عربی تقریر کے بعد جو کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتدائی اڑتیں صفحوں میں چھپ چکی ہے حاضرین کی خواہش پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے اسی مجلس میں اس تقریر کا اردو میں ترجمہ کر کے سنایا.ترجمہ کے دوران میں اللہ تعالیٰ کے کسی خاص القا یا اندرونی جذبہ کے ماتحت حضرت مسیح موعودؓ ایک فقرہ پر کرسی سے اٹھ کر بے اختیار سجدے میں گر گئے.اور حضوڑ کے ساتھ ہی سارے حاضرین نے بھی اپنی پیشانی اپنے آسمانی آقا کے سامنے زمین پر رکھ دی.(اصحاب احمد جلد 9 صفحہ 267 ) اس فی البدیہ اعجازی تقریر کے متعلق حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.سبحان اللہ ! اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا.خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے.اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا “ حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 376)
مضامین بشیر جلد چهارم 15% 335 مجھے اس وقت خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت کا ایک اور واقعہ بھی یاد آیا ہے جو ہے تو بظاہر بہت چھوٹا سا مگر اس میں خدائی تائید و نصرت کا عجیب و غریب جلوہ نظر آتا ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ کسی بحث کے دوران میں کسی شوخ مخالف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی حوالہ طلب کیا اور بحث میں حضور کو بزعم خود شرمندہ کرنے کی غرض سے اُسی وقت دم نقد اس حوالہ کے پیش کئے جانے کا مطالبہ کیا.وہ حوالہ تو بالکل درست اور صحیح تھا مگر اتفاق سے اس وقت یہ حوالہ حضرت مسیح موعود کو یاد نہیں تھا.اور نہ اس وقت آپ کے حاضر الوقت خادموں میں سے کسی کو یاد تھا.لہذا وقتی طور پر شانت کا اندیشہ پیدا ہوا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے وقار کے ساتھ صحیح بخاری کا ایک نسخہ منگوایا اور اسے ہاتھ میں لے کر یونہی جلد جلد اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور پھر ایک ورق پر پہنچ کر فرمایا یہ لوحوالہ موجود ہے.دیکھنے والے سب دوست حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ حضور نے کتاب کے صفحات پر نظر تک نہیں جمائی اور حوالہ نکل آیا.بعد میں کسی نے حضرت مسیح موعود سے پوچھا کہ حضور یہ کیا بات تھی کہ حضور پڑھنے کے بغیر ہی صفحے الٹتے گئے اور آخر ایک صفحہ پر رک کر حوالہ پیش کر دیا.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ جب میں نے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق الٹانے شروع کئے تو مجھے یوں نظر آتا تھا کہ اس کتاب کے سارے صفحے بالکل خالی اور کورے ہیں اور ان پر کچھ لکھا ہوا نہیں.اس لئے میں ان کو دیکھنے کے بغیر جلد جلد الٹا تا گیا.آخر مجھے ایک ایسا صفحہ نظر آیا جس میں کچھ لکھا ہوا تھا.اور مجھے یقین ہوا کہ خدا کے فضل ونصرت سے یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے اور میں نے بلا تو قف مخالف کے سامنے یہ حوالہ پیش کر دیا اور یہ وہی حوالہ تھا جس کا فریق مخالف کی طرف سے مطالبہ تھا.(سيرة المهدی حصہ دوم روایت نمبر 306) دوستو ! سنواور غور کرو کہ ہمارے امام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کیسی خارق عادت نصرت شاملِ حال تھی کہ جب مخالفوں کے ساتھ بحث کے دوران میں شماتت کا خطرہ پیدا ہوا تو ایک وفادار دوست اور مربی کے طور پر خدا تعالیٰ فوراً حضرت مسیح موعود کی مدد کو پہنچ گیا اور کشفی رنگ میں ایسا تصرف فرمایا کہ حضور کو کتاب کے سارے صفحے خالی نظر آئے اور صرف اُسی صفحہ پر ایک تحریر نظر آئی جہاں مطلوبہ حوالہ درج تھا.یہ باتیں اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ اسلام کا خدا ایک زندہ ، حتی و قیوم، قادر ومتصرف خدا ہے جو اپنی غیر معمولی قدرت نمائی سے اپنے خاص بندوں کو اپنے اعجازی نشان دکھا تا رہتا ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 336 مگر یا درکھنا چاہئے کہ خدا کے مامور ومرسل نعوذ باللہ مداری نہیں ہوتے کہ یونہی تماشے کے طور پر ایسے شعبدے دکھاتے پھریں بلکہ جب کوئی حقیقی ضرورت پیدا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ فور سامنے آکر اپنے بندوں کے بوجھ اٹھا لیتا ہے اور ان کی حفاظت فرماتا اور ان کی مدد کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت پیارا شعر ہے کہ جب حق کے دشمن خدا کے ماموروں اور مرسلوں کو تنگ کرنے اور ذلیل کرنے کے درپے ہوتے ہیں اور صداقت کو نقصان پہنچانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے تو اس وقت خدا اپنی غیر محدود غیبی طاقتوں کے ساتھ آگے آجاتا ہے اور کہتا ہے یہ تو بنده عالی جناب ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے 16 ( براہین احمدیہ حصہ پنجم ) اس قسم کی غیر معمولی غیبی نصرت کی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دو نہیں.دس ہیں نہیں.بلکہ سینکڑوں ملتی ہیں.مگر چونکہ سنت اللہ کے مطابق اس قسم کے عام واقعات عموماً محدود قسم کی پرائیویٹ مجلسوں میں یا خاص دوستوں میں ظاہر ہوتے ہیں اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود نے اپنی کتابوں میں اپنے خاص معجزات کا ذکر کیا ہے وہاں اس قسم کے عام خوارق کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی.البتہ حاضر الوقت احمدیوں کی روایتوں کے ذریعہ بعض باتیں ضرور منظر عام پر آگئی ہیں.چنانچہ جو واقعہ اب میں بیان کرنے لگا ہوں وہ بھی اسی قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات میں سے ہے جو مرسل یزدانی کی روحانی توجہ اور خدا تعالیٰ کی غیبی نصرت کی شعاعوں سے معمور ہیں.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی بیان کرتے ہیں کہ جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد لدھیانہ میں ٹھہرا ہوا تھا تو ایک صوفی منش شخص نے چند سوالات کے بعد حضرت مسیح موعود سے دریافت کیا کہ کیا آپ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کر سکتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود نے جواب میں فرمایا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے“ اور پھر میری طرف منہ کر کے فرمایا:.”یا جس پر خدا کا فضل ہو جائے“ حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اسی رات مجھے خواب میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی (اصحاب احمد جلد 4 صفحہ 92) منشی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اور توجہ سے مجھے کئی دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی.چنانچہ منشی
337 مضامین بشیر جلد چہارم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود مجھے خواب میں اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے گئے.میں مزار مبارک کی جالیوں کے اندر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنا چاہتا تھا مگر معلوم ہوا کہ یہ جالی میرے قد سے زیادہ اونچی ہے.اس پر حضرت مسیح موعود نے میری دونوں بغلوں میں اپنے ہاتھوں کا سہارا دے کر مجھے اونچا کر دیا اور اس وقت میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی ہوئی ہے اور آپ میرے سامنے اپنے پورے روحانی جمال کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں.ایک اور موقع پر بھی مجھے حضرت مسیح موعودؓ نے خواب میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ حضور اس کی بیعت قبول فرمائیں.چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی.بیعت کے بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے مجھے از راہ نصیحت فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ.تمام نیکیوں کو اختیار کرو اور تمام بدیوں سے بچ کر رہو (اصحاب احمد جلد 4 صفحہ 128 ) یہ وہ عظیم الشان روحانی تاثیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک توجہ سے پیدا ہوئی اور اس کے نتیجہ میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے لئے رسول مقبول کی زیارت کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا.اور گویا حضرت مسیح موعود کے دل کی خواہش اور آنکھ کے اشارے نے منشی صاحب موصوف پر روحانی فیوض کا غیر معمولی دروازہ کھول دیا.کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ.آ تانکه خاک را بنظر کیمیا کنند آیا بود که گوشته چشمم بما کنند یعنی خدا کے پاک بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اپنی ایک نظر سے مٹی کو سونا بنادیتے ہیں.کاش کسی ایسے بزرگ کی اُچٹتی ہوئی نظر ہم پر بھی پڑ جائے.وہ برگزیدہ لوگ جنہوں نے اس قسم کے نشانات مشاہدہ کئے اور اس قسم کے نظارے دیکھے خدا کے فضل سے کسی آزمائش اور کسی امتحان کے وقت لغزش نہیں کھا سکتے کیونکہ وہ بات جو دوسروں کے لئے محض شنید ہے وہ ان لوگوں کے لئے دید ہے.حضرت مسیح موعود سے منشی ظفر احمد صاحب کی پہلی ملاقات غالبا 1883ء میں ہوئی اور فوت وہ اگست 1941 ء میں ہوئے.یہ قریباً 60 سال کا زمانہ بنتا ہے.اس طویل عرصہ میں مرحوم کا ہر قدم ایمان اور اخلاص اور محبت اور قربانی میں مسلسل بلندی کی طرف اٹھتا چلا گیا.اور کبھی کوئی لغزش نہیں آئی حالانکہ اس زمانہ میں خدائی سنت کے مطابق احمد یہ جماعت پر مصائب کے زلزلے بھی آئے.حوادث کی
مضامین بشیر جلد چہارم 338 آندھیاں بھی چلیں.ابتلاؤں کے طوفانوں نے بھی اپناز ور دکھایا.مگر یہ خدا کا بندہ آگے ہی آگے قدم اٹھاتا چلا گیا اور بالآخر سب کچھ دیکھ کر اور سارے عجائبات قدرت کا نظارہ کر کے اپنے محبوب آقا کے قدموں میں پہنچ گیا.اور یہ بات صرف حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے ساتھ ہی خاص نہیں تھی بلکہ جس نے بھی حضرت مسیح موعود کی صحیح صحبت اٹھائی اور خدائی نشانات دیکھے اور ایمان کی حلاوت کا حقیقی مزہ چکھا ( اور ایسے لوگ ہزاروں ہیں) وہ حق وصداقت کی ایک آہنی دیوار بن گیا جسے کوئی زلزلہ اپنی جگہ سے ہلانے اور گرانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا.کاش جماعت کی آئندہ نسلیں بھی حضرت مسیح موعوڈ کے صحابہ والا ورثہ پائیں اور خدا کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھیں اور اس کی رضا کے رستہ پر گامزن ہوں.تاکہ صلحاء کے ایک لمبے سلسلہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کا روحانی ورثہ قیامت تک چلتا چلا جائے.اے کاش کہ ایسا ہی ہو.17 انہی منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی کی ایک اور بڑی دلچسپ روایت ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں مقیم تھے تو میں اور خان محمد خان صاحب مرحوم کپورتھلہ کے ایک غیر احمدی رئیس اور عالم دین ڈاکٹر صادق علی صاحب کو ساتھ لے کر لدھیانہ گئے.کچھ وقت کے بعد حضرت مسیح موعود حسب طریق بالوں میں مہندی لگوانے لگے تو اس وقت ایک تعلیم یافتہ آریہ بھی حضور کی ملاقات کے لئے آگیا.وہ ایم.اے پاس تھا اور بہت تیز اور طرار تھا.حضور ابھی مہندی لگوا ہی رہے تھے کہ اس آریہ نے اسلام کی تعلیم پر کوئی اعتراض کیا.حضرت مسیح موعود نے ڈاکٹر صادق علی صاحب سے فرمایا کہ آپ ان صاحب سے ذرا گفتگو کریں تو میں اس عرصہ میں مہندی لگوالوں.چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اس آریہ کے اعتراض کا جواب دیا مگر اس نے ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے جواب میں ایسی سجا سجا کر تقریر کی کہ ڈاکٹر صاحب عالم دین ہونے کے باوجود اس کے سامنے خاموش ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو غیرت میں آکر فور امہندی لگوانی بند کر دی اور اس آریہ سے مخاطب ہو کر اس کے اعتراض کا جواب دینا شروع کر دیا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضور کی تقریر دلائل کے لحاظ سے قریباً وہی تھی جو ڈاکٹر صادق علی صاحب نے کی تھی مگر حضوڑ کا انداز ایسا مؤثر اور اتنا دلنشین تھا اور حضور کی تقریر روحانی تاثیر میں اس طرح ڈوبی ہوئی تھی کہ وہ آریہ بے تاب ہو کر حضور کے سامنے سجدے میں گر گیا.حضور نے اپنے ہاتھ سے اسے اٹھایا اور سجدہ کرنے سے منع کیا.اس کے بعد یہ آریہ حضرت مسیح موعود کو دونوں ہاتھوں سے ہندوانہ طریق پر بڑے ادب کے ساتھ سلام کرتے ہوئے
مضامین بشیر جلد چهارم حضور کی طرف پیٹھ پھیرنے کے بغیر پچھلے پاؤں پیچھے ہٹتے ہوئے باہر چلا گیا.339 (اصحاب احمد جلد 4 صفحہ 94) یہ عجیب وغریب روایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غیر معمولی علمی رعب اور آپ کی خدا دا د روحانی تاثیر کی بڑی دلچسپ مثال ہے.ڈاکٹر صادق علی صاحب گو احمدی نہیں تھے مگر کپورتھلہ کے رئیس تھے اور علماء کے زمرہ میں شمار ہوتے تھے مگر جہاں وہ اس آریہ کا جواب سن کر ساکت ہو گئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند منٹ کی تقریر نے اس آریہ پر ایسا جادو کیا کہ وہ حضور کے سامنے بے تاب ہو کر سجدے میں گر گیا.حالانکہ منشی ظفر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ حضور کی تقریر بحیثیت مجموعی انہی دلائل پر مبنی تھی جو ڈاکٹر صادق علی صاحب نے بیان کئے تھے.مگر جہاں ڈاکٹر صادق علی صاحب کے الفاظ بے روح اور بے جان تھے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر ہر لفظ اُس روحانی جذب واثر سے معمور تھا جو خدا کے ماموروں اور مرسلوں کو خاص طور پر عطا کیا جاتا ہے.بیشک بے باکی سے انکار کرنے والے اور خدا کے رسولوں کے سامنے گستاخانہ طریق پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کرنے والے بھی ہر زمانے میں ہوتے چلے آئے ہیں اور ہمارے آقا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ابو جہل اور امیہ اور متنبہ اور شیبہ وغیرہ جیسے بد باطنوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں مگر جس شخص میں ذرا بھی سعادت کا مادہ ہو اور اس کے دل کی آنکھیں بالکل ہی اندھی نہ ہو چکی ہوں وہ علی قدر مراتب خدائی ماموروں اور مرسلوں کی روحانی تاثیرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ آریہ بھی اپنے پرانے قومی تعصبات کی وجہ سے مسلمان تو نہیں ہو سکا مگر اس کا دل مفتوح ہو کر حضرت مسیح موعود کے قدموں میں گر چکا تھا اور اس کے بعد اسے کبھی حضرت مسیح موعود کے سامنے آنے اور آنکھیں اونچی کرنے کی جرات نہیں ہوئی.اسی روایت میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی اُس وقت کی تقریر کا ڈاکٹر صادق علی صاحب پر بھی ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اُسی دن حضور سے علیحدگی میں مل کر بیعت کی درخواست کی اور اصرار کیا کہ میری بیعت ضرور قبول فرمائی جائے مگر حضرت مسیح موعود نے یہ خیال کر کے کہ ڈاکٹر صاحب غالباً کسی وقتی جذبہ کے ماتحت ایسا کہہ رہے ہیں عذر کر دیا اور فرمایا کہ آپ جلدی نہ کریں اور اچھی طرح سوچ سمجھ لیں.ایسا عذر حضرت مسیح موعود کی طرف سے رحیمانہ شفقت کی بناء پر ہوا کرتا تھا کیونکہ جب آپ یہ محسوس کرتے تھے کہ کوئی شخص جلدی میں پورے سوچ بچار کے بغیر بیعت کرنے لگا ہے تو آپ اس ڈر سے کہ وہ بعد میں بیعت کا عہد توڑ کر اور ارتداد کا رستہ اختیار کر کے خدائی عذاب کا نشانہ نہ بن جائے
مضامین بشیر جلد چهارم 340 بیعت قبول کرنے سے انکار فرما دیا کرتے تھے اور نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ جلدی نہ کرو اور اچھی طرح سوچ سمجھ لو.پھر ان میں سے سعید الفطرت لوگ تو کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ آکر بیعت کر لیتے تھے مگر بعض لوگ مخالفانہ اثر کے ماتحت رک جاتے تھے.اس جگہ ایک جملہ معترضہ کے طور پر میں اپنے دوستوں سے یہ معذرت کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے گزشتہ چند روایتیں ہائی بلڈ پریشر کی حالت میں لکھی ہیں جس کے علاوہ میرے سینہ میں اور دائیں بازو میں کافی درد بھی لاحق رہا ہے.اس لئے میں ان روایتوں کے بیان کرنے میں پوری توجہ سے کام نہیں لے سکا اور سکون اور یکسوئی کی حالت میسر نہیں آئی اور چونکہ یہ عوارض کم و بیش اب تک چل رہے ہیں اس لئے اب میں اپنا بقیہ نیہ مضمون بڑے اختصار کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کروں گا.دراصل میری غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر خیر کے ذریعہ ایک طرف جماعت احمدیہ کے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنا اور دوسری طرف غیر از جماعت اصحاب کو یہ بتانا ہے کہ خدا کے فضل سے سلسلہ احمدیہ کا مقدس بانی نہ صرف اپنے اعلیٰ ترین اخلاق کا حامل تھا بلکہ روحانی لحاظ سے بھی ایسے بلند مقام پر فائز تھا کہ رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد اس کی نظیر نہیں ملتی.اور میں امید کرتا ہوں کہ اس غرض کے لئے وہ چند روایتیں کافی ہیں جو میں نے اس جگہ بیان کی ہیں.اس لئے میں اب صرف دو تین اور باتیں بیان کر کے اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.اگر در خانه گس است حرفی بس است 18.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت اور حضور کی دعاؤں کی قبولیت اور حضور کی روحانی توجہ کے نشانات بے شمار ہیں اور حضور کے زمانہ میں قریباً ہر احمدی نے ایسے غیر معمولی نصرتوں کے نشانات دیکھے اور حضور کی دعاؤں کی قبولیت کے ایمان افروز نظارے مشاہدہ کئے ہیں.چنانچہ میں اس جگہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی ایک اور دلچسپ روایت بیان کرتا ہوں جس میں نہ صرف دعا کی قبولیت کا خاص منظر نظر آتا ہے بلکہ شفاعت کے مسئلہ پر بھی بڑی روشنی پڑتی ہے.یہ واقعہ جو میں بیان کرنے لگا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور سلسلہ کے اخباروں میں بھی مذکور ہو چکا ہے.مگر میں اس جگہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی روایت بیان کرنے پر اکتفا کروں گا.
مضامین بشیر جلد چهارم 341 حضرت مولوی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مقرب صحابی تھے اور نہایت زیرک اور معاملہ فہم بزرگ تھے بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کا چھوٹا لڑکا عبدالرحیم خان سخت بیمار ہو گیا.چودہ دن تک ایک ہی بخار لازم حال رہا.اور اس پر حواس میں فتور اور بے ہوتی بھی لاحق ہو گئی اور ٹائیفائڈ کا خطرناک حملہ ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) علاج فرماتے تھے اور چونکہ وہ نہایت ماہر اور نامور طبیب تھے اور غیر معمولی ہمدردی بھی رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے علم کی پوری قوت اور وسیع طاقت سے کام لیا مگر بالآخر ضعف اور عجز کا اعتراف کر کے سپر انداز ہو جانے کے سوا کوئی راہ نظر نہ آئی.اور بچہ دن بدن اور لحظہ بہ لحظہ کمزور ہو کر قبر کی طرف جھکتا چلا جاتا تھا.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بڑی بے تابی کے ساتھ عرض کیا گیا کہ عبدالرحیم خان کی زندگی کے آثار اچھے نہیں اور حالت بظاہر مایوس کن ہے.حضور پہلے سے ہی دعا فرمارہے تھے حضرت مولوی نور الدین صاحب کی طرف سے اس خیال کا اظہار ہونے پر حضور نے زیادہ توجہ سے دعا کرنی شروع کی اور حضور کے دل میں اس بچے کے متعلق بہت درد پیدا ہوا.حضور دعا فرما ہی رہے تھے کہ حضور پر خدا کی یہ فیصلہ کن وحی نازل ہوئی کہ.” تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر (الحکم 24-17 نومبر 1903ء) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بیان فرماتے ہیں کہ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جب خدا تعالیٰ کی یہ قہری وحی نازل ہوئی تو میں بے حد مغموم ہوا اور اس وقت میرے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ.یا الہی اگر یہ دعا کا موقع نہیں تو میں اس بچے کے لئے شفاعت کرتا ہوں“ اس پر خدا کی طرف سے یہ جلالی وحی نازل ہوئی کہ "مَنْ ذَالَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَة إِلَّا بِإِذْنِهِ، یعنی خدا کے حضور اجازت کے بغیر کون شفاعت کر سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا اور مجھ پر سخت ہیبت طاری ہوئی کہ میں نے پہلا اذن شفاعت کی ہے مگر ایک دو منٹ کے بعد ہی پھر خدا کی وحی نازل ہوئی كه إِنَّكَ أَنْتَ الْمَجَارُ یعنی تجھے شفاعت کی اجازت دی جاتی ہے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شفاعت کے رنگ میں دعا فرمائی اور اس کے نتیجہ میں بیمار بچہ لحظہ بہ لحظہ صحت یاب ہونا شروع ہو گیا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ہر
مضامین بشیر جلد چہارم 342 ایک شخص جو اس بچہ کو دیکھتا تھا اس کا دل خدا تعالیٰ کے شکر سے بھر جاتا تھا کہ لاریب حضور کی دعا سے ایک مُردہ زندہ ہو گیا ہے.دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے کہ ماہر طبیب بچے کی حالت دیکھ کر اس کی صحت کے متعلق مایوسی کا اظہار کرتے اور سپر ڈال دیتے ہیں بلکہ دعا ہونے پر خدا تعالیٰ خود بھی فرماتا ہے کہ تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر“ مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی اجازت سے شفاعت کرتے ہیں تو یہ شفاعت خدا کے ہاں مقبول ہوتی ہے اور گویا ایک مُردہ زندہ ہو کر قبر سے باہر آجاتا ہے.سچ ہے کہ.قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشان کی چہرہ نمائی یہی تو ہے اس روایت سے شفاعت کے مسئلہ پر بھی بڑی دلچسپ روشنی پڑتی ہے.شفاعت بھی گو ایک قسم دعا ہی کی ہے مگر وہ عام دعا سے بہت بالا اور ارفع چیز ہے.دراصل شفاعت کے معنی دو چیزوں کے باہمی جوڑ کے ہیں.دعا کرنے والا تو صرف سوالی بن کر خدا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے مگر شفاعت کرنے والا اپنے خاص تعلق کا واسطہ دے کر اور اپنے آپ کو خدا سے پیوست کر کے خدا سے ایک چیز مانگتا ہے اور ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اس لئے خدا نے اجازت کے بغیر شفاعت جائز نہیں رکھی.کیونکہ جب خدا کا کوئی خاص مقرب بندہ اپنے تعلق کا واسطہ دے کر خدا سے شفاعت کے رنگ میں کوئی چیز مانگتا ہے تو اس وقت خدا تعالیٰ کی محبت غیر معمولی طور پر جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندے کے اکرام کی وجہ سے انکار نہیں کرنا چاہتا.لیکن چونکہ انسان بعض اوقات دعا میں غلطی بھی کر سکتا ہے اور خدا سے ایسی چیز مانگ سکتا ہے جو اس کی کسی مصلحت کے خلاف ہے اس لئے خدا نے اپنی ازلی حکمت کے ماتحت یہ شرط مقرر کر رکھی ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہ کی جائے.اسی روایت کو دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شفاعت سے روک کر اپنا قانون بھی پورا کر لیا اور پھر فورا ہی اجازت دے کر اپنے محبوب مسیح کی عزت بھی قائم کر دی.یہ ایک بہت بڑا امتیاز ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نوازا گیا.چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اس روایت کے بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ.اے احمد یو! تمہیں مبارک ہو کہ یہ دولت خدا تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں رکھی تھی.پس خدا کا شکر کرو اور اس کی قدر کرو ( التحام 17/24 نومبر والبدر 41/42اکتوبر 1903ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 343 اس روایت سے تقدیر کے مسئلہ پر بھی بڑی لطیف روشنی پڑتی ہے اور اس قرآنی آیت کی تفسیر گویا مجسم ہو کر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے کہ اللهُ غَالِبٌ عَلَى آمرہ یعنی خدا اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے اور خاص حالات میں اپنے فیصلہ کو بدل سکتا ہے.چنانچہ باوجود اس کے کہ میاں عبدالرحیم خاں کے متعلق خدا نے وقتی حالات کے ماتحت خود فرمایا تھا کہ ” تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفاعت پر اپنی اس تقدیر کو بدل دیا اور بچے کو گویا موت کے منہ سے نکال لیا.دوستو! سوچو اور غور کرو کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا مذ ہب کتنا پیارا اور کتنا دلکش ہے کہ اس نے ہر حالت میں سچے مسلمانوں کو مایوسی میں مبتلا ہونے سے بچایا ہے اور بظاہر غیر ممکن حالات میں بھی خدائی فضل و رحمت کا جھنڈا بلند رکھا ہے.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّدٍ وَّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا - 19 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا ایک اور غیر معمولی واقعہ بھی مجھے یاد آ گیا جو خود مجھ سے ایک احمدی دوست منشی عطا محمد صاحب پٹواری نے عرصہ ہوا بیان کیا تھا.منشی صاحب بیان کرتے تھے کہ میں دین کی طرف سے بالکل غافل اور بے بہرہ تھا بلکہ دین کی باتوں پر ہنسی اڑایا کرتا تھا.شراب پیتا تھا اور رشوت بھی لیتا تھا اور جب میرے حلقہ کے بعض احمدی مجھے تبلیغ کرتے تو میں انہیں مذاق کیا کرتا تھا.آخر جب ایک دن ایک احمدی دوست نے مجھے اپنی تبلیغ کے ذریعہ بہت تنگ کیا تو میں نے انہیں جواب دیا کہ میں تمہارے مرزا کو خط لکھ کر ایک بات کے متعلق دعا کراتا ہوں.اگر میرا وہ کام ہو گیا تو میں سمجھوں گا کہ وہ بچے ہیں.چنانچہ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا کہ آپ مسیح موعود اور ولی اللہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ولیوں کی دعائیں قبول ہوا کرتی ہیں میری اس وقت تین بیویاں ہیں اور باوجود اس کے کہ میری شادی پر بارہ سال گزر چکے ہیں ان تینوں میں سے کوئی اولاد نہیں.میں چاہتا ہوں کہ میری سب سے بڑی بیوی سے خوبصورت اور صاحب اقبال لڑکا پیدا ہو.آپ اس کے لئے دعا کریں.اس خط کے جواب میں مجھے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے لکھا کہ حضورا فرماتے ہیں کہ.آپ کے لئے دعا کی گئی.خدا تعالیٰ آپ کو خوبصورت اور صاحب اقبال لڑکا عطا کرے گا اور اسی
وو مضامین بشیر جلد چہارم 344 بیوی سے عطا کرے گا جس سے آپ کو خواہش ہے.مگر شرط یہ ہے کہ آپ زکریا والی تو بہ کریں منشی عطا محمد صاحب بیان کرتے تھے کہ میں چونکہ دین سے بالکل بے بہرہ تھا میں نے ایک واقف کار احمدی سے پوچھا کہ زکریا والی تو بہ سے کیا مراد ہے.انہوں نے مجھے بتایا کہ ذکر یا والی تو بہ سے یہ مراد ہے کہ ” بے دینی چھوڑ دو حلال کھاؤ نماز روزہ کے پابند ہو جاؤ.اور مسجد میں زیادہ آیا جایا کرو.چنانچہ میں نے کچی نیت سے تو بہ کر کے اس نصیحت پر عمل کرنا شروع کیا اور میری حالت دیکھ کر لوگ تعجب کرتے تھے کہ اس ”شیطان پر کیا جادو چلا ہے کہ اس نے ساری بدیوں سے یک لخت تو بہ کر لی ہے.اس پر چار پانچ ماہ کا عرصہ گزرا ہوگا کہ میں ایک دن گھر گیا تو اپنی بڑی بیوی کو روتے ہوئے پایا.میں نے سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ پہلے تو صرف یہی مصیبت تھی کہ اولاد نہیں ہوتی تھی اور آپ نے میرے اوپر دو بیویاں کیں.اب دوسری مصیبت یہ شروع ہو گئی ہے کہ میرے ایام ماہواری بند ہو گئے ہیں اور اولاد کی امید بالکل ہی باقی نہیں رہی.میں نے کہا تم کسی دائی کو بلا کر دکھاؤ تا کہ وہ کوئی دوائی دے اور ایام ماہواری پھر سے جاری ہو جائیں.چنانچہ اس نے ایک دائی کو بلایا جس نے اسے دیکھ کر سخت حیرانی کے ساتھ کہا کہ میں تو تجھے ہاتھ نہیں لگاتی کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تیرے اندر بھول گیا ہے اور تیرے پیٹ میں بچہ ہے.حالانکہ تو تو بانجھ تھی.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد حمل کے پورے آثار ظا ہر ہو گئے اور میں نے لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ دیکھ لینا اب میرے گھر لڑکا پیدا ہوگا اور ہوگا بھی خوبصورت اور صاحب اقبال.آخر ایک دن رات کے وقت میری بڑی بیوی کے گھر بچہ پیدا ہوا جو بہت خوبصورت تھا.میں اسی وقت قادیان کی طرف بھاگ گیا اور میرے ساتھ کئی اور لوگ بھی قادیان گئے اور ہم نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کر لی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیٹر کا جس کا نام شیخ عبدالحق ہے خدا کے فضل سے اب تک زندہ ہے اور بہت مخلص احمدی ہے اور ایک معمولی دیہاتی پٹواری کے گھر میں پیدا ہونے کے باوجود خدا نے اسے ایسا با اقبال کیا کہ ایگزیکٹو انجینئر کے معزز عہدہ تک پہنچ گیا اور خدا کے فضل سے خوش شکل اور خوب رو بھی ہے.اور ہماری جماعت کے ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے اسے دیکھا ہوگا.دوست غور کریں کہ یہ کتنا غیر معمولی نشان قدرت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے ظاہر ہوا.بچے تو دنیا میں پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں.اور بعض اوقات شادی کے کئی کئی سال بعد پیدا ہوتے ہیں مگر اس واقعہ میں یہ غیر معمولی خصوصیت ہے کہ یہ بچہ بعینہ اُن چار شرائط کے مطابق پیدا ہوا جو
مضامین بشیر جلد چهارم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی تھیں اور وہ شرائط یہ ہیں.(اول) سالہا سال کی مایوسی کے بعد بچہ پیدا ہوا.345 ( دوم ) جیسا کہ دعا کے نتیجہ میں ظاہر کیا گیا تھا یہ بچہ بڑی بیوی کے بطن سے پیدا ہوا حالانکہ دو چھوٹی نسبتاً جوان بیویاں گھر میں زندہ موجود تھیں.( سوم ) یہ بچہ خدا کی طرف سے اچھی شکل وصورت لے کر پیدا ہوا حالانکہ والد کی شکل معمولی رسمی سی تھی.(چہارم ) پھر یہ بچہ ایسا صاحب اقبال نکلا کہ ایک معمولی دیہاتی پٹواری کے گھر جنم لے کر ایگزیکٹو انجینئر کے معزز عہدہ تک پہنچ گیا اور دینی لحاظ سے بھی بہت مخلص نکلا.ان چار شرائط کا بیک وقت پورا ہونا یقیناً خدا کی قدرت کا ایک بہت نادر نمونہ ہے.پھر اس دعا کی یہ روحانی برکت بھی ظاہر ہوئی کہ نہ صرف منشی عطا محمد صاحب کو اس کے ذریعہ تو بہ اور ہدایت نصیب ہوئی بلکہ ان کے گاؤں کے بہت سے دوسرے لوگوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے اس نشان کے ذریعہ ہدایت کا رستہ کھول دیا.وَ ذَلِكَ فَضُلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمِ - (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 239 تا 241) حق یہ ہے کہ احمدیت کی تاریخ دعاؤں کی قبولیت کے نشانوں سے بھری پڑی ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ نیکی اور تقویٰ اختیار کر کے اس قسم کی قدرت نمائیوں کے لئے اپنے اندر اہلیت اور صلاحیت پیدا کریں.اسلام کا خدا زندہ اور قادر مطلق خدا ہے.وہ کسی زمانہ میں بھی اپنے نیک بندوں کا ہاتھ چھوڑ کر پیچھے نہیں ہٹا.مگر بعض لوگ خود ہی اپنی مستیوں اور غفلتوں کی وجہ سے اس کی رحمت کے سایہ سے محروم ہو جاتے ہیں.کاش جماعت احمد یہ قیامت تک اس خدائی نعمت سے محروم نہ ہو اور اس کے اندر ہمیشہ ایسے صالح اور پاکبازلوگ پیدا ہوتے رہیں جو دعاؤں کی قبولیت کے ذریعہ جماعت میں روحانیت کو زندہ اور مذاہب کی کشمکش میں اسلام کو غالب رکھیں.اے خدا تو ایسا ہی کر ! 20 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان تو بے شمار ہیں جن کے ذکر سے آپ کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور ہزاروں لاکھوں لوگ ان کے گواہ ہیں مگر میں اس جگہ صرف ایک مزید واقعہ کے
مضامین بشیر جلد چهارم 346 ذکر پر اکتفا کرتا ہوں.میں اپنی گزشتہ سال کی تقریر میں بیان کر چکا ہوں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات ہوئی تو اس وقت حضور کا گھر روپے پیسے سے بالکل خالی تھا اور حضوڑ اپنا آخری روپیہ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے ذریعہ اُس گاڑی بان کو دے چکے تھے جس کی گاڑی میں حضور وفات سے قبل شام کے وقت سیر کے لئے تشریف لے گئے تھے (در منثور روایت نمبر 29 ).اس کے بعد اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہو گئی اور حضور کا یہ الہام پورا ہوا کہ الرَّحِیلُ ثُمَّ الرَّحِيل.یعنی اب کوچ کا وقت آ گیا ہے.کوچ کا وقت آگیا ہے.اور اس کے ساتھ ہی یہ الہام بھی ہوا کہ ڈرومت مومنو“.یعنی اے احمد یو! ہمارے مسیح کی وفات سے جماعت کو طبعا سخت دھکا پہنچے گامگر تم ڈرنا نہیں اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھنا پھر انشاء اللہ سب خیر ہے.اس کے بعد جب 26 مئی 1908ء کو صبح دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات ہوئی تو جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس وقت ہمارا گھر دنیوی مال وزر کے لحاظ سے بالکل خالی تھا.ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اللہ تعالے کی روایت ہے ( اور یہ بات مجھے خود بھی مجمل طور پر یاد ہے ) کہ ہماری اماں جانرضی اللہ عنہ نے اس وقت یا اس کے تھوڑی دیر بعد اپنے بچوں کو جمع کیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں ان نہ بھولنے والے الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ.بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا“ ( روایات نواب مبار که بیگم صاحبه ) یہ کوئی معمولی رسمی تسلی نہیں تھی جو انتہائی پریشانی کے وقت میں غم رسیدہ بچوں کو ان کی والدہ کی طرف سے دی گئی بلکہ یہ ایک خدائی آواز اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شاندار الہام کی گونج تھی کہ الیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ.یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ؟ اور پھر اس وقت سے لے کر آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں نے ہمارا اس طرح ساتھ دیا ہے اور اللہ کا فضل اس طرح ہمارے شامل حال رہا ہے کہ اس کے متعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ.اگر ہر جائے سخن بال ہو ور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر
مضامین بشیر جلد چہارم 347 حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں ہماری دستگیری فرمائی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل نیکی اور تقوی اور ا خلاص اور خدمت دین کے مقام پر قائم رہے گی تو حضور کی دردمندانہ دعائیں جن کا ایک بہت بھاری خزانہ آسمان پر جمع ہے قیامت تک ہمارا ساتھ دیتی چلی جائیں گی.اپنے بچوں کی آمینوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خصوصیت کے ساتھ اپنی اولاد کے لئے اس در دوسوز اور اس آہ وزاری کے ساتھ دعائیں کی ہیں کہ میں جب بھی انہیں پڑھتا ہوں تو اپنے نفس میں شرمندہ ہو کر خیال کرتا ہوں کہ شاید ہماری کمزوریاں تو ان دعاؤں اور ان بشارتوں کی حقدار نہ ہوں مگر پھر کہتا ہوں کہ خدا کی دین کو کون روک سکتا ہے؟ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عجیب و غریب شعر کو یا د کرتا ہوں کہ:.تیرے اے میرے مربی! کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار خدا کرے کہ ہم ہمیشہ نیکی اور دینداری کے رستہ پر قائم رہیں اور جب دنیا سے ہماری واپسی کا وقت آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ کی روحیں ہمیں دیکھ کر خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے ہمارے بعد اپنے آسمانی آقا کا دامن نہیں چھوڑا.دوستوں سے بھی میری درخواست ہے کہ جہاں وہ اپنی اولاد کے لئے دین و دنیا کی بہتری کی دعا کریں ( اور کوئی احمدی کسی حالت میں بھی اس دعا کی طرف سے غافل نہیں رہنا چاہئے ) وہاں ہمارے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ صدق وسداد پر قائم رکھے اور حضرت مسیح موعود کی اُن دعاؤں کو جو حضور نے اپنی اولاد کے لئے فرمائی ہیں اور نیز اُن دعاؤں کو جو حضور نے اپنی جماعت کے متعلق فرمائی ہیں اور پھر ان بشارتوں کو جو خدا کی طرف سے حضور کو اپنی اولا د اور اپنی جماعت کے متعلق ملی ہیں بصورت احسن پورا فرمائے اور ہماری کوئی کمزوری ان خدائی بشارتوں کے پورا ہونے میں روک نہ بنے اور ہم سب خدا کے حضور سرخرو ہو کر حاضر ہوں.آمِینَ یا اَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ 21 میں نے ابھی ابھی بیان کیا ہے کہ اگر جماعت احمد یہ ایمان اور ا خلاص اور قربانی کے مقام پر قائم رہے تو وہ خدا کے فضل سے اُن تمام بشارتوں سے حصہ پائے گی جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی
مضامین بشیر جلد چهارم 348 خاص وحی کے ذریعہ جماعت کی آئندہ ترقی کے متعلق دی ہیں.بے شک خدائی سنت کے مطابق درمیان میں بہت سے ابتلاء آئیں گے اور کئی قسم کے فتنے سر اٹھائیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی تحدی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ جو لوگ آخر تک صبر اور استقلال سے کام لیں گے اور اپنی وفاداری میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہونے دیں گے وہ خدا کے فضل سے بالآخر کامیاب اور غالب ہوں گے.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.چنانچہ میں اس جگہ حضور کے رسالہ الوصیۃ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں دوست غور سے سنیں کہ یہ الفاظ ایک طرح سے حضور کے آخری الفاظ ہیں جو جماعت کے لئے وصیت کے رنگ میں لکھے گئے.حضور فرماتے ہیں.”خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیر وہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے.وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا..ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک کہ وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو.اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو میں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے...یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے...مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گئے رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-309) دوستو اور عزیزو! آپ نے حضرت مسیح موعود کی وصیت والے کلام کا اقتباس سن لیا.اب اس پر عمل کرنا
مضامین بشیر جلد چهارم 349 اور اس کی روح پر قائم رہنا ہم سب کا مشترکہ کام ہے.خدا کرے کہ ہم اس ذمہ داری کو ایسے رنگ میں ادا کرنے کی توفیق پائیں جو قیامت کے دن خدا کی رضا اور رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سرخروئی کا موجب ہو.اور ہماری ناچیز کوششوں میں خدا ایسی فوق العادت برکت ڈالے کہ ان کے ذریعہ اسلام کو پھر وہ شان و شوکت اور وہ چمک دمک اور وہ غلبہ اور سر بلندی حاصل ہو جائے جو اسے پہلے زمانہ میں حاصل ہوئی تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کرتا کہ ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں آگے ہی آگے اٹھتا چلا جائے.اور خدا کا یہ فرمان کامل آب و تاب کے ساتھ پورا ہو کہ لَلآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الأولى - أمِين يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - وَ أخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - محررہ 27 دسمبر 1961ء) روزنامه الفضل 19 جنوری 1962ء) 6 فدیہ دینے والے احباب توجہ فرمائیں رمضان کا مبارک مہینہ آرہا ہے کیا ہی بابرکت ہوں گے وہ لوگ جنہیں اس مہینہ میں اخلاص اور نیکی اور تقویٰ کی روح کے ساتھ روزے رکھنے اور خاص عبادت اور دعاؤں کی توفیق حاصل ہو.قرآن فرماتا ہے و أَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمُ.لیکن اگر کسی بھائی یا بہن کو بی بیماری یا بڑھاپے کی حقیقی معذوری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو اس کے لئے ہمارے رحیم و کریم آسمانی آقا نے روزے کی جگہ فدیہ ادا کرنے کی اجازت دی ہے اور کچی نیت سے فدیہ ادا کرنے والا جو بہانہ خوری سے کام نہ لیتا ہو خدا سے وہی اجر پائے گا جور وزہ دار کو ملتا ہے کیونکہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.پس ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کر کے روزے یا فدیہ کا فیصلہ کرے.اگر وہ روزے کی طاقت رکھتے ہوئے روزے کو ٹالتا ہے تو وہ مجرم ہے لیکن اگر وہ حقیقتا معذور ہے تو وہ خدا کے نزدیک قابل معافی ہے بلکہ اگر اس کی نیت پاک ہے اور معذوری حقیقی ہے تو وہ اجر کا مستحق ہوگا.مگر یا درکھنا چاہئے کہ فدیہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو لمبی بیماری یا بڑھاپے کے ضعف کی وجہ سے روزہ رکھنے سے حقیقتا معذور ہو چکے ہوں.ورنہ عارضی بیماری کی صورت میں عِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ کا حکم ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 350 یعنی بیماری یا سفر کی حالت دور ہونے پر انہیں چاہئے کہ دوسرے دنوں میں اپنے روزوں کی گنتی کو پورا کریں اور خدائی حساب میں فرق نہ آنے دیں.اگر فدیہ دینے والوں کے قرب و جوار میں غریب لوگ موجود ہوں جو فدیہ کے مستحق سمجھے جائیں تو انہیں فدیہ دینا بہتر ہے کیونکہ اس میں فدیہ کے ثواب کے علاوہ ہمسایگیت کے حق کا ثواب بھی ملتا ہے.وَ أَنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.محررہ 27 جنوری 1962ء) (روزنامه الفضل ربوہ یکم فروری 1963ء) حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت عزیز میاں شریف احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بعض لحاظ سے خاص مشابہت تھی.یہ مشابہت جسمانی نوعیت کے لحاظ سے بھی تھی اور اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی تھی.جسمانی لحاظ سے تو ان کا نقشہ اور خدو خال اور رنگ ڈھنگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ مشابہت رکھتے تھے.اور اس مشابہت کو ہر غور کی نظر سے دیکھنے والا انسان محسوس کرتا اور پہچانتا تھا.چنانچہ ان کے جنازے کے وقت مجھ سے بعض دوستوں نے از خود بیان کیا کہ ان کا حلیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت ملتا ہے اور یہ مشابہت وفات میں اور بھی زیادہ نمایاں ہو گئی تھی.اخلاقی اور روحانی لحاظ سے بھی ہمارے مرحوم بھائی کو بعض لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خاص مشابہت حاصل تھی.مثلاً اہم امور میں فیصلہ کرتے ہوئے یا مشورہ دیتے ہوئے ان کی رائے بہت متوازن اور صائب ہوتی تھی.وہ نہ تو اپنے ایک بھائی کی طرح زبر دست جلالی شان رکھتے تھے گو یہ جلال بھی ایک خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے ) اور نہ ان میں دوسرے بھائی کی طرح نرمی اور فروتنی کا ایسا غلبہ تھا جو بعض لوگوں کی نظر میں کمزوری کا موجب سمجھا جا سکتا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح ان کے مزاج میں ایک لطیف قسم کا توازن پایا جا تا تھا.عفوود شفقت کے موقع پر وہ پانی کی طرح نرم ہوتے تھے جو ہر چیز کو رستہ دیتا چلا جاتا ہے مگر سزا اور عقوبت کے جائز مواقع میں وہ ایک چٹان کی طرح مستحکم تھے جسے کوئی جذ بہ یا کوئی خیال اپنی جگہ سے متزلزل نہیں کر سکتا تھا.
مضامین بشیر جلد چهارم اور طبیعت میں انتہائی سادگی اور غریب نوازی تھی.8 351 (الفرقان ربوہ جنوری ، فروری 1962 ء بحوالہ الفضل 9 جنوری 1962ء) ربوہ کے موسم کو بہتر بنانے کی کوشش ربوہ کی نئی آبادی جو جماعت احمدیہ کا ثانوی مرکز ہے اس کی آب و ہوا میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ اور قابل اصلاح ہیں کیونکہ ان باتوں کا لوگوں کی صحت پر خراب اثر پڑ رہا ہے.( اول ) اس کی گرمی کی شدت اور (دوسرے ) اس کا گردا ان دونوں اصلاحوں کے لئے درختوں کا لگانا بڑا مفید ہو سکتا ہے کیونکہ درختوں کی کثرت سے شہر کے سایہ دارحصہ میں اضافہ ہوتا ہے اور گرمی کی شدت میں کمی آتی ہے؟ -؟ نیز تیز ہوا کے چلنے میں روک پیدا ہو جانے سے اور درختوں کی آبپاشی کے نتیجہ میں لازما گردے میں بھی کمی واقع ہوتی ہے.پس اب جبکہ شجر کاری کا ہفتہ قریب آرہا ہے.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ ربوہ میں کثرت کے ساتھ درخت لگائیں اور درخت لگانے کے بعد ان کی حفاظت اور مناسب آب پاشی کا بھی انتظام کریں تا کہ مومنوں کے ہاتھ کی محنت ضائع نہ جائے بلکہ مفید اور بارآور ثابت ہو.باقی رہا ڈرینج اور مچھروں کے مارنے کا انتظام اور اچھے پانی کی سپلائی ہو گو اس کے لئے بھی پبلک کے تعاون کی ضرورت ہے.مگر اس کام کی اصل ذمہ داری شہر کی کمیٹی پر ہے اور اسے اس کی طرف توجہ دینی چاہئے.( محرره 3 فروری 1962ء) (روز نامہ الفضل 6فروری 1962ء) خدا کے ساتھ رشتہ جوڑنے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کا مہینہ میں آجکل بیمار ہوں اور اب ضعف کا بھی زمانہ ہے اس لئے میں رمضان کی برکات کے متعلق اب اس رنگ میں مفصل مضمون نہیں لکھ سکتا جس طرح کہ گزشتہ چالیس سال کے طویل زمانہ میں قریباً ہر سال لکھتا رہا
مضامین بشیر جلد چهارم 352 ہوں اس لئے ذیل میں ایک نہایت مختصر نوٹ کے ذریعہ دوستوں کو بعض ان نیکیوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جن کے ساتھ رمضان کے مبارک مہینہ کو مخصوص مناسبت ہے.اسلام میں سب سے اول نمبر پر اور سب سے مقدم خدائے واحد کے ساتھ انسان کے ذاتی اور براہ راست تعلق کا سوال ہے جس پر قرآن وحدیث نے انتہائی زور دیا ہے اسی لئے حدیث میں رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جہاں دوسرے نیک اعمال کے خدا تعالیٰ نے اور اور اجر مقرر فرمائے ہیں وہاں روزے کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ اس کا اجر میں خود ہوں.پس رمضان کے روزوں کو خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کے ذاتی تعلق پیدا کرنے کی مخصوص تاثیر حاصل ہے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ رمضان کے روزوں سے صرف صبح سے لے کر شام تک بھوکا پیاسا رہنا مراد نہیں بلکہ اس میں روزوں کے وہ تمام شرائط اور لوازمات شامل ہیں جن کے متعلق قرآن و حدیث میں تاکید فرمائی گئی ہے.یعنی پاک نیت کے ساتھ رضائے الہی کے لئے روزہ رکھنا پنج گانہ نماز کی پابندی کے علاوہ نوافل اور خصوصاً تہجد اور تراویح کی نماز ادا کرنا.ذکر الہی میں مصروف رہنا دعاؤں کے ذریعہ خدا کے حضور جھکے رہنا.قرآن مجید کی تلاوت کرنا.صدقہ و خیرات میں حصہ لینا اور تمام لغویات سے پر ہیز کرنا اور حسب توفیق رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی عبادت بجالا نامراد ہے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو شخص پاک نیت کے ساتھ رمضان کی ان تمام مقدس شرائط اور لوازمات کو ادا کرے گا وہ خدا کے فضل سے خالق ہستی کے ساتھ ذاتی اور براہ راست تعلق پیدا کرنے میں ضرور کامیاب ہو گا.وہ خدا تک پہنچ جائے گا اور خدا اسے مل جائے گا اور خدا اسے اپنے قرب سے نوازے گا.جو انسان کی پیدائش کی اصل غرض و غایت ہے.ایسے شخص کی دعا ئیں خدا کے حضور سنت اللہ کے مطابق زیادہ قبولیت کا شرف پائیں گی اور خدا اس کا حافظ و ناصر ہوگا اور اس کے لئے غیرت دکھائے گا.بیشک اس پر کبھی کبھی ابتلاء کے طور پر امتحان آئیں گے.مگر یہ امتحان اسے ذلیل کرنے اور نیچا گرانے کے لئے نہیں ہوں گے بلکہ اسے ترقی دینے اور اس کی روح میں مزید جلا پیدا کرنے اور اسے خدا سے قریب تر لانے اور دنیا پر اس کے اندرونی جو ہر ظاہر کرنے کیلئے آئیں گے.پس دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کے مہینہ کو ان تمام لوازمات کے ساتھ ادا کریں جو اسلام نے بیان کئے ہیں اور ذکر الہی اور دعاؤں اور تہجد اور تراویح کی نماز پر خصوصیت کے ساتھ زور دیں اور قرآن مجید کی تلاوت توجہ کے ساتھ کریں اور جہاں تک توفیق ملے صدقہ و خیرات میں حصہ لیں اور یہ سب باتیں پاک نیست اور دل کی سچی تڑپ کے ساتھ ادا کریں.پھر وہ دیکھیں گے کہ ایک طرف ان کی روح خدا کی طرف دوڑنا
مضامین بشیر جلد چہارم 353 شروع ہوگی اور دوسری طرف خدا ان کی طرف بھاگا آئے گا اور ان دونوں کے اتصال سے وہ عظیم الشان روحانی بجلی پیدا ہوگی جس کے لئے بھٹکے ہوئے انسانوں کی روح اور اس وقت کی مادی دنیا ترس رہی ہے.میں اس موقع پر تربیت کے خیال سے دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ نسخہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں جو حضور اپنی جماعت کی اصلاح کی غرض سے بیان فرمایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ رمضان میں اصلاح نفس کا یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے کہ انسان رمضان کے مہینہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کر کے اپنی کسی کمزوری کو ترک کرنے کا دل میں خدا سے عہد کرے.اور پھر پوری کوشش کے ساتھ اس عہد پر قائم ہو جائے.چونکہ رمضان کے مہینہ کو خاص روحانی ماحول حاصل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اس مہینہ میں خاص طور پر اپنے بندوں کے قریب ہو جاتا اور ان کی سنتا اور ان کی نصرت فرماتا ہے اس لئے حضور فرماتے تھے کہ اس قسم کے عہد کے نتیجہ میں انسان زیادہ آسانی کے ساتھ اپنی کمزوریوں پر غلبہ پاسکتا اور نفس کی پاکیزگی اور جماعتی اتحاد اور یک جہتی حاصل کر سکتا ہے.ایسے عہد کے متعلق عہد کرنے والوں کو اپنی کمزوری کے اظہار کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسا اظہار خدا کی ستاریت کے خلاف ہے.بلکہ صرف دل میں خدا سے عہد کیا جائے کہ میں آئندہ فلاں ( ذاتی یا جماعتی ) کمزوری سے بیچ کر رہوں گا اور پھر پورے عزم اور ہمت اور استقلال کے ساتھ دعا کرتے ہوئے اس عہد کو اس طرح نبھائے کہ پھر کبھی اس کمزوری کا مرتکب نہ ہو.پس ہماری جماعت کے مخلص دوستوں کو رمضان کے مہینہ میں اس روحانی نسخہ سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور ہمارے مردوں اور عورتوں اور جوانوں اور بوڑھوں سے اسلام اور احمدیت بلکہ انسانیت کی ایسی خدمت لے جو اس کی رضا اور ہماری فلاح کا موجب ہو اور رسول پاک کا نام چارا کناف عالم میں گونجنے لگ جائے.آمین یا ارحم الراحمین ( محررہ 9 فروری 1962ء) روزنامه الفضل ربوه 14 فروری 1962ء) 10 سیرالیون کی تیرھویں سالانہ کانفرنس پر پیغام برادران کرام السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اپنے صدر مقام بو میں جلسہ سالانہ منعقد کر رہے ہیں اور آپ کے مبلغ نے اس
مضامین بشیر جلد چہارم 354 جلسہ کے موقع پر مجھ سے ایک پیغام مانگا ہے.سو میرا پیغام یہ ہے کہ آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسے براعظم میں خدمت بجالانے کی توفیق دی ہے جو اس وقت تک مغربی اقوام کے استبداد کے ماتحت غلامی کی زندگی بسر کر رہا تھا.اور آج وہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے آزادی کے ماحول میں آنکھیں کھول رہا ہے.پس اس موقع پر سب کو دعا کرنی چاہئے کہ افریقہ کی آزادی حقیقی آزادی ہو جس میں نہ صرف لوگوں کا جسم آزاد ہو بلکہ ان کی روحیں بھی آزاد ہوں اور اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے لئے تمام ترقی کے سامان بصورت احسن مہیا فرمادے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں وہ قومیں جو دوسروں کی حکومت کے نیچے دب کر پستی کی زندگی گزار رہی ہوں گی آزادی حاصل کریں گی.اور اللہ تعالیٰ ان کی ترقی کے سامان پیدا کر دے گا.میری دعا ہے کہ خدا آپ کو دین و دنیا میں ترقی دے اور آپ اس کے فضلوں سے بہترین حصہ پانے والوں میں سے بن جائیں.اسلام حقیقی مساوات کی تعلیم دیتا ہے.اور سب کو بھائی بھائی بنا کر ایک صف میں کھڑا کرتا ہے.اسلامی سوسائٹی میں نہ کوئی اپنی ذات میں بڑا ہے اور نہ کوئی چھوٹا بلکہ وہی شخص بڑا ہے جو اپنے اخلاق اور اپنے ذاتی اوصاف اور اپنے علم و فضل اور اپنی نیکی اور شرافت اور اپنی دینداری کے لحاظ سے بڑا ہو.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ حقیقی بڑائی حاصل کرنے کی کوشش کریں.جو مبلغ جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کے ملک میں گئے ہوئے ہیں وہ حاکم بن کر نہیں گئے.بلکہ بھائی اور خادم بن کر گئے ہیں.انہیں چاہئے کہ حقیقی مساوات کا نمونہ قائم کریں اور امن اور محبت اور دلائل کے ذریعہ حق کو پھیلائیں.بعض لوگوں نے اسلام پر یہ بڑا ظلم کیا ہے کہ گویا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے.سواس زمانے میں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس غرض سے مبعوث کیا ہے کہ وہ اس اعتراض کو جھوٹا ثابت کر کے دکھا ئیں اور عقلی دلائل اور روحانی نشانوں کے ذریعہ اسلام کو غالب کر دیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے متعلق بڑے بڑے ترقی کے وعدے کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے علم پا کر پیشگوئی فرمائی ہے کہ جو لوگ میری کچی اتباع کریں گے وہ دین و دنیا کے اعلیٰ ترین انعاموں میں سے حصہ پائیں گے.میری دعا ہے کہ آپ کا ملک بھی ان انعاموں سے حصہ پانے والا ثابت ہو جو مستقبل میں احمدیت کے لئے مقدر ہیں.آمین اللهم آمین روزنامه الفضل 16 فروری 1962ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 11 کچھا اپنے متعلق 355 انسان پر خدا کی اتنی نعمتیں ہیں کہ وہ ان کا شمار نہیں کر سکتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طفیل تو ہم پر خدا کی نعمتوں کا کوئی حد و حساب ہی نہیں.لیکن پھر بھی بعض اوقات انسان ضعیف البنیان کمزوری دکھا تا اور بے صبری کرتا اور نا شکر گزاری کا مرتکب ہونے لگتا ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ قول کتنا پیارا ہے کہ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ - حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی روایت آتی ہے کہ وہ بعض اوقات اپنے آخری ایام میں گھبرا کر یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللّهُمَّ لَالِي وَلَا عَلَی یعنی اے میرے آقا! میں تجھ سے اپنے کسی نیک عمل کا اجر نہیں مانگتا مگر مجھے میری لغزشوں کی پاداش سے محفوظ رکھ اور میرا حساب کتاب برابر رہنے دے.اس عاجز کی عمر بھی اس وقت انہتر 69 سال کے قریب ہے بلکہ قمری حساب سے ستر سال سے اوپر ہو چکی ہے اور یہ عمر طبعاً ضعف اور کمزوری کی عمر ہوتی ہے اور اس پر مجھے کئی سال سے تین چار فکر پیدا کرنے والی بیماریاں بھی لاحق ہیں.اس کے علاوہ حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ کی طویل علالت اور عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی وفات کی وجہ سے بھی طبیعت اکثر بے چین رہتی ہے اور اپنی جسمانی اور روحانی کمزوریوں کا خیال بھی دل پر غالب ہے.اور گو میں خدا کے فضل سے اپنی طاقت کے مطابق صبر پر قائم رہنے کی کوشش کرتا ہوں اور اپنی سمجھ کے مطابق خدا کی بے شمار نعمتوں کا شکر گزار رہنے کی سعی بھی کرتا ہوں مگر دل ڈرتا رہتا اور خوف کھاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی وسیع بخشش اور بے حد رحم و کرم کے باوجود بعض اوقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح دل اس دعا کی طرف مائل ہونے لگتا ہے کہ اللَّهُمَّ لَا لِي وَلَا عَلَيَّ.پس میں اس رمضان کے مبارک مہینہ میں اپنے دوستوں اور مخلصین جماعت سے اپنے لئے دو خاص دعاؤں کی درخواست کرتا ہوں.(1) اول یہ کہ جتنی بھی میری مقدر زندگی ہے اللہ تعالیٰ اس میں مجھے دل کا سکون اور کام کرنے والی جسمانی صحت اور اپنی رضا کے ماتحت مقبول خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور میرا انجام بخیر ہو.(2) دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے میری کمزوریوں کے باوجود اپنی ذرہ نوازی سے قیامت کے دن اس گروہ میں شامل فرمائے جن کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) فرماتے ہیں کہ میری امت
مضامین بشیر جلد چهارم 356 میں سے بعض لوگ حساب کتاب کے بغیر بخشے جائیں گے.کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس عاجز کو حشر کے میدان میں خدا کے سامنے اپنے حساب کتاب کے لئے کھڑے ہونے کی بالکل طاقت نہیں.وَ يَا حَيُّ وَ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ وَارْجُوا مِنْكَ خَيْراً يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - 12 محرره 16 فروری 1962ء) روزنامه الفضل ربوه 22 فروری 1962ء) حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مرحوم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مرحوم کی خبر روز نامہ الفضل میں بھجواتے ہوئے آپ کے اخلاق و شمائل یوں بیان فرمائے.حضرت سیٹھ صاحب مرحوم کا نام نامی جماعت میں کسی تعارف کا محتاج نہیں.انہوں نے غالباً خلافت ثانیہ کے ابتداء میں اسمعیلیہ فرقہ سے نکل کر احمدیت کو قبول کیا تھا اور پھر ایمان واخلاص میں ایسی جلد جلد ترقی کی اور قربانی اور خدمت دین کا ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا کہ بہت سے پہلے آنے والے لوگوں سے آگے نکل گئے.یہی وہ مبارک طبقہ ہے جسے قرآن مجید نے سابقون کے اعزازی نام سے یا د کیا ہے یعنی وہ بعد میں آتا ہے مگر دین کے میدان میں اپنی تیز رفتاری سے پہلوں سے آگے نکل جاتا ہے.حضرت سیٹھ صاحب مرحوم نے غیر معمولی مالی قربانی کے علاوہ اسلام اور احمدیت کی خدمت میں اتنا وسیع لٹریچر شائع کیا کہ ان کے تبلیغی ولولہ کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.گویا ایک مقدس جنون تھا جو انہیں ہر روز آگے سے آگے بڑھاتا چلا جاتا تھا.اور ان کا یہ دینی جذ بہ آخر عمر تک ( وہ غالباً اسی 80 سال سے اوپر عمر پا کر فوت ہوئے) یکساں قائم رہا بلکہ ترقی کرتا گیا اور ذاتی نیکی اور عبادت میں بھی ان کا مقام حقیقتاً مثالی تھا.اللہ تعالیٰ حضرت سیٹھ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور بہترین نعماء سے نوازے اور ان کی اولاد کا دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو اور جماعت میں بھی ان کے مقدس ورثہ کو ہمیشہ جاری اور ساری رکھے مِينَ يَا رَبَّ الْعَالَمِینَ.وہ یقیناً اس طبقہ میں سے تھے جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَّنْتَظِرُ والے طبقہ کا خدا حافظ ہے.
مضامین بشیر جلد چہارم اے خدا بر تربت او بارش رحمت ببار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم (محررہ 27 فروری 1962ء) 357 روزنامه الفضل یکم مارچ 1962ء) 13 قادیان کے درویشوں کو دعاؤں میں یا درکھیں قادیان کے غریب درویش جن حالات میں اور جس مقصد کے ماتحت قادیان میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں وہ سب پر عیاں ہے سو دوست اپنے ان درویش بھائیوں کو جو حقیقتا درویش ہیں اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں وہ دراصل اس وقت قادیان میں ساری جماعت کے نمائندے ہیں اور قادیان میں ان کے قیام کے دو بڑے مقصد ہیں اول یہ کہ جماعت احمدیہ کے مقدس مقامات کو آباد رکھنا اور دعاؤں اور روحانی ذرائع سے ان کو تقویت پہنچانا.دوسرے یہ کہ بھارت کو جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو متعد د اسلامی بشارات ہو چکی ہیں پُر امن تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی روشنی سے منور کرنا.سو دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ قادیان کے درویشوں اور بھارت کے دوسرے احمدیوں کے ذریعہ ان دونوں مقصد وں میں پوری پوری کامیابی اور کامرانی کا رستہ کھولے اور ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کی مشکلات دور فرمائے.محرره 27 فروری 1962ء) (روز نامہ الفضل یکم مارچ 1962ء) 14 خاندان کے عزیزوں کے لئے دعا کی تحریک آجکل رمضان کا مبارک مہینہ ہے اور اب رمضان کا آخری عشرہ بھی شروع ہے جو اس مبارک مہینہ کا مبارک ترین حصہ ہے.ان ایام میں اُس حسن ظنی کی وجہ سے جو اس عاجز کے متعلق جماعت کے دلوں میں ہے (ورنہ من آنم کہ من دانم ) جماعت کے بہت سے دوست دعا کے لئے لکھتے رہتے ہیں اور یہ
مضامین بشیر جلد چہارم 358 خاکسار حسب توفیق سب کے لئے دعا کرتا ہے والا سر بیدِ اللَّهِ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّحِمِينَ وَ أَرْجُوا مِنَ اللَّهِ خَيْرًا.میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ جماعت کے دو حصوں پر خصوصیت سے زیادہ ذمہ داری ہے اور پر جماعت میں نیک یا خدانخواستہ خراب اثر پیدا کرنے میں یہ دو حصے امکانی طور پر بہت نمایاں دخل رکھتے ہیں.(اول) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد جن میں مردوزن دونوں شامل ہیں.( دوم ) مرکز میں رہنے والے احمدی خواہ وہ مرکزی کارکن ہیں یا عام پبلک.ان دونوں طبقوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے اور ان دونوں کو اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے یا د رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو راہ صواب پر قائم رکھے اور انہیں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا نمونہ بنائے اور ان کی طرف سے کوئی ایسی بات نہ ہو جو جماعت میں ٹھوکر یا فتنہ کا باعث بنے.ہمارے خاندان میں سے بعض افراد بیمار ہیں اور بعض مختلف قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جن سے (میری طرح) بعض اوقات کوئی کمزوری اور لغزش سرزد ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ.ان سب کے لئے دعا کی جائے.نیز یہ دعا بھی کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اگلی نسلوں کی بھی حفاظت فرمائے اور انہیں اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور پوتیاں اور نواسے اور نواسیاں اور ان کی اولا دسب خدا کی خادم بن کر رہے اور حسناتِ دارین سے حصہ پائے اور خدا کے حضور میں زندگی گزارے.آمین ( محررہ 28 فروری 1962ء) (روزنامه الفضل 2 مارچ 1962ء) اللہ کے کام نیارے دعا کی قبولیت کا ایک نیا پہلو گزشتہ جنوری کے مہینہ میں جب میں لاہور میں زیر علاج تھا ایک دن چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور ان کی اہلیہ صاحبہ میری عیادت کے لئے تشریف لائے.چوہدری صاحب کی اہلیہ کی گود میں ایک
مضامین بشیر جلد چہارم 359 شیر خوار بچہ تھا جو انہوں نے بڑی محبت اور احتیاط سے کپڑوں کے اندر لپیٹ رکھا تھا.میں چونکہ جانتا تھا کہ چوہدری صاحب کے گھر کوئی اولاد نہیں.میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ یا شاید خود انہوں نے بتایا کہ یہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے.اور پھر بڑے شوق سے اس کی یہ تفصیل بتائی کہ کچھ عرصہ ہوا میاں شریف احمد صاحب مرحوم ہمارے مکان میں آئے تھے اور مجھے یہ بشارت دی تھی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ خدا تمہیں میری زندگی میں ہی بچہ دے گا اور میں نے ایک بچہ کپڑوں میں لپٹا ہوا تمہاری گود میں دیکھا ہے.چنانچہ یہ وہی بچہ ہے جو ایک عزیز کا ہے اور خدا نے ہمیں عطا کیا ہے.مجھے یہ بات سن کر اور ان کی خوشی دیکھ کر طبعاً بہت خوشی ہوئی اور مجھے دعا کی قبولیت کا ایک نیا پہلو نظر آیا کہ بعض اوقات اولاد کی بشارت اس رنگ میں بھی پوری ہوتی ہے کہ کوئی عزیز یا دوست اپنا بچہ ایک بے اولاد شخص کے سپر د کر دیتا ہے کہ لوتم اس بچے کو اپنے گھر میں رکھ کر پالو اور اپنے دل کی تسکین کا سامان کرو.بے شک ایسا بچہ شرعی لحاظ سے دوسرے شخص کا بچہ نہیں بنتا مگر دل کی محبت میں جگہ پالیتا ہے اور ایک حد تک روحانی تسکین کا موجب بنتا ہے.سو گو چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے اپنی اولاد نہیں ہوئی مگر خدا نے میاں شریف احمد صاحب کی رویا کو اس طرح پورا کر دیا کہ کسی عزیز نے اپنا بچہ ان کے سپرد کر دیا جسے وہ اب بڑی محبت کے ساتھ پال رہے ہیں اور قلبی تسلی کے علاوہ ثواب بھی کما رہے ہیں.یہ ایک ایسی ہی بات ہے جیسا کہ قرآن مجید نے حضرت موسی کے تعلق میں ذکر کیا ہے.گو افسوس ہے کہ فرعون نے اس خدائی نعمت کی قدر نہیں کی بلکہ ناشکری کر کے خدائی عذاب کا نشانہ بن گیا.میں ان خیالات میں محو تھا کہ اچانک مجھے اپنی اُس پرانی رویا کی طرف خیال چلا گیا جو ڈیڑھ سال قبل مجھے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مرحوم کی اہلیہ نے یاد دلائی تھی جس میں میں نے دیکھا تھا کہ عزیز مظفر احمد کے گھر شادی کے ہیں سال بعد بچہ پیدا ہوگا چنانچہ مجیب قدرت الہی ہے کہ جب عزیز مظفر احد کی شادی پر ہیں سال گزر گئے اور اکیسواں سال گزررہا تھا تو ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک بچی عزیزہ امتہ الجمیل سلمہا نے اپنا بچہ عزیز ظاہر احمد ، عزیز مظفر احمد کے سپر د کر دیا اور اب وہ ان کے گھر میں بچوں کی طرف تربیت پا رہا ہے.اور اس طرح میری وہ رویا پوری ہوگئی کہ شادی کے بیس سال بعد عزیز مظفر احمد سلمہ کے گھر میں بچہ ہو گا.یہ خدائی عجائبات کے غیر معمولی کرشمے ہیں جن کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے.اور میری دعا ہے کہ یہ بچہ بڑھے اور پھولے اور پچھلے اور عزیز مظفر احمد اور عزیزہ امتہ القیوم بیگم کے لیئے قلبی تسکین اور روحانی راحت کا موجب بنے.
مضامین بشیر جلد چهارم 360 مگر ہمارا خدا بڑا قادر خدا ہے.اس کی قدرت اور رحمت کی کوئی انتہا نہیں اور ہر گز بعید نہیں کہ وہ اب بھی عزیز مظفر احمد کو صلبی اولاد سے نوازے اور ہم خدا کے حضور دہرے شکر کے سجدے بجالائیں اور تورات سے یہ ملتے جلتے الفاظ پورے ہوں کہ.” اسحاق بھی تیری اولاد ہے مگر مجھے اسمعیل سے بھی ایک قوم بنانا ہے“ پس دوست اس رمضان کے مبارک ایام میں بھی درد دل سے یہ دعا جاری رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی دکھائی ہوئی رؤیا کے مطابق عزیز مظفر احمد کے گھر کو میں سال کے بعد ایک بچے سے نوازا ہے اسی طرح جہاں وہ اس بچہ کو برکت عطا کرے وہاں عزیز مظفر احمد کو اپنے فضل وکرم سے صلبی اولاد سے بھی نوازے.وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيز - وَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِير - محرره 26 فروری 1962ء) روزنامه الفضل 2 مارچ 1962ء) 10 میرے دعائیہ نوٹ پر دوستوں کا رد عمل اور دوستوں سے دعا کی مزید درخواست 22 فروری 1962 ء کے روزنامہ الفضل میں میرا ایک دعائیہ نوٹ زیر عنوان ” کچھ اپنے متعلق چھپا تھا.اس نوٹ میں میں نے نیک انجام کے علاوہ اس دعا کی درخواست بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل و کرم سے اس گروہ میں شامل کرے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی ) کی بشارت کے مطابق قیامت کے دن حساب و کتاب کے بغیر بخشا جائے گا.یہ نوٹ میں نے کافی تکلیف اور گھبراہٹ کی حالت میں لکھا تھا.اور مجھے بہت خوشی ہوئی اور میرا دل شکر و امتنان کے جذبات سے بھر گیا کہ دوستوں میں میرے اس نوٹ کی وجہ سے دعا کی خاص تحریک پیدا ہوئی اور جماعت کے مخلصین نے مجھے اپنی در دوسوز کی دعاؤں سے نوازا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے رمضان کی آخری دعا میں یوں محسوس کیا کہ گویا میرے دل و دماغ کا بوجھ اٹھتا جا رہا ہے اور اس کے بعد سے میں کافی حد تک اپنے جسم کی کمزوری اور دل کی بے چینی میں کمی محسوس کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو بہترین جزاء سے نوازے اور انہیں اپنے فضل و رحمت سے حصہ وافر عطا کرے جنہوں نے اپنی دردمندانہ دعاؤں سے میری نصرت فرمائی.میں بھی اس رمضان
مضامین بشیر جلد چہارم 361 میں سب دوستوں کے لئے عموماً اور ان دوستوں کے لئے خصوصاً دعا کرتا رہا ہوں جو رمضان کے ایام میں مجھے تاروں اور خطوں کے ذریعہ دعا کے واسطے لکھتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کی پریشانی دور کرے.سب کی مشکلات کے حل کا رستہ کھولے.سب کو دین و دنیا کے مقاصد میں کامیابی سے نوازے اور سب کو حسناتِ دارین سے متمتع فرمائے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے گو مجھے خدا کے فضل سے جسمانی کمزوری کے لحاظ سے بھی کچھ افاقہ ہے اور طبیعت کی بے چینی اور گھبراہٹ میں بھی نسبتاً کمی ہے مگر ابھی پورا افاقہ نہیں ہے.کیونکہ ابھی تک میری ٹانگوں میں کافی کمزوری ہے اور ایک بیمار انسان کی طرح بہت آہستہ آہستہ چلتا ہوں اور تھوڑا سا چلنے سے کافی کوفت ہو جاتی ہے.اسی طرح فکر کی بات پیش آنے پر طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے اور اعصابی بے چینی رہتی ہے.پس میں اپنے مخلص دوستوں اور بھائیوں اور بہنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جہاں حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور دوسرے احباب اور جماعت کے لئے دعائیں کرتے ہیں وہاں اس عاجز کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں تا کہ مقدر زندگی مفید کام اور خدمت دین میں گزرے اور انجام بخیر ہو.باقی میں نے جو اپنی دعائیہ تحریک میں لکھا تھا کہ دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے قیامت کے دن اس گروہ میں شامل کرے جو رسول پاک کی بشارت کے مطابق حساب کتاب کے بغیر بخشا جائے گا.سواس پر احباب جماعت میں اپنے اپنے رنگ میں مختلف قسم کا رد عمل ہوا ہے.بعض نے اسے گھبراہٹ کا نتیجہ قرار دیا ہے اور بعض نے اسے کسر نفسی سمجھا ہے.گھبراہٹ کا تو ممکن ہے کچھ دخل ہو مگر کسر نفسی ہرگز نہیں.کیونکہ میں نے اس دعا کی تحریک اپنے سارے حالات اور کمزوریوں کا جائزہ لینے کے بعد کی تھی اور وہ بالکل درست تھی.مجھ میں خدا کے فضل سے تکلف کی عادت نہیں بلکہ ہمیشہ صاف اور سیدھے طریق پر اپنے دل کی بات کہنے کا عادی ہوں.اللہ تعالیٰ میرے حالات اور میری کمزوریوں کو جانتا ہے اور حق یہی ہے کہ اس کے فضل اور ستاری کے بغیر انسان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں.لیکن جو دوست حسن ظنی کی بناء پر اس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتے وہ کم از کم اصولی رنگ میں یہ بات تو ضرور سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام نے مغفرت اور نجات کی بنیا دانسان کے عمل پر نہیں رکھی بلکہ خدا کے فضل پر رکھی ہے.پس اگر میں خدا کے فضل و رحمت اور اس کی ستاری اور مغفرت کا طالب ہو کر حساب کتاب کے بغیر بخشش ہونے کی تڑپ رکھتا ہوں تو اس پر ہمارے دوست تعجب کیوں کرتے ہیں؟ حق یہ ہے کہ اگر میرے اندر کوئی نیکی ہے اور مجھے کسی خدمت کی توفیق ملی ہے.تو وہ محض حضرت مسیح
مضامین بشیر جلد چهارم 362 موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور حضور کے پاک ورثہ کی طفیل ہے اور اس کے مقابل پر میری کمزوریاں یقیناً میرے اپنے نفس کی طرف سے ہیں.وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوْءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي وَاللهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيْمِ الرَّحِيمِ - محررہ 15 مارچ 1962ء) روزنامه الفضل 20 مارچ 1962ء) مجلس مشاورت کے اجلاس پر ایک طائرانہ نظر اس دفعہ مجلس مشاورت سے پہلے میری طبیعت کافی کمزور تھی اور اعصابی بے چینی بھی رہتی تھی.اس لئے میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ اگر میری جگہ کسی اور صاحب کو مشاورت کے کام کے لئے مقرر فرمایا جائے تو مناسب ہوگا لیکن میری درخواست کے با وجود حضور نے اس عاجز کو ہی مشاورت کی صدارت کے لئے ارشاد فر مایا اور میں نے خدا سے دعا کرتے ہوئے حضور کے ارشاد کی تعمیل کی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میری کمزوری اور علالت کے باوجود یہ تین دن خدا کے فضل سے بخیریت گزر گئے اور ٹانگوں کی کمزوری کے علاوہ میں نے ان ایام میں کوئی خاص کمزوری محسوس نہیں کی.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ مشاورت کے طویل اجلاسوں کی کوفت کا اثر تو طبعا ہونا ہی تھا مگر نمعلوم کیوں مشاورت کے بعد کمزوری اور اعصابی بے چینی پھر عود کر آئی.پس دوست اس عاجز کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں کیونکہ حق یہی ہے کہ خدا کی رحمت ہی ہمارے سارے کاموں اور ہماری ساری طاقتوں کا شہتیر ہے.جہاں تک مشاورت میں طے پانے والی سفارشات کا تعلق ہے میں نے ان میں صرف کسی جگہ مختصرسی ضروری تشریح وتوضیح پیش کرنے کے علاوہ کوئی دخل نہیں دیا.اور سب کمیٹیوں کے ممبروں اور دوسرے نمائندوں اور مرکزی افسروں کو اپنے اپنے خیالات کے اظہار اور دوسروں کی آراء پر جرح کرنے کا حتی الوسع پورا پورا موقع دیتا رہا.سوائے اس کے کہ بالکل آخر میں آکر وقت کی تنگی کی وجہ سے مجبوراً کچھ حد بندی کرنی پڑی اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حد بندی بھی اکثر مبروں کی منشاء کے مطابق تھی.البتہ میں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ صدر انجمن احمد یہ کا بجٹ جس تفصیلی بحث کا حقدار تھا وہ شائد مشاورت میں نہیں ہوسکی.کیونکہ اکثر زمیندار ممبروں کو اعداد وشمار میں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی.حالانکہ اس کے لئے ہر بولنے والے کو کھلی اجازت دی گئی تھی.تاہم بجٹ کی عمومی بحث
مضامین بشیر جلد چهارم 363 کافی دلچسپ رہی البتہ تحریک جدید کا بجٹ زیادہ بحث کے بغیر اتفاق رائے سے پاس ہو گیا.مجھے خوشی ہے کہ اس سال مشرقی پاکستان کے نمائندے زیادہ خوش اور زیادہ تسلی یافتہ ہو کر واپس گئے.کیونکہ ایک تو ان کے ایک معزز رکن کو ایک سب کمیٹی میں صدارت کا موقع میسر آنے کی وجہ سے اپنے صوبے کے خیالات اور ضروریات کے اظہار کا اچھا موقع مل گیا تھا.دوسرے مشرقی پاکستان کی اس خواہش کو کافی حد تک پورا کر دیا گیا کہ جامعہ احمد یہ ربوہ کے طلباء میں ان کے صوبے کو زیادہ حصہ ملنا چاہئے.علاوہ ازیں مشاورت میں اس فیصلہ پر زور دیا گیا کہ سال میں دو دفعہ مرکز کے کم از کم دو ممتاز اراکین کی طرف سے مشرقی پاکستان کا دورہ ہوا کرے.تا کہ دونوں صوبوں میں زیادہ سے زیادہ رابطہ اور مفاہمت پیدا ہو.اس مشاورت میں رشتہ ناطہ کے محکمہ کو بھی زیادہ مضبوط اور زیادہ وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تا کہ اس معاملہ میں دوستوں کی مشکلات دور ہوں اور انہیں مرکز کی طرف سے زیادہ سے زیادہ مشورہ اور امداد میسر آئے.اس مشاورت میں جامعہ احمد یہ ربوہ کے لئے زیادہ سے زیادہ واقفین حاصل کرنے کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور اس کے متعلق زور دار تحریک کی گئی.اور یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ اب جماعت میں اس کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ ہے اور انشاء اللہ مزید توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی.مشاورت کے دوران میں لاہور کے ایک مخلص دوست کی طرف سے ربوہ میں دار الیتامی قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی اور انہوں نے اس کام کے لئے معقول ذاتی امداد کی پیشکش بھی کی.چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ کی زیر نگرانی جہاں تک ممکن ہو جلد ایک دار الیتامی کھول دیا جائے اور اس کے لئے دوستوں میں تحریک کی جائے.ربوہ میں پانی کی سپلائی کا مسئلہ بھی نمایاں طور پر مشاورت کی خاص دلچسپی اور توجہ کا جاذب رہا اور اس بات کا ز بر دست احساس پایا گیا کہ صحت کی درستی اور شجر کاری کی توسیع کے لئے اس معاملہ کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے اور محکمہ متعلقہ کا فرض ہے کہ وہ ربوہ کی ٹاؤن کمیٹی کے ذریعہ اس کی بار بار تحریک کرتا رہے.اصلاح وارشاد کے کام کی توسیع کے لئے موجودہ بجٹ کے علاوہ پچیس ہزار روپیہ کے اضافہ کی سفارش کی گئی تا کہ کام زیادہ منظم اور زیادہ وسیع طور پر سر انجام دیا جا سکے.نگران بورڈ کی تجویز کے متعلق مشاورت میں جو فیصلہ ہوا اس پر یہ خاکسار خوش نہیں کیونکہ اس میں شخصیت کا سوال پیدا ہو گیا تھا.ویسے اس سوال پر کافی بحث ہوئی اور کئی امکانی صورتوں پر غور ہوتا رہا اور کاش
مضامین بشیر جلد چهارم 364 یہ معاملہ اصول کی حد تک محدو درہتا.باوجود اس کے میری کوشش انشاء اللہ سابق کی طرح یہی ہوگی کہ حتی الوسع سارے فیصلے باہم مفاہمت کے طریق پر طے پائیں.مشاورت کے دوران میں چند منٹ کے لئے عزیز ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے حضرت (خلیفہ المسیح) کی صحت اور علاج کے متعلق مختصر طور پر بیان کیا جس پر بعض دوستوں میں از خود صدقہ کی تحریک پیدا ہو گئی اور اعلان کیا گیا کہ جو دوست اس مد میں مزید صدقہ بھجوانا چاہیں.وہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے نام بھجوا دیں اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ہدایت دی گئی کہ غریبوں اور مسکینوں اور یتیموں کے علاوہ کچھ رقم قرآنی تعلیم کے ماتحت اسیروں پر بھی خرچ کی جائے حضور کے علاج کے تعلق میں بعض نمائندگان کی طرف سے ہومیو پیتھک طریق علاج کی طرف بھی توجہ دلائی گئی.بالآخر یہ عاجز دوستوں سے پھر دوبارہ یہ تحریک کرتا ہے کہ وہ آجکل اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے اور جماعت کے بیرونی مبلغوں اور اندرونی مربیوں کی کامیابی کے لئے اور حضرت صاحب کی صحت کے لئے خاص طور پر درد و سوز کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں اور اپنی دعاؤں کا کچھ حصہ اس خاکسار کو بھی دیں کیونکہ میں اپنی صحت کی کمزوری کی وجہ سے محسوس کرتا ہوں کہ میں آجکل اس رنگ میں خدمت نہیں کر سکتا جس کی مجھے خواہش ہے.( محررہ 4 اپریل 1962 ء) (روزنامہ الفضل ربوہ 7 اپریل 1962ء) مشرقی پاکستان ( حال بنگلہ دیش ) کا مجوزہ وفد اس سال کی مجلس مشاورت میں فیصلہ ہوا تھا کہ چونکہ مشرقی پاکستان کی جماعتیں دور کے علاقہ کی جماعتیں ہونے کی وجہ سے اس بات کی زیادہ حقدار ہیں کہ ان کے ساتھ مرکزی کارکن زیادہ سے زیادہ رابطہ رکھیں اور سال میں کم از کم دو وفد مشرقی پاکستان بھجوا کر وہاں کے حالات کا جائزہ لیتے رہیں (اور دراصل یہ فیصلہ حضرت (خلیفہ اسح) ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک پرانی ہدایت پر مبنی تھا اس لئے صدر انجمن احمد یہ ربوہ نے اس سال ماہ رواں کے وسط میں مشرقی پاکستان میں دو ناظروں کے بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے.یعنی چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ناظر اصلاح وارشاد اور میاں عبدالحق صاحب رامہ ناظر صاحب بیت
مضامین بشیر جلد چہارم 365 المال اور دوران اجلاس میں خاکسار کے مشورہ پر اس وفد میں مولوی جلال الدین صاحب شمس ممبر صدر انجمن احمدیہ کے نام کا اضافہ بھی کیا گیا.سوانشاء اللہ ان تین ارکان کا وفدصدرانجمن احمدیہ کی طرف سے بہت جلد مشرقی پاکستان روانہ ہو جائے گا اور ڈھاکہ کے اس اجتماع میں بھی شرکت کرے گا جو بنگال کے دوستوں کا وسط اپریل میں منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس وفد کو بہترین کامیابی سے نوازے اور مشرقی پاکستان کے بھائیوں کے لئے مفید اور بابرکت بنائے.آمین اس کے علاوہ انہیں ایام میں گوغالبا سفر کے آغاز کے لحاظ سے ایک دو دن بعد مرکزی کارکنوں کا ایک دوسرا وفد بھی مشرقی پاکستان کی طرف روانہ ہو رہا ہے.جس میں عزیز مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید اور عزیز مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید اور عزیز میر داؤ د احمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ مرکز یہ شریک ہوں گے.اس طرح یہ وفد مجموعی طور پر چھ ارکان پر مشتمل ہوگا اور مشرقی پاکستان کی تبلیغی اور تربیتی اور تنظیمی اور مالی ضروریات کا جائزہ لے کر مرکز میں رپورٹ کرے گا اور اپنی نگرانی میں حسب حالات مشرقی بنگال کے مرکزی عہدہ داروں کا انتخاب بھی کرائے گا اور مشرقی پاکستان کے دوستوں کو ان کی پیش آمدہ ضروریات اور مشکلات کے متعلق مشورہ بھی دے گا.اس کے علاوہ انہیں ایام میں مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی پیشکش کی ہے کہ وہ اپنے خرچ پر مشرقی پاکستان تشریف لے جا کر دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات سنائیں گے.سوخدا کے فضل سے یہ ایک بہت نادر موقع ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وفد کے ارکان کی روح القدس سے نصرت فرمائے تا کہ وہ اسلام اور احمدیت کی بہترین خدمت بجالا سکیں.اور مشرقی پاکستان کے دوستوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اس وفد سے جو غیر معمولی طور پر نمائندہ حیثیت رکھتا ہے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - ( محررہ 7 اپریل 1962 ء) روزنامه الفضل ربوہ 10 اپریل 1962ء)
مضامین بشیر جلد چهارم نگران بورڈ کے بعض خاص اصلاحی فیصلہ جات 366 ذیل میں نگران بورڈ کے بعض خاص اصلاحی فیصلہ جات درج کئے جاتے ہیں جن کا نگران بورڈ کی طرف سے اجرا ہو چکا ہے اور جماعت میں اور صیغہ جات متعلقہ میں ان کی تحریک بھی کی جاچکی ہے.اور ایک حد تک کام کا آغاز ہو چکا ہے.نگران بورڈ کے یہ فیصلہ جات اس غرض سے گزشتہ مشاورت میں سنائے گئے تھے تا کہ اس تعلق میں جماعت کو یاد دہانی ہو جائے اور متعلقہ صیغہ جات بھی زیادہ توجہ سے ان کاموں کو تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں.اب اسی غرض کے ماتحت انہیں روز نامہ الفضل میں شائع کیا جارہا ہے.(1) فیصلہ نمبر 2 مورخہ 1 6-5-28 فیصلہ کیا گیا کہ جماعتوں میں تحریک کی جائے (اور یہ کام ناظر صاحب اصلاح وارشاد سرانجام دیں) کہ مساجد احمدیہ کی برکات اور استفادہ کو صرف پانچ وقت کی نمازوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ مرکز میں اور بیرونی مساجد میں بھی علمی ترقی اور روحانی اور اخلاق تربیت کی غرض سے جہاں تک ممکن ہو اور مقامی حالات اجازت دیں.درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جائے.خصوصاً درس قرآن مجید اور درس احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلسلہ ضرور حتی الوسع ہر احمد یہ مسجد میں جاری کیا جانا چاہئے (2) فیصلہ نمبر 7 مورخہ 1 6-5-28 فیصلہ کیا گیا کہ نظارت اصلاح وارشاد کو توجہ دلائی جائے کہ بعض بیرونی رپورٹوں سے پتہ لگتا ہے کہ بعض کمزور طبیعت کی شہری احمدی مستورات میں اسلامی تعلیم کے خلاف بے پردگی کی طرف رجحان پیدا ہورہا ہے.اس کے لئے بار بار پردہ کے مسائل کو روزنامہ الفضل اور دیگر اخبارات اور رسائل وغیرہ کے ذریعہ تکرار کے ساتھ واضح کر کے اصلاح کرائی جائے.اسی تعلق میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ نظارت امور عامہ کو لکھا جائے کہ اگر کسی احمدی خاتون کے متعلق یہ ثابت ہو کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق پردہ نہیں کرتیں تو انہیں سمجھانے اور ہوشیار کرنے کے بعد ان کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے.ایسا ہی اگر یہ معلوم ہو کہ کوئی احمدی والد یا احمدی خاوند اپنی بچیوں اور بیوی کو پردہ نہیں کرا تا یا اس معاملہ میں اصلاحی قدم نہیں اٹھا تا تو ایک دفعہ ہوشیار کرنے کے بعد اس کے متعلق بھی مناسب کارروائی کی جائے“
مضامین بشیر جلد چهارم 367 (3) فیصلہ نمبر 8 مورخہ 1 6-5-28 فیصلہ کیا گیا کہ صدر انجمن احمدیہ کو تاکیدی توجہ دلائی جائے کہ مشرقی پاکستان کی جماعت دور کے علاقہ کی جماعت ہونے کی وجہ سے اصلاح و ارشاد اور تربیت کے لحاظ سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے.اس لئے کوشش کی جائے کہ مشرقی پاکستان میں مزید مربی مقرر ہوں نیز سال میں کم از کم دو دفعہ دو علماء کا وفد مشرقی پاکستان بھیجا جائے جو مختلف جماعتوں کا دورہ کر کے بیداری پیدا کرے“ (4) فیصلہ نمبر 6 مورخہ 61-7-2 محسوس کیا گیا ہے کہ امور عامہ کے شعبہ رشتہ ناطہ میں بڑی اصلاح اور توجہ کی ضرورت ہے.اس کی وجہ سے جماعت کے ایک طبقہ میں بے چینی اور تشویش پیدا ہورہی ہے.اور صدر صاحب صد را مجمن احمدیہ کو لکھا گیا کہ اس کے لئے کوئی زیادہ مناسب اور موزوں شخص جو اس کام کی زیادہ اہلیت رکھتا ہو مقرر فرمائیں.چنانچہ اب اس کام پر مولوی ظہور حسین صاحب بخارا کا تقرر کیا جا چکا ہے) (5) فیصلہ نمبر 7 مورخہ 61-7-2 فیصلہ کیا گیا کہ اگر خدانخواستہ کسی جگہ دو احمدی فریقوں میں جھگڑا ہو تو امیر کو ایسی صورت میں بالکل غیر جانبدار رہنا چاہئے اور وہ کسی فریق کی طرف داری نہ کرے بلکہ حالات کا جائزہ لے کر مناسب صورت میں اصلاح کی کوشش کرے (6) فیصلہ نمبر 8 مورخہ 61-7-2 تجویز ہوئی کہ صدر انجمن احمدیہ اور مجلس تحریک جدید کے صیغہ جات کا گاہے بگا ہے حسابی آڈٹ کے علاوہ کار کردگی کے لحاظ سے بھی معائنہ ہوتا رہنا چاہئے جو صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ اور ناظر صاحب اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کے صیغوں کے متعلق اور وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید کے صیغوں کے متعلق کیا کریں اور حتی الوسع کوشش کی جائے کہ کم از کم تین ماہ میں ایک بار ہر صیغہ کا معائنہ ہو جائے“ (7) فیصلہ نمبر 9 مورخہ 61-7-2 تجویز کی گئی کہ لاہور کے مختلف کالجوں میں اس وقت بڑی بھاری تعدا د احمدی طلباء کی موجود رہتی ہے جو مختلف صورتوں میں مختلف کالجوں کے ہوسٹلوں میں اور بعض صورتوں میں پرائیویٹ گھروں میں رہائش رکھتے ہیں اور انہیں وہ اخلاقی اور دینی ماحول میسر نہیں آتا جو نو جوانی کی عمر میں احمدی نوجوانوں کے لئے نہایت ضروری ہے.اس لئے صدر صاحب صدر انجمن احمد یہ کولکھا گیا کہ وہ اس معاملہ میں ابتدائی سروے کرا
مضامین بشیر جلد چہارم 368 کے اور خرچ اور انتظامی پہلوؤں پر غور کر کے اگر ممکن ہو تو لاہور میں احمد یہ ہوٹل کے اجراء کے لئے آئندہ مجلس مشاورت میں یہ معاملہ پیش کریں“.( یہ معاملہ صدرانجمن احمدیہ کے زیر غور ہے ) (8) فیصلہ نمبر 10 مورخہ 61-7-2 اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ ربوہ کے مقیم لوگوں کے لئے عموماً اور مہمانوں کے لئے خصوصاً مسجد مبارک ربوہ میں عصر کی نماز کے بعد روزانہ ما استثنیٰ جمعہ کے ) قرآن مجید کے ایک رکوع کا با قاعدہ درس ہونا چاہئے.اس کے لئے فی الحال مولوی جلال الدین صاحب شمس کو مقرر کیا جائے.اور ان کی غیر حاضری میں کوئی اور مناسب دوست یہ درس دیا کریں تا کہ قرآن کا یہ درس بغیر ناغہ کے جاری رہے اور یہ درس ربوہ کی زندگی کا ایک اہم اور دلکش پہلو بن جائے.(اس وقت محترم شمس صاحب کی عدم موجودگی میں صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب درس دیتے ہیں ) (9) فیصلہ نمبر 3 مورخہ 61-10-1 نگران بورڈ کو یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ گوجرانوالہ میں جو چار ضلعوں کے خدام کے تربیتی کورس کا اجتماع گزشتہ دنوں میں ہوا ہے وہ خدا کے فضل سے بہت کامیاب رہا تھا اور اس کی وجہ سے نو جوانوں میں نئی زندگی کی لہر اور کام کا نیا جذبہ پیدا ہوا.نگران بورڈ تجویز کرتا ہے کہ اس قسم کے اجتماعات مختلف مراکز میں ضرور وقفہ وقفہ کے ساتھ ہوتے رہیں تا کہ جماعت کی بیداری اور نوجوانوں کی تربیت کا موجب ہوں.اسی طرح سے جو اجتماع عہدیداران ضلع شیخو پورہ کا گزشتہ دنوں میں شیخو پورہ میں ہوا وہ بھی خدا کے فضل سے کامیاب اور مفید اور نتیجہ خیز رہا.اسی طرح کراچی اور راولپنڈی اور پشاور و دیگر مقامات کے اجتماعات بھی ایک عرصہ سے خدا کے فضل سے بہت کامیاب نتائج پیدا کر رہے ہیں.بورڈ کی طرف سے جماعت میں تحریک کی جائے کہ خدام اور انصار اللہ اور عہدیداران جماعت کے اجتماعات مناسب موقع پر اور مناسب مقامات میں ضرور وقتاً فوقتاً منعقد کئے جائیں تاکہ وہ نوجوانوں اور انصار اللہ اور عہد یداران جماعت کی تربیت اور بیداری کا موجب ہوں اور نیکی اور خدمت اور اتحاد جماعت کے جذبے کو ترقی دیں“ (10) فیصلہ نمبر 4 مورخہ 61-10-1 صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی گئی کہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں مسیحی مشنریوں کی تبلیغی مساعی کا زور ہو رہا ہے اور جیسا کہ بعض اخباروں کی رپورٹوں سے ظاہر ہے ناواقف مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنی جہالت اور اسلامی تعلیم کی ناواقفیت کی وجہ سے عیسائیت کی آغوش میں جا رہا ہے.اس تحریک کو
مضامین بشیر جلد چهارم 369 دو وجہ سے تقویت حاصل ہوئی ہے.ایک امریکن ایڈ کی وجہ سے جس کے نتیجہ میں گویا ملک میں امریکن مشنریوں کا سیلاب آ رہا ہے.دوسرے اس وجہ سے کہ ملک میں حکومت کے سکولوں کی بہت کمی ہے اور مسلمان بچے اور بچیاں مجبور عیسائی سکولوں میں داخلہ لینے کا رستہ تلاش کرتے ہیں اور پھر خاموش طور پر کچی عمر میں عیسائیت کے خیالات اور تمدن سے متاثر ہو جاتے ہیں.لیکن اس وقت تک حکومت نے اس خطرے کے سدباب کے لئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا.صدر انجمن کو چاہئے کہ اول تو اسلام کی تبلیغ اور مسیحیت کے مقابلہ کے لئے مؤثر اقدامات اختیار کرے.دوسرے صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ، صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خانصاحب کو اس خطرے کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں (11) فیصلہ نمبر 5 مورخہ 61-10-1 تجویز ہوئی کہ آجکل پھر مخالفین کی طرف سے ختم نبوت والی تحریک کو مختلف رنگوں میں جاری کر کے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مضامین لکھے جا رہے ہیں اور تقریریں بھی ہو رہی ہیں.اس لئے مناسب ہے کہ کوئی کمیٹی مقرر کر کے اس مواد کو جمع کر لیا جائے تاکہ وقت پر جواب ہو سکے.اور حسب ضرورت حکومت کو بھی اس امکانی فتنہ کی طرف توجہ دلائی جاسکے.سوفیصلہ یہ ہوا کہ یہ کام مولوی محمد صدیق صاحب افسر لائبریری اور شیخ خورشید احمد صاحب اسٹنٹ ایڈیٹر روز نامہ الفضل کے سپر د کیا جائے کہ وہ ایسا مواد ضروری حوالہ جات کے ساتھ یعنی تاریخ اور نام اخبار وغیرہ جمع کریں اور متعلقہ اخبارات بھی جمع کئے جائیں“ (12) فیصلہ نمبر 8 مورخہ 61-10-1 تجویز ہوئی کہ مری کا پہاڑی مقام بہت اہمیت حاصل کر گیا ہے اور مزید کرتا جا رہا ہے اور گرمیوں کے موسم میں وہاں قریباً تمام مغربی پاکستان کی چیدہ آبادی کا معتد بہ حصہ سیزن گزارنے کے لئے جمع ہوتا ہے اور مسیحی مشنری بھی وہاں زیادہ توجہ دے رہے ہیں.اس لئے وہاں ایک مضبوط تبلیغی سنٹر قائم کیا جائے اور مبلغ ایسا مقرر کیا جائے جو نیک اور مخلص اور زبان میں اثر رکھنے والا اور علم دوست ہو اور میسحیت کے عقائد سے بھی واقف ہو اور اسے ایک مختصر سی لائبریری بھی مہیا کر کے دی جائے اور اس خاص مبلغ کے علاوہ سلسلہ کے بعض دوسرے علماء بھی گرمیوں کے موسم میں گاہے گاہے مری بھجوائے جاتے رہیں تا کہ وہاں باری باری پندرہ بیس دن قیام کر کے تبلیغ و تربیت کے فرائض سرانجام دیں.فیصلہ ہوا کہ یہ تجویز بہت مناسب اور ضروری اور فوری توجہ کی محتاج ہے.صدر صاحب صدر انجمن احمد یہ اور ناظر صاحب اصلاح و
مضامین بشیر جلد چهارم 370 ارشاد کو اس کی طرف تاکیدی توجہ دلائی جائے.نیز بہتر ہوگا کہ مری میں کوئی مناسب مقام یا جگہ خرید کر مستقل تبلیغی سنٹر قائم کر لیا جائے“ (13) فیصلہ نمبر 5 مورخہ 61-12-3 فیصلہ ہوا کہ جس اصلاحی جماعتی سزا کے متعلق حضرت صاحب کی طرف سے کوئی میعاد نہ مقرر کی جائے اس کے متعلق لاز ما چھ ماہ کا عرصہ گزرنے پر حالات کا جائزہ لے کر جیسی بھی صورت ہو حضور کی خدمت میں رپورٹ ہونی چاہئے.یعنی معافی کی یا سزا جاری رہنے کی.اور سزا جاری رہنے کی صورت میں پھر مزید چھ ماہ پر جائزہ لیا جائے تاکہ غیر معین عرصہ تک سزائیں جاری رہنے سے بے چینی کی صورت نہ پیدا ہو اور اصلاح کا رستہ کھلا رہے (14) فیصلہ نمبر 7 مورخہ 61-12-3 تجویز بابت قیام جماعتی میوزیم ( متعلق تبرکات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) پیش ہو کر فیصلہ ہوا کہ یہ تجویز بہت اہم ہے.اس کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی جاتی ہے جس کے ممبر حسب ذیل ہوں گے.(1) ڈاکٹر کرنل عطاء اللہ صاحب.(2) شیخ محمد احمد صاحب مظہر.(3) مرزا ناصر احمد صاحب (کنویز ).(4) مرزا مبارک احمد صاحب.یہ کمیٹی اس تجویز کے سارے پہلوؤں پر غور کر کے جنوری 62 ء کے آخیر تک رپورٹ کرئے“.(اس کے متعلق ابتدائی رپورٹ آچکی ہے اور کمیٹی اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہی ہے ) (15) فیصلہ نمبر 3 مورخہ 62-1-28 تجویز متعلق انعقاد علمی سیمینار پیش ہوئی.اس تعلق میں فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال سال میں دو مرتبہ ایسے سیمینار منعقد کئے جائیں.ان کی تفصیل مکرم صدر صاحب صدر انجمن احمد یہ ومکرم صدر صاحب تحریک جدید طے فرمائیں اور اس کے مطابق عمل کیا جائے“ ( محررہ 9 اپریل 1962 ء ) (روز نامہ الفضل ربوہ 12 اپریل 1962ء)
مضامین بشیر جلد چهارم مولوی عبد اللطیف صاحب حج کیلئے روانہ ہو گئے 371 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے حج بدل پر مولوی عبداللطیف صاحب کی روانگی پر آپ نے جود عائیہ فہرست مرتب فرمائی اس میں آپ نے تحریر فرمایا.میں نے ان کو ربوہ سے روانہ ہوتے وقت جہاں تک میں سوچ سکا دعاؤں کی ایک لمبی فہرست دی تھی اور اس کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر لکھ دیا تھا کہ ے وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے حج اسلام کی اہم ترین عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا چپہ چپہ گویا عبادتوں اور دعاؤں کی خاص دعوت دیتا ہے.ہر انسان ان ساری دعوتوں کو نہ تو شائد سمجھ سکتا ہے اور نہ ان کا جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے جو کچی وفاداری کا تقاضا ہے.اس کے متعلق غالباً غالب کا یہ شعر ہی پڑھا جا سکتا ہے کہ جان تم پر نثار کرتا ہوں میں نہیں جانتا وفا کیا ہے ( محررہ یکم مئی 1962ء) (روز نامہ الفضل 18 اپریل 1962ء) خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ نیکی اور تقولی اور عملی قوت کو ترقی دیں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام خدام کی پندرہ روزہ سالانہ تربیتی کلاس کا افتتاح مورخہ 4 مئی 1962ء کو عمل میں آیا.محترم سید داؤد احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے افتتاحی تقریر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا درج ذیل بصیرت افروز پیغام پڑھ کر سنایا.) وو پیغام تو بہت ہو چکے ہیں.اب تو عمل کا سوال ہے اس لئے میرا پیغام یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ نیکی اور تقویٰ اور عملی قوت کو ترقی دیں.دنیا کا وسیع میدان حق و صداقت کی پیاس میں تڑپ رہا ہے بلکہ خود
مضامین بشیر جلد چہارم 372 احمدیت کے نوجوان تربیت کے پیاسے ہیں ان کے اندر سچائی اور روحانیت کی روح پیدا کریں اور یہ جذبہ پیدا کریں کہ گویا اسلام اور احمدیت کا سارا بوجھ ان کے کندھوں پر ہے.منزل بہت دور کی ہے.اور ہم بالکل شکستہ پر ہیں.خدا کی نصرت کے سوا کوئی امید کی جھلک نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے نو جوان اپنے اندر وہ آگ پیدا کریں جو خدائی نصرت کو کھینچتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو“.( محررہ یکم مئی 1962ء) وعده جات تحریک جدید کا محاسبہ روزنامه الفضل 6 مئی 1962ء) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زریں ہدایات تحریک جدید کے وعدوں میں بعض مخلصین کی طرف سے اضافے کے ساتھ دعا کی درخواست کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں پیش کی گئی.آپ نے اس موقع پر یہ ایک نہایت قیمتی ہدایت بھی ارسال فرمائی.اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں مزید برکت عطا کرے اور چندہ تحریک جدید میں اضافہ کرنے والوں کو جزائے خیر دے.آپ اضافہ بلکہ وعدہ جات پر غور کرتے ہوئے یہ پہلو بھی دیکھا کریں کہ آیا کسی کا وعدہ یا اضافہ اس کی آمدن کے مناسب حال ہے؟ یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے“ قبل ازیں آپ نے وعدہ جات تحریک جدید کے بارے میں ایک پیغام میں آپ نے تحریر فرمایا.”صرف لہول گا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش نہ کریں 28 ربوہ میں دار الیتامی کا قیام (روزنامہ الفضل 25 مئی 1962ء) جیسا کہ دوستوں کو علم ہے گزشتہ مجلس مشاورت میں ملک عبداللطیف صاحب ستکو ہی حال لاہور کی
مضامین بشیر جلد چہارم 373 تحریک پر فیصلہ ہوا تھا کہ ربوہ میں قادیان کی طرح ایک دار الیتامی قائم کیا جائے تا کہ جماعت کے یتیم اور نادار بچے اس دار الیتامی میں قیام کر کے جماعتی نگرانی کے ماتحت تعلیم پاسکیں اور ان کی تربیت کا بھی تسلی بخش انتظام ہو سکے اور ملک صاحب موصوف نے اس کی ابتدائی امداد کے لئے اپنی طرف سے دو ہزار روپے کا گرانقدر چندہ پیش کرنے کے علاوہ دیگر متفرق امداد کا بھی وعدہ کیا تھا.چنانچہ میری تجویز کے مطابق عزیز میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ نے مجلس مشاورت میں اس ادارے کی نگرانی منظور کی اور اب وہ ملک عبداللطیف صاحب کی مدد کے ساتھ اس کے ابتدائی انتظامات کی تیاری اور تکمیل میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان دونوں عزیزوں کو ثواب دارین سے نوازے اور ان کا حافظ و ناصر ہو.دوستوں کو یاد ہوگا کہ قادیان میں یہ ادارہ دارالشیوخ کے نام سے ہمارے ماموں حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم کی زیر نگرانی قائم تھا جن کے نیک اوصاف اور خدمت دین کی یاد اب تک مخلصین جماعت کے دلوں کو گرماتی ہے اور خود ملک عبداللطیف صاحب بھی اسی ادارے کے ایک ہونہار اور وفادار فارغ التحصیل ہیں.پس اب جبکہ احمدیت کے بطل جلیل حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے قائم کردہ ادارے کی یاد تازہ کی جارہی ہے تو جماعت کے مخیر اصحاب کا فرض ہے کہ اسے کامیاب بنانے میں دل کھول کر چندہ دیں اور جماعت کے تیموں کی تعلیم و تربیت میں حسب توفیق حصہ لے کر ثواب دارین حاصل کریں.اسلام نے یتامی کی خدمت اور تربیت پر بہت زور دیا ہے حتی کہ رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ.أَنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْن (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی من ضم الیتیم ) یعنی میں اور یتیموں کی کفالت کرنے والا قیامت کے دن اس طرح ہوں گے جس طرح کہ میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں.ویسے بھی تعلیم و تربیت کے عدم انتظام کی وجہ سے جماعت کے یتیم بچوں کا ضائع ہونا ایک بھاری قومی نقصان ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ ان گدڑیوں میں کو ئی لعل پوشیدہ ہوں.پس دوستو ! آگے آؤ اور اس مفید اور ضروری ادارے کے قیام اور استحکام میں مدد دے کر قیامت کے دن رسول پاک کی رفاقت کا رتبہ پاؤ اور جماعت کے قدم کو آگے بڑھانے میں مدد دو کہ اس سے بڑھ کر ایک مومن کے لئے کوئی اور نعمت اور کوئی خدمت نہیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ گو یہ ادارہ بنیادی طور پر صرف قتیموں کی کفالت کے لئے قائم کیا جا رہا ہے مگر اس
مضامین بشیر جلد چہارم 374 میں حسب گنجائش ایسے نادار اور غریب بچے بھی داخل کئے جاسکیں گے جو یتیم تو نہیں مگر ہونہار ہیں اور نادار اور بے سہارا ہونے کی وجہ سے ان کے لئے تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام نہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر میں حصہ لینے والوں کو بہترین اجر سے نوازے اور کام کرنے والوں کو بھی بہترین رنگ میں جماعت کے یتامیٰ کی خدمت کی توفیق دے.یہ چندہ افسر صاحب امانت صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے نام آنا چاہئے اور رقم بھجواتے ہوئے یہ صراحت کر دی جائے کہ یہ رقم دار الیتامی کی امداد کے لئے ہے مزید خط و کتابت عزیز میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ کے ساتھ کی جائے جو اس دار الیتامی کے نگرانِ اعلیٰ ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ نقد امداد کے علاوہ اس ادارے کی امداد کے لئے بعض اور رستے بھی تجویز کر سکیں بہر حال دو قسم کی امداد کی ضرورت ہوگی.ایک وقتی امداد تا کہ ابتدائی اخراجات کے ذریعہ دار الیتامی قائم کیا جا سکے اور دوسرے مستقل امداد جس کے ذریعہ طلباء کے خوردونوش اور کتب وغیرہ کا انتظام کیا جائے گا ان دونوں کی تفصیل پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ بہتر بتاسکیں گے اور مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اپنے والد بزرگوار کی طرح سوچ بچار سے کام لیں گے تو امداد باہمی کے طریق پر کئی رستے کفایت کے نکل آئیں گے اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو.( محرره 26 مئی 1962 ء ) 24 (روز نامه الفضل یکم جون 1962ء) مخلصین جماعت حضرت صاحب کے لئے دعاؤں میں لگے رہیں چند دن سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز غالبا گرمی کی شدت اور بیماری کے لمبا ہو جانے کی وجہ سے کچھ زیادہ کمزوری محسوس فرماتے ہیں.محصلین جماعت کو چاہئے کہ حضور کی صحت کے لئے صبر اور عزم کے ساتھ دعاؤں میں لگے رہیں اور اس معاملہ میں ہرگز ست نہ ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ صراحت اور وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ دعاؤں کے زمانہ کے لمبا ہو جانے سے ہرگز کبھی گھبرانا نہیں چاہئے.بلکہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ مومنوں کی دعاؤں کا زمانہ جتنا زیادہ لمبا ہو جاتا ہے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں جتنی دی لگتی ہے اتنی ہی وہ خدا کی رحمت کو زیادہ کھینچتی ہے.کیونکہ ہمارا آسمانی آقا اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ کسی صورت میں بھی مایوس ہو کر تھکتا نہیں بلکہ ہر حال میں میری رحمت کا
مضامین بشیر جلد چهارم 375 امیدوار رہتا ہے اور میرے دامن کو نہیں چھوڑتا اس لئے دیر سے قبول ہونے والی دعاؤں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اکثر صورتوں میں موجب رحمت و برکت قرار دیا ہے.بعض بزرگوں نے اپنے بعض مقاصد کے لئے ہیں نہیں تھیں تمہیں سال دعائیں کی ہیں اور نہ تھکے ، اور نہ مایوس ہوئے اور آخر اپنے گوہر مقصود کو پا لیا.حضرت ایوب علیہ السلام سات سال ( بلکہ بعض روایات کے مطابق سترہ سال ) خطر ناک بیماریوں میں مبتلا ر ہے مگر صبر کا دامن نہیں چھوڑا.علاوہ ازیں اگر کوئی دعا قبول نہ ہو ( کیونکہ خدا تعالیٰ بہر حال آقا اور مالک ہے اور ہم سب اس کے عاجز بندے اور مملوک ہیں ) تو اس صورت میں بھی بہر حال سچے مومنوں کی دعا ضائع نہیں جاتی بلکہ وہ عبادت کا رنگ اختیار کر کے اجر عظیم کا موجب بنتی ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ دعاؤں میں ہرگز ست نہ ہوں بلکہ صابر بندوں کی طرح خدا کے دامن سے لیٹے رہیں اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی اڑتالیس سالہ خلافت کے عظیم الشان کارناموں کو یاد کر کے خدا تعالیٰ کی رحمت کے طالب ہوں اور اسلام اور احمدیت کے جھنڈے کو اکناف عالم میں دن رات بلند کرنے میں لگے رہیں حتی کہ وہ وقت آ جائے کہ.پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد دنیا نے کس راستباز کو اس کے وقت میں شناخت کیا ؟ قرآن تو یہی کہتا ہے کہ ہر صادق انسان کو نسی اور انکار کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن اپنے وقت پر وہ دن بھی انشاء اللہ ضرور آئے گا جو مسیح محمدی نے فرمایا ہے کہ.امروز قوم من نشناسد مقام من روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم دنیا کی تاریخ جب اسلام کے دور ثانی کے نقوش کو نمایاں کرے گی تو انشاء اللہ ان نقوش میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی کی تصویر شاندار ہو کر ابھرے گی وَ ذَالِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ - محررہ 2 جون 1962 ء ) روزنامه الفضل 5 جون 1962ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 376 3 میٹرک میں تعلیم الاسلام ہائی سکول اور نصرت گرلز ہائی سکول کے نتیجے اس سال ہمارے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور نصرت گرلز ہائی سکول کے میٹرک کے نتیجہ کی جور پورٹ میرے پاس پہنچی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال بوڈ کے 64.7 کے نتیجہ پر ہمارے لڑکوں کے سکول کا نتیجہ 63.4 ہے اور لڑکیوں کے سکول کا نتیجہ 69.66 ہے اور انشاء اللہ دونوں سکولوں میں دو دو تین تین طلباء وظیفہ بھی لے لیں گے.مگر چونکہ یہ نتیجہ گزشتہ سالوں کی نسبت کم نکلا ہے اس لئے میں نے نظارت تعلیم کی طرف سے رپورٹ آنے پر اس نتیجہ کے متعلق مندرجہ ذیل نصیحت اور انتباہ کا خط بھجوایا ہے تا کہ ہمارے اساتذہ چوکس ہو کر آئندہ زیادہ محنت اور زیادہ توجہ سے کام لیں اور جماعت کی نیک نامی کا موجب بنیں.میں نے جو نوٹ نظارت تعلیم کو بھجوایا ہے اس کی نقل جماعت کی اطلاع کے لئے روز نامہ الفضل میں شائع کی جارہی ہے.خدا کرے کہ آئندہ ہمارے نتائج بہتر نکلیں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بخدمت مکر می ناظر صاحب تعلیم ربوہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کی طرف سے نیز ہیڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف سے میٹرک کے نتیجہ کی رپورٹ پہنچی.میں اس اظہار سے رک نہیں سکتا کہ میں اپنے سکولوں کے اس نتیجہ سے خوش نہیں ہوں.تعلیم الاسلام ہائی سکول کا نتیجہ تو بورڈ کے نتیجہ کی اوسط سے بھی کم ہے جو بہت قابل افسوس بات ہے اور ہماری نیک نامی پر ایک داغ ہے.البتہ نصرت گرلز ہائی سکول کا نتیجہ بورڈ کے نتیجہ کی اوسط سے کسی قدر زیادہ ہے.اور غالباً بہت سے قومی سکولوں کے نتیجہ سے بھی بہتر ہے.مگر یہ بھی ہمارے لئے کم از کم میرے لئے چنداں خوشی کا موجب نہیں.میں بورڈ کے مقابلہ پر نسبت کو اتنا وزن نہیں دیتا.بلکہ اپنے جماعتی سکولوں کے نتیجہ کواپنی ذات میں قطع نظر بورڈ کی اوسط کے اعلیٰ پیمانہ پر دیکھنا چاہتا ہوں.” کا نا راجہ ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ دو خوبصورت روشن تیز نظر والی آنکھیں رکھنا اصل خوبی کی بات ہے.پس آپ بھی اپنے سکولوں کے نتیجہ کو بورڈ کے نتیجہ کی اوسط سے علیحدہ ہو کر دیکھیں تو پھر اگر آپ حساس دل رکھتے ہیں تو پھر آپ کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں.درحقیقت ہمارا سکول ہر جہت سے ایک مثالی سکول ہونا چاہئے جو تیزی کے ساتھ قدم بڑھا تا ہوا ترقی کے منازل طے کرے.نہ کہ رینگتا ہوا کچھوے کی چال چلے.میں جانتا ہوں کہ ہمارے جماعتی سکولوں میں بعض قدرتی روکیں ہیں جو ایک حد تک ترقی کے راستہ
مضامین بشیر جلد چهارم 377 میں حائل ہو جاتی ہیں اور میں ان کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرتا مگر آپ جانتے ہیں کہ بعض گزشتہ سالوں میں 90 فیصد کے قریب بلکہ اس سے بھی اوپر ہمارا نتیجہ نکلتا رہا ہے.حالانکہ یہ روکیں اس زمانہ میں بھی موجود تھیں.پس آپ مہربانی کر کے میرا یہ درد بھرانوٹ ہر دو سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان کو من و عن نقل کر کے بھجوا دیں اور خدا کے لئے آئندہ زیادہ کوشش کر کے اپنے نتائج کو بہتر بنانے کی کوشش کریں.ہمارے سکول ہمارے ہیڈ ماسٹروں کے پاس ایک مقدس امانت ہیں.جس میں جماعت کے بچے تعلیم پاتے ہیں.پس ہمارے افسروں کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اس امانت کو بہتر صورت میں ادا کریں.ورنہ وہ خدا کے سامنے بھی ذمہ دار ہوں گے.اور جماعت بھی انہیں ذمہ دار قرار دے گی.اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو اور آئندہ بہتر نتائج دکھانے کی توفیق دے.والسلام خاکسار:.مرزا بشیر احمد ( محررہ 17 جولائی 1962 ء) روزنامہ الفضل 21 جولائی 1962ء) شجر کاری کا ہفتہ اور اہل ربوہ کی ذمہ داری میں چونکہ بیمار ہوں اس لئے زیادہ نہیں لکھ سکتا لہذا اس سال میں نے ہفتہ شجر کاری کے متعلق ناظر صاحب زراعت کو اپنی طرف سے مناسب مشورہ بھجوا دیا ہے اس مشورہ کا خلاصہ دوستوں کی اطلاع اور تحریک کے لئے درج ذیل کرتا ہوں دوست توجہ فرمائیں.(1) درخت لگانا ملک کی ترقی کے لئے کئی لحاظ سے مفید اور ضروری ہے.مگر ربوہ کے لئے تو یہ خاص طور پر از بس ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ربوہ کی گرمی اور گر دا کنٹرول میں نہیں آسکتے جو اہلِ ربوہ کی صحت کے لئے لازمی ہے.(2) پس اہل ربوہ کا فرض ہے کہ ہفتہ شجر کاری میں خاص طور پر حصہ لیں اور اس کے ذریعہ نہ صرف ملک کی صنعت کو ترقی دیں بلکہ اہل ربوہ کی صحت کو ترقی دینے میں بھی حصہ لے کر ثواب کمائیں.(3) ربوہ میں خاص طور پر وہ درخت لگائے جائیں جو یہاں کی زمین اور آب و ہوا کے مناسب حال
مضامین بشیر جلد چهارم 378 ہوں تا کہ محنت ضائع نہ جائے اور اچھا نتیجہ پیدا ہو.(4) درخت لگانے سے پہلے زمین کو اچھی طرح گڑھے وغیرہ کھود کر تیار کیا جائے.یونہی چند انچ زمین کھرچ کر پودا نصب کردینا بالکل بے سود ہے.(5) درخت لگانے کے بعد کافی عرصہ تک جب تک کہ پورا پوری طرح قائم نہ ہو جائے اس کی آبپاشی وغیرہ کے ذریعہ حفاظت کی جائے.یہ ایک بڑے صبر اور دیکھ بھال کا کام ہے اور پودے کے اردگرد جانوروں اور بچوں کی تباہی سے بچانے کے لئے کانٹوں کی باڑ لگا دی جائے.ورنہ یہ وہ بات ہوگی کہ ایک عورت نے بڑی محنت سے سوت کا تا اور پھر اپنے ہاتھ سے اسے کاٹ دیا.قرآن فرماتا ہے؟؟ تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ.(6) پودے لگانے کی مہم میں اپنے کمزور اور کم علم ہمسایوں کے ساتھ پوری طرح تعاون کیا جائے تا کہ جماعتی تنظیم کا حق ادا ہو.روزنامه الفضل 8 اگست 1962ء) پردے کے متعلق ایک ضروری اعلان بے پردگی کے متعلق ملک میں رجحان بہت بڑھ رہا ہے اور بدقسمتی سے بعض کمز ور طبیعت کے احمدی بھی اس رو میں بہتے جا رہے ہیں.خاص طور پر کالجوں میں تعلیم پانے والی لڑکیاں اس غیر اسلامی مرض کا زیادہ شکار ہو رہی ہیں.اسی طرح پاکستان افواج کے افسر بھی اپنی بیویوں کو بے پردگی کی طرف مائل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور بعض لوگ جن کے دلوں پر ابھی تک اسلام کی تعلیم کا رعب کچھ نہ کچھ باقی ہے وہ اسلامی پردے کی غلط تشریح کر کے بے پردگی کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں.غیر از جماعت لوگ تو عموماً ہمارے اثر کے نیچے نہیں اور نہ ہم ان پر کوئی پابندی لگا سکتے ہیں مگر تین سال ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک زوردار خطبے میں جماعت کو بے پردگی کے رجحان کے خلاف توجہ دلائی تھی اور جماعت کے ذمہ دار لوگوں کو اس بات کا پابند کیا تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی کسی احمدی عورت یا لڑکی کو بے پردگی کا مرتکب دیکھیں تو مناسب طور پر اس کے والدین اور خاوندوں اور بھائیوں کو توجہ دلائیں اور اگر پھر بھی وہ توجہ نہ کریں تو ان کے خلاف سخت جماعتی ایکشن لیا جائے.حضور کا یہ خطبہ روز نامہ الفضل میں بھی چھپ چکا ہے اور علیحدہ ٹریکٹ کی صورت میں بھی شائع ہو چکا ہے.مگر افسوس ہے
مضامین بشیر جلد چہارم 379 کہ حضور کی بیماری کی وجہ سے جماعت نے اس اہم ارشاد کی طرف پوری توجہ نہیں دی اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں بہت سستی سے کام لیا ہے جس کے نتیجے میں بے پردگی کی رو ملک میں اور نتیجتاً جماعت میں بھی بڑھتی جارہی ہے.جماعت کے دوستوں کو عموماً اور مقامی امراء اور سیکرٹری صاحبان کو خصوصا چاہئے کہ حضور کے اس ارشاد کی طرف خاص توجہ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ مقام ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا يُخي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ.یعنی مسیح موعود دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کے احکام کو قائم کرے گا.تو پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ خود جماعت کے بعض افراد پردہ کے معاملہ میں کمزوری دکھا کر جماعت کی بدنامی کا موجب بنیں اور شریعت کو قائم کرنے کی بجائے ماحول کے بُرے اثرات کے ماتحت آنوں بہانوں سے شریعت کے احکام کو ٹالیں.میں نے اب اس معاملے میں ناظر صاحب امور عامہ اور ناظر صاحب اعلیٰ کو توجہ دلائی ہے کہ وہ حضرت صاحب کے خطبے کا مطالعہ کر کے اُسے جماعت میں مضبوطی کے ساتھ قائم کرنے کی کوشش کریں.اور جو لوگ باوجود سمجھانے کے نہ مانیں ان کے خلاف اولاً مقامی طور پر مناسب ایکشن لیں اور پھر مرکز میں مناسب کارروائی کے لئے رپورٹ کریں.اس معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر میں نے نظارت امور عامہ اور نظارت علیا کو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ مرکز کی طرف سے ایکشن لینے کے لئے معاملہ صرف نظارت امور عامہ پر نہ چھوڑا جائے بلکہ اس کے لئے ایک کمیٹی بنادی جائے جس کے ممبر (1) ناظر صاحب اعلیٰ (2) ناظر صاحب اصلاح وارشاد (3) ناظر صاحب امور عامہ ہوں.یہ کمیٹی ہر رپورٹ پر حالات کا جائزہ لینے کے بعد حضور کے ارشاد کی روشنی میں مناسب ایکشن لینے کا فیصلہ کیا کرے.مگر موجودہ حالات میں جماعت کے عالمگیر مشن اور جماعت کی عالمگیر وسعت کے پیش نظر میں نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ فی الحال اس قسم کا ایکشن صرف پاکستانی اور ہندوستانی احمد یوں تک محدود رکھا جائے.امید ہے کہ ضلع وار امراء اور مقامی امراء اور مقامی سیکرٹریان اور مقامی اصحاب اس معاملہ میں تعاون کر کے جماعت میں نیکی کو ترقی دینے اور نیک نامی کا دروازہ کھولنے میں مدد دیں گے.اللہ تعالیٰ
مضامین بشیر جلد چهارم ہم سب کے ساتھ ہو.380.......روزنامه الفضل 23 اگست 1962ء) فیشن پرستی کی وبا سے بیچ کر رہو کچھ عرصہ ہوا میں نے جماعت کے دوستوں کواخبار روز نامہ الفضل کے ایک نوٹ کے ذریعہ بے پردگی کے رجحان کے خلاف نصیحت کی تھی.اور حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک سابقہ خطبہ جمعہ کی طرف توجہ دلا کر جماعت کے افراد اور جماعت کے ذمہ دار کارکنوں کو ہوشیار کیا تھا کہ وہ بے پردگی کے رجمان کا سختی کے ساتھ مقابلہ کریں اور احمد یہ جماعت کی جو عورتیں اور جولڑکیاں ماحول کے خراب اثرات کے نتیجہ میں بے پردگی کی طرف غلط رجحان پیدا کر رہی ہیں (اور خدا کے فضل سے اب تک ان کی تعداد تھوڑی ہے ) ان کے خلاف ابتدائی انتباہ کے بعد سخت ایکشن لیا جائے.اب اپنے موجودہ نوٹ میں میں فیشن پرستی کے رجحان کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.دراصل بے پردگی اور فیشن پرستی کا باہمی رشتہ ایک طرح سے دو بہنوں والا رشتہ ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا اثر دوسرے پر بہت گہرا پڑتا ہے.بے پردگی آخر کار عورتوں کو بالعموم فیشن پرستی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور دوسری طرف فیشن پرستی کا رجحان آہستہ آہستہ بے پردگی کی طرف کھینچ لاتا ہے.پس ہماری جماعت کی عورتوں اور لڑکیوں کو چاہئے کہ ان دونوں خرابیوں سے بچ کر رہیں.یعنی وہ اسلامی پردہ کی پابندی اختیار کریں اور فیشن پرستی کی وباء سے بھی بچ کر رہیں ورنہ وہ کبھی بھی کچی احمدی اور بچی مسلمان نہیں سمجھی جاسکتیں.اسلام سادہ زندگی پر زور دیتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہمیشہ سادہ زندگی پر زور دیا کرتے تھے.میرے کانوں میں ہمیشہ حضور کے یہ الفاظ گونجتے ہیں کہ مجھے سادہ لوگ بہت پسند ہیں جو دنیا میں سادگی کی زندگی گزارتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے افضل الرسل اور خاتم النبیین کے قدموں پر دنیا کی دولت ڈال دی اور عرب کا بے تاج بادشاہ بنا دیا مگر آپ نے اس ارفع مقام کے باوجود ایسی سادہ زندگی گزاری کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی.حدیث میں آتا ہے کہ آپ موٹے پٹھے کی چٹائی پر اس بے تکلفی سے لیٹ جاتے تھے کہ اس کے نشان آپ کے جسم پر ظاہر ہونے لگتے تھے.ایک دفعہ ایک عورت اپنی کوئی حاجت پیش کرنے کے لئے آپ کے سامنے آئی اور آپ کے رعب کی وجہ سے تھر تھر کانپنے لگی اور اس کے منہ سے بات نہیں نکلتی تھی.آنحضرت صلے اللہ علیہ
مضامین بشیر جلد چهارم 381 وسلم نے یہ نظارہ دیکھا تو بے چین ہو کر اس کی طرف لپکے اور بڑی محبت سے فرمایا.”مائی ! ڈرو نہیں ڈرو نہیں.میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ تمہاری طرح کا ہی ایک انسان ہوں.جسے عرب کی ایک ماں نے جنا تھا“ پس زندگی میں سادگی اختیار کرنا اسلام اور احمدیت کی خاص تعلیمات میں داخل ہے اور وہی لوگ سچے مومن اور سچے احمدی سمجھے جا سکتے ہیں جو دولت اور ثروت کے ہوتے ہوئے بھی سادہ زندگی گزار ہیں اور اپنے غریب بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ مل کر اس طرح گھل مل کر رہیں کہ گویا وہ ایک خاندان کا حصہ ہیں.میں اس بات کو مانتا ہوں کہ صحیح رنگ کی زینت جسے بدن اور کپڑوں کی صفائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اسلام میں منع نہیں بلکہ اس کا حکم دیا گیا ہے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن لوگ نہا کر اور اپنے بدنوں کو صاف کر کے مسجد میں آئیں اور ڈھلے ہوئے صاف کپڑے پہنیں اور اگر وسعت ہو تو خوشبو بھی لگائیں.اور میں اس بات کو بھی مانتا ہوں کہ عورتوں کو خاص طور پر صفائی اور زینت کی اجازت بلکہ ہدایت دی گئی ہے تا کہ وہ اپنے خاوندوں کے لئے ظاہری لحاظ سے بھی کشش اور راحت کا موجب بن سکیں.حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی عورت ایک دفعہ ایسی حالت میں رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئی کہ اس کی حالت بہت خستہ تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے اور کپڑے میلے کچیلے تھے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا.” بہن تم نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟“.اس نے جواب دیا.”یا رسول اللہ! میں کس کے لئے زینت کروں.میرا خاوند دن میں روزہ رکھتا ہے اور رات تہجد کی نماز میں کھڑا ہو کر گزار دیتا ہے.آپ نے فوراً اس کے خاوند کو بلایا اور اس پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا." کیا تم اپنی بیوی کا حق چھین کر خدا کو دینا چاہتے ہو؟ سنو کہ خدا ایسے لوگوں سے راضی نہیں ہوتا.وہ تو یہ چاہتا ہے کہ بندوں کا حق بندوں کو دو اور خدا کا حق خدا کو دو اور بیوی کا حق بیوی کو دو پس اسلام ایک بڑا ہی پیارا اور متوازن مذہب ہے.جس نے نہ صرف خدا تعالیٰ کے بلکہ خاوند بیوی کے اور دوسرے رشتہ داروں کے اور ہمسایوں کے اور دوستوں کے بلکہ دشمنوں تک کے حقوق مقرر کر رکھے ہی.اور ان حقوق میں تصرف کرنا خدا تعالیٰ کی خوشی کا موجب نہیں بلکہ اس کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے.لیکن اسلام نے جہاں واجبی حد تک زینت کی اجازت دی ہے وہاں مناسب حد بندیوں کے ساتھ اسے کنٹرول بھی کیا ہے.اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ پوری پوری دیانتداری کے ساتھ ان پابندیوں کو ملحوظ رکھیں.یہ پابندیاں مختصر طور پر چند فقروں میں بیان کی جاسکتی ہیں:.
مضامین بشیر جلد چهارم 382 (اول) کوئی ایسی زینت اختیار نہ کی جائے جو سادہ زندگی کے اصول کے خلاف ہو اور جس میں عورت اپنے جسم اور اپنے لباس کو زیتوں کے ذریعہ اتنا کشش دار کر دے کہ غیر محرم شرفا اور نیک لوگوں کی آنکھیں اس کی طرف اعتراض کی نظر سے اٹھیں.( دوم ) زینت کے معاملہ میں ایسا انہماک نہ اختیار کیا جائے کہ گویا وہی زندگی کی غرض و غایت ہے بلکہ سادہ زندگی اختیار کی جائے.( سوم ) جب کوئی پردہ دار عورت کسی مجبوری کی وجہ سے خرید وفروخت کی غرض سے بازار میں جائے یا گھر سے باہر آئے تو لپ سٹک اور چہرہ کے پوڈر وغیرہ سے پر ہیز کیا جائے.اور باہر آتے ہوئے پردہ کا پورا پورا انتظام رکھا جائے.(چہارم ) برقعہ یا لباس کے اوپر اوڑھنے کی چادر بالکل سادہ ہو جس کا رنگ نہ تو شوخ اور بھڑکیلا ہو اور نہ اس پر کوئی بیل بوٹے یا نقش و نگار کا کام کیا ہوا ہو.کیونکہ برقعہ کی غرض زینت کو چھپانا ہے نہ کہ خود برقعہ کو زینت کا ذریعہ بنانا.( پنجم ) نوجوان لڑکیاں جو سکولوں اور کالجوں میں پڑھتی ہیں ان کے لئے خاص طور پر ضروری ہے کہ ہر قسم کی ناواجب زینت سے بچ کر سادگی اختیار کریں.بے شک اپنے جسم اور کپڑوں کو صاف رکھیں مگر اپنے چہروں اور لباسوں کو ہرگز مصنوعی طریقہ پر کشش کا ذریعہ نہ بنائیں.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے ربوہ کے بھائی اور بہنیں خصوصاً اور تمام بیرونی شہروں کے بھائی اور بہنیں عموماً میری اس دردمندانہ نصیحت کو غور سے پڑھ کر اس پر دیانتداری کے ساتھ عمل کریں گے تا کہ ایک طرف ان کی زندگی خدا کی نظر میں پسندیدہ زندگی ہو اور دوسری طرف وہ جماعت کو بدنام کرنے والے نہ بنیں.میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں اپنے علم کے مطابق دونوں پہلوؤں کو یعنی مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو واضح کر دیا ہے.اور نگران بورڈ نے بھی اپنے حالیہ اجلاس میں جماعت کے مرکزی افسروں اور ضلعوار امراء اور مقامی عہدیداروں کو زور دار ہدایت کی ہے کہ وہ اس بارہ میں جماعت کی نگرانی رکھیں اور اگر کوئی شکایت پیدا ہوتو ابتدائی انتباہ کے بعد مرکز کے ذمہ دار کارکنوں کو رپورٹ کریں.اس وقت دنیا کی نظر ہم پر ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کا کیا نمونہ پیش کرتے ہیں.خدا کرے کہ ہماری جماعت کے بوڑھے اور نوجوان اور بچے اور مرد اور عورتیں اور لڑکیاں اسلام اور احمدیت کا ایسا نمونہ دکھا ئیں کہ دنیا اسے دیکھ کر عش عش کر اٹھے کہ یہی اسلام کا سچا نمونہ ہے اور جب دنیا سے ہماری واپسی کا وقت آئے تو
مضامین بشیر جلد چہارم 383 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحیں ہمیں دیکھ کر خوش ہوں کہ انہوں نے ہماری ہدایت پر عمل کیا ہے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ محرره 13 ستمبر 1962ء) روزنامه الفضل ربوہ 16 ستمبر 1962ء) کامیاب تبلیغ کے چارستون ایک عزیز کے خط کے جواب میں نصیحت کا خط چند دن ہوئے یورپ کے ملک ڈنمارک سے عزیز میر مسعود احمد سلمہ کا خط آیا تھا اس کے جواب میں جو مختصر ساخط میں نے ان کو لکھا ہے وہ دوسرے دوستوں کے فائدہ کے لئے ذیل میں شائع کیا جاتا ہے.آپ کا خط محرر 62-9-11 موصول ہوا.الحمد للہ کہ آپ نے ڈنمارک کے مشن کا چارج لے لیا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کا چارج لینا مبارک کرے اور آپ کو اس کام میں غیر معمولی کامیابی سے نوازے.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ کامیابی تو اسلام اور احمدیت کے مبلغوں کے لئے ازل سے مقدر ہی ہے لیکن اس کے لئے تقدیر الہی کے علاوہ ظاہری تدبیر کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ خدا کا قانون اسی طرح پر ہے کہ تقدیر اور تدبیر دونوں مل کر ہی پوری کامیابی کا رستہ کھولتے ہیں.پس سب سے اول تو آپ کو میری نصیحت یہ ہے کہ آپ اسلام اور احمدیت کا ایسا اچھا نمونہ بننے کی کوشش کریں کہ آپ میں آپ کے زیر تبلیغ لوگوں کے لئے ایک غیر معمولی کشش پیدا ہو جائے گویا آپ ایک ایسا مقناطیس بن جائیں جولو ہے کے ٹکڑوں کو اپنی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے.دوسرے آپ دعاؤں پر بہت زور دیں.مجھے حیرت ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ارفع شان اور اپنے بے نظیر علم کلام کے باوجود ایک جگہ لکھا ہے کہ میرے پاس تو صرف دعا کا ہتھیار ہے.اس کے علاوہ میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں.گویا حضور نے اپنی ساری ظاہری کوششوں کو دعا کے مقابل پر بالکل پیچ قرار دیا.تیسرے آپ اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا ایسا گہرا اور بصیرت افروز مطالعہ کریں کہ اس کی بناء پر آپ
مضامین بشیر جلد چهارم 384 اسے وہاں کے لوگوں کی ذہنیت کے لحاظ سے اسلام کی تعلیم کو بہترین شکل میں پیش کر سکیں اور آپ کی زبان میں غیر معمولی اثر پیدا ہو جائے.چوتھے آپ ڈنمارک اور اس کے قرب وجوار کے ممالک کے مذاہب اور وہاں کے باشندوں کے نظریات کا اس رنگ میں مطالعہ کریں اور ان سے ایسی گہری واقفیت پیدا کریں کہ مناسب موقع پر ان کا بہترین رد کر سکیں.دراصل یہی وہ چارستون ہیں جن پر ایک مبلغ کی کامیابی کا دارو مدار ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو احمدی مبلغ ان چار پہلوؤں کا خیال رکھے گا اور ان کی طرف پوری توجہ دے گا وہ خدا کے فضل سے ضرور کامیاب ہو گا.اس وقت خدا کی تقدیر بلکہ میں کہوں گا کہ اس کی زبر دست تقدیر جو زمین و آسمان کو حرکت میں لانے کی طاقت رکھتی ہے اسلام اور احمدیت کو آگے بڑھانے اور اوپر اٹھانے میں لگی ہوئی ہے.صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگ اپنی مستیوں کو ترک کر کے اور سچ مچ خدا کے بندے بن کر اس کے دین کی خدمت میں لگ جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چل کر شاہی نوکروں میں بھرتی ہو جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین ( محرره 16 ستمبر 1962 ء) روزنامه الفضل 20 ستمبر 1962ء) 60 رپورٹ اجلاس نگران بورڈ منعقد 90 ستمبر 1962ء (1) 9 ستمبر 1962ء بروز اتوار صدر، صدر انجمن احمدیہ کے کمرہ میں صبح آٹھ بجے نگران بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا.تمام ممبران بورڈ بلا استثناء شریک اجلاس ہوئے اور دعا کے بعد بورڈ کی کارروائی شروع کی گئی جو قریباً چھ گھنٹے تک مسلسل جاری رہی.(2) بعض انفرادی اپیلوں اور متفرق معاملات کے علاوہ مسجد احمد یہ ٹو بہ ٹیک سنگھ اور مسجد احمد یہ سرگودھا کے متعلق حالات پیش کر کے غور کیا گیا.اس معاملہ میں شرکت کے لئے چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ سیالکوٹ کو بھی خاص طور پر دعوت دی گئی تھی.چنانچہ شیخ محمد احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لائل پور ( حال.فیصل آباد ) اور مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت احمد یہ سرگودھا کی طرف سے ان ہر دو مساجد
مضامین بشیر جلد چهارم 385 کے متعلق تازہ حالات پیش کئے جانے پر ضروری تجاویز کی گئیں اور ہر دو اضلاع کے امراء کو نوٹ کرائی گئیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان مساجد کی تعمیر کے متعلق سہولت کا رستہ کھول دے اور غیر از جماعت اصحاب کو سمجھ دے کہ وہ خدا کا گھر آباد کرنے میں روک نہ بنیں اور حکومت کے افسروں کو بھی صحیح فیصلہ کی طرف راہنمائی فرمائے.(3) لاہور میں احمد یہ ہوٹل کے قیام کے متعلق دوبارہ معاملہ پیش ہونے پر فیصلہ کیا گیا کہ نگران بورڈ کی رائے میں کم از کم فی الحال فوری طور پر احمد یہ ہوٹل کی تعمیر کے لئے لاہور میں مناسب موقع پر ایک پلاٹ خرید لینا چاہئے جس کا رقبہ چار کنال سے چھ کنال تک ہو.نظارت تعلیم اس کی جگہ کا انتخاب صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ کے مشورہ سے کرے اور اس کے ساتھ ہی آئندہ مشاورت میں احمد یہ ہوٹل کے عملی اجراء کے لئے معاملہ پیش کیا جائے.اس بات پر زور دیا گیا کہ لاہور کے کالجوں میں احمدی طالب علموں کی روز افزوں تعداد اس بات کی شدت کے ساتھ متقاضی ہے کہ اپنے بچوں کے لئے اچھا ماحول مہیا کرنے کے لئے جلد تر احمد یہ ہوٹل جاری کر دیا جائے.(4) اس وقت صدر انجمن احمد یہ میں جو ناظر صاحبان کام کرتے ہیں وہ عموماً بوڑھے اور پینشن یافتہ ہیں.لہذا فیصلہ کیا گیا کہ صف دوم کی تیاری کی غرض سے صدر انجمن احمد یہ ایسے نو جوان بھرتی کرے جو گریجوایٹ ہوں اور عربی بھی جانتے ہوں اور اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے بھی واقف ہوں اور پھر انہیں مختلف صیغوں میں ٹریننگ دلانے کے بعد اس غرض کے لئے تیار کیا جائے کہ وہ ضرورت پیش آنے پر ناظروں کے طور پر کام کر سکیں.یہی ضرورت ایک حد تک تحریک جدید میں بھی ہے.(5) ملک میں آزادی کی رو اور فیشن پرستی کے رجحان کے پیش نظر فیصلہ کیا گیا کہ نظارت اصلاح و ارشاد کی طرف سے اس بارہ میں مناسب مضامین شائع کئے جائیں تا کہ احمدی نو جوان (لڑکے اور لڑکیاں) دوسروں کی دیکھا دیکھی اس نا گوار رو میں نہ بہنے لگ جائیں.اور اپنے کردار کو اسلامی معیشت کے مطابق سادہ زندگی کے طریق پر بنائیں.اسی طرح ملک میں جو سینما بینی کا سیلاب آ رہا ہے اور مختلف قسم کی بدا خلاقیوں کا موجب بن رہا ہے اس سے بھی احمدی نو جوانوں کو بچانے کی مؤثر تدابیر کی جائیں اور اس بارہ میں نظارت امور عامہ اور ضلعوار امراء اور مقامی امراء کو اچھی طرح ہوشیار کر دیا جائے.(6) ملک میں بے پردگی کے رجحان کے متعلق تجویز کی گئی کہ جس طرح نظارت امور عامہ دوسری خرابیوں پر نوٹس لیتی ہے.اسی طرح بے پردگی کی رپورٹ آنے پر اس کے متعلق بھی نوٹس لیا جائے اور اس
مضامین بشیر جلد چهارم 386 بارہ میں مناسب تعزیر کا فیصلہ کرنے کے لئے ناظر امور عامہ کے ساتھ صدرانجمن احمد یہ ایک کمیٹی مقرر کرے جس کے ممبر ناظر اعلیٰ اور ناظر اصلاح وارشاد ہوں اور ضلعوار امراء اور مقامی امراء کا فرض قرار دیا جائے کہ حضرت صاحب کے خطبہ فرمودہ 58-6-6 کی روشنی میں ہر بے پردگی کی رپورٹ پر نوٹس لیں اور ابتدائی انتباہ کے بعد نظارت امور عامہ میں رپورٹ کریں.(7) چونکہ کچھ عرصہ سے پھر جماعت احمدیہ کے خلاف ختم نبوت“ کے عقیدہ کی بے بنیاد آڑ لے کر بعض بے اصول لوگوں کی طرف سے فتنہ پیدا کیا جارہا ہے.اس لئے اس کے متعلق مناسب غور کے بعد نظارت امور عامہ کی ہدایت کے لئے بعض تجاویز کی گئیں جن کی اطلاع نظارت امور عامہ اور نظارت علیا کو بھجوادی گئی ہے.نوٹ.اس کے علاوہ بعض اور امور کا فیصلہ بھی کیا گیا مگر چونکہ وہ اندرونی نظم و نسق سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کے متعلق اعلان کی ضرورت نہیں.کل تعدا د امور جو 9 ستمبر کے اجلاس میں پیش ہوئے تنئمیں 23 تھے.ان میں سے اجلاس مذکورہ بالا میں سترہ معاملات کا فیصلہ کیا گیا اور باقی آئندہ اجلاس پر ملتوی کئے گئے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے فیصلوں میں برکت ڈالے اور انہیں جماعت کے لئے فائدہ مند اور موجب ہدایت ورحمت بنائے.آمین مرزا بشیر احمد صدر نگران بورڈر بوہ (18) ستمبر 1962ء) روزنامه الفضل 21 ستمبر 1962ء) برکات خلافت کے لمبا ہونے کے لئے دعائیں کرو چند دن سے حضرت خلیفہ البیع الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت کے متعلق فکر پیدا کرنے والی اطلاعات چھپ رہی ہیں.یعنی آجکل حضور کو ضعف بھی کسی قدر زیادہ ہے اور بعض اوقات اعصابی بے چینی بھی رہتی ہے اور رات کے ابتدائی حصہ میں بے خوابی کی تکلیف بھی ہو جاتی ہے.میں جانتا ہوں کہ جماعت کے مخلصین بڑے درد دل کے ساتھ حضور کی صحت اور شفایابی کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.مگر بعض طبیعتوں میں حضور کی بیماری کے لمبا ہو جانے کی وجہ سے بے چینی بھی پیدا ہو
مضامین بشیر جلد چہارم 387 رہی ہے.اور دوسری طرف جماعت کے بعض دوست حضور کی شفایابی کے لئے خوا ہیں بھی دیکھ رہے ہیں.خوابوں کی حقیقی تعبیر تو خدا جانتا ہے.اور تقدیر کا معاملہ بھی خدا کے ہاتھ میں ہے جو اس نے اپنی حکیمانہ مصلحت کے ماتحت پردہ غیب میں رکھا ہوا ہے.دوست بہر حال دعائیں جاری رکھیں کیونکہ بندے کا کام مانگنا ہے اور یہ کام خدا کا ہے کہ وہ کسی دعا کو ظاہری صورت میں قبول کرے یا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے اس کی برکات کو اخروی زندگی کے لئے ذخیرہ کرلے.بعض انبیاء تک نے سالہا سال کی لمبی بیماری کاٹی ہے پھر بعض کو اللہ تعالیٰ نے شفاء دے دی اور بعض کا وقت پورا ہو گیا اور خدا نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا.ہمارے آقا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم (فدان فسی) قریباً دو ہفتے تپ محرقہ میں مبتلا ر ہے اور ان ایام میں صحابہ نے حضور کی صحت کے لئے کس کس رنگ میں اور کیسے درد وسوز کے ساتھ دعائیں کی ہوں گی اس کا اندازہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے اس بے نظیر عشق کا علم ہو جو صحابہ کے دل میں اپنے پیارے آقا کے لئے تھا.لیکن چونکہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتَ لَكُمْ دِينَكُمْ کا ارشاد نازل ہو چکا تھا اس لئے خدا کی مشیت پوری ہوئی اور قبل از وقت اختباہ کے باوجود کئی صحابہ کو جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی شامل تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بے وقت نظر آئی اور وہ حضور کے غم میں دیوانوں کی طرح ہو گئے.پس جہاں میں دوستوں کو حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت کے لئے دعا کی یاد دہانی کرا تا ہوں وہاں میں خدائے رحیم و کریم کا شکر بھی ادا کرتا ہوں کہ اس نے حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی طویل خلافت کو ایسی غیر معمولی نصرتوں اور برکتوں سے نوازا ہے جس کی نظیر بہت کم ملتی ہے.دراصل اگر غور کیا جائے تو حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق وہ تمام الہامات پورے ہو چکے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوئے اور کوئی ایک نشانی بھی ایسی نہیں جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ وہ حضور میں پوری نہیں ہوئی.اور خدا کا کلام ہر لحاظ سے اور اپنی ہرشان میں پورا ہو چکا ہے.خدا نے وعدہ فرمایا تھا کہ پسر موعود جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا اور دنیا جانتی ہے کہ حضرت خلیفہ سیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کے ذریعہ خدا تعال کی کئی جلال شانیں منصہ شہود پر آ چکی ہیں.خدا نے فرمایا تھا کہ وہ دل کا حلیم ہو گا.اور جماعت نے دیکھ لیا ہے کہ حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ کی جلالی طبیعت کے باوجود اس کثرت کے ساتھ حضور کے ذریعہ حضور کے علم کا اظہار ہوا ہے کہ اس کی شمار نہیں.خدا نے فرمایا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا اور دوست جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت ہم صرف تین
مضامین بشیر جلد چهارم 388 بھائی تھے مگر کس طرح سالہا سال کی جدائی کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے غیر معمولی تصرف سے 1930ء میں ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب کو پچھتر سال کی عمر میں ہماری اخوت کے دائرہ میں کھینچ لایا.خدا نے فرمایا تھا کہ پسر موعود علوم ظاہری اور باطنی سے پر کہا جائے گا اور جماعت کا بچہ بچہ دیکھ چکا ہے کہ رسی تعلیم کے فقدان کے باوجود یعنی بغیر اس کے کہ حضرت خلیفہ اسیح نے کوئی ظاہری امتحان پاس کیا ہو.اللہ تعالیٰ نے حضور کے قلم اور حضور کی زبان سے قرآن مجید کی تفسیروں اور جلسہ سالانہ کی تقریروں کے ذریعہ ایسے علوم کے دریا بہائے کہ دنیا انہیں دیکھ کر عش عش کر اٹھی.پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تو میں اس سے برکت پائیں گی اور آج دیکھ لو کہ حضرت خلیفہ اسیح کی دردمندانہ دعاؤں اور انتھک کوششوں کے نتیجہ میں اشترا کی ملکوں کو چھوڑ کر جن میں ہمارے مبلغوں کو جانیکی اجازت نہیں دنیا کے قریباً ہر ملک میں احمدی مبلغوں کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا لہرا رہا ہے اور جن ملکوں میں احمدی مبلغ نہیں پہنچا ان میں بھی ساتھ کے ملکوں کے ذریعہ اثر پہنچ رہا ہے وغیرہ وغیرہ.پس یقینا حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام پیشنگوئیاں غیر معمولی شان کے ساتھ پوری ہو چکی ہیں اور حق یہ ہے کہ کوئی پیشگوئی بھی ایسی نہیں جس میں سنت اللہ کے مطابق اعتراض کیا جا سکے.پس لاریب خدا کی پیشگوئی پوری ہوئی.اور خدا کی نعمت اپنے کمال کو پہنچ گئی.اور اب ہماری دعاؤں کی غرض و غایت کسی مزید پیشگوئی کے پورا ہونے کے انتظار کی وجہ سے نہیں بلکہ برکاتِ خلافت کے لمبا ہونے کے لئے ہے.وَنَرْجُوا مِنَ اللهِ خَيْراً وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللَّهِ عَزِيزٌ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيْمِ ( محرره 21 ستمبر 1962 ء بروز جمعہ ).......روزنامه الفضل 25 ستمبر 1962ء) برکات خلافت کے لمبا ہونے کے متعلق میرا نوٹ اور اس پر ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا خط چند دن ہوئے روزنامہ الفضل میں میرا ایک نوٹ شائع ہوا تھا جس میں میں نے برکات خلافت کے لمبا ہونے کے متعلق جماعت میں دعا کی تحریک کی تھی اور ضمناً تحدیث بالنعمت کے طور پر یہ بھی لکھا تھا کہ حضرت خلیفہ
مضامین بشیر جلد چهارم 389 المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں جو علامتیں بیان کی گئی تھیں وہ خدا کے فضل سے سب پوری ہو چکی ہیں.اس پر جماعت کے بعض دوستوں میں شکر کے جذبات پیدا ہونے کی بجائے فکر کے جذبات پیدا ہوئے ہیں جو میرا مقصد نہیں تھا.میرا مقصد تو یہ تھا کہ ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مصلح موعود والی پیشگوئی کے پورا ہونے کے متعلق جماعت میں شکر کے جذبات پیدا ہوں اور دوسری طرف دعا کی تحریک بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خلافت ثانیہ کی برکات کو لمبا کرے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمْ یعنی اگر تم میری نعمتوں پر شکر و کروگے تو میں اپنی نعمتوں کو بڑھاؤں گا.میرے اس نوٹ کے تعلق میں ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا مجھے ایک خط موصول ہوا ہے جو میں دوستوں کی اطلاع کے لئے درج ذیل کرتا ہوں.ہمشیرہ صاحبہ اپنے خط میں لکھتی ہیں کہ.آپ کا مضمون برکات خلافت کے قیام کے لئے دعاؤں پر زور دینے کے بارہ میں پڑھا عجیب بات ہے کہ یہی اشارہ اور اسی مضمون پر گزشتہ سال کراچی لجنہ امام اللہ کے جلسہ میں میں نے کچھ کہا تھا.کیونکہ میں نے ایک دوبار محسوس کیا کہ بعض لوگ حضرت بھائی صاحب خلیفتہ اسی ایدہ کی موجودہ علالت کو بے وقت اور ان کے کاموں اور ان کے متعلق پیشگوئیوں کو ابھی تک کامل طور پر پوراشدہ نہیں سمجھتے جو ان کی غلطی ہے کیونکہ پیشگوئیاں حقیقتا پوری ہو چکی ہی.سودل پر پتھر رکھ کر مجھے اس مضمون پر بولنا پڑا اور خدا جانے کیسے میں برابر بولتی چلی گئی.اس تقریر کے متعلق مجھے جو یا در ہا اس کو اب لکھ کر روز نامہ الفضل میں بھجوانے کا ارادہ تھا مگر اب آپ کا مضمون آگیا اور اس کی ضرورت نہیں رہی“ سو یہی وہ صحیح تاثر ہے جو میرے نوٹ پر جماعت کے مخلصوں کے دل میں پیدا ہونا چاہئے تھا یعنی شکر اور پھر شکر اور پھر شکر اور دعا اور پھر دعا اور پھر دعا.( محرره 29 ستمبر 1962ء) روزنامه الفضل 2 اکتوبر 1962ء) طلاق اور خلع کے معاملہ میں مرد اور عورت کے مساوی حقوق ایک احمدی خاتون نے جس کا اپنے خاوند کے ساتھ تنازعہ ہے اور ان کے فیصلہ کیلئے ایک ثالث مقرر ہو چکا ہے مجھے ایک خط لکھا ہے جس میں اپنی بے چینی کے اظہار کے علاوہ نادانی سے اسلامی تعلیم پر بھی کچھ اعتراض کر گئی ہیں.میں نے انہیں ذیل کا جواب بھیجوایا ہے جو دوستوں کی اطلاع اور ہدایت کے لئے روز نامہ
مضامین بشیر جلد چہارم 390 الفضل میں شائع کروارہا ہوں.فقط خاکسار مرزا بشیر احمد ).09 آپ کا خط ملا.میں آپ کا خط آنے سے پہلے ہی از خود ثالث صاحب کو یاد دہانی کرا چکا ہوں کہ جانے میں کیوں دیر کر رہے ہیں.ایک دو دن انتظار کر کے پھر لکھوں گا.میں ثالث صاحب کی نیت پر بدظنی نہیں کرتا.وہ نیک آدمی ہیں.لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ غلط فہمی یا ہمسائیگیت کے اثر کے ماتحت غیر شعوری طور پر غلطی کر جائیں.میں نے ان کو امیر ضلع کے ذریعہ بھی پیغام بھجوایا ہے کہ انصاف کے تر از وکو برابر رکھیں اور ٹھوکر کھانے سے بچیں.لیکن آپ کے خط کا ایک فقرہ مجھے بالکل پسند نہیں آیا.آپ نے احمدی ہو کر یہ بہت بُری بات لکھی ہے کہ اگر عورت کے فسخ نکاح کا معاملہ صرف خاوند کے ہاتھ میں ہے تو یہ عورت پر ظلم ہے.اور اس صورت میں خدا نے عورت کو کیوں پیدا کیا وغیرہ وغیرہ.آپ اپنے اس خیال سے تو بہ کریں.کیونکہ آپ کا یہ خیال اسلامی مسئلہ سے قطعی ناواقفیت پر مبنی ہے.اسلام نے فسخ نکاح کے لئے مرد اور عورت کو ایک جیسا اختیار دیا ہے.صرف طریق کار میں فرق رکھا ہے کہ چونکہ عورت اپنی سادگی کی وجہ سے دھو کے کا شکار ہوسکتی ہے اس لئے جہاں مرد کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود بیوی کو طلاق دے سکتا ہے وہاں عورت کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ قاضی یا حاکم کے ذریعہ علیحدگی حاصل کرے.تا کہ کسی دھو کے باز شاطر کے فریب کا شکار نہ ہو جائے.میں آپ کو رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک لطیف حدیث سناتا ہوں.ایک دفعہ ایک مسلمان عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی.اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرا خاوند نیک ہے.میں اس کی نیکی میں کوئی نقص نہیں نکالتی.مگر میرا دل اس کے ساتھ خوش نہیں.اس لئے میں اس کے ساتھ رہ کر ناشکری کی زندگی نہیں گزارنا چاہتی.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خداداد فراست سے سمجھ گئے کہ اس عورت کی بات حق وصداقت پر مبنی ہے اس لئے آپ نے اس کے خاوند کو بلایا اور اسے ارشاد فرمایا کہ اسے اپنے نکاح سے فارغ کر کے رخصت کر دو.اور عورت کو حکم دیا کہ تمہیں جو مہر یہ دے چکا ہے وہ اسے واپس کر دو.پس اسلام نے مرد اور عورت میں تراز و بالکل برابر رکھا ہے آپ اسلام پر اعتراض کر کے گناہ گار نہ بنیں.اللہ تعالیٰ آپ کو لغزش سے بچائے اور آپ کے معاملہ میں ثالث کو صحیح فیصلہ کی توفیق دے.محرره 22 ستمبر 1962ء) روزنامه الفضل 26 ستمبر 1962ء)
مضامین بشیر جلد چہارم جمہوریت کی تشریح ہونی ضروری ہے محض نعرے لگانے سے اصلاح کی بجائے فساد پیدا ہوتا ہے 391 پاکستان کی یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ ابھی تک اس کے دستور اساسی یعنی کانسٹی ٹیوشن کے متعلق بحث ختم نہیں ہورہی.جب بھی کوئی دستور اساسی بنتا ہے تو بعض لوگ اس کے خلاف آواز اٹھا کر اسے منسوخ کرانے کے درپے ہو جاتے ہیں.پندرہ سال کے طویل عرصہ میں ملک کے اندر یہی ناگوار کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ بات بنتی ہے اور بگڑتی ہے.پھر بنتی ہے اور بگڑتی ہے.خدا جانے یہ سلسلہ کب ختم ہوگا اور ملک کو سکھ کا سانس لے کر آگے بڑھنے کی کب توفیق ملے گی؟ حال ہی میں صدرمملکت نے اپنے مشیروں اور بعض دوسرے اہل الرائے اصحاب کے مشورہ سے ایک دستور اساسی بنا کر ملک میں قائم کیا.مگر ابھی سے اس کے خلاف بعض لوگ مشہور کر رہے ہیں کہ یہ دستور اساسی جمہوریت کے نظریہ کے خلاف ہے اس لئے اسے منسوخ کرنا چاہئے یا کم از کم اسے ایسی صورت میں بدل دینا چاہئے کہ وہ ان کے زعم کے مطابق جمہوری نظام کے مطابق ہو جائے.اس تعلق میں مسلسل مضمون لکھے جا رہے ہیں.جلسے کئے جا رہے ہیں اور تقریروں کے ذریعہ ملک کے اندر شور برپا کر دیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ.میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ موجودہ دستور اساسی آسمانی وحی کی طرح ہے اور اسے بدلا نہیں جا سکتا.نہ میں یہ کہتا ہوں کہ اس دستور میں کوئی نقص نہیں اور نہ یہ کہ اس میں کسی اصلاح کی ضرورت نہیں.بہر حال وہ انسانوں کا بنایا ہوا ایک قانون ہے جسے حقیقی ضرورت کے وقت یقیناً بدلا جا سکتا ہے اور کوئی معقول انسان ایسی تبدیلی پر جو مناسب تجربہ کے بعد کی جائے اعتراض نہیں کر سکتا.لیکن ایک دستور کے جاری ہوتے ہی اس کا تجربہ کرنے اور اس کے حسن و فتح کو پر کھنے کے بغیر واویلا شروع کر دینا کہ لیجئو دوڑ یو ملک میں جمہوریت ختم ہو گئی ہرگز دانشمندی کا شیوہ نہیں.آخر ہر نئی چیز جو بالبداہت غلط نہ ہو اور بظاہر معقول پیرایہ میں پیش کی گئی ہو اس بات کا حق رکھتی ہے کہ مناسب وقت تک اس کا تجربہ کیا جائے اور اس کے حسن و فتح کو وقت کی کٹھالی میں ڈال کر پر کھا جائے.یہی صحیح اور دانشمندانہ طریق ہے.ورنہ ہمارا ملک دنیا کی نظروں میں کھیل بن جائے گا اور قو میں اس پر ہنسی کریں گی کہ یہ عجیب لوگ ہیں کہ ایک عمارت ابھی بن کر تیار ہوئی ہے اور وہ اسے گرانا شروع کر دیتے ہیں.یوں تو آسمانی وحی میں بھی حالات کے بدل جانے سے تبدیلی کا رستہ کھلا ہوتا ہے چنانچہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے
مضامین بشیر جلد چهارم 392 صحیفوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وحی نے بدل دیا اور حضرت موسی کی لائی ہوئی شریعت کو ہمارے آقا سرور کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت نے منسوخ کر دیا.کیونکہ حالات بدل چکے تھے اور اب زمانہ اس دور میں داخل ہو گیا تھا کہ ساری دنیا اور ساری قوموں کے لئے ایک دائگی اور اصولی شریعت نازل کی جائے.باقی رہا جمہوریت کا نعرہ جس کی آڑ میں سارا واویلا کیا جارہا ہے سو ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جمہوریت کسی ٹھوس چیز کا نام نہیں ہے جو ہر صورت میں اور ہر حالت میں اور ہر زمانہ میں ایک ہی رنگ میں قائم رہے یا ایک ہی رنگ میں قائم رکھی جاسکے.جمہوریت کے بنیادی معنی صرف یہ ہیں کہ حکومت کے معاملات میں ملک کے باشندوں کی آواز کا دخل ہونا چاہئے.لیکن یہ سوال کہ یہ دخل کس رنگ میں ہو اور کس حد تک ہو یہ حالات پر موقوف ہے.بہر حال یہ تو ناممکن ہے کہ ملک کی اسمبلی میں ملک کا ہر باشندہ آکر بیٹھ جائے اور رائے دینے لگے.اس طرح تو کوئی بات بھی طے نہیں پاسکتی اور ایک ایسا ہنگامہ برپا ہو جائے گا جو اصلاح کی بجائے فساد اور تباہی کا موجب ہوگا پس ضروری ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں انتخاب کے طریق کو اختیار کیا جائے اور موجودہ دستور اساسی میں انتخاب کا طریق موجود ہے کیونکہ بہر حال اسمبلیوں کے موجودہ ممبر کسی نہ کسی صورت میں عوام کے منتخب شدہ ہیں اور یہ جمہوریت ہی کی ایک قسم ہے.ایک دفعہ ہمارے آقا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک ضروری معاملہ میں اپنے صحابہ کو مشورہ کے لئے بلا یا مگر مشورہ دینے والوں کی اتنی کثرت تھی کہ مجلس میں شور پڑ گیا اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے.اس پر رسول پاک (فداہ نفسی) نے فرمایا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ اور اپنے چند نمائندے میرے پاس بھیجو تا کہ میں ان کے ساتھ بات کر کے کسی نتیجہ پر پہنچ سکوں.چنانچہ یہ لوگ واپس چلے گئے اور اپنے چند نمائندے حضور کی خدمت میں بھجوا دئیے اور حضور نے ان کا مشورہ سن کر آسانی سے فیصلہ فرما دیا.(ابوداؤد جلد 1 ) یہ وہ بچی جمہوریت ہے جو اسلامی تعلیم کی جان ہے اسے چھوڑ کر یہ کہنا کہ یوں ہو یا یوں نہ ہو سب ایسی باتیں ہیں جو وقتی حالات اور قومی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں اور جمہوریت کی روح کا ان سے براہ راست واسطہ نہیں.بلکہ کامل جمہوریت تو دراصل محض فرضی جمہوریت ہے جس کا کسی ملک میں بھی نشان نہیں ملتا.یعنی کوئی ملک بھی ایسا نہیں جس کا سربراہ ملک کے سارے باشندوں کو اپنے سامنے جمع کر کے ان سے بات کرے.بہر حال انتخاب اور حد بندی کا طریق اختیار کرنا پڑتا ہے اور وہ طریق موجودہ دستور میں شامل ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ دستور بے عیب ہے مگر اس کے جاری ہوتے ہی خاطر خواہ تجر بہ کے بغیر شور مچانا شروع کر دینا
مضامین بشیر جلد چهارم 393 کہ جمہوریت ختم ہوگئی یقیناً سلامت روی کا طریق نہیں.پس دوستو اور عزیز و! انتظار کرو اور دیکھو تجربہ کرو اور پرکھو.اور پھر بصیرت کے ساتھ کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرو اور ملک کو تباہی سے بچاؤ اور پھر بچاؤ اور پھر بچاؤ.ہاں ایک بات ضرور موجودہ دستور کے متعلق میرے دل میں کچھ کھٹکتی رہی ہے اور میں اسے کہہ دینا چاہتا ہوں.وہ یہ کہ جو وزراء صوبوں میں یا مرکزی حکومت میں چنے جائیں ان کی اکثریت ( بہتر ہوگا کہ تین چوتھائی ) منتخب شدہ ممبروں سے چنے جانے چاہئیں تا کہ انتخاب کی صحیح روح اسمبلیوں کے مشوروں میں کارفرما رہے.اور ایسا نہ ہو کہ منتخب شدہ ممبر تو ملک کے رسے کو ایک طرف کھینچتے رہیں اور وزراء کی اکثریت دوسری طرف زور لگا رہی ہو.ایک چوتھائی کی استثناء یا کم و بیش اس لئے رکھنی ضروری ہے تا کہ اگر منتخب شدہ ممبروں کے علاوہ ملک میں قابل جو ہر موجود ہو اور یقیناً موجود ہوتے ہیں تو ان کے مشورہ سے فائدہ اٹھایا جا سکے.میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں اور نہ میں نے کبھی سیاست میں کوئی حصہ لیا ہے.میری ساری عمر مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں گزری ہے مگر اس وقت ملک کے اندر جو ہنگامہ برپا ہے اس نے میرے دل میں درد پیدا کیا اور میں نے مناسب خیال کیا کہ برادرانِ وطن کے سامنے اپنا مخلصانہ مشورہ پیش کر دوں.آگے ماننا یا نہ ماننا ان کا کام ہے.بر رسولاں بلاغ باشد و بس محرره 2 اکتوبر 1962ء) روزنامه الفضل 5اکتوبر 1962ء) انڈونیشیا کی احمدی جماعتوں کی تیرھویں سالانہ کانفرنس پر پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ عزیزم مکرم سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ ممالک انڈونیشیا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا خط محررہ 62-6-20 موصول ہوا.اللہ تعالیٰ آپ کے مجوزہ جلسہ کو کامیاب کرے اور اُسے انڈونیشیا کی جماعتہائے احمد یہ اور دیگر مسلمان بھائیوں کے لئے مفید اور بابرکت اور نتیجہ خیز بنائے.آمین.انڈونیشیا وہ ملک ہے جس کی مسلمان آبادی پاکستان کے بعد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے.اس لئے وہ
مضامین بشیر جلد چهارم 394 ہمیں طبعاً بہت عزیز ہے اور ہم اس کی دینی اور دنیاوی اور مادی اور روحانی ترقی کے لئے دن رات دعا گو ہیں.اللہ اس ملک کی بیرونی اور اندرونی مشکلات دور فرمائے اور اسے ہر قسم کی ترقی سے نوازے اور وہ اسلام کا ایک درخشندہ گہوارہ بن جائے.مگر یہ نہ سمجھیں کہ ایسی ترقی صرف دل کی خواہش اور زبان کی دعا سے حاصل ہوسکتی ہے.بلکہ اس کے لئے دن رات کی کوشش اور پسینہ بہانا لازمی شرط ہے.یہ درست ہے کہ خدا کی یہ اٹل تقدیر ہے کہ وہ اس زمانہ میں اسلام کو احمدیت کے ذریعہ پھر دوبارہ پہلے جیسی بلکہ اس سے بڑھ کر ترقی عطا کرے گا مگر یہ ترقی منہ کی پھونکوں سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے ایسی والہانہ کوشش کرنی ہو گی کہ جس سے جگر خون ہو جائے اور دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا وسیع نظام قائم ہو جائے اور اسلام کے متعلق ان غلط فہمیوں کا قلع قمع کیا جائے جو مسیحی مشنریوں کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں.بے شک تقدیر اٹل ہے مگر اس امل تقدیر کے حصول کے لئے انسانی کوششوں کو انتہا پر پہنچانا بھی ایک لازمی شرط ہے.حضرت مسیح موعود نے کیا خوب فرمایا ہے کہ.بکوشید اے جواناں تا بدین قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا آپ جماعت کے دوستوں کو میری طرف سے نصیحت کریں کہ وہ سچا علم اور صحیح قوت عمل پیدا کریں اور قربانی کی روح کے ساتھ قدم آگے بڑھاتے چلے جائیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اندر وہ مقناطیسی جو ہر پیدا کر دے جو دوسروں کو لوہے کے ذرات کی طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام دستخط ( مرزا بشیر احمد ) ربوہ 2 جولائی 1962ء روزنامه الفضل ربوہ 9 اکتوبر 1962ء) ملک میں بھوک ہڑتال کی بڑھتی ہوئی وباء مسلمانوں کو اس سے کلی اجتناب کرنا چاہئے بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے پاکستان کے مسلمانوں میں عموماً اور نو جوان مسلمانوں میں خصوصاً بھوک ہڑتال کی وباء بہت پھیلتی جا رہی ہے.یعنی جب حکومت کا کوئی فیصلہ یا کسی کالج کے منتظمین کی کوئی ہدایت یا
مضامین بشیر جلد چهارم 395 کسی فیکٹری یا کارخانہ کے افسروں کا کوئی حکم لوگوں کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے تو بعض لوگ جھٹ بھوک ہڑتال کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور حکومت کو یا افسروں کو دھمکی دیتے ہیں کہ ہم اُس وقت تک کھانے پینے سے اجتناب کریں گے جب تک کہ فلاں فیصلہ منسوخ کر کے ہماری مرضی کے مطابق فیصلہ نہ کیا جائے.اس وباء کے جراثیم چند سال سے بہت زیادہ ترقی کر گئے ہیں حتی کہ بعض لڑکیاں اور عورتیں بھی بھوک ہڑتال کرنے لگ گئی ہیں اور آجکل تو قریباً ہر روز اخبار اس قسم کی خبروں سے بھرا ہوا ہوتا ہے.دراصل یہ بدعت گاندھی جی آنجہانی نے شروع کی تھی اور مسلمانوں نے حسب عادت آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی شروع کر دی.اور یہ نہ دیکھا کہ اس معاملہ میں اسلام کی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کیا ہے.گاندھی جی کے نظریات سے اس جگہ ہماری کوئی بحث نہیں.وہ ہندو مذہب کے پیرو تھے اور انہیں اختیار تھا کہ اپنے مذہب کی اتباع میں یا بقول خود اپنے دل کی روشنی کے پیچھے لگ کر جو رستہ چاہیں اختیار کریں اور ان کے ماننے والے بھارت کے ہند و اصحاب بھی اس معاملہ میں اختیار رکھتے ہیں کہ جو چاہیں کریں ہمیں ان کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے كُلُّ يَعْمَلُ عَلى شَاكِلَتِه یعنی ہر شخص اپنے عقیدہ اور اپنے طریق کے مطابق کام کرتا ہے.لیکن افسوس ہے تو یہ ہے که رسول عربی (فداہ نفسی) خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں نے بھی اس معاملہ میں گاندھی جی کے چیلے بن کر ان کی پیروی شروع کر دی ہے.ہر مسلمان جانتا ہے اور اگر نہیں جانتا تو اسے اب جان لینا چاہئے کہ بھوک ہڑتال خود کشی ہی کی ایک قسم ہے.جو شخص کسی مقصد کے حاصل کرنے کے لئے خواہ وہ جائز ہی ہودیدہ و دانستہ خودکشی کا ارتکاب کرتا ہے اور اپنی اُس جان کو خود اپنے ہاتھ سے ضائع کرتا ہے جو خدا نے اسے ایک مقدس امانت کے طور پر دے رکھی ہے وہ دراصل ایک جان کا قاتل بنتا ہے کیونکہ اگر غور کیا جائے تو اس میں اور ایک قاتل میں چنداں فرق نہیں.ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خودکشی کے اتنے خلاف تھے کہ آپ خود کشی کرنے والے مسلمان کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے.بلکہ حضور کی تعلیم کے ماتحت صحابہ کرام بھی اس معاملہ میں اتنے محتاط تھے کہ ایک دفعہ ایک لڑائی میں ایک صحابی کی تلوار ہنگامہ کے وقت میں کوٹ کر خود اُسے آلگی اور وہ اس زخم سے وفات پا گیا.اس پر بعض صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! فلاں مسلمان اپنی ہی تلوار کی چوٹ سے فوت ہو گیا ہے کیا ہم اس کا جنازہ پڑھیں؟ آپ نے حالات سن کر فیصلہ فرمایا کہ چونکہ اس کی نیت اپنے آپ کو مارنے کی نہیں تھی اور اس کی تلوار محض اتفاقی طور پر اسے لگ گئی تھی
مضامین بشیر جلد چهارم 396 اس لئے تم بے شک اس کا جنازہ پڑھو کیونکہ وہ خود کشی کرنے والا نہیں تھا.بہر حال خود کشی کرنے والا انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح اور واضح تعلیم کے خلاف قدم اٹھاتا ہے اور اسلام نے اس کا جنازہ تک جائز قرار نہیں دیا.دراصل بھوک ہڑتال کرنے والا انسان دو باتوں سے خالی نہیں ہوتا.یا تو اس کی واقعی اور سچ سچ یہ نیت ہوتی ہے کہ اگر اس کا مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ اپنی جان کو خود اپنے ہاتھ سے ہلاک کر دے گا.اس صورت میں اس کا یہ فعل خود کشی میں داخل ہوگا اور وہ ایک انسان کا قاتل سمجھا جائے گا.اور اگر اس کی بھوک ہڑتال مرنے کی نیت سے نہیں ہے بلکہ صرف رعب ڈالنے کی غرض سے اور دکھاوے کے لئے ہے تو پھر وہ دھوکہ باز ہے اور اس صورت میں بھی وہ سچا مسلمان نہیں سمجھا جا سکتا.پس کوئی سی صورت بھی لی جائے خواہ مرنے کی نیت ہو یا محض دھو کے اور دکھاوے کی نیت ہو ایسے شخص کا فعل صریحاً اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.اور پاکستان کے مسلمانوں کو ایسے غیر اسلامی فعل سے قطعی طور پر اجتناب کرنا چاہئے جو ملک کے بعض سر پھرے نو جوانوں نے اسلام کا رستہ چھوڑ کر گاندھی جی کی اتباع میں اختیار کر رکھا ہے.پھر خود کشی خدا کی رحمت سے مایوسی بھی ہے اور مایوسی اسلام میں حرام ہے.قرآن فرماتا ہے إِنَّهُ لَا يَائيسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُوْنَ - کہا جا سکتا ہے کہ جنگ کے موقع پر لڑنے والے مسلمان بھی تو اپنے آپ کو موت کے لئے پیش کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی کمان میں اپنے صحابہ کو کئی دفعہ بڑی بڑی تعداد کے کافروں کے سامنے لڑائی کے لئے کھڑا کیا اور ان لڑائیوں میں کئی صحابہ شہید بھی ہوئے تو اس صورت میں ایک مطالبہ کے منوانے کے لئے بھوک ہڑتال کرنے میں کیا ہرج ہو سکتا ہے؟ مگر یہ استدلال صریحاً ایک باطل اور بودا استدلال ہے اور قیاس مع الفارق سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا.ایک نیک مقصد کے لئے جائز اور باقاعدہ دفاعی جنگ کی صورت میں اپنے آپ کو دشمن کے سامنے کھڑا کرنا بالکل دوسری چیز ہے.ایک مقدس مقصد کے لئے جائز صورت میں امیر یا امام کے ساتھ ہو کر باقاعدہ صورت میں لڑنے والے انسان کی اصل نیست تو یہ ہوتی ہے کہ میں فتح پاؤں اور ہمارے مقصد میں کامیابی حاصل ہو مگر بھوک ہڑتال کرنے والا تو صرف مرنے کی نیت سے یا بصورت دیگر دھوکہ بازی کی غرض سے اس میدان میں قدم رکھتا ہے اور اُس کی غرض خود کشی یا دھوکہ بازی کے سوا کچھ نہیں ہوتی اور یہ دو نو صورتیں اسلام میں حرام ہیں پس فرق ظاہر ہے.اندریں حالات یہ خاکسار پاکستان کے نوجوانوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے خدا کے نام پر اور رسول کے نام پر اور اسلام کے نام پر اپیل کرتا ہے کہ وہ اس غیر اسلامی فعل سے کلی طور پر اجتناب کریں.بے شک
مضامین بشیر جلد چهارم 397 وہ اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لئے جائز رستے اختیار کریں جن کی کمی نہیں مگر گاندھی جی کے چیلے بن کر اپنے آقا اور ہادی رسول پاک کی تعلیم کے باغی نہ بنیں کیونکہ ہمارے لئے ساری برکتیں حضرت سرور کائنات کی پیروی میں ہیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کا حافظ و ناصر ہو اور اسے ہر فتنہ سے محفوظ ر کھے.آمین یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.( محرره 6 اکتوبر 1962ء) روزنامه الفضل 10 اکتوبر 1962ء) نگران بورڈ کا اجلاس منعقدہ 7 اکتوبر 1962ء جماعت کو مخالفت کے مقابل پر صبر و ہمت کی تلقین 7 اکتوبر 1962ء بروز اتوار نگران بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا.شیخ بشیر احمد صاحب اور شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے علاوہ سب ممبران شریک اجلاس ہوئے.دعا کے بعد 9 بج کر 40 منٹ پر اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی.(1) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے سفر خرچ ملک شام کا معاملہ صدر انجمن احمد یہ اور مجلس تحریک جدید میں ایک عرصہ سے فیصلے کے بغیر لٹکتا جارہا تھا.خاکسا رصد رنگران بورڈ نے دونوں مجلسوں کے سربراہوں کو مشورہ دیا کہ وہ آپس میں بیٹھ کر اور متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر اس معاملہ کے متعلق فیصلہ کر لیں تو مناسب ہوگا.چنانچہ صدرانجمن احمدیہ نے بعد غور اس خرچ کو اپنے ذمے تسلیم کر لیا ہے اور اس طرح یہ معاملہ خیر و خوبی سے طے پا گیا.(2) مرزا عبدالحق صاحب کی تجویز بابت تبلیغ پر ناظر صاحب اصلاح وارشاد کی رپورٹ موصول ہوئی اور اس پر کافی غور و خوض کے بعد محکمہ متعلقہ تفصیلی ہدایات دی گئیں.اور تاکید کی گئی کہ چونکہ پھر بعض غیر از جماعت اصحاب جماعت احمدیہ کے متعلق بے بنیاد غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں اور فتنے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لئے ضروری لٹریچر کی اشاعت اور دیگر پُر امن ذرائع سے اس کے ازالہ کے لئے مؤثر کوشش کی جائے اور جماعت کو بھی بیدار کر دیا جائے کہ وہ فتنے کی طرف سے ہوشیار رہیں.اور ناظر صاحب اصلاح وارشاد ہر تین ماہ کے بعد حالات کا تازہ جائزہ لے کر اس کے مناسب حال تدابیر اختیار کیا کریں اور رپورٹ کرتے رہیں.
مضامین بشیر جلد چهارم 398 (3) بیرونی ممالک کے احمدیوں کی وصایا کے متعلق مجلس تحریک جدید اور صدر انجمن احمد یہ میں بعض انتظامی مشکلات کے بارہ میں کچھ اختلاف تھا اس کا فیصلہ کیا گیا.(4) صدر نگران بورڈ کی تجویز پر فیصلہ کیا گیا کہ ربوہ میں مفت اور لازمی پرائمری تعلیم کی سکیم جلد تر جاری کر دی جائے.تا کہ جماعت احمدیہ کا مرکز اس معاملہ میں خدا کے فضل سے ایک مثالی شہر بن جائے.یہ امر بہت خوشی کا موجب ہے کہ نظارت تعلیم کی رپورٹ کے مطابق پہلے سے ہی ربوہ کے لڑکے اور لڑکیاں بڑی کثرت کے ساتھ تعلیم پارہے ہیں اور بہت ہی کم بچے تعلیم سے محروم ہیں.اس لئے یہ انتظام انشاءالہ بلاکسی خاص خرچ کے کامیاب صورت میں جاری کیا جا سکے گا.(5) مشاورت کی تجویز کے مطابق احمدیوں میں رشتہ ناطہ کی مشکلات کا جائزہ لینے اور ان کا حل تجویز کرنے کے لئے جو کمیشن صدر نگران بورڈ کی طرف سے مقرر کیا جا چکا ہے اس کی رپورٹ پیش ہونے پر فیصلہ کیا گیا کہ کمیشن کو ہدایت دی جائے کہ بہر صورت جلسہ سالانہ 1962ء تک اپنی رپورٹ مکمل کر کے بھجوا دیں تا کہ نگران بورڈ کے غور کے بعد وہ مشاورت میں پیش کی جاسکے.(6) لا ہور میں احمد یہ ہوٹل کے قیام کے متعلق نگران بورڈ میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ صدر انجمن احمد یہ ہوٹل کی تعمیر کے لئے مناسب موقع پر چار کنال سے لے کر چھ کنال تک کا پلاٹ خریدنے کا انتظام کرے تا کہ اس میں احمد یہ ہوٹل اپنے نقشے کے مطابق بنایا جا سکے.اس تعلق میں مزید فیصلہ ہوا کہ صدرانجمن احمدیہ بہر حال نئے سال میں کوئی مناسب کوٹھی کرایہ پر لے کر اور مجلس مشاورت میں اس کا خرج منظور کرا کے آئندہ تعلیمی سال سے ہوٹل جاری کر دے تا کہ جب تک اپنی عمارت نہیں بنتی کرایہ کی عمارت سے کام لیا جا سکے.(7) مجوزہ جماعتی میوزیم کے قیام کے متعلق نگران بورڈ میں اختر صاحب اور مینوی کی تجویز پر فیصلہ ہو چکا ہے.اس کے متعلق کمیٹی مقررہ کی رپورٹ پیش ہوئی فیصلہ کیا گیا کہ سلسلہ کے مقدس تبرکات کا معاملہ فوری نوعیت کا ہے کیونکہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے تبرکات کے ضائع چلے جانے کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے اور ان کے متعلق تصدیق حاصل کرنے کی مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں.لہذا اس بارے میں فوری کارروائی ہونی چاہئے اور مقررہ کمیٹی کی طرف سے روزنامہ الفضل میں ابتدائی اعلان جلد تر ہو جانا چاہئے.(8) مہتم مقامی خدام الاحمدیہ کی طرف سے ربوہ میں فرسٹ ایڈ کی ٹرینگ کلاس کے متعلق رپورٹ اور اس پر صدر نگران بورڈ کا نوٹ پڑھ کر سنایا گیا.یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ ایک ضروری تجویز ہے.کوشش کی جائے کہ یہ سلسلہ جاری رہے تاکہ ربوہ کے نوجوان اس کی ضروری ٹریننگ حاصل کر لیں اور رفاہ عام کی
مضامین بشیر جلد چہارم 399 خدمت بہتر صورت میں بجالا سکیں.(10) صوبائی امیر صاحب مشرقی پاکستان کی طرف سے آمدہ رپورٹ پیش ہوئی کہ مشرقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے بے بنیاد اعتراضوں کے علاوہ کئی طرح سے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اس کے متعلق ناظر صاحب اصلاح وارشاد اور صوبائی امیر صاحب مشرقی پاکستان کو مناسب مشورہ بھجوایا گیا تا کہ وہ چوکس رہیں اور فتنے کا سد باب کرسکیں.ضروری نوٹ.دوستوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہر الہی جماعت کی مخالفت لازما ہوا کرتی ہے بلکہ قرآنی ارشاد کے مطابق یہ مخالفت الہی جماعتوں کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے.پس ان کو مخالفت پر گھبرانا نہیں چاہئے اور چوکس رہتے ہوئے اپنے حقوق کی حفاظت کرنی چاہئے.اور جو جو غلط فہمیاں جماعت کے متعلق پھیلائی جاتی ہیں ان کا پورے زور کے ساتھ ازالہ کرنا چاہئے.اور اس کے ساتھ ہی خدا پر توکل کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب بھی کسی جگہ سے جماعت کی غیر معمولی مخالفت کی اطلاع ملتی تھی اور بعض دوست گھبرا کر حضور کی خدمت میں لکھتے تھے تو حضور اس کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ گھبراؤ نہیں اور جو جائز ظاہری تدابیر خدا نے ہمیں دے رکھی ہیں ان کو اختیار کرو اور تبلیغ پر زور دو تا کہ لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوں.اور فرماتے تھے کہ لوگوں کی مخالفت تو دراصل ایسی ہے جیسے کہ فصل کے لئے کھاد ہوتی ہے کیونکہ ایک طرف تو مخالفت سے جماعت کے لوگوں کی سستی دور ہوتی اور فرض شناسی پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ مخالفت خدا کی نصرت کو بھی جذب کرتی ہے.( محررہ 9 اکتوبر 1962ء) روزنامه الفضل 12 اکتوبر 1962ء) یقیناً آنحضرت ہی آخر الانبیاء ہیں صدق جدید کا ایک بے بنیا داعتراض مغربی افریقہ کے ملک گھانا سے وہاں کی مقامی جماعت احمدیہ کا ایک انگریزی اخبار نکلتا ہے جس کا نام گائیڈنس (Guidance) ہے.اس اخبار کی تمبر 1962ء کی اشاعت میں ایک مختصر سا نوٹ شائع ہوا ہے جس میں حضرت سرور کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ روحی و جنانی) کے روحانی فیوض و
مضامین بشیر جلد چهارم 400 برکات اور آخر الشرائع قرآن مجید کے کمالات اور افادات کے ذکر کی ذیل میں اس قسم کا انگریزی فقرہ آتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس زمانہ میں رسول پاک کی شاگردی اور قرآن حکیم کی اتباع میں نور نبوت کی تازہ (Latest) جھلک بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں نظر آتی ہے.مگر افسوس ہے کہ مولا نا عبدالماجد صاحب دریا بادی ایڈیٹر صدق جدید نے جن سے بہتر ذہنیت کی امید کی جاتی ہے اس فقرے کو دوسرا رنگ دے کر اپنے 5 را کتوبر کے پرچہ میں ماڈرن تبلیغ کے استہزائیہ عنوان کے ماتحت یہ ظاہر کرنا چاہا ہے کہ گویا نعوذ باللہ جماعت احمد یہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بجائے اپنے سلسلہ کے بانی کو ” آخر الانبیاء یقین کرتی ہے.مولا نا عبدالماجد صاحب ایک ثقہ بزرگ سمجھے جاتے ہیں اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی منفرد فقرہ کو لے کر نتیجہ نکالنے کی بجائے جماعت احمدیہ کے کثیر التعداد اور محکم حوالہ جات کی روشنی میں ہمارے خیالات کی ترجمانی فرمائیں گے.جب سینکڑوں واضح حوالہ جات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ظاہر و عیاں ہے کہ ہم خدا کے فضل سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین اور آخر الانبیاء یقین کرتے ہیں تو پھر کسی ضمنی اور ذو معنیین حوالہ سے یہ استدلال کرنا کہ نعوذ باللہ ہمارے نزدیک آخری نبی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ہیں ایک صریح ظلم ہے.پھر مولانا عبدالماجد صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اخبار گائیڈنس کے حوالہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق Last یعنی آخری کا لفظ نہیں ہے بلکہ Latest کا لفظ ہے جس کے معنی قریب ترین زمانہ میں ظاہر ہونے والے کے ہیں اور سیاق وسباق کے لحاظ سے ان دونوں لفظوں میں فرق بالکل واضح ہے.یہ درست ہے اور ہم اس سے ہر گز انکار نہیں کر سکتے کہ ہم جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو خدا کا ایک نبی اور رسول یقین کرتے ہیں.مگر ہم آپ کی نبوت کو آزاد اور مستقل نبوت قرار نہیں دیتے بلکہ اسے بروزی اور خلی اور تابع نبوت سمجھتے ہیں جو ہمارے امام کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور شاگردی میں اور قرآن مجید کی اتباع کی بدولت حاصل ہوئی.گویا کہ یہ رسول عربی ( فدا نفسی ) کی نبوت کا ہی ایک حصہ ہے نہ کہ کوئی جدا گانہ چیز.پس باوجود اس کے کہ لاریب جیسا کہ قرآن فرماتا ہے حضور سرور کائنات ہی خاتم النبین ہیں وَ لَعْنَتُ اللهِ عَلَى مَنْ كَذَبَ.اور لاریب حضور ہی کا وجود وہ مقدس وجود ہے جس پر جیسا کہ آپ نے خود حدیث میں فرمایا ہے " اخر الانبیاء کا لفظ اطلاق پاسکتا ہے.ہم مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد حضور کی شاگردی اور غلامی میں آنے والا نبی
مضامین بشیر جلد چهارم 401 یقین کرتے ہیں.اس کی لطیف تشریح یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ.فَإِنِّي آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل الصلاة بمسجدى مكة والمدينة ) یعنی میں آخری نبی ہوں اور میری یہ مسجد آخری مسجد ہے.پس جب آپ کی مدینہ والی مسجد کے بعد اسلامی ملکوں میں لاکھوں کروڑوں نئی مسجدوں کے بننے أَنَا آخِرُ الانبیاء کا مفہوم باطل نہیں ہوتا تو آپ کے بعد آپ کے کسی خادم اور شاگرداور خوشہ چین کے نبوت کا انعام پانے سے اخر الانبیاء کے مفہوم میں کس طرح رخنہ پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ ایک موٹی سی بات ہے مگر معلوم نہیں کہ مولا نا عبد الماجد صاحب جیسا عالم اور سمجھدار انسان اس معمولی سے نکتہ کو سمجھنے سے کیوں قاصر رہا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ اس مسئلہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلمی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے.اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے“ ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207-208) بہر حال ہم خدا کے فضل سے اپنے خالق و مالک آسمانی آقا کی قسم کھا کر کہتے ہیں وَ لَعْنَتُ اللهِ عَلَى مَنْ كَذَبَ کہ ہمارے نزدیک یقینا یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں اور ہمیں حضور کی ختم نبوت پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ ہمیں اپنے وجود پر یا چاند اور سورج کے باوجود پر یقین ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر.اور ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جیسا کہ رسول پاک نے خود فرمایا ہے یقیناً آپ ہی اخر الانبیاء ہیں اور آپ کے بعد آپ کی اتباع میں اور آپ کے فیض سے نبوت کا انعام پانے والا آپ سے جدا نہیں بلکہ آپ ہی کے وجود کا حصہ ہے اور اس کی نبوت آپ کی عالمگیر نبوت میں شامل ہے نہ کہ اس سے الگ.بایں ہمہ چونکہ آجکل بعض اوقات غیر از جماعت لوگ مخالفت کی وجہ سے یا ناواقفی کی بنا پر ہمارے الفاظ کو غلط معنی دے کر دوسرا رنگ پیدا کر دیتے ہیں اور بدظنی پھیلاتے ہیں اس لئے ہمارے دوستوں کو بھی چاہئے
مضامین بشیر جلد چهارم 402 کہ ایسی باتوں میں احتیاط رکھیں.وہ یقینا سچی بات کہیں اور حق بات کہنے میں کسی سے نہ ڈریں.مگر ایسے رنگ میں بات کہیں جس میں غلط نہی پیدا ہونے کا امکان نہ ہو خدا فرماتا ہے کہ اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اور خدا سے بڑھ کر سچا کون ہو سکتا ہے؟ (محرره 12 اکتوبر 1962ء) روزنامه الفضل 17 اکتوبر 1962ء) خدام اپنی تنظیم میں منسلک ہو کر احمدیت کے پُر زور شیدائی اور فدائی بن کر رہیں اکیسویں سالانہ اجتماع کے موقع پر مجلس خدام الاحمدیہ کے ہال کا سنگ بنیادرکھنے کی با برکت تقریب سے خطاب خدام الاحمدیہ کے اکیسویں سالانہ اجتماع کے دوسرے روز یعنی مورخہ 20 اکتوبر 1962 ء بروز شنبہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ہال اور دفتر کی بنیاد رکھنے کے لئے محترم سید داؤ د احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی درخواست پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے دست مبارک سے رکھا اور خطاب کے بعد ایک پُر سوز اجتماعی دعا کرائی.آپ نے فرمایا.مجھے خوشی ہے کہ مجھ کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے.ایسی تقاریب جماعتوں اور تنظیموں کے لئے بڑی برکت، سعادت اور مضبوطی کا موجب ہوتی ہیں بشرطیکہ اُس روح کو سمجھا جائے جو ایسی تقریبوں کے پیچھے کام کر رہی ہوتی ہے جیسا کہ عزیز داؤ داحمد نے ابھی کہا ہے اصل چیز عمارتیں نہیں بلکہ وہ روح ہے جو ان کی تعمیر میں پوشیدہ ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ اس کو پہنچتا ہے.پس ایسی تقاریب یقیناً با برکت ہیں لیکن انہیں برکت سے ہمیشہ ہی بھر پور رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس روح کو زندہ رکھا جائے جس کی خاطر یہ منعقد کی جاتی ہیں.خدام کو یادرکھنا چاہئے کہ ان کا یہ دفتر ان کے لئے ثانوی قسم کا ایک مرکز ہے یہ وہ کھونٹا ہے جس کے ساتھ
مضامین بشیر جلد چہارم 403 بندھ کر وہ اپنی تنظیم کو اور اپنے کاموں کو زندہ رکھ سکتے ہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ ہال اور دفتر کی تعمیر خدام میں ایک نئی زندگی دوڑانے کا موجب ہوگی.خدام کو میری یہی نصیحت ہے کہ تم اپنی اس تنظیم کو ایک مرکزی کھونٹا سمجھو اور ہمیشہ اس کے ساتھ مضبوطی سے بندھے رہو.میری دعا ہے کہ خدام اپنی تنظیم میں منسلک ہو کر اسلام اور احمدیت کے پرزور شیدائی اور فدائی بن کر رہیں اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں یہاں تک کہ اس مقصد کو پالیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے لئے مقرر فرمایا ہے.سنگ بنیا د ر کھنے کا منظر خدام کو ان زریں نصائح سے مستفید فرمانے کے بعد حضرت میاں صاحب محترم سید داؤ داحمد صاحب صدر مجلس مرکز یہ کی معیت میں اس جگہ تشریف لے گئے جہاں بنیاد میں اینٹیں رکھنی تھیں.سب سے پہلے آپ نے دعا میں کرتے ہوئے مسجد مبارک قادیان کی وہ دو اینٹیں باری باری بنیاد میں رکھیں جن پر سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منظوری دیتے ہوئے دعا فرمائی تھی.اس کے بعد آپ نے ایک اور اینٹ بنیاد میں رکھی.اینٹیں بنیاد میں رکھتے وقت حضرت میاں صاحب نے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.آپ لوگ دل میں دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس بنیاد کو اسلام اور احمدیت اور خدام الاحمدیہ کے لئے ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.روزنامه الفضل 23 اکتوبر 1962ء) لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کیلئے پیغام احمدی خواتین تربیت اولا د اور خدمت دین کا خاص نمونہ قائم کرنے کی کوشش کریں مورخہ 20 اکتوبر کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے پہلے اجلاس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کاریکارڈ کیا ہوا جو پیغام سنایا گیا اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوعُود
مضامین بشیر جلد چهارم خواتین کرام اور ہمشیرگان ! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 404 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں ان کے سالانہ اجتماع کے موقع پر ٹیپ ریکارڈنگ مشین کے ذریعہ انہیں ایک مختصر سا پیغام دوں.سوسب سے پہلے تو میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے اس مرکزی اجتماع کو کامیاب کرے اور اس کے بہترین نتائج پیدا ہوں.یہ امر بڑی خوشی کا موجب ہے کہ ہماری مستورات میں خدا کے فضل سے غیر معمولی بیداری کے آثار پیدا ہورہے ہیں.اور وہ اسلام اور احمدیت کی خدمت میں بڑے شوق اور ذوق سے حصہ لینے لگی ہیں.اور تعلیم کے حصول میں بھی ان کا قدم تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے.عورتیں گو تعداد کے لحاظ سے کسی جماعت یا سوسائٹی کا نصف حصہ ہوتی ہیں مگر اس لحاظ سے کہ ان کے ہاتھ میں قوم کے نو نہال پرورش پاتے ہیں اور اگلی نسل کی ابتدائی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے ان پر ایک طرح سے مردوں کی نسبت بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہے.اس سے صرف یہی مراد نہیں کہ بچے ماؤں کی خدمت کا ثواب حاصل کر کے اپنے لئے جنت کا دروازہ کھول سکتے ہیں بلکہ اس میں یہ بھی لطیف اشارہ ہے کہ ماؤں کی اچھی تربیت کے نتیجہ میں ساری قوم کا قدم ہی جنت کی طرف اٹھ سکتا ہے.پس میں لجنہ کی ممبرات کو جو ہماری بہنیں اور بیٹیاں ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ آئندہ پہلے سے بھی زیادہ ذوق وشوق سے کام لیں اور دین کی خدمت کا ایسا نمونہ دکھا ئیں جو حقیقتا عدیم المثال ہو.عورت ایک بڑی عجیب و غریب ہستی ہے.ایک طرف وہ اپنے حسن تدبر اور خدمت اور محبت کے ذریعہ اپنے خاوند کا گھر اس کے لئے جنت بنا سکتی ہے اور دوسری طرف وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی اچھی تربیت کر کے جماعت کی عالی شان خدمت سر انجام دے سکتی ہے.مجھے یہ خوشی ہے کہ جماعت میں مستورات کے اندر تعلیم کے لحاظ سے بہت بیداری پائی جاتی ہے مگر میرا یہ احساس ہے خدا کرے کہ وہ غلط ہو کہ ابھی تک جماعت کی مستورات کو تبلیغ کی طرف اتنی توجہ نہیں جتنی کہ ہونی چاہئے.اگر احمدی عور تیں تعلیم کی طرح تبلیغ کی طرف بھی زیادہ توجہ دیں تو خدا کے فضل سے ان کے ذریعہ بہت جلد بھاری تغیر پیدا ہوسکتا ہے.میری دعا ہے کہ لجنہ اماءاللہ جلد تر اس مقام کو حاصل کرلے جس میں وہ نہ صرف تعلیم کے میدان میں بلکہ تبلیغ اور تربیت کے لحاظ سے بھی ایک مثالی تنظیم بن جائے.خدا کرے
مضامین بشیر جلد چهارم ایسا ہی ہو اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا.(محرره 19 اکتوبر 1962ء) 405 ( روزنامہ الفضل 24 اکتوبر 1962 ء وماہنامہ مصباح نومبر 1962ء).........حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے متعلق میری دعائیہ تحریک کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے برکات خلافت کے لہا ہونے کے متعلق جماعت میں دعا کی تحریک کی تھی اور اس تحریک کے ضمن میں یہ بھی لکھا تھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں میں جتنی علامات بتائی گئی تھیں وہ خدا کے فضل سے سب کی سب پوری ہوگئی ہیں اس لئے اب یہ دعا کسی علامت کے پورا ہونے کے لئے نہیں بلکہ برکات خلافت کے لمبا ہونے کے لئے ہے.میرے اس نوٹ پر اُس غیر معمولی محبت کی وجہ سے جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات کے ساتھ مخلصین جماعت کے دلوں میں ہے کئی دوستوں کے دلوں میں مختلف قسم کے وہم پیدا ہونے شروع ہو گئے اور یہ حقیقت پھر ایک دفعہ رونما ہوگئی.عشق است و ہزار بدگمانی دراصل دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ دعا دو غرض سے کی جاتی ہے.ایک غرض یہ ہوتی ہے کہ جو نیک مقصد کسی فرد یا جماعت کے سامنے ہے یا کسی پیشگوئی میں بتایا گیا ہے وہ اسے حاصل ہو جائے اور پھر جب وہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد دعا کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جو برکات اس مقصد کے حصول کے ساتھ وابستہ ہیں وہ جلدی ختم نہ ہو جائیں بلکہ ان کا زمانہ لمبے سے لمبا چلتا چلا جائے.پس اپنے گزشتہ مضمون میں میری تحریک کی غرض یہی مؤخر الذکر غرض تھی یعنی یہ کہ جب خدا کے فضل سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں تمام الہامی علامات پوری ہو چکی ہیں تو اب یہ دعا کرنی چاہئے کہ حضور کی خلافت کے برکات کا زمانہ لمبے سے لمبا چلے تا کہ جماعت حضور کے فیوض سے تادیر متمتع ہوتی رہے.میرےنوٹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کا ذکر صرف ایک علمی نکتہ کے اظہار کی غرض سے تھا اور وہ یہ کہ ایک نبی اور رسول دنیا میں ایک بیج بونے کے لئے آتا ہے اس لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے جب یہ پیج کامیابی کے ساتھ بویا جا چکتا ہے تو اللہ تعالے کی یہ سنت ہے کہ پھر اپنے نبی کو اپنے پاس واپس بلا لیتا ہے.مگر خلافت کا معاملہ جدا گانہ ہے.کیونکہ خلفاء کوئی بیج بونے کے لئے
مضامین بشیر جلد چہارم 406 نہیں آتے.بلکہ نبی کے بوئے ہوئے بیج کی آبیاری کرنے اور اس کی حفاظت کرنے اور اسے ترقی دینے اور اسے آہستہ آہستہ ایک عظیم الشان درخت بنانے کی غرض سے آتے ہیں.اس لئے لازماً خلافت کا سلسلہ لمبا چلتا ہے.یہ وہی نکتہ ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں ” قدرت ثانیہ کے لفظ میں اشارہ فرمایا ہے.پس جماعت کو گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ ایک طرف شکر گزاری اور دوسری طرف دعا اور گریہ وزاری میں لگے رہنا چاہئے تا وقتیکہ احمدیت کا درخت جو اسلام ہی کے درخت کا دوسرا نام ہے اتنا تر قی کر جائے اور اتنا پھیل جائے اور اتنا مضبوط ہو جائے اور اتنی شاخیں پیدا کر لے کہ دنیا کی قومیں اس کے سائے کے نیچے آرام پائیں اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کے نتیجہ میں رسول پاک صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا بول بالا ہو اور خدا کا یہ وعده کامل آب و تاب کے ساتھ پورا ہو کہ وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولى - محررہ 25 اکتوبر 1962ء) روزنامه الفضل 27 اکتوبر 1962ء) نصرت ہائر سیکنڈری سکول ربوہ کی افتتاحی تقریب پر پیغام (مورخہ 29 اکتوبر 1962ء کو نصرت ہائر سیکنڈری سکول کے افتتاح کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا جو پیغام پڑھ کر سنایا گیا اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.) محترمہ پرنسپل صاحبہ ہائر سیکنڈری نصرت گرلز سکول ربوہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کے خط سے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ 129اکتوبر 1962ء کو جامعہ نصرت اور نصرت گرلز ہائی سکول کا حصہ ایف.اے اور حصہ میٹرک ڈگری کالج اور سکول سے الگ ہو کر مستقل صورت میں ہائیر سیکنڈری درسگاہ کے طور پر قائم ہو رہا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس نئی تقسیم کو نہ صرف ہماری طالبات کے لئے بلکہ پڑھانے والی استانیوں اور لیکچر اروں کے لئے ہر جہت سے مفید اور بابرکت کرے.اور اس درس گاہ کے کامیاب ترین نتائج پیدا ہوں.جماعتی بچیوں کی تعلیم کا سوال بے حد اہم ہے اور ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
مضامین بشیر جلد چهارم 407 متعد دارشادات میں اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے.پس اب جبکہ یہ درس گاہ ایک نئے دور میں داخل ہورہی ہے اس کی استانیوں اور طالبات دونوں کو چاہئے کہ پوری ہمت اور عزم اور استقلال کے ساتھ اس نئے دور کو شروع کریں اور اپنی کوششوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا فضل چاہتے ہوئے اس درس گاہ کو ایک مثالی درس گاہ بنا دیں جو تعلیم کے لحاظ سے بھی مثالی ہو اور تربیت کے لحاظ سے بھی مثالی ہو اور نتائج کے لحاظ سے بھی مثالی ہو اور نظم وضبط کے لحاظ سے بھی مثالی ہو اور اخلاقی ماحول کے لحاظ سے بھی مثالی ہو.یہ تو ظاہر ہے کہ پڑھانے والیوں اور پڑھنے والیوں میں بہت گہرا رابطہ قائم ہونا چاہئے تا کہ وہ ایک خاندان کے طور پر زندگی گزاریں.پڑھانے والیاں ہر لحاظ سے پڑھنے والیوں کے لئے نمونہ بنیں اور پڑھنے والیاں اس ذوق اور شوق کے ساتھ کام کریں جو اعلیٰ ترقی تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی قوم کی عورتوں میں بیداری اور حقیقی ترقی کے آثار پیدا ہو جائیں اور وہ ماحول کے بداثرات سے بچ کر رہیں تو عورتیں ملک وقوم کی ترقی میں بڑا اثر پیدا کر سکتی ہیں.آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بعض نیک اور خادم دین عورتوں نے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیئے ہیں.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمی کے نام نامی کو کون نہیں جانتا.ان بزرگ خواتین نے اپنی عقل و دانش کے ذریعہ امت کی بعض ایسی گتھیاں سلجھائی ہیں جن میں مردوں کی عقل نا کام ہو کر رہ گئی تھی.یہی مواقع آپ کے لئے بھی میسر ہیں بشرطیکہ آپ اپنے علم وعمل کو اس معیار تک پہنچا دیں جو قوموں کی زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا کرتا ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور خدا کرے کہ آپ قیامت کے دن ایسی ثابت ہوں جن کے نیک کاموں پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام محبت کے ساتھ فخر کر سکیں.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد (1962127) روزنامه الفضل 9 نومبر 1962ء)
مضامین بشیر جلد چہارم 43 خلیفہ عبدالرحیم صاحب کی اچانک وفات 408 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے خلیفہ عبدالرحیم صاحب کی وفات کی خبر روز نامہ الفضل میں دیتے ہوئے آپ کے متعلق تحریر فرمایا.خلیفہ عبدالرحیم صاحب، حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جمونی کے صاحبزادے تھے جو حضرت خلیفہ اول کی وساطت سے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے تھے اور بہت مخلص اور قدیمی بزرگ تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں کئی موقع پر سلسلہ کی مفید خدمات سرانجام دیں.اسی طرح ان کے صاحبزادے خلیفہ عبدالرحیم صاحب بھی بہت مخلص احمدی تھے اور جموں وکشمیر کی ریاست میں اچھے عہدوں پر فائز رہے تھے.( محرره 13 نومبر 1962 ) روزنامه الفضل 13 نومبر 1962ء) نگران بورڈ کے تازہ اجلاس کی رپورٹ مورخہ 11 نومبر بروز اتوار نگران بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا.تمام ممبران مقامی و بیرونی شریک اجلاس ہوئے اور بعد دعا ایجنڈا پر غور کیا گیا.اس ایجنڈے میں کل پندرہ معاملات پیش تھے مگر اجلاس میں وقت کی تنگی کی وجہ سے صرف گیارہ امور کے متعلق فیصلہ ہوسکا.خاص فیصلہ جات کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.(1) احمدی احباب کے معلومات عامہ میں اضافہ کے لئے روز نامہ الفضل کا ایک صفحہ جیسا کہ شروع میں ہوتا تھا اہم ملکی اور غیر ملکی خبروں کے لئے مخصوص کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ ایک صفحہ میں اختصار کے ساتھ تمام ضروری خبروں کا خلاصہ آجایا کرے.(2) چونکہ ربوہ کے مہمان خانہ کی موجودہ عمارت ناقص اور نا کافی ہے اس لئے ایک کمشن مقرر کیا گیا کہ وہ نئے مہمان خانہ کی تعمیر کے لئے مناسب جگہ تجویز کر کے رپورٹ کرے.(3) جماعت کی اقتصادی ترقی کے متعلق صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ سے کہا گیا کہ وہ مناسب موقع پر زرعی اور تجارتی اور صنعتی ترقی کے امور پر غور کرنے کے لئے جماعت کے مناسب نمائندے بلائیں اور پھر
مضامین بشیر جلد چهارم 409 ان کے مشورے سے ان ہر سہ میدانوں میں جماعت کی اقتصادی ترقی کی سکیم تیار کی جائے.(4) چونکہ جماعتی تنظیم کے توڑنے کے متعلق بعض خاص رپورٹیں موصول ہوئی تھیں اس لئے ان کے متعلق تحقیقات کرنے کے لئے ایک خاص کمشن مقرر کیا گیا.(5) بے پردگی کے رجحان کے متعلق تجویز کی گئی کہ چونکہ یہ رجحان ماحول کے اثر کے ماتحت زیادہ تر شہروں میں پایا جاتا ہے اس لئے ناظر صاحب امور عامہ لاہور اور کراچی اور راولپنڈی وغیرہ بڑے شہروں کے امراء کو لکھ کر بصیغہ راز معین رپورٹ منگوا ئیں کہ کیا وہاں کے احمدی افراد میں یہ کمزوری تو نہیں پائی جاتی اور پھر اس کے متعلق مناسب ایکشن لینے کے لئے مقررہ کمیٹی میں رپورٹ کریں.(6) حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اُس کچے کمرہ کے متعلق جس میں ان کی وفات ہوئی تھی فیصلہ کیا گیا کہ اسے دعا کی تحریک کی غرض سے یادگار کے طور پر مناسب طریق پر محفوظ کرنے کے لئے صدر انجمن احمد یہ ضروری کارروائی کرے.نوٹ.اس کے علاوہ بعض متفرق امور بھی زیر غور لائے گئے جن کے ذکر کی ضرورت نہیں.والسلام محرره 19 نومبر 1962ء) (روزنامہ الفضل 22 نومبر 1962ء) خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر افتتاحی خطاب اور خدام کو نہایت اہم اور قیمتی نصائح (مورخہ 19 اکتوبر 1962ء کو مجلس خدام الاحمدیہ کے اکیسویں سالانہ اجتماع کے افتتاح کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو ایمان افروز تقریر فرمائی اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.) گزشتہ سال جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت میں نے خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح کیا تھا تو اس وقت میں نے خدام کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کے متعلق بعض ہمدردانہ نصیحتیں کی تھیں.مجھے امید ہے کہ ہمارے عزیزوں نے ان نصیحتوں سے فائدہ اٹھا کر آگے کی طرف قدم بڑھایا ہو گا.مومن کی یہی شان ہے کہ اس کا ہر قدم آگے کی طرف اٹھتا ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 410 بے شک بعض اوقات مومنوں پر خدائی مشیت کے ماتحت قبض کی حالت بھی آجاتی ہے جبکہ وقتی طور پر ان کی ترقی رکی ہوئی یا دھیمی پڑی نظر آتی ہے مگر یہ روک مستقل نوعیت کی نہیں ہوتی بلکہ ایسی ہوتی ہے جیسی کہ نہروں کے بنانے والے قابل انجینئر کسی کسی جگہ پر نہروں میں ایک ٹھو کر اور روک کھڑی کر دیتے ہیں تا کہ اس روک کے ساتھ نہر کا پانی ٹکرا کر جب آگے نکلے تو زیادہ تیزی اور زیادہ زور کے ساتھ بہنا شروع ہو جائے.اسی طرح جب الہی تنظیموں کی ترقی میں کوئی عارضی روک پیدا ہوتی ہے تو اس کے بعد بھی یہی ہوتا ہے اور یہی ہونا چاہئے کہ مومنوں کا قدم زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.گزشتہ کا جائزہ اور آئندہ کا پروگرام خدام کا یہ سال وارا اجتماع بھی زیادہ تر اسی غرض سے ہوتا ہے کہ ایک طرف گزشتہ سال کے حالات کا جائزہ لیا جائے اور اگر کوئی نقص پیدا ہو گیا ہو تو اس کی اصلاح کی جائے اور دوسری طرف آئندہ کا پروگرام ایسے رنگ میں تجویز کیا جائے جو زیادہ سے زیادہ ترقی اور اصلاح کا موجب ہو.اور خدام کو اپنے ہر اجتماع میں یہی دو بنیادی غرضیں مدنظر رکھنی چاہئیں.اول گزشتہ کا جائزہ لینا اور دوسرے آئندہ کے متعلق ترقی پذیر پروگرام مرتب کرنا.اگر پوری چوکسی اور دور بینی کے طریق پر یہ دو پہلو مد نظر رکھے جائیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خدام الاحمدیہ کا کام سال بسال بلکہ ماہ بماہ بلکہ یوم بہ یوم ترقی کی طرف اٹھتا چلا جائے گا.جمالی سلسلوں کی رفتار ترقی خدام الاحمدیہ کو یا د رکھنا چاہئے کہ جمالی سلسلہ کی شاخ ہونے کی وجہ سے وہ ایک ایسی الہی جماعت کا حصہ ہیں جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے گزرع اَخْرَجَ شَطْقۂ یعنی وہ ایک بیج کی طرح ہوگی جو زمین سے نکلنے کے بعد پہلے ایک کو نیل بنے گی اور پھر کچھ کمزوری پیتیاں نکالے گی.اور پھر کچھ نرم نرم شاخیں پیدا کرے گی اور پھر ایک مضبوط تنے پر کھڑی ہو کر چاروں طرف پھیلتی چلی جائے گی.خدام الاحمدیہ پر سے نکلنے اور پتیاں نکالنے اور شاخیں بنانے کا وقت تو خدا کے فضل سے گزر چکا.اب اسے اپنے پروگرام میں ایک مضبوط تنا پیدا کرنے اور اپنے پھیلاؤ کو وسیع سے وسیع کرتے چلے جانے کی سکیم کو مد نظر رکھنا چاہئے.نوجوانی کی عمر انسانی نشو ونما کا بہترین زمانہ ہے گزشتہ سال کی افتتاحی تقریر میں میں نے خدام الاحمدیہ سے کہا تھا کہ وہ اپنی عمر کے ایسے دور میں ہیں
مضامین بشیر جلد چهارم 411 جونشو ونما کی طاقتوں کے لحاظ سے بہترین دور سمجھا جاسکتا ہے.پس انہیں اپنے اس دور کی قدر کرنی چاہئے اور اپنی ان طاقتوں کو بہترین صورت میں استعمال کر کے ترقی کے رستہ پر ڈالنا چاہئے جو خالق فطرت نے ان کے اندر ودیعت کر رکھی ہیں.موٹر پاور اور بر یک میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ انسان کی ترقی کے لئے دو قسم کی طاقتیں ضروری ہیں.ایک آگے بڑھنے کی بے پناہ طاقت جسے انگریزی میں ”موٹر پاور کہتے ہیں اور دوسری غلط راستے پر پڑتے وقت رُک جانے کی طاقت ہے جسے انگریزی میں بریک کہتے ہیں.جو انجن ان دو طاقتوں میں سے کسی ایک سے محروم ہو گا وہ یا تو چلنے سے ہی انکار کر دے گا.اور کسی کھڑ میں گر کر یا کسی چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہو جائے گا.قرآن مجید نے اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے اقوال نے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات نے ہمارے لئے ان دونوں طاقتوں کو بصورت احسن مہیا فرما دیا ہے پس جس وقت یہ حکم ہوتا ہے کہ چلو اور آگے بڑھو تو اس وقت جماعت کا یہ کام ہے کہ چلے اور آگے بڑھے اور جب یہ حکم ہوتا ہے کہ رک جاؤ یا ایک طرف کو گھوم جاؤ تو اس وقت جماعت کا یہ کام ہوتا ہے کہ رک جائے یا ایک طرف کو گھوم جائے.اس صورت میں اگر کوئی خادم صرف اندھی موٹر پاور پر اپنے کام کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے تو وہ یقیناً ٹھوکر کھائے گا.اور اگر کوئی خادم اپنی طاقتوں کو بریک ہی لگائے رکھتا ہے تو وہ مفلوج ہو کر رہ جائے گا.انسانی ترقی کا رازان ہی دونوں طاقتوں کے صحت مندانہ توازن پر موقوف ہے اور تمام خدام کو یہ نکتہ ہر وقت مد نظر رکھنا چاہئے.درس گاہ سے نکلنے کے بعد بھی تعلیم جاری رہتی ہے آپ لوگوں میں سے کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہوگی جو ابھی سکولوں اور کالجوں میں تعلیم پارہے ہیں.انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا چاہئے کہ تعلیم پانے کا زمانہ صرف درسگاہوں کی چاردیواری تک محدود ہے.حق یہ ہے کہ درس گاہیں تو صرف علم کے دروازے تک پہنچاتی ہیں.اس کے آگے علم کا ایک بہت وسیع میدان ہے.ایسا وسیع جس کی کوئی حدو انتہا نہیں.اس میدان میں انسان سکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعد خود اپنی کوشش اور اپنی آنکھوں اور کانوں کو کھلا رکھنے کے ذریعہ علم حاصل کرتا ہے.پس درسگاہوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی تحصیل علم کا سلسلہ جاری رکھو اور ضرور جاری رکھو کیونکہ یہ وہ علم ہے جو درسگا ہوں میں حاصل ہونے والے علم سے بہت زیادہ وزن رکھتا ہے.ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے
مضامین بشیر جلد چہارم 412 فضل و رحمت سے علم کے آسمان پر پہنچا دیا مگر پھر بھی آپ کی یہی پکار رہی کہ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا.رَبِّ زدْنِي عِلْمًا یعنی خدایا مجھے اور علم عطا کر.مجھے اور علم عطا کر.دینی علوم کے تین بنیادی خزانے دینی علوم کے حصول کے لئے آپ لوگوں کے واسطے تین نہایت قیمتی خزانے موجود ہیں.ایک قرآن مجید ہے جو خدا کا کلام ہے اور اس کے علوم میں اتنی وسعت ہے کہ قیامت تک کے لئے اور دنیا کی ساری قوموں کے لئے وہ تمام ضروری علوم کا خزانہ اور سر چشمہ قرار دیا گیا ہے.پس اسے سیکھو اور اس کے ساتھ محبت پیدا کرو.ایسی محبت جس کی نظیر نہ ہو.پھر حدیث جو حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اقوال کا مجموعہ ہے اور وہ بھی بیش بہا علوم پر مشتمل ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح مکہ کے صحرا میں پیدا ہونے والے ایک امی نے علوم کے دریا بہا دیئے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات ہیں جو ایک عمدہ اسٹیج کے ٹکڑے کی طرح علم کے شہد سے بھر پور ہیں اور ان میں اس زمانے کی بیماریوں کا مکمل علاج ودیعت کیا گیا ہے.اس کے علاوہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کتب اور خطبات ہیں جنہیں پڑھ کر غیر متعصب دشمن بھی عش عش کر اٹھتا ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ علم تو ایسی چیز ہے کہ جہاں بھی کوئی حکمت اور دانائی کی بات ملے اور اس میں کوئی دھوکہ اور ملمع سازی کا پہلو پوشیدہ نہ ہو تو اسے بھی شوق کے ساتھ قبول کرنا چاہئے.ہمارے آقا حضرت سرور کائنات ( فدا نفسی کا کتنا پیارا قول ہے کہ كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ أَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا - یعنی حکمت اور دانائی کی بات مومن کی اپنی ہی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے.اسے چاہئے کہ جہاں بھی ایسی بات پائے اسے لے لے.دینی کتب کے امتحان کا وسیع انتظام ہونا چاہئے اس تعلق میں میں صدر صاحب خدام الاحمدیہ کو بھی یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو وہ پاکستان کے ہر ضلع میں خدام الاحمدیہ کے انتظام کے ماتحت دینی کتب کا سال وار یا ششماہی امتحان لیا کریں.جس میں قرآن مجید اور حدیث اور کتب سلسلہ میں سے مناسب نصاب مقرر کیا جائے اور ملک کے مختلف حصوں میں سوالات کے پرچے بھجوا کر امتحان کا انتظام کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ سوائے کسی جائز عذر کے کوئی خادم اس امتحان سے باہر نہ رہے تا کہ خدام کے علم میں بھی ترقی ہو اور یہ علم خدا کے فضل سے ان کے عمل میں بھی اصلاح اور ترقی کا باعث بن جائے.اور ترغیب و تحریص کی غرض سے اس امتحان میں اول
مضامین بشیر جلد چهارم 413 اور دوم اور سوم آنے والوں کے لئے مناسب انعامات مقرر کئے جائیں جو سالانہ اجتماع کے وقت دیئے جائیں.میں امید کرتا ہوں کہ سرسری طور پر نہیں بلکہ اگر اچھی طرح سوچے سمجھے پروگرام کے ماتحت ایسے امتحانوں اور ان کے نصابوں کا انتظام کیا جائے تو نہ صرف نوجوانوں میں علم کا شوق ترقی کرے گا بلکہ ان کی قوت عملیہ میں بھی خدا کے فضل سے بہت اضافہ ہوگا اور ضمنی طور پر عربی سیکھنے کی طرف بھی کسی قدر توجہ پیدا ہو گی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحقیق کے مطابق تمام زبانوں کی ماں ہے اور اسی لئے قرآن مجید کو جو ساری دنیا اور ساری قوموں کے لئے آیا ہے عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے.تربیتی اجتماعوں کی اہمیت مجھے یہ خوشی ہے کہ اس سال ملک کے مختلف مقامات میں خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام نہایت کامیاب تربیتی اجتماعات ہوئے ہیں جن میں خدام نے بڑی دلچسپی سے حصہ لیا ہے اور خدا کے فضل سے انصار بھی اس خدمت میں شریک ہوتے رہے ہیں.جیسا کہ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے یہ تربیتی اجتماع کئی لحاظ سے بہت مفید اور کامیاب ہوئے ہیں.یعنی اول تو ان کے ذریعہ نو جوانوں میں تنظیم اور اخلاص اور سلسلہ کے ساتھ محبت کی روح نے ترقی کی.دوسرے شرکت کرنے والے خدام کے معلومات میں قابل قدر اضافہ ہوا اور تیسرے جو غیر از جماعت اصحاب ایسے اجتماعوں میں شریک ہوئے انہوں نے بھی خدا کے فضل سے بہت اچھا اثر لیا.پس جیسا کہ میں نے کہا ہے کوشش کرنی چاہئے کہ اس قسم کے اجتماع ہر ضلع میں منعقد ہوا کریں اور ان میں علماء کی تقریروں کے علاوہ خود سمجھدار خدام کی بھی تقریریں ہوں اور کچھ تلاوت اور دلپذ یر نظموں اور دوسرے دلچسپ کاموں کو بھی پروگرام میں شامل کیا جایا کرے.قوالی تو ہرگز پسندیدہ چیز نہیں اور اس سے ہمارے عزیزوں کو اجتناب کرنا چاہئے.لیکن خالقِ فطرت نے اچھی آواز میں ایک خاص اثر رکھا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی سے قرآن مجید کی تلاوت یا کچھ اشعار سنے تو اس کی دلکش آواز سے خوش ہو کر فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں لحن داؤدی سے حصہ ملا ہے.یہ آپ نے اس لئے فرمایا کیونکہ روایتوں میں لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام خوبصورت آواز کے بہت ماہر اور بہت شوقین تھے.مگر ضروری ہے کہ ہر بچہ یا ہر نو جوان جس سے کسی اجتماع میں تلاوت با نظم خوانی کروانی ہو اس سے کوئی سمجھدار انسان علیحدہ بیٹھ کر اجتماع سے قبل تلاوت اور نظم خوانی سن لے اور اگر کوئی غلطی ہو تو اس کی اصلاح کر دے تا کہ جلسہ میں بے لطفی نہ پیدا ہوا اور ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت بھی ہوتی جائے.
مضامین بشیر جلد چهارم 414 تقریر اور تحریر کے مقابلے تقریر اور تحریر کے مقابلے تو خدام الاحمدیہ کے اجتماعوں میں ہوتے ہی ہیں ان پر آئندہ خصوصیت سے زیادہ زور دینا چاہئے.تا کہ خدا چاہے تو ہمارے ہر بچہ کا حجاب دور ہو جائے اور اسے تقریر اور تحریر میں ایسی مشق پیدا ہو جائے جس کے نتیجہ میں انسان دوسروں کے دل کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِنَّ مِنَ البَيَاتِ لَسِخرًا یعنی بعض بیان ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جادو کی تاثیر ہوتی ہے.یہی جادو ہر خادم کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے.بیشک مختلف انسانوں میں فطرت کی طاقتوں کے لحاظ سے طبعا فرق ہوتا ہے مگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے کوشش ہونی چاہئے کہ جن نوجوانوں میں زبان اور قلم کا جو ہر موجود ہو ان میں مسلسل مشق کے ذریعہ ایک غیر معمولی کشش اور جلاء پیدا کر دیا جائے.میں نے گزشتہ سال بیان کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب صحابی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی میں یہ دونوں جو ہر بدرجہ اتم موجود تھے.ان کی تقریر بھی سحر تھی اور ان کی تحریر بھی سحر تھی.اور انسان ان کی تحریر پڑھ کر اور تقریرین کر یوں محسوس کرتا تھا کہ اس کے اندر کسی غیبی بیٹری کے ذریعہ بجلی بھری جارہی ہے.اکثر اوقات ان کی تلاوت سن کر رستہ میں گزرتے ہوئے کئی غیر مسلم بھی رک کر سننے لگ جاتے تھے.یہی ملک خدا کے فضل سے ہمارے خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز میں موجود ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے کر پھر جماعت کو یہ موقع عطا فرمائے کہ وہ آپ کی مسحور کرنے والی تقریریں سن سکیں.آمین یا ارحم الراحمین فیشن پرستی کی وہا سے خدام الاحمدیہ کو بچنا چاہئے گزشتہ ایام میں میں نے روز نامہ الفضل میں فیشن پرستی کی بڑھتی ہوئی وباء کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا.میں خدام الاحمدیہ کو بھی اس اجتماع کے موقع پر اس اصلاح کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.میں مانتا ہوں کہ جائز حد تک زینت کا خیال ایک فطری تقاضا ہے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے بھی کپڑوں اور بدن کی صفائی پر بہت زور دیا ہے.حتی کہ ارشاد فرمایا ہے کہ کم از کم جمعہ کے دن غسل کرنے کے بعد صاف کپڑے پہن کر مسجد میں آؤ.اور اگر توفیق ہو تو خوشبو بھی لگاؤ.پس مناسب حد تک زینت نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری بھی ہے اور جائز زینت اسلامی تعلیم کا حصہ ہے.لیکن دوسری قوموں کی اندھی نقل میں فیشن پرستی کا طریق اختیار کرنا اور جسمانی زیب وزینت کو گویا زندگی کا مقصد بنالینا اور اس میں انہماک پیدا کرنا ایک بہت ہی مکروہ فعل اور غلامانہ ذہنیت کا مظہر ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو فیش پرستی کے طریق سے بالکل بچ کر رہنا
مضامین بشیر جلد چهارم 415 چاہئے.وہ کوئی کام نقالی کے طریق پر ہر گز نہ کریں اور اپنے لباس اور جسم کی زینت میں ایسا انہاک نہ دکھا ئیں جس سے یہ شبہ ہو کہ وہ دوسری قوموں کی اندھی تقلید کر رہے ہیں.اور گویا یہی زیب وزینت ان کی زندگی کا مقصد ہے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے کہ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ.یعنی جو شخص کسی دوسری قوم کی کورانہ تقلید کرتا ہے وہ انہی میں سے سمجھا جائے گا.ٹیڈی ازم کی لعنت آجکل کالج کے لڑکوں اور لڑکیوں میں ایک گندی مرض چل نکلی ہے جسے ٹیڈی ازم کہتے ہیں.یعنی تنگ قمیض استعمال کرنا اور ایسی تنگ پتلون پہننا کہ گویا وہ سولہ بور کی بندوق کی دو پتیلی نالیاں ہیں.یہ سب نقالی کے بد ترین طریق ہیں اور اس ماحول میں پڑ کر انسان طبعا بُری صحبت اور بُری عادتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور احمدی بچوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے.سادہ زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ قول مجھے کبھی نہیں بھولتا اور ہمیشہ کانوں میں گونجتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو وہ لوگ بہت پسند ہیں جو دنیا میں سادہ زندگی گزارتے ہیں یعنی خوراک میں بھی سادگی اور عادات میں بھی سادگی.اور اگر غور کیا جائے تو در حقیقت سادگی کے بغیر اسلامی اخوت کی روح کا زندہ رکھنا بھی محال ہے.بھلا وہ دو مسلمان کس طرح آپس میں بھائی بھائی کے طور پر مل سکتے ہیں جن میں سے ایک کا قدم تو فیشن پرستی کی وجہ سے آسمان پر ہو اور دوسرا زمین پر خاک میں لت پت ہو رہا ہو.بے شک مال اور دولت کا فرق ہوتا ہے اور شاید قیامت تک رہے گا مگر انسان سادہ زندگی کے ذریعہ اس فرق کے اخلاقی نقصانات سے بڑی حد تک بیچ سکتا ہے.یہ وہی سبق ہے جو اسلام نے نماز کے متعلق دیا ہے کہ خدا کے سامنے حاضر ہوتے ہوئے امیر وغریب کے فرق کے بغیر سب مل جل کر ایک صف میں کھڑے ہو جاؤ.جو پہلے آتا ہے وہ پہلے کھڑا ہو جائے اور جو بعد میں آتا ہے وہ بعد میں کھڑا ہو.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مختلف صحابہ میں مال و دولت کے لحاظ سے کافی فرق تھا مگر اپنی سادہ زندگی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے ایسے ملتے تھے گویاوہ سگے بھائی ہیں.حضرت بلال ایک حبشی غلام تھے.سیاہ فام اور جاہلیت کے زمانہ میں مکہ کے مشرک سرداروں کی ایڑیوں کے نیچے مسلے جانے والے.مگر اسلام نے ان کو یہاں تک پہنچا دیا کہ حضرت عمران کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ بلال تو ہمارا سردار ہے.مال و دولت کا امتیاز صرف دولت کے سمونے سے نہیں ملتا بلکہ اس اخوت کی
مضامین بشیر جلد چہارم روح سے مٹتا ہے.ورزش جسمانی 416 میں اس جگہ ورزش جسمانی کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.انسان کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے جسمانی ورزش بڑی ضروری چیز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پچھتر سال کی عمر میں بھی دو دو تین تین میل پیدل چلا کرتے تھے اور خوب تیز چلتے تھے اور بعض اوقات مگدریاں بھی استعمال فرماتے تھے.اور رسول پاک کے صحابہ کی تیراندازی اور شاہسواری تو زبان زد خلائق ہے.ایک دفعہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کو تیراندازی کرتے دیکھا تو آپ خوش ہو کر ان کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا رَمْيَا بَنِي إِسْمَعِيلَ فَإِنَّ أبَاءَ كُمُ كَانَ رَامِيًا - ( سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد )) یعنی اے آل اسماعیل ! خوب تیراندازی کرو.کیونکہ تمہارا باپ اسماعیل بڑا تیر انداز تھا.دراصل صحت مند روح کے لئے صحت مند جسم بھی ضروری ہوتا ہے.پس ورزش جسمانی کے ذریعہ اپنی محنتوں کا خیال رکھوتا کہ تم جماعت اور ملک وملت کی بہتر خدمت انجام دے سکو.فرسٹ ایڈ ٹرینینگ مجھے مہتم مقامی خدام الاحمد یہ ربوہ کی رپورٹ سے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ انہوں نے ربوہ میں میری مشاورت والی تقریر سے متاثر ہو کر فرسٹ ایڈ ٹریننگ کی کلاس کا انتظام کیا ہے میں نے انہیں نصیحت کی ہے کہ اس کلاس کو جاری رکھیں اور جب ایک گروپ کی ٹریننگ ختم ہو جائے تو دوسرا گروپ تیار کر لیں تا کہ باری باری ربوہ کے سارے نوجوان فرسٹ ایڈ کی تربیت حاصل کر لیں.یہ ایک ضروری ٹریننگ ہے جس کی وجہ سے انسان حادثات کے موقع پر لوگوں کی بڑی خدمت بجالا سکتا ہے پس بیرونی مقامات میں بھی جہاں ایسی ٹرینینگ کا انتظام ہو سکے وہاں اس انتظام کی کوشش کرنی چاہئے یقینا خدمت خلق کا یہ ایک بہت مفید پہلو ہے.خدمت خلق خدمت خلق کے متعلق میں اپنی گزشتہ سال کی تقریر میں کافی بیان کر چکا ہوں یہ خدام الاحمدیہ کا ایک بہت مفید شعبہ ہے اس کی طرف جتنی بھی توجہ دی جائے کم ہے.آگ کے حادثات اور سیلاب کے حادثات اور زلزلہ کے حادثات اور بیماریوں وغیرہ میں مخلوق خدا کی مددکو پہنچنا بڑے ثواب کا کام ہے اور مجھے خوشی ہے کہ خدام الاحمد سیہ اس معاملہ میں بڑی خوشی سے حصہ لیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں من
مضامین بشیر جلد چهارم 417 كَانَ فِي عَوْنِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهَ فِي عَوْنِهِ یعنی جو شخص کسی کام میں اپنے بھائی کی مددکرتا ہے تو خدا اس کی مدد میں لگ جاتا ہے.پس یہ صرف مفت کا ثواب ہی نہیں بلکہ نصرت الہی کے جذب کرنے کا عمدہ ذریعہ بھی ہے اور پھر اگر سوچا جائے تو یہ ہماری خاموش تبلیغ کا بھی ایک کامیاب ذریعہ ہے کیونکہ جب غیر احمدی اصحاب یہ دیکھتے ہیں کہ حادثات کے موقع پر احمدی نوجوان کسی اجرت وغیرہ کے بغیر ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں تو طبعا وہ اس بے لوث خدمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خدمت خلق کے مواقع (پر) احمدی یا غیر احمدی، مسلمان یا غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہئے.یہ سب خدا کے بندے ہیں اور انسان ہونے کے لحاظ سے ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں.وقف زندگی کی تحریک میں اپنے عزیز نو جوانوں کو وقف زندگی کی تحریک کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں جن نوجوانوں کو خدا توفیق دے انہیں دعا اور استخارہ اور والدین کی اجازت کے بعد دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنی چاہئے.زندگی وقف کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ خدا کی فوج میں شامل ہو جانا اور اس سے زیادہ برکت والی چیز اور کونسی ہو سکتی ہے کہ انسان خدا کا نوکر بن جائے ؟ خدا کے فضل سے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی کوششوں کے نتیجہ میں اس وقت اشترا کی ملکوں کو چھوڑ کر دنیا کے قریباً سارے ملکوں میں جماعت احمدیہ کے تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں لیکن لوگوں کی ضرورت کے مقابلہ پر یہ بلیغی مراکز بھی اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے جتنی کہ آٹے میں نمک کو ہوتی ہے.پس جن نو جوانوں کو خدا توفیق دے وہ اپنے والدین کی اجازت سے دعا اور استخارہ کے بعد اپنی زندگیاں وقف کریں.سلسلہ کو ملک کے اندر بھی وقف کرنے والوں کی ضرورت ہے.دینی فائدہ کے علاوہ وقف کا ایک ظاہری فائدہ یہ بھی ہے کہ اس خدمت کے ذریعہ سے کئی غیر خاندانوں کے بچے باہر کے ملکوں میں جا کر سلسلہ میں نمایاں حیثیت حاصل کر چکے ہیں اور ہم حضرت عمرؓ کی طرح جائز طور پر کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے سردار ہیں پس در حقیقت یہ ہم خرما و ہم ثواب والا کام ہے.اطفال الاحمدیہ ، خدام الاحمدیہ کی نرسری ہیں خدام الاحمدیہ کا ہی ایک حصہ اطفال الاحمدیہ کا نظام ہے یہ وہ چھوٹی عمر کے بچے ہیں جو خدام الاحمدیہ
مضامین بشیر جلد چهارم 418 کے ذریعہ کام کی تربیت حاصل کرتے ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ وہ نرسری ہے جس میں چھوٹے پودے کاشت کئے جاتے ہیں تا کہ جب وہ طاقت پکڑ لیں تو ان کو بڑے باغ میں مستقل جگہ پر منتقل کر دیا جائے پس اطفال الاحمدیہ کا کام خدام الاحمدیہ کے کام کی ایک اہم شاخ ہے اور اس کی طرف خدام الاحمدیہ کی تنظیم کو خاص توجہ دینی چاہئے.دراصل خدام الاحمدیہ کے لئے اطفال ایک نرسری کے طور پر ہیں جوں جوں اس نرسری کے پودے بڑے ہوتے جاتے ہیں وہ مستقل باغ کی طرف منتقل کر دئیے جاتے ہیں.مگر یاد رکھو کہ باغ میں منتقل ہونے کے بعد عموماً وہی پودا پوری طرح پنپتا ہے جس کی نرسری کی حالت میں اچھی اٹھان ہوئی ہو.مجھے خوشی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ کی تربیت کے انتظام کی طرف توجہ دے رہی ہے مگر میں کہوں گا اور پھر کہوں گا کہ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز“.تبلیغ کا اہم فریضہ اس وقت بد قسمتی سے جماعت احمدیہ کے متعلق ملک میں طرح طرح کی غلط فہمیاں اور بدظنیاں پھیلائی جارہی ہیں نہ صرف یہ کہ ہمارے بعض عقائد کو غلط صورت دے کر پیش کیا جا رہا ہے بلکہ بعض ایسی باتیں بھی ہماری طرف منسوب کی جارہی ہیں جو سرے سے ہمارے عقائد میں شامل ہی نہیں اور ان بدظنیوں اور غلط فہمیوں کے وسیع جال نے جماعت کے خلاف ایک خطرناک فتنہ پیدا کر رکھا ہے.بے شک کئی شریف اور سمجھدار لوگ جماعت کے نظریات اور جماعت کی اسلامی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ملک کا کثیر حصہ نا واقفی کی وجہ سے بہکانے والوں کی فتنہ پردازی کا شکار ہو کر طرح طرح کے اعتراضات کر رہا ہے.خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کا فرض ہے کہ پر امن طریق پر نصیحت اور محبت کے رنگ میں اپنے اپنے حلقہ میں ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اپنے دوستوں اور عزیزوں تک حق پہنچائیں قرآن فرماتا ہے.أدْعُ إِلى سَبيل رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل: 126) یعنی اپنے خدا کے رستہ کی طرف دانائی اور نصیحت اور محبت کے طریق پر لوگوں کو بلاؤ.پس خدام الاحمدیہ کو اس پر امن فریضہ کی طرف سے بھی کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے.تبلیغ ہی اس زمانے کا مبارک جہاد ہے.خدام کی ذاتی روحانی اور اخلاقی اصلاح بالآخر میں اپنے عزیز نو جوانوں کو ان کی ذاتی تربیت اور اخلاقی درستی کے متعلق بھی ایک فقرہ کہہ کر اپنے
مضامین بشیر جلد چهارم 419 اس خطاب کو ختم کرتا ہوں جہاں تک میں نے قرآن مجید اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات کا مطالعہ کیا ہے انسان کی ذاتی نیکی اور ذاتی اخلاق کا خلاصہ تین باتوں میں آجاتا ہے.اول یہ کہ اس کا اپنے خالق و مالک کے ساتھ ذاتی تعلق اور رابطہ پیدا ہو جائے اور وہ اپنے خدا کو سچ مچ پہچان لے اور اس کے ساتھ اس طرح لپٹا رہتا ہے اس غرض کے لئے نمازوں کی پابندی اور نمازوں میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعاؤں کی عادت پیدا کرنا کامیابی کی کلید ہے.نماز اس طرح پڑھو کہ گویا تم خدا کے سامنے کھڑے ہو خدا تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اس سے دعا اس رنگ میں کرو کہ گویا ہمیں جو کچھ ملنا ہے اسی دربار سے ملنا ہے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ کتنا پیار ا قول ہے کہ الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ “ (الترندی کتاب الدعوات عن رسول اللہ ) یعنی دعا نماز کے اندر کا گودا ہے.جس طرح ایک ہڈی گودے کے بغیر غذا کے لحاظ سے ناکارہ چیز ہوتی ہے اسی طرح نماز بھی دعا کے بغیر چنداں حقیقت نہیں رکھتی.دوسری بات یہ ہے کہ جس نظام کے ساتھ تم لوگ پروئے گئے ہو یعنی جماعت احمدیہ کا الہی نظام جو دنیا میں نیکی کو ترقی دینے اور اسلام کو غالب کرنے کے لئے خدا کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے اس کی اعانت اور مدد کے لئے ضرور اپنی حیثیت کے مطابق اپنی آمدنی میں سے یا اگر تم طالب علم ہو تو اپنے جیب خرچ میں سے چندہ دیتے رہو.جو شخص احمدی ہونے کا دعوی کرتا ہے اور پھر اسلام کی اعانت میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتا وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے اور خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا.تیسری بات یہ ہے کہ اپنے اندر سچ بولنے کی عادت اور اپنے اعمال میں دیانتداری کی روح پیدا کرو.یہ دونوں اخلاق انسان کا بہترین زیور ہیں اور ایسا انسان خواہ امیر ہو یا غریب، کمزور ہو یا طاقتور اس کی گردن کسی شخص کے سامنے اور کسی مجلس میں نیچی نہیں ہو سکتی پس ہمیشہ سچ بولو اور صداقت کو اپنا وطیرہ بناؤ اور ہمیشہ دیانتدار رہو اور کسی سے دھو کہ نہ کرو اور خیانت سے یوں بھا گو جیسے کہ ایک ہوش مند انسان زہریلے سانپ سے بھاگتا ہے.بس یہی میری نصیحت ہے اور اسی پر میں اپنے اس خطاب کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے.آمین یا ارحم الراحمین محرره 19 اکتوبر 1962ء) روزنامه الفضل ربوہ 24 نومبر 1962ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 420 انصار اللہ کا کام اور اس کی بے انداز وسعت سالانہ اجتماع انصار اللہ 1962 ء پر افتتاحی خطاب ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مورخہ 26 اکتوبر 1962ء کو انصار اللہ کے آٹھویں سالانہ اجتماع کا افتتاح فرماتے ہوئے جو روح پر دور اور بصیرت افروز خطاب فرمایا تھا وہ حقائق و معارف سے پُر ہونے کے علاوہ بیش بہا نصائح اور نہایت قیمتی ہدایات پر مشتمل ہے.ماہنامہ انصار اللہ حضرت میاں صاحب کے اس انتہائی اہم افتتاحیہ خطاب کا مکمل متن ذیل میں شائع کرنے کا فخر حاصل کر رہا ہے.ادارہ ) گزشتہ سال کی طرح اس سال پھر مجھے انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے افتتاحیہ خطاب کے لئے ارشاد ہوا ہے.پس سب سے پہلے تو میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں اپنے بھائیوں کے کانوں میں مفید اور نیک باتیں ڈال سکوں.پھر آپ لوگوں کو بھی توفیق دے کہ اگر کوئی مفید اور نیک بات میرے منہ سے نکلے تو آپ کے دل و دماغ کی کھڑکیاں اسے قبول کرنے کے لئے کھلی ہوں.وَمَا تَوْفِيْقُنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ - انصار کا کام خدا کے کام میں مدددینا ہے جیسا کہ انصار اللہ کے لفظ سے ظاہر ہے انصار اللہ کا کام دراصل خدا کے کاموں میں اسے مدد دینا اور اس کی نصرت کرنا ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ کام اتنا وسیع اور اتنا اہم ہے کہ جس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ حساب.پس اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ ہم حقیقی معنوں میں انصار اللہ تبھی بن سکتے ہیں کہ جب خدائے عرش خوداس کام میں ہمارا ناصر بن جائے.کام بہت وسیع ہے اور منزل بہت دور.پس خدا کی نصرت کے بغیر ہم کبھی بھی انصار اللہ والے فرائض ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے.نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگانا آسان ہے مگر حقیقی معنوں میں انصار اللہ بننا مشکل ہے اور بہت مشکل اور بہت ہی مشکل.اس کے لئے دن رات کا آرام تلخ کرنا پڑتا ہے اور جگر خون کی طرح بہانا پڑتا ہے.خدا ہی کی کشتی اور خدا ہی کشتی بان پس سب سے پہلے اپنے انصار بھائیوں سے میری یہ درخواست ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس اہم اور نازک کام میں ہم سب کی نصرت فرمائے اور جو کشتی اُس نے دنیا کے وسیع سمندر میں آگے دھکیلنے
مضامین بشیر جلد چهارم 421 کے لئے ہمارے کمزور ہاتھوں کے سپرد کر رکھی ہے اس کے چنو خود اپنے ہاتھوں میں سنبھال لے.جب ہمیں یہ خدائی نصرت حاصل ہو جائے گی تو کامیابی بھی یقینی ہوگی اور آپ لوگوں کو بھی یقینا بے حساب ثواب حاصل ہوگا.اور اگر دیکھا جائے تو یہ ثواب دراصل مفت کا ثواب ہوگا کیونکہ کشتی بھی خدا کی ہے اور کشتی کا چلانے والا بھی خدا کا ہاتھ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ.بمفت ایں اجر نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضاء آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نے خدائی کام میں مدد کے لئے اپنے حواریوں کو آواز دی تو ادب کے خیال سے یہ نہیں فرمایا کہ مَنْ أَنْصَارُ اللهِ بلکہ عاجزی کے رنگ میں یہ الفاظ فرمائے کہ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللہ یعنی اس خدائی کام میں میرا مددگار کون بنتا ہے؟ پس حقیقتا آپ لوگ اور ہم سب لوگ انصار اللہ نہیں بلکہ انصَارِ أَحْمَدَ إِلَى اللهِ ہیں اور یہ سراسر خدا کی شفقت ورحمت ہے کہ اس نے ہمیں خدمت کا موقع عطا فرمایا ہے.انسان کی پختگی کی عمر چالیس سال ہے اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ قدرت نے نبوت اور رسالت کی پختگی کے لئے چالیس سال کی عمر مقررفرمائی ہے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ لَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةٌ عَنی جب موسی اپنی عمر کی پختگی کوپہنچ گیا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اُسے رسالت اور نبوت کی خلعت سے نوازا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی چالیس سال کی عمر میں ہی الہی بشارت سے حصہ پایا.بیشک حضرت عیسی اس عمر سے پہلے ہی نبی بنادیئے گئے تھے مگر یہ خاص مصلحت کے ماتحت ایک استثنائی صورت تھی.اسی لئے خدا تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ يُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَ كَهْلًا - یعنی مسیح ناصری نبوت کی پختگی کے لحاظ سے گویا بچپن میں ہی لوگوں کو پیغام حق پہنچانے لگ گیا تھا اور پھر ( صلیب کے واقعہ سے بچنے کے بعد ) ادھیڑ عمر میں اُس کے لئے پیغام حق پہنچانے کا دوسرا زمانہ آیا.پس اے میرے انصار بھائیو! آپ کی مجلس کی رکنیت کے لئے بھی اصل عمر چالیس سال قرار دی گئی ہے جو رسالت کی پختگی کی عمر ہے.اس لئے یا درکھو کہ اگر آپ نے اس عمر میں بھی غفلت اور ستی سے کام لیا تو خدا
مضامین بشیر جلد چہارم 422 کے سامنے آپ کا کوئی عذر نہیں ہو گا.خدا آپ لوگوں سے کہے گا کہ میں نے تمہیں نبوت والی پختگی کی عمر عطا کی مگر پھر بھی تم نے اپنی زندگی غفلت میں گزار دی.یقیناً یہ انصار اللہ کے لئے ایک بڑا تازیانہ ہے اگر وہ سمجھیں اور اے کاش وہ سمجھیں.تبلیغ اور تربیت کا بنیادی فریضہ نبیوں کے ذریعے خدا تعالیٰ ہمیشہ دو بڑے کام لیا کرتا ہے جو گویا ان کے فرائضِ منصبی کی جان ہوتے ہیں.یعنی ایک تبلیغ اور دوسرے تربیت.تبلیغ سے یہ مراد ہے کہ جو صداقت کسی مامور کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوتی ہے اسے اس کے ماننے والے دن رات کی والہانہ جد و جہد سے دوسروں تک پہنچا ئیں اور نہ سُست ہوں اور نہ تھکیں اور نہ رکیں جب تک کہ اس صداقت کو دنیا میں غالب نہ کر لیں.دوسرا بڑا کام جو خدا تعالیٰ اپنے مامورں کے ذریعے لیا کرتا ہے وہ تربیت کا کام ہے.یعنی جو لوگ اس کی آواز کو قبول کر کے الہی جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں ان کے اندر وہ اپنے فرستادہ کی قوت قدسیہ کے ذریعہ نیکی اور تقویٰ اور روحانیت اور اخلاق فاضلہ پیدا کر کے دنیا میں اصلاح کا کام کرتا ہے.یہ جماعت گویا ایک مقدس بیج بن جاتی ہے جس کے ذریعہ حق ترقی کرتا اور نیکی پھیلتی اور دنیا میں روحانیت کا انتشار ہوتا چلا جاتا ہے.پس انصار اللہ کے بھی یہی دو بڑے کام ہیں اوّل تبلیغ اور دوسرے تربیت.یعنی دوسروں تک حق پہنچانا اور اپنے نفوس میں نیکی اور تقویٰ پیدا کرنا.جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے حضرت آدم سے لے کر آج تک تمام الہی ماموروں کے ذریعے یہی سلسلہ چلتا چلا آیا ہے اور میں آپ لوگوں کو جن میں یہ خاکسار خود بھی شامل ہے ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کہ یومِ حساب کے دن ہمارا خالق و مالک ہمیں اسی معیار سے ناپے گا.پس انصار اللہ کو چاہئے کہ چوکس ہو جائیں اور ہوشیار ہو جائیں اور اپنے نفسوں کے محاسبہ میں لگ جائیں تا کہ قیامت کے دن ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے اور ہماری وجہ سے ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ندامت نہ ہو کہ آپ کی جماعت نے آپ کے بعد کمزوری دکھائی ہے.بلکہ میں کہوں گا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ندامت نہ ہو کیونکہ آپ لوگ قرآنی پیشگوئی وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے ماتحت حضوری کی مقدس جماعت کی ایک شاخ ہیں.میرے دل پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پڑھ کر ہمیشہ سخت ہیبت طاری ہو جایا کرتی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میں قیامت کے دن اپنے بعض صحابہ کو دیکھوگا
مضامین بشیر جلد چهارم 423 کہ انہیں فرشتے دھکیل کر دوسری طرف لے جا رہے ہوں گے.اس پر میں فکرمند ہو کر یہ کہتا ہوا ان کی طرف لپکوں گا کہ اَصْحَابِی - أَصْحَابِی.یعنی یہ تو میرے صحابہ نہیں.یہ تو میرے صحابہ نہیں.فرشتے کہیں گے یا رسول اللہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے دنیا میں کیا کیا.پس مقام خوف ہے اور سخت مقام خوف ہے.موجودہ فتنوں کے وقت میں انصار اللہ کی بھاری ذمہ داری آج کل جماعت کے خلاف کئی قسم کے غلط اور بے بنیاد اعتراض کر کے فتنے پیدا کئے جارہے ہیں اور غلط فہمیوں کا گویا ایک جال پھیلا دیا گیا ہے.انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ پُر امن تبلیغ اور حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعے لوگوں کو صحیح حالات بتائیں اور جماعت احمدیہ کے حقیقی عقائد اور نظریات سے آگاہ کریں تا کہ لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوں اور حق کی شناخت میں کوئی روک نہ رہے.خدا تعالیٰ نے صداقت میں ایسی کشش رکھی ہے کہ اگر وہ صحیح رنگ میں محبت اور ہمدردی کے طریق پر لوگوں کے سامنے پیش کی جائے تو سوائے غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کے ہر شریف انسان اس سے لازماً متاثر ہوتا ہے.پس آپ کو میری یہ دردمندانہ نصیحت ہے کہ ایک طرف تو آپ پر امن طریق پر حق کی تبلیغ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور دوسری طرف اپنا اخلاقی اور روحانی نمونہ ایسا بنا ئیں کہ لوگ آپ کا نمونہ دیکھ کر خود بخود آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں.آپ کے چہروں پر اخلاق حسنہ کی روشنی اور روحانیت کا نور نظر آنا چاہئے جس کے نتیجے میں ایک پاکباز انسان مقناطیس بن جاتا ہے اور خدا کی طرف سے اسے ایک زبر دست کشش عطا ہوتی ہے.پس دوستو! میں پھر یہی کہوں گا کہ تبلیغ اور تربیت کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دو کہ اسی میں ہماری کامیابی کی کلید ہے.انصار کی نرسری میں نے اس سال خدام الاحمدیہ کے افتتاحیہ خطاب میں بیان کیا تھا کہ دراصل جماعت کے یہ تینوں نظام یعنی اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ ایک دوسرے کے ساتھ گہرے طور پر مربوط ہیں اور ان میں تاثیر و تاثر کا مضبوط رابطہ قائم ہونا چاہئے.اچھا با غبان اپنے باغ کی تیاری کے لئے پہلے ایک نرسری یعنی علیحدہ پلاٹ میں چھوٹے چھوٹے پودے لگاتا ہے.پھر جب وہ ذرا بڑے اور کسی قدر مضبوط ہو جاتے
مضامین بشیر جلد چهارم 424 ہیں تو ان کو مستقل باغ میں منتقل کر دیتا ہے.پس اطفال الاحمد یہ دراصل خدام الاحمدیہ کے لئے ایک نرسری کے طور پر ہیں.اور اسی طرح خدام الاحمدیہ، انصار اللہ کیلئے ایک نرسری کے طور پر ہیں.یہ نرسری پرورش پانے اور مضبوط ہونے پر لازماً اپنے مستقل باغ کی طرف منتقل ہوگی.پس خدام الاحمدیہ کی نظر ہر وقت اطفال الاحمدیہ کی طرف رہنی چاہئے اور انصار اللہ کو ہمیشہ خدام الاحمدیہ پر نظر رکھنی چاہئے تا کہ یہ پودے اپنی مقررہ عمر کو پہنچ کر دوسرے باغ کی طرف بہترین صورت میں منتقل ہوں.ایک اچھا باغ پیدا کرنے کے لئے یہ انتظام از بس ضروری ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دور بین نظر سے تو اس اصول کے ماتحت یہاں تک ہدایت فرمائی ہے کہ ایک بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کی تربیت کا خیال رکھنا شروع کر دو.چنانچہ بچے کی پیدائش پر اس کے کانوں میں اذان اور اقامت کی آواز پہنچانا اسی حکیمانہ اصول کے ماتحت ہے.انصار اللہ جماعت احمدیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں انصار اللہ کا نظام دراصل جماعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کے طور پر ہے کیونکہ بالغ افراد کی تعداد کے لحاظ سے غالباً جماعت میں انصار اللہ ہی کی اکثریت ہے اور جماعت کے عہدیدار بھی زیادہ تر انصار اللہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور جماعتی امراء بھی عموماً اسی طبقہ میں سے لئے جاتے ہیں.اور پھر یہ لوگ لَمَّا بَلَغَ اَشُدہ کے اصول کے ماتحت پختگی والے لوگ ہیں جن کے متعلق امید کی جاتی ہے (وَاللهُ أَعْلَمُ ) کہ ان میں کوئی کچھی یا پکی اینٹ نہیں ہوگی.پس انصار اللہ پر جماعت کے مجموعی کاموں کی ذمہ داری بہت بھاری ہے اتنی بھاری کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے.در حقیقت یہی لوگ خلیفہ وقت اور مرکزی کارکنوں کے بعد جماعتی کاموں کے اصل ذمہ دار ہیں.پس انہیں اپنی ذمہ داری کو بصورت احسن سمجھنا اور ادا کرنا چاہئے اور ساری جماعت کے لئے پاک نمونہ بنا چاہئے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کا باقی ماندہ حصہ بھی انصار اللہ ہی میں شامل ہے اور یہ وہ حصہ ہے جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ الا ماشاء اللہ وہ ایسے آسمانی نجوم یعنی ستارے ہیں جن سے جماعت اپنے اندھیرے کے وقتوں میں روشنی اور ہدایت حاصل کر سکتی ہے.غالبا انصار اللہ نے صحابہ کی جماعت کی فہرست مرتب کرنے اور ان کے حالات مکمل کرنے کا کام شروع کر رکھا ہوگا.میری نصیحت ہے کہ اس کام کو زیادہ تیزی اور زیادہ توجہ کے ساتھ انجام تک پہنچایا جائے تا کہ اس پاک گروہ کے حالات جلد تر ضبط میں آکر دوسرے حصہ جماعت کے لئے نور اور ہدایت کا موجب ہوں.یادرکھنا چاہئے کہ گو اس زمانہ میں صحابی کی نرم قسم کی تعریف یہی ہے کہ ہر وہ شخص جس نے احمدی ہونے کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا
مضامین بشیر جلد چهارم 425 ہو یا آپ کا کلام سنا ہو اور اسے آپ کا دیکھنا یا آپ کا کلام سنا یاد ہو وہ صحابی ہے.مگر صحابی کی اصل اور حقیقی تعریف یہ ہے کہ صحابی وہ ہے جس نے پوری ہوش اور سمجھ کے زمانے میں احمدی ہونے کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہو یا آپ کا کلام سنا ہو اور آپ کی ایسی صحبت اٹھائی ہو کہ اس کی وجہ سے آپ کے نور کا وارث بن گیا ہو اور آپ کے خدا دادمشن میں مددگار رہا ہو.مگر افسوس ہے کہ ایسے لوگ اب کم ہیں بہت کم.لیکن جو بھی ہیں ان کے حالات جلد تر مع ضروری کوائف کے ضبط میں آجانے چاہئیں.بلکہ نرم تعریف کے لحاظ سے بھی جو لوگ صحابی ثابت ہوں ان کے حالات بھی ضبط میں آجانے ضروری ہیں.کیونکہ بہر حال انہوں نے بھی مسیح محمد مکی کی برکتوں سے حصہ پایا ہے.انصار اللہ جماعتی میوزیم کے قیام میں مدد دیں دوستوں کو معلوم ہوگا کہ حال ہی میں نگران بورڈ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات کی فہرست مرتب کرنے اور ان کے حالات ضبط میں لانے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی ہے.اگر انصار اللہ کے ممبر اس مبارک کام میں مدد دے سکیں تو ان کے لئے بڑے ثواب کا موجب ہوگا اور جماعت کے تاریخی میوزیم کے قائم کرنے میں بہت مدد ملے گی.زمانے کے بعد کی وجہ سے تبرکات کے ضائع چلے جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف ان کے متعلق تصدیق حاصل کرنے کی مشکلات بھی زیادہ ہو رہی ہیں.پس اگر انصار اللہ اس کام میں مقررہ کمیٹی کی مدد فرما سکیں تو بڑے ثواب اور شکریہ کا موجب ہوگا.تبرکات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پار چات نمبر اول پر ہیں کیونکہ خدائی الہام "بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے، میں اس کا خاص طور پر ذکر آتا ہے.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور اشتہارات کے مسودات اور حضور کے خطوط وغیرہ سب تبرکات میں شامل ہیں.یہ تبرکات صرف شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ دیہات میں بھی پائے جاتے ہیں.اور انصار اللہ کو اپنے اپنے حلقہ میں اس کے متعلق ضرور کوشش کرنی چاہئے.اور پھر مقررہ فارم کے مطابق کمیٹی کے سیکرٹری ملک سیف الرحمن صاحب کو معین اور مفصل اطلاع بھجوا دینی چاہئے.لیکن یہ احتیاط ضروری ہوگی کہ جو بھی اطلاع دی جائے وہ صحیح اور مستند ہو.اسلامی پردے کو قائم کرنے میں انصار اللہ کی ذمہ داری غالباً میں نے گزشتہ سال بھی انصار اللہ کے اجتماع کے افتتاح کے موقع پر اسلامی پردے کے متعلق انصار اللہ کو توجہ دلائی تھی.آجکل چونکہ غیر از جماعت لوگوں میں پردہ اُٹھتا چلا جارہا ہے اس لئے ان کی اندھی
مضامین بشیر جلد چهارم 426 تقلید میں ماحول کے اثر کے ماتحت بعض کمزور طبیعت کی احمدی لڑکیاں اور لڑ کے بھی اس معاملہ میں کمزوری دکھانے لگے ہیں.حالانکہ خدا کے فضل سے احمدیت کی تو وہ شان ہے جس کے مقدس بانی کے متعلق خدا نے فرمایا ہے کہ يُخي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ.یعنی وہ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا.پھر یہ کتنے افسوس کی بات اور غیرت کا مقام ہے کہ بعض احمدی نوجوان اس معاملے میں دوسروں کی دیکھا دیکھی کمزوری دکھانے لگے ہیں.نقالی بدترین قسم کی غلامی ہوتی ہے جس کے متعلق قرآن مجید نے قِرَدَةً خَاسِئِينَ کی مثال بیان فرمائی ہے.اس لئے ہمارے نوجوانوں کو نقالی سے قطعی طور پر بچ کر رہنا چاہئے اور غیر اسلامی ماحول کے پیچھے لگنے کی بجائے خود اپنا نیک ماحول پیدا کرنا چاہئے.پردہ اسلامی تعلیم کا ایسا ضروری حصہ ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں شد ومد کے ساتھ ذکر آیا ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ عورتیں گھروں کی چاردیواری میں قید ہو کر رہ جائیں اور ترقی کے مواقع سے محروم رہیں.مگر وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ ایک طرف تو مرد و عورت دونوں غض بصر سے کام لیں جو پاکیزگی کی روح ہے اور دوسری طرف عورتیں غیر محرم مر دوں سے اپنے جسم اور لباس کی زینت کو چھپائیں.کیا احمدی نوجوان خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ یہ طاقت نہیں رکھتے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق پاک رستہ پر گامزن ہو کر دنیا کے لئے اچھا نمونہ قائم کریں؟.اور یقیناً اس معاملہ میں انصار اللہ کی خصوصی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ جماعت کے سینئر رکن ہیں.انہیں نہ صرف خود غیر اسلامی طریق سے بچنا چاہئے بلکہ اپنے بچوں اور عزیزوں کو بھی بچانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے.اسی طرح آجکل فیشن پرستی کی وباء بھی دنیا میں بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے جو فضول خرچی کے علاوہ مردوں اور عورتوں کے اخلاق کو بگاڑ کر کئی قسم کی خرابیوں کا بیج بو رہی ہے.اس معاملہ میں بھی انصار اللہ اپنی صحت مندانہ اور مربیانہ طریق سے بہت اچھا اثر پیدا کر سکتے ہیں اور انہیں ضرور اس طرف توجہ دینی چاہئے.بھوک ہڑتال کی وبا اسی طرح آجکل ملک میں بھوک ہڑتال کی بھی ایک غیر اسلامی رو چل پڑی ہے جو ایک متعدی مرض کی طرح پھیلتی جارہی ہے.چند دن ہوئے میں نے اس کے متعلق روز نامہ الفضل میں ایک مختصر سا مضمون لکھا تھا جس میں میں نے بتایا تھا کہ بھوک ہڑتال یا تو خود کشی کا اقدام ہے یا وہ محض دکھاوا اور نمائش ہے.اور دونوں صورتوں میں وہ ناجائز اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے نفس کو قتل کرنے والا جہنم کا رستہ اختیار کرتا ہے اور آپ نے ایسے شخص کا جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی جو خود اپنی جان کو ہلاک کرتا ہے.اور اگر بھوک ہڑتال کرنے والے کی نیت جان دینے کی نہیں بلکہ محض نمائش
مضامین بشیر جلد چہارم 427 اور دکھاوا ہے تو پھر یہ بھی ایک بدترین خلق ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا.پس انصار اللہ کو چاہئے کہ محبت اور نصیحت کے رنگ میں ملک کے اندر اس غیر اسلامی رجحان کے استیصال کی کوشش کریں.دراصل یہ مرض مسلمانوں میں گاندھی جی کی اتباع سے آیا ہے حالانکہ مسلمانوں کے لئے رسول پاک کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے نہ کہ گاندھی جی کو جو کہ ہندو مذہب کے پیرو تھے.بیاہ شادی میں اسراف اور نا جائز مطالبات ایک اور نا پاک رجحان جو ملک کے معاشرے میں پیدا ہو رہا ہے وہ بیاہ شادی کے موقع پر اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کرنے اور دوسرے فریق سے ناجائز مطالبات منوانے سے تعلق رکھتا ہے.یہ رجحان بہت سی سماجی خرابیوں کا باعث بن رہا ہے.اور اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نور چشم حضرت فاطمہ کو ایک مشکیزہ اور ایک چکی دے کر اپنے گھر سے رخصت کر دیا تھا.بے شک جسے خدا نے وسعت دی ہو وہ سادگی کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کر سکتا ہے کیونکہ تحدیث بالنعمت بھی شکر گزاری کا ایک ذریعہ ہے.مگر قرض اٹھا کر یا سادگی کی حدود کو توڑ کر بیاہ شادی کے موقع پر اسراف سے کام لینا نہایت معیوب ہے اور اس سے قطعی طور پر اجتناب کرنا چاہئے.اسی طرح دوسرے فریق سے خواہ وہ لڑکی والے ہوں یا لڑکے والے ناواجب مطالبات کرنا بھی کسی طرح جائز نہیں.ایسے مطالبات خواہ دکھاوے کے رنگ میں ہوں یا حقیقتاً کئے جائیں بہرصورت بہت معیوب ہیں اور بعض اوقات خاندانوں کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں.مجھے یہ سن کر سخت دکھ ہوا اور حیرت بھی ہوئی کہ ربوہ کی ایک خاتون نے اپنی لڑکی کے لئے رشتہ کی تجویز آنے پر لڑکے والوں سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس اپنی کوٹھی ہے؟ اور کیا تم شادی میں میری لڑکی کو موٹر لے کر دے سکو گے؟.انصار اللہ کو چاہئے کہ اپنے نیک نمونہ اور مسلسل تعلیم وتلقین کے ذریعہ ان سماجی خرابیوں کو جڑ سے اکھیڑ دیں اور سادہ زندگی اختیار کریں کیونکہ انسان کے لئے جو راحت اور قلبی سکون سادہ زندگی میں ہے وہ تعیش کی زندگی میں ہرگز نہیں.علمی خدمت کے لئے تحریر کا ملکہ پیدا کیا جائے اب میں کچھ علمی خدمت کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.مجھے خوشی ہے کہ انصار اللہ میں بلکہ خدام الاحمدیہ میں بھی اب اچھے اچھے لکھنے والے پیدا ہورہے ہیں مگر ابھی تک اس میدان میں بڑی اصلاح اور ترقی کی گنجائش ہے.قلم کا اثر لمبا اور دائمی ہوتا ہے.اسی لئے قرآن مجید فرماتا ہے الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمُ عَلَّمَ
مضامین بشیر جلد چهارم 428 الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ.یعنی خدا نے قلم کے ذریعے انسان کی علمی ترقی کا دروازہ کھولا ہے.اور قلم کا ذریعہ ایسا ہے جس سے انسان کو ایسے ایسے عجیب و غریب علوم سے شناسائی ہوتی ہے جو وہ دوسری طرح نہیں جان سکتا.تقریر سنے والا تو صرف منہ درمنہ بات سن کر فیض حاصل کرتا ہے مگر قلم کا لکھا ہوا دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے علم کا ذریعہ بن جاتا ہے.پس بے شک تقریروں کی بھی مشق کرو اور خوب کرو کیونکہ یہ بھی ایک زبر دست انسانی جوہر ہے مگر میں کہوں گا کہ قلم کی طرف زیادہ توجہ دو کیونکہ قلم کالکھا ہوا ایسی سیاہی سے لکھا جاتا ہے جو کبھی نہیں ملتی.اور اس میں ایسی وسعت اور ایسی طاقت ہوتی ہے جس کے سامنے تلوار کی ضرب ماند پڑ جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ.بع سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے یہ بالکل صحیح اور درست ہے کہ اچھے قلم کے مقابلہ پر سیف ٹوٹ جاتی ہے مگر قلم کے اثرات کو سیف مٹانے کی طاقت نہیں رکھتی.پس انصار اللہ کو زیادہ سے زیادہ اپنے قلمی جو ہر کوترقی دینے کی طرف توجہ دینی چاہئے.اس وقت خدا کے فضل سے اردو اور عربی اور انگریزی زبانوں میں ہمارے کافی اخبارات ورسائل موجود ہیں اور بعض دوسری زبانوں میں بھی ہیں.پس ان اخبارات اور رسائل کے اوراق میں اپنے فلموں کو جنبش دو تا کہ اسلام کی نصرت میں آسمان پر جنبش پیدا ہو اور دنیا جلد تر وہ دن دیکھے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا بول بالا ہو.مضمون لکھنے کا بہتر طریقہ یہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی طریقہ تھا اور میں نے بھی حضوڑ کی اتباع میں یہی سیکھا ہے کہ سب سے پہلے مضمون کا ڈھانچہ سوچ کر اس کو نوٹوں کی صورت میں مرتب کر لیا جائے.اور پھر دعا کرتے ہوئے ان نوٹوں کی روشنی میں مضمون لکھا جائے.مگر میں نے دیکھا ہے اور یہ خدائی نصرت کا ایک عجیب رنگ ہے کہ لکھے ہوئے نوٹوں کی بناء پر صرف پچاس فیصدی کے قریب ہی مضمون لکھا جاتا ہے باقی نصف مضمون یا کم و بیش مضمون لکھنے کے دوران میں غیبی نصرت کے رنگ میں خدا کی طرف سے دل پر نازل ہوتا ہے.اور یہی غیبی نصرت مضمون کی اصل جان ہوتی ہے.پس ہمارے انصار دوست ضرور مضمون نویسی کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں.اردو میں بھی لکھیں ، عربی میں بھی لکھیں اور انگریزی میں بھی لکھیں.اپنے آقا رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت بھی ساری دنیا اور ساری قوموں کے لئے ہے.پس ہمارے لٹریچر میں بھی ساری زبانوں کی طرف توجہ ہونی چاہئے اور انشاء اللہ آہستہ آہستہ ضرور ایسا ہو جائے گا.
مضامین بشیر جلد چهارم انصار کے اجتماعات زیادہ تعداد میں ہونے چاہئیں 429 مجھے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال خدا کے فضل سے کئی مقامات پر مجالس انصار اللہ کے کامیاب اجتماع ہوئے.لیکن اگر میں غلطی نہیں کرتا تو انصار کے اجتماعوں کی تعداد خدام الاحمدیہ کے اجتماعوں سے کسی قدر کم ہے.پس اس کی طرف مزید توجہ دینی چاہئے تاکہ انصار بھی اس میدان میں خدام الاحمدیہ کے دوش بدوش آ جائیں بلکہ ان سے آگے نکل جائیں.قرآن مجید نے ایک عجیب و غریب لفظ السابقون استعمال کیا ہے.اس لفظ میں قومی ترقی کا ایک بڑا گر بیان کیا گیا ہے کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہی انسانی ترقی کا راز ہے.پس چونکہ انصار اللہ کا نظام جماعت کا سینئر نظام ہے اس لئے اس معاملہ میں اسے ایک مثالی نظام بننا چاہئے.بے شک خدام میں جسمانی قوت زیادہ ہوتی ہے مگر حق یہ ہے کہ مومن جس کے اندر ایمان کی روح زندہ ہو کبھی بھی بوڑھا ہو کر پا نچ نہیں ہوتا.اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ دین کے رستہ میں اس کی روح تھک کر اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائے.اور اگر بالفرض کوئی شخص ضعف پیری کی انتہا یا بیماری کی شدت کی وجہ سے زیادہ کمزور بھی ہو جائے تو پھر بھی اس کے لئے بہر حال دوسروں کو تعلیم و تلقین کے ذریعہ سمجھانے اور انہیں اپنی دعاؤں کا سہارا دینے کا عظیم الشان رستہ کھلا رہتا ہے اور یہ ایک بہت بڑی خدمت ہے.رسالہ انصار اللہ بہت مفید کام کر رہا ہے میں اس جگہ رسالہ انصار اللہ کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ رسالہ خدا کے فضل سے بڑی قابلیت کے ساتھ لکھا جاتا اور ترتیب دیا جاتا ہے اور اس کے اکثر مضامین بہت دلچسپ اور دماغ میں جلا پیدا کرنے اور روح کو روشنی عطا کرنے میں بڑا اثر رکھتے ہیں.پس انصار اللہ کو چاہئے کہ اس رسالہ کو ہر جہت سے ترقی دینے کی کوشش کریں.اس کی اشاعت کا حلقہ وسیع کریں اور اس کے لئے مختلف علمی موضوع پر اچھے اچھے مضامین لکھ کر بھجوائیں تاکہ اس کی افادیث میں ترقی ہو اور جماعت میں اس کے متعلق دلچسپی بڑھتی چلی جائے.ابھی تک میں نے محسوس کیا ہے کہ رسالہ انصار اللہ میں لکھنے والے انصار اللہ میں سے کم لوگ نظر آتے ہیں.اس کمی کو ضرور خاص توجہ دے کر پورا کرنا چاہئے اور ہر بڑے شہر اور ہر ضلع سے اس رسالہ کے لئے مفید مضامین آنے چاہئیں.یہ سلسلہ تحریر کی مشق کرانے بھی بہت مفید ہوگا اور رسالے کے مضامین میں زیادہ سے زیادہ متنوع اور وسعت پیدا ہونے سے اس کی دلچسپی بھی بڑھتی جائے گی اور رسالے
مضامین بشیر جلد چهارم میں ایک نئی زندگی پیدا ہو جائے گی.کتبِ سلسلہ کے امتحانات کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے 430 مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ کتب سلسلہ کے امتحانوں میں شریک ہونے والوں کی تعداد خدام میں بھی اور انصار میں بھی ابھی تک بہت کم ہے.اس کا ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ کوئی خواندہ ممبر انصاراللہ سوائے بیماری یا کسی اور سخت معذوری کے ایسے امتحان کی شرکت سے محروم نہ رہے.یہ امتحان گویا ایک گھر یلو درس گاہ کا حکم رکھتا ہے اور ضروری ہے کہ ان امتحانوں میں انصار اللہ زیادہ سے زیادہ حصہ لیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جو احمدی ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں مخفی رکبر کا مادہ پایا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان علوم سے جو خدا نے ہمیں عطا کئے ہیں اپنے آپ کو غنی سمجھتا ہے.ظاہر ہے کہ سلسلہ کی کتب کے مطالعہ کا یہ طریق ایک بڑا آسان اور سہل ہے مگر ضروری ہے کہ ہر سال یا ششماہی میں سوچ سمجھ کر عمدہ نصاب مقرر کیا جایا کرے اور پھر ہر خواندہ انصار اللہ کے ممبر کو جو کسی وجہ سے معذور نہ ہو مجبور کیا جائے کہ وہ اس امتحان میں شامل ہو.دوستوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ صرف منہ سے مان لینا کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ دل کی کھڑکیاں صداقت کی روشنی کے لئے ہمیشہ کھلی نہ رکھی جائیں.آئندہ نسل کی تربیت انصار اللہ کی خصوصی ذمہ داری ہے انصار اللہ پر ایک بڑی ذمہ داری اپنے بچوں کی تربیت کے متعلق بھی عائد ہوتی ہے.اگر نئی نسل کو جنہوں نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نور حاصل نہیں کیا کسی خاص تربیتی پروگرام میں سے نہ گزارا جائے تو ان کے متعلق ہمیشہ اندیشہ رہے گا کہ وہ آہستہ آہستہ اُس ہدایت کے مرکزی نقطہ سے ہٹ جائے گی جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل فرمائی ہے.جن لوگوں نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے نور حاصل کیا وہ دراصل پیوندی درختوں کی طرح ہیں جو ہر صورت میں اپنے اصل پودا کا ورثہ حاصل کرتا ہے اور اسی قسم کا شیریں پھل پیدا کرتا ہے.مگر بعد میں آنے والے لوگ تخمی پودے ہوتے ہیں جن میں سے کوئی اچھا نکلتا ہے اور کوئی خراب نکلتا ہے.پس موجودہ نسل کے تخمی پودوں کو اچھا بنانے اور ان سے اچھا پھل حاصل کرنے کے لئے یہ بات از بس ضروری ہے کہ ان کے لئے نیک صحبت مہیا کی جائے.قرآن مجید نے بار بار مختلف طریق پر اس نصیحت کی تکرار فرمائی ہے کہ كُونُوا مَعَ
مضامین بشیر جلد چهارم 431 الصَّادِقِینَ.یعنی نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو.پس انصار اللہ میں سے جو بزرگ صحابی ہونے کا شرف رکھتے ہیں ان کو خصوصاً اور جو انصار اللہ غیر صحابی ہیں مگر انہیں احمدیت کے طفیل نیکی کا زیادہ ورثہ ملا ہے ان کو عموماً اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی آئندہ نسل نیک ہو.نمازوں کی عادی ہو.دعاؤں میں شغف رکھے اور خلافت اور مرکز کے ساتھ محبت اور اخلاص اور قربانی کے مقام پر قائم ہو.اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں اور جماعت کا آئندہ قدم ایک گڑھے کی طرف اُٹھے گا اور پھر خدا ہی اس کا حافظ ہے.مالی قربانی مجھے انصار اللہ کو چندوں کی تحریک کے متعلق کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں.وہ خدا کے فضل سے پختہ عمر کے لوگ ہیں اور جماعتی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یہ زمانہ بھی ایسا ہے کہ مالی قربانی کے بغیر جماعتی انتظام کو چلانا اور جماعت میں تبلیغ اور تربیت کا انتظام کرنا اور ہر جہت سے پختہ تنظیم قائم کرنا محالات میں سے ہے.قرآن مجید نے اپنی بالکل پہلی آیات میں ہی کمال دانشمندی سے عملی نیکیوں کا یہی خلاصہ بیان کیا فرمایا ہے کہ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنهُم يُنفِقُونَ - یعنی سچے مومن وہ ہیں اور صرف وہی سچے مومن سمجھے جا سکتے ہیں جو اپنی نمازوں کو پوری پابندی اور پورے شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور جو رزق ان کو ہم نے دے رکھا ہے ( اور رزق دینے والا یقیناً خدا ہی ہے ) اس میں سے دین کے رستہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ جو احمدی مضبوطی کے ساتھ ان دو نیکیوں پر قائم ہو جائے گا یعنی دلی ذوق و شوق کے ساتھ نماز پڑھے گا اور دعاؤں میں شغف رکھے گا جو خدا کے ذاتی تعلق کی مضبوط ترین کڑی ہے.اور پھر وہ جماعت کے کاموں کے لئے محبت اور اخلاص کے ساتھ مالی قربانی بھی کرے گا جو جماعتی تنظیم کا سب سے بڑا رکن ہے وہ خدا کے فضل سے ایک مضبوط قلعہ میں داخل ہو جائے گا جس میں نقب لگنے کا کوئی امکان نہیں.خدا کرے کہ ہم سب ایسے ہو جائیں کہ ایک طرف تو ہم ہمیشہ خدا کی رحمت کے دامن کے ساتھ لیٹے رہیں اور دوسری طرف جماعت کے ساتھ ہمارا تعلق ایسا مضبوط اور مخلصانہ ہو کہ ہم اس کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں.بس اسی پر میں اپنے اس خطاب کو ختم کرتا ہوں وَ كَانَ اللَّهُ مَعَنَا أَجْمَعِينَ.( محرره 26 اکتوبر 1962ء) (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر 1962ء)
مضامین بشیر جلد چہارم 47 سند قبولیت 432 ماہنامہ انصار اللہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اسے حسب ذیل الفاظ میں سند قبولیت سے نوازا ہے.یہ رسالہ (ماہنامہ انصار اللہ ) خدا کے فضل سے بڑی قابلیت کے ساتھ لکھا جاتا اور ترتیب دیا جاتا ہے.اور اس کے اکثر مضامین بہت دلچسپ اور دماغ میں جلا پیدا کرنے اور روح کو روشنی عطا کرنے میں بڑا اثر رکھتے ہیں.پس انصار اللہ کو چاہئے کہ اس رسالہ کو ہر جہت سے ترقی دینے کی کوشش کریں.اس کی اشاعت کا حلقہ وسیع کریں اور اس کے لئے مختلف علمی موضوع پر اچھے اچھے مضامین لکھ کر بھجوائیں تا کہ اس کی افادیت میں ترقی ہو اور جماعت میں اس کے متعلق دلچسپی بڑھتی چلی جائے“ ( روزنامه الفضل یکم دسمبر 1962ء)
مضامین بشیر جلد چہارم اعلانات.اشتہارات - اطلاعات 433 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1 -> سیدنا حضرت خلیفہ المی الثانی ایده ال تعالی بنصرہ العزیز کا روح پرور پیغام 2-> فدیہ دینے والے احباب توجہ فرمائیں روزنامه الفضل 10 جنوری 1962ء) روزنامه الفضل 3 فروری 1962ء) 3-> احباب جماعت کی خدمت میں امریکہ کے ایک دوست کا سلام روزنامه الفضل 7 فروری 1962ء) 4-> مسٹر حمید نظامی کی وفات حسرت آیات (روز نامہ الفضل 28 فروری 1962ء) 5-> اپنی طرف سے حج بدل کا انتظام 6-> ایک افسوسناک غلطی کی تصحیح 7-> پروفیسر عطاءالرحمن کیلئے دعا کی تحریک 8- مرزا مہتاب بیگ صاحب وفات پاگئے (روز نامہ الفضل 28 فروری 1962ء) روزنامه الفضل 4 مارچ 1962ء) روزنامه الفضل 18 مارچ 1962ء) (روز نامہ الفضل 20 مارچ 1962ء) 9-> میری طرف سے فریضہ حج کیلئے مولوی عبد اللطیف کی روانگی (روز نامہ الفضل 30 مارچ 1962ء) 10-> عزیزہ ناصرہ بی بی کے نکاح کا اعلان 11-> رشتہ ناطہ کے مجوزہ کمیشن کے متعلق امراء ضلع مشورہ ارسال (روز نامہ الفضل 10 اپریل 1962ء) (روز نامہ الفضل 11 اپریل 1962ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 434 12-> مسماۃ نور بی بی صاحبہ کی وفات 13-> مشرقی پاکستان کا وفد 14-> وفد کی دوسری پارٹی بھی مشرقی پاکستان پہنچ گئی 15-> عید الاضحی کی قربانیوں کے متعلق ضروری اعلان 16- عید الاضحی کی قربانیوں کے متعلق ضروری اعلان 17-> غریب طالب علموں کی امداد کر کے ثواب کمائیں 18-> شیخ ناصر احمد صاحب کیلئے دعا 19-> اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب 20-> اہلیہ مرزا محمود احمد بیگ کی تشویشناک علالت 21-> نگران بورڈ کا اجلاس (روز نامہ الفضل 14 اپریل 1962ء) (روز نامہ افضل 14 اپریل 1962ء) (روز نامہ الفضل 17 اپریل 1962ء) (روز نامہ الفضل 26 اپریل 1962ء) (روز نامہ الفضل 28 اپریل 1962ء) (روز نامہ الفضل 28 اپریل 1962ء) (روز نامہ الفضل یکم مئی 1962ء) ( روزنامہ الفضل 15 مئی 1962ء) ( روزنامہ الفضل 15 مئی 1962ء) (روز نامہ الفضل 25 مئی 1962ء) 22-> کم از کم سولہ احمدیوں نے اس سال فریضہ حج ادا کیا روزنامه الفضل 29 مئی 1962ء) 23-> عزیز مرزا ناصر احمد کیلئے دعا کی تحریک (روزنامه الفضل 3 جون 1962ء) 24- عزیز مرزا مظفر احمد کا تبادلہ راولپنڈی روزنامه الفضل 10 جون 1962ء) 25-> نگران بورڈ کا اجلاس رشتہ ناطہ کے کمیشن کا تقرر (روز نامہ الفضل 13 جون 1962ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 435 26-> شیر محمد صاحب پونچھی وفات پاگئے 27-> ڈرائیور کی ضرورت ہے 28-> فضل الہی صاحب گجراتی درویش وفات پاگئے 29-> قافلہ قادیان کیلئے حکومت کو ماہ جون میں درخواست 30-> قاضی شاد بخت صاحب درویش کی وفات 31-> رسالہ در مکنون“ کے متعلق دوستوں کو تحریک 32-> شعبہ رشتہ ناطہ کے متعلق ضروری گزارشات تعلیم الاسلام ہائرسکینڈری سکول گھٹیالیاں 34-> حضرت ممانی صاحبہ کیلئے دعا کی تحریک 35-> مخیر اصحاب توجہ فرمائیں 36-> چندہ مسجد سوئٹزر لینڈ کے متعلق (روز نامه الفضل 22 جون 1962ء) روزنامه الفضل 3 جولائی 1962ء) (روز نامہ الفضل 13 جولائی 1962ء) (روز نامہ الفضل 14 جولائی 1962ء) (روز نامہ الفضل 20 جولائی 1962ء) روزنامه الفضل 24 جولائی 1962ء) روزنامه الفضل 17 اگست 1962 ء ) (روز نامه الفضل 22 اگست 1962ء) روزنامه الفضل 24 اگست 1962 ء ) روزنامه الفضل 11 ستمبر 1962ء) روزنامه الفضل 20 ستمبر 1962ء) 37-> کلکتہ میں مسجد احمدیہ کی بنیا درکھ دی گئی روزنامه الفضل 22 ستمبر 1962ء) 38-> عزیز نصیر احمد خاں کیلئے دعا کی تحریک روزنامه الفضل 22 ستمبر 1962ء) 39-> ملک عزیز احمد صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا فوت ہو گئے روزنامه الفضل 25 ستمبر 1962ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 40-> دوست مجھے ٹیلیفون سننے سے معذور خیال فرما ئیں 436 (روز نامہ الفضل 27 ستمبر 1962ء) 41-> قافلہ قادیان میں شامل ہونے کے خواہش مند احباب روزنامه الفضل 27 ستمبر 1962ء) 42-> ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی لندن میں علالت روزنامه الفضل 24 اکتوبر 1962ء) 43-> عزیزه امتہ الحفیظ بیگم کی بیماری کے متعلق تازہ اطلاع روزنامه الفضل 26 اکتوبر 1962ء) -44-> میاں عبدالرحیم فانی درویش وفات پاگئے روزنامه الفضل 31اکتوبر 1962ء) 45-> درخواست دعا (روزنامه الفضل یکم نومبر 1962ء) 46-> میاں عبدالرحیم خان صاحب درویش وفات پاگئے (روز نامہ الفضل 3 نومبر 1962ء) 47-> لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کیلئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام (ماہنامہ مصباح نومبر 1962ء) 48-> سید فقیر محمد صاحب افغان وفات پاگئے 49-> کچھ اپنے متعلق 50-> اہل قافلہ کی فوری توجہ کیلئے 51-> حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی صحت کے متعلق اطلاع 52-> حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی صحت کے متعلق اطلاع (روزنامه الفضل 9 نومبر 1962ء) (روزنامہ الفضل 21 نومبر 1962ء) ( روزنامه الفضل 5 دسمبر 1962ء) روزنامه افضل 15 دسمبر 1962ء) روزنامه الفضل 16 دسمبر 1962ء)
مضامین بشیر جلد چهارم باب چهارم 1963ءکے مضامین 437
مضامین بشیر جلد چہارم خان عبدالمجید خان صاحب آف کپورتھلہ رمضان کا مہینہ شروع ہونے والا ہے دوست اپنی کمریں گس لیں در نمین اردو کا بلاک آئینہ جمال ایک انتہائی اضطراب کے وقت کی دعا دوستوں کیلئے دعا کی تحریک رمضان کا آخری عشرہ دعاؤں کا خاص زمانہ ہے امتحان میں شامل ہونے والے بچوں کو نصیحت ایک درویش کا ارادہ حج غریب طلباء کی امداد کا خاص وقت 438 مولوی ابو الحط صاحب اور پادری عبدالحق صاحب کا تحریری مناظرہ علم دین سیکھو اور پھر اسے دلیری مگر موعظہ حسنہ کے رنگ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں تک پہنچاؤ کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب“ کی ضبطی مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی عظیم الشان اسلامی خدمات بے پردگی کے رجحان کے متعلق جماعتوں کو مزید انتباہ میٹرک کے امتحان میں اعلیٰ نتائج پر خط ملتان کے دوستوں کے نام میرا پیغام حیات نور جماعت کے نوجوانوں کو ایک خاص نصیحت
مضامین بشیر جلد چہارم خان عبد المجید خان صاحب آف کپورتھلہ 439 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے خان عبدالمجید خان صاحب آف کپورتھلہ کی وفات کی اطلاع الفضل میں شائع کروائی.اس میں آپ نے محترم خان صاحب کا تعارف یوں کروایا.خان عبدالمجید خان صاحب موصوف نہ صرف خود ایک نہایت سادہ مزاج مخلص صحابی تھے بلکہ ان کے والد بزرگوار خان محمد خان صاحب مرحوم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین صحابہ میں سے تھے اور اول درجہ کے مخلص اور فدائی بزرگ تھے جن کے وجود سے کسی زمانہ میں کپورتھلہ کی جماعت کو خاص زینت حاصل تھی.کپورتھلہ کی جماعت وہ ممتاز جماعت تھی جسے بڑا امتیاز حاصل تھا اور وہ ایسے افراد پر مشتمل تھی جو اپنے اخلاص اور فدائیت اور نیکی میں خاص شان رکھتی تھی.اس جماعت کے تین بزرگ تو خصوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب اور اپنے اخلاص اور محبت میں غیر معمولی طور پر ممتاز تھے.یعنی خان محمد خان صاحب (والد خان عبدالمجید خان صاحب مرحوم ) اور منشی اروڑ ا صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب.اگر میں ان تین بزرگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد گھومنے والے چاند اور ستارے کہوں تو ہرگز بے جانہ ہوگا.یہ وہی بزرگ جماعت ہے جن کے اخلاص کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا تھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ جس طرح یہ دوست دنیا میں میرے ساتھ رہے.اسی طرح آخرت میں بھی میرے ساتھ ہوں گے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اور ان کی اولادوں کو اپنے خاص فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.آمین ( محرره 12 جنوری 1963ء) روزنامه الفضل 16 جنوری 1963ء) رمضان کا مہینہ شروع ہونے والا ہے دوست اپنی کمریں کس لیں روزه، تلاوت، صدقہ و خیرات، تہجد ، اعتکاف اور فدیہ کی مرکب برکات چند دن میں رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہونے والا ہے.یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن جیسی کامل اور مکمل اور برکات سے معمور دائمی شریعت کا نزول ہوا.میں ہمیشہ رمضان کے مہینہ میں مفصل مضمون کے ذریعہ رمضان کی برکات کے متعلق دوستوں کو یاد دہانی کرایا کرتا تھا مگر اب بوجہ بیماری معذور ہوں اور اس
مضامین بشیر جلد چهارم 440 وقت تو خصوصیت سے دل کی تکلیف کی وجہ سے زیادہ بیمار ہوں اس لئے صرف چند مختصری باتوں پر اکتفا کرتا ہوں.اللہ تعالے سب مخلص دوستوں کو اس مبارک مہینے کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور دین و دنیا میں ترقی عطا کرے.(1) رمضان کی اصل اور مخصوص عبادت تو روزہ ہے جس کے متعلق ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ روزہ وہ عبادت ہے جس کی جزاء خود خدا تعالیٰ ہے.پس جن دوستوں کو رمضان میں بیماری یا سفر کی معذوری نہ ہو ان کو ضرور روزہ رکھ کر اس کی خاص بلکہ اخص برکات سے مستفید ہونا چاہئے مگر یا درکھنا چاہئے کہ روزہ صرف کھانے پینے سے اجتناب کرنے کا نام نہیں بلکہ اصل روزہ دل کی نیکی اور ضبط نفس اور تقویٰ اور اخلاص اور انابت الی اللہ اور خصوصی دعاؤں کا روزہ ہے جس کے نتیجہ میں انسان خدا کا قرب حاصل کرتا ہے اور زمین سے اٹھ کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچتا ہے.(2) اس کے علاوہ رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ قرآن مجید کی زیادہ تلاوت فرماتے تھے بلکہ اپنی پاک زندگی کے آخری سال میں آپ نے رمضان کے مہینہ میں قرآن مجید کی دو دفعہ تلاوت فرمائی.پس دوستوں کو رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہئے.قرآن غور کے ساتھ پڑھا جائے اور رحمت کی آیات پر خدا سے رحمت مانگی جائے اور عذاب کی آیات پر استغفار کیا جائے.یہ ایک کامل ذکر الہی ہے.(3) رمضان میں صدقہ و خیرات بھی حسب توفیق زیادہ سے زیادہ دینا چاہئے.غرباء کی مدد میں مومنوں کے لئے بے حد برکات ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ آپ رمضان میں اس کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے تھے کہ آپ کا ہاتھ گویا ایک تیز آندھی کی طرح چلتا تھا جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.(4) رمضان کی ایک ممتاز عبادت تہجد یا تراویح کی نماز ہے جو مومنوں کی مُردہ راتوں کو زندہ کرنے اور انسان کو اس کے مقررہ مقام محمود تک اٹھانے میں نمایاں تاثیر رکھتی ہے اور رمضان کی عبادتوں کو غیر معمولی رونق بخشتی اور روحانیت کا ایک بڑا ستون ہے.(5) پھر رمضان کی ایک خاص برکت اعتکاف کی عبادت ہے جو رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں بیٹھ کر ادا کی جاتی ہے.جن دوستوں کو توفیق ہو اور فرصت ہو وہ اس سے بھی فائدہ اٹھا کر اپنے دلوں میں روشنی اور جلا پیدا کر سکتے ہیں.
مضامین بشیر جلد چهارم 441 (6) میں فدیہ کے متعلق بھی یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فدیہ کی رعایت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو بوجہ بھی بیماری یا ضعف پیری روزوں کی طاقت کھو بیٹھیں.ورنہ اصل چیز روزہ ہی ہے.پس جو دوست بوجہ معذوری فدیہ دینا چاہیں وہ اپنے کھانے کی حیثیت کے مطابق کھانے کی صورت میں یا نقد رقم کی صورت میں فدیہ ادا کر سکتے ہیں.فدیہ خواہ اپنے پڑوس کے غریبوں کو ادا کر دیا جائے یا میرے دفتر میں یا کسی دوسرے مناسب دفتر میں مرکز کے غرباء کی امداد کے لئے بھیجا جا سکتا ہے اور جتنی جلدی بھجوا دیا جائے بہتر ہے تا کہ وقت پر غرباء کے کام آ سکے اور وہ رمضان کے مہینہ میں فائدہ اٹھا سکیں.مرکز میں کافی غریب لوگ بستے ہیں.(7) بالآخر میں اپنے دوستوں کو یہ خاص تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں کو توفیق ملے اور وہ اس کے لئے فرصت اور طاقت پائیں انہیں کم از کم رمضان کا آخری عشرہ ربوہ میں آ کر گزارنا چاہئے.ربوہ میں مسجد مبارک کے شب وروز رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر بابرکت اور بار وفق اور شاندار ہوتے ہیں.اس سے انشاء اللہ دوستوں کو دینی لحاظ سے بہت فائدہ پہنچے گا.ایک دفعہ مجھے رمضان کے چند دن کسی باہر کے مقام پر گزارنے پڑے تو مجھے وہاں کا رمضان بہت بے جان سا نظر آیا جسے ربوہ کے رمضان کے ساتھ کوئی نسبت نہیں تھی.دوسری طرف میں لنگر خانہ اور مہمان خانہ کے افسروں اور کارکنوں کو بھی یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ رمضان میں روزہ دار مہمانوں کے آرام کا بہت خیال رکھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کا اسوہ ملحوظ رکھ کر مرکز سلسلہ کے لئے جماعت میں کشش پیدا کریں اور ان کے لئے اچھا نمونہ بنیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں اپنی برکات اور رحمتوں سے نوازے اور اسلام اور جماعت کی ترقی کا رستہ کھولے.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 24 جنوری 1963ء) روزنامه الفضل 26 جنوری 1963ء) در پیشین اردو کا بلاک دوستوں کو چاہئے کہ اس روحانی خزانہ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کریں مجھے محترم شیخ بشیر احمد صاحب سینئر ایڈووکیٹ لاہور و سابق حج ہائی کورٹ نے در نشین اردو کا ایک نسخہ
مضامین بشیر جلد چهارم 442 بھجوایا ہے جو حال ہی میں ان کی فرمائش پر محترم شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی نے بلاک تیار کروا کے شائع کیا ہے.یہ بلاک اتنا خوبصورت اور دلکش ہے کہ اس در مشین کو دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا.کاغذ بہترین.بلاک نہایت صاف.خط بہت خوبصورت اور صفائی دیدہ زیب ہے.سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اشعار حضرت مسیح موعود کے شعروں کا مجموعہ ہیں جو روحانیت کے مقناطیسی اثر سے معمور ہیں.گویا ایک شہد کا چھتہ ہے جس کا شہر چھیڑنے کے بغیر خود بخود پڑکا جاتا ہے.میں تو جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردو یا فارسی اشعار پڑھتا ہوں تو دل میں وجد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور روح بے اختیار ہو کر اچھلنے لگتی ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اس نہایت مفید اور دلکش اشاعت کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں خرید کر نہ صرف خود پڑھیں اور اپنے بیوی بچوں کو پڑھا ئیں بلکہ اپنے غیر احمدی دوستوں کو بھی پڑھنے کے لئے دیں کیونکہ یہ ان کے لئے ایک بہت نادر اور مفید تحفہ ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کر کے کیا خوب الہام فرمایا تھا کہ در کلام تو چیزی ست که شعرا را در آن دخلی نیست سچ ہے کہ یہ شعر نہیں بلکہ ایک روحانی سحر ہے.کتاب غالباً شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی رام گلی نمبر 3 لاہور سے مل سکے گی.محرره 30 جنوری 1963ء) روزنامه الفضل یکم فروری 1963ء) 4 آئینہ جمال (جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ 1962ء کے آخری اجلاس منعقدہ 28 دسمبر میں ذکرِ حبیب“ کے موضوع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رقم فرمودہ تقریر مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھ کر سنائی تھی.حضرت میاں صاحب کی اس نہایت درجہ روح پرور تقریر کا مکمل متن ذیل میں ہدیہ احباب کیا جارہا ہے.ادارہ) اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِكْ وَسَلِّمُ
443 مضامین بشیر جلد چهارم مجھے اس سال پھر ذکر حبیب یعنی حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے خاص خاص حالات اور نشانات اور اخلاق فاضلہ کے مضمون پر تقریر کرنے کے لئے کہا گیا ہے.اس سے قبل اسی مضمون پر خدا کے فضل سے میری تین تقریریں ہو چکی ہیں.پہلی تقریر 1959ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی جو سیرت طیبہ کے نام سے چھپ چکی ہے اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے.اس تقریر کا مرکزی نقط محبت الہی اور عشق رسول تھا.خدا کے فضل سے یہ تقریر جماعت کے دوستوں اور غیر از جماعت اصحاب میں یکساں مقبول ہوئی کیونکہ اس کے لفظ لفظ میں حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کی عاشقی شان ہویدا ہے.دوسری تقریر 1960ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی تھی جو در منشور کے نام سے چھپ چکی ہے اور بہت دلچسپ اور دلکش روایات اور بعض نئی تحقیقاتوں پر مشتمل ہے اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہوکر بیرونی ممالک میں پہنچ چکا ہے.یہ تقریر بھی خدا کے فضل سے پہلی تقریر کی طرح بہت مقبول ہوئی اور اپنوں اور بیگانوں دونوں نے اسے پسند کیا.تیسری تقریر 1961ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی تھی جو در مکنون کے نام سے چھپی ہے اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ انگریزی ترجمہ انشاء اللہ بہت جلد رسالہ کی صورت میں شائع ہو جائے گا.اس تقریر میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود کے معجزات اور حضور کے ہاتھ پر غلبہ اسلام اور دعاؤں کی قبولیت کا ذکر ہے اور الْحَمْدُ لِلهِ کہ یہ تقریر بھی خدا کے فضل سے مقبول ہوئی اور میں امید کرتا ہوں کہ میرا آسمانی آقا مجھے ان تقریروں کے ثواب سے نوازے گا.اور جماعت کے لئے بھی انہیں برکت و رحمت کا موجب بنائے گا.موجودہ تقریر اس سلسلہ کی چوتھی تقریر ہے.میں نے اس تقریر کا نام آئینہ جمال رکھا ہے کیونکہ میرا ارادہ ہے کہ اس میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کی جمالی شان اور اس کے مختلف پہلوؤں کے متعلق کچھ بیان کروں.وَمَا تَوْفِيقِى إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ 1 كم جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کا مرکزی نقطہ مہدویت اور مسیحیت کے دعوی کے ارد گرد گھومتا ہے.آپ ( نام: مرزا غلام احمد ولادت فروری 1835 ء وفات مئی 1908ء) نے خدا سے الہام پا کر دعویٰ کیا کہ اسلام میں جس مہدی کے ظہور کا آخری زمانہ میں وعدہ دیا گیا تھا وہ خدا کے فضل سے میں ہی ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ اس زمانہ میں اسلام کو دوبارہ غلبہ عطا کرے گا.اور دنیا میں اسلام کا سورج پھر اُسی آب و تاب کے ساتھ چمکے گا جیسا کہ وہ اپنے ابتدائی دور میں چمک چکا
مضامین بشیر جلد چهارم 444 ہے.آپ نے اس دعوی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو بعثیں مقدر کر رکھی تھیں.ایک بعثت اسلام کے دور اول کے ساتھ مخصوص تھی جو جلالی رنگ میں ظاہر ہوئی اور محمدیت کی شان کی مظہر تھی.اور دوسری بعثت جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے جمالی نام احمد کے ساتھ وابستہ تھی ، آخری زمانہ میں حضور سرور کائنات کے ایک خادم اور نائب کے ذریعہ مقدر تھی.یہی وہ بعثت ہے جس کی طرف قرآن مجید کی سورۃ جمعہ میں آیت اخَرينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے.یعنی آخری زمانہ میں ایک جماعت ظاہر ہوگی جس کی رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم اپنے ایک بروز اور نائب کے ذریعہ تربیت فرمائیں گے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلے اللہ علیه وسلم پر اخَرِينَ مِنْهُمُ والی آیت نازل ہوئی تو صحابہ کے دریافت کرنے پر کہ یا رسول اللہ! یہ اخَرِينَ مِنْهُمُ کی جماعت کون ہے؟ آپ نے اپنے صحابی حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ.اگر ایمان دنیا سے اٹھ کر ثریا کے دُور و دراز ستارے پر بھی چلا گیا تو پھر بھی ان اہل فارس میں سے ایک شخص اسے دوبارہ دنیا میں اتار لائے گا ( صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن باب قوله و آخرین منھم لما یلحقوا بهم ) سواس زمانہ میں جو لا ریب اخرین کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی) کے اخمد نام کی جمالی شان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ جونسلی لحاظ سے فارسی الاصل تھے دنیا میں ظاہر ہو اور اسلام اپنے وسطی دور کی کمزوری کے بعد پھر غیر معمولی ترقی اور عالمگیر غلبہ کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دے.چنانچہ جماعت احمدیہ کے وسیع فاتحانہ تبلیغی نظام کے ذریعہ جس نے خدا کے فضل سے ساری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اس غلبہ کا بیج بویا جا چکا ہے.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر لکھا ہے اب یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور کوئی نہیں جو ا سے روک سکے.یہی وہ مقام مہدویت ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں بڑی تحدی کے ساتھ فرماتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ.اگر دنیا کی زندگی میں صرف ایک دن باقی ہو گا تو تب بھی خدا اس دن کو لمبا کر دے گا تا وقتیکہ وہ اُس شخص کو مبعوث کر دے جو میرے اھل یعنی میرے عزیزوں میں سے ہوگا اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق ہوگا ( یہ استعارہ کے رنگ میں کامل موافقت کی طرف اشارہ ہے ) اور وہ ظاہر ہو کر اپنے نور ہدایت کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا.حالانکہ وہ اس سے پہلے ظلم وجور سے
مضامین بشیر جلد چهارم 445 " بھری ہوئی ہوگی (ابوداؤد جلد 2 کتاب المهدی) یہ خیال کہ اسلام میں ایک خونی مہدی کی پیشگوئی کی گئی ہے جو اسلام کو دنیا میں جبر کے ساتھ پھیلائے گا ، بالکل غلط اور باطل اور بے بنیاد ہے.اسلام میں کوئی ایسی پیشگوئی نہیں.یہ سب کو تہ بین لوگوں کے سطحی خیالات ہیں کہ استعارے کے کلام کو حقیقت پر محمول کر لیا گیا ہے.اس کے لئے بے شمار قرآنی صراحتوں کے علاوہ صرف یہی عقلی دلیل کافی ہے کہ جبر کے نتیجہ میں اخلاص کی بجائے نفاق پیدا ہوتا ہے یعنی یہ کہ دل میں کچھ ہو اور ظاہر اور کیا جائے اور اسلام سے بڑھ کر نفاق کا کوئی دشمن نہیں.قرآن تو یہاں تک فرماتا ہے کہ منافق لوگ قیامت کے دن جہنم کے بدترین حصہ میں ڈالے جائیں گئے ❤2% حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا بنیادی دعوی مسیحیت کا دعوی ہے یعنی آپ نے اُس مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا جس کی خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں امت محمدیہ کے لئے پیشگوئی فرمائی تھی اور اطلاع دی تھی کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں میں مسیح ناصری کا ایک مثیل ایسے وقت میں ظاہر ہوگا جبکہ دنیا میں مسیحیت کا بڑا زور ہوگا اور نصرانیت تمام اکناف عالم میں غلبہ پا کر اپنے مشرکانہ عقائد اور مادی نظریات کا زہر پھیلا رہی ہوگی.امت محمدیہ کا یہ مسیح اسلام کی طرف سے ہو کر مسیحیت کے باطل عقائد کا مقابلہ کرے گا.اور اپنے روشن دلائل اور روحانی طاقتوں کے ذریعہ مسیحیت کے غلبہ کو توڑ دے گا.چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ.خدا ضر ور ضرور اسی طرح مسلمانوں میں خلفاء بنائے گا جس طرح کہ اس نے اس سے پہلے (موسیقی کی امت میں ) خلفاء بنائے اور ان خلفاء کے ذریعہ خدا اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور دین کے میدان میں مسلمانوں کی خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دے گا“ اسی طرح حدیث میں ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم تفصیل اور تشریح سے فرماتے ہیں.دوست غور سے (النور: 56) سنیں کہ کس شان سے فرماتے ہیں کہ." مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرورضر در مسیح ابن مریم اس شان سے ظاہر ہوگا ( کہ گویا وہ آسمان سے اُتر رہا ہے ) جو حَكَمُ و عَدل بن کر تمہارے اختلافات کا فیصلہ کرے گا.وہ مسیحیت کے زور کے وقت میں ظاہر ہو کر صلیبی مذہب کی شوکت کو تو ڑ کر رکھ دے گا“.( صحیح بخاری.باب نزول عیسی )
مضامین بشیر جلد چهارم 446 حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ نے خدا سے الہام پا کر دعوی کیا کہ میں وہی مہدی اور وہی مسیح ہوں جس کے ہاتھ پر بالآخر اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں کی ترقی اور مسیحیت کی شکست مقدر ہے.اور دراصل غور کیا جائے تو مہدویت اور مسیحیت کے دعوے حقیقتا ایک ہی ہیں.کیونکہ وہ ایک ہی دعوے کی دو شاخیں ہیں.صرف دو جہتوں کی وجہ سے انہیں دو مختلف نام دے دیئے گئے ہیں.اسی لئے ان دو پیشگوئیوں میں حالات بھی ایک جیسے بیان کئے گئے ہیں.مہدی ہونے کے لحاظ سے آنے والے کے ہاتھ پر اسلام کی تجدید مقدر تھی اور ازل سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ جب آخری زمانہ میں مسلمانوں میں تنزل کے آثار پیدا ہوں گے اور مسلمانوں کے عقائد میں بھی فتور آ جائے گا تو اُس وقت اس امت کا مہدی ظاہر ہوکر مسلمانوں کے بگڑے ہوئے عقائد کی اصلاح کرے گا اور مسلمانوں کو اپنے آسمانی علم کلام اور باطنی نور ہدایت اور خدا داد اور روحانیت کے زور سے بلندی کی طرف اٹھاتا چلا جائے گا.دوسری طرف مسیح ہونے کے لحاظ سے آنے والے مصلح کا یہ کام تھا کہ وہ مسیحیت کے غلبہ کے وقت ظاہر ہو کر صلیب کے زور کو توڑ دے گا اور اسلام کو پھر اس کے دور اول کی طرح دنیا میں غالب کر دے.سو در اصل یہ دونوں نام ایک ہی مصلح کو دیئے گئے ہیں.اسی لئے ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں صاف طور پر فرماتے ہیں کہ.وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسى ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدۃ الایمان ) یعنی اے مسلمانو ! سن لو کہ آنے والے عیسی کے سوا کوئی اور مہدی موعود نہیں ہے.3.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں در حقیقت یہ دونوں نام جمالی صفات کے مظہر ہیں اور ضروری تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ موجودہ زمانہ میں کسی قوم کی طرف سے مسلمانوں پر دین کے معاملہ میں جبر نہیں کیا جاتا.اور ظاہر ہے کہ امن کی حالت میں جبکہ دین کے معاملہ میں کسی غیر قوم کی طرف سے مسلمانوں پر جبر نہ کیا جار ہا ہو جبر سے کام لینا قرآن مجید کی صریح ہدایت لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرہ:257) (یعنی دین کے معاملہ میں ہرگز کوئی جبر نہیں ہونا چاہئے ) کے قطعی طور پر خلاف ہے.بلکہ یہ ایک انتہائی ظلم وتعدی کا فعل ہے جس کی اسلام کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دیتا.حضرت مسیح ناصری ، حضرت موسے کے بعد جن کے وہ خلیفہ تھے اور موسوی شریعت کے پابند تھے چودہ سو سال بعد جمالی رنگ میں مبعوث ہوئے اور یہودی لوگ اپنے زعم باطل میں جھوٹی امیدیں لگا کر ایلیا نبی کے نزول کے لئے جس کا ان کو وعدہ دیا گیا تھا ( سلاطین باب 20 آیت 11 دمتی باب 11 و 17 ) آسمان کی طرف دیکھتے رہ گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ بھی
مضامین بشیر جلد چہارم 447 آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے چودہ سو سال بعد عوام کی توقع کے خلاف آسمان سے نازل ہونے کی بجائے زمین سے ظاہر ہوئے.اور جس طرح حضرت مسیح ناصری نے امن کے ماحول میں جمالی رنگ میں اپنے دین کی خدمت کی.اسی طرح مقدر تھا کہ مسیح محمدی بھی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہتے ہوئے جمالی رنگ میں جنگ وجدال کے بغیر اسلام کی خدمت کرے گا اور اپنے قولی اور قلمی جہاد اور روحانی نشانوں کے ذریعہ دنیا پر ثابت کر دے گا کہ اسلام ایسا پیارا اور ایسا دکش اور ایسا مدل مذہب ہے کہ اس کی اشاعت کے لئے ہرگز ہرگز کسی جبر و تشدد کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمد یہ اپنی بعثت کی غرض و غایت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں.خدا نے اس رسول کو یعنی کامل مجدد کو اس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا اس زمانہ میں یہ ثابت کر کے دکھلا دے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام تعلیمیں بیچ ہیں.اور اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام دینوں پر ہر ایک برکت اور دقیقہ معرفت اور آسمانی نشانوں میں غالب ہے.یہ خدا کا ارادہ ہے کہ اس رسول کے ہاتھ پر ہر ایک طرح پر اسلام کی چمک دکھلاوے.کون ہے جو خدا کے ارادوں کو بدل سکے؟ خدا نے مسلمانوں کو اوران کے دین کو اس زمانہ میں مظلوم پا یا اور وہ آیا ہے کہ تا ان (کمزور ) لوگوں اور ان کے دین کی مدد کرے...اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اپنی قوت اور امنگ کے ساتھ زمین پر چل یعنی لوگوں پر ظاہر ہو کہ تیرا وقت آ گیا ہے اور تیرے وجود سے مسلمانوں کا قدم ایک محکم اور بلند مینار پر جاپڑا.محمدی غالب ہو گئے.وہی محمد جو پاک اور برگزیدہ اور نبیوں کا سردار ہے.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مراد میں تجھے دے گا.وہ (خدا) جو فوجوں کا مالک ہے وہ اس طرف توجہ کرے گا یعنی آسمان سے تیری بڑی مدد کی جائے گی“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفح 266-267) 4 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پر زور علم کلام اور زبر دست خدائی نشانات اور روحانی تعلیم و تلقین کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر اخَرِينَ مِنْهُمْ کی جماعت قائم کی اور آپ کی اس جماعت نے خدا کے فضل سے اپنی غیر معمولی جد و جہد اور اپنی پر امن تبلیغ اور اپنے وسیع لٹریچر اور اپنی بے نظیر مالی قربانی کے ذریعہ دنیا میں اسلام کی عالمگیر تبلیغ کا عظیم الشان نظام قائم کر رکھا ہے.اور باوجو داس کے کہ جماعت ابھی تک اپنی تعداد اور اپنی مالی طاقت اور اپنے دیگر ذرائع کے لحاظ سے بے حد کمزور ہے اور دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ پر گویا آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اس کے مبلغ دنیا کے دور دراز ممالک
مضامین بشیر جلد چهارم 448 میں پہنچ کر اسلام کا جھنڈا بلند کرنے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا بول بالا کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں.حتی کہ اس وقت پاکستان اور ہندوستان کو چھوڑ کر جماعت احمدیہ کا ایک سو سے زائد مبلغ ایسا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کی تبلیغ کا کام سرانجام دے رہا ہے اور دنیا کی ہر قوم کے سنجیدہ طبقہ میں اسلام کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے اور یورپ اور امریکہ کے جو لوگ آج سے چالیس پچاس سال پہلے اسلام کی ہر بات کو شک اور اعتراض کی نظر سے دیکھتے تھے اب خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور روحانی توجہ کے طفیل ایسا تغیر پیدا ہوا ہے کہ وہی لوگ اسلام کی تعلیم کو تعریف اور قدرشناسی کی نظر سے دیکھنے لگ گئے ہیں.اور اسلام کا جھنڈا چارا کناف عالم میں اپنے نظریاتی اثر و رسوخ کے لحاظ سے بلند سے بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے.بے شک ابھی یہ ترقی الہی سنت کے مطابق صرف ایک پیج کے طور پر ہے مگر اس بیج کی اٹھان ایسی ہے کہ اہل عقل و دانش کی دُور بین نگاہیں اس میں ایک عظیم الشان درخت کا نظارہ دیکھ رہی ہیں.اور مسیحیت جس نے اس سے پہلے گویادنیا کی اجارہ داری سنبھال رکھی تھی اب اسلام کے مقابل پر برابر پسپا ہوتی چلی جارہی ہے.چنانچہ براعظم افریقہ کے متعلق جو حضرت مسیح ناصری کے منادوں کا تازہ قلعہ بن رہا تھا بعض مسیحی مبصروں نے بر ملا تسلیم کیا ہے کہ.اگر افریقہ میں مسیحیت ایک انسان کو پہنچتی ہے تو اس کے مقابل پر اسلام دس لوگوں کو بھینچ کر لے جاتا ہے“ ( ورلڈ کر سچن ڈائجسٹ جون 1961ء) یہ محض خدا کا فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی توجہ اور درد بھری دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت جماعت احمدیہ کی حقیر کوششوں سے پاکستان اور ہندوستان کو چھوڑ کر صرف یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور ایشیاء کے بہتیں مختلف ملکوں میں اسلام کے چونسٹھ تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں جن میں ایک سو اٹھارہ احمدی مبلغ دن رات اسلام کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں.ان میں سے اڑسٹھ پاکستانی ہیں جو مرکز کی طرف سے بھجوائے گئے ہیں اور پچاس ایسے ہیں جن کو لوکل طور پر تبلیغ کے کام میں لگایا گیا ہے.اور یہ لوگ بھاڑے کے ٹو نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دلی ذوق و شوق سے دینی تعلیم حاصل کر کے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر رکھی ہیں.اور یہ لوگ الا ماشاء اللہ خدا کے فضل سے رہینیوں کی مقدس جماعت میں داخل ہیں جن کی قرآن مجید خاص طور پر تعریف فرماتا ہے.یہی تیز رفتاری خدا کے فضل سے دیگر سامان جہاد کی تیاری میں نظر آتی ہے.چنانچہ اس وقت تک جماعت احمدیہ کی کوشش سے خدائے واحد کی عبادت کے لئے مختلف بیرونی ملکوں میں گزشتہ چند سالوں میں دوسونوے 290 مساجد تعمیر ہو چکی ہیں.اسی طرح یورپ،
مضامین بشیر جلد چهارم 449 امریکہ اور افریقہ میں جماعت احمدیہ کی قائم کردہ نئی درسگاہوں کی تعداد چوالیس ہے اور جماعت کی طرف سے بیرونی ملکوں میں شائع ہونے والے تبلیغی اخباروں اور رسالوں کی تعداد انیس ہے جو پاکستانی اور ہندوستانی اخباروں کے علاوہ ہے اور قرآن مجید کے جو تر جمے اس وقت تک یورپین اور امریکن اور افریقن زبانوں میں جماعت احمدیہ کی طرف سے تیار کئے جاچکے ہیں ان کی تعداد گیارہ ہے جن میں سے پانچ چھپ چکے ہیں اور بقیہ کے چھپنے کا انتظام کیا جارہا ہے.اور دیگر کثیر التعداد دینی لٹریچر اس کے علاوہ ہے.اور خدا کے فضل سے یہ سلسلہ دن بدن وسیع ہوتا جارہا ہے اور انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا سے علم پا کر فرماتے ہیں کہ.”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اُس (خدا) کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرادر کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جاے گی...یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اُن کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اتر تے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نا امید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے.اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تختم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.( تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66-67) ی عظیم الشان نتائج خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود کی دردمندانہ دعاؤں اور جماعت احمدیہ کی دن رات کی والہانہ تبلیغ اور اسلام کے لئے اُن کی مخلصانہ کوششوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں پیدا ہور ہے ہیں اور
مضامین بشیر جلد چهارم 450 پیدا ہوتے چلے جائیں گے تا وقتیکہ اسلام کے کامل غلبہ کا دن آجائے اور دنیا پر ظاہر ہو جائے کہ فتح وظفر کی کلید خدا کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ اسلام کو اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر وا کراہ کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنے غیر معمولی حسن و جمال اور اپنی زبر دست روحانی قوت اور مسیح محمدی کی بے نظیر جمالی کشش کے زور سے دنیا کو فتح کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اسی آئینہ جمال کو میں انشاء اللہ اپنے اس مضمون میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ $50 حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ 13 فروری 1835ء کو جمعہ کے دن قادیان میں پیدا ہوئے.یہ سکھوں کا زمانہ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے آخری ایام تھے.اس کے بعد 1876ء میں آپ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضے صاحب کی وفات ہوئی اور گو اس سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وحی والہام کے نزول کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا.لیکن اس وقت سے تو گویا خدائی رحمت کی تیز بارش مسلسل برسنی شروع ہو گئی اور والد کا سایہ اٹھتے ہی خدائی نصرت نے آپ کا ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھام لیا.اس کے بعد مارچ 1882ء میں حضرت مسیح موعود کو ماموریت کا پہلا الہام ہوا ( براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 238) جو اس عظیم الشان روحانی جہاد کا آغاز تھا جو آدم سے لے کر آج تک ہر مرسل یزدانی کے زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے لیکن اب تک بھی حضور نے بیعت کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا اور نہ ہی جماعت احمدیہ کی بنیاد قائم کی گئی تھی.جماعت کی بنیاد بالآخر خدائی حکم کے ماتحت 1889ء کے ابتداء میں آکر قائم ہوئی اور گویا خدائی خدمت گاروں کی باقاعدہ فوج بھرتی ہونی شروع ہوگئی.اس کے جلد بعد ہی حضور نے خدا سے الہام پا کر مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا جس پر چاروں طرف سے مخالفت کا ایسا طوفان اٹھا کہ الحفیظ والامان.اور یہ مخالفت آپ کی تاریخ وفات تک جو 1908ء میں ہوئی برابر تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی گئی اور ہر قوم آپ کی مخالفت میں حصہ لینے کو فخر مجھنے لگی اور جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے خدا کی یہ از لی سنت پوری ہوئی کہ کوئی خدائی مصلح ایسا نہیں آتا جس کا انکار نہ کیا جاتا ہو اور ہنسی مذاق اور طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنایا جاتا ہو.(پس: 31) ماموریت کے الہام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کچھ اوپر چھپیں سال زندہ رہے اور بیعت کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد آپ نے اس دنیا میں قریباً ہمیں سال گزارے جو قمری حساب سے قریباً اکیس سال کا زمانہ بنتا ہے اور یہ طویل زمانہ ایک طرف مخالفت کی انتہائی شدت اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود
مضامین بشیر جلد چهارم 451 کی جمالی صفات کی غیر معمولی شان کے ظہور میں گزرا.جیسا کہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حضرت مسیح موعود کے بعض قریبی رشتہ داروں نے بھی آپ کی مخالفت کی.آپ کی بستی والوں نے بھی مخالفت کی.شہروں کے باشندوں نے بھی مخالفت کی.دیہات کے رہنے والوں نے بھی مخالفت کی.امیروں نے بھی مخالفت کی.غریبوں نے بھی مخالفت کی.مولویوں نے بھی مخالفت کی اور انگریزی خوانوں نے بھی مخالفت کی.پھر مسلمانوں نے بھی مخالفت کی اور عیسائیوں نے بھی مخالفت کی اور ہندوؤں نے بھی مخالفت کی اور آزاد خیال لوگوں نے بھی مخالفت کی اور ہر طبقہ اور ہر ملت نے مخالفت کے ناپاک خون میں اپنے ہاتھ رنگے.لیکن ہر مخالفت کے وقت آپ کی جمالی صفات زیادہ آب و تاب کے ساتھ چمکیں اور دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ چودھویں رات کا روحانی چاند جس نے عرب کے سراج منیر سے نور حاصل کیا تھا ایسا نہیں کہ اُس کی روشنی کسی عارضی سایہ سے متاثر ہو کر مدھم پڑ جائے چنانچہ آپ آہستہ آہستہ ہر طبقہ اور ہر فرقہ اور ہر مکتب خیال میں سے سعید الفطرت لوگوں کو کھینچتے چلے گئے حتی کہ آپ کی وفات کے وقت چار لاکھ فدائی آپ کے روحانی حسن و جمال پر فریفتہ ہو کر آپ کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو چکے تھے.چونکہ ہر خوبی اور ہر حسن کا منبع خدا کی ذات والا صفات ہے اس لئے جمالی صفات کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے حسن و جمال کی مثال دیتے ہوئے اپنے ایک لطیف شعر میں فرماتے ہیں.چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا (سرمه چشم آرید) یعنی چودھویں کے چاند کے حسن اور دلکشی اور دلربائی اور ٹھنڈک اور اس کی مسحور کر دینے والی تاثیر کو دیکھ کر میں کل رات بالکل بے چین ہو گیا کیونکہ اُس میں میرے آسمانی معشوق اور خالق فطرت کے حسن و جمال کی کچھ کچھ جھلک نظر آتی تھی.اسی نظم میں آگے چل کر آپ خدا کے عشق میں متوالے ہو کر فرماتے ہیں.ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا
452 6.مضامین بشیر جلد چهارم حق یہ ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز کے حسن و جمال کا منبع صرف اور صرف خدا کی ذاتِ والا صفات ہے.وہی دنیا کی چیزوں کو جمال کی دلکشی عطا کرتا ہے اور وہی ہے جو اُن کو جلال کی شان و شوکت سے زینت بخشتا ہے.ایک میں سورج کی روشنی کی طرح آنکھوں کو خیرہ کرنے والی تیزی ہے جس کی حدت اور رعب کی وجہ سے کسی کی مجال نہیں کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے.اور دوسرے میں چاند کی سی ٹھنڈک اور دلر بائی ہے جو دیکھنے والے کو مسحور کر کے رکھ دیتی ہے.اور خدا کی بار یک در بار یک حکمت نے تقاضا کیا کہ اپنے رسولوں اور نبیوں میں بھی اسی جلال و جمال کا دور چلائے.چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت موسی اور حضرت عیسی ایک ہی سلسلہ کے نبی تھے اور ایک ہی شریعت کے تابع تھے مگر دونوں کے زمانوں اور ان زمانوں کے الگ الگ حالات نے تقاضا کیا کہ حضرت موسی کو نئی شریعت کے ساتھ جلالی شان میں بھجوایا جائے اور حضرت عیسی کو جمالی شان میں موسوی شریعت کی خدمت اور اشاعت کے لئے مبعوث کیا جائے.حضرت عیسی نے اپنی اس تابع حیثیت کو خود بھی انجیل میں برملاطور پر تسلیم کیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں (یعنی جب تک نئی روحانی زمین اور نیا روحانی آسمان پیدا نہ ہو جائے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنی شریعت کے ذریعہ پیدا ہو گیا ) ایک نقطہ یا ایک شوشہ تو رات سے ہرگز نہ ملے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے.“ (متی باب 5 آیت 17 و 18 ) جلال و جمال کا یہی لطیف دور محمدی سلسلہ میں بھی چلتا ہے.چنانچہ ہمارے آقا حضرت سرور کائنات خاتم النبین صلے اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی) جلالی شان میں ظاہر ہوئے جن کے نور نے آسمانی بجلی کی چمک کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارے عرب بلکہ اس وقت کی ساری معلوم دنیا کو اپنی ضیا پاش کرنوں سے اس طرح منور کر دیا کہ اقوامِ عالم کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گئیں.مگر آپ کے خادم اور ظلِ کامل مسیح محمدی بانی سلسلہ احمدیہ نے پہلی رات کے چاند کی طرح اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی کرنوں کے ساتھ طلوع کیا اور اب آہستہ آہستہ بدر کامل بنتے ہوئے دنیا کے کناروں تک دیکھنے والوں کی آنکھوں پر جادو کرتا چلا جارہا ہے.الہی سلسلوں میں جلال و جمال کا نظام خدا تعالیٰ کی عجیب و غریب حکمت پر مبنی ہے.جب خدا نے کسی نئی شریعت کے نزول کے ذریعہ
مضامین بشیر جلد چہارم 453 دنیا میں کوئی نیا سلسلہ قائم کرنا ہوتا ہے تو اس وقت اس کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی جلالی مصلح کو مبعوث فرماتا ہے جو اپنی پختہ تنظیم اور مضبوط نظم و نسق کے ذریعہ ایک نئی جماعت کی بنیا درکھ کر اسے خدا کی نازل کردہ جدید شریعت پر قائم کر دیتا ہے جس کے لئے کسی نہ کسی رنگ میں حکومت کے نظام کی ضرورت ہوتی ہے.مگر جب کسی نئی شریعت کا نزول مقصود نہیں ہوتا بلکہ صرف سابقہ شریعت کی خدمت اور بگڑے ہوئے عقائد کی اصلاح اور قوم کی روحانی اور اخلاقی تربیت اصل غرض و غایت ہوتی ہے تو ایسے وقت میں جمالی مصلح مبعوث کیا جاتا ہے جو محبت اور نصیحت اور فروتنی اور تربیت اور اصلاحی پروگرام کے ذریعہ اپنا کام کرتا ہے مگر بہر حال دعاؤں اور معجزات کا سلسلہ دونوں نظاموں میں یکساں جاری رہتا ہے کیونکہ یہی دو چیزیں ہر روحانی نظام کی جان ہیں.حضرت موسی جلالی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے اور ان کے چودہ سو سال بعد خدائی پیشگوئی کے مطابق حضرت عیسی نے جمالی شان کے ساتھ فروتنی کے لباس میں ظہور کیا.اسی طرح ہمارے آقا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی ) جلالی شان کا جبہ زیب تن کئے ہوئے جاہ و حشمت کے ساتھ منظر عام پر آئے اور آپ کے چودہ سو سال بعد آپ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے شاگرد اور خادم حضرت مسیح محمدی نے اپنے سفید جھنڈے کے ساتھ جمالی شان میں آسمانِ ہدایت سے نزول کیا.وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَّ عَدْلًا.7 جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمالی مصلح تھے جو اُسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں مبعوث کئے گئے جس طرح کہ اسرائیلی سلسلہ میں حضرت موسی کے بعد حضرت عیسی جمالی رنگ میں ظاہر ہوئے.یہ درست ہے کہ جب کسی روحانی مصلح کو جمالی یا جلالی کہا جاتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس کی ہر بات جمالی یا جلالی شان رکھتی ہے بلکہ اس کی طبیعت اور اس کے طریق کار کے غالب رجحان کی وجہ سے اسے جمالی یا جلالی کا نام دیا جاتا ہے.ورنہ حق یہ ہے کہ ظل الله یعنی خدا کے نائب ہونے کی حیثیت میں ہر روحانی مصلح میں ایک حد تک جلالی اور جمالی دونوں شانیں پائی جاتی ہیں.مگر جس مصلح میں خدائی مشیت اور زمانہ کے تقاضے کے ماتحت جلالی شان کا غلبہ ہو، اسے اصطلاحی طور پر جلالی مصلح قرار دیا جاتا ہے اور ایسے مصلح عمو مانئی شریعت کے قیام یا کسی زبر دست نئی تنظیم کے استحکام کے لئے آتے ہیں.دوسری طرف جس روحانی مصلح میں جمالی شان کا غلبہ ہوتا ہے اسے جمالی مصلح کا نام دیا جاتا ہے گوجیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ظل الله یا کامل عبد ہونے کی وجہ سے اس میں بھی کبھی کبھی جلالی شان کی جھلک پیدا ہو جاتی ہے مگر اس کے مقام کا مرکزی نقطہ بہر حال جمالی رہتا ہے.جلالی اور جمالی شانوں
مضامین بشیر جلد چهارم 454 کا یہ لطیف دور ایک حد تک خلفاء کے سلسلہ میں بھی چلتا ہے چنانچہ حضرت ابوبکر جمالی شان رکھتے تھے مگر حضرت عمرؓ جلالی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے.اسی طرح سلسلہ احمدیہ کے پہلے خلیفہ حضرت مولوی نورالدین صاحب جمالی خلیفہ تھے مگر جیسا کہ مصلح موعود والی پیشگوئی میں مذکور ہے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ” جلال الہی کے ظہور کا موجب قرار دئیے گئے.جلال اور جمال کے اس دور میں بڑی گہری حکمتیں ہیں جن کے بیان کرنے کی اس جگہ ضرورت نہیں.بہر حال چونکہ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ مسیح ناصری کی طرح جمالی شان کے مصلح تھے اس لئے آپ کے تمام کاموں میں جمالی شان کا غلبہ نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شفقت و محبت اور پند و نصیحت اور عفو و کرم کے اس پیکر نے رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم کے احمد نام کی ظلیت میں جنم لے لیا ہے.حضرت مسیح موعود نے دنیا میں شادی بھی کی اور خدا نے آپ کو اولاد سے بھی نوازا اور آپ کو مخلص دوست بھی عطا کئے گئے اور دشمنی کرنے والوں نے بھی اپنی دشمنی کو انتہا تک پہنچا دیا اور ہر رنگ میں آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور آپ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی گئیں اور جھوٹے مقدمات کھڑے کئے گئے اور حکومت کو آپ کے متعلق بدظن کرنے کی تدبیریں بھی کی گئیں اور آپ کے ماننے والوں کو انتہائی تکالیف کا نشانہ بھی بنایا گیا.مگر آپ نے نہ صرف اپنے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسایوں کے لئے اور نہ صرف حکومت کے لئے جس کے آپ اسلامی تعلیم کے مطابق کامل طور پر وفادار تھے بلکہ اپنے جانی دشمنوں کے لئے بھی اپنی فطری رحمت کا ثبوت دیا اور اپنی جمالی شان کا ایسے رنگ میں مظاہرہ کیا جس کی مثال نہیں ملتی.8 میں نے اپنی گزشتہ سال کی تقریر میں بیان کیا تھا کہ کس طرح کابل کے سابق حکمران امیر حبیب اللہ خان نے اپنے ملک کے ایک بہت بڑے رئیس اور پاک فطرت نیک بزرگ کو جنہوں نے اس کی تاجپوشی کی رسم ادا کی تھی حضرت مسیح موعود کو قبول کرنے پر زمین میں گاڑ کر بڑی بے رحمی سے سنگسار کرا دیا تھا.اور اس طرح عاشق مسیح کی روح آخر تک یہی پکارتی رہی کہ جس صداقت کو میں نے خدا کی طرف سے حق سمجھ کر پہچان لیا ہے اسے دنیا کی ادنی زندگی کی خاطر کبھی نہیں چھوڑ سکتا.جب صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کے قتل کا حکم دینے والا امیر حبیب اللہ خان اس واقعہ کے بعد انگریزی حکومت کا مہمان بن کر ہندوستان آیا تو اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ بعض اوقات امیر حبیب اللہ خان بوٹ پہنے ہوئے مسجد کے اندر چلا گیا اور اسی حالت میں نماز ادا کی.اس پر بعض اخباروں میں اعتراض اٹھایا گیا کہ امیر کی یہ حرکت غیر اسلامی ہے اور اور
مضامین بشیر جلد چهارم 455 آداب مسجد کے خلاف ہے.اور کسی احمدی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود کو بھی جاسنائی کہ امیر حبیب اللہ خاں نے مسجد کی ہتک کی ہے اور جوتے پہن کر اندر چلا گیا ہے اور جوتوں میں ہی نماز ادا کی ہے.اس پر حضرت مسیح موعود نے اعتراض کرنے والے کو فورا ٹوک کر فرمایا کہ.اس معاملہ میں امیر حق پر تھا کیونکہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز ہے“ (اخبار بدر 11 اپریل 1907ء) سنانے والے نے تو یہ خبر اس لئے سنائی ہوگی کہ چونکہ امیر حبیب اللہ خان احمدیت کا دشمن ہے اور اس نے ایک برگزیدہ اور پاکباز احمدی بزرگ صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب کو محض احمدیت کی وجہ سے انتہائی ظلم کے طریق پر سنگسار کرا دیا ہے اس لئے غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اس کا ذکر آنے پر اس کے متعلق ناراضگی کا اظہار فرمائیں گے مگر اس پیکرِ انصاف وصداقت نے جو اپنے جانی دشمنوں کے لئے بھی حق و انصاف کا پیغام لے کر آیا تھا سنتے ہی فرمایا کہ.یہ اعتراض غلط ہے اس میں امیر کی کوئی غلطی نہیں کیونکہ جوتے پہن کر مسجد میں جانا جائز ہے.یہ اس وسیع رحمت کا ثبوت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک دل میں دوستوں اور دشمنوں اور اپنوں اور بیگانوں اور چھوٹوں اور بڑوں سب کے لئے خالق فطرت کی طرف سے یکساں ودیعت کی گئی تھی.9 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وسیع عضو ورحمت کا ایک اور دلچسپ واقعہ بھی مجھے اس جگہ یاد آ گیا.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جو حضرت مسیح موعود کے مشہور وقائع نگار تھے اپنی تصنیف ”حیات احمد میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود لاہور میں قیام فرما تھے اور ایک مقامی مسجد میں فریضہ نماز ادا کر کے اپنی فرودگاہ کی طرف واپس تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک قوی ہیکل شخص نے جو ان ایام میں مہدی ہونے کا مدعی تھا اور محمد رسول اللہ کی بجائے مہدی رسول اللہ کا کلمہ پڑھتا تھا پیچھے کی طرف سے آکر حضرت مسیح موعود پر اچانک حملہ کر دیا اور حضور کو زور کے ساتھ اٹھا کر زمین پر دے مارنے کی کوشش کی.یہ بد بخت حضور کو گرا تو نہ سکا مگر میں نے دوسرے طریق سے سنا ہوا ہے کہ ) اُس کے اچانک حملہ سے حضور کچھ ڈگمگا گئے اور حضور کا عمامہ مبارک گرتے گرتے بچا.اس پر سیالکوٹ کے ایک مخلص دوست سیدامیر علی شاہ صاحب نے فورا لپک کر اس شخص کو پکڑ لیا اور اسے دھکا دے کر الگ کرتے ہوئے ارادہ کیا کہ اسے اس گستاخی اور قانون شکنی اور مجرمانہ حملہ کی سزا دیں.جب حضرت مسیح موعود نے دیکھا کہ سید امیرعلی شاہ صاحب اسے مارنے
مضامین بشیر جلد چهارم لگے ہیں تو حضور نے بڑی نرمی کے ساتھ مسکراتے ہوئے فرمایا.456 شاہ صاحب! جانے دیں اور اسے کچھ نہ کہیں یہ بے چارہ سمجھتا ہے کہ ہم نے اس کا (مہدی والا ) عہدہ سنبھال لیا ہے ( حیات احمد مصنفہ عرفانی صاحب جلد سوم صفحہ 210) شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد جب تک حضرت مسیح موعود اپنی قیام گاہ تک نہیں پہنچ گئے حضور بار بار پیچھے کی طرف منہ کر کے دیکھتے جاتے تھے تا کہ کوئی شخص غصہ میں آ کر اسے مارنہ بیٹھے اور تاکید فرماتے جاتے تھے کہ اسے کچھ نہ کہا جائے.یہ وہی وسیع عفو و رحمت اور خاص جمالی شان ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعوڈ اپنے ایک شعر میں بیان فرماتے ہیں کہ.ے گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے لیکن خدائے غیور کی غیرت کا نظارہ دیکھو کہ حضرت مسیح موعود نے تو اس وحشیانہ حملہ کرنے والے کو معاف کر دیا اور اس کے ساتھ عفو و رحمت کا سلوک فرمایا مگر خدا نے اپنے محبوب مسیح کا انتقام لے لیا اور انتقام بھی ایسے رنگ میں لیا جو اُسی کے شایانِ شان ہے چنانچہ عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد اس حملہ کرنے والے شخص کا حقیقی بھائی جس کا نام پیغمبر اسنگھ تھا احمدی ہو گیا اور اخلاص میں اتنا ترقی کر گیا کہ اس نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر نہ صرف اپنے بھائی کی طرف سے معافی مانگی بلکہ اُسی شہر لاہور کی ایک مجلس میں جہاں اس کے بھائی نے خدا کے مقدس مامور کی گستاخی کی تھی حضور پر محبت اور عقیدت کے ساتھ پھول برسائے.اس شخص نے اپنا نام پیغمبر اسنگھ اس لئے رکھا ہوا تھا کہ احمدی ہونے سے پہلے اس کا دعوی تھا کہ وہ سکھوں کا گرویا اوتار ہے مگر جب خدا تعالیٰ نے اس پر حقیقت کھول دی تو اس نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر حضور کے قدموں میں اپنے دل کی راحت پائی.( حیات احمد جلد سوم صفحہ 210) یہ پیغمبر اسنگھ ایک بھاری بھر کم جسم کا انسان تھا اور احمدی ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود کے ساتھ بڑا اخلاص رکھتا تھا اور اکثر اوقات حضور کی محبت اور تعریف میں شعرا تا پھرتا تھا اور کبھی کبھی تبلیغ کی غرض سے حضرت بابا نانک صاحب کے چولے کی طرح کا ایک چولہ بنا کر بھی پہنا کرتا تھا.یہ اسی قسم کا لطیف خدائی انتقام ہے جیسا کہ خدا نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن ابو جہل سے لیا تھا کہ اس کی موت کے
457 مضامین بشیر جلد چهارم بعد اس کا بیٹا عکرمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو گیا اور اسلام کی بھاری خدمات سرانجام دیتا ہوا شہید ہوا.احمدیت میں خدا کے فضل سے ایسی مثالیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ہیں کہ باپ مخالف تھا مگر بیٹے کو احمدیت کا عاشق زار بننے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت مسیح موعود نے تمثیلی رنگ میں کیا خوب فرمایا ہے کہ.دوگه بصلحت کشند و گاه به جنگ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 125) یعنی کبھی تو لوگ تجھے صلح کے ذریعہ شکار کرتے ہیں اور کبھی جنگ کے طریق پر مارتے ہیں.*10 اسی قسم کی شفقت و رحمت کا ایک واقعہ قادیان کے ایک آریہ لالہ ملا وامل صاحب کے ساتھ بھی پیش آیا.لالہ صاحب نو جوانی کے زمانہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے مگر اپنے مذہبی اور قومی تعصب میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت مسیح موعود نے انہیں کئی دفعہ خدا داد نشانوں کی گواہی کے لئے بلایا جوان کی آنکھوں کے سامنے گزرے تھے اور وہ ان کے چشم دید اور گوش شنید گواہ تھے مگر وہ ہمیشہ مذہبی تعصب کی وجہ سے شہادت دینے سے گریز کرتے رہے.ایک دفعہ یہی لالہ ملا وامل صاحب دق کے مرض میں مبتلا ہو گئے اور حالت بالکل مایوسی اور نا امیدی کی ہو گئی.اس پر وہ ایک دن بے چین ہو کر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالت بتا کر بہت روئے اور باوجود مخالف ہونے کے اُس اثر کی وجہ سے جو حضرت مسیح موعود کی نیکی کے متعلق ان کے دل میں تھا حضور سے عاجزی کے ساتھ دعا کی درخواست کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی یہ حالت دیکھ کر رحم آ گیا اور آپ کا دل بھر آیا اور آپ نے ان کے لئے خاص توجہ سے دعا فرمائی جس پر آپ کو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ.بن جا! يَا نَارُ كُونِي بَرْداً وَّ سَلَامًا (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 277 نشان نمبر 117) یعنی اے بیماری کی آگ ! تو اس نوجوان پر ٹھنڈی ہو جا اور اس کے لئے حفاظت اور سلامتی کا موجب چنانچہ اس کے بعد لالہ ملا وامل صاحب بہت جلد اس خطرناک مرض سے جو ان ایام میں موت کا پیغام سمجھی جاتی تھی شفایاب ہو گئے اور نہ صرف شفایاب ہو گئے بلکہ سوسال کے قریب عمر پائی اور ملکی تقسیم کے کافی
مضامین بشیر جلد چهارم 458 عرصہ بعد قادیان میں فوت ہوئے.اور باوجود اس کے کہ وہ آخر دم تک مذہبا کٹر آریہ رہے ان کی طبیعت پر حضرت مسیح موعود کی نیکی اور تقویٰ اور آپ کی خداداد روحانی طاقتوں کا اتنا گہرا اثر تھا کہ جب ملکی تقسیم کے وقت قادیان اور اس کے گرد و نواح میں شدید فسادات رونما ہوئے اور سکھوں اور ہندوؤں نے اپنے مظالم کے ذریعہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور بہت سے بے گناہ مسلمان مرد اور عور تیں اور بچے اور بوڑھے اور بعض احمدی بھی بڑی بے دردی کے ساتھ مارے گئے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اور جماعت کے اکثر دوست پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور صرف وہی پیچھے رہ گئے جن کو جماعتی انتظام کے ماتحت مقدس مقامات کی آبادی کے لئے ٹھہرے رہنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس وقت لالہ ملا وامل صاحب نے اپنے بیٹے لالہ داتا رام کو بلا کر نصیحت کی کہ.وو دیکھو تم ہر گز احمد یوں کی مخالفت نہ کرنا کیونکہ مرزا صاحب نے پیشگوئی کی ہوئی ہے کہ ان کی جماعت قادیان پھر واپس آئے گی اور میں دیکھ چکا ہوں کہ جو بات مرزا صاحب کہا کرتے تھے وہ پوری ہو جایا کرتی تھی، ( مسل رپورٹ ہائے از قادیان) ایک کٹر آریہ کا اپنی انتہائی مخالفت کے باوجود یہ تأثر حضرت مسیح موعود کی صداقت اور آپ کی نیکی اور روحانی تاثیر کی زبر دست دلیل ہے.وَالْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ.11 لالہ ملا وامل صاحب سے تعلق رکھنے والی روایت کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے اپنے مرکز قادیان سے نکلنے اور پھر واپس آنے کی پیشگوئی کا ذکر ضمنی طور پر اوپر گزر چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی دراصل اپنے اندر غیر معمولی شان رکھتی ہے اور جب خدا کے فضل سے اس پیشگوئی کا دوسرا حصہ جو قادیان کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے پورا ہو گا تو اس کی شان اور بھی زیادہ آب و تاب سے ظاہر ہوگی اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ نہ صرف غیب کے علم کی کنجی خدا کے ہاتھ میں ہے بلکہ ہر قسم کی قدرت اور تصرف اور تقدیر خیر وشر کی کلید بھی اُسی آسمانی آقا کے قبضہ میں ہے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عرصہ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ دل ہلا دینے والا الہام ہوا تھا کہ.داغ ہجرت یعنی اے خدا کے مسیح! تجھے یا تیری جماعت کو ایک دن ہجرت کا داغ دیکھنا ہوگا.( ستمبر 1894 ء بحوالہ تفخیذ الا ذہان جون وجولائی 1908ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 459 اس الہام کی بناء پر نیز انبیاء کی عمومی سنت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا اور حضور کبھی کبھی ذکر بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں یا ہمارے بعد ہماری جماعت کو ایک دن قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی.چنانچہ 1947ء میں آ کر حضور کا یہ الہام غیر معمولی حالات میں پورا ہوا اور وہ یہ کہ باوجود اس کے کہ ضلع گورداسپور کی آبادی میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ملکی تقسیم کے متعلق سمجھوتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے پاکستان کے حصہ میں ڈالے جائیں گے، فیصلہ کرنے والے افسروں نے قادیان کا علاقہ ہندوستان کے حصہ میں ڈال دیا اور جماعت کے خلیفہ اور جماعت کے کثیر حصہ کو کئی قسم کی تکلیفیں برداشت کر کے اور نقصان اٹھا کر اور قربانیاں دے کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی.اور اس طرح ظاہری حالات اور توقعات کے بالکل خلاف حضرت مسیح موعود کا داغ ہجرت‘ والا الہام اپنی انتہائی تلخی کے ساتھ پورا ہوا اور اس پیشگوئی کی پہلی شاخ جو ہجرت سے تعلق رکھتی تھی حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک زبر دست نشان بن گئی.قادیان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مولد ومسکن تھا اور وہیں حضرت مسیح موعود نے اپنی زندگی کے دن گزارے اور وہیں خدائے واحد کی عبادتیں کیں اور وہیں اپنی دعاؤں سے زمین و آسمان کو ہلایا اور وہیں حضور کا جسدِ مبارک اپنے بے شمار فدائیوں کے ساتھ اس دنیا کی آخری نیند سورہا ہے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا.خدا کی یہ تقدیر بہر حال ایک بڑی تلخ تقدیر ہے اور جماعت کے لئے ایک زبر دست امتحان بھی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ تقدیر آسمان سے یہ الارم بھی مسلسل دے رہی ہے کہ اب اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے پورے ہونے کا وقت آ رہا ہے.اس کے لئے گریہ وزاری سے دعائیں کرو اور خدا کی طرف سے نزول رحمت کے طالب بنو.چنانچہ قادیان کی واپسی کے متعلق حضرت مسیح موعود کا ایک اور واضح الہام یہ ہے کہ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآدُكَ إِلى مَعَادٍ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ آتِيكَ بَغْتَةً ( تذکرہ جدید ایڈیشن صفحہ 256) یعنی زمین و آسمان کا مالک خدا جس نے تجھ پر قرآن کی تبلیغ فرض کی ہے وہ تجھے ضرورضرور ایک دن تیرے وطن ( قادیان) کی طرف واپس لے جائے گا.اور میں تیری مدد کے لئے اپنی فوجوں کے ساتھ اچانک پہنچوں گا.یہ خدائے عرش کی وہ تقدیر ہے جو ہجرت والی پیشگوئی کی دوسری شاخ کے طور پر حضرت مسیح موعود کے قلب صافی پر نازل کی گئی اور انشاء اللہ وہ ضرور اپنے وقت پر پوری ہوکر رہے گی.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ
مضامین بشیر جلد چهارم 460 وقت کب آئے گا.یہ غیب کی باتیں ہیں جو خدا کے ازلی علم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.مگر ہم یہ بات قطعی طور پر جانتے ہیں اور ہماری نسلوں کو یہ بات اپنے پاس لکھ رکھنی چاہئے کہ قادیان جو خدا کے ایک مقدس رسول کا تخت گاہ ہے وہ انشاء اللہ ضرور ضرور ہمیں جس رنگ میں بھی خدا کو منظور ہوا ایک دن واپس ملے گا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا کی یہ تقدیر ایک ایسی پتھر کی لکیر ہے جو کبھی نہیں مٹ سکتی.ہم کسی حکومت کے بدخواہ نہیں اور ہمیں خدا کا اور اس کے رسول گیا اور اپنے امام کا یہی حکم ہے کہ جس حکومت کے ماتحت بھی رہو اس کے دل سے وفادار بن کر رہو.پس پاکستان کے احمدی پاکستان کے وفادار ہیں اور ہندوستان کے احمدی ہندوستان کے وفا دار ہیں اور اسی طرح ہر دوسرے ملک کے احمدی اپنے اپنے ملک کے وفادار ہیں.اور جھوٹا ہے وہ شخص جو ہماری نیتوں کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے.ہم خدا کے فضل سے ایک خدائی مامور کی جماعت ہیں جو نیکی اور راستی اور دیانت پر قائم کی گئی ہے اور جھوٹ بولنا لعنتی انسان کا کام ہے.ہم وہی بات کہتے ہیں جو خدا نے ہمیں بتائی ہے اور دنیا کا امن بھی اسی اصول کا متقاضی ہے.مگر یا درکھنا چاہئے کہ یہ تقدیر خدا کی ان تقدیروں میں سے ہے جو بغتة کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں یعنی ان کی درمیانی کڑیاں نظر سے اوجھل رہتی ہیں اور آخری نتیجہ اچانک نمودار ہو کر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود کے الہام کے مطابق یہی انشاء اللہ اس پیشگوئی کی صورت میں بھی ہوگا.لیکن کب اور کس طرح ہوگا یہ خدائی غیب کی باتیں ہیں جن میں ہمیں قیاس آرائی کی ضرورت نہیں.خدا کی قدرت تو اتنی وسیع ہے کہ وہ جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی طرف سے محض کسن کا اشارہ ہونے پر اس کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس مایوس نہ ہو اور اپنی ہمتوں کو بلند رکھو اور دعائیں کرتے چلے جاؤ اور نیکی اختیار کرو تا کہ خدا جلد اپنے وعدہ کا دن لے آئے.اسلام کا خدا تو اس بات پر بھی قادر ہے کہ اپنے خاص الخاص تصرف کے ساتھ ایسے غیر متوقع حالات پیدا کر دے جن کے نتیجہ میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کسی ایسے فیصلہ کا رستہ کھل جائے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو.حضرت مسیح موعود نے کیا خوب فرمایا ہے کہ.قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
461 12 مضامین بشیر جلد چهارم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدائی رحمت کے چھینٹے گرنے کا ذکر کر رہا تھا.یہ چھینٹا بلا امتیاز دوست و دشمن سب لوگوں اور سب طبیعتوں اور سب قوموں پر علی قدر مراتب گرتا تھا.مگر طبعا یہ چھینٹا دوستوں پر زیادہ گرتا تھا لیکن دوسروں کے لئے بلکہ دشمنوں تک کے لئے بھی گاہے گا ہے نشانِ رحمت کے طور پر گرتا رہتا تھا.ایک آریہ مخالف کے لئے تو اس رحمت کے چھینٹے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے.اب کابل سے آئی ہوئی ایک غریب مہاجر احمدی عورت کا ذکر بھی سن لو جس نے غیر معمولی حالات میں حضرت مسیح موعود کے دم عیسوی سے شفا پائی.مسماۃ امتہ اللہ بی بی سکنہ علاقہ خوست مملکت کا بل نے مجھ سے بیان کیا کہ جب وہ شروع شروع میں اپنے والد اور چچا سید صاحب نور اور سید احمد نور کے ساتھ قادیان آئی تو اس وقت اس کی عمر بہت چھوٹی تھی اور اس کے والدین اور چا چی حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد قادیان چلے آئے تھے.مسماۃ امتہ اللہ کو بچپن میں آشوب چشم کی سخت شکایت ہو جاتی تھی اور آنکھوں کی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ انتہائی درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے وہ آنکھ کھولنے تک کی طاقت نہیں رکھتی تھی.اس کے والدین نے اس کا بہت علاج کرایا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا اور تکلیف بڑھتی گئی.ایک دن جب اس کی والدہ اسے پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دوائی ڈالنے لگی تو وہ ڈر کر یہ کہتے ہوئے بھاگ گئی کہ میں تو حضرت صاحب سے دم کراؤں گی.چنانچہ وہ بیان کرتی ہے کہ میں گرتی پڑتی حضرت مسیح موعود کے گھر پہنچ گئی اور حضور کے سامنے جا کر روتے ہوئے عرض کیا کہ میری آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اور در داور سرخی کی شدت کی وجہ سے میں بہت بے چین رہتی ہوں اور اپنی آنکھیں تک کھول نہیں سکتی.آپ میری آنکھوں پر دم کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو میری آنکھیں خطرناک طور پر ابلی ہوئی تھیں اور میں درد سے بے چین ہو کر کراہ رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی انگلی پر تھوڑا سا لعاب دہن لگایا اور ایک لمحہ کے لئے رُک کر (جس میں شاید حضور دل میں دعا فرما رہے ہوں گے ) بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ اپنی یہ انگلی میری آنکھوں پر آہستہ آہستہ پھیر دی اور پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا.بچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف پھر کبھی نہیں ہوگی روایت مسماة امۃ اللہ بی بی مہاجرہ علاقه خوست ) مسماة امتہ اللہ بیان کرتی ہے کہ اس کے بعد آج تک جبکہ میں ستر سال کی بوڑھی ہو چکی ہوں کبھی ایک
مضامین بشیر جلد چہارم 462 دفعہ بھی میری آنکھیں دُکھنے نہیں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دم کی برکت سے میں اس تکلیف سے ہمیشہ بالکل محفوظ رہی ہوں، حالانکہ اس سے پہلے میری آنکھیں اکثر دکھتی رہتی تھیں اور میں بہت تکلیف اٹھاتی تھی.وہ بیان کرتی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود نے اپنا لعاب دہن لگا کر میری آنکھوں پر دم کرتے ہوئے اپنی انگلی پھیری تو اس وقت میری عمر صرف دس سال کی تھی.گویا ساٹھ سال کے طویل عرصہ میں حضرت مسیح موعود کے اس روحانی تعویذ نے وہ کام کیا جو اس وقت تک کوئی دوائی نہیں کر سکی تھی.دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ دم کرنے کا طریق در اصل دعا ہی کی ایک قسم ہے جس میں قولی دعا کے ساتھ دعا کرنے والے کی آنکھوں کی توجہ اور اس کے لمس کی برکت بھی شامل ہو جاتی ہے اور یہ وہی طریقہ علاج ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی بعض حدیثوں میں بھی مذکور ہے اور جس کے ذریعہ حضرت عیسی بھی بعض اوقات اپنے مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے.چنانچہ کسی شاعر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کی تعریف میں کیا خوب کہا ہے کہ.حسن یوسف، دم عیسے، ید بیضا داری آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری یعنی تو یوسف جیسے بے مثال حسن کا مالک ہے اور تو مریضوں کو اچھا کرنے میں عیسے کے دَمِ شفا کی غیر معمولی تاثیر بھی رکھتا ہے اور تجھے موسے کی طرح وہ چمکتا ہوا ہاتھ بھی حاصل ہے جس نے فرعون اور اس کے ساحروں کی نظروں کو خیرہ کر دیا تھا.پس لا ریب تیرے اندر وہ ساری خوبیاں جمع ہیں جو دنیا کے کسی انسان کو کسی زمانہ میں حاصل ہوئی ہیں.دم کے طریقہ علاج کے متعلق یہ بات بھی ذکر کرنی ضروری ہے اور دوستوں کو یاد رکھنی چاہئے کہ گو یہ طریقۂ علاج آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گاہے گاہے کے عمل سے ثابت ہے مگر اسے کثرت کے ساتھ اختیار کرنا اور گویا منتر جنتر بنا لینا ہرگز درست نہیں.کیونکہ بے احتیاطی کے نتیجہ میں اس سے بہت سی بدعتوں کا رستہ کھل سکتا ہے.بہتر یہی ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید نے فرمایا ہے دعا کا معروف طریق اختیار کیا جائے اور اگر کسی وقت دم کے طریقہ علاج کی ضرورت سمجھی جائے اس کی طرف زیادہ رغبت پیدا ہو تو ضروری ہے کہ کسی نیک اور متقی اور روحانی بزرگ سے دم کرایا جائے ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے.اندیشہ ہوسکتا ہے کہ برکت کی بجائے بے برکتی کا دروازہ کھل جائے.
مضامین بشیر جلد چهارم 13 463 ابھی ابھی حضرت مسیح موعود کی دعا سے ایک بد حال مریضہ کے شفا پانے کا ذکر کیا گیا ہے.حضور کی زندگی میں ایسی معجزانہ شفایابی کی مثالیں ایک دو نہیں دس ہیں نہیں بلکہ حقیقتا بے شمار ہیں جن میں سے بعض حضور نے مثال کے طور پر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں بیان فرمائی ہیں اور بعض لوگوں کے سینوں اور تحریری دستاویزات میں محفوظ ہیں.ان میں سے اس جگہ میں صرف ایک بات نمونہ کے طور پر بیان کرتا ہوں.جماعت کے اکثر دوست ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد اسحق صاحب کو جانتے ہیں.انہوں نے حضرت خلیفہ اول مولوی نورالدین صاحب سے اور بعض دوسرے احمدی علماء سے علم حاصل کیا اور پھر اپنی فطری ذہانت اور مشق اور ذوق و شوق کے نتیجہ میں جماعت کے چوٹی کے علماء میں داخل ہو گئے.ان کا درس قرآن مجید اور درس حدیث سننے سے تعلق رکھتا تھا اور مناظرے کے فن میں تو انہیں ایسا ید طولی حاصل تھا کہ بڑے بڑے جبہ پوش مولوی اور عیسائی پادری اور آر یہ پنڈت ان کے سامنے بحث کے وقت طفلِ مکتب نظر آتے تھے.انہی میر الحق صاحب کے بچپن کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ وہ سخت بیمار ہو گئے اور حالت بہت تشویشناک ہوگئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق دعا فرمائی تو عین دعا کرتے ہوئے خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيم ( بدر 11 مئی و الحکم 17 مئی 1905ء) یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم و کریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتا ہے.چنانچہ اس کے بعد جلد حضرت میر محمد الحق صاحب بالکل توقع کے خلاف صحت یاب ہو گئے اور خدا نے اپنے مسیح کے دم سے انہیں شفا عطا فرمائی اور اس کے بعد وہ چالیس سال مزید زندہ رہ کر اور اسلام اور احمدیت کی شاندار خدمات بجا لا کر اور ملک وملت میں بہت سی نیکیوں کا بیج بو کر قریباً پچپن سال کی عمر میں خدا کو ج پیارے ہوئے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانلَ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ 0 (الرحمن : 27-28) مگر اس واقعہ کے تعلق میں ایک بہت عجیب بلکہ بے حد عجیب و غریب اور نہایت درجہ لطیف خدائی کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ جب چالیس سال کے بعد حضرت میر صاحب کی اجل مسٹمی کا وقت آگیا اور خدائی حکم کے ماتحت آسمان کے فرشتوں نے ان کا نام پکارا تو اس وقت یہ عاجز ان کے پاس ہی کھڑا تھا اور وہ قریباً نیم
مضامین بشیر جلد چهارم 464 بیہوشی کی حالت میں بستر میں پڑے تھے اور حافظ رمضان صاحب مسنون طریق پر ان کے قریب بیٹھے ہوئے سورہ کیس سنا رہے تھے تو عین اس وقت جبکہ حافظ صاحب قرآن مجید کی اس آیت پر پہنچے جو حضرت میر صاحب کے بچپن کے زمانہ میں ان کے متعلق حضرت مسیح موعود کو القاء ہوئی تھی یعنی سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیم تو حضرت میر صاحب نے آخری سانس لیا اور خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.گویا بچپن میں اس خدائی رحمت کے پیغام نے ان کے لئے دنیا کی زندگی کا دروازہ کھولا اور چالیس سال بعد بڑھاپے میں انہی قرآنی الفاظ میں خدا کے فرشتوں نے انہیں اخروی زندگی کے دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی.بچپن کی بیماری میں حضرت مسیح موعود کے اس الہام نے ان کے لئے جسمانی صحت کا پیغام دیا اور زندگی کی آخری بیماری میں فرشتوں نے انہیں انہی الفاظ میں جنت کے دروزے پر کھڑے ہوکر اهلًا وَّ سَهْلًا کہا.یقیناًیہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ خدائی قدرت و رحمت کا عجیب و غریب کرشمہ ہے جو خدا نے اپنے اس نیک اور مجاہد بندے کے لئے ظاہر فرمایا کہ شروع میں انہی الفاظ نے اسے بیماری کی حالت میں دنیوی زندگی کی بشارت دی اور پھر چالیس سال بعد انہی الفاظ کے ذریعہ اس کے لئے اخروی نعمتوں کا دروازہ کھول دیا.دوست غور کریں کہ ہمارے علیم وخبیر خدا کا علم کتنا وسیع اور اس کی قدرت کتنی عجیب و غریب ہے کہ بجلی کے بٹن کی طرح ایک ہی سوچ (Switch) ایک وقت دنیا کی نعمتوں کا نظارہ دکھاتی ہے اور دوسرے وقت میں وہی سوچ پردہ اٹھا کر جنت الفردوس کا نظارہ پیش کر دیتی ہے.اور یہ دونوں نظارے حضرت میر صاحب کے لئے خدا کی غیر معمولی رحمت اور حضرت مسیح موعود کی غیر معمولی جمالی شان سے معمور ہیں.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ و عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكُ وَسَلِّمُ - 14 اب میں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے رشتہ داروں بلکہ مخالف رشتہ داروں تک کے ساتھ کیسا رحیمانہ اور مشفقانہ سلوک تھا.دراصل چھوٹے چھوٹے گھر یلو واقعات ہی زیادہ تر انسان کے اخلاق کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے بہترین معیار ہوتے ہیں کیونکہ اُن میں کسی قسم کے تکلف کا پہلو نہیں ہوتا اور انسان کی اصل فطرت بالکل عریاں ہو کر سامنے آجاتی ہے.واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اُم المومنین رضی اللہ عنھا کے ساتھ اپنے نٹے بنے ہوئے حجرے میں اکٹھے کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ اُس وقت میں بھی اپنی بچپن کی عمر میں کسی
مضامین بشیر جلد چہارم 465 لڑکے کے ساتھ کھیلتا ہوا اس حجرے میں پہنچ گیا اور چونکہ اس کمرے کی باہر کی کھڑکی کھلی تھی اور اس کھڑکی میں سے ہمارے چا یعنی حضرت مسیح موعود کے چچازاد بھائی مرزا نظام الدین صاحب کا مکان نظر آرہا تھا.میں نے کسی بات کے تعلق میں اپنے ساتھ والے لڑکے سے کہا کہ دیکھو وہ نظام الدین کا مکان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے یہ الفاظ کسی طرح سن لئے اور جھٹ پلٹ کر مجھے نصیحت کے رنگ میں ٹوک کر فرمایا کہ.”میاں آخر وہ تمہارا چا ہے.اس طرح نام نہیں لیا کرتے“.(سیرت المہدی روایت نمبر 37) جیسا کہ میں دوسری جگہ بیان کر چکا ہوں مرزا نظام الدین صاحب ہمارے چچا ہونے کے باوجود حضرت مسیح موعود کے اشد ترین مخالف بلکہ معاند تھے.اور اس مخالفت کی وجہ سے ان کا ہمارے ساتھ کسی قسم کا تعلق اور راہ و رسم نہیں تھا اور اسی بے تعلقی کے نتیجہ میں میرے منہ سے بچپن کی بے احتیاطی میں یہ الفاظ نکل گئے.مگر حضرت مسیح موعودؓ کے اخلاق فاضلہ کا یہ عالم تھا کہ آپ نے مجھے فورا ٹو کا اور تربیت کے خیال سے نصیحت فرمائی کہ اپنے چا کا نام اس طرح نہیں لیا کرتے.اور آج تک میرے دل میں حضور کی یہ نصیحت ایک آہنی شیخ کی طرح پیوست ہے اور اس کے بعد میں نے کبھی اپنے کسی بزرگ کا نام تو در کنار کسی خو دکا نام بھی ایسے رنگ میں نہیں لیا جس میں کسی نوع کی تحقیر کا شائبہ بھی پایا جائے.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کے حالات اور اقوال کا بڑی توجہ کے ساتھ جائزہ لیتے رہیں اور جہاں بھی وہ دیکھیں کہ ان کے اخلاق و عادات میں کوئی بات اسلام اور احمدیت کی تعلیم یا آداب کے خلاف ہے.اس پر فوراً نوٹس لے کر اس کی اصلاح کر دیں کیونکہ بچپن کی اصلاح بڑا وسیع اثر رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ الطَّريقَةُ كُلُّهَا اَدَب یعنی دین کا راستہ تمام کا تمام ادب اور تادیب کے میدان میں سے ہو کر گزرتا ہے.کاش! ہر احمدی باپ اور ہر احمدی ماں اس سنہری نصیحت کو حرز جان بنالے.15 اس تعلق میں ایک اور واقعہ بھی یاد آ گیا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کو یہ اطلاع ملی کہ یہی مرزا نظام الدین جو حضرت مسیح موعود کے اشد ترین مخالف تھے بیمار ہیں.اس پر حضور ان کی عیادت کے لئے بلا توقف ان کے گھر تشریف لے گئے.اس وقت ان پر بیماری کا اتنا شدید حملہ تھا کہ ان کا دماغ بھی اس سے متاثر ہو گیا تھا.آپ نے ان کے مکان پر جا کر ان کے لئے مناسب علاج تجویز فرمایا جس سے وہ خدا کے فضل سے صحت یاب ہو گئے.ہماری اماں جان رضی اللہ عنھا بیان فرماتی تھیں کہ باوجود اس کے کہ مرزا نظام الدین صاحب
مضامین بشیر جلد چہارم 466 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف بلکہ معاند تھے.آپ ان کی تکلیف کی اطلاع پا کر فوراً ہی ان کے گھر تشریف لے گئے.اور ان کا علاج کیا اور ان سے ہمدردی فرمائی (سیرت المہدی حصہ سوم روایت 115 ) یہ وہی مرزا نظام الدین صاحب ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بعض جھوٹے مقدمات کھڑے کئے اور اپنی مخالفت کو یہاں تک پہنچا دیا کہ حضرت مسیح موعود اور حضور کے دوستوں اور ہمسایوں کو دکھ دینے کے لئے حضور کی مسجد یعنی خدا کے گھر کا رستہ بند کر دیا.اور بعض غریب احمدیوں کو ایسی ذلت آمیز اذیتیں پہنچا ئیں کہ جن کے ذکر تک سے شریف انسان کی طبیعت حجاب محسوس کرتی ہے (سیرت المهدی حصہ اول روایت نمبر 140) مگر حضور کی رحمت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ مرزا نظام الدین جیسے معاند کی بیماری کا علم پا کر بھی حضور کی طبیعت بے چین ہو گئی.اس واقعہ سے حضور کے اس قول کی شاندار عملی تصدیق ہوتی ہے جسے میں نے گزشتہ سال کی تقریر میں بیان کیا تھا جس میں حضور فرماتے ہیں کہ ہمارا کوئی دشمن سے دشمن انسان بھی ایسا نہیں جس کے لئے ہم نے کم از کم دو تین دفعہ دعا نہ کی ہو ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 97,96) اللہ اللہ ! کیا دل تھا اور اس دل نے خدائی رحمت کے وسیع سمندر سے کتنا حصہ پایا تھا! کاش جماعت احمدیہ کے مرد اور عورتیں اور بچے اور بوڑھے اور خواندہ اور ناخواندہ خدا کی طرف سے اسی قسم کی رحمت کا ورثہ پائیں تا کہ وہ اس جمالی شان کا آئینہ بن جائیں جو آسمان کے خالق و مالک کی طرف سے حضرت مسیح موعود کو عطا کی گئی تھی.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ 16 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غیر معمولی جمالی صفات اور آپ کے بے مثال حسن و احسان کے باوجود خدائی سنت کے مطابق دنیا کی ہر قوم نے حضرت مسیح موعود کی انتہائی مخالفت کی اور کوئی دقیقہ آپ کو تکلیف پہنچانے اور نا کام رکھنے کا اٹھا نہیں رکھا اور ہر رنگ میں اپنے دروازے آپ پر بند کر دیئے.میں اس تعلق میں ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں.1905ء کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود دہلی تشریف لے گئے جو آپ کی زوجہ مطہرہ یعنی ہماری اماں جان رضی اللہ عنھا کا مولد ومسکن تھا.مگر یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ وہاں جانے سے پہلے حضور نے ایک رویا دیکھا کہ حضور دتی گئے ہیں لیکن حضور نے وہاں کے سب دروازوں کو بند پایا ہے ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 487) چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب آپ دہلی پہنچے تو ساری قوموں کی طرف سے آپ کی شدید مخالفت کی گئی اور ہر قوم اور ہر طبقہ نے آپ پر اپنا دروازہ بند کر دیا.
مضامین بشیر جلد چهارم 467 بے شک لوگ ملنے کے لئے آتے تھے اور کافی کثرت کے ساتھ آتے تھے.لیکن اکثر لوگ تو مخالفت کی غرض سے ہی آتے تھے اور انکار کی حالت میں ہی استہزاء کرتے ہوئے واپس لوٹ جاتے تھے اور بعض بر ملا مخالفت تو نہیں کرتے تھے مگر بزدلی کی وجہ سے خاموش رہتے تھے.اور بعض جن کے دل میں کچھ ایمان کی چنگاری روشن ہوتی تھی وہ مملکت روما کے ہر قل کی طرح اس چنگاری کو اپنے ہاتھ سے بجھا کر اپنی جھولی جھاڑتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے.دتی نہ صرف بڑے بڑے جاہ و حشمت والے مسلمان بادشاہوں اور شان و شوکت والے حکمرانوں کا دار الحکومت رہا تھا بلکہ اس کی سرزمین میں بہت سے بزرگ اور اولیاء اور صلحاء بھی پیدا ہوئے تھے جن کے مزار آج دتی کے زندہ انسانوں کی بجائے لوگوں کی زیادہ کشش کا موجب بنے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی منکسرانہ طبیعت اور نیک لوگوں کی سنت کے مطابق ارادہ کیا کہ جو مجد دین اور اولیاء کرام دتی کی خاک میں مدفون ہیں ان کی قبروں پر جا کر دعا کریں اور ان کے لئے اور اہل دتی کے لئے خدا سے خیر و برکت کے طالب ہوں.چنانچہ حضور اس سفر کے دوران حضرت شیخ نظام الدین اولیاء اور حضرت سید ولی اللہ شاہ اور حضرت خواجہ باقی باللہ اور حضرت خواجہ بختیار کا کی اور حضرت خواجہ میر در درحمۃ اللہ علیہم کے مزاروں پر تشریف لے گئے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہو کر در ددل سے دعا فرمائی.جب آپ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کے مزار پر تشریف لے گئے تو اس وقت یہ عاجز بھی بچپن کی عمر میں آپ کے ساتھ تھا.مجھے خوب یاد ہے کہ دعا کے بعد حضور نے فرمایا کہ اس وقت اس جگہ لوگوں کی کثرت ہے اور شور زیادہ ہے ورنہ میں یقین رکھتا ہوں کہ مجھے اس جگہ کشف کے ذریعہ بیداری کی حالت میں ہی حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کی ملاقات ہو جاتی.اس وقت خواجہ حسن نظامی صاحب مرحوم بالکل نوجوان تھے اور وہ حضور کے ساتھ ہو کر بڑے ادب کے طریق پر حضور کو درگاہ کی مختلف زیارت گاہیں دکھاتے پھرتے تھے.بالآخر جب حضرت مسیح موعود دلی کے سفر سے قادیان کو واپس روانہ ہونے لگے تو خواجہ حسن نظامی صاحب نے حضوڑ سے درخواست کی کہ آپ حضرت نظام المشائخ کے مزار پر تشریف لے گئے تھے اس کے متعلق کچھ مناسب الفاظ تحریر فرما دیں.حضور نے وعدہ فرمایا کہ قادیان جا کر لکھ دوں گا.چنانچہ قادیان واپس پہنچنے پر حضور نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو ذیل کی تحریر لکھ کر بھیجوا دی جو دتی کے حالات سفر اور دتی والوں کے انکار کی گویا ایک جیتی جاگتی تصویر ہے.حضور اس تحریر میں فرماتے ہیں کہ.” مجھے جب دتی جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے اُن صلحاء اور اولیاء الرحمن کے مزاروں کی زیارت کا شوق پیدا
مضامین بشیر جلد چہارم 468 ہوا جو اس خاک میں سوئے ہوئے ہیں کیونکہ جب مجھے دہلی والوں کی طرف سے محبت محسوس نہ ہوئی تو میرے دل نے اس بات کے لئے جوش مارا کہ وہ ارباب صدق وصفا اور عاشقانِ حضرت مولیٰ جو میری طرح اس زمین کے باشندوں سے بہت سے جور و جفا دیکھ کر اپنے محبوب حقیقی کو جاملے ان کے متبرک مزاروں سے ہی اپنے دل کو خوش کرلوں.پس میں اسی نیت سے حضرت خواجہ شیخ نظام الدین رضی اللہ عنہ کے مزار متبرک پر گیا اور ایسا ہی دوسرے چند مشائخ کے متبرک مزاروں پر بھی گیا.خدا ہم سب کو اپنی رحمت سے معمور کرے.آمین ثم آمين ارام عبدالله احمد لا احمد مسیح الموعو من الله الاحد ( بدر 24 نومبر 1905ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریرہ میں جس گہرے رنج والم اور جس دلی حسرت کا اظہار نظر آ رہا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں گویا یہ خیال کہ دلّی کا تاریخی شہر جس کی خاک میں سینکڑوں عالی مرتبہ بزرگ اور صلحاء اور اولیاء مدفون ہیں حضور کے لائے ہوئے نور ہدایت اور اسلام کے دور ثانی کی برکات سے محروم رہا جارہا ہے.حضور کے دل کو بے چین کر رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضور گو یا کشفی حالت میں اپنی آنکھوں کے سامنے ان کثیر التعداد بزرگوں کو دیکھ رہے تھے جو دتی کے چپہ چپہ میں مدفون ہیں اور پھر ان سے ہٹ کر حضور کی نظر ان بزرگوں کی موجودہ اولاد کی طرف جاتی تھی جو اب اپنی جہالت اور تعصب کی وجہ سے اس نور کا انکار کر رہی تھی جسے دیکھنے کے لئے ان کے لاکھوں کروڑوں باپ دادا ترستے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے.یہی وہ حسرت تھی جس نے حضور کے دل کو بے چین کر دیا.مگر حضرت مسیح موعود کی یہ حسرت ہر گز مایوسی کے رنگ میں نہیں تھی بلکہ رنج اور افسوس اور دکھ کے رنگ میں تھی.اور یہ اسی قسم کی حسرت تھی جس کے متعلق خود خدائے عرش انبیاء کے انکار کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں فرماتا ہے کہ.يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ، مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وُنَ (يس: 31) یعنی حسرت ہے دنیا کے لوگوں پر کہ خدا کی طرف سے جو رسول بھی ان کی طرف سے آتا ہے وہ ہمیشہ اس کا انکار کرتے اور اس پر ہنسی اڑاتے ہیں.چنانچہ دوسری جگہ لوگوں کے اس انکار اور اپنی اس حسرت کے ساتھ جوڑ ملاتے ہوئے اپنی آئندہ شاندار مقبولیت کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ.
مضامین بشیر جلد چهارم 469 امروز قومِ من نشناسد مقام من روزے بگرید یاد کند وقت خوشترم یعنی آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ وقت آتا ہے جبکہ وہ رو رو کر بڑی حسرت کے ساتھ میرے مبارک زمانہ کو یاد کیا کرے گی.اور دوسری جگہ خدا تعالیٰ کی زبر دست نصرت اور اپنے مشن کی یقینی اور قطعی کامیابی کے متعلق بڑی تحدی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ.”اے لوگو! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو اور نیز اُس حالت پر بھی لعنت بھیجتا ہوں کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے...یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا“.اربعین حصہ سوم روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 400-401) یہ وہ ایمان کامل اور یقین محکم ہے جو انبیاء کے دل پر آسمان کی بلندیوں سے نازل ہوتا ہے اور اس ایمان کو یہ زبر دست طاقت حاصل ہوتی ہے کہ وہ پہاڑوں کو پاش پاش کرتا اور پانیوں کو چیرتا اور طوفانوں کو پھاند تا چلا جاتا ہے.اور یہی وہ ایمان ہے جس میں خدا کی طرف سے دلوں کو فتح کرنے کی حیرت انگیز قوت ودیعت کی جاتی ہے.17.اس جگہ میں جملہ معترضہ کے طور پر کچھ اپنے متعلق کہنا چاہتا ہوں.وہ یہ کہ 1962 قریباً تمام کا تمام میری صحت کی خرابی میں گزرا ہے.اور بعض اوقات تو اس دوران میں میری صحت بہت زیادہ گر جاتی رہی ہے.تین بیماریاں تو مجھے پرانی لگی ہوئی ہیں یعنی نقرس اور ہائی بلڈ پریشر اور ذیا بیٹس جو تینوں کافی تکلیف دہ
مضامین بشیر جلد چهارم 470 اور خطرناک ہیں.اس کے علاوہ اکثر اوقات میری نبض بھی زیادہ تیز رہتی ہے جو گھبراہٹ اور بے چینی کا موجب ہوتی ہے.مزید برآں 1962ء کے آخر میں آکر مجھے دل کی تکلیف کا بھی عارضہ ہو گیا اور میرے دل میں ایسا نقص پیدا ہو گیا کہ بار بار دل میں درد اٹھتا تھا جس کی لہر بائیں بازو کی طرف جاتی تھی جو ایک خراب علامت سمجھی جاتی ہے.دراصل ایک دفعہ 1954ء میں بھی مجھے دل کی بیماری کا حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے میں چار ماہ تک موت و حیات کے درمیان لٹکتا رہا.مگر اس کے بعد میرے خدا نے مجھ پر رحم کیا اور کئی سال تک میری صحت ایسی رہی کہ گو میں بالکل تندرست تو نہیں ہو سکا مگر خدا کے فضل سے علمی کاموں میں توجہ دینے اور ایک حد تک محنت کرنے کے قابل ہو گیا.لیکن 1962ء کے آخر میں جبکہ میری عمر تشسی حساب سے ستر سال کی ہو رہی ہے غالباً زیادہ کام کرنے کی وجہ سے میری یہ تکلیف پھر عود کر آئی اور بعض اوقات روزانہ اور بعض اوقات وقفہ وقفہ کے ساتھ دل کی تکلیف کے دورے ہونے لگے اور کمزوری بہت بڑھ گئی.حال ہی میں لاہور کے ایک قابل ڈاکٹر نے جو ماہر امراض قلب ہیں مجھے ربوہ میں آکر دیکھا اور میرے دل اور جگر اور سینے وغیرہ کا معائنہ کرنے اور دل کا ای سی.جی فوٹو لینے کے بعد انہوں نے بتایا کہ میرے دل کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے اور مزید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور تاکید کی کہ مجھے کچھ عرصہ تک محنت اور کوفت اور پر یشانی والے کام سے کلی طور پر اجتناب کرتے ہوئے مکمل آرام کرنا چاہئے.ان حالات میں مجھے موجودہ تقریر ذکر حبیب یعنی ” آئینہ جمال“ کی تیاری میں اس دفعہ خاطر خواہ توجہ دینے کا موقع نہیں مل سکا.یعنی نہ تو میں ٹھیک طرح روایات اور واقعات کا انتخاب کر سکا ہوں اور نہ ہی میں نے ان روایات اور واقعات کو مؤثر اور دلچسپ رنگ میں بیان کرنے کی طاقت پائی ہے بلکہ محض سرسری مطالعہ اور سرسری انتخاب کے نتیجہ میں جو عام روایتیں میرے علم میں آئیں انہیں سادہ زبان میں بیان کر دیا ہے.آگے اللہ تعالیٰ انسان کی زبان اور قلم میں تاثیر ڈالنے والا ہے اور میں اسی سے بہتری کی امید رکھتا ہوا اپنے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ ان حالات میں میرے اس مجموعہ میں کوئی خامی یا کمزوری دیکھیں تو مجھے معذور تصور فرمائیں.اور اگر کوئی خوبی پائیں تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.صحت کی کنجی خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی اپنے فضل سے سنانے والے کو صحت کے ساتھ سنانے اور اپنے بیان میں اثر پیدا کرنے کی توفیق دے سکتا ہے.اور وہی ہے جو سننے والوں کے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھولنے کی طاقت رکھتا ہے.بس اسی جملہ معترضہ کے ساتھ میں اپنے اصل مضمون کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے بقیہ مضمون کو
مضامین بشیر جلد چهارم 471 مختصر طور پر بیان کرنے کی کوشش کروں گا.وَمَا تَوْفِيقِى إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيْم - 18.میں اپنی گزشتہ سال کی تقریر میں اقتداری معجزات کی تشریح کے متعلق کچھ بیان کر چکا ہوں.ایسے معجزات خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی وحی والہام کے نزول کے بغیر محض ایک مرسل یزدانی کی روحانی قوت سے وجود میں آتے ہیں اور اس کی صداقت اور خدائی نصرت کی زبردست دلیل بن جاتے ہیں.آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی میں ایسے بہت سے معجزات کی مثال ملتی ہے کہ جب آپ نے اپنی قوت قدسیہ اور خدا داد روحانی طاقت کے ذریعہ غیر معمولی معجزات کا عالم پیدا کر دیا.مثلاً بعض اوقات جبکہ کوئی فوری علاج میسر نہیں تھا آپ نے ایک عزیز صحابی کی بیمار آنکھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور وہ خدا کے فضل سے کسی قسم کے ظاہری علاج کے بغیر اچھی ہوگئی ( بخاری حالات غزوہ خیبر ) یا آپ نے کسی اشد ضرورت کے وقت تھوڑے سے پانی کے برتن میں اپنی انگلیاں ڈالیں اور وہ آپ کے ہاتھ کی برکت سے جوش مار کر بہنے لگا اور صحابہ کی ایک بڑی تعداد اس سے سیراب ہوگئی (بخاری.باب شرب البرۃ والماء المبارک) یا غذا کی قلت کے وقت میں آپ کی برکت سے تھوڑا سا کھانا کثیر التعداد صحابہ کے لئے کافی ہو گیا اور سب نے اس کھانے سے سیری حاصل کی ( بخاری باب غزوة الخندق) یہ سب اقتداری معجزات کی روشن مثالیں ہیں جو خدائے عرش نے اپنے محبوب رسول کی خاطر اس کے ہاتھ پر ظاہر فرمائیں.اسی قسم کے اقتداری مجزات خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں بھی کافی تعداد میں ملتے ہیں.مثلاً آپ نے کسی بے چین بیمار پر اپنا ہاتھ رکھا اور وہ محض آپ کے ہاتھ کے چھونے سے شفایاب ہو گیا.یا آپ نے کسی فوری ضرورت کے وقت تھوڑے سے کھانے میں اپنی انگلیاں ڈالیں اور وہ کثیر التعدادلوگوں کے لئے کافی ہو گیا وغیرہ وغیرہ.بیشک جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے معجزات کا منبع صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور کسی نبی یا رسول کو از خود یہ طاقت حاصل نہیں ہوتی کہ وہ خدائی اذن کے بغیر کوئی معجزہ دکھائے (سورہ مومن آیت 79) اور نہ ہی نبیوں کی یہ شان ہے کہ وہ نعوذ باللہ مداریوں کی طرح تماشہ دکھاتے پھریں.مگر یہ بھی خدا ہی کی سنت ہے کہ بعض اوقات وہ خاص پیاروں اور مقبولوں کی خاطر مومنوں کے ایمان میں تازگی پیدا کرنے یا ان کے عرفان میں زیادتی کا رستہ کھولنے کے لئے اس قسم کے خارق عادت نشانات دکھاتا ہے کہ خدا کے اذن کے ساتھ ان کی طرف سے صرف اشارہ ہونے پر یا محض ہاتھ کے
مضامین بشیر جلد چہارم 472 چھو جانے سے غیر معمولی نتائج پیدا ہو جاتے ہیں مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ طاقت کسی نبی یا رسول کومستقل طور پر حاصل نہیں ہوتی بلکہ صرف استثنائی طور پر وقتی صورت میں خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے.لیکن چونکہ ایسے اقتداری معجزات کی مفصل تشریح میری گزشتہ سال کی تقریر میں گزر چکی ہے ( در مکنون صفحہ 37 تا 43) اس لئے اس جگہ اس کے متعلق زیادہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں.یہاں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے صرف ایک دو واقعات ایسے بیان کرتا ہوں کہ جب گھر میں کھانا تھوڑا تھا اور مہمان بہت زیادہ آگئے اور منتظمین کوفکر پیدا ہوا تو حضرت مسیح موعود کے دم کی برکت سے یہ تھوڑا سا کھانا ہی کثیر التعداد مہمانوں کے لئے کافی ہو گیا.میاں عبداللہ صاحب سنوری نے جو حضرت مسیح موعود کے بہت مخلص اور بڑے قدیم صحابی تھے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی مگر عین اس وقت جبکہ کھانا کھانے کا وقت آیا زیادہ مہمان آگئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی“.اس پر حضرت مسیح موعود نے حضرت بیوی جی کو اندر کہلا بھیجا کہ اور مہمان آ گئے ہیں کھانا زیادہ بھجواؤ“.اس پیغام کے جانے پر حضرت اماں جان نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود کو اندر بلوایا اور کہا کہ کھانا تو بہت تھوڑا ہے اور صرف ان چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا جن کے متعلق آپ نے فرمایا تھا.اب کیا کیا جائے.حضرت مسیح موعود نے بڑے اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ.گھبراؤ نہیں اور کھانے کا برتن میرے پاس لے آؤ پھر حضرت مسیح موعود نے اس برتن پر ایک رومال ڈھانک کر دیا اور رومال کے نیچے سے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں چاولوں کے اندر داخل کر دیں اور پھر یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لے گئے کہ.اب تم کھانا نکالو خدا برکت دے گا“ میاں عبداللہ صاحب روایت کرتے ہیں کہ یہ کھانا سب نے کھایا اور سب سیر ہو گئے اور کچھ بیچ بھی گیا.سیرت المہدی حصہ اول روایت 144) 19.میں نے جب میاں عبداللہ صاحب کی یہ دلچسپ روایت حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے پاس بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ ایسے واقعات حضرت مسیح موعود کی برکت سے ہمارے گھر میں بارہا ہوئے ہیں.چنانچہ انہوں نے ایک لطیف واقعہ مثال کے طور پر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ ال
مضامین بشیر جلد چهارم 473 کے لئے بہت تھوڑ اسا پلاؤ پکایا جو صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ہی کافی ہو سکتا تھا مگر اس دن نواب محمد علی خان صاحب جو ہمارے والے مکان میں رہتے تھے وہ اور ان کی بیوی اور بچے وغیرہ سب ہمارے گھر آگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلاؤ.میں نے حضرت مسیح موعود سے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں کیونکہ میں نے یہ چاول صرف آپ کے لئے ہی تیار کروائے تھے.اس پر حضرت مسیح موعود نے چاولوں کے پاس آکر ان پر دم کیا اور مجھ سے فرمایا کہ.اب تم خدا کا نام لے کر ان چاولوں کو تقسیم کر دو“ حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ ان چاولوں میں ایسی فوق العادت برکت پیدا ہوئی کہ نواب صاحب کے سارے گھر والوں نے یہ چاول کھائے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کے گھروں میں بھی چاول بھجوائے گئے اور ان کے علاوہ کئی دوسرے لوگوں کو بھی دیئے گئے اور چونکہ وہ برکت والے چاول مشہور ہو گئے تھے اس لئے بہت سے لوگوں نے ہم سے آ آکر چاول مانگے اور ہم نے سب کو دیئے اور خدا کے فضل سے وہ سب کے لئے کافی ہو گئے (سیرت المہدی روایت نمبر 144) حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ اس قسم کے اور بھی بہت سے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں گزرے ہیں کہ خدا نے حضور کے دم کی برکت سے عین وقت پر جبکہ کوئی انتظام نظر نہیں آتا تھا تھوڑے سے کھانے کو زیادہ کر دیا.دراصل چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تاکید فرماتے تھے کہ جو مہمان بھی آئے وہ کھانے سے محروم نہ رہے اور اکثر مہمان اچانک آ جاتے تھے اور قادیان اُن دنوں میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا جس میں کھانے کی چیزیں نہیں ملتی تھیں.اس لئے بہر حال جس طرح بھی میسر ہوتا تھا سب کے لئے وقت بے وقت کھانے کا انتظام کیا جاتا تھا اور خدا کے فضل سے وہ کافی ہو جاتا تھا.دنیا کے لوگ جو اپنے مادی قانون کے تصورات اور مادی مشاہدات سے گھرے ہوئے ہیں وہ شایدان باتوں کو نہ سمجھ سکیں کیونکہ وہ روحانی آنکھوں سے محروم ہیں مگر جن لوگوں نے خدا کو دیکھا اور پہچانا ہے اور اس کی وسیع قدرتوں کا مشاہدہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حقیقتا خدا ہی دنیا کا واحد خالق و مالک ہے اور خدا ہی ہے جس نے اپنی ازلی حکمت کے ماتحت دنیا میں خیر وشر کی تقدیر جاری کر رکھی ہے اور وہی ہے جس نے زمین و آسمان کی چیزوں میں مختلف خواص ودیعت کئے ہیں.اور پھر خدا اپنے بنائے ہوئے قانون کا غلام نہیں بلکہ جیسا کہ وہ قرآن میں خود فرماتا ہے وہ خاص حالات میں خاص ضروریات کے ماتحت اپنے قانون کو وقتی طور پر بدل بھی سکتا ہے اس لئے ایسے لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں کہ خدا کی طاقتیں اتنی وسیع اور اتنی
مضامین بشیر جلد چهارم 474 عجیب وغریب ہیں کہ جن کی کوئی حد ہے نہ حساب.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ لوگ اپنے مادی ماحول سے آگے نکل کر اپنی روحانیت کی آنکھیں کھولیں اور پھر وہ تماشہ دیکھیں جو ہزاروں نبیوں اور ہزاروں ولیوں کے زمانہ میں دنیا دیکھتی چلی آئی ہے.کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ.بیا در بزمِ مستان تا به بینی عالمی دیگر بہشتے دیگر و ابلیس دیگر آدمی دیگر یعنی خدا کی محبت میں مخمور ہو کر اس کے عاشقوں کے زمرہ میں داخل ہو جاؤ پھر تمہیں اس مادی دنیا کے علاوہ بالکل اور دنیا نظر آئے گی جس کا بہشت بھی اور ہے اور ابلیس بھی اور ہے اور آدم بھی اور ہے.20 دوسرے نیک لوگوں نے تو اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی روحانی طاقت کے مطابق بہشت دیکھے ہوں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کا بہشت کلیۂ خدا کی ذاتِ والا صفات میں مرکوز تھا آپ خدا کے عشق میں اس قدر محو ور مخمور تھے کہ جزا اور سزا کے خیال سے اس طرح بالا ہو گئے تھے جس طرح کہ آسمان کا ایک بلند ستارہ زمین کی پستیوں سے بالا ہوتا ہے.میں آپ کے اس بے مثال عشق کی چند مثالیں اپنی تقریر سیرۃ طیبہ میں بیان کر چکا ہوں جس میں محبت الہی اور عشق رسول کا مضمون میری تقریر کا مرکزی نقطہ تھا.آپ کا نفس اس طرح نظر آتا تھا کہ گویا وہ ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا ہے جس میں خدا کی محبت کے سواکسی اور کی محبت کے لئے جگہ باقی نہ تھی.ایک جگہ آپ اللہ تعالے کے عشق میں متوالے ہو کر فرماتے ہیں کہ.”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے.اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمے کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحه 21-22) دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں کہ کس والہانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ.ابتلاء کے وقت ہمیں اندیشہ صرف اپنی جماعت کے بعض کمز ور لوگوں کا ہوتا ہے.میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آئے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہیں کریں گے تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم
مضامین بشیر جلد چهارم 475 ہے کہ پھر بھی میرے اس عشق و محبت الہی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی.اس لئے کہ میں تو اسے دیکھ چکا ہوں اور پھر آپ نے یہ قرآنی آیت پڑھی کہ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( یعنی کیا خدا جیسا بھی کوئی اور ہے جسے محبت کا حقدار سمجھا جا سکے؟) سیرت مسیح موعود مصنفہ مولوی عبد الکریم صاحب) باقی رہی رسول کی محبت سودہ خدا کی محبت کا حصہ اور اسی کا ظل ہے.اور ناممکن ہے کہ ایک سچا مومن خدا کی محبت سے تو سرشار ہو مگر خدا کے بھیجے ہوئے افضل الرسل کی محبت سے محروم رہے.بہر حال یہ وہ بہشت ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود نے جزا سزا کے خیال سے بالکل بالا ہو کر دین کی خدمت کی اور اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دی اور یہی وہ بہشت ہے جس میں حضور اپنے آقا اور مقتدا اور محبوب حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جزا سزا کے دن خدا کے فضل سے جگہ پائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک نظم میں خدا کی محبت کے گن گاتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے کہ.ہر اک عاشق نے ہے اک بُت بنایا ہمارے دل میں دلیر سمایا وہی آرام جاں اور دل کو بھایا وہی جس کو کہیں ربُّ البرایا مجھے اس یار سے وہی پیوند جاں ہے جنت وہی دار الاماں ہے بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے بے شک اُخروی زندگی کی جنت بھی حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے اور مومن اور کا فراپنے اپنے ایمان اور اعمال کے مطابق اس جنت و دوزخ میں جگہ پائیں گے مگر نبیوں اور رسولوں کی حقیقی جنت صرف خدا کی محبت اور خدا کے عشق میں ہوتی ہے بلکہ عام صلحاء کے لئے بھی اصل مقام رضائے الہی کا ہے اسی لئے قرآن مجید میں جنت کی عام نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد رضوانِ الہی کا خاص طور پر علیحدہ صورت میں ذکر کیا گیا ہے جیسا که فرمایا وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ اَكْبَرُ (سورہ توبہ آیت 72) یعنی جنت کی نعمتوں میں خدا کی رضاسب سے اعلی نعمت ہے اور یہی ہر سچے مومن کے سلوک کا منتہی ہونا چاہئے کہ وہ حور و قصور کی جنت کے پیچھے لگنے کی بجائے خالق ارض وسما کی بے لوث محبت کی فضاؤں میں بسیرا کرے.
مضامین بشیر جلد چهارم +21 476 محبت محبت کو کھینچتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا اور اس کے محبوب حضرت افضل الرسل محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) سے ایسی شدید محبت کی جو حقیقتا بے مثال تھی اور پھر ان دو محبتوں کے نتیجہ میں آپ نے مخلوق کی ہمدردی اور شفقت کو بھی انتہا تک پہنچادیا.اس سہ گونہ محبت کے نتیجہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی مخلص جماعت عطا فرمائی جو آپ کے ساتھ غیر معمولی اخلاص اور عقیدت کے جذبات رکھتی تھی اور اپنے ایمان کی مضبوطی اور اپنے جذبہ قربانی اور معیار اطاعت میں خدا کے فضل سے صحابہ کے رنگ میں رنگین تھی اور مخالفوں کی انتہائی مخالفت کے باوجود یہ الہی جماعت برابر ترقی کرتی چلی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے ہر رنگ میں بارآور اور برومند کیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت آپ کے یہ حلقہ بگوش فدائی چار لاکھ کی تعداد کو پہنچ چکے تھے اور ان میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعوڈ پر اس طرح جان دیتا تھا جس طرح کہ ایک پروانہ شمع کے گردگھومتا ہوا جان دیتا ہے اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح ناصری کی اُس قلیل سی جماعت کے مقابلہ پر جو انہیں اپنی زندگی کے ایام میں میسر آئی مسی محمد دمی کی اس کثیر التعداد جماعت کا مقام محبت اور اخلاص اور ایمان اور جذبہ قربانی کتنا بلند تھا ! میں اس جگہ صرف مثال کے طور پر پانچ احمدیوں کا ذکر کرتا ہوں جو جماعت احمدیہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور یقیناً وہ سب کے سب ایسے نہیں تھے جو جماعت کے چوٹی کے ممبر سمجھے جاتے ہوں بلکہ ان میں سے بعض تو ایسے عام احمدیوں میں سے تھے جنہیں شاید جماعت کے اکثر دوست جانتے بھی نہیں.ان میں سے اول نمبر پر حضرت مولوی نورالدین صاحب تھے جو غیر منقسم ہندوستان کے مشہور ترین علماء اور قابل ترین اطباء میں شمار کئے جاتے تھے.انہوں نے بیعت کا سلسلہ شروع ہوتے ہی پہلے نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور پھر حضور پر ایسے گرویدہ ہوئے کہ اپنا وطن چھوڑ کر قادیان میں ہی دھونی رما کر بیٹھ گئے.اور حضرت مسیح موعود کی وفات پر جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ بنے.ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کا معیار ایسا شاندار اور ایسا بلند تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ ان کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ میرے پیچھے اس طرح چلتے ہیں جس طرح کہ انسان کے ہاتھ کی نبض اس کے دل کی حرکت کے پیچھے چلتی ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت مسیح موعود نے دتی سے حضرت مولوی نورالدین صاحب کوکسی
مضامین بشیر جلد چہارم 477 کام کے تعلق میں قادیان کے پتے پر ایک تار دلوائی اور تار لکھنے والے نے یہ الفاظ لکھ دیئے کہ بلا توقف دتی پہنچ جائیں اس وقت حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے روزمرہ کے کام میں مصروف تھے.اس تار کے ملنے پر آپ فورا وہیں سے اٹھ کر سیدھے بغیر اس کے کہ گھر جائیں یا سفر کے لئے گھر سے کوئی خرچ منگوائیں یا بستر ہی تیار کرائیں یا اور ضروری سامانِ سفر ساتھ لیں قادیان کے اڈا خانہ کی طرف روانہ ہو گئے اور جب کسی نے اس کیفیت کو دیکھ کر کہا حضرت آپ اس طرح بغیر کسی سامان کے لمبے سفر پر جا رہے ہیں! تو حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ امام نے بلایا ہے کہ بلا توقف آجاؤ اس لئے اب میرا ایک منٹ کے لئے بھی رکھنا جائز نہیں اور میں جس طرح بھی ہوا بھی جا رہا ہوں.خدا نے بھی آپ کے اس تو کل کو غیر معمولی قبولیت سے نوازا.چنانچہ رستہ میں ہی غیبی طریق پر سارے انتظامات بلا روک ٹوک ہوتے چلے گئے اور آپ اپنے امام کی خدمت میں بلا توقف حاضر ہو گئے.یہ وہی حضرت مولوی نورالدین صاحب ہیں جن کی نیکی اور تقویٰ اور علم اور فراست اور محبت اور عقیدت اور قربانی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود نے اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ.چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے یعنی کیا ہی اچھا ہو کہ امت کا ہر فرد نور دین بن جائے اور یقیناً ایسا ہی ہواگر ہر مسلمان کا دل یقین کے نور سے بھر جائے.لاریب حضرت مولوی صاحب کے علم اور اخلاص اور تقویٰ اور تو کل اور اطاعت امام کا مقام بہت ہی بلند اور ہر لحاظ سے قابل رشک تھا.دوسری مثال جیسا کہ میں اپنی ایک سابقہ تقریر میں بھی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں حضرت مولوی سید عبداللطیف صاحب شہید کی ہے.یہ بزرگ مملکت افغانستان کے رہنے والے تھے اور اس علاقہ کے چوٹی کے دینی علماء میں سے سمجھے جاتے تھے اور ساتھ ہی بڑے بااثر رئیس بھی تھے حتی کہ انہوں نے ہی امیر حبیب اللہ خان کی تاج پوشی کی رسم ادا کی تھی.جب صاحبزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ سنا تو تحقیقات کے لئے قادیان آئے اور اپنے نور فراست سے آپ کو دیکھ کر اور آپ کے دعوی کو پہچان کر فوراً قبول کر لیا.ان کے واپس جانے پر کابل کے علماء نے ان کے متعلق کفر کا فتویٰ دیا اور واجب القتل قرار دے کر امیر کے پاس ان کے سنگسار کئے جانے کی سفارش کی.چنانچہ اس فتوی کی بناء پر
مضامین بشیر جلد چهارم 478 امیر حبیب اللہ خاں نے آپ کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا.اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب کو بڑے ظالمانہ طریق پر کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا اور امیر نے خود موقع پر جا کر ان کو آخری دفعہ سمجھایا کہ اب بھی وقت ہے کہ اس عقیدے سے باز آجائیں مگر وہ ایک پہاڑ کی طرح اپنے ایمان پر قائم رہے اور یہی کہتے ہوئے پتھروں کی بے پناہ بوچھاڑ میں جان دے دی کہ جس صداقت کو میں نے خدا کی طرف سے حق سمجھ کر دیکھا اور پہچانا ہے اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس طرح بہت سے لوگوں کے بعد آنے کے باوجود خدا کی راہ میں آگے نکل گئے.حضرت مسیح موعود ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ.پُر خطر ہست این بیابان حیات صد ہزاراں اثر دہائیش در جهات صد ہزاراں فریح در کوئے یار دشت پر خار و بلایش صد ہزار بنگر ایں شوخی ازاں شیخ عجم این بیاباں کرد طی از یک قدم ( تذكرة الشهادتين ) یعنی یہ زندگی کا بیابان جنگل خطروں سے بھرا پڑا ہے جس میں ہزاروں زہریلے سانپ ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہیں اور آسمانی معشوق کے رستے میں لاکھوں کروڑوں میل کا فاصلہ ہے جس میں بے شمار خاردار جنگلوں اور لاکھوں امتحانوں میں سے گزرنا پڑتا ہے مگر اس عجمی شیخ کی ہوشیاری اور تیز رفتاری دیکھو کہ اس خطر ناک جنگل کو صرف ایک قدم سے طے کر گیا.پھر ایک چوہدری رستم علی صاحب تھے جو حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابی تھے اور بڑے سادہ مزاج بزرگ اور مخلص انسان تھے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے جماعت میں کسی خاص موقع پر چندے کی تحریک کی اور چوہدری رستم علی صاحب کو بھی خط لکھا اسی دن اتفاق سے ان کو ان کی خاص ترقی کے احکام آئے تھے اور وہ سب انسپکٹر پولیس سے انسپکٹر بنادیئے گئے تھے اور ان کی تنخواہ میں اسی 80 روپے ماہوار کا اضافہ ہو گیا تھا.مسیح محمدی کے اس پروانے نے حضرت مسیح موعود کولکھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ میری یہ ترقی صرف حضور کی دعا اور توجہ کے نتیجہ میں ہوئی ہے کیونکہ ادھر حضور کا مکتوب گرامی پہنچا اور ادھر میری اس ترقی کا آرڈر آ گیا.اس لئے میں یہ ساری ترقی کی رقم حضور کی خدمت میں بھجواتا ہوں اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہمیشہ بھجواتا رہوں گا.
مضامین بشیر جلد چہارم 479 چنانچہ جب تک وہ زندہ رہے اپنی اس غیر معمولی ترقی کی ساری رقم حضور کی خدمت میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھجواتے رہے اور اس کے علاوہ اپنا سابقہ چندہ پچیس روپے ماہوار بھی بدستور جاری رکھا اور خود نہایت قلیل رقم پر گزارہ کرتے رہے اور قربانی کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا جس کی نظیر بہت کم ملتی ہے.( بدر 14 جنوری 1909ء والفضل یکم مئی 1962ء) پھر ایک گاؤں کے رہنے والے بابا کریم بخش صاحب ہوتے تھے.وہ زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھے مگر تو بے شمار دوسرے احمدیوں کی طرح حضرت مسیح موعود کی محبت اور اطاعت میں گداز تھے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود قادیان کی مسجد میں کچھ وعظ فرما رہے تھے اور پیچھے آنے والے لوگ پچھلی صفوں میں کھڑے ہو کر سن رہے تھے اور ان سے بعد میں آنے والوں کے لئے رستہ رُکا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود نے انتظام کی سہولت کی غرض سے ان لوگوں کو آواز دے کر فرمایا کہ ” بیٹھ جاؤ اس وقت بابا کریم بخش صاحب مسجد کی گلی میں سے ہو کر مسجد کی طرف آرہے تھے.ان کے کانوں میں اپنے امام کی یہ آواز پہنچی تو وہیں رستہ میں ہی زمین پر بیٹھ گئے اور پھر آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے مسجد میں پہنچے تا کہ امام کے حکم کی نافرمانی نہ ہو.وہ بیان کیا کرتے تھے کہ میں نے خیال کیا کہ اگر میں اسی حالت میں مر گیا تو خدا کو اس بات کا کیا جواب دوں گا کہ اس کے مسیح کی آواز میرے کانوں میں پہنچی اور میں نے اس پر عمل نہ کیا.(سیرت المہدی روایت نمبر 741) پھر ایک منشی عبدالعزیز صاحب دیہاتی پٹواری تھے یہ بھی پرانے صحابہ میں سے تھے اور بڑے نیک اور قربانی کرنے والے خدمت گزار انسان تھے.انہوں نے مجھ سے خود بیان کیا کہ ایک دفعہ جب ایک مقدمہ کے تعلق میں حضرت مسیح موعود گورداسپور تشریف لے گئے تو اس وقت حضور بیمار تھے اور حضور کو پچپش کی سخت تکلیف تھی اور حضور بار بار قضائے حاجت کے لئے جاتے تھے.میں حضور کے قریب ہی ٹھہر گیا اور جب بھی حضور رفع حاجت کے لئے اٹھتے تھے میں فوراً حضور کی خدمت میں پانی کا لوٹا حاضر کر دیتا تھا.حضور مجھے بار بار فرماتے تھے کہ میاں عبدالعزیز آپ سو جائیں اگر ضرورت ہوئی تو میں آپ کو جنگالوں گا مگر میں ساری رات مسلسل جاگتا رہا تا کہ ایسا نہ ہو کہ حضور مجھے کسی وقت آواز دیں اور میں نیند کی حالت میں حضور کی آواز کو نہ سن سکوں اور حضور کو تکلیف ہو.صبح اٹھ کر حضرت مسیح موعود نے مجلس میں خوش ہو کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا فضل ہے کہ مسیح ناصری ایک شدید ابتلا کے وقت میں لوگوں سے بار بار کہتا تھا کہ ” جاگتے رہو اور دعا کرو مگر وہ سو جاتے تھے (متی باب 26 آیت 39 تا 46 ) مگر ہم ایک عام بیماری کی حالت میں منشی عبدالعزیز صاحب
مضامین بشیر جلد چهارم 480 سے بار بار کہتے تھے کہ سو جاؤ مگر وہ ہماری وجہ سے ساری رات جاگتے رہے اور آنکھ تک نہیں جھپکی.(سیرت المہدی روایت نمبر 701) یہ پانچ مثالیں میں نے محض بطور نمونہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے مختلف طبقات میں سے منتخب کی ہیں ورنہ آپ کے صحابہ خدا کے فضل سے آپ کی محبت اور عقیدت اور اخلاص اور قربانی اور نیکی میں حقیقتا اس زمانہ میں دنیا کے لئے ایک پاک اُسوہ اور حضرت مسیح موعود کی صداقت کی زبردست دلیل تھے.حضرت مسیح ناصری کا یہ قول کتنا سچا اور کتنی گہری حقیقت پر مبنی ہے کہ.درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے“ مگر افسوس ہے کہ حضرت مسیح ناصری کو اپنی فلسطینی زندگی میں اپنے درخت کے شیریں پھل دیکھنے نصیب نہ ہوئے اور مسیح کے آخری ابتلاء میں جو صلیب کی شکل میں نمودار ہوا مسیح کے حواریوں نے بڑی کمزوری اور بے وفائی دکھائی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول کی برکت سے مسیح محمدی کو بڑی کثرت کے ساتھ نہایت شیریں پھل عطا کئے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ اس خاص فضل الہی کا ذکر کرتے ہوئے بڑے تشکر و امتنان کے ساتھ فرماتے ہیں کہ.میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں جو سچے دل سے میرے پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت ایسے روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو، ان سے جو اُن کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے.ہزار ہا آدمی دل سے فدا ہیں اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہو جاؤ تو وہ دستبردار ہونے کے لئے مستعد ہیں.پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سنا تا مگر دل میں میں خوش ہوں“ 66 (الذكر الحکیم نمبر 4 صفحہ 16 و17 ) سچ ہے اور پھر بیچ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.خدا کرے کہ حضرت مسیح موعود کے ہاتھ کا گایا ہوا خدائی پودا قیامت تک اسی قسم کے شیریں پھل پیدا کرتا چلا جائے اور ہماری نسلیں اور پھر نسلوں کی نسلیں اس مقدس ورثہ کی قدر و قیمت کو پہچانیں جو حضرت مسیح موعوڈ کے صحابہ کے ذریعہ جماعت کو حاصل ہوا ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 22 481 مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا جس میں ایک طرف مخلصین جماعت کی محبت اور عقیدت اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود کے حسنِ تادیب و تربیت کی بڑی دلچسپ مثال ملتی ہے جیسا کہ اکثر دوست جانتے ہیں دنیا کے لوگوں میں کسی عوامی لیڈر کے ساتھ اپنی دلچسپی اور عقیدت کے اظہار کا ایک معروف طریق یہ بھی ہے کہ بعض اوقات جب کوئی ہر دلعزیز لیڈ ر کسی شہر میں جاتا ہے تو اس شہر کے لوگ اس کی گاڑی میں گھوڑے جو تنے کی بجائے اس کے اکرام و احترام کی غرض سے اس کی گاڑی میں خود لگ جاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اس کی گاڑی کو کھینچتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ آخری ایام میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لا ہور تشریف لے گئے تو چند جو شیلے احمدی نوجوانوں کو دنیا کی نقل میں خیال آیا کہ ہم بھی اپنے پیارے امام کو گاڑی میں بٹھا کر اس کی گاڑی کو خود اپنے ہاتھوں سے کھینچیں اور اس طرح اپنی دلی محبت اور عقیدت کا ثبوت دیں.چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ آج ہم حضور کی گاڑی کو کھینچنے کا شرف حاصل کریں گے.لیکن حضرت مسیح موعود نے اس تجویز کونا پسندیدگی کے ساتھ رڈ فر مایا اور نو جوانوں کی تربیت کے لئے فرمایا کہ.ہم انسانوں کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے بلکہ حیوانوں کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں.روایات میاں عبدالعزیز صاحب مغل بحوالہ حیات طیبہ صفحہ 457,456) یہ ایک سادہ سا بے ساختہ نکلا ہوا کلام ہے مگر ان الفاظ سے حضرت مسیح موعود کے قلب صافی کے اُن گہرے جذبات پر کتنی لطیف روشنی پڑتی ہے جو آپ اپنے آسمانی آقا کی طرف سے لے کر دنیا میں نازل ہوئے تھے.اگر کوئی دنیا دار انسان ہوتا تو نو جوانوں کی اس پیشکش پر خوش ہوتا اور اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا.مگر اس آئینہ جمال“ کی شان دیکھو کہ اس کے نزدیک اس کے نفس کی عزت کا کوئی سوال نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف اس پیغام کی عزت کا سوال تھا جو وہ خدا کی طرف سے لے کر آیا تھا حق یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا کثیر حصہ اپنے فطری روحانی جو ہر کو کھو کر عملاً حیوانیت کی طرف جھک گیا ہے اور مادیت کے دبیز ظلماتی پردوں میں اس کی روحانیت اس طرح چھپ گئی ہے جس طرح کہ سورج گرہن کے وقت اس کی تیز روشنی پردوں کے سایہ کے پیچھے چھپ جایا کرتی ہے.اس لئے جب خدا نے حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرمایا تو حضور کو یہ الہام کیا کہ - يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 562)
مضامین بشیر جلد چهارم 482 یعنی ہمارا یہ مسیح دین کو اس کے کمزور ہو جانے کے بعد پھر زندہ کرے گا اور اسلامی شریعت کو دنیا میں پھر دوبارہ قائم کر دے گا.بے شک مقابلہ سخت ہے اور بے حد سخت.اور کفر و شرک کی فوجیں چاروں طرف سے اسلام پر حملہ آور ہورہی ہیں اور مادیت کی طاقتیں روحانیت کو کچلنے کے درپے ہیں مگر آخری فتح یقینا حق کی ہوگی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خدا داد مشن کامیاب ہو کر رہے گا.حضور ایک جگہ خدا سے علم پا کر اپنے مشن کی کامیابی اور اسلام کے آخری غلبہ کے متعلق فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں.”یقینا سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں.بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے.جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے.یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا.حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں اور کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کاران کے لئے ہزیمت ہے.میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلی طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رُو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کر دے گا.اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں جو فلسفہ اور ( علوم ) طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں.اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 254 و 255 حاشیہ) $23 میں اپنی تقریر کے شروع میں بیان کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی بعثت کی دو بڑی غرضیں تھیں.ایک غرض اسلام کے احیاء اور تجدید اور غلبہ سے تعلق رکھتی تھی اور دوسری غرض کا تعلق کسر صلیب سے تھا.یعنی مسیحیت کے زور کو توڑ کر اور دنیا میں مسیح پرستی کو مٹا کر کچی تو حید کو قائم کرنا.بے شک حضرت مسیح ناصری خدا کے ایک برگزیدہ نبی تھے جن کی ہم دل و جان سے عزت کرتے ہیں مگر ان کے بعد ان کی قوم نے یہ خطرناک ظلم ڈھایا کہ حق وصداقت کے رستہ کو چھوڑ کر انہیں خدا کا بیٹا بنا لیا اور اس طرح دنیا میں ایک بھاری شرک کی بنیا درکھ دی.حالانکہ مسیح کی ساری زندگی اور زندگی کا ہر لمحہ اس بات پر شاہد ناطق ہے کہ وہ خدایا خدا کا بیٹا ہرگز نہیں تھا بلکہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح ایک عورت کے بطن سے پیدا ہوا اور کمزوری کی حالت میں ہی دنیا
مضامین بشیر جلد چهارم 483 میں زندگی گزاری اور عاجزی اور فروتنی کے طریق پر اپنے خدا داد مشن کی تبلیغ کی اور ہمیشہ خدائے واحد کی پرستش میں اپنا وقت گزارا.اور پھر بد بخت یہودیوں نے اسے صلیب کی سزا دلوادی.مگر خدا نے اپنی معجزانہ تقدیر سے اسے اس لعنت کی موت سے بچا لیا.مسیح کا کوئی ایک قول اس کی زندگی کا کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو اسے دوسرے نبیوں سے ممتاز کرتا ہو.بلکہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو حضرت موسیٰ کی شریعت کے تابع اور ائیلی سلسلہ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ اور ایک غیر تشریعی نبی کے طور پر پیش کرتا رہا اور چونکہ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ بھی ایک مُرسل یزدانی تھے اس لئے نہ صرف آسمانی برادری میں شامل ہونے کی حیثیت میں بلکہ مثیل مسیح ہونے کی حیثیت میں بھی آپ مسیح ناصری سے محبت کرتے اور اسے عزت کی نظر سے دیکھتے تھے.مگر چونکہ آپ افضل الرسل حضرت خاتم النبیین سید ولد آدم کے قدموں میں ظاہر ہونے والے خاتم الخلفاء تھے اس لئے لازماً آپ کا درجہ خدا کے فضل سے مسیح ناصری سے بلند تھا.چنانچہ آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ..ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس بہتر غلام احمد ہے ( دافع البلاء ) دوسری طرف چونکہ مسیحیت کے عقائد بگڑ چکے تھے اور توحید کی جگہ تثلیث نے لے لی تھی جو شرک کا ہی دوسرا نام ہے اس لئے حضرت مسیح موعود نے اپنے فرض منصبی کے لحاظ سے مسیحیت کے باطل خیالات کا مقابلہ کرنے اور صلیب کے زور کوتوڑنے میں انتہائی توجہ دی اور تقریر اور تحریر کے ذریعہ ان کے غلط عقائد کا پورا پورا کھنڈن کیا حتی کہ مخالفوں تک نے آپ کو عیسائیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ”فتح نصیب جرنیل“ کے لقب سے یاد کیا اور اس کے مقابل پر مسیحیوں نے بھی ہر رنگ میں حضرت مسیح موعود کا مقابلہ کرنے اور حضور کو نیچا دکھانے کی سرتوڑ کوشش کی اور ہر طرح کی امکانی چالوں سے کام لیتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر مقابلہ میں کامیاب اور سر بلند کیا اور آپ خدا کے فضل سے اس دار فانی سے کامیابی اور فتح و ظفر کا پر چم لہراتے ہوئے رخصت ہوئے اور اب آپ کے بعد آپ کی جماعت اپنے نہایت محدود وسائل کے باوجود آزاد دنیا کے قریباً ہر ملک میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے میں دن رات لگی ہوئی ہے اور مسیحیت پسپا ہو رہی ہے اور اسلام ترقی کر رہا ہے.اس تعلق میں ایک عجیب واقعہ مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ بٹالہ کے مسیحیوں نے جو قادیان کے قرب کی وجہ
مضامین بشیر جلد چہارم 484 سے زیادہ تعصب رکھتے تھے اور حسد سے جلے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود کے دلائل اور زور دار علم کلام کے سامنے عاجز آ کر حضور کی خدمت میں یہ چیلنج کیا کہ اگر آپ واقعی خدا کی طرف سے ہیں تو ہم ایک خط کے اندر کچھ عبارت لکھ کر اور اسے ایک سر بمہر لفافے میں بند کر کے آپ کے سامنے میز پر رکھ دیتے ہیں اگر آپ بچے ہیں تو اپنی روحانی طاقت کے ذریعہ اس لفافہ کے اندر کا مضمون بتا دیں.ان کا خیال ہوگا کہ غالبا حضرت مسیح موعود اس عجیب و غریب چیلنج کو ٹال دیں گے اور انہیں حضور کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کا موقع مل جائے گا.مگر حضرت مسیح موعود نے اس چیلنج کے ملتے ہی غیرت کے ساتھ فرمایا کہ.میں اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور اس مقابلے کے لئے تیار ہوں کہ دعا اور روحانی توجہ کے ذریعہ آپ کے بند خط کا مضمون بتا دوں مگر شرط یہ ہے کہ اس کے بعد آپ لوگوں کو مسلمان ہونا ہوگا“ (اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 159 ملخص) حضرت مسیح موعود کے اس تحدی والے جواب کا عیسائیوں پر ایسا رعب پڑا کہ وہ ڈر کر بالکل خاموش ہو گئے.اور خود اپنی طرف سے چیلنج دینے کے بعد حضرت مسیح موعود کے سامنے آنے کی جرأت نہ کی اور مسیحیت کو شکست ہوئی اور اسلام کا بول بالا ہوا.یہ درست ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے.خدا کے رسولوں کو از خود غیب کا علم حاصل نہیں ہوتا ( سورہ انعام آیت 109 ) مگر یہ بھی درست ہے اور خدا کی ازلی سنت میں داخل ہے کہ وہ اکثر اپنی مشیت اور اپنے مصالح کے ماتحت نبیوں پر غیب کی خبر میں ظاہر فرما تا رہتا ہے تا کہ خدائی دین کو خدائی نشانوں کے ذریعہ تقویت حاصل ہو.یا درکھنا چاہئے کہ عیسائیوں کے اس پینج کے جواب میں حضرت مسیح موعود نے جو یہ فرمایا تھا کہ اگر میں بند خط کا مضمون بتا دوں تو پھر آپ لوگوں کو مسلمان ہونا ہوگا تو یہ کوئی رسمی جواب اور کوئی معمولی شرط نہیں تھی بلکہ حضرت مسیح موعود کی صداقت اور اسلام کی سچائی کی ایک زبردست دلیل تھی.خدا کے مامور کوئی فضول اور عبث کام نہیں کیا کرتے اور نہ وہ نعوذ باللہ دنیا کے مداریوں کی طرح لوگوں کو تماشہ دکھاتے پھرتے ہیں بلکہ ان کی غرض و غایت صرف حق کی تائید کرنا اور صداقت کی طرف لوگوں کو دعوت دینا ہوتی ہے.اور وہ صرف وہی کام کرتے اور صرف اسی جگہ ہاتھ ڈالتے ہیں جہاں انہیں اپنے خدا داد مشن کی تائید اور صداقت کی تصدیق کا کوئی سنجیدہ پہلو نظر آئے.کاش بٹالہ کے عیسائی اس موقع پر مردانہ جرات سے کام لے کر آگے آتے اور خدا اسلام کی تائید میں کوئی چمکتا ہو انشان ظاہر کرتا جس سے دنیا کی روحانیت کو فائدہ پہنچتا اور حق کا بول بالا ہوتا.حضرت مسیح موعود اپنی ایک نظم میں عیسائیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں.
مضامین بشیر جلد چہارم آؤ عیسائیو! ادھر نور حق دیکھو راه حق پاؤ جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں سر پہ یوں نہ انجیل میں تو دکھلاؤ اس کو یاد کرو خالق ہے ہی مخلوق کو بہکاؤ فرقاں میں اک عجیب اثر بناتا ہے کوئے دلبر میں کھینچ عاشق ولیر لاتا ہے پھر تو کیا کیا نشان دکھاتا ہے اس کے منکر جو بات بات کہتے ہیں یونہی اک واہیات کہتے ہیں 485 بات جب ہو کہ میرے پاس آویں میرے منہ مجھ مجھ پر وہ بات کہہ جاویں اس دلستاں کا حال سنیں صورت وہ و جمال سنیں آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی : سہی یوں ہی امتحان ہی ( براہین احمدیہ حصہ سوم ) مگر عیسائی دنیا یا در کھے کہ وہ اس قسم کی ہوشیاری اور حیلہ جوئی سے بچ نہیں سکتے.مسیحیت کے دن اب گنے جاچکے ہیں.صلیب ٹوٹ کر رہے گی اور اسلام بہر حال فتح پائے گا اور غالب ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جا تا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر وتوانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی
مضامین بشیر جلد چهارم 486 کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.(خدا) نے چاہا ہے کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو ( دلائل اور براہین کے ذریعہ ) موت کا مزا چکھاوے.سواب وہ دونوں مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا.اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا“ $24 ( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 7) یہ سب کچھ جوا بھی بیان کیا گیا ہے خدائے عرش نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما بتایا اور حضور نے دنیا پر ظاہر فرمایا اور وہ اپنے وقت پر پورا ہوگا اور ضرور ہو گا.یہ ایک اٹل آسمانی تقدیر ہے جس کی تمام نبی اور تمام آسمانی پیغامبر اپنے اپنے وقت پر خبر دیتے آئے ہیں اور ہمارے آقا حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ روحی و جنانی) نے خاص طور پر خدا کی قسم کھا کر خبر دی تھی کہ مہدی اور مسیح کے ظہور سے آخری زمانہ میں اسلام کے دوسرے اور دائی غلبہ کا دور آئے گا اور صلیبی عقائد اور صلیبی طاقتوں کا ہمیشہ کے لئے زور ٹوٹ جائے گا اور ایک نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان.مگر یہ بھی خدا کا ہی بنایا ہوا از لی قانون ہے کہ اس نے ہرامر میں کامیابی کے لئے تقدیر اور تد بیر کا مخلوط اور مشتر کہ نظام قائم کر رکھا ہے.تقدیر خدا کی مشیت اور خدا کے حکم کے ماتحت آسمان کی بلندیوں سے نازل ہوتی ہے اور اس کی تاریں فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں جو خدا کے حکم سے پردہ غیب میں رہتے ہوئے خدائی نظام کو چلاتے ہیں.اور تدبیر کی تاریں خدائے علیم و حکیم نے بندوں کے ہاتھ میں دے رکھی ہیں.چنانچہ جب کسی مامور ومرسل کے ذریعہ دنیا میں کوئی نیا نظام قائم ہوتا ہے تو مومنوں کا گروہ خدا کی انگلی کو دیکھ کر اس کی تقدیر کے حق میں اپنی تدبیروں کو حرکت دینا شروع کر دیتا ہے.اور پھر یہ دونوں حرکتیں مل کر دنیا میں ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کر دیتی ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے خدا کی طرف سے فتح اور غلبہ کی عظیم الشان بشارتوں کے باوجود ظاہری تدبیر کے ماتحت اسلام کی خدمت کے لئے اتنی قربانیاں کیں کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی.اسی طرح جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئندہ ہونے والے غیر معمولی تغیرات اور اسلام واحمدیت کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئی فرمائی ہے وہاں حضور نے اپنی جماعت کو بھی زبر دست تحریک کے ذریعہ ہوشیار کیا ہے کہ اس الہی تقدیر کے پیچھے اپنی تدبیر کے گھوڑے ڈال دو.اور پھر خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو، چنانچہ حضورفرماتے ہیں.
مضامین بشیر جلد چهارم 487 سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اُس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے.اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اُسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں.اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے (فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 10-11 ) اور بالآخر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں اور دوست غور سے سنیں کہ کس محبت اور کس درد کے ساتھ فرماتے ہیں کہ.”اے میرے عزیز و! میرے پیارو!!! میرے درخت وجود کی سرسبز شا خو!!! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے میرے سلسلۂ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی ، اپنا آرام اور اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو...( سنو کہ میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے.مجھے کون پہچانتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں (خدا کی طرف سے ) بھیجا گیا ہوں اور مجھے اُس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں.دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں.مگر جن کی فطرت کو اُس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص و ہم اور بدگمانی کی وجہ سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی (یعنی روحانی رنگ میں اس کا نام ونشان تک مٹ جائے گا) مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور بھی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک مطیع بندہ بن جاتا ہے.ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اُس میں ہوں.“ فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 34).خدا کرے کہ ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ ہمیش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ” درخت وجود کی سرسبز
مضامین بشیر جلد چهارم 488 شاخیں بن کر رہیں اور ہمارے ذریعہ رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام نامی اور اسماء گرامی چارا کناف عالم میں فتح و ظفر کے نقاروں کے ساتھ گونجیں اور خدا کا یہ کلام اپنی کامل شان کے ساتھ پورا ہو کہ.ھ پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد امِين يَا رَبَّ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِينَ محرره 28 دسمبر 1962ء).......روزنامه الفضل 6 فروری 1963ء) ایک انتہائی اضطراب کے وقت کی دعا ”اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں آتا ہے.وہ خدا تعالے کے ایک نبی اور رسول تھے مگر ایک ابتلاء کے وقت انہیں ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا تھا اور وہ تین دن اور تین رات دنیا سے بالکل کٹ کر اس مچھلی کے پیٹ میں عملاً زندہ درگور رہے اور ان کے لئے یہ ایک انتہائی اضطراب کا وقت تھا جبکہ حقیقتا ان پر دنیا اندھیر ہو گئی تھی.اس وقت خدا کے اس صابر اور تائب بندے نے جو انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں دعا کی.اس کا قرآن مجید ان الفاظ میں ذکر کرتا ہے کہ.لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ (الانبياء : 88) یعنی اے میرے آسمانی آقا تو تو ہر نقص سے پاک اور ہر عیب سے منزہ ہے.مجھ سے ہی غلطیاں ہو جاتی ہیں.تو مجھے معاف فرما اور اس تکلیف سے مجھے نجات دے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس درد بھری انتہائی اضطراب کی دعا کو سنا اور انہیں اس تکلیف سے نجات بخشی.میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ گھبراہٹ اور اضطراب کے وقتوں کے لئے یہ ایک عجیب وغریب دعا ہے جو گھبراہٹ کو دور کرنے اور خدا کی رحمت کو جذب کرنے کی غیر معمولی تاثیر رکھتی ہے.ہمارے کئی عزیز وں اور دوستوں نے اس دعا کے متعلق خواب دیکھی ہے کہ گھبراہٹ اور اضطراب کے اوقات میں اس کا بہت ورد کرنا چاہئے.مثلاً ایک دفعہ ام مظفر احمد کو کسی معاملہ میں بہت گھبراہٹ تھی اور وہ اسی گھبراہٹ میں
مضامین بشیر جلد چہارم 489 استغفار پڑھتے پڑھتے سو گئیں تو حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا خواب میں ان کو ملیں اور تحریک فرمائی کہ ایسے وقت میں حضرت یونس والی دعاز زیادہ پڑھا کرو یعنی.لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ(الانبياء:88) 66 اسی طرح ایک دفعہ میرے بھانجے اور داماد عزیز میاں محمد احمد خان سلمہ خواب میں یہی دعا کر رہے تھے تو ہمارے بڑے ماموں جان حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ نے خواب میں ظاہر ہو کر اس دعا کے متعلق فرمایا کہ.عجیب دعا ہے، عجیب دعا ہے، عجیب دعا ہے اسی طرح ایک دفعہ میری چھوٹی لڑکی عزیزہ امتہ اللطیف بیگم سلہما کو خواب میں کسی بزرگ نے ظاہر ہوکر نصیحت کی کہ یہ دعا بہت پڑھا کرو.اور ممکن ہے بعض اور دوستوں نے بھی اس کے متعلق خواہیں دیکھی ہوں.بہر حال یہ ایک انتہائی اضطراب کے وقت ایک نبی کی مانگی ہوئی دعا ہے جو خدا کے حضور قبول ہوئی.پس دوستوں کو اس دعا سے فائدہ اٹھانا چاہئے.اور اگر غور کیا جائے تو دراصل یہ ایک بڑی جامع دعا ہے کیونکہ اس میں خدا کی تو حید اور تسبیح اور بندے کی عاجزی اور کمزوری اور گناہوں کے اقرار اور استغفار کا مفہوم بھی شامل ہے.پس.اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما ( محررہ 9 فروری 1963ء) روزنامه الفضل 12 فروری 1963ء) دوستوں کیلئے دعا کی تحریک اُس حسنِ ظنی کی وجہ سے جو جماعت کے مخلصین کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے ہے کئی دوست اس عاجز عاصی کو دعا کے لئے لکھتے رہتے ہیں اور طبعا یہ سلسلہ رمضان کے مہینہ میں زیادہ ہو جاتا ہے.میرا طریق ہے کہ مختصرسی دعا تو دوستوں کی طرف سے خط موصول ہوتے ہی کر دیتا ہوں اور اس کے بعد جب مزید دعا کا موقع ملتا ہے تو دعا کرتا ہوں.لیکن کچھ عرصہ سے میری طبیعت اتنی علیل اور کمزور ہو چکی ہے کہ دعا کے لئے جس توجہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ آجکل نسبتا کم میسر آتی ہے اور حافظہ بھی بہت کمزور ہو چکا ہے گو عمومی دعائیں بہر حال جاری رہتی ہیں.
مضامین بشیر جلد چهارم 490 اندریں حالات میں جماعت کے بزرگوں اور اپنے مخلص دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ دعا فرمائیں کہ جو دوست مجھے دعا کے لئے لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے نیک مقاصد میں کامیابی کا رستہ کھولے.ان کی مشکلات دور فرمائے اور انہیں دین و دنیا کے حسنات سے نوازے.نیز اس عاجز کے لئے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میری کمزوریوں کو معاف فرمائے اور مجھے اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور میرا انجام بخیر ہو.جَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء (محرره 11 فروری 1963 ء) روزنامه الفضل 13 فروری 1963ء) رمضان کا آخری عشرہ دعاؤں کا خاص زمانہ ہے اب ایک دو روز میں رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے جو رمضان کے مبارک مہینہ کا مبارک ترین عشرہ ہے.اس مہینے کے متعلق خدا کا قرآن مجید میں وعدہ ہے کہ وہ اس مہینے میں مخلص مومنوں کی دعاؤں کو زیادہ قبول کرتا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں دعاؤں کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور اپنے قلوب میں خاص طور پر درد وسوز کی کیفیت پیدا کریں تاکہ ان کی دعا ئیں خدا کے فضل و رحمت کو کھینچنے والی ہوں.انسان اپنے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے اور اپنے دوستوں کے لئے تو دعا کرتا ہی ہے اور اسے کرنی چاہئے مگر دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں.اور خدا کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ گر کر اس کے فضل و رحمت کے طالب ہوں.در اصل غور کیا جائے تو اسلام اور جماعت کی ترقی کے لئے دعا میں لازماً انسان کی خود اپنی دعا بھی شامل ہوتی ہے.کیونکہ جب اسلام اور جماعت کی ترقی کریں گے تو افراد کا قدم بھی لازماً آگے بڑھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک نظم میں آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کیا خوب فرمایا ہے کہ.بع ”تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درود کی دعا پر بہت زور دیا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ ان
مضامین بشیر جلد چہارم 491 مبارک ایام میں درود بہت کثرت سے پڑھیں اور اسلام اور جماعت کی ترقی کے لئے بہت درد اور سوز سے دعائیں کریں.تا کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی ترقی اور غلبہ کا دن قریب سے قریب ترلے آئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین متین کا بول بالا ہو.آمین ( محرره 14 فروری 1963 ء)......روزنامه الفضل 16 فروری 1963ء) نگران بورڈ کے تازہ اجلاس کی رپورٹ مورخہ 10 مارچ بروز اتوار نگران بورڈ کا تازہ اجلاس منعقد ہوا.بعض امور کے ذکر کو ترک کر کے خاص خاص امور کی کارروائی کی رپورٹ درج ذیل کی جاتی ہے.افسوس ہے کہ اس دفعہ میری بیماری کی وجہ سے نگران بورڈ کا اجلاس کافی عرصہ کے بعد منعقد ہو سکا.اب کوشش کی جا رہی ہے کہ انفرادی معاملات کی بجائے زیادہ تر اصلاحی تجاویز کی طرف توجہ دی جائے.فیصلہ جات اجلاس نگران بورڈ مورخہ 63-3-10 (1) کمیشن رشتہ ناطہ کی رپورٹ کا خلاصہ پڑھ کر سنایا گیا.اب یہ رپورٹ حسب فیصلہ مشاورت میں پیش ہوگی اور اس کی سب کمیٹی اس پر غور کرے گی.(2) رپورٹ نظارت زراعت پیش ہوئی.یہ امر قابل افسوس ہے کہ سترہ مدعوین میں سے صرف سات شریک اجلاس ہوئے جو حاضر نہیں ہوئے انہیں ملامت کا خط لکھنا چاہئے کہ جماعتی کاموں میں ایسی سہل انگاری قابل افسوس ہے.فی الحال کسی دو جگہ ابتدائی طور پر دو ماڈل فارم قائم کئے جائیں اور اس کے بعد اس سلسلہ کو مزید ترقی دی جائے.ناظر صاحب زراعت اپنے دوروں کو وسیع کریں اور موقع پر جا جا کر دوستوں کو بیدار اور ہوشیار کریں.نیز ایک انسپکٹر زراعت بھی صدر انجمن مقرر کرے جو زیادہ کثرت سے دورے کر کے اس کام کو ترقی دے.اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ جماعت کی اکثریت زراعت پیشہ اصحاب پرست شجر کاری کی تجویز بہت مناسب ہے اس کے لئے علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے ثمر دار اور غیر ثمر دار پودوں کے متعلق دوستوں کو مفید مشورہ مہیا جائے.اور جو فارم مقرر ہوں ان میں نرسری کا بھی انتظام ہو.نیز مشتمل ہے.
مضامین بشیر جلد چهارم 492 ملک میں بہت سی اچھی اچھی نرسریاں بھی موجود ہیں ان سے بھی فائدہ اٹھایا جائے.(3) احمد یہ ہوٹل لاہور کے متعلق صدر انجمن احمد یہ اور صدر صاحب نگران بورڈ کی رپورٹ پیش ہوئی.فیصلہ ہوا کہ مناسب یہی ہے کہ اب بھی مشاورت میں پیش ہونے والی تجویز میں خریدا راضی برائے احمد یہ ہوٹل کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی رقم مشروط بآمد رکھ دی جائے.اس سے تحریک میں نفسیاتی زور پیدا ہو جاتا ہے.احمد یہ ہوٹل لاہور جلد قائم ہو جانا چاہئے.(4) تجارتی و صنعتی امور کے متعلق ابتدائی رپورٹ پیش ہوئی.اس کے متعلق اصل رائے تو اس وقت دی جاسکے گی جب ایک دوا جلاسوں کے بعد عملی کام شروع ہوگا.(5) سیمینار اصلاح وارشاد کے متعلق رپورٹ پیش ہوئی.اس کے انعقاد کا مناسب موقع یہ تھا کہ جلسہ سالانہ کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں ایسا انعقاد کیا جائے.اور مربیوں کے علاوہ خاص خاص امراء اور بعض دیگر اہل الرائے دوستوں کو بھی بلایا جائے.آئندہ اس کا خیال رکھا جائے.(6) بے پردگی کے متعلق نظارت امور عامہ کی رپورٹ کے ذریعہ امیر ضلع پشاور کا خط پڑھ کر سنایا گیا.بے پردگی کے متعلق پشاور کے بعض احمدیوں کے بارے میں رپورٹ پیش ہوئی.ناظر صاحب امور عامہ کو چاہئے کہ رجسٹر ڈ خطوط کے ذریعہ ان احمدیوں کو مناسب الفاظ میں غیرت دلائیں اور حضرت صاحب کے خطبہ کا حوالہ دے کر پر زور تحریک کریں کہ وہ اپنے گھروں میں اسلامی پردے کو رائج کریں.انہیں لکھ دیا جائے کہ بصورت دیگر جماعتی مفاد کے پیش نظر ایکشن لیا جائے گا.تین ماہ کے بعد پھر ان کے متعلق رپورٹ پیش ہو کہ انہوں نے اصلاح کرلی ہے یا نہیں؟ نیز ناظر صاحب اصلاح وارشاد کو نظارت امور عامہ کی طرف سے بند لفافے میں ان اصحاب کی فہرست بھجوا دی جائے اور ان سے کہا جائے کہ وہ کسی وقت پشاور جا کر انہیں نصیحت کر کے اصلاح کی کوشش کریں.نیز ناظر صاحب امور عامہ کو چاہئے کہ حسب فیصلہ سابق کراچی اور پنڈی اور لاہور کے امراء کو بھی رجسٹر ڈ خطوط کے ذریعہ پھر تاکید کریں کہ وہ بھی اپنی جماعتوں کا جائزہ لے کر رپورٹ کریں کہ کیا وہاں جماعت میں کوئی بے پردگی کی شکایت تو نہیں پائی جاتی.اور پھر نگران بورڈ میں رپورٹ کی جائے.(7) نئے مہمان خانہ کی تعمیر کے متعلق رپورٹ پیش ہوئی.فیصلہ ہوا کہ سارے حالات سننے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ تجویز تین ماہ کے بعد پھر پیش ہوتا کہ اگر حالات میں کوئی تبدیلی پیدا ہو تو اس پر دوبارہ غور کیا جاسکے.
مضامین بشیر جلد چهارم 493 (8) حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے رہائشی اور وفات والے کمرہ کے متعلق رپورٹ پیش ہوئی.صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ اس کی چاردیواری کے باہر کی طرف حفاظت کے خیال سے ڈیڑھ فٹ پختہ چبوترہ بنا دیا جائے.(9) مفت اور لازمی پرائمری تعلیم کے متعلق رپورٹ نظارت تعلیم پیش ہوئی.الحمد للہ کہ ربوہ میں عملاً لازمی ابتدائی تعلیم جاری ہے.کوشش کی جائے کہ جو دو تین بچے زیر تعلیم نہیں آئے وہ بھی زیر تعلیم آجائیں.(10) چندہ دہندگان کی اوسط طبقہ وار پیش ہوئی.ناظر صاحب بیت المال کو چاہئے کہ طبقہ وار اوسط میں جو طبقہ پیچھے ہے اس کو اوپر اٹھانے کی کوشش کریں نیز ناظر صاحب کو یہ بھی چاہئے کہ اس بارہ میں رپورٹ کریں کہ جو چندہ ہر طبقے کے دوست لکھاتے ہیں یا ان پر عائد کیا جاتا ہے اس کے لحاظ سے ان کے چندے کی وصولی کی شرح کیا بنتی ہے؟ اسی طرح وکیل اعلیٰ صاحب سے بھی ایسی رپورٹ حاصل کی جائے.(11) جماعتی تاریخی میوزیم کا مجوزہ فارم پیش ہوا.فارم درست ہے.اگر آئندہ کسی تبدیلی یا اضافہ کی ضرورت ہوئی تو دوبارہ غور ہو سکے گا.خرچ کا معاملہ صدرانجمن میں پیش کیا جائے.(12) سہ ماہی انتظامی معائنہ جات کے متعلق رپورٹ ناظر صاحب اعلیٰ پیش ہوئی.اگر سہ ماہی معائنہ مشکل ہو تو کم از کم ششماہی ضرور کیا جانا چاہئیے.اور بہتر ہوگا کہ ہر معائنہ میں ناظر صاحب اعلیٰ اپنے ساتھ باری باری کسی دوسرے ناظر کو بھی شامل کر لیا کریں.(13) رپورٹ صیغہ قضا بابت اختیارات سماعت مقدمات پیش ہوئی.فیصلہ ہوا کہ صدر صاحب نگران بورڈ ،صدر صاحب صدرانجمن احمد یہ اور پریذیڈنٹ صاحب تحریک جدید اور صدر صاحب بورڈ قضا تینوں سے اس کی رائے حاصل کریں.کہ وہ اصولی طور پر انتظامی معاملات اور حقوق کے معاملہ میں کیا حد فاصل قرار دیتے ہیں.اس کے بعد یہ معاملہ نگران بورڈ میں پیش ہو.(14) درستی مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق سردار بشیر احمد صاحب کی تجویز آئندہ اجلاس میں پیش ہو.(محررہ 11 مارچ 1963 ء ) (روز نامه الفضل 15 مارچ 1963ء)
مضامین بشیر جلد چہارم امتحان میں شامل ہونے والے بچوں کو نصیحت 494 عنقریب ایک دوسرے کے بعد میٹرک اور انٹر میڈیٹ اور بی.اے اور ایم.اے کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ احمدی بچوں کو اعلیٰ کامیابی عطا کرے اور وہ امتحان میں ایسا امتیاز حاصل کریں جو احمدیت کی شان کے شایان ہے.احمدی بچوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی بشارتیں دے رکھی ہیں.چنانچہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری جماعت کے لوگوں کو علم اور معرفت میں اتنی ترقی دے گا کہ وہ ساری دوسری قوموں کا منہ بند کر دیں گے.لیکن جیسا کہ سنت الہی سے ثابت ہے خدا کے سارے کام تدریجی ہوا کرتے ہیں.شروع میں ایک حقیر سا بیج ہوتا ہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ ترقی کر کے ایک عظیم الشان درخت بن جاتا ہے.مگر چونکہ ہر تقدیر کے ساتھ تدبیر کا لازمہ ضروری ہے اس لئے احمدی بچوں کو چاہئے کہ محنت اور جانفشانی اور عرق ریزی کے ذریعہ اپنے لئے ترقی کا رستہ کھولیں اور امتحانوں میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کریں.جو شخص کوشش کرتا ہے اور کوشش بھی صحیح طریق پر کرتا ہے وہ ضرور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے حصہ پالیتا ہے.پس ضروری ہے کہ اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی گئی ہے احمدی بچے خاص کوشش اور توجہ اور محنت سے کام لیں.ہمارے بچوں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کے لئے جہاں مطالعہ اور محنت اور عرق ریزی کی ضرورت ہے وہاں مندرجہ ذیل باتیں بھی کامیابی کا رستہ کھولنے میں خاص اثر رکھتی ہیں.بچوں کو چاہئے کہ امتحان میں ان باتوں کو ملحوظ رکھیں.(اول) ہر پرچہ کرتے ہوئے دل میں دعا کر کے شروع کریں.دعا سے انسان کے دل میں نہ صرف تقویت پیدا ہوتی ہے بلکہ اسے خدا تعالیٰ کی نصرت سے بھی حصہ ملتا ہے جو ایک بڑی بھاری نعمت ہے.( دوم ) خط حتی الوسع صاف اور ستھرالکھا جائے تاکہ متحن کے دل پر اچھا اثر پیدا ہو.( سوم ) پورا وقت لے کر امتحان کے کمرہ سے نکلا جائے اور اگر جوابات وقت سے پہلے ختم ہو جائیں تو بقیہ وقت سوچنے اور جوابات کو بہتر بنانے میں خرچ کیا جائے.( چهارم ) نظر ثانی ضرور کی جائے تا کہ اگر بے احتیاطی سے کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اسے درست کیا جا
مضامین بشیر جلد چہارم 495 سکے.جو امید وار نظر ثانی نہیں کرتے اور جلدی جلدی پر چہ لکھ کر نظر ثانی کے بغیر امتحان کے کمرہ سے نکل جاتے ہیں وہ بڑا نقصان اٹھاتے ہیں.یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ کچھ عرصہ سے ہماری جماعت کے بچوں اور بچیوں کے نتائج بہت اچھے نکل رہے ہیں.اور ان کا معیار دن بدن بلند ہوتا جاتا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام والی بشارت حاصل کرنے کے لئے میں کہتا ہوں کہ.نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز ( محررہ 14 مارچ 1963ء) (روز نامه الفضل 16 مارچ 1963ء) ایک درویش کا ارادہ حج معلوم ہوا ہے کہ قادیان کے ایک درویش چوہدری مبارک علی صاحب کا بھارت میں والدہ صاحبہ مرحومه شیخ محمد صدیق صاحب بانی کی طرف سے حج بدل کا قرعہ نکل آیا ہے اور وہ اس سال بیت اللہ کے حج کے لئے وسط اپریل میں روانہ ہونے والے ہیں.سو دوست اپنے اس بھائی کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں خیریت کے ساتھ لے جائے اور خیریت کے ساتھ واپس لائے اور انہیں حج کے تمام مناسک خیر و خوبی کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق دے اور اسلام کی ترقی کے لئے دعاؤں کا بہترین موقع عطا فرمائے.میں نے ان سے یہ بھی کہا ہے کہ اگر مدینہ منورہ جانے کا موقع میسر آئے تو رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر میری طرف سے محبت بھرا سلام عرض کریں اور بیت اللہ کا ایک طواف میری طرف سے بھی ادا کریں.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو.دوست ان کے لئے اور والدہ صاحبہ مرحومہ محترم بانی صاحب کے بلندی درجات کے لئے دعا فرمائیں.( محررہ 2 اپریل 1963 ء ) ( روزنامه الفضل 5 اپریل 1963ء)
مضامین بشیر جلد چہارم غریب طلباء کی امداد کا خاص وقت مخیر دوست حصہ لے کر ثواب کمائیں 496 اس وقت سکولوں اور کالجوں کی اکثر جماعتوں کے امتحان عنقریب ہونے والے ہیں اور بعض کے ہو چکے ہیں.اس وقت غریب طلباء کونئی کتب کی خرید یا اوپر کی جماعتوں میں داخلہ کی رقم وغیرہ کے لئے حقیقی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر خطرہ ہوتا ہے کہ وہ تعلیم سے رہ جائیں گے.سلسلہ کی گزشتہ تاریخ بتاتی ہے کہ بعض غریب طلباء جو از خود تعلیم نہیں پاسکتے تھے وہ سلسلہ کی امداد کے ذریعہ تعلیم پا کر جماعت کے نہایت مفید اور کارآمد وجود بن گئے.پس میں اس وقت جو کہ سالانہ امتحانوں اور جماعت بندی کا وقت ہے جماعت کے مخلص اور مخیر دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ آگے آکر اس نیک کام میں حصہ لیں اور جماعت کے غریب اور ہونہار طلباء کی تعلیمی ترقی میں ہاتھ بٹائیں کیونکہ یہ ایک بڑا کار ثواب ہے.میں عموماً صرف ان طلباء کی امداد کرتا ہوں جو ہونہار ہوتے ہیں اور ان کے متعلق رپورٹ بھی اچھی ہوتی ہے اور ان کی صحت اور اخلاقی حالت بھی اچھی ہوتی ہے.پس مخیر دوست آگے آئیں اور اس کار ثواب میں حصہ لے کر ثواب کمائیں.فَجَزَاهُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاء (محررہ 13 اپریل 1963ء) (روز نامہ الفضل 17 اپریل 1963ء) مولوی ابوالعطاء صاحب اور پادری عبدالحق صاحب کا تحریری مناظرہ محترم مولوی ابوالعطاء صاحب خدا کے فضل سے ہماری جماعت کے ایک ممتاز عالم ہیں جو مسیحیت کا خاص مطالعہ رکھتے ہی.چنانچہ ان کے مباحثہ مصر کے متعلق میر امختصر سار یو یو کچھ عرصہ ہوا شائع ہو چکا ہے.اب انہوں نے مجھے اپنا وہ تحریری مناظر بھجوایا ہے جو کچھ عرصہ ہوا ان کے اور عیسائیوں کے مشہور مناظر پادری عبدالحق صاحب چندی گڑھ انڈیا کے درمیان الوہیت مسیح کے عقیدہ کے متعلق تحریری طور پر ہوا تھا.اس
مضامین بشیر جلد چهارم 497 مناظرہ میں بھی خدا نے اپنے فضل سے حضرت کا سر صلیب علیہ السلام یعنی مسیح محمدی کے شاگرد کو نمایاں فتح عطا کی اور پادری عبدالحق صاحب یہ مناظرہ درمیان میں ہی نامکمل چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کر گئے.چونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک بڑا کام کسر صلیب بھی تھا اور حضور نے مسیحیت کے خلاف شاندار فاتحانہ مجاہدہ کا رنگ پیدا کر کے اپنے مخالفوں تک سے فتح نصیب جرنیل کا لقب حاصل کیا.اس لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ بھی مسیحیت کے مطالعہ کی طرف خاص توجہ دیں تا کہ دنیا بھر میں کسر صلیب کا کام شاندار رنگ میں پورا ہو جائے.میں امید کرتا ہوں کہ مولوی ابوالعطاء صاحب کی یہ کتاب جو تحریری مناظرہ کے نام سے چھپی ہے انشاء اللہ اس کام کے لئے مفید ثابت ہوگی.پس دوستوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ ” کا سر صلیب“ کا ہر شاگرد بھی کسر صلیب کے کام میں اپنی توفیق اور طاقت کے مطابق حصہ دار بن جائے.( محررہ 17 اپریل 1963 ء ) (روز نامہ الفضل 20 اپریل 1963ء) 13 علم دین سیکھو اور پھر اسے دلیری مگر موعظہ حسنہ کے رنگ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں تک پہنچاؤ خدام الاحمدیہ کی دسویں مرکزی تربیتی کلاس پر پیغام مورخہ 19 اپریل کو خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام مرکزی تربیتی کلاس کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ خدام الاحمدیہ کے شعبہ تعلیم کی طرف سے سالانہ تربیتی کلاس عنقریب شروع ہو رہی ہے.سو میرا احمدی نوجوانوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ دین کا علم سیکھیں اور پھر اس علم کو دلیری مگر حکمت اور موعظہ حسنہ کے رنگ میں اپنے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسایوں تک پہنچائیں.دین کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ دین کی اصل غرض مومنوں میں نیکی اور قوت عمل پیدا کرنا ہے.پس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ اپنے اندر قوت عمل پیدا کریں اور ایمان کے معاملہ میں ایسی جرات دکھا ئیں کہ کوئی چیز ان کے مقابلہ پر نہ ٹھہر سکے.
مضامین بشیر جلد چهارم 498 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ حکم دیا ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی کوئی منکر بات دیکھو جو دین یا اخلاق یا محبت الہی یا اکرام رسول یا آداب بزرگان کے خلاف ہو تو بڑی جرات کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو.بے شک آپ لوگوں کو لڑنے بھڑنے سے روکا گیا ہے مگر لڑ نا بھڑنا اور چیز ہے لیکن جرأت کے ساتھ بدی کا مقابلہ کرنا اور نیکی کو پھیلانا اور چیز ہے.اور یہ بات صرف پختہ ایمان کے ذریعہ پیدا ہوسکتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.(محررہ 17 اپریل 1963ء) (روز نامہ الفضل 21 اپریل 1963ء) کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب کی ضبطی حکومت کا انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ جیسا کہ احباب جماعت کو معلوم ہو چکا ہے حکومت مغربی پاکستان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ضبط کر لی ہے.قطع نظر اس کے کہ وہ ہمارے نزدیک ایک مامور من اللہ کی کتاب ہے.حکومت کا یہ فیصلہ کئی لحاظ سے انتہائی غیر منصفانہ ہے کیونکہ (1) دنیا جانتی ہے کہ یہ کتاب آج سے پینسٹھ سال قبل پہلی دفعہ شائع ہوئی تھی.(2) اس کے بعد بھی وہ متفرق رسالوں میں کئی دفعہ چھپتی رہی اور اس کے متعد دایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.(3) یہ کتاب نہ صرف ابتدا بلکہ غالباً دوسری تیسری دفعہ بھی عیسائی حکومت کے زمانہ میں چھپی تھی.(4) جیسا کہ اس کتاب کا نام ظاہر کرتا ہے.یہ کتاب ایک عیسائی کے سوالوں کے جواب میں لکھی گئی تھی.با وجود ان تمام باتوں کے یہ کتنی نا انصافی کی بات ہے کہ عیسائی حکومت نے تو اپنے سالہا سال کے دور میں اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا.مگر پینسٹھ سال کے بعد آکر مسلمان حکومت نے اس پر ایکشن لینا ضروری خیال کیا.جماعت کے دوستوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ضروری قانونی کارروائی کی
مضامین بشیر جلد چہارم 499 جارہی ہے.مقامی جماعتوں کی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں دوستوں میں بڑے اضطراب اور رنج و غم کی کیفیت پائی جاتی ہے.مگر بہر حال انہیں چاہئے کہ پُر امن رہتے ہوئے دعاؤں میں لگے رہیں.( محررہ یکم مئی 1963ء) (روز نامہ الفضل 3 مئی 1963ء) 3 مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی عظیم الشان اسلامی خدمات سمجھدار قدرشناس مسلمانوں کی طرف سے برملا اعتراف جس وقت مقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنا خداداد مشن دنیا کے سامنے پیش کیا اس وقت پاک و ہند کے بر عظیم کے مسلمانوں کی حالت سخت ناگفتہ بہ ہورہی تھی اور اسلام صرف برائے نام رہ گیا تھا اور کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں تھا.ایسی حالت میں عیسائیوں نے اور آریوں نے اسلام اور مسلمانوں کی کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے اور اسلامی تعلیم کے متعلق ان کی بودی تشریحات پر نظر رکھتے ہوئے اسلام پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دئیے تھے گویا کہ وہ خاکش بدہن اسلام کو ختم کرنا چاہتے تھے.ایسے نازک وقت میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے خدا تعالیٰ سے نصرت پا کر اور اسی سے حکم حاصل کر کے اسلام کا دفاع شروع کیا اور نہ صرف اسلام کا دفاع کیا بلکہ مسیحیت اور آریہ مذہب کے ایسے پول کھولے کہ دنیا حیران ہو کر رہ گئی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ کارنامہ ایسا شاندار تھا کہ مخالف بھی عش عش کر اٹھے اور ان کی زبانوں پر ایسے فقرے بے اختیار آنے لگے کہ مرزا صاحب نے مذہبی مناظرے کا بالکل رنگ ہی بدل دیا ہے.چنانچہ میں اس جگہ اخبار کرزن گزٹ دہلی تاریخ یکم جون 1908ء کا ایک اقتباس درج کرتا ہوں جو اس کے غیر احمدی بلکہ مخالف ایڈیٹر نے حضرت مسیح موعود کی وفات پر اپنے اخبار میں چھاپا.اخبار کرزن گزٹ نے لکھا کہ." مرحوم مرزا کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلے میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرے کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا
مضامین بشیر جلد چهارم 500 اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.اگر چہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.اس کا پُر زور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے“ کرزن گزٹ دہلی کیم جون 1908ء) اندریں حالات یہ امرکس قدر قابل افسوس اور انتہائی نا انصافی بلکہ اسلامی غیرت کا مقام ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ کے مسلمانوں نے تو آپ کو نجات دہندہ قرار دے کر آپ کی تعریف کی اور اس بات کا بر ملا اعتراف کیا کہ آپ نے عیسائیوں اور آریوں کے اعتراضوں کے ایسے دندان شکن جواب دیئے ہیں کہ جن کی نظیر نہیں ملتی اور مسیحی اور آریہ آپ کے مقابلہ پر بالکل لاجواب ہو کر رہ گئے اور بقول ایک غیر احمدی محقق کے کسی عیسائی اور کسی آریہ کی یہ مجال نہیں تھی کہ وہ حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ پر زبان کھول سکے.اور آپ کے دلائل کا جواب دے سکے مگر آج قریب ستر سال کے بعد وقت کی مسلمان حکومت نے کسی مصلحت سے یہ ضروری خیال کیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی ایک کتاب جو ستر سال پہلے ایک عیسائی کے اعتراضوں کے جواب میں اسلام کی تائید میں لکھی گئی اور جس کے اس لمبے عرصہ میں کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور جسے خود ملک کی عیسائی حکومت پچاس سال تک قابل برداشت خیال کرتی چلی آئی ہے.اسے بحق سر کا ر ضبط کر لیا جائے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - جماعت کے لئے یہ بڑی غیرت کا مقام ہے بلکہ سچ پوچھوٹو حکومت کے لئے بھی غیرت کا مقام ہے.اے کاش وہ سمجھے ! اے کاش وہ سمجھے !! (محرره 11 مئی 1963ء) روزنامه الفضل 15 مئی 1963ء) بے پردگی کے رجحان کے متعلق جماعتوں کو مزید اختباہ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی چونکہ غیر از جماعت لوگوں کی نقل میں بعض کمزور طبیعت کے احمدیوں میں بھی بے پردگی کا رجحان پیدا ہو رہا تھا اس لئے میں نے اس معاملہ میں اپنے متعدد مضامین میں از خود بھی اور نگران بورڈ کے ذریعہ بھی
501 مضامین بشیر جلد چهارم جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اس غیر اسلامی رجحان سے بچ کر رہیں اور اسلام کی تعلیم کا نمونہ دکھا ئیں.اس بارہ میں خاص طور پر لاہور اور راولپنڈی اور کراچی اور پشاور کے امراء سے رپورٹ حاصل کی گئی تھی اور ان رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ واقعی ہم میں بعض کالی بھیڑیں موجود ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے.اور مجھے خوشی ہے کہ ان شہروں کے امراء نگران بورڈ کی تاکیدی ہدایت کے ماتحت اصلاحی قدم اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں.اس بارہ میں سب سے پہلا ایکشن تو خود مقامی جماعتوں کی طرف سے لیا جانا چاہئے کہ جو احمدی بے پردگی کے مرتکب ہو رہے ہوں ان سے حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطبے کی روشنی میں قطع تعلق کر کے بیزاری کا اظہار کیا جائے اور ساتھ ہی مرکز میں بھی اطلاعی رپورٹ بھجوائی جائے.اگر اس پر بھی ایسے لوگوں کی اصلاح نہ ہو تو پھر نظارت امور عامہ اور نظارت اصلاح وارشادر میں ان کے متعلق رپورٹ کی جائے تاکہ ان کے خلاف تعزیری ایکشن لیا جا سکے.یہ بات مدنظر رہے کہ اس معاملے میں کسی کا لحاظ نہیں ہونا چاہئے بلکہ چھوٹوں اور بڑوں سب کے متعلق یہی طریق اختیار کیا جائے جو اوپر بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بزرگ نبی حضرت نوح کو ان کے بیٹے کے ایک گناہ پر سختی سے توجہ فرمائی تھی اور کوئی لحاظ نہیں کیا.پھر اور کوئی شخص کس حساب میں ہے؟ البتہ بیرونی ممالک کے باشندوں کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح نے ان کے موجودہ خاص حالات کے ما تحت فی الحال رعایت رکھی ہے مگر باقی سب چھوٹے اور بڑے اور خورد و کلاں کے متعلق سختی سے نگرانی ہونی چاہئے کہ وہ اسلامی پردے کوملحوظ رکھیں.ورنہ اولاً ان کے متعلق مقامی طور پر قطع تعلق اور بیزاری کا اظہار ہونا چاہئے اور بعد میں تعزیری ایکشن کے لئے نظارت امور عامہ اور نظارت اصلاح وارشاد میں رپورٹ ہونی چاہئے.رپورٹ نہ کرنے والے امراء بھی مجرم سمجھے جائیں گے.( محررہ 23 مئی 1963ء) روزنامه الفضل 26 مئی اور 7 جون 1963ء)........
مضامین بشیر جلد چهارم حکومت نے کتاب کی ضبطی کا فیصلہ واپس لے لیا خدا کے فضل سے حق و انصاف کی فتح ہوئی 502 یہ خبر جماعت احمدیہ اور دنیا بھر کے اسلامی حلقوں میں انتہائی خوشی اور اطمینانِ قلب سے سنی جائے گی کہ حکومت مغربی پاکستان نے جو فیصلہ مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب ”سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کی ضبطی کے متعلق کیا تھا وہ سرکاری اعلان کے مطابق ضبطی کے حکم سے قریباً ڈیڑھ ماہ بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اسی کی ازلی مشیت کے ماتحت واپس لے لیا ہے.اس سے پہلے کی خبر میں غیر سرکاری اور غیر مصدقہ تھیں صرف اب سرکاری اعلان شائع ہوا ہے.ہم اس معاملے میں سب سے پہلے اور سب سے مقدم طور پر بلکہ حقیقی رنگ میں تو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے حکومت کو ایک صریحاً غلط اور غیر منصفانہ فیصلے کو منسوخ کرنے کی توفیق دی اور اس طرح دنیا بھر کے احمدیوں اور تمام غیرت مند مسلمانوں کے اضطراب کو دور کیا اور ان کے دلوں کو تسکین اور راحت پہنچائی.اللهُمَّ إِنَّا نَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ سُبْحَانَكَ مَا أَعْظَمُ شَانَكَ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْ قَدِيرِ - اس کے بعد ہم ان کثیر التعداد غیر از جماعت مسلمان شرفاء کا بھی دلی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس معاملے میں اسلامی غیرت کا اظہار کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دیا اور حکومت کو احتجاجی مراسلے اور تاریں ارسال کر کے اور اخبارات میں احتجاجی نوٹ بھجوا کر دینی غیرت کا اظہار کیا.اور حق و انصاف کے معاملے میں جماعت احمدیہ کی اعانت فرمائی فَجَزَاهُمُ اللهُ خَيْراً.اسی طرح ہم ان غیر مسلم شرفاء کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے اس معاملہ میں حق و انصاف کی تائید میں آواز اٹھائی.پھر ہم حکومت کے بھی شکر گزار ہیں کہ اس نے بالآخر اپنی غلطی محسوس کر کے اپنے نا واجب اور غیر منصفانہ حکم کو واپس لے لیا اور آخر کار اس معاملہ میں دانشمندی اور انصاف پسندی کا ثبوت دیا.وَ مَنْ لَمْ يَشُكُرُ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرُ اللہ.یعنی جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر گزار بندہ نہیں بن سکتا.اسی طرح ہم اس پاکستانی پریس کے بھی شکر گزار ہیں جس نے اس معاملے میں اسلامی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ہمارا ساتھ دیا اور احتجاجی تاروں اور مراسلات کو شائع کر کے ہمارے ہاتھوں کو تقویت پہنچائی.کاش یہ تعاون زیادہ وسیع پیمانہ پر اور زیادہ زور دار رنگ میں ظاہر ہوتا.بالآخر اس موقع پر پاکستان اور دنیا بھر کی جماعتہائے احمدیہ کا طبعی رد عمل بھی بڑا قابل قدر راور بڑا قابل
مضامین بشیر جلد چهارم 503 تعریف ہے کہ وہ اس معاملے میں غیر معمولی اسلامی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جان ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور بے نظیر غیرت کا اظہار کیا.اور ریزولیوشنوں اور احتجاجی نوٹوں سے حکومت کے افسروں اور اخباروں کے ایڈیٹروں کے سامنے اس کثرت سے اپنے دلی دکھ اور غم وغصہ کا اظہار کیا کہ گویا ملک میں احتجاجوں کا ایک سیلاب آگیا.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء - حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے تقریر وتحریر کے ذریعہ اسلام کی جو عدیم المثال خدمات سرانجام دی ہیں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں اور دوست اور دشمن اپنے اور بیگانے ان کا لوہا مان چکے اور آپ کو اسلام کا ایک ”فتح نصیب جرنیل قرار دے چکے ہیں.پس یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات تھی کہ وقت کی مسلمان حکومت نے جلد بازی اور کوتاہ اندیشی سے آپ کی ایک ایسی کتاب کو ضبط کرنے کا فیصلہ کیا جو اسلام کی تائید اور ایک نادان مسیحی کے اعتراضوں کے جواب میں پینسٹھ 65 سال پہلے لکھی گئی تھی اور جسے خود اس وقت کی عیسائی حکومت اپنے پچاس سالہ دور میں وسعت قلب کے ساتھ برداشت کرتی چلی آئی تھی.بہر حال اگر صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آ جائے تو اسے بھولا ہوا نہیں سمجھنا چاہئے اور ہم حکومت کے شکر گزار ہیں کہ اس نے اپنے اس نا واجب اور غیر منصفانہ فیصلے کو جلدی منسوخ کر کے ہمارے زخمی دلوں پر مرہم کا چھا یہ رکھا ہے.دعا ہے کہ خدا اسے آئندہ ایسی غلطی سے محفوظ رکھے آمین.دراصل اگر حکومت غور کرے تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا وجود حکومت کے لئے ایک مقدس تعویذ ہے.کاش وہ سمجھے!!! ( محرره 31 مئی 1963ء) روزنامه الفضل یکم جون 1963ء) میٹرک کے امتحان میں اعلیٰ نتائج پر خط (جیسا کہ احباب کو علم ہے امسال میٹرک کے امتحان میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کا نتیجہ ہر جہت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت شاندار رہا.112 طلباء میں 52 فرسٹ ڈویژن میں اور 44 سیکنڈ ڈویژن میں کامیاب ہوئے.11 طلباء کو وظائف ملنے کی توقع ہے اور صرف دس طلباء پتھر ڈ ڈویژن میں کامیاب ہوئے.سرگودھا ڈویژن میں اول آنے والا طالب علم بھی ہمارے ہی سکول کا رہا جس نے 851 نمبر لئے (روز نامہ کوہستان کی یہ اطلاع درست نہیں ہے کہ لائلپور کا ایک لڑکا 831 نمبر لے کر سر گودہا ڈویژن میں اول رہا)
504 مضامین بشیر جلد چہارم اس شاندار نتیجہ کی اطلاع ملنے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سکول کے ہیڈ ماسٹر مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب بی اے کے نام جو مکتوب گرامی ارسال فرمایا وہ احباب کی اطلاع کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.) مکرمی محترمی ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کی طرف سے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے میٹرک کے نتیجے کی رپورٹ پہنچی.میرا دل اس نتیجے کو پڑھ کر باغ باغ ہو گیا.یہ نتیجہ خدا کے فضل سے نہایت درجہ قابل مبارک باد اور ہر جہت سے قابل تعریف ہے.بعض گزشتہ سالوں میں مجھے جو شکایت تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میٹرک کے نتیجے کے متعلق پیدا ہوئی تھی وہ خدا کے فضل سے سب دور ہو گئی اور آپ کا داغ مکمل طور پر دھل گیا.میری طرف سے آپ کو اور آپ کے عملہ کو بہت بہت مبارک ہو.تعداد کے لحاظ سے بھی اور نمبر حاصل کردہ کے لحاظ سے بھی یہ نتیجہ حقیقتاً بہت شاندار ہے.غالباً کسی گزشتہ سال میں اتنے طالب علموں نے وظیفہ حاصل نہیں کیا.جتنے خدا کے فضل سے اس سال حاصل کریں گے.پھر تیسرے درجہ میں پاس ہونے والے طلباء کی تعداد اتنی کم ہے کہ گویا نہ ہونے کے برابر ہے.پس یہ نتیجہ دراصل ہر لحاظ سے دل کو راحت اور آنکھوں کو سرور پہنچانے والا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں مزید برکت عطا کرے اور ہمارا سکول جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک مقدس یادگار ہے،ایک بے مثال درس گاہ بن جائے.سکول کا مجموعی نتیجہ 97.27لاریب ایک تاریخی نتیجہ ہے.اللھم زِدْ فَزِدُ ( محررہ یکم جون 1963 ء ) روزنامه الفضل 7 جون 1963 ء ) ملتان کے دوستوں کے نام میرا پیغام ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک غیر مطبوعہ مضمون درج ذیل کیا جاتا ہے.اس کا اصل مسودہ میرے پاس محفوظ ہے.حضرت میاں صاحب نے مارچ 1962 ء میں ضلع ملتان کے تربیتی اجتماع کے لئے میری درخواست پر یہ مضمون بصورت پیغام لکھ کر خاکسار کو عنایت فرمایا تھا.یہ ابھی تک سلسلہ کے کسی رسالہ یا اخبار میں شائع نہیں ہوا.خاکسار: محمد شفیع اشرف مربی سلسلہ احمدیہ خیبر لاج مری)
مضامین بشیر جلد چهارم برادران ملتان السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ 505 مجھے معلوم ہوا ہے کہ ملتان میں جماعت احمد یہ ایک ضلع وارا اجتماع تربیتی نکتہ نگاہ سے منعقد کر رہی ہے.اور مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں بھی اس موقع پر چند نصیحت کے کلمات کہہ کر شرکت کا ثواب حاصل کروں.سو ہر چند کہ میں کچھ عرصہ سے بیمار اور کمزور ہوں.مگر ملتان کے قدیم اور تاریخی شہر کی خصوصیت کے پیش نظر میں اس مبارک موقع کی شرکت سے محروم نہیں رہنا چاہتا اور ذیل میں ایک مختصر سا پیغام بھجوا رہا ہوں.جیسا کہ سب جانتے ہیں برعظیم پاک و ہند کا وہ خطہ جو سب سے پہلے اسلام کے زیر اثر آیا وہ سندھ کا علاقہ تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے جلد بعد ہی مسلمانوں نے اسلام کے نور سے منور کر دیا تھا.ملتان گویا اسی مبارک علاقہ کا دروازہ ہے.اسی لئے وہ قدیم زمانہ سے صلحاء کا مولد ومسکن رہا ہے.اور اس میں گورستانوں کی کثرت بھی ایک حد تک اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے.پس اب جبکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اسلام پر دینی اور روحانی لحاظ سے کمزوری کا دور آیا ہوا ہے ہمارا فرض ہے کہ اس تاریخی علاقہ کی اصلاح اور ترقی کی طرف خاص توجہ دیں.اور دنیا کو بتا دیں کہ ہم خدا کے فضل سے احسان فراموش نہیں بلکہ جہاں جہاں سے ہمارے ملک کو ابتدا میں نور پہنچا ہے ہم اس کی خدمت اور پا بحالی کے لئے ہر طرح آمادہ اور استادہ ہیں..یہ خدمت آپ لوگ دو طرح بجالا سکتے ہیں.اول اس طرح کہ خود اسلام کی تعلیم کا سچانمونہ بنیں اور آپ کے چہروں پر اسلام کا نور اس طرح چمکتا ہوا نظر آئے جس طرح کہ ایک صاف اور صیقل شدہ آئینہ میں سورج کا عکس نظر آتا ہے.صحابہ کرام کی زندگیاں آپ لوگوں کے سامنے ہیں.انہوں نے اسلام کی تعلیم کو اس طرح اپنے اندر جذب کیا کہ مجسم نور بن گئے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد اس طرح گھومنے لگ گئے جس طرح چاند سورج کی شکل اختیار کر کے اس کے ارد گرد گھومتا ہے.انہوں نے قربانی اور وفاداری کے جذبہ کو انتہا تک پہنچا دیا اور سچ مچ رسول پاک کے ہاتھ پر بک گئے اور نیکی اور اخلاص کا ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا که تاریخ اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے.خدمت کا دوسرا طریق یہ ہے کہ جو حق آپ کو حاصل ہوا ہے اسے دوسروں تک پہنچائیں اور دن رات کی کوشش کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی حقیقت پر قائم کریں.اور نہ صرف خود پاک ہوں بلکہ اپنے ماحول کو بھی پاک کریں اور امن اور محبت کے طریق پر دنیا کو اسلام کی روح کی طرف کھینچیں اور کھینچتے چلے جائیں.اس وقت دنیا صداقت کی پیاس میں مری جا رہی ہے.آپ کے پاس خدا کے فضل سے وہ آسمانی پانی موجود ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 506 جس کا ہر چھینٹا اور ہر قطرہ زندگی بخش ہے.دنیا ابھی تک اس آب حیات کو شناخت نہیں کرتی مگر آپ لوگ اس کی روح پرور صفات کا ذوق پاچکے ہیں.پس دوستو اٹھو اور سستیوں کو چھوڑو اور نہ صرف خود ابدی زندگی اختیار کرو بلکہ دنیا کو بھی زندہ کرنے میں لگ جاؤ کہ اسی پر اسلام کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.اور چاہئے کہ احمد یہ جماعت کا ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ اور ہر بوڑھا اسلام کی ایک جیتی جاگتی تصویر بن جائے اور اسلام کی خدمت میں اس جہادا کبر کا نمونہ پیش کرے جس کی ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری جماعت کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قول و فعل سے ہمیں تعلیم دی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اس مقدس مقام پر فائز کرے جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَّنْتَظِر یا درکھو کہ یہ خاص خدمت کا زمانہ ہے پس بکوشید اے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا والسلام خاکسار: مرزا بشیر احمد ربوہ 17 مارچ 1962 ء 20 حیات نور روزنامه الفضل 3 نومبر 1963ء) پیش لفظ رقم فرمودہ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ لا ہور اپنی معرکہ الآراء تصنیف ”حیات طیبہ (سيرة حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کی وجہ سے جماعت میں کافی متعارف ہو چکے ہیں اور شہرت پاچکے ہیں.اب انہوں نے خدا کی توفیق سے حضرت حاجی الحرمین مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی سیرت لکھنی شروع کی ہے اور مجھے اس کے پیش لفظ لکھنے کے لئے درخواست کی ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اپنے علم وفضل اور تقویٰ وطہارت اور توکل علی اللہ اور اطاعت امام میں
مضامین بشیر جلد چهارم 507 ایسا مقام رکھتے تھے جو بعض لحاظ سے عدیم المثال تھا ان کی تعریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر کافی ہے کہ.چه خوش بودے اگر ہر یک زانت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس مرد مومن کے متعلق یہ شاندار توصیفی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ مولوی نورالدین صاحب اس طرح میری پیروی کرتے ہیں جس طرح کہ انسان کی نبض اس کے دل کی حرکت کے پیچھے چلتی ہے.حقیقتا حضرت مولوی صاحب کا مقام اطاعت اور مقام تو کل بہت ہی بلند تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعوی سے پہلے یہ فرمایا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ مجھے کوئی ایسا مددگار عطا فرمائے جو میرا دست و بازو ہو کر کام کر سکے چنانچہ حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت حاصل کی تو انہیں دیکھتے ہی حضور کے دل سے یہ صدا نکلی کہ هَذَا دُعَائِي یعنی یہ مرد مومن میری دعاؤں کی قبولیت کا نتیجہ ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی ارفع شان اور علم کی گہرائی اور خدا داد بصیرت اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی ابھی بچہ ہی تھے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ان کے متعلق وثوق کے ساتھ فرمایا کہ یہی ہونے والا مصلح موعود ہے.میں نے شیخ عبدالقادر صاحب کی اس کتاب کو صرف کہیں کہیں سے دیکھا ہے مگر میں امید کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے یہ کتاب بھی قریباً قریباً اسی شان کی کتاب ہوگی جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح میں لکھی ہے.مجھے یقین ہے کہ دوست اس مفید کتاب کی اشاعت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں گے تا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے انوار قدسیہ سے زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کر سکیں“.روزنامه الفضل یکم دسمبر 1963ء) جماعت کے نو جوانوں کو ایک خاص نصیحت (قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے وصال سے ساڑھے تین سال قبل ایک نہایت ہی قیمتی مضمون میں جماعت کے نوجوانوں کو بڑے ہی دردمند دل کے ساتھ ایک نصیحت فرمائی تھی.وہ
مضامین بشیر جلد چہارم 508 نصیحت آب زر سے لکھنے اور حرز جان بنانے کے قابل ہے اور بالخصوص موجودہ حالات میں تو اس پر عمل پیرا ہونا از حد ضروری ہے کیونکہ جماعت کی آئندہ ترقی اس نصیحت پر کماحقہ عمل پیرا ہونے کے ساتھ ہی وابستہ ہے.ذیل میں وہ نصیحت حضرت میاں صاحب کے الفاظ میں ہدیہ قارئین کی جارہی ہے.ادارہ ) میں جماعت کے نوجوانوں کو بڑے دردِ دل کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مرنے والوں کی جگہ لینے کے لئے تیاری کریں اور اپنے دل میں ایسا عشق اور خدمت دین کا ایسا ولولہ پیدا کریں کہ نہ صرف جماعت میں کوئی خلاء نہ پیدا ہو بلکہ ہمارے آقا محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے طفیل جماعت کی آخرت اُس کی اُولیٰ سے بھی بہتر ہو.یقیناً اگر ہمارے نوجوان ہمت کریں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مقصد کا حصول ہرگز بعید نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے جو حضور نے ان شاندار لفظوں میں بیان فرمایا ہے.” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہراک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا“ تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) خدا کرے کہ ہم اور ہماری اولاد میں اس عظیم الشان بشارت سے حصہ پائیں اور اسلام اور احمدیت کا جھنڈا دنیا میں بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے.یاد رکھو کہ ایسی زندگی چنداں شاندار نہیں سمجھی جاسکتی کہ انسان ایک بلبلہ کی طرح اٹھے اور پھر بیٹھ جائے اور ساٹھ ستر سال کی عمر میں اس کی فعال زندگی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے بلکہ اصل شان اس میں ہے کہ انسان کی جسمانی موت کے بعد بھی اس کے آثار اس کی اولا د اور اس کے شاگردوں اور اس کے دوستوں اور اس کے عزیزوں اور اس کے علمی اور عملی کارناموں کے ذریعہ روشن جواہرات کی طرح جگمگاتے رہیں.قرآن نے کیا خوب فرمایا ہے کہ.والباقيات الصلحت خيرٌ عند ربّك ثواباً و خير املا.پس بکوشید اے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا روزنامه الفضل 3 مارچ 1960) (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ تمبر 1963ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 509 ماہنامہ انصار اللہ دسمبر 1963 ء نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک منظوم کلام حضرت میاں صاحب کے کچھ تمہیدی الفاظ کے ساتھ شائع کیا جو یہ ہے.گوٹ دو قسم کی ہوتی ہے.ایک یہ کہ کسی کے مال یا جان پر ظلم کے رنگ میں ڈاکہ ڈالا جائے ، یہ گوٹ بدترین گناہوں میں سے ہے.دوسری قسم کی کوٹ یہ ہے کہ پاک محبت کی تاروں میں باندھ کر دوسرے کے مال و جان کو اپنا بنا لیا جائے.ایسی لوٹ انسانی روح کی جلاء کیلئے ایک بھاری نعمت ہے.سو ذیل کے اشعار میں اسی قسم کی روحانی لوٹ کا ذکر ہے جس میں اپنے آسمانی آقا کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ آئے اور ہمارے جان و مال کولوٹ لے جو شروع سے اسی کے ہیں لیکن ہم لوگوں نے اپنی کوتاہ نظری یا بے وفائی سے اپنے سمجھ رکھے ہیں.مگر خیال رہے کہ میں شاعر نہیں ہوں.اگر فن نظم گوئی کے لحاظ سے کوئی غلطی نظر آئے تو وہ قابل معافی سمجھی جائے.اصل غرض دلی جذبات کا اظہار ہے.پہلے دو شعروں میں ایک قرآنی آیت کا مفہوم پیش نظر ہے.مری سجدہ گاہ ٹوٹ لو میری جبیں کو لوٹ لو میرے عمل کو کوٹ لو اور میرے دیں کو لوٹ لو میری حیات و موت کا مالک ہو کوئی غیر کیوں تم میری ”ہاں“ کولوٹ لو، میری ”نہیں“ کولوٹ لو رنج و طرب میرا سبھی بس ہو تمہارے واسطے روح سرور کوٹ لو، قلب حزیں کو لوٹ لو جب جاں تمہاری ہو چکی پھر جسم کا جھگڑا ہی کیا مرا آسماں تو کٹ چکا اب تم زمیں کو لُوٹ لو نانِ جویں کے ماسوا دل میں مرے ہوس نہیں چاہو تو اے جاں آفریں نان جویں کو لوٹ لو گھر بار یہ میرا نہیں اور میں بھی کوئی غیر ہوں؟ اے مالک کون و مکاں آؤ مکیں کو لوٹ لو ( محرره 30 اکتوبر 1963ء) (ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1963ء)
مضامین بشیر جلد چہارم اعلانات.اشتہارات اطلاعات 510 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست مع حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کرسکتا ہے.1- محترم قاضی محمد یوسف صاحب کی ملاقات 2-> حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی صحت کے متعلق اطلاع 3- محترم خان عبدالمجید خان صاحب آف کپورتھلہ وفات پاگئے 4-> فدیہ کے متعلق ضروری یاد دہانی 5-> فدیہ کی ادائیگی کا آخری موقع 6-> مشاورت کے متعلق ایک دوست کے تاثرات 7-> پیر زمان شاہ صاحب وفات پاگئے 8-> عیدالاضحی بہت قریب آ گئی ہے 9-> یہ غریب طلباء کی امداد کا خاص وقت ہے 10-> جانوروں کی قیمت بڑھ گئی ہے 11-> حضرت خلیفۃا -> حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ کیلئے دعا کی تحریک روزنامه الفضل 8 جنوری 1963ء) روزنامه الفضل 12 جنوری 1963ء) روزنامه الفضل 12 جنوری 1963ء) روزنامه الفضل 9 فروری 1963ء) روز نامہ الفضل 22 فروری 1963ء) روزنامه الفضل 29 مارچ 1963ء) ( روزنامہ الفضل 9 اپریل 1963ء) (روز نامہ الفضل 24 اپریل 1963ء) (روز نامہ الفضل 25 اپریل 1963ء) (روز نامہ الفضل 30 اپریل 1963ء) (روز نامہ الفضل 2 مئی 1963ء)
مضامین بشیر جلد چهارم 12-> ام مظفر کیلئے دعا کی تحریک 13 حضرت طلیقہ آنتی ابید واللہ تعالی کیلئے دعا کی تحریک 511 (روز نامہ الفضل 9 مئی 1963ء) (روز نامہ الفضل 4 مئی 1963ء) 14-> حضرت صاحب کیلئے مکرر دعا کی تحریک روزنامه الفضل 10 مئی 1963ء) 15-> عبدالمنان خان کیلئے دعا کی تحریک (روزنامہ الفضل 11 مئی 1963ء) 16-> بے پردگی کے رجحان کے متعلق جماعتوں کو مزید اختباہ (روزنامه الفضل 7 جون 1963ء) 17-> احباب کی اطلاع کیلئے ضروری اعلان (روز نامہ الفضل 4 جولائی 1963ء)
مضامین بشیر جلد چهارم میں اپنے عزیز نو جوانوں کو وقف زندگی کی تحریک کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں جن نوجوانوں کو خدا توفیق دے انہیں دعا اور استخارہ اور والدین کی اجازت کے بعد دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنی چاہئے.زندگی وقف کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ خدا کی فوج میں شامل ہو جانا اور اس سے زیادہ برکت والی چیز اور کونسی ہو سکتی ہے.کہ انسان خدا کا نوکر بن جائے؟ خدا کے فضل سے اور حضرت خلیفۃ الثانی کی کوششوں کے نتیجہ میں اس وقت اشترا کی ملکوں کو چھوڑ کر دنیا کے قریباً سارے ملکوں میں جماعت احمدیہ کے تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں لیکن لوگوں کی ضرورت کے مقابلہ پر یہ تبلیغی مراکز ابھی اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے جتنی کہ آٹے میں نمک کو ہوتی ہے.پس جن نو جوانوں کو خدا توفیق دے وہ اپنے والدین کی اجازت سے دعا اور استخارہ کے بعد اپنی زندگیاں وقف کریں.حضرت مرزا بشیر احمد از مضامین بشیر جلد چہارم صفحه (417) 512
مضامین بشیر جلد چهارم باب پنجم 513 ضمیمہ مضامین بشیر 1950 ء سے قبل کے مضامین جو الحکم، مشکوۃ یا الفضل قادیان میں شائع ہوئے اور جلد اول اور جلد دوم میں شامل نہ ہو سکے.وہ افادہ عام کے لئے اس باب میں پیش کئے جار ہے ہیں
مضامین بشیر جلد چہارم صدائے بشیر کرنا مغرب کو پڑے گا اب سرتسلیم خم مجھ سے ناراض ترے صدقے میری جان نہ ہو خدا کس طرح کلام کرتا ہے سود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا نامه گرامی امانت فنڈ تحریک جدید کے متعلق ضروری اعلان کتاب ”بچوں کی تربیت پر تبصرہ اخلاق مسیح کی ایک جھلک قوم کے لو گو ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب مستقل سمجھوتہ کے لئے موجودہ فضا کی درستی ضروری ہے امتحان میں پاس ہونے سے گر مفید ترین زندگی اعلانات.اشتہارات.اطلاعات 514
مضامین بشیر جلد چهارم اپنا 1 صدائے بشیر 515 غمخوار مجھ کو جان اے دوست میرا کہنا کبھی تو مان اے دوست درد دل ، کہوں گا جو میں کہوں لغو اس کو کبھی نہ جان اے دوست ورلی دنیا سے مت لگا تو دل چند روزہ ہے یہ جہاں اے دوست ނ رکھ تو یاد خدا کہ پیری میں گر خدا کی طرف جھکے گا تو اس سے نکلیں گے بے بہا موتی تجھ کو رکھے گی وہ جوان اے دوست ہ بھی خود ہو گا مہربان اے دوست ایسی اسلام کی ہے کان اے دوست زہر قاتل ہے ایک بدظنی ہو کبھی بھی نہ بدگمان اے دوست خاموش گویا منه میں نہیں زبان اے دوست لگتا نہیں لگان اے دوست گالیاں سن کے ایسا ہو دین سے تو ہوا ہے غافل کیوں اس کر لے جو کچھ کہ ہو سکے تجھ سے تیرے سر پہ ہے امتحان اے دوست دین سے جو تجھے کرے غافل کہنا اس کا بھی نہ مان اے دوست لوٹ لے دین کا خزانہ تو کیونکہ غافل ہے سب جہان اے دوست خود مٹا اپنا تو نشان اے دوست چاہتا ہے تو شادمان اے دوست تجھ کو رکھنا ہے گر نشان اپنا غم اٹھانے پڑیں گے گر رہنا اپنے دل میں جگہ خدا کو دے تاکہ جنت میں ہو مکان اے دوست چاہتا ہے اگر کہ شان بڑھے چھوڑ دے اپنی آن بان اے دوست کھانے پینے میں رہ نہ تو کہ نجات تجھ کو دیں گے نہ قوت و نان اے دوست اللہ اپنا رحم کرے دل میں کر گیا ہے احمد میں کرتا دعا اور ہو تجھ مہربان اے دوست کیا ہے سادہ تیرا بیان اے دوست ہوں بالآخر تیرا جنت میں ہو مکان اے دوست خوراک، رزق (الحکم 7 مئی 1918 ء )
مضامین بشیر جلد چهارم کرنا مغرب کو پڑے گا اب سر تسلیم خم 516 آج دل مسرور ہے اپنا، طبیعت شاد ہے مسجد لندن کی رکھی جا چکی بنیاد ہے ہے بناء اس کی خدا کے فضل پر اور رحم پر جو بناء اس کے مقابل پر ہے وہ برباد ہے نعرة الله اکبر اس سے اب ہو گا بلند شرک کے مرکز میں یہ توحید کی بنیاد ہے چشم بد میں کور ہو دست مخالف ٹوٹ جائے دل وہ غارت ہو جو اس کو دیکھ کر ناشاد ہے ہوش میں آ دشمن بدخواہ اپنی فکر کر سر اٹھا کر دیکھ ربّ خلق بالمرصاد ہے اے خدا اب جلد لا وہ دن کہ ہم یہ دیکھ لیں بند طبع مسلم ناشاد پھر آزاد ہے ہائے وہ اسلام وہ مسلم کدھر کو چل بسے نہ وہ شیریں ہی رہی باقی نہ وہ فرہاد ہے دین حق اک صید ہے مقہور تحت دام کفر ہر طرف آواز و شور و غوغائے صیاد ہے اے خد اسلام کی کشتی کو طوفاں سے بچا ہم غریبوں کی تری درگاہ میں فریاد ہے یاس کا منظر ہے لیکن دل ہیں امیدوں سے پر یاد ہے ہم کو ترا وعدہ خدایا یاد ہے رحم فرمایا خدا نے سن کے بندوں کی پکار آ گیا مردِ خدا جو فرد ہے استاد ہے کرنا مغرب کو پڑے گا اب سرتسلیم خم چل رہی مشرق سے باد نصرت و امداد ہے آ گیا مهدی مسیح وقت مامور خدا اب نہ وہ جور و ستم ہی ہے نہ وہ بیداد ہے اب گیا وقت خزاں اور آ گیا وقت بہار باغ احمد میں ہوا پھر سبزه نوزاد ہے ہر طرف پھیلے مبشر خدمت دیں کے لئے خاص انگلستان میں بھی پہنچا ہوا مناد ہے دل ہے حمد وشکر سے لبریز اور سر در سجود جان ہے پُر از مسرت اور طبیعت شاد ہے صد مبارک صد مبارک خادمان دینِ حق مسجد لندن کی رکھی جا چکی بنیاد ہے اب ترانہ ہو چکا روز جزا بھی یاد کر اے بشیر خستہ جاں قول بلی بھی یاد کر اخبار الحکم قادیان 21 ستمبر 1920ء)
مضامین بشیر جلد چہارم مجھ سے ناراض ترے صدقے میری جان نہ ہو ( نظم جو بر مقام کوہ ڈلہوزی کہی گئی تھی ) 517 دل یہ کہتا ہے اس در پہ رما دے دھونی نفس کہتا ہے کہ اٹھ مفت میں ہلکان نہ ہو زندگی هیچ انسان کی دنیا میں اگر ہے.سینہ میں قلب نہ ہو قلب میں ایمان نہ ہو میرے مذہب میں اسلام کا دعوی باطل جب تلک سینہ میں ایمان سے غلیان نہ ہو آدمی وادی ظلمت میں بھٹکتا مر جائے رہنمائی کا اگر عرش سے سامان نہ ہو چھوڑ کر راہ خدا راهِ بُتاں پر مت جا عقل دی ہے اللہ نے تجھے نادان نہ ہو رحم کر ظلم نہ ڈھا آہ غریباں سے ڈر کام وہ کر کہ جسے کر کے پشیمان نہ ہو ہاتھ گر کام میں ہو دل میں ربّ ارباب کوئی مشکل نہیں دنیا میں کہ آسان نہ ہو سر میں ہو جوشِ جنوں دل میں عشق محبوب خوف دوزخ نہ ہو پھر خواہش رضوان نہ ہو اب تو خواہش ہے کہ وہاں جا کے لگائیں ڈیرا دیکھنے کو بھی جہاں صورتِ انسان نہ ہو دل میں اک آگ ہے اور سینہ مراغم سے تپاں وائے قسمت اگر اس درد کا درمان نہ ہو ہوں گنہگار ولے ہوں تو ترا ہی بندہ مجھ سے ناراض ترے صدقے میری جان نہ ہو اخبار الحکم قادیان 28 ستمبر 1920ء) 4 خدا کس طرح کلام کرتا ہے ( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے مندرجہ ذیل مضمون اپنے خاص اسلوب میں رقم فرما کر بھیجا ہے جو گویا سیرت المہدی کی جلد دوم کی ایک روایت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کی ایک خاص شان کا جلوہ نما ہے.ایڈیٹر الحکام ) مکرمی شیخ صاحب سلمہ.اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں نے اس وقت تک آپ کے یادگار نمبر کے لئے کچھ نہیں لکھا.اور نہ ہی یہ سوچا ہے کہ کیا لکھنا چاہئے.لیکن آپ کی طرف سے تقاضا پہنچا ہے کہ جو دینا ہے ابھی بھیج دو.لہذا آپ کی خواہش کا احترام رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ درج کرتا ہوں.
مضامین بشیر جلد چهارم 518 مکرمی استاذی مولوی شیر علی صاحب کی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجلس میں بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں لدھیانہ میں تھا اور باہر چہل قدمی کے لئے کسی راستہ پر جا رہا تھا کہ ایک انگریز میری طرف آیا اور سلام کہہ کر مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا آپ سے کلام کرتا ہے.میں نے کہا کہ ہاں.اس نے پوچھا کہ وہ کس طرح کلام کرتا ہے؟ میں نے کہا کہ اسی طرح جس طرح اس وقت آپ مجھ سے باتیں کر رہے ہیں.اس پر اس انگریز کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ سبحان اللہ اور پھر وہ ایک گہری فکر میں پڑ کر آہستہ آہستہ چلتا ہوا رخصت ہو گیا.مولوی شیر علی صاحب فرماتے تھے کہ اس طرح اس کا سبحان اللہ کہنا آپ کو بہت بھلا معلوم ہوا تھا.چنانچہ اسی لئے آپ نے یہ واقعہ سنایا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا دعویٰ ہو تو ایسا ہو.ورنہ یہ کیا کہ نیچریوں یا برہم سماجیوں یا باہیوں بہائیوں کی طرح صرف خاص حالت یا خاص قسم کے دل کے خیالات کا نام ہی خدائی الہام رکھا جاوے یا اپنے آپ کو ہی گویا خدا قرار دے کر اپنی ہر بات کو خدائی کلام سمجھ لیا جاوے.خاکسار جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو دیکھتا ہے تو دل سرور سے بھر جاتا ہے.بھلا جس طرح یہ شیر خدا کا مردمیدان بن کر گر جا ہے کسی کی کیا مجال ہے کہ اس طرح میدان میں بقائمی ہوش و حواس افترا کے طور پر قدم دھرے اور پھر لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا کے وعید کی آگ اسے جسم نہ کر جائے.جو شخص چوروں کی طرح بھیس بدل کر چھپ چھپ کر رک رک کر ہر آہٹ پر کان دھرتے اور ہر چیز پر سبھی ہوئی نظر ڈالتے ہوئے کسی کے مکان میں رات کو گھستا ہے وہ لاریب مجرم تو ہے اور اپنی سزا پائے گا مگر ڈا کو نہیں کہلائے گا اور نہ ڈا کہ کے جرم میں پکڑا جائے گا اسی طرح نہ وہ شخص ڈاکہ کے جرم کی سزا پا سکتا ہے جو خود مکان اور اثاثہ مکان کا مدعی بن بیٹھتا ہے.فافھم.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات بات بہت چھوٹی سی ہوتی ہے مگر اس سے اس کے کہنے والے کے اخلاق و عادات پر بڑی روشنی پڑتی ہے.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَ عَلى مَطَاعِهِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكُ وَسَلِّمُ - ( محررہ 20 مئی 1924 ء) الحکم قادیان 21 تا 28 مئی 1924 ء )
مضامین بشیر جلد چہارم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش 519 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم نے مولانا عبد الرحیم صاحب در دایم اے مبلغ انگلستان کا حسب ذیل مضمون اپنے ان الفاظ کے ساتھ اشاعت کے لئے مرحمت فرمایا ہے.مگر می مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے مبلغ لندن نے ایک مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر اور تاریخ پیدائش کی تعیین کے متعلق لندن سے ارسال فرمایا.مجھے دردصاحب نے اجازت دی ہے کہ اگر مناسب ہو تو مضمون میں تبدیلی کر لی جائے لیکن چونکہ مضمون بہت محنت اور تحقیق کے ساتھ لکھا ہوا ہے اور ایسے حقیقی مضامین میں رائے کا اختلاف چنداں قابل لحاظ نہیں ہوتا اس لئے باوجود اس مضمون کے بعض حصص سے اختلاف رکھنے کے میں اسے بغیر کسی تبدیلی کے آپ کی خدمت میں بغرض اشاعت ارسال کرتا ہوں ذیل میں مذکورہ بالا مضمون شکریہ کے ساتھ درج کیا جاتا ہے (ایڈیٹر ) الفضل مورخہ 11 جون 1933 ء اور 18 جون 1933ء میں سید احمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعودؓ کی عمر کے متعلق بہت مفید حوالے جمع کئے ہیں اور مکرمی مولوی اللہ دتا صاحب (ابوالعطاء جالندھری.ناقل) نے اپنی کتاب تفہیمات ربانیہ میں صفحہ 100 سے 112 تک آپ کی عمر کے متعلق عالمانہ بحث کی ہے لیکن دونوں صاحبوں نے اہلحدیث مجریہ 26 مئی 1933 ء اور مولوی صاحب نے عشرہ کاملہ کا جواب دیا ہے.میرے نزدیک آپ کی عمر کا سوال ایسا ہے کہ اسے مستقل حیثیت سے فیصلہ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے.عمر کے متعلق الہامات الهام ثَمَانِينَ حَوْلاً أَوْ قَريباً مِنْ ذَالِكَ اَوْ تَزيدُ عَلَيْهِ سَنِيْئًا وَ تَرَىٰ نَسُلاً بَعِيداً ( اربعین نمبر 3 طبع دوم صفحہ 36.اور ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ طبع دوم صفحہ 29) اور الہام وَ تَرى نَسُلاً بَعِيداً وَ لِنُحْيِيَنَّكَ حَيوةً طَيِّبَةً ثَمَانِينَ حَوْلاً أَوْ قَريباً مِنْ ذَالِكَ (ازالہ اوہام حصہ دوم طبع اول صفحہ 634 (635) کا مطلب حضرت مسیح موعود نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرما دیا ہے.”جوظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو 74 اور 86 کے اندراندر غم کی تعین کرتے ہیں، ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه 97) پس اگر آپ کی عمر نشسی یا قمری حساب سے اس کے اندر اندر ثابت ہو جائے تو یہ الہامات پورے ہو
مضامین بشیر جلد چهارم 520 جاتے ہیں.یعنی اگر آپ کی پیدائش 1836 ء و 1822ء کے اندر ثابت ہو جائے تو کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جاسکتا.تاریخ پیدائش کا تعین یقینا ہماری طرف سے جو کچھ اس بارے میں لکھا گیا ہے اس سے ثابت ہو چکا ہے کہ آپ کے الہامات پورے ہو گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا تعین ایک بالکل الگ سوال ہے.اس لئے دیکھنا چاہئے کہ ان الہامی حدود کے اندر اندر بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معین کی جاسکتی ہے.تاریخ پیدائش کے فیصلہ کا طریق یہ یقینی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کواپنی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہ تھی کیونکہ حضورفرماتے ہیں.عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 193 ) اسی طرح غالباً ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے پاس کوئی یادداشت نہیں کیونکہ اس زمانہ میں بچوں کی عمر کے لکھنے کا کوئی طریق نہ تھا.ایسی صورت اصل تاریخ پیدائش کا فیصلہ دو ہی طرح ہو سکتا ہے.یا تو کسی کے پاس کوئی ایسی مستند تحریریں جائے جس میں تاریخ پرانے زمانہ کی لکھی ہوئی ہو یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مخالفین کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈال کر دیکھا جائے کہ زیادہ میلان کس سن کی طرف ہے.قابل غور امور پیشتر اس کے کہ مختلف تحریرات پر اس طرح نظر ڈالی جائے دو تین امور قابل غور ہیں اور وہ یہ کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل تحریر سے ” مجھے (سید احمد علی صاحب نے انجام آتھم حاشیہ صفحہ 7 کا بھی حوالہ دیا ہے جو اس طرح ہے."آتھم کی عمر قریباً میرے برابر تھی.پھر اس کتاب کے صفحہ 206 پر فرمایا " كمثل كان فى عمر وهن ) دکھلاؤ کہ آتھم کہاں ہے.اس کی عمر تو میری عمر کے برابر تھی.یعنی قریب 64 سال کئے.(اعجاز احمدی صفحہ 3) یہ نتیجہ نکالنا کہ چونکہ آٹھم 27 جولائی 1896 ء کومرا تھا.(انجام آتھم صفحہ 1) اس لئے آپ کی عمر 76 سال ہوئی درست نہیں معلوم ہوتا.کیونکہ حضرت مسیح موعود نے جس رنگ میں اپنی عمر آتھم کے برابر ظاہر کی ہے وہ ایسا نہیں کہ صرف ایک حوالہ کو لے کر نتیجہ نکال لیا
مضامین بشیر جلد چهارم جائے.آتھم کے مقابلہ میں جس امر پر آپ زور دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ 521 ” ہم دونوں پر قانون قدرت یکساں مؤثر ہے" (اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ مورخہ 20 ستمبر 1894ء) پھر فرماتے ہیں ہم اور آتھم صاحب ایک ہی قانون قدرت کے نیچے ہیں“.(اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ ) عمر کے متعلق جو وضاحت فرمائی ہے وہ اس طرح ہے.اگر آتھم صاحب 64 برس کے ہیں تو عاجز قریباً 60 برس کا ہے“.(اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ مورخہ 20 ستمبر 1894ء) پھر فرماتے ہیں.اور بار بار کہتے ہیں (آتھم صاحب ) کہ میری عمر قریب 64 یا 68 برس کی ہے...دیکھو میری عمر بھی تو قریب ساٹھ برس کے ہے“.(اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ ) پھر فرماتے ہیں.آپ لکھتے ہیں کہ قریب ستر برس کی میری عمر ہے اور پہلے آپ اس سے اسی سال کے کسی پر چہ نورافشاں میں چھپا تھا کہ آپ کی عمر 64 برس کے قریب ہے.پس میں متعجب ہوں کہ اس ذکر سے کیا فائدہ.کیا آپ عمر کے لحاظ سے ڈرتے ہیں کہ شاید میں فوت نہ ہو جاؤں.مگر آپ نہیں سوچتے کہ بجز ارادہ قادر مطلق کوئی فوت نہیں ہوسکتا.اگر آپ 64 برس کے ہیں تو میری عمر بھی قریباً 60 کے ہو چکی“.اشتہاری انعام تین ہزار روپیہ مورخہ 5 اکتوبر 1894ء) پس ان واضح تحریروں کے ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر آتھم کے بالکل برابر نہیں قرار دی جاسکتی.بلکہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں.بہتیرے سوسو برس زندہ رہتے ہیں.مگر عبداللہ آتھم کی جیسا کہ نورافشاں میں لکھا گیا ہے صرف اب تک 64 برس کی عمر ہے.جو میری عمر سے صرف چھ سات برس ہی زیادہ ہے.ہاں اگر مسیح کی قدرت پراب بھروسہ نہیں رہا.مرنے کا قانون قدرت ہریک کے لئے مساوی ہے.جیسا آتھم صاحب اس کے نیچے ہیں.ہم بھی اس سے باہر نہیں اور جیسا کہ اس عالم کون وفساد کے اسباب ان کی زندگی پر اثر کر رہے ہیں.ویسا ہی ہماری زندگی پر بھی مؤثر ہیں“ (انوار الاسلام حاشیہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 37-38) پس میں سمجھتا ہوں کہ آتھم کے مقابلہ میں جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے وہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک موٹا اندازہ ہے.اصل غرض آپ کی عمر کا تعین نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ زندہ رکھنا ار مارنا خدا کے اختیار میں ہے.اور قانون قدرت کے اثر کے لحاظ سے دونوں کی عمروں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے.دوسرا امر جو قابل غور ہے.وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مقامات پر یہ تحریر فرمایا ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 522 کہ ”جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا.( تریاق القلوب صفحہ 68 و براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 105.اور آئینہ کمالات اسلام صفحہ 548) لیکن جہاں تک مجھے علم ہے.آپ نے یہ کہیں فرمایا.”سب سے پہلا الہام قریباً 25 برس سے ہو چکا ہے.یہ اندازہ لگانا کہ چونکہ اربعین 1900 ء میں تالیف ہوئی.اس لئے آپ کی پیدائش 1825ء میں ثابت ہوئی.درست نہیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ ثمانين حولاً والا الہام سب سے پہلا الہام ہے اور نہ یہ کہ سب سے پہلا الہام چالیس برس کی عمر میں ہوا.تیسرا امر یہ ہے کہ ایک کتاب کی کسی عبارت کو اس کتاب کی تاریخ اشاعت سے ملا کر نتیجہ نکالتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ عبارت کے لکھے جانے کی تاریخ اور کتاب کی تاریخ اشاعت میں بہت بڑا فرق ممکن ہے.مثلا نزول مسیح اگست 1909ء میں شائع ہوئی ہے لیکن اس کا صفحہ 117.اگست 1902ء میں لکھا گیا.جیسا کہ اس صفحہ پر لکھا ہے.” آج تک جو 10 اگست 1902ء ہے.البتہ اشتہارات اور ماہواری رسائل کی صورت اور ہے.ان کی تاریخ اشاعت پر نتیجہ نکالنے میں غلطی کا کم احتمال ہے.حقیقۃ الوحی ایک ضخیم کتاب ہے.اس کے صفحہ 201 پر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.”میری عمر اس وقت 68 سال کی ہے.یہاں ظاہر ہے کہ لفظ ” اس وقت سے کتاب کی تاریخ اشاعت فرض کرنا نہایت غلط ہو گا.کیونکہ اشاعت کی تاریخ 15 مئی 1907 ء کتاب پر لکھی ہوئی ہے.66 چوتھی بات قابل غور یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر شمسی حساب مدنظر رکھتے تھے.یا قمری.سو اس کے متعلق جہاں تک میں سمجھتا ہوں.عام طور پر آپ کا طریق اپنی تصانیف، اشتہارات اور خطوط میں ملک کے رواج کے مطابق شمسی حساب اور تاریخ کا شمار تھا.گو قمری سن بھی کہیں کہیں درج کیا گیا ہے.مگر کثرت سے عموماً سمی طریق کو ہی آپ مد نظر رکھتے تھے.اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عمرکا انداز و بیان فرمایا ہے وہاں شمسی سال ہی مراد لئے جائیں گے.قمری نہیں.خواہ کہیں کہیں قمری سن بھی آپ نے بیان فرما دیا ہو.$1833 اب دیکھنا چاہئے کہ بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معین کی جاسکتی ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.” جب میری عمر 40 برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا
مضامین بشیر جلد چهارم 523 دوسری جگہ فرماتے ہیں.ٹھیک 1290ھ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ مخاطبہ پا چکا تھا“.(حقیقۃ الوحی صفحہ 199 ) گویا کہ 1290ھ میں آپ کی عمر چالیس برس ہو چکی تھی.آپ کی وفات 1326ھ میں ہوئی.گویا قمری حساب سے پورے 36 برس آپ شرف مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے ممتاز رہے.شمسی حساب سے 35 سال.اس طرح آپ کی تاریخ پیدائش 1833 ء ثابت ہوئی.1835 ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97 پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.” میری عمر 70 برس کے قریب ہے.یہ کتاب اندرونی شہادت سے ثابت ہے کہ 1905ء میں لکھی گئی ( سید احمد علی صاحب نے جو حوالہ اس ضمن میں دیا ہے وہ درست نہیں.گو دوسرے مقامات سے یہ ثابت ہے ) اس لئے آپ کی تاریخ پیدائش 1835 ء معلوم ہوئی.ریویو بابت نومبر دسمبر 1903 ، صفحہ 479 پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.”میری عمر 70 سال کے قریب ہے.حالانکہ ڈوئی صرف 55 سال کی عمر کا ہے.اسی طرح تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 71 پر فرماتے ہیں.” میری طرف سے 23 اگست 1903 ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھا.جس میں یہ فقرہ ہے کہ میں عمر میں 70 برس کے قریب ہوں.اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے.پچاس برس کا جوان ہے.ان دونوں حوالوں سے نتیجہ نکالتے وقت ایک تیسرا حوالہ بھی جو اسی کے متعلق ہے مگر کچھ پہلے کا ہے مدنظر رکھنا چاہئے.اور وہ یہ ہے.”میری عمر غالبا 66 سال سے بھی کچھ زیادہ ہے“.( ریویو اردو ستمبر 1903 ، صفحہ 346) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 66 سال سے کچھ زیادہ “.اگر اس وقت آپ کی عمر 67 سال سمجھی جائے تو تاریخ پیدائش 1835 بنی.$1834 کتاب البریہ سے جو عبارت سیرۃ المہدی حصہ اول میں نقل کی گئی ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.
مضامین بشیر جلد چهارم 524 غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گزری.ایک طرف ان کا دنیا سے اٹھایا جانا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الہیہ کا مجھ سے شروع ہوا.اس سے معلوم ہوا کہ والد بزرگوار کے انتقال کے وقت آپ کی عمر چالیس برس کے قریب تھی.اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ سلسلہ مکالمات الہیہ کے شرف کے وقت آپ نے اپنی عمر متعدد مقامات پر چالیس برس بیان فرمائی ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے والد ماجد کی وفات کب ہوئی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تصنیف سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 150 پر آپ کے والد بزرگوار کے انتقال کو 1876ء میں قرار دیا ہے.لیکن جہاں تک مجھے علم ہے.اس واقعہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر فیصلہ کن ہے اور وہ یہ ہے کہ نزول اسیح صفحہ 117-118 پر آپ تحریر فرماتے ہیں.” آج تک جو دس اگست 1902 ء ہے.مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو 28 برس ہو چکے ہیں.گویا کہ یہ واقعہ 1874ء کا ہے.اس میں سے 40 نکالیں تو تاریخ پیدائش 1834 ء ثابت ہوتی ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کی پیدائش 1836 ء سے پہلے پہلے کی ہے اس کے بعد یا 1839 ء کسی صورت میں بھی صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا.تاریخی شہادتیں کتاب البریہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں.” میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ میں نے ان کے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا.اسی طرح آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ صفحہ 543-544 پر بھی آپ یہی فرماتے ہیں.سواس کے متعلق تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ 1818ء کے قریب راجہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیوں کو زیر کر کے ان کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا تھا.یعنی قادیان رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آ گیا تھا“.(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 110 ) اور پنجاب چیفس میں لکھا ہے کہ رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہو گیا.غلام مرتضے کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدی جاگیر کا ایک معقول حصہ اسے واپس کر دیا.اس پر غلام مرتضی اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گیا.اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات سرانجام دیں اس سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کشمیر کی فتح کے وقت زنجیت سنگھ کی فوج میں شامل تھے.کشمیر 1819ء میں فتح ہوا.اس لئے معلوم یہ ہوتا ہے کہ گومرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم قادیان میں واپس آگئے تھے مگر قادیان کے ارد گرد کے گاؤں ابھی تک نہیں ملے تھے.کیونکہ حضرت مسیح موعود
مضامین بشیر جلد چهارم 525 علیہ السلام فرماتے ہیں.رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضی قادیان میں واپس آئے.اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے 5 گاؤں واپس ملے.کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی.سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آ گئے تھے اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا“.(کتاب البریہ ) پشاور 1823ء میں رنجیت سنگھ کے ماتحت آیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مصائب کا سلسلہ گو ختم ہو گیا تھا مگرا بھی فراخی نہیں شروع ہوئی تھی.مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم کوا کثر فوجی خدمات پر باہر رہنا پڑتا ہوگا اور گھر کا گزارہ جنگی ترشی میں ہوتا ہو گا.حتی کہ غالباً 1833ء کے قریب انہوں نے کشمیر جانے کا ارادہ کیا جس کی طرف آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی صفحہ 543 میں اشارہ کیا گیا ہے اور غالباً 34-1833ء میں رنجیت سنگھ نے اپنے مرنے سے 5 سال پہلے قادیان کے اردگرد کے 5 گاؤں ان کی جدی جاگیر کے انہیں واپس کر دیئے.اس وقت تک وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں نمایاں خدمات بھی کر چکے تھے اور ان کا حق بھی ایک طرح دوبارہ قائم ہو گیا تھا.پس اس حساب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش 34-1833ء کے قریب ماننی پڑے گی.مخالفین کی شہادت اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے مخالفین آپ کی عمر کے متعلق کیا کچھ کہتے ہیں.لیکھرام کا جوحوالہ سید احمد علی صاحب نے درج کیا ہے اس کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش 1836 ءاور 1833 ء پیدائش کے سن نکلتے ہیں.لیکن میرے نزدیک ان سے بڑھ کر جس مخالف کو علم ہونا چاہئے وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں جن کو بچپن سے ہی آپ سے ملنے کا موقع ملتا رہا ہے.ان کے اشاعت السنہ 1893 ء کے حوالہ سے آپ کی پیدائش 1830 ء کے قریب بنتی ہے.صحیح سن ولادت غرض 1836ء انتہائی حد ہے.اس کے بعد کا کوئی سن ولادت تجویز نہیں کیا جاسکتا.بحیثیت مجموعی زیادہ تر میلان 1833 ء اور 1834 ء کی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ شرف مکالمہ مخاطبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ معین ہیں.اور یہ واقعی ایک اہم واقعہ ہے جس پر تاریخ پیدائش کی بنیاد رکھی جاسکتی
مضامین بشیر جلد چهارم 526 ہے.1290 ھجری ایک معین تاریخ سے اور اس حساب سے 1833 ء کی پیدائش ثابت ہوتی ہے.دوسرا اہم واقعہ آپ کے والد ماجد کے انتقال کا ہے.انسانی فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت کے متعلق جو رائے ہو وہ بھی زیادہ وزن دار مجھنی چاہئے.سو اس کے متعلق آپ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ والد ماجد کی وفات کے وقت آپ کی عمر چالیس سال کے قریب تھی اور اپنے والد صاحب کی وفات 1874ء میں معین فرما دی.خلاصہ میرے نزدیک یہ نکلا کہ 34-1833ء صحیح سن ولادت قرار دیا جا سکتا ہے.واللہ اعلم بالصواب اخبار الفضل قادیان 3 ستمبر 1933 ء) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا نامہ گرامی مکرم اخویم عرفانی صاحب السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكَاتُهُ کل مورخہ 34-1-9 کو عزیزم مکرم شیخ محمود احمد صاحب کے ہاتھ الحکم کا تازہ پر چہ وصول کر نہایت درجہ خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ اس اقدام کو مبارک کرے.الحکم سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہے اور اس کے دوبارہ جاری ہونے سے طبع ہر احمدی کے دل میں ایک خوشی کی لہر پیدا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام الحکم اور البدر کو اپنے سلسلہ کے لئے دو باز و قرار دیا کرتے تھے اور اس میں کیا شک ہے کہ ان ہر دو اخباروں نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں عظیم الشان خدمت سرانجام دی ہے.اب بھی اگر الحکام کے اس نئے دور میں مندرجہ بالا کام کے لئے ہی اخبار کو وقف رکھا جائے تو نا مناسب نہ ہوگا.میرا یہ مطلب نہیں کہ الحکم کے کالم دوسرے امور کے لئے بند ہوں بلکہ غرض یہ ہے کہ زیادہ اور مخصوص توجہ مندرجہ بالا کام کی طرف رہے تو انشاء اللہ بہت مفید رہے گا.بہر حال الحکم کے اس دور جدید نمبر کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ اسے سلسلہ کے لئے اور جاری کرنے والوں کے لئے با برکت کرے.آمین (محرره 10 جنوری 1934 ء) اخبار الحکم قادیان 21 جنوری 1934 ء)
مضامین بشیر جلد چہارم امانت فنڈ تحریک جدید کے متعلق ضروری اعلان 527 حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تحریک جدید کے سلسلہ میں 23 نومبر 1934 ء کے خطبہ جمعہ میں ایک امانت فنڈ کی بھی تحریک فرمائی تھی جو الفضل“ مورخہ 29 نومبر 1934ء میں شائع ہو چکی ہے اور بہت سے احباب اپنے اپنے حالات کے ماتحت اپنی اپنی آمدنیوں کے 1/5 سے لے کر 1/3 حصہ تک اس مد میں رقم جمع کروا ر ہے ہیں اور یہ حلقہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دن بدن وسیع ہو رہا ہے.سواب احباب کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ اس امانت فنڈ کے انتظام کے لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جو سب کمیٹی مقرر فرمائی تھی اس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور مولوی فخر الدین صاحب پنشنز متوطن گھوگھیاٹ ضلع شاہ پور اس کمیٹی کے سیکرٹری مقرر ہوئے ہیں.احباب کو چاہئے کہ آئندہ اس کام کے متعلق جملہ خط و کتابت سیکرٹری صاحب سب کمیٹی امانت فنڈ کے پستہ پر فرما ئیں.مگر خطوط پر کسی کا نام نہیں ہونا چاہئے بلکہ محض سیکرٹری کا عہدہ درج ہونا چاہئے اور روپیہ بدستور محاسب صاحب صدر انجمن قادیان کے نام آنا چاہئے.اخبار الفضل قادیان 22 جنوری 1935ء) 8 بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ برادران کرام! گزشتہ سال حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الہامات کشوف اور رویا کا مجموعہ ”تذکرہ" کے نام سے بک ڈپونے چھپوایا تھا جو دوستوں نے بے حد پسند کیا اور ہاتھوں ہاتھ بک گیا.اسی طرح اس سال بھی حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ تمام ڈائریاں اور ملفوظات چھپوانے کا انتظام کیا گیا ہے جو ابھی تک پُرانے اخبارات اور رسائل میں منتشر صورت میں پڑی تھیں.1890ء سے لے کر 1902 ء تک کے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مرتب کروا لئے گئے ہیں اور باقی 1908 ء تک کے بھی انشاء اللہ اس سال کے دوران میں مرتب ہو جائیں گے.
مضامین بشیر جلد چهارم 528 یہ حقائق و معارف سے مالا مال مجموعہ یقیناً اس قابل ہوگا کہ دوست اسے دیکھ کر خوش ہوں گے اور اس میں جو دلائل حقہ اور علوم سماویہ بھرے پڑے ہیں ان سے خاطر خواہ فائدہ اٹھائیں گے.اس مجموعہ ملفوظات میں ہر قسم کے مضامین ملیں گے.جن میں حضرت اقدس کے دعوئی مسیحیت کے دلائل کے علاوہ قلب انسانی کو پاک و مظہر بنانے کے لئے انوار آسمانی بھی ہوں گے جو پڑھنے والے کے دل و دماغ کو روشن کر دیں گے.احباب جماعت کی مدت سے یہ خواہش تھی کہ حضرت اقدس کی تصانیف اور اشتہارات کے علاوہ اور جتنے بھی کلمات طیبات جو حضور علیہ السلام نے مختلف موقعوں پر مختلف استعداد اور خیالات کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائے وہ بھی کتابی شکل میں چھپ جائیں تا کہ وہ ان سے بھی فائدہ اٹھا سکیں.سوان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے نظارت تالیف نے اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا ہے.خیال ہے کہ یہ مجموعہ ”تذکرہ والے سائز کے دو ہزار صفحوں میں ختم ہوگا.جسے پانچ پانچ سوصفحہ کی چار جلدوں میں شائع کرنے کا ارادہ ہے.کاغذ لکھائی چھپائی وغیرہ کا خاص اہتمام کیا جائے گا مگر باوجود ان خوبیوں کے قیمت بہت کم رکھی گئی ہے یعنی فی جلد ڈیڑھ روپیہ جو اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے برائے نام ہے.امید ہے احباب جماعت اس دُرِ بے بہا کو حاصل کرنے میں سستی سے کام نہ لیں گے.خدا تعالیٰ نے چاہا تو اپریل 1937 ء تک یہ چاروں جلدیں چھپ جائیں گی.علاوہ ازیں امسال بک ڈپو ایک اور بھی بہت ضروری اور نہایت اہم تالیف شائع کر رہا ہے جس کا نام ” روئیداد مقدمہ بہاولپور ہے جو کہ کئی سال کی لگاتار محنت اور کوشش کے بعد مولوی جلال الدین صاحب شمس مبلغ انگلستان نے تالیف کی ہے.اس نام سے پہلے بھی 160 صفحہ کا ایک رسالہ چھپ چکا ہے جو احباب جماعت نے بہت پسند کیا تھا.اب وہ مضمون اور اس پر جو غیر احمدی علماء نے اعتراض کئے ان کے جواب اور اس کے علاوہ، وہ مباحثات بھی جو اس مقدمہ کے مختلف مراحل پر احمدی اور غیر احمدی فریق کے علماء کے درمیان ہوئے اس میں جمع کئے گئے ہیں.اور یہ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے بحث کرنے اور اس کو مرتب کرنے میں نہایت عمدہ قابلیت کا ثبوت دیا ہے اور متنازعہ فیہ مسائل کے متعلق بہت سے نئے حوالے اور دلائل بھی مہیا کئے ہیں.چونکہ عام طور پر جو اعتراض غیر احمدی علما ء عدالتوں یا دوسرے موقعوں پر کیا کرتے ہیں ان کا مفصل مکمل اور مدلل جواب اس میں آ گیا ہے.اس لئے یہ مجموعہ اس قابل ہے
مضامین بشیر جلد چهارم 529 کہ ہر ایک احمدی اُسے خرید کے پڑھے اور دوسروں کو پڑھوائے.تاکہ وہ اوہام اور بدگمانیاں دور ہوں جو غیر احمد یوں میں ہمارے عقائد کے متعلق پیدا کر دی گئی ہیں.تالیف ہذا کے مسودہ کو دیکھتے ہوئے خیال ہے کہ یہ بڑی تقطیع کے بارہ سو صفحہ پر ختم ہوگی.جسے دوحصوں میں تقسیم کر کے چھپوایا جائے گا لکھائی چھپائی عمدہ ہوگی اور کا غذ متوسط درجہ کا لگوایا جائے گالیکن باوجودان امور کے قیمت دونوں حصوں کی جو قریب بارہ سو صفحوں کے ہوں گے صرف دورو پیہ تجویز کی گئی ہے تا کہ احباب کرام اس کو خریدنے میں بھار محسوس نہ کریں.توقع ہے کہ احباب کرام اس ضروری عالمانہ اور ہمیشہ کام آنے والی منحنیم تالیف کو دو روپے جیسی برائے نام قیمت پر خریدنے میں تساہل سے کام نہ لیں گے.انشاء اللہ یہ کتاب بھی سال رواں میں چھپ جائے گی.تیسری کتاب ان کے علاوہ ایک تیسری کتاب بھی اس سال بک ڈپو چھپوا رہا ہے جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے کئی سال کی محنت کے بعد لکھی ہے جس کا نام ذکر حبیب“ تجویز کیا گیا ہے.چونکہ حضرت مفتی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابہ میں سے ہیں اور انہیں حضور علیہ السلام کے پاس رہنے کا کافی موقع ملا ہے.اس لئے آپ نے اپنی مخصوص او در باطر ز میں اپنے محبوب آقا کے جو حالات لکھے ہیں وہ پڑھنے ہی کے لائق ہیں.مزید برآں وقتا فوقتاً جو کلمات طیبات حضور فرماتے رہے وہ بھی آپ نے اپنی پُرانی یادداشتوں سے نقل کئے ہیں.علاوہ اس کے حضور کے کچھ خطوط بھی ہیں اور چند ضروری فوٹو بھی ہیں.لکھائی، چھپائی اور کاغذ کا بھی بہترین اہتمام کیا گیا ہے.ضخامت غالباً تین سوصفحہ ہوگی مگر قیمت صرف ایک روپیہ رکھی گئی ہے.دوستوں کو چاہئے کہ اس لطیف اور ایمان پرور تصنیف کو بھی ضرور خریدیں.مذکورہ بالا ہر سہ کتب جن کا حجم تقریباً ساڑھے تین ہزار صفحہ ہوگا صرف نور و پیہ میں دوستوں کومل جائیں گی.احباب کو چاہئے کہ ابھی سے ان کتب کی خرید کے لئے اپنی درخواستیں بھجواد ہیں.روزنامه الفضل قادیان 6 اگست 1936 ء ) کتاب ”بچوں کی تربیت پر تبصرہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے ناظر تعلیم و تربیت ارشاد فرماتے ہیں:.
مضامین بشیر جلد چهارم 530 بسم الله الرحمن الرحيم میں نے کتاب ”بچوں کی تربیت مصنفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کے بعض حصص دیکھتے ہیں.ماسٹر صاحب کی یہ کوشش بہت قابل قدر ہے کیونکہ اس قسم کے لٹریچر کی اس وقت بہت ضرورت ہے تا کہ آئندہ نسل کو اخلاقی اور دینی لحاظ سے صحیح رستہ پر ڈالا جا سکے اور ان بداثرات سے بچایا جا سکے جو آج کل عموماً بچوں اور نو جوانوں کے اخلاق و عادات کو خراب کر رہے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ طبع ثانی کے وقت ماسٹر صاحب موصوف اس کتاب کو موجودہ صورت سے بھی بہتر صورت میں پیش کریں گے.کیونکہ اس قسم کے لٹریچر میں بہت ترقی کی گنجائش ہے.بہر حال یہ ایک بہت مفید قدم ہے جو ماسٹر صاحب کی طرف سے اٹھایا گیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ مذہب وملت کے اصحاب اس کتاب کی قدر کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے........روزنامه الفضل قادیان 11 دسمبر 1937 ء) اخلاق مسیح کی ایک جھلک قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی مبارک قلم سے:.مجھے معلوم ہوا ہے کہ خلافت جو بلی کے موقع پر ادارہ الحکم بھی الفضل کی طرح ایک خاص نمبر شائع کر رہا ہے اور ایڈیٹر صاحب الحکم نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں بھی اس خاص نمبر کے لئے ایک مضمون لکھوں اور ایڈیٹر صاحب کے علاوہ اس اخبار کے بانی ہمارے مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بھی مجھے ایک خط کے ذریعہ تحریک فرمائی ہے.افسوس ہے کہ میں اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ کی تصنیف کی مصروفیت کی وجہ سے اس وقت کوئی علیحدہ مضمون نہیں لکھ سکتا مگر ان اصحاب کی خواہش کو ملحوظ رکھتے ہوئے سلسلہ احمدیہ کے مسودہ سے ایک چھوٹا سا حصہ ان کی خدمت میں نقل کر کے بھجوا رہا ہوں تا کہ مجھے اس مبارک تقریب میں شرکت کا ثواب حاصل ہو جاوے.جہاں تک اُن اخلاق کا سوال ہے جو دین اور ایمان سے تعلق رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں دو خلق خاص طور پر نمایاں نظر آتے تھے.اول.اپنے خدا دامشن پر کامل یقین.
مضامین بشیر جلد چہارم 531 دوسرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے نظیر عشق ومحبت.یہ دو اوصاف آپ کے اندر اس کمال کو پہنچے ہوئے تھے کہ آپ کے ہر قول و فعل اور حرکت وسکون میں ایک پر زور جلوہ نظر آتا تھا.بسا اوقات اپنے خدا داد مشن اور الہامات کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ مجھے ان کے متعلق ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ دنیا کی کسی چیز کے متعلق زیادہ سے زیادہ علم ہوسکتا ہے.اور بعض اوقات ان پیشگوئیوں کا ذکر کر کے فرماتے تھے کہ چونکہ وہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی ہیں اس لئے وہ ضرور پوری ہو کر رہیں گی.اگر وہ پوری نہ ہوں تو مجھے مفتری قرار دے کر بر سر عام پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے تا کہ میرا وجود دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو.اپنے الہام کے قطعی ہونے کے متعلق اپنی ایک فارسی نظم میں فرماتے ہیں اں یقینے که بود عیسی را پر کلامی که شد برو القا واں یقین کلیم بر تورات واں یقین ہائے سید السادات کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین ہر کہ گوید دروغ هست لعین یعنی جو یقین کہ حضرت عیسی کو اس کلام کے متعلق تھا جو ان پر نازل ہوا اور جو یقین کہ حضرت موسیٰ کو تو رات کے متعلق تھا.اور جو یقین کہ نبیوں کے سردارمحمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے او پر نازل ہونے والے کلام کے متعلق تھا.میں یقین کی رو سے ان میں سے کسی سے کم نہیں ہوں اور جو شخص جھوٹا دعویٰ کرتا ہے وہ لعنتی ہے.ایک اور جگہ اپنے منشور کلام میں فرماتے ہیں.یہ مکالمہ الہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر تو.ہو جاؤں.اور میری آخرت تباہ ہو جائے.وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے.اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے.ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے.اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412)
مضامین بشیر جلد چهارم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت وعشق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در هر مکان ندائے جمال محمد است 532 یعنی میرے جان و دل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خدا داد پر قربان ہیں اور میں آپ کے آل و عیال کے کوچہ کی خاک پر شار ہوں.میں نے اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا اور ہوش کے کانوں سے سنا ہے کہ ہر کون و مکان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے جمال کی ندا آ رہی ہے.پھر فرماتے ہیں.بعد از خدا بعشق محمدم محمرم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم جانم فدا شود مصطف بره دین این است کامِ دل اگر آید میسرم یعنی خدا سے اتر کر میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی شراب میں متوالا ہورہا ہوں.اور اگر یہ بات کفر میں داخل ہے تو خدا کی قسم میں سخت کا فر ہوں.میرے دل کا واحد مقصد یہ ہے کہ میری جان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے رستے میں قربان ہو جائے.خدا کرے مجھے یہ مقصد حاصل ہو جائے.پھر فرماتے ہیں.وہ پیشوا ہمارا جس ނ ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے وہ دلبر یگانہ علموں کا خزانه ہے باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی محبت محض کاغذی یا نمائشی محبت نہ تھی بلکہ آپ کے ہر قول وفعل اور حرکت و سکون میں اس کی ایک زندہ اور زبردست جھلک نظر آتی تھی.چنانچہ پنڈت
مضامین بشیر جلد چہارم 533 لیکھرام کے حالات میں جس واقعہ کا ذکر اس رسالہ میں اوپر گزر چکا ہے وہ اس محبت کی ایک عام اور دلچسپ مثال ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود نہایت درجہ وسیع القلب اور ملنسار تھے اور ہر دوست و دشمن کو انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ ملتے تھے.جب پنڈت لیکھرام نے آپ کے آقا اور محبوب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سخت بد زبانی سے کام لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تو آپ نے پنڈت صاحب کا سلام تک قبول نہ کیا اور دوسری طرف منہ پھیر کر خاموش ہو گئے اور جب کسی ساتھی نے دوبارہ توجہ دلائی تو غیرت اور غصہ کے الفاظ میں فرمایا کہ ”ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے مگر اس سے عشق و محبت کے اس اتھاہ سمندر پر بے انتہا روشنی پڑتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کے دل میں موجزن تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے متعلق یہ روایت بھی چھپ کر شائع ہو چکی ہے کہ ایک دفعہ آپ علیحدگی میں ٹہلتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درباری شاعر حسان بن ثابت کا یہ شعر تلاوت فرمارہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آنکھوں سے آنسو ٹپکتے جارہے تھے کہ كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيُ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرُ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو میری آنکھ کی پتلی تھا.پس تیری وفات سے میری آنکھ اندھی ہوگئی ہے.سواب تیرے بعد جس شخص پر چاہے موت آجاوے مگر مجھے اس کی پروا نہیں.کیونکہ مجھے تو صرف تیری موت دو کا ڈر تھا جو واقع ہوگئی.راوی بیان کرتا ہے کہ جب آپ کے مخلص رفیق نے آپ کو اس رقت کی حالت میں دیکھا تو گھبرا کر پوچھا کہ ” حضرت! یہ کیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا.” کچھ نہیں.میں اس وقت یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہورہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا.(سیرت المہدی ) مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ دوسرے بزرگوں کی محبت سے خالی تھے بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے آپ کے دل میں دوسرے پاک نفس بزرگوں کی محبت کو بھی ایک خاص جلا دے دی تھی اور آپ کسی بزرگ کی ہتک گوارا نہیں کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ اپنے اصحاب کی ایک مجلس میں یہ ذکر فرما رہے تھے کہ نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت
مضامین بشیر جلد چهارم 534 ضروری ہے اور امام کے پیچھے بھی پڑھنی چاہئے.اس پر حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا کہ ” حضور! سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی؟ آپ نے فوراً فرمایا ”نہیں نہیں.ہم ایسا نہیں کہتے.کیونکہ حنفی فرقہ کے کثیر التعداد بزرگ یہ عقیدہ رکھتے رہے ہیں کہ سورہ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں اور ہم ہرگز یہ خیال نہیں کرتے کہ ان بزرگوں کی نماز نہیں ہوئی.اسی طرح آپ کو غیر مسلم قوموں کے بزرگوں کی عزت کا بھی بہت خیال تھا اور ہر قوم کے تسلیم شدہ مذہبی بزرگوں کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے.بلکہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کے نام کو عزت کے ساتھ دنیا میں قائم کر دیتا ہے تو لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اس کی بزرگی کا خیال بیٹھا دیتا ہے اور اس کے سلسلہ کو استقلال اور دوام حاصل ہو جاتا ہے تو ایسا شخص جسے اس قدر قبولیت حاصل ہو جاوے جھوٹا نہیں ہوسکتا اور ہر انسان کا فرض ہے کہ بچوں کی طرح اس کی عزت کرے اور کسی رنگ میں اس کی ہتک کا مرتکب نہ ہو.اس معاملہ میں خود اپنے مسلک کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں:.ما ہمہ پیغمبران را چاکریم ہمیچو خاک افتاده بر درے رسولے کو طریق حق نمود ہر جان ما قرباں براں حق پرورے یعنی میں ان تمام رسولوں کا خادم ہوں جو خدا کی طرف سے آتے رہے ہیں اور میرا نفس ان پاک روحوں کے دروازے پر خاک کی طرح پڑا ہے.ہر رسول جو خدا کا رستہ دکھانے کے لئے آیا ہے (خواہ وہ کسی زمانہ اور کسی ملک میں آیا ہو ) میری جان اس خادم دین پر قربان ہے.محرره 16 دسمبر 1939 ء) (الحکم جوبلی نمبر 1939ء) 11 قوم کے لوگو! دھر آؤ کہ نکلا آفتاب حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! لوگوں میں سب سے زیادہ شریف النسب کون ہے؟ پوچھنے والے کی مراد تو غالبا یہ ہوگی کہ عرب کے معروف قبائل میں سے حسب و نسب میں کون سب سے بڑھ کر ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہر موقع کو دینی
مضامین بشیر جلد چهارم 535 تربیت کا ذریعہ بنا لیتے تھے بے ساختہ فرمایا ” کیا تم سب سے اشرف کی بابت پوچھتے ہو؟ سب سے اشرف تو حضرت یوسف ہیں کہ خود نبی، باپ نبی، دادا نبی، پڑدادا نبی.یہ کیسے پیارے الفاظ تھے جنہوں نے عربوں کے دنیوی تفاخر کے جذبہ کو جڑ سے کاٹ کر ان کے خیالات کو دینی بڑائی اور شرافت کے رستہ پر ڈال دیا.واقعی اس میں کیا شبہ ہے ( اور یہ نظارہ غالباً دنیا نے اس کے علاوہ کبھی نہیں دیکھا ) کہ ایک شخص نہ صرف خود خدا کا برگزیدہ نبی بنتا ہے بلکہ مسلسل چار پشتوں تک اس کی اولا د نبوت کا بلند رتبہ انعام پاتی چلی جاتی ہے.پس حضرت یوسف تو اس لحاظ سے اشرف تھے کہ وہ نہ صرف خود نبی تھے بلکہ ایک نبی کے بیٹے اور نبی کے پوتے اور نبی کے پڑپوتے تھے اور حضرت ابراہیم اس لحاظ سے اشرف تھے کہ نہ صرف خود ایک عظیم الشان نبی تھے بلکہ ایک نبی ( بلکہ دونبیوں) کے باپ اور نبی کے دادا اور نبی کے پڑدادا بھی تھے.اللہ! اللہ! یہ کیسا عظیم الشان شرف ہے جو اس خاندان کو حاصل ہوا جو حقیقتا تاریخ عالم میں عدیم المثال ہے.مگر حضرت ابراہیم کے قریباً چار ہزار سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں پھر خدا نے اپنے ایک برگزیدہ بندے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابراہیم کے پاک خطاب سے یاد فرمایا اور ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ اس مبارک نام سے پکارا.جیسا کہ مثلاً ایک الہام میں فرمایا.اِنِّى مَعَكَ يَا إِبْرَاهِيمُ.اور ایک دوسرے الہام میں فرمایا.انا أَخْرَجْنَا لَكَ زَرُوعًا يَا إِبْرَاهِيمُ.پس ضروری تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی کوئی خصوصیت اس نوع کی پائی جائے جو ابوالانبیاء حضرت ابراہیم میں پائی جاتی تھی اور وہ خصوصیت یہی نسلی اصطفاء کی خصوصیت تھی.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک شعر میں اس خصوصیت کا ذکر فرمایا ہے.فرماتے ہیں.میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں، نسلیں ہیں میری بے شمار اس جگہ یقینا نسل سے عام نسل مراد نہیں کیونکہ نیک لوگوں کے نزدیک محض اولاد کا ہونا یا زیادہ اولا د کا ہونا ہرگز کوئی فخر کی بات نہیں.بلکہ اگر اولاد گندی ہو تو اس کا وجود باعث ننگ و عار ہوتا ہے اور ایسی اولاد کی کثرت اس ننگ و عار کو اور بھی زیادہ بھیا نک بنادیتی ہے.پس لاریب اگر خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابراہیم کے نام سے یاد کیا اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس نام کی تشریح میں اپنے کثیر النسل ہونے کی طرف اشارہ فرمایا.تو اس میں ہرگز ہرگز محض اولاد یا محض کثرت اولاد مراد نہیں ہو سکتی تھی.بلکہ ابراہیمی طریق پر اولاد کے ایک حصہ کا اوپر تلے اور نسلاً بعد نسل خاص طور پر باخدا ہونا مراد ہے اور ابراہیم کے
مضامین بشیر جلد چهارم 536 نام میں ہی میں نے ہمیشہ یہ اشارہ سمجھا ہے کہ مصلح موعود نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودہ اولاد میں سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ساتھ ملے ہوئے ظاہر ہونا تھا اور آپ کا خلیفہ بننا تھا.جس طرح کہ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب اور حضرت یوسف اپنے بزرگ باپ حضرت ابراہیم کے خلیفہ ہوئے اور کیا عجب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتوں میں سے بھی کسی سعید روح کے لئے اس ابرا تیمی پہلو کا مظہر بنا مقدر ہو وَالْغَيْبُ عِندَ اللهِ وَقَالَ اللهُ تَعَالَى إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٌ لَكَ وَ لَعَلَّ اللَّهُ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِكَ أَمْراً - مصلح موعود کی علامات خواہ وہ اس کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں یا اس کے ذاتی اوصاف سے یا اس کے کام سے (اور یہی علامات کے تین اہم پہلو ہیں) سب اس قدر صاف اور واضح ہیں کہ اس بارے میں سوائے ایسے شخص کے جس نے خود تعصب کو اپنا و تیرہ بنا رکھا ہو کوئی عقلمند انسان شک وشبہ کی گنجائش نہیں پاتا بلکہ اگر غور کیا جائے تو مصلح موعود کی علامات مسیح موعود کی علامات سے بھی زیادہ صاف اور نمایاں ہیں.کیونکہ جہاں مسیح موعود کی علامات اکثر صورتوں میں زبانی روایتوں کے ذریعہ صدیوں کی مسافت طے کر کے ہمیں پہنچی ہیں جس کی وجہ سے غلطی اور غلط فہمی کا امکان بہت بڑھ گیا ہے.وہاں مصلح موعود کی علامات خدا کی تازہ بتازہ وحی کے ذریعہ ساتھ ساتھ تحریر میں آکر ہماری آنکھوں کے بالکل سامنے موجود ہیں.پس علامات کا سوال میرے نزدیک زیادہ بحث طلب نہیں اور اسی لئے میں اس جگہ اس بحث میں نہیں جاتا اور نہ موجودہ مضمون کی گنجائش کے لحاظ سے اس جگہ اس بحث میں جا سکتا ہوں مگر میں ایک اصولی بات جو غالبا کئی دوستوں کے لئے نئی ہوگی، کہ دینا ضروری سمجھتا ہوں.لوگوں کا یہ خیال ہے اور درست خیال ہے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس کی صراحت فرمائی ہے بلکہ اپنے اس خیال کی بنیاد الہام پر رکھی ہے کہ جو پیشگوئی 20 فروری 1886ء کے اشتہار میں مصلح موعود کے بارے میں درج ہے.وہ دولڑکوں کے متعلق ہے.ایک بشیر اول کے متعلق ، جس کے ساتھ ان الہامات کا ابتدائی حصہ تعلق رکھتا ہے اور دوسرے مصلح موعود کے متعلق جس کے ساتھ بعد کے الہامات کا تعلق ہے.جو ان الفاظ سے شروع ہوتے ہیں کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا مگر اول تو ساری الہامی عبارت پر غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ بشیر اول کے ساتھ تعلق رکھنے والا الہام صرف ایک درمیانی پیرے میں بیان ہوا ہے اور اوپر اور نیچے ہر دو جگہ مصلح موعود کا ذکر ہے.علاوہ ازیں میرا یقین ہے کہ در حقیقت یہ سارے الہامات معہ درمیانی پیرے کے مصلح موعود ہی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.صرف فرق یہ ہے کہ بعض الفاظ بشیر اول کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتے ہیں اور مصلح
مضامین بشیر جلد چهارم 537 موعود کے ساتھ بالواسطہ اور بعض الفاظ مصلح موعود ہی کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتے ہیں.اصل بات یہ ہے اور افسوس ہے کہ اس بات کو اکثر لوگوں نے ابھی تک نہیں سمجھا کہ مصلح موعود کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں میں بشیر ثانی کے نام سے یاد کیا گیا ہے.جیسے کہ فرمایا ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا“.اس سے ظاہر ہے کہ مصلح موعود صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی مثیل نہیں بلکہ حضور کے متوفی لڑکے بشیر اول کا بھی مثیل ہے.یعنی اس کی بالقوۃ استعدادوں کا وارث ہے.اس لئے 20 فروری 1886 ء والے الہامات کا ایک حصہ گو بیشک اصالۂ بشیر اول سے تعلق رکھتا ہے.مگر اس کے مثیل ہونے کے لحاظ سے وہ بالواسطہ مصلح موعود پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور اس طرح یہ ساری پیشگوئی ہی دراصل مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی قرار پاتی ہے.کچھ براہ راست اور کچھ بالواسطہ.میری یہ تشریح خدا کے فضل سے ایسی ہے کہ اسے غور سے مطالعہ کرنے والے انشاء اللہ اس کے ذریعہ بہت سے مخفی علوم کو پائیں گے اور انہیں کئی الجھنوں کا علاج مل جائے گا مگر افسوس ہے کہ میں خود اس جگہ اس کی زیادہ تفصیل میں نہیں جاسکتا اور اسی اشارہ پر اکتفا کرتا ہوں.لیکن کسی ربانی موعود کے متعلق اصل سوال علامات کا بھی نہیں ہے کیونکہ علامات بھی ایک درمیانی چیز ہیں بلکہ اصل سوال اور اصل مقصد ا سے قبول کر کے خدائی انعامات کے وارث بننے سے تعلق رکھتا ہے اور چونکہ مصلح موعود کا کام جیسا کہ اس کے نام اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے الہامات سے ظاہر ہے اندرونی اور بیرونی اصلاح ہے.اس لئے حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے دعوی کا سب سے پہلا اور سب سے ضروری نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ آپ کو ماننے والے آپ کے اس خدا داد منصب کو لوگوں تک پہنچائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کو دنیا کے سامنے ایک عظیم الشان آیت اور نشان کے طور پر رکھیں اور دوسری طرف نہ ماننے والوں پر سب سے پہلا فرض یہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اس خدائی انکشاف کے بارے میں جو ایک رحمت کے نشان کا مقدمہ ہے.خالی الذہن ہو کر غور کریں اور اگر اسے سچا پائیں تو اس کا انکار کر کے خدا کے غضب کو بھڑکانے والے نہ بنیں.اس ذیل میں ہمارا سب سے پہلا خطاب اپنے غیر مبائع بھائیوں سے ہے جو ہمارے قریب تر ہیں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں کو خدائی وحی یقین کرنے اور آپ کی پیشگوئیوں پر ایمان لانے کے مدعی بنتے ہیں.آج سے پہلے تو وہ عموماً یہ کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے کہ جب خود حضرت میاں صاحب کو ہی مصلح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں اور نہ ان پر اس بارے میں خدا تعالیٰ نے کوئی انکشاف کیا ہے تو ہم خواہ مخواہ کیوں اس طرف توجہ دیں اور خدا پر نقدم کرنے والے کیوں بنیں مگر اب تو ان کا یہ عذر بھی خدا نے توڑ دیا ہے اور حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے خدا کی طرف سے
مضامین بشیر جلد چهارم 538 ایک واضح رؤیا کے ذریعہ علم پا کر اپنے دعوی کا اعلان فرما دیا ہے.پس اب ہمارے ان بھائیوں کا کوئی عذر باقی نہیں رہا اور کم از کم تقوی اللہ اور خشیت اللہ کے ماتحت ان کا یہ فرض ہو گیا ہے کہ وہ اس کے متعلق خالی الذہن ہو کر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور انکار کی طرف جلدی قدم نہ اٹھا ئیں کہ یہ راہ بے حد خطرناک ہے.پس اے ہمارے روٹھے ہوئے بھائیو! خدا آپ کی آنکھیں کھولے.اب آپ کے لئے ان دو راستوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ کھلا نہیں کہ یا تو حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ کو بغیر سوچے سمجھے مفتری علی اللہ قرار دے کر ان کے ربانی انکشاف کو ٹھکرا دیں لیکن میں یقین کرتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر باوجود انتہائی مخالفت کے ابھی تک ایسی جرات نہیں کر سکتے کیونکہ آپ لوگوں کے دل مانتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ مفتری علی اللہ نہیں) اور یا ان کے دعوے پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے خدائی آواز کو جو اپنے ساتھ بھاری شواہد رکھتی ہے، قبول کریں اور پھر حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک سرسری اظہار ہی نہیں ہے بلکہ آپ نے متعدد مرتبہ مؤکد بعذاب قسم کھا کر یہ اعلان کیا ہے کہ خدا نے آپ کو بتایا ہے کہ آپ مصلح موعود اور مثیل مسیح اور اس کے برحق خلیفہ ہیں.پس بھائیو! خدا کے لئے انکار کی طرف جلدی نہ کرو اور سوچو اور سمجھو.آپ میں سے کئی خدا کے برگزیدہ صیح کے صحبت یافتہ ہیں اور اے کاش! آپ کو یہ معلوم ہوسکتا کہ ہمارے دل آپ کی جدائی پر کس قدر زخمی اور کس قدر دردمند ہیں.پس میں پھر کہتا ہوں کہ انکار کی طرف جلدی نہ کرو اور سوچو اور سمجھو اور پھر سوچو اور سمجھو.خدا نے اپنے تین زبر دست نشانوں کے ساتھ اپنی مشیت کو ظاہر فرمایا ہے.اول اپنے قول سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر مشتمل ہے.دوسرے اپنے فعل سے جو غیبی نصرت اور آسمانی تائید کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے.اور تیسرے اس تازہ شہادت سے جو خدا نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ پر اس پیشگوئی کے بارے میں انکشاف کرنے کی صورت میں پیش کی ہے.پس کیا آپ ان تینوں نشانوں کو رد کر دیں گے؟ اور پھر صرف حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کا اپنا رویا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ سینکڑوں مومنوں کی خواہیں بھی شامل ہیں اور آپ لوگ یقینا یہ جرات نہیں کر سکتے اور خدا کے لئے یہ جرأت نہ کرنا کہ ان سب کو مفتری اور کذاب کہہ کر ان کی شہادت کو رد کر دو.لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں کو ان خوابوں پر تسلی نہیں، تو یہ نسخہ بھی آزما دیکھو کہ کم از کم ایک ہفتہ تک بالکل خالی الذہن ہو کر اور خدا کی طرف توجہ لگا کر اور اسی کو اپنا حکم بنا کر اس سے دعا کرو کہ وہ اس بارے میں آپ پر حق کھول دے.مگر ضروری ہے کہ آپ کی دعا ئیں محض رسمی دعائیں نہ ہوں بلکہ تقوی اللہ اور خشیت اللہ پر مبنی ہوں اور اسی خشوع و خضوع اور سچائی کی
مضامین بشیر جلد چهارم 539 تڑپ کے ساتھ زبان پر آئیں.اگر آپ ایسا کریں گے تو بعید نہیں کہ خدا آپ پر رحم کرے اور اپنے مبارک منشاء کو آپ پر ظاہر فرمائے.اور یا ویسے ہی ان دعاؤں کے نتیجہ میں آپ پر حق کھل جائے.اے خدا! تو اپنے فضل ورحم سے ایسا ہی کر اور اپنے پاک مسیح کے نام لیواؤں کی ہدایت کا سامان پیدا کردے.آمِنینَ یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ بالآخر گومیں اس کا عادی نہیں اور اس قسم کے اظہار سے طبعا گریز کرتا ہوں مگر اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کی ہدایت کی غرض سے اس جگہ اپنی بھی ایک رؤیا بیان کئے دیتا ہوں تا شاید وہی کسی بھٹکے ہوئے دوست کی ہدایت کا موجب بن جائے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنياتِ.قریباًدوسال یا شاید سوادوسال کا عرصہ ہوا جبکہ ابھی حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ کی طرف سے مصلح موعود کے بارے میں کوئی معین اعلان نہیں ہوا تھا اور نہ آپ پر اس بارے میں خدا کی طرف سے کوئی انکشاف ہی ہوا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی مصلح موعود والی پیشگوئی کا مضمون نہیں تھا کہ میں نے ایک خواب دیکھی.میں نے دیکھا کہ میں اپنے مکان کے محن میں کھڑا ہوں اور اسی صحن کے شرقی جانب جو مکان حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کا ہے.جس میں آجکل حضور کی حرم اول سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ رہتی ہیں.اس کے سب سے بالائی حصہ میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک علیحدہ خانگی مسجدسی بنا رکھی تھی.ایک خوبصورت نوجوان کھڑا ہوا ہمارے صحن کی طرف جھانک رہا ہے.اس نوجوان کا رنگ شفاف اور سفید تھا جو اپنی سفیدی کی وجہ سے گویا چمک رہا تھا.میں نے جب اس نوجوان کی طرف نظر اٹھائی تو اشارے کے ساتھ اس سے پوچھا کہ تم کون ہو.اس نے اس کے جواب میں مجھے آہستہ سے کہا.” خلیفہ الدین یعنی خلیفہ کے لفظ کے بعد کوئی لفظ بولا.جو میں سمجھ نہیں سکا اور آخری لفظ الدین تھا.اس پر میں نے تصریح کے خیال سے سوالیہ رنگ میں کہا.” خلیفہ ناصرالدین صاحب؟“ اس نے غالباً سر ہلا کر جواب دیا کہ نہیں.بلکہ میرا نام کچھ اور ہے.جس پر میں نے کہا ” خلیفہ صلاح الدین؟“ اس پر اس نے آہستگی کے ساتھ گویا اس بات کو مخفی رکھ کر بتا رہا ہے.عربی میں جواب دیا نَعَم “ پھر میں قدم بڑھا کر اپنے کمرہ کی طرف جانے لگا.تو جب میں دروازہ کے قریب پہنچا تو یہ نو جوان نہایت آہستگی اور وقار کے ساتھ ہوا میں اُترتا ہوا میرے دائیں کندھے پر اس طرح آبیٹھا کہ اس کی ایک ٹانگ میرے سامنے کی طرف آگئی اور ایک پیچھے کی طرف پیٹھ کے ساتھ رہی اور منہ میری طرف تھا.جونہی کہ یہ نوجوان میرے کندھے پر اترا.میں نے اس کی ٹانگوں کو سہارا دینے کے رنگ میں اپنے ہاتھوں کے ساتھ تھام لیا اور اسے آہستگی کے ساتھ کہا ”بڑی دیر سے آئے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.صبح اٹھنے پر 66
مضامین بشیر جلد چهارم 540 مجھے اس کی کوئی تعبیر تو کچھ سمجھ نہیں آئی البتہ میں نے اسے ایک عجیب سی خواب سمجھ کر اس کا ذکر اپنے کئی عزیزوں کے ساتھ کیا اور اس کے بعد میں اس خواب کو بھول گیا اور دوسال تک بالکل بھولا رہا.آخر جب حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ نے گزشتہ ایام میں ایک رؤیا کی بنا پر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا تو اس وقت مجھے میری لڑکی عزیزہ امتہ الحمید بیگم اور میری بھانجی عزیزہ محمودہ بیگم سلمہا اللہ نے یاد کرایا کہ دو سال ہوئے آپ نے یہ خواب دیکھی تھی اور ساتھ ہی کہا کہ ہمارے خیال میں یہ خواب حضرت صاحب کے دعوئی مصلح موعود پر چسپاں ہوتی ہے.تب میں سمجھا کہ واقعی یہ خواب اسی امر کے متعلق تھی.چنانچہ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اس خواب میں کئی باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں مثلاً (1) اس نوجوان کا حضرت خلیفہ آنتی ایدہ اللہ کے مکان پر اور اس کے بلند ترین حصہ میں نظر آنا.جس میں حضرت (خلیفہ اسی ) ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود کی طرف اشارہ تھا.(2) اس کا اپنا نام خلیفہ صلاح الدین ظاہر کر ناجوان الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے کہ وہ صلح موعود حضرت مسیح موعود کا خلیفہ بھی ہے اور سب جانتے ہیں کہ حضرت (خلیفہ اسیح ) ایدہ اللہ تعالیٰ کا بعینہ یہی دعوی ہے.(3) اس کا ہنستگی اور اخفا کے رنگ میں بولنا گویا کہ ابھی پورے انکشاف اور اعلان کا وقت نہیں آیا تھا.(4) اس کا میرے سوال کے جواب میں عربی زبان میں ”نَعَمُ“ کہنا جو عین حضرت خلیفہ اسی ایده اللہ کے اس رویا کے مطابق ہے جس میں آپ نے اپنے آپ کو عربی میں گفتگو فرماتے دیکھا ہے.(5) میرا اسے یہ الفاظ کہنا کہ بڑی دیر سے آئے جو مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الہامی الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے کہ دیر آمد پس یہ ایک واضح خواب تھی جو خدا تعالیٰ نے مجھے آج سے قریباً دو سال قبل دکھائی اور اس خواب کی شہادت اس بات سے اور بھی زیادہ قوی ہو جاتی ہے کہ جب میں نے یہ خواب دیکھی اس وقت نہ میرے خیال میں یہ آیا کہ یہ خواب مصلح موعود کے متعلق ہے اور نہ ہی ان لوگوں کا خیال اس طرف گیا جنہیں میں نے یہ خواب سنائی بلکہ مجھے تو یہ خواب بھی بھولی ہوئی تھی جو دو سال بعد بعض عزیزوں کے یاد دلانے سے یاد آئی مگر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج سے دو یا سوا دو سال قبل یہ خواب دیکھی اور گو اس کا کوئی لفظ حافظہ کی غلطی سے بدل گیا ہو مگر مفہوم اور حقیقت بالکل یہی تھے اور الفاظ بھی یہی تھے اور میں نے یہ خواب اسی وقت اپنے بعض عزیزوں کو سنا دی تھی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ میرے یہ عزیز ہرگز جھوٹ نہیں بولیں گے اور
مضامین بشیر جلد چهارم 541 یہ خواب ان سینکڑوں خوابوں میں سے ایک خواب ہے جو جماعت کے کثیر التعداد دوستوں کو آ چکی ہے اور حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ کا اپنا رو یا ان سب سے بالا ہے.پس خدارا ہمارے غیر مبائع احباب ان حقائق پر غور کریں اور اس محبت کے ہاتھ کو رد نہ کریں جو خدائے رحیم و کریم نے دنیا کی طرف بڑھایا ہے.یہ ایک رحمت کا نشان تھا اور سب کے لئے رحمت ہی رہنا چاہئے اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.وَ آخِرُ دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ 12 (فرقان اپریل 1944ء) مستقل سمجھوتہ کے لئے موجودہ فضا کی درستی ضروری ہے تمام صوبوں میں لازماً مخلوط وزارتیں بنائی جائیں ہندوستان کی موجودہ سیاسی گتھی کا حل ہر محب وطن کے لئے انتہائی فکر و پریشانی کا موجب ہورہا ہے اور موجوده فرقہ وارانہ فسادات جو کم و بیش ہر صوبے میں رونما ہیں اس گتھی کی پیچیدگیوں کو اور بھی زیادہ کر رہے ہیں.مگر ظاہر ہے کہ جس وقت باہمی کشیدگی اور بدگمانی انتہا کو پہنچی ہوئی ہو.اس وقت سمجھوتہ کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے کیونکہ سمجھوتہ کے لئے ایک خاص قسم کے ذہنی ماحول کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور جب تک یہ ماحول پیدا نہ ہو.لوگوں کی طبیعتیں ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت کے متعلق منصفانہ نظر ڈالنے اور ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں.پس اس وقت سب سے مقدم کام موجودہ فضا کی درستی ہے.بے شک مسٹر جناح اور مسٹر گاندھی نے ایک مشتر کہ اپیل شائع کر کے اس درستی کی طرف ایک اچھا قدم اٹھایا ہے جو یقیناً قابل قدر ہے.مگر ظاہر ہے کہ اس قسم کے غیر معمولی کھچاؤ اور تنافر کے زمانہ میں صرف منہ کی اپیل یا صرف نوک قلم کی جنبش سے کبھی بھی خاطر خواہ نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا، جب تک اس قولی اور قلمی تحریک کے ساتھ ساتھ ملک کے سامنے موجودہ سیاسی فضا کی درستی کا کوئی عملی پروگرام نہ رکھا جائے اور پھر مناسب اور جائز قومی دباؤ کے ذریعہ اس عمل پروگرام کو فی الواقع نہ جاری کر دیا جائے.اس مقصد و مدعا کے پیش نظر ذیل میں ایک مختصر سا لائحہ عمل پیش کیا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ ملک کے سیاسی لیڈر اس مخلصانہ مشورہ کو مناسب ترمیم کے ساتھ (اگر وہ ضروری سمجھی جائے ) اور مناسب تفاصیل کے ساتھ ( جو باہم سمجھوتے سے طے پائیں ) جلد تر اختیار کر کے اپنے محب وطن ہونے کا حقیقی ثبوت پیش
مضامین بشیر جلد چهارم 542 کریں گے.ورنہ موجودہ حالات جو دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں.ملک کیلئے خطر ناک تباہی اور مہلک خانہ جنگی کا باعث بن جائیں گے.اس تجویز کے متعلق جو فی الحال صرف وقتی اثر رکھتی ہے اور جس میں مرکز کے نظام کو نظر انداز کیا گیا ہے، غور کرتے ہوئے اس بات کو بھی یا درکھنا چاہئے کہ باہمی سمجھوتے خواہ وہ افراد کے درمیان ہوں یا قوموں کے درمیان کبھی بھی قربانی کی روح اور فیاضانہ اخلاق کے بغیر طے نہیں پاسکتے.جس کے لئے سب قوموں کو دل کی کامل صفائی اور خلوص نیت کے ساتھ تیار ہونا چاہئے ورنہ خواہ قانون کی نظر میں ذمہ دار لوگ بَری سمجھے جائیں.وہ کبھی بھی خالق و مخلوق کی نظر میں بری قرار نہیں دیئے جاسکتے.بہر حال تجاویز کا ڈھانچہ یہ ہے کہ (1) ہر صوبہ میں لازماً مخلوط وزارت بنائی جائے سوائے اس کے کہ کوئی اقلیت والی قوم یا پارٹی مخلوط وزارت بنانے میں اکثریت کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار نہ ہو.جس صورت میں کہ اکثریت والی قوم یا پارٹی کو یہ حق حاصل ہو کہ عدم تعاون کرنے والی قوم یا پارٹی کو نظر انداز کر کے تعاون کرنے والی قوموں یا پارٹیوں کے ساتھ مل کر مخلوط وزارت بنالے اور اگر اقلیت والی قوموں یا پارٹیوں میں سے کوئی ایک بھی تعاون کے لئے تیار نہ ہو.تو اس صورت میں اکثریت والی قوم یا پارٹی کو خودا کیلے ہی وزارت بنانے کا حق ہو اور گورنر کا فرض ہو کہ اس کام میں ایسی پارٹی کو پوری پوری مدد دے.اس بات کا فیصلہ کہ کوئی قوم یا پارٹی تعاون کے لئے تیار ہے یا نہیں گورنر کے ہاتھ میں ہوگا.(2) سوائے اس کے کہ باہم اتفاق رائے سے کوئی اور فیصلہ ہو.وزارت میں ہر قوم یا پارٹی کا حصہ اس کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مقرر کیا جائے اور کسر کو اقلیت والی قوموں یا پارٹیوں کے حق میں پورا کیا جائے.بشرطیکہ اس کے نتیجہ میں اکثریت والی قوم یا پارٹی اپنی اکثریت کے مقام کو نہ کھو بیٹھے.پنجاب میں سکھوں کی جذباتی دلداری کے لئے ان کے مخصوص حالات کے پیش نظر ( کہ وہ پنجاب سے باہر عملا نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان کے لئے جو کچھ ہے پنجاب ہی ہے اور اس میں بھی وہ صرف تیرہ فی صدی ہیں ) سکھوں کو پنجاب کی وزارت میں ان کی آبادی سے کچھ زیادہ حق دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کے بعد وہ تعاون کے لئے تیار ہوں.یہ زائد حق مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے حصہ میں سے دیا جائے.مسلمانوں کے حصہ میں سے اس لئے کہ وہ اکثریت میں ہیں اور جہاں تک کہ وہ اپنی اکثریت کو خطرہ میں ڈالنے کے بغیر قربانی کرسکیں انہیں کرنی چاہئے اور ہندوؤں کے حصہ میں سے اس لئے کہ ایک تو آج کل ان کا اور سکھوں کا گویا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دوسرے جو قوم اقلیت میں ہے اس کے لئے یہ فرق چنداں اہمیت نہیں رکھتا تھا کہ اسے مثلاً
مضامین بشیر جلد چهارم 543 انتیس 29 فی صدی حصہ ملتا ہے یا کہ ستائیں 27 فی صدی.(3) وزیر اعظم اور سپیکر لازماً اکثریت والی قوم یا پارٹی کے ہوں.سوائے اس کے کہ اکثریت والی قوم یا پارٹی از خود اس حق کو عارضی طور پر کسی دوسری قوم یا پارٹی کی طرف منتقل کر دے.(4) قلمدانوں کی تقسیم وزیر اعظم کے اختیار میں ہو مگر اس سے توقع کی جائے کہ وہ مختلف قوموں یا پارٹیوں کی ضرورت اور مناسبت کو واجبی طور پر لوظ رکھے گا.اور بہر حال گورنر کے مشورہ کے بعد آخری فیصلہ دے گا.(5) ہر اس قوم یا پارٹی کو وزارت میں حصہ دار بننے کا حق ہو جس کا اس صوبہ کی آبادی میں جس کی وزارت کا سوال در پیش ہو کم از کم آٹھ فی صدی یعنی بارھواں حصہ ہے.اس سے کم آبادی والی قوم یا پارٹی کو (اگر اسے وزارت میں حصہ نہ ملے تو ) پارلیمنٹری سیکرٹریوں اور انڈرسیکرٹریوں وغیرہ کی صورت میں مناسب حصہ دیا جاوے، اس مزید شرط کے ساتھ کہ ہندوستان دو بڑی قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں ( جن پر ملک کے امن کا زائد از اشتی 80 فیصدی دارو مدار ہے لازماً ہر صوبہ میں کم از کم ایک وزارت ملے.خواہ کسی صوبہ میں ان کی تعداد آٹھ فی صدی سے کم ہی ہو.(6) وزارت بنانے کے لئے ان قوموں یا پارٹیوں کے نمائندوں سے وزیروں کا انتخاب کیا جائے جو صوبہ کی اقوام یا مجالس قانون ساز کے ارکان میں سب سے زیادہ اکثریت رکھتی ہوں مثلاً موجودہ حالات کے لحاظ سے مسلمانوں میں مسلم لیگ.سکھوں میں پنتھک پارٹی وغیرہ وغیرہ.البتہ ہر قوم کو یہ اختیار ہو کہ وہ کسی اور قوم یا پارٹی کے نمائندوں کو اپنے حصہ میں اپنے ساتھ شامل کر لے.(7) ہندوستان کی موجودہ سیاسیات میں اوپر کی اغراض کے ماتحت ہندوؤں، مسلمانوں، اچھوت اقوام ،سکھوں ، ہندوستانی عیسائیوں، پارسیوں اور قبائل مخصوصہ کو مستقل قوموں اور پارٹیوں کی حیثیت میں تسلیم کیا جائے.اگر کسی صوبہ میں جس میں قبائل مخصوصہ آٹھ فی صدی یا اس سے زیادہ ہوں.کوئی شخص قبائل مخصوصہ میں سے وزارت کا اہل نہ ملے.(جس کا فیصلہ گورنر کے ہاتھ میں ہوگا ) تو جس قوم یا پارٹی کی طرف اس صوبہ کے قبائل مخصوصہ کا زیادہ رجحان ہو.(اس کا فیصلہ بھی گورنر کے ہاتھ میں ہوگا ) اس قوم یا پارٹی کو وزارت میں اس صوبہ کے قبائل مخصوصہ کی نمائندگی کا حق ہوگا اور بصورت دیگر گورنر خود اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ کسی قوم یا پارٹی یا کس کس قوم یا پارٹی کو اس صوبہ کی وزارت میں قبائل مخصوصہ کی نمائندگی کا حق ملنا چاہئے (خیال رہے کہ اچھوت اقوام سے قبائل مخصوصہ جدا گانہ حیثیت رکھتے ہیں اور زیادہ تر آسام.بہار اور سی.پی
مضامین بشیر جلد چهارم 544 وغیرہ میں پائے جاتے ہیں ) (8) ہر ا کثریت والی قوم کے لیڈر ہر صوبہ کی مجلس قانون ساز میں صاف اور غیر مشکوک الفاظ میں یہ اعلان کریں کہ وہ اپنے صوبہ کی اقلیتوں کے ساتھ نہ صرف پورے پورے انصاف بلکہ دلی ہمدردی اور شفقت کا سلوک کریں گے.(9) کوئی ایسا قانون جس کا کسی قوم کے خلاف مخصوص اور امتیازی اثر پڑتا ہو.اس وقت تک نافد نہ کیا جائے جب تک کہ اس قوم کے نمائندوں کی اکثریت اس کے حق میں نہ ہو.اس بات کا فیصلہ کہ کسی قانون کا کسی قوم کے خلاف مخصوص اور امتیازی اثر پڑتا ہے یا نہیں ، گورنر کے ہاتھ میں ہو اور گورنر کے فیصلہ کے خلاف ہر پارٹی کو فیڈرل کورٹ میں جانے کا حق ہو.10) اوپر کا نظام جو صرف عارضی حیثیت رکھتا ہے اس وقت تک قائم رہے جب تک کہ ہندوستان کے مستقبل کے متعلق کوئی مستقل اور مسلمہ فریقین کا سمجھوتہ نہ ہو جائے مگر یہ ضروری ہوگا کہ یہ عارضی انتظام سارے صوبوں میں بیک وقت جاری کیا جائے.اوپر کی تجاویز صرف ذاتی حیثیت میں پیش کی جارہی ہیں.انہیں کسی قوم یا پارٹی کی طرف منسوب نہ کیا جائے.ان کی غرض و غایت صرف اس قدر ہے کہ مستقل فیصلہ سے قبل عارضی طور پر ملک کی فضا میں اصلاح پیدا کی جائے.گوا تفاق رائے کے ساتھ ان میں سے بعض تجاویز مستقل سمجھوتہ میں بھی شامل کی جاسکتی ہیں.بالآخر قارئین کرام کو یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ خدا کی طرف سے دنیا میں دو قانون جاری ہیں.ایک مادی اور دوسرے روحانی.پس جملہ اقوام کو چاہئے کہ اس نازک وقت میں مصالحت کے مادی اسباب کو اختیار کرنے کے علاوہ روحانی اسباب یعنی دعا اور صدقہ و خیرات سے بھی کام لیں کیونکہ تکلیف کے اوقات میں دل سے نکلی ہوئی دعا کو وہ طاقت حاصل ہوتی ہے جو زبر دست سے زبر دست مادی اسباب کو بھی حاصل نہیں ہوتی.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِي الْعَظِيمِ - روزنامه الفضل قادیان 21 اپریل 1947 ء )
مضامین بشیر جلد چهارم امتحان میں پاس ہونے کے گر 545 اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ طالب علم محنت کر کے امتحان کیلئے مقررہ کتا ہیں تو تیار کر لیتے ہیں لیکن امتحان دینے کے طریق اور فن کو نہیں جانتے.اس کی وجہ سے بہت سے طالب علم با وجود تیاری کے امتحانوں میں فیل ہو جاتے ہیں.یا کم از کم اتنے نمبر حاصل نہیں کر سکتے جو انہیں تیاری کے لحاظ سے حاصل کرنے چاہئیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ امتحان پاس کرنا یا امتحان میں اعلیٰ نمبر لینا صرف علمی تیاری پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے لئے چند زائد باتیں بھی درکار ہیں جن کا خیال رکھا جانا ضروری ہے.دراصل جو باتیں امتحان پاس کرنے یا اعلیٰ نمبر حاصل کرنے میں ممد و معاون ہیں ان میں سے بعض کے لحاظ سے امتحان دینے والے کی مثال ایک دکان دار کی سی ہے.اگر ایک دکان دار کے پاس مال تو بہت ہے لیکن اس نے اپنے مال کو دوکان میں کسی اچھی ترتیب سے نہیں رکھا اور نہ ہی اس کی صفائی کا خیال کیا ہے بلکہ اس کا مال ایک انبار کی صورت میں بے ترتیبی اور ابتری کے ساتھ گردوغبار کے ساتھ ڈھکا ہوا ادھر ادھر پڑا ہے تو ایسا مال کبھی بھی خریدارکوخوش کرنے اور دکان میں کشش پیدا کرنے کا باعث نہیں ہوگا.لیکن اگر خواہ مال تھوڑا ہو مگر وہ ایک ترتیب کے ساتھ سجا کر دکان میں رکھا جائے اور ہر چیز صاف اور ستھری صورت میں رکھی ہو تو باوجود وہ مال کے کم ہونے کے ایسی دکان گاہک کی خوشی اور کشش کا باعث ہوگی.اسی طرح امتحان دینے والے طالب علم کا حال ہے اگر ایک امیدوار نے اپنے پرچے میں علم تو بہت بھر دیا ہے لیکن اس کے جوابات کا انداز ٹھیک نہیں، پرچے میں کوئی مؤثر ترتیب نہیں ، صفائی کا خیال نہیں ، خط خراب ہے، سطریں ٹیڑھی ہیں ، حاشیہ اچھا نہیں چھوڑا گیا اور دوسری ضروری باتوں کا خیال نہیں رکھا گیا تو باوجود اس کے کہ ایسے پرچے میں بہت کچھ علم ٹھونس دیا گیا ہوتو وہ متن کے دل پر اچھا اثر نہیں پیدا کرے گا.لیکن دوسری طرف اگر ایک طالب علم کے جوابوں کا انداز اچھا ہے اس نے ترتیب کا خیال رکھا ہے، صفائی کی طرف توجہ دی ہے، اور خط صاف ہے اور سطریں سیدھی لکھی ہیں، حاشیہ اچھا چھوڑا ہے اور دوسری ضروری باتوں کا بھی خیال رکھا ہے تو باوجود علم کی کمی کے ممتحن اس کے پرچے کو دیکھ کر خوشی محسوس کرے گا.خلاصہ یہ کہ گواصل چیز تو علم ہی ہے اور امتحان پاس کرنے کے لئے طالب علموں کے واسطے سب سے ضروری چیز علمی تیاری ہے لیکن وہ زائد باتیں جن سے امتحان پاس کرنے اور اچھے نمبر حاصل کرنے میں مددملتی ہے.اور ان سے ممتحن کی طبیعت پر اچھا اثر ڈالا جا سکتا ہے.انہیں بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہئے.
مضامین بشیر جلد چهارم 546 تجربہ کاروں کا اندازہ ہے کہ امتحانات میں اگر 75 فیصد علمی تیاری کا اثر ہوتا ہے تو 25 فیصدی ان زائد باتوں کا بھی ضرور اثر ہوتا ہے.اس لئے کسی سمجھدار طالب علم کو ان کی طرف سے غفلت نہیں برتنی چاہئے.اس مختصر نوٹ کے بعد ذیل میں وہ باتیں درج کی جاتی ہیں.جو گویا امتحان پاس کرنے کے لئے بطور گر کے ہیں اور امیدواروں کو چاہئے کہ انہیں مد نظر رکھ کر فائدہ اٹھائیں.(1) طالب علموں کو چاہئے کہ اخلاقی اور دینی لحاظ سے اپنے آپ کو بہت اچھی حالت میں رکھیں اور کسی ایسی بات کی طرف قطعاً توجہ نہ دیں.جو ان کے اخلاق یا دین پر کسی طرح برا اثر ڈالنے والی ہو اور نیکی پر قائم ہوتے ہوئے خدا سے دعائیں کرتے رہیں کہ وہ ان کا معین و مددگار ہو.امتحان کے کمرہ میں جا کر بھی پرچہ شروع کرنے سے پہلے ضرور دعا کر لیا کریں.دعا کرنے سے خدائی مدد کے علاوہ انسان کے دل میں تقویت اور امید پیدا ہوتی ہے اور کم ہمتی اور مایوسی پاس نہیں آتی.(2) امتحان کے قریب اور امتحان کے دنوں میں طالب علموں کو چاہئے کہ اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں.کچھ نہ کچھ وقت ورزش اور تفریح کے لئے ضرور نکالیں.اور نیند کو اتنا کم نہ کریں کہ وہ صحت یا دماغی حالت پر خراب اثر ڈالے.امتحان کے دنوں میں طالب علموں کو خصوصاً اپنی پوری نیند سونا چاہئے تا کہ امتحان کے کمرہ میں بے خوابی کی وجہ سے سر درد یا ستی یا تھکان یا نیند وغیرہ کا غلبہ نہ پیدا ہو.اور دماغ پوری طرح صاف اور ہوشیار رہے.اسی طرح یہ ضروری ہے کہ امتحان کے دنوں میں اپنی خوراک کو بہت ہلکا رکھا جائے اور کوئی ثقیل غذا یا دیر سے ہضم ہونے والی چیز ہرگز استعمال نہ کی جائے اور معدہ کو ایسی حالت میں رکھنا چاہئے کہ نہ تو اسہال کی صورت کہ امتحان کے کمرہ میں ہی رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہونے لگے.اور نہ ہی قبض کی صورت ہو جو گرانی اور سر درد وغیرہ کا باعث ہوتی ہے غرض امتحان کے دنوں میں ہر طرح اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور جن طالب علموں کو اس سے کسی تکلیف کا اندیشہ نہ ہو.انہیں چاہئے کہ امتحان کے ایام میں صبح اٹھ کر غسل بھی کر لیا کریں کیونکہ نہانے سے بدن میں چستی اور نشاط کی حالت پیدا ہوتی ہے.(3) یو نیورسٹی کی طرف سے جو رول نمبر ہر امید وار کو ملتا ہے اسے حفاظت کے ساتھ اپنے پاس رکھیں اور اس پر جو ہدایات درج ہوں انہیں اچھی طرح پڑھ کر سمجھ لیں اور ان پر عمل کریں اور امتحان میں جاتے وقت رول نمبر کا پرچہ اپنے ساتھ لیتے جاویں.(4) اگر ممکن ہو تو امتحان سے ایک دن پہلے یا کم از کم کچھ وقت پہلے امتحان کے کمرہ میں جا کر اپنی سیٹ کو دیکھ لینا چاہئے تاکہ عین وقت پر تلاش کرنے سے طبیعت میں گھبراہٹ نہ پیدا ہو.نیز اگر سیٹ میں کسی قسم
مضامین بشیر جلد چهارم کا نقص ہو تو افسر کو بر وقت توجہ دلا کر اس کی اصلاح کی جاسکے.547 (5) ہمیشہ وقت مقررہ سے کچھ وقت پہلے امتحان کے کمرہ میں پہنچ جانا چاہئے اور امتحان کے دنوں میں حتی الوسع اپنے پاس گھڑی رکھنی چاہئے تا کہ وقت کا اندازہ رہے.دیر کر کے پہنچنے سے بعض اوقات امتحان سے رہ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور بہر حال وقت کا ضائع جانا اورگھبراہٹ کا پیدا ہونا تو یقینی ہے.(6) امتحان کے کمرہ میں داخل ہونے سے پہلے اپنی جیبوں وغیرہ کو اچھی طرح دیکھ کر اس بات کا اطمینان کر لینا چاہئے کہ کوئی کتاب یا نوٹ بک یا کاپی یا امتحان کے مضمون سے تعلق رکھنے والا کوئی کاغذ تمہارے پاس نہیں ہے.اگر کوئی ایسی چیز تمہارے پاس ہو تو اسے باہر ہی چھوڑ آنا چاہئے.یا امتحان کے سپرنٹنڈنٹ یا سپر وائزر کے پاس رکھ دینا چاہئے بعض اوقات غلطی سے کوئی قابل اعتراض چیز ساتھ چلی جاتی ہے اور پھر افسران کے نوٹس میں آنے پر امید وار مجرم قرار پاتا ہے.(7) ہر امیدوار کو چاہئے کہ امتحان کیلئے جن چیزوں کا انتظام امیدوار پر چھوڑا گیا ہے وہ اچھی صورت میں مہیا کر کے امتحان کے کمرہ میں اپنے ساتھ لیتے جاویں عموماً د وعدہ ہولڈر، ایک سیسہ کی پنسل، ایک سرخ اور نیلی پنسل ، ایک چاقو اور بڑکا ٹکڑا، اور سامان نھی اپنے ساتھ لے جانا چاہئے ان کے علاوہ اگر کسی طالب علم کو اپنی عادت کے مطابق کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہو اور قواعد کی رو سے اس کا ساتھ لے جانا منع نہ ہو تو وہ بھی ساتھ رکھی جاسکتی ہے.ہولڈروں کے نب ایسے ہونے چاہئیں جو پہلے سے کسی قدر استعمال کر کے رواں کر لئے جائیں نیز ڈرائینگ ، جیومیٹری، سائنس، جغرافیہ، تاریخ وغیرہ کے پرچوں میں طالب علموں کو چاہئے کہ اپنے ساتھ نقشہ کشی کا ضروری سامان لیتے جائیں اور جملہ شکلیں اور نقشے پوری احتیاط اور صفائی کے ساتھ تیار کریں.سلائی اور سوزنی وغیرہ کے عملی امتحانوں میں بھی ضروری سامان ساتھ رکھنا چاہئے.(8) دوران امتحان میں اگر کسی طالب علم کو کسی چیز کی ضرورت پیش آئے تو اسے چاہئے کہ اپنی جگہ کھڑا ہو کر منتظمین سے اپنی ضرورت بیان کر کے اپنی مطلوبہ چیز حاصل کر لے.کسی صورت میں امتحان کے وقت کسی دوسرے امیدوار کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرنی چاہئے.(9) بعض امید وار امتحان کے کمرہ میں جا کر اور سو پر وائزروں اور ممتحوں کے اجنبی چہروں کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں.جس کا اثر لازماً ان کے امتحان پر پڑتا ہے.یہ گھبراہٹ دراصل اعصابی کمزوری یا اجنبیت یا بزدلی کا نتیجہ ہوتی ہے مگر کوشش سے دور کی جاسکتی ہے.طالب علموں کو چاہئے کہ پورے عزم کے ساتھ اس قسم کی گھبراہٹ کا مقابلہ کیا کریں اور اسے کبھی بھی اپنے دل پر غالب نہ ہونے دیں.بلکہ اپنے اندر جرات اور
مضامین بشیر جلد چهارم 548 خود اعتمادی پیدا کریں.اور یقین رکھیں کہ وہ لوگ جو ان کے سامنے ہیں وہ ان کے دوست ہیں نہ کہ دشمن.اگر بالفرض وہ دشمن بھی ہیں تو ایسے دشمن ہیں جو مفتوح ہونے کے لئے ان کے سامنے لائے گئے ہیں.(10 ) جو کا پیاں جواب کیلئے دی جاتی ہیں انہیں جوابات شروع کرنے سے پہلے دیکھ لینا چاہئے کہ وہ پھٹی ہوئی اور خراب نہ ہوں اگر وہ خراب ہوں تو انہیں اسی وقت بدلوا لینا چاہئے اور کاپی کے اوپر جو ہدایات لکھی ہوئی ہوں ان کو اچھی طرح پڑھ کر سمجھ لینا چاہئے.اور ان کے مطابق عمل کرنا چاہئے.کاپی میں جو جگہ رول نمر اور مضمون و غیرہ درج کرنے کیلئے مقرر ہے اس میں شروع میں ہی ضروری اندراجات کر لینے چاہئیں اور کا پیاں واپس دینے سے پہلے انہیں آپس میں اچھی طرح سنتھی کر لینا چاہئے.جب سوالات کا پرچہ تقسیم کیا جائے تو اسے دعا کرنے کے بعد پڑھنا چاہئے.اور جواب شروع کرنے سے پہلے سوالات کا سارا پر چہ احتیاط سے پڑھ لینا چاہئے.اور پرچے کے شروع یا آخر یا درمیان میں اگر کوئی ہدایات درج ہوں تو انہیں بھی احتیاط کے ساتھ دیکھ لینا چاہئے.بعض اوقات یہ ہدایت درج ہوتی ہے کہ اتنے سوالوں میں سے صرف اتنے کر دیا یہ کہ سوالات کے فلاں فلاں حصوں کے جوابات الگ الگ کاپیوں میں لکھو وغیرہ وغیرہ.مگر بعض اوقات طالب علم ان ہدایات کو اچھی طرح نہیں پڑھتے اور نقصان اٹھاتے ہیں.بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوالات کے پرچے میں ایک صفہ ختم کر کے دوسری طرف بھی سوالات لکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر طالب علم غلطی سے صفحہ الٹا کر نہیں دیکھتے.اور جو سوالات پہلے صفحہ پر درج ہوتے ہیں انہی کے جواب لکھ کر امتحان سے اٹھ آتے ہیں.جس کا نتیجہ ظاہر ہے.پس امید واروں کو چاہئے کہ پر چہ سوالات کو الٹ پلٹ کر اچھی طرح تسلی کر لیا کریں کہ کوئی سوال رہ تو نہیں گیا.(12 ) اگر سوالات کا پرچہ دیکھنے سے تمہیں وہ مشکل معلوم ہوا ور تم سمجھو کہ تم اسے حل نہیں کر سکتے تو پھر بھی ہرگز نہ گھبراؤ کیونکہ گھبرانے سے مشکل میں زیادتی ہوگی نہ کہ کمی.اور دماغ اور بھی پریشان ہو جائے گا.بلکہ چاہئے کہ کوشش کر کے اپنی حالت میں سکون اور اطمینان کی حالت پیدا کر واور پھر دوبارہ سہ بارہ پر چہ کوغور سے دیکھو اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنی طبیعت کو اس طرف لگاؤ کہ تم کوشش کر کے پرچے کو یقیناً حل کر سکو گے.اس طرح تمہاری گھبراہٹ دور ہوگی اور جو پر چہ شروع میں مشکل نظر آتا ہے وہ سب کا سب یا اس کے بہت سے حصے تمہارے لئے آسان ہو جائیں گے.کسی پرچہ کے متعلق یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ ایسا مشکل ہے کہ تم اسے حل نہیں کر سکتے.بلکہ دلیری اور جرات کے ساتھ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ تم اگر کوشش کرو گے تو خدا کی مدد سے پرچے کو آسانی کے ساتھ حل کر سکو گے.یہ خیال تمہارے اندر ایک غیر معمولی ہمت پیدا
مضامین بشیر جلد چہارم 549 کر دے گا اور تمہارے دماغ کی بند کھڑکیاں کھل جائیں گی.اور تم دیکھو گے کہ جو چیز مشکل نظر آتی تھی وہ اب آسان ہو گئی ہے.اگر زیادہ گھبراہٹ ہو تو دو چار منٹ کیلئے پرچے کو ہاتھ سے رکھ دو اور آنکھیں بند کر کے خدا سے دعا کرو کہ وہ تمہیں سکون اور ہمت عطا کرے.اور جب دل ذرا ٹھہر جائے تو پھر دوبارہ پرچے کو اٹھا کر اس نیت سے پڑھو کہ اس دفعہ وہ تمہارے لئے مشکل نہیں رہے گا.غرض ہر جہت سے اپنی طبیعت میں اطمینان اور ہمت اور امید کو قائم رکھو اور گھبراہٹ کو اپنے پاس تک نہ پھٹکنے دو.(13 ) امتحان کے لئے تیاری کرتے وقت اور امتحان دیتے وقت کبھی یہ خیال نہ کرو کہ تم نے صرف امتحان پاس کرنا ہے اور بس.بلکہ یہ نیت رکھو کہ تم نے اعلیٰ نمبروں پر امتحان پاس کرنا ہے.اس سے تمہاری ہمت میں بلندی پیدا ہوگی اور تمہارے جوابوں کا معیار اونچا ہو جائے گا.امتحان کے کمرے میں آخر وقت تک یہ کوشش جاری رکھو کہ تمہارے جوابات کے وہ حصے جو بہتر بنائے جاسکیں وہ اپنی انتہائی حد تک بہتر بنا دیے جائیں تا کہ تم زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کر سکو.نیت کا اثر انسان کے اعمال پر پڑتا ہے.جو طالب علم صرف پاس ہونے کی نیت رکھتا ہے وہ کبھی بھی اچھے نمبر نہیں لے سکتا.بلکہ بسا اوقات ایسا طالب علم فیل ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی ذراسی غلطی اسے اس کے معیار سے نیچے گرا دیتی ہے.لیکن جو امید وار اعلیٰ نمبر لینے کا ارادہ رکھتا ہے اور اسی نیت سے اپنے جوابات لکھتا ہے وہ اگر کسی نقص کی وجہ سے اعلی نمبر نہیں بھی لے سکتا تو کم از کم پاس ضرور ہو جاتا ہے.پس پرچہ کرتے وقت ہمیشہ یہ نیت رکھو اور اسی کے مطابق کوشش کرو.کہ تم نے زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے ہیں.(14) جوابات کاپی کے صرف ایک طرف لکھنے چاہئیں اور دوسری طرف کو خالی چھوڑ دینا چاہئے.البتہ دوسری طرف سیسہ کی پنسل سے رف کام کیا جا سکتا ہے جو بعد میں پینسل سے چر پی کا نشان دے کر کاٹ دینا چاہئے.کاپی کے سیدھے طرف کافی حاشیہ چھوڑنا چاہئے جو کسی صورت میں صفحہ کی چوڑائی کے چہارم حصہ سے کم نہیں ہونا چاہئے.اسی طرح ہر صفحہ کے اوپر اور نیچے کچھ جگہ خالی چھوڑ دینی چاہئے اور بالکل کنارے تک صفحہ کو بھر دینا چاہئے.اچھا حاشیہ چھوڑنے اور اوپر اور نیچے جگہ خالی رکھنے سے تمہاری تحریر بہت خوبصورت نظر آئے گی اور متحن کے دل پر اچھا اثر پڑے گا.(15) جوابات دینے میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اسی ترتیب کو مدنظر رکھا جائے جو سوالات کے پرچے میں رکھی گئی ہے.بلکہ یہ ضروری ہے کہ پہلے ان سوالات کو کیا جائے جو امید وار کو اچھی طرح آتے ہوں.البتہ جو سوال کیا جائے اس کے مقابل پر حاشیہ میں اس سوال کا نمبر درج کر دینا چاہئے.مگر بہر حال پہلے وہ سوال
مضامین بشیر جلد چہارم 550 کرنے چاہئیں جو طالب علم کو اچھی طرح آتے ہوں.اس طرح ایک تو شروع میں ہی ممتحن کے دل پر اچھا اثر پڑے گا اور گویا تمہاری دکان کا ماتھا سج جائے گا اور دوسرے ابتداء میں ہی مشکل سوال میں پڑ جانے سے طالب علم کا قیمتی وقت ضائع نہیں ہوگا اور نہ ہی طبیعت میں گھبراہٹ پیدا ہو گی.ورنہ بعض اوقات شروع میں ہی مشکل سوالوں کو ہاتھ ڈال دینے سے اور پھر ان کو اچھی طرح حل نہ کر سکنے سے امیدوار ایسا گھبرا جاتا ہے کہ جو سوال اسے اچھی طرح آتے ہیں وہ بھی غلط ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس یہ نہایت ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان سوالوں کو کیا جائے جو آسان ہوں اور طالب علم آسانی کے ساتھ ان کا جواب دے سکتا ہو.البتہ جب ایسے سوالات کر لئے جائیں تو پھر بقیہ سوالات کی طرف توجہ دے کر انہیں بھی حتی الوسع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر وقت ہو تو کسی سوال کو بھی مشکل سمجھ کر چھوڑ نہیں دینا چاہئے.بسا اوقات ایک سوال جو شروع میں مشکل نظر آتا ہے وہ سوچنے اور غور کرنے سے آسان ہو جاتا ہے.اور اگر ایک سوال سارا نہ آتا ہو تو جتنا آتا ہو اتنا ہی کر دینا چاہئے.لیکن بہر حال پہلے ان سوالوں کو کرنا چاہئے جو ا چھی طرح آتے ہوں.( 16 ) ہر سوال کا جواب شروع کرنے سے پہلے سوال کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اس کا اصل منشاء کیا ہے اور طالب علم سے کیا پوچھا گیا ہے.بعض اوقات طالب علم بغیر سوال کو اچھی طرح سمجھنے کے اس کا جواب دینا شروع کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سوال کچھ اور ہوتا ہے اور جواب کچھ اور.بغیر سوال کو سمجھنے کے کبھی جواب دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.(17) حتی الوسع ایک صفحہ پر ایک ہی سوال کرنا چاہئے اور اگر کسی سوال کا جواب اس قدر مختصر ہو کہ وہ صفحہ کی تھوڑی سی جگہ لے کر ختم ہو جائے تو صفحہ کے نیچے یا کونے میں سرخ یا نیلی پنسل سے نمایاں کر کئے ” پی.ٹی.او یا ”آگے دیکھیں“ کے الفاظ لکھ دینے چاہئیں تاکہ ممتحن اسی جگہ پر چہ کو ختم نہ سمجھ لے.( 18 ) جواب لکھتے ہوئے سوال کی عبارت کو درج کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ صرف حاشیہ میں سوال کا نمبر درج کر دینا کافی ہوتا ہے.اگر ایک سوال کے کئی حصے ہوں تو حاشیہ میں حصہ کا نمبر بھی درج کر دینا چاہئے.سوال کی عبارت کو جواب کے ساتھ درج کرنا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ اس سے مفت میں طالب علم کا وقت ضائع ہوتا ہے اور یہ طرز دیکھنے میں بھی کچھ اچھی نہیں لگتی.البتہ اگر کوئی سوال ایسا ہو کہ کسی وجہ سے اسے جواب میں دہرانا ضروری ہو تو پھر اسے درج کرنا چاہئے.(19) سوالات کا جواب بالعموم مختصر اور ضروری حد تک محدود رہنا چاہئے.سوائے اس کے کسی سوال کا جواب تفصیل اور تشریح کے ساتھ دیا جانا ضروری ہو.غیر متعلق باتیں لکھنا اور فضول طور پر جواب کو لمبا کر دینا
مضامین بشیر جلد چهارم 551 وقت کو ضائع کرتا اور متحن کے دل پر برا اثر پیدا کرتا ہے.(20) بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ امیدوار کسی سوال کا جواب معین طور پر نہیں دے سکتا لیکن صحیح جواب سے ملتا جلتا جواب دے سکتا ہے اور جو بات پوچھی گئی ہے اس کا ایک مبہم اور منتشر مگر اصولی طور پر درست جواب اس کے ذہن میں ہوتا ہے.ایسی صورت میں امیدوار کو اس سوال سے ڈر کر اسے ترک نہیں کر دینا چاہئے بلکہ جس حد تک بھی وہ جواب دے سکتا ہے اسے درج کر دینا چاہئے.لیکن یہ ضروری ہے کہ ایسا سوال پر چہ کے آخر میں درج کیا جائے.اسی طرح بعض اوقات ترجمہ وغیرہ میں امیدوار کو کسی لفظ یا عبارت کا صحیح ترجمہ یاد نہیں ہوتا یا نہیں آتا مگر سیاق و سباق سے وہ اس کا مفہوم سمجھ لیتا ہے.ایسی صورت میں بھی اس حصہ کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے بلکہ ایسے لفظ یا عبارت کے مفہوم کو اپنے لفظوں میں ادا کر دینا چاہئے.مگر یہ بات ایسے رنگ میں ہرگز نہیں ہونی چاہئے کہ متن کو یہ خیال پیدا ہوکہ گویا اسے دھو کہ دیا جار ہا ہے.(21) جوابات میں حتی الوسع صاف اور سلیس اور شستہ عبارت لکھنی چاہئے اور مشکل اور غیر معروف الفاظ اور پیچدار فقرات سے حتی الوسع پر ہیز کرنا چاہئے.سادہ الفاظ مشکل الفاظ کی نسبت بہت زیادہ بہتر ہوتے ہیں اور ان میں غلطی کا امکان بھی کم ہوتا ہے.جو امیدوار مشکل اور غیر معروف الفاظ اور پیچدار بندشوں کے عادی ہوتے ہیں ان کی تحریر میں یقیناً دوسروں کی نسبت بہت زیادہ غلطیاں ہوتی ہیں اور ایک سمجھدار متحن کبھی بھی ایسی تحریر کو صاف اور شتہ تحریر پر ترجیح نہیں دے سکتا.البتہ جن امیدواروں کو زبان پر کسی حد تک قدرت حاصل ہو ان کے لئے حسب موقع اور حسب ضرورت اپنی تحریر میں زور اور بلندی پیدا کرنے کے لئے مناسب طریق اختیار کرنا مفید ہو سکتا ہے.مگر یہ ہر ایک کا کام نہیں ہے اور مبتدیوں کو بہر حال اس کوشش سے پر ہیز کرنا چاہئے.(22) جواب دینے میں اس بات کو خاص طور پر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ہر سوال کی اہمیت اور اس کے نمبروں کے مطابق اسے وقت دیا جائے اور ایسا نہ ہو کہ تھوڑے تھوڑے نمبروں والے سوالات پر لمبے لمبے اور غیر ضروری جوابات لکھ کر وقت کو ضائع کیا جائے.بلکہ ہر سوال کی اہمیت کے لحاظ سے اسے وقت دینا چاہئے.اکثر طالب علم پر چہ کے لمبا ہونے اور وقت کے کم ہونے کی شکایت کیا کرتے ہیں.اور بعض اوقات یہ شکایت درست بھی ہوتی ہے لیکن اکثر صورتوں میں امید واروں ہی کی غلطی ہوتی ہے کہ وہ مختلف سوالات کی اہمیت کا اندازہ نہیں کرتے اور غیر ضروری اور لاتعلق باتوں میں پڑ کر اپنے جوابات کو فضول طور پر لمبا کر دیتے ہیں.حالانکہ اگر ہر سوال کی اہمیت کا اندازہ کر کے وقت کو تقسیم کیا جائے تو عموماً پر چہ وقت
مضامین بشیر جلد چهارم 552 کے اندر اندر ختم کیا جاسکتا ہے.(23) جوابات لکھتے ہوئے پرچے کی ظاہری صفائی کا بہت خیال رکھنا چاہئے.کیونکہ متحن کے دل پر اس کا بہت اثر پڑتا ہے.خط صاف ہو اور آسانی کے ساتھ پڑھا جائے.سطر میں سیدھی ہوں.سطروں کے درمیان فاصلہ کم نہ ہو.پرچہ پر کسی قسم کا داغ اور دھبہ نہ پڑنے دیا جائے اور اگر کوئی حصہ کاٹا جائے تو وہ ایسے طور پر کاٹا جائے کہ پرچہ بدنما اور ناصاف نہ نظر آوے.پرچہ کی ظاہری خوبصورتی نہایت ہی ضروری اور اہم ہے جس کی طرف سے کبھی غفلت نہیں ہونی چاہئے.پرچہ کی خوبصورتی کو اس طرح بھی بڑھایا جاسکتا ہے کہ سوالوں کے نمبروں کے اوپر حاشیہ میں سرخ پنسل سے خط کھینچ دیا جائے اور اسی طرح جوابوں کے نمبروں پر اور دوسری جگہوں پر سرخ پنسل کا خط کھینچ دیا جائے.اس طرح پر چہ میں ایک قسم کی رنگینی اور خوبصورتی پیدا ہو جاتی ہے.الغرض خط کی عمدگی اور پرچے کی ظاہری صفائی اور خوبصورتی بڑی ضروری چیزیں ہیں اور ان کا پورا پورا خیال رکھنا چاہئے.(24) ہر سوال کا جواب ختم کرنے کے بعد اسے احتیاط کے ساتھ دہرا لینا چاہئے تا کہ کسی قسم کی غلطی نہ رہ جائے اور پھر آخر میں ایک یا دو دفعہ سارے پرچے کی مجموعی نظر ثانی بھی کر لینی چاہئے اور یہ نظر ثانی پوری احتیاط سے ہونی چاہئے.تا کہ اگر کوئی غلطی یا نقص رہ گیا ہو تو اسے درست کیا جا سکے.نظر ثانی نہایت ضروری ہے حتی کہ خواہ اس کی وجہ سے کوئی چھوٹا موٹا سوال ترک کرنا پڑے مگر نظر ثانی بہر حال ہونی چاہئے.گھڑی دیکھ کر وقت کے آخر میں نظر ثانی کے لئے مناسب وقت الگ کر دینا چاہے.جو طالب علم نظر ثانی نہیں کرتے وہ سخت نقصان اٹھاتے ہیں اور کئی غلطیاں جو نظر ثانی سے نکل سکتی ہیں ان کے پر چوں میں رہ جاتی ہیں.نظر ثانی کرتے وقت اس بات کے متعلق بھی تسلی کر لینی چاہئے کہ کوئی سوال یا اس کا کوئی حصہ جواب سے رہ نہ گیا ہو.(25) اکثر طالب علموں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ جلدی جلدی جوابات لکھ کر وقت سے بہت پہلے ہی کمرے سے نکل جاتے ہیں.یہ ایک بڑی نادانی کی بات ہے.آخر وقت تک بیٹھے رہنا چاہئے.اگر پر چہ بظا ہر چھوٹا نظر آتا ہے تو یہ نہ سمجھو کہ متن کا یہ منشاء ہے کہ بجائے تین گھٹنے کے صرف ڈیڑھ یا دو گھنٹے میں پر چہ ختم کر کے اٹھ جاؤ.بلکہ یقین رکھو کہ ممتحن تم سے زیادہ عظمند ہے.اور اس نے جو سوالات دئے ہیں وہ وقت مقررہ کے مطابق دئے ہیں.پس تمہیں چاہئے کہ اس صورت میں جوابات کو تفصیل اور تشریح کے ساتھ لکھو اور پورا وقت لے کر اٹھو.اور اگر شروع میں کوئی سوال مشکل سمجھ کر چھوڑ دیا تھا تو بقیہ وقت میں اسے سوچتے رہو.سوچنے سے عموماً مشکل سوال بھی حل ہو جاتا ہے اور اگر سارے سوالات کر بھی لئے ہوں تو پھر بھی وقت
مضامین بشیر جلد چهارم 553 سے پہلے اٹھ جانا دانشمندی نہیں ہے.بلکہ اس صورت میں بار بار نظر ثانی کر کے اپنے جوابات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہوتا کہ زیادہ سے زیادہ نمبر ملیں.(26) پرچے میں کسی طرح اپنا یا اپنے سکول کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہئے.اسی طرح کوئی بات ایسی نہیں لکھنی چاہئے جس سے امیدوار کی قوم اور مذہب کا پتہ چل سکے.بعض اوقات طالب علم زبان دانی کے پر چوں میں خط کے نیچے اپنایا اپنے سکول کا نام لکھ دیتے ہیں.یا اپنے کسی ہم قوم یا ہم مذہب شخص یا دوست کو نام لے کر مخاطب کر لیتے ہیں.یا کسی اور طرح اپنی قومیت اور مذہب کا اظہار کر دیتے ہیں.یہ سب باتیں خلاف قاعدہ اور نقصان دہ ہیں.(27) امتحان میں کسی قسم کا ناجائز ذریعہ استعمال کرنا شرافت اور اخلاق اور مذہب اور قانون کے بالکل خلاف ہے.اور جو امیدوار ایسا کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو اور اپنی قوم کو اور اپنی درسگاہ کے نام کو ایک ایسا داغ لگا دیتے ہیں جو پھر کبھی دھل نہیں سکتا.دیانت داری شریف انسان کا بہترین زیور ہے.اسے کسی غرض وغایت اور کسی قیمت پر بھی ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے اور یا درکھنا چاہئے کہ نا جائز مدد دینا بھی ایسا ہی برا ہے جیسے ناجائز مدد لینا.(28) مندرجہ ذیل ہدایت کو گو امتحان پاس کرنے سے براہ راست تعلق نہیں ہے لیکن امیدواروں کے فائدہ کے لئے یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ کامیابی اور نا کامی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.عام حالات میں جو طالب علم محنت کرتے ہیں اور صحیح طریق پر محنت کرتے ہیں اور امتحان بھی صحیح طریق پر دیتے ہیں وہ خدا کے فضل سے کامیاب ہوتے ہیں اور وہی امید وار فیل ہوتے ہیں جن کی تیاری یا امتحان دینے کے طریق میں کوئی نقص ہوتا ہے.لیکن بہر حال یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر خدانخواستہ نا کامی کی صورت ہو تو اس پر مایوس ہوکر بیٹھ نہیں جانا چاہئے اور نہ ہی بزدلوں کی طرح مایوسی کی حالت میں کسی لغو حرکت کی طرف مائل ہو جانا چاہئے.کئی ناکامیاں انسان کی آئندہ ترقی کا باعث بن جاتی ہیں.پس اگر تم کسی امتحان میں فیل ہو جاؤ تو اس ناکامی کو جواں مردوں کی طرح برداشت کرو.اور گو ایسے موقع پر صدمہ ہونا ایک طبعی امر ہے اور صدمہ نہ ہونا عموماً بے غیرتی کی علامت ہے لیکن اس صدمہ سے مایوسی میں پڑنے کی بجائے آئندہ زیادہ محنت کر کے فائدہ اٹھاؤ.اور اپنے خاندان اور قوم اور ملک کے لئے اچھا نمونہ قائم کرو.( مشکوۃ فروری 2001ء)
مضامین بشیر جلد چهارم مفیدترین زندگی 554 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے 1933ء میں ٹی.آئی.ہائی سکول قادیان کے میگزین کے سالانہ نمبر کے لئے درج ذیل مضمون تحریر فرمایا.آیئے اس متبرک تحریر کا مطالعہ کریں اور اپنا جائزہ لیں ) میں اس وقت انسانی زندگی کے مسئلہ پر کچھ کہنا چاہتا ہوں یعنی یہ کہ دنیا میں انسان امکانی طور پر کس کس رنگ میں زندگی گزار سکتا ہے اور زندگی کی وہ کونسی قسم ہے جو مفید ہونے کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے.غور کرنے سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اپنی غرض و غایت کے لحاظ سے انسانی زندگی مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم ہے.1.وہ زندگی جو انسان اپنی ذات کے لئے گزارتا ہے.2.وہ زندگی جو انسان اپنے اہل وعیال کیلئے گزارتا ہے.3.وہ زندگی جو انسان اپنے خاندان کے لئے گزارتا ہے.4.وہ زندگی جو انسان اپنی قوم کے لئے گزارتا ہے.5.وہ زندگی جو انسان اپنے ملک کے لئے گزارتا ہے.6.وہ زندگی جو انسان بنی نوع انسان کے لئے گزارتا ہے.7.وہ زندگی جو انسان گل مخلوقات کے لئے گزارتا ہے.8.وہ زندگی جو انسان خدا کے لئے گزارتا ہے.زندگی کی یہ تقسیم محض خیالی یا علمی تقسیم نہیں ہے بلکہ حقیقتا دنیا میں انسانی زندگی انہیں اقسام میں منقسم پائی جاتی ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں جس کی زندگی ان اقسام سے باہر بھی جا سکے.گو یہ ممکن ہے کہ انہیں اقسام کو کوئی شخص کسی دوسرے نام کے ساتھ پیش کرے.مگر یہ ایک محض اصطلاحی فرق ہوگا ورنہ حقیقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے.اب جب ہم ان اقسام پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نقشہ بالا میں زندگی کی اقسام (سوائے قسم نمبر 4 دونمبر 5 کے جو بعض صورتوں میں ایک دوسرے کے مقابل کم یا زیادہ وسیع ہو جاتی ہیں ) ایک طبعی ترتیب میں مرتب ہیں.یعنی پہلی قسم کی زندگی کی غرض و غایت کا دائرہ بہت ہی محدود ہے.دوسری قسم میں یہ دائرہ پہلی قسم کی نسبت کسی قدر وسیع ہے.تیسری میں اور زیادہ وسیع ہے.وعلی ہذا القیاس حتی کہ آخری قسم میں نیچے کی ساری اقسام شامل ہیں.یعنی جو انسان
مضامین بشیر جلد چهارم 555 خدا کے لئے زندگی گزارتا ہے ضروری ہے کہ اس کی زندگی عملاً نہ صرف خدا کے لئے بلکہ کل مخلوقات عالم کے لئے اور بنی نوع آدم کے لئے اور ملک وقوم کے لئے اور خاندان واہل وعیال کے لئے اور بالآخر خود اس کی ذات کے لئے وقف ہو.کیونکہ خدا کے لئے زندگی گزارنے کے مفہوم میں جملہ اقسام کی زندگی کی غرض و غایت شامل ہے.مگر اس کے الٹ نہیں ہے یعنی قسم اول میں قسم دوم شامل نہیں اور قسم دوم میں قسم سوم شامل نہیں.ایک دوسری جہت سے نقشہ بالا پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ پہلی تین قسم کی زندگیاں دراصل حیوانی زندگی کی قسمیں ہیں کیونکہ ان میں حیوانی خاصہ کے مطابق یا تو صرف اپنی ذات کی ضروریات پوری کرنے تک زندگی کا مقصد محدود رہتا ہے اور یا اپنے قریب یا دور کے رشتہ داروں تک پہنچ کر زندگی کی غرض و غایت ختم ہو جاتی ہے.پس ان تین قسموں میں سے خواہ انسان کسی قسم میں داخل ہو وہ حیوانی درجہ سے اوپر نہیں نکلتا.دراصل حیوانوں میں بھی مدارج ہیں سب سے ادنی اقسم حیوانوں میں وہ ہے جن کی زندگی کی غرض و غایت عملاً صرف انہی کی ذات تک محدود ہوتی ہے کیونکہ ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اہل زندگی ہوتی ہے.ان سے اوپر وہ حیوان ہیں جو اپنا ایک گھر بنا کر رہتے ہیں اور ان کی زندگی کی کشمکش خود ان کی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کا دائرہ ان کے اہل و عیال یعنی بیوی بچوں وغیرہ تک وسیع ہوتا ہے مگر اس حلقہ سے باہر ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.بیشتر حیوان اسی قسم میں داخل ہیں لیکن حیوانوں کی ایک قسم ایسی ہے جو اس سے بھی اوپر کا درجہ رکھتی ہے.اس قسم کے حیوانات خاندانوں اور قبائل کی صورت میں اکھٹے رہتے ہیں اور بسا اوقات ایک دوسرے کی خاطر قربانی کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا طریق اختیار کرتے ہیں.یہ قسم حیوانوں کی سب سے ترقی یافتہ قسم ہے.چنانچہ چیونٹی اور شہد کی مکھی وغیرہ اسی قسم میں داخل ہیں.ان تین قسموں سے او پر حیوانی زندگی کا دائرہ ختم ہو کر انسانی زندگی کا دائرہ شروع ہوتا ہے اور گوشاذ کے طور پر بعض حیوانات میں قومی یا ملکی یا نوعی زندگی کی جھلک بھی پائی جاتی ہے مگر حقیقتا یہ دائرہ حیوانی زندگی سے بالا ہے لیکن جس طرح حیوانی زندگی کے مختلف درجے اور طبقے ہیں اس طرح انسانی زندگی کے بھی مختلف درجے ہیں.یعنی کوئی انسان تو اپنی زندگی کی غرض و غایت کے لحاظ سے اپنے قومی دائرہ کے اندر محدود ہوتا ہے اور اس سے باہر اس کی ہمدردی اور اس کی قربانی اور اس کا تعاون نہیں جاتے.اور کوئی انسان قوم کی قیود سے نکل کر ملکی حدود تک اپنی ہمدردی اور قربانی اور تعاون کو وسیع کر دیتا ہے اور کوئی اس سے بھی آگے نکل کر گل بنی نوع انسان کی خدمت کو اپنا نصب العین بناتا ہے.اور قومی یا ملکی حدود اس کے راستے میں حائل نہیں
مضامین بشیر جلد چہارم 556 ہوتیں.اور پھر بعض انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگیوں کو جمیع مخلوقات عالم کی خدمت کے لئے وقف کر دیتے ہیں.یہ سب مختلف طبقے انسانی زندگی کے ہیں.اور جوں جوں انسان کی نظر بلند ہوتی جاتی ہے توں توں وہ اپنی زندگی کے مقصد اور غرض و غایت کو وسیع کرتا چلا جاتا ہے.مگر اس سے بھی اوپر ایک اور درجہ ہے جو دراصل ملکی (یعنی فرشتوں کی ) زندگی کی غرض و غایت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ درجہ خدا کی خاطر زندگی گزارنے کے ساتھ وابستہ ہے.خدا چونکہ ایک غیر مادی ہستی ہے اور فرشتے بھی عالم ارواح کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اس لئے حقیقتا زندگی کی یہ قسم فرشتوں کے ساتھ ہی خاص ہے.گویا زندگی کے مدارج کا آغاز حیوانیت سے ہو کر بالآخر ملکیت پر جا کر ختم ہو جاتا ہے اور دونوں کے درمیان انسان ہے جو دراصل حیوان اور ملک کے بین بین ایک معتدل ہستی ہے.ایک طرف انسان حیوانی جنس کے ساتھ ملتا ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ ملائک کا جوڑ ہے.قدرت نے اسے ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے دونوں ہمسائیوں کی زندگی کے دائرہ میں داخل ہوسکتا ہے.کیونکہ اس کی فطرت میں حیوانی اور ملکی دونوں قسم کے خمیر ودیعت کئے گئے ہیں، بالمقابل حیوانوں فرشتوں کے جو اپنے اپنے حلقہ کے اندر بالکل محصور ہیں اور اسے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے.اسی لئے انسان کا مرتبہ اپنی فطری طاقتوں کی وجہ سے فرشتوں سے بالا سمجھا گیا ہے.کیونکہ جہاں فرشتے اپنی ملکیت میں بطور ایک قیدی کے محصور ہیں وہاں جب انسان ملکیت کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ خود اپنے ارادے سے ملکیت کے مقام کو اپنے لئے پسند کر کے اور اسے بہتر سمجھ کر اس میں داخل ہوتا ہے لیکن اگر ایک طرف اس کے لئے اوپر چڑھنے کا راستہ کھلا ہے تو دوسری طرف اس کے واسطے نیچے گرنے کا بھی دروازہ بند نہیں ہے.اور اسی لئے جب انسان گرنے پر آتا ہے تو وہ حیوانی زندگی کے بھی ادنی ترین طبقہ تک جا پہنچتا ہے.چنانچہ بہت سے ایسے انسان نظر آئیں گے جن کی زندگی کا مقصد سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہوتا کہ کھائیں اور پیئیں اور اپنے نفس کی دوسری ضروریات کو پورا کریں اور جب موت آئے تو مر جائیں.یہ ایک بدترین قسم کی حیوانی زندگی ہے.مگر بہت سے انسان اس زندگی پر قانع نظر آتے ہیں.اس قسم کے لوگوں کو کسی دوسرے انسان یا کسی دوسری مخلوق یا کسی دوسری ہستی کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہوتا سوائے اس حد تک کے تعلق کے کہ وہ انہیں اپنے نفس کی ضروریات اور خواہشات کے پورا کرنے میں ممد و معاون بنائیں.ان کی تمام زندگی میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی کہ انہوں نے کبھی کسی دوسرے شخص کے لئے کوئی قربانی کی ہو یا کسی دوسرے کے ساتھ خود اُس کے مفاد کی خاطر تعاون سے کام لیا ہو.اور قسم دوم یا سوم کی زندگی گزار نے والے انسان تو بہت ہی کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں.حتی کہ شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ دنیا میں 70 یا 80
مضامین بشیر جلد چهارم 557 فیصدی انہیں حیوانی زندگیوں میں اپنی عمر بسر کر کے دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں اور انہیں کبھی بھی یہ توفیق نہیں ملتی کہ حیوانی دائرہ سے خارج ہو کر انسانیت کے دائرہ میں قدم رکھیں.جو شخص زندگی کی پہلی تین قسموں میں محصور رہتے ہوئے اپنے آپ کو انسان سمجھتا ہے وہ سخت غلطی خوردہ ہے.وہ کسی صورت میں ایک حیوان سے افضل نہیں سوائے اس کے کہ دل و دماغ کی نسبت اپنی حیوانیت کو آرام میں رکھنے اور فربہ کرنے کی زیادہ تدبیریں سوچ سکتا ہے.اور اس جہت سے اگر ایسے انسان کو حیوانوں سے بھی زیادہ گرا ہوا کہیں تو بے جانہ ہو گا.الغرض انسانیت کا پہلا مرتبہ یہ ہے (اور اس کے نیچے صرف حیوانیت ہی حیوانیت ہے) کہ انسان کی زندگی صرف اس کے نفس کیلئے یا اس کے اہل وعیال کے لئے یا اس کے خاندان اور قبیلہ کیلئے نہ ہو بلکہ اس کی وسیع قوم کے لئے ہو اور وہ اپنی ذاتی ضروریات اور اہل وعیال کی ضروریات اور خاندانی ضروریات کو قومی ضروریات کے مقابل پر قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہو.اور اس کی زندگی کے حرکت وسکون سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ صرف اپنی قوم کی خاطر جی رہا ہے.مگر یہ درجہ انسانی زندگی کے سب درجوں میں سے ادنیٰ اور ابتدائی درجہ ہے اور انسانیت کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو گل مخلوقات عالم کے فائدے کے لئے گزارے.یعنی نہ صرف ہر دوسرا خاندان اور ہر دوسری قوم اور ہر دوسرا ملک اور ہر دوسرا انسان اس کی قربانی اور اس کے تعاون سے حصہ پارہا ہو بلکہ نوع انسانی کی حدود سے باہر نکل کر اس کی زندگی دوسری مخلوقات عالم کیلئے بھی برکت اور رحمت کا موجب ثابت ہو رہی ہو.ایسا انسان ملکیت کے درجہ کو خارج از بحث رکھتے ہوئے اپنی انسانیت میں کامل سمجھا جائے گا اور جوں جوں اس کی قربانی اور اس کا اخلاص اور اس کی خدمت ترقی کرتے جائیں گے اس کا کمال زیادہ روشن ہوتا چلا جائے گا.لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے انسانی فطرت میں یہ طاقت ودیعت کی گئی ہے کہ وہ انسانیت کی مادی حدود سے نکل کر ملکیت کے دائرہ میں داخل ہو جائے.اس لئے وہ انسان جس کی نظر مخلوقات عالم تک وسیع ہو کر رک جاتی ہے کبھی بھی کامل انسان نہیں سمجھا جا سکتا.بلکہ کامل انسان وہ ہوگا جس کی نظر مخلوقات کے مقام کو سمجھتے ہوئے اپنے خالق کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے اور چونکہ خالق کی خدمت میں مخلوق کی خدمت طبعا شامل ہے اس لئے ایسے انسان کی زندگی خالق ومخلوق دونوں کے لئے وقف ہوگی اور یہی وہ اعلیٰ اور ارفع مقام ہے جس پر انسانی زندگی کا سلوک ختم ہوتا ہے.ایسا شخص اپنے نفس کو بھی زندہ رکھتا ہے اور اپنے اہل وعیال کو بھی پالتا ہے اور اپنے خاندان کی پرورش میں بھی حصہ لیتا ہے مگر چونکہ وہ سب کچھ خدا کی خاطر کرتا ہے اس لئے اس کی زندگی کا یہ حصہ بھی دراصل حیوانی نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ حقیقتا ملکیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.
مضامین بشیر جلد چہارم 558 یہ وہ مختلف درجے ہیں جن میں انسانی زندگی منقسم پائی جاتی ہے.اب ہر شخص خود سوچ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی زندگی کس قسم میں داخل ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اکثر لوگ دیانتداری کے ساتھ اس معاملہ میں غور کریں تو ان کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی زندگی ایک محض حیوانی زندگی ہے.ان کی زندگی کا مقصد اپنی ذات یا اہل و عیال یا خاندان کی ضروریات کے پورا کرنے کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا اور اس دائرہ سے باہر ان کے جتنے تعلقات ہوں گے ان کی بھی اصل غرض و غایت یہی ہو گی کہ وہ اپنی یا اپنے اہل وعیال یا اپنے خاندان کی ترقی اور آرام و آسائش کا سامان مہیا کریں.حقیقی معنوں میں انسانی زندگی بسر کرنے والے لوگ دنیا میں تھوڑے ہوتے ہیں تو پھر ان لوگوں کی تعداد تو بہت ہی کم ہے جو ملکی دائرہ میں داخل ہو کر کامل انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں.حالانکہ انسان کی پیدائش کی اصل غرض و غایت ہی یہ ہے کہ انسان خدا کیلئے زندگی گزارے.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذاريات : 57).یعنی ہم نے دنیا میں انس و جن کو صرف اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ ہمارے عبد بن کر زندگی گزار ہیں.اس جگہ عبادت سے صرف نماز اور روزہ وغیرہ کی معین رسمی عبادت مراد نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو اسی غرض سے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو خدا کے منشاء کے ماتحت چلائے اور ہر کام میں خواہ وہ دنیا کا ہو یا دین کا اس کے مدنظر خدا کی خوشنودی ہو اور اسی لئے خدا کی خاطر زندگی گزارنے میں حقوق العباد کی ادائیگی بھی شامل ہے کیونکہ جب کہ خدا نے دنیا کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اس کا منشاء ہے کہ ہر چیز اپنے مقررہ حلقہ کے اندر مفید طور پر زندگی بسر کرے تو لازماً اس کے عبد کا بھی یہی فرض ہوگا کہ وہ خدا کے منشاء کو پورا کرتے ہوئے خالق کی خدمت کے ساتھ ساتھ مخلوق کی خدمت کو بھی اپنا نصب العین بنائے.پس اے ہمارے عزیز بچو! آپ کو چاہئے کہ آپ اپنی زندگیوں کا مطالعہ کریں اور ہمیشہ کرتے رہیں اور اس بات کو دیکھتے رہیں کہ آپ کس قسم کی زندگی گزار رہے ہیں.اگر آپ دیکھیں کہ آپ کی زندگی صرف کھانے پینے اور اپنے نفس کی ضروریات پوری کرنے تک محدود ہے یا یہ کہ آپ کی زندگی کی غرض و غایت اپنے رشتہ داروں اور خاندان سے باہر نہیں جاتی اور آپ کے ساتھ کام اسی نیت کے ماتحت ہیں کہ ان سے آپ کی ذات کو یا آپ کے رشتہ داروں کو یا خاندان کو یا دوستوں کو ( کیونکہ دوست بھی دراصل رشتہ داروں کے حکم میں ہیں ) کوئی فائدہ پہنچ جائے اور آپ کی تعلیم بھی اسی غرض سے ہے کہ آپ مندرجہ بالا دائرہ کی ضروریات کو زیادہ بہتر صورت میں مہیا کر سکیں تو آپ یقین کریں کہ آپ کی زندگی دراصل ایک حیوانی قسم کی
مضامین بشیر جلد چہارم 559 زندگی ہے اور جس قدر جلد آپ اس زندگی کی لعنت سے نکل سکیں اتنا ہی اچھا ہے.کم سے کم مقصد جو آپ کو ابتداء میں اپنے سامنے رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ آپ انسانی زندگی کے دائرہ میں داخل ہو جائیں اور یہ نیت کر لیں کہ آپ کی زندگی صرف آپ کے نفس یا آپ کے خاندان کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنی قوم اور جماعت کے لئے ہے اور جو کام بھی آپ کریں اس میں قوم اور جماعت کی خدمت کو اپنا نصب العین بنا ئیں.یہ وہ ادنی ترین مقام ہے جس سے آپ انسان کہلانے کے مستحق ہو سکتے ہیں.مگر جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے انسان کی پیدائش کی غرض و غایت سے اس سے بھی بہت بلند ہے.پس آپ لوگوں کی صرف یہ کوشش نہیں ہونی چاہئے کہ حیوانیت کے مقام میں گرنے سے بچ جائیں کیونکہ تنزل میں پڑنے سے بچ جانا کوئی قابل تعریف خوبی نہیں ہے بلکہ خوبی یہ ہے کہ انسان اوپر کی طرف چڑھے.اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے بچے اپنا نصب العین اس ارفع مقام کو بنائیں گے جس کی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.آمین ( مشکوۃ مارچ 2005 ء بحوالہ ماہنامہ خالد دسمبر 1963ء)
مضامین بشیر جلد چہارم اعلانات.اشتہارات.اطلاعات 560 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست مع حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1 -> احباب کا شکریہ 2 -> اعلان ضروری 4 -> سالانہ رپورٹ بہت جلد دفتر میں پہنچ جانی چاہئے ( جلد 6 نمبر 41) ( جلد 6 نمبر 74) محکمہ تعلیم و تربیت سے متعلق ایک ضروری اعلان (21 فروری 1927ء) ( جلد 15 نمبر 6) ( جلد 65 نمبر 73) ( جلد 16 نمبر 3) ( جلد 17 نمبر 33) ( جلد 19 نمبر 152 ) 5 -> تعلیم و تربیت کی سالانہ رپورٹیں بہت جلد آنی چاہئیں 6 -> اعلان دوره انسپکی تعلیم وتربیت 7 -> خاندان حضرت مسیح موعود کیلئے درخواست دعا 8 -> سیرت المہدی کے متعلق ایک ضروری اعلان -> الحکم کے متعلق بزرگانِ ملت کی رائے 10 -> صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب لندن پہنچ گئے اخبار الحکم قادیان نمبر 20 و21-1936ء) 11-> صاحبزادہ مرز اظفر احمد صاحب بی.اے کی انگلستان کو روانگی (جلد 21 نمبر 35) ( جلد 21 نمبر 59)
مضامین بشیر جلد چهارم 12-> شکریہ احباب 561 (جلد 21 نمبر 92) 13-> منشی فخر الدین صاحب ملتانی کے شائع کردہ ترجمہ قرآن کریم پر ریویو جلد 22 نمبر (73) 14-> نظارتوں میں اہم تبدیلیاں ( جلد 24 نمبر 99) 15-> بٹالہ تحصیل کا بولنگ پروگرام 16-> قادیان کے غیر حاضر ووٹروں کی ضروری اطلاع ( جلد 25 نمبر (14) ( جلد 25 نمبر 18) 17-> ووٹران پنجاب اسمبلی قادیان کے متعلق ایک اور ضروری اعلان ( جلد 25 نمبر 19) ( جلد 28 نمبر 163 ) 18-> سیٹھ پیارے لال کے متعلق ارشاد 19-> نقشہ ماحول قادیان تیار ہے 20-> عزیز حمید احمد کی شادی پر شکر یہ احباب 21-> سرمہ نور کے متعلق آپ کی رائے ( جلد 28 نمبر 177) ( جلد 29 نمبر 259) ( جلد 30 نمبر 74،61،41) 2-> موتی سرمہ کے متعلق آپ کی رائے (جلد 31 نمبر (296) 23-> فولا داور الائنز تیار کرنے والی کمپنی کے متعلق آپ کی رائے 24-> ایک دوائی کی ضرورت ( جلد 35 نمبر 29) ( جلد 35 نمبر 54)
مضامین بشیر جلد چہارم پنجاب کی آبادی میں قوم وار تناسب مطابق مردم شماری 562 ( نمبر 1941 جلد 35) 26-> پنجاب کی تفصیلی مردم شماری کی ضرورت ہے ( جلد 35 نمبر 108 ) 27-> وزیر اعظم برطانیہ کے نام ضروری تار ( جلد 35 نمبر 172 ) تَمَّتْ بِالْخَيْر رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ