Mazameen-eBasheer Vol 3

Mazameen-eBasheer Vol 3

مضامین بشیر (جلد 3)

Author: Hazrat Mirza Bashir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف رہی۔ آپ نے نہایت جانفشانی سے سلسلہ کے استحکام کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جن کا علمی ، تربیتی اور اخلاقی فیضان ہمیشہ جاری رہے گا۔ آپ ؓ کی سلسلہ کے حالات پر خدا کے فضل سے بڑی گہری نظر تھی جب بھی اہم معاملہ یا واقعہ رونما ہوتا تو آپ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا عام فہم اور مدلل حل یا تشریح تفصیلاً ضبط تحریر میں لاتے اور پھر جماعتی اخبارات ورسائل میں شائع فرماتے۔ آپ کا یہ علمی، تربیتی اور روحانی سلسلہ تحریرات 1913 سے 1963 تک کے طویل عرصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ یوں  ہزاروں صفحات  پر مشتمل اس مجموعہ سے استفادہ جہاں بہت سے نازک اور دقیق علمی  اور معاشرتی موضوعات پر قابل قدر رہنمائی اور روشنی کا وسیلہ ہے وہاں یہ صفحات تاریخ احمدیت کے متنوع موضوعات کے لئے بھی گراں بہاسرمایہ ہے۔اس مجموعہ کی ابتدائی دونوں جلدوں کے آخر تفصیلی انڈیکس بھی موجود ہے۔


Book Content

Page 1

(صرف احمدی احباب کیلئے ) مضامین بشیر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے) جلد سوم (1959–1951)

Page 2

نام کتاب مضامین بشیر (1951ء.1959ء) جلد سوم اول

Page 3

iii بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں ایمان کو ثریا ستارے کی بلندی سے لے کر آنے والے مسیح کے متعلق یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ شادی کریں گے اور ان کے ہاں اولاد ہوگی.“ 66 (مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسی ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس پیشگوئی کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے.“ (ضمیمہ رسالہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337) الغرض آنحضور اللہ کی اس پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبشر اولاد سے نوازا.جس نے الہی تقدیر کے مطابق غیر معمولی دینی و علمی کارنامے انجام دینے کی توفیق پائی.ان با برکت وجودوں میں سے ایک قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے بھی تھے.10 دسمبر 1892ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس عظیم الشان فرزند کی ولادت کی یہ پیشگوئی فرمائی.يَأْتِی قَمْرُ الْأَنْبِيَاءِ - وَ أَمْرُكَ يَتَأَثْى - يَسَّرَا اللَّهُ وَجْهَكَ وَ يُنيرُ بُرْهَانَكَ سَيُوْلَدُ لَكَ الْوَلَدُ وَ يُدْنِي مِنْكَ الْفَضْلَ - إِنَّ نُورِی قَریب.یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام بن جائے گا.تیرے لئے ایک لڑکا پیدا کیا جائے گا اور فضل تجھ سے نزدیک کیا جائے گا یعنی خدا کے فضل کا موجب ہوگا....اور میرا نور قریب ہے ( شاید نور سے مراد پسر موعود ہو.)‘“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 220) اس پیشگوئی کے پانچ ماہ بعد 20 اپریل 1893ء کو مرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت ہوئی جو طبعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے لئے باعث مسرت اور خدا کے فضل و رحم کا موجب ہوئی.حضرت میاں صاحب کو اپنی تمام زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد عالیہ پورا کرنے کی توفیق ملی.بچپن میں ایک دفعہ حضرت میاں صاحب کی آنکھیں خراب ہو گئیں تو حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا

Page 4

iv بَرَّقَ طِفْلِی بَشِيرٌ جس کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو معجزانہ شفا عطا ہوئی.برق کے لغوی معنی وسعت ، بصیرت اور روشن نظر ہونے کے بھی ہیں.اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو عظیم الشان ذہنی وعلمی استعدادوں سے نوازا تھا.آپ نے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی خوب حاصل کی اور ہر میدان میں اپنی علمیت و قابلیت کا سکہ منوایا.قرآن کی تفسیر ہو یا کسی حدیث کی تشریح، سیرت کی بات ہو یا تاریخ کا کوئی واقعہ اپنی محققانہ رائے سے ہر پیچیدہ مسئلہ کو حل کر کے اسے آسان فہم انداز میں پیش فرمایا.سیرت خاتم النبین ، چالیس جواہر پارے، ہمارا خدا، تبلیغ ہدایت، حجۃ البالغہ اور سلسلہ احمدیہ بطور مشتے از خروارے اس کے عمدہ نمونے ہیں.آپ نے اپنے قلم کے نور سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی و براہین کو ایسے مدلل انداز سے پیش کیا کہ ان کو چار چاند لگا دیئے اور یوں يُنيرُ بُرْهَانَكَ کے صحیح مصداق ٹھہرے.آپ کی تحریر اثر انگیز ، سلیس، عام فہم اور ایسی مربوط ہوتی کہ قاری آپ کی تحریر میں ایسا مگن ہوتا کہ وہ اپنے آپ کو اسی ماحول میں محسوس کرتا ہے جس کا ذکر ہورہا ہو.الغرض حضرت میاں صاحب کے یہ علمی خزانے مختلف مضامین کی صورت میں جماعتی کتب ورسائل میں موجود ہیں.جن سے آپ نے جماعت کی علمی پیاس بجھائی.تربیتی مضامین سے زیادہ تر جماعت کی تعلیم و تربیت کے پہلو آپ کے پیش نظر ہوتے تھے.آپ کے اس علمی و تربیتی و روحانی مائدہ کا سلسلہ 1913ء سے 1963ء، 50 سال تک جاری رہا اور افراد جماعت اس چشمہ علم ومعرفت سے خوب فیضیاب ہوتے رہے.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے دور میں ان مضامین کو کتابی صورت دینے کا بیڑا اٹھایا اور مضامین بشیر جلد اول 2007ء میں اور جلد دوم 2011ء میں شائع ہوئیں.کتاب ہذا کی جلد سوم میں حضرت میاں صاحب کے 1951 ء سے لے کر 1959 ء کے مضامین اور جلد چہارم میں 1960 ء تا 1963ء میں الفضل اور دیگر اخبار و رسائل میں شائع ہونے والے 400 سے بھی زیادہ مضامین یکجا کر کے کتابی صورت میں پیش کئے جارہے ہیں.1950 ء سے قبل الفضل کے علاوہ دیگر اخبار و رسائل میں شائع ہونے والے مضامین ( جو قبل از میں جلد اول اور دوم کا حصہ نہ بن سکے تھے ) باب پنجم میں بطور ضمیمہ شامل کئے گئے ہیں.اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک مضمون اسلامی خلافت کا نظریہ پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے 3 اپریل 1952ء کے الفضل میں جماعتی موقف

Page 5

بیان فرماتے ہوئے اپنا وضاحتی نوٹ شائع فرمایا تھا، یہ اہم نوٹ بھی اس مضمون کے حاشیہ میں شائع کیا جا رہا ہے.خاکساران مضامین کی جمع و تدوین کے لئے تعاون کرنے والے جملہ احباب کا ممنون ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین مجلس انصار الله کے لئے یہ امر باعث سعادت ہے کہ اپنی ڈائمنڈ جوبلی کے 75 سالہ سنگ میل پر جماعت کے عظیم محقق و عالم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کے علمی وتربیتی مضامین پر مشتمل یہ کتب شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے.اس تاریخی موقع پر احباب جماعت کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں.اللہ تعالیٰ ان کتب کو ہر لحاظ سے بہت بابرکت اور نافع الناس بنائے اور احباب کو ان مضامین میں سے کما حقہ استفادہ کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 6

vi عرض ناشر الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ - اللہ تعالیٰ کے فضل و تائید کے ساتھ قیادت اشاعت مجلس انصاراللہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خواہش کو مضامین بشیر جلد سوم اور جلد چہارم اشاعت کی صورت میں پورا کرنے کی توفیق پارہی ہے.ایک دفعہ استاذی المحترم نے گفتگو کے دوران خاکسار سے کہا کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ ”میرے بعد میرے مضامین کو کتابی شکل ضرور دینا“ سو الحمد للہ اس وقت دو جلدیں تیار ہیں اور یہ دونوں جلدیں بالترتیب 1951 ء تا 1959 ء اور 1960 ء تا 1963 ء کے مضامین پر مشتمل ہیں.اس علمی اور روحانی مائدہ کو تیار کرتے وقت قارئین کے افادہ کے لئے درج ذیل امور کو مد نظر رکھا گیا ہے..آیات قرآنیہ میں جہاں بھی ”الخ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے یا نقطے تھے وہاں آیات مکمل کر دی گئی ہیں.ii.آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کو حوالہ جات سے مزین کر دیا ہے.نیز ترجمہ درج نہ ہونے کی صورت میں ان کا ترجمہ بھی بریکٹ میں دے دیا گیا ہے.iii.تمام عربی عبارات پر اعراب لگا دیئے ہیں.iv.ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے روحانی خزائن سے دے دیئے گئے ہیں.۷.مشکل الفاظ کے معانی بریکٹ میں دے دیئے ہیں.-V قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ موعود فرزند ہیں جو قلمی میدان میں آپ کے مد و معاون ثابت ہوئے.آپ کی علمی وفکری خصوصیات اس قدر اعلیٰ و نمایاں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام فرمایا تھا کہ يُنير بُرهَانَكَ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 172) یعنی یہ فرزند آپ کی برہان ( حجت قاطعہ ) کو واضح اور روشن کرے گا.آپ نے حسب ضرورت دین و دنیا کے قریبا ہر موضوع پر قلم اُٹھایا اور علم و معرفت کے موتی بکھیرے.اسلامی، جماعتی یا ملکی تاریخ کا مسئلہ ہو.آپ نے ہر میدان میں رہنمائی فرمائی.آپ کی تحریر کا ایک خاصہ یہ تھا

Page 7

vii کہ بزرگان سلسلہ اور کارکنان کی بیماری پر دعائیہ اعلانات کے ذریعہ یا ان میں سے کسی کی وفات پر صفات حسنہ کا ذکر کر کے جماعت کو ان کی جگہ لینے کی تلقین کرتے رہے.ان متنوع مضامین اور اعلانات واشتہارات کی تعداد ہزاروں میں ہے.صرف جلد سوم اور چہارم میں یہ تعداد 400 سے بھی زیادہ ہے.ان ہر دو جلدوں میں آپ کی طرف سے شائع ہونے والے اعلانات واشتہارات کو ہر باب کے اخیر میں مع حوالہ درج کر دیا گیا ہے جس سے افادہ کیا جا سکتا ہے تاہم ان اعلانات میں اگر کسی فرد کی کوئی سیرت بیان ہوئی ہے یا کوئی اسلامی یا فقہی مسئلہ درج ہوا ہے تو اس کو متن کا حصہ بنادیا گیا ہے.مضامین کو اکٹھا کرنے اور اس کے کچھ حصہ کو کمپوز کروانے میں نے سعادت پائی.لیکن پروف ریڈنگ میں بہت سے دوست احباب نے تعاون فرما یا بالخصوص غلطیوں کی نشاندہی کی.اس دوران نے نہایت عرق ریزی سے کام کیا اور نے اس طرف توجہ دلائی کہ حضرت میاں صاحب کے بعض مضامین روز نامہ الفضل کے علاوہ دیگر اخبار و رسائل کی بھی زینت بنتے رہے ہیں وہ بھی لینے چاہئیں.چنانچہ تلاش کر کے 40 کے قریب مزید مضامین مل گئے.ان کو بھی شامل کتاب کر دیا گیا اور 1950 ء سے قبل الفضل کے علاوہ دیگر اخبار ورسائل میں شائع ہونے والے مضامین کو جو جلد اول اور دوم کا حصہ نہیں بن سکے باب پنجم میں ضمیمہ کے طور پر شامل کتاب کیا گیا ہے.حضرت میاں صاحب کے مضمون ”اسلامی خلافت کا نظریہ میں عزل خلافت کا بھی ذکر ہے اس بارہ نے اس طرف توجہ دلائی کہ اس مضمون پر حضرت سید ناخلیفتہ امسیح الثانی نے اپنا وضاحتی نوٹ 3 اپریل 1952ء کے الفضل میں شائع فرمایا میں تھا.جس میں جماعت کا موقف بیان ہوا ہے.چنانچہ اس اہم نوٹ کو بھی حاشیہ میں دے دیا گیا ہے.اور اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ بِفَضْلِهِ قیادت اشاعت ایسے موقع پر مضامین بشیر کو مکمل کرنے کی سعادت پا رہی ہے جو تاریخ انصار اللہ کا سنگ میل ہے.جس سال مجلس انصار اللہ اپنے 75 سال پورے کرنے جا رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کتب کو تمام احباب کے لئے مفید بنائے اور جس تڑپ اور درد کے ساتھ حضرت میاں صاحب نے یہ علمی، تربیتی اور تبلیغی مضامین تحریر فرمائے ہم ان پر عمل کرنے والے ہوں.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے مضامین بشیر جلد اوّل

Page 8

viii کے پیش لفظ میں بجاطور پر تحریر فرمایا تھا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی سلسلہ کے حالات پر خدا کے فضل سے بہت گہری نظر تھی.جب کبھی بھی کوئی اہم معاملہ یا کوئی واقعہ رونما ہوا تو آپ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا حل یا تشریح تفصیلاً ضبط تحریر میں لائے اور پھر جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع فرمایا.آپ کا یہ علمی، تربیتی اور روحانی سلسلہ تحریرات 1913ء سے 1963 ء تک کے طویل عرصہ پر محیط ہے اور یہ قیمتی سرمایہ مختلف اخبارات ورسائل میں بکھرا پڑا ہے جس تک ہر فر د جماعت کی رسائی ممکن نہیں.“ اس مائدہ تک ہر فرد جماعت کی رسائی کی خاطر قیادت اشاعت نے چار جلدوں میں اشاعت کی سعادت پائی ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ

Page 9

1 57 97 169 211 325 403 471 559 ix انڈیکس ابواب مضامین باب باب اول 1951ء کے مضامین باب دوم 1952ء کے مضامین باب سوم 1953ء کے مضامین باب چهارم 1954ء کے مضامین باب پنجم 1955ء کے مضامین 1956ء کے مضامین باب 1957ء کے مضامین 1958ء کے مضامین باب نهم 1959ء کے مضامین

Page 10

X

Page 11

xi نمبر شمار 1 تفصیلی فهرست عناوین عنوان باب اول 1951 ء کے مضامین السلام عليكم ورحمة اللہ و برکاتہ میں ایک مومن کیلئے پیغام ہے 2 اصلاح کے دو مخصوص اور ممتاز میدان 3 پاکستان میں پارٹیوں کا قیام 4 ایک بزرگ درویش کا القاء ربانی ایک درویش کی خانہ آبادی عمل کے بغیر علم ایسے جسم کی طرح ہے جس میں روح نہیں 7 ربوہ سے پہلا ٹیلیفونک پیغام ملکی آزادی کا حصول اور اس کا قیام و لالہ ملا وامل صاحب کی وفات 10 رحمت خدا کی ہے اور تکلیف ہماری 11 اسلامی خلافت کا نظریہ 12 خلافت کا دور دائمی ہے یا کہ وقتی ؟ 13 ہمسایہ کے ساتھ حسن سلوک 14 اعلانات.اشتہارات - اطلاعات باب دوم 1952 ء کے مضامین عزیزم مرزا وسیم احمد سلمہ کی شادی 16 ڈھیلے کے ساتھ استنجا کرنا 17 ایک گمنام خط کی شکایت کا جواب صفحہ 1 3 4 10 14 15 17 19 19 23 24 28 49 52 54 57 59 59 229 62

Page 12

63 66 67 71 71 72 75 78 84 85 210 79 79 81 86 86 88 88 92 94 97 99 60 xii 18 جنت الفردوس کی خواہش کرو 19 حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر پہلی بیعت کہاں ہوئی تھی ؟ 20 حضرت مسیح موعود کے بعد پہلی بیعت خلافت کہاں ہوئی ؟ 21 | قادیان کے تازہ حالات اور دوستوں سے دعا کی تحریک 22 | حضرت اماں جان کی تشویشناک علالت اپنی دعاؤں میں عزم اور امید کی کیفیت پیدا کرو 24 | حضرت اماں جان کی تشویشناک علالت 25 صدقہ بھی دراصل ایک قسم کی دعا ہے 26 میاں عبداللہ خان صاحب پٹھان درویش مرحوم کے مختصر حالات 27 | حضرت اماں جان 28 | حضرت اماں جان کی نسل 29 صدقہ جیسا عمل صالح ہر گز ضائع نہیں جاتا 30 رمضان کے مبارک مہینہ میں یہ دعائیں نہ بھولیں 31 چنده امداد درویشان و فدیه ماه صیام 32 حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضہا کی آواز کا ریکارڈ 33 فدیہ کے مسئلہ کی اصولی تشریح 34 خیر خواہان پاکستان سے دردمندانہ اپیل 35 عزیزہ امتہ اللطیف ستمہا کی تقریب رخصتانہ 36 | اعلانات اشتہارات.اطلاعات باب سوم 1953 ء کے مضامین چالیس جواہر پارے کا عرض حال ایڈیشن اوّل

Page 13

100 102 103 121 122 125 132 138 144 160 161 163 166 169 171 171 171 176 181 183 191 xiii 38 مسئلہ ختم نبوت پر ایک مختصر رسالہ 39 قادیان میں ایک نومسلم خا کرو بہ کا انتقال 40 اشتراکیت اور اسلام -- چند اصولی اشارات 41 آخری عشرہ میں جماعتی دعاؤں پر خاص زور دیا جائے 42 رضوان عبد اللہ کی المناک وفات 43 کیا ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ رکھا ہے؟ 44 ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے نہیں کاٹا 45 اگر موت کا وقت مقرر ہے تو پھر مریض کا علاج بے سود ہے 46 تربیت اولاد کے دس سنہری گر 47 خدام الاحمدیہ کا مالی ہفتہ 48 یہ غرباء کی امداد کا خاص موسم ہے 49 مضامین قرآن 50 اعلانات.اشتہارات.اطلاعات 51 باب چہارم 1954 ء کے مضامین الفضل کے دوبارہ اجراء پر پیغام 52 ماہنامہ ” مصباح“ کی افادیت سے متعلق آپ کی رائے 3 دردناک حادثات اور ایسے حادثات کا حقیقی فلسفہ دو 54 دو دردناک حادثات “ والے مضمون سے متعلق 55 غریبوں کی امداد کا خاص موسم 56 اسلام میں استخارہ کا مبارک نظام اور بظاہر متضاد خوابوں کا فلسفہ 57 | ایک دلچسپ تصنیف ”بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز

Page 14

193 209 211 213 214 217 226 238 238 240 240 241 243 245 246 248 252 252 253 255 260 xiv 58 احمدیت کی ترقی کے متعلق شبہات کا ازالہ 59 اعلانات.اشتہارات.اطلاعات 60 الفضل کا دورِ جدید باب پنجم 1955 ء کے مضامین 61 ایک دوست کے دوسوالوں کا جواب 62 ایک دوست کے تین سوالوں کا جواب 63 فہرست مضامین سیرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم جلد سوم 64 فہرست مضامين سيرة خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک ضروری تصحیح 65 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جنازہ گاہ اور پہلی بیعت خلافت 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو مطلوب ہے 67 دین کا مرکزی نقطہ تقویٰ ہے جس کا مقام مومن کا دل ہے 68 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سفر یورپ کے لئے دعاؤں کی تحریک 69 مساجد کے اماموں کا واجبی اکرام ہونا چاہئے 70 اسلام کے متعلق ایک مختصر مگر جامع رسالہ لکھنے کی تجویز 71 ربوہ کے متعلق ایک مفتریا نہ پرا پیگنڈا کی تردید 72 تاریخ احمدیت کا ایک اہم مگر پوشیدہ ورق 73 سردار وریام سنگھ صاحب والے واقعہ کی چشم دید شہادت 74 سردار وریام سنگھ والے واقعہ کے متعلق ایک مزید شہادت 75 جماعت احمدیہ کے متعلق ایک اور جھوٹا پراپیگنڈا 76 دوست رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں 77 امۃ الرسول امتہ البشیر وغیرہ مشر کا نہ نام ہیں

Page 15

261 262 267 271 272 273 274 284 285 288 293 295 296 299 300 301 303 304 306 306 307 309 XV 78 مشرکانہ ناموں کے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب 79 چندوں کے متعلق جماعت کی اہم ذمہ داری 80 لیلۃ القدر کی مخصوص برکات 81 | اعتکاف بیٹھنے والوں کے لئے ضروری ہدایات 2 | رمضان میں کمزوری ترک کرنے کی تحریک دوستوں کی طرف سے دعاؤں کے خطوط 84 قرآن مجید کی عالی شان ڈیوڑھی اور بے مثال عقبی دروازہ احباب اخبار بدر کی خریداری کی طرف توجہ فرمائیں 86 پاگل خانہ کا عبرتناک منظر 87 سینما کے ضرر رساں پہلوؤں کی مختصر تشریح 88 متروکہ مکانوں کے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب 89 حج اور عید کے دن خاص دعاؤں کی تحریک 90 | احباب جماعت کے نام عیدالاضحیہ کا پیغام 91 | ایک تعزیتی مکتوب 92 حضرت اماں جی کی اندوہناک وفات 93 | حضرت اماں جی مرحومہ کے متعلق ہماری ہمشیرہ کے تاثرات بعض بیمار دوستوں کے لئے دعا کی تحریک 95 کچھ اپنی صحت کے متعلق 96 محترم حکیم فضل الرحمن صاحب کی وفات پر تعزیتی پیغام 97 آسان صاحب دہلوی کی وفات پر ایک مختصر نوٹ 98 مولوی عبد المغنی خان صاحب مرحوم 99 خدائی نشانوں کا غیر معمولی اجتماع

Page 16

316 317 317 323 325 327 329 332 334 335 336 339 343 343 346 347 351 356 356 364 367 xvi 100 حضرت مفتی صاحب کے لئے دعا کی تحریک 101 الفضل کی اشاعت کے لئے آپ کا ارشاد 102 آہ! در دصاحب بھی چل بسے 103 | اعلانات.اشتہارات.اطلاعات باب ششم 1956 ء کے مضامین 104 ریکارڈنگ مشین کے ذریعہ اسلام کے غلبہ کا پیغام 105 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین مقدس انگوٹھیاں 106 مولوی قطب الدین صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ مرحومہ 107 | دو مفید کتابیں 108 دوستوں کی خدمت میں دعاؤں اور صدقہ و خیرات کی تحریک 109 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ (12) حواری 110 رمضان میں خاص دعاؤں کی تحریک 111 فدیہ رمضان کی رقوم 112 مولوی عبدالسلام صاحب عمر کی وفات حسرت آیات 113 ایک غلط فہمی کا ازالہ 114 رمضان کی خاص دعائیں 115 کیا غیر مسلموں کی دعائیں بھی قبول ہوسکتی ہیں؟ 116 فدیہ کی رقم اب بھی ادا کی جاسکتی ہے 117 قرآن مجید کی دو مضبوط پناہ گاہیں 118 تبلیغ کے چار سنہری گر 119 | فضل عمر ہسپتال کا نام

Page 17

369 375 377 378 385 390 392 394 395 397 400 400 403 405 406 407 410 413 418 419 421 xvii 120 جماعت کے نوجوان دعاؤں میں شغف پیدا کر 121 | فتنہ مناتعین اور خلافت حقہ 122 نظارت اشاعت کی طرف سے شائع شدہ دو پمفلٹ 123 موجودہ فتنہ کے تعلق میں ایک اعتراض کا جواب 124 موجودہ فتنہ کے تعلق میں ایک اور اعتراض کا جواب 125 خلافت حیات روحانی کے تسلسل کا ایک ذریعہ ہے 126 تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اولڈ بوائز کے اجلاس پر پیغام 127 | قادیان جانے والے احباب کی خدمت میں ضروری نصیحت 128 مقدس مقامات قادیان کی مرمت کے لئے چندہ کی اپیل 129 ایک غلط فہمی کا ازالہ 130 رساله شرح القصيده 131 اعلانات.اشتہارات - اطلاعات باب ہفتم 1957 ء کے مضامین 132 فضل عمر ہسپتال ربوہ کیلئے چندہ کی تحریک 133 حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وفات پر ذکر خیر 134 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اہم مکاشفات 135 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہامات میں لطیف اشارات 136 پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق جماعت کی بھاری ذمہ داری 137 حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کا انتقال 138 - حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کی وفات پر ذکر خیر 139 کرنل ڈگلس کی وفات پر امام مسجد فضل لندن کے نام تار

Page 18

422 xviii 425 429 432 433 438 440 441 446 447 450 455 457 458 459 459 460 462 464 468 471 473 140 دوست رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں 141 ایک دوست کے چند سوالوں کا دو حرفی جواب 142 رمضان المبارک کے دس خاص مسائل 143 رمضان کا مقدس عہد 144 خدائی رحمت کی بے حساب وسعت 145 رمضان کا آخری عشرہ اور لیلۃ القدر 146 الفضل اور علامہ اقبال 147 ڈاکٹر غلام محمد صاحب کے ساتھ میری خط و کتابت 148 مجلس تجارر بوہ کے اجلاس کیلئے پیغام 149 عزیز مرز امبارک احمد کو روانگی کے وقت مشورہ 150 سوشل بائیکاٹ کا غلط الزام 151 حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب مرحوم 152 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام 153 ماہنامہ خالد کے خاص نمبر کے لئے پیغام 154 ملک عبد الرحمن صاحب خادم 155 قافلہ کی اجازت نہیں ملی 156 | انصار اللہ کا نصب العین 157 شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی وفات 158 مرکزیت کے چار بنیادی ستون 159 | اعلانات.اشتہارات - اطلاعات باب ہشتم 1958 ء کے مضامین 160 خادم صاحب بھی خدا کو پیارے ہوئے

Page 19

475 xix 478 488 496 496 497 503 503 508 512 518 523 524 525 527 529 535 537 538 539 542 545 161 مکرم ملک عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم 162 ذکر حبیب علیہ السلام 163 نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں 164 ایک نہایت مبارک تصنیف 165 برہمن بایه ( مشرقی پاکستان ) کے سالانہ جلسہ پر پیغام 166 ”پیغام صلح کی افسوسناک ذہنیت 167 رمضان کا فدیہ 168 رمضان کے مسائل کا خلاصہ 169 تاریخ اسلام کا عظیم ترین واقعہ 170 دوست رمضان کے عہد کو یا درکھیں 171 ہزار مہینوں کی ایک رات 172 وفات مسیح کے متعلق ایک دلچسپ مناظرہ 173 ربوہ کی یادگاری مسجد 174 سیرۃ المہدی حصہ چہارم و پنجم کا مسودہ 175 عیدالاضحیہ کی قربانیاں 176 اسلام میں خلافت کا نظام 177 | ہماری بھا وجہ صاحبہ کا انتقال 178 خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی کا انتقال اور ذکر خیر 179 کتاب ظہور احمد موعود مصنفہ محترم قاضی محمد یوسف صاحب پر تبصرہ 180 قبروں پر پھول چڑھانا 181 ایک نہایت ایمان افروز روایت 182 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام

Page 20

546 547 548 557 557 559 561 564 567 569 571 580 582 583 590 519 591 592 597 602 607 XX 183 مجالس خدام الاحمد یہ راولپنڈی ڈویژن کے اجتماع پر پیغام 184 لاہور میں حضرت مسیح موعود کا جنازہ 185 "سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے 186 جماعتی تربیت کیلئے ایک عمدہ درس گاہ 187 | اعلانات.اشتہارات - اطلاعات باب نہم 1959ء کے مضامین 188 نصرت الہی کا عجیب و غریب نشان 189 خادم صاحب مرحوم 190 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چار ممتاز صحابہ 191 مصلح موعود والی پیشگوئی مسیح موعود والی پیشگوئی کی فرع ہے 192 رمضان کی جامع برکات اور ہماری ذمہ داریاں 193 ہستی باری تعالیٰ کے متعلق فطرت کی آواز 194 حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کے لئے دعا کی تحریک 195 مسیح موعود عشق رسول کی پیداوار ہے 196 حضرت مسیح موعود کے ایک فوٹو کے متعلق 197 چوہدری عبداللہ خان صاحب کے لئے دعا کی تحریک 198 بعض خاص دعاؤں کی تحریک 199 مساجد کی رونق بنو اور دعاؤں پر زور دو 200 جماعتی اتحاد کی قدر و قیمت کو پہچانو 201 | حضرت اماں جان تو راللہ مرقدها 202 ایک غلطی کا ازالہ

Page 21

608 612 615 616 618 619 620 621 624 626 627 628 629 634 635 642 654 658 673 661 663 663 xxi 203 | حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی بیماری اور جماعت کا فرض 204 خلافت یعنی قدرت ثانیہ کا مبارک نظام 205 عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی علالت 206 ہر بلا کیں قوم را حق داده اند 207 میاں خدا بخش صاحب درویش فوت ہو گئے 208 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات و مکاشفات (بلا تشریح) 209 نذرمحمد صاحب افغان درویش کی وفات پر تذکرہ 210 | دعاؤں اور صدقات کی حقیقت 211 حضرت خلیفہ امسیح کے لئے کن الفاظ میں دعا کی جائے؟ 212 چوہدری عبداللہ خان صاحب کے اوصاف 213 خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم 214 حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے خاص دعا کی تحریک 215 | مصائب میں صبر کا کامل نمونہ 216 اڑیسہ کا نفرنس کے موقع پر پیغام 217 عیدالاضحی کی قربانیاں 218 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا مزعومہ واقعہ 219 | سحر والے مضمون کے متعلق ایک دوست کا سوال 220 احباب کی تعزیت کا شکریہ 221 خدام الاحمدیہ خدمت کے لئے تیار ہو جائیں 222 سوال کرنے سے بچو مگر سوالی کورڈ نہ کرو 223 محترم سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کے لئے دعا کی تحریک و, 224 دعا پھر دعا پھر دعا"

Page 22

xxii 225 رسالہ ” الفرقان“ کی توسیع اشاعت کے لئے تحریک 226 عید کی قربانیوں کا مسئلہ 227 میاں احمد دین صاحب در ویش قادیان کی وفات 228 | اس دیوانہ“ کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھو 229 خدام الاحمد یہ ربوہ کا تربیتی پروگرام 230 | تحریک جدید کی برکات 231 درخت نصب کرنے کا ہفتہ 232 حضرت خلیفہ مسیح کے لئے دعا کی تحریک 233 یہ تباہ کن سیلاب...خدا کی پناہ 234 جماعتی عہد یداروں کے انتخاب کے متعلق ضروری ہدایات 235 اپنی صحت کے متعلق حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کا اعلان 236 کیا روح سے رابطہ ممکن ہے؟ 237 | انسانیت کا کامل نمونہ 665 666 667 667 668 671 673 676 679 684 690 691 698 238 مجالس خدام الاحمد یہ راولپنڈی ڈویژن کے دوسرے سالانہ اجتماع کے موقع پر پیغام 707 239 ایک غیر احمدی افسر کی طرف سے دعا کی تحریک 240 مجالس اطفال الاحمدیہ اور ان کے نگرانوں کے لئے پیغام 241 خاندانی منصوبہ بندی 242 رسالہ ” عید کی قربانیاں“ 243 میرا پیغام برادرانِ چک منگلا کے نام 244 مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ کے تیسرے سالانہ اجتماع پر پیغام 245 | مجلس خدام الاحمد یہ خیر پور ڈویژن کے نام پیغام 246 | اعلانات.اشتہارات اطلاعات 609 710 711 732 733 734 735 737

Page 23

مضامین بشیر جلد سوم باب اوّل 1951ء کے مضامین 1

Page 24

مضامین بشیر جلد سوم السلام عليكم ورحمۃ اللہ و بر کان میں ایک مومن کیلئے پیغام اصلاح کے دو مخصوص اور ممتاز میدان پاکستان میں پارٹیوں کا قیام ایک بزرگ درویش کا القاء ربانی ایک درویش کی خانہ آبادی عمل کے بغیر علم ایسے جسم کی طرح ہے جس میں روح نہیں ربوہ سے پہلا ٹیلیفونک پیغام ملکی آزادی کا حصول اور اس کا قیام لالہ ملا وامل صاحب کی وفات رحمت خدا کی ہے اور تکلیف ہماری اسلامی خلافت کا نظریہ اشتراکیت اور اسلام ہمسایہ کے ساتھ حسن سلوک اعلانات.اشتہارات.اطلاعات 2

Page 25

1 مضامین بشیر جلد سوم 30 اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں ایک مومن کیلئے پیغام ہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام ہندوستان کے احمدی احباب کے نام بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ برادران قادیان! خواہ آپ قادیان میں رہائش رکھتے ہیں یا کہ باہر سے آئے ہوئے مہمان ہیں.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اس وقت اعصابی تکلیف کی وجہ سے میں کوئی لمبا پیغام نہیں لکھ سکتا.مگر اس مقدس اجتماع کے موقع پر جو قادیان کے موجودہ دور کا غالبا چوتھا اجتماع ہے آپ صاحبان کی خدمت میں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةٌ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کا ہدیہ ارسال کرتا ہوں اور دراصل اس مختصر ہدیہ میں ہی ایک مومن کا سارا پیغام آ جاتا ہے اس مبارک تحیہ میں جو مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے کو پیش کرنے کے واسطے مقرر کیا گیا ہے، تین دعائیہ الفاظ ر کھے گئے ہیں یعنی سلام اور رحمت اور برکات.سلام کے لفظ میں تمام ان ارضی اور سماوی آفات سے حفاظت کی دعا ہے.جو ایک انسان کو دنیا اور آخرت کے سفر میں پیش آسکتی ہیں.اور رحمت کے لفظ میں اللہ تعالیٰ کے ان انعاموں کی طلب ہے جو عفو اور بخشش اور اکرام کے رنگ میں خدا کی طرف سے بندوں پر نازل کئے جاتے ہیں.اور برکات کے لفظ میں ان انوار کی طرف اشارہ ہے جو لوگوں کی بظاہر نا چیز اور حقیر مساعی کو ایک بیج کی طرح ترقی دے کر اولاً ایک درخت اور پھر ایک وسیع اور شاداب باغ یعنی جنت کی صورت دے دیتے ہیں.پس اے میرے عزیز و اور بھائیو اور بزرگو! آپ سب کو میری طرف سے سلام اور رحمت اور برکات کا تحیہ پہنچے کہ یہی ہم سب کی زندگیوں کا مقصد و منتہی ہے.ہم اس وقت بظاہر ایک دوسرے سے جدا ہیں.لیکن اصل اتحاد روح کا ہوتا ہے نہ کہ جسم کا.اور جب ہماری روحیں ایک دوسرے سے متحد ہیں تو جسموں کی ظاہر ادوری کوئی حقیقت نہیں رکھتی بلکہ روحوں کے مزید قرب کی بنیاد بنتی ہے.پس اس عارضی اور ظاہری دُوری سے دیگیر مت ہو کہ خدا کی نظر میں اصل چیز کام ہے نہ کہ مقام.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ اس کام کی طرف پوری پوری توجہ دیں

Page 26

مضامین بشیر جلد سوم 4 گے.جو خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ذمہ ڈالا ہے.اور اپنے عمل سے خدائی سلام اور رحمت اور برکات کے جاذب بنیں گے تو ہمارا آسمانی آقا اپنے فضل سے مقام کے مسئلہ کو بھی جلد حل فرمادے گا.کیونکہ جو قوم ساری دنیا میں صداقت کو غالب کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے وہ زیادہ دیر تک اس صداقت کے دائمی مرکز سے محروم نہیں رہ سکتی.سلام اور رحمت اور برکات کا مجسمہ بنتے ہوئے تبلیغ اور تربیت کی طرف توجہ دو کہ اسی میں آپ کی ساری جد و جہد اور اسی میں آپ کی کامیابی کا راز ہے.محرره 23 دسمبر 1950ء) روزنامه الفضل لاہور 3 جنوری 1950ء) 2 اصلاح کے دو مخصوص اور ممتاز میدان ہرمصلح مبلغ بھی ہونا چاہئے اور مربی بھی (ماخوذ از اخبار اصلح کراچی 15 دسمبر 1950 کراچی کے باہمت احمدی نوجوانوں نے ایک پندرہ روزہ اخبار الصلح جاری کر کے قرآنی پیشگوئی إِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر : 11) اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی ہے سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے کا ایک عملی ثبوت پیش کیا ہے.جو یقیناً ایک بہت ہی خوشکن اور قابل تعریف اقدام ہے.اگر اسی طرح دنیا کے مختلف حصوں میں احمدی جرائد جاری ہو کر اصلاح کے کام میں حصہ بٹانا شروع کر دیں.تو دنیا کے موجودہ فاسد خیالات کو صحیح راستہ پر ڈالنے میں بڑی مددمل سکتی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اخبار لمصلح کراچی کے عملہ کو صحیح رنگ میں کام کرنے کی توفیق دے اور ان کی کوششوں کو بار آور اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے آمین.خدام الاحمدیہ کے گزشتہ سالانہ اجتماع کے موقع پر امصلح کے آنریری ایڈیٹر تا ثیر صاحب نے مجھ سے اے خواہش کی تھی کہ میں بھی ان کے اخبار کے لئے چند سطور لکھ کر ان کی ہمت افزائی کروں.سو ہمت افزائی کرنا تو خدا کا کام ہے اور وہی تمام طاقتوں اور تو فیقوں اور تمام برکتوں کا سرچشمہ اور تمام کامیابیوں اور تمام با مرادیوں کا منبع ہے.لیکن ایڈیٹر صاحب کی خواہش کے احترام میں یہ خاکسار بھی ذیل کی چند سطور سپرد قلم کر

Page 27

مضامین بشیر جلد سوم ما 5 کے ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.سب سے پہلی بات تو یہ جاننی چاہئے کہ امصلح کا کام جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے اصلاح کرنا ہے اور اصلاح کے دو مخصوص اور ممتاز میدان ہیں جن کی طرف دنیا کے ہر مصلح اور ہر امام اور ہر رسول کی توجہ رہی ہے.کیونکہ ان کے بغیر کوئی اصلاحی پروگرام مکمل نہیں سمجھا جا سکتا.اول.غیروں میں تبلیغ اور دوم، اپنوں کی تربیت.غیروں میں تبلیغ سے یہ مراد ہے کہ جس صداقت کو لے کر کوئی جماعت اٹھتی ہے اسے دوسروں تک پہنچانا اور انہیں اپنے عقائد اور خیالات کا قائل کرنا.اور اپنوں کی تربیت سے یہ مراد ہے کہ جولوگ ہماری تبلیغ کو قبول کر کے الہبی جماعت میں شامل ہو جائیں.انہیں اس صداقت کی علمی اور عملی تفسیر پر پوری طرح قائم کر دینا اور قائم رکھنا.یہ وہ دو اصلاحی کام ہیں جو ہر صلح کے مشن کا لازمی حصہ ہوتے ہیں.اور اخبارالمصلح بھی جو ایک مصلح ربانی کے نام پر قائم کیا گیا ہے.اس قاعدہ کلیہ سے مستقلی نہیں ہوسکتا.قرآن شریف میں اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے.وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمُ (البقره: 130) یعنی یہ رسول (جو ابراہیم اور اسمعیل علیہم السلام کی دعا کے مطابق مبعوث کیا گیا ) لوگوں کو خدائی احکام کی تعلیم دیتا اور ان کی حکمت سمجھا تا اور انہیں اس کے ذریعہ پاک کرتا ہے.اس آیت میں کتاب اور حکمت کی تعلیم دینے کا کام تبلیغ سے تعلق رکھتا ہے اور پاک کرنے کا کام تربیت سے متعلق ہے.یعنی غیروں اور منکروں کو اپنے عقائد بتا کر ان کی حکمت سمجھائی جائے اور پھر جو لوگ مان لیں یا ماننے والوں کی آگے نسل پیدا ہو.ان کی زندگیوں کو اس کتاب و حکمت کے ذریعہ پاک کیا جائے.یہ وہ کام تھا.جو ہمارے آقا ( فرانہ نفسی) صلے اللہ علیہ وسلم نے سرانجام دیا.اور یہی وہ مقدس فریضہ ہے جو آپ کے ہر بچے متبع اور ہر مخلص خادم پر عائد ہوتا ہے.حق یہ ہے کہ ہر الہی جماعت کے وجود کے یہی دو حصے ہوتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک حصہ کو نظر انداز کرنے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جماعت کے آدھے دھڑ“ کو مفلوج کر دیا جائے.جس کے بعد یقیناً دوسرا نصف حصہ بھی ماؤف ہو کر جلد ختم ہو جائے گا.اگر جماعت میں بیرونی تبلیغ نہیں ہوگی تو جماعت کی ترقی بالکل رک جائے گی اور اس کے ساتھ ہی اس توجہ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جو ہرایسی جماعت کی طرف دوسرے لوگوں کو ہوا کرتی ہے.اور اگر جماعت کی اندرونی تربیت کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی تو دوسرے لوگوں کے مقابل پر جماعت کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہے گا اور ایک علیحدہ جماعت کا بنانا قطعاً بے سود ہوگا.یہ دونوں نہریں جن کے باطنی چشمے ایک دوسرے کے ساتھ ملتے اور ایک دوسرے کو مدد

Page 28

مضامین بشیر جلد سوم 6 پہنچاتے ہیں ہمیشہ متوازی چلنی چاہئیں ورنہ ایک نہر کے خشک ہونے میں دوسری نہر کی موت کا پیغام ہے اور دونوں کی زندگی خیال موہوم.پس ہر مصلح کا ( خواہ وہ انسان ہو یا ادارہ یا اخبار ہو یا رسالہ) یہ اولین فرض ہے کہ وہ ان ہر دو کاموں کی طرف یکساں توجہ دے.وہ معلم بھی ہو اور مزگی بھی.مبلغ بھی ہو اور مربی بھی.قرآن شریف ان دونوں کاموں کے متعلق نہایت لطیف ہدایتیں جاری فرماتا ہے.لیکن اس جگہ اختصار کے خیال سے میں صرف دو آیتوں کے ذکر پر اکتفا کروں گا.تبلیغ کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے.اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: 126) یعنی اپنے رب کے راستہ کی طرف لوگوں کو عقلی دلیلوں اور جذباتی وعظ ونصیحت کی باتوں کے ذریعہ دعوت دو.اور اگر ان کے ساتھ مجادلہ کی صورت پیدا ہو جائے تو صرف پختہ اور بہتر دلیلوں کے ساتھ مقابلہ کرو.یہ لطیف قرآنی آیت اسلامی طریق تبلیغ کی گویا جان ہے کیونکہ اس میں تین ایسی اصولی ہدایتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.جو تبلیغ کی کامیابی کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور ان کے بغیر کوئی تبلیغ خواہ وہ کتنی ہی بھاری صداقتوں اور کیسی ہی حکیمانہ باتوں پر مشتمل ہو کا میاب نہیں ہوسکتی.یہ تین ہدایتیں یہ ہیں.(1) صداقت کی تبلیغ میں عقلی دلیلوں کا استعمال تا کہ مخاطب یہ محسوس کرے کہ جو حقیقت میرے سامنے پیش کی جارہی ہے.وہ پختہ یقینی اور نا قابل تردید عقلی دلیلوں کے ذریعہ ثابت ہے.(2) جذباتی دلیلوں اور وعظ ونصیحت کی باتوں کا استعمال تا کہ مخاطب صداقت کی طرف طبعی کشش محسوس کرے اور قبول کرنے کے فوائد و انکار کرنے کے نقصانات بالکل عریاں ہو کر اس کی آنکھوں کے سامنے آجائیں اور وہ گویا اپنے روبرو جنت و دوزخ کا نظارہ دیکھنے لگے.(3) اگر فریق مخالف کے ساتھ مجادلہ اور مناظرہ کی صورت پیدا ہو جائے تو یونہی دلیلوں کی تعداد بڑھانے کی غرض سے رطب و یابس کا ذخیرہ پیش نہ کیا جائے.جس کی وجہ سے مخالف کو کمزور دلیل پر ہاتھ ڈالنے اور ایک جھوٹی خوشی حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے.بلکہ صرف پختہ اور مضبوط اور واضح دلیلوں پر اکتفا کی جائے.جو ہر جہت سے احسن ہوں.یہ وہ تبلیغ کے تین سنہری گر ہیں جن کی اسلام ہدایت دیتا ہے اور یقینا ہر وہ شخص جو ان تین اصولی ہدایتوں کو مد نظر رکھ کر تبلیغ کے میدان میں آئے گا وہ خدا کے برگزیدہ رسولوں کے ورثہ تبلیغ کا وارث بنے گا اور اس قرآنی بشارت سے حصہ پائے گا کہ كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي (المجادله : 22) یعنی خدا

Page 29

مضامین بشیر جلد سوم 7 نے یہ بات ازل سے لکھ رکھی ہے کہ میں اور میرے رسول بہر حال غالب رہیں گے.دنیا اس حقیقت کو مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک ابدی صداقت ہے کہ ہر کامیابی خدا کی طرف سے ہے اور ہر نا کامی انسان کی اپنی غلطیوں کا ثمرہ ہے.کاش لوگ اس حقیقت کو سمجھیں.دوسری طرف تربیت کے متعلق قرآن شریف بالکل ابتداء میں ہی اسلامی تعلیم کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے.الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَO وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ، وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ أُوْلَئِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمُ ، وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقره:4-6) یعنی خدا کی نظر میں بچے متقی وہ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو قائم کرتے ہیں.اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خدا کے رستے میں خرچ کرتے ہیں اور وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اُتارا گیا اور اس پر بھی جو تجھ سے پہلے اُتارا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر قائم ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو بالآخر بامراد ہوں گے.اس آیت میں اسلام کی تعلیم کا ایسا خلاصہ پیش کیا گیا ہے.جو گویا ایک مسلمان کی تربیت کا سنگ بنیاد ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمانیات کے میدان میں تم چند اصولوں کی صداقتوں پر جو تمہارے لئے غیب کا رنگ رکھتی ہیں ، ایمان لانے کے بغیر مومن نہیں سمجھے جاسکتے.خدا اور اس کے فرشتے اور اس کی کتابیں اور اس کے رسول اور یوم آخر اور قدر خیر وشر.اور عمل کے میدان میں دو باتیں تمہاری اسلامی تربیت کی جان ہیں یعنی نماز اور خدا کے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنا.ایمان کے میدان میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک آقا پر ایمان لاتے ہوئے اس بات پر یقین رکھے کہ اس نے اس دنیا کو یونہی کھیل کے طور پر نہیں پیدا کیا.بلکہ اس روحانی اور مادی کارخانے کو چلانے کے لئے اس نے ایک وسیع نظام قائم فرمایا ہے.اس نے لوگوں کے دلوں میں نیک تحریکیں پیدا کرنے اور بدیوں کے خلاف چوکس رکھنے کے لئے فرشتوں کو پیدا کیا ہے.اور پھر وقتا فوقتا الہامی کتابیں نازل کر کے لوگوں کی ہدایت کا سامان مہیا کیا ہے.اور ان کتابوں کے ساتھ رسول بھیجے تا کہ وہ لوگوں کے سامنے خدائی ہدایت کا عملی نمونہ پیش کریں اور پھر اس نے موعودہ دنیوی زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی رکھی ہے، تا لوگ اس دوسری زندگی میں اپنے نیک و بد اعمال کا بدلہ پا سکیں اور بالآخر دنیا کا قانون قضاء وقد ریعنی لاء آف نیچر (LAW OF NATURE) بھی خدا کا ہی

Page 30

مضامین بشیر جلد سوم 00 8 پیدا کردہ ہے.اور اس طرح روحانی اور مادی دونوں جہانوں میں ساری حکومت خدا کی ہے.اور اسی کی عبادت اور اسی کی رضا کے حصول میں اور پھر اسی کے جاری کردہ قانون قضاء و قدر کی روشنی میں انسان کو اپنی اپنی دینی اور دنیاوی زندگی گزارنی چاہئے.دوسری طرف عمل کے میدان میں دو بنیادی چیزوں کو چنا گیا ہے.اول نماز اور دوسرے خدا کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرنا.نماز خدا کا حق ہے جس کے ذریعہ خدا اور بندے کے درمیان روحانی تعلق قائم ہوتا ہے اور انفاق فی سبیل اللہ بندوں کا حق ہے جس کے ذریعہ نہ صرف غریب، امیر آپس میں بھائی بھائی بنتے ہیں بلکہ افراد کو جماعتی بوجھوں کا بھی ذمہ دار بنایا جاتا ہے اور افراد میں یہ احساس پیدا کیا جاتا ہے کہ جب تم ایک جماعت کے ساتھ وابستہ ہو.تو تمہارے لئے فرض ہے کہ اپنا سارا رزق صرف اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال کی ضرورت پر ہی خرچ نہ کرو بلکہ اس میں سے اپنے غریب بھائیوں اور اپنی جماعت کی اجتماعی ضرورتوں کا حصہ بھی نکالو اور اپنے اموال کو تبلیغ اور تعلیم کی ضروریات پر بھی خرچ کرو.اور اس طرح نماز اور انفاق فی سبیل اللہ کے حکم کے ذریعہ در اصل حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر دو میدانوں کے وسیع تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے.اور حق یہ ہے کہ اسی میں دین کا سارا خلاصہ آجاتا ہے.نماز سے غافل انسان محض ایک گوشت کا لوتھڑا ہے.جس میں روحانیت کی کوئی جان نہیں اور نہ اپنے خالق و مالک خدا کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہے.اور اپنا سارا رزق اپنے نفس اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کر دینے والا انسان جنگل کے ایک درندے سے بہتر نہیں.جسے نہ اپنے غریب بھائیوں کا کوئی احساس ہے اور نہ اپنی قوم اور جماعت کا کوئی درد ہے.پس اسلامی تربیت کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ایک طرف نماز کے ذریعہ خدا سے تعلق قائم کرو اور اس کی حیات بخش یاد کو اپنے دلوں میں تازہ رکھو.اور دوسری طرف خدا کے دیئے ہوئے رزق میں سے کچھ حصہ اپنے غریب بھائیوں کی امداد اور جماعتی بوجھوں ( مثلاً چندہ تعلیم وتبلیغ وغیرہ) کے اٹھانے میں خرچ کرو.جس شخص نے ان ذمہ داریوں کو اُٹھالیا.بلکہ میں کہوں گا کہ جس نے ان دو نعمتوں کو پا لیا.وہ خدا تعالیٰ کی اس ابدی ضمانت کا حق دار بن گیا کہ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقره: (6) یہی وہ لوگ ہیں جو با مراد ہوں گے.کاش لوگ حقیقت کو سمجھیں کہ نماز کے بغیر روح کی کوئی اصل میں لفظ درج نہیں غالباً حقیقت کا لفظ ہے.ناقل ) نہیں.یہ وہ فطری چشمہ ہے جس سے انسان کی روح بار بار جھک کر سیراب ہوتی ہے اور خدا کی یا دانسان کے سینے میں ایک نورانی شمع روشن کر دیتی ہے.اور کاش لوگ اس حقیقت کو بھی سمجھیں کہ ان کے ہر رزق میں ان کی جماعت کا بھی حصہ ہے.اور ان کے غریب بھائیوں کا بھی حق ہے.جس کے ادا کرنے کے بغیر وہ انسان

Page 31

مضامین بشیر جلد سوم 9 کہلانے کے حق دار نہیں ہو سکتے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مِمَّا رَزَقْنهُم يُنفِقُونَ (البقرہ: 4) کے الفاظ میں صرف مال کا خرچ کرنا ہی مراد نہیں.بلکہ ہر وہ چیز جو خدا کی طرف سے انسان کو ملتی ہے.وہ خدا کا دیا ہوا رزق ہے اور انسان کا فرض ہے کہ ہر ایسے رزق میں سے دوسروں کا حصہ نکالے.انسان کے قومی اس کا رزق ہیں.انسان کے اوقات زندگی اس کا رزق ہیں اور انسان کا علم بھی اس کا رزق ہے.پس ان تمام رزقوں میں سے خدا اور جماعت کا حق ادا ہونا چاہئے.کوئی احمدی سچا احمدی نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے مال کے علاوہ اپنی جسمانی طاقتوں اور اپنے اوقات زندگی اور اپنے کسب کردہ علوم کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ خدا کے رستہ میں خرچ نہ کرے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس طرح تبلیغ کے تین گر ہیں.اسی طرح تربیت کی بھی تین بنیادی چیزیں ہیں.اور ہر صلح کا فرض ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں ان تینوں باتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دے یعنی:.(1) لوگوں کے دلوں میں ان باتوں پر ایمان پیدا کرے جسے اسلام نے ایمان بالغیب قرار دیا ہے.کیونکہ اسی غیب والے ایمان کے ارد گر دہی عالم شہود کی ساری طاقتیں چکر لگاتی ہیں.(2) لوگوں کو نماز کا عادی بنائے جو حقوق اللہ کا مرکزی نقطہ اور روحانیت کی جان ہے اور انسان کو خدا کے دامن کے ساتھ باندھ کر ابدی راحت کا وارث بناتی ہے.(3) لوگوں میں اس ذمہ داری کا احساس پیدا کر لے کہ ان کے رزق میں خدا اور جماعت اور ان کے دوسرے بھائیوں کا بھی حصہ ہے اور اس حصہ کوادا کرنے کے بغیران کا رزق کبھی پاک نہیں ہوسکتا.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کراچی کے اخبار المصلح کا عملہ تبلیغ اور تربیت کے میدان میں ان چھ اصولی باتوں کو مد نظر رکھے گا.جن میں سے تین بیرونی تبلیغ کے دائرے سے تعلق رکھتی ہیں.اور تین اندرونی تربیت کے دائرے سے متعلق ہیں.تو انشاء اللہ ، خدا تعالیٰ ان کے کام میں برکت ڈالے گا اور وہ جلد ہی جماعت میں ایک طرف غیر معمولی ترقی اور دوسری طرف غیر معمولی پاک تبدیلی کے آثار دیکھ لیں گے.کیونکہ دین کے رستہ میں ہر مومن کی کچی کوشش ہرگز ضائع نہیں جاتی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہم سب اس کے عابد اور اس کی جماعت کے خادم بن کر زندگی گزاریں.آمین.اللهم آمین.وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ روزنامه الفضل لا ہور 25 جنوری 1951ء)

Page 32

مضامین بشیر جلد سوم 10 3 پاکستان میں پارٹیوں کا قیام اپنے اختلاف کو رحمت کا موجب بناؤ (ماخوذ از هفت روزه رفتار زمانہ لاہور نمبر 11 و12 جلد 3) پاکستان خدائے عالم کی ایک اہل تقدیر تھی جو ہر قسم کی روکوں کے باوجود پوری ہو کر رہی.اور اس کرشمہ تقدیر کا سب سے زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اتنی بڑی حکومت کے وجود میں آنے کے لئے جتنی طویل اور جتنی بھاری قربانیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے.وہ مسلمانوں کو پاکستان کے حصول کے لئے نہیں کرنی پڑیں.گویا یہ ایک خواب تھا جو چند دن پہلے دیکھا گیا اور چند دن بعد پورا ہو گیا.ملکی تقسیم کے نتیجہ میں جو غیر معمولی تباہی مسلمانوں پر آئی یا جن لاتعداد جانوں کی قربانی مسلمانوں کو کرنی پڑی.وہ لاریب ، ایک بہت بڑی چیز ہے مگر ظاہر ہے کہ وہ پاکستان کے حصول کا نتیجہ تھی.جو ہندو، سکھ بربریت نے پیدا کیا.ورنہ حقیقتا پاکستان بغیر کسی خاص قربانی کے خدا کی طرف سے بطور انعام کے حاصل ہوا ہے.تو اب جو چیز خدائے ذوالجلال کی طرف سے ایک غیر معمولی انعام کی صورت میں حاصل ہوئی ہے.ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کوئی غیر معمولی ذمہ داریاں بھی وابستہ ہوں.حق یہ ہے کہ پاکستان کے حصول نے ابھی تک صرف ایک دروازہ کھولا ہے اور اب اس دروازہ میں داخل ہو کر ایک نئے آباد ہونے والے گھر کو درست اور ٹھیک ٹھاک کرنا، اسے ضروری ساز وسامان سے آراستہ کرنا، اسے خوشحالی کی زندگی گزارنے کے قابل بنانا، اس کی اندرونی اور بیرونی زینت کا انتظام کرنا، اسے بیرونی چوروں اور ڈاکوؤں کی غارت گری سے محفوظ کرنا، اسے اندرونی فتنوں کے شراروں سے بچانا وغیرہ وغیرہ.بیسیوں قسم کی نازک ذمہ داریاں ہیں جو اس نئے گھر میں بسنے والوں پر عائد ہوتی ہیں اور ان کی قابلیت کا حقیقی معیار پاکستان کے حصول میں نہیں تھا.بلکہ پاکستان کے قیام اور استحکام میں ہے.اس کی عمارت کے کھڑا کرنے میں نہیں تھا بلکہ اس عمارت کو کھڑارکھنے اور اسے مستحکم بنانے میں ہے.مسلم لیگ نے بیشک پاکستان کے حصول میں جس حد تک بھی قربانی کا موقع تھا قربانی کی.ماریں بھی کھائیں، قید بھی ہوئے ، مال کا نقصان بھی برداشت کیا، وقت کے حاکموں کی ترچھی نظریں بھی دیکھیں، عزتیں بھی کھوئیں اور ایک حد تک جانوں کی قربانی بھی پیش کی.یہ قربانی ایک قابل تعریف قربانی ہے جس کی ہر قدر شناس شخص کو قدر کرنی چاہئے.مگر ایک طویل اور بھاری قربانی کی صورت میں جو ٹریننگ

Page 33

مضامین بشیر جلد سوم 11 (TRAINING) حاصل ہوا کرتی ہے وہ انہیں حاصل نہیں ہوئی.اس لئے اس تلخ حقیقت پر بھی پردہ نہیں ڈالا جا سکتا کہ پاکستان کے حصول کے بعد اس کے قیام اور استحکام کے لئے جس مخلصانہ توجہ اور جس والہانہ جد و جہد کی ضرورت تھی اس کا تسلی بخش نمونہ پیش نہیں کیا گیا.بلکہ کچھ ایسا ہوا کہ جس طرح ایک آسان فتح کے بعد ایک غیر منظم فوج میدانِ جنگ کی لوٹ مار میں منہمک ہو جاتی ہے اور اپنی فتح کو دائمی بنانے کی فکر نہیں کرتی.اسی طرح لیگ کا ایک حصہ بھی فتح کے انعاموں میں غرق ہو کر اپنی اصل ذمہ داری کو بھول گیا.اس حالت کا طبعی نتیجہ تشئت اور افتراق تھا.جو ایک بھیانک صورت میں ظاہر ہوا اور اس وقت پاکستان کی سہانی صبح کی فضا میں ایک کالی گھٹا بن کر چھایا ہوا ہے.کاش ایسا نہ ہوتا اور کاش پاکستان کو اس کی عمر کے چند ابتدائی سال امن اور اتحاد اور استحکام کے میسر آجاتے.یہ نظریہ کہ ہر جمہوری نظام میں بہر حال ایک حزب مخالف کا ہونا ضروری ہے صحیح تدبر اور صیح تخیل پر مبنی نہیں.حزب مخالف کا وجود اختلاف رائے کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اختلاف رائے ہر حال میں ضروری نہیں ہوتا.بلکہ صرف اس صورت میں ضروری ہوتا ہے کہ جب کوئی پارٹی غلط پالیسی اختیار کرے اور دوسرے لوگ اس کی غلطی کی اصلاح ضروری خیال کریں.پس جب اختلاف رائے ہی ہر حال میں لازمی اور ضروری نہیں تو پھر یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ حزب مخالف کا وجود ہر حال میں ضروری ہے.جمہوری نظام کے صرف یہ معنی ہیں کہ حکومت کا ہرا ہم کام پبلک کے نمائندوں کی رائے سے طے پائے.اس کے لئے دو، یا دو سے زیادہ پارٹیوں کا کوئی سوال نہیں.چنانچہ اگر کسی وقت پبلک کے نمائندے ایک ہی رائے پر قائم ہوں اور ایک ہی پالیسی کی تائید کریں.تو ظاہر ہے کہ ایسے وقت میں جمہوریت کے باوجود حزب مخالف کا وجود مفقود ہوگا.پس یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ جمہوریت اور حزب مخالف لازم و ملزوم ہیں.ہاں اگر ملک کی رائے دو یا دو سے زیادہ حصوں میں بٹی ہوئی ہو.تو پھر بے شک اکثریت اپنی پالیسی کے مطابق حکومت کرے گی اور اقلیت اس کی رائے کو درست کرنے اور ملک میں اپنی رائے کو غلبہ دینے کے لئے آئینی زور لگائے گی.لیکن ضروری ہے کہ ہر اختلاف رائے طبعی اور فطری رنگ میں رو پذیر ہو نہ کہ مصنوعی اور غیر فطری طریق پر.یعنی اختلاف کی خاطر سے اختلاف نہ کیا جائے.بلکہ حقیقی اختلاف رائے کے نتیجہ میں اختلاف پیدا ہو.اور اس کا اصول یہ ہے کہ شخصیتوں اور ذاتیات کے سوال سے بالا ہو کر ایک پارٹی اپنی پالیسی اور اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرے.اور پھر اگر دوسرے لوگوں کو اس پالیسی اور اس لائحہ عمل سے اہم اور اصولی اختلاف ہو اور یہ اختلاف محض وقتی یا جزوی باتوں تک محدود نہ ہو تو وہ اس کے مقابل پر اپنی پالیسی کا اعلان کر کے ملک

Page 34

مضامین بشیر جلد سوم 12 میں اپنی رائے کو دلائل اور براہین کے ذریعہ غلبہ دینے کی کوشش کریں.لیکن ایسے اختلاف کی صورت میں بھی صحیح طریق یہ ہے کہ صرف اصولی اور غیر معمولی اختلاف کی صورت میں ہی علیحدہ پارٹی بنائی جاتی ہے.ورنہ بڑی پارٹی کی چاردیواری کے اندر ہی ایک ضمنی پارٹی بنا کر جسے انگریزی میں’ونگ (WING) کہتے ہیں، اصلاحی کام شروع کر دیا جاتا ہے.اس قسم کے طبعی طریق میں ذاتی رنجشیں نہیں پیدا ہوتیں اور نہ ہی شخصیتوں کا نا گوارسوال اٹھتا ہے.بلکہ اختلاف رائے کو اصول کی حد تک محدود رکھ کر ہر پارٹی اپنے اصلاحی پروگرام کے مطابق کام شروع کر دیتی ہے اور تا وقتیکہ رائے عامہ میں کوئی تبدیلی آئے.حکومت بہر حال اس پارٹی کی رہتی ہے جسے رائے عامہ میں غلبہ حاصل ہوتا ہے.لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک پاکستان میں اکثر اختلافات اصول پر مبنی ہونے کی بجائے زیادہ تر شخصیتوں اور ذاتی وجاہتوں اور ذاتی رنجشوں کی جھاڑیوں میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں.ایسا اختلاف برکت اور رحمت اور نیک نتائج کا باعث نہیں بن سکتا.اول تو ضروری تھا کہ کم از کم پاکستان کی عمر کے چند ابتدائی سالوں میں انتہائی کوشش اور قربانی کی روح کے ساتھ ہر اختلاف کو دبا کر اتحاد اور متحدہ جد و جہد کا منظر پیش کیا جاتا.تا کہ ابتدائی استحکام کا کام خوش اسلوبی سے سرانجام پاسکتا لیکن اگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا تو کم از کم یہ تو ہوتا کہ ذاتی رنجشیں نکالنے اور ایک دوسرے کے خلاف ذاتی حملے کرنے کی بجائے اپنے اختلافات کو اصول کی حد کے اندر رکھا جاتا.کیونکہ اس صورت میں بھی گو پالیسی مختلف ہوتی.مگر بہر حال اکثریت اور اقلیت دونوں کی طاقت بحیثیت مجموعی ملک کی بہتری کے لئے وقف رہتی.بدقسمتی سے یا حالات کی مجبوری سے حکومت کے صدر کو مرکزی لیگ کی صدارت بھی قبول کرنی پڑی.اس کی باریکیوں میں جانے کی ضرورت نہیں مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حالات پیش آمدہ میں یہ قدم چنداں دانشمندی کا قدم نہیں تھا.پالیسی کے اتحاد کے باوجود پارٹی اور حکومت کے ارکان کے علیحدہ علیحدہ رہنے میں کئی طرح کے فوائد سمجھے جاتے ہیں.اور جمہوری حکومتوں میں عموماً یہی ہوتا ہے کہ برسراقتدار پارٹی کے ارکان ، حکومت کے عہدوں سے الگ رہتے ہیں اور جو لوگ حکومت کے عہدے قبول کریں وہ پارٹی کے عہدوں سے دستکش ہو جاتے ہیں.مگر افسوس ہے کہ یہاں ایسا نہیں ہوا اور یہ بات اختلاف کی خلیج کو بڑھانے کا بہانہ بن گئی.لیکن پھر بھی موجودہ حزب مخالف کی پالیسی میں ایسا اصولی اختلاف ہرگز نہیں تھا کہ موجودہ نازک وقت میں علیحدہ پارٹی کا قیام ضروری سمجھا جاتا مگر بد قسمتی سے ذاتی رنجشوں اور شخصیتوں کے سوال نے اس خلیج کو وسیع سے وسیع تر کر دیا اور (خدا محفوظ رکھے ) ڈر ہے کہ آنے والے انتخابات نے اس میدان کے لئے اور بھی زیادہ

Page 35

مضامین بشیر جلد سوم 13 خطرناک کانٹوں کی فصل تیار کر رکھی ہے.حق یہ ہے کہ اختلاف رائے اپنی ذات میں ہرگز بُر انہیں ہوتا بلکہ دماغی روشنی اور آزادی فکر اور قومی ترقی کے لئے ایک مفید اور ضروری چیز ہے اسی لئے ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِخْتِلَافُ أُمَّتِی رَحْمَةً یعنی میری امت کا اختلاف رحمت کا موجب ہے.مگر ظاہر ہے کہ وہی اختلاف رحمت کا موجب ہو سکتا ہے جو نیک نیتی کے ساتھ صحیح تدبر کے نتیجہ میں قدرتی طور پر پیدا ہو.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت سے اس ارشاد میں اختلاف کے لفظ کے ساتھ ائة کا لفظ استعمال فرمایا ہے.اب ظاہر ہے کہ جہاں اختلاف کا لفظ بظاہر تشقت اور افتراق کو چاہتا ہے.وہاں اُمہ کا لفظ اس سے بڑھ کر اتحاد اور اجتماع کا ذریعہ ہے پس ان دونوں لفظوں کو اکٹھا استعمال کرنے میں یقیناً یہی اشارہ کرنا مد نظر تھا کہ وہی اختلاف رحمت کا موجب ہو سکتا ہے جو رسول خدا کے بتائے ہوئے اصولوں اور آپ کی سکھائی ہوئی تعلیم کے اندر رہ کر کیا جائے.یعنی اگر ایک طرف رائے کا اختلاف ایک دوسرے سے بظاہر جدا اور ممتاز کرنے والا نظر آئے.تو دوسری طرف امت والے اصول مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست بھی رکھیں اور اس میں کیا شک ہے کہ ایسا اختلاف بڑی رحمت کا موجب ہوتا ہے.کیونکہ اس میں ایک طرف تو ضمیر اور فکر کی آزادی قائم رہتی ہے.جو ذہنی ترقی کا موجب ہے.اور دوسری طرف اصل الاصول کے اتحاد کی وجہ سے تشئت اور افتراق کی صورت بھی پیدا نہیں ہوتی.پس موجودہ حالات میں صحیح اور مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ اول تو پیش آمدہ حالات بہت نازک ہیں.اگر اب بھی کوئی اتحاد واتفاق کی صورت پیدا ہو سکتی ہے تو اس کی کوشش ہونی چاہئے.اور یا درکھنا چاہئے کہ کوئی اتحاد قربانی کی روح کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.لیکن اگر یہ ناممکن ہوتو پھر اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةً کا سنہری ارشاد ہر پارٹی کے سامنے رہنا ضروری ہے.پس بے شک اختلاف کرو مگر ان اصولوں سے تجاوز نہ کرو.جو خدا اور اس کے رسول نے مقرر کر رکھے ہیں.اختلاف کرو مگر اسے افتراق وانشقاق کی بجائے رحمت کا ذریعہ بناؤ.اختلاف کرو مگر یہ اختلاف بھائیوں والا اختلاف ہو نہ کہ دشمنوں والا.اختلاف کرو مگر یہ اختلاف دماغ کا ہو نہ کہ دل کا.بالآخر قرآن حکیم کی اس زرین ہدایت سے بہتر کوئی مشورہ نہیں ہو سکتا کہ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمُ (الانفال: 47) وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ

Page 36

مضامین بشیر جلد سوم 14 كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَالِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ ايَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (آل عمران: 104) یعنی اے مسلمانو ! خدا اور اس کے رسول کے فرمانبردار رہو اور آپس میں مت جھگڑ و کہ اس طرح تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی.اور خدا کی اس نعمت کو یا درکھو کہ تم باہم دشمن تھے اور خدا نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کی.اور تم اس کی اس نعمت کے نتیجہ میں بھائی بھائی بن گئے اور تم ایک آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچے ہوئے تھے.مگر خدا نے تمہیں اس سے بچا لیا.یہ خدا کی آیات ہیں جو تمہیں اس لئے سنائی جاتی ہیں کہ تم ان کے ذریعہ ہدایت کا رستہ پاؤ.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ روزنامه الفضل لا ہور 2 فروری 1951ء 4 ایک بزرگ در ولیش کا القاء ربانی سب کو چھوڑ و خلیفے کو پکڑو حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں ایک خط تحریر فرمایا جسے آپ نے الفضل میں اس تعارف کے ساتھ طبع فرمایا.جس میں بھائی عبدالرحیم صاحب کے اوصاف درج ہیں.ا بھی ابھی مجھے قادیان سے محترمی حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب کا خط ملا ہے.بھائی صاحب ان خاص بزرگوں میں سے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے نہ صرف کفر کی تاریکی سے نکال کر اسلام کی روشنی سے منور کیا.( محترم بھائی صاحب پہلے سکھ ہوتے تھے ) بلکہ احمدیت کی سعادت سے بھی نوازا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے (رفیق) ہونے کا شرف عطا فرمایا.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص فضل ہے جو ہمارے محترم بھائی صاحب پر ہوا.اور بھائی صاحب نے بھی اس خدائی فضل کی پوری پوری قدر کی اور ذاتی تقوی اور نیکی کے علاوہ اپنی زندگی کو دین کی خدمت کیلئے ہمیشہ وقف رکھا.بھائی صاحب خدا کے فضل سے صاحب کشوف و الہام ہیں اور آجکل قادیان میں درویشانہ

Page 37

مضامین بشیر جلد سوم زندگی گزار ر ہے ہیں...(محررہ 5 فروری1950ء) 15 روزنامه الفضل لاہور 9 فروری 1951ء) ایک درویش کی خانہ آبادی قادیان میں خوشی کا جلوس کچھ عرصہ ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ربوہ میں چوہدری سعید احمد صاحب بی.اے درویش قادیان کا نکاح سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنو کی دختر کے ساتھ پڑھا تھا.سیٹھ صاحب لکھنو کی جماعت کے صدر اور نہایت مخلص اور مخیر احمدی ہیں.اور عزیز چوہدری سعید احمد ، چوہدری غلام محمد صاحب (رفیق) اور امیر جماعت احمد یہ پولا مہاراں ضلع سیالکوٹ کے پوتے اور چوہدری فیض احمد صاحب چیف انسپکٹر بیت المال ربوہ کے لڑکے ہیں.اس طرح گویا یہ پنجاب اور یو.پی کے دو نہایت مخلص خاندانوں کا جوڑ املا تھا.اسی تعلق میں حال میں ہی قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ چوہدری سعید احمد کی برات (جس میں حضرت صاحب کے صاحبزادے عزیز مرزا وسیم احمد بھی شامل تھے 20 جنوری کو قادیان سے روانہ ہوئی اور 25 جنوری کو واپس قادیان پہنچی.اس کی واپسی کے نظارہ کے متعلق مولوی برکات احمد صاحب بی.اے ناظر امور عامہ قادیان لکھتے ہیں کہ:.دار اسیح 25-1-51 سیدی حضرت میاں صاحب زاد مجده العالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مکرم چوہدری سعید احمد صاحب کی برات جولکھنو گئی ہوئی تھی.آج بخیر وعافیت واپس آئی.اس برات میں اور دوستوں کے علاوہ محترمی صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب بھی شامل تھے.اسٹیشن پر برات کے استقبال کا انتظام کیا گیا اور براتیوں کے گلے میں پھولوں کے ہار بھی ڈالے گئے.چونکہ چوہدری صاحب موصوف ضلع سیالکوٹ کے پرانے رہنے والے ہیں.اس لئے سیالکوٹ کے دوستوں نے اردگرد کے دیہات میں آباد ہونے والے سیالکوٹ وغیرہ کے غیر مسلم پناہ گزینوں سے دس بارہ

Page 38

مضامین بشیر جلد سوم 16 گھوڑیاں اور اونٹنیاں بھی مستعار برات کے لئے لی ہوئی تھیں.چنانچہ اسٹیشن سے برات مع استقبال کرنے والے احباب کے جن میں نو دس کے قریب قادیان کے معزز غیر مسلم بھی شامل ہو گئے تھے.گھوڑیوں اور تانگوں پر اور پیدل روانہ ہوئے.اس طرح ایک خاصے بڑے جلوس کی شکل بن گئی.اور جلوس ریلوے روڈ سے ہوتا ہوا پولیس چوکی کے قریب سے کالج کی سڑک پر سے ہو کر کالج کے سامنے سے گزرا اور پھر محلہ دارالعلوم میں سے گزر کر نصرت گرلز ہائی سکول کے پاس سے ہوتا ہوا دار الرحمت کی درمیانی سڑک اور سٹار ہوزری کے قریب سے گزرا اور بڑے بازار میں آیا.اور پھر الحکم سٹریٹ سے ہوتا ہوا اپنے حلقہ یعنی محلہ احمد یہ حلقہ مسجد مبارک میں آ گیا.چوہدری سعید احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بھی گھوڑیوں پر سوار تھے.جلوس میں بعض احباب تھوڑے تھوڑے وقفہ پر نعرہ ہائے تکبیر اور اسلام زندہ باد اور احمد بیت زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے.واپسی پر قادیان کے غیر مسلم اصحاب کی جو استقبال میں شامل ہوئے چائے سے بھی تواضع کی گئی.جلوس میں دیہات کے تین چار غیر مسلم اصحاب بھی گھوڑیوں پر سوار تھے اور قادیان کے غیر مسلم تانگوں پر بیٹھے ہوئے تھے.ایک موٹر سائیکل اور تین چار سائیکل بھی جلوس میں شامل تھے.آنحترم سے درخواست دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس شادی کو با برکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.آمین برکات احمد ناظر امور عامه قادیان 51-1-25 اسلام میں نمائش کے طریقوں کو پسند نہیں کیا گیا اور سادگی کی تعلیم دی گئی ہے.لیکن بعض خاص مواقع وقار اور سر بلندی کے بھی ہوتے ہیں.جن میں نیک نیت کے ساتھ تنظیم اور خودداری کی شان کا اظہار مفید سمجھا جاتا ہے.جیسا کہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ایک صحابی کو اکٹر کر چلتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ یہ چال خدا کو پسند نہیں.مگر اس موقع پر پسند ہے اور پھر خوشی کا موقع تو ویسے بھی جذبات کے جائز ابال کا وقت ہوتا ہے.پس ہمارے دوستوں نے بھی اس تقریب میں غالباً اسی پاک نیت سے ایک گونہ شان پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو فریقین کے لئے اور جماعت کے لئے بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے اور جس طرح اس میں زمین پر دنیوی شان پیدا ہوئی ہے.اسی طرح آسمان پر روحانی شان پیدا ہو کہ ایک سچے مومن کا یہی اصل مقصود ہے.آمین اللهم آمین محرره 16 فروری 1951ء) روزنامه الفضل لاہور 22 فروری 1951 ء )

Page 39

مضامین بشیر جلد سوم 6 عمل کے بغیر علم ایسے جسم کی طرح ہے جس میں روح نہیں طلباء جامعہ احمدیہ کے نام پیغام 17 حضرت مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے آپ کا پیغام الفضل میں بھجواتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:.جامعہ احمدیہ احمد نگر کے جلسہ تقسیم اسناد و الوداعی دعوت کے موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے صدر مجلس تعلیم بوجہ علالت شمولیت نہ فرما سکے.آپ نے میری درخواست پر اس موقع پر پڑھا جانے کے لئے مندرجہ ذیل مختصر مگر نہایت قیمتی عجالہ (ما حضر.ناقل ) رقم فرمایا.جسے جلسہ میں خاکسار نے پڑھ کر سنایا.عزیز ان طلباء جامعہ احمد یہ احمد نگر بسم الله الرحمن الرحيم اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ میں سے بعض عزیزوں نے اس سال مولوی فاضل کے امتحان میں شرکت کے لئے جانا ہے اور بعض نے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پر سندات وصول کرنی ہیں.میں جانے والوں کو اس دعا کے ساتھ رخصت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب فرمائے.اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.اور سندات لینے والوں کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں.اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس کامیابی کو آئندہ بہتر کامیابیوں کا پیش خیمہ بنادے.اور ہر دو کو عالم باعمل اور خادمِ دین بنائے.آمِنينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - علم کے حصول کے متعلق اسلام کے زریں نظریہ کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.اس نظریہ کا خلاصہ دو باتوں میں آجاتا ہے:.پہلی بات یہ ہے کہ علم ایک غیر محدود چیز ہے اور کسی مرحلہ پر بھی اسے کامل سمجھ کر کاہل اور غافل نہیں ہونا چاہئے.اسی اصول کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا سکھائی ہے کہ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: 115) یعنی اے میرے خدا ! میرے علم میں ترقی دیتا چلا جا.اگر سید ولد آدم کو اپنے بظاہر معراج کمال کے بعد بھی مزید علمی ترقی کی ضرورت ہے.تو میں یا آپ یا کوئی اور انسان اپنے

Page 40

مضامین بشیر جلد سوم 18 ناقص علم پر تکیہ لگا کر کس طرح بیٹھ سکتا ہے؟ اسے آگے بڑھنا ہو گا ورنہ اس کا علم اس ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح سڑنے لگے گا.جس میں کوئی تازہ نہر نہیں گرتی اور نہ وہ آگے حرکت کرنے کا رستہ پاتا ہے.اور یا درکھو کہ درسگاہوں کا علم تو صرف اس دروازہ کی حیثیت رکھتا ہے.جو علم کے میدان میں داخل ہونے کا رستہ کھولتا ہے اور اصل میدان اس سے آگے ہے.پس خدا کا نام لیتے ہوئے اس میدان میں قدم رکھو اور پھر آگے بڑھتے چلے جاؤ اور آگے بڑھتے چلے جاؤ.دوسری بات یہ ہے کہ وہ علم جو عمل کے بغیر ہے وہ ایک ایسا جسم ہے جس میں کوئی روح نہیں.اس لئے قرآن شریف بے عمل علماء کے متعلق فرماتا ہے.كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَاراً (الجمعه: 6) یعنی بے عمل عالم کی حالت اس گدھے کی طرح ہوتی ہے جس کی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے.بظاہر ایسا گدھا علم کا حامل ہوتا ہے.مگر حقیقتاً اسے اس علم سے کوئی دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا.بلکہ یہی علم اس کے لئے ایک بوجھ بن جاتا ہے.جس میں اس کی کمر توڑنے کے سوا کوئی اور صلاحیت نہیں ہوتی.پس میں اس موقع پر اپنے عزیز نو جوانوں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ علم اور حصول علم کے متعلق ان دو بنیادی چیزوں کو ہمیشہ یادرکھیں.یعنی اول یہ کہ ان کا علم ایک منجمد پتھر نہ ہو.بلکہ ایک ترقی کرنے والی جاندار چیز ہو.اور دوسرے یہ کہ ان کے علم کے مجسمہ میں عمل کی روح ہو.اگر وہ ان دو حقیقتوں کو اچھی طرح سمجھ کران پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں گے تو میں خدا کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ وہ اپنے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھیں گے.جہاں آپ خدا سے علم پا کر فرماتے ہیں کہ :.” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا.یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.سواے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.“ تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409-410) پس یہ باتیں تو انشاء اللہ ضرور پوری ہوں گی اور دنیا کی کوئی طاقت اس اہل خدائی تقدیر کو بدل نہیں سکتی.مگر کاش کہ یہ باتیں ہم میں اور ہماری اولادوں میں پوری ہوں.اور ہم نہ صرف خدائی نشان کو پورا

Page 41

مضامین بشیر جلد سوم 19 ہوتے دیکھیں.بلکہ خود خدا تعالیٰ کے زندہ نشان بن جائیں.ہم وہ شاداب اور ثمر دار درخت ہوں.جن کی شاخیں آسمان تک پہنچتی ہیں اور ان کے نیچے پانی کی نہریں بہتی ہیں اور ان پر خدائے علیم و قدیر کے فضل و رحمت کا دائمی سایہ رہتا ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ (19513) روزنامه الفضل لاہور 15 مئی 1951ء) ح ربوہ سے پہلا ٹیلیفونک پیغام 7 جیسا کہ پہلے اعلان کیا جا چکا ہے 21 مئی کو بروز پیر بوہ میں ٹیلیفون آفس کھل گیا ہے.اسی دن شام کے وقت ربوہ سے قادیان فون کیا گیا.جور بوہ کا پہلا فون تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرنے پر کہ حضور کی طرف سے قادیان کیا پیغام بھیجا جائے آپ نے مندرجہ ذیل الفاظ تحریر کر کے ارسال فرمائے.جماعت کو سلام.بیماروں کی عیادت اور دعاؤں کی تحریک“ سوا میر صاحب قادیان کو ربوہ کے پہلے فون کے ذریعہ حضور کا یہ پیغام پہنچا دیا گیا.جس سے قادیان کے دوستوں کو بڑی خوشی اور تقویت حاصل ہوئی.....روزنامه الفضل لاہور 24 مئی 1951ء) ملکی آزادی کا حصول اور اس کا قیام الفضل کے ادارہ نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں الفضل کے آزادی نمبر کے متعلق کچھ مضمون لکھ کر بھجواؤں.لیکن ان کا خط مجھے اتنے تنگ وقت پر ملا ہے اور دوسری طرف میں ایک لمبے عرصہ سے در دنقرس اور اس کے لوازمات میں اس طرح مبتلا ہوں کہ آجکل کسی لمبے یا تحقیقی مضمون کی ہمت نہیں پڑتی اس لئے محض شرکت کے ثواب کی خاطر یہ چند سطریں قلم برداشتہ لکھ کر بھجوا رہا ہوں وَنِيَّةُ الْمُؤْمِنُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ - کسی ملک یا قوم کی آزادی اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہے.ایک آزادی کا حصول ہے اور دوسرے حاصل

Page 42

مضامین بشیر جلد سوم 20 شدہ آزادی کو قائم اور برقرار رکھنا اور اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا.جہاں تک پاکستان کی آزادی کے حصول کا سوال ہے اس کے حالات پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر و عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ آزادی ایک خدائی موہبت تھی نہ کہ کوئی انسانی کسب.بے شک اس آزادی کے حصول کے لئے کوشش کی گئی اور ملک وقوم کو کچھ قربانی بھی کرنی پڑی.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ملکی اور قومی آزادی کے لئے جتنی لمبی جد و جہد اور جتنی وسیع قربانی کرنی پڑتی ہے وہ مسلمانوں کو پاکستان کے حصول کے لئے نہیں کرنی پڑی.اور یوں نظر آتا ہے گویا پاکستان کی آزادی خدائی تقدیر کے ماتحت ایک پکا ہوا پھل تھا جو درخت کو ذراسی حرکت دینے سے اتر آیا.ملکی تقسیم اور ہجرت مکانی کے نتیجہ میں جو مالی اور جانی نقصان مسلمانوں کو اٹھا نا پڑا وہ بے شک بہت بھاری اور غیر معمولی نقصان تھا.مگر ظاہر ہے کہ یہ نقصان پاکستان کے حصول کیلئے نہیں تھا بلکہ پاکستان کے حصول کا نتیجہ تھا.پس لاریب پاکستان کی آزادی ایک خدائی موہبت تھی جو بطور خاص انعام کے مسلمانوں کو حاصل ہوئی.اور جب یہ آزادی ایک خاص موہبت ہے تو اسے قائم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا ایک نہایت اہم فرض قرار پاتا ہے.بے شک اپنی کمائی ہوئی چیز کی حفاظت بھی انسان کے لئے ضروری ہوتی ہے حتی کہ ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ ( صحیح البخاری، کتاب المظالم والغضب ، باب من قاتل دون مالہ ( یعنی جو مسلمان اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہے.لیکن جو تقدس اور جو اہمیت ایک خدائی انعام کی حفاظت کو حاصل ہے وہ عام کسب شدہ چیزوں کی حفاظت کو ہرگز حاصل نہیں.ان حالات میں اہل پاکستان کا یہ دو ہرا فرض ہے کہ وہ پاکستان کی آزادی کے لئے ہر ممکن کوشش اور ہر ممکن تدبیر اور ہر ممکن قربانی کے واسطے تیار رہیں.اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ خدا کی نظر میں ایک نہایت اہم فرض کو ضائع کرنے والے ٹھہریں گے.اوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ آزادی کے سوال کا دوسرا اور اصل پہلو حاصل شدہ آزادی کا قیام اور اس کو برقرار رکھنا اور اس آزادی سے پورا پورا فائدہ اٹھانا ہے اور دراصل یہی وہ پہلو ہے جسے قرآن شریف نے بھی بڑی اہمیت دے کر نہایت تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَّيْفَ فِى الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِم لِتَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ (يونس:15) یعنی پھر ہم نے دوسروں کے بعد ملک میں تمہیں قائم مقام بنایا تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے اعمال بجا لاتے ہو.اس لطیف آیت سے جو حقیقتا آزادی کے فلسفہ کا نچوڑ ہے.ظاہر ہے کہ اگر آزادی ایک نعمت ہے تو اس

Page 43

مضامین بشیر جلد سوم 21 آزادی کا استعمال اس نعمت کا امتحان ہے اور ان دونوں کے صحیح ملاپ سے ہی قومی فلاح اور کامیابی کا رستہ کھلتا ہے.جو قوم آزادی کی نعمت نہیں پاتی وہ گویا آزادی کی جنت سے ہی محروم رہتی ہے اور جو قوم آزادی کی نعمت تو پالیتی ہے مگر اپنی آزادی کا صحیح استعمال نہیں کرتی اس کا نصب کیا ہوا باغیچہ بنجر ثابت ہوتا ہے اور وہ پھل نہیں دیتا جس کے لئے اسے نصب کیا گیا تھا.پس دوسرا اور اہم تر فرض اہل پاکستان کا یہ ہے کہ اب جبکہ خدا نے انہیں آزادی کی نعمت سے نوازا ہے تو وہ اپنی آزادی کے درخت کو ثمر دار ثابت کریں اور اس سے وہ پھل حاصل کرنے کی کوشش کریں جو ایک تندرست اور بار آور پودے کے لئے مقدر ہوتا ہے.یہ پھل دومیدانوں سے تعلق رکھتا ہے جن میں سے ایک امن کا میدان ہے اور دوسرا جنگ کا اور گوان کی آگے بیسیوں شاخیں ہیں مگر میں اس جگہ صرف ایک شاخ کے مختصر ذکر پر اکتفا کروں گا.امن کے میدان میں حکومت کی ذمہ داری کے ایک پہلو کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے:.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنَتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمُ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بالعدل (النساء:59) یعنی اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ حکومت کے عہدوں کی امانت ان لوگوں کے سپر د کیا کرو جو اس امانت کے اہل ہیں.اور پھر اے وہ لوگو! جنہیں حکومت کی امانت سپرد ہو تمہارے لئے ہمارا یہ حکم ہے کہ اپنے سب کاموں میں عدل پر قائم رہو.عدل چونکہ ہر حکومت کا بنیادی پتھر ہے.اس لئے اسلام نے اسے سب سے مقدم کیا ہے اور حق یہ ہے کہ عدل کے بغیر حکومت کا کوئی ایک شعبہ بھی کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتا.کیونکہ یہ وہ جڑ ہے جس سے تمام ملکی شعبوں میں فلاح و کامیابی کی شاخیں پھوٹتی ہیں اور عدل سے مراد صرف افراد کے درمیان عدل کرنا ہی نہیں بلکہ اپنے کام اور فرض منصبی کے ساتھ عدل کرنا.حکومت اور پبلک کے درمیان عدل کرنا.ملک میں رہنے والی مختلف قوموں کے درمیان عدل کرنا اور افراد کے درمیان عدل کرنا سب عدل کے مفہوم میں شامل ہیں.پس امن کے میدان میں حکومت کا اولین فرض عدل کا قیام ہے اور جو حکومت اس فرض کی طرف سے غافل ہوتی ہے وہ اپنی عمر کو تباہ کرنے کی خود ذمہ دار ہے.اگر ملک میں عدل ہو تو باقی شعبے خود بخود پنپنے لگ جاتے ہیں اور اگر عدل نہ ہو تو ان شاخوں کی طرح جن کی جڑ میں کیٹر ا لگ رہا ہو سا را درخت ہی خشک ہونے لگتا ہے.پس آزادی کی نعمت کو برقرار اور قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ جو امن کے میدان سے تعلق رکھتا ہے وہ عدل کا قیام ہے.

Page 44

مضامین بشیر جلد سوم 22 آزادی کے قیام کے لئے دوسرا میدان جنگ کا میدان ہے.یہ میدان بھی گرد و پیش کے حالات کی وجہ سے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی اہمیت امن کے میدان کو حاصل ہے.اس کے متعلق قرآن شریف سب سے مقدم اور سب سے ضروری تعلیم یہ دیتا ہے کہ اپنے اندر ایسی قوت پیدا کرو کہ کسی بدخواہ دشمن کی آنکھ تمہاری طرف بدنیت سے نہ اٹھ سکے اور اندرونی قوت کے علاوہ اپنی سرحدوں کو بھی حفاظتی چوکیوں اور نقل و حرکت کے ساز وسامان سے چوکس اور مضبوط رکھو تا کہ اگر کوئی دشمن تمہاری طرف بدنظر اٹھائے تو تم فورا ہی اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو اور اس کے فتنہ کو سراٹھاتے ہی دبا سکو.اس تعلق میں قرآن شریف فرماتا ہے.وَاعِدُّوا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رَبَاطِ الْخَيْلِ (الانفال: 61) یعنی اے مسلمانو! دشمن کے مقابلہ کیلئے اپنی ساری قوت کے ساتھ اور قوت کے تمام امکانی پہلوؤں کے پیش نظر تیاری رکھو اور اپنی سرحدوں پر حفاظتی چوکیوں کو پوری طرح مضبوط کرو.جن میں ضروری نقل و حرکت کا تمام تسلی بخش سامان موجود ہونا چاہئے.اس لطیف آیت میں آزادی کے قیام کا وہ اہم پہلو بتایا گیا ہے جو اصل جنگ سے قبل جنگی تیاری سے تعلق رکھتا ہے.خدائے اسلام حکم دیتا ہے کہ گو مسلمان لڑائی کے لئے پہل نہیں کرتا مگر اسے پہل کرنے والے دشمن کے لئے ہر وقت چوکس اور تیار رہنا چاہئے اور اس کی یہ تیاری دو طرح کی ہونی چاہئے.اول ملک کے اندرونی حصہ میں جس میں فوجی تیاری کے علاوہ عام آبادی کی ٹریننگ اور ان کی ہمتوں کو بلند رکھنا بھی شامل ہے.اور دوسرے سرحدوں کی مضبوطی جس کے ساتھ نقل و حرکت کا کامل سامان موجود رہنا چاہئے.یہ وہ زریں ہدایت ہے جس پر کاربند ہو کر کوئی اور ملک غفلت کی حالت میں نہیں پکڑا جاسکتا.بلکہ وہ حسب ضرورت حملہ آور دشمن کے ملک میں گھسنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے.جنگ کی حالت کا دوسرا پہلو عملی لڑائی سے تعلق رکھتا ہے.اس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے.إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيْلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف:5) یعنی اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے محبت رکھتا ہے جو اس کے رستہ میں اس طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی آہنی دیوار ہے.یہ قرآنی آیت جن زور دار الفاظ میں مسلمان مجاہدوں کے جوش اور ان کی قوت اور ان کے باہمی اتحاد کا نقشہ کھینچ رہی ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں.اس آیت میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمان سپاہیوں کو نہ صرف انفرادی طور پر طاقت پیدا کر کے فولادی رنگ اختیار کر لینا چاہئے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ بھی وہ اس طرح

Page 45

مضامین بشیر جلد سوم 23 پیوست ہوں کہ گویا ان کے رخنوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال کر انہیں یک جان کر دیا گیا ہے.الغرض اسلام آزادی کو ایک بڑی نعمت قرار دے کر اس کے برقرار رکھنے کے لئے امن اور جنگ ہر دو پہلوؤں کے لحاظ سے ایسی زریں تعلیم دیتا ہے کہ اس پر کار بند ہو کر کوئی اسلامی حکومت آزادی کی نعمت کو ایک دفعہ پانے کے بعد اُسے پھر ضائع نہیں کر سکتی اور اگر وہ اسے ضائع کرے گی تو اپنی ہی کسی غفلت اور کوتا ہی کے نتیجہ میں ضائع کرے گی کیونکہ اللہ تعالی قرآن میں صاف صاف فرماتا ہے أَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ في الْأَرْضِ (الرعد:18) یعنی جو چیز لوگوں کو حقیقی نفع پہنچانے والی ہوتی ہے وہ دنیا میں قائم رہتی ہے.خدا کرے کہ ہم خدا کی نعمتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھانے والے اور اپنی قومی اور ملکی زندگی کو لمبے سے لمبا کرنے والے ثابت ہوں اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا.مِینَ یا اَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيم نوٹ.جو اصحاب اسلامی ضابطہ جنگ کے متعلق میرا مفصل مضمون دیکھنا چاہیں وہ الفضل مورخہ 23 ستمبر 1948 ء میں ملاحظہ فرمائیں.(محرره 11 اگست 1957 ء ) روزنامه الفضل لاہور 17 اگست 1951 ء) لالہ ملا وامل صاحب کی وفات لالہ ملا وامل صاحب سکنہ قادیان کی وفات کے متعلق محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا نوٹ الفضل میں شائع ہوا ہے.لالہ صاحب موصوف جو قادیان میں طبابت اور دواسازی کا کام کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم نیز اہم ملاقاتیوں میں سے تھے.حتی کہ آج سے 67 سال قبل جبکہ 1884ء میں ہماری والدہ صاحبہ حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلھا کے رخصتانہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دتی تشریف لے گئے تو اس وقت بھی لالہ ملا وامل صاحب حضور کے ہمراہ تھے.چونکہ لالہ صاحب موصوف کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے نشانات دیکھنے کا موقع ملا تھا.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں کئی جگہ ان کا اور ان کے ساتھی لالہ شرمیت صاحب کا جو وہ بھی قادیان ہی کے رہنے والے تھے بطور گواہ ذکر فرمایا ہے.لالہ شرمیت صاحب کئی سال ہوئے وفات پا

Page 46

مضامین بشیر جلد سوم 24 چکے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے لالہ ملا وامل صاحب کو بڑی لمبی عمر عطا فرمائی اور بالآخر انہیں اس نیکی کی توفیق دی کہ فسادات 1947 ء کے پُر آشوب زمانہ میں ان کا رویہ بہت شریفانہ رہا.اور جہاں بہت سے ایسے غیر مسلم بھی فتنہ کی رو میں بہہ گئے.جن کے ساتھ جماعت احمد یہ خاص احسان کا سلوک کر چکی تھی.وہاں لالہ ملا وامل صاحب کا رویہ بہت قابل تعریف رہا.چنانچہ ان ایام میں لالہ صاحب موصوف نے اپنے اکلوتے لڑکے لالہ دا تا رام صاحب کو بلا کر تاکید کی کہ بیٹا! دیکھنا تم اس شرارت اور لوٹ مار میں ہرگز کوئی حصہ نہ لینا اور یہاں تک کہا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی ہے کہ ہم قادیان سے نکل کر پھر واپس آئیں گے.اور یہ بات ضرور پوری ہوگی.بلکہ سنا گیا ہے کہ لالہ ملا وامل صاحب نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ جب یہ خاندان دنیا داری کے زمانہ میں قادیان سے نکالا جا کر پھر واپس آ گیا تھا ( یہ سکھ حکومت کے زمانہ کی بات ہے ) تو اب دین کے راستہ پر پڑ کر جبکہ مرزا صاحب کی پیشگوئی بھی ہے.یہ کس طرح واپس نہیں آئیں گے؟ الغرض لالہ ملا وامل صاحب موصوف کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بہت دیرینہ تعلق تھا.اور گودرمیان میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں بار بار اپنے نشانوں کی شہادت کے لئے بلایا ان کا آنا جانا کم ہو گیا تھا مگر دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پاکیزگی اور نیک صحبت کا گہرا اثر باقی تھا جو آخر وقت میں زور کر کے پھر باہر آ گیا.لالہ ملا وامل صاحب کی عمر محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے 108 سال بیان کی ہے مگر یہ درست معلوم نہیں ہوتی.کیونکہ جیسا کہ سنا گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بارات (1884ء) میں شمولیت کے وقت وہ بالکل نوجوان تھے.پس میرے خیال میں ان کی عمر غالباً 95 سال کے لگ بھگ تھی.بہر حال ہمیں لالہ ملا وامل صاحب کے خاندان کے ساتھ دلی ہمدردی ہے.اللہ تعالیٰ اس صدمہ میں ان کا حافظ و ناصر ہو.(محرره 24 اکتوبر 1957ء) روزنامه الفضل لاہور 30 اکتوبر 1951ء) 10 رحمت خدا کی ہے اور تکلیف ہماری آج ایک دوست جو کسی زمانہ میں میرے ماتحت ہوتے تھے اور اب دوسرے صیغہ میں کام کرتے

Page 47

مضامین بشیر جلد سوم 25 ہیں.مجھے کئی ماہ کے بعد رستہ میں نظر آئے.میں انہیں دیکھ کر رک گیا.اور بعد سلام مسنون ان کی خیریت پوچھی.انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور بالمقابل مجھ سے بھی پوچھا کہ کیا آپ راضی ہیں؟ اس وقت بے ساختہ میری زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ ”ہاں شکر ہے.میں اپنے خدا پر بالکل راضی ہوں“.انہوں نے کہا کہ خدا پر تو ہر شخص راضی ہوتا ہے.میں نے کہا.”بیشک یہ درست ہے.مگر کوئی شخص شرح صدر سے راضی ہوتا ہے.اور کوئی اس مجبوری کی وجہ سے راضی ہوتا ہے کہ خدا کی تقدیر کو قبول کرنے کے بغیر چارہ نہیں.لیکن الْحَمْدُ لِلہ میں اپنے خدا پر شرح صدر سے راضی ہوں“ اس پر یہ دوست تو مسکرا کر چلے گئے مگر میں اپنی جگہ سوچ میں پڑ گیا اور اپنے نفس سے پوچھنے لگا کہ تو نے یہ الفاظ تو کہہ دیئے لیکن کیا تو واقعی اپنے خدا پر شرح صدر سے راضی ہے؟ اور اس کی ہر تقدیر کو خواہ وہ شیر میں تقدیر ہو یا کہ تلخ.شرح صدر سے قبول کرتا ہے؟ اور پھر میں نے اپنے دل کے سارے گوشوں میں جھانک کر اور کونے کونے کا جائزہ لے کر آخر یہی نتیجہ نکالا کہ میں خدا کے فضل سے اور اسی کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اپنے خدا پر اور اس کی ہر تقدیر پر پورے شرح صدر کے ساتھ راضی ہوں.میں نے سوچا کہ بیشک انسان کا جسم جو گوشت پوست سے مرکب ہے.بہت کمزور ہے.اور بعض باتوں پر تکلیف محسوس کرتا اور بے چین ہوتا ہے.حتی کہ بعض اوقات اس کی بے چینی انتہا کو پہنچ جاتی ہے.مگر سچے مومن کی روح ہر حال میں اپنے آسمانی آقا سے راضی رہتی اور اس کی ہر تقدیر کو شرح صدر کے ساتھ قبول کرتی ہے.اور یہی وہ مقام ہے جو دنیا کی مقدس ترین جماعت یعنی صحابہ کرام کو حاصل ہوا تھا.جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (المائدة: 120) یعنی خدا صحابہ کی جماعت پر راضی تھا اور صحابہ اپنے خدا پر راضی تھے.دنیوی لحاظ سے صحابہ کو بے شمار تکلیفیں پیش آئیں مگر وہ رَضُوا عَنْهُ کے مقام سے سر موادھر ادھر نہیں ہوئے اور یہی وہ حالت ہے جس کی طرف حضرت مسیح ناصری نے واقعہ صلیب کے وقت جبکہ انہیں اپنا سولی پر لٹکایا جانا گو یا آنکھوں کے سامنے نظر آ رہا تھا ان تاریخی الفاظ میں اشارہ کیا تھا کہ:.روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے“ پس کچی بات یہی ہے کہ خواہ جسم کتنا ہی کمزور ہو.( اور جسم واقعی ایک نہایت کمزور چیز ہے ) اور خواہ کوئی مصیبت کتنی ہی سختی کے ساتھ انسان پر وارد ہو.سچے مومن کی روح ہر حال میں صبر وشکر کے جذبات کے ساتھ خدا کے آستانہ پر گری رہتی ہے.صبر اس لئے کہ ہر مصیبت کے وقت خدا نے صبر کرنے کی تاکید کی ہے اور حقیقتا صبر کے بغیر چارہ بھی نہیں.اور شکر اس لئے کہ خواہ کسی شخص کی مصیبت کتنی ہی سخت ہو.دنیا میں ایسے

Page 48

مضامین بشیر جلد سوم 26 لاکھوں انسان موجود ہوتے ہیں جن کی مصیبت اس سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہے.علاوہ ازیں اگر انسان اپنے آسمانی آقا کی تقدیر پر صبر و شکر نہیں کرے گا تو اور کس پر کرے گا؟ ہر انسان کے سر پر خدا کی نعمتوں اور اس کی شیر میں تقدیروں کا اتنا بھاری بوجھ ہے کہ اس کی کسی تلخ تقدیر پر چیں بجبیں ہونا انتہا درجہ کی بے وفائی اور غداری سے کم نہیں.جس ہاتھ سے انسان نے ہزاروں میٹھی قاشیں کھائی ہوں.اس ہاتھ سے کبھی کبھی کسی کڑوی قاش کا کھانا کسی شریف اور با اخلاق انسان پر ہرگز گراں نہیں ہونا چاہئے.لیکن حق یہ ہے کہ خدا پر راضی رہنے کی بنیاد صرف اس بات پر قائم نہیں ہے کہ ہم پر اس کے بے شمار احسان ہیں بلکہ زیادہ تر اس حقیقت پر مبنی ہے کہ جہاں ہر راحت اور ہر رحمت خدا کی طرف سے ہے.وہاں ہر تکلیف جو کسی انسان پر آتی ہے.وہ دراصل اس کی اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور اپنی غلطی کی وجہ سے خدا پر ناراض ہونا اول درجہ کی بے وفائی ہی نہیں بلکہ اول درجہ کی بے وقوفی بھی ہے.قرآن شریف نے کیا خوب فرمایا ہے کہ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللهِ فَمَال هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا مَا أَصَابَكَ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ، وَأَرْسَلْنَكَ لِلنَّاسِ ط رَسُولاً (النساء: 79 تا 80) یعنی اے رسول! تو لوگوں سے کہہ دے کہ اس لحاظ سے کہ ہر قانون خدا کا بنایا ہوا ہے.تقدیر خیر اور تقدیر شر دونوں خدا کی طرف سے ہیں.مگر افسوس کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں.لیکن اس لحاظ سے کہ اس قانون کو حرکت میں لانے والے موجبات کیا ہیں.جو تقدیر خیر تجھے پہنچتی ہے.وہ حقیقتا خدا کی طرف سے ہوتی ہے.اور جو تقدیر شر تجھ پر وارد ہوتی ہے.وہ تیرے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور اے رسول! ہم نے تجھے لوگوں کے غلط خیالات کی اصلاح کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے.اس جگہ کوئی جلد باز شخص خیال کر سکتا ہے کہ جس طرح بُرے اعمال کے بُرے نتائج کی ذمہ داری انسان پر ڈالی گئی ہے.اسی طرح کیوں اچھے اعمال کے اچھے نتائج بھی اس کی طرف منسوب نہیں کئے گئے.جبکہ بظاہر ہر دو قسم کے اعمال میں نیت اور عمل انسان کے اپنے ہوتے ہیں؟ سواس کا جواب خود قرآن شریف دیتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ، وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا (الانعام: 161)......و يَعْفُوا عَنْ كَثِيرِ (المائده:16) یعنی اگر کوئی شخص اچھا عمل کرتا ہے تو ہم اسے اس کے عمل کا دس گنا ثواب دیتے ہیں.اور اگر کوئی شخص

Page 49

مضامین بشیر جلد سوم 27 بر اعمل کرتا ہے تو ایسے شخص کو صرف اس کی بدی کے برابر گرفت کی جاتی ہے....اور باوجود اس کے خدا اپنے بندوں کے بہت سے گناہ معاف بھی کر دیتا ہے.اس نہایت درجہ رحیمانہ اور فیاضانہ قانون کے ہوتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ انسان کے اچھے اور بُرے اعمال کے نتائج ایک ہی قسم میں داخل ہیں.لاریب حق یہی ہے کہ ہرا چھی تقدیر یعنی ہر اچھے عمل کا نتیجہ خدا کی نعمت ہے.اور ہر تلخ تقدیر انسان کے اپنے ہی اعمال کا گندا پھل ہے.جس سے وہ خدا کے رحیمانہ قانون اور بے شمار چشم پوشیوں اور معافیوں کے باوجود نہیں بچ سکا.پس میں نے اس دوست کے جواب میں شرح صدر کے ساتھ کہا اور شرح صدر کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں بفضلہ تعالیٰ اپنے خدا کی ہر تقدیر پر راضی ہوں.تکلیفیں اور پریشانیاں بے شک آتی ہیں اور بعض اوقات کافی سختی سے آتی ہیں.لیکن ہر تقدیر کو شرح صدر کے ساتھ قبول کرنے میں ہی انسان کے لئے برکت اور سعادت ہے.کیونکہ ایک تو تمام تقدیروں کو نافذ کرنے والا ہمارا اپنا خالق و مالک خدا ہے.جس کے لاتعداد انعاموں کے نیچے ہماری گردنیں دبی ہوئی ہیں.اور دوسرے ہماری سب تکلیفیں بالواسطہ یا بلا واسطہ ہماری اپنی ہی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں.ورنہ خدا تو اپنے بندوں کے لئے سراسر رحمت اور سراسر شفقت اور سراسر محبت ہے.اور اس کی ظاہر میں نظر آنے والی گرفت بھی دراصل رحمت ہی کی دوسری صورت اور رحمت ہی کا پیش خیمہ ہوتی ہے.کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ.ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند پس میں اپنے دوستوں اور عزیزوں سے کہوں گا کہ وہ کسی حال میں بھی خدا کا دامن نہ چھوڑیں کہ اسے چھوڑ کر ہمارے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہیں.ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لطیف دعا سکھائی ہے کہ اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ إِلَيْكَ وَ وَجَهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ وَ فَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَالْجَاتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ رَغْبَةٌ وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ وَآمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَ نَبَيّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ ( محرره 7 نومبر 1951ء) روزنامه الفضل لاہور 13 نومبر 1951ء)

Page 50

مضامین بشیر جلد سوم 28 11 اسلامی خلافت کا نظریہ کوئی خلیفہ برحق معزول نہیں ہوسکتا ( عزل خلفاء کے مسئلہ پر حضرت میاں صاحب نے اپنے مندرجہ ذیل مقالہ میں جو روشنی ڈالی ہے وہ انہی کا حصہ ہے.آپ نے سہل ممتنع انداز میں اس مسئلہ کو قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، خلیفہ اصیح اوّل اور حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حوالوں سے اچھی طرح واضح فرما دیا ہے.اس کے متعلق دورا ئیں نہیں ہوسکتیں.البتہ مضمون کے آخری حصہ میں جو آپ نے خلافت کی مدت کے مسئلہ کے متعلق فرمایا ہے وہ اتنا واضح نہیں ہے جتنا کہ چاہئے تھا.اصل میں یہ ایک جدا گانہ مسئلہ ہے اور اس کا یہاں ذکر ضمناً آ گیا ہے.ہمیں امید ہے کہ حضرت میاں صاحب اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈالیں گے.ایڈیٹر ) کچھ عرصہ ہوا حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اخبار الرحمت لاہور کے ایک مضمون کی بناء پر الفضل میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق کوئی خلیفہ معزول نہیں ہوسکتا.یہ اعلان نہایت برمحل اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق تھا.کیونکہ بد قسمتی سے اس وقت بعض ایسے احمدی نوجوان بھی اس مسئلہ میں ٹھوکر کھا رہے تھے جنہوں نے ایک طرف تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا اور نہ ہی حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خلافت کا ابتدائی زمانہ دیکھا ہے جبکہ یہ مسئلہ پوری طرح زیر بحث آکر قطعی طور پر حل ہو چکا تھا.اور دوسری طرف وہ اس معاملہ میں قرآن وحدیث کی تعلیم اور خلفاء راشدین کے اقوال وحالات سے بھی اچھی طرح واقف نہیں اور چند سنی سنائی باتوں سے زیادہ علم نہیں رکھتے اور تیسری طرف وہ موجودہ زمانہ کے جمہوری ماحول سے غلط طور پر متاثر ہوکر خلیفہ کو بھی نعوذ باللہ ایک ایسا لیڈر سمجھنے لگ گئے ہیں جو لوگوں کے بنانے سے بنتا اور لوگوں کے گرانے سے گر سکتا ہے.پس الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس اعلان نے وقت کی ایک نہایت اہم ضرورت کو پورا کیا ہے.لیکن جیسا کہ ایسے معاملات میں قاعدہ ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ الہتعالی کے اس اعلان نے بعض دوستوں کے دل میں بعض ضمنی سوالات پیدا کر دیئے ہیں اور وہ اعتراض کے طور پر نہیں بلکہ لِيَطْمَئِنَّ قلبی کے اصول کے ماتحت ان سوالات کے متعلق اسلام اور احمدیت کی تعلیم اور تاریخی واقعات کی روشنی میں

Page 51

مضامین بشیر جلد سوم 29 تسلی چاہتے ہیں.یہ مسئلہ چونکہ نہایت اہم ہونے کے علاوہ بہت سی شاخوں پر مشتمل ہے اس لئے میں انشاء اللہ اس کے متعلق کچھ عرصہ تک ایک تحقیقی مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا.فی الحال نہایت اختصار کے ساتھ صرف اس قدر بتانا چاہتا ہوں کہ اس بات میں کیا حکمت ہے کہ ایک دفعہ با قاعدہ منتخب ہونے کے بعد کوئی خلیفہ بھی کبھی معزول نہیں ہو سکتا.سوال کرنے والے کہتے ہیں (اصل میں الفاظ پڑھے نہیں جار ہے.ناقل ) لوگوں کی کثرت رائے سے ہی ایک شخص خلیفہ منتخب ہوتا ہے اور اسلامی تعلیم بھی یہی ہے کہ مومنوں کی کثرت رائے سے خلیفہ منتخب ہوتو پھر کیا وجہ ہے کہ اگر بعد میں لوگوں کی کثرت رائے کسی خلیفہ کے معزول کرنے پر متفق ہو جائے تو وہ اسے معزول کرنے کے حقدار نہ سمجھے جائیں؟ جو ہاتھ کسی چیز کو بناتا ہے وہ اسے توڑنے پر بھی قادر ہونا چاہئے اور پھر یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ انسان کے حالات میں تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے.ہوسکتا ہے کہ آج ایک شخص کو خلافت کا اہل سمجھ کر خلیفہ منتخب کیا جائے لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ کسی وجہ سے اس اہلیت کو کھو بیٹھے تو اس صورت میں مومنوں کی جماعت کو تبدیل شدہ حالات میں اپنے سابقہ فیصلہ کو بدلنے کا حق ہونا چاہئے.یہ وہ سوال ہے جو منجملہ دوسرے سوالوں کے بعض لوگوں کے دل میں پیدا ہو رہا ہے اور گو وہ ایمانی رنگ میں یقین رکھتے ہیں کہ جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اس سے قبل حضرت خلیفہ اول بار بار وضاحت فرما چکے ہیں وہی صحیح اور درست ہے مگر وہ اپنے اطمینان قلب کے لئے اس حکم کی حکمت اور اس نظریہ کا فلسفہ جاننے کے متمنی ہیں کہ وہ زبان جو کسی خلیفہ کو منتخب کرنے میں کھلی رکھی گئی ہے وہ حالات کے تبدیل ہونے پر اس کے معزول کرنے کے سوال میں کیوں بندر ہے؟ اس سوال کا مختصر اور دو حرفی جواب تو اس قدر کافی ہے کہ یہ بات ہرگز درست نہیں کہ خلیفہ محض لوگوں کی رائے سے منتخب ہوتا ہے.اگر حقیقت یہی ہوتی کہ لوگ خود خلیفہ بناتے ہیں.تو پھر بیشک ایک حد تک سوال کرنے والوں کا یہ شبہ درست سمجھا جاسکتا تھا کہ جو ہاتھ ایک چیز کو بناتے ہیں.وہ حسب ضرورت اسے تو ڑ بھی سکتے ہیں.مگر جیسا کہ میں ابھی ثابت کروں گا.حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے.اور یہ دعوی کسی طرح صحیح ثابت نہیں ہوتا کہ خلافت حقہ ایک محض انسانی نظام ہے.جو لوگوں کے ہاتھ سے وجود میں آتا ہے اور اس کا قیام ان کی خوشی اور مرضی پر موقوف ہے.پس جبکہ یہ دعویٰ ہی باطل ہے.تو اس دعویٰ کا وہ نتیجہ جو بعض خام خیال لوگ پیدا کرنا چاہتے ہیں کس طرح درست سمجھا جاسکتا ہے؟ حق یہ ہے کہ خلافت حقہ ایک نہایت عجیب و غریب روحانی نظام ہے.جو خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر اور

Page 52

مضامین بشیر جلد سوم 30 خاص تصرف کے ماتحت قائم ہوتا ہے.اور گو اس میں نبوت کے قیام کی طرح خدا تعالی اپنی وحی جلی کو کام میں لا کر منظر عام پر نہیں آتا.مگر اس کی وحی خفی یعنی اس کی تقدیر خاص کی مخفی تاریں مومنوں کے قلوب پر تصرف کر کے ان کی رائے کو اس شخص کی طرف جسے خدا تعالیٰ خلیفہ بنانا چاہتا ہے.اس طرح مائل کر دیتی ہیں کہ وہ منظور ایزدی شخص کے سوا کسی اور کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.یہ حقیقت اسلام اور احمدیت کی تعلیم اور اسلام اور احمدیت کی تاریخ سے اس وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ کوئی دانا شخص جو غور اور تدبر کا مادہ رکھتا ہے.اس سے انکار نہیں کر سکتا.قرآن اور حدیث اور خلفائے راشدین کے اقوال وحالات اور پھر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور آپ کے بعد حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشادات سب کے سب بلا استثناء اس حقیقت کے گواہ اور شاہد ہیں کہ گو خلفاء کے انتخاب میں بظاہر مومنوں کی زبان چلتی ہے.مگر حقیقتا تصرف خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے.اور ایک نبی یا سابقہ خلیفہ کی وفات پر آسمانی چرواہے کا مخفی عصا مومن بھیڑوں کو جو اس وقت انتشار کی حالت میں ہوتی ہیں، گھیر گھیر کر ایک محفوظ احاطہ میں جمع کر دیتا ہے.سب سے پہلے میں قرآن مجید کو لیتا ہوں.جو خدائے علیم وحکیم کا کلام اور ہمارے نظامِ روحانی کا مرکزی نقطہ ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بارہ (12) مختلف مقامات پر خلافت کا ذکر فرمایا ہے.ان میں سے بعض میں قومی خلافت مراد ہے اور بعض میں انفرادی خلافت مراد ہے اور بعض میں مخلوط مضمون ہے.پھر انفرادی خلافت میں سے بعض جگہ مامور خلیفہ مراد ہے اور بعض جگہ غیر مامور خلیفہ مراد ہے.مگر ان سب مقامات میں بلا استثناء ہر جگہ خدا تعالیٰ نے خلافت کو خواہ وہ کسی قسم کی ہے خود اپنی طرف منسوب کیا ہے.اگر کسی شخص کو شوق ہو تو سورہ بقرہ آیت 31 اور سورۃ انعام آیت 134 اور پھر سورہ انعام آیت 166 اور سورہ اعراف آیت 70 اور پھر سورہ اعراف آیت 130 اور سورہ یونس آیت 15 اور پھر سورہ یونس آیت 74 اور سورہ ہود آیت 58 اور سورہ نورآیت 56 اور سورہ نمل آیت 63 اور سورۃ فاطر آیت 40 اور بالآخر سورہ ص آیت 27 کا مطالعہ کر سکتا ہے میں اس جگہ نمونہ کے طور پر صرف تین آیتوں کے اندراج پر اکتفا کرتا ہوں.نسل انسانی میں انفرادی خلافت کے آغاز کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقره:31) یعنی اے محمد رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اس نظارہ کو یاد کر جبکہ تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں اس دنیا میں آسمانی ہدایت کا آغاز ایک شخص کو خلیفہ بنا کر کرنے لگا ہوں.

Page 53

مضامین بشیر جلد سوم 31 پھر اس کے بعد بنی اسرائیل کی انفرادی خلافت کے وسطی نقطہ کے متعلق فرماتا ہے:.يَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ ( ص: 26) یعنی اے داؤد ! ہم نے تجھے ملک میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے.اور بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں انفرادی اور قومی خلافت کے متعلق مخلوط طور پر اصولی رنگ میں فرماتا ہے کہ:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (النور:56) یعنی اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے کہ وہ ضرور ضر ور انہیں دنیا میں خلیفہ بنائے گا.جس طرح کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور وہ ان کے ذریعہ اس دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے دنیا میں مضبوط اور مستحکم کر دے گا اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا.اس آیت میں جو آیت استخلاف کہلاتی ہے اور قرآن کریم کی اہم ترین آیات میں سے ہے چوٹی کے مومنوں کے لئے انفرادی خلافت کا اور عام مسلمانوں کے لئے قومی خلافت کا وعدہ دیا گیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ”شہادت القرآن میں اپنی خدا دا د خلافت کے متعلق اور رسالہ الوصیت میں حضرت ابو بکر کی خلافت کے متعلق اسی قرآنی آیت سے استدلال فرمایا ہے اور یہی حال دوسری قرآنی آیات کا ہے جن میں بلا استثناء ہر جگہ خدا تعالیٰ نے خلفاء کے تقرر کولاز مأخود اپنی طرف منسوب کیا ہے جو اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ خلافت کے معاملہ کو خواہ وہ انفرادی ہے یا قومی خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.اگر اس جگہ کسی شخص کو یہ اعتراض پیدا ہو کہ خدا تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں ضلالت اور گمراہی تک کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور خلافت کی کوئی خصوصیت نہیں تو یہ ایک جہالت کا اعتراض ہوگا.کیونکہ خلافت ایک اعلیٰ درجہ کا انعام اور اکرام ہے اور گمراہی ایک انتہا درجہ کی بدبختی اور محرومی ہے.پس خدا تعالیٰ کی طرف ان دونوں چیزوں کی نسبت کبھی بھی ایک رنگ میں نہیں سمجھی جاسکتی اور حق یہی ہے کہ جہاں خلافت کا انعام خدا کی مشیت اور خوشنودی کے اظہار کے لئے خدا کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہاں ضلالت اور گمراہی کی نسبت صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ کسی شخص کا گمراہ ہونا خدا تعالیٰ کے اس قانون کے

Page 54

مضامین بشیر جلد سوم 32 ماتحت ہے کہ اس نے انسان کو صاحب اختیار بنایا ہے کہ چاہے تو ہدایت پر قائم ہو جائے اور چاہے تو گمراہی کا رستہ لے لے.اسی لئے قرآن شریف نے دوسری جگہ صراحت فرمائی ہے کہ گوگمراہ ہونے والے لوگ بھی خدائی قانون کے ماتحت ہی گمراہ ہوتے ہیں مگر ان کے گمراہ ہونے کی ذمہ داری خودان پر ہے کیونکہ صرف وہی لوگ گمراہ ہوتے ہیں جو خود دیدہ دانستہ بدی کا رستہ اختیار کرتے ہیں.بہر حال یہ غیر معمولی حقیقت کہ قرآن شریف میں بارہ (12) جگہ خلافت کا ذکر آیا ہے اور ان سب میں بلا استثناء خدا تعالیٰ نے ہر قسم کی خلافت کو خود اپنی طرف منسوب کیا ہے اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ خلیفہ گری کی تاریں صرف خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور انسان اس میدان میں ایک آلہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.دوسرا نمبر حدیث کا ہے سو وہ بھی قرآن کی طرح اس بات کی برملا شہادت دے رہی ہے کہ خلیفہ خدا تعالیٰ بناتا ہے.میں اس جگہ صرف دو حوالوں پر اکتفا کروں گا.بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت آتی ہے کہ قَالَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي مَرْضِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلى أَبِي بَكْرٍ حَتى أَكْتُبَ كِتَابًا فَأَعْهَدَ أَنْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ وَ يَقَوْلُ قَائِلُ أَنَا أَوْلَىٰ غَمٍ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ (بخاری، کتاب الاحکام، باب الاستخلاف) یعنی حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض موت میں مجھ سے فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ ابو بکر کو بلا کر ان کے حق میں خلافت کی تحریر لکھ جاؤں تا کہ میرے بعد دوسرے لوگ خلافت کی تمنا میں کھڑے نہ ہو جائیں اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ میں ابو بکر کی نسبت زیادہ حقدار ہوں.مگر پھر میں نے اس خیال سے یہ ارادہ ترک کر دیا کہ خدا تعالیٰ ابوبکر کے سواکسی اور شخص کی خلافت پر راضی نہ ہوگا اور نہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اور کو قبول کرے گی.یہ لطیف حدیث اسلامی خلافت کے فلسفہ کا حقیقی نچوڑ پیش کرتی ہے.کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ گو بظاہر ایک غیر مامورخلیفہ کا انتخاب لوگ کرتے ہیں مگر در حقیقت اس کے انتخاب میں خدا تعالیٰ کی تقدیر کام کر رہی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اپنے خاص الخاص تصرف سے لوگوں کے دلوں اور ان کی زبانوں کو خلافت کے اہل شخص کی طرف مائل کر دیتا ہے.گویا آجکل کی سیاسی اصطلاح کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملہ میں خدا تعالیٰ پس پردہ رہ کر اپنی مخفی تاروں کے ذریعہ وائر پگر (Wirepuller) کا کام

Page 55

مضامین بشیر جلد سوم 33 کرتا ہے یعنی گو بظاہر لوگوں کی زبان بولتی ہے مگر حقیقتا تصرف خدا تعالیٰ کا چلتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے.پھر ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ لَعَلَّ اللَّهَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا فَإِنْ أَرَادُوكَ عَلَى خَلْعِهِ فَلَا تَخْلَعُهُ (ترندی، کتاب المناقب عن رسول الله فی مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ) یعنی اے عثمان ! خدا تجھے ایک قمیص پہنائے گا.مگر بعض منافق لوگ اسے اُتارنا چاہیں گے لیکن تم اسے ہرگز نہ اُتارنا.یہ حدیث بھی اس مسئلہ میں نہایت واضح اور صاف ہے کیونکہ اس میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم بالکل قطعی اور غیر مشکوک الفاظ میں خلافت کے تقرر کو خدا تعالیٰ کی طرف اور عزل کی کوشش کو لوگوں کی طرف بلکہ لوگوں میں سے بھی منافقوں کی طرف منسوب فرماتے ہیں اور پھر یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ نہ صرف خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بلکہ بلا استثناء تمام عالم اسلامی نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ اس حدیث میں حضرت عثمان کی خلافت اور بعد میں بعض لوگوں کی طرف سے ان کے عزل کی کوشش کی طرف اشارہ ہے.بلکہ ایک دوسری روایت میں یہاں تک ذکر آتا ہے کہ جب بلوائیوں نے جمع ہو کر حضرت عثمان کو خلافت سے دستبردار ہونے کے لئے کہا اور اس مطالبہ پر دھمکی کے رنگ میں زوردیا تو انہوں نے اس حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی جرات کے ساتھ فرمایا کہ.لَا أَخْلَعُ سِرُ بالاسر بَيْنَهُ الله ( تاریخ طبری مؤلف محمد بن جریر الطمری ابوجعفر باب ذكر الخمر عن قبلہ وکیف شیل) یعنی میں اس عبا کو ہر گز نہیں اتاؤں گا جو خدا نے مجھے پہنائی ہے.اور پھر اتنی 80 سالہ بوڑھے مگر غیرت مند اور بہادر خلیفہ برحق نے بلوائیوں کے ظلم کا شکار بن کر اپنی جان دے دی مگر اس مقدس قمیص کے دامن کو نہیں چھوڑا جو خدا تعالیٰ نے اس کے کندھوں پر ڈالی تھی.اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز جمال اور مثیل مثالی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آتا ہے.آپ کی تحریرات اور ارشادات بھی اس معاملہ میں روز روشن کی طرح واضح ہیں مگر میں اس جگہ صرف دو حوالوں پر اکتفا کروں گا.فرماتے ہیں.” جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا میں ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اسے مٹاتا ہے اور پھر گویا از سرنو اس خلیفہ کے ذریعہ

Page 56

مضامین بشیر جلد سوم استحکام ہوتا ہے“ 34 (الحکم مورخہ 14 اپریل 1908ء) دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمنًا (النور: 55) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا....اور ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا...سوالے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے.سواب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.....میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے ( رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان حوالوں سے ثابت ہے کہ نہ صرف یہ کہ خلیفہ خدا تعالیٰ بناتا ہے اور ہر مامور کے وقت میں خدا تعالیٰ کی یہی سنت رہی ہے بلکہ یہ بھی کہ حضرت ابو بکڑ کی خلافت ( اور اسی اصل کے ما تحت حضرت عمرؓ اور دوسرے خلفاء کی خلافت بھی ) سورۃ نور کی آیت استخلاف کے ماتحت تھی اور پھر ان حوالوں سے یہ بات بھی قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی خلفاء کا سلسلہ چلے گا جنہیں خدا خود قائم فرمائے گا.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف لکھا ہے کہ بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے اس کے بعد حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا جبکہ بعض خام خیالوں نے اس زمانہ کے جمہوری اور دستوری نظاموں سے متاثر ہو کر اور روحانی اور مادی نظاموں کے فرق کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اعتراض کرنے شروع کئے اور آپ کے عزل کی سکیمیں بنائیں اس پر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جوارشادات فرمائے ان میں سے بعض ملاحظہ ہوں.فرماتے ہیں.سن لو کہ نہ مجھے کسی انسان نے اور نہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے.اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا

Page 57

مضامین بشیر جلد سوم 35 ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے.پس مجھے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی کچھ قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں.اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا ( چادر ) مجھ سے چھین لئے پھر فرماتے ہیں کہ ( بدر 4 جولائی 1912ء) مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے.خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی...اگر خدا تعالیٰ نے مجھے معزول کرنا ہوگا تو وہ مجھے موت دے دے گا.تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کرو.تم معزولی کی طاقت نہیں رکھتے جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا ہے (الحلم 21 جنوری 1914ء) حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے یہ حوالے جو اسی قسم کے بیسیوں حوالوں میں سے صرف نمونہ کے طور پر لئے گئے ہیں کتنے واضح اور کتنے زور دار ہیں اور پھر اس مرکزی نکتہ کے علاوہ کہ خلیفہ خدا بنا تا ہے ان حوالوں میں یہ لطیف نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر بالفرض کسی خلیفہ کے متعلق خدا تعالیٰ یہ دیکھے کہ وہ جسمانی کمزوری کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے خلافت کے فرائض کے قابل نہیں رہا تو وہ اسے خود وفات دے کر اس دنیا سے اٹھالیتا ہے.لیکن کسی صورت میں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ اس کے بنائے ہوئے خلیفہ کومعزول کر یں اور نہ ایسی معزولی ک کسی کو اختیار ہے.اس کے بعد حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کا زمانہ آتا ہے.سو اس زمانہ کے تعلق میں یہ بات تو معروف اور مسلّم ہی ہے کہ اس خلافت کے آغاز میں غیر مبائعین کا فتنہ ہی یہ تھا کہ وہ خلافت کو اڑانا چاہتے تھے اور کم از کم اسے ایک معمولی رسمی سی امامت کا رنگ دے کر انجمن کے ماتحت رکھنا چاہتے تھے اور اسی بناء پر یہ لوگ جماعت سے کٹ گئے.اس لئے اس زمانہ کے تعلق میں زیادہ حوالوں کی ضرورت نہیں ہے.صرف حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے اس آخری اعلان پر اکتفا کرتا ہوں جو اخبار ” الرحمت“ کے مضمون کے جواب میں حضور نے ابھی ابھی شائع فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں.اگر خلیفہ اسلام میں معزول ہوسکتا ہے تو یقیناً حضرت علی مجرم ہیں کیونکہ ان کی اپنی جماعت کے ایک حصہ نے کہہ دیا تھا کہ ہم آپ کو خلافت سے معزول سمجھتے ہیں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تلوار میان سے

Page 58

مضامین بشیر جلد سوم 36 نکالی اور ہزار ہا خارجیوں کو قتل کر کے رکھ دیا.حضرت عثمان سے بھی باغیوں کا یہی مطالبہ تھا کہ آپ خلافت چھوڑ دیں لیکن انہوں نے اپنی جان قربانی کے لئے پیش کر دی اور عزل کا عقیدہ رکھنے والوں کا منہ کالا کر دیا.پھر ہمارے زمانہ میں آکر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی یہ سوال اٹھا اور آپ نے فرمایا تم کون ہوتے ہو مجھے معزول کرنے والے“ (الفضل 31 اکتوبر 1951ء) کیا ان واضح اور بین حوالہ جات کے ہوتے ہوئے جو قرآن اور حدیث کی نصوص صریحہ اور خلفائے راشدین کے اقوال و حالات سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے ارشادات تک مسلسل پھیلے ہوئے ہیں اور بلا استثناء ایک ہی ٹھوس حقیقت اور ایک ہی روشن تعلیم کے حامل ہیں.کوئی دانا شخص اس بات میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی شبہ کر سکتا ہے کہ خلافت ایک روحانی نظام ہے جو صرف خدا کے حکم سے قائم ہوتا ہے اور خلیفہ ایک دینی امام ہے جوصرف خدا کے بنانے سے بنتا ہے؟ تو جب خلافت کا قیام خدا کے خاص حکم سے ہوتا ہے تو پھر اس کے عزل کا اختیار لوگوں کے ہاتھ میں کیسے سمجھا جاسکتا ہے.بنائے تو ایک چیز کو خدا اور بنائے بھی اپنی خاص سکیم اور خاص تقدیر اور خاص تصرف کے ساتھ مگر اس کے توڑنے کا اختیار لوگوں کو حاصل ہو.یہ اندھیر خدائی قانون اور خدائی حکومت میں کبھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا.اور اگر کسی شخص کو یہ شبہ گزرے کہ نبی بھی تو خدا بنا تا ہے اور اپنی وحی جلی کے ذریعہ براہ راست حکم دے کر بناتا ہے.لیکن پھر بھی لوگ نبیوں کو دکھ دیتے ہیں بلکہ جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے انہیں قتل تک کر دیتے ہیں اور انجیل سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قتل ثابت ہے اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی سچے خلیفہ ہونے کے باوجود شہید ہوئے تھے تو یہ شبہ سخت نادانی کا شبہ ہوگا.کیونکہ یہاں باغی بن کر کسی چیز کو مٹانے کا سوال نہیں بلکہ خدائی قانون کے ماتحت جائز صورت میں مٹانے کا سوال ہے.پس جو شخص یا جو گروہ کسی بچے خلیفہ کے عزل کی کوشش کرے گا وہ بھی خدائی قانون کا باغی سمجھا جائے گا اور خواہ وہ اپنی مفسدانہ کوشش میں کامیاب ہو یا نہ ہو وہ بہر حال ایک مجرم کی سزا پائے گا.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ سلم نے حضرت عثمان کے خلاف سراٹھانے والوں اور ان کے عزل کی کوشش کرنے والوں کو منافق قرار دیا ہے.کیونکہ گو وہ ظاہر میں اسلام کا دم بھرتے تھے مگر خدا کی نظر میں وہ منافق اور نظام اسلام کے دشمن تھے اور اسی بنا پر قرآن شریف نے بھی خلفاء کے منکروں کو فاسق قرار دیا ہے.گویا بالفاظ دیگر خدا نے یہ فرمایا ہے کہ تم ہمارے نبی کو تو ماننے کا دعوی کرتے ہو لیکن نبی کے کام کو چلانے اور جاری رکھنے کے لئے جو نظام ہم نے قائم کیا ہے اس کا انکار کر کے ہماری ہوئی ہوئی فصل کو تباہ کرنا چاہتے ہو؟

Page 59

مضامین بشیر جلد سوم 37 پس تم فاسق ہو کہ زبان پر تو اسلام ہے مگر تمہارے ہاتھ پاؤں اسلام کی جڑھیں کاٹنے کے درپے ہیں.فَافُهُمْ وَتَدَبَّرُ وَلَا تُكُنُ مِنَ الْمُمْتَرِينَ - دراصل غور نہیں کیا گیا ورنہ یہ بات بالکل آسانی کے ساتھ مجھی جاسکتی ہے کہ اصل سوال عزل کا نہیں بلکہ اصل سوال خلافت کے تقرر اور قیام کا ہے اور عزل کا سوال تقرر کے سوال کے تابع اور اس کی فرع اور شاخ ہے.عزل کیا ہے؟ ایک بنی ہوئی عمارت کو گرانے کا نام عزل ہے.تو کیا دنیا کے پردے پر کوئی ایسا عقل کا اندھا بھی ہو سکتا ہے جو اس بات کا علم حاصل کرنے کے بغیر ہی کسی عمارت کو گرا نا شروع کر دے کہ یہ عمارت میری ہے یا کسی اور کی ؟ یقیناً جو شخص کسی دوسرے کی عمارت کو مسمار کرنے کے درپے ہو گا وہ مجرم بنے گا اور پکڑا جائے گا اور یہاں تو کسی دوسرے فرد کی عمارت کا سوال نہیں بلکہ حکومت کی عمارت اور خدا تعالیٰ کی عمارت کا سوال ہے.پس نادان بن کر عزل کے سوال کے پیچھے مت پڑو.بلکہ یہ دیکھو کہ خلافت قائم کس طرح ہوتی ہے.اگر اسلامی خلافت زمین و آسمان کے خالق و مالک کی بنائی ہوئی عمارت ہے اور تم اس عمارت کو کھڑا کرنے میں محض ایک آلہ کی حیثیت رکھتے ہو اور تقدیر خدا کی چلتی اور انتخاب خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے تو پھر اس قلعہ پر ہاتھ ڈالتے ہو.ڈرو کہ اس پر خدائی گارد کا پہرہ ہے اور گو خدا کے مادی قانون کے ماتحت تم اس قلعہ کو نقصان پہنچانے میں وقتی طور پر کامیاب ہو جاؤ مگر تم اس کے نتائج سے بچ نہیں سکتے اور اس کا روحانی قانون تمہیں جلد یا بدیر کچل کر رکھ دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ اے آں کہ سوئے من بد دیدی بصد تبر از باغباں بترس که من شاخ مشمرم بد قسمتی سے سارا دھوکا اس بات سے لگ رہا ہے کہ دینی اماموں اور دنیوی لیڈروں کے فرق کو نہیں سمجھا گیا اور سب کو ایک ہی قسم قرار دے کر اور ایک ہی قانون کے ماتحت لا کر فتوی لگا دیا گیا ہے کہ چونکہ دنیوی لیڈروں کا تقر ر وقتی ہوتا ہے اور حسب ضرورت انہیں معزول بھی کیا جا سکتا ہے.اس لئے دینی مقتداؤں اور روحانی اماموں پر بھی یہی قانون جاری ہونا چاہیئے.حالانکہ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.دنیوی لیڈ ر جمہوری نظام کا حصہ ہوتا ہے جس میں حکومت کا حق جمہور کی طرف سے ہو کر نیچے سے اوپر کو جاتا ہے.لیکن اس کے مقابل پر دینی امام خدا تعالیٰ کے روحانی نظام کا جزو ہوتا ہے جس میں حکومت خدا کی طرف سے ہو کر اوپر سے نیچے کو اترتی ہے.پس ان دونوں کو ایک ہی قانون کے ماتحت لا نا قیاس مع الفارق ہی نہیں بلکہ اول درجہ کی نادانی میں داخل ہے.

Page 60

مضامین بشیر جلد سوم 38 علاوہ ازیں ایک مذہبی امام اور روحانی پیشوا نے لوگوں کے لئے محبت اور اخلاص کے جذبات کا مرکز بننا اور ان کے لئے دین کے میدان میں نمونہ پیش کرنا ہوتا ہے.اس لئے بھی اس کے متعلق عزل کا سوال نہیں اٹھ سکتا.کیونکہ کوئی انسانی فطرت اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ مثلاً آج تو اس کی محبت کا مرکز زید کو مقرر کر کے اس کے واسطے زید کو نمونہ قرار دیا جائے اور کل کو زید کی زندگی میں ہی اسے کہا جائے کہ اب تمہارے لئے خالد نمونہ ہو گا.اور پرسوں خالد سے منہ موڑ کر بکر کو نمونہ بنا دیا جائے.یقینا دین کے میدان میں یہ ایک کھیل کی صورت بن جائے گی اور اسلام کا خدا کھیل سے بالا ہے.لیکن اس کے مقابل پر دنیوی لیڈروں کا تقرر چونکہ محض سیاسی مصالح کی بناء پر ہوتا ہے.ان کے متعلق محبت اور اخلاص کے جذبات کا کوئی سوال نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے لئے نمونہ بننے کے ضرورت سمجھی جاتی ہے.اس لئے ان کے معاملہ میں حسب ضرورت عزل کا رستہ اختیار کرنے میں کوئی امر مانع نہیں سمجھا جا سکتا.اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ خلفاء کے متعلق نمونہ بننے کا پہلو میرا تراشیدہ نہیں ہے بلکہ خود سرور کائنات صلے اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ (ابوداؤد، کتاب السنۃ ، باب فی لزوم السنة ) یعنی اے مسلمانو ! تم پر میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت پر عمل کرنا واجب ہے کیونکہ وہ ٹھیک رستہ پر چلنے والے اور ہدایت یافتہ لوگ ہوں گے.یہ صحیح حدیث واضح الفاظ میں بتا رہی ہے کہ خلفاء اپنے اپنے وقت میں اپنی جماعت کے لئے نمونہ کا کام دیتے ہیں پس ان کے متعلق عزل کا سوال بالکل خارج از بحث ہے.حق یہ ہے کہ جیسا کہ میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں.خلافت نبوت ہی کی فرع اور اسی کی شاخ ہے.قدیم سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت چلی آتی ہے کہ جب وہ دنیا میں کوئی بڑی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے اپنے حکیمانہ انتخاب کے ماتحت کسی نبی کو اپنے الہام کے ذریعہ مبعوث کرتا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ (الانعام: 124) لیکن چونکہ بشریت کے لوازمات کے ماتحت نبی کی عمر بہر حال محدود ہوتی ہے اور اصلاح کا کام اور پھر اس کام کا استحکام لمبے عرصہ کا متقاضی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ نبی سے اس کے کام کی تخم ریزی کرا کے اس کی تکمیل کے لئے نبی کے بعد خلافت کا سلسلہ چلاتا ہے.جب تک کہ خدا کے علم میں اس کام کی تکمیل نہ ہو جائے.نبوت اور خلافت کا یہ دور ہر نبی

Page 61

مضامین بشیر جلد سوم 39 کے زمانہ میں نظر آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں اس کی بڑی لطیف تشریح فرمائی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا.ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے....اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک نا کامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے.مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ( خلفاء کے ذریعہ ) ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ وہ مقاصد جو کسی قدرنا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304-305) پس خلافت دراصل نبوت کے نظام کا تتمہ ہے جسے انگریزی میں کرالوری (Corollary) یا سپلیمنٹ (Supplement) کہتے ہیں.کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے.کسی نبوت کا کام خلافت کے بغیر تکمیل کو نہیں پہنچتا.تو جب یہ صورت حال ہے تو خلیفہ کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ اپنی مرضی کی چیز ہے کہ جب چاہا بنالی اور جب چاہا تو ڑ دی.ایک طفلانہ خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن سے بڑھ کر کوئی شخص دنیا کے پردہ پر راز دار حقائق روحانی نہیں گزرا فرماتے ہیں.مَا كَانَتْ نَبُوَّةُ قَطُّ إِلَّا تَبْعَتُهَا خِلَافَةٌ تاریخ دمشق لابن عسا کر، عبدالرحمن بن سھل ، جزء 34 صفحہ 421) یعنی کبھی کوئی نبوت ایسی نہیں ہوئی کہ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے خلافت نہ قائم کی ہو.پس خلافت کے متعلق عزل کا سوال در اصل خلافت کے جسم پر عمل جراحی کے مترادف ہے.کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک ہی جسم کے آدھے دھڑ کو سلامت رکھ کر اسی جسم کے دوسرے آدھے حصہ کو کاٹنے کی کوشش کرے.اور یہ کہنا کہ خلیفہ تو غلطی کر سکتا ہے لیکن نبی غلطی نہیں کرتا.اس لئے خلیفہ کے عزل کی اجازت ہونی چاہئے ایک کوتاہ نظری کا شبہ ہوگا.کیونکہ گو بیشک درجہ میں بڑا فرق ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بشر ہونے کے لحاظ سے نبی بھی اجتہادی غلطی کر سکتا ہے.حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ جب میرے پاس دو شخص اپنے حقوق کا مقدمہ لاتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ میں ایسے شخص کے حق

Page 62

مضامین بشیر جلد سوم 40 میں فیصلہ دے دوں جو چرب زبان ہے.لیکن حق پر نہیں.مگر میرے فیصلہ کی وجہ سے کوئی مال جھوٹے شخص کے لئے جائز نہیں ہو جائے گا.پس جب اجتہادی امور میں ایک نبی بھی غلطی کر سکتا ہے تو یہ کہنا کس طرح جائز ہوگا کہ چونکہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اس کے عزل کی اجازت ہونی چاہئے.میں پھر کہتا ہوں کہ بے شک نبی اور غیر مامور خلیفہ کے مقام میں بڑا فرق ہے.نبی تابع ہے اور خلیفہ متبوع.نبی لاز ما معصوم ہوتا ہے اور خلیفہ ضروری نہیں کہ معصوم ہو.نبی براہ راست الہام کے ذریعہ مبعوث ہوتا ہے اور خلیفہ کے تقرر میں گو اصل تقدیر خدا کی چلتی ہے مگر بظاہر لوگوں کے انتخاب کا بھی دخل ہوتا ہے.نبی کی سنت دائمی ہوتی ہے اور خلیفہ کی سنت اس کے زمانہ کے لئے محدود.لیکن بایں ہمہ وہ دونوں ایک ہی روحانی مشین کے کل پرزے ہیں اور دونوں علی قدر مراتب خدا کی رحمت اور قدرت کے سایہ میں پرورش پاتے ہیں اور خدا تعالیٰ خلفاء کو بھی ایسی غلطی سے بچاتا ہے جو الہی جماعت کے لئے تباہ کن ہو.اس لئے صوفیاء نے لکھا ہے کہ گونبیوں کی طرح اولیاء اور خلفاء کو معصوم قرار نہیں دیا جا سکتا مگر وہ محفوظ ضرور ہوتے ہیں.یعنی وہ بحیثیت مجموعی خدا کی حفاظت کے نیچے ہوتے ہیں اور خدا کا سایہ ان کے سر پر رہتا ہے.پس اس جہت سے بھی خلفاء کے عزل کا سوال نہیں اٹھ سکتا.ان کے عزل کا ایک اور صرف ایک ہی رستہ ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں موت کے ذریعہ اپنے پاس بلا لے اور موت خدا تعالیٰ کے حکم کے نیچے ہے.کیا اعتراض کرنے والے اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اگر دین خدا تعالیٰ کا ہے تو اسے اپنے دین کی ان لوگوں سے بڑھ کر فکر ہونی چاہئے.پھر کہا جاتا ہے کہ مگر باوجود اس کے کہ بظاہر خلفاء کا انتخاب لوگ کرتے ہیں.اس انتخاب کو خدا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.تو اگر لوگ کسی خلیفہ کے عزل کا فیصلہ کریں تو ان کے اس فیصلہ کو بھی کیوں نہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ قرار دیا جائے ؟ آخر جب خلیفہ کے تقرر کے معاملہ میں لوگوں کی آواز خدا تعالیٰ کی آواز بن جاتی ہے تو خلیفہ کے عزل کے معاملہ میں بھی اس آواز کو کیوں نہ وہی رتبہ حاصل ہو؟ مگر یہ اعتراض بھی بالکل سطحی اور بودا ہے.کیونکہ ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ لوگوں کی ہر بات خدا کی بات ہوتی ہے اور لوگوں کا ہر فیصلہ خدا کا فیصلہ سمجھا جانا چاہئے.بلکہ ہم نے تو صرف یہ کہا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ خلافت کے تقرر کو اپنی طرف منسوب فرماتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ خلیفہ میں بناتا ہوں.اس لئے لوگوں کی وہ آواز جو خلیفہ کے تقرر کے متعلق ہوگی وہ خدا کی آواز قرار دی جائے گی.لیکن اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ نے کسی جگہ یہ نہیں فرمایا اور نہ اس کے رسول نے کہیں ایسا کہا ہے کہ عزل کے متعلق بھی لوگوں کی آواز کو خدا تعالیٰ کی آواز سمجھو.اس لئے ایسی آواز کو ہرگز خدا تعالیٰ کی آواز نہیں سمجھا جائے گا.بلکہ عزل کے متعلق اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اس کی

Page 63

مضامین بشیر جلد سوم 41 کوشش کرنے والے باغی اور منافق ہیں.پس ان دو باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور کوئی دانا شخص انہیں ایک نہیں قرار دے سکتا.حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا خوب فرماتے ہیں کہ ”خدا تعالیٰ تمہیں ایک قمیص پہنائے گا لیکن منافق لوگ اسے اتارنا چاہیں گے.مگر تم اسے ہرگز نہ اُتارنا ( سنن ترندی کتاب المناقب عن رسول اللہ فی مناقب عثمان بن عفان ) کیا اس صریح ارشاد کے ہوتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح خلیفہ کے تقرر کے متعلق لوگوں کی آواز کو خدا تعالیٰ کی آواز قرار دیا جاتا ہے اسی طرح عزل کے متعلق بھی ان کی آواز کو خدا تعالیٰ کی آواز قرار دیا جائے؟ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بارہ (12) جگہ خلافت کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان سے تعلق رکھنے والے ارشادات میں خلیفہ کے تقرر کو خدا تعالیٰ کا فعل قرار دیا ہے اور حضرت عثمان والی حدیث میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں باتوں کو بالمقابل رکھ کر ان کے تقرر کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور ان کے عزل کی کوشش کو منافقت کا فعل گردانا ہے اور یہی تشریح خلافت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے.تو کیا ان واضح اور روشن حقائق کے ہوتے ہوئے کوئی مسلمان یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ جس طرح خلیفہ کے تقرر کے معاملہ میں لوگوں کی آواز خدا تعالیٰ کی آواز سمجھی جاتی ہے.اسی طرح عزل کے معاملہ میں بھی لوگوں کی آواز کو خدا تعالیٰ کی آواز سمجھا جائے ؟ ان دونو باتوں میں دن اور رات اور نور اور ظلمت کا فرق ہے اور کوئی عقلمند انسان انہیں ایک نہیں قرار دے سکتا.سوال کرنے والے لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا خلافت کا نظام دائمی ہے.یعنی ایک نبی اور مامور کی وفات کے بعد یہ ضروری ہے کہ اس کی خلافت کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہے؟ اگر یہ سلسلہ دائمی ہے تو اسلام کا جمہوریت کا نظام تو گوی ختم ہو گیا.اس کے جواب میں اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ گوخلافت کا حکم دائگی ہے.یعنی جب بھی کوئی نبی مبعوث ہو گا تو اس کے بعد لازماً خلافت آئے گی.مگر خلافت کا سلسلہ دائمی نہیں ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک نبی کے بعد اس کے خلفاء کا سلسلہ قائم رہے.بلکہ خلفاء کے سلسلہ کا زمانہ حالات اور ضرورت پر موقوف ہے.یعنی چونکہ خلافت نبوت کا تمہ ہے اس لئے جب تک خدا تعالیٰ کسی نبی کے کام کی تکمیل اور اس کے بوئے ہوئے بیج کی حفاظت کے لئے خلافت کا سلسلہ ضروری خیال فرماتا ہے یہ سلسلہ قائم رہتا ہے اور اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر خلفاء کی جگہ ملوکیت یا بالفاظ دیگر جماعت اور قوم کا دور

Page 64

مضامین بشیر جلد سوم 42 دورہ شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خلفاء کے متعلق فرماتے ہیں.الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ عَامًا ثُمَّ يَكُونُ بَعْدَ ذَالِكَ الْمُلْكُ (مسند احمد، کتاب مسند الانصار رضی اللہ عنہم ،حدیث ابی عبد الرحمن سفی یہ مولی ) یعنی میرے بعد خلفاء کا سلسلہ میں سال رہے گا اور اس کے بعد ملوکیت کا رنگ قائم ہو جائے گا.اور اصولی رنگ میں فرماتے ہیں.مَا كَانَتْ نَبُوَّةُ قَطُّ إِلَّا تَبْعَتُهَا خِلَافَةٌ وَمَا مِنْ خِلَافَةٌ إِلَّا تَبْعَتُهَا مُلكٌ ( تاریخ دمشق لابن عساکر، عبدالرحمن بن سهل، جزء 34 صفحہ 421) یعنی کوئی نبوت ایسی نہیں گزری جس کے بعد خلافت نہ آئی ہو اور کوئی خلافت ایسی نہیں ہوئی جس کے بعد حکومت کا رنگ نہ قائم ہوا ہو.ان احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خلافت کا زمانہ میں سال قرار دیا ہے اور تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ زمانہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تک پورا ہو جاتا ہے جس کے بعد ملوکیت کا دور دورہ شروع ہو گیا اور اوپر والی احادیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ یہی صورت ہر نبی کے زمانہ میں ہوتی ہے کہ پہلے نبوت قائم ہوتی ہے اور اس کے بعد خلافت آتی ہے اور اس کے بعد ملوکیت یعنی بادشاہت اور حکومت کا رنگ شروع ہو جاتا ہے.( اصل الفاظ پڑھے نہیں جار ہے.ناقل ) یہی ہے کہ کسی نبی کے بعد خلافت کا سلسلہ دائمی طو پر نہیں چلتا بلکہ صرف اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے ضروری خیال فرمائے اور قومی اور جماعتی تربیت کے لحاظ سے بھی یہی مناسب ہے کہ نبوت سے آغا ز کر کے جو گویا خدا تعالیٰ کی براہ راست نگرانی کا زمانہ ہے اور اس کے بعد خلافت وسطی زمانہ میں سے گزار کر جو گویا ایک مخلوط قسم کا رنگ رکھتا ہے بالآخر الہی جماعت کو خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے اور اس کی تربیت حاصل کرنے کے لئے آزاد کر دیا جائے.اس آخری زمانہ کو ملک یا ملوکیت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے.جس میں عربی اصطلاح کے مطابق امیر اور بادشاہ اور وقتی صد ر حکومت اور مجلس مشاورت وغیرہ سب قسم کے نظام شامل ہیں اور بنوامیہ اور بنوعباس کے خلفا ء سب اسی نوع میں داخل تھے.گو وہ غلط طور پر خلیفہ بھی کہلاتے رہے.حقیقتا اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک نہایت عجیب و غریب دور ہے.سب سے پہلے اور سب سے اول نمبر پر نبوت کا زمانہ ہے.جس میں گویا خدا تعالیٰ خود سامنے آکر ایک شخص کو اپنے براہ راست الہام اور حکم سے کھڑا کرتا ہے.اس

Page 65

مضامین بشیر جلد سوم 43 کے بعد خلافت کا وسطی زمانہ آتا ہے جس میں خدا نبوت کے زمانہ کی طرح خود براہ راست تو آگے نہیں آتا مگر پس پردہ رہ کر لوگوں کے دلوں اور زبانوں پر ایسا تصرف فرماتا ہے کہ جس شخص کوخدا خلیفہ بنانا چاہتا ہے وہ اسی کے حق میں رائے دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد ملوکیت کا دور شروع ہو جاتا ہے.جب خدا گویا پیچھے ہٹ کر جماعت اور قوم کو آزاد کر دیتا ہے کہ اب تم لوگ ابتدائی تربیت اور ابتدائی استحکام حاصل کر چکے ہو.سو آئندہ ہماری دی ہوئی تعلیم کے مطابق اپنے کاموں کو خود چلا ؤ اور اپنے لئے ترقی کا رستہ کھولو.پس دراصل یہ تینوں دور اسلامی نظام کا حصہ ہیں اور قومی اصلاح اور قومی ترقی کے لئے ضروری اور لازمی.اس تشریح میں اس شبہ کا جواب بھی آجاتا ہے.جو بعض خام خیال لوگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ کیا اسلام کا نظام صرف تھیں سال میں ختم ہو کر رہ گیا ؟ ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ اول تو تمہیں سال کا زمانہ بھی مقدس بانی اسلام کی پیشگوئیوں کے مطابق تھا اور اس لئے وہ بھی اسلام کی صداقت کی دلیل تھا اور دوسرے تمہیں سال میں اسلام کا نظام ختم نہیں ہوا بلکہ اسلام کا ایک دور ختم ہو کر دوسرا دور شروع ہو گیا.اس جگہ سوال ہو سکتا ہے کہ کیا احمدیت میں بھی یہی صورت رونما ہوگی.سو جب احمدیت کا نظام اسلام کے نظام کی فرع اور اسی کا حصہ ہے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ بھی اسی الہی تقدیر کے تابع ہے جو اسلام کے متعلق عرش الوہیت سے جاری ہو چکی ہے.لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت جمالی ہے اور جمال چونکہ جلال کے مقابلہ پر زیادہ وقت لے کر اپنے کمال کو پہنچتا ہے اس لئے یہ امید کی جاتی ہے کہ احمدیت میں خلافت کا زمانہ نسبت زیادہ دیر تک چلے گا.لیکن بہر حال یہ امل تقدیر ظاہر ہوکر رہے گی کہ کسی وقت احمدیت کی خلافت بھی ملوکیت کو جگہ دے کر پیچھے ہٹ جائے گی.بلکہ یہ خاکسار خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور بعض دوسرے مکاشفات کے ذریعہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ احمدیت میں ملوکیت کا دور کب شروع ہو گا.لیکن ایسی باتوں کا بر ملا اظہار قبل از وقت مناسب نہیں ہوتا اور آئندہ کی تقدیروں پر اخفا کا پردہ رہنا ہی سنت الہی ہے.وَلَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمَنَا اللَّهُ الْعَلِيْمُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا باللهِ الْعَظِيم - (1) (1) جماعت کا موقف :.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مضمون کے اس حصہ سے اختلاف کرتے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح الثانی الصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے ایک نوٹ المفضل 3 اپریل 1952 ء بعنوان ” خلافت عارضی ہے یا مستقل“ شائع فرمایا جو یہاں حاشیہ میں دیا جارہا ہے تا احباب جماعت کو خلافت کے عزل سے متعلق جماعت احمدیہ کے موقف کا علم ہو.(مرتب) بقیہ حاشیہ صفحہ 44 پر ملاحظہ کریں.

Page 66

مضامین بشیر جلد سوم 44 بالآخر صرف اس سوال کا جواب دے کر اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ اسلامی تعلیم کے مطابق سچے خلیفہ کی علامت کیا ہے اور یہ کس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ فلاں خلیفہ خدا کی طرف سے خلیفہ برحق ہے اور فلاں (بقیہ حاشیہ صفحہ 43) خلافت عارضی ہے یا مستقل حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا وضاحتی نوٹ عزیزم مرزا منصور احمد صاحب نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے اور لکھا ہے کہ غالبا اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر کیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق عارضی اور وقتی ہے.میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا.اس خط کی بناء پر میں نے مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت خلافت کے بارہ میں پیش نہیں کی گئی.مرزا بشیر احمد صاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے اُس حدیث میں قانون نہیں بیان کیا گیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے.سب اوقات کے متعلق نہیں ہوتی.یہ امر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعد حکومت مستبدہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہو گیا.اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا.قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے.پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسے ملتا رہے گا.پس جہاں تک مسئلے اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کر دے.لیکن اس اصل سے ہر گز یہ بات نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے.

Page 67

مضامین بشیر جلد سوم 45 شخص خلافت کی بجائے ملوکیت کی عبا پہن چکا ہے.سو اس کے متعلق میرے علم میں تین علامات مقرر ہیں جن میں سے ایک تو ظاہری علامت ہے اور دو معنوی علامات ہیں جو مطالعہ اور غور کے نتیجہ میں شناخت کی جاتی (بقیہ حاشیہ صفحہ 44) حضرت عیسی علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت مسیح کا خلیفہ نہیں.لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں.پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگر ملا ضرور ہے.بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسی کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی.لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاروں سال تک قائم رہی.اسی طرح گورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت محمد یہ تو اتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معین عرصہ تک چلتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ پر بار بارز ور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو سیح موسوی کے ساتھ اُن تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کہ تکمیل اور خوبی پر دلالت کرتے ہیں سوائے ان امور کے کہ جن سے بعض ابتلا ملے ہوتے ہیں.ان میں علاقہ محمدیت علاقہ موسویت پر غالب آجاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے.جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکایا گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لٹکایا گیا.کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اور مسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی.خلافت چونکہ ایک انعام ہے ابتلاء نہیں اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جو کہ مسیح اول کی امت کو ملیں.کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں.پس جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بے کار ہے بلکہ خطر ناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بخشیں شروع کر دیں.وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصہ تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جاسکتا.اور اگر خدانخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہی وقفہ ہو گا جیسے دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہرنکل آتے ہیں.کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ اُن حالات سے مخصوص تھا.وہ ہر زمانہ کے لئے قاعدہ نہیں تھا.(روزنامہ الفضل ربوہ 3 اپریل 1952ء)

Page 68

مضامین بشیر جلد سوم 46 ہیں.ظاہری اور پہلی علامت تو یہ ہے کہ مومنوں کی جماعت کسی شخص کو کثرت رائے سے خلیفہ منتخب کرے.کیونکہ غیر مامور خلافت کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ خواہ حقیقی تقر ر خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن ظاہر میں (بقیہ حاشیہ صفحہ 45) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الوصیت سے اقتباس یوں بیان فرمایا.(مرتب) خلافت عارضی ہے یا مستقل.اس عنوان کے ماتحت الفضل مورخہ 3 اپر میل میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضور نے اس خیال کی تردید فرمائی ہے کہ خلافت کے بعد ملوکیت مستبدہ کا پایا جانا لازمی ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمیں سال تک خلافت رہی پھر اس کی جگہ ملوکیت آ گئی بلکہ خلافت کا سلسلہ دائمی بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آرہی ہے.حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مضمون میں جو نظریہ پیش فرمایا ہے اس کی تائید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل حوالہ سے بھی ہوتی ہے.حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں.سواے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی عملین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305) اور اس سے قبل حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مثال پیش کر کے تصریح فرما دی ہے کہ قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر کر کے فرماتے ہیں.

Page 69

47 مضامین بشیر جلد سوم مومنوں کی کثرت رائے کام کرتی ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ ( صحیح البخاری، کتاب الاحکام ) یعنی خدا تعالیٰ ابو بکر کے سوا کسی اور کی خلافت پر راضی نہ ہوگا اور نہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اور کے انتخاب کو قبول کرے گی.پس ہر غیر مامور خلیفہ کے متعلق اس ظاہری شرط کا پایا جانا ضروری ہے کہ وہ مومنوں کی اتفاق رائے یا کثرت رائے سے منتخب ہوا ہو.(سوائے اس کے کہ خاص حالات میں کوئی منتخب شدہ خلیفہ اپنے بعد کسی شخص کو خلیفہ مقرر کر جائے.جس کے لئے علیحدہ استثنائی قانون مقرر ہے ).دوسری علامت جو باطنی علامتوں میں سے ہونے کی وجہ سے کسی قدر غور اور مطالعہ چاہتی ہے وہ ہے جو قرآن شریف نے آیت استخلاف میں بیان کی ہے یعنی.وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (النور:56) یعنی خدا تعالیٰ خلفاء کے ذریعہ ان کے دین کو تمکنت اور مضبوطی عطا کرے گا (اور ان کے ذریعہ جماعت کی ) خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا.ظاہر ہے کہ ہر نبی کی وفات پر اور نبی کے بعد ہر خلیفہ کی وفات پر جماعت میں ایک قسم کا زلزلہ وارد ہوتا ہے اور جماعت کے لوگ بعض اندرونی اور بیرونی فتنوں کی وجہ سے جماعت کے مستقبل کے متعلق خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ اب کیا ہو گا ایسے وقت میں خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے ذریعہ انہیں اطمینان اور تمکنت عطا فرما تا اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دیتا ہے.گویا خلافت کا درخت اپنے پھل سے بتا دیتا ہے کہ یہ پودا خدا کا لگایا ہوا ہے.چنانچہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سچے خلیفہ کی علامت کے متعلق سوال کیا اور پوچھا کہ یہ کیونکر معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ نے کسی کو خلیفہ مقرر کیا ہے تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا.خلافت کا نشان ( قرآنی آیت ( وَلَيُمَكِّنَنَّ میں دیا گیا ہے.خدا تعالیٰ جس کو خلیفہ بنا تا ہے اس کی (بقیہ حاشیہ صفحہ 46) تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کونا بود ہوتے ہوتے تھام لیا.“ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا تحریر سے ظاہر ہے کہ خلافت کا سلسلہ دائمی ہے اور قیامت تک منقطع نہ ہو گا.(روز نامہ الفضل ربوہ 9 اپریل 1952ء).......

Page 70

مضامین بشیر جلد سوم 48 مخالفت میں کون کھڑا ہوسکتا ہے؟ خدا تعالیٰ نے آدم کو خلیفہ بنایا.داؤدکوخلیفہ بنایا.ابوبکر و عمر کو خلیفہ بنایا اور اب نورالدین کو خلیفہ بنایا.کوئی مخالفت کر کے دیکھ لے کہ کیا نتیجہ ہوتا ہے“ ( بدر جلد 13 نمبر 22) تیسری علامت بچے خلیفہ کی میرے ذوق کے مطابق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی نہ کسی صورت میں نبی پر یہ ظاہر فرما دیتا ہے کہ تیرے بعد فلاں فلاں اشخاص تیری بھیٹروں کے گلہ بان بنیں گے اور پھر لوگوں کی ہدایت کے لئے نبی اپنی تحریر و تقریر میں کسی نہ کسی طرح اس کی طرف اشارہ فرما دیتا ہے.چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان کی خلافت کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح احادیث موجود ہیں اور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ثابت کر سکتا ہوں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علی کی خلافت کے متعلق بھی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں واضح ارشادات پائے جاتے ہیں اور ان چاروں خلفاء کی مجموعی خلافت کے طور پر وہ جامع روایت کافی وشافی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خلافت راشدہ تمیں سال تک رہے گی اور اس کے بعد ملوکیت شروع ہو جائے گی.پس غور کیا جائے تو یہ چاروں خلفاء کرام اپنے اپنے رنگ میں موعود تھے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی خلافت کے بارہ میں تو واضح اور بین الہامات اور اشارات موجود ہی ہیں لیکن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق بھی بعض اشارات ملتے ہیں.لیکن اس جگہ اس تفصیل کی گنجائش نہیں.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ وہ اپنے نبی کے علاوہ بسا اوقات صالح مومنوں پر بھی خواب وغیرہ کے ذریعہ ہونے والے خلیفہ کے متعلق کچھ نہ کچھ انکشاف فرما دیتا ہے اور یہ سب باتیں خلافت حقہ کی علامات میں داخل ہیں.اب میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مضمون کے اس حصہ کو ختم کر چکا ہوں جو اس وقت میرے مدنظر تھا اور اب آخر میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ کسی عمارت کا گرانا کوئی قابل تعریف کارنامہ نہیں.ہمارے دوستوں کو عمارتوں کے بنانے اور انہیں مستحکم کرنے اور سجانے کی طرف توجہ دینی چاہئے.خالق فطرت نے انسان کا کام تعمیری مقرر کیا ہے نہ کہ تخریبی اور خلافت تو حقیقتا ایک بہت ہی بابرکت نظام ہے جو نبوت کے تکملہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں قائم کیا جاتا ہے.پس اس کی قدر کرو.نبوت کا زمانہ تو گزر گیا اب خلافت کا زمانہ ہے اور اس کے بعد اپنے وقت پر ملوکیت کا زمانہ آئے گا مگر یا درکھو کہ ہر دور اپنے دائرہ کے لحاظ سے گزشتہ دور سے وسیع تر ہونے کے باوجود اپنے سابقہ دور کی نسبت

Page 71

مضامین بشیر جلد سوم 49 بحیثیت مجموعی برکات میں کم تر ہوتا ہے.پس اس زمانہ کی قدر کرو کہ پھر خدا جانے کہ کب آدیں یہ دن اور یہ بہار غلطی ہر شخص سے ہو سکتی ہے مگر دانا انسان دوسروں کی خوبیوں سے ان کی قدرو قیمت کو نا پتا ہے نہ کہ اس کی کمزوریوں سے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کئی موقعوں پر اپنی بعض غلطیوں کا ذکر کر کے تاسف کا اظہار کیا مگر اس سے ان کی قدر و قیمت میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوا اور آج ان کا نام فضاء اسلام میں نیز نصف النہار کی طرح چمک رہا ہے.تم بھی خلافت احمدیت کے سنہری دور میں سے گزررہے ہو.پس اس زمانہ کی قدر کو پہچانو اور اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے نیک نمونہ چھوڑو تا کہ بعد کی نسلیں تمہیں محبت اور فخر کے ساتھ یاد کریں اور تمہیں احمدیت کے معماروں میں شمار کریں نہ کہ خانہ خرابوں میں.بس اس کے سوا میں اس وقت کچھ نہیں کہوں گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہما را حافظ و ناصر رہے اور ہمیں اس رستہ پر چلنے کی توفیق دے جو اس کی رضا کا اور ہماری سعادت کا رستہ ہے.وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ نوٹ :.میں نے یہ مضمون بہت جلدی میں لکھا ہے اور ایسی حالت میں لکھا ہے کہ مجھے بعض دوسرے ہنگامی کاموں کی طرف بار بار توجہ دینی پڑتی تھی.اس لئے میں اس مضمون کی خاطر خواہ نظر ثانی نہیں کر سکا.لہذا اگر اس مضمون میں سہواً کوئی فروگزاشت ہو گئی ہو تو وہ انشاء اللہ کسی دوسرے مضمون میں درست کر دی جائے گی.روزنامه الفضل لا ہور 25 دسمبر 1951ء) خلافت کا دور دائمی ہے یا کہ وقتی ؟ ایک دوست کے ضمنی سوال کا جواب (1) 25 دسمبر 1951 ء کے الفضل میں میرا ایک مضمون مسئلہ خلافت کے متعلق شائع ہوا تھا.جس میں اصل موضوع تو عزل خلافت کے مسئلہ سے تعلق رکھتا تھا.لیکن ضمناً بعض دوسری باتوں کا بھی ذکر آ گیا (1) عزل خلافت پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا یہ دوسرا مضمون ہے جو 1952ء میں تحریر فرمایا.اس مضمون کو 1952ء میں دینے کی بجائے 1951ء میں پہلے مضمون کے ساتھ دیا جارہا ہے تا قاری کو مجھنے میں آسانی رہے.مرتب

Page 72

مضامین بشیر جلد سوم 50 تھا.ان ضمنی باتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کیا خلافت کا نظام دائمی ہے یا کہ عارضی اور وقتی ؟ اس ضمنی سوال کے جواب میں میں نے اختصار کے ساتھ یہ لکھا تھا ( کیونکہ ایسی ضمنی باتوں کا جواب اختصار کے ساتھ ہی دیا جاسکتا ہے ) کہ گو خلافت کا نظام دائمی ہے لیکن خلافت کا جو دور کسی نبی کی بعثت کے بعد آتا ہے وہ دائمی نہیں ہوتا بلکہ عارضی ہوتا ہے.اور اس کے بعد ملوکیت یعنی بادشاہت کا دور شروع ہو جاتا ہے.میرے اس نوٹ پر ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب نے مجھے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آیت استخلاف کی تفسیر میں کئی جگہ لکھا ہے کہ خلافت کو وقتی اور عارضی قرار دینا درست نہیں بلکہ خلافت دائمی ہے.اور جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت قائم ہے.(اور ظاہر ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ہے ) اس وقت تک آپ کی خلافت کا دور بھی قائم رہے گا.اور اللہ تعالیٰ آپ کی امت میں سے حسب ضرورت ہمیشہ روحانی خلفاء بناتا چلا جائے گا.میں ڈاکٹر صاحب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس زریں ارشاد کی طرف توجہ دلائی.لیکن اگر غور کیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد اور میرے اس بیان میں حقیقتاً کوئی اختلاف نہیں.کیونکہ میں نے جس خلافت کو وقتی اور عارضی قرار دیا تھا.اس سے صرف وہ خلافت مراد تھی.جو نبی کے کام کی تعمیل کے لئے اس کے بعد متصل طور پر آتی ہے.لیکن اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس خلافت کو دائمی قرار دیا ہے.اس سے وہ روحانی اور تجدیدی خلافت مراد ہے جو کسی نبی کے بعد اس کے لائے ہوئے دین کو زندہ رکھنے اور بعد کی غلط آمیزشوں کو دور کرنے کے لئے روحانی مصلحوں کی صورت میں وقتا فوقتا قائم کی جاتی ہے.جیسا کہ اسلام میں ہر صدی کے سر پر مجددوں کی بعثت سے ظاہر ہے اور ان معنوں میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ایک خلیفہ تھے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طرف تو یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد خلافت صرف تمہیں سال تک رہے گی اور اس کے بعد ملوکیت آجائے گی.اور دوسری طرف آپ نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ خدا تعالیٰ اسلام کی تجدید کے لئے میری امت میں ہر صدی کے سر پر مجد دیعنی روحانی خلفاء مبعوث کرتا رہے گا.پس حقیقتا یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست اور صحیح ہیں.اور ان میں ہرگز کوئی تضاد نہیں.یعنی یہ بھی درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ صرف تمہیں سال تک رہی اور اس کے بعد ملوکیت آگئی.اور دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی خلافت کا سلسلہ دائمی ہے اور جب تک اسلام قائم ہے اسلام کی روحانی خلافت بھی قائم رہے گی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں

Page 73

مضامین بشیر جلد سوم 51 کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ اسلام کی خدمت اور مسلمانوں کی اصلاح کے لئے ہر صدی کے سر پر مجدد مبعوث کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ کرتارہے گا..اس تعلق میں یہ شبہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف خلافت کے میعادی ہونے پر ہی اعتراض نہیں فرمایا.بلکہ اس حدیث کی صحت پر بھی جرح فرمائی ہے.جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد خلافت صرف تمہیں سال تک رہے گی.اور بڑی تحدی کے ساتھ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خلافت دائمی ہے اور میعاد کا کوئی سوال نہیں.سو یہ درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض جگہ ایسا لکھا ہے.لیکن اگر غور کیا جائے اور گہری نظر سے کام لیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ دراصل آپ نے مطلقاً اس حدیث کی صحت پر جرح نہیں فرمائی بلکہ اس تشریح پر جرح فرمائی ہے.جو بعض کج فطرت مولوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں پیش کر رہے تھے.کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمیں سال گزرنے پر ہر قسم کی خلافت ختم ہو چکی ہے اور اب کوئی شخص آپ کی روحانی خلافت کا حقدار نہیں بن سکتا.اور اس طرح وہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کو باطل ثابت کرنا چاہتے تھے.پس دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تشریح کو رد کیا ہے.نہ کہ اصل حدیث کو.چنانچہ دوسری جگہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو (جن کی خلافت کے ساتھ میں سالہ مدت پوری ہوتی ہے ) برحق اور اس کے مقابل پر امیر معاویہ کی امارت کو جو حضرت علی کے بعد اسلامی دنیا کے قائد بنے.خلافت راشدہ سے خارج قرار دیا ہے چنا نچہ آپ فرماتے ہیں کہ لاریب حضرت علی رضی اللہ عنہ روحانی طالبوں کے مرجع اور خدا کی طرف سے اس کی مخلوق کے لئے ایک حجت تھے اور اپنے زمانہ کے افضل ترین انسان تھے.اور وہ خدا کی طرف سے ایک نور تھے تا شہروں اور آبادیوں کو منور کریں.لیکن ان کے زمانہ میں لوگوں کی طرف سے فتنوں کا زور رہا.اور بعض لوگ ان کے اور امیر معاویہ کے معاملہ میں حیران و پریشان تھے کہ کس کی قیادت کو قبول کریں...مگر حق یہی ہے کہ حق علی مرتضیٰ کے ساتھ تھا.اور جس شخص نے بھی ان کے وقت میں ان کی مخالفت کی وہ باغی اور طاغی تھا“ ( ترجمه از سرالخلافته روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 352-353) اس حوالہ سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت علی تک کی خلافت کو ہی خلافت حقہ قرار دیا ہے.اور اس کے بعد اس قسم کی خلافت کو ختم سمجھا ہے.جس سے یہ یقینی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمہیں سال والی حدیث پر جرح فرمائی ہے.وہاں دراصل اس حدیث کی صحت پر

Page 74

مضامین بشیر جلد سوم 52 جرح کرنی مقصود نہیں.بلکہ اس کی اس تشریح پر جرح کرنی مقصود ہے کہ گویا نعوذ باللہ آنحضرت صلے اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد ہر قسم کی خلافت تمہیں سال کے اندر ختم ہو گئی.اور اب کوئی شخص آپ کی روحانی خلافت کا حقدار نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس باطل تشریح سے نہ صرف وہ دوسری حدیث غلط قرار پاتی ہے.جس میں ہرصدی کے سر پر مسجد دوں کی بعثت کی خبر دی گئی ہے.بلکہ قرآن شریف پر بھی بھاری اعتراض وارد ہوتا ہے.جس نے موسوی سلسلہ کی مماثلت میں محمد کسی سلسلہ کے متعلق بھی روحانی خلفاء کی پیشگوئی فرمائی ہے.اور اسلام نعوذ باللہ ایک ایسا مترو کہ باغ قرار پاتا ہے جس کے آسمانی باغبان نے اس کی دیکھ بھال چھوڑ دی ہو.خلاصہ کلام یہ کہ جہاں تک نبوت کے بعد متصل طور پر آنے والی خلافت کا تعلق ہے جو نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے گویا تنظیمی رنگ رکھتی ہے.وہ عارضی اور میعادی ہوتی ہے اور اپنے مقدر وقت کے بعد ملوکیت کو جگہ دے کر ختم ہو جاتی ہے.لیکن بعد کی روحانی خلافت جس کا تعلق تجدید دین یعنی بگاڑ کے زمانہ کی اصلاح سے ہے.اس کا سلسلہ دائمی ہے.اور جب تک کسی نبی کی نبوت کا دور چلتا ہے یہ خلافت بھی قائم رہتی ہے.اور اللہ تعالیٰ حسب ضرورت روحانی مصلحوں کی بعثت کے ذریعہ اپنے دین کو زندہ اور شاداب رکھتا اور اس کی تجدید کرتا رہتا ہے.پس حقیقتا یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست اور صحیح ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں.فَافُهُمْ وَتَدَبَّرُ وَلَا تَكُن مِنَ الْمُمْتَرِينَ - (محرره 3 فروری 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 14 فروری 1952ء) ہمسایہ کے ساتھ حسن سلوک عَنْ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِيْنِى بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرَتُهُ (صحیح البخاری، کتاب الأدب ، باب الوصاة بالجار ) ترجمہ:.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جبریل نے مجھے ہمسایہ کے متعلق خدا کی طرف سے بار بار اتنی تاکید کی ہے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید وہ اسے وارث ہی قرار دے دے گا.

Page 75

مضامین بشیر جلد سوم 53 33 تشریح : ہمسائے بھی انسانی سوسائٹی کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی سخت تاکید فرمائی ہے.حق یہ ہے کہ جو شخص اپنے ہمسایہ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا وہ دراصل انسان کہلانے کا حقدار ہی نہیں.کیونکہ انسان ایک متمدن مخلوق ہے اور ہمسائیت تمدن کا ایک لازمی اور ضروری حصہ ہے.پس با ہمی تعلقات کی بہتری اور مضبوطی کے لئے اسلام حکم دیتا ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے.اور اس حکم میں اس قدر تاکید کا پہلو اختیار کرتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جبریل نے مجھے اس بارے میں اس طرح تکرار اور تاکید کے ساتھ کہا کہ میں نے خیال کیا کہ شاید ہمسایہ کو وارث ہی بنا دیا جائے گا.اس تاکیدی حکم کے پیش نظر ہر سچے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ محبت اور احسان کا سلوک کرے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو اور ان کی غیر حاضری میں ان کے بیوی بچوں کا خیال رکھے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کا اتنا خیال تھا کہ آپ چھوٹی باتوں میں بھی اس کی تاکید فرماتے تھے.چنانچہ ایک دوسری حدیث میں آپ فرماتے ہیں کہ جب تم گھر میں گوشت وغیرہ پکاؤ تو شور بہ زیادہ کر دیا کرو تا تمہارا کھانا حسب ضرورت تمہارے ہمسایہ کے بھی کام آسکے.دراصل انسان کے اخلاق کا اصل معیار اس کا وہ سلوک ہے جو وہ اپنے ہمسایہ کے ساتھ کرتا ہے.دور کے لوگوں اور کبھی کبھار ملنے والوں کے ساتھ تو انسان تکلف کے رنگ میں وقتی اخلاق کا اظہار کر دیتا ہے.مگر جن لوگوں کے ساتھ اس کا دن رات کا واسطہ پڑتا ہے ان کے ساتھ تکلف نہیں چل سکتا.اور انسان کے اخلاق بہت جلد اپنی اصلی صورت میں عریاں ہو کر لوگوں کے سامنے آ جاتے ہیں.پس آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک جو اس حدیث میں درج ہے ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کے علاوہ بالواسطہ طور پر خود سلوک کرنے والے کے اپنے اخلاق کی درستی کا بھی ایک عمدہ ذریعہ ہے.کیونکہ ہمسایوں کے ساتھ وہی شخص اچھا سلوک کر سکتا ہے جس کے اخلاق حقیقتاً اچھے ہوں.کیونکہ ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے لئے ایک شخص کو لازما خود اچھا بنا پڑے گا.ورنہ شب و روز ملنے والوں کے ساتھ تکلف کا پیراہن زیادہ دیر تک چاک ہونے سے بچ نہیں سکتا.اسی طرح اس حدیث کے وسیع معنوں کے مطابق قوموں اور ملکوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ حتی الوسع اپنی ہمسایہ قوموں اور ملکوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں.اور ان کے ساتھ احسان اور تعاون کا

Page 76

مضامین بشیر جلد سوم 54 معاملہ کریں.کیونکہ جس طرح ایک فردا خلاق کے قانون کے ماتحت ہے اسی طرح قو میں بھی اس قانون کے ماتحت ہیں اور حق یہ ہے کہ دنیا میں امن تبھی قائم ہو سکتا ہے کہ جب تو میں اور حکومتیں بھی اپنے آپ کو اخلاق کے قانون کا پابند سمجھیں.( چالیس جواہر پارے) (روزنامه الفضل لا ہور 14 دسمبر 1951ء) اعلانات.اشتہارات - اطلاعات جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1-> میرا دفتر ربوہ منتقل ہو گیا.2-> ربوہ میں تار گھر کھل گیا ہے.3-> ایک مخلص درویش کے گمشدہ عزیز کی تلاش.4-> خاندان حضرت مسیح موعود میں شادی کی تقریب.5-> عزیز مجید احمد سلمہ کی شادی خانہ آبادی.6-> بھائی عبدالرحیم کواب افاقہ ہے.7-> تقریب شادی مولوی برکات احمد صاحب را جیکی.8-> بھائی عبدالرحیم صاحب کی صحت کے متعلق تازہ اطلاع.روزنامه الفضل 9 جنوری 1951ء) روزنامه الفضل 31 جنوری 1951ء) روزنامه الفضل 20 فروری 1951ء) روزنامه الفضل 25 مارچ 1951ء) روزنامه الفضل 29 مارچ 1951ء) ( روزنامہ الفضل 13 اپریل 1951ء) (روزنامہ الفضل 14 اپریل 1951ء) (روزنامہ الفضل 18 اپریل 1951ء)

Page 77

مضامین بشیر جلد سوم 9-> بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی علالت.10-> دفاتر صدرانجمن احمدیہ کی عمارت شروع ہوگئی.11-> ربوہ میں ٹیلی فون جاری ہو گیا.12-> چار درویشوں کے نکاح کی تقریب سعید.13-> درویشوں کے قابل امدا درشتہ دار.14-> قادیان میں درس القرآن اور تراویح کا انتظام.15-> بارہ دریشوں کے اہل وعیال کی قادیان میں واپسی.16-> دوستوں سے معذرت.17-> عید الاضحی کی قربانی.55 (روز نامه الفضل 15 مئی 1951ء) روزنامه الفضل 15 مئی 1951ء) روزنامه الفضل 22 مئی 1951ء) روزنامه الفضل 26 مئی 1951ء) (روز نامه الفضل 19 جون 1951ء) روزنامه الفضل 19 جون 1951ء) (روزنامہ الفضل 12 جولائی 1951ء) روزنامه الفضل 17 جولائی 1951ء) روزنامه الفضل 12 اگست 1951ء) 18-> قابل امداد درویشان کے متعلق امراء صاحبان توجہ فرمائیں.(روزنامه الفضل 6 ستمبر 1951ء) 19-> قافلہ زائرین قادیان.روزنامه الفضل 30 ستمبر 1951ء) 20-> چالیس جواہر پارے کے بارے لوگوں سے مشورہ.روزنامه الفضل 23 اکتوبر 1951ء) 21-> قادیان کے تازہ کوائف.روزنامه الفضل 30اکتوبر 1951ء) 22-> مخدوم نذیر احمد صاحب کیلئے دعا کی تحریک.روزنامه الفضل 17 نومبر 1951ء) 23-> میرا دفتر ربوہ آچکا ہے.(روز نامه افضل 4 دسمبر 1951ء)

Page 78

مضامین بشیر جلد سوم 24-> قافلہ قادیان کیلئے درخواست کی آخری تاریخ.25-> قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان.قافلہ کی فہرست داخل کر دی گئی.قافلہ قادیان کی تعداد میں کمی.56 روزنامه الفضل 24 نومبر 1951ء) روزنامه الفضل 28 دسمبر 1951ء) (روز نامہ الفضل 6دسمبر 1951ء) روزنامه الفضل 18 دسمبر 1951ء)

Page 79

مضامین بشیر جلد سوم باب دوم 1952ء کے مضامین 57

Page 80

58 مضامین بشیر جلد سوم عزیزم مرز اوسیم احمد سلمہ کی شادی ڈھیلے کے ساتھ استنجا کرنا ایک گمنام خط کی شکایت کا جواب تحریک درویش فنڈ کے متعلق جنت الفردوس کی خواہش کرو حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر پہلی بیعت کہاں ہوئی تھی ؟ قادیان کے تازہ حالات اور دوستوں سے دعا کی تحریک حضرت اماں جان کی تشویشناک علالت اپنی دعاؤں میں عزم اور امید کی کیفیت پیدا کرو صدقہ بھی دراصل ایک قسم کی دُعا ہے میاں عبداللہ خان صاحب پٹھان درویش مرحوم کے مختصر حالات حضرت اماں جان حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضہبا کی نسل صدقہ جیسا عمل صالح ہر گز ضائع نہیں جاتا رمضان کے مبارک مہینہ میں یہ دعا ئیں نہ بھولیں چنده امداد درویشان و فدیه ماه صیام حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضہا کی آواز کا ریکارڈ فدیہ کے مسئلہ کی اصولی تشریح خیر خواہانِ پاکستان سے دردمندانہ اپیل عزیزہ امتہ اللطیف سلّمہا کی تقریب رخصتانہ اعلانات.اشتہارات اطلاعات

Page 81

مضامین بشیر جلد سوم عزیزم مرزا او سیم احمد سلمہ کی شادی 59 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مکرم مرزا وسیم احمد صاحب کی شادی کا اعلان الفضل میں شائع کروایا.جس میں آپ کے اوصاف یوں بیان فرمائے.قریباً ساڑھے تین سال سے قادیان میں خدا تعالی کے رکھے ہوئے نام کے مطابق درویشی کی زندگی گزار ہا ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت سلیم الفطرت اور نیک اور خادم دین بچہ ہے.جو قادیان کے دوسرے درویشوں کے لئے بڑے سہارے کا موجب ہے.مرزا وسیم احمد سلمہ کا نکاح ہمارے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم کی صاحبزادی عزیزہ امتہ القدوس بیگم سلمہا کے ساتھ ہوا ہے.اور تجویز یہ ہے کہ اگر کوئی روک نہ ہوئی تو کچھ عرصہ تک عزیز مرزا وسیم احمد سلمہ پاکستان آکر اپنی بیوی کو اپنے ساتھ قادیان لے جائے گا.اور پھر خدا کے فضل سے یہ جوڑا قادیان میں ہمارے خاندان کی ایک ایسی باغبانی قلم کا کام دے گا جو پھولتی اور پھلتی اور ایک عمدہ چمنستان کی بنیاد بن جاتی ہے.محررہ 8 جنوری 1952ء) روزنامه الفضل لا ہور 12 جنوری 1952ء) 2 ڈھیلے کے ساتھ استنجا کرنا پبلک وٹ وانی“ کا حیا سوز طریق آج ربوہ کے ایک بڑے آباد پبلک رستہ پر سے گزرتے ہوئے مجھے ایک نوجوان نظر آیا ہے جو پیشاب سے فارغ ہو کر اپنا ہاتھ شلوار کے اندر ڈالے ڈھیلے کے ساتھ استنجا یعنی پنجابی محاورہ کے مطابق وٹ وانی“ کر رہا تھا.میں نے شرم کی وجہ سے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا.لیکن اس نوجوان کو جسے میں نے پہچانا نہیں اور اگر پہچانتا بھی تو میں اس کا نام نہ لیتا ) بالکل کوئی احساس نہیں ہوا اور وہ بدستور چلتے پھرتے لوگوں کی طرف منہ کر کے اپنا ہاتھ شلوار کے اندر ڈالے ہوئے استنجا کرتا رہا.یہ درست ہے کہ شریعت نے ڈھیلے وغیرہ کے ساتھ استنجا کرنے کی اجازت دی ہے.لیکن اول تو یہ اجازت پانی نہ ملنے یا پانی کے استعمال سے بیماری کا اندیشہ ہونے کی صورت میں ہے نہ کہ عام.اور پانی میسر

Page 82

مضامین بشیر جلد سوم 60 ہونے پر بہر حال پانی کا استعمال مقدم ہے.دوسرے ڈھیلے سے استنجا جائز ہونے کا یہ مطلب کس طرح بن گیا کہ شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر لوگوں کے سامنے پبلک رستوں پر پاجامے میں ہاتھ ڈال کر استنجا کیا جائے اور استنجا کو بھی گویا ایک تماشہ بنا لیا جائے.اسلام میں تو حیا پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيْمَان ( صحیح بخاری کتاب الایمان باب الحیاء من الایمان ) یعنی حیا ایمان کا حصہ ہے.اور ایک دوسری حدیث میں ذکر آتا ہے کہ جب ایک صحابی دوسرے صحابی کو کسی بات میں اس قسم کی نصیحت کر رہا تھا کہ اتنی شرم بھی نہیں چاہتے اور اس کے ان الفاظ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا تو آپ نے فورارک کر نصیحت کرنے والے صحابی سے فرمایا ایسی نصیحت نہ کرو کیونکہ حیا ہر حال میں ایک اچھی صفت ہے اور خود ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم کے ذاتی اسوہ کے متعلق روایت آتی ہے کہ آپ کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر شرم کرنے والے تھے.کیا ایسی تعلیم دینے والا مذ ہب اس بات کی اجازت دے سکتا یا اس بات کو پسند کر سکتا ہے کہ مسلمان کہلانے والے لوگ پبلک رستوں میں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے پاجاموں میں ہاتھ ڈالے ہوئے استنجا کرتے پھریں.یقیناً یہ فعل حیا کے سخت خلاف ہے جس سے سب بچے مسلمانوں کو پر ہیز کرنا چاہئے.جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے.بے شک شریعت نے پانی کی قائمقامی میں ڈھیلا وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہے اور ضروری تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ اسلامی شریعت عالمگیر ہے اور عالمگیر شریعت میں ہر قسم کے امکانی حالات کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے.چونکہ بعض ملکوں میں یا بعض حالات میں پانی کم میسر آتا ہے یا پانی تو موجود ہوتا ہے لیکن بیماری وغیرہ کی وجہ سے اس کے استعمال میں نقصان کا خطرہ ہوتا ہے.اس لئے شریعت نے کمال حکمت سے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر پانی نہ ملے یا اس کے استعمال سے بیماری وغیرہ کا اندیشہ ہو تو پھر پانی کی جگہ مٹی کا ڈھیلا یا کوئی اور صاف چیز استنجا میں استعمال کر لی جائے اور چونکہ عرب کے ملک میں پانی کی بہت قلت تھی.اس لئے عربوں نے طبعا اس اجازت سے زیادہ فائدہ اٹھایا.لیکن تاریخ سے ثابت ہے کہ جہاں بھی پانی ملتا تھا وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ لازماً پانی کے استعمال کو ترجیح دیتے تھے.کیونکہ طہارت کے معاملہ میں پانی اصل ہے اور دوسری چیزیں محض ثانوی حیثیت رکھتی ہیں.لیکن افسوس ہے کہ پاکستان میں بعض مسلمانوں نے شرعی احکام کی حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے پانی کے ہوتے ہوئے بھی ڈھیلے وغیرہ کے ذریعہ استنجا کرنے کے طریق کو اختیار کر رکھا ہے.اور یہ مرض پنجاب کے اضلاع ڈیرہ غازیخاں اور ملتان اور مظفر گڑھ اور میانوالی اور کیمبل پور (اٹک.ناقل )

Page 83

مضامین بشیر جلد سوم 61 وغیرہ میں زیادہ پائی جاتی ہے.ممکن ہے کہ اس کی وجہ بھی یہی ہو کہ ان اضلاع میں بارش کی قلت کی وجہ سے پانی کم ہوتا ہے لیکن تاہم موجودہ زمانہ کے وسیع ذرائع میں پانی کی قلت عام حالات میں اس حد تک نہیں سمجھی جاسکتی کہ استجا میں ڈھیلے کے استعمال کو ضروری قرار دیا جائے.مگر اس معاملہ میں زیادہ قابل افسوس امر یہ نہیں ہے کہ پانی کے ہوتے ہوئے بھی ڈھیلا استعمال کیا جائے.بلکہ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ استنجا کے اس طریق کو ایسے رنگ میں اختیار کیا جائے.جو شرم و حیا کے سراسر خلاف ہے.اگر پانی کی موجودگی میں بھی ڈھیلا ہی استعمال کرنا ہے تو کیوں نہ علیحدگی میں لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو کر یہ کام کیا جائے.قرآن شریف نے پیشاب پاخانہ کی جگہ کے لئے غائط کا لفظ استعمال کیا ہے.جس کے معنی عربی زبان میں ایسی جگہ کے ہیں جو شیبی ہونے کی وجہ سے یا کسی دوسری اوٹ میں ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.إِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلى سَفَرٍ أَوْجَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمُ مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا(النساء:44) یعنی اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی غائط ( یعنی اوٹ والی جگہ ) میں سے رفع حاجت کر کے ) آئے یا تم اپنی بیویوں کے قریب جاؤ لیکن اس کے بعد تمہیں طہارت کے لئے پانی میسر نہ آئے.تو اس کی جگہ تم پاک مٹی کا قصد کر کے طہارت حاصل کرلو.اس آیت میں پاخانہ اور پیشاب سے فارغ ہونے کی جگہ کو غائط کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں یہ صریح اشارہ ہے کہ پیشاب پاخانہ کے لئے ایسی جگہ کو چنا چاہئے جو نشیب وفراز کی وجہ سے یا کسی دوسری اوٹ کی وجہ سے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو.علاوہ ازیں اس آیت میں یہ بات بھی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ طہارت کے لئے اصل چیز پانی ہے اور مٹی کے استعمال کی اجازت پانی کے نہ ملنے یا بیماری اور سفر کی مشکلات کی وجہ سے محض ثانوی صورت میں دی گئی ہے.ان تصریحات کے ہوتے ہوئے بعض مسلمانوں کا پانی کی موجودگی میں ڈھیلے وغیرہ کا استعمال کرنا اور استعمال بھی ایسے رنگ میں کرنا جو شرم وحیا کے طریق کے بالکل خلاف ہے.کسی صورت میں جائز نہیں سمجھا جاسکتا.ممکن ہے کہ جس شخص کو میں نے ربوہ میں ڈھیلے کے ساتھ استنجا کرتے دیکھا وہ کوئی غیر احمدی ہو.کیونکہ ربوہ میں مزدوری وغیرہ کی غرض سے کئی غیر احمدی بھی رہتے ہیں.لیکن اسلام کی تعلیم صرف احمدیوں کے لئے نہیں ہے بلکہ سب مسلمانوں کے لئے ہے.اور کسی مسلمان کا لوگوں کے سامنے پاجامہ میں ہاتھ ڈال کر وٹ وانی“ کرتے پھرنا ایک سخت خلاف حیا فعل

Page 84

مضامین بشیر جلد سوم 62 ہے.جس سے ہر با غیرت مسلمان کو خواہ وہ کوئی ہو پر ہیز کرنا چاہئے.حیا ایمان کا حصہ ہے اور حیا کے بغیر کوئی شخص کامل الایمان نہیں سمجھا جا سکتا.کم از کم ہمارے احمدی بھائیوں کو تو جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل.ایمان اور حیا کے میدان میں دوبارہ زندگی عطا فرمائی ہے ان دو باتوں کوضرور ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اول.جہاں پانی میسر ہو اور بیماری یا سفر کی مشکلات بھی در پیش نہ ہوں.وہاں لازماً طہارت اور استنجا کے معاملہ میں پانی کو ترجیح دی جائے.کیونکہ وہ صفائی کا بہتر ذریعہ ہے اور شریعت نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے.دوم.جہاں کسی مجبوری کی وجہ سے ڈھیلے وغیرہ کا استعمال ناگزیر ہو.وہاں جس طرح رفع حاجت علیحدگی میں کی جاتی ہے.استنجا بھی لازماً علیحدگی میں لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو کر کیا جائے.کیونکہ جیسا کہ قرآن وحدیث ارشاد فرماتے ہیں.رَبَّنَا حَيِي وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ یعنی ہما را خدا حیادار ہے.اور پاکیزہ لوگوں کو پسند کرتا ہے.محرره 11 جنوری 1952 ء) روزنامه الفضل لا ہور 16 جنوری 1952ء) ایک گمنام خط کی شکایت کا جواب حضرت خلیفہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ایک گمنام خط پہنچا ہے جس میں دفتر حفاظت مرکز ربوہ کے متعلق یہ شکایت کی گئی ہے کہ بعض لوگوں کو قادیان کے قافلہ میں بار بار شمولیت کا موقع دے دیا جاتا ہے اور بعض کی اب تک باری نہیں آئی وغیرہ وغیرہ.اگر اس گمنام خط کے لکھنے والی بہن اپنا نام لکھ دیتیں.تو خط کے ذریعہ انہیں تسلی دی جاسکتی تھی کہ ان کا شبہ سراسر حالات کی ناواقفیت پر مبنی ہے.لیکن اب مجبوراً اخبار کے ذریعہ حقیقت الامر پر روشنی ڈالی جاتی ہے.بات یہ ہے کہ ہر قافلہ میں ایک محدود تعداد جو عموماً قافلے کی مجموعی تعداد کی دس فیصدی ہوتی ہے ایسے اصحاب کے لئے ریزرو کھی جاتی ہے جنہیں جماعتی مفاد کے ماتحت قادیان بھجوایا جاتا ہے.مثلاً مبلغ یا ڈاکٹریا وکیل وغیرہ.باقی نوے فیصدی تعداد درویشوں کی رشتہ داری کے حق کی بنا پر انتخاب کی جاتی ہے.پہلی قسم کے اصحاب جو جماعتی مفاد کی بناء پر انتخاب کئے جاتے ہیں.ان کے بار بار بھجوانے میں کسی شخص کو اعتراض نہیں ہوسکتا.کیونکہ ان کا انتخاب خالصتنا جماعتی مفاد پر ہوتا ہے.اور یہی وہ طبقہ ہے جس میں بعض اصحاب کو

Page 85

مضامین بشیر جلد سوم 63 زیادہ دفعہ جانے کا موقع ملا ہے کیونکہ بعض اوقات قادیان سے ہی معین اشخاص کا مطالبہ آ جاتا ہے.اور بعض اوقات دفتر ہذا خود جماعتی مفاد کے ماتحت کسی صاحب کو زیادہ دفعہ جانے کا موقع دے دیتا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ اس محدود تعداد کا درویشوں یا ان کے رشتہ داروں کے حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا.باقی رہا اس نوے فیصدی تعداد کا سوال جو درویشوں کی رشتہ داری کی بناء پر منتخب کی جاتی ہے سو اس کے متعلق خدا کے فضل سے پوری پوری چھان بین کے ساتھ اور تمام حقوق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے.اور مختلف درویشوں کے رشتہ داروں کو باری باری موقع دیا جاتا ہے.اور خود درویشوں کی سفارش کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے.جو وہ اپنے رشتہ داروں کے متعلق میرے دفتر میں بھجواتے ہیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ بدظنی سے کام نہ لیں.اور اگر کوئی شبہ پیدا ہو تو دفتر ہذا میں خط لکھ کر تسلی کر لیا کریں.( محررہ 28 جنوری 1952ء) روزنامه الفضل لاہور یکم فروری 1952ء) 4 جنت الفردوس کی خواہش کرو عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَ صَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ جَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ جَلَسَ فِي أَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ فِيْهَا فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِيْنَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ اَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَ أَعْلَى الْجَنَّةِ وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَ مِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ - (صحیح البخاری، کتاب الجھاد واکسیر ، باب درجات المجاهدین فی سبیل الله ) ترجمہ:.ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے اور نماز قائم کرتا اور رمضان کے روزے رکھتا ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ پر گویا یہ حق ہو جاتا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے.خواہ ایسا انسان خدا کے رستہ میں جہاد کرے یا کہ اپنی پیدائش والے گھر میں ہی قاعد بن کر بیٹھا ر ہے.صحابہ نے عرض کیا تو کیا یا رسول اللہ ! ہم یہ بشارت لوگوں

Page 86

مضامین بشیر جلد سوم 64 تک پہنچائیں؟ آپ نے فرمایا جنت میں ایک سو درجے ایسے ہیں جنہیں خدا نے اپنے مجاہد بندوں کے لئے تیار کر رکھا ہے اور ہر درجہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے.پس اے مسلمانو! جب تم خدا سے جنت کی خواہش کرو تو فردوس والے درجہ کی خواہش کیا کرو جو جنت کا سب سے وسطی اور سب سے اعلیٰ درجہ ہے.اور اس سے اوپر خدائے ذوالجلال کا عرش ہے اور اسی میں سے جنت کی تمام تر نہریں پھوٹتی ہیں.تشریح:.میں نے اپنے عام اصول انتخاب کے خلاف یہ لمبی حدیث اس لئے درج کی ہے کہ اس حدیث سے ہمیں کئی ایک اہم اور مفید اور اصولی باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ ہیں.(1) یہ کہ جنت میں صرف ایک ہی درجہ نہیں ہے بلکہ بہت سے درجے ہیں.جن میں سب سے اعلیٰ درجہ فردوس ہے جو گویا جنت کی نہروں کا منبع ہے.(2) یہ کہ جنت میں مجاہد مسلمانوں کے کم سے کم درجہ اور قائد مسلمانوں کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ میں بھی اتنا ہی فرق ہوگا جتنا کہ زمین و آسمان میں فرق ہے.(3) یہ کہ مسلمانوں کو نہ صرف مجاہدوں والا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.بلکہ مجاہدوں والے درجوں میں سے بھی سب سے اعلیٰ درجہ یعنی فردوس کو اپنا مقصد بنانا چاہئے.(4) یہ کہ جنت کے مختلف درجے خدا تعالیٰ کے قرب کے لحاظ سے مقرر کئے گئے ہیں.اسی لئے جنت کے اعلیٰ ترین درجہ کو عرش الہی کے قریب تر رکھا گیا ہے.(5) یہ کہ جنت کی نعمتیں مادی نہیں ہیں بلکہ روحانی ہیں.کیونکہ ان کا معیار خدا کا قرب مقرر کیا گیا ہے اور گو ان نعمتوں میں روح کے ساتھ جسم کا بھی حصہ ہو گا مگر جنت میں انسان کا جسم بھی روحانی رنگ کا ہوگا.اس لئے وہاں کی جسمانی نعمتیں بھی دراصل روحانی معیار کے مطابق بالکل پاک وصاف ہوں گی.یہ وہ لطیف علم ہے جو ہمیں اس حدیث سے حاصل ہوتا ہے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ تا مسلمانوں کے مقصد اور آیڈیل کو زیادہ سے زیادہ بلند کیا جائے.بے شک ایک مسلمان جو اسلام کے نماز اور روزہ کے احکام وغیرہ کو تو خلوص نیت سے پورا کرتا ہے.اس حدیث میں حج اور زکوۃ کے ذکر کو اس لئے ترک کیا گیا ہے کہ وہ ہر مسلمان پر واجب نہیں بلکہ صرف مستطیع اور مالدار لوگوں پر واجب ہیں.مگر اپنے گھر میں قاعد بن کر بیٹھا رہتا ہے.وہ خدا کی گرفت سے بچ کر نجات حاصل کر سکتا ہے.مگر وہ ان اعلے انعاموں کو نہیں پاسکتا.جو انسان کو خدا تعالیٰ کے خاص قرب کا حقدار بناتے ہیں.پس ترقی کی خواہش رکھنے والے مومنوں کا فرض ہے کہ وہ قاعدانہ زندگی ترک کر کے مجاہدانہ زندگی اختیار کریں اور خدا

Page 87

مضامین بشیر جلد سوم 65 کے دین اور اس کے رسول کی امت کی خدمت میں دن رات کوشاں رہیں.حق تو یہ ہے کہ ایک قاعد مسلمان جس کے دین کا اثر اور اس کے دین کا فائدہ صرف اس کی ذات تک محدود ہے.وہ اپنے آپ کو اعلی نعمتوں سے ہی محروم نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے ہر وقت کا خطرہ بھی مول لیتا ہے کیونکہ بوجہ اس کے کہ وہ بالکل کنارے پر کھڑا ہے اس کی ذراسی لغزش اسے نجات کے مقام سے نیچے گرا کر عذاب کا نشانہ بناسکتی ہے.مگر ایک مجاہد مسلمان اس خطرہ سے بھی محفوظ رہتا ہے.باقی رہا یہ سوال کہ خدا کی راہ میں مجاہد بننے کا کیا طریق ہے.سو گو جہاد فی سبیل اللہ کی بیسیوں شاخیں ہیں.مگر قرآن شریف نے دوشاخوں کو زیادہ اہمیت دی ہے.چنانچہ فرماتا ہے فَـــــل اللـــــه الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَعِدِينَ دَرَجَةٌ (النساء: 96) یعنی خدا تعالیٰ نے دین کے رستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے والوں کو گھروں میں بیٹھ کر نیک اعمال بجالانے والوں پر بڑی فضیلت دی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا بڑا ذریعہ مال اور جان ہے.مال کا جہاد یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت اور اسلام کی ترقی اور اسلام کی مضبوطی کے لئے بڑھ چڑھ کر روپیہ خرچ کیا جائے.اور جان کا جہاد یہ ہے کہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت ( یعنی دعوت الی اللہ اور تربیت وغیرہ) میں لگایا جائے اور موقع پیش آنے پر جان کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے.جو شخص ان دو قسموں کے جہادوں میں دلی شوق کے ساتھ حصہ لیتا ہے.وہ خدا کی طرف سے ان اعلیٰ انعاموں کا حقدار قرار پاتا ہے جو ایک مجاہد کے لئے مقدر ہیں.مگر گھر میں بیٹھ کر نماز روزہ کرنے والا مسلمان ایک قاعد والی بخشش سے زیادہ امید نہیں رکھ سکتا.اب دیکھو کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم پر کس درجہ شفقت ہے کہ ایک انتہائی طور پر رحیم باپ کی طرح فرماتے ہیں کہ بیشک تم نماز روزے کے ذریعہ نجات تو پا لو گے اور عذاب سے بچ جاؤ گے مگر اپنے تخیل کو بلند کر کے ان انعاموں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جو ایک مجاہد فی سبیل اللہ کے لئے مقدر کئے گئے ہیں.کیونکہ اس کے بغیر قومی زندگی ہمیشہ خطرے میں رہے گی.اس تعلق میں سب سے مقدم فرض ماں باپ کا اور ان سے اتر کر سکولوں کے اساتذہ اور کالجوں کے پروفیسروں کا ہے کہ وہ بچپن کی عمر سے ہی بچوں میں مجاہدانہ روح پیدا کرنے کی کوشش کریں اور انہیں قائدانہ زندگی پر ہرگز قانع نہ ہونے دیں.روزنامه الفضل لاہور 13 فروری 1952ء)

Page 88

مضامین بشیر جلد سوم 66 حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر پہلی بیعت کہاں ہوئی تھی؟ بعض دوستوں میں اس بات پر اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر پہلی بیعت کہاں ہوئی تھی.ایک طبقہ کی روایت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازہ کی نماز تو اخویم محترم حضرت مرزا سلطان احمد صاحب والے باغ میں کنوئیں کے شمال مغربی جانب ہوئی تھی لیکن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت اس باغ میں نہیں ہوئی.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے باغ میں اس جگہ کے سامنے ہوئی تھی.جہاں نشست کے لئے سیمنٹ کی چوکیاں بنی ہوئی ہیں.لیکن اس کے مقابل پر دوسرے طبقہ کا یہ خیال ہے کہ نماز جنازہ اور بیعت دونوں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب والے باغ میں ہوئے تھے.پس جو دوست اس موقع پر قادیان میں موجود تھے.وہ اس بارے میں مجھے اپنی شہادت نوٹ کر کے ارسال فرمائیں.تا حقیقت حال معلوم ہو سکے.ذیل کے سرسری خاکہ سے اس اختلاف کی صورت آسانی سے ظاہر ہو جائے گی.مقبره بهشتی باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشرق باغ حضرت مرز اسلطان احمد صاحب شمال جہاں دوسرے فریق کے جہاں ایک فریق کے نزدیک نزدیک پہلی بیعت ہوئی بیعت اور جنازہ ہر دو ہوئے گویا نماز جنازہ کے متعلق ہر دو فریق کا اتفاق ہے کہ وہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب والے باغ میں ہوئی تھی.لیکن بیعت کے متعلق ایک فریق کہتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے باغ میں ہوئی تھی اور دوسرا فریق بیعت کی بھی وہی جگہ یا اس کے ساتھ کی جگہ بتا تا ہے جہاں نماز جنازہ ہوئی تھی.چشم دید علم رکھنے والے دوست اپنی شہادت سے مطلع فرمائیں.

Page 89

مضامین بشیر جلد سوم جَزَاكُمُ اللهُ خَيْراً محرره 21 فروری 1952ء) 67 روزنامه الفضل لاہور 26 فروری 1952ء) حضرت مسیح موعود کے بعد پہلی بیعت خلافت کہاں ہوئی ؟ (1) کچھ عرصہ ہوا تھا.یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پہلی بیعت خلافت کہاں ہوئی تھی.حضور کی نماز جنازہ سے متعلق تو سب دوستوں کو اتفاق تھا اور ہے کہ وہ اخویم محترم مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم والے باغ میں ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ کے ساتھ جانب شمال متصل طور پر واقع ہے ) ہوئی تھی.لیکن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر پہلی بیعت کی جگہ کے متعلق دوستوں میں اختلاف تھا اور اب بھی ہے.اور بدقسمتی سے اس معاملہ میں اخبار الحکم اور اخبار بدر میں بھی کوئی اندراج نہیں مل سکا.بلکہ صرف اس قدر را ندارج ملا ہے کہ بیعت باغ میں ہوئی مگر یہ کہ یہ باغ کونسا باغ تھا ( شہر کی طرف والا باغ مملوکہ مرزا سلطان احمد صاحب یا که بہشتی مقبرہ کی جانب والا باغ مملوکہ حضرت مسیح موعود ) اس کے متعلق دونوں اخبار خاموش ہیں.ان حالات میں میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی ہدایت کے ماتحت الفضل میں اعلان کرا کے دوستوں کی شہادت طلب کی تھی.لیکن افسوس ہے کہ اس اعلان کے نتیجہ میں بھی کوئی ایسی روشنی حاصل نہیں ہو سکی جو کسی قطعی نتیجہ پر پہنچانے والی ہو اور روایتوں کا اختلاف بدستور قائم رہا.جس سے ہمیں ضمنا یہ فائدہ ضرور حاصل ہوا کہ روایتی علم بہر صورت ایک ظمی علم ہے.جس پر بصورت اختلاف کسی قطعی فیصلہ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی.اخباری اعلان اور اس سے قبل دوستوں کے خطوط کے نتیجہ میں جو شہادتیں پہنچی ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.وہ اصحاب جن کی رائے میں پہلی بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے باغ میں ہوئی (1) محترمی مفتی محمد صادق صاحب ربوہ ( مگر پوری طرح یاد نہیں ) (1) حاشیہ یہ 1953ء کا مضمون ہے.مناسبت سے مضمون اکٹھے کر دیئے گئے ہیں.(مرتب)

Page 90

مضامین بشیر جلد سوم (2) محترمی مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم ربوہ (3) محترمی میاں محمد اسمعیل صاحب معتبر آڈیٹر ربوہ (4) محترمی ماسٹر فقیر اللہ صاحب افسرامانت ربوہ (5) محترمی مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوار بوه (6) محترمی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ربوہ (7) محترمی ملک عزیز احمد صاحب مالیر کینٹ کراچی (8) محترمی میاں جان محمد صاحب پنشنر پوسٹمین ربوہ (9) متر می شیخ محمد صاحب پنشنرز پوسٹمین ربوہ (10) متر می شیخ محمد صاحب اسٹنٹ خزانچی ربوہ (11) متر می نشی کنظیم الرحمن صاحب دفتر امور عامه ربوه (12) محترمی شیخ محمد حسین صاحب چمڑا منڈی لاہور (13) خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ 88 68 وہ اصحاب جن کی رائے میں پہلی بیعت اخویم مرزا سلطان احمد صاحب والے باغ میں ہوئی (1) محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حیدر آباد دکن (2) محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ، قادیان (3) محترمی قاضی محمد عبد اللہ صاحب ربوہ (4) محترمی قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل لاہور (5) محترمی سید ولی اللہ شاہ صاحب ربوہ (6) محترمی چوہدری برکت علی صاحب وکیل المال ربوہ (7) محترمی سید محبوب عالم صاحب آڈیٹر ربوہ (8) محتر می نصیر الحق صاحب المعروف حاجی را ولپنڈی (9) محترمی حکیم دین محمد صاحب پنشنر ربوہ

Page 91

مضامین بشیر جلد سوم (10) محترمی مرزا مہتاب بیگ صاحب سیالکوٹ (11) محترمی منشی محمد ابراہیم صاحب بٹالوی لاہور (12) محترمی میاں صدر الدین صاحب در ولیش قادیان (13) محترمی ڈاکٹر عطر دین صاحب درویش قادیان 69 ان شہادتوں کے وصول ہونے سے قبل جب میں نے یہ معاملہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالے کی خدمت میں پیش کیا تھا.تو حضور نے یہ فرمایا تھا کہ ” مجھے اچھی طرح یاد نہیں، لیکن دوبارہ پیش ہونے پر فرمایا کہ.” مجھے جہاں تک یاد ہے بیعت ایک ایسی جگہ ہوئی تھی جہاں درخت کے گرد کچھ کھلی جگہ تھی اور یہ جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مملو کہ باغ میں ہے.اس لئے میرے علم میں بیعت وہاں ہوئی ہے“ جہاں بیعت ہوئی میرے علم میں نقشہ یوں ہے.رسته چاه سو حضرت خلیفہ مستی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے غالب خیال کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر پہلی بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے باغ میں ہوئی تھی.جو مخلوط باغ کے جنوبی حصہ میں مقبرہ بہشتی کے ساتھ متصل طور پر واقع ہے.لیکن چونکہ یہ ایک تاریخی معاملہ ہے اور عقائد سے تعلق نہیں رکھتا.اور حضرت خلیفہ اسی ایدہ نے بھی حتمی صورت میں اپنی رائے ظاہر نہیں فرمائی.اس لئے اگر اس کے خلاف کو ئی قطعی ثبوت میسر آ جائے تو یقینا اس پر غور ہو سکے گا.گوجیسا کہ میں او پر عرض کر چکا ہوں میری ذاتی رائے بھی حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ کے خیال کی تائید میں ہے.یہ بات بھی قابل نوٹ ہے کہ محترمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اپنی رائے بڑی پختگی اور قطعیت کے ساتھ ظاہر فرمائی ہے.اور یہ دونوں بزرگ پرانے بزرگوں

Page 92

مضامین بشیر جلد سوم 70 میں سے ہیں.جنہیں خاص مقام حاصل ہے.لیکن یاد کا معاملہ ایسا ہے کہ ہر شخص کو غلطی لگ سکتی ہے.اس لئے بعید نہیں کہ یا تو انہیں مغالطہ ہو گیا ہو یا ان کے خلاف رائے رکھنے والوں کو ( جن میں یہ خاکسار بھی شامل ہے غلطی لگ گئی ہو.اس لئے اختلاف کے متعلق کسی فریق کو اپنی رائے پر اتنا اصرار نہیں ہونا چاہئے جو ایک قطعی اور ثابت شدہ حقیقت کے معاملہ میں ہوتا ہے.مگر مجھے اس معاملہ میں محترمی میاں محمد اسمعیل صاحب معتبر کی رائے بہت پسند آئی ہے.جو بیان کرتے ہیں کہ دراصل پہلی بیعت والے دن کئی دفعہ بیعت ہوئی تھی اور یہ صورت عقلاً بھی قرین قیاس ہے.کیونکہ کچھ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے غیر معمولی صدمہ کی وجہ سے اور کچھ انتظامات کی مصروفیت کی وجہ سے کئی لوگ ادھر اُدھر پھر رہے تھے.بعض دوست مختلف قسم کے انتظامات میں مصروف تھے.اس لئے یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ جو دوست بیعت میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے ان میں سے بعض نے اسی دن دوسری بیعت کی خواہش کی ہوگی اور بعض نے اس کے بعد غالباً تیسری بیعت کے لئے درخواست کی ہوگی.اور اس طرح یہ سب بیعتیں ایک ہی دن آگے پیچھے ہوئی ہوں گی.اور غالباً یہی ہوا.چنانچہ اس کی تائید میں میاں محمد اسمعیل صاحب معتبر نے اخبار بد کا ایک حوالہ پیش کیا ہے جس میں اس قسم کے الفاظ آتے ہیں کہ اس دن باغ میں دن بھر بیعت ہوتی رہی.اس کے علاوہ وہ اپنا یہ مشاہدہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جب پہلی بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے باغ میں ہو چکی تو میں نے نماز جنازہ کے بعد دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ مرزا سلطان احمد صاحب والے باغ میں بھی بیعت لے رہے تھے.لیکن چونکہ میں اس سے پہلے حضرت مسیح موعود والے باغ میں بیعت کر چکا تھا.اس لئے میں وہاں ٹھہر انہیں بلکہ آگے شہر کی طرف چلا گیا.میرے خیال میں اخبار بدر کا یہ حوالہ اور معتبر صاحب کی یہ روایت اس اختلاف کے حل کرنے میں بہت اچھی مدد دیتے ہیں اور ہر دو فریق کی رائے اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے مشاہدات کے مطابق درست قرار پاتی ہے.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.(محررہ 29 جنوری 1953ء) روزنامه الفضل لاہور 4 فروری 1953ء)

Page 93

مضامین بشیر جلد سوم 71 قادیان کے تازہ حالات اور دوستوں سے دعا کی تحریک اس وقت قادیان میں بعض لوگوں کی انگیخت کے نتیجہ میں ہمارے درویش بھائیوں کے خلاف بعض فتنے برپا کئے جارہے ہیں.مثلاً قادیان کی انجمن کو نوٹس دیا گیا ہے کہ کیوں نہ اسے تارک الوطن انجمن قرار دیا جائے.اور اس نوٹس کی بنیاد یہ رکھی گئی ہے کہ انجمن کے سابقہ ممبر پاکستان جاچکے ہیں.حالانکہ جب انجمن اپنی ذات میں با قاعدہ کام کر رہی ہے تو ملکی تقسیم کے وقت بعض ممبروں کا وطن چھوڑ جانا انجمن کے وجود پر ہرگز کوئی اثر نہیں رکھتا.ممبر تو ہمیشہ بدلتے ہی رہتے ہیں.مگر انجمن کا قانونی وجود ہر حال میں قائم رہتا ہے.مگر اس بے بنیاد بہانے کی آڑ میں ہمارے درویش بھائیوں اور ان کی دینی اور ملتی خدمات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے.اسی طرح ایک فتنہ یہ کھڑا کیا گیا ہے کہ جو کوچہ بندیاں سالہا سال سے احمد یہ محلہ میں بنی ہوئی ہیں.انہیں گروانے کی کوشش شروع ہے.تاکہ اس مخصوص محلہ میں غیروں کی آمد ورفت کا دروازہ کھول کر فتنے پیدا کئے جائیں.اسی طرح یہ بھی کوشش کی جارہی ہے کہ جو مکانات اس وقت قادیان میں ہمارے دوستوں کے زیر استعمال ہیں انہیں بے بنیاد دلائل کی بناء پر ضرورت سے زائد قرار دے کران کا کچھ حصہ واپس لے لیا جائے.ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں قادیان کی احمدی آبادی کو کمزور کرنے کی غرض سے کی جارہی ہیں اور بعض خود غرض لوگ حکومت کے بھی کان بھرتے رہتے ہیں.پس دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے درولیش بھائیوں اور قادیان کی انجمن کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور حافظ و ناصر ہو....( محرره 26 فروری 1952ء) رونامه الفضل لاہور 26 فروری 1952ء) حضرت اماں جان کی تشویشناک علالت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت اماں جان کی تشویشناک علالت کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد تحریر فرمایا :-

Page 94

مضامین بشیر جلد سوم 72 حضرت اماں جان کا وجود جماعت کے لئے اور خاندان کے لئے بہت ہی مبارک ہے کیونکہ ان کی زندگی کے ساتھ کئی برکت کے سائے وابستہ ہیں.( محررہ 27 مارچ 1952 ء ) ( روزنامه الفضل لا ہور 28 مارچ 1952ء) 9 اپنی دعاؤں میں عزم اور امید کی کیفیت پیدا کرو حضرت اماں جان کیلئے خاص دعا کی تحریک آج ایک دوست جو صحابی بھی ہیں اور چند دن سے ربوہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں مجھے ملے اور حضرت اماں جان کی خیریت دریافت کی.میں نے عرض کیا کہ رات بخار بھی تیز ہو گیا تھا اور کمزوری بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور کبھی کبھی کچھ غفلت کی حالت بھی ہو جاتی ہے.بہت دعا کرنی چاہئے.فرمانے لگے میں تو یہ دعا کرتا ہوں کہ خدایا اگر تیرے علم میں حضرت اماں جان کی زندگی بہتر ہے تو انہیں شفا عطا فرما اور جو بات تیرے علم میں بہتر ہے وہی ہو.اس پر میں نے کسی قدر تلخی سے کہا کہ جب آپ کے لڑکے نے گزشتہ سال فلاں امتحان دیا تھا ( گزشتہ سال ان کے ایک بچے نے ایک اعلیٰ امتحان میں شرکت کی تھی اور خدا کے فضل سے پاس بھی ہو گیا تھا ) تو کیا آپ نے اس کے لئے یہی دعا کی تھی اور ہم سے بھی اسی دعا کی توقع رکھتے تھے کہ خدایا! اگر اس کا پاس ہونا بہتر ہو تو اسے کامیاب فرما ورنہ جو تیری مرضی ہو.اس پر یہ دوست شرمندہ ہو کر اور گھبرا کر فرمانے لگے کہ نہیں ایسا تو نہیں.میں نے کہا تو کیا پھر حضرت اماں جان کی زندگی کا سوال ہی ایسا ہے کہ آپ اس کے لئے خود اپنی طرف سے کوئی کلمہ خیر زبان پر نہ لا سکیں اور ایک طرف تو خدا کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا ئیں اور دوسری طرف اس سے یہ عرض کریں کہ خدایا! جوتو چاہتا ہے وہی کر.یہ تو کوئی دعا نہ ہوئی بلکہ گویا تو کل کا عامیانہ پہلو ہو گیا اور پھر اس نظریہ کے ماتحت تو علاج وغیرہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہتی.کیونکہ بہر حال جو خدا چاہے گا وہی ہوگا.خیر یہ دوست بہت شرمندہ ہوئے اور اپنے غلط خیال سے تو بہ کی اور فرمانے لگے کہ یونہی بے سوچے سمجھے جلدی سے میرے منہ سے ایک بات نکل گئی تھی ورنہ میں تو حضرت اماں جان کی بابرکت زندگی کے لمبا ہونے کے لئے بہت دعا کرتا ہوں.

Page 95

مضامین بشیر جلد سوم 73 بہر حال میں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ دعا میں یہ طریق بالکل درست نہیں ہے کہ خدایا! جو بات تو پسند کرے وہی کر.اور حقیقتاً ایسی دعا کو دعا کہنا ہی غلط ہے بلکہ دعا وہی ہے جس میں عزم اور امید کے ساتھ خدا تعالیٰ سے ایک معین خیر مانگی جائے اور جس چیز کو انسان اپنے علم کے مطابق بہتر اور بابرکت خیال کرتا ہے اسے عزم و جزم کے ساتھ اپنے خدا سے طلب کرے اور اس کے پورا کرنے کے لئے ظاہری تدابیر بھی اختیار کی جائیں اور اس کے بعد نتیجہ خدا تعالیٰ پر چھوڑا جائے.یہی دعا کا صحیح نظریہ ہے جس پر ہر زمانہ میں انبیاء اور صلحاء کا عمل رہا ہے.ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم خوب فرماتے ہیں کہ إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمَ الْمَسْتَلَةَ وَلَا يَقُولَنَّ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَاعْطِنِي فَإِنَّهُ لَا مُسْتَكْرِهَ لَهُ ( بخاری کتاب الدعوات ليعزم المسئلۃ فانہ لانگر ہلہ ) یعنی جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرنے لگے تو اسے چاہئے کہ اپنے سوال کو معین صورت دے کر اس پر پختگی سے قائم ہو اور ایسے الفاظ استعمال نہ کرے کہ خدایا! اگر تو پسند کرے تو میری اس دعا کو قبول فرمالے.کیونکہ خدا تو بہر حال اسی صورت میں دعا قبول کرے گا کہ وہ اسے پسند ہو.کیونکہ خدا سب کا حاکم ہے اور اس پر کسی کا دباؤ نہیں.یہ ایک نہایت لطیف نفسیاتی نکتہ ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سکھایا ہے.اس حکیمانہ نکتہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ دعا میں مشروط یا ڈھیلے ڈھالے الفاظ کہہ کر اپنی دعا کے زور اور اپنے دل کی توجہ کو کمزور نہیں کرنا چاہئے.دراصل دعا کے واسطے انتہائی توجہ اور انہماک اور استغراق کی ضرورت ہوتی ہے.گویا دعا کرنے والا اپنے کرب اور سوز کی تپش میں اپنی روح کو پگھلا کر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ڈال دیتا ہے کہ میرے آقا مجھے یہ چیز عطا کر.لیکن مشروط یا ڈھیلے ڈھالے الفاظ سے کبھی بھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی.اور پھر ایسی دعا خدا کی شان کے بھی خلاف ہے کہ ہم زمین و آسمان کے خالق و مالک اور اپنے رحیم وکریم آقا کے سامنے سوالی بن کر مانگنے کے لئے جائیں اور پھر اگر مگر کے دھوئیں میں اپنی دعا کو غائب کر کے ختم کر دیں.بے شک بعض استثنائی حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروط دعا کی اجازت مرحمت فرمائی ہے.مثلاً اگر کوئی شخص اپنے بڑھاپے یا بیماری یا مصائب سے تنگ آکر اپنی زندگی کو

Page 96

مضامین بشیر جلد سوم 74 اپنے لئے ایک بوجھ خیال کرے تو آپ نے فرمایا ہے کہ اگر ایسی حالت ( میں ) ایسا شخص اپنے لئے معین بہتری کی دعا نہ کر سکے تو پھر وہ بصورت مجبوری ایسی دعا کر سکتا ہے کہ خدایا ! اگر میرے واسطے زندگی بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ.لیکن اگر زندگی بہتر نہیں ہے تو مجھے وفات دے کر اپنے پاس بلا لے.لیکن یہ ایک استثنائی صورت ہے جس میں ایک مایوس انسان کے لئے جو (اصل نسخہ میں الفاظ مٹے ہونے کی وجہ سے پڑھے نہیں جا رہے.ناقل ) انتہائی مایوسی میں گرنے کا رستہ بند کیا گیا ہے ورنہ عام حالات میں ایک مومن اور مسلمان کا صحیح اور مسنون رستہ یقیناً یہی ہے کہ وہ عزم کے ساتھ معین صورت میں دعا مانگے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اپنے خدا پر حسن نلنی رکھتے ہوئے اور اسے ہر بات پر قادر خیال کرتے ہوئے جس چیز کو بھی اپنے لئے بہتر اور بابرکت خیال کریں اسے معین صورت میں عزم و جزم کے ساتھ خدا سے مانگیں یہی وہ وسطی نکتہ ہے جس پر خدا کی خدائی اور بندے کی بندگی کی شاخیں ملتی ہیں.اس موقع پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرت اماں جان کی بیماری بہت تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہے.دفاعی طاقت انتہائی درجہ کمزور ہو چکی ہے اور بیماری کے مقابلہ کرنے کی طاقت بے حد گر چکی ہے.دوسری طرف حضرت اماں جان کے وجود کی برکتیں ظاہر وعیاں ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے مبارک کلام میں حضرت اماں جان کے وجود کو گویا نعمتوں کا گہوارہ قرار دیا ہے اور پھر ایک جہت سے اس بات میں بھی شک نہیں کہ حضرت اماں جان کا وجود وہ آخری تارہے جس کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسمانی رشتہ اس وقت دنیا میں قائم نظر آ رہا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ خصوصیت کے ساتھ حضرت اماں جان کی صحت کیلئے دعائیں کریں اور جہاں جہاں ممکن ہو ا جتماعی دعا کا بھی انتظام کیا جائے جیسا کہ قادیان کے دوستوں نے کیا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو اور ہمارے سروں کے ٹھنڈے اور بابرکت سائے کو تا دیر سلامت رکھے.آمین يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 2 اپریل 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 4 اپریل 1952ء)

Page 97

مضامین بشیر جلد سوم حضرت اماں جان کی تشویشناک علالت 75 اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مشترکہ صدقہ حضرت اماں جان کی بیماری بہت تشویشناک صورت اختیار کر گئی ہے.اور اب تو گویا ان کی حالت کو نازک ہی کہنا چاہئے.کیونکہ دو دن سے دل اور تنفس اور بلڈ پریشر کی حالت بہت ہی پریشان کن ہے اور کمزوری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے.اور گو ظاہری علاج کی طرف پوری توجہ دی جارہی ہے.لیکن ایسی حالت میں جبکہ عمر بھی پچاسی سال کو پہنچ چکی ہو اور کمزوری کا یہ عالم ہو کہ سیال غذا بھی نگلنی مشکل ہو جائے.اصل سہارا صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوتا ہے.فَنِعْمَ الْمَوْلى وَ نِعْمَ النَّصِير.ان پریشان کن حالات میں یہ امر بے حد تسلی کا باعث ہے کہ جماعت کے مخلصین میں اس موقع پر دعاؤں کی طرف خاص توجہ ہے اور بعض مخلصین نے تو اپنے طور پر صدقہ کا بھی انتظام کیا ہے.فَجَزاهُمُ اللَّهُ خَيْراً فِي الدُّنْيَا وَ لَقَهُمُ نَضْرَةٌ وَّ سَرُوراً فِي الْآخِرَةِ یہاں ربوہ میں مجھے خیال آیا کہ انفرادی صدقہ تو ہوتا ہی رہتا ہے.اگر حضرت اماں جان کے لئے حضرت مسیح موعود کے سارے خاندان کی طرف سے مشترکہ صدقہ کا انتظام ہو جائے تو یہ بھی روحانی لحاظ سے خدا کے خاص فضل و رحم کا جاذب ہو سکتا ہے.کیونکہ جیسا کہ استقاء کی مسنون نماز سے استدلال ہوتا ہے جبکہ بارش کے رک جانے پر سارے مومن ایک جگہ جمع ہو کر دعا کرتے ہیں ) اسلام نے اجتماعی مصیبت اور تکلیف کے وقت میں اجتماعی دعا اور اجتماعی عبادت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے پس تجویز کی گئی کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے جس کی حضرت اماں جان گویا ایک جہت سے بانی ہیں.اس موقع پر مشتر کہ صدقہ کا انتظام کیا جانا مناسب ہے.لیکن چونکہ بعض اوقات رقوم کے اعلان سے بعض کمزور طبیعتوں میں تکلف یا ریا وغیرہ کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے اس لئے ساتھ ہی یہ تجویز بھی کی گئی کہ کسی کی رقم نوٹ نہ کی جائے.بلکہ جو رقم کوئی عزیز اپنے حالات کے ماتحت شرح صدر سے دے سکے وہ نوٹ کرنے کے بغیر خاموشی کے ساتھ اس تھیلی کے اندر ڈال دے جو اس غرض کے لئے صدقہ کی رقوم وصول کرنے والے عزیز کے سپرد کی گئی تھی.تا کہ ایسے نازک موقع پر کوئی رنگ تکلف وغیرہ کا نہ پیدا ہو.بلکہ جو کچھ دیا جائے خالص اور پاک نیت کے ساتھ صرف خدا کی رضا کی خاطر دیا جائے.دوسری شرط یہ لگائی گئی کہ اس صدقہ کے لئے خاندان کا ہر فرد کچھ نہ کچھ رقم ضرور دے خواہ وہ ایک پیسہ یا ایک دھیلہ ہی ہو.تا کہ کوئی مرد یا عورت یا لڑکا یا

Page 98

مضامین بشیر جلد سوم 76 لڑکی حتی کہ دودھ پیتا بچہ تک بھی اس صدقہ کی شمولیت سے باہر نہ رہے.چنانچہ ان شرائط کے ماتحت صدقہ کی رقم جمع کی گئی جو مستحق غرباء میں تقسیم کی جارہی ہے.بے شک یہ درست ہے کہ اسلام نے اپنی عبادتوں اور دعاؤں اور صدقوں میں ظاہر اور مخفی ہر دو قسم کا طریق مدنظر رکھا ہے.کیونکہ ان ہر دو میں بعض حکیمانہ فوائد کا پہلو مقصود ہے لیکن کم از کم جہاں تک صدقات کا تعلق ہے اسلام نے ظاہر کی نسبت مخفی طریق کو زیادہ پسند کیا ہے.کیونکہ ایک تو جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں اس طریق پر صدقہ کی رقوم جمع کرنے میں تکلف وغیرہ کا رنگ پیدا نہیں ہوتا.جس سے بچ کر رہنا ایسے نازک موقعوں پر از بس ضروری ہے.اور دوسرے اس طرح صدقہ کی رقم تقسیم کرنے میں لینے والا بھی احساس کمتری کی پست خیالی سے محفوظ رہتا ہے.اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إن تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنكُمْ مِّنْ سَيَاتِكُمُ (البقره:722) یعنی اگر تم اپنے صدقات کھلے طور پر دو.تو یقیناً یہ بھی ایک نیکی کا کام ہے.لیکن اگر تم چھپ کر خاموشی کے ساتھ غرباء کی امداد کرو.تو یہ اس سے بھی زیادہ بہتر عمل ہے کیونکہ اس ذریعہ سے تمہاری بعض کمزوریوں پر خدا کی مغفرت کا پردہ پڑا رہتا ہے.دوسری جگہ دعا کے تعلق میں اللہ تعالے فرماتا ہے.أَدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً (الاعراف:56) یعنی اپنے رب کو طبعی رفت کی حالت میں ظاہر طور پر یا خاموشی کے ساتھ خفیہ طور پر ہر دو طرح پکارتے رہو.اس آیت میں تضرع کا لفظ بظاہر بے موقع اور بے جوڑ نظر آتا ہے کیونکہ خفیہ کے مقابل پر ظاہر کا لفظ استعمال ہوتا ہے نہ کہ تضرع کا.لیکن اگر غور کیا جائے تو اس جگہ اس لفظ کے اختیار کرنے میں ایک بھاری حکمت ہے کیونکہ ظاہر کے لفظ کی جگہ تضرع کا لفظ استعمال کر کے خدا تعالے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے کہ ظاہر کی عبادت صرف وہی قابلِ قبول ہوتی ہے جس میں دلی اور طبعی جذبات کے اظہار کا رنگ ہو.در اصل عربی میں تضرع کا لفظ ضَرعَ سے نکلا ہے جس کے معنے پستان یا تھن کے ہیں.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! بے شک تم ظاہر میں بھی عبادت بجالاؤ.مگر یہ عبادت دودھ دینے والے جانور کی طرح ہونی چاہئے کہ جو چیز اندر ہے لا زم وہی باہر آئے.اور آئے بھی طبعی اور قدرتی رنگ میں اور کسی قسم کے تکلف یار یاء کا پہلو ہرگز نہ پایا جائے.اور یہی اصول صدقات وغیرہ میں مد نظر ہونا چاہئے کہ وہ بالعموم مخفی طور پر دیئے جائیں

Page 99

مضامین بشیر جلد سوم 77 تا کہ کسی فرد کی کمزوری کی وجہ سے ان پر تکلف اور ریا کا پردہ نہ پڑ سکے البتہ جب دل کے اندرونی جذبات طبعی ابال کی صورت میں ظاہر ہوں.جیسا کہ بچے کے رونے پر ماں کا دودھ بہہ نکلتا ہے تو پھر ان کے اظہار میں حرج نہیں.کیونکہ جذبات کا مخلصانہ اور طبعی اظہار دوسروں کے واسطے ہمیشہ نیک تحریک کا باعث بنتا ہے.اور لوگوں میں اپنے پاک نمونہ سے نیکی پھیلانا بھی اسلام کے اہم اصولوں میں سے ایک اصول ہے.اس نوٹ کے شروع میں میں نے حضرت اماں جان کو ایک جہت سے خاندان کا بانی کہا ہے.اس پر تعجب نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں ایک لحاظ سے خاندان کا بانی قرار دیا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں.جیسا کہ لکھا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندان سیادت میں میری شادی ہوگئی...سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے.جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا.اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 273-275) اور دوسری جگہ خدا تعالے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے حضرت اماں جان کے متعلق فرماتا ہے کہ اُشكُرْ نِعْمَتِی رَائِيْتَ خَدِيجَتی یعنی میری اس نعمت کا شکر ادا کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پا لیا ہے.اس جگہ خدیجہ کے نام میں خاندان کی بنیا در رکھنے والی خاتون کی طرف اشارہ ہے.جیسا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ، رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی بانی تھیں.ان حوالوں سے حضرت اماں جان کا بلند اساسی مقام ظاہر وعیاں ہے.پس دوستوں کو ان ایام میں حضرت اماں جان کے لئے خاص طور پر دعا سے کام لینا چاہئے.اور دعا بھی ایسی ہونی چاہئے جو تضرع کا رنگ رکھتی ہو.اور ایک قدرتی ابال کی طرح پھوٹ پھوٹ کر باہر آئے آجکل حضرت اماں جان کی حالت

Page 100

مضامین بشیر جلد سوم 78 بے حد تشویشناک ہے بلکہ جیسا کہ میں او پر لکھ چکا ہوں اسے دراصل نازک کے لفظ سے تعبیر کرنا چاہئے.مگر ہما را خدا اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے.اور یہ وہ عظیم الشان رحمت ہے جس کی طرف اسلام کے سوا کسی اور مذہب نے راہ نمائی نہیں کی.حقیقتا غور کیا جائے تو یہ کتنی بابرکت تعلیم ہے کہ اولاً اسلام یہ سکھاتا ہے کہ کسی بیماری کو لا علاج نہ سمجھو.کیونکہ صحیفہ فطرت میں موت کے سواہر بیماری کا علاج موجود ہے ثانیا اسلام ہی تعلیم دیتا ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر عام کے ماتحت مقدر بھی ہو چکی ہو تو بھی مایوس نہ ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے امر پر بھی غالب ہے اور اپنی تقدیر عام کو اپنی تقدیر خاص سے بدل سکتا ہے.اور ثالثاً اسلام یہ سکھاتا ہے کہ اگر کسی مصلحت سے خدا اپنی کوئی تقدیر نہ بدلے تو پھر بھی بچے مومنوں کو ہرگز ہراساں نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ مومنوں کے اجتماع کا آخری نقطہ خدا کی ذات ہے.یہ تعلیم کتنی پاکیزہ اور امید کے جذبات سے کتنی معمور ہے کہ ہمارے آسمانی آقا نے ہمارے ہر دکھ کا علاج پہلے سے مہیا کر رکھا ہے.لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر حال میں اپنے خدا سے اس کی بہترین نعمت کے طالب ہوں.وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ (محررہ 6 اپریل 1952ء) (روز نامہ الفضل لاہور 8 اپریل 1952ء) صدقہ بھی دراصل ایک قسم کی دعا ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت اماں جان کی علالت پر احباب جماعت کو صدقہ کی تحریک فرماتے ہوئے آخر پر صدقہ کی اہمیت یوں بیان فرمائی.دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ صدقہ بھی دراصل ایک قسم کی دعا ہے.کیونکہ جس طرح منہ کی دعا قولی دعا ہے.اسی طرح صدقہ عملی دعا ہے.جس کے ذریعہ ایک مومن اپنی قولی دعا پر اپنے عمل کی مہر تصدیق ثبت کرتا ہے.لیکن ایسے موقعوں پر کسی قسم کے تکلف یا ریا وغیرہ کا رنگ ہرگز نہیں ہونا چاہئے بلکہ اگر دل میں حقیقی خواہش پیدا ہو تو حسب توفیق خاموشی کے ساتھ صدقہ دے دیا جائے.روزنامه الفضل لاہور 18 اپریل 1952ء)

Page 101

مضامین بشیر جلد سوم 79 میاں عبداللہ خان صاحب پٹھان درویش مرحوم کے مختصر حالات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت میاں عبداللہ خاں صاحب کی وفات کی خبر الفضل میں دی.جس کے آخر پر موصوف کے اوصاف یوں بیان فرمائے.مرحوم صحابی تھے اور ایک صحابی باپ کے بیٹے اور ایک صحابی چچا کے بھتیجے تھے اور علاقہ خوست افغانستان سے آکر قادیان میں آباد ہوئے تھے.ملکی تقسیم کے وقت میاں عبداللہ خاں صاحب نے خدمت مرکز کے خیال سے قادیان میں درویشانہ زندگی اختیار کر لی.اور اس طرح مہاجر کے علاوہ گویا انصار بنے کا ثواب بھی پا لیا.مرحوم بہت صابر اور مخلص اور تقویٰ اور سادگی کے رنگ میں زندگی گزارنے والے تھے.(محررہ 26 اپریل 1952ء) (روز نامه الفضل لا ہور 29 اپریل 1952ء) 13 حضرت اماں جان تاروں اور خطوط کے جواب میں حضرت اماں جان کی وفات پر جماعت کے مخلصین کی طرف سے جن میں صحابی بھی شامل ہیں اور غیر صحابی بھی.بچے بھی شامل ہیں اور بوڑھے بھی.عورتیں بھی شامل ہیں اور مرد بھی.ہمارے خاندان کے مختلف افراد کے نام بے شمار تاریں اور خطوط پہنچ چکے ہیں اور روزانہ پہنچ رہے ہیں.یہ ہمدردی کے پیغامات نہ صرف غربی اور شرقی پاکستان کے ہر حصہ سے آرہے ہیں بلکہ قادیان اور دتی اور لکھنو اور حیدر آباد داور مالیر کوٹلہ اور مونگھیر اور کلکتہ اور بمبئی اور مدراس اور ہندوستان کے دوسرے حصوں اور بلا د عربی اور بر اعظم ایشیا اور افریقہ اور یورپ اور امریکہ کے مختلف ملکوں سے اس طرح چلے آرہے ہیں جس طرح کہ ایک قدرتی نہر اپنے طبعی بہاؤ میں چلی جاتی ہے.اور پھر ان اصحاب میں صرف ہماری جماعت کے دوست ہی شامل نہیں بلکہ غیر مبائع اور غیر احمدی اور غیر مسلم سب طبقات کے لوگ شامل ہیں.

Page 102

مضامین بشیر جلد سوم 80 میں انشاء اللہ فرصت ملنے اور یکسوئی میسر آنے پر سب دوستوں اور ہمدردوں کو انفرادی خطوط کے ذریعہ جواب بھیجوانے کی کوشش کروں گا.گو جہاں تک جماعت کے دوستوں کا سوال ہے انہیں ہماری طرف سے کسی شکریہ کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ غم ان کا اور ہمارا مشتر کہ غم ہے.حضرت اماں جان جس طرح ہماری ماں تھیں.اسی طرح ان کی بھی ماں تھیں.بیشک حضرت اماں جان کے ساتھ ہمارا رشتہ دُہرا تھا.یعنی جسمانی رشتہ بھی تھا اور روحانی بھی تھا اور اس رشتہ کی گہرائی کوصرف خدا ہی جانتا ہے.لیکن بہر حال ام المومنین (یعنی مومنوں کی ماں ) ہونے کے لحاظ سے وہ سب احمدیوں کی مشتر کہ ماں تھیں.اس لئے اس موقع پر احمدی اصحاب کا شکریہ ادا کرنا دراصل ان کے اخلاص کی ہتک کرنا ہے.والدہ کی وفات پر ایک بھائی دوسرے بھائی کی ہمدردی کا شکریہ ادا نہیں کرتا بلکہ مشتر کہ صدمہ میں ایک دوسرے کے قریب ہو کر ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کرتا ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اس بھاری قومی صدمہ میں ایک دوسرے سے قریب تر ہو کر اور ایک دوسرے کے لئے دعا کر کے اس بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کریں جو حضرت اماں جان کی المناک وفات نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈال دیا ہے اور اس گہرے زخم کو تازہ کر دیا ہے جو آج سے چوالیس سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے مخلصین کے دلوں کو پہنچا تھا اور اس کے ساتھ قادیان کی یاد بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ تازہ ہوکر دلوں کو بے چین کر رہی ہے.اس با ہم مواسات کا بہترین طریق یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کر کے اور اس کے دین کی خدمت میں اپنی کوششوں کو تیز تر بنا کر اس روحانی مرہم کی تلاش کریں جو خالق فطرت نے اپنی یاد میں ودیعت کر رکھی ہے.فَرَضِيْنَا بِاللَّهِ رَبًّا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِأَحْمَدِ إِمَاماً وَأَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبَ - پس احمدی بھائی بہنوں کو تو اس درس وفا کے یاد دلانے کے سوا کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں.البتہ میں اس موقع پر تمام ان شریف غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس صدمہ میں ہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر کے ہمارے بوجھ کو ہلکا کرنے اور ہمارے غم زدہ دلوں کو تسکین پہنچانے کی کوشش کی ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ وَ هَدَاهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْحَقِّ وَالتَّقْوَى میں انشاء اللہ حسب توفیق عنقریب حضرت اماں جان کے مقام اور فیوض اور برکات اور اخلاق اور

Page 103

مضامین بشیر جلد سوم 81 اصول تربیت کے متعلق ایک مضمون لکھ کر احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا.وبالله التَّوْفِيقِ وَهُوَ الْمُسْتَعَانُ.فی الحال دعا کی درخواست کے ساتھ دوستوں سے رخصت چاہتا ہوں.( محررہ 26 اپریل 1952ء) روز نامه الفضل لاہور 30 اپریل 1952ء) حضرت اماں جان کی نسل خدائی رحمت و قدرت کا غیر معمولی نشان تین چار روز ہوئے ایک دوست نے میرے سامنے حضرت اماں جان کی نسل کی فہرست پیش کر کے درخواست کی کہ اگر اس فہرست میں کوئی غلطی رہ گئی ہو.یا کوئی فروگزاشت ہوگئی ہوتو وہ درست کر دی جائے.میں نے اس فہرست کو دیکھ کر ضروری تصحیح کر دی.اس فہرست کی میزان ایک سو گیارہ تھی.یعنی حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کی نسل میں اس وقت جو افراد ( مرد عورت.لڑکے.لڑکیاں ) زندہ موجود ہیں ان کی میزان ایک سو گیارہ بنتی ہے اور فوت ہونے والے بچوں کی تعداد میں ہے جو اس کے علاوہ ہے.یعنی کل میزان ایک سو اکتیس ہے یہ ایک نہایت درجہ غیر معمولی تعداد ہے.جو کسی شخص کو اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں ،نواسوں اور نواسیوں کی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنی نصیب ہوئی ہے.میں خدا تعالیٰ کے اس غیر معمولی انعام اور غیر معمولی فضل و رحمت کے متعلق غور کر رہا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی زوجہ محترمہ کی نسل کے متعلق بھی دیکھا جائے کہ ان کی میزان کیا بنتی ہے.سوحساب کرنے سے معلوم ہوا کہ ہماری بڑی والدہ کی نسل میں اس وقت زندہ افراد کی تعداد 19 گس پر مشتمل ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی شادی حضرت اماں جان کی شادی سے قریباً 35 سال پہلے ہوئی تھی.گویا 35 سال زیادہ زمانہ پانے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجہ اول کی نسل میں اس وقت صرف 19 افراد موجود ہیں.اور اس کے مقابل پر 35 سال کم ( عمر ) پانے پر بھی حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ کی زندہ نسل اس وقت ایک سو گیارہ ہے.یہ عظیم الشان بلکہ عدیم المثال فرق یقیناً اللہ تعالیٰ کے ان غیر معمولی وعدوں کی وجہ سے ہے جو حضرت اماں جان اور آپ کی نسل کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک پر جاری ہوئے.چنانچہ جیسا کہ سب دوست جانتے ہیں حضرت

Page 104

مضامین بشیر جلد سوم 82 اماں جان کی شادی پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ اذكر نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيُجَتِى ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 308) یعنی میرے اس انعام کو یا درکھ کہ تو نے میری خدیجہ کو پالیا اس وحی الہی میں حضرت اماں جان کی شادی کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی نعمت قرار دیا ہے جو ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے.اور آپ کا نام خدیجہ رکھ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی بنیاد حضرت خدیجہ کے ذریعہ رکھی گئی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل بھی اس خدیجہ ثانی کے ذریعہ قائم ہوگی.اس الہام کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیا دحمایت اسلام کی ڈالے گا.اسی طرح میری بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی.اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام جہان کی نصرت کے لئے میرے خاندان کی بنیاد ڈالی ہے“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 275) پھر حضرت اماں جان کی شادی خانہ آبادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا اور کن زور دار الفاظ میں فرمایا کہ أذكُرُ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكَ غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِي وَ قُدْرَتِي ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 428) میری اس نعمت کو یا درکھ جو میں نے تجھ پر کی ہے.میں نے تیرے لئے خود اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور قدرت کا ایک شجر | درخت نصب کیا ہے.اور چونکہ حضرت اماں جان حضرت مسیح موعود کے وجود کا حصہ تھیں.اس لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا.تَرَىٰ نَسْلاً بَعِيداً یعنی تو ایک دور کی نسل کو دیکھے گا.( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 149) پس چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک پر حضرت اماں جان کی نسل کے متعلق عظیم الشان رحمت و قدرت کا وعدہ فرمایا گیا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسل کو خاص برکت سے نوازا جن کا ایک ادنی اور ظاہری پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کی نسل کو تعداد کے لحاظ سے بھی غیر

Page 105

مضامین بشیر جلد سوم 83 معمولی ترقی عطا فرمائی.چنانچہ جیسا کہ بتایا گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوشادیاں فرمائیں.پہلی شادی 1850 ء کے قریب بڑی بیوی کے ساتھ ہوئی جو حضور کے اپنے خاندان میں سے تھیں.پھر اس کے 35 سال بعد 1884ء میں آپ کی دوسری شادی دتی کے ایک سید خاندان میں ہوئی اور خدا تعالے نے پہلی بیوی کو بھی اولاد سے نوازا ( اللہ تعالیٰ اس نسل کو اپنے فضل و رحمت کے ہاتھ سے ممسوح فرمائے.کیونکہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک سایہ کے نیچے جمع ہو چکی ہے.) اور دوسری زوجہ نے يُولَدُ لَہ کے وعدہ سے حصہ پایا.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص الخاص مصلحت کے ماتحت دوسری بیوی کے متعلق مخصوص برکت کا وعدہ فرمایا تھا.اس لئے 35 سال بعد میں آنے کے باوجود جہاں اس وقت پہلی بیوی کی نسل کی تعداد صرف 19 نفوس پر مشتمل ہے وہاں دوسری بیوی کی نسل اس کی زندگی میں ہی ایک سو گیارہ نفوس کے حیرت انگیز عد کو پہنچ گئی تھی.وَ ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ یہ ہمارے آسمانی آقا کی رحمت و قدرت کا ایک منہ بولتا ہوا نشان ہے جس سے کوئی اشد ترین دشمن بھی جس نے اپنی آنکھوں پر تعصب کی پٹی نہ باندھ رکھی ہوا نکار نہیں کر سکتا.خوب غور کرو کہ ایک پودا 1850ء میں نصب ہوتا ہے اور وہ مرتا نہیں بلکہ وہ بھی خدا کے فضل سے پھولتا اور پھلتا ہے.اور پھر اس کے 35 سال بعد ایک دوسرا پودا 1884 ء میں نصب کیا جاتا ہے.اور اس کے متعلق خدا تعالیٰ خاص برکت کا وعدہ فرماتا ہے اور آج 1952ء میں جبکہ پہلے پودے پر ایک سو دو سال کا طویل عرصہ گزرچکا ہے اور دوسرے پودے پر صرف 67 سال کا قلیل عرصہ گزر چکا ہے.پہلے پودے نے صرف 19 شاخیں پیدا کی ہیں.اور دوسرا پودا ( وَلَا فَخَرَ) ایک سو گیارہ شاخوں سے لدا پھر انظر آتا ہے.ان دونوں زمانوں کو ایک قلیل پیمانہ پر لا کر دیکھنے سے یہ نسبت 19 کے مقابل پر 169 کی بنتی ہے.اور اگر دونوں جانب کی مشتر کہ نسل کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے.تو پھر یہ نسبت اور بھی زیادہ ہو کر 8 کے مقابل پر 150 کی ہو جاتی ہے.اور یہ ایک بہت بھاری بلکہ خارق عادت فرق ہے.ہماری دلی تمنا اور دعا ہے کہ اللہ تعالے مسیح پاک کی ہر روحانی اور جسمانی شاخ کو ترقی دے اور سرسبز رکھے.لیکن خدا کے نشانوں کو چھپایا نہیں جاسکتا اور یقین د یکھنے والوں کے لئے اس میں ایک عظیم الشان نشان ہے.اگر وہ سمجھیں.(محرره 7 مئی 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 13 مئی 1952ء)

Page 106

مضامین بشیر جلد سوم صدقہ جیسا عمل صالح ہر گز ضائع نہیں جاتا 84 امداد درویشاں اور صدقہ برائے کامل شفایابی حضرت اماں جاں دینے والوں کی فہرست حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل میں شائع فرمائی.اس اعلان میں صدقہ اور خدا کی راہ میں دی گئی رقوم بارے ایک وضاحت آپ نے یوں فرمائی.اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو رقم کی کمی بیشی کا کوئی سوال نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی نظر دل کے تقویٰ پر ہوتی ہے اور وہ سب کو ان کی نیتوں اور ان کے اخلاص اور ان کے جذبہ قربانی کے مطابق جزاء دیتا ہے اور بعض اوقات کم رقم دینے والا خدا کے نزدیک جو سارے ظاہر و باطن حالات پر آگاہ ہے زیادہ رقم دینے والے سے بڑا درجہ رکھتا ہے.لیکن بہر حال اب جبکہ رمضان کا یہ مبارک مہینہ آ رہا ہے اور اس کے بعد عید کی تقریب ہے اور ساتھ ہی سالا نہ امتحانوں کی وجہ سے درویشوں کے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں تو لازماان ایام میں اس فنڈ کی ضروریات بھی زیادہ ہو جاتی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ فہرست ہذا کی میزان میں رقم کی غیر معمولی زیادتی ہمارے آسمانی آقا کے غیر معمولی فضل کی وجہ سے ہے جو ان مستحق درویشوں کی ضرورت پر سب سے زیادہ آگاہ ہے.جو اس وقت جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے اور ہر قسم کی تنگی برداشت کرتے ہوئے قادیان میں خدمت دین بجالا رہے ہیں.حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضہا کیلئے صدقہ کی رقوم بھجوانے والوں کو تسلی رکھنی چاہئے کہ ان کا یہ عمل صالح خدا کے فضل سے ہرگز ضائع نہیں گیا.بلکہ جہاں یہ خدمت خود ان کے لئے انشاء اللہ تعالیٰ برکت اور سعادت کا موجب ہوگی وہاں وہ حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ کی روح کیلئے بھی یقین تسکین کا باعث ہوگی کہ ان کی روحانی اولاد نے ان کے لئے کس درد اور سوز سے دعائیں کیں اور صدقات دیئے ہیں.ہر دعا اور ہر صدقہ کا نتیجہ ظاہری صورت اور مطلوبہ رنگ میں نکلنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اسی صورت میں یہ نتیجہ نکلتا ہے.لیکن بہر حال نکلتا ضرور ہے اور سچے مومنوں کا کوئی نیک عمل کسی صورت میں ضائع نہیں جاتا.( محرره 13 مئی 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 16 مئی 1952ء)

Page 107

مضامین بشیر جلد سوم رمضان کے مبارک مہینہ میں یہ دعائیں نہ بھولیں 85 رمضان کا مہینہ جو سال میں صرف ایک دفعہ آتا ہے اور اب پھر آ رہا ہے ایک نہایت ہی مبارک مہینہ ہے جس میں خدا تعالیٰ اپنے خاص فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ اپنے بندوں کے قریب تر آجاتا اور ان کی دعاؤں کو زیادہ سنتا ہے.اس لئے رمضان میں جہاں نوافل اور تلاوت قرآن مجید اور صدقہ و خیرات کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے وہاں دعاؤں کی بھی خاص تحریک کی گئی ہے.پس دوستوں کو آنے والے رمضان میں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے اور موجودہ نازک حالات میں مندرجہ ذیل دعاؤں کو ضرور یادرکھا جائے.یہ دعائیں انشاء اللہ نہ صرف جماعت کی اہم ضروریات کو پورا کرنے والی بلکہ دعا کرنے والوں کے لئے بھی موجب برکت و رحمت ہوں گی.(1) آجکل جماعت کے خلاف طرح طرح کے فتنے اٹھ رہے ہیں.ان فتنوں میں جماعت کی حفاظت اور ترقی کی دعا (2) حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالے کی صحت اور بھی زندگی اور بیش از پیش ترقی کی دعا (3) اگر حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضہا کی وفات کے ساتھ خدا تعالیٰ کی کسی اور تلخ تقدیر کی تاریں لپٹی ہوئی ہیں تو اس تلخ تقدیر سے جماعت کی حفاظت کی دعا (4) قادیان اور اہل قادیان اور ربوہ اور اہلِ ربوہ کی حفاظت و ترقی کی دعا (5) دنیا بھر میں پھیلے ہوئے جماعت کے مرتبیان اور سلسلہ کے دیگر کارکنوں کے کام میں خاص برکت کی دعا اس کے علاوہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے اور جماعت کے جملہ بیماروں اور بے کاروں اور مقروضوں اور مصیبت زدوں اور امتحان میں شریک ہونے والوں کے لئے بھی دعا کی جائے.کیونکہ حقیقتاً یہ سب جماعتی ضروریات کو پورا کرنے والی چیزیں ہیں.اللہ تعالے ہمیں اس رمضان میں خاص دعاؤں کی توفیق دے.اور ہماری دعاؤں کو اپنے فضل اور رحم سے قبولیت کے شرف سے نوازے.آمِنِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ روزنامه الفضل لاہور 24 مئی 1952ء)

Page 108

مضامین بشیر جلد سوم 17 چنده امداد درویشان وفد یه ماه صیام 86 امداد درویشاں اور فرد یہ ماہ رمضان دینے والوں کی فہرست الفضل میں برائے اشاعت دیتے ہوئے اللہ کی راہ میں دینے کے حوالہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یوں بیان فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں غریب بھائیوں کی امداد کے لئے خصوصیت کے ساتھ تحریک فرمایا کرتے تھے.اور خود آپ کے متعلق حدیث میں یہ الفاظ بیان ہوئے ہیں کہ رمضان کے مہینہ میں آپ کا ہاتھ صدقہ و خیرات میں اس طرح چلتا تھا جس طرح کہ وہ تیز آندھی چلتی ہو جو کسی روک ٹوک کو خیال میں نہیں لاتی.پس ہمارے دوستوں کو بھی اپنے آقا رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کی پاک سنت کی اتباع میں اس مبارک مہینے کے ایام میں اپنے غریب بھائیوں کا بیش از پیش خیال رکھنا چاہئے.اگر کسی دوست کے قرب وجوار میں کوئی غریب اور مستحق رہتا ہو تو اس کی امداد کی جائے.کیونکہ اس کا حق مقدم ہے.روزنامه الفضل لاہور 28 مئی 1952ء) حضرت اماں جان کی آواز کا ریکارڈ اس زمانہ کی بعض ایجادیں اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہیں.جن کے ذریعہ کئی قسم کے علمی اور تاریخی اور جذباتی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں.ان میں سے ایک انسانی آواز کو محفوظ کرنے کی ایجاد ہے.جو ریکارڈنگ مشین کے ذریعہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لی جاتی ہے اور پھر حسب ضرورت مشین کو چلا کرسنی جاسکتی ہے.یہ ایک قسم کی ترقی یافتہ گراموفون ہے جو بجلی کے ذریعہ کام کرتی ہے.بعض مشینوں میں تار استعمال ہوتی ہے اور بعض میں ٹیپ یعنی فیتہ استعمال ہوتا ہے.گزشتہ موسم سرما میں سید عبدالرحمن صاحب امریکہ سے ایک تار والی مشین اپنے ساتھ ربوہ لائے تھے.اور میری تحریک پر انہوں نے 7 فروری 1952 ء کو حضرت اماں جان نوراللہ مرقدھا کی آواز محفوظ کی.یہ ایک مختصر سا پیغام ہے جو حضرت اماں جان نے سوال و جواب کے رنگ میں جماعت کے نام دیا ہے.سوال میری طرف سے میری آواز میں ہے اور جواب حضرت اماں جان کی طرف سے حضرت اماں جان کی آواز میں ہے.میں اس سوال و جواب کو دوستوں کی اطلاع کے لئے درج ذیل کرتا ہوں.یہ ریکارڈ امریکہ سے واپس آنے پر انشاء اللہ یہاں کے جلسہ

Page 109

مضامین بشیر جلد سوم 87 مستورات میں سنایا جا سکے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضہا کی وفات سے صرف دو اڑھائی ماہ پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ مشین ربوہ پہنچا دی.اور پھر اس مشین کے ذریعہ حضرت اماں جان کی آواز محفوظ کرنے کا خیال بھی آگیا.بہر حال جن الفاظ میں آواز بھری گئی ہے وہ درج ذیل کئے جاتے ہیں.خاکسار مرزا بشیر احمد.اماں جان السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.حضرت اماں جان.وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ خاکسار مرزا بشیر احمد.آپ کی آواز ، جماعت برکت کے خیال سے محفوظ کرنا چاہتی ہے.اگر آپ کی طبیعت اچھی ہو تو جماعت کے نام کوئی پیغام دے کر ممنون کریں.حضرت اماں جان.میرا پیغام یہی ہے کہ میری طرف سے سب کو سلام پہنچے جماعت کو چاہئے کہ تقویٰ اور دینداری پر قائم رہے اور اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی طرف سے کبھی غافل نہ ہو.اسی میں ساری برکت ہے.میں جماعت کے لئے ہمیشہ دعا کرتی ہوں.جماعت مجھے اور میری اولا د کو اپنی دعاؤں میں یادر کھے.خاکسار مرزا بشیر احمد.یہ حضرت اماں جان اطال اللہ ظلہا حال مقیم ربوہ کا جماعت احمدیہ کے نام پیغام ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور حضرت اماں جان کی صحت اور عمر اور فیوض میں برکت عطا کرے.محرره 7 فروری 1952ء) یہ وہ الفاظ ہیں جن میں 7 فروری 52 ء کو حضرت اماں جان ادام اللہ فیوضہا کی آواز ریکارڈنگ مشین میں بھری گئی.یہ آواز احتیا ط دو دفعہ بھری گئی تھی.کیونکہ حضرت اماں جان کے ضعف اور نقاہت کی وجہ سے ایک دفعہ کی کوشش میں کچھ غلطی ہو گئی تھی.امید ہے دونوں ریکارڈوں کو ملانے اور جوڑنے سے پورا پیغام مکمل ہو جائے گا.اس کے بعد 20 اپریل 52ء کو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دائمی زندگی پانے کے لئے اللہ کے حضور پہنچ گئے.وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ ( محررہ یکم جون 1952ء) (روز نامہ الفضل لا ہور 4 جون 1952ء)

Page 110

مضامین بشیر جلد سوم 19 فدیہ کے مسئلہ کی اصولی تشریح 88 امداد درویشاں اور فدیہ کی رقم بھجوانے والوں کی فہرست الفضل میں شائع ہونے کے لئے بھجواتے وقت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فدیہ کے مسئلہ کی اصولی تشریح کرتے ہوئے فرمایا.فدیہ کے مسئلہ کے متعلق یہ اصولی وضاحت دوبارہ کی جاتی ہے کہ فدیہ عام بیماروں اور مسافروں کے لئے نہیں ہے.بلکہ صرف ایسے لوگوں کے لئے ہے جو بڑھاپے کے ضعف یا دائم المریض ہونے کی وجہ سے یا عورتوں کی صورت میں رضاعت اور حمل کی لمبی تکلیف کی وجہ سے اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالنے کے بغیر روزہ نہیں رکھ سکتے.اور انہیں اپنے ذاتی حالات کے ماتحت دوسرے ایام میں گنتی پوری کرنے کی امید بھی نہیں ہوتی ور نہ عام مریضوں اور مسافروں کے لئے فدیہ کا حکم نہیں ہے.بلکہ دوسرے ایام میں گنتی پوری کرنے کا حکم ہے.دوستوں کو یہ امتیاز ملحوظ رکھنا چاہئے تا کہ روزہ کا احترام قائم رہے.روزنامه الفضل لا ہور 26 جون 1952ء) خیر خواہان پاکستان سے دردمندانہ اپیل خدا کیلئے وقت کی نزاکت کو پہچانو افسوس صد افسوس کہ قائد اعظم مرحوم کی وفات کے اتنی جلدی بعد ہی پاکستان میں ایک ایسا عنصر پیدا ہو رہا ہے جو اپنی تباہ کن پالیسی سے قائد اعظم کے زندگی بھر کے کام کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہے اور ایک دوسرا طبقہ اپنی سادہ لوحی میں اس فتنہ کو ہوا دے رہا ہے.قائد اعظم نے اپنی ساری زندگی اس کوشش میں وقف کر رکھی تھی کہ تمام مسلمان کہلانے والے لوگ اپنے بعض مذہبی اختلافات کے باوجود سیاسی میدان میں ایک نقطہ پر جمع ہو جائیں.چنانچہ ان کی یہ کوشش خدا کے فضل سے کامیاب ہوئی اور مسلمانوں نے پاکستان کے وجود میں قائد اعظم کی انتھک مساعی کا پھل پالیا.لیکن افسوس ہے کہ قائداعظم کی آنکھیں بند ہوتے ہی ملک کے اس طبقہ نے جو اپنی گوناگوں اغراض کے ماتحت مسلمانوں کے سیاسی اتحاد میں اپنے مقاصد کی تباہی کے آثار دیکھ رہا ہے قائد اعظم کی اس پالیسی کے خلاف ملک میں افتراق وانشقاق کا بیج بونا شروع کر دیا ہے چنانچہ (1) کہا جاتا ہے کہ احمدیہ جماعت (نعوذ باللہ من ذالک) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی

Page 111

.مضامین بشیر جلد سوم 89 منکر ہے اور اس لئے وہ اس بات کی حقدار نہیں کہ مسلمانوں کے سیاسی اتحاد میں شریک کی جائے اور نہ ہی وہ پاکستان میں مسلمانوں کا حصہ بن کر رہنے کے قابل ہے.یہ اعتراض کتنا غلط، کتنا بے بنیاد اور کتنا خلاف واقع ہے! خدا جانتا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کو سچے دل اور کامل یقین کے ساتھ خاتم النبیین مانتے ہیں.اور آپ کی نبوت کے دامن کو قیامت تک وسیع جانتے اور قرآنی شریعت کو خدا کی آخری اور دائمی شریعت یقین کرتے ہیں.جس کا کوئی فقرہ اور کوئی لفظ اور کوئی حرف کبھی منسوخ نہیں ہوسکتا.ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح خاتم النبین یقین کرتے ہیں جس طرح کہ حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجددالف ثانی اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی مجد دصدی دوازدہم اور جناب مولوی قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیو بند حضور سرور کائنات علیہ السلام کو خاتم النبین یقین کرتے تھے.اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو اپنے لئے سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھے ہیں اور خدا کی لعنت ہے اس شخص پر جو جھوٹا دعویٰ کرتا ہے.(2) کہا جاتا ہے کہ ہم نعوذ باللہ پاکستان کے غدار ہیں اور پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ہندوستان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں.اس کے جواب میں بھی ہم اس کے سوا کیا کہ سکتے ہیں کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبَینَ.خدا کے فضل سے پاکستان کا ہر احمدی بچے دل سے پاکستان کا وفادار اور دلی خیر خواہ ہے.اور اس کے لئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہے اور کوئی ایک لفظ یا ایک حرف بھی ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا جس میں پاکستان کے کسی احمدی نے پاکستان سے غداری یا ہندوستان کی وفاداری کا کوئی کلمہ کہا ہو.باقی رہے ہندوستان کی حکومت میں بسنے والے احمدی ، سو جس طرح ہندوستان کے دوسرے مسلمان اپنی سیاسی حکومت کے شہری ہیں اسی طرح ہندوستان کے احمدیوں کا حال ہے اور قائد اعظم کی بھی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہی نصیحت تھی کہ تم جس حکومت میں رہو اس کے وفادار ہو کر رہو.چنانچہ قائد اعظم کے متعلق اخبار زمیندار لکھتا ہے کہ ”ہمارے قائد اعظم بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی حکومت کا وفادار رہنا چاہئے.اخبار زمیندار لاہور مورخہ 18 دسمبر 1947 ء) بہر حال دنیا بھر کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو قوم بہت سے ملکوں میں پھیلی ہوئی ہو وہ سیاسی لحاظ سے اپنے اپنے ملک کی وفادار شہری بن کر رہتی ہے یہ ایک ایسا پختہ اور تسلیم شدہ اور عالمگیر اصول ہے کہ کوئی دانا شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا.ہاں اگر کسی شخص میں ہمت ہے تو یہ ثابت کرے کہ کسی پاکستان میں رہنے والے احمدی نے کبھی ہندوستان کی وفاداری کا دم بھرا ہو.پس خدا کے لئے جھوٹے الزامات لگا کر ملک کی

Page 112

مضامین بشیر جلد سوم فضا کو مکۃ رنہ کرو.90 (3) کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے رکن چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے خود اپنے ہاتھوں سے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کے سپر د کر دیا.اس کے جواب میں اعتراض کرنے والوں کی حالت پر اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے.دنیا جانتی ہے کہ چوہدری صاحب موصوف کو اس کام پر خود قائد اعظم مرحوم نے مقرر کیا تھا.اور پھر ہزاروں مسلمانوں اور ہندوؤں اور سکھوں کے سامنے چوہدری صاحب نے قائد اعظم کی ہدایات کے مطابق مسلمانوں کی نمائندگی کی اور اس قابلیت کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے بحث کی کہ اپنوں اور بیگانوں نے انہیں غیر معمولی خراج تحسین ادا کیا.یہ کارروائی روزانہ قائد اعظم مرحوم کے پاس پہنچتی تھی اور گورنمنٹ کے دفاتر میں اس کی نقل جاتی تھی اور روزانہ اخباروں میں چھپتی تھی اور سینکڑوں مسلمان اس کارروائی کو اپنے کانوں سے سنتے اور آنکھوں سے دیکھتے تھے.چنانچہ بحث کے اختتام پر چوہدری صاحب کی بے انتہا تعریف کی گئی اور ان کی خدمات کو بے حد سراہا گیا.مثلاً چوہدری صاحب کے کام کے متعلق اسی زمانہ میں ایک اسلامی اخبار نے لکھا کہ حد بندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا...چار دن چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی.کامیابی بخشا خدا کے ہاتھ میں ہے مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا.اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ ان کی طرف سے حق وانصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقہ سے ارباب اختیار تک پہنچادی گئی ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ ان کے اس کام کے معترف اور ہے.شکر گزار ہوں گے (اخبار نوائے وقت لاہور مورخہ یکم اگست 1947 ء) یہ تو اس زمانہ میں پبلک کی رائے تھی.لیکن آج اتنے سال گزر جانے کے بعد ان کے متعلق بغیر کسی ثبوت اور بغیر دلیل کے بے وفائی اور غداری کا الزام لگایا جا رہا ہے.تعصب کا ستیا ناس ہو.بے انصافی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے.پھر چوہدری صاحب نے نہ صرف عام پاکستانی کیس کو نہایت قابلیت کے ساتھ پیش کیا بلکہ (کشمیر کے آنے والے خطرات کے پیش نظر ) گورداسپور کے متعلق خاص طور پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہئے اور اعداد و شمار اور دلائل سے ثابت کیا کہ وہ ایک مسلم اکثریت کا ضلع ہے اور دوسرے مسلم علاقوں کے ساتھ ملتا بھی ہے.اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اسے پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان

Page 113

مضامین بشیر جلد سوم 91 میں ڈالا جائے مگر افسوس صد افسوس که با وجود اس مخلصانہ اور وفادارانہ خدمت کے اب چوہدری صاحب پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے گورداسپور کا ضلع اپنے ہاتھوں ہندوستان کے سپر د کر دیا.کیا ایک وفادار قومی کارکن کی بے لوث خدمات کا یہی بدلہ ہے کہ ضرورت کے وقت تو اس سے خدمت لی جائے اور وقت گزر جانے کے بعد اسے غدار کہہ کر لوگوں میں مطعون کیا جائے؟ پھر کیا چوہدری صاحب پر اعتراض کرنے والے لوگ اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اگر جماعت احمدیہ نے خود اپنے ہاتھ سے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کو دے دیا تھا اور وہ ہندوستان کی حکومت کو ترجیح دیتی تھی تو پھر کیا وجہ ہے کہ قادیان میں ہندوستانی حکومت قائم ہو جانے پر وہ خود قادیان سے نکل کر پاکستان آ گئی.کیا چوہدری صاحب نے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کو اس لئے دیا تھا کہ اس کے بعد ان کی قوم قادیان کو چھوڑ کر اور اتنی مصیبتیں اٹھا کر پاکستان آ جائے؟ خدا را سوچو کہ کیا معمولی عقل کا آدمی بھی ایسی مجنونانہ بات کرسکتا ہے؟ (4) کہا جاتا ہے کہ چوہدری صاحب یو این او کے سامنے کشمیر کو ہندوستان کے پاس فروخت کر رہے ہیں.میں اس پر پھر انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں.چوہدری صاحب نے جس قابلیت کے ساتھ یو این او (UNO) میں کشمیر کے کیس پر بحث کی ہے وہ دنیا کی تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہے.جسے اپنے اور بیگانے ، دوست اور دشمن سب جانتے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ چوہدری صاحب کی زوردار تقریروں سے ہندوستانی حلقوں تک میں ایک دہشت کی سی کیفیت پیدا ہو رہی ہے.پھر کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ چوہدری صاحب اس خدمت پر اپنے آپ نہیں لگ گئے بلکہ خود قائد اعظم نے انہیں اس خدمت پر لگایا تھا.اور پھر قائد اعظم کے بعد پاکستان کی حکومت نے انہیں اس خدمت پر برقرار رکھا.اگر حکومت کے نزدیک وہ اس خدمت کے اہل نہیں یا نعوذ باللہ پاکستان سے غداری کر رہے ہیں تو کسی نے حکومت کا ہاتھ پکڑا ہوا نہیں ہے.وہ انہیں جب چاہے الگ کر سکتی ہے.یا درکھو کہ ابھی تک پاکستان بہت سی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور اسے ابھی کئی بھاری مسائل کو حل کرنا ہے.پس خدا کے لئے اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے والے نہ بنو.قائد اعظم نے سب مسلمان کہلانے والوں کے لئے پاکستان کا دروازہ کھولا.مگر آپ اس دروازہ کو بعض لوگوں پر بند کرنا چاہتے ہیں.قائد اعظم نے ایک شخص کو قابل سمجھ کر اسے پاکستان کی خدمت کے لئے چنا مگر آپ اسے

Page 114

مضامین بشیر جلد سوم 92 نالائق کہتے ہیں.پھر قائد اعظم نے ایک شخص کو وفا دار یقین کر کے اسے اپنا نمائندہ بننے کے لئے انتخاب کیا مگر آپ اسے غدار اور وطن فروش گردانتے ہیں.یا د رکھو کہ حکومت بنانی آسان ہوتی ہیں.لیکن قائم رکھنی مشکل اور بہت مشکل.دنیا کی تاریخ آپ لوگوں کے سامنے ہے کہ کس طرح گزشتہ اسلامی حکومتیں افتراق و انشقاق سے تباہ ہوئیں.پس خدارا پاکستان پر تو یہ مہلک نسخہ نہ آزماؤ کہ ابھی تو وہ صرف ایک نوزائیدہ بچہ ہے.آگے آپ لوگوں کا اختیار ہے.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ روزنامه الفضل لاہور 27 جولائی 1952ء) عزیزه امۃ اللطیف ستمہا کی تقریب رخصتانہ اور احباب کی دعاؤں اور مبارکباد کا شکریہ میں نے الفضل مورخہ 6 نومبر 52ء میں اپنی سب سے چھوٹی لڑکی عزیزہ امتہ اللطیف سلمہا کی تقریب رخصتانہ کا ذکر کر کے کہ اس کا رخصتانہ 13 نومبر بروز جمعرات قرار پایا ہے.دوستوں سے دعا کی تحریک کی تھی.سوخدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تقریب تاریخ مقررہ پر میرے مکان ربوہ میں بعد نماز عصر حضرت خلیفۃ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور کثیر تعداد بزرگوں اور عزیزوں اور دوستوں کی دعاؤں کے ساتھ تکمیل کو پہنچی.اور میں اپنے آخری بچہ کے متعلق اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ وَ نَرْجُوا مِنْ رَبِّنَا خَيْرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ - جیسا کہ میں نے اپنے سابقہ اعلان میں ذکر کیا تھا.بچوں کی شادی ایک اندھیرے کا قدم ہوتی ہے.جس کے انجام کا علم خدائے علیم وخبیر کے سوا اور کسی کو نہیں ہوتا.والدین نیک امیدوں کے ساتھ ایک قدم اٹھاتے ہیں.مگر اسے خیر و برکت کے ساتھ انجام تک پہنچانا اور اس کے نتائج کو بابرکت بنا نا صرف خدائے رحیم و کریم کے اختیار میں ہے.اور اسی کے فضل ورحمت پر بھروسہ کر کے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی در دبھری دعاؤں کو دہراتے ہوئے میں نے اس بچی کو اپنے گھر سے رخصت کیا ہے.لڑکیوں کا پودا اگتا ایک باغ میں ہے مگر بالآخر نصب ہوتا اور پنپتا دوسرے باغ میں ہے اور اس نئے باغ کی زمین اور پانی اور ہوا کا

Page 115

مضامین بشیر جلد سوم 93 موافق آنا صرف خدا کے علم اور خدا کے قبضہ قدرت میں ہے.إِلَيْهِ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْهِ نُنِيْبُ میں نے یہ بچی اس خاندان میں دی ہے جس سے رخصت ہو کر حضرت اماں جان نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَهَا ہمارے خاندان میں آئی تھیں.میری دعا ہے کہ جس غیر معمولی رنگ میں خدا تعالیٰ نے حضرت اماں جان کا ہمارے خاندان میں آنا ان کے لئے اور ہمارے خاندان کے لئے بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنایا.اسی طرح ہمارا آسمانی آقا میری اس بچی کا حضرت اماں جان مرحومہ مغفورہ والے خاندان میں جانا اس کے لئے اور اس خاندان کے لئے با برکت اور مثمر ثمرات حسنہ کرے اور اسے حسنات دارین کا موجب بنائے آمین يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ میں ان کثیر تعداد دوستوں کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس موقع پر اپنی شرکت کے ذریعہ یا تاروں اور خطوط کے ذریعہ ہماری خوشی میں حصہ لیا.اور اپنی مخلصانہ دعاؤں سے اس عاجز اور اس عاجز کی اولاد کو نوازا.اور بعض محبین نے اس موقع پر اخلاص و محبت کے تحائف بھی بھجوائے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے.اور دین و دنیا کی خوشیوں سے نوازے.آمین تحائف کا ذکر میں نے اپنی عادت اور فطری رجحان کے بالکل خلاف اس لئے کیا ہے کہ تحائف کے متعلق خدائے تبارک و تعالے کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وعدہ تھا.جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ ذکر کیا ہے اور اس پر خدا کا شکر ادا فرمایا ہے.پس میں نے بھی اپنی فطری حیا اور حجاب کو بزور دبا کر اس جگہ اس کا ذکر کر دینا مناسب خیال کیا ہے.تا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس متبرک ورثہ کا دامن تھام کر اپنے آسمانی آقا اور اپنے دینی بھائیوں کا شکریہ ادا کر سکوں.وَ مَنْ لَمْ يَشْكُرُ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرُ الله وَاللهُ عَلِيمٌ بِنِيَّتِي وَ هُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور - ( محرره 23 نومبر 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 26 نومبر 1952ء)

Page 116

مضامین بشیر جلد سوم اعلانات.اشتہارات - اطلاعات 94 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1 > امریکہ سے ایک مخلص احمدی کی آمد 2-> قافلہ قادیان 1950ء کے اصحاب توجہ فرمائیں.3-> ”تحریک درویش فنڈ“ کے متعلق 4- میاں عبداللہ خان صاحب افغان قادیان میں بیمار ہیں 5-> ربوہ میں قابل فروخت سکنی زمین روزنامه الفضل لاہور 4 جنوری 1952ء) روزنامه الفضل لا ہور 22 جنوری 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 13 فروری 1952ء) روز نامه الفضل لا ہور 11 مارچ 1952ء) روزنامه الفضل لا ہور 23 مارچ 1952ء) روزنامه الفضل لا ہور 23 مارچ 1952ء) (روز نامه الفضل لا ہور 25 مارچ 1952ء) ( روزنامہ الفضل لاہور 2 اپریل 1952ء) 9-> حضرت اماں جان مدظلہ العالی کی صحت کیلئے دعا وصدقہ (روز نامہ الفضل لاہور 4 اپریل 1952ء) 6- لجنہ اماءاللہ کوٹہ کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح کا صدقہ 7-> عبداللہ خان صاحب درویش کی تشویشناک علالت 8-> مالکان مکان کیلئے خوشخبری 10-> سیدہ حضرت اماں جان اطاء اللہ بقاءھا کی صحت کیلئے قادیان میں اجتماعی دعا وصدقہ کی تحریک روز نامه الفضل لا ہور 13 اپریل 1952ء) 11-> قادیان میں جلسہ پیشوایان مذاہب روزنامه الفضل لاہور 16 اپریل 1952ء)

Page 117

مضامین بشیر جلد سوم 12-> حضرت اماں جان کی تعزیت قادیان میں 13-> خوشی محمد کے وارث توجہ کریں 95 روزنامه الفضل لاہور 3 مئی 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 4 مئی 1952ء) 14-> خان محمد صاحب سابق درویش کیلئے درخواست دعا روزنامه الفضل لاہور 20 مئی 1952ء) 15-> ایک مخلص باپ کا ہونہار بچہ روزنامه الفضل لاہور 24 مئی 1952ء) 16-> صوفی غلام محمد صاحب مرحوم کے بچوں کے متعلق روزنامه الفضل لاہور 29 مئی 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 4 جون 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 4 جون 1952ء) 17-> حضرت اماں جان کی یاد میں 18-> صد ر وا میر صاحبان توجہ فرماویں 19-> قابل امدا داہل وعیال درویشان کی فہرست بھجوائیں 20- محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی علالت 21-> حضرت اماں جان کی یاد میں محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کے مضمون پر تبصرہ 22- تازہ فہرست چنده امداد درویشان و فدیہ رمضان 23-> مقبرہ بہشتی قادیان میں بجلی کا کنکشن 24-> قادیان میں تین درویشوں کی وفات 25-> قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان روزنامه الفضل لاہور 4 جون 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 4 جون 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 14 جون 1952ء) (روزنامه الفضل لاہور 8 اگست 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 19 اگست 1952ء) (روز نامه الفضل لاہور 17 ستمبر 1952ء)

Page 118

مضامین بشیر جلد سوم 96 26-> دو درویشوں کیلئے درخواست دعا 27-> میری چھوٹی لڑکی کی تقریب رخصتانہ اور دوستوں سے دعا 28-> ایک درویش کا بچہ عدم پتہ ہے روزنامه الفضل لاہور 8اکتوبر 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 6 نومبر 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 13 نومبر 1952ء) 29-> قافلہ قادیان میں شمولیت کی درخواست دینے والے اصحاب فوری توجہ دیں روزنامه الفضل لاہور 21 نومبر 1952ء) 30-> فوری توجہ فرمائیں روزنامه الفضل لاہور 6 دسمبر 1952ء) 31-> تازه فهرست چنده امداد درویشان و غیره روزنامه الفضل لاہور 6 دسمبر 1952ء) 32-> اہل قافلہ قادیان کیلئے ضروری اعلان روزنامه الفضل لاہور 9 دسمبر 1952ء) 33-> قافلہ قادیان کے اوقات میں تبدیلی 34-> اہل قافلہ میں بعض ناموں کی تبدیلی روزنامه الفضل لا ہور 14 دسمبر 1952ء) روزنامه الفضل لاہور 17 دسمبر 1952ء)

Page 119

مضامین بشیر جلد سوم باب سوم 1953ء کے مضامین 97

Page 120

مضامین بشیر جلد سوم چالیس جواہر پارے کا عرض حال ایڈیشن اوّل مسئلہ ختم نبوت پر ایک مختصر رسالہ قادیان میں ایک نومسلم خاکرو بہ کا انتقال حضرت مسیح موعود کے بعد پہلی بیعت خلافت کہاں ہوئی ؟ اشتراکیت اور اسلام -- چند اصولی اشارات آخری عشرہ میں جماعتی دعاؤں کی تحریک پر خاص زور دیا جائے رضوان عبد اللہ کی المناک وفات کیا ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ رکھا ہے؟ ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے نہیں کاٹا اگر موت کا وقت مقرر ہے تو پھر مریض کا علاج بے سود ہے تربیت اولاد کے دس سنہری گر خدام الاحمدیہ کا مالی ہفتہ یہ غرباء کی امداد کا خاص موسم ہے مضامین قرآن 98

Page 121

مضامین بشیر جلد سوم چالیس جواہر پارے کا عرض حال ایڈیشن اوّل 99 میں نہیں جانتا کہ اس کی کیا وجہ ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے بچپن سے حدیث کے علم کے ساتھ ایک فطری قسم کا لگاؤ رہا ہے اور جب کبھی بھی میں کوئی حدیث پڑھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں گویا رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک ہو کر حضور کے مقدس کلام سے مشرف ہورہا ہوں.میرا تخیل مجھے آج سے چودہ سو سال قبل مکہ مکرمہ کی مسجد حرام اور مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی اور حرمین شریفین کی گلیوں اور عرب کے صحرائی رستوں میں پہنچا کر رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانی صحبت اور معنوی رفاقت کا لطف عطا کر دیتا ہے.اور پھر میں کچھ وقت کے لئے دنیا سے کھویا جا کر اس فضا میں سانس لینے لگتا ہوں جس میں ہمارے محبوب آقا نے اپنی خدا دا د نبوت کے 23 مبارک سال گزارے.لیکن غالباً جس حدیث نے میرے دل اور دماغ پر سب سے زیادہ گہرا اور سب سے زیادہ وسیع اثر پیدا کیا، وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ایک ایسے ارشاد سے تعلق رکھتی ہے جس میں فقہ اور علم کلام کا تو کوئی عصر شامل نہیں.مگر میرے ذوق میں وہ اسلام اور روحانیت کی جان ہے.روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ ایک غریب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے ماتھے پر عبادت وریاضت کا تو کوئی خاص نشان نہیں تھا مگر اس کے دل میں محبت رسول کی چنگاری تھی.جس نے اس کے سینہ میں ایک مقدس چراغ روشن کر رکھا تھا.اس نے قرب رسالت کی دائمی تڑپ کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرتے ڈرتے پوچھا یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا ” تم قیامت کا پوچھتے ہو کیا اس کے لئے تم نے کوئی تیاری بھی کی ہے؟ اس نے دھڑکتے ہوئے دل اور کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے عرض کیا.” میرے آقا نماز روزے کی تو کوئی خاص تیاری نہیں.لیکن میرے دل میں خدا اور اس کے رسول کی کچی محبت ہے.آپ نے اسے شفقت کی نظر سے دیکھا اور فرمایا ” الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبّ ، پھر تسلی رکھو کہ خدائے و دود کسی محبت کرنے والے شخص کو اس کی محبوب ہستی سے جدا نہیں کرے گا“.یہ حدیث میں نے بچپن کے زمانہ میں پڑھی تھی.لیکن آج تک جو میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں.میرے آقا کے یہ مبارک الفاظ قطب ستارے کی طرح میری آنکھوں کے سامنے رہے ہیں اور میں نے ہمیشہ یوں محسوس کیا ہے کہ گویا میں نے ہی رسولِ خدا سے یہ سوال کیا تھا اور آپ نے مجھے ہی یہ جواب عطا فرمایا تھا اور اس کے بعد میں اس نکتہ کو کبھی نہیں بھولا کہ نماز اور روزہ اور حج اور زکوۃ سب برحق ہے مگر دل کی روشنی اور

Page 122

مضامین بشیر جلد سوم 100 روحانیت کی چمک خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.اگر انسان کو یہ نعمت حاصل ہو جائے تو ظاہری عمل زندگی کی روح سے معمور ہو کر اس کے پیچھے پیچھے بھاگا آتا ہے.لیکن اگر انسان کو یہ نعمت حاصل نہ ہو تو پھر خشک عمل ایک مُردہ لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا جو ظاہر پرست لوگ اپنے سینوں سے لگائے پھرتے ہیں.خدا جانتا ہے کہ اسی محبت رسول کے جذبہ کے ماتحت میں نے یہ رسالہ (چالیس جواہر پارے ) لکھا ہے تا اگر خدا کو منظور ہو تو اس کے پڑھنے والوں میں اس محبت کی چنگاری پیدا ہو.جو ہر نیک عمل کی روح اور ہر اعلیٰ خلق کی جان ہے.اور وہ اپنے محبوب آقا کے ارشادات کو دلی شوق و ذوق سے سنیں اور اپنے لئے حرز جان بنائیں اور خود میرے واسطے بھی وہ بخشش اور مغفرت اور شفاعت رسول کا موجب ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ محرره 13 نومبر 1950ء) 2 مسئلہ ختم نبوت پر ایک مختصر رساله مسئلہ ختم نبوت کے متعلق موجودہ بحث اور اختلاف کے پیش نظر میرا ارادہ ہے کہ خدا کی توفیق سے ایک مختصر سا رسالہ لکھوں جس کا حجم کم و بیش چالیس صفحات کا ہو.اس کے متعلق میرے دل میں کچھ عرصہ سے بار بار تحریک ہو رہی تھی.کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ ایک خاص خدمت کا وقت ہے اور وہی خدمت خدا کے حضور زیادہ مقبول اور زیادہ موجب ثواب ہوا کرتی ہے جو زمانہ کی ضرورت اور وقت کے تقاضے کے مطابق ہو.اس کے ساتھ ساتھ بعض دوستوں کی طرف سے بھی اس کے متعلق تحریک ہوئی ہے.پس اس ڈہری تحریک کی بناء پر میں نے خدا کی توفیق سے اس رسالہ کی تصنیف کا ارادہ کر لیا ہے.لہذا جو دوست اس مسئلہ کے کسی خاص پہلو کی زیادہ وضاحت ضروری سمجھتے ہوں ( کیونکہ بیرونی دوستوں کو مخالفوں کے اعتراضوں کے سننے کا زیادہ موقع ملتا ہے ) وہ مجھے اپنا سوال لکھ کر بھجوا دیں.انشاء اللہ اس کے متعلق مجوزہ رسالہ کی تحریر کے وقت خیال رکھا جائے گا.بشرطیکہ یہ سوال ایسا ہو کہ اس کا جواب اختصار کے ساتھ دیا جا سکے.ورنہ طویل رسالہ کی اس وقت گنجائش نہیں اور نہ موجودہ ماحول میں زیادہ مفید ہو سکتا ہے اور بڑی کتابوں کی اشاعت بھی مشکل ہوتی ہے.موجودہ تجویز کے مطابق یہ رسالہ انشاء اللہ ذیل کے سات حصوں میں تقسیم کیا جائے گا.(1) پیش لفظ جس میں مسئلہ نبوت کے متعلق جماعت احمد یہ اور دوسرے موجود الوقت مسلمانوں کے نظریہ

Page 123

مضامین بشیر جلد سوم کے اختلاف کی حقیقت بیان کی جائے گی.یعنی یہ بتایا جائے گا کہ یہ اختلاف ہے کیا.101 (2) تمہید جس میں یہ بتایا جائے گا کہ امکانی طور پر کسی اسلامی مسئلہ کا حل صرف چار ذریعہ سے ہی ہوسکتا ہے.ایک قرآن شریف کے ذریعہ.دوسرے حدیث کے ذریعہ.تیسرے گزشتہ علماء و بزرگانِ امت کے اقوال کے ذریعہ.اور چوتھے عقل کے ذریعہ.(3) اس تقسیم کے مطابق انشاء اللہ سب سے پہلے قرآنی آیات کی روشنی میں مسئلہ ختم نبوت کا حل پیش کیا جائے گا.(4) اس کے بعد احادیث نبوی کے مطابق اس مسئلہ پر روشنی ڈالی جائے گی.(5) پھر علماء و بزرگان امت کے اقوال پیش کئے جائیں گے.(6) اور پھر عقل کے ذریعہ اس مسئلہ کی ضروری تشریح و توضیح درج کی جائے گی.(7) سب سے آخر میں ایک مختصر سا خاتمہ ہو گا جو اس بیان پر مشتمل ہوگا کہ مسئلہ ختم نبوت کے متعلق نہ صرف جماعت احمدیہ کا نظریہ ہی صحیح اور درست ہے بلکہ خدا کے فضل سے یہ نظریہ ایسا بلند اور ایسا ارفع اور ایسا شاندار ہے کہ انشاء اللہ زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ مسلمان اس نظریہ پر فخر کریں گے اور غیر مسلم اس کی وجہ سے اسلام کی طرف غیر معمولی رغبت پائیں گے.لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے افادہ عام کی غرض سے اس رسالہ کو بہت مختصر رکھنا ہوگا اور ہر عنوان کے ماتحت صرف ایک ایک دو دو دلیلوں سے زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں ہوگی.پس دوست اپنے سوالوں میں اختصار کے پہلو کو مد نظر رکھیں اور اس کے علاوہ کوئی بات مشورہ کے طور پر ان کے خیال میں آئے تو وہ بھی لکھ دیں اور دعا بھی کریں کہ اللہ تعالئے مجھے اس رسالہ کو ایسے رنگ میں لکھنے اور ترتیب دینے کی توفیق دے جو اس کے دربار میں مقبول اور اس کی مخلوق کے لئے موجب ہدایت ہو.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ وَهُوَ الْمُؤفَقُ الْمُسْتَعَانُ فِي كُلِّ حَالٍ - محرره 19 جنوری 1953 ء) روزنامه الفضل لا ہور 27 جنوری 1953ء)

Page 124

مضامین بشیر جلد سوم 102 قادیان میں ایک نومسلم خاکروبہ کا انتقال هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى جَلِيْسُهُمْ “ کا دلچسپ پر تو قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ مسمات محمد بی بی ( سابق نام ٹھا کری ) وفات پاگئی ہے.مسمات محمد بی بی قادیان میں خاکر وہ تھی.مگر اسے اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ با وجود اس کے کہ آجکل وہ غیر مسلم آبادی میں گھری ہوئی رہتی تھی اور گویا دین العجائز رکھتی تھی.وہ ملکی تقسیم کے بعد بھی اسلام پر قائم رہی اور مرنے سے پہلے بار بار میر صاحب مقامی مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل سے تاکید عرض کرتی رہی کہ میں مسلمان ہوں.میرا جنازہ احمدی بھائی پڑھیں اور آپ لوگ خود مجھے دفن کریں.چنانچہ خدا نے اس کی یہ خواہش پوری کی اور جماعت احمدیہ قادیان نے اس کا جنازہ پڑھا اور اپنے انتظام میں قبرستان غیر موصیان میں اسے دفن کیا.مجھے ایسے موقعوں پر ہمیشہ یہ حدیث یاد آتی ہے کہ هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقَى جَلِيْسُهُمْ یعنی انبیاء اور اولیاء کی وہ مبارک جماعت ہے کہ ان کا جسمانی قرب رکھنے والا انسان بھی برکت سے محروم نہیں رہتا.اب یہی قادیان اور اس کے گرد و نواح کی پرانی آبادی کے لوگ تھے جن میں سے اکثر کو محض اس لئے ہدایت نصیب ہوئی کہ وہ تخت گاہ مسیح موعود کے قریب رہنے والے تھے.اگر یہی لوگ مثلاً یو پی یا سی پی یا مدراس وغیرہ میں ہوتے تو انہوں نے اس زمانہ میں کہاں ایمان لانا تھا؟ بلکہ شاید انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی نہ پہنچتا.کیونکہ یہ لوگ عموماً دیہاتی اور نا خواندہ ہونے کی وجہ سے بیرونی دنیا سے کٹے ہوئے تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسمانی قرب کی وجہ سے وہ ایمان کی نعمت سے متمتع ہو گئے.ورنہ شاید عام حالات میں کئی پشت بعد ان کی نسلیں ایمان کی نعمت حاصل کرتیں.سچ ہے کہ لَا يَشْقَى جَلِيْسُهُمْ.اس با برکت گروہ کا جسمانی قرب بھی بے شمار نعمتوں کا باعث بن جاتا ہے.بشرطیکہ کوئی انسان خود اپنے کمرہ کی کھڑکیاں بند کر کے اپنے آپ کو خدائی نور سے محروم نہ کر لے.جیسا کہ رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو جہل یا ابولہب وغیرہ نے مکہ میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو اسلام کے نور سے محروم کر لیا.جن کی محرومی سے متعلق مولانا روم نے کیا خوب کہا ہے کہ.حسن ز بصره بلال از جبش صهیب از روم ز خاک مکہ ابو جہل ایس چه بواجھمی ایست

Page 125

مضامین بشیر جلد سوم 103 سواس بوالعجبی کو نظر انداز کرتے ہوئے جو خود منکرین کی اپنی پیدا کردہ شقاوت ہوتی ہے.خدا کی عام رحمت کا تقاضا یہی ہے کہ قریب والے لوگ بھی ( خواہ یہ قرب محض جسمانی ہی ہو ) انبیاء کے زمانہ میں جبکہ الہی رحمت کا وسیع انتشار ہوتا ہے.جسے گویا موجودہ زمانہ کی اصطلاح کے لحاظ سے روحانی براڈ کاسٹ کہنا چاہئے.خدائی رحمت کا چھینٹا حاصل کر لیتے ہیں.اسی طرح مجھے اپنے متعلق بھی بے شمار دفعہ خیال آیا ہے کہ ہمیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں حضور کی نسل سے پیدا کیا اور اس ذریعہ سے ہم پر لاتعداد نعمتیں نازل فرما ئیں.بلکہ حق یہ ہے کہ ہمیں اپنی نعمتوں اور برکتوں سے ڈھانک لیا.اور ہمارے درودیوار پر اپنی غیر معمولی رحمتوں کی بارش برسادی.اس کے لئے ہم نے کو نسا حق پیدا کیا تھا؟ بظاہر (یعنی دنیا کی نظروں میں ) یہ ایک محض اتفاق تھا.مگر اس اتفاق نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا.ورنہ شاید دنیا کے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی طرح ہم بھی اس وقت کسی دور افتادہ گاؤں میں جہالت کے اندر پڑے ہوئے ہل چلواتے اور زمین کی پیداوار سے اپنا پیٹ پالنے کی فکر میں مبتلا نظر آتے.مگر یہ محض خدا کا فضل تھا کہ ہمارے معاملہ میں حضرت مسیح موعود کا یہ شعر ہم پر چوں مہربانی سے کنی خدائی نعمت کا مصداق بنا.پر کسے از زمینی آسمانی کنی وَ ذَالِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُسْتَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يَسْتَلُوْنَ - رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَ عَلى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ - ( محررہ 22 جنوری 1953ء) روزنامه الفضل لاہور 30 جنوری 1953 ء) اشتراکیت اور اسلام -- چند اصولی اشارات (1) ( موجودہ زمانہ میں اشتراکیت کی بنیا دلاند ہیت پر رکھی گئی ہے اور اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کے وجود کے منکر ہو کر مادہ پرستی میں اس قدر محو ہو جائیں کہ آخرت کا خیال بھی ان کے دماغ (1) اس عنوان پر آپ کا ایک مضمون روز نامہ الفضل 26 دسمبر 1951ء میں بھی شائع ہوا.جو اس سے ملتا جلتا ہے.(مرتب)

Page 126

مضامین بشیر جلد سوم 104 میں نہ آئے.اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اشتراکیوں نے ہر جگہ اپنے جال بچھا دیئے ہیں.اور نو جوانوں کے خیالات کو تبدیل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور بکثرت لٹریچر تقسیم کیا جارہا ہے.اندریں حالات بہی خواہان اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ اس گمراہ کن پروپیگنڈے کے بداثرات سے اپنے بچوں کو محفوظ کرنے کے لئے اس کا مقابلہ کریں.اس مقصد کے پیش نظر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے یہ مضمون رقم فرمایا ہے.جو بصورت رسالہ بھی شائع کیا گیا ہے.یہ مضمون حالات حاضرہ کے پیش نظر نہایت مفید اور ضروری ہے.احباب کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں اس کی کثرت سے اشاعت کریں.اللہ تعالے اسے لوگوں کے لئے بابرکت اور نافع بنائے.آمین.( انچارج صیغہ تالیف و تصنیف) اشتراکیت اور اسلام کے اصولوں کا مقابلہ ایک مفصل اور مبسوط مضمون بلکہ ایک مستقل کتاب کی تصنیف کا متقاضی ہے.لیکن اس وقت نہ تو اس کے لئے خاطر خواہ یکسوئی حاصل ہے اور نہ ہی ضروری سامان میسر ہے.لہذا فی الحال ذیل کے چند مختصر فقرات میں اس وسیع اور نازک مضمون کے چیدہ چیدہ پہلوؤں کے بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں.اگر کسی صاحب کو کوئی بات قابل تشریح نظر آئے یا کوئی اعتراض پیدا ہوتو وہ خط لکھ کر دریافت فرما سکتے ہیں.یا اگر آئندہ موقع ملا اور خدا نے توفیق دی تو یہ خاکسار یا کوئی اور خادم ملت مفصل مضمون لکھنے کی سعادت حاصل کر لے گا.وَ بِاللَّهِ التَّوْفِيقِ وَهُوَ الْمُسْتَعَانُ دنیا کے تین نظام اس وقت دنیا میں تین مختلف قسم کے نظاموں کا مقابلہ ہے جن میں سے دو نظام تو کھلے طور پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں.اور تیسر انظام کسی قدر پس پردہ رہ کر گویا ان دو نظاموں کے ٹکراؤ اور اس ٹکراؤ کے نتیجہ کا انتظار کر رہا ہے.اول الذکر دو نظام اشتراکیت (Communism) اور سرمایہ داری (Capitalism) کے نظام ہیں.اور تیسر انظام اسلام کا نظام ہے.جسے قدرت نے ابھی تک اپنی خاص تقدیر کے ماتحت پیچھے رکھا ہوا ہے.تا کہ اشتراکیت اور سرمایہ داری کے باہم فیصلہ کے بعد اسے دنیا کے آخری ٹکراؤ کے لئے آگے لایا جائے.یہ تیاری ہمارے معتقدات کی رو سے اس زمانہ کی عظیم الشان مذہبی تحریک یعنی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ مقدر ہے.جس کے مقدس بانی کو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے مثیل اور ہمارے رسول پاک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کے نائب و خادم ہونے کی حیثیت میں تمام مذاہب عالم کے لئے حکم و عدل اور اسلام کے دور جدید کا علم بردار بنا کر بھیجا گیا ہے.

Page 127

مضامین بشیر جلد سوم 105 یا جوج اور ماجوج لیا ہے اور اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے نظاموں کا یا جوج اور ماجوج کے ناموں سے ذکر کیا.پیشگوئی فرمائی ہے کہ آخری زمانہ میں یہ دونوں نظام ایک بھاری سیلاب کی طرح ساری دنیا پر چھا جائیں گے.اور مادی ترقی کے سارے سامان بظاہر ان کے ہاتھ میں چلے جائیں گے ( قرآن مجید سورہ انبیاء آیت 92 تا 98) یا جوج روس کا نام ہے جو آج کل اشترا کی نظام کا لیڈر اور مرکزی نقطہ ہے اور ماجوج برطانیہ کا نام ہے جو سرمایہ داری کے نظام کا علمبردار ہے.اور برطانیہ کے مفہوم میں شمالی امریکہ بھی شامل ہے جو زیادہ تر برطانیہ ہی کی نسل اور اسی نظام کا حامل ہے.گو آجکل وہ اس میدان میں برطانیہ سے بھی آگے آگے ہے یہ دونوں نظام متضاد پالیسیوں اور سکیموں کے ماتحت ایک دوسرے کے خلاف خطرناک طور پر صف آراء ہیں.اور گومخفی جنگ جسے آجکل کی اصطلاح میں اعصابی جنگ یا کولڈ وار (Cold War) کہتے ہیں اب بھی جاری ہے.لیکن ایسے حالات سرعت کے ساتھ پیدا ہور ہے ہیں جن کے پیش نظر اس بات کا بھاری خطرہ ہے کہ یہ متقابل آتش فشاں پہاڑ کسی وقت بھی پھٹ کر نہ صرف ایک دوسرے پر چھا جانے بلکہ دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لینے کے لئے ایک عالمگیر جنگ کی آگ بھڑ کا دیں گے.(مذہبی پہلو کے لحاظ سے یا جوج ماجوج کے فتنہ کا احادیث میں دجال کے نام سے ذکر کیا گیا ہے ) عالمگیر خطره بظاہر حالات یہ دونوں ( یعنی اشتراکیت اور سرمایہ داری ) اقتصادی اور تمدنی نوعیت کے نظام ہیں.مگر حقیقتا ان نظاموں کے ساتھ نہ صرف سیاسیات بلکہ اخلاقیات اور روحانیات کی تاریں بھی اس طرح الجھی ہوئی ہیں کہ ان نظاموں کی ترقی اور تنزل کا اثر ان سارے میدانوں پر براہ راست پڑتا ہے.اور دنیا کا کوئی طبقہ خواہ وہ سیاسی ہو یا ند ہی اپنے آپ کو لاتعلق سمجھ کر علیحدہ نہیں رہ سکتا.پس قبل اس کے کہ اس عالمگیر آگ کے شعلے کسی قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیں.اس کا فرض ہے کہ حالات کا جائزہ لے کر کسی صحیح نتیجہ اور فیصلہ کن لائحہ عمل پر پہنچنے کی کوشش کرے.ورنہ جو قوم اپنے آپ کو محفوظ اور لاتعلق سمجھ کر خاموش بیٹھی رہے گی وہ یقیناً اس کبوتر کی مثال بنے گی جو بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب میں اس خطرہ سے محفوظ ہو گیا ہوں.

Page 128

مضامین بشیر جلد سوم 106 اشتراکیت کے نظام کا خلاصہ اشتراکیت کے نظام کا خلاصہ یہ ہے کہ دولت اور دولت پیدا کرنے کے ذرائع کو افراد کی بجائے قوم اور ملک کی مشترکہ اجارہ داری قرار دے کر حکومت کے ہاتھ میں دے دیا جائے اور اس طرح مشتر کہ انتظام اور مشتر کہ سامانوں کے ذریعہ دولت پیدا کر کے اور دولت کو ترقی دے کر اسے افراد میں ان کی ضرورت کے مطابق بزعم خود مساویانہ اصول پر تقسیم کر دیا جائے.گویا دولت تو سب مل کر اپنی طاقت کے مطابق پیدا کریں اور خرچ افراد کی ضرورت کے مطابق ( قطع نظر اس کے کہ دولت پیدا کرنے میں کس فرد کا کتنا حصہ ہے) تقسیم کر دیا جائے.گو آجکل اشتراکیت اپنے اصول میں کسی قدر نرمی پیدا کرنے کی طرف مائل ہے مگر یہ نرمی خودان کے نظام کی کمزوری کی دلیل ہے اور بہر حال اشتراکیت کا اصولی نظر یہ وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے.اس کے مقابل پر سرمایہ داری جس کے متعلق آجکل بعض لوگ جمہوریت (Democracy) کا لفظ بھی استعمال کرنے لگے ہیں وہ نظام ہے جس میں افراد کے لئے ذاتی آمد اور ذاتی جائیداد پیدا کرنے اور اس آمد اور جائیداد سے ذاتی فائدہ اٹھانے کا حق تسلیم کیا جاتا ہے.مگر عملاً اس نظام کو اس طرح چلایا جاتا ہے اور ذاتی جائیداد کو اس طرح بے لگام چھوڑ دیا جاتا ہے کہ ملک کی دولت سمٹ سمٹ کر ایک محدود اور مخصوص طبقہ کے ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے.اور پھر اس جمع شدہ دولت کو مناسب رنگ میں سمونے اور امیر وغریب کے فریق کو کم کرنے کا بھی کوئی مؤثر انتظام نہیں کیا جاتا.سرمایہ داری کا رد عمل اشتراکیت کا نظام دراصل سرمایہ داری کے نظام کا ہی رد عمل ہے.اور گو یا بالواسطہ طور پر اسی کا ایک غیر قدرتی بچہ ہے.سینکڑوں سال سے دنیا کا اقتصادی نظام ایسے رستہ پر چل رہا تھا کہ قوموں اور ملکوں کی دولت سمٹ سمٹ کر ایک خاص طبقہ کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی تھی.اور آبادی کا بقیہ حصہ ( اور اس کی اکثریت تھی ) غربت اور افلاس اور ناداری اور بے بسی کی انتہا کو پہنچ گیا تھا.سرمایہ داری کی یہ بھیا نک صورت سب سے زیادہ روس کے ملک میں رونما ہوئی جہاں زاریوں اور ان کے درباریوں اور رئیسوں کے تعیش نے گویا غریبوں کا خون چوس رکھا تھا اور ان کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہورہی تھی.کیونکہ شعور موجود تھا.مگر اس شعور کی تسکین کا کوئی سامان نہیں تھا.پس جس طرح ہر ظالمانہ نظام کا ایک رد عمل ہوا کرتا ہے.جو گویا قائم شدہ نظام کے خلاف بغاوت کا رنگ رکھتا ہے.اور ایک انتہا سے ہٹا کر دوسری انتہا کی طرف لے جاتا ہے.اسی

Page 129

مضامین بشیر جلد سوم 107 طرح سرمایہ داری اور دولت کے ناواجب اجتماع کا رد عمل اشتراکیت کی صورت میں ظاہر ہوا اور روس میں خصوصیت سے سماجی نظام کا پنڈولم (Pendulum) ایک انتہا کی چوٹ کھا کر دوسری انتہا کو جا پہنچا.انفرادیت اور اجتماعیت کا قدرتی توازن ان دونوں غیر فطری نظاموں کے مقابل پر جن میں سے ایک نظام انفرادیت (Individualism) کو مٹاتا اور دوسرا اجتماعیت (Collectivism) کے جذبہ کو تباہ کرتا ہے.اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ عام حالات میں ذاتی دولت پیدا کرنے اور اس دولت سے ذاتی فائدہ اٹھانے کے حق کو تو تسلیم کیا جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ایک ایسی مؤثر اور حکیمانہ مشینری لگا دی گئی ہے.جس کی وجہ سے ملکی دولت کبھی بھی چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہو سکتی اور دولت کو سمونے اور غریب و امیر کے فرق کو کم کرنے کا عمل ساتھ ساتھ چلتا ہے.اس طرح اسلام گویا اشتراکیت اور سرمایہ داری کے بین بین کا نظام ہے.جس میں کمال حکمت سے ایک طرف تو دونوں نظاموں کی خوبیاں جمع ہیں اور دوسری طرف وہ ان دونوں نظاموں کی خرابیوں سے مبرا اور آزاد ہے.اور اس کی اپنی خوبیاں مزید برآں ہیں.یہی وجہ ہے کہ جس اسلامی ملک کے مسلمان اسلام کی تعلیم پر قائم رہے ہیں مگر افسوس کہ یہ نظارہ بہت کم نظر آتا ہے ) وہاں نہ تو سرمایہ داری ہی اپنی بھیانک صورت میں قائم ہو کر اجتماعیت کے جذبہ کو تباہ کر سکی ہے اور نہ ہی اس میں اشتراکیت کو نفوذ کا رستہ مل کر انفرادیت کا جنازہ اٹھا ہے.حقیقتاً اشتراکیت کے مقابل پر اسلام ایک ایسی آہنی دیوار کا حکم رکھتا ہے جس میں نقب کا لگا نا اشتراکیت کے بس کی بات نہیں.اسلامی نظام کا مرکزی نقطہ اسلام نے سب سے پہلے دولت پیدا کرنے کے ذرائع کے متعلق یہ اصولی تعلیم دی ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کے سامانوں اور دولت کے قدرتی وسائل کو تمام بنی آدم کے فائدہ کی خاطر پیدا کیا ہے.اور کسی خاص طبقہ کی اجارہ داری قرار نہیں دیا.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:.خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (البقره: 30) یعنی اے وہ لوگو! جو اس دنیا میں بستے ہو.خدا نے دنیا کی ہر چیز تم سب کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہے.اس واضح آیت سے ثابت ہے کہ اسلامی نظریہ کے ماتحت دولت پیدا کرنے کے ذرائع سب لوگوں کے لئے یکساں کھلے رکھے گئے ہیں اور ان پر کسی خاص طبقہ کی اجارہ داری تسلیم نہیں کی گئی.لیکن دوسری طرف

Page 130

مضامین بشیر جلد سوم 108 اس کھلے دروازہ میں داخل ہونے کے بعد جو فرق انفرادی قابلیت اور انفرادی جد وجہد کے نتیجہ میں طبعی طور پر پیدا ہو جاتا ہے.اسے بھی اسلام تسلیم کرتا ہے.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے.وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْق (النحل: 72)....أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ (الروم: 38) یعنی بعض لوگوں کو خدائی قانون کے ماتحت دوسرے لوگوں پر رزق اور دولت میں فوقیت حاصل ہو جاتی ہے ( نیز ) کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ خدا بعض لوگوں کے رزق میں فراخی پیدا کر دیتا ہے اور بعض کے لئے تنگی پیدا ہو جاتی ہے.یہ آیات پوری تشریح کے لئے مفصل بیان چاہتی ہیں.مگر بہر حال ان دو متقابل تعلیموں پر غور کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں تک دولت پیدا کرنے کے ذرائع کا سوال ہے وہ سب لوگوں کے لئے یکساں کھلے رکھے گئے ہیں.مگر دوسری طرف انفرادی قابلیت اور انفرادی جد و جہد کے نتیجہ میں جو فرق افراد اور اقوام کی دولت میں طبعی طور پر پیدا ہو جاتا ہے اسے بھی خدائی قانون اور خدائی مشیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور یہی وہ فطری صورت ہے جس سے حقوق کا صحیح توازن قائم رکھا جاسکتا ہے.انفرادی جد و جہد کا قدرتی محرک اس کے مقابل پر اشتراکیت نے دولت اور دولت پیدا کرنے کے ذرائع کوکلیۂ حکومت کے ہاتھ میں دے کر انفرادی جدو جہد کے سب سے بڑے محرک کو تباہ کر دیا ہے.بے شک دنیا میں کام کے محرک بہت سے ہیں.مگر وہ عالمگیر محرک جو تمام محرکات سے وسیع تر اور مضبوط تر ہے جس کے اثر سے کوئی فرد بشر بھی باہر نہیں.کیونکہ وہ فطرت انسانی کا حصہ ہے.وہ اس جذبہ سے تعلق رکھتا ہے کہ انسان اپنی محنت کا پھل خود براہِ راست بھی کھائے.مگر یہ فطری جذ بہ اشتراکیت کے نظام نے بالکل کچل کر رکھ دیا ہے.یہ درست ہے کہ دوسروں کی امداد کرنے اور دوسروں کی خاطر کام کرنے کا جذبہ بھی اعلیٰ فطرت انسانی کا حصہ ہے.اور اسلام نے اس جذ بہ پر بھی بہت زور دیا ہے مگر اسلام جو فطرت کا مذہب ہے اور تمام فطری جذبات کے توازن کو قائم رکھتا ہے اس نے اپنی محنت کے پھل کھانے کی عالمگیر خواہش کو بھی جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے مٹایا نہیں اور نہایت حکیمانہ طور پر دونوں کے بین بین رستہ نکال کر انفرادیت اور اجتماعیت ہر دو کی زندگی کا سامان مہیا کیا ہے.

Page 131

مضامین بشیر جلد سوم 109 مسابقت کا فطری جذبہ اشتراکیت کے نظام میں مسابقت یعنی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی روح کو بھی کچل دیا گیا ہے.حالانکہ یہ روح قومی اور انفرادی ترقی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.کیونکہ اس کے نتیجہ میں نہ صرف انسانی جد و جہد میں وسعت اور تیزی پیدا ہو جاتی ہے بلکہ انسانی دماغ بھی زیادہ سوچتا اور زیادہ ترقی کرتا ہے.حق یہ ہے کہ یہ مسابقت کی روح جسے انگریزی میں امبیشن (Ambition) کہتے ہیں ایک عظیم الشان فطری محرک ہے جو انسان کو آگے کی طرف دھکیل کر اس کی رفتار میں غیر معمولی تیزی پیدا کر دیتا ہے.اور اس کی وجہ سے اس کے دل میں یہ خواہش موجزن ہوتی ہے کہ میں دوسرے لوگوں سے آگے نکل جاؤں.لیکن اشتراکیت کے نظام میں اس مسابقت کی روح کو اگر یکسر کچلا نہیں گیا تو کم از کم مفلوج ضرور کر دیا گیا ہے.انفرادی ہمدردی ومواسات اشتراکیت میں انفرادی ہمدردی اور مواسات کے جذبات کو بھی بُری طرح کچلا گیا ہے.کیونکہ اشتراکیت کے نظام میں رشتہ داروں اور دوستوں اور ہمسایوں اور غریب لوگوں کی انفرادی امداد کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا.بلکہ ہر قسم کی امداد کا منبع صرف حکومت بن جاتی ہے.حالانکہ انسانی اخلاق کی تکمیل اور ترقی کے لئے یہ پہلو بھی نہایت ضروری ہے کہ حسب ضرورت رشتہ داروں اور دوستوں اور ہمسایوں اور غریب لوگوں کی تنگی اور تکلیف کے اوقات میں انفرادی امداد اور مواسات کا راستہ بھی کھلا رہے مگر اشتراکیت نے اس جہت سے بھی انسان کو گو یا صرف ایک مشین بنادیا ہے.حالانکہ قدرت نے انسان کو محض مشین کے طور پر پیدا نہیں کیا.بلکہ اس کے اندر محبت اور ہمدردی کے جذبات ودیعت کئے ہیں.جن کے انفرادی اظہار کے لئے رستہ کھلا رہنا چاہئے.کاش اشتراکیت کے ارباب حل و عقد اس بات کو سمجھتے کہ انسان کے اندر صرف دماغ ہی پیدا نہیں کیا گیا بلکہ دل بھی پیدا کیا گیا ہے.پس جب تک انسانی اخلاق میں عقل (Reason) اور جذبات (Sentiment) ہر دو کی حکیمانہ آمیزش کا انتظام نہ ہو انسانیت کا آدھا دھڑ یقینا مفلوج رہے گا.بیشک انفرادی امداد کے بعض پہلوؤں میں یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ دینے والے میں احسان جتانے اور لینے والے میں اپنے آپ کو نیچا محسوس کرنے کی طرف میلان پیدا ہونے لگتا ہے.مگر اس خطرہ کو اسلام نے بڑی سختی کے ساتھ روکا ہے.چنانچہ ایک طرف ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص دوسرے کی امداد کر کے احسان جتاتا ہے.وہ نہ صرف اس امداد کا سارا ثواب ضائع کر لیتا ہے بلکہ بھاری گناہ کا بھی مرتکب ہوتا ہے.اور دوسری

Page 132

مضامین بشیر جلد سوم 110 طرف ہدایت دی ہے کہ انفرادی امدادحتی الوسع خفیہ طور پر دوسروں کو پتہ لگنے کے بغیر کی جائے تا کہ امداد دینے والے اور لینے والے کے دلوں میں کسی قسم کے ناخوشگوار احساسات نہ پیدا ہوں.علاوہ ازیں اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ حاجت مند لوگ محنت کر کے خود اپنی روزی کمائیں.اور حتی الوسع سوال سے پر ہیز کریں اور دوسری طرف وہ ذی ثروت لوگوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اپنے ماحول میں آنکھیں کھول کر زندگی گزار و اور غریبوں اور محتاجوں کے سوال کے بغیر خود بخود ان کی امداد کو پہنچو.اس مرکب اور حکیمانہ تعلیم پر قائم رہتے ہوئے یہ خطرہ کہ انفرادی امداد سے دینے والے میں بڑائی اور لینے والے میں احساس کمتری کے جذبات پیدا ہونے کا امکان ہے عملاً ایک موہوم خطرہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.بہر حال اسلام نے عقل اور جذبات دونوں میں نہایت درجہ حکیمانہ توازن قائم کیا ہے لیکن اشتراکیت جذبات کے پہلو کو یکسر مٹا کر اس فطری توازن کوکلیۂ برباد کر رہی ہے.دماغی طاقتوں کی افسوسناک بے قدری پھر طرفہ ماجرا یہ ہے ( اور حقیقتاً یہ ایک عجیب تضاد ہے) کہ جذبات کو مٹانے اور دل کے مقابلہ پر دماغ کو اس کے واجبی مقام سے زیادہ حیثیت دینے کے باوجود اشتراکیت کے نظام میں انسانی دماغ کی کوئی زائد قیمت نہیں لگائی گئی.بلکہ اصولاً وہی ہاتھ پاؤں والی عمومی پوزیشن تسلیم کی گئی ہے.کیونکہ اشترا کی ممالک میں اسی اصول کے مطابق افراد کا گزارہ مقرر ہوتا ہے.اور گواب عملا کسی قدر فرق ملحوظ رکھا جانے لگا ہے.مگر بنیادی اصول یہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے.اب یہ ایک مسلمہ اصول اور تجربہ شدہ حقیقت ہے کہ جس چیز کی اس کے بالا اور ارفع مقام کے باوجود زائد قیمت نہ لگے.وہ آہستہ آہستہ اپنے مقام سے گر کر نیچے کی چیزوں کی سطح پر آجاتی ہے.اس طرح اشتراکیت کا نظام در حقیقت نسلِ انسانی کی دماغی طاقتوں کو بھی نقصان پہنچانے کا موجب ہے گو ظاہر ہے کہ اس قسم کی باتوں کا نتیجہ فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتا.بلکہ کچھ وقت لے کر آئندہ نسلوں میں آہستہ آہستہ ظاہر ہوتا ہے.مگر ہوتا یقینا ہے کیونکہ قدرت کا قانون ٹل نہیں سکتا.انسانی حقوق کی قدرتی تقسیم علاوہ ازیں اشتراکیت کے نظام میں ایک بڑا نقص یہ بھی ہے کہ اس نظام میں انسانی حقوق کی فطری تقسیم کوملحوظ نہیں رکھا گیا اور سارے حقوق کو ایک ہی اصول اور ایک ہی پیمانہ سے نا پا گیا ہے.حالانکہ دراصل انسانی حقوق دو قسم کے ہیں اول وہ حقوق جو حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں مثلاً عدل وانصاف کا قیام.ملکی

Page 133

مضامین بشیر جلد سوم 111 عہدوں کی تقسیم.ترقی کے رستوں کا سب کے واسطے یکساں کھلا ہونا وغیرہ وغیرہ اور دوسرے وہ حقوق جو یا تو فطری قومی کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہوتے ہیں اور یا انفرادی جد وجہد کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.مثلاً کسی شخص کا عقل وخرد میں دوسروں سے آگے ہونا یا زیادہ محنت کا عادی ہونا یا زیادہ اچھے طریق پر کاموں کو سرانجام دینا وغیرہ ایک زائد وصف ہے جو بعض لوگوں میں ہوتا ہے اور بعض میں نہیں ہوتا.حقوق میں یہ طبعی تفاوت اتنا ظاہر وعیاں ہے کہ کوئی عقلمند انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا.لیکن اشتراکیت نے ان ہر دو قسم کے حقوق کو ایک ہی چیز قرار دے کر اور ایک ہی قانون کے ماتحت لا کر بالکل خلط ملط کر دیا ہے مگر اس کے مقابل پر اسلام نے حقوق انسانی کی اس فطری تقسیم کو پوری طرح ملحوظ رکھ کر ہر ایک کے مناسب حال علیحدہ علیحدہ احکام جاری فرمائے ہیں.چنانچہ اسلام نے پہلی قسم کے حقوق میں جن کا ادا کرنا حکومت کے ذمہ ہے کامل مساوات قائم کی ہے اور کوئی امتیاز روا نہیں رکھا.لیکن دوسری قسم کے حقوق میں جو مختلف لوگوں کے انفرادی قومی اور انفرادی کوشش سے تعلق رکھتے ہیں ایک نہایت درجہ حکیمانہ نظام کے ماتحت سمونے کی تو ضرور کوشش کی ہے لیکن جبر کے طریق پر دخل دے کر ان سارے فرقوں کو یکسر مٹانے کا ظالمانہ طریق اختیار نہیں کیا.اور حق یہ ہے کہ ان فرقوں کو مٹایا بھی نہیں جاسکتا مثلاً دماغی قومی کے فرق کو کون مٹا سکتا ہے.قلبی اوصاف کے فرق کوکون مٹا سکتا ہے؟ جسمانی طاقتوں کے فرق کو کون مٹا سکتا ہے؟ انفرادی جد و جہد کے فرق کو کون مٹا سکتا ہے؟ خارجی سہاروں پر نا واجب بھروسہ اشتراکیت اور سرمایہ داری ہر دو نظاموں میں یہ بھاری نقص بھی ہے کہ وہ انسان کو جد و جہد کے میدان سے نکال کر اور گویا کلیۂ خارجی سہاروں پر بٹھا کر غافل کر دینا چاہتے ہیں.کیونکہ سرمایہ داری تو دولت مندوں کے لئے جمع شدہ خزانوں کا سہارا مہیا کر کے غفلت پیدا کرتی ہے.اور اشتراکیت عوام کو حکومت کے کھونٹے سے باندھ کر غافل رکھنا چاہتی ہے.لیکن اس کے مقابل پر اسلام کا نظام انسان کو ہر وقت جد و جہد کے میدان میں کھڑا رکھتا ہے اور خارجی سہارے صرف اس حد تک مہیا کرتا ہے کہ وہ غفلت کا موجب نہ بنیں اور یہی صحیح فطری طریق ہے.جس سے ایک طرف تو انسان میں انفرادی کوشش اور جد وجہد کی کیفیت زندہ رہتی ہے اور افراد کا دماغ ہوشیار اور چوکس رہنے پر مجبور ہوتا ہے.اور دوسری طرف خاص خطرہ کے اوقات میں کسی قدر خارجی سہاروں کا آسرا بھی میسر رہتا ہے.یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ افراد کی معیشت کے متعلق حکومت کا ہر حال میں کلی طور پر ذمہ دار

Page 134

مضامین بشیر جلد سوم 112 بن جانا ایک ایسا ہی غیر فطری سہارا ہے جیسا کہ جمع شدہ خزانوں پر کسی شخص کا غافل ہو کر بیٹھ جانا، بے شک کسی قدر درجہ کا فرق ضرور ہو گا لیکن ہر عقلمند انسان آسانی کے ساتھ سوچ سکتا ہے کہ دراصل اس جہت سے ان دونوں نظاموں کی نوعیت اور بنیادی نظریہ ایک ہی ہے کہ وہ انسان کو جد و جہد کے میدان سے نکالتے ہیں اور صحیح نظریہ صرف اسلام کا ہے جو ہر فردکو خواہ وہ امیر ہے یا غریب اپنی ضروریات زندگی کے لئے ہر وقت چوکس رکھتا ہے اور اونگھ کر غافل ہونے سے بچاتا ہے.روحانیت کا کامل فقدان مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں کے لئے خواہ وہ مسلمان ہیں یا عیسائی یا یہودی یا بدھ یا ہندو یا سکھ یا کوئی اور ایک خاص قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ اشتراکیت کا سارا میلان اور سارا ذہنی ماحول مادی ہے اور عملاً بھی اس کا سارا زور مادیت ہی کے رنگ میں خرچ ہو رہا ہے.اور اشترا کی درسگاہوں میں بھی مذہبی تعلیم بالکل ممنوع ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اشتراکیت کے نظام میں انسان کے روحانی پہلوکو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ اس نظام کے تمام کل پرزے روحانیت کو مٹانے اور مذہبیت کو تباہ و برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں.اسی لئے خواہ اشتراکیت اپنے منہ سے خدا کے عقیدہ کے خلاف کچھ بولے یا نہ بولے، اس کا عملی اثر نمایاں طور پر دہریت کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے.اور اس طرح اشتراکیت نے گویا انسانیت کے نصف بہتر دھڑ کوگویا تباہ کر کے رکھ دیا ہے.اور کمیونسٹوں کی نئی نسل عملا ایک دہریہ نسل ہے جس میں کسی خدا پرست کو ڈھونڈنا ایک عبث فعل سے زیادہ نہیں اور اگلی نسلوں کا تو بس خدا ہی حافظ ہے.روس کا آہنی پردہ اشتراکیت کے نظام کی راز داری بھی اس کے باطل ہونے کی دلیل ہے.روس کا آہنی پردہ ایک معروف حقیقت ہے جسے بچہ بچہ جانتا ہے.اگر اشتراکیت حقیقتاً ایک رحمت اور بنی نوع انسان کے لئے واقعی مفید اور بابرکت چیز ہے تو اس راز داری کے کیا معنے ہیں ؟ روس کے دروازے غیر ملکی مبصروں کے واسطے کیوں بند ہیں؟ اشتراکیت کے پر چارک دوسرے ممالک میں خفیہ نفوذ کا طریق کیوں اختیار کرتے ہیں؟ تاریخ عالم کا مطالعہ اس بات پر ایک زندہ گواہ ہے کہ دنیا میں کوئی صداقت کبھی راز داری کے رنگ میں ظاہر نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ ایک کھلی حقیقت بن کر آتی ہے.حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تک اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر موجودہ زمانہ تک جتنے بھی مصلح دنیا کے مختلف ممالک میں آئے ہیں ان

Page 135

مضامین بشیر جلد سوم 113 سب نے بلا استثناء اپنے اصولوں کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا ہے.اور ان اصولوں کی تبلیغ میں بھی کبھی کوئی راز داری نہیں برتی.تو پھر سوچنے کا مقام ہے کہ اشتراکیت میں یہ راز داری کیوں ہے؟ کمیونزم کے متاع کو دنیا کی کھلی منڈی میں کیوں نہیں لایا جاتا ؟ اشترا کی ممالک میں دوسرے خیالات اور نظریات کی پُر امن تبلیغ و اشاعت کو کیوں روکا جاتا ہے؟ اسلام کی عالمگیر مساوات اب میں اسلامی نظریہ کی طرف آتا ہوں.اصولی طور پر پہلے نوٹوں میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ اگر ایک طرف اسلام دنیا کے سامانوں اور دولت پیدا کرنے کے قدرتی ذرائع میں سب بنی نوع انسان کا مساویانہ حق تسلیم کرتا ہے اور ان ذرائع کو کسی خاص قوم یا پارٹی کی اجارہ داری قرار نہیں دیتا.وہاں دوسری طرف وہ عملاً دولت کے اس تفاوت کو بھی نظر انداز نہیں کرتا.جو افراد کے ذاتی قومی اور ذاتی جدوجہد کے نتیجہ میں طبعی طور پر پیدا ہو جاتا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ انسانی مساوات میں سب سے پہلا اور سب سے مقدم سوال دولت کی تقسیم کا نہیں بلکہ انسان کی نسلی اور شخصی مساوات کا ہے.کیونکہ دراصل یہی وہ میدان ہے جس میں جذباتی کشمکش اور سماجی خلیج پیدا ہو کر سب سے زیادہ فتنہ کا راستہ کھولتی ہے.اور سوسائٹی کے مختلف طبقات ایک دوسرے کے مقابل پر رقیبانہ کیمپ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں.سو اس کے متعلق مقدس بانی اسلام صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:.يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاءُ كُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِي عَلَى عَجَمِي وَلَا لِعَجَمِيٌّ عَلَى عَرَبِي وَلَا لِاَحْمَرٍ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا لِاسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى ( مسند احمد بن حنبل) یعنی اے لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک تھا.اور پھر کان کھول کر سن لو کہ عربوں کو عجمیوں پر کوئی فضیلت نہیں.اور نہ عجمیوں کو عربوں پر کوئی فضیلت ہے.اور نہ گوروں کو کالوں پر کوئی فضیلت ہے اور نہ کالوں کو گوروں پر کوئی فضیلت ہے.سوائے ایسی ذاتی خوبی اور ذاتی نیکی کے جس کے ذریعہ کوئی شخص دوسروں سے آگے نکل جائے.یہ نظریہ اسلامی مساوات کا بنیادی پتھر ہے.جس میں سب اقوام عالم کو بلا استثناء ایک سطح پر کھڑا کر دیا گیا ہے کہ اب جو شخص چاہے اپنے ذاتی اوصاف اور انفرادی جدو جہد کے زور سے آگے نکل جائے.

Page 136

مضامین بشیر جلد سوم 114 دولت کو کھلے میدان میں لانے کی تلقین لا سوال ہو سکتا ہے کہ اسلام کا تمدنی نظریہ بھی ٹھیک اور دولت کے قدرتی وسائل کے متعلق اس کی تعلیم بھی بجا.لیکن اس بات کا کیا علاج ہے کہ اگر انفرادی قومی اور انفرادی جد و جہد کے نتیجہ میں دولت کا توازن ناگوار صورت اختیار کرلے تو پھر اس توازن کو درست کرنے اور درست رکھنے کے لئے کیا صورت کی جائے؟ سو اس خطرہ کی طرف سے بھی اسلام غافل نہیں.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:.وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ فَبَشِّرُهُمُ بِعَذَابٍ أَلِيم.....هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِانْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْذِرُونَ (التوبه: 34-35) یعنی جولوگ سونے چاندی کے مالوں کو بند خزانوں کی صورت میں جمع کر کے رکھتے ہیں.اور انہیں خدا کے مقرر کردہ رستوں میں خرچ نہیں کرتے.تو اے رسول! تم ایسے لوگوں کو خدا کے دردناک عذاب کی خبر دو.ان کے لئے ان ہی بند خزانوں کو عذاب کا آلہ بنا دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ اب اپنے ان خزانوں کا مزا چکھو جنہیں تم نے صرف اپنی جانوں اور اپنے عزیزوں کے لئے روک رکھا تھا.اس سنہری تعلیم کے ذریعہ اسلام نے دولت کو کھلے میدان میں لانے اور ایک طرف غریبوں اور مسکینوں کی امداد پر بلا واسطہ خرچ کرنے اور دوسری طرف دولت کو تجارتوں اور صنعتوں میں لگا کر عوام کو بالواسطہ فائدہ پہنچانے کا رستہ کھولا ہے.اور ایک زبر دست اختباہ کے ذریعہ لوگوں کو ہوشیار کیا ہے کہ اگر تم نے اپنے خزانوں کو بند کر کے رکھا اور انہیں ملک وقوم کی بہتری کے لئے خرچ نہ کیا.تو یہی بند خزا نے تمہارے لئے ایک زمانہ میں درد ناک عذاب بن جائیں گے.اور اس دردناک عذاب میں صرف آخرت کے عذاب کی طرف ہی اشارہ نہیں ہے.بلکہ جیسا کہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے موجودہ زمانہ کی اس ہیبت ناک کشمکش کی طرف بھی اشارہ ہے جس میں مزدور سرمایہ دار کے خلاف اور مزارع مالک کے خلاف اٹھ کر ان کی زندگی کی شیرینی کو تلخ اور ان کے دل و دماغ کے سکون کو برباد کر رہا ہے.اسلام کا قانونِ ورثہ لیکن اسلام نے اس معاملہ میں صرف اصولی تحریک پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قومی اور ملکی دولت کو مناسب رنگ میں سمونے کے لئے ایک مؤثر مشینری بھی قائم کی ہے اور اس مشینری کو چالور کھنے کے لئے بہت سے معین احکام صادر فرمائے ہیں.ان احکام میں سے ایک حکم قانونِ ورثہ سے تعلق رکھتا ہے.یہ ایک نہایت

Page 137

مضامین بشیر جلد سوم 115 درجہ حکیمانہ قانون ہے.جس کی رو سے ہر مرنے والے مسلمان کا ترکہ صرف ایک بچہ یا صرف نرینہ اولا دیا صرف خالی اولاد کے ہاتھ میں ہی نہیں جاتا.بلکہ سارے لڑکوں اور ساری لڑکیوں اور بیوی اور خاوند اور ماں اور باپ اور بعض صورتوں میں بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں میں بھی ایک نہایت مناسب شرح کے ساتھ تقسیم ہو جاتا ہے.اس طرح گویا اسلام نے دولت کی دوڑ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بعض ہر ڈلز ( Hurdles) یعنی قانونی روکیں قائم کر دی ہیں.اور ہر نسل کے خاتمہ پر ایک روک سامنے آکر دولت کے اس فرق کو کم کر دیتی ہے.جو اس عرصہ میں پیدا ہو چکا ہوتا ہے.اسلام کے اس قانون ورثہ پر تفصیلی نظر ڈالنے سے یہ بات بالکل ظاہر و عیاں ہو جاتی ہے کہ اس قانون کے ذریعہ صرف ورثاء کو ورثہ پہنچانا ہی مدنظر نہیں ہے بلکہ ملکی اور قومی دولت کو سمونا بھی اس کی اغراض میں سے ایک اہم غرض ہے.قانون ورثہ کے ضمن میں ہی اسلام نے ایک قانونِ وصیت بھی جاری فرمایا ہے.جس کی رو سے ہر مسلمان کو اپنی جائیداد کے ایک تہائی (1/3) حصہ کے متعلق غیر وارثوں کے حق میں وصیت کرنے کا حق تسلیم کیا گیا ہے.مثلاً اگر ایک شخص کے پاس تین لاکھ روپے کا مال ہے تو وہ اس میں سے ایک لاکھ روپیہ تک کی ایسے لوگوں یا اداروں کے حق میں وصیت کر سکتا ہے جو اس کے شرعی وارث نہیں ہیں.یہ نظام بھی ملکی دولت کو کر سمونے کا ایک مقدس ذریعہ ہے اور ہزاروں نیک دل مسلمانوں نے اس بابرکت نظام سے فائدہ اٹھا کر اپنی جائدادوں کے معقول حصے غریبوں کے لئے یا غریبوں کی امداد کرنے والے اداروں کے لئے یا جماعتی اور قومی کاموں کے لئے وقف کئے ہیں اور کر رہے ہیں.امداد باہمی کی مؤثر مشینری اسلام کا قانون امداد باہمی بھی ملکی دولت کو سمونے کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہے اور اسلام نے اس قانون کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے.ایک حصہ جبری ہے اور دوسرا حصہ طوعی اور تحریکی ہے تا کہ عقل اور جذبات دونوں کے لئے رستہ کھلا رہے.جبری قانون زکوۃ کے نظام سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعہ امیر لوگوں کی دولت پر حالات کے اختلاف کے ساتھ اڑھائی فیصدی شرح سے لے کر 20 فیصدی شرح تک خاص ٹیکس لگا کر حکومت وقت یا نظام قومی کی نگرانی میں غریبوں اور مسکینوں اور کم آمدنی والے لوگوں کی امداد کا انتظام کیا جاتا ہے.اور یا درکھنا چاہئے کہ اس تعلق میں امیر سے مرادصرف امیر کبیر لوگ ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو اپنی اقل اور فوری ضرورت سے کسی قدر زائد دولت رکھتا ہے جسے اسلام کی اصطلاح میں نصاب کہتے ہیں اس پر زکوۃ ٹیکس لگا کر کمزور لوگوں کی امداد کا راستہ کھولا جاتا ہے.اور اس ٹیکس کو عائد کرتے

Page 138

مضامین بشیر جلد سوم 116 ہوئے مقدس باقی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ فرمائے ہیں وہ بھی اس ٹیکس کی غرض وغایت کو واضح کر رہے ہیں.آپ نے فرمایا.تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَ تُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ (صحیح بخاری کتاب الزكاة باب وجوب الزكاة ) یعنی زکوۃ کے نظام کا مقصد یہ ہے کہ دولت رکھنے والے لوگوں کی دولت کا ایک حصہ کاٹ کر غریبوں اور کمزور لوگوں کی طرف لوٹایا جائے.اس حدیث میں لوٹایا جائے“ کے لطیف اور پر معنی الفاظ اس غرض سے استعمال کئے گئے ہیں کہ تا ظاہر ہو کہ یہ ٹیکس غریبوں کو احسان کے طور پر نہیں دیا جاتا.جس کی وجہ سے بے اصول امیروں کو ان پر احسان جتانے کا موقع پیدا ہو.بلکہ یہ ایک ضروری اور قدرتی حق ہے.جو خالق قدرت نے امیروں کے مال میں غریبوں کا مقرر کر رکھا ہے.کیونکہ اول تو اصل ملکیت خدا کی ہے جو سب کا آقا و مالک ہے.اور دوسرے حقیقتاً ہر مال کے پیدا کرنے میں لازماً غریبوں اور مزدوروں کا ہاتھ ہوتا ہے.پھر زکوۃ کے معنے بھی پاک کرنے اور ترقی دینے کے ہیں.کیونکہ ایک طرف زکوۃ کی ادائیگی زکوۃ دینے والے کے مال کو دوسروں کے حق سے پاک کرتی ہے اور دوسری طرف وہ زکوۃ لینے والوں کی ترقی کا سامان بھی مہیا کرتی ہے.بہر حال زکوۃ قومی اور ملکی دولت کو سمونے اور غریب لوگوں کو اوپر اٹھانے کا ایک مؤثر اور جبری ذریعہ ہے جوملکی یا قومی انتظام کے ماتحت اختیار کیا جاتا ہے.امداد باہمی کا طوعی نظام قانون امداد باہمی کا دوسرا حصہ طوعی نظام سے تعلق رکھتا ہے.اس نظام کے ذریعہ اسلام نے غریبوں کی مالی امداد کے علاوہ سوسائٹی میں باہم محبت اور ہمدردی اور مواسات کے جذبات کو زندہ رکھنے کا دروازہ بھی کھولا ہے.اسلام نے اس طوعی نظام پر انتہائی زور دیا ہے اور غریب بھائیوں کی ہمدردی اور امداد کو ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی نیکی قرار دیا ہے.اور خود ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ حدیث میں آتا ہے کہ غریبوں اور مسکینوں اور قیموں کی امداد میں آپ کا ہاتھ اس تیز آندھی کی طرح چلتا تھا جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.اور آپ اکثر یہ بھی نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ جہاں زکوۃ بر ملا ادا کرو کیونکہ جبری ٹیکس ہونے کی وجہ سے وہ حکومت کے انتظام کے ماتحت خرچ ہوتی ہے وہاں ذاتی اور انفرادی امداد حتی الوسع خفیہ طریق پر دو تا کہ دینے والے کے دل میں احسان کا خیال اور لینے والے کے دل میں مکمتری کا احساس نہ پیدا ہو.اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے غریبوں اور مسکینوں کی امداد کا یہ طوعی نظام زکوۃ کے جبری نظام کے علاوہ تھا.اور

Page 139

مضامین بشیر جلد سوم 117 ضروری تھا کہ جبری نظام کے ساتھ ساتھ اس قسم کا طوعی نظام بھی قائم کیا جاتا تا کہ لوگوں کے دلوں میں اخوت اور محبت اور انفرادی ہمدردی کے جذبات کو زندہ رکھا جا سکے.لیکن اس کے مقابل پر اشتراکیت ان سنہ جذبات کو مٹا کر انسان کو بھی گویا میکنائزڈ (Mechanized) اور محض ایک مشین بنانا چاہتی ہے.اسلام کا نظام تجارت ولین دین اسی تعلق میں اسلام کا قانون تجارت اور قانون لین دین بھی ملکی دولت کے نا واجب اجتماع کو روکنے کی ایک بھاری مشینری ہے.حق یہ ہے کہ اسلام نے سود کو حرام قرار دے کر دولت کے توازن کو بر باد کر نے کا ایک بہت بڑا آلہ یکسر مٹا دیا ہے.سود کے ذریعہ انسان کو اپنی طاقت سے بڑھ کر قرضہ برداشت کرنے کی نا واجب جرات پیدا ہوتی ہے اور عوام کا روپیہ سمٹ سمٹ کر آہستہ آہستہ امیروں کے خزانہ میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور اگر غور کیا جائے تو دنیا میں زیادہ تر سود ہی سرمایہ داری کو بھیانک صورت دینے کا ذمہ دار ہے.اگر آج سود کا لین دین بند ہو جائے تو ملک کی بڑی بڑی تجارتیں اور صنعتیں چند سرمایہ دار افراد کے ہاتھ سے نکل کر یا تو مشتر کہ سرمایہ والی تجارت اور مشتر کہ صنعت کی صورت میں منتقل ہو جائیں گی.اور یا اس قسم کی بڑی تجارتیں اور صنعتیں جو ملکی دولت کے توازن کو خراب کرنے والی ہیں حکومت کے ہاتھ میں چلی جائیں گی اور دونوں طرح دولت کے سمونے کا رستہ کھلے گا.اور ظاہر ہے کہ چند خاص تجارتوں اور صنعتوں کے حکومت کے قبضہ میں ہونے سے کوئی حرج لا زم نہیں آتا.بلکہ اس میں بعض ملکی اور قومی فوائد متوقع ہیں.اس کے علاوہ سود کی حرمت سے پرائیویٹ لین دین کے میدان میں بھی امیروں کے لئے غریبوں کے مال پر ڈاکہ ڈالنے اور ان کے خون چوسنے کا موقع نہیں رہتا.یہ خیال کہ سود کے بغیر تجارت نہیں چل سکتی ایک محض نظر کا دھوکہ ہے جو موجودہ ماحول کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جبکہ یورپ و امریکہ کے سرمایہ داروں کی وجہ سے سود کا جال عالمگیر صورت میں وسیع ہو چکا ہے.ورنہ اس سے قبل سود کے بغیر بھی دنیا کی تجارت چلتی تھی.اور انشاء اللہ اس باطل ماحول کے مٹنے پر پھر چلے گی اور پہلے سے بڑھ کر چلے گی.سود کی جگہ اسلام نے قرضہ بصورت رہن اور مشتر کہ سرمایہ کے طریق کو ترجیح دی ہے.کیونکہ اس میں دولت کے توازن کو بگاڑنے کے بغیر تجارت کا رستہ کھلتا ہے اور انفرادی ہمدردی کے جذبات کو بھی ٹھیس نہیں لگتی.

Page 140

مضامین بشیر جلد سوم 118 سود کی حرمت کے ساتھ ساتھ اسلام نے جوئے کو بھی حرام قرار دیا ہے.کیونکہ جوئے میں دولت کے حصول کو محنت اور ہنر مندی پر مبنی قرار دیا جاتا ہے جو نہ صرف قومی اخلاق کے لئے مہلک ہے بلکہ بسا اوقات ملک میں دولت کی ناواجب تقسیم کا بھی ذریعہ بن جاتا ہے.غیر معمولی اقتصادی حالت کا علاج اوپر والا نظام جس میں ایک طرف ذاتی جائیداد کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور دوسری طرف ملکی دولت کو زیادہ سے زیادہ سمونے اور امیر وغریب کے فرق کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، عام حالات کے لئے قائم کیا گیا ہے.لیکن اگر کسی وقت ملک میں قحط یا جنگ وغیرہ کی وجہ سے غیر معمولی حالات پیدا ہو جائیں اور خوراک کے ذخیروں میں غیر معمولی کمی آجائے.یعنی ملک وقوم کے ایک حصہ کے پاس تو نسبتاً زائد خوراک موجود ہو اور دوسرے حصہ کے پاس اس کی اقل ضرورت سے بھی کم ہو یا بالکل ہی نہ ہو اور لوگوں کی جانوں کا خطرہ پیدا ہو جائے.تو اس قسم کے خاص حالات میں اسلام حکم دیتا ہے کہ امیروں اور غریبوں کے ذخیروں کو اکٹھا کر کے سب کی ضرورت کے مطابق راشن بندی کر دی جائے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں کئی موقعوں پر اس قسم کے حالات پیدا ہوئے.اور آپ نے ان غیر معمولی حالات میں نہ صرف اس قسم کے استثنائی انتظام کی اجازت دی بلکہ اسے پسند فرمایا اور اس کی تاکید کی.مثلاً حدیث میں آتا ہے.خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزُوَةٍ فَأَصَابَنَا جَهْدٌ حَتَّى هَمَمْنَا أَنْ نَنْحَرَ بَعْضَ ظَهْرِنَا فَأَمَرَ نَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعْنَا مَزَاوِدَنَا ( مسلم باب استجاب خلط الازواد ) یعنی ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے.مگر راستہ میں ہمیں خوراک کی سخت کمی پیش آ گئی.حتی کہ مجبور ہو کر ہم نے (سواریوں کی کمی کے باوجود ) ارادہ کیا کہ خوراک کے لئے اپنی بعض سواری کی اونٹنیاں ذبح کر دیں.اس پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سب لوگوں کے خوراک کے ذخیرے اکٹھے کر لئے جائیں.اور پھر آپ نے اس جمع شدہ ذخیرہ میں سے سب کو حسب ضرورت راشن تقسیم کرنا شروع کر دیا.اسی طرح ایک اور دوسری حدیث میں آتا ہے کہ

Page 141

مضامین بشیر جلد سوم 119 قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْاشْعَرِينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْوِ أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِى ثَوْبِ وَاحِدٍ ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ بَيْنَهُمْ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ فَهُمْ مِنِّى وَأَنَا مِنْهُمْ ( بخاری کتاب الشركة في الطعام) یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قبیلہ اشعر کے لوگوں کا یہ طریق ہے کہ جب کسی سفر میں انہیں خوراک کا ٹوٹا پڑ جاتا ہے.یا حضر کی حالت میں ہی ان کے اہل وعیال کی خوراک میں کمی آ جاتی ہے تو ایسی صورت میں وہ سب لوگوں کی خوراک ایک جگہ جمع کر لیتے ہیں.اور پھر اس جمع شدہ خوراک کو ایک ناپ کے مطابق سب لوگوں میں مساویانہ طریق پر بانٹ دیتے ہیں.سنو کہ یہ لوگ مجھے سے ہیں اور میں ان سے ہوں.اس شاندار تعلیم سے ظاہر ہے کہ اگر ایک طرف اسلام نے انفرادیت کو زندہ رکھنے کے لئے ذاتی مال اور ذاتی جائیداد کے اصول کو تسلیم کیا ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کو زندہ رکھنے کے لئے غریبوں کی امداد کے انتظام کے علاوہ خاص حالات میں یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ خوراک کی استثنائی قلت کے زمانہ میں جبکہ سوسائٹی کے ایک حصہ کی ہلاکت کا خطرہ ہو، امیروں اور غریبوں کے ذخیروں کو جمع کر کے سب میں حسب ضرورت مساویانہ طریق پر تقسیم کر دو.اور یہی وہ وسطی تعلیم ہے جس سے دنیا میں حقیقی امن کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے.حکومت کی خاص ذمہ داری بالآخر اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ ایسے معذور لوگ جو کسی بیماری یا کمزوری یا جسمانی نقص کی وجہ سے اپنی روزی نہیں کما سکتے.یا ان کی روزی ان کی اقل ضروریات کے لئے مکـتـفـی نہیں ہوتی.اور ان کی یہ بے کاری اور غربت غفلت اور ستی کی وجہ سے نہیں ہے.تو ایسے معذور لوگوں کی اقل ضروریات کا انتظام حکومت کرے.اور اسلامی تعلیم کے مطابق اقل ضروریات میں خوراک، لباس اور مکان شامل ہیں ( دیکھو قرآن مجید سوره طه : 23-24) یہ انتظام اس لئے بھی ضروری تھا کہ قرآنی تعلیم کے مطابق مخلوق کے رزق کی آخری ذمہ داری خدا تعالیٰ پر ہے (دیکھو سورہ ہود آیت 7 ) پس جو حکومت دنیا میں خدا کی نمائندہ بنتی ہے.اس کا فرض ہے کہ ایسے معذور لوگوں کی اقل ضروریات کی متکفل ہو جو اپنی خواہش اور کوشش کے باوجود مناسب آمدنی پیدا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے.

Page 142

مضامین بشیر جلد سوم بحث کا خلاصہ 120 خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاں ایک طرف اشتراکیت کا نظام.(الف) انفرادی جد و جہد کے جذبہ کو کمزور کر کے کام کے سب سے بڑے فطری محرک کو مٹاتا ہے.(ب) فطرت انسانی کے جذبات ہمدردی اور مواسات کو تباہ کرتا ہے.(ج) انسان کے دماغی قومی کو بے قیمت ٹھہرا کر تنزل کے راستہ پر ڈالتا ہے.(د) انسان کے اقتصادی حالات کو غیر فطری خارجی سہاروں کے ساتھ وابستہ کرتا ہے اور (۵) روحانیت کو مٹا کر دہریت اور مادیت کا بیج بوتا ہے.وہاں دوسری طرف اسلام کا نظام.(الف) اشتراکیت اور سرمایہ داری کے بین بین فطری اور وسطی راستہ پر گامزن ہوتا ہے.(ب) انفرادی جائیداد کے اصول کو تسلیم کرنے کے باوجود ملکی اور قومی دولت کو سمونے کے لئے ایک پختہ مشینری قائم کرتا ہے.(ج) دولت پیدا کرنے کے قدرتی وسائل کو سب کے لئے یکساں کھلا رکھتا ہے.(د) انسانی جذبات ہمدردی اور مواسات کو زندہ رکھتا اور تقویت پہنچاتا ہے اور (۵) خالق و مخلوق کے فطری رشتہ کوملحوظ رکھتا اور ترقی دیتا ہے.امن عالم کا مستقبل پس لاریب اشتراکیت اور سرمایہ داری کے انتہائی نظاموں کے مقابلہ پر اسلام کا وسطی نظام ہی اس قابل ہے کہ اس پر دنیا کے تہذیب و تمدن کی بنیا د رکھی جائے.اور انشاء اللہ اسلام کی ترقی کے دوسرے دور میں جو خدا کے فضل سے اب شروع ہو رہا ہے ایسا ہی ہوگا.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا خوب فرمایا ہے کہ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (البقره: 144) یعنی اے مسلمانو! ہم نے تمہیں ایک وسطی امت بنایا ہے.تا کہ تم دنیا کی مختلف قوموں کے لئے جو افراط و تفریط کی طرف جھکی ہوئی ہیں.خدا کی طرف سے سچے رستہ کے گواہ رہواور خدا کے فضل سے وہ وقت دور نہیں کہ یہی وسطی رستہ تمام دوسرے رستوں کو مٹا کر دنیا کی شاہراہ قرار پائے گی اور ہمارے آقا

Page 143

مضامین بشیر جلد سوم 121 محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم افراد کی بے چینیوں اور قوموں کی کشمکش کو دور کر کے امن عالم کی بنیاد بنے گی.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ - وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ یہ مضمون اصلح ، کراچی میں 7 اقساط میں شائع ہوا) (روزنامہ المصلح کراچی 13، 14، 15، 19،17، 21، 22 مئی 1953ء) آخری عشرہ میں جماعتی دعاؤں پر خاص زور دیا جائے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہے.یہ عشرہ رمضان کے مبارک مہینہ کا مبارک ترین حصہ ہے.ہمارے دوستوں کو ان ایام کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.اور فائدہ اٹھانے کا بہترین ذریعہ دعا ہے.اگر زبان پر دل سے نکلی ہوئی دعا ہو اور انسان کے جوارح خدا کے فضل و رحمت کو جذب کرنے کی اہلیت پیدا کریں تو مومن کی دعا وہ کچھ کر سکتی ہے جسے آج کی مادی دنیا تصور میں بھی نہیں لاسکتی اور اسی لئے یہ میدان صرف مومنوں کے لئے خالی ہے.لیکن افسوس ہے کہ اکثر لوگ اپنی دعاؤں کو اپنی مادی ضروریات اور دنیوی نعمتوں کے حصول تک محدود رکھ کر اپنے آپ کو ان عظیم الشان روحانی فوائد سے محروم کر لیتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے سچے مومنوں کے لئے مقدر کر رکھے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ دنیوی ضرورتوں کے لئے دعا نہ مانگی جائے.ان کے لئے بھی بیشک دعا کرنی چاہئے اور ہمارے آقا صل اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر کسی کی جوتی کا تسمہ ضائع ہو جائے تو وہ بھی اسے خدا سے مانگے.پس دوست بے شک اپنی دنیوی اور مادی ضروریات کے لئے بھی دعائیں کریں تا ان کی طبیعت میں سکون اور شکر گزاری پیدا ہو کر مزید دعاؤں کی توفیق ملے.مگر جو شخص اپنی تمام دعائیں دنیوی ضرورتوں اور مادی انعاموں کے حصول کے لئے وقف کر دیتا ہے وہ میرے خیال میں سچا مومن اور خدا کے دین کا فدائی اور خادم نہیں سمجھا جاسکتا ہے.بلکہ میں ڈرتا ہوں کہ ایسا شخص ایک طرح ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (یعنی ان کی تمام کوشش دنیا کی باتوں میں ہی وقف رہتی ہے) کے وعید کے نیچے آتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ایک شخص خدا کا منکر ہو کر دنیا میں غرق رہتا ہے اور دوسرا خدا کو مان کر اور دعاؤں کی قبولیت کا قائل ہو کر اپنی توجہ عملاً دنیا کی نعمتوں تک محدود رکھتا ہے.پس اگر غور کیا جائے تو ایک لحاظ

Page 144

مضامین بشیر جلد سوم 122 سے مؤخر الذکر شخص زیادہ زیر ملامت ہے کہ آنکھوں میں بینائی رکھتے ہوئے اس سے کام نہیں لیتا.لہذا دوستوں کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں دینی اور روحانی برکات کے حصول کو مقدم رکھنا چاہئے.بے شک وہ خدا سے دنیا کی نعمتیں بھی مانگیں کیونکہ دنیا کی ضرورتیں بھی خدا ہی کی پیدا کردہ ہیں.اور وہی انہیں پورا کرنے والا ہے مگر مقدم دینی اور جماعتی ضرورتوں کو کرنا چاہئے.اور چونکہ آج کل ہماری جماعت خاص حالات میں سے گزر رہی ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ اس رمضان کے آخری عشرہ کو دوست خاص طور پر دینی اور جماعتی دعاؤں میں گزاریں گے.اور انہیں اپنی انفرادی اور دنیوی دعاؤں پر مقدم کریں گے.آخری عشرہ کی طاق راتیں خصوصیت سے زیادہ بابرکت ہوتی ہیں.اور انہی طاق راتوں میں سے ایک لیلۃ القدر بھی ہے.جس کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے کہ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرِ تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِّنْ كُلِّ أَمْرِ سَلْمٌ هِىَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر: 4-6).پس جو وسیع اور بابرکت نہر خدا نے جاری کی ہے.جس کا میسر آجانا گویا عام حالات میں انسان کی عمر بھر کی برکتوں سے بھی بہتر ہوتا ہے.اُس کی قدر کر کے جماعتی مشکلات کے دور ہونے اور خدائی نعمتوں اور برکتوں کے نزول کے لئے دست بدعا ر ہیں.اگر جماعت مشکلات اور تکالیف اور ابتلاؤں کے بھنور میں پھنسی رہی تو زید یا بکر کو مال اور نوکری اور اولا داور صحت اور عزت کے مل جانے سے جماعت کو کیا حاصل ہوسکتا ہے.لیکن اگر جماعت کو وہ کامیابی اور ترقی اور سرفرازی مل گئی جس کے لئے وہ پیدا کی گئی ہے اور اگر اس کے ہاتھ سے اسلام کی وہ خدمت سرانجام پاگئی ہے جو اس کے لئے خدا کے فضل سے مقدر ہے.تو زید یا بکر کی انفرادی ضرورتوں کے حصول کا رستہ بھی خود بخود کھل جائے گا.پس دوستوں کو چاہئے کہ اس عشرہ میں نہ صرف دعاؤں پر خاص زور دیں بلکہ جماعتی دعاؤں کو مقدم کریں.کہ اسی میں ہماری ساری ترقی اور کامیابی کا راز مضمر ہے.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ - محرره 3 / جون 1953 ء ) (روز نامہ المصلح کراچی 9 جون 1953 ء ) رضوان عبد اللہ کی المناک وفات کل شام کو نماز عصر کے وقت رضوان عبداللہ جو حبشہ سے آیا ہوا ایک طالب علم تھا اور جامعہ احمدیہ کی

Page 145

مضامین بشیر جلد سوم 123 مولوی فاضل کلاس میں تعلیم پاتا تھا.دریائے چناب میں ڈوب کر فوت ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقره: 157).وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن: 28) رضوان جو کئی ہزار میل کی مسافت طے کر کے علم دین کی تحصیل کی غرض سے ربوہ آیا ہوا تھا.اور جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے اپنے والدین کا سب سے بڑا بچہ تھا.ایک بہت ہی شریف اور ہونہار اور دیندار لڑ کا تھا.جس کی عمر ابھی بمشکل سترہ یا اٹھارہ سال کی ہوگی.مجھے یاد ہے کہ جب وہ شروع شروع میں پاکستان پہنچا تو اس وقت میرا دفتر لاہور میں ہوتا تھا.اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کہیں باہر تشریف لے گئے ہوئے تھے.چنانچہ رضوان مرحوم سب سے پہلے لاہور میں مجھے ملا اور عربی زبان میں باتیں کرتا رہا.اس وقت سے میری طبیعت پر رضوان کی شرافت کا خاص اثر تھا.کم گو، شریف مزاج، بے شر مخلص، دینی جذبات سے معمور، اور ہونہار.یہ وہ اثر ہے جو ہر وہ شخص جو رضوان سے ملا اس کے متعلق قائم کرتا رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس بچے کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اس کے والدین کو جنہوں نے اسے کن امنگوں اور امیدوں کے ساتھ ربوہ بھجوایا تھا صبر جمیل اور ثواب عظیم سے نوازے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ معلوم ہوا ہے کہ رضوان مرحوم جامعہ احمدیہ کے طلباء اور اساتذہ کی ایک پارٹی کے ساتھ تفریح کی غرض سے دریائے چناب پر گیا تھا اور سارا دن اپنے ہم مکتبوں اور اساتذہ کے ساتھ خوش رہا اور جب عصر کی نماز کے لئے وضو کرنے کی غرض سے وہ دریا کے کنارے پر گیا تو جب وہ قریباً اپنا وضو مکمل کر چکا تھا اور صرف ایک پاؤں دھونے والا باقی تھا کہ گیلا پاؤں پھسل جانے سے وہ دریا میں گر گیا.اور چونکہ سوئے اتفاق سے اس جگہ پانی بہت گہرا تھا اور رضوان تیر نا نہیں جانتا تھا اس لئے بچانے والوں کی کوشش کے باوجود بچایا نہیں جاسکا اور وہ دریا کی تہہ میں بیٹھ گیا.جہاں سے قریب دو گھنٹے کی مسلسل تلاش اور کوشش کے بعد اس کی نعش نکالی گئی.جب اس کے ڈوبنے کی اطلاع ربوہ میں پہنچی اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی ملی کہ ڈوبنے پر اتنا وقت گزر چکا ہے تو باوجود زندگی سے بظاہر نا امید ہو جانے کے ربوہ سے بہت سے دوست امداد کے لئے بھجوائے گئے.تا اگر رضوان کو بچایا نہیں جاسکا تو کم از کم اس کی نعش ہی مل جائے.اور ہم ایک دُور سے آئے ہوئے بچہ پر نماز جنازہ ادا کر کے اسے اپنے ہاتھوں سے دفن کر سکیں.اور میں نے اس کے لئے بڑی دعا بھی کی کہ اس کی نعش مل جائے اور احتیاطاً ایک موٹر بھی شور کوٹ جھنگ کی طرف روانہ کرنے کے لئے تیار کر لی تا اگر نعش یہاں نہیں مل سکی تو وہاں ہی مل جائے.جہاں چناب اور جہلم ملتے ہیں.اور ڈوبنے والے کی نعش کچھ وقت کے بعد اوپر آجایا کرتی ہے.مگر الحمدللہ کہ مغرب کے قریب نعش مل گئی.اور ہم اس مرحوم بچے کو پولیس کی رسمی کا رروائی

Page 146

مضامین بشیر جلد سوم 124 پوری ہونے کے بعد نصف شب کے قریب دفنا سکے.دفنانے میں جلدی اس لئے کی گئی کہ جسم کی حالت دیکھ کر ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ بلا توقف دفنا دینا چاہئے.مرحوم چونکہ ابھی بچہ تھا اور غیر موصی تھا اس لئے ہم اسے اپنے اختیار سے مقبرہ موصیان ربوہ میں دفن نہیں کر سکتے تھے.لیکن چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حضرت خلیفۃ مسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے عہد میں ایسی مثالیں موجود تھیں کہ خاص حالات میں بچوں کو اور غیر موصوں کو بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کی اجازت دی گئی تھی اس لئے مرحوم رضوان کو عام قبرستان میں امانتاً تابوت کے اندر دفن کیا گیا.اور حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں اجازت کے لئے ایکسپریس تار دے دی گئی.جس کے جواب کا انتظار ہے.مرحوم کے والدین کو بھی وکالت تحریک جدید کی طرف سے جس کی نگرانی میں یہ بچہ تھا ، اطلاع اور ہمدردی کی تار دی گئی ہے مگر ان کے صدمہ کی گہرائی کو صرف ہما را خدا ہی جان سکتا ہے.جس نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے فطرتِ انسانی میں جذبات کا خمیر دیا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ڈوب کر مرنے والا اور کسی دیوار یا مکان کے نیچے آکر مرنے والا اور بچہ کی ولادت کے وقت اچانک فوت ہونے والی عورت اور اسی قسم کے بعض دوسرے فوت ہونے والے لوگ شہید ہوتے ہیں.اس حدیث میں شہادت کی اصل حقیقت کو تو صرف خدا ہی جانتا ہے ( کیونکہ شہادت کے اصطلاحی معنے خدا کے رستے میں جان دینے کے ہیں) لیکن بعض بزرگوں نے اس جگہ شہید کے معنی مشہود کے کئے ہیں.اور مراد یہ لیا ہے کہ چونکہ اس قسم کی اچانک موتوں پر دنیا کی نظریں مرنے والے اور اس کے اقرباء کی طرف بے اختیار اور بار بار اٹھتی ہیں.اس لئے ایسا شخص شہید بمعنی مشہود ہوتا ہے.یہ مفہوم بھی اپنی جگہ درست ہے لیکن یہ خاکسار خیال کرتا ہے کہ اچانک وفات کا یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مرنے والے کے نیک اعمال کا سلسلہ اچانک کٹ جاتا ہے.اور اسے قرب موت کے وقت کی خاص دعاؤں کا بھی موقع نہیں ملتا اور دوسری طرف ایسی موت کا اس کے عزیزوں کو بھی خاص صدمہ ہوتا ہے اور وہ اس کے لئے خاص دعائیں کرتے ہیں.اس لئے ہمارے رحیم و کریم آقا کی رحمت سے بعید نہیں کہ وہ ایسے حالات میں فوت ہونے والوں اور فوت ہونے والیوں کو شہادت کا مرتبہ عطا کر دیتا ہو وَ رَبُّنَا وَسِيعُ الرَّحْمَةِ ذُو فَضْلٍ عظیم اور جن لوگوں کو شہید کہا گیا ہے ان کا مومن ہونا اور نیک اعمال پر قائم ہونا تو بہر حال لازمی اور ضروری شرط ہے.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب.بالآخر دعا ہے کہ رضوان مرحوم کو ( جو ہم سے اس طرح اچانک طور پر رخصت ہو گیا.اور جو گو یا نماز کی حالت میں فوت ہوا.کیونکہ وضو نماز کی تیاری کا حصہ ہے) اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے نوازے.اس.

Page 147

125 مضامین بشیر جلد سوم کے صدمہ رسیدہ والدین اور دیگر عزیزوں کو صبر جمیل اور ثواب عظیم سے حصہ وافر عطا کرے.اس کے ہم وطنوں کو اس کے اجر اور ہونے والی خدمات کے نتائج سے محروم نہ فرمائے.اور ربوہ کے دیگر غیر ملکی طلباء کا دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین محرره 27 اگست 1953 ء ) (روز نامہ المصلح کراچی کیم تمبر 1953 ء) کیا ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ رکھا ہے؟ ایک نو جوان کے سوال کا جواب غالباً مارچ 1953ء کے اواخر کی بات ہے کہ سرگودہا کے ایک نو جوان دوست ( جو غالبا وہاں کے کسی کالج میں پڑھتے ہیں ) میرے پاس ربوہ تشریف لائے.اور ایک مخالف مولوی صاحب کا ایک رسالہ میرے سامنے کر کے کہنے لگے کہ اس رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے بعض حوالہ جات ایسے درج ہیں جن سے مصنف رسالہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جماعت احمدیہ نے گویا اپنے آپ کو خود دوسرے مسلمانوں سے کاٹ کر الگ کر رکھا ہے.اور ساتھ ہی اس نوجوان نے یہ بھی بتایا کہ اس رسالہ میں ایک حوالہ آپ کا (یعنی خاکسار ) کا بھی درج ہے اور اس سے بھی اس قسم کا استدلال کیا گیا ہے.چونکہ اُس وقت یہ خاکسار ملکی فسادات سے پیدا شدہ حالات کے نتیجہ میں بعض انتظامی کاموں میں بہت مشغول تھا اور طبیعت میں خاطر خواہ یکسوئی نہیں تھی.اس لئے اس وقت اس نوجوان کو صرف اس قدر اصولی جواب دینے پر اکتفا کیا گیا کہ حوالہ جات کی تشریح میں اکثر نا واجب تصرف سے کام لیا جاتا ہے.اور بیشتر صورتوں میں حوالے سیاق و سباق یا ماحول سے کاٹ کر پیش کر دیئے جاتے ہیں.تا کہ اپنا مفید مطلب نتیجہ نکال کر عوام کو دھو کے میں ڈالا جائے اور میں نے یہ بھی کہا کہ میرے اس حوالہ کا (جو رسالہ کلمتہ الفصل سے ماخوذ ہے ) وہ مطلب نہیں ہے جو بیان کیا گیا ہے.بلکہ جہاں تک مجھے یاد ہے اس سے مراد صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعتی تنظیم کی تکمیل اور اس کی چاردیواری کی تعیین کی غرض سے اپنی جماعت کے لئے نماز اور رشتہ نا تا وغیرہ کے معاملہ میں بعض حد بندیاں لگائی ہیں.مگر ان حد بندیوں سے یہ

Page 148

مضامین بشیر جلد سوم 126 مراد ہرگز نہیں کہ ہم دوسرے مسلمانوں سے کلی طور پر کٹ گئے ہیں یا کہ دوسرے مسلمان ہم سے کئی طور پر کٹ گئے ہیں.بلکہ صرف بعض خاص جماعتی امتیازات اور جماعتی حد بندیوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے.اس سے زیادہ کچھ نہیں.اس نوجوان کو اُس وقت کی غیر معمولی مصروفیت اور عدم یکسوئی کی وجہ سے میں اس اصولی جواب کے سوا کوئی اور جواب نہیں دے سکا.اور اس کے بعد کئی ماہ تک پریشانیوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا.اور جماعت ان امتحانوں میں سے گزرتی رہی جو ہر مامور من اللہ کے زمانہ میں الہی جماعتوں کے لئے مقدر ہوتے ہیں اور ابھی معلوم نہیں کہ اور کتنے امتحان باقی ہیں.وَ نُفَوِّضُ أَمْرَنَا إِلَى اللَّهِ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِير لیکن اب مجھے یاد آیا ہے کہ میری تصنیف کلمتہ الفصل کے آخر میں جو چند عدد اعتراضات غیر مبائعین کی طرف سے درج کر کے ان کا جواب دیا گیا ہے ( اور یادر ہے کہ میری یہ تصنیف میرے طالب علمی کے زمانہ کی ہے ) ان میں سے گیارھویں اعتراض کے جواب کے متعلق کتاب کے پہلے ایڈیشن کے وقت بھی بعض جلد باز لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت کو دوسرے مسلمانوں سے کلی طور پر کاٹ لیا گیا ہے (حالانکہ میری تحریر کا ہرگز یہ منشا نہیں تھا بلکہ صرف ایک محدود میدان کو سامنے رکھ کر اور صرف غیر مبائعیین احباب کو مخاطب کر کے اس قسم کے الفاظ لکھے گئے تھے کہ جماعتی تنظیم میں یہ یہ حدود قائم کی گئی ہیں اور یہ کہ ہمیں جماعت کی اس چاردیواری کو محفوظ رکھنا چاہئے ) چنانچہ اس غلط فہمی کے پیش نظر اس رسالہ کے دوسرے ایڈیشن کے وقت جو 1941ء میں ( یعنی آج سے بارہ سال قبل ) قادیان سے شائع ہوا میری طرف سے یہ صراحت کر دی گئی تھی کہ یہ نتیجہ نکالنا سراسر غلط ہے کہ ہم دوسرے مسلمانوں سے کلی طور پر کٹ گئے ہیں.بلکہ جہاں ہمیں بعض مسائل اور معتقدات میں دوسرے مسلمانوں سے اختلاف ہے وہاں ہمیں بہت سے دوسرے مسائل اور معتقدات میں ان سے اتفاق بھی ہے.چنانچہ میں نے رسالہ کلمتہ الفصل کے دوسرے ایڈیشن مطبوعہ 1941 ء میں صراحتاً لکھا تھا کہ یقیناً دوسرے منکرین کی نسبت غیر احمدی ہمارے بہت زیادہ قریب ہیں اور ہماری کتاب اور ہمارا کلمہ اور ہمارا شارع رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک ہے...پس اگر غیر احمدیوں سے دوسرے منکرین کی نسبت بعض امور میں امتیازی سلوک روا رکھا جائے تو یہ ایک بالکل جائز اور معقول فعل ہوگا جس پر کسی شخص کو اعتراض نہیں ہونا چاہیئے“ کلمۃ الفصل ایڈیشن دوم مطبوعہ 1941 ، صفحہ 118)

Page 149

مضامین بشیر جلد سوم 127 اس واضح اور بین حوالہ سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ کلمتہ الفصل کے پہلے ایڈیشن کی کسی عبارت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ گویا ہم نے اپنے آپ کو غیر احمدیوں سے کلی طور پر کاٹ لیا ہے اور ان کے ساتھ ہمارا کوئی اشتراک نہیں رہا.انتہا درجہ کا ظلم اور افتر پردازی ہے.جس کی کوئی انصاف پسند اور دیانت دار شخص جرات نہیں کر سکتا.میں نے تو صریح اور واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ” ہماری کتاب اور ہمارا کلمہ اور ہما را شارع رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک ہے“ کیا اس واضح تشریح اور ان محکم الفاظ کے ہوتے ہوئے کلی انقطاع والی تشریح کسی معقول انسان کے نزدیک قابل قبول سمجھی جاسکتی ہے؟ اور جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہ الفاظ آج پاکستان میں نہیں لکھے گئے بلکہ آج سے بارہ سال قبل قادیان میں لکھے گئے تھے.جبکہ ہمارے موجودہ مخالفین کے اعتراضوں کا وجود تک نہ تھا.پھر یہ بات بھی ہرگز فراموش نہیں کی جاسکتی.اور یہ ایک خاص نکتہ ہے جو یادرکھنے کے قابل ہے کہ ہماری یہ تصانیف جن سے اس قسم کے غلط استدلال کئے جاتے ہیں غیر احمد یوں کو مخاطب کر کے نہیں لکھی گئیں بلکہ احمدیوں کے ہی طبقہ غیر مبائعین کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں.جو اپنی کمزوری کے نتیجہ میں ان حدود کے توڑنے کے درپے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کی مضبوطی اور تنظیم کے پیش نظر قائم فرمائی تھیں.اور ظاہر ہے کہ ایسے خطرہ کے موقع پر لازما احتیاط اور پیش آمدہ خدشات کی بناء پر زیادہ تاکید اور زیادہ شدت سے کام لیا جاتا ہے.تا جماعت کا کوئی کمزور طبقہ لغزش نہ کھا جائے.اور پھر ایسے ماحول میں بعض اوقات تشریح اور توضیح کی غرض سے بعض خاص اور نئی اصطلاحات بھی موقع کے لحاظ سے تجویز کر کے استعمال کر لی جاتی ہیں جو عام حالات میں یا عام خطاب کے وقت استعمال نہیں کی جاتیں.وَلِكُلِّ أَن يُصْطَلِحَ - اس تعلق میں یہ اصولی اور بنیادی بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے جسے اکثر لوگ بھول جاتے ہیں حالانکہ یہ بات ہر مسلمان کہلانے والے سے تعلق رکھتی ہے خواہ وہ کسی فرقہ کا فرد ہو کہ ہر فرقہ کے کوئی نہ کوئی امتیازی نشانات یا مخصوص عقائد ہوتے ہیں.جو گویا اس کے لئے چار دیواری کا کام دیتے ہیں اور انہی امتیازی نشانات اور مخصوص عقائد کی وجہ سے ایک فرقہ دوسرے فرقوں سے ممتاز ہوتا اور پہچانا جاتا ہے اور ان مخصوص نشانات اور عقائد کوترک کرنے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ انہیں ترک کرنے والا فرقہ اپنے ہاتھ سے اپنی ہستی کو مٹا دے.بے شک ایک مذہب کے اندر بہت سی اصولی باتوں میں مشترکہ عقائد بھی ہوتے ہیں جو اس

Page 150

مضامین بشیر جلد سوم 128 مذہب کی طرف منسوب ہونے والے سب فرقوں کا مشترکہ اثاثہ سمجھے جاتے ہیں.مگر ان مشتر کہ عقائد کے نیچے نیچے ہر فرقہ کے اپنے امتیازی نشانات اور مخصوص عقائد کا وجود بھی ضرور پایا جاتا ہے.جن کی وجہ سے ہر فرقہ دوسرے فرقوں سے ممتاز رہتا اور الگ پہچانا جاتا ہے.حنفی.شافعی.مالکی.حنبلی پھر اہلحدیث.اہل قرآن اور ایک جہت سے سب سے ممتاز اور جدا اہل تشیع پھر تصوف کے میدان میں قادری.چشتی.سہروردی.اور نقشبندی وغیرہ وغیرہ مسلمانوں میں بیسیوں بلکہ ایک حدیث کے مطابق بہتر تہتر فرقے ہیں.اور ہر فرقہ اپنے بعض مخصوص عقائد اور مخصوص نشانات رکھتا ہے.کوئی کم اور کوئی زیادہ.مگر ان مخصوص عقائد اور مخصوص نشانات کے باوجود یہ سب اسلام کی ظاہری اور عرفی تعریف کے لحاظ سے مسلمان سمجھے جاتے ہیں.پس اگر ہم نے کسی جگہ کسی خاص گروہ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے بعض مخصوص نشانات اور مخصوص چاردیواری پر زیادہ زور دیا.تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم نے مشترکہ عقائد میں بھی اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ لیا ہے یا انہیں اپنے آپ سے کاٹ کر جدا کر دیا ہے.مذہب کی حقیقت بے شک دوسری چیز ہے اور اس میں ہر شخص اور ہر فرقہ کا اپنا اپنا نظریہ ہے مگر اسلام کی ظاہری اور عمر فی تعریف بہر حال وہی رہے گی جو ہمارے آقا خاتم النبین سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلمہ طیبہ میں بیان فرمائی ہے.چنانچہ اسی کتاب کالمۃ الفصل کا ایک اور حوالہ اُن لوگوں کی تسلی کا موجب ہونا چاہئے.جو جماعت احمدیہ کے متعلق خود غرض لوگوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں میں مبتلا ہو کر ٹھوکر کھا جاتے ہیں.اس حوالہ کے الفاظ یہ ہیں کہ.جہاں اسلام کی ایک حقیقی اور اصلی تعریف ہے وہاں اس کی ایک عرفی اور رسمی تعریف بھی ہے جو یہ ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن شریف کی شریعت پر ایمان لانے کا مدعی ہو.پس جو شخص اس رسمی اور عرفی تعریف کو پورا کر دیتا ہے وہ عرفی اور رسمی رنگ میں مسلمان کہلائے گا“ کلمۃ الفصل ایڈیشن ثانی مطبوعہ 1941 ء صفحہ 156 ) یہ حوالہ ہر انصاف پسند شخص کیلئے جو تعصب سے آزاد ہو کر دیانتدارانہ رنگ میں غور کرنے کے لئے تیار ہے ایک کلیدی حوالہ ہے.جس سے بہت سے دوسرے حوالہ جات کی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں اور محکم اور متشابہ کا وجود تو قرآن مجید تک میں موجود ہے.جس سے کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا.تو پھر کسی دوسرے کے کلام میں یہ انداز بیان کیوں قابل اعتراض سمجھا جائے ؟ بلکہ لطف یہ ہے کہ ہمارے موجودہ مخالف علماء میں سے بھی بعض لوگوں نے رسمی اور اسی مسلمان اور صالح اور غیر صالح کی اصطلاح بنا رکھی ہے.فَافَهُمْ وَ تَدَبَّرُ وَلَا تَكُن مِنَ الْمُمْتَرِينَ -

Page 151

مضامین بشیر جلد سوم 129 اس جگہ میں ایک ضمنی اور علمی بات کی تشریح کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں.جو کئی سادہ لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے اور چالاک اور بے اصول لوگ تو اس سے کئی قسم کے ناجائز فائدے اٹھاتے اور عوام الناس کو دھوکا دینے کا ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں.میری مراد حوالہ جات کے ناجائز تصرف کے طریق سے ہے جس میں آج کل بد قسمتی سے علماء صاحبان کا ایک طبقہ خوب مشاق نظر آتا ہے.عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کسی حوالہ میں ناجائز تصرف صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنی کسی خاص غرض کے ماتحت کسی حوالہ کی عبارت کو بدل کر یا الفاظ کو آگے پیچھے کر کے پیش کیا جائے.مگر ہمارے دوستوں اور خصوصاً علم کلام سے دلچسپی رکھنے والے دوستوں کو یا درکھنا چاہئے اور یہ نکتہ انہیں انشاء اللہ کئی مواقع پر کام دے گا کہ ناجائز تصرف صرف اس بات کا نام نہیں کہ کوئی حوالہ الفاظ بدل کر پیش کیا جائے بلکہ ناجائز تصرف عموما تین قسم کا ہوتا ہے اور ہمارے دوستوں کو ان سب تصرفات بے جا کی طرف سے ہمیشہ ہوشیار اور چوکس رہنا چاہئے.(1) پہلا اور عام قسم کا تصرف تو یہ ہوتا ہے کہ کسی حوالہ کے الفاظ کو بدل کر پیش کیا جائے.یعنی یا تو اس کے الفاظ بدل دیئے جائیں اور یا الفاظ کی ترتیب بدل کر غلط مطلب نکالنے کی کوشش کی جائے.ایسا تصرف عموماً صرف بے وقوف لوگ کرتے ہیں جنہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم بہت جلد پکڑے جا کر ننگے کر دئیے جائیں گے.یا بعض بد دیانت مناظر خاص خاص موقعوں پر اپنے سامعین کو وقتی طور پر دھوکا دینے کی غرض سے یہ طریق اختیار کرتے ہیں.مگر ہوشیار لوگ عموماً اس بھونڈے طریق سے بچتے ہیں.(2) دوسری قسم کا نا جائز تصرف یہ ہوتا ہے جس میں نسبتاً زیادہ چالا کی اور ہوشیاری پائی جاتی ہے کہ حوالہ کے الفاظ تو نہ بدلے جائیں مگر اُسے اس کے سیاق و سباق کاٹ کر پیش کیا جائے.یعنی اگلی پچھلی عبارت حذف کر کے اور صرف درمیانی حصہ یا ایک طرف کا حصہ پیش کر کے مطلب براری سے کام لیا جائے.جیسا کہ ہمارے ملک میں لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ والا لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی شخص جو تارک نماز تھا.اس نے اعتراض ہونے پر جواب دیا کہ قرآن مجید خود فرماتا ہے کہ نماز کے قریب نہ جاؤ اور آیت کے اگلے حصہ کو کھا گیا کہ وَأَنتُمْ سُكَاری یعنی ایسے وقت میں نماز نہ پڑھو کہ جب ( نیند یا بھوک یا حوائج انسانی وغیرہ کی وجہ سے ) تمہاری توجہ میں غیر معمولی انتشار ہو اور تم نماز میں توجہ نہ جما سکو.بلکہ اس قسم کی اشدا اور فوری ضروریات سے فارغ ہو کر یا ان پر غلبہ پا کر نماز پڑھو.تاکہ نماز کی اصل غرض حاصل ہو.الغرض دوسری قسم کا نا جائز تصرف یہ ہے کہ کسی حوالہ کو اس کے سیاق و سباق اور آگے پیچھے کی عبارت سے کاٹ کر اپنا کوئی خاص مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.

Page 152

مضامین بشیر جلد سوم 130 (3) تیسری قسم کا نا جائز تصرف اپنے اندر اس سے بھی زیادہ چالا کی اور دھوکا دہی کا پہلو رکھتا ہے.اور وہ یہ کہ کسی حوالہ کے پیش کرنے میں نہ تو الفاظ میں رد و بدل کیا جائے اور نہ ہی انہیں سیاق وسباق سے کاٹا جائے مگر جس خاص ماحول میں کوئی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یا جس خاص فریق کو مخاطب کر کے کہے گئے ہیں انہیں اوجھل اور پس پردہ رکھ کر اور الفاظ کو عام رنگ دے کر پیش کر دیا جائے.اس قسم کے نا جائز تصرف کی موٹی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک شخص میرے مکان پر آ کر مجھے مسلسل گالیاں دیتا اور افترا پردازی کرتا اور اشتعال انگیزی سے کام لیتا اور میرے خلاف طرح طرح کے گند اچھالتا ہے.اور میں اس کے ظلم پر ایک لمبے عرصہ تک صبر سے کام لیتا ہوں.لیکن آخر لمبے صبر کے بعد اسے ہوش میں لانے کی غرض سے اور جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةُ مِثْلُهَا کے اصول کے ماتحت میں کہتا ہوں کہ فلاں شخص خبیث اور مفتری ہے.اب اگر کوئی شخص صرف میرے یہ الفاظ تو نقل کر دیتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کے متعلق خبیث کا لفظ استعمال کیا ہے مگر اس کی گالیوں اور افتراپردازیوں کے لمبے سلسلہ کو چھپا جاتا ہے اور اس کے ظلم پر پردہ ڈال کر اور اس کی افترا پردازی کو اوجھل رکھ کر میرے مظلوم ہونے کے باوجود میرے جوابی فقرہ کی وجہ سے مجھے ظالم ثابت کرنا چاہتا ہے تو یہ شخص ایک خطر ناک اور انتہا درجہ کے ناجائز تصرف کا مرتکب سمجھا جائے گا.اسی طرح اگر میں نے کوئی بات ایک خاص ظالم اور بد باطن اور بادی طبقہ کے متعلق کہی ہے.لیکن میرا کوئی مخالف اس کے پس منظر کو چھپا کر اسے عام رنگ میں پیش کرتا ہے کہ گویا میں نے یہ الفاظ کسی قوم کے سارے افراد کے متعلق استعمال کئے ہیں.تو ایسا شخص بھی ایک ایسے ناجائز تصرف کا مرتکب ہوتا ہے جس کے لئے اسے یقیناً خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا.اور ہر دیانتدار اور انصاف پسند انسان کی آواز اس کے خلاف اٹھنی چاہئے.یہ وہ تین قسم کے ناجائز تصرفات ہیں جو بے اصول لوگوں کی طرف سے ہمارے خلاف بکثرت اختیار کئے جاتے ہیں.اور ہر وہ شخص جسے دیانتداری کا احساس نہیں اپنی اپنی فطرت اور اپنے اپنے خیال کے مطابق ان ناجائز تصرفات کے میدان میں داخل ہو کر یہ ناپاک ہولی کھیل رہا ہے.متشابہ کلام کو لے کر اور محکم کو چھوڑ کر خاص ماحول میں کہے گئے الفاظ کو لے کر اور اس کے خاص ماحول کو پس پردہ رکھ کر یا پھر اس خاص طبقہ کے ذکر کو چھپا کر جس کے متعلق کوئی الفاظ کہے گئے ہیں اور انہیں عام رنگ دے کر گویا کہ وہ سب کے لئے کہے گئے ہیں ہمارے خلاف ہر طرح کا گند اچھالا جارہا ہے.اور کوئی انصاف پسند شخص ( وَالشَّادُ كَالْمَعْدُوْم ) آگے آکر اس کلمہ حق کے کہنے کی جرات نہیں کرتا کہ بے شک دنیا دھوکا کھا سکتی ہے مگر خدا تو تمہارے سر پر موجود

Page 153

مضامین بشیر جلد سوم 131 ہے.اس سے ڈرو کہ ایک دن اس کے سامنے پیش کئے جاؤ گے.ہمارے سلسلہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار اور نہایت زور دار الفاظ میں اپنے مخالفوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے ہر گز کسی ایسی نبوت کا دعوی نہیں کیا جو تمہارے دماغوں میں ہے.جس سے انسان مستقل حیثیت میں نبوت کا منصب پاتا ہے یا کوئی نئی شریعت لاتا ہے.بلکہ میں تو حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خادم اور قرآنی شریعت پر قائم ہوں.اور میں نے جو کچھ پایا ہے اپنے آقا سرور کائنات فخر موجودات کی شاگردی اور غلامی میں پایا ہے.اور نبوت سے میری مراد صرف کثرتِ مکالمہ مخاطبہ الہیہ اور اظہار علی الغیب ہے.جس سے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فیض سے مشرف کیا گیا ہوں.اور قرآنی شریعت کا جو امیری گردن پر ہے مگر پھر بھی خود غرض لوگ اپنے اپنے سیاسی اور اقتصادی مقاصد کے ماتحت یہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ مرزا صاحب نے تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کو منسوخ کر دیا ہے اور ایک نئے مذہب اور نے کلمہ کی بنیا درکھی ہے.کیا یہ ظلم اور یہ افتراء خالی جائے گا اور کیا آسمان پر کوئی ہستی ان ظلموں کو دیکھنے والی موجود نہیں؟ مگر باوجود اس کے ہم بارہا کہہ چکے ہیں اور ہم نے ہر موقع پر اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ ہم دوسرے مسلمانوں کے دلی خیر خواہ ہیں.اور ان کے ایک طبقہ کا ظلم ہمیں اس حقیقت کی طرف سے غافل نہیں کر سکتا کہ خواہ کچھ ہو دوسرے مسلمان بھی آخر اُسی رسول کے نام لیوا اور اسی شریعت کے تابع ہیں جس کا جوا ہماری گردنوں پر ہے.ہمارا آسمانی آقا ہمیں انشاء اللہ ان مظالم کے طوفان میں بھی صابر اور شا کر پائے گا.اور ہم خدا کی توفیق سے اپنے سلسلہ کے مقدس بانی علیہ السلام کے اس ارشاد کو فراموش نہیں کریں گے جو آپ نے اپنے اشد ترین مخالفین کے متعلق فرمایا کہ.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کآخر کنند دعوی حُبّ پیمبرم یعنی اے میرے زخم خوردہ دل تو ان مخالفوں کے ظلم اور ایذارسانی کے باوجود ان کا لحاظ رکھ.کیونکہ خواہ کچھ ہو وہ میرے رسول کی محبت کا دعوی کرتے ہیں.اس لطیف شعر میں ” میرے رسول“ کے الفاظ ملاحظہ ہوں کہ کس بے پناہ محبت کے حامل ہیں؟ بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا.کیونکہ اس وقت جسم کمزوری محسوس کر رہا ہے اور روح جذبات سے چھلک رہی

Page 154

مضامین بشیر جلد سوم ہے اور یہ دونوں باتیں طوالت کی مانع ہیں.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (محرر 29 اگست 1953 ء) 132 (روزنامه المصلح کراچی 3 ستمبر 1953ء) ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے نہیں کاٹا مگر اختلافی امور سے بھی انکار بھی نہیں کیا اخبار الصلح کراچی مورخہ 3 ستمبر 1953ء میں میرا ایک مضمون زیر عنوان ” کیا ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ رکھا ہے؟“ شائع ہوا تھا جس میں میں نے اپنے ایک ابتدائی رسالہ کلمتہ الفصل (مصنفہ 1915ء) کے ایک پرانے حوالے کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا تھا کہ ہمارے خلاف جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے از خود کاٹ رکھا ہے یہ ہرگز درست نہیں کیونکہ بعض معتقدات میں اختلاف کے باوجود (اور اختلاف مسلمانوں کے 72 فرقوں میں سے کم و بیش ہر فرقہ میں پایا جاتا ہے ) ہم امت محمدیہ میں شامل ہونے کے لحاظ سے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور اسی شریعت پر عامل اور اسی شریعت کے پابند ہیں جو قرآن مجید کی صورت میں ہمارے آقا فداہ نفسی ) صلے اللہ علیہ وسلم پر آج سے چودہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی.اور ہم نے ہر اس معاملہ میں جو قو می اور ملی رنگ میں کسی نہ کسی صورت میں مسلمانوں پر اثر انداز ہوتا تھا اور ہوتا ہے ہمیشہ مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے.اور ان کی بے لوث خدمت کو اپنا فرض منصبی جانا ہے.اور بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کی جانب سے تبلیغ اسلام کی خدمت مزید برآں ہے.جس کے لئے ہمارے قریباً ایک سو مبلغ خدا کے فضل سے ہر غیر مسلم ملک میں اعلائے کلمۃ اللہ کی خدمت میں شب وروز مصروف ہیں.مگر باوجود اس کے ہم نے کبھی اختلافی امور سے انکار نہیں کیا اور نہ اب کرتے ہیں.اور نہ ہم نے کبھی اپنے آپ کو ملی رنگ میں دوسرے مسلمانوں سے کاٹ کر کوئی علیحد ہ امت قرار دیا ہے.وغیرہ وغیرہ میرے اس مضمون پر لاہور کے ایک غیر احمدی ایم.اے سٹوڈنٹ ( نام ظاہر کرنا مناسب نہیں ) کی

Page 155

مضامین بشیر جلد سوم 133 طرف سے مجھے ایک خط پہنچا تھا کہ جب ہم نے نماز کی اقتداء اور رشتہ نا تا وغیرہ کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ رکھا ہے تو پھر ہم کس طرح یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے نہیں کاٹا ؟ اور اس نوجوان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ان کے خط کا جواب خط کے ذریعہ نہیں بلکہ اخبار کے ذریعہ دیا جائے.لیکن میں نے موجودہ ملکی حالات میں اخبار کے ذریعہ جواب دینے کو پسند نہ کرتے ہوئے اس بات سے معذرت ظاہر کی اور خط کے ذریعہ جواب بھجوا دیا.مگر چونکہ کئی دن گزر جانے کے باوجود مجھے اس نوجوان کی طرف سے خط پہنچنے کی اطلاع نہیں ملی.اور مجھے شبہ ہے کہ شاید انہیں میرا خط نہ پہنچا ہواہنا بصورت مجبوری اپنا وہ خط جو ان کے نام بھجوایا گیا تھا ذیل میں شائع کرا رہا ہوں.تا اگر وہ ڈاک کے ذریعہ نہیں پہنچا تو کم از کم اس عزیز کی خواہش کے مطابق اخبار کے ذریعہ ہی پہنچ جائے.وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنِّيَاتِ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ فِي كُلِّ حَالٍ عزیزم مکرم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خاکسار.مرزا بشیراحمد ربوہ 53-10-21 آپ کا خط محررہ 53-9-8 موصول ہوا تھا.مجھے افسوس ہے کہ طبیعت کی علالت اور عدم یکسوئی کی وجہ سے جلد جواب نہیں دے سکا.امید ہے آپ اس کا خیال نہیں فرمائیں گے.مجھے اس خیال سے خوشی ہوئی کہ آپ بھی اس کا لج میں تعلیم پاتے ہیں جس کا میں اولڈ بوائے ہوں.آپ نے میرے مضمون شائع شدہ اخبار المصلح بتاریخ 53-9-3 زیر عنوان ” کیا ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ رکھا ہے؟“ کے متعلق یہ اعتراض کیا ہے کہ جب یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے نماز اور رشتہ ناطہ وغیرہ کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے واقعی کاٹ رکھا ہے تو ہم کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم نے دوسروں سے اپنے آپ کو نہیں کا ٹا؟ اور آپ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں آپ کے اس اعتراض کا اخبار کے ذریعہ جواب دوں.عزیز من! یہ تو انصاف نہیں ہے کہ آپ تو پرائیویٹ خط لکھیں اور میں پبلک میں جواب دوں.علاوہ از میں آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کا موجودہ ماحول جماعت احمدیہ کے خلاف اس قدر مسموم ہے کہ ہماری ہر معصوم اور سیدھی بات بھی فتنہ کی بنیاد بن جاتی ہے.اور یہ مناسب نہیں کہ موجودہ نازک وقت میں ملک کے اندر کسی قسم کا انتشار پیدا ہو.اس لئے آپ کی خواہش کے خلاف خط کے ذریعہ یہ مختصر جواب ارسال کر رہا

Page 156

مضامین بشیر جلد سوم 134 ہوں.البتہ اگر آپ کا اصرار ہوا تو یہ جواب اخبار میں بھی شائع کر دیا جائے گا.وَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ اصل امر زیر بحث کے متعلق اگر آپ غور فرمائیں تو میرے اور آپ کے اختلاف کا نچوڑ اس مختصر سی بات میں آ جاتا ہے کہ میں جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کے اتحادی امور (Points of agreement) پر زور دے رہا ہوں.اور آپ اختلافی امور (Points of difference) پر نظر رکھتے ہیں.عزیز من! اس بات سے کس نے انکار کیا ہے کہ ہم میں اور دوسرے مسلمانوں میں بعض امور میں اختلاف ہے.حتی کہ میرا موجودہ مضمون جو آپ کے زیر اعتراض ہے اس میں بھی میں نے ہر فرقہ کی مخصوص ” چاردیواری“ کا فلسفہ بیان کیا ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ چار دیواری“ بہر حال بعض امور میں اختلاف کی متقاضی ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے یہ اعتقادات قرآن و حدیث سے باہر جا کر ان کی تعلیمات سے انحراف کر کے قائم کئے ہیں یا کہ ہم نے قرآن و حدیث سے ہی استدلال کیا ہے؟ اگر ہمارا استدلال قرآن وحدیث پر مبنی ہے تو آپ ہمیں غلطی خوردہ تو کہہ سکتے ہیں مگر اسلام کا دشمن قرار نہیں دے سکتے اور نہ ہمیں مسلمانوں سے کٹ جانے والا قرار دے سکتے ہیں.ہم نے اس بات سے بھی انکار نہیں کیا کہ ہم دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے یا یہ کہ ہم اپنی لڑکیاں ان کے نکاح میں دینا درست نہیں سمجھتے.وغیرہ ذالک.لیکن خدا کے لئے آپ غور کریں کہ کیا یہی تفریق کم و بیش دوسرے مسلمان فرقوں میں قائم نہیں ہے؟ کیا آپ کے ہاں عید اور جمعہ کی نماز سب فرقے ایک امام کے پیچھے پڑھتے ہیں؟ کیا عید کے موقع پر شاہی مسجد اور منٹو پارک اور دیگر مساجد کے نظارے آپ بھول گئے کہ جہاں ہر فرقہ اپنی اپنی جداگانہ نماز ادا کرتا ہے پھر کیا آپ کو یہ بات یاد نہیں کہ سنی حضرات شیعہ حضرات کو رشتہ نہیں دیتے اور شیعہ حضرات سنی حضرات کو رشتہ نہیں دیتے ؟ صرف فرق یہ ہے کہ ہم ایک زندہ اور فعال مذہبی جماعت ہونے کی وجہ سے اپنے سب معاملات میں مذہبی پہلو کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں.اور ان امور میں جماعت کی نگرانی رکھتے ہیں.مگر باقی فرقے مذہب سے دور جا کر اور دین سے غافل ہو کر دل میں تو ان باتوں کا عقیدہ رکھتے ہیں مگر عملاً ان باتوں میں زیادہ سخت نگرانی نہیں کرتے.اور سہل انگاری سے کام لیتے ہیں اس کے سوا کوئی فرق نہیں.پھر مسلمانوں کے مختلف فرقوں کا ایک دوسرے کو کافر قرار دینا بھی ایک معروف اور کھلی ہوئی حقیقت ہے جسے مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے.اصل بات یہی ہے کہ میں نے یہ مضمون جس پر آپ کو اعتراض پیدا ہوا ہے، امور اتحاد کو سامنے رکھ کر لکھا ہے.اور آپ اپنے خط میں امور اختلاف پر زور دے رہے ہیں.میں امور اختلاف سے ہرگز انکاری

Page 157

مضامین بشیر جلد سوم 135 نہیں مگر سچ فرمائیے کہ کیا ہمارے درمیان عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے امور اتحاد زیادہ ہیں یا کہ امور اختلاف؟ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ دیانت داری کے ساتھ خالی الذہن ہو کر اس بات پر غور کریں گے تو آپ کا نور ضمیر آپ کو بتائے گا کہ امور اتحاد کی اتنی کثرت ہے کہ ان کے مقابلہ پر امور اختلاف تعداد کے لحاظ سے شاید ایک یا دو فیصدی سے بھی زیادہ نہیں ہوں گے.آپ نے لکھا ہے کہ جماعت احمد یہ دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نمازیں پڑھنا منع کرتی ہے اور یہ کہ نمازیں غیر مسلموں کے پیچھے ہی منع ہیں.اسی طرح آپ نے لکھا ہے کہ جماعت احمد یہ دوسرے مسلمانوں کو رشتہ میں لڑکی دینا درست خیال نہیں کرتی اور یہ کہ یہی صورت غیر مسلموں کے ساتھ ہے.آپ کی اس دلیل میں بھی وہی غلط فہمی (Fallacy) ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے کہ آپ صرف اختلافی امور پر نظر رکھ رہے ہیں اور میں نے اپنے اس مضمون میں اتحادی امور پر زور دیا ہے.آپ غور کریں کہ اگر ہماری نمازوں کی قیادت جدا ہے ( یادر ہے کہ نماز کے معاملہ میں صرف قیادت ہی جدا ہے نماز ہرگز جدا نہیں ) اور اگر رشتوں ناتوں میں جزوی علیحدگی ہے تو کیا دوسری طرف ہم تو حید کے قائل نہیں ، کیا ہم خدا کے رسولوں کو نہیں مانتے؟ کیا ہم خدائی کتابوں پر ایمان نہیں لاتے ؟ کیا ہم یوم آخر اور تقدیر خیر وشر کے منکر ہیں؟ کیا ہم سرور کائنات فخر موجودات سید الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی رسالت اور قرآنی شریعت پر عقیدہ نہیں رکھتے ؟ پھر کیا ہم رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے انکاری ہیں ؟ حَاشَاوَ كَلَّا ثُمَّ حَاشَا وَ كَلَّا کہ ایسا نہیں اور ہرگز ایسا نہیں.ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دلی یقین اور کامل بصیرت کے ساتھ خاتم النبیین مانتے ہیں.وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى مَنْ كَذَبَ.پھر عمل کے میدان میں غور کیجئے کہ کیا ہم قرآن وحدیث کے ہزاروں احکام میں سے کسی ایک حکم کے بھی منکر ہیں؟ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ، نکاح ، طلاق ، لین دین، بیع و شرا، معاہدات ، تدبیر منزل، اصول حکومت وغیرہ وغیرہ سینکڑوں میدان ہیں اور ہر میدان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں احکام ہیں.کیا ان میں سے ہم نے کبھی کسی ایک حکم کا بھی انکار کیا ہے؟ پس جب ہزاروں باتوں میں اتحاد کی صورت موجود ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم دونوں کی شریعت ایک ہے.یعنی قرآن مجید جس کے متعلق ہمارے امام نے فرمایا ہے کہ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

Page 158

مضامین بشیر جلد سوم 136 تو پھر ہزاروں امور اتحاد کو نظر انداز کر کے چند اختلافی امور کی بناء پر ہمیں مطعون کرنا کہ ہم اسلام سے خارج ہو گئے اور ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے کاٹ رکھا ہے کہاں کا انصاف ہے؟ پھر کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ ان اختلافی امور میں بھی ہر معاملہ میں پہل بلا استثناء دوسرے مسلمانوں کی طرف سے ہوئی ہے.ہم یہ بات تاریخی ریکارڈ سے قطعی طور پر ثابت کر سکتے ہیں کہ ہمیں کافر اور ضال قرار دینے میں دوسرے مسلمانوں نے پہل کی.ہماری قیادت میں نماز ادا کرنے کو حرام قرار دینے میں دوسرے مسلمانوں نے پہل کی.ہم سے رشتہ ناتا کے تعلقات قطع کرنے میں دوسرے مسلمانوں نے پہل کی.جنازوں کے معاملہ میں دوسرے مسلمانوں نے پہل کی حتی کہ بعض صورتوں میں احمدیوں کو دوسرے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن تک نہیں ہونے دیا بلکہ آپ حیران ہوں گے کہ بعض صورتوں میں دفن شدہ احمدیوں کی لاشوں کو قبروں سے باہر نکال کر پھینک دیا گیا.یہ سب باتیں ہماری طرف سے کچھ کہے جانے سے بہت عرصہ قبل ہمارے متعلق روا رکھی گئیں.اور ہمارے خلاف ان زہر افشاں فتاوی کا بار بار اعلان کر کے ملک میں گویا ایک آگ لگا دی گئی.مگر اس سارے عرصہ میں ہمارے امام نے اس کے سوا کچھ نہیں کہا کہ ؎ کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں اور دوسری جگہ فرمایا.نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار آخر کنند دعوی حُبّ پیمبرم یعنی اے دل تو اب بھی دوسرے مسلمانوں کے متعلق نیک خیال رکھ.کیونکہ خواہ کچھ ہو وہ میرے رسول کی محبت کا دعوی کرتے ہیں.پس خدا جانتا ہے کہ ہم سراسر مظلوم ہیں لیکن مظلوم ہونے کے باوجود ہم نے اخوت اسلامی کے ماتحت ہر میدان میں دوسرے مسلمانوں کی ہمدردی اور خیر خواہی کو اپنا اصول ٹھہرا رکھا ہے.اور ہماری گزشتہ تاریخ ہمارے اس دعوئی پر ایک زبر دست گواہ ہے مگر غضب یہ ہے کہ اگر اس ظلم کے بوجھ کے نیچے ہمارے منہ سے کبھی کوئی آہ نکل جاتی ہے تو اس آہ کو بھی ہمارے خلاف پراپیگنڈا کا ذریعہ بنالیا جاتا ہے.کہ لیجئیو دوڑیو،

Page 159

مضامین بشیر جلد سوم 137 غضب ہو گیا.کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہم میں رہتے ہوئے ہمارے مقابلہ پر آہ بھرنے کی جرات کرتے ہیں!! کیا یہ وہ رواداری ہے جو اسلام سکھاتا ہے؟ کیا یہ وہ مذہبی آزادی ہے جس کی ہمارے آقا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم دی ہے؟ ہمیں جانے دیجئے.یہی دیکھئے کہ دنیا کیا کہے گی ہاں وہی دنیا جس کی آنکھیں اس وقت خدا داد مملکت پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کہ یہ نوزائیدہ حکومت انصاف اور آزادی اور مساوات اور مذہبی رواداری کا کیا نمونہ دکھاتی ہے.باقی رہا تبلیغ کا سوال.سو اسلام نے لا إِكْرَاهَ فِي الدِّين (البقرہ: 257) (یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر نہیں ہونا چاہئے ) کا زریں اصول بیان کر کے اس بحث کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دیا ہے اور وہ یہ کہ جس فرد یا فریق کے نزدیک کوئی بات اچھی ہو اور وہ اسے دنیا کے لئے مفید سمجھتا ہو تو وہ بیشک اسے امن اور محبت کے طریق پر دوسروں تک پہنچائے.مگر وہ دوسروں کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اس کی بات ضرور مانیں.بلکہ ماننا نہ ماننا دوسروں کی تسلی پر موقوف ہے.اس نظریہ کے ماتحت آپ بڑی خوشی سے مجھے اپنی بات سنائیں.میں یقیناً شوق اور توجہ کے ساتھ سنوں گا.اور اسی طرح آپ کو میری معروضات سننے کے لئے تیار ہونا چاہئے.کیونکہ دنیا میں علمی تحقیق اور علمی ترقی کا یہی واحد ذریعہ ہے کہ ایک دوسرے کی باتیں سن کر غور کیا جائے اور اسی کے پیش نظر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ ( یعنی میری امت کا اختلاف جو نیک نیتی پر مبنی ہو رحمت کا ذریعہ ہے) بس اس سے زیادہ میں اس وقت آپ کے خط کے جواب میں کچھ عرض نہیں کروں گا.ہاں اگر آپ نے کسی امر میں مزید توضیح چاہی تو بندہ حاضر ہے.اور یہ بھی میں عرض کر چکا ہوں کہ اگر آپ کی طرف سے یہ اصرار ہوا کہ یہ جواب ضرور اخبار میں شائع کرایا جائے تو اس سے بھی انکار نہیں ہوگا.کیونکہ آں را کہ حساب پاک است از محاسبه چه باک.بالآخر صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ امید ہے کہ آں عزیز میری اس مختصر تحریرہ پر صاف دلی کے ساتھ غور کریں گے کہ یہی صاف دلی دین و دنیا میں فلاح و کامیابی کی کلید ہے.نوٹ :.امر زیر نظر کے متعلق اصل جواب تو ختم ہو گیا.لیکن اس تعلق میں ایک مزید بات یہ بھی ضرور یا درکھنی چاہئے کہ جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کے اختلاف کا مرکزی نقطہ نماز کی اقتداء اور رشتہ ناتا وغیرہ کا سوال ہرگز نہیں.بلکہ اصل امر صرف اور صرف حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ ماموریت ہے.اگر

Page 160

مضامین بشیر جلد سوم 138 ہمارے سلسلہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی واقعی خدا کی طرف سے مامور ہیں اور خدا نے ہی انہیں اس زمانہ میں مسیح موعود بنا کر اور نائب رسول کا خلعت پہنا کر احیاء دین اور خدمتِ اسلام کے لئے مبعوث کیا تھا تو باقی باتیں خود بخود حل ہو جاتی ہیں.اور کسی مزید بحث کی گنجائش نہیں رہتی.لہذا عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ جڑ کو پکڑا جائے نہ کہ شاخوں میں الجھا جائے.شاخوں میں الجھنے والے کبھی ہدایت نہیں پاتے.کیونکہ شاخیں سینکڑوں ہزاروں ہوتی ہیں اور شاخوں کا معائنہ کرتے کرتے انسان کی محدود عمر ختم ہو جاتی ہے.اور اصولاً بھی یہ طریق کسی طرح درست نہیں کہ بحث کے مرکزی نقطہ کو ترک کر کے آس پاس کی باتوں میں وقت ضائع کیا جائے.هَذَا هُوَ الْحَقُّ فَافُهُمْ وَ تَدَبَّرُ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ - (محررہ 14 اکتوبر 1953ء) (روز نامه مصلح 25 اکتوبر 1953ء) اگر موت کا وقت مقرر ہے تو پھر مریض کا علاج بے سود ہے ایک غیر احمدی دوست کے سوال کا جواب / 1950ء کی بات ہے کہ میں نے مسئلہ تقدیر کے متعلق ایک مہاجر دوست کے سوال کے جواب میں تین مضمون پے در پے لکھے تھے جو الفضل مورخہ 8 اگست 1950 ء ومورخہ 26 اگست 1950 ء ومورخہ 30 ستمبر 1950 ء میں شائع ہوئے تھے.ان میں سے پہلا مضمون تو لائل پور ( حال فیصل آباد ) کے ایک مہاجر دوست کے سوال کے جواب میں تھا.جن کا ایک نوجوان عزیز صحیح علاج میسر نہ آنے کی وجہ سے ضلع لائل پور (حال فیصل آباد ) کے ایک گاؤں میں فوت ہو گیا تھا.اور دوسرے دو مضمون دو دیگر دوستوں کے سوالوں کے جواب میں تھے اور گویا اصل مضمون کے لئے بطور تمہ تھے.اب اسی سلسلہ میں ایک معزز غیر احمدی دوست کی طرف سے یہ سوال موصول ہوا ہے کہ جب عام اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے تو پھر یہ نظریہ کہ صحیح علاج سے مریض شفایاب ہو سکتا ہے درست نہیں ٹھہرتا.کیونکہ جب موت کا مقدر وقت آجاتا ہے تو پھر علاج یا عدم علاج کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.گویا یا تو یہ خیال غلط ہے کہ موت کا کوئی وقت مقرر ہے.اور یا یہ نظریہ درست نہیں کہ صحیح علاج سے بیمار شفایاب ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ.ہمارے یہ سوال کرنے والے غیر احمد کی دوست بھی اپنے ایک نو جوان بچے کی وفات سے صدمہ رسیدہ

Page 161

مضامین بشیر جلد سوم 139 ہیں.اور طبعا اس معاملہ میں اسلامی نقطۂ نظر معلوم کر کے اپنے زخم خوردہ دل کو تسلی دینا چاہتے ہیں.سوذیل کے مختصر مضمون میں ان کے سوال کا جواب عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ جہاں میرا یہ مضمون ان کی علمی تسلی کا موجب ہو وہاں اللہ تعالیٰ ان کے زخم خوردہ دل کے لئے بھی اپنے فضل و رحم سے صبر اور تسکین کا رستہ کھولے.آمین.یہ دوست غیر از جماعت ہونے کے باوجود جماعت کے ساتھ دیر بینہ انس اور محبت رکھتے ہیں.اور موجودہ پر آشوب زمانہ میں ہمیں طبعاً ایسے اصحاب کی خاص قدرومنزلت ہے کیونکہ طوفانِ باد میں ایک قطرہ باراں بھی رحمت کا باعث بن جایا کرتا ہے.اور ہمارے لئے تو خدا کے فضل سے موجودہ طوفانِ عظیم میں ایسے کئی قطرات رحمت میسر ہیں.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ وَلَانُ شَكَرَنَا لَيَزِيدَنَّنَا اللَّهُ الْكَرِيمَ جیسا کہ میں نے اپنے ابتدائی مضمون میں لکھا تھا تقدیر کا مسئلہ بظاہر بالکل سادہ اور صاف ہونے کے باوجود علمی لحاظ سے بہت بار یک بلکہ پیچدار مسئلہ ہے.اور عام لوگوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ اس معاملہ میں دین العجائز پر قائم رہیں.اور زیادہ باریک بحثوں میں پڑنے کے بغیر اس بنیادی ایمان پر قائم رہیں ( کیونکہ یہی ایمان مسئلہ تقدیر کا بنیادی امر ہے ) کہ ہمارے مادی اور روحانی عالم میں جو قانون بھی جاری نظر آتا ہے وہ سب خدا ہی کا بنایا ہوا ہے.کیونکہ ہمارا خدا دنیا کا صرف خالق ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کا حاکم اور منصرم بھی ہے.مسئلہ تقدیر کے اس بنیادی اور مرکزی نقطہ سے آگے اتنا گہرا پانی ہے کہ عام انسان اس میں غوطہ کھانے سے بچ نہیں سکتا اور ظاہر ہے کہ غوطہ کھانے والا انسان بسا اوقات ڈوب بھی جایا کرتا ہے.در اصل مسئلہ تقدیر کی ساری پیچیدگی چند اصولی باتوں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.مگر یہ چند باتیں ایسی خاردار ہیں کہ بسا اوقات ایک اوسط درجہ کا سمجھدار آدمی انہیں سمجھ لینے کے بعد بھی ان کی طرف سے عملا غافل رہتا اور ٹھوکر کھا جاتا ہے.یہ باتیں مختصر طور پر ذیل میں درج کی جاتی ہیں.(1) یہ کہ خدا کا علم اس کی جاری کردہ تقدیر سے بالکل جدا گانہ چیز ہے.اگر خدا کے علم میں یہ بات ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت فوت ہوگا تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ شخص معلوم وقت پر اس لئے فوت ہوا ہے کہ خدا کے علم میں اس نے اس وقت فوت ہونا تھا.بلکہ حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے.یعنی یہ کہ خدا کو یہ علم اس لئے ہے کہ اس شخص نے ایک خاص وقت میں فوت ہونا تھا.دوسرے الفاظ میں یہ کہ خدا کے علم کی وجہ سے اس شخص کی موت واقع نہیں ہوئی بلکہ خدا کو علم اس لئے ہے کہ اس کی فلاں وقت موت واقع ہوئی تھی.اس کی سادہ مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر ایک ماہر ڈاکٹر کو اپنے خصوصی علم کی بناء پر یہ اندازہ ہو جائے کہ میرا

Page 162

مضامین بشیر جلد سوم 140 فلاں مریض دو دن کے اندر مر جائے گا.اور پھر یہ مریض واقعی دو دن کے اندر مر بھی جائے (جیسا کہ بعض اوقات ایسے علمی اور فنی اندازے ٹھیک ہو جاتے ہیں ) تو اس صورت میں کو ئی عقلمند انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مریض اس لئے دو دن میں مرگیا ہے کہ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ وہ دو دن میں مرجائے گا.بلکہ لازماً یہی کہا جائے گا کہ ڈاکٹر کو اس لئے اس کے مرنے کا علم ہو گیا تھا کہ مریض کے حالات کے ماتحت اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ دو دن میں مرجائے گا.الغرض مسئلہ تقدیر کے معاملہ میں پہلی بات سمجھنے والی اور یاد رکھنے والی یہی ہے کہ خدائی علم اور خدائی تقدیر کے فرق اور امتیاز کو مدنظر رکھا جائے.ورنہ قدم قدم پر ٹھوکر لگنے کا احتمال ہے.(2) دوسری اصولی بات یہ سمجھنے والی ہے کہ تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے.ایک تقدیر معلق ہے اور دوسری تقدیر مبرم ہے.تقدیر معلق تو یہ ہے کہ کسی تقدیر کے ساتھ بعض ظاہر و باطن شرائط وابستہ ہوں.مثلاً یہ کہ اگر فلاں مریض کا وقت پر صحیح علاج ہو گیا تو وہ بچ جائے گاور نہ مر جائے گا.(اس جگہ پھر قارئین علم اور تقدیر کے چکر میں نہ پھنس جائیں.کیونکہ وہ جدا گانہ سوال ہے ) اور دوسری قسم تقدیر کی تقدیر مبرم ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ کسی بات کے ساتھ کوئی شرائط وابستہ نہ ہوں.بلکہ وہ بہر حال واقعہ ہو جانے والا ہو.جیسے کہ مطلقاً موت ہے جو بہر حال انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے خواہ جلد ہو یا بدیر.اور میں نے اپنے سابقہ مضامین میں اس کی مثال یہ دی تھی کہ جہاں موت کا وقت تقدیر معلق ہے.وہاں خود موت اپنی ذات میں تقدیر مبرم ہے.یعنی علاج وغیرہ سے اس کا وقت مل سکتا ہے مگر مطلقاً موت کبھی نہیں مل سکتی.یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میں ملیر یا وغیرہ کی بیماریوں کے جراثیم زیادہ پیدا ہوتے ہیں اور ان کے ازالہ اور انسداد کا کوئی موثر ذریعہ میسر نہیں ہوتا وہاں اموات زیادہ واقع ہوتی ہیں.لیکن جب ان علاقوں میں ان جراثیم کے مارنے کی تدابیر اختیار کر لی جاتی ہیں تو اموات کی شرح بہت کم ہو جاتی ہے.اب غور کرنے کی بات ہے کہ اگر علاج کو بے سود سمجھا جائے اور موت کے وقت کو اسی رنگ میں مقدر قرار دیا جائے جس رنگ میں کہ عوام الناس اسے مقدر سمجھتے ہیں تو انسدادی تدابیر کے باوجود ایسے علاقوں میں اموات میں کمی نہیں ہونی چاہئے.بہر حال یہ وہ دو اصولی باتیں ہیں جو مسئلہ تقدیر کے متعلق یا درکھنی ضروری ہیں.ان کے علاوہ بعض اور باتیں بھی یادر کھنے والی ہیں.مگر موجودہ مضمون کے لحاظ سے غالباً یہی دو باتیں کافی ہیں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہمارے دوست ان دو باتوں کو اچھی طرح سمجھ کر یا د رکھیں گے تو انشاء اللہ وہ اس مسئلہ کی بہت سی الجھنوں سے بچ جائیں گے.اس کے بعد میں اپنے غیر احمد کی دوست کے سوال کو لیتا ہوں جو اپنے نو جوان بچے کی وفات پر بے چین

Page 163

مضامین بشیر جلد سوم ہوکر پوچھتے ہیں کہ.141 اگر یہ نظریہ درست تسلیم کیا جائے کہ صحیح اور بر وقت علاج سے بیمار بچ سکتا ہے تو پھر ہمارا جو یہ عقیدہ ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے وہ باطل ہو جاتا ہے“ اس شبہ کے جواب میں اول تو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ جو خیال کیا جاتا ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے یہ خدا کے علم کے لحاظ سے ہے نہ کہ اس کی تقدیر کے لحاظ سے.چونکہ خدا عالم الغیب ہے اور کوئی بات جو آئندہ ہونے والی ہو اس سے پوشیدہ نہیں.اس لئے وہ بہر حال ہر انسان کے متعلق یہ جانتا ہے کہ اس کی موت فلاں وقت واقع ہوگی.مگر مندرجہ بالا تشریح کے پیش نظر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک معتین وقت پر اس کی موت اس لئے واقع ہوتی ہے کہ خدا کے فیصلہ کے مطابق اس کی موت کا یہی وقت مقرر ہے.بلکہ حقیقت اس کے الٹ ہے.یعنی یہ کہ خدا ( کو اس کی موت کے وقت کا ) اس لئے علم ہے کہ بوجہ عالم الغیب ہونے کے وہ جانتا ہے کہ اس کی موت فلاں وقت ہو گی.پس جب یہ کہا جاتا ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے تو اس سے خدا کے علم کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے نہ کہ اس کی تقدیر کی طرف.اس تشریح کی روشنی میں صحیح علاج سے بچ جانے یا موت کے وقت کے ٹل جانے پر کوئی اعتراض واقع نہیں ہوتا.کیونکہ اگر کسی مریض نے صحیح علاج سے بچ جانا ہو تو لازما خدا کا علم بھی اسی کے مطابق ہوگا.اور چونکہ ہم نہیں جانتے کہ خدا کے علم میں کیا ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہر بیماری میں علاج کی طرف توجہ دیں.ورنہ ہم خدا کے پیدا کردہ اسباب سے بغاوت کرنے والے ٹھہریں گے.دوسرا جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ چونکہ تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے.ایک تقدیر معلق اور دوسرے تقدیر مبرم اور اس بات کو صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کونسی تقدیر معلق ہے اور کونسی مبرم ہے.(سوائے اس کے کہ وہ کوئی بات خود بیان فرمادے ) اس لئے بھی ہمیں بہر حال علاج کی طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ اگر وہ تقدیر معلق ہے تو خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کے ماتحت ٹل جائے ورنہ ہم صبر کا ثواب کمائیں.اور میں اوپر والے نوٹ میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ بے شک موت اپنی ذات میں تو تقدیر مبرم ہے.مگر موت کا وقت عام حالات میں تقدیر معلق ہوتا ہے اور صحیح علاج سے مل سکتا ہے.دراصل جیسا کہ میں نے اپنے مضمون شائع شدہ اخبار الفضل مورخہ 26 اگست 1950 ء میں تف سے بیان کیا تھا.انسانی موت دوطرح سے واقع ہوتی ہے.(1) ایک کسی حادثہ وغیرہ کے نتیجہ میں جب کہ انسانی جسم کی مشینری تو ابھی مزید زندہ رہنے کے قابل ہو بی تفصیل

Page 164

مضامین بشیر جلد سوم 142 لیکن کسی خطر ناک بیماری یا حادثہ کے نتیجہ میں وہ اپنے طبعی وقت سے پہلے ہی ٹوٹ کر ختم ہو جائے.جسے عرفِ عام میں بے وقت موت یا موت قبل از وقت کا نام دیا جاتا ہے اور (2) دوسرے انسانی مشینری کے طبعی گھس گھساؤ (Wear and Tear) کے نتیجہ میں موت واقع ہونا جو عر فا بڑھاپے کی موت یا طبعی موت کہلاتی ہے.پس طبعی موت تو بہر حال آئے گی جسے کوئی چیز روک نہیں سکتی.گو چونکہ ہر انسانی مشین الگ الگ قومی کی حامل ہوتی ہے.اس لئے ہرمشین کا گھس گھساؤ کے نتیجہ میں ختم ہونا بھی الگ الگ وقت کا متقاضی ہے.مگر بہر حال یہ ایک فطری قانون ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتا کہ ہر انسانی مشین کے لئے ایک وقت پر جا کر ختم ہو جانا مقدر ہے.اس طرح انسان کے لئے ایک نہ ایک وقت مرنا تو بہر حال تقدیر مبرم ہے.جس کی طرف قرآن مجید نے ان حکیمانہ الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے.كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ(آل عمران:186) یعنی ہر انسانی جان ایک نہ ایک وقت ضرور موت کا مزا چکھنے والی ہے.لیکن دوسری قسم کی موت جو انسانی مشین کے طبعی گھس گھساؤ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ کسی خاص بیماری یا حادثہ کے نتیجہ میں آتی ہے.اور ویسے ابھی انسانی مشین طبعی رنگ میں مزید چلنے کے قابل ہوتی ہے تو یہ تقدیر معلق ہے جو صحیح اور بر وقت علاج سے مل سکتی ہے.اور اسی کے پیش نظر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ إِلَّا الْمَوْتَ یعنی ہر بیماری کے لئے خدا نے کوئی نہ کوئی علاج مقرر کر رکھا ہے.البتہ جب تقدیر مبرم والی موت آجائے تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں.خلاصہ یہ کہ اول تو موت کا وقت مقرر ہونے سے یہ مراد نہیں کہ خدا کی تقدیر یہ ہے یا خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت فوت ہو.بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ خدا کو اس بات کا علم ہے کہ کس شخص کی موت کب واقع ہوگی.اور جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے خدا کے علم کی بنا پر کسی شخص کو اس کے زندگی کے واقعات میں مجبور نہیں قرار دیا جا سکتا.اور نہ اس معاملہ میں کسی قسم کی علمی الجھن پیدا ہوتی ہے کیونکہ جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں خدا کا علم اس کی تقدیر سے بالکل جدا گانہ چیز ہے.دوسرے یہ کہ اگر بفرض محال یہی سمجھا جائے کہ خدا نے اپنے حکم سے ہر انسان کے لئے موت کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے تو پھر بھی ہمارا فرض ہے کہ ہر بیماری میں خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کے ماتحت علاج کی طرف توجہ دیں.کیونکہ اپنے محدود اور ناقص علم کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ آیا کوئی بیماری موت کا

Page 165

مضامین بشیر جلد سوم 143 پیغام لے کر آتی ہے یا کہ علاج سے ٹل جانے والی ہے.اس ضمن میں وہ تیسری بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ جب انسان پر موت دو طرح سے آتی ہے.ایک گویا غیر طبعی رنگ میں جبکہ ایک اچھا بھلا جسم کسی سخت حادثہ یا سخت بیماری کی چوٹ کھا کر قبل از وقت ٹوٹ جاتا ہے.اور دوسرے طبعی رنگ میں جبکہ انسانی جسم اپنی واجبی عمر پوری کر کے طبعی گھس گھساؤ کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے.تو اول الذکر صورت میں ( یعنی طبعی عمر سے قبل ) تو علاج بہر حال ضروری ہے تاکہ انسانی جسم کو قبل از وقت ٹوٹنے سے بچایا جائے.اور ایک ایسی زندگی کو جود نیا کے لئے مفید ہے یا مفید بن سکتی ہے غیر طبعی رنگ میں ختم ہونے سے روکا جائے.اور دوسری صورت میں بھی بہر حال علاج کی طرف سے غفلت برتنا درست نہیں.کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ کسی انسان کی طبعی عمر کتنی ہے اور یہ کہ اس کے جسم کی مشینری طبعی رنگ میں کب ختم ہونی چاہئے.ممکن ہے کہ ہم ایک اسی سالہ بوڑھے کے متعلق سمجھیں کہ وہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے.لیکن ابھی اس کے قومی میں ایسی رمق باقی ہو کہ مناسب علاج اور مناسب خوراک کے ذریعہ وہ دس بیس سال اور زندہ رہ جائے اور بزرگوں کی خدمت اور ان کی زندگی کو آخر دم تک خوشحال رکھنے کا مقدس فریضہ بہر حال مزید برآں ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اس اہم اور نازک مضمون پر میرا یہ مختصر نوٹ ہمارے معزز دوست کی علمی تسلی کا موجب ہوگا.لیکن اگر انہیں اب بھی پریشانی رہے تو بہتر ہوگا کہ وہ اس مسئلہ کی باریکیوں میں جانے کے بغیر صرف یہ سادہ عقیدہ رکھیں کہ بہر حال دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کے قانون اور حکم کے تابع ہے.اور یہ کہ خواہ کچھ بھی ہو اس کا حکم ہر حال میں دنیا کی مجموعی بہبودی اور خوشحالی کے اصول پر مبنی ہے.بالآخر میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس دوست کا ان کے صدمہ میں حافظ و ناصر ہو.اور اپنی وسیع رحمت سے ان کے دل پر مرہم کا چھا یہ رکھے.اور اس سے بڑھ کر مرہم کا چھا یہ کونسا ہوگا جو ہمارا رحیم وکریم خدا قرآن مجید میں خود بیان فرماتا ہے.وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقره: 156-158) یعنی اے رسول! تو صبر کرنے والے مسلمانوں کو ہماری طرف سے بشارت دے ہاں وہی صابر و شاکر بندے جنہیں اگر ہمارے قانونِ قضا و قدر کے ماتحت کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کے دل و زبان سے اس کے سوا کوئی آواز نہیں اٹھتی کہ ہم سب خدا کے ہیں اور ہم سب بالآخر اسی کی طرف جانے والے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی طرف سے خاص برکتیں اور خاص رحمتیں نازل ہوں گی اور یہی وہ لوگ ہیں جو سید ھے

Page 166

مضامین بشیر جلد سوم 144 ہماری طرف آنے والے ہیں.اس سے بڑھ کر زخمی دل کے لئے کونسی مرہم ہوگی؟ وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 11 (محررہ 27 اکتوبر 1953ء) (روز نامہ المصلح کراچی 3 نومبر 1953 ء) تربیت اولا د کے دس سنہری گر (جیسا کہ احباب الصلح میں پڑھ چکے ہیں.حال ہی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک نہایت قیمتی اور مفید مضمون ”اچھی مائیں اور تربیت اولاد کے دس سنہری گر“ کے عنوان سے بصورت رسالہ شائع ہوا ہے.حضرت میاں صاحب کا نامِ نامی ہی بتا رہا ہے کہ یہ مضمون کس پایہ کا ہوگا.اور پھر تربیت اولاد کے متعلق ہر مومن پر جو نازک ذمہ داری بالخصوص موجودہ زمانہ میں عائد ہوتی ہے اس کے پیش نظر تو یہ مضمون یقینا ہر مسلمان گھرانے میں پڑھے جانے کے قابل ہے.ذیل میں اس رسالہ کا ایک حصہ شائع کیا جاتا ہے.(ادارہ اسح ) جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے.اسلام نے حقوق کے معاملہ میں مرد وعورت کے لئے برابر کا درجہ تسلیم کیا ہے.اور واضح الفاظ میں اعلان فرمایا ہے کہ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ (البقره: 229) یعنی مردوں کے ذمہ عورتوں کے اسی طرح کے حقوق ہیں جس طرح کہ عورتوں کے ذمہ مردوں کے حقوق ہیں.لیکن حقوق کے معاملہ کو چھوڑ کر جہاں تک اولاد کی ابتدائی تربیت کا سوال ہے عورت کو اپنے فطری قومی اور اپنے جنسی حالات کی وجہ سے مرد کی نسبت بہت زیادہ ذمہ داری کا مقام حاصل ہے.بیشک کئی جہات سے مرد کی ذمہ داریاں عورت کی ذمہ داریوں کی نسبت بہت زیادہ بھاری ہیں.لیکن بچوں کی تربیت کا پہلو اتنا نازک اور اتنا اہم ہے اور اس کا اثر بھی اتنا گہرا اور اتنا وسیع ہے کہ جو عورت اس ذمہ داری کو کامیابی کے ساتھ ادا کرتی ہے.اس کا وجود یقیناً قوم کے لئے بہت بڑی عزت اور بہت بڑے فخر کا موجب ہے.اور اس جہت سے ہر قدردان انسان کی عقیدت کے پھول اپنی ماؤں اور بہنوں کے قدموں پر نچھاور ہونے چاہئیں.

Page 167

مضامین بشیر جلد سوم عورت رسول خدا کی محبوب ہستی ہے عورت کے اسی مخصوص مقام کی وجہ سے ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ.145 حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ دُنْيَا كُمُ النِّسَاءُ وَالطَّيبُ وَ جُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوةِ ( مسند احمد بن حنبل کتاب باقی مسند المکثرین باب باقی المسند السابق) یعنی اے لوگو! تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے دو چیزیں مجھے بہت زیادہ محبوب ہیں.ایک عورت اور دوسرے خوشبو.مگر میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے.اپنے آقا کے ان الفاظ پر عورت جس قدر بھی فخر کرے اس کا حق ہے.اور ہم اس فخر میں اس کے ہم نوا ہیں.مگر ظاہر ہے کہ خدا کی ہر نعمت اپنے ساتھ بعض مخصوص ذمہ داریاں بھی لاتی ہے.اور جو عورت نعمت کے پہلو کو تو شوق کے ہاتھوں سے قبول کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ لگی ہوئی ذمہ داریوں کے پہلو کی طرف سے غافل رہتی ہے.وہ خدا کے حضور ہرگز مقبول نہیں ہوسکتی.اور نہ وہ محض نعمت کے پہلو کو حاصل کر کے ملک وقوم کی محسنہ بن سکتی ہے.پس میں اپنے اس مختصر سے نوٹ میں اپنی بہنوں کو ان کی ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اولاد کی تربیت کے تعلق میں ان پر عائد ہوتی ہیں.تا کہ وہ اچھی مائیں بن کر ایک طرف خدا کی نعمت کی قدردان بنیں اور دوسری طرف قوم اور جماعت کی آئندہ نسل کو ترقی کے رستہ پر ڈال کر ملک و قوم کی محسنہ بننے کا شرف بھی حاصل کریں.مسلمان مردوں کو ہمیشہ دیندار عورتوں کے ساتھ شادی کرنی چاہئے اس تعلق میں سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مبارک ارشاد میرے سامنے آتا ہے.جو آپ نے بیوی کے انتخاب کے تعلق میں مردوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں.تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِاَرْبَعِ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظُفُرُ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ( بخاری کتاب النکاح) یعنی بیوی کا انتخاب چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے.بعض لوگ مال و دولت کی بناء پر بیوی کا انتخاب کرتے ہیں.بعض حسب و نسب پر اپنے انتخاب کی بنیادرکھتے ہیں.اور بعض دین اور اخلاق کے پہلوکو مقدم کرتے ہیں.مگر اے مرد مومن ! تو اخلاق اور دین کے پہلو کو مقدم کیا کر ورنہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیں گے.

Page 168

مضامین بشیر جلد سوم 146 اس لطیف حدیث میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف مسلمانوں کے گھروں کی موجودہ خانگی خوشی کی بنیاد قائم فرما دی ہے بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کی بہتری اور بہبودی کے سوال کو بھی ایک ایسے مضبوط اور دائمی کڑے کے ساتھ باندھ دیا ہے جو ٹوٹنے کا نام نہیں جانتا.ظاہر ہے کہ ایک اچھی اور نیک بیوی جو دیندار بھی ہو اور خوش اخلاق بھی ہو ( کیونکہ دین کے لفظ میں دونوں باتیں شامل ہیں ) صرف اپنے خاوند کے لئے ہی خوشی اور راحت کا موجب نہیں ہوگی بلکہ لازماً اپنی اولاد کی تربیت کے حق میں بھی بہت مبارک ثابت ہوگی.اور اس طرح حال اور مستقبل دونوں کی خوشیوں کے مکمل ہونے سے ایسا گھر حقیقتا جنت کا نمونہ بن جائے گا.یہ خیال کرنا کہ اس حدیث میں تو صرف مرد کے لئے حکم ہے کہ وہ دیندار عورت سے شادی کرے اور عورت کے لئے کوئی حکم نہیں.ایک بالکل باطل خیال ہے کیونکہ جب مرد کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ نیک بیوی تلاش کرے تو لازماً اس حکم میں یہ یمنی حکم بھی شامل ہے کہ مسلمان عورتیں بھی نیک اور دیندار بنیں.کیونکہ اگر دنیا میں دیندار عورتیں ہوں گی ہی نہیں تو مردوں کو دیندار بیویاں میسر کیسے آئیں گی؟ پس اس حدیث میں دراصل یہ دُہرا حکم شامل ہے کہ.(1) مسلمان عورتیں دیندار اور با اخلاق بنیں.ورنہ کوئی دیندار مردان کے رشتہ پر راضی نہیں ہوگا.اور نہ ان کی آئندہ نسل دیندار بن سکے گی.(2) مسلمان مردد میندار اور با اخلاق عورتوں کے ساتھ شادی کریں.تا کہ نہ صرف ان کا اپنا گھر جنت کا نمونہ بنے بلکہ ان کی اولاد کے واسطے بھی دائمی جنت کے دروازے کھل جائیں.یہ وہ دہری غرض ہے جس کے ماتحت ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ زریں ارشاد جاری فرمایا ہے.لہذا مردوں اور عورتوں دونوں کو چاہئے کہ اس مبارک ارشاد کو اپنے لئے شمع ہدایت بنا کر دائگی راحت اور دائمی سرور اور دائمی برکت کا ورثہ پانے کی کوشش کریں.نیک ماں نیک اولاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے پس اولاد کی تربیت کے تعلق میں پہلی ہدایت اسلام کی یہ ہے کہ مردد بیندار عورتوں کے ساتھ شادی کریں اور ہر ماں خود دیندار بننے کی کوشش کرے.کیونکہ بے دین ماں دینی تربیت کی اہلیت نہیں رکھتی.بیشک قرآن مجید یہ بھی فرماتا ہے کہ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ (ال عمران (28) یعنی خدامر دوں میں سے زندے پیدا کر دیتا ہے اور زندوں میں سے مُردے پیدا کر دیتا

Page 169

مضامین بشیر جلد سوم 147 ہے اور اس طرح بعض اوقات بُرے ماں باپ کے بچے نیک ہو جاتے ہیں.اور بعض اوقات اچھے ماں باپ کے گھر میں بُرے بچے بھی جنم لے لیتے ہیں.بلکہ خدا تعالیٰ نے ایک طرف مسلمانوں کو ہوشیار کرنے کے لئے اور دوسری طرف انہیں مایوسی سے بچانے کے لئے قرآن مجید میں اس کی بعض مثالیں بھی بیان کی ہیں کہ کس طرح ایک بُرے گھر میں اچھا بچہ پیدا ہو گیا اور ایک اچھے گھر میں بُرا بچہ نکل آیا.مگر عام قاعدہ یہی ہے کہ نیک اولاد پیدا کرنے اور اولاد کو اچھی تربیت دینے کی جو اہلیت ایک نیک ماں رکھتی ہے وہ ہرگز ہرگز ایک بے دین ماں کو حاصل نہیں ہوتی.خاکسار راقم الحروف نے بڑے غور کی نظر سے ہزاروں گھروں کے حالات کو دیکھا ہے.اور گویا ان کے اندرون خانہ میں جھانک جھانک کر تجسس کی نظر دوڑائی ہے مگر میں اس کے سوا کسی اور نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ نیک اولاد پیدا کرنے اور نیک بچے بنانے میں ظاہری اسباب کے ماتحت نوے فی صدی حصہ دیندار ماؤں کا ہوتا ہے.اچھی ماؤں کی نگرانی میں پرورش پانے والے بچے نہ صرف دن رات اپنی ماں کے نیک اعمال (یعنی نماز، روزه، تلاوت قرآن، صدقہ و خیرات، جماعتی کاموں کے لئے چندے، خدا رسول کی محبت.دینی غیرت وغیرہ) کے نظارے دیکھتے ہیں بلکہ جس طرح وہ اپنی ماں کے اعمال کو دیکھتے ہیں اسی طرح ان کی ماں بھی شب و روز ان کے اعمال کو دیکھتی ہے.اور ہر خلاف اخلاق بات اور ہر خلاف شریعت حرکت پر ان کو ٹوکتی اور شفقت و محبت کے الفاظ میں انہیں نصیحت کرتی رہتی ہے.ماں کا یہ فعل جو اس کی اولاد کے لئے ایک دلکش و شیریں اسوہ ہوتا ہے اور ماں کا یہ قول جو اس کے بچوں کے کانوں میں شہد اور تریاق کے قطرے بن کر اُترتا چلا جاتا ہے.ان کے گوشت پوست اور ہڈیوں تک میں سرایت کر کے اور ان کے خون کا حصہ بن کر انہیں گویا ایک نیا جنم دے دیتا ہے.کاش دنیا اس نکتہ کو سمجھ لے.قوموں کے لیڈر اس نکتہ کو سمجھ لیں.خاندانوں کے بانی اس نکتہ کو سمجھ لیں.گھر کا آقا اس نکتہ کو سمجھ لے.بچوں کی ماں اس نکتہ کو سمجھ لے اور کاش بچے ہی اس نکتہ کو سمجھ لیں کہ اولاد کی تربیت کا بہترین فطری آلہ ماں کی گود ہے.پس اے احمدیت کی فضاء میں سانس لینے والی بہنو اور بیٹیو! اور اے آج کی ماؤں اور اے کل کو ماں بننے والی لڑکیو! اگر قوم کو تباہی کے گڑھے سے بچا کر ترقی کی شاہراہ کی طرف لے جانا ہے تو سنو اور یا درکھو کہ اس نسخہ سے بڑھ کرکوئی نسخہ نہیں.کہ اپنی گودوں کو نیکی کا گہوارہ بناؤ.اپنی گودوں میں وہ جو ہر پیدا کرو جو بدی کو مٹا تا اور نیکی کو پروان چڑھاتا ہے.جو شیطان کو دور بھگاتا اور انسان کو رحمن کی طرف کھینچ لاتا ہے.بچہ کی ولادت کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے ماں کی نیکی کے بعد خود اولاد کی تربیت کا سوال پیدا ہوتا ہے.اس ضمن میں سب سے پہلاسوال یہ ہے

Page 170

مضامین بشیر جلد سوم 148 کہ بچے کی تعلیم و تربیت کا زمانہ کس وقت سے شروع ہونا چاہئے.اس معاملہ میں اکثر ماں باپ اس خطرناک غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بچپن تو کھیل کو د اور آزادی اور بے قیدی کا زمانہ ہے.جب بچہ ذرا بڑا ہولے گا تو پھر اس کی تربیت کا وقت آئے گا.یہ نظریہ سخت مہلک اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.ہمارے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے تاکیداً ارشاد فرمایا ہے کہ ایک بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں سب سے پہلی آواز اذان کی پہنچاؤ.کیونکہ اذان کے الفاظ میں نہ صرف اسلام کی تعلیم کا خلاصہ آ جاتا ہے بلکہ اس میں ایک زبر دست دعوت کا رنگ بھی ہے جس میں گویا مخاطب کو آواز دے کر بلایا جاتا ہے.کہ اے سننے والے ادھر کان دھر.اور صلوٰۃ اور فلاح کے رستہ پر قدم زن ہوتا ہوا اس طرف چلا آ.پس رسول اکرم صلے اللہ علیہ والہ وسلم کے اس مبارک ارشاد میں یہ صریح اشارہ ہے کہ بچہ کی تربیت اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جانی چاہئے.یہ خیال کہ شروع میں تو بچہ کچھ سمجھا ہی نہیں بالکل غلط اور باطل ہے.کیونکہ اول تو خواہ وہ الفاظ کو سمجھے یا نہ سمجھے.بہر حال کسی نہ کسی رنگ میں اس کی ولادت کے ساتھ ہی اس کے تاثر و تاثیر کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور دماغ کے غیر شعوری حصہ میں کچھ نہ کچھ نقش جمنے لگ جاتے ہیں.علاوہ ازیں اس ہدایت میں والدین کے لئے بھی یہ سبق ہے کہ خواہ تمہارے خیال میں بچہ کا یہ زمانہ غیر شعوری زمانہ ہی ہو.تمہیں ابھی سے اس کی تربیت کی فکر کرنی چاہئے.کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس کے شعور کا زمانہ کب شروع ہوتا ہے.پس ممکن ہے کہ تم اسے ایک گم صم بت سمجھ کر نظر انداز کر دو اور وہ اندر ہی اندر ماحول کا بُرا اثر قبول کر کے خراب ہونا شروع ہو جائے.بہر حال اسلامی تعلیم کے مطابق بچوں کی تربیت کا زمانہ ان کی ولادت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے.اور وہ ماں باپ بڑے ہی بد قسمت ہیں جو اپنے بچہ کے چند ابتدائی سال اس غفلت میں گزار دیتے ہیں کہ ابھی وہ تربیت کے قابل نہیں ہوا.بچے کی آنکھوں کے سامنے زہر آلود اور حیا سوز نظارے آتے ہیں.اور نادانی سے خیال کیا جاتا ہے کہ ابھی بچہ ان باتوں کا شعور نہیں رکھتا.بچہ کے کانوں میں خلاف اخلاق اور خلاف شریعت با تیں پہنچتی ہیں.اور بے وقوفی سے فرض کر لیا جاتا ہے کہ بچہ ابھی ان باتوں کو نہیں سمجھتا.اور نہیں جانتا اور اس سارے عرصہ میں ایک زہری فصل کا بیچ بچہ کے دل و دماغ میں بویا جارہا ہوتا ہے.بیشک بچہ بسا اوقات اس بیج کی مسمومیت کو نہیں پہچانتا.مگر زہر پھر بھی زہر ہے.اور اندر ہی اندر اپنا کام کرتا چلا جاتا ہے.پس اولاد کی تربیت کا دوسرا سبق یہ ہے کہ ان کی ولادت کے ساتھ ہی ان کی تربیت کا خیال شروع کر دو.اور خواہ وہ بظاہر تمہاری بات سمجھیں یا نہ سمجھیں تم یہی سمجھو کہ وہ تمہارے ہر فعل کو دیکھ رہے اور ہر قول کوسن

Page 171

مضامین بشیر جلد سوم 149 رہے ہیں.یہ ایک نہایت لطیف نفسیاتی نکتہ ہے جو ہماری شریعت نے ہمیں سکھایا ہے.اور ہر مسلمان باپ اور ہر مسلمان ماں کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے متعلق اپنے تربیتی پروگرام کو اس نکتہ کی روشنی میں مرتب کرے.دیکھو یہ ایک بہت موٹی سی بات ہے کہ جس مذہب نے یہ تعلیم دی ہے کہ خاوند اور بیوی بچہ کی ولادت سے بھی پہلے آپس میں ملتے ہوئے اپنے ہونے والے بچہ کے متعلق شیطان سے دور رہنے اور خدا کی پناہ میں آنے کی دعا مانگیں.کیا وہ بچہ کی ولادت کے بعد اسے کئی سال تک تربیت اور اخلاقی نگرانی کے بغیر رہنے دے گا.هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تَصِفُونَ - قرآن ایمانی اور عملی تربیت کا مکمل ضابطہ ہے اس کے بعد بچہ کی بلا واسطہ تربیت کا زمانہ شروع ہوتا ہے.اس کے متعلق یہ سوال کہ بچے کو کیا تربیت دی جائے ایک مسلمان کے لئے طے شدہ سوال ہے.ہماری ساری تربیت اخلاقی اور روحانی بلکہ ایک حد تک جسمانی اور مالی کا بھی مکمل ضابطہ قرآن شریف میں موجود ہے.جس کی عملی تفسیر رسول خدا کی سنت اور قولی تشریح احادیث صحیحہ ہیں اور اسی ضابطہ کے احیاء اور تجدید کے لئے ہماری جماعت کے مقدس امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے.پس ہمارے لائحہ عمل کا تو کوئی سوال نہیں.وہ پہلے سے موجود ہے اور اپنے ساتھ ابدی زندگی کی اجارہ داری لے کر آیا ہے.یہ وہی ضابطہ ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق بیان کرتے ہوئے ہماری مادر مشفق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ خُلُقُ كُلُّهُ القُرآن یعنی آپ کا تمام خلق قرآن تھا اور آپ قرآنی تعلیم کی مجسم تصویر بن کر آئے تھے.اور اسی کے پیش نظر خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:22) یعنی اے مسلمانو! تمہارے لئے رسول خدا کی زندگی میں ایک مکمل نمونہ موجود ہے.پس تربیت کے ضابطہ کی تلاش کا تو کوئی سوال نہیں.ہاں یہ سوال ضرور ہے کہ بچوں کی تربیت سے تعلق رکھنے والی بہت سی باتوں میں سے کن باتوں کو مقدم کیا جائے.سو اس کے متعلق میں اپنے اس مختصر مضمون میں صرف ایک قرآنی آیت اور ایک حدیث پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں.کیونکہ اس سے زیادہ اس مضمون میں گنجائش نہیں.قرآن مجید کے بالکل شروع میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُدًى لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنفِقُونَ (البقره: 4-5)

Page 172

مضامین بشیر جلد سوم 150 یعنی یہ قرآن متقیوں کے لئے ہدایت نامہ بن کر آیا ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو با قاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس سے ( ہمارے رستہ میں ) خرچ کرتے ہیں.یہ لطیف قرآنی آیت جو قرآن مجید کے بالکل شروع میں آتی ہے.اسلامی تعلیم کا ایک ایسا خلاصہ پیش کرتی ہے جس سے بہتر خلاصہ تصور میں نہیں آ سکتا.ظاہر ہے کہ دین تین حصوں میں تقسیم شدہ ہے.اول ایمان کا حصہ جو زبان کی شہادت اور دل کی تصدیق سے تعلق رکھتا ہے.اور دوسرے عمل کا حصہ جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی دو شاخوں میں منقسم ہے.یعنی بعض حقوق خدا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور بعض بندوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.یہ قرآنی آیت ان تینوں حصوں یعنی ایمان باللہ اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق اسلامی تعلیم کا مرکزی نقطہ پیش کرتی ہے.اور اسے قرآن شریف کے شروع میں رکھ کر اس کی اہمیت اور فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایمانی تربیت کا مرکزی نقطہ ایمان کے متعلق یہ آیت بیان کرتی ہے کہ ایمانیات کی بنیاد غیب پر ہے.یعنی بعض ایسی نہ نظر آنے والی چیزوں پر ایمان لانا جو انسان کے اخلاق اور روحانیت کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں.یہ چیز اسلام کی تعلیم کے مطابق خدا اور اس کے فرشتے اور اس کی کتابیں اور اس کے رسول اور یوم جزا و سزا اور تقدیر خیر وشر ہیں.ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان سب چیزوں پر جو جسم کی آنکھوں سے تو نظر نہیں آتیں مگر دل اور دماغ کی روشنی سے دیکھی جاتی ہیں ایمان لائے.کیونکہ ان پر ایمان لانے کے بغیر انسان کے دین کی عمارت اور انسان کے عمل صالح کی بنیاد مکمل نہیں ہو سکتی.پس احمدی ماؤں کا پہلا فرض اپنی اولاد کو اس بنیادی ایمان پر قائم کرنا ہے.ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات راسخ ہونی چاہئے کہ میرا ایک خدا ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور جو میرا حاکم و مالک ہے.اور مجھے اس کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرنا چاہئے.ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات راسخ ہونی چاہئے کہ دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے خدا نے فرشتے بنائے ہیں.جو بظاہر نظر نہ آنے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں نیکیوں کی تحریک کرتے اور بدیوں سے روکتے ہیں.ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات راسخ ہونی چاہئے کہ خدا نے دنیا میں وقتا فوقتا لوگوں کی ہدایت کے لئے مختلف کتابیں نازل کی ہیں.اور ان سب میں سے آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن مجید ہے.جس پر عمل کرنے کے بغیر انسان نجات نہیں پا سکتا.ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات راسخ ہونی چاہئے کہ لوگوں کو پیغام ہدایت پہنچانے اور ان کے لئے

Page 173

مضامین بشیر جلد سوم 151 پاک نمونہ بننے کے لئے خدا ہر زمانہ میں اپنے رسول بھیجتا رہا ہے.اور ان میں سے آخری صاحب شریعت رسول، محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ہیں.جو تمام نبیوں کے سردار اور خاتم النبین اور افضل الرسل ہیں.جن کے دین کی خدمت اور تجدید کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا ہے.ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات راسخ ہونی چاہئے کہ موت کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے جس میں جزا سزا کی تیاری کے لئے انسان کو اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا پڑے گا.اور بالآخر ہر احمدی بچے کے دل میں یہ بات بھی راسخ ہونی چاہئے کہ روحانی ہدایت ناموں کے علاوہ دنیا کا مادی کارخانہ بھی خدا ہی کے بنائے ہوئے قانونِ قضاء و قدر کے ماتحت چل رہا ہے خواہ وہ قانون خیر سے تعلق رکھتا ہے یا کہ شر سے.یہ سب باتیں ہر احمدی بچے کے دل میں بچپن سے ہی اس طرح راسخ ہونی چاہئیں کہ بعد کی زندگی کا کوئی طوفان خواہ وہ کتنا ہی خطرناک ہوا سے اس عقیدہ سے متزلزل نہ کر سکے.اور احمدی بچوں کے دلوں میں حسن قول اور حسن فعل کے ذریعہ یہ ایمان پیدا کرنا احمدی ماؤں کا کام ہے.اگر پانی جیسی سیال چیز قطرہ قطرہ گر کر پتھر جیسی سخت چیز میں دائمی نقش پیدا کر سکتی ہے.تو ماں کی شب وروز کی نصیحت بچوں کے دلوں میں کیوں یہ غیر فانی ایمان پیدا نہیں کر سکتی ؟ مگر آجا کے بات وہیں آجاتی ہے کہ ماں خود نیک اور دیندار ہو.ہمارے رسول سپر خدا کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں.آپ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ.عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ( بخاری کتاب النکاح) یعنی اے مسلمان مرد! تیرا فرض ہے کہ دیندار با اخلاق بیوی سے شادی کرور نہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلو در ہیں گے.عمل کے میدان میں دو بنیادی نیکیاں ایمان کے بعد اعمال کا مرحلہ ہے.جن میں سے اوپر کی آیت میں دو بنیادی عملوں کو منتخب کیا گیا ہے.ان میں ایک نماز ہے.اور دوسرے انفاق فی سبیل اللہ ( یعنی خدا کے رستہ میں خرچ کرنا) ہے اور حق یہ ہے کہ یہ دو عمل حقیقتاً اسلام کی جان ہیں.اور باقی سب اعمال انہی دو عملوں کی شاخیں اور انہی دو نہروں کے راجبا ہے ہیں.نماز خدا کا حق ہے جو خدا کے ساتھ بندے کا ذاتی تعلق قائم کرا تا اور اس کے عظیم الشان پاور اسٹیشن کے ساتھ بندے کے دل کی تاروں کا جوڑ ملا کر اس کے سینہ میں ایک دائمی شمع روشن کر دیتا ہے.اور دوسری طرف انفاق فی سبیل اللہ بندوں کا حق ہے جس کے ذریعہ نہ صرف جماعت اور قوم کے مشترکہ

Page 174

مضامین بشیر جلد سوم 152 کاموں یعنی تبلیغ اور تعلیم وغیرہ کا بوجھ اٹھایا جاتا ہے بلکہ امیروں کی دولت کا ایک حصہ کاٹ کر غریبوں کی حالت کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے.اور اگر غور کیا جائے تو یہی دو باتیں یعنی نماز اور انفاق فی سبیل اللہ ساری اسلامی تعلیم کا خلاصہ ہیں.خدا سے ذاتی تعلق پیدا کرو اور جماعتی کاموں میں حصہ لو.دل میں خدا کی محبت کی لو لگاؤ.اور خدا کے دیئے ہوئے رزق میں سے قوم کا اور اپنے غریب بھائیوں کا حصہ نکالو.پھر مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ( یعنی نیک لوگ ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں) کے الفاظ میں یہ اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ صرف اپنے مال میں سے خرچ کرنے کی طرف دھیان نہ رکھو.بلکہ ہر وہ چیز جو تمہیں خدا کی طرف سے رزق کے طور پر ملی ہے اس میں سے خدا کا اور بندوں کا حق ادا کرو.اب دیکھو کہ جس طرح مال خدا کا رزق ہے اسی طرح انسان کے قومی بھی خدا کا رزق ہیں.انسان کے اوقات بھی خدا کا رزق ہیں اور انسان کا علم بھی خدا کا رزق ہے.پس مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ کی ہدایت کا تقاضا ہے کہ ان تمام قسم کے رزقوں میں سے خدا کا اور اس کے بندوں کا حصہ نکالا جائے.مال میں سے زکوۃ اور صدقہ اور چندہ دیا جائے.دل و دماغ کی طاقتوں کے ذریعہ ملک وقوم کی خدمت کی جائے.وقت کا کچھ حصہ دینی اور جماعتی کاموں میں لگایا جائے اور خدا کے دیئے ہوئے علم سے دنیا کو فائدہ پہنچایا جائے.نماز اور خدا کے رستہ میں خرچ کرنا پس ایمان قائم کرنے کے بعد ماؤں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں میں یہ دو بنیادی نیکیاں راسخ کرنے کی کوشش کریں.یعنی ایک تو ان کے دل میں بچپن سے ہی نماز کا شوق پیدا کریں.اور اس کا عادی بنائیں.اور دوسرے بچوں میں یہ عادت پیدا کریں کہ وہ جماعتی کاموں میں حصہ لیں اور کچھ نہ کچھ رقم خواہ وہ کتنی ہی قلیل ہوا اپنے ہاتھ سے چندہ کے طور پر دیا کریں.نماز پڑھتے ہوئے ان کے دل میں یہ احساس ہو اور اس احساس کا پیدا کرنا ماؤں کا کام ہے) کہ ہم خدا کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیں.وہ ہمیں دیکھ رہا ہے.اور ہم اسے دیکھ رہے ہیں.اور چندہ دیتے ہوئے وہ یہ محسوس کریں کہ ہم اپنی قوم اور جماعت کا بوجھ بٹا رہے ہیں.اگر یہ دو ظاہری عمل اور یہ دو باطنی جذ بے احمدی ماؤں کے ذریعہ احمدی بچوں میں قائم ہو جائیں تو خدا کے فضل سے ہماری جماعت کا مستقبل محفوظ ہے.اسی لئے قرآن مجید نے اس حکم کو اپنے بالکل شروع میں بیان کیا ہے.تا اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ یہ دو عمل اسلام کی جان ہیں.جن سے مسلمان بچوں کی

Page 175

مضامین بشیر جلد سوم 153 تربیت کا آغاز ہونا چاہئے.ہر احمدی بچہ نماز کا پابند اور اس کا شائق ہو.اور ہر احمدی بچہ اپنے آپ کو ایک خدائی جماعت کا فرد سمجھتے ہوئے اس کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی تڑپ رکھے.یہ وہ دوز بر دست کھونٹے ہیں جن کے ساتھ بندھ کر ہر بچہ تمام قسم کے خطرات سے محفوظ ہو جاتا ہے.اس کی ایک تار خدا سے ملتی ہے جو ایک نہ ٹوٹنے والا دائمی سہارا ہے.اور اس کی دوسری تار جماعت سے ملتی ہے جو اس کے لئے ایک آہنی قلعہ سے کم نہیں.پس اے احمدی ماؤں ! اے اسلام کی بیٹیو! آج سے اس بات کا عہد کرو کہ تم نے اپنے بچوں میں یہ دو نیکیاں بہر حال پیدا کرنی ہیں.تم نے انہیں نماز اور دعاؤں کا پابند بنانا ہے اور ان میں ایک خدائی جماعت کا فرد ہونے اور اس کے لئے وقت اور مال کی قربانی کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے.دیکھو ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ضمانت دی تھی مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس کی قدر نہیں کی.آپ نے فرمایا تھا کہ جو مسلمان مجھے اپنے دو عضووں کی ذمہ داری دے (وہ اک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا ) تو میں ایسے مسلمان کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں.مگر یہاں تمہارے آقا کا بھی آقاد نیا کا واحد خالق و مالک خدا جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کے خزانوں کی کنجیاں ہیں ایک ابدی ضمانت دیتا ہے اسے تو قبول کرو.فرماتا ہے.يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4) أولئِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.(البقره: 6) یعنی جو لوگ نماز کو قائم کرتے اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں وہی ہماری طرف سے ہدایت یافتہ ہیں.اور یقیناً وہی بالآخر بامراد ہوں گے.اے احمدی ماؤں ! یہ وہ تعویذ ہے جو تمہارے بچوں کی دائمی حفاظت کے لئے زمین و آسمان کا خدا پیش کرتا ہے.اسے شوق کے ہاتھوں سے قبول کرو کہ اس سے زیادہ پختہ اور اس سے زیادہ ستا سودا تمہیں کہیں نہیں ملے گا.یہ تعویذ کیا ہے؟ نماز اور خدا کے راستہ میں خرچ کرنا.تین سب سے بڑے گناہ دین کی بنیاد کو اوپر کی تعلیم کے ذریعہ پختہ کرنے کے بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ والہ وسلم ایک ایسی ہدایت فرماتے ہیں جس کی تہہ میں گو یا اصلاح نفس کے تمام فلسفہ کی کنجی ہے.فرماتے ہیں :.أَلَا أُنَبتَكُم بِأكْبَرِ الْكَبَائِرِ ثَلَاثًا - قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ - قَالَ الْإِشْرَاكُ بِاللهِ وَ

Page 176

مضامین بشیر جلد سوم 154 عَقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَ كَانَ مُتَّكِبًا فَجَلَسَ فَقَالَ أَلَا وَ قَوْلَ النُّورِ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ - ( بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین) یعنی کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں پر مطلع نہ کروں؟ اور آپ نے یہ الفاظ تین دفعہ فرمائے.صحابہ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ.آپ ضرور ہمیں مطلع فرمائیں.آپ نے فرمایا.تو پھر سنو کہ سب سے بڑا گناہ خدا کا شرک کرنا ہے.اور اس کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی خدمت سے غفلت برتنا ہے.اور پھر (اور یہ کہتے ہوئے آپ تکیہ کا سہارا چھوڑ کر اٹھ بیٹھے اور جوش کے ساتھ فرمایا کہ پھر ) جھوٹ بولنا سب سے بڑا گناہ ہے.اور آپ نے یہ الفاظ اتنی دفعہ دہرائے کہ راوی بیان کرتا ہے کہ ہم نے آپ کی تکلیف کا خیال کر کے دل میں کہا کہ کاش اب آپ خاموش ہو جائیں اور زیادہ تکلیف نہ فرمائیں.ظاہری اور باطنی شرک یہ لطیف حدیث تین ایسی اصولی ہدایتوں پر مشتمل ہے جو بچوں کی تربیت میں عظیم الشان اثر رکھتی ہیں.پہلی بات شرک ہے.یعنی خدا کی ذات یا صفات میں اس کا کوئی شریک یا برابر ٹھہرانا.خوش قسمتی سے اس زمانہ میں بیٹوں اور دیوتاؤں کے سامنے سر جھکانے والا شرک تو اسلامی توحید کے اثر کے ماتحت دنیا سے آہستہ آہستہ مٹ رہا ہے.لیکن بدقسمتی سے شرک کی ایک مخفی قسم ایسی ہے جس میں بہت سے مسلمان بھی مبتلا ہیں.مخفی شرک سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی ایسی عزت کی جائے جوصرف خدا کی کرنی چاہئے.یا کسی چیز کے ساتھ ایسی محبت رکھی جائے جو صرف خدا کے ساتھ رکھنی چاہئے.یا کسی چیز پر ایسا بھروسہ کیا جائے جوصرف خدا پر ہونا چاہئے.اسلام دین ودنیا کے مختلف کاموں کے لئے ظاہری تدبیروں کے اختیار کرنے سے ہرگز نہیں روکتا.بلکہ ان کی ہدایت فرماتا ہے مگر ان پر بھروسہ کرنے اور انہیں ہی کامیابی کا آخری سہارا سمجھنے سے ضرور روکتا ہے اور بڑی سختی سے روکتا ہے.پس احمدی ماؤں کا ، ہاں نیک اور دیندار ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دلوں سے اس مخفی شرک کو جو اس زمانہ میں لا تعداد روحوں کو تباہ کر رہا ہے بیخ و بن سے نکال کر پھینک دیں.اور انہیں ہر حال میں مادی تدبیریں اختیار کرنے کے باوجود خدا کی طرف دیکھنے اور خدا پر بھروسہ کرنے کی تعلیم دیں.خاکسار راقم الحروف نے ایسی نیک مائیں دیکھی ہیں ( اور کاش کہ سب مائیں ایسی ہی ہوں ) کہ وہ ایک طرف اپنے بیمار بچے کو دوا دے رہی ہوتی ہیں اور دوسری طرف اسے تھپک تھپک کر سمجھاتی جاتی ہیں کہ بچے یہ دوائی پی لو.خدا کا حکم ہے.اس

Page 177

مضامین بشیر جلد سوم 155 لئے پی لو.مگر شفا دینے والا صرف خدا ہے.اس لئے دوائی بھی پیو اور خدا سے دعا بھی مانگو کہ وہ تمہیں اچھا کر دے.ان کے بچے کا امتحان سر پر ہوتا ہے وہ اسے محبت کے ساتھ سمجھاتی ہیں کہ برخوردار وقت ضائع نہ کر اور کتا ہیں پڑھو مگر ساتھ ہی یہ الفاظ بھی کہتی جاتی ہیں کہ دیکھونا ! پاس تو تم نے صرف خدا کے فضل سے ہی ہونا ہے.مگر یہ اسباب کا سلسلہ بھی تو خدا کا ہی پیدا کیا ہوا ہے.اس لئے پڑھائی بھی کرو اور خدا کا فضل بھی مانگو.یہ وہ نونہال ہیں جن کے دلوں میں بچپن سے ہی سچی توحید کی بنیاد قائم ہوتی ہے اور بعد کا کوئی طوفان اسے مٹا نہیں سکتا.ماں باپ کی خدمت سے کوتا ہی کرنا دوسری ہدایت اس حدیث میں ماں باپ کی خدمت سے غفلت برتنے کے متعلق ہے جسے اسلام میں گویا شرک کے بعد دوسرے نمبر کا گناہ قرار دیا گیا ہے.اور یا درکھنا چاہئے کہ عُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ سے ماں باپ کی نافرمانی ہی مراد نہیں بلکہ ان کا واجبی ادب نہ کرنا اور ان کی خدمت کی طرف سے غفلت برتنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ اس جگہ ماں باپ کا لفظ بھی دراصل مثال کے طور پر رکھا گیا ہے.ور نہ جیسا کہ دوسری حدیثوں میں صراحت کی گئی ہے مراد یہ ہے کہ علی قدر مراتب سب بزرگوں کا ادب اور احترام ملحوظ رکھنا چاہئے.جن میں یقیناً والدین کو خاص مقام حاصل ہے.پس نیک ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بچپن سے ہی نہ صرف ماں باپ کا بلکہ سارے بزرگوں کا ادب کرنا سکھائیں.دادا، دادی ، چا، چی ، پھوپھا، پھوپھی ، خالہ، خالو، نانا، نانی، ماموں، ہمانی، بڑا بھائی ، بڑی بہن، ہمسایہ کے بزرگ ، قوم کے بزرگ ، ملک کے بزرگ، ہر ایک کا ادب ملحوظ رکھنا اور ان سب سے عزت کے ساتھ پیش آنا اسلامی اخلاق کی جان ہے.اور احمدی ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں میں اس خلق کو راسخ کرنے کی کوشش کریں.یہ مقولہ کتنی گہری صداقت پر مبنی ہے کہ الطَّريقَةُ كُلُّهَا اَدَب یعنی دین کا رستہ سب کا سب ادب کے میدان میں سے ہوکر گزرتا ہے.اور حق یہ ہے کہ ادب اصلاح نفس کا بھی بھاری ذریعہ ہے کیونکہ جو بچے بزرگوں کا ادب کرتے ہیں وہی ان کی نصیحتوں کو سنتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں.پس خوش قسمت ہیں وہ مائیں جو اپنے بچوں کے اندرادب کا سلیقہ قائم کرنے میں کامیاب ہوں.کیونکہ صرف اس قدم سے ہی ان کے تربیتی سفر کا تیسرا حصہ کٹ جاتا ہے.

Page 178

مضامین بشیر جلد سوم جھوٹ بولنا 156 تیسری بات اس حدیث میں جھوٹ بولنا بیان کی گئی ہے.جسے اسلام نے گویا تیسرے نمبر کا گناہ شمار کیا ہے.ہمارے آقا آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھوٹ سے اس قدر نفرت تھی اور آپ کے دل میں مسلمانوں کے اندر صداقت اور راست گفتاری کی عادت پیدا کرنے کا اتنا جوش تھا.جیسا کہ اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے.آپ جھوٹ کے خلاف نصیحت فرماتے ہوئے جوش کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گئے.اور بار بار یہ الفاظ دہرائے کہ.أَلَا وَ قَوْلَ النُّورِ اَلَا وَ قَوْلَ النُّورِ یعنی کان کھول کر سن لو.ہاں پھر کان کھول کر سن لو کہ اسلام میں شرک اور عقوق الوالدین سے اُتر کر سب سے بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے.دراصل جھوٹ صرف اپنی ذات میں ہی ایک نہایت ذلیل قسم کا گناہ نہیں ہے بلکہ دوسرے گناہوں کے پیدا کرنے اور ان پر پردہ ڈالنے کی ایک گندی مشینری بھی ہے.جو لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں وہ فوراً جھوٹ بول کر اپنے گناہوں کو چھپا جاتے ہیں.اور اس طرح انہیں آئندہ گناہ کرنے کے لئے مزید دلیری پیدا ہوتی ہے اور گناہ کا ایک ایسا نا پاک چکر قائم ہو جاتا ہے کہ اس میں پھنس کر کوئی شخص باہر نہیں نکل سکتا.اسی لئے ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک دفعہ رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میں کمزور ہوں اور یک لخت سارے گناہوں پر غلبہ پانے کی طاقت نہیں رکھتا.آپ مجھے فی الحال کوئی ایک گناہ ایسا بتا دیں جسے میں فوراً چھوڑ دوں.آپ نے بے ساختہ فرمایا.جھوٹ چھوڑ دو.اور چونکہ اس کے بعد وہ اپنے گناہوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا تھا اس لئے اس زریں ارشاد کی برکت سے وہ شخص گویا ایک ہی قدم میں سارے گناہوں پر غلبہ پا گیا.پس احمدی ماؤں کا یہ ایک مقدس فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں میں جھوٹ سے ایسی نفرت پیدا کریں کہ خواہ کتنا ہی نقصان ہو یا کتنا ہی لالچ دیا جائے ان کے بچے ہمیشہ ایک مضبوط چٹان کی طرح بیچ پر قائم رہیں.یہ ایک ایسا بنیادی خُلق ہے جو بچے کے کیریکٹر کو چار چاند لگا دیتا ہے اور سچ بولنے والے بچے کا سر بھی نیچا نہیں ہوتا.بلکہ ہر موقع پر اور ہر مجلس میں بلند رہتا ہے.حق یہ ہے کہ احمدیت اور سچ بولنا ہم معنی الفاظ ہونے چاہئیں اور ایک شخص کا احمدی ہونا اس بات کی ضمانت سمجھی جانی چاہئے کہ وہ خود مٹ جائے گا.اپنے جان و مال کو مٹا دے گا.اپنے اہل وعیال سے دستکش ہو جائے گا مگر جھوٹ کا کلمہ کبھی زبان پر نہیں لائے گا.کاش ایسا ہی ہو اور کاش احمدیت اور صداقت ہماری لغت

Page 179

مضامین بشیر جلد سوم میں مترادف الفاظ بن جائیں.اولاد کے لئے ماں باپ کی دعائیں 157 یہاں تک میں نے صرف ظاہری اسباب کے لحاظ سے اسلامی تربیت کا خلاصہ پیش کیا لیکن چونکہ ہر ظاہری نظام کے مقابلہ پر ایک باطنی اور روحانی نظام بھی ہوتا ہے.اس لئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کمال شفقت سے اس باطنی اور روحانی نظام کی طرف بھی اپنی امت کو توجہ دلائی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.ثَلَاثُ دَعْوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكٍّ فِيهِنَّ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ وَ دَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَ دَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلِدِه ( مسند احمد بن حنبل کتاب باقی مسند المکثرین باب باقی المسند السابق) یعنی تین دعائیں خدا کے فضل سے ضرور قبول ہوتی ہیں.اول مظلوم کی دعا جو اپنے ظلموں سے تنگ آکر خدا کو پکارتا ہے دوسرے مسافر کی دعا جو وہ سفر کی پریشانیوں اور کوفتوں میں گھرے ہوئے خدا کے حضور کرتا ہے.اور تیسرے ماں باپ کی دعا جو وہ اپنے بچوں کی بہتری کے لئے تڑپ تڑپ کر کرتے ہیں.حق یہ ہے کہ ماں باپ کی دعا اولاد کے حق میں اکسیر کا رنگ رکھتی ہے.کیونکہ دعا کی قبولیت کے لئے جس قسم کے قلبی جذبہ اور ذہنی کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ماں باپ کی دعا میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں.پس تربیت کے ظاہری اسباب کو اختیار کرنے کے علاوہ اسلام یہ زریں ہدایت بھی فرماتا ہے کہ ماں باپ کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے لئے ہر وقت دعا میں لگے رہیں.اور ان کے لئے خدا کے آستانہ پر گرے رہ کر دین ودنیا کی حسنات کے طالب ہوں.میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دیندار ماں اپنی اولاد کے لئے دعا مانگنے میں غفلت سے کام لیتی ہو.لیکن اگر کوئی ماں ایسی ہے تو اس سے بڑھ کر شقاوت اور محرومی میرے خیال میں نہیں آسکتی.کاش احمدی ما ئیں دعا کی قدر اور دعا کی طاقت کو پہچانیں.اور اس روحانی نسخہ کے ذریعہ اپنے بچوں کی دین و دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کریں.یہ نسخہ بہت مجرب اور بہت پرانا ہے.اور سارے نبیوں اور سارے ولیوں کا آزمایا ہوا ہے.پس ھے اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما تربیت اولاد کے دس سنہری گر خلاصہ کلام یہ کہ بچوں کی صحیح تربیت کے لئے اسلام مندرجہ ذیل بنیادی باتوں کا تاکیدی حکم دیتا ہے.

Page 180

مضامین بشیر جلد سوم 158 (اول) مسلمان مرد دیندار اور با اخلاق بیویوں کے ساتھ شادیاں کریں.تاکہ نہ صرف ان کا گھران کی اپنی زندگی میں جنت کا نمونہ بنے بلکہ اولاد کے لئے بھی نیک تربیت اور نیک نمونہ میسر آنے سے دائمی برکت کا دور قائم ہو جائے.( دوم ) ہر عورت خود بھی دیندار بنے اور دین کا علم سیکھے اور پھر دین کے احکام کے مطابق اپنا عمل بنائے.تا کہ وہ گھر کی چار دیواری میں دین کا چر چار کھنے، دین کی تعلیم دینے اور دین کے مطابق عملی نمونہ پیش کرنے کے ذریعہ اپنے بچوں کی زندگیوں کو بچپن سے ہی دینداری اور نیکی کے رستہ پر ڈال سکے.اچھی اولاد کے لئے اچھی ماں کا وجود ایک بالکل بنیادی چیز ہے.اور اکسیر کا حکم رکھتی ہے.کاش دنیا اس حقیقت کو سمجھے.(سوم) بچوں کی تربیت کا آغاز اس کی ولادت کے ساتھ ہی ہو جانا چاہئے.اور خواہ وہ بظاہر ماں باپ کی بات سمجھیں یا نہ سمجھیں.بلکہ خود وہ بظاہر اپنی آنکھیں اور کان استعمال کر سکیں یا نہ کرسکیں.ماں باپ کو یہی سمجھنا چاہئے کہ وہ ہمارے ہر فعل کو دیکھ رہے ہیں اور ہمارے ہر قول کو سن رہے ہیں.اسلام نے بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان دلا کر اسی نفسیاتی نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے.(چہارم ) ماؤں کا فرض ہے کہ بچپن میں ہی اپنے بچوں کے دلوں میں ایمان بالغیب کا تصور راسخ کر دیں.اور ان کی طبیعت میں یہ بات پختہ طور پر جما دیں کہ اس دنیائے مشہود میں روحانی اور مادی نظام کی حقیقی تاریں ایک پردہ غیب کے پیچھے سے کھینچی جارہی ہیں.جس کا مرکزی نقطہ خدا ہے.اور باقی ارکان ،فرشتے اور کتا بیں اور رسول اور یوم آخر تقدیر خیر وشر ہیں.جس شخص نے اس نکتہ کو پالیا اس کے لئے فلسفہ موت وحیات ایک کھلا ہوا منشور بن کر سامنے آجاتا ہے.( پنجم ) ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بچپن سے ہی نماز کا پابند بنائیں.کیونکہ عمل کی زندگی میں نماز خالق اور مخلوق کے درمیان کی وہ کڑی ہے جس سے دل کا چراغ روشن رہتا ہے اور انسان گویا روحانیت کی مخفی تاروں کے ذریعہ خدا کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے.جس ماں نے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنادیا اور ان کے دل میں نماز کا شوق پیدا کر دیا اس نے اس کے دین کو ایک ایسے کڑے کے ساتھ باندھ دیا جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا.ایسے بچے خدا کی گود میں ہوتے ہیں اور ان کی مائیں خدا کے دائی سایہ کے نیچے عمل کے میدان میں یہ بچوں کا سبق نمبر 1 ہے.اور نتائج کے لحاظ سے پوری کتاب درس.(ششم) ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں میں بچپن سے ہی انفاق فی سبیل اللہ اور دین کے لئے خرچ کرنے کی عادت ڈالیں.اور ان میں یہ احساس پیدا کریں کہ ہر چیز جو انہیں خدا کی طرف سے ملی ہے خواہ وہ

Page 181

مضامین بشیر جلد سوم 159 مال ہے یا دل و دماغ کی طاقتیں ہیں یا علم ہے.یا اوقات زندگی ہیں.ان سب میں سے خدا اور جماعت کا حصہ نکالیں.اور خصوصاً انہیں بچپن میں ہی اپنے ہاتھ سے چندہ دینے اور غریبوں کی مدد کرنے اور جماعتی کاموں میں اپنے وقت کا حصہ خرچ کرنے کا عادی بنائیں.یہ حکم نماز کے بعد اسلام کا دوسرا ستون ہے اور اس کے بغیر کوئی شخص حکومت الہی کی لڑی میں پر دیا نہیں جاسکتا.(ہفتم) ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو ہمیشہ شرک خفی کے گڑھے میں گرنے سے ہوشیار رکھیں.دنیا کی ظاہری تدبیروں کو اختیار کرنے کے باوجود ان کا دل ہر وقت اس زندہ ایمان سے معمور رہنا چاہئے کہ ساری تدبیروں کے پیچھے خدا کا ہاتھ کام کرتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے ( ہشتم ) بچوں کو ماں باپ اور دوسرے بزرگوں کا ادب سکھایا جائے.خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار اور ہمسایہ ہوں یا اجنبی.ادب اسلامی طریقت کی جان ہے.اور پھر بچوں کے اندر خصوصیت سے والدین کی اطاعت اور خدمت اور احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے.اس کی طرف سے غفلت برتنے کو ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم نے اسلام میں گناہ نمبر 2 شمار کیا ہے.(نہم ) ہر احمدی ماں کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں میں سچ بولنے کی عادت پیدا کرے.صداقت تمام نیکیوں کا منبع اور جھوٹ تمام بدیوں کا مولد ہے.سچ بولنے والا بچہ خدا کا پیارا اور قوم کی زینت اور خاندان کا فخر ہوتا ہے.اور قول زُور سے بڑھ کر اخلاق میں پستی پیدا کرنے والی اور بدی کے ناپاک انڈوں کو سینے والی کوئی چیز نہیں.(دہم) ماں باپ کا فرض ہے کہ ہمیشہ اپنی اولاد کے لئے خدا کے حضور دعا کریں کہ وہ انہیں نیکی کے رستہ پر قائم رکھے.اور دین و دنیا میں ترقی عطا کرے اور ان کا حافظ و ناصر ہو.یہ وہ دس بنیادی باتیں ہیں جو اولاد کی تربیت کے لئے نہایت ضروری ہیں.اور یہ وہ بیج ہے جو احمدی ماؤں کے ہاتھوں سے ہر احمدی بچے کے دل میں بویا جانا ضروری ہے.ورنہ گوخدا کے رسول تو بہر حال غالب ہو کر رہتے ہیں مگر کم از کم جہاں تک انسانی کوشش اور ظاہری اسباب کا تعلق ہے.جماعت کی ترقی.این خیال است و محال است و جنوں احمدی ماؤں سے دردمندانہ اپیل پس اے احمدی ماؤں ! تم پر ایک بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.تمہارے ہاتھوں میں قوم کے وہ نو نہال پلتے ہیں جو آج کے بچے اور کل کے جوان ہیں.آج کے بیٹے اور کل کے باپ ہیں.آج کے تابع

Page 182

مضامین بشیر جلد سوم 160 اور کل کے متبوع ہیں.آج کے محکوم اور کل کے حاکم ہیں.عنقریب ان کے ہاتھوں میں سلسلہ کے کاموں کی باگ ڈور جانے والی ہے.پس اپنی اس نازک ذمہ داری کو پہچانو اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو ایسے قالب میں ڈھال دو کہ جب ان کا وقت آئے تو وہ آسمان ہدایت پر ستارے بن کر چمکیں.تم شاید خود بھی اپنی قدر کو نہیں پہچانتیں مگر تمہارے رسول نے تمہاری قدر کو پہچانا ہے اور تمہیں اپنی محبوب ہستی قرار دیا ہے.پس اس عظیم الشان نعمت کی قدر کرو.تم محبوب خدا کی محبوب ہو.اور اس ذمہ داری کو ادا کرو جو خدا نے تمہارے کندھوں پر ڈالی ہے.یہ ذمہ داری بہت بھاری ہے مگر یقین رکھو کہ اس رستہ کے ہر قدم پر خدا کے فضل و رحمت کا سایہ تمہارے سر پر ہو گا اور اس کے رسول اور...اس کے مسیح کی پاک دعا ئیں تمہارے ساتھ ساتھ چلیں گی.اے ہمارے خالق و مالک خدا! اے ہمارے آسمانی آقا ! اے ہماری کمزور کشتیوں کے طاقتور ناخدا! تو ہر احمدی ماں کے دل میں یہ جذبہ پیدا کر دے کہ وہ اپنی اولاد کو تیری ایک مقدس امانت سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم وتربیت کو ایسی بنیادوں پر قائم کرے جو تیری رضا اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کا موجب ہوا ور تو احمدی بچوں کو بھی یہ توفیق عطا کر کہ وہ اپنی نیک ماؤں کی تربیت کے نقوش کو صالح اور سلیم بچوں کی طرح قبول کریں.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ( الفرقان: (75) رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدُتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْرْنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ طَ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ (ال عمران (195) أمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ یہ مضمون تین قسطوں میں شائع ہوا ہے.(روزنامہ المصلح کراچی مورخہ 26 ،28 نومبر و4 دسمبر 1953ء) خدام الاحمدیہ کا مالی ہفتہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کا پیغام خدام کے نام مجالس خدام الاحمدیہ 8 دسمبر سے 15 دسمبر تک مالی ہفتہ منارہی ہیں.اس سلسلے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے از راہ کرم مندرجہ ذیل پیغام خدام کے نام تحریر فرمایا ہے.

Page 183

مضامین بشیر جلد سوم 161 مجھے بتایا گیا ہے کہ خدام الاحمد یہ مالی ہفتہ منا رہی ہے.جس میں چندوں کی تحریک کی جائے گی.یہ ایک بہت مبارک تحریک ہے.کیونکہ جہاں تک میں نے سوچا ہے.جماعتی چندے ایک طرح سے دین کا نصف حصہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت سے قرآن مجید میں دو حکموں پر خاص زور دیا ہے.ایک نماز ہے جو حقوق اللہ کے میدان سے تعلق رکھتی ہے اور نفس کے پاک کرنے کا ذریعہ ہے.اور دوسرے جماعتی چندے ہیں جن میں زکوۃ ایک اہم رکن ہے.جس کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مسلمان کہلانے والوں کے ساتھ لڑنا تک ضروری خیال کیا.دراصل کوئی نظام جماعتی چندوں کے بغیر نہیں چل سکتا.اور جو شخص احمدی کہلا کر چندوں کے معاملہ میں سست ہے.وہ حقیقتاً جماعت کی غرض وغایت اور اہمیت کو سمجھتا ہی نہیں.کیونکہ وہ جماعت کو اس سامان سے محروم کرنا چاہتا ہے جو جماعت کی ترقی کے لئے از بس ضروری اور لازمی ہے.پس میں امید کرتا ہوں.خدام الاحمدیہ کے نوجوان اس مبارک تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر خدمت دین کا اعلیٰ نمونہ قائم کریں گے.وَ كَانَ اللَّهُ مَعَهُمْ أَجْمَعِيْنَ.( محرره 2 دسمبر 1953 ء) روزنامه المصلح کراچی 9 دسمبر 1953 ء) یہ غرباء کی امداد کا خاص موسم ہے اہل ثروت اصحاب توجہ فرمائیں یوں تو اسلام نے ہر زمانہ اور ہر موسم میں ہی غرباء کی امداد کو ایک بھاری ثواب کا ذریعہ قرار دیا اور صدقہ و خیرات پر بہت زور دیا ہے.لیکن بعض موسموں کے متعلق خاص طور پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ ان میں غرباء کی امداد کا خاص خیال رکھا جائے.چنانچہ رمضان اور عیدین وغیرہ کے موقع پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم غرباء کی امداد کے متعلق بہت تاکید فرمایا کرتے تھے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان موقعوں پر غرباء کی ضرورت بڑھ جاتی ہے.اور ظاہر ہے کہ وہی صدقہ زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے جو زیادہ ضرورت کے وقت دیا جاوے.ایسا صدقہ چونکہ مصیبت زدہ مساکین کی خاص تکلیف رفع کرنے کا موجب ہوتا ہے اس لئے خدا بھی ایسے موقع پر زیادہ خوش ہوتا اور دینے والوں کو زیادہ ثواب عطا فرما تا ہے.اس قسم کے موسموں

Page 184

مضامین بشیر جلد سوم 162 میں سردی کا موسم بھی خصوصیت رکھتا ہے.کیونکہ سردی کی وجہ سے غرباء کے لباس اور پار چات اور بستر وغیرہ کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور جسم کی حرارت کو برقرار رکھنے کے لئے غذا بھی کچھ زیادہ ہو جاتی ہے.پس جس طرح رمضان اور عیدین وغیرہ امداد غرباء کے خاص موسم ہیں اسی طرح سردی کا موسم بھی صدقہ کا خاص موسم ہے.اور جماعت کے مخیر اصحاب ایسے وقت میں اپنے غریب بھائیوں کی امداد کر کے اور ان کی دعا لے کر خاص ثواب کما سکتے ہیں.اور پھر ایسے لوگوں کے حق میں خدا کی بھی خاص نصرت نازل ہوتی ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ كَانَ فِى عَوْنِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي عَوْنِهِ یعنی جو شخص اپنے بھائی کی امداد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی امداد میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اللہ کی امداد سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کونسا سہارا ہے؟ پس میں جماعت کے ذی ثروت اور مخیر اصحاب سے اپیل کرتا ہوں کہ اب جبکہ سردی کا موسم زور پکڑ رہا ہے تو وہ ایسے وقت میں اپنے غریب بھائیوں کی امداد کر کے ثواب کمائیں.اور اس رزق کا عملی شکر یہ ادا کریں جو خدا نے انہیں دوسروں کی نسبت وافر دے رکھا ہے.حق تو یہ ہے کہ ایسے رزق کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ وہ امراء کے گلے میں ایک لعنت بن جاتا ہے جو صرف اپنے نفس اور اپنے اہل وعیال کی ضروریات پورا کرنے تک محدودر ہے.اور اس میں سے جماعت اور غریب بھائیوں کا حق نہ نکالا جائے.رزق کے شکریہ کا طریق اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں کہ اس میں سے جماعت اور اپنے غریبوں کا حق نکالا جائے.وَ اِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمُ ایک بہت لطیف اور آزمودہ نسخہ ہے.غرباء کی امداد کے لئے یہ کوئی شرط نہیں کہ کہاں دیا جائے اور کس غریب کو دیا جائے.بلکہ جو بھی غریب ہو اور جہاں بھی ہو اس کی امداد موجب ثواب اور موجب رڈ بلا ہے.بلکہ اپنے قریب کے غریبوں کی امداد زیادہ ثواب کا باعث ہے.کیونکہ غریب رشتہ داروں اور ہمسایوں کا حق سب سے بھاری ہوتا ہے.لیکن چونکہ مرکز سلسلہ میں بھی مستحق غرباء کا ایک طبقہ ہر وقت موجود رہتا ہے.اس لئے اپنے ماحول کے بعد مرکز کا حق مقدم ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کے ساتھ ہو.اور انہیں نیک نیتی کے ساتھ خدا کے رستہ میں خرچ کرنے کی توفیق دے.وَ إِنَّمَا الأعْمَالُ بالنِّيَاتِ وَلِكُلِّ امْرِى مَانَوَى - محرره 12 دسمبر 1953ء) (روز نامہ المصلح کراچی 16 دسمبر 1953ء)

Page 185

مضامین بشیر جلد سوم مضامین قرآن 163 محتر می مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعتہ المبشرین نے مجھ سے یہ خواہش کی ہے کہ میں رسالہ الفرقان کے لئے ایک چھوٹا سا نوٹ ” مضامین قرآن کے عنوان کے ماتحت لکھ کر بھجواؤں.اس سے چند دن قبل انہوں نے لکھا تھا کہ ترتیب فی القرآن“ کے موضوع پر کچھ لکھوں لیکن اب وہ مؤخر الذکر مضمون کو ترجیح دیتے ہیں.میرے لئے یہ مشکل ہے کہ ایک طرف تو یہ دونوں مضمون گویا بحر بیکراں کا رنگ رکھتے ہیں اور دوسری طرف آجکل جلسہ سالانہ کے قرب اور قافلہ قادیان کے ہنگامی کام کی وجہ سے فرصت بہت ہی کم ہے اور پھر مجھے نقرس کے عارضہ کی وجہ سے ( عارضہ ہی کہنا چاہئے ، گو وہ اب تو ایک مستقل مرض بن گیا ہے ) سخت اعصابی تکلیف رہتی ہے اور طبیعت میں یکسوئی نہیں پیدا ہوتی اس لئے کسی لمبے مضمون کا لکھنا محال ہے تاہم ثواب کی خاطر مؤخر الذکر مضمون کے متعلق ذیل کی چند سطور رسالہ الفرقان کے (قارئین.ناقل ) کی ضیافت طبع کے لئے پیش کرتا ہوں.یہ نوٹ صرف ایک پیج کے رنگ میں ہے جسے ( قارئین) کرام اپنی اپنی استعداد کے مطابق ترقی دے کر درخت کی شکل دے سکتے ہیں.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے مضامین کی نوعیت اور وسعت کو سمجھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض و غایت اور آپ کے مقام کا سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے نازل ہوا ہے.پس جو غرض و غایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ہے وہی لاز ما قرآن کے نزول کی ہے اور تمام قرآنی مضامین اسی غرض وغایت اور اسی مقصد ومنتہا کے اردگر دگھومتے ہیں.اب جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض و غایت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کے لئے سورۃ البقرہ کی یہ آیت کلیدی حیثیت میں ظاہر ہوتی ہے کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقره: 130) یعنی اے ہمارے پروردگار تو ہماری اس نسل میں ( جو مکہ کی غیر ذی زرع وادی اور عرب کے لق و دق صحرا میں آباد کی جارہی ہے) اپنا ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیات سنائے اور انہیں احکامِ شریعت اور ان کی حکمت سکھائے اور انہیں پاک کر کے تیرے حضور میں بلند کرے.یقیناً تو بہت غالب آقا اور تمام

Page 186

مضامین بشیر جلد سوم حکمتوں کا منبع ہے.164 یہ وہ عظیم الشان دعا ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہا السلام نے کعبتہ اللہ کی بنیاد رکھتے ہوئے خدا کے حضور کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ أَنَا دَعْوَةِ إِبْرَاهِيمَ یعنی میں ابراہیم کی اس دعا کا ثمرہ ہوں.پس یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض و غایت یہی ہے جو اس دعا میں بیان کی گئی ہے جو ذیل کے چار ستونوں پر قائم ہے.(اول) آیات اللہ کا مظہر ہونا یعنی ایسے نشانات اور ایسے معجزات کے ظہور کا منبع ہونا جو خدا کی طرف رہنمائی کرنے والے اور اس کے قریب لانے والے ہوں.( دوم ) احکامِ شریعت کا نزول جو انفرادی اور قومی اصلاح کی بنیاد ہیں.( سوم ) حکمت یعنی احکام شریعت کا فلسفہ اور ان کے دلائل وغیرہ بیان کرنا جس کے بغیر دین میں بصیرت حاصل ہونا محال ہے.( چهارم ) تزکیہ نفوس یعنی نفوس کو پاک وصاف کر کے مومنوں کو ہر جہت سے ترقی کی منازل کی طرف لے جانا.یہ وہ چار عظیم الشان اغراض ہیں جو اس دعا میں بیان کی گئی ہیں اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض و غایت انہی چار ستونوں پر قائم ہے اور لازما یہی وہ مربع بندی ہے جس کے ارد گرد تمام قرآنی مضامین گھومتے ہیں.بیشک قرآن مجید میں ہزاروں مضامین کا دریا بہہ رہا ہے اور ہر دریا سے ہزاروں نہریں پھوٹتی ہیں مگر ان دریاؤں اور نہروں کا منبع انہی چار چشموں کے پانی کا مرہونِ منت ہے اور اگر ضمنا گہری نظر سے دیکھا جائے تو قرآنی آیات کا نزول بھی بحیثیت مجموعی اسی ترتیب کا حامل ہے جو اس آیت میں رکھی گئی ہے.یعنی اول نمبر پر آیات ہیں.اس کے بعد دوم اور سوم نمبر پر احکام شرعی اور ان کی حکمت ہے جو گویا ایک دوسرے کے تو ام بھائی ہیں اور بالآخر چہارم نمبر پر تزکیہ کا سامان ہے.اور گوموجودہ قرآنی ترتیب کو ایک خاص حکمت کے ماتحت نزول کی ترتیب سے بدل دیا گیا ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں لیکن غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ نزول کی ترتیب اسی آیت کی ترتیب کے اصول پر قائم ہے جو او پر درج کی گئی ہے.باقی رہا قرآنی احکام کی زمانی وسعت کا سوال سو گو یہ ایک جدا گانہ سوال ہے مگر چونکہ اس سوال کا جواب قرآنی مضامین کی وسعت پر گہرا اثر رکھتا ہے اس لئے اس جگہ اس قدر بیان کر دینے میں حرج نہیں کہ قرآنی شریعت دراصل ابدی ہی نہیں بلکہ ازلی بھی ہے.ابدی ہونا تو اس کا ظاہر ہے یعنی یہ کہ قرآنی شریعت قیامت

Page 187

مضامین بشیر جلد سوم 165 تک کے لئے نازل ہوئی ہے جیسا کہ قرآن خود فرماتا ہے.لِانْذِرَكُمْ بِهِ وَ مَنْ بَلَغَ (الانعام:20) یعنی قرآنی خطاب میں کوئی قومی یا زمانی حد بندی نہیں بلکہ جسے اس کا پیغام پہنچے اور جب پہنچے وہی اس کا مخاطب ہے.اور یہی وہ مضمون ہے جو ایک نہایت لطیف رنگ میں قرآنی آیت خاتم النبیین میں بیان کیا گیا ہے جس سے یہ مراد ہے کہ پہلی تمام تاریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود میں آکر ختم ہوگئیں اور آئندہ ہر تار آپ کے بابرکت وجود میں سے نکلے گی کیونکہ آپ سلسلۂ رسالت کا مرکزی نقطہ ہیں.اور ضمناً اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ قرآنی شریعت از لی بھی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ قرآن ایک منفرد اور جداگانہ حیثیت میں نازل نہیں ہوا بلکہ اس میں خدائی شریعت کا کمال اور معراج مقصود ہے اور وہ یہ کہ ابتداء میں مختلف قوموں اور زمانوں کی محدود ضرورت کے مطابق خدائی شریعت کا نزول شروع ہوا اور پھر آہستہ آہستہ خدائی شریعت قرآن میں آکر اپنے معراج کو پہنچ گئی.یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لطیف حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ كُنتُ نَبيَّا وَ آدَمُ مُنْجَدَلٌ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّيْنِ یعنی میں اس وقت سے نبی ہوں جبکہ ابھی آدم گویا اپنی خلقت کے مراحل میں سے گزرتا ہوا پانی اور مٹی میں لت پت تھا.خلاصہ یہ کہ اولاً قرآنی مضامین ان چار ستونوں پر قائم ہیں جو آیت رَبَّنَا وَابْعَثُ فِيهِمْ رَسُولًا نهُمُ (البقره: 130) میں بیان کئے گئے ہیں اور پھر ثانیا یہ کہ یہ مضامین اس مقصد کے ماتحت نازل کئے گئے ہیں کہ وہ ہر قوم کی زمانی اور مکانی اور قومی حدود سے آزاد ہو کر تمام قوموں اور تمام زمانوں اور تمام ملکوں کی ہدایت کا سامان مہیا کریں اور یقیناً جو شخص ان دو اصولوں کو سامنے رکھ کر پاک نیت کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ کبھی بھی اس کی صحیح تفسیر کے رستہ سے بھٹک نہیں سکتا اور اس کے لئے ہر قرآنی آیت اور ہر قرآنی سورۃ گویا ایک نور کا مینار بن کر دائمی اور عالمگیر روشنی مہیا کرے گی.وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (ماہنامہ الفرقان دسمبر 1953ء)

Page 188

مضامین بشیر جلد سوم اعلانات.اشتہارات.اطلاعات 166 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1 -> چندہ امداد درویشاں کی تازہ فہرست 2 -> مرزا حاکم بیگ صاحب کہاں ہیں قافلہ قادیان کیلئے دوست درخواستیں بھجوائیں تربیت اولاد پر ایک مختصر رساله 6 -> میاں فضل الدین صاحب درویش کی وفات قادیان میں عیدالاضحیہ کی قربانی 8 -> رسالہ کلمۃ الفضل کے متعلق ضروری اعلان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم کا پہلا پوتا 10-> قافلہ قادیان کیلئے درست درخواستیں بھجوائیں روزنامه الفضل 15 جنوری 1953ء) روزنامه الفضل 16 جنوری 1953ء) روزنامه الفضل 29 جنوری 1953ء) روزنامه الفضل 6 فروری 1953ء) (روز نامه الفضل 22 فروری 1953ء) (روزنامہ الفضل 17 جولائی 1953ء) 11-> حضرت سیدہ ام داؤ درضی اللہ عنہا کور بوہ میں سپردخاک کر دیا گیا ( صلح 11 اگست 1953 ء) ل مصلح 28 اگست 1953 ء) مصلح 28 اگست 1953 ء ) لمصل (اسح یکم تمبر 1953ء) المصلح 13 ستمبر 1953ء)

Page 189

مضامین بشیر جلد سوم 167 -12-> تازه فهرست چنده امداد درویشان و فدیہ رمضان و غیره المصلح 13 ستمبر 1953ء) 13-> حضرت میاں صاحب کا دفتر صدر انجمن احمد یہ کے افتتاح کے موقع پر ایڈریس پیش کرنا 14-> مندرجہ ذیل اصحاب قافلہ قادیان جانے کیلئے تیار ہوجائیں 15-> اخبار بدر قادیان کے داخلہ سے پابندی اٹھا دی گئی 16-> اسلام کا دوسرا بڑار کن نماز پر رائے ا ح 27 نومبر 1953ء) (مصلح 28 ستمبر 1953ء) (+195328) لمصلح کراچی 16 دسمبر 1953ء)

Page 190

168 مضامین بشیر جلد سوم

Page 191

مضامین بشیر جلد سوم باب چہارم 1954ء کے مضامین 169

Page 192

مضامین بشیر جلد سوم الفضل کے دوبارہ اجراء پر پیغام ماہنامہ ” مصباح“ کی افادیت سے متعلق رائے دردناک حادثات اور ایسے حادثات کا حقیقی فلسفہ وو د و دردناک حادثات“ والے مضمون سے متعلق غریبوں کی امداد کا خاص موسم اسلام میں استخارہ کا مبارک نظام اور بظاہر متضاد خوابوں کا فلسفہ ایک دلچسپ تصنیف ”بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز احمدیت کی ترقی سے متعلق شبہات کا ازالہ 170

Page 193

مضامین بشیر جلد سوم الفضل کے دوبارہ اجراء پر پیغام 171 الحمد لله ثم الحمد للہ کہ زائد از ایک سال کی بندش کے بعد الفضل دوبارہ جاری ہورہا ہے.آج کل قومی زندگی کے لئے اخبارات کو جو بھاری اہمیت حاصل ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں.اس لئے الفضل کے دوبارہ اجراء پر ہر مخلص دوست کو طبعا انتہائی خوشی ہو گی.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ الفضل کے اس نئے دور کو اسلام اور احمدیت کے لئے مبارک کرے اور اس اخبار کے ادارے کو تو فیق عطا فرمائے کہ وہ اسلام اور ملک و قوم کی بیش از پیش خدمت بجالا کر خالق و مخلوق کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو.آمین يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ محرره 13 مارچ 1954 ء) (روز نامہ الفضل 15 مارچ 1954ء ) 2 ماہنامہ ” مصباح کی افادیت سے متعلق رائے مکرمہ محترمہ ایڈیٹر صاحبہ مصباح ربوہ ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ آپ کی نگرانی میں ” مصباح نے اچھی ترقی کی ہے.خدا اس ترقی کو مزید ترقی عطا فرمادے اور آپ کا حافظ و ناصر ہو.میں نے آپ کے والد صاحب محترم کو آج سے غالباً 25 سال قبل مدرسہ احمدیہ میں خود انٹر ویو کرنے اور حاجی صاحب مرحوم آف کریام کی سفارش سننے کے بعد داخل کیا تھا.میرے لئے یہ امر باعث خوشی ہے کہ آج ان کی لڑکی بھی خدمت دین کے لئے ضروری سامان سے آراستہ ہو چکی ہے.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ (ماہنامہ مصباح اپریل مئی 1954 ء ) درد ناک حادثات اور ایسے حادثات کا حقیقی فلسفہ چند دن ہوئے مجھے یہاں لاہور میں خان بہادر دلاور خاں صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر چار باغ ضلع

Page 194

مضامین بشیر جلد سوم 172 مردان نے اطلاع دی کہ ان کا چار سالہ نواسہ اور میجرمحمد اسلم خاں مرحوم کا اکلوتا لڑکا کوہ مری میں اپنی کوٹھی کی اونچی کھڑکی سے گر کر وفات پا گیا ہے.چونکہ اس بچہ کا والد میجر اسلم ابھی چند ماہ ہوئے موٹر کے حادثہ میں فوت ہوا تھا.جس سے اسلم مرحوم کی بیوی کو جو ایک مخلص خاتون ہے انتہائی صدمہ پہنچا تھا اور اس حادثہ کے چند ماہ بعد اس کا اکلوتا لڑکا بھی ایک حادثہ کے نتیجہ میں اچانک فوت ہو گیا.اس لئے گویا اس اوپر تلے کے دردناک حادثات سے ایک آباد گھر ویران ہو کر اور ایک خوش و خرم گھر غم کدہ بن کر رہ گیا.اور اس گھر کی روشنی دیکھتے دیکھتے بھیانک تاریکی میں تبدیل ہو گئی.یہ ایک نہایت دردناک واقعہ تھا جس کی اطلاع مجھے اپنی بیماری کے دوران میں پہنچی اور اس نے سخت صدمہ پہنچایا.اور حیات انسانی کی تمام گرم جوشی بالکل سرد پڑ کر آنکھوں کے سامنے آگئی.میں اس تلخ حادثہ سے متعلق ایک نوٹ لکھنے اور اپنے دوستوں کو اس قسم کے دردناک حادثات کے دینی فلسفہ کی طرف توجہ دلانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اپنی بیماری کی وجہ سے رُکا رہا اور اپنی شفایابی کا انتظار کرتا رہا کہ اچانک آج کے اخباروں سے ایک اور دردناک حادثہ کی اطلاع پہنچی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی ہوائی فوج کا ایک ہونہار نو جوان فلائنگ آفیسر عبدالحمید خاں غزنوی ایک ہوائی حادثہ میں اچانک فوت ہو گیا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - عبد الحمید خاں نہ صرف اپنی ذات میں ایک بہت ہو نہار اور ترقی کرنے والا نو جوان تھا جو غالباً آگے چل کر پاکستان کی ائیر فورس کے لئے زینت کا موجب بنتا.بلکہ اپنے خاندان کے لئے بھی جو باوجود اپنے وطن میں بہت معزز ہونے کے اس وقت غربت اور تنگدستی کی حالت میں ہے.بظاہر ایک واحد سہارا تھا.مرحوم کا والد نیک محمد خاں افغانستان کے شہر غزنی کا مہاجر تھا.جسے نہ صرف ملکی تقسیم کے گزشتہ فسادات میں دُہری ہجرت کا دھکا برداشت کرنا پڑا بلکہ وہ قریباً ایک سال سے ربوہ میں فالج زدہ ہو کر صاحب فراش بھی ہے.اور اس طرح اپنے غریب والدین اور بہت سے بہن بھائیوں کا سارا بوجھ مرحوم عبدالحمید خاں غزنوی فلائنگ آفیسر کے سر پر تھا.گویا اس نوجوان کی اچانک موت نے ایک پورے خاندان کو بظاہر بالکل اپاہج اور بے دست و پا کر کے رکھ دیا ہے.یہ وہ دوسرا دردناک حادثہ ہے جس کی اطلاع ہمیں ایک ماہ کے اندر اندر اوپر تلے پہنچی ہے.مرنے والوں کی روحیں اپنے آسمانی آقا کے قدموں میں پہنچ چکی ہیں.جہاں انشاء اللہ ان کے لئے رحمت ہی رحمت ہے.مگر ان کے پسماندگان کے درد والم کا کیا علاج ہے.جن پر گویا مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے.اور ان کی زندگیوں کے لہلہاتے کھیت ایک آنِ واحد میں سوکھ کر پیوند خاک ہو گئے ہیں؟ یہ علاج صرف ہمارے خدا کے

Page 195

مضامین بشیر جلد سوم 173 ہاتھ میں ہے جو اپنی ازلی ابدی طاقتوں میں اگر ہمیت ہے تو اس کے ساتھ ساتھ مخی بھی ہے.اور تاریک گھروں کو روشن کرنا اور خشک کھیتوں کو ہرا کرنا اس کی لا انتہا قدرتوں کا ادنیٰ کرشمہ ہے.اسی کی رحمت زخمی دلوں پر مرہم کا بھا یہ رکھ سکتی ہے اور اس کے ہاتھ کا چھینٹائر دہ کھیتوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے.پس ہم اُسی جی و قیوم اور اسی قادر مطلق آقا کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ اگر تیری کسی تقدیر نے مرنے والوں کو مارا ہے تو اب تو ہی اپنی کسی دوسری تقدیر سے پیچھے رہنے والے زندہ درگور لوگوں کو زندگی کی شادابی عطا کر اور ان کی بے چین روحوں کو تسکین دے اور ان کے دلوں پر صبر نازل فرما اور ان کے بوجھوں کے لئے اپنی رحمت کے شہتیروں کا سہارا مہیا کر.وَبِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِيْثُ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ فَإِنَّ بذِكْرِكَ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ وَاَنْتَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ - ان حادثات کے نتیجے میں مرنے والوں اور ان کے پسماندگان سے تو میرا خطاب ختم ہوا اور اس سے زیادہ کی مجھ میں طاقت بھی نہیں.مگر اس قسم کے درد ناک حادثات کے نتیجہ میں جو اثر خام طبیعتوں پر پڑسکتا ہے اور جس قسم کے شبہات میں وہ مبتلا ہو سکتے ہیں.اس کا ازالہ ابھی باقی ہے.ظاہر ہے کہ انسان کو خالق فطرت نے دو جو ہروں سے مرکب کیا ہے.ایک عقل کا جو ہر ہے اور دوسرا جذبات کا جو ہر ہے.جنہیں انگریزی میں ریزن (Reason) اور سٹیمنٹ (Sentiment) کہتے ہیں.اور انسان کے اعلیٰ اخلاق اور متوازن تخیل کے لئے ان دونوں کا وجود نہایت ضروری ہے.مگر بدقسمتی سے بعض لوگ خارجی اثرات کے ماتحت اس فطری توازن کو کھو بیٹھتے ہیں.وہ یا تو جذبات کے پہلو کو ضائع کر کے عقل کی خشک وادیوں میں سرگردان رہتے ہیں.اور یا عقل کے جو ہر کو کھو کر جذبات کے طوفان میں تھیڑے کھاتے پھرتے ہیں.اور ان دونوں باتوں کا نتیجہ ضلالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا.ان میں سے ایک طبقہ پہاڑ کی چٹانوں سے ٹکرا کر اپنا سر پھوڑتا ہے.اور دوسرا طبقہ جذبات کے سیلاب میں غوطے کھا کھا کر دم تو ڑتا ہے.چنانچہ اس قسم کے دردناک حادثات کے نتیجہ میں بھی جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یہی غیر فطری منظر نظر آتا ہے.کہ خشک عقل کے پجاری لوگ یہ سمجھ کر کہ اگر کوئی خدا ہوتا تو دنیا میں اس قسم کے ظالمانہ واقعات نہ نظر آتے کہ اچانک ایک ہرا بھرا باغ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے.اور ایک ہونہار زندگی کا چراغ بے وقت گل ہو کر ختم ہو جاتا ہے.اور دوسری طرف جذبات کی رو میں بہنے والے لوگ ایسے واقعات سے تناسخ یعنی اواگون کے عقیدہ کی طرف جھک جاتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ خدا تو ظالم نہیں ہے.اس لئے ضرور موجودہ زندگی سے پہلے بھی کوئی اور زندگی گزری ہوگی جس کے نیک و بد اعمال کے نتیجہ میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں.یعنی بعض

Page 196

مضامین بشیر جلد سوم 174 لوگ بغیر کسی ظاہری سبب کے غیر معمولی حادثات کا نشانہ بن جاتے ہیں.گویا ایسے واقعات ایک طبقہ کو دہریت کی طرف دھکیل دیتے ہیں.اور دوسرے طبقہ کو تناسخ کے غیر معقول عقیدہ کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں.لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں نتائج بالکل غیر فطری ہیں.جو محض عقل اور جذبات کے توازن کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.یہ ایک بہت وسیع اور بار یک مضمون ہے.لیکن افسوس ہے کہ اپنی صحت کی موجودہ حالت میں میں اس کے متعلق زیادہ تفصیل سے نہیں لکھ سکتا.صرف مختصر طور پر بیان کرتا ہوں کہ یہ سارا دھوکا خدا تعالیٰ کے دو قانونوں کو خلط ملط کرنے سے پیدا ہوتا ہے جنہیں خالق فطرت نے دو علیحدہ علیحدہ قانونوں کی صورت میں جاری کیا ہے.اور اس کی ازلی حکمت کا تقاضا ہے کہ ان دو قانونوں کو خلط ملط ہونے سے بچایا جائے.ان میں سے ایک تو شریعت کا قانون ہے.جو افراد کی نیکی بدی اور ان کے نتائج سے تعلق رکھتا ہے.اور دوسرا قانون قضا و قدر کا قانون ہے.جسے قانون نیچر کہتے ہیں.اس قانون کو لوگوں کی نیکی بدی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.بلکہ وہ نظام عالم کے عام قانون سے تعلق رکھتا ہے.جس کے ماتحت مثلاً آگ جلاتی ہے.اور پانی غرق کرتا ہے.پھر کچلتا ہے اور سکھیا مارتا ہے وغیرہ وغیرہ.شریعت کے قانون کی جزا سزا کے لئے آخرت یعنی موت کے بعد کی زندگی مقرر ہے.مگر نیچر کے قانون کی جزا سزا اسی دنیا میں ساتھ ساتھ چلتی ہے.اور خدا تعالیٰ نے ان دو قانونوں کا الگ الگ دائرہ معین کر رکھا ہے.شریعت کا قانون نیچر کے قانون میں دخل انداز نہیں ہوتا اور نیچر کا قانون شریعت کے قانون پر کوئی اثر نہیں رکھتا.بلکہ یہ خدا تعالے کی مرکزی حکومت کے ماتحت گویا دوجدا گانہ صوبے ہیں جو اپنی اپنی جگہ آزادی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور موجودہ اصطلاح کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ ان دو صوبوں کو گویا پرونشل ایٹا نومی حاصل ہے.کیونکہ وہ خدا کی مرکزی حکومت کے ماتحت ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ الگ دائرہ میں چلتے اور ایک دوسرے کے اثر سے آزاد ہیں.(سوائے مستثنیات کے جن کے ذکر کی اس جگہ گنجائش نہیں ) مثلا انسان کی نیکی اور بدی اور اس کی دینداری اور بداعمالی شریعت کے قانون سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں.اور ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ مثلاً ایک نیک انسان کی نیکی اسے سنکھیا کے اثر سے بچالے.یا ایک دیندار انسان جو تیرنا نہیں جانتا وہ محض اپنی نیکی کی وجہ سے گہرے پانی میں جا کر ڈوبنے سے بچ جائے.کیونکہ سنکھیا کا زہریلا اثر یا گہرے پانی کی غرقابی قانونِ نیچر سے تعلق رکھتی ہے.اور کسی انسان کی نیکی (جس کا تعلق شریعت کے قانون سے ہے ) نیچر کے قانون کے دائرہ میں اس کے کام نہیں آسکتی.

Page 197

مضامین بشیر جلد سوم 175 اس مختصر تشریح سے ظاہر ہے کہ جو بچہ اونچی کھڑکی سے گر کر فوت ہو گیا.وہ خواہ کیسا ہی معصوم تھا اور خواہ اس کی موت سے اس کی غم رسیدہ والدہ کو کیسا ہی صدمہ پہنچنے والا تھا.وہ چونکہ قانون نیچر کی زد میں آگیا تھا.اس لئے اس کی معصومیت اور اس کی والدہ کا غم والم اسے اس حادثہ سے بچا نہیں سکے.اسی طرح ہونہار غزنوی جو ہوائی جہاز کے حادثے میں موت کا شکار ہو گیا.وہ خواہ کیسا ہی دیندار اور خوش اخلاق تھا.اور خواہ اس کے والدین اس کی موت سے بالکل بے سہارا رہ جانے والے تھے مگر ہوائی جہاز کا حادثہ چونکہ نیچر کے قانون سے تعلق رکھتا تھا.اس لئے مرنے والے کی نیکی اور پیچھے رہنے والوں کی مصیبت اسے اس حادثہ کے طبعی نتیجہ سے محفوظ نہیں رکھ سکی.پس ان حادثات سے عقل والوں کا دہریت کی طرف جھک جانا یا جذبات والوں کا تناسخ کے عقیدہ کے حق میں نتیجہ نکالنا ایک بالکل باطل نظریہ ہے.جو خدا تعالیٰ کے دو جدا گانہ اور حکیمانہ قانونوں کو آپس میں خلط ملط کرنے اور ان کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.مگر جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے.یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے.جس کی اس مختصر نوٹ میں گنجائش نہیں اور نہ میری موجودہ بیماری مجھے کسی لمبی تشریح میں جانے کی اجازت دیتی ہے.البتہ جو دوست چاہیں وہ میری تصنیف ”ہمارا خدا کے متعلقہ ابواب میں اس کی مفصل بحث مطالعہ فرما سکتے ہیں.بالآخر میں پھر مرنے والوں کے عزیزوں سے اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کے زخمی دلوں کو قرار عطا کرے اور انہیں اپنی رحمت سے نوازے.اور ان کا حافظ و ناصر ہو.انہیں چاہئے کہ اس حقیقت کو کبھی نہ بھولیں کہ گومر نے والے مر گئے.مگر ہمارا خدا ہمارا آسمانی آقا جور حیم بھی ہے اور کریم بھی ہے اور جی بھی ہے اور قیوم بھی ہے اور قادر بھی ہے اور علیم بھی ہے.وہ زندہ ہے اور رنج وغم کی گھڑیوں میں اس کی طرف جھکنے والا انسان کبھی بھی اس کی رحمت سے محروم نہیں رہتا.بے شک یہ امتحان بھاری ہے مگر تبھی تو یہ کہا گیا ہے کہ.” ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر“ وو پس تم بھی خدا کے اس امتحان کو وفادار مومنوں کی طرح قبول کرو اور اس آستانہ پر جھکے رہو.اور عسر وئیسر اور رنج و راحت میں اس کا دامن نہ چھوڑو.کیونکہ یہ حضرت آدم سے لے کر حضور سرور کائنات تک اور سرور کائنات سے لے کر اس وقت تک کا آزمایا ہوا نسخہ ہے.کہ خدا کے دامن سے لپٹنے والے لوگ بالآخر خدا کی رحمت سے ضرور حصہ پاتے ہیں.خواہ اسی دنیا میں پائیں اور خواہ اگلے جہان میں اور سچے مومنوں کے لئے اگلے جہان کا سودا بھی کوئی دور کا سودا نہیں.بلکہ ایسا ہی یقینی ہے جیسا کہ اس جہان کی نعمتیں بلکہ ان سے بڑھ کر اور ایک لحاظ سے ان سے قریب تر.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی کو آنکھوں کا صدمہ لاحق ہوا

Page 198

مضامین بشیر جلد سوم 176 اور بصارت کا ضائع جانا یقینی ہو گیا.اس نے گھبرا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میری آنکھوں کے لئے دعا فرمائیں.آپ نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہاری نظر کی بحالی کے لئے دعا کروں گا.اور خدائی رحمت سے بعید نہیں کہ وہ تمہیں بصارت عطا کر دے.لیکن چاہو تو اس صدمہ کے بدلے جو اہل نظر آتا ہے.آخرت کا انعام قبول کر لو.نیک دل صحابی نے عرض کیا.یا رسول اللہ ؟ میں آخرت والے انعام کو قبول کرتا ہوں.یقیناً یہ ایک بہت آزمایا ہوا نسخہ ہے.پس اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما بالآخر میں ہز ہائی نس مہتر صاحب چترال کے پسماندگان سے بھی دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں.جنہوں نے اس بد قسمت جہاز کے حادثہ میں جان دی.جسے عبدالحمید غزنوی چلا رہا تھا.مرحوم مہتر چترال ابھی جوانی کے عالم میں تھے اور ایک قابل اور ہونہار اور ترقی پسند حکمران سمجھے جاتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو اور پاکستان کو ان کا نعم البدل عطا کرے.آمین میں اس وقت بیمار ہوں.زیادہ نہیں لکھ سکتا.اور گو پہلے کی نسبت افاقہ ہے مگر ابھی تک ذراسی جسمانی اور دماغی کوفت سے بیماری کے عود کرنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جلد کامل شفا دے کر خدمت دین کی توفیق عطا کرے.اور میرا اور سب کا حافظ و ناصر ہو.اور ہمیں ہر عسر ویسر میں اپنے دامنِ رحمت کے ساتھ وابستہ رکھے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ (محرره 13 اکتوبر 1954 ء) وو.......روزنامه الفضل لاہور 15 اکتوبر 1953 ء) 4 دو دردناک حادثات“ والے مضمون سے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب الفضل کی اشاعت مورخہ 15 اکتوبر 1954 ء میں میرا ایک مختصر سا مضمون زیر عنوان دو دردناک حادثات شائع ہوا تھا.اس مضمون میں میں نے میجر محمد اسلم خاں مرحوم کے اکلوتے بچے کے کھڑکی سے گر کر وفات پانے اور فلائنگ آفیسر عبدالحمید خان غزنوی کے الم ناک ہوائی حادثہ سے متعلق ان کے پسماندگان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے اس قسم کے تلخ حادثات کے پس منظر اور ان کے دینی فلسفہ کی طرف

Page 199

مضامین بشیر جلد سوم 177 توجہ دلائی تھی.اور یہ اصول بیان کیا تھا کہ عام حالات میں اس قسم کے حادثات لاء آف نیچر یعنی قضا و قدر کے قانون کے ماتحت ظہور پذیر ہوتے ہیں.اور ان کے لئے شریعت کے قانون کے ماتحت (جو انسان کی نیکی بدی سے تعلق رکھتا ہے ) وجو ہات تلاش کرنا درست نہیں بلکہ اس قسم کی کوشش بسا اوقات بعض خام طبیعتوں کو دہریت کی طرف اور بعض کو تناسخ کے عقیدہ کی طرف مائل کر دیتی ہے.اس تعلق میں میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر چہ یہ دونوں از لی قانون یعنی (1) قانون شریعت اور (2) قانون نیچر خدا ہی کے بنائے ہوئے ہیں.مگر خدا کی حکیمانہ مشیت کے ماتحت وہ الگ الگ دائروں میں کام کرتے ہیں.اور عام حالات میں ایک دوسرے کے دائرے میں دخل انداز نہیں ہوتے.چنانچہ میں نے اس قسم کی مثالیں دے کر تشریح کی تھی کہ کسی انسان کی نیکی یاد بینداری جو شریعت کے قانون سے تعلق رکھتی ہے اسے سنکھیا کے زہر سے محفوظ نہیں رکھ سکتی.اور نہ ہی غرقاب پانی میں ڈوبنے سے بچا سکتی ہے اور نہ ہی ایک گرتی ہوئی چٹان کی نکر کے رستہ میں روک بن سکتی ہے وغیرہ وغیرہ.کیونکہ یہ سب باتیں نیچر کے قانون کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.جس کی جزا سزا اسی دنیا میں ملتی ہے.اور اس کے خلاف انسان کی نیکی بدی کا تعلق شریعت کے قانون کے ساتھ ہے جس کی جزا سزا کے لئے آخرت کی زندگی مقرر ہے.اس قسم کی تشریح کرنے کے بعد میں نے اپنے اس مضمون میں یہ وضاحت بھی کر دی تھی کہ یہ ایک بہت وسیع اور باریک مضمون ہے جس کی تفصیل کی اس مختصر نوٹ میں گنجائش نہیں ہے.البتہ جو دوست پسند کریں اور علمی شوق رکھتے ہوں وہ میری تصنیف ”ہمارا خدا‘ کے متعلقہ ابواب میں مفصل بحث مطالعہ کر سکتے ہیں.میرے اس مضمون کے متعلق جس کا خلاصہ اوپر درج کیا گیا ہے ضلع مظفر گڑھ کے ایک دوست نے جو اپنے آپ کو ریاست پٹیالہ کا مہاجر ظاہر کرتے ہیں مجھے ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنی اس پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ اس مضمون سے جماعت میں غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس غلط خیال کے جم جانے کا اندیشہ ہے کہ انبیاء اور صلحاء کے معجزات اور دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں بھی قضاو قدر کے حادثات کسی صورت میں ٹل نہیں سکتے.اور اس طرح جماعت میں نعوذ باللہ دعاؤں کی طرف سے بے رغبتی اور ایک گونہ بے دینی کا رستہ کھل جائے گا.میں اپنے اس دوست کے اس جذ بہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کیونکہ اس جذبہ کی بنیاد نیکی پر مبنی ہے.مگر ساتھ ہی اس افسوس کے اظہار سے رک نہیں سکتا کہ ہمارے اس دوست نے نہ تو میرے اس مضمون کو غور سے پڑھا ہے اور نہ ہی جیسا کہ میں نے لکھا تھا میری تصنیف ”ہمارا خدا میں مفصل بحث مطالعہ کرنے کی تکلیف اٹھائی ہے ورنہ انہیں یقینا یہ پریشانی لاحق نہ ہوتی

Page 200

مضامین بشیر جلد سوم 178 جواب ہوئی ہے.کیونکہ میں نے اپنے اس مضمون میں اختصار کے باوجود ایک جگہ بریکٹ کے اندر یہ بات وضاحت کے ساتھ درج کر دی تھی کہ جو خیال میں نے اس جگہ بیان کیا ہے وہ صرف عام حالات سے تعلق رکھتا ہے.ورنہ مستثنیات کا معاملہ جدا گانہ ہے.جس کی اس مختصر نوٹ میں گنجائش نہیں.چنانچہ الفضل مورخہ 15 اکتوبر والے مضمون میں میرے یہ الفاظ تھے کہ سوائے مستثنیات کے جن کے ذکر کی اس جگہ گنجائش نہیں ان مستثنیات میں میرا اشارہ جیسا کہ میں نے اپنی کتاب ”ہمارا خدا میں تصریح کی ہے انبیاء اور اولیاء کے خوارق اور دعاؤں کی قبولیت کی طرف ہی تھا.چنانچہ کتاب ہمارا خدا‘ایڈیشن دوم کے صفحہ 233 پر یہ عبارت درج ہے.خوب یا درکھو کہ نیچر اور شریعت ( یعنی قانون نیچر اور قانون شریعت ) دوالگ الگ حکومتیں ہیں اور یہ حکومتیں مہذب سلطنتوں کی طرح ایک دوسرے کے انتظام میں دخل نہیں دیتیں.سوائے اس کے کہ خدا کی مرکزی حکومت کسی ضرورت کے وقت ایک ملک کی فوج کو دوسرے ملک کی امداد کے لئے جانے کا حکم دے.جیسا کہ انبیاء اور مرسلین کی بعثت کے وقت جبکہ دنیا کی اصلاح کے لئے آسمان پر خاص جوش ہوتا ہے.بعض صورتوں میں قانون نیچر کی طاقتوں کو شریعت کی خدمت میں لگا دیا جاتا ہے.چنانچہ معجزات اور خوارق اسی استثنائی قانون کی قدرت نمائی کا کرشمہ ہوتے ہیں مگر عام قانون یہی ہے کہ قانون نیچر اور قانون شریعت الگ الگ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے دائرہ میں دخل نہیں دیتے.اور نہ ایک دوسرے کی خاطر اپنا رستہ چھوڑتے ہیں ( مفصل بحث کے لئے دیکھو ہمارا خدا از 226 تا 241) حق یہ ہے کہ دنیا کی روحانی اور مادی ترقی کے لئے ان دو قانونوں کا عام حالات میں ایک دوسرے سے الگ الگ رہنا ہی مناسب اور ضروری ہے.ورنہ سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے.اور مذہب کے میدان میں (جس کے لئے ایک حد تک اخفاء کا پردہ ضروری ہوتا ہے ) اخفاء کا پردہ بالکل اٹھ جاتا ہے.اور انسان کی نیکی کسی جزا سزا کی مستحق نہیں رہتی.اور دوسری طرف مادی میدان میں علوم کی ترقی اور خواص الاشیاء کی تحقیق کا رستہ مسدود ہو کر ختم ہو جاتا ہے.اور ساری بات اس نکتہ پر آجاتی ہے کہ نیکی کرو.اور تریاق کی تلاش کی بجائے محض نیکی کے نتیجہ میں سنکھیا کے زہر سے بچ جاؤ.نیکی کرو اور محض نیکی کے ذریعہ ہر قسم کی بیماری کا علاج کرلو.نیکی کرو اور تیرنا سیکھنے کے بغیر محض نیکی کے زور پر ڈوبنے سے محفوظ ہو جاؤ وغیرہ وغیرہ.پس معجزات اور خوارق اور دعاؤں کی قبولیت کا قانون بے شک بالکل حق اور درست ہے بلکہ اگر خدائی آیات اور دعاؤں کی

Page 201

مضامین بشیر جلد سوم 179 قبولیت کا قانون نہ ہو تو مذہب ایک بالکل بے جان چیز بن کر ختم ہو جاتا ہے.لیکن باوجود اس کے عام حالات سے تعلق رکھنے والا اصول یہی ہے کہ شریعت کا قانون اور نیچر کا قانون الگ الگ دائرہ میں چلتے ہیں.اور ایک دوسرے کے کام میں دخل نہیں دیتے.نیچر یعنی قضا و قدر کے قانون میں یہی دنیا دارالعمل ہے اور یہی دارالجزاء ہے.مگر شریعت کے قانون میں یہ دنیا صرف دار العمل ہے اور دارالجزاء آخرت کی زندگی ہے.مثال کے طور پر دیکھو کہ کیا ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کو کوئی بیماری یا حادثے پیش نہیں آتے تھے؟ کیا اُحد کے میدان میں آپ دشمنوں کے ہاتھ سے زخمی نہیں ہوئے ؟ کیا ایک دفعہ آپ گھوڑے سے گر کر کئی دن تک صاحب فراش نہیں رہے؟ کیا خیبر کی جنگ میں جبکہ آپ کو ایک بد بخت یہودی عورت نے زہر دے کر مارنے کی کوشش کی تھی.آپ نے اپنی مرض الموت میں جبکہ آپ کی جسمانی طاقتیں کمزور پڑ رہی تھیں اس زہر کا اثر محسوس نہیں کیا تھا؟ اگر یہ سب واقعات تاریخ اسلام کا ایک کھلا ہوا ورق ہیں تو اس بات میں کیا شبہ ہے کہ عام حالات میں نیچر کے قانون نے جو سب انسانوں پر حاوی ہے آپ پر اپنا طبعی اثر پیدا کیا.اور آپ کا ارفع مقام اور اعلیٰ روحانیت آپ کو ان طبعی عوارض سے محفوظ نہیں رکھ سکے.گو دوسری طرف اس عام قانون نیچر کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا کے ہاتھ پر بے شمار خوارق ظاہر فرمائے اور کئی موقعوں پر جبکہ خدا کی خاص مشیت کا تقاضا تھا نیچر بھی ادنی غلاموں کی طرح آپ کے قدموں میں جھکی رہی اور یہی صورت اپنے اپنے رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر مرسلین کے حالات زندگی میں نظر آتی ہے.پس سطحی خیال کے لوگوں کی طرح خدا کے دو جدا جدا حکیمانہ قانونوں کو خلط ملط نہ کرو.اور نہ تم اس قسم کے حادثات کی کوئی معقول تشریح نہیں کر سکو گے.جو میجر محمد اسلم خان مرحوم کے بچے اور فلائنگ آفیسر عبدالحمید خان غزنوی کو پیش آئے.اور یا تو تمہیں دہر یہ لوگوں کی طرح یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ خدا کوئی نہیں اور سب اندھیر نگری ہے.ورنہ دو معصوم اور نیک جانیں اس قسم کے درد ناک حالات میں ضائع نہ ہوتیں اور یا ہندوؤں کی طرح یہ نتیجہ نکلے گا کہ خدا تو بیشک ہے مگر مرنے والوں نے اپنی کسی سابقہ جون کی سزا پائی ہے.حالانکہ یہ دونوں نظریے بالبداہت باطل ہیں.پس حق یہی ہے کہ بے شک مرنے والے اور ان کے پسماندگان نیک تھے مگر ان کی نیکی شریعت کے قانون سے تعلق رکھتی تھی جو انہیں قانون نیچر کے حادثہ سے محفوظ نہیں رکھ سکی اور انہوں نے دانستہ یا نادانستہ نیچر کے قانون کو توڑنے کا خمیازہ بھگتا.لڑکا ایک بلند کھڑکی پر چڑھا اور چونکہ وہ خود نا سمجھ تھا اور کوئی روکنے والا قریب نہیں تھا.اس لئے وہ اس کھڑکی سے گر کر جاں بحق ہو گیا.اور اس کی معصومیت یا اس کے بعد اس کی والدہ کو پیش آنے والا غم والم اسے اس حادثہ سے بچا نہیں

Page 202

مضامین بشیر جلد سوم 180 سکے.اسی طرح عبدالحمید خاں غزنوی کا جہاز کسی اندرونی نقص کی وجہ سے جس کا اسے علم نہیں ہو سکا یا رستہ میں کوئی طوفان با دیپیش آجانے کی وجہ سے جس پر وہ قابو نہیں پاسکا یا کسی خطرناک ایر پاکٹ میں داخل ہو جانے کی وجہ سے جو اس کے کنٹرول سے باہر تھا گر کر ہلاک ہو گیا.اور غزنوی مرحوم کی نیکی یا اس کے پسماندگان کو پہنچنے والا غیر معمولی صدمہ اسے اس حادثہ سے محفوظ نہیں رکھ سکے.اور چونکہ یہ ایک عام نیچر کا واقعہ تھا اس لئے خدا کی کوئی خاص استثنائی تقدیر بھی آڑے نہیں آئی.اور لاء آف نیچر کی عام نقد میرا پنا کام کر گئی.یہی وہ صاف اور سیدھی صورت ہے جس کے ماتحت اس قسم کے حادثات کی معقول تشریح کی جاسکتی ہے.ورنہ اگر ایسے عام حادثات میں بھی نیکی بدی کے قانون کی دخل اندازی کا رستہ کھولا جائے تو مذہب کے میدان میں کوئی امن باقی نہیں رہتا.اور انسان ایک ایسی بھول بھلیاں میں گر جاتا ہے جس میں اس کیلئے کوئی جائے مفر نہیں.میرا یہ نوٹ پھر مضمون کی وسعت اور باریکی کے لحاظ سے بہت مختصر ہے.مگر میں اپنی موجودہ صحت میں اس سے زیادہ نہیں لکھ سکتا اور صرف اس اصولی تشریح پر اکتفا کرتا ہوں.اگر باوجود اس تشریح کے کوئی نا واقف انسان یہ سمجھ کر دعا سے رکتا ہے کہ جو کچھ مقدر ہے وہ بہر صورت ہو کر رہے گا اس لئے دعا کرنا بے سود ہے.یا کوئی جاہل شخص انبیاء اور اولیاء کے خوارق سے انکار کرتا ہے تو وہ اسی طرح کی حماقت کا مرتکب ہوتا ہے جس طرح کہ ایک نادان انسان دوسری انتہا پر جا کر اس قسم کے حادثات سے دہریت یا تناسخ کے عقیدہ کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا ہے.بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک لطیف ارشاد پر اس نوٹ کو ختم کرتا ہوں.حضور اپنی تصنیف کشتی نوح میں عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اگر چہ شریعت نے مختلف مصالح کی وجہ سے تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا ہے.لیکن قضا و قدر کا قانون تمہارے لئے کھلا ہے.اگر شریعت کا قانون تمہارے لئے قابل برداشت نہیں تو بذریعہ دعا قضا و قدر کے قانون سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ قضا وقد رکا قانون شریعت کے قانون پر بھی غالب آجاتا ہے“ کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 81) اس لطیف حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں ایک طرف ان دو قانونوں یعنی قانون شریعت اور قانونِ قضاء وقدر ) کے دو علیحدہ علیحدہ وجودوں کو مانا ہے وہاں خاص حالات میں ان کے باہم اثر انداز ہونے کو بھی تسلیم کیا ہے.اور یہی حق ہے کہ كُلّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَمَالَ هَوْلَاءِ الْقَوْمَ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا.

Page 203

مضامین بشیر جلد سوم 181 نوٹ:.یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ قضا و قدر کا قانون شریعت کے قانون پر بھی غالب آجاتا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ جب یہ دو قانون ایک دوسرے کے مقابل پر آجائیں تو چونکہ اس دنیا کا عام قانون قضاء قدر کا قانون ہے اس لئے وہ شریعت کے قانون پر غالب آجاتا ہے.یعنی بالفاظ دیگر عام حالات میں ایک نیک آدمی کی نیکی اسے قضاء قدر کے قانون کی زد سے نہیں بچاسکتی.(محرره 24 اکتوبر 1954 ء) ) روزنامه الفضل لاہور 29 اکتوبر 1954 ء) غریبوں کی امداد کا خاص موسم اشتراکیت کے مقابلہ کا عملی طریق سردی کا موسم بڑی سرعت کے ساتھ آ رہا ہے اور ہوا کی تنگی غریبوں کے لئے کئی قسم کی مشکلات او تکالیف کا سامان کر رہی ہے.اس موسم میں مفلس طبقہ کی ضروریات میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے.سب سے پہلے تو گرم کپڑوں اور گرم بستر کی ضرورت اپنا احساس پیدا کرانا شروع کرتی ہے.کیونکہ گرمیوں کا نیم برہنہ جسم اور بے بستر اور بے لحاف کی چار پائی زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے کافی نہیں ہوتی.اس کے ساتھ ہی غریبوں کو اپنے شکستہ جھونپڑوں کی مرمت کی فکر لاحق ہونی شروع ہو جاتی ہے تا کہ ہوا کے رخنوں کو بند کر کے اپنے بیوی بچوں اور خود اپنے آپ کو موسم کی تکلیف دہ اور نقصان رساں شدت سے محفوظ رکھ سکیں.پھر بیماریوں کے لحاظ سے بھی یہ موسم خاص احتیاط کا موسم ہوتا ہے.کیونکہ اس موسم میں کئی بیماریاں زیادہ زور پکڑ جاتی ہیں.جن کے علاج معالجہ کی طرف زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے.اس کے علاوہ بدن کی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے اس موسم میں خوراک بھی کسی قدر بہتر رکھنی ضروری ہوتی ہے.الغرض یہ موسم کئی لحاظ سے غریبوں کی ضروریات کو بڑھا دیتا ہے.لیکن چونکہ ان کے وسائل ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مکتفی نہیں ہوتے اس لئے یا تو غرباء کا ایک طبقہ نا قابل برداشت مصیبتوں میں مبتلا ہو کر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور یا اپنی صحت کو برباد کر کے بیماری اور تلخی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے.اور یہ دونوں باتیں اُس جماعت کے لئے نہایت درجہ قابل شرم ہوتی ہیں جس کی طرف ایسا طبقہ منسوب ہوتا ہے.

Page 204

مضامین بشیر جلد سوم 182 مگر اس قسم کے حالات کا سب سے بڑا نقصان اخلاقی اور دینی میدان سے تعلق رکھتا ہے.کیونکہ ان حالات میں بعض غریب افراد جو خدائی نظام کی حقیقت اور انسانی جد و جہد کے گہرے فلسفہ کو نہیں سمجھتے.وہ ایک طرف نعوذ باللہ خدا کے متعلق اور دوسری طرف سوسائٹی کے خوشحال طبقہ کے متعلق ناشکری کے جذبات میں مبتلا ہونا شروع ہو جاتے ہیں.اور خیال کرتے ہیں کہ خدا نے ایک طبقہ کو اتنا امیر بنا کر کہ اسے اپنی دولت کو سنبھالنا مشکل ہے اور دوسرے طبقہ کو اتنا غریب بنا کر کہ وہ اپنا پیٹ پالنے اور اپنا تن ڈھانکنے تک سے بھی معذور ہے دنیا میں یہ کیا نظام قائم کیا ہے.اور پھر ان لوگوں میں سے ایک حصہ جو زیادہ غور وفکر کی طاقت نہیں رکھتا.اس زمانہ کے سب سے بڑے فتنہ یعنی اشتراکیت اور کمیونزم کی طرف جھک جاتا ہے.جہاں اسے بظاہر پیٹ پالنے اور تن ڈھانکنے اور سر چھپانے کی عام دعوت ملتی ہے.حالانکہ اگر دنیا میں صحیح طریق پر اسلامی نظام قائم کیا جائے اور دولت کو مناسب طریق پر سمونے کی اُس مشینری کو بروئے کار لایا جائے جو اسلام نے قائم کی ہے.تو ایک طرف انفرادی جائیداد پیدا کرنے اور انفرادی جد و جہد کا پھل کھانے کا رستہ بھی کھلا رہتا ہے.اور دوسری طرف زکوۃ اور صدقات اور تقسیم ورثہ اور بندش سود وغیرہ کے ذریعہ ملکی دولت چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے بھی رکی رہتی ہے.اور امیروں کی دولت کا ایک حصہ لازماً کٹ کٹ کر غریبوں کو پہنچتارہتا ہے.یقیناً اس زمانہ میں اشتراکیت کے فتنہ کو ہوا دینے والی سب سے بڑی چیز یہی ناگوار منظر ہے کہ ایک طبقہ تو گویا دولت میں لوٹتا پوشتا نظر آتا ہے اور دوسرا طبقہ اپنا پیٹ بھرنے اور بدن ڈھانکنے تک سے معذور ہے.کم از کم ہماری جماعت کو یہ سبق ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ ہم اشتراکیت کا مقابلہ صرف چند فلسفیانہ باتوں کے ذریعہ نہیں کر سکتے بلکہ اس عملی نظام کے ذریعہ سے کر سکتے ہیں جو ہمارا پیارا مذ ہب اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.جو ہر دوستم کی انتہاؤں یعنی سرمایہ داری اور اشتراکیت سے بچ کر وسطی طریق پر گامزن ہوتا ہے.اور ایک طرف افراد کے ذاتی حقوق اور ان کی ذاتی جد و جہد کو قائم رکھتا ہے.اور دوسری طرف خوشحال طبقہ کی دولت میں غریبوں کو سائل کے طور پر نہیں بلکہ حق دار کے طور پر حصہ دار بناتا ہے.بہر حال اب سردی کا موسم شروع ہے اور جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے اس موسم میں غریبوں کی ضروریات میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے.جسے وہ اپنی محدود آمد سے پورا نہیں کر سکتے.پس جماعت کے خوشحال طبقہ کا فرض ہے کہ وہ حسب فرمانِ الہی اپنے اموال کا ایک حصہ اپنے غریب بھائیوں کی امداد میں خرچ کریں.یہ امداد زیادہ تر مقامی ہونی چاہئے اور ہر ذی ثروت دوست کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماحول میں نظر ڈال کر اپنے غریب ہمسایوں کی امداد کو پہنچے.جو غریب ہمسائے موسم سرما کے کپڑوں سے محروم ہوں

Page 205

مضامین بشیر جلد سوم 183 انہیں حسب استطاعت سردی کے کپڑے مہیا کئے جائیں.اگر طاقت ہو تو نئے کپڑے بنوا کر دیئے جائیں ور نہ غریبوں کے لئے مستعمل کپڑے بھی ایک نعمت ہوتے ہیں.جن غریب ہمسایوں کے پاس سردی کے موسم کے لحاظ سے لحاف وغیرہ نہ ہوں انہیں لحاف مہیا کئے جائیں.اگر کسی غریب کا مکان شکستہ ہے اور ٹھنڈی ہوا کے رخنوں کو روکنے کے قابل نہیں تو اسے مناسب امداد دے کر مکان درست کرا دیا جائے.اگر کوئی غریب بیمار ہے تو علاج کا انتظام کرا دیا جائے.یا دوائی کے لئے کچھ نقد امداد کر دی جائے وغیرہ وغیرہ.اور گو الْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ کا اصول بہر حال مسلم ہے.مگر عمومی رنگ میں یہ امداد بلالحاظ فرقہ ومنذ ہب ہونی چاہئے جس رب العالمین خدا نے جانوروں تک کی خدمت کو بھاری ثواب قرار دیا ہے وہ یقیناً غربت اور تنگ حالی کے ماحول میں فرقہ اور مذہب کی حد بندی کو پسند نہیں فرماتا.اور حقیقتا یہی وہ مؤثر طریق ہے جس سے ہم ملک وقوم میں اشتراکیت کے بھوت کا عملی مقابلہ کر سکتے ہیں اور اس میں غلطی خوردہ مخالفین میں نیک اثر پیدا کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے.اسی طرح چونکہ مرکز سلسلہ میں بھی ہمیشہ غرباء کا ایک معتد بہ طبقہ موجود رہتا ہے اور مرکز کا اثر ساری جماعت پر پڑتا ہے.اس لئے اپنے صدقات کا کچھ حصہ مرکز میں آنا چاہئے.تاریخ بتاتی ہے کہ جس طرح مرکز کی نیکی کا اثر تمام شاخوں پر پڑتا ہے اسی طرح اگر مرکز میں کوئی خرابی یا بے چینی ہو تو وہ بھی لاز ما تمام جماعت پر اثر ڈالتی ہے.کیونکہ مرکز دل کے حکم میں ہے.جس کے متعلق ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ إِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ.( صحیح بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبراد بینه ) محرره 14 نومبر 1954 ء) روزنامه الفضل لاہور 18 نومبر 1954 ء) اسلام میں استخارہ کا مبارک نظام اور بظاہر متضاد خوابوں کا فلسفہ اسلام کی بے شمار رحمتوں میں سے ایک بہت بڑی رحمت استخارہ کا مبارک نظام ہے جس کے ذریعہ دین ودنیا کے ہر اہم کام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی ) نے اپنی امت کے افراد کو ایک عجیب و غریب روحانی کڑی کے ذریعہ خدائے علیم و قدیر کی رحمت کے دامن کے ساتھ باندھ دیا ہے.ہمارے آقا

Page 206

مضامین بشیر جلد سوم 184 صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کبھی کسی مسلمان کو کوئی ایسا کام پیش آئے جو خدا اور رسول اور اولوالامر کے مقرر کردہ موقت فرائض میں سے نہیں ہے ( کیونکہ مؤقت فرائض کے معاملہ میں استخارہ کا کوئی سوال نہیں ہوتا ) بلکہ ایسا معاملہ ہے کہ اسے اختیار کرنا یا ترک کرنا یا اس کے اختیار کرنے کی صورت اور وقت کا فیصلہ کرنا ہر انسان کی عقل اور سمجھ اور حالات پر چھوڑا گیا ہے.تو اسے چاہئے کہ ایسا موقع پیش آنے پر خدا تعالیٰ سے استخارہ کر کے اس کی نصرت اور ہدایت اور خیر کا طالب ہوا کرے.اور یہ دعا کیا کرے کہ اے میرے آسمانی آقا ! تو اس بارے میں میری راہنمائی فرما کہ آیا میں یہ کام جو اس وقت میرے مدنظر ہے کروں یا اسے ترک کر دوں.یا یہ کہ میں اسے اس صورت میں کروں جو اس وقت میرے مدنظر ہے.یا کسی دوسرے رنگ میں سرانجام دوں.یا یہ کہ میں اس کام کو ابھی کروں یا کسی اور وقت پر ملتوی کر دوں.کیونکہ اے میرے علیم وقد سیر خدا! اس بات کو صرف تو ہی جانتا ہے کہ یہ کام میرے دینی اور دنیوی اور عاجل اور آجل مفاد کے لحاظ سے کس صورت میں اور کس وقت پر زیادہ مفید اور زیادہ با برکت ثابت ہونے والا ہے.یہ دعا جسے اصطلاحی طور پر استخارہ کی دعا کہتے ہیں ہر ایسے امر کے پیش آنے پر سکھائی گئی ہے جس میں خدا اور اس کے رسول اور اولوالامر کا کوئی موقت حکم موجود نہ ہو.یعنی کوئی ایسا حکم موجود نہ ہو جس میں یہ ہدایت دی گئی ہو کہ یہ کام فلاں وقت اور فلاں قسم کے حالات میں ضرور کیا جائے.جیسا کہ مثلاً پانچ وقت کی نماز یا رمضان کے روزے یا ایک صاحب نصاب شخص کے لئے سال گزرنے پر زکوۃ کی ادائیگی فرض ہوتی ہے.ایسے مؤقت اور معین احکام میں استخارہ کا کوئی سوال نہیں بلکہ در حقیقت ان باتوں میں استخارہ کرنے والا شخص دین سے ٹھٹھا کرتا ہے.کیونکہ وہ ایک صریح اور موقت حکم کے باوجود استخارہ کی آڑ لے کر خدائی حکم کو مشتبہ کرنا اور ٹالنا چاہتا ہے.لیکن اس قسم کے احکام کے علاوہ باقی سب امور میں خواہ وہ بظاہر کیسے ہی مفید اور نیک نظر آئیں استخارہ کی تعلیم دی گئی ہے.اور یہ تعلیم ایسی بابرکت اور روحانی نعمتوں سے ایسی معمور ہے کہ اس ذریعہ سے ہر سچے مومن کو ہر امر میں خدائی رحمت کے دامن سے وابستہ کر دیا گیا ہے.اور خدائی نعمتوں کے حصول کے لئے اس کی جھولی دائمی صورت میں کھلی رکھی گئی ہے.استخارہ کے اس نظام میں دُہری برکت ہے اول یہ کہ اس کے نتیجہ میں انسان کو کثرت کے ساتھ اور بار بار خدا کی طرف رجوع کرنے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹانے کا موقع ملتا ہے.اور خواہ بظاہر استخارہ کا کوئی اور نتیجہ نکلے یا نہ نکلے، استخارہ کی دعا بہر حال غیر معمولی برکت اور تزکیہ نفس اور انابت الی اللہ کا ذریعہ بنتی ہے.دوسرے اس ذریعہ سے انسان ضعیف البنیان جس کا علم بھی ناقص ہے اور قدرت بھی ناقص ہے.خدائے علیم

Page 207

مضامین بشیر جلد سوم 185 و قدیر کے غیر محدود علم اور غیر محدود قدرت سے فائدہ اٹھاتا ہے.اور زندگی کی بے شمار ٹھوکروں اور لغزشوں سے بچ جاتا ہے.استخارہ کے یہ دو عظیم الشان فوائد اتنے یقینی اور اتنے قطعی ہیں کہ کوئی دیندار انسان اس کی برکات کا منکر نہیں ہوسکتا.یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ کے اولیاء کرام اور صلحاء عظام نے ہر زمانہ میں استخارہ کو اپنا مسلک بنایا ہے اور زندگی کے کسی حرکت و سکون کو استخارہ کی برکت سے محروم نہیں ہونے دیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بڑی کثرت کے ساتھ اس پر عمل فرماتے تھے.پس ہماری جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے تمام کاموں میں اس بابرکت نظام سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے.اور استخارہ کی عادت کو اتنا راسخ کر لے کہ کسی اہم کام میں اس کی طرف سے غافل نہ ہو.بلکہ اپنی ذات کے علاوہ اپنے بیوی بچوں اور دوستوں کو بھی اس میں شریک کیا کرے.استخارہ کی دعا اور اس کا طریق استخارہ کی دعا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے ذیل کے الفاظ میں مروی ہوئی ہے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَاسْتَقدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَاسْتَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيْمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَ تَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُّوب - اللَّهُمَّ إِن كُنتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ امْرِئٍ أَوْ قَالَ فِي عَاجِل أَمْرِى و جلِهِ فَاقْدُرُهُ لِى وَيَسِّرُهُ لِى ثُمَّ بَارِكْ لِى فِيهِ - وَإِن كُنتَ تَعْلَمَ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَ مَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى أَوْ قَالَ فِي عَاجِل أَمْرِى وَ آجِلِهِ فَاصْرِفُهُ عَنِّى وَ اصْرِفْنِى عَنْهُ وَاقْدُرْلِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ ارْضِنِي بِهِ.آ.( بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عند الاستخارة ) یعنی اے میرے خدا! میں تیرے علم کے ذریعہ تیری جناب سے خیر کا طالب ہوں اور تیری قدرت کے ذریعہ اپنے کاموں میں طاقت اور توفیق چاہتا ہوں.اور تیرے بھاری فضل کا امیدوار ہوں کیونکہ تو کامل قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا.اور تو غیر محدود علم کا مالک ہے اور مجھے علم حاصل نہیں.اور تو یقیناً سب غیوں اور آئندہ ہونے والی باتوں کا جانے والا ہے.سواے میرے خدا! اگر تیرے علم میں یہ کام جو اس وقت میرے مدنظر ہے میرے لئے دین اور دنیا اور انجام کار کے لحاظ سے اچھا ہے تو تو مجھے اس کی توفیق عطا کر اور اسے میرے لئے آسان کر دے اور پھر اس میں میرے لئے برکت بھی ڈال.لیکن اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین اور دنیا اور انجام کار کے لحاظ سے اچھا نہیں تو اسے مجھ سے دور رکھ اور مجھے اس سے دور رکھ

Page 208

مضامین بشیر جلد سوم 186 اور اس کی جگہ جس بات میں میری بہتری ہو خواہ وہ کوئی ہو مجھے اس کی توفیق دے اور میرے دل میں اس کے ذریعہ تسکین اور بشاشت عطا فرما.استخارہ کا مسنون طریق یہ ہے کہ رات کو سونے سے قبل انسان دورکعت نفل ادا کرے.اور ان دو نفلوں میں اوپر والی دعا مانگے.اور اس وقت اپنے دل میں یہ یقین پیدا کرے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور میں خدا کو دیکھ رہا ہوں.اور یہ کہ میں اس وقت اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے خیر و برکت اور رشد و ہدایت کا طالب ہوں.اور یہ نماز ایسے درد و سوز اور حضور قلب سے ادا کی جائے کہ گویا اپنے دل کو پگھلا کر خدا کے سامنے رکھ دیا ہے.اور اس کے بعد کسی اور کام میں مشغول ہونے کے بغیر بستر پر جا کر لیٹ جائے.اور سوتے ہوئے بھی اس دعا کے مضمون کی طرف دھیان رکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جس شخص کو استخارہ کی مسنون دعا یاد نہ ہو وہ اپنی زبان اور اپنے الفاظ میں ہی استخارہ والے مضمون کی دعا کر سکتا ہے.اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سوتے ہوئے یہ مختصر دعا بھی کر لینی چاہئے کہ يَا خَبِيْرُ أَخْبِرْنِي يَا بَصِيرُ أَبْصِرُنِي يَا عَلِيمُ عَلِمُنِي یعنی اے میرے خبیر آقا! مجھے اپنے منشاء سے اطلاع دے.اوراے میرے بینا خدا! تو مجھے اس معاملہ میں بصیرت عطا کر.اور اے میرے علیم خالق و مالک ! تو مجھے اپنی جناب سے علم بخش.اس قسم کا استخارہ سات راتوں تک مسلسل جاری رکھنا چاہئے.اور اگر اتنا موقع نہ ہو تو کم از کم تین رات تک جاری رکھا جائے.اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اس کا بھی موقع نہ ہو تو ایک رات پر ہی اکتفا کیا جاسکتا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں تک فرماتے تھے کہ فوری ضرورت کے وقت جبکہ درمیان میں ایک رات بھی نہ آتی ہو تو دن کے وقت بھی استخارہ کیا جا سکتا ہے.کیونکہ استخارہ بہر حال ایک دعا ہے اور لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.استخارہ کے چار امکانی نتائج استخارہ کا نتیجہ امکانی طور پر چار طرح ظاہر ہو سکتا ہے.اول.اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کسی الہام یا رویا کے ذریعہ اپنا منشاء ظاہر فرما دے.خواہ خود استخارہ کرنے والے پر ظاہر کر دے یا اس کے کسی بزرگ یا عزیز یا دوست پر ظاہر کر دے.کیونکہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ الْمُؤْمِنُ يَرَىٰ وَ يُرَى لَهُ یعنی کبھی تو مومن کو خود خواب آ جاتی ہے اور کبھی اس کے لئے کسی دوسرے شخص کو خواب دکھا دی جاتی ہے.

Page 209

مضامین بشیر جلد سوم 187 دوسرے اس طرح کہ کوئی الہام یا رویا وغیرہ تو نہ ہو مگر استخارہ کرنے والے کا دل کسی بات پر تسلی پا جائے.کیونکہ خدا کی مشیت بعض اوقات اس رنگ میں بھی ظاہر ہوا کرتی ہے کہ کوئی لفظی جواب نہیں ملتا.مگر دل تسلی پا جاتا ہے.تیسرے اس طرح کہ استخارہ کرنے والے کو اس کے عزیزوں یا دوستوں کی طرف سے کوئی ایسا مشورہ ہل جائے جو خدائی مشیت کے مطابق ہے.کیونکہ یہ بھی حدیث نبوی بُرای که کی ایک بالواسطہ صورت ہے.چوتھے.یہ بھی ممکن ہے (اور ہمارے دوستوں کو اس پہلو کا بھی علم ہونا چاہئے.ورنہ وہ ٹھوکر کھا سکتے ہیں) کہ دعا کی قبولیت کے رنگ میں استخارہ کا کوئی بھی ظاہری نتیجہ نہ نکلے.بلکہ اللہ تعالیٰ کسی مصلحت سے استخارہ کرنے والے کو اپنی عقل سے کام لینے کے لئے آزاد چھوڑ دے.کیونکہ بہر حال خدا اپنے بندوں کے ماتحت نہیں بلکہ جس طرح وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول کر سکتا ہے.اسی طرح وہ کسی مصلحت کی بنا پر اپنے بندوں کی دعا کورڈ بھی کر سکتا ہے یا خاموش رہ سکتا ہے.مگر اس صورت میں بھی استخارہ کرنے والے کو کم از کم دعا کی روحانی برکت ضرور حاصل ہو جائے گی.اور خدائے رحیم و کریم یقینا اس بات سے خوش ہو گا کہ میرے بندے نے مجھے اپنا کارساز سمجھ کر پکارا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غالباً انہی تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اشعار تحریر فرمائے ہیں کہ تجھے دنیا میں ہے کس نے پکارا کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا تو پھر ہے کس قدر اُسکو سہارا کہ جس کا تو ہی ہے سب سے پیارا پہلے شعر میں تو عام لوگوں کا ذکر ہے جن کی دعا اگر رڈ بھی ہو جائے تو پھر بھی کوئی نہ کوئی رحمت کا پہلو پیدا کر کے رہتی ہے.اور دوسرے شعر میں حضرت مسیح موعود نے خود اپناذ کر فرمایا ہے.کیونکہ آپ کا سب کچھ خدا کا تھا اور خدا کی ساری رحمت آپ پر سایہ فگن تھی.اسی لئے آپ دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ " تیرح رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر ، یعنی میرا سارا کاروبار صرف تیری رحمت کے سہارے پر قائم ہے.اب میں استخارہ کے مسئلہ کے متعلق ایک ایسے پہلو کو لیتا ہوں جو کئی نا واقف لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث ہو جاتا ہے.بلکہ یہ حالت قریب کے زمانہ میں خود میرے گھر میں بھی پیش آئی ہے.کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک خانگی معاملہ میں بعض دوستوں اور بزرگوں کو استخارہ کے لئے لکھا تھا.اس کے نتیجہ میں جو جوابات مجھے مختلف دوستوں کی طرف سے موصول ہوئے اُن میں سے اکثر بظاہر متضاد تھے یعنی کسی دوست نے اپنے

Page 210

مضامین بشیر جلد سوم 188 استخارہ کے نتیجہ میں ایک بات لکھی تھی.اور دوسرے دوست نے بالکل ہی دوسری بات کا مشورہ دیا تھا.اور بعض نے اپنی خواہیں بھی بیان کی تھیں.جو بظاہر ایک دوسرے کی نفیض تھیں.میں تو خدا کے فضل سے اس ظاہری اختلاف کے فلسفہ کو سمجھتا تھا.مگر میرے بعض عزیز اس پر بہت پریشان ہوئے کہ یہ کیا تماشہ ہے کہ ایک ہی معاملہ میں مختلف استخارہ کرنے والے بزرگوں کو مختلف بلکہ متضاد خوا میں آ رہی ہیں.مثلاً ایک دوست کہتا ہے کہ مجھے استخارہ کے نتیجہ میں زید کے حق میں خواب آئی ہے اور دوسرا دوست کہتا ہے کہ مجھے استخارہ کے جواب میں عمر قابل ترجیح معلوم ہوا اور تیسر ادوست کہتا ہے کہ مجھے استخارہ کرنے پر خالد مقدم نظر آیا وغیرہ ذالک.چونکہ یہ شبہ اکثر لوگوں کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے.اس لئے دوستوں کو اس کا جواب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے.مگر اصل جواب دینے سے پہلے ایک اصولی بات کا بیان کرنا ضروری ہے.وہ اصولی بات یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے.اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ مومنوں کی تربیت اور مخالفوں کے امتحان کی غرض سے آئندہ کی خبروں کے متعلق ایک حد تک اخفا کا پردہ رکھا کرتا ہے.اور سوائے خاص حالات کے کامل انکشاف نہیں فرماتا.اللہ تعالیٰ کا یہ حکیمانہ طریق عام لوگ تو الگ رہے، انبیاء تک کے حالات میں چلتا ہے.چنانچہ انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی کم و بیش اخفا کا پردہ رہتا ہے.اور اس قسم کا انکشاف نہیں ہوا کرتا جسے سورج کے طلوع ہونے سے تشبیہہ دے سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اخفاء کی مثال یوں بیان فرمائی ہے کہ جیسے ایسی رات کی چاندنی ہو جس میں چاند کے ساتھ ساتھ کچھ بادل بھی ہوں.جب کہ روشنی تو ہوتی ہے مگر اتنی تیز روشنی نہیں ہوتی کہ دیکھنے والوں اور نہ دیکھنے والوں میں کوئی امتیاز باقی نہ رہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ) یا جیسے کہ ایک حاملہ عورت کا حال ہوتا ہے جس کے متعلق یہ تو کہ سکتے ہیں کہ اس کے بچہ پیدا ہونے والا ہے.مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ بچہ لڑکی ہے یا کہ لڑکا.(ازالہ اوہام ) پس جبکہ انبیا ء تک کے مکاشفات میں اخفاء کا پردہ ہوتا ہے تو عام لوگوں کی خوابوں اور الہاموں کے متعلق یہ امید کس طرح رکھی جا سکتی ہے کہ ان کی خواہیں ہر صورت میں نصف النہار کی طرح روشن ہونگی ؟ اس اصولی تشریح کے بعد یا درکھنا چاہئے کہ استخاروں کے نتیجہ میں بعض اوقات جو بظاہر متضاد خوا ہیں آتی ہیں ان کی بالعموم تین وجوہات ہوا کرتی ہیں.متضاد خوابوں کی تین وجوہات پہلی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنت اختفاء کے ماتحت مختلف استخارہ کرنے والے لوگوں کو زیر استخارہ امر کے مختلف پہلو دکھا دیتا ہے.مثلاً اگر کسی کی شادی کا سوال ہے اور اس میں مختلف لڑکوں یا لڑکیوں میں سے

Page 211

مضامین بشیر جلد سوم 189 کسی ایک کو انتخاب کرنا ہے تو بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو تو خواب میں لڑکے یا لڑکی کا دینی پہلو دکھا دیتا ہے.اور کسی کو اس کے روزگار کے پہلو پر آگاہ کر دیتا ہے.اور کسی کو اس کی صحت کے بارے میں اشارہ فرما دیتا ہے.اور کسی کو آئندہ اولاد کے لحاظ سے نظارہ دکھا دیتا ہے.اور کسی پر میاں بیوی کے آئندہ اتحاد اور محبت کی جہت سے انکشاف فرما دیتا ہے وغیرہ وغیرہ.اور یہ انکشاف عموماً استخارہ کرنے والے کے ذاتی رجحان کی بناء پر ہوا کرتا ہے.اور ان مختلف نظاروں کے دکھانے میں خدا تعالیٰ کی یہ غرض ہوتی ہے کہ لو ہم نے تمہیں امر پیش آمدہ کے مختلف پہلو دکھا دیئے ہیں.اب اپنی عقل و فکر کو کام میں لا کر خود فیصلہ کر لو کہ کونسا رشتہ مناسب ہے.ظاہر ہے کہ رشتہ کے معاملہ میں میاں بیوی کی ازدواجی زندگی پر اثر ڈالنے والی اور خانگی خوشی کو درخشاں یا مکدر کرنے والی بہت سی باتیں ہوتی ہیں.مثلاً بعض اوقات میاں بیوی میں محبت تو ہوتی ہے مگر خاوند دیندار نہیں ہوتا.یا خاوند دیندار تو ہوتا ہے مگر اس کی صحت خراب ہوتی ہے.یا صحت بھی اچھی ہوتی ہے مگر مال کی تنگی ہوتی ہے.یا مال کی تنگی بھی نہیں ہوتی مگر کسی خاص رشتہ کے نتیجہ میں اولا دخراب پیدا ہونی مقدر ہوتی ہے.وغیرہ وغیرہ.تو ایسی صورت میں جبکہ آئندہ زندگی کا کوئی پہلو تو روشن ہوا اور کوئی پہلو تاریک ہو.اللہ تعالیٰ مختلف لوگوں کو مختلف پہلو دکھا کر انسانی دماغ کی تربیت کے لئے یہ اشارہ فرما دیتا ہے کہ اب تصویر کے مختلف پہلو تمہارے سامنے ہیں.سواب ہماری دی ہوئی معقل سے کام لے کر خود سوچو اور فیصلہ کرو.دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض اوقات مختلف خوابوں کی تعبیر غلط سمجھی جاتی ہے.یعنی حقیقتا تو کوئی اختلاف نہیں ہوتا.مگر لوگ اپنی ناسمجھی سے خوابوں کو متضاد خیال کر کے پریشان ہونے لگتے ہیں.حالانکہ ان کی حقیقی تعبیر متضاد نہیں ہوتی.دراصل خوابوں کی تعبیر کا علم بڑا باریک اور بڑا نازک ہے.بعض اوقات خواب میں رونا دیکھا جاتا ہے اور اس سے ہنسنا مراد ہوتا ہے.اور بعض اوقات خواب میں ہنسنا دیکھا جاتا ہے مگر اس سے رونا مراد ہوتا ہے.یا بعض اوقات ایک قسم کے حالات میں رونے کی تعبیر خوشی ہوتی ہے اور دوسری قسم کے حالات میں رونے کی تعبیر غم ہوتا ہے.اسی طرح بعض صورتوں میں بعض متبرک وجودوں کو خواب میں دیکھنے سے بظا ہر غم کی زندگی مراد ہوتی ہے.مثلاً حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خواب میں دیکھنے کی بعض اوقات یہ تعبیر ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کو زندگی میں کوئی غم پیش آئے گا.حالانکہ ویسے حضرت فاطمتہ الزہرا مومن عورتوں کی سرتاج ہیں.پس دوسری وجہ استخارہ کے نتیجہ میں بظاہر متضاد خوابوں کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خواب دیکھنے والے یا خواب کو سننے والے لوگ اپنی نا واقفیت سے خوابوں کی تعبیر میں غلطی کرتے ہیں اور انہیں متضاد خیال کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ حقیقی تعبیر کے لحاظ سے کوئی تضاد نہیں ہوتا.

Page 212

مضامین بشیر جلد سوم 190 تیسری امکانی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعض اوقات نیک لوگوں کی خوابوں میں بھی نفسانی یا شیطانی دخل ہو جاتا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ انبیاء یا خاص اولیاء کو الگ رکھ کر باقی سب لوگوں کی خوابوں میں کم و بیش نفسانی یا شیطانی دخل کا امکان ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی مشہور تصنیف ازالہ اوہام (صفحہ 107 ) میں استخاروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بعض اوقات جب کوئی شخص ایک خاص خیال دل میں جما کر استخارہ کرتا ہے.تو اس کی خواب یا الہام میں اس کے نفس کا اثر داخل ہو جاتا ہے اور اس قسم کے اثر سے انبیاء اور محدثین کے سوا باقی سب لوگوں کے مکاشفات متاثر ہو سکتے ہیں.میری یہ مراد ہر گز نہیں کہ نعوذ باللہ باقی سب صلحاء کے الہام یا رویا مشکوک ہوتے ہیں.حَاشَا وَ كَلَّا.بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ بے شک ان کے اکثر الہامات اور خواہیں رحمانی ہوتی ہیں.مگر اس بات کا امکان ہوسکتا ہے کہ ان کی کسی خواب یا الہام میں ان کے دل کی تمنا یا نفس کے رجحان کا دخل ہو گیا ہو.لہذا استخاروں کے نتیجہ میں متضاد خوابوں کی ایک امکانی تشریح یہ بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ ممکن ہے کہ ایک دوست کی خواب رحمانی ہو اور دوسرے کی خواب میں اس کی ذاتی رائے یا نفسیاتی میلان کا اثر شامل ہو گیا ہو.خوابوں کی مختلف اقسام ضمنا یہ بات بھی اس جگہ بیان کرنی ضروری ہے کہ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے.خواہیں عموماً تین قسم کی ہوتی ہیں.ایک رحمانی دوسرے نفسانی اور تیسرے شیطانی.رحمانی خواب تو وہ ہے جو خدا کی طرف سے ہوتی ہے.جس میں اختفاء کا پردہ یا تعبیر کی غلطی ہوتو ہومگر اس کے برحق ہونے میں کوئی کلام نہیں ہوتا.نفسانی یا زیادہ صحیح طور پر نفسیاتی خواب وہ ہوتی ہے جس میں خواب دیکھنے والے کی ذاتی حالت یا ذاتی رجحان کا دخل ہو جاتا ہے.اور شیطانی خواب وہ ہے جس میں شیطان یا انسان کے شیطانی خیالات کا اثر شامل ہوتا ہے.یہ تینوں قسم کی خواہیں اسی طرح اپنی علامات سے پہچانی جاتی ہیں جس طرح کہ دنیا کے ہزاروں انواع کے درخت اپنے پھلوں سے پہچانے جاتے ہیں.مگر آج کل کے مسلمانوں کی عقل پر کہاں تک رویا جائے.کہ وہ سگمنڈ فرائڈ کی اس نام نہاد دریافت پر تو سر دھنتے ہیں کہ خوابوں میں انسان کے نفسیاتی حالات کا دخل ہوتا ہے.مگر عرب کے صحرا میں پیدا ہونے والے اُمی نبی (فداہ نفسی) کے اس عظیم الشان علمی احسان کی طرف سے غافل ہیں.جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے خوابوں کے تین اقسام کی تشریح فرما کر علم رویا میں گویا ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا.سگمنڈ فرائڈ نے اسی چشمہ سے ایک ڈول بھرا اور اسے بھی کئی قسم کی آلائشوں سے

Page 213

مضامین بشیر جلد سوم 191 مکدر کر کے دنیا کے سامنے اصل حقیقت کا صرف تیسرا حصہ پیش کیا.مگر دنیا اپنے محسن اعظم کو بھول کر بیسویں صدی کے اس موجد کی ادھوری دریافت پر تعریف کے نعرے لگارہی ہے.العجب ثم العجب !!! خلاصہ کلام یہ کہ اسلام میں استخارہ کا نظام ایک بڑا مبارک اور عجیب وغریب نظام ہے.اور گواس کے بعض باریک پہلو بعض نا واقف لوگوں کو غلطی یا پریشانی میں مبتلا کر سکتے ہیں.مگر اس کی وجہ سے اس کی عظیم الشان برکات میں کوئی کمی نہیں آتی.بلکہ اُس خزانہ کی طرح جو زمین کی اندرونی گہرائیوں میں دفن ہوتا ہے اس نظام کی قدر و منزلت اور بھی بڑھ جاتی ہے.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے تمام کاموں میں خواہ وہ دین کے میدان سے تعلق رکھتے ہوں یا کہ دنیا کے میدان سے تعلق رکھتے ہوں، استخارہ کی عادت ڈالیں.اور ہر امر میں اپنے آسمانی آقا کی طرف رجوع کرنے کا طریق اختیار کریں.پھر اگر استخارہ کے نتیجہ میں انہیں کوئی ہدایت حاصل ہو تو اس پر عمل کریں اور خدا کے شکر گزار ہوں.اور اگر کوئی ہدایت حاصل نہ ہو تو پھر صبر سے کام لیں اور استخارہ کو ایک دعا یا ذکر الہی قرار دے کر اس کی برکات سے حصہ پائیں.اور اگر استخارہ کے نتیجہ میں بظاہر متضاد خوا ہیں آئیں تو اس پر پریشان نہ ہوں کیونکہ ایسی خوا میں تمہارے دماغوں کو روشن کرنے اور تمہارے دلوں میں سچے علوم کی جستجو پیدا کرنے اور تمہارے لئے نئی حکمتوں کے خزانے کھولنے کے لئے آتی ہیں.میں ایسے انسان کی عقل و دانش پر حیران ہوتا ہوں جو اپنے دینی اور دنیوی معاملات میں زیدا اور بکر اور عمر کے مشوروں کے لئے تو دوڑتا ہے مگر اُس علیم وقدیر خدا کی طرف رجوع نہیں کرتا جس کے علم اور قدرت کی کوئی انتہا نہیں اور جس کی محبت اور شفقت حقیقی ماؤں سے بھی بدرجہا زیادہ ہے.افسوس صد افسوس کہ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَ آخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.محرره 21 نومبر 1954 ء) روزنامه الفضل لاہور 28 نومبر 1954 ء) ایک دلچسپ تصنیف ”بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم اے کی دلچسپ تصنیف ”بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز“ میری نظر سے گزری ہے.مجھے اس رسالہ کے مطالعہ سے بے حد خوشی ہوئی.کیونکہ رسالہ وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرنے والا ہے.اور خدا کے فضل سے بہت اچھے انداز میں لکھا گیا ہے.برعظیم ہند و

Page 214

مضامین بشیر جلد سوم 192 پاکستان میں انگریز کی حکومت کے خاتمہ پر بعض لوگ جنہیں حقیقتا ابنائے وقت کہا جا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ پر یہ اعتراض کرنے لگ گئے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ حکومت برطانیہ کی خوشامد کا طریق اختیار کیا.اور آپ کی جماعت نے اس کی سنگینوں کے سایہ میں پرورش پائی.اور اس اعتراض کو اس کثرت کے ساتھ اور اس دھوکہ دہی کے رنگ میں دہرایا جاتا ہے کہ بعض اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں.مکرم در دصاحب کو خدا جزائے خیر دے کہ انہوں نے اس اعتراض کا پول کھول کر اور اس کا ایک دندان شکن جواب دے کر وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ اس رسالہ کے ذریعہ ملک میں ذہنی طمانیت اور باہم اعتماد اور اتحاد کا دروازہ کھولا گیا ہے.دراصل یہ اعتراض دو باتوں کے نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے.ایک بات تو یہ ہے کہ جس پس منظر اور پیش آمدہ حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ تحریرات لکھیں.جن کی بناء پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے.اسے اعتراض کرنے والے لوگ نظر انداز کر کے اور ان تحریرات کو ان کے پس منظر سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں.اور یہ وہی دھو کے کا طریق ہے جسے اسلام کے خلاف مسیحی اور آریہ سماجی استعمال کر رہے ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان کلمات کو تو دیکھتے ہیں جو حضور نے انگریز کے قیام امن اور آزادی ضمیر کے پیش نظر سیاسی رنگ میں تحریر فرمائے ہیں مگر ان زبر دست تحریرات کو بھول جاتے ہیں جو آپ نے مذہبی رنگ میں انگریز کے باطل خیالات کو کچلنے اور ان کے دجل اور بطلان کا کھنڈن کرنے کے لئے سپرد قلم کی ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ان دو اصولی باتوں کو مد نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود کی تحریرات کا جائزہ لیا جائے تو نہ صرف ان میں کوئی بات قطعاً قابل اعتراض نظر نہیں آتی.بلکہ یہ ایک عظیم الشان خدمت ثابت ہوتی ہے جو آپ نے پیش آمدہ حالات میں اسلام اور مسلمانوں کی انجام دی.محررہ 19 دسمبر 1954 ء) روزنامه الفضل لاہور 21 نومبر 1954 ء)

Page 215

مضامین بشیر جلد سوم احمدیت کی ترقی کے متعلق شبہات کا ازالہ الہی سلسلوں میں جلال و جمال کے الگ الگ مسلک 193 جب میں گزشتہ ایام میں لاہور میں بیمار تھا اور میری میزان حیات کے پلڑے اوپر نیچے ہو رہے تھے تو اس وقت اس محبت اور اخلاص کے جذبات کی وجہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل خدا تعالیٰ نے جماعت کے قلوب میں پیدا کر رکھے ہیں.لاہور اور دیگر مقامات کے کثیر التعداد دوست میری عیادت کے لئے تشریف لاتے تھے.اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر یا ان کی آمد کی اطلاع پا کر ( کیونکہ اکثر احباب ڈاکٹری ہدایت کے ماتحت باہر سے ہی طبیعت پوچھ کر اور مجھے اپنی دعاؤں کا ہدیہ دے کر واپس چلے جاتے تھے ) اپنے دل میں اس منظر سے روحانی سرور حاصل کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَ اللَّهَ الَّفَ بَيْنَهُمُ (الانفال: 64) کا عظیم الشان معجزہ دکھایا ہے اور حسن ز بصرہ بلال از جبش صہیب از روم کو ایک چھت کے نیچے جمع کر کے حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر محبت اور اتحاد کی روحانی کڑیوں سے باندھ دیا ہے.اسلام اور احمدیت کے خطرات ان ایام میں جب مجھے کسی قدرا فاقہ ہوا تو بعض دوست میرے پاس تشریف لاکر متفرق مذہبی امور پر گفتگو بھی فرماتے تھے اور میں اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق ان کے سوالوں کا جواب دے دیا کرتا تھا.ان سوالوں میں سے ایک سوال جس کا بعض نوجوان دوستوں نے بار بار ذ کر کیا وہ جماعت کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ان عزیزوں نے اس بات کے متعلق تشویش کا اظہار کیا کہ جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے ستر سال ہونے کو آئے ہیں مگر ابھی تک اس کی کامیابی اور غلبہ کے کوئی خاص آثار ظاہر نہیں ہوئے بلکہ بعض لحاظ سے مشکلات بڑھتی جاتی ہیں.اور دنیا میں چاروں طرف باطل خیالات اور مادی نظریات کا اتنا زور ہے اور دجالی فتنوں نے ایسا غلبہ پایا ہوا ہے کہ ان مہیب اور عالمگیر طوفانوں کے مقابلہ پر احمدیت کی چھوٹی سی کشتی کا بس اللہ ہی حافظ ہے.اور بظاہر یہ بات تصور میں نہیں آسکتی کہ یہ مٹھی بھر غریب اور کمزور جماعت جو سینکڑوں قسم کی اندرونی اور بیرونی مشکلات میں گھری ہوئی ہے اپنے ماحول کے عظیم الشان خطرات پر کس طرح غالب آئے

Page 216

مضامین بشیر جلد سوم 194 گی.اول تو مسلمان دنیا کی مسیحی اور دہریہ اقوام کے مقابل پر بالکل ضعیف و ناتواں ہیں.اور پھر مسلمانوں میں سے احمدی تو گویا آٹے میں نمک کی حیثیت بھی نہیں رکھتے تو پھر ان حالات میں یہ بیل منڈھے کیسے چڑھے گی اور ایک پڑی اپنے مقابل کے قوی ہیکل د یو پر غلبہ کس طرح پائے گی ؟ یورپ اور امریکہ کی علمی ترقی اور سائنس اور فلسفہ کا زور اور مادیت کا اوج و کمال اور سیم وزر کی فراوانی اور فوجی ساز وسامان کا معراج اور دوسری طرف اشترا کی طاقتوں کا بحر مواج، یہ وہ ہمت شکن نظارے ہیں جن سے مرعوب ہو کر بعض اوقات بعض مخلص مومن بھی متی نَصْرُ الله کے رنگ میں گھبراہٹ کا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے ان دوستوں نے بھی اسی رنگ میں یہ سوال کئے ہوں گے.جس وقت مجھ سے یہ سوال کئے گئے اس وقت میں نے اپنی طاقت کے مطابق ان سوالوں کا مختصر اور مجمل سا جواب دے کر اپنے دوستوں کو تسلی دینے کی کوشش کی لیکن نہ تو اس وقت میری ایسی حالت تھی کہ زیادہ مفصل جواب دے سکتا.اور نہ میرے یہ عزیز دوست میری بیماری اور کمزوری کی وجہ سے اپنے اس سوال کا زیادہ پیچھا کر سکتے تھے.اس لئے سرسری سی گفتگو کے بعد جو زیادہ تر ایمان بالغیب کا رنگ رکھتی تھی یہ سوال و جواب ختم ہو جا تا رہا.اور میں نے لطیفہ کے طور پر یہ بات بھی اپنے دوستوں سے کہہ دی کہ بے شک آپ کو یہ سوالات موجودہ وقت میں پریشان کرتے ہوں گے.بلکہ ظاہری حالات واقعی پریشان کن ہیں.مگر حق یہ ہے کہ مجھے تو بچپن سے آج تک کسی دجالی طلسم یا کسی مادی طاقت نے مرعوب نہیں کیا.اور میں ہمیشہ نہ صرف کامل ایمان کے ساتھ بلکہ کامل بصیرت کے ساتھ بھی صداقت کی آخری فتح کا یقین رکھتا رہا ہوں.مگر یہ بات میری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں ہے (ورنہ من آنم کہ من دانم ) بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دردمندانہ دعا کی وجہ سے ہے جو حضور نے آج سے پچپن سال پہلے اپنے محر وسالہ بچوں کے لئے فرمائی کہ.نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال پس میرے دل پر تو خدا کے فضل سے کبھی ایسی دجالی طاقت یا مخالفانہ علمی مظاہرہ کا رعب نہیں پڑا.لیکن چونکہ یہ سوال کئی اور نو جوانوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہوگا اور وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوکر احمدیت کے آخری اور عالمگیر غلبہ سے متعلق ہراساں ہوتے ہوں گے.اور خصوصاً یہ خیال انہیں زیادہ پریشان کرتا ہوگا کہ اسلام نے تو تمہیں چالیس سال کے قلیل عرصہ کے اندر اندر اس وقت کی تمام معلوم اور مہذب دنیا کے ایک تہائی حصہ پر غلبہ پالیا.اور دنیا کی طاقتوں میں صف اول پر آ گیا مگر اس کے بعد احمدیت جو اسلام کے دور ثانی میں اس کے احیاء اور اس کے دائمی اور عالمگیر غلبہ کی علمبردار ہونے کی مدعی ہے.وہ قریباً ستر سال گزرنے پر بھی ابھی

Page 217

مضامین بشیر جلد سوم 195 تک ہر کہ ومہ کی ٹھوکریں کھا رہی ہے.اور اس کا غلبہ تو الگ رہا اس کی زندگی تک مخدوش نظر آتی ہے.اس قسم کی دماغی تشویش اور شک وشبہ کی حالت کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس اہم سوال کے متعلق کسی قدر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی جائے.تا بعض خام طبیعت کے نوجوان جو اپنے فطری میلان کے لحاظ سے مایوسی کی طرف جلدی جھکنے لگتے ہیں وہ ایمان کے نور سے منور ہو کر اپنی ہمتوں کو بلند کر سکیں.اور ان کے دلوں میں یہ یقین راسخ ہو جائے کہ خواہ کچھ ہو آخری فتح بہر حال اسلام اور احمدیت کی ہے.اور مادیت اور دجالیت کے سارے طلسم اور سرمایہ داری اور اشتراکیت کی ساری طاقتیں بالآخر اسلام اور احمدیت کے مقابل پر اس طرح اڑ کر ختم ہو جائیں گی جس طرح ایک تیز آندھی کے سامنے رستوں کاخس و خاشاک ادھر ادھراڑ کر غائب ہو جایا کرتا ہے.فَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنتُمْ مُومِنِيْنَ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان خطرات کے متعلق انتباہ اس تعلق میں سب سے پہلی بات تو یہ یا درکھنی چاہئے کہ اسلام اور احمدیت نے جو پیشگوئیاں اپنی آخری فتح کے متعلق بیان کی ہیں وہ نعوذ باللہ جہالت کی پیشگوئیاں نہیں ہیں جو مخالف طاقتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے یونہی خوش عقیدگی کے رنگ میں بیان کر دی گئی ہوں.بلکہ یہ پیشگوئیاں تمام مخالف طاقتوں کا پوری طرح اندازہ کرنے اور مقابل کے خطرات کا پورا پوراعلم رکھنے اور ان کا صحیح صحیح جائزہ لینے کے بعد بیان کی گئی ہیں.پس ان پیشگوئیوں کو کوئی شخص اپنی نادانی کی بناء پر وقت سے پہلے غلط قرار دے تو دے.مگر انہیں ایک مجذوب کی بڑیا اندھے کا نعرہ نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ قرآن و حدیث اور احمدیت کا لٹریچر ان مہیب خطرات اور مشکلات کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں.جو آخری زمانہ میں صداقت کی فتح اور غلبہ سے قبل پیش آنے مقدر ہیں.اور اس قبل از وقت ذکر میں دُہری غرض مد نظر ہے.ایک غرض تو یہ ہے کہ تا مومنوں کی جماعت اپنے مقابل کے خطرات سے پوری طرح آگاہ ہو کہ جہاں تک اس کے وسائل اور اس کی طاقت کے لحاظ سے ممکن ہو.ان کے مقابلہ کے لئے تیاری کر سکے اور انگریزی محاورہ ”فور وارنڈ فور آرڈ Fore warned Fore armed کے مطابق سست اور کاہل نہ ہونے پائے.دوسرے یہ کہ تا دنیا کے لئے خدا کی طرف سے یہ ایک نشان ہو کہ ہمارے بھیجے ہوئے مرسلوں نے اپنی انتہائی کمزوری اور بے بضاعتی کے باوجود پہلے سے اعلان شدہ پیشگوئی کے مطابق اپنے مقابل کی عظیم الشان طاقتوں پر غلبہ پالیا.اور ایک پڑی نے ایک دیو کو پچھاڑ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس ”پری“ کے پیچھے ایک ایسی زبردست ہستی کا

Page 218

مضامین بشیر جلد سوم 196 ہاتھ ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت ایک پر پشہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی.اس لئے خدا کی یہ قدیم سنت ہے کہ جہاں وہ ایک طرف شروع میں ہی اپنے مرسلوں کی فتح اور کامیابی کا اعلان فرماتا ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ وہ ان بھاری خطرات کا ذکر بھی کرتا رہتا ہے جوان مرسلوں کو پیش آنے والے ہوتے ہیں.یا جوج ماجوج اور دجال کا فتنہ مثلاً جہاں قرآن مجید نے اسلام کے مقابل پر یا جوج ماجوج کے نام کے ساتھ ان دجالی طاقتوں کا ذکر کیا ہے جو آخری زمانہ میں اسلام سے نبرد آزما ہونے والی تھیں.وہاں اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان بھی کروا دیا کہ یہ دجالی طاقتیں بالآخر اسلام کے مقابل پر نمک کی طرح پچھلنی شروع ہو جائیں گی.چنانچہ یا جوج ماجوج ( یعنی سرمایہ داری اور اشتراکیت کی طاقتوں) کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے:.حتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَا جُوُجُ وَ مَاجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُونَ(الانبياء:97) یعنی آخری زمانہ میں یا جوج اور ماجوج جو اس سے قبل بھی دنیا میں موجود تو ہوں گے مگر گویا بند پڑے ہوں گے ) فتنہ وفساد بر پا کرنے کے لئے کھول دیئے جائیں گے اور وہ اس زمانہ میں دنیا کی ہرٹھوس بلندی پر قابض ہوں گے اور دنیا کی کوئی بلندی اور رفعت ان کے قبضہ سے باہر نہیں ہوگی.اور وہ اپنی ان بلندیوں سے دنیا کی کمزور اور پستی میں پڑی ہوئی اقوام کو کچلنے اور اپنی ایڑیوں کے نیچے رکھنے کے لئے دوڑے چلے آتے ہوں گے.اللہ اللہ ! اس زمانہ کی دجالی طاقتوں اور سرمایہ داری اور اشتراکیت کے بھیانک فتنوں کا کیسا عجیب وغریب نقشہ ہے.کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر کے رکھ دیا ہے؟ اور مسلمانوں کو ہوشیار اور چوکس کیا ہے کہ اپنے مقابلہ کی طاقتوں کو کمزور نہ جانو.بلکہ وہ ایک ایسا فتنہ ہوگا جو ایک عظیم الشان سیلاب کی طرح تمام دنیا میں چھا جائے گا.اور اس فتنہ کی مہیب لہریں ہر پستی اور ہر نشیب کو غرقاب کرنے کے لئے اس طرح بڑھیں گی جس طرح کہ ایک تیز بارش کے بعد پہاڑی نالے اپنے نیچے کی وادیوں کو بھرنے کے لئے شور کرتے اور گرجتے ہوئے بڑھتے ہیں.اس جگہ یا درکھنا چاہئے کہ یا جوج ماجوج کا نام نسلی اور سیاسی اقتدار کی بناء پر رکھا گیا ہے.مگر مذہبی فتنہ کے لحاظ سے انہی اقوام کا نام حدیثوں میں دجال بیان ہوا ہے.چنانچہ دجال کے متعلق آنحضرت صلے اللہ

Page 219

مضامین بشیر جلد سوم علیہ وسلم فرماتے ہیں.197 مَا بَيْنَ خَلْقِ ادَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ أَمْرٌ أَكْبَرَ مِنَ الدَّجَال (صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة باب في بقية من احادیث الدجال ) یعنی آدم کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کوئی فتنہ دجال کے فتنہ سے بڑھ کر نہیں ہے.مگر اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے مسیح موعود کے ہاتھ سے دجال کی ہلاکت کی بشارت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.بَيْنَمَا هُوَ كَذَالِكَ إِذ بَعْتَ اللهُ المسيح ابن مَرْيَمَ فَيُطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكُهُ بَابِ لُةٍ فَيَقْتُلَهُ ( صحیح مسلم کتاب النفن الفتنا داشراط الساعة باب ذکر الدجال وصفته ومامعه ) یعنی دجال اسی طرح اپنے زور کی حالت میں ہوگا کہ خدا تعالیٰ مسیح ابن مریم کو مبعوث کرے گا.اور وہ دجال کا پیچھا کرے گا.حتی کہ وہ اسے جھگڑا کرنے والوں کے دروازہ تک پہنچا کر قتل کر دے گا.اس حدیث میں جو باب لد کے الفاظ بیان ہوئے ہیں ان میں دولطیف اشارے کرنے مقصود ہیں.ایک یہ کہ مسیح موعود اور دجال کا مقابلہ تلوار کا مقابلہ نہیں ہوگا بلکہ دلائل اور براہین کا مقابلہ ہوگا.دوسرے یہ کہ اس علمی مقابلہ میں مسیح موعود دجال کو برابر پیچھے دھکیلتا جائے گا.حتی کہ اسے اس کے دروازہ تک ( یعنی بقول شخصے جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچا دے گا.اور وہاں اسے اپنے دلائل اور براہین اور علمی اور روحانی نشانوں کے ذریعہ ہلاک کر دے گا.اور اس علمی اور روحانی مقابلہ کے ساتھ ساتھ دجال کی ظاہری طاقت بھی نمک کی طرح چھلنی شروع ہو جائے گی.چنانچہ دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.إِذَا نَظَرِ إِلَيْهِ الدَّجَالُ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِى الْمَاء ( کنز العمال جلد نمبر 7 صفحہ 193) یعنی جب دجال مسیح کو دیکھے گا اور اس کا زمانہ پائے گا تو وہ اس طرح پگھلنا شروع ہو جائے گا جس طرح کہ نمک پانی میں پگھلتا ہے.نمک کی مثال میں یہ لطیف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح برسات کے موسم میں نمک مرطوب ہوا کے اثر کے ماتحت پکھلنا شروع ہو جاتا ہے.اسی طرح جب مسیح موعود کے زمانہ میں آسمانی بارش کا نزول ہوگا اور خدائی فرشتے اپنی روحانی طاقتوں کو حرکت میں لائیں گے.تو ان غیبی تاثیرات کے نتیجہ میں دجالی طاقتیں خود بخود مٹنی شروع ہو جائیں گی اور آسمان سے ایسی ہوا چلے گی جو دجالی خیالات کے جراثیم کو آہستہ آہستہ ملیا میٹ کر کے رکھ دے گی.اور شرک اور تثلیث کی جگہ تو حید کا دور دورہ شروع ہو جائے گا.خلاصہ کلام یہ کہ

Page 220

مضامین بشیر جلد سوم 198 اسلام نے آخری زمانہ میں اپنی فتح اور کامیابی کی جو پیشگوئی کی تھی.وہ ایک خوش عقیدگی کا نعرہ نہیں تھا جو مقابل کی طاقتوں کو نظر انداز کر کے یونہی اندھیرے میں لگا دیا گیا.بلکہ اسلام نے تمام مقدر خطرات بیان کرنے اور امت کو چوکس اور ہوشیار کرنے کے بعد یہ پیشگوئی فرمائی تھی.حضرت مسیح موعود کے خدشات اور بلند مقامِ امید یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے کہ آپ نے بھی اپنے مقابل کے خطرات کو پوری طرح محسوس کیا اور اپنی جماعت کو ان خطرات کے متعلق اندھیرے میں نہیں رکھا.بلکہ علی الاعلان ان کا اظہار فرمایا.چنانچہ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں ؎ جنگ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا دل گھٹا جاتا ہے یا رب سخت ہے یہ کاروبار جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگ روس اور جاپان ) سے میں غریب اور ہے مقابل پہ حریف نامدار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 149) مگر اس خطر ناک جنگ سے آپ کا دل گھبرایا نہیں اور مایوس نہیں ہوا بلکہ آپ اپنے مقابل کی طاقتوں کو للکار کر فرماتے ہیں کہ مجھے کمزور نہ جانو.کیونکہ میں خدا کا ایک شیر ہوں اور میرے پیچھے ایک ایسی ہستی کا ہاتھ ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت ایک لومڑی کی حیثیت بھی نہیں رکھتی.چنانچہ اسی نظم میں آگے چل کر فرماتے ہیں.مجھ کو پردے میں نظر آتا ہے میرا اک معین تیغ کو کھینچے ہوئے اس پر جو کرتا ہے وہ وار دشمن غافل اگر دیکھے وہ بازو وہ سلاح ہوش ہو جائیں خطا اور بھول جائے سب نقار جو خدا کا اسے للکارنا اچھا نہیں ہے ہاتھ شیروں پہ نہ ڈال اے روبہ زار و نزار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 131) حاشیہ (1).جب 1905 ء میں روس اور جاپان کی جنگ ہوئی.تو اس وقت روس کے مقابل پر جاپان کی ایسی حالت تھی جیسے کہ ایک بڑے پہاڑ کے مقابلہ پر ایک چھوٹا سا ٹیلہ ہوتا ہے.

Page 221

مضامین بشیر جلد سوم 199 خلاصہ کلام یہ کہ خدا کی طرف سے آنے والے مصلح نہ تو ایک طرف اپنے مقابل کی طاقتوں اور خطرات کی طرف سے آنکھیں بند کرتے ہیں اور نہ دوسری طرف ان خطرات کی وجہ سے ڈرتے اور مایوس ہوتے ہیں.بلکہ وہ ان خطرات کے باوجود اپنی آخری فتح کے متعلق کامل یقین رکھتے ہیں.اور اسی بصیرت تامہ اور یقین کامل کے دُہرے محاذ میں ان کی کامیابی کا راز مخفی ہوتا ہے.لیکن بدقسمتی سے دوسرے لوگوں میں سے ایک طبقہ تو ایمان کی کمزوری کی وجہ سے بسا اوقات خطرات کو دیکھ کر مایوسی کی طرف جھکنے لگ جاتا ہے.اور خیال کرتا ہے کہ ان بھاری مشکلات کے ہوتے ہوئے ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں.اور دوسرا طبقہ اپنے رستہ کی مشکلات سے غافل رہ کر گویا جنت الحمقاء میں زندگی گزارتا ہے اور اپنی جھوٹی تسلی کی وجہ سے اس جد و جہد اور قربانی میں حصہ نہیں لیتا.جو ظاہری اسباب کے ماتحت خدائے حکیم نے کامیابی کے لئے مقدر کر رکھی ہے.اس لئے بزرگوں نے کہا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اکثر فرمایا کرتے تھے کہ الْإِيْمَانُ بَيْنَ الرَّجَاءِ وَالْخَوْفِ یعنی سچا ایمان امید اور خوف کے بین بین قائم ہوا کرتا ہے.نہ تو محض امید کا پہلو ہو جو انسان کو جد وجہد سے غافل کر دیتا ہے.اور نہ ہی خوف کا غلبہ ہو جو مایوسی کا دروازہ کھولتا ہے.مایوسی کی چارا مکانی وجو ہات میں سے پہلی وجہ ایٹم اور آدم کا موازنہ دراصل اس قسم کی مایوسی عموماً چار وجوہ سے پیدا ہوتی ہے.پہلی وجہ ایک مرکب قسم کی وجہ سے ہے جس میں ایک طرف تو اپنے مقابل کے خطرات اور مشکلات کا حد سے زیادہ بڑھا ہوا احساس ہوتا ہے.اور دوسری طرف ایمان کی کمزوری اور خدائی وعدے پر عدم بھروسہ کا غلبہ ہوتا ہے.مشکلات اور خطرات کا احساس بیشک ہونا چاہئے اور ضرور ہونا چاہئے.لیکن ان مشکلات کو ہو انہیں بنا لینا چاہئے.جنہیں دیکھ کر ہاتھ پاؤں پھولنے لگیں اور انسان مایوس ہو کر اپنی قسمت پر فاتحہ خوانی کرنے لگ جائے.بلکہ مشکلات کے احساس کا صرف یہ نتیجہ ہونا چاہئے کہ انسان ان مشکلات پر قابو پانے کے لئے اپنی جد و جہد کو تیز سے تیز تر کر دے.اور دوسری طرف بچے ایمان کا یہ تقاضا ہونا چاہئے کہ انسان کے لئے خدائی وعدے محض ایک دل بہلانے کا کھلونا نہ ہوں بلکہ ایک ایسی زندہ حقیقت ہوں جنہیں وہ گویا اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھ رہا ہے.کاش ہمارے دوست اس حقیقت کو سمجھیں کہ ایمان میں کتنی زبر دست طاقت مخفی ہے.اے کاش وہ سمجھیں ! حضرت مسیح ناصری کے بعض اقوال بڑے پیارے ہوتے ہیں.فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے اندر رائی کے دانہ کے

Page 222

مضامین بشیر جلد سوم 200 برابر بھی ایمان ہو ( ہاں ہاں سچا اور زندہ ایمان تو تم پانیوں پر چلو اور پہاڑوں کو حرکت میں لے آؤ مگر افسوس کہ میچ ناصری نے یہ زریں تعلیم تو دی مگر وہ اپنے حواریوں میں ایسا زندہ ایمان پیدا نہ کر سکے.لیکن ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) نے اپنی اعلیٰ قوت قدسیہ کے ذریعہ صحابہ میں وہ ایمان پیدا کر دیا جس نے دیکھتے دیکھتے دنیا کی کایا پلٹ دی.اور بڑے بڑے پہاڑوں پر زلزلہ وارد کر دیا.ہمارے رسول پاک کے صحابہ اسلام کی فتح کی خاطر موت کے منہ میں اس طرح کودتے تھے کہ گویا اپنے خون کے قطروں میں جنت کا نظارہ دیکھ رہے ہیں.مگر جہاں ایمان کامل نہ ہو.وہاں انسان ہر مشکل کو ایک ہو اسمجھ کر دل چھوڑ دیتا ہے.پس اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق شبہات میں مبتلا ہونے والوں کی پہلی غلطی یہ ہے کہ ان مشکلات اور خطرات کو دیکھنے والی آنکھ تو حد سے زیادہ تیز ہے جو ہر چیز کو بہت بڑھا چڑھا کر دیکھتی ہے مگر ان کا ایمان اس قدر کمزور ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کے حالات کی وجہ سے خدائی وعدوں پر ایسا یقین نہیں رکھتے جو ایک سچے مومن کو حاصل ہوا کرتا ہے.بلکہ بعض اوقات اپنے شکوک وشبہات کے جا و بے جا ( جابے جا ) اظہار سے دوسرے لوگوں کو بھی بد دل کرتے رہتے ہیں.دراصل وہ ان عظیم الشان طاقتوں سے بالکل بے خبر ہیں.جو ان کے خدا کو حاصل ہیں.اور دوسری طرف وہ ان وسیع طاقتوں سے بھی بے خبر ہیں جو خود ان کو حاصل ہیں.کیا ایسے لوگ خیال کرتے ہیں کہ ایک ادنی سے ایٹم میں تو خدا نے یہ طاقت ودیعت کی ہوئی ہے کہ اگر وہ ایک خاص رنگ میں تیار کیا جا کر پھٹے تو ایک ملک کو ہلاک کر کے رکھ دے.مگر احسنِ تقویم میں پیدا کئے جانے والے اشرف المخلوقات انسان میں کوئی خاص طاقت ودیعت نہیں کی گئی.بلکہ وہ ہر مشکل کے سامنے جھک جانے اور ہر خطرہ کے وقت لوگوں کی ٹھوکریں کھانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے!! هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تَصِفُونَ.دوسری امکانی وجہ اس غلط فہمی کی دوسری امکانی وجہ یہ ہے کہ عام لوگوں کی نظریں صرف ظاہری حالات اور ظاہری اسباب تک محدود رہتی ہیں.اور وہ صرف اس مادی اور ظاہری نظارہ کی بناء پر اپنے خیالات اور قیاسات قائم کرتے ہیں.اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ الہی سلسلہ کتنا کمزور ہے اور اس کے مقابل کی طاقتیں کتنی زبر دست اور کتنی وسیع ہیں.تو وہ مایوس ہونے لگتے ہیں.حالانکہ خدائی سلسلے صرف ظاہری اور مادی اسباب کی بنا پر ترقی نہیں کیا کرتے.بلکہ زیادہ تران مخفی اور روحانی تا خیرات کی بناء پر ترقی کرتے اور غلبہ پاتے ہیں جو خدائے حکیم وقد میران کی تائید میں لگا دیتا ہے.قرآن مجید نے اسی غرض سے حضرت آدم کے قصہ میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ جب خدا نے آدم کو پیدا کیا تو

Page 223

مضامین بشیر جلد سوم 201 اس کے ساتھ ہی فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ چونکہ اس آدم کے ذریعہ مجھے دنیا میں اصلاح کا کام کرنا ہے.اس لئے اب تم سب آدم کی بعثت کے مقاصد کو کامیاب کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جاؤ.اور اس کمزور نحیف انسان کو صرف اس کی ظاہری کوششوں پر تنہا نہ چھوڑو.تب اس الہی حکم کے نتیجہ میں فرشتوں کی تمام روحانی فوج اپنے سارے ساز وسامان کے ساتھ خدائی مصلح کی تائید و نصرت میں لگ جاتی ہے.اور سوائے شیطان اور اس کے چیلے چانٹوں کے باقی سب مخفی طاقتیں جو نیچر میں ودیعت کی گئی ہیں ابھر کر اور استادہ ہو کر اصلاح کے کام میں مصروف ہو جاتی ہیں.یہی صورت ہر روحانی مصلح کے وقت میں برسر کار آتی ہے.اور نیچر کی ان مخفی طاقتوں کے ذریعہ انسانی قوی کو ایک ایسی قوت حاصل ہو جاتی ہے کہ گویا ایک رینگتا ہوا اور ٹھوکریں کھاتا ہوا انسان روح القدس کے پروں پر سوار ہو کر اڑ نے لگ جاتا ہے.اور دنیا حیران ہوتی ہے کہ اس کمز ور اور نحیف انسان کو یہ خارق عادت کامیابی اور یہ ترقی کس طرح حاصل ہوگئی ؟ قرآن مجید نے جو غزوہ بدر اور غزوہ احد اور غزوہ خندق کے ذکر میں فرشتوں کا مسلمانوں کی تائید میں اترنا بیان کیا ہے اس سے یہی غیبی نصرت مراد تھی.جس کے ذریعہ کفار کے دل اپنی ظاہری طاقت اور اپنے ظاہری ساز و سامان کے باوجود ان کے سینوں کے اندر بیٹھے جاتے تھے.اور مسلمانوں کے دل اپنی بے سروسامانی اور کمزوری کے باوجود فتح کی امیدوں سے سرشار تھے.اور اس کے علاوہ اور بھی کئی رنگ میں مخفی در مخفی آسمانی طاقتیں مسلمانوں کی مدد کر رہی تھیں.پس اس قسم کے شبہات کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ صرف ظاہری حالات اور ظاہری اسباب کو دیکھ کر ڈرنے لگتے اور مایوسی کی طرف جھکنے لگ جاتے ہیں کہ یہ کمزور انسان اپنے چند گنتی کے ساتھیوں کے ساتھ اور اپنے نہایت درجہ محدود وسائل کی بناء پر ان عظیم الشان طاقتوں اور مہیب خطرات پر کس طرح غالب آسکے گا.جو اس کے سامنے صف آراء ہیں.حالانکہ یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ اگر کوئی خدا ہے.اور اگر خدا کوساری طاقتیں حاصل ہیں.تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ایک کمزور انسان کو دنیا کے متلاطم اور متموج سمندر میں پھینک کر اسے اس کی نہایت درجہ محدود طاقتوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دے اور پھر اس سے یہ امید رکھے کہ وہ ساری دنیا پر غالب آجائے گا.یقیناً جب خدا کسی انسان کو دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کرتا ہے تو پھر زمین و آسمان کی تمام مخفی طاقتوں کو اس کی تائید اور نصرت میں لگا دیتا ہے.یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ به مفت ایس اجر نصرت راد ہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا ( آئینہ کمالات اسلام )

Page 224

مضامین بشیر جلد سوم 202 یعنی اے بھائی! تجھے تو اس وقت دین کی نصرت کا اجر مفت میں مل رہا ہے.ورنہ یہ ایک خدائی تقدیر ہے جو ہر حال میں پوری ہو کر رہے گی.تیسری امکانی وجہ تیسری بڑی وجہ اس قسم کے شبہات اور مایوسی کی یہ ہوا کرتی ہے کہ لوگ اپنے ماحول کے جتھوں اور پارٹیوں کو تو ایک قائم شدہ اور پھلے پھولے مضبوط درخت کی صورت میں دیکھتے ہیں.لیکن اپنی طاقت ان کے سامنے صرف ایک بیچ کی شکل میں نظر آتی ہے.اور چونکہ ان میں صحیح تخیل کا فقدان ہوتا ہے اس لئے وہ ایک جسیم اور توانا درخت کے مقابلہ پر ایک چھوٹے سے پیج کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں.اور ان کے دلوں میں احساس کمتری پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.حالانکہ صحیح اندازہ کرنے کا طریق یہ ہے کہ جس طرح وہ اپنی ابتدا کو دیکھ رہے ہوتے ہیں.اسی طرح کی سو سال پیچھے جا کر اپنے مقابل کی قوموں کی بھی ابتدا پر نظر ڈالیں تا کہ بیج کے سامنے بیج کو رکھ کر صحیح مواز نہ ہو سکے.نہ یہ کہ اپنا تو بیچ دیکھا جائے اور دوسری قوموں کا پلا پوسا درخت.حضرت عیسی علیہ السلام کو ہی لے لو.آج مسیحیت کا جو عظیم الشان درخت ہمیں نظر آتا ہے.جس کی شاخیں دنیا بھر کے کونوں کو گھیرے ہوئی ہیں.اور جس کے سائے میں یورپ اور امریکہ کی قومیں اپنے معراج کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہیں.اس کی ابتدا کیا تھی ؟ اگر آپ لوگوں کو مسیحیت کی تاریخ سے واقفیت نہیں اور آپ کا تخیل بھی پرواز کی طاقت سے محروم ہو چکا ہے تو خود حضرت مسیح ناصری کی زبان سے سنیے.اپنی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں اور کس دردناک انداز میں فرماتے ہیں کہ.لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے.مگر ابن آدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں.(متی باب 8 آیت 21) یہ اس ابن آدم کی زندگی کا حال ہے.جس کی غلامی کا آج یورپ اور امریکہ اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ وغیرہ کی ترقی یافتہ اقوام دم بھرتی اور اس کے سامنے گھٹنے ٹیکتی ہیں.اور مسیح ناصری کی زندگی کا انجام کیا ہوا؟ یہی نا کہ چند گنتی کے یہودی کا ہنوں اور فریسیوں نے اسے پکڑ کر اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا اور اس کے منہ پر تھوکا اور اسے بانس کی چھڑیوں سے مارا.اور بالآخر ایک رومی حاکم کے فیصلہ کے مطابق صلیب پر لٹکا دیا.جہاں بقول عیسائیوں کے اس نے ایلی ایلِى لِمَا سَبَقْتَانِی (میرے خدا! میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ) کی آہیں بھرتے ہوئے جان دی.اور اس کے سب حواری جو تعداد میں صرف بارہ کس تھے اسے چھوڑ کر بھاگ گئے.اور ان میں سے بعض نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے

Page 225

مضامین بشیر جلد سوم 203 مسیح پر لعنت تک کرنے سے دریغ نہیں کیا.اگر اس ابتداء سے شروع ہونے والا مذہب آج ساری دنیا پر چھا سکتا ہے تو احمدیت کیوں غالب نہیں آسکتی.جس کے مقدس بانی کی وفات کے وقت چار لاکھ انسان اس کی غلامی کا دم بھرتے تھے اور اس کے بعض خادموں نے اس پر ایمان لانے کی وجہ سے سنگسار جیسی سخت سزا کو برداشت کیا اور حمد کے گیت گاتے ہوئے جان دی.مگر اپنے آقا کی غلامی سے منہ نہیں موڑا اور ظاہر ہے کہ احمدیت کا غلبہ اسلام ہی کا غلبہ ہے.کیونکہ احمدیت اسلام سے کوئی جدا گانہ چیز نہیں بلکہ وہ صرف قرآنی شریعت اور حضرت سرور کائنات کی نبوت کی خدمت ہی کے لئے پیدا کی گئی ہے.فَافُهُمْ وَ تَدَبَّرَ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ چوتھی امکانی وجہ اس قسم کے شبہات کی چوتھی امکانی وجہ یہ ہے کہ لوگ عموما الہی سلسلوں میں جلال اور جمال کے فرق کو نہیں سمجھتے اور اس سنت الہی سے ناواقف ہیں جو جلالی اور جمالی مصلحوں کی ترقی میں علیحدہ علیحدہ کارفرما ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ دوسرے دلائل کے مقابل پر بے بس ہو کر عموماً یہ شبہ پیش کیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قائم کردہ جماعت نے تو تمیں چالیس سال کے قلیل عرصہ میں اس وقت کی تمام معلوم اور مہذب دنیا کے قریباً ایک تہائی پر غلبہ پا لیا مگر احمدیت ستر سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ہر کہ ومہ کی ٹھوکروں کا نشانہ بنی ہوئی ہے.اور اس کے عالمگیر غلبہ کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی وغیرہ وغیرہ.سواس کے جواب میں اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ اول تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آقا ہیں اور حضرت مسیح موعود خادم.اور آقا اور خادم میں بہر حال فرق ہونا چاہئے.اور اس فرق کو ہر سچا احمدی نہ صرف جانتا اور پہچانتا ہے بلکہ اس میں فخر محسوس کرتا ہے.علاوہ ازیں یہ سارا دھوکا جلالی اور جمالی سلسلوں کے فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.ہر شخص جس نے الہی سلسلوں کا گہرا مطالعہ کیا ہو.اُسے اس بات سے واقف ہونا چاہئے کہ روحانی مصلح دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک قسم کے مصلح تو وہ ہیں جن کو کوئی نئی شریعت دے کر بھیجا جاتا ہے.جیسا کہ مثلاً حضرت موسی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے.جو اپنے اپنے وقت میں تو رات اور قرآن مجید کی شریعت لے کر مبعوث ہوئے.اور دوسری قسم کے مصلح وہ ہیں جنہیں کوئی نئی شریعت نہیں دی جاتی بلکہ وہ صرف سابقہ شریعت کی خدمت اور استحکام کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں جیسا کہ مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ تھے جنہیں کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ علی الترتیب موسوی اور محمدی شریعت کی خدمت کے لئے بھیجے گئے.شریعت لانے والے نبی جلالی مصلح کہلاتے ہیں

Page 226

مضامین بشیر جلد سوم 204 کیونکہ انہیں نئی شریعت کے قیام اور اجراء کے لئے نبوت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی عطا کی جاتی ہے جس کے بغیر کسی نئی شریعت کا اجراء ممکن نہیں ہوتا.ایسے انبیاء مسائل دینی اور حکمت اور روحانی تعلیم و تلقین میں معلم ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے سیاسی حاکم بھی ہوتے ہیں اور مجرموں اور قانون شکنوں کے لئے سزا اور تعزیر کے قوانین بنانے اور سزائیں دینے کا اختیار رکھتے ہیں.اور انہیں اپنی زندگی میں حالات کے ماتحت اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگیں بھی کرنی پڑتی ہیں.اور عام حالات میں ان کی پالیسی نصیحت اور سزا کے اصول پر مبنی ہوتی ہے.لیکن اس کے مقابل پر جمالی مصلح جو صرف کسی سابقہ شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں انہیں ابتداء میں سیاست عطا نہیں کی جاتی.بلکہ وہ امن کے ماحول میں دلائل و براہین اور روحانی نشانات کے ذریعہ نرمی کے طریق پر کام کرتے ہیں.اور عام حالات میں ان کی پالیسی نصیحت اور عفو کے اصول پر مبنی ہوتی ہے.جیسا کہ موسوی سلسلہ میں حضرت مسیح ناصری بانی مسیحیت اور محمدی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود بانی احمدیت کا طریق کار نظر آتا ہے.جلال اور جمال میں ترقی کا اصولی فرق جلالی نبیوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ بجلی کی سی چمک اور گرج کے ساتھ آتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا پر چھا جاتے ہیں.کیونکہ ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی محدود زندگی کے اندر اندر اپنی لائی ہوئی شریعت کو قائم اور جاری کر دیں.مگر جمالی مصلح ایک نرم اور نازک کونپل کی طرح نکلتے ہیں جو آہستہ آہستہ بڑھتی اور درجہ بدرجہ کو نیل سے پودا اور پودے سے پیڑ اور پیڑ سے ایک عظیم الشان درخت بن جاتی ہے.چنانچہ اس کی مثال میں قرآن مجید فرماتا ہے کہ.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةً أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ....ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ (الفتح:30) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جو صحابی آپ کے ساتھ ہیں وہ اپنی جلالی شان میں کفار کے خلاف تو ایک سخت پتھر کی طرح ہیں جو جس پر گرتا ہے اسے توڑ کر رکھ دیتا ہے مگر آپس میں وہ بہت نرم دل اور رحیم ہیں.ان کی یہ تمثیل تو رات کے بیان کے مطابق ہے لیکن انجیل کی تمثیل کی رو سے وہ ایک کو نیل کی طرح ہیں.جو اپنی نرم نرم پیتیاں نکالتی ہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ مضبوط ہونی شروع ہوتی ہے اور درجہ بدرجہ موٹی ہوتی جاتی ہے اور پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو کر قائم ہو جاتی ہے.اس کا یہ نشو ونما اس کے کاشت کرنے والوں کا

Page 227

مضامین بشیر جلد سوم 205 دل لبھاتا ہے مگر دشمن اس پر دانت پیستے ہیں.اس لطیف قرآنی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں بعثوں کا عجیب و غریب نقشہ کھینچا گیا ہے.پہلی بعثت جو خود آپ کی ذات والا صفات کے ذریعہ ہوئی.وہ صاحب تو رات کی طرح جلالی بعثت تھی جبکہ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّار والا نظارہ پیش کیا گیا.اور مسلمانوں کی جہادی یلغار نے کافروں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا.اور ہمارے آقا (فدا نفسی) کے نام لیواد یکھتے دیکھتے دنیا پر چھا گئے.اس کے مقابل پر دوسری بعثت جو آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے قرآنی وعدہ کے مطابق آپ کے ایک بروز کے ذریعہ آخری زمانہ میں مقدر تھی.وہ جمالی بعثت تھی جو صاحب انجیل کی طرح جمال کے رنگ میں ایک آہستہ آہستہ بڑھنے والی کونپل کی طرح ظاہر ہوئی.اس کو نیل اور اس کی دھیمی دھیمی مگر یقینی ترقی کو دیکھ کر خدائی کا شتکار تو خوش ہیں.مگر منکرین اس پر دانت پیس رہے ہیں کہ کہیں یہ چھوٹی سی کو نیل بعد میں ایک مضبوط درخت بن کر ہم پر نہ چھا جائے.اور ضمناً یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ نیچر کا ایک عام قانون ہے کہ جو چیز آہستہ آہستہ بڑھتی ہے وہ عمر بھی لمبی پاتی ہے.پس اسلام کی ترقی کا دوسرا دور بھی خدا کے فضل سے بہت لمبا بلکہ دائمی ہوگا.خلاصہ کلام یہ کہ جہاں جلالی سلسلوں کے متعلق خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ چمکتے اور گر جتے ہوئے آتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے ساری فضا پر چھا جاتے ہیں.جیسا کہ حضرت موسی اور ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں ہوا.وہاں جمالی سلسلوں کے متعلق خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ بہت آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور کافی وقت لے کر اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح ناصرٹی کے سلسلہ میں ہوا.یا جیسا کہ اب احمدیت میں ہو رہا ہے.پس آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کی برق رفتار ترقی پر حضرت مسیح موعود بانی احمدیت اور آپ کی جماعت کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے.کیونکہ دونوں کا طریق اور مسلک جدا جدا ہے.البتہ احمدیت کے متعلق مسیحیت کی رفتار ترقی سے ضرور قیاس کیا جا سکتا ہے.کیونکہ یہ دونوں سلسلے جمالی ہیں.جن کے لئے الہی سنت کے مطابق آہستہ آہستہ ترقی مقدر تھی.چنانچہ دیکھ لو کہ مسیحیت شروع شروع میں تین سو سال تک کن جانگداز امتحانوں اور خطرناک ابتلاؤں میں سے گزری حتی کہ ابتدائی صدیوں میں حضرت مسیح ناصری کے ماننے والوں کو تاریک و تار غاروں میں چھپ چھپ کر اور ہزاروں قسم کے مظالم کا نشانہ بن کر وقت گزارنا پڑا.لیکن جب یہی کمزوری کو نپل بڑھنے پر آئی اور مسیحیت کی ترقی کا زمانہ آیا تو آج یہی قوم جس کے بزرگ دوسرے لوگوں کے پاؤں تلے روندے جاتے تھے.ہفت اقلیم کی بادشاہ اور دنیا بھر کی لیڈر بنی بیٹھی ہے.کیا یہ ترقی مسیح ناصری کے وقت میں یا ان کی قوم کے ابتدائی تین سو سالوں میں کسی

Page 228

مضامین بشیر جلد سوم 206 ظاہر بین انسان کے تصور میں آسکتی تھی ؟ پس اے عزیز و! تم احمدیت کی آخری ترقی اور غلبہ کے متعلق کیوں شبہ کرتے ہو؟ تمہیں تو خدا کا شکر کرنا چاہئے کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نام کے طفیل ( " جس پہ میر اسب مدار) خدا تمہیں مسیح ناصری کی قوم کے مقابلہ پر بہت جلد جلد ترقی دے رہا ہے.چنانچہ ابھی احمدیت کے قیام پر ستر سال نہیں گزرے کہ اس الہی جماعت کی شاخیں دنیا کے بیشتر ملکوں میں پھیل چکی ہیں.اور انگلستان اور جرمنی اور ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ اور سپین اور ریاستہائے متحدہ امریکہ اور نائیجیریا اور گولڈ کوسٹ اور مشرقی افریقہ اور ماریشس اور اسرائیل اور لبنان اور ہندوستان اور سیلون اور ملایا اور جاوا اور سماٹرا اور بور نیو وغیرہ وغیرہ میں احمدیت کے مناد اسلام کی تبلیغ اور اس کی نشاۃ ثانیہ کے استحکام کے لئے دن رات کام میں لگے ہوئے ہیں.اور ان اسلامی مشنوں کے نفوذ سے تثلیث اور شرک کی طاقتیں خائف ہورہی ہیں.سوچو اور بتاؤ کہ کیا یہ ایک ایسی کو نیل ہے جس کے درخت بننے کے متعلق شبہ کیا جا سکے؟ دور نہ جاؤ.خود ہمارے ملک کے اندر ہی جو بھاری فساد گزشتہ سال بر پا ہوا ہے.جسے ملک کی فرض شناس حکومت نے مضبوطی کے ساتھ دبا دیا.اور ملک کے فہمیدہ طبقہ نے بھی اس کی مذمت کی.کیا وہ اس بات کی علامت نہیں تھا کہ وہ لوگ جو اپنی کوتاہ بینی سے اسلام کے اس مضبوط ستون اور تبلیغ کے لحاظ سے گویا بازوئے شمشیر زن کو مٹانا چاہتے ہیں.وہ بھی اب یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ یہ پودا بہت جلد بڑھ کر درخت بنے کی عمر کو پہنچ رہا ہے.وَالْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کی بعض پیشگوئیاں بالآخر اپنے اس وسیع مضمون کو جسے میں نے طوالت کے ڈر سے نیز اپنی علالت کی مجبوری کے ماتحت نہایت اختصار اور اجمال کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے.حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے بعض اقوال اور تحریرات پر ختم کرتا ہوں.تا اگر میری نحیف آواز بعض ڈگمگاتے ہوئے دلوں میں تسلی پیدا کرنے کا موجب نہ بنی ہو تو حضرت مسیح موعود کے زبر دست مکاشفات ہی کمزور دلوں کی ڈھارس کا باعث بن جائیں.سب سے پہلے میں اس اعلان کو لیتا ہوں جو آپ نے کسی الہام کی بناء پر نہیں بلکہ خود اپنی خورد بین روحانی آنکھ کے ذریعہ دور کی فضاء میں پیدا ہوتے ہوئے تغیر کو محسوس کر کے فرمایا.فرماتے ہیں اور کس لطف سے فرماتے ہیں.آسماں پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار

Page 229

مضامین بشیر جلد سوم 207 آ رہا ہے اس طرف احرارہ یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہلِ دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمه توحید پر از جاں نثار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 131) اس کے بعد اسلام اور احمدیت کی آئندہ ترقی کے متعلق فرماتے ہیں.دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا.اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا یہ باتیں انسان کی نہیں یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.پھر فرماتے ہیں.تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 تحفہ گولڑو یہ صفحہ 182) اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے.جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا.اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا....یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے.اور کوئی ان میں سے عیسیٰ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی.وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی.اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا.اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی ابھی تک آسمان سے نہ اترا.تب سب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری یوسف سے اس جگہ اسلام کی ترقی مراد ہے.جو اس وقت گویا امت محمدیہ کا ایک کھویا ہوا متاع ہے.

Page 230

مضامین بشیر جلد سوم 208 نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سب نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے.اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(تذکرة الشهادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66-67) اور بالآخر اس ترقی اور غلبہ کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں.”خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور میرے سلسلہ کو تمام زمین پر پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر اک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی.اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا.یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے.مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا.اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا...سوالے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409-410) کیا ان زبر دست پیشگوئیوں کے ہوتے ہوئے جو دنیا کے خالق و مالک آقا اور خدائے علیم و قدیر کی طرف سے ہیں.کوئی سچا احمدی ماحول کے موجودہ خطرات یا یورپ اور امریکہ اور روس کی موجودہ ترقیات سے مرعوب ہو کر اسلام اور احمدیت کی آخری کامیابی اور غلبہ کے متعلق ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ کر سکتا ہے؟ لاریب حق وہی ہے جو خدا کے مسیح نے فرمایا کہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا وَ آخِرُ دَعْوَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ محرره 10 دسمبر 1954ء ) (روزنامه الفضل لاہور 24 دسمبر 1954 ء)

Page 231

مضامین بشیر جلد سوم اعلانات.اشتہارات اطلاعات 209 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1-> حضرت صاحب کے صدقات کی رقوم 2- چوہدری نذیر احمد صاحب طالب پوری کی وفات 3-> ضروری اعلان بابت تفسیر کبیر ایک درویش کی علالت پر درخواست دعا (روز نامہ الفضل یکم اپریل 1954ء ) ( روزنامہ الفضل8اپریل1954ء) (روز نامہ لاہور 28 اپریل 1954ء ) (روز نامہ الفضل 4 مئی 1954 ء) (روز نامہ لاہور 18 جون 1954ء ) (روز نامہ لاہور 8 اگست 1954 روزنامه الفضل 28 ستمبر 1954ء ) 6-> الحمد للہ ثم الحمد للہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا تحریر فرمودہ ایک خط 7-> احباب کا شکریہ اور مزید دعا کی تحریک 8-> حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لاہور میں ساڑھے تین ماہ قیام فرمانے کے بعد ربوہ واپس تشریف لے گئے روزنامه الفضل 17 اکتوبر 1954 ء)

Page 232

210 مضامین بشیر جلد سوم

Page 233

مضامین بشیر جلد سوم باب پنجم 1955ء کے مضامین 211

Page 234

مضامین بشیر جلد سوم الفضل کا دور جدید ایک دوست کے دوسوالوں کا جواب ایک دوست کے تین سوالوں کا جواب 212 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جنازہ گاہ اور پہلی بیعت خلافت کا مقام دین کا مرکزی نقطہ تقویٰ ہے جس کا مقام مومن کا دل ہے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے سفر یورپ کے لئے دعاؤں کی تحریک مساجد کے اماموں کا واجبی اکرام ہونا چاہئے اسلام کے متعلق ایک مختصر مگر جامع رسالہ لکھنے کی تجویز تاریخ احمدیت کا ایک اہم مگر پوشیدہ ورق سردار وریام سنگھ صاحب والے واقعہ کی چشم دید شہادت جماعت احمدیہ کے متعلق ایک اور جھوٹا پراپیگنڈا دوست رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں جماعت کے متعلق ایک اور جھوٹا پراپیگنڈا امۃ الرسول.امۃ البشیر وغیرہ مشرکانہ نام ہیں چندوں کے متعلق جماعت کی اہم ذمہ داری لیلۃ القدر کی مخصوص برکات دوستوں کے دعاؤں کے خطوط قرآن مجید کی عالی شان ڈیوڑھی اور بے مثال عقبی دروازہ پاگل خانہ کا عبرتناک منظر

Page 235

مضامین بشیر جلد سوم 213 1 الفضل کا دور جدید الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ ایک لیے وقفہ کے بعد الفضل پھر مرکز سلسلہ سے نکلنا شروع ہو گیا ہے.غالباً تینتالیس 43 سال کا عرصہ گزرا کہ سلسلہ حمدیہ کے مرکز قادیان سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے الفضل کا اجراء ہوا.یہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا.اس کے بعد ہمارا یہ مرکزی اخبار خدا کے فضل سے مسلسل ترقی کرتا گیا.حتی کہ ملکی تقسیم کے دھکے کے نتیجے میں الفضل کو بھی جماعت کی اکثریت کے ساتھ قادیان سے نکلنا پڑا.جس کے بعد حالات کی مجبوری کے ماتحت وہ لاہور سے شائع ہوتا رہا.یہ گویا اس کے لئے برزخ کا زمانہ تھا.اب سات سال کے درمیانی زمانہ کے بعد الفضل پھر ربوہ یعنی مرکز سلسلہ نمبر 2 سے نکلنا شروع ہوا ہے.الفضل کے اس نئے دور میں تمام جماعت کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں.اور ہر مخلص احمدی کے دل سے یہ صدا اٹھ رہی ہے کہ مرکز سلسلہ کا یہ پودا جو گو یا اب اپنے بلوغ کو پہنچ رہا ہے بیش از پیش سرعت کے ساتھ بڑھے اور پھیلے اور پھولے.اور اس کے پھلوں سے لوگ زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوں.مگر اس تبدیلی کے نتیجہ میں جہاں جماعت کی یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنے اس مرکزی اخبار کی اشاعت کی توسیع میں پہلے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور مرکز کی ان صحافتی تاروں کو اور بھی زیادہ وسیع اور مضبوط کر دے.جو اسے افراد جماعت کے ساتھ باندھ رہی ہیں.وہاں الفضل کے عملہ کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ نہ صرف الفضل کو زیادہ سے زیادہ مفید اور دلکش بنائے بلکہ لاہور سے ربوہ کی طرف منتقل ہونے کے نتیجہ میں جو بعض مادی وسائل ترقی میں امکانی کمی آسکتی ہے اسے بیش از پیش توجہ اور کوشش کے ذریعہ کم نہ ہونے دے.اس زمانہ میں پریس کی اہمیت اور اس کے اثر کی وسعت ظاہر وعیاں ہے.سواب یہ جماعت اور عملہ الفضل کا مشترکہ فرض ہے کہ وہ الفضل کو ہر جہت سے ترقی دے کر اسے ایک الہی جماعت کے شایانِ شان بناۓ.وَ كَانَ اللَّهُ مَعَنَا أَجْمَعِينَ.( محرره 31 دسمبر 1954 ء ) ( روزنامه الفضل یکم جنوری 1955ء)

Page 236

مضامین بشیر جلد سوم ایک دوست کے دوسوالوں کا جواب گانے بجانے کا سوال اور مجز وبیت کی تشریح 214 جھنگ مگھیا نہ کے ایک دوست نے ایک خط کے ذریعہ مجھے دوسوال لکھ کر بھیجے ہیں.ایک سوال گانے بجانے کے متعلق ہے اور دوسرا سوال مجذوب کی تشریح سے تعلق رکھتا ہے.یہ دوست اپنے خط میں تقاضا کرتے ہیں کہ ان سوالوں کا جواب اخبار کے ذریعہ دیا جائے.میری طبیعت چونکہ آجکل صاف نہیں بلکہ چند دن سے پھر دل پر کچھ بو جھ سا محسوس ہوتا ہے.اس لئے میں نے انہیں خط کے ذریعہ مختصر سا جواب بھجوا دیا تھا اور اخباری مضمون سے معذرت کر دی تھی.لیکن بعد میں مجھے خیال آیا کہ اگر یہی مختصر سا جواب معمولی لفظی اضافہ کے ساتھ اخبار میں بھی چھپ جائے تو کوئی ہرج نہیں.اس سے سوال کرنے والے دوست کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی اور باوجود نہایت درجہ اختصار کے دوسرے دوستوں کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچ جائے گا.پہلا سوال اس دوست کا یہ ہے کہ گانے بجانے کے متعلق ایک طرف تو اسلام کا یہ نظریہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ایک شیطانی فعل ہے اور دوسری طرف یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ اسلام کے بہت سے صوفیائے کرام اور بزرگانِ سلف نے گانے بجانے کو پسند فرمایا ہے.بلکہ بعض نے تو گویا اسے ایک طرح سے عبادت میں ہی شامل کر دیا ہے.ہمارے یہ دوست لکھتے ہیں کہ یہ ایک بھاری تضاد ہے جس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی.سواس سوال کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ مطلقا خوش الحانی سے گانا یا خوشی کے مواقع پر حسب حالات بعض جائز قسم کے آلات موسیقی استعمال کرنا اپنی ذات میں حرام نہیں ہے.بلکہ گانے بجانے کو صرف بعض ناجائز باتوں کی آمیزش کی وجہ سے ممنوع قرار دیا گیا ہے.مثلاً ان ناجائز باتوں میں سے ایک بات یہ ہے کہ گائے جانے والے شعر نخش اور گندے اور شہوانی قوی کو انگیخت دینے والے ہوں یا خلاف شریعت اور خلاف اخلاق ہوں ممنوعیت کی یہ وجہ ایک ایسی بدیہی بات ہے جس کے لئے کسی خارجی دلیل کی ضرورت نہیں.اور نہ ہی کوئی دانا شخص اس میں اختلاف کر سکتا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ گانے بجانے میں ایسے آلات استعمال کئے جائیں جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے مثلاً تاروں کے ساتھ بجنے والے آلات ، حدیث میں منع آئے ہیں.کیونکہ ان میں خاص قسم کے شکر اور استغراق کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس میں انسان کے لطیف قومی اور ٹھوس کام کرنے کی طاقتوں کو صدمہ پہنچتا ہے اور دراصل یہی وہ آلات ہیں جن کو حدیث میں شیطانی آلات قرار دیا گیا ہے.

Page 237

مضامین بشیر جلد سوم 215 تیسری بات یہ ہے کہ خواہ استعمال کئے جانے والے آلات جائز ہی ہوں مثلاً ڈھول یا بانسری وغیرہ مگر گانے بجانے میں ایسا انہماک اختیار کیا جائے کہ گویا انسان اسی شوق میں غرق رہے اور اپنا قیمتی وقت اسی مشغلہ میں ضائع کر دے.اگر اس قسم کی ممنوع باتوں سے اجتناب کیا جائے تو محض خوش الحانی سے گانا یا کسی خاص موقع پر بانسری یا ڈھول کا استعمال کرنا اپنی ذات میں منع نہیں ہے.چنانچہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خوش الحانی کے ساتھ اشعار سن لیا کرتے تھے.بلکہ ایک موقع پر آپ نے اپنے ایک صحابی حضرت موسیٰ اشعری کی دلکش آواز سن کر فرمایا کہ اسے تو گویا حن داؤدی سے حصہ ملا ہے ( یادر ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نہایت خوش الحان تھے.بلکہ لکھا ہے کہ جب وہ اپنی بانسری پر حمد کے گیت گاتے تھے تو سننے والوں پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور ان کی کتاب زبور بھی دراصل روحانی گیتوں کا ہی مجموعہ ہے ) پھر حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ بعض اوقات آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں خوشی کے موقع پر صحابہ کی لڑکیاں باہم مل کر ڈھول پر بھی گا بجا لیتی تھیں اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مسلمان بچیوں کو ایسے معصوم مشغلہ سے جو دھیمی آواز میں چاردیواری کے اندر محدود رہتا تھا منع نہیں فرماتے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں بھی بعض اوقات مخلص لوگ حمد اور مدح کے اشعار خوش الحانی کے ساتھ سناتے تھے اور حضور اسے شوق سے سنتے تھے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اعلان کی غرض سے نہ کہ ریا، یا نمائش کے طریق پر بعض صورتوں میں شادی کے موقع پر باجے کے جواز کا بھی فتویٰ دیا ہے.اور غالبا گزشتہ صوفیاء میں بھی موسیقی اور سماع کا سلسلہ بھی خاص حالات میں نیک نیتی کے ساتھ ہی شروع ہوا ہوگا جو بعد میں حد اعتدال سے بڑھ گیا یا ممکن ہے بعد میں آنے والے بعض بزرگوں نے عوام الناس کو دینی امور میں متوجہ رکھنے کے لئے یہ طریق اختیار کیا ہو.بہر حال اگر کسی گزشتہ بزرگ نے اس معاملہ میں حد اعتدال سے کچھ زیادہ حصہ لیا ہے تو ہمیں اس کا معاملہ خدا پر چھوڑ نا چاہئے.کیونکہ ہمیں کسی فوت شدہ بزرگ کے متعلق بدظنی یا طعن زنی کا حق نہیں ہے.ہمارے لئے صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ مطلقاً گانا بجانا اپنی ذات میں حرام نہیں.بلکہ صرف بعض زائد باتوں کی وجہ سے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ممنوع قرار پاتا ہے.لیکن دوسری طرف اس میں بھی شک نہیں کہ چونکہ آجکل موسیقی میں بہت سے نا پسندیدہ عناصر شامل ہو گئے ہیں اور ان باتوں میں انہماک بھی بہت بڑھ گیا ہے اور آجکل کا ماحول بھی بہت خراب ہے.اس لئے اس زمانہ میں اس کے متعلق یقیناً بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے.ورنہ خام طبیعت

Page 238

مضامین بشیر جلد سوم کے نو جوانوں پر خراب اثر پڑنا یقینی ہے.216 دوسرا سوال مجذوب کی تشریح سے تعلق رکھتا ہے.سوال کرنے والے دوست پوچھتے ہیں کہ مجذوب کون ہوتا ہے.وہ فرماتے ہیں کہ کیا ایسا شخص مجذوب کہلا سکتا ہے جو شریعت اسلامی سے لاتعلق، جسمانی پاکیزگی اور لباس سے بے نیاز اور عقل سے عاری ہو؟ ایسے شخص کا روحانیت سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مجذوب ایک عربی لفظ ہے جو جذب سے نکلا ہے.جس کے معنے کھینچنے کے ہیں اور مجذوب کے اصطلاحی معنے ایسے انسان کے ہیں جو خدا کی طرف کھینچا گیا ہو.پس حقیقتا یہ ایک بہت پاکیزہ مقام ہے مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں پست خیال اور روحانیت سے دور پڑے ہوئے لوگوں نے مجذوب سے ایسا شخص مراد لینا شروع کر دیا ہے جو مخبوط الحواس اور نیم پاگل ہو اور اسے طہارت اور پاکیزگی کا بھی کوئی احساس نہ ہو.یہ نظریہ اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.البتہ ظاہری پاکیزگی اور زینت میں ایسا انہاک ہونا بھی پسندیدہ نہیں جو آجکل کے فیشن ایبل (Fashionable) طبقہ میں عموماً پایا جاتا ہے.جو ہر وقت اپنے جسم کی زینت اور اپنے لباس کی ٹیپ ٹاپ میں ہی غرق رہتے ہیں.اسلام نے ہرامر میں اعتدال اور میانہ روی کے طریق کو پسند فرمایا ہے بلکہ قرآن نے تو میانہ روی اور اعتدال پر اتناز ور دیا ہے کہ مسلمانوں کا نام ہی اُمَّةً وسَطًا (البقره: 144) رکھ دیا ہے.الغرض مجذوب کے بچے اور حقیقی معنے صرف اس قدر ہیں کہ انسان دنیا کی لذات کی طرف سے ایک گونہ بے رغبتی پیدا کر کے خدا کی طرف کھینچا جائے.گویا یہ ایک قسم کی جائز اور محدود رہبانیت ہے.اور یہ وہی مقام ہے جس کے متعلق بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ”دل بایار و دست با کار اس کے ماسوا ہر دوسری نام نہاد مجذوبیت یا تو جنون کی قسم میں داخل ہے اور یاوہ ایک غیر اسلامی مجذوبیت ہے جسے اسلامی تمدن میں کوئی مقام حاصل نہیں.اور گندہ اور ناصاف رہنا تو قطعی طور پر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.قرآن مجید زور دار الفاظ میں فرماتا ہے کہ وَثِبَابَكَ فَطَهِّرُ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ (المدثر :5-6) یعنی اے مسلمانو! اپنے لباس کو پاک وصاف رکھو اور ہر قسم کی گندگیوں اور نا پاکیوں سے دور رہو.مجذوبیت کی حقیقی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ شعر بھی کتنے پیارے ہیں.با کامل آن باشد که با فرزند و زن عیال جمله مشغولی تن و با تجارت با بع , شرا یک زمان غافل نه گردد از خدا

Page 239

مضامین بشیر جلد سوم این نشان قوت مردانه است کاملان را بس ہمیں پیمانہ است (محرره 12 جنوری 1955ء) 217 روزنامه الفضل 15 جنوری 1955ء) ایک دوست کے تین سوالوں کا جواب دعاؤں کی قبولیت.نماز کی برکات اور مسلمانوں کی زبوں حالی پتو کی ضلع لاہور ( حال قصور.ناقل ) کے ایک دوست جن کا نام ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں اپنے ایک خط محررہ 18 جنوری 1955ء میں بعض مسائل کے متعلق اپنی پریشانی اور دماغی الجھن کا اظہار کر کے دعا کے علاوہ ایسے کافی وشافی جواب کے متمنی ہیں جو ان کے دل کی تسکین کا موجب ہو.سو دل کا اطمینان تو خدا کے ہاتھ میں ہے.جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے الا بذكر اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 29) اور کافی جواب کے لئے زیادہ وقت اور بہتر صحت درکار ہے جو مجھے آجکل میسر نہیں.اس لئے ذیل کے مختصر اور اپنے خیال میں کسی قدر شافی جواب پر اکتفا کرتا ہوں اور دعا بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالے اس دوست کی پریشانی اور دماغی الجھن کو دور کر کے اطمینانِ قلب عطا کرے اور مجھے بھی اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازے اور انجام بخیر ہو.دعاؤں کی قبولیت سب سے پہلا سوال اس دوست کا یہ ہے کہ میں اپنے ایک معاملہ میں دعا کرتے کرتے تھک گیا ہوں اور میں نے جماعت کے بزرگوں سے بھی دعا کرائی ہے مگر میرا مقصد حاصل نہیں ہوا اور کوئی دعا قبولیت کو نہیں پہنچی.حتی کہ اب میرے دل میں یہ شبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں کہ شاید دعائیں قبول ہی نہیں ہوا کرتیں.بلکہ ” وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے.اس سوال کا صاف اور سیدھا اور مختصر جواب تو یہ ہے کہ آج تک کسی شخص نے یہ دعوی نہیں کیا کہ ہر مومن کی ہر دعا لازما قبول ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے اور کئی جگہ لکھا بھی ہے کہ دعا کے معاملہ میں خدا کا سلوک اپنے بندوں کے ساتھ دوستانہ رنگ کا ہوا کرتا ہے کہ کبھی وہ اپنی بات منواتا ہے اور کبھی ان کی مانتا ہے.تو جب قبولیت دعا کے مسئلہ کے متعلق

Page 240

مضامین بشیر جلد سوم 218 اسلامی نظریہ ہی یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر دعا لازماً اپنی ظاہری صورت میں قبول ہو تو پھر اعتراض کیسا؟ اور عقلاً بھی یہی بات صحیح ثابت ہوتی ہے کہ ہر دعا کے متعلق یہ ضروری نہیں کہ وہ لازما قبول کر لی جائے، کیونکہ اگر ایسا ہو تو خدا اپنی مخلوق کا آقا اور مالک اور حاکم نہیں رہتا.بلکہ نَعُوذُ بِاللهِ ان کا محکوم اور ملوک اور مطیع بن جاتا ہے کہ جو بات بھی بندے کے منہ سے نکلے اسے وہ قبول کرنے پر مجبور ہو.اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید خود فرماتا ہے کہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (المؤمن (61) یعنی مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا.تو اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ ہر دعا لازماً اپنی ظاہری صورت میں قبول ہوتی ہے.بلکہ یہ ایک عمومی ارشاد ہے جس میں صرف اس اصولی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مومنوں کی دعائیں بے سود نہیں جاتیں.بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی سنت کے مطابق قبول کیا کرتا ہے.باقی رہا یہ سوال کہ آیا اللہ تعالی لازماً ساری دعاؤں کو قبول کرتا ہے یا کہ بعض دعا ئیں رڈ بھی کر دی جاتی ہیں.اور پھر یہ کہ آیا اللہ تعالیٰ ضرور ہر دعا کو لازماً اس کی ظاہری صورت میں ہی قبول کرتا ہے یا کہ دعاؤں کی قبولیت کے مختلف پہلو مقرر ہیں.یعنی کوئی دعا ظاہری صورت میں قبول ہوتی ہے اور کوئی ظاہری صورت سے ہٹ کر کسی اور صورت میں قبول کی جاتی ہے.سوان تمام باتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض اصول مقرر کر رکھے ہیں.جو قرآن مجید اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں.جن میں سے بعض کی طرف ذیل کے مختصر نوٹ میں اشارہ کر دیا گیا ہے.اور بعض اصول اس خاکسار کی تصنیف سیرۃ خاتم النبین حصہ سوم کے متعلقہ ابواب میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں.سب سے پہلی بات تو اس تعلق میں یہ یاد رکھنی چاہئے کہ جیسا کہ قرآن مجید اور حدیث نبوی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے پتہ چلتا ہے ہر دعا لا ز ما قبول نہیں ہوا کرتی بلکہ بعض دعا ئیں رڈ بھی کر دی جاتی ہیں.مثلاً قرآن مجید اور حدیث سے ثابت ہے کہ غافل انسان کی دعا قبول نہیں ہوتی.جو محض رسم اور عادت کے طور پر دعا کرتا ہے.مگر ویسے دعا کی روح سے غافل رہتا ہے.ناشکر گزار انسان کی دعا قبول نہیں ہوتی جو خدا کی سابقہ نعمتوں کے متعلق تو ناشکری کرتا ہے مگر آئندہ نعمتوں کا متمنی رہتا ہے.بے صبرے انسان کی دعا قبول نہیں ہوتی جو کچھ وقت تک دعا کرنے کے بعد بے صبر ہو کر کہنا شروع کر دیتا ہے کہ بہت دعا کر کے دیکھ لیا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا.اسی طرح ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی جس کا قبول کرنا خدا کی کسی سنت یا اس کے کسی وعدہ کے خلاف ہو.دعا میں بے صبری کے متعلق تو بعض بزرگوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ ہم نے بعض معاملات میں ہیں ہیں سال تک مسلسل دعا کی ہے اور عدم قبولیت کے باوجود صبر و ثبات

Page 241

مضامین بشیر جلد سوم 219 کے ساتھ اپنی دعا کو جاری رکھا اور آخر دعا کا پھل پا لیا.غالباً ہمارے اس بے صبر ہونے والے دوست کا ریکارڈ تو ابھی تک اس مدت کو نہیں پہنچا ہو گا.تو پھر بے چینی کیسی ؟ کیا خدا نعوذ باللہ اپنے بندوں کا غلام ہے کہ ادھر ان کے منہ سے دعا کے کلمات نکلیں اور اُدھر خدا نے سَمْعاً وَ طَاعَةً کہتے ہوئے ان کے ارشاد کی تعمیل کر دی؟ ظاہر ہے اور ہر عقل مند انسان اس بات کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ خدا انسان کا آقا اور خالق و مالک ہی نہیں بلکہ اس کا رب یعنی مربی بھی ہے.اس لئے وہ عاؤں کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں اپنی سنت اور وعدہ کو محوظ رکھنے کے علاوہ دعا کرنے والے کے صبر اور شکر اور اس کی قلبی روح کا امتحان بھی کرنا چاہتا ہے اور اسے یہ سبق بھی دینا چاہتا ہے کہ دعا کوئی منتر جنت نہیں ہے کہ ادھر منہ سے ایک بات نکلی اور اُدھر قبول ہوگئی.بلکہ دعا کی قبولیت ایک خاص قلبی کیفیت اور لیے مجاہدہ کو چاہتی ہے.مگر کیا کیا جائے کہ خُلق الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (الانبیاء : 38) کی دلدل انسان کو بہت جلد تھکا کر بے صبر کرنا شروع کر دیتی ہے.پھر حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ دعا کی قبولیت کے پہلو بھی مختلف ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر قبول ہونے والی دعا اپنی ظاہری صورت میں ہی قبول ہو.ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم صراحت اور وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ دعا کی قبولیت کی تین امکانی صورتیں ہوتی ہیں.بعض دعا ئیں تو اپنی ظاہری صورت میں ہی قبول کر لی جاتی ہیں اور بعض اپنی ظاہری صورت میں قبول نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو ظاہری صورت میں قبول کرنے کی بجائے دعا کرنے والے کو کسی آنے والے دنیوی خطرہ سے محفوظ کر دیتا ہے.یہ گویا دعا کی قبولیت کا منفی پہلو ہے اور بعض اوقات دعا اس رنگ میں قبول ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو دعا کو اس کی ظاہری صورت میں قبول کرتا ہے اور نہ ہی اس کے بدلے میں کوئی دنیوی خطرہ دور کر کے قبولیت کا کوئی منفی پہلو پیدا کرتا ہے.بلکہ دعا کرنے والے کے لئے اگلے جہان میں کوئی خاص نعمت مخصوص کر دیتا ہے.اور ظاہر ہے کہ مومنوں کے لئے اُخروی زندگی بھی ایسی ہی یقینی ہے جیسی کہ یہ دنیوی زندگی.بلکہ اہمیت اور طوالت کے زمانہ کے لحاظ سے اس سے بے شمار درجہ بڑھ کر ہے.پھر بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان جس بات کے لئے دعا کرتا ہے وہ خدا کے علم میں اس کے لئے اچھی نہیں ہوتی.اس لئے خدا ایسی دعا کور دکر دیتا ہے.پھر باقی ہمارے دوست کا یہ لکھنا کہ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے سو اس سے کون انکار کر سکتا ہے.لیکن ہمارے اس دوست نے غور نہیں کیا.ورنہ وہ یہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کہ دعا تو ہوتی اسی غرض سے ہے کہ خدا سے یہ درخواست کی جائے کہ اے میرے آقا! مجھے یہ کام در پیش ہے.تو اپنے فضل

Page 242

مضامین بشیر جلد سوم 220 سے اسے منظورِ خدا کے میدان میں داخل کر کے میرا کام کر دے.پس منظورِ خدا کا فلسفہ بے شک حق ہے لیکن دعا کا فلسفہ اس فلسفہ سے ٹکرا تا نہیں بلکہ اسی فلسفہ کی ایک شاخ ہے کیونکہ دعا کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ خدائے رحیم و کریم سے اپنا کام منظور کرایا جائے.اور جب کوئی دعا قبول ہو جاتی ہے تو یہی بات منظور خدا بن جاتی ہے.یہ ایک موٹی سی بات ہے جس کے سمجھنے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہئے.ہمارے یہ دوست اپنے خط میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ دعا غالباً محض ایک عبادت ہے.ورنہ جوسلسلہ خدا تعالیٰ نے قضا و قدر اور تقدیر خیر وشر کے طور پر جاری کر رکھا ہے اسی کے تحت سب کچھ ہو رہا ہے.سواس سے بھی قبولیت کا مسئلہ کس طرح رد ہو گیا ؟ تقدیر اپنی جگہ ہے اور دعا اپنی جگہ ہے.دونوں میں ہرگز کوئی ٹکراؤ نہیں.جس طرح قانونِ قضا و قدر خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا مادی قانون ہے اسی طرح دعا اور اس کی قبولیت کا قانون خدا کا بنایا ہوا روحانی قانون ہے اور دونوں برحق ہیں بلکہ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو دراصل یہ دونوں قانون خدا کے واحد از لی قانون ہی کا حصہ ہیں کیونکہ قضا وقدر تقدیر عام ہے اور دعا اور اس کی قبولیت تقدیر خاص سے تعلق رکھتی ہے.اور جیسا کہ میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں صراحت سے ذکر کر چکا ہوں.خوارق اور معجزات بھی اسی تقدیر خاص ہی کا حصہ ہیں.بہر حال میں اپنے اس پریشان خیال دوست سے عرض کروں گا کہ خدا کے لئے آپ اپنی کسی دعا کی عدم قبولیت سے گھبرا کر دعا کے مبارک دامن کو ہر گز ہا تھ سے نہ چھوڑیں.کیونکہ یہی تو وہ پہلا اور آخری کھونٹا ہے جو انسان کو خدا سے باندھتا ہے.اسے چھوڑ کر آپ نعوذ باللہ دہریت کے ورے ورے کہیں نہیں رک سکتے.آپ کو چاہئے کہ دعا کے متعلق اپنی اس گھبراہٹ کو دعا کے ذریعہ ہی دور کرنے کی کوشش کریں.چوں علاج کے نئے وقت خمار و التهاب میں اپنے اس دوست کو یہ بھی مشورہ دوں گا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف حقیقۃ الوحی“ کا نشانوں والا حصہ بھی ضرور پڑھیں اور بار بار پڑھیں.اس سے انشاء اللہ آپ کے بے چین دل کو تسکین حاصل ہو گی.اور آپ دیکھیں گے کہ ہمارا مہربان آسمانی آقا اپنے بندوں کی دعائیں کس طرح سنتا اور کس طرح قبول کرتا ہے.اور پھر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ شعر تو ضرور یاد ہونے چاہئیں.جو حضور نے سرسید احمد خاں مرحوم بانی مدرستہ العلوم علی گڑھ کومخاطب کر کے فرمائے کہ ؎ ایکہ کوئی گر دُعا ہا را اثر بودے کجاست سوئی من بشتاب بنمایم ترا چون آفتاب

Page 243

مضامین بشیر جلد سوم 221 ہاں ممکن انکار زیں اسرار قدرت ہائے حق قصہ کوتہ کن یہ میں از ما دُعائے مستجاب الہ اللہ ! یہ کیسا شاندار کلام ہے اور کیسی تحدی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے! اور پھر یہ دعا پنڈت لیکھر ام لیڈر آریہ سماج کی پیشگوئی کی صورت میں کس شان کے ساتھ پوری ہوئی !! نماز کی برکات اس دوست کا دوسرا سوال نماز کی برکات کے متعلق ہے.لکھتے ہیں کہ میں نے کئی نمازیوں کو بلکہ تہجد پڑھنے والے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اکثر ضدی اور صرف اپنا نفع دیکھنے والے اور دوسروں کا حق مارنے والے ہوتے ہیں.اور اس کے مقابل پر میں نے کئی غیر نمازی شریف اور منصف مزاج اور دیانتدار دیکھے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے.کیا نماز فحشاء اور منکر سے نہیں روکتی ؟ اس کے جواب میں میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ گوا کثر تو نہیں مگر بعض لوگ بے شک ایسے ہوں گے جو بظا ہر نماز پڑھنے کے باوجود اس قسم کے گنا ہوں میں مبتلا رہتے ہوں گے.لیکن کیا ہمارے اس جلد باز دوست نے قرآن مجید کا یہ ارشاد نہیں پڑھا کہ ویل لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَآءُ وُنَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ (الماعون: 5-8) یعنی ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو دکھاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں.اور انہوں نے صرف ایک خالی برتن روک رکھا ہے مگر اس برتن کے اندر والے دودھ کو کھو بیٹھے ہیں.تو جب خود قرآن مجید بعض نمازیوں کے متعلق اس قسم کا فتوی دے رہا ہے کہ ان کی نماز ایک خالی برتن یا ایک مُردہ جسم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تو ہمارے اس دوست نے یہ سوال بیان کر کے ہرگز کسی نئی حقیقت کا انکشاف نہیں کیا بلکہ ایک مسلّمہ اسلامی صداقت کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے.کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف ایک رسمی قسم کی نماز اور مرغی کی طرح چار چونچیں مارنے سے وہ عظیم الشان روحانی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جو حقیقی نماز کے ساتھ وابستہ ہیں؟ ہر گز نہیں ہرگز نہیں.حقیقی نماز تو وہ ہے جس کے متعلق ہمارے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں كَأَنَّكَ تَرَاهُ وَ إِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ) صحیح بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن الایمان).یعنی کچی نماز یہ ہے کہ جب تو نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو تو اس یقین سے معمور ہو اور اس بات کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر محسوس کر رہا ہو کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں اور خدا مجھے دیکھ رہا ہے.اور اگر یہ نہیں تو کم از کم تو یہ محسوس کر رہا ہو کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے.کیا ہمارے سوال کرنے والے

Page 244

مضامین بشیر جلد سوم 222 دوست دیانتداری کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جن نمازیوں کے متعلق او پر والا فتویٰ دیا ہے وہ اس قسم کے نمازیوں میں داخل ہیں؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں.تو وہ خودسوچ لیں کہ ان کا یہ فتویٰ سچے نمازیوں پر عائد نہیں ہوتا بلکہ بے نماز ، نمازیوں پر عائد ہوتا ہے جو ظاہر میں نماز پڑھتے ہوئے بھی حقیقتا بے نماز ہوتے ہیں.اور ظاہر ہے کہ قرآن مجید نے جو تا ثیر نماز کی بیان کی ہے کہ انَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَر (العنكبوت : 46 وہ حقیقی نماز کی ہے نہ کہ بے جان اور مُردہ نماز کی.اسی لئے قرآن مجید نے جس کا ہر ہر لفظ حکمت سے معمور ہے حقیقی نماز ادا کرنے والوں کے لئے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ ( یعنی وہ جو نماز کو کھڑا کرتے ہیں ) کے الفاظ استعمال کئے ہیں.اور يُصَلُّونَ کا لفظ استعمال نہیں کیا جس کے معنی صرف نماز کی ظاہری صورت پورا کر دینے کے ہیں اور بس.عام محاورہ سے قرآن مجید کا یہ انحراف اسی لطیف غرض سے کیا گیا ہے کہ تا اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ نتیجہ خیز اور فائدہ بخش بات صرف وہی ہے جو اپنے پورے لوازمات کے ساتھ دل ودماغ کی کامل توجہ سے ادا کی جائے.پھر ہمارے دوستوں کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ نماز کا اثر ایک دوائی کے اثر کی طرح ہے.جس طرح خدا تعالیٰ نے دنیا کی مادی دوائیوں میں مختلف قسم کی تاثیریں رکھی ہیں.کوئی ملیریا کے جراثیم کو مارتی ہے.اور کوئی سل کے جراثیم کو ہلاک کرتی ہے.اور کوئی ٹائیفائیڈ کے جراثیم کے لئے مہلک ثابت ہوتی ہے.اسی طرح روحانی بیماریوں کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے کئی قسم کی روحانی دوائیاں تجویز کر کے ان میں مختلف قسم کی روحانی تاثیر میں ودیعت کر رکھی ہیں.انہی روحانی علاجوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی روحانی دوائی نماز ہے.جو انسان کے نفس کو پاک وصاف کر کے خدائے سبوح وقدوس کے ساتھ اس کا پیوند جوڑنے میں گویا اکسیر کا حکم رکھتی ہے.مگر جس طرح ہر مادی دوائی کے ساتھ خدا کی یہ از لی شرط لگی ہوئی ہے کہ اس کا فائدہ تبھی حاصل ہوتا ہے کہ جب دوائی کے استعمال کے ساتھ ساتھ ضروری پر ہیز کا بھی التزام کیا جائے.اسی طرح روحانی دوائیوں کے ساتھ بھی اسی قسم کی شرائط لگی ہوئی ہیں مثلاً مادی میدان میں ملیریا کے علاج کے لئے کو نین ایک نہایت مؤثر دوائی مانی گئی ہے اور ملیریا کے جراثیم کو مارنے میں اس کا استعمال گویا تیر بہدف کا حکم رکھتا ہے لیکن اگر کوئی شخص ایک طرف تو کونین کا استعمال کرے اور دوسری طرف پانی کے کسی گندے ذخیرہ کے پاس ڈیرہ ڈال کر مچھروں کے ذریعہ ملیریا کے جراثیم بھی اپنے جسم میں بے تحاشا پیدا کرتا چلا جائے اور مسہری وغیرہ کا بھی کوئی انتظام نہ ہو اور نہ کوئی اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو ظاہر ہے کہ کونین کے استعمال کے باوجود ایسا شخص بدستور ملیریا کا شکار رہے گا.اور اس کی مثال ایسی ہوگی کہ اس نے ایک صاف ستھرا

Page 245

مضامین بشیر جلد سوم 223 حوض تعمیر کیا اور اس میں ایک طرف سے نہایت پاک وصاف پانی ڈالنے کا انتظام بھی کیا.مگر دوسری طرف سے اس کے اندر نجاست کا انبار بھی ڈالتا گیا.کیا ایسے حوض کا پانی پاک وصاف رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.بس یہی حال اس نماز پڑھنے والے کا ہے جو نماز تو بظاہر نیک نیتی کے ساتھ ہی پڑھتا ہے مگر اپنے نفس کی ٹینکی میں نماز کے طاہر و مطہر پانی کے ساتھ ساتھ گندگی کے ڈھیر بھی ڈالتا جاتا ہے.اس صورت میں ایسے شخص کی نماز سے ہرگز طہارت نفس کے اس ارفع مقام پر نہیں لے جاسکتی جو اقامةِ الصَّلوة کے لئے مقدر ہے.باقی رہا یہ سوال کہ بعض غیر نمازی بھی اچھے اخلاق کی حالت میں دیکھے جاتے ہیں.سو اس سے بھی ہمیں انکار نہیں کہ انسان کسی حد تک نماز کے بغیر بھی بعض اچھے اخلاق پیدا کر سکتا ہے.مگر سوال تو درجہ کا ہے اور کوئی شخص ہرگز یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ایک کامل طور پر پابند صلوۃ انسان کے مقابلہ پر ایک غیر نمازی انسان کے اخلاق درجہ کے لحاظ سے بہتر یا برابر ہو سکتے ہیں.اخلاق کا فلسفہ بڑا گہرا اور بڑا وسیع ہے.اور اخلاق کی درستی میں بیسیوں باتیں اثر انداز ہوتی ہیں.اور ہر اچھی بات کسی نہ کسی حد تک اخلاق پر اچھا اثر پیدا کرتی ہے.مگر ان باتوں میں سب سے زیادہ پختہ اور سب سے زیادہ وسیع الاثر چیز نماز ہے.کیونکہ وہ انسان کو خدا سے ملاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اخلاق کا بہترین اور پاکیزہ ترین منبع خدا کی ذات ہے.اسی لئے یہ فرمایا گیا ہے که تَخَلَّقُوا باخلاق الله یعنی اگر اخلاق کو اعلیٰ بنانا ہوتو اپنے اخلاق کو خدا کے اخلاق کے نمونہ پر ڈھالنے کی کوشش کرو.پس جہاں مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ بعض دوسری باتیں بھی ( مثلاً اچھی صحبت، اچھی تربیت.اچھی تعلیم.دوسروں کے ساتھ واسطہ پڑنے کا اچھا تجربہ وغیرہ) ایک حد تک اخلاق کی درستی میں مد ہوتی ہیں وہاں یہ بات بھی قطعی طور پر یقینی ہے کہ ان سب باتوں میں گلِ سرسبد وہ نماز ہے جو اپنے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کی جائے.ہاں ہاں وہی نماز جو ایک گری پڑی چیز نہ ہو بلکہ اِقامَةِ الصَّلوة کے مفہوم کے مطابق گویا چوکس اور ایستادہ کھڑی ہو اور اسے ادا کرتے ہوئے انسان پختہ یقین کے ساتھ محسوس کرے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں اور خدا مجھے دیکھ رہا ہے.مسلمانوں کی زبوں حالی اس دوست کا تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ مومن کی زندگی ذلیل ترین نظر آتی ہے.نہ وہ اچھا کھانا کھاتا ہے.نہ اچھا لباس پہنتا ہے.دنیوی لحاظ سے اس کی کوئی عزت نہیں وغیرہ وغیرہ.اس کے جواب میں

Page 246

مضامین بشیر جلد سوم 224 اس کے سوا کیا عرض کیا جائے کہ سوال کرنے والے دوست کے دل ودماغ پر غالبا ڈا کٹر سر محمد اقبال کا شکوہ" حاوی نظر آتا ہے.خصوصاً شکوہ کا وہ حصہ جہاں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ؎ امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں عجز والے بھی ہیں مست مئے پندار بھی ہیں ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہوشیار بھی ہیں سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی تو ہے بیچارے مسلمانوں پر شکایت نہیں، ہیں ان کے خزانے معمور نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور مگر علامہ اقبال نے تو جمہور مسلمانوں میں ان شعروں کا رد عمل دیکھ کر اور خصوصاً مولوی صاحبان کا شور وغوغا سن کر ” جواب شکوہ میں پناہ لے لی تھی لیکن ہمارے سوال کرنے والے دوست ابھی تک ” حور وقصور ہی کے چنگل میں پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں.بہر حال اس سوال کے بظاہر دوامکانی پہلو ہو سکتے ہیں.اگر تو سوال کرنے والے دوست کا یہ منشاء ہے کہ آج کل مسلمان سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے گر چکے ہیں اور دنیا کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہیں تو یہ درست ہے.لیکن اس کا علاج مایوسی یا گلہ شکوہ نہیں بلکہ اپنی حالت کی اصلاح کرنا اصل علاج ہے.مسلمان اپنی اخلاقی اور دینی اور اقتصادی حالت سنوار لیں تو یقیناً پھر پہلے کی طرح سب نعمتیں ان کے قدم چومنے لگیں گی اور ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی ہوئی ہے کہ ایک درمیانی تنزل اور انحطاط کے دور کے بعد اسلام کو پھر آخری زمانہ میں دوبارہ طاقت اور قوت اور شوکت حاصل ہوگی اور خدا کے فضل سے اس کے آثار بھی شروع ہیں جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.لیکن اگر سوال کرنے والے دوست کا اشارہ اس طرف ہے کہ مسلمانوں کو اسی قسم کے زہد کی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ تمول کے سامان موجود ہونے کے باوجود عیش و عشرت میں زیادہ مستغرق نہ ہوں تو اس پر کوئی عقل مند انسان اعتراض نہیں کر سکتا.خدائے علیم وحکیم نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا ہے، حیوان نہیں

Page 247

مضامین بشیر جلد سوم 225 بنایا کہ وہ ہر وقت لذات نفسانی میں ہی غرق رہے.بلکہ اس کا یہ وسطی مقام مقرر کیا ہے کہ وہ بے شک مناسب اور جائز حد تک مادی اور جسمانی لذات سے بھی متمتع ہو.کیونکہ یہ چیزیں بھی فطرت انسانی کا حصہ ہیں مگر اسے چاہئے کہ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنيا (الکہف: 105) کے رنگ میں ان لذات میں غرق نہ ہو بلکہ دست در کار دل بایار والا معاملہ رکھے.آپ دیندار رہتے ہوئے اور اخلاق کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑتے ہوئے بے شک اچھا کھا ئیں.اچھا پہنیں.اچھے مکان میں رہیں.اچھا فرنیچر استعمال کریں.اہل وعیال کی خوشیوں میں حصہ لیں.دوستوں کے ساتھ معصوم مجلسیں جمائیں.دنیا کی سیر و سیاحت کریں.آپ کو کون روکتا ہے؟ چشم ما روشن دل ما شاد.مگر یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ خرچ کے معاملہ میں اپنا اپنا مذاق اور اپنا اپنا میلان ہوا کرتا ہے اور اس بارے میں نیک لوگوں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے.اصل مرکزی نقطہ تقویٰ اور دینداری ہے.اس دائرہ کے اندر اندر رہتے ہوئے سب کچھ جائز ہے.کیا آپ نے نہیں سنا کہ بعض اوقات حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی ایک ایک ہزار روپے کا جوڑا پہنتے تھے مگر باوجود اس کے وہ اپنی روح کے لحاظ سے یقینا ایک فنافی اللہ زاہد منش درویش تھے.صحابہ ہی کو دیکھ لیں ان میں حضرت عثمان جیسے عالی مرتبہ ذی ثروت بزرگ بھی تھے.جن کے قدموں میں دولت لوٹتی پوٹتی تھی اور دوسری طرف ان میں حضرت ابوذرغفاری جیسے فاقہ مست صحابی بھی تھے جو دولت جمع کرنے کے خیال تک کو گناہ سمجھتے تھے.ہمارے رسول پاک نے بے شک الفقر فخری (یعنی فقر میر افخر ہے ) فرمایا ہے اور حضور (فدا نفسی) کا یہی مقام تھا مگر حضرت سلیمان بھی تو اللہ ہی کے نبی تھے جن کی شان و شکوہ کو آجکل کے کئی بادشاہ بھی ترستے ہیں.دین العجائز بالآخر مجھے خوشی ہے کہ سوال کرنے والے دوست نے ان شبہات اور دماغی الجھنوں کے باوجود دعا کی درخواست کی ہے اور لکھا ہے کہ وہ اسلام اور احمدیت کے دامن کے ساتھ وابستہ رہنے کو بہر حال اپنے لئے موجب سعادت سمجھتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے یہ جذبات دکھاوے کے طور پر نہیں بلکہ اخلاص پر مبنی ہیں اور یہی سچے مومن کا مقام ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے وساوس دور فرمائے اور ان کے دل میں تسکین اور اطمینان کی کیفیت پیدا ہو اور وہ خدا سے راضی رہیں اور خدا ان سے راضی ہو مگر اس کے ساتھ ہی میری انہیں یہ نصیحت ہے کہ آپ زیادہ سوچا نہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اکثر لوگوں کے لئے دين العجائز بہتر ہوتا ہے.یعنی سادہ دیہاتی لوگوں کا سا ایمان جو اسلام کے

Page 248

مضامین بشیر جلد سوم 226 مرکزی نقطہ پر قائم ہوتے ہوئے باقی سب باتوں پر ایمان بالغیب کے رنگ میں آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہتے چلے جاتے ہیں اور فلسفیانہ رنگ میں زیادہ سوچ سوچ کر اپنے دماغ کو مشوش نہیں کرتے.یہ نہ خیال کریں کہ میں آپ کے لئے آزاد خیالی کا رستہ بند کر رہا ہوں.اسلام اور احمدیت سے بڑھ کر آزاد خیالی کس میں ہوگی.بلکہ میری غرض صرف یہ ہے کہ تو ہم پرستی کے طریق پر شبہات کا رستہ کھولنا اچھا نہیں.اس قسم کی آزاد خیالی اگر جائز بھی ہو تو صرف ان لوگوں کے لئے جائز ہے جو شبہات کے زہر کے مقابل پر تریاق پیدا کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں.وَذَالِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلَي الْعَظِيم (محرره 24 جنوری 1955ء) روزنامه الفضل 29 جنوری 1955ء) 4 فہرست مضامین سیرت خاتم النبین جلد سوم ( از اوائل 07 ھ تا وفات) میری تصنیف سیرۃ خاتم النبین کی اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے دو جلدیں مکمل اور تیسری جلد جز وأشائع ہو چکی ہیں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے مجھے اس کتاب کی تصنیف کی توفیق عطا فرمائی اور میری اس کوشش کو قبولیت سے نوازا.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.میں نے کچھ عرصہ سے سیرۃ خاتم النبین کی تیسری جلد کے بقیہ حصہ کے مضامین کی فہرست تیار کر کے مرتب کر رکھی تھی جواب الفضل میں شائع کرنے کی غرض سے بھجوا رہا ہوں.اس اشاعت کی سہ گو نہ غرض ہے.اول یہ کہ تا مجھے اس کتاب کی تکمیل کی یاددہانی ہوتی رہے.دوسرے یہ کہ اگر خدانخواستہ میں اسے اپنی زندگی میں مکمل نہ کر سکوں تو خدا کا کوئی اور بندہ اسے انہی لائنوں پر مکمل کر دے اور میں بھی اس کے ثواب میں حصہ دار بن جاؤں اور تیسرے یہ کہ اگر کسی دوست کے خیال میں اس فہرست کی تکمیل کے متعلق کوئی مفید تجویز آئے یعنی ان کی رائے میں اس فہرست میں کوئی عنوان زیادہ ہونے والا ہو.یا تر تیب بدلنے والی ہو.یا کوئی اور تبدیلی ضروری ہو تو وہ مجھے مطلع فرما کر اس تصنیف کے ثواب میں شریک ہو جائیں.

Page 249

مضامین بشیر جلد سوم 227 بالآخر دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ اس ضروری تصنیف کی تکمیل کے لئے دعا بھی فرمائیں.کیونکہ ہرا مر حقیقتا خدا تعالیٰ ہی کے فضل اور اسی کی تو فیق کے ساتھ معلق ہوتا ہے.ماه محرره 31 جنوری 1955ء) واقعات 07ھ واقعہ ماه محرم 007 آنحضرت پر سحر کا مزعومہ واقعہ اور اس کی حقیقت سریہ ابان بن سعید بطرف نجد ابو ہریرہ کا اسلام لا نا ( جو روایتوں کی تعداد کے لحاظ سے حدیث کے سب سے بڑے راوی ہیں ) کیفیت غزوہ ذی قرد یعنی غائبہ ( سلمہ بن اکوع کو رسول پاک کا ( عام مورخین اسے 204ھ میں لطیف ارشاد ) بیان کرتے ہیں مگر حدیث سے 07 ثابت ہوتا ہے ) ماه محرم و صفر ( یعنی اگست غزوہ خیبر جو عرب کے یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ (امام مالک کے نزدیک یہ (+628 تھا آنحضرت کو زہر دیکر قتل کرنے کی ناکام کوشش کنانہ بن ابی الحقیق کے قتل کا واقعہ اور غیر مسلم مورخوں کے اعتراضات کا رو حضرت صفیہ کی شادی جو اسرائیلی قوم سے تھیں ( حضرت صفیہ کی خواب اور اس کی تعبیر.اس خواب کا معجزہ شق القمر سے تعلق ) بعض فقہی مسائل کی تشریح یعنی پالتو گدھے کا گوشت، درندوں کا گوشت، متعہ، ابتداء بیع.مال غنیمت وغیرہ غزوہ 06 ھ میں ہوا تھا )

Page 250

مضامین بشیر جلد سوم اہل فدک کے ساتھ آنحضرت کی مصالحت (فدک کے متنازعہ مسئلہ کی تشریح ) غیر مسلموں کے ارض حجاز میں رہنے کے بارہ میں اسلامی حکم ( اور ضمناً ارض حرم کے متعلق احکام) جمادى الآخرة غزوہ وادی القری شعبان نماز فجر کا بے وقت ادا ہونا مہاجرین حبشہ کی واپسی (حضرت جعفر بن ابی طالب کی واپسی پر آنحضرت کی غیر معمولی خوشی ) حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان کا رخصتانہ خسرو پرویز کسری شاہ ایران کا مارا جانا غزوہ ذات الرقاع صلوۃ خوف اور مختلف حالات میں اس کے مختلف طریق اسلام میں سیر کے پہلو پر زور اور حالات کی رعایت ملحوظ رکھنے کے متعلق اصولی نوٹ.اسلامی شریعت کے ٹھوس اور لچکدار حصے حضرت ماریہ قبطیہ کا آنحضرت صلعم کے حرم میں آنا لونڈیوں کے مسئلہ پر ایک اصولی نوٹ سریہ حضرت عمر بطرف تربته سریہ بشر بن ساعد بطرف بني مرة 228 بعض کے نزدیک یہ فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے ) اس معاملہ میں اختلاف ہے یہ واقعہ غزوہ تبوک میں ہوا یا کہ حدیبیہ سے واپسی پر ) مورخین میں اسکی تاریخ کے متعلق اختلاف ہے)

Page 251

رمضان مضامین بشیر جلد سوم سریہ غالب بن عبد اللہ الیشی بطرف میفعہ اور حضرت اسامہ کا واقعه درباره قتل جبری مسلمان 229 شوال سریہ بشر بن ساعد بطرف یمن و جبار سریہ ابن عمر بطرف نجد بعض کے نزدیک سریہ ابان بن سعید اور یہ ایک ہی ہیں ) ذ وقعدہ (فروری 629ء) عمرۃ القضاء جو صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں ادا کیا حضرت میمونہ کے ساتھ آنحضرت کی شادی (یہ آنحضرت کی آخری شادی تھی ) آنحضرت کی شادیوں اور ازواج مطہرات کے متعلق مزید شادیوں پر پابندی ایک مجموعی نوٹ آنحضرت کی اہلی زندگی پر نوٹ ( معاشرہ نان و نفقہ.آنحضرت کے گزارہ کا ذریعہ وغیرہ) سریہ ابن ابی العوجاً بطرف بنی سلیم بدالعین ماه جبلہ ابن الا یھم رئیس غستان کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغی خط اور اس کا مسلمان ہونا ( مگر حضرت عمر کے زمانہ میں یہ شخص پھر مرتد ہو گیا ) واقعات 208 ماه صفر 208 خالد بن ولید اور عمر و بن عاص کا اسلام لانا ( خالد اور عمرو بن عاص کی تاریخ اسلام میں نمایاں حیثیت) سریہ غالب بن عبد اللہ بطرف بنی ملوح آنحضرت کے بعد آپ کی ازواج کے متعلق یہ پابندی کہ آپ کے بعد اور کسی سے شادی نہ کریں)

Page 252

مضامین بشیر جلد سوم سریہ غالب بن عبد اللہ بطرف فدک مسجد نبوی میں منبر بنانے کی تجویز اور حسنین الجذع کا واقعه ( فلسفی منکر حنانه است از حواس انبیا بیگانه است) آنحضرت کا ایک شخص کو ایک شخص کے قتل کرنے کے جرم میں قتل کی سزاد بنا ( یہ اسلام میں قتل کی پہلی سزا تھی ) اسلامی شریعت میں قانون قصاص پر اصولی نوٹ ربیع الاول سریہ شجاع بن وہب بطرف بنی عامر سریہ کعب بن عمر بطرف ذات الملاح جمادی الاول ستمبر 629ء عرب کی شمالی سرحد میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا او بیرونی ممالک کے خطرات کا آغاز غزوہ موتہ ( زید بن حارثہ اور جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کی شہادت ) جمادى الآخرة سریہ عمرو بن عاص بطرف ذات سلاسل اور سریہ ابوعبیدۃ کمک کی صورت میں رجب ( نومبر 629ء ) سریہ ابو عبيدة بطرف السيف البحر ( اس سریہ میں راشن بندی کی ضرورت پیش آئی اور خوراک کے متفرق ذخائر کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ) 230 شعبان سریہ ابوقتادة بطرف خفرة رمضان سریہ ابوقتادة بطرف بطن اصنم سریہ عبداللہ بن ابی حدرد بطرف غابه غزوہ فتح مکه بعض مورخین کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی ہیں

Page 253

مضامین بشیر جلد سوم جنوری 630ء حرم کی حدود میں اسلام کا پُر امن اور شاندار داخلہ علم معافی.بعض خاص مجرمین (جن پر قتل و غارت کا الزام تھا) کے قتل کا حکم.بیت اللہ کے بتوں کا توڑا جانا.حضرت ابوبکر کے والد ابو قحافہ.ابو سفیان.حکیم بن حزام - صفوان بن امیہ عکرمہ بن ابو جہل وغیرہ کا مسلمان ہونا.اس بات پر نوٹ کہ فتح مکہ کے بعد بھی ملکہ کے کئی لوگ کفر پر قائم رہے مکہ سے بعث خالد بطرف عزا.عمرو بن عاص بطرف سواع.سعد بن زید بطرف مناۃ.سریہ خالد بطرف جذیمہ اسلام کا ایک روحانی مذہب ہونا اور روحانیت پر ایک اصولی نوٹ شوال غزوہ حنین (حنین کے واقعہ میں مسلمانوں کے لئے ایک بڑا سبق تھا ) سریہ ابو عامرا شعری بطرف اوطاس سری طفیل بن عامر بطرف ذوالكفين فروری 630ء غزوہ طائف.فروری 630ء جعرانہ کے مقام پر غنائم کی تقسیم.بعض انصار کی طرف سے اعتراض اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب.ایک لطیف روحانی منظر.اپنے رضاعی عزیزوں سے آنحضرت کا انتہائی مربیانہ سلوک وغیرہ.رئیس بحرین کی طرف تبلیغی خط اور اس کا جواب اسلام میں بریکار لوگوں کے گزارہ کا استثنائی انتظام جزیہ پر ایک اصولی نوٹ 231

Page 254

مضامین بشیر جلد سوم ذوالحجہ (اپریل 630 ء ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرب کے مختلف اطراف سے وفود کی ابتداء بلا تعین ماه حضرت زینب بنت رسول اللہ کی وفات زکوۃ کا فرض ہونا نظام زکوۃ کی حقیقت اور اس کی غرض و غایت واقعات 09 بدالعین ماه قصہ عام الوفود یعنی سال بھر وفدوں کا مدینہ میں آتے محرم محرم یا صفر رہنا اور اسلام کی اشاعت میں غیر معمولی توسیع بعث عینیہ بن حصن بطرف بنی تمیم بعث ولید بن عقبہ بن ابی معیط بطرف بنی مصطلق سریہ ابن عویجه بطرف بنی عمرو بعث قطبہ بن عامر بطرف شمم ربیع الاول بعث ضحاک بطرف بنی کلاب ربیع الاول بعث علقمہ بن محزر بطرف حبشہ ربيع الآخر بعث حضرت علی بطرف فلس بعث عکاشہ بن محصن بطرف الحباب 232 (حاکم کے نزدیک یہ ماہ صفر میں ہوا ) کعب بن زہیر شاعر کا مسلمان ہونا (ماہ ربیع الثانی اور بعض کے نزدیک 08ھ ) مشہور قصیدہ بردہ آنحضرت کا اپنی ازواج سے ایک ماہ ہجر کرنا (ابن حبان کے نزدیک یہ واقعہ 05ھ میں ہوا اور ابن حجر نے بھی یہی کہا ہے )

Page 255

مضامین بشیر جلد سوم رجب 630ء غزوہ تبوک جسے غزوہ عُسرہ بھی کہتے ہیں ( غزوہ موتہ کے بعد روم اور ایران کے ساتھ جنگ کا یہ پہلا قدم تھا) رمضان رمضان سریہ خالد بطرف اکیدراز مقام تبوک وفات عبداللہ ذی السجا دین تبوک میں ہر قل کے نام خط از تبوک منافقین کا فتنہ اور مسجد ضرار کا گرایا جانا اور منافقین کی پرده دری قصه سزا و معافی کعب بن مالک و غیره قصہ لعان اور واقعہ عویمر (مسئلہ لعان کے متعلق اسلامی حکم) قبیلہ بنو ثقیف کا مسلمان ہونا لات کے بت کا منہدم کیا جانا بلا تعین ماه ملوک حمیر کے نام خط غامد یہ عورت کا رجم رجم کی سزا پر ایک اصولی نوٹ ) کیا رجم کی سزا حقیقتاً اسلامی سزا ہے ) بلا تعین ماه نجاشی بادشاہ حبشہ کی وفات اور آنحضرت کا نجاشی کا غائبانہ جنازہ پڑھنا اس بات پر نوٹ کہ یہ کونسا نجاشی تھا مسئلہ جنازہ کے متعلق اصولی نوٹ وفات ام کلثوم بنت رسول اللہ 233 ( یہ قیصر کے نام دوسرا خط تھا) ( اس واقعہ کی تاریخ قابل تحقیق ہے ) (علامہ ابن قیم کے نزدیک انکی زکوۃ کی وصولی کے لئے عمال کا تقرر وفات شعبان میں ہوئی تھی )

Page 256

مضامین بشیر جلد سوم ز وقعده عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کی موت ( آنحضرت کا اس کا جنازہ پڑھنا اور حضرت عمرؓ کا اعتراض.حج کا فرض ہونا حج پر اصولی نوٹ 234 ( زرقانی جلد 2 صفحہ 143 و زادالمعادجلد 1 صفحہ 180) ذ وقعدہ ( مارچ 631ء) حضرت ابوبکر کی اقتدا میں مسلمانوں کا پہلا حج ( علامہ زرقانی نے سفر کی ابتدا بلا تعین ماه اسلام میں قمری اور شمسی نظام ( یعنی سہولت عامہ کے لحاظ سے کسی امر میں قمری نظام اور کسی میں کسی ) اہل فارس کا کسری شہر یار کوقتل کر کے اس کی لڑکی بوران کا تخت پر بٹھانا بھی ذوالحجہ میں لکھی ہے ) بدالعین ماه آنحضرت کے اس ارشاد پر نوٹ کہ عورت کو بادشاہ (آنحضرت کا یہ ارشاد انفرادی بنانے والی قوم کامیاب نہیں ہوگی.حکومت کے زمانہ کا ہے اس لئے یہ خیال نہ کیا جائے کہ یورپ کے بعض محرم واقعات 10 ھ عدی بن حاتم طائی کا مسلمان ہونا ربیع الاول بعث ابو موسی اشعری بطرف یمن بعث معاذ بن جبل بطرف یمن ممالک نے عورت حاکموں کے زمانہ میں خاص ترقی کی ہے.کیونکہ یورپ میں اصل حکومت قوم کی ہوتی ہے اور ملکہ برائے نام ہوا کرتی ہے.گو پھر بھی بعض نقائص پیدا ہو جاتے ہیں ) (یا شعبان 09) ( یا ربیع الآخر )

Page 257

235 مضامین بشیر جلد سوم || بعث خالد بن ولید بطرف نجران // ( جون 631ء) وفات ابراہیم ابن رسول اللہ اور کسوف شمس آنحضرت کا یہ فرمانا کہ اگر میرا یہ بچہ زندہ رہتا تو نبی بنتا) بلا تعین ماه بعث جریر بن عبد اللہ بطرف ذوالکلاع رمضان بعث ابوعبیدہ بطرف نجران قصه بدیل و قیم الداری و ابن صیاد دجال کے متعلق اصولی نوٹ جبرائیل کا تمثیلی صورت میں آنحضرت کی مجلس میں حاضر ہوکر مسائل دریافت کرنا بعث حضرت علی بطرف یمن بلدالعین ماه سود کی ممانعت || اشتراکیت یعنی کمیونزم پر ایک اصولی نوٹ ابو عامر راہب کی موت وفات باذان والٹی یمن بلا تعیین ماه نزول احکام بابت استیذان ذوالقعدہ و ذوالحجہ ( مارچ حجتہ الوداع جس میں آنحضرت نے اپنی وفات کے (4632 قرب کے خیال سے مسلمانوں کو الوداع کہا آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي کانزول اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ( سابقہ مذاہب کے متعلق اسلام کا مسلک.پنج ارکان اسلام.مسئلہ ختم نبوت.اسلام کی عالمگیر شریعت.شریعت کے ٹھوس اور لچکدار حصے وغیرہ.

Page 258

236 مضامین بشیر جلد سوم || آنحضرت کا خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر بل العین ماه آنحضرت کو جوامع الکلم عطا کئے گئے.آپ کے خاص خاص امتیازی کلمات محرم واقعات 11 وفد نخع از میمن ( یہ آخری وفد تھا جو آنحضرت کے سامنے پیش ہوا ) مدفونین جنت البقیع کیلئے آنحضرت کی آخری دعا ( نیز احد میں جا کر شہداء احد کیلئے دعا.صفر ( مئی 632ء) سریہ اسامہ بن زید ( یہ آنحضرت کی زندگی کا آخری سریہ ہے گو اس کی روانگی بھی آپ کی وفات کے بعد ہوئی.صفر یا ربیع الاول اسود عنسی کذاب کا ظہور مسیلمہ کذاب کا ظہور (سجاح متنبیہ کا واقعہ ) طلیحہ بن خویلد کا ظہور الہی سلسلوں میں ارتداد پر ایک اصولی نوٹ آنحضرت کی مرض الموت کا آغاز (مرض کیا تھی.کتنے دن رہی کیا علاج کیا گیا وغیرہ وغیرہ صفر یار بیع الاول قرطاس کے واقعہ کی تشریح آنحضرت کا حضرت ابو بکڑ کو اپنی جگہ امام الصلوۃ مقرر کرنا.آنحضرت کا حضرت عائشہ سے فرمانا کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ ابو بکر کے متعلق خلافت کی وصیت لکھ دوں مگر پھر اسے خدا اور مومنوں پر چھوڑ دیا ربیع الاول افاقہ قبل وفات اور آنحضرت کا مسجد میں تشریف لے جا کر صحابہ سے باتیں کرنا

Page 259

مضامین بشیر جلد سوم آنحضرت کا آخری کلام ( جون 632ء ) | وصال اکبر ہے مسجد نبوی میں صحابہ کا غم واندوہ.حضرت عمرؓ کا پیچ و تاب کھانا.حضرت ابوبکر کا خطبہ (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلَ.نیز أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدَ مُحَمَّداً فَإِنَّ مُحَمَّداً قَدْ مَاتَ ) اسلام کا سب سے پہلا بلکہ واحد اجماع سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ اور حضرت ابوبکر خلیفہ اول کی ابتدائی بیعت مسجد نبوی میں حضرت ابوبکر کی عام بیعت آنحضرت کا غسل.تکفین.جنازہ.قبر اور تدفین وغیره کیا آنحضرت کا جنازہ اکٹھا باجماعت پڑھا گیا.اگر نہیں تو کیوں؟ آنحضرت کی عمر بحساب نظام قمری و شی.آنحضرت کا ورثہ ( تشریح حدیث مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ) شمائل نبوی کی ایک اجمالی جھلک محمد مفلح یعنی سب نبیوں میں سے زیادہ کامیاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کتاب کا خاتمہ 237 الفضل مورخہ 20 و23 فروری 1955ء)

Page 260

مضامین بشیر جلد سوم 238 فہرست مضامین سیرۃ خاتم النبیین کے متعلق ایک ضروری تصحیح الفضل میں میری تیار کردہ فہرست مضامین سیرۃ خاتم النبین حصہ سوم (از 007 تا 11ھ ) شائع ہوئی ہے.اس میں کا تب کی غلطی سے جہاں جہاں میں نے قارئین کی سہولت کے لئے انگریزی تاریخ درج کی تھی اسے ایک مستقل تاریخ کی صورت میں ہجری کی تاریخ سے علیحدہ کر کے لکھ دیا گیا ہے.حالانکہ میں نے صرف کہیں کہیں ہجری والی تاریخ کے نیچے تشریح اور سہولت کے خیال سے انگریزی مہینوں کا نام درج کیا تھا جو اس سے اوپر والے اندراج کا حصہ تھا نہ کہ ایک علیحدہ اندراج.مثلاً رمضان 08ھ کے واقعات کے نوٹ کرنے میں میں نے ایک بریکٹ میں تشریح کے خیال سے جنوری 630ء کا اندراج کیا تھا جو کوئی علیحدہ اندراج نہیں تھا بلکہ رمضان والے اندراج ہی کا حصہ تھا.مگر کا تب صاحب نے اسے ایک الگ اندراج کی صورت دے کر پیچیدگی پیدا کر دی ہے.پس دوست اس قسم کے جملہ اندراجات کو جو انگریزی مہینوں کی صورت میں لکھے گئے ہیں کوئی علیحدہ اندراج نہ سمجھیں بلکہ انہیں اوپر والے ہجری کے اندراجوں کا حصہ سمجھیں اور ان کے اردگرد بریکٹ ڈال لیں.(محرره 21 فروری 1955ء) روزنامه الفضل 23 فروری 1955ء) 60 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جنازہ گاہ اور پہلی بیعت خلافت کا مقام کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نماز جنازہ اور پہلی بیعت خلافت کے مقام کے متعلق مناسب تحقیق اور حاضر الوقت احباب کی شہادت کے ساتھ جن میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور مکرم محمد المعیل صاحب معتبر اور خاکسار مرزا بشیر احمد اور بعض دیگر اصحاب بلکہ خود حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی شہادت بھی شامل تھی.ایک مختصر سا نوٹ الفضل مورخہ 4 فروری 1953 میں شائع کرایا تھا.اور اس نوٹ میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ گو جنازہ گاہ کے متعلق سب دوستوں کا اتفاق ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 261

مضامین بشیر جلد سوم 239 کی نماز جنازہ باغ کے شمالی حصہ ( مملوکہ اخویم حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ) میں کنوئیں کے قریب ہوئی تھی مگر پہلی بیعت خلافت کے متعلق شہادتوں میں اختلاف ہے.بعض احباب کا خیال ہے کہ بیعت خلافت بھی جنازہ والی جگہ میں ہی ہوئی تھی.مگر دوسرے اصحاب کا خیال ہے کہ بیعت خلافت جنازہ والی جگہ میں نہیں ہوئی.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے حصہ باغ میں پختہ چبوترہ والی جگہ کے سامنے ہوئی تھی.اور میں نے اس نوٹ میں لکھا تھا کہ غالب رجحان موخر الذکر خیال کی طرف ظاہر ہوتا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ چونکہ یہ ایک تاریخی سوال ہے اس لئے اگر کسی دوست کی رائے اس کے خلاف ہو تو وہ اس کے متعلق بخوشی لکھ سکتے ہیں.چنانچہ اس تعلق میں ذیل کا مضمون حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی طرف سے موصول ہوا ہے.جو الفضل میں شائع کیا جاتا ہے.اگر اس معاملہ میں کوئی اور دوست اپنی چشم دید شہادت اور پختہ یادداشت کی بناء پر اس تاریخی سوال پر مزید روشنی ڈال سکتے ہوں تو ان کے لئے بھی یہ رستہ کھلا ہے.اس تعلق پر مجھے حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی خود نوشتہ ڈائری میں سے بھی ایک نوٹ ملا ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازہ اور بیعت خلافت کے دن یعنی 27 مئی 1908ء کا لکھا ہوا ہے اور حال ہی میں ملک صلاح الدین صاحب ایم اے کی تصنیف اصحاب احمد میں شائع ہوا ہے.ممکن ہے کہ اس نوٹ سے بھی جو عین اُس وقت اور اس موقع کی تحریر شدہ شہادت ہے اس معاملہ میں کچھ روشنی پڑ سکے اور بالواسطہ طور پر کچھ کام آ سکے.حضرت نواب صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں.حضرت مولانا ( نور الدین صاحب کے ) ہاتھ پر ہم نے معہ فرزندان ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) و میر (ناصر نواب صاحب قریب بارہ سو آدمی نے باغ کے درختوں کے نیچے بیعت کی.اس کے بعد ہم سب واپس آئے اور کھانا کھایا اور پھر نماز ظہر پڑھ کر تمام لوگ باغ میں جمع ہوئے اور نماز عصر پڑھ کر جنازہ پڑھایا گیا.اور پھر حضرت مولانا نے ایک خطبہ پڑھا.بیعت کے وقت اور خطبہ کے وقت عجیب نظارہ تھا کوئی آنکھ نہ تھی جو پر نم نہ تھی ( اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 608 شائع کردہ مجلس انصاراللہ پاکستان...(اس کے بعد حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا مضمون درج ہے شوق رکھنے والے دوست الفضل 23 فروری 1955 ء پر دیکھ سکتے ہیں ) (محررہ 17 فروری 1955ء) (روز نامه الفضل 23 فروری 1955ء)

Page 262

مضامین بشیر جلد سوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو مطلوب ہے 240 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فوٹو ایسا ہے جس میں حضور پورے جسم کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور ہاتھ میں ایک طرف کو جھکی ہوئی ایک چھڑی ہے اور سر پرلنگی ہے.حضور کے ساتھ عزیزم مکرم میاں شریف احمد صاحب کھڑے ہیں.اور فوٹو میں ان کی عمر اس وقت قریباً سات آٹھ سال نظر آتی ہے.اگر کسی دوست کے پاس اس فوٹو کی صاف اور اصل تصویر موجود ہو تو چند دن کے لئے مجھے کسی معتبر ذریعہ سے ارسال فرما کر ممنون فرمائیں.انشاء اللہ اس کی نقل لینے کے بعد واپس بھجوا دیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ تصویر بہت صاف ہے اور اپنے اندر خاص روحانی اثر رکھتی ہے.اور پھر ہے بھی وہ پورے جسم کی.نہ کہ صرف چھاتی تک کا بسٹ (Bust) میرا خیال ہے کہ جہاں آئندہ کسی کتاب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر چھاپنی ضروری سمجھی جائے تو چھاتی تک کی تصویر کی بجائے یہ تصویر چھاپنی زیادہ مفید ہوگی.محرره 8 مارچ 1955 ء ) (روز نامہ الفضل 11 مارچ1955ء) دین کا مرکزی نقطہ تقویٰ ہے جس کا مقام مومن کا دل ہے مجلس خدام الاحمدیہ کی تربیتی کلاس پر امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پیغام مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کے زیر اہتمام مورخہ 30 مارچ کو مسجد مبارک میں اہل ربوہ کا جو تربیتی اجلاس منعقد ہوا.اس میں امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا حسب ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا.میرے نزدیک دین کا مرکزی نقطہ تقویٰ ہے.جس کا مقام مومن کا قلب ہے.تقویٰ کا تصور بہت گہرا اور بہت وسیع ہے.مگر اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہر قول اور ہر فعل اور ہر حرکت اور ہر سکون میں خدا کی رضا کی تلاش اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کو اپنا مقصود و مدعا بنائے.اور ہر بات کہتے ہوئے اور ہر کام کرتے ہوئے بلکہ ہر کام سے رکتے ہوئے بھی یہ سوچ لیا کرے کہ کیا اس میں کوئی پہلو خدا کی ناراضگی کا تو نہیں ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقویٰ کی تعریف میں فرمایا ہے کہ.

Page 263

مضامین بشیر جلد سوم حاصل ہے اسلام تقوی خدا کا عشق کے اور جام تقویٰ مسلمانو بناؤ نام تقوی کہاں ایماں گر ہے خام تقوی ہر اک نیکی کی جڑھ اتقا ہے اگر 241 جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے پس میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان بھی تقویٰ کو اپنا شعار بنائیں گے اور اپنے ہر قول وفعل میں خدا کی رضا جوئی کو مقدم رکھیں گے.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر رہے.اور انہیں سچا خادم دین بنا کر حسناتِ دارین سے نوازے.آمین محررہ 29 مارچ 1955 ء ).......(روزنامہ الفضل 2 اپریل 1955ء) حضرت خلیفہ اُسی الثانی کے سفر یورپ کی کامیابی کے لئے جماعت کو خاص دعاؤں کی تحریک جیسا کہ احباب جماعت کو معلوم ہے حضرت خلیفہ السیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سفر یورپ کے ارادہ سے کراچی تشریف لے گئے ہوئے ہیں اور وہاں سے انشاء اللہ عنقریب یورپ روانہ ہو جائیں گے.جماعت کے دوستوں کو اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیں کہ اگر اللہ تعالے کے علم میں یہ سفر مقدر ہے تو وہ اپنے فضل و کرم سے حضور کو خیریت کے ساتھ لے جائے اور پوری طرح صحت یاب کر کے کامیاب اور بامراد واپس لے آئے اور حضور کے اس سفر کو دین و دنیا اور ظاہر و باطن اور حال و مستقبل کے لحاظ سے مفید اور بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ کرے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ جیسا کہ میں نے اپنے ایک سابقہ اعلان میں ذکر کیا تھا حضور کی یہ بیماری اعصابی نوعیت کی ہے جو کثرت کار اور کثرت افکار کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.بعض ڈاکٹر صاحبان اسے پورا فالج تو نہیں ( کہتے )

Page 264

مضامین بشیر جلد سوم 242 مگر فالج کی ایک ہلکی اور جزوی قسم جسے انگریزی میں پریسز (Paresis) کہتے ہیں قرار دیتے ہیں.چنانچہ کراچی کے ڈاکٹروں کی تشخیص بھی یہی ہے کہ یہ فالج یعنی (Paralysis) نہیں ہے بلکہ پریسز (Paresis) ہے.لیکن بعض ڈاکٹر اسے مطلقاً فالج قرار دیتے ہی نہیں.بلکہ ایک خاص نوع کی اعصابی تکلیف قرار دیتے ہیں جو کثرت کار اور کثرت افکار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے.بہر حال بیماری کی جو بھی نوعیت ہو ہر دو تشخیصوں کے لحاظ سے اس وقت حضور کو آجکل کامل جسمانی اور دماغی سکون کی ضرورت ہے اس لئے دوستوں کو دعاؤں کے علاوہ یہ بھی احتیاط رکھنی چاہئے کہ ان ایام میں حضور کی خدمت میں کوئی ایسا خط یا رپورٹ نہ بھجوائی جائے جو کسی جہت سے فکر اور تشویش پیدا کرنے کا موجب ہو کیونکہ موجودہ حالت کا یہ تقاضا ہے کہ ان ایام میں تمام فکروں اور بوجھوں کو جماعت خود اپنے سر اور کندھوں پر لے لے اور اپنے امام کو ڈاکٹری مشورہ کے مطابق ہر قسم کے فکر اور تشویش سے آزا درہ کر سکون حاصل کرنے کا موقع دے.امید ہے کہ سب دوست اس پہلو کو خصوصیت کے ساتھ مد نظر رکھ کر حضرت صاحب کی صحت کی بحالی میں عملاً ہاتھ بٹاتے ہوئے عنداللہ ماجور ہوں گے.اس موقع پر میں احباب کی خدمت میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ تاریخ اور ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح سے پتہ چلتا ہے ایسے موقعوں پر جب کہ امام کسی دور دراز کے سفر پر ہو بیرون از جماعت مخالفین اور اندرون جماعت منافقین امام کی غیر حاضری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مختلف قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنے برپا کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر تبوک کے موقع پر ہوا.اس لئے احباب جماعت کو عموماً اور امرائے جماعت اور صدر صاحبان کو خصوصاً اس امکانی خطرے کی طرف سے بھی ہوشیار رہنا چاہئے اور اپنے مخصوص اتحاد اور قربانی اور چوکسی اور احساس ذمہ داری اور بیدار مغزی سے ثابت کر دینا چاہئے کہ کوئی اندرونی یا بیرونی خطرہ انہیں خدا کے فضل سے غفلت کی حالت میں نہیں پاسکتا اور نہ ان کے پائے ثبات میں کسی قسم کی لغزش پیدا کر سکتا ہے.بعض مخالفین ابھی سے حضرت خلیفتہ اسیح الثای ایدہ اللہ نعرہ کے پیش آمدہ سفر کے متعلق بعض جھوٹی اور بے بنیا د افواہیں مشہور کر رہے ہیں بلکہ بعض افواہوں کو تو اخباروں تک میں بھی جگہ دے کر فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اس قسم کی افواہوں کے متعلق بھی جماعت کے ذمہ دار طبقہ بلکہ ہر احمدی کو ہوشیار رہنا چاہئے.جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے حضور کا یہ سفر علاج اور صحت کی غرض سے ہے اور ایسے موقع پر عزیزوں کی

Page 265

مضامین بشیر جلد سوم 243 معتد بہ تعداد اور مناسب عملہ کو ساتھ لے جانے کا خیال آنا ایک طبعی امر ہے اور اب تو ابتدائی تجویز شدہ تعداد میں آخری نظر ثانی کے وقت کافی کمی بھی کی جارہی ہے.بہر حال اس قسم کے سفر کو جو خالصتاً علاج اور صحت کی غرض سے اختیار کیا جا رہا ہے بے بنیاد افواہوں کا نشانہ بنانا اس گندی ذہنیت کا مظہر ہے جو بدقسمتی سے ملک کے ایک طبقہ میں ہمارے متعلق پائی جاتی ہے.مگر یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ خدا کے فضل سے ملک کا شریف اور سمجھدار طبقہ اس قسم کے خلاف اخلاق رجحانات سے پاک ہے اور بعض عقائد میں اختلاف کے باوجود ہمارے ساتھ انصاف اور ہمدردی کا رویہ رکھتا ہے.چنانچہ موجودہ بیماری میں بھی کثیر التعداد غیر احمدی اصحاب نے حضرت صاحب کی عیادت میں حصہ لیتے ہوئے دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور ہمارا اور سب ہی خواہان ملک وملت کا حافظ و ناصر ہو.آمین ( محررہ 3 اپریل 1955 ء) روزنامه الفضل 5 اپریل 1955ء) مساجد کے اماموں کا واجبی اکرام ہونا چاہئے نماز کے متعلق "كتاباً موقوتاً کے حکم کی ضروری تشریح میں نے ربوہ کی مساجد میں مقررہ اماموں کے اکرام کے خلاف ایک رجحان نوٹ کر کے ربوہ میں ایک مقامی مشورہ جاری کیا ہے.چونکہ اسی قسم کا نقص بعض بیرونی مقامات میں بھی پیدا ہورہا ہوگا.اس لئے یہ ہدایت الفضل میں بھی شائع کرائی جارہی ہے تا بیرون جات کے دوست بھی اس مشورہ سے فائدہ اٹھا سکیں.وَكَانَ اللهُ مَعَنَا أَجْمَعِينَ - خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ 1955-4-4) بخدمت محترم ناظر صاحب تعلیم و تربیت و جنرل پریذیڈنٹ صاحب وائمہ بیوت ربوہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ چونکہ اس زمانہ کی مصروفیات کے پیش نظر کچھ عرصہ سے ربوہ کی مساجد میں نمازوں کا وقت معین صورت میں مقرر کر دیا گیا ہے.مثلاً یہ کہ ظہر کی نماز پونے ایک بجے ہو.اور عصر کی نماز چار بجے ہو.وغیرہ ذالک.اس لئے اس تعین کے نتیجہ میں ایک ایسی خرابی پیدا ہورہی ہے جسے گویا دوسری انتہا کی خرابی کہنا چاہئے یعنی اس

Page 266

مضامین بشیر جلد سوم 244 انتظام کی وجہ سے امام مسجد کے اکرام اور احترام میں فرق پیدا ہو رہا ہے.اور وہ اس طرح کہ جو نہی کہ نماز کا مقررہ وقت آتا ہے اور گھڑی کی سوئی پونے ایک بجے یا چار بجے پر پہنچتی ہے تو مقررہ امام کا انتظار کرنے کے بغیر بلا توقف کسی اور حاضر الوقت بزرگ کو پیش امام بنا کر نماز شروع کر دی جاتی ہے.یہ بات مقررہ امام کے اکرام کو کم کرنے والی اور اس کے احترام کے خلاف ہے کہ چند منٹ کے لئے بھی اس کا انتظار نہ کیا جائے.بے شک نماز کے متعلق قرآن مجید میں كِتاباً موقوتاً کے الفاظ آتے ہیں.مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز کسی معین منٹ پر ادا ہونی چاہئے اور کسی صورت میں بھی اس سے آگے پیچھے نہیں ہونی چاہئے.بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے اول اور آخر وقت مقرر کر دیا گیا ہے اور ان دو وقتوں کے درمیان نماز ادا ہونی ضروری ہے.بہر حال اسلام نے امام کا جو اکرام مقرر کیا ہے (جس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ اگر امام نماز میں سہواً کوئی غلطی بھی کر جائے اور توجہ دلانے پر بھی اسے اپنی غلطی کا احساس نہ ہو تو مقتدیوں کو اس غلطی کا علم ہونے کے باوجود امام کی اتباع کرنی پڑتی ہے ) اس اکرام کا تقاضا ہے کہ امام کا اکرام ملحوظ رکھا جائے اور صرف چند منٹ کے انتظار کی وجہ سے اس اکرام میں رخنہ پیدا کرنا کسی طرح مناسب نہیں.آخر ہمارے دوست مسجد مبارک ربوہ میں حضرت صاحب کے لئے جبکہ حضور کسی اہم دینی کام میں مصروف ہوتے ہیں بعض اوقات لمبا لمبا وقت انتظار کرتے ہیں.تو اگر کسی وقت کسی دوسرے مقررہ امام کے لئے صرف چند منٹ انتظار کر لیا جائے.تو یقیناً اس میں کوئی ہرج نہیں.بلکہ یہ امر اسلام کی عمومی روح کے عین مطابق ہے.اور پھر وہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ مختلف گھڑیوں کے وقت میں بھی چند منٹ کا فرق ہو جایا کرتا ہے.لہذا میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ ربوہ کی مساجد میں نمازوں کا وقت مقرر ہونے کا یہ مطلب نہیں سمجھا جائے گا کہ جو نہی کہ مقررہ منٹ آئے امام کا انتظار کرنے کے بغیر بلا توقف کسی اور دوست کو آگے کر کے نماز شروع کرا دی جائے.بلکہ مناسب وقت مثلاً چار پانچ منٹ انتظار کرنے کے بعد نماز شروع کرانی چاہئے.ہاں اگر زیادہ دیر ہو جائے تو پھر بے شک نماز کرا دینے میں ہرج نہیں.کیونکہ دوسری طرف یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس زمانہ میں لوگوں کی مصروفیت اور خصوصاً ملازم پیشہ اصحاب کے اوقات زیادہ لمبے انتظار کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اندیشہ ہوتا ہے کہ زیادہ انتظار کی وجہ سے لوگ باجماعت نماز میں سستی نہ

Page 267

مضامین بشیر جلد سوم 245 کرنے لگ جائیں.البتہ خلیفہ وقت اور امام جماعت کا مقام ضرور ایسا ہے کہ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ اس کے لئے لمبا انتظار بھی حقیقتا عبادت میں ہی داخل ہوتا ہے.روزنامه الفضل ربوہ 8 اپریل 1955ء) اسلام کے متعلق ایک مختصر مگر جامع رسالہ لکھنے کی تجویز بیرونی ممالک میں تبلیغ کا تجربہ رکھنے والے دوست مشورہ دے کر ممنون فرمائیں میرا ارادہ ہے وَ بِاللهِ التَّوْفِيقِ کہ اسلام کے متعلق ایک مختصر مگر جامع رسالہ ” خلاصۃ الاسلام کے نام سے تحریر کر کے شائع کروں.جس کا حجم قریباً سوا سو 125 صفحات تک ہو گا.جس میں انشاءاللہ اختصار کے ساتھ اسلام کے تاریخی پس منظر اور اسلام کی تعلیم کا نچوڑ آ جائے گا.اور اسلام کی تعلیم کے ان پہلوؤں کو خصوصیت سے نمایاں کیا جائے گا جن پر (1) یا تو مغربی محققین کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے اور (2) یا وہ اسلام کی روح کو سمجھنے اور اسلام کی روحانی اور اخلاقی اور تمدنی اور اُخروی تعلیم کی برتری پر آگاہ ہونے کے لئے ضروری ہیں اور ضمناً اس رسالہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے مختصر اور مجمل سوانح اور دوسری شریعتوں کے مقابل پر قرآنی شریعت کے مقام کی بھی تشریح درج ہوگی اور اس نکتہ پر بھی روشنی ڈالی جائے گی کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ایسا مذہب جو آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے ملک میں نازل ہوا وہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے وسیع اور پیچیدار مسائل کے حل کرنے میں کامیاب (نہ) ہو سکے.یہ رسالہ گویا ایک طرح اسلام کا تعارف نامہ ہو گا جس میں اسلام کے بنیادی اور مرکزی مسائل پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے گی.تا اگر خدا کو منظور ہو اور میر اقلم خدائے رحیم و کریم کی طرف سے برکت پالے تو یہ رسالہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کی محبت اور اسلام کے لئے کشش پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے.وَ ذَالِكَ ظَنِّي بِاللَّهِ وَ اَرْجُوا مِنْهُ خَيْراً وَهُوَ الْمُوَفِّقُ وَالْمُسْتَعَانُ - (روز نامہ الفضل ربوہ 10 اپریل 1955ء)

Page 268

مضامین بشیر جلد سوم 246 ربوہ کے متعلق ایک مفتر یانہ پراپیگنڈا کی تردید جماعت کو فتنہ انگیزوں کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے پنجاب اور کراچی کے بعض اخباروں میں اس قسم کے فتنہ انگیز نوٹ شائع ہوئے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کے ربوہ سے تشریف لے جانے کے بعد ر بوہ میں نعوذ باللہ پارٹی بازی اور سازشوں کا میدان گرم ہے اور مختلف پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہیں اور نو جوان سروں پر کفن باندھے پھرتے ہیں اور ہر لحظہ خونریزی کا خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ.جماعت کے احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ رپورٹیں از سرتا پا افتراء اورسو فیصدی جھوٹ ہیں جو ہمارے ایسے مخالفین نے جنہیں جھوٹ سے کوئی پر ہیز نہیں اپنے قدیم طریق کے مطابق حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے مشہور کرنی شروع کی ہیں تا کہ ایک طرف تو جماعت کے مخالف عناصر کو جماعت کے خلاف یہ خیال پیدا کر کے اکسایا جائے کہ اب یہ جماعت کمزور ہو رہی ہے اور دوسری طرف خود جماعت کے سادہ لوح اور نا واقف طبقہ کے دلوں میں یہ گھبراہٹ اور بے چینی پیدا کی جائے کہ نہ معلوم جماعت کے مرکز میں کیا ہو رہا ہے جس سے ہم دور افتادہ لوگ بالکل بے خبر ہیں.اس ذلیل قسم کی فتنہ انگیزی اور افترا پردازی کے جواب میں جو ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جبکہ ملکی حالات ہر قسم کے فتنہ پیدا کرنے والے انتشار سے قطعی اجتناب کے متقاضی ہیں میں ان مخالف حضرات سے تو صرف اس قدر عرض کرنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ.بہر رنگے کہ خواہی جامه می پوش من انداز قدت را می شناسم یعنی اے ہمارے مہر بانو! تم جس رنگ کا بھی جامعہ پہنا چاہو پہن لو ہم تمہیں تمہارے لباس کے رنگ سے نہیں بلکہ تمہارے قدوقامت کے انداز سے پہچانتے ہیں اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ وَ نَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ

Page 269

مضامین بشیر جلد سوم 247 باقی رہا جماعت کا سوال سو علاقہ وارامراء اور صدر صاحبان کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں ناواقف اور دور افتادہ دوستوں کو اس قسم کے فتنوں کے متعلق باخبر اور ہوشیار رکھیں اور انہیں بتا دیں کہ یہ سب جھوٹا اور مفتریانہ پراپیگنڈا ہے جو بعض مخالفین کی طرف سے جماعت اور مرکز کے خلاف کیا جا رہا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ یہ پراپیگنڈا ان خدشات کی عملی تصدیق ہے جو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے سفر پر جانے سے قبل جماعت پر ظاہر کر کے اسے متنبہ کیا تھا کہ امام کی غیر حاضری میں اس قسم کے فتنے اٹھ سکتے ہیں.جماعت کو اس خطرہ کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے.ہماری جماعت خدا کے فضل سے اور حضرت افضل الرسل محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کی پیشگوئی کے مطابق ایک ہاتھ پر جمع ہو کر اخوت اور اتحاد اور راستی اور صداقت کے طریق پر قائم ہے اور ہر قسم کے فتنوں سے الگ رہ کر امن اور آشتی کے رنگ میں اسلام کی خدمت بجالانا چاہتی ہے اور یہی اس کا واحد مقصد و منتہا ہے.پس ہمیں چاہئے کہ ہر قسم کی انتشار پیدا کرنے والی باتوں سے الگ رہ کر اپنی پوری توجہ اور پوری کوشش اور پوری طاقت کے ساتھ اس مرکزی نقطہ پر قائم رہیں جو خدائے علیم و قدیر نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے اور جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے اس مقصد کے حصول کا طریق صبر وصلوۃ ہے.صبر کے معنی ایک طرف دوسروں کے مظالم پر ضبط نفس سے کام لینا اور دوسری طرف نیکیوں پر مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہنا ہے اور صلوٰۃ کے معنی ایک طرف اپنی کوششوں کی کامیابی کے لئے خدا سے دردمندانہ دعائیں کرتے رہنا اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر آپ کی امت کی اصلاح اور بہبودی کی غرض سے درود بھیجنا ہے.اور غور کیا جائے تو یہی وہ چارستون ہیں جن پر ایک مومن کے ایمان اور اس کی سعی و جہد کا انحصار ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں خاص طور پر دعاؤں اور صدقہ وخیرات سے کام لیں.اپنے اندر تقویٰ اور طہارت نفس پیدا کریں.اپنے ہمسایوں اور ماحول کے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک بلکہ غیر معمولی احسان سے پیش آئیں.امن اور اتحاد اور تعاون باہمی کا کامل نمونہ دکھائیں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جو ( دین حق ) اور احمدیت کی تعلیم کے خلاف اور موجودہ ملکی حالات میں حکومت کے لئے کسی جہت سے پریشانی کا باعث ہو.وَ كَانَ اللَّهُ مَعَنَا وَ مَعَكُمْ أَجْمَعِيْنَ - ( محررہ 18 اپریل 1955ء) روزنامه الفضل ربوہ 21 اپریل 1955 ء )

Page 270

مضامین بشیر جلد سوم تاریخ احمدیت کا ایک اہم مگر پوشیدہ ورق 248 میں عادتاً اور شاید فطرتا بھی سیاسی مزاج کا آدمی نہیں ہوں.مگر بعض اوقات استثنائی حالات میں میرے جیسے لوگوں کو بھی اپنے وقتی فرائض کے لحاظ سے اپنی عادت اور مزاج کے خلاف کسی حد تک سیاسی امور میں حصہ لینا پڑ جاتا ہے.چنانچہ جو واقعہ میں اس جگہ بیان کرنے لگا ہوں وہ اسی قسم کے استثنائی حالات سے تعلق رکھتا ہے اور چونکہ یہ واقعہ آج تک بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہے بلکہ شاید دو تین بزرگوں کے سوا کسی کو بھی اس کا علم نہیں.اور دوسری طرف وہ ایک لحاظ سے جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے اس لئے اسے ریکارڈ کی غرض سے بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے.اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب ملکی تقسیم سے قبل 1946 ء میں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن ہوا اور یہ الیکشن متحدہ پنجاب کا وہ آخری اور معرکۃ الآراء الیکشن تھا.جس میں الیکشن کے نتیجہ میں اس بات کا فیصلہ ہونا تھا کہ آیا پنجاب کے مسلمان مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید میں ہیں یا کہ اس کے خلاف ہیں.اور یہ کہ پاکستان کے بنے یا نہ بننے کے متعلق ان کی رائے کیا ہے؟ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے بھی بٹالہ کی تحصیل سے چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے کو بطور امیدوار کھڑا کیا تھا.اور چونکہ یہ خاکسار اس وقت جماعت کی طرف سے بٹالہ کے الیکشن کا انچارج تھا اور اتفاق سے میں اس وقت ناظر اعلیٰ بھی تھا.اس لئے اس الیکشن اور اس کے بعد کے بہت سے حالات اس وقت تک میرے ذہن میں بڑی حد تک تازہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس الیکشن میں چوہدری فتح محمد صاحب کو نمایاں کامیابی عطا فرمائی اور وہ اپنے یونی نسٹ حریف کو شکست دے کر مسلم لیگ کی مضبوطی کا باعث بن گئے.اس تمہید کے بعد میں اب اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.جو ہندوؤں اور سکھوں کی باہمی سازباز سے تعلق رکھتا ہے.پنجاب کی جس جنرل الیکشن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اس الیکشن میں بٹالہ کی تحصیل میں جو سکھ نمائندہ کامیاب ہوا تھا اس کا نام سردار وریام سنگھ تھا.سردار صاحب پنجاب کی مشہور ا کالی پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے اور چونکہ طبعاً ایک علاقہ کے ممبروں کا باہم رابطہ ہوتا ہے اور سیاسی لحاظ سے یہ زمانہ بھی ایک خاص نوعیت کا زمانہ تھا جس میں مختلف پارٹیوں کے جوڑ توڑ پورے زور پر تھے.اس لئے سردار وریام سنگھ صاحب مذکور نے غالباً ہونے والی ملکی تقسیم کے آثار دیکھ کر چوہدری فتح محمد صاحب سیال احمدی کے ساتھ

Page 271

مضامین بشیر جلد سوم 249 تعلقات بڑھانے شروع کئے اور اس بہانہ سے قادیان آنا جانا شروع کر دیا اور چونکہ چوہدری فتح محمد صاحب تبلیغ کا خاص شوق رکھتے تھے انہوں نے بھی اس تعلق کو غنیمت جانا اور آخر کار سردار وریام سنگھ صاحب کی خواہش پر چوہدری صاحب انہیں ایک دفعہ مجھے ملانے کے لئے میرے مکان پر بھی لے آئے.میں نے پہلی ملاقات میں ہی محسوس کر لیا کہ سردار وریام سنگھ گو بظاہر بہت سادہ مزاج اور دیہاتی رنگ کے انسان نظر آتے تھے مگر اندر سے کافی گہرے اور اپنی قوم اور پارٹی کے مفاد کو ہر رنگ میں اور ہر حیلے سے ترقی دینے کا زبر دست جذ بہ رکھتے تھے.ان ایام میں چونکہ جماعت احمد یہ قادیان کی طرف سے ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں پنجاب کے مسلمانوں کی عمومی اور اپنے ہمسایہ شہر امرتسر کے مسلمانوں کی خصوصی امداد کی جا رہی تھی اور انہیں قومی حقوق کی حفاظت کے لئے حسب حالات ضروری مشورہ دیا جارہا تھا اور یہ بات طبعا اس وقت کے ماحول میں ہندوؤں اور سکھوں کو نا گوار تھی.اس لئے ایک دن سردار وریام سنگھ صاحب نے مجھے باتوں باتوں میں کہا کہ آپ کی جماعت دوسرے مسلمانوں کے معاملات میں کیوں دلچسپی لیتی ہے اور ان کی کیوں امداد کرتی ہے؟ میں نے کہا سردار صاحب یہ تو کوئی پوچھنے والی بات نہیں.آپ جانتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں اور ہمارے اور دوسرے مسلمانوں کے عام قومی اور سیاسی مفاد ایک ہی ہیں اس لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اور حسب حالات ایک دوسرے کو مشورہ دینا ایک طبعی امر ہے.سردار صاحب نے کہا میں نے تو سنا ہے کہ آپ کے اور دوسرے مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں بڑا فرق ہے اور انہوں نے آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ بھی دے رکھا ہے اور شاید آپ بھی انہیں سچا مسلمان نہیں سمجھتے.تو پھر اس اتحاد اور جوڑ توڑ کے کیا معنے ہیں؟ میں نے کہا بعض عقائد میں بے شک اختلاف ہے مگر بہر حال ہمارے مذہب کا بنیادی کلمہ تو ہر دو فریق کا ایک ہی ہے لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ اور ہمارے سیاسی اور عام قومی مفاد بھی یقیناً متحد ہیں.اس لئے ہم اس قسم کے ملی اور قومی معاملات میں دوسرے مسلمانوں سے کس طرح الگ ہو سکتے ہیں؟ سردار صاحب ہوشیار آدمی تھے.میرے اس جواب پر یونہی رسمی رنگ میں ہاں ہوں کر کے خاموش ہو گئے لیکن اس کے بعد بھی ان کا قادیان اور اس کے ماحول میں آنا جانا جاری رہا.کیونکہ یہ علاقہ ان کے حلقہ انتخاب میں شامل تھا اور قادیان اور اس کے گردونواح میں سکھ بھی کافی آباد تھے.بلکہ چونکہ اس علاقہ میں ہندو بہت تھوڑے تھے اور اس علاقہ کا ہند وممبر غالبا ایک وسیع تر علاقہ کا نمائندہ تھا اس لئے اس علاقہ میں اس وقت گویا ہندوؤں کے نمائندہ بھی عملاً سر دار صاحب

Page 272

مضامین بشیر جلد سوم مذکور ہی تھے.250 چند دن کے بعد سردار وریام سنگھ صاحب پھر قادیان آئے اور مجھے مل کر فرمانے لگے کہ میں نے بہت سوچا ہے مجھے آپ کا اور دوسرے مسلمانوں کا کوئی مشترکہ مفاد نظر نہیں آتا.آپ کی جماعت خواہ نخواہ امرتسر اور دیگر مقامات کے مسلمانوں کی مدد کر کے اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہی ہے.کیونکہ موجودہ حالات میں آپ کو انجام کار نقصان پہنچنا یقینی ہے.میں نے کہا ہم کوئی خلاف اخلاق بات نہیں کر رہے اور انجام کار کے فائدہ اور نقصان کا علم تو خدا کو ہے کہ ہمیں پہنچتا ہے یا یہ کہ آپ کو پہنچتا ہے مگر بہر حال ہم اور دوسرے مسلمان قومی اور ملتی اور سیاسی مفاد کے لحاظ سے ایک ہی ہیں اور ہم انشاء اللہ ایک ہی کشتی میں رہیں گے خواہ خدانخواستہ یہ کشتی ڈوبے یا خدا کے فضل سے تیرتی ہوئی کنارے پر جالگے.باقی اسلامی تعلیم کے ماتحت ہمارا یہ بھی اصول ہے کہ جس حکومت کے ماتحت بھی ہم ہوں اس کے وفادار ر ہیں.مگر آپ کے قومی حالات کے پیش نظر میں آپ سے یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ حالات میں آپ کا اور ہندوؤں کا گٹھ جوڑ مجھے آپ کے لئے انجا مکار کے لحاظ سے اچھا نظر نہیں آتا اور میں خیال کرتا ہوں کہ اس گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں سکھ قوم جو ہندوؤں کے مقابل پر بہت چھوٹی سی قوم ہے بالآخر کمزور ہو کر ختم ہو جائے گی اور جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے اس وقت اپنا مضمون ” خالصہ ہوشیار باش‘ بھی سردار صاحب کو دیا اور انہیں سمجھایا کہ سکھ قوم کے مفاد ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں اور ان کا عام قومی کیریکٹر بھی مسلمانوں سے زیادہ ملتا ہے اور دونوں کے مذہب کا مرکزی نقطہ یعنی تو حید بھی ایک دوسرے سے نسبتاً قریب تر ہے.اس لئے ملک کے اس نازک مرحلہ پر سکھوں کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے.بلکہ بہت سوچ سمجھ کر اور اپنے قریب اور دور کے مفاد کا پوری طرح موازنہ کر کے قدم اٹھانا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ کثیر التعداد ہندو قوم کی سیاست جو ایک بہت وسیع ملک پر پھیلی ہوئی ہے سکھوں کی چھوٹی سی قوم کے لئے نقصان کا باعث بن جائے اور وہ کسی طرف کے بھی نہ رہیں.اس پر سردار صاحب خاموش ہو گئے اور صرف اتنا کہا کہ میں نے ہمدردی کے خیال سے آپ کے ساتھ بات کی تھی آپ اسے سوچ لیں.اس کے بعد جب سردار وریام سنگھ صاحب مجھے آخری دفعہ ملے تو اس وقت ملکی تقسیم کا وقت بالکل قریب آ چکا تھا.اس لئے جلد جلد بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر سردار صاحب صاف صاف اور دوٹوک بات کرنا چاہتے تھے.مجھ سے علیحدگی میں کہنے لگے کہ اب ملک بٹ رہا ہے اور آپ کی جماعت کی

Page 273

مضامین بشیر جلد سوم 251 پوزیشن بہت نازک ہے.مسلمان آپ کو اپنانے کے لئے تیار نہیں.پس آپ ان کی وجہ سے سکھوں اور ہندوؤں سے خواہ نخواہ نہ بگاڑیں اور آئندہ چل کر معلوم نہیں ملک میں کیا حالات پیدا ہوں (غالباً ان کا اشارہ آئندہ ہونے والے فسادات کی طرف تھا) اس لئے میں آپ کی ہمدردی کے خیال سے کہتا ہوں کہ آپ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے ساتھ سمجھوتہ کر لیں.میں نے سردار صاحب کا اندرونہ معلوم کرنے کی غرض سے کہا.فرمائے وہ کیا سمجھوتہ ہے؟ سردار صاحب کہنے لگے ہم آپ کی جماعت کو قادیان اور اس کے ماحول میں ایک قسم کی نیم آزاد حکومت دینے کو تیار ہیں جیسے کہ آج کل انگریزوں کے ماتحت ہندوستانی ریاستیں ہیں.اس طرح آپ عملاً آزاد بھی ہوں گے اور ملک کے مجموعی مفاد سے بھی فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور سردار صاحب نے یہ بھی کہا کہ میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ بعض ذمہ دار لیڈروں کے اشارہ پر کہ رہا ہوں.میں نے جواب دیا سردار صاحب آپ ہمیں معاف فرما ئیں.ہم دوسرے مسلمانوں کے ساتھ غداری کر کے آپ کے ساتھ جوڑ نہیں ملا سکتے.پس میرا مشورہ آپ کو یہ ہے کہ آپ اس ناکام کوشش پر مزید اصرار نہ کریں.ہاں جو کچھ میں نے آپ سے کہا ہے کہ آپ اس موقع پر ہندو قوم کے ساتھ شامل ہو کر گھاٹے میں رہیں گے.اس پر ضرور غور فرمائیں کیونکہ موجودہ حالات میں مجھے سکھ قوم کا مستقبل اچھا نظر نہیں آتا اور ویسے اہل وطن ہونے کی بنیاد پر ہم ہندوؤں کو بھی غیر نہیں سمجھتے اور سب کے ساتھ انصاف کے متمنی ہیں اور علی قدر مراتب سب کے خیر خواہ ہیں.اس پر ہماری یہ دلچسپ گفتگو ختم ہو گئی.اس کے بعد نہ تو مجھے سردار وریام سنگھ صاحب کبھی ملے اور نہ ہی مجھے ان کے حالات کا علم ہوسکا کیونکہ بہت جلد فسادات شروع ہو گئے.اور ان فسادوں میں جو کچھ ہونا تھا وہ ہوا جس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں کیونکہ ملکی تقسیم کے نتائج ہند و پاکستان کی تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہیں.جو کسی واقف کار کی نظر سے پوشیدہ نہیں اور نہ ہی اس وقت اس کے متعلق کچھ لکھنا مناسب ہے.وَاخِرُ دَعُونَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيم محررہ 20 فروری 1955ء) روز نامه الفضل 21 اپریل 1955ء)

Page 274

مضامین بشیر جلد سوم 252 سردار وریام سنگھ صاحب والے واقعہ کی چشم دید شہادت میرا ایک نوٹ الفضل مورخہ 21 اپریل 1955 ء میں زیر عنوان ” تاریخ احمدیت کا ایک اہم مگر پوشیدہ ورق شائع ہوا ہے.جس میں میں نے سردار وریام سنگھ صاحب ایم.ایل.اے تحصیل بٹالہ کی اس گفتگو کا ذکر کیا ہے جو ملکی تقسیم سے قبل ان کی میرے ساتھ قادیان میں ہوئی تھی.اس تعلق میں مجھے مولوی عبدالعزیز صاحب مولوی فاضل آف بھا مڑی حال ربوہ کا ایک نوٹ موصول ہوا ہے.جو ذیل میں شائع کیا جاتا ہے.مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ جس وقت میری یہ گفتگو سر دار وریام سنگھ صاحب کے ساتھ ہوئی تھی.اس وقت وہ میری بیٹھک کے باہر کھڑے تھے اور انہیں اس وقت اجمالاً معلوم ہو گیا تھا کہ کیا گفتگو ہوئی ہے.اس کے بعد جب ملکی تقسیم ہو چکی اور مولوی عبدالعزیز صاحب کو ہندوستانی حکومت نے از راہ ظلم قید کر لیا تو اس وقت سردار وریام سنگھ صاحب مذکور نے بعض اور سکھ اصحاب کے ساتھ مولوی صاحب کے پاس حوالات میں آکر خود اس گفتگو کا ذکر کیا.جو میرے اور ان کے درمیان ہوئی تھی.جس میں سردار صاحب نے بعض ذمہ دار لیڈروں کے کہنے پر ہمیں وہ پیشکش کی تھی جس کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے.مجھے معلوم نہیں تھا کہ مولوی عبدالعزیز صاحب کو اس واقعہ کا علم ہے.مگر ان کی شہادت سے پتہ لگتا ہے کہ نہ صرف وہ اس وقت میری بیٹھک کے باہر کھڑے تھے بلکہ بعد میں سردار وریام سنگھ صاحب نے خود بھی ان سے اس واقعہ کا صراحتا ذکر کیا تھا اور میرے متعلق کہا تھا کہ میں نے ان کی پیشکش کو رد کر دیا.سوالحمد للہ اس واقعہ کے متعلق ایک ایسی شہادت بھی مہیا ہو گئی جس کا مجھے علم نہیں تھا اور شہادت بھی وہ جس کی خود سر دار وریام سنگھ صاحب نے توثیق کی ہے.( محررہ 26 اپریل 1955ء) ( اس کے بعد مولوی عبد العزیز صاحب کا خط درج ہے.دلچسپی رکھنے والے دوست الفضل 30 اپریل 1955 ء کو دیکھ سکتے ہیں ) (روز نامہ الفضل 30 اپریل 1955ء) سردار وریام سنگھ والے واقعہ کے متعلق ایک مزید شہادت سردار وریام سنگھ صاحب ایم.ایل.اے بٹالہ کے متعلق میرا نوٹ الفضل مورخہ 21 اپریل 1955ء میں شائع ہو چکا ہے.جس میں میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ سردار صاحب کس طرح ملکی تقسیم سے قبل

Page 275

مضامین بشیر جلد سوم 253 میرے پاس قادیان میں آئے اور کس طرح ہمیں قادیان میں ایک احمدی ریاست کے قیام کا لالچ دے کر دوسرے مسلمانوں سے توڑنے کی کوشش کی.مگر انہیں اس پیشکش کا سختی سے جواب دیا گیا.اس کے بعد اسی تعلق میں مولوی عبدالعزیز صاحب آف بھا مڑی کی ایک شہادت بھی الفضل مورخہ 30 اپریل میں شائع ہو چکی ہے.اب اس کے متعلق محتر می سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی شہادت بھی موصول ہوئی ہے جو درج ذیل کی جاتی ہے.اس کے علاوہ محترمی چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے نے بھی مجھ سے ذکر کیا ہے کہ ان سے بھی سردار وریام سنگھ صاحب نے یہ تجویز بیان کی تھی اور ان سے بات کرنے کے بعد مجھے ملنے کے لئے آئے تھے.(محررہ 15 مئی 1955ء) ( اس کے بعد مکرم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا خط درج ہے.) (روزنامه الفضل 21 مئی 1955ء) جماعت احمدیہ کے متعلق ایک اور جھوٹا پراپیگنڈا قادیان کی جائیدادوں کے متعلق ایک خلاف عقل افتراء اس سے قبل پنجاب اور کراچی کے بعض اخباروں کے اس مفتر یا نہ نوٹ کی تردید شائع کی جاچکی ہے جو ربوہ کے ایک فرضی فتنہ کے متعلق ہمارے بعض کرم فرما مخالفین کی طرف سے شائع ہوا تھا.اس کے بعد میرے علم میں ایک اور اسی قسم کا افتراء لایا گیا ہے جسے مغربی پاکستان کے بعض اخباروں نے نمایاں کر کے شائع کیا ہے.اس افترا میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ قادیان میں بسنے والے احمدیوں نے مشرقی پنجاب کی حکومت سے اپنے مکانات وغیرہ کی بحالی اور واگزاری کا مطالبہ کیا ہے.اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں مغربی پاکستان کے بہت سے مہاجر احمدی قادیان میں واپس جا کر وہاں آباد ہو جائیں گے.یہ خبر بھی اسی قسم کا ایک مفتریانہ پراپیگنڈا ہے جو ہمارے بعض مخالفین ہمارے خلاف کرتے رہتے ہیں.مگر ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر قادیان میں بسنے والے احمدیوں نے مشرقی پنجاب کی حکومت سے اپنی ایسی عمارات وغیرہ کی واگزاری کا مطالبہ کیا ہے جو ملکی تقسیم کے ہنگامی حالات میں ان کے ہاتھ سے نکل گئی تھیں تو اس سے مغربی پاکستان کے مہاجر احمدیوں کا کیا تعلق ہوسکتا ہے.اور ایسی عمارات کی

Page 276

مضامین بشیر جلد سوم 254 بحالی کا پاکستان کے احمدیوں کی واپسی کے ساتھ کیا واسطہ ہے؟ قادیان میں رہنے والے احمدیوں کی جائیداد قانونا اور اخلاقاً ان احمدیوں کی اپنی جائیداد ہے جنہوں نے قادیان سے ہجرت نہیں کی اور شروع سے ہی قادیان میں رہتے آئے ہیں.اور ہندوستانی شہری ہیں.ایسے لوگوں کی جائیداد سے مغربی پاکستان کے احمدی مہاجروں کا تعلق جوڑنا اور اس کی بناء پر پاکستان کے مہاجر احمدیوں کی واپسی کا افترا کھڑا کرنا صرف ایسے لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جنہیں نہ صرف جھوٹ سے کوئی پر ہیز نہیں بلکہ عقل سے بھی کوئی دور کا واسطہ تک نہیں.حق تو یہ ہے کہ سمجھ دار اور شریف لوگوں کے لئے اس قسم کی خبروں کی تردید کی بھی ضرورت نہیں ہوتی.مگر بد قسمتی سے ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو ہمارے خلاف ہر غیر معقول بات سن کر اسے فوراً قبول کرنے کو تیار ہو جاتا ہے.حتی کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ جب ہمارے ایک دوست نے ایک اخبار نویس سے اس خبر کے متعلق کہا کہ آپ نے یہ کیا جھوٹی اور غیر معقول خبر چھاپ دی ہے تو اخبار والوں نے بلا تکلف جواب دیا کہ چونکہ ایک دوسرے اخبار نے یہ خبر چھاپی تھی اور آپ کی طرف سے اس کی فوری تردید نہیں ہوئی اس لئے ہم نے بھی اسے چھاپ دیا ہے.گویا ایسی خبروں کی تردید کی بھی ضرورت ہے جو خود اپنی ذات میں اپنی مجسم تردید ہوتی ہیں.افسوس صد افسوس کہ ہمارے رسول اکرم صلے اللہ علیہ وسلم تو یہ فرماتے ہیں کہ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِباً أَنْ يُحَدِكَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ( صحیح مسلم کتاب المقدمة باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع ) یعنی ایک شخص کا جھوٹ ثابت کرنے کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر ایسی اناپ شناپ بات جو وہ کسی دوسرے شخص سے سنے.اسے بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنے لگ جائے.ہمارے خلاف ایک صریح طور پر خلاف واقعہ اور بدیہی طور پر خلاف عقل بات جس کے جھوٹے ہونے کو ایک معمولی عقل کا انسان بھی کسی خارجی دلیل کے بغیر آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے نہ صرف شائع کی جاتی ہے.بلکہ اسے نمایاں کر کے ہمارے خلاف بدظنی اور بد گمانی اور بے چینی پیدا کرنے کا آلہ بنایا جاتا ہے.اس ظلم پر اس کے سوا کیا کہا جائے کہ ایس ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر ( محررہ 23 اپریل 1955ء) (روز نامہ الفضل 26 اپریل 1955ء)

Page 277

مضامین بشیر جلد سوم دوست رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھا ئیں اور دعا،نوافل، تلاوت قرآن اور صدقہ و خیرات پر زور دیں 255 گزشتہ سالوں میں یہ خاکسار رمضان کی برکات کے متعلق متعدد مضامین لکھ کر شائع کراتا رہا ہے.لیکن اب صحت کی خرابی کی وجہ سے زیادہ لمبا مضمون نہیں لکھ سکتا اس لئے ذیل کے مختصر اور قلم برداشتہ نوٹ پر اکتفا کرتے ہوئے دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ رمضان کے مبارک مہینہ سے جو آج سے شروع ہو رہا ہے پورا پورا فائدہ اٹھانے اور اس کی خاص الخاص برکات سے مستفیض ہونے کی کوشش کریں.یہ مہینہ سال میں ایک دفعہ آتا ہے اور انسانی زندگی کا اعتبار نہیں کہ کون اگلے سال تک جیتا ہے اور کون مرکر خدا کے حضور پہنچ جاتا ہے.اس لئے دوست اس موقع کو غنیمت جائیں اور اس بابرکت مہینہ سے فائدہ اٹھائیں.جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جہاں دوسری نیکیوں کے اجر میں اور اور نعمتیں مقرر کی گئی ہیں وہاں روزہ کا اجر خود خدا ہے.رمضان کے متعلق سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں خدائے رحیم و کریم نے اپنے بندوں کے ساتھ گویا ایک خاص قسم کا سودا کیا ہے.یعنی ایک طرف تو کچھ ذمہ داری خدا نے خود اپنے اوپر لی ہے.اور دوسری طرف کچھ ذمہ داری بندوں پر ڈالی ہے.چنانچہ فرماتا ہے.اُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوابِى (البقرہ: 187) یعنی میں رمضان کے مہینہ میں اپنے بندوں کی دعائیں خاص طور پر سنتا ہوں مگر اس کے مقابل پر میرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے بندے بھی مجھ پر سچا ایمان لائیں اور میرے احکام پر عمل کریں.اس طرح رمضان کا مہینہ گویا ایک مقدس سودا ہے جو شریعتِ اسلامی کے ذریعہ خدا اور بندے کے درمیان قرار پاتا ہے.اس سودے میں خدا اس بات کی ذمہ داری لیتا ہے کہ اگر بندہ میری فرمانبرداری کرے تو میں اس کی دعاؤں کو ضرور سنوں گا اور اس کے بگڑے ہوئے کام بنا دوں گا.پس سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دوست اس مہینہ میں اس مقدس نیت کے ساتھ مقدم رکھیں کہ ہم خدا کے ساتھ ایک خاص سودا کر رہے ہیں وَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ وَلِكُلِّ امْرَى مَانَوی.( صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب بدء الوحی ) اس کے بعد یا درکھنا چاہئے کہ رمضان کے مہینہ کو خاص الخاص برکتوں سے نواز نے کے لئے خدا تعالیٰ نے اس کے ساتھ بعض خاص خاص عبادتیں لگادی ہیں.جنہیں اختیار کر کے بندہ رمضان کی ہلکی پھلکی لطیف

Page 278

مضامین بشیر جلد سوم 256 فضاء میں گویا خدا کی طرف اُڑنا شروع ہو جاتا ہے اور دوسری طرف خدا کے فرشتے آسمان سے نیچے اتر کر بندے کی پرواز کو اپنے پروں کی مدد سے اور زیادہ تیز کر دیتے ہیں جو خاص عبادتیں رمضان کے لئے مقرر کی گئی ہیں اور وہ گویا رمضان کے مہینہ کی زینت ہیں.وہ یہ ہیں.(1) سب سے پہلی عبادت خود روزہ ہے یعنی مسنون طریق پر خدا کی خاطر مقررہ اوقات میں کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے سے پر ہیز کرنا.روزہ گویا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ بندہ زبانِ حال سے خدا سے عرض کرتا ہے کہ اے میرے آقا! میں نہ صرف اپنی ذاتی زندگی بلکہ اپنی نسل کی زندگی بھی تیرے راستہ میں قربان کرنے کے لئے پیش کرتا ہوں.میں تیرے حکم کے ماتحت کھانے پینے سے الگ رہوں گا جس پر میری ذاتی زندگی کا انحصار ہے اور میں اپنی بیوی کے پاس بھی نہیں جاؤں گا جس پر میری نسل کا دار و مدار ہے.جب ایک مومن کچی نیت کے ساتھ یہ قربانی پیش کرتا ہے تو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کی قربانی کی طرح اللہ تعالیٰ اسے ایک ذبح عظیم کے ذریعہ نوازتا ہے اور بندے نے جو چیز خدا کی خاطر کاٹی تھی وہ اسے اپنے ہاتھوں سے جوڑتا ہے.یہ ایک بہت بڑا انعام ہے.کاش دنیا اس انعام کی حقیقت کو سمجھے.روزہ کے روحانی پہلو کو نمایاں کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو شخص ظاہر میں تو روزہ رکھتا ہے مگر روزہ میں منکرات اور خواہش سے پر ہیز نہیں کرتا.اس کا روزہ خدا کے نزدیک کوئی روزہ نہیں.(2) دوسری عبادت جو رمضان کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے.وہ تہجد کی نماز ہے.یوں تو اسلام نے ہر زمانہ میں ہی تہجد کی نماز کی تلقین کی ہے مگر رمضان کے مہینہ میں اس پر خاص زور دیا گیا ہے اور رمضان میں اس عبادت کو مزید برکت اس رنگ میں ودیعت کی گئی ہے کہ رمضان میں تہجد کی نماز کو انفرادی طور پر ادا کرنے کی بجائے باجماعت رنگ میں بھی ادا کرنے کی تحریک کی گئی ہے اور اس کی برکت کو وسیع کرنے کے لئے مزید سہولت یہ دی گئی ہے کہ آخر شب کی بجائے وہ شروع شب میں بھی ادا کی جاسکتی ہے تا کہ اس میں لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہو سکیں.رمضان میں تہجد کی نماز عرفاتر اویح کی نماز کہلاتی ہے.اور تہجد کی نماز کی وہ شان ہے جس کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے کہ وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةٌ لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا (بنی اسرائیل (80) یعنی اے رسول ! تم اور تمہارے پیرو، رات کے قریب نیند سے بیدار ہو کر نماز تہجد ادا کرو.اس سے امید ہے کہ تم اپنے مقام محمود کو پہنچ جاؤ گے.یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا مقام محمود جدا جدا ہوتا ہے.جو اسے اس کے نظری قومی اور اس کے اعمال صالحہ کے مطابق

Page 279

مضامین بشیر جلد سوم 257 حاصل ہوا کرتا ہے.پس تہجد کی نماز میں یہ عجیب و غریب روحانی تاثیر رکھی گئی ہے کہ وہ انسان کو گویا اس کے معراج تک پہنچا دیتی ہے اور وہ خدا کے فضل سے اپنی ترقی کے آخری نقطہ کو پہنچ جاتا ہے.پس دوستوں کو رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر تہجد اور تراویح کی نماز کی پابندی بھی اختیار کرنی چاہئے بلکہ جن دوستوں کو توفیق ملے اور وہ اس کے لئے وقت اور موقع نکال سکیں.ان کے لئے یہ بھی مناسب ہے کہ تہجد کے علاوہ رمضان میں ضحی کی نماز بھی ادا کرنے کی کوشش کریں جو گویا دن کی تہجد ہے.جس طرح رات کی تہجد نیند کی غفلتوں سے بیدار ہو کر ادا کی جاتی ہے.اس طرح ضحی کی نمازوں کی غفلت پیدا کرنے والی مصروفیتوں سے فراغت نکال کر پڑھی جاتی ہے اور یہ نماز بھی تہجد سے اتر کر ایک نہایت بابرکت نفلی عبادت ہے.صحی کا وقت ہمارے ملک کے لحاظ سے قریبا نو بجے قبل دو پہر سمجھنا چاہئے.(3) رمضان کی تیسری خاص عبادت جس پر اسلام میں زور دیا گیا ہے تلاوت قرآن مجید ہے.یوں تو اسلام میں ہر زمانہ میں ہی تلاوت قرآن کی تلقین کی گئی ہے مگر رمضان کے مہینہ میں اس پر خاص زور دیا گیا ہے.یہ گویا خدا کی طرف سے مومنوں کو احکام شریعت کی یاددہانی ہے کہ دیکھو ہم نے تمہاری ہدایت کے لئے یہ ایک دائمی مشعل نازل کر رکھی ہے.اس کی طرف سے غافل نہ ہونا.پس ضروری ہے کہ رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت کا التزام کیا جائے.بلکہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے ہیں کہ جن مسلمانوں کے لئے ممکن ہو وہ رمضان میں قرآن مجید کے دوردور مکمل کیا کریں.دو میں تکرار کا مفہوم پایا جاتا ہے اور تکرار میں نہ صرف زیادہ برکت ہے بلکہ عابد کی طرف سے گویا تلاوت پر دوام کا اقرار بھی ہوتا ہے.(4) رمضان کی چوتھی خاص عبادت دعا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوابى (البقرہ: 187) یعنی رمضان کے مہینہ میں میں اپنے بندوں کے بہت قریب ہو جاتا ہوں اور ہر پکارنے والے کی دعا کوسنتا اور اپنی سنت کے مطابق قبول کرتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ وہ مجھ پر سچا ایمان لائے اور میری فرمانبرداری اختیار کرے.حق یہ ہے کہ رمضان میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ ہر سچا عاشق گو یا اپنا ہاتھ پھیلا کر اس کا دامن تھام سکتا ہے.مگر خدا کو دکھا وا پسند نہیں ہے.کہ زبان پر تو خدا کا نام ہومگر دل میں زمانہ جاہلیت کے خانہ کعبہ کی طرح سینکڑوں بتوں نے جگہ لے رکھی ہو بلکہ ضروری ہے کہ زبان اور دل دونوں خدا کے ذکر سے تر و تازہ رہیں.یادرکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت خشک نیچریوں کی طرح دعا کو محض ایک عبادت نہیں سمجھتی.بے شک دعا عبادت بھی ہے مگر یقینا وہ حصول مقاصد کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.کاش دنیا اس کی حقیقت کو سمجھے.

Page 280

مضامین بشیر جلد سوم 258 پس دوستوں کو چاہئے کہ رمضان میں خاص طور پر دعاؤں پر زور دیں اور دعاؤں کے لئے اپنے دلوں میں درد اور سوز پیدا کریں اور اس کے ساتھ خدا سے یہ امید بھی رکھیں کہ اگر ہم صحیح طریق پر اور پورے عزم اور استقلال کے ساتھ خدا سے دعا کریں گے تو وہ عِندَ ظَنِّ عَبْدِئ بئی کے وعدہ کے مطابق ہماری دعاؤں کو ضرور قبول کرے گا بشرطیکہ وہ اس کی کسی سنت یا وعدہ کے خلاف نہ ہوں.کیونکہ بہر حال خدا مخلوق کا آقا اور حاکم ہے، ان کا خادم یا محکوم نہیں ہے اور اپنے مصالح کو بھی وہی بہتر سمجھتا ہے.(5) رمضان کی پانچویں خاص عبادت صدقہ و خیرات ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ إِنَّ الصَّدَقَةَ تُطْفِئ غَضَبَ الرَّبِّ ) سنن الترندی کتاب الزكاة عن رسول اللہ باب ما جاء في فضل الصدقة ) یعنی صدقہ و خیرات خدا کے غضب کو ٹھنڈے کرنے کا موجب ہوتا ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بداعمالی کی وجہ سے خدا کے غضب کو بھڑکاتا ہے اور اس کے بعد تائب ہو کر خدا کے رستہ میں صدقہ و خیرات کرتا ہے تو اس کا یہ صدقہ و خیرات خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرنے کا موجب ہو جاتا ہے.جس کے بعد ایسا شخص اپنے ناراض خدا کو ایک رحیم و شفیق اور رحمن ورحیم آقا کی صورت میں پاتا ہے اور رمضان کے متعلق رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خاص طور پر ذکر آتا ہے کہ آپ رمضان میں اتنا صدقہ وخیرات کرتے تھے کہ گویا آپ ایک تیز آندھی ہیں جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.اور چونکہ رمضان کا مہینہ غریبوں کی خاص ضروریات کا مہینہ ہوتا ہے.اسی لئے اس مہینہ میں لازماً صدقہ و خیرات کا ثواب بھی بہت بڑھ جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.مَنْ كَانَ فِي عَوْنِ أَخِيهِ كَانَ اللهُ فِی عَوْنِهِ یعنی جو شخص اپنے کسی حاجت مند بھائی کی مدد کرتا ہے تو خدا اس مدد کرنے والے کی مدد میں لگ جاتا ہے.(6) رمضان کی برکات میں سے ایک خاص برکت اعتکاف بھی ہے.اعتکاف کی عبادت رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں رہ کر ادا کی جاتی ہے.یہ گویا ایک قسم کی جزوی اور وقتی رہبانیت ہے جو اسلام نے قلوب کی صفائی اور انقطاع الی اللہ کی غرض سے مقرر کی ہے.اس میں حوائج ضروریہ کے سوا باقی تمام وقت مسجد میں نماز اور تلاوت قرآن اور ذکر الہی میں گزارا جاتا ہے.پس جن دوستوں کو موقع ملے وہ رمضان کی اس برکت سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.مگر جو دوست اعتکاف بیٹھیں ان کے لئے ضروری ہے کہ خالصتا خدا کے ہوکر اعتکاف بیٹھیں اور اعتکاف کے دوران میں دنیا کی باتوں اور ہر قسم کے مناقشات اور فضولیات سے پر ہیز کریں.

Page 281

مضامین بشیر جلد سوم 259 (7) ساتویں اور آخری بات جو میں رمضان کے متعلق کہنا چاہتا ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نصیحت پر مبنی ہے.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ بدیوں کو ترک کرنے کے لئے ایک خاص قسم کا ماحول سازگار ہوا کرتا ہے اور یہ ماحول رمضان کے مہینہ میں بدرجہ اتم میسر آتا ہے.پس لوگوں کو چاہئے کہ رمضان کے مہینہ میں اپنے نفس کا مطالعہ کر کے اپنی کسی بدی کو ترک کرنے کا عہد کر لیں اور پھر اس عہد پر پختگی سے قائم ہو جائیں.ایسا عہد کرنے والے کے لئے اپنی بدی اور کمزوری کے اظہار کی ضرورت نہیں.صرف اپنے دل میں خدا سے عہد کرنا ضروری ہے.بلکہ اظہار کرنا عام حالات میں خدا کی ستاری کے خلاف ہوتا ہے.پس اس رمضان میں دوست تزکیہ نفس کے لئے اس نسخہ کو بھی آزما کر دیکھیں.انشاء اللہ وہ اسے مفید پائیں گے.جب میں قادیان کے زمانہ میں ناظر تعلیم وتربیت ہوتا تھا تو میں نے بعض رمضان کے مہینوں میں اس کی تحریک کی تھی اور خدا کے فضل سے بہت سے دوستوں نے اس سے فائدہ اٹھایا تھا.امید ہے کہ اب بھی دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نیک اور بابرکت تحریک سے فائدہ اٹھانے کی پوری پوری کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ و ناصر رہے اور انہیں حسنات دارین سے نوازے اور ان کے لئے دین و دنیا میں راحت و برکت اور ترقی کا رستہ کھولے.آمین بالآخر میں دوستوں سے حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ الہ تعالیٰ کی صحت اور پیش آمدہ سفر سے حضور کی بخیریت اور کامیاب و بامراد واپسی کے لئے بھی دعا کی تحریک کرتا ہوں.امام کا وجود جماعت کے لئے تاج کا حکم رکھتا ہے اور اس تاج کو بہترین حالت میں رکھنا اور بہترین حالت میں دیکھنا ہر مخلص احمدی کا فرض ہے تا حضور کی قیادت میں اسلام کی فتح اور غلبہ کا وقت قریب سے قریب تر آجائے اور لوگ دنیا میں پھر یہ نظارہ دیکھیں کہ الْإِسْلَام يَعْلُو وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ.( صحیح بخاری کتاب الجنائز باب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلِّي عَلَيْهِ) وَاخِر دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (محررہ 24 اپریل 1955ء) (روز نامہ الفضل 26 اپریل 1955ء)

Page 282

مضامین بشیر جلد سوم امته الرسول.امۃ البشیر وغیرہ مشرکانہ نام ہیں جن سے اجتناب کرنا چاہئے 260 اسلام نے تو حید ذات باری تعالیٰ پر انتہائی زور دیا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن کی رو سے دین کی اصل جڑ تو حید ہے اور باقی سب اس کی شاخیں ہیں.یہ درست ہے کہ ایمانیات کی بعض شاخیں بھی اتنی اہم ہیں کہ ان کے بغیر تو حید کا عقیدہ زندہ نہیں رہ سکتا.مثلاً خدا کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا اور اس کی تقدیر خیر و شر پر ایمان لانا ایسے بنیادی عقائد ہیں کہ انہیں چھوڑ کر حقیقی تو حید کا عقیدہ عملاً محال ہو جاتا ہے لیکن بایں ہمہ اس میں کلام نہیں کہ دین کا اصل الاصول تو حید ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انتہائی زور دیا ہے حتی کہ نام جو عموماً صرف عرف کا ذریعہ ہوتے ہیں ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ اگر کسی نام میں شرک کی ذرہ بھر بھی ملونی پائی جاتی تھی تو آپ اسے بدل دیتے تھے.مگر دوسرے ناموں میں خواہ وہ بظاہر کیسے ہی بے وقار سے ہوں عموماً دخل اندازی نہیں فرماتے تھے.مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں جہاں اور کئی باتوں میں شرک خفی نے دخل پا لیا ہے وہاں بعض نام بھی ایسے رکھے جانے لگے ہیں جن میں شرک کی آمیزش ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ایسے نام بعض احمد یوں میں بھی پائے جاتے ہیں جو وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی رکھ لیتے ہیں مثلاً بعض احمدی مستورات کے نام لمۃ البشیر اور امتۃ الرسول پائے گئے ہیں.چونکہ بشیر خدا کا نام نہیں ہے اور امتہ الرسول میں بندگی کی نسبت خدا کی بجائے رسول کی طرف ہوتی ہے جو درست نہیں اس لئے ایسے ناموں کو بدل دینا چاہئے.ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شرک کے مٹانے کا اس قدر خیال تھا کہ مشرک بالذات تو دور کی بات ہے آپ شرک فی الصفات کی ذراسی آمیزش کو بھی برداشت نہیں فرماتے تھے.چنانچہ جب ایک دفعہ کسی خوشی کے موقع پر مدینہ کے بعض خوردسالہ بچوں نے آپ کے سامنے یہ گیت گایا کہ فِینَا نَبی رَسُوْلُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ ( صحیح بخاری کتاب المغازی باب شهودالملا گتہ بدرا ) ( یعنی ہمارے اندر ایسا رسول ہے جو آئندہ کی باتیں جانتا ہے) تو آپ نے ان بچوں کو فوراً ٹو کا اور فرمایا کہ یہ الفاظ نہ کہو.چونکہ ہماری جماعت بھی خدا کے فضل سے توحید کا پیغام لے کر اٹھی ہے اور ہر قسم کے شرک جلی اور شرک

Page 283

مضامین بشیر جلد سوم 261 خفی کے مٹانے کا عزم رکھتی ہے اس لئے ہمیں بھی اس معاملہ میں بہت محتاط رہنا چاہئے اور کوئی ایسا نام نہیں رکھنا چاہئے جس میں شرک کی ملونی پائی جائے.ہمارے خدا کے نام معلوم و معروف ہیں ( حدیث میں ننانوے معروف نام بیان ہوئے ہیں).اس لئے اگر عبد یا امتہ کی صورت میں نام رکھنا ہو تو خدا کے کسی معلوم و معروف نام پر رکھا جائے.ورنہ کوئی اور ایسا نام رکھ لیا جائے جس میں شرک کی آمیزش نہ ہو.ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ امام بخش اور رسول بخش وغیرہ نام بھی درست نہیں.کیونکہ گوان ناموں کی دوسری تشریح ہو سکتی ہے.مگر کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ایک ممنوع رکھ کے قریب گھوم کر اپنے ایمانوں کو خطرہ میں ڈالیں.ضمناً دوستوں کو یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ امتہ کے لفظ میں م کا حرف ساکن نہیں ہے بلکہ متحرک ہے یعنی زبر کے ساتھ ہے مگر صحیح تلفظ نہ جاننے کی وجہ سے اکثر دوست انگریزی میں امتہ کا ہجا غلط لکھتے ہیں مثلاً اگر امتہ المجید لکھنا ہوتو عموماً Amtulmajid لکھ دیا جاتا ہے حالانکہ صحیح بجاAmatul majid ہے جس میں M کے بعد A آتا ہے چونکہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے بھی علم کا معیار گرتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں صحت کا خیال رکھنے سے علم ترقی کرتا ہے اس لئے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے.(محرره 26 اپریل 1955ء) ( روزنامه الفضل 3 مئی 1955ء) مشرکانہ ناموں کے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب چند دن ہوئے الفضل میں میرا ایک نوٹ شائع ہوا تھا کہ امتہ البشیر اور امتہ الرسول وغیرہ مشرکانہ نام ہیں جن سے ہمارے دوستوں کو اجتناب کرنا چاہئے.اور میں نے اس نوٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مشرکانہ ناموں کو بدل دیا کرتے تھے.اس پر ایک دوست نے لکھا ہے کہ بعض لوگ غلام رسول اور غلام نبی وغیرہ ناموں پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ مشرکانہ نام ہیں.مگر یہ اعتراض درست نہیں.کیونکہ رسول پاک کی طرف غلامی کی نسبت کرنا کسی طرح قابل اعتراض نہیں سمجھا جا سکتا.بلکہ جائے فخر ہے وغیرہ وغیرہ.سو اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ میں نے غلام رسول یا غلام نبی ناموں پر ہرگز اعتراض نہیں کیا اور کر بھی کیسے سکتا تھا.جبکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا نام غلام احمد تھا.میرا اعتراض امتہ البشیر اور امتہ الرسول وغیرہ قسم کے ناموں پر تھا.جو مشرکانہ رنگ رکھتے ہیں اور گو یہ درست ہے

Page 284

مضامین بشیر جلد سوم 262 کہ قرآن مجید میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی ) کوارشاد فرماتا ہے کہ قل يعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ (الزمر: 54) مگر یہ آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کی ارفع شان کے پیش نظر ایک استعارہ کے رنگ کا کلام ہے جس میں عبد سے مراد غلام ہے نہ کہ حقیقی عبد.یہی وجہ ہے کہ دو سال ہوئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کے بعد بعض نکاحوں کا اعلان کرتے ہوئے امتہ البشیر کے نام کے متعلق اعتراض فرمایا تھا کہ یہ مشر کا نہ نام ہے.جسے بدل دینا چاہئے.بہر حال حقیقی عبودیت کی نسبت صرف خدا کی طرف ہوسکتی ہے اور یہی تو حید باری تعالیٰ کا تقاضا ہے جس پر ہمارے دوستوں کو مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا چاہئے.(محررہ 13 مئی 1955ء) روزنامه الفضل 22 مئی 1955ء) 20 چندوں کے متعلق جماعت کی اہم ذمہ داری مالی خدمت، دین کا نصف حصہ ہے حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سفر یورپ پر تشریف لے جانے سے قبل میاں عبدالحق صاحب رامہ کو جو حال ہی میں مرکزی حکومت پاکستان کے ایک معزز عہدہ سے ریٹائر ہوئے ہیں محترمی خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کی جگہ ( جو بیماری کی وجہ سے فارغ ہو گئے ہیں ) ناظر بیت المال مقرر فرمایا ہے اور رامہ صاحب نے اپنے نئے عہدہ کا چارج لے کر مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں جماعت کو چندوں کی ذمہ داری کے متعلق توجہ دلاؤں.سو میں امید کرتا ہوں کہ احباب جماعت اور کارکنانِ جماعت رامہ صاحب کے ساتھ پورا پورا تعاون کر کے اس مقدس کشتی کو آگے چلانے میں ان کا ہاتھ بٹائیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تنظیم کے ماتحت خدا تعالیٰ نے جماعت کے سپر دفرمائی ہے.میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اس زمانہ میں خصوصاً اور ویسے عموماً مالی خدمت، دین کا نصف حصہ ہے.اسی لئے قرآن مجید نے اپنی ابتداء میں ہی جو صفت متقیوں کی بیان فرمائی ہے اس میں ان کی ذمہ داریوں

Page 285

مضامین بشیر جلد سوم 263 کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ الَّذِيْنَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ یعنی متقی تو وه ہیں جو ایک طرف تو خدا کی محبت میں اس کی عبادت بجالاتے ہیں اور دوسری طرف اپنے خدا دا د رزق سے دین کی خدمت میں خرچ کرتے ہیں.اس اہم آیت میں گویا دینی فرائض کا پچاس فیصدی حصہ انفاق فی سبیل اللہ کو قرار دیا گیا ہے.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے جہاں جہاں اعمال صالحہ کی تلقین فرمائی ہے وہاں ہر مقام پر لازماً صلوٰۃ اور زکوۃ کو خاص طور پر نمایاں کر کے بیان کیا ہے.اسی طرح موجودہ زمانہ میں چندوں کی اہمیت اس بات سے بھی ثابت ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ نے سورہ کہف میں ذوالقرنین کا ذکر فرمایا ہے وہاں اس کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے ہیں کہ اتُونِي زُبَرَ الحَدِيدِ یعنی اے لوگو! مجھے دھات کے ٹکڑے لا کر دو.تا میں تمہارے مخالفوں کے حملہ کے خلاف ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دوں.اس جگہ استعارہ کے طور پر دھات کے ٹکڑوں سے چاندی سونے کے سکے مراد ہیں جو دین کے کاموں کو چلانے کے لئے ضروری ہیں.اور سب دوست جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صراحت فرمائی ہے کہ بے شک گزشتہ زمانہ میں بھی کوئی ذوالقرنین گزرا ہو گا.مگر اس زمانہ میں پیشگوئی کے رنگ میں ذوالقرنین سے مسیح موعود یعنی میں خود مراد ہوں.جو دجالی طاقتوں کے مقابلہ کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.اس لئے آپ نے چندوں کے بارے میں اتنی تاکید فرمائی ہے کہ ایک اشتہار کے ذریعہ اعلان فرمایا کہ جو شخص احمدیت کا عہد باندھ کر پھر تین ماہ تک الہی سلسلہ کی خدمت کے لئے کوئی چندہ نہیں دیتا.اس کا نام بیعت کنندگان کے رجسٹر سے کاٹ دیا جائے گا.اسی طرح حضرت خلیفہ مسیح الثانی بھی چندوں کی ادائیگی کے متعلق انتہائی تا کید فرماتے رہتے ہیں اور اس بارے میں بسا اوقات اتنی گھبراہٹ کا اظہار فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میرے دل میں خیال گزرتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ تو پھر تحریک اور تاکید تو بے شک بجا ہے مگر حضرت صاحب اتنی گھبراہٹ کا اظہار کیوں فرماتے ہیں؟ لیکن پھر ایسے موقع پر مجھے غزوہ بدر کا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے جب خدائی وعدہ کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنی گھبراہٹ اور بے چینی کی حالت میں دعا فرماتے تھے کہ آپ کی چادر مبارک آپ کے کندھوں سے گر گر جاتی تھی اور حضرت ابو بکر آپ کی تکلیف کا خیال کر کے آپ سے عرض کرتے تھے کہ حضور ! جب خدا کا وعدہ ہے کہ وہ نصرت فرمائے گا اور غلبہ دے گا تو آپ اتنے گھبراتے کیوں ہیں ؟ مگر رسول اللہ جانتے تھے کہ اگر ایک طرف

Page 286

مضامین بشیر جلد سوم 264 خدا کا وعدہ ہے تو دوسری طرف خدا کا غناء ذاتی بھی ہے اور پھر خدا کی حکیمانہ قدرت نے دنیا میں اسباب و علل کا سلسلہ بھی جاری کر رکھا ہے وَكَانَ الرَّسُولَ أَعْلَمُ اسی طرح عقلاً بھی چندوں کی غیر معمولی اہمیت ظاہر وعیاں ہے.کیونکہ سلسلہ اسباب و علل کے ماتحت ہر کام کو چلانے کے لئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے.جس کے بغیر کوئی کام سرانجام نہیں پاسکتا.خدمت دین کے اہم رکن تبلیغ اور تعلیم اور تربیت اور تنظیم ہیں اور ان سب کے لئے بھاری اخراجات کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت موجودہ زمانہ میں جبکہ صداقت کے مقابلہ پر باطل کی طاقتیں بے انتہا ساز وسامان اور ان گنت مال وزر سے آراستہ ہیں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) شرک کے بھاری فتنہ اور اس کے مقابل پر توحید کی بے انتہا اہمیت کے پیش نظر فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص مجھے پر سچے دل سے ایمان لا کر لا إِلهَ إِلَّا اللہ کی حقیقت پر قائم ہو جائے تو وہ خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا.وَإِن زَنَى وَإِن سَرَقَ.ہم جو رسول پاک کے ادنیٰ خادم بلکہ خاکپا ہیں.تحدی کے ساتھ اور حمیت کے رنگ میں تو ہر گز کچھ نہیں کہہ سکتے مگر اس نور کی وجہ سے جو اسلام اور احمدیت نے ہمارے دلوں میں پیدا کیا ہے امیدرکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں جو مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا کر سچے دل سے خدا کی عبادت کرتا اور الہی سلسلہ میں شامل ہو کر اسلام کی اعانت کے لئے با قاعدہ مالی خدمت بجالاتا ہے وہ اپنی بعض بشری کمزوریوں کے باوجود خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا بشرطیکہ وہ اپنے دل میں کسی قسم کے نفاق کی ملونی نہ رکھتا ہو.وَ ذَالِكَ ظَنَنَّا بِاللهِ وَقَالَ اللهُ تَعَالَى أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي - ( صحیح بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى ويحد ركم الله نفسه ) اس وقت جماعت بہت سے بوجھوں کے نیچے ہے.ایک طرف کئی پرانے قرضے اس کے سر پر ہیں اور دوسری طرف اسلام کی خدمت اور اشاعت کے لئے کئی نئے اخراجات اسے درپیش ہیں.پس اس وقت دوستوں کو خاص توجہ اور خاص ہمت اور خاص ولولہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ.بکو شید اے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کے دوست عموماً اور امراء اور صدر صاحبان خصوصاً ذیل کی تجویزوں پر پوری پوری توجہ کے ساتھ عمل کریں تو انشاء اللہ بہت عمدہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.

Page 287

مضامین بشیر جلد سوم 265 (1) ناظر بیت المال کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں اور ان کی تحریکوں کو دلی توجہ کے ساتھ سنیں اور ان پر عمل کریں اور اگر مقامی حالات کی وجہ سے کسی بات میں اختلاف رائے ہو تو مناسب طریق پر پیش کر کے فیصلہ کرا لیں.نئے ناظر بیت المال سرکاری دفاتر میں برسوں اس لائن میں کام کر چکے ہیں اور نئے ولولہ کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھ رہے ہیں اور میرے علم میں مخلص اور محنتی اور سمجھدار کارکن ہیں.اگر انہوں نے حسب توقع محنت اور سمجھ سے کام کیا اور جماعت نے ان کے ساتھ پوری طرح تعاون کیا تو خدا کے فضل سے بہت عمدہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.(2) مقامی جماعتوں کے کارکن اپنی اپنی جگہ اس بات کا تفصیلی جائزہ لیں.کہ آیا ان کے حلقہ میں کوئی احمدی ایسا تو نہیں ہے جو حسب ہدایت سلسلہ با قاعدہ چندہ ادا نہ کرتا ہو.یعنی اگر وہ موصی ہے تو اپنی وصیت کے مطابق چندہ نہ دے رہا ہو اور اگر غیر موصی ہے تو مقررہ ریٹ کے مطابق چندہ عام ادا نہ کر رہا ہو.اگر جماعت میں کوئی نادہند ہو یا وہ چندہ تو دیتا ہو مگر مقررہ شرح کے مطابق نہ دیتا ہو تو اسے ہر رنگ میں اور پوری کوشش کے ساتھ پورا چندہ یا پورا حصہ وصیت ادا کرنے پر آمادہ کیا جائے اور اس کوشش کو یہاں تک کامیاب بنایا جائے کہ جماعت میں کوئی فرد نادہند نہ رہے.احمدی ہو کر چندہ میں نادہند ہونا ایسا ہے کہ گویا کسی کا آدھا دھڑ مارا ہوا ہو.(3) تجارت پیشہ اور زمیندار اصحاب اور صناعوں اور دیگر پیشہ ور لوگوں کے پیشوں کی خاص نگرانی کی جائے کہ وہ اپنی آمد کے مطابق صحیح صحیح چندہ ادا کرتے ہیں یا نہیں.چندہ کے معاملہ میں زیادہ خرابی اسی حصہ میں واقع ہوتی ہے.بعض لوگ اپنی آمدنی بتانے سے گریز کرتے ہیں.ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے کہ آپ لوگ بیعت کرتے ہوئے اقرار کر چکے ہیں کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.اس لئے آپ کا یہ سودا خدا کے ساتھ ہے.اور خدا کے ساتھ سودا کر کے دھو کا کرنے والا بالآخر کبھی کامیاب اور با مراد نہیں ہوگا !! (4) جو نئے دوست جماعت میں داخل ہوتے ہیں انہیں شروع سے ہی چندوں کا عادی بنایا جائے.یہ پالیسی درست نہیں ہے کہ نئے لوگوں کے ساتھ چندوں کے معاملہ میں نرمی کرنی چاہئے.جو لوگ ایک دفعہ رعایت کے عادی ہو جائیں وہ پھر الا ماشاء اللہ ہمیشہ رعایت کے ہی طالب رہتے ہیں.پس نئے دوستوں کو شروع میں ہی چندوں کا فلسفہ سمجھا کر اور مناسب رنگ میں تحریک کر کے چندوں کا عادی بنانا چاہئے.(5) عورتوں سے بھی با قاعدہ چندہ وصول کیا جائے.یہ خیال درست نہیں ہے کہ چونکہ عورتوں کی آمدنی

Page 288

مضامین بشیر جلد سوم 266 خاوندوں کی طرف سے آتی ہے اور خاوند اپنی آمدنی پر چندہ پہلے ہی دے دیتے ہیں اس لئے عورتوں پر چندہ واجب نہیں ہے.خدا کے سامنے ہر شخص اپنے اعمال کا جداگانہ حساب رکھتا ہے اور ہرشخص کو اپنی اپنی قبر میں جاتا ہے.پس ہر شخص کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو خدمت دین میں بذات خود حصہ لینا چاہئے.جہاں عورتوں کو ان کے خاوندوں کی طرف سے جیب خرچ ملتا ہے وہاں وہ اس جیب خرچ میں سے چندہ دیں (جیسا کہ وہ ذاتی وصیت کی صورت میں چندہ وصیت دیتی ہیں ) اور جن عورتوں کو کوئی معین جیب خرچ نہیں ملتا.وہ اپنے ذاتی خرچ کا اندازہ کر کے چندہ دے دیا کریں.بلکہ حق یہ ہے کہ تربیتی نقطہ نگاہ سے عورتوں میں خدمت دین کا براہ راست جذ به پیدا کرنا مردوں کی نسبت بھی زیادہ ضروری ہے.کیونکہ ان کی گودوں میں قوم کے نو نہال پلتے ہیں اور اگر وہ دیندار اور خادم دین ہوں گی تو لازماً ان کی اولاد پر بھی ان کی اس نیکی کا اثر ہو گا.بچپن میں اولاد پر ماں کا اثر باپ کی نسبت یقینا زیادہ ہوتا ہے.(6) چھٹا اور سب سے زیادہ پختہ ذریعہ چندوں کی ترقی کا جماعت کی تربیت ہے.اب جماعت پر وہ زمانہ ہے کہ جب براہ راست بیعت کرنے والے احمدیوں کے مقابل پرنسلی احمدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ظاہر ہے کہ نسلی بیعت میں بالعموم وہ طاقت نہیں ہوتی جو ایسی بیعت میں ہوتی ہے جو خودسوچ سمجھ کر علی وجہ البصیرت کی جائے.براہ راست بیعت ایسے درخت کا حکم رکھتی ہے جو پیوند کے ذریعہ تیار ہوتا ہے.لیکن نسلی احمدی تخمی درخت کے حکم میں ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ جس طرح پیوند کے ذریعہ تیار کیا ہوا پودا اصل درخت کی صفات کا ورثہ پاتا ہے.اس طرح تخم سے تیار کیا ہوا پودا نہیں پاتا.پس جب تک ہم اپنے بچوں اور اپنے نوجوانوں میں پیوندی پودے والا رنگ پیدا نہیں کریں گے اور ان کے دلوں میں ایمان کی براہ راست چنگاری روشن نہیں ہوگی.یہ حصہ الا ما شاء اللہ ہمیشہ جماعت کی کمزوری کا موجب رہے گا.اس لئے میں نے رامہ صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ جہاں اور سکیموں کی طرف توجہ دی جائے وہاں نظارت تعلیم و تربیت کے تعاون سے جماعت کی تربیت اور خصوصا نئی نسل کی تربیت کی طرف بھی خاص توجہ ہونی چاہیئے.انفرادی اور اجتماعی تربیت قومی ترقی کا سب سے بڑا ستون ہے.بلکہ اگر اسے قومی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا جائے تو بے جانہیں ہوگا اور تربیت کی ترقی کے نتیجہ میں لازماً چندوں میں بھی ترقی ہوگی.کیونکہ تربیت ہی وہ چیز ہے جس سے قومی ضروریات کا احساس اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو اور ہمارے دلوں میں دین کی محبت پیدا کرے اور ہمیں صحیح معنوں میں خادمِ دین بنائے.آمین

Page 289

مضامین بشیر جلد سوم وَاخِر دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ( محرره 4 مئی 1955 ء)........267 ( روزنامه الفضل 7 مئی 1955ء) 1 لیلۃ القدر کی مخصوص برکات دوست رمضان کے آخری عشرہ میں خاص دعاؤں سے کام لیں میں نے رمضان کے شروع میں دوستوں کو رمضان کے مہینہ میں دعاؤں اور نوافل اور صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دلائی تھی اور اب چونکہ رمضان کا آخری عشرہ قریب آ رہا ہے اس لئے اس مختصر نوٹ کے ذریعہ اس عشرہ کی برکات اور لیلۃ القدر کے خاص الخاص فیوض کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.تا ہمارے دوست ان ایام کی مخصوص برکات سے فائدہ اٹھا کر اپنے لئے دین و دنیا میں ترقی کا راستہ کھول سکیں.سو جاننا چاہئے کہ گورمضان کا سارا مہینہ ہی خاص برکات کا مہینہ ہے.لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کو اپنی برکات اور فیوض کے لحاظ سے رمضان کے دوسرے ایام کی نسبت زیادہ ممتاز مقام حاصل ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ.إِذَا دَخَلَ الْعَشَرَ شَدَّ مِيُزَرَهُ وَأَحْي لَيْلَهُ وَ أَيْقَظَ أَهْلَهُ ( بخاری کتاب الصوم) یعنی جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تھے تو اپنی کمر کس لیتے تھے اور عبادت اور ذکر الہی کی کثرت سے اپنی راتوں کو گویا زندہ کر دیتے تھے اور اپنے ساتھ اپنے اہل کو بھی عبادت کے لئے جگاتے تھے.یہ وہی مبارک عشرہ ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس میں ایک ایسی رات آتی ہے کہ جب خدا اور اس کے فرشتے اپنی گونا گوں رحمتوں کے ساتھ بندوں کے بہت زیادہ قریب ہو جاتے ہیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ اس رات حضرت جبرائیل فرشتوں کی ایک جماعت

Page 290

268 مضامین بشیر جلد سوم کے ساتھ زمین کی طرف اُترتے ہیں اور ہر اس بندے پر جو دعا اور ذکر الہی میں مصروف ہو اپنی خاص رحمتوں اور برکتوں کا چھینٹا ڈالتے جاتے ہیں.اور یہی وہ مبارک رات ہے جس کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے کہ.لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍة تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرِه سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِهِ القدر: 6:4) یعنی لیلۃ القدر کی برکت ایک ہزار مہینہ سے بھی زیادہ ہے.اس میں خدا کے حکم سے فرشتے خدا کا کلام ہر قسم کی برکتیں لے کر زمین پر نازل ہوتے ہیں اور یہ رات مجسم سلامتی کا رنگ رکھتی ہے اور اس کا وقت صبح صادق تک چلتا ہے.اس آیت میں من جملہ اور معنوں کے ہزار مہینہ سے انسان کی طرف اشارہ کرنا بھی مقصود ہے.جو اوسط کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ تر اسی سال تک پہنچتی ہے اور اس صورت میں مراد یہ ہے کہ اگر کسی انسان کولیلۃ القدر کی برکات کامل طور پر میسر آجائیں تو بسا اوقات ان کا وزن اس کی بقیہ عمر کی عام برکات سے بھی بڑھ جاتا ہے.الغرض رمضان کا آخری عشرہ اور پھر اس عشرہ میں لیلۃ القدر کا زمانہ بہت ہی مبارک زمانہ ہے جس سے دوستوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے.خدا تعالیٰ کی مصلحت نے اس رات کو معین صورت میں ظاہر نہیں فرمایا.البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر فرمایا کرتے تھے کہ اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو اور ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے ہیں کہ.الْتَمَسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ ( صحیح مسلم کتاب فضل ليلة القدر والحث على طلبها ) یعنی لیلتہ القدر کو انیسویں اور ستائیسویں اور پچسیویں رات میں تلاش کرو.اسی تعلق میں بعض اوقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر رمضان کی ستائیسویں تاریخ کو جمعہ ہو تو یہ رات عموما لیلۃ القدر ہوتی ہے.جس میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی بہت زیادہ دعائیں قبول کرتا ہے.یہ گویا خدا تعالیٰ کے دربار عام کا وقت ہوتا ہے جس میں ہر مومن کو دعوت دی جاتی ہے کہ آؤ اور مانگو.آؤ اور مانگو.پھر آؤ اور مانگو.لیکن بایں ہمہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اسلام ہرگز کسی منتر جنتر کے اصول کا قائل نہیں ہے کہ ادھر پھونک ماری اور اُدھر کام ہو گیا اور نہ وہ اس بات کا قائل ہے کہ کسی خاص وقت میں ایسی تاثیر رکھی گئی ہے کہ اس میں ہر شخص کی ہر دعا لازما قبول ہو جاتی ہے اور گویا نعوذ باللہ خدا حاکم کی

Page 291

مضامین بشیر جلد سوم 269 کرسی سے اتر کر محکوم بن جاتا ہے.پس جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں وقت ایسا بابرکت ہے کہ اس میں مومنوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو اس سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ ایسے وقت میں جود عا اپنے لوازمات اور شرائط کے ساتھ کی جائے وہ دوسرے اوقات کی نسبت بہت زیادہ قبول ہوتی ہے.بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ لیلۃ القدر کی علامت کیا ہے.اس کے متعلق جاننا چاہئے کہ گوبعض احادیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ لیلتہ القدر دکھائی گئی ہے اور اس میں آپ نے آسمان سے پانی برستے دیکھا اور قدرت خداوندی سے اس رات ظاہر میں بھی بارش ہوگئی.مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہر لیلتہ القدر کے لئے یہ ظاہری علامت ضروری ہے.بلکہ محققین نے اس علامت کو اس رات کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے جس کے متعلق آپ نے یہ نظارہ دیکھا تھا.لیکن چونکہ بارش خدا کی رحمت کی نشانی ہے اس لئے اگر اور راتوں میں بھی یہ علامت ظاہر ہو جائے تو اسے خدا کا فضل سمجھنا چاہئے.لیکن لیلتہ القدر کی اصل علامت انسان کے قلب سے تعلق رکھتی ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دعا کرنے والے کا دل اپنے اندرونی شعور سے محسوس کر لیتا ہے کہ یہ دعا کی خاص قبولیت کا وقت ہے اور ویسے بھی یہ بات خدا کی عام سنت سے بعید ہے کہ وہ ایک ایسی علامت مقرر کر دے جو ہر کس و ناکس آسانی کے ساتھ سمجھ لے.خدا کے ہر کام میں ایک حد تک اخفا کا پردہ ہوتا ہے اور خدا کا یہ بھی منشاء ہے کہ لوگ ایک مخصوص وقت پر تکیہ کرنے کی بجائے دعا کے خاص اوقات کو اسی طرح جدوجہد کے ساتھ تلاش کریں جس طرح سونے کی کانوں میں کام کرنے والے دریاؤں کی تہوں میں یا زمین کی گہرائیوں میں سونے کے ذرات تلاش کرتے ہیں.آخری سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو لیلتہ القدر میسر آئے تو وہ کیا دعا کرے.بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اگر تم لیلتہ القدر کو پاؤ تو خدا سے یہ دعا مانگو كه اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْتُ عَنِّى ( سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء بابُ الدُّعَاءِ بِالْعَفُو وَالْعَافِيَةِ ) یعنی اے میرے آقا! تو بہت بخشش کرنے والا ہے اور اپنے بندوں کو بخشنے سے خوش ہوتا ہے.پس میرے گناہ بھی بخش.اس حدیث سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ اس دعا پر لیلۃ القدر کی دعا کو مصر کر لیتے ہیں اور اس طرح ایک بہت بڑی خیر سے محروم ہو جاتے ہیں.حالانکہ اس دعا کی تعلیم دینے سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ اور دعائیں نہ کی جائیں بلکہ صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا کہ جس طرح خوشیوں کے دربار میں بادشاہ

Page 292

مضامین بشیر جلد سوم 270 معافیوں کا اعلان کیا کرتے ہیں.اسی طرح خدا کی بخشش بھی لیلۃ القدر کی گھڑیوں میں خاص جوش کی حالت میں ہوتی ہے.پس اس موقع پر اس سے اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگنی چاہئے.مگر ظاہر ہے کہ معافی خواہ اپنی ذات میں کتنی بڑی چیز ہو بہر حال وہ ایک منفی قسم کی نعمت ہے اور ایسا شخص ہرگز دانشمند نہیں سمجھا جا سکتا جو اس قسم کے رحمتِ عامہ کے موقع پر صرف منفی قسم کی نعمت کی درخواست پر قناعت کرتا ہے.ایسا وقت تو خدا سے لپٹ لپٹ کر ہر نعمت کے مانگنے کا وقت ہوتا ہے نہ کہ صرف معافی مانگنے کا.پس دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں عموماً اور اگر کسی کو لیلتہ القدر نصیب ہو تو اس میں خصوصاً خدا سے ہر نعمت کے طالب ہوں.وہ خدا سے اسلام اور احمدیت کی ترقی مانگیں.وہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں اور اس قدر درود بھیجیں کہ ان کی زبان اس کے ذکر سے تر ہو جائے.وہ رسول پاک کے خادم اور ظلتِ کامل حضرت مسیح موعود کے مقاصد کی ترقی کے لئے دعائیں کریں.وہ خلیفہ وقت کی صحت کاملہ و عاجلہ اور آپ کی قیادت میں اسلام کی فتح کے لئے خدا کے سامنے گڑ گڑا ئیں.وہ پاکستان کی مضبوطی اور بہبودی کے لئے دست بدعار ہیں.وہ جماعت اور مرکز جماعت کی حفاظت اور مضبوطی کے طالب ہوں.وہ سلسلہ کے مبلغین اور معلمین اور دیگر کارکنوں کے لئے الہی نصرت اور خیر و برکت مانگیں اور پھر وہ اپنے لئے اور اپنے اہل وعیال کے لئے اور اپنے خاندان کے لئے اور اپنے دوستوں کے لئے اور اپنے ہمسایوں کے لئے بھی دعائیں کریں.یاد رکھو کہ دعا میں بڑی برکت اور بڑی طاقت ہے اور بدقسمت ہے وہ انسان جو اس عظیم الشان دینی خزانہ کی وسعت اور اس روحانی ایٹم بم کی طاقت سے بے خبر ہے.دعا وہ آفتاب عالم تاب ہے جس کا نور خدا کے وجود سے پھوٹتا اور دنیا بھر کے مومنوں کے دلوں کو منور کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں کہ سے اے کہ گوئی گر دعا ہارا اثر بودے کجاست سوئے من بشتاب بنمائم ترا چوں آفتاب (محرره 9 مئی 1955 ء) روزنامه الفضل 12 مئی 1955ء)

Page 293

مضامین بشیر جلد سوم اعتکاف بیٹھنے والوں کے لئے ضروری ہدایات 271 کل سے انشاء اللہ اعتکاف والا عشرہ شروع ہو جائے گا.یہ عشرہ رمضان کے مہینہ کا تاج ہے.اور اس عشرہ کا تاج ہے "لیلۃ القدر پس دوستوں کو تحریک کی جائے کہ اس عشرہ میں خاص طور پر نوافل اور ذکر الہی اور دعاؤں میں مصروف رہیں اور دعاؤں میں درود اور اسلام کی ترقی کی دعاؤں اور جماعتی دعاؤں اور حضرت خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کی دعاؤں کو مقدم کیا جائے.نیز جو دوست اس عشرہ میں اعتکاف بیٹھیں انہیں اعتکاف کی ذمہ داری کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے اس مبارک عبادت کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھنا چاہئے.دراصل اعتکاف ایک قسم کی وقتی اور جزوی رہبانیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اعتکاف بیٹھنے والوں سے گویا کامل انقطاع الی اللہ کی توقع رکھتا ہے.وہ حوائج انسانی یعنی پیشاب پاخانہ کی غرض سے باہر جا سکتے ہیں.لیکن باقی سارا وقت انہیں مسجد میں رہ کر اور اپنی نیند کو قلیل ترین وقت میں محدود کر کے عبادت اور نوافل اور دعاؤں اور ذکر الہی اور تلاوت قرآن مجید اور دیگر دینی مشاغل میں گزارنا چاہئے.گویا وہ فرشتوں کی طرح يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ کی پوری تصویر بن جائیں.بعض گزشتہ سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو اعتکاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور محض دیکھا دیکھی اعتکاف بیٹھ جاتے ہیں.اپنے وقت کا کافی حصہ فضول باتوں میں گزارتے ہیں.یا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ادنی ادنی باتوں میں جھگڑتے ہیں.یہ طریق اعتکاف کی روح کے سراسر خلاف ہے اور ظاہر ہے کہ ایک مُردہ اور بے روح جسم کے ساتھ مسجد میں چند دن گزارنا کسی برکت کا موجب نہیں ہو سکتا.پس میں امید کرتا ہوں کہ اس سال اعتکاف بیٹھنے والے دوست اعتکاف کی مقدس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنے دنوں کو ذکر الہی اور تلاوت قرآن مجید سے معمور اور اپنی راتوں کو دعاؤں اور نوافل کی لذت سے مسرور رکھنے کی کوشش کریں گے.اس عشرہ میں ایک رات ایسی آتی ہے جسے لیلۃ القدر کے نام سے پکارا جاتا ہے یعنی عزت والی رات.یہ رات خاص طور پر دعاؤں کی قبولیت والی رات ہوتی ہے.جبکہ خدا اپنے رحمت کے فرشتوں کے ساتھ اپنے بندوں کے بہت قریب آجاتا ہے.میں نے اس کے متعلق الفضل میں ایک نوٹ بھجوایا ہے وہ پڑھ لیا جائے اور جنہیں اس مبارک رات کی گھڑیاں میسر آئیں انہیں چاہئے کہ اس رات کی مخصوص برکتوں سے پورا پورا

Page 294

مضامین بشیر جلد سوم 272 فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.نیز یہ بھی مناسب ہے کہ اگر کسی مسجد میں ایک سے زیادہ معتکف ہوں تو وہ اپنے میں سے کسی عالم اور منتقی انسان کو اپنا امیر مقرر کر لیں.تا اس کی ہدایتوں سے فائدہ اٹھا سکیں اور ایک لڑی میں پروئے جائیں.روزنامه الفضل 14 مئی 1955ء) رمضان میں کمزوری ترک کرنے کی تحریک دوستوں کی خدمت میں یاد دہانی میں نے شروع رمضان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تجویز کے مطابق دوستوں سے تحریک کی تھی کہ وہ رمضان میں اپنی کسی کمزوری کو ترک کرنے کا عہد کریں اور پھر اس عہد پر پختگی سے قائم ہو جائیں.اس کمزوری کو کسی پر ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی.بلکہ اظہار کر نا خدا تعالیٰ کی صفت ستاری کے خلاف ہے.صرف اپنی کسی کمزوری کو سامنے رکھ کر دل میں خدا تعالیٰ سے عہد کیا جائے کہ آئندہ میں اس کمزوری سے اجتناب کروں گا.اب چونکہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہے جو خاص الخاص برکات کا زمانہ ہے.اس لئے اس نوٹ کے ذریعہ دوستوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ جن بھائیوں اور بہنوں کو تو فیق ملے وہ ان مبارک ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بابرکت تجویز سے فائدہ اٹھا کر خدا کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں چونکہ ہمارا خدا استوح وقدوس ہے اس لئے وہ پاک لوگوں سے محبت کرتا ہے.اور پاک بننے کا یہی طریق ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں کو ترک کر کے نیکیوں کو بڑھاتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو اور ہمیں اپنے فضل ورحمت کے سایہ میں رکھے اور ہم سے راضی رہے اور ہمارا انجام بخیر کرے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 14 مئی 1955ء) (روزنامہ الفضل 17 مئی 1955ء)

Page 295

مضامین بشیر جلد سوم دوستوں کی طرف سے دعاؤں کے خطوط 273 میری حتی الوسع یہ کوشش رہتی ہے کہ ہر دوست کے خط کا جواب دیا جائے کیونکہ ایک تو اس سے خط لکھنے والے کو تسلی ہوتی ہے اور دوسرے اس کے نتیجہ میں جواب دینے والے کو بھی طبعا خط کے مضمون کی طرف زیادہ توجہ رہتی ہے.لیکن رمضان کے مہینہ میں اور خصوصاً رمضان کے آخری حصہ میں دعاؤں کے خطوط اور تاروں کی اتنی کثرت تھی کہ میں انتہائی خواہش کے باوجود دوستوں کے دعائیہ خطوں اور تاروں کا جواب نہیں بھجوا سکا.جس کا میرے دل پر بوجھ ہے.لہذا اس نوٹ کے ذریعہ تمام ایسے دوستوں سے معذرت کرتا ہوا عرض کرتا ہوں کہ اُن کے خطوط اور تار مجھے ملتے رہے ہیں اور میں حسب توفیق ان کے لئے دعا بھی کرتا رہا ہوں.لیکن افسوس ہے کہ میں اوپر کی معذوری کی وجہ سے ان خطوط اور تاروں کا جواب نہیں دے سکا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تمام ایسے دوستوں کے مقاصد کو پورا فرمائے.بیماروں کو شفایابی نصیب ہو.بے روزگاروں کو روزگار حاصل ہو.مقروضوں کو قرض سے نجات ملے.مقدمات میں ماخوذ دوستوں کو مقدمات میں کامیابی عطا ہو.بے اولادوں کو اولاد کی نعمت نصیب ہو.ملازمت میں ترقی کے خواہشمندوں کو ترقی ملے.امتحان دینے والوں کو امتحان میں کامیابی حاصل ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کمزور ایمان اور کمزور عمل کے لوگ پختہ ایمان اور عمل صالح اور تقویٰ اللہ کی نعمت سے نوازے جائیں.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ بے شک انفرادی دعائیں بھی ضروری ہیں.حتی کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی کی جوتی کا تسمہ کھویا جائے تو وہ بھی خدا سے مانگے.لیکن جماعتی دعا ئیں بہر حال انفرادی دعاؤں پر مقدم ہیں.اس لئے دوستوں کو اس بات کی عادت ڈالنی چاہئے کہ اپنی ہر دعا کے ساتھ لازماً جماعتی دعاؤں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعاؤں کو بھی ضرور شامل کیا کریں.غالباً اسی مقصد کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی شخص دعا کرنے لگے تو خواہ اس نے کوئی سی دعا کرنی ہو.سب سے پہلے سورہ فاتحہ کی جماعتی دعا اور اس کے بعد رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا چاہئے اور اس کے بعد کوئی اور دعا کی جائے.اس چھوٹی سی بات میں ایک عظیم الشان تربیتی نکتہ مضمر ہے.کاش ہمارے دوست اس حقیقت کو سمجھیں اور اسے اپنے اوپر واجب کر لیں.( محرره 26 مئی 1955ء) روزنامه الفضل 29 مئی 1955ء)

Page 296

مضامین بشیر جلد سوم 274 قرآن مجید کی عالی شان ڈیوڑھی اور بے مثال عقبی دروازہ سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص اور معوذتین کی اصولی تفسیر قرآن مجید جو اس دنیا کے لئے خدا کی آخری شریعت ہے ایک ایسا بے نظیر کلام ہے کہ اس پر جتنا بھی غور کیا جائے اتنی ہی اس کی گونا گوں خوبیاں اجاگر ہو کر آنکھوں کے سامنے ابھرنی شروع ہو جاتی ہیں اور مطالعہ کرنے والا انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی عجیب و غریب کان میں داخل ہو گیا ہے جس کے اندر جدھر بھی جا نکلورنگ برنگ کے روحانی اور علمی جواہرات آنکھوں کو خیرہ کئے دیتے ہیں.مگر جس طرح ہر لطیف چیز لوگوں کی نظر سے اوجھل رہتی ہے بلکہ کوئی چیز جتنی زیادہ لطیف ہوتی ہے اتنی ہی اسے قدرت زیادہ مخفی رکھتی ہے.اسی طرح قرآن مجید کی خوبیاں بھی ہر شخص پر ظاہر نہیں ہوتیں.بلکہ صرف اس شخص پر ظاہر ہوتی ہیں جو ایک طرف صحت نیت کے ساتھ اور دوسری طرف پوری پوری کوشش کے ساتھ اس کی گہرائیوں میں غوطہ لگاتا اور اپنے اندر ایسی طہارت نفس پیدا کرتا ہے جو الہی کلام کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن مجید کے جو حصے بظاہر مغلق اور الجھے ہوئے نظر آتے ہیں.بالعموم وہ حصے ہوتے ہیں جن میں خدا کا کلام غیر معمولی طور پر زیادہ بلند اور زیادہ لطیف ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کریم کی جن آیات پر مخالفوں کی طرف سے زیادہ اعتراض کیا جاتا ہے وہ خاص روحانی اور علمی خزانوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور چونکہ ان آیات پر فرشتوں کا خاص پہرہ ہوتا ہے اس لئے شیطانی طاقتیں ان تک نہیں پہنچ سکتیں اور جب لوگ ان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تو لازما اعتراض کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.قرآن مجید کو گہرے نفسیاتی اصول پر مرتب کیا گیا ہے انہی اعتراضوں میں سے ایک اعتراض قرآن مجید کی ترتیب کے متعلق ہے.معترضین کہتے ہیں کہ قرآنی آیات میں نزول کی ترتیب کو چھوڑ کر نہ صرف اس کی تاریخی حیثیت کو تباہ کر دیا گیا ہے بلکہ اسے ایک بالکل ہی غیر مرتب اور غیر مربوط صورت دے دی گئی ہے.گویا کہ وہ ایک ایسی دوکان ہے جس کا سامان بغیر کسی ترتیب کے ادھر اُدھر بکھرا پڑا ہے.اس اعتراض کا پہلا جواب تو یہی ہے کہ اگر غور کیا جائے تو نزول کی ترتیب کو بدلنا ہی اپنی ذات میں اس بات کی دلیل ہے کہ خواہ ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے ، قرآن میں کوئی نہ کوئی

Page 297

مضامین بشیر جلد سوم 275 ترتیب ضرور ملحوظ رکھی گئی ہے.ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کے نزول کی ترتیب کو بدلا جاتا.اس کی موٹی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک شخص کوئی جلسہ منعقد کر کے اس کے لئے لوگوں کو شرکت کی دعوت دے.اب اگر وہ جلسہ میں آنے والے لوگوں کو ان کے آنے کی ترتیب سے نہیں بٹھا تا بلکہ کسی اور ترتیب سے بٹھاتا ہے تو ظاہر ہے کہ محض یہ تبدیلی ہی اس بات کی دلیل ہوگی کہ خواہ لوگ اس ترتیب کو سمجھیں یا نہ سمجھیں بہر حال بٹھانے والے کے ذہن میں کوئی نہ کوئی ترتیب ضرور مد نظر ہے اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترتیب نہایت درجہ گہرے نفسیاتی اصولوں پر قائم کی گئی ہے.دراصل قرآن مجید کی غرض وغایت کسی تاریخی ریکارڈ کو محفوظ کرنا نہیں ہے.بلکہ اس کا واحد مقصد بنی نوع انسان کی ایمانی اور علمی اور اخلاقی اور روحانی اصلاح ہے اور لازماً اسی مقصد اور اس کے لوازمات کے اردگرد ہی قرآن کی ساری ترتیب گھومتی ہے.اس کے بعد میں بتانا چاہتا ہوں کہ کس طرح اس لطیف غرض و غایت کے ماتحت قرآن مجید کی سب سے پہلی سورۃ یعنی سورہ فاتحہ اور سب سے آخری سورتوں یعنی سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورۃ الناس کوان کے نزول کی ترتیب سے ہٹا کر قرآن مجید کے شروع اور آخر میں رکھ دیا گیا ہے.ہر واقف کا رشخص جانتا ہے کہ نہ تو سورہ فاتحہ سب سے پہلے نازل ہوئی اور نہ ہی سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورہ الناس سب سے آخر میں نازل ہوئیں.پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے نزول کی ترتیب کو نظر انداز کر کے ان میں سے ایک کوسب سے پہلے رکھ دیا گیا اور باقی تین کو سب سے آخر میں جگہ دی گئی ؟ اس تبدیلی کی تہہ میں وہی زبر دست نفسیاتی نکتہ کارفرما تھا جو قرآن مجید کے تعلیمی اور تربیتی پہلو سے تعلق رکھتا ہے.جس کے نتیجہ میں سورہ فاتحہ گویا قرآن مجید کی ڈیوڑھی یعنی پورچ قرار پائی.اور باقی تین سورتیں اس کا وہ عقبی دروازہ یعنی بیک گیٹ بن گئیں جس میں سے ہو کر قرآن کا مطالعہ کرنے والا انسان دنیا کی عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے.سورہ فاتحہ قرآن مجید کی ڈیوڑھی ہے ڈیوڑھی کی غرض و غایت یہ ہوتی ہے کہ کسی عمارت میں داخل ہونے والا انسان عمارت کے اندر قدم رکھنے سے پہلے ڈیوڑھی میں چند لمحات کے لئے رک کر عمارت کا مختصر سا جائزہ لے اور اس کے نمایاں خدوخال پر نظر ڈالتا ہوا اس کے اندر داخل ہو.تا کہ وہ اصل عمارت میں قدم رکھنے سے قبل اس عمارت سے ایک عمومی تعارف پیدا کر لے.بلکہ آجکل بڑی بڑی پبلک عمارتوں میں تو یہ بھی ایک قاعدہ بن گیا ہے کہ زائرین کی سہولت کے لئے ڈیوڑھی میں اصل عمارت کا ایک مختصر سا خاکہ آویزاں کر دیتے ہیں تا کہ اسے دیکھ کر عمارت

Page 298

مضامین بشیر جلد سوم 276 کے اندر جانے والے لوگ اس عمارت کی موٹی موٹی تفاصیل پر آگاہ ہو جا ئیں.بعینہ یہی وہ غرض و غایت ہے جس کے ماتحت سورہ فاتحہ کو قرآن مجید کے شروع میں رکھا گیا ہے.یہ سورۃ دراصل قرآن مجید کا خلاصہ ہے جو بطور ایک مختصر خاکہ کے اس کے ماتھے پر لٹکا دیا گیا ہے.تا کہ اس عظیم الشان عمارت میں داخل ہونے والا انسان شروع میں ہی جان لے کہ اسے کن ہالوں اور کن کمروں اور کن محفوظ خرز بینوں اور کن گیلریوں اور کن برآمدوں اور کن صحنوں کے ساتھ واسطہ پڑنے والا ہے.اسی لئے اس سورۃ کا نام فاتحہ رکھا گیا ہے.جس کے معنے کنجی کے ہیں کیونکہ یہ وہ کنجی ہے جس سے قرآن عظیم کی عمارت کا دروازہ کھلتا ہے.اس سورۃ کا ابتدائی نصف حصہ خدا کی ان چار بنیادی صفات پر مشتمل ہے جو دراصل الوہیت کا مرکزی نقطہ ہیں یعنی صفت رَبِّ الْعَالَمِينَ اور صفت رَحْمن اور صفت رَحِیم اور صفت مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ.بیشک خدا کی صفات بے شمار ہیں بلکہ اگر انہیں خدا کی ذات کی طرح بے حد و حساب کہا جائے تو بے جانہ ہوگا.مگر وہ بنیادی صفات جن پر قرآنی شریعت کا تخت قائم ہے یہی چار صفات ہیں جنہیں سورہ فاتحہ کے شروع میں بیان کیا گیا ہے.سب سے پہلی صفت یعنی صفت رَبِّ الْعَالَمِینَ انسانی زندگی کی ابتداء کی طرف اشارہ کرنے کے علاوہ اس بات کے اظہار کے لئے بیان کی گئی ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ علیحدہ علیحدہ قوموں اور علیحدہ علیحدہ زمانوں کے لئے وقتی اور قومی شریعتیں نازل کرنے کی بجائے ایک عالمگیر اور دائمی شریعت نازل کی جائے.تا جس طرح خدا رب العالمین ہے اس کی یہ شریعت بھی تمام قوموں اور تمام زمانوں کے لئے تعلیم و تربیت کا مرکزی نقطہ بن جائے.بے شک خدا ہمیشہ سے رب العالمین تھا اور ہے.مگر اس کی ازلی حکمت نے یہ تقاضا کیا کہ شروع میں تدریجی طور پر محدود شریعتوں کے ذریعہ مختلف قوموں کی تربیت کی جائے اور پھر بالآخر اس کی صفت رب العالمین کا بر ملا ظہور ہو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآن شریف کے نزول کے ذریعہ مقدر تھا.اس کے بعد صفت رحمن اور صفت رحیم کو رکھا گیا ہے.تا اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ خدا نے انسان کو پیدا کر کے شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیا بلکہ صفت رحمانیت کے ماتحت اس کے لئے ہر قسم کی ہدایت اور ترقی کے سامان پیدا کئے ہیں اور پھر صفت رحیمیت کے ماتحت انسان کے ہر عمل میں یہ تاثیر ودیعت کی ہے کہ وہ اسے درجہ بدرجہ کمزوری سے طاقت کی طرف لے جاتا چلا جاتا ہے.گویا جہاں خدا کی صفت رحمانیت ترقی کے سامان مہیا کرتی ہے وہاں اس کی صفت رحیمیت ایسی سیڑھی کے قد بچوں کا کام دیتی ہے جو انسان کو ہر آن اوپر اٹھاتے چلے جاتے ہیں.

Page 299

مضامین بشیر جلد سوم 277 بالآخر ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کی صفت بیان کی گئی ہے.جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اس دنیا کی زندگی ہی انسانی زندگی کا اختتام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی مقرر کر رکھی ہے.جس میں انسان کے اچھے یا بُرے اعمال نمایاں صورت میں اپنا اپنا اجر پائیں گے.اور ہدایت یافتوں اور گمراہوں اور نیکوں اور بدوں میں پورا پورا امتیاز قائم ہو جائے گا.پس یہ وہ چار بنیادی اسماء الہی ہیں جن پر عرش الوہیت کی حقیقی بنیاد قائم ہے اور خدا تعالیٰ کی تمام دوسری صفات جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں وہ انہی چار بنیادی صفات کی شاخیں اور انہی کے اردگرد چکر لگانے والی ہیں.سورہ فاتحہ میں تین امکانی گروہوں کا اصولی ذکر یہاں تک تو وہ پہلا نصف خاکہ ہے جو قرآن مجید کی تعلیم کے متعلق سورہ فاتحہ کی ڈیوڑھی نے پیش کیا ہے.اس کے بعد اس سورۃ کا دوسرا نصف حصہ آتا ہے جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ والہ وسلم کی رسالت اور آپ کے ماننے والوں اور منکروں کے حالات سے تعلق رکھتا ہے.اس حصہ میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے الفاظ فرما کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی طرف توجہ دلاتا ہے.کہ وہ عظیم الشان ہدایت جس کی طرف رب العالمین کی صفت میں اشارہ کیا گیا تھا.اب عملاً محمد عربی صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود کے ذریعہ ظاہر ہو رہی ہے.اس لئے اسے ماننے کے لئے تیار ہو جاؤ.اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ ہر آسمانی ہدایت کے نزول کے وقت لوگ تین حصوں میں تقسیم ہو جایا کرتے ہیں.ایک حصہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا ہوتا ہے.جو خدائی ہدایت پر ایمان لا کر دین و دنیا کے انعاموں کے وارث بنتے ہیں.دوسرا حصہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ کا ہوتا ہے جو بظاہر تو ہدایت کے رستہ پر چلنے کا دعویٰ کرتے اور ایمان کے مدعی بنتے ہیں مگر عملاً ایسے کام کرتے ہیں جو خدا کے غضب کو بھڑ کانے والے ہوتے ہیں اور تیسرا حصہ ضالین کا ہوتا ہے.جو یا تو سرے سے ایمان ہی نہیں لاتے یا ایمان لانے کے بعد صحیح رستہ کو چھوڑ کر ادھر اُدھر بھٹک جاتے ہیں.ان تین گروہوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی سکھائی گئی ہے کہ اے لوگو! تم انعام پانے والی جماعت کا حصہ بن کر رہنا اور ہدایت کا انکار کر کے یا بعد میں سیدھا رستہ چھوڑ کر اپنے اعمال کو ضائع نہ کرنا اور اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے الفاظ کو مطلق صورت میں رکھ کر یہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے کہ اس سے ہر قسم کا دینی اور دنیوی انعام مراد ہے جس کی کوئی حد بندی نہیں کیونکہ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رسالت سے رب العالمین کا دور شروع ہو رہا ہے.اسی طرح قرآنی

Page 300

مضامین بشیر جلد سوم 278 شریعت کے نزول سے لامتناہی انعاموں کا دروازہ بھی کھول دیا گیا ہے.اب دیکھو یہ کتنی عظیم الشان ڈیوڑھی ہے جو سورہ فاتحہ کی صورت میں قرآن کو عطا کی گئی ہے.گویا قرآن کا ایک نہایت مختصر مگر ہر جہت سے مکمل نقشہ تیار کر کے اس کے شروع میں لگا دیا گیا ہے اور غور کرنے والے لوگ جانتے ہیں کہ قرآن عظیم کی ساری آیات اس مختصر خاکے کی تشریح ہیں اور اصولی لحاظ سے قرآن مجید کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو سورہ فاتحہ کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر نہ سمجھا جا سکے.قرآن میں یا تو خدائے ذوالجلال و ذوالجمال کی صفات کا بیان اور ان کی تشریح ہے یا وہ اس بے نظیر ہدایت کی تفصیل ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ( فدا نفسی) کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوئی.اور یا وہ مُنْعَمُ عَلَيْهِ اور مَغْضُوبِ اور ضال کے حالات اور کوائف پر مشتمل ہے جو گزشتہ زمانوں میں ظاہر ہوئے یا آئندہ ظاہر ہوں گے.فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ.قرآن مجید کا عقبی دروازه قرآنی ڈیوڑھی کی اس مختصر اور اجمالی تشریح کے بعد اس عقبی دروازہ کے ذکر کا موقع آتا ہے جو قرآن مجید کے آخر میں نصب کیا گیا ہے تا قرآن کے مطالعہ سے فارغ ہونے والا انسان ایک طرف تو آخری یاد دہانی کے طور پر قرآنی تعلیم کا دوحرفی خلاصہ سنتا جائے اور دوسری طرف وہ اس مادی دنیا یعنی اس دار الابتلاء میں قدم رکھنے سے قبل ان خطرات سے آگاہ ہو کر متنبہ اور ہوشیار ہو جائے جو اسے دین یا دنیا کے میدان میں پیش آسکتے ہیں.قرآن کی آخری تین سورتیں یعنی سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورہ الناس اس مقدس غرض کو پورا کرنے کے لئے قرآن کے آخر میں رکھی گئی ہیں.یہ گویا سورہ فاتحہ کی ڈیوڑھی کے مقابلہ پر وہ عقبی دروازہ ہے جس میں سے ہر اس انسان کو جو قرآن کریم کا مکمل مطالعہ کرنا چاہے قرآن ختم کرنے سے پہلے لازما گزرنا پڑتا ہے.سورۃ اخلاص قرآنی تو حید کا بہترین خلاصہ ہے ان تین سورتوں میں سب سے پہلے نمبر پر سورہ اخلاص رکھی گئی ہے.جس میں قرآن مجید کی تعلیم کا دو حرفی خلاصہ بیان کیا گیا ہے.یہ دو حرفی خلاصہ توحید باری تعالے کے عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے.جو گویا اسلامی تعلیمات کی جان ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مَن قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ یعنی جس شخص نے دل سے لا الہ الا اللہ کہا اور اس کی حقیقت کو سمجھا وہ جنت میں جائے

Page 301

مضامین بشیر جلد سوم 279 گا.اس اعلان میں بظاہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ذکر شامل نہیں کیا گیا.لیکن یہ بات ادنیٰ تامل سے ظاہر ہوسکتی ہے کہ ایسے پیغامبر کا وجود جس نے پیغام والی تعلیم کے لئے نمونہ بنا ہوکسی صورت میں نفس پیغام سے الگ نہیں سمجھا جا سکتا.اس لئے دوسرے مقامات پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے کامل تو حید کے تصور میں اپنی رسالت پر ایمان لانے کے عقیدہ کو بھی شامل قرار دیا ہے اور یہی وہ نظریہ ہے جو سورہ اخلاص والے خلاصہ میں مد نظر رکھا گیا ہے.گویا ہر قرآن خوان کو خدا تعالی تلاوت ختم کرنے سے قبل جھنجھوڑ جھنجوڑ کر سناتا ہے کہ تم نے قرآن ختم کر لیا.اب یاد رکھنا کہ اللهُ اَحَدٌ یعنی اسلام کا خلاصہ کامل تو حید ہے جو ہر قسم کے شرک فی الذات اور شرک فی الصفات کی ملونی سے پاک ہونی چاہئے.جو خدا تعالیٰ کو صمد یعنی کائنات عالم کا ایسا مرکزی نقطہ قرار دے جو نہ صرف ہر چیز سے غنی اور ہر بیرونی سہارے سے آزاد ہو بلکہ ہر حاجت مند اس کی طرف جھکنے اور اس کی مدد حاصل کرنے کے لئے مجبور ہو.وہ لَمْ يَلِدْ اور لَمْ يُولَدُ ہو.یعنی نہ تو وہ غیر ابدی ہونے کی وجہ سے اپنی الوہیت کسی اور کو ورثے میں دینے کے لئے مجبور ہو اور نہ اس نے غیر از لی ہونے کی وجہ سے کسی اور سے یہ ورثہ پایا ہواور پھر وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ہو یعنی نہ وہ ایسا ہو کہ اس کے پہلوؤں میں اس کا کوئی شریک اور ہم پلہ وجود موجود ہو.یہ وہ کامل تو حید ہے جو قرآن نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سکھائی ہے اور دنیا کی کوئی اور قوم اور کوئی اور امت اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی.اس میں نہ صرف عام بت پرستوں اور مشرکوں کا رڈ ہے بلکہ ان مذاہب کا بھی رڈ ہے جو تو حید کی آڑ میں عملاً شرک کی تعلیم دیتے ہیں.عیسائیوں نے مسیح کو خدا کا بیٹا بنا رکھا ہے اور پھر بھی تو حید کے مدعی بنتے ہیں.یہودیوں نے عملاً اپنے ربیوں کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے اور پھر بھی موحد کہلانا پسند کرتے ہیں.ہندوؤں نے ہزاروں لاکھوں بت تراش کر ان سے حاجت براری شروع کر رکھی ہے اور پھر بھی کہتے ہیں کہ یہ بت تو خدا نہیں بلکہ صرف خدا کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں.یہ سب مشرکانہ خیالات ہیں جن سے اسلام کے سوا کسی مذہب کا دامن پاک نہیں.اس لئے قرآن کے اختتام پر خدا اپنے بندوں کو یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم نے تمہیں ایسی تعلیم دی ہے کہ جو ہر قسم کے شرک کی ملونی سے پاک ہے اور ہمارے رسول نے تمہیں اپنی تربیت کے ذریعہ کامل توحید پر قائم کر دیا ہے.اب دنیا میں قدم رکھتے ہوئے ہوشیار رہنا اور اپنی زبانوں کو اس ورد سے تروتازہ رکھنا کہ اللهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَد یعنی خدا ہر جہت اور ہر لحاظ سے ایک ہے.اپنی ذات میں ایک اور اپنی صفات میں ایک.وہ کسی کا محتاج نہیں.مگر ہر دوسری چیز اس کی محتاج ہے.

Page 302

مضامین بشیر جلد سوم 280 معوذتین میں دو طاقتور تعویذ پیش کئے گئے ہیں اسلامی تعلیم کا یہ دوحرفی خلاصہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو جو قر آنی تعلیم سے فارغ ہو کر دنیا میں قدم رکھ رہے ہوں.دو طاقتور تعویز پیش کرتا ہے.یہ اس طرح کا منظر ہے جس طرح کہ ایک محبت کرنے والی ماں اپنے کمزور بچوں کو کسی لمبے سفر پر روانہ کرتے ہوئے ان کے بازوؤں پر تعویذ باندھا کرتی ہے.چنانچہ تعویذ کا لفظ ہی اَعُوذُ سے نکلا ہوا ہے.جو قرآن کی ان دو آخری سورتوں کے شروع میں آتا ہے.پہلا تعویذ جو دنیا کے مصائب اور ابتلاؤں سے تعلق رکھتا ہے.سورہ فلق میں پیش کیا گیا ہے اور دوسرے تعویذ میں جو سورہ الناس کی تہوں میں لپٹا ہوا ہے.دینی ابتلاؤں اور خطرات سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے اور ان دونوں سورتوں میں اَعُوذُ کے لفظ کے ساتھ قُل کا لفظ دو وجہ سے لگایا گیا ہے.اول اس لئے کہ تا اس بات کی یاددہانی ہوتی رہے کہ یہ دعائیں صرف ایک دفعہ مانگ کر خاموش نہیں ہو جانا چاہئے.بلکہ عمر بھر ما نگتے جانا چاہئے کیونکہ کئی خطرے ایسے ہو سکتے ہیں کہ تم خود بھی ان سے بے خبر رہو اور اس بے خبری میں ٹھوکر کھا جاؤ.اس لئے ضروری ہے کہ ان دعاؤں کو دہراتے ہوئے خدا کے دامن سے ہر وقت لیٹے رہو تا کہ تمہاری زندگی اس کی دائگی پناہ میں گزرے.دوسرے چونکہ دل کے معنے زبان حال سے کہنے کے بھی ہیں.اس لئے قُلی کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ سچے مسلمانوں کو صرف منہ سے پناہ مانگنے پر ہی اکتفا نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے عمل سے بھی خدا کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہئے اور ایسے اعمال بجالانے چاہئیں جو خدا کی پناہ کے جاذب ہوں.الْفَلَق دنیوی آلام کے مقابلہ کا تعویذ ہے سوره جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے سورہ فلق دنیوی آلام اور خطرات سے تعلق رکھتی ہے.فلق کے معنے اس صبح کے ہیں جو تاریکی کے پھٹنے اور سیاہ بادلوں کے چھٹنے کے نتیجہ میں نمودار ہوتی ہے.اور اس میں اشارہ یہ ہے کہ اے مسلمانو! ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ تمہاری کمزوریوں اور بے بسیوں کا خاتمہ کر کے تمہارے لئے غیر معمولی ترقی اور سر بلندی کا رستہ کھولا ہے.اور اب خدا کے فضل سے تمہارے سامنے روشنی ہی روشنی ہے.مگر دیکھنا.اس حالت پر تسلی پا کر غافل نہ ہو جانا.کیونکہ خدائی مخلوق کے شریر عناصر ہمیشہ نیک لوگوں کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں.اس لئے قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ - یعنی مخلوق کے شر کے خلاف اس خدا سے پناہ مانگتے رہو جس نے تمہاری سابقہ مصیبتوں کا

Page 303

مضامین بشیر جلد سوم 281 خاتمہ کر کے تمہارے لئے صبح کی سی راحت اور صبح کی سی ٹھنڈک پیدا کی ہے.وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ اور اس تاریک رات سے بھی پناہ مانگو جس کا اندھیرا چاروں طرف چھا جاتا ہے اور اس بات سے ڈرتے رہو کہ روشنی کے بعد تاریکی پھر غلبہ پا جائے.اس کے بعد فرمایاؤ مِن شَرِّ النَّفْثَتِ فِي الْعُقَدِ یعنی ان لوگوں کے شرسے بھی خدا کی پناہ مانگو جوتمہاری اخوت کی پاکیزہ گر ہوں میں فتنہ کی پھونکیں مار مار کر فرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور تمہارے اندر پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.اسی طرح جو معاہدات تم نے غیر قوموں کے ساتھ کئے ہوئے ہیں ان میں بھی شریر لوگ فتنہ پردازی کا رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.ان کے متعلق بھی چوکس اور ہوشیار رہو اور بالآخرفرمایاوَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ یعنی تمہاری غیر معمولی ترقی کو دیکھ کر حاسدلوگ تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں گے اور اپنے حسد کی آگ میں تمہیں بھی بھسم کرنے کی کوشش کریں گے.تم ان کے حسد کے خلاف بھی خدا کی پناہ ڈھونڈتے رہو.کیونکہ تمہارا خدا وہ طاقتور ہستی ہے جس کی پناہ کے مقابل پر کسی مخلوق کا شر اور کسی مصیبت کا اندھیرا اور کسی فتنہ پرداز کا فتنہ اور کسی حاسد کا حسد ایک مردہ کیڑے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے.مگر شرط یہ ہے کہ جیسا کہ قل کے لفظ میں اشارہ ہے.تم صرف منہ سے ہی خدا کی پناہ نہ مانگو.بلکہ اپنے عمل اور کردار سے بھی اس کی پناہ کے طالب رہو اور تمہارا ہر قول اور ہر فعل اس بات کی شہادت دے کہ تم واقعی اور سچ مچ خدا کی پناہ میں ہو.اسی قسم کی پناہ کے متعلق حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں کہ جب ایسے لوگوں کو ان کے دشمن تنگ کرتے اور ستاتے ہیں اور انہیں تباہ کرنے کے درپے ہوتے ہیں تو خدا کی غیرت جوش میں آتی ہے اور وہ ان کی مدد کے لئے فوراً آگے آجاتا ہے.اور بقول حضرت مسیح موعود.ے کہتا ہے یہ تو بندہ عالی جناب ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے سورہ فلق میں جو فلق کا لفظ ہے اس کے معنی صبح کے علاوہ جملہ مخلوق اور کائنات عالم کے بھی ہیں.اسی طرح غاسق کے معنی اندھیرا کرنے والی رات کے علاوہ چاند کے بھی ہیں.اور وَقَبَ کے معنی گرہن لگنے کے بھی ہیں.اس لحاظ سے آیات کے معنی مناسب رنگ میں بدل جائیں گے مگر سورۃ کا مجموعی مال بہر حال وہی رہے گا.سورۃ الناس ایمانی خطرات کا تعویذ ہے قرآن مجید کی آخری سورۃ ، سورۃ الناس ہے.یہ سورۃ دینی ابتلاؤں اور دینی لغزشوں کے مقابلہ کے

Page 304

مضامین بشیر جلد سوم 282 لئے ایک مقدس تعویذ کا حکم رکھتی ہے.اسے اس کے نزول کی ترتیب سے ہٹا کر قرآن کے آخر میں اسی غرض سے رکھا گیا ہے کہ تا مسلمانوں کو ہوشیار کیا جائے کہ کسی بڑی روحانی نعمت کے پالینے کے بعد اس گھمنڈ میں نہ رہا کرو کہ اب ہم ہر خطرہ سے محفوظ ہو گئے ہیں.کیونکہ شیطان ہر وقت تمہارے پیچھے لگا ہوا ہے اور وہ تمہارے ایمانوں میں رخنہ پیدا کرنے اور تمہارے عقیدوں کو بگاڑنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا.پس قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلهِ النَّاسِ یعنی کہو اور کہتے چلے جاؤ کہ میں پناہ طلب کرتا ہوں اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے رب کی اور میں پناہ طلب کرتا ہوں اپنے مالک اور حکمران آقا کی.اور میں پناہ طلب کرتا ہوں اپنے معبود اور مسجود خدا کی.یہ تین صفات جو اس آیت میں رکھی گئی ہیں یہ بندوں کے متعلق خدا کو غیرت دلانے میں سب سے زیادہ موثر ہیں.گویا ایک مخلوق اور مرزوق بندہ اپنے خالق اور رازق خدا کو اور ایک محکوم انسان اپنے حاکم و آقا کو اور ایک عابد و ساجد آدمی اپنے معبود و مسجود کو پکارتا ہے کہ میں تیرا بندہ ہوکر اور تیری رعیت ہو کر اور تیرا پرستار ہو کر تیرے منکروں اور تیرے باغیوں کے حملوں کا شکار ہورہا ہوں.جو مجھے تیرے دروازہ سے دور لے جانا چاہتے ہیں.تو میری مدد کو آ اور مجھے اپنی حفاظت میں لے لے.اس زور دار رحم کی اپیل کے بعد بشر طیکہ وہ دل کی گہرائیوں سے کی جائے.اللہ تعالیٰ کی غیرت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت غیر معمولی طور پر جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے فرشتوں کی فوج کے ساتھ فوراً اپنے بندے کی مدد کو پہنچ جاتا ہے.اسی قسم کی پکار کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ے تجھے دنیا میں ہے کس نے پکارا کہ تو پھر پھر خالی گیا قسمت کا مارا ہے کس قدر اس کو سہارا کہ جس کا تو ہی ہے سب سے پیارا پیش آنے والے ایمانی خطرات کی نوعیت سورۃ الناس کے نصف آخری حصہ میں ان خطرات کی نوعیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو مسلمانوں کو اپنے عقائد اور دین کے معاملہ میں پیش آسکتے ہیں اور آنے والے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے.مِن شَرِ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاس یعنی ان وسوسہ پیدا کرنے والی طاقتوں اور شیطانی ہستیوں کے فتنوں کے مقابل پر خدا سے پناہ چاہتے رہو.جو تمہارے ایمانوں اور تمہارے عقیدوں پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے تیار رہتی ہیں.

Page 305

مضامین بشیر جلد سوم 283 الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُور الناس یعنی یہ طاقتیں صرف ظاہر میں ہی مومنوں کے ایمانوں کے لئے خطرہ کا باعث نہیں بنتیں.بلکہ ان کا فتنہ لوگوں کے سینوں کی گہرائیوں میں بھی مہلک جراثیم بن کر ہلاکت کے بیج بوتا رہتا ہے.ان الفاظ میں ان خطرناک اور زہر آلود اثرات کی طرف اشارہ ہے جو آج کل یورپ اور امریکہ کی مادی فضاؤں میں چھپے بیٹھے ہیں اور بغیر اس کے کہ کوئی شخص اس خطرہ کو محسوس کرے.وہ ہر سانس کے ساتھ لوگوں کے سینوں میں روحانی سل کے جراثیم داخل کرتے جاتے ہیں.چنانچہ خناس اس چیز کو کہتے ہیں جو عمو مالوگوں کی ظاہری نظر سے اوجھل رہ کر خفیہ رنگ میں ہلاکت کے بیج ہوتی ہے اور بالآخر فر ما تا ہے مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ یعنی یہ فتنہ پیدا کرنے والے لوگ عوام الناس میں سے بھی ہوں گے اور بڑے لوگوں میں سے بھی ہوں گے.اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ ان دونوں قسم کے لوگوں کی طرف سے ہوشیار رہیں اور یہ خیال نہ کریں کہ فلاں لوگ چھوٹے ہیں.ان کی طرف سے ہمیں کیا خطرہ ہوسکتا ہے.یا فلاں لوگ بڑے ہیں انہیں ہمارے معاملات میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے.بلکہ سب کی طرف سے ہوشیار رہیں.کیونکہ اسلام وہ عظیم الشان نور ہے جس نے سارے دوسرے نوروں کو ماند کر رکھا ہے.اس لئے ہر مذہب و ملت کے پیرو اس کے بجھانے کے لئے کمر بستہ ہیں.پھر مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاس کے الفاظ میں موجودہ زمانہ کے نظام سرمایہ داری اور نظام اشتراکیت بھی مراد ہیں.جنہوں نے دنیا میں باطل خیالات کا وسیع جال پھیلا کر اسلام کے لئے ایک بھاری خطرہ پیدا کر رکھا ہے اور ہمارے خدا کی یہ ہیبت ناک پیشگوئی بڑے زور دار رنگ میں پوری ہورہی ہے.کہ حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (الانبیاء: 97) لیکن یاد رکھنا چاہئے يَنْسِلُونَ(الانبياء:97).لیکن رکھنا کہ گوسرمایہ داری اور اشتراکیت یا دوسرے لفظوں میں یا جوج اور ماجوج ہر دوا سلام کے مخالف اور مسلمانوں کے لئے خطرہ کا موجب ہیں مگر یقیناً ان دونوں میں سے اشتراکیت کا نظام دہریت پر مبنی ہونے کی وجہ سے نیز خناسی اصولوں پر زیادہ عامل ہونے کی بناء پر زیادہ خطرناک ہے.اس لئے جہاں ان دونوں کا آپس میں مقابلہ ہو گا وہاں طبعاً ہماری ہمدردی جمہوری طاقتوں کی طرف ہوگی.خلاصه مضمون خلاصہ کلام یہ کہ قرآن مجید ایک نہایت درجہ عجیب و غریب کلام ہے.جس کی ہر سورۃ اور ہر آیت اور ہر لفظ میں خدا کی خدائیت کا چہرہ نظر آرہا ہے اور اس کی وسیع اور عالمگیر عمارت کو ایسے رنگ میں مرتب کیا گیا ہے کہ اس کے شروع میں تو ایک عالی شان ڈیوڑھی رکھ دی گئی ہے.جس میں قرآن مجید کے مضامین کا

Page 306

مضامین بشیر جلد سوم 284 گو یا مکمل خاکہ آ جاتا ہے.اور اس کے آخر میں ایک عقبی دروازہ نصب کیا گیا ہے جو دو بے مثال تعویذوں سے مزین ہے تا کہ قرآنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا میں قدم رکھنے والا انسان ان خطرات سے محفوظ ہو جائے جو اسے شیطانی طاقتوں کی طرف سے پیش آسکتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمیں ہمارے سید و مولیٰ حضرت سرور کائنات فخر موجودات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود کے ذریعہ ملا ہے.اس لئے ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے لائے ہوئے دین کو سمجھنے اور اس کی خدمت کا حق ادا کرنے کی توفیق دے.اور آپ کو دنیا کے ہر حصہ اور ہر قوم میں مقام محمود حاصل ہو.اور خدا آپ کی مقدس روح پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور ہزاروں ہزار درود نازل کرے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب: 57).( محرره 23 مئی 1955ء) روزنامه الفضل 30 مئی و یکم جون 1955ء) احباب اخبار بدر کی خریداری کی طرف توجہ فرمائیں جیسا کہ احباب کو معلوم ہے اس وقت قادیان سے ایک اخبار بدر نامی جاری ہے جو اس اخبار بدر کی یادگار ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں اپنا ایک باز وقرار دیا تھا.موجودہ زمانہ میں اس اخبار کی اہمیت اس لحاظ سے اور بھی بڑھ گئی ہے کہ اس کے ذریعہ احباب جماعت کو اپنے اصل اور مقدس مرکز اور حضرت مسیح موعود کے مولد و مدفن کے حالات اور کوائف کا پتہ چل سکتا ہے اور وہ قادیان کے صبح و شام اور قادیان کے درویشوں کے حالات سے آگاہ رہ کر روحانی لطف اور روحانی طاقت حاصل کر سکتے ہیں.اس کے علاوہ اس اخبار میں ہندوستان کی کثیر التعداد جماعتوں کے حالات بھی چھپتے رہتے ہیں.پس جن پاکستانی دوستوں کو توفیق ہو وہ اخبار بدر کی خریداری کی طرف بھی ضرور توجہ فرما دیں.اس کا سالانہ چندہ صرف چھ = /6 روپے ہے اور سہ ماہی ایک روپیہ دس آنہ ہے اور ششماہی قیمت تین روپیہ چار آنہ ہے جو ربوہ کے صیغہ امانت میں زیر امانت اخبار بدر جمع کرایا جا سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ قادیان کی مقدس یا دکو دلوں میں تازہ رکھنے اور وہاں کے روحانی فیوض سے متمتع ہونے کے مقابل پر یہ رقم اتنی قلیل ہے کہ کوئی مخلص احمدی جو اس کی توفیق رکھتا ہو اس اخبار کی خریداری میں تامل نہیں کر سکتا.آجکل کی قومی زندگی میں اخباروں

Page 307

مضامین بشیر جلد سوم 285 کو جواہمیت حاصل ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے.ذی استطاعت احباب توجہ فرماویں.خریداری کے لئے براہ راست ایڈیٹر بدرمحلہ احمدیہ قادیان مشرقی پنجاب کو لکھنا چاہئے اور رقم صیغہ امانت صدر انجمن احمد یہ ربوہ میں بھجوانی چاہئے.( محرره 8 جون 1955 ء )......روزنامه الفضل 12 جون 1955ء) پاگل خانہ کا عبرتناک منظر جسمانی لحاظ سے اَسْفَلَ سَافِلِینَ کا ہیبت ناک نظارہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی کو موقع ملے تو پاگل خانہ ( جسے آجکل منفل ہسپتال کہا جاتا ہے ) اور جیل خانہ ضرور دیکھ لینے چاہئیں.کیونکہ ان کے دیکھنے سے بعض خاص قسم کے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور عبرت کا پہلو مزید برآں ہے.اس نصیحت کے پیش نظر میں نے ایک دوست سے منعمل ہسپتال لاہور کے دیکھنے کی خواہش کی اور انہوں نے ازراہ مہربانی کل بروز جمعرات بتاریخ 30 جون اس کا انتظام فرما دیا بلکہ خود ساتھ ہو کر پاگل خانہ کے مختلف حصے دکھائے.فَجَزَاهُ اللَّهُ خَيْراً حقیقتا یہ ہسپتال ایک بھاری عبرت گاہ ہے اور حکومت اس ادارہ پر کم و بیش دس لاکھ سالانہ خرچ کر کے ایک بہت عمدہ خدمت بجالا رہی ہے.اس پاگل خانہ میں پاکستان کے ہر حصہ سے دماغی امراض کے مریض جمع ہیں.پنجاب ،صوبہ سرحد، سندھ، بلوچستان، بہاول پور اور بنگال وغیرہ سب صوبوں کے مریض پائے جاتے ہیں.جن کی تعداد قریباً ڈیڑھ ہزار ہے.جن میں چار پانچ سو کے قریب عورتیں بھی شامل ہیں.عورتوں کے حصہ میں تو ہم نہیں گئے.مگر ہسپتال کے مردانہ حصہ کا ایک ایک چپہ مجسمہ عبرت تھا اور غالبا یہ اسی اثر کا نتیجہ تھا کہ مجھے اس کے بعد گزشتہ رات بالکل نیند نہیں آئی اور تمام رات بے خوابی میں گزری.اس پاگل خانہ میں مختلف قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.بعض مالیخولیا میں مبتلا ہو کر خاموش بیٹھے رہتے ہیں.گویا کہ وہ اس دنیا کی ہر چیز سے بیزار ہیں اور اپنے ماحول کی کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے.بعض اوٹ پٹانگ تقریریں کرتے ہوئے ادھر اُدھر شور کرتے پھرتے ہیں اور کوئی سننے والا ہو نہ

Page 308

مضامین بشیر جلد سوم 286 ہو.وہ اپنی بات سنائے جاتے ہیں.بعض نے ناچنا کودنا اپنا شغل بنا رکھا ہے.بعض اپنے زعم میں مجسٹریٹ اور لیڈر وغیرہ بن کر دوسروں پر حکومت کرنے کے متمنی رہتے ہیں.بعض شعر گوئی کے دلدادہ ہیں اور خود ساختہ اشعار سے اپنا دل بہلاتے رہتے ہیں.چنانچہ ایک بوڑھا مریض ایک الٹی کتاب پکڑے ہوئے ہیر رانجھا کے شعر گاتا پھرتا تھا.بعض جرائم پیشہ قسم کے مریض ہیں جنہیں ان کے خطرناک رجحانات کی وجہ سے علیحدہ علیحدہ سلاخ دار کوٹھڑیوں میں بند رکھا جاتا ہے.ایک حصہ مادر زاد نگا ر ہنے پر مصر ہے اور اسے بھی الگ کوٹھڑیوں میں بند رکھا جاتا ہے.بعض پاگلوں میں ہر آنے والے کے ساتھ آگے بڑھ کر مصافحہ کرنے کی آرزو رہتی ہے.بعض بظاہر تندرست اور اچھی بھلی باتیں کرتے ہیں اور بعض اچھے تعلیم یافتہ ہیں مگر خاص خاص موضوع پر ان کی رگِ جنون پھڑکنے لگ جاتی ہے.غالبا سب سے زیادہ رحم کے قابل ان مریضوں کی حالت ہے جو مجنون ہونے کے علاوہ ہسپتال میں پہنچ کر دوسری بیماریوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں.ان کے لئے ہسپتال کا ایک علیحدہ وارڈ معین ہے اور ہسپتال کا عملہ سب حصوں کی پوری دیکھ بھال کرتا.ان کے علاج کا انتظام کرتا.ان کے لئے دودھ اور شربت بلکہ حسب ضرورت پھل بھی مہیا کرتا ہے.مگر ایک قلیل حصہ کو چھوڑ کر ہسپتال کے اکثر مریض اس قسم کی خدمت کی قدر پہچاننے سے بالا اور غنی ہیں.ہسپتال دیکھتے ہوئے جو خیال مجھے بار بار آتا تھا اور میں نے اپنے ساتھیوں سے اس کا ذکر بھی کیا.وہ اس قرآنی آیت میں مذکور ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سفلينَ (التين : 5-6) یعنی ہم نے انسان کو بہترین قومی اور بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے.لیکن ہم نے اپنی حکمت سے اس کے لئے اس حالت سے نیچے گرنے کا بھی رستہ کھلا رکھا ہے حتی کہ بسا اوقات وہ اپنے اعلیٰ مقام سے گر کر اور ارفع انسانی طاقتوں کو ضائع کر کے ایک اسفل ترین گڑھے میں گر جاتا ہے اور اس حالت میں گویا جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے.پھر مجھے خیال آیا کہ اس آیت کا اصل موضوع تو دینی اور روحانی ہے.جیسا کہ بعد کی آیت میں إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں.اس خیال کے آتے ہی میری روح کانپ گئی کہ گواللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض یہ بیان فرمائی ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذاریات : 57) یعنی ہم نے تمام بڑے اور چھوٹے انسانوں کو خدا کا بندہ بن کر رہنے کے لئے پیدا کیا ہے مگر افسوس کتنے ہیں کہ جو اس کا بندہ کہلا سکتے ہیں.دنیا کا بیشتر حصہ اس وقت یا تو خدا تعالی کا باغی ہے.یا اس کی طرف سے قطعی طور پر غافل.بظاہر اسے ماننے والے بھی عقیدت کے لحاظ سے ناوے فیصدی اس کے منکر ہیں.أُولَئِكَ كَالا نُعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَفِلُونَ

Page 309

مضامین بشیر جلد سوم 287 (الاعراف: 178) حق یہی ہے کہ خواہ انسان جسمانی لحاظ سے گر کر اپنے اعلیٰ انسانی قومی کو کھو بیٹھے یا دینی اور روحانی لحاظ سے گر کر دنیا کا کیڑا بن جائے وہ اَسْفَلَ سَافِلِین کے حکم کے نیچے آ جاتا ہے.جس سے ہر شخص کو پناہ مانگنی چاہئے.مجھے ہسپتال کے مختلف حصوں کو دیکھتے ہوئے اس حقیقت کی طرف بھی راہنمائی ہوئی کہ پاگل ہونے کے بعد انسان کے دبے ہوئے جذبات، رجحانات اُبھر کر بالکل عریاں ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے جنون میں انہی باتوں کو دہراتا ہے جو صحت کی حالت میں اس کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہوں.اس جہت سے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک معجزہ ہے کہ احمدیوں میں جو بھی پاگل ہوا ہے اس نے لازماً اور بلا استثنیٰ ولی اللہ اور مہم من اللہ ہونے اور مصلح بننے کا دعویٰ کیا ہے اور پاگل ہونے کے بعد اس کی ساری گفتگو کا محور دینی باتیں اور مذہبی مباحث کے اندر محدود ہو جاتی رہی ہے.یہ اس عظیم الشان روحانی اثر کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متبعین میں پیدا کیا ہے کہ ان کا شعوری حصہ تو الگ رہا.ان کے غیر شعوری حصہ میں بھی گویا سراسر دین ہی کی حکومت ہے.میں نے آج تک کسی احمدی کو نہیں دیکھا جس نے جنون کی حالت میں دینی موضوع کے سوا کسی اور مضمون کو اپنی گفتگو کا محور بنایا ہو.مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ پاگل خانہ کے اندر ذمہ دار افسروں نے خوش نما منظر پیدا کرنے اور آنکھوں کو راحت اور ٹھنڈک بخشنے کے لئے بہت اچھا باغ لگایا ہوا ہے.اس خیال کے آتے ہی میرا خیال اس طرف منتقل ہوا کہ دنیا کی ہر اچھی چیز میں خدائی نظام کی جھلک بلکہ نقل نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ نے آخرت کی نعمتوں کو جنت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے.جس کے معنی باغ کے ہیں.وہ باغ کیسا ہوگا اسے تو صرف خدا ہی جانتا ہے مگر یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ آج تک دنیا کی کسی قوم نے اپنے ماحول کو خوش منظر اور راحت بخش بنانے کے لئے باغ سے بڑھ کر کوئی اور چیز ایجاد نہیں کی.میں اس وقت بیمار اور کمزور ہوں زیادہ نہیں لکھ سکتا اس لئے اس پر اکتفا کرتا ہوں.اللہ ہم سب کو روحانی اور جسمانی لحاظ سے اَسْفَلَ سَافِلِينَ میں گرنے سے بچالے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین ( محررہ یکم جولائی 1955ء) (روز نامہ الفضل 6 جولائی 1955ء)

Page 310

مضامین بشیر جلد سوم 288 سینما کے ضرر رساں پہلوؤں کی مختصر تشریح تفریح کے لئے جائز طریقے اختیار کرنے چاہئیں کچھ عرصہ ہوا میں نے سینما کی ممنوعیت کے متعلق دو تین مضامین کے ذریعہ یہ وضاحت کی تھی کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے کس بناء پر اپنی جماعت کو سینما دیکھنے سے روکا ہے اور میں نے ان مضامین میں اس پہلو کی بھی تشریح کر دی تھی کہ بے شک سینما اس زمانہ کی ایک نہایت مفید ایجاد ہے.جس میں عوام الناس کی علمی ترقی کے بے شمار پہلو پائے جاتے ہیں اور دوسری طرف وہ یقیناً تفریح کا بھی ایک بہت عمدہ ذریعہ ہے جس کی انسانی دماغ کو حقیقی طور پر ضرورت رہتی ہے.تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایسی اچھی اور مفید چیز سے جماعت کو روک دیا گیا ہے؟ لیکن کچھ تو لوگ ایسی باتوں کو جلدی بھول جاتے ہیں اور کچھ مختلف اوقات اور مختلف حالات میں مسائل کے مختلف پہلو بھی اس طرح بدل بدل کر سامنے آتے ہیں کہ سابقہ تشریح گویا پس پردہ جا کر نظروں سے اوجھل ہونی شروع ہو جاتی ہے.چنانچہ میرے سابقہ مضامین کے باوجود بعض دوستوں نے لفافہ بدل کر وہی سابقہ سوال دُہرایا ہے کہ جبکہ سینما روزمرہ کی مفید ترین ایجا دوں کو پبلک کے سامنے لانے کا بہترین اور مؤثر ترین ذریعہ ہے اور اس میں بہت سے علمی پہلو موجود ہیں اور پھر اس میں تفریح کا بھی نہایت عمدہ سامان موجود ہے.جس کی آجکل کے ماحول میں خصوصیت سے زیادہ ضرورت ہے.تو پھر اس سے جماعت کو روکنا کس طرح جائز سمجھا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں یا درکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے یہ کوئی نیا سوال نہیں ہے بلکہ میرے سابقہ مضامین میں اس سوال کے دونوں پہلو وضاحت کے ساتھ بیان ہو چکے ہیں.جہاں میں نے سینما کے مفید اور فائدہ بخش پہلوؤں کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ بتایا تھا کہ موجودہ زمانہ کی فلموں میں اس قدر گند داخل ہو چکا ہے کہ قرآنی اصول إِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقره: 220) کے ماتحت اس کے نقصان کا پہلو اس کے فائدہ کے پہلو پر بہت زیادہ غالب آ گیا ہے.میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ دراصل سینما اپنی ذات میں بُرا نہیں بلکہ یقیناً ایک بہت مفید ایجاد ہے.لیکن زندگی کے بیمہ کی طرح (جو وہ بھی اپنی ذات میں بُرا نہیں مگر صرف سود اور جوئے کے عصر کی وجہ سے حرام قرار دیا جاتا ہے) سینما بینی سے صرف اس بناء پر روکا جاتا ہے کہ

Page 311

مضامین بشیر جلد سوم 289 بدقسمتی سے اس زمانہ کے گندے اور حیا سوز اثرات کے نتیجہ میں اس کے ساتھ بعض ایسی باتیں شامل کر دی گئی ہیں جو انتہا درجہ مخرب اخلاق اور دماغی آوارگی پیدا کرنے والی ہیں.اس کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ جیسے مثلاً دودھ اور خوشبودار شربت بہت عمدہ اور نہایت فرحت بخش غذا ئیں ہیں.لیکن کیا کوئی دانا شخص اس بات کو برداشت کرے گا کہ اسے دودھ یا شربت کا گلاس دیتے ہوئے اس کے اندر چند قطرے نجاست کے بھی ڈال دیئے جائیں.حالانکہ ظاہر ہے کہ ایسے مرکب میں پھر بھی دودھ اور شربت کا ہی غلبہ رہتا ہے.لیکن نجاست کے مل جانے سے ان کے متعلق نہ صرف انسانی فطرت بلکہ طبی سائنس کا فتویٰ بھی لازماً بدل جاتا ہے.اور کوئی سمجھدار شخص یہ حجت پیش نہیں کر سکتا کہ یہ گلاس تو دودھ اور شربت کا گلاس ہے.جو بہر حال مفید ہے اس لئے اس کا استعمال جائز ہونا چاہئے.دراصل جہاں تک میں نے سوچا ہے.موجودہ سینما میں منجملہ اور باتوں کے تین خاص باتیں ایسی ہیں جو اس کے مفید پہلوؤں پر پردہ ڈال کر اور اس کے فائدہ کے پہلو کو دبا کر اس کی مضرت اور نقصان کے پہلو کو بہت زیادہ غالب اور نمایاں کر دیتی ہیں اور انہی کی وجہ سے اس سے روکا جاتا ہے.یہ باتیں مختصر طور پر یہ ہیں.(1) پہلی بات یہ ہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ کوئی فلم اپنی ذات میں اچھی ہے یا بُری.خود سینما ہال کا اندرونی اور بیرونی ماحول.اس کی ممنوعیت کی ایک واضح دلیل ہے.میں دوسرے ممالک کے متعلق تو کچھ زیادہ کہہ نہیں سکتا.لیکن کم از کم ہمارے ملک میں سینما ہال کا اندرونی اور بیرونی ماحول ایسی گندی صورت اختیار کر چکا ہے کہ کوئی با غیرت اور شریف انسان جو اپنی غیرت اور شرافت کے ساتھ ہوش مند اور بیدار مغز بھی ہو اپنے بچوں کو سینما جانے کی اجازت نہیں دے سکتا اور چونکہ والدین کے افعال کالا ز ما بچوں پر بھی اثر پڑتا ہے اس لئے ہر دانا شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس صورت میں ماں باپ کو خود بھی سینما جانے سے اجتناب کرنا چاہئے.سینما کے ماحول کی خرابیاں اس ملک میں اتنی ظاہر اور عریاں ہو چکی ہیں اور اس کے متعلق آئے دن اخبارات میں اتنے چرچے رہتے ہیں کہ کوئی واقف کار شخص اس سے غافل نہیں رہ سکتا.بد نظری اور اغوا اور مخش گوئی اور ہاتھا پائی اور مارکٹائی کے واقعات ہمارے ملک کے سینما ہالوں کے اندر اور باہر اس کثرت سے وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ بچے تو درکنار، شریف اور معمر والدین کو بھی ان سے پناہ مانگنی چاہئے.یہ دلیل بے شک بظاہر ایک منفی قسم کی دلیل ہے.لیکن ذیل کی دلیلوں سے مل کر اس کا وزن بھی اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اسے کسی صورت میں نظر انداز

Page 312

مضامین بشیر جلد سوم 290 نہیں کیا جا سکتا.یہی وجہ ہے کہ جب کسی محلہ میں اور خصوصاً کسی مسجد یا درسگاہ کے قریب کوئی سینما بننے لگتا ہے تو خود سینما کے شوقین بے چین ہو کر شور کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس کی اجازت نہیں ملنی چاہئے.کیونکہ ان کے دل گواہی دیتے ہیں اور ان کا ضمیر پکارتا ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں.کم از کم ہماری اولا د تو اس گند سے محفوظ رہے.(2) سینما کی حرمت یا ممنوعیت کی دوسری وجہ اکثر فلموں کا کلی طور پر خلاف اخلاق اور گندا ہونا ہے.فلموں میں قریباً بر ہنہ یا نیم برہنہ خوبصورت عورتوں کا ناز و ادا کے رنگ میں فلمی پردہ پر ظاہر ہونا.عشق و محبت اور بوس و کنار کے عریاں اور حیا سوز مظاہرے، اغوا کے واقعات کی کثرت.جائز خاوندوں سے غداری اور خفیہ دوستوں سے ساز باز کے مناظر قبل اور ڈا کہ اور نقب زنی اور چوری اور دھوکہ دہی اور فریب اور لوٹ مار کے نظارے وغیرہ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں شاید یورپ و امریکہ کے مادہ پرست لوگ تو بُرا نہ سمجھتے ہوں (گوحقیقتا یہ چیزیں ان کے لئے بھی زہر سے کم نہیں ) مگر اسلامی ممالک میں رہنے والوں اور اسلامی تہذیب و تمدن رکھنے والوں کے لئے تو وہ ایک انتہا درجہ کاسم قاتل ہیں اور خام طبیعتوں کے لئے تو اس زہر کا ایک قطرہ بھی اخلاق اور روحانیت کے جو ہر کو ختم کر دینے کے لئے کافی ہے اور بالواسطہ طور پر یہ بات كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ (التوبہ: 119) کے حکم ربانی کے بھی خلاف ہے کیونکہ سینما میں بھی ایک نوع کی معیت ہوتی ہے.غالباً ہند و پاکستان کے وسیع خطہ میں نو خیز نو جوانوں یعنی مردوزن ہر دو کے خیالات کو بگاڑنے اور گندے راستہ پر ڈالنے میں جتنا حصہ سینما کی حیاسوز فلموں نے لیا ہے اور کسی چیز نے نہیں لیا.انسان فطر تا نقال واقع ہوا ہے.اور اپنے ماحول کے گندے اور حیا سوز نظاروں سے وہ بہت جلد متاثر ہو کر اسی رو میں بہنے لگتا ہے اور جب اس کے پاؤں ایک دفعہ اکھڑتے ہیں تو پھر الا ماشاء اللہ دوبارہ نہیں جمتے اور وہ گویا خواب خرگوش میں مبتلا ہو کر ہلاکت کے سمندر کی طرف جلد جلد بہتا چلا جاتا ہے.کاش لوگ اس خطرہ کو سمجھیں.(3) سینما کے منع کئے جانے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ بعض فلمیں بے شک اپنی ذات میں تو مفید اور علمی رنگ رکھتی ہیں اور مختلف میدانوں کی نئی نئی ایجادوں کو عوام کے سامنے لانے میں بہت اچھا کام کر سکتی ہیں.مگر بد قسمتی سے سینما کے ارباب حل و عقد پبلک مذاق کو دیکھتے ہوئے ان فلموں کے اندر بھی کچھ کچھ وقفہ پر عشق و محبت کے مناظر جوڑ دیتے ہیں.تاکہ اصل فلم کی سنجیدگی کو یہ درمیانی نظارے ایک قسم کی رنگینی اور کشش دے دیں.تجارت کے اصول کے ماتحت یہ طریق بے شک بہت کامیاب رہتا ہے.مگر اس کا نتیجہ اس کے

Page 313

مضامین بشیر جلد سوم 291 سوا کچھ نہیں ہوتا کہ زہر کی گولی کھانڈ کے پردے میں لپیٹ کر زیادہ آسانی کے ساتھ حلق میں اتر جاتی ہے اور پھر معدہ کے اندر پہنچ کر لازما وہی کام کرتی ہے جو ایک زہر کیا کرتا ہے.یا جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے.یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایسی منافق اور دوغلی فلمیں اس شربت یا دودھ کے گلاس کا حکم رکھتی ہیں جس میں کچھ نجاست بھی ملا دی گئی ہو.الغرض یہ وہ تین خاص وجوہات ہیں جن کے نتیجہ میں آجکل کی فلمیں اور آج کل کی سینما بینی اخلاقی اور روحانی لحاظ سے زہر قرار پاتی ہیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ڈور بین آنکھ نے آج سے ہیں سال قبل اس کے اسی زہر کو دیکھ کر اس کی حرمت کا فتویٰ دیا تھا.مگر افسوس ہے کہ جیسا کہ سنا جاتا ہے بعض احمدی نوجوان بھی سینما کی ملمع سازی سے دھوکا کھا کر اس میدان میں چور بازاری سے کام لے رہے ہیں اور داؤ لگا کر سینما جاتے رہتے ہیں.وہ صرف اپنے پیسے ہی ضائع نہیں کرتے بلکہ اپنے امام کے بھی نافرمان ہیں.جماعت کی تنظیم کو بھی توڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک زہر کھا رہے ہیں جو ان کے رگ وریشہ میں سرایت کر کے ان کے لئے بالآخر ہلاکت کا پیش خیمہ ثابت ہو گا.بے شک جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے سینما اپنی ذات میں بُرا نہیں بلکہ ایک مفید اور علمی ایجاد ہے.جس سے مختلف علوم کی ترقی میں بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ اُس نجاست کے ڈھیر سے کس طرح نجات حاصل کی جائے جو موجودہ زمانہ کی بدمذاقی یا بداخلاقی نے اس کے اندر شامل کر دیا ہے؟ میری رائے میں فی الحال اس سوال کا جواب دو طرح ہو سکتا ہے.اول.یہ کہ بعض تعلیمی ادارے جنہیں توفیق ہو وہ ایک طرف موجودہ سینما کے نقصانات کو اپنے طلباء پر اچھی طرح واضح کریں اور بار بار کرتے رہیں اور دوسری طرف انہیں سینما بینی سے روک کر ان کے لئے سکولوں میں اپنی نگرانی کے ماتحت پروجیکٹڑوں کے ذریعہ ایسی مفید اور علمی فلموں کے دکھانے کا انتظام کریں جو مخرب اخلاق اور حیا سوز عناصر سے کلی طور پر پاک ہوں.اس طرح بچوں کی تفریح کا انتظام بھی ہو جائے گا اور وہ نئی نئی مفید فلموں سے فائدہ بھی اٹھا سکیں گے.مگر یہ احتیاط بہر حال ضروری ہوگی کہ اس کی کثرت کو بہر صورت روکا جائے.ورنہ فلم بینی ایسی بلا ہے کہ اگر اس کی لت پڑ جائے تو پھر اس عادت میں ایک نشہ سا پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے بعد شراب کی طرح ” چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کا فرگی ہوئی“.دوم.ملک میں حکومت یا اصحاب ثروت کی طرف سے ایسی کمپنیاں قائم کی جائیں جو اس عزم اور اس

Page 314

مضامین بشیر جلد سوم 292 پختہ عہد کے ماتحت قائم ہوں کہ صرف اور خالصہ اور کلیۂ علمی اور مفید فلموں کا مظاہرہ کریں گی.میں نے سنا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں بعض ایسی کمپنیاں موجود ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ اس ملک میں بھی وہ قائم نہ کی جاسکیں.شروع میں بے شک مشکل پیش آئے گی اور غالباً کچھ مالی نقصان بھی اٹھانا پڑے گا کیونکہ لمبی قائم شدہ بدمذاقی کا مقابلہ آسان نہیں ہوتا.لیکن عزم اور حسن انتظام سے مناسب پراپیگنڈا کے ذریعہ بالآخر اس مشکل پر غلبہ پایا جا سکتا ہے اور یہ ایک بہت بڑی ملکی خدمت ہوگی.جس کے ذریعہ قوم کے نو نہالوں کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچایا جا سکے گا.میں تفریح یعنی Recreation اور Relaxation کی اہمیت کا ہرگز منکر نہیں.بلکہ دن بدن اس کی ضرورت کا زیادہ قائل ہوتا جاتا ہوں.ہماری زندگیاں اس قدر سنجیدہ اور تفکرات سے اتنی معمور ہیں کہ اگر جائز اور مفید تفریحات کا انتظام نہ کیا گیا تو کام کرنے والے لوگوں کے اعصاب تباہ ہو کر رہ جائیں گے.اس لئے ہمارے سامنے یہ ایک اہم سوال ہے کہ اگر ہم ایک طرف سینما سے روک کرلوگوں کے اخلاق کو خراب ہونے سے بچائیں تو دوسری طرف ان کے لئے کسی نہ کسی رنگ میں مختلف مذاق کے لوگوں کے لئے جائز تفریح کا سامان بھی مہیا کریں.بیشک یہ ایک مشکل کام ہے مگر ترقی کرنے والی قوموں کو مشکل مراحل میں سے بھی اپنا رستہ نکالنا ہی پڑتا ہے.خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اصل بات جو میں اپنے نوجوان عزیزوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ آجکل کی سینما بینی ایک خطرناک زہر ہے.وہ ہر حال میں اس سے بچیں ورنہ مارفیا کے عادی شخص کی طرح وہ ہر لمحہ اپنے دل و دماغ میں زہر بھرتے چلے جائیں گے اور گو اس کا مخفی نتیجہ ساتھ ساتھ بھی نکل رہا ہے.مگر ظاہر نتیجہ اس وقت نکلے گا جب یہ زہر ان کے اخلاق اور روحانیت کو ماؤف اور معطل کر کے رکھ دے گا.میں اپنی رو میں اپنی طاقت سے زیادہ لکھ گیا ہوں.ورنہ میری موجودہ صحت چند سطروں سے زیادہ لکھنے کی اجازت نہیں دیتی.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت اور خدمت اور برکت کی زندگی عطا کرے اور اس قرآنی بشارت کے ماتحت جو ہمارے رسول کو اور حضور کی وساطت سے حضورہ کی امت کو دی گئی.میری عاقبت اولی سے بہتر ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ (محررہ 4 جولائی 1955 ء ) روزنامه الفضل 10 جولائی 1955ء)

Page 315

مضامین بشیر جلد سوم 293 29 متروکہ مکانوں کے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب رہائشی مکانوں کے معاوضہ سے منع کرنے کی حکمت جیسا کہ الفضل میں بار بار اعلان کیا جا چکا ہے.حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعتی مفاد کے ماتحت قادیان کے متروکہ مکانوں کے معاوضہ کا مطالبہ کرنے سے منع فرمایا ہے اور ساتھ ہی حضور نے یہ تصریح فرما دی تھی کہ اس فیصلہ کا اثر دوسروں کی نسبت خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان پر زیادہ پڑتا ہے.لیکن چونکہ یہ ایک اصولی اور جماعتی سوال ہے اس لئے قطع نظر کسی کے فائدہ یا نقصان کے حضور نے دینی مفاد کے ماتحت یہ فیصلہ کرنا مناسب خیال کیا ہے.کہ قادیان کے رہائشی مکانوں کے معاوضہ کا مطالبہ نہ کیا جائے مگر یا تو الفضل سب لوگوں کو نہیں پہنچتا یا بعض لوگ اعلانوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.بعض دوست اب تک یہ سوال کئے جاتے ہیں کہ قادیان کے متروکہ مکانوں کے متعلق جماعت کا کیا فیصلہ ہے؟ سو آخری تشریح اور توضیح کے طور پر اعلان کیا جاتا ہے کہ اس بارے میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کا خلاصہ ذیل کے دو مختصر فقروں میں آجاتا ہے:.(1) اول یہ کہ قادیان کے جس حلقہ میں اس وقت درویش رہتے ہیں یعنی پرانی آبادی والے حصہ میں مسجد اقصیٰ سے لے کر بہشتی مقبرہ تک کا علاقہ اس میں تو ہر قسم کی جائیداد (مکانات دوکانات، کارخانہ جات وغیرہ) کے معاوضہ کا مطالبہ منع ہے.(2) دوسرے یہ کہ درویشوں والے حلقہ سے باہر قادیان کے دوسرے محلوں میں صرف رہائشی مکانوں کے بدل کا مطالبہ منع ہے.باقی ہر قسم کی جائیداد ( اراضی دوکانات ، کارخانہ جات) کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے.اس پر ایک دوست سوال کرتے ہیں کہ رہائشی مکانوں کے معاوضہ سے کیوں روکا گیا ہے.اور یہ کہ اس طرح تو جماعت کا کافی مالی نقصان ہو جائے گا اور ممکن ہے بعض اور تکلیف دہ نتائج بھی پیدا ہوں.سواس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ جماعتی تنظیم میں یہ سوال پیدا نہیں ہوا کرتا کہ کسی حکم کی حکمت کیا ہے.بلکہ رسول پاک کے ارشاد کے مطابق سمعاً وَ طَاعَةً کا اصول چلتا ہے.اور دوست یہ بھی جانتے ہیں کہ آج تک جماعت اپنے امام کی ہدایات پر عمل کر کے خدا کے فضل سے ہر قسم کی برکات سے حصہ پاتی رہی ہے.پس اگر کسی دوست کو اس ہدایت کی حکمت سمجھ میں نہ بھی آئے تو پھر بھی جماعتی تنظیم کا تقاضا ہے کہ امام کی ہدایت کو

Page 316

مضامین بشیر جلد سوم 294 شرح صدر سے قبول کیا جائے.لیکن اگر غور کیا جائے تو اس ہدایت کی حکمت بھی ظاہر ہے.وہ حکمت جیسا کہ میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ اپنے مقدس مرکز کے ساتھ جماعت کا اصل اور حقیقی رشتہ رہائشی مکانوں کا ہوا کرتا ہے.پس حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا کہ جماعت خود اپنے ہاتھ سے اس رشتہ کو کاٹ دے.اس لئے رہائشی مکانوں کے معاوضہ کے مطالبہ سے روک دیا گیا ہے.تا کہ جماعت کے مقدس مرکز کے ساتھ اس کے روحانی اتصال کی ظاہری علامت قائم رہے.باقی رہا دیگر جائیداد کا سوال یعنی اراضی اور دوکانات اور کارخانہ جات وغیرہ سو وہ روزی کمانے کا ایک دنیوی ذریعہ ہے.جس کا مرکز کے تقدس کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں.اس لئے اس کی اجازت دے دی گئی ہے تا کہ ایک طرف جماعت کے دلوں میں اپنے مرکز کے تقدس کا احساس قائم رہے.اور دوسری طرف جماعت کے دنیوی حقوق پر بھی اثر نہ پڑے.اور ان کے لئے روزی کمانے کے ذرائع کھلے رہیں.یہ توجیہ جو میں نے اپنی طرف سے بیان کی ہے.ایسی واضح اور عیاں ہے کہ کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا.بہر حال میں امید کرتا ہوں کہ اس اعلان کے بعد دوست اس معاملہ میں مزید سوالات کا سلسلہ بند کر کے اپنے امام کی ہدایت کو شرح صدر سے قبول کریں گے.کیونکہ ان کے لئے اسی میں برکت ہے.اگر اس فیصلہ میں جماعت کا کوئی ظاہری اور مادی نقصان ہے تو بعید نہیں کہ خدا جو ساری نعمتوں کا مبداً اور ساری دولتوں کا خزانہ ہے.اپنے فضل سے ان کے نقصان کی کمی کسی اور طرح پر پوری فرما دے.بشرطیکہ وہ نیک نیتی کے ساتھ امام کی ہدایت کو قبول کریں.وَ لَعَلَّ اللهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْ قَدِيرٌ (الطلاق:2) نوٹ : دیگر جائیداد کے مطالبہ کے طریق کے متعلق دوست میرا نوٹ شائع شدہ الفضل مورخہ 21 جون ملاحظہ فرمائیں.اور اگر کوئی مزید خط و کتابت کرنی ہو تو ناظر صاحب امور عامہ ربوہ کے ساتھ کریں.( محررہ 7 جولائی 1955 ء ) روزنامه الفضل 12 جولائی 1955ء)

Page 317

مضامین بشیر جلد سوم حج اور عید کے دن خاص دعاؤں کی تحریک 295 خدا کے فضل سے حج اور عید کے دن بہت قریب آرہے ہیں.ہمارے حساب کی رو سے اس سال حج کا دن بتاریخ 30 جولائی بروز ہفتہ اور عید کا دن بتاریخ 31 جولائی بروز اتوار ہے.اسلام میں یہ دونوں دن نہایت درجہ مبارک قرار دیئے گئے ہیں.کیونکہ وہ خاص روایات اور خاص عبادات کے ساتھ وابستہ ہیں.اور گو اللہ تعالیٰ ہر وقت ہی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور انہیں اپنی سنت اور وعدہ کے مطابق قبولیت کا شرف عطا کرتا ہے.مگر جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے خاص اوقات کو اس کی قبولیت کے ساتھ خاص تعلق ہوتا ہے.اور ایسے اوقات کی دعا یقیناً دوسرے اوقات کی نسبت زیادہ قبول ہوتی ہے.اسی اصول کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ایک دفعہ یہ الہام ہوا تھا کہ.چل رہی ہے نیم رحمت کی جو دعا کیجئے قبول ہے آج پس حج اور عیدالاضحیہ کے بابرکت ایام کے پیش نظر میں احباب جماعت سے پر زور تحریک کرتا ہوں کہ وہ ان دو مبارک دونوں کی مبارک گھڑیوں کو خاص دعاؤں میں گزار ہیں اور اپنی دعاؤں میں اسلام کی ترقی اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی درازی عمر کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں.اس وقت اسلام ایک خاص مرحلہ میں سے گزر رہا ہے اور گزشتہ چند صدیوں کے تنزل کے بعد اس کے ثانوی احیاء اور ترقی کے دوسرے دور کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں.یورپ اور امریکہ میں اسلام کے متعلق اپنی سابقہ غلط فہمیوں کو دور کرنے ، اسلام کی حقیقت کو سمجھنے اور اس کی اعلیٰ قدروں کو شناخت کرنے اور رسول پاک صلے اللہ علیہ وسلم کے بلند مقام کو پہچاننے کی طرف خاص توجہ اور خاص رجحان پیدا ہورہا ہے اور بقول حضرت مسیح موعود.آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار پس یہ وقت اسلام کی ترقی کے لئے دعاؤں کا خاص بلکہ خاص الخاص وقت ہے.جبکہ خدا کی تقدیر اور مومنوں کی دردمندانہ دعائیں مل کر خدا کے فضل سے عظیم الشان نتیجہ پیدا کرسکتی ہیں اور انشاء اللہ ضرور کریں گی اور اسلام دنیا بھر میں غالب ہو کر رہے گا.

Page 318

مضامین بشیر جلد سوم 296 اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے وجود کے ساتھ اسلام کی ترقی کے وعدے وابستہ فرمائے ہیں اور جس خارق عادت طریق پر اس وقت تک حضور کی خلافت کو اپنی برکتوں سے نوازا ہے.اس کا یہ تقاضا ہے بلکہ جماعت پر یہ ایک بہت بھاری حق ہے کہ وہ ان ایام میں حضور کی صحت اور درازی عمر کے لئے بھی خاص طور پر دعائیں کرے.تا کہ حضور کی بابرکت قیادت کا زمانہ لمبے سے لمبا ہو کر اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں کی سر بلندی کے وقت کو قریب سے قریب تر لے آئے.اور خدا ہماری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.( محررہ 24 جولائی 1955ء) روزنامه الفضل 26 جولائی 1955ء) احباب جماعت کے نام عید الاضحیہ کا پیغام اپنے اندر حقیقی قربانی کی روح پیدا کرو چونکہ میں آج کل اعصابی تکلیف کی وجہ سے جوان ایام میں شدت اختیار کر گئی ہے غالباً عید کی شرکت سے محروم رہوں گا.اس لئے ان چند سطور کے ذریعہ دوستوں کو عید مبارک کا پیغام پہنچاتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس عید کو اور اس کے بعد آنے والی عیدوں کو اسلام کے لئے اور احمدیت کے لئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے لئے اور تمام جماعت کے لئے ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ کرے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے اسلام میں تین عید میں مقرر کی گئی ہیں.جو سب کی سب اسلام کی خاص عبادتوں کے ساتھ وابستہ ہیں.پہلی عید جمعہ کی عید ہے.جو روزانہ نمازوں کی مخصوص عبادت کے نتیجہ میں ہر ہفتہ میں چکر لگاتی ہے اور مومنوں کے دلوں میں یہ یاد زندہ رکھتی ہے کہ خدا تعالے سے ذاتی تعلق پیدا کرنا اور اس کے ذکر سے اپنی روح اور اپنے دل و دماغ کو تر و تازہ رکھنا ان کا اولین فرض ہے.دوسری عید ،عید الفطر ہے جو روزوں کی مبارک عبادت کے بعد آتی ہے اور مسلمانوں کو ضبط نفس اور ہمدردی خلق اللہ کا عظیم الشان سبق دیتی ہے.اور تیسری عید ، عیدالاضحیہ ہے جو حج کی مخصوص عبادت کے ساتھ وابستہ ہے اور مسلمانوں میں

Page 319

مضامین بشیر جلد سوم 297 قربانی کی روح کو زندہ رکھنے کے لئے مقرر کی گئی ہے.یہ وہی عید ہے جو آج دنیا بھر کے مسلمان اپنی اپنی جگہ منا رہے ہیں.اس عید کی ابتدا ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اس قربانی سے ہوئی جو انہوں نے اولاً اپنے بیٹے حضرت اسمعیل کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کو تیار ہو جانے اور پھر اسے ایک وَادٍ غَيْرَ ذِي ذَرْعٍ میں بظاہر موت کے منہ ڈال دینے کی صورت میں پیش کی اور گویا خدا کے لئے اپنے نازک ترین جذبات اور اپنے نور چشم اور اپنی زندگی کے سہارے اور اپنی نسل کی بقا کے ذریعہ کو قربان گاہ پر چڑھا دیا اور اس کے بعد اس عید کی تحمیل فَدَيْنَاهُ بِذِبح عظیم کے الہی وعدہ کے مطابق ہمارے آقا سرور کائنات حضرت خاتم انبین عَظِيمٍ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں آکر اپنے معراج کو پہنچی.جب کہ آپ نے مجسم قربانی بن کر اپنے ہر قول اور ہر فعل اور اپنی زندگی کی ہر حرکت اور ہر سکون اور اپنی وفات تک کے ہر لمحہ کو خدا کے حضور دائی قربانی میں پیش کر دیا.یہی وہ عدیم المثال مقام ہے جس کے پیش نظر اللہ تعالے آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ قل إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: 164 ) یعنی اے رسول! تو دنیا سے کہہ دے کہ میری ہر قولی عبادت اور میری ہر فعلی عبادت اور میری زندگی کی ہر گھڑی بلکہ میری موت تک کی ہر ساعت خداوند عالم کی خدمت کے لئے وقف ہے.اس طرح جہاں حضرت ابراہیم نے اپنے اس بیٹے کی قربانی پیش کی تھی.جو رسول اللہ کا باپ بننے والا تھا.وہاں خود رسول پاک صل اللہ علیہ وسلم نے اس قربانی کو معراج تک پہنچا کر اپنی جان اور اپنے جسم و روح کی ہر طاقت خدا کے قدموں میں ڈال دی.عید الاضحیہ کی مادی قربانیاں انہی دو عظیم الشان روحانی قربانیوں کی یاد میں مقرر کی گئی ہیں تا مسلمانوں کے دلوں میں اس سبق کو بار بار دہرا کر راسخ کیا جائے کہ جس قوم وملت کا آغاز ان بھاری قربانیوں سے ہوا ہے انہیں اپنی قومی بقا اور قومی ترقی کے لئے کسی زمانہ میں بھی مسلسل اور غیر معمولی قربانیوں کی طرف سے غافل نہیں رہنا چاہئے.اسی لطیف نکتہ کی طرف توجہ دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے شروع میں سچے مومنوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُون یعنی خدا کی نظر میں حقیقی متقی صرف وہ لوگ ہیں جو ہر اس نعمت اور ہر اس طاقت میں سے جو ہم نے انہیں مادی یا روحانی رزق کے طور پر عطا کی ہے خدا کے راستہ میں بے دریغ خرچ کرتے رہتے ہیں.وہ اپنا مال بھی خدا کے رستہ میں خرچ کرتے ہیں.کیونکہ ان کا مال خدا کا دیا ہوا رزق ہے.وہ اپنا وقت بھی خدا کے راستے میں خرچ کرتے ہیں کیونکہ ان کی زندگی کی ہر گھڑی خدا کا

Page 320

مضامین بشیر جلد سوم 298 رزق ہے.وہ اپنا علم بھی خدا کے رستہ میں خرچ کرتے ہیں کیونکہ ان کا علم خدا کا دیا ہوا رزق ہے.وہ اپنے جسم و روح اور دل و دماغ کی طاقتیں بھی خدا کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں کیونکہ انسانی جسم و روح کی ہر طاقت خدا کا رزق ہے اور پھر وہ اپنی اولاد کو بھی اچھی تربیت کے ذریعہ نیکی کے راستہ پر ڈال دیتے ہیں.کیونکہ اولاد بھی خدا کا دیا ہوا رزق ہے اور اس طرح قربانی کا ایک دائمی اور لامتناہی سلسلہ قائم ہو جاتا ہے.اب ان آیات کے پیش نظر ہر احمدی کہلانے والے کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کا جائزہ لے کر غور کرے کہ کیا وہ قرآنی حکم کے مطابق امت محمدیہ کا فرد ہونے کے لحاظ سے ایسی قربانی پیش کر رہا ہے.جس کا اس سے مطالبہ کیا گیا ہے؟ چندہ دینے والے احمدی تو بے شک بہت ہوں گے.گو اس میدان میں بھی سستی کرنے والوں کی کمی نہیں.مگر کیا ہر احمدی اپنے نفس کا محاسبہ کر کے یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کا ہر قول اور ہر فعل، اس کی زندگی کی ہر ساعت خدا کے لئے ہے؟ یا کم از کم یہ کہ اس کی زندگی کے ہر شعبہ میں اور اس کے مادی اور روحانی رزق کے ہر میدان میں خدا کا حصہ ہے؟ بے شک اسلام جائز طور پر دنیا کمانے اور دنیا میں ترقی حاصل کرنے اور دنیوی امور میں حصہ لینے سے نہیں روکتا.بلکہ نیک نیتی کے ساتھ اصلاح اور قومی ترقی کی غرض سے ان کاموں میں حصہ لینے کو بھی موجب ثواب گردانتا ہے لیکن کیا ہر احمدی کا دل اس محاسبہ پر تسلی پاتا ہے کہ وہ خدائی منشاء کے مطاق اپنے مال کا واجبی حصہ دین کے لئے خرچ کر رہا ہے؟ کیا وہ اپنے وقت کا مناسب حصہ دین کی خدمت میں لگا رہا ہے؟ کیا وہ اپنے خدا داد علم کو خدا کے رستہ میں خرچ کر رہا ہے؟ کیا وہ اپنے دل و دماغ کی طاقتوں میں سے خدا کا حصہ نکال رہا ہے.اور کیا اس نے اپنی اولاد کو بھی اچھی تربیت کے ذریعہ ایسے رستہ پر ڈال دیا ہے کہ اس کی نسل دائگی قربانی کی وارث بن جائے ؟ اگر یہ نہیں تو ہمارا امتِ رسول میں ہونے کا دعوی سچا نہیں سمجھا جا سکتا.بلکہ اس صورت میں ہمیں حقیقی رنگ میں عید منانے کا بھی حق نہیں.پس آؤ ہم آج کے مبارک دن جو ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جد امجد کی مقدس قربانیوں کی یادگار ہے.خدا سے عہد کریں کہ جس طرح ہم آج ظاہری عید منانے کے لئے جانوروں کی قربانی دے رہے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر ہم قربانی کی حقیقی روح کو بھی اپنے دلوں میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے.ہم اپنے مال اور اپنے وقت اور اپنے علم اور اپنے دل ودماغ کی ہر طاقت میں سے خدا کا حصہ نکالیں گے اور ہر دینی اور قومی امتحان کے وقت ہماری روح ایسے ہوش اور ولولہ کے ساتھ لبیک لبیک کہتی ہوئی اٹھے گی.جو ہمارے آقا سرور کائنات کی مقدس روح کو خوش کرنے والا اور خدا کے حضور ہماری سرخروئی کا موجب

Page 321

مضامین بشیر جلد سوم 299 ہو.اے خدا! تو ایسا ہی کر اے خدا! تو ہمیں اس پاک جماعت میں شامل فرما جس نے اپنی عدیم المثال قربانیوں کی وجہ سے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ کا انعام پایا.آمین اللهم آمین بالآخر میں دوستوں کو اپنی وہ اپیل پھر یاد دلاتا ہوں جو حال ہی میں میں نے اسلام کی ترقی اور اس زمانہ میں اسلام کے عالی مرتبت علمبر دار حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت اور درازی عمر کی دعاؤں کے متعلق ہے.اس وقت اسلام ایک خاص دور میں سے گزر رہا ہے اور خدائی فرشتوں کی مخفی فوج مادی دنیا کے پرستاروں کو کھینچ کھینچ کر اسلام کی پاکیزہ روحانی فضا کی طرف لا رہی ہے اور زمین و آسمان میں ایک بھاری تغیر کے آثار پیدا ہور ہے ہیں.ایسے وقت میں ہماری دعا ئیں گویا مفت کے اجر کا پیش خیمہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ.ے ہمفت ایں اجر نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان ست ایں بہر حالت شود پیدا ( محررہ 30 جولائی 1955 ء) روزنامہ الفضل 31 جولائی 1955ء) ایک تعزیتی مکتوب حضرت میاں صاحب محترم نے لاہور سے حضرت اماں جی رضی اللہ عنہ کی وفات پر مندرجہ ذیل مکتوب تحریر فرمایا:.عزیزم مکرم مولوی عبد المنان صاحب عمر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ابھی ابھی یہ اطلاع ملی ہے کہ حضرت اماں جی کا انتقال ہو گیا ہے.اس خبر سے بے انتہا صدمہ ہوا انا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - پرانے بزرگ آہستہ آہستہ گزرتے جاتے ہیں.میرے دل میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی بے حد عزت اور بے حد احترام ہے اور اس وجہ سے حضرت اماں جی سے بھی مجھے بہت محبت اور ان کا خاص احترام تھا اور پھر جس باپ کی وہ بیٹی تھیں.اس کی وجہ سے بھی خاص اثر تھا.اللہ تعالیٰ ان کر غریق رحمت کرے اور آپ سب کا حافظ و ناصر ہو.

Page 322

مضامین بشیر جلد سوم 300 عزیزان مظفر و قیوم ربوہ جا رہے ہیں.میری بھی خواہش تھی کہ میں اس موقع پر جاتا مگر اعصاب کی موجودہ حالت ایسی ہے کہ میں اس صدمہ کو برداشت نہیں کر سکتا.میری طرف سے سب عزیزوں کو ہمدردی کا پیغام پہنچا دیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے آخری ایام میں خاص خدمت کا موقع دیا ہے.( محرره 7 اگست 1955 ء ) روزنامه الفضل 9 اگست 1955ء) حضرت اماں جی کی اندوہناک وفات ابھی ابھی ربوہ سے حضرت اماں جی صاحبہ (اہل خانہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع پہنچی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَام - حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی جو غیر معمولی قدر ومنزلت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظروں میں تھی وہ سب جماعت پر ظاہر وعیاں ہے اور پھر حضرت اماں جی مرحومہ حضرت خلیفہ اول کی حرم محترم ہی نہیں تھی بلکہ ایک عالی مرتبہ بزرگ حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم لدھیانوی کی صاحبزادی بھی تھیں.یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے دعوی سے قبل حضور کے عالی شان مقام کو پہچان کر ایک شعر میں حضرت مسیح موعود کولکھا تھا کہ تمہیں پہ نظر ہم مریضوں کی ہے تم مسیحا بنو خدا کے لئے مگر افسوس کہ وہ حضرت مسیح موعود کے دعوئی اور سلسلہ بیعت سے پہلے ہی فوت ہو گئے.انہوں نے اپنے پیچھے حضرت پیر منظور محمد صاحب مرحوم اور حضرت پیر افتخار احمد صاحب مرحوم جیسی نیک اور بزرگ اولاد چھوڑی.جواب ربوہ میں حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا کے مزار کے قریب دفن ہیں.حضرت اماں جی جن کی اب وفات ہوئی ہے انہی دو بزرگوں کی چھوٹی ہمشیرہ تھیں.مگر حضرت اماں جی کی قدر و منزلت کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ وہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے اخلاق اور روحانی مقام کے بعض پہلو ایسے دلکش ہیں کہ

Page 323

مضامین بشیر جلد سوم 301 ان کے تصور سے ہی انسان کے جسم و روح میں ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور قرآن مجید کے ساتھ آپ کا غیر معمولی مقام عشق اور خدا کی ذات واحد پر غیر معمولی تو کل اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کا عدیم المثال جذ بہ وہ بلندشان رکھتا ہے جس کے تصور سے میں نے بے شمار دفعہ خاص روحانی سرور حاصل کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی صاحب کو غیر معمولی محبت اور قدر سے دیکھتے تھے.چنانچہ ان کے متعلق حضور کا یہ شعر جماعت میں شائع و متعارف ہے کہ:.چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے اور ایک دوسرے موقع پر حضور نے ان کے متعلق لکھا.جس کے الفاظ غالباً کچھ اس طرح ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کا قدم میری اطاعت میں اس طرح چلتا ہے جس طرح دل کی حرکت کے ساتھ نبض چلتی ہے.یہ ایک بہت بڑا مقام ہے اور ایسے عظیم المرتبت انسان کی رفیقہ حیات کی وفات حقیقتا ایک قومی صدمہ ہے.اللہ تعالیٰ حضرت اماں جی کو جن کا نام صغری بیگم تھا غریق رحمت کرے اور اگلے جہان میں راحت اور سکون اور برکت اور فضل و رحمت کی زندگی نصیب کرے اور ان کی اولا د عزیزم مکرم مولوی عبدالسلام صاحب عمر اور عزیزم مولوی عبدالوہاب صاحب عمر اور عزیزم مولوی عبد المنان صاحب عمر اور حضرت اماں جی کی مرحومہ بیٹی حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی حرم محترم سیدہ امتہ الحی بیگم مرحومہ کی اولاد کو صبر جمیل عطا کرے.ان کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو اور ان کو اپنے فضل و رحمت سے حسناتِ دارین سے ورح نوازے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محرره 7 اگست 1955ء) روزنامه الفضل 10 اگست 1955ء) حضرت اماں جی مرحومہ کے متعلق ہماری ہمشیرہ کے تاثرات یاد رفتگان کا ایک روح پرور منظر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کی وفات پر میرا ایک نوٹ الفضل میں شائع ہو چکا ہے.

Page 324

مضامین بشیر جلد سوم 302 میں نے اس اندوہناک اطلاع کے ملتے ہی عزیزہ مکرمہ ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ ( بیگم نواب محمد علی خان صاحب مرحوم ) حال مقیم کو ہاٹ کو خط کے ذریعہ اطلاع بھجوا دی تھی.تا وہ بھی اس موقع پر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے صاحبزادگان کو ہمدردی کا خط لکھ کر اپنے قلبی جذبات کا اظہار کر سکیں.میری اس اطلاع کے جواب میں ہمشیرہ کا جو خط میرے پاس آیا ہے.اسے میں بھائیوں اور بہنوں کی اطلاع کے لئے درج ذیل کرتا ہوں.تا اس ذریعہ سے احباب کے دل میں محبت اور قدر دانی کے جذبات ابھر سکیں اور وہ مرنے والی روحوں کو اپنی دعاؤں کے ذریعہ ثواب پہنچا سکیں.ہماری ہمشیرہ کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے بہت محبت کرنے والا وفادار دل دیا ہے اور انہیں پرانی باتیں بھی بہت یاد ہیں.گوحق تو یہ ہے کہ ماضی زمانہ کی دلکش یاد اگر ایک بھی ہو تو دل کو گرمانے اور روح میں خاص کیفیت پیدا کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے.بہر حال ہمشیرہ کے خط کی نقل معمولی لفظی تبدیلی کے ساتھ درج ذیل کی جاتی ہے.السلام علیکم.آپ کا خط ملا.میاں عزیز احمد صاحب کی تار سے اماں جی کی وفات کی اطلاع مل گئی تھی.ہم سب نے یہاں سے ہمدردی کے تار بھی دے دیئے اور سب صاحبزادوں کے نام ہمدردی کا اکٹھا خط بھی لکھ دیا تھا.دل پر اس صدمہ کا گہرا اثر ہوا ہے.کل سے طبیعت بار بار خراب ہو رہی ہے.بچپن کے سارے زمانے اور ان بزرگوں کے قدیم حالات کے نقشے آنکھوں میں پھر رہے ہیں.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ہر روز صبح حضرت خلیفہ اول کا حال اور خیریت بتانے کا خاص حکم تھا اور حضرت مسیح موعود ہر روز پوچھتے تھے کہ مولوی صاحب کو ناشتہ ٹھیک ملا تھا یا نہیں ؟ صغری ( یعنی اماں جی ) نے کسی بات میں ستایا تو نہیں؟ گھر میں کوئی شکایت تو پیدا نہیں ہوئی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت خلیفہ اول سے بہت محبت تھی اور ان کے آرام کا خاص خیال رہتا تھا اور اس بات کا حضرت خلیفہ اول اور اماں جی دونوں کو علم تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں اور میں بتاتی ہوں.اسی بناء پر حضرت خلیفہ اول بھی گوی با قاعدہ رپورٹ دیا کرتے تھے اور کبھی کبھی محبت اور بے تکلفی کے رنگ میں کچھ شکایت بھی کر دیتے تھے.مگر یہ خدا کی بندی (حضرت اماں جی ) ذرہ بھر بُرا نہ مانتیں.بلکہ بعض اوقات خود کہہ دیا کرتیں کہ آج مجھ سے فلاں غلطی ہوگئی ہے.کبھی ایک دفعہ بھی میری طرف سے اس ڈیوٹی کے ادا کرنے پر بُری آنکھ یا غصہ کی نظر سے نہیں دیکھا.اسی طرح آگے پیچھے بھی بے حد محبت سے پیش آتی تھیں.

Page 325

مضامین بشیر جلد سوم 303 اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے.حضرت اماں جان کا اماں جی سے ہنسنا بولنا چھیڑ نا بہت یاد آتا ہے اور میری آنکھوں کے سامنے گویا ایک تصور بندھ جاتا ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت اماں جان نے اپنی قلبی کیفیت کا ان مختصر الفاظ میں ذکر کیا کہ دل کو چین نہیں آتا.زندگی کا مزہ نہیں رہا اور اس وقت حضرت اماں جان نے ایک شعر بھی پڑھا.جس سے مراد یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ پہلا صدمہ ہے اور معلوم نہیں آگے چل کر کیا کیا حالات اور کیا کیا صدمات پیش آتے ہیں.الغرض تسبیح کا ایک ایک دانہ گر رہا ہے اور سب پرانی یادگار میں رخصت ہورہی ہیں.انسان ایک عمر تک ہی نیا ماحول پیدا کر سکتا ہے.اس کی اصل دلچسپیاں اوائل عمر کے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ ہی وابستہ ہوتی ہیں.اخلاقاً ملنے کو ہم سب سے ملتے ہیں مگر اپنا خاص حلقہ جوں جوں کم ہوتا جاتا ہے زندگی کے لطف میں کمی آتی جاتی ہے.نئی نسلوں کے اپنے ماحول اور اپنی دلچسپیاں ہیں.مگر ہم جب دیکھتے ہیں کہ پرانی زنجیر کی کڑیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی جارہی ہیں تو دل بہت اداس ہونے لگتا ہے.آپ کی صحت کے لئے برابر دعا کرتی ہوں.خدا حافظ و ناصر ہو.والسلام مبارکہ ہمشیرہ کے اس مختصر خط نے میرے دل میں بعض پرانی یادوں کی تاروں کو اس طرح جنبش دی ہے کہ گویا دل و دماغ پر ایک زلزلہ وارد کر دیا ہے.اللہ تعالی گزرنے والوں کی روحوں پر اپنی رحمت کا چھینٹادے اور ہمیں تمام نیک لوگوں کے نیک اوصاف کا وارث بننے اور خدا کی محبت اور دین کی خدمت میں اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا کرے اور انجام بخیر ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ (محررہ 10 اگست 1955ء) روزنامه الفضل 18 اگست 1955ء) بعض بیمار دوستوں کے لئے دعا کی تحریک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے درج بالا عنوان کے ماتحت بعض دوستوں کے لئے دعا کی تحریک فرمائی.اس کے آغاز پر نصیحت یہ فقرات درج فرمائے.

Page 326

مضامین بشیر جلد سوم 304 اس وقت جماعت کے بہت سے مخلصین بہت بیمار ہیں اور بعض کی حالت تشویشناک ہے.چونکہ مومن ایک دوسرے کے لئے سہارا ہوتے ہیں اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومنوں کی مثال انسانی جسم کی طرح ہے.اگر انسان کا کوئی عضو بیمار ہو تو سارا جسم دکھ میں مبتلا ہو جاتا ہے.لہذا میں ذیل کے مخلصین کے لئے احباب جماعت کی خدمت میں خاص تحریک کرتا ہوں کہ وہ ان کی شفایابی کے لئے خصوصیت سے دعا کریں.( محررہ 15 اگست 1955ء) (روز نامہ الفضل 18 اگست 1955ء) 36 کچھ اپنی صحت کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا ایک مبشر رویا محترمی ناظر صاحب دعوة وتبلیغ ربوہ نے الفضل میں دعا کی تحریک کے لئے میری صحت کی رپورٹ مانگی ہے.میں اس مہربانی کی وجہ سے ان کا ممنون ہوں.جَزَاهُ اللهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ.گو میں نے عموماً اپنے واسطے کبھی علیحدہ تحریک کی خواہش نہیں کی.کیونکہ ایک تو میں جانتا ہوں کہ جماعت کے مخلصین حضرت مسیح موعودؓ کے خاندان کے لئے دعا کرتے ہی ہیں.دوسرے موجودہ حالات میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ بنصرہ العزیز اور جماعت کے لئے دعا میں دراصل ہم سب شامل ہو جاتے ہیں.لیکن چونکہ محترم ناظر صاحب نے اصرار کیا ہے.اس لئے یہ چند سطور لکھ رہا ہوں.گزشتہ سال دل کی بیماری کے شدید دورے کے بعد مجھے خدا کے فضل سے ماہ اکتوبر میں کافی آرام آ گیا تھا.چنانچہ گزشتہ سردیوں میں کچھ کام کی بھی توفیق ملتی رہی.لیکن اس کے بعد گرمیوں کے آغاز پر پھر طبیعت خراب رہنے لگی اور بلڈ پریشر بڑھ گیا اور کمزوری بھی زیادہ ہوگئی.چنانچہ اس عید الفطر کے بعد مجھے پھر علاج کے لئے لاہور آنا پڑا.یہاں آکر مجھے تین چار ہفتوں کے علاج کے بعد خدا کے فضل سے بلڈ پریشر اور نبض کی تیزی میں تو خاطر خواہ افاقہ ہو گیا مگر کمزوری کے لحاظ سے زیادہ فرق نہیں پڑا اور ایک مزید تکلیف یہ پیدا ہوگئی کہ سخت اعصابی تکلیف شروع ہوگئی اور رات اور دن کے اکثر حصوں میں شدید قسم کی گھبراہٹ اور بے چینی رہنے لگی.جس کی وجہ سے بعض اوقات لیٹنا اور بیٹھنا تک مشکل ہو جا تا تھا اور اکثر وقت ٹہل ٹہل کر

Page 327

مضامین بشیر جلد سوم 305 کرب کی حالت میں گزارتا تھا.مگر اب چند دن سے حضرت خلیفہ اصیح ایدہ اللہ اور احباب جماعت کی دعاؤں سے اس تکلیف میں بھی خدا کے فضل سے کافی افاقہ ہے.گواب بھی کوئی فکر یا غم کی خبر سننے یا زیادہ ملاقات کرنے یا تھکان یا معدہ کی خرابی کی وجہ سے گھبراہٹ پیدا ہونے لگتی ہے.لیکن گزشتہ حالت کی نسبت خدا کے فضل سے قریباً پچاس فیصدی افاقہ ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ اس بیماری میں حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اپنی علالت کے باوجود میری صحت کے متعلق فکر رہا ہے.چنانچہ دعا کے علاوہ حضور بعض ادویہ بھی تجویز فرماتے رہے ہیں.فَجَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة.چند دن ہوئے جب میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں اپنی تکلیف میں افاقہ ہونے کے متعلق اطلاع دی.تو حضور نے اپنے مکتوب محررہ 16 اگست میں تحریر فرمایا کہ." آپ کا خط ملا.الحمد للہ کہ آپ کی طبیعت پہلے کی نسبت بہتر ہے.تین دن ہوئے سیر کر کے آیا.چیمہ صاحب مجھے دبا رہے تھے.تو میں نے جاگتے ہوئے نظارہ دیکھا کہ آپ سامنے ٹہل رہے ہیں اور ہشاش بشاش ہیں اور سوٹی کا ہینڈل پکڑ کر پیچھے کی طرف لٹکایا ہوا ہے.دوسرے دن ہی خط ملا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کی طبیعت پہلے سے بہتر ہے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی یہ رویا سنادی گئی تھی.اس کشف میں ہشاش بشاش دیکھنے کی تعبیر تو ظاہر ہی ہے کہ اس سے صحت اور راحت مراد ہے.لیکن یہ جو رویا میں سوئی کا ہینڈل عقب یعنی پشت کی طرف دیکھا گیا اس سے میرے خیال میں یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ خدا کے فضل و کرم سے اور رسول پاک کے قدموں کی طفیل اس خاکسار کی عاقبت میری اولیٰ سے بہتر ہو گی اور یہ وہی آرزو ہے جس کے لئے میں اپنے احباب سے کئی دفعہ دعا کی تحریک کر چکا ہوں.سواللہ تعالیٰ کے فضل سے بعید نہیں کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی رڈیا کے مطابق اس خاکسار کا انجام بخیر ہو اور بقیہ زندگی گزشتہ زندگی سے زیادہ خادمانہ رنگ میں اور زیادہ با برکت طریق پر گزرے.وَ ذَالِكَ ظَنِّى بِاللَّهِ وَ أَرْجُوا مِنَ اللَّهِ خَيْراً اس وقت میری اہلیہ ام مظفراحمد بھی ہائی بلڈ پریشر اور گھبراہٹ اور کرب کی تکلیف میں مبتلا ہیں.ان کے لئے بھی دعا فرمائی جائے اور سب سے مقدم تو حضرت خلیفہ اُسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور درازی عمر کی دعا ہے.جن کی زندگی کے ساتھ اسلام کی ترقی کے بہت سے شاندار وعدے وابستہ ہیں.محرره 21 اگست 1955ء) (روز نامه الفضل 25 اگست 1955ء)

Page 328

مضامین بشیر جلد سوم 306 محترم حکیم فضل الرحمن صاحب کی وفات پر تعزیتی پیغام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب کی وفات پر ان کے صاحبزادے مکرم عبدالوہاب کو تعزیتی خط تحریر فرمایا.جس میں نصیحت تحریر فرمایا.خدا تعالیٰ کی تقدیر تو پوری ہو چکی.اب یہ کام ہے کہ صبر ورضا سے کام لیں خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اگر آپ اس کے دامن کے ساتھ لیٹے رہے تو وہ یقینا آپ کو ضائع نہیں کرے گا.محرره 28 اگست 1955ء).........روزنامه الفضل 31 اگست 1955ء) آسان صاحب دہلوی کی وفات پر ایک مختصر نوٹ اور بعض بیمار دوستوں کیلئے دعا کی تحریک آج کے الفضل سے ماسٹر حسن محمد صاحب آسان دہلوی کی وفات کا علم ہوا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - آسان صاحب مرحوم کو میں ایک عرصہ سے جانتا تھا.نہایت مخلص اور زندہ دل بزرگ تھے.اور مجلس میں گفتگو کا خاص بکش انداز رکھتے تھے.جس کی وجہ سے ان کی حاضر جوابی کے سامنے اکثر ذو علم اصحاب کو بھی لا جواب ہونا پڑتا تھا.شگفتہ مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت نیک اور سلسلہ احمدیہ کے لئے خاص اخلاص اور قربانی کا جذبہ رکھتے تھے.ان کے بہت سے بچے اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے وقف ہیں.جو انشاء اللہ ان کے لئے قیامت کے دن ایک تاج بن کر زینت کا موجب ہوں گے.اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کی اولاد کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین.آسان صاحب مرحوم ہمارے خاندان کے بہت سے بچوں کے استاد تھے.جن میں میری چھوٹی لڑکی امتہ اللطیف سلمہا بھی شامل تھی..کچھ عرصہ ہوا میں نے چند بیمار دوستوں کے لئے دعا کی تحریک کی تھی.ایسے اصحاب کے لئے دعا کرنا ایک قومی فریضہ ہی نہیں.بلکہ خود دعا کرنے والے کے لئے بھی برکت کا موجب ہے.میں نے اور دوستوں کی وفات کے ذکر کے ساتھ ان دوستوں کے لئے دعا کی تحریک کو اس لئے شامل

Page 329

مضامین بشیر جلد سوم 307 کر دیا ہے.کہ بسا اوقات ایک دوست کی جدائی بیمار دوستوں کے لئے خاص دعا کی محرک بن جاتی ہے.( محررہ 27 اگست 1955ء).......( روزنامه الفضل 3 ستمبر 1955ء) مولوی عبد المغنی خان صاحب مرحوم گزشتہ ایام میں پرانے بزرگوں اور دوستوں کی اس طرح اوپر تلے وفات ہوئی ہے کہ زندگی میں گویا زلزلہ وارد ہو گیا ہے.سب سے پہلے حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور طبعا اس کا انتہائی صدمہ ہوا.اس کے بعد ماسٹر آسان صاحب دہلوی اور حکیم فضل الرحمن صاحب اور مولوی عبد المغنی خان صاحب چل بسے.دراصل ملکی تقسیم اور ہجرت کے بعد پرانے بزرگوں کی اس طرح جلد جلد وفات ہوئی ہے کہ ہم اپنی پریشان حالی سے ان کا ذکر خیر بھی پوری طرح نہیں کر سکے.ملکی تقسیم کے بعد حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا کی رحلت کے علاوہ صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس.حضرت مولوی شیر علی صاحب.منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوئی.حافظ محمد ابراہیم صاحب.مولوی عبدالرحیم صاحب غیر.پیر منظور محمد صاحب.پیر افتخار احمد صاحب.میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی.ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری سابق مہر سنگھ اور مولوی ذوالفقار علی خان صاحب اور بعض دوسرے دوست اور عزیز اس طرح اگلے جہان کی طرف منتقل ہوئے ہیں کہ جیسے گویا آسمان کے ستارے ٹوٹتے ہیں.میں اس وقت چند الفاظ مولوی عبد المغنی خان صاحب مرحوم کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.مولوی صاحب مرحوم غالباً حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں 1912ء میں اپنے وطن قائم گنج ضلع فرخ آباد یوپی سے قادیان ہجرت کر کے آئے تھے اور پھر ملکی تقسیم کے بعد تک مسلسل خدمت سلسلہ میں مصروف رہے.نہایت مخلص اور صابر اور شاکر بزرگ تھے.نمازوں کے انتہا درجہ پابند اور نماز با جماعت کے دلی شائق تھے.صاحب کشف ورڈ یا بھی تھے مگر اس کا ذکر کم کرتے تھے.حضرت خلیفۃ امسیح الثانی ایده اللہ بنصرہ العزیز کے ساتھ نہایت درجہ اخلاص رکھتے تھے.اور سلسلہ کی ہر چھوٹی بڑی خدمت کو بڑی توجہ اور سرگرمی سے ادا کرتے تھے.ملکی تقسیم کے بعد انہیں اوپر تلے اپنے دو جوان بچوں (ایک لڑکی اور ایک لڑکے ) کی وفات کا صدمہ پہنچا.مگر اس بندہ خدا نے اس صدمہ پر اتنے صبر سے کام لیا جو اسی کا حصہ تھا.ان کے

Page 330

مضامین بشیر جلد سوم 308 جوان سالہ لڑکے کی وفات ان ایام میں ہوئی جب حضرت صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا.وہ اس کا جنازہ لاہور سے ربوہ لا رہے تھے کہ ایک عزیز نے جسے اس کی وفات کا علم نہیں تھا.ان سے بچہ کی خیریت پوچھی.مولوی صاحب نے جواب میں کہا پہلے حضرت صاحب کی خیریت بتاؤ اور جب یہ معلوم ہوا کہ حضور خیریت سے ہیں تو بلند آواز سے الحمد للہ کہا اور اس کے بعد پوچھنے والے کو بتایا کہ بچہ کا جنازہ لا رہا ہوں.مولوی صاحب مرحوم شروع میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ٹیچر رہے اور کچھ عرصہ بعد جب نظارتیں بنیں تو حضرت صاحب نے انہیں ناظر بیت المال مقرر فرما دیا.جس کام کو انہوں نے بڑی سرگرمی اور توجہ کے ساتھ نبھایا اور اس کے بعد کئی سال تک ناظر دعوۃ و تبلیغ بھی رہے اور انجمن کی طرف سے ریٹائر ہونے پر کچھ عرصہ تحریک جدید میں بھی کام کیا.طبیعت بہت نرم پائی تھی اور کسی کی دکھ کی داستان سن کر فوراً دل پسیج جاتا تھا اور ایسے موقعوں پر بعض اوقات اتنی نرمی کر بیٹھتے تھے جو ظم و ضبط کے لحاظ سے درست نہیں سمجھی جاتی تھی.مگر یہ کمزوری بھی ان کی شرافت اور رحم دلی کا نتیجہ تھی.مزاج میں تصوف کا رنگ تھا اور اردو اور فارسی ادب کے ساتھ بھی اچھا شغف تھا اور اردو کے بہت سے شعراء کا کلام یاد تھا.مزاج میں بہت سادگی تھی اور دوست نواز بھی تھے.میں جب بھی ان کے مکان پر جاتا.تو بڑی محبت سے مہمان نوازی کا حق ادا کرتے.الغرض خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں.حیدر آباد دکن کے نواب اکبر یار جنگ صاحب، مولوی صاحب مرحوم کے قریبی عزیزوں میں سے ہیں.مولوی صاحب نے اپنے پیچھے ایک لڑکا عزیز عبدالمنان خان اپنی یادگار چھوڑا ہے.یا ان کی مرحومہ لڑکی کی ایک خوردسالہ بچی ہے.اللہ تعالیٰ مولوی صاحب کو غریق رحمت کرے اور ان کی اہلیہ اور بچے اور نواسی کا حافظ و ناصر ہو.ان دوستوں کی وفات میں ایک خاص صدمہ کا پہلو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور خلافت ثانیہ کے ابتدائی زمانہ میں کام کرنے والے دوست آہستہ آہستہ گزرتے جاتے ہیں اور ہم لوگوں کو جنہوں نے ابتدائی زمانہ یا اس سے ملتا جلتا زمانہ دیکھا ہے.یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہماری مخصوص مجلس خالی ہوتی جا رہی ہے.بے شک نوجوان کارکنوں میں بھی کئی بہت مخلص اور فدائی کارکن ہیں مگر ہر زمانہ کا اپنا اپنا ماحول ہوتا ہے اور دوسرے ماحول میں انسان وہ روحانی لذت اور سرور نہیں پاتا جو اپنے خاص ماحول میں پاتا ہے.مگر اس موضوع پر زیادہ لکھنا گویا ایک دکھتی رگ کو چھیڑنا ہے.اللہ تعالیٰ گزرنے والوں پر فضل و رحمت کی بارش برسائے اور نوجوان کارکنوں کو ان کا سچا وارث بنائے.آمین.تا

Page 331

مضامین بشیر جلد سوم نئے کارکن کسی دن حسرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور نہ ہوں کہ.یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا 309 ہم محو نالہ جرس کارواں رہے (195512) روزنامه الفضل 16 ستمبر 1955ء) اے آمدنت باعث آبادی ما دیر آمده از ره دور آمده خدائی نشانوں کا غیر معمولی اجتماع جیسا کہ احباب جماعت کو معلوم ہے حضرتخلیفہ مسیح اثنی ایدہ اللہ تعالی اپنے طویل غیرملکی سفر کے بعد پاکستان واپس تشریف لے آئے ہیں.یہ سفر گو بظاہر حالات علاج کی غرض سے تھا مگر جیسا کہ بعد کے حالات نے ظاہر کیا ہے اس سفر میں در حقیقت ایک خاص الہی تقدیر جو اعلائے کلمۃ اللہ سے تعلق رکھتی ہے کام کر رہی تھی اور بہت کی پیشگوئیوں کا ظہور مقد رتھا.پس جہاں اس وقت ہر مخلص احمدی کا دل اس بات پر غیر معمولی خوشی محسوس کر رہا ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہو کر واپس تشریف لائے ہیں.وہاں جماعت کے قلوب اس روحانی مسرت سے بھی معمور اور سرشار ہیں کہ حضور کے اس سفر میں بہت سی پیشگوئیوں نے پورا ہو کر اللہ تعالیٰ کی ہستی اور حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ کی صداقت اور آپ کے ارفع مقام کا عظیم الشان ثبوت پیش کیا ہے.سب سے پہلی پیشگوئی ہمارے آقا سید الاولین والآخرین حضرت خاتم النبین صلے اللہ علیہ وسلم کی ہے جہاں آپ مسیح کے نزولِ ثانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ.فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَالِكَ إِذْ بَعْتَ اللهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةَ الْبَيْضَاءَ شَرْقِی دَمِشُقَ بَيْنَ مَهْزُودَتَيْن ( صحیح مسلم کتاب الفتن ) یعنی دجالی طاقتیں اسی زور شور کی حالت میں ہوں گی (جس کا ذکر اس حدیث کے شروع میں ہے) کہ اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا جو دمشق کے مشرق کی طرف ایک سفید منارہ کے پاس دو زرد

Page 332

مضامین بشیر جلد سوم 310 چادروں میں لپٹا ہوا نازل ہوگا.(اس کے آگے مسیح کے ہاتھ سے دجال کے قتل کا ذکر آتا ہے ) اس حدیث کا یہ لطیف پہلو یا درکھنا چاہئے کہ اس میں پہلے مسیح کی بعثت کا ذکر آتا ہے اور اس کے بعد نزول کا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں.قَدْ أُشِيرَ فِي بَعْضِ الْأَحَادِيثِ أَنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ وَالدَّجَّالَ الْمَعْهُودَ يَظْهَرَانِ فِي بَعْضِ الْبِلَادِ الْمَشْرِقِيَّةِ يَعْنِي فِى مُلْكِ الْهِنْدِ ثُمَّ يُسَافِرُ الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ أَوْ خَلِيفَةٌ مِنْ خُلَفَائِهِ إِلَى الْأَرْضِ دِمَشْقَ فَهَذَا مَعَنى الْقَوْلِ الَّذِي جَاءَ فِي حَدِيثِ مُسْلِمٍ أَنَّ عِيسَى يَنْزِلُ عِنْدَ مَنَارَةِ دَمِشْقَ فَإِنَّ النَّزِيلَ هُوَ الْمُسَافِرُ الْوَارِدُ مِنْ مُلْكَ آخَر - حمامة البشری روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 225) یعنی بعض احادیث میں اشارہ آیا ہے کہ مسیح موعود اور دجال بعض مشرقی بلاد میں ظاہر ہوں گے (یعنی ہندوستان میں) پھر مسیح موعود یا اس کے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق کی طرف سفر کرے گا پس یہی معنی اس حدیث کے ہیں جو صحیح مسلم میں آئی ہے.یہ کہ عیسی مسیح دمشق کے منارہ پر نازل ہوگا.کیونکہ نزیل اس مسافر کو کہتے ہیں جو کسی مقام پر کسی دوسرے ملک سے آکر وقتی قیام کرے.ان دونوں حوالوں کو یکجائی نظر دیکھنے سے پتہ لگتا ہے کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دونوں کے وجود میں بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں تو یہ پیشگوئی معنوی اور باطنی رنگ میں پوری ہوئی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو دمشق کے شرقی علاقہ قادیان میں جو عین اسی عرض بلد میں واقع ہے جس میں کہ دمشق واقع ہے مبعوث کیا اور آپ کو دلائل و براہین کا ایک ایسا سفید اور بلند منارہ بھی عطا کیا جس نے سارے مخالفوں پر حجت پوری کر دی اور پھر آپ کو جسم کے ہر دو حصوں میں دو بیماریاں بھی لاحق تھی.جوگو یا دوز رد چادروں کی قائمقام تھیں.اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں یہ پیشگوئی اپنی ظاہری صورت میں پوری ہوئی.کیونکہ آپ بذات خود دمشق تشریف لے گئے اور گئے بھی ہوائی جہاز کے ذریعہ جونزول کے ظاہری مفہوم کو پورا کرتا ہے اور پھر گئے بھی ایسی حالت میں کہ اس وقت آپ کو بھی دو بیماریاں لاحق تھیں.ایک بیماری جسم کے نچلے حصہ میں نقرس کی تھی اور دوسری جسم کے اوپر کے حصہ میں فالج کے باقی ماندہ اثر یا بعض ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق اعصابی تکلیف کا اثر تھا.اس پیشگوئی کا یہ دہرا ظہور ایسا ظاہر وعیاں ہے کہ کوئی

Page 333

مضامین بشیر جلد سوم عقل مند انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا.311 دوسری پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تھی جو مصلح موعود والی عظیم الشان پیشگوئی کا حصہ ہے.حضور مصلح موعود کے متعلق اپنی الہامی عبارت میں فرماتے ہیں.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.(اشتہار 20 فروری 1886ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 96 طبع دوم) اب دیکھو کہ یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا اپنے مقام خلافت اور اپنے کارناموں میں جلد جلد بڑھنے اور ترقی کرنے کا نظارہ تو شروع خلافت سے جماعت کے سامنے ہے.مگر حضور کے موجودہ سفر نے زمین کے کناروں تک شہرت پانے اور قوموں کے برکت حاصل کرنے کے پہلو کو بھی کس صفائی سے پورا کیا ہے.یہ ایک خاص تصرف غیبی تھا کہ حضور اپنے ذاتی رجحان کے خلاف ہوائی جہاز میں گئے اور پھر کراچی سے ہوائی جہاز میں بیٹھ کر سیدھے لندن نہیں گئے.بلکہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے عین مطابق رستہ میں کئی ملکوں اور قوموں کو برکت دیتے ہوئے لنڈن پہنچے.اور اسی طرح واپسی پر بھی کئی ملکوں اور قوموں میں قیام کا موقع پیدا ہوا.چنانچہ شام، لبنان، اٹلی، سوئٹزرلینڈ ، ہالینڈ، جرمنی اور انگلستان تک حضور کا پیغام پہنچا اور حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ان سات ملکوں اور ان کے باشندوں میں قیام کر کے اور انہیں خطاب کر کے انہیں برکت پہنچائی.تیسری پیشگوئی خود حضرت خلیفہ مسیح لثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی ہے.جوحضور نے مصلح موعود والی رویا میں خدا سے خبر پا کر دنیا میں ظاہر فرمائی.حضور فرماتے ہیں کہ اس رویا میں.میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں.میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی ہیں اور جب میں یہ الفاظ کہتا ہوں تو میں نے دیکھا کہ کچھ نو جوان عورتیں جو سات یا نو ہیں.جن کے لباس صاف ستھرے ہیں دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں.مجھے السلام علیکم کہتی ہیں اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لئے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں ہاں ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم انیس سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں ( الفضل یکم فروری 1944ء)

Page 334

مضامین بشیر جلد سوم 312 یہ پیشگوئی بھی اس سفر میں پوری پوری شان کے ساتھ چسپاں ہوتی ہے.کیونکہ علاوہ اس کے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سفر کے دوران میں مختلف ملکوں اور قوموں میں قیام کر کے انہیں برکت پہنچائی.حضور نے اس سفر میں ایک عالمگیر تبلیغی کا نفرنس بھی لندن میں منعقد فرمائی.جس میں نو ملکوں کے مبلغوں نے شرکت کر کے حضور سے تبلیغی ہدایات حاصل کیں.یہ نو ملک یہ تھے انگلستان، اٹلی، جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ ، پین ، شمالی امریکہ، ٹرینیڈاڈ (یعنی جنوبی امریکہ ) اور مغربی افریقہ ( لفضل ) یہ سب مبلغ حضرت خلیفہ آج ایدہ اللہ کے نائب اور نمائندہ تھے اور جو تو میں ان سے برکت پارہی ہیں یا آئندہ پائیں گی وہ گویا خود حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ تعالیٰ سے برکت پائیں گی.اس طرح حضور کے سفر از کراچی تالندن میں ملنے والی قومیں اور اس کے بعد تبلیغی کانفرنس والی قو میں مل کر ایک جہت سے سات اور دوسری جہت سے نو ہو جاتی ہیں.جو حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ کے مکاشفہ کے عین مطابق ہے.جس میں سات یا نو کنواری لڑکیاں دکھائی گئی تھیں اور یہ جو الہامی الفاظ میں ان قوموں کو کنواریاں ( یعنی Virgins) کہا گیا ہے.اس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ تو میں خدا کے بچے دین اسلام سے بالکل کوری اور نابلد ہوں گی.گویا کہ انہیں آج تک کسی روحانی مصلح کے مبارک ہاتھوں نے نہیں چھو مگر حضرت مسیح موعود کے خلیفہ برحق سے برکت پا کر وہ نہ صرف خود اپنے گھروں کو روحانیت سے آباد کریں گی بلکہ زندہ نسلوں کی مائیں بھی بن جائیں گی.اب دیکھو کہ کس طرح حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالی کےاس سفر میں یہ تین عظیم الشان پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں.گویا کہ حضور کا یہ سفر اجتماع الآیات بن گیا ہے اور اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ حضور کا 1924 ء کا سفر ولایت بھی تو تبلیغ کی غرض سے تھا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو پیشگوئیاں کئی رنگوں میں پوری ہو سکتی ہیں اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا.دوسرے اگر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ حضور کا موجودہ سفر ہی اس پیشگوئی کا اصل ظہور ہے.کیونکہ اول تو 1924ء والے سفر میں ابھی تک حضرت خلیفۃ امسیح ایدہ اللہ کو اپنے مصلح موعود ہونے کا انکشاف نہیں ہوا تھا اور نہ ہی حضور کو اس کا دعوی تھا.دوسرے اس سفر میں حضور سید ھے لندن چلے گئے تھے اور راستہ میں کسی جگہ قیام نہیں کیا تھا.سوائے ایسے وقتی قیام کے جو سفر کا ہی حصہ ہوتا ہے.مگر موجودہ سفر میں متعدد ملکوں اور قوموں میں باقاعدہ قیام ہوا ہے.تیسرے 1924 ء میں احمدی مبلغوں کی کوئی کانفرنس منعقد نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس وقت قوموں کو برکت دینے کا کوئی خاص پروگرام بنا تھا اور چوتھے 1924 ء میں سمندری سفر تھا.مگر اس کے مقابل پر موجودہ سفر ہوائی سفر ہے.جو

Page 335

مضامین بشیر جلد سوم 313 نزول کی صحیح کیفیت کا حامل ہے.پس دراصل یہی وہ سفر ہے جس پر اوپر کی تین پیشگوئیاں واضح طور پر چسپاں ہوتی ہیں.اس عظیم الشان پس منظر کی روشنی میں جہاں حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی ارفع شان اور بلند مقام کا ثبوت ملتا ہے وہاں حضور کے اس سفر کو بھی ایک غیر معمولی دینی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے.مگر خدا کی کوئی نعمت ایسی نہیں ہوتی جس کے ساتھ کوئی خاص ذمہ داریاں نہ لگی ہوئی ہوں اور ان بھاری پیشگوئیوں کی تکمیل بھی اپنے ساتھ خاص ذمہ داری رکھتی ہے.جسے پورا کرنا جماعت کا فرض ہے.یہ ذمہ داری جیسا کہ قرآن مجید اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے ثابت ہوتا ہے خدمت دین اور اشاعت دین سے تعلق رکھتی ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (النور: 56) ہم تمام خلفاء برحق کے دین کو مضبوطی اور استحکام عطا کریں گے اور ان کی خوف کی حالت کو امن کی حالت میں بدل دیں گے.اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ خلافت کے لئے خدا کی طرف سے یہ علامت مقرر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایسے سامان عطا فرماتا ہے اور ایسے رنگ میں ان کی نصرت کرتا ہے کہ جس دین کی حفاظت اور خدمت کے لئے وہ کھڑے ہوتے ہیں اسے مضبوطی اور استحکام حاصل ہوتا جاتا ہے اور اگر مخالف طاقتوں کی طرف سے ان کے لئے کوئی خوف کی حالت پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس حالت کو دور کر کے امن اور ترقی کا ماحول پیدا کر دیتا ہے.دوسری علامت جو مصلح موعود کے لئے خاص ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس مکاشفہ سے پتہ لگتی ہے جو اوپر درج کیا جا چکا ہے اور وہ الہام اور مکاشفہ یہ ہے.وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.(اشتہار 20 فروری 1886ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 96 طبع دوم ) میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں.میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں، الفضل مورخہ یکم فروری 1944 ء مکاشفہ حضرت خلیفہ لمسیح الثانی)

Page 336

مضامین بشیر جلد سوم 314 ان دو حوالوں سے ظاہر ہے کہ مصلح موعود کے لئے یہ ایک علامت مقرر تھی کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اس کی تبلیغ کے ذریعہ دنیا بھر کی تو میں اس سے برکت پائیں گی اور خصوصاً ایسی قوموں تک حق و صداقت کا پیغام پہنچے گا جو ابھی تک گویا کنواری ہیں.یعنی اسلام کے پیغام سے نابلد ہیں اور حضرت مسیح ناصری کے کچھ عرصہ بعد سے بگڑ کر حقیقی تو حید سے محروم ہو چکی ہیں.اب ان دو علامتوں کے ذریعہ جماعت کی ذمہ داری واضح ہے.جو یہ ہے کہ وہ اپنے امام کی ایسے رنگ میں نصرت کرے کہ.(1) دین کو تمکنت اور مضبوطی حاصل ہو جائے.(2) اسلام اور احمدیت کی موجودہ خوف کی حالت بدل کر امن اور ترقی کی حالت پیدا ہو جائے.(3) اسلام کا پیغام زمین کے کناروں تک پہنچ جائے.(4) دنیا بھر کی قوموں اور خصوصاً کنواری ( یعنی Virgin) قوموں کا صداقت کے ساتھ رشتہ ملا کر اور ان کے اندر روح القدس کی تاثیر پہنچا کر انہیں سچے اسلام اور احمدیت کے جھنڈے کے نیچے لایا جائے.یہ وہ چار کام ہیں جنہیں سرانجام دے کر جماعت احمد یہ اپنے امام کے عظیم الشان مقاصد میں اس کا ہاتھ بٹا سکتی ہے.لیکن اگر خدانخواستہ وہ اس کام کی طرف سے غافل رہے تو نہ تو اسے اپنے امام کا سچا متبع کہلانے کا حق ہے اور نہ ہی امام کی واپسی پر اس کی خوشی حقیقی سمجھی جا سکتی ہے.پس میں ہر فر د جماعت سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے احمدیت کے دعوئی کو سچا ثابت کرتے ہوئے اسلام کی خدمت میں اس طرح لگ جائے کہ گویا یہ سارا بوجھ اس کے سر پر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ خدمت صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ا.جماعت کے دوست اپنے اندر حقیقی اصلاح پیدا کر کے اسلام کا کامل و مکمل نمونہ بننے کی کوشش کریں.تا کہ وہ اپنے نمونہ سے لوگوں کو صداقت کی طرف کھینچ سکیں اور اندرونی اصلاح سے جماعت کو بھی مضبوطی اور ترقی حاصل ہو.ii.وہ اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے بڑھ چڑھ کر چندہ دیں.اور خصوصا تحریک جدید کے چندے کی طرف توجہ دیں.کیونکہ اس وقت اسی چندہ سے بیرونی مشن چل رہے ہیں اور قوموں کے برکت پانے کا رستہ کھل رہا ہے.iii.وہ اپنی خدا دا د طاقتوں اور خدا داد علم کو دین کے رستہ میں بے دریغ خرچ کریں تا کہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ

Page 337

مضامین بشیر جلد سوم يُنفِقُونَ کا منشاء پورا ہو.315 ۱۷.وہ اپنی زندگیوں کو دین کی خدمت اور اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کریں.تاکہ مجاہدوں کی فوج کے ذریعہ قلیل سے قلیل عرصہ میں اسلام کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے اور دنیا کی کنواری قو میں اسلام سے رشتہ جوڑیں اور پھر ۷.وہ حضرت خلیفہ اسیح کی کامل اطاعت کا نمونہ دکھا ئیں.تاکہ ساری جماعت کی متحدہ طاقت ایک نقطہ پر جمع ہو جائے اور کوئی گاڑی اپنی ذاتی کمزوری کی وجہ سے اپنے زبر دست انجن کی رفتار کو دھیما نہ کر سکے.پس بے شک جماعت کے دوست حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی بخیریت اور با مراد اور کامیاب واپسی پر ظاہری خوشی بھی منائیں کیونکہ ہماری شریعت نے دین و دنیا کی خوشیوں میں روح کے ساتھ جسم کا بھی حصہ رکھا ہے.لیکن حضور کا حقیقی خیر مقدم یقیناً ان پانچ باتوں پر عمل کرنے میں مضمر ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہیں.پس اے بھائیو اور اے بہنو! آؤ کہ ہم آج کے دن خدا کے ساتھ عہد کریں.ہاں وہ عهد جو عُرُوه ونٹی کا حکم رکھتا ہو.کہ ہم اپنے مالوں اور اپنے علموں اور اپنی طاقتوں اور اپنے جسموں اور اپنی روحوں اور اپنی اولادوں کو حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اطاعت اور آپ کے بتائے ہوئے پروگرام کو کامیاب بنانے میں بے دریغ خرچ کریں گے.تاکہ اسلام کا بول بالا ہو اور دنیا کی کنوری قو میں اسلام کے ساتھ شادی رچا کر خدائے واحد کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائیں.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اے ہمارے آسمانی آقا! تو ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم تیرے دین کے وفادار خادم اور تیرے خلیفہ کے حقیقی فرمانبردار اور اسلام اور احمدیت کے سچے علم بردار ثابت ہوں.تا کہ جب ہماری واپسی کا وقت آئے تو تو ہم سے راضی ہو اور ہم تجھ سے راضی ہوں.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اب مجھے صرف حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے ایک لفظ کہنا ہے اور وہ یہ کہ آپ کی خلافت کے متعلق جس رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خود آپ کی بشارتیں موجود ہیں.ان سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے بعد خلافت احمدیہ کا یہ دور ایک سنہری دور ہے.جو کثیر التعداد اور عظیم الشان برکتوں سے معمور ہے.اللہ تعالیٰ حضور کی صحت اور عمر اور کام میں خارق عادت برکت عطا کرے.تا کہ یہ سنہری دور لمبے سے لمبا ہو کر اسلام کی دائمی فتح اور عالمگیر غلبہ کے وقت کو قریب ترلے آئے اور حضور کے وجود باجود سے دنیا بھر کی قومیں برکت پائیں اور حضور کی

Page 338

مضامین بشیر جلد سوم 316 قیادت میں جماعت کا قدم ہر آن آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے اور حضور کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے نئے احمدی بھی اُسی پُرانی شراب طہور سے سرشار ہوں جس سے کہ حضرت مسیح موعود کے صحابہ نے لذت پائی.تا کہ آخَرينَ مِنْهُمْ کی مقدس جماعت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو جائے.آمین.ان قلبی جذبات کے ساتھ ہم حضور کو ایک لمبے اور دُور کے سفر سے مرکز میں واپس تشریف لانے پر نہایت مخلصانہ خوش آمدید کا ہدیہ پیش کرتے اور دل کی گہرائیوں سے کہتے ہیں کہ اے دیر آمدنت باعث آبادی آمده し دور آمده از ره نوٹ:.اصل پروگرام کے مطابق حضرت صاحب کی کراچی میں واپسی 6 ستمبر بروز منگل مقر تھی.مگر آخری وقت پر کسی ناگزیر تبدیلی کی وجہ سے حضور کراچی میں مقررہ وقت سے ایک دن پہلے ہی یعنی پیر کے روز پہنچ گئے.اس طرح اس سفر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی بھی صادق آگئی کہ ” دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ کیونکہ ایک بابرکت سفر کا کامیاب اختتام یقینا غیر معمولی طور پر مبارک ہوتا ہے.وَآخِر دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( روزنامه الفضل ربوه خیر مقدم نمبر ) حضرت مفتی صاحب کے لئے دعا کی تحریک حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین صحابہ میں سے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت مفتی صاحب سے اس قسم کی محبت تھی جو کہ ایک مشفق باپ کو خدمت گذار بیٹوں سے ہوا کرتی ہے اور آپ اکثر مفتی صاحب کا ذکر ہمارے مفتی صاحب کے محبت بھرے الفاظ سے فرمایا کرتے تھے.حضرت مفتی صاحب کی عمر اس وقت بیاسی سال ہے.مگر بینائی کی کمزوری اور عام صحت کی خرابی کی وجہ سے وہ اکثر گھر پر ہی رہتے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ حضرت مفتی صاحب کی صحت اور درازی عمر کے لئے خاص طور پر دعا کرتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور مخلص صحابہ اب بہت ہی کم رہ گئے ہیں اور ان میں حضرت مفتی صاحب کو ایک خاص مقام حاصل ہے.ایسے مبارک بزرگوں کے لئے دعا کرنا نہ صرف ایک قومی فرض ہے بلکہ خود دعا کرنے والوں کے لئے بھی برکت اور رحمت

Page 339

مضامین بشیر جلد سوم 317 کا موجب ہوتا ہے.(محرره 5 اکتوبر 1955ء) روزنامه افضل 7 اکتوبر 1955ء) الفضل کی اشاعت کے لئے آپ کا ارشاد خاکسار نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ وہ اخبار الفضل کی توسیع اشاعت کے سلسلہ میں ایک نوٹ تحریر فرماویں.خاکسار کی درخواست پر حضرت میاں صاحب مکرم نے مندرجہ ذیل ارشاد فرمایا ہے:.آج کل طبیعت خراب ہے.اس لئے نوٹ تو لکھنا مشکل ہے البتہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت میں الفضل کی اشاعت کی توسیع کا جذبہ پیدا کرے اور کارکنوں کو صحیح رنگ میں کام کرنے کی توفیق دے کامیابی کے لئے ضروری ہے.مرزا بشیر احمد 55-10-15 اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت میں الفضل کی توسیع اشاعت کے جذبہ کا پیدا ہونا اور ہم کارکنان الفضل کا صحیح رنگ میں کام کرنا.یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ جن کے ذریعہ الفضل کی اشاعت چند دنوں میں ہی پانچ ہزار تک پہنچ سکتی ہے.اللہ تعالیٰ حضرت میاں صاحب مکرم کی اس دعا کو قبول فرماۓ.آمین ثم آمین ( قائمقام نیجر الفضل ربوہ)........روزنامه الفضل 23 اکتوبر 1955ء) 48 آه! در وصاحب بھی چل بسے وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الجلال والاكرام جیسا کہ احباب جماعت کو ربوہ کی تاروں اور الفضل کی رپورٹ سے معلوم ہو چکا ہے محترمی مولوی

Page 340

مضامین بشیر جلد سوم 318 عبدالرحیم صاحب درد ایم اے مورخہ 7 دسمبر 1955 ء بروز بدھ ربوہ میں وفات پا گئے ہیں.وفات حرکت قلب کے بند ہو جانے کی وجہ سے واقع ہوئی اور در دصاحب دو گھنٹہ کی مختصر علالت کے بعد اپنے اور ہم سب کے آقا ومولا و مالک کے حضور حاضر ہو گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ - وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُوالْجَلَال وَالْإِكْرَامِ محترمی در د صاحب ایک نہایت مخلص خاندان کے مخلص فرد تھے.ان کے والد صاحب مرحوم ماسٹر قادر بخش صاحب لدھیانوی قدیم اور مخلص صحابہ میں سے تھے اور ان کے پھوپھا حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری کو تو جماعت کا ہر فرد جانتا ہے.منشی محمد عبد اللہ صاحب سنوری کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں نہایت درجہ محبت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور ان کے اخلاص اور تقومی شعاری کی بہت تعریف کی ہے.یہ وہی بزرگ ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا وہ قمیص عنایت فرمایا جس پر خدائی روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق حضرت منشی صاحب مرحوم کے ساتھ ہی مقبرہ بہشتی قادیان میں دفن کر دیا گیا.بلکہ جیسا کہ میری تصنیف سیرۃ المہدی میں مذکور ہے.درد صاحب مرحوم کی پھوپھی مرحومہ کی شادی بھی حضرت منشی محمد عبد اللہ صاحب مرحوم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر ہی ہوئی تھی.اس طرح در د صاحب ایک ایسے مبارک خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو احمدیت کی تاریخ میں ایک خاص شان رکھتا ہے.درد صاحب خود بھی صحابی تھے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بعض باتیں بھی یاد تھیں.جن میں سے بعض کا ذکر سیرت المہدی میں آچکا ہے.مگر در دصاحب کی ذاتی خدمات کا سلسلہ خلافت ثانیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.دردصاحب اور میں نے ایم اے کا امتحان اکٹھا پاس کیا تھا.جس کے بعد وہ کچھ عرصہ ضلع ہوشیار پور کے ایک ہائی سکول میں ملازم ر ہے مگر بہت جلد ہی وہاں سے فراغت حاصل کر کے سلسلہ حقہ کی خدمت میں آگئے اور جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 21-1920ء میں نظارتیں قائم کیں تو ابتدائی ناظروں میں سے درد صاحب بھی ایک صیغہ کے ناظر مقرر ہوئے اور اس وقت سے لے کر آج تک جو پینتیس سال کا عرصہ بنتا ہے.دردصاحب نے اس وفاداری اور جاں نثاری کے ساتھ اس خدمت کو نبھایا جو انہی کا حصہ تھی.کبھی اپنی تنخواہ میں ترقی کا مطالبہ نہیں کیا.کبھی کوئی حق نہیں مانگا.بلکہ جو کچھ بھی سلسلہ کی طرف سے ملا اسے کامل رضا اور پورے صبر وشکر کے ساتھ قبول کیا.مجھے یاد ہے کہ جب ہم شروع میں خدا کے ساتھ عہد باندھ کر سلسلہ کی

Page 341

مضامین بشیر جلد سوم 319 خدمت میں آئے.تو میری ہی تجویز پر ہم دونوں نے یہ عہد کیا تھا کہ خدا کی توفیق سے ہم ہمیشہ سلسلہ کی خدمت میں زندگی گزاریں گے اور کبھی کسی معاوضہ یا ترقی یا حق کا مطالبہ نہیں کریں گے اور میرے لئے انتہائی خوشی اور در دصاحب کے خاندان کے لئے انتہائی فخر کا مقام ہے کہ درد صاحب نے اس عہد کو کامل وفاداری سے نبھایا اور مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَہ کے مقام پر فائز ہو گئے اور میرا انجام خدا کو معلوم ہے.گو میں بھی اپنی کمزوریوں کے باوجود خدا کی رحمت کا امیدوار ہوں.درد صاحب کا خاص وصف یہ تھا.جس میں مجھے بھی اکثر اوقات ان پر رشک آتا تھا کہ اگر کبھی حضرت صاحب کی طرف سے یا انجمن وغیرہ کی طرف سے ان کی کسی بات پر گرفت ہوتی تھی اور گرفت سے کون انسان بالا ہے) تو وہ اسے انتہائی صبر اور ضبط کے ساتھ برداشت کرتے تھے اور اپنی بریت کا معاملہ بھی صرف خدا پر چھوڑتے تھے.غالباً 1924ء میں درد صاحب کو لندن مشن میں پہلی دفعہ مبلغ بنا کر بھجوایا گیا.جہاں انہوں نے 1928 ء تک کام کیا.اور اسی زمانہ میں لندن مسجد کی بنیاد رکھی گئی اور اسی زمانہ میں وہ تعمیر ہوئی.اس کے بعد وہ دوبارہ 1933 ء میں لندن گئے اور 1938ء میں واپس آئے.یہ وہی زمانہ ہے جس میں ہمارے خاندان کے چار بچوں نے ولایت میں تعلیم پائی اور درد صاحب کمال محبت سے ان کی سر پرستی فرماتے رہے.اس کے بعد در دصاحب نے ولایت سے واپس آکر اکثر زمانہ نظارت تعلیم وتربیت اور نظارت دعوت وتبلیغ میں گزارا مگر ان کا خاص کام نظارت امور خارجہ سے تعلق رکھتا ہے.جہاں وہ غیر معمولی طو پر کامیاب رہے.درد صاحب کو حکومت کے افسروں اور غیر از جماعت اصحاب کے ساتھ ملنے کا خاص ڈھنگ آتا تھا.اور وہ ان ملاقاتوں میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہتے تھے.مزاج کی سادگی اور کچھ مالی تنگی کی وجہ سے ان کا لباس بہت ہی سادہ بلکہ بعض اوقات درویشانہ رنگ کا ہوتا تھا.مگر لوگوں سے اس قابلیت اور وقار کے ساتھ ملتے تھے کہ وہ بہت جلد ان کے زیر اثر آجاتے تھے اور درد صاحب اکثر اپنی بات منوا کر ہی اٹھتے تھے.بظاہر حالات مجھے امید نہیں کہ جماعت کو قریب کے زمانہ میں درد صاحب جیسا کامیاب ناظر امور خارجہ میسر آئے.وَلَعَلَّ اللهُ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِكَ أَمْرًا - کچھ عرصہ درد صاحب نے انگریزی ترجمہ قرآن کریم کے بورڈ میں بھی کام کیا جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور ملک غلام فرید صاحب ایم اے اور چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب مرحوم اور یہ خاکسار کام کرتے تھے اور درد صاحب کی قابلیت بورڈ کے لئے بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوتی تھی.جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے.میرے ساتھ ذاتی تعلقات در دصاحب کے 1916 ء میں یعنی

Page 342

مضامین بشیر جلد سوم 320 آج سے چالیس سال قبل شروع ہوئے اور ہم نے نہایت درجہ محبت اور اخلاص کے ساتھ یہ زمانہ گزارا اور نظارتوں میں آنے کے بعد تو ہم گویا مسلسل رفیق کا رہی رہے.درد صاحب اکثر میری رائے پر اعتماد کرتے تھے اور مجھے بھی اکثر ان کے مشورہ پر اعتماد ہوتا تھا اور گو بعض اوقات ہماری رائے میں اختلاف بھی ہو جاتا تھا (وَاخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ ( مگر درد صاحب کی محبت کا یہ انداز تھا کہ وہ اکثر میری رائے پر اعتماد کر کے اپنی رائے ترک کر دیتے تھے.گو بعض اوقات مجھے بعد میں محسوس ہوتا تھا کہ حالات کے لحاظ سے دردصاحب کی رائے ہی زیادہ مناسب تھی.مجھے وہ آخری دفعہ چند دن ہوئے لاہور میں عزیز مظفر احمد کے مکان پر آ کر ملے.دراصل وہ میری اور ام مظفر احمد کی عیادت کے لئے وہاں آئے تھے اور اس سے قبل بھی کئی دفعہ آچکے تھے.لیکن اس دفعہ ایسا خدائی تصرف ہوا کہ جب میں انہیں رخصت کرنے کے لئے مکان سے باہر گیا تو انہیں رخصت کرتے ہوئے ان سے غیر معمولی طور پر بغلگیر ہو کر ملا.غالباً اس میں تقدیر کا یہ اشارہ تھا کہ اب یہ تم دونوں کی آخری ملاقات ہے.میرے علاوہ دردصاحب کے زیادہ تعلقات عزیزم مکرم مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے ناظر اعلیٰ اور عزیزم میاں ناصر احمد صاحب اور عزیزم مرزا ظفر احمد اور عزیزم مرزا مظفر احمد اور مکرمی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور مکرمی چوہدری فتح محمد صاحب سیال ( جن کے ساتھ بعد میں ان کا رشتہ بھی ہو گیا ) اور مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب اور مکرمی چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور مکرمی راجہ علی محمد صاحب کے ساتھ تھے.مگر حقیقتا ان کا حلقہ ملاقات بہت وسیع تھا اور بہت سے غیر از جماعت معزز اصحاب ان کے دوستوں میں شامل تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تو درد صاحب کو خاص محبت اور عقیدت تھی اور ان کے دل میں حضور کا خاص اکرام تھا اور حضور کو بھی ان پر بہت اعتماد تھا.جب ہوشیار پور مصلح موعود والا جلسہ فروری 1944 ء میں ہوا تھا تو اس میں اور بعض بعد کے جلسوں میں بھی درد صاحب نے ہی مصلح موعود والی پیشگوئی حاضرین کو سنائی تھی.اس موقع پر درد صاحب کو اس وجہ سے چنا گیا تھا کہ ان کے پھوپھا یعنی حضرت منشی عبداللہ صاحب مرحوم ان ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھے.جب حضور نے ہوشیار پور میں چلہ کشی کی اور انہی ایام میں مصلح موعود والے الہامات ہوئے.در دصاحب کی وفات کے ساتھ من جملہ دیگر تلخ احساسات کے یہ تلخ حقیقت بھی شامل ہے کہ اس سال ہمارے بہت سے قدیم بزرگ اور دوستوں نے وفات پائی ہے.چنانچہ اولاً حضرت اماں جی یعنی اہلیہ محترمہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حکیم فضل الرحمن صاحب افسر لنگر خانہ و سابق مبلغ افریقہ اور مکرم مولوی

Page 343

مضامین بشیر جلد سوم 321 عبد المغنی خاں صاحب سابق ناظر دعوت و تبلیغ اور مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب سابق مبلغ امریکہ اور مکرمی مولوی نذیر احمد صاحب علی مبلغ مغربی افریقہ کی وفات بھی اسی سال کے دوران میں ہوئی ہے.گویا یہ ہمارا عام الحزن ہے.گو اس سے پہلے بھی حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا کی وفات والے انتہائی تلخ سال کے علاوہ ہجرت والے سال یعنی 47ء میں بھی ایک تلخ عام الحزن گزر چکا ہے.جبکہ ہجرت والے سال یعنی 1947ء میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس اور حضرت مولوی شیر علی صاحب نے ایک ہی سال کے اندر اندر انتقال کیا.مگر آ جا کے بات وہیں آجاتی ہے.کہ دنیا فانی ہے اور ہر انسان نے آگے پیچھے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام بلانے والا ہے پیارا اسی اے دل تو جاں فدا کر مگر در دصاحب کی اچانک وفات کے ساتھ سب سے زیادہ فکر والا جذ بہ جو میرے دل میں پیدا ہورہا ہے.وہ یہ ہے کہ سلسلہ کے پرانے اور تجربہ کا کارکن جن میں سے بعض نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے اور بعض نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے اور اکثر نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ابتدائی زمانہ سے سلسلہ کی خدمت میں زندگی گزاری ہے وہ آہستہ آہستہ گزرتے جا رہے ہیں اور اس کے مقابل پر آنے والوں میں سے اکثر میں ابھی تک وہ خاص رنگ پیدا نہیں ہوا جو ایک خدائی جماعت کے کارکنوں میں ہونا چاہئے اور دوسری طرف جماعت کا حلقہ اور جماعت کی ذمہ داریاں پہلے کی نسبت بہت زیادہ وسیع ہو گئی ہیں.بے شک سلسلہ خدا کا ہے اور وہی اس کا محافظ اور مربی ہوگا.لیکن ظاہری اسباب کے لحاظ سے ان اوپر تلے کی موتوں سے دل سخت گھبرا تا اور بے حد فکر مند ہوتا ہے.اے سلسلہ کے نو جوانو ! اور ہماری آنکھوں کے تارو ! میری یہ بات گوش ہوش سے سنو.اور خدا کے لئے اپنے اندر وہ محبت اور وہ اخلاص اور وہ جذبہ قربانی اور وہ قابلیت اور وہ للہیت اور وہ ذوق عبادت اور وہ دعاؤں میں شغف پیدا کرو جو ایک خدائی جماعت کے شایان شان اور اس کی کامیابی کے لئے ضروری ہے ورنہ بقول حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ: ہم تو جس طرح بننے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو

Page 344

مضامین بشیر جلد سوم 322 میں اس موقع پر جماعت کے احباب سے یہ بات بھی کہنے سے رک نہیں سکتا کہ درد صاحب نے ایک بہت بڑا کنبہ چھوڑا ہے.جس میں ان کی بوڑھی والدہ اور دو بیویاں اور غالباً چودہ بچے (لڑکے اور لڑکیاں ) شامل ہیں.جن میں سے اکثر غیر شادی شدہ اور زیر تعلیم ہیں اور حقیقتا ان میں سے کوئی بھی برسر روزگار نہیں اور در دصاحب نے جس قلیل تنخواہ پر گزارہ کیا اس میں کسی جائیداد یا اثاثہ چھوڑ نے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.البتہ درد صاحب نے کچھ نہ کچھ قرضہ ضرور چھوڑا ہو گا اور پھر وہ ایسی حالت میں فوت ہوئے ہیں جبکہ ابھی چند ماہ ہوئے وہ ریٹائر ہو کر پھر دوبارہ کام پر لگے تھے اور اس طرح وہ گویا پنشن کے حق سے بھی محروم رہے ہیں.اس صورت میں جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے قدیم اور مخلص کارکن کے پسماندگان کے لئے مناسب وقت تک مناسب امداد کا انتظام کرے.بے شک یہ انجمن کا کام ہے لیکن انجمن بھی تو آپ لوگوں کی ہی نمائندہ ہے اور اپنی تجویز اور اپنی قربانی سے انجمن کے ہاتھ مضبوط کرنا آپ لوگوں کا فرض ہے.بالآخر میں ایک ذاتی افسوس کا اظہار بھی کرنا چاہتا ہوں.جیسا کہ احباب کو معلوم ہے میں اس وقت والدہ مظفر احمد کی تشویشناک علالت اور پھر خود بیماری کی وجہ سے لاہور میں زیر علاج ہوں اور سوء اتفاق سے ان مخصوص دنوں میں والدہ مظفر احمد کو زیادہ تکلیف رہی ہے اور دو تین دن تک قریباً چوبیس گھنٹے ان کے سخت بے تابی میں گزرے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب درد صاحب کی اچانک وفات کی اطلاع مجھے ملی تو میں نے ایسا محسوس کیا کہ گویا ایک بم کا گولا آگرا ہے اور طبیعت کی انتہائی نڈھالی کے علاوہ مجھے گلے میں سانس کی تکلیف سے چوکنگ بھی شروع ہوگئی اس لئے میں درد صاحب کی وفات پر اپنی دلی خواہش کے باوجود ربوہ نہیں جاسکا جس کا مجھے سخت قلق ہے.حقیقتاً میں اس وقت اس قابل ہی نہیں رہا تھا کہ اس قسم کے دردناک ماحول میں جاؤں.اس لئے ایک معذور انسان کی طرح میں نے لاہور میں رہ کر ہی دعا میں وقت گزارا اور حضرت صاحب اور در دصاحب کی فیملی کے ساتھ تار کے ذریعہ دلی ہمدردی کا اظہار کرنے پر اکتفا کی.اللہ تعالیٰ میری اس کمزوری کو کہ میں ربوہ نہیں جا سکا معاف فرمائے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ در دصاحب کی روح بھی میری بے بسی کی حالت دیکھتے ہوئے مجھے معذور خیال کرے گی.میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے.ان پر اپنے خاص فضل و رحمت کا سایہ رکھے اور ان کے اہل وعیال اور بچوں کا دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ روزنامه الفضل 14 دسمبر 1955ء)

Page 345

مضامین بشیر جلد سوم اعلانات اشتہارات - اطلاعات 323 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1-> قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری کی تصنیف شان خاتم النبیین روزنامه الفضل 6 جنوری 1955ء) 2-> حضرت خلیفہ المسیح کی علالت اور دوستوں کو دعا کی تحریک (روزنامه الفضل 6 مارچ 1955ء) روزنامه الفضل 11 مارچ 1955ء) روزنامه الفضل 18 مارچ 1955ء).حضرت خلیفہ مسیح ید اللہ تعالی کیلئے دعاؤں کی تحریک ه حضرت ماریہ اسیح کی علالت کے تعلق میں قوم صدقات 5-> سائیکل پر سفر حج کیلئے روانگی 6-> صدقات ور قوم چنده و غیر متعلق سفر یورپ 7-> قادیان کے متروکہ مکانوں کے متعلق ضروری ہدایت > دمشق سے حضرت خلیفہ اسی لیے اللہ کاذاتی خط 9-> الحاد کے مقابلہ کیلئے اتحاد (روز نامہ الفضل یکم اپریل 1955ء) ( روزنامه الفضل 9 اپریل 1955ء) ( روزنامه الفضل 2 مئی 1955ء) روزنامه الفضل 10 مئی 1955ء) (روزنامه الفضل 10 مئی 1955ء) روزنامه الفضل 12 مئی 1955ء) 11 -> متروکہ جائیداد کے متعلق سابقہ اعلان کی تشریح روزنامه الفضل 17 مئی 1955ء) 10 -> حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کے متعلق ڈاکٹر منور احمد صاحب کی رپورٹ

Page 346

مضامین بشیر جلد سوم 324 12-> حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کا موجودہ پتہ 13-> متروکہ مکانوں والے اعلان کے متعلق ایک مزید تشریح روزنامه الفضل 22 مئی 1955ء) (روزنامه الفضل 2 جون 1955ء) 14-> قائم مقام امیر کے متعلق اعلان ” میں چند دن کیلئے ربوہ سے باہر جارہا ہوں“ روز نامه الفضل 10 جون 1955ء) 15-> قادیان کی مترو که شهری اراضی دوستوں کی سہولت کیلئے ضروری ہدایات 16-> متروکہ شہری جائیداد کے مطالبہ کے متعلق روزنامه الفضل 18 جون 1955ء) روز نامہ الفضل 21 جون 1955ء) 17-> شہری جائیدادوں کے متعلق آخری یاد دہانی (روزنامه الفضل 20 اگست 1955ء) 18-> حکیم فضل الرحمن بھی چل بسے ( روزنامه الفضل یکم ستمبر 1955ء) 1 -> حضرت خلیفہ المسح الانی ایدہ اللہ تعالی ے قافلہ کی پہلی پارٹی بخیریت کراچی پہنچ گئی (روزنامه الفضل 3 ستمبر 1955ء) 20-> حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کیلئے خاص دعا کی تحریک 21-> قادیان میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے غیر معمولی نقصان روزنامه افضل 7 اکتوبر 1955ء) روزنامه الفضل 16 اکتوبر 1955ء)

Page 347

مضامین بشیر جلد سوم باب ششم 1956ء کے مضامین 325

Page 348

مضامین بشیر جلد سوم ریکارڈنگ مشین کے ذریعہ اسلام کے غلبہ کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین مقدس انگوٹھیاں مولوی قطب الدین صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ مرحومہ دو مفید کتابیں.اصحاب احمد اور بشارات رحمانیہ دوستوں کی خدمت میں دعاؤں اور صدقہ و خیرات کی تحریک حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ (12) حواری رمضان میں خاص دعاؤں کی تحریک فدیہ رمضان کی رقوم مولوی عبدالسلام صاحب عمر کی وفات حسرت آیات ایک غلط فہمی کا ازالہ رمضان کی خاص دعائیں کیا غیر مسلموں کی دعائیں بھی قبول ہو سکتی ہیں؟ فدیہ کی رقم اب بھی ادا کی جاسکتی ہے قرآن مجید کی دو مضبوط پناہ گاہیں تبلیغ کے چار سنہری گر فضل عمر ہسپتال کا نام جماعت کے نوجوان دعاؤں میں شغف پیدا کریں فتنہ منافقین اور خلافت حقہ 326

Page 349

مضامین بشیر جلد سوم 1 ریکارڈنگ مشین کے ذریعہ اسلام کے غلبہ کا پیغام احمدیت کی ترقی کے متعلق حضرت مسیح موعود کی زبر دست پیشگوئی 327 چند دن ہوئے مجھے عزیزم مکرم چوہدری انور احمد صاحب حال ڈھاکہ مشرقی پاکستان نے اپنی ریکارڈنگ مشین میں ریکارڈ شدہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جلسہ سالانہ کی تقریر کا ایک نہایت روح پرور حصہ سنایا اور ساتھ ہی اس خاکسار سے خواہش کی کہ میں بھی ان کی مشین میں اپنے چند الفاظ ریکارڈ کر دوں.مجھے اس وقت وہ زمانہ یاد آگیا جبکہ قادیان میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کے ذریعہ پہلی دفعہ فونوگراف کا آلہ آیا تھا اور قادیان کے بعض غیر مسلموں نے یہ درخواست کی تھی کہ اس آلہ پر انہیں بھی کچھ سنایا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی درخواست کو غنیمت جانتے ہوئے اس موقع پر چند اشعار کہے جس میں غیر مسلموں کو اسلام کی تبلیغ کی گئی تھی اور اس نظم کا پہلا شعر یہ تھا: آواز آرہی ہے یہ فونو گراف ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف - ހނ بی نظم مولوی عبدالکریم صاحب نے نہایت خوش الحانی کے ساتھ فونوگراف میں بھری (اس زمانہ میں یہ آله فونوگراف کہلاتا تھا) اور پھر یہ ریکارڈ قادیان کے ہندوؤں وغیرہ کو سنایا گیا اور اس طرح انہوں نے فونوگراف کا ریکارڈ بھی سن لیا جو اس زمانہ میں ایک عجوبہ چیز تھی اور انہیں اسلام کی تبلیغ بھی ہوگئی.چنانچہ مقدس مثال کی اتباع میں میں نے بھی خیال کیا کہ میں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر چوہدری انور احمد صاحب کی ریکارڈنگ مشین میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں بھر دوں.تا کہ گو آواز اس خاکسار کی ہو اور اس طرح ایک عزیز کی خواہش بھی پوری ہو جائے مگر کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہو، تا دنیا اس کلام سے فائدہ اٹھائے.اور یہ کلام اپنے وقت پر پورا ہو کر خدا کا ایک نشان ٹھہرے.چنانچہ ذیل میں وہ عبارت درج کی جاتی ہے جو اس موقع پر میں نے چوہدری انور احمد صاحب کی مشین میں بھری.یہ خدائے ذوالجلال کی ایک زبر دست پیشگوئی ہے جو انشاء اللہ اپنے وقت پر ضرور پوری ہوگی اور احمدیت کے ذریعہ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو کر رہے گا.کیونکہ قضاء آسمانست ایں بہر حالت شود پیدا

Page 350

مضامین بشیر جلد سوم ریکارڈ شدہ الفاظ درج ذیل کئے جاتے ہیں : برادران کرام السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ 328 چوہدری انور احمد صاحب نے خواہش کی ہے کہ میں ان کی مشین پر اپنے چند الفاظ ریکارڈ کروں.ان کی اس خواہش کے احترام میں میں نے مناسب خیال کیا ہے کہ گو آواز میری ہومگر الفاظ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے ہوں.تا سننے والے اصحاب ان مبارک الفاظ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا ئیں اور میں اور میری نسلیں بھی ان الفاظ کی برکات سے متمتع ہوں.سو اس جگہ میں اسلام اور احمدیت کی آئندہ ترقی اور غلبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں سناتا ہوں تا دنیا کے لئے ایک نشان ہو.حضور فرماتے ہیں: "اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کی فکر رکھتا ہے نامراد ر کھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ (تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66-67) پھر فرماتے ہیں : ”خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین پر پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کردیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا ان سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان

Page 351

مضامین بشیر جلد سوم 329 باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ کر لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا“ پھر اس عالمگیر غلبہ کا نتیجہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ: تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 410) میں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحر ذخار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بل بیچ کھا تا مغرب سے مشرق کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 244) اس پیشگوئی میں یہ عظیم الشان خبر دی گئی ہے کہ اب جو یورپ و امریکہ کی عیسائی تو میں اور یا جوج ماجوج کی عظیم الشان طاقتیں دنیا پر غلبہ پا کر اسلام کو ہر جہت اور جانب سے دباتی چلی جارہی ہیں گویا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا ہے جو مغرب سے مشرق کی طرف بہتا اور ہر چیز کو بہاتا چلا آرہا ہے.ایک دن آئے گا کہ اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے نتیجہ میں موجودہ مغربی اقوام بالآخر اس طرح مغلوب ہو جائیں گی کہ یہ بحر مواج اپنا رخ بدل کر بڑے زور کے ساتھ مشرق سے مغرب کی طرف بہنے لگے گا اور اس کے تیز دھارے کو کوئی چیز روک نہیں سکے گی.یہ دن اسلام کے دائمی غلبہ اور حضور سرور کائنات حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر سر بلندی کا دن ہوگا اور اس وقت دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.وَذَالِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ محرره 15 جنوری 1956ء) روزنامه الفضل ربوه 24 جنوری 1956ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین مقدس انگوٹھیاں اور حضرت ام المومنین والے قرعوں کا مبارک عکس گزشتہ جمعہ کے خطبہ مؤرخہ 20 جنوری 1956ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے ان تین انگوٹھیوں کا ذکر فرمایا تھا.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پیچھے چھوڑی تھیں اور اس تعلق میں بیان فرمایا تھا کہ سب سے پہلی انگوٹھی جس پر اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَه والا الہام کندہ تھا اور حضرت مسیح موعود

Page 352

مضامین بشیر جلد سوم 330 علیہ السلام نے اپنی کئی کتابوں میں اس کا ذکر فرمایا ہے وہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد قرعہ اندازی کے خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کے حصہ میں آئی تھی اور دوسری انگوٹھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِى رَحْمَتِی وَ قُدْرَتِی کندہ تھا وہ خاکسار مرزا بشیر احمد کے حصہ میں آئی تھی اور تیسری انگوٹھی جس پر مولی بس“ کے الفاظ کندہ تھے عزیزم میاں شریف احمد کے حصہ میں آئی تھی اور یہ قرعہ اندازی حضرت ام المومنین نوراللہ مرقدھا کے سامنے اور انہی کی تجویز پر ہوئی تھی اور انہوں نے ہی دعا کرتے ہوئے یہ قرعے اٹھائے تھے.اس تعلق میں خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ سارا واقعہ کسی قدر تشریح کے ساتھ اپنی کتاب ”سیرت المہدی حصہ اول کی روایت نمبری ۱۶ میں درج کیا ہوا ہے.گو افسوس ہے کہ اس میں کاتب کی غلطی سے غَرَسْتُ لَكَ کی بجائے غَرَسُتُك كے الفاظ لکھے گئے ہیں.أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والا الہام وہ ہے جو 1876ء میں ہمارے دادا صاحب کی وفات کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا تھا.اور حضور نے اسی زمانہ میں اس الہام کا ایک نگینہ تیار کرا کے ایک انگوٹھی بنوالی تھی.جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بہت سی تحریروں میں ایک خدائی نشان کے طور پر کیا ہے.أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عبدہ والا الہام جس کے معنی یہ ہیں کہ کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ؟ اس وقت ہوا تھا جب ہمارے دادا صاحب کے قرب وفات والے الہام پر حضرت مسیح موعود کو وقتی طور پر خیال گزرا تھا کہ بہت سے ظاہری سہارے حضور کے والد صاحب کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں.اب ان کے بعد کیا ہوگا ؟ جس پر بڑے زور دار رنگ میں یہ الہام ہوا کہ کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ اور حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ اس کے بعد خدا نے میری اس طرح کفالت اور سر پرستی فرمائی کہ میرے والد یا کسی دنیوی رشتہ دار یا کسی دوسرے دنیوی سہارے نے کیا کرنی تھی؟ یہ ہے: دوسری انگوٹھی جوقرعہ کے ذریعہ میرے حصہ میں آئی تھی اس کا پورا الہام جوانگوٹھی کے نگینہ پر درج ہے، أذكُرُ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكَ غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِي وَ قُدْرَتِي یعنی میری اس نعمت کو یاد کر جو میں نے تجھ پر کی ہے.میں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام میری ولادت کے قریب کے زمانہ میں ہوا تھا چنانچہ انگوٹھی کے

Page 353

مضامین بشیر جلد سوم 331 نگینہ پر تاریخ 1312 ہجری لکھی ہے.گو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تاریخ الہام کی ہے یا کہ انگوٹھی بننے کی.تیسری انگوٹھی جو عزیزم شریف احمد صاحب کے حصہ میں آئی تھی اس پر مولی بس“ کے الفاظ کندہ ہیں.اس کا واقعہ یوں ہے کہ ضلع سیالکوٹ کے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں حضور کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ایک انگوٹھی بنا کر حضور کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں ، اس پر کیا الفاظ لکھے جائیں ؟ جس پر حضور نے ”مولی بس“ کے الفاظ فرمائے.وفات کے وقت یہ انگوٹھی حضور کے ہاتھ میں پہنی ہوئی تھی اور غالبا اس کے الفاظ بھی حضور نے اپنے قرب وفات کے الہامات کی بناء پر ہی تجویز فرمائے تھے اور میں خیال کرتا ہوں کہ ان تینوں انگوٹھیوں کے الفاظ اپنے اندر بعض خاص اشارات رکھتے ہیں.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں قرعہ اندازی حضرت ام المومنین نوراللہ مرقدھا کی تجویز پر انہی کے ہاتھ سے ہوئی تھی.تین مختلف کاغذوں پر تینوں انگوٹھیوں کے نگینوں کی عبارت لکھی گئی اور کاغذوں کو تہ کر دیا گیا اور پھر حضرت اماں جان نے دعا کے ساتھ پہلا کاغذیہ کہتے ہوئے اٹھایا کہ یہ انگوٹھی محمود کی ہوگی اور کاغذ کھولنے پر یہ انگوٹھی الیس الله بکاف عَبْدَهُ والی نکلی.پھر دوسرا کا غذ یہ کہتے ہوئے اٹھایا کہ یہ انگوٹھی بشیر کی ہوگی اور قرعہ کا کاغذ کھولنے پر اس میں غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِى رَحْمَتِی وَ قُدْرَتِی والا الهام درج شده نکلا.اور تیسرا قرعہ ” مولی بس والا عزیزم میاں شریف احمد صاحب کا قرار پایا اور جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے خطبہ میں فرمایا تھایہ قرعہ اندازی غالبا تین دفعہ ہوئی اور ہر دفعہ یہی نتیجہ نکلا.قرعوں کے کاغذ حنائی رنگ کے دبیز ٹکڑے تھے.جو حضرت اماں جان نے اپنے پاس محفوظ کر لئے تھے اور اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے دے دیئے تھے اور خدا کے فضل سے اب تک میرے پاس محفوظ ہیں.میں ان ہرسہ کاغذوں کا عکس بصورت چر بہ ذیل میں درج کرتا ہوں تا ایک تو احمدیت کی تاریخ میں محفوظ ہو جائیں اور دوسرے ہمارے دوست ان کے دیکھنے سے روحانی حظ اٹھا سکیں اور دعاؤں کی بھی تحریک ہو.غرست لک بیدی رحمتی و قدرتی بشیر احمد الیس الله بکاف عبده محمود احمد مولابس شریف احمد میرے والی انگوٹھی میں اختصار کے خیال سے عبارت صرف " غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِي وَ قدرتی“ لکھی ہے.لیکن جیسا کہ انگوٹھی کے نگینہ سے ظاہر ہے پوری عبارت " اذْكُرُ نِعْمَتِيَ الَّتِي

Page 354

مضامین بشیر جلد سوم 332 أَنْعَمْتُ عَلَيْكَ غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِي رَحْمَتِي وَ قُدْرَتِی“ ہے.جس کا ترجمہ اوپر درج کیا جاچکا ہے.ان قرعوں میں نگینہ کی درج شدہ عبارت و حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے.لیکن ہر قرعہ پر ہم تینوں بھائیوں کے الگ الگ نام حضرت ام المومنین کے ہاتھ کے ہیں.یعنی جو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ والے قرعہ پر محمود احمد لکھا ہے اور میرے والے قرعہ پر بشیر احمد لکھا ہے اور عزیزم میاں شریف احمد صاحب والے قرعہ پر شریف احمد لکھا ہے یہ تینوں نام حضرت ام المومنین نے قرعہ نکالنے کے بعد خود اپنے ہاتھ سے لکھے تھے.اس طرح ان قرعوں کا چہ بہ چھاپنے سے یہ غرض بھی حاصل ہو جاتی ہے کہ حضرت ام المومنین اور حضرت خلیفہ حتی الثانی ایدہ اللہ تعالی کےدستخط کا نمونہ احمدیت کی تاریخ میں محفوظ ہو جائے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا تو جو مقام ہے وہ ظاہر ہی ہے.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور عزیزم میاں شریف احمد صاحب کو بھی اس مبارک کلام کا مصداق بنائے جو قرعہ کے ذریعہ نکلنے والی انگوٹھیوں میں درج ہے.وَآخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محرره 25 جنوری 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 28 جنوری 1956ء) مولوی قطب الدین صاحب اور ان کی اہلیہ صاحبہ مرحومہ چند دن ہوئے حکیم مولوی قطب الدین صاحب مرحوم کی اہلیہ مسماۃ حاکم بی بی کا جنازہ راولپنڈی سے ربوہ لایا گیا اور ان کے ساتھ ہی خود مولوی صاحب مرحوم کا جنازہ بھی (جو چند سال قبل فوت ہوئے تھے ) پنڈی سے ربوہ آیا اور اس طرح یہ دونوں میاں بیوی اکٹھے ہی مقبرہ موصیان ربوہ میں دفن ہوئے.مولوی صاحب کی بیوی کی وفات سے حضرت ام المومنین کی یاد تازہ ہوگئی.کیونکہ حضرت ام المومنین کے ساتھ ان کا بہت مخلصانہ تعلق تھا.حضرت ام المومنین جب کبھی اس طرف کو سیر وغیرہ کے لئے جاتی تھیں تو ان کے گھر میں جھانک کر ان کو بھی ساتھ جانے کے لئے بلالیتی تھیں اور اکثر اوقات حضرت ام المومنین کے لئے اپنے گھر سے مکھن اور کسی اور سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی اور گنے کے رس کی کھیر وغیرہ لایا کرتی تھیں اور اماں جان

Page 355

مضامین بشیر جلد سوم 333 ان کا یہ تحفہ بڑی محبت اور شکریہ کے ساتھ قبول کرتی تھیں اور اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ ان کی چیز بڑی صاف اور ستھری ہوتی ہے.مرحومہ بہت سادہ مزاج عورت تھیں اور حضرت ام المومنین اور خاندان حضرت مسیح موعود کے ساتھ بہت اخلاص رکھتی تھیں.اسی طرح ان کے شوہر مولوی قطب الدین صاحب مرحوم بھی قدیم اور مخلص احمدیوں میں سے تھے.حتی کہ ایک دفعہ انہوں نے فرمایا کہ جس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کرتہ پر سرخ روشنائی کے چھینٹے پڑنے کا نشان ظاہر ہوا ( یہ غالباً 1884 ء کا واقعہ ہے ) اس دن میں بھی قادیان میں موجود تھا.مولوی صاحب جب تک ہجرت کر کے قادیان میں نہیں آگئے وہ احمدیت کی تبلیغ میں والہانہ رنگ میں مصروف رہتے تھے.انہیں بسا اوقات مخالفین کی طرف سے مار پڑتی ، دکھ دیئے جاتے اور گالیاں ملتیں.مگر یہ بنده خدا ان سب تکلیفوں کو برداشت کر کے دن رات تبلیغ میں لگا رہتا تھا.قادیان کی ہجرت کے بعد مولوی صاحب مرحوم نے حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی شاگردی اختیار کی اور بہت جلد اچھے طبیب بن گئے اور قادیان کے ماحول اور خصوصاً سکھوں میں ان کی طب خوب چمک گئی تھی.اس سے قبل ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طب کی تعلیم کے لئے مولوی محمد شریف صاحب امرتسری کے پاس بھی ان کی سفارش کی تھی جو بہت مشہور طبیب تھے.اللہ تعالیٰ ان دونوں بزرگوں کو غریق رحمت کرے اور ان کی اولادکوان کی نیک صفات کا وارث بنائے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مولوی قطب الدین صاحب کی اہلیہ کی وفات کی اطلاع پا کر جو ہمدردی کی تاران کے لڑکے مولوی محمد اسماعیل صاحب کو بھجوانے کے لئے نوٹ کروائی تھی اس میں دعائیہ کلمات کے علاوہ یہ الفاظ بھی لکھے تھے کہ: مرحومہ ایک طرف حضرت مسیح موعود اور حضرت ام المومنین اور دوسری طرف موجودہ نسل کے درمیان ایک قدیم کڑی تھیں.اللہ تعالیٰ ان کی روح پر برکات نازل کرے“ محررہ 28 جنوری 1956ء) روزنامه الفضل ربوه یکم فروری 1956ء)

Page 356

مضامین بشیر جلد سوم 334 4 دو مفید کتابیں اصحاب احمد اور بشارات رحمانیہ اس وقت جماعت احمدیہ کے دو مخلص دوست سلسلہ احمدیہ کے متعلق دو مفید کتا میں لکھ کر شائع کر رہے ہیں.ایک کتاب کا نام اصحاب احمد ہے جو ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان لکھ رہے ہیں اور اس کے دو حصے شائع بھی ہو چکے ہیں اور باقی زیر تصنیف ہیں.دوسری کتاب جس کا نام ”بشارات رحمانیہ ہے مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر ڈیرہ غازیخاں سے شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.یہ اس کتاب کی دوسری جلد ہے.ہر دو کتابیں اصولی طور پر بہت مفید اور ضروری معلومات پر مشتمل ہیں.اصحاب احمد میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص خاص صحابہ کے روح پرور حالات درج ہیں.جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انہیں کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت کی طرف رہنمائی ہوئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کیا کیا نشانات دیکھے اور ان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کیسا مخلصانہ اور فدائیانہ تعلق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان کے ساتھ کیسا مربیانہ اور مشفقانہ سلوک تھا اور ان کے کیا کیا نیک اوصاف ہیں جن کی جماعت کو اقتداء کرنے اور ان کے رنگ میں رنگین ہونے کی ضرورت ہے.دوسری طرف کتاب بشارات رحمانیہ میں ان کشوف اور رویا اور الہامات کا ذکر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق مختلف دوستوں کو ہوئے اور جن کے ذریعہ انہوں نے اور ان کے دوستوں اور عزیزوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کی توفیق پائی یا قبول کرنے کے بعد وہ ان کے لئے مزید تقویت ایمان کا موجب ہوئے.اس سے ظاہر ہے کہ یہ دونوں کتا ہیں اصولاً مفید اور روح پر دور مضامین پر مشتمل ہیں.دوستوں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جہاں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے معقولی اور منقولی دلائل کے شائع کرنے کی ضرورت ہے وہاں غالبا اس سے بھی بڑھ کر ان روحانی شواہد اور تائیدات الہیہ کی اشاعت کی ضرورت ہے جو عقلی دلائل کی نسبت بھی دلوں میں زیادہ گھر کرنے والی ہیں.اس واسطے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکہ آراء تصنیف ”حقیقۃ الوحی“ تصنیف فرمائی.جس میں منقولی اور معقولی دلائل کی بجائے اس قسم کے روحانی شواہد اور تائیدات الہیہ پر زیادہ زور دیا گیا.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست ان ہر دو کتابوں کی اشاعت میں حصہ لے

Page 357

مضامین بشیر جلد سوم 335 کر نہ صرف اپنے ایمانوں میں روشنی اور جلا پیدا کرنے کی کوشش کریں گے بلکہ غیر از جماعت احباب میں بھی ان کی اشاعت کر کے انہیں ان روحانی خزائن سے متمتع ہونے کا موقع دیں گے.جن کا اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کی بعثت کے ذریعہ دروازہ کھولا گیا ہے.دوسری طرف میں ان کتابوں کے مصنفین سے بھی توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی کتابوں میں صرف صحیح روایات اور بچے اور ثابت شدہ واقعات درج کرنے کی کوشش کریں گے اور کچی اور سنی سنائی باتوں سے اجتناب رکھیں گے.تا کہ ان کی کتابیں ان برکات سے متمتع ہوں جو خدا کی طرف سے ہمیشہ صداقت کے ساتھ وابستہ رہی ہیں.(محرره 6 فروری 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 9 فروری 1956ء) دوستوں کی خدمت میں دعاؤں اور صدقہ و خیرات کی تحریک آج کل بعض دوستوں کی طرف سے کچھ متوحش خوابوں کی اطلاع پہنچ رہی ہے اور گوایسی خوابوں کے متعلق یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ہر صورت اٹل اور مبرم ہی ثابت ہوں.کیونکہ قرآنی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے امر پر بھی غالب ہے اور اپنی تقدیروں کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے اور خوابوں کی تعبیر میں غلطی بھی ہو سکتی ہے.لیکن بہر حال سنت نبوی کے مطابق ایسے موقع پر یہ ضروری ہے کہ دوست زیادہ سے زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ دیں اور جماعت کی ترقی اور اسلام کی سربلندی اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور درازی عمر کے لئے خصوصیت سے دعائیں کرنے کے علاوہ حسب توفیق صدقہ اور خیرات بھی کریں.کیونکہ ایک تو صدقہ و خیرات خدا کو راضی کرنے اور مصیبتوں اور تلخ نقد بیروں کو ٹالنے کا ایک مؤثر اور تجربہ شدہ روحانی ذریعہ ہے اور دوسرے صدقہ وخیرات کے نتیجہ میں جو دعا ئیں غرباء اور مساکین اور یتامیٰ اور بیوگان اور دوسرے مصیبت زدگان کے دلوں سے نکلتی ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کے حضور بڑ اوزن رکھتی ہیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں خصوصیت سے دعائیں بھی کریں اور جن دوستوں کو تو فیق ہو وہ صدقہ و خیرات میں بھی حصہ لیں.تا اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں جماعت کے لئے کوئی امتحان کا وقت آنے والا ہے تو وہ اس کے فضل و کرم سے مل جائے یا جماعت کو اسے کامیابی اور صبر وثبات کے ساتھ برداشت کرنے کی توفیق عطا کرے.اور اللہ تعالیٰ ہر رنگ میں اپنے قائم کردہ سلسلہ اور حضرت

Page 358

مضامین بشیر جلد سوم امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور ساری جماعت کا حافظ و ناصر ہو.(محررہ 9 فروری 1956ء) 336 روزنامه الفضل 12 فروری 1956ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ (12) حواری حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ کی ایک یادگار روایت 1944 ء میں جبکہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزیز کے دعوئی مصلح موعود کے متعلق لدھیانہ میں جلسہ ہوا تھا اور اس کے لئے ہم قادیان سے گئے تھے.اس سفر میں یہ خاکسار بھی حضرت صاحب کے ہمراہ تھا.حضور نے اس سفر میں مجھ سے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح ہمارے بھی بارہ حواری ہیں.چنانچہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بارہ صحابہ کا نام لے کر فرمایا کہ یہ ہمارے حواری ہیں.ان اصحاب کے نام یہ ہیں.(1) حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفه اول) (2) مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی (3) میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (4) مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری (5) ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کلانوری ثم لاہوری (6) ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب آف گوڑیانی (7) شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ثم لاہوری (8) سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی (9) ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب (10) مولوی محمد علی صاحب ایم.اے (11) سیدامیرعلی شاہ صاحب سیالکوٹی

Page 359

مضامین بشیر جلد سوم 337 (12) مفتی محمد صادق صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی اس روایت کے چند دن بعد میں نے حضور کی خدمت میں تحریراً عرض کیا کہ کیا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بارہ نام گنائے تھے یا کہ ویسے ہی حضرت مولوی صاحب کا نام اس فہرست میں نہیں آیا ؟ میرے اس استفسار پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ذیل کا تحریری جواب ارسال فرمایا جو میرے پاس اس وقت تک محفوظ ہے.حضور کا جواب یہ تھا: مولوی عبد الکریم صاحب اس وقت فوت ہو چکے تھے ان کی وفات پر ہی حضرت مسیح موعود نے یہ بات کہی تھی کہ مولوی صاحب کی وفات بڑا حادثہ ہے گر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت ہے مخلص آدمی دے رکھے ہیں.پھر فرمایا حضرت مسیح کی طرح ہمارے بھی حواری ہیں.ہم (یعنی حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت ام المومنین) نے بعض اور نام لئے.مگر آپ نے ان کی نسبت کہا درست ہے کہ وہ بہت مخلص ہیں مگر وہ اس گروہ میں شامل نہیں اوپر کے درج شدہ حواریوں میں سے باقی اسماء تو جماعت میں کافی معروف ہیں اور سلسلہ کے لٹریچر میں بھی ان کا نام کثرت سے آچکا ہے.البتہ ممکن ہے کہ ہمارے بعض نوجوان سید امیر علی شاہ صاحب مرحوم کے نام سے واقف نہ ہوں.سوان کے متعلق اس جگہ صرف اس قدر نوٹ کافی ہے کہ وہ حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹ کے بہنوئی تھے اور محکمہ پولیس میں ملازم تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم احباب میں سے تھے اور بہت مخلص اور دلیر احمدی تھے.جہاں تک مجھے علم ہے انہوں نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی.وَاللهُ أَعْلَمُ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حواری ایک عربی لفظ ہے جس کے لفظی معنی پاک وصاف انسان کے ہیں جو نہ صرف خود پاک وصاف ہو بلکہ دوسروں کو پاک کرنے میں بھی لگا رہے اور اصطلاحاً یہ لفظ ایسے ہی اصحاب پر بولا جاتا ہے جو کسی نبی اور مامور من اللہ کے خاص الخاص انصار میں سے ہوں.سونہایت خوش قسمت ہیں یہ اصحاب جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حواری ہونے کا مقام حاصل کیا.باقی حضرت مسیح ناصری کے بعض حواریوں کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی حواری بھی لغزش کھا گیا یا کمزوری دکھائی تو ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہتے اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور وہی اس کے انجام کی حقیقت کو بہتر جانتا اور وہی اس کے متعلق آخری فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے.لیکن اتنا فرق تو

Page 360

مضامین بشیر جلد سوم 338 ظاہر ہے کہ جہاں حضرت مسیح ناصری کے ایک حواری نے سرے سے اپنے آقا کی صداقت کا ہی انکار کر دیا تھا بلکہ ایک حقیر سی رقم لے کر اسے دشمنوں کے ہاتھوں میں گرفتار کرا دیا تھا اور ایک دوسرے مقرب حواری نے ابتلاء کی شدت کے وقت بیزاری کا اظہار کر دیا تھا وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض حواریوں کی لغزش یا کمزوری در اصل خلافت کے انکار کی صورت میں تھی نہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے انکار کی صورت میں.اس تعلق میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ایک مامور من اللہ کے حواریوں کے متعلق ضروری نہیں ہوتا کہ وہ شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی پارٹی پر مشتمل رہیں بلکہ وہ ایک مامور من اللہ کی ماموریت کے مختلف زمانوں میں مختلف ہو سکتے ہیں.مثلاً ایک حواری کسی مامور کی زندگی میں فوت ہو جائے یا کسی وجہ سے لغزش کھا جائے یا کمزور ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کوئی اور حواری پیدا کر دیتا ہے.چنانچہ میرے علم کے مطابق یہ بات یقینی ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی زندگی میں اپنے بارہ حواری شمار کرتے تو حضرت مولوی صاحب کو بھی ان میں ضرور شامل فرماتے.لیکن چونکہ اس وقت حضرت مولوی صاحب فوت ہو چکے تھے اس لئے حضور نے ان کی جگہ کسی اور مخلص کو اس فہرست میں شامل فرمالیا.مگر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہر مامور من اللہ کو ضرور بارہ حواری ہی ملتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بارہ خاص صحابہ صرف حضرت مسیح ناصری کی مماثلت میں گنوائے تھے.ورنہ اگر اس مخصوص مماثلت کے سوال کو الگ رکھ کر دیکھا جائے تو حضور کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح ناصری کی نسبت بہت زیادہ حواری عنایت کئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حواریوں کا تو کوئی حد وحساب ہی نہیں.آپ کے ہزاروں فدائی صحابیوں نے حضرت مسیح ناصری کے بارہ حواریوں سے بدرجہا بہتر اور بدرجہا افضل اور بدر جہا بہتر نمونہ دکھایا.گو حواری کے لفظ کی صراحت کے ساتھ حدیث میں صرف حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے.جنہیں آپ نے غزوہ خندق کے موقع پر اپنا حواری قرار دیا تھا اور اس وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری ہوتا ہے.اللّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكُ وَسَلِّمُ ضمناً اس جگہ یہ ذکر بھی بے جانہ ہوگا کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی مامور من اللہ کے زمانہ کے بعد ایمان لانے والے یا بعد میں پیدا ہونے والے مومن انفرادی لحاظ سے بھی اس کے حواریوں سے درجہ میں کم تر ہوں.کیونکہ جیسا کہ قرآن مجید اصولی رنگ میں اشارہ فرماتا ہے اور اس اشارہ میں بعد میں آنے

Page 361

مضامین بشیر جلد سوم 339 والے مومنوں کے لئے بڑی بشارت اور بڑی ہمت افزائی ہے.مومن دو قسم کے ہوتے ہیں ایک اَوَّلُونَ اور دوسرے سَابِقُونَ.اَوَّلُونَ وہ مومن ہیں جنہیں زمانہ کے لحاظ سے امتیاز حاصل ہوتا ہے.یعنی وہ ایک مامور من اللہ پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہوتے ہیں.اور حقیقتا یہ ایک بڑا امتیاز ہے.دوسری طرف سَابِقُونَ وہ مومن ہوتے ہیں جو زمانہ کے لحاظ سے آتے تو بعد میں ہیں مگر اپنی اعلیٰ صفات اور ارفع حسنات اور فائق خدمات کی وجہ سے بعض پہلے آنے والوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں.جیسا کہ مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ چھ سال شدید مخالفت کرنے کے بعد ایمان لائے.مگر ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ مقام عطا کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا سب اگلے پچھلے صحابہ پر سبقت لے گئے.یا جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت سے مسجد ڈوں اور بے شمار اولیاء کے بعد مبعوث ہوئے مگر آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے صریحاً الہام فرمایا کہ: آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 92) بالآخر آؤ ہم دعا کریں کہ گو جسمانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مبارک زمانہ گزر چکا ہے مگر روحانی لحاظ سے حضور کا زمانہ اب بھی جاری ہے اور یہ زمانہ خدمت دین کا خاص زمانہ ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حضور کے خاص انصار میں شامل کر کے ایسی خدمت کی توفیق دے جو خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی موجب ہو اور قیامت کے دن ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے مبارک جھنڈے کے نیچے سرفرازی حاصل کریں اور خدا ہم پر راضی ہو اور ہم خدا پر راضی ہوں.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 2 فروری 1956ء) روزنامه الفضل ربوه 12 فروری 1956ء) رمضان میں خاص دعاؤں کی تحریک خدا کے فضل سے رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو گیا ہے.یہ خاکسارسالہا سال ہر رمضان کے شروع میں احباب جماعت کو اس مبارک مہینہ کی ( لفظ پڑھا نہیں جا رہا.ناقل ) برکات اور فیوض کی طرف توجہ دلا کر

Page 362

مضامین بشیر جلد سوم 340 دعاؤں کی تحریک کرتا رہا اور اس تعلق میں لمبے لمبے مضامین لکھتا رہا ہے.مگر اب میری موجودہ صحت لمبے مضامین کی اجازت نہیں دیتی اس لئے ذیل کے مختصر مضمون پر اکتفا کرتا ہوں.وَإِنَّمَا إِلَّا عُمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَلِكُلِّ لِامرىءٍ مَانَوَى (1) انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اور معلوم نہیں کہ اگلے سال رمضان کا مبارک مہینہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے اور کون اس سے پہلے ہی اپنے آسمانی آقا کے پاس پہنچ جاتا ہے.اس لئے اس فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے دوستوں کو چاہئے کہ روزہ اور نفل نماز اور تراویح اور تلاوت قرآن مجید اور صدقہ و خیرات اور درد بھری دعاؤں اور آخری عشرہ کے اعتکاف کے ذریعہ اس مبارک مہینہ کی برکات اور فیوض سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.صدقہ و خیرات کے لئے رمضان کے ابتدائی ایام اور پھر آخری عشرہ کے دن جب کہ عید قریب ہوتی ہے زیادہ مناسب اوقات ہیں.کیونکہ اس سے غریب بھائیوں کو رمضان اچھی طرح گزار نے اور پھر عید کی تیاری کے لئے مددمل جاتی ہے.صدقہ خواہ مقامی طور پر کیا جائے اور خواہ مرکز میں بھجوا دیا جائے دونوں طرح مقبول و مبارک ہے.لیکن بہر حال اپنے ماحول کے غریبوں کو کسی صورت میں نہیں بھولنا چاہئے کیونکہ ہمسائیگی کی وجہ سے ان کا دُہراحق ہے.(2) دعاؤں پر اسلام نے جو زور دیا ہے وہ ظاہر و عیاں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اسے اپنا ایک خاص ہتھیار قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 36) دراصل دعا ایک عظیم الشان روحانی ایٹم بم ہے جسے دشمن کی تباہی اور دوستوں اور عزیزوں کی آبادی اور ترقی کے لئے عدیم المثال طاقت حاصل - ہے.دعا کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عام سنت یہ تھی کہ دعا کے شروع میں عموماً سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے اور اس کے بعد جو دعا مانگنی ہوتی تھی مانگتے تھے.سورۂ فاتحہ کے پڑھنے میں بڑی برکت ہے اور دوستوں کو ہمیشہ یہ گر مد نظر رکھنا چاہئے بلکہ اگر سورہ فاتحہ کے بعد دوسری دعا شروع کرنے سے پہلے درود بھی پڑھ لیا جائے تو گویا یہ سونے پر سہا گہ ہوگا.

Page 363

مضامین بشیر جلد سوم 341 (3) دعاؤں میں (الف) اسلام اور احمدیت کی ترقی (ب) حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی صحت اور درازی عمر اور بیش از پیش خدمت کی زندگی (ج) اہلِ قادیان اور اہلِ ربوہ کی حفاظت اور دینی و دنیوی بهبودی (د) مبلغین جماعت اور مرکزی اور مقامی کارکنوں کے لئے نصرت الہی کے نزول اور (۵) موجودہ نازک اور پر آشوب ایام میں جماعت احمدیہ کی مجموعی حفاظت اور ترقی کی دعاؤں کو سب دوسری دعاؤں پر مقدم کرنا چاہئے.کیونکہ یہ وہ مقاصد ہیں جو اس زمانہ میں خود ذات باری تعالیٰ کے اپنے مقاصد ہیں.(4) ان دعاؤں سے اُتر کر ذاتی دعائیں یعنی جماعت کے بیماروں کی شفایابی ، مصیبت زدوں کی مصیبت سے نجات ، بے روزگاروں کی روزگار، مقروضوں کی قرض سے رہائی ، امتحان دینے والوں کی امتحان میں کامیابی وغیرہ وغیرہ کے لئے بھی ضرور دعائیں کی جائیں.کیونکہ ان دنیوی نعمتوں کا حصول بھی انسان کے اطمینان قلب کا بھاری ذریعہ ہے.اسی طرح ہمارے خاندان میں بھی ایک عرصہ سے بیماریوں اور پریشانیوں کا سلسلہ چل رہا ہے اس کے لئے بھی دعا فرمائی جائے اور یہ بھی کہ خدا تعالیٰ ہمارے خاندان کے افراد کو جماعت کے لئے بہترین روحانی اور اخلاقی نمونہ بننے کی توفیق دے اور ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے.ان ایام میں مجھے کراچی کے امیر جماعت عزیزم مکرم چوہدری عبد اللہ خان صاحب کی طرف سے تار پہنچی ہے جس میں انہوں نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت اور درازی عمر اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعاؤں کی تحریک کرنے کے علاوہ کراچی کی جماعت اور خود اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے دعا کی تحریک کی ہے.سو دوست اس مخلص جماعت اور اس جماعت کے مخلص خادم دین امیر کو بھی اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.اسی طرح امریکہ سے بھی سید عبد الرحمن صاحب کی تار آئی ہے.وہ ایک عرصہ سے بعض مشکلات میں مبتلا ہیں.دوست اپنے اس نیک اور مخلص بھائی کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.اس کے علاوہ کثیر التعداد دوستوں ( بہنوں اور بھائیوں) نے بھی خطوط کے ذریعہ دعا کی تحریک کی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کے نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.(5) دعاؤں کے معاملہ میں یہ اصول بھی ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ گوجیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے دعا ایک بہت بھاری روحانی طاقت ہے.مگر وہی دعا، دعا کہلانے کا حق رکھتی ہے جو رسمی رنگ میں نہیں دل

Page 364

مضامین بشیر جلد سوم 342 کے سوز و گداز اور روح کے درد و کرب کے ساتھ کی جائے اور دعا کرنے والا اس یقین سے معمور ہو کہ میرا خدا واقعی ہر بات پر قادر ہے اور پھر دعا کرتے ہوئے وہ اس پختہ اور زندہ یقین پر قائم ہو کہ اس وقت میں خدا کو دیکھ رہا ہوں اور خدا مجھے دیکھ رہا ہے.کیونکہ اس یقین کے بغیر دعا میں صحیح قلبی کیفیت ہرگز پیدا نہیں ہو سکتی.(6) ضمنا میں اس جگہ یہ بات بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں اپنے متعدد گزشتہ مضمونوں میں تحریک کر چکا ہوں دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تجویز کے مطابق رمضان میں اپنی کسی کمزوری کو سامنے رکھ کر اس کے دور کرنے کا دل میں پختہ عہد بھی کرنا چاہئے.تاکہ رمضان کی برکات عملاً بھی معین صورت میں رونما ہوجائیں.نماز ادا کرنے میں ستی ، روزہ رکھنے میں ستی، چندوں میں ستی ، وصیت کرنے میں ستی ، مرکز میں بار بار آنے میں سستی ، سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کرنے میں سستی، پیغام حق پہنچانے میں ستی، رشوت لینے یا دینے کے بارہ میں کمزوری ، سود لینے یا دینے کے معاملہ میں بے احتیاطی ، گالی گلوچ کی عادت ، غیبت کی عادت، بدنظری کی عادت، حقہ یا سگریٹ پینے کی عادت ، داڑھی منڈانے کی عادت ، لین دین میں بددیانتی ،امانت میں خیانت، جھوٹ بولنے کی عادت ، تجارت میں دھوکہ دہی ، بچوں کی تربیت کے معاملہ میں غفلت وغیرہ وغیرہ بیسیوں قسم کی کمزوریاں ہیں جن میں کمزور طبیعت کے لوگ ماحول کے اثر کے ماتحت مبتلا ہو جایا کرتے ہیں.ان میں سے کسی ایک کمزوری کے متعلق خدا کے ساتھ دل میں عہد کیا جائے کہ میں آئندہ اس کمزوری سے اجتناب کروں گا اور پھر اس عہد کو مومنانہ پختگی اور عزم بالجزم کے ساتھ نبھایا جائے.کسی دوسرے کے سامنے اپنی کمزوری کے اظہار کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسا کرنا خدا کی ستاری کے خلاف ہے.صرف خدا کے حضور دل میں عہد کیا جائے.(7) بالآخر میں پھر حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ نصرہ العزیز کے لئے دوستوں کو خاص طور پر دعا فضلوں اور کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں.حضور کے زمانہ خلافت کو جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص خاص تجلیات سے نوازا ہے اور پھر جس طرح حضور کے متعلق خدا تعالیٰ کے عظیم الشان وعدے ہیں ان کے پیش نظر جماعت کے ہر مخلص دوست کا فرض ہے کہ وہ حضور کے متعلق اس رمضان میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرے.تا اللہ تعالیٰ نہ صرف حضور کو کامل صحت عطا کرے اور نہ صرف حضور کی عمر میں برکت دے بلکہ حضور کی خلافت کی برکات اور فیوض کو پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر ظاہر فرمائے اور حضور کے ذریعہ دنیا میں اسلام اور احمدیت کا بول بالا ہو.

Page 365

مضامین بشیر جلد سوم آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيم ( محررہ 12 اپریل 1956ء ) 8.......فدیہ رمضان کی رقوم 343 (روز نامہ الفضل 18 اپریل 1956ء) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے رمضان کی آمد پر فدیہ کے حوالہ سے ایک نوٹ اخبار الفضل میں شائع کروایا.جس کا کچھ حصہ تو محض اعلان تحریک تھا.مگر ایک حصہ میں فدیہ کی اہمیت بیان ہوئی ہے جو درج ہے....دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ فدیہ رمضان ان لوگوں کے لئے ہے جو کسی طویل بیماری یا لمبی معذوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے یا وہ ایسی مستورات کے لئے ہے جو حمل یا رضاعت کی وجہ سے معذور ہیں.ورنہ وقتی معذوری یعنی سفر اور عارضی بیماری کی صورت میں فدیہ کی بجائے دوسرے ایام میں روزہ رکھنے کا حکم ہے.لیکن بعض علماء اور اولیاء نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ اگر تو فیق ہو تو دونوں صورتوں میں فدیہ ادا کر دینا بہتر ہے.مگر بہر حال فتویٰ وہی ہے جو او پر لکھا گیا ہے...( محررہ 14 اپریل 1956ء).......روزنامه الفضل ربوہ 18 اپریل 1956ء) مولوی عبدالسلام صاحب عمر کی وفات حسرت آیات اور حضرت خلیفہ اول کا عدیم المثال مقام محبت عزیزم مکرم مولوی عبدالسلام صاحب عمر کی وفات کا حادثہ کئی لحاظ سے بہت دردانگیز واقعہ ہے.اول تو وہ حضرت خلیفہ اسی الاول کے بڑے صاحبزادے تھے اور حضرت خلیفہ اول کا جو مقام جماعت میں تھا وہ ظاہر وعیاں ہے.جس پر کسی دلیل یا کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے

Page 366

مضامین بشیر جلد سوم 344 اپنی تصنیفات اور اپنے مکاتیب میں حضرت خلیفہ اول کے علم و عرفان اور آپ کے تقوی وطہارت اور جذبہ خدمت اور جذبہ اطاعت کی ایسے رنگ میں تعریف فرمائی ہے کہ اسے پڑھ کر ایک مومن کی روح وجد میں آنے لگتی ہے.حقیقتا حضرت خلیفہ اول کا مقام تو کل اور مقام زہد و تصوف عدیم المثال تھا اور جماعت احمدیہ میں قرآن کی محبت پیدا کرنے اور پھر نظام خلافت کے استحکام کے تعلق میں آپ نے جو خدمات سرانجام دیں وہ بھی اپنے رنگ میں نظیر نہیں رکھتیں.ایسے عالی مرتبہ باپ کا فرزند اس بات کا حق رکھتا ہے کہ قطع نظر دوسرے حالات کے اس کی وفات پر جتنا صدمہ بھی محسوس کیا جائے وہ کم ہے.اس کے علاوہ مولوی عبد السلام صاحب عمر کا اپنی والدہ صاحبہ محترمہ حضرت اماں جی کی وفات کے اس قد رجلد بعد وفات پانا اور پھر گویا نسبتا جوانی کی عمر میں وفات پانا اور پھر وفات کا اس قدرا چانک واقعہ ہونا کہ جماعت کو ان کی بیماری کا بھی علم نہیں ہو سکا اور پھر ان کا اپنے پیچھے تیرہ کس خوردسالہ اولاد کا چھوڑ نا جن میں سے اکثر ا بھی زیر تعلیم ہیں اور سوائے دولڑکیوں کے ابھی تک ان میں سے کوئی شادی شدہ نہیں.یہ سب ایسے واقعات ہیں جو اس صدمہ.کو بہت بھاری بنا دیتے ہیں.عزیزم مولوی عبدالوہاب صاحب عمر نے اپنے حالیہ مضمون شائع شدہ الفضل میں مولوی عبد السلام صاحب عمر کی زندگی کے بعض واقعات اور ان کے اخلاق کے بعض پہلو بیان کئے ہیں.جن کے اعادہ کی اس جگہ ضرورت نہیں.میں صرف اس دلی محبت اور قدرو منزلت کی وجہ سے جو میرے دل میں حضرت خلیفہ اسیح الاول کی ذات والا صفات کے ساتھ تھی اور ہے اس جگہ صرف ایک واقعہ جو مولوی عبد السلام صاحب کی بچپن کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے بیان کرنا چاہتا ہوں.کیونکہ اس سے حضرت خلیفہ اول کی اس بے پناہ محبت پر بھی روشنی پڑتی ہے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات کے ساتھ تھی.ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ابھی مولوی عبدالسلام مرحوم غالبا چار سال کے تھے اور خود ہمشیرہ مبارکہ بیگم بھی ابھی چھوٹی تھیں کہ ایک دفعہ وہ حضرت خلیفہ اول کے مکان پر قرآن وحدیث کا سبق پڑھنے کے لئے گئیں.اس وقت اتفاق سے ہمشیرہ کے پاس بچپن کی عمر کے مطابق کچھ دانے اخروٹ کے تھے.مولوی عبدالسلام صاحب عمر نے خورد سالی کی بے تکلفی میں ہمشیرہ سے کچھ اخروٹ مانگے اور ساتھ ہی سادگی اور محبت کے رنگ میں کہا کہ ” میں آپ کا نوکر ہوں ہمشیرہ بیان کرتی ہیں کہ اس وقت اتفاق سے مولوی عبد السلام صاحب کے بڑے بھائی مولوی عبدالحی صاحب مرحوم بھی قریب ہی کھڑے تھے.انہوں نے مولوی عبدالسلام صاحب کے یہ الفاظ ( کہ میں آپ کا نوکر ہوں ) سنے تو خود داری کے رنگ میں مولوی

Page 367

مضامین بشیر جلد سوم 345 عبدالسلام صاحب کو ڈانٹا کہ یہ الفاظ مت کہو.مولوی عبدالحی صاحب مرحوم کے یہ الفاظ کسی طرح حضرت خلیفہ اول کے کانوں تک پہنچ گئے.اور حضور نے اسی وقت مولوی عبدالحی صاحب کو بلا کر فر مایا کہ تم عبد السلام کو ان الفاظ کے کہنے سے کیوں روکتے ہو ؟ اور ساتھ ہی مولوی عبدالسلام صاحب کو تاکیداً فرمایا کہ " عبد السلام ! ہم لوگ واقعی حضرت مسیح موعود کے نوکر ہیں.تم میرے سامنے اپنے منہ سے کہو کہ ” میں آپ کا نوکر ہوں چنانچہ مولوی عبدالسلام صاحب کے منہ سے الفاظ کہلانے کے بعد آپ وہاں سے گئے.بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے مگر اس سے محبت کے اس اتھاہ سمندر پر کتنی روشنی پڑتی ہے جو اس مرد خدا اور مرد مومن حضرت خلیفہ اول کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خاندان کے لئے موجزن تھا.ہمشیرہ مبارکہ بیگم کے لئے یا ہمارے لئے مولوی عبدالسلام صاحب عمر یا کسی اور مخلص کا اس قسم کے الفاظ کہنا ہر گز کسی فخر کی بات نہیں (ممکن ہے بلکہ ذاتی لحاظ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اغلب ہے کہ خدا کی نظر میں ان کے اعمال ہم میں سے بعض کے اعمال سے بہتر ہوں ) مگر یقیناً ہمارے لئے نمونہ ساری جماعت کے لئے حضرت خلیفہ اول اور دیگر مخلصین کی وہ محبت موجب صد فخر ہے جو ان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خاندان کے لئے تھی اور ہے.یہ محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان معجزہ ہے جس کی قدر و قیمت دنیا و مافیھا سے بڑھ کر ہے.اللہ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ہے: لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا الفُتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمُ (الانفال : 64) میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور کر کے ہمیں اس مقدس محبت کا اہل بنائے اور ہمیں جماعت کے لئے ہر رنگ میں اچھا نمونہ بنے کی توفیق دے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ دعا کی غرض سے اس جگہ اس بات کا ذکر بھی نا مناسب نہ ہوگا کہ جب جودھامل بلڈنگ لاہور میں یہ خاکسار مولوی عبدالسلام صاحب عمر کا جنازہ پڑھانے لگا تو ابھی میں نے پہلی تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ میری دائیں جانب سے حضرت خلیفہ اول تشریف لائے ہیں.اس وقت آپ کا قد اپنے اصل قد سے کافی لمبا نظر آتا تھا.اس نظارہ کے بعد یہ حالت جاتی رہی.میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے حضرت خلیفہ اول کی روح کو جنت الفردوس میں تسکین عطا کرے اور عزیزم مولوی عبد السلام صاحب مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور ان کے اہل و عیال اور حضرت خلیفہ اول کی دیگر اولاد کادین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.امین

Page 368

مضامین بشیر جلد سوم 346 بات سے بات نکلتی ہے اور خیال پر خیال جمتا ہے اور خلافت اولی سے خلافت ثانیہ کی طرف خیال منتقل ہونا ایک طبعی امر ہے.سوجیسا کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں میں رمضان کے اس مبارک مہینہ میں احباب جماعت سے پر زور تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس مہینہ کی مخصوص تضرعات میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور درازی عمر اور بیش از پیش خدمات اور روز افزوں برکات کے لئے خدا کے حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مبارک سایہ کو جماعت کے سروں پر لمبے سے لمبا کرے اور آپ کے وجود میں وہ تمام وعدے اپنی کامل شان و شوکت کے ساتھ پورے ہوں جو آپ کی موعود خلافت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک پر فرمائے تھے اور آپ کی قیادت میں جماعت کا قدم ہر آن ان عظیم الشان مقاصد کے حصول کی طرف بڑھتا چلا جائے جو اس کے لئے ازل سے مقدر ہیں.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں کے طفیل اس خاکسار راقم آثم کو بھی نیکی اور تقویٰ کے مقام پر قائم ہوتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی مقبول خدمت کی توفیق نصیب ہو.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محررہ 20 اپریل 1956ء)........روزنامه الفضل ربوہ 24 اپریل 1956ء) 10 ایک غلط فہمی کا ازالہ الفضل مؤرخہ 24 اپریل 1956ء میں مولوی عبدالسلام صاحب عمر مرحوم کی وفات پر میرا ایک نوٹ شائع ہوا ہے جس میں حضرت خلیفہ امسیح الاول کے متعلق یہ الفاظ درج ہیں کہ : حقیقتاً حضرت خلیفہ اول کا مقام تو کل اور مقام زہد و تصوف عدیم المثال تھا“ ان الفاظ کے متعلق ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ان سے یہ غلط نبی پیدا ہوتی ہے کہ نعوذ باللہ اس معاملے میں خلیفہ اول کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر انبیاء سے بھی بالا تھا.مجھے تعجب ہے کہ یہ غلط نبی کس طرح پیدا ہوئی جبکہ ہر زبان میں اس قسم کے محاورے شائع شدہ اور متعارف ہیں کہ بعض اوقات اختصار کی غرض سے یا عبارت کی روانی میں بعض الفاظ مطلق رنگ میں استعمال کئے جاتے ہیں مگر قرائن اور دیگر حالات سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہوتی ہے کہ ان کا مفہوم مقید اور محدود ہے نہ کہ مطلق اور غیر محدود.جیسا کہ

Page 369

مضامین بشیر جلد سوم خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے متعلق فرماتا ہے کہ: 347 فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِين (البقره: 48، 123 ) یعنی ہم نے تمہیں تمام عالموں پر فضیلت دی ہے.حالانکہ اس سے تمام زمانے اور تمام قوموں کے لوگ ہر گز مراد نہیں تھے بلکہ صرف محدود زمانہ اور محدود قوموں کے لوگ مراد تھے.میری قلبی محبت جو ( فداہ نفسی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر انبیاء کے ساتھ ہے اسے میرا خدا جانتا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ مجھے جاننے والے لوگ بھی جانتے ہیں.اس کے ہوتے ہوئے میری طرف سے اس معاملہ میں کسی تشریح کی تو ضرورت نہ تھی لیکن چونکہ ایک دوست نے لکھا ہے اس لئے یہ مختصر تشریحی نوٹ الفضل میں بھجوا رہا ہوں.پھر یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ انبیاء کی محبت ہمیں ان خوبیوں اور اوصاف حمیدہ کی طرف سے غافل نہیں کر سکتی جو نبیوں کے خلفاء اور ان کے ممتاز صحابہ میں پائی جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: ”ماہمہ پیغمبراں را چا کریم حضور چونکہ خود خدا کے مامور ومرسل تھے اس لئے حضور کو یہی الفاظ زیب دیتے تھے.کیونکہ نبیوں کا مقدس گروہ اپنے مقاصد کے لحاظ سے ایک دوسرے کا خادم بھی ہوتا ہے اور مخدوم بھی.لیکن میرے جیسے عاجز اور گنہگار بندہ کے لئے تو اصل نعرہ حق یہ ہے کہ ہم سب پیغمبروں اور ان کے خلفاء اور صحابہ اور جملہ اولیاءاور صلحاء کے چاکر ہیں اور اسی کو اپنے لئے سب فخروں سے بڑا فخر سمجھتے ہیں.وَاللَّهُ عَلَىٰ مَا أَقُولُ شَهِيدٌ ( محررہ 29 اپریل 1956ء )........روزنامه الفضل ربوه 2 مئی 1956ء) رمضان کی خاص دعائیں اور اس مہینہ میں کمزوری ترک کرنے کا عہد رمضان کے شروع میں میں نے ایک مختصر سے نوٹ کے ذریعہ احباب جماعت کی خدمت میں

Page 370

مضامین بشیر جلد سوم 348 رمضان کی مخصوص ذمہ داریوں اور رمضان کے مخصوص فیوض کے متعلق تحریک کی تھی اور مجھے خوشی ہے کہ جماعت کا ایک طبقہ اس معاملہ میں توجہ دے کر رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھا رہا ہے.میں نے لکھا تھا جسے اب یاد دہانی کی غرض سے اس مختصر نوٹ میں کسی قدر ازادی کے ساتھ دہرا رہا ہوں کہ یہ مبارک مہینہ اپنے ساتھ بعض خاص ذمہ داریاں لاتا ہے.یہ ذمہ داریاں یوں تو بہت سی ہیں مگران میں ذیل کی دس ذمہ داریاں خاص توجہ کے قابل ہیں: (1) دن کے وقت روزہ رکھنا اور سحری سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے پاس جانے سے پر ہیز کرنا.(2) رات کو تہجد یا تراویح کی نفل نماز ادا کرنا.(3) دن کے اوقات میں بھی حتی الوسع زائد نفلی نماز خصوصا صحی یعنی اشراق کی نماز کا التزام کرنا (4) تلاوت قرآن مجید کی پابندی.اگر رمضان کے مہینے میں دوبار قرآن ختم کیا جا سکے تو بہتر ہے.(5) ہر قسم کے لغو اور جھوٹ اور غیبت وغیرہ سے پر ہیز کرنا.(6) صدقات و خیرات کے ذریعہ اپنے غریب بھائیوں اور بہنوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنا.اسلام نے رمضان میں صدقہ و خیرات پر خاص زور دیا ہے.(7) رمضان کے آخر میں اور عید سے قبل فطرانہ یعنی صدقۃ الفطر ادا کرنا جو اس سال قریباً ساڑھے پانچ آنے فی کس بنتا ہے.(8) رمضان کے مہینہ میں دعاؤں اور تضرعات پر خاص زور دینا اور دعاؤں میں انفرادی اور جماعتی ہر دو قسم کی دعاؤں کو ملحوظ رکھنا.(9) دن رات کی گھڑیوں میں ذکر الہی کی طرف زیادہ توجہ دینا جس میں کلمہ شہادت اور سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ اور استغفارکو نمایاں مقام حاصل ہے اور بالا آخر (10) جن احباب کو توفیق ہو ان کا رمضان کے آخری عشرہ میں مسنون طریق پر کسی مسجد میں اعتکاف بیٹھ کر اور دنیا سے کٹ کر عبادت اور دعاؤں کے لئے گویا کلیتہ وقف ہو جانا جو ایک قسم کی وقتی اور جزوی رہبانیت ہے.یہ وہ دس خاص ذمہ داریاں ہیں جو رمضان کے مہینہ میں مومن مردوں اور عورتوں پر عائد ہوتی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ نہ صرف ربوہ کے احمدی احباب بلکہ تمام مقامی جماعتوں کے دوست اپنے اپنے

Page 371

مضامین بشیر جلد سوم 349 حالات کے مطابق ان ذمہ داریوں کو بصورت احسن ادا کر کے اپنے لئے رمضان کے مہینہ میں رحمت اور برکت کا دروازہ کھولیں گے.دعاؤں میں خصوصیت سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور دراز کی عمر اور بیش از پیش خدمات اور برکات کے علاوہ جماعت کی ترقی اور جماعت کے ہر دو مراکز قادیان اور ربوہ کے لئے بھی خاص طور پر دعائیں کی جائیں.یہ تو رمضان کی ذمہ داریاں تھیں، باقی رہے رمضان کے فیوض.سوان کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں دو باتوں کا خاص طور پر ذکر فرماتا ہے.اول دعاؤں کی مخصوص قبولیت جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : إِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقره: 187) یعنی میں رمضان کے مہینہ میں اپنے بندوں کے زیادہ قریب ہو جاتا ہوں اور ان کی زیادہ دعائیں قبول کرتا ہوں اور پھر رمضان کے آخری عشرہ میں ایک ایسی مبارک رات آتی ہے جس میں دعا کی قبولیت گویا اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور دوم قلوب میں تقویٰ کی روح کا پیدا ہونا جو اعمال صالحہ کی جان اور گویا ہر نیکی کی جڑ ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ...لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقره: 184) یعنی ہم نے روزہ اس لئے فرض کیا ہے کہ تا اے مسلمانو! اس ذریعہ سے تمہارے قلوب میں تقویٰ پیدا ہو.رمضان کے یہ دو فوا ئد یعنی دعا کی قبولیت اور تقویٰ کا حصول اتنے عظیم الشان فوائد ہیں کہ اگر غور کیا جائے تو دنیا و مافیہا کا سودا بھی اس کے مقابل پرستا ہے.پس میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ رمضان کے دونوں پہلوؤں یعنی ذمہ داریوں اور فیوض سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں.بعض احباب نے رویا میں دیکھا ہے کہ دوستوں کو چاہئے کہ اس رمضان میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کر کے اور زیادہ سے زیادہ عبادت بجالا کر خدائی برکات حاصل کریں.کیونکہ اس کے بعد غالباً کچھ وقت تک ایسے امن کا رمضان میسر نہ آسکے گا.بے شک خوا ہیں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور ٹل بھی جاتی ہیں مگر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ اگلے رمضان تک زندہ رہے گا.پس بہر حال ہمارے دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس زرین ہدایت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ: ع اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر ہند زاں پیشتر، که بانگ بر آید فلاں نماند (درشین فارسی ص279)

Page 372

مضامین بشیر جلد سوم 350 دوسری بات میں نے یہ کہی تھی اور اسے بھی مزید تاکید کے ساتھ دہرانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریک کے ماتحت دوستوں کو اس رمضان میں اپنی کسی کمزوری کو سامنے رکھ کر اس کے ترک کرنے کا عہد کرنا چاہئے اور اس طرح رمضان کی برکات کو گویا مجسم اور معین صورت دے کر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے.ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہو یا کہ حقوق العباد سے اور خواہ وہ ذاتی ہو یا کہ جماعتی اور خواہ وہ رشتہ داروں کے حقوق سے متعلق ہو یا دوستوں اور ہمسایوں سے اور خواہ وہ اپنوں پر اثر انداز ہوتی ہو یا کہ غیروں پر اور خواہ اس کا تعلق نیکی کے ترک سے ہو یا کسی بدی کے ارتکاب سے اور خواہ وہ افسروں سے متعلق ہو یا ماتحتوں سے.الغرض بیسیوں بلکہ سینکڑوں قسم کی کمزوریاں ہیں جو انسان کے اخلاق میں راہ پا کر اس کے اخلاق اور دین کو خراب کرتی اور خدا سے دور لے جاتی ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ رمضان میں اپنی کمزوریوں میں سے کسی کمزوری کو سامنے رکھ کر ( دوسروں پر کمزوری کی نوعیت ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ) دل میں خدا سے عہد کریں کہ وہ آئندہ بہر حال اس کمزوری سے مجتنب رہیں گے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر جماعت کے بیس فیصدی دوست بھی اس تجویز کے مطابق عمل کریں تو چند دن کے اندر اندر جماعت کے ہزاروں افراد نیکی کی طرف معین قدم اٹھا کر خدا کا قرب حاصل کر سکتے ہیں.یوں تو ہر شخص اپنے حالات کو بہتر سمجھتا ہے مگر میں اپنے علم کے مطابق جماعت کی مجموعی اصلاح کے پیش نظر ذیل کی چار بنیادی کمزوریوں کے ترک کو دوسری باتوں پر ترجیح دیتا ہوں : (1) نماز اور خصوصاً خشوع و خضوع کی نماز میں سستی.(2) جماعتی چندوں کے معاملہ میں غفلت.(خواہ بالکل عدم ادائیگی کے رنگ میں ستی ہو یا کہ شرح میں کمی کی سستی ) (3) لین دین کے معاملہ میں خرابی اور جھوٹ کی عادت.(4) اولاد کی دینی تربیت میں کوتا ہی.اگر ہمارے دوست ان چار باتوں اور ان کے لوازمات میں نمایاں امتیاز پیدا کر لیں تو وہ اپنی عملی تبلیغ سے ہی دنیا میں ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتے ہیں جو غالبا سالہا سال کی قولی تبلیغ سے بھی پیدا نہیں ہوسکتا اور جن دوستوں کو خدا کے فضل سے یہ باتیں پہلے سے میسر ہوں یا وہ زیادہ ہمت نہ پاتے ہوں تو وہ فی الحال اپنی 6 go دوسری کمزوریوں مثلاً رشوت، غیبت، والدین کی خدمت میں غفلت، بیوی سے بدسلوکی ، ہمسائیوں سے بدسلوکی ، تجارت میں دھوکہ دہی وغیرہ وغیرہ میں سے ہی کسی کمزوری کو سامنے رکھ کر اس کے متعلق اپنے دل

Page 373

مضامین بشیر جلد سوم 351 میں خدا سے عہد کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور ہمیں اپنی حفاظت اور نصرت سے نوازتے ہوئے اس مقام تک پہنچا دے جو اس کی رضا اور ہماری روحانی بقا کا مقام ہے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ( محررہ 27 اپریل 1956ء ) روزنامه الفضل ربوه 2 مئی 1956ء) (12) کیا غیر مسلموں کی دعا ئیں بھی قبول ہو سکتی ہیں؟ دعائیں کیا دوسری قو میں بھی خدائی نشانوں کا مظہر بن سکتی ہیں؟ ایک دوست نے ایک خط کے ذریعہ ایک سوال لکھ کر مجھ سے اس سوال کا جواب مانگا ہے.سوال یہ ہے کہ امریکہ کے مشہور و معروف رسالہ ریڈرز ڈائجسٹ“ کے جنوری نمبر میں ایک مضمون شائع ہوا ہے.جس میں فرانس اور سپین کی سرحد پر واقع ایک چشمہ لورڈز نامی کے بعض غیر معمولی واقعات درج ہیں.کہا جاتا ہے کہ اس چشمہ پر عیسائی لوگ دور دراز علاقوں سے آکر پادریوں کی دعاؤں کے ساتھ غسل کرتے اور مختلف قسم کی بیماریوں سے شفا پاتے ہیں اور بہت سے مریض شفایاب نہیں بھی ہوتے مگر دعوی کیا جاتا ہے کہ شفا پانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ نہ صرف پادریوں کی ایک معقول تعداد بلکہ ماہر ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کی ایک معتد بہ جماعت بھی ان واقعات کی تصدیق کرتی ہے.اس مضمون کی طرف توجہ دلانے کے بعد ہمارے یہ دوست دریافت کرتے ہیں کہ جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس زمانہ میں اسلام ہی خدا کی طرف سے سچاند ہب ہے اور مسلمان ہی خدائی نشانوں کے مظہر ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ عیسائیوں اور دوسری قوموں میں بھی قبولیت دعا اور رحمت الہی کے نزول کے واقعات پائے جاتے ہیں.اس طرح تو اسلام کی صداقت اور اس کی امتیازی علامت مشکوک ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ.یہ وہ سوال ہے جو ہمارے اس دوست نے کیا ہے مگر چونکہ اس سوال کا تفصیلی جواب زیادہ فرصت اور زیادہ صحت چاہتا ہے اور میں آج کل اچھی صحت سے محروم ہوں.اس لئے میں اس جگہ اس سوال کے تاریخی پہلو کی چھان بین سے قطع نظر کرتے ہوئے نہایت اختصار اور اجمال کے ساتھ دو ایک اصولی باتیں لکھنے پر اکتفا

Page 374

مضامین بشیر جلد سوم 352 کرتا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ میرے ان اجمالی اشارات پر غور کرنے سے سمجھدار دوست انشاء اللہ اس بظاہر الجھن والے معاملہ میں دلی تسلی اور قلبی اطمینان کا سامان پاسکیں گے.وَمَا تَوْفِيقِی إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جیسا کہ واقف کار لوگ جانتے ہیں بعض چشموں میں قدرتی طور پر ایسے کیمیاوی اجزاء پائے جاتے ہیں جو بعض خاص قسم کی بیماریوں کو اچھا کرنے اور شفا دینے کی نمایاں خاصیت رکھتے ہیں.چنانچہ بعض پانیوں میں گندھک کی آمیزش ہوتی ہے اور بعض میں مائیکا ملی ہوئی ہوتی ہے اور بعض میں کلورین کا اختلاط ہوتا ہے اور بعض میں اور اور قسم کے نمکیات کی ملاوٹ ہوتی ہے اور بعض میں ایک سے زیادہ اجزاء کا خمیر ہوتا ہے اور جس طرح مختلف قسم کی دوائیاں مختلف قسم کی بیماریوں کو شفا دینے کی اہلیت رکھتی ہیں.اسی طرح ایسے چشموں میں بھی یہ قدرتی تاثیر ہوتی ہے کہ ان میں نہانے والا یا ان کا پانی پینے والا مختلف قسم کی بیماریوں سے شفا پا جاتا ہے اور یہ قدرت کا ایک عام فعل ہے جس سے کوئی واقف کار شخص انکار نہیں کر سکتا.چنانچہ بائبل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں بھی فلسطین کے ملک میں ایک ایسا تالاب ہوتا تھا جس میں نہانے سے کئی قسم کی بیماروں کو شفا ہو جاتی تھی.پس اگر فرانس اور سپین کی سرحد پر بھی اس قسم کا کوئی قدرتی چشمہ ظاہر ہو کر مختلف قسم کے بیماروں کو شفا دیتا ہوتو ہرگز تعجب کی بات نہیں اور نہ اس میں مسیحی لوگوں کے لئے کوئی فخر کی بات ہے.ایسے قدرتی چشمے پاکستان اور ہندوستان کے بعض حصوں میں بھی پائے جاتے ہیں جن میں بعض خاص قسم کی بیماریوں خصوصاً جلدی بیماریوں کو اچھا کرنے کی نمایاں تاخیر پائی جاتی ہے اور کوئی دانا شخص انہیں اپنے یا کسی دوسرے مذہب کا معجزہ بنا کر مشہور نہیں کرتا پھرتا اور فرانس کے مذکورہ بالا چشمہ کا یہ پہلو کہ اس میں نہا کر بعض اچھے نہیں ہوتے اس کی حقیقت کو اور بھی زیادہ نمایاں کر رہا ہے کہ اس کا اثر عام دوائیوں کی طرح ہے جو کبھی نشانہ پر بیٹھتی ہیں اور کبھی خطا بھی کر جاتی ہیں.اس سوال کا دوسرا اور اصولی جواب یہ ہے کہ گو یہ درست ہے کہ اس زمانہ میں اسلام ہی خدا کی طرف سے سچاند ہب ہے اور دوسرے مذاہب محترف و مبدل ہو کر اپنا وقت گزار کر یا آؤٹ آف ڈیٹ" Out of Date‘ ہوکر زندگی کی روح کو کھو چکے اور خدائی نصرت سے محروم ہو چکے ہیں.مگر باوجود اس کے ہم نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا اور نہ کر سکتے ہیں کہ دوسری قومیں دعا کی قبولیت اور خدا کی رحمت کے حصول سے کلّی طور پر محروم ہیں.اسلام کا خدا تو رب العالمین ( یعنی تمام قوموں اور تمام انسانوں کا خدا) ہونے کا مدعی ہے اور ظاہر ہے کہ اگر وہ دوسری قوموں کے تعلق سے بجا طور پر کٹ چکا ہو تو وہ رب العالمین نہیں کہلا سکتا.اس کا رب العالمین ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ کبھی کبھی اس کی وسیع رحمت کا چھینٹا دوسری قوموں پر بھی پڑتا ر ہے اور وہ اس کی

Page 375

مضامین بشیر جلد سوم 353 رحمت سے کلی طور پر منقطع نہ ہو جائیں.یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ تا دوسری قوموں میں خدائی رحمت کی چاشنی کا احساس موجود رہے اور وہ اس کو چہ کے بالکل ہی نابلد نہ ہوجائیں اور تاوہ بچے مذہب کی شناخت اور خدائی نصرت کی علامات کو پہچان کر صداقت کی طرف رہنمائی پاسکیں اور ان کے لئے سبب سے مسبب کی طرف جانے کا رستہ کھلا رہے.اس حقیقت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ” حقیقۃ الوحی“ کے شروع میں بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے.جہاں حضور لکھتے ہیں کہ گو کثرت الہامات اور کثرت اظہار علی الغیب اور کثرت نزول رحمت سے صرف انبیاء کا پاک گروہ ہی مشرف ہوتا ہے لیکن اپنی رحمت کی علامات سے روشناس رکھنے اور اپنے رب العالمین ہونے کے ثبوت کے طور پر اللہ تعالیٰ کبھی کبھی دوسرے لوگوںکو بھی چی خوا میں دکھا دیتا اور بھی بھی بچے الہاموں سے مشرف فرماتا ہے.حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں تک لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ کبھی ایک فاسق فاجر کو بھی سچا الہام ہو جائے.یا کبھی اس کی مضطر بانہ دعا قبولیت کو پہنچ جائے.یا کبھی وہ اپنی ذات یا اپنے عزیزوں میں کوئی خدائی رحمت کا نشان دیکھ لے وغیرہ وغیرہ.چنانچہ ہمارے ماموں جان مرحوم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے اپنی لطیف کتاب ” آپ بیتی میں ایک ہندو بنئے اور اس کی بیوی کا واقعہ لکھا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی درد مندانہ چیخ و پکار کوسن کر انہیں انتہائی مایوسی کی حالت میں اولاد کی نعمت سے نوازا.باقی رہا یہ سوال کہ اگر دنیا پرستوں بلکہ باطل مذہب کے ماننے والوں کی دعائیں بھی قبول ہوسکتی ہیں اور ان کو بھی بچے خوابوں اور خدائی رحمت کے نشانوں سے حصہ مل سکتا ہے تو پھر اسلام کی خصوصیت کیا رہی اور حق و باطل میں کون سا فرق باقی رہا ؟ تو اس کا جواب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ فرق دو عظیم الشان امتیازی نشانوں کے ذریعہ پھر بھی قائم رہتا ہے اور یہ امتیازی نشان اتنے روشن اور اتنے نمایاں ہیں کہ کوئی دانا شخص ان سے انکار کی جرات نہیں کرسکتا.پہلا امتیازی نشان درجہ کے فرق سے تعلق رکھتا ہے.یعنی جہاں بچے مذہب کے بچے متبعین میں دعا کی قبولیت اور خدا کی رحمت کے نزول کے نشانات بہت زیادہ کثرت اور بڑی شان و شوکت سے رونما ہوتے ہیں وہاں دوسروں میں اس روحانی نعمت کا وجود بہت کم تعداد میں اور نسبتاً بہت ادنیٰ حالت میں ظاہر ہوتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مثلاً سوروپے کا مالک بھی دولت رکھنے والا سمجھا جاتا ہے اور لاکھ روپے کا مالک بھی دولت مند کہلاتا ہے.کیونکہ علم اقتصادیات کی رو سے سو روپیہ اور لاکھ روپیہ دونوں دولت ہیں مگر دونوں

Page 376

مضامین بشیر جلد سوم 354 میں قلت اور کثرت کی بناء پر فرق اتنا ظاہر و نمایاں ہے کہ کوئی شخص ایک لمحہ کے لئے بھی اس میں شبہ نہیں کر سکتا.پس پہلا فرق تو درجہ کا فرق ہے کہ جہاں ایک حقیقی طور پر خدا رسیدہ انسان دعاؤں کی قبولیت اور خدائی رحمت کے نزول میں گویا آسمان کا روشن ستارا بن جاتا ہے وہاں اس کے مقابل پر ایک دنیا دار جو استثناء کے رنگ میں محض قلیل طور پر ایسا انعام پاتا ہے وہ ایک معمولی لائین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.پس ظاہری اشتراک کے باوجود دونوں کا فرق ظاہر و عیاں ہے.دوسرا فرق بالمقابل اقتدار سے تعلق رکھتا ہے.یعنی باوجود اس کے کہ ہر دو فریق میں کم و بیش دعا کی قبولیت اور خدائی رحمت کے نشانوں کا وجود پایا جاتا ہے مگر جب بھی وہ ایک دوسرے کے مقابل پر آتے ہیں تو فرعون کے جادوگروں کی طرح ( جو بظاہر اپنے فن میں ماہر تھے ) باطل پرستوں کا سحر خاک ہو کر اڑ جاتا ہے.بے شک فرعون کے ساحروں کے پاس بھی ایک قسم کا چلتا ہوا جاد وموجود تھا.جس نے شروع میں دیکھنے والوں کے دلوں میں بلکہ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں بھی خوف کی کیفیت پیدا کر دی.مگر جب حضرت موسی نے خدائی طاقت اور خدائی معجز نمائی سے اپنا ہاتھ چلایا تو ان جادوگروں کا جادو جھاگ کی طرح بیٹھ کر ختم ہو گیا.یہ اقتدار والا فرق اتنا ظاہر وباہر ہے کہ ایک اندھا بھی اس کے وجود سے انکار نہیں کرسکتا.یہ وہ چیز ہے جو كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أنَا وَرُسُلِى (المجادله : 22) “ کے دائمی وعدہ کے مطابق ہر نبی کے زمانہ میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس لطیف شعر میں اشارہ فرماتے ہیں کہ : قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ( در شین اردوصفحه 150) اور دوسری جگہ فرماتے ہیں: ہے خدا رسوا کرے گا تم کو میں اعزاز پاؤں سنواے منکرو! اب یہ کرامت آنے والی ہے خدا کے پاک بندے دوسروں پر ہوتے ہیں غالب مری خاطر خدا سے یہ علامت آنے والی ( در مشین اردو صفحہ 86) ہے خلاصہ کلام یہ کہ اسلام سے باہر دوسری قوموں اور دوسرے مذہبوں میں دعا کی قبولیت یا خدائی رحمت

Page 377

مضامین بشیر جلد سوم 355 کے نزول کا وجود پایا جانا ہر گز یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ نعوذ باللہ اسلام کے مقابل پر سچے ہیں بلکہ اس سے صرف اور صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ خدا رَبُّ العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کی وسعت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر قوم بہ قدر مراتب اس کی وسیع رحمت سے حصہ پائے.تا کہ نہ صرف عام مخلوق کے ساتھ خدا کی خدائی کا تعلق قائم رہے بلکہ یہ تعلق لوگوں کے دلوں میں خدائی رحمت کی شناخت کے لئے ایک علامت کا بھی کام دے.جس سے وہ حق کی طرف راہ پانے میں مدد حاصل کریں.باقی رہا اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق اور ما بہ الامتیاز کا سوال.سوجیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے یہ فرق دو طرح سے قائم ہوتا ہے.اول درجہ کے لحاظ سے یعنی جہاں ایک مذہب روحانی دولت میں امیر کبیر ہوتا ہے وہاں دوسرا گویا پیسہ پیسہ گنے والا گدائی پوش فقیر.جسے یہ نعمت محض طفیلی رنگ میں حاصل ہوتی ہے.دوسرے بالمقابل اقتدار کا فرق ہے کہ جہاں جہاں بھی اور جب جب بھی ایسی دونوں قوموں کا باہم مقابلہ پیش آتا ہے وہاں لازماً سچاند ہب غالب آتا ہے اور جھوٹا مذ ہب دُم دبا کر بھاگ جاتا ہے.جیسا کہ حضرت موسیٰ کے مقابلہ پر فرعون کے جادوگر مغلوب ہوئے یا جیسا کہ حضرت مسیح ناصری کی معجز نمائی کے مقابلہ پر فریسیوں اور صدوقیوں کی نام نہاد روحانی طاقت نے منہ کی کھائی.یا جیسا کہ حضرت سرور کائنات خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی) کے مقابلہ پر یہودیوں کاسحر اور دیگر اقوام عالم کا طلسم خاک میں مل گیا.یا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر ڈوئی کی مزعومہ قدرت نمائی اور لیکھرام کی باطل تعلی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی.یا جیسا کہ خدا کے فضل سے اب بھی جو مدعی بھی اسلام اور احمدیت کے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ انشاء اللہ روحانی طور پر مغلوب و مقہور ہوگا.وَ ذَالِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيم نوٹ: بیمختصر سا مضمون میں نے صرف دعاؤں کی قبولیت اور نشا نہائے رحمت کے سوال کے متعلق اصولی رنگ میں لکھا ہے.ورنہ اسلام کی صداقت میں بے شمار دوسرے شواہد بھی موجود ہیں جن کے ذکر کی اس جگہ ضرورت نہیں.( محررہ 29 اپریل 1956 ء ) روزنامه الفضل ربوه 3 مئی 1956ء)

Page 378

مضامین بشیر جلد سوم فدیہ کی رقم اب بھی ادا کی جاسکتی ہے 356 اب رمضان کا مبارک مہینہ ختم ہو رہا ہے.اکثر دوست جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتے اپنی اپنی جگہ پر یا مرکز میں اپنا فدیہ ادا کر چکے ہوں گے.مگر ممکن ہے کہ بعض دوستوں کی طرف سے ابھی تک ان کے فدیہ کی رقم ادا نہ ہوئی ہو.ایسے دوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ گو عام حالات میں رمضان کے اندر ہی فدیہ ادا ہونا چاہئے لیکن اگر کسی مجبوری یا کسی بھول چوک کی وجہ سے کسی دوست کا فدیہ ادا ہونے سے رہ گیا ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتویٰ کے مطابق ایسے دوست رمضان گزر جانے کے بعد بھی فدیہ رمضان ادا کر سکتے ہیں.مگر یہ یادر ہے کہ فدیہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو دائم المرض ہونے کی وجہ سے یا پیرانہ سالی کی وجہ سے مستقل ضعف و کمزوری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے.ورنہ عارضی عذر یعنی وقتی بیماری اور سفر کی وجہ سے روزہ ترک کرنے پر دوسرے ایام میں گفتی پوری کرنے کا حکم ہے.(محرره 10 مئی 1956ء) روزنامه الفضل 14 مئی 1956ء) 14 قرآن مجید کی دو مضبوط پناہ گاہیں سورۃ فلق اور سورۃ الناس کی مختصر تفسیر یہ وہ لطیف تفسیر ہے جو 29 رمضان مطابق 11 مئی 1956 ء کو درس قرآن مجید کے اختتام پر مسجد مبارک ربوہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے مدظلہ العالی امیر مقامی نے آخری دوسورتوں کی بیان فرمائی تھی.جس کے بعد نہایت گریہ وزاری اور الحاج کے ساتھ ہزاروں مومنوں کی معیت میں طویل دعا کی گئی اور آخر میں اسی متضرعانہ رنگ میں ایک سجدہ بھی کیا گیا.حضرت میاں صاحب محترم نے یہ مضمون ادارہ الفضل کی درخواست پر برائے اشاعت عطا فرمایا ہے.ادارہ) گزشتہ سال میں نے درس قرآن کے اختتام پر سورہ فلق اور سورۃ الناس کی مختصر سی تفسیر بیان کی تھی اور اس کے ساتھ سورہ فاتحہ اور سورۃ اخلاص کی اجمالی تفسیر کو بھی شامل کر لیا تھا.اب موجودہ رمضان میں

Page 379

مضامین بشیر جلد سوم 357 قرآن مجید کی آخری دوسورتوں کے متعلق پھر کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جو گویا گزشتہ سال کی تفسیر کا تقمہ ہے.اگر دوست اس میں کوئی مفید بات پائیں تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ قرآن مجید جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر 23 سال کے طویل عرصہ میں آہستہ آہستہ نازل ہوا.حتی کہ اس کے نزول کی رفتار اوسطاً ایک آیت فی یوم سے بھی کم بنتی ہے.ایک عجیب وغریب کتاب ہے.قطع نظر دوسری باتوں کے اگر اس کے نزول کی ترتیب اور اس کے مقابل پر اس کی موجودہ ترتیب پر ہی غور کیا جائے تو اس کی تدوین کی بے نظیر حکمت اور اس کی شان کی عدیم المثال بلندی کا پتہ چلتا ہے.کیونکہ جہاں اس کے نزول کی ترتیب طبعاً پیش آمدہ حالات اور اس کے اول المخاطبین کے کوائف اور حوادث کے مطابق رکھی گئی تھی وہاں اس کی مستقل ترتیب کمال حکمت کے ساتھ دائمی اور عالمگیر نفسیاتی اصولوں پر مبنی قراردی گئی ہے.یہ اسی مستقل ترتیب کا تقاضا تھا کہ سورہ فاتحہ کو جو قرآن مجید کا خلاصہ ہونے کی وجہ سے گویا اس کی کنجی کا حکم رکھتی ہے.اس کے نزول کی ترتیب سے ہٹا کر قرآن کے شروع میں رکھ دیا گیا ہے اور دوسری طرف سورۃ فلق اور سورۃ الناس کو جوحضور سرور کائنات کی وفات سے کافی عرصہ پہلے نازل ہوئی تھیں بالکل آخر میں جگہ دی گئی ہے.اس خاص ترتیب کی غرض وغایت یہ ہے کہ تا قرآن کی طرف آنے والا سالک راہ ،سورہ فاتحہ کے دلکش نقوش سے متاثر ہو کر پیچھے ہٹنے کی طاقت نہ پائے اور ایک زبردست مقناطیسی کشش کی طرح اس کی طرف بے اختیار کھنچا چلا جائے.دوسری طرف سورہ فلق اور سورۃ الناس کو اس لئے قرآن کے آخر میں رکھا گیا ہے کہ تا قرآن کے مطالعہ سے فارغ ہونے والا انسان اس کی ظاہری تلاوت ختم کرنے کے بعد بھی اس کی روحانی زنجیروں میں جکڑا ر ہے اور اس سے جدا ہونے کے خطرات سے خوف کھائے.گویا جہاں سورہ فاتحہ اپنی بے نظیر دلکشی کے ذریعہ باہر سے آنے والوں کو اندر کی طرف کھینچتی ہے وہاں یہ آخری دوسورتیں جن کے متعلق میں اس وقت کچھ بیان کرنے لگا ہوں اندر والوں کو اپنی مضبوط چار دیواری میں محفوظ کر کے باہر جانے سے روکتی ہیں.اسی لئے ان دونوں سورتوں کا نام مُعَوَّذَتَين رکھا گیا ہے.یعنی قرآن کی دو پناہ گاہیں یا قرآن پڑھنے والوں کے لئے دو تعویذ.اب ظاہر ہے کہ انسان کو مدنی الطبع یعنی سوشل رجحانات رکھنے والا بنایا گیا ہے اور اسی وجہ سے اسلام میں رہبانیت یعنی ترک دنیا منع ہے.اس سے انسان کو دین داری اور تقرب الی اللہ کی سعی کے باوجود لازماً دنیا کے کاموں میں بھی حصہ لینا پڑتا ہے اور خدا کے رستہ کا سالک بننے کے ساتھ ساتھ دنیا کے تعلقات بھی

Page 380

مضامین بشیر جلد سوم 358 نبھانے پڑتے ہیں.یعنی اگر ایک طرف اسے ایک عبادت گزار اور خدا پرست انسان بننا ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ کسی کا بیٹا بھی ہوتا ہے اور کسی کا باپ بھی ہوتا ہے اور کسی کا بھائی بھی ہوتا ہے اور کسی کا خاوند بھی ہوتا ہے اور کسی کا دوست بھی ہوتا ہے اور کسی کا دشمن بھی ہوتا ہے اور کسی کا افسر بھی ہوتا ہے اور کسی کا ماتحت بھی ہوتا ہے اور کسی کا حاکم بھی ہوتا ہے اور کسی کا محکوم بھی ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ.یہ سارے رابطے (یعنی ایک طرف حقوق اللہ اور دوسری طرف حقوق العباد ) انسان کے لئے جہاں بے انتہا ترقی کا رستہ کھولتے ہیں وہاں اس کے لئے قدم قدم پر ٹھوکر کھانے کا خطرہ بھی پیش کرتے ہیں اور سورہ فلق اور سورۃ الناس انہی دو قسم کے امکانی خطرات کے لئے پناہ گاہوں کے طور پر رکھی گئی ہیں.ان میں سے پہلی پناہ گاہ یعنی سورہ فلق حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے خطرات کے لئے ہے اور دوسری پناہ گاہ یعنی سورۃ الناس حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہے.ترتیب کے لحاظ سے سورہ فلق کوسورۃ الناس سے پہلے رکھا گیا ہے.کیونکہ دنیوی علائق اور مادی رابطے اکثر انسانوں کے لئے دنیا کی زندگی میں زیادہ قابل توجہ اور زیادہ پریشان کن ہوا کرتے ہیں.دوسری طرف سورۃ الناس کو قرآن کے بالکل آخر میں رکھنا اس لئے ضروری تھا تا کہ قرآن پڑھنے والوں اور قرآنی علوم کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے آخری انتباہ کی گھنٹی دینی اور روحانی خطرات کے متعلق بجائی جائے کیونکہ آخری اور دائگی زندگی کے لحاظ سے یہی خطرات انسان کے لئے سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ نازک خطرات ہیں.ایک اور اصولی فرق ان دو سورتوں میں یہ ہے کہ جہاں سورہ فلق میں جو دنیوی خطرات سے تعلق رکھتی ہے پناہ دینے والی ہستی کا صرف ایک صفت یعنی صفتِ رَبِّ الْفَلَقَ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور اس کے مقابل پر خطرات چار، گنائے ہیں.یعنی شَرِّ مَا خَلَقَ اور شَرِّ غَاسِقٍ اور شَرِّ نَفَّاثَاتِ اور شَرِ ماسید.وہاں سورۃ الناس میں جو دینی خطرات سے تعلق رکھتی ہے اس کے بالکل الٹ طریق اختیار کر کے پناہ دینے والی ہستی کی صفات تو تین بیان کی گئی ہیں یعنی رَبِّ النَّاسِ ، مَلِكِ النَّاسِ اور إِلَهِ النَّاسِ مگر خطرہ صرف الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ کی واحد ہستی کے ذکر تک محدود رکھا گیا ہے.یہ فرق دنیوی اور دینی خطرات کے ایک لطیف امتیاز کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور وہ یہ کہ گود نیوی علائق سے تعلق رکھنے والے خطرات کثیر التعداد ہیں اور ان میں تنوع بھی بہت زیادہ ہے مگر اس کے مقابل پناہ دینے والی ہستی بھی وہ جو رَبِّ الْفَلَق ہونے کی وجہ سے ان سب خطرات پر غالب اور فائق ہے.جو ہر مخلوق کی خالق اور ہر نورسحر کامنبع اور ہر مشکل کی مشکل کشا اور پستی سے باہر نکالنے کی طاقت رکھتی ہے.مگر دینی

Page 381

مضامین بشیر جلد سوم 359 خطرات کا مرکزی نقطہ صرف شیطانی روح ہے جو بندے اور خدا کے درمیان جدائی ڈالنے کے لئے کلیتہ وقف ہے.اس لئے سورہ الناس میں اسی کے ذکر پر اکتفا کی گئی ہے.اور چونکہ یہ خطرات خدا تعالیٰ کی تین مخصوص صفات سے غافل رہنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتے ہیں اس لئے ان کے مقابل پر ان تین صفات کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے.جو رَبِّ النَّاس اور مَلِكِ النَّاس اور الہ الناس کے الفاظ میں مذکور ہیں.یعنی اول اس کی صفت ربوبیت یعنی رزاقیت اور پروردگاری.دوم اس کی صفت ملکیت یعنی حکومت و اقتدار اور سوم اس کی صفت الوہیت یعنی معبودیت.شیطان ہمیشہ ان تین الہی صفات پر حملہ کر کے یا دوسرے لفظوں میں انسان کو ان تین صفات کی طرف سے غافل کر کے ہی بندوں کے دین وایمان کو بگاڑا کرتا ہے.جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے سورۃ فلق میں فلق کا لفظ بہت سے معنی دیتا ہے مگر ان میں سے چار معنی زیادہ مشہور و متعارف ہیں.(اول) تمام مخلوقات ( دوم ) نور سحر یعنی صبح کی روشنی ( سوم ) مشکلات کو دور کرنے کی طاقت اور (چہارم ) دو بلندیوں کے درمیان کی پستی اس جگہ یہ چاروں معنی ہی چسپاں ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ میں پناہ لیتا ہوں اس خدا کی جو تمام مخلوقات کا خدا ہے اور کوئی چیز اس کی حکومت سے باہر نہیں.اس لئے وہ اپنی مخلوق کے ہر شر کو مٹانے کی طاقت رکھتا ہے.میں پناہ لیتا ہوں اس خدا کی جو ہر نور کا منبع ہے اور کوئی تاریکی اس نور کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکتی.میں پناہ لیتا ہوں اس خدا کی جو ہر مشکل اور ہر مصیبت اور ہر الجھن کو دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور میں پناہ لیتا ہوں اس خدا کی جو ہر قسم کی پستی پر غالب اور ہر نشیب کو بلندی میں بدلنے پر قادر ہے.اس کے مقابل پر خطرات کے لحاظ سے شَرِّ مَا خَلَقَ سے ہر وہ خطرہ مراد ہے جو مختلف قسم کی مخلوقات کے نقصان رساں پہلوؤں سے پیدا ہوسکتا ہے اور ہر چیز کے غلط استعمال کا نتیجہ بن جاتا ہے اور غَاسِقٍ کے معنی رات کے بھی ہیں اور چاند کے بھی ہیں اور وقب کے معنے رات کی تاریکی کے بڑھ جانے یا چاند کو گرہن لگنے کے ہیں.اس طرح مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ سے مراد یہ ہے کہ میں پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میرے دن کی روشنی رات کے اندھیرے میں بدل جائے.یا میری تقدیر کے چاند کو گرہن لگ جائے.اس کے بعد نفائات کے لفظی معنی پھونکیں مارنے والی ہستیوں کے ہیں.اور عُقد کے معنی ان تعلقات اور رابطوں کے

Page 382

مضامین بشیر جلد سوم 360 ہیں جو افراد اور قوموں کے درمیان پائے جاتے ہیں.اور النفتِ فِي الْعُقَدِ سے مراد ایسی فتنہ پیدا کرنے والی ہستیاں ہیں جو انسانی تعلقات کو بگاڑتی اور پاکیزہ رابطوں کو تباہ کرتی اور معاہدات میں رخنہ ڈالتی اور بندھی ہوئی فطری گر ہوں کو کاٹ کر رکھ دیتی ہیں.بالآخر مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَد کے الفاظ فرما کر ایسے لوگوں کے فتنہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دوسرے لوگوں کی ترقی اور خوش حالی کو دیکھ کر حسد میں جلتے اور مستحق لوگوں کی ترقی میں روڑے اٹکاتے ہیں.اب دیکھو کہ کس طرح ان مختصر الفاظ میں دنیا بھر کے خطرات کو شامل کر کے رَبِّ الْفَلَق سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ وہ تمام مخلوق کا آتا ہے اور کوئی چیز خواہ وہ کتنے ہی زہریلے اثرات کے ساتھ ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے آگے آئے ہمیں اس کی حفاظت میں ہوتے ہوئے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.وہ نور اور روشنی کا منبع ہے اور اگر کوئی انسان اپنے دن کی روشنی کو رات کی تاریکی میں بدل دے یا اپنی قسمت کے چاند کو گرہن کے داغ میں چھپا دے تو پھر بھی وہ اس تاریکی کو دور کرنے اور اس داغ کو دھونے کی طاقت رکھتا ہے.وہ ان فتنہ پرداز لوگوں کی شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں پر بھی آگاہ ہے جو نیک اور شریف لوگوں کے پیچھے لگ کر ان میں انشقاق و افتراق پیدا کرتے اور محبت و اتحاد کے تعلقات کو بگاڑتے اور انفرادی اور قومی معاہدات میں رخنہ پیدا کرتے ہیں اور بالآخر وہ ان حاسدوں کو بھی دیکھ رہا ہے جو ترقی کرنے والے لوگوں کے رستہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور وہ ان کے حسدوں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی طاقت رکھتا ہے.یہ لطیف سورۃ ان سب قسم کے خطرات کے مقابل پر ایک نہایت طاقتور تعویز پیش کرتی ہے.اور کیا ہی بدقسمت ہے وہ شخص جو اس تعویذ کی طرف سے غافل رہ کر خود اپنی تباہی کا بیج بوتا ہے.آخری سورۃ یعنی سورۃ الناس میں شیطانی وساوس اور شیطانی خطرات کے مقابلہ پر خدا کی ان تین صفات کو چنا گیا ہے جن کی طرف سے غافل ہونا انسان کو شیطان کا شکار بناتا اور اسے اس کے آسمانی آقا سے دور پھینک دیتا ہے.ان میں پہلی صفت رَبِّ النَّاسِ ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ خدا ہی ہے جو انسان کو دینی اور دنیوی رزق مہیا کرتا اور اس کی ترقی کے سامان پیدا کرتا ہے.اس کے بعد دوسرے نمبر پر صفت مَلِكِ النَّاس بیان کی گئی ہے.جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان پر اصل حکومت خدا کی ہے اور حقیقی بادشاہت صرف اسی کو حاصل ہے.وہ انسان کو صرف پیدا کرنے اور رزق دینے والا ہی نہیں ہے بلکہ اس پر دائمی حاکم اور اس کی تقدیر خیر وشر کا بھی وہی مالک ہے.تیسری صفت اله الناس بیان کی گئی ہے.یعنی جب خدا ہی انسان کا خالق و رازق ہے اور وہی اس کا حقیقی حکمران ہے تو پھر یہ اسی کا حق ہے کہ انسان اس کی

Page 383

مضامین بشیر جلد سوم 361 عبادت کرے اور اسے چھوڑ کر کسی اور کو اس کا شریک نہ بنائے.یہ وہ صفات ثلاثہ ہیں جن کے ذریعہ ہمیں قرآن مجید کی آخری سورۃ میں شیطان کے حملوں اور دینی خطرات سے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے.ان تین صفات کے مقابل پر اللہ تعالیٰ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ کا ذکر فرماتا ہے.وَسْوَاسِ کے معنی وسوسہ پیدا کرنے والے شیطان کے ہیں.جس کے ساتھ خَنَّاس کا لفظ زیادہ کر کے ، جس کے معنی حملہ کر کے پیچھے ہٹ جانے والے کے ہیں.ہمیں ہوشیار کیا گیا ہے کہ شیطان کے متعلق یہ نہ سمجھو کہ وہ ظاہر وعیاں ہو کر تم پر حملہ کرے گا بلکہ جیسا کہ اس نے تمہارے جد امجد حضرت آدم کے ساتھ کیا.وہ فطرتاً خفیہ رنگ میں آگے آنے اور پھر حملہ کر کے جلدی سے پیچھے ہٹ جانے کا عادی ہے.اور اس حقیقت کو زیادہ نمایاں کرنے کے لئے اس کے بعد الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ کے الفاظ رکھے گئے ہیں.تا یہ اشارہ کیا جائے کہ وساوس کا اصل صدر مقام انسان کا دل وسینہ ہے.پس جب تک اپنے اندر تقویٰ اللہ پیدا کر کے جس کا صدر مقام بھی دل ہے شیطانی وساوس کی روک تھام نہ کی جائے، انسان شیطانی حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا.لہذا ہمیں چاہئے کہ شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے خدا کی صفت ربوبیت اور اس کی صفت ملکیت اور اس کی صفت الوہیت کے ساتھ چمٹے رہیں.کیونکہ شیطان لعین و رجیم کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ ان طاقتور جبروتی صفات کے سامنے آسکے.وہ ازلی بزدل جس کا نام خناس رکھا گیا ہے خدا کے نام سے بھاگتا ہے.مگر چونکہ وہ مخفی حملہ کرتا ہے اس لئے بعض اوقات نیک لوگ بھی حضرت آدم کی طرح وقتی طور پر شیطان کے حملہ کا شکار ہو جاتے ہیں.لیکن جس طرح خدا نے آج سے چھ ہزار سال پہلے آدم کو شیطان کے حملہ سے بچنے کے لئے اپنی بعض خاص صفات کا علم دیا تھا جس کے نتیجہ میں آدم بالآخر اس حملہ سے محفوظ ہو کر دوبارہ جنت ارضی میں داخل ہو گیا تھا.اسی طرح قرآن کی اس آخری سورۃ میں خدا مسلمانوں کو اپنی ان تین خاص صفات کا علم دے رہا ہے.جو شیطان سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری ہیں.یعنی رَبِّ النَّاس اور مَلِكِ النَّاس اور الهِ النَّاس.اگر انسان ان تین صفات الہیہ کے ساتھ پختہ رشتہ جوڑے تو کوئی شیطانی طاقت اسے خدا سے جدا نہیں کر سکتی.وہ کسی کو اپنا رب اور رازق نہ سمجھے مگر خدا کو وہ کسی کو اپناما لک اور حکمران نہ سمجھے مگر خدا کو.اور وہ کسی کو اپنا معبود نہ سمجھے مگر خدا کو.یہ وہ زبر دست تعویذ ہے کہ جو ہر قسم کے ظاہری اور مخفی اور قولی اور فعلی شرک کو جڑ سے کاٹ کر رکھ دیتا ہے اور انسان کو ایسے قلعہ میں پہنچا دیتا ہے جس میں کوئی شیطانی طاقت نقب نہیں لگا سکتی.سب سے آخر میں منَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ کے الفاظ فرما کر اشارہ کیا گیا ہے کہ شیطانی تاثیرات اور

Page 384

مضامین بشیر جلد سوم 362 شیطانی فتنے کسی مخفی جتاتی مخلوق تک ہی محدود نہیں ہوتے.بلکہ یہی تمہارے اندر چلتے پھرتے چھوٹے بڑے لوگ شیطان کے مظہر بن جایا کرتے ہیں اور تمہیں تمہارے خدا سے دور لے جا کر تمہاری روحوں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں.پس تمہیں چاہئے کہ ان سب سے بچ کر رہو.اَلنَّاس سے عربی محاورہ کے مطابق عوام الناس مراد ہیں اور الجنَّةِ سے جس کے بنیادی مفہوم میں مخفی رہنے کا عنصر پایا جاتا ہے خواص اور بڑے لوگ مراد ہیں.جو عموماً دوسرے لوگوں سے الگ رہ کر علیحدگی میں زندگی گزارتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں طبقے اپنے اپنے رنگ میں انسان کی ٹھو کر کا موجب بن جاتے ہیں.اسی طرح الناس سے آج کل کی جمہوری حکومتیں اور جمہوری اقوام بھی مراد ہوسکتی ہیں اور الجنَّةِ سے وہ حکومتیں اور وہ قو میں مراد ہیں جو گویا ایک آہنی پردہ کے پیچھے مخفی طریقہ پر اپنا کام کرتی ہیں.ان دونوں کے ساتھ بعض خاص قسم کے فتنوں کی تاریں الجھی ہوئی ہیں اور ہمارا کام ہے کہ ان دونوں کی طرف سے ہوشیار رہیں.چونکہ آخری زمانہ میں اسلام کے لئے ان دونوں گروہوں کا فتنہ حَتَّى إِذَا فُتِحَ يَأْجُوجُ وَ مَأْجُوجُ کی قرآنی پیشگوئی کے مطابق ایک بہت بھاری فتنہ ثابت ہونے والا تھا.اس لئے خدا نے قرآن کے آخر میں ان دونوں فتنوں سے ہوشیار کر دیا.الغرض یہ دوسورتیں جو اپنی اصل ترتیب یعنی ترتیب نزول سے ہٹا کر قرآن مجید کے آخر میں رکھی گئی ہیں ہمارے تمام دنیوی اور دینی خطرات کے مقابلہ کے لئے دو عظیم الشان تعویز پیش کرتی ہیں اور ان کے ذریعہ ہمارا مہربان آسمانی آقا ہمیں ہوشیار کرتا ہے کہ خواہ تمہارے لئے کوئی دنیا کا خطرہ پیش آئے یا دین کا خطرہ پیش آئے تم اپنے خدا کے دامن سے چمٹے رہو اور ان صفات الہیہ کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر اور اپنے دل و دماغ کو ممسوح رکھو جو ان دو چھوٹی سی سورتوں میں بیان کی گئی ہیں.دنیا کی مختلف چیزیں تمہیں اپنے کانٹوں سے زخمی کرنے اور اپنی تاریکیوں میں مبتلا کرنے اور اپنی زہریلی پھونکوں سے نقصان پہنچانے اور اپنے حسد کی چنگاریوں سے جلانے کی کوشش کریں گی مگر تم رَبِّ الْفَلَق سے پناہ مانگو پھر دنیا کی کوئی چیز تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی.اسی طرح دین کے میدان میں شیطان تمہیں اپنے خفیہ وساوس کے ذریعہ اور جن وانس اپنی سحر آفرینیوں اور ملمع سازیوں کے ذریعہ خدا سے دور کرنے کی تدبیریں کریں گے مگر تم رَبِّ الناس اور مَلِكِ النَّاسِ اور إِلهِ النَّاس کے دامن کے ساتھ لگے رہو.پھر کوئی شیطان کا چیلہ اور کوئی خناس کا ٹولہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.آخر میں میں اپنے عزیزوں اور دوستوں اور بزرگوں سے نہایت دردمندانہ دل کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ یہ دن بہت نازک ہیں اور جماعت کے لئے مختلف قسم کے امتحان در پیش ہیں جن کو تم میں سے اکثر کی

Page 385

مضامین بشیر جلد سوم 363 آنکھ غالبا دیکھ بھی نہیں سکتی.مگر خدائی تقدیر کے نوشتوں کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یہی وہ دن ہیں جنہیں رضائے الہی اور تضرعات میں گزارنے کے بعد جماعت پر خدا کے فضل سے ترقی اور کامرانی کا خاص دور آنے والا ہے.دنیا میں ایک بھاری تغیر پیدا ہورہا ہے اور اقوام عالم گویا ایک نازک چوراہے پر کھڑی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ : پر دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر در پیش ہے یہی ہیں دوستو اس یار کے پانے کے دن پس آؤ کہ اس وقت جبکہ رمضان المبارک کا درس اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے ہم اپنے خدا کے حضور دردمند دل اور سوز و گداز کی روح کے ساتھ دعا کریں کہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کرے اور ہماری تضرعات کو سنے اور ہماری التجاؤں کو قبولیت کا شرف بخشے اور ہمیں دنیا کی آزمائشوں اور دین کے امتحانوں دونوں میں کامیاب و با مراد کرے.وہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کا دن قریب تر لے آئے.ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے کلمہ کا بول بالا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خدا داد مشن غلبہ کا منہ دیکھے.وہ ہمارے امام کو صحت اور درازی عمر اور بیش از پیش خدمات کے ساتھ ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھے اور ان وعدوں کو شاندار رنگ میں پورا فرمائے جو حضور کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں.وہ ہمارے دائمی مرکز قادیان اور ہمارے ثانوی مرکز ربوہ ہر دو کا حافظ و ناصر ہو اور ان میں رہنے والوں کو دوسروں کے لئے پاک نمونہ بننے کی توفیق دے.وہ حضرت مسیح موعوڈ کے صحابہ کو مبہی اور برکت کی زندگی عطا کرے.وہ جماعت کے جملہ کارکنوں کو خواہ وہ مقامی ہیں یا مرکزی مبلغ ہیں یا معلم ، انتظامی عہدہ دار ہیں یا دوسرے صیغوں کے کارکن، اپنی رضا کے مقام پر قائم رکھے.وہ ہم میں سے دین میں کمزوری دکھانے والوں کی مُستیوں اور کوتاہیوں کو دور کرے.وہ ہماری نسلوں کو نیکی کے رستہ پر ڈالے.وہ ہمارے بیماروں کو شفا دے.ہمارے مقروضوں کو قرض سے نجات عطا کرے.وہ ہم میں سے رزق کی تنگی والوں کے لئے رزق کی فراخی کا دروازہ کھولے.وہ ہمارے زیر مقدمہ بھائیوں کو مقدمہ کی صعوبت سے رہائی بخشے.وہ ہمارے امتحان دینے والے عزیزوں کو دین و دنیا کے امتحانوں میں کامیاب کرے.وہ اس رمضان کے مہینہ میں درس دینے والوں اور تراویح پڑھانے والوں کو اپنے فضل و کرم سے نوازے.وہ ہمارے ان بھائیوں اور بہنوں کے نیک مقاصد کو پورا کرے جنہوں نے اس رمضان میں مجھے یا آپ میں سے کسی کو دعا کے لئے لکھا ہے.وہ ہمیں اور ہمارے سب بہنوں اور بھائیوں کو خواہ وہ پاکستان میں ہیں یا باہر، ان نعمتوں سے مالا مال کرے جن

Page 386

مضامین بشیر جلد سوم 364 کا اس نے قرآن شریف کے شروع سورہ فاتحہ کے اندر وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں ان جملہ خطرات سے محفوظ رکھے جن کے متعلق اس نے ہمیں قرآن کی آخری دو سورتوں میں ہوشیار کیا ہے اور ہما را انجام بخیر ہو.بلکہ ہمارے مقدس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے طفیل جن کے ساتھ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الأولى (الضّحى : 5) کا وعدہ ہے.ہماری عاقبت بھی ہماری اولیٰ سے بہتر ہو.آمِيْنَ ثُمَّ آمِيْنَ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اب میں مسنون طریق پر اجتماعی دعا کراتا ہوں.دوست میرے ساتھ شریک ہوں.مگر ایک بات یاد رکھیں کہ دعا کا صحیح طریق یہ ہے کہ دعا کرتے ہوئے سب سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے اور اس کے بعد درود پڑھا جائے اور اس کے بعد اپنے ذوق اور ضرورت کے مطابق جماعتی اور انفرادی دعائیں کی جائیں.جن میں اسلام اور احمدیت کی ترقی اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور درازی عمر کی دعاؤں کو مقدم کیا جائے.لیکن جو دعا بھی ہو دل کے درد اور روح کے سوز وگداز کے ساتھ کی جائے.کیونکہ اس کے بغیر وہ ایک مُردہ جسم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی اور دوست اپنی دعاؤں میں یہ دعا بھی شامل کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرمائے.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ (محرره 11 مئی 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 16 مئی 1956ء) تبلیغ کے چار سنہری گر ( منقول از اخبار آزاد نوجوان مدراس) اخبار آزادنوجوان مدر اس اپنے اخبار کا تبلیغ نمبر شائع کر رہے ہیں اور انہوں نے مجھ سے بھی خواہش کی کہ میں ان کے اس خاص نمبر کے لئے ایک نوٹ لکھ کر ارسال کروں.یہ مختصر سا نوٹ اس غرض کے لئے تحریر کر کے بھجوا رہا ہوں تا کہ مجھے بھی شرکت کا ثواب حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ چاہے تو میرے اس نوٹ کے ذریعہ تبلیغ کے مقدس کام پر لگے ہوئے اصحاب کے واسطے راہنمائی کا ذریعہ پیدا ہو جائے.جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے تبلیغ کے لغوی معنے کسی بات یا پیغام کے پہنچانے کے ہیں اور اصطلاحی طور پر یہ

Page 387

مضامین بشیر جلد سوم 365 لفظ اس شخص کے متعلق بولا جاتا ہے جو اپنے عقائد کو صداقت اور راستی پر مبنی یقین کرتے ہوئے دوسرے لوگوں تک اپنے خیالات پہنچاتا اور انہیں اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ ہر کوشش میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے بعض خاص گر ہوا کرتے ہیں اور جہاں تک میں نے قرآن وحدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سے معلوم کیا ہے اسلام کی تبلیغ کے لئے چار سنہری گر ہیں.جنہیں اختیار کرنے سے خدا کے فضل سے یقینی کا میابی حاصل ہو سکتی ہے..پہلی بات یہ کہ انسان جن خیالات اور عقائد کی تبلیغ کرنا چاہے ان کے متعلق صحیح اور پختہ معلومات حاصل کرے اور محض سنی سنائی باتوں اور کمزور حکایتوں پر اپنی تبلیغ کی بنیاد نہ رکھے.اس لئے ضروری ہے کہ اسلام اور احمدیت کا مبلغ سب سے پہلے اپنے آپ کو احمدیت اور اسلام کی صحیح اور مستند تعلیم سے واقف کرے.اس کے بغیر تبلیغ کرنے والا شخص قدم قدم پر ٹھو کر کھائے گا اور بعض اوقات غلط عقائد کی اشاعت کا موجب بھی بن جائے گا اور خدائی نصرت سے بھی محروم رہے گا.اس زمانہ میں اسلام اور احمدیت کے متعلق صحیح اور پختہ معلومات کا ذریعہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیفات اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تحریرات ہیں.پس ہر مبلغ اسلام اور مبلغ احمدیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان چاروں علم کے منہوں سے پوری پوری واقفیت حاصل کرے.تبلیغ کا دوسراگر طریق تبلیغ سے تعلق رکھتا ہے.جس کے لئے قرآن شریف فرماتا ہے: أدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: 126) یعنی اے مسلمانو ! لوگوں کو حق کی طرف بلاتے ہوئے ایسے دلائل استعمال کیا کرو جن میں براہین عقلیہ کے علاوہ جذباتی اپیل اور روحانی خلیفہ کا خمیر بھی شامل ہو اور پھر اس بات کی احتیاط رکھو کہ تبلیغ کرتے ہوئے کوئی کبھی یا محض ذوقی بات نہ کہی جائے بلکہ صرف احسن بات پر بنیا د رکھی جائے جو ہر لحاظ سے پختہ اور قابل اعتماد ہو اور پھر اس میں ضمناً یہ بھی اشارہ کر دیا گیا ہے کہ تبلیغ کے لئے جبر کرنا یا تشدد سے کام لینا جائز نہیں.بلکہ مناسب اور دکش طریق پر لوگوں کو حق و صداقت کی طرف بلانا چاہئے.یہ ایک ایسی سنہری ہدایت ہے کہ اگر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ اس ایک نصیحت پر ہی پختہ طور پر قائم ہو جائے تو وہ انشاء اللہ عظیم الشان تغییر پیدا کر سکتی ہے.ان کی تبلیغ اول حکمت ہو.دوم موعظہ حسنہ ہو.سوم احسن دلائل پر بنیاد ہو.چہارم ان کا جدال تلوار اور بندوق پر مبنی نہ ہو بلکہ دلائل اور براہین پر مبنی ہو.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک

Page 388

مضامین بشیر جلد سوم 366 حدیث میں فرمایا ہے کہ اگر تم تلوار کے زور سے ایک بستی کی آبادی کا سر قلم کر دو تو اس سے بہتر یہ بات ہے کہ تمہارے ذریعہ ایک بھٹکتی ہوئی روح اسلام کی طرف ہدایت پا جاوے.تیسرا اگر یہ ہے کہ تبلیغ کرنے والا اپنے عقائد اور خیالات کا خود بہترین نمونہ ہو اور یہ نہ ہو کہ اس کا قول تو کچھ ہو اور اس کا عمل اس کے قول کے خلاف ہو.یقینا کسی شخص کی تبلیغ کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے فعل کو اپنے قول کے مطابق بنا کر اپنے عقائد کا اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کرتا.اس لئے قرآن مجید فرماتا ہے: لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ (الصف:3) یعنی اے لوگو ! تم ان باتوں کی تلقین کرتے ہو جن پر تمہارا خود عمل نہیں.اور اس ذریعہ سے تم دنیا میں کیا تبدیلی پیدا کرنے کی امید کر سکتے ہو.پس ضروری ہے کہ ہر مبلغ سب سے پہلے اپنے عقائد کا خود بہترین نمونہ بنے.وہ اگر دوسروں کو توحید کی تلقین کرتا ہے تو پہلے اپنے آپ کو خود موحد ثابت کرے اور ہر قسم کے ظاہری اور مخفی شرک سے مجتنب رہے.وہ اگر نماز روزہ کی نصیحت کرتا ہے تو سب سے پہلے خودنماز روزہ کا نمونہ پیش کرے.وہ اگر خلق اللہ کی ہمدردی کا وعظ کرتا ہے تو سب سے پہلے خود خلق خدا کی ہمدردی کا عملی نمونہ بنے وَغَيْره ذَالِكَ.اس کے بغیر کوئی تبلیغ مؤثر نہیں ہو سکتیا ور ایک مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی.تبلیغ کا آخری سنہری گر یہ ہے کہ انسان تبلیغ کے ساتھ ساتھ اپنی تبلیغ کی کامیابی اور حق وصداقت کی اشاعت اور غلبہ کے لئے خدا سے دعا بھی کرتا رہے.دعا میں بڑی برکت اور بڑی طاقت ہے.لیکن افسوس ہے کہ اس زمانے کے مادہ پرست لوگ اس طاقت کو بھولے ہوئے ہیں.میں اگر دعا کو ایک روحانی ایٹم بم سے تعبیر کروں تو بیجا نہ ہوگا.حقیقت میں دعا نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے اور خدا کے فضلوں کو کھینچنے اور اس کی تلخ تقدیروں سے بچانے کا ایک بہت طاقتور ذریعہ ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اگر ہمارے دوست جو اس وقت ہندوستان میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں اوپر کے چار گروں پر عمل کریں گے اور انہیں اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنا ئیں گے تو ان شاء اللہ انہیں حسب استعداد ضرور کامیابی ہوگی.اس وقت خدائی تقدیر اسلام کو پھیلانے میں برسر کا رہے اور اس کے فرشتے دن رات لوگوں کے دلوں میں ایک جستجو کی کیفیت اور ایک نیک تبدیلی پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں آج سے 30 سال پہلے اسلام کے متعلق مغربی ممالک کا رویہ جرح و تنقید یعنی (Criticism) تھا وہاں اب وہ بدل کر قدرشناس (appreciation) کا رویہ بن گیا ہے اور دلوں میں ایک عظیم تغیر پیدا ہو رہا ہے.دنیا جانے یا نہ جانے یہ تغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود

Page 389

مضامین بشیر جلد سوم 367 علیہ السلام کے انفاس قدسیہ اور روحانی توجہ کا نتیجہ ہے.پس اس وقت کی خدمت حقیقتا ایک مفت کا اجر رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا خوب فرماتے ہیں کہ : بمفت ایں اجر نصرت را، دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا ( در تمین فارسی صفحه 119 ) روزنامه الفضل 30 مئی 1956ء) فضل عمر ہسپتال کا نام کچھ عرصہ ہوار بوہ کے جماعتی ہسپتال کے متعلق ہسپتال کے عملہ نے حضرت صاحب سے درخواست کی تھی کہ اب جب کہ ربوہ میں ہسپتال کی اپنی مستقل پختہ عمارت تعمیر ہورہی ہے تو اس کا کوئی نام بھی تجویز فرما دیا جائے اور عملہ نے اپنی طرف سے فضل عمر ہسپتال نام تجویز کر کے بھیجا.حضرت صاحب نے اس نام کو منظور فرما لیا مگر اس نام کا شائع ہونا تھا کہ بعض لوگوں کی طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں اعتراضات پہنچنے شروع ہو گئے کہ ہسپتال کے سابقہ نام کو جو ” نور ہسپتال“ تھا کیوں بدلا گیا ہے؟ ان دوستوں نے لکھا کہ سابقہ نام حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کے نام پر رکھا گیا تھا اور حضرت خلیفہ اول کو طب کے ساتھ خصوصی تعلق بھی تھا اس لئے وہی سابقہ نام جاری رہنا چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ نے اس اعتراض کا مناسب تشریحی جواب دیا جو الفضل میں چھپ چکا ہے مگر اس پر بھی ان لوگوں کی تسلی نہیں ہوئی اور حضرت صاحب کی خدمت میں مزید خطوط پہنچنے شروع ہو گئے کہ کہ وہی پرانا نام یعنی نور ہسپتال‘ رہنے دیا جائے.چنانچہ حضرت صاحب کو پھر دوبارہ تشریحی اعلان کرنا پڑا جس میں کسی قدر تلخی کا رنگ تھا.اس تعلق میں یہ خاکسار احباب جماعت سے عرض کرنا چاہتا ہے کہ اصل چیز تو حقیقت ہوتی ہے.ناموں کا سوال کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا.اندریں حالات اس قسم کے رسمی امر میں حضرت صاحب کی خدمت میں بار بار خط لکھ کر حضور کو پریشان کرنا خصوصاً جب کہ حضور کی طبیعت علیل ہے اور حضور کو آرام وسکون کی ضرورت ہے بہت ہی نا مناسب بات ہے.بے شک شروع میں مجھے بھی نام کی یہ تبدیلی کچھ غیر مانوس اور غیر ضروری سی نظر آئی تھی لیکن جب حضرت صاحب نے اس کی تشریح فرما دی تو ہر مخلص کو تسلی پا کر خاموش

Page 390

مضامین بشیر جلد سوم 368 ہو جانا چاہئے.کیا کسی ادارہ کا نام حضرت صاحب کی صحت سے زیادہ مقدم ہے کہ اس سوال کو بار بار اٹھایا جارہا ہے؟ مجھے افسوس ہے کہ بعض جلد باز دوست وقت اور حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے خواہ نخواہ حضور کو پریشان کر رہے ہیں.آخر ادب بھی تو کوئی چیز ہے؟ اداروں کے نام ایک رسمی سی بات ہے.ربوہ کے ہسپتال کا نام نور ہسپتال ہو یا فضل عمر ہسپتال اس سے جماعت کی تنظیم اور ترقی پر کیا خاص اثر پڑتا ہے؟ پس خدا کے لئے دوست خاموش ہو جائیں اور حضرت صاحب کو مزید پریشان نہ کریں.کیا ہمارے دوست بنی اسرائیل کے طریق پر قدم مارنا چاہتے ہیں؟ جو ہر بات پر سوالوں اور اعتراضوں کی بھر مار کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنگ کرتے رہتے تھے.چنانچہ جب ایک دفعہ کسی مسلمان کہلانے والے نے اسی قسم کا اعتراض کر کے ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کیا تو آپ نے اس پر یہ الفاظ فرمائے : قَدْ أُوْذِيَ مُوسَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ یعنی حضرت موسی کو بنی اسرائیل نے اپنے ناواجب سوالوں اور اعتراضوں کے ذریعہ اس سے بڑھ کر تنگ کیا تھا.مگر موسی نے صبر سے کام لیا.بہر حال حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ مسیح اثنی ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز دونوں ہی ہمارے امام ہیں.ایک سابق امام اور ایک موجودہ امام.اگر ربوہ میں قائم ہونے والے ایک ادارہ کا نام خواہ وہ فن طب سے ہی تعلق رکھتا ہے عملہ ہسپتال کی تجویز پر فضل عمر ہسپتال نام رکھ دیا گیا تو اس میں اندھیر کون سا ہو گیا جس کی وجہ سے اپنے بیما را مام کو سوالوں کی بھر مار سے تنگ کیا جائے؟ خلیفہ کا مقام تو بہت بالا ہے.اسلام میں تو امام الصلوۃ کا بھی یہ مقام ہے کہ اگر بالفرض اس سے کوئی غلطی ہو جائے ( جیسا کہ نماز پڑھاتے ہوئے بعض اوقات امام سے غلطی ہو جاتی ہے ) تو پھر بھی بہر حال اس کی اقتداء کرنی پڑتی ہے.تو پھر ناموں جیسے رسمی اور دنیوی امر میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کو تنگ کرنا کتنا نا مناسب اور کتنا معیوب ہے!! ربوہ کی آبادی کا شاندار سہرا بہرحال حضر خلیفہ اسیح الثانی ایدہ الہ کے سر پہ ہے.پس اگر یہاں کی کسی نئی عمارت میں منتقل ہونے والے ادارہ کا نام حضرت صاحب کے الہامی نام پر رکھا گیا تو اس میں اعتراض کی کونسی بات ہے.بلکہ یہ امر ہ تخلص کی خوشی کا موجب ہونا چاہئے.لوگوں کے اعتراض سے حضرت خلیفہ اول کی شان میں تو کچھ اضافہ نہیں ہوتا البتہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی پریشانی میں ضرور اضافہ ہو جاتا ہے.

Page 391

مضامین بشیر جلد سوم 369 پس خدا کے لئے ہمارے دوست اپنے فرض کو پہچانیں اور اب اس نا مناسب سلسلہ سوالات کو بند کر دیں.ہر معاملہ کی اہمیت کا ایک مخصوص درجہ ہوتا ہے اور بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ: گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی محرره 16 جون 1956ء) روزنامه الفضل 21 جون 1956ء) جماعت کے نوجوان دعاؤں میں شغف پیدا کریں تقوی اور دعائیں روحانیت کی جان ہیں میں اپنی اس بیماری میں کئی دفعہ سو چتارہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابہ اب صرف خال خال رہ گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان مبارک ہستیوں کی زندگی میں برکت دے اور انہیں تادیر جماعت میں سلامت رکھے.بہر حال خدا تعالیٰ کے اہل قانون قضاء وقدر کے ماتحت یہ چند نفوس اب گویا چراغ سحری کے حکم میں ہیں.جنہیں کسی معمولی سے معمولی بیماری یا کسی معمولی سے معمولی حادثہ کا دھنگا اس عالم ارضی سے عالم بالا کی طرف منتقل کر سکتا ہے.بے شک ایسے صحابہ کی تعدا دا بھی کافی ہے جنہوں نے اپنے بچپن کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور حضور کا کچھ کلام بھی سنا اور گوان کا وجود بھی بہت غنیمت ہے.لیکن اول تو یہ طبقہ اب کم ہو رہا ہے اور پھر ان دوسرے درجہ کے صحابہ کو ان الســـابـقُـونَ الأَوَّلُونَ صحابہ سے فی الجملہ کیا نسبت ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لمبی صحبت کا شرف حاصل کیا.اور شب وروز حضور کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے کھڑے ہو کر جہاد فی الدین میں حصہ لیا اور خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانوں کو بارش کے قطروں کی طرح نازل ہوتے دیکھا اور حضور کے مقناطیسی وجود سے متصل ہو کر گویا خود بھی علی قدر مراتب مقناطیسی وجود بن گئے اور خدا تعالیٰ نے انہیں رویائے صالحہ اور کشوف اور الہام کے شرف سے نوازا اور ایک طرف انہیں دعاؤں میں شغف عطا کیا اور دوسری طرف ان کی دعاؤں کو خاص قبولیت بخشی.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحديد :22) الغرض میں اپنی موجودہ بیماری میں ان باتوں کے متعلق کافی سوچتارہا اور میں نے ارادہ کیا کہ مجھ میں ط

Page 392

مضامین بشیر جلد سوم 370 کچھ طاقت آئے تو جماعت کے نوجوانوں میں تحریک کروں کہ وہ اپنے اندر تقویٰ اللہ اور دعاؤں کی عادت پیدا کر کے گزرنے والے صحابہ کی جگہ لینے کی کوشش کریں تا جماعت میں کوئی خلا نہ پیدا ہونے پائے اور جماعت کا قدم ہر آن ترقی کی طرف اٹھتا چلا جائے اور جماعت کی روحانیت ہمیشہ اعلیٰ مقام پر فائز رہے.چنانچہ اپنے اس خیال بلکہ غیبی تحریک کے ماتحت میں نے مسجد مبارک ربوہ کے امام صاحب کو بھی ایک دن تحریک کی کہ وہ اس کے متعلق جمعہ میں خطبہ دیں اور جماعت کے نوجوانوں میں تقویٰ اللہ اور دعاؤں کی عادت پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائیں اور ساتھ ہی مولوی ابوالعطاء صاحب کو تاکید کی کہ وہ اپنے مضامین اور تقریروں میں بھی اس کا خیال رکھیں.تا جماعت کی صف دوم صف اول کی قائم مقام بننے کے لئے تیار ہو سکے اور خاص عبادت گزاروں اور دعا گوؤں اور اصحاب کشف والہام کا سلسلہ جماعت میں تا قیامت جاری رہے اور اگر سب نہیں تو کم از کم ایک طبقہ ہی اس مبارک مقام پر فائز رہ کر جماعت میں روحانی زندگی کے چمکتے ہوئے آثار قائم رکھ سکے.میں ان خیالات میں ہی غرق تھا کہ اچانک الفضل کی اشاعت مؤرخہ 22 جون 1956ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک تازہ خطبہ نظر سے گزرا.یہ خطبہ حضور نے یکم جون کو مری میں دیا تھا اور اس میں بعینہ وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جس کے متعلق میں اپنی بیماری میں سوچتا رہا ہوں.دوستوں کو چاہئے کہ اس خطبہ کو بڑی توجہ کے ساتھ پڑھیں اور اسے تمام احمدی مسجدوں میں جمعہ کے خطبہ کے طور پر سنایا جائے اور جماعت کو اس کے مضامین کی طرف بار بار توجہ دلائی جائے اور کثرت تکرار کے ذریعہ اسے احمدی نو جوانوں کے دلوں میں اس طرح راسخ کر دیا جائے کہ وہ گویا ان کے جسم کا حصہ بن جائے اور ایک مبارک بیج کے طور پر ان کے دل و دماغ میں بو دیا جائے.دراصل اسلام کے احکام سینکڑوں ہیں مگر روحانیت کا خلاصہ دو باتوں میں آجاتا ہے.ایک تقویٰ اللہ اور دوسرے دعاؤں میں شغف.تقوی گویا ذاتی پاکیزگی اور طہارت کے لئے بطور جڑھ کے ہے اور دعاؤں کی عادت اور دعاؤں میں شغف خدا کے ساتھ ذاتی تعلق کا بنیادی ستون ہے.نماز ، روزہ ، زکوۃ وغیرہ بیشک سب اعلیٰ درجہ کے نیک اعمال ہیں مگر نیکی کی جڑھ تقویٰ ہے.جو گویا اعمال کے ظاہری جسم کے مقابل پر روح کا حکم رکھتی ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے تقویٰ کا صدر مقام دل کو قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا ذَالِكَ مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ اور اس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر جڑ رہی رہا ہے

Page 393

مضامین بشیر جلد سوم 371 نماز، روزہ وغیرہ میں عادت اور ریا اور نمائش کا دخل ہو سکتا ہے مگر تقویٰ کی روح جو دل کی گہرائیوں میں جاگزین ہوتی ہے.وہ عادت اور ریا سے لازماً پاک رہتی ہے.دراصل وہ ایک خالص طاہر و مظہر جو ہر ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور پھر سارے اعضاء پر چھا جاتا ہے.میں نے کئی آدمیوں کو دیکھا ہے جو بظاہر نماز ، روزہ کے پابند نظر آتے ہیں مگر ان میں تقویٰ کی روح مفقود ہوتی ہے.ان کا جسم بظاہر پاک وصاف دکھائی دیتا ہے مگر ان کے دل میں جذام کے داغوں نے غلبہ پا کر اس کی اعلیٰ صفات کو خاک میں ملا دیا ہوتا ہے.وہ ذرا ذراسی بات پر نا جائز باتوں کی طرف اس طرح لپکتے ہیں جس طرح ایک گدھ کسی مُردار کتے کی لاش کی طرف بھاگ کر آتی ہے اور حرام مال کھانا اور حرام مال کے ذرائع تلاش کرنا گویا ان کا دن رات کا مشغلہ ہوتا ہے.پس یہ یقینی بات ہے کہ اصل نیکی نماز ، روزہ میں نہیں ہے یہ تو محض شاخیں ہیں.بلکہ اصل نیکی دل کے تقویٰ میں ہے جو بطور جڑھ کے ہیں اور تقویٰ سے مراد وہ نیکی کا مستقل جذبہ ہے جس کے ماتحت ایک انسان اپنے ہر حرکت و سکون میں خدا کی طرف دیکھتا ہے اور کوئی قدم اس کے منشاء کے خلاف نہیں اٹھاتا.وہ ہر وقت خدا کی رضا کے رستوں کو تلاش کرتا اور اس کی ناراضگی کے مواقع سے اس طرح بچتا ہے جس طرح ایک ہوش و حواس رکھنے والا انسان سانپ یا شیر سے بھاگتا ہے اور حق یہ ہے کہ نماز بھی اس شخص کی نماز ہے جس کے دل میں تقویٰ ہے اور روزہ بھی اسی کا روزہ ہے جس کا دل تقویٰ سے معمور ہے.باقی سب سوکھی ہوئی شاخیں ہیں جن کی ہمارے خدا کے حضور کوئی قدرو قیمت نہیں.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے دل میں تقویٰ پیدا کریں اور یہ بات ہمیشہ یا درکھیں کہ تقوی خدا کی رضا کی تلاش اور اس کی ناراضگی سے بچنے کا نام ہے اور یہ وہ جذبہ ہے جس کا صدر مقام دل ہے اور جس سے ہر نیک عمل کی آبپاشی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں: عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ جس کا کام تقوی اسلام تقوی مبارک وہ ہے حاصل خدا کا اور جام تقوی تقوی مسلمانو! بناؤ تام کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِي

Page 394

مضامین بشیر جلد سوم 372 دوسری چیز جو روحانیت کی جان کہلانے کی حق دار ہے وہ دعاؤں کی عادت اور دعاؤں میں شغف ہے.یہ نیکی ایک طرح تو تقویٰ کا لازمی نتیجہ ہے کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ ایک متقی انسان دعاؤں کی طرف سے غافل رہے اور دوسری طرف یہ نیکی تقویٰ کو زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی ہے.گویا یہ نیکی تقوی کا سبب بھی ہے اور اس کا نتیجہ بھی.اور حق یہ ہے کہ دعا اسلام کی جان ہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس سے انسان کا اس کے آسمانی آقا اور خالق و مالک کے ساتھ ذاتی تعلق قائم ہوتا ہے.جس دین میں خدا کے ساتھ انسان کا ذاتی تعلق قائم نہیں ہوتا وہ دین ہرگز کوئی دین نہیں بلکہ محض ایک مُردہ لاش ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور ہمارے پیارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں دعا پر بہت زور دیا ہے.قرآن مجید فرماتا ہے: ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ (الغافر : 61) یعنی اے میرے بندو! اپنی ہر ضرورت مجھ سے مانگا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا.اور دوسری جگہ فرماتا ہے : قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: 78) یعنی اے رسول ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ اگر تم مجھ سے دعا کے ذریعہ تعلق قائم نہیں کرو گے تو مجھے بھی تمہاری کوئی پروانہیں ہوگی.مگر دعا سے مراد رسمی دعا نہیں بلکہ حقیقی در دوسوز کی دعا مراد ہے جس میں انسان کا دل گویا پگھل کر خدا کے دروازہ پر گر جائے.چنانچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ آپ اس در دوسوز کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا کوئی ہنڈیا اہل رہی ہے اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قو تیں رکھی ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحه 36) پھر فرمایا لیکن اکثر لوگ دعا کی اصل فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دعا کے ٹھیک ٹھکانے پر پہنچنے کے واسطے کس قدر توجہ اور محنت درکار ہے.دراصل دعا کرنا ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 299-300) پس ہمارے احباب کو اور خصوصاً نو جوان عزیزوں کو دعاؤں کی عادت ڈالنی چاہئے.اس کے بغیر خدا کے ساتھ ذاتی تعلق ہرگز قائم نہیں ہوسکتا اور دین محض ایک بے جان سی چیز بن کر رہ جاتا ہے اور خدا کے تازہ

Page 395

مضامین بشیر جلد سوم 373 نشانوں سے محروم ہو کر صرف ایک قصہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے.مگر جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے دعا حقیقی دعا ہونی چاہئے جس کے ساتھ دل کا انتہائی سوز و گداز شامل ہو اور اگر دل کی ہنڈیا نہیں ابلتی تو کم از کم دل سے دھواں تو اٹھے.پس چاہئے کہ خدا کے دامن سے اس طرح چمٹے رہو کہ وہ ایک مہربان باپ کی طرح تمہاری جھولی بھرنے میں خوشی محسوس کرے.مگر یا درکھو کہ دعا ایک یا دو یا تین وقت کی دعا کا نام نہیں.بیشک خدا چاہے تو بندے کی پہلی پکار پر ہی اس کی جھولی بھر دے مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا.بلکہ خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ بندے کے صبر اور استقامت کو بھی آزماتا ہے اور بعض اوقات لمبا سلسلہ دعاؤں کا چلنے کے بعد قبولیت کا وقت آتا ہے.بلکہ بعض بزرگوں کے متعلق تو یہاں تک لکھا ہے کہ انہوں نے نہیں ہیں تمہیں تمہیں سال مسلسل دعا کی اور پھر کہیں جا کر ان کی دعا قبول ہوئی.لیکن اس زمانہ کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے خدا نے إِذَا الْجَنَّةُ از لغت کے الفاظ فرمائے ہیں.اس لئے شاید وہ اب لوگوں کو اتنا نہ آزمائے جتنا پچھلے لوگوں کو آزمایا گیا.مگر کچھ نہ کچھ صبر اور استقامت کا نمونہ تو بہر حال دکھانا ہوگا.دعا کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے دعا کے معاملہ میں خدا کا سلوک اپنے بندوں کے ساتھ دوستانہ رنگ کا ہوتا ہے.کبھی وہ اپنے بندوں کی بات مان لیتا ہے اور کبھی اپنی بات منواتا ہے.پس اگر خدا کسی دعا کورڈ کر دے تو اس پر دلگیر مت ہو اور صبر اور شکر سے کام لو اور یقین رکھو کہ اس میں تمہاری بہتری تھی.دیکھو ایک بچہ بسا اوقات آگ کے خوبصورت اور روشن شعلوں کو دیکھ کر ان کی طرف شوق سے لپکتا ہے مگر ماں باپ اسے روک دیتے ہیں اور وہ ان کے روکنے پر روتا بھی ہے مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتے.پس اگر کوئی دعا رد ہو جائے تو اس پر خدا سے تعلق نہ توڑو بلکہ اور زیادہ مضبوط کرو کیونکہ وہ مستقبل کی باتوں کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے اور وہ تمہاری بہتری کو تم سے زیادہ سمجھتا ہے.اسی لئے ہمارے آقا فداہ نفسی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ سچے مومن کی ہر دعا قبول ہوتی ہے مگر اس کے قبول ہونے کی مختلف صورتیں ہیں.یا تو خدا اپنے بندے کی دعا اسی صورت میں قبول فرمالیتا ہے جس صورت میں کہ وہ مانگی جاتی ہے اور یا اگر یہ دعا خدا کی کسی سنت یا مصلحت کے خلاف ہوتی ہے ، یا خود بندے کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے تو وہ اسے ظاہری صورت میں قبول کرنے کی بجائے اس سے کوئی ایسی تلخ تقدیر جو اس پر آنے والی ہوتی ہے ٹال دیتا ہے اور یا پھر اس کے لئے آخرت میں کوئی نعمت مخصوص کر دیتا ہے.گویا دعا تو ضرور قبول کرتا ہے مگر اس کی قبولیت کی صورت مختلف ہوسکتی ہے.پس دعا کرنے والے کو کسی حالت میں بھی دلگیر یا مایوس نہیں ہونا چاہئے.ہمارا آقا ہر حال میں رحیم و کریم آقا ہے جس کی رحمت میں شک کرنا

Page 396

مضامین بشیر جلد سوم 374 کفر میں داخل ہے.جس نے خدا کی رحمت میں شک کیا وہ گیا.بعض بزرگوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ خدا کی رحمت کے بعض پہلوؤں سے شیطان بھی محروم نہیں ہے.پس آپ لوگ جو ایک خدائی مامور کی جماعت ہیں اور گویا رسول پاک کے آخرین متبعین میں شامل ہیں کیوں مایوس ہوتے ہیں؟ لَا يَايُمَّسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ (يوسف: 88) سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دعا اس الحاح اور درد اور انہماک کے ساتھ کی جائے اور خدا کے دامن کے ساتھ اس طرح لپیٹا جائے اور اس کے باب رحمت پر اپنے آپ کو اس طرح پھینکا جائے کہ وہ ارحم الراحمین آقا اپنے بندے کی تضرعات کے جواب میں کچھ نہ کچھ انکشاف بصورت رؤیا یا کشف یا الہام کرنے کے لئے حرکت میں آجائے.حدیث میں آتا ہے کہ اگر بندہ خدا کی طرف قدم قدم چل کر آتا ہے تو وہ اس کی طرف دوڑ کر پہنچتا ہے.پس اگر دعا میں سوز و گداز کی صحیح کیفیت پیدا ہو جائے تو خدا ضرور کسی نہ کسی رنگ میں اپنا منشاء ظاہر فرما دیتا ہے.خصوصاً جبکہ دعا میں ایک گونہ استخارہ کی کیفیت بھی پیدا کر لی جائے.میرا تجربہ ہے کہ حقیقی دعا جواب سے خالی نہیں رہتی گو جواب کی صورت مختلف ہو سکتی ہے.مگر جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے اس کے لئے دل کا تقویٰ اور سوز و گداز کی کیفیت اور صبر و استقامت کا مقام ضروری شرط ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشُرَى فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمُتِ اللهِ (يونس: 64-65) یعنی جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ تقویٰ بھی اختیار کرتے ہیں ان پر خدا کے فرشتے خدائی بشارتیں لے کر نازل ہوتے ہیں جو اس دنیا اور آخرت دونوں سے تعلق رکھتی ہیں.یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو ہمیشہ رہے گا اور کبھی نہیں بدلے گا.پس خدا کی طرف سے رویا اور کشوف اور الہامات کے نزول کے لئے سچا ایمان اور دل کا تقویٰ جو دینداری کی روح ہے لازمی شرط ہے اور اس شرط کو پورا کرنے والا مومن جو خدا کے دروازہ پر دعاؤں کے ذریعہ گرا رہتا ہے کبھی بھی بشارات ربانیہ سے محروم نہیں رہتا.مگر یا درکھنا چاہئے کہ یہ رستہ نازک ہے اور اس میں بعض اوقات ٹھوکر کا سامان بھی پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے چوکس رہو کہ شیطان دھو کے میں نہ ڈال دے اور کسی سچی خواب آنے یا سچا الہام ہونے پر ہرگز تکبر سے کام نہ لو بلکہ انکساری کے ساتھ خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اپنی ایک نعمت سے نوازا.دیکھو حضرت موسی کے مقابل پر تکبر کرنے والے بلعم باعور نے کس

Page 397

مضامین بشیر جلد سوم 375 طرح ٹھو کر کھائی کہ مہم بنتے بنتے قعر مذلت میں جا گرا.پس مقام شکر بھی ہے اور مقام خوف بھی.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلامی روحانیت کا خلاصہ تقویٰ اور دعا ہے.یہ دونوں چیزیں روحانیت کی جان ہیں.ہماری جماعت کو عموماً اور ہمارے جوانوں کو خصوصاً ان دو باتوں کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.وہ اپنے دل میں تقویٰ پیدا کریں جو نیکی کی روح اور اعمال صالحہ کی جڑ ہے اور وہ دعاؤں کی عادت ڈالیں جو خدا کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں اور اپنی دعاؤں میں ایسا سوز و گداز پیدا کریں اور خدا کے دامن سے اس طرح لپیٹیں کہ اس کی رحمت انہیں گھیر لے اور وہ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الآخِرَةِ (يونس: 65) کے بچے مصداق بن جائیں اور پھر وہ اپنی اولاد کی بھی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ ان کے بعد وہ بھی ان نعمتوں کے حامل بنیں تا یہ سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے اور جماعت کی روحانیت نہ صرف قائم رہے بلکہ اس کا ہر بعد کا قدم پہلے قدم سے آگے اٹھے اور برابر اٹھتا چلا جائے.جیسا کہ میں نے شروع میں بیان کیا ہے اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کم ہوتے جاتے ہیں اور بہت ہی تھوڑے رہ گئے ہیں.پس نو جوانوں کا فرض ہے کہ وہ آگے آکر ان کی جگہ لیں اور تقویٰ اور دعاؤں کی عادت میں اتنی ترقی کریں کہ صحابہ کی طرح خدا کے تازہ بتازہ نشانوں کے مورد بن جائیں.ان کے کانوں میں خدا کی آواز گونجے اور ان کے ہونٹوں پر خدا کا کلام نازل ہو اور ان کے قلوب خدا کی رحمت اور اس کی محبت اور اس کی برکات کا گہوارہ بن جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.میں نے یہ مضمون بیماری کی حالت میں تکلیف کے ساتھ اپنے قلم سے لکھا ہے.خدا کرے کہ اسے وہ تاثیر اور وہ مقبولیت حاصل ہو جو خدا کی طرف سے آتی ہے اور جماعت کے نوجوانوں میں ایک نیک تبدیلی پیدا ہو جائے.اور میرے لئے بھی ثواب اور مغفرت کا موجب ہو.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ محرره 22 جون 1956ء ) روزنامه الفضل ربوہ 26 جون 1956ء) فتنہ منافقین اور خلافت حلقہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حالیہ اعلانات سے جماعت احمدیہ، منافقوں

Page 398

مضامین بشیر جلد سوم 376 کے موجودہ فتنہ سے پوری طرح آگاہ ہو چکی ہے.میرا ارادہ تھا کہ میں اس کے متعلق ایک مفصل مضمون لکھ کر الفضل میں شائع کراؤں تا دوستوں کو اس قسم کے فتنوں اور ان کی نوعیت اور فتنہ پردازی کے طریق کار پر پوری طرح آگا ہی ہو جائے.مگر میری موجودہ بیماری نے مجھے اس کی طاقت نہیں دی.البتہ میں اس جگہ اس تار کا ترجمہ شائع کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو چند دن ہوئے میں نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ارسال کی تھی اور جس کا خلاصہ حضور کی طرف سے الفضل میں شائع کیا جا چکا ہے.مجھے اس تار کی اس لئے ضرورت پیش آئی تھی کہ بعض خنّاس صفت لوگوں نے میرے متعلق یہ افترا باندھا تھا کہ وہ نعوذ باللہ مجھے اپنے خطوں میں آئندہ خلافت کی پیش کش کرتے رہے ہیں.میرے دل کا حال تو خدا جانتا ہے لیکن جو دوست میری طبیعت سے واقف ہیں وہ بھی کم از کم اس بات کی شہادت دے سکتے ہیں کہ میری فطرت طفیلی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کے مطابق واقع ہوئی ہے کہ: قُلْ أَجَرِّدُ نَفْسِي مِنْ ضُرُوبِ الْخِطَابِ میں نے حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی طرح کبھی کسی مجلس تک میں آگے بڑھ کر بیٹھنے کی خواہش نہیں کی چہ جائیکہ امامت یا خلافت کی تمنا میرے دل میں پیدا ہو.اور خلیفہ کی زندگی میں تو آئندہ خلیفہ کا سوال اٹھانا ہی ایک سراسر خلاف اسلام اور شیطانی فعل ہے جس کا ارتکاب صرف منافقوں اور سازشی ٹولہ کو ہی زیب دیتا ہے.میرا ایمان ہے کہ خلافت ایک نہایت ہی بابرکت نظام ہے.جو نبوت کے تتمہ یا تکملہ کے طور پر خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے قائم ہوتا ہے اور گو خلیفہ کے انتخاب میں بظاہر زبان مومنوں کی چلتی ہے مگر در حقیقت تقدیر خدا کی کام کرتی ہے اور یقیناً: وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے“ قرآن مجید نے بارہ (12) جگہ پر خلافت کا ذکر کیا ہے اور بلا استثناء ہر جگہ خلیفہ کے تقرر کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہیں کہ : ”خدا تمہیں ایک قمیص پہنائے گا اور منافق اسے اُتارنا چاہیں گے مگر تم ہرگز ہرگز اس کے اُتارنے پر راضی نہ ہونا“ اور حضرت خلیفہ السیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کی خلافت تو ایک غیر معمولی طور پر شاندار خلافت ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص وعدوں کے مطابق قائم ہوئی ہے.بہر حال جو تار میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده

Page 399

مضامین بشیر جلد سوم 377 اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں چند دن ہوئے بھجوائی تھی اس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.یہ تار میرے قلب کی صحیح آئینہ دار ہے.میں نے تار میں لکھا تھا: والفضل کی اشاعت مؤرخہ 30 جولائی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ رکھا یا اس کے بعض ساتھیوں نے مجھے اس مضمون کے خطوط لکھے تھے جس میں مجھے آئندہ خلافت کی پیش کش کی گئی تھی.یہ ایک خطر ناک افتراء اور گندہ بہتان ہے.مجھے کبھی ایسا کوئی خطا نہیں ملا.اگر کوئی شخص مجھے ایسا کوئی خط لکھتا تو اسے میری طرف سے منہ توڑ جواب ملتا.میرا ہمیشہ سے یہ ایمان رہا ہے جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ اسلامی خلافت کا صحیح نظریہ میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ خلیفہ کا تقرر کلیتہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور صرف وہی شخص خلیفہ بن سکتا ہے جسے خدا اس منصب کے لئے پسند فرمائے.میں اس ناپاک اتہام سے ہاتھ دھوتا ہوں.خاکسار مرزا بشیر احمد ر بوه اس کے بعد مجھے کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں سوائے اس کے اس جگہ اپنے مذکورہ بالا رسالہ کا آخری فقرہ درج کر دینا چاہتا ہوں.میں نے اس رسالہ کے آخر میں لکھا تھا کہ : ” خلافت حقیقتا ایک بہت ہی بابرکت نظام ہے جو نبوت کے تکملہ کے طور پر خدا کی طرف سے قائم کیا جاتا ہے اور پھر تم تو اس وقت خلافت کے سنہری دور میں سے گزررہے ہو.پس اس کی قدر کو پہچا نو کہ پھر خدا جانے کہ کب آئیں یہ دن اور یہ بہار ( محرره 6 اگست 1956 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 8 اگست 1956ء) نظارت اشاعت کی طرف سے شائع شدہ دو پمفلٹ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے حال ہی میں دو (2) پمفلٹ بعنوان ” اکناف عالم میں تبلیغ اسلام اور جماعت احمدیہ اور (2) ” خاتم الانبیاء کا عدیم المثال مقام نہایت خوبصورت پیرائے میں شائع کئے گئے ہیں.پہلے پمفلٹ میں رسالہ ”لائف کے اس مضمون کا ترجمہ اور تصاویر ہیں جو رسالہ مذکور نے سال گزشتہ اسلام پر لکھا تھا اور جس میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا بھی خاص طور پر ذکر ہے اور دوسرے

Page 400

مضامین بشیر جلد سوم 378 پمفلٹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے چند مناسب اقتباسات پیش کئے گئے ہیں.ان دونوں ٹریکٹوں کے ملاحظہ فرمانے کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے مدظلہ العالی نے حسب ذیل رائے کا اظہار فرمایا ہے: یہ سلسلہ بہت مفید ہے اسے جاری رکھنا چاہئے اور مختلف قسم کے مضمونوں پر چھوٹے چھوٹے خوبصورت، دیدہ زیب رسائل نکالتے رہنا چاہئے.موجودہ رسالےصوری اور معنوی ہر دوخو بیوں کے لحاظ سے قابل تعریف ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں نافع الناس بنائے.“ احباب کرام! ان ہر دور سالوں کو زیادہ سے زیادہ دوسرے دوستوں تک پہنچانے اور مفید اثر پیدا کرنے کے لئے نظارت ہذا سے فوری طور پر منگوالیں....ناظر اصلاح وارشادر بوه) روزنامه الفضل ربوه 10 اگست 1956ء) موجودہ فتنہ کے تعلق میں ایک اعتراض کا جواب حضرت خلیفہ اول کی ہرگز کوئی تذلیل نہیں ہوئی موجود ہفتہ کے تعلق میں جہاں منافقوں اور ان کے حامیوں کی طرف سے اور بہت سے اعتراض پیدا کئے گئے ہیں وہاں ایک اعتراض یہ بھی کیا جارہا ہے کہ عوذ باللہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے حضرت خلیفۃ ابیح الاول کے متعلق بعض بہتک آمیز الفاظ استعمال کئے ہیں.جن سے گویا اپنے مقابل پر حضرت خلیفہ اول کی تذلیل اور ان کے مقابل پر اپنی تو قیر اور برتری ثابت کرنا مقصود ہے.اس کے جواب میں یا درکھنا چاہئے کہ جہاں تک اصول کا سوال ہے کسی واقف کار اور سمجھدار انسان کو اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ جیسا کہ درجہ کے لحاظ سے نبیوں میں فرق ہوتا ہے اور خود قرآن مجید نے بھی بڑی وضاحت کے ساتھ یہ اصول بیان فرمایا ہے.جیسا کہ فرماتا ہے کہ : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (البقره: 254) اسی طرح خلفاء میں بھی درجہ کا فرق ہوتا ہے.چنانچہ حدیث میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے

Page 401

مضامین بشیر جلد سوم 379 لَمَا ہیں کہ أَنَا سَيّدُ وُلْدِ ادَمَ وَلَا فَخْرَ اور پھر فرماتے ہیں لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيْسَىٰ حَيَّيْنِ وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِي (تفسیر ابن کثیر جلد اول حاشیہ صفحہ 566).اور خاص خاص مومنوں کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے اَلسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ اور تمام امت محمدیہ عملاً بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اور دیگر صلحاء رضی اللہ عنہم کے مدارج میں فرق کو تسلیم کرتی اور اس کا برملا اقرار کرتی ہے.پس اصولی لحاظ سے تو کسی عقل مند انسان کو اس بات میں اعتراض نہیں ہوسکتا کہ خدا کے نیک بندوں میں خواہ وہ نبی ہوں یا کہ خلیفہ ہوں یا کہ دیگر اولیاء اور صلحاء میں سے ہوں، درجہ کا فرق ہوتا ہے.مگر اس فرق کے ہرگز ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی نبی یا خلیفہ کی افضلیت سے دوسرے نبیوں یا خلیفوں کی تذلیل اور تحقیر لازم آتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فدا نفسی بلاریب سب دوسرے نبیوں سے افضل تھے.مگر کیا اس کی وجہ سے دوسرے نبی نعوذ باللہ ذلیل سمجھے جائیں گے؟ اور جب ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَنَا سَیّدُ وُلْدِ آدَمَ (یعنی میں سب بنی آدم کا سردار ہوں ) تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ آپ نے نعوذ باللہ دوسرے رسولوں کی تحقیر کی ہے؟ یہ نتیجہ صرف وہی شخص نکال سکتا ہے جس کا دماغ عقل کے جو ہر سے خالی ہے اور جو اسلام کے عام نظریات سے بھی محروم مطلق ہے.کسی کے افضل ہونے کے صرف یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے اوصاف یا اپنے کارناموں میں دوسروں سے فائق درجہ رکھتا ہے نہ یہ کہ دوسرے نعوذ باللہ ذلیل ہیں.یا کہ کسی کے افضلیت کے دعوے سے دوسروں کی تحقیر لازم آتی ہے.سب جانتے ہیں کہ بی.اے ایک اعلیٰ درجہ کی ڈگری ہے مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ ایم.اے کی ڈگری سے کم تر ہے.لیکن کسی کو ایم.اے کہنے سے بی.اے کی تذلیل مقصود نہیں ہوتی.صرف ڈگری کا فرق ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے.یہ تو اس اعتراض کا اصولی جواب ہے جو موجودہ فتنہ کے تعلق میں بعض فتنہ پرداز یا کوتاہ اندیشوں کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ لیجیو، دوڑ یو حضرت خلیفہ سیح الثانی ایدہ الہ تعالی نے اپنے اعلانوں میں حضرت خلیفتہ اسیح الاول کی تذلیل کی ہے.یہ لوگ اتنا نہیں سوچتے کہ اگر کسی امر میں حضرت خلیفتہ اسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی افضیلت بیان کی ہے تو اس سے صرف اپنی افضلیت پر خدا کا شکر بجالانا اور جماعت کو ایک حقیقت سے آگاہ کرنا مقصود ہے نہ کہ نعوذ باللہ حضرت خلیفہ اول کی تحقیر اور تذلیل.کہا جاتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک غیر مصدقہ خطبہ میں اعلان فرمایا ہے کہ: ” ہم حضرت خلیفہ اول کا بڑا ادب کرتے ہیں مگر یہ لوگ بتائیں کہ وہ کون سے ملک ہیں جن میں حضرت مولوی نورالدین صاحب نے اسلام کی تبلیغ کی.یورپ ، امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں وہ کوئی ایک ملک

Page 402

مضامین بشیر جلد سوم ہی دکھا دیں جس میں انہوں نے اسلام پھیلایا ہو؟“ 380 اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ان الفاظ پر شور مچایا جاتا ہے کہ ان سے حضرت خلیفہ اول کی تذلیل لازم آتی ہے.حالانکہ یہ صرف ایک اصولی حقیقت کا اظہار ہے تا کہ اپنی جماعت کو ہوشیار کیا جائے کہ تم ایک ایسے خلیفہ کی بیعت میں ہو جس کے ذریعہ خدا نے دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ کا ایک وسیع نظام قائم کر رکھا ہے.اس لئے تمہیں بھی اپنی قربانیوں اور اپنی جدو جہد کو اس وسیع نظام کے مطابق بنانا چاہئے تا کہ اسلام کا بول بالا ہو اور وہ جلد تر ساری دنیا پر غالب آجائے.ہمارے غیر مبائع افراد کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ کلام اصولی رنگ میں اس طرح کا کلام ہے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مسیح ناصری پر اپنی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: مسیح ابن مریم آخری خلیفہ موسیٰ علیہ السلام کا ہے اور میں آخری خلیفہ اس نبی کا ہوں جو خیر الرسل ہے.اس لئے خدا نے چاہا کہ مجھے اس سے کم نہ رکھے خدا دکھلاتا ہے کہ اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ادنیٰ خادم اسرائیلی مسیح ابن مریم سے بڑھ کر ہیں.چونکہ میں ایک ایسے نبی کا تابع ہوں جو انسانیت کے تمام کمالات کا جامع تھا اور اس کی شریعت اکمل اور اتم تھی اور تمام دنیا کی اصلاح کے لئے تھی اس لئے مجھے وہ قوتیں عنایت کی گئیں جو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ضروری تھیں.تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ فطرتی طاقتیں نہیں دی گئیں جو مجھے دی گئیں.کیونکہ وہ صرف ایک خاص قوم (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 154-157) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر مسیحی لوگ خفا ہوں تو ہوں کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح ناصری کو خدا یا خدا کا بیٹا بنا رکھا ہے مگر کسی غیرت مند مسلمان یا کسی غیر مبائع کے لئے ہرگز کسی ناراضگی کی وجہ نہیں.کیونکہ جہاں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے اور صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی اصلاح کے لئے مبعوث کئے گئے تھے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت افضل الرسل ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے اور اپنے آقا و مطاع کی غلامی میں ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: بع ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل کے لئے آئے تھے.“ تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ پایا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی غلامی میں پایا اور آپ کے لائے ہوئے دین کی خدمت کے لئے پایا.پس آپ کا یہ کلام کسی بچے

Page 403

مضامین بشیر جلد سوم 381 محب رسول اور خادم دین متین کے لئے اعتراض کا موجب نہیں ہوسکتا بلکہ فخر کا موجب ہونا چاہئے.بہر حال اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ میں نعوذ باللہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی تذلیل اور تحقیر مقصود نہیں اور خدا جانتا ہے کہ ہرگز نہیں تو یقیناً حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اوپر درج شدہ الفاظ میں بھی حضرت خلیفہ اول کی تذلیل اور تحقیر مقصود نہیں، اور ہر گز نہیں.وَ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَلِكُلِّ امْرِ مَانَوَى اس مثال کے بیان کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ حضرت خلیفہ البیع الثانی ایدہ اللہ کا کام تو ساری دنیا کے لئے ہے اور حضرت خلیفہ اول کا کام صرف ایک محدود حلقہ کے لئے تھا بلکہ میں نے یہ مثال ایک اصولی تشریح کے لئے بیان کی ہے.ورنہ اپنے آقا کی اتباع میں حضرت خلیفہ اول کا حلقہ کار بھی ساری دنیا کے لئے تھا.مگر اس وقت چونکہ جماعت کے کام کی ابتدا تھی اس لئے وہ طبعا ایک قلیل دائرہ میں محدودرہا.مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وقت میں آکر وہ حضور کی خاص والہانہ کوششوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی پیشگوئیوں کے مطابق دنیا کے کناروں تک وسیع ہو گیا.اور یقیناً: ع ایں سعادت بزور بازو نیست تا بخشد خدائے بخشنده یہ اسی قسم کی صورت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحضور کی زندگی کے آخری ایام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافتوں کے متعلق ایک رؤیا میں دکھائی گئی تھی.چنانچہ ایک حدیث میں آپ فرماتے ہیں.( بخاری کتاب فضائل صحابہ) کہ مجھے رویا میں دکھایا گیا کہ ایک کنوئیں سے پہلے حضرت ابوبکر نے ایک ڈول کے ذریعہ پانی نکالا اور لوگوں کو سیراب کیا مگر اس وقت یہ ڈول معمولی سائز کا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں اس ڈول کو کھینچتے ہوئے کچھ ضعف بھی محسوس ہوتا تھا.مگر جب یہ ڈول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں گیا تو وہ ایک بہت بڑا ڈول بن گیا.لیکن پھر بھی حضرت عمرؓ نے اسے طاقتور پہلوانوں کی طرح کھینچا اور ایک دنیا کو سیراب کر دیا.یہ بھی ایک لطیف مماثلت ہے جو خدا نے قائم کر دی ہے.فَافُهُمْ وَ تَدَبَّرُ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ دوسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے اسی خطبہ میں حضرت خلیفہ اول کی اولا د کا ذکر کرتے ہوئے اور اس تعلق میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد ابن ابی بکر کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ:

Page 404

مضامین بشیر جلد سوم 382 اس شرم کے مارے حضرت خلیفہ اول کی گردن جھک جائے گی جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی گردن شرم کے مارے جھک جائے گی جن کے بیٹے نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد اور آپ کے پیارے خلیفہ (عثمان) پر حملہ کیا.“ سواگر یہ غیر مصدقہ الفاظ من وعن حضرت خلیفہ المسح الانی امید اللہ تعالی ہی کے ہیں تو تب بھی کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ ایک اصولی نوعیت کا کلام ہے.جس میں صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اپنی اولاد میں سے بعض کی خرابی کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول اس مخصوص خوشی سے محروم ہو گئے جو ایک نیک انسان کو اپنی اولاد کو نیک دیکھ کر ہوا کرتی ہے اور قیامت کے دن ہوگی.اس میں کیا شبہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک اعلیٰ درجہ کے پاکباز بزرگ تھے جنہیں تمام اہل سنت و جماعت نے سارے صحابہ میں اول نمبر پر شمار کیا ہے.اسی طرح حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں نہایت ممتاز مقام رکھتے تھے اور یقیناً ان ہر دو بزرگوں کی خوشی دوبالا ہو جاتی اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ ہمارے پیچھے ہماری ساری اولا د نے بھی ہما را سچا ورثہ پایا ہے اور یہی وہ احساس ہے جس کے فقدان کو اوپر کے حوالہ میں شرم کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے.ورنہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں، ہم جانتے ہیں اور سارے مسلمان جانتے ہیں کہ الَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخرى (النجم : 39) کے اصول کے ماتحت کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھایا کرتا.خواہ وہ بیٹا ہی ہو یا کہ کوئی اور رشتہ دار ہو، یا کہ کوئی غیر ہو.پس شرم کے لفظ سے یقیناً صرف وہ احساس مراد ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں جو ایک نیک انسان کو اپنی اولاد میں سے کسی کو جادہ صواب سے منحرف دیکھ کر طبعا ہوا کرتا ہے اور ہونا چاہئے.خود ہمارے آقا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق صحیح حدیث میں آتا ہے کہ جب قیامت کے دن آپ اپنے صحابہ کی ایک پارٹی کو دیکھیں گے کہ خدا کے فرشتے انہیں دوزخ کی طرف دھکیلے لئے جارہے ہیں تو آپ نہایت دردمند دل کے ساتھ فرمائیں گے كمْ أَصَيْحَابِي أَصَيْحَابی ، یعنی یہ تو میرے صحابہ ہیں، یہ تو میرے صحابہ ہیں.جس پر فرشتے رسول پاک (فداہ نفسی) سے عرض کریں گے کہ یا رسول اللہ ! آپ نہیں جانتے کہ یہ لوگ آپ کی وفات کے بعد کن اعمال کے مرتکب ہوئے ؟ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ جب انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو طوفان میں غرق ہوتے دیکھا اور دوسری طرف خدا کا یہ وعدہ یاد کیا کہ تیرے اہل وعیال کو عذاب سے

Page 405

383 مضامین بشیر جلد سوم بچایا جائے گا.تو بے چین ہو کر خدا تعالیٰ سے عرض کیا کہ اِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ یعنی خدایا! میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے ہے اور تیرا وعدہ ایک سچا وعدہ ہے تو پھر یہ کیوں غرق ہو رہا ہے؟ جس پر خدا نے فرمایا: إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ...إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الجهلِينَ (هود:47) یعنی اے نوح! یہ لڑکا حقیقت کے لحاظ سے تیرے اہل میں سے نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال غیر صالح ہیں.پس میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ عدم علم کی وجہ سے ایسے سوالات کر کے اپنے آپ کو پریشان مت کر.پس یہ ایک مسلّم اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جہاں اولاد کا نیک ہونا ایک نیک انسان کے لئے غیر معمولی خوشی کا موجب ہوتا ہے وہاں اولاد کا غیر صالح ہونا یا کسی فتنہ میں حصہ لینا نیک انسان کے لئے دکھ اور ایک گونہ شرم کا موجب بھی ہوتا ہے.مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ باپ اپنی اولاد کے گناہوں کا ذمہ دار ہوتا ہے بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اولاد کی خرابی نیک باپ کے لئے دکھ کا موجب ہوتی ہے.اور یہی وہ کیفیت ہے جسے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت کو سمجھانے اور تربیت اولاد کا احساس پیدا کرانے کے لئے شرم کے لفظ سے یاد کیا ہے.وَلِكُلِّ اَنْ يَصْطَلِحَ.ان الفاظ میں ہرگز ان ذی شان بزرگوں پر کوئی اعتراض مقصود نہیں بلکہ یہ الفاظ محض نیک نیتی کے ساتھ ایک حقیقت کے اظہار کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بزرگی اور ارفع شان سے کون مسلمان انکار کر سکتا ہے بلکہ ان کا نیک نمونہ ہمارے لئے ایک زبر دست اسوہ ہے اور ان کی اعلیٰ دینی خدمات ہمارے لئے ایک روشن مشعل ہدایت ! اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ہمارے آقا نے انہیں اپنا رفیق نمبر 1 شمار کیا ہے.اسی طرح حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کی بزرگی اور بلند روحانی مقام سے کوئی سچا احمدی انکار نہیں کر سکتا جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس محبت کے ساتھ فرمایا ہے کہ: چه خوش بودے اگر ہریک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل از نور یقیں بودے پر پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کا ادب نہیں کرتے وہ جھوٹا ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہمارے دل میں حضرت خلیفہ اول کی محبت نہیں وہ جھوٹا ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم

Page 406

مضامین بشیر جلد سوم 384 حضرت خلیفہ اول کو ایک پاکباز اور متقی اور عاشق قرآن بزرگ خیال نہیں کرتے وہ جھوٹا ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم حضرت خلیفہ اول کی خدمات کو کم کر کے دکھانا چاہتے ہیں وہ جھوٹا ہے.باقی رہا درجہ کا سوال سو رسول پاک نے مومنوں کو اس سوال میں پڑنے سے منع فرمایا ہے.ہاں ہم اتنا جانتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جہاں حضرت خلیفہ اول کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے وہاں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر خود رب العرش نے فرمائی ہے.وَ إِنَّهُ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى - بالآخر میں اپنے دوستوں سے صرف یہ مختصر سی بات کہہ کر رخصت ہوتا ہوں کہ یہ فتنوں کے دن ہیں.دوستوں کو ان ایام میں بہت دعائیں کرنی چاہئیں.کیونکہ یہی وہ دن ہوتے ہیں جن میں سچے مومن اپنی درمندانہ دعاؤں کے ذریعہ ترقی کرتے ہیں.کسی بزرگ نے کیا سچ فرمایا ہے کہ : - ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند میں اپنے ذوق کے مطابق آج کل ذیل کی چار دعائیں کرتا ہوں.اگر دوست پسند کریں تو وہ بھی ان دعاؤں کو اختیار کر سکتے ہیں : (1) بیدا کہ اللہ تعالی موجودہ فتنہ میں جماع کا حافظ و ناصر ہواور حضرت خلیفہ مسیح لثانی ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز کو صحت اور برکت اور خدمت کی لمبی سے لمبی زندگی عطا کرے.(2) یہ کہ موجودہ فتنہ میں جو لوگ ملوث ہیں اور خدا کے علم میں ان کی اصلاح مقدر نہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جماعت سے کاٹ کر ان کے فتنہ سے جماعت کو محفوظ کر دے.(3) یہ کہ جولوگ فتنہ میں ملوث ہیں مگر خدا کے علم میں ان کی اصلاح مقدر ہے اللہ تعالیٰ انہیں بچی تو بہ کی توفیق دے اور ان کی اصلاح کا رستہ کھول دے.(4) یہ کہ جولوگ حقیقتا فتنہ میں ملوث نہیں ہیں مگر کسی غلط فہمی کی وجہ سے ملوث سمجھ لئے گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی بریت کا سامان پیدا کرے.یہ وہ چار جامع دعائیں ہیں جو میں آج کل کرتا ہوں اور اگر دوست پسند کریں تو وہ بھی ان چار دعاؤں کا التزام کر کے موجودہ وقت میں جماعت کی روحانی خدمت بجالا سکتے ہیں.مگر علم رکھنے والے دوستوں کو علمی خدمت کی طرف سے غافل نہیں رہنا چاہئے.کیونکہ دعا اور دواہی خدمت کے دو بڑے ذریعے ہیں.گو مجھے افسوس ہے کہ

Page 407

مضامین بشیر جلد سوم 385 میں بوجہ علالت آج کل علمی خدمت سے محروم رہا جاتا ہوں.وَاخِرُ دَعْوَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ( محرره 21 ستمبر 1956) روزنامه الفضل ربوہ 23 ستمبر 1956ء) موجودہ فتنہ کے تعلق میں ایک اور اعتراض کا جواب کیا خلیفہ اسی الثانی اید واللہ نے آئند و خلافت سے متعلق کوئی خاص اشارے کئے ہیں؟ اس وقت جوفتنہ اٹھا ہوا ہے جسے بعض اندرونی منافقوں نے برپا کیا اور بعض بیرونی فتنہ پردازوں نے ہوادی ہے.اس کے متعلق جہاں تک میں نے غور کیا ہے اصل اور حقیقی اعتراض جو کئے جارہے ہیں وہ صرف دو ہیں.جنہیں آڑ بنا کر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بزعم خود بد نام کرنے اور جماعت میں انتشار پیدا کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے.ان دواعتراضوں میں سے پہلا اعتراض تو یہ ہےکہ نعوذ باللہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ الہ تعالی نے اپنے حالیہ اعلانات اور خطبات وغیرہ میں حضرت خلیفہ اول کی بہتک کی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب ترین صحابی اور جماعت کے خلیفہ اول کی تحقیر اور تذلیل کے مرتکب ہوئے ہیں.دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حالیہ اعلانات وغیرہ میں آئندہ خلافت کے متعلق بعض ایسے اشارات کئے ہیں جن میں نعوذ باللہ ایک طرف ایک مخصوص فرد کو آگے لانے اور جماعت کی رائے کو اس کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دوسری طرف بعض دوسرے افراد کو پیچھے ڈالنے اور جماعت کی توجہ کو ان کی طرف سے ہٹانے کی سعی کا رنگ نظر آتا ہے اور یہ بات خلاف تقویٰ ہونے کے علاوہ اسلامی خلافت کے جمہوری نظام میں ناواجب رخنہ اندازی کے مترادف بھی ہے.ان دواعتراضوں میں سے پہلے اعتراض کا جواب تو یہ خاکسار چند دن ہوئے الفضل میں شائع کرا چکا ہے.جہاں میں نے مختصر مگر پختہ دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کی ہرگز کوئی تذلیل نہیں کی گئی بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے صرف اصولی رنگ میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کی روشنی میں خالصتاً نیک نیتی کے ساتھ کہا گیا ہے.ورنہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور مبائعیین کی ساری جماعت میں بلا استثناء

Page 408

مضامین بشیر جلد سوم 386 حضرت خلیفہ اول کے بلند مقام اور آپ کی ارفع شان خلافت حقہ کی پوری طرح قائل اور معترف ہے.میرا یہ شائع شدہ مضمون گو مجمل اور مختصر ہے مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ صاف دل لوگوں کے لئے انشاءاللہ تسلی کا موجب ہوگا.اس کے بعد ذیل کے مختصر نوٹ میں دوسرے اعتراض کا جواب دیا جاتا ہے.جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے خلاف اس طرح کے بہتان عظیم کا رنگ رکھتا ہے جو پہلے اعتراض میں مضمر ہے.لیکن اصل اعتراض کا جواب دینے سے قبل ایک اصولی بات کا بیان کر دینا ضروری ہے جو اسلامی نظامِ خلافت اور مسئلہ خلافت کے فلسفہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.کیونکہ اس کے بغیر اس اعتراض کا جواب پوری طرح سمجھ میں نہیں آسکتا.سو جاننا چاہئے کہ جیسا کہ ہماری طرف سے بار بار اظہار کیا جا چکا ہے کہ قرآن وحدیث اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روشنی میں جماعت مبائعین کا یہ قطعی عقیدہ اور پختہ ایمان ہے کہ گو بظاہر خلیفہ کا انتخاب مومنوں کی رائے سے ہوتا ہے مگر دراصل اس معاملہ میں تقدیر خدا کی چلتی ہے جو مومنوں کے دلوں پر تصرف فرما کر خلافت کے اہل شخص کی طرف مائل کر دیتا ہے.اس لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں بھی خلافت کا ذکر کیا ہے (اور یہ ذکر بارہ جگہ پر آتا ہے ) وہاں لازماً بلا استثناء خلافت کے نظام کو اپنی خاص مشیت کی طرف منسوب فرمایا ہے اور ہر جگہ صراحت فرمائی ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور یہی صراحت بدرجہ اتم سورہ نور کی آیت استخلاف میں درج ہے.جہاں خدا تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کی خلافت کا وعدہ فرماتا ہے جس طرح کہ ان سے پہلے بنی اسرائیل میں قائم کی گئی تھی.الغرض ہمارے عقیدہ کے مطابق خلافت ایک بڑا عجیب و غریب نظام ہے جس میں بظاہر مومنوں کی زبان چلتی ہے مگر حقیقتا تقدیر خدا کی کام کرتی ہے.اسی کی طرف بخاری کی یہ صیح حدیث اشارہ کرتی ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرض الموت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : يَابَى اللَّهُ وَ يَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ ( صحیح بخاری کتاب المرضى ) یعنی میرے بعد خدا تعالیٰ ابو بکر کے سوا کسی اور کی خلافت پر راضی نہیں ہوگا اور نہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اور کے ہاتھ پر جمع ہوگی.یہ لطیف حدیث جس میں خلافت کا ایک عجیب و غریب نظر یہ بیان کیا گیا ہے اسلامی خلافت کے فلسفہ کی جان ہے اور اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ ”الوصیت“ کے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ:

Page 409

مضامین بشیر جلد سوم ہوں گئے 387 میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کے مظہر (رساله الوصیت روحانی خزائن صفحہ 306) گویا خلفاء بظاہر مومنوں کے منتخب کردہ ہونے کے باوجود حقیقتاً خدا کے مقرر کردہ اور اس کے منظور نظر ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ خدا کی قدرت ثانیہ کے مظہر قرار پاتے ہیں.اب اگر اس پس منظر کی روشنی میں جو حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور جماعت مبائین کا قدیم سے غیر متزلزل عقیدہ رہا ہے.دوسرے اعتراض کا تجزیہ کیا جائے تو یہ اعتراض خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتا ہے.اعتراض یہ ہے کہ نعوذ باللہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے حالیہ اعلانات اور خطبات میں سلسلہ احمدیہ کی آئندہ خلافت کے متعلق ایک مخصوص فرد کے حق میں بعض معنی خیز اشارات کئے ہیں اور گویا جماعت کی رائے کو اس کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف بعض دوسرے افراد کے خلاف اشارات کر کے جماعت کی توجہ کو ان کی طرف سے ہٹانے کی سعی فرمائی ہے.کاش اعتراض کرنے والے لوگ اس بات کو مد نظر رکھتے ہ حضرت خلیفہ اصسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے یہ باتیں از خود نہیں کہیں بلکہ بعض فتنہ پردازوں کے ناپاک بیانوں کے جواب میں کہی ہیں.ان فتنہ پردازوں نے جہاں ایک شخص کا نام لے کر یہ کہا ہے کہ ہم موجودہ خلیفہ کے بعد فلاں شخص کو خلیفہ نہیں بنے دیں گے وہاں بعض دوسرے لوگوں کے متعلق یہ کہا ہے کہ ہم فلاں فلاں لوگوں کو خلیفہ بنائیں گے.اب ( خدا حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زندگی کو لمبی سے لمبی کرے ) یہ دونوں باتیں ہمارے عقیدہ کے مطابق اسلامی خلافت کے صحیح نظریہ کے سراسر خلاف اور انتہائی فتنہ انگیزی کے عصر سے معمور ہیں اور ضروری تھا کہ ان دونوں باتوں کا منہ توڑ جواب دیا جاتا تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت خلافتِ اسلامی کے اس مرکزی نقطہ پر قائم رہتی جس پر اسے شروع سے قائم رکھا گیا ہے اور تا جماعت کے بعض سادہ طبع لوگوں میں اس باطل خیال کی وجہ سے کسی قسم کے انتشار یا پریشان خیالی کی صورت نہ پیدا ہوتی.اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنی خاص حکیمانہ شان اور اپنے مخصوص جلالی رنگ میں ان دونوں قسم کے باطل خیالات کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا.جو لوگ ایک خاص فرد کے خلاف یہ بکواس کر رہے تھے کہ ہم اسے خلیفہ نہیں بننے دیں گے آپ نے فرمایا کہ تم کسی کی خلافت میں روک ڈالنے والے کون ہوتے ہو؟ اگر میرے بعد خدا تعالیٰ کی مشیت اسی شخص کو خلیفہ بنانے کے حق میں ہوئی تو خدا تعالیٰ لوگوں کو ان کی گردنوں سے پکڑ کر اس

Page 410

مضامین بشیر جلد سوم 388 کے قدموں میں ڈال دے گا اور فتنہ پیدا کرنے والے اشرار دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے.اور دوسرے فریق کو جو بزعم خود بعض لوگوں کے متعلق کہہ رہا تھا کہ ہم صرف انہی کو خلیفہ مانیں گے.انہیں آپ نے اس طرح للکارا کہ تم خدا کے مقابل پر خلیفہ گرکب سے بنے ہو؟ اگر خدا کی تقدیر ان لوگوں کی خلافت کے حق میں ہوئی تو تمہارے جیسے فتنہ پرداز لوگ ہزار سر پیٹیں اور ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیکھیں وہ ہرگز خلیفہ نہیں بن سکیں گے اور خلیفہ وہی بنے گا جو منظورِ خدا ہوگا.پس یہ ایک اصولی اور مساویانہ رنگ کا جواب تھا جو جماعت کے مسلّمہ عقیدہ کے مطابق حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے ہر دو قسم کے معترضوں کو ان کے مخصوص اعتراضوں کی روشنی میں دیا اور اس حکیمانہ جواب کے ذریعہ جماعت کو ایک خطرناک فتنہ میں مبتلا ہونے اور ایک واضح اسلامی مسلک سے انحراف کرنے سے بچالیا.اس میں کسی شخص کی پاسداری اور کسی شخص کی مخالفت کی نیت تلاش کرنا اسی قسم کی خطر ناک بدظنی ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اِنَّ بَعْضَ الظَّن اثم (الحجرات: 13).جب حضور کے عقیدہ کے مطابق خلیفہ خدا بناتا ہے اور کسی خلیفہ کی زندگی میں آئندہ خلیفہ کی بحث اٹھانا اور لوگوں میں اس کا چرچا کرنا اسلامی نظریات کے مطابق ایک ناجائز فعل ہے اور حضور کی طرف یہ کوشش منسوب کرنا کہ حضور نے نعوذ باللہ ہوشیاری کے رنگ میں ایک شخص کو آگے لانے اور بعض دوسرے لوگوں کو پیچھے ہٹانے کی سازش کی ہے ایک انتہائی قسم کی جسارت ہے جس کی کوئی سچا مومن جرات نہیں کر سکتا.حضور کا جواب عین اسلامی تعلیم کے مطابق دونوں قسم کے معترضوں کے لئے مساویانہ رنگ رکھتا ہے.جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہم فلاں شخص کو خلیفہ نہیں بننے دیں گے ان کے لئے اسلام کا جواب اور قرآن کا جواب اور حدیث کا جواب یہی ہے کہ جب خلیفہ خدا بناتا ہے تو تم کون ہوتے ہو کہ کسی کی خلافت میں روک بن سکو؟ اور جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہم صرف فلاں شخص کو خلیفہ مانیں گے ان کے لئے اسلام اور قرآن اور حدیث کا یہی جواب ہے کہ جب خلافت خدا کی مشیت کے ماتحت قائم ہوتی ہے تو تمہارے ہاتھ میں خلیفہ گری کے اختیارات کب سے آئے ہیں؟ مگر افسوس ہے کہ جن لوگوں کے دل میں بیماری ہے اور ان کے قلوب اسلامی حقائق سے خالی ہیں انہوں نے حضور کے ان حکیمانہ جوابوں کو ایک فریق کے حق میں پاسداری اور دوسرے لوگوں کے متعلق مخالفت کا رنگ دے کر حضور پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے.وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (الشعراء:228) ہاں ان دونوں قسم کے معترضین کے جواب میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مساویانہ ارشاد کے باوجود

Page 411

مضامین بشیر جلد سوم 389 نتیجہ کے لحاظ سے ایک فرق ضرور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جہاں اس شخص پر تر دیدی اعلان کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی جس کے خلاف کوئی بات کہی گئی ہو وہاں اس شخص پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کے حق میں اس قسم کا ناجائز پرو پیگنڈا کیا جائے اور یہ ایک موٹی سی بات ہے جس کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں.بالآخر ان دو اصولی اور بنیادی اعتراضوں کا جواب دینے کے بعد جن میں سے پہلے اعتراض کا جواب چند دن ہوئے الفضل میں شائع ہوا تھا اور دوسرے اعتراض کا جواب اوپر دیا گیا ہے، میں ایک ضمنی اور نسبتاً محدود اعتراض کا جواب بھی دینا چاہتا ہوں.یہ اعتراض بعض ان لوگوں کی طرف سے کیا گیا ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی بیماری اور عمر کا بہانہ رکھ کر یہ نا پاک پرو پیگنڈا کر رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں حضور کو نعوذ باللہ خلافت سے معزول کر کے کوئی نیا خلیفہ چننا چاہئے.اور یا یہ اعتراض ان فتنہ پردازوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جو حضور کی کسی اصلاحی یا تعزیری کارروائی پر بگڑ کر اپنی اصلاح کی بجائے حضور کو مسند خلافت سے ( خاکش بدہن ) معزول کرانے کے متمنی ہیں.اس اعتراض کا اصولی جواب تو وہی ہے جو اوپر کے اعتراض کی تردید میں لکھا گیا ہے.یعنی یہ کہ جب اسلامی تعلیم کے مطابق خلیفہ خدا بناتا ہے تو پھر یہ سوال ایک سراسر احمقانہ سوال ہے کہ کیوں نہ موجودہ خلیفہ کو ان کی بیماری یا عمر کی بناء پر خلافت سے معزول کر دیا جائے ؟ ایک عمارت تو خدا بنائے اور وہ خدا کے تصرف خاص سے کھڑی کی جائے مگر اسے مسمار کرنے کے لئے ایرے غیرے پہنچ جائیں !! ھے ایں خیال است محال است و جنوں“ علاوہ ازیں حضرت خلیفہ اول کے سامنے بعض فتنہ پردازوں نے یہی مسئلہ پیش کیا تھا اور حضور نے اس پر جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں.حضور نے فرمایا : مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے.خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی...اگر خدا تعالیٰ نے مجھے معزول کرنا ہو گا تو وہ مجھے موت دے دے گا.تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کرو تم معزولی کی طاقت نہیں رکھتے جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا ہے (الحکم 21 جنوری 1914ء) لیکن حضرت مولوی نور الدین طریقه اسمع الاول پر ہی بس نہیں.غزل کے مسئلہ کو خود ہم سب کے آقا اور سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی) نے حل فرمایا ہے.اور ایسا حل فرمایا ہے کہ کسی شک کرنے

Page 412

مضامین بشیر جلد سوم 390 والے کے لئے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی.حدیث میں آتا ہے کہ جب سرور کائنات حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا سے علم پا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی پیشگوئی فرمائی تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ: لَعَلَّ اللَّهَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا فَإِنَّهُ إِذْ اَرَادَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ فَلَا تَخْلَعُهُ ( ترمذی ابواب المناقب باب منع النبی ان لا يطلع القميص ) یعنی اے عثمان ! خدا تجھے ایک قمیص پہنائے گا.مگر منافق لوگ اسے اتارنا چاہیں گے لیکن تم اسے ہرگز نہ اُتارنا.اور جانتے ہو کہ یہ الفاظ کس خلیفہ کے متعلق فرمائے گئے ؟ یہ اس خلیفہ کے متعلق فرمائے گئے جو اڑسٹھ سال کی عمر میں خلیفہ بنا اور اسی سال کی عمر تک مسند خلافت پر متمکن رہ کر بد باطن منافقوں کے ناپاک ہاتھوں سے شہید ہوا.مگر اس انتہائی بڑھاپے کی عمر کے باوجود اس مرد خدا نے جان دے دی مگر اپنے پیارے آقا و امام کے ارشاد کے مطابق اس مقدس قمیص کے دامن کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا جو خدائے کلیم نے اس کے کندھوں پر ڈالی تھی.بس اس وقت اس کے سوا کچھ نہیں کہوں گا.ھے اگر در خانه کس است حرفی بس است وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ( محرره 28 ستمبر 1956ء).........روزنامه الفضل ربوه 30 ستمبر 1956ء) خلافت حیات روحانی کے تسلسل کا ایک ذریعہ ہے کراچی کے ایک دوست نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے برکات خلافت کے متعلق اپنی ایک تقریر کا ذکر کیا تھا.اس پر حضرت میاں صاحب ممدوح کی طرف سے جو جواب بھجوایا گیا ہے وہ قارئین کے استفادہ کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.خاکسار.پرویز پروازی کلرک دفتر حفاظت مرکز ر بوه ) خلافت کا نظام دراصل نبوت کے نظام کی فرع ہے یا اسے دوسرے لفظوں میں نبوت کا تمہ کہہ سکتے

Page 413

مضامین بشیر جلد سوم 391 ہیں.نبی ایک عظیم الشان مقصد لے کر آتا ہے.مگر ظاہر ہے کہ ہر ایک انسان کی زندگی خواہ وہ نبی ہے یا غیر نبی محدود ہوتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے خلافت کا نظام قائم فرمایا ہے تا کہ وہ نبی کے بعد سلسلہ خلفاء کے ذریعہ نبوت کے کام کو تکمیل تک پہنچائے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ” الوصیت میں خلافت کے نظام کو قدرت ثانیہ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے کہ گویا نبوت خدا کی قدرت اولیٰ ہے اور خلافت خدا کی قدرت ثانیہ ہے جس کے ذریعہ قدرت اولی کے مقاصد کو تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے.خلافت کے نظام میں اللہ تعالیٰ کی یہ لطیف حکمت مضمر ہے کہ بظاہر انتخاب مومنوں کی جماعت کرتی ہے مگر تقدیر خدا کی چلتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے تصرف خاص سے مومنوں کے قلوب کو خلافت کے اہل شخص کی طرف مائل کر دیتا ہے.گویا موجودہ اصطلاح میں کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملہ میں خدا Wire Puller کا کام کرتا ہے.چنانچہ بخاری میں آتا ہے کہ جب اپنے مرض الموت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے ذکر کیا کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ تمہارے والد کو اپنے پیچھے خلیفہ مقرر کر جاؤں لیکن پھر میں نے اس خیال سے ارادہ ترک کر دیا کہ: يَابَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ ( صحیح بخاری کتاب المرضی باب قول المریض انى وجع او وار اساه اواشتند بی الوجع وقول) یعنی اللہ تعالیٰ ابو بکر کی خلافت کے سوا کسی اور کی خلافت پر راضی نہیں ہوگا اور نہ ہی مومن کسی اور کی خلافت پر جمع ہوں گے.یہ مختصر سی حدیث اسلامی خلافت کے فلسفہ کی جان ہے اور اس سے یہ دوسرا سوال بھی حل ہو جاتا ہے کہ خلیفہ معزول کیوں نہیں ہوسکتا.کیونکہ جب خلیفہ کا تقر رخدا کے تصرف خاص کا نتیجہ ہوتا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اسے کوئی دوسری طاقت معزول نہیں کر سکتی.اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان سے فرمایا تھا کہ: ”خدا تجھے قمیص پہنائے گا اور منافق اسے اُتارنا چاہیں گے مگر تم ہر گز اس کے اُتارنے پر راضی نہ ہونا “ ( ترمذی ابواب المناقب باب منع النبی ان لا يطلع القميص ) اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی خلافت کا ذکر آیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے خلافت کو اپنی خاص مشیت کی طرف منسوب کیا ہے.چنانچہ یہ ذکر قرآن مجید میں بارہ (12) جگہ آیا ہے اور ان سب جگہ خدا نے بلا استثناء خلافت کو اپنی تقدیر خاص کی طرف منسوب فرمایا ہے.دراصل خلافت حیات روحانی کے تسلسل کا ذریعہ ہے.جس طرح کہ نکاح اور خاندانی نظام حیات جسمانی

Page 414

مضامین بشیر جلد سوم 392 کے تسلسل کا ذریعہ ہے.اگر نبوت کے بعد خلافت نہ ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ خدا نے ایک لہر پیدا کی اور پھر اسے چند سالوں کے بعد تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار لکھا ہے کہ نبی تو ایک بیج بونے کے لئے آتا ہے اور پھر خدا اسے خلافت کے ذریعہ بڑھاتا اور پھیلاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ یہ مت خیال کرو که خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا.ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.“ ( رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحه 309) مبارک ہیں وہ جو اپنے آپ کو اس بابرکت نظام سے وابستہ کرتے ہیں.اور بدقسمت ہیں وہ جو د نیوی لالچ میں پھنس کر اس نعمت عظمیٰ سے روگردانی کرتے ہیں.وَآخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ روزنامه ال الفضل ربوہ 26 ستمبر 1956ء) تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اولڈ بوائز کے اجلاس پر پیغام ہر جہت سے ترقی کرو مگر دین کو دنیا پر بہر حال مقدم رکھو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے پہلے اجلاس کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مندرجہ ذیل پیغام سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کی معرفت ارسال فرمایا : ) مکرمی ومحترمی ہیڈ ماسٹر صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ السَّلَام عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ 23 ستمبر 1956 ء بروز اتوار شام کے ساڑھے چار بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اولڈ بوائز کا اجلاس ہوگا اور آپ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ اس موقع پر میں بھی ایک مختصر سا پیغام ارسال کر کے اس اجلاس میں غائبانہ شرکت کی سعادت حاصل کروں.جیسا کہ میں پہلے بھی آپ کو لکھ چکا ہوں درس گاہوں کے اولڈ بوائز کی ایسوسی ایشن ، درس گاہوں کی ترقی اور ان کی روایات کو زندہ رکھنے کے لئے ایک مفید نظام ہے.اولڈ بوائز کے لفظی معنی تو عمر رسیدہ سابق

Page 415

مضامین بشیر جلد سوم 393 طلباء کے ہیں.مگر دراصل اس کے ایسے پختہ کا سابق طلباء مراد ہیں جو اپنی درس گاہ کے ساتھ وفاداری کے جذبات کے ماتحت درس گاہ کی ترقی اور اس کی نیک روایات کو زندہ رکھنے کے لئے کوشاں رہیں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے ماتحت آج سے زائد از نصف صدی قبل قادیان میں رکھی گئی تھی اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے اس کی غرض و غایت اسلام کی اس تعلیم کو پھیلانا اور جماعت احمدیہ کے نو جوانوں میں اس تعلیم کو راسخ کرنا تھی جو احمدیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ظاہر اور قائم فرمائی ہے.مسلمان عملاً ایک مُردہ قوم بن چکے تھے اور اسلام بہت سی غلط روایات اور غلط تشریحات کی وجہ سے گویا ایک سو یا ہوا مذہب بن گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے الہام پا کر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نور سے روشنی حاصل کر کے اسلام کو دوبارہ زندہ کیا.تا کہ اس کا کھویا ہوا وقار اور کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ عود کر آئے اور یہ قرآنی وعدہ اپنی پوری شان کے ساتھ تکمیل کو پہنچے کہ : هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (التوبه: 33) اس مقصد کے ما تحت تعلیم الاسلام ہائی سکول کی غرض یہ تھی کہ احمدی نوجوانوں کو سچا مسلمان بنا ئیں اور ان کے اندر اسلامی زندگی کی روح پھونکیں اور پھر ان کے ذریعہ سے دنیا بھر میں اسی نور کی اشاعت کریں اور جو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء کی قائم ہو اس کا بھی اولین فرض یہ ہے کہ انہی لائنوں پر اپنے سکول کی روایات کو زندہ کر کے دنیا میں ہدایت اور روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنیں.ہر درس گاہ کا ایک نمایاں کیریکٹر ہوتا ہے.ہماری اس درس گاہ کا کیریکٹر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس عہد میں مرکوز ہے جو آپ بیعت کے وقت لیا کرتے تھے یعنی : میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا“ اس مقدس عہد کے الفاظ نہایت درجہ پر حکمت ہیں.ان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میں دنیا کو چھوڑ کر راہب اور تارک الدنیا بن جاؤں گا بلکہ یہ حکیمانہ فلسفہ بیان کیا گیا ہے کہ میں دنیا میں رہتے ہوئے اور دنیا کے کاموں میں حصہ لیتے ہوئے اور دنیا میں اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے ترقیات کا راستہ کھولتے ہوئے ایسی زندگی اختیار کروں گا کہ جہاں بھی دین اور دنیا کے مفاد کرائیں گے وہاں میں دین کو مقدم کروں گا اور دین کی خدمت کو اپنا اولین فرض سمجھوں گا.پس سکول کے اولڈ بوائز سے جن میں سے ایک اولڈ بوائے ہونے کا مجھے بھی فخر حاصل ہے، میری یہ

Page 416

مضامین بشیر جلد سوم 394 نصیحت ہے اور یہی پیغام ہے کہ وہ ہر جہت سے دنیا میں ترقی کریں اور دین میں بھی ترقی کریں مگر ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں اور اپنی درس گاہ کو مضبوط بنانے اور اسے ترقی دینے اور اسے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں ایک مثالی درس گاہ بنا دینے کے لئے پوری جدو جہد سے کام لیں.میرا دل ہمیشہ اس خواہش سے معمور رہا ہے کہ ہماری یہ درس گاہ ایک آئیڈیل یعنی مثالی درس گاہ ہو.جس کے نتائج دین و دنیا کے لحاظ سے چوٹی کے نتائج شمار کئے جائیں اور اس میں تعلیم پانے والے بچوں کے متعلق اپنے اور بیگانے دونوں گواہی دیں کہ یہ دین و دنیا میں غیر معمولی ترقی کرنے والے اور اسلام اور احمدیت کا سچا نمونہ پیش کرنے والے اور ملتی کاموں کے ہر میدان کے بہادر سپوت ہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.وہ آپ کو اپنی رضا کے ماتحت کام کرنے کی توفیق دے اور آپ کا حافظ و ناصر رہے.آمین (1956 20) روزنامه الفضل ربوہ 26 ستمبر 1956ء) قادیان جانے والے احباب کی خدمت میں ضروری نصیحت چونکہ ابھی تک دسہرہ کی رخصتوں میں مجوزہ قافلہ کی اجازت نہیں ملی اور نہ اب ایسے تنگ وقت میں بظاہر ملنے کی امید ہے.اس لئے جلسہ سالانہ قادیان میں ہندوستانی دوستوں کے علاوہ صرف ایسے پاکستانی احباب ہی شریک ہوسکیں گے جن کے پاس پہلے سے انفرادی پاسپورٹ موجود ہے یا وہ حاصل کر سکتے ہیں.چونکہ قادیان کے جلسہ کی تاریخیں اب بالکل قریب ہیں (یعنی 12، 13، 14 اکتوبر 1956ء) اس لئے پرائیویٹ طور پر جانے والے پاکستانی احباب کی خدمت میں درخواست ہے کہ چونکہ یہ ایک مقدس سفر ہے جس کی اغراض خالصتاً دینی اور روحانی ہیں اس لئے جانے والے دوستوں کو پاک نیت کے ساتھ دعا کرتے ہوئے جانا چاہئے اور قادیان میں بھی اپنا وقت جلسہ کی شرکت کے علاوہ دعاؤں اور ذکر الہی اور دینی مذاکرات میں گزارنا چاہئے.دعا کے لئے ذیل کے مقامات خاص طور پر بابرکت ہیں یعنی : (1) مسجد مبارک جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام ہے کہ مُبَارَكٌ مُبَارَكٌ

Page 417

مضامین بشیر جلد سوم 395 وَكُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكٌ يُجْعَلُ فِيْهِ - (2) حضرت یح موعود علیہ اسلام کی بیت الدعاج دار اسی میں حضور ے رہائشی کمرے کے ساتھ ہے.اور (3) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقدس مزار.ان تین خاص جگہوں کے علاوہ اگر کسی کو مسجد اقصیٰ ( مینار والی ) میں بھی دعا کا موقع مل سکے تو وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک مقدس یادگار ہے.دعائیں جماعتی اور انفرادی دونوں رنگ کی کی جائیں.گو بہر حال سچے مومن ہمیشہ جماعتی دعاؤں کو مقدم کیا کرتے ہیں اور ہر دعا کو سورۃ فاتحہ اور درود شریف کے ساتھ شروع کرنا ایک بڑا مبارک طریق ہے.دعاؤں کے علاوہ دوستوں کو چاہئے کہ سفر کے دوران میں اور قادیان کے قیام کے ایام میں اسلام اور احمدیت کا اچھے سے اچھا نمونہ قائم کریں.کیونکہ ملی تبلیغ ، قولی تبلیغ سے بھی زیادہ مؤثر ہوتی ہے.نیز جو چند دوست مل کر ا کٹھے سفر کریں انہیں دوران سفر میں مسنون طریق پر اپنے میں سے کسی شخص کو اپنا امیر بھی مقرر کر لینا چاہئے اور قادیان کے امیر تو مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل پہلے سے مقررہی ہیں جن کی ہر امر میں اطاعت ہونی چاہئے.نیز اگر قادیان جانے والوں میں کوئی مستورات بھی ہوں تو ان کے لئے لازم ہے کہ کسی مر در فیق کے بغیر کیلی نہ جائیں بلکہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار ساتھ نہ ہو تو جانے والے احمدی احباب میں سے کسی مخلص احمدی کی رفاقت اختیار کرلیں.اللہ تعالیٰ سب بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ و ناصر رہے اور انہیں قادیان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (محررہ 7اکتوبر 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 10اکتوبر 1956ء) مقدس مقامات قادیان کی مرمت کے لئے چندہ کی اپیل قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ اس سال اور گزشتہ چند سالوں کی غیر معمولی بارش کی وجہ سے نیز اس وجہ سے کہ ہندوستان کی حکومت نے کچھ عرصہ سے قادیان کی زمینوں میں نہر کا پانی لگانا شروع کر دیا ہے.قادیان میں سیم کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے.جس کی وجہ سے کنوؤں کا پانی بہت اونچا ہو گیا ہے اور تھوڑا گڑھا

Page 418

مضامین بشیر جلد سوم 396 کھود نے سے بھی پانی نکل آتا ہے اور قادیان کے اکثر مقامات کافی شکستہ ہو کر قابل مرمت ہورہے ہیں.یہ صورت حال عمارتوں کے لئے سخت خطر ناک ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ قادیان کی مقدس عمارتوں خصوصاً مسجد مبارک اور دار مسیح اور سجد اقصیٰ کو محفوظ رکھنے کے لئے پوری توجہ اور واجبی کوشش سے کام لیا جائے.جس کے لئے کافی خرچ کی ضرورت ہوگی.قادیان کے دوستوں کا اندازہ ہے کہ مسجد مبارک اور دارا مسیح اور مسجد اقصی کی عمارتوں کی مرمت کے لئے نیز مقبرہ بہشتی اور مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حفاظت کے لئے کم از کم پچیس ہزار روپے کی ضرورت ہے.ورنہ اگر اس کام کی طرف وقت پر توجہ نہ کی گئی تو بعد میں زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے.قادیان کی مقدس عمارتوں کی حفاظت کی ذمہ داری صرف ہندوستان کی جماعتوں پر ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر پاکستان کی جماعتوں پر ہے اور خصوصاً ان مہاجر احمد یوں پر ہے جو قادیان سے اور پنجاب کے دوسرے اضلاع سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ہوئے ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ یہ ذمہ داری دنیا بھر کی احمدی جماعتوں پر ہے کہ وہ قادیان کے مقدس مقامات کو پوری طرح اچھی اور تسلی بخش حالت میں رکھیں.عمارتوں کا یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ اگر چھوٹی سی شکست وریخت کو بھی مناسب وقت پر نظر انداز کیا جائے تو کچھ عرصہ کے بعد وہ بہت وسیع ہو کر غیر معمولی اخراجات کی متقاضی ہو جاتی ہے.پس میں جماعت کے جملہ مخلص دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس کارِ خیر کی طرف فوری توجہ فرمائیں اور قریب ترین عرصہ میں اتنا روپیہ جمع کر دیں کہ قادیان کی مقدس عمارتوں اور ان کے علاوہ درویشوں کے مکانوں کی خاطر خواہ مرمت ہو سکے.ورنہ وقت گزر جانے پر یہی کام جواب چند ہزار روپیہ خرچ کر کے کیا جا سکتا ہے لاکھوں روپے سے کرنا بھی مشکل ہو جائے گا.پس پاکستان اور ہندوستان دونوں کے مخلص احمدیوں کو اس کارخیر میں فوری طور پر حصہ لے کر ثواب کمانا چاہئے.قو میں اپنی روایتوں اور اپنے مقدس مقاموں کی وابستگی کے ساتھ ہی زندہ رہتی ہیں.سکھ قوم نے یہاں تک کیا کہ جہاں حضرت باوا صاحب نے چند گھنٹے بھی قیام کیا یا جہاں اتفاقی طور پر بھی ان کا قدم پڑ گیا، یا جہاں کسی درخت کے نیچے انہوں نے چند لمحے ٹھہر کر آرام کیا اسے بھی انہوں نے گویا اپنا مقدس مقام قرار دے کر اس کی حفاظت اور اس کے اکرام کو ایک قومی فرض قرار دے لیا.تو کیا اسلام اور احمدیت کے نام لیوا ان مقامات کی واجبی مرمت سے غفلت برتیں گے؟ جہاں ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا ہوئے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے ایام گزارے، جہاں انہوں نے اپنے خدا کی دن رات عبادت کی ، جہاں ان پر خدا کی تازہ بتازہ وحی نازل ہوتی رہی، جہاں وہ اپنے مخلص صحابہ میں بیٹھ کر ان کی دینی اور روحانی

Page 419

مضامین بشیر جلد سوم 397 تربیت فرماتے رہے اور جہاں وہ ایک مقدس مزار میں مدفون ہیں.ربوہ میں اس غرض کے لئے ایک دفتر صیغہ امانت میں ایک امانت زیر نام ” امانت مرمت مقدس مقامات کھول دی گئی ہے.لہذا پاکستان کا سارا چندہ اس مد کے نام پر آنا چاہئے.انشاء اللہ الفضل کے ذریعہ چندے کی وصولی کا وقتاً فوقتاً اعلان کیا جاتا رہے گا.اسی طرح قادیان میں بھی اس غرض کے ماتحت ایک امانت کھلی ہوئی ہے.ہندوستانی احباب کا چندہ وہاں جانا چاہئے اور دیگر ممالک کے احباب جہاں بھی انہیں سہولت اور قانون رائج الوقت اجازت دے سلسلہ کے کسی مقررہ ادارہ میں چندہ جمع کرا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے.جو اس مبارک تحریک میں حصہ لیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ ان کے قلوب میں تحریک کرے کہ وہ اس کار خیر میں اپنی توفیق کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.وَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ روزنامه الفضل ربوه 23 اکتوبر 1956ء) ایک غلط فہمی کا ازالہ خلافت کا دروازہ اصول ہر اہل شخص کے لئے کھلا ہے الفضل“ کی اشاعت مؤرخہ 30 نومبر 1956 ء کے صفحہ 4 پر ملک حسن محمد صاحب حال ساکن ضلع رحیم یارخان کا ایک نوٹ زیر عنوان ”سید نا حضرت مسیح موعود کی ایک خواب“ شائع ہوا ہے.جس میں ملک صاحب موصوف نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک خواب کی بناء پر یہ استدلال کیا ہے کہ آئندہ خلافت احمدیہ کا سلسلہ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان میں ہی چلے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ خواب ایک مشہور خواب ہے جو حضور کی بعض کتابوں اور تذکرہ میں شائع ہو چکا ہے.اس خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا تھا کہ حضور کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس کا نام قطبی ہے.جب یہ کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضور سے لی تو وہ ایک بڑا پھل بن گئی.جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قاش قاش کر کے ایک قاش تو حضور کے ذریعہ ایک ایسے شخص کو دے دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معجز نمائی سے زندہ ہو کر حضور کے پیچھے کھڑا ہوا تھا اور باقی تمام قاشیں حضرت

Page 420

مضامین بشیر جلد سوم 398 مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دامن میں ڈال دیں.اس خواب سے ملک حسن محمد صاحب نے یہ استدلال کیا ہے کہ پھل کی قاشوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت مراد تھی اور یہ کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت کو چھوڑ کر ( جو گویا خواب کے نظارہ میں پہلی قاش کی قائم مقام تھی ) باقی تمام خلفاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل میں سے ہونے مقدر ہیں.ملک حسن محمد صاحب ایک پرانے اور مخلص احمدی ہیں اور ہر شخص کو اپنی رائے کے مطابق استدلال کرنے کا حق ہے.لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ جو استند لال ملک حسن محمد صاحب نے کیا ہے وہ اپنے وقت سے قبل ایک ذاتی اور ذوقی استدلال ہے جس کی اشاعت کی ضرورت نہیں تھی.اصولی لحاظ سے جو تعلیم آیات قرآنی میں دی گئی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ خلافت کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ خلافت کا دروازہ ہر اہلیت رکھنے والے شخص کے لئے کھلا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ خلافت یا امامت کا سلسلہ کسی صورت میں بھی ایک خاندان میں نہیں چل سکتا کیونکہ جیسا کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان میں امامت کا سلسلہ پانچ یا ایک لحاظ سے چھ افراد تک جاری رہا.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ایک ہی خاندان سے دو امام بنے.اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند ارجمند نے امامت پائی.اسی طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے قبل ان کے خالہ زاد بھائی حضرت یحی اور ان سے قبل حضرت زکریا مامور ہوئے اور حضرت بیٹی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بپتسمہ دیا اور بالآخر ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اگر میرا بچہ ابراہیم زندہ رہتا تو وہ نبی بنتا.یہ سب با تیں تاریخی لحاظ سے بالکل صحیح اور درست ہیں لیکن یہ دائی صداقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ خلیفہ یا امام بنانا خدا کا فعل ہے جس کے متعلق کسی قطعی اور صریح اور یقینی ارشاد الہی کے بغیر یہ کہنا کہ آئندہ خلافت لازماً فلاں خاندان میں رہے گی میرے نزدیک درست نہیں.ہمارا جماعتی عقیدہ جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے صرف اس قدر ہے کہ (اول) خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ آیت استخلاف میں بیان کیا گیا ہے اور یہ کہ بظاہر مومنوں کے انتخاب کے باوجود حقیقتا تقدیر خدا کی چلتی ہے اور ( دوم ) خلافت کا منصب ہر اس شخص کے لئے کھلا ہے جو اپنے زمانہ میں اس کا سب سے زیادہ اہل ہو.جیسا کہ آیت تُؤدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء:59) میں مذکور ہے.علاوہ ازیں ایسی باتوں کے متعلق قبل از وقت قیاس کرنا یا کسی خواب وغیرہ کی بناء پر ذاتی استدلال کر کے اس کی اشاعت کرنا درست نہیں بلکہ موجب فتنہ ہو سکتا ہے.صحیح طریق یہ ہے کہ ایسی باتوں کو ان کے

Page 421

مضامین بشیر جلد سوم 399 وقت پر چھوڑ دیا جائے.جب اس کا وقت آئے گا ( خدا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور عمر میں زیادہ سے زیادہ برکت دے ) تو اس وقت جسے خدا چاہے گا اسے اپنے خاص تصرف سے مومنوں کی زبان پر حق جاری کر کے خلیفہ بنادے گا.خواہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے ہویا کہ کسی اور اہل شخص کی صورت میں ہو.کیونکہ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي وَلَا يَضِلُّ رَبِي وَلَا يَنْسى یہی وہ سچا فلسفہ ہے جس کی طرف حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض مضامین میں یہ کہ کر توجہ دلائی ہے کہ جب آئندہ خلافت کا وقت آئے گا تو خدا تعالیٰ خودلوگوں کی گردنیں اپنے منظور نظر شخص کی طرف جھکا دے گا اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکے گی.پس میرے خیال میں ملک محمد حسن صاحب کا یہ استدلال ایک بے وقت استدلال ہے جس کی اشاعت کی ضرورت نہیں تھی اور موجودہ وقت میں وہ بعض کمزور طبع لوگوں کے لئے بدگمانی اور فتنہ کا موجب بھی ہوسکتا ہے جس سے اجتناب لازم ہے.باوجود اس کے میں غالباً اس معاملہ میں پھر بھی کچھ نہ لکھتا کیونکہ یہ ایک مخلص دوست کا ذاتی استدلال ہے.وَلِكُلّ أَن يَسْتَدِلَّ.لیکن چونکہ اس کے متعلق مجھ سے بعض لوگوں نے دریافت کیا ہے اور انہیں اس استدلال کی اشاعت بے وقت نظر آئی ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس مختصر نوٹ کے ذریعہ اس معاملہ میں امکانی غلط فہمی کا ازالہ کر دوں.ہمارے دوستوں کے لئے یہ اصولی نکتہ کافی ہے کہ باوجود ظاہری انتخاب کے خلیفہ در اصل خدا بناتا ہے اور خدا اسی شخص کو خلیفہ بناتا ہے جو خدا کے علم میں خلافت کا اہل ہوتا ہے اور بس.نوٹ: جس طرح ملک حسن محمد صاحب کی تعبیر ذوقی تھی اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کا مضمون بھی ذوتی ہے.نیز حضرت میاں صاحب مدظلہ کا یہ تحریرفرمانا کہ خلیفہ خدا بنایا کرتا ہے ملک حسن محمد صاحب کی تعبیر کے خلاف نہیں کیونکہ مکرم ملک صاحب نے ایک ایسی خواب کی طرف توجہ دلائی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے دکھائی تھی.پس اگر مکرم ملک صاحب کی تعبیر صحیح ہو تب بھی خلیفے خدا ہی بنائے گا.(ادارہ) روزنامه الفضل ربوہ 13 دسمبر 1956ء)

Page 422

مضامین بشیر جلد سوم رساله شرح القصيده 400 محتر می مولوی جلال الدین صاحب شمس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مشہور عربی قصیدہ کی شرح لکھی ہے جو يَا عَيْنَ فَيُضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَان سے شروع ہوتا ہے.یہ قصیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (فداہ نفسی کی مدح میں ہے اور حقائق و معارف اور عشق رسول کے عدیم المثال جذبات سے معمور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اس قصیدہ کو پڑھے گا اور اسے یاد کرے گا اس کے حافظہ اور محبت رسول کے جذبہ میں برکت عطا کی جائے گی.میں تو جب بھی اس قصیدہ کے اشعار کو پڑھتا ہوں تو دل و دماغ میں عجیب روحانی لذت محسوس کرتا ہوں اور اس کے پڑھنے سے اس اتھاہ اور مواج سمندر پر غیر معمولی روشنی پڑتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اپنے آقا حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں موجزن تھا.دوستوں کو چاہئے کہ نہ صرف اس رسالہ کو خود خرید کر پڑھیں بلکہ اپنے غیر احمدی احباب میں بھی کثرت سے تقسیم کریں.تاکہ ان کے دل سے وہ غلط فہمیاں دور ہوں جو بد قسمتی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے متعلق پیدا ہورہی ہیں.خدائے بزرگ و برتر محتر می شمس صاحب کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایک عدیم المثال عربی قصیدہ کا اردو میں ترجمہ کر کے اور پھر اس کی شرح لکھ کر اس کے محاسن کو اردو دان پبلک کے قریب تر کر دیا ہے.روزنامه الفضل ربوہ 21 دسمبر 1956ء) اعلانات.اشتہارات.اطلاعات جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1-> احباب کرام سے خاص دعا کی تحریک روزنامه الفضل ربوہ 13 جنوری 1956ء) 2- چنده امداد درویشاں کے لئے خاص اپیل دوست اس کارخیر کی طرف فوری توجہ فرمائیں روزنامه الفضل ربوہ 20 جنوری 1956ء) 3-> تازه فهرست چنده امداد درویشاں وغیرہ یہ وقت خاص امداد کا ہے روزنامه الفضل ربوہ 23 جنوری 1956ء)

Page 423

مضامین بشیر جلد سوم 4-> تازه فهرست چندہ امداد درویشاں دوست اس کارخیر میں بیش از پیش توجہ فرمائیں 401 روزنامه الفضل ربوه 12 فروری 1956ء) 5-> ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم سلما کے لئے دعا کی تحریک - یک لخت خون جاری ہو جانے سے خطرہ کی حالت پیدا ہوگئی ہے روزنامه الفضل ربوہ 24 فروری 1956ء) 6-> ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم سلمہا کے لئے دعا کی تحریک روزنامه الفضل ربوہ 29 فروری 1956ء) 7-> حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم سلمہا کی صحت کے متعلق اطلاع (احباب جماعت صحت کاملہ و عاجلہ کیلئے التزام سے دعا جاری رکھیں ) روزنامه الفضل ربوہ یکم مارچ 1956ء) 8-> قادیان کی متروکہ جائیداد کے متعلق آخری یاد دہانی (روز نامه الفضل ربوہ 27 مارچ 1956ء) 9-> قادیان میں درس قرآن مجید (روز نامہ الفضل ربوہ 22 اپریل 1956ء) 10-> ”حیات قدسی یعنی سوانح حیات حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کے متعلق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے روزنامه الفضل ربوہ 16 مئی 1956ء) 11-> سیرت حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم روزنامه الفضل ربوہ 25 مئی 1956ء) 12 -> قادیان میں ملکی تقسیم کے وقت زمینوں کے ریٹ کلیمز داخل کرنے والے احباب توجہ فرمائیں روزنامه الفضل ربوه 2 جون 1956ء) 13 -> چوہدری عبداللہ خان صاحب کے لئے دعا کی تحریک 14-> ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کے لئے دعا کی تحریک 15-> تازه فهرست چنده امداد درویشاں وغیرہ 16 -> قادیان میں قربانی کرنے والے احباب توجہ فرماویں (روز نامه الفضل ربوه 12 جون 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 12 جون 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 13 جون 1956ء) (روز نامه الفضل ربوہ 13 جون 1956ء)

Page 424

مضامین بشیر جلد سوم 402 17-> جلسہ سالانہ قادیان کی تاریخیں.اس سال جلسہ سالانہ قادیان اکتوبر میں ہو گا.قافلہ میں جانے والے اصحاب فوری طور پر ضروری تیاری کریں 18-> ضروری اعلان برائے قافلہ قادیان 19 -> ضروری اعلان برائے زائرین قادیان 20-> جلسہ سالانہ قادیان.پاسپورٹ والے احباب جلد ویزا حاصل کر لیں (روز نامہ الفضل ربوہ 7 جولائی 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 4 اگست 1956 ء ) (روز نامه الفضل ربوه 2 ستمبر 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 19 ستمبر 1956ء) 21-> قادیان کے لئے ایک ماہر اوور سیر کی فوری ضرورت روزنامه الفضل ربوہ 29 ستمبر 1956ء) 22-> قافلہ قادیان کے متعلق ایک نہایت ضروری اعلان.حکومت ہندوستان نے مقررہ تاریخوں میں قافلہ کی اجازت نہیں دی روزنامه الفضل ربوہ 30 ستمبر 1956ء) 23-> جلسہ سالانہ قادیان کی تاریخوں میں تبدیلی نہیں ہوئی.جو دوست اپنے طور پر جاسکتے ہوں وہ ضرور جائیں 24-> عزیز مرزا مجید احمد سلمہ کیلئے دعا کی تحریک 25-> جلسہ سالانہ قادیان کی مختصر روئداد 26-> قادیان کا جلسہ سالانہ 27-> تازہ فہرست چندہ امداد درویشاں وغیرہ روزنامه الفضل ربوہ 13اکتوبر 1956ء) روزنامه الفضل 13 اکتوبر 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 16اکتوبر 1956ء) روزنامه الفضل ربوہ 16 اکتوبر 1956ء) روزنامه الفضل 23 ، 25 اکتوبر، 20 دسمبر 1956ء) 28-> حضرت خلیفہ مسیح اثنی ایده ال تعالی کی طرف سے گراں قدر عطیہ (روزنامه الفضل ربوہ 14 دسمبر 1956ء)

Page 425

مضامین بشیر جلد سوم باب ہفتم 1957ء کے مضامین 403

Page 426

مضامین بشیر جلد سوم 404 فضل عمر ہسپتال ربوہ کیلئے چندہ کی تحریک حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وفات پر ذکر خیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اہم مکاشفات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہامات میں لطیف اشارات پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق جماعت کی بھاری ذمہ داری ,, حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کا انتقال حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کی وفات پر ذکر خیر کرنل ڈگلس کی وفات پرامام بیت الفضل لندن کے نام تار دوست رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں ایک دوست کے چند سوالوں کا دوحرفی جواب رمضان المبارک کے دس خاص مسائل رمضان کا مقدس عہد خدائی رحمت کی بے حساب وسعت رمضان کا آخری عشرہ اور لیلۃ القدر

Page 427

مضامین بشیر جلد سوم فضل عمر ہسپتال ربوہ کیلئے چندہ کی تحریک 405 دوستوں کو چاہئے کہ اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر اور پوری فیاض دلی سے حصہ لیں عزیزم ڈاکٹر مرزا منور احمد سلمہ نے زیر تعمیر فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لئے چندہ کی اپیل کی ہے.یہ ایک بہت مبارک تحریک ہے.جو مرکز سلسلہ کی ترقی اور خدمت خلق کے جذبہ سے معمور ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ الْعِلْمُ عِلمَان عِلْمُ الْأدْيَانِ وَعِلْمُ الْأَبْدَانِ یعنی علم حقیقتاً صرف دوشاخوں میں منقسم ہوتا ہے.ایک روح یعنی دین و مذہب کی شاخ اور دوسرے مادہ یعنی انسان کی جسمانی ضروریات کی شاخ.سوروح کی ضروریات کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے غیر معمولی فضل سے ربوہ میں سارے ضروری سامان مہیا فرما دیئے اور غیر معمولی ترقی عطا کی.بلکہ کام کی سہولت کے لئے ریل، پختہ سڑک ، ڈاک، تار بجلی اور بالآخر ٹیلیفون کا انتظام بھی ہو گیا ہے.مگر علم کا دوسرا میدان ابھی تک بہت کچھ قشنہ تکمیل ہے.بے شک ربوہ میں ایک ہسپتال موجود ہے اور وہ اپنے وسائل کے لحاظ سے اچھا کام کر رہا ہے.مگر اس ہسپتال کو کسی صورت میں مثالی ہسپتال نہیں کہا جاسکتا.کیونکہ عمارت اور سامان اور عملہ وغیرہ کے لحاظ سے ابھی بہت کچھ ہونے والا ہے.چنانچہ اب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ید اللہ بنصر والعزیز کے ارشاد کے ماتحت عزیز ڈاکٹر مرزانوراحمد سلمہ نے ربوہ میں نئے ہسپتال کی پختہ عمارت شروع کی ہے اور اس عمارت کی تکمیل اور اس کے ضروری سامان کے واسطے دوستوں سے خاص چندہ کی اپیل کی ہے.اور عجیب بات ہے کہ جماعت کے ایک قدیم بزرگ نے انہی ایام میں خواب دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس اپیل پر بہت خوشی کا اظہار فرما رہے ہیں اور ہسپتال کی تکمیل اور ترقی اور اس کی تفاصیل میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں.پس یہ ایک بہت مبارک تحریک ہے اور اس مختصر نوٹ کے ذریعہ، میں دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.مرکز سلسلہ کی تو یہ حیثیت ہے کہ اگر صرف خلیفہ وقت کی اکیلی ذات کے لئے ہی ایک عمدہ اور اپ ٹو ڈیٹ ہسپتال قائم کرنا پڑے تو جماعت کو اسے اپنا مقدس فرض سمجھ کر پورا کرنا چاہئے.مگر یہاں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود باجود کے علاوہ کثیر التعداد قدیم صحابہ اور سلسلہ کے چوٹی کے کارکن اور ممتاز بزرگ اور ہزاروں قیمتی جانوں کا سوال ہے اور پھر ایک اچھا ہسپتال مرکز کی غیر معمولی نیک

Page 428

مضامین بشیر جلد سوم 406 - نامی اور بھاری کشش کا بھی موجب ہوتا ہے.ایک عمدہ ہسپتال کی یہ ضروری علامت ہے کہ اچھی اور وسیع عمارت ہو.اچھا اور جدید ترین سامان ہو.اور قابل ( عمل.ناقل ) ہو.اور ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں غیر معمولی خرچ چاہتی ہیں.اس غرض کے لئے عزیز ڈاکٹر مرزا منور احمد سلمہ نے ربوہ میں ایک عمدہ عمارت کی داغ بیل ڈالی ہے.لیکن روپے کی کمی کی وجہ سے یہ عمارت ادھوری پڑی ہے.اور سامان اور مزید عملہ کا سوال مزید برآں ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر اور پوری فیاض دلی سے حصہ لیں اور لوگوں کی روحوں کو پاک وصاف کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جسموں کو تندرست اور بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا سامان بھی مہیا کریں.کیونکہ بعض حالات میں اچھے جسم کے بغیر روح کی ترقی بھی مشکل ہو جاتی ہے.( محررہ 25 دسمبر 1956ء) 2 روزنامه الفضل ربوہ 5 جنوری 1957ء) حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وفات پر ذکر خیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت مفتی صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: ایمان دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ ایمان جس کی جڑ دماغ میں ہوتی ہے اور جس میں یقین کی بنیاد دلائل پر رکھی جاتی ہے.اور ایک وہ ایمان ہے جس کی جڑ دل میں ہوتی ہے اور اس میں یقین کی بنیاد عشق اور محبت پر رکھی جاتی ہے.یہ ایمان اول الذکر ایمان سے افضل ہے.لیکن سب سے افضل وہ ایمان ہے جس کی جڑیں دل اور دماغ دونوں میں ہوں تا کہ دلائل کا رنگ بھی نمایاں ہوا اور عشق و محبت کا رنگ بھی غالب رہے.حضرت مفتی صاحب کو ایمان کا یہی ارفع مقام حاصل تھا اسی لئے آپ زندگی بھر جہاد کی صف اول میں رہ کر جہاں دلائل کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی نمایاں خدمات سرانجام دیتے رہے وہاں آپ نے عشق اور محبت کی گرمی کے ذریعہ بھی لوگوں کو مامورزمانہ کی مقناطیسی کشش سے متاثر کیا.” ذکر حبیب آپ کا خاص موضوع تھا جس کے بیان کرنے میں آپ کو کمال حاصل تھا.آپ، حضور علیہ السلام کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات نہایت مؤثر طریق پر بیان فرماتے تھے.جس سے سامعین اپنی روح میں ایک بالیدگی محسوس کرتے تھے.اسی لئے جلسہ سالانہ کے موقع پر ” ذکر حبیب “ کے موضوع پر تقریر کے لئے آپ کو ہی منتخب کیا جاتا تھا.اور آج سے تین چار سال قبل تک آپ یہ

Page 429

مضامین بشیر جلد سوم فرض نہایت عمدگی اور خوش اسلوبی سے ادا فرماتے رہے.407 روزنامه الفضل ربوہ 15 جنوری 1957ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اہم مکاشفات اور دوستوں کو خاص دعا کی تحریک مجھے اس جگہ کوئی مضمون لکھنا مقصود نہیں اور نہ ہی کوئی تشریح پیش کرنا میرا مقصد ہے.بلکہ ایک غیبی تحریک کے ماتحت صرف دعا کی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض خاص الہامات اور مکاشفات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ بھی صرف اشارہ کے طور پر.دوست ان مکاشفات پر توجہ کے ساتھ غور کریں اور خدائی نصرت اور الہی حفاظت اور آسمانی برکات کے نزول کے لئے خاص طور پر دعائیں شروع کر دیں اور کرتے چلے جائیں.(1) سب سے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ رویا ہے جو حضور کی مشہور تصنیف ” آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 578 تا 580 میں اور پھر اس سے نقل ہو کر تذکرہ کے جدید ایڈیشن کے صفحہ 226 تا 231 پر چھپ چکا ہے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تھا کہ ایک جم غفیر حضور کے باغ میں گھس گیا ہے اور حضور کے دل میں خوف پیدا ہوا کہ اب یہ لوگ میری شاخوں کو کاٹیں گے اور میرے پھلوں کو بر باد کریں گے اور میری زمین کو اپنا وطن بنالیں گے.جس پر حضور بڑی رقت کے ساتھ دعا کرتے ہوئے ان لوگوں کی طرف بڑھے اور جب آگے آگئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو گویا ایک نفسِ واحد کی طرح اچانک ہلاک کر کے رکھ دیا ہے.( تذکرہ صفحہ 226 تا 231 و آئینہ کمالات اسلام از روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 578 تا580) یہ مکاشفہ بہت لمبا اور لطیف تفاصیل پر مشتمل ہے مگر میں اس جگہ صرف اسی مجمل خلاصہ پر اکتفا کرتا ہوں.دوستوں کو چاہئے کہ مفصل حوالہ تذکرہ میں ضرور ملاحظہ کریں.یا اگر اصل عربی عبارت دیکھنی ہو تو آئینہ کمالات اسلام دیکھیں اور اس پر غور کریں.(2) دوسرا الہام حضرت مسیح موعود کا وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ حضور کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ:

Page 430

مضامین بشیر جلد سوم 408 إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّكَ إِلَى مَعَادٍ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ آتِيكَ بَغْتَةً- يَاتِيكَ نُصْرَتِي - تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 256-257) یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر قرآن کی تبلیغ فرض کی ہے وہ تجھے ضرور معاد ( یعنی قادیان ) کی طرف واپس لے جائے گا.میں (فرشتوں کی ) فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا اور میری نصرت تجھے پہنچے گی.(3) تیسرا الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک قرآنی آیت کی صورت میں ہے یعنی: غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِى أَدْنَى الْأَرْضِ وَ هُمُ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ.( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 417) یعنی مقدر یوں ہے کہ رومی قریب کے علاقہ میں مغلوب ہو جائیں گے.لیکن مغلوب ہونے کے بعد وہ جلد ہی پھر غالب آجائیں گے.اس الہام میں اَدُنَى الْأَرْضِ سے قادیان کا علاقہ مراد ہے.(4) چنانچہ اوپر والے الہام کے اخلاق کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مندرجہ ذیل مکاشفہ کھولتا ہے.حضور فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ: ایک شخص نے اذنى الأرض پر قرآن شریف رکھا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قادیان کا نام ہے.(اور دوسرے حوالہ میں یہ ہے کہ غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِى أَدْنَى الْأَرْضِ مِیں أَدْنَى الْأَرْضِ سے قادیان مراد ہے) تذکرہ نیا ایڈیشن صفحہ 670-671) (نوٹ: جب اسی الہام میں اَدْنَى الأَرْضِ یعنی قریب کی زمین کے الفاظ سے استعارہ قادیان کا علاقہ مراد ہے تو لازماً روم کے لفظ میں بھی استعارہ ہی مراد سمجھا جائے گا.یعنی ایسی حکومت کا جو ایک جہت سے رومی حکومت سے نسبت رکھتی ہے اور وہ وہی ہے جسے اَدْنَى الأرض والے علاقہ کے معاملہ میں دوسری حکومت کے مقابلہ پر مغلوب ہونا پڑا تھا ) (5) پانچویں نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا ہے جسے میں اس جگہ من وعن درج کرتا ہوں.حضور فرماتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ قادیان کی طرف آتا ہوں اور نہایت اندھیری ہے اور مشکل راہ ہے اور میں رَجُماً بِالْغَيْیب قدم مارتا جاتا ہوں اور ایک نبی ہاتھ مجھے کو دیتا جاتا ہے.یہاں تک کہ میں قادیان پہنچ گیا اور جو مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے وہ مجھ کو نظر آئی.پھر میں سیدھی گلی میں جو کشمیریوں کی طرف سے

Page 431

مضامین بشیر جلد سوم 409 آتی ہے چلا.اس وقت میں نے اپنے تئیں ایک سخت گھبراہٹ میں پایا کہ گویا اس گھبراہٹ سے بے ہوش ہوتا جاتا ہوں اور اس وقت بار بار ان الفاظ سے دعا کرتا ہوں کہ رَبِّ تَجَلَّ رَبِّ تَجَلَّ ( یعنی اے میرے رب اتجلی فرما.اے میرے رب تجلی فرما) اور ایک دیوانہ کے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے.وہ بھی رَبِّ تَجَلَّ کہتا ہے اور بڑے زور سے میں دعا کرتا ہوں.اور اس سے پہلے مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے لئے اور اپنی بیوی کے لئے اور اپنے لڑ کے محمود کے لئے بہت دعا کی ہے.پھر میں نے دو کتے خواب میں دیکھے.ایک سخت سیاہ اور ایک سفید.اور ایک شخص ہے کہ وہ کتوں کے پنجے کاٹتا ہے.پھر الہام ہوا كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ “ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 168 ) ( نوٹ : اس رؤیا میں جود یوانہ کا لفظ ہے اس کے حقیقی معنی اپنے وقت پر کھلیں گے ) (6) اس کے ساتھ ہی یہ الہام درج ہے کہ : قَدْ جَاءَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ قَرِيبٌ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 169 ) یعنی فتح کا وقت آ گیا ہے اور فتح قریب ہے یہ الہامات اور مکاشفات جو آج سے قریباً ساٹھ پینسٹھ سال قبل کے ہیں اور عرصہ دراز سے شائع شدہ ہیں نہایت درجہ معنی خیز اور خدائی قدرت نمائی کی پیش خبریوں سے بھر پور ہیں.جن کے بعض پہلو اب بھی ظاہر ہیں اور بعض آئندہ چل کر اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے.دوستوں کو خاص طور پر در دوسوز کے ساتھ دعا کرنی چاہئے اور مسلسل دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ جو قادر مطلق اور احکم الحاکمین اور قضاء وقدر کا مالک ہے وہ ان تمام باتوں کا انجام بہتر کرے.اور اسلام اور احمدیت اور پاکستان اور قادیان اور وادی مظلوم اور پھر ہمارے امام کا ( جن سب کی طرف ان مکاشفات میں لطیف اشارے پائے جاتے ہیں ) بول بالا ہو.اور اللہ تعالیٰ سب کی نصرت فرمائے اور سب کو اپنی حفاظت میں رکھے.آمین ثم آمین.نیز یہ بھی ضرور دعا کریں کہ جیسا کہ بعض صورتوں میں ہوا کرتا ہے.اگر کسی آنے والی مبارک اور شیریں تقدیر کے ساتھ خدا کے علم میں اس کی کوئی تلخ تقدیر بھی لیٹی ہوئی ہوتو وہ اپنے خاص الخاص فضل کے ساتھ اس تلخ تقدیر کو ٹال دے.اور ہمارے لئے اپنی تقدیر خاص سے ایسا پھول پیدا کرے جس کے ساتھ کوئی کا نشانہ ہو.رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَانَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلُ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا

Page 432

مضامین بشیر جلد سوم 410 حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ، وَاعْفُ عَنَّا وقفة وَاغْفِرْ لَنَا وقفه وَارْحَمْنَا والله أنْتَ مَوْلتَنَا فَانْصُرُنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ - (البقره: 287) آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 19 جنوری 1957 ء)......روزنامه الفضل ربوہ 27 جنوری 1957ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہامات میں لطیف اشارات اور دوستوں کی خدمت میں دعا کی یاددہانی 27 جنوری 1957ء کے الفضل میں میں نے ایک مختصر سے نوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چھ عدد الہامات اور مکاشفات درج کر کے دوستوں کو خاص دعاؤں کی تحریک کی تھی.ان مکاشفات میں قادیان کی واپسی کے متعلق صریح اشارات تھے اور یہ بھی تصریح تھی ( گوایسی پیشگوئیوں کی پوری تشریح اور تفصیل تو بہر حال اپنے وقت پر ہی کھلا کرتی ہے ) کہ یہ واپسی مغلوبیت کے رنگ میں نہیں بلکہ غلبہ اقتدار کے رنگ میں مقدر ہے.اب ذیل کے نوٹ میں سابقہ شائع شدہ چھ عدد مکاشفات میں سے دو الہاموں کے متعلق کچھ مزید تشریح پیش کرتا ہوں.ان دو الہاموں میں سے پہلا الہام جو میں نے اپنے سابقہ نوٹ میں درج کیا تھا یہ ہے کہ : إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّكَ إِلَى مَعَادٍ - إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ أَتِيْكَ بَغْتَةً ۖ يَاتِيْكَ نُصْرَتِي - إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُوالْمَجْدِ وَالعُلَى - تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 256-257) یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر قرآن کی تبلیغ فرض کی ہے وہ تجھے ضرور پھر مرکز ( یعنی قادیان ) کی طرف واپس لائے گا.میں (فرشتوں کی ) فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک پہنچوں گا اور میری مدد تجھے حاصل ہوگی.میں تیرا رحمن خدا ہوں اور ہر قسم کی بزرگی اور بلندی کا مالک ہوں.اس الہام میں جو معاد کا لفظ ہے وہ عربی کے لفظ عود سے نکلا ہے.جس کے معنی کسی جگہ کی طرف

Page 433

مضامین بشیر جلد سوم 411 کوٹنے کے ہیں.اس طرح معادَ سے مراد جماعتی مرکز ہے کیونکہ جماعت کے افراد اس کی طرف بار بارلوٹ کر آتے ہیں.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی معاد کا ترجمہ قادیان ہی کیا ہے.(دیکھو تذکرہ صفحہ 257) یہ تو وہ الہام ہے جو میں نے اپنے سابقہ نوٹ میں شائع کیا تھا مگر اس کے ساتھ ایک اور الہام بھی ہے جو اسی الہام کا حصہ ہے اور اسی کے ساتھ شامل ہو کر نازل ہوا تھا.مگر وہ میرے سابقہ نوٹ میں درج ہونے سے رہ گیا تھا.چنانچہ اب یہ الہام ذیل میں درج کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اصل الہام کا گویا تمہ ہے اور اسی کے بعض پہلوؤں کی تشریح ہے.اس الہام کے الفاظ یہ ہیں.مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 256-257) اس الہام میں متنافس کا لفظ قابل غور ہے.اس سے عربی زبان میں ایسا شخص مراد ہوتا ہے جو کسی چیز کی شدید خواہش کے نتیجہ میں دوسروں کے ساتھ جھگڑا کرے.اس طرح اس لطیف الہام میں گویا اس قضیہ کا حقیقی باعث اور اس کا آخری نتیجہ، دونوں کے متعلق عجیب و غریب رنگ میں اشارہ کر دیا گیا.اور شخص متنافس کے لفظ میں بھی اشارہ واضح ہے جس کی تصریح کی ضرورت نہیں.دوستوں کو چاہئے کہ اوپر کے دونوں الہاموں کو بیک وقت سامنے رکھ کر غور کریں اور دعاؤں میں لگے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دوسرا الہام جو میں نے اپنے سابقہ نوٹ میں درج کیا تھا یہ ہے: غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَ هُمُ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 417) یعنی رومی لوگ قریب کے علاقہ میں دوسروں کے مقابل پر مغلوب ہو جائیں گے لیکن مغلوب ہونے کے بعد وہ جلد ہی غالب آجائیں گے.میں اپنے سابقہ نوٹ میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک دوسرے واضح مکاشفہ کی بناء پر صراحت فرمائی تھی کہ اس الہام میں اذنَى الْأَرْضِ ( یعنی قریب کے علاقہ ) سے استعارة قادیان کا علاقہ مراد ہے.( تذکرہ صفحہ 760-761) اور میں یہ بھی بیان کر چکا ہوں کہ جب اذنی الارض سے استعارہ قادیان کا علاقہ مراد ہے تو پھر لاز ماروم کے لفظ میں بھی استعارہ کے طور پر پاکستان مراد لیا جائے گا.کیونکہ باؤنڈری کمیشن کے سامنے قادیان کے علاقہ یعنی ضلع گورداسپور کے متعلق ہی پاکستان اور

Page 434

مضامین بشیر جلد سوم 412 ہندوستان کے درمیان اصل تنازع تھا جس میں اس وقت پاکستان کو مغلوب ہونا پڑا تھا.اب اس تعلق میں یہ مزید بات قابل غور ہے اور واقعی یہ ایک بہت عجیب بات ہے کہ جو ٹرمز (Turms) یعنی مخصوص ہدایات باؤنڈری کمیشن کو اس معاملہ میں فیصلہ کرنے کی غرض سے ملی تھیں ان میں Contiguous Area “ 66 کے الفاظ نمایاں طور پر بیان کئے گئے تھے جو ادنی الْاَرْضِ کے الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے.کمیشن کو یہ ہدایت تھی کہ یہ دونوں حکومتوں کی حدود متعین کرتے ہوئے کسی علاقہ میں کسی قوم کی اکثریت کے پہلو کے علاوہ علاقہ کے الحاق و اتصال ( یعنی Contiguous Area “ کے پہلو کو بھی مدنظر رکھ کر فیصلہ کرے.اور جیسا کہ میں ذکر کر چکا ہوں انگریزی کے یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامی الفاظ میں أدْنَى الْأَرْضِ کا بالکل لفظی ترجمہ ہیں جو خدا نے اپنے مسیح کی زبان پر آج سے ساٹھ سال پہلے جاری کئے جب کہ یہ باتیں کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھیں.اور پھر عجیب تر بات یہ ہے کہ اس وقت غُلِبَتِ الروم والی تقدیر کے مطابق گورداسپور کے علاقہ کے متعلق پاکستان کو کشمیر کے سوال کی وجہ سے غیر متوقع طور پر مغلوب ہونا پڑا تھا.مگر اب خدا چاہے تو اس تقدیر کے دوسرے پہلو یعنی سَيُغْلِبُونَ کا وقت آنے والا ہے.باقی رہا وقت کی تعیین کا سوال.سو عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي وَ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى - میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوستوں سے پھر یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ خدائی اشارات اور وقت کی علامات کو پہچانتے ہوئے ان ایام میں خاص طور پر تضرع اور انہماک کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالی اسلام اور احمدیت کا حافظ و ناصر ہو.اور ہمارے لئے اپنی تمام نیک تقدیروں کو حرکت میں لاکر اور ہر امکانی تلخ تقدیر کو بدل کر بہتر سے بہتر نتائج پیدا کرے اور حق و صداقت کا بول بالا ہو.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَاخِرُ دَعْوَنَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ (محرره 4 فروری 1957 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 9 فروری 1957ء)

Page 435

مضامین بشیر جلد سوم 413 پیشگوئی مصلح موعود کے متعلق جماعت کی بھاری ذمہ داری بکوشیداے جواناں تا بدیں قوت شود پیدا ( امسیح الموعود ) مصلح موعود والی پیشگوئی کو جو اہمیت حاصل ہے وہ احباب جماعت سے پوشیدہ نہیں.اس پیشگوئی کے متعلق اولاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو 20 فروری 1886 ء کے دن ہوشیار پور کے مقام پر ނ ( جو آج کل بھارت کے صوبہ مشرقی پنجاب میں واقع ہے ) وحی نازل ہوئی تھی جس کا آغاز ان الفاظ ہوا تھا کہ : ” میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں“ بلکہ حقیقتاً اس پیشگوئی کا آغا ز تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ہی ہو گیا تھا جبکہ آپ نے آنے والے مسیح کے متعلق یہ الفاظ فرمائے تھے کہ "يَتَزَوَّجُ وَ يُولَدُ لَ“ اور پھر اس کے بعد درمیانی زمانہ میں بھی امت محمدیہ کے بعض اولیاء اس پیشگوئی کی طرف اشارہ فرماتے رہے ہیں مگر اس پیشگوئی کی پوری تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ہی نازل ہوئی.جبکہ آپ ہوشیار پور کے ایک گوشہ تنہائی میں عبادت اور تضرعات میں مصروف ہو کر چلہ کشی فرما رہے تھے.اور جو شخص بھی اس پیشگوئی کے الفاظ کا مطالعہ کرے گا اور ان کی گہرائیوں میں غوطہ لگائے گا وہ اس پیشگوئی کی غیر معمولی شان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.اس پیشگوئی کی اہمیت اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ صرف ایک فرد واحد کے متعلق انفرادی نوعیت کی پیشگوئی نہیں ہے جس میں اس کی ذاتی شان کا اظہار کیا گیا ہو بلکہ حقیقتا یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا داد مشن اور اس کی عالمگیر وسعت اور اس کے تسلسل اور اس کی غیر معمولی کامیابی اور با مرادی سے تعلق رکھتی ہے.مگر اس جگہ مجھے اس پیشگوئی کی تفاصیل پر بحث کرنا منظور نہیں بلکہ میں اس پیشگوئی کے صرف اس مخصوص پہلو کے متعلق چند مختصر الفاظ کہنا چاہتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی ذمہ داری سے تعلق رکھتا ہے.ظاہر ہے کہ جب کسی جماعت کے امام کی صفات کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کوئی امر ظاہر فرماتا ہے تو اس سے لازماً ضمنی طور پر یہ مراد بھی ہوا کرتی ہے کہ جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے آپ کو ان صفات سے متصف کریں.کیونکہ جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے جماعت کے امام کی حیثیت ایک انجن کی ہے اور اس کے متبعین گویا ان گاڑیوں کا رنگ رکھتے ہیں جو اس انجن کے ساتھ لگائی جاتی ہیں.پس اگر کسی گاڑی کے ڈبے انجن کے ساتھ کھنچے جانے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا ان کے پہیوں میں ایسی صفائی اور روانی کا رنگ نہ پایا

Page 436

مضامین بشیر جلد سوم 414 جاتا ہو کہ وہ اسی تیز رفتاری کے ساتھ انجن کے ساتھ چل سکیں جس پر کہ خودانجن چلتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسی گاڑی کبھی بھی وقت مقررہ پر اپنی منزل مقصود کو نہیں پہنچ سکتی.بلکہ اسے قدم قدم پر حادثات کا اندیشہ رہتا ہے.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان پر مصلح موعود کی ذات کے متعلق بعض مخصوص اوصاف بیان کئے ہیں وہاں لازماً ان کے ذریعہ یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ جماعت کو بھی اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.تاکہ گاڑیوں اور انجن کے درمیان کامل اتحاد اور موافقت کی صورت قائم رہے اور گاڑی کم سے کم وقت میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے.اور میں اس جگہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یہ مختصر سا نوٹ لکھ رہا ہوں.یوں تو مصلح موعود والی پیشگوئی میں مصلح موعود کے متعلق بہت سے اوصاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.لیکن وہ باتیں جن کا اس پیشگوئی میں مخصوص اشارہ ہے اور جو جماعت کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں وہ ذیل کی چار باتیں ہیں: (1) پہلی بات جو مصلح موعود والی پیشگوئی میں خصوصی رنگ رکھتی ہے اور اس بات کی نوعیت بھی دراصل ذاتی نہیں بلکہ جماعتی ہے وہ ذیل کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا“ مصلح موعود کی یہ علامت جماعت احمدیہ کو ہوشیار کر رہی ہے کہ اپنے امام کی طرح اس کے ہر فرد کو بھی خدا سے تعلق پیدا کر کے اور روح الحق کے ساتھ واسطہ جوڑ کر اپنے اندر یہ طاقت پیدا کرنی چاہئے کہ وہ دوسروں کو بیماریوں سے صاف کر سکے.یہی وہ اعلیٰ اور ارفع صفت ہے جو ہر روحانی مصلح کا طرہ امتیاز ہوا کرتی ہے.یعنی ان میں اللہ تعالیٰ یہ اہلیت پیدا کر دیتا اور یہ صفت ودیعت فرماتا ہے کہ وہ لوگوں کی اخلاقی اور روحانی بیماریوں کو صاف کرنے اور بیماروں کو شفا دینے کی خاص الخاص طاقت رکھتے ہیں.اسی لئے حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کے بارہ میں بھی فرماتے ہیں کہ سچا مومن وہ ہوتا ہے کہ جب بھی اس کے سامنے کوئی خلاف اخلاق یا خلاف مذہب بات آتی ہے تو وہ فوراً چوکس ہو کر اس کی اصلاح کی طرف توجہ دینی شروع کر دیتا ہے اور خاموش ہو کر نہیں بیٹھ جاتا.بلکہ آپ نے اس تعلق میں مومنوں کے تین مدارج بھی بیان فرمائے ہیں.اور وہ یہ کہ: (i) بعض مومن ہاتھ کے ذریعہ یعنی اپنے انتظامی اور سماجی اختیارات کے ذریعہ دوسروں کے نقص کی اصلاح کر دیتے ہیں.اور

Page 437

مضامین بشیر جلد سوم 415 (ii) بعض جنہیں یہ اختیار حاصل نہ ہو وہ زبان کے ذریعہ اصلاح کر دیتے ہیں.اور (i) بعض جنہیں یہ طاقت بھی نہ ہو وہ دل میں بُرا ماننے اور دل میں دعا کرنے کے ذریعہ دوسروں کی اصلاح کا رستہ کھولتے ہیں.پس جب که مصلح موعود کی اولین صفت یہ ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا تو پھر جن لوگوں نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے رکھا ہے اور آپ کے انجن کے ساتھ گاڑیوں کی طرح پیوست ہو گئے ہیں ان کا بھی اولین فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں دنیا کے لئے سچے مصلح بننے کی کوشش کریں اور حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ دنیا میں بدی کو مٹاتے اور نیکی کو قائم کرتے چلے جائیں.اس مقصد کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر روح الحق کی برکت پیدا کریں.جو ہمیشہ خدا کے ذاتی تعلق میں جنم لیا کرتی ہے.(2) دوسری خاص صفت جو الہامی پیشگوئی میں مصلح موعود کی بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ: وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ یہ صفت بھی ہر روحانی مصلح اور اس کی اتباع میں ہر سچے مومن کے لئے ایک ضروری صفت ہے.جس کے بغیر کبھی بھی کوئی شخص ایک فعال مرد مجاہد نہیں بن سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو علم کو ایسا درجہ دیا ہے اور اس کے لئے مومنوں کو اس حد تک ترغیب دلائی ہے کہ آپ اپنے زمانہ کے لحاظ سے ایک دور دراز ملک اور کٹھن رستے والے علاقہ یعنی چین کا نام لے کر فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں علم سیکھنے کے لئے چین تک بھی جانا پڑے تو جاؤ اور خوشی سے جاؤ.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچے علم کے زیور سے آراستہ کرے اور پھر اس علم کے ذریعہ نئے نئے زیور تیار کر کے دوسروں کو بھی زینت دیتا چلا جائے.پھر ایک خاص بات جو اوپر والے الہامی فقرہ میں بیان کی گئی ہے یہ ہے کہ مومنوں کا صرف یہی کام نہیں ہے کہ وہ علوم ظاہری کے پیچھے لگ کر علوم باطنی کو نظر انداز کر دیں.یا علوم باطنی کا پیچھا کر کے اپنے آپ کو علوم ظاہری سے مستغنی سمجھیں.بلکہ ضروری ہے کہ وہ دونوں قسم کے علوم سے مزین ہوں.وہ علوم ظاہری بھی حاصل کریں اور علوم باطنی بھی حاصل کریں.اور حاصل بھی اس طرح نہ کریں کہ صرف علم کا ایک چھینٹا پڑ جانے پر ہی قانع ہو جائیں بلکہ جیسا کہ الہامی الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے.چاہئے کہ وہ اپنے امام کی اتباع میں اور اپنے آپ کو اسی کے رنگ میں رنگین کرنے کی غرض سے علوم کے خزانوں سے اس طرح پر یعنی معمور ہو جائیں جس طرح ایک اچھے اسپنج کا ٹکڑا پانی سے پر ہو جایا کرتا ہے اور اس کے

Page 438

مضامین بشیر جلد سوم 416 اندر کوئی خلا باقی نہیں رہتا.(3) تیسرا خاص نقطہ اس پیشگوئی میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ: ”مَظْهَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ“ یعنی مصلح موعود خدا کی صفت اولیت اور صفت آخریت دونوں کا مظہر ہوگا ان مختصر الفاظ میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ مصلح موعود ایسے وقت میں ظاہر ہو گا کہ بعض درمیانی مشکلات اور درمیانی فتنوں کی وجہ سے گویا ایک لحاظ سے کام کی صرف ابتدائی تاریں ہی اس کے ہاتھ میں آئیں گی مگر وہ دن رات کی کوشش اور شب و روز کی جدو جہد کے ذریعہ ان تاروں کو گویا اپنے دائرہ کی انتہا تک پہنچا کر دم لے گا.پس یہی صفت احباب جماعت کو بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے کہ جب وہ کسی کام کا آغاز کر کے اس کی اولیت کے مظہر بنیں تو پھر تھک کر اور ماندہ ہو کر درمیان میں ہی نہ بیٹھ جائیں بلکہ اسے اس کے کمال تک پہنچا کر دم لیں.اسلام کا خدا ادھوری کوشش پر راضی نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر عمل کو اس کے کمال کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے.لیکن افسوس کہ اکثر لوگ مَظْهَرُ الاَوَّل تو شوق سے بن جاتے ہیں مگر مَظْهَرا لآخر بننے سے پہلے ہی تھک کر بیٹھ جاتے ہیں.حالانکہ سچے مومنوں کا یہ کام ہے کہ وہ جب کسی کام کو ہاتھ ڈالیں تو پھر اسے اس کی طبعی انتہا تک پہنچا ئیں اور کسی درمیانی مشکل سے ہراساں نہ ہوں.اس الہامی فقرہ کے ساتھ دوسرا فقرہ یہ ہے کہ: مَظْهَرُا لُحَقِّ وَالْعُلَى اس میں یہ اشارہ ہے کہ مومنوں کو ایسا بننا چاہئے کہ ان کی جڑیں تو گہری اور مضبوط ہوں اور ان کی شاخیں آسمان سے باتیں کریں.(4) آخری یعنی چوتھی صفت جو اس پیشگوئی میں مصلح موعود کی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ: قومیں اس سے برکت پائیں گی“ یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وسیع اور عالمگیر مشن کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے لائے گئے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود کا مشن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں عالمگیر مشن ہے اور آپ قرآنی شریعت کی خدمت میں ساری قوموں اور سارے زمانوں کے لئے مبعوث کئے گئے ہیں تو پھر لازماً مصلح موعود بھی یہی صفت لے کر آئے گا.اور اس کے ہاتھ سے یہ بیچ صرف بویا ہی نہیں جائے گا بلکہ زمین کے شکم سے پھوٹ کر سرعت کے ساتھ بڑھنا بھی شروع ہو جائے گا.اسلام کے دور اول میں حق وصداقت کا بیج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے بویا گیا اور حضور ہی کے ہاتھوں سے اس کا چھینٹا روم اور ایران اور مصر اور حبشہ وغیرہ تک

Page 439

مضامین بشیر جلد سوم 417 پہنچا اور بالآخر خلفاء کے زمانہ میں آکر اس مقدس بیج کے ذریعہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں بے شمار شاداب اور تر و تازہ باغات نصب ہو گئے.لیکن اس کے بعد درمیانی زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ایک پیش گوئی کے مطابق یہ باغات کمزور پڑنے شروع ہو گئے اور مسلمانوں کی حالت ادبار کی صورت میں بدل گئی.مگر جیسا کہ رسول پاک (فداہ نفسی) نے فرمایا تھا مسیح موعود کے زمانہ میں اسلام کا دوسرا سنہری دور مقدر تھا.جس کی عالمگیر وسعت کا زمانہ مصلح موعود کے عہد میں شروع ہونا تھا اور دنیا کے کناروں تک کی قوموں نے اس سے برکت پانی تھی.پس مصلح موعود کی اس مخصوص صفت کے ماتحت جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لے کر دنیا کے کونے کونے میں پھیل جائے.اور ہر ملک اور ہر علاقہ اور ہر شہر میں پہنچ کر قوموں کو برکت دیتی چلی جائے.بے شک اس وقت بھی دنیا کے بہت سے آزاد ممالک میں جماعت احمدیہ کے مبلغ ، اسلام کی تبلیغ کے لئے پھیلے ہوئے ہیں.مگر دنیا کی وسیع آبادی کے مقابل پر ان مبلغوں کی تعداد گویا آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.لہذا اب وقت ہے کہ جماعت کے مخلص فدائی زیادہ سے زیادہ تعداد میں آگے آئیں.اور ہر چہارا کناف عالم میں پھیل کر دنیا بھر کی قوموں کو برکت دیں.ورنہ ظاہر ہے کہ موجودہ رفتار سے اسلام اور احمدیت کے عالمگیر غلبہ کا مقصد ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا.اس کے لئے ایک طرف جماعت کی والہانہ جد و جہد اور دوسری طرف خدا کی معجز نما نصرت کی ضرورت ہے.مجھے اس وقت اپنے بچپن کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو میں نے جماعت کی موجودہ رفتار کے پیش نظر اپنی اوائل عمر میں کہا تھا اور اسی پر میں اپنے اس نوٹ کو ختم کرتا ہوں.میں نے کہا تھا: سخت مشکل ہے کہ اس چال سے منزل یہ کٹے ہاں اگر ہوسکے پرواز کے پر پیدا کر سو دوست خدا سے دعا کریں وہ ہمیں دکھاوے کے پر نہیں بلکہ پرواز کے پر عطا کرے اور ہمارے ہاتھوں سے دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيْمِ (محرره 13 فروری 1957 ء) روزنامه الفضل ربوہ 19 فروری 1957ء)

Page 440

مضامین بشیر جلد سوم حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کا انتقال 418 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کی وفات کی اطلاع الفضل میں دی.اس کے آخر پر آپ نے آپ کی سیرت کے بارے تحریر فرمایا.یہ خبر جماعت میں نہایت رنج اور افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے قدیم اور مخلص صحابی ، جماعت کے دین دار متقی اور باخدا بزرگ حضرت سید غلام غوث صاحب 19 فروری 1957 ء کو بروز منگل صبح نو بجے لاہور میں وفات پاگئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.وفات کے وقت آپ کی عمر 88 سال تھی.یوں تو گزشتہ کئی ماہ سے آپ کی طبیعت ناساز چلی آرہی تھی.لیکن پچھلے دنوں طبیعت زیادہ خراب ہونے کے باعث چار روز پیشتر آپ بغرض علاج ربوہ سے لاہور تشریف لے گئے تھے.جہاں آپ ۱۹ فروری کی صبح کو اس جہان فانی سے رحلت فرما کر مولائے حقیقی سے جاملے.اسی روز آپ کا جنازہ لاہور سے ربوہ لایا گیا.اور آپ آج مؤرخہ 20 فروری کو نماز جنازہ کے بعد بہشتی مقبرہ میں سپردخاک کر دیئے گئے.اگر چہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے پر بذریعہ خط پہلے ہی ایمان لا چکے تھے لیکن دستی بیعت کا شرف آپ کو مشرقی افریقہ سے واپسی پر جہاں بسلسلہ ملازمت آپ تشریف لے گئے ہوئے تھے 1901ء میں حاصل ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے آپ کو بے انتہا عشق تھا.دعاؤں اور ذکر الہی میں شغف کے لحاظ سے آپ جماعت میں ایک خاص مقام رکھتے تھے.ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد غالباً 1948 ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.بقیہ عمر آپ نے قادیان اور ربوہ میں بسر کی.ایسے دیندار متقی اور باخدا بزرگ کی وفات جماعت کے لئے بہت بڑے صدمہ کا موجب ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور کے درجات بلند فرمائے اور اپنے خاص مقام قرب سے نوازے.آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا دین و دنیا میں ہر طرح حامی و ناصر ہو.آمین روزنامه الفضل ربوہ 21 فروری 1957ء)

Page 441

مضامین بشیر جلد سوم 419 حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کی وفات پر ذکر خیر حضرت ڈاکٹر ( سید غلام غوث ) صاحب موصوف کو بالکل ابتدائی صحابہ میں سے نہیں تھے (ان کی بیعت غالباً 1901ء کی تھی مگر اپنی دینداری اور تقویٰ اور عبادت اور دعاؤں میں شغف کی وجہ سے وہ اس وقت کے احمدی بزرگوں میں صف اول میں تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو یہی عشق تھا.ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اخلاص اور عشق کا یہ عالم تھا کہ اکثر سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں قادیان گیا اور اس ارادے سے گیا کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے شناخت نہیں کر لیں گے اور مجھے نام لے کر نہیں بلائیں گے میں واپس نہیں جاؤں گا خواہ نوکری رہے یا نہ رہے.چنانچہ میں رخصت پر رخصت لیتا گیا اور پورا ایک سال قادیان میں ٹھہرا.آخر ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے دیکھ کر کسی کام کے تعلق میں فرمایا ” میاں غلام غوث آپ یہ کام کر دیں.میں نے خدا کا شکر کرتے ہوئے وہ کام کیا اور دوسرے دن حضرت سے رخصت لے کر نوکری پر واپس چلا گیا.حق یہ ہے ان بزرگانِ دین کی شان ہی نرالی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبر دست روحانی طاقت اور غیر معمولی مقناطیسی کشش کا ایک بین ثبوت ہے.عبادت کا اتنا شوق تھا کہ ان کا دل گو ہر وقت مسجد میں لٹکا رہتا تھا.آخری ایام میں جبکہ ڈاکٹروں نے انہیں چلنے پھرنے سے منع کر دیا تھا وہ پھر بھی داؤ لگا کر مسجد میں پہنچ جاتے تھے.حتی کہ مجھے انہیں اصرار کے ساتھ روکنا پڑا کہ ان پر لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ کا حکم بھی واجب ہے.نہایت تضرع کے ساتھ دعائیں کرنا اور ذکر الہی میں مشغول رہنا ان کے دل کی غذا تھی.یہ انہی اعمال حسنہ کا ثمرہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب خدا کے فضل سے صاحب کشف والہام تھے اور خدا کا بھی ان پر یہ فضل تھا کہ انہیں اکثر اپنی دعاؤں کا جلد جواب مل جا تا تھا.گو بعض اوقات امید کے پہلو کے غلبہ کی وجہ سے وہ تعبیر میں غلطی کر جاتے تھے.بہر حال احمدیت کا ایک اور درخشندہ ستارہ اس جہان میں غروب اور اگلے جہان میں طلوع ہوا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وفات کے اس قدر جلد بعد ڈاکٹر صاحب کی وفات بھی ایک بھاری قومی صدمہ ہے.حضرت مفتی صاحب تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص مقرب صحابی تھے اور ان کا درجہ بہت بلند تھا.مگر ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کا وجود بھی اس وقت جماعت میں ایک بڑی نعمت تھا.خاص صدمہ کی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی جلد جلد گزرتے جاتے ہیں.کچھ عرصہ

Page 442

مضامین بشیر جلد سوم 420 ہوا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے خطبہ میں جماعت کو تحریک فرمائی تھی ( اور میں نے بھی حضور کی اتباع میں الفضل میں ایک مضمون لکھا تھا ) کہ نوجوان احمدی، عبادت اور نوافل اور دعاؤں اور ذکر الہی میں شغف پیدا کر کے جماعت کے روحانی مقام کو بلند رکھنے کی طرف توجہ دیں تا، مرنے والے بزرگوں کی طرح خدا تعالیٰ انہیں بھی اپنے فضل و رحمت سے رویا صالحہ اور کشف اور الہام سے نوازے اور جماعت میں خدا تعالیٰ کے زندہ اور تازہ بتازہ نشانات کا سلسلہ قائم رہے.گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کرام کے ذریعہ ظاہر ہونے والے نشانات اب بھی زندہ ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آیات کو تو ہمیشہ کی زندگی حاصل ہے.لیکن اگر جماعت کے افراد میں بھی ان روحانی چھینٹوں کا سلسلہ جاری رہے تو یہ گویا سونے پر سوہاگہ ہے.اور مجھے خوشی ہے کہ کچھ عرصہ سے جماعت کا نوجوان طبقہ عبادت اور ذکر الہی کی طرف زیادہ توجہ دے رہا ہے اور ان میں سے بعض کشف والہام سے بھی مشرف ہیں.مگر میں ان سے کہتا ہوں کہ : ع جنس بالا کن که ارزانی ہنوز جماعت احمد یہ ایک خدائی جماعت ہے اور گوا سے اسلام اور احمدیت کی خدمت اور جماعتی ترقی کے لئے ظاہری اسباب کی طرف بھی ہمیشہ خاص توجہ دیتے رہنا چاہیئے لیکن اس کی ترقی کا اصل راز روحانی وسائل میں ہے.اور جماعت کے نوجوانوں کو ان وسائل کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.اور روحانی وسائل میں زیادہ قابل توجہ یہ وسائل ہیں : (1) نمازوں کو دل لگا کر اور سنوار کر پڑھنا اور یہ تصور قائم کرنا کہ اس وقت میں خدا کے سامنے ہوں اور خدا میرے سامنے ہے.(2) نماز تہجد اور دیگر نوافل کی پابندی.نماز تہجد تو وہ نعمت ہے جس کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے کہ اس کے ذریعہ ہر شخص کے لئے اس کے ذوقی مقام محمود کا رستہ کھلتا ہے.(3) دعاؤں میں شغف اور دعا میں بھی ایسی کہ گویا ہنڈیا اہلنے لگے.(4) ذکر الہی جن میں کلمہ طیبہ اور درود شریف اور سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ العظيم اور استغفار سب سے بلند مرتبہ ہیں.ان کے علاوہ میرے ذاتی تجربہ میں یا حَیی يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْتُ اور لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ بھی بہت اعلیٰ درجہ کے اذکار ہیں.

Page 443

مضامین بشیر جلد سوم 421 بالآخر میں اپنے نوجوان عزیزوں سے پھر کہتا ہوں کہ پُرانے بزرگ گزرتے جاتے ہیں ، جماعت میں خلانہ پیدا ہونے دو اور گزرنے والوں کی جگہ ساتھ ساتھ پُر کرتے جاؤ.بلکہ ان سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ نصیحت ہمیشہ یادرکھو کہ: بکو شید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کو غریق رحمت کرے اور اعلی علیین میں جگہ دے.اور ان کی اولا د خصوصاً اس لڑکی کا جو ابھی تک قابل شادی ہے اور بے سہارا رہ گئی ہے حافظ و ناصر ہو.محرره 19 فروری 1957ء) روزنامه الفضل ربوه 21 فروری 1957ء)......0000000..….....ن کرنل ڈگلس کی وفات پر امام مسجد فضل لندن کے نام تار ربوہ 27 فروری کرنل ایم.ڈبلیو.ڈگلس صاحب کی وفات پر جماعت احمدیہ کی طرف سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے امیر مقامی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے امام مسجد فضل مکرم مولو د احمد خان صاحب کے نام حسب ذیل تار ارسال کیا ہے جس میں انہیں ہدایت فرمائی ہے کہ وہ کرنل صاحب موصوف کے خاندان تک دلی ہمدردی کا یہ پیغام پہنچا دیں.کرنل ڈگلس کی وفات کی اطلاع پہنچی.ان کے خاندان کو دلی ہمدردی کا پیغام پہنچا دیں.ان کا وہ دلیرانہ اور دیانتدارانہ رویہ جو انہوں نے اس مقدمہ میں اختیار کیا جو آج سے ساٹھ سال قبل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف ایک مسیحی پادری کی طرف سے جھوٹے طور پر کھڑا کیا گیا تھا ہماری یاد میں ہمیشہ تازہ رہے گا“ روزنامه الفضل ربوہ یکم مارچ 1957ء)

Page 444

مضامین بشیر جلد سوم 422 دوست رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں نوافل، ذکر الہی اور دعائیں اور فدیہ کا صحیح مصرف آج سے رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہو رہا ہے.جو روزوں کے علاوہ نوافل اور دعاؤں اور ذکر الہی اور صدقہ و خیرات کا خاص مہینہ ہے اور اس میں کلام پاک کی تلاوت کا بھی زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے.یہ عبادتیں ایسی ہیں کہ انہیں ملحوظ رکھ کر رمضان گزارنے والے انسان کے لئے (بشرطیکہ اس کی نیت صالح اور پاک ہو اور اس میں کوئی پہلور یا وغیرہ کا نہ پایا جاوے) ناممکن ہے کہ وہ اس مبارک مہینہ کی برکات سے حصہ نہ پائے.اور خدائے رحیم و کریم کے دربار سے خالی ہاتھ لوٹ جائے.بلکہ ہر شخص اپنی نیت اور اپنے مجاہدہ کے مطابق پھل پاتا ہے اور محروم صرف وہی شخص رہتا ہے جس کی یا تو نیت میں فتور ہے اور یا اس کی سعی و جہد ناقص ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اس مبارک مہینہ کو ان تمام برکات سے معمور کرنے کی کوشش کریں جو میں نے اوپر بیان کی ہیں.یعنی : ( 1 ) مسنون طریق پر روزہ رکھیں جو رمضان کی اصل اور بنیادی عبادت ہے اور جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ اس کی جزاء میں خود ہوں.(2) فرض نمازوں کے علاوہ فل نمازوں پر بھی زیادہ زور دیں.جن میں دو نماز میں خاص طور پر اہم ہیں.یعنی نماز تہجد اور نماز ضحی.(3) دعاؤں میں بڑھ چڑھ کر شغف دکھائیں اور انفرادی اور خاندانی دعاؤں کے علاوہ جماعتی دعاؤں کو بھی ہرگز نہ بھولیں بلکہ انہیں مقدم کریں.جن میں اسلام اور احمدیت کی ترقی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود، حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کی صحت اور درازی عمر، مبلغین سلسلہ کی کامیابی و کامرانی ، دیگر کارکنان جماعت کی نصرت اور سلامت روی، قادیان اور ربوہ کی حفاظت اور استحکام کو خصوصیت سے ملحوظ رکھا جائے.دعاؤں کے متعلق مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نہیں بھولتے الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ یعنی دعا عبادت کے لئے گویا گودے کا حکم رکھتی ہے.جس طرح گودہ کے بغیر ایک ہڈی انسانی خوراک کے لحاظ سے ایک بیکاری چیز ہوتی ہے اسی طرح وہ عبادت بھی ایک بے جان عبادت ہے جس میں دعا شامل نہ ہو.(4) ذکر الہی پر بہت زور دیا جائے اور نماز کے علاوہ دیگر اوقات کو بھی اس ذکر سے معمور رکھا جائے.

Page 445

مضامین بشیر جلد سوم 423 اور جہاں تک ممکن ہو چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ذکر الہی کی شیرینی سے اپنے دل و زبان کو تر و تازہ رکھنے کی کوشش کی جائے.ذکر الہی میں کلمہ طیبہ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ اور تسبیح وتحمید یعنی سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظیم بہترین اذکار ہیں.اسی طرح لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ بھی بہت عمدہ اذکار میں سے ہے.اور خدا تعالیٰ کی مختلف صفات یعنی اسماء حسنیٰ کو ان کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے یاد کرنا اور ان کا اور درکھنا روح کی بالیدگی کا ایک نہایت مجرب ذریعہ ہے.(5) رمضان کی ایک خصوصی برکت صدقہ و خیرات ہے.جس کے ذریعہ نہ صرف صدقہ دینے والا خدا کی عظیم الشان نعمتوں سے حصہ پاتا ہے اور تلخ تقدیر میں دور ہوتی ہیں اور انسان کی کمزوریوں پر خدا کی ستاری کا پردہ پڑتا ہے بلکہ قوم کے غریب افراد کی ضروریات کے پورا ہونے کا بھی سامان پیدا ہوتا ہے.اور چونکہ رمضان میں غرباء کی ضروریات غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں اس لئے لازماً رمضان کا صدقہ وخیرات بہت زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دستِ مبارک صدقہ و خیرات میں اس طرح چلتا تھا جس طرح کہ ایک ایسی تیز آندھی چلتی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہ لائے.اس صدقہ و خیرات کا بہترین مصرف اپنے ماحول کے غرباء اور مساکین ہیں.کیونکہ اس سے آپس کی محبت اور اخوت اور ہمدردی اور مواخات کو ترقی حاصل ہوتی ہے.لیکن حسب حالات مرکز میں بھی صدقہ کی رقوم بھجوائی جاسکتی ہیں.(6) رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت پر بھی خاص طور پر زور دیا جاتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام ہر رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا ایک دور مکمل کرتے تھے.لیکن آخری سال جب کہ قرآن کا نزول مکمل ہو گیا تھا آپ نے تلاوت کے دو2 دور مکمل کئے.چونکہ ہمارے لئے بھی قرآن مجید مکمل صورت میں موجود ہے اس لئے ہمیں بھی حتی الوسع دو2 دور پورے کرنے چاہئیں اور ایک دور تو بہر حال ضروری ہے.اور قرآن کریم پڑھنے کا عمدہ طریق یہ ہے کہ ہر رحمت کی آیت پر دل میں دعا کی جائے اور ہر عذاب کی آیت پر استغفار کیا جائے.اس طرح تلاوت گویا ایک زندہ حقیقت بن جاتی ہے بلکہ ایک مجسم دعا.(7) ان عبادات کے علاوہ جن دوستوں کو توفیق ملے اور وہ اپنے فرائض منصبی سے فرصت پا سکیں اور ان کی صحت اور دیگر حالات بھی اجازت دیں تو انہیں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی برکات سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.اعتکاف گویا ایک وقتی اور محمد و درہبانیت ہے.جس میں انسان چند دن کے لئے دنیا سے

Page 446

مضامین بشیر جلد سوم 424 کٹ کر کلیتہ خدا کے لئے وقف ہو جاتا ہے اور اس میں ان تمام عبادات پر خاص زور دیا جاتا ہے جو رمضان کے عام ایام کے لئے اوپر بیان کی گئی ہیں.رمضان کا ایک خاص مسئلہ فدیہ کا مسئلہ ہے لیکن افسوس ہے کہ کئی لوگ اس مسئلہ کی حقیقت سے واقف نہیں اور ہر بیماری یا سفر کی صورت میں فدیہ دے کر خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اب ہم روزوں کی ذمہ داری سے آزاد ہو گئے ہیں.حالانکہ عام بیماری یا سفر کی صورت میں عِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ کا حکم ہے نہ کہ فدیہ کا.یعنی ایسے لوگوں کو بیماری سے شفا پانے یا سفر کی حالت ختم ہونے کے بعد دوسرے ایام میں روزوں کی گنتی پوری کرنی چاہئے.فدیہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو ضعف پیری یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے دوسرے ایام میں روزوں کی گنتی پوری کرنے کی امید نہ رکھتے ہوں.یا وہ ایسی عورتوں کے لئے ہے جو حمل اور رضاعت کے طویل زمانہ کی وجہ سے گنتی پوری کرنے سے عملاً معذور ہوں.اسی لئے قرآن مجید میں فَعِدَّةٌ مِّنُ أَيَّامٍ أُخَرَ اور عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينِ (البقرہ: 185) کے احکام کو علیحدہ علیحدہ صورت میں بیان کیا ہے.بہر حال جو بھائی بہن ضعف پیری یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے یا حمل اور رضاعت کی مجبوری کی بناء پر رمضان کے بعد روزوں کی گنتی پوری کرنے کی امید نہ رکھتے ہوں ان کو روزوں کے بدل کے طور پر فدیہ ادا کرنا چاہئے جو فدیہ دینے والے کی حیثیت کے مطابق ہونا ضروری ہے.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ فدیہ صرف روزہ کا بدل ہے.رمضان کی باقی عبادات ( مثلا نوافل، دعائیں، تلاوت اور صدقہ و خیرات وغیرہ ) اس طرح قائم رہتی ہیں اور ان میں فدیہ دینے کے باوجود حتی المقدور اور حسب استطاعت غفلت نہیں ہونی چاہئے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَهَا فدیہ نقدی کی صورت میں بھی دیا جا سکتا ہے اور طعام کی صورت میں بھی.فدیہ کی رقم تین طرح خرچ کی جاسکتی ہے : (اوّل) اپنے ماحول کے غرباء اور مساکین میں.( دوم ) ربوہ کے مساکین کے لئے مرکز میں بھجوا کر.اور ( سوم ) قادیان کے غریب درویشوں کی مد میں ادا کر کے.جن میں سے آج کل کئی انتہائی تنگی میں گزارہ کر رہے ہیں.پس فدیہ دینے والے اصحاب قادیان کے غریب درویشوں کو بھی ضرور یاد رکھ کر ثواب کمائیں.گو بہر حال ان تینوں قسم کے مصارف کے علیحدہ علیحدہ فوائد اور ان کی علیحدہ علیحدہ برکات ہیں.فدیہ کے متعلق یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ گو اصل مسئلہ کے لحاظ سے فدیہ صرف ان لوگوں پر واجب

Page 447

مضامین بشیر جلد سوم 425 ہوتا ہے جو اپنے حالات کے لحاظ سے بعد میں روزوں کی گنتی پوری کرنے کی امید نہ رکھتے ہوں.مگر بعض اولیاء اور صوفیاء کا یہ طریق بھی رہا ہے کہ بعد میں گنتی پوری کرنے کی امید رکھنے کے باوجود وہ فدیہ بھی ادا کرتے رہے ہیں.پس اگر کسی صاحب کو توفیق ہو تو روحانی لحاظ سے ( نہ کوئی فریضہ کے طور پر ) یہ طریق زیادہ ثواب کا موجب ہے اور اس میں ڈہری نیکی ہے.کہ چونکہ زندگی کا اعتبار نہیں فدیہ بھی دے دیا اور پھر توفیق پانے پر دوسرے ایام میں گنتی بھی پوری کر لی.بالآخر یہ خاکسارا اپنے احباب کی خدمت میں پھر دوبارہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ رمضان ایک نہایت ہی مبارک مہینہ ہے.اس کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اور نوافل اور ذکر الہی اور دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قریب تر ہو جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیث میں کیا پیارا فقرہ آتا ہے کہ ”اخبى لَيْلَةٌ یعنی آپ نوافل اور ذکر الہی اور دعاؤں کے ذریعہ رات جیسی تاریک اور مُردہ اور غافل گھڑی کو بھی زندگی کے انوار سے معمور کر دیتے تھے.اَللهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَ بَارِكُ وَسَلِّمُ - ( محررہ 2 اپریل 1957 ء ) (روزنامہ الفضل ربوہ 4 اپریل 1957ء) ایک دوست کے چند سوالوں کا دوحرفی جواب کیا ایمان بڑھتا گھٹتا ہے؟ ایسی نیکی سے کیا حاصل ہے جس کا کوئی نتیجہ نہ پیدا ہو؟ ( ضلع لاہور کے ایک دوست نے بعض سوالات لکھ کر پوچھے ہیں جن کا مختصر سا جواب انہیں خط کے ذریعہ بھجوا دیا گیا ہے.اور اب یہ جواب دوسرے دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں شائع کرایا جاتا ہے.) مکرمی و محترمی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا خط موصول ہوا.میرے لئے اس وقت ان سوالوں کا مفصل جواب دینا مشکل ہے اور میں بیمار

Page 448

مضامین بشیر جلد سوم 426 بھی ہوں اور یہ سوال بھی ایسے نہیں جن کے لئے آپ کو دوسروں کی امداد کی ضرورت ہو.آپ اگر خود ذرا توجہ سے کام لیتے تو ان کا جواب آسانی سے پالیتے.بہر حال نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ حرفے بس است کے رنگ میں لکھتا ہوں.(1) آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ ایک مومن کو کس طرح پتہ چلے کہ وہ نیکی کے کس درجہ پر ہے اور اسے مزید ترقی کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ اس سوال کے جواب میں یہ یا درکھنا چاہئے کہ مومنوں کو اپنے ایمان اور تقویٰ میں ترقی کا اسی طرح علم حاصل ہوتا ہے اور اسی طرح کا احساس پیدا ہوتا ہے جس طرح مادی چیزوں کی دوری یا قرب کا احساس ہوا کرتا ہے.مثلاً اگر آپ ایک لیمپ سے دور ہوں تو آپ کو اس کی روشنی مدھم نظر آئے گی لیکن جب قریب ہوں گے تو وہ تیز ہو جائے گی.اسی طرح جب آپ کسی آگ کے قریب ہوں گے تو گرمی کی شدت زیادہ محسوس کریں گے اور جب دور ہوں گے تو اس کی شدت میں کمی آجائے گی.اسی قسم کا احساس مومنوں کے دلوں میں اپنی روحانی ترقی یا تنزل کی صورت میں پیدا ہوا کرتا ہے اور اس احساس کا آلہ مومن کا دل ہے.جب آپ نیکی میں ترقی کریں گے تو لازماً آپ کے دل میں خدا کی محبت کا احساس بڑھ جائے گا.عبادت اور ذکر الہی اور باہمی محبت واخوت اور جماعتی خدمت کا جذ بہ ترقی کرتا ہوا محسوس ہوگا.یہ ایک وجدانی کیفیت ہے جو ایک مومن خود بھی محسوس کرتا ہے اور اسے دیکھنے والے دوسرے لوگ بھی محسوس کرتے ہیں.کیا آپ یہ نہیں دیکھتے کہ بعض لوگوں کو آپ نیکی اور تقویٰ میں زیادہ ترقی یافتہ پاتے ہیں اور بعض کو فرو تر محسوس کرتے ہیں.بس یہی احساس انسان کی روحانی ترقی اور تنزل کا مقیاس ہے.اور اسی راستہ پر آگے قدم اٹھانے سے مومن ترقی کر سکتا ہے.اس کی دوسری علامت اور زیادہ پختہ علامت خدا کا سلوک ہے.جوں جوں انسان نیکی میں ترقی کرتا ہے اس کے ساتھ خدا کا سلوک زیادہ نمایاں ہوتا جاتا ہے اور خدائی تائید ونصرت کی مخصوص علامات ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور اسے دعا کی قبولیت اور روحانی جاذبیت کا خلعت عطا کیا جاتا ہے.اور وہ خدا کی حفاظت میں اس طرح آجاتا ہے کہ گویا اس کے لئے خدا خود ہر قدم پر لڑنے کو تیار نظر آتا ہے.یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو جب دنیا کے بندے تنگ کرتے ہیں اور انہیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں تو خدا ان کی حمایت میں کھڑا ہوکر : ع کہتا ہے یہ تو بنده عالی جناب ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے

Page 449

مضامین بشیر جلد سوم 427 (2) دوسری بات آپ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی مومن کسی اوپر کے درجہ پر پہنچ کر پھر نیچے بھی گر سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ ایمان بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے.خود قرآن مجید نے بلعم باعور کے متعلق فرمایا ہے: لَوْشِعُنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةٌ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: 177) یعنی اگر وہ ہماری مشیت کے راستہ پر چلتا رہتا تو ترقی کر جاتا مگر وہ آسمان کو چھوڑ کر زمین کی طرف جھک گیا.اسی طرح ان لوگوں کا حال ہے جو ایمان اور اخلاص کا ایک درجہ پالینے کے بعد پھر کسی ابتلاء میں پڑ کر مرتد ہو جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض لوگ ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی بعض لوگوں نے ایمان حاصل کرنے کے بعد ارتداد کا رستہ اختیار کیا.یہ سب مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ایمان حاصل کرنے کے بعد انسان گر سکتا ہے اور عقلاً بھی یہی درست ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے ورنہ یہ لوگ غافل ہوکر بیٹھ جائیں.البتہ ایمان کا اعلیٰ مقام ضرور ایسا ہوتا ہے کہ وہاں تک پہنچ کر انسان گویا خدا کے فضل سے محفوظ ہو جاتا ہے اور کوئی ابتلاء اسے لغزش میں مبتلا نہیں کر سکتا.مگر عام حالات میں انسان کے لئے ایمان کے رستہ میں آگے بڑھنے یا نیچے گرنے یا ایک وقت تک ترقی سے رکے رہنے کے پہلو موجود ہیں.اس لئے انجام بخیر ہونے کی دعا سکھائی گئی ہے.ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض لوگ نیک اعمال کرتے کرتے گویا جنت کے دروازہ پر پہنچ جاتے ہیں.لیکن پھر ان کی کوئی مخفی شقاوت قلبی انہیں وہاں سے واپس لوٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیتی ہے.یہ بھی ایمان کے بڑھنے اور گھٹنے کی ایک بین دلیل ہے.(3) تیسر اسوال آپ کا یہ ہے کہ ایسا شخص جسے بعض مجبوریوں کی وجہ سے یا بعض لوگوں کی دست درازی کے نتیجہ میں یا صحبت بد کی وجہ سے دین و دنیا میں ترقی کا موقع نہیں ملا.اس کے لئے قرآن مجید کیا علاج تجویز کرتا ہے؟ سواس سوال کا جواب تو صاف ہے کہ قرآن مجید نے انسان کو ہر صورت میں مجاہدہ کا حکم دیا ہے اور مجاہدہ کی مختلف اقسام ہیں.یعنی اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ ، اپنے بدر فیقوں یا مخالف لوگوں کے ساتھ مجاہدہ اور ناموافق حالات کے ساتھ مجاہدہ.پس ایسے شخص کا یہی علاج ہے کہ وہ ہر آن مجاہدہ میں لگا رہے اور اپنے

Page 450

مضامین بشیر جلد سوم 428 حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہے.اگر وہ پوری محنت اور پوری توجہ اور پوری دیانت داری کے ساتھ کوشش کرے گا تو قرآن نے وعدہ فرمایا ہے کہ: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهدِيَنَّهُمُ سُبُلَنَا(العنكبوت:70) یعنی جو لوگ ہمارے راستہ میں مجاہدہ کرتے ہیں انہیں ہم اپنے رستوں کی طرف راہنمائی کا سامان ضرور مہیا کر دیتے ہیں.باقی رہا یہ کہ کسی شخص کو کوئی حقیقی معذوری پیش آجائے اور وہ اپنی کسی غفلت کی وجہ سے نہیں بلکہ حقیقی مجبوری کی صورت ناکارہ ہو جائے تو ایسے شخص کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.اور اس کے لئے "لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها“ کا اصولی ارشاد موجود ہے.اسی لئے قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ : الْوَزْنُ يَومَئِذٍ الْحَقَّ یعنی قیامت کے دن خدا کانتر از و کامل طور پر حق وانصاف کا ترازو ہوگا.جس میں سارے پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر اور سارے موجبات رعایت کا موازنہ کر کے فیصلہ کیا جائے گا اور کسی شخص سے کسی رنگ میں نا انصافی نہیں ہوگی.(4) چوتھا سوال آپ کا یہ ہے کہ بعض اوقات ایک شخص رمضان میں روزے بھی رکھتا ہے.قرآن مجید کا دور بھی کرتا ہے.تہجد بھی پڑھتا ہے، کم بولتا ہے کم سوتا ہے، کم کھاتا ہے مگر رمضان کے اختتام پر سوائے بدنی کمزوری کے اسے بظاہر کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا.آپ کا یہ سوال بھی مجاہدہ کے فلسفہ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے.میں اس بات کو ہر گز باور نہیں کر سکتا اور نہ قرآن مجید اس کی تصدیق کرتا ہے کہ کوئی حقیقی نیکی یونہی ضائع چلی جائے.پس یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص سچے دل اور پاک نیت کے ساتھ تمام ضروری لوازمات کوملحوظ رکھتے ہوئے رمضان کا مہینہ گزارے اور پھر بھی خدا کے دربار سے خالی ہاتھ لوٹ جائے.ایسے لوگ یا تو محض منتر جنتر کے طور پر رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور یا رمضان کو صرف ایک وقتی کھیل سمجھتے ہیں.اور رمضان گزارنے کے بعد پھر اسی طرح سفلی زندگی کی طرف جھک جاتے ہیں کہ گویا ان پر رمضان آیا ہی نہیں.ورنہ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ بیماری موجود ہو اور دوائی بھی تجربہ شدہ اور اعلیٰ اور گویا تیر بہدف استعمال کی جائے اور پھر بھی اس سے کوئی فائدہ نہ ہو.یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ یا تو دوائی مطلقاً کھائی ہی نہیں گئی اور یو نہی سمجھ لیا گیا کہ دوائی کھائی ہے.اور یا بیماری کے جراثیم اتنے وسیع اور گہرے ہیں کہ اس کے لئے زیادہ لمبے علاج اور لمبے پر ہیز کی ضرورت ہے.اور بے وقت علاج چھوڑنے پر بیماری پھر عود کر آتی اور زور پکڑ جاتی ہے.

Page 451

مضامین بشیر جلد سوم 429 آپ غالباً دین میں بھی منتر جنتر ڈھونڈتے ہیں کہ صرف پھونک مارنے سے کوئی کام ہو جائے مگر مجھے اسلام میں کسی منتر جنتر کا نسخہ یاد نہیں.اسلام تو مسلسل مجاہدہ کا نام ہے جو صرف موت پر ختم ہونا چاہئے.پاک نیت ہو، دل میں محبت اور کچی عقیدت ہو اور صحیح رنگ کی مسلسل کوشش کی جائے تو مومن کی جدو جہد کبھی ضائع نہیں جاسکتی.مجھے افسوس ہے کہ آپ کا خط مایوسی کا رنگ لئے ہوئے ہے.حالانکہ قرآن مجید فرماتا ہے: إِنَّهُ لَا يَايْمَسَ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف:88) میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اگر آپ کی ساری عمر نفس کے ساتھ لڑتے گزر جائے اور پھر بھی نفس مغلوب نہ ہو لیکن آپ نیک نیتی کے ساتھ نفس کے مقابلہ میں برابر لگے رہیں اور ہتھیار نہ ڈالیں تو پھر بھی آپ یقیناً نجات پاگئے.کیونکہ آپ نے شیطان کے ساتھ لڑتے ہوئے جان دی.بلکہ یہ تو ایک رنگ میں گویا شہادت کی موت ہے اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں.آپ کے سوالوں کا یہ ایک بہت مختصر سا اصولی جواب ہے.آپ غور کریں گے تو انشاء اللہ یہ جواب آپ کی تسلی کا موجب ہوگا.اللہ تعالیٰ آپ کے اور ہم سب کے ساتھ ہو اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر رہے.آمین ( محررہ 2 اپریل 1957 ء ).......(روز نامہ الفضل ربوہ 5 اپریل 1957ء) رمضان المبارک کے دس خاص مسائل (1) رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں خدائے قدوس کی آخری شریعت کا آغاز ہوا اور کلام الہی اپنے کمال کو پہنچ گیا.اس مہینہ کو روزہ کی خاص عبادت کے لئے مخصوص کیا گیا ہے.جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء ہوں.اس مہینہ میں ہر اس عاقل، بالغ ، مردوزن پر روزہ واجب ہے جو بیماری یا سفر کی حالت میں نہ ہو.مگر ڈیوٹی کے لحاظ سے دائمی سفر پر رہنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے.کیونکہ ان کا سفر ایک گونہ قیام کا رنگ رکھتا ہے.(2) بیمار یا مسافر کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی حالت گزرنے کے بعد چھوڑے ہوئے

Page 452

مضامین بشیر جلد سوم 430 روزے رکھ کر اپنے روزوں کی گنتی پوری کرے.تا کہ اس کی عبادت کے ایام میں فرق نہ آئے اور ثواب میں کمی واقع نہ ہو.اس غرض کے لئے حائضہ عورت بھی بیمار کے حکم میں ہے.مگر بیماری اور سفر میں روزہ ملتوی کرنے کے باوجود رمضان کی دوسری برکات سے حتی الوسع متمتع ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.(3) جو شخص بڑھاپے یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنے سے معذور ہو اور بعد میں گنتی پوری کرنے کی امید بھی نہ رکھتا ہو ( بہانہ کے طور پر نہیں بلکہ حقیقتا) اس کے لئے یہ حکم ہے کہ روزہ کے بدل کے طور پر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے مہینہ بھر کے کھانے کے اندازہ سے فدیہ ادا کرے.یہ فدیہ کسی مقامی غریب اور مسکین کو نقدی یا طعام ہر دو صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے اور اس غرض کے ماتحت مرکز میں بھی بھجوایا جا سکتا ہے.حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت بھی اسی حکم کے ماتحت آتی ہے یعنی وہ روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ ادا کر سکتی ہے.(4) روزہ طلوع فجر یعنی پو پھوٹنے سے لے کر غروب آفتاب تک رکھا جاتا ہے اور اس میں کھانے پینے یا بیوی کے ساتھ مباشرت کرنے سے پر ہیز کرنا لازم ہے.مگر بھول چوک کر کوئی چیز کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا.سحری کھانے میں دیر کرنا اور افطاری میں جلدی کرنا سنت نبوی ہے تا خدا تعالیٰ کے حکم کے ساتھ اپنی خواہش کی آمیزش نہ ہونے پائے.(5) روزہ رکھنے والے کے لئے لازم ہے کہ اپنا وقت خصوصیت سے نیکی اور تقوی طہارت اور صداقت قول اور صداقت عمل میں گزارے.اور ہر قسم کی بدی اور بیہودگی سے کلی اجتناب کرے مگر اس نیست سے نہیں کہ رمضان کی قید کے ایام کے بعد پھر ستی اور بدی کی مادر پدر آزادی کی طرف لوٹ جائے گا.بلکہ اس نیت سے کہ وہ اس ٹرینگ کے نتیجہ میں ہمیشہ نیک اور متقی رہنے کی کوشش کرے گا اور خشیت اللہ کو اپنا شعار بنائے گا.(6) روزوں کے ایام میں نمازوں کی پابندی اور تلاوت قرآن مجید اور دعاؤں اور ذکر الہی اور درود شریف میں شغف خاص طور پر ضروری ہے.اور روزوں کی راتوں میں تہجد کی نماز کی بڑی تاکید آئی ہے.تہجد کی نماز مومنوں کو ان کے مخصوص انفرادی مقام محمود تک پہنچانے اور نفس کی خواہشات کو کچلنے اور دعاؤں کی قبولیت کا رستہ کھولنے اور انسان کی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بے حد موثر ہے.( یہ سب قرآنی اشارات ہیں ) دن کے اوقات میں فطحی یعنی اشراق کی نماز بھی بڑے ثواب کا موجب ہے.تہجد کا بہترین

Page 453

مضامین بشیر جلد سوم 431 وقت نصف شب اور فجر کی نماز کے درمیان کا وقت ہے.(7) رمضان کے مہینہ میں صدقہ و خیرات اور غریبوں اور مساکین اور یتامیٰ اور بیوگان کی امداد حسب توفیق زیادہ سے زیادہ کرنی چاہئے.حدیث میں آتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں ہمارے آقا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ غریبوں کی امداد میں ایک ایسی تیز آندھی کی طرح چلتا تھا جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.رمضان کا یہ صدقہ و خیرات فدیہ رمضان اور صدقۃ الفطر کے علاوہ ہے.(8) جن لوگوں کو توفیق ہوا اور فرصت مل سکے اور حالات موافق ہوں ان کے لئے رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد کے اندر اعتکاف بیٹھنا موجب ثواب ہے.یہ ایک قسم کی وقتی اور محدود رہبانیت ہے جس کے ذریعہ انسان دنیا سے بکلی طور پر نہ کٹنے کے باوجود انقطاع الی اللہ کا ثواب حاصل کرتا ہے.اعتکاف میں دن رات مسجد میں بیٹھ کر عبادت اور ذکر الہی اور دعاؤں اور تلاوت قرآن مجید اور دینی مذاکرات میں وقت گزارنا چاہئے اور نیند کو کم سے کم حد میں محدود رکھنا چاہئے.رفع حاجت یعنی پیشاب، پاخانہ کے لئے مسجد سے باہر جانے کی اجازت ہے اور رستہ میں کسی مریض کی مختصر سی عیادت کرنے میں بھی حرج نہیں.(9) رمضان کے آخری عشرہ میں اور خصوصاً اس کی طاق راتوں میں ایک رات ایسی آتی ہے جو خدا تعالیٰ کی خاص الخاص برکتوں سے معمور ہوتی ہے اسے لیلۃ القدر یعنی بزرگی والی رات کہتے ہیں.اس میں دعا ئیں بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں اور رحمت کے فرشتے مومنوں کے قریب تر ہو جاتے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ آخری عشرہ کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کی جائیں.اور نوافل پر زیادہ زور دیا جائے.اور رات کی مُردہ تاریکی کو روحانی زندگی کے نور سے بدل دیا جائے.لیلۃ القدر گویا خدا کی طرف سے مومنوں کے لئے اختتام رمضان کا ایک مبارک ہدیہ ہے.(10) عیدالفطر سے قبل غرباء کی امداد کے لئے صدقۃ الفطر ادا کرنا ضروری ہے.اس کی مقدار ایک صاع گندم یا نصف صاع گندم کے حساب سے مقرر ہے.جو گھر کے ہر مرد و عورت اور ہر لڑکے لڑکی بلکہ بے تنخواہ کام کرنے والے نوکروں تک کی طرف سے بھی ادا کرنی لازم ہے.یہ رقم گندم کی رائج الوقت قیمت کا اندازہ ہونے پر مقامی محصلوں کو ادا کرنی چاہئے.تا کہ مناسب انتظام کے ساتھ اچھے وقت پر غرباء میں تقسیم ہو سکے.وَتِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ -

Page 454

مضامین بشیر جلد سوم 432 نوٹ : رمضان اور عید الفطر کے بعد شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر سات تاریخ تک چھ نفلی روزے رکھنا مسنون ہے اور موجب ثواب.جس طرح نماز کے بعد کی سنتیں ہوتی ہیں یہ گویا روزوں کے بعد کی سنتیں ہیں.( محررہ 7 اپریل 1957 ء ) (روز نامہ الفضل ربوہ 10 اپریل 1957ء) 12 رمضان کا مقدس عہد دوست اس مبارک مہینہ میں کسی کمزوری کے دُور کرنے کا عزم کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اصلاح نفس کا یہ بھی ایک عمدہ اور تجربہ شدہ طریق ہے کہ دوست رمضان کے مہینہ میں اپنی کسی نہ کسی کمزوری کے دور کرنے کا عہد کیا کریں.اس عہد کے متعلق کسی دوسرے شخص پر اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ( کیونکہ ایسا کرنا خدا کی ستاری کے خلاف ہوگا ) صرف اپنے دل میں خدا کے ساتھ عہد کرنا چاہئے کہ میں آئندہ اپنی فلاں کمزوری سے اجتناب کروں گا.اور کمزوری کا انتخاب ہر شخص اپنے حالات کے ماتحت خود کر سکتا ہے.مثلاً نمازوں میں سستی، چندوں میں سستی ، جماعتی کاموں میں ستی، مقامی امراء سے عدم تعاون ، جھوٹ بولنے کی عادت، کاروبار میں دھوکا دینے کی عادت، بہتان تراشی، وعدہ خلافی ، رشوت ستانی بخش کلامی ، گالی گلوچ ، غیبت ، بدنظری ، ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی ، بیوی کے ساتھ بدسلوکی ، والدین کی خدمت میں غفلت ، عورتوں کے لئے اپنے خاوندوں سے نشوز ، بے پردگی ، بچوں کی تربیت میں غفلت ،سگریٹ اور حقہ نوشی ،سینما دیکھنے کی عادت ، سودی لین دین وغیرہ وغیرہ سینکڑوں قسم کی کمزوریاں ہیں جن میں ایک شخص مبتلا ہوسکتا ہے.ان میں سے کوئی سی کمزوری اپنے خیال میں رکھ کر دل میں خدا کے ساتھ عہد کیا جائے کہ میں خدا کی توفیق سے آئندہ اس کمزوری سے کلی طور پر مجتنب رہوں گا.اور پھر اس مقدس عہد کو مرتے دم تک اس طرح نبھا ہے کہ اپنی اس نیکی اور وفاداری سے خدا کو راضی کرلے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بتایا

Page 455

مضامین بشیر جلد سوم ہوانسخہ ہے.پس ع اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما وَكَانَ اللَّهُ مَعَ مَنْ عَهَدَ وَ وَفَّى (محررہ 15 اپریل 1957ء) 433 روزنامه الفضل ربوہ 18 اپریل 1957ء) خدائی رحمت کی بے حساب وسعت مومنوں کو کسی حال میں بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (الاعراف: 157) یعنی میرا عذاب تو میرے عام قانون کے ماتحت صرف ان لوگوں کو پہنچتا ہے جو کسی امر میں خلاف ورزی کر کے اس قانون کی زد میں آجاتے ہیں.لیکن میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے اور اس کے لئے کوئی حد بندی نہیں.اس لطیف آیت میں جو مَنْ أَشَاءُ کے الفاظ آتے ہیں.ان سے قرآنی محاورہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا عام قانون مراد ہے.ورنہ نعوذ باللہ یہ منشاء نہیں کہ عذاب تو خدا کی مرضی کے مطابق آتا ہے.مگر رحمت گویا اس کی مرضی کی حدود کو توڑ کر بے اختیار نکلتی رہتی ہے.چنانچہ جہاں جہاں بھی قرآن مجید میں خدا کی مشیت کا ذکر آتا ہے اور قسم کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں کہ لَوْ شَاءَ اللَّهُ وَإِن يَّشَاءَ اللَّهُ وَإِنْ شَاءَ اللَّهَ وغیرہ وغیرہ.وہاں خدا تعالیٰ کے عام قانون قضاء و قدر اور عام قانون جزاء وسزا کی طرف ہی اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے.اور یہ ایک خاص نکتہ ہے جو دوستوں کو یا درکھنا چاہئے.کیونکہ اس سے قرآنی تفسیر میں بہت سی مشکلات کے حل کا رستہ کھلتا ہے.اوپر کی درج شدہ آیت کے علاوہ حدیث میں بھی خدائی رحمت کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبی یعنی خدا تعالیٰ نے یہ لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت ہمیشہ میرے غضب پر غالب رہے گی.یعنی میرے انعام اور میرے عفو کا پہلو میرے غضب اور میرے سزا کے پہلو سے کبھی مغلوب نہیں ہو

Page 456

مضامین بشیر جلد سوم 434 گا.اور میری بخشش اور میری عنایات کا پرچم ہمیشہ بلند و بالا ہو کر لہراتا رہے گا اور کبھی سرنگوں نہ ہوگا.چنانچہ اس عدیم المثال رحمت خداوندی کی تشریح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسری حدیث میں فرماتے ہیں کہ : يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي زُمْرَةٌ هُمْ سَبْعُونَ أَلْفاً لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ تُضِيُّ وُجُوهُهُمْ إِضَاءَةَ الْقَمَر لَيْلَةَ الْبَدْر ( صحیح مسلم کتاب الایمان ) یعنی میری امت میں سے ستر ہزار انسان بغیر کسی حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے.ان کے چہرے اس طرح چمکتے ہوں گے جس طرح کہ چودھویں رات میں چاند چمکتا ہے.اس لطیف حدیث میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ حضرت افضل الرسل رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض اتنے کمال کو پہنچا ہوا ہے اور آپ کی روحانی تاثیرات اتنی بلند پایہ ہیں کہ آپ کی امت میں سے ستر ہزار انسان (جس سے عربی محاورہ کے مطابق بے شمار تعداد مراد ہے ) ایسے روحانی مرتبہ پر فائز ہوں گے اور ان کے لئے خدائی فضل و کرم اس قدر جوش میں ہوگا کہ قیامت کے دن ان کے حساب و کتاب کی ضرورت نہیں سمجھی جائے گی.اور وہ گویا بغیر امتحان کے ہی پاس شمار کئے جائیں گے.اور ضمناً اس حدیث میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس پاک گروہ کی عام بشری کمزوریاں اور معمولی انسانی لغزشیں، ان کی غیر معمولی دینی خدمات اور ان کے قلبی تقوی وطہارت کی وجہ سے نظر انداز کر دی جائیں گی.یہ وہی ابدی فلسفہ مغفرت ہے جو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاتِ (هود: 115) یعنی خدا تعالیٰ نے مثبت نیکیوں میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ وہ انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو اس طرح بہا کر لے جاتی ہیں جس طرح کہ پانی کا تیز دھاراخس و خاشاک کو بہا کر لے جاتا ہے اور اس کا نام ونشان تک نہیں چھوڑتا.الغرض اسلام میں خدائی رحمت کو اتنی وسعت حاصل ہے کہ اس کا کوئی حد و حساب نہیں.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدائی رحمت کے دو پہلو ہیں.ایک نیک جزاء اور انعام واکرام کی عدیم المثال افزائش اور دوسرے بخشش وستاری اور عفو و مغفرت کا اکمل ترین اظہار.رحمت کے یہ دونوں پہلو خدائے اسلام میں اس درجہ اتم صورت میں پائے جاتے ہیں کہ کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی.چنانچہ عیسائیوں نے تو گناہ کی معافی کے سوال کو خدائی عدل کے منافی سمجھ کر کفارہ کے غیر طبعی عقیدہ میں پناہ لی اور ہندوؤں نے خدائی بخشش کو محدود قرار دیتے ہوئے تناسخ کا ظالمانہ عقیدہ ایجاد کیا اور نسل انسانی کو اواگون کے چکر میں پھنسا کر بیٹھ گئے.لیکن اسلام کا خدا اپنی رحمت کی وسعت اور انسان کی مثبت نیکیوں کی زبر دست تاثیر اور سچے

Page 457

مضامین بشیر جلد سوم پرستار کی صالح نیت کی بناء پر کس شان اور کس زور کے ساتھ فرماتا ہے کہ: 435 لَا تَيْتَسُوا مِنْ رَّوح اللهِ (يوسف: 88) إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا(الزمر: 54) یعنی اے مومنو! خدا کی رحمت سے کسی صورت میں بھی مایوس نہ ہوا کرو...تمہارا خدا سارے گناہوں کو معاف کر سکتا ہے.مگر شرط وہی ہے کہ اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (هود: 115).یعنی نیکیوں کے پانی سے گناہ کی آگ کو بجھاتے چلے جاؤ اور خدا کے دامن سے چمٹے رہو.اسی تعلق میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت لطیف حوالہ ملا ہے.جس سے روح گویا وجد میں آکر جھومنے لگتی ہے.حضور خدائی رحمت و بخشش کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے نفسوں کا مطالعہ کرو.ہر ایک بدی کو چھوڑ دو.لیکن بدیوں کو چھوڑ دینا کسی کے اختیار میں نہیں.اس واسطے راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد میں خدا کے حضور دعائیں کرو.وہی تمہارا پیدا کرنے والا ہے.چنانچہ فرماتا ہے خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ.پس اور کون ہے جوان بدیوں کو دور کر کے نیکیوں کی تو فیق تم کو دے.بعض لوگ کم ہمت ہوتے ہیں.تم ایسے مت بنو.کئی خطوط میرے پاس آتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے بہت نماز وظیفہ کیا مگر کچھ بھی حاصل نہیں ہوا.ایسا آدمی جو تھک جائے نامرد اور مخنث ہے.یادرکھو گر نه باشد باشد بد شرط عشق است در دست ره براں طلب مراں جو شخص جلدی گھبرا جائے وہ مرد نہیں.کسی بات کی پرواہ نہ کرو خواہ جذبات پہلے سے بھی زیادہ جوش ماریں پھر بھی مایوس نہ ہو.یقیناً خدارحیم، کریم اور حلیم ہے.وہ دعا کرنے والے کو ضائع نہیں کرتا.تم دعا میں مصروف رہو اور اس بات سے مت گھبراؤ کہ جذبات انسانی کے جوش سے گناہ صادر ہو جاتا ہے.وہ خداس کا حاکم ہے.وہ چاہے تو فرشتوں کو بھی حکم کر سکتا ہے کہ تمہارے گناہ نہ لکھے جائیں.( تقریر جلسہ سالانہ 1906 ، مطبوعہ بدر 10 جنوری 1907ء) یہ لطیف تحریر انسان کی طرف سے مجاہدہ اور خدا کی طرف سے مغفرت کے فلسفہ کی جان ہے.کیونکہ مجاہدہ یعنی اعمال صالحہ کی شب و روز کوشش کی وجہ سے انسان طبعا گناہ پر دلیر ہونے سے ڈرتا اور خوف کھاتا ہے.اور دوسری طرف خدائی مغفرت کا تصور اسے لازماً مایوس ہونے سے بچاتا ہے اور کوشش ترک کرنے سے باز رکھتا ہے.یہی وہ حقیقت ہے جس کے متعلق کہا گیا کہ الايْمَانُ بَيْنَ الرَّجَا وَ الْخَوْنِ یعنی

Page 458

مضامین بشیر جلد سوم 436 ایمان کی سلامتی امید اور خوف کے بین بین رہنے میں مضمر ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ بالاتحریر کے آخر میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ خدا سب کا حاکم ہے.وہ چاہے تو فرشتوں کو بھی حکم کر سکتا ہے کہ تمہارے گناہ نہ لکھے جائیں.ان کا منشاء ہرگز یہ نہیں کہ انسان کو گناہ پر دلیر کیا جائے بلکہ یہ الفاظ گنہگار انسانوں کو مایوس ہونے سے بچانے اور ہر حال میں نفس کے مجاہدہ میں لگائے رکھنے اور ہر صورت میں خدائی رحمت پر بھروسہ کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے بیان کئے گئے ہیں.در اصل بعض مومنوں کا یہ مقام کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فداہ نفسی کی حدیث کے مطابق بغیر حساب کے بخشش پانے والے گروہ میں شامل ہو جائیں.یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول کے مطابق فرشتے ان کی بعض کمزوریوں اور لغزشوں کے لکھنے سے ہاتھ کھینچ لیں.اس کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا حوالہ سے ظاہر ہے بعض خاص شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ شرائط یہ ہیں: (1) یہ کہ صرف وہی شخص اس مخصوص خدائی رحمت کا جاذب بن سکتا ہے جو اپنے نفس کے مطالعہ میں مصروف رہے.یعنی بالفاظ دیگر اسے دل کا تقویٰ حاصل ہو جو گویا اعمال صالحہ کی روح ہے.جس کے بغیر کوئی شخص اپنے نفس کے جائزہ کی طرف متوجہ نہیں رہ سکتا.اور دل کا تقویٰ وہ چیز ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ع اک نیکی کی جڑ ہر اگر ہے جڑ رہی سب کچھ رہا ہے (2) وہ بدیوں کو ترک کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہے.اور خواہ وہ اس کوشش میں کتنا ہی ناکام رہے مگر کسی صورت میں اس کوشش کو نہ چھوڑے اور نفس کا مجاہدہ برابر جاری رکھے.(3) وہ دعاؤں میں لگا رہے اور ہر حال میں خدائی نصرت و حفاظت کا طالب ہو.(4) وہ نماز تہجد کا التزام کرے اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گڑ گڑانے کی عادت ڈالے.کیونکہ تہجد وہ چیز ہے جو قرآنی تعلیم کے مطابق نفس کی خواہشوں کو کچلتی اور دعاؤں کی قبولیت کا رستہ کھولتی اور انسان کو اس کے ذاتی مقام محمود تک پہنچانے میں مدد دیتی ہے.(5) وہ ثابت قدم اور مستقل مزاج ہو اور دعاؤں اور بدیوں کو ترک کرنے کی کوشش میں تھک کر ہار نہ بیٹھے.اور خدا کے رستہ میں نامردی نہ دکھائے بلکہ مردانہ وار لڑتا رہے خواہ بظاہر شکست ہی کھائے.اگر وہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا تو کم از کم اس تک پہنچنے کی کوشش میں جان دے دے.

Page 459

مضامین بشیر جلد سوم 437 (6) وہ کسی صورت میں بھی خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوا ور خواہ اس کے نفس کی خواہشیں کتنا ہی جوش ماریں وہ ہر حال میں خدا کی رحمت اور مغفرت پر بھروسہ رکھے اور اس کے متعلق بدظنی سے کام نہ لے.یہ وہ چھ اصولی شرائط ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس لطیف حوالہ سے ثابت ہوتی ہیں.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جس شخص میں یہ شرائط پائی جائیں وہ اپنی بعض کمزوریوں کے باوجود خدائی نعمتوں کا وارث بنے گا.اور اس کی نیکیوں اور دعاؤں اور دل کے تقویٰ کی وجہ سے فرشتے اس کی لغزشوں کے لکھنے سے رکے رہیں گے.یہ وہی ابدی فلسفہ مغفرت ہے جس کی طرف جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے قرآن مجید نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ یعنی نیکیاں بدیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتی ہیں اور خدا کے ریکارڈ میں ان کا نام ونشان نہیں چھوڑتیں.پس آؤ کہ ہم اس رمضان کے مبارک مہینہ میں اپنے خدا سے یہ عہد کریں کہ ہم ان چھ شرائط کے پابند رہیں گے جن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشارہ فرمایا ہے.یعنی ہم اپنے دلوں میں تقویٰ کا درخت لگائیں گے جو عمل صالح کی روح اور ہر ایک نیکی کی جڑ ہے.ہم اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں گے.ہم دعاؤں کو اپنا حرز جان بنائیں گے اور خصوصاً تہجد کے لئے جونُ اللَّيْلِ میں اٹھ کر دعاؤں کی عادت ڈالیں گے.ہم ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ ہر حال میں خدا کے دامن سے لیٹے رہیں گے اور ہم کسی صورت میں بھی اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں گے.تا کہ جب ہم قیامت کے دن خدا کے دربار میں حاضر ہوں تو ہم دیکھیں کہ ہماری نیکیاں تو چاندی کے حروف میں لکھی ہوئی نورانی کرنوں کے ساتھ چمک رہی ہیں مگر ہماری کمزوریوں کے صفحات خالی ہیں.کیونکہ فرشتوں نے خدا کا اشارہ پا کر انہیں لکھنے سے اپنے ہاتھ روک لئے تھے.اے خدا! تو ایسا ہی کر اور اپنے حبیب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے مسیح پاک علیہ السلام کے قدموں کے طفیل ہمیں حشر کے دن شرمندہ اور ذلیل ہونے سے محفوظ رکھ.وَاتِنا مَا وَعَدتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادِ آمِين يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - ( محرر 19 اپریل 1957 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 23 اپریل 1957ء)

Page 460

مضامین بشیر جلد سوم 14 رمضان کا آخری عشرہ اور لیلۃ القدر 438 حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ رمضان کے مہینہ میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت زیادہ قریب ہو جاتا ہے.اور ان کی دعاؤں کو خاص طور پر قبول فرماتا ہے.اور اس مبارک رات کے دوران روحانیت کا اتنا انتشار ہوتا ہے کہ گویا زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی فضا خدا کی عظیم الشان رحمت اور اس کی غیر معمولی مغفرت سے بھر جاتے ہیں.اس رات کا نام لیلۃ القدر ہے چنانچہ اس کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرِه تَنَزَّلُ الْمَلئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ أَمْرِه سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِه (القدر: 4-6) یعنی لیلۃ القدر خدائی نعمتوں کے لحاظ سے ہزار سال سے بھی بہتر ہوتی ہے.اس رات کے دوران میں خدائی رحمت کے فرشتے اور روحانی زندگی کے فیوض بڑی کثرت کے ساتھ زمین پر نازل ہوتے ہیں.یہ مقدس رات گویا مجسم سلامتی ہے.جس کی برکات کا انتشار صبح صادق تک رہتا ہے.حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس رات کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو.اور چونکہ قمری حساب سے رات دن سے پہلے آتی ہے اس لئے آخری عشرہ کی طاق راتوں سے 23،21، 25، 27 ، 29 رمضان سے پہلی راتیں مراد ہیں.اور بعض حدیثوں میں آخری عشرہ کی بجائے آخری ہفتہ کا بھی ذکر آتا ہے یعنی رمضان کی آخری سات راتیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ ان راتوں کو خصوصیت کے ساتھ نوافل اور عبادت اور ذکر الہی میں گزاریں اور درود شریف پر بھی بہت زور دیں.د آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ : شَدَّ مِثْزَرَهُ وَ أَحْيِي لَيْلَهُ وَأَيْقَضَ أَهْلَهُ ( صحیح بخاری کتاب الصوم ) یعنی جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص عبادت کے لئے اپنی کمرکس لیتے تھے.اور اپنی راتوں کو مخصوص روحانی رنگ سے معمور کر دیتے تھے.اور اپنے اہل خانہ کو بھی دعاؤں اور نوافل کے لئے جگاتے تھے.یہ سوال کہ لیلتہ القدر کی علامت کیا ہے؟ اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ اس رات کی حقیقی علامت تو روحانی حسن سے تعلق رکھتی ہے جس کا مقام مومن کا دل ہے جو انوار الہی کا مورد بنتا ہے.لیکن ایک حدیث

Page 461

مضامین بشیر جلد سوم 439 میں یہ بھی آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر میں بارش کے قطرے برستے دیکھے تھے.اور اس رات واقعی ظاہر میں بھی بارانِ رحمت کا نزول ہوا تھا.لیکن ضروری نہیں کہ ہر دفعہ یہی مادی علامت ظاہر ہو.خدائی مشیت بسا اوقات انسان کی روحانی ترقی کے لئے ظاہری علامتوں کی بجائے روحانی علامتوں کو زیادہ ترجیح دیتی ہے.تا کہ مومنوں میں جستجو کی کیفیت کو برقرار رکھا جائے.اور وہ کم از کم آخری عشرہ کی طاق راتیں تو لیلۃ القدر کی تلاش میں گزاریں.بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ طاق راتوں پر بھی حصر نہ کیا جائے بلکہ سارا عشرہ ہی مخصوص عبادت اور مخصوص دعاؤں میں گزارا جائے.حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ اگر مجھے لیلتہ القدر میسر آوے تو میں اس میں کیا دعا کروں؟ فرمایا یہ دعا کرو کہ: اللهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي (سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء باب الدعاء بالعفو والعافية ) یعنی اے میرے آسمانی آقا! تجھ میں یہ صفت اور طاقت ہے کہ اپنے بندے کے گناہوں کو اس طرح محو کر دے اور مٹادے کہ گویا وہ ہوئے ہی نہیں.اور تو اس قسم کی بخشش کو پسند فرماتا ہے.پس تو میری خطاؤں کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرما اور مجھے بے حساب بخشش پانے والے بندوں میں شامل کر لے.غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سوال کرنے والے کے مخصوص حالات یا مخصوص آرزو کو مد نظر رکھ کر تلقین فرمائی تھی.اس لئے ضروری نہیں کہ ہر شخص اپنے آپ کو اس دعا تک محدود رکھے بلکہ ہر قسم کی جماعتی اور انفرادی دعائیں کی جاسکتی ہیں اور کرنی چاہئیں.مگر برکت کے خیال سے اس دعا کو بھی ضرور لیلۃ القدر کی دعاؤں میں شامل کر لینا چاہئے.لیکن جیسا کہ میں بار بارلکھ چکا ہوں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اسلام میں ہرگز کوئی منتر جنتر نہیں ہے کہ ادھر منہ سے ایک بات نکلی اور اُدھر جھٹ آسمان تک پہنچ گئی.اور سارا سال غفلت میں گزارا اور ایک رات کی عبادت سے ابدی تعویذ حاصل کر لیا.بلکہ اسلام مستقل طہارت نفس اور مسلسل مجاہدہ کا نام ہے.پس سچا مومن وہی ہے جو تقویٰ کے مقام پر قائم ہو اور اپنی زندگی رضائے الہی اور نیکی اور عمل صالحہ کی کوشش میں گزارے.اور لیلۃ القدر بھی زیادہ تر اس شخص کو فائدہ دیتی ہے جو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ کچی محبت رکھتا ہے.اور اسلام اور احمدیت کا وفادار اور مخلص خدمت گزار ہے.ایسے شخص پر خدا تعالیٰ اپنے فضل و رحمت کا سایہ رکھتا ہے اور اس کی لغزشوں پر چشم پوشی فرماتا ہے

Page 462

440 مضامین بشیر جلد سوم اور اس کی دعاؤں کو زیادہ سنتا ہے.لیکن چونکہ لیلۃ القدر در بار عام کا حکم رکھتی ہے جبکہ خدائی انعاموں کا وسیع چھینٹا پڑتا ہے.اس لئے سب لوگ اس سے علی قدر مراتب فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اٹھانا چاہئے.اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.امِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.( محرره 21 رمضان 1376ھ ) (روز نامه الفضل 25 اپریل 1957ء) 15 الفضل اور علامہ اقبال اخبار ” نوائے وقت لاہور کی اشاعت امروزہ میں ایڈیٹر صاحب ” نوائے وقت“ کی طرف سے ایک ایڈیٹوریل نوٹ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے علامہ اقبال مرحوم کے متعلق الفضل کے ایک ادارتی مقالہ کی بناء پرغم وغصہ کا اظہار کیا ہے.میں نے الفضل کا وہ نوٹ نہیں دیکھا جس کی بناء پر ” نوائے وقت“ کو یہ مقالہ لکھنا پڑا ہے.لیکن اگر الفضل نے واقعی یہ لکھا تھا کہ احمدیت کی مخالفت میں جو رسالے علامہ اقبال کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ دراصل علامہ موصوف کے لکھے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یونہی غلط طور پر ان کی طرف منسوب کر دیئے گئے ہیں تو یقینا الفضل کی غلطی ہے.یہ بالکل درست ہے کہ علامہ اقبال شروع میں احمدیت اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق بہت عقیدت رکھتے تھے.لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ آخر تک اس عقیدت پر قائم رہے اور یہ کہ بعد کے مخالفانہ بیانات ان کے لکھے ہوئے نہیں ہیں درست نہیں.انسان کے خیالات میں بسا اوقات تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی کبھی اچھی ہوتی ہے اور کبھی بُری.پس اگر علامہ اقبال نے شروع میں احمدیت کے متعلق اچھے خیالات اور عقیدت کا اظہار کیا تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا جائز نہیں کہ جو مخالفانہ خیالات بعد میں ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ علامہ موصوف کے اپنے خیالات نہیں بلکہ کسی اور شخص نے ان کی طرف غلط منسوب کر دیئے ہیں.پس جہاں تک تبدیلی عقیدہ کا سوال ہے ایڈیٹر صاحب ” نوائے وقت کا اعتراض اصولی طور پر درست ہے.اور ہمیں اس کے درست ماننے میں کوئی امر مانع نہیں.لیکن دوسری طرف اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ علامہ مرحوم اپنی ابتدائی زندگی میں بھی احمدیت کے مداح اور معتقد نہیں رہے.آخر ان کے ان الفاظ سے کون انکار کر سکتا ہے کہ:

Page 463

مضامین بشیر جلد سوم 441 ” میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر (اورنگ زیب) کی ذات نے ڈالا ہے ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے.اور ہماری تعلیم کا مقصد ہونا چاہئے کہ اس نمونہ کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت اسے پیش نظر رکھیں.پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں.“ ( تقریر 1910 علی گڑھ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر صفحہ 18 مطبوعہ ویسٹ پنجاب پرنٹنگ پریس لاہور متر جمہ مولوی ظفر علی خاں مرحوم) اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علامہ موصوف کے بڑے بھائی محترم شیخ عطا محمد صاحب مرحوم احمدی تھے اور آخری دم تک احمدیت سے وابستہ رہے.اور ایک زمانہ میں خود علامہ اقبال مرحوم نے اپنے فرزند اکبر آفتاب احمد صاحب کو قادیان میں تعلیم پانے کے لئے بھجوایا تھا جہاں انہوں نے میرے علم کے مطابق اپنی طالب علمی کے زمانہ میں بیعت بھی کی تھی.ایڈیٹر صاحب ” نوائے وقت“ نے اپنے مقالہ کے آخر میں یہ اشارہ بھی کیا ہے کہ گویا جماعت احمد یہ علامہ اقبال کو واجبی عزت کی نظر سے نہیں دیکھتی ( یہ الفاظ ” نوائے وقت“ کے نہیں ہیں بلکہ ان کے نوٹ سے نتیجہ نکال کر لکھے گئے ہیں) لیکن ان کا یہ خیال ہر گز درست نہیں.ہم علامہ اقبال کو ایک بہت بڑا شاعر اور ایک بڑا فلسفی یقین کرتے ہیں اور پاکستان کے قومی لیڈر ہونے کے لحاظ سے ان کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں.لیکن عقائد کا معاملہ بہر حال جدا گانہ ہے اور اس میں ہر شخص اپنے ضمیر کے مطابق عقیدہ رکھنے کا حق رکھتا ہے.( محرره 15 مئی 1957 ء) روزنامه الفضل ربوہ 19 مئی 1957 ء ) ڈاکٹر غلام محمد صاحب کے ساتھ میری خط و کتابت غیر مبانتعیین کا غیر شریفانہ اور غیر اسلامی رویہ کچھ عرصہ ہوا ڈاکٹر غلام محمد صاحب صدر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لا ہور کا ایک مضمون زیر عنوان خطاب به اہل ربوہ غیر مبائعین کے اخبار ”پیغام صلح میں شائع ہوا تھا.اس مضمون کے آخری حصہ میں

Page 464

مضامین بشیر جلد سوم 442 ڈاکٹر صاحب موصوف نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خلاف نہایت درجہ گندے ذاتی الزامات عائد کئے تھے.چونکہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ میرے قادیان کے زمانہ کے بلکہ ان کے اور اپنے طالب علمی کے زمانہ کے تعلقات تھے.اور میں عقائد کے اختلاف کے باوجود ڈاکٹر صاحب کے متعلق یہ حسن ظن رکھتا تھا کہ وہ ایک سنجیدہ مزاج اور شریف انسان ہیں.میں نے انہیں اس مضمون کے آخری حصے کے متعلق ایک رجسٹرڈ خط لکھ کر ان کے غیر شریفانہ اور خلاف تعلیم اسلام روش کے متعلق توجہ دلائی.مجھے امید تھی کہ وہ میری اس نصیحت سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے اس خط کے جواب میں ان کا ایک ایسا خط آیا جس میں نہ صرف اپنی سابقہ باتوں پر نا واجب ضد اختیار کی گئی تھی بلکہ بعض مزید ناگوار اور غیر شریفانہ باتیں بھی درج تھیں.اس پر میں نے ایک دوسرا رجسٹرڈ (Registered) خط لکھا اور ان پر اس معاملے میں اتمام حجت کرنے کی کوشش کی.میں نہیں جانتا کہ میرے اس دوسرے خط کا ان پر کیا اثر ہوا لیکن چونکہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا اس لئے میں اس خط و کتابت کی نقل الفضل میں بھجوا رہا ہوں.تا ہمارے دوستوں کو یہ علم ہو کہ غیر مبائعین میں سے نسبتاً سنجیدہ طبقہ بھی حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مخالفت میں کس قدر بڑھا ہوا ہے کہ قرآن وحدیث کے صریح ارشادات کی بھی پروا نہیں رہی.کاش یہ لوگ اب بھی سمجھیں اور اپنی عاقبت کو خراب نہ کریں.ورنہ جیسا کہ میں خط میں بھی لکھ چکا ہوں.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوْا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُوْنَ.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ 21 مئی 1957ء پہلا خط خاکسار مرزا بشیر احمد بنام ڈاکٹر غلام محمد صاحب مکرمی ڈاکٹر صاحب! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اخبار پیغام صلح تاریخ 27 مارچ 1957ء نظر سے گزرا.اس میں آپ کا ایک مضمون زیر عنوان ” خطاب بہ اہل ربوہ چھپا ہے.اس مضمون کے آخری حصہ میں آپ نے حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

Page 465

مضامین بشیر جلد سوم 443 کی ذات کے متعلق نہایت گندے حملے کئے ہیں.اور ایسے الزام لگائے ہیں جن کی آپ کو شریعت اسلامی اور شرافت انسانی اور عقل خدا داد کسی صورت میں اجازت نہیں دیتی.اختلاف عقائد کا معاملہ جدا گانہ ہے مگر آپ کی سنجیدہ مزاجی اور عام سمجھ بوجھ کے متعلق یہ خاکسار فی الجملہ اچھی رائے رکھتا تھا.لیکن آپ کے اس مضمون سے یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ آپ بھی اس قسم کی عامیانہ اور غیر شریفانہ اور غیرمومنانہ رو میں بہہ سکتے ہیں.فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے یہ الزام خود نہیں لگائے بلکہ بعض دوسرے لوگوں کے لگائے ہوئے الزاموں کا ذکر کیا ہے.لیکن کاش آپ اس قرآنی آیت کو یاد کر لیتے کہ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُمُ بِهِ عِلْمٌ وَ تَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ اور اس حدیث کو بھی فراموش نہ کرتے کہ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِباً أَن يُحَدِثَ بِكُلِّ مَا سَمِع.پس غور کریں اور غور کریں اور غور کریں اور خدا سے ڈریں.وما علینا الا البلاغ.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ 15 اپریل 1957 ء جوابی خط ڈاکٹر غلام محمد صاحب بنام خاکسار مرزا بشیر احمد مکرم میاں صاحب! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا 15 اپریل کا رجسٹر ڈ زجر نامہ ملا.آپ جیسے دھیمے اور فہیم انسان سے مجھے توقع نہ تھی کہ بغیر استفسار کے میرے متعلق اپنی 50 سالہ رائے اس قدر جلد تبدیل کرلیں گے.خطابات عنایت کردہ کا مشکور ہوں.معلوم ہوتا ہے کہ میری تحریر سے آپ کو اشتعال آگیا اور آپ کی قلم بے قابو ہوگئی.مجھے ابتداء سے آپ سے اُنس ہے اور آپ جانتے ہیں میں آزاد طبع ہوں.تکلف و تصنع میری طبیعت میں نہیں اور شرافت کو کبھی میں نے اپنے ہاتھ سے نہیں دیا.آپ کو اعتراف ہے کہ میں نے یہ الزام خود نہیں لگائے پھر عتاب کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی.آپ کو یہ امربھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ میاں محمود احمد صاحب کی پوزیشن بوجہ ان کے دعاوی کے ایک Public man کی ہے.اور ہر ایک شخص کو حق حاصل ہے کہ ان پر تنقید کرے اور ان کو پر کھے.اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی پوزیشن صاف کریں.میں نے تو ان کے لئے ایک ایسی راہ تجویز کی ہے جس سے آئندہ کے لئے ان پر الزام تراشی کا سد باب ہو جائے.اور ایک راستباز اور معصوم انسان کو اس کے

Page 466

مضامین بشیر جلد سوم 444 قبول کرنے میں کوئی عذر نہ کرنا چاہئے.آپ کا بھی فرض ہے کہ عاقلانہ شریفانہ اور مومنانہ طریق سے کسی ایسی تحریر پر جس کی غرض اصلاح اور بریت پر مبنی ہے غور کریں.قرآنی آیت جس کے متعلق آپ نے مجھے توجہ دلائی ہے میرے خیال میں آپ کے لئے قابل غور ہے.حضرت عائشہ اپنے والد کے گھر بھیج دی گئیں اور جب تک برات نہ ہوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے علیحدہ رہے.معلوم ہوا کہ ایسے حالات میں بریت ضروری ہے.اب رہا چار گواہوں کا سوال.آپ ایک غیر جانبدار کمیشن مقرر کریں انشاء اللہ تعالیٰ اس کے سامنے گواہان حاضر ہو جائیں گے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ پر بھی نگاہ کرم ہے.کیونکہ یہ لازمی ہے کہ آپ کے برادر مکرم دوسروں کے اثر کو ملیا میٹ کر کے گدی کو اپنی نسل میں ہی محدود کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے حال پر رحم فرمائے.مجھے امید ہے کہ آپ میرے متعلق رائے تبدیل نہ کریں گے اور پرانے تعلقات کو قطع نہ کریں گے.والسلام.منتظر جواب غلام محمد 23-4-57 دوسرا خط خاکسار مرزا بشیر احمد بنام ڈاکٹر غلام محمد صاحب مکرمی ڈاکٹر صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میرے خط محررہ 57-4-5 کے جواب میں آپ کا خط محررہ 57-4-23 موصول ہوا.میں آپ کے اس خط پر انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کے سوا کیا کہ سکتا ہوں.آپ نے میری درد بھری نصیحت کو جس کی تائید میں میں نے ایک واضح قرآنی آیت اور ایک واضح حدیث بھی درج کی تھی بغیر کسی دلیل کے ٹھکرادیا ہے اور اپنی غیر اسلامی روش پر ضد اختیار کی ہے.حضرت عمرؓ کے متعلق روایت آتی ہے کہ كَانَ وَقَافًا عِندَ کتاب الله ( صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن باب خذ العفو وأمر بالمعروف واعرض عن الجاهلين ) یعنی جب ان کے سامنے کوئی قرآنی آیت پڑھی جاتی تھی تو خواہ انہیں اس آیت کے استدلال سے اختلاف ہی ہو وہ قرآنی آیت کے احترام میں فورارک جاتے تھے.مگر آپ نے اس کی بھی پروا نہیں کی اور اپنی ذاتی رائے کو حکم الہی اور ارشاد نبوی پر ترجیح دی.آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کی باتوں میں کسی شخص کی ذات پر بلا شرعی ثبوت کے اس قسم کے سنگین اور ناپاک الزام لگانا ایک ایسی بات تھی جس سے آپ کا دل ڈر جانا چاہئے تھا.مگر آپ نے

Page 467

مضامین بشیر جلد سوم 445 حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عداوت میں خشیت اللہ کی بھی پروا نہیں کی.آپ کا یہ لکھنا کہ میں نے صفائی اور بریت کے راستے کی طرف اشارہ کیا تھا ایک باطل عذر ہے.کیونکہ آپ کے مضمون کے ہر ہر لفظ سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ دراصل تحقیق کی دعوت نہیں دے رہے بلکہ اس الزام کو سچا سمجھ کر اشاعت فحشا میں حصہ لے رہے ہیں.پس میں آپ سے پھر یہی کہوں گا کہ یہ مقام خوف ہے.مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ (البقره: 115).آپ میری پیش کردہ قرآنی آیات اور حدیث پر پھر غور کریں اور خدا سے ڈریں کہ ایک دن آپ اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے.اختلاف عقائد کا معاملہ جدا گانہ ہے.اس میں اگر آپ دیانتداری کے ساتھ کسی امر میں اختلاف کریں تو آپ کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اس کا حساب کتاب قیامت کے دن ہوگا.لیکن آپ تو عقائد کی بحث سے نکل کر نہایت درجہ گندے ذاتی حملوں پر اتر آئے ہیں.جو ہر شریف انسان کی شرافت سے بعید ہے اور ایک تبلیغی انجمن کے صدر کی شرافت سے بعید تر.آپ نے حضرت عائشہ کے افک کے واقعہ کا ذکر کیا ہے.مگر افسوس ہے کہ اسے غلط طور پر پیش کیا.کیونکہ آپ کو تاریخ کا صحیح علم نہیں ہے.افک کے واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو اپنی مرضی سے ان کے والد حضرت ابو بکر کے گھر نہیں بھیجا تھا.بلکہ وہ خودا جازت لے کر اپنی تسلی کی خاطر چلی گئی تھیں گو اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جا کر ملتے رہے.باقی رہا چار گواہوں کا معاملہ سواس میں بھی افسوس ہے کہ آپ قطعانا واقف ثابت ہوئے ہیں.چار گواہوں کے متعلق اسلامی حکم یہ ہے کہ وہ ایک ہی واقعہ کے ایک ہی وقت کے چار چشم دید گواہ ہوں.اور دوسرے یہ کہ یہ گواہ نیک اور عادل اور راست گو ہوں.ورنہ جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے.فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الكَذِبُونَ (النور:14) ( یعنی وہ خدا کے نزدیک جھوٹے سمجھے جائیں گے ) اور عقلاً بھی ظاہر ہے کہ اگر یہ شرط نہ ہو تو کوئی نا پاک انسان اٹھ کر کسی شریف اور نیک انسان کی عزت پر حملہ کر سکتا ہے.ایسے لوگوں کے لئے جو بلا شرعی ثبوت کے فحشا کی اشاعت کرتے ہیں اسلام نے اسی کوڑوں کی سزا ر کھی ہے.پس آپ پہلے اسلام کی تعلیم سے واقفیت پیدا کریں اور پھر بات کریں.آپ نے اپنے خط کے آخر میں یہ اشارہ کر کے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نعوذ باللہ مجھ پر بھی ” نگاہ کرم رکھتے ہیں.یعنی وہ گویا اپنے بچوں کی خاطر میرے خلاف سازش کر رہے

Page 468

مضامین بشیر جلد سوم 446 ہیں دُہر اظلم کیا ہے اور میرے نفسانی جذبات کو ابھارنا چاہا ہے.جو نہایت درجہ قابل افسوس اور غیر شریفانہ فعل ہے.آپ میرے اور میرے امام کے معاملہ کو ہم پر چھوڑ دیں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں.ہاں جہاں تک میری ذات کا سوال ہے میں کسی عہدہ یا خطاب کا خواہش مند نہیں ہوں اور نہ ہی اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھتا ہوں.بالآخر آپ لکھتے ہیں کہ میں آپ کے متعلق اپنی رائے نہ بدلوں.آپ نے شرافت اور سنجیدگی سے اتر کر ایک گندے پانی میں ہاتھ ڈال کر کیچڑ اچھالا ہے.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور سچی توبہ کی توفیق دے.ور نہ اگر اس کے بعد بھی آپ کی طرف سے اسی نوع کا خط آیا اور آپ اپنی ضد پر قائم رہے تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ هذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ.جیسا کہ آپ نے لکھا ہے میں بالعموم دھیمے مزاج کا انسان ہوں.مگر میں خدا کے فضل سے بے غیرت نہیں ہوں.اور میرا ہمیشہ یہی اصول رہا ہے کہ الْحُبُّ فِي اللهِ وَ الْبُغْضُ فِی اللہ.گو میں انشاء اللہ اس حکم کو بھی کبھی نظر انداز نہیں کروں گا کہ وَ لَا يَجْرٍ مَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدہ: 9).کاش آپ بھی اس ارشاد الہی کو مد نظر رکھتے ! قف فقط والسلام مرزا بشیر احمد ربوہ 7 مئی 1957 ء 0000000 روزنامه الفضل ربوہ 24 مئی 1957 ء ) مجلس تجارر بوہ کے اجلاس کیلئے پیغام مؤرخہ 57-5-22 بعد نماز مغرب غلہ منڈی میں مجلس تجار کا اجلاس زیر صدارت میاں عبدالحق صاحب رامه ناظر بیت المال منعقد ہوا.اس موقع پر راجہ محمد افضل صاحب نے تلاوت قرآن کریم فرمائی.اسماعیل خان صاحب نے خوش الحانی سے نظم پڑھ کر سنائی بعدۀ چوہدری عبدالعزیز صاحب صدر مجلس تجار بوه نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا مندرجہ ذیل نہایت قیمتی پیغام پڑھ کر سنایا.

Page 469

مضامین بشیر جلد سوم 447 مکر می صدر مجلس تنخبا ر ر بوہ.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا خط موصول ہوا.آپ نے مجلس تجار ربوہ کے اجلاس کے لئے میرا پیغام مانگا ہے.سواحمدی تاجروں کے لئے میرا پیغام اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ اپنے کاروبار کو پوری پوری دیانتداری کے ساتھ چلائیں.کسی سے دھوکا نہ کریں.نفع واجبی رکھیں اور اپنے فائدہ کے ساتھ ساتھ گاہک کا فائدہ بھی مد نظر رکھیں.اور لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں تا کہ آپ کی وجہ سے ربوہ کی نیک نامی ہو.اور لوگ یقین کریں کہ احمدی تاجروں کی دیانت داری اور خوش اخلاقی ایک بے مثال چیز ہے.یہ آپ کی طرف سے خاموش مگر نہایت مؤثر تبلیغ ہوگی اور آپ لوگ اس کا بھاری اجر پائیں گے.خاکسار ( دستخط ) مرزا بشیر احمد روزنامه الفضل ربوہ 13 جون 1957ء) عزیز مرزا مبارک احمد کو روانگی کے وقت مشورہ جیسا کہ احباب کو معلوم ہو چکا ہے عزیز مرزا مبارک احمد سلمہ کل بتاریخ 57-6-11 یورپ کے احمد یہ مشنوں کے معائنے کی غرض سے اور خصوصاً جرمنی کی مسجد کے افتتاح میں شرکت کرنے کے لئے ربوہ سے روانہ ہو چکے ہیں.روانگی کے وقت میں نے انہیں جو مختصر سا مشورہ دیا وہ دوستوں کی اطلاع اور دعا کی تحریک کی غرض سے درج ذیل کرتا ہوں.میں نے انہیں کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے علم پا کر جو پیشگوئیاں کی ہیں انہیں نمایاں کر کے یورپ اور امریکہ کے سامنے لایا جائے تاکہ ان پر حجت پوری ہو.اور وہ اس بات کو سمجھ جائیں کہ جو پیغام احمدیت لے کر آئی ہے وہ ایک عظیم الشان اور عالمگیر روحانی تغیر کا پیش خیمہ ہے.اور میں نے عزیز مرزا مبارک احمد کو مثال کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند ذیل کی پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلائی.جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: (1) یا درکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں

Page 470

مضامین بشیر جلد سوم 448 گے...اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی.مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب سب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نا امید اور بدن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے.تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67) (2) اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66-67) (3) خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا.اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی.اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.(تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 سفحہ 409) (4) خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد 20 سفحہ 409-410) اور پھر ان ساری باتوں کے نتیجہ میں مشرق و مغرب کے عظیم الشان انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحر ذخار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بل بیچ کھا تا مغرب سے

Page 471

مضامین بشیر جلد سوم مشرق کی طرف کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا.“ 449 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 244) یہ وہ چند پیشگوئیاں ہیں جو میں نے عزیز مرزا مبارک احمد سلمہ کو یورپ کے سفر پر جاتے ہوئے نوٹ کرائیں.اور ان کے علاوہ زار روس کے عصا “ والی پیشگوئی کی طرف بھی توجہ دلائی اور مشورہ دیا کہ انفرادی ملاقاتوں اور مجلسی تقریروں میں جہاں جہاں بھی مناسب موقع ہوان پیشگوئیوں کو مغربی لوگوں کے سامنے تکرار کے ساتھ بیان کرتے رہنا چاہئے.تا کہ وہ اسلام اور احمدیت کے پیغام کی عظیم الشان اہمیت اور اس کے مستقبل کی عدیم المثال عظمت کو سمجھیں اور پہچانیں.تا بعد میں کوئی کہنے والا یہ بات نہ کہہ سکے کہ إِنَّا كُنَّا هذَا غَائِلِينَ.یعنی ہمیں تو اسلام اور احمدیت کے پیغام کی اہمیت کا علم ہی نہیں ہوا.میں نے عزیز مرزا مبارک احمد سلمہ کو یہ بات بھی بتائی کہ جس پیشگوئی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں سے بادشاہوں کے برکت ڈھونڈنے کا ذکر آتا ہے اس میں موجودہ جمہوری زمانہ کے لحاظ سے بادشاہوں کے مفہوم میں صدران مملکت اور پارلیمنٹیں بلکہ قو میں بھی شامل ہیں.پھر میں نے عزیز مرزا مبارک احمد سلمہ کو یہ بات بھی نوٹ کروائی کہ اگر کوئی شخص اسلام اور احمدیت کی موجودہ کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے اس بات میں شک کرے کہ احمدیت کس طرح وہ عظیم الشان مقام حاصل کر سکتی ہے جوان پیشگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے.تو ایسے لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ آج سے دو ہزار سال پہلے جا کر مسیحیت کی حالت کا تصور کریں کہ جب یہودی لوگ حضرت مسیح ناصری کو پکڑ کر صلیب پر چڑھانے کی غرض سے لئے جارہے تھے اور مسیح کے بارہ گنتی کے حواری سہم کر اور خوف کھا کر ادھر ادھر چھپتے پھرتے تھے.اگر موسوی مسیح نے ایسے کمزور پیج سے اٹھ کر وہ درخت پیدا کیا ہے جو آج مسیحی اقوام کے عالمگیر غلبے کی صورت میں نظر آرہا ہے تو محمدی مسیح جو حضرت افضل الرسل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا شاگر داور خوشہ چین اور آپ کاظت ہے اس کا بویا ہوا پیج کیوں اس عظیم الشان ترقی کو نہیں پہنچ سکتا جوان پیشگوئیوں میں بیان کی گئی ہے.بہر حال سن لو اور لکھ لو.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ محرره 12 جون 1957ء) روزنامه الفضل ربوه 15 جون 1957 ء )

Page 472

مضامین بشیر جلد سوم سوشل بائیکاٹ کا غلط الزام ہمارے کرم فرما اخبار غور فرمائیں 450 کچھ عرصہ سے بعض اخباروں میں دانستہ یا نا دانستہ یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ جماعت احمد یہ اپنے بعض افراد یا اپنے میں سے نکالے ہوئے بعض افراد کا سوشل بائیکاٹ کر کے ملک میں بے چینی کا موجب بن رہی ہے.اور معترضین کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی اختلاف کی بناء پر جماعت احمد یہ دوسرے لوگوں کا سوشل بائیکاٹ کر سکتی ہے تو پھر اگر دوسرے مسلمان بھی اس قسم کے اختلاف کی بناء پر جماعت کا بائیکاٹ کریں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے.یہ وہ سوال ہے جو آج کل بعض غیر احمدی اخباروں کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے.اور زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ صرف عام مخالف اخبارات یہ اعتراض کر رہے ہیں بلکہ بعض ثقہ اور سمجھدار اخباروں کی طرف سے بھی حال میں اسی قسم کا اعتراض کیا گیا ہے.اور ( لفظ پڑھا نہیں جارہا.ناقل ) کو الفضل نے اس اعتراض کی تردید کی ہے اور تشریح کے ساتھ سمجھایا ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی کسی شخص کا ایسا سوشل بائیکاٹ نہیں کیا گیا جو اسلامی تعلیم کے خلاف اور انسانیت کے بنیادی حقوق کے منافی ہو.بلکہ صرف تنظیمی رنگ میں بعض فتنہ پیدا کرنے والے افراد کے خلاف گا ہے گا ہے ایسی کارروائی کی گئی ہے جو حقیقی معنی میں ہرگز سوشل بائیکاٹ کا رنگ نہیں رکھتی.اور نہ ہی اسلامی تعلیم کے مطابق اس پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے.بلکہ وہ صرف ایک جزوی اور محدود مقاطعہ کا رنگ رکھتی ہے.اور ایسا جزوی اور محدود مقاطعہ خود ہمارے آقا فداہ نفسی کی سنت سے بھی ثابت ہے.جس کی غرض و غایت محض یہ ہوتی ہے کہ جماعتی نظم وضبط کو توڑنے والے شخص کو اس کے جرم کا احساس پیدا کرانے اور اصلاح کی طرف مائل کرنے کے لئے اس کے خلاف کوئی وقتی تادیبی کارروائی کی جائے.مثلاً صحیح بخاری سے ( جو قرآن مجید کے بعد اصح الکتب سمجھی گئی ہے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے تین صحابیوں کو ایک غلطی کے ارتکاب پر مقاطعہ کی سزا دی تھی.مگر ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صراحت فرما دی تھی کہ اس مقاطعہ میں صرف کلام ، سلام یا دوستانہ تعلقات کی ممانعت ہے.دور نہ بنیادی انسانی حقوق پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑنا چاہئے.چنانچہ بخاری میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جو ایک ممتاز انصاری صحابی تھے ، روایت کرتے ہیں کہ : غزوہ تبوک کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ان تین صحابیوں کے ساتھ

Page 473

مضامین بشیر جلد سوم 451 جن میں میرے علاوہ ھلال بن امیہ بھی شامل تھے کلام سلام بند کر دیں.اس پر سب مسلمان ہم سے کنارہ کش ہو گئے.اور وہ ہم سے ایسے بدل گئے کہ گویا ہمارے لئے دنیا ہی بدل گئی.اور ہم نے اس حالت میں پچاس راتیں گزار دیں.ان ایام میں ابوقتادہ جو میرے چچازاد بھائی تھے اور مجھے ان سے بہت محبت تھی...وہ ایک دفعہ میرے سامنے آئے تو میں نے انہیں سلام کہا.مگر خدا کی قسم انہوں نے بھی رسول اللہ کے حکم کے مطابق میرے سلام کا جواب نہیں دیا ( اور خود رسول اللہ بھی جواب نہیں دیتے تھے ) جب اس حالت پر چالیس راتیں گزر گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پیغامبر میرے پاس آیا اور انہوں نے مجھے آکر کہا کہ رسول اللہ حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے بھی الگ ہو جاؤ.میں نے کہا میں اسے طلاق دے دوں ؟ اس نے کہا رسول اللہ نے طلاق کے متعلق تو نہیں فرمایا بلکہ صرف یہ حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے الگ رہو اور اس کے قریب نہ جاؤ.جس پر میں نے اپنی بیوی سے کہا تم اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤ.تا وقتیکہ کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں کوئی فیصلہ فرمائے.میرے ساتھی ھلال بن امیہ کی طرف بھی اسی قسم کا حکم گیا تھا.جس پر اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرا خاوند ھلال بن امیہ بوڑھا اور ضعیف انسان ہے اور اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں ہے جو اس کی خدمت کر سکے.تو کیا آپ کا یہ حکم ہے کہ میں اس کی خدمت سے بھی کنارہ کش ہو جاؤں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں ، میرا یہ منشاء نہیں بلکہ میرا حکم صرف یہ ہے کہ وہ تمہارے قریب نہ آئے اور تم اس سے کلام سلام بند کر دو.اس شرط کے ساتھ تم اس کی ضروری خدمت بجالا سکتی ہو.( بخاری، حدیث کعب بن مالک) اس لطیف حدیث سے جو قرآن مجید کے بعد مسلمہ طور پر مسلمانوں کی صحیح ترین کتاب بخاری میں بیان ہوئی ہے جزوی مقاطعہ اور مکمل سوشل بائیکاٹ کی حدود و شروط پر بڑی لطیف روشنی پڑتی ہے.اور یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ جہاں جماعتی تنظیم کو توڑنے اور کسی قسم کی غفلت اور جرم کے ارتکاب پر امام کی طرف سے کسی شخص کو مقاطعہ کی سزا دی جاسکتی ہے.وہاں یہ بات بھی ثابت ہے کہ یہ مقاطعہ صرف جزوی اور محدود تم کا مقاطعہ ہونا چاہئے.جس میں حقیقی سوشل بائیکاٹ کا رنگ نہ پایا جائے.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ فلاں فلاں صحابی سے کلام سلام بند کر دیں.یہاں تک کہ ان کی بیویوں کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے خاوندوں سے الگ رہیں.وہاں جس امر میں انسانیت کے بنیادی حقوق اور ضروری سوشل خدمت کا سوال پیدا ہوتا تھا وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی خدمت سے منع نہیں فرمایا بلکہ اس کی اجازت دی.چنانچہ آپ نے ھلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی

Page 474

مضامین بشیر جلد سوم 452 بیوی کو ہدایت فرمائی کہ وہ بہر حال اپنے بوڑھے خاوند سے کلام سلام تو نہ کرے اور ازدواجی تعلقات سے بھی مجتنب رہے.مگر ویسے اس کے بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے اس کی ضروری خدمت بجالاتی رہے.مثلاً اس کا کھانا پکا دے یا اس کے لئے پانی مہیا کر دے یا دوائی وغیرہ کا انتظام کر دے یا اس قسم کی کوئی اور خدمت بجالائے جو انسانیت کے بنیادی حقوق سے تعلق رکھتی ہو اور ایسا کام خاوند کی طاقت سے باہر ہو.اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ در اصل مقاطعہ دو قسم کا ہوتا ہے.ایک جزوی مقاطعہ ہوتا ہے اور دوسرا مکمل سوشل بائیکاٹ.چنانچہ جزوی مقاطعہ تو یہ ہے کہ کسی جماعتی قصور یا غفلت کے ارتکاب پر کسی شخص کے متعلق حکم دیا جائے کہ اس کے ساتھ دوسرے لوگ کلام سلام بند کر دیں.تا کہ اس کے اندر ندامت کا احساس پیدا ہو اور وہ تو بہ اور اصلاح کی طرف قدم اٹھائے.لیکن اس محدود قسم کے مقاطعہ میں انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والی ضروری خدمت سے روکا نہیں جاسکتا.ورنہ وہ نا جائز سوشل بائیکاٹ کی حدود میں داخل ہو جائے گا جسے پنجابی محاورہ میں حقہ پانی بند کرنا کہتے ہیں.جس میں حالات کو کلی طور پر نظر انداز کر کے ہر جہت اور ہر پہلو سے پورا پورا قطع تعلق کر لیا جاتا ہے.اور ایک انسان کو گویا مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے.مثلاً یہ کہ نائی یا دھوبی یا بھنگی خدمت کرنے سے انکار کر دیں یا کھانے پینے کی ضروری چیزوں کی فروخت کا رستہ بند کر دیا جائے.یا یہ کہ بیماری کی صورت میں ادویہ کی فروخت اور ضروری طبی امداد تک روک دی جائے.یہ باتیں انسانیت کے بنیادی حقوق اور خدمت خلق کے لازمی حصہ سے تعلق رکھتی ہیں.اور ان سے کسی صورت میں بھی روکا نہیں جاسکتا.البتہ کلام سلام یا دوستانه میل ملاقات وغیرہ کے معاملہ میں مقاطعہ ثابت ہے اور ہمارے رحیم و کریم آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس قسم کے مقاطعہ پر عمل کیا اور اس کا حکم دیا ہے.دراصل ایسا مقاطعہ بعض حالات میں اصلاح کا ضروری ذریعہ ہے.جو جماعتی تنظیم اور جماعتی نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لئے بعض اوقات اختیار کرنا پڑتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے تین صحابیوں کے مقاطعہ کا اس حد تک حکم دیا ہے کہ خود ان کے اپنے الفاظ میں ” دنیا ان کی نظروں میں بدل گئی اور قرآن مجید کے الفاظ یہ ہیں کہ دنیا اپنی وسعت کے باوجودان پر تنگ ہوگئی.مگر باوجود اس کے ان پر لازمی اور ضروری انسانی خدمت کا دروازہ بند نہیں کیا گیا.ہمارے مخالفوں کو چاہئے کہ اس حدیث پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور اس کی روشنی میں ہمارے مسلک کو دیکھیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے کبھی اپنے کسی جماعتی مجرم کا ایسا سوشل بائیکاٹ نہیں کیا جس میں کلی اور غیر محدود مقاطعہ کا رنگ پایا جاتا ہو.بلکہ ہر ایسے موقع پر ضروری انسانی خدمت کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے.مخالفوں میں سے جھوٹ بولنے والے تو جھوٹ بولتے ہی جائیں گے اور افتراء کرنے والے افتراء

Page 475

مضامین بشیر جلد سوم 453 کرنے سے نہیں رکیں گے.مگر کیا کوئی شخص یہ ثابت کر سکتا ہے کہ کسی زیر سزا انسان کو نائیوں اور دھوبیوں اور بھنگیوں کی خدمت سے محروم کیا گیا ہو؟ یا خوردونوش کی ضروری چیزوں کی فروخت کا رستہ بند کر دیا گیا ہو؟ یا بیماری کی صورت میں ضروری طبی امداد روک دی گئی ہو ؟ ایسا ہر گز نہیں اور ہر گز نہیں.بلکہ ضروری انسانی خدمت کا رستہ ہمیشہ کھلا رکھا جاتا ہے.البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں جماعتی مجرم کی اصلاح اور تادیب کی غرض سے اور دوسروں میں بھی یہ احساس پیدا کرانے کے لئے صرف ایک جزوی اور مشروط اور محدود اخلاقی قسم کے مقاطعہ کی اجازت دی جاتی ہے.لیکن افسوس کہ ہماری بار بار کی تصریحات کے باوجود ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم بعض دوسرے لوگوں کا مکمل سوشل بائیکاٹ کر کے ان کو ضروری انسانی خدمت تک سے محروم کر دیتے اور ملک و قوم میں فساد کا رستہ کھولتے ہیں.افسوس صد افسوس !! پھر یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ ہماری طرف سے جماعت کے دینی اور تنظیمی مجرموں کے خلاف جس قسم کے جزوی مقاطعہ کا کبھی کبھی فیصلہ کیا جاتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق صرف وقتی اور میعادی ہوا کرتا ہے.اور یہ مقاطعہ اگر اسے مقاطعہ کہا جائے صرف اس وقت تک کے لئے ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کا پاؤں گویا دو کشتیوں میں سمجھا جاتا ہے.یعنی ایک شخص ایک طرف جماعت کا فرد ہونے کا بھی اقرار کرتا ہے اور پھر دوسری طرف وہ اس کی تنظیم کو بھی توڑتا ہے.لیکن جب ایسا شخص قولا یا عملاً اپنے آپ کو کبھی طور پر جماعت سے کاٹ لے اور مستقل طور پر علیحدہ ہو جائے اور اس کا جماعت سے کسی قسم کا واسطہ نہ رہے تو پھر لازماً حالات میں نارمل (Normal) صورت پیدا ہونے کے بعد یہ مقاطعہ عملاً ختم ہو جاتا ہے.گواس بات کا فیصلہ امام کے ہاتھ میں ہے کہ نارمل حالت کس وقت سمجھی جاسکتی ہے.بعض اخبار والوں نے جن میں افسوس ہے کہ نوائے وقت لاہور بھی شامل ہے حالانکہ عام حالات میں وہ ایک بہت سنجیدہ اور باوقار اور صاحب رائے پرچہ سمجھا جاتا ہے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر جماعت احمد یہ اپنی جماعت کے بعض لوگوں کے خلاف ان کی کسی تنظیمی غفلت یا اختلاف رائے کی بناء پر مقاطعہ کا فیصلہ کر سکتی ہے تو پھر دوسرے مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے متعلق اسی قسم کے حالات میں اس فیصلہ کا کیوں اختیار نہیں ؟ یہ سوال خاص طور پر نوائے وقت لاہور نے اٹھایا ہے.مگر ادنی شعور سے بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ ایک بالکل قیاس مع الفارق کی صورت ہے.اور دونوں قسم کے حالات میں کوئی دور کی بھی نسبت نہیں.جماعت کی طرف سے جن لوگوں کو کبھی کبھی مشروط اور محدود قسم کے مقاطعہ کی سزادی گئی ہے وہ کبھی بھی محض دیانت دارانہ اختلاف عقائد کی بناء پر نہیں دی گئی.بلکہ اس بناء پر دی گئی ہے کہ ایسے لوگ بظاہر جماعتی تنظیم کے اندر رہنے کا

Page 476

مضامین بشیر جلد سوم 454 دعوی کرتے ہوئے اور ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کا عہد باندھتے ہوئے پھر خفیہ سازش اور فساد کے رنگ میں اس تنظیم کو توڑتے اور جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ورنہ دنیا جانتی ہے کہ احمدیت کا وہ حصہ جو غیر مبائعین کہلاتا ہے اور جسے بعض لوگ جوابی رنگ میں بعض اوقات پیغامی بھی کہہ دیتے ہیں.ان کے ساتھ با وجود کافی اختلاف کے ہمارا کوئی مقاطعہ نہیں.کیونکہ انہوں نے کھلے طور پر عقیدہ کا اختلاف کیا اور ہم سے بالکل کٹ کر اور جدا ہو کر ایک علیحد تنظیم قائم کر لی.بے شک شروع میں ان میں سے بعض نے خفیہ کارروائیاں کیں مگر وہ وقت گزر گیا.اور اب ان لوگوں نے ایک علیحدہ تنظیم قائم کر کے اپنے جدا گانہ عقائد پر مستقل مخالفت کی بنیاد قائم کر رکھی ہے.اس لئے ہمارا ان سے کوئی مقاطعہ نہیں ہے.لیکن جن لوگوں نے جماعت کے اندر رہتے ہوئے اور ایک امام کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہوئے اپنے مخالفانہ خیالات کو خفیہ خفیہ رنگ میں پھیلایا اور سازش کا طریق اختیار کیا.اور امام اور جماعت کے خلاف ملک وقوم میں دینی اور اخلاقی فتنہ برپا کیا انہیں تا وقتیکہ امام کی رائے میں نارمل (Normal) حالات پیدا ہو جائیں (یعنی یا تو وہ تو بہ کر کے سچے دل سے واپس آجائیں یا ہم سے کلی طور پر کٹ کر مستقل صورت میں علیحدہ ہو جائیں) ایک قسم کے جزوی اور مشروط مقاطعہ کی سزادی جاتی ہے.کیونکہ جیسا کہ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے ایسے لوگ ضرور اس وقت تک اخلاقا اور شرعاً اس سلوک کے قابل ہیں کہ اصلاح کی نیت سے ان سے علیحدگی اختیار کی جائے.لیکن کیا محترم ایڈیٹر صاحب نوائے وقت یا کوئی اور معترض بزرگ بتا سکتے ہیں کہ ہم نے کبھی اپنے غیر احمدی احباب کا اس رنگ میں اور اس نوع کا جرم کیا ہو جس کی وجہ سے ہمیں ان کی طرف سے سوشل بائیکاٹ کا سزاوار سمجھا جائے؟ پھر کیا دوسرے مسلمانوں کی کوئی ایسی جماعتی تنظیم ہے یا کوئی ایسا مسلّمہ امام ہے جس سے ہم نے بغاوت کر کے علیحدگی اختیار کی ہو؟ باقی رہا عقائد کے اختلاف کا معاملہ سو وہ ایک بالکل جدا گانہ امر ہے جس سے اسلام کا کوئی فرقہ بھی مستقلی نہیں.یہ وہ کھلے کھلے اور روشن حقائق ہیں جن پر ہمارے کرم فرماؤں کو دیانتداری کے ساتھ غور کرنا چاہئے.ورنہ دنیا سن لے کہ خدا ہم میں سے ہر فریق کو دیکھ رہا ہے اور وہ اسی کے مطابق ہم سے سلوک کرے گا.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمِ نوٹ: ہم اپنے صاف دل مہربانوں سے دوبارہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ بخاری والی حدیث پر ٹھنڈے دل سے غور کریں.اور پھر سوچیں کہ جماعت احمدیہ کا رویہ اس حدیث کے عین مطابق ہے یا نہیں؟ مجھے افسوس ہے کہ اس وقت اپنی علالت کی وجہ سے میں اس ضروری امر کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر

Page 477

مضامین بشیر جلد سوم 455 سکا.اور جو کچھ اس مضمون میں لکھا ہے وہ بھی دراصل بستر پر لیٹے لیٹے ایک دوسرے شخص کو املاء کرایا ہے.مگر امید ہے کہ پاک نیت اور سمجھدار اصحاب کے لئے اسی قد رلکھنا کافی ہوگا.دوسرا نوٹ میں یہ مضمون ختم کر چکا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ ہمارے بعض مخالفوں نے محض جماعتی تادیب کرنے کو ہی خلاف قانون اور ریاست اندر ریاست کا مصداق قرار دیا ہے.اس پر إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے.کیا ماں باپ اپنے بچوں کو سز انہیں دیتے ؟ پھر کیا ایک ہیڈ ماسٹر اپنے طالب علموں کو سز انہیں دیتا؟ اور پھر کیا ایک دفتر کا افسر اپنے عملہ کو سز انہیں دیتا؟ اور کیا ایک تجارتی کمپنی کا ہیڈ اپنے ماتحتوں کو سزا نہیں دیتا؟ اور کیا سیاسی پارٹیاں اپنے ممبروں کو سزا نہیں دیتیں ؟ بلکہ میں کہتا ہوں کہ کیا بعض پیچ کہلانے والی قوموں تک اپنے افراد کو قبائلی جرموں پر مقاطعہ وغیرہ کی سزا نہیں دیتیں؟ وغیرہ وغیرہ.جب یہ سب سزا ئیں جائز اور پُر امن سمجھی جاتی ہیں اور کوئی عقل مند انسان بلکہ کوئی مہذب حکومت تک انہیں ناجائز یا ریاست اندر ریاست کا مصداق قرار نہیں دیتی تو پھر جماعت احمدیہ کی تادیبی کارروائیوں پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے؟ دراصل جو بات ان معاملات میں دیکھنے والی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کیا کوئی سزا قانون رائج الوقت یا شریعت اسلامی کے خلاف تو نہیں ؟ اگر وہ قانون اور شریعت کے خلاف نہ ہو تو ہر جماعتی یا خاندانی یا ادارتی تنظیم ہر تادیبی سزا کو اپنے نظام میں شامل کرنے اور اسے اختیار کرنے کا حق رکھتی ہے.اور جو شخص ایسی تادیب کو برداشت نہیں کر سکتا اس کے لئے ہر وقت الگ ہونے کا رستہ کھلا ہے.کاش ہمارے وطنی بھائی ان حقائق پر غور کریں !!! وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (محررہ 5 جولائی 1957ء) روزنامه الفضل ربوہ 9 جولائی 1957ء) 20 حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب مرحوم صف اول کے رشتوں کو بھرنے کے لئے صف دوم کو آگے آنا چاہئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب کی وفات کی اطلاع الفضل

Page 478

مضامین بشیر جلد سوم میں بھجواتے ہوئے ان کے متعلق تحریر فرماتے ہیں.456 حضرت بھائی صاحب مرحوم کو بہت سی خصوصیات حاصل تھیں.اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھ مذہب سے نکال کر اسلام قبول کرنے کی توفیق دی.دوسرے یہ کہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شناخت کرنے اور احمدیت قبول کرنے کی سعادت بھی پائی.تیسرے یہ کہ نہ صرف اسلام اور احمدیت کو قبول کیا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی لمبی صحبت کا موقع میسر آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قرب نصیب ہوا.چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم اور عمل کی نعمت سے بھی نوازا اور ان کے ذریعہ بہت سے نوجوانوں نے دینی علم حاصل کرنے اور تقویٰ پر قائم ہونے کی سعادت پائی.پانچویں یہ کہ حضرت بھائی صاحب صاحب الهام و کشوف بھی تھے اور دعا کی تحریک پر ان پر عموماً اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت جلد انکشاف ہو جایا کرتا تھا.پھر یہ کہ خلافت ثانیہ کا بھی لمبا دور پایا اور بالآخر قادیان میں کئی سال تک درویشی کی زندگی بھی نصیب ہوئی.اور آخر میں اللہ تعالیٰ انہیں وفات کے قریب ربوہ لے آیا.اور ایسا اتفاق ہوا کہ جنازہ کے وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ربوہ میں موجود تھے.اور حضور نے ہی نماز جنازہ پڑھائی.اور حضرت بھائی صاحب مقبرہ بہشتی کے قطعہ خاص میں دفن کئے گئے.یہ سب خصوصیات غیر معمولی رنگ رکھتی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کی مشفقانہ نعمت اور خاص ذرہ نوازی کی دلیل ہیں کہ سکھ مذہب سے نکال کر کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا.این سعادت بزور بازد نیست خشد خدائے بخشنده حضرت بھائی صاحب مرحوم 1894ء میں مسلمان ہو کر قادیان آئے تھے اور اس وقت ان کی عمر غالباً 21 سال کی تھی.جب خدا تعالیٰ نے دل میں اسلام کی چنگاری پیدا کی تو فوجی ملازمت چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں پہنچ گئے اور حضرت خلیفۃ اصیح الاول نے انہیں اپنی شاگردی سے نوازا.گزشتہ ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی اور سلسلہ عالیہ احمد یہ کے خاص کارکن بڑی سرعت کے ساتھ فوت ہوئے ہیں.اس کے نتیجہ میں طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی جگہ لینے کے لئے احمدیت کا نوجوان طبقہ آگے آنے کے لئے کیا کوشش کر رہا ہے اور ترقی کرنے والی قوموں کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ ہمیشہ صف اول کے ساتھ ساتھ صف دوم کا بھی انتظام رکھا کرتی ہیں.تا کہ صف اول کے

Page 479

مضامین بشیر جلد سوم 457 بزرگوں کے گزرنے پر صف دوم کے نوجوان ان کی جگہ لے سکیں.اور جماعت کی ترقی میں کوئی رخنہ نہ پیدا ہو.پس میں اس موقع پر بڑے دردمند دل کے ساتھ اپنے نوجوان عزیز وں کو تحریک کرتا اور ان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ صف اول کے خلاء کو پُر کرنے کے لئے اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کریں جو زندہ الہی جماعتوں کا طرہ امتیاز ہیں.یعنی فرائض کے علاوہ نفلی عبادات پر بھی زور دیں.ذکر الہی اور تسبیح وتحمید میں شغف پیدا کریں اور اپنے دلوں میں تقویٰ کا درخت لگا کر اپنے قلوب کے دامن کو خدا کی رحمت کے ساتھ وابستہ کر دیں.حتی کہ الہی رحمت جوش میں آکر انہیں اپنے انوار کا مہبط بنالے.مجھے خوشی ہے کہ کچھ عرصہ سے کافی نوجوانوں میں اس طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے.مگر ابھی تک احمدیت کی صف دوم اتنی بیدار نہیں ہوئی کہ وہ صف اول کی جگہ لے سکے.اور ان کا وجود بھٹکتی روحوں کے لئے شمع ہدایت اور سہارے کا کام دے.پس نو جوانوں کو چاہئے کہ ضرور اس طرف خاص توجہ دیں.کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کا ہر پچھلا قدم ہر پہلے قدم سے آگے نہ بڑھے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(محررہ 10 جولائی 1957 ء) روزنامه الفضل ربوہ 13 جولائی 1957ء) مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام مرقومه مورخه 57-8-20 آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع کے لئے میرا پیغام مانگا ہے.اس وقت میرے خیال میں اس سے بہتر کوئی پیغام نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر میں بیان ہوا ہے کہ: بکوشید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا یعنی اے احمدیت کے نوجوانو! کوشش کرو اور اپنی انتہائی جد و جہد سے کام لو تا کہ دین اسلام میں یہ قوت پیدا ہو جائے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ ملت میں نئے سرے سے بہار اور رونق کا دور آ جائے.پس میرے خیال میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے لئے اس وقت اس سے بہتر اور کوئی پیغام نہیں.

Page 480

مضامین بشیر جلد سوم 458 احمدیت کے نوجوان دین کے چڑھتے ہوئے ستارے ہیں جن کے ہاتھ میں آئندہ چل کر احمدیت کی ذمہ داریاں آنے والی ہیں.اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور جد و جہد سے کام لیں تو اسلام میں شان و شوکت کا دوسرا دور جلد تر آ سکتا ہے بلکہ اس کا آنا مقدر ہے.بشرطیکہ ہماری کوششوں میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دوسری جگہ فرماتے ہیں: ه بقضائے آسمانست ایس بہر حالت شود پیدا اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے اندر جہاد کبر کی وہ روح پھونکے جو ہمیشہ کامیابی و کامرانی کی ٹھنڈی ہوائیں لے کر آتی ہے.ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں تلوار کے جہاد کو جہادِ اصغر قرار دیا ہے وہاں نفس اور تبلیغ کے جہاد کو جہاد اکبر کے نام سے پکارا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے.روزنامه الفضل ربوہ 26 ستمبر 1957ء) ماہنامہ خالد کے خاص نمبر کے لئے پیغام مجھے بتایا گیا ہے کہ اکتو بر میں رسالہ خالد کا خاص نمبر شائع ہورہا ہے.قوموں کی ترقی میں نو جوانوں اور خواتین کا خاص حصہ ہوا کرتا ہے.اگر کسی قوم کے یہ دو طبقے علمی اور اخلاقی اور روحانی لحاظ سے مسلسل ترقی کر رہے ہوں اور علم وعمل کے لحاظ سے اعلیٰ مقام پر فائز ہوں تو ایسی قوم خدا کے فضل سے کبھی بھی تنزل کا منہ نہیں دیکھتی اور اس کا ہر قدم بالا سے بالا تر اُٹھتا چلا جاتا ہے.پس میں جماعت کے نوجوانوں یعنی ا خدام الاحمدیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور اپنے علم و عمل اور تقریر وتحریر اور تنظیم و تربیت کے ذریعہ آگے بڑھتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نو جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے کہ بکوشید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا بلکہ حق یہ ہے کہ نو جوان کے لفظ سے دل کا نوجوان مراد ہے نہ کہ محض جسم کا نو جوان.اگر کوئی شخص بظاہر نوجوانی کی عمر میں ہوتے ہوئے بوڑھوں کی طرح مضمحل اور کسل مند رہتا ہے تو وہ نو جوان ہوتے ہوئے بھی

Page 481

مضامین بشیر جلد سوم 459 بوڑھا سمجھا جائے گا اور اس کے مقابل پر ایک عمر رسیدہ شخص جو ضعف پیری کے باوجود اپنی قوت عمل اور امنگ اور ہمت کے لحاظ سے جوان ہے تو اسے بوڑھا ہونے کے باوجود نوجوان خیال کیا جائے گا.اس صورت میں ایسے نو جوانوں کی حالت کس قدر افسوس کے قابل ہوگی جو نو جوان ہوتے ہوئے بھی عملاً بوڑھوں کی صف میں کھڑے ہوں.کاش ہماری جماعت کے بوڑھے جوان بنیں اور جماعت کے جوان اپنی اُٹھتی ہوئی امنگوں کے ساتھ اپنے اندر نو جوانوں والا گرم خون پیدا کریں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.........28 ملک عبدالرحمن صاحب خادم (ماہنامہ خالد ستمبر، اکتوبر 1957ء) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی علالت پر الفضل میں دعا کی تحریک کی جس میں آپ کے اوصاف کا ذکر یوں فرمایا.ملک صاحب موصوف اسلام اور احمدیت کے ایک مجاہد سپاہی ہیں اور بچپن کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک خدمت دین میں مصروف رہے ہیں اور ان کے مناظرات خدا کے فضل سے ہمیشہ بہت کامیاب ہوتے رہے ہیں.چنانچہ ان کی کتاب احمدیہ پاکٹ بک ایک بہت عمدہ تبلیغی خزانہ ہے.اور حال ہی میں خلافت حقہ کی تائید میں ان کی طرف سے جو مضامین نکلے ہیں وہ بھی بہت قابل قدر ہیں.اسی طرح انکوائری کمیشن (Inquiry Commission) کے ایام میں بھی خادم صاحب نے قابلِ تعریف خدمت انجام دی تھی.( محرره 16اکتوبر 1957 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 18اکتوبر 1957ء) قافلہ کی اجازت نہیں ملی بڑے افسوس کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ جیسا کہ پہلے سے خدشہ محسوس ہو رہا تھا اس سال حکومتِ ہندوستان نے قافلہ کی اجازت نہیں دی.اور زیادہ قابل افسوس امر یہ ہے کہ شاذ و نادر کے علاوہ پرائیویٹ

Page 482

مضامین بشیر جلد سوم 460 زائرین کو بھی ویز انہیں دیا جا رہا.گویا موجودہ صورت میں قادیان کا رستہ عملاً بند کر دیا گیا ہے.مجھے خیال آتا ہے کہ شاید یہ صورت حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس رویا کے مطابق ہے جس میں حضور نے دیکھا تھا کہ قادیان سے باہر کسی اور جگہ پر ہیں اور قادیان کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں مگر راستہ میں ایک بڑا خوفناک دریا حائل ہے جو بکر زخار کی طرح چل رہا ہے.اور حضور یہ کہ کر واپس چلے آئے ہیں کہ ابھی رستہ نہیں ہے.( تذکرہ نیا ایڈیشن صفحہ 463) میں سمجھتا ہوں کہ غالباً موجودہ روک اسی روک کا پیش خیمہ ہے جس کی طرف رویا میں اشارہ کیا گیا ہے.اور انشاء اللہ اس کے بعد خدا تعالیٰ کی کوئی اور تقدیر ظاہر ہونے والی ہے.سواے وےلوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا پریشان مت ہو کہ اس کے بعد روشنی آنے والی ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَعِندَهُ عِلمُ السَّاعَةِ وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرِ - ( محرره 4 اکتوبر 1957 ء ).........روزنامه الفضل ربوہ 8 اکتوبر 1957ء) انصار اللہ کا نصب العین ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ قیمتی نوٹ انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کے لئے رقم فرمایا تھا.جسے مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب قائد عمومی مجلس مرکزیہ نے اجتماع کے آخری اجلاس منعقد ہ 26 اکتوبر میں پڑھ کرسنایا.) جہاں تک انصار اللہ کے نصب العین کا تعلق ہے یہ کوئی مشکل یا پیچیدہ مضمون نہیں ہے.انصار اللہ کے معنی اللہ تعالیٰ کے مددگاروں کے ہیں اور اس سے مراد اس کام میں مدد دینا ہے جو سلسلہ عالیہ کو قائم کر کے اللہ تعالیٰ دنیا میں سرانجام دینا چاہتا ہے اور قرآن مجید سے ظاہر ہے کہ یہ کام دو حصوں میں منقسم ہے.ایک لوگوں تک ( دین حق ) اور احمدیت کا پیغام پہنچانا اور دوسرے جولوگ اس پیغام کو قبول کریں انہیں اس پیغام کی حقیقت پر قائم کرنا اور یہی وہ کام ہے جسے دوسرے لفظوں میں تبلیغ اور تربیت کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے.لیکن چونکہ یہ کام ایک طرف تنظیم کو چاہتا ہے اور دوسری طرف اس کے لئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے انصار اللہ کا کام در اصل چار حصوں پر تقسیم شدہ ہے.اول تبلیغ ، دوم تربیت، تیسرے تنظیم اور

Page 483

مضامین بشیر جلد سوم 461 چوتھے ان کا موں کو چلانے کے لئے روپے کی فراہمی.پس یہی وہ نصب العین ہے جو انصار اللہ کے مد نظر ہونا چاہئے.یہی وہ مقصد تھا جس کے لئے حضرت مسیح ناصری نے من أَنْصَارِی إِلَی اللہ کا نعرہ لگا کر خدائی مددگاروں کو کام کی دعوت دی.اور یہی وہ عظیم الشان مقصد ہے جس کے لئے ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے.صرف فرق یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصری کا کام بہت مختصر اور صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں تک محدود تھا.لیکن مسیح محمدی کا کام ساری دنیا پر وسیع ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا کہ : ہم ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں گے اس سے ظاہر ہے کہ احمدیت ایک عالمگیر انقلاب کا پیغام لے کر آئی ہے.لہذا ہمیں چاہئے کہ کنوئیں کے مینڈک بن کر نہ رہیں بلکہ اپنی نظروں کو چارا کناف عالم تک وسیع کر کے اور دنیا بھر کے مسائل کا جائزہ لے کر اس انقلاب کے لئے تیاری کریں جو خدا تعالیٰ احمدیت کے ذریعہ دنیا میں پیدا کرنا چاہتا ہے.اور احمدیت کا پیغام در اصل اسلام ہی کے دور ثانی کا پیغام ہے جس میں ہمارا خدا اسلام کو ساری دنیا میں اور ساری اقوام پر غالب کرنا چاہتا ہے.پس: بع بکوشید اے جواناں تا بدین قوت شود پیدا بہارو رونق اندر روضه ملت شود پیدا بمفت ایں اجر نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا ان اشعار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ساری جماعت کو جوانان کے الفاظ سے مخاطب کیا ہے.اس لئے نہیں کہ وہ سب جوان ہیں بلکہ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب احمدیوں میں جوانوں جیسی ہمت دیکھنا چاہتے ہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین یا ارحم الراحمین محرره 26 اکتوبر 1957ء) (روزنامه الفضل ربوہ یکم نومبر 1957ء)

Page 484

مضامین بشیر جلد سوم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی وفات احمدیت کا ایک بہادر سپاہی 462 کل صبح سکندر آبادانڈیا کی طرف سے آئی ہوئی تار سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی وفات کا علم ہو کر بے حد صدمہ ہوا.یہ تار محترمی سیٹھ عبد اللہ بھائی صاحب کی طرف سے آئی تھی.اور اس میں یہ ذکر تھا کہ عرفانی صاحب جمعرات کی صبح کو انتقال فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.(الفضل میں جو جمعہ کا دن لکھا ہے وہ درست نہیں ہے ) عرفانی صاحب اوائل میں تراب لقب استعمال کیا کرتے تھے.غالبا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زندہ صحابہ میں سب سے پرانے صحابی تھے.اور گو وہ ایک لمبے عرصہ سے بیمار تھے مگر یہ خیال نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی داغ جدائی دے جائیں گے.چنانچہ ان کی وفات والی تار سے صرف ایک دن پہلے ہی مجھے ان کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط ملا تھا.شیخ صاحب موصوف کی عمر وفات کے وقت غالبانوے سال سے اوپر تھی.اور گوان کی سماعت میں کافی فرق آگیا تھا مگر بینائی ٹھیک تھی.چنانچہ وہ ہمیشہ اپنے ہاتھ سے خط لکھا کرتے تھے اور ان کے خطوں میں بے حد محبت اور اپنائیت کا رنگ پایا جاتا تھا.دراصل وہ ان بزرگوں میں سے تھے جن کے ایمان کی جڑ ان کے دل میں ہوتی ہے اور فلسفیانہ دلائل کی نسبت جذبات کا پہلو زیادہ غالب ہوتا ہے.شیخ صاحب مرحوم سب سے پہلے احمدی تھے جنہوں نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کی غرض سے اخبار الحکم جاری کیا.یہ اخبار شروع میں غالباً امرتسر سے جاری ہوا تھا مگر بہت جلد قادیان منتقل ہو گیا اور پھر شیخ صاحب خود بھی ہمیشہ کے لئے قادیان کے ہی ہو گئے.اس کے کچھ عرصہ بعد اخبار بدر بھی جاری ہو گیا.جس کے آخری ایڈیٹر حضرت مفتی محمد صادق صاحب مرحوم تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دو اخباروں کو اپنے دو بازو کہہ کر یا د فرمایا کرتے تھے.شیخ عرفانی صاحب مرحوم کی دوسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ سب سے پہلے انہی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ مرتب کرنے کا خیال پیدا ہوا.چنانچہ ان کی طرف سے اس سلسلہ میں متعدد نمبر نکل چکے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط کو جمع کر کے مکتوبات احمدیہ کے نام سے شائع کرنے کی سعادت بھی شیخ صاحب مرحوم کو ہی حاصل ہوئی.تاریخ بیعت کے لحاظ سے شیخ صاحب

Page 485

مضامین بشیر جلد سوم 463 غالبا حضرت مفتی صاحب سے بھی زیادہ پرانے تھے.حق گوئی میں حضرت شیخ صاحب بہت دلیر اور صاف گو بلکہ بر ہنہ تلوار تھے.چنانچہ جب شروع میں غیر مبائعین کا فتنہ اٹھا تو شیخ صاحب اس کے مقابلہ پر غیر معمولی جوش کے ساتھ پیش پیش تھے.بلکہ بعض اوقات انہیں روکنے کی ضرورت پیش آتی تھی.غالبا یہ غیر مبائعین کے فتنہ کا ہی اثر تھا کہ عرفانی صاحب مرحوم اپنے ذوق کے مطابق اپنی اولاد کو ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ جب بھی جماعت میں کوئی اختلاف پیدا ہو تو تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت کا ساتھ دینا.کیونکہ ان کے متعلق خدا کا وعدہ ہے اِنِّی مَعَكَ وَ مَعَ أَهْلِكَ.یعنی میں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.خدا کرے کہ ہم اس خدائی وعدہ کے اہل اور قدرشناس ثابت ہوں.اس سال یعنی 1957ء میں جماعت کو کئی مخلصین کی وفات کا صدمہ پہنچا ہے.چنانچہ سب سے پہلے جنوری میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب خدا کو پیارے ہوئے.جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام گویا اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتے تھے.اور محبت کے رنگ میں اکثر ” ہمارے مفتی صاحب“ کہہ کر پکارتے تھے.اس کے بعد فروری میں حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کی وفات جو گویا بالکل ابتدائی صحابہ میں سے نہیں تھے مگر پھر بھی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کافی صحبت پائی تھی.اور وہ اپنی نیکی اور عبادت گزاری کی وجہ سے ان بزرگوں میں سے تھے جن کا دل گویا ہمیشہ مسجد میں لٹکا رہتا ہے.پھر غالبا جون کے آخر میں حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب فوت ہوئے جو ابتدائی صحابہ میں سے تھے.اور ان کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ عین جوانی کے عالم میں سکھ مذہب کو ترک کر کے اسلام اور احمدیت کو قبول کیا.پھر نیکی میں ایسی ترقی کی کہ صاحب کشف و رؤیا بن گئے.اور اب سال کے آخر میں آکر حضرت عرفانی نے جماعت کو داغ جدائی دیا ہے.كُلُّ مَنْ عَلَيْها فان O وَّ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ والإكرام (الرحمن : 27-28.حضرت مفتی صاحب اور حضرت عرفانی صاحب دونوں میری پیدائش سے بھی پہلے کے احمدی تھے اور حضرت بھائی صاحب نے غالباً میری پیدائش کے ایک سال بعد بیعت کی تھی.البتہ حضرت ڈاکٹر صاحب غالباً 1900 ء کے قریب بیعت سے مشرف ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ ان سب فوت ہونے والے بزرگوں کو اپنے فضل و رحمت کے دامن میں جگہ دے.اور ان کی اولادکو ان کے نقش قدم پر چلائے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.آمین.جیسا کہ سب جانتے ہیں اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور ممتاز صحابی بہت ہی تھوڑے رہ گئے ہیں.موت تو سب کے لئے مقدر ہے مگر کاش قبل اس کے کہ یہ مبارک گروہ اس دنیا سے منتقل ہو کر اپنی

Page 486

مضامین بشیر جلد سوم 464 جنتی رہائش گاہوں میں جاگزین ہو، جماعت کی صف دوم ان کی نیکی اور تقوی اور عبادت گزاری اور صداقت اور دیانت اور اتحاد اور تعاون اور جذبہ قربانی میں ان کی جگہ لینے کے لئے آگے آجائے.اے کاش ایسا ہی ہو! مجھے یاد ہے کہ جب میں نے 1941ء میں منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی وفات پر ایک نوٹ لکھا تھا تو اس نوٹ کے عنوان میں یہ شعر درج کیا تھا کہ: ع یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم مجو نالہ جرس کارواں رہے لیکن اب تو ڈرتا ہوں کہ شاید ہم میں سے کئی لوگ محو نالہ بھی نظر نہیں آتے.اے اللہ! تو رحم کر اور ہمارے نو جوانوں میں وہ روح پھونک دے جو ہمیشہ تیرے پاک نبیوں اور رسولوں کے زمانہ میں ایک زبر دست انجن کا کام دیا کرتی ہے.اور ہمیں صرف چلنے کی طاقت ہی نہ دے بلکہ پرواز کی قوت عطا کر.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ حضرت عرفانی اپنے آخری خط میں جو غالباً 29 نومبر کا لکھا ہوا ہے اور مجھے 5 دسمبر کوملا ، لکھتے ہیں کہ : آج عمر کا بانوے سال شروع ہوا، الحمد لله ( محرره 5 دسمبر 1957ء) روزنامه الفضل ربوہ 11 دسمبر 1957 ء) مرکزیت کے چار بنیادی ستون ہر جماعت یا قوم یا پارٹی جو اپنی اجتماعیت کو زندہ رکھنا چاہے اس کے لئے کسی نہ کسی نظریاتی با تنظیمی یا انسانی یا ارضی مرکز کا وجود ضروری ہوتا ہے.چنانچہ اسی اصول کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے نظام عالم میں بھی مختلف قسم کے مرکز قائم کر رکھے ہیں.مثلاً جسم انسانی کا مرکز دل یا دماغ ہے.نظام شمسی کا مرکز سورج ہے اور نظام ارضی کا مرکز زمین ہے جو اپنے تابع سیاروں کو اپنے ساتھ لے کر کسی بڑے مرکز کے ارد گرد چکر لگا رہی ہے.اور اسی طرح ہر نظام میں کوئی نہ کوئی مرکز مقرر کیا گیا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے الہبی جماعتوں کے لئے حبل اللہ کومرکز قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً یعنی اے مسلمانو! خدا نے تمہیں صحیح نظریات پر متحد رکھنے اور انتشار سے بچانے کے لئے آسمان سے ایک رہتی نازل فرمائی ہے

Page 487

مضامین بشیر جلد سوم 465 اسے سب مل کر مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو.اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ شَدَّ شُدَّ فِی النَّار یعنی جو شخص جماعتی مرکز سے کٹ کر اپنے لئے علیحدہ رستہ اختیار کرتا ہے وہ آگ میں ڈالا جائے گا.پس ضروری ہے کہ ہماری جماعت ہمیشہ اپنی مرکزیت کو قائم رکھے.اور قرآن مجید اور احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام یا دوسرے لفظوں میں احمدیت کے لئے مرکزیت کے چار بڑے ستون مقرر ہیں اور یہ چار ستون حسب ذیل ہیں.(1) اول امام یعنی خلیفہ وقت کا وجود جس کے ہاتھ پر سب مومن اتحاد اور جہاد فی سبیل اللہ کا عہد باندھتے اور اس کی قیادت کو قبول کرتے ہیں.یہ خلافت وہی ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں قدرت ثانیہ کے نام سے یاد کیا ہے.(2) دوم ایک ارضی مرکز کا وجود یعنی ایک ایسا صدر مقام جو اپنے تقدس یا مقام خلافت ہونے کی وجہ سے مومنوں کی توجہ کو ایک نقطہ پر جمع رکھتا ہے اور ان کے لئے جماعتی ہدایات کا منبع بنتا ہے.(3) سوم عقائد صحیحہ یعنی نظریاتی مرکز کا وجود جو گویا ایک مضبوط رشتی کے طور پر سارے مومنوں کو ایک نقطہ پر جمع رکھ کر اور آپس میں بھائی بھائی بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ باندھے رکھتا ہے.(4) چهارم جماعتی تنظیم جو جماعت کو صحیح اعمال پر قائم رکھتی اور جماعت کے افراد کو انتشار - بچاتی اور جماعتی ذمہ داریوں کے احساس کو زندہ رکھتی ہے.میری طبیعت آج کل پھر کسی قدر اعصابی تکلیف کی وجہ سے علیل ہے اور کچھ نقرس اور کبھی کبھی سانس کی تکلیف بھی ہو جاتی ہے.ورنہ میں اسلامی تعلیم کی روشنی میں ان چاروں مرکزوں کی تشریح اور تفصیل بیان کر کے دوستوں کو ان کی اہمیت بتا تا.اور اس بات کی وضاحت بھی کرتا کہ ان میں سے ہر مرکز کس کس طرح جماعت کی روحانی اور اخلاقی اور علمی اور عملی اصلاح اور ترقی میں اثر انداز ہوتا ہے.لیکن اس وقت میں صرف ان مراکز اربعہ کے مجمل ذکر پر ہی اکتفا کرتا ہوا دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان چاروں مرکزوں کے ساتھ اپنا رشتہ اس طرح جوڑیں کہ وہ کبھی ٹوٹنے کا نام نہ لے.اور نہ صرف خودان مرکزوں کے ساتھ اپنا پیوند مضبوط کریں بلکہ اپنی اولادوں کے دل میں بھی اس خیال کو پختہ اور راسخ کر دیں کہ جماعت احمدیہ کی عالمگیر ترقی اور غلبہ انہی چار مرکزوں کے دائمی پیوند کے ساتھ مقدر ہے.وہ اپنے امام یعنی خلیفہ وقت کی محبت اور اس کی اطاعت اور وفاداری کا اعلیٰ نمونہ قائم کریں.اور اپنی ہر

Page 488

مضامین بشیر جلد سوم 466 تبلیغی اور تربیتی مہم کو اس کے منشاء کے مطابق چلا کر الْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ (صحیح بخاری کتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراء الامام و یتقی بہ ) یعنی امام ایک ڈھال کا حکم رکھتا ہے اور مومنوں کو اس ڈھال کے پیچھے ہو کر لڑنا چاہئے ، کے ارشاد نبوی کی اس طرح اقتدا کریں کہ گویا وہ ایک بنیان مرصوص ہیں.وہ اپنے ارضی مرکز کی طرف اس طرح نگاہ رکھیں اور اس کی ہدایات کی طرف اس طرح دیکھیں کہ حَيْثُ مَا كُنتُم فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ (البقرہ: 145) کا رنگ پیدا ہو جائے.اور یا درکھنا چاہئے کہ اسلامی عبادات ( نماز ، حج وغیرہ) کا اصل اور دائمی مرکز تو بہر حال مکہ مکرمہ ہے اور ہر بچے احمدی کے دل میں حج بجالانے اور مقامات مقدسہ کی زیارت کرنے کی تڑپ ہونی چاہئے.مگر اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے تبلیغی اور تربیتی مہم کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قادیان اور ربوہ کو مرکز مقرر کیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا صدر مقام ہے.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ اپنے اس مرکز کی طرف بار بار رجوع کر کے اپنے اندرنئی زندگی کی روح پیدا کرتا رہے.جس کا سب سے زیادہ دلکش اور مؤثر نظارہ ہمارا جلسہ سالا نہ پیش کرتا ہے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریک کے مطابق ہر احمدی کو اپنا حرج کر کے بھی پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر ہر احمدی کا فرض ہے کہ اپنے نظریاتی مرکز یعنی عقائد صحیحہ کے ساتھ بھی اس طرح چمٹا ر ہے کہ اس میں کبھی کوئی رخنہ نہ پیدا ہو.اور ہر احمدی اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا مجسمہ بننے کی کوشش کرے.جن کے لئے قرآن وحدیث کے مطالعہ کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے مجموعہ تذکرہ اور حضور کی تالیفات اور خلفائے احمدیت کی تصنیفات کو ہمیشہ مد نظر رکھنا از بس ضروری ہے.تا کہ ذاتی خیالات اور وقتی رجحانات عقائد صحیحہ کے مصفی صیقل کو زنگ آلود نہ کر سکیں.صحیح عقائد جنہیں دوسرے رنگ میں ایمان کا نام دیا جاتا ہے وہ زبر دست حبل اللہ ہیں.جن سے چنگل مارنے والا انسان کبھی سیدھے راستے سے بھٹک نہیں سکتا.اور بالآخر ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ جماعت کے چوتھے مرکز یعنی جماعتی تنظیم پر بھی انتہائی مضبوطی کے ساتھ قائم ہو.اور اس کی لڑی میں اس طرح پر ویار ہے جس طرح ایک عمدہ تسبیح کے دانے ایک دوسرے کے ساتھ پر وئے رہتے ہیں.مگر یادر ہے کہ جماعتی تنظیم وہ چیز ہے جس میں بعض اوقات میٹھی قاشوں کے ساتھ تلخ قاشیں بھی کھانی پڑتی ہیں.کیونکہ اس کے بغیر ایک وسیع جماعت کو اتحاد اور عمل صالح کے مقام پر قائم نہیں رکھا جا سکتا.اور اس تعلق میں یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ جماعتی تنظیم کے تعلق میں امیر یا امام سے بعض اوقات بشری اثرات کے ماتحت اجتہادی غلطی بھی ہو سکتی ہے.جیسا کہ خود حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی

Page 489

مضامین بشیر جلد سوم 467 اپنے متعلق اس امکان کو تسلیم کیا ہے مگر پھر بھی امیر کی اطاعت کو واجبی قرار دیا ہے.پس ہر مخلص احمدی کا فرض ہے کہ وہ ہر قربانی کو قبول کر کے جماعتی تنظیم کے دامن کے ساتھ وابستہ رہے.کیونکہ اس کے بغیر کوئی جماعتی تنظیم قائم نہیں رہ سکتی اور قومی اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے.بس اس وقت الفضل کے جلسہ سالانہ نمبر میں یہی مختصر سے الفاظ احباب کرام کی خدمت میں پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں.کیونکہ: اگر در خانه کس است حرفی بس است آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جو اس وقت جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہیں.اور ہماری نسلوں کو اور پھر نسلوں کی نسلوں کو قیامت تک اسلام اور احمدیت کے نور سے منور رکھے.اور ہمیں ان چار انسانی اور ارضی اور نظریاتی اور تنظیمی مرکزوں کے ساتھ اخلاص اور محبت اور اطاعت کی تاروں کے ساتھ باندھے رکھے جو اس نے اپنی ازلی حکمت کے ماتحت جماعت کی بقا اور ترقی کے لئے پیدا کئے ہیں.اور ہمارا انجام بہتر ہو، نیز آنے والے دنوں کے خطرات میں بھی خدا جماعت کا حافظ و ناصر ہو.امِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ - ( محرره 5 دسمبر 1957 ء) روزنامه الفضل ربوہ 24 دسمبر 1957ء)

Page 490

مضامین بشیر جلد سوم اعلانات.اشتہارات - اطلاعات 468 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1-> ایک غلط فہمی کا ازالہ 2-> ایک مخلص اور باہمت خاتون 3-> اخویم میاں عبداللہ خاں صاحب کیلئے تحریک 4-> تازه فهرست چنده مرمت مقدس مقامات قادیان 5-> فہرست چنده مرمت مقدس مقامات قادیان روزنامه الفضل 30 جنوری 1957ء) روزنامه الفضل 6 فروری 1957ء) 6-> رسالہ اصول قرآن فہمی کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے روزنامه الفضل 6 فروری 1957ء) روزنامه الفضل 7 فروری 1957ء) روزنامه الفضل 21 فروری 1957ء) روزنامه الفضل 22 فروری 1957ء) روزنامه الفضل 28 فروری 1957ء) 8-> عزیز مرزا مجید احمد کے بیوی بچے 6 مارچ کو روانہ ہوں گے روزنامه الفضل 3 مارچ 1957ء) 9-> قادیان میں درس قرآن مجید 7-> عزیز مرزا مجید احمد کے اہل وعیال کی روانگی 10-> قادیان کے دوستوں کیلئے دعا کی تحریک 11-> تازه فهرست رقوم فدیہ رمضان (روز نامہ الفضل 10 اپریل 1957ء) ( روزنامه الفضل 7 اپریل 1957ء) (روز نامہ الفضل 18 اپریل 1957ء)

Page 491

مضامین بشیر جلد سوم 469 12-> کتاب تعلیم الاسلام ہائی سکول کی کھیلیں“ کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رائے (روز نامه الفضل 12 مئی 1957ء) 13-> مرمت مقامات مقدسہ کیلئے انجینئر کی ضرورت روزنامه الفضل 15 مئی 1957ء) 14-> حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.ائے ” مجھے قرص اکسیر اعظم کی اور گولیوں کی ضرورت ہے“ (ماہنامہ مصباح مئی 1957ء) 15-> مقدمہ اخبار بد خدا کے فضل سے ختم ہو گیا ہے روزنامه الفضل 24 مئی 1957ء) 16-> قادیان کے جلسہ سالانہ کی تاریخیں 17- عید الاضحیٰ کی قربانی کے متعلق ضروری اعلان 18-> جلسہ قادیان بہت قریب آرہا ہے دوست زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں (روز نامه الفضل 19 جون 1957ء) (روز نامه الفضل 28 جون 1957ء) (روزنامہ الفضل 15 ستمبر 1957ء) 19-> جلسہ قادیان کے دوسرے روز کی رپورٹ روزنامه الفضل 12 اکتوبر 1957ء) 20-> احمدیت کا مستقبل (روز نامہ الفضل 4 دسمبر 1957ء)

Page 492

470 مضامین بشیر جلد سوم

Page 493

مضامین بشیر جلد سوم باب ہشتم 1958ء کے مضامین 471

Page 494

472 مضامین بشیر جلد سوم خادم صاحب بھی خدا کو پیارے ہوئے مکرم ملک عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم ذکر حبیب علیہ السلام نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں ایک نہایت مبارک تصنیف برہمن بڑیہ ( مشرقی پاکستان ) کے سالانہ جلسہ پر پیغام ”پیغام صلح کی افسوسناک ذہنیت رمضان کا فدیہ رمضان کے مسائل کا خلاصہ تاریخ اسلام کا عظیم ترین واقعہ دوست رمضان کے عہد کو یا درکھیں ہزار مہینوں کی ایک رات وفات مسیح کے متعلق ایک دلچسپ مناظرہ ربوہ کی یادگاری مسجد سیرۃ المہدی حصہ چہارم و پنجم کا مسودہ عیدالاضحیہ کی قربانیاں اسلام میں خلافت کا نظام قبروں پر پھول چڑھانا ایک نہایت ایمان افروز روایت

Page 495

مضامین بشیر جلد سوم 1 خادم صاحب بھی خدا کو پیارے ہوئے 473 كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان ويَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلِ وَالْإِكْرَامِ محترم ملک عبد الرحمن صاحب خادم کی وفات کی خبر کی اطلاع اخبار الفضل کو کرتے وقت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو نوٹ بھجوایا اس میں مکرم خادم صاحب کے اوصاف یوں تحریر فرمائے.خادم صاحب کے والد محترم حضرت برکت علی خان صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں کہ انہوں نے وفات پائی اور ربوہ میں دفن ہوئے.خادم صاحب مرحوم ایک بہادر مرد مجاہد تھے اور جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا تقریری اور تحریری تبلیغ کے میدان میں صف اول میں رہے اور مخالفوں کے مقابل پر گویا ایک برہنہ تلوار تھے.اور عقائد صحیحہ میں ان کا قدم ہمیشہ ایک مضبوط چٹان پر قائم رہا اور اندرونی اور بیرونی مخالفت نے ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہیں آنے دی.اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ "فَضَّلَ اللهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمُ عَلَى الْقَعِدِينَ دَرَجَةً (النساء: (96) یعنی ہم نے دین کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کو مجاہد مومنوں پر بھاری امتیاز اور بھاری درجہ عطا کیا ہے.اس لئے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ خادم صاحب مرحوم کو اپنی جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا.مذہبی مباحثات کے میدان میں خادم صاحب کا وجود گویا حوالہ جات کا ایک وسیع خزانہ تھا.اور ان کی تصنیف ”احمدیہ پاکٹ بک ہمیشہ ایک یادگاری تصنیف رہے گی.اسی طرح 1953ء کے تحقیقاتی کمیشن میں اور اس کے بعد گزشتہ فتنہ کے تعلق میں بھی خادم صاحب کی خدمات بہت قابل قدر تھیں.اور مناظرہ کے میدان میں تو وہ ایک بہادر شیر تھے جو کسی مخالف طاقت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے.بلکہ حق کی تائید میں انہیں اس درجہ خدا پر بھروسہ تھا کہ گھبراہٹ تو دور کی بات ہے وہ اپنی حاضر جوابی اور لطائف سے مجلس مناظرہ میں بھی شگفتگی پیدا کر دیتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے بیوی بچوں اور دیگر عزیزوں کو جو ان کے نقش قدم پر ہیں اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.اور ان کے بھٹکے ہوئے عزیزوں کو بھی ہدایت فرمائے.آمین جیسا کہ میں نے حضرت عرفانی مرحوم کی وفات پر نوٹ لکھتے ہوئے ذکر کیا تھا سال 1957 ء میں ہمیں بہت سے بزرگوں اور دوستوں کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہے.بلکہ عرفانی صاحب کے بعد بھی تین اور ممتاز بزرگ اور دوست بھی ہم سے جدا ہو گئے ہیں.چنانچہ عرفانی صاحب کی وفات کے دو دن بعد حضرت

Page 496

مضامین بشیر جلد سوم 474 سیٹھ اسمعیل آدم صاحب نے کراچی میں وفات پائی.سیٹھ صاحب مرحوم بہت مخلص اور ٹھوس اخلاص والے بزرگ تھے.جنہوں نے اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا اور پھر سارا زمانہ بڑی وفاداری اور محبت اور اخلاص اور نیکی میں گزارا.اس کے بعد مین جلسہ کے ایام میں محترم شیخ عبدالحق صاحب سابق نائب ناظر ضیافت کی وفات ہوئی.شیخ صاحب مرحوم ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور بہت مخلص اور فدائی رنگ میں رنگین محبت کرنے والے بزرگ تھے.جن کے ذریعہ ضلع گورداسپور میں کثیر التعداد لوگ احمدیت کے نور سے منور ہوئے.اور اب سال کے آخری دن میں ہمیں محترم خادم صاحب نے داغ جدائی دیا ہے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ O وَّ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَلِ وَالْإِكْرَام (الرحمن: 27-28) اس جگہ مجھے دلی افسوس کے ساتھ اپنی ایک فروگزاشت کا ذکر کرنا ہے.اور وہ یہ ہے کہ جو نوٹ میں نے حضرت عرفانی صاحب کی وفات پر لکھا تھا اس میں ایک محترم بزرگ حضرت مولوی علی احمد صاحب بھاگلپوری کا ذکر کرنا بھول گیا.حضرت مولوی صاحب مرحوم بھی سلسلہ کے قدیم بزرگوں میں سے تھے.اور نہایت درجہ مخلص اور نیک ہونے کے علاوہ بہت صابر اور شاکر بزرگ تھے.جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا.اور پھر اس روحانی تعلق کو آخر تک بڑی وفاداری کے ساتھ نبھایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے اخلاص کو اس رنگ میں نوازا کہ اولاً حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک عزیز خاتون حضرت سیدہ ام رفیع احمد مرحومہ کو اپنی رفیقہ حیات کے طور پر چنا.اور اس کے بعد حضرت مولوی صاحب مرحوم کے فرزند عزیز میاں عبدالرحیم احمد کو اپنی دامادی میں قبول کیا.اللہ تعالیٰ ان سب مرنے والے بزرگوں اور دوستوں کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور جماعت کے نوجوانوں کو ان کا علمی اور روحانی ورثہ عطا فرمائے تا کہ جماعت میں کسی قسم کا رخنہ نہ پیدا ہونے پائے.1957ء میں جماعت میں طبعی طریق پر موتیں تو بہت سے دوستوں کی ہوئی ہیں.مگر یہ آٹھ اموات جن کا میں نے حضرت عرفانی والے نوٹ اور پھر موجودہ نوٹ میں ذکر کیا ہے.ایسی موتیں ہیں کہ اگر ان کی وجہ سے اس سال کو عام الحزن کہا جائے تو بے جانہ ہو گا.دعا کے خیال سے میں ان بزرگوں کے نام پھر دہراتا ہوں تا کہ دوست ان کا روحانی ورثہ پانے کی طرف متوجہ رہیں اور ان کے لئے اور ان کے پسماندگان کے لئے دعائیں بھی کریں.یقیناً جو شخص اپنے بزرگوں کو دعاؤں میں یادرکھتا اور ان کے نقش قدم پر چلتا ہے اور ان کی وفات کی وجہ سے کوئی خلا نہیں پیدا ہونے دیتا وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کا وارث بنتا ہے

Page 497

مضامین بشیر جلد سوم 475 بلکہ جماعت کی بھی ایک اعلیٰ درجہ کی خدمت بجا لاتا اور اس کی مسلسل ترقی کا راستہ کھولتا ہے.بہر حال 1957ء میں وفات پانے والے بزرگوں اور ممتاز دوستوں کے نام یہ ہیں : (1) حضرت مفتی محمد صادق صاحب (2) حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب (3) حضرت مولوی علی احمد صاحب بھاگلپوری (4) حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب (5) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحب (6) (7) مکرم محترم شیخ عبدالحق صاحب اور (8) محترم ملک عبد الرحمن صاحب خادم أَدْخِلُهُمْ فِي أَعْلَى عِلِّيِّين اسی طرح تمام دوسرے مرنے والے بھائیوں کو بھی اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ ہونے دے.آميْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.محررہ 31 دسمبر 1958ء) (روز نامہ الفضل ربوہ 3 جنوری 1958ء) مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم سنتالیس (47) سال کی عمر اور خادم صاحب کا آخری خط مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم مرحوم و مغفور کے متعلق ایک نوٹ الفضل میں بھجوا چکا ہوں.خادم صاحب مرحوم کا جنازہ گجرات سے ہوتا ہوا ڈیڑھ بجے بعد دو پہر ربوہ پہنچ گیا تھا.جہاں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعد نماز عصر ایک بہت بڑی جماعت کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی.اور اس کے بعد نماز مغرب کے قریب مرحوم کو مقبرہ بہشتی رہوہ میں سینکڑوں لوگوں کی دلی دعاؤں کے ساتھ دفن کیا گیا.نماز جنازہ کے وقت اور اس کے بعد حضرت خلیفہ ایسی ایدہ اللہ کا دل اس صدمہ سے بہت متاثر معلوم ہوتا تھا.اللہ تعالیٰ

Page 498

476 مضامین بشیر جلد سوم حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا حافظ و ناصر ہو اور حضور کے سایہ عاطفت میں جماعت کے نو جوانوں کو توفیق دے کہ وہ مرنے والے بزرگوں اور مجاہدوں کی جگہ لینے اور خدمت دین کے میدان میں آگے سے آگے قدم بڑھا کر جماعت میں ہر امکانی خلا کو روکنے کے لئے کامیاب جد و جہد کر سکیں.اللهم آمين میں نے اپنے پہلے نوٹ میں ذکر کیا تھا کہ خادم صاحب مرحوم کی عمر غالبا پچاس سال سے کم ہو گی مگر اس کے بعد تدفین کے وقت معلوم ہوا کہ ان کی عمر صرف سنتالیس (47) سال تھی.اس وقت مجھے اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام یاد آیا کہ: سنتالیس (47) سال کی عمر میں کفن میں لپیٹا گیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ومغفور کی وفات کے قریب ہوا تھا.اور اس الہام کا پہلا مصداق حضرت مولوی صاحب کی ذات والا صفات ہی تھی.لیکن چونکہ بعض اوقات خدائی کلام میں تنوع ہوتا ہے اور ایک ہی الہام میں متعدد واقعات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے.اس لئے اس الہام کا دوسرا جلوہ قریباً پچیس سال بعد حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم کی وفات میں نظر آیا.کیونکہ حضرت حافظ صاحب مرحوم بھی سنتالیس کی عمر میں فوت ہوئے تھے.اور اب قریباً مزید اٹھا ئیں سال بعد ملک عبد الرحمن صاحب خادم بھی سنتالیس سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں.اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ تبلیغ حق کے میدان میں ان تینوں اصحاب کا اندازہ بھی کم و بیش ایک جیسا ہی تھا.یعنی وہی غیر معمولی جوش و خروش، وہی تیغ عریاں کا رنگ، وہی بلا خوف لامةَ لائِم اظہارحق کا انداز مگر جواول ہے وہ اول ہے.اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو آخری خط مجھے خادم صاحب مرحوم کا لاہور سے موصول ہوا وہ دعاؤں کی تحریک اور ذکر خیر کی غرض سے ذیل میں درج کر دیا جائے.خادم صاحب اپنے آخری خط محررہ 14 دسمبر 1947 ء میں لکھتے ہیں: بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم میوہسپتال A.V.H کمرہ نمبر 5لاہور مؤرخہ 57-12-14 محترم و مکرم ومخدومی حضرت میاں صاحب سَلَّمَكُمُ اللَّهُ تَعَالَى وايد السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

Page 499

مضامین بشیر جلد سوم 477 جناب کا گرامی نامہ آج موصول ہوا اور اس توجہ اور شفقت کے لئے جو آپ میرے حال پر فرما رہے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزاء دے اور اپنے فضلوں اور رحمتوں کی لا انتہا بارشیں آپ پر ن برسائے.(آمین) اپنی موجودہ بیماری کے دوران میں جب سے میری طبیعت سنبھلی ہے اور کسی قدر توجہ سے دعا کرنے کے قابل ہوا ہوں بالالتزام روزانہ آپ کی صحت و عافیت، دراز کی عمر اور اسلام کی بیش از پیش خدمات سر انجام دینے کی توفیق پانے کے لئے دعا کرتا ہوں.اور انشاء اللہ العزیز کرتا رہوں گا.علاوہ ازیں حضرت ائم مظفر کی شفایابی اور تندرستی و توانائی و درازئی عمر کے لئے بھی بالالتزام دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول فرمائے.آمین اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اب بخیریت ہوں.آخری ایکسرے 57-12-6 کو ہوا تھا جس سے یہ معلوم ہوا کہ دایاں پھیپھڑا ( جو متاثر تھا ) اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب صاف ہو گیا ہے اور جھلی میں پانی بھی خشک ہو چکا ہے.صرف تھوڑا سا نچلا حصہ ذرانا صاف (Hazy) تھا جس کے بارہ میں یہ خیال تھا کہ جھلی کے موٹا ہو جانے کے باعث ہے.اور یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی اقل قلیل مقدار میں پانی موجود ہو.اگر چہ ایکسرے یا دوسرے ذرائع سے وہ نظر نہیں آتا اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ ہفتہ عشرہ اور انتظار کر لی جائے.اب انشاء اللہ العزیز 57-12-16 ( پرسوں ) آخری ایکسرے ہوگا.اور اس کے بعد جیسا کہ ڈاکٹر پیرزادہ صاحب نے کہا ہے چھٹی ہوگی.یہ ایکسرے محض احتیاطاً لیا جا رہا ہے ورنہ پیرزادہ صاحب تو 57-12-7 ہی کو چھٹی دے رہے تھے.لیکن میرے کہنے پر کہ ہفتہ عشرہ اور انتظار کرلیا جائے وہ رضامند ہو گئے.اندازہ یہی ہے کہ یہاں سے 57-12-20 تک فراغت ہو جائے گی.اس کے بعد ابھی تک یہ طے نہیں پایا کہ آیا مجھے گجرات چلے جانا چاہئے یا کچھ دن اور لاہور میں ہی ٹھہر نا چاہئے.برادرم فیضی صاحب کی خواہش ہے کہ ہسپتال سے فارغ ہو کر ہفتہ عشرہ ان کے ہاں ٹھہروں.اس کے بارہ میں بھی ابھی تک میری طبیعت کوئی فیصلہ نہیں کر سکی.جلسہ سالانہ بھی قریب آرہا ہے اورسیدنا حضرت خلیفہ مسیح کی خرابی صحت کے پیش نظر انتہائی خواہش ہے کہ اس میں بھی شمولیت کی توفیق ملے اور اس غرض سے دعائیں بھی بہت کی ہیں.میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح کی درازی عمر ، صحت و عافیت اور طاقت و توانائی کی بحالی کے لئے بالالتزام دعا کرتا ہوں اور یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور ہماری عاجزانہ دعائیں سنے گا.اور حضور کو صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے گا.

Page 500

مضامین بشیر جلد سوم انشاء اللہ العزیز 478 مولوی رحمت علی صاحب کو آپ کا پیغام پہنچا دیا ہے.وہ فرماتے ہیں کہ زخم میں درد ہے اور پیپ بھی ہے جو روزانہ نکالی جاتی ہے.دعا کے لئے درخواست کرتے ہیں.بالآخر درخواست ہے کہ میری مکمل صحت یابی اور قوت و توانائی کی بحالی کے لئے بھی دعا فرما ئیں اور اس امر کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ دین کی بے لوث خدمت کی توفیق عطا فرمائے.( احقر خادم.ملک عبدالرحمن خادم ) دوستوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ خادم صاحب مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے.ان کی اولاد کا حافظ و ناصر ہو اور جماعت میں فوت ہونے والے بزرگوں کے علم و عمل کے وارث پیدا کرے.آمين يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ محررہ 2 جنوری 1958ء) روزنامه الفضل ربوہ 5 جنوری 1958ء) ذکر حبیب علیہ السلام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی غیر مطبوعہ کتاب سیرۃ المہدی حصہ چہارم کے چند قیمتی اور اق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس ذکر پر مشتمل ذیل کی قیمتی اور ایمان افروز روایات سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ، حضرت نواب محمد علی خان صاحب، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوئی اور مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی بیان کردہ ان روایات میں سے منتخب کی گئی ہیں جنہیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے اپنی کتاب سیرۃ المہدی حصہ چہارم کے زیر ترتیب مسودہ میں جمع فرمایا ہے.کتاب کا یہ حصہ ابھی تک شائع نہیں ہوا اور مندرجہ روایات جنہیں وقت کی قلت کے پیش نظر مختلف جگہوں سے فوری طور پر منتخب کر لیا گیا ہے اسی مسودہ سے

Page 501

مضامین بشیر جلد سوم 479 حضرت میاں صاحب کی اجازت سے حاصل کی گئی ہیں.ان روایات کا بیشتر حصہ اور ان میں سے بعض پر حضرت میاں صاحب کا تشریحی تبصرہ ” خالد کے ذریعہ پہلی بار دوستوں کے سامنے آ رہا ہے.میں مخدومی و محتر می حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی شفقت اور اجازت سے یہ قیمتی روایات قارئین خالد تک پہنچ رہی ہیں.خدا کرے کہ یہ کتاب اپنی مکمل شکل میں بھی جلد شائع ہو جائے اور یوں ایک نہایت ہی بیش قیمت روحانی اور علمی خزانہ دوستوں کو مل جائے.آمین حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ خاکسار محمد شفیع اشرف بسم الله الرحمن الرحيم - حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے بیان کیا کہ اک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ حضرت مسیح ناصری کی طرح ہمارے بھی بارہ حواری ہیں اور حضور نے ذیل کے اصحاب کو ان بارہ حواریوں میں شمار کیا.(1) حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ (2) مولوی محمد احسن صاحب امروہوی (3) میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (4) مولوی غلام حسن صاحب پشاوری (5) ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب (6) ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب آف گوڑیانی (7) شیخ رحمت اللہ صاحب آف لاہور (8) سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی (9) ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آف لاہور (10) مولوی محمد علی صاحب ایم اے (11) سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی اور (12) مفتی محمد صادق صاحب.خاکسار مرزا بشیر احمد عرض کرتا ہے کہ میرے پوچھنے پر کہ کیا اس فہرست میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا نام نہیں تھا ؟ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب اس وقت فوت ہو چکے تھے.بلکہ ان کی وفات پر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات کہی تھی کہ مولوی صاحب کی وفات بڑا حادثہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے مخلص آدمی دے رکھے ہیں.پھر فرمایا کہ مسیح ناصری کی طرح ہمارے بھی حواری ہیں.اور اوپر کے نام بیان فرمائے.اس موقع پر ہم نے بعض اور نام لئے کہ کیا یہ حواریوں میں شامل نہیں.آپ نے اس کی نسبت فرمایا کہ یہ درست ہے کہ یہ لوگ بھی بہت مخلص ہیں مگر اس گروہ میں شامل نہیں.خاکسار مرزا بشیر احمد عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات 1905 ء کے آخر میں ہوئی تھی.

Page 502

مضامین بشیر جلد سوم حضرت اماں جان 480 بسم الله الرحمن الرحیم حضرت اماں جان نے مجھ سے فرمایا کہ میرے بچوں کی پیدائش اس طرح ہوئی ہے کہ عصمت انبالہ میں پیدا ہوئی.بشیر اول قادیان میں بیت الفکر کے ساتھ والے دالان میں پیدا ہوا.تمہارے بھائی محمود نیچے کے دالان میں پیدا ہوئے جو گول کمرہ کے ساتھ ہے.شوکت لدھیانہ میں پیدا ہوئی.تم ( یعنی خاکسار مرزا بشیر احمد ) نیچے کے دالان متصل گول کمرہ میں پیدا ہوئے.شریف بھی اسی دالان میں پیدا ہوئے اور مبارکہ بھی اسی میں پیدا ہوئیں.مبارک نیچے کی منزل کے اس دالان میں پیدا ہوا جوغر بی گلی کے ساتھ ہے اور کنوئیں سے جانب غرب ہے.امتہ النصیر بھی مبارک والے دالان میں پیدا ہوئی اور امتہ الحفیظ اوپر والے کمرہ میں جو بیت الفکر کے ساتھ ہے پیدا ہوئی.بِسْمِ الله الرحمن الرحیم.حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہوا تھا.پھر جب وہ مکان بنا جس میں بعد میں میاں شریف احمد صاحب رہتے رہے ہیں اور جس میں آجکل ( زمانہ روایت کے وقت ) اُمّم طاہر رہتی ہیں.تو چونکہ اس کا ایک حصہ گلی کے اوپر سے نمایاں صورت میں نظر آتا تھا اس لئے آپ نے اس کے اس حصہ پر بیت البرکات کے الفاظ لکھوا دیئے جس سے بعض لوگوں نے غلطی سے یہ مجھ لیا کہ شاید یہ نام اسی حصہ کا ہے.حالانکہ حضرت مسیح موعود نے اپنے سارے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہوا تھا.علاوہ ازیں حضرت صاحب نے اپنے مکان کے بعض حصوں کے مخصوص نام بھی رکھے ہوئے تھے.مثلاً مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ کا نام بیت الفکر رکھا تھا.بلکہ دراصل اس نام میں اس کے ساتھ والا دالان بھی شامل تھا.اسی طرح نچلی منزل کے ایک کمرہ کا نام جو اس وقت ڈیوڑھی کے ساتھ ہے بیت النور رکھا تھا.اور تیسری منزل کے اس دالان کا نام جس میں ایک زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب رہتے رہے ہیں اور اس وقت ام وسیم احمد رہتی ہیں بیت السلام رکھا تھا نیز حضرت والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ جس چوبارہ میں اس وقت مائی کا کو رہتی ہے جو مرزا سلطان احمد صاحب والے مکان کے متصل ہے اور میرے موجودہ باورچی خانہ کے ساتھ ہے.اس میں حضرت صاحب نے وہ لمبے روزے رکھے تھے جن کا حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور یہی وہ کمرہ ہے جس میں حضرت صاحب نے براہین احمدیہ تصنیف کی تھی.

Page 503

مضامین بشیر جلد سوم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے 481 بسم الله الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اپنے برادر نسبتی عزیز عبدالرحمن خاں نیازی سکنہ پشاور سے بعض وہ خطوط حاصل ہوئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے خسر یعنی خان بہادر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاور کے نام لکھے تھے.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کو پہچانتا ہوں اور یہ خطوط حضور کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں.ان میں سے ایک خط جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میری شادی کی تجویز کے تعلق میں مولوی صاحب موصوف کو لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.بِسمِ الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم مجی مگر می اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلمہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ اس سے پہلے اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے برخوردار محمود احمد کے رشتہ ناطہ کے لئے عام دوستوں میں تحریک کی تھی اور آپ کے خط کے پہنچنے سے پہلے ایک دوست نے اپنی لڑکی کے لئے لکھا اور محمود نے اس تعلق کو قبول کر لیا.بعد اس کے آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانی لڑکے کے لئے تحریک کروں جس کی عمر دس برس کی ہے.اور صحت اور متانت مزاج اور ہر ایک بات میں اس کے آثارا چھے معلوم ہوتے ہیں.اور آپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں.اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں.اور میں قریب ایام میں اس بارہ میں استخارہ بھی کروں گا اور بصورت رضامندی یہ ضروری ہوگا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرمائیں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف با ترجمہ پڑھ لے.نماز اور روزہ اور زکوۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز بآسانی خط لکھ سکے اور پڑھ سکے.اور لڑکی کے نام سے مطلع فرمائیں اور اس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں.چونکہ دونوں کی عمریں چھوٹی ہیں اس لئے تین برس تک شادی میں تو قف ہوگا.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد اس خط پر کسی اور کے قلم سے تاریخ 24 اپریل 1902ء درج ہے)

Page 504

مضامین بشیر جلد سوم حضرت میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ 482 بسم الله الرحمن الرحیم.ہمارے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جس روز پنڈت لیکھرام کے قتل کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود کے مکان کی تلاشی ہوئی تو اچانک پولیس کپتان مع ایک گروہ سپاہیوں کے قادیان آ گیا.اور آتے ہی سب نا کے روک لئے.باہر کے لوگ اندر اور اندر کے باہر نہ جاسکتے تھے.حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ یعنی حضرت والد صاحب جو مکان کے اندر تھے فورا حضور کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ ایک انگریز بمعہ سپاہیوں کے تلاشی لینے آیا ہے.فرمایا.بہت اچھا آجائیں.میر صاحب واپس چلے تو آپ نے ان کو پھر بلایا اور ایک کتاب یا کاپی پر سے اپنا الہام دکھایا جو یہ تھا کہ مَا هَذَا إِلَّا لِتَهْدِيدِ الحُكّامِ یعنی یہ حکام کی طرف سے صرف ایک ڈراوا ہے.اس کے بعد جب انگریز کپتان پولیس اندر داخل ہوا تو آپ اُسے ملے.اس نے کہا کہ مرزا صاحب مجھے آپ کی تلاشی کا حکم ہوا ہے.حضور نے فرمایا بے شک تلاشی لے لیں میں اس میں آپ کی مدد کروں گا.یہ کہہ کر اپنا کمرہ اور صندوق، بستے اور پھر تمام گھر اور چوبارہ سب کچھ دکھایا.انہوں نے تمام خط و کتابت میں سے صرف دو خط لئے جن میں سے ایک ہندی کا پرچہ تھا جو دراصل آنا وغیرہ خریدنے اور پسوانے کی رسید یعنی ٹو مبو تھا.دوسرا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچازاد بھائی مرزا امام الدین یعنی محمدی بیگم کے ماموں کا تھا.پھر وہ لوگ چند گھنٹے بعد چلے گئے.چاشت کے وقت وہ لوگ قادیان آئے تھے.اس کے بعد دوبارہ دو ہفتہ کے بعد اس خط کی بابت دریافت کرنے کے لئے ایک انسپکٹر پولیس بھی آیا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ 1897 ء کا واقعہ ہے اور اس کے متعلق مزید تفصیل دوسری روایتوں مثلاً روایت (460) میں گزر چکی ہے.یہ روایت ہمارے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کی تھی.مگر افسوس ہے کہ اس کی اشاعت کے وقت حضرت میر صاحب وفات پاچکے ہیں.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب جولائی 1947 ء میں قادیان میں فوت ہوئے تھے اور میں اس تالیف کی نظر ثانی اکتوبر 1949ء میں لاہور میں کر رہا ہوں.بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تمام انبیاء کے نام چونکہ خدا کی طرف سے رکھے جاتے ہیں اس لئے ہر ایک کے نام میں اس کی کسی بڑی صفت کی پیشگوئی موجود ہوتی ہے.مثلاً آدم گندم گوں اقوام کا باپ.ابراہیم قوموں کا باپ.اسماعیل خدا نے دعا کو سن لیا.یعنی اولاً اولاد کے متعلق ابراہیم کی دعا کوسن لیا اور پھر مکہ کی وادی غیر ذی زرع میں اسماعیل کی پکار کو.اور پانی مل گیا اور آبادی کی صورت پیدا ہوگئی.اسحق اصل میں اضحاک

Page 505

مضامین بشیر جلد سوم 483 ہے.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے فَضَحِكَتْ فَبَشَّرُنَها باسحق (هود: 72) نوح کا اتنی لمبی عمر نوحہ کرنا مشہور ہی ہے.میسیج سفر کرنے والا.یا خدا کا ممسوح سلیمان جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے.انسی أَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَنَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (النمل: 45) ایس با دشاہ جو نہ صرف خود مسلم تھا بلکہ جس کے طفیل ایک شاہزادی بمعہ اپنے اہل ملک کے اسلام لائی.مریم.بتول یعنی کنواری.چنانچہ فرماتا ہے.إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِى مُحَرَّرًا ( آل عمران : 36) یعقوب پیچھے آنے والا.وَمِنُ وَّرَاءِ إِسْحَقَ يَعْقُوبَ (هود: (72) پوست - يَأَسَفى عَلَى يُوْسُفَ (يوسف: 85 ) محمد تمام کمالات کا جامع جس کی ہر جہت سے تعریف کی جائے یعنی کامل محمود ومحبوب اور معشوق.احمد.نہایت حمد کرنے والا یعنی عاشق صادق وغیرہ وغیرہ.بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اماں جان نے ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور شیرینی کا ایک خوان اُسی وقت پیش کیا اور شام کی دعوت کی.بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ مسئلہ پوچھتے تھے کہ جب آدمی ایک دفعہ بیعت کرلے تو کیا یہ جائز ہے کہ اگر پھر کبھی بیعت ہورہی ہو تو وہ اس میں بھی شریک ہو جائے.حضور فرماتے تھے کہ کیا حرج ہے؟ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اکثر دوست دوبارہ سہ بارہ بلکہ کئی کئی بار بیعت میں شریک ہوتے رہتے ہیں.اور بیعت چونکه تو بہ اور اعمال صالح کے عہد کا نام ہے اس لئے بہر حال اس کی تکرار میں فائدہ ہی فائدہ ہے.بسم الله الرحمن الرحیم.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں لاہور میڈیکل کالج میں ففتھ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا.بِسمِ الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی عزیزی اخویم میر محمد اسماعیل صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ چونکہ بار بار خوفناک الہام ہوتا ہے اور کسی دوسرے سخت زلزلہ ہونے کی اور آفت کے لئے خبر دی گئی ہے اس لئے مناسب ہے کہ فی الفور بلا توقف وہ مکان چھوڑ دو اور کسی باغ میں جار ہو.اور بہتر ہے کہ تین دن

Page 506

مضامین بشیر جلد سوم کے لئے قادیان میں آکر مل جاؤ.والسلام حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ خاکسار مرزا غلام احمد 11 اپریل 1905ء 484 بسم الله الرحمن الرحيم - حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری نظر سے پہلے موٹی قلم سے لکھا ہوا اشتہار بابت براہین احمدیہ 1885ء میں گزرا مگر کوئی التفات پیدا نہ ہوا.88-1887ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شہرہ سنتا رہا.1890ء میں مولوی عبداللہ صاحب فخری کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کی استدعا کی.اس طرح خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا.غالباً ستمبر 1890 ء میں میں بمقام لدھیانہ حضرت صاحب سے ملا اور چند معمولی باتیں ہوئیں.وہاں سے واپسی پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا کہ میں تفضیلی شیعہ ہوں یعنی حضرت علی کو دوسرے خلفاء پر فضیلت دیتا ہوں.کیا آپ ایسی حالت میں میری بیعت لے سکتے ہیں یا نہیں.آپ نے لکھا کہ ہاں ایسی حالت میں آپ بیعت کر سکتے ہیں.باقی اگر ہم ان خدمات کی قدر نہ کریں جو خلفاء راشدین نے کیں تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ قرآن وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.کیونکہ انہی کے ذریعہ قرآن و اسلام ، حدیث و اعمال ہم تک پہنچتے ہیں.چنانچہ میں نے غالباً ستمبر یا اکتوبر 1890 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی اور بعد بیعت تین سال تک شیعہ کہلا تا رہا.بسم الله الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلی دفعہ غالباً فروری 1892ء میں میں قادیان آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی نے مجھ پر خاص اثر کیا.دسمبر 1892 ء میں پہلے جلسہ میں شریک ہوا.ایک دفعہ میں نے حضرت صاحب سے علیحدہ بات کرنی چاہی.گو بہت تنہائی نہ تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پریشان پایا.یعنی آپ کو علیحدگی میں اور خفیہ طور سے بات کرنی پسند نہ تھی.آپ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی بات ہوتی تھی.اسی جلسہ 1892 ء میں حضرت بعد نماز مغرب میرے مکان پر ہی تشریف لے آتے تھے اور مختلف امور پر تقریر ہوتی رہتی تھی.احباب وہاں جمع ہو جاتے تھے اور کھانا بھی وہاں ہی کھاتے تھے.نماز عشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا.میں علماء اور بزرگانِ خاندان کے سامنے دوزانو بیٹھنے کا عادی تھا بسا اوقات گھٹنے دُکھنے لگتے.مگر یہاں مجلس کی

Page 507

مضامین بشیر جلد سوم 485 حالت نہایت بے تکلفانہ ہوتی.جس کو جس طرح آرام ہوتا بیٹھتا.بعض پچھلی طرف لیٹ بھی جاتے مگر سب کے دل میں عظمت و ادب اور محبت ہوتی تھی.چونکہ کوئی تکلف نہ ہوتا تھا اس لئے یہی جی چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریر فرماتے رہیں اور ہم میں موجود رہیں مگر عشاء کی اذان ہونے پر جلسہ برخاست ہو جاتا.بِسْمِ الله الرحمن الرحیم.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری دوسری بیوی کے انتقال پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتوسل حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب راولپنڈی کے ایک تاجر صاحب کی سالی سے میرا رشتہ کرنا چاہا.مجھے یہ رشتہ پسند نہ تھا کیونکہ مجھے ان کے اقرباء اچھے معلوم نہ ہوتے تھے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ رشتہ پسند تھا.مگر اُن تاجر صاحب نے خود یہ بات اٹھائی کہ ان کی سالی بہنوئیوں سے پردہ نہ کرے گی اور سخت پردہ کی پابند نہ ہوگی.( میرے متعلق کہا کہ ) سنا جاتا ہے کہ نواب صاحب پردہ میں سختی کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے پاس میرے مکان پر خود تشریف لائے اور فرمایا کہ وہ یہ کہتے ہیں.میں نے عرض کی کہ قرآن شریف میں جو فہرست دی گئی ہے میں اس سے تجاوز نہیں چاہتا.آپ خاموش ہو گئے اور پھر اس رشتہ کے متعلق کچھ نہیں فرمایا اور وہ تاجر صاحب بھی چلے گئے.حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ بسم الله الرحمن الرحیم.حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو آپ نے اسی دوران میں لاہور سے خط لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو ایک دن کے لئے لاہور بلایا اور ان کے ساتھ میں بھی لاہور چلا گیا.جب مولوی صاحب حضرت صاحب کو ملنے گئے تو حضور انہیں اس برآمدہ میں ملے جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ کے مکان کا برآمدہ جانب سڑک تھا.میں یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت صاحب نے کوئی بات علیحدگی میں کرنی ہو ایک طرف کو ہٹنے لگا جس پر حضوڑ نے مجھے فرمایا.آپ بھی آجائیں.چنانچہ میں بھی حضور کے پاس بیٹھ گیا اس پر حضوڑ نے مولوی صاحب سے لنگر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں اس کی وجہ سے فکرمند ہوں کہ لنگر کی آمد کم ہے اور خرچ زیادہ اور مہمانوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے اور ان حالات کو دیکھ کر میری روح کو صدمہ پہنچتا ہے.اس ملاقات میں حضور نے مولوی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ میں لاہور میں یہ مہینہ ٹھہروں گا.یہاں ان دوستوں نے خرچ اٹھایا ہوا ہے.اس کے بعد میں کہیں اور چلا جاؤں گا اور قادیان نہیں جاؤں

Page 508

مضامین بشیر جلد سوم 486 گا.حضرت مولوی شیر علی صاحب فرماتے ہیں کہ اُس وقت میں یہ سمجھا کہ یہ جو حضوڑ نے قادیان واپس نہ جانے کا ذکر کیا ہے یہ غالباً موجودہ پریشانی کی وجہ سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ کچھ عرصہ کہیں اور گزار کر پھر قادیان جاؤں گا.مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ اس سے غالبا حضور کی مراد یہ تھی کہ میری وفات کا وقت آگیا ہے اور اب میرا قادیان جانا نہیں ہوگا.وَاللهُ أَعْلَمُ.حضرت منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی بِسْم الله الرحمن الرحيم منشی محمداسمعیل صاحب سیالکوٹی نے ( جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے برادر نسبتی تھے ) مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کا بچہ مبارک احمد فوت ہوا تو اس وقت میں اور محمد علی صاحب مسجد مبارک کے ساتھ والے کو ٹھے میں کھڑے تھے.اس وقت اندرون خانہ سے آواز آئی جو دادی کی معلوم ہوتی تھی کہ ہائے او میر یا بچی اس پر حضرت صاحب نے دادی کو سختی کے ساتھ کہا کہ دیکھو وہ تمہارا بچہ نہیں تھا.وہ خدا کا مال تھا.جسے وہ لے گیا اور فرمایا.یہ نظام الدین کا گھر نہیں ہے.منشی صاحب کہتے ہیں کہ انہی دنوں میں مرزا نظام الدین کا ایک عزیز فوت ہوا تھا جس پر ان کے گھر میں دنیا داروں کے طریق پر بہت رونا دھونا ہوا تھا.سو حضرت صاحب نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ میرے گھر میں یہ بات نہیں ہونی چاہئے.اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ کام بہت خراب ہو گیا ہے کیونکہ اس لڑکے کے متعلق حضرت صاحب کی بہت پیشگوئیاں تھیں اور اب لوگ ہمیں دم نہیں لینے دیں گے اور حضرت صاحب کو تو کسی نے پوچھنا نہیں.لوگوں کا ہمارے ساتھ واسطہ پڑتا ہے.مولوی صاحب یہ بات کر ہی رہے تھے کہ نیچے مسجد کی طرف سے ایک بلند آواز آئی جو نہ معلوم کس کی تھی کہ تریاق القلوب کا صفحہ چالیس نکال کر دیکھو.مولوی صاحب یہ آواز سن کر گئے اور تریاق القلوب کا نسخہ لے آئے.دیکھا تو اس کے چالیسویں صفحہ پر حضرت مسیح موعود نے مبارک احمد کے متعلق لکھا تھا کہ اس کے متعلق مجھے جو الہام ہوا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ یا تو یہ لڑکا بہت نیک اور دین میں ترقی کرنے والا ہوگا اور یا بچپن میں ہی فوت ہو جائے گا.مولوی صاحب نے کہا.خیر آب ہاتھ ڈالنے کی گنجائش نکل آئی ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادی سے مراد میاں شادی خاں صاحب مرحوم کی والدہ ہے جو مبارک احمد کی کھلائی تھی اور مبارک احمد اسے دادی کہا کرتا تھا.اس پر اس کا نام ہی دادی مشہور ہو گیا.بیچاری بہت مخلص اور خدمت گزار تھی.نیز خاکسار عرض کرتا ہے.مبارک احمد 1907ء میں فوت ہوا تھا جبکہ اس کی عمر کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی.

Page 509

مضامین بشیر جلد سوم مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب - 487 بسم الله الرحمن الرحیم.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں زیارت کی تو میرے دل میں اس وقت کسی قسم کے عقائد کی تنقید نہیں تھی جو اثر بھی میرے دل پر اس وقت ہوا وہ یہی تھا کہ یہ شخص صادق ہے اور جو کچھ کہتا ہے وہ سچ ہے اور ایک ایسی محبت میرے دل میں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈال دی گئی کہ وہی میرے لئے حضور علیہ السلام کی صداقت کی اصل دلیل ہوگئی.میں گو اس وقت بچہ ہی تھا لیکن اس وقت سے لے کر اب تک مجھے کسی وقت بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑی.بعد میں متواتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جو میرے ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوئے لیکن میں نے حضرت مسیح موعود ملیہ السلام کو آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر ہی مانا تھا اور وہی اثرات اب تک میرے لئے حضور کے دعاوی کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ میں 3 ستمبر 1904 ء کے دن سے ہی احمدی ہوں.بِسْمِ م الله الرحمن الرحیم.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شروع ستمبر 1904ء میں میرے والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ لاہور لے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن دنوں لاہور ہی میں تشریف رکھتے تھے.3 ستمبر کو آپ کا لیکچر میلا رام کے منڈوے میں ہوا.والد صاحب مجھے بھی اپنے ہمراہ وہاں لے گئے.میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال کی تھی لیکن وہ منظر مجھے خوب یاد ہے کہ مجھے سٹیج پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرسی کے قریب ہی جگہ مل گئی.اور میں قریباً تمام وقت آپ ہی کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتارہا.گو معلوم ہوتا تھا کہ میں نے لیکچر بھی توجہ سے سنا ہوگا یا کم سے کم بعد میں توجہ سے پڑھا ہوگا.کیونکہ اس لیکچر کے بعض حصے اس وقت سے مجھے اب تک یاد ہیں لیکن میری توجہ زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی طرف رہی.آپ ایک آرام کرسی پر تشریف فرما تھے اور ایک سفید رومال آپ کے ہاتھ میں تھا جوا اکثر وقت آپ کے چہرہ مبارک کے نچلے حصہ پر رکھا رہا.(ماہنامہ خالد جنوری 1958ء)

Page 510

مضامین بشیر جلد سوم 4 نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں جماعت کے تین خاص فریضے 488 نیا سال شروع ہو چکا ہے اور ہر نیا زمانہ لازماً اپنے ساتھ نئے مسائل اور نئی ذمہ داریاں لایا کرتا ہے.اسی لئے ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب نیا چاند دیکھو ( جو گردشِ زمانہ کی ظاہری علامت ہے ) تو خدا سے دعا کرو کہ وہ اس چاند سے شروع ہونے والے مہینہ کو تمہارے لئے مبارک کرے.اس ارشاد نبوی میں یہ اصولی اشارہ ہے کہ ہر نئے زمانہ اور ہر نئے دور کے آغا ز کو یونہی غفلت میں نہ گزار دیا کرو بلکہ آنے والے مسائل اور آنے والی ذمہ داریوں پر غور کر کے خدا تعالیٰ سے نصرت اور روشنی کے طالب ہوا کرو.سواب جب کہ ہماری انفرادی اور جماعتی زندگی کا بھی ایک نیا سال شروع ہورہا ہے ( بلکہ 12 جنوری سے تو یہ سال قیام جماعت اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی تاریخ ولادت کے لحاظ سے بھی نیا سال ہے ) ہمیں اسلام اور احمدیت کے لئے اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے لئے اور اپنے عزیز واقارب اور دوستوں کے لئے بلکہ ساری دنیا کے لئے خیر و خوبی اور افضال و برکات اور غلبہ صداقت کے لئے دعائیں کرتے ہوئے قدم رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے اپنی ازلی حکمت کے ماتحت زمانہ کو اس طرح تقسیم کر رکھا ہے کہ وہ ٹھسر وئیر اور سَراءَ وَ ضَرًّا اور نور وظلمت کے درمیان چکر لگاتارہتا ہے اور بسا اوقات پھولوں کی وادیوں تک پہنچنے کے لئے کانٹوں کے رستوں میں سے گزرنا پڑتا ہے.پس گو ہمیں خدائی وعدوں کے مطابق اسلام اور احمدیت کے آخری غلبہ اور جماعت کی عالمگیر ترقی کے متعلق کامل یقین ہے کہ قضاء آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا.لیکن ہم نہیں جانتے کہ درمیان کیا کیا مشکلات اور کیا کیا ابتلاء مقدر ہیں اور نئے سال کے متعلق تو بعض دوستوں کو ایسی خوا میں بھی آئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غالبا اس سال کے دوران میں بعض لحاظ سے بعض مشکلات اور امتحانوں کا سامنا ہونے والا ہے.بلکہ خود مجھے بھی 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات میں جو نئے سال کی پہلی رات تھی ایک زلزلہ کا نظارہ دکھایا گیا.اور گوخوابوں کی حقیقی تعبیر خدا ہی جانتا ہے لیکن اگر جماعت کے لئے کوئی امتحان در پیش ہے تو پھر بھی گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ہمارے خدائے قدیر و علیم کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ اپنی تقدیر کو بھی بدل سکتا ہے.جیسا کہ وہ خود قرآن مجید میں فرماتا ہے:

Page 511

مضامین بشیر جلد سوم اللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ (يوسف:22) یعنی خدا اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے اور اسے بدلنے کی طاقت رکھتا ہے 489 بلکہ اگر بالفرض کوئی تلخ تقدیر ایسی ہو جو کسی صورت میں بھی ملنے والی نہ ہو تو پھر بھی اللہ تعالیٰ اس کے پیچھے اپنی کوئی شیریں تقدیر لا کر پیش آمدہ غم اور صدمہ کا ازالہ فرما سکتا ہے.جیسا کہ وہ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے کہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً (الم نشرح : 7) یعنی خدا نے اپنے نیک بندوں کے لئے ہر تنگی کے ساتھ فراخی مقدر کر رکھی ہے.اور اس کی تشریح میں مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ہر بلا کیں قوم را حق داده اند آں اند زیر آن گنج کرم بنهاده یعنی ہر ابتلاء جو خدا اپنے بندوں کے لئے مقدر کرتا ہے اس کے نیچے اس نے اپنے فضلوں اور نعمتوں کا ایک بڑا خزانہ چھپارکھا ہوتا ہے.پس خدا کی رحمت و قدرت پر بھروسہ کرتے ہوئے مجھے خوابوں کی وجہ سے تو زیادہ فکر نہیں کیونکہ جو خدا کوئی منذ رخواب دکھا سکتا ہے وہ اسے مٹا بھی سکتا ہے.اور نہ مٹنے کی صورت میں اس کے ازالہ کا کوئی اور رستہ بھی کھول سکتا ہے.مگر ضروری ہے کہ ہم سنت نبوی کے مطابق اپنے پیش آمدہ مسائل اور حالات اور ہر قسم کے امکانی خطرات کا جائزہ لے کر اور کمر ہمت کس کر اصلاح وارشاد اور صبر وصلوٰۃ کے عزم کے ساتھ نئے سال میں قدم رکھیں اور اسی غرض سے میں یہ نوٹ لکھ رہا ہوں.مگر میں اس جگہ کسی تفصیل میں نہیں جاؤں گا اور جائزہ کے سوال کو بھی میں ہر مخلص اور تدبر کرنے والے احمدی کے غور وفکر پر چھوڑتا ہوں.اور صرف نہایت اختصار کے ساتھ ان چند باتوں کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں جن کی طرف اس وقت خاص توجہ کی ضرورت ہے.کاش میرے بزرگ اور میرے دوست اور میرے عزیز ان باتوں کی اہمیت کو سمجھیں اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ان کی طرف توجہ دیں ورنہ وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ وَ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيل- (1) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس وقت جماعت کا نوجوان طبقہ اور خصوصاً وہ طبقہ جونسلی احمدی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلیفہ وقت کے ساتھ براہ راست پیوندی جوڑ نہیں رکھتا اور گویا صرف تخمی رشتہ کا حامل ہے.اس کا ایک حصہ بعض کمزوریوں میں مبتلا ہے اور اسے اخلاص اور عملِ صالح میں وہ مقام حاصل نہیں جو خدا تعالیٰ کی نصرت کا جاذب ہوا کرتا ہے.اور نہ ہی یہ طبقہ غیر از جماعت لوگوں ( یعنی

Page 512

مضامین بشیر جلد سوم 490 غیر احمدیوں اور غیر مسلموں ) کے لئے کسی کشش کا موجب ہے.اس کا جماعت کے مخصوص عقائد اور جماعت کے مرکز اور خلیفہ وقت کے ساتھ نسبتا بہت کم تعلق ہے.اور وہ اعتراض کی طرف جلدی جھک جاتا ہے اور اس کا چرچہ کرنے لگ جاتا ہے.بے شک کئی نسلی احمدی بھی اخلاص اور عمل صالح اور روحانیت اور قربانی میں بہت اچھا مقام رکھتے ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ بعض نوجوانوں کی فدائیت اور للہیت میرے لئے رشک کا موجب ہے.مگر دوسری طرف کمزور طبقہ کی کمزوری ہر وقت طبیعت میں بے چینی کی کیفیت رکھتی ہے.اس کمزوری کے کئی اسباب ہیں مگر زیادہ ذمہ داری ایسے نوجوانوں کے والدین اور مقامی جماعتوں کے صدر صاحبان اور امراء صاحبان پر ہے جنہوں نے ان کی تربیت کی طرف پوری توجہ نہیں دی.اور ان کے اندر اسلام اور احمدیت کی روح داخل کرنے میں غفلت سے کام لیا ہے.نمازوں میں ستی ، چندوں میں سستی، مرکز کے ساتھ وابستگی میں کمی بلکہ اعتراض کرنے میں جلدی اور جماعت کے محاسن کو دوسروں تک پہنچانے میں بے اعتنائی وغیرہ وغیرہ.ایسی کمزوریاں ہیں جو نو جوان طبقہ اور خصوصاً نسلی احمدیوں کے ایک حصہ میں سرایت کر رہی ہیں.اور دوسری طرف فوجی احمدیوں کا ایک حصہ اپنی بیویوں کو بے پر دکر کے فیشن کی اتباع میں گویا خوشی محسوس کرتا ہے.حالانکہ فوجی لوگ بہادر سمجھے جاتے ہیں اور بہادر لوگوں کو خلاف اسلام تحریکات کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے شرم محسوس ہونی چاہئے.بیشک پرانا پردہ بھی جس میں عورت گویا قیدیوں کی طرح محصور ہو کر گھر کی چار دیواری میں بند رکھی جاتی تھی خلاف اسلام تھا.مگر اس کے مقابل پر موجودہ بے پردگی جس میں عورت اپنی جسمانی اور لباسی زینت کو عریاں کر کے مردوں میں بے حجابانہ ملتی جلتی ہے اس سے بڑھ کر خلاف اسلام ہے.پس نئے سال کے ابتداء میں میری سب سے پہلی پکار یہ ہے کہ اس سال کے دوران میں احمدی والدین اور احمدی پریزیڈنٹ صاحبان اور احمدی سیکرٹریان تربیت اور احمدی امراء مقامی و امراء ضلعوار وصوبه وار اس بات کا خدا کے حضور پختہ عہد کریں کہ وہ احمدی نوجوانوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں گے.میرے عزیز و اور دوستو دیکھو اور سمجھو کہ خدا تعالیٰ کو ظاہر سے کوئی غرض نہیں.وہ تو حقیقت کو دیکھتا ہے اور اسی کے مطابق تم سے سلوک کرے گا.پس صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور سیدھے ہو جاؤ.اور اس عہد کو پورا کرو جو تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان پر خدا کے ساتھ باندھا ہے.یعنی یہ کہ: میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا“ کیا نماز میں سستی اور خدا کی یاد میں کوتاہی کرنے والا دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا اعانت

Page 513

مضامین بشیر جلد سوم 491 اسلام اور اعانت احمدیت کے لئے چندوں سے غافل رہنے والا اور اپنی ساری آمدن اپنے نفس پر یا عزیزوں پر خرچ کرنے والا دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیوند میں اور خلیفہ وقت اور مرکز کے تعلق میں کمزوری دکھانے والا دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا ہر وقت اپنے مادی مفاد کی فکر میں غرق رہنے والا اور اپنا تمام وقت دنیا کے دھندوں میں گزارنے والا دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا اعتراض کی طرف جلد ہی جھک جانے والا اور ان اعتراضوں کا ادھر اُدھر چرچا کرنے والا دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا تجارت اور لین دین کے معاملات میں خیانت کا طریق اختیار کرنے والا دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا اپنی اولاد کی دینی تربیت کی طرف بے توجہی برتنے والا دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے؟ ہرگز نہیں.کیا اپنی بیوی کو بے پردگی کی طرف مائل کرنے والا اور فیشن کی خاطر قرآن وحدیث کے احکام کو پس پشت ڈالنے والا دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے؟ ہرگز نہیں.مگر اے احمدی والدین اور احمدی صدر صاحبان اور اے احمدی امراء! خدا کے لئے غور کرو کہ کیا آپ کے زیر تربیت نوجوانوں کا ایک طبقہ ان کمزوریوں میں مبتلا نہیں؟ پس اس سال کے پروگرام کا ایک اہم حصہ یہ ہونا چاہئے کہ جو کمزوری بعض احمدی نوجوانوں میں پیدا ہو رہی ہے اسے خاص توجہ اور خاص کوشش کے ساتھ اور خاص نگرانی کے ماتحت دور کیا جائے.احمدی والدین اور احمدی پریذیڈنٹ صاحبان اور احمدی امراء سب کے سب بیدار اور چوکس ہو کر اور ایک پروگرام بنا کر اس کوشش میں لگ جائیں کہ احمدی نو جوانوں کا کمز ور حصہ اپنی کمزوری کو ترک کر کے اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا ایسا نمونہ بن جائے جو دوسروں کے لئے کشش کا موجب ہو اور دنیا ان کے چہروں میں خدا کا نور دیکھے.اور ان کی نیکی خدائی نصرت کی جاذب بن جائے.اور وہ اپنے کمزور نمونہ کی وجہ سے جماعت کی ترقی میں روک نہ بنیں.بلکہ نیک نمونہ بن کر اس کی ترقی کو تیز سے تیز تر کرنے والے ثابت ہوں.آمین اللهم آمین.(2) دوسرا امر جو اس سال خاص بلکہ خاص الخاص توجہ چاہتا ہے یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف پھر غلط فہمیوں کا ایک وسیع جال پھیلایا جارہا ہے.جس کی وجہ سے ملک کا معتد بہ حصہ جماعت کے خلاف طرح طرح کی بدگمانیوں میں مبتلا ہو کر دن رات زہر فشانی میں مصروف ہے اور یہ معاندانہ رویہ صرف مولوی طبقہ تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک کے ہر طبقہ کا ایک حصہ اس ناپاک ہولی میں اپنے ہاتھ رنگ رہا ہے.تاجر، صناع ، زمیندار، ملازم پیشہ افراد، اخباروں کے ایڈیٹر ، عالم و جاہل ، غریب اور امیر، مزدور اور سرمایہ دار وغیرہ وغیرہ سب جماعت احمدیہ کے عقائد اور نظریات اور طریق کار کو غلط رنگ میں پیش کرنے اور جماعت کو

Page 514

مضامین بشیر جلد سوم 492 بدنام کرنے اور اور جماعت کی بے نظیر اسلامی خدمات کو تخفیف کی نظر سے دیکھنے میں گویا لذت اور فخر محسوس کرتے ہیں.میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملک کا ہر فرد اس مرض میں مبتلا ہے.کیونکہ بلاشبہ ملک کے ہر طبقہ میں ایک حصہ ایسا موجود ہے جو شرافت اور انصاف کے مقام پر قائم ہے اور بعض عقائد میں اختلاف کے باوجود جماعت کے معاملہ میں بے انصافی کی طرف نہیں جھکتا.بلکہ جماعت کی اسلامی خدمات کی وجہ سے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اس کے محاسن کی بر ملا تعریف کرتا ہے اور اس کا اعتراف نہ کرنا یقیناً ناشکری ہو گی مگر عوام الناس کا قریباً قریباً وہی حال ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا.یعنی یہ کہ اکثر لوگ احمدیت کی مخالفت میں یکساں رنگین نظر آتے ہیں اور مولویوں یا اخبار نویسوں یا آتش زیر پا مقرروں کی طرف سے اکسائے جانے پر اس طرح بھڑک اٹھتے ہیں جس طرح کہ ایک خشک لکڑی دیا سلائی دکھانے پر شعلہ زن ہونے لگتی ہے.اور ضروری تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ قرآن مجید وضاحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ: يحَسُرَةٌ عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وُنَ (يس:31) یعنی اے افسوس ان لوگوں پر کہ ہماری طرف سے ان کے پاس کوئی پیغامبر ایسا نہیں آتا کہ وہ ہمارے بندے ہونے کے باوجود اس کی مخالفت میں ہنسی ٹھٹھا نہ کرنے لگ جاتے ہوں.یہ مخالفت ایک طرف تو منکروں کے لئے امتحان اور ابتلاء کا سامان مہیا کرتی ہے کیونکہ وہ ان حالات میں خاص قربانی کے بغیر حق کی طرف قدم اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتے اور دوسری طرف یہ مخالفت ماننے والوں کو بیدار رکھنے اور حق کی اشاعت میں زیادہ سے زیادہ جد و جہد کرنے کی طرف توجہ دلاتی رہتی ہے.کیونکہ گو خدائی مرسلوں کے آخری غلبہ کے متعلق قرآن مجید حتمی وعدہ فرماتا ہے ( کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب ہوں گے ) مگر کوئی سچا مومن اس بات کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتا کہ آخری غلبہ سے پہلے درمیانی طوفانوں کا آنا بھی ناگزیر ہے.اور ان طوفانوں کے نتیجہ میں غلبہ کا وقت پیچھے پڑسکتا ہے اور قومیں بھی بدل جایا کرتی ہیں.پس ضروری ہے کہ موجودہ خطرات کا جائزہ لے کر اس زہر کا ازالہ کیا جائے جو اس وقت جماعت احمدیہ کے خلاف پیدا کیا جا رہا ہے اور یہ ازالہ دو طرح سے ہو سکتا ہے: (الف) جو غلط فہمیاں جماعت کے متعلق پیدا کی جارہی ہیں خواہ وہ عقائد سے تعلق رکھتی ہوں یا جماعتی تنظیم سے یا جماعت کے طریق کار سے انہیں صحیح حالات بتا کر اور صحیح تشریحات پیش کر کے دور کیا جائے.مثلاً ( اور میں یہ صرف مثال کے طور پر بیان کر رہا ہوں ) کہا جاتا ہے کہ خاکش بدہن جماعت احمدیہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ( فدا نفسی ) کی ختم نبوت کی منکر ہے یا یہ کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ نے لا الهَ

Page 515

مضامین بشیر جلد سوم 493 إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کو چھوڑ کر کوئی اور کلمہ بنا رکھا ہے.یا یہ حاشا و کلا جماعت احمد یہ خدا کے رسولوں اور دوسرے پاک لوگوں کی ہتک کرتی ہے.یا یہ کہ جماعت کا موجودہ مرکز ربوہ گویا ایک ممنوعہ بستی ہے جس میں کسی غیر کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی.یا یہ کہ جماعت نے ایک لایعنی تنظیم قائم کر رکھی ہے جو حقیقتا مملکت اندر مملکت کا رنگ رکھتی ہے.یا یہ کہ جماعتی تنظیم کے توڑنے والوں کو ایسی سزائیں دی جاتی ہیں جو اسلامی تعلیم اور انسانی حقوق کے منافی ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ سب باتیں جماعت کی طرف سے بار بار تردید کئے جانے کے باوجود ہمارے خلاف نہایت ڈھٹائی کے ساتھ دہرائی جا رہی ہیں.اس لئے ضرورت ہے کہ جماعت کے تمام مربی اور معلم اور مقامی امراء اور ضلعوا امراء اور دیگر ذمہ دارا حباب بلکہ تمام دوست اس بات کا عہد کریں کہ وہ اس سال بیش از پیش توجہ اور وضاحت اور تعین اور تکرار کے ساتھ ان غلط فہمیوں کو دور کر کے جماعت کی مخالفانہ فضاء کو صاف کرنے کی کوشش کریں گے.اور جب اس مکدر فضاء کے بادل چھٹیں گے تو طبعا صداقت کا آفتاب زیادہ نمایاں ہو کر نظر آنے لگے گا.(ب) موجودہ کمزوری کو دور کرنے اور موجودہ خطرات کا سد باب کرنے کا دوسرا مؤثر طریق یہ ہے کہ خاص جد و جہد کے ساتھ جماعت احمدیہ کے محاسن اور جماعت کی اسلامی خدمات اور جماعت کے مخصوص نظریات اور عقائد کی درستی کو پختہ دلائل اور روشن براہین کے ذریعہ لوگوں پر ثابت کیا جائے.یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ لوگ کسی صداقت سے صرف اس وقت تک دور رہتے ہیں جب تک کہ ان تک یا تو صداقت کا پیغام پہنچتا ہی نہیں اور یا پہنچتا تو ہے مگر ایسے کمزور اور بے اثر رنگ میں پہنچتا ہے کہ ان پر صداقت کی حقیقت اور اہمیت اچھی طرح واضح نہیں ہوتی.اسی لئے قرآن مجید فرماتا ہے کہ: أدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: 126) یعنی لوگوں کو خدا کے رستے کی طرف ایسے رنگ میں بلاؤ کہ وہ پختہ دلائل اور خشیتہ اللہ کی اپیل سے معمور ہو اور اگر کبھی حق کی دعوت میں منکروں کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا پڑے تو اس کام کو بہترین صورت اور دلکش رنگ میں انجام دو.اوپر کے بیان میں فقرہ الف تو منفی نوعیت کا ہے جس سے مراد جماعت احمدیہ کے متعلق ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہے جو حق کی شناخت میں روک بن رہی ہیں.اور فقرہ بے مثبت نوعیت کا ہے جس سے احمدیت کی دلکش تعلیم اور اس کی بے نظیر اسلامی خدمات کو احسن طریق پر پیش کرنا مراد ہے.تا کہ جہاں ایک طرف لوگوں

Page 516

مضامین بشیر جلد سوم 494 کے دلوں کا زنگ صاف ہو.وہاں دوسری طرف ان کے دل نورانی صیقل کے ذریعہ روشن ہوتے چلے جائیں.اور یہی وہ دوطریق ہیں جو روحانی مصلحوں نے ہمیشہ استعمال کئے ہیں.پس جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ خاص توجہ کے ساتھ ان دونوں طریقوں کو استعمال کر کے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے دن کو قریب سے قریب ترلے آئے.اس غرض کے لئے ان دوسکیموں پر زور دینا نہایت ضروری ہے جو خدائی نصرت کے ماتحت گزشتہ سال کے آخر اور اس سال کے شروع میں جاری کی گئی ہیں.ان میں سے ایک سکیم وقف جدید کی ہے جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جاری فرمائی ہے.جس میں وقف کی وسیع سکیم کے ساتھ ساتھ اس کام کو چلانے کے لئے کم از کم چھ روپے فی کس چندہ کی بھی تحریک کی گئی ہے.اس سکیم کی غرض و غایت کے ماتحت مغربی پاکستان کے طول و عرض میں ارشاد و اصلاح کا ایک وسیع پیغام مرتب کیا گیا ہے.اور دوسری سکیم وہ ہے جو حضرت خلیفہ اسیح کی منظوری سے محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جلسہ سالانہ کے موقع پر پیش کی تھی.جس کا مقصد ربوہ کے ماحول کی اصلاح ہے.خدا کے فضل سے یہ دونوں سکیمیں بہت ضروری اور اپنے نتائج کے لحاظ سے نہایت مبارک اور بہت دور رس ہیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ اس سال کے پروگرام میں ان دونوں سکیموں کو خصوصیت کے ساتھ مدنظر رکھیں اور انہیں کامیاب بنانے کے لئے پوری پوری جد و جہد اور انتہائی قربانی سے کام لیں.ان سکیموں کی تفصیل الفضل میں بار بار آچکی ہے اور اس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں.خلاصہ کلام یہ کہ اب جبکہ نیا سال شروع ہو رہا ہے.دوستوں کو چاہئے کہ اپنے حالات اور خطرات کا پورا پورا جائزہ لے کر ایک طرف تو اپنے نو جوانوں کی اصلاح کے متعلق خاص توجہ دیں.تا کہ وہ صرف نسلی یعنی نام کے احمدی نہ رہیں بلکہ حقیقی احمدی بن کر اسلام اور احمدیت کے حق میں گویا ایک زبردست مقناطیس بن جائیں.جو نہ صرف خود پاک ہو بلکہ دوسروں کو بھی اپنے پاک نمونہ سے اپنی طرف کھینچتا چلا جائے اور دوسری طرف وہ احمدیت کے متعلق بے بنیاد غلط فہمیوں کو دور کر کے احمدیت کے دلکش نقوش اور اس کی اسلامی خدمات کو لوگوں تک اس طرح پہنچا ئیں کہ ملک کی فضاء خدائی نور سے معطر ہو جائے.اور ہر شخص عہد کرے کہ میں نے اوپر کی دوسکیموں کو کامیاب بنا کر دم لینا ہے.إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (الحج:71) تیسری بات یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر کی صحت اور کام کی طاقت اور توانائی کی پوری پوری بحالی کے واسطے خاص طور پر دعا کی جائے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے احسان کو

Page 517

مضامین بشیر جلد سوم 495 شناخت کرنے کے لئے اس بات پر غور کرنا کافی ہے کہ حضور نے اپنی خلافت کے آغاز میں جماعت کوکس کمزوری اور بے بسی کی حالت میں پایا اوراب وہ خدا کے فضل سے کس وسعت اور کس کثرت اور کس طاقت کو پہنچ چکی ہے.پس اب جبکہ حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی بیماری اور کمزوری کی وجہ سے اپنی طاقت میں طبعا کمی اور انحطاط محسوس فرماتے ہیں تو یہ انتہا درجہ کی بے وفائی ہوگی کہ جماعت جس نے حضور کے ہاتھ سے ہزار ہاشیریں قاشیں کھائی ہیں حضور کی عمر کے اس حصہ میں حضور کے لئے دعا کرنے اور حضور کے متعلق دردمند ہونے میں غفلت برتے.پس اس سال کی تیسری اپیل میری یہ ہے کہ جماعت کے مخلصین حضرت خلیفہ امیج ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کے لئے دعا کرنے اور صدقہ و خیرات اور صوم وصلوٰۃ کے ذریعہ اس دعا کو تقویت دینے کی طرف بیش از پیش توجہ دیں.جماعت کا حال اور جماعت کا مستقبل اس وقت خاص بلکہ خاص الخاص توجہ اور دعاؤں کا متقاضی ہے.اور بدقسمت ہے وہ انسان جو اس نازک وقت کو غفلت میں گزار دے.خدا کرے کہ ایسا نہ ہو اور خدا کرے کہ میری یہ درمندانہ اپیل ہمارے بھائیوں کے دلوں میں اثر پیدا کرے.اور احمدی والدین اور احمدی صدر صاحبان اور احمدی امراء صاحبان سب یک جان ہو کر ایک طرف اصلاح وارشاد اور دوسری طرف دعاؤں میں لگ جائیں.امِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِين وَآخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ نوٹ: یہ مضمون میں نے جنوری کے آغاز میں شروع کیا تھا مگر اعصابی تکلیف اور احساس بے چینی کی وجہ سے اسے جلد ختم نہیں کر سکا بلکہ آہستہ آہستہ لکھ کر اور اوپر تلے کئی دنوں کا ناغہ کر کے قریباً ایک ماہ میں آج ختم کیا ہے اور پھر بھی وہ میری خواہش کے مطابق مکمل نہیں ہوا.حالانکہ صحت کے زمانہ میں ایسا مضمون قریباً ایک گھنٹہ میں لکھ لیا کرتا تھا.لہذا اپنے لئے بھی دوستوں سے دعاؤں کی درخواست کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے آخر عمر تک یعنی: زاں پیشتر که بانگ برآید فلاں نماند خدمت دین کی توفیق دیتا ر ہے اور میری کمزوریوں کو معاف فرمائے اور انجام بخیر ہو.(محررہ 5 فروری 1958ء) روزنامه الفضل ربوہ 8 فروری 1958ء)

Page 518

مضامین بشیر جلد سوم 6 ایک نہایت مبارک تصنیف 496 ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان نے کچھ عرصہ ہوا اصحاب احمد کی چوتھی جلد شائع کی ہے.یہ جلد حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کپورتھلوی کی روایات پر مشتمل ہے.حضرت منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین صحابہ میں سے تھے اور اول درجہ کے فدائی اور مخلص تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی انہیں گویا اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے.اس لحاظ سے یہ مجموعہ نہایت درجہ قابل قدر اور روحانیت سے معمور ہے.میں نے جب اسے پڑھنا شروع کیا تو اسے چھوڑ نہیں سکا جب تک کہ ختم نہیں کر لیا اور اس کے بعد بھی کئی دفعہ پڑھا ہے.ان روایات کو پڑھ کر انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں پہنچ گیا ہے.اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلیٰ اور ارفع اخلاق کے علاوہ اس بات پر بھی بھاری روشنی پڑتی ہے کہ اپنے صحابہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیسا مشفقانہ سلوک تھا اور حضور کے صحابہ حضور کے ساتھ کس قسم کا فدائیانہ اور محبانہ رنگ رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ اخویم شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ لائل پور کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے اپنے والد صاحب مرحوم کی روایات کا یہ مجموعہ مرتب کر کے جماعت پر ایک احسان کیا ہے.اور ملک صلاح الدین صاحب کو بھی جزائے خیر دے کہ جنہوں نے اس مجموعہ کی اشاعت کا انتظام کیا ہے.امید ہے جماعت کے دوست اس رسالہ کو پڑھ کر بہت فائدہ اٹھائیں گے.یہ رسالہ مردوں، بچوں اور عورتوں کے لئے یکساں مفید ہے.ہمارے بھائی اور بہنیں اور عزیز اسے ضرور مطالعہ کریں.روزنامه الفضل ربوہ 13 فروری 1958ء) براہمن بڑی ( مشرقی پاکستان ) کے سالانہ جلسہ پر پیغام مجھے معلوم ہوا ہے کہ برہمن بڑیہ میں مورخہ 16 و 17 فروری 1958ء کو اس علاقہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا ہے اور اس موقع پر مجھ سے ایک مختصر پیغام کی خواہش کی گئی ہے.سو میرا پیغام یہی ہے کہ اے احباب جماعت ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس نعمت سے نوازا ہے جس کا تیرہ سوسال سے اسلام میں انتظار کیا جار ہا تھا.اور جس کی بشارت ہمارے آقا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے بڑے شاندار الفاظ میں دی تھی اور اس زمانہ کو اسلام کے دور ثانی کا زمانہ قرار دیا تھا.پس آپ اس نعمت کی قدر کریں اور اسے

Page 519

مضامین بشیر جلد سوم 497 اپنے نفسوں میں جاری کرنے اور دوسروں تک پہنچانے میں انتہائی جدو جہد سے کام لیں تا کہ قیامت کے دن آپ لوگوں کے نزدیک سرخرو ہوں.بنگال کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کا ذکر خدا تعالیٰ کے الہام میں آیا ہے.اور پھر برہمن بڑیہ کے ایک مرحوم بزرگ کا ذکر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تصنیفات میں موجود ہے.پس آپ لوگوں پر ڈہری ذمہ داری ہے کہ نہ صرف خود اس تعلیم کا نمونہ بنیں جو اسلام کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے.بلکہ دوسروں تک بھی اس تعلیم کو پہنچانے کی کوشش کریں.تا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کو قریب لانے میں مددگار بن جائیں جو اس زمانہ کے لئے مقدر ہو چکی ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.آپ کے اس جلسہ کو مبارک کرے اور اس کے بہترین نتائج پیدا فرمائے.آمین روزنامه الفضل ربوه 26 فروری 1958ء) ”پیغام صلح کی افسوسناک ذہنیت اسلم پرویز کے اعتراضات کا اصولی جواب میں نے الفضل مؤرخہ 8 فروری 1958 ء میں ایک مضمون ” نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں“ کے عنوان کے ماتحت لکھا تھا.جس میں جماعت کے نوجوانوں کو اصلاح کی طرف توجہ دلانے کے علاوہ اس بات کی بھی تحریک کی گئی تھی کہ جماعت کے متعلق جو غلط فہمیاں آج کل غیر از جماعت مخالفوں کی طرف سے بیش از پیش تکرار اور اصرار کے ساتھ پھیلائی جارہی ہیں ان کے ازالہ کی طرف خاص توجہ دی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ میں نے دعاؤں کی بھی تحریک کی تھی.میرا یہ مضمون خالصتاً اصلاح وارشاد کی نوعیت کا تھا.تاکہ جماعت کے اندر اور باہر اچھی فضاء پیدا ہو اور صداقت کی پُر امن اشاعت کا رستہ کھلے.مگر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے اخبار ”پیغام صلح مؤرخہ 5 مارچ 1958 ء میں ایک غیر معروف شخص محمد اسلم صاحب پرویز ایم.اے نہرو پارک لاہور کا ایک مضمون پڑھا جو میرے مذکورہ بالا مضمون کے جواب میں لکھا گیا ہے.اول تو میرا مضمون ہرگز ایسی نوعیت کا نہیں تھا جس کے جواب میں پیغام صلح یا اس کے کسی نامہ نگار کو جواب کی ضرورت محسوس ہوتی.میر امضمون اصلاحی نوعیت کا تھا.جس میں نہ تو اہل پیغام کا کوئی ذکر تھا اور نہ

Page 520

مضامین بشیر جلد سوم 498 ان کی طرف کوئی اشارہ تھا.بلکہ اگر ایڈیٹر صاحب پیغام صلح یا ان کے نامہ نگار اسلم پرویز تقویٰ اور انصاف سے کام لیتے تو یہ مضمون ایسا تھا کہ انہیں اس کی تائید میں آواز اٹھانی چاہئے تھی نہ کہ اس کے خلاف.دوسرے جس رنگ میں اسلم صاحب نے یہ مضمون لکھا ہے وہ ( مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ) تقویٰ اور خشیت اللہ تو کجا معمولی عقل اور شرافت کے معیار سے بھی گرا ہوا ہے.کیونکہ وہ اول سے لے کر آخر تک یا تو سراسر لاتعلق باتوں سے بھرا ہوا ہے یا اس میں ایسے ناپاک طعن وتشنیع سے کام لیا گیا ہے جسے سپر د قلم کرنا تو در کنار ایک شریف انسان کو اس کے پڑھنے میں بھی شرم محسوس ہونی چاہئے.مضمون کا عنوان یہ رکھا گیا ہے کہ قادیانی منجھلے میاں کا مجوزہ لائحہ عمل گویا بسم الله ہی ایک شرمناک طعن سے شروع کی گئی ہے.اور اسلم صاحب نے یہ محاورہ اپنے مضمون میں بار بارڈ ہرایا ہے اور بعض جگہ استہزاء کے رنگ میں ” منجھلے میاں“ کے الفاظ کو کاموں کے اندر رکھ کر اسے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے.یہ وہ الفاظ ہیں جن میں حضرت ام المومنین نوراللہ مرقدھا مجھے اکثر پیار کے رنگ میں پکارا کرتی تھیں.میں نہیں جانتا کہ یہ اسلم پرویز کون ہیں لیکن اگر وہ احمدی کہلاتے ہیں تو انہیں حضرت ام المومنین مغفورہ مرحومہ کے محبت والے کلام کو استہزاء کے رنگ میں استعمال کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے تھی.اور میری طرف سے ان کے اس استہزاء کا یہ جواب کافی ہے جو اس قرآنی آیت میں اصولی طور پر بیان کیا گیا ہے کہ: إِذَا جَاءَ كَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكَذِبُونَ (المنافقون:2) جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلم پرویز صاحب نے جو الفاظ میرے متعلق استعمال کئے ہیں وہ گو واقعہ کے لحاظ سے درست ہیں مگر پھر بھی خدا کے نزدیک اسلم صاحب جھوٹے ہیں.کیونکہ انہوں نے یہ الفاظ دل سے نہیں کہے بلکہ تمسخر اور مذاق کے رنگ میں استعمال کئے ہیں.میں نے اسلم پرویز صاحب کی یہ بات ان کی گندی ذہنیت کے اظہار کے لئے صرف مثال کے طور پر بیان کی ہے ورنہ ان کا مضمون اول سے لے کر آخر تک نہایت گندے طعن وتشنیع سے بھرا پڑا ہے.اور سنجیدگی اور خدا ترسی اور شرافت کے جذبہ سے اس طرح خالی ہے جس طرح ایک اجڑا ہوا مکان مکین سے خالی ہوتا ہے اور وہ لغویات کے ایک نا پاک طومار سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.اس لئے اس کے جواب میں میرے لئے ہمارے آسمانی آقا کی یہ ہدایت بس ہے کہ : الَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون:4)

Page 521

مضامین بشیر جلد سوم 499 یعنی سچے مومنوں کو لغویات میں الجھنے سے پر ہیز کرنا چاہئے.اور دوسری جگہ قرآن فرماتا ہے وَّاذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمًا (الفرقان (64) یعنی جب کوئی شخص کسی مومن کو جہالت کے خطاب سے مخاطب کرے جس میں کوئی سنجیدگی یا خیر کی بات نہ ہو تو اس کے جواب میں سلام کہہ کر الگ ہو جانا چاہئے.البتہ اسلم پرویز صاحب نے بعض باتیں ایسی لکھی ہیں جن کے متعلق غیرت کا تقاضا ہے کہ ان کی حقیقت ظاہر کی جائے.یا وہ ایسی باتیں ہیں کہ ان کے متعلق نا واقف لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان ہے جو دور ہونی چاہئے.سب سے پہلی بات اسلم پرویز صاحب نے یہ کہی ہے کہ میرے مضمون میں تضاد پایا جاتا ہے.یعنی ایک طرف تو میں جماعت کے ایک حصہ کی کمزوریاں گنا تا ہوں اور انہیں اصلاح کی تلقین کرتا ہوں اور دوسری طرف یہ لکھتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی قیادت میں جماعت نے وسعت اور کثرت وغیرہ کے لحاظ سے غیر معمولی ترقی کی ہے.اور اسلم پرویز صاحب کے نزدیک یہ دونوں باتیں متضاد ہیں.مجھے افسوس ہے کہ اسلم پرویز نے ایم.اے تو پاس کر لیا مگر وہ اتنی معمولی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ جماعت کے ایک حصہ میں (میں نے اس تعلق میں خصوصیت کے ساتھ نسلی احمدیوں کے نوجوان طبقہ کا ذکر کیا تھا اور ” ایک حصہ کا لفظ بھی نمایاں طور پر لکھا تھا ) بعض کمزوریوں کا پایا جانا بالکل اور شے ہے اور بحیثیت مجموعی تعداد کی ترقی اور تبلیغی مساعی میں ترقی اور مالی قربانی میں ترقی اور کثیر حصہ کے اخلاص میں ترقی بالکل اور چیز ہے.اسے سمجھنے کے لئے صرف اس بات کا دیکھنا کافی ہے کہ جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایده اللہ خلیفہ بنے تو اس وقت خود غیر مبایعین کے دعوے کے مطابق جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ غیر مبائعیین کے ساتھ تھا.مگر اب وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ جماعت کی بھاری اکثریت ان کے خلاف اور مبایعین کے ساتھ ہے.اور چندوں کا یہ حال ہے کہ جب جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے قادیان چھوڑ کر لاہور آگئے تو اس وقت انجمن کے خزانے میں صرف چند گنتی کے روپے تھے.مگر اب خدا کے فضل سے جماعت کا مجموعی بجٹ پچیس لاکھ روپے سے اوپر ہوتا ہے اور ہماری بیرونی تبلیغ کی وسعت تو ظاہر وعیاں ہے کہ قریباً ساری آزاد دنیا میں تبلیغ اسلام کا ایک نہایت وسیع سلسلہ جاری ہے.پس میری طرف سے جماعت کے کمزور حصہ کو اصلاح کی طرف توجہ دلانا جماعت کی بحیثیت مجموعی ترقی کے ہرگز ہرگز خلاف نہیں.اور غالباً اسلم پرویز کے سوا کوئی ہوش و حواس رکھنے والا انسان ان دونوں باتوں کو متضاد خیال نہیں کر سکتا.اس لئے میں اسلم صاحب کے متعلق یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بریں عقل و دانش باید گریست.کاش پیغام صلح کے ایڈیٹر صاحب ہی

Page 522

مضامین بشیر جلد سوم 500 پرویز صاحب کے اس مضمون پر جو لا تعلق بھی ہے اور دل آزار بھی حق ایڈیٹری استعمال کر کے اسے کاٹ دیتے یا اس کی اصلاح کر دیتے.اسلم پرویز صاحب کو میرے خلاف ایک شکایت یہ ہے کہ میں خود بہت سی کمزوریوں میں مبتلا ہوں.جس پر بقول اسلم صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کئی دفعہ مجھے تو بیخ فرما چکے ہیں وغیرہ وغیرہ.میں اپنے اصلاحی مضمون کے ساتھ اسلم صاحب کے اس اعتراض کا کوئی جوڑ نہیں سمجھ سکا اور نہ میں نے غلطیوں سے پاک ہونے کا دعوی کیا ہے.بلکہ اگر اسلم صاحب کھلی آنکھ سے دیکھتے تو میرے مضمون کے نیچے خاکسار راقم آثم“ کے الفاظ ہی ان کی ہدایت کے لئے کافی تھے کہ میں اپنے آپ کو ایک کمزور انسان سمجھتا ہوں.مگر اس بات کا کیا علاج ہے کہ بغض میں اچھے بھلے لوگوں کی آنکھیں بھی اندھی ہو جایا کرتی ہیں.اگر بقول اسلم پرویز حضرت خلیفۃ اسی اثنی ایدہ اللہ نے مجھے کس معاملہ میں تنبیہ فرمائی تو وہ امام بھی ہیں اور بڑے بھائی بھی.انہیں ہر طرح اس کا حق ہے.حضرت خلیفتہ امیج ایدہ اللہ کی تنبیہہ یا توبیخ کے امکانا دوہی پہلو ہو سکتے ہیں.یا تو حضور میری کسی حقیقی لغزش اور کمزوری پر اصلاح کی غرض سے ناراضگی کا اظہار فرمائیں.اور یا حضور کسی غلط فہمی کی بنا پر نیک نیتی کے ساتھ سرزنش کا طریق اختیار کریں کیونکہ جب اجتہادی طور پر ایک نبی اور مامور من اللہ تک کو غلطی لگ سکتی ہے تو حضور تو بہر حال ایک مامور من اللہ کے خلیفہ ہیں ) مگر دونوں صورتوں میں میرا سر امام کے سامنے خم ہے.اور یہی خدا اور رسول کی تعلیم ہے تو پھر اسلم پرویز ہمارے معاملہ میں ٹانگ اڑانے والے کون ہوتے ہیں؟ یا تو وہ مجھے اکساتے ہیں جس سے میں خدا کے فضل سے بالا ہوں ولا فخر اور یاوہ خوانخواہ اپنی گندی ذہنیت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے نیش عقرب نہ از پئے کین است والی مثال پہلے سے زبان زد خلائق ہے.ایک اعتراض اسلم پرویز صاحب کا یہ ہے کہ میری اولاد میں بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں.اور یہ کہ میں جب دوسروں کو نصیحت کرتا ہوں تو اپنی اولاد کی فکر کیوں نہیں کرتا.؟ اسلم صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں اپنی اولاد کو فرشتے خیال نہیں کرتا.بلکہ اپنی طرح کے گوشت پوست کے کمزور انسان سمجھتا ہوں.میں انہیں ہمیشہ نصیحت کرتا ہوں اور ان کے لئے خدا کے حضور سربسجو درہتا ہوں.مگر میں یقین رکھتا ہوں کے خدا کے فضل سے وہ جماعت کے غیور فرزند ہیں.اور اگر ان میں کوئی کمزوری ہے تو کم از کم وہ ایسے نہیں کہ اسلم صاحب کی طرح جس درخت پر بسیرا کریں اسی کی شاخ کو کاٹنے لگ جائیں.پھر میں پوچھتا ہوں (اور یہی میرا اصل جواب ہے ) کہ میں نے اپنے مضمون میں جن نو جوانوں کو

Page 523

مضامین بشیر جلد سوم 501 اصلاح کی غرض سے مخاطب کیا ہے ان کے متعلق میں نے کہاں لکھا ہے کہ اس سے صرف دوسرے احمدی مراد ہیں ہمارے خاندان کے نوجوان مراد نہیں.لاریب اگر ہمارے خاندان کے کسی فرد میں کوئی کمزوری پائی جاتی ہے تو وہ بھی میرے مضمون میں اسی طرح مخاطب ہے جس طرح کہ دوسرے احمدی نوجوان مخاطب ہیں.مگر اسلم پرویز صاحب کی آنکھیں کون کھولے.میں سوتے ہوئے کو جگا سکتا ہوں لیکن جاگتے کو جگانا میرے بس کی بات نہیں.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے نو جوانوں سے بھی اصولی رنگ میں کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح لوگوں کی آنکھیں ان پر لگی ہوئی ہیں پس انہیں چاہئے کہ وہ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے ہوئے جماعت کے لئے ہمیشہ اعلیٰ نمونہ بننے کی کوشش کریں.یقیناً اگر انہوں نے نیکی اور تقویٰ کا رستہ اختیار کیا اور خدا کے ساتھ مضبوط پیوند رکھا تو جیسا کہ اصولی رنگ میں قرآن فرماتا ہے وہ دُہرے اجر کے مستحق ہوں گے.لیکن دوسری صورت میں ان کے لئے نعوذ باللہ گرفت بھی دُہری ہے.پس ان کو اپنی غیر معمولی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ہوشیار اور چوکس رہ کر پاک زندگی گزارنی چاہئے.اسلم پرویز صاحب کا آخری اعتراض یہ ہے کہ میں نے اپنے کسی مضمون میں خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ کے مقابلہ پر حضرت خلیفہ اسی اول کو ہر لحاظ سے ادنی اور فروتر قرار دیا ہے.اور مختلف رنگوں میں حضرت خلیفہ اول کی توہین کی ہے.بلکہ اسلم صاحب نے یہاں تک لکھا ہے کہ ربوہ کی جلسہ گاہ میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات کو پاؤں کے نیچے مسلا گیا.میں اس کے جواب میں لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الكاذِبین کے سوا کیا کہ سکتا ہوں؟ در جوں کا معاملہ تو صرف خدا تعالیٰ جانتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سید ولد آدم ہوتے ہوئے مسلمانوں کو ادب سکھانے کی غرض سے فرماتے ہیں کہ لَا تُفَضِّلُوا بَعْضَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَى بَعْضٍ یعنی اے مسلمانو! تم اپنی طرف سے خدا کے نبیوں کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دیا کرو.بلکہ اس معاملہ کو خدا اور رسولوں پر چھوڑ دو جو اس قسم کی فضیلت بیان کرنے کے اصل حق دار ہیں.اور دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں کہ لَا تُفَضِّلُونِي عَلى يُونَسَ بُن متی.یعنی مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دو.کیونکہ یونس کو یہ جزوی فضیلت حاصل تھی کہ اس کی ساری قوم اس کی زندگی میں ہی ایمان لے آئی.مگر میری ساری قوم نے ابھی تک مجھے نہیں مانا.پس فضیلت کا معاملہ بہت نازک ہے.اس کا حقیقی حج صرف خدا ہے.ہاں جس شخص کی فضیلت خدا بیان کر دے یا رسول صراحت فرما دے تو وہ بے شک افضل ہے.

Page 524

مضامین بشیر جلد سوم 502 باقی رہا حضرت خلیفہ اول کی عزت و اکرام کا سوال سو جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ میرے دل میں ان کی عزت نہیں.میرے دل میں خدا کے فضل سے حضرت خلیفہ اول کی بے حد عزت ہے.اور آپ کے علم و ایمان اور توکل وایقان کے بعض پہلو اتنے نمایاں ہیں کہ ان کے تصور سے بھی انسان کے دل میں ایک وجدانی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے.اور میں حضرت خلیفہ اول کے لئے اپنے دل میں خاص محبت پاتا ہوں.اور انہیں اس تمام تعریف کا مستحق سمجھتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف کتب میں ان کی فرمائی ہے.پس اسلم پرویز نے مجھ پر الزام لگا کر انتہائی ظلم اور افتراء سے کام لیا ہے کہ میں حضرت خلیفہ اول کی عزت نہیں کرتا.مگر میں پھر کہتا ہوں کے درجہ کا فیصلہ صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور افضل وہی ہے جسے خدا افضل قرار دے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا کا مرسل و مامور ہوتے ہوئے فرمایا ہے کہ ماہمہ پیغمبراں را چاکریم تو خاکسار جو سب کا خادم ہے کس حساب میں ہے.کاش اسلم پرویز یہ نا پاک اور مفتریا نہ مضمون لکھ کر ہمارا دل نہ دکھاتے.وہ یا درکھیں کہ ان کے سر پر ایک خدا ہے جس کے سامنے وہ ایک دن پیش کئے جائیں گے جہاں جھوٹوں کے لئے رونا اور دانت پیسنا ہوگا.بالآخر میں اس بات کے کہنے سے بھی رک نہیں سکتا کہ کیا اہل پیغام کے لئے یہ شرم کا مقام نہیں کہ جہاں ہم لوگ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی اور اس کے بعد بھی حضور کے عقیدت مندوں اور حلقہ بگوشوں میں شامل رہے ہیں.وہاں اہلِ پیغام نے حضرت خلیفہ اول کی خلافت کا قریباً سارا زمانہ حضور کے خلاف خفیہ ریشہ دوانیوں اور گاہے گاہے کی کھلی سرکشی میں گزارا اور حضور کو خلافت سے معزول کرنے کی ناپاک کوشش کرتے رہے.مگر جب آپ وفات پاگئے تو مجاوروں کا روپ دھار کر آپ کی قبر کو پوجنے کے لئے آگے آگئے.یہ وہ حقائق ہیں جنہیں شاید اسلم پرویز نہ جانتے ہوں کیونکہ وہ بعد کے نسلی احمدی معلوم ہوتے ہیں.پرانے لوگ سب جانتے ہیں اور سب سے بڑھ کر خدا جانتا ہے اور وہ ساری قدرت رکھتا ہے.وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَى مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (الشعراء: 228) وَأَخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - ( محررہ 11 مارچ 1958 ء) روزنامه الفضل ربوہ 16 مارچ 1958ء)

Page 525

مضامین بشیر جلد سوم رمضان کا فدیہ احباب کرام ابھی سے توجہ فرماویں 503 رمضان قریب آگیا ہے.اس تعلق میں خاکسار دوستوں کو یاد دلانا چاہتا ہے کہ رمضان کا فدیہ ان لوگوں کے لئے مقرر ہے جو ضعف پیری یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے نہ تو پیش آمدہ رمضان کے روزوں کی طاقت رکھتے ہوں اور نہ ہی اپنی صحت یا کمزوری کی بناء پر آئندہ گنتی پوری کرنے کی امید رکھتے ہوں.ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ازلی رحمت سے فدیہ تجویز فرمایا ہے جو گویا روزوں کا بدل ہو جاتا ہے.اور فدیہ کی مقدار یہ ہے کہ جو کھانا انسان اپنی حیثیت کے مطابق بالعموم کھاتا ہے اس کی قیمت کا اندازہ کر کے نقد رقم ادا کردی جائے.یا اگر کسی کے ماحول میں کوئی غریب رہتا ہو تو اسے کھانے کی صورت میں دے دیا جائے.یہ تو میرے علم کے مطابق فرض کی صورت ہے.باقی نفل کی صورت میں بعض بزرگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص وقتی طور پر بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے مگر بعد میں گنتی پوری کر سکتا ہو وہ بھی احتیاطاً فدیہ دے دیا کرے تا کہ رمضان کے روزوں سے محرومی کی مزید تلافی ہو جائے.یہ بھی ایک بہت مستحسن صورت ہے اور اس پر کئی بزرگوں کا عمل رہا ہے.گو فرض کی صورت میری ناقص رائے میں وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے.بہر حال اب رمضان کی آمد آمد ہے اور جو احباب معذور ہیں انہیں فدیہ ادا کرنے کی طرف ابھی سے توجہ کرنی چاہئے.تا کہ ان کی رقم وقت پر مستحقین کے کام آسکے.اس تعلق میں پہل حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کی اہلیہ صاحبہ نے کی ہے جو آج اس مد میں چھپیس (25) روپے ادا کر گئی ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.محررہ 14 مارچ 1958 ء) روزنامه الفضل ربوہ 18 مارچ 1958ء) و رمضان کے مسائل کا خلاصہ ایک مبارک مہینہ کی مبارک عبادات قادیان کے زمانہ میں لازماً اور اس کے بعد بھی جب تک صحت اچھی رہی یہ خاکسار ہر رمضان سے پہلے رمضان کے مسائل اور اس کی برکات کے متعلق احباب جماعت کے فائدہ کے لئے لمبے لمبے تحقیقی

Page 526

مضامین بشیر جلد سوم 504 مضمون لکھا کرتا تھا مگر اب کسی مفصل مضمون کی طاقت نہیں پاتا.اس لئے ثواب کی خاطر سے ذیل کے مختصر سے سادہ فقرات پر اکتفا کرتا ہوں.شاید یہ چند سطور دوستوں کو اس مبارک مہینہ کی غیر معمولی اہمیت کو سمجھنے (1) اور اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلانے میں کارآمد ثابت ہوں.زمانہ جاہلیت میں رمضان کے مہینہ کا نام ناطق ہوتا تھا.اسلام میں اس کا نام بدل کر رمضان کر دیا گیا.رمضان کا لفظ رمض سے نکلا ہے جس کے معنی تپش اور گرمی کی شدت کے ہیں.اس مہینہ کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے تا اس کی روحانی تاثیر کی طرف اشارہ کیا جائے.جو یہ ہے کہ اس مہینہ کے روزے اور اس کا قیام اللیل اور اس کی دعائیں اور اس کی تلاوت قرآنی اور اس کے صدقہ و خیرات اور اس کے آخری عشرہ کا اعتکاف سچے مومنوں کے دلوں میں غیر معمولی روحانی حرارت پیدا کر دیتے ہیں جس کی لذت کو وہی لوگ پہچانتے ہیں جو اس کو چہ کے آشنا ہیں.(2) اس مہینہ کو اس غیر معمولی عبادت کے لئے اس لئے چنا گیا ہے کہ اس میں قرآن کے نزول کا ابتداء ہوا تھا.جیسا کہ فرمایا شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (البقرہ: 186) اور چونکہ کلام پاک کے نزول کی ابتداء اپنے اندر غیر معمولی برکات رکھتی ہے جن کے ذریعہ گویا آسمان کی کھڑکیاں کھول دی گئیں.اس لئے اس کی یاد میں اس مہینہ کو غیر معمولی عبادات کے لئے چنا گیا.گویا اس مہینہ میں ہر سچا مسلمان اپنے آسمانی آقا سے عرض کرتا ہے کہ خدایا چونکہ تو نے میرے لئے ان ایام میں اپنے ابدی کلام کے سننے کا دروازہ کھولا اس لئے میں بھی اس کی یاد میں اس مہینہ کو تیری خاص عبادت میں گزاروں گا.اسی لئے خدا فرماتا ہے کہ ہر عبادت کے لئے ایک مخصوص اجر ہوتا ہے لیکن روزہ کا اجر میں خود ہوں.(3) رمضان کی مخصوص عبادت صوم یعنی روزہ ہے.جس کے معنی نفسانی خواہشات سے رکنے کے ہیں.کیونکہ اس میں انسان سحری کے وقت سے لے کر غروب آفتاب تک خدا کی خاطر کھانے پینے اور بیوی کے پاس جانے سے پر ہیز کرتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ سے گویا ایک عملی عہد باندھتا ہے کہ میں تیرے لئے اور تیرے دین کے لئے ضرورت پیش آنے پر اپنی جان اور اپنی نسل تک کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کروں گا.اور روزہ میں بھوکا پیاسا رہنے میں ایک غرض یہ بھی ہے کہ تا مسلمانوں میں اپنے غریب بھائیوں کی غربت اور تنگ حالی کا احساس پیدا کرایا جائے اور بتایا جائے کہ دیکھو تم ایک دن کے روزہ میں کتنی تکلیف اٹھاتے ہواور پھر خود سوچ لو کہ تمہارے غریب بھائی جن کی گویا ساری عمر ہی بھوک پیاس میں گزرتی ہے ان کا کیا حال ہوتا ہوگا.روزہ ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے.سوائے اس کے کہ وہ رمضان کے مہینہ

Page 527

مضامین بشیر جلد سوم 505 میں بیمار ہو یا سفر پر ہو.اس صورت میں خدا نے یہ رعایت دی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور رمضان کے بعد صحت ہونے پر سفر کی حالت ختم ہونے پر گنتی پوری کر لے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص خدائی رعایت سے فائدہ نہیں اٹھاتا وہ گویا خدا کو سینہ زوری سے راضی کرنا چاہتا ہے.اور یہ طریق خدا کو پسند نہیں.(4) جو شخص ضعیف العمری یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے نہ تو رمضان میں روزے رکھ سکتا ہو اور نہ رمضان کے بعد گنتی پوری کرنے کی امید رکھتا ہو اس کے لئے خدائی حکم یہ ہے کہ روزہ کی بجائے اپنی حیثیت کے مطابق کسی غریب کو فدیہ ادا کر دے.فدیہ کھانے کی صورت میں یا نقدی کی صورت میں ہر دو طرح ادا کیا جاسکتا ہے اور بعض اولیاء نے فدیہ کے حکم کو اس رنگ میں بھی لیا ہے کہ خواہ رمضان کے بعد گنتی پوری کرنے کی امید ہو پھر بھی مناسب ہے کہ رمضان کے روزوں سے محرومی کی تلافی کے لئے فدیہ ادا کر دیا جائے اور صحت ہونے پر یا سفر سے واپس آنے پر روزے بھی رکھ لئے جائیں.(5) رمضان کے مہینہ میں روزوں کے علاوہ نفل نمازوں پر بھی خاص زور دیا گیا ہے اور نفل نماز میں تہجد کی نماز کو خاص الخاص مقام حاصل ہے.تہجد کے یہ معنی ہیں کہ رات کے ابتدائی حصہ میں کچھ وقت سونے کے بعد رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر چند رکعت ( مسنون تعداد آٹھ رکعت ہے ) نماز ادا کی جائے.اور اگر وتر پہلے وقت میں عشاء کی نماز کے ساتھ نہ پڑھ لئے گئے ہوں تو انہیں بھی نماز تہجد کے ساتھ شامل کر لیا جائے.اسی طرح یہ گیارہ رکعت نماز ہو جاتی ہے.جن میں سے دس رکعتیں دو دو کر کے پڑھی جاتی ہیں اور آخری رکعت اکیلی پڑھی جاتی ہے.گو آخر میں وتر کی تین رکعتیں اکٹھی پڑھنا بھی جائز ہے.تہجد کے بعد اور صبح کی نماز سے قبل پھر کچھ وقت کے لئے لیٹ کر آرام کرنا سنت ہے.تہجد کی نماز کو انسان کی روحانی ترقی سے خاص تعلق ہے.چنانچہ قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے کہ ہر انسان کا ایک مقام محمود ہوا کرتا ہے جو اس کی ترقی کا آخری نقطہ ہوتا ہے اور اپنے مقام محمود تک پہنچنے کے لئے تہجد کی نماز بہترین زینہ ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام محمود سب سے بالا ، سب سے اونچا ،سب سے ارفع اور سب سے بلند تر ہے جسے قَابَ قَوْسَيْن أَوْ أَدْنى (النجم: 10) کے الفاظ کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے.تہجد سے اتر کر نفلی نمازوں میں ضحی کی نماز بھی ایک بابرکت نماز ہے.جسے عوام الناس چاشت یا اشراق کی نماز کہتے ہیں جو فجر اور ظہر کی نمازوں کے درمیانی وقفہ میں ادا کی جاتی ہے.صحابہ کرام اس کے التزام کا بھی خیال رکھتے تھے.

Page 528

مضامین بشیر جلد سوم 506 نوٹ : رمضان کے متعلق یہ رعایت ہے کہ عوام الناس کی سہولت کے لئے تہجد کی نماز رات کے آخری حصہ میں ادا کرنے کی بجائے عشاء کی نماز کے بعد ادا کر لی جائے.ہر دوصورت میں رمضان کی نفلی نماز جو رات کے وقت یا باجماعت ادا کی جائے تراویح کی نماز کہلاتی ہے.(6) رمضان میں تلاوت قرآن مجید پر بہت زور دیا گیا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ہر رمضان میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قرآن کا ایک دور پورا کیا کرتے تھے.لیکن جب قرآن کا نزول مکمل ہو گیا تو جبرائیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری رمضان میں آپ کے ساتھ دو دور پورے کئے.اس لئے بہتر اور افضل یہی ہے کہ رمضان میں قرآن مجید کے دو دور مکمل کئے جائیں.اس تکرار میں یہ اشارہ ہے کہ ہم قرآن کو ایک دفعہ پڑھ کر چھوڑ نہیں دیں گے بلکہ بار بار پڑھتے اور دہراتے رہیں گے.قرآن مجید کی تلاوت کا بہترین طریق یہ ہے کہ اسے پڑھنے والا ہر رحمت کی آیت پر خدائی فضل و رحمت کی دعا مانگے اور ہر عذاب کی آیت پر استغفار کرتا ہوا آگے گزرے.اور خدائی کلام کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالے.(7) رمضان کا مہینہ دعاؤں کے ساتھ بھی خاص جوڑ رکھتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنی قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقره: 187 ) یعنی میں رمضان میں اپنے بندوں کے بہت زیادہ قریب ہو جاتا ہوں اور دعا کرنے والے کی دعا کو خاص طور پر سنتا ہوں.جو ہستی پہلے ہی انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اس کے اور بھی زیادہ قریب ہو جانے کی شان کا کیا کہنا ہے؟ پس رمضان میں ذاتی اور جماعتی دعاؤں پر خاص زور دینا چاہئے اور بدقسمت ہے وہ انسان جس پر رمضان آئے اور گزرجائے اور پھر بھی اس کی جھولی خالی کی خالی رہ جائے.دعاؤں میں درد اور اضطراب کی کیفیت پیدا کرنا اور خدا کے متعلق ایسا یقین کرنا کہ وہ ہمارے سامنے ہے اور ہم اس کے سامنے ہیں.قبولیت دعا کا بہترین ذریعہ ہے.اور یہ ذریعہ عمل صالح کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے.دعاؤں کے علاوہ ذکر الہی پر بھی بہت زور ہونا چاہئے.اور اس ضمن میں تسبیح تحمید، تکبیر اور کلمہ طیبہ چوٹی کے اذکار سمجھے جاتے ہیں.(8) رمضان میں صدقہ و خیرات پر بھی بہت زور دیا گیا ہے.گویا کہ اس مبارک مہینہ میں سب مسلمان ایک کنبہ کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور ایک کا دکھ سب کا دکھ بن جاتا ہے.سخت شقی ہے وہ انسان جو رمضان میں عیش منائے اور اس کے ہمسائے نانِ جویں تک کو ترسیں اور روٹی کی خشکی کو پانی سے تر کرنے کے سوا کوئی صورت نہ پائیں.ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کایہ حال تھا کہ باوجود مالی غربت اور عسرت کے

Page 529

مضامین بشیر جلد سوم 507 آپ کا ہاتھ رمضان کے مہینہ میں غریبوں کی مدد کے لئے اس طرح چلتا تھا جس طرح ایک ایسی تیز آندھی چلتی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.عید الفطر سے قبل صدقۃ الفطر ادا کر نے کا حکم بھی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے.(9) رمضان کا آخری عشرہ خاص طور پر بابرکت عشرہ ہے.کیونکہ قرآن مجید کے نزول کی ابتداء اسی عشرہ میں ہوئی تھی.اس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ شَدَّ مِعُذَرَهُ وَأَحْيِىٰ لَيْلَهُ أَيْقَظَ أَهْلَهُ ( صحیح بخاری کتاب الصوم ) یعنی اس عشرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے تھے اور اپنی راتوں کو عبادت کے لئے زندہ کر دیتے تھے اور اپنے اہل کو نمازوں کے لئے جگاتے تھے.اسی عشرہ میں اعتکاف کی عبادت بھی ادا کی جاتی ہے جس میں اعتکاف بیٹھنے والا اپنے آپ کو خانہ خدا میں محصور کر کے اس کی عبادت کے لئے کلینتہ وقف ہو جاتا ہے.یہ ایک قسم کی جزوی رہبانیت ہے جو مومنوں کے دل ودماغ میں غارِ حرا کی سی چاشنی پیدا کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے.مگر اعتکاف دوسروں کی ریس میں بیٹھنا اور مسجد میں بیکار گفتگو کی مجلسیں جمانا اعتکاف کی برکت کو زائل کر دیتا ہے.اعتکاف کے لیل و نہار صرف نماز اور تلاوت قرآن اور ذکر الہی اور دیگر دینی مشاغل کے لئے وقف رہنے چاہئیں.(10) یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ رسول پاک کے ارشاد کے مطابق رمضان کے آخری عشرہ میں ایک خاص رات آیا کرتی ہے جسے لیلۃ القدر کہتے ہیں.یہ رات جو طاق راتوں میں سے کسی رات میں آتی ہے بہت مبارک رات ہوتی ہے.جس میں رحمت کے فرشتوں کا خاص نزول ہوا کرتا ہے جو نیچے جھک جھک کر سچے مومنوں کی دعاؤں کو اچکتے ہیں.وَفِي ذلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ (المُطَفِّفِين: 27).(11) ایک خاص بات درود کی کثرت ہے جس پر رمضان کی مبارک گھڑیوں میں بہت زور ہونا چاہئے.درود ایک نہایت با برکت دعا ہے.اس میں دراصل رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے درجات کی بلندی اور آپ کے مقاصد کی کامیابی اور آپ کے لائے ہوئے مشن کی بامرادی سب شامل ہیں.بلکہ اس زمانہ میں احمدیت کی ترقی بھی درود ہی کے تحت آتی ہے.پس روزہ رکھنے والوں کو رمضان کے مہینہ میں درود پر بھی بہت زور دینا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رات درود کی اتنی کثرت کی گویا آپ کا رگ وریشہ درود سے معطر ہو گیا.اسی رات کے آخر میں آپ نے خواب میں دیکھا کہ خدائی فرشتے نور کی مشکیں بھر بھر کر لارہے ہیں اور آپ کے مکان میں ان مشکوں کا منہ کھول کر انہیں خالی کرتے جاتے ہیں.اس پر ایک آواز آئی کے یہ تیرے درود کا ثمرہ ہے.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ درود پر اتنا زور دیں کہ ان کی

Page 530

مضامین بشیر جلد سوم 508 زبانیں اس کے ذکر سے تر ہو جائیں.اللهم صل على محمد و على آل محمد وبارك وسلم و يا ايها الذين آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيمًا.(محررہ 18 مارچ 1958 ء ) (روز نامه الفضل ربوہ 21 مارچ 1958ء) 10 تاریخ اسلام کا عظیم ترین واقعہ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب وہ دنیا میں کوئی بڑا تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے تو اپنے کسی عظیم الشان مصلح کو مبعوث کر کے اس کے ذریعہ اصلاح وارشاد کا ایک بیج بوتا ہے.اور پھر اس مصلح کے بعد اس کے خلفاء کے ذریعہ اس بیج کی پرورش کا انتظام کر کے اسے آہستہ آہستہ پودے سے پیڑ اور پیٹر سے درخت اور درخت سے عظیم الشان درخت بنا تا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے کہ جس وقت تک کہ اس کی تقدیر اپنے کمال کو پہنچ جائے.اور اس روحانی مصلح کی جو اس سلسلہ کا بانی ہوتا ہے بعثت کی انتہائی غرض و غایت پوری ہو جائے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جو ایک جلالی شریعت کے حامل تھے اللہ تعالیٰ نے بہت سے روحانی مصلح مبعوث فرمائے.حتی کہ یہ سلسلہ چودہ سو سال بعد حضرت عیسی علیہ السلام میں آکر اپنے کمال کو پہنچ گیا اور حضرت مسیح ناصری موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء قرار پائے.چنانچہ حضرت عیسی کی بعثت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اسرائیلی سلسلہ میں سب سے بڑا واقعہ تھا.اس لئے قرآن مجید نے حضرت موسیٰ سے اتر کر جوشان حضرت عیسی کی بیان کی ہے وہ کسی اور اسرائیلی نبی کی بیان نہیں کی.یہی صورت ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں مقدر تھی.جنہیں خدا تعالیٰ نے دونوں سلسلوں کی باہمی مشابہت کے لحاظ سے نہ کہ درجہ کے لحاظ سے حضرت موسی کا مثیل قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا: إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً * شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً (المزمل: 16) یعنی اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک رسول مبعوث کیا ہے جو تم پر خدا کی طرف سے نگران ہے اسی کے مشابہ جس طرح کہ ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا.

Page 531

مضامین بشیر جلد سوم 509 پس ضروری تھا کہ جس طرح حضرت موسی کے بعد ان کی شریعت کی خدمت اور ان کے مشن کی تکمیل کے لئے ایک مسیحی النفس انسان کو مبعوث کیا گیا.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت سے قرآنی شریعت کی خدمت اور اسلام کی عالمگیر اشاعت کے لئے ایک مثیل مسیح پیدا کیا جاتا جو موسوی سلسلہ کے مقابل پر محمدی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء قرار پاتا.اور یہ وہی ہے جو حضرت عیسی کی طرح جو اپنے مطبوع حضرت موسی کی طرح چودہ سو سال بعد پیدا ہوئے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چودہ سوسال بعد مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی صورت میں مبعوث کیا گیا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوْشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدَلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلَ الْخَنْزِير وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ.....كَيْفَ أَنتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنكُمُ.( بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم) یعنی مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرورضرور ایک مسیح ابن مریم نازل ہوگا.وہ تمہارے تمام دینی امور میں حکم عدل بن کر صحیح صحیح فیصلہ کرے گا.وہ صلیبی فتنہ کے زور کے وقت آئے گا اور اس فتنہ کو پاش پاش کر دے گا اور تمام خنزیر صفت لوگوں کو مٹا کر رکھ دے گا.مگر یہ سارا کام دلائل اور براہین کے ذریعہ ہوگا.کیونکہ اس وقت مذہب کے لئے تلوار کی جنگ اور جزیہ کی ضرورت نہیں رہے گی...ہاں ہاں اس وقت تمہارے لئے یہ کیسی مبارک گھڑی ہوگی جب یہ مسیح ابن مریم تم میں نازل ہوگا اور وہ تمہیں میں سے تمہارا ایک امام ہوگا.پھر اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ آنے والا مصلح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاظل بن کر اور حضور سے فیض یافتہ ہو کر اصلاح کا کام کرے گا اور اس کا کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کام سمجھا جائے گا.قرآن مجید فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ ٥ وَّاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ َذلِكَ فَضُلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُوالفَضْل العظيم O (الجمعه : 3-5) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے عربوں میں اپنا رسول مبعوث کیا جو انہیں میں سے ہے.وہ ان پر خدا کی

Page 532

مضامین بشیر جلد سوم 510 آیات تلاوت کرتا اور انہیں پاک وصاف کرتا اور انہیں احکام الہی اور ان کی حکمت سکھاتا ہے.اگر چہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے.اور ایک بعد میں آنے والی قوم بھی ہوگی جو ابھی تک ظاہر ہو کر ان سے نہیں ملی.جن کی یہ رسول اپنے ایک ظلن کے ذریعہ اسی رنگ میں تربیت فرمائے گا اور وہ غالب اور حکمت والا خدا ہے.جو اس قسم کے انتظام پر پوری قدرت رکھتا ہے ( اور اگر کہو کہ ایک بعد میں آنے والی قوم کو یہ فضیلت کس طرح حاصل ہوگی تو جانو کہ ( یہ اللہ کی دی ہوئی فضیلت ہے.وہ جسے چاہتا ہے.اپنی جناب سے فضیلت عطا کرتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل و کرم کا مالک ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ بعد میں آنے والے لوگ کون ہیں؟ جس پر آپ نے ایک صحابی حضرت سلمان فارسی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان زمین سے غائب ہو کر ثریا ستارے تک بھی پہنچ گیا تو ان اہلِ فارس میں سے ایک شخص اسے پھر زمین پر لاکر قائم کر دے گا.( بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ ) اور یہ وہی عظیم الشان مصلح ہے جسے دوسرے الفاظ میں مسیح اور مہدی کا نام دیا گیا ہے.اسی لئے دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آنے والے مصلح کی شان اور اس کے کارناموں کی وسعت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : مَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرِيَ أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمٍ آخِرُهُ - ( ترندی کتاب الامثال عن رسول الله باب مثل الصلوات الحمس ) یعنی میری امت کی مثال برسات کے موسم کی طرح ہے جس کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ اس کے شروع کی بارش نتائج کے لحاظ سے زیادہ فائدہ بخش ہوگی یا کہ اس کے آخر کی بارش زیادہ نفع مند ثابت ہوگی.اس سے نعوذ باللہ یہ مراد نہیں کہ کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والا مصلح امکانی طور پر زیادہ بہتر کام کر سکتا ہے.کیونکہ بہر حال جو بھی آپ کے بعد آئے گا وہ آپ ہی کا شاگرد اور آپ ہی سے فیض یافتہ اور آپ ہی کے شجرہ طیبہ کی شاخ ہوگا.اور اس کا کام آپ ہی کی روحانی توجہ اور آپ ہی کی مقناطیسی تاثیرات کا نتیجہ ہو گا.بلکہ مراد یہ ہے کہ مسیح موعود اور مہدی معہود ایسے زمانہ میں ظاہر ہو گا جب کہ میل ملاقات کے لحاظ سے دنیا ایک قوم کے رنگ میں آچکی ہوگی اور آمد ورفت کے ذرائع نہایت وسیع ہو چکے ہوں گے اور پریس کی ایجاد کی وجہ سے لٹریچر کی اشاعت بھی بے حد آسان ہو چکی ہوگی اور اسلام کے خلاف دوسری قوموں کے تمام اعتراضات بھی نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے آجائیں گے.اس لئے لازماً اس کے زمانہ میں تبلیغ کا کام

Page 533

مضامین بشیر جلد سوم 511 اور تبلیغ کے ذرائع بے حد وسیع ہو جائیں گے.اس لئے اس وقت دینی علوم کی بارش جو دراصل رسول پاک (فداہ نفسی ) ہی کی مبارک بارش کا آخری حصہ ہے بہت وسیع ہو کر دنیا پر گرے گی اور غلبہ اسلام کا دوسرا شاندار دور شروع ہو جائے گا.اس لئے اسلام کے عالمگیر غلبہ کے متعلق جو قرآنی آیات نازل ہوئی ہیں اسے بہت سے مفسرین نے مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ وابستہ کیا ہے.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لَيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے اپنا رسول کامل ہدایت اور حق و صداقت کے دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے دنیا کے تمام مذاہب پر غالب کر دے.اس آیت کے متعلق کثیر التعداد مفسرین نے اتفاق کیا ہے کہ اس کا ظہور مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جبکہ مذاہب کے عالمگیر ٹکراؤ کے نتیجہ میں اسلام کا جھنڈا سارے دوسرے جھنڈوں کو سرنگوں کر کے انشاء اللہ آسمان سے باتیں کرے گا.چنانچہ اس پیشگوئی کی تعمیل کے پہلے قدم کے طور پر جماعت احمدیہ کے مبلغ ساری دنیا میں پھیل کر اسلام کا بول بالا کرنے میں دن رات مصروف ہیں.ان کے لئے روحانی گولا بارود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عدیم المثال لٹریچر کے ذریعہ تیار کیا اور اب آپ کی ربانی فوج کے سپاہی اس گولہ بارود کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے میں بمباری کر رہے ہیں.اور خدا کے فضل سے وہ وقت دور نہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ پورے ہو کر رہیں گے کہ: ”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا کہ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا.اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے.“ ( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66-67) پھر فرماتے ہیں اور کس عظیم الشان یقین کے ساتھ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے

Page 534

مضامین بشیر جلد سوم 512 بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ (تجلیات الہیہ.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) پس لاریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی) کے بعد تاریخ اسلام کا ایک عظیم ترین واقعہ ہے.دنیا اس وقت اس کی قدر کو نہیں پہچانتی اور خدائی سنت (یا حسرةً على العباد ) کے مطابق اسے جھٹلانے اور اس پر ہنسی ٹھٹھہ کرنے پر تلی ہوئی ہے.جیسا کہ ہر روحانی مصلح کے زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے.مگر ایک وقت آئے گا اور خدا کے فضل سے جلد آئے گا کہ وہ آہیں بھرتی ہوئی اس کی قدر کو پہچانے گی اور اس وقت خدا کے بچے مسیح کا یہ قول پورا ہوگا کہ: امروز قوم من نشناسد مقام من روزے بگرید یاد کند وقت خوشترم (در متین فارسی ) ( محررہ 24 مارچ 1958 ء) روزنامه الفضل ربوہ 29 مارچ 1958ء) دوست رمضان کے عہد کو یا درکھیں یہ مہینہ اصلاح نفس کا خاص مہینہ ہے بعض گزشتہ سالوں میں یہ خاکسا را حباب جماعت کی خدمت میں یہ تحریک کرتا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے ماتحت دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کے مہینہ میں اپنی کسی کمزوری کے متعلق دل میں خدا سے عہد کیا کریں کہ وہ آئندہ اس کمزوری سے ہمیشہ مجتنب رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد بڑی حکمت پر مبنی ہے.کیونکہ اول تو انسان کا فرض ہے کہ ہمیشہ ہی اپنے نفس کا محاسبہ کر کے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا رہے اور اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک خدا سے قریب تر ہوتا جائے.اس کے علاوہ رمضان کا مہینہ اپنے خاص روحانی ماحول اور نماز اور روزہ اور نوافل اور تلاوت قرآن مجید اور ذکر الہی اور صدقہ و خیرات کی وجہ سے اس قسم کے محاسبہ اور ترک منہیات کے ساتھ مخصوص مناسبت رکھتا ہے.اور

Page 535

مضامین بشیر جلد سوم 513 اس مشہور مثال کے مطابق کہ لوہا اس وقت اچھی طرح کوٹا جاسکتا ہے جب کہ وہ گرم اور نرم ہو.رمضان کے مہینہ کو اصلاح نفس کے ساتھ خاص جوڑ ہے.پس ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو چاہئے کہ وہ موجودہ رمضان میں بھی اس زریں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اپنی کسی خاص کمزوری کو سامنے رکھ کر دل میں خدا سے عہد کریں کہ وہ انشاء اللہ ہمیشہ اس کمزوری سے الگ رہیں گے اور کبھی اس کے مرتکب نہیں ہوں گے.اس عہد کو کسی پر ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ظاہر کر نا عام حالات میں خدا کی ستاری کے خلاف ہے.اس لئے صرف دل میں عہد کرنا کافی ہے مگر یہ عہد ایسا ہو کہ ” جان جائے مگر بات نہ جائے“ کا مصداق بن جائے.کیونکہ وَكَانَ عَهْدُ اللهِ مَسْئُولًا (الاحزاب: 16).یعنی خدا کے ساتھ کئے ہوئے ہر عہد کے متعلق قیامت کے دن پرسش ہوگی.اس عہد کے لئے ہر انسان اپنے نفس کے محاسبہ کے ذریعہ اپنے واسطے خود کسی کمزوری کا انتخاب کر سکتا ہے.مگر بہتر ہوگا کہ ایسی کمزوری کو چنا جائے جو دوسروں کے لئے ٹھوکر یا خراب نمونہ کا موجب بن رہی ہو اور جماعت کی بدنامی کا باعث ہو.لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر خواہ کوئی کمزوری ہو جسے انسان اپنے حالات کے ما تحت جلد تر ترک کرنے کی طاقت رکھتا ہو اس کے متعلق عہد کیا جاسکتا ہے.اور یا د رکھنا چاہئے کہ ایک کمزوری کا ترک کرنا اسی طرح دوسری کمزوریوں کو ترک کرنے کی طاقت پیدا کرتا ہے جس طرح ایک نیکی کا اختیار کرنا دوسری نیکیوں کا رستہ کھولتا ہے.ذیل میں مثال کے طور پر چند معروف کمزوریوں کا ذکر کیا جاتا ہے تا دوستوں کو انتخاب میں سہولت پیدا ہو.(1) سب سے اول نمبر پر نماز میں سستی ہے اور نماز میں ستی کے اندر با جماعت نماز میں کوتا ہی، نماز کو صرف ٹھونگیں مار کر پڑھنا اور سنوار کر ادا نہ کرنا اور اس کی ظاہری اور باطنی شرائط سے غفلت برتناسب شامل ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق پرسش ہو گی.اور یہ بھی حدیث میں آتا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے جس میں نماز پڑھنے والا گویا خدا سے باتیں کرتا ہے.پس نماز نہ پڑھنا یا نماز میں سستی کرنا بہت بڑا گناہ ہے.(2) جماعتی چندوں میں سستی بھی بڑی کمزوریوں میں سے ہے.جس میں شرح کے مطابق چندہ نہ دینا یا کسی مد میں تو چندہ دینا اور کسی میں غفلت اختیار کرنا وغیرہ شامل ہیں.اس زمانہ میں جو تبلیغ اور اشاعت اسلام کا مخصوص زمانہ ہے چندہ اول درجہ کی نیکیوں میں شامل ہے اور میرا تجربہ ہے کہ اس کی وجہ سے مال ہر گز گھٹتا نہیں بلکہ مال میں برکت پیدا ہوتی ہے.صدر انجمن احمد یہ کے چندے اور تحریک جدید

Page 536

مضامین بشیر جلد سوم 514 کے چندے اور وصیت کا چندہ اور جلسہ سالانہ کا چندہ اور نئی تحریک وقف جدید وغیرہ کا چندہ سب نہایت اہم اور نہایت مبارک چندے ہیں.اور لاریب یہ تمام چندے مِمَّا رَزَقُنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره: 4) میں شامل ہیں جس کے متعلق قرآن مجید نے اپنے شروع میں ہی بہت تاکید فرمائی ہے.(3) لین دین اور تجارت میں بد دیانتی کی بدی بھی اس زمانہ میں بہت بھیانک صورت اختیار کر گئی ہے.جس کا نہ صرف انسان کے اخلاق پر بلکہ مجموعی نیک نامی پر بھی بھاری اثر پڑتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ مَنْ غَشَ فَلَيْسَ مِنِی.یعنی جو شخص دوسروں کے ساتھ دھو کا کرتا اور خیانت کا رویہ اختیار کرتا ہے اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں.ہر سچے مسلمان کو ڈرانے کے لئے کافی ہونا چاہئے.قرآن مجید نے بھی ایسے لوگوں کے لئے جو دھو کا کرتے اور دوسروں کا حق مارتے ہیں ویل یعنی ہلاکت کی تہدید ( انذار ) فرمائی ہے.اسی طرح جھوٹ بولنے کی عادت اور سودخوری بھی اسی ذیل میں آتی ہے.سود کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ سود لینے والا خدا تعالیٰ سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جائے.اور جھوٹ تو گناہ کے انڈے پیدا کرنے کی سب سے بڑی مشین ہے.(4) رشوت بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے.ہر احمدی کا دامن اس لعنت سے اس طرح پاک ہونا چاہئے جس طرح دھوبی کے گھر سے واپس آیا ہوا کپڑا میل کچیل سے پاک ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے الرَّاشِيُّ وَالْمُرْتَشِرُ كِلَاهُمَا فِي النَّارِ.یعنی رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں آگ میں ہیں.کیونکہ اس سے قوم کے اخلاق تباہ ہوتے ہیں اور ملک ذلیل ہو جاتا ہے.میں یہ باتیں صرف مثال کے طور پر لکھ رہا ہوں.ورنہ میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا کے فضل سے احمد یہ جماعت کی بھاری اکثریت ان کمزوریوں سے پاک ہے.(5) شراب نوشی بھی جسے أُمُّ الْخَبَائِت ( یعنی تمام بدیوں کی ماں ) کہا گیا ہے.اس زمانہ کے مسلمانوں میں عام ہورہی ہے.اور گو میں یقین رکھتا ہوں کہ احباب جماعت خدا کے فضل سے اس ناپاک عادت سے محفوظ ہیں لیکن آج کل یہ بدی تو تعلیم یافتہ طبقہ میں اور خصوصاً مغرب زدہ لوگوں میں ایسی عام ہو رہی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ بعض خام طبع نوجوان اور خصوصاً فوجی نوجوان اس کمزوری میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ خود تو شراب سے کنارہ کش رہیں لیکن اپنی دعوتوں میں دوسروں کو شراب پلا دیا کریں.حالانکہ یہ فعل بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے سراسر خلاف ہے.اسی طرح جو ا بھی شراب کی طرح بہت مخرب اخلاقی بدی ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے اسے شراب کے ذکر کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے.آج

Page 537

مضامین بشیر جلد سوم 515 کل تاش کے کھیل میں جوابازی یا گھوڑ دوڑ وغیرہ میں جوئے کی شرطیں لگا نا عام ہورہا ہے.(6) بے پردگی کا مرض بھی آج کل کے مسلمانوں میں عام ہے.اور خصوصاً پاکستان بننے کے بعد یہ کمزوری بہت بڑھ گئی ہے اور فیشن کی اتباع میں اپنی بیویوں کو بے پردکر کے مردوں کی مجلسوں میں لانے اور بے حجابانہ کھلے پھر انے اور قرآنی ارشاد لَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ (النور: 32) کو پس پشت ڈالنے کا مرض وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے.اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ عورتیں گھروں میں قیدر ہیں یا یہ کہ وہ تعلیم نہ پائیں ، یا یہ کہ وہ قومی زندگی میں حصہ نہ لیں.بلکہ وہ اس معاملہ میں صرف بعض دانشمندانہ حد بندیاں لگاتا ہے.جو مردوں اور عورتوں دونوں کے اخلاق کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں.پس ہمارے احمدی نوجوانوں کو عیسائیوں کی اندھی تقلید اور دوسرے مسلمانوں کی نقالی سے بچتے ہوئے اس معاملہ میں بہت محتاط رہنا چاہیئے.اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مسلمان عورتیں مسنون پر دہ بھی کرتی تھیں اور قومی زندگی میں حصہ بھی لیتی تھیں.اور بعض عورتوں نے بڑی نمایاں خدمات انجام دی ہیں.میں احمدیت کی غیور بیٹیوں سے بھی امید رکھتا ہوں کہ وہ اس معاملہ میں اپنے خاوند اور باپوں پر اچھا اثر ڈالیں گی.(7) اسلام بے شک انسان کی ذاتی اور خاندانی اور قومی ضرورتوں کے ماتحت تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے.مگر ساتھ ہی سخت تاکید فرماتا ہے کہ جو شخص دوسری شادی کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ پورے پورے عدل وانصاف سے کام لے اور سب بیویوں کے درمیان اپنے وقت اور اپنے مال اور اپنی ظاہری توجہ کو اس طرح بانٹے کہ انصاف کا ترازو بالکل برابر رہے.مگر آج کل بعض لوگ دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کو گالمُعلَّقہ یعنی انکا ہوا چھوڑ دیتے ہیں.جو نہ تو صحیح معنوں میں خاوند کی بیوی سمجھی جاسکتی ہے اور نہ وہ اپنے لئے کوئی اور رستہ اختیار کرنے کے لئے آزاد ہوتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایسے لوگ حشر کے میدان میں اس طرح اٹھیں گے کہ ان کا نصف دھڑ مفلوج ہوگا.(8) ماں باپ کی خدمت میں غفلت برتنا بھی اس زمانہ کی ایک عام کمزوری ہے.خصوصاً شادی کے بعد کئی نو جوان اپنے والدین کی خدمت بلکہ ان کے واجبی ادب تک میں کمزوری دکھانے لگتے ہیں.حالانکہ اسلام نے شرک کے بعد عقوق الوالدین کو دوسرے نمبر کا گناہ قرار دیا ہے.قرآن مجید نے کیا عجیب دعا سکھائی ہے کہ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا (بنی اسرائیل: 25) یعنی اے خدا تو میرے ماں باپ پر اسی طرح رحم فرما جس طرح کہ انہوں نے میرے بچپن میں مجھے رحم اور شفقت کے ساتھ پالا.اس دعا میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ جس طرح تمہارے ماں باپ نے تمہیں تمہاری

Page 538

مضامین بشیر جلد سوم 516 کمزوری کے زمانہ میں اپنے پروں کے نیچے رکھ کر پالا تھا اسی طرح ان کے بڑھاپے میں تم انہیں اپنے پروں کے نیچے رکھو.(9) مردوں کے لئے یہ خاص حکم ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لاهله (سنن ابن ماجہ کتاب النکاح) یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک بہترین وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے.اور عورتوں کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کی پوری طرح و فادار ر اور خدمت گزار ر ہیں.حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم دیتا کہ بیوی خاوند کو سجدہ کرے.یہ معمولی باتیں نہیں بلکہ سماجی بہبود اور خانگی امن کے لئے گویا ریڑھ کی ہڈی ہیں.(10) ہمسائیوں کے ساتھ حسن سلوک کا بھی اسلام میں خاص حکم ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جبریل علیہ السلام نے ہمسائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی اس طرح بار بار تاکید کی ہے کہ مجھے گمان گزرا کہ شاید ہمسایہ کو انسان کا وارث ہی بنا دیا جائے گا.دراصل انسان کے اخلاق کا حقیقی ثبوت اس سلوک سے ملتا ہے جو وہ اپنے ہمسائیوں کے ساتھ کرتا ہے اور لازماً ہمسائیوں کے ساتھ بدسلوکی ایک بہت بڑی بدی ہے.(11) جماعتی انتظام کے ماتحت اپنے مقامی امیروں کے ساتھ عدم تعاون اور تفرقہ پیدا کرنے کی عادت بھی بڑی نا پاک بدیوں میں سے ہے.جو نہ صرف جماعتی تنظیم کو تباہ کرنے والی بلکہ جماعت کو بدنام کرنے والی اور جماعتی رعب کو مٹانے والی اور جماعت کو اتحاد کی برکتوں سے محروم کرنے والی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اتنی تاکید فرمائی ہے کہ بار ہا فرماتے تھے کہ اگر تمہارے خیال میں اگر تمہارا کوئی امیر اپنا حق تو تم سے چھینتا ہے مگر تمہاراحق تمہیں دینے کو تیار نہیں تو پھر بھی تم اس کی اطاعت کرو اور اپنے حق کے لئے خدا کی طرف دیکھو.نیز فرماتے تھے مَنْ شَدَّ شُدَّ فِي النَّارِ) (المستدرک علی الصحیں کتاب العلم باب و نتھم یحی بن ابی المطاع القرشی) یعنی جو شخص جماعت میں تفرقہ پیدا کرتا ہے وہ آگ میں ڈالا جائے گا.(12) اس زمانہ میں تمباکو نوشی بھی ایک عالمگیر کمزوری بن گئی ہے.اور غالبا ہماری جماعت میں بھی کافی پائی جاتی ہے.اس مرض میں منہ کی بدبو اور روپے کے نقصان اور وقت کے ضیاع اور سرطان یعنی کینسر وغیرہ کی امراض کو دعوت دینے کے سوا کوئی فائدہ نہیں.بعض کرسی نشین فلسفی اس سے طبیعت کا وقتی

Page 539

مضامین بشیر جلد سوم 517 سکون حاصل کرنے کے لئے مدعی بنتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس چیز سے طبعی نفرت ہے.اور فرماتے تھے کہ اگر تمباکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ آپ اسے منع فرماتے.پس دوستوں کو اس کے ترک کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے.لیکن اگر کسی شخص کے لئے لمبی عادت کی وجہ سے فوری ترک ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنی احتیاط تو رکھی جائے کہ دوسروں کے سامنے تمباکو نوشی سے پر ہیز کیا جائے تا کہ ان کی یہ کمزوری اپنے تک محدود ر ہے.اور ان کی اولا دیا دوسرے عزیزوں اور دوستوں میں سرایت نہ کرنے پائے.(13) بالآخر اس زمانہ میں سینما دیکھنے کی عادت بھی ایک وبا کی صورت اختیار کر کے لاکھوں انسانوں کی زندگی کو تباہ کر رہی ہے اور گندی اور فحش فلموں اور خلاف اخلاق مناظر دیکھنے کے نتیجہ میں ان کے دل و دماغ میں گویا گھن لگ گیا ہے.اور سینما کی ناپاک کشش نے خام طبیعت کے نو جوانوں کو مختلف انواع کے جرائم کی طرف بھی مائل کر رکھا ہے.ہماری جماعت میں سینما جانا منع ہے.مگر سنا جاتا ہے کہ بعض بے اصول احمدی بھی کبھی کبھی اس کمزوری میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اگر کوئی خالصتہ علمی یا طبعی یا تاریخی یا جغرافیائی یا جنگی فلم ہوتی جو الف سے لے کر ی تک گندے مناظر سے پاک ہوتی تو لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے.مگر موجودہ صورت میں جو فلمیں بظاہر اچھی کبھی جاتی ہیں ان میں بھی دودھ کے گلاس میں چند قطرے پیشاب کے بھی ملے ہوتے ہیں.پس بہر حال ان سے اجتناب لازم ہے.یہ چند کمزوریاں میں نے صرف مثال کے طور پر شمار کی ہیں ورنہ کمزوریاں تو بے شمار ہیں.مثلاً بدنظری، غیبت، گالی گلوچ کی عادت، بخش گوئی بخش اور گندے رسالے پڑھنا، بریکاری میں وقت گزارنا وغیرہ وغیرہ.ہر شخص اپنے حالات کا جائزہ لے کر اپنے متعلق خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اگر ساری بدیاں نہیں چھوڑ سکتا تو کم از کم اسے پہلے کس بدی کو ترک کرنا چاہیئے ؟ پس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک منشاء کے مطابق احباب جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس رمضان میں اپنی کسی نہ کسی کمزوری کو سامنے رکھ کر اسے ترک کرنے کا عہد کریں.اور پھر خدا سے نصرت چاہتے ہوئے اس بدی سے اس طرح الگ رہیں جس طرح کہ صاحب عزم مومنوں کا شیوا ہوتا ہے.تا کہ ان کا رمضان ٹھوس اور معین نتیجہ پیدا کرنے والا ثابت ہو.جیسا کہ میں نے کہا ہے اس عہد کو کسی پر ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ ہمارا خداستار ہے اورستاری کو پسند کرتا ہے.مگر تفصیل ظاہر کرنے کے بغیر بزرگوں اور دوستوں سے دعا کی تحریک کرنے

Page 540

مضامین بشیر جلد سوم 518 میں حرج نہیں.کیونکہ مومن ایک دوسرے کے لئے سہارا ہوتے ہیں.وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللهِ (آل عمران: 127) وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران:123 ) یہ خاکسار بھی اپنی کمزوریوں اور فروگزاشتوں کے لئے احباب کرام کی مخلصانہ دعاؤں کا طالب ہے.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ - ( محرره 26 مارچ 1958 ء) ہزار مہینوں کی ایک رات روزنامه الفضل ربوہ 2 اپریل 1958ء) مغرب سے لے کر فجر تک سلام و رحمت کا نزول چند دنوں میں رمضان مبارک کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے.اسی عشرہ میں وہ مبارک رات آتی ہے جس کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے کہ إِنَّا أَنزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِهِ وَمَا أَدْرَكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِهِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرِه تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرِهِ سَلَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْره (سورة القدر) یعنی ہم نے قرآنی شریعت کو ایک عظیم الشان رات کے زمانہ میں اتارا ہے.اور اے مخاطب ! تو کیا جانے کہ یہ رات کتنی برکات اور کتنے فضائل کی حامل ہے.یہ رات تو ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے.اس میں خدا کے فرشتے ، خدا کے اذن سے، اس کے پاک کلام کے ساتھ ، ہر ضروری امر لے کر زمین پر اترتے ہیں اور پھر غروب آفتاب سے لے کر فجر تک سلام ورحمت کا مسلسل نزول ہوتا رہتا ہے.ان لطیف آیات کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کا زمانہ گویا روحانی لحاظ سے ایک تاریک ترین رات کے مشابہ تھا.جب کہ ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : 42) کے مطابق ہر آسمانی روشنی مدھم پڑتے پڑتے بالآخر مجھ چکی تھی اور چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا.حتی کہ وہ وقت آیا کہ آپ کے بے مثل روحانی سورج نے افق مشرق سے طلوع ہو کر اس رات کی تاریکی کو دن کی روشنی میں بدل دیا.اور پھر خدائے اسلام نے قیامت تک کے لئے یہ مقدر کیا کہ ہر ہزار مہینے کے بعد ( جو کچھ اوپر

Page 541

مضامین بشیر جلد سوم 519 تر اسی سال کا زمانہ بنتا ہے ) ایک مجدد مبعوث ہو کر گزرے ہوئے زمانہ کی کدورتوں کو دھو کر دین کو ازسر نو پاک وصاف کر دیا کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت بھی اسی لیلۃ القدر میں ہوئی تھی.لیکن ان آیات کے ایک ظاہری معنی بھی ہیں جو معروف لیلۃ القدر سے تعلق رکھتے ہیں.جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِى الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الآوَاخِرِ مِنْ رَمَضان.( بخاری کتاب الصوم) یعنی اے مسلمانو! رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی رات میں لیلۃ القدر کو تلاش کر کے اس کی برکات سے فائدہ اٹھایا کرو.ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ كَانَ مُتَحَرِّيْهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبع الآوَاخِرِ.( صحیح بخاری کتاب الصوم) یعنی جس شخص کو لیلۃ القدر کی برکات کی تمنا ہوا اسے چاہئے کہ اسے رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرے.ایک تیسری حدیث میں آپ فرماتے ہیں کہ التَمِسُوْهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ.( صحیح بخاری کتاب الصوم) یعنی لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں انیسویں اور ستائیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو.ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ گو خدا تعالیٰ کی ازلی حکمت نے ( اور اس حکمت کا مقصد ظاہر ہے کہ مسلمان کم از کم چندرا تیں تو تلاش میں گزاریں اور کسی ایک رات پر تکیہ نہ کر بیٹھیں لیلتہ القدر کو معین صورت میں تو ظاہر نہیں فرمایا لیکن یہ بات ضرور معین فرما دی ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرہ کی وتر راتوں میں سے کوئی نہ کوئی رات ہوتی ہے.وتر کی یعنی طاق رات کی یہ خصوصیت ہے کہ اللهُ وتُرٌ وَ يُحِبُّ الْوِتر کے اصول کے مطابق ہمارا خدا وتر ہے اور وہ وتر کو پسند کرتا ہے.اور آخری عشرہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ رمضان کے دو ابتدائی عشرے مخصوص عبادت اور ذکر الہی میں گزارنے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ایک خاص روحانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ انتہا درجہ کی مناسبت رکھتی ہے.اس لئے حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرَ شَدَّ مِعْزَرَةٌ وَأَحْىٰ لَيْلَهُ وَ أَيْقَظَ أَهْلَهُ ( صحیح بخاری کتاب الصوم)

Page 542

مضامین بشیر جلد سوم 520 یعنی جب آخری عشرہ آتا تھا تو آپ اپنی کمر کس لیتے تھے.(جس شخص کی کمر کبھی بھی ڈھیلی نہ ہوئی ہو اس کے متعلق کمر کے کتنے کی شان کا خود قیاس کرلو ) اور اپنی رات کو ( جو ویسے بھی ہمیشہ زندہ رہتی تھی ) اپنی مخصوص عبادت کے ذریعہ غیر معمولی زندگی سے معمور کر دیتے تھے اور اپنے اہل کو بھی رات کی خاص عبادت کے لئے جگاتے تھے.پس اب جب کہ رمضان کا آخری عشرہ قریب آرہا ہے جو گو یا رمضان کی گہان یعنی اس کی بلند ترین چوٹی ہے ( اور یہی اعتکاف کے دن بھی ہیں ) میں دوستوں کی خدمت میں ایک بار پھر یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس عشرہ کے لئے اپنی کمریں کس لیں اور اپنی مُردہ راتوں کو زندہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اپنے اپنے گھروں میں اپنے اہل و عیال کو بھی نوافل اور ذکر الہی اور دعاؤں کے واسطے جگائیں تا کہ سارا گھر رمضان کی برکات سے معمور ہو جائے اور غروب آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک خدائی سلام ورحمت کا نزول ہو کر ان کے دلوں کو منور کر دے.یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ جسمانی بارش کی طرح آسمان سے اترنے والی روحانی بارش بھی ہر زمین کو یکساں سیراب کرتی ہے.کیونکہ بعض باتوں میں مشابہت رکھنے کے باوجود دونوں بارشوں میں یہ اصولی فرق ہے کہ جہاں زمینی بارش ہر اچھی اور بری زمین پر یکساں نازل ہوتی ہے وہاں آسمانی بارش کا نزول صرف نیک دلوں کے ساتھ مخصوص ہے اور غافل اور گندے اور بدفطرت انسانوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.اور ایک رات تو در کنار ہزار لیلۃ القدر کا ظہور بھی انہیں بدستور تاریکیوں میں مبتلا چھوڑ کر آگے گزر جاتا ہے.جیسا کہ قرآن مجید خود فرماتا ہے وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نكدا(الاعراف: 59) یعنی جس شخص کے دل کی زمین گندی ہوتی ہے وہ روحانی بارش کے باوجود گندی فصل اگانے کے سوا کوئی فائدہ نہیں دیتی.پس ضروری ہے کہ خدا سے ڈرتے ہوئے اور اپنے دلوں میں تقویٰ پیدا کرتے ہوئے نیک نیت کے ساتھ اس عشرہ میں قدم رکھو.یہ سوال کہ لیلتہ القدر کی ظاہری علامت کیا ہے ایک مشکل سوال ہے.کیونکہ حق یہ ہے کہ لیلۃ القدر کی کوئی ایسی ظاہری علامت نہیں ہے جسے قطعی قرار دیا جا سکے.بعض حدیثوں میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک لیلۃ القدر میں ایک بادل آکر کچھ تر شح ہوا تھا.لیکن یہ علامت مستقل اور دانگی علامت نہیں ہے.بلکہ غالبا اس سال کے ساتھ مخصوص تھی.گو بعید نہیں کہ کسی اور سال میں بھی اس قسم کی ظاہری علامت پیدا ہو جائے.کیونکہ خدا کے مادی اور روحانی نظاموں میں ایک قسم کی مشابہت پیدا پائی جاتی ہے.لیکن لیلتہ القدر کی اصل علامت قلب مومن کے روحانی احساس سے تعلق رکھتی

Page 543

مضامین بشیر جلد سوم 521 ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے.ہم صرف اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ جب لیلۃ القدر کا ظہور ہوتا ہے تو دعا کرنے والا مومن ایک طرف تو آسمان سے انتشار روحانیت کا خاص نزول محسوس کرتا ہے جو نہ صرف اس کے دل اور دماغ کو منور کر دیتا ہے بلکہ اس کا ماحول بھی آسمانی نور سے جگمگا اٹھتا ہے.اور دوسری طرف اس کی دعا اور مناجات میں ایک خاص رنگ کی کیفیت اور پاکیزگی اور بلندی پیدا ہو جاتی ہے.اور وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ گویا اس کی دعا کو غیر معمولی پر لگ گئے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ آسمان کی طرف اڑ اڑ کر پہنچ رہی ہے.اور بعض اوقات بعض کشفی نظارے بھی نظر آ جاتے ہیں اور دل پکار اٹھتا ہے کہ یہ ایک خاص گھڑی ہے.یعنی بقول شخصے : ع کرشمہ دامن دل میکشد که جا ایں جاء ست لیلۃ القدر کے تعلق میں آخری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو لیلتہ القدر میسر آ جائے تو وہ کیا دعا مانگے ؟ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس تعلق میں ہماری جماعت کے بعض علماء بھی غلطی خوردہ ہیں.کیونکہ وہ ایک حدیث کا غلط مفہوم سمجھنے کی وجہ سے لیلۃ القدر کی دعاؤں کو ایک نہایت تنگ دائرہ کے اندر محدود کر دیتے ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر میں لیلتہ القدر کو پاؤں تو کیا دعا کروں؟ آپ نے فرمایا یہ دعا کرو کہ اَللّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى - (صحیح بخاری کتاب الصوم) یعنی اے میرے خدا! تو بے حد معاف کرنے والا آقا ہے اور اپنے بندوں کو معاف کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے.پس میرے گناہ بھی معاف فرما.اس حدیث سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ گویا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے لئے صرف اس دعا پر حصر فرمایا ہے جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہے.حالانکہ گو یہ دعا بہت عمدہ دعا ہے اور عفو کا مقام عام مغفرت سے یقیناً زیادہ بلند ہے.کیونکہ جہاں مغفرت کے معنی صرف بخشنے اور پردہ پوشی کرنے کے ہوتے ہیں وہاں عفو کے معنی گناہوں کو مٹادینے اور انہیں کا لعدم کر دینے اور دعا کرنے والے کو ان کے بداثرات سے کلی طور پر محفوظ کر دینے کے ہیں.اور یقیناً مؤخر الذکر مفہوم زیادہ ارفع اور زیادہ اکمل ہے لیکن بہر حال یہ دعا ایک منفی قسم کی انفرادی دعا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ مجھنا کہ آپ نے لیلۃ القدر جیسی عظیم الشان گھڑی کے متعلق اس قسم کی محدود اور منفی اور انفرادی دعا پر حصر کیا ہو گا کسی طرح درست نہیں.دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ بعض اوقات مخاطب کو وقتی حالات کے

Page 544

مضامین بشیر جلد سوم 522 مطابق ایک وقتی ہدایت فرما دیتے تھے.لیکن آپ کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہوتا تھا کہ ہر شخص ہر حال میں صرف اسی ہدایت کا پابند ر ہے اور اس سے آگے قدم نہ اٹھائے.خوب سوچو کہ دینے والی خدا جیسی دیالو ہستی جس کے انعام واکرام اور فضل و رحمت اور جود وسخا کی کوئی حد نہیں اور گھڑی لیلۃ القد رجیسی عظیم الشان ہے.جسے خدا نے تراسی سال ( یعنی عام حالات میں لمبی سے لمبی انسانی عمر ) سے بھی بہتر اور مجسم سلامتی قرار دیا ہے اور پھر دعا صرف یہ کہ میرے ذاتی گناہ معاف ہو جائیں اور بس ! یہ نظریہ نہ تو خدا کے شایانِ شان ہے اور نہ رسول کے مقام تلقین و تعلیم سے کوئی مناسبت رکھتا ہے اور نہ ہی لیلتہ القدر جیسی مبارک گھڑی کے ساتھ جس کا کوئی خاص جوڑ ہے.پس ہمارے جن خوش قسمت دوستوں کو لیلۃ القدر میسر آئے انہیں چاہئے کہ بے شک یہ دعا بھی مانگیں جس کا اوپر کی حدیث میں ذکر ہے کیونکہ یہ ہمارے آقا کا مقدس کلام ہے اور برکتوں سے معمور.لیکن اپنی دعاؤں کو اس دعا تک ہرگز محدود نہ رکھیں بلکہ ہر قسم کی جماعتی اور قومی اور خاندانی اور انفرادی اور پھر منفی اور مثبت دعاؤں سے اپنے دامن کو اتنا بھر لیں کہ بے شک ان کا دامن پھٹنے کے قریب پہنچ جائے مگر دعا کا دامن تنگ نہ ہونے پائے.یہ درست ہے کہ بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ ایک ہی وقت میں بہت سی دعائیں کریں تو انتشار کی صورت پیدا ہو کر توجہ کا مرکز اکھڑ جاتا ہے.لیکن کم از کم یہ تو ہو کہ جماعتی اور قومی دعاؤں کو نہ بھولا جائے.یعنی اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے خاص دعائیں کی جائیں.رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک مقاصد کی کامیابی کے لئے دعا کی جائے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی صحت اور درازی عمر کے واسطے دردمندانہ دعا مانگی جائے.صحابہ کرام کی طول عمری اور ان کے پاک نمونہ سے متمتع ہونے کے لئے خدا کے سامنے دامن پھیلایا جائے.جماعت کے مبلغین اور مرکزی کارکنوں کے لئے دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رضا کے مطابق مقبول خدمت کی توفیق دے اور انہیں جماعت کے لئے فتنہ کا باعث نہ بنائے.قادیان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھا جائے اور پھر اپنے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسائیوں کے لئے بھی دینی اور دنیوی دعا مانگی جائے.جب خدائی رحمت کی کوئی حد بست نہیں تو ہم اپنے دامن کو کیوں تنگ کریں؟ مگر بہر حال اس الہی ارشاد کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے جو دعا کی قبولیت کے لئے گویا ایک بنیادی پتھر ہے کہ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَالْيُؤْمِنُوا بِي (البقره: 187) یعنی میں دعا کرنے والے کی دعا کو ضرور سنتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ میرے بندے بھی میرا حکم مانیں اور

Page 545

مضامین بشیر جلد سوم مجھ پر سچا ایمان لائیں.523 خدا کرے کہ ہم اس معیار پر پورے اتریں اور خدا کرے کہ ہمارے دلوں میں دعا کے وقت وہ کیفیت پیدا ہو جو خدا کی رحمت کو کھینچا کرتی ہے.اور رمضان کا اختتام ہمیں ایک بدلی ہوئی قوم پائے جو خدا کی کچی پرستار اور اس کے رسول کی سچی عاشق اور اس کے مسیح کی کچی خادم ہو.امِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَآخِرُ دَعْوَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ( محررہ 2 اپریل 1958 ء) (روز نامہ الفضل ربوہ 9 اپریل 1958ء) وفات مسیح کے متعلق ایک دلچسپ مناظرہ کس طرح ایک پڑی نے ایک دیو کو پچھاڑ دیا میں آج ایک ان پڑھ احمدی کی تبلیغ کا لطیفہ سناتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حق کی تبلیغ میں ان پڑھ بلکہ جاہل آدمیوں کی بھی نصرت فرماتا ہے.دراصل ایک روحانی مصلح کی بعثت آسمانی بارش کا رنگ رکھتی ہے جس سے زمین کی ہر روئیدگی اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق فائدہ اٹھاتی ہے.یہی منظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت میں نظر آتا ہے.عرصہ کی بات ہے قادیان میں ایک شخص میاں دین محمد ہوتا تھا جسے اس کے غیر معمولی سفید رنگ کی وجہ سے لوگ میاں بگا کہتے تھے.یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قدیم خادم میاں جان محمد کشمیری کا لڑکا تھا اور بالکل جاہل اور ان پڑھ تھا.بلکہ اسے ایک طرح نیم مخبوط الحواس ہی کہنا چاہئے.میں نے ایک دفعہ اس سے پوچھا کہ میاں بگے کیا تم نے بھی کبھی کسی کو تبلیغ کی ہے؟ کہنے لگا ہاں ایک دفعہ ایک غیر احمدی مولوی کے ساتھ میری بحث ہوئی تھی.میں نے اسے کہا تم لوگ حضرت عیسی کو آسمان پر زندہ سمجھتے ہومگر وہ تو فوت ہو چکے ہیں.مولوی کہنے لگا ہر گز نہیں بلکہ حضرت عیسی آسمان پر زندہ موجود ہیں.میاں بگا نے کہا کہ میں نے اس مولوی سے پوچھا کہ حضرت عیسی کس طرح آسمان پر چلے گئے ؟ مولوی نے ایک پتھر اٹھایا اور آسمان کی طرف پھینک کر کہا کہ حضرت عیسی اس طرح آسمان پر چلے گئے.مگر یہ پتھر دیکھتے ہی دیکھتے زمین پر آ گرا.جس پر (میاں بگا سناتا تھا کہ میں نے فوراً اس مولوی سے کہا کہ ”او پیا اے یعنی تمہارا پتھر وہ پڑا ہے.اس پر یہ مولوی مبہوت ہو کر خاموش ہو گیا.یہ ساری گفتگومیاں بگا نے اپنی سادہ

Page 546

مضامین بشیر جلد سوم 524 پنجابی زبان میں مجھے خود سنائی تھی اور مجھے اس کی یہ بحث سن کر بڑا لطف آیا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان پڑھ اور بظاہر جاہل احمدیوں کے ذریعہ غیر احمدی علماء تک کو لاجواب کر دیتا ہے.دراصل میاں بگے کا یہ جواب اس قرآنی آیت کی عملی تفسیر تھا کہ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفاتاً أَحْيَاءً وَأَمْوَاتاً- (المرسلات: 26-27) یعنی کیا ہم نے زمین کو ایسا نہیں بنایا کہ وہ زندوں اور مردوں دونوں کو اپنی طرف سمیٹنے والی ہے؟ بہر حال یہ بات احمدیت کی صداقت کی دلیل ہے کہ اس نے ہر چھوٹے بڑے احمدی کے دماغ میں وہ روشنی پیدا کر دی ہے جس سے وہ علی قدر مراتب اپنے اپنے رنگ میں ہر بڑے سے بڑے مولوی کا منہ بند کر سکتا ہے.اور خدا کے فضل سے احمد یہ جماعت میں ایسی سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الجمعة: 5) ( محرره 24 مئی 1958ء) روزنامه الفضل ربوہ 30 مئی 1958 ء ) ربوہ کی یادگاری مسجد جیسا کہ اکثر احباب کومعلوم ہوگا جس د حضرت خلیفہ اسی الثانی ایہ اللہ بصرہ العزیز مرکز بہو کے افتتاح کے لئے 20 ستمبر 1948 ء کو ربوہ میں تشریف لائے تھے اور یہاں بہت سے مخلص احباب کی موجودگی میں بڑی دعاؤں کے ساتھ افتتاحی تقریب فرمائی تھی اور برکت کے خیال سے پانچ جانور بھی صدقہ کے طور پر ذبح کئے گئے تھے.اس دن حضرت خلیفہ اُسیح نے ربوہ میں جو پہلی نماز ادا کی تھی اس کے نشان ایک قومی یادگار کے طور پر اسی وقت محفوظ کر لئے گئے تھے.یہ جگہ نقشہ آبادی ربوہ کے لحاظ سے فضل عمر ہسپتال ربوہ کے احاطہ میں آئی ہے اور اب اس جگہ ایک چھوٹی سی یادگاری مسجد تعمیر کرنے کی تجویز ہے.چنانچہ جب 21 مارچ 1958ء کو حضرت خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فضل عمر ہسپتال کی شاندار عمارت کا افتتاح فرمایا تو اس دن اس مسجد کی بنیادی اینٹ پر بھی دعا فرمائی.اور اب اس جگہ خدا کے فضل سے مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے جس پر پانچ ہزار روپے ( -/5000 ) کے خرچ کا اندازہ ہے.چونکہ یہ ایک اہم یادگاری مسجد ہوگی اور قو میں اپنی یادگاروں کے ذریعہ ہی زندہ رہا کرتی ہیں.چنانچہ اسلام میں حج کی تمام رسوم اسی قسم کی

Page 547

مضامین بشیر جلد سوم 525 مبارک یادگاروں کی بناء پر قائم ہیں.اس لئے میں جماعت کے مخلص دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لے کر ان برکات سے حصہ پائیں جو خدا کا گھر بنانے والوں کے لئے ازل سے مقدر ہیں.اور یہ گھر تو عام گھر نہیں ہے بلکہ خدا کا ایک یادگاری گھر ہوگا جو ہمیشہ ربوہ کی سب سے پہلی نماز کی یادگار رہے گا.عزیز ڈاکٹر مرزا منور احمد جو اس مسجد کی تعمیر کے انچارج ہیں ان کا خیال ہے کہ اس مسجد کو بہت خوبصورت اور دلکش رنگ میں بنایا جائے اور اس کا بیرونی رنگ سفید سیمنٹ کا ہو جو تمام رنگوں میں بے عیب رنگ سمجھا جاتا ہے..(محرره 25 مئی 1958 ء) روزنامه الفضل ربوہ 30 مئی 1958 ء ) سیرۃ المہدی حصہ چہارم و پنجم کا مسودہ عزیز مکرم میر مسعود احمد صاحب فاضل کے سپرد کر دیا گیا میری کتاب سیرۃ المہدی حصہ اول و دوم وسوم ایک عرصہ سے چھپ کر ا حباب جماعت کے سامنے آچکی ہے.یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و سوانح کے متعلق خدا کے فضل سے کثیر التعداد عمدہ روایات اور مفید مواد پر مشتمل ہے.بلکہ میں سمجھتا ہوں اس کے مواد کا معتد بہ حصہ ایسا ہے جو صرف اسی کے ذریعہ محفوظ ہوا ہے ورنہ وہ غالباً ضائع ہو جاتا.چنانچہ حضرت اماں جان نوراللہ مرقد ہا اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت منشی محمد عبد اللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ اور حضرت میر عنایت علی صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ اور کئی دوسرے اصحاب کی اکثر روایات ایسی ہیں جو سیرۃ المہدی کے سوا کسی اور اشاعت میں شائع نہیں ہوئیں.اور گوبعض روایات پر گندی فطرت کے مخالفین نے اعتراض کیا ہے اور انہیں غلط رنگ دے کر سادہ طبع غیر احمدیوں کو دھوکہ دینا چاہا ہے اور بالکل ممکن ہے کہ بعض روایات میں راویوں کے حافظہ یا سمجھ کی وجہ سے کوئی غلطی بھی ہو گئی ہو.کیونکہ حدیث کی طرح ہر زبانی روایت میں یہ دونوں باتیں ممکن

Page 548

مضامین بشیر جلد سوم 526 ہیں.مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ بحیثیت مجموعی سیرۃ المہدی نے تاریخی میدان میں سلسلہ احمدیہ کی عمدہ خدمت سرانجام دی ہے جس کی قدر و منزلت انشاء اللہ آگے چل کر اور بھی نمایاں ہو کر ظاہر ہوگی.بہر حال جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں اس کتاب کے تین حصے شائع ہو چکے ہیں اور ان کے علاوہ میرے پاس دومزید حصوں کا مواد موجود تھا اور ان بقیہ حصوں کے مسودوں میں بھی خدا کے فضل سے کئی قیمتی روایات درج ہیں جن میں سے زیادہ نمایاں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی مرحوم رضی اللہ عنہ وغیرہ کی روایات ہیں.سو چونکہ اب میری صحت خراب رہتی ہے اور زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے میں نے ان دونوں حصوں کے مسودے میر مسعود احمد فاضل پسر حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے سپر د کر دیئے ہیں اور انہیں سمجھا دیا ہے کہ اگر اور جب انہیں ان حصوں کو مدون کر کے شائع کرنے کا موقع ملے تو نہ صرف روایات کو عقل و نقل کے طریق پر اچھی طرح چیک کر کے درج کریں بلکہ جہاں جہاں تشریح کی ضرورت ہو وہاں تشریحی نوٹ بھی ساتھ دے دیں.اسی طرح اگر سابقہ تین حصوں میں کوئی غلطی رہ گئی ہو یا کوئی روایت قابل تشریح نظر آئے تو سابقہ روایت کا حوالہ دے کر اس کی بھی تشریح کر دیں اور میں نے انہیں تاکید کر دی ہے کہ موجودہ زمانہ میں ہمارے مخالفوں کی گندی ذہنیت کے پیش نظر اصول یہ مد نظر رکھیں کہ کسی کمزور یا لا تعلق روایت کو تشریح کے ساتھ درج کرنے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ اسے بالکل ہی ترک کر دیا جائے.تا کہ کمزور حدیثوں کی طرح یہ روایتیں بھی فائدہ کی بجائے نقصان کا موجب نہ بن جائیں.میں نے یہ تلخ سبق اپنے زمانہ کے مخالفین کی ناپاک اور پست ذہنیت سے سیکھا ہے.ہاں یاد آیا کہ حصہ چہارم اور حصہ پنجم کے مسودے میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اس وصیت کا اصل کا غذ بھی شامل ہے جو حضور نے اپنی مرض الموت میں آئندہ خلیفہ کے انتخاب کے بارے میں تحریر فرمائی تھی.اور پھر اسے مولوی محمد علی صاحب ایم.اے مرحوم سے پڑھوا کر حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کے سپر د کر دیا تھا اور اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم کے دستخط بھی ثبت ہیں.اسی طرح بعض روایات حضرت اماں جان نوراللہ مرقد با اور بعض حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی بھی اس مسودہ میں درج ہیں.اسی طرح اس میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کی بعض دو تخطی تحریر یں بھی شامل ہیں اور اس قرعہ کے کاغذات بھی اسی مسل میں ہیں جو حضرت اماں

Page 549

مضامین بشیر جلد سوم 527 جان رضی اللہ عنہا اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں اور ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں ہم تین بھائیوں میں تقسیم ہوئی تھیں.محرره 15 جون 1958ء)......عید الاضحیہ کی قربانیاں (روز نامہ الفضل ربوہ 18 جون 1958ء) احباب اصل روح کی طرف توجہ دیں عیدالاضحیہ بالکل قریب آگئی ہے.اس عید پر اکثر مسلمان رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ارشاد کے مطابق حسب توفیق قربانیاں دیتے ہیں.کوئی بکرے کی قربانی دیتا ہے، کوئی چھترے کی کوئی دنے کی اور کوئی دوسروں کے اشتراک کے ساتھ گائے یا اونٹ کی قربانی دیتا ہے اور یہ سب قربانیاں ایک بڑی نیکی کا فعل ہیں.جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور پھر حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس سنت کو زندہ رکھنا مقصود ہے.مگر ہمارے بھائیوں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ قربانیاں صرف ایک ظاہری علامت کے طور پر ہیں اور اس عید کی اصل روح، جان اور مال اور دل کی کدورتوں کی قربانی سے تعلق رکھتی ہے.پس میں اس مبارک دن کے موقع پر دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں کو بیدار کر کے مندرجہ ذیل تین قربانیوں کی طرف خاص توجہ دیں.(اول ) وہ جان کی قربانی کریں جو عید الاضحیہ کی قربانی کا مرکزی نقطہ ہے.جس کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی سے ہوا جو انہوں نے اپنے جگر گوشہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کی صورت میں پیش کی اور جو بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ذبح عظیم بن کر ظاہر ہوئی جس نے دنیا کی کایا پلٹ دی.پس ہمارے دوستوں کا فرض ہے کہ وہ عیدالاضحیہ کی ظاہری اور مادی قربانیوں کے وقت اس کی اندرونی روح کی طرف خیال رکھتے ہوئے اپنے نفسوں کی قربانی پیش کریں اور یہ دو طرح سے ہوسکتی ہے: ) وہ اپنے آپ کو خدمت دین میں لگائیں اور اپنے وقت کا ایک معقول حصہ دین کی خدمت میں خرچ کریں.خواہ وہ اصلاح وارشاد کی صورت میں ہو یا جماعتی تربیت کی صورت میں یا جماعت کے دیگر

Page 550

مضامین بشیر جلد سوم 528 کاموں میں حصہ لینے کی صورت میں ہو.اور جن کے لئے ممکن ہو وہ اپنے آپ کو وقف جدید کے سلسلہ میں پیش کر دیں.( ب ) وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنی اولاد کی بھی قربانی پیش کریں.یعنی ان کی اولاد میں سے جو بچے وقف نہ ہوسکیں انہیں وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کریں حتی کہ سلسلہ کے تمام کارکن وقف شدہ ہو جائیں.اور جو بچے وقف ہوسکیں ان کو تلقین کریں اور ان کی نگرانی رکھیں کہ وہ بھی اپنے اوقات کا ایک معقول حصہ لازماً دین کی خدمت اور جماعتی کاموں میں لگایا کریں.اس تعلق میں دوستوں کو یہ نکتہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچے صاحبزادہ حضرت ابراہیم کے متعلق جو یہ فرمایا تھا کہ لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِ يُقانَبيَّا ( سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز ) اس میں بھی اس لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا کہ اگر میرا یہ بچہ زندہ رہتا تو وہ دین کی خدمت کے لئے کلیتہ وقف ہوتا جیسا کہ سارے انبیا ء ہی وقف ہوا کرتے ہیں.(دوم) وہ مال کی قربانی بھی کریں جو اس زمانہ کے لحاظ سے خاص اہمیت رکھتی ہے.کیونکہ دینی لٹریچر کی اشاعت اور تبلیغی مراکز کا قیام اور مبلغوں اور معلموں اور محصلوں کے معاوضے اور دیگر جماعتی کارکنوں کی تنخواہیں اور مہمان نوازی اور غرباء کی امداد و غیرہ وغیرہ سب ایسے کام ہیں جن کے لئے روپے کی ضرورت ہے.پس عیدالاضحیہ کی قربانی جماعت پر یہ بھاری ذمہ داری بھی ڈالتی ہے کہ وہ دین کی خاطر مالی قربانی کے لئے استادہ ہو جائیں.چندہ نہ دینے والے آئندہ با قاعدہ چندہ دیں.شرح سے کم دینے والے اپنا چندہ بڑھا کر شرح کے مطابق کر دیں.تحریک جدید کے چندوں میں کوتاہی کرنے والے اپنی سستی دور کریں کیونکہ یہ چندہ وہ ہے جس پر تمام بیرونی ممالک کی تبلیغ کا دارو مدار ہے ).وصیت کی طرف سے غفلت برتنے والے اس بابرکت نظام کی اہمیت کو سمجھیں وغیرہ وغیرہ.میں یقین رکھتا ہوں کہ ذوالقرنین والی آیات کی وہ تشریح جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر چسپاں ہوتی ہے اس میں زُبَرَ الْحَدِيدِ (الکہف: 97) (لوہے کے ٹکڑوں ) سے چندہ ہی مراد ہے.(سوم) ایک اور قربانی بھی میرے خیال میں نہایت اہم ہے اور وہ جماعتی اتحاد سے تعلق رکھتی ہے.قرآن مجید مومنوں کی جماعت کے متعلق بنیان مرصوص کے الفاظ استعمال فرماتا ہے.یعنی ایسی دیوار جس کی در زمیں پچھلے ہوئے سیسے سے اس طرح بھر دی جائیں کہ اس میں کوئی رخنہ باقی نہ رہے.اور اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ شَدَّ شُدَّ فِی النَّارِ یعنی جس شخص نے جماعت کے اتحاد

Page 551

مضامین بشیر جلد سوم 529 میں رخنہ پیدا کیا وہ آگ میں ڈالا جائے گا.پس تیسری قربانی جس کی طرف میں اس موقع پر احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ذاتی رنجشوں اور باہم شکر رنجیوں کی قربانی ہے.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اس خبیث مادہ کو ایسی چھری سے ذبح کر دیں کہ وہ پھر کبھی اٹھنے نہ پائے.میں دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں کہ بعض افراد اور بعض مقامی جماعتوں کو یہ گندہ مواد گھن کی طرح کھا رہا ہے اور ان کے کام کی طاقت کم ہوتی جاتی ہے.پس آؤ آج کے دن جب کہ دنیا بھر کے مسلمان خدا کے رستہ میں جانور ذبح کر رہے ہیں ہم اپنے نفوس کے اس اندرونی شیطان کو بھی ذبح کر دیں ورنہ قرآنی محاورہ کے مطابق ہماری بندھی ہوا بگڑ جائے گی.سیہ وہ تین قربانیاں ہیں جن کی طرف میں اس موقع پر اپنے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ میری اس آواز پر لبیک کہیں گے تا احمدیت کا مقصد پورا ہو اور اسلام کا بول بالا ہو اور تا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس نام چارا کناف عالم میں اس طرح گونجے کہ بس ساری فضاء اس سے بھر جائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.محرره 25 جون 1958ء) وَاخِرُ دَعُونَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (روز نامه الع الفضل ربوہ 28 جون 1958ء) اسلام میں خلافت کا نظام خلافت کا مضمون موٹے طور پر مندرجہ ذیل شاخوں میں تقسیم شدہ ہے.(1) خلافت کی تعریف (2) خلافت کی ضرورت (3) خلافت کا قیام (4) خلافت کی علامات (5) خلافت کے اختیارات (6) خلافت سے عزل کا سوال اور (7) خلافت کا زمانہ میں اِن سب کے متعلق مختصر فقرات میں جواب دینے کی کوشش کروں گا.وَاللهُ الْمُوَفِّقُ وَالْمُسْتَعَانُ - خلافت کی تعریف سب سے اول نمبر پر خلافت کی تعریف کا سوال ہے.یعنی یہ کہ خلافت سے مراد کیا ہے اور نظامِ خلافت کس چیز کا نام ہے؟ سو جاننا چاہئے کہ خلافت ایک عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی کسی کے پیچھے آنے یا کسی کا قائم مقام بنے یا کسی کا نائب ہو کر اس کی نیابت کے فرائض سرانجام دینے کے ہیں اور اصطلاحی طور پر

Page 552

مضامین بشیر جلد سوم 530 خلیفہ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اوّل وہ ربانی مصلح جو خدا کی طرف سے دنیا میں کسی اصلاحی کام کے لئے مامور ہو کر مبعوث کیا جاتا ہے.چنانچہ اس معنی میں تمام انبیاء اور رسول خلیفۃ اللہ ہوتے ہیں.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے نائب ہونے کی حیثیت میں کام کرتے ہیں اور انہی معنوں میں قرآن شریف نے حضرت آدم اور حضرت داؤد کو ” خلیفہ کے نام سے یاد کیا ہے.دوم وہ برگزیدہ شخص جو کسی نبی یا روحانی مصلح کی وفات کے بعد اس کے کام کی تکمیل کے لئے اس کا قائم مقام اور اس کی جماعت کا امام بنتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما خلیفہ بنے.خلافت کی ضرورت دوسرا سوال خلافت کی ضرورت کا ہے.یعنی نظام خلافت کی ضرورت کس غرض سے پیش آتی ہے؟ سو اس کے متعلق جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت و دانائی کے ماتحت ہوتا ہے.چونکہ اس کے قانونِ طبعی کے ماتحت انسان کی عمر محدود ہے لیکن اصلاح کا کام لمبے زمانہ کی نگرانی اور تربیت چاہتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے نبوت کے بعد خلافت کا نظام مقرر فرمایا ہے تا کہ نبی کی وفات کے بعد خلفاء کے ذریعہ اس کے کام کی تکمیل ہو سکے.گویا جو تم نبی کے ذریعہ بویا جاتا ہے اسے خدا تعالیٰ خلفاء کے ذریعہ اس حد تک تکمیل کو پہنچانے کا انتظام فرماتا ہے کہ وہ ابتدائی خطرات سے محفوظ ہو کر ایک مضبوط پودے کی صورت اختیار کر لے.اس سے ظاہر ہے کہ خلافت کا نظام دراصل نبوت کے نظام کی فرع اور اس کا تتمہ ہے.اسی لئے ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ ہر نبوت کے بعد خلافت کا نظام قائم ہوتا ہے.خلافت کا قیام چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کی فرع اور اس کا تتمہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے قیام کو نبوت کی طرح اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تا کہ خدا کے علم میں جو شخص بھی حاضر الوقت لوگوں میں سے اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہو وہی مسندِ خلافت پر متمکن ہو سکے.البتہ چونکہ نبی کی بعثت کے بعد مومنوں کی ایک جماعت وجود میں آچکی ہوتی ہے اور وہ نبوت کے فیض سے تربیت یافتہ بھی ہوتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ خلافت کے انتخاب میں مومنوں کو بھی حصہ دار بنا دیتا ہے تا کہ وہ اس کی اطاعت بجالانے میں زیادہ شرح صدرمحسوس کریں.اس طرح خلیفہ کا انتخاب ایک عجیب وغریب مخلوط قسم کا رنگ رکھتا ہے کہ بظاہر مومن انتخاب کرتے ہیں مگر حقیقتا خدا کی تقدیر پوری ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ مومنوں کے دلوں پر تصرف فرما کر

Page 553

مضامین بشیر جلد سوم 531 ان کی رائے کو اہل شخص کی طرف مائل کر دیتا ہے.اسی لئے قرآن شریف میں ہر جگہ خلفاء کے تقرر کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور بار بار فرمایا ہے کہ خلیفہ میں بناتا ہوں.اور اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کی خلافت کے متعلق حدیث میں فرماتے ہیں کہ میرے بعد خدا اور مومنوں کی جماعت ابوبکر کے سوا کسی اور شخص کی خلافت پر راضی نہیں ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی رسالہ الوصیت میں یہی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے خود حضرت ابو بکر کو کھڑا کر کے مسلمانوں کی گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیا اور حضرت ابو بکر کی مثال پر خود اپنے متعلق بھی فرماتے ہیں کہ میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو خدا کی دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.ان حوالوں سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ گو بظاہر خلافت کے تقرر میں مومنوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے لیکن حقیقتا نقد یر خدا کی چلتی ہے.خلافت کی علامات اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلافت کی علامات کیا ہیں جن سے ایک سچے خلیفہ کو شناخت کیا جا سکے؟ سو جاننا چاہئے کہ جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوتا ہے ایک خلیفہ برحق کی دو بڑی علامتیں ہیں.ایک علامت وہ ہے جو سورہ نور کی آیت استخلاف میں بیان کی گئی ہے یعنی لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِيٍّ شَيْئًا (النور: 56) یعنی بچے خلفاء کے ذریعہ خدا تعالیٰ دین کی مضبوطی کا سامان پیدا کرتا ہے اور مومنوں کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دیتا ہے.یہ خلفاء صرف میری ہی عبادت کرتے ہیں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے.پس جس طرح ہر درخت اپنے ظاہری پھل سے پہچانا جاتا ہے اُسی طرح ہر سچا خلیفہ اپنے اس روحانی پھل سے پہچانا جاتا ہے جو اس کی ذات کے ساتھ ازل سے مقدر ہو چکا ہے.دوسری علامت حدیث میں بیان کی گئی ہے جو یہ ہے کہ استثنائی حالات کو چھوڑ کر ہر خلیفہ کا انتخاب مومنوں کی اتفاق رائے یا کثرت رائے سے ہونا چاہئے.کیونکہ گو حقیقتاً تقدیر خدا کی چلتی ہے مگر خدا نے اپنی حکیمانہ تقدیر کے ماتحت خلفاء کے تقرر میں بظاہر مومنوں کی رائے کا بھی دخل رکھا ہوا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر کی خلافت کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ يَدْفَعُ اللهُ وَ يَأْتِي الْمُؤْمِنُونَ یعنی نہ تو خدائی تقدیر ابوبکر کے سوا کسی اور کو خلیفہ بنے دے گی اور نہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اور کی خلافت پر راضی ہو گی.پس ہر

Page 554

مضامین بشیر جلد سوم 532 خلیفہ برحق کی یہ ڈہری علامت ہے کہ (1) وہ مومنوں کے انتخاب سے قائم ہو اور (2) خدا تعالیٰ اپنے فعل سے اس کی نصرت اور تائید میں کھڑا ہو جائے اور اس کے ذریعہ دین کو تمکنت پہنچے.اس کے سوا بعض اور علامتیں بھی ہیں مگر اس جگہ اس تفصیل کی گنجائش نہیں.خلافت کی برکات جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خلافت کا نظام ایک بہت ہی مبارک نظام ہے جس کے ذریعہ آفتاب نبوت کے ظاہری غروب کے بعد اللہ تعالیٰ ماہتاب نبوت کے طلوع کا انتظام فرماتا ہے اور الہی جماعت کو اُس دھکے کے خطرات سے بچالیتا ہے جو نبی کی وفات کے بعد نوزائیدہ جماعت پر ایک بھاری مصیبت کے طور پر وارد ہوتا ہے.نبی کا کام جیسا کہ قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے تبلیغ ہدایت کے ساتھ ساتھ مومنوں کی جماعت کی دینی تعلیم ، ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت اور ان کی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے.اور یہ سارے کام نبی کی وفات کے بعد خلیفہ وقت کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں جس کا وجود جماعت کو انتشار سے بچا کر انہیں ایک مضبوط لڑی میں پروئے رکھتا ہے.علاوہ ازیں نبی کا وجود جماعت کے لئے محبت اور اخلاص کے تعلقات کا روحانی مرکز ہوتا ہے جس کے ذریعہ وہ اتحاد اور یکجہتی اور باہمی تعاون کا زریں سبق سیکھتے ہیں اور خلیفہ کا وجود اس درس وفا کو جاری اور تازہ رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے وجود کو جو ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی وجہ سے خلیفہ کے وجود کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ایک بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے اور اسے انتہائی اہمیت دی ہے اور جماعت میں انتشار پیدا کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں مَن شَدَّ شُدَّ فِي النَّارِ یعنی جو شخص جماعت سے کتنا اور اس کے اندر تفرقہ پیدا کرتا ہے وہ اپنے لئے آگ کا رستہ کھولتا ہے.اور دوسری جگہ فرماتے ہیں عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَ سُنَّةَ الْخُلَفَاءَ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ.یعنی اے مسلمانو ! تم پر تمام دینی امور میں میری سنت پر عمل کرنا فرض ہے اور میرے بعد میرے خلفاء کے زمانہ میں ان کی سنت پر عمل کرنا بھی واجب ہوگا کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہوں گے.پس خلافت کا نظام ایک نہایت ہی بابرکت نظام ہے جس کے ذریعہ جماعتی اتحاد اور مرکزیت کے علاوہ جس کی ہر نوزائیدہ جماعت کو بھاری ضرورت ہوتی ہے نبوت کا نور جماعت کے سر پر جلوہ افروز رہتا ہے اور یہ ایک بہت بڑی نعمت اور بہت بڑی برکت ہے.

Page 555

مضامین بشیر جلد سوم خلافت کے اختیارات 533 اگلا سوال خلافت کے اختیارات سے تعلق رکھتا ہے.سو اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے بنیادی نکتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خلافت ایک روحانی نظام ہے جس میں حکومت کا حق اوپر سے نیچے کو آتا ہے اور چونکہ خلافت کا نظام نبوت کے نظام کی فرع ہے اور دوسری طرف شریعت ہمیشہ کے لئے مکمل ہو چکی ہے اس لئے جس طرح شریعت کی حدود کے اندر اندر نبوت کے اختیارات وسیع ہیں یعنی ایک خلیفہ اسلامی شریعت کی حدود کے اندراندر اور اپنے نبی متبوع کی سنت کے تابع رہتے ہوئے الہی جماعت کے نظم ونسق میں وسیع اختیارات رکھتا ہے.موجودہ زمانہ کے جمہوریت زدہ نوجوان اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ایک واحد شخص کے اختیارات کو اتنی وسعت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے.لیکن انہیں سوچنا چاہئے کہ اول تو خلافت کسی جمہوری اور دنیوی نظام کا حصہ نہیں ، بلکہ روحانی اور دینی نظام کا حصہ ہے جس کا حق خدا تعالیٰ کے ازلی حق کا حصہ بن کر اوپر سے نیچے کو آتا ہے اور خدا کا سایہ خلفاء کے سر پر رہتا ہے.دوسرے جب ایک خلیفہ کے لئے شریعت کی اپنی حدود معتین ہیں اور نبی متبوع کی سنت کی چاردیواری بھی موجود ہے تو ان ٹھوس قیود کے ماتحت اس کے اختیارات کی وسعت پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ نبی کے بعد خلیفہ کا وجود یقیناً ایک نعمت اور رحمت ہے اور رحمت کی وسعت بہر حال برکت کا موجب ہوتی ہے نہ کہ اعتراض کا ! بایں ہمہ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ چونکہ خلیفہ کے انتخاب میں بظاہر لوگوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے اس لئے اسے تمام اہم امور میں مومنوں کے مشورہ سے کام کرنا چاہئے.بے شک وہ اس بات کا پابند نہیں کہ لوگوں کے مشورہ کو ہر صورت میں قبول کرے لیکن وہ مشورہ حاصل کرنے کا پابند ضرور ہے تا کہ اس طرح ایک طرف تو جماعت میں ملکی اور دینی سیاست کی تربیت کا کام جاری رہے اور دوسری طرف عام کاموں میں مشورہ قبول کرنے سے جماعت میں زیادہ بشاشت کی کیفیت پیدا ہولیکن خاص حالات میں وَ إِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّه کا مقام بھی قائم رہے.یہ ایک بہت لطیف فلسفہ ہے وَلَكِنْ قَلِيْلاً مَّا يَتَفَكَّرُوْنَ.خلافت سے عزل کا سوال جن لوگوں نے خلافت کے مقام کو نہیں سمجھا وہ بعض اوقات اپنی نادانی سے خلیفہ کے عزل کے سوال میں اُلجھنے لگتے ہیں.وہ دنیا کے جمہوری نظاموں کی طرح خلافت کو بھی ایک دنیوی نظام خیال کر کے حسب ضرورت خلیفہ کے عزل کا رستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں.یہ ایک انتہا درجہ کی جہالت کا خیال ہے جو خلافت کے

Page 556

مضامین بشیر جلد سوم 534 حقیقی مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.حق یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے خلافت ایک روحانی نظام ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص تصرف کے ماتحت نبوت کے تتمہ اور تکملہ کے طور پر قائم کیا جاتا ہے اور گواس میں مصلحت الہی سے بظاہر لوگوں کی رائے کا بھی دخل ہوتا ہے مگر حقیقت وہ خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے ماتحت قائم ہوتا ہے اور پھر وہ ایک اعلی درجہ کا الہی انعام بھی ہے پس اس کے متعلق کسی صورت میں عزل کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا.اسی لئے حضرت عثمان کی خلافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ خدا تجھے ایک قمیص پہنائے گا مگر منافق لوگ اسے اتارنا چاہیں گے لیکن تم اسے ہرگز نہ اُتارنا“.اس مختصر ارشاد میں خلافت کے بابرکت قیام اور عزل کی ناپاک تحریک کا سارا فلسفہ آ جاتا ہے.پھر نادان لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر باوجود اس کے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اس کے عزل کا سوال اٹھ سکتا ہے تو پھر نعوذ باللہ ایک نبی کے عزل کا سوال کیوں نہیں اٹھ سکتا ؟ پس حق یہی ہے کہ خلفاء کے عزل کا سوال بالکل خارج از بحث ہے اور انبیاء کی طرح ان کے مزعومہ عزل کی ایک ہی صورت ہے کہ خدا انہیں موت کے ذریعہ دنیا سے اٹھا لے.خوب یا د رکھو کہ خلافت کے عزل کا سوال خلافت کے قیام کی فرع ہے نہ کہ ایک مستقل سوال.پس اگر یہ ایک حقیقت ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اس نے بار بار ا علان فرمایا ہے اور جیسا کہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان کے معاملہ میں صراحت فرمائی ہے تو عزل کا سوال کسی سچے مومن کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی پیدا نہیں ہوسکتا.اسلام تو اس ضبط ونظم کا مذہب ہے کہ اس نے دنیوی حکمرانوں کے متعلق بھی جو محض لوگوں کی رائے سے یا ورثہ کی صورت میں قائم ہوتے ہیں تعلیم دی ہے کہ ان کے خلاف سراٹھانے اور ان کے عزل کی کوشش کرنے کے درپے نہ ہو إِلَّا انُ تَرَوْا كُفْراً بَوَّاحًا ( سوائے اس کے کہ تم ان کے رویہ میں خدائی قانون کی صریح بغاوت پاؤ) تو کیا وہ خدا کے بنائے ہوئے خلفاء اور نبی کے مقدس جانشینوں کے متعلق عزل کی اجازت دے سکتا ہے؟ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ (المومنون : 37).خلافت کا زمانہ بالآخر اس بحث میں خلافت کے زمانہ کا سوال پیدا ہوتا ہے.سو ظاہر ہے کہ جب خلافت خدا کا ایک انعام ہے اور وہ نبوت کے کام کی تکمیل کیلئے آتی ہے تو لازماً اس کے قیام کی وہی شرطیں سمجھی جائیں گی.اوّل یہ کہ خدائے حکیم و علیم کے علم میں مومنوں کی جماعت میں اس کی اہلیت رکھنے والے لوگ موجود ہوں اور

Page 557

مضامین بشیر جلد سوم 535 دوسرے یہ کہ نبوت کے کام کی تکمیل کیلئے اس کی ضرورت باقی ہو اور چونکہ یہ دونوں باتیں خدا تعالیٰ کے مخصوص علم سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کسی دور میں خلافت کے زمانہ کا علم بھی صرف خدا کو ہی ہو سکتا ہے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نبوت کے متعلق فرماتا ہے اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُر سَالَتَهُ (الانعام: 125) یعنی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے سپر د کرے اور چونکہ خلافت کا نظام بھی نبوت کے نظام کی فرع ہے اس لئے اس کے لئے بھی یہی قانون نافذ سمجھا جائے گا جو اس لطیف آیت میں نبوت کے متعلق بیان کیا گیا ہے.اب چونکہ حیث کا لفظ جو اس آیت میں رکھا گیا ہے عربی زبان میں ظرف مکان اور ظرف زمان دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اس لئے اس آیت کے مکمل معنی یہ بنیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس بات کو بہتر جانتا ہے کہ نبوت اور اس کی اتباع میں خلافت پر کس شخص کو فائز کرے اور پھر کس عرصہ تک کے لئے اس انعام کو جاری رکھے ؟ پس جب تک کسی الہی جماعت میں خلافت کی اہلیت رکھنے والے لوگ موجودرہیں گے اور پھر جب تک خدا کے علم میں کسی الہی جماعت کے لئے نبوت کے کام کی تکمیل اور اس کی تخمریزی کے نشو ونما کی ضرورت باقی رہے گی ، خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا.اور اگر کسی وقت ظاہری اور تنظیمی خلافت کا دور دبے گا تو اس کے مقابل پر اسلام کی خدمت کیلئے روحانی خلافت کا دور اُبھر آئے گا اور اس طرح انشاء اللہ اسلام کے باغ پر کبھی دائگی خزاں کا غلبہ نہیں ہوگا.وَ ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْحَكِيم وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ - (ماہنامہ الفرقان خلافت راشدہ نمبر جولائی 1958 ء).........18 ہماری بھا وجہ صاحبہ کا انتقال ہماری بھا وجہ صاحبہ سیدہ ام ناصر احمد کی وفات کو جماعت میں جس رنگ میں محسوس کیا گیا ہے وہ ان کی غیر معمولی ہر دل عزیزی اور نیکی اور تقویٰ کا ایک بین ثبوت ہے.ہر چند کہ گزشتہ چند دن سے ان کی بیماری کے متعلق الفضل میں اعلانات چھپ رہے تھے اور بیماری کے تشویشناک پہلو کے متعلق بھی اشارات کافی واضح تھے پھر بھی ان کی وفات کی خبر ایک اچانک صدمہ کے رنگ میں محسوس کی گئی.جس نے اس کی تلخی کو بہت بڑھا دیا.مگر اس حادثہ کا زیادہ تلخ پہلو یہ ہے کہ بعض ناگزیر حالات کی وجہ سے اور کسی قدر نامکمل اطلاعات کی بناء پر مرحومہ کے زندگی بھر کے رفیق حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ بھی جو اس وقت نخلہ میں تشریف رکھتے تھے ان کی زندگی میں مری نہیں پہنچ سکے اور یہ حسرت دونوں کے دلوں میں رہی ہوگی کہ اس

Page 558

مضامین بشیر جلد سوم 536 دنیائے نا پائیدار میں ان کی آخری ملاقات نہیں ہو سکی اور حضرت صاحب تیز سفر کرنے کے باوجود وفات سے چار پانچ گھنٹے کے بعد مری پہنچے.حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ مرحومہ کا نکاح اکتوبر 1902 ء میں بمقام رڑ کی ہوا تھا.جہاں ان کے والد محترم حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم جو قدیم صحابہ میں سے تھے ان ایام میں متعین تھے.اس تقریب میں حضرت خلیفہ اول بھی شامل ہوئے.اگلے سال یعنی اکتوبر 1903ء میں بمقام آگرا آپ کا رخصتا نہ ہوا.(الفضل کی یہ رپورٹ کہ شادی 1905ء میں ہوئی تھی بعد کی تحقیق سے درست ثابت نہیں ہوئی ) اس طرح حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ مرحومہ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے ساتھ قریباً پچپن چھپن سال گزارے جو خدا کے فضل سے ایک بہت غیر معمولی زمانہ ہے.اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کا بھی ایک لمبا عرصہ میسر آ گیا.اور پھر ان کو اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی دوسروں کی نسبت زیادہ عطا کی.جن میں سے اس وقت خدا کے فضل سے سات لڑکے اور دولڑ کیاں زندہ موجود ہیں.ان میں سب سے بڑے عزیزم مرزا ناصر احمد سلمہ ہیں اور سب سے چھوٹا عزیز مرزا رفیق احمد ہے جو ابھی تک زیر تعلیم اور قابل شادی ہے اور سیدہ مرحومہ کو بہت عزیز تھا.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کے زخمی دلوں میں اپنی جناب سے مرہم کا چھا یہ رکھے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ نہایت ملنسار، سب کے ساتھ بڑی محبت اور کشادہ پیشانی سے ملنے والی اور حقیقتاً حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے گھر کی رونق تھیں.اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جماعت کی مستورات کا گویا وہی مرکز تھیں.کیونکہ عمر میں بھی وہ ہمارے خاندان کی سب خواتین میں بڑی تھیں اور طبیعت کے لحاظ سے بھی اس امتیاز کی اہل تھیں.بیشک ہماری بڑی ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ کو بھی یہ وصف نمایاں طور پر حاصل ہے مگر وہ لاہور میں رک جانے اور بعض الجھنوں میں پھنس جانے کی وجہ سے ربوہ کی مرکزیت میں عملاً حصہ دار نہیں بن سکیں.اس لئے عملاً یہ فرض سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ کے ذمہ ہی رہا.لہذا ان کی وفات نے وقتی طور پر یقینا ایک خلا سا پیدا کر دیا ہے جسے دور کرنے والا خدا ہی ہے.سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ نے بہت بے شر طبیعت پائی تھی.ان کے وجود سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی اور ان کا وجود ساری عمر اس نوع کی معصومیت کا مرکز بنا رہا.نیکی اور تقوی میں بھی مرحومہ کا مقام بہت بلند تھا.غالبا یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ کو جو جیب خرچ حضرت خلیفہ اسح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی طرف سے ملتا تھا اسے وہ سب کا سب چندہ میں دے دیتی تھیں اور اولین موصوں میں

Page 559

مضامین بشیر جلد سوم 537 سے بھی تھیں.جب تک روزوں کی طاقت رہی روزے رکھے اور بعد میں بہت التزام کے ساتھ فدیہ ادا کرتی رہیں.یہ انہی کی نیک تربیت کا اثر تھا کہ ان کی اولا دخدا کے فضل سے نمازوں اور دعاؤں میں خاص شغف رکھتی ہے.سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ کو یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ عرصہ دراز تک لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی صد رر ہیں.حضرت ام ناصر احمد صاحبہ کی وفات کے نتیجہ میں احباب جماعت کو اس وقت خاص طور پر چار دعاؤں پر بہت زور دینا چاہئے.(اول) یہ کہ حضرت صاحب کی طبیعت پر ان کی وفات کا کوئی ایسا اثر نہ پڑے جو حضور کی بیماری اور تکلیف میں اضافہ کرنے کا موجب ہو.(دوسرے ) یہ کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی اولاد کا حافظ و ناصر ہو خصوصاً عزیز رفیق احمد کا جو اس وقت بہت غم زدہ اور مضمحل ہے.(تیسرے) یہ کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ میں بہت لطیف دعا سکھائی ہے جماعت ہماری بھا وجہ مرحومہ کے نیک اعمال کے اجر سے محروم نہ ہونے پائے.(چوتھے ) یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ربوہ میں خواتین کے لئے کوئی ایسا وجود پیدا کر دے جو اپنے اندر مرکزیت کا مقام رکھتا ہوتا کہ احمدی مستورات اس سے مل کر اپنے دلوں میں روحانی راحت پائیں اور اپنے مسائل میں مشورہ حاصل کر کے سکون حاصل کر سکیں.ہماری دوسری بھاوج سیدہ ام متین صاحبہ حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ کی خدمت میں قابلِ رشک انہاک رکھتی ہیں اور ایک طرح سے خط وکتابت کے کام میں حضرت صاحب کی گویا پرائیویٹ سیکرٹری بھی ہیں.مگر طبعا انہیں مستورات سے ملاقات کرنے کے لئے بہت کم وقت ملتا ہے اور پھر طبائع کی مناسبت بھی جدا گانہ ہوتی ہے.اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ جو بات میں نے فقرہ نمبر چہارم کے ماتحت لکھی ہے اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے اس کا کوئی احسن انتظام فرما دے.یا ہماری ہمشیرہ کے لئے ہی ربوہ میں آکر خیر و خوبی کے ساتھ آباد ہونے کا رستہ کھل جائے.( محررہ 4 اگست 1958 ء)........روزنامه الفضل ربوہ 7 اگست 1958 ء ) خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی کا انتقال اور ذکر خیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے خان صاحب منشی برکت علی صاحب شملوی کی وفات کی اطلاع الفضل میں بھجواتے ہوئے ان کے اوصاف کا یوں ذکر فرمایا.خان صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور بہت نیک اور مخلص اور سادہ مزاج

Page 560

مضامین بشیر جلد سوم 538 بزرگ تھے.ان کی بیعت 1900 ء یا 1901ء کی ہے.ان کو دو زمانوں میں سلسلہ کی خاص خدمت کا موقع میسر آیا.اولاً جماعت احمد یہ شملہ کے صدر اور امیر کی حیثیت میں جبکہ انہوں نے شملہ کی جماعت کو غیر معمولی حسنِ تدبیر کے ساتھ سنبھالا اور 1914ء کے فتنہ خلافت کے ایام میں خصوصیت کے ساتھ قابل قدر خدمات سرانجام دیں اور جماعت کے کثیر حصہ کو لغزش سے بچالیا.شملہ کی جماعت میں ان کی صدارت اور امارت کا زمانہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بڑا امتیاز رکھتا ہے.اس کے بعد جب وہ پینشن پا کر قادیان تشریف لائے تو مرکز میں لمبے عرصہ تک جائنٹ ناظر بیت المال کے عہدہ پر بہت مخلصانہ خدمات سرانجام دیں.شملہ میں تنظیم اور با قاعدگی اور حسن تدبیر کی خوبیاں ان کے کام کی طرہ امتیاز تھیں.خان صاحب مرحوم خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے حقیقی ماموں تھے.خان صاحب برکت علی صاحب نے 86 سال کی عمر میں وفات پائی ہے.مگر ہمت اور جذبہ خدمت کا یہ عالم تھا کہ غالباً دو سال ہوئے انہوں نے قرآنی علوم کے فہم کے متعلق ایک رسالہ تصنیف کر کے شائع کیا تھا.جس کے بعض مضامین واقعی عمدہ اور اچھوتے تھے.اسی طرح ان کی اکثر روایات بھی غالبا چھپ چکی ہیں.خان صاحب مرحوم نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی.ان کی اہلیہ جو وہ بھی خاوند کی طرح بہت نیک اور مخلص تھیں ان کی زندگی میں ہی چند سال ہوئے فوت ہو گئی تھیں اور ربوہ کے مقبرہ بہشتی میں مدفون ہیں.مرحومہ کو حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے ساتھ بہت عقیدت تھی.اللہ تعالیٰ دونوں کو غریق رحمت کرے اور اپنے خاص افضال سے نوازے اور جماعت میں ان کی امثال پیدا کر کے ان کے نیک عمل کو جاری رکھے.آمین.(محرره 7 اگست 1958 ء) روز نامه الفضل ربوه 10 اگست 1958ء) کتاب ظہور احمد موعود مصنفہ محترم قاضی محمد یوسف صاحب پر تبصرہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے محترم قاضی محمد یوسف صاحب کی تازہ تصنیف ” ظہور احمد موعود “ پڑھ

Page 561

مضامین بشیر جلد سوم 539 کر ایک خط میں آپ کو تحریر فرمایا.چند دن ہوئے مجھے مولوی عبد اللطیف صاحب نے آپ کی تازہ تصنیف ” ظہور احمد موعود‘ کا ایک نسخہ بھجوایا جو میں نے ایک نشست میں ہی ختم کر لیا.بہت دلچسپ اور ایمان افروز کتاب ہے.بعض حصوں کے مطالعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے.حضرت مسیح موعود پر آپ کا چٹان کی طرح ایمان بہت قابل رشک ہے.اور غیر مبایعین کے مقابلہ پر آپ کا مضبوط اور مستحکم قدم بھی بہت قابل قدر ہے.قبروں پر پھول چڑھانا روزنامه الفضل ربوہ 14 اگست 1958ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا ایک ارشاد اور اس کی حکمت چند دن ہوئے نظارت اصلاح وارشادر بوہ کی طرف سے الفضل (مورخہ 12 اگست ) میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا ایک فتویٰ قبروں پر پھول ڈالنے کے متعلق شائع ہوا تھا.یہ فتویٰ اپنی ذات میں بہت خوب ہے مگر یہ فتویٰ صرف ایک خاص پہلو کو مد نظر رکھ کر دیا گیا تھا.کیونکہ فتویٰ پوچھنے والے نے صرف اس جہت سے فتویٰ پوچھا تھا کہ کیا میت کی روح کو راحت پہنچانے کی غرض سے قبر پر پھول ڈالنا جائز ہے.جسے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بدعت قرار دے کرنا جائز اور خلاف شریعت گردانا.لیکن اس فتویٰ کے بعد بھی مسئلہ کا یہ پہلو قابل تشریح رہتا ہے کہ روح کو خوشی پہنچانے کی غرض سے نہ سہی لیکن کیا ویسے ہی زینت وغیرہ کے خیال سے قبروں پر پھول رکھے جاسکتے ہیں؟ سواس کے متعلق مجھے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کا ایک ارشاد یاد آیا ہے جس میں مسئلہ کے اس پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے.اس کی تفصیل یہ ہے: جب 1938ء میں (غالبا یہ 38 ء کا سال ہی تھا ) لندن سے عزیز سعید احمد مرحوم پسر مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے کا تابوت آیا اور وہ بچوں والے مقبرہ میں دفن کیا جانے لگا تو اس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بھی جنازہ کے ساتھ قبرستان تک تشریف لے گئے تھے.جب قبر تیار ہوگئی تو حاضر الوقت اصحاب میں سے کسی نے زینت اور اکرام کے خیال سے قبر پر کچھ پھول بکھیر نے چاہے.لیکن حضرت

Page 562

مضامین بشیر جلد سوم خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ نے اسے روک دیا اور فرمایا ( غالبا اس قسم کے الفاظ تھے ) کہ یہ جائز نہیں اس طرح بدعت کا رستہ کھلتا ہے“ 540 حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے اوپر والے فتویٰ کے ساتھ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ کا یہ فتوی مل کر ایک مکمل فتوی بن جاتا ہے.جس میں اس مسئلہ کے سارے پہلو آ جاتے ہیں.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ گو کسی قبر پر پھول ڈالنا بظاہر ایک معصوم سی بات نظر آتی ہے بلکہ اس میں بظاہر میت کا اکرام بھی پایا جاتا ہے لیکن غور کرنے والا انسان سمجھ سکتا ہے کہ اس میں دو قسم کی خرابیوں کے پیدا ہونے کا بھاری خطرہ ہے.(1) اول یہ کہ اس طرح آہستہ آہستہ شرک کا رستہ کھلتا ہے اور شروع میں عام اکرام کی نیت سے ابتداء ہو کر بالآخر قبروں کے غیر معمولی اجلال و احترام بلکہ قبر پرستی تک نوبت پہنچ جاتی ہے.چنانچہ اس زمانہ میں لاکھوں مسلمان قبروں کو سجدہ کر کے اپنی عاقبت تباہ کرتے ہیں.حالانکہ جن بزرگوں کی قبروں پر سجدہ کیا جاتا ہے وہ ہرگز اس طریق کے مؤید نہیں تھے اور جانتے تھے کہ اس کا انجام اچھا نہیں.ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے نشہ آور چیزوں کے معاملہ میں کیا حکیمانہ ارشاد فرمایا ہے کہ: ما أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيْلَهُ حرام (سنن ابوداؤ د کتاب الاشرب) یعنی جو چیز بڑی مقدار میں نشہ پیدا کرے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے.اس لطیف ارشاد میں یہی حکمت ہے کہ بعض چیزوں کی ابتداء بظاہر چھوٹی اور معمولی معلوم ہوتی ہے اور بات بالکل معصوم نظر آتی ہے لیکن چونکہ ان کا مال اور انجام تباہ کن ہوتا ہے اور انسان ضعیف البنیان فطرتاً ایک چھوٹی سی بات کی ابتداء کر کے قدم آگے ہی آگے بڑھانے کا رجحان رکھتا ہے اس لئے شریعت نے کمال حکمت سے جڑ پر ہاتھ رکھ کر اس کے بظاہر معصوم حصہ کو بھی منع فرما دیا ہے تالوگ ہر قسم کی امکانی ٹھوکر سے بیچ جائیں.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں فرمایا تھا کہ دیکھنا میرے بعد میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لینا.آپ جانتے تھے کہ آپ کے صحابہ ہرگز ایسا نہیں کریں گے مگر آپ دور کے خطرات کو دیکھ رہے تھے.(2) دوسرا نفسیاتی نکتہ اس ارشاد میں یہ ہے کہ اگر مرنے والا خدا کے فضل سے نیک اور جنتی ہے تو اس کی قبر پر پھول چڑھانا اس کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتا.کیونکہ جو روح جنت میں پہنچ گئی اور جنت کی عدیم المثال نعمتوں میں داخل ہوگئی یا کم از کم اس کے رستہ پر پڑ گئی اس کے لئے یہ ارضی پھول کیا حقیقت رکھتے ہیں ؟ اور اسے ان پھولوں سے کیا خوشی پہنچ سکتی ہے؟ بلکہ وہ تو جنت کے پھولوں کے سامنے

Page 563

مضامین بشیر جلد سوم 541 ان پھولوں کو اپنے لئے موجب بہتک سمجھتی ہوگی.دوسری طرف اگر مرنے والا خدا نخواستہ دوزخی ہے تو اسے یہ پھول ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں دے سکتے بلکہ اس کی روح ( اگر اسے علم ہو ) خیال کرتی ہوگی کہ میرے عزیز اور میرے وارث میری ہنسی اڑا رہے ہیں کہ میں تو دوزخ کی آگ میں جل رہی ہوں اور وہ مجھ پر پھول پھینک رہے ہیں.پس کسی جہت سے بھی دیکھا جائے قبروں پر پھول ڈالنا یا پھول چڑھانا ایک بدعت ہے جس کا کوئی بھی فائدہ نہیں.بلکہ وہ سراسر نقصان دہ ہے.کیونکہ ایک طرف تو وہ مرنے والوں کے لئے اذیت کا موجب ہے اور دوسری طرف وہ شرک کا رستہ بھی کھولتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اوائل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کسی مومن نے کبھی اس قسم کی بات نہیں کی.بے شک اسلام میں قبر کے واجبی اکرام کا حکم ہے اور ہدایت دی گئی ہے کہ ان پر بیٹھنے یا ان پر پاؤں رکھنے سے اجتناب کرو اور انہیں حتی الوسع صاف اور ستھرا رکھو.اور ان کے ماحول کو بھی روشوں وغیرہ کے ذریعہ مناسب طور پر خوشنما بنایا جاسکتا ہے.مگر یہ صرف واجبی احترام کی حد تک ہے تا کہ مرنے والوں کی تخفیف اور تذلیل نہ ہو.اور ان کے رشتہ داروں اور عزیزوں کے جذبات کو بھی ٹھیس نہ لگے.اس سے زیادہ کچھ نہیں.اور اس سے آگے بڑھنا بدعت میں داخل ہے جس میں مرنے والوں کی کوئی عزت نہیں.بلکہ جیسا کہ میں نے اور پر تشریح کی ہے اس میں حقیقتاً ان کی دل آزاری ہے اور ایسی بدعتوں کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا.قبروں کی زیارت کا صرف یہ مقصد ہونا چاہئے کہ تا مرنے والے کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے دعا کی جائے.اس کے نیک مقاصد کی کامیابی کے لئے اپنے آسمانی آقا کے سامنے ہاتھ پھیلائے جائیں.اس کی آل و اولاد کی حفاظت اور ترقی کے لئے خدا کے حضور جھکا جائے اور اپنی موت کو یاد کر کے اپنے اچھے انجام کے واسطے بھی دعا مانگی جائے.ہاں قبروں کی زیارت کی ایک غرض سیاسی بھی ہوا کرتی ہے.اور وہ یہ کہ مختلف قو میں اپنے بانیوں اور خاص خاص لیڈروں کی قبروں کو ایسے رنگ میں تعمیر کرتی ہیں کہ تا دوسری قوموں کے لوگ وہاں جا کر اپنی عقیدت اور احترام کے پھول چڑھائیں.اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طریق قوموں کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدددیتا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کی زیارت کا اصل مقصد دعا نہیں ہوتا ( بلکہ زائرین میں بیشتر لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو دعا کے قائل ہی نہیں ہوتے ) اور صرف قومی اور سیاسی رنگ میں احترام اور باہم قدر شناسی کا اظہار مقصود ہوتا ہے.ایسی صورت میں دنیا کا رواج ہے کہ جب بڑے لوگ کسی غیر ملک

Page 564

مضامین بشیر جلد سوم 542 میں جاتے ہیں تو اس ملک کے بانی یا کسی اور مخصوص لیڈر کی قبر پر جا کر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں.سو یہ ایک سیاسی طریق ہے جسے اس مذہبی فتوی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.وَاللهُ أَعْلَمُ.( محررہ 15 اگست 1958 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 20 اگست 1598ء) 22 ایک نہایت ایمان افروز روایت خدا تعالی کے حضور حضرت مسیح موعود کا بلند مقام حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی مرحوم کو اکثر دوست جانتے ہیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین اور مخلص ترین صحابہ میں سے تھے.جنہوں نے محبت اور اخلاص سے حصہ وافر پایا تھا.اور جیسا کہ حضرت منشی صاحب مرحوم کی دیگر روایتوں سے ظاہر ہے جو اصحاب احمد میں چھپ چکی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی انہیں بڑی محبت اور شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان سے اپنے عزیزوں کی طرح بے تکلفی کا سلوک فرماتے تھے.حضرت منشی صاحب مرحوم کے فرزند شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ لائکپور ہے ( حال فیصل آباد) نے جو خدا کے فضل سے اپنے والد مرحوم کے قدموں پر گامزن ہیں مجھے حضرت منشی صاحب کی ایک روایت لکھ کر بھجوائی ہے جو غالبا پہلے کسی جگہ نہیں چھپی.یہ روایت بہت ایمان افروز ہے.کیونکہ اس سے اس بلند مقام کا پتہ چلتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوخدا تعالیٰ کے حضور حاصل تھا.جس کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اب محمدی سلسله موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے مگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر.مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ، ابن مریم سے بڑھ کر.“ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں: کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 14) گوخدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میس محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے.لیکن تاہم میں مسیح ابن مریم کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ میں روحانیت کی رو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں.جیسا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ میں خاتم الخلفاء تھا.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17 )

Page 565

مضامین بشیر جلد سوم 543 بہر حال حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی روایت جو مجھے ان کے صاحبزادہ محترم شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ لائکپور کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے درج ذیل کی جاتی ہے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور جو پیشگوئیوں میں میعاد مقرر فرما دیتے ہیں کسی میں ایک سال کسی میں دو سال یا اس سے کم و بیش تو آیا حضور، اللہ تعالیٰ کے اذن اور الہام سے ایسا کرتے ہیں؟ حضور نے جواب دیا کہ اکثر تو میں اللہ تعالیٰ کے اذن اور الہام سے ہی میعاد مقرر کرتا ہوں مگر بعض اوقات میں خود بھی میعاد مقرر کر دیتا ہوں کیونکہ خدا کو میں نے دیکھا ہے اور جو تعلق اس کا میرے ساتھ ہے اس کے پیش نظر میں اس پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ جب میں سجدے میں اس کے سامنے گروں گا تو وہ میری درخواست ضرور قبول فرمالے گا.“ اس لطیف روایت سے جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ غیر معمولی شفقت اور عزت افزائی پر بے نظیر روشنی پڑتی ہے وہاں اس بات پر بھی گویا روشنی کا ایک درخشاں سورج طلوع کرتا ہے کہ حضور کو اپنے آسمانی آقا کی محبت اور قدرشناسی اور قبولیت پر کس قدر یقین اور کس درجہ ایمان تھا.یہ اسی قسم کا روحانی مقام ہے جس کی طرف حضرت مولانا رومی علیہ الرحمۃ نے اپنے اس شعر میں اشارہ فرمایا ہے کہ: ع گفت او گفته الله بود گرچه عبدالله بود ( مثنوی مولانا روم ) از حلقوم یعنی یہ وہ طبقہ ہے کہ جب وہ کلام کرتا ہے تو دراصل خدا کلام کر رہا ہوتا ہے گو بظاہر ایک بندے کے منہ سے آواز نکلتی نظر آتی ہے.ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مقامِ قرب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: إِنِّي نَزَلْتُ بِمَنْزِلَةٍ مِن رَبِّي لَا يَعْلَمُهَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ وَ أَنَّ سِرِى أَخْفَىٰ وَ أَنْثَى مِنْ أكثر أهلُ اللَّهِ فَضْلاً عن عامة الاناسِ (خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 51) یعنی مجھے اپنے آسمانی آقا کے حضور ایسا مقام حاصل ہے کہ لوگوں میں سے کوئی اس پر آگاہ نہیں اور میرا روحانی را ز اتنا مخفی اور لوگوں کی نظروں سے اس قدر دور ہے کہ وہ اکثر اہل اللہ سے بھی پوشیدہ ہے چہ جائیکہ

Page 566

مضامین بشیر جلد سوم عام لوگوں کو اس کا علم ہو.544 حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز مرہ کے معمولی سے واقعہ کے تعلق میں فرماتے ہیں کہ رُبَّ أَشْعَتَ أَغْبَرَ لَو أَقسَمَ بِاللَّهِ لَا بَرَّهُ ( صحیح مسلم کتاب البر ) یعنی کئی پراگندہ حال اور غبار آلو دلوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کے فضل ورحمت پر بھروسہ کر کے کسی امر میں قسم کھا جائیں کہ خدا کی قسم ایسا ہوگا یا خدا کی قسم ایسا نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کی لاج رکھ کر اسے پورا کر دیتا ہے.تو جب عام مومنوں کا ( جو خدا کے تعلق پر بھروسہ کر کے کوئی بات کہہ جاتے ہیں ) یہ حال ہے تو اس بزرگ ہستی کا کیا کہنا ہے جس کے مقام اخروی کے متعلق ہمارے آقا سرور کائنات فخر موجودات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : ” يُدْفَنُ مَعِى فِي قَبُرِى“ (مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسی علیہ السلام) یعنی میری امت کے مسیح کو یہ روحانی مقام حاصل ہے کہ وہ فوت ہونے کے بعد میرے ساتھ میری قبر میں دفن کیا جائے گا.اس سے نعوذ باللہ یہ مراد نہیں کہ کسی زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کوکھود کر اس میں مسیح موعود کے جسد کو اتارا جائے گا.یہ مادی لوگوں کی پست خیالی کی باتیں ہیں جنہیں اپنی محدود نظر میں محصور ہونے کی وجہ سے رسول پاک (فداہ نفسی ) کی عزت تک کا پاس نہیں.بلکہ اس میں مسیح موعود کے مقام ظلیت اور بروزیت کی طرف اشارہ ہے.اور یہ بتانا مقصود ہے کہ میری امت کا مسیح میرے ہی روحانی وجود کا ٹکڑا ہے اور وہ جو کچھ پائے گا میرے ہی فیض سے اور میرے ہی واسطہ سے اور مجھی میں سے ہو کر پائے گا.اللهم صَلِّ عَلَيْهِ وَ عَلَى مَطَاعِهِ مُحَمّدٍ صَلَواةٌ وَسَلَامًا دَ آئِمَاً وَ وَفَقْنَا الْخِدْمَةَ دِينِكَ الْإِسْلَامِ مَا أَحْيَيْتَنَا وَابْعَثْنَا تَحْتَ أَقْدَامَ أَحِبَائِكَ إِذَا تَوَفَّيْتَنَا وَ آتِنَا مَا وَعَدَتَنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخَذِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَاد میں نے جو یہ دعائیہ کلمات لکھے ہیں یہ جماعت کو توجہ دلانے کے لئے لکھے ہیں کہ جب خدا نے ہمیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک جھنڈے کے نیچے ایسے ارفع مقام کا امام عطا فرمایا ہے تو جماعت کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی ہمتوں کو بلند کر کے اور اپنے عزائم کو پختہ کر کے نہ صرف خود روحانیت میں اعلیٰ مقام

Page 567

مضامین بشیر جلد سوم 545 حاصل کرے بلکہ خدمتِ اسلام کا بھی وہ نمونہ دکھائے جو صحابہ نے دکھایا اور دین کی خاطر وہ قربانی پیش کرے جو اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محررہ 25 اگست 1958 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 28 اگست 1958 ء ) مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کو اس کے سالانہ اجتماع پر جو پیغام بھجوایا اس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے.در مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے جو ستمبر میں اپنا خاص اجتماع منعقد کر رہی ہے مجھ سے پیغام بھجوانے کے لئے کہا ہے.خوش قسمتی سے مجھے پیغام کے لئے زیادہ تلاش نہیں کرنی پڑی.اس زمانہ کا جو اہم ترین مسئلہ ہے وہ زمانہ کی تاریخ کے ہر صفحہ پر لکھا ہوا نظر آتا ہے.باوجود اس کے کہ تمام تو میں اور فرقے کسی نہ کسی مذہب کی پیروی کرنے کا دعوی کرتے ہیں.لیکن یہ تمام کے تمام عملی طور پر غیر مذہبی اور مادی افعال میں مبتلا ہیں.یہ صرف حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ہی کی واحد ذات ہے جو کہ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر صحیح مذہب اور زندگی بخش روحانیت کی شمع کو جلائے ہوئے ہے.ان نو جوانوں کے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا دعوی کرتے ہیں یہ لازمی ہے کہ ان کے لائے ہوئے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں اور مردہ روحوں کونئی زندگی کا جام بخشیں.نوجوانوں سے اگر صحیح طور پر کام لیا جائے تو وہ اتنازیادہ کام کر سکتے ہیں کہ وہ خود بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ نے احمدی نوجوانوں کے لئے اپنا پیغام اس شعر میں انتہائی جامع رنگ میں پیش فرمایا ہے: بکوشید اے جواناں تابدیں قوت شود پیدا (در نمین فارسی) بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا وہ اعمال جو یہ عظیم انقلاب لا سکتے ہیں مختصر ادرج ذیل ہیں: 1.سب سے پہلے تو یہ کہ آپ حقیقی خدا پرست احمدی بن جائیں تا آپ اسلام اور احمدیت کے زندہ نمونہ ہوں اور زندگی کے ہر شعبہ میں آپ کے قول وفعل میں یگانگت پائی جائے.

Page 568

مضامین بشیر جلد سوم 546 2.آپ دیانتداری سے اس عقیدہ کی تبلیغ کریں جس پر آپ خود ایمان رکھتے ہیں اور عمل پیرا ہیں.یہی حقیقی احمدیت ہے اور یہی حقیقی اسلام ہے اور کامیابی کا واحد راستہ ہے.خدا تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.روزنامه الفضل ربوہ 17اکتوبر 1958ء) مجالس خدام الاحمد یہ راولپنڈی ڈویژن کے اجتماع پر پیغام یہ پیغام مؤرخہ 26 و 27 ستمبر کو مجالس خدام الاحمد یہ راولپنڈی ڈویژن کے اجتماع میں پڑھ کر سنایا گیا.” مجھے بتایا گیا ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی 26 تا 28 ستمبر 1958 ء کو اپنے علاقہ میں ایک بڑے اجتماع کا انتظام کر رہی ہے جو راولپنڈی میں اپنی نوعیت کا پہلا اجتماع ہوگا.اور راولپنڈی کے عزیزوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں بھی اس مبارک تقریب پر اپنی طرف سے کوئی پیغام ارسال کروں.میں ہمیشہ سمجھتا رہا ہوں کہ راولپنڈی کو کئی وجوہات کی بناء پر وہ اہمیت حاصل ہے جو غالبا پاکستان کے کسی اور شہر کو حاصل نہیں.اس لئے اس علاقہ کے احمدی نوجوانوں پر خدمت خلق اور خدمت ملک کی غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.علاقہ کے نو جوانوں پر ملتی اور ملکی ذمہ داریوں کے احساس کو زندہ رکھنا مختلف طبقوں میں اور مختلف فرقوں میں اتحاد اور تعاون کی روح کو ترقی دینا ، ملک میں امن کے قیام میں مدد دینا ہمشتر کہ امور کے لئے ایثار اور قربانی کے جذبہ کو ابھارنا، مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کا انتظام کرنا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کے متعلق ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہنا.یہ وہ چند مقدس ذمہ داریاں ہیں جو ہر فرض شناس احمدی نو جوان پر عائد ہوتی ہیں اور کوئی احمدی ان ذمہ داریوں کی طرف سے غافل رہ کر سچا احمدی نہیں سمجھا جا سکتا.اس وقت دنیا کی ہر قوم بھاری خطرات سے دو چار ہے.کچھ خطرات دینی ہیں اور کچھ خطرات اخلاقی ہیں.کچھ خطرات تمدنی ہیں ، کچھ خطرات سیاسی ہیں اور کچھ خطرات مالی ہیں.اور گو جماعت احمدیہ کو دنیا کی سیاسیات سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں لیکن جو خطرہ بھی اسلام کو کسی نہ کسی جہت سے نقصان پہنچانے کا اندیشہ پیش کرتا ہے اور مسلمانوں کو کسی نہ کسی رنگ میں کمزور کر سکتا ہے اسے ہر احمدی کو اپنا خطرہ سمجھ کر اس کے سامنے اپنی استعداد کے مطابق سینہ سپر رہنا چاہئے.یہ مت خیال کرو کہ ہم تعداد میں تھوڑے ہیں.تعداد میں کمی کچھ حقیقت نہیں رکھتی.اصل طاقت مرد مومن کے ایمان میں ہے.اسی لئے قرآن مجید فرماتا ہے کہ کہ

Page 569

مضامین بشیر جلد سوم 547 كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ بإذن اللهِ ( البقرہ: 250) پس اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو.اور اپنے دلوں کو روح القدس کے نزول کا نشیمن بناؤ تا تم آسمان پر ایسی قوم شمار کئے جاؤ جو تھوڑے ہونے کے باوجود سب پر بھاری ہو.کسی قوم اور کسی انسان کو اپنا دشمن نہ سمجھو.البتہ ناپاک خیالات اور باطل نظریات کے مقابلہ کے لئے ہر وقت چوکس اور تیار رہو.اگر کوئی احمدی نوجوان کہلانے کے باوجود اسلام اور احمدیت کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا اور اپنے خلاف شریعت اور خلاف نمونہ سے اسلام اور احمدیت کو بدنام کرتا ہے تو وہ ایک بیمار عضو ہے.اس کا علاج کرو.اور اگر وہ علاج کے لئے تیار نہ ہو تو اسے جتا دو کہ اس صورت میں وہ تمہارا بھائی کہلانے کا حق دار نہیں رہا.مگر کسی صورت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لو.کیونکہ دنیا میں بے شمار فتنے اس جارحانہ ذہنیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو اس رستہ پر چلنے کی توفیق عطا کرے جو اس کی ابدی رضا اور دین و دنیا میں کامیابی کا رستہ ہے.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محرره 22 ستمبر 1958ء).......روزنامه الفضل ربوہ 18اکتوبر 1958ء) 25 لاہور میں حضرت مسیح موعود کا جنازہ ایک غلط روایت کی تصحیح میری تصنیف ”سلسلہ احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بیان کے ضمن میں یہ بات درج ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نماز جنازہ لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے مکان کے صحن میں پڑھی گئی تھی اور یہ کہ جب جنازہ لاہور سے بٹالہ پہنچا تو اسی وقت قادیان کی طرف روانہ ہو گیا تھا.جسے احباب جماعت نے اپنے کندھوں پر اٹھا کر راتوں رات قادیان پہنچادیا.مجھے محترمی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور محترمی حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے (جو اس وقت لا ہور اور بٹالہ میں ساتھ تھے ) بتایا ہے کہ یہ روایت درست نہیں ہے.اور اصل واقعہ یوں ہے کہ لاہور میں جنازہ کی نماز خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں نہیں ہوئی تھی بلکہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب مرحوم کے مکان کے نچلے صحن میں ہوئی تھی.اس کے بعد جنازہ شام کے وقت ریل گاڑی کے ذریعہ بٹالہ کی

Page 570

مضامین بشیر جلد سوم 548 طرف روانہ ہوا اور پھر رات کے آخری حصہ میں سحری کے وقت تین بجے کے قریب احباب جماعت کے کندھوں پر قادیان کی طرف روانہ ہوا تھا.رستہ میں دیوانی وال کے تکیہ میں دوستوں نے صبح کی نماز ادا کی اور پھر قریباً نو بجے صبح جنازہ قادیان پہنچا.گویا: (1) لاہور میں جنازہ کی نماز خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے صحن میں نہیں ہوئی تھی بلکہ ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب کے مکان کے نچلے صحن میں ہوئی تھی.(2) جنازہ راتوں رات قادیان نہیں پہنچایا گیا بلکہ وہ بٹالہ سے تین بجے (سحری کے وقت روانہ ہوا تھا.اور صبح نو بجے کے قریب قادیان پہنچا تھا.دوست اس روایت کی تصحیح فرما لیں.یہ بھی ممکن ہے کہ یہ روایت ”سیرۃ المہدی“ میں بھی غلط چھپ گئی ہو.اس لئے ”سلسلہ احمدیہ اور سیرۃ المہدی“ دونوں میں درستی کر لی جائے.(محررہ 18 اکتوبر 1958ء) روزنامه الفضل ربوہ 23 اکتوبر 1958ء) وو سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے“ دوستوں کو علمی اور تحقیقی مضامین لکھنے کی دعوت عنوان میں درج شدہ مصرع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک لطیف لنظم کا حصہ ہے جس کے شروع میں یہ شعر آتا ہے کہ: ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے اس مصرع کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ گو اسلام نے مسلمانوں پر جہاد فرض کیا ہے اور مومنوں کو حکم دیا ہے کہ ان میں سے ایک طبقہ لازما دین کی خدمت اور دین کے رستہ میں جدو جہد کے لئے وقف رہنا چاہئے.مگر مختلف قسم کے حالات کے ماتحت دین کی خدمت مختلف رنگ اختیار کرسکتی ہے.بعض حالات میں جب کہ کوئی دشمن اسلام کو مٹانے کی غرض سے جبر اور تشدد کا رستہ اختیار کر کے مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھائے تو اس وقت اپنے دفاع کے لئے (نہ کہ مخالفوں کو جبراً مسلمان بنانے کے لئے کیونکہ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ

Page 571

مضامین بشیر جلد سوم 549 (البقره: 257 ) تلوار کا جواب تلوار سے دینا ہوگا.اور اگر دشمن کا حملہ دلائل اور عقلی اور نقلی اعتراضوں کے رنگ میں ہو تو اس وقت اسلام کا جہاد بھی اسی میدان کے اندر محدود ہو جائے گا.اور اگر کسی وقت مسلمانوں کی اپنی بداعمالی اسلام کو بدنام کرنے کا باعث بن رہی ہو تو اس وقت سب سے مقدم جہاد مسلمانوں کی تربیت اور ان کی اخلاقی اور روحانی اصلاح سے تعلق رکھے گا وغیرہ وغیرہ.چنانچہ ایک موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک وقت تلوار کے جہاد سے وقتی طور پر فارغ ہوئے تو آپ نے میدانِ کارزار سے مدینہ کی طرف لوٹتے ہوئے فرمایا: رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْاكْبَر.( صحیح بخاری کتاب الجہاد ) یعنی اب ہم چھوٹے جہاد سے فارغ ہو کر بڑے جہاد یعنی اپنے نفسوں کے ساتھ جہاد کرنے کی طرف لوٹ رہے ہیں.اسی اصولی تعلیم کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ نے وہ مصرع ارشاد فرمایا ہے جو اس مختصر سے نوٹ کے عنوان کی زینت ہے.اور آپ کا منشاء یہ ہے کہ یہ زمانہ اپنے وقتی تقاضوں اور پیش آمدہ حالات اور مخالفوں کے رویہ کے مطابق تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں ہے بلکہ قلم کے جہاد کا زمانہ ہے.جب کہ مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام کے خلاف معاندانہ لٹریچر کے ذریعہ بے پناہ حملے کئے جارہے ہیں.ایسے وقت میں اصل جہاد قلم کا جہاد ہے تاکہ قلم کے ذریعہ غیر مسلموں کے اعتراضوں کا ایسا دندان شکن جواب دیا جائے کہ ان کے قلموں اور ان کی زبانوں کی گولہ باری پر موت وارد ہو جائے.اور یہی رستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی منشاء کے ماتحت اختیار کیا.چنانچہ آپ کی اس عدیم المثال خدمت کا اعتراف مخالفوں تک نے ایسے شاندار رنگ میں کیا ہے کہ اس تعریف سے ملک کی مخالفانہ فضا تک گونجنے لگ گئی.مثال کے طور پر امرتسر کے مشہور اخبار وکیل کے غیر احمدی ایڈیٹر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر لکھا: ”مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑا دئے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا.بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں بھی مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت سرانجام دی

Page 572

مضامین بشیر جلد سوم 550 ہے.ان کی آریہ سماج کے مقابل تحریروں سے اس دعوی پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریر میں نظر انداز کی جاسکیں.“ پھر دہلی کے غیر احمدی اخبار ” کرزن گزٹ نے اپنے اخبار میں لکھا کہ: ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ..مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم مرزا صاحب کے مقابلہ پر زبان کھول سکتا.اگر چہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.“ پس اس نوٹ کے عنوان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو شاندار مصرع درج ہے وہ کسی نا واجب فخر و افتخار کی پیداوار نہیں بلکہ ایک زبر دست حقیقت ہے جو تلوار سے زیادہ کاٹنے والی اور دلوں کی گہرائیوں میں گھر کرنے والی ہے.اور اس سے اس اعتراض کا جواب بھی ہو جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے نعوذ باللہ تلوار کے جہاد کو منسوخ کر دیا ہے.عزیز و اور دوستو سوچو اور سمجھو کہ حضرت مرزا صاحب جو اسلام کی خدمت اور دین کے احیاء کے لئے مبعوث ہوئے تھے وہ کس طرح کسی اسلامی تعلیم کو منسوخ کر سکتے تھے.پس اگر تلوار کے جہاد کو کسی نے وقتی طور پر معلق کیا ہے ( منسوخی کا تو سوال ہی نہیں ) تو وہ زمانہ کے حالات نے کیا ہے.اور اسلام کی اس اصولی تعلیم نے کیا ہے جو آج سے چودہ سوسال پہلے نازل ہو چکی ہے جس میں جہاد کا تو بہر حال اور بہر صورت حکم ہے مگر اس کی نوعیت کو زمانہ کے حالات اور وقت کے تقاضوں اور مخالفوں کے رویہ پر چھوڑا گیا ہے.اور پھر کیا حضرت مرزا صاحب کے شاندار اور عدیم المثال قلمی جہاد نے تلوار کے جہاد کی کوئی ضرورت باقی چھوڑی ہے؟ خدائی احکام ہمیشہ بنی نوع انسان کی ضرورت پر مبنی ہوا کرتے ہیں.کیونکہ خدا حکیم ہے اور حکیم ہستی کے احکام ہمیشہ حکمت پر بنی ہوتے ہیں.اگر مخالفوں کی طرف سے اسلام کے خلاف قلم اور زبان کے ذریعہ حملہ ہو تو اس کا طبعی رڈ اور فطری جواب جو دلوں میں حقیقی اطمینان پیدا کر سکتا ہے وہ صرف قلم اور زبان کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے اور اسی کی طرف حضرت مسیح موعود نے اپنے اس لطیف مصرع میں اشارہ فرمایا ہے جو اس مضمون میں زیب عنوان ہے.مگر اس جگہ مجھے جہاد کا فلسفہ بیان کرنا مطلوب نہیں ہے بلکہ اپنی ایک رؤیا کی بناء پر جماعت کے نوجوانوں کو اسلام اور احمدیت کی قلمی خدمت کی طرف توجہ دلانا اصل مقصد ہے.چند دن ہوئے میں نے ایک عجیب رویا دیکھا جس سے میں ڈرا بھی اور خوش بھی ہوا.میں نے دیکھا کہ کسی نے مجھے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک لمبا سا خط لا کر دیا ہے.یہ خط میرے نام ہے.میں نے خط پڑھنے سے

Page 573

مضامین بشیر جلد سوم 551 پہلے اس کے آخری حصہ کو اٹھا کر دیکھا تو خط کے نیچے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کے دستخط تھے.اور خط کے آخر میں اس قسم کا مضمون تھا کہ اگر آپ نے احمدی نوجوانوں کو اسلام اور احمدیت کی خدمت کے لئے مضامین لکھنے اور تصانیف کرنے کی ترغیب نہ دی اور اس کا طریقہ نہ سمجھایا تو اس معاملہ میں میں اور عبد اللہ اور والدہ عبداللہ آپ پر خوش نہیں ہوں گے اَوْ كَمَا كَانَ.میں اس خواب سے خوش تو اس لئے ہوا کہ تصنیف کے میدان میں میری حقیر سی خدمت عالم بالا میں قدر کے قابل سمجھی گئی.اور ڈرا اس لئے کہ جماعت کے نوجوانوں کو فنِ تصنیف کی ترغیب دینے اور اس کا طریقہ سمجھانے کی ذمہ داری ایسی نازک اور ایسی وسیع ہے کہ میں شاید اپنی موجودہ عمر اور موجودہ صحت میں اسے کما حقہ ادا نہ کر سکوں.اور عبد اللہ اور عبداللہ کی والدہ سے میں یہ سمجھا ہوں کہ عبداللہ سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں جو اس زمانہ میں سب سے بڑے عبداللہ (یعنی اللہ کے بندے) ہیں اور عبداللہ کی والدہ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) ہیں جن کی مقدس تعلیم اور مبارک اسوہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود باجود پیدا ہوا.اور خدا کرے (اور اے کاش کہ ایسا ہی ہو ) کہ قیامت کے دن ان دونوں کی روح اس عاجز سے خوش ہو.وَ ذَالِكَ ظَنِّي بِاللَّهِ وَ أَرْجُو مِنْهُ خَيْراً.بہر حال اس رؤیا کی بناء پر یہ نوٹ الفضل میں بھجوا رہا ہوں تا احمدی نوجوانوں کو فنِ تحریر اور مضمون نویسی کی طرف توجہ پیدا ہو.اور وہ قلم کے میدان میں سلطان القلم ) یہ حضرت مسیح موعود کا الہامی نام ہے) کے انصار بن کر دین کی نمایاں خدمت انجام دے سکیں.بے شک زبان بھی تبلیغ ہدایت اور اشاعت علم کا ایک بہت عمدہ ذریعہ ہے.مگر جو مقام قلم کو حاصل ہے وہ زبان کو ہرگز حاصل نہیں.اسی لئے قرآن مجید نے اپنی ابتدائی وحی میں قلم کے ذریعہ اشاعت علم کا نمایاں طور پر ذکر فرمایا ہے.جیسا کہ فرمایا: اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الأكْرَمُ ٥ الَّذِى عَلَّمَ بِالْقَلَم (العلق :4-5) یعنی اے رسول لوگوں تک ہمارا نام اور ہمارا پیغام پہنچا.کیونکہ تیرا رب تمام بزرگیوں کا مالک ہے.ہاں وہی آسمانی آقا جس نے قلم کے ذریعہ علم کی اشاعت کا سامان پیدا کیا ہے.پس قلم علم کی اشاعت اور حق کی تبلیغ کا سب سے بڑا اور سب سے اہم اور سب سے مؤثر ترین ذریعہ ہے.اور زبان کے مقابلہ پر قلم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس کا حلقہ نہایت وسیع اور اس کا نتیجہ بہت لمبا بلکہ عملاً دائمی ہوتا ہے.زبان کی بات عام طور پر منہ سے نکل کر ہوا میں گم ہو جاتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قلم کے ذریعہ محفوظ کر لیا جائے.مگر قلم دنیا بھر کی وسعت اور ہمیشگی کا پیغام لے کر آتی ہے اور پریس کی ایجاد نے تو

Page 574

مضامین بشیر جلد سوم 552 قلم کو وہ عالمگیر پھیلا ؤ اور وہ دوام عطا کر دیا ہے جس کی اس زمانہ میں کوئی نظیر نہیں کیونکہ قلم کا لکھا ہوا گو یا پتھر کی لکیر ہوتا ہے جسے کوئی چیز مٹا نہیں سکتی.اور قلم کو یہ مزید خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اسے اپنے منبع کی نسبت کے لحاظ سے کامل یقین کا مرتبہ میسر ہوتا ہے.ہمیں بعض اوقات کسی شخص کی طرف سے کوئی بات زبانی طور پر پہنچی ہے مگر اس کے سننے والوں کی روایت میں اختلاف ہو جاتا ہے.مگر جب کسی شخص کے قلم سے کوئی بات نکلے تو پھر اس بات کے منبع اور ماخذ کے متعلق کسی قسم کا شبہ نہیں رہتا.بہر حال اس زمانہ میں جب کہ اسلام کے دشمن اسلام کی تعلیم اور حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کے خلاف ہزاروں لاکھوں رسالے اور کتابیں شائع کر رہے ہیں.قلم سے بڑھ کر اسلام کی مدافعت اور اسلام کے پرامن مگر جارحانہ علمی اور روحانی حملوں سے زیادہ طاقتور کوئی اور ظاہری ذریعہ نہیں.پس اے عزیز و اور اے دوستو! اپنے فرض کو پہچانو اور سلطان القلم کی جماعت میں ہو کر اسلام کی قلمی خدمت میں وہ جو ہر دکھاؤ کہ اسلاف کی تلوار میں تمہاری فلموں پر فخر کریں.تمہارے سینوں میں اب بھی سعد بن ابی وقاص اور خالد بن ولید اور عمرو بن عاص اور دیگر صحابہ کرام اور قاسم اور قتیبہ اور طارق اور دوسرے فدایانِ اسلام کی روحیں باہر آنے کے لئے تڑپ رہی ہیں.انہیں رستہ دو کہ جس طرح وہ قرونِ اولیٰ میں تلوار کے دھنی بنے اور ایک عالم کی آنکھوں کو اپنے کارناموں سے خیرہ کیا.اسی طرح وہ تمہارے اندر سے ہوکر ( کیونکہ خدا اب بھی انہی قدرتوں کا مالک ہے قلم کے جوہر دکھائیں اور دنیا کی کایا پلٹ دیں.چند ماہ کی بات ہے کہ مجھے کسی عزیز نے کہا اور میں شرم سے کٹ گیا کہ کچھ عرصہ سے ہماری جماعت میں اس قسم کی علمی اور تحقیقاتی تصانیف شائع نہیں ہو رہی ہیں جو چند سال پہلے شائع ہوا کرتی تھیں.یہ اعتراض تو در حقیقت درست نہیں کیونکہ اس عرصہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی طرف سے تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر کے ذریعہ بیش بہا علمی اور عرفانی جواہر پارے منظرِ عام پر آئے ہیں اور بعض دوسرے اصحاب نے بھی بعض اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں.مگر اس میں شبہ نہیں کہ جس تیز رفتاری سے قلمی خدمت میں ترقی ہونی چاہئے تھی اور جس رنگ میں بعض نئے میدانوں میں تحقیقی مضامین لکھنے کی ضرورت تھی اس میں کسی قدر کمی ہے.اور یہ بھی ایک حد تک درست ہے کہ بعض نو جوانوں کا میلان تحقیقی اور علمی مضامین میں لکھنے کی بجائے نوک جھونک والے سطحی اور وقتی مقالوں کی طرف زیادہ ہورہا ہے.یہ میلان ایک ترقی کرنے والی قوم کے لئے بہت نقصان دہ ہے اور ضرورت یہ ہے کہ بہت جلد کا مشاہدل کر جماعت کی قلموں کو صحیح رستہ پر ڈالنے کی کوشش کی جائے.قرآن فرماتا ہے کہ جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: 126)

Page 575

مضامین بشیر جلد سوم 553 یعنی مخالفوں کے ساتھ دینی جہاد کرنے میں بہترین اور پختہ ترین اور مؤثر ترین دلائل اختیار کرو اور یونہی سطحی باتوں میں الجھ کر اپنی ہنسی نہ اڑاؤ.تحقیقی مضمون لکھنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ پہلے ایک موضوع کی جو کسی حقیقی حاضر الوقت ضرورت کے مطابق ہو چن کر اسے اپنے ذہن میں مستحضر رکھا جائے اور اس پر کچھ وقت تک غور کیا جائے.پھر قرآن اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے بنیادی لٹریچر کا مطالعہ کر کے اس مضمون کے نوٹ لئے جائیں اور انہیں ترتیب وار مرتب کیا جائے.پھر جو امکانی اعتراضات اس مضمون کے متعلق دوسروں کی طرف سے ہوئے ہوں یا ہو سکتے ہوں انہیں ذہن میں رکھ کر ان کا جواب سوچا جائے.پھر ایک عمومی خا کہ اس امر کے متعلق اپنے دماغ میں قائم کیا جائے کہ اس مضمون کو کس طرح شروع کرنا ہے اور کس طرح چلانا اور کس طرح ختم کرنا ہے.آغاز اس طرح ہونا چاہئے کہ مضمون پڑھنے والا اس کی نوعیت اور اہمیت کو محسوس کر کے اس کے لئے ذہنی طور پر تیار اور چوکس ہو جائے اور اختتام اس رنگ میں سوچا جائے کہ گویا چند تیر ہیں جو آخری ضرب کے طور پر پڑھنے والے کے دل میں پیوست کرنے مقصود ہیں.اس کے بعد نوٹ سامنے رکھ کر دعا کرتے ہوئے مضمون شروع کیا جائے.اور ہر ضروری اقتباس کے اختتام پر بریکٹوں کے اندر معین حوالہ درج کیا جائے تا اگر مضمون پڑھنے والا اس بارے میں مزید تحقیق کرنا چاہے تو از خود تحقیق کر کے تسلی کر سکے.مضمون ختم کرنے کے بعد نظر ثانی بہت ضروری ہے اور نظر ثانی کے لئے بہترین طریق یہ ہے کہ اپنے مضمون کو علیحدگی میں اونچی آواز سے پڑھا جائے تاکہ آنکھوں کی فطری حس کے علاوہ کان بھی اپنی قدرتی موسیقی کو کام میں لا کر اصلاح میں مدد دے سکیں.میں نے بار ہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس رنگ میں اپنی تحریرات کو پڑھتے دیکھا اور سنا ہے.اور آپ اپنے مضامین کی نظر ثانی بھی ضرور فرمایا کرتے تھے.چنانچہ آپ کے مسودات کی عبارت کئی جگہ سے کئی ہوئی اور بدلی ہوئی نظر آتی تھی اور ایسا نہیں ہوتا تھا کہ بس جو لکھا گیا سولکھا گیا.بلکہ آپ اس غرض سے اور نیز صحت کی غرض سے اپنی کتب کی کاپیاں اور پروف تک بھی خود ملا حظہ فرماتے تھے.مضمون شروع کرنے سے پہلے نیت درست کرنے اور خدمت دین کے جذبہ کو اپنے دل میں جگہ دینے اور دعا کرنے کا میں نے یہ عظیم الشان فائدہ دیکھا ہے کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ غیر معمولی رنگ میں نصرت فرماتا ہے.مثال کے طور پر کہتا ہوں کہ ایک دفعہ جب میں نے اپنے ایک مضمون کی پہلی سطر ہی لکھی تھی تو یکلخت مجھ پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ صفحہ کے آخری حصہ میں جو اس وقت خالی تھا ایک خاص عبارت لکھی ہوئی درج ہے اور مجھے توجہ دلائی گئی کہ اپنے اس مضمون کو

Page 576

مضامین بشیر جلد سوم 554 اس عبارت کے مضمون کی طرف کھینچ لا.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا جس کی وجہ سے مضمون میں ایک نیا اور دلکش رنگ پیدا ہو گیا.بعض اوقات ایسا ہوا کہ میں نے مضمون کا ایک ڈھانچہ سوچ کر نوٹ کیا مگر بعض حصوں میں مضمون لکھتے لکھتے میرا قلم خود بخود ایک نئے رستہ پر پڑ گیا اور بالکل نئی باتیں ذہن میں آگئیں.چنانچہ جو ڈھانچہ میں شروع میں سوچا کرتا ہوں عموماً اس کا نصف یا اس سے کچھ کم حصہ مضمون لکھتے ہوئے بہتر صورت میں بدل جایا کرتا ہے.یہ سب دعا اور حسن نیت اور اللہ کے فضل کا ثمرہ ہے ورنہ من آنم کہ من دانم.بایں ہمہ شروع کی تیاری بہت ضروری ہے کیونکہ یہ تیاری بھی نصرت الہی کی جاذب ہوا کرتی ہے.یہ سوال کہ علمی اور حقیقی تصانیف کے لئے کن مضمونوں کو چنا جائے ،ایک بہت اہم سوال ہے مگر باوجود اس کے وہ کچھ مشکل بھی نہیں.ہمارے سامنے ہمارے آسمانی آقا کی سنت موجود ہے جس کا ہر فعل حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور وقت کی حقیقی ضرورت کو پورا کرتا ہے.دراصل اگر کوئی کام وقت کی ضرورت کے مطابق نہ ہو تو وہ ایک کھو کھلے فلسفہ اور دماغی کھلونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور خدا کی ذات اس قسم کے لایعنی فلسفہ سے بالا ہے.اگر خدا چاہتا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے آفرینش میں ہی پیدا کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ابھی بنی نوع انسان اپنے دماغی قومی اور ماحول کے تمدن کے لحاظ سے کسی دائمی اور عالمگیر شریعت کے حامل بننے کے اہل نہیں تھے.پس اس نے فلسفہ کو چھوڑ کر حکمت کا رستہ اختیار کیا اور یہی رستہ ہمارے لئے بھی کھلا ہے.پس مضمون کے انتخاب کے متعلق میرا یہ مشورہ ہے کہ صرف ان مضمونوں کو چنا جائے جو حکیمانہ طریق پر وقت کی کسی اہم ضرورت کو پورا کرنے والے ہوں اور دنیا ان مضمونوں کے لئے پیاسی ہو.اور اس تعلق میں یہ خیال روک نہیں بننا چاہئے کہ کسی مضمون پر کچھ عرصہ پہلے لکھا جاچکا ہے.کیونکہ زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور نہ صرف نئے نئے مسائل بلکہ پرانے مسائل کے نئے نئے پہلو بھی پیدا ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہیں.کئی مضامین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لکھے گئے اور نہایت تسلی بخش صورت میں لکھے گئے اور انہوں نے دنیا کی پیاس بجھائی مگر آج ان مسائل کے نئے نئے پہلو پیدا ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے.ان پر سوچنا اور ان کے متعلق قرآن وحدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر اور دیگر بنیادی لٹریچر سے اصولی روشنی حاصل کر کے زمانہ کے نئے مسائل کو حل کرنا یا پرانے مسائل کی نئی گتھیوں کو سلجھانا جماعت کے خادمِ دین علماء کا کام ہے.اقوامِ عالم

Page 577

مضامین بشیر جلد سوم 555 کی روحیں دلوں کو منور کرنے والی نئی روشنی کے لئے تڑپ رہی ہیں.صدیوں کے تعصب کی وجہ سے وہ اسلام کے نام سے تو ابھی تک بیشتر صورت میں متنفر ہیں مگر اسلام کی حقیقت کو اپنانے کے لئے بے چین بھی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ نبوت سے معمور کلام جو آج سے پچپن سال پہلے کہا گیا آفتاب عالمتاب کی طرح افق مشرق سے بلند ہو کر مغرب کے مرغزاروں میں بزبانِ حال گونج رہا ہے کہ ے آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار در شین اردو) یہی حال احمدیت کا ہے کہ جماعت احمدیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے بلکہ ہر قسم کے فتوے لگاتے ہوئے بھی غیر احمدی دنیا جماعت احمدیہ کے خیالات اور نظریات کو مسلسل اپناتی چلی جاتی ہے.یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم کا کرشمہ ہے جس کے پیچھے خدا کی عظیم الشان نصرت اور روح القدس کی زبر دست تائید کام کر رہی ہے.پس اے عزیز و اور دوستو آگے آؤ اور اپنے قلموں کو اسلام کی تائید میں حرکت دو کہ اس سے بڑھ کر تمہارے لئے آج کوئی برکت نہیں.اس وقت بہت سے اچھوتے اور نیم اچھوتے مضمون تمہاری قلموں کی جنبش کا انتظار کر رہے ہیں اور ساغر حسن صرف ایک انگلی کے اشارے پر چھلکنے کے لئے تیار ہے اور تمہارے لئے صرف سنت کا اجر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ : بمفت ایں اجر نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضاء آسمان است این بهر حالت شود پیدا اس وقت جو مضمون زیادہ توجہ طلب نظر آتے ہیں وہ میرے خیال میں یہ ہیں: ( 1 ) بین الاقوامی تعلقات کے متعلق اسلامی تعلیم (2) بین الاقوامی مصالحت کی شرائط (3) ملکی اور قومی معاہدات (4) مذہبی رواداری (5) دوسری قوموں کے مذہبی پیشواؤں کے متعلق اسلامی احکام (6) یہ مضمون کہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہر قوم میں رسول آئے ہیں (7) اسلام اور دیگر شرائع کی با ہمی نسبت اور ان کا مقابلہ (8) یہودیت اور اسرائیلیت کے متعلق اسلامی پیشگوئیاں (9) مسیح ناصری کے حقیقی اور مزعومہ معجزات ( 10 ) وفات مسیح از روئے انجیل و تاریخ (11 ) اشتراکیت اور سرمایہ داری اور نظام اسلامی کا مقابلہ (12) وحی و الہام کی حقیقت اور اس کا اجراء (13) ختم نبوت کی حقیقت (14) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عدیم المثال مقام اور آپ کا افضل الرسل ہونا (15) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات (16) مسیح کے نزولِ ثانی کا وعدہ (17 ) مسیح موعود کے نزول کی حقیقت

Page 578

مضامین بشیر جلد سوم 556 ( 18 ) حضرت مسیح موعود کے لٹریچر کی اہمیت اور یہ کہ دوسرے مسلمانوں نے بلکہ دوسری قوموں نے اسے کس طرح غیر شعوری طور پر اپنایا ہے اور اپنا رہے ہیں ( 19 ) اسلام میں روحانیت (20) اسلام کی اخلاقی تعلیم (21) اسلام میں جہاد کی حقیقت (22) ضبط تولید کا مسئلہ (23) اسلامی پردہ کی حقیقت اور یہ کہ کس طرح پردہ کے باوجود عورتیں ترقی کر سکتی اور قومی زندگی میں حصہ لے سکتی ہیں (24) تعددازدواج اور یہ کہ یہ تعلیم خاص انفرادی اور قومی ضروریات کے لئے ہے اور اس کی خاص شرائط ہیں (25) خلافت کی حقیقت اور اس کی ضرورت اور اہمیت ( 26 ) اسلام کا اقتصادی نظام اور سود اور بیمہ وغیرہ کے مسائل (27) اسلام کا تعزیری نظام وغیرہ وغیرہ.ان میں سے اکثر عنوان بظاہر سادہ نظر آتے ہیں مگر تحقیق یعنی ریسرچ کرنے والوں کے لئے ان میں ایسی طویل اور پیچ دار وادیاں موجود ہیں کہ ان میں صحیح طور پر گھومنے والا دنیا کے لئے ایک بہت دلکش اور نیا عالم پیدا کر سکتا ہے.کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ: بیادر ذیل مستان تا به بینی عالمی دیگر بہشتے دیگر و ابلیس دیگر آدم دیگر پس اے احمدی نوجوانو! آؤ اور اس چمنستان کی وادیوں میں گھوم کر دنیا کو نئے علوم سے شناسا کرو.آؤ اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی تعمیر میں حصہ لے کر اقوام عالم کو علم و عرفان کے وہ خزانے عطا کرو کہ حجاز اور بغداد اور قرطبہ اور قدس اور مصر کی یادگاریں زندہ ہو جائیں.تا دنیا تم پر فخر کرے اور آسمان تم پر رحمت کی بارشیں برسائے اور آنے والی نسلیں تمہاری یاد سے امنگ اور ولولہ حاصل کریں.اے کاش کہ ایسا ہی ہو.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ محررہ 18 دسمبر 1958ء) روزنامه الفضل ربوہ 26 دسمبر 1958ء)

Page 579

مضامین بشیر جلد سوم جماعتی تربیت کیلئے ایک عمدہ درس گاہ 557 روز نامہ الفضل کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کے جذبات سلسلہ کا مرکزی اخبار الفضل جس میں حضرت خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات اور سلسلہ کی خبریں چھپتی رہتی ہیں.ایک ایسا لٹریچر ہے جو ہر احمدی کی تربیت کی تکمیل اور روزمرہ کی تاریخ سے واقفیت کیلئے نہایت ضروری ہے یہ جماعتی تربیت کی ایک بہت عمدہ درسگاہ ہے.جس سے کسی مخلص احمدی کو غافل نہیں ہونا چاہئے.روزنامه الفضل ربوہ 23 اکتوبر 1958ء) اعلانات.اشتہارات اطلاعات جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کر سکتا ہے.1-> تاریخ سلسلہ احمدیہ سے متعلق ریکار ڈ اور حضرت عرفانی 2-> خان دلاور خان صاحب کی تشویشناک حالت 3-> فهرست رقوم فدیہ رمضان 4- محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب عمرہ سے مشرف ہوئے 5- مکرم حافظ صدرالدین صاحب در ولیش 6-> کچھ اپنے تعلق میں بھی روزنامه الفضل 28 جنوری 1958ء) روزنامه الفضل 11 مارچ 1958ء) (روز نامہ الفضل 23 مارچ 1958ء) (روز نامہ الفضل یکم اپریل 1958ء) (روزنامہ الفضل9اپریل1958ء) (روز نامہ الفضل 10 اپریل 1958ء)

Page 580

مضامین بشیر جلد سوم 558 7- محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب زیارتِ مدینہ منورہ سے مشرف ہوئے 8-> عیدالاضحیہ بہت قریب آگئی ہے (روز نامہ الفضل 23 اپریل 1958ء) (روز نامه الفضل 17 جون 1958ء) 9-> جلسہ سالانہ قادیان 17 ، 18، 19 اکتوبر 1958ءکو ہوگا روزنامه الفضل 21 جون 1958ء) 10-> حضرت ممانی صاحبہ کیلئے دعا کی تحریک روزنامه الفضل 29 جولا ئی 1958ء) 11-> یہ رشیدہ بیگم کون ہیں روزنامه الفضل 13 اگست 1958ء) 12-> قافلہ قادیان کے حصول ویزا کے متعلق ضروری اعلان (روز نامہ الفضل 20 اگست 1958ء) 13-> قافلہ قادیان کی اجازت نہیں ملی روزنامه افضل 7اکتوبر 1958ء) 14-> قادیان کا سالانہ جلسہ خیریت کے ساتھ شروع ہو گیا روزنامه الفضل 21 اکتوبر 1958ء) 15-> جلسہ قادیان کے تیسرے دن کی رپورٹ روزنامه الفضل 22 اکتوبر 1958ء) 16-> حضرت عرفانی مرحوم مقبرہ بہشتی قادیان میں سپردخاک کر دئے گئے روزنامه الفضل 23 اکتوبر 1958ء) 17-> زمین فروخت ہو چکی ہے 18-> قادیان کی جائیدادوں کے کلیم روزنامه الفضل 25 اکتوبر 1958ء) روزنامه الفضل 25 اکتوبر 1958ء) 19-> دوست امداد درویشاں کی طرف توجہ فرمائیں روزنامه الفضل 10 دسمبر 1958ء)

Page 581

مضامین بشیر جلد سوم باب نهم 1959ء کے مضامین 559

Page 582

مضامین بشیر جلد سوم نصرت الہی کا عجیب و غریب نشان مصلح موعود والی پیشگوئی مسیح موعود والی پیشگوئی کی فرع ہے رمضان کی جامع برکات اور ہماری ذمہ داریاں ہستی باری تعالیٰ کے متعلق فطرت کی آواز مسیح موعود عشق رسول کی پیداوار ہے حضرت مسیح موعود کے ایک فوٹو کے متعلق غلط فہمی کا ازالہ مساجد کی رونق بنواور دعاؤں پر زوردو جماعتی اتحاد کی قدر و قیمت کو پہچانو ایک غلطی کا ازالہ خلافت یعنی قدرت ثانیہ کا مبارک نظام دعاؤں اور صدقات کی حقیقت مصائب میں صبر کا کامل نمونہ عید الاضحیٰ کی قربانیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا مزعومہ واقعہ خدام الاحمدیہ خدمت کے لئے تیار ہو جائیں سوال کرنے سے بچو مگر سوالی کو رد نہ کرو عید کی قربانیوں کا مسئلہ تحریک جدید کی برکات کیا روح سے رابطہ ممکن ہے؟ خاندانی منصوبہ بندی 560

Page 583

مضامین بشیر جلد سوم 1 نصرت الہی کا عجیب و غریب نشان خود بروں آاز بیٹے ابراء من اے تو کہف و ملجاء وما وائے مسن 561 غالبا گزشتہ جلسہ سالانہ کے ایام میں دسمبر کی 27 تاریخ تھی اور صبح یعنی قبل دو پہر کا وقت تھا اور میں اپنے مکان میں جلسہ میں آنے والے احباب کی ملاقات میں مصروف تھا کہ میرے کانوں میں جلسہ گاہ سے ایک نہایت سُریلی اور دلکش آواز پہنچی.میں نے توجہ لگا کر سنا تو کوئی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ فارسی نظم پڑھ رہے تھے جو حضور نے اپنی کتاب حقیقۃ المہدی“ میں لکھی ہے اور اس میں اپنی تنہائی کی گھڑیوں میں خدا کو مخاطب کر کے بڑے دردناک اور دل سوز رنگ میں خدا سے عرض کیا ہے کہ اے میرے آقا! تو میرے دل کے بھیدوں سے آگاہ ہے.اگر تو سمجھتا ہے کہ میں نعوذ باللہ ایک ناپاک انسان ہوں اور لوگوں کو تیرا نام لے لے کر گمراہ کر رہا ہوں تو تو مجھے ذلت کی مار سے تباہ و برباد کر دے اور میرے دشمنوں کو راحت اور خوشی پہنچا.لیکن اگر تو جانتا ہے کہ میں تیرا ایک راستباز بندہ ہوں اور تیری محبت میری روح کی غذا ہے تو پھر اے میرے آقا! تو میری بریت کے لئے خود آگے آ اور مجھے اپنے فضلوں سے نواز اور اپنے زبر دست نشانوں کی روشنی سے میری صداقت کو ظاہر فرما دے.ان شعروں نے مجھے ملاقات کرنے والوں کی گفتگو سے غافل کر کے گویا بالکل مسحور کر دیا اور میں کافی دیر تک اس زبر دست کلام کی لذت سے مخمور رہا.اور میرے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز اٹھی کہ اگر ان اشعار کے کہنے والا انسان نہ صرف خدائی گرفت سے بچ جاتا ہے بلکہ خدائی تائید اور اس کی غیر معمولی نصرت سے روز افزوں حصہ پاتا ہے تو دنیا کا کوئی صحیح الدماغ انسان اسے جھوٹا نہیں کہہ سکتا.میں یہ اشعار ذیل میں درج کرتا ہوں.ناظرین انہیں غور سے پڑھیں اور پھر خدا کو حاضر و ناظر جان کر انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ ان کا نور ضمیر اس معاملہ میں کیا فتویٰ دیتا ہے؟ حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں: اے قدیر و خالق ارض و رحیم و مهربان و رہنما اے کہ میداری میداری تو بر دلها نظر اے کہ از تو نیست چیزے مستتر

Page 584

مضامین بشیر جلد سوم گر تو ے بینی مرا پُر فسق گر تو دیدستی کہ ہستم و بد گہر پاره یاره من بدکار را شاد کن اس زمرہ اغیار را بردل شان ابر رحمت با بیار مراد شاں افشاں پر درو باش تبه از قبلہ آستانت در دل من آں محبت بفضل خود دیوار من کن کار من بندگانت یافتی دیده برار کز جہاں آں راز پوشیده اند کے واقفی زاں خود 5975339 با من از روئے محبت کارکن افشائے آں اسرار کن اے کہ آئی سوئے ہر جوئند ئی از سوز سوزندگی ہر تعلق ہا با تو داشتم زاں محبت بروں که در دل در دل کاست بیٹے ابراء من کاشتم اے تو کہف و آتش وز آں ما وائے من افروختی خود را سوختی 562 کاندر غیر ہم ازاں آتش رخ من برفروز ویں شب تارم مبدل کن ان اشعار کا ترجمہ یہ ہے: بزور ( در تمین فارسی ) اے قادر ومقتد رخدا! جو زمین و آسمان کا خالق ہے.اے میرے آسمانی آقا! جو اپنے بندوں کے لئے

Page 585

مضامین بشیر جلد سوم 563 بے حد رحیم و مہربان ہے اور ان کی ہدایت کا ہمیشہ متمنی رہتا ہے.اے وہ سمیع و بصیر ہستی ! جو دلوں کی گہرائیوں پر نظر رکھتی ہے جس پر زمین و آسمان میں کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں.اگر تو مجھے فسق اور شرارت اور گمراہی میں مبتلا پاتا ہے اور اگر تو دیکھتا ہے کہ میں ایک بد فطرت اور گندہ انسان ہوں تو اے میرے خالق و مالک تو مجھ بد کار کو پارہ پارہ کر کے تباہ کر دے اور میرے مخالفوں کے گروہ کو خوشی پہنچا.ان کے دلوں پر اپنی رحمت کی بارشیں نازل کر اور ان کو ان کی ہر مراد عطا فرما.اور اس کے مقابل پر میرے گھر کے درودیوار پر آگ برسا اور میرا دشمن ہو جا اور میرا تمام کاروبار تباہ و برباد کر دے.لیکن اے میرے آقا! اگر تو دیکھتا ہے کہ میں تیرے در کا سچا غلام ہوں اور اگر تو جانتا ہے کہ تیرا دروازہ میری پیشانی کی سجدہ گاہ ہے اور اگر تو میرے دل میں اس پاک محبت کو پاتا ہے جس کے راز سے تو نے اس وقت تک دنیا کو بے خبر رکھا ہے تو اے میرے محبوب! تو میرے ساتھ محبت کا سلوک فرما اور میرے دل کے راز کو دنیا پر کسی قدر ظاہر فرما دے.ہاں اے وہ جو کہ ہر تلاش کرنے والے کی طرف خود چل کر آتا ہے اور ہر محبت میں جلنے والے کی اندرونی سوزش پر آگاہ ہے میں تجھے اپنے اس تعلق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جو میرے دل میں تیرے ساتھ ہے اور اس محبت کو گواہ بنا کر تجھے پکارتا ہوں.جس کا بیج میں نے تیرے لئے اپنے دل میں بورکھا ہے کہ تو میری بریت کے لئے باہر نکل آ.ہاں ہاں تو وہی تو ہے جو میری حفاظت کا قلعہ اور میری پناہ گاہ اور میری عزت کا پاسبان ہے.آگے آ اور جو آگ تو نے میرے دل میں روشن کر رکھی ہے اور اس کے شعلوں سے تو نے اپنے غیر کو جلا کر بھسم کر دیا ہے.اب اسی آگ سے اے میرے دل و جان کے مالک میرے منہ کو بھی روشن کر دے اور میری اندھیری رات کو دن کی روشنی میں بدل دے.یہ وہ اشعار تھے جو 27 دسمبر کی صبح کو میرے کانوں تک پہنچے اور مجھے انہوں نے بالکل مسحور کر دیا.میں نے کہا اگر کوئی خدا ہے اور یقیناً ہے ) اور اگر خدا کو دنیا میں حکومت حاصل ہے (اور یقیناً حاصل ہے ) اور خدا کا یہ منشاء ہے کہ لوگ ہدایت پائیں اور گمراہیوں سے محفوظ رہیں اور یقیناً اس کا یہی منشاء ہے ) تو پھر ایسے اشعار کہنے والا انسان یا تو جلد تباہ و برباد ہو کر خاک میں مل جائے گا اور یا اگر وہ محفوظ رہے گا اور ہر قسم کی مخالفت کے باوجود دن دونی رات چوگنی ترقی پائے گا اور اس کے مخالف اپنے ہر معاندانہ اقدام میں خائب و خاسر رہیں گے تو پھر اس سے صرف اور صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان اشعار کا کہنے والا شخص ایک پاکباز انسان تھا جس کے وجود میں یہ قرآنی وعدہ پوری آب و تاب کے ساتھ پورا ہوا کہ : إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْأَشْهَادُ (المومن (52)

Page 586

مضامین بشیر جلد سوم 564 یعنی ہم اپنے ماموروں اور ان کے ماننے والوں کو ضرور ضرور اسی دنیا میں اپنی مدد سے نوازتے ہیں اور آخرت میں بھی جب کہ صداقت کی تمام گواہیاں نمایاں ہو کر سامنے آجائیں گی ان کو اپنی غیر معمولی نصرت کا نشان عطا کریں گے.اگر در خانه کس است حرفی بس است وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ( محررہ 25 جنوری 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 29 جنوری 1959ء) 2 خادم صاحب مرحوم احباب ان کے نمونہ سے سبق سیکھیں ہر ترقی یافتہ انسان کی زندگی کا ایک خاص پہلو ہوا کرتا ہے.جس میں وہ اکثر دوسرے لوگوں سے امتیاز پیدا کر کے ان کے لئے گویا ایک نمونہ بن جاتا ہے اور فرض شناس لوگ اس کی مثال سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگیوں میں ترقی کا راستہ کھولتے ہیں.یہی صورت ملک عبد الرحمن صاحب خادم مرحوم کی زندگی میں نظر آتی ہے جنہوں نے آج سے ایک سال قبل گویا بالکل جوانی کے عالم میں وفات پائی.خادم صاحب مرحوم گجرات صوبہ پنجاب کے رہنے والے تھے اور کسی ایسے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے جس میں علمی تجر اور تبلیغی ذوق و شوق کی کوئی خاص روایات پائی جاتی ہوں.بلکہ خود ملک صاحب مرحوم نے بھی کسی دینی درس گاہ میں تعلیم نہیں پائی اور نہ کسی عالم دین کی با قاعدہ شاگردی اختیار کر کے دین کا علم سیکھا.ان کی درسی اور عرفی تحصیل علم صرف اس قدر تھی کہ انگریزی کالجوں کی فضا میں بی.اے پاس کر کے وکالت کا امتحان دیا اور پھر بظاہر ساری عمر عدالتوں میں گشت لگا کر اپنی روزی کماتے رہے.مگر باوجود اس کے خادم صاحب مرحوم نے محض اپنے ذاتی شوق اور ذاتی مطالعہ کے نتیجہ میں وہ کمال پیدا کیا کہ جہاں تک مذہبی مباحثہ اور اس میدان کے علمی حوالہ جات کا تعلق ہے وہ جماعت احمدیہ کے کسی موجودہ عالم سے کم نہیں تھے.بلکہ مناظرات میں جوابوں کی فراوانی اور برجستگی میں انہیں گویا ایک جیتی جاگتی انسائیکلو پیڈیا کہنا چاہئے.ہر اعتراض کا جواب ان کی زبان پر تیار کھڑا ہوتا تھا.ہر ضروری حوالہ ان کے

Page 587

مضامین بشیر جلد سوم 565 منہ سے اس طرح نکلتا تھا جس طرح ٹکسال کی مشین سے سکے بن بن کر نکلتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے.یہ سب کچھ درسی تعلیم کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ محض ذاتی شوق اور ذاتی مطالعہ کا نتیجہ تھا.جس نے ان کو مذہبی مناظرین کی صف اول میں لاکھڑا کیا تھا اور اس پر ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ جب کسی قلمی یا لسانی جہاد کا بگل بجتا تھا تو وکالت کو الوداع اور ذاتی آرام و آسائش کو خیر باد کہنے کا منظر نظر آتا تھا.اور خادم صاحب سب کچھ چھوڑ كر لبيك اللهم لبیک کہتے ہوئے آگے آجاتے تھے.یہی وہ رضا کارانہ جذبہ تھا جس نے قرونِ اولیٰ میں اسلام کو سر بلند کیا.اور یہی وہ رستہ ہے جس پر گامزن ہو کر احمدیت کے فرزند آج پھر دوبارہ اسلام کا سر اونچا کر سکتے ہیں اور انشاء اللہ یہ ہو کر رہے گا.جیسا کہ خدائے عرش نے حضرت مسیح موعود کو الہام کیا کہ بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد یعنی خوشی کی چال چل کہ اب وہ وقت نزدیک ہے کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نام لیواؤں کا پاؤں زمین کی پستی کی بجائے میناروں کی بلندی پر پڑے گا.پس ہمارے نوجوانوں کو خادم صاحب مرحوم کی زندگی سے سبق لینا چاہئے.انہوں نے دنیا کے کاموں میں حصہ لیتے ہوئے اور وکالت کے فرائض ادا کرتے ہوئے محض اپنے ذاتی شوق اور ذاتی مطالعہ کے نتیجہ میں وہ مقام حاصل کیا جو کئی پورے وقت کے مبلغوں کو بھی حاصل نہیں ہوتا.انہوں نے اپنے دل میں خدمتِ دین کا بے پناہ جذبہ پیدا کیا.مذہبی مباحثات کے علم میں کمال کو پہنچے اور بظاہر واقف زندگی ہونے کے بغیر عملاً اپنے اوقات کو خدمتِ اسلام اور خدمت احمدیت کے لئے وقف رکھا.ایسے نمونے خدا کی طرف سے جماعت کے لئے حجت ہوا کرتے ہیں اور خدا یہ بتانا چاہتا ہے کہ جب تمہیں میں سے ایک نوجوان اپنی ذاتی کوشش اور ذاتی ولولہ کے نتیجہ میں یہ مقام حاصل کر سکتا ہے تو تم کیوں نہیں کر سکتے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام میں نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کو حجتہ اللہ کے نام سے پکارا گیا ہے.یعنی ”خدا کی طرف سے لوگوں پر ایک حجت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تشریح یہ فرمائی ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے ایک ریاست کے نوابی خاندان کے نوجوان فرد کو جس کے لئے ہر قسم کے عیش و آسائش کے سامان مہیا تھے احمدیت کی صداقت کو اس زمانہ میں قبول کرنے کی توفیق دی جب چاروں طرف مخالفت کا زور تھا تو دوسرے صاحب دولت و ثروت خاندانوں کے لئے نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کا احمدیت کو قبول کرنا قیامت کے

Page 588

مضامین بشیر جلد سوم 566 دن ایک حجت ہوگا.کہ جب اس نے اپنے ماحول سے نکل کر صداقت کو قبول کیا.تو تم اپنے عیش وعشرت میں کیوں محو خواب رہے؟ اسی طرح میں کہتا ہوں کہ خادم صاحب مرحوم کا وجود بھی جماعت کے ایک طبقہ کے لئے حجت ہے کہ جب خادم مرحوم نے اپنے ذاتی شوق اور ذاتی کوشش اور ذاتی جدوجہد کے ذریعہ دین کا پختہ علم حاصل کیا اور وکالت جیسے غافل رکھنے والے پیشہ میں مصروف ہونے کے باوجود دین کا پُر جوش خادم رہ کر زندگی گزاری تو تم کیوں اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے ؟ پس اے وکیلو اور اے ڈاکٹرو اور اسے تاجر و اور صناعو اور اے زمیندار و اوراے دوسرے پیشہ ورو! تم پر خادم مرحوم کی زندگی یقینا ایک حجت ہے کہ تم دنیا کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے بھی دین کا علم حاصل کر سکتے اور دین کی خدمت میں زندگی گزار سکتے ہو.اسلام تم سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ ساری کی ساری جماعت دنیا کے کاروبار چھوڑ کر دین کی خدمت کے لئے کلیے وقف ہو جائے بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جماعت کا ایک حصہ تو پورے طور پر دین کی خدمت کے لئے وقف ہو.(جیسا کہ فرمایا وَلْتَكُن مِنْكُمُ أُمَّةٌ ) اور دوسرا حصہ دنیا کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے اور جائز طریق پر اپنی اور اپنے اہل وعیال کی روزی کماتے ہوئے اپنے اوقات اور اپنے اموال اور اپنے جسم اور اپنے دل ودماغ کے قومی میں سے خدا اور اس کے رسول اور اس کے مسیح اور اس کے دین کا واجبی حق نکالے تا وہ دجال کی طرح اندھا نہ ہونے پائے بلکہ اس کی دونوں آنکھیں روشن ہوں اور اس کی زندگی میں دنیا یہ نظارہ دیکھے کہ دل بایار و دست با کار پس عزیز و اور دوستو! خادم مرحوم کی زندگی سے سبق سیکھوتا اس مرحوم نوجوان کی زندگی اور اس کی موت دونوں خدا کی رحمت سے حصہ پائے.زندگی اس لئے کہ اس نے غیر معمولی حالات میں اپنی زندگی کو اسلام اور احمدیت کی خدمت میں لگایا اور اپنے آپ کو اس کا اہل بنایا.اور موت اس لئے کہ اس کی وفات سے متاثر ہو کر تم نے اس کی زندگی سے خدمت دین کا سبق حاصل کیا.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محررہ 9 دسمبر 1958ء) (ماہنامہ الفرقان خادم نمبر جنوری 1959ء)

Page 589

مضامین بشیر جلد سوم 567 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چار ممتاز صحابہ مورخہ 8 فروری کو مجلس خدام الاحمدیہ حلقہ گول بازار ربوہ کے زیر اہتمام سیرۃ ( رفقاء) کے موضوع پر جو جلسہ منعقد ہوا اس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا.) مجھے معلوم ہوا ہے کہ خدام الاحمدیہ گول بازار ربوہ 8 فروری 1959ء کو ایک جلسہ منعقد کر رہے ہیں جس کی غرض و غایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار ( رفقاء) کے اوصاف حمیدہ بیان کرنا ہے.یہ چار صحابہ یہ ہیں.(1) حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب (2) حضرت مفتی محمد صادق صاحب (3) حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور (4) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ چاروں صحابہ جماعت احمدیہ کے بہت ممتاز رکن تھے اور انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی خدمت کا بہت اچھا موقع پایا.1.حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید تو گویا مجسم خدمت تھے کیونکہ انہوں نے اپنے خون سے احمدیت کے پودے کو سینچا اور سر زمین کاہل میں ایک نہایت مبارک بیج کا کام دیا جو دن بدن پھولتا اور پھلتا چلا جاتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی بہت تعریف فرمائی ہے.بلکہ ان کے بالوں کو یادگار اور تبرک کے طور پر سالہا سال تک اپنی بیت الدعا میں لٹکائے رکھا اور اب یہ بال میرے پاس محفوظ ہیں.انہوں نے صداقت کی خاطر سنگساری جیسی ہیبت ناک سزا کو اس طرح ہنستے ہوئے برداشت کیا کہ گویا ایک شخص پھولوں کی سیج پر لیٹا ہوا ہے.لاریب ان کا نمونہ قربانی کے میدان میں جماعت کے نو جوانوں کے لئے ایک نہایت مبارک نمونہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ وہ پیچھے آیا اور بہتوں سے آگے نکل گیا.2.پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص الخاص ( رفقاء) میں سے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے ساتھ بچوں کی طرح محبت کیا کرتے تھے اور ان کا ذکر اکثر ”ہمارے مفتی صاحب کے پیارے الفاظ سے کیا کرتے تھے.اور حضرت مفتی صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کے اتنے دلدادہ تھے کہ گویا ایک پروانہ شمع کے ارد گرد گھوم رہا ہے.ان کی روح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں گداز تھی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو مسیحی مذہب کا خاص مطالعہ تھا اور مسیحی پادری ان سے اس طرح بھاگتے تھے کہ گویا ان کے سامنے آنے سے ان کی روح فنا ہوتی -

Page 590

مضامین بشیر جلد سوم 568 ہے.اخبار ”بدر“ کی ایڈیٹری کے زمانہ میں بھی حضرت مفتی صاحب نے نمایاں خدمات سرانجام دیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائریوں اور خطبات کو محفوظ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے خاص حصہ پایا.3.حضرت میر محمد اسحاق صاحب گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بچہ تھے مگر بعد میں ان کو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کی خاص خدمت کا موقع عطا کیا.حدیث کے علم سے ان کو بہت عشق تھا اور ان کے حدیث کے درس میں ایسا رنگ نظر آتا تھا کہ گویا ایک عاشق اپنے معشوق کی باتیں کر رہا ہے.مذہبی مناظرات میں بھی انہیں کمال حاصل تھا اور وہ اپنے دلائل کو اس طرح سجا کر بیان کرتے تھے کہ فریق مخالف بالکل بے بس ہو کر دم بخودرہ جاتا تھا.حضرت میر صاحب مرحوم نے جو خدمات لنگر خانہ کے افسر کے طور پر اور پھر مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر سرانجام دیں وہ ہمیشہ یادگار رہیں گی.بچوں کی تعلیم اور خصوصاً یتیموں کی تربیت ان کے ایمان کا جزو تھی.بے شمار یتیم اور غریب بچے ان کے طفیل علم و عمل کے نور سے آراستہ ہو کر دین کے بہادر سپاہی بن گئے.مہمان نوازی بھی حضرت میر صاحب کا طرہ امتیاز تھی اور ان کے لئے ہر مہمان ایک مجسم خوشخبری تھا جس کی خدمت میں وہ روحانی لذت پاتے تھے.پھر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بھی بہت ممتاز صحابہ میں سے تھے.وہ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ (التوبہ: (100) میں سے تھے اور گویا سلسلہ کی تاریخ کے کسٹوڈین تھے.انہوں نے بڑی محنت سے سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح کا مواد جمع کیا.اور اس میدان میں بہت اچھا لٹریچر اپنی یادگار چھوڑا ہے گوافسوس ہے کہ وہ اسے مکمل نہیں کر سکے.اخبار الحلم بھی ان کا ایک خاص کارنامہ ہے جسے جماعت احمدیہ کا پہلا اخبار ہونے کا شرف حاصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اخبار الحکم اور بدر کو اپنے دو باز وفرمایا کرتے تھے.اس میں شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ان دو اخباروں نے بہت نمایاں بلکہ خاص الخاص خدمت کی توفیق پائی.حضرت عرفانی صاحب نے خدا کے فضل سے بہت لمبی عمر پائی مگر باوجود اس کے ان کا قلم آخر عمر تک اسلام اور احمدیت کی خدمت میں مصروف رہا.اس طرح ان کی وفات گویا جہاد کے میدان میں ہوئی.وہ ان چاروں ممتاز اصحاب میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے.احمدیت کے قبول کرنے میں غالباً وہ حضرت مفتی صاحب سے بھی زمانہ کے لحاظ سے پہلے تھے اور صداقت کی تائید میں وہ ایک برہنہ تلوار تھے.اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کی روحوں پر اپنی رحمت کی بارش برسائے اور جنت میں ان کا مقام بلند

Page 591

مضامین بشیر جلد سوم 569 کرے.ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے میدان میں جماعت کے لئے ایک بہت عمدہ نمونہ ہے.آنحضرت فرمایا کرتے تھے کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو وہ ہدایت کا مینار ثابت ہو گا.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور اور خاص صحابہ کا ہے.جماعت کا فرض ہے کہ ان کی زندگیوں کا مطالعہ کر کے انہیں اپنے لئے مشعل راہ بنائے.ان میں سے ہر ایک اپنے رنگ میں ایک ستارہ ہے اور ہر ایک ایک خاص قسم کے نور کا حامل ہے اور ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک صحبت کے طفیل ایک مقناطیس ہے بشرطیکہ جماعت کے نوجوان اپنے اندر مجذوبیت کی صفت پیدا کریں.پھر انشاء اللہ وہی ہوگا جو آنحضرت نے فرمایا ہے کہ: بِأَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ - (مشكوة كتاب المناقب مناقب صحابہ صفحہ 554) وَمَا تَوْفِيْقُنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ (محرره 6 فروری 1959ء) روزنامه الفضل ربوه 17 فروری 1959ء) 4 مصلح موعود والی پیشگوئی مسیح موعود والی پیشگوئی کی فرع ہے ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ پیغام اس اجلاس کے لئے ارسال فرمایا جو 20 فروری 1959ء کو مجلس علمی جامعہ احمدیہ کے زیر اہتمام تعلیم الاسلام ہائی سکول کی مسجد میں مصلح موعود کی پیشگوئی کے سلسلہ میں منعقد ہوا تھا.یہ پیغام محمد شفیق صاحب قیصر سیکرٹری مجلس علمی نے پڑھ کرسنایا ) آج ربوہ میں بلکہ جہاں جہاں بھی جماعت احمدیہ قائم ہے یوم مصلح موعود منایا جارہا ہے اور مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں بھی اس موقع پر ربوہ کے جلسہ کے لئے کوئی مختصر سا پیغام دوں.سو میرا پیغام یہی ہے کہ ہمارے دوست مصلح موعود والی پیشگوئی کی اصل حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں.یہ حقیقت جیسا کہ اکثر لوگوں کو غلطی لگتی ہے یہ نہیں ہے کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں سے ایک اہم پیشگوئی ہے اور بس.بلکہ مصلح موعود والی پیشگوئی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ پیشگوئی اس عظیم الشان پیشگوئی کی فرع ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے نزول کے متعلق فرمائی ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ آخری زمانہ میں اسلام کی تجدید اور مسلمانوں کے احیاء

Page 592

مضامین بشیر جلد سوم 570 ثانی کے لئے ایک مثیل مسیح نازل ہوگا اور اس کے ذریعہ خدا اسلام کو پھر دوبارہ غالب کرے گا اور یہ غلبہ دائی ہوگا.وہاں آپ نے اس پیشگوئی کے اندر شامل کر کے اور گویا اسی کا حصہ بنا کر یہ الفاظ بھی فرمائے ہیں کہ : يَتَزَوَّجُ وَ يُوْلَدُ لَهُ ( مشکوۃ باب نزول عیسی صفحہ 480) یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کے اولاد پیدا ہوگی.پس آپ کا مسیح موعود کے نزول والی پیشگوئی کے اندر شامل کر کے اور اس کا حصہ بنا کر ان الفاظ کا فرمانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مصلح موعود والی پیشگوئی مسیح موعود والی پیشگوئی کی فرع ہے نہ کہ ایک جدا گانہ منفرد پیشگوئی.اور اس سے مراد یہ تھی کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس کے ہاتھ سے اسلام کے دوسرے احیاء کا بیج بویا جائے گا.اور جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے یہ پیج اس کے زمانہ میں ایک خوبصورت کونپل کی شکل میں پھوٹے گا اور اپنی نرم نرم جمالی پتیاں نکالے گا.جو مسیح موعود کے ساتھ کام کرنے والے زراع یعنی کسانوں کے دلوں کو لبھائیں گی.مگر دشمن اس کے اٹھتے ہوئے جو بن کو دیکھ دیکھ کر دانت پیسیں گے مگر اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے اور پھر مسیح موعود کے بعد (یعنی دور او چوں شود بکام تمام ) اس کو نپل کو ایک تناور درخت کی صورت میں ترقی دینے اور پروان چڑھانے کے لئے مصلح موعود ظاہر ہوکر جلال الہی کے ظہور کا موجب بنے گا.اور اس کے وقت میں اس درخت کی شاخیں تمام دنیا میں پھیل جائیں گی اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.مگر مصلح موعود کی یہ جلالی شان مسیح موعود کی جمالی شان کی فرع ہوگی نہ کہ خدائی جلال کا کوئی مستقل اور جدا گانہ جلوہ.کیونکہ اسلام کا یہ دور اپنی اصل کے لحاظ سے صفتِ احمدیت کا دور ہے جو ایک جمالی صفت ہے.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ مصلح موعود والی پیشگوئی پر غور کرتے ہوئے اس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ مصلح موعود کا ظہور مسیح موعود کی بعثت کا تمہ ہے اور اس کے کام کی تکمیل کے لئے مقدر ہے.اس کے زمانہ میں اس کو نیپل نے ایک درخت بنتا ہے جس کا بیج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں سے بویا گیا.اور پھر اس درخت نے دنیا میں پھیلنا اور پھولنا اور پھلنا ہے.اندریں حالات ہمارا فرض ہے کہ ہم اس درخت کی آبپاشی اور ترقی میں انتہائی کوشش اور انتہائی قربانی سے کام لیں.تاکہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کا دن قریب سے قریب تر آ جائے.اور ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام چا را کناف عالم میں گونجے اور ہمارے سردار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ مسلمانوں کا قدم پھر ایک اونچے مینار پر قائم ہو جائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کا وعدہ ہے کہ:

Page 593

مضامین بشیر جلد سوم بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں برمنار بلند تر محکم افتاد (تذکره) 571 خدا کرے کہ وہ دن جلد آئے کہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس روح خدا کے حضور یہ مژدہ پیش کر سکے کہ تیرے ایک بندے اور میرے ایک نائب کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا دنیا میں سب سے اونچا لہرا رہا ہے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محرره 20 فروری 1959ء) روزنامه الفضل ربوه 27 فروری 1959 ء) رمضان کی جامع برکات اور ہماری ذمہ داریاں میں خدا کے فضل سے مختلف رمضانوں میں اس مبارک مہینہ کے مسائل اور اس کی برکات کی طرف دوستوں کو توجہ دلاتا رہا ہوں.غالباً میرے ان مضامین کی تعداد میں تک پہنچ گئی ہوگی یا شاید اس سے بھی زیادہ ہو.ان میں سے بعض مضامین تو کافی مفصل ہوتے رہے ہیں اور بعض اوسط درجہ کے تھے اور بعض صرف یاد دہانی کا رنگ رکھتے تھے.اور یہ امر میرے لئے خوشی کا موجب ہے بلکہ میں اسے اپنی خوش قسمتی خیال کرتا ہوں اور اس پر اپنے مولا کا شکر گزار ہوں کہ میرے ان مضمونوں سے بہت سے دوستوں نے فائدہ اٹھایا ہے.چونکہ اب بھی رمضان کا مہینہ بہت قریب آگیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بالکل سر پر ہے (اور شاید اس مضمون کے چھپتے چھپتے شروع بھی ہو جائے ) اس لئے میں اس نوٹ کے ذریعہ جو قریب یاد دہانی کا رنگ رکھتا ہے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس مہینہ کی برکات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.تا اگر خدا چاہے تو ان کے لئے نیکی کی تحریک اور میرے لئے ثواب کا موجب ہو اور میری اس کمزوری کی تلافی بھی ہو جائے کہ میں اپنی موجودہ علالت میں روزہ رکھنے سے معذور ہوں اور صرف فدیہ پر اکتفا کر کے خدائی مغفرت کا طالب بن رہا ہوں.گزشتہ تین چار سالوں سے یعنی جب سے مجھے دل کی بیماری ہوئی ہے میرا یہ طریق رہا ہے کہ فدیہ بھی ادا کرتا تھا اور رمضان کے مہینہ میں تین روزے رکھ کر خدا کے اس رحیمانہ قانون سے فائدہ اٹھاتا تھا کہ ہما را آسمانی آ قادس گنا اجر دے کر میرے تین روزوں کا ثواب ایک مہینہ کے برابر کر سکتا ہے.لیکن اس سال

Page 594

مضامین بشیر جلد سوم 572 دل کے عارضہ کے علاوہ ذیا بیطیس کا مرض بھی دامن گیر ہو چکا ہے.جس میں ڈاکٹروں نے کھانے کے اوقات قطعی طور پر معین کر دئے ہیں.اور دن کے مختلف حصوں میں دوائیوں کا استعمال لازمی قرار دیا ہے.اس لئے اب تو صرف يَغْفِرُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ کا ہی سہارا ہے.وَأَرْجُو مِنَ اللَّهِ خَيْراً وَ هُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ الرَّحِيمُ الْكَرِيمُ رمضان قرآنی نزول کی سالگرہ ہے: جیسا کہ اپنے گزشتہ مضمونوں میں بار بار بیان کر چکا ہوں رمضان کا مہینہ ایک بڑا ہی مبارک مہینہ ہے.اس کی برکتیں ان عظیم الشان عبادتوں تک ہی محدود نہیں جو اس مہینہ کے ساتھ مخصوص ہیں.بلکہ اس مہینہ کی پہلی برکت یہ ہے جس کی وجہ سے اسے ان عبادتوں کے لئے چنا گیا ہے کہ اس میں قرآن پاک یعنی خدا کی آخری اور عالمگیر شریعت کے نزول کا آغاز ہوا تھا.سورمضان کا مہینہ اسلام کے جنم کا یادگاری مہینہ ہے جس کے ساتھ وہ عالم وجود میں آیا اور دنیا اس روحانی سورج کے نور سے منور ہوگئی.اور ہم ہر سال گویا اس کا یوم یعنی سالگرہ مناتے ہیں.اور وہ عید کی طرح ہر سال بار بار آکر ہمارے دلوں میں قرآنی نزول اور قرآنی برکات کی یاد تازہ کرتا ہے.رمضان کا مہینہ جامع العبادات ہے: رمضان کی برکات کا نمایاں اور مخصوص پہلو یہ ہے کہ وہ جامع العبادات ہے.جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے اسلام کی کثیر التعداد عبادتوں میں سے چار عبادتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں.یعنی (1) نماز (2) روزہ (3) زکوۃ اور (4) حج.اور یہ چاروں بنیادی عبادتیں رمضان میں بہترین صورت میں جمع کر دی گئی ہیں.نماز کی عبادت رمضان میں اس طرح شامل کی گئی ہے کہ پنجگانہ فریضہ نمازوں کے علاوہ رمضان کے مہینہ میں تہجد اور تراویح اور دیگر نفلی نمازوں ( مثلاضحی وغیرہ) کی خاص تاکید کی گئی ہے.اور نماز وہ مقدس ترین عبادت ہے جس مِعْرَاجُ الْمُؤمِن ( یعنی مومنوں کے لئے اوپر چڑھنے کی سیڑھی) کہا گیا ہے.جس کے ذریعہ انسان خدا کی طرف اٹھتا اور اس کا قرب حاصل کرتا ہے.اور صوم یعنی روزہ تو رمضان کی مخصوص عبادت ہے ہی جس کے متعلق حدیث قدسی میں آتا ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ جہاں دوسری عبادتوں کے اور اور اجر مقرر ہیں وہاں روزے دار کے روزہ کا اجر میں خود ہوں.دراصل روزہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی بصورت احسن شامل کر دی گئی ہے.حقوق اللہ اس طرح کہ روزہ میں انسان خدا کے لئے اپنے نفس اور نفس کی

Page 595

مضامین بشیر جلد سوم 573 خواہشات کی قربانی پیش کرتا ہے.اور حقوق العباد اس طرح کہ روزے کے ذریعہ روزے داروں میں اپنے غریب بھائیوں کی تنگ دستی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور انسان ان کے لئے زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے.پھر رمضان میں زکوۃ کی عبادت بھی شامل ہے.کیونکہ اول تو رمضان کے آخر میں فدیہ کی ادا ئیگی مقرر کی گئی ہے جس کا دوسرا نام زکوۃ الفطر ہے جو عید کی آمد پر غریب بھائیوں کی امداد کے لئے تجویز کی گئی ہے.اور پھر ویسے بھی ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رمضان کے مہینہ میں اپنے غریب بھائیوں کی امداد نہایت فیاضی کے ساتھ اور بہت کھلے دل سے کرنی چاہئے.اور خود آپ کا اپنا نمونہ یہ تھا کہ رمضان میں آپ کا ہاتھ غریبوں اور مسکینوں کی مدد میں اس طرح چلتا تھا کہ گویا ایک تیز آندھی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.بالآخر رمضان میں ایک طرح سے حج کی عبادت کا عنصر بھی شامل ہے.کیونکہ جس طرح ایک حاجی حج میں گویا دنیا سے کٹ کر احرام کا لباس پہن لیتا ہے اور شب و روز عبادت الہی میں مصروف رہتا اور جائز نفسانی لذات سے بھی کنارہ کشی اختیار کرتا ہے.اسی طرح رمضان کے مہینہ میں روزہ دار دن کے اوقات میں کھانے پینے اور بیوی کے پاس جانے سے اجتناب کرتا ہے.اور اعتکاف کے ایام میں تو یہ اجتناب گویا بکلی انقطاع کا رنگ اختیار کر لیتا ہے کیونکہ ان ایام میں روزے دار دن رات مسجد میں بیٹھ کر عبادت الہی کے لئے کلیۂ وقف ہو جاتا ہے.روزہ دار کی جزا خود خدا ہے: الغرض رمضان کا مہینہ جامع العبادات ہے جس میں اسلام کی چاروں بنیادی عبادتوں کو بہترین صورت میں ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے.اس میں نماز بھی ہے اور روزہ بھی ہے اور زکوۃ بھی ہے اور حج کی چاشنی بھی شامل ہے.بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو رمضان میں جہاد کا عصر بھی پایا جاتا ہے.کیونکہ روز نفس کی تربیت کا بھی نہایت مؤثر ذریعہ ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض حالات میں نفس کے جہاد کو تلوار کے جہاد سے بھی افضل قرار دیا ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے فارغ ہو کر مدینہ کی طرف واپس تشریف لا رہے تھے.آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ: رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأكبر ( صحیح بخاری کتاب الجہاد والسير ) یعنی اب ہم چھوٹے جہاد سے فارغ ہو کر بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں.اس طرح آپ نے نفس کے جہاد کو تلوار کے جہاد سے بھی افضل قرار دیا.ایک دوسرے موقع پر آپ

Page 596

مضامین بشیر جلد سوم نے فرمایا: 574 بہادر وہی نہیں ہے جولڑائی میں اپنے حریف کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ بہادر وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کو دبا کر ان پر غلبہ پاتا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ رمضان کی برکات اتنی وسیع ہیں کہ ان میں اسلام کی چار بنیادی عبادتوں کے علاوہ جہاد کے ثواب کا بھی رستہ کھولا گیا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ روزے میں سب کچھ شامل ہے اس لئے اس کی جزا میں خود ہوں.اور عقلاً بھی یہی درست ہے کیونکہ روزہ دار کو نماز کا ثواب بھی ملتا ہے، روزہ کا ثواب بھی ملتا ہے، زکوۃ کا ثواب بھی ملتا ہے، حج کا ذوق بھی حاصل ہوتا ہے اور جہاد کا موقع بھی میسر آتا ہے.اجر پانے کے لئے صحت نیت بھی ضروری ہے: مگر یا درکھنا چاہئے کہ اسلامی عبادتیں کوئی منتر جنتر نہیں ہیں کہ ادھر پھونک مار کر ایک کام کیا اور اُدھر نتیجہ نکل آیا.بلکہ اسلام صحت نیت چاہتا ہے.ہمت چاہتا ہے.صبر و استقلال چاہتا ہے.اور لمبے عرصہ کا مجاہدہ چاہتا ہے.قرآن فرماتا ہے: أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنكبوت: 3) یعنی کیا یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صرف ایمان کے زبانی دعوے پر خدا ان کو چھوڑ دے اور ان کے سارے کام یونہی پورے ہو جائیں اور وہ امتحانوں اور ابتلاؤں کی بھٹی میں نہ ڈالے جائیں؟ ہوشیار ہو کر سن لو کہ یہ بات خدائے حکیم و علیم کی سنت کے خلاف ہے.پس رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان پاک نیت اور بچے ایمان اور صبر و استقلال کے ساتھ ان احکام کو بجالائے جو خدا تعالیٰ نے رمضان کے ساتھ وابستہ کئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص رمضان میں کذب اور قول زور کو نہیں چھوڑتا اور روزے کی حقیقت سے بے خبر رہ کر محض نمائش اور ظاہر داری کا رنگ اختیار کرتا ہے وہ مفت میں بھوکا رہتا ہے.جس کی خدا کے حضور کچھ بھی قدرو قیمت نہیں.ایک عرب شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ: يَغُوصُ الْبَحْرَ مَنْ طَلَبَ الأَلَّى وَ مَنْ طَلَبَ الْعُلَى سَهِرَ اللَّيَالِي

Page 597

مضامین بشیر جلد سوم 575 یعنی جس شخص کو موتیوں کی تلاش ہوا سے سمندروں میں غوطے لگانے پڑتے ہیں اور جو شخص بلندیوں کا طالب ہوا سے راتوں کو جاگنے کے بغیر چارہ نہیں.رمضان سے تعلق رکھنے والےاحکام: اب میں ان احکام کی کسی قدر تشریح کرتا ہوں جو رمضان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.سب سے اول نمبر پر خود صوم یعنی روزہ ہے جو رمضان کی اصل اور مخصوص عبادت ہے.روزہ کی ظاہری صورت یہ ہے کہ سحری کے وقت یعنی صبح صادق اور فجر کی اذان سے پہلے اپنی عادت اور اشتہاء کے مطابق کچھ کھانا کھایا جائے.کھانے کے بغیر روزہ رکھنا چنداں پسندیدہ نہیں سوائے اس کے کوئی مجبوری کی صورت ہو.اور سحری کھانے کے متعلق مسنون طریق یہ ہے کہ صبح صادق سے قبل جتنی دیر سے کھائی جائے اتنا ہی بہتر ہے.تا کہ سحری اور اذان کے درمیان کم سے کم وقفہ ہو اور خدائی حد بندی کے ساتھ انسان کی ذاتی خواہش مخلوط نہ ہونے پائے.اس کے بعد غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ مخصوص جنسی تعلقات قائم کرنے منع ہیں.اس طرح گویا خدا کے رستہ میں اپنے نفس اور اپنی نسل کی قربانی پیش کی جاتی ہے.غروب آفتاب کے وقت افطاری کرنے میں بھی وہی اصول چلتا ہے جو سحری کھانے کے متعلق اوپر بیان کیا گیا ہے.یعنی غروب آفتاب کے ساتھ بلا توقف افطاری کر لی جائے.دوسرے الفاظ میں سحری کھانے میں دیر کرنا اور افطاری کرنے میں جلدی کرنا مسنون ہے.روزہ کے دوران میں خاص طور پر اپنے خیالات کو پاک وصاف رکھنا اور بے ہودہ اور لغو باتوں اور فحشاء وغیرہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے.روزہ ہر عاقل بالغ مرد و عورت پر فرض ہے.البتہ اگر کوئی شخص سفر میں ہو یا بیمار ہو تو اسے سفر اور بیماری کے ایام میں روزہ ترک کر کے دوسرے ایام میں گنتی پوری کرنی چاہئے.یہی حکم ان عورتوں کے لئے ہے جو رمضان کے مہینہ میں ماہواری ایام کی وجہ سے چند دن کے لئے معذور ہو جائیں.وہ لوگ جو بڑھاپے یا دائم المرض ہونے کی وجہ سے معذور ہو چکے ہوں ان کے لئے قرآن یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے کھانے کی حیثیت کے مطابق فدیہ ادا کر دیں.فدیہ کی رقم مساکین کی امداد کے لئے مرکز میں بھی بھجوائی جاسکتی ہے اور اپنے پڑوس کے غرباء میں خود بھی تقسیم کی جاسکتی ہے.اور فدیہ نقد رقم کی بجائے کھانے کی صورت میں بھی دیا جا سکتا ہے.بعض صوفیاء نے سفر اور عارضی بیماری میں بھی فدیہ کی ادائیگی کو پسند کیا ہے اور دوسرے وقت میں گنتی پوری کرنا مزید برآں ہے.

Page 598

مضامین بشیر جلد سوم 576 رمضان میں نفلی نمازیں: رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی نمازوں پر بہت زور دیا ہے.نفلی نمازوں میں سب سے افضل اور سب سے ارفع تہجد کی نماز ہے جو رات کے نصف آخر میں صبح صادق سے پہلے ادا کی جاتی ہے.اس نماز کی برکت اور شان اس بات سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید تہجد کی نماز کے متعلق فرماتا ہے کہ اس کے ذریعہ انسان اپنے مقام محمود کو پہنچ جاتا ہے.مقام محمود ہر شخص کا جدا ہوتا ہے کیونکہ اس سے ترقی کا وہ انتہائی نقطہ مراد ہے جو کوئی شخص اپنے حالات اور اپنی فطری استعدادوں کے مطابق حاصل کر سکتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام محمود جس کا آپ کو وعدہ دیا گیا ہے وہ سب اولین و آخرین سے افضل اور ارفع ترین ہے.بہر حال تہجد کی نماز انسانوں کی روحانی ترقی کے لئے بہترین سیڑھی ہے.کاش ہمارے نوجوان دوست اس کی قدر و قیمت کو پہچانیں.رمضان میں عشاء کے بعد کی نماز تراویح بھی دراصل تہجد ہی کی ایک نرم اور رعایتی صورت ہے.اس کی شرکت گو آخر شب کی تہجد کا درجہ تو نہیں رکھتی مگر لوگوں میں نفل نمازوں کا ذوق پیدا کرنے کے لئے بہت غنیمت ہے.دوسری نفلی نماز ضحی کی نماز ہے جو صبح اور ظہر کی نمازوں کے درمیانی وقفہ میں پڑھی جاتی ہے تا کہ یہ لمبا وقفہ عبادت سے خالی نہ رہے.یہ بھی ایک بہت بابرکت نفلی نماز ہے اور دوستوں کو رمضان میں ان دونوں نمازوں یعنی تہجد اور ضحی کا التزام رکھنا چاہئے.رمضان میں قرآن کی تلاوت : رمضان کے مہینہ میں قرآن مجید کی تلاوت کی بھی خاص تاکید آئی ہے اور یہ تاکید ضروری تھی.کیونکہ قطع نظر تلاوت کی دوسری برکات کے رمضان کا مہینہ قرآنی نزول کے آغاز کی یادگار ہے.اور اس یاد گار کو قرآن کی تلاوت سے کسی طرح جدا نہیں کیا جا سکتا.عام طور پر لوگ رمضان میں قرآن کا ایک دور ختم کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں مسنون طریق دو دور ختم کرنا ہے.کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر رمضان میں جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قرآن کا ایک دور ختم کیا کرتے تھے.لیکن جب قرآن کا نزول مکمل ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری رمضان میں حضرت جبرائیل نے آپ کے ساتھ مل کر دو دور پورے کئے.اور چونکہ ہمارے لئے بھی قرآن مکمل ہو چکا ہے اس لئے اپنے آقا کی سنت میں ہمارے لئے بھی رمضان میں قرآن مجید کے دو دور پورے کرنے مناسب ہیں اور زیادہ کے

Page 599

مضامین بشیر جلد سوم 577 لئے تو کوئی حد نہیں.جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہو گا.قرآن کی تلاوت حتی الوسع ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ سمجھ کر کرنی چاہئے اور رحمت کی آیتوں پر طلب رحمت کی دعا اور عذاب کی آیتوں پر تو بہ واستغفار کرنا مسنون ہے.رمضان میں غیر معمولی صدقہ و خیرات: رمضان میں صدقہ و خیرات پر بھی اسلام نے بہت زور دیا ہے.صدقہ و خیرات میں دوہری غرض مد نظر ہے.ایک تو یہ کہ غریب بھائیوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کا رستہ کھلے تا کہ وہ بھی رمضان کے بڑھے ہوئے اخراجات کو خوشی اور دلجمعی کے ساتھ پورا کر سکیں.دوسرے یہ کہ یہ صدقہ وخیرات صدقہ کرنے والوں کے لئے رد بلا کا موجب ہو.حدیث میں آتا ہے کہ : إِنَّ الصَّدَقَةَ تَطْفى غَضَبَ الرَّبِّ ( ترمذی باب فضل الصدقه ) یعنی صدقہ و خیرات خدا کے غضب کو روک دور کرتا اور اس کی تلخ تقدیروں کو روکتا ہے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ مالی تنگی کے باوجود آپ کا ہاتھ رمضان کے مہینہ میں غریب مسلمانوں کی امداد میں اس طرح چلتا تھا کہ گویا کہ وہ ایک تیز آندھی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.یہ مبارک اسوہ ہر سچے مسلمان کے لئے مشعل راہ ہونا چاہئے.صدقۃ الفطر کا فریضہ: اس طوئی صدقہ کے علاوہ اسلام میں عید الفطر کی آمد پر صدقۃ الفطر کا بھی حکم دیا گیا ہے جو عید سے پہلے ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے.اس کی مقدار خوشحال لوگوں کے لئے ایک صاع گندم اور عام لوگوں کے لئے نصف صاع گندم مقرر ہے جو آج کل کے ریٹ کے لحاظ سے ایک روپیہ اور نصف روپیہ فی کس بنتی ہے.صدقۃ الفطر ہر مرد و عورت، بچے بوڑھے، امیر غریب پر فرض کیا گیا ہے تا کہ اس مشترکہ فنڈ سے عید کے موقع پر غریب بھائیوں کی امداد کی جاسکے.حتی کہ جن غریبوں نے صدقۃ الفطر سے خود امداد حاصل کرنی ہو ان کو بھی حکم ہے کہ اپنی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کریں تا کہ یہ فنڈ صحیح معنوں میں قومی فنڈ کی صورت اختیار کر لے.صدقہ الفطر کو مرکز میں بھجوانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے مقامی طور پر آس پاس کے غریبوں پر خرچ کرنا چاہئے.اعتکاف کی مخصوص عبادت: گواسلام میں رہبانیت یعنی ترک دنیا جائز نہیں کیونکہ وہ انسان کو اس کے فطری تقاضوں کے مطابق

Page 600

مضامین بشیر جلد سوم 578 زندگی کی کشمکش میں مبتلا رکھ کر پاک کرنا چاہتا ہے.لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں ایک قسم کی جزوی اور مشروط اور محمد و درہبانیت کی سفارش کی گئی ہے.اس مخصوص عبادت کا نام اعتکاف ہے.اور جولوگ اس کے لئے فرصت پائیں اور ان کے حالات اس کی اجازت دیں ان کے لئے یہ ہدایت ہے کہ وہ بیس رمضان کی شام کو کسی ایسی مسجد میں جس میں جمعہ ہوتا ہو شب و روز کی عبادت کے لئے گوشہ نشین ہو جائیں اور اپنے اس اعتکاف کو آخری رمضان تک پورا کریں.اعتکاف میں سوائے پیشاب پاخانہ کی حوائج ضروریہ کے دن رات کا سارا وقت مسجد میں رہ کر نماز اور تلاوت قرآن اور ذکر الہی اور دعا اور اپنی درس و تدریس میں گزارا جاتا ہے.اس طرح اعتکاف میں بیٹھنے والا انسان گویا دنیا سے کٹ کر خدا کی یاد کے لئے کلینتہ وقف ہو جاتا ہے.یہ عبادت یاد الہی کی مخصوص چاشنی پیدا کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے تا کہ اس کے بعد اعتکاف بیٹھنے والا انسان یہ محسوس کرے کہ اسے دنیا میں رہتے ہوئے اور دنیوی تعلقات کو نبھاتے ہوئے کس طرح " دست با کار و دل بایار“ کا نمونہ پیش کرنا چاہئے.لیلۃ القدر کی مبارک رات: قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ رمضان کے مہینہ میں ایک خاص رات ایسی آتی ہے جس میں خدا کی رحمت اس کے بندوں کے قریب تر ہو جاتی ہے.اس رات کا نام لیلۃ القدر یعنی ” عزت والی رات رکھا گیا ہے.جو روحانیت کے زبر دست انتشار اور دعاؤں کی خاص قبولیت کی رات ہے.اسلام نے کمال حکمت سے اس رات کی تعیین نہیں کی.لیکن حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے روحانی مشاہدہ کے ماتحت اس قدر اشارہ فرمایا ہے کہ اسے رمضان کے آخری عشرہ یا آخری سات دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو.لیلۃ القدر کے لئے رمضان کے آخری عشرہ کو اس لئے مخصوص کیا گیا ہے کہ رمضان کے ابتدائی ہیں دنوں کے مسلسل روزوں اور نفلی نمازوں اور تلاوت قرآن اور دعاؤں اور صدقہ و خیرات وغیرہ کی وجہ سے مومنوں کے دلوں میں ایک خاص روحانی کیفیت اور خاص نورانی جذ بہ پیدا ہوکر ان کے اندر قبولیت دعا کی غیر معمولی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے.بایں ہمہ یہ خیال کرنا کہ لیلتہ القدر میں ہر شخص کی ہر دعا لازماً قبول ہو جاتی ہے اسلامی تعلیم کے صریح خلاف ہے.جو د عا خدا کی کسی صفت کے خلاف ہو یا خدا کی کسی سنت کے خلاف ہو یا خدا کے کسی وعدہ کے خلاف ہو یا دعا کرنے والے کے اپنے حقیقی مفاد کے خلاف ہو جسے وہ اپنی جہالت کی وجہ سے مانگ رہا ہو وہ ہر گز قبول نہیں ہوسکتی.اور نہ ایسے شخص کی دعا قبول ہو سکتی ہے جس کا دل نا پا کیوں کا گھر

Page 601

مضامین بشیر جلد سوم 579 ہو اور وہ محض منتر جنتر کے طور پر کوئی دعائیہ کلمہ زبان پر لا رہا ہو.قرآن مجید رمضان میں دعاؤں کے متعلق فرماتا ہے کہ: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنّى قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ لا فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: 187) یعنی اے رسول ! جب میرے بندے (نہ کہ شیطان کے بندے) میرے متعلق تجھ سے پوچھیں تو تو ان سے کہہ دے کہ میں اپنے بندوں کے بالکل قریب ہوں.میں دعا کرنے والے کی دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہوں جب کہ وہ مجھے پکار ہیں.مگر ضروری ہے کہ وہ بھی میری باتوں پر کان دھریں اور مجھ پر سچا ایمان لائیں تا کہ ان کی دعائیں پایہ قبولیت کو پہنچیں.پس لا ریب لیلۃ القدر کی مبارک رات دعاؤں کی خاص قبولیت کی رات ہے جب کہ رحمت کے فرشتے زمین کی طرف جھک جھک کر مومنوں کی دعاؤں کو ذوق و شوق کے ساتھ اچکتے ہیں.لیکن بہر حال یہ رات بھی ان شرطوں سے بالکل باہر نہیں جو دعاؤں کی قبولیت کے لئے خدائے حکیم وعلیم کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں.مگر چونکہ یہ رات گویا خدا کے دربار عام کی رات ہے اس لئے اس میں شبہ نہیں کہ اس رات میں ان شرطوں کو خدا کی وسیع رحمت نے کافی نرم کر رکھا ہے.لیلۃ القدر کی ظاہری علامت کے متعلق کچھ کہنا غالباً غلط فہمی پیدا کرنے والا ہوگا.کیونکہ اس کی اصل علامت روحانیت کا انتشار ہے جسے دعاؤں کا تجربہ رکھنے والے مومنوں کا دل اکثر صورتوں میں محسوس کر لیتا ہے.مگر کیا اچھا ہو کہ ہمارے دوست ان چند راتوں کے بیشتر حصہ کو خاص کوشش کے ساتھ دعاؤں اور ذکرِ الہی میں گزاریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زریں ارشاد کی حکمت کو پورا کریں کہ لیلتہ القدر کو رمضان کی آخری راتوں میں تلاش کرو.ہمارے دادا اپنے آخری ایام میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ : عمر بگذشت و نماندست جز آیا می چند به که دریاد کسے صبح کنم شامے چند یعنی عمر گزرگئی اور اب صرف چند دن باقی ہیں.کیا اچھا ہو کہ ان چند دنوں کو کسی کی یاد میں اس طرح خرچ کروں کہ شام کو بیٹھوں اور صبح کردوں.رمضان میں اپنی کسی کمزوری کو دور کرنے کا عہد : بالآخر میں دوستوں کو بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ

Page 602

مضامین بشیر جلد سوم 580 ارشاد یاد دلاتا ہوں جس کی طرف میں پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ رمضان کا مہینہ نفس کی اصلاح کا خاص زمانہ ہے.کیونکہ اس مہینہ کا ماحول اصلاح نفس کے ساتھ مخصوص مناسبت رکھتا ہے.اس مہینہ میں خاص عبادتوں اور دعاؤں اور ذکر الہی کی وجہ سے گو یا لوہا گرم ہوتا ہےاورصرف چوٹ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کی دوسری ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان ایام میں اپنی کسی خاص کمزوری کو سامنے رکھ کر خدا سے عہد کریں کہ وہ آئندہ اس کمزوری کے ارتکاب سے کلی طور پر اجتناب کریں گے.اس کمزوری کے اظہار کی ضرورت نہیں کیونکہ خداستار ہے اور ستاری کو پسند فرماتا ہے.پس کسی پر ظاہر کرنے کے بغیر اپنے دل میں خدا سے عرض کرو کہ اے میرے آسمانی آقا ! میں آئندہ اس کمزوری سے تو بہ کرتا اور تیرے حضور عہد کرتا ہوں کہ اپنی انتہائی ہمت اور انتہائی کوشش کے ساتھ اس کمزوری سے ہمیشہ کنارہ کش رہوں گا.تُو میرے قدموں کو استوار رکھ اور مجھے اس عہد پر قائم رہنے کی توفیق عطا کر.کہ بے توفیق کام آئے نہ کچھ پند خدا تعالیٰ مجھے اور اس مضمون کے پڑھنے والوں کو رمضان کی بہترین برکات سے متمتع فرمادے اور ہماری انفرادی اور جماعتی دعاؤں کو قبول کرے.آمین یا ارحم الراحمین.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محررہ 9 مارچ 1959ء) (روز نامه الفضل ربوه 12 مارچ 1959ء) 6 ہستی باری تعالیٰ کے متعلق فطرت کی آواز ایک امریکن سائنس دان کی لطیف شہادت میں نے اپنی کتاب ”ہمارا خدا میں خدا کے فضل سے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق کئی قسم کے عقلی دلائل جمع کر کے اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت درج کیا ہے.ان میں سے بعض دلائل فطرت انسانی کی آواز سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض نیکی بدی کے شعور پر مبنی ہیں.اور بعض قبولیت عامہ کی دلیل سے وابستہ ہیں اور بعض شہادتِ صالحین سے تعلق رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ.میری یہ کتاب خدا کے فضل سے کافی مقبول ہوئی ہے اور بہت سے

Page 603

مضامین بشیر جلد سوم 581 نو جوانوں اور خصوصاً کالج کے طلبہ نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے.اس تعلق میں مجھے محترم میاں عطاء اللہ صاحب امیر جماعت راولپنڈی نے ایک حوالہ بھجوایا ہے جس میں ہستی باری تعالیٰ کے متعلق ایک امریکن سائنس دان کی شہادت درج ہے جو بعینہ اسی نوعیت کی ہے جو میں نے اپنی کتاب ”ہمارا خدا‘ میں نظامِ عالم کی دلیل کے ماتحت ایک بدوی عرب کے قول کی بناء پرلکھی ہے.میں ان دونوں کو ذیل میں درج کرتا ہوں تا ناظرین یہ اندازہ کر سکیں کہ کس طرح دنیا بھر کے صحیح الفطرت لوگوں کا دماغ جو ہر زمانہ اور ہر قوم اور ہر طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس معاملہ میں ایک لائن پر کام کرتا چلا آیا ہے.میں نے اپنی کتاب ”ہمارا خدا“ میں لکھا تھا کہ: ” میرے سامنے اس وقت ایک عرب بدوی کا قول ہے جس سے کسی نے پوچھا تھا کہ تیرے پاس خدا کی کیا دلیل ہے؟ اس نے بے ساختہ جواب دیا کہ: الْبِعْرُ تَدُلُّ عَلَى الْبَعِيرِ وَ أَثرُ الْقَدَمِ إِلَى السَّفِيرِ فَالسَّمَاءُ ذَاتِ الْبروحِ وَالارْضِ ذات الْفُجَاجِ أَمَّا تَدُلُّ عَلَىٰ قَدِيرِ یعنی جب کوئی شخص جنگل میں سے گزرتا ہوا ایک اونٹ کی مینگنی دیکھتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس جگہ سے کسی اونٹ کا گزر ہوا.اور جب وہ صحرا کی ریت پر کسی آدمی کے پاؤں کے نشان پاتا ہے تو وہ یقین کر لیتا ہے کہ یہاں سے کوئی مسافر گزرا ہے.تو کیا تمہیں یہ زمین مع اپنے وسیع راستوں کے اور یہ آسمان مع اپنے سورج اور چاند اور ستاروں کے دیکھ کر اس طرف خیال نہیں جاتا کہ ان کا بھی کوئی بنانے والا ہوگا ؟ اللہ اللہ کیا ہی سچا اور کیا ہی تصنع سے خالی مگر دانائی سے پر یہ کلام ہے جو اس ریگستان کے ناخواندہ فرزند کے منہ سے نکلا.“ ”ہمارا خدا زیر بحث کا ئنات خلق کی دلیل صفحہ 56-57) اب اس کے مقابل پر ناظرین پروفیسر ایڈون کا نکن پرنسٹن یو نیورسٹی کا قول ملاحظہ کریں جو امریکہ کے مشہور رسالہ ریڈرز ڈائجسٹ“ بابت ماہ مئی 1956 ء کے صفحہ 87 پر چھپا ہے اور اخبار ”ٹائمنر سٹارسن سینٹی“ سے نقل کیا گیا ہے.پروفیسر صاحب جو ایک بہت مشہور سائنس دان اور پیدائش خلق کے مضمون کے ماہر سمجھے جاتے ہیں فرماتے ہیں: یہ خیال کہ زندگی کا آغاز محض کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجہ میں ہوا ہے بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ لغت کی ایک مکمل کتاب کسی چھاپہ خانہ کے اتفاقی دھماکے کے نتیجہ میں خود بخود چھپ گئی تھی.ناظرین ملاحظہ کریں کہ کس طرح عرب کے قدیم ناخواندہ بدوی اور امریکہ کے جدید تعلیم یافتہ سائنس

Page 604

مضامین بشیر جلد سوم 582 دان پروفیسر اس معاملہ میں بعینہ ایک رستہ پر گامزن ہوئے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ قرآن مجید کی اس آیت پر نظر ڈالیں جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ: فِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (الذاريات:22) یعنی اسے مشرق و مغرب کے لوگو! تم سب ہمارے ہاتھ کی پیدائش ہو.پس اپنی فطرتوں پر نظر ڈالو اور دیکھو کہ کیا ان میں خدا کی ہستی کے نشان نظر نہیں آرہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منکرین خدا کے متعلق خدا کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے کہ: چشمه خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب ور نہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا پس اس سے زیادہ اس مختصر نوٹ میں اور کیا کہا جائے.اگر در خانه کس است حرف بس است (محررہ 9 مارچ 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 14 مارچ 1959ء) حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کے لئے دعا کی تحریک جماعت میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کسی تعارف کے محتاج نہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی ہیں اور علم و عمل دونوں میں ان کا مقام خدا کے فضل سے بہت بلند ہے اور وہ صاحب الہام و کشف و رویا بھی ہیں.ایسے اصحاب کا وجود جماعت کے لئے بہت برکت کا موجب ہوتا ہے.چند دن سے حضرت مولوی صاحب بیمار اور صاحب فراش ہیں اور کچھ عرصہ ہوا ان کو ایک جوان بچے کی وفات کا بھی صدمہ پہنچا ہے جسے انہوں نے ایسے متوکلا نہ رنگ میں صبر ورضا سے برداشت کیا ہے جو روحانی لوگوں کے شایانِ شان ہے.

Page 605

مضامین بشیر جلد سوم 583 پس میں حضرت مولوی صاحب کی بیماری کے پیش نظر احباب جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ رمضان کے مبارک ایام میں حضرت مولوی صاحب کی صحت اور لمبی عمر کے لئے خاص طور پر دعا کریں.نیک اور پارسا لوگوں کا وجود جماعت کے لئے کئی رنگ میں رحمت کا موجب ہوتا ہے اور حضرت مولوی صاحب تو نیک طبقہ میں بھی خاص مقام رکھتے ہیں.اس لئے ان کا حق ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ انہیں اپنی مخصوص دعاؤں میں یا در کھے.محرره 15 فروری 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 17 مارچ 1959 ء ) 8 آں مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کردی که ازیں خاک نمایاں کردی مسیح موعود عشق رسول کی پیداوار ہے تاریخ اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی بعثت کے بعد سب سے بڑا اور سہ زیادہ اہم اور سب سے زیادہ دُور رس واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا واقعہ ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا اور مسیح موعود کا زمانہ جس نے آپ کی شاگردی اور غلامی میں اہر ہونا تھا تمیلِ اشاعت کا زمانہ ہے.اسی کی طرف یہ قرآنی آیت اشارہ کرتی ہے کہ: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الفتح: 29) یعنی خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تا کہ وہ اس دین کو تمام دوسرے دینوں پر غالب کر دکھائے.اکثر مفسرین نے اتفاق کیا ہے کہ اس آیت کا پہلا حصہ جو ارسال ہدایت اور دین الحق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کے ذریعہ بصورتِ احسن پورا ہو گیا.لیکن اس آیت کا دوسرا حصہ جو تمام دوسرے دینوں کے مقابلہ پر اسلام کے غلبہ سے تعلق رکھتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب یعنی مسیح موعود کی بعثت کے ذریعہ پورا ہونا مقدر تھا.جس نے دوسرے مذاہب کے زور کے وقت میں ظاہر ہو کر اسلام کو ان سب پر غالب کرنا تھا.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کی بعثت کو

Page 606

مضامین بشیر جلد سوم 584 غیر معمولی اہمیت دی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ فِيكُمُ ابْنِ مَرْيَمَ حَكَماً عَدَلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ وَ يَقْتُلَ الْخَنُزِيرَ (در منثور جلد 2 صفحه 242) یعنی اے مسلمانو! تمہارے لئے وہ زمانہ کیسا ہی مبارک ہو گا جبکہ تم میں ابن مریم نازل ہوگا.وہ صلیب کے زور کے زمانہ میں ظاہر ہو کر صلیب کو توڑ دے گا اور اسی طرح دوسری غیر دینی ناپاکیوں کا قلع قمع کر دے گا.پھر فرماتے ہیں: كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّتِي أَنَا أَوَّلُهَا وَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرِيَمَ اخِرُهَا ( مشکوۃ جزء 2 باب ثواب هذه الامة صفحه 583) یعنی وہ امت کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں میں ہوں اور اس کے آخر میں مسیح ابن مریم ہوگا.پھر ایک اور موقع پر فرماتے ہیں: مَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلِ الْمَطْرِ لَا يُدْري أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَوْ اخِرُهُ (جامع ترندی) یعنی میرے امت کا حال اس برسات کی طرح ہے جس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا ابتدائی دور زیادہ بہتر ہے یا اس کا آخری دور زیادہ بہتر ہوگا.ان واضح اور زبردست حدیثوں سے ظاہر ہے کہ خدا نے ازل سے اسلام کی ترقی کے لئے دو دور مقرر کر رکھے ہیں.پہلا دور حضرت خاتم النبین سرور کائنات محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے جو تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا اور دوسرا دور آپ کے نائب اور شاگرد اور ظال کامل مسیح موعود کا دور ہے جو تکمیل اشاعت کا زمانہ ہے.جس میں آپ کی لائی ہوئی ہدایت کو دلائل اور براہین اور روحانی نشانات کے ذریعہ تمام دوسرے دینوں پر اس طرح غالب کر کے دکھایا جانا تھا کہ دنیا کے دل پکار اٹھیں کہ: وو جا این جا است چنانچہ خدا کے فضل سے میں اپنی کتاب ” تبلیغ ہدایت میں ثابت کر چکا ہوں اور اسی طرح اس پر بہت سا دوسرا لٹریچر بھی موجود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کے خلفاء کے ذریعہ یہ غلبہ سرعت کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے.اور اللہ کے فضل سے یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا جلد جلد ایک وسیع اور مضبوط درخت کی صورت اختیار کر کے دنیا کی قوموں کو اپنے ٹھنڈے سایہ کے نیچے جمع کرتا چلا جاتا

Page 607

مضامین بشیر جلد سوم 585 ہے.اور اشترا کی ملکوں کو چھوڑ کر جنہوں نے فی الحال اپنی لادینیت کی وجہ سے ہمارے مبلغوں کا داخلہ بند کر رکھا ہے باقی اکثر آزاد ممالک میں جماعت احمدیہ کے مبلغ دن رات اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں.اور مسیحی مشنری ہماری جماعت کی کوششوں کی وجہ سے مرعوب اور خائف ہو رہے ہیں.اور خدا کے فضل سے وہ وقت دور نہیں کہ صداقت کا آفتاب مغرب سے طلوع کرے گا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام نہایت شاندار نگ میں پورا ہوگا کہ: ” بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد ( تذکرہ) مگر میں اپنے مضمون کے مرکزی نقطہ سے ہٹ گیا.میں یہ بیان کرنا چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ رتبہ کہ آپ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور اسلام کے آخری دور کے لیڈر یعنی مسیح ابن مریم قرار پائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ محبت اور لاثانی عشق کی وجہ سے حاصل ہوا ہے.چنانچہ جو شعر اس مضمون کے عنوان کی زینت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک فارسی نظم سے لیا گیا ہے.جس کے چند چیدہ اشعار ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں اور کس طرح والہانہ جذ بہ سے فرماتے ہیں کہ : اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی ذره را تو بیک جلوه کنی چون خورشید اے بسا خاک کہ تو چوں میہ تاباں کردی جان خود کس ندهد بهر کس از صدق و صفا راست این است که این جنس تو ارزاں کردی تانه دیوانه شدم ہوش نیامد بسرم اے جنوں گرد تو گردم که چه احساس کردی آں مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کردی که ازیں خاک مرا آں کردی در شین فارسی متر جم صفحه 379-378) یعنی اے محبت تیرے آثار ونشانات کتنے عجیب و غریب ہیں تو نے محبوب کے رستہ میں زخم و مرہم (یعنی بیماری اور علاج ) کو ایک جیسا بنا رکھا ہے.تو ایک ذرہ بے مقدار کو اپنے ایک جلوہ سے سورج بنادیتی ہے اور

Page 608

مضامین بشیر جلد سوم 586 بسا اوقات تیری وجہ سے خاک کی ایک چنگی میری طرح چمکتا ہوا چاند بن جاتی ہے.کوئی شخص کسی دوسرے کی خاطر اخلاص و وفا کے ساتھ اپنی جان نہیں دیتا مگر حق یہ ہے کہ تو ہی وہ چیز ہے جس نے اس نایاب جنس کو ارزاں کر دیا ہے.میں تو جب تک خدا اور اس کے رسول کے عشق میں دیوانہ نہیں ہو گیا میرے سر میں ہوش نہیں آیا.پس اپنے جنون عشق میں تیرے قربان جاؤں کہ تو نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے.وہ مسیح کہ جسے لوگ آسمان پر بیٹھا ہوا خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہی آسمان سے اترے گا تو نے اے عشق و محبت اُسے اپنی کرشمہ سازی سے زمین میں ہی پیدا کر کے دکھا دیا ہے.ایک دوسرے مقام پر اپنے عشق و محبت کا اس طرح اظہار فرماتے ہیں: یا نبی اللہ ثار روئے محبوب توام وقف راہت کرده ام این سر که بر دوش ست بار تا بمن نور رسول پاک را بنموده اند عشق او در دل ہے جوشد چو آب از آبشار آتش عشق از دم من ہچو برقے مے جہد یک طرف اے ہمدمان خام از گرد و جوار یا رسول اللہ برویت عهد دارم استوار عشق تو دارم ازاں روزے کہ بودم شیرخوار یاد کن وقتے که در کشفم نمودی شکل خویش یاد کن ہم وقت دیگر کآمدی مشتاق وار یاد کن آں لطف و رحمتها که با من داشتی وآں بشارت ہا که میدادی مرا از کردگار یاد کن وقتے چو بنمودی بیداری مرا به آں جمالے، آں رخ، آں صورتِ رشک بہار در مشین فارسی مترجم از ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب صفحہ 222-223، 224-225) یعنی اے نبی اللہ ! تیرے پیارے چہرے پر میں قربان جاؤں.میں نے تو تیرے رستہ میں اپنا سر وقف کر

Page 609

مضامین بشیر جلد سوم 587 رکھا ہے.ہاں وہی سر جو میرے کندھوں پر ایک بوجھ ہے جب سے مجھے رسول پاک کا نو رو جمال دکھایا گیا ہے.آپ کا عشق میرے دل میں اس طرح جوش مار رہا ہے جس طرح ایک آبشار سے پانی ابلا کرتا ہے.عشق کی آگ میرے ہر سانس سے بجلی کی طرح نکلتی ہے.پس اے خام طبیعت کے ساتھیو! میرے پاس سے ایک طرف ہو جاؤ کہ کہیں یہ بجلی تمہیں بھسم نہ کردے کیونکہ تم اس کی برداشت کی طاقت نہیں رکھتے.اے رسول اللہ میں آپ کے مبارک چہرے کے ساتھ از لی پیوند رکھتا ہوں.میرے دل میں آپ کا عشق اس زمانہ سے ہے کہ میں ابھی ایک شیر خوار بچہ تھا.وہ وقت یاد کریں کہ جب آپ نے مجھے کشف میں اپنا مبارک چہرہ دکھایا تھا اور وہ وقت بھی یاد کریں جب آپ میری طرف عالم رویا میں مشتاقانہ رنگ میں بڑھے تھے.ہاں وہ وقت بھی یاد کریں کہ جب آپ نے مجھ پر لطف و رحمت کی بارش برسائی تھی اور پھر وہ بشارتیں بھی یاد کریں جو آپ نے خدا کی طرف سے مجھے دی تھیں.ہاں ہاں وہ وقت بھی یاد فرمائیں کہ جب آپ نے عین بیداری میں مجھے اپنا جلوہ دکھایا تھا.وہ بے نظیر حسن و جمال وہ درخشندہ چہرہ اور وہ دلکش صورت جود دنیا کی تمام بہاروں کے لئے مقام رشک ہے.ایک اور جگہ اپنی محبت کا یوں ذکر فرماتے ہیں: کرے دارم فدائے خاک احمد دلم ہر وقت قربانِ محمد بگیسوئے رسول رسول اللہ کہ که هستم ثار روئے تابان دریں ره گر کشندم ور بسوزند نتابم رو زایوان محمد بدیگر دلبری کارے ندارم که هستم کشته آن محمد تو جان منور کردی از عشق فدایت جان محمد ( در تمین فارسی صفحه 243-244) یعنی میرا سر رسول پاک کی خاک پر شار ہے اور میرا دل ہر وقت محمد پر قربان ہورہا ہے.مجھے رسول اللہ کے پیارے گیسوؤں کی قسم ہے کہ میں محمد کے نورانی چہرہ پر نثار ہو چکا ہوں.اگر آپ کے رستہ میں مجھے قتل کر

Page 610

مضامین بشیر جلد سوم 588 دیا جائے بلکہ جلا کر خاک کر دیا جائے تو پھر بھی میں محمد کی بارگاہ سے کبھی منہ نہیں پھیروں گا.مجھے کسی اور محبوب سے کچھ واسطہ نہیں میں تو صرف محمد کے حسن و جمال کا کشتہ ہوں.تو نے عشق و محبت کی وجہ سے میری جان کو منور کر دیا ہے.سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان! تجھ پر میری جان قربان ہو.پھر اپنے ایک مشہور عربی قصیدہ میں فرماتے ہیں: أَنْظُرُ إِلَيَّ بِرَحْمَةٍ وَتَحَنَّنٍ يَا سَيّدِى أَنَا أَحْقَرُ الْغِلْمَانَ يَا حُبِّ إِنَّكَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّةٌ فِي مُهْجَتِي وَ مَدَارِكِي وَجَنَانِي مِنْ ذِكْر وَجُهِكَ يَا حَدِيقَةً بَهْجَتِي لَمْ أَخْلُ فِي لَحْظٍ وَّلَا فِي آنِ جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوق عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيران یعنی اے میرے آقا! مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر رکھنا میں آپ کا ایک ادنیٰ غلام ہوں.اے میرے محبوب آپ کی محبت میرے خونِ دل میں اور میرے حواس میں اور میری روح میں رچ چکی ہے.اے میری خوشیوں کے باغیچے ! میں تیرے پیارے منہ کی یاد سے ایک لحظہ اور ایک آن بھی خالی نہیں رہتا.میراجسم تک عشق و شوق کے غلبہ میں تیری طرف اڑنا چاہتا ہے.اے کاش! مجھے پرواز کی طاقت ہوتی.یہ اس بے پناہ اور عدیم المثال عشق و محبت کا نمونہ مشتے از خروارے ہے جو حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احد یہ کے قلب صافی میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے موجزن تھی.بلکہ حق یہ ہے کہ یہ ”مشے از خروارے بھی نہیں بلکہ دانہ از خروارے ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال اور تحریرات رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت سے اس طرح معمور ہیں جس طرح ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی میں ڈبونے کے بعد پانی سے بھر جاتا ہے اور گویا پانی ہی پانی بن گیا ہے.پس لاریب جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے.آپ کا وجود باجود خالصہ محبت رسول کی مقدس پیداوار ہے.اور اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ : آن مسیحا که بر افلاک مقام مش گویند لطف کردی کہ ازیں خاک مرا آں کردی ( درشین فارسی صفحه 379)

Page 611

مضامین بشیر جلد سوم 589 یعنی وہ مسیح کہ جسے لوگ آسمان پر چڑھ کر بیٹھا ہوا خیال کرتے ہیں اسے میرے عشق رسول نے زمین سے پیدا کر کے دکھا دیا ہے.پس اے میرے دوستو اور عزیز و اور پیارو! بے شک عمل بہت بڑا درجہ رکھتا ہے مگر محض خشک عمل جو محبت سے خالی ہے اور جس میں عشق خدا اور عشق رسول اور عشق مسیح کی چاشنی مفقود ہے وہ ایک بوسیدہ ٹہنی سے زیادہ نہیں.جو کسی وقت ٹوٹ کر گر سکتی ہے.پس اپنے دلوں میں محبت کی چنگاری پیدا کرو.ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے جواب دیا تم قیامت کے متعلق پوچھتے ہو کیا تم نے اس کے لئے کوئی تیاری بھی کی ہے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! نماز، روزہ وغیرہ کی تو چنداں تیاری نہیں مگر میرے دل میں خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت ہے.آپ نے فرمایا: الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ( صحيح البخاری کتاب الادب باب علامہ الحب فی اللہ ) یعنی پھر تسلی رکھو کہ انسان کو اپنی محبوب ہستیوں سے جدا نہیں کیا جائے گا.یہ حدیث بچپن سے لے کر میرے سامنے قطب ستارے کی طرح رہی ہے جس سے میں اپنے لئے رات کی تاریکیوں اور دن کی پریشانیوں میں رستہ پاتا رہا ہوں.اور جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا جو عنوان میں درج ہے یعنی: آن مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کردی کہ ازیں خاک مرا آں کر دی تو اس پر میں نے یوں محسوس کیا کہ یہ آواز تو میرے اپنے دل کی ہے.(در رشین فارسی صفحه 379) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَ بَارِكْ وَسَلَّمَ وَابْعَثْنِي تَحْتَ أَقْدَامِهُمَا يَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ - محرره 16 فروری 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 20 مارچ 1959ء)

Page 612

مضامین بشیر جلد سوم حضرت مسیح موعود کے ایک فوٹو کے متعلق خادم انہی کا ازالہ 590 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فوٹو ایسا ہے جس میں حضور کھڑے ہیں اور حضور کی دائیں جانب حضور کی طرف جھکے ہوئے ایک بچہ کھڑا ہے جس کی عمر فوٹو میں اندازاً چھ سات سال نظر آتی ہے.اس فوٹو کے متعلق اکثر دوستوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جو بچہ اس فوٹو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑا ہے وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں.مگر یہ خیال درست نہیں بلکہ یہ فوٹو ہمارے چھوٹے بھائی عزیزم میاں شریف احمد صاحب کا ہے.پرانے احباب کو تو یہ غلط فہمی نہیں ہے کیونکہ وہ حقیقت حال سے واقف ہیں اور ہم تینوں بھائیوں کے بچپن کی شکل وصورت سے بھی آشنا ہیں مگر نو جوان احباب اور بعد کے احمدیوں اور خصوصاً دیہات میں رہنے والے دوستوں میں یہ غلط نہی زیادہ کثرت کے ساتھ پائی جاتی ہے.لہذا اس غلط نہی کے ازالہ کے لئے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ والا فوٹو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا نہیں ہے بلکہ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کا ہے.جیسا کہ احباب جانتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی فوٹو ہیں.بعض میں حضور کے ساتھ حضور کے متعدد اصحاب حضور کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بیٹھے یا کھڑے ہیں ( اور ایسے فوٹوؤں میں سے اکثر میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور یہ خاکسار بھی شامل ہیں ) اور بعض میں حضورا کیلے ہیں.مگر ایسا فوٹو جس میں حضور کے ساتھ اکیلا بچہ کھڑا ہے وہ صرف ایک ہی ہے یعنی وہی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.پس اس فوٹو کے متعلق احباب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ حضور کے ساتھ والا فوٹو میاں شریف احمد صاحب کا ہے نہ کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا.چونکہ یہ معاملہ سلسلہ کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں نے ضروری خیال کیا ہے کہ اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا جائے.محرره 21 مارچ 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 26 مارچ 1959ء)

Page 613

مضامین بشیر جلد سوم چوہدری عبداللہ خان صاحب کے لئے دعا کی تحریک 591 عزیزم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کو اکثر احباب جانتے ہیں یہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں اور اپنے برادر اکبر کی طرح بہت مخلص اور جماعت احمدیہ کے فدائی رکن ہیں.ان کی خدمات کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب سے انہوں نے جماعت احمدیہ کراچی کی امارت کا چارج لیا ہے خدا کے فضل سے جماعت کراچی نے ہر رنگ میں غیر معمولی ترقی کی ہے.جو اصلاح نفس اور تربیت اور نظم وضبط اور مالی قربانی وغیرہ کے لحاظ سے دوسری جماعتوں کے لئے قابل رشک ہے.مگر چوہدری عبد اللہ خان صاحب ایک عرصہ سے بہت بیمار چلے آتے ہیں اور کافی کمزور ہو چکے ہیں.اور ان کی آنکھوں میں بھی تکلیف ہے اور مزید برآں آج کل انہیں بعض پریشانیاں بھی لاحق ہیں.حدیث میں آتا ہے کہ بچے مومنوں کا آپس میں ایسا تعلق ہونا چاہئے کہ اگر ان میں سے کسی ایک فرد کوکوئی تکلیف پہنچے تو سب اس طرح بے چین ہو جائیں جس طرح کہ جسم کے ایک حصہ میں درد ہونے سے سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے.پس میں مخلصین جماعت سے تحریک کرتا ہوں کہ وہ چوہدری عبداللہ خان صاحب کو اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں اور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت اور راحت کی زندگی عطا کرے اور ان کی پریشانیوں کو اپنے فضل وکرم سے دور فرما کر بیش از پیش خدمات کی توفیق دے.آمین ( محرره 26 مارچ 1959 ء) (روز نامہ الفضل ربوہ 29 مارچ1959ء) بعض خاص دعاؤں کی تحریک گزشتہ سال رمضان کے آخر میں میں نے والدہ مظفر احمد کی صحت اور محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور عزیز مرزا مظفر احمد کی اولاد کے لئے دعا کی تحریک کی تھی اور میں دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس معاملہ میں خاص توجہ فرمائی.چنانچہ اب تک مجھے اس بارہ میں بعض احباب کے خطوط آ رہے ہیں کہ وہ ان سب کے لئے دعا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے احباب کو جزائے خیر دے.اور جس طرح انہوں نے میری تحریک پر میرے عزیزوں اور دوستوں کے لئے دعائیں کی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو

Page 614

مضامین بشیر جلد سوم 592 بھی دور فرمائے اور ان کو حسناتِ دارین سے نوازے.آمین اب میں پھر جب کہ رمضان کا آخری عشرہ آ رہا ہے احباب کرام کی خدمت میں ذیل کی دعاؤں کے لئے تحریک کرتا ہوں.اور ان کے اخلاص اور محبت پر بھروسہ رکھتے ہوئے یقین کرتا ہوں کہ وہ حسب سابق ان دعاؤں کی طرف توجہ فرمائیں گے.وَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ (1) میرا بڑالڑکا عزیز مرزا مظفر احمد ابھی تک اولاد سے محروم ہے.گزشتہ سال کی تحریک پر مجھے محترم حضرت نیر صاحب مرحوم کی اہلیہ صاحبہ نے مجھے میری ایک دیرینہ خواب یاد دلائی تھی کہ مظفر احمد کے گھر میں ہیں سال کے بعد اولا د ہوگی.سو گو خوا میں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور اصل حقیقت خدا ہی جانتا ہے مگر بظاہر اب یہ میں سال گزر رہے ہیں.لہذا میں اپنے تمام مخلص بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں پھر اپیل کرتا ہوں کہ وہ عزیز مظفر احمد سلمہ کی اولاد کے لئے در د دل سے دعا فرمائیں.تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ شاخ ہے ثمر نہ رہے.وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللهِ بِعَزيزِ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِير - (2) اسی طرح میں نے محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے لئے بھی تحریک کی تھی کیونکہ وہ بھی اب تک نرینہ اولاد سے محروم ہیں.چوہدری صاحب بہت مخلص اور خدا کے فضل سے خدمت دین کا خاص جذبہ رکھتے ہیں اور اس بات کے حق دار ہیں کہ دوست ان کو اپنی خاص دعاؤں میں جگہ دیں.(3) میرے گھر سے بھی زائد از چار سال سے ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو کر بالکل بستر کے ساتھ لگ چکی ہیں اور اپنی بے بسی کی وجہ سے بہت بے چین رہتی ہیں اور ان کی بیماری کالا زما مجھ پر بھی اثر پڑتا ہے.لہذا ان کو بھی احباب کرام اپنی دعاؤں میں یادر کھ کر عنداللہ ماجور ہوں.یہ عاجزا اپنے سب احباب کو دلی اخلاص کے ساتھ دعاؤں میں یا درکھتا ہے.12 محررہ 28 مارچ 1959 ء ) روز نامه الفضل ربوہ 31 مارچ 1959ء) مساجد کی رونق بنو اور دعاؤں پر زور دو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر رحمت بھیجی ہے اور ان کے لئے خاص برکت کی دعا فرمائی ہے جن کا دل مسجد میں لٹکا رہتا ہے.اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان دین و دنیا کے سارے کام چھوڑ کر صرف

Page 615

مضامین بشیر جلد سوم 593 مسجد میں بیٹھ کر نماز پڑھتا رہے.یہ طریق یقیناً اسلامی تعلیم کے خلاف اور اس مجاہدانہ زندگی کے مغائر ہوگا جس پر ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو قائم فرمانا چاہتے تھے.قرآن مجید فرماتا ہے: فَضَّلَ اللهُ الْمُجهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَعِدِينَ دَرَجَةً (النساء: 96) یعنی خدا نے دین کے رستہ میں جدو جہد کرنے والوں اور اسلام کی ترقی میں کوشاں رہنے والوں کو گھر میں بیٹھ کر نماز روزہ کرنے والوں پر بڑی فضیلت دی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ : لَا رَهْبَانِيَةَ فِي الْإِسْلَام ( صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغيب في النكاح) یعنی اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص دنیا کو کلی طور پر ترک کر کے اور حقوق العباد کو یک قلم بھلا کر صرف نماز روزہ کے لئے وقف ہو جائے.کیونکہ یہ بات انسانی فطرت اور پیدائش خلق کے بنیادی نظریہ کے خلاف ہے.اسلام تو انسان کی ترقی اور اسے خدائی انعامات کا حق دار بنانے کے لئے اس بات کا قائل ہے جو کسی شاعر نے بظاہر ان متضاد الفاظ میں کہی ہے کہ: درمیان قعر دریا تخته بندم کرده ای باز میگوئی که دامن تر مگن ہوشیار باش تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کیا مراد ہے جو آپ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ: رَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِى الْمَسَاجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ مَتَى يَعُودُ إِلَيْهِ (صحیح بخاری کتاب الزکوۃ باب الصدقه بالیمین ) یعنی وہ شخص خدا تعالیٰ کے خاص سائے کے نیچے ہے کہ جب وہ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آتا ہے تو گویا اپنے دل کو مسجد میں ہی لٹکا ہوا چھوڑ آتا ہے.تا وقتیکہ وہ پھر دوسری نماز کے لئے مسجد میں پہنچ جائے.سو ہوشیار ہو کر سن لو کہ جیسا کہ خود ان الفاظ میں اشارہ پایا جاتا ہے.اس حکیمانہ ارشاد سے یہی مراد ہے کہ نمازوں کی ادائیگی کے بعد بے شک مسجدوں سے باہر آؤ اور دین و دنیا کے کاموں میں حصہ لو اور حقوق اللہ کی طرح حقوق العباد میں بھی بہترین نمونہ بنو مگر تمہیں خدا کی عبادت میں ایسا شوق و ذوق حاصل ہونا چاہئے کہ گویا مسجد سے باہر آنے کے بعد بھی تمہارا دل مسجد میں ہی لنکار ہے اور تم اس انتظار میں رہو کہ کب پھر حَی على الصلوة کی آواز آئے اور کب تم دوبارہ خدا کی عبادت کے لئے مسجد کی طرف لپکتے ہوئے پہنچو.یہ

Page 616

مضامین بشیر جلد سوم 594 وہی حقیقت ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان پیارے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ بسا اوقات رسولِ پاک گھر میں ہمارے پاس بیٹھے ہوئے اس طرح پیار و محبت کی باتیں کرتے تھے کہ گویا آپ کی توجہ کا مرکز ہم ہی ہیں مگر جب اذان کی آواز آتی تھی تو آپ ہمیں چھوڑ کر اس طرح اُٹھ کھڑے ہوتے تھے کہ ” گویا آپ ہمیں جانتے ہی نہیں“.اس حقیقت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض اوقات ان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ: دست با کار و دل بایار یعنی ہاتھ تو کام میں لگا ہوا ہے مگر دل کی تمام توجہ دوست کی طرف ہے.اس وقت یہ خاکسار مثال کے طور پر اپنے تین ایسے مرحوم دوستوں کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو اس کیفیت کے حامل تھے جو اوپر بیان کی گئی ہے.میری مراد (1) حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور (2) حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مرحوم اور (3) حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب مرحوم سے ہے.یہ تینوں بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممتاز ( رفقاء) میں سے تھے اور انہیں خدا کے فضل سے وہ مقام نمایاں طور پر حاصل تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ: قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ ( صحیح بخاری کتاب الزکوۃ باب الصدقة بالیمین ) یعنی مبارک ہے وہ انسان جس کا دل گویا ہر وقت مسجد میں لٹکا رہتا ہے.یہ بزرگ ( اللہ تعالیٰ ان پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے ) بیوی بچے بھی رکھتے تھے.ان کے حقوق بھی ادا کرتے تھے.اپنے مفوضہ کام بھی سرانجام دیتے تھے.دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھتے تھے.حسب ضرورت بازار سے سودا سلف بھی لاتے تھے.بعض اوقات معصوم تفریحوں میں بھی حصہ لیتے تھے.الغرض دست با کار“ کا ایک نہایت عمدہ نمونہ تھے.مگر باوجود اس کے وہ مساجد کی رونق بھی تھے اور ” دل بایار“ کی ایسی دلکش تصویر پیش کرتے تھے کہ اب تک ان کی یاد سے روح سرور حاصل کرتی ہے اور زبان سے بے اختیار دعا نکلتی ہے.اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ ہم سب کے آقا اور سردار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا یہ حال تھا کہ آپ کی جوانی میں جب ایک شخص نے ہمارے دادا سے دریافت کیا کہ آپ کا ایک لڑکا تو اکثر نظر آتا ہے مگر کہتے ہیں کہ آپ کا ایک اور لڑکا بھی ہے وہ کہاں رہتا ہے ؟ دادا نے فرمایا ” اس کا کیا پوچھتے ہو؟ مسجد میں دیکھو کسی صف میں لپٹا پڑا ہوگا.“ میں اس بات کو مانتا ہوں اور اسے پھر دہراتا ہوں کہ اسلامی تعلیم کے ماتحت انسان کی زندگی کا مجاہدانہ 66

Page 617

مضامین بشیر جلد سوم 595 پہلو اس کے قاعدا نہ پہلو سے بہتر بلکہ بدر جہا بہتر ہے.کیونکہ جہاں ایک قاعد انسان یعنی محض گھر یا مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والا شخص صرف اپنی ذات کے لئے زندگی گزارتا ہے وہاں ایک مجاہد انسان خدا کا سپاہی ہوتا ہے جو دین کی ترقی کے لئے شب و روز مصروف رہتا اور اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے.پس فرق ظاہر ہے.مگر جہاں میں اس بات کی اپیل کر رہا ہوں کہ مساجد کی رونق بنو “ وہاں میری مراد ہرگز یہ نہیں کہ جہاد کی صف کو چھوڑ کر گھر یا مسجد میں دھونی رمالو.بلکہ مراد یہ ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح تبلیغ کے جہاد کے علاوہ نفس کے جہاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لو.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ بعض اوقات آپ نماز میں اتنی دیر کھڑے رہتے تھے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے اور اس درد و سوز کے ساتھ دعائیں کرتے تھے کہ گویا کوئی ہنڈیا اہل رہی ہے.مگر باوجود اس کے دشمن کے مقابل پر بھی آپ کا قدم ہمیشہ صف اول میں ہوتا تھا.اور جہاں وقتی ریلے کے سامنے بڑے بڑے جری صحابہ کے پاؤں بھی اکھڑ نے لگتے تھے.وہاں آپ ایک شیر کی طرح للکارتے ہوئے آگے بڑھتے تھے کہ: ا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدُ الْمُطَّلِبُ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی حد درجہ جمالی شان کے باوجود جہاد کی صف میں کھڑے ہو کر اسلام کے دشمنوں کو کس جلال سے پکارتے ہیں کہ : جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہ زارو نزار وو اور جب ریاضت اور نفس کے مجاہدہ کی طرف توجہ فرماتے ہیں تو مسلسل چھ ماہ تک روزے رکھتے چلے جاتے ہیں.پس جب میں کہتا ہوں کہ مساجد کی رونق بنو ، تو میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جہاد بالقلم یا جہاد باللسان کو ترک کر کے محض نماز روزے میں لگ جاؤ بلکہ مطلب یہ ہے جہاد کے واسطے اپنے نفسوں میں سٹیم بھرنے اور تیاری کرنے اور ہر آن تازہ دم رہنے کے لئے نماز روزے کے ذریعہ طاقت حاصل کرو.قرآن مجید فرماتا ہے: يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة: 154) یعنی اے مومنو! تم جہاد کے واسطے نماز اور روزے کے ذریعہ طاقت حاصل کیا کرو.

Page 618

مضامین بشیر جلد سوم 596 اس آیت میں عربی محاورہ کے مطابق ”صبر" کے لفظ میں ثابت قدمی اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے علاوہ روزہ بھی مراد ہے.کیونکہ روزہ میں بھی انسان کو تکلیف کے مقابلہ پر اپنے نفس کو روک کر رکھنا پڑتا ہے.اور یقینا اچھا مجاہد وہی ہے جو اس زمانہ میں قلم اور زبان اور مال کے جہاد کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کے ساتھ بھی جہاد جاری رکھتا ہے.اور رمضان کا مہینہ تو خصوصیت سے نفس کے جہاد کا مہینہ ہے.پس اب جبکہ رمضان کا آخری عشرہ جو رمضان کا مبارک ترین حصہ ہے شروع ہونے والا ہے.میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ جہاں تک ان میں طاقت ہو اور ان کے حالات اجازت دیں وہ مساجد کی زیادہ سے زیادہ رونق بنے کی کوشش کریں.اس کے لئے مساجد میں ہر وقت بیٹھنے کی ضرورت نہیں (سوائے اس کے کوئی دوست اعتکاف بیٹھنے کی سعادت حاصل کریں ) بلکہ جہاں تک ممکن ہو اور کوئی جائز عذر بیماری یا سفر وغیرہ کا نہ ہومساجد میں جا کر نماز باجماعت ادا کرنے اور مسنون نفل نماز میں پڑھنے کی پوری پوری کوشش ہونی چاہئے.اور اس عبادت کو ایسے ذوق و شوق سے ادا کیا جائے کہ بقول سرور کائنات نماز پڑھنے والے کا دل مسجد میں لڑکا ہوا نظر آئے.یعنی جب وہ ایک نماز سے فارغ ہو تو اس کے دل و دماغ کی کیفیت یہ ہو کہ گویا اس کے کان دوسری اذان کی طرف لگے ہوئے ہیں.بالفاظ دیگر جب وہ مسجد سے باہر آئے تو ایسا ہو کہ گویا وہ اپنا دل مسجد میں ہی چھوڑ آیا ہے.یہ وہی حقیقت ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دست با کارو دل بایار“ کے لطیف الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے.دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رمضان کا آخری عشرہ روحانیت کے زبر دست انتشار کی وجہ سے دعاؤں کی قبولیت کا خاص زمانہ ہے اور اسی عشرہ میں وہ رات بھی آتی ہے جسے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کے نام سے یاد کیا گیا ہے.جس میں ایک طرف خدا تعالیٰ کے افضال ورحمت کی وسعت اور دوسری طرف مخلص بندوں کی دعاؤں کی قدرو قیمت بے انتہا بڑھ جاتی ہے.وَفِي ذلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ (المطففين: 27) دعاؤں کے فلسفہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں کہ : دعا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہام یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ ما نگتے ہیں خدا اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے.مگر اکثر لوگ دعا کی اصل فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دعا کے ٹھیک ٹھکانے پر پہنچنے کے واسطے کس قدر توجہ اور محنت درکار ہے.دراصل دعا کرنا ایک قسم کا موت

Page 619

مضامین بشیر جلد سوم اختیار کرنا ہے.کاش ہمیں یہ موت میسر آجائے.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ 597 محررہ 25 مارچ 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 31 مارچ 1959ء) جماعتی اتحاد کی قدرو قیمت کو پہچانو بِسْمِ اللہ کی جہری یا خفی قرآة ایسے مسائل میں جماعت احمدیہ کا حکیمانہ مسلک غالباً ڈیڑھ یا دو ماہ کا عرصہ ہوا ہو گا کہ مجھ سے محترم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے ( جو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی عدم موجودگی میں مسجد مبارک ربوہ میں امام الصلوۃ ہوا کرتے ہیں ) کہا کہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ جہری قرآۃ والی نمازوں میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے بسم الله رَّحْمنِ الرَّحِيمَ کو بھی جہری رنگ میں پڑھنا چاہئے.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کیا طریق تھا ؟ میں نے کہا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مرحوم جو اپنی وفات ( یعنی 1905 ء ) تک قادیان کی مسجد مبارک میں امام الصلوۃ ہوا کرتے تھے وہ تو ہر جہری قراۃ والی نماز ( یعنی فجر اور مغرب اور عشاء) میں لازماً بسم اللہ بھی جہری پڑھا کرتے تھے.مگران کی وفات کے بعد جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ امام الصلوۃ بنے ( در اصل حضرت مسیح موعود نے شروع میں حضرت خلیفہ اول کو ہی امام الصلوۃ مقرر فرمایا تھا مگر انہوں نے خود حضرت مسیح موعود سے عرض کر کے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو امام مقرر کروا دیا تھا تو آپ ہمیشہ بسم اللہ کو خفی رنگ میں پڑھتے تھے اور جہری قرأة صرف الْحَمْدُ لِلهِ سے شروع فرماتے تھے.اور یہ طریق ابتداء سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بھی رہا ہے.آپ بھی جہری قرآة الحَمدُ لِلهِ سے شروع فرماتے ہیں.شمس صاحب نے کہا اگر میں بسم اللہ جہری طور پر پڑھوں تو کیا اس میں کوئی حرج تو نہیں؟ میں نے کہا فتویٰ دینا تو میرا

Page 620

مضامین بشیر جلد سوم 598 کام نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہ دونوں طریق اپنے اپنے وقتوں میں رائج رہے ہیں.اس لئے اگر آپ بسم اللہ جہری پڑھنا چاہیں تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد میں نے اس معاملہ پر مزید جستجو شروع کی تو مجھے محترم حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے بتایا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانی شروع کی اور جہری قرآة الحَمدُ لِلَّهِ سے شروع فرمائی تو اس پر بعض سیالکوٹی احباب میں چہ میگوئی ہوئی کہ بسم اللہ کی جہری قرآۃ کیوں ترک کی گئی ہے؟ جب یہ بات حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ تک پہنچی ( یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی زندگی کی بات ہے ) تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں فرمایا کہ مجھے چونکہ بسم اللہ کے جہری پڑھے جانے کے متعلق کوئی پختہ حدیث نہیں ملی اس لئے میں اَلْحَمْدُ لِلہ سے ہی جہری قراۃ شروع کرتا ہوں.اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے زمانہ میں بھی یہی طریق رائج نظر آتا ہے وغیرہ وغیرہ.اس کے بعد میں نے محترم حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی سے دریافت کیا کہ ان کو اس بارے میں کیا یا د ہے؟ مولوی صاحب ممدوح نے مجھے ایک نوٹ لکھ کر بھجوایا جس میں لکھا کہ جب میں پہلی دفعہ قادیان گیا تھا تو ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا تھا کہ میں جہری قراۃ والی نماز میں بسم اللہ خفی رنگ میں پڑھتا ہوں مگر مولوی عبدالکریم صاحب جہری طور پر پڑھتے ہیں ؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرما کر خاموش ہو گئے کہ ایسے اختلافات صحابہ کرام میں بھی پائے جاتے تھے“ حضرت مولوی راجیکی صاحب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب کی اقتداء میں نمازیں پڑھ کر اپنے وطن واپس گیا اور مجھے ایک دن وہاں امام بننے کا اتفاق ہوا تو میں نے بھی قادیان کی اتباع میں جہری قرآۃ والی نماز میں بسم اللہ کو جہری طور پر پڑھا.اس پر بعض لوگوں نے تکرار کی کہ یہ کیا بدعت شروع کی گئی ہے؟ میں نے ان معترضین سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے نزدیک ائمہ اربعہ یعنی حضرت امام ابو حنیفہ اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور امام مالک کا طریق درست تھا یا نہیں ؟ سب نے کہا بے شک درست تھا.میں نے کہا تو پھر ان اماموں میں بسم اللہ کو اونچی آواز میں پڑھنے والے بھی ہیں اور آہستہ پڑھنے والے بھی تو پھر اعتراض کیسا؟ خیر یہ تو ایک محض روایتی بات تھی کہ جماعت احمدیہ میں بسم اللہ کی جہری یا خفی قرآۃ کے متعلق دونوں

Page 621

مضامین بشیر جلد سوم 599 قسم کے طریق پائے جاتے ہیں.لیکن اصل امر جس کی طرف میں اس جگہ احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جواب ہے کہ ”ایسے اختلافات صحابہ کرام میں بھی پائے جاتے تھے“ حضرت مسیح موعود اس نہایت مختصر اور بالکل سادہ سے جواب میں جماعت احمدیہ کا وہ وسیع اور حکیمانہ مسلک مضمر ہے جس پر حضرت مسیح موعود اس قسم کے جزئی مسائل میں جماعت کو قائم فرمانا چاہتے تھے.غیر احمدیت سے آئے ہوئے احمدی احباب اور خصوصاً عمر رسیدہ اصحاب جانتے ہیں کہ اس قسم کے عام فقہی مسائل میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں کتنا اختلاف پایا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ اختلاف ایسی شدت اختیار کر جاتا رہا ہے کہ مسجدوں میں تو تو میں میں سے گزر کر ہاتھا پائی تک نوبت پہنچتی رہی ہے.اور نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کو اس قسم کے فروعی اختلافوں کی بناء پر مسجدوں سے باہر نکال دیا جاتا رہا ہے.اور اس خیال سے کہ کسی کے آمین بالجہر کہنے یا رفع یدین کرنے سے نعوذ باللہ مسجد نا پاک ہوگئی ہے اس کو پانی سے مل مل کر دھویا جاتا رہا ہے.اس قسم کے نظارے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے اتنے عام تھے کہ مسلمانوں کی مسجد میں دوسروں کی ہنسی کا نشانہ بن کر رہ گئی تھیں.بلکہ اب بھی کبھی کبھی ایسے جزئی اختلافات کی ناگوار صدائے بازگشت اٹھتی رہتی ہے.اور اچھے اچھے متدین نظر آنے والے لوگ ان نا گوارا ختلافات کو ہوا دینے لگ جاتے ہیں.لیکن احمدیت ان حالات میں بھی خدائی رحمت کا کیسا زبردست پیغام لے کر آتی ہے کہ اس قسم کے جزئی اختلافات کو یکسر مٹا کر عبادت گاہوں کو برکت و رحمت کا گہوارہ بنادیا ہے.میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھا اور بار بار دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے سنا اور بار بار سنا ہے کہ ہماری مسجدوں میں ( اور قادیان اور ربوہ دونوں میں) ایک شخص آمین بالجبر کہہ رہا ہے تو اس کے پاس کا نمازی بظاہر خاموش کھڑا ہے اور دل میں آہستہ سے آمین کہنے پر اکتفا کرتا ہے.بلکہ میں نے اپنی مسجدوں میں بعض نظارے رفع یدین کے بھی دیکھے ہیں حالانکہ اکثر احمدی رفع یدین نہیں کرتے اور بسم اللہ کی جہری اور خفی قرآۃ کا ذکر تو اسی نوٹ میں اوپرگزر چکا ہے کہ کس طرح خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں ایک صاحب جب امام الصلوۃ بنتے تھے تو بسم الله بالجبر پڑھتے تھے تو دوسرے صاحب اپنی جہری قرآة اَلْحَمْدُ لِلَّهِ سے شروع کرتے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود خاموشی کے ساتھ دونوں کا مسلک ملاحظہ فرماتے تھے اور کسی کوٹو کتے نہیں تھے.بلکہ جب حضور کے سامنے یہ اختلاف پیش کیا گیا تو اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا کہ ایسے اختلاف صحابہ کرام میں بھی پائے جاتے تھے

Page 622

مضامین بشیر جلد سوم 600 اللہ اللہ ! یہ خدائی رحمت اور اسلامی رواداری کی کتنی شاندار مثال ہے جو احمدیت نے پیش کی ہے کہ حديث نبوى اخْتَلَافُ أُمَّتِی رَحْمَةٌ کا ایک بہت دلکش منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.بیشک جماعت احمدیہ نے بھی دوسرے مسلمانوں سے اختلاف کیا ہے مگر یہ اختلاف اصولی نوعیت کا ہے اور اہم مسائل سے تعلق رکھتا ہے.مثلاً جہاں آج کل کے اکثر مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی والہام کا دروازہ بند قرار دیتے ہیں وہاں احمدیت نہ صرف اس دروازہ کو کھولتی ہے بلکہ اسے اسلام کی زندگی کا بین ثبوت مانتی ہے.اسی طرح جہاں غیر احمدی مسلمان حضرت عیسی علیہ السلام کو آج تک آسمان پر زندہ مانتے ہیں وہاں جماعت احمدیہ نہ صرف مسیح ناصری کو فوت شدہ قرار دیتی ہے بلکہ اس عقیدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نعوذ باللہ موجب بہتک سمجھتی ہے کہ امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے حضرت عیسی کو جو اسرائیلی سلسلہ کے نبی تھے آسمان سے نازل کیا جائے.حالانکہ سرور کائنات (فداہ نفسی ) زمین کی گہرائیوں میں مدفون ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں کہ : مسلمانوں ادبار آیا قرآں کو بھلایا رسول حق کو مٹی میں سلایا مسیحا کو فلک ہے بٹھایا یہ تو ہیں کر کے پھل ایسا ہی پایا اہانت نے انہیں کیا کیا دکھایا اسی طرح جہاں احمدیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے دل اور کامل یقین کے ساتھ خاتم النبین یقین کرتی ہے وہاں وہ اس بات پر بھی ایمان لاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ظلمی اور تابع اور غیر تشریعی نبوت کا دروازہ کھلا ہے تا کہ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کا کمال ثابت ہو اور دوسری طرف اسلام کی خدمت اور اشاعت کے لئے روحانی مصلحوں کی آمد کے سلسلہ میں بھی کوئی روک نہ پیدا ہونے پائے.اس کے مقابل پر اس زمانہ کے دوسرے مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت اور رسالت کے سلسلہ کو من کل الوجوہ مسدود قرار دے کر اس عظیم الشان نہر کے آگے بند لگانا چاہتے ہیں جسے خدائے عرش نے الکوثر کے نام سے یاد کیا ہے.پس کجا اس قسم کے اہم اور اصولی اختلافات جن پر

Page 623

مضامین بشیر جلد سوم 601 اس زمانہ میں گویا اسلام کی زندگی اور موت کا دار ومدار ہے اور کجا مسجدوں میں رفع یدین اور آمین بالجہر کے ناگوار جھگڑے !! چه نسبت خاک را با عالم پاک.بالآخر میں اپنے عزیز بھائیوں اور دوستوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ گزر گیا اور حضور کے صحابہ میں سے بھی اکثر خدا کے حضور پہنچ گئے.اب تعداد کے لحاظ سے کثرت اور تربیت کے لحاظ سے من حیث الجماعت کمزوری کا زمانہ آرہا ہے.بے شک خدا کے فضل سے احمدیت کے آسمان پر نئے نئے چاند اور نئے نئے ستارے قیامت تک چمکتے رہیں گے اور انفرادی لحاظ سے ان میں سے بعض پہلوؤں سے بھی آگے نکل سکتے ہیں اور انشاء اللہ نکلیں گے مگر وہ کہکشاں کا سا منظر جب کہ ستاروں کی کثرت سے گویا آسمان ڈھک جاتا ہے.اس کی امید اب کسی آئندہ مامور مصلح سے پہلے کم نظر آتی ہے.وَاللهُ أَعْلَمُ.پس دوست اس نصیحت کو یا درکھیں اور کبھی نہ بھولیں کہ جماعت کا اتحاد بڑی قدر و منزلت کی چیز ہے.اسے چھوٹی چھوٹی سی باتوں میں الجھ کر کبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے.کئی باتیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں اسلام از خود لوگوں کے ذاتی حالات اور ذاتی مذاق کا خیال رکھتے ہوئے مختلف اور متغائز طریقے اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے.پس ان میں تو اختلاف کا سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتا.اور کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں جائز اختلاف کی گنجائش تو بے شک ہوتی ہے مگر یہ باتیں ایسی اہم نہیں ہوتیں کہ ان کی وجہ سے جماعت کے اتحاد کو خطرہ میں ڈالا جائے.بلکہ ایک کم اہم صداقت کو قربان کر کے بھی اتحاد جیسی اہم ترین چیز کو قائم رکھنا پڑتا ہے.یہی ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے اور اسی قربانی کی روح پر صحابہ کرام کا عمل تھا.پس اب جبکہ رمضان کے مبارک مہینہ کا آخری حصہ گزر رہا ہے میں دوستوں کی خدمت میں بڑی محبت اور بڑے ادب سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آئندہ کے لئے خدا کے حضور پختہ عہد کریں کہ وہ ہمیشہ جماعت کے اتحاد کو قائم رکھیں گے اور کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں اختلاف نہیں کریں گے.اور اگر خدانخواستہ کسی معاملہ میں اختلاف پیدا ہو گا تو اسے فوراً بھائیوں کی طرح آپس میں بیٹھ کر یا اپنے مقامی امیر یا کسی دوسرے غیر جانب دار عقل مند ہمدرد ثالث کے ذریعہ فیصلہ کرا کر یا مرکز کی طرف رجوع کر کے( کیونکہ جماعتی اتحاد کا مرکزی نقطہ جماعت کا صدر مقام اور خلیفہ وقت کا وجود ہی ہیں ) اپنے اختلاف کو فوراً دور کر لیں گے اور اسے کسی صورت بڑھنے نہیں دیں گے.دیکھو قرآن مجید کی محبت اور کس در دمند رنگ میں فرماتا ہے کہ: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا (آل عمران : 104) وَأَطِيعُوا الله

Page 624

مضامین بشیر جلد سوم 602 وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ (الانفال: 47) یعنی اے مومنو! خدا کی رسی ( یعنی اپنے امام کے دامن اور جماعت کے اتحاد ) کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے دو اور خدا کی اس نعمت کو یا دکر و کہ تم کس طرح ایمان لانے سے پہلے آپس میں دشمن تھے مگر خدا نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے...پس اپنے نفس کی خواہشوں کے پیچھے لگنے کی بجائے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کو اپنا مسلک بناؤ اور ہرگز آپس میں جھگڑا نہ کرو.ورنہ یا درکھو کہ تمہارا قدم پھسل جائے گا اور تمہارے اتحاد کی روح ضائع ہو جائے گی اور تمہارا رعب مٹ جائے گا.کیا جماعت کے مخلصین خدا کی اس آواز پر لبیک کہیں گے؟ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محررہ 30 مارچ 1959 ء) (روز نامہ الفضل ربوہ 5 اپریل 1959ء) 14 حضرت اماں جان تو راللہ مرقدها بلند اخلاق ، بلند اقبال اور بلند مقام تو شکل یہ مضمون اس جلسہ میں سنایا گیا جو مجلس خدام الاحمدیہ حلقہ گولبازار ربوہ کے زیر اہتمام مؤرخہ 20 اپریل کو سیدہ اماں جان نور اللہ مرقدھا کے موضوع پر منعقد ہوا.ادارہ) حضرت اماں جان کی وفات کو آج پورے سات سال کا عرصہ گزرتا ہے.اس عرصہ میں خاکسار نے کئی دفعہ ان کی سیرت کے متعلق کچھ لکھنے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ جذبات سے مغلوب ہو کر اس ارادہ کو ترک کرنا پڑا.لیکن آج خدام الاحمدیہ گول بازار ربوہ کے احباب کی تحریک پر ذیل کی چند مختصر سطور لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں.وَاللَّهُ الْمُؤفِّقُ وَهُوَ الْمُسْتَعَانَ.حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کی بلند سیرت اور بلند اقبال کے متعلق غالبا سب سے زیادہ مختصر کلام وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا یعنی:

Page 625

مضامین بشیر جلد سوم أذكُرُ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيجَتِي ( تذکره) یعنی اے خدا کے برگزیدہ پیج تو میری اس نعمت کو یاد کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پالیا ہے.603 اب مختصر الفاظ میں حضرت اماں جان کی بلند اخلاقی اور بلند اقبالی کے لئے کئی زبر دست پہلو بیان کئے گئے ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس الہام میں آپ کے وجود کو اللہ تعالیٰ نے ” میری نعمت کے شاندار الفاظ سے یاد کیا ہے.جس سے مراد یہ ہے کہ آپ کا وجود ایک عام نعمت ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی خاص نعمت ہے.جیسا کہ ”میری“ کے لفظ میں اشارہ ہے.پھر اس کے ساتھ اُذْكُرُ کا لفظ بڑھا کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ایک ایسی نعمت ہے جو یا در کھنے کے قابل ہے اور بھلانے والی نہیں.اور بالآخر خدیجہ کا لفظ فرما کر اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ حضرت اماں جان کا وجود اپنی برکات اور افضال کے لحاظ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مثیل ہے.اور خدیجہ کے ساتھ پھر دوبارہ ” میری“ کا لفظ بڑھا کر اپنی غیر معمولی محبت اور حضرت اماں جان کے غیر معمولی قرب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اور جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ شان ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ذاتی خوبیوں میں نہایت بلند مرتبہ رکھتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حد جاں نثار اور وفادار اور خدمت گزار اور رفیق کار اور سمجھدارز وجہ تھیں جنہوں نے ہر تنگی اور ترشی میں آپ کا ساتھ دیا اور ابتدائی گھبراہٹ کی گھڑیوں میں بے نظیر طریق پر آپ کی دلداری اور ہمت افزائی فرمائی.بلکہ یہی وہ اکیلی مقدس زوجہ محتر م تھیں جن سے آپ کی مبارک نسل کا سلسلہ چلا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اماں جان کے متعلق بھی اپنے آمین والے اشعار میں نسل سیدہ کے الفاظ فرما کر اسی قسم کی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ حدیث میں جو الفاظ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کے متعلق يَتَزَوَّج و يُولَدُ لهُ (مشکوۃ باب نزول عیسی صفحہ 480) کے فرمائے ہیں ( یعنی مسیح شادی کرے گا اور اس کے اولا د ہوگی ) ان میں بھی درحقیقت اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ ان کی شادی 1884 میں ہوئی تھی اور یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی مجددیت کا اعلان فرمایا تھا.اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت اماں جان مرحومه مغفوره حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیق حیات رہیں اور حضرت مسیح موعود انہیں انتہا درجہ محبت اور انتہا درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلداری فرماتے تھے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے خاص منشاء کے ماتحت ہوئی ہے.اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان کو مخصوص نسبت ہے.چنانچہ بعض اوقات حضرت

Page 626

مضامین بشیر جلد سوم 604 اماں جان محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں کہ میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے.جس پر حضرت مسیح موعود ہنس کر فرماتے تھے کہ ہاں ٹھیک ہے“ حضرت اماں جان کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں.مگر اس جگہ میں صرف اشارہ کے طور پر نمونہ چار باتوں کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں.آپ کی نیکی اور دین داری کا مقدم ترین پہلونماز اور نوافل میں شغف تھا.پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جان نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بے حد یا بند تھیں.اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دل میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں.میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیارا قول کہ جُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِی الصَّلوة ( یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے ) حضرت اماں جان کو بھی اپنے آقا سے ورثے میں ملا تھا.پھر دعا میں بھی حضرت اماں جان کو بے حد شغف تھا.اپنی اولا داور ساری جماعت کے لئے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں بڑے در دو سوز کے ساتھ دعا فرمایا کرتی تھیں.اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی.اپنی ذاتی دعاؤں میں جو کلمہ ان کی زبان پر سب سے زیادہ آتا تھا وہ یہ مسنون دعا ہی تھی کہ: يَا حَبِيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْتُ یعنی اے میرے زندہ خدا اور اے میرے زندگی بخشنے والے آقا ! میں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں.یہ وہی جذبہ ہے جس کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر فر مایا ہے کہ : تیری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر مری جاں تیرے فضلوں کی پناہ گیر صدقہ و خیرات اور غریبوں کی امداد بھی حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کا نمایاں خلق تھا اور اس میں وہ خاص لذت پاتی تھیں اور اس کثرت کے ساتھ غریبوں کی امداد کرتی تھیں کہ یہ کثرت بہت کم لوگوں میں دیکھی گئی ہے.جو شخص بھی ان کے پاس اپنی مصیبت کا ذکر لے کر آتا تھا حضرت اماں جان اپنی مقدور سے بڑھ کر اس کی امداد فرماتی تھیں.اور کئی دفعہ ایسے خفیہ رنگ میں امداد کرتی تھیں کہ کسی اور کو پتہ تک نہیں چلتا تھا.اسی ذیل میں ان کا یہ بھی طریق تھا کہ بعض اوقات یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے مکان پر بلا کر کھانا کھلاتی تھیں.اور بعض اوقات ان کے گھروں پر بھی کھانا بھجوا دیتی تھیں.ایک دفعہ ایک واقف کار شخص سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کو کسی ایسے شخص (احمدی یا غیر احمدی، مسلم یا غیر مسلم ) کا علم ہے جو قرض کی وجہ سے

Page 627

مضامین بشیر جلد سوم 605 قید بھگت رہا ہو.(اوائل زمانے میں ایسے Civil سول قیدی بھی ہوا کرتے تھے ) اور جب اس نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ تلاش کرنا میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں تا قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کر سکوں کہ معذور قیدیوں کی مدد بھی کار ثواب ہے.قرض مانگنے والوں کو فراخ دلی کے ساتھ قرض بھی دیتی تھیں.مگر یہ ضرور دیکھ لیتی تھیں کہ قرض مانگنے والا کوئی ایسا شخص تو نہیں جو عادی طور پر قرض مانگا کرتا ہے اور پھر قرض کی رقم واپس نہیں کیا کرتا ہے.ایسے شخص کو قرض دینے سے پر ہیز کرتی تھیں تا کہ اس کی یہ بُری عادت ترقی نہ کرے.مگر ایسے شخص کو بھی حسب گنجائش امداد دے دیا کرتی تھیں.ایک دفعہ میرے سامنے ایک عورت نے ان سے قرض مانگا اس وقت اتفاق سے حضرت اماں جان کے پاس اس قرض کی گنجائش نہیں تھی.مجھ سے فرمانے لگیں ”میاں (وہ اپنے بچوں کو اکثر میاں کہہ کر پکارتی تھیں ) تمہارے پاس اتنی رقم ہو تو اسے قرض دے دو.یہ عورت لین دین میں صاف ہے.“ چنانچہ میں نے مطلوبہ رقم دے دی.اور پھر اس غریب عورت نے عین وقت پر اپنا قرضہ واپس کر دیا.جو آج کل کے اکثر نو جوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے.مہمان نوازی بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا.اپنے عزیزوں اور دوسرے لوگوں کو اکثر کھانے پر بلاتی رہتی تھیں اور اگر گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تھی تو ان کے گھروں میں بھی بھجوا دیتی تھیں.خاکسار راقم الحروف کو علیحدہ گھر ہونے کے باوجود حضرت اماں جان نے اتنی دفعہ اپنے گھر سے کھانا بھجوایا ہے کہ اس کا شمار ناممکن ہے اور اگر کوئی عزیز یا کوئی دوسری خاتون کھانے کے وقت حضرت اماں جان کے گھر میں جاتی تھیں تو حضرت اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ کھانا کھا کر واپس جاؤ.چنانچہ اکثر اوقات زبر دستی روک لیتی تھیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہمان نوازی ان کی روح کی غذا ہے.عیدوں کے دن حضرت اماں جان کا دستور تھا کہ اپنے سارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر کھانا پکوانے اور کھانا کھلانے کی بذات خود نگرانی فرماتی تھیں اور اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ فلاں عزیز کو کیا چیز مرغوب ہے اور اس صورت میں حتی الوسع وہ چیز ضرور پکواتی تھیں.جب آخری دنوں میں زیادہ کمزور ہو گئے تو مجھے ایک دن حسرت کے ساتھ فرمایا کہ اب مجھ میں ایسے اہتمام کی طاقت نہیں رہی.میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے رقم لے لے اور کھانے کا انتظام کر دے.وفات سے کچھ عرصہ قبل جب کہ حضرت اماں جان بے حد کمزور ہو چکی تھیں اور کافی بیمار تھیں مجھے ہماری بڑی ممانی صاحبہ نے جو ان دنوں میں حضرت اماں جان کے پاس ان کی عیادت کے لئے ٹھہری ہوئی تھیں فرمایا کہ آج آپ یہاں روزہ کھولیں.میں نے

Page 628

مضامین بشیر جلد سوم 606 خیال کیا کہ شاید یہ اپنی طرف سے حضرت اماں جان کی خوشی اور ان کا دل بہلانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں.چنانچہ میں وقت پر وہاں چلا گیا تو دیکھا کہ بڑے اہتمام سے افطاری کا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے.اس وقت ممانی صاحبہ نے بتایا کہ میں نے تو اماں جان کی طرف سے ان کے کہنے پر آپ کو کہا تھا.حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا میں بے حد محنت کی عادت تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں.میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے بارہا کھانا پکاتے ، چہ خا کا تنتے، نوار بنتے بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ تک ڈالتے دیکھا ہے.بعض اوقات خود بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہو کر صفائی کرواتی تھیں.اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں.مریضوں کی عیادت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی کسی احمدی عورت کے متعلق یہ منتیں کہ وہ بیمار ہے تو بلا امتیاز غریب و امیر خود اس کے مکان پر جا کر عیادت فرماتی تھیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق تسلی دیا کرتی تھیں کہ گھبراؤ نہیں خدا کے فضل سے اچھی ہو جاؤ گی.ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں اماں جان پر جان چھڑکتی تھیں اور ان کے ساتھ اپنی حقیقی ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی تھیں.اور جب کوئی فکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں.اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت اماں جان کا مبارک وجود احمدی مستورات کے لئے ایک بھاری ستون تھا.بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینار تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت پاتی تھیں.مگر غالباًا حضرت اماں جان کے تقویٰ اور توکل اور دین داری اور اخلاق کی بلندی کا سب سے زیادہ شاندار مظاہرہ ذیل کے دو واقعات میں نظر آتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام حجت کی غرض سے خدا سے حکم پا کر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو اس وقت حضرت مسیح موعود نے ایک دن دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ وزاری اور سوز وگداز سے یہ دعا فرما رہی ہیں کہ خدا یا تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما.جب وہ دعا سے فارغ ہوئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن سے دریافت فرمایا کہ تم یہ دعا کر رہی تھی اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیجہ میں تم پر سو کن آتی ہے؟ حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا: خواہ کچھ ہو.مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں.میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیش گوئی پوری ہو.“ دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کس شان کا ایمان اور کس بلند اخلاقی کا مظاہرہ اور کس تقویٰ کا مقام

Page 629

مضامین بشیر جلد سوم 607 ہے کہ اپنی ذاتی راحت اور ذاتی خوشی کو کلیتہ قربان کر کے محض خدا کی رضا کو تلاش کیا جارہا ہے.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی ( اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے ) اور آپ کے آخری سانس تھے تو حضرت اماں جان نور اللہ مرقدها و ارفعها اعلیٰ علییین آپ کی چار پائی کے قریب فرش پر آ کر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہر کر فرمایا کہ: ”خدایا یہ تو اب ہمیں چھوڑ رہے ہیں مگر تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا“ اللہ اللہ ! خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی ایسا جو گویا ظاہری لحاظ سے ان کی ساری قسمت کا بانی اور ان کی تمام راحت کا مرکز تھا تو کل اور ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بے مثال چیزوں میں سے ایک نہایت درخشاں نمونہ ہے.یہ اسی قسم کے توکل اور اسی قسم کے ایمان کا نمونہ ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فدا نفسی) کی وفات پر فرمایا کہ: أَلَا مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّداً فَإِنَّ مُحَمَّداً قَدْ مَاتَ وَ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَبِيٌّ لَا يَمُوتُ.( صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی و وقائه ) یعنی اے مسلمانو! سنو کہ جو شخص محمد رسول اللہ کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں.مگر جو شخص خدا کا پرستار ہے وہ یقین رکھے کہ خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی.بس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہتا بلکہ کچھ نہیں کہہ سکتا.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - وَاللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ وَ بَارَكُ وَسَلِّمُ - ( محررہ 20 اپریل 1959ء)........روزنامه الفضل ربوہ 24 اپریل 1959ء) ایک غلطی کا ازالہ پنڈت لیکھرام کے قتل کا دن عید الفطر سے متصل تھا مجھے عزیزہ مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ نے توجہ دلائی ہے کہ میری کتاب تبلیغ ہدایت ایڈیشن ششم و هفتم

Page 630

مضامین بشیر جلد سوم 608 کے صفحہ 200 پر لیکھرام کے قتل کے متعلق قتل کا دن عید الاضحی کا دوسرا دن چھپ گیا ہے حالانکہ وہ عید الفطر کا دوسرادن تھانہ کہ عید الاضحی کا دوسرادن.سو یہ درست ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میری لغزش قلم یا کا تب کی غلطی سے میری کتاب میں یہ بات غلط چھپ گئی ہے.چونکہ ہمشیرہ موصوف کی ولادت 1897 ء کے ماہِ رمضان کی 27 تاریخ کو ہوئی تھی اور اس کے چند دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق لیکھر ام کے قتل کا واقعہ پیش آیا اس لئے گھر میں اس کا ذکر ہوتا رہتا تھا کہ ہمشیرہ مبارکہ بیگم کے چلہ میں لیکھر ام قتل ہوا تھا.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی اس کے متعلق متعدد جگہ صراحت فرمائی ہے کہ لیکھرام عیدالفطر کے دوسرے دن قتل ہوا تھا.اس لئے احباب کرام میری کتاب تبلیغ ہدایت“ کے صفحہ 200 میں اس غلطی کی اصلاح فرمالیں.مجھے تعجب ہے کہ آج کل جو محترم میاں عطاء اللہ صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی کی جلسہ سالانہ کی تقریر کا خلاصہ الفضل میں چھپ رہا ہے اس میں بھی لیکھرام کے قتل کا واقعہ عیدالاضحیہ کے دوسرے دن سے متعلق بیان کیا گیا ہے.اگر میاں عطاء اللہ صاحب نے میری کتاب ” تبلیغ ہدایت“ سے یہ حوالہ لے کر بیان کیا ہے تو اس کا بھی یہ خاکسار ذمہ دار ہے ورنہ شائد انہوں نے کسی اور غلط حوالہ سے غلطی کھالی ہو.بہر حال صحیح بات یہی ہے کہ پنڈت لیکھرام کے قتل کا واقعہ 1897ء کے عیدالفطر کے دوسرے دن سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ عیدالاضحیہ کے دوسرے دن سے.احباب تصحیح فرما لیں تا کہ ہمارے لٹریچر میں اس تاریخی غلطی کا امکان باقی نہ رہے.( محرره 3 مئی 1959 ء) روزنامه الفضل ربوه 6 مئی 1959ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری اور جماعت کا فرض آج کل حضرت علیہ اسیح الثانی ایده الله تعَالَى بِنَصْرِهِ وَمَتَّعْنَا اللَّهُ بِطُولِ حَيَاتِهِ کی بیماری کی وجہ سے احباب جماعت میں طبعاً بہت تشویش پائی جاتی ہے.یہ تشویش اس غیر معمولی محبت کا طبعی

Page 631

مضامین بشیر جلد سوم 609 نتیجہ ہے جو حضور کی ذات کے ساتھ افراد جماعت کے دلوں میں جاگزین ہے.جیسا کہ اعلان کیا جا چکا ہے حضور کی یہ بیماری اسی بیماری کا دوسرا حملہ ہے جو حضور کو 1955 ء میں ہوئی تھی.جس کے بعد حضور علاج کی غرض سے یورپ تشریف لے گئے تھے.لیکن چونکہ موجودہ بیماری سے قبل حضور کی طبیعت سابقہ بیماری کی وجہ سے زیادہ کمزور ہو چکی تھی اس لئے موجودہ حملہ میں اس کے آثار طبعاً زیادہ محسوس کئے جا رہے ہیں.چنانچہ ایک نفسیاتی پہلو موجودہ بیماری کا یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ بعض وہ خاص ذاتی اور جماعتی جذبات جو حضور نے اس سے قبل اپنی غیر معمولی قوت ارادی کے ساتھ دبائے ہوئے تھے وہ موجودہ بیماری کی کمزوری میں اُبھر اُبھر کر باہر آ رہے ہیں.مثلاً آج کل حضور قادیان کا ذکر بہت فرماتے ہیں اور بعض اوقات ایسے رقت کے ساتھ یاد کرتے ہیں جیسا کہ حضور کے ضروری پیغام ، مطبوعہ الفضل مؤرخہ 20 مئی 1959ء میں بھی اس کی جھلک نظر آ رہی ہے.یہ ایک لحاظ سے نیک فال بھی ہے اور بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الهام إِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى الْمَعَادِ کے پورا ہونے کے وقت کو قریب لا رہا ہو.وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيزِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا ِباللهِ الْعَظیم.اسی طرح حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کو بھی بہت یاد کرتے ہیں اور بار بار ذکر فرماتے ہیں.یہ تو ایک ضمنی ذکر تھا.میری اصل غرض اس نوٹ سے یہ ہے کہ دعا کی تحریک کی غرض سے جماعت کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بعض غیر معمولی کارناموں اور غیر معمولی دینی خدمات کی طرف توجہ دلاؤں تا کہ ان کارناموں کی یادا حباب جماعت کے دلوں میں حضور کے متعلق مزید درد پیدا کر کے دعا کی وہ کیفیت پیدا کر دے جو غیر معمولی طور پر قبولیت کی جاذب ہوا کرتی ہے.اور بعض اوقات خدا تعالیٰ کی اہل تقدیروں کو بھی بدل دیتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اللهُ غَالِبٌ عَلی آمرہ یعنی خدا اپنی تقدیر کا غلام نہیں ہے بلکہ اگر چاہے تو اپنے فیصلوں کو بھی بدل سکتا ہے.بیشک اس عالم اسباب میں موت ہر چھوٹے بڑے انسان کے لئے مقدر ہے.دنیا نے صرف ایک انسان کو موت سے بچا کر آسمان پر بٹھایا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے بھی وہاں سے اتار کر قبر میں سلا دیا لیکن موت کا وقت تو بہر حال ہمارے علم کے لحاظ سے آگے پیچھے ہو سکتا ہے.کیونکہ اس کا حقیقی علم صرف خدا کو ہے اور مومنوں کی متضرعانہ دعا ئیں خدائی رحمت اس ہے اور کی کو جذب کرنے کی غیر معمولی طاقت رکھتی ہیں.پس حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کا بلند مقام اور غیر معمولی دینی خدمات اس بات کی متقاضی ہیں کہ احباب جماعت حضور کی صحت اور لمبی عمر کے متعلق خاص در دوسوز کے ساتھ دعائیں کریں تا اسلام اور احمدیت کی غیر معمولی ترقی اور غلبہ کا دن قریب سے قریب تر آجائے.

Page 632

مضامین بشیر جلد سوم 610 سب سے پہلا کارنامہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ کا وہ ہے کہ جب خلافت ثانیہ کی ابتداء میں حضور کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف جماعت کو ایک خطرناک ابتلاء سے بچایا جو ایک بھاری اور تباہ کن زلزلہ کا رنگ رکھتا تھا اور جماعت کا بظاہر فعال حصہ جماعت اور مرکز سے کٹ کر جماعت کے بعض مخصوص عقائد کو خیر باد کہہ رہا تھا.بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے حضور کے ذریعہ خدا نے جماعت کو مضبوطی اور ترقی کے رستہ پر ڈال دیا.جس کے بعد وہ ہر آن بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی اور اس کی رفتار ترقی بھی تیز سے تیز تر ہوتی گئی.حتی کہ اب جماعت کے کثیر التعداد مبلغ آزاد دنیا کے ہر حصہ میں پہنچ کر اسلام کا نام بلند کر رہے ہیں اور دنیا کے دور بین مبضر احمدیت سے مرعوب ہوتے جاتے ہیں اور جماعت کی تعداد میں بھی ایسی ترقی ہو چکی ہے کہ جہاں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے آخری جلسہ سالانہ میں زائرین کی تعداد صرف ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی وہاں اب یہ تعداد اسی ہزار تک پہنچ جاتی ہے.اس کے بعد کشمیر کے اسیروں کی رستگاری کے لئے جو عظیم الشان خدمات حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سرانجام دیں وہ بھی احمدیت کی تاریخ بلکہ ملک کی تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہیں جسے کوئی شریف غیر متعصب انسان بھلا نہیں سکتا.وہ وقت اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ جب شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ صاحب قادیان اس غرض سے آئے تھے کہ تا امام جماعت احمدیہ کی غیر معمولی خدمات کا خود بنفس نفیس شکر یہ ادا کریں.پھر احرار کی مخالفت کا زمانہ آیا اور احرار نے جماعت احمدیہ کے خلاف وہ آگ بھڑ کائی کہ دنیا نے سمجھا کہ بس اب اس آگ میں یہ چھوٹی سی جماعت بھسم ہو کر رہ جائے گی.مگر اسی آگ کے شراروں میں خدا نے حضور کو یہ نظارہ دکھایا کہ احرار کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلی جارہی ہے.اور ایسا ہی ہوا کہ آگ لگانے والے خود اپنے پاؤں کے نیچے کی زمین کے ساتھ پیوست ہو کر رہ گئے.اس کے بعد ملکی تقسیم کا زلزلہ پیش آیا اور لاکھوں مسلمان اور ہزاروں ہندو سکھ اس زلزلہ کے ملبہ میں دب کر ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئے.مگر حضرت خلیفتہ امسیح کی معجزانہ قیادت یہاں بھی جماعت کے آڑے آئی اور جماعت کے لاتعداد مردوں اور عورتوں اور بچوں کو اس طرح اٹھا کر پاکستان پہنچا دیا جس طرح ایک شہد کی مکھیوں کا چھتہ بعض اوقات کسی ہوا کے جھونکے سے متاثر ایک جگہ سے اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ جاتا ہے.اور پھر یہی نہیں بلکہ حضور کی حکیمانہ سعی سے جماعت کو ربوہ جیسا ثانوی مرکز بھی مل گیا جو حقیقتا قرآنی وعدہ من يُّهَاجِرُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً (النساء: 101) کا بہترین ظہر ہے.جس میں ہمیشہ یورپ اور امریکہ اور افریقہ کے نومسلمین کی ایک پارٹی دین سیکھنے کے لئے ڈیرہ

Page 633

مضامین بشیر جلد سوم 611 ڈالے رہتی ہے اور جماعت سرعت کے ساتھ پھیلتی چلی جارہی ہے.پھر 1953ء کا زلزلہ بھی کوئی معمولی زلزلہ نہیں تھا جس میں جماعت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی سکیم بنائی گئی تھی.مگر یہ آندھی بھی حضرت خلیفتہ امسیح کی دعاؤں اور حکیمانہ تدابیر سے ایک منہ کی پھونک بن کر رہ گئی اور خدا نے جماعت کی غیر معمولی حفاظت فرمائی اور اس کا خدمت دین کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.اور اس سارے عرصہ میں حضور نے جو علمی خدمات سرانجام دیں وہ حضور کی بے نظیر تصانیف اور جلسہ سالانہ کی تقاریر اور پھر مقدمہ قرآن مجید اور تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر وغیرہ سے ظاہر وعیاں ہیں جن کے لوہے کو دنیا مانتی ہے.ابھی کل کی بات ہے کہ ربوہ میں ایک غیر احمدی پر و فیسر آیا جو فلسفہ اور علم النفس کا ماہر تھا اسے جب مقدمہ قرآن مجید دیا گیا تو کٹر مخالف ہونے کے باوجود وہ اس کے مطالعہ سے اس قدر متاثر ہوا کہ بار بار کہتا تھا کہ میں ہر گز مان نہیں سکتا کہ یہ امام جماعت احمدیہ کی تصنیف ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ میٹرک پاس بھی نہیں.بلکہ یہ تصنیف کسی اعلیٰ درجہ کے فلسفی اور ماہر نفسیات کی لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے جس نے یورپ میں تعلیم پائی ہے.الغرض یہ ہمارے موجودہ امام کی نے نظیر دینی خدمات اور غیر معمولی کارناموں کی ایک مختصر سی جھلک ہے اور اب یہ مظفر و منصور انسان بستر علالت میں پڑا ہوا اپنی وصیت املاء کرا رہا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ موت ہر انسان کے لئے مقدر ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان دنیا میں نہ رہا تو پھر اور کس ماں کا بچہ ہے جو دائمی زندگی کا پروانہ لے کر آ سکتا ہے.مگر یقیناً ایسے امام کی زندگی کو خطرہ میں دیکھ کر ہر مخلص احمدی کا دل پگھل پگھل کر خدا کے آستانہ پر گرنا چاہئے.جماعت ابھی تک قومی زندگی کے لحاظ سے ایک محض شیر خوار بچہ ہے جسے ہر قدم پر سہارا دینے اور گویا انگلی پکڑ کر چلانے کی ضرورت ہے.مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے کہ جماعت کو اس وقت دعاؤں اور صدقات کی طرف غیر معمولی توجہ ہے.جو ایک طرف جماعت کے اخلاص کی علامت ہے اور دوسری طرف وہ اس بے نظیر محبت پر بھی شاہد ہے جو جماعت کے دل میں اپنے امام کے لئے ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ: جنس بالا کن که ارزانی ہنوز حضرت خلیفہ السیح الثانی ایدہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ: اے فجر رسل قرب تو معلومم شد دیر آمده زره دور آمده 1

Page 634

مضامین بشیر جلد سوم 612 پس اے میرے عزیز و اور دوستو اور بزرگو! اس وقت اپنی دعاؤں میں وہ ذوق و شوق پیدا کرو جو ایک بہت دیر کے بعد آنے والے اور بہت دور سے آنے والے خدائی مہمان کے شایانِ شان ہے.اور اپنے اندر تقویٰ بھی پیدا کرو جو عمل صالح کی جان ہے.کیونکہ متقی انسان کی دعا ئیں یقینا زیادہ مقبول ہوتی ہیں.وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محرره 22 مئی 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوه 24 مئی 1959 ء ) خلافت یعنی قدرت ثانیہ کا مبارک نظام ایڈیٹر صاحب الفضل نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ 27 مئی 1959ء کو الفضل کا خلافت نمبر شائع کر رہے ہیں اور انہوں نے مجھے سے خواہش کی ہے کہ میں بھی اس نمبر کے لئے کچھ لکھوں.سو ہر چند کے اس وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی اطال اللہ حیلہ و فیوض و برکاتہ کی بیماری کی وجہ سے طبیعت میں سکون کی کیفیت نہیں ہے اور پھر اس موضوع پر میرے متعدد مضمون مختلف اوقات میں بھی چھپ بھی چکے ہیں.تاہم میں حصول ثواب کی خاطر ذیل کی چند سطریں سپرد قلم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ احباب جماعت اس مختصر نوٹ سے جو زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک حوالہ پر مشتمل ہے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے.جیسا کہ میں اپنے سابقہ مضمونوں میں تشریح کے ساتھ بتا چکا ہوں اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ یہ سنت ہے کہ جس طرح وہ مخلوق کی ہدایت اور اصلاح کے لئے مناسب وقت پر کسی شخص کو نبوت کے مقام پر فائز کر کے اس کے ذریعہ مردہ قوموں میں زندگی کی روح پھونکتا ہے اسی طرح اس کی یہ بھی سنت ہے کہ وہ نبی کی وفات کے بعد اس کے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے خلافت کا نظام قائم فرماتا ہے جو گویا نبوت کا تتمہ ہوتا ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مَا مِنْ نُبُوَّةٍ قَطُّ إِلَّا تَبعَتُهَا خِلَافَةٌ ( كنز العمال صفحه 109) یعنی کوئی نبوت ایسی نہیں گزری کہ اس کے بعد خدا نے خلافت کا سلسلہ قائم نہ کیا ہو.یہ وہی مقدس سلسلہ خلافت ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رسالہ ” الوصیت میں

Page 635

مضامین بشیر جلد سوم 613 قدرت ثانیہ کے نام سے ذکر کر کے جماعت کو ہوشیار کیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہے ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں کی مددکرتا ہے اور انکو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے كتب الله لا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي (المجادلہ: 22) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے.اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے.اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دیتا ہے.اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے.اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض وہ دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (1) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے اور (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا ہے.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں تلاش کرتے ہیں تب خدا دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے.اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (النور: 56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا.جبکہ حضرت موسیٰ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزلِ مقصود تک پہنچادیں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں اُن کے مرنے سے بڑا ماتم برپا ہوا.جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ کی ناگہانی جدائی سے چالیس

Page 636

مضامین بشیر جلد سوم 614 دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا.سواے عزیز و! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی اس قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائگی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے.جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائی وعدہ کا دن ہے.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سوتم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعائیں کرتے رہو.اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.“ رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ نہایت لطیف اور نہایت زبردست حوالہ مسئلہ خلافت کے معاملہ میں عموماً اور مسئلہ خلافت احمدیہ کے معاملہ میں خصوصاً بہترین ہدایات پر مشتمل ہے جس سے ذیل کے نتائج پر نہایت فیصلہ کن روشنی پڑتی ہے: (1) یہ کہ ہر نبوت کے بعد خلافت کا سلسلہ مقدر ہوتا ہے.تا اس سلسلہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نبوت کے کام کو جو گویا ایک بیج بونے کی حیثیت رکھتا ہے تکمیل تک پہنچائے.(2) یہ کہ سلسلۂ خلافت جس کا دوسرا نام قدرت ثانیہ ہے ایسا ہی ہے جیسا کہ حضرت خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ اول کے وجود باجود میں ظاہر ہوا.

Page 637

مضامین بشیر جلد سوم 615 (3) یہ کہ اسی قسم کا سلسلہ خلافت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی مقدر تھا.(4) یہ کہ اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی قدرت اولیٰ کے مظہر تھے اور آپ کے بعد بعض اور وجودوں نے قدرت ثانیہ کا مظہر بننا تھا.(5) یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد قدرت ثانیہ کا ظہور دائمی ہے.جس کا سلسلہ کسی نہ کسی رنگ میں قیامت تک چلے گا اور اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو آخر تک دوسروں پر غالب رکھے گا.(6) یہ کہ خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے.گو بظاہر اس کے انتخاب میں مومنوں کا ہاتھ ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” خدا نے حضرت ابو بکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا“ اور اسی کے مطابق قرآن و حدیث میں بھی صراحت آتی ہے.یہ وہ یقینی اور قطعی استدلال ہیں جو اوپر کے حوالے سے ثابت ہوتے ہیں.اور کوئی غیر متعصب عقل مند انسان ان سے انکار نہیں کر سکتا.وَالوُ الْقَى مَعَازِيرَة بالآخر میں احباب جماعت سے صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ میں ظلمی نبوت کا دور تو گزر چکا اب خلافت کا دور ہے جو خدا تعالیٰ کی قدرت ثانیہ کا مظہر ہے.اس کی قدرو قیمت کو پہچانو.بلکہ تم اس وقت خلافت احمدیہ کے سنہری دور میں سے گزر رہے ہو.سو اپنے قول اور عمل سے اس کی قدر کرو اور اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے نیک نمونہ چھوڑو کہ: پھر خدا جانے کہ کب آئیں یہ دن اور یہ بہار وَاخِرُ دَعُونَا أَن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ ( محرره 18 مئی 1959 ء) 18 روزنامه الفضل ربوہ 26 مئی 1959 ء ) عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی علالت جیسا کہ الفضل میں دعا کی غرض سے اعلان ہو چکا ہے آج کل عزیزم میاں شریف احمد صاحب لاہور میں

Page 638

مضامین بشیر جلد سوم 616 زیادہ بیمار ہیں.اس کے بعد مجھے آج محترم ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب کا لا ہور سے خط ملا ہے جس میں انہوں نے میاں شریف احمد صاحب کے متعلق تشویش ظاہر کی ہے اور ڈاکٹر کرنل ضیاء اللہ صاحب کی رائے بھی لکھی ہے کہ میاں شریف احمد صاحب کی بیماری کافی قابل توجہ ہے.اور انہیں جلد تر ہسپتال میں داخل کرا کے با قاعدہ علاج ہونا چاہئے.سو انہیں میوہسپتال میں داخل کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے.لیکن چونکہ ہمارا اصل معالج خدا تعالیٰ ہے جو شافی مطلق ہے اس لئے میں احباب جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی صحت کے لئے در دول سے دعا کریں.ان کی بیماری جو انہیں ایک عرصہ سے لاحق ہے اب کافی پیچیدہ ہو چکی ہے اور طبعا لمبی بیماری کی وجہ سے مقابلہ کی طاقت بھی بہت کم ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہاموں کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ انہیں انشاء اللہ بھی عمر ملے گی.لیکن چونکہ خوابوں کی طرح بعض الہامات بھی قابلِ تشریح ہوتے ہیں اور ان کی اصل حقیقت کو خدا ہی جانتا ہے.اور ویسے بھی کسی غرض کے حصول کے لئے مادی اور روحانی اسباب دونوں کو اختیار کرنے کا حکم ہے اس لئے دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کو اپنی خاص دعاؤں میں یادرکھ کر عنداللہ ماجور ہوں.تاوہ امور جو ان کی صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں دور ہو جائیں.اور اللہ تعالیٰ انہیں صحت اور کام کی لمبی عمر عطا فرمائے اور راحت و برکت کی زندگی نصیب ہو.( محرره 24 مئی 1959 ء ) 19 ہر بلا کیں قوم را حق داده اند روزنامه الفضل ربوہ 27 مئی 1959ء) زیر آن گنج کرم بنهاده اند اللہ تعالیٰ جب کسی قوم یا جماعت پر فضل کرنا چاہتا ہے تو ان کی بیداری اور ترقی کے لئے ایسے ایسے رستے کھول دیتا ہے جو دوسرے حالات میں خیال تک میں نہیں آسکتے.بلکہ بسا اوقات بظاہر تکلیف دہ حالات اور پریشان کن کوائف کو ہی ان کے لئے بالواسطہ رحمت کا ذریعہ بنادیتا ہے.چنانچہ زیب عنوان شعر میں بھی جو غالباً حضرت مولانا رومی کا فرمودہ ہے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس شعر کے معنی یہ ہیں کہ : ’ جب خدا کی کسی مقبول جماعت پر کوئی تکلیف آتی ہے تو اس تکلیف کے پردے میں بھی اس کی

Page 639

مضامین بشیر جلد سوم رحمت کا ظہور ہوتا ہے 617 چنانچہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس کی دو نمایاں مثالیں نظر آتی ہیں.ایک غزوہ احد میں جب کہ مسلمانوں کو فتح ہوتے ہوتے بظاہر شکست اور ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا اور خودسرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بُری طرح زخمی ہو گئے اور دوسرے غزوہ خندق میں جب کفار عرب کے مختلف قبائل اکٹھے ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں پر عرصہ عافیت تنگ ہو گیا.اور جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے ان کے کلیجے منہ کو آنے لگے.مگر ان دونوں موقعوں کے بعد خدا کی یہ پیاری قوم ان عظیم الشان زلزلوں کے بعد اس طرح کو دکر اٹھی کہ جس طرح ایک ربڑ کا گیند زمین پر زور کے ساتھ مارے جانے کے بعد بڑی شدت کے ساتھ اچھل کر اٹھتا ہے.یہی نظارہ ہر مامور من اللہ کے زمانہ میں نظر آتا ہے کہ ان کی ہر مصیبت ان کے لئے رحمت کا پیش خیمہ بن جاتی ہے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی کی موجودہ بیماری بھی جماعت میں غیر معمولی بیداری اور غیر معمولی توجہ الی اللہ کا موجب بن رہی ہے.الفضل میں جو رپورٹیں چھپ رہی ہیں یا جو خطوط اس تعلق میں مجھے یا دوسرے مرکزی دوستوں کو موصول ہورہے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ حضور کی اس بیماری کی وجہ سے جماعت کو دعاؤں اور صدقات اور نوافل کی طرف بہت زیادہ توجہ پیدا ہوگئی ہے.اور صحابی اور غیر صحابی، بوڑھے اور جوان، مردمستورات بلکہ بچوں تک میں ایک خوش کن روحانی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.مثال کے طور پر مجھے راولپنڈی کی جماعت اور منٹگمری کی جماعتوں نے اطلاع دی ہے کہ حضور کی موجودہ بیماری میں نمازیوں کی حاضری اتنی بڑھ گئی ہے کہ بعض اوقات احمد یہ مساجد میں جگہ نہیں ملتی.راولپنڈی کے ایک دوست رشدی صاحب نے جو خدام الاحمدیہ کے رکن ہیں لکھا ہے کہ جہاں ہم احمدی نو جوانوں کو بار بار تحریک کر کے مسجد کی طرف بلاتے تھے اور پھر بھی ان میں سے کئی اپنی ملازمتوں یا کاروبار کی وجہ سے مستی کر جاتے تھے وہاں اب یہ حال ہے کہ مساجد میں اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ جگہ نہیں ملتی.یہی رپورٹ منٹگمری کے امیر چوہدری محمد شریف صاحب نے دی ہے کہ شروع میں صرف ایک دفعہ تحریک کرنے پر ہر بوڑھا اور جوان اور ہر مرد اور عورت بلکہ بچے تک مسجد کی طرف امڈے چلے آتے ہیں.اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی صحت کی رپورٹ سننے اور دعاؤں میں حصہ لینے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں.اور یہی حال اکثر دوسری جماعتوں کا ہے.یقینا یہ وہی کیفیت ہے جسے مولانا رومی نے اس شعر میں بیان کیا ہے کہ: ہر بلا کیں قوم را حق داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند

Page 640

مضامین بشیر جلد سوم 618 یہ حرکت ایک طرف تو جماعت کی روحانی زندگی کی دلیل ہے اور دوسری طرف وہ خدا کی غیر معمولی نصرت اور رحمت پر شاہد ہے.انسان کمزور ہے وہ ہر حال میں ایک جیسی حالت پر قائم نہیں رہتا.لیکن اگر وہ ہلائے جانے پر بیدار ہو جائے اور اپنی نیند چھوڑ دے تو یہ بھی خدا کی ایک بڑی رحمت ہے.مگر کاش کہ وہ ہر حال میں جاگنا اور ہر حال میں چوکس رہنا سیکھ لے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: کہتے ہیں جوشِ الفت یکساں نہیں ہے رہتا دل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا یہی ہے (محررہ 27 مئی 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 30 مئی 1959ء) میاں خدا بخش صاحب درویش فوت ہو گئے قادیان سے مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ کی تار موصول ہوئی ہے کہ میاں خدا بخش صاحب در ولیش ( جو کچھ عرصہ سے بیمار تھے فوت ہو گئے ہیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.مرحوم موضع طغل والا نز دقادیان کے رہنے والے تھے اور بہت مخلص اور پابند صوم وصلوۃ تھے.انہوں نے قلی کے طور پر محنت مزدوری کر کے قریباً ڈیڑھ ہزار روپیہ جمع کیا جس سے حج ادا کرنے کا ارادہ تھا مگر بعض روکوں کی وجہ سے حج نہیں کر سکے اور یہ سارا رو پید اعانت سلسلہ میں دے دیا.مرحوم نماز با جماعت کے بہت پابند تھے اور ہمیشہ اول وقت پر مسجد میں آنے کی کوشش کیا کرتے تھے اور نوافل کا بھی بہت شوق تھا.غالبا صرف قرآن مجید ناظرہ پڑھ سکتے تھے مگر بڑی نیکی اور اخلاص سے زندگی گزاری اور قادیان میں دھونی رما کر بیٹھے رہے اور بالآخر اسی درویشی کی حالت میں ہی وفات پائی اور مقبرہ بہشتی قادیان میں دفن ہوئے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے.تعارف کے خیال سے لکھا جاتا ہے کہ بعض اوقات انہیں بچے استاد بھنڈی کہہ کر پکارتے تھے.اس میں شبہ نہیں کہ وہ ناخواندہ اور دیہاتی ہونے کے باوجود دین کے رستہ میں اکثر نو جوانوں کے لئے استاد کے حکم میں تھے.روزنامه الفضل ربوہ 30 مئی 1959ء)

Page 641

مضامین بشیر جلد سوم 619 2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات و مکاشفات (بلا تشریح) گا ہے گاہے بازخواں“ حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ید اللہ بنصرہ کی موجودہ بیماری کے متعلق احباب جماعت کو دعا کی تحریک کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ اس دفعہ حضور قادیان کا بہت ذکر فرماتے ہیں اور اسے بار بار یاد کرتے ہیں.چونکہ ممکن ہے کہ یہ ذکر کسی غیبی تحریک پر مبنی ہو اس لئے احباب کی تذکیر کی غرض سے ذیل میں اسی سلسلہ میں تعلق رکھنے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات اور مکاشفات درج کئے جاتے ہیں جن کی تشریح کی اس جگہ ضرورت نہیں.وقت پر خدا تعالیٰ کا منشاء خود بخود ظاہر ہو جائے گا.وَلَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمُنَا اللهُ الْعَلِيمُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيم (1) ایک مقدمہ کے دوران میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان کے باہر تشریف لے گئے ہوئے تھے اور دشمنوں نے حضور کو پھانسی دلانے یا قید کرانے کی سازش کی تھی اور قادیان واپس جانے سے روکنے کی تدبیر بنائی تھی.حضرت مسیح موعود کو موقع کی مناسبت کے لحاظ سے الہام ہوا تھا کہ: إِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى الْمَعَادِ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ آتِيكَ بَغْتَةً.مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق (2) اس کے بعد الہام ہوا کہ : تذکرہ ایڈیشن دوم صفحہ 313 314) غُلِبَتِ الرُّومُ فِى أدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمُ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ( تذکرہ ایڈیشن دوم صفحہ 509) (3) اور یہی الہام مزید تشریح کے ساتھ دوبارہ ہوا کہ : غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَ هُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَ يَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (4) پھر فرماتے ہیں: تذکرہ ایڈیشن دوم صفحه 799)

Page 642

مضامین بشیر جلد سوم 620 میں نے دیکھا کہ میں یہ آیت قرآن شریف کی پڑھتا ہوں غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَ هُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ اور کہتا ہوں کہ ادنى الارْضِ قادیان مراد ہے.“ تذکرہ ایڈیشن دوم صفحہ 660-661) (5) اور ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں : میں نے خواب میں دیکھا کہ قادیان کی طرف آتا ہوں اور نہایت اندھیرا ہے اور مشکل راہ ہے اور میں رَجَـمًا بِالْغَيْبِ قدم مارتا جاتا ہوں اور ایک غیبی ہاتھ مجھ کو دیا جاتا ہے.یہاں تک کہ میں قادیان پہنچ گیا اور جومسجد کہ سکھوں کے قبضہ میں ہے ( قادیان کی ایک قدیم مسجد کو واقعی سکھوں نے حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے قبل گوردوارہ بنا رکھا تھا اور یہ مسجد دار مسیح کے قریب تھی وہ مجھ کو نظر آئی.میں سیدھی گلی میں جو کشمیریوں کی طرف سے آتی ہے چلا.اس وقت میں نے اپنے تئیں سخت گھبراہٹ میں پایا کہ گویا گھبراہٹ سے بے ہوش ہوا جاتا ہوں اور اس وقت بار بار ان الفاظ سے دعا کرتا ہوں کہ رَبِّ تَجَلَّ رَبِّ تَجَلَّ (یعنی خدایا تو اپنی تجلی سے روشنی کر دے خدایا روشنی کر دے) اور ایک دیوانہ کے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے اور وہ بھی رَبِّ تَجلُّ کہتا ہے.اور بڑے زور سے میں دعا کرتا ہوں اور اس سے پہلے مجھ کو یاد ہے کہ میں نے اپنے لئے اور اپنی بیوی کے لئے اور اپنے لڑ کے محمود کے لئے بہت دعا کی ہے.پھر میں نے دو کتنے خواب میں دیکھے اور سخت سیاہ اور ایک سفید.اور ایک شخص ہے کہ وہ کتوں کے پنجے کاٹتا ہے.پھر الہام ہوا کہ كُنتُم خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ قَدْ جَاءَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ أَقْرَبُ تذکرہ ایڈیشن دوم صفحہ 833, 934 - الہامات 1892ء 1893ء) یہ وہ چند الہامات اور کشوف ہیں جو خدائے عرش کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلب صافی پر نازل ہوئے یا جن کا نظارہ حضور کی چشم بصیرت کو دکھایا گیا.وَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي وَلَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى - روزنامه الفضل ربوہ 31 مئی 1959 ء)

Page 643

مضامین بشیر جلد سوم نذرمحمد صاحب افغان درویش کی وفات پر تذکرہ 621 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مکرم نذر محمد صاحب افغان کی وفات پر الفضل میں آپ کے اوصاف یوں بیان فرمائے.مرحوم نذر محمد صاحب افغان علاقہ خوست ملک افغانستان کے رہنے والے تھے اور ملکی تقسیم سے کافی عرصہ قبل قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے.اور پھر وہیں ملکی تقسیم کے بعد بھی صبر وشکر کے ساتھ بیٹھے رہے.بہت خاموش طبیعت کے تھے اور الگ تھلگ رہنے کے عادی تھے اس لئے ملکی زبان بہت کم سمجھ سکتے تھے اور زیادہ تر پشتو ہی بولتے تھے مگر ویسے کافی جوش رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے.روزنامه الفضل ربوہ 31 مئی 1959ء) دعاؤں اور صدقات کی حقیقت بعض مخلص اور جلد باز مگر خدائی سنت سے ناواقف لوگوں کی طرف سے پوچھا جارہا ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بنصر اتنے عرصہ سے بیمار چلے آرہے ہیں اور حضور کی صحت کے لئے جماعت کی طرف سے اتنے صدقات کئے جارہے ہیں اور اتنی دعائیں ہور ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ یہ دعا ئیں بظاہر قبول نہیں ہو رہیں اور حضور بدستور بیمار چلے جاتے ہیں؟ اس سوال کے مختصر سے جواب میں سب سے پہلے یہ بات یا درکھنی چاہئے کہ اس قسم کے سوالات دعا کے فلسفہ سے ناواقفیت اور انسانی فطرت کی جلد بازی سے پیدا ہوتے ہیں.چنانچہ جلد بازی کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے.خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (الانبياء: 38) یعنی انسان فطرۃ جلد باز واقع ہوا ہے اور ہر کام کے متعلق چاہتا ہے کہ وہ فوراً ہو جائے.حالانکہ خدا نے اپنی حکمتِ کاملہ کے ماتحت ہر بات کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اور خدا مومنوں کا امتحان بھی لیا کرتا ہے.اس طرح حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: إِنَّهُ يَسْتَجَابُ لَا حَدِكُمُ مَالَمْ يُعَجِّلْ فَيَقُولُ قَدْ دَعَوْتُ رَبِّي فَلَمْ يَسْتَجِبْ لِي قِيْلَ يَارَسُولَ اللهِ مَا الاسْتِعْجَالُ - قَالَ يَقُولُ قَدْ دَعُوتُ وَقَدْ دَعُوتُ فَلَمْ يَسْتَجَابَ لِى - فَيَسْتَحْسِرُ وَ عِنْدَ ذَالِكَ يَدَعُ الدّعاءَ

Page 644

مضامین بشیر جلد سوم 622 یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں ضرور قبول فرماتا ہے بشرطیکہ وہ جلد بازی سے کام نہ لیں.عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا جلد بازی سے یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کچھ وقت تک دعا کرنے کے بعد یہ کہنا شروع کر دے کہ میں نے بہت دعا کر کے دیکھ لیا مگر میری دعا قبول نہیں ہوئی.جس پر ایسا شخص تھک کر بیٹھ جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے.اور دعا کے فلسفہ کے متعلق قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک اللہ مومنوں کی دعائیں قبول کرتا ہے ( اور دعا تو دین کی جان ہے) مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ دعا کرنے والا خدا پر سچا ایمان رکھے اور عمل صالح بجالائے.چنانچہ فرماتا ہے: أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ لا فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة:186) یعنی میں دعا کرنے والے کی دعا کوضرور سنتا اور قبول کرتا ہوں.مگر ضروری ہے کہ دعا کرنے والے بھی میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر سچا ایمان لائیں تا کہ وہ اپنی دعاؤں میں کامیابی کا منہ دیکھ سکیں.اور اس تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : إِنَّ اللهَ لَا يَسْتَجِيبُ الدُّعَاءُ مِنْ قَلْبِ غَافِلٍ لاهِم - یعنی خدا ایسے دل سے نکلی ہوئی دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اور بے پرواہ ہے.یعنی نہ تو وہ دل میں حقیقی در درکھتا ہے اور نہ ہی وہ دعا کے حقیقی فلسفہ سے واقف ہے.اور ایک حدیث قدسی میں دعا کی قبولیت کا یہ گر بھی بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِئْ.یعنی میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان کرتا ہے میں ( دیگر شرائط کے تابع ) اسی کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں.یعنی امید رکھنے والے کو مایوس نہیں کرتا.مگر دعا کی قبولیت کے لئے بعض اور شرائط بھی ہیں.مثلاً یہ کہ دعا کسی ایسے امر کے لئے نہ ہو جو خدا کے کسی وعدے یا اس کی سنت کے خلاف ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (آل عمران: 10) وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب:63) یعنی خدا تعالیٰ کسی صورت میں اپنے وعدہ کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا اور نہ تم خدا کی کسی سنت میں کوئی تبدیلی پاؤ گے.

Page 645

مضامین بشیر جلد سوم 623 اور قبولیت دعا کی مختلف امکانی صورتوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيْهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةَ رَحْمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَىٰ ثَلَاثٍ إِمَّا يُعَجَّلُ لَهُ دَعْوَتَهُ وَإِمَّا أَنْ يُدَّ خَرُ هَالَهُ فِي الْآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ مِثْلَهَا.یعنی جب ایک مومن خدا سے کوئی دعا کرتا ہے تو ( بشر طیکہ وہ دعا کسی گناہ کی بات یا قطع رحمی پر مشتمل نہ ہو ) خدا مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی صورت میں اس کی دعا ضرور قبول فرما لیتا ہے.یعنی (1) یا تو وہ اسے اسی صورت میں اسی دنیا میں قبول کر لیتا ہے جس صورت میں کہ وہ مانگی گئی ہو.اور (2) یا اس دُعا کو آخرت میں دعا کرنے والے کے لئے یا جس کے حق میں دعا کی گئی ہو ایک مبارک ذخیرہ کے طور پر محفوظ کر لیتا ہے اور (3) یا (اگر اسے قبول کرنا خدا کی کسی سنت یا وعدہ یا مصلحت کے خلاف ہو تو ) اس کی وجہ سے اس سے کسی ملتی جلتی تکلیف یاد کھ یا مصیبت کو دور فرما دیتا ہے.بایں ہمہ دعا میں بڑی زبر دست طاقت ودیعت کی گئی ہے.چنانچہ یہ دعا ہی ہے جو خدا کی تلخ تقدیروں کو روکنے کی طاقت رکھتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لَا يُرَدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَا یعنی خدائی قضاء و قدر کو روکنے کے لئے دعا کے سوا اور کوئی حیلہ نہیں.لیکن یا درکھنا چاہئے کہ دعا کرنا کوئی آسان کام نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ: جو مرے سو رہے منگن یعنی حقیقی دعا گویا ایک موت ہے جس میں سے دعا کرنے والے کو گزرنا پڑتا ہے اور اپنے دل میں ایک ایسی سوز وگداز کی کیفیت پیدا کرنی پڑتی ہے جو موت کے مترادف ہے.اور پھر اس قسم کی موت کی کیفیت بھی دراصل ایک دوسری موت کے نتیجہ میں ہی پیدا ہو سکتی ہے.جس میں انسان کے دل میں یہ درد اور یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اگر یہ کام نہ ہوا تو میرے لئے گویا ایک موت در پیش ہوگی.پھر دعا خود دعا کرنے والے کے لئے بھی ایک بہترین عبادت بلکہ عبادت کی جان ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ ( سنن الترندى كتاب الدعوات) یعنی دعا صرف ایک عام عبادت ہی نہیں بلکہ دعا کرنے والے کے لئے ایسی ہے جیسے کہ ایک ہڈی کے اندر کا گودا ہوتا ہے.جس کے بغیر ایک ہڈی بے کار چیز کی طرح پھینک دی جاتی ہے.

Page 646

مضامین بشیر جلد سوم 624 پس میں احباب جماعت سے کہتا ہوں کہ جلد بازی کی رو میں بہہ کر مایوسی کی باتیں نہ کرو بلکہ خدا کی وسیع قدرت اور وسیع رحمت پر بھروسہ رکھ کر صبر واستقلال کے ساتھ دعائیں کرو، دعائیں کرو، دعا ئیں کرو.یہ دعا ئیں یقیناً حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ کے لئے بابرکت ہوں گی.( جیسا کہ پہلے سے حضور کی طبیعت میں افاقہ شروع ہے اور برکت کی اور بھی کئی صورتیں ہیں ) جماعت کے لئے بھی بابرکت ہوں گی اور خود عا کرنے والوں کے لئے بھی بابرکت ہوں گی.اس سے بڑھ کر اور کیا چاہتے ہو؟ اس مختصر سے نوٹ کے ختم کرنے سے قبل میں صدقات کے متعلق بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.صدقہ مختلف صورتوں میں دیا جا سکتا ہے.اوّل جانور ذبح کرنے کی صورت میں.کیونکہ جان کے بدلے جان کا اصول تمام مذاہب میں مسلم ہے.جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت سے ثابت ہے.دوسرے مسکینوں اور یتیموں اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں تاکید کی گئی ہے.تیسرے غریبوں اور بیواؤں اور بے سہارا لوگوں کو ان کی ضرورت کے لئے نقد امداد کا انتظام کر کے.چوتھے نادار بیماروں کے لئے ادویہ اور ضروری غذا یا لباس مہیا کر کے.پانچویں ہونہار مگر غریب طالبعلموں کے لئے فیسوں اور کتابوں کی امداد کی صورت میں اور چھٹے اگر کسی غریب یا یتیم یا بیوہ کا مکان گر گیا ہو یا وہ ایسی ضروری تکمیل چاہتا ہو جس کے بغیر گزارہ نہ ہومگر اسے اس کی طاقت نہ ہو تو اس کا انتظام کرا کے وغیرہ وغیرہ.یہ سب صدقہ کی مقبول اور مستحسن صورتیں ہیں جو ہمارے دوستوں کے مد نظر رہنی چاہئیں.اور صدقہ میں احمد یوں، غیر احمد یوں، غیر مسلموں بلکہ جانوروں تک کو شامل کرنا چاہئے.ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فِي كُلِّ كَبَدٍ حَرِّ أَجْرٌ.یعنی ہر زندہ چیز کی امداد کرنے اور اسے تکلیف سے بچانے میں خدا نے اجر مقرر کر رکھا ہے.اور ایک حدیث میں آپ فرماتے ہیں کہ ایک کنچنی یعنی فاحشہ عورت کو خدا نے اس لئے بخش دیا کہ اس نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا.اللہ اللہ رحمت تھا.اللہ کی کتنی وسعت ہے!!! وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( محرره 3 جون 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 6 جون 1959 ء )

Page 647

مضامین بشیر جلد سوم 625 22 حضرت خلیفہ اس کے لئے کن الفاظ میں دعا کی جائے؟ میرے مضمون ” دعاؤں اور صدقات کی حقیقت کو پڑھ کر بعض دوست پوچھتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح ایده الله بنصرہ العزیز کی صحت اور شفایابی کے لئے کن الفاظ میں دعا کی جائے.سوایسے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا خدا ہر زبان کو جانتا اور سمجھتا ہے بلکہ بے زبانوں کی زبان تک سے واقف ہے.اس سے نہ کوئی زبان سے نکلا ہوا لفظ مخفی ہے اور نہ کوئی دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی خواہش اس سے پوشیدہ ہے.پس ہر انسان اپنے قلبی جذبات اور لسانی تلفظات کے مطابق جن الفاظ یا جن اشارات سے بھی دعا کرنے میں سہولت اور حضور قلب پائے اسی کے مطابق دعا کرے.خدا اس کی سنے گا اور اس کے اخلاص اور اپنی سنت کے مطابق اس سے معاملہ کرے گا.اسی لئے قرآن نے دعا کے تعلق میں تَضَرُّعاً و خُفْيَةً کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.جس سے یہ مراد ہے کہ خدا ایسی دعا کو بھی سنتا ہے جو پھوٹ پھوٹ کر زبان سے نکلتی ہے اور ایسی دعا پر بھی کان دھرتا ہے جو دل کی گہرائیوں کے اندرا بلتی رہتی ہے اور زبان پر نہیں آسکتی.مگر بہر حال عام حالات میں مسنون دعائیں اور خصوصاً وہ دعائیں جو خود خدا تعالیٰ نے سکھائی ہیں اپنے اندر زیادہ برکت اور قبولیت کا زیادہ درجہ رکھتی ہیں.میں ان دعاؤں میں سے اس جگہ دوستوں کی تحریک کے لئے صرف وہ دعائیں درج کرتا ہوں.ان میں سے ایک دعا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ ہے اور دوسری دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام میں بیان ہوئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ دعا یہ ہے جس کا ذکر حدیث شریف میں آتا ہے.أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِى لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاتُكَ شِفَاءٌ لَّا يُغَادِرُ سَقَمَدٌ یعنی اے انسانوں کے خالق و مالک خدا! تو ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ) بیماری اور تکلیف کو دور فرما کیونکہ تمام شفا تیرے ہاتھ میں ہے اور حقیقتا تیری شفا ہی اصل شفا ہے.پس تو (حضرت امیر المومنین ایسی شفا عطا کر جس کے بعد بیماری کا کوئی نام ونشان باقی نہ رہے.دوسری دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام میں بیان ہوئی ہے اور اس طرح گویا وہ خود خدا کی سکھائی ہوئی دعا ہے.یہ دعا ان الفاظ میں ہے: بِسْمِ اللهِ الْكَافِی - بِسْمِ اللهِ الشَّافِی - بِسْمِ اللهِ الْغَفُورُ الرَّحِيم - بِسْمِ اللهِ الْبَرِّ الْكَرِيم - يَا حَفِيظٌ يَا عَزِيزُ يَا رَفِيق - يَا وَلِيُّ اشْفِ عَبْدَكَ امير المومنين)

Page 648

مضامین بشیر جلد سوم 626 یعنی میں اس خدا کا نام پکارتا ہوں جسے تمام طاقتیں حاصل ہیں اور وہ ہر بات پر قدرت رکھتا ہے.اور میں اس خدا کو پکارتا ہوں جو تمام شفاؤں کا مالک ہے اور ہر بیماری کو دور کر سکتا ہے.پھر میں اس خدا کا نام پکارتا ہوں جو انسانی تکلیفوں اور دکھوں پر اپنی بخشش کا پردہ ڈالنے والا اور مجسم رحمت ہے اور میں اس خدا کو پکارتا ہوں جو سب سے بڑھ کر مہربان اور سب سے بڑھ کر شفیق ہے.اے ہماری حفاظت کرنے والے خدا اوراے زمین و آسمان کے غالب آقا اور اے وہ جو اپنی مخلوقات کوخودا پنی چیز سمجھتا اور ان کا ساتھی ہے اور اے وہ جو سب کا دوست اور نگران ہے تو اپنے بندے(امیر المومنین ) کو اپنے فضل سے شفا دے.یہ دو دعا ئیں انشاء اللہ بابرکت اور مؤثر ہوں گی.مگر دعاؤں کے تعلق میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا ہر دعا سے پہلے سورۃ فاتحہ اور درود شریف کا پڑھنا بہت مبارک اور بہت مؤثر ہے.پس دعا کے وقت اصل دعا سے قبل سورۃ فاتحہ اور در و دضرور پڑھنا چاہئے بشرطیکہ اس کا موقع ہو.ورنہ وقت کی تنگی کی صورت میں تو خدا کے فرشتے مومنوں کے ایک لفظ بلکہ دردمند دل کی خواہش تک کو شوق کے ساتھ اچکتے اور فوراً آسمان پر اٹھا کر لے جاتے ہیں.جیسا کہ مچھلی کے پیٹ میں سے حضرت یونس کی مضطر یا نہ دعا ایک آنِ واحد میں آسمان تک جا پہنچی.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: 287) وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ (البروج : 15) (محرره 9 جون 1959 ء ).......روزنامه الفضل ربوہ 13 جون 1959 ء ) چوہدری عبد اللہ خان صاحب کے اوصاف حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کی اطلاع الفضل میں بھجواتے وقت آپ کے اوصاف کا تذکرہ یوں فرمایا.بہر حال احمدیت کا یہ قابل فخر نو جوان ہمارے دل کو حزیں بنا کر ہم سے جدا ہو گیا ہے.چوہدری عبداللہ خان صاحب مرحوم محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے چھوٹے بھائی اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کے بڑے بھائی تھے.اور اپنے اخلاص ، فدائیت اور قربانی اور انتظامی قابلیت میں اکثروں کے لئے ایک قابل رشک نمونہ تھے.ان کی کراچی کی خدمات خصوصیت سے بہت ممتاز ہیں جہاں

Page 649

627 مضامین بشیر جلد سوم انہوں نے ایک نسبتاً کمزور جماعت کو پایا اور دیکھتے ہی دیکھتے خدا کے فضل اور نصرت سے اسے ہر جہت سے ایک مثالی جماعت بنادیا.جواب اپنی تنظیم اور اخلاص اور مالی قربانی میں پیش پیش ہے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے....اے خدا بر تربت او بارش رحمت بیار داخلش گن از کمال فضل در بیت النعیم (محرره 13 جون 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 14 جون 1959ء) خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم میں لاہور میں تھا کہ مجھے عزیز شیخ مبارک احمد صاحب کی تار سے حضرت خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب کی وفات کی اطلاع ملی - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - خاں صاحب موصوف گو صحابی نہیں تھے مگر بڑی خوبیوں کے مالک اور اول درجہ کے مخلصین میں سے تھے اور تنظیم کا غیر معمولی مادہ رکھتے تھے.چنانچہ وہ قادیان آنے سے قبل فیروز پور اور راولپنڈی کی جماعتوں میں بہت کامیاب امیر جماعت رہے.پنشن پانے کے معا بعد انہوں نے اپنے آپ کو خدمت سلسلہ کے لئے وقف کر دیا اور پھر آخر تک یعنی جب بیماری سے بالکل مجبور ہو گئے سلسلہ کی مخلصانہ خدمت میں مصروف رہے.شروع میں خان صاحب نے لندن میں اسلام اور احمدیت کے کامیاب مبلغ کی حیثیت میں کام کیا اور اس کے بعد واپسی پر مرکز سلسلہ میں کامیاب ناظر رہے.اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ وفات سے چند روز قبل بھی جب کہ ان کی عمر پچاسی سال سے تجاوز کر چکی تھی ان کی خواہش تھی کہ خدا مجھے صحت دے تو پھر خدمت سلسلہ کی سعادت پاؤں.خاں صاحب مرحوم نمازوں کے بہت پابند اور دعاؤں اور وظائف میں خاص شغف رکھتے تھے.ایسے بزرگ جماعت کے لئے بہت بابرکت وجود ہوتے ہیں.اسی لئے نماز جنازہ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اَللَّهُمَّ لَا تَحْرِمُنَا أَجْرَهُ خان صاحب کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر بدرالدین صاحب حال بور نیو بھی نہایت مخلص اور فدائی نوجوانوں میں سے ہیں.اسی طرح ان کے دو دوسرے صاحبزادے محبوب عالم صاحب خالد ایم.اے اور شیخ مبارک احمد صاحب بی.اے بھی سلسلہ کی مخلصانہ خدمت میں مصروف ہیں.خاں صاحب

Page 650

مضامین بشیر جلد سوم 628 کے ایک پوتے نصیر الدین صاحب پسر ڈاکٹر بدرالدین صاحب اس وقت افریقہ میں مبلغ ہیں اور خان صاحب کے ایک نواسے شیخ خورشید احمد صاحب الفضل کے اسٹنٹ ایڈیٹر ہیں.خدا تعالیٰ خان صاحب مرحوم کو غریق رحمت کرے اور ان کے جملہ پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.خان صاحب کی موجودہ اہلیہ حضرت بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب کی بڑی صاحبزادی ہیں.حضرت بھائی صاحب سکھ سے مسلمان ہوئے تھے جس کے بعد وہ علم دین سیکھ کر نہ صرف ایک عالم دین بن گئے بلکہ صاحب کشف والہام کے درجہ کو پہنچے.محرره 13 جون 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوه 16 جون 1959 ء ) حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے خاص دعا کی تحریک حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے الفضل میں روزانہ دعا کی تحریک چھپ رہی ہے اور یہ خاکسار بھی اس تعلق میں کئی تحریکیں کر چکا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ امام کا مقام اور پھر خصوصیت سے حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا مقام تو ایسا ہے کہ احباب جماعت کو کسی قسم کی تحریک کے بغیر ہی دعائیں کرتے رہنا چاہئے.اور میں جانتا ہوں کہ جماعت کے مخلصین کو از خود اس امر کی طرف غیر معمولی توجہ ہے.جو خدا کے فضل سے جماعت کے اخلاص اور روحانی زندگی کی علامت ہے.لیکن پھر بھی چونکہ قرآن مجید تذکیر یعنی بار بار کی یاد دہانی کا حکم دیتا ہے اس لئے میں اس نوٹ کے ذریعہ اپنے بھائی بہنوں کو پھر اس ضروری امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں.دنیا داروں کی نظر میں تو دعا نعوذ باللہ ایک عبث فعل ہے بلکہ خود مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی دعا کو ایک عبادت سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل جن کے ذریعہ اسلام کا دوبارہ احیاء ہوا ہے ہماری جماعت خدا کے فضل سے اس بات کو اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہے کہ دعا ایک زبر دست طاقت ہے.جو ایٹم بم سے بڑھ کر زمین آسمان میں تغیر عظیم پیدا کر سکتی ہے اور کرتی رہی ہے.ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لَا يُرَدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاء

Page 651

مضامین بشیر جلد سوم یعنی قضاء وقد رکو بدلنے کی طاقت دعا کے سوا کسی اور چیز کو حاصل نہیں.629 اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دعا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہام یہی فرمایا ہے کہ ( دراصل ) جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا اس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے.مگر اکثر لوگ دعا کی اصل فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دعا کے ٹھیک ٹھکانے پر پہنچنے کے واسطے کس قد رتوجہ اور محنت درکار ہوتی ہے.دراصل دعا کرنا ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا ہے.پس میں مخلصین جماعت سے دوبارہ ، سہ بارہ بلکہ بار بار اپیل کرتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے لئے دعا کرنے میں ہرگز ہرگز ستی اور غفلت سے کام نہ لیں بلکہ اپنی ان روحانی کوششوں کو پہلے سے بھی تیز تر کردیں.حضور کی بیماری (جس کے بعض پہلوؤں میں بے شک کسی قدرا فاقہ بھی ہے ابھی تک ) کافی تشویشناک ہے.بلکہ اس سے زیادہ قابل فکر ہے جو اکثر دوستوں کا خیال ہے.بلکہ ہمیں بعض دفعہ خیال ہوتا ہے کہ اگر ممکن ہو حضور کے علاج کے لئے یورپ سے کوئی ماہر ڈاکٹر بلایا جائے مگر یہ باتیں کافی غور اور مشورہ چاہتی ہیں اور پھر ہر کام خاص انتظام کے بغیر ممکن بھی نہیں ہوتا.لیکن بہر حال جو ہتھیار ہمارے اختیار میں ہے اس کے استعمال میں تو غفلت نہیں ہونی چاہئے.محرره 16 جون 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 18 جون 1959ء) مصائب میں صبر کا کامل نمونہ دنیا دار الابتلاء ہے جس میں انسان کے لئے کئی قسم کے ابتلاء اور امتحان اور مصائب اور حوادث پیش آتے رہتے ہیں اور کوئی انسان بھی ان مصائب سے مستی نہیں.بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ سب سے زیادہ مصائب کا نشانہ انبیاء کی مقدس جماعت بنتی ہے.کیونکہ خدا ان کے ذریعہ مومنوں میں اخلاق کی پختگی پیدا کرنا اور صبر ورضا کی تعلیم دینا چاہتا ہے.اور پھر جو لوگ صبر کرتے ہیں وہی خدا کی طرف سے خاص رحمتوں

Page 652

مضامین بشیر جلد سوم 630 اور برکتوں کے وارث بنتے ہیں.قرآن مجید فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ط وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ تت وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقره: 156-158) یعنی ہم تمہیں اس دنیا کی زندگی میں بعض امتحانوں میں ڈالیں گے.تم پر کبھی کبھی خوف و ہراس کی حالت پیدا ہوگی اور کبھی تمہیں بھوک اور تنگی ستائے گی اور کبھی تمہارے اموال کا نقصان ہوگا اور کبھی جانیں ضائع کی جائیں گی.اور کبھی تم اپنی محنتوں کے پھل سے محرومی دیکھو گے.پھر جولوگ ان حالات میں صبر اور رضا بالقضاء سے کام لیں گے انہیں اے رسول تو ہماری طرف سے بشارت دے.ہاں وہی صبر کرنے والے کہ جب انہیں کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم سب خدا کے بندے ہیں.جو چیز وہ دیتا ہے اور جو چیز وہ لیتا ہے وہ سب خدا کی ہے اور اسی کی طرف ہم نے اپنی اخروی زندگی کے لئے لوٹ کر جانا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور یہی لوگ زندگی کے صحیح معیار اور ہدایت پر قائم ہیں.یہ لطیف اور جامع آیت صبر و رضا کے متعلق اسلامی تعلیم کا مرکزی نقطہ ہے.اس میں تین اصولی باتوں کی تعلیم دی گئی ہے.اول یہ کہ دنیا میں انسان کو مختلف قسم کے مصائب پیش آنے ضروری ہیں جو انسانی اخلاق کی تکمیل اور اخلاق کی پختگی کے لئے ضروری ہے.جیسا کہ لفظ لَنَبْلُوَنَّكُمُ میں اشارہ کیا گیا ہے.پس ہر مومن کو اس قسم کے مصائب کے لئے تیار رہنا چاہئے.دوسرے اس آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب کسی انسان کو کوئی مصیبت پیش آئے تو اسے جزع فزع یا خدا کی تقدیر پر اعتراض اور نکتہ چینی کرنے کی بجائے کامل صبر اور رضا کے مقام پر قائم رہنا چاہئے.اور اس کی زبان پر اور اس کے دل میں اس ابدی حقیقت کے سوا کوئی بات نہیں آنی چاہئے کہ جو خدا نے لیا وہ اسی کا تھا اور جو خدا دے گا وہ بھی اسی کا ہوگا اور ہم سب نے بالآخر اسی کے پاس جمع ہونا ہے.تیسرے اس آیت میں یہ عظیم الشان بشارت دی گئی ہے کہ مومنوں کا صبر ہرگز ضائع نہیں جائے گا.بلکہ وہ خدا کی طرف سے بے شمار رحمتیں اور بے شمار برکتیں پائیں گے.کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کی رضا کے مطابق صحیح ہدایت اور صحیح مقام پر قائم ہیں.اور دوسری جگہ فرما تا ہے کہ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِینَ یعنی صبر کرنے والوں کا سب سے بڑا اجر یہ ہے کہ خدا جوز مین و آسمان کا مالک ہے ایسے لوگوں کے ساتھ ہو گا جو صبر کریں گے.اور خدا کی رفاقت اور اس کی حفاظت سے بڑھ کر کس کی رفاقت اور کس کی حفاظت ہو سکتی ہے؟ کیا صبر کے متعلق اس سے بڑھ کر تفصیلی اور جامع ہدایت کسی اور مذہب

Page 653

مضامین بشیر جلد سوم 631 نے دی ہے یا دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ہر گز نہیں.یہ اسی پاک تعلیم کا اثر تھا کہ ہمارے آقا سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اکلوتے بچے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات پر جو آپ کی عمر کے آخری حصہ میں واقع ہوئی تھی جس کے بعد آپ کو کسی اور نرینہ اولاد کی امید نہیں تھی وہ عظیم الشان الفاظ فرمائے جو رہتی دنیا تک صبر اور رضا بالقضاء کا بہترین نمونہ رہیں گے.آپ نے فرمایا: إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا تَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَىٰ رَبَّنَا وَإِنَّا بِفَراقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْرُونُون - ( صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی آنا ایک لمحزونون) یعنی ہماری آنکھ اپنے پیارے بچے کی وفات پر آنسو بہاتی ہے اور دل غم محسوس کرتا ہے مگر ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ جس بات میں خدا راضی ہے اسی میں ہم راضی ہیں.اور ہم خدا کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ہر حال میں صابر و شاکر ہیں.ہاں بچہ کی جدائی کا غم ہمیں ضرور ہے اور وہ انسان کی فطری محبت اور فطری شفقت کا ایک طبعی نتیجہ ہے.اب دیکھو اور غور کرو کہ ہمارے مقدس رسول (فدا نفسی) نے ہمیں جو تعلیم خدائے عرش سے علم پا کر قرآن کے ذریعہ دی تھی اس کا آپ نے خود کیسا اعلیٰ اور کیسا مکمل نمونہ پیش کیا ہے.فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بچے ابراہیم کی وفات کا غم تو ہے اور بہت ہے جو ایک طبعی اور فطری امر ہے.اس غم کو میرا دل محسوس کرتا ہے اور میری آنکھ آنسوؤں کے ذریعہ اس کی غمازی بھی کر رہی ہے مگر میری زبان پر کوئی ایسا کلمہ نہیں آسکتا جو خدا کی دی ہوئی تعلیم اور اس کی رضا کے خلاف ہو.بلکہ میں ہر حال میں اس کی تقدیر پر صابر وشا کر ہوں.اور آپ زبان سے جزع فزع کرنے یا بال نوچنے یا چھاتی پیٹنے یا خدائی تقدیر کے متعلق کوئی اعتراض کا کلمہ زبان پر لانے کو ایسی نفرت اور نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے کہ ایک دفعہ جب بعض عورتوں نے اپنے کسی عزیز کی وفات پر نا جائز جزع فزع کیا اور اپنی زبان سے بعض نا مناسب کلمات نکالے تو آپ نے سخت غصہ کے ساتھ فرمایا کہ جاؤ ان کے منہ میں مٹی بھر دو یہ اس لئے تھا کہ آپ کی تمام توجہ کا مرکزی نقطہ خدا کی ذات تھی اور آپ اس پختہ ایمان پر قائم تھے کہ انسان کی اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے.جب کہ اس نے اس دنیا کے اعمال کا پھل پانا اور خدا کے حضور حاضر ہونا ہے.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.چنانچہ جب آپ کا آخری بچہ اور ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد فوت ہوا اور فوت بھی ایسے وقت میں ہوا کہ جب خدا کے متواتر الہامات کے ماتحت خود آپ بھی اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے تھے تو آپ نے کمال ہمت اور

Page 654

مضامین بشیر جلد سوم کمال صبر کے ساتھ فرمایا: جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا 632 بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اے دل تو جاں فدا کر ( در مشین اردو) دیکھو ان اشعار میں بھی بعینہ انہی جذبات کا اظہار ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچے حضرت ابراہیم کی وفات پر ظاہر فرمائے.یعنی ایک طرف اپنے گہرے قلبی غم کا اظہار ہے جو ایک فطری امر ہے اور دوسری طرف خدا کی تقدیر پر کامل صبر و رضا کا مقام ہے جو تو حید کا مرکزی نقطہ ہے.اور جب مبارک احمد کی وفات کا سن کر بعض احباب بیرون جات سے افسوس کے لئے قادیان آئے اور مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے ساتھ ایسے ایمان افروز رنگ میں گفتگو فرمائی کہ مجھے خوب یاد ہے کہ حضور کی یہ گفتگو سن کر خلیفہ رجب دین صاحب مرحوم نے جو خواجہ کمال دین صاحب مرحوم کے خسر تھے حیران ہو کر کہا کہ : " حضرت ! ہم تو آپ کو تسلی دینے آئے تھے اور آپ ہمیں تسلی دے رہے ہیں !! مگر اسلامی صبر ورضا کے بارے میں ایک اور بات بھی ضرور یا درکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ صبر کا اصل وقت کسی مصیبت کے دھکے کا ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے ورنہ بعد میں تو ہر انسان کو آہستہ آہستہ صبر آ ہی جاتا ہے اور دلوں کے گہرے گھاؤ بھی کچھ وقت کے بعد مندمل ہو جاتے ہیں.پس اسلامی تعلیم کے مطابق حقیقی طور پر صابر انسان وہی سمجھا جائے گا جو کسی مصیبت کے ابتدائی دھکے کے وقت صبر کرتا اور رضا بالقضاء کے مقام پر فائز رہتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے جہاں ایک عورت اپنے بچے کے مرنے پر بڑی بے صبری کا اظہار کر کے ناجائز جزع فزع کر رہی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لے گئے اور فرمایا ” مائی صبر کرو خدا تمہیں اس صبر کا اجر دے گا.اس جاہل عورت نے سامنے سے کہا ” تمہارا بچہ فوت ہوتا تو تب تمہیں پتہ لگتا.آپ اس کی حالت کو دیکھ کر وہاں سے خاموشی کے ساتھ چلے آئے اور غالبا دل میں فرماتے ہوں گے کہ یہ نالائق کیا جانے کہ میرے کتنے بچے فوت ہو چکے ہیں ؟ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 655

مضامین بشیر جلد سوم 633 واپس تشریف لے گئے تو اس عورت کو لوگوں نے بتایا کہ یہ تو نے کیا جواب دیا یہ تو رسول پاک تھے“ اس پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں صبر کرتی ہوں ، آپ نے فرمایا: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأولى ( صحیح بخاری کتاب الجنائز باب زيارة القبور ) یعنی اصل صبر تو وہ ہے جو انسان کسی صدمہ کے ابتدائی دھکے کے وقت دکھاتا ہے.اور یہی صحیح صورت ہے.ورنہ جب کسی نے جزع فزع کر کے اور چیخ و پکار سے اپنے دل کی بھڑاس نکال کر صبر کیا تو وہ صبر کس کام کا ؟ وہ تو دراصل تھک کر اور اپنے آپ کو بے بس پا کر ہتھیار ڈالنے والی بات ہے.پس میں اپنے عزیزوں اور دوستوں اور جماعتی بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ صحیح اسلامی صبر کے مقام پر قائم رہیں.اور ایسا کامل صبر دکھائیں جو قرآن نے سکھایا ہے اور جس کا ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم اور پھر ہمارے سردار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگیوں میں بہترین نمونہ پیش کیا ہے.اسلام فطرت کا مذہب ہے وہ نہ تو طبعی غم کے واجبی اور جائز اظہار سے روکتا ہے اور نہ ایسی جزع فزع اور ایسی چیخ و پکار کی اجازت دیتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان تو حید کے مرکزی نقطہ سے متزلزل ہو جائے.اور وہ سچا صبر یہی ہے جس پر رسول پاک (فداہ نفسی) قائم تھے یعنی : ہے کہ: إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا تَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَىٰ رَبَّنَا ( صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی آنا ایک لمحزونون) اور یہ وہی صبر ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس مصرع میں ارشاد فرمایا ہلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اے دل تو جاں فدا کر اور یقیناً یہ وہی صبر ہے جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ: أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ (البقره: 158) وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (محرره 15 جون 1959 ء) روزنامه الفضل ربوہ 18 جون 1959ء)

Page 656

مضامین بشیر جلد سوم اڑیسہ کانفرنس کے موقع پر پیغام 634 مورخہ 24 و 25 مئی کو سونگھڑا میں ساتواں آل اڑیسہ احمدیہ کا نفرنس کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے حسب ذیل پیغامات احباب جماعت کے نام پڑھے گئے.ربوه 59-9-10 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ مکرمی و محترمی مولوی فضل الرحمن صاحب پراونشل امیر انجمن احمد یہ اڑیسہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا خط موصول ہوا.اللہ تعالیٰ مجوزہ کانفرنس موضع سونگھڑ ا کو اپنے فضل و کرم سے کامیاب کرے اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.میرا پیغام یہ ہے کہ یہ ایک خاص زمانہ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: اک زماں کے بعد پھر آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آئیں یہ دن اور یہ بہار ( در مشین اردو) پس بکوشید اے جوانان تا بدیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا ( در مشین فارسی ) اسلام اور احمدیت کی تبلیغ میں مصروف رہیں اور اپنا نمونہ اسلام اور احمدیت کے مطابق بنا ئیں اسی میں کامیابی کا راز ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.فقط والسلام (خاکسار مرزا بشیر احمد ) (روز نامہ الفضل ربوہ یکم جولائی 1959ء)

Page 657

مضامین بشیر جلد سوم 635 30 عید الاضحی کی قربانیاں مولانا غلام مر شد صاحب کا خطبہ عید قربان شاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا غلام مرشد صاحب نے جو ایک عمدہ سلجھی ہوئی طبیعت رکھنے والے عالم ہیں لِكُلِّ عَالِم هَفَوَةٌ کے مطابق اس عید الاضحی کے خطبہ میں یہ تحریک کی ہے کہ جانوروں کی قربانی کی بجائے روپوں سے قومی کاموں میں امداد دیدی جایا کرے.مولانا کی یہ تجویز اسلامی روح، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور آپ کے ارشادات کے صریح خلاف ہے.اس قسم کی باتوں سے الحاد اور اباحت کا ایسا باب وا ہوتا ہے کہ پھر دین کی شکل ہی مسخ ہو جاتی ہے.ذیل میں ہم رفتار زمانہ (18 جون ) اور الاعتصام (26 جون ) سے بصد شکر یہ اس بارے میں دو قیمتی مضمون نقل کرتے ہیں.رفتار زمانہ والا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کا جامع مضمون عام سوالات کے جواب میں ہے.الاعتصام والا مولانا سید محمد داؤ د صاحب غزنوی کا ٹھوس مضمون خاص مولوی غلام مرشد صاحب کے جواب میں ہے.(ایڈیٹر ) عیدالاضحی کی قربانیاں سوال یہ ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی واجب ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ اگر واجب یا ضروری کا سوال ہو تو غیر حاجی تو در کنار حاجیوں پر بھی قربانی ہر صورت میں واجب نہیں ہے.بلکہ اس کے لئے شریعت نے بعض خاص شرطیں لگائی ہیں.مثلاً خالی حج کرنے والے پر ( جو اصطلاحاً افراد کہلاتا ہے ) قربانی واجب نہیں بلکہ صرف اس صورت میں واجب ہے کہ وہ یا تو حج اور عمرہ کو ایک ہی وقت جمع کرنے والا ہو.جسے اسلامی اصطلاح میں تمتع یا قران کہتے ہیں ( قرآن شریف سورۃ بقرہ آیت 197 ) اور یاوہ ایسے حاجی پر واجب ہے جو حج کی نیت سے نکلے مگر پھر حج کی تکمیل سے پہلے کسی حقیقی مجبوری کی بناء پر حج ادا کرنے سے محروم ہو جائے.(سورہ بقرہ آیت 197 ) اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مالی لحاظ سے قربانی کی طاقت رکھتا ہو.ورنہ وہ قربانی کی بجائے روزہ کا کفارہ پیش کر سکتا ہے.پس جب ہر حالت میں حاجیوں کیلئے بھی قربانی فرض نہیں تو یہ کس طرح دعوی کیا جا سکتا ہے کہ غیر حاجیوں کے لئے وہ فرض یا واجب ہے؟

Page 658

مضامین بشیر جلد سوم 636 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے شک قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے غیر مستطیع لوگوں کے لئے قربانی واجب نہ سہی مگر کیا وہ ایسے طاقت رکھنے والے مستطیع لوگوں کے لئے واجب ہے جو غیر حاجی ہوں؟ سواس کے جواب میں اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرض یا واجب یا سنت و غیرہ فقہی اصطلاحیں استعمال نہیں کیں مگر صحیح حدیث سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کی اور اپنے صحابہ کو بھی اس کی تاکید فرمائی.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ عَنْ أَبِي عُمَرَ قَالَ أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشَرَ سِنِيْنَ يُضَحِى (ترندی) یعنی حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں دس سال گزارے.آپ نے ہمیشہ عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کی.بلکہ آپکو عید الاضحی کی قربانی کا اس قدر خیال تھا کہ آپ نے وفات سے قبل اپنے داما داور چچازاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ میرے بعد بھی میری طرف سے عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرتے رہنا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ عَنْ حَنَشَ قَالَ رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُضَحِي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ مَا هَذَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أَضَحِيَ عَنْهُ فَإِنَّهُ أَضَحِيَ عَنْهُ.(ابوداؤد) یعنی حنش روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا کہ وہ عید الاضحیٰ کے موقع پر دود نے قربان کر رہے تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ دور نبوں کی قربانی کیسی ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی ( آپ کی وفات کے بعد ) کرتا رہوں.سو میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں.عید الاضحی کے دن قربانی کرنا آپ کا ذاتی فعل ہی نہیں تھا بلکہ آپ اپنے صحابہ کو بھی اس کی تحریک فرماتے تھے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ خَطَبْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّي ثُمَّ نَرْجِعَ فَتَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَالِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنتَنَا.( بخاری ومسلم) یعنی حضرت براء روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عید الاضحی کے دن خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ اس دن کام یہ کرنا چاہئے کہ انسان عید کی نماز ادا کرے اور پھر اس کے بعد قربانی دے.

Page 659

مضامین بشیر جلد سوم 637 سوجس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا.اوپر کی حدیث میں ایک طرح سے سنت کا لفظ بھی آ گیا ہے اور چونکہ یہ اصطلاحی طور پر استعمال نہیں ہوا اس لئے اس سے وجوب کا پہلو بھی مراد ہوسکتا ہے.اور ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ مَنْ وَجَدَ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَّحُ فَلَا يَقْرِبْنَ مَصَلَّانَا (مسند احمد جلد 2 صفحہ 321) یعنی جس شخص کو مالی لحاظ سے توفیق ہو اور پھر وہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی نہ کرے اس کا کیا کام ہے کہ ہماری عید گاہ میں آکر نماز میں شامل ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد جس تاکید کا حامل ہے وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں.اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر دوسرے ارشاد کو مقبولیت کی برکت حاصل ہوئی.اسی طرح اس ارشاد کو بھی صحابہ کرام نے اپنے حرز جان بنایا.چنانچہ حدیث میں لکھا ہے.عَنْ جَبِلَّةَ بنِ سَحِيمٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْأَضْحِيَّةِ أَوْ أَجِبَةٌ هِيَ فَقَالَ ضَحْى وَالْمُسْلِمُونَ فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ فَقَالَ الْتَقِلْ ضَحَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ.(ترندی) یعنی جبلہ ابن تیم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا کہ کیا عید الاضحیٰ کی قربانی واجب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی قربانی کرتے تھے اور آپ کی اتباع میں صحابہ بھی قربانی کرتے تھے.اس شخص نے اپنے سوال کو پھر دُہرایا اور کہا کیا قربانی واجب ہے ؟ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ تم میری بات سمجھ نہیں سکے.میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی قربانی کیا کرتے تھے اور آپ کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام صرف شوق کی خاطر یا دوستوں اور غریبوں کو گوشت کھلانے کی غرض سے نہیں تھا بلکہ اسے ایک دینی کام سمجھتے اور بھاری ثواب کا موجب خیال فرماتے تھے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رض عن زيد بن ارقم قَالَ قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُول اللَّهِ مَا هذِهِ الْاضَاحِيَ قَالَ سُنَّةُ أَبِيْكُمْ إِبْرَاهِيمَ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِيْهَا يَا رَسُوْلَ اللَّهِ قَالَ بِكُلِّ شِعْرَةٍ حَسَنَةٍ (ابن ماجه ومسند احمد بحوالہ مشکوۃ شریف) یعنی زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ سے دریافت کیا

Page 660

مضامین بشیر جلد سوم کہ یارسول اللہ یہ عید الاضحیٰ کی قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیم کی انہوں نے پوچھا کہ ان میں کتنا ثواب ہے؟ 638 آپ نے فرمایا.قربانی کے جانور کے جسم کے ہر بال میں قربانی کرنے والے کے لئے ایک نیکی ہے جوا سے خدا سے اجر پانے کی مستحق بنائے گی.ایک اور موقع پر آپ نے نہ صرف اپنی طرف سے قربانی کی بلکہ تحریک اور تاکید کی غرض سے اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی دی.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ عَنْ عَائِشَةٌ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَمُشِ ثُمَّ ذَبَحَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلُ مِنْ مُحَمَّدٍ وَ آل مُحَمَّدٍ وَ مِنْ أُمَّةٍ مُحَمَّدٍ ( صحيح مسلم ) یعنی عائشہ روایت کرتی ہیں کہ عید کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دنبہ منگوایا.پھر اسے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور کہا کہ میں یہ دُنبہ خدا کے نام سے ذبح کرتا ہوں اور پھر دعا فرمائی کہ اے میرے خدا اس قربانی کو تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آل کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ساری اُمت کی طرف سے قبول فرما.کیا ان واضح اور قطعی روایتوں کے ہوتے ہوئے جو صرف نمونہ کے طور پر لی گئی ہیں کوئی سچا اور واقف کار مسلمان اس بات کے کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے ہے اور غیر حاجیوں کے لئے عید الاضحیٰ کے موقع پر کوئی قربانی مقرر نہیں.بے شک یہ درست ہے قربانی صرف طاقت رکھنے والوں پر واجب ہے اور بعض احادیث سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ اگر سارے گھر کی طرف سے ایک مستطیع شخص قربانی کر دے تو یہ قربانی سب کی طرف سے سمجھی جاسکتی ہے ( نسائی و ترمندی بحوالہ مشکوۃ ) مگر بہر حال عید الاضحی کے موقع پر حسب توفیق قربانی کرنا ہمارے رسول (فداہ نفسی) کی ایک سنت ہے.جس کے متعلق ہمارے آقا نے تاکید فرمائی اور اسے بھاری ثواب کا موجب قرار دیا ہے.اس موقع پر لوگ یہ سوال اٹھایا کرتے ہیں کہ بیشک حدیثوں میں عید الاضحیٰ کی قربانی کا ثبوت ملتا ہے.لیکن چونکہ قرآن شریف میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے اس لئے ایک زائد قسم کی بات سمجھی جائے گی جسے زمانے کے حالات کے تحت ترک کیا جا سکتا ہے.مگر یہ نظریہ بالکل الحاد اور اباحت اور زندیقی رجحانات سے معمور ہے.کیا قرآن شریف نے یہ نہیں فرمایا کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب:22)

Page 661

مضامین بشیر جلد سوم 639 یعنی اے مسلمانو ! تمہارے لئے رسول خدا کی سنت میں ایک بہترین نمونہ ہے جسے تمہیں اپنی زندگیوں کے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے.اور دوسری جگہ فرماتا ہے اور بار بار کثرت کے ساتھ فرماتا ہے.أطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ (النساء : 60) یعنی اے مسلمانو! خدا کی اطاعت کرو اور اس کے ساتھ ساتھ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی کرو.اب اگر خدا کی اطاعت یعنی دوسرے الفاظ میں قرآنی وحی پر ہی سارے اسلامی احکام کا خاتمہ ہو گیا تھا تو پھر قرآن شریف کو ان الفاظ کے زیادہ کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اطِيعُوا الرَّسُولَ ، یعنی رسول کی بھی تابعداری کرو حق یہی ہے کہ چونکہ قرآنی وحی میں اختصار کی غرض سے کئی جگہ اجمال کا رنگ ہے اور ہر شخص اجمالی رنگ میں احکام کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا اس لئے خدا تعالیٰ نے کمال حکمت سے رسول کو بھی شریعت کا حصہ قرار دیا ہے تا کہ شریعت میں کوئی پہلو عدم تکمیل کا باقی نہ رہے.اور نہ کوئی شخص جھوٹے عذر بنا کر شریعت کے حکموں کو ٹال سکے.پس اگر ایک بات قطعی شہادت کے ذریعہ سنت اور حدیث سے ثابت ہو جائے تو وہ ہمیں بہر حال قبول کرنی ہوگی.اور میں اس شخص کی جرأت کو یقینا غیر دینی روح کا مظاہرہ خیال کرتا ہوں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رسول کی اُمت میں ہو کر یہ کہتا ہے کہ میں محمد کی بات نہیں مانتا وہ شخص اپنی بیوی اور اپنے بچوں اور اپنے دوستوں کی تو روزانہ سینکڑوں باتیں مانتا ہے مگر جب افضل الرسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بیان کی جاتی ہے تو کہتا ہے یہ نہیں بلکہ کوئی قرآنی آیت پیش کرو.هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تَصِفُونَ.لیکن حق یہ ہے کہ قرآن شریف بھی اس مسئلے میں خاموش نہیں بلکہ اس نے بھی اپنے طریق کے مطابق قربانیوں کے مسئلہ پر اصولی روشنی ڈالی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَه فَصَلَّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُه إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُه (الكوثر : 2-4) یعنی اے رسول ! ہم نے تجھے اسلام کے ذریعہ ایک وسیع اور کامل نعمت عطا کی ہے.اب تجھے اس نعمت کو قائم رکھنے کیلئے چاہئے کہ خدا کی نماز ادا کر ارو اس کے رستہ میں قربانی دے.اس کے نتیجہ میں دین و دنیا کی نعمتیں تیری طرف سمٹی آئیں گی اور تیرا دشمن خیر اور برکت سے محروم رہے گا.یہ آیت بلکہ یہ سورت ( کیونکہ یہ ساری سورت ہے ) مکہ کے آخری زمانہ میں یا مدینہ کے شروع زمانہ میں نازل ہوئی تھی (فتح القدیر امام شوکانی ) جبکہ ابھی تک کعبہ کفار کے قبضہ میں تھا اور حج بھی ابھی فرض نہیں

Page 662

مضامین بشیر جلد سوم 640 ہوا تھا اس لئے اس جگہ نحر یعنی قربانی کے لفظ میں حج کی قربانی مراد نہیں سمجھی جائے گی بلکہ عام قربانی مراد سمجھی جائے گی جس کا سب سے وسیع موقع عید الاضحیٰ کے ایام ہیں اور میں بتا چکا ہوں کہ عید الاضحی کا دوسرا نام يوم النحر بھی ہے.اس کے علاوہ دوسری جگہ حج کے احکام کی ضمن میں قرآن شریف فرماتا ہے کہ فَإِنْ أَحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدَى (البقره: 197) یعنی اے مسلمانو! اگر تم کسی مجبوری کے نتیجہ میں حج سے روک دیئے جاؤ تو تمہیں چاہئے کہ اس کے کفارہ کے طور پر قربانی خدا کے رستہ میں دو.اب بے شک یہ آیت بظاہر ان کے لئے ہے جو حج کے ارادے سے نکلیں اور پھر رستہ میں کسی مجبوری ( مثلاً بیماری یا دشمن کے روکنے یا زادِ راہ کے ضائع ہو جانے وغیرہ کی وجہ سے حج کی تکمیل سے روک دیئے جائیں) مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتہا درجہ نکتہ رس طبیعت نے غالباً اس قرآنی آیت میں بھی یہ اشارہ سمجھا کہ ہر سچے مسلمان کے دل میں طبعا حج کی خواہش ہوتی ہے اور اگر وہ کسی مجبوری کی وجہ سے حج کو نہیں جاسکتا تو ایک طرح اس کا معاملہ بھی گویا اس آیت کے نیچے آجاتا ہے.جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حج سے روک دیئے جاؤ تو قربانی دو.اگر غور کیا جائے تو اس آیت سے بھی عید الاضحی کی قربانی کا استدلال ہوتا ہے اور اغلب یہ ہے کہ جس طرح مثلاً نماز کے اجمالی حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ نمازوں کے وقتوں کی تعیین فرما کر ان کا حکم دیا ہے.اسی طرح آپ نے حج سے روکے جانے کی صورت میں قربانی دینے کے حکم سے بھی یہ استدلال فرمایا ہو گا کہ وہ مسلمان جو کسی مجبوری کی وجہ سے حج کو نہیں جاسکتا وہ گویا با معنی حاجی کے مفہوم میں آ جاتا ہے.اور اگر وہ قربانی کی طاقت رکھتا ہے کیونکہ طاقت کا ہونا بہر حال لازمی شرط ہے تو اسے چاہئے کہ قربانی دے کر نہ صرف حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد کو تازہ رکھے بلکہ حج کی محرومی کا کفارہ بھی دے.بہر حال قرآن شریف میں فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ.یعنی نماز کو قائم کرو اور قربانی دو“.اس بات کی طرف قطعی اشارہ کر دیتے ہیں کہ قربانی کے حکم کی اصل بنیاد قرآن مجید پر ہی قائم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی دراصل اسی قرآنی حکم کی فرع ہیں.اب رہا یہ سوال کہ آیا عید الاضحیٰ کی قربانی فرض ہے یا کہ واجب یا سنت وغیرہ.سو گو غیر اصطلاحی طور پر سنت کا لفظ اوپر کی حدیثوں میں آچکا ہے مگر بہر حال یہ فقہاء کی اصطلاحیں ہیں جن میں ہمیں جانے کی چنداں ضرورت نہیں.ہمارے لئے صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ قربانی کے حکم کی بنیاد قرآن نے قائم فرمائی.اور پھر اس بنیاد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اقوال اور ارشادات نے مستحکم کیا اور آنحضرت صلی اللہ

Page 663

مضامین بشیر جلد سوم 641 علیہ وسلم نے اسے بھاری ثواب کا موجب قرار دیا.لیکن اگر کسی صاحب نے ائمہ فقہ کا مذہب اور ان کی اصطلاح میں بھی اس مسئلہ کا مطالعہ کرنا ہو تو اس کے لئے ذیل کے دو مختصر سے حوالے کافی ہونے چاہئیں.کتاب الفقه علی المذاہب الاربعة طبع مصری جلد نمبر 1 صفحہ 594،593 میں مرقوم ہے.ترجمہ.یعنی عید الاضحی کی قربانیوں کی مشروعیت پر تمام مسلمانوں کا اجتماع ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ عام ائمہ فقہ کے نزدیک تو عید الاضحی کی قربانی ایک سنتِ مؤکدہ ہے لیکن حنفی اماموں کا فتویٰ ہے کہ وہ محض سنت نہیں بلکہ واجب ہے.اور بہر صورت اس کی شرط یہ ہے کہ انسان مالی لحاظ سے اس کی طاقت رکھتا ہو اور ترمذی کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ اخـتـلـفـوا ان الاضحية واجبة أو سنة فذهب ابو حنيفة وصاحباه الى أنها واجبة عـلـى كــل حرّ مسلم مقيم موسرو عند الشافعى سنة مؤكدة وهو المشهور في مذهب مالك انها سنة واجبة على من استطاعھا.(حاشیہ ترندی) یعنی اس بات میں اختلاف ہوا ہے کہ عید الاضحیٰ کی قربانی واجب ہے یا کہ سنت.امام ابوحنیفہ اور ان کے دو ساتھیوں امام ابو یوسف اور امام محمد کا مذہب یہ ہے کہ ہر آزاد مقیم صاحب استطاعت مسلمان پر قربانی واجب ہے مگر امام شافعی کے نزدیک واجب نہیں بلکہ سنتِ مؤکدہ ہے.اور یہی مشہور مذہب امام احمد کا ہے اور امام مالک کے نزدیک عید کی قربانی کرنے والے کو اگر اس کی طاقت ہو تو یہ سنتِ واجبہ ہے.ان دو حوالوں سے ظاہر ہے کہ حنفی اماموں کے نزدیک (اور مغربی پاکستان میں قریباً نوے فیصد حنفی اصحاب ہی ہیں ) عید الاضحی کی قربانی ہر طاقت رکھنے والے مسلمان پر واجب ہے اور قریباً یہی مذہب امام مالک کا ہے.مگر دوسرے دو اماموں کے نزدیک وہ واجب تو نہیں مگر سنت مؤکدہ ضرور ہے.یعنی وہ ایسی سنت ہے جس کے متعلق شارع اسلام نے اپنے قول اور فعل کے ذریعہ خاص تاکید فرمائی ہے.بس اس سے زیادہ مجھے اس مسئلہ میں فقہی لحاظ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.وَ حَسْبُكَ مَا قَالَ اللهُ وَالرَّسُولَ - وَلَا جَرَمَ أَنَّهُ هُوَ الْقَوْلُ الْمَقْبُول - (ماہنامہ الفرقان ربوہ جون، جولائی 1959ء)

Page 664

مضامین بشیر جلد سوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بحر کا مزعومہ واقعہ 642 تاریخ بلکہ حدیثوں تک میں بیان ہوا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نعوذ باللہ ایک دفعہ ایک یہودی نسل منافق نے جس کا نام لبید بن اعصم تھا سحر کر دیا تھا.اور یہ سحر اس طرح کیا گیا کہ ایک کنگھی میں بالوں کی گر ہیں باندھ کر اور اس پر کچھ پڑھ کر اسے ایک کنویں میں دبا دیا گیا.اور کہا جاتا ہے کہ آپ نعوذ باللہ اس سحر میں کافی عرصہ تک مبتلا ر ہے.اس عرصہ میں آپ اکثر اوقات اداس اور افسردہ رہتے تھے اور گھبراہٹ میں بار بار دعا فرماتے تھے اور اس حالت کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپ کو ان ایام میں بہت زیادہ نسیان رہنے لگا تھا.حتی کہ بسا اوقات آپ خیال کرتے تھے کہ میں یہ کام کر چکا ہوں مگر دراصل آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا.یا بعض اوقات آپ خیال فرماتے تھے کہ میں اپنی فلاں بیوی کے گھر ہو آیا ہوں مگر در حقیقت آپ اس کے گھر نہیں گئے ہوتے تھے.(اس تعلق میں یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کا یہ طریق تھا کہ اسلامی احکام کے مطابق آپ نے اپنی بیویوں کی باری مقرر کر رکھی تھی اور ہر روز شام کو ہر بیوی کے گھر جا کر خیریت دریافت فرماتے تھے.اور بالآخر اس بیوی کے گھر پہنچ جاتے تھے جس کی اس دن باری ہوتی تھی.اوپر والی روایت میں اسی طرف اشارہ ہے ) بالآخر خدا تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ آپ پر اس فتنہ کی حقیقت کھول دی وغیرہ وغیرہ.( خلاصه روایات بخاری وابن سعد و غیره) یہ اس روایت کا خلاصہ ہے جو تاریخ اور حدیث کی بعض کتابوں میں بیان ہوئی ہے.اور اس روایت کے گرد ایسے قصوں کا جال بن دیا گیا ہے کہ اصل حقیقت کا پتہ لگانا مشکل ہو گیا ہے.اور اگر ان سب روایتوں کو قبول کیا جائے تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک اور مقدس وجود ایسا ثابت ہوتا ہے کہ گویا ( خاکم بدہن ) آپ ایک بہت کمزور طبیعت کے انسان تھے جسے کم از کم دنیا کے معاملات میں آپ کے بد باطن دشمن اپنی سحر کاری سے جس قالب میں چاہتے تھے ڈھال سکتے تھے.اور یہ کہ وہ آپ کو اپنی نا پاک توجہ کا نشانہ بنا کر آپ کے دل و دماغ پر اس طرح تصرف جمانا شروع کر دیتے تھے کہ آپ نعوذ باللہ اس سحر کاری کے مقابل پر اپنے آپ کو بے بس پاتے تھے وغیرہ وغیرہ.لیکن اگر ان روایات کے متعلق معقولی اور منقولی طریق پر غور کیا جائے اور روایات کی محققانہ چھان بین کی جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک مرض نسیان کا عارضہ تھا.جو بعض وقتی تفکرات اور پیش آمدہ جسمانی ضعف کے نتیجہ میں آپ کو کچھ وقت کے لئے لاحق ہو گیا تھا.جس سے بعض بدخواہ دشمنوں نے فائدہ اٹھا کر یہ مشہور کر دیا کہ ہم نے نعوذ باللہ مسلمانوں

Page 665

مضامین بشیر جلد سوم 643 کے نبی پر جادو کر دیا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو بہت جلد صحت دے کر دشمنوں کے منہ کالے کر دیئے اور منافقوں کا جھوٹا پروپیگنڈا خاک میں مل گیا.لیکن پیشتر اس کے ہم واقعہ کی اصل حقیقت پر بحث کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لفظ سحر کی کسی قدر تشریح کر دی جائے.سو جاننا چاہئے کہ سحر ایک عربی لفظ ہے جس کے بنیادی معنی ایسی بات کے ہیں جس کا سبب تو مخفی ہو مگر اس کا نتیجہ ظاہر میں نظر آئے.چنانچہ لغت والے لکھتے ہیں کہ السِّحْرُ مَا لَطُفَ مَاخِذُهُ وَدَق (اقرب الموارد).یعنی سحر ا سے کہتے ہیں جس کا ماخذ مخفی ہو اور پس پردہ رہے اور صرف اس کے اثرات نظر آئیں.چنانچہ اس بنیادی معنی کی بناء پر سحر کے معروف معنی حسب ذیل سمجھے جاتے ہیں: (1) کسی باطل چیز کو ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ حق کی صورت میں ظاہر کرنا.(2) دوسروں کو دھوکا دینے کے لئے کسی بات میں بار یک حیلہ سازی یا ہاتھ کی پھرتی یا شعبدہ بازی کا طریق اختیار کرنا.(3) کسی غرض کے حصوں کے لئے فتنہ فساد پیدا کر کے اس کا سہارا ڈھونڈ نا.(4) چاندی پر سونے کا پانی چڑھانا یا کوئی ایسا رنگ چڑھانا جس سے وہ بظا ہر سونا نظر آئے.(5) ایسے مؤثر اور فصیح و بلیغ رنگ میں کلام کرنا کہ سنے والا شخص دنگ رہ جائے یا دھوکہ کھا جائے.(6) علم توجہ یعنی ہینوٹزم کے ذریعہ کسی دوسرے انسان کے دل ودماغ پر یا کسی دوسری چیز پر وقتی اثر پیدا کر دینا.(7) عرف عام والا جادو جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ شیطانی طاقتوں کی مدد سے بعض تصرفات کئے جاتے ہیں.(اقرب الموارد اور مفردات راغب) یہ وہ سات معنی ہیں جو لغت کی رو سے یا عام محاورہ کی رو سے لفظ سحر کے ثابت ہوتے ہیں.ان میں سے ساتویں معنی (یعنی یہ کہ شیطانی طاقتوں کی امداد سے کوئی غیر معمولی تصرف کیا جائے ) تو جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کا تعلق ہے بالکل نا قابل قبول اور قطعی طور پر مردود ہیں.دنیا بھر میں شیطانی طاقتوں کا فاتح اعظم اور افضل الرسل جس سے بڑھ کر طاغوتی قوتوں کا سر کچلنے والا نہ آج تک پیدا ہوا اور نہ آئندہ ہوگا.اس کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ ایک ذلیل یہودی زادے کے شیطانی سحر کا نشانہ بن گیا تھا عقل انسانی کا بدترین استعمال ہے.اور یہ صرف ہمارا دعوی ہی نہیں بلکہ خود سرور کائنات (فدا نفسی ) نے اس کی تردید فرمائی ہے:

Page 666

مضامین بشیر جلد سوم 644 قَالَ مَعَ كُلِّ إِنْسَانِ شَيْطَانٌ قَالَتْ عَائِشَةَ وَ مَعَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ نَعَمْ وَلَكِنَّ رَبِّي إِعَانَتِي عَلَيْهِ حَتَّى أَسْلَمَ (صحیح مسلم) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ ہر انسان کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے.حضرت عائشہؓ نے حیران ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کے ساتھ بھی کوئی شیطان لگا ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں.مگر خدا نے مجھے شیطان پر غلبہ عطا فرمایا ہے.حتیٰ کہ میرا شیطان بھی مسلمان ہو چکا ہے.کیا اس واضح اور صریح ارشاد کے ہوتے ہوئے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ کسی یہودی منافق نے جو قرآن کی رو سے ایک مغضوب علیہ قوم ہے اپنے شیطان کی مدد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے بلند مرتبہ انسان پر جادو کر دیا ہو گا.اور آپ اس شیطانی جادو سے متاثر ہو کر مدتوں پریشان اور مغموم اور بیما رر ہے؟ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا يَصِفُون - باقی رہے سحر کے مقدم الذکر پانچ معنی.یعنی چالا کی اور فریب کے طریق پر کسی جھوٹی بات کو سچ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرنا یا ملمع سازی کا طریق اختیار کرنا یا ہوشیاری کے کلام سے دوسروں کو دھوکہ دینا وغیرہ وغیرہ.سو یہ بات کوئی اچنبھا چیز نہیں کیونکہ وہ ہر نبی کے مقابل پر ہوتی آئی ہے اور جھوٹے لوگ حق کے مقابل پر ہر زمانہ میں ایسے باطل حربے استعمال کرتے رہے ہیں.مگر خدائے قدیر و عزیز ایسے تمام جھوٹوں کے پول کھولتا رہا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ : كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي (المجادله : 23) یعنی خدا نے یہ بات لکھ رکھی ہے اور مقدر کر رکھی ہے کہ ہر رسول کے زمانہ میں میں اور میرے رسول ہی ہمیشہ غالب رہیں گے اور کوئی شیطانی حربہ ہمارے مقابلہ پر کامیاب نہیں ہوسکتا.اب رہے سحر کے چھٹے معنی یعنی علم توجہ اور ہنوٹزم کے طریق پر کسی انسان یا کسی چیز پر کوئی وقتی تصرف کر کے کوئی ظاہر میں نظر آنے والی عارضی تبدیلی پیدا کر دینا.سو ہم اس علم کا انکار نہیں کرتے کیونکہ وہ دنیا کے مشاہدہ اور تجربہ سے ثابت شدہ ہے اور قرآن مجید نے بھی اسے تسلیم کیا ہے.چنانچہ حضرت موسی کے قصہ میں قرآن فرماتا ہے: فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى (طه: 67) یعنی جو ساحر لوگ موسی کے مقابل پر آئے تھے انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں موسٹی کے سامنے

Page 667

مضامین بشیر جلد سوم 645 ڈالیں اور پھر ان کے سحر (یعنی علم توجہ کے زور سے موسٹی کے خیال میں یہ رسیاں (سانپوں کی طرح ) دوڑتی پھرتی نظر آئیں.مگر جب حضرت موسی نے خدا کے حکم سے اپنا عصا پھینکا تو اس نے ان خیالی سانپوں کو آنا فانا ملیا میٹ کر کے رکھ دیا اور ساحر مغلوب ہو کر سجدہ میں گر گئے.چنانچہ اس تعلق میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ السَّحِرُ حَيْثُ أَتى (طه: 70) یعنی ان ساحروں نے جو کرتب دکھایا وہ صرف سحر ( یعنی علم توجہ ) کی کارستانی تھی مگر نبیوں کے مقابل پر ایک ساحر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا خواہ وہ کوئی تدبیر اختیار کرے اور خواہ کسی رستے سے آئے.اس آیت کا آخری حصہ یعنی لَا يُفْلِحُ الشجرُ حَيْثُ حضرت موسیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ایک عام اصول کے رنگ میں ہے اور سب رسولوں اور نبیوں کے ساتھ یکساں تعلق رکھتا ہے.لیکن اگر بفرض محال اسے حضرت موسی کے قصہ سے ہی متعلق سمجھا جائے تو تب بھی اس بات کو کس طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم افضل الرسل اور خاتم النبین تھے.جنہوں نے فرمایا ہے اور بالکل حق فرمایا ہے کہ: لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ لِمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِی.(الیواقیت والجواھر جلد 2 صفحہ 22) یعنی اگر موسیٰ اور عیسی میرے وقت میں زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع اور میری اطاعت کے سوا چارہ نہ ہوتا.تو جب حضرت موسی کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا يُفْلِحُ السَّجِرُ حَيْثُ ( یعنی ایک ساحر خواہ کوئی تدبیر اختیار کرے اور خواہ کسی رستہ سے آئے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا) تو کیا نعوذ باللہ نبیوں کے سردار اور سید الاولین والآخرین ہی ایسے رہ گئے تھے کہ مدینہ کا ایک ذلیل یہودی آپ کو اپنی سحر کاری کا ہدف بنا کر لوگوں کی ہنسی کا نشانہ بناتا اور تجربہ کی رو سے بھی علم توجہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ دل و دماغ کے لحاظ سے زیادہ طاقت والا انسان کمزور طاقت والے انسان پر اثر ڈالتا ہے نہ یہ ایک کمزور انسان زیادہ طاقت والے انسان کو مغلوب کر لے!!! مگر میں کہتا ہوں کہ ہمیں اس معاملہ میں بالواسطہ دلیلوں کی بھی حاجت نہیں.کیونکہ قرآن مجید خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بلا واسطہ سحر کی زور دارنفی کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے: نَحْنُ أَعْلَمُ...إِذْ هُمْ نَجْوَى إِذْ يَقُولُ الظَّلِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُوْنَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا أَنْظُرْ

Page 668

مضامین بشیر جلد سوم 646 كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبیله بنی اسرائیل: 48-49) یعنی ہم جانتے ہیں کہ جب یہ لوگ مخفی مشورے کرتے ہیں جب ظالم لوگ کہتے ہیں کہ اے مسلمانو! تم تو ایک سحر زدہ شخص کے پیچھے لگے ہوئے ہو.دیکھ اے رسول ! یہ لوگ تیرے متعلق کیسی کیسی جھوٹی مثالیں گھڑتے ہیں.پس وہ یقینا گمراہ ہیں اور اس حالت میں وہ سیدھے رستہ کی طرف کبھی ہدایت کی توفیق نہیں پاسکتے.اب دیکھو کہ یہ آیت کیسی واضح اور کیسی قطعی اور کیسی صاف ہے اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کافر اور ظالم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء کے طریق پر سحر زدہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں.مگر خدا فرماتا ہے کہ ہم ان لوگوں کی سازشوں کو جانتے ہیں.یہ لوگ جھوٹے اور مفتری ہیں اور صداقت کے پاس تک نہیں پھٹکے.گویا ایک طرف کافروں کا جھوٹا الزام بیان کیا ہے اور دوسری طرف اس کی نہایت زوردار الفاظ میں تردید فرمائی ہے.کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی شہادت ہو سکتی ہے؟ اور لطف یہ ہے کہ اس سورۃ کا نام بھی بنی اسرائیل ہے.تو پھر سوال ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے جو صحیح بخاری تک میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی بیان ہوا ہے.سواگر واقعہ کے سیاق و سباق اور یہودیوں اور منافقوں کے طور طریق کو مد نظر رکھ کر غور کیا جائے تو اس واقعہ کی حقیقت کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہتا.سب سے پہلے تو یہ جانا چاہئے کہ اس مزعومہ سحر کا واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ہے (دیکھو طبقات ابن سعد ) جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک رؤیا کی بناء پر عمرہ کی غرض سے مکہ تشریف لے گئے تھے مگر رستہ میں قریش کے روکنے کی وجہ سے بظاہر نا کام لوٹنا پڑا.و یہ ظاہری نا کامی ایک ایسا بھاری صدمہ تھی کہ کافروں اور منافقوں نے تو مذاق اور طعن و تشنیع سے کام لینا ہی تھا.بعض مخلص مسلمان حتی کہ ایک حدیث میں آتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے بلند پایہ بزرگ بھی اس ظاہری ناکامی کی وجہ سے وقتی طور پر متزلزل ہو گئے تھے (دیکھو بخاری وغیرہ ) ان حالات کا کمزور طبیعت کے لوگوں کے ابتلاء کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت پر طبعا کافی اثر تھا اور آپ کچھ عرصہ تک بہت فکر مند رہے اور لازماً اس فکر کا اثر آپ کی صحت پر بھی پڑا اور آپ اس گھبراہٹ میں خدا کے حضور کثرت سے دعا ئیں فرماتے تھے.جیسا کہ حدیث کے الفاظ دَعَا وَ دَعَا وغیرہ میں اشارہ ہے.تا کہ صلح حدیبیہ کے واقعہ کی وجہ سے اسلام کی ترقی میں کوئی وقتی روک نہ پیدا ہونے پائے.یہ اسی قسم کی دعا تھی جیسی کہ آپ نے بدر کے میدان میں خدا کی طرف سے کامیابی کا وعدہ ہونے کے باوجود دشمن کی ظاہری طاقت کو دیکھ کر فرمائی تھی

Page 669

مضامین بشیر جلد سوم 647 كه اللهُمَّ أَنْ تَهْلَكَ هَذِهِ الْعَصَابَةَ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ - اس پر مزیدا تفاق یہ ہوا کہ آپ نے انہی فکر کے ایام میں اپنے سر مبارک میں درد وغیرہ کے دفعیہ کے لئے سینگیاں بھی لگوائیں.( دیکھو زاد المعاد اور فتح الباری وغیرہ ) جس سے وقتی طور پر مزید ضعف پیدا ہوا جو گوشت پوست کے قانون کا لازمہ ہے.ان وجوہات سے آپ کے اعصاب اور آپ کی قوت حافظہ پر کافی اثر پڑا اور آپ کچھ عرصہ کے لئے مرض نسیان میں مبتلا ہو گئے.جو ایک لازمہ بشری ہے جس سے خدا کے نبی تک مستی نہیں.جب یہودیوں اور منافقوں نے یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آج کل بیمار ہیں اور ضعف اعصاب اور ضعف دماغ کی وجہ سے آپ کو نسیان کا مرض لاحق ہے تو انہوں نے حسب عادت فتنہ کی غرض سے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ ہم نے نعوذ باللہ مسلمانوں کے نبی پر جادو کر دیا ہے اور یہ کہ آپ کا یہ نسیان وغیرہ اسی سحر کا نتیجہ ہے.اور انہوں نے اپنے قدیم طریق کے مطابق ظاہری علامت کے طور پر ایک کنوئیں کے اندر کسی کنگھی میں بالوں کی گر ہیں وغیرہ باندھ کر اسے دیا بھی دیا.جب ان کے اس مزعومہ سحر کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اس فتنہ کے سد باب کے لئے خدا کے حضور مزید دعا فرمائی اور اپنے آسمانی آقا سے استدعا کی کہ وہ اس فتنہ کے بانی مبانی کے نام اور اس کے مزعومہ سحر کے طریق سے آپ کو مطلع فرمائے تا آپ اس باطل سحر کا تار پود بکھیر سکیں.چنانچہ خدا نے آپ کی مضطربانہ دعاؤں کو سنا اور ذیل کی رؤیا کے ذریعہ آپ پر اصل حقیقت کھول دی.عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سُحِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيْلُ إِلَيْهِ إِنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَضْلُهُ وَفِى رَوَايَةِ كَذَا يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَاتِي أَهْلَهُ وَلَا يَاتِي حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَومِ وَهُوَ عِنْدِى دَعَا اللَّهَ وَ دَعَاهُ وفى رواية دَعَا وَ دَعَا) ثُمَّ قَالَ أَشْعَرُتِ يَا عَائِشَةَ إِنَّ اللَّهَ قَد أَفْتَانِى فِيْمَا اسْتَفَتْيْتُهُ فِيهِ قُلْتُ وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ - قَالَ جَاءَ نِي رَجُلَانِ فَجَلَسَ أَحَدَهُمَا عِنْدَ رَأْسِى وَلا خَرُ عِنْدَ رِجْلِى ثُمَّ قَالَ أَحَدَهُمَا لِصَاحِبِهِ وَجُعُ الرَّجُلِ - قَالَ مَطْبُوبٌ قَالَ وَمَنْ طَبَّهُ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الْأَعَصَمِ يَهُودِي مِنْ بَنِي زُرِيقٍ وَفِي رَوَايَةٍ وَكَانَ مُنَافِقاً - قَالَ فِي مَاذَا وَ قَالَ فِي مَشْطٍ وَ مَشَاطَةٍ وَجَفَ طَلْعِهِ ذَكَرٍ قَالَ فَأَيْنَ هُوَ قَالَ فِي بِثْرِ ذَرُوَانِ قَالَتْ فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَنَاسِ مِنْ أَصْحَابِهِ أَفِي الْبِئُرَ - فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَ عَلَيْهَا نَخْلٌ ثُمَّ رَجَعَ إِلَىٰ عَائِشَةَ فَقَالَ وَاللَّهُ لَكَأَنَّ مَاء هَا نَقَاعَةُ الْحِنَاءِ وَلَكَأَنَّ نَخْلُهَا رُوسُ الشَّيَاطِيْنِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ

Page 670

مضامین بشیر جلد سوم 648 أَفَأَخْرَجْتَهُ (وَفِي رَوَايَةٍ اِسْتَخْرَجْتَهُ) قَالَ لَا أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللَّهُ وَ شَفَانِي وَ خَشِيتُ اَنْ اَتُوْرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا وَ أَمَرَ بِهَا فَدُ فِئَتْ ( بخاری ابواب السحر ) قرآن کے اصولی ارشاد کہ لَا يُفْلِحُ السَّحِرُ حَيْثُ آتی (طه: 70) (یعنی نبیوں کے مقابل پر کوئی ساحر کسی صورت میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتا خواہ وہ کسی رنگ میں اور کسی جہت سے حملہ آور ہو ) اور پھر قرآن کے اس قطعی فیصلہ کی روشنی میں کہ يَقُولُ الظَّلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا (بني اسرائیل: 48) اور پھر خود اس حدیث کے الفاظ اور انداز بیان اور محاورہ عرب پر غور کرنے کے نتیجہ میں بخاری کی یہ روایت یقیناً حکایت عن الغیر کے رنگ میں سمجھی جائے گی.جس میں بظاہر کلام کرنے والا اپنی طرف سے کلام کرتا ہے مگر حقیقتا مراد یہ ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ یوں کہتے ہیں اور اس طرح اس روایت کا ترجمہ یہ بنتا ہے: حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کیا گیا (یعنی دشمنوں نے مشہور کر دیا کہ آپ کو سحر کر دیا گیا ہے ) حتی کہ ان ایام میں آپ بعض اوقات یہ خیال فرماتے تھے کہ آپ نے فلاں کام کیا ہے حالانکہ در حقیقت نہیں کیا ہوتا تھا.اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ بعض اوقات خیال کرتے تھے کہ میں اپنی فلاں بیوی کے گھر ہو آیا ہوں حالانکہ آپ اس کے گھر نہیں گئے ہوتے تھے.انہی ایام میں آپ ایک دن میرے مکان میں تھے اور آپ گھبراہٹ میں بار بارخدا کے حضور دعا فرماتے تھے اس دعا کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا.اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتادی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا ( خواب میں ) میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کی طرف بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کی طرف بیٹھ گیا.پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا اس شخص کو کیا تکلیف ہے؟ ( یہ انداز گفتگو بھی حکایت عن الغیر کی تائید کرتا ہے ) دوسرے شخص نے (فتنہ پردازوں کے خیال کے مطابق ) جواب دیا یہ وہی ہے جسے سحر کیا گیا ہے.اس پر پہلے شخص نے پوچھا اسے کس نے سحر کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا اسے لبید بن اعصم یہودی نے سحر کیا ہے جو بنی زریق کا حلیف ہے (اور ایک روایت میں ہے کہ وہ منافق تھا ) اس پر پہلے شخص نے پھر سوال کیا کس چیز کے ذریعہ سحر کیا گیا ہے؟ دوسرے نے کہا ایک سکھی میں سر کے بالوں کی گر ہیں باندھ کر اور اسے ایک زکھجور کی خشک شاخ میں لپیٹ کر رکھا گیا ہے.پوچھنے والے نے سوال کیا یہ کنگھی وغیرہ کہاں رکھی

Page 671

مضامین بشیر جلد سوم 649 ہے؟ دوسرے نے جواب دیا وہ ذروان کے کنوئیں میں رکھی ہے.اس خواب کے بعد آپ اپنے بعض صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر تشریف لے گئے اور اس کا معائنہ فرمایا.اس پر کھجوروں کے کچھ درخت اُگے ہوئے تھے ( یعنی وہ اندھیرا سا کنواں تھا ) پھر آپ حضرت عائشہ کے پاس واپس تشریف لائے اور ان سے فرمایا.عائشہ! میں اسے دیکھ آیا ہوں.اس کنوئیں کا پانی مہندی کے پانی کی طرح سرخی مائل ہورہا ہے.( یہودیوں کا طریق تھا کہ لوگوں کی نظروں کو دھوکا دینے کے لئے ایسے کنوئیں کے پانی کو رنگ دیتے تھے ) اور اس کے کھجور کے درخت تھوہر کے درختوں کی طرح مکر وہ نظر آتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے عرض کیا آپ نے اس کنگھی و غیرہ کو باہر نکلوا کر پھینک کیوں نہ دیا؟ آپ نے فرمایا.خدا نے مجھے محفوظ رکھا اور مجھے شفا دے دی تو پھر میں اسے باہر پھینک کر لوگوں میں ایک بُری بات کا چرچا کیوں کرتا (جس سے کمزور طبیعت کے لوگوں میں سحر کی طرف خوانخواہ توجہ پیدا ہونے کا اندیشہ تھا ) پس اس کنوئیں کو دفن کر کے بند کروا دیا گیا ہے.“ یاد رکھنا کہ حکایت عن الغیر (یعنی گفته آید در حدیث دیگراں ) کا طریق کلام عربوں میں عام رائج تھا بلکہ خود قرآن مجید نے بھی بعض جگہ اس طرز کلام کو اختیار کیا ہے.چنانچہ ایک جگہ دوزخیوں کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ذُقُ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ (الدخان :50) یعنی اے جہنم میں ڈالے جانے والے شخص ! تو خدا کے اس عذاب کو چکھ بے شک تو بہت عزت والا اور بڑا شریف انسان ہے.اس جگہ یہ مراد ہر گز نہیں کہ نعوذ باللہ خدا دوزخیوں کو معزز اور شریف خیال کرتا ہے.بلکہ حکایت عن الغير کے رنگ میں مراد یہ ہے کہ اے وہ انسان جسے اس کے ساتھی اور وہ خود معزز اور شریف خیال کرتے تھے تو اب خدا کے آگ کے عذاب کا مزہ چکھ.بعینہ یہی رنگ اس رویا میں ان دو آدمیوں یا دو فرشتوں نے اختیار کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رویا میں نظر آئے تھے.چنانچہ انہوں نے جب یہ کہا کہ اس شخص کو سحر کیا گیا ہے تو ان کی مراد یہ نہیں تھی کہ ہمارے خیال میں سحر کیا گیا ہے مگر مراد یہ تھی کہ لوگ کہتے ہیں اسے سحر کیا گیا ہے.اور خواب کی اصل غرض و غایت اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ جو چیز ان خبیثوں نے چھپا کر ایک کنوئیں میں رکھی ہوئی تھی اور اس کے ذریعہ وہ اپنے ہم مشرب لوگوں کو دھوکا دیتے تھے اسے خدا اپنے رسول پر ظاہر کر دے تا ان کے اس مزعومہ سحر کو ملیا میٹ کر دیا جائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے سحر کا آلہ سپر د خاک کر دیا گیا اور

Page 672

مضامین بشیر جلد سوم 650 کنوئیں کو پاٹ دیا گیا.اور بالواسطہ طور پر اس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کا یہ فکر بھی کہ یہ لوگ اس قسم کی شرارتیں کر کے سادہ مزاج لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں زائل ہو گیا اور یہ خدائی وعدہ بڑی آب و تاب کے ساتھ پورا ہوا کہ: لَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْتَ اتى یعنی ایک ساحر خواہ کوئی سا طریق اختیار کرے وہ خدا کے ایک نبی کے مقابل پر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.بہر حال اوپر والی حدیث سے ذیل کی باتیں ثابت ہوتی ہیں : (1) یہ کہ صلح حدیبیہ کے واقعہ کے بعد جس کی وجہ سے طبعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کی لغزش کے خیال سے کافی فکرمند تھے اور انہی ایام میں آپ نے دردوں کے دفعیہ کی غرض سے اپنے سر مبارک پر سینگیاں بھی لگوائی تھیں.آپ کچھ عرصہ کے لئے نسیان کی مرض میں مبتلا ہو گئے تھے اور آپ کئی دنیوی باتیں جو گھریلو معاملات سے تعلق رکھتی تھیں بھول جاتے تھے.(2) آپ کی اس حالت کو دیکھ کر یہودیوں اور منافقوں نے جو ہمیشہ ایسی باتوں کی آڑ لے کر اسلام اور مقدس بانی اسلام کو بدنام کرنا چاہتے تھے یہ خفی چر چا شروع کر دیا کہ ہم نے نعوذ باللہ مسلمانوں کے نبی پر جادو کر دیا ہے.ان کا یہ چرچا ایسا ہی تھا جیسا کہ انہوں نے غزوہ بنی مصطلق میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے حضرت عائشہ کو بدنام کرنا شروع کر دیا تھا اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تلخ کرنے کی ناپاک کوشش کی تھی.(3) اس مزعومہ سحر کی ظاہری علامت کے طور پر تاکہ سادہ طبع لوگوں کو زیادہ آسانی سے دھوکا دیا جا سکے ان خبیث فطرت لوگوں نے ایک یہودی النسل منافق لبید بن اعصم کے ذریعہ اپنے طریق کے مطابق ایک کنگھی میں کچھ بالوں کی گر میں باندھ کر اسے ایک کنوئیں میں دبا دیا اور مخفی گپ بازی شروع ہوگئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید پریشانی کا موجب ہوئی.(4) اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی حضور گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ دعائیں کیں کہ خدایا تو اپنے فضل سے اس فتنہ کا سد باب فرما اور مجھ پر اس کی حقیقت کو کھول دے تا کہ میں اس فتنہ کا ازالہ کر کے سادہ مزاج لوگوں کو ٹھوکر سے بچا سکوں.(5) خدا تعالیٰ نے آپ کی ان دعاؤں کو سنا اور لبید بن اعصم کی شرارت کا پول کھول دیا.جس پر آپ چند گواہوں کی معیت میں اس کنوئیں پر تشریف لے گئے اور اس کنگھی کو سپر د خاک کر دیا بلکہ کنوئیں تک

Page 673

مضامین بشیر جلد سوم کو پاٹ دیا تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری.651 بالآخر یہ سوال رہ جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو خدا تعالیٰ کے ایک عالی شان نبی بلکہ افضل الرسل اور خاتم النبین تھے آپ کو نسیان کا عارضہ کیوں لاحق ہوا جو بظاہر فرائض نبوت کی ادائیگی میں رخنہ انداز ہوسکتا ہے.تو اس کے جواب میں اچھی طرح یا د رکھنا چاہئے کہ ہر نبی کی دوہری حیثیت ہوتی ہے.ایک پہلو کے لحاظ سے وہ خدا کا نبی اور رسول ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ خدا کے کلام سے مشرف ہوتا ہے اور دینی امور میں اپنے متبعین کا استاد قرار پاتا اور ان کے لئے اسوہ بنتا ہے.اور دوسرے اس پہلو کے لحاظ سے وہ انسانوں میں سے ایک انسان ہوتا ہے اور تمام ان بشری لوازمات اور طبعی خطرات کے تابع ہوتا ہے جو دوسرے انسانوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ: قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ - یعنی اے رسول! تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں ( اور تمام ان قوانین کے تابع ہوں جو دوسرے انسانوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں) ہاں میں یقیناً خدا کا ایک رسول بھی ہوں اور خدا کی طرف سے مخلوق خدا کی ہدایت کے لئے وحی والہام سے نواز گیا ہوں.اس لطیف آیت میں انبیاء کی دوہری حیثیت کو نہایت عمدہ طریق پر بیان کیا گیا ہے.یعنی انہیں ایک جہت سے دوسرے انسانوں سے ممتاز کیا گیا ہے اور دوسری جہت سے ان کو دوسرے انسانوں کی صف سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا.پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ انبیاء، بشری لوازمات اور انسان کے طبعی خطرات سے بالا ہوتے ہیں وہ جھوٹا ہے.یقیناً انبیاء بھی اسی طرح بیمار ہوتے ہیں جس طرح کہ دوسرے انسان بیمار ہوتے ہیں.وہ ملیر یا بخار، ٹائیفائڈ (ضمناً یا د رکھنا چاہئے کہ جہاں تک ظاہری علامات مندرجہ حدیث و تاریخ سے پتہ چلتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرض ٹائیفائڈ سے فوت ہوئے تھے ) سل ، دق، دمہ، نزلہ، کھانسی، نقرس، دورانِ سر، پھوڑے پھنسیاں، آنکھوں کا آشوب، جسم کے درد ، جگر کی بیماری ، اسہال کی بیماری، انتڑیوں کی بیماری، گردے کی بیماری، پیشاب کی بیماری، دانتوں کی تکلیف، اعصابی تکلیف، ذکاوت حس ، گھبراہٹ اور بے چینی ، دماغی کوفت ، نسیان ، حوادث کے نتیجہ میں چوٹیں اور زخم ، لڑائی کی ضربات وغیرہ وغیرہ سب کی زد میں آسکتے ہیں اور آتے رہے ہیں.سوائے اس کے کسی خاص نبی کو خدا کی طرف سے استثنائی طور پر کسی خاص بیماری سے حفاظت کا وعدہ ہو.اگر اس جگہ کسی کو یہ خیال گزرے کہ قرآن تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ سنقر تک فلائنسی ( یعنی ہم تجھے

Page 674

مضامین بشیر جلد سوم 652 ایسی تعلیم دیں گے جسے تو نہیں بھولے گا ) تو پھر آپ کو نسیان کی بیماری کس طرح ہوگئی ؟ تو اس کے جواب میں اچھی طرح یا د رکھنا چاہئے کہ یہ وعدہ صرف قرآنی وحی کے متعلق ہے نہ کہ عام.اور مراد یہ ہے کہ اے رسول ! ہم اپنی جو وحی تجھ پر امت کی ہدایت کے لئے نازل کریں گے اسے تو نہیں بھولے گا اور ہم قیامت تک اس کی حفاظت کریں گے.عام روزمرہ کی باتوں اور دنیوی امور یا دینی اعمال کے ظاہری مراسم کے متعلق یہ وعدہ ہرگز نہیں ہے.چنانچہ حدیث سے ثابت ہے کہ آپ کئی موقعوں پر بشری لازمہ کے ماتحت بھول جاتے تھے بلکہ حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ آپ بعض اوقات نماز پڑھاتے ہوئے رکعتوں کی تعداد کے متعلق بھی بھول گئے اور لوگوں کے یاد کرانے پر یاد آیا ( بخاری ومسلم ) اسی طرح اور کئی موقعوں پر آپ بھول جاتے تھے.بلکہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے متعلق فرمایا ہے کہ میں بھی انسان ہوں اور تمہاری طرح بھول سکتا ہوں.چنانچہ فرماتے ہیں: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنسَى كَمَاتَنْسَونَ فَإِذَا نَسِيْتُ فَاذْكُرُونِی.(ابوداؤ د کتاب الصلاۃ باب از اصلی خمسا ) یعنی میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں اور جس طرح تم کبھی بھول جاتے ہوئیں بھی بھول سکتا ہوں.پس اگر میں کسی معاملہ میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلا دیا کرو.پس جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کبھی عام اور وقتی نسیان ہو جا تا تھا اسی طرح صلح حدیبیہ کے بعد کچھ عرصہ کے لئے بیماری کے رنگ میں نسیان ہو گیا.چنانچہ یہی وہ تشریح ہے جو سحر والی روایت کے تعلق میں بعض گزشتہ علماء نے کی ہے.مثلاً علامہ ماذری فرماتے ہیں: قَدْ قَامَ الدَّلِيلُ عَلَى صِدْقَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا مُعْجَزَاتُ شَاهِدَاتٌ بِتَصْدِيقِهِ وَإِمَّا مَا يَتَعَلَّقُ بِأُمُورِ الدُّنْيَا الَّتِى لَمْ يُبْعَثُ لَاجُلِهَا فَهُوَ فِي ذَالِكَ عُرُضَةً لَّمَا يُعْرَضُ مِنَ الْبَشَرِ كَالًا مُرَاضِ.فتح الباری شرح بخاری جلد نمبر 10 صفحه 177) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر بے شمار پختہ دلائل موجود ہیں اور آپ کے معجزات بھی آپ کی سچائی پر گواہ ہیں.باقی عام دنیا کے امور جن کے لئے آپ مبعوث نہیں کئے گئے تھے سواس تعلق میں سیا ایک بیماری کا عارضہ سمجھا جائے گا جیسا کہ انسان کو دوسری بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں.اور علامہ ابن القصار فرماتے ہیں:

Page 675

مضامین بشیر جلد سوم 653 الَّذِي أَصَابَهُ كَانَ مِنْ جِنْسِ الْمَرَضِ بَقُولِهِ فِى أَخِرُ الْحَدِيثِ إِمَّا أَنَّهُ فَقَدْ شَفَانِي فتح الباری شرح بخاری جلد نمبر 10 صفحه 177) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو یہ عارضہ نسیان کا پیش آیا تو یہ بیماریوں میں سے ایک بیماری تھی جیسا کہ حدیث کے ان آخری الفاظ سے ظاہر ہے کہ اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حالت جسے دشمنوں کے سحر کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے وہ ہر گز کسی سحر وغیرہ کا نتیجہ نہیں تھی.بلکہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت محض نسیان کی بیماری تھی.جسے بعض فتنہ پرداز لوگوں نے رسول پاک کی ذاتِ والا صفات کے خلاف پراپیگنڈے کا ذریعہ بنالیا.قرآن مجید نبیوں پر سحر کے قصہ کو دور سے ہی دھکے دیتا ہے.عقل انسانی اسے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے.حدیث کے الفاظ اس تشریح کو جھٹلاتے ہیں جو اس پر مڑھی جارہی ہے.اور خود سرور کائنات افضل الرسل کا ارفع مقام سحر والے قصے کے تار پود بکھیر رہا ہے.قباتِي حَدِيثٍ بَعْدَ ذَالِكَ يُؤْمِنُوْنَ.وَآخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - نوٹ : اس جگہ یہ نوٹ کرنا بھی خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ جیسا کہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی روایت کے مطابق سیرۃ المہدی حصہ اول کی روایت نمبر 75 میں مذکور ہے ایک دفعہ ایک متعصب ہند و جو گجرات کا رہنے والا تھا قا دیان آیا تھا.اور وہ علم توجہ یعنی ہینوٹزم کے سحر کا بڑا ماہر تھا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں حاضر ہو کر آپ پر خاموشی کے ساتھ توجہ ڈالنی شروع کی تا کہ آپ سے بعض نازیبا حرکات کرا کے آپ کو لوگوں کی ہنسی کا نشانہ بنائے مگر جب اس نے آپ پر توجہ ڈالی تو وہ چیخ مار کر بھاگا.اور جب اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں یہ کیا ہوا تھا تو اس نے جواب دیا کہ جب میں نے مرزا صاحب پر توجہ ڈالی تو مجھے یوں نظر آیا کہ میرے سامنے ایک خوفناک شیر کھڑا ہے جو مجھ پر حملہ کرنے والا ہے اور میں اس سے ڈر کر بھاگ نکلا.تو جب خادم کا یہ مقام ہے تو آقا کے متعلق یہ خیال کرنا کہ آپ نعوذ باللہ ایک یہودی کے مہینوٹزم کا نشانہ بن گئے تھے کس طرح قبول کیا جاسکتا ہے..( محرره 26 جون 1959 ء ) (روز نامه الفضل ربوہ 3 جولائی 1959ء)

Page 676

مضامین بشیر جلد سوم سحر والے مضمون کے متعلق ایک دوست کا سوال میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ انبیاء، ہر قسم کی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں 654 چند دن ہوئے ( غالب 3 جولائی کے الفضل میں ) میرا ایک کسی قدر مفصل مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کے مزعومہ واقعہ کے متعلق شائع ہوا تھا جس میں میں نے خدا کے فضل سے قرآن اور حدیث اور تاریخ سے نیز عقلی دلائل سے ثابت کیا تھا کہ جس واقعہ کو ایک یہودی منافق کے سحر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ ایک محض نسیان کی بیماری کا وقتی عارضہ تھا.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آمدہ حالات کے ماتحت کچھ وقت کے لئے مبتلا ہو گئے تھے.مگر خدا تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جلد شفا عطا کر کے مخالفوں کے اس باطل پراپیگنڈہ کو ملیا میٹ کر دیا.اس تعلق میں میں نے ضمنا یہ بات بھی بیان کی تھی کہ انبیاء علیہ السلام بھی بشر ہونے کے لحاظ سے دوسرے انسانوں کی طرح ہوتے ہیں اور وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت سے انہیں کسی خاص بیماری سے محفوظ رکھے اور میں نے اس ضمن میں نمونیہ بعض بیماریوں کے نام بھی لکھے تھے اور میری مراد یہ تھی کہ اس قسم کی بیماریوں میں انبیاء بھی مبتلا ہو سکتے ہیں.لیکن ایک دوست نے میرے مضمون کا اصل مطلب نہ سمجھتے ہوئے یا اپنے بعض ہم مجلسوں کے اثر کے نیچے یہ اعتراض کیا ہے کہ کیا انبیاء جنون جیسی مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور کیا نہیں جزام جیسی گھناؤنی بیماری بھی ہوسکتی وغیرہ ذالک.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے اس دوست نے بالکل غور سے کام نہیں لیا اور یونہی جلد بازی میں یا نا معلوم کسی خارجی اثر کے ماتحت ایک بالبداہت غلط اعتراض کی طرف قدم اٹھایا ہے.ظاہر ہے کہ اگر میری یہ مراد ہوتی کہ انبیاء ہر قسم کی جسمانی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو مجھے چند بیماریاں نام لے کر گنانے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی.بلکہ صرف یہ کہہ دینا کافی تھا کہ نبی ہر قسم کی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں.چند بیماریوں کا نام لے کر ذکر کرنا اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ ان بیماریوں کے گنانے کے بعد میرے مضمون میں جو ” وغیرہ وغیرہ“ کے الفاظ لکھے گئے ہیں ان سے صرف اسی قسم کی دوسری بیماریاں مراد ہیں.نہ کہ ہر قسم کی دوسری بیماریاں جس کے لئے ہرگز ہرگز بعض بیماریوں کو مثال کے طور پر شمار کرنے کی ضرورت نہیں تھی.یہ کیسی موٹی بات ہے جس کے لئے ہمارے مہربان دوست سے بہت ادنی عقل والے آدمی کی عقل بھی کافی ہو سکتی تھی.باقی رہیں جنون اور جزام وغیرہ کی بیماریاں جن کا معترض صاحب نے نام لے کر ذکر فرمایا ہے.سو کیا ہمارے دوست کو یہ بات معلوم نہیں کہ ان اقسام کی بیماریوں کے متعلق قرآن مجید واضح طور پر نبیوں کے بارے میں نفی

Page 677

مضامین بشیر جلد سوم 655 فرماتا ہے اور بعض مقامات پر دلالت النص کے طور پر اور بعض جگہ اشارت النص کے رنگ میں صراحت کرتا ہے.کہ اس نوع کی بیماریاں انبیاء کی شان کے خلاف ہیں.اور ان کے فرائض کی ادائیگی میں روک بن سکتی ہیں اس لئے ایسی بیماریاں نبیوں کو نہیں ہوا کرتیں.چنانچہ جنون کی بیماری کے متعلق خدا تعالی قرآن مجید میں تمام رسولوں کے بارے میں اصولی طور پر فرماتا ہے: كَذلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ (الذاريات : 53) اور دوسری جگہ مخصوص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے: وَمَا صَاحِبُكُمُ بمَجْنُون (التكوير: 23) اور ایک اور جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعلق میں مخالفوں کی شرارت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ (الشعراء: 28) یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کوئی رسول بھی تیرے زمانہ سے پہلے ایسا نہیں آیا جسے دشمنوں نے ساحر یا مجنون کہہ کر اپنے دل کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہ کی ہو.اور اے عرب کے لوگو! کیا تم آنکھیں رکھتے ہوئے دیکھتے نہیں کہ ہمارا یہ رسول خدا کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے.......اور حضرت موسیٰ کے مخالفوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ از راہ شرارت یہ افتراء باندھا کرتے تھے کہ یہ شخص جو رسالت کا مدعی بنتا ہے یہ تو مجنون ہے وغیرہ وغیرہ.اسی طرح اور بہت سے مقامات پر قرآن مجید میں نبوت اور جنون کو متضاد بیان کر کے اس کی زور دارنفی کی گئی ہے تو پھر نا معلوم ہمارے ان دوست کو میرے مضمون میں جنون کا رخنہ کس طرح نظر آ گیا؟ اور پھر مزید تعجب یہ ہے کہ انہوں نے طبی اور طبعی قوانین کے ماتحت بھی غور نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جیسی حکیم و علیم ہستی کس طرح نبوت جیسا اور ارفع اور اعلیٰ منصب ایک دیوانہ کے سپرد کر سکتی ہے؟ یہی اصول مرگی جیسے مرض پر چسپاں ہوتا ہے.جس میں بعض اوقات ایک حد تک جنون سے ملتی جلتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے جب ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رویا میں دکھایا گیا کہ ایک کر یہ المنظر شیطان سیرت جانور آپ کی طرف آرہا ہے اور آپ کے دل میں ڈالا گیا کہ یہ صرع یعنی مرگی کا مرض ہے تو آپ نے خدائی القاء کے ماتحت بڑے جوش اور نفرت کے ساتھ فرمایا کہ: دور ہو تیرا مجھ میں حصہ نہیں“ ( تذکره صفحه 685 وصفحہ 14)

Page 678

مضامین بشیر جلد سوم 656 دراصل نبیوں کے مخالف جو اپنے وقت کے رسولوں پر جنون کا الزام لگاتے رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نبیوں میں اپنے خدا داد مشن اور تبلیغ حق کی ادائیگی میں اتنا جوش اور انہماک دیکھتے ہیں کہ وہ اس بات کو خیال میں بھی نہیں لا سکتے کہ کوئی شخص اس قسم کے روحانی اور ان کے نزدیک خیالی امر میں اتنا مستغرق ہوسکتا ہے.اس لئے وہ ان کے دن رات کے استغراق کی وجہ سے ان کی حالت کو جنون کا نام دے دیتے ہیں.ور نہ نبیوں سے بڑھ کر دانا اور فرزانہ کون ہو سکتا ہے؟ اب رہیں جزام وغیرہ قسم کے امراض جن میں انسان کا جسم بہت گھناؤنی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے لوگ دیکھ کر دور بھاگتے ہیں سو اگر اس کے متعلق بھی معترض صاحب غور فرماتے تو ان کے لئے قرآن میں جواب موجود تھا.چنانچہ قرآن ہمارے آقا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ، وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (آل عمران: 160) یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ خدائی رحمت کا حصہ ہے کہ تو اپنے اصحاب کے لئے دل کا نرم بنایا گیا ہے ورنہ اگر تو کرخت اور دل کا سخت ہوتا تو یہ لوگ جواب تیرے قدموں کے ساتھ چھٹے بیٹھے ہیں تجھ سے ہٹ کر پرے چلے جاتے.اس آیت کریمہ میں یہ لطیف اصول بیان کیا گیا ہے کہ نبیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے درشت اور کرخت اخلاق سے بچاتا ہے کہ لوگ ان کے اخلاق کی وجہ سے ان سے دور بھا گیں.تو جب اخلاق کے متعلق جو نسبتا مخفی چیز ہے یہ خدائی سنت ہے تو جسم کی گھناؤنی بیماریاں جو کہہ ومہ کو نظر آنے والی چیز ہیں ان کے متعلق بدرجہ اولیٰ یہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو ان سے محفوظ رکھتا ہے.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ایک مامور من اللہ کے ذکر کی ذیل میں ایک لحاظ سے زیادہ صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ : زَادَهُ بَسْطَةٌ فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْم (البقرة : 248) یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے علمی قوتوں اور جسمانی محاسن دونوں میں امتیاز بخشا تھا.اس آیت میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اصلاح خلق کے لئے کھڑا کرتا ہے انہیں جسمانی محاسن سے بھی نوازتا ہے اور عقلاً بھی ایسا ہی ہونا چاہئے.ورنہ کئی لوگ ایک ٹولے لنگڑے اور کر یہ المنظر انسان کی اقتداء قبول کرنے سے طبعاً گھبرائیں اور حق کی اشاعت میں روک پیدا ہو جائے.اسی اصول پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ گو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل چیز ایمان اور تقویٰ

Page 679

مضامین بشیر جلد سوم 657 ہے.جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے: اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أتقنكُمُ (الحجرات : 14) مگر باوجود اس کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ عوام الناس کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو عرف عام میں معزز سمجھے جانے والی قوموں میں سے مبعوث فرما تا ہے تا کہ کسی کو انگشت نمائی کا موقع نہ ملے اور صداقت سے روح گردانی کا بہانہ نہ پیدا ہو جائے.پس یہ بات اصولاً درست ہے کہ ایک نبی کو کسی قسم کی گھناؤنی بیماری جزام وغیرہ کی قسم کی نہیں ہوا کرتی.مگر غضب تو یہ ہے کہ میرے بحر والے مضمون میں کہاں لکھا ہے کہ ایسی بیماری نبیوں کو بھی ہوسکتی ہے؟ میں نے تو مثال کے طور پر چند قسم کی بیماریاں کنائی تھیں.اور اس کے بعد وغیرہ وغیرہ کے الفاظ لکھ کر واضح اشارہ کر دیا تھا کہ اسی قسم کی دوسری بیماریاں بھی نبیوں کو ہو سکتی ہیں.نہ یہ کہ انہیں ہر قسم کی بیماری ہوسکتی ہے خواہ وہ جنون اور جزام وغیرہ کی بیماری بھی ہو.اور خواہ قرآن مجید میں اس کے خلاف صراحت ہی پائی جاتی ہو.بے شک بائبل میں حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف ایک گھناؤنی بیماری منسوب کی گئی ہے مگر موجودہ بائبل نے حسب عادت اس معاملہ میں بہت مبالغہ سے کام لیا ہے.ورنہ قرآن مجید میں اس قسم کی کوئی صراحت نہیں پائی جاتی.وَالْحَقُّ مَا قَالَهُ الْقُرْآنُ وَأَثْبَتَهُ الْفُرْقَانِ وَ اَطْمَأَنَ بِهِ الْجَنَانُ بایں ہمہ یہ ظاہر ہے اور قرآن نے اس کی صراحت فرمائی ہے کہ گوگئی اصولی باتیں سب نبیوں میں یکساں ہوتی ہیں.مگر بعض باتوں میں ان میں سے بعض کو بعض دوسرے نبیوں پر امتیاز حاصل ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عقیدہ تھا جسے آپ نے کئی جگہ صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ گو عام نبی جب وہ اپنا کام کر چکیں اور ان کی بعثت کی غرض پوری ہو جائے تو وہ دشمنوں کی شرارت کے نتیجہ یا کسی حادثہ کے نتیجہ میں قتل بھی ہو سکتے ہیں.جیسا کہ حضرت کی قتل ہوئے.مگر اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ کسی سلسلہ کے بانی نبی اور اس کے آخری نبی کو قتل سے محفوظ رکھتا ہے.کیونکہ یہ دو نبی گویا دود یوار میں ہوتی ہیں جن کے درمیان اس سلسلہ کی حفاظت کا سامان کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان نبیوں کا خصوصی اکرام بھی ملحوظ ہوتا ہے.اور جب مختلف نبیوں کے حالات میں فرق ہوتا ہے تو نبیوں اور خلفاء میں تو فرق ظاہر و عیاں ہے جس سے کوئی دانا انسان انکار نہیں کرسکتا.میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اوپر والے مختصر سے نوٹ میں اپنے معزز دوست کے جملہ سوالوں کا اصولی جواب دے دیا ہے.جس کی مدد سے وہ اگر اپنے سینہ کو صاف کر کے غور کریں تو اسی قسم کے دوسرے جزوی سوالوں کا جواب خودسوچ سکتے ہیں.بلکہ ان سے تو میں امید رکھتا تھا کہ وہ مجھ سے دریافت کرنے کے بغیر از خود

Page 680

مضامین بشیر جلد سوم 658 ہی تھوڑے سے غور اور تدبر سے ایسے سوالوں کو بلکہ ان سے زیادہ گہرے سوالوں کو آسانی سے حل کر سکتے ہیں.اور اپنے قرآن دان ہم مجلسوں سے بھی پوچھ سکتے ہیں.بالآخر میں ایک ناگوار بات کے اشارۂ اظہار سے رک نہیں سکتا جو ہمارے اس دوست نے اپنے خط کے آخری حصہ میں لکھی ہے.ممکن ہے کہ یہ میری بدظنی ہو جس سے اللہ تعالیٰ مجھے محفوظ رکھے.مگر میری طبیعت پر یہی اثر ہے کہ ہمارے دوست کو ایک مخلص احمدی ہونے کی حیثیت میں اس بات کے لکھنے سے احتراض کرنا چاہئے تھا.میں انشاء اللہ اس کے متعلق ان کی خدمت میں عنقریب ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ کچھ عرض کروں گا.فی الحال اگر وہ میرا مشورہ مانیں تو کچھ تھوڑا سا استغفار کر کے اپنے دل کے زنگ کو دھونے کی کوشش فرما ئیں.کیونکہ بعض باتیں شروع میں بظاہر معمولی نظر آتی ہیں مگر ان کا مال اور انجام بہت خطرناک نکلتا ہے.چنانچہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ بعض اوقات انسان کے دل پر ایک چھوٹا سا داغ لگتا ہے.لیکن اگر وہ وقت پر سنبھالا نہ جائے تو آہستہ آہستہ اس کا زنگ سارے دل کو اپنی سیاہی میں ڈھانک لیتا ہے.پس مقام خوف ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو.( محررہ 15 جولائی 1959ء) وَآخِرُ دَعُونَا أن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيم روزنامه الفضل ربوہ 18 جولائی 1959ء) احباب کی تعزیت کا شکریہ اور جماعت کراچی کو مخلصانہ مشورہ چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت کراچی کی وفات حسرت آیات پر خاکسار کے نام کثیر التعداد دوستوں اور جماعتوں کی طرف سے (جن میں بیرونی ملکوں کے احباب اور جماعتیں بھی شامل ہیں ) افسوس اور ہمدردی کے خطوط آرہے ہیں.میں ان سب دوستوں اور جماعتوں کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہوں اور ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ جَزَاهُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءُ وَ عَافَاهُمْ مِنْ كُلِّ شَرٍ وَافَةٍ - حدیث میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب مومن آپس میں ایک جسم کے مختلف

Page 681

مضامین بشیر جلد سوم 659 اعضاء کی طرح ہوتے ہیں.جس طرح جسم کے کسی ایک عضو میں درد ہونے سے سارا جسم بے چین ہونے لگتا ہے اسی طرح مومنوں کی جماعت کا حال ہے کہ ایک بھائی کے حادثہ یا صدمہ سے ساری جماعت بے کل ہو جاتی ہے.یقینا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم الشان معجزہ ہے جس نے ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح بھائی بھائی بنا دیا ہے.اور انشاء اللہ جماعت اس وقت تک ترقی کرتی جائے گی جب تک کہ یہ دینی اخوت قائم رہے گی کیونکہ اتحاد اور محبت میں ہی قومی ترقی کا راز ہے.چوہدری عبداللہ خان صاحب مرحوم واقعی بڑی خوبیوں کے مالک تھے.ان کی وہ خدمات جن کی ان کو اپنی زندگی کے آخری سالوں میں کراچی کی امارت کے زمانہ میں تو فیق ملی خصوصیت سے بہت نمایاں ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک عام جماعت اخلاص اور قربانی اور تنظیم میں خدا کے فضل اور توفیق سے ایک مثالی جماعت بن گئی.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءُ وَرَفَعَ دَرَجَاتُهُ فِي السَّمَاءِ دوست تو غالباً صرف اس بناء پر مجھے ہمدردی کے خطوط لکھ رہے ہیں کہ میں نے چوہدری صاحب کی بیماری میں ان کے لئے بار بار دعا کی تحریک کی.مگر شاید ان کو یہ علم نہیں کہ چوہدری عبداللہ خان صاحب کے ساتھ میرے پانچ جہت سے خاص تعلقات تھے.اول ان کی اہلیہ عزیزہ آمنہ بیگم سلمہا کی والدہ مرحومہ (جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی نواسی تھیں ) میری دودھ کی بہن تھیں.دوسرے خود عزیز ہ آمنہ بیگم سلمہا میری رضاعی بیٹی ہیں.یعنی انہوں نے عزیز مظفر احمد سلمہ کے ساتھ ام مظفر احمد سلمہا کا دودھ پیا ہوا ہے.تیسرے محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جو چوہدری عبداللہ خان صاحب کے بڑے بھائی ہیں وہ میرے کالج کے زمانہ کے بہت عزیز دوست ہیں.جس کے بعد ان کے ساتھ مسلسل اخوت اور رفاقت کا خاص رشتہ چلا آیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو نرینہ اولاد سے نوازے اور خدمت دین کی لمبی عمر دے ).چوتھے چوہدری عبداللہ خان صاحب کے والد بزرگوار یعنی محترم چوہدری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کے ساتھ بھی اس خاکسار کے بہت تعلقات تھے.بلکہ جب وہ پہلی دفعہ ہجرت کر کے قادیان آئے اور ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے تو وہ کافی عرصہ تک میرے پاس میرے مکان پر ہی ٹھہرے تھے.پانچویں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چوہدری عبداللہ خان صاحب کے اوصاف اور ان کی جماعتی خدمات اور امام جماعت کے ساتھ چوہدری صاحب کی والہانہ محبت کی وجہ سے میرے دل میں ان کی بڑی قدر تھی.پس میں پھر ان بھائیوں اور بہنوں اور جماعتوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے روحانی اخوت کی بناء پر چوہدری صاحب کی وفات پر میرے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْراً.

Page 682

مضامین بشیر جلد سوم 660 بالآخر میں جماعت احمدیہ کراچی سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ یہ زندگی عارضی ہے اور ہر انسان نے بہر حال جلد یا بدیر مرنا ہے.مگر ترقی کرنے والی جماعتوں کا یہ کام ہوتا ہے کہ جب ان میں سے کوئی فرد وفات پاتا ہے تو وہ اس کی وفات کی وجہ سے جماعت میں کسی قسم کا خلانہیں پیدا ہونے دیتے.بلکہ اگر ایک شخص مرتا ہے تو اس کی جگہ لینے کے لئے ( نام کی جگہ نہیں بلکہ حقیقی قائم مقامی کے لئے ) اس کام کے آدمی پیدا ہو جاتے ہیں.پس جماعت کراچی کا اس موقع پر اولین فرض ہے کہ وہ اس ترقی کے مقام میں ہر گز کمی نہ آنے دیں.جس پر وہ اس وقت خدا کے فضل سے پہنچ چکی ہے.اسے یادرکھنا چاہئے کہ دینی جماعتوں کی ترقی کی بنیا دایمان اور عمل صالح کے بعد اصولا چار باتوں پر ہوتی ہے.یعنی اول اخلاص دوسرے قربانی تیسرے تنظیم اور چوتھے اتحاد.پس جب کہ خدا کے فضل سے کراچی کی جماعت کو یہ چار باتیں بصورت احسن حاصل ہو چکی ہیں تو ان کا فرض ہے کہ اس مقدس چار دیواری کو نہ صرف قائم رکھیں بلکہ اسے بلند سے بلند تر کرتے چلے جائیں.جماعتوں کی زندگی میں سکون بالکل نہیں ہوا کرتا بلکہ یا تو وہ ترقی کرتی ہیں اور یا گر جاتی ہیں.جو جماعت ان چار باتوں میں ترقی نہیں کر رہی وہ سمجھ لے کہ وہ خواہ محسوس کرے یا نہ کرے وہ یقیناً گر رہی ہے.اور اگر خدانخواسته و نہ سنبھلی تو اس کا تنزل عنقریب نمایاں ہو کر ظاہر ہو جائے گا جس سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے.ایک اور بات جو جماعت کو یاد رکھنی چاہئے وہ مستورات اور اولاد سے تعلق رکھتی ہے.اگر کوئی جماعت اپنی مستورات کی تربیت کا خیال نہیں رکھتی اور اپنی آئندہ نسل کی تربیت کی طرف سے بھی غافل ہے تو وہ جان لے کہ وہ خود اپنی موت کو قریب لا رہی ہے.جو اسے اگلی نسل میں یقیناً آدبوچے گی.پس میری نصیحت یہی ہے کہ کراچی کے دوست جماعتی ترقی کی اس چاردیواری کو مضبوطی کے ساتھ برقرار رکھیں یعنی اخلاص اور قربانی اور تنظیم اور اتحاد کے اعلیٰ مقام پر قائم رہیں.اور پھر اپنی ترقی کو دائمی بنانے کے لئے اگلی نسل کی فکر بھی کریں جس کے لئے مستورات اور نو جوانوں کی تنظیم اور تربیت کی طرف خاص توجہ ضروری ہے.بلکہ مستورات کی تربیت کا تعلق تو صرف اگلی نسل کے ساتھ ہی نہیں بلکہ موجودہ نسل کے آدھے دھڑ کے ساتھ بھی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ احباب کراچی کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ و ناصر رہے.اور ان کو اپنے فضل سے ایسا گڈریا عطا فرمائے جو چوہدری عبداللہ خان صاحب مرحوم کا اچھا قائم مقام ثابت ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ (محرره 29 جون 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 4 جولائی 1959ء)

Page 683

مضامین بشیر جلد سوم خدام الاحمدیہ خدمت کے لئے تیار ہو جائیں 661 اس سال غیر معمولی طور پر برسات کے شروع میں ہی سیلاب کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور پنجاب کے سارے دریاؤں میں عدیم المثال طغیانی کے آثار نظر آرہے ہیں.گزشتہ تجربہ بتاتا ہے کہ ایسے سیلابوں میں جانوں اور مالوں کا بے پناہ نقصان ہوا کرتا ہے.بے شمار جانیں ضائع جاتی یا زخمی ہوتی ہیں.جن میں زیادہ تر عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور بیماروں اور پھر خصوصیت سے غریبوں اور بے سہارا لوگوں پر زد پڑتی ہے.ا ور یہی وہ طبقہ ہے جو زیادہ ہمدردی اور زیادہ امداد کا مستحق ہوتا ہے.اس کے علاوہ اجناس کے ذخیروں اور مکانوں اور مکانوں کے سامانوں اور راستوں اور پلوں اور ریلوں اور مویشیوں وغیرہ کے نقصان کا تو کوئی حد وحساب ہی نہیں رہتا.پس میں تمام مجالس خدام الاحمدیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ حسب سابق اس موقع پر آگے آئیں.اور مخلوق خدا کی خدمت کا ثواب کمائیں.ڈوبتے ہوؤں کو بچائیں ، ملبہ کے نیچے دبے ہوؤں کو نکالیں ، زخمیوں کو دوائیں مہیا کریں، بھوکوں کو کھانا کھلائیں، شکستہ مکانوں کی مرمت کریں، مصیبت زدہ لوگوں کو حفاظت کے مقامات تک پہنچائیں اور مویشیوں اور سامانوں کو ضائع ہونے سے بچائیں.اور جہاں جہاں حکومت کو یا بے یار و مددگار لوگوں کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو ان کی مد کو فوراً پہنچیں.اور اس امداد میں مذہب وملت کا کوئی لحاظ نہ رکھیں.ہمارا خدا سب کا خالق و مالک ہے.پس اس کی مخلوق کو جہاں بھی اور جیسی بھی امداد کی ضرورت ہو خدام الاحمدیہ چست بندگانِ خدا کی طرح لبیک لبیک کہتے ہوئے آگے آجانے چاہئیں.وَمَنْ كَانَ فِی عَوْن أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي عَوْنِهِ - ( محررہ 6 جولائی 1959ء) (روز نامہ الفضل ربوہ 8 جولائی 1959ء) سوال کرنے سے بچو مگر سوالی کو رد نہ کرو اسلام کی متوازن اور حکیمانہ تعلیم مقامی امیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے ذیل کی ہدایت صدر صاحبان محلہ جات ربوہ کو

Page 684

مضامین بشیر جلد سوم 662 بھیجوائی گئی ہے.اس کی نقل بیرونی جماعتوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں شائع کی جارہی ہے.ایڈیٹر ) گومرکز ہونے کی وجہ سے ربوہ میں غریبوں اور حاجت مندوں اور نادار طالب علموں اور یتیموں اور بیواؤں وغیرہ کی تعداد واقعی بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ کچھ عرصہ سے یہاں بعض لوگوں میں سوال کرنے کی عادت بڑھ رہی ہے.اور بعض محلوں کے صدر صاحبان بھی ایسی درخواستوں پر سفارش کرنے میں غیر محتاط نظر آتے ہیں.یہ دونوں باتیں اسلامی تعلیم کے خلاف اور قومی اخلاق کو بگاڑنے والی ہیں.بے شک قرآن مجید یہ فرماتا ہے کہ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِل وَالْمَحْرُوم (الذاريات: 20) یعنی مومنوں کے اموال میں سوال کرنے والوں کا بھی حق ہے اور ان لوگوں کا بھی حق ہے جو مال سے تو محروم ہیں لیکن پھر بھی سوال کرنے سے اجتناب کرتے ہیں.مگر دوسری طرف حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تاکید فرماتے ہیں الْيَدُ العُليا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السُّغُلی یعنی اوپر والا ہاتھ جو سوال کرنے سے بچتا ہے اور اپنے آپ کو اونچا رکھتا ہے وہ نیچے والے ہاتھ سے جو سوال کے لئے پھیلتا رہتا ہے خدا کی نظر میں بہتر ہے.علاوہ ازیں اس حدیث میں الید العلیا سے دینے والا ہاتھ بھی مراد ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے والے کی حاجت کو پورا کرنا بڑے ثواب کا موجب قرار دیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام مسلمانوں کو ہر دو انتہاؤں سے بچا کر أُمَّةً وَسَطاً یعنی ایک متوازن جماعت بنانا چاہتا ہے.پس میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حقیقی اور اشد ضرورت کے بغیر کبھی سوال نہ کیا کریں بلکہ ایک طرف محنت کر کے حسب ضرورت زیادہ آمد پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ستی اور بے کاری سے بچیں اور دوسری طرف جب تک خدا کی طرف سے فراخی نہ حاصل ہوا اپنی ضروریات کو کم سے کم حد کے اندر محدود رکھیں.اس طرح انشاء اللہ ان کے اخلاق میں بلندی پیدا ہوگی اور اس قناعت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے تھوڑے مال میں ہی برکت ڈال دے گا.اسی طرح میں صدر صاحبان اور سیکرٹری صاحبہ لجنہ اماءاللہ ربوہ کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہر درخواست پر یونہی سفارش نہ کر دیا کریں بلکہ سوال کرنے والے کی ضرورت اور حالات کا پوری طرح جائزہ لے کر صرف حقیقی ضرورت کی صورت میں سفارش کیا کریں.اور بصورت دیگر امداد کی درخواست کرنے والے کونرمی کے ساتھ سمجھا دیا کریں کہ صبر اور قناعت سے کام لیں.تا کہ بلاضرورت سوال کرنے کی عادت

Page 685

مضامین بشیر جلد سوم 663 ترقی نہ کرے اور افراد جماعت میں محنت کر کے کمانے کی عادت پیدا ہو.علاوہ ازیں صدر صاحبان اس بات کا بھی خیال رکھیں بلکہ اس کی طرف زیادہ توجہ دیں کہ جو لوگ واقعی حاجت مند ہیں مگر شرم کی وجہ سے سوال نہیں کرتے ان کے متعلق وہ اپنی طرف سے از خود سفارش بھجوا دیا کریں.اس طرح انشاء اللہ ایک طرف سوال کرنے کی عادت میں کمی آئے گی اور قناعت اور کفایت شعاری کا جذ بہ ترقی کرے گا.اور دوسری طرف حقیقی حاجت مندوں کی ضرورت بھی پوری ہوتی رہے گی.جس پر اسلام نے بہت زور دیا ہے.اخلاق کی بلندی اور غریبوں کی حاجت براری اور جماعت کی تنظیم و تربیت کے لئے یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ نہایت ضروری ہیں.(محررہ 4 جولائی 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 8 جولائی 1959ء) محترم سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب کے لئے دعا کی تحریک سکندر آباد دکن انڈیا کی تار سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب سکندرآباد بیمار ہیں اور کمزوری تشویشناک حالت تک پہنچ چکی ہے.حضرت سیٹھ صاحب گو صحابی یعنی اولسون میں داخل نہیں ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے سابق کا مقام عطا فرمایا ہے.اور تبلیغ اور مالی قربانی کے میدان میں ان کی خدمات غیر معمولی طور پر نمایاں ہیں اور وہ بعد میں آکر بہتوں سے آگے نکل گئے ہیں.احباب جماعت اپنے اس مخلص اور ممتاز بھائی کی صحت کے لئے خصوصیت سے دعا فرمائیں.( محررہ 6 جولائی 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 12 جولائی 1959ء) وو 67 دعا پھر دعا پھر دعا جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا“ میرے اس نوٹ کا پہلاعنوان صحیح مسلم کا ایک ٹکڑا ہے.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 686

مضامین بشیر جلد سوم 664 کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جو نسیان والی بیماری کے ایام میں حضور کی تھی اور حضور سمجھتے تھے کہ اس کی وجہ سے میری تبلیغی کوششوں میں کوئی کمی نہ آجائے.( صحیح مسلم بحوالہ فتح الباری جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 178 ) اور دوسرا عنوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کا حصہ ہے جو حضور نے دعا کے فلسفہ کی ذیل میں فرمایا تھا اور ان دونوں کا مال یہی ہے کہ بے شک الہی جماعتیں دنیا کے ظاہری اسباب کو بھی ضرور کام میں لاتی ہیں کیونکہ وہ بھی خدا کے پیدا کردہ اسباب ہیں اور ان کو نظر انداز کرنا گویا ایک طرح سے خدائی حکومت سے بغاوت کا رنگ رکھتا ہے.مگر خدائی جماعتوں کا اصل بھروسہ روحانی اسباب پر ہوتا ہے جنہیں حرکت میں لانے کا ذریعہ دعا ہے.پس اب جبکہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طبیعت کسی قدر درمیانی افاقہ کے بعد پھر کچھ زیادہ خراب ہو رہی ہے.جیسا کہ گزشتہ چند دن کی ڈاکٹری رپورٹوں اور خصوصاً آج کی رپورٹ سے ظاہر ہے تو میں احباب جماعت کو پھر زور دار تحریک کرتا ہوں کہ وہ حضور کی صحت اور کام کی لمبی عمر کے لئے دعا کرنے میں ہرگز غافل نہ ہوں.اس وقت جماعت ایک بہت نازک دور میں سے گزر رہی ہے کیونکہ وہ اپنی ترقی کے موعودہ مراحل کے قریب پہنچ چکی ہے اور قوموں کی زندگی میں یہ وقت بڑا نازک اور قابلِ فکر ہوا کرتا ہے.جبکہ اس کی قیادت میں ذراسی کمی یا کوتاہی اس کی ترقی کو بہت پیچھے ڈال سکتی ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں ہوشیار کیا گیا ہے کہ جب ترقی کا زمانہ آئے تو پہلے سے بہت زیادہ تسبیح ( یعنی دعا ) اور پہلے سے بہت زیادہ طلب مغفرت (یعنی دین کے راستہ میں جد وجہد ) سے کام لینا.یہی سنہری رستہ ہماری جماعت کے لئے بھی ازل سے مقدر ہے.اور اگر جماعت نے اس ہدایت پر عمل کرنے میں ستی کی تو پھر اس کا خدا حافظ ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک اسوہ کے مطابق کہ دَعَا ثُمَّ دَعَا ثُمَّ دَعَا جماعت کو بھی اس وقت دعاؤں میں غیر معمولی کثرت اور غیر معمولی استقلال سے کام لینا چاہئے.کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ خدا کے علم میں قبولیت کی کونسی گھڑی ہے.ایسا نہ ہو کہ ہم ذراسی سستی سے اس مبارک گھڑی کو کھو بیٹھیں.پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد سے ظاہر ہے ہمیں یہ بات بھی کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا.حضور فرماتے ہیں: دعا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہام یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہو گا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.مگر اکثر لوگ دعا کی اصل فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دعا کے ٹھیک ٹھکانے پر پہنچنے کے واسطے کس قدر

Page 687

مضامین بشیر جلد سوم 665 توجہ اور کس قدر محنت درکار ہوتی ہے.دراصل دعا کرنا ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا ہے.اس کے سوا میں اس وقت کچھ نہیں کہتا.اگر در خانه کس است حرفی بس است (محررہ 14 جولائی 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 15 جولائی 1959ء) رسالہ ” الفرقان“ کی توسیع اشاعت کے لئے تحریک رسالہ ”الفرقان“ بہت عمدہ اور قابل قدر رسالہ ہے.اور اس قابل ہے کہ اس کی اشاعت زیادہ سے زیادہ وسیع ہو.کیونکہ اس میں تحقیقی اور علمی مضامین چھپتے ہیں اور قرآن کے فضائل اور اسلام کے محاسن پر بہت عمدہ طریق پر بحث کی جاتی ہے.ایک طرح سے یہ رسالہ اس غرض و غایت کو پورا کر رہا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مدنظر رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو ایڈیشن کے جاری کرنے میں تھی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خواہش بڑی گہری اور خدا کی پیدا کردہ آرزو پر مبنی ہے کہ اگر ایسے رسالہ کی اشاعت ایک لاکھ بھی ہو تو پھر بھی دنیا کی موجودہ ضرورت کے لحاظ سے کم ہے.پس مخیر اور مستطیع احمدی اصحاب کو یہ رسالہ نہ صرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں خود خریدنا چاہئے بلکہ اپنی طرف سے نیک دل اور سچائی کی تڑپ رکھنے والے غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب کے نام بھی جاری کرانا چاہئے.تا اس رسالہ کی غرض و غایت بصورت احسن پوری ہو اور اسلام کا آفتاب عالم تاب اپنی پوری شان کے ساتھ ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کرے.یہ معلوم کر کے بہت افسوس ہوا کہ ابھی تک یہ رسالہ مالی لحاظ سے نقصان پر جا رہا ہے.زندہ قوموں کے زندہ رسالے ہر جہت سے زندگی کے آثار سے معمور ہونے چاہئیں.ایسے رسالہ کا مالی تھیٹروں کی وجہ سے بند ہونا بہت قابل شرم ہوگا.( محر ر ہ 11 جولائی 1959 ء) روزنامه الفضل ربوہ 18 جولائی 1959ء)

Page 688

مضامین بشیر جلد سوم 666 عید کی قربانیوں کا مسئلہ جانوراور نقد رقم کا سوال آج کل بعض حلقوں میں عید کی قربانیوں کا مسئلہ زیر بحث ہے اور بعض علماء بھی (گوان کی تعداد بہت قلیل ہے ) اس طرف مائل نظر آتے ہیں کہ اس زمانہ میں عید کے موقع پر جانوروں کی قربانی کی جگہ کسی قومی فنڈ میں نقد روپیہ جمع کرا دینا بہتر ہے کیونکہ فی زمانہ جانوروں کی قربانی میں نقد رقم کا ضیاع ہے وغیرہ وغیرہ.یہی سوال مجھے سے ایک معزز غیر احمدی دوست نے 1950 ء میں بھی کیا تھا جس کا جواب میری طرف سے الفضل کی چارا شاعتوں میں اگست و ستمبر 1950 ء میں شائع ہوا تھا.بعض دوستوں کا خیال ہے کہ وقت کی ضرورت کے پیش نظر ان چار مضمونوں کو رسالہ کی صورت میں اکٹھا کر کے شائع کر دیا جائے تو انشاء اللہ مفید ہو گا.سو جو دوست اس بارے میں کوئی مزید سوال دریافت کرنا چاہیں وہ مجھے لکھیں تا کہ اگر ضروری ہو تو اس سوال کا جواب بھی مجوزہ رسالہ میں شامل کر دیا جائے.مگر یہ ضروری ہے کہ پہلے میرے شائع شدہ چاروں مضمونوں کو غور سے پڑھ لیا جائے.اگر ان کے سوال کا جواب پہلے مضمونوں میں آچکا ہے تو سوال کرنے والے اور جواب دینے والے کا وقت یونہی ضائع نہ ہو.میرے یہ مضامین ذیل کی چار قسطوں میں شائع ہوئے تھے : (1) الفضل 18 اگست 1950 ء (2) الفضل 19 اگست 1950 (3) الفضل 20 اگست 1950 ء.(4) الفضل 9 ستمبر 1950 ء.ء ان مضمونوں کے پڑھنے کے بعد بھی اگر ضرورت سمجھی جائے تو مزید سوال بھجوایا جائے.ورنہ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ خدا کے فضل سے یہ مضامین کافی جامع ہیں اور ان کو معمولی نظر ثانی کے بعد شائع کر دینا کافی ہوگا.وَاللهُ الْمُوَفِّقُ - (محررہ 12 جولائی 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 21 جولائی 1959ء)

Page 689

مضامین بشیر جلد سوم میاں احمد دین صاحب درویش قادیان کی وفات 667 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مکرم میاں احمد دین صاحب کی وفات پر اعلان میں درج اوصاف ان کے تحریر فرمائے.میاں احمد دین صاحب در ولیش ولد میاں اللہ بخش صاحب مرحوم، میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درولیش کے سالے تھے اور میاں اللہ بخش صاحب سکنہ ہے ہال ضلع گورداسپور کے لڑکے تھے.میاں اللہ بخش صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی اور آخری عمر میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے گھروں میں دربان تھے..( محررہ 21 جولائی 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 24 جولائی 1959ء) اس دیوانہ کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھو جیسا کہ میں اپنے بعض مضمونوں میں بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا ہے کہ حضور قادیان سے کہیں باہر گئے ہوئے ہیں اور پھر کشمیریوں کی گلی میں سے ہوتے ہوئے واپس اپنے گھر تشریف لے جانا چاہتے ہیں.مگر راستہ میں سخت اندھیرا ہے حتی کہ اپنا ہاتھ تک دکھائی نہیں دیتا اور حضور دیواروں کو ٹولتے ہوئے رجما بِالْغَيْبِ چلتے جاتے ہیں اور اس وقت حضور کا ہاتھ ایک دیوانہ کے ہاتھ میں ہے اور حضور بڑے تضرع کے ساتھ یہ دعا فرمارہے ہیں کہ رَبِّ تَجَلِّ رَبِّ تَجَلّ - یعنی اے خدا! اس تاریکی کو دور کر کے روشنی کر دے.اے خدا! روشنی کر دے.اور حضور کے ساتھ والا دیوانہ بھی یہی الفاظ بولتا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ.سومخلصین جماعت جہاں اور دعائیں کرتے ہیں اس دیوانے کے لئے بھی دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ پنے بے نظیر فضل و کرم اور اپنی بے مثال قوت و جبروت کے ساتھ اس دیوانے کو جلد پیدا کر دے اور اگر وہ پیدا ہو چکا ہے تو اسے اپنی پوری دیوانگی کے ساتھ جلد ظاہر فرما دے.اور اسے اپنی جناب سے وہ اوصاف عطا فرمائے اور اس کی ایسے رنگ میں نصرت فرمائے جس کا اس عجیب وغریب مکاشفہ میں اشارہ ہے.

Page 690

مضامین بشیر جلد سوم 668 اور یا درکھنا چاہئے کہ جیسا کہ سیاق سباق سے ظاہر ہے اس جگہ دیوانے سے کوئی پاگل یا مجنون انسان مراد نہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو کسی مقصد کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لئے گویا دیوانہ وار کوشش کرے.اور اپنی ظاہری طاقت اور قوت سے بڑھ کر ہمت اور جدو جہد سے کام لے اور اپنی جسمانی اور مادی حد بندیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اپنے مقصد کے حصول کے لئے آگے بڑھتا چلا جائے.وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزِ وَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْهِ مُنِيبٍ ( محررہ 26 جولائی 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 30 جولائی 1959ء) 2 خدام الاحمدیہ ربوہ کا تربیتی پروگرام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا یہ قیمتی اور جامع پیغام اس تربیتی جلسہ میں پڑھا گیا جو مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کے زیر اہتمام مؤرخہ 30 جولائی کو بعد نماز مغرب بیت مبارک میں منعقد ہوا) مجھے خدام الاحمدیہ ربوہ کے قائمقام قائد نے اطلاع دی ہے کہ وہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ماتحت ربوہ میں ایک تربیتی جلسہ منعقد کر رہے ہیں جس میں نوجوانوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کا پروگرام مرتب کر کے ان کی تربیت کی مہم شروع کی جائے گی.مجھے اس اطلاع سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ جیسا کہ قرآن مجید نے اشارہ فرمایا ہے بنی نوع انسان کی تربیت دینی مساعی کا آدھا حصہ ہوتی ہے.ایک حصہ تبلیغ سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ تربیت سے تعلق رکھتا ہے.تبلیغ کے ذریعہ غیر از جماعت لوگوں کو جماعتی عقائد کی صداقت کا یقین دلا کر ان کو جماعت کے اندر آنے اور جماعت کے نظریات کو قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے.جسے قرآن مجید نے يَدْعُونَ إِلَى الخَیر کے الفاظ سے یاد کیا ہے.اور تربیت کے ذریعہ ان لوگوں کو جو جماعت میں شامل ہیں روحانی اور اخلاقی لحاظ سے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے اور اس مقام پر قائم رہنے کے قابل بنایا جاتا ہے جس کے لئے قرآن نے يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ تربیت کا کام کسی طرح تبلیغ کے کام سے کم نہیں ہے.بلکہ بعض لحاظ سے اور بعض اوقات میں اس سے بھی زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے.ظاہر ہے کہ اگر ہم ساری دنیا کو بھی مسلمان یا احمدی بنالیں مگر یہ مسلمان یا احمدی صرف نام کے مسلمان اور نام کے احمدی ہوں اور ان میں صداقت کی

Page 691

مضامین بشیر جلد سوم 669 روح اور اس پر صحیح طور پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ نہ پایا جائے تو ایسی جماعت خدا کے حضور کوئی حقیقت نہیں رکھتی.بلکہ وہ صداقت کو بدنام کرنے والی ثابت ہوگی.لیکن اگر مسلمان یا احمدی ہوں تو تعداد میں تھوڑے مگر جتنے بھی ہوں وہ پختہ اور سچے مومن ہوں جن کا عمل خدا کے منشاء کے مطابق ہو تو یہ تھوڑی سی جماعت بھی خدا کے حضور بڑ اوزن رکھے گی.اسی کی طرف قرآن مجید کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ: كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ (البقره:250) یعنی کتنی تھوڑی سی جماعتیں ہوتی ہیں جو اپنی قلت کے باوجود اپنے خالص ایمان اور صحیح عمل کے ذریعہ خدا کی نصرت سے ایسی بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں جو تعداد میں زیادہ ہونے کے باجود سچے ایمان اور عمل صالح سے محروم ہوتی ہیں.پس اس وقت اپنے نوجوان عزیزوں کو میری یہ نصیحت ہے کہ نام کے احمدی نہیں بلکہ کام کے احمدی بنو.جس کے بعد تم میں وہ برقی طاقت بھری جائے گی جس کے سامنے کوئی اور طاقت نہیں ٹھہر سکتی اور تم خدا کی ایک پیاری اور محبوب جماعت بن جاؤ گے جس پر ہر وقت خدا کے فضل ورحم کا سایہ رہے گا.یہ سوال کہ تربیت کا پروگرام کیا ہونا چاہئے ایک لمبا سوال ہے جس کا دو حرفوں میں جواب نہیں دیا جا سکتا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتی ہیں کہ : كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ یعنی آپ کے اخلاق کا نقشہ دیکھنا چا ہو تو قرآن کو دیکھ لو لیکن قرآن ایک بڑی وسیع کتاب ہے جس کے ظاہری احکام بھی سات سو سے کم نہیں اور اس کی تفسیر اس کے ظاہری حجم سے بھی بہت زیادہ بڑی ہے.جس کی تشریح میں بڑے بڑے علماء نے سینکڑوں جلدیں لکھنے کے بعد تھک کر اور ماندہ ہو کر اپنے قلم ہاتھ سے رکھ دیئے اور قیامت تک یہی ہوتا چلا جائے گا.کیونکہ کائنات عالم کی طرح قرآن ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.اس لئے میں اس جگہ خدام الاحمدیہ کے سامنے قرآن مجید کی صرف ایک آیت پیش کرتا ہوں جو ان کے تربیتی پروگرام کے آغاز کی بنیاد بن سکتی ہے.یہ وہ آیت ہے جسے قرآن نے اپنے شروع میں ایک بنیادی اصول کے طور پر بیان فرمایا ہے تا کہ قرآن پڑھنے والا اسے شروع سے ہی اپنے سامنے رکھ کر اپنی روحانی اور اخلاقی تربیت کا پروگرام مرتب کر سکے.فرماتا ہے: الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ 0 (البقره:4) یعنی سچے مومنوں کا یہ کام ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسولوں پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور اپنی

Page 692

مضامین بشیر جلد سوم 670 نمازوں کو حضور قلب سے با قاعدہ ادا کرتے ہیں.اور جو کچھ بھی ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خدا اور خدائی جماعت کی خدمت میں خرچ کرتے رہتے ہیں.اس لطیف آیت میں مومنوں کے تین بڑے کام بتائے گئے ہیں.ایک یہ کہ خدا اور اس کے رسولوں اور تمام غیب کی باتوں پر دل سے ایمان لانا کیونکہ سچا ایمان وہ پانی ہے جس سے عمل صالح کا باغ پرورش پاتا اور پروان چڑھتا ہے.اور خدا کی ذات دین کا وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے ہر نیکی کی نہر نکلتی ہے اور اس کے رسول اس کے منشاء کو دنیا میں ظاہر کرنے اور اس کے لئے عملی نمونہ بننے کے لئے آتے ہیں.دوسرے نمبر پر اپنے خالق و مالک کی عبادت کرنا ہے جس میں نماز ستون نمبرا کا حکم رکھتی ہے.کیونکہ یہ وہ مقدس تار ہے جو خالق اور مخلوق کو آپس میں باندھتی ہے.اس لئے نماز کو معراج المومنین کا نام دیا گیا ہے.یعنی وہ سیڑھی ہے جو بندے کو خدا تک پہنچاتی اور انسان کو نیکی کی بلندیوں تک اٹھاتی چلی جاتی ہے.لیکن جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کچی نماز وہ ہے جس میں نماز پڑھنے والا یہ محسوس کرے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور میں خدا کو دیکھ رہا ہوں.بعض اوقات ایسی ایک نماز ہی انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے.تیسرے نمبر پر خدا کے رستہ میں خرچ کرنا ہے یعنی جو جو رزق یا انعام انسان کو خدا کی طرف سے ملا ہے خواہ وہ مال ہے یا دل و دماغ کے قومی ہیں یا جسم کی طاقتیں ہیں یا علم ہے یا زندگی کے اوقات ولمحات ہیں ان سب میں سے خدا اور اس کی مخلوق کا حق نکالنا.کسی کے پاس مال ہے تو وہ خدا کے رستہ میں چندہ دے.دل و دماغ کی طاقتیں ہیں تو انہیں خدا کے رستے میں لگائے.جسم کی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرے.علم ہے تو اس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچائے.زندگی کے لمحات کا کچھ حصہ لا زمادین کی خدمت میں صرف کرے وغیرہ وغیرہ.یہ وہ تین بنیادی باتیں ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کے شروع میں مسلمانوں کے تربیتی پروگرام کی بنیاد کے طور پر بیان کیا ہے.اور میں اس جگہ ان ہی کی طرف خدام الاحمدیہ ربوہ کو توجہ دلاتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ ان تین بنیادی باتوں کو پاک نیت اور دلی اخلاص کے ساتھ اپنے تربیتی پروگرام کا حصہ بنائیں گے اور ان پر مضبوطی سے قائم رہیں گے تو انشاء اللہ ان کا ہر قدم ترقی کی طرف اٹھتا چلا جائے گا.اور ان کے لئے آسمان سے ایک نئے عالم کا دروازہ کھولا جائے گا.یہی وہ عالم ہے جس کے لئے کسی نے کہا ہے کہ: بیادر ذیل مستاں تابه بینی عالمی دیگر بہشتے دیگر و ابلیس دیگر آدم دیگر

Page 693

مضامین بشیر جلد سوم 671 نیک لوگ بھی اسی دنیا میں بستے ہیں اور بد بھی اسی دنیا میں آباد ہیں.مگر نیک لوگوں کے لئے یہ دنیا ایک نئی دنیا بن جاتی ہے جس میں ان کا بہشت خدا کی رضا میں ہوتا ہے.اور ان کا شیطان مسلمان ہو جاتا ہے اور ان کا آدم ان کے لئے ایک پاک نسل کا بانی بنتا ہے.بس اس وقت یہی میرا خدام الاحمدیہ کے نام پیغام ہے اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور انہیں اپنی رضا کے مطابق کام کرنے اور اسلام اور احمدیت کا بول بالا کرنے کا عزم اور توفیق اور طاقت عطا کرے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محررہ 30 جولائی 1959ء) تحریک جدید کی برکات روزنامه الفضل ربوه 5 اگست 1959ء) درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے دل میں ایک نیا نظام القا کیا جو جماعت کی حفاظت اور استحکام اور توسیع کے لئے نہایت با برکت ثابت ہوا.یہ نظام’تحریک جدید سے موسوم ہے.اس نظام کی بہت سی شاخیں تھیں جو بعض تبلیغ کے ساتھ اور بعض تربیت کے ساتھ اور بعض تنظیم کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں اور ان سب کاموں کو چلانے کے لئے ایک خاص چندے کی تحریک کی گئی جو آج کل چندہ تحریک جدید کہلاتا ہے.اس چندہ کے ذریعہ جماعت کے استحکام کے تعلق میں بہت سے کام کئے جاتے ہیں لیکن اس چندے کا سب سے بڑا مصرف بیرونی ممالک میں اسلام کی تبلیغ ہے اور آج خدا کے فضل سے یہ تبلیغ اتنی وسیع ہو چکی ہے کہ چوبیس (24) بیرونی ممالک میں جن میں سے اکثر عیسائی اور مشرک ممالک ہیں چونسٹھ (64) تبلیغی مرکز اسی چندہ کی بناء پر دن رات اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں.جن میں ایسے مخلص اور فدائی نوجوان کام کرتے ہیں جنہوں نے اس نظام کے ماتحت اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر رکھی ہیں.اسی طرح تحریک جدید کے نظام کے ماتحت بیرونی ممالک میں اس وقت تک بارہ (12) مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور دس مختلف زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی چھپ کر شائع ہو چکا ہے یا ہورہا ہے.یہ ایک

Page 694

مضامین بشیر جلد سوم 672 عظیم الشان کام ہے جس پر کوئی بڑی سے بڑی قوم اور بڑی سے بڑی اسلامی حکومت بجا طور پر فخر کرسکتی ہے اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایک چھوٹی سی جماعت کو جس کے اکثر افراد غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس عظیم الشان کام کی توفیق دی اور اسے پروان چڑھایا.اس کے علاوہ تحریک جدید کے مبارک چندہ سے پاکستان میں ایک وسیع زرعی جائیداد بھی خریدی گئی ہے تا کہ وہ اس کام کے لئے ایک مستقل آمد کا ذریعہ بن سکے.چنانچہ تحریک جدید کے بھاری بجٹ میں اس اراضی کی معقول آمد بھی شامل ہوتی ہے.شروع شروع میں تحریک جدید کا چندہ عارضی اور وقتی اور محدود قسم کا سمجھا گیا تھا مگر اب اسے خدائی تقدیر کے ماتحت اتنی وسعت حاصل ہو چکی ہے کہ کم از کم جہاں تک اسلام کی بیرونی تبلیغ کا سوال ہے یہ چندہ گویا اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور گو یہ چندہ ابھی تک جماعت کے افراد پر لازمی نہیں قرار دیا گیا مگر جماعت کے ہزاروں افراد نے جس خوشی اور للہیت اور قربانی کی روح کے ساتھ اس میں حصہ لیا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے.اور یہ جماعت کے دوسرے چندوں کے علاوہ ہے.میں یقین رکھتا ہوں اور علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ جن دوستوں نے تحریک جدید کے چندہ میں دلی اخلاص کے ساتھ حصہ لیا ہے اور اس کے لئے بڑھ چڑھ کر مالی قربانی کی ہے ان کا نام نہ صرف اس دنیا کے آخری دور تک بلکہ بعد الموت بھی انشاء اللہ تعالیٰ دین کے لئے خاص خدمت گزاروں میں شمار کیا جائے گا اور آئندہ آنے والی نسلیں بجا طور پر ان پر فخر کریں گی..جن بیرونی ممالک میں تحریک جدید کے چندہ کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ ہو رہی ہے وہ ساری دنیا میں اس طرح پھیلے ہوئے ہیں کہ عملاً آزاد دنیا کا کوئی حصہ بھی ان سے خالی نہیں.برطانیہ، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، جزائر غرب الہند، مغربی جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، سویڈن ، سپین، لبنان، شام، مشرقی افریقہ میں کینیا، ٹانگا نیکا، یوگنڈا، مغربی افریقہ میں نائیجیریا، غانا، سیرالیون، لائبیریا، ماریشس، ہندوستان، ملایا، انڈونیشیا، بورنیو وغیرہ میں اسلام کے فدائی مجاہد تحریک جدید کے چندہ کے ذریعہ دن رات اسلام کی مخلصانہ خدمت بجالا رہے ہیں.اور قرآن مجید کے تراجم اور مساجد کی تعمیر اور دیگر لٹریچر کی اشاعت اس کے علاوہ ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یہ وہ کام ہے جس پر آئندہ نسلیں فخر کریں گی اور یہ وہ کام ہے جس کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے مغربی ممالک میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہو رہا ہے.بے شک یورپ اور امریکہ میں تعدا د کے لحاظ سے ابھی تک نو مسلم تھوڑے ہیں مگر ان ممالک کے خیالات میں اتنا بھاری تغیر پیدا ہورہا ہے کہ وہ

Page 695

مضامین بشیر جلد سوم 673 عیسائی ممالک جو آج سے چھپیں تمیں سال پہلے اسلام کی ہر بات کو اعتراض کی نظر سے دیکھتے تھے اب قد راور حق جوئی کی نظر سے دیکھتے ہیں.اور ان میں سے اکثر کا نظریہ جرح و تنقید سے بدل کر قدرشناسی کی طرف منتقل ہو رہا ہے.اور افریقہ اور انڈونیشیا وغیرہ ممالک میں تو خدا کے فضل سے تعداد کے لحاظ سے بھی بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے.حتی کہ مغربی افریقہ کے ایک کٹر مسیحی نے حال ہی میں یہ لکھا ہے کہ اب مغربی افریقہ میں مسیحیت کو اسلام کے مقابلہ پر فتح اور غلبہ کا خیال چھوڑ دینا چاہئے.یہ سب برکات یقیناً خدا کے خاص فضل و رحمت کا ثمرہ ہیں مگر ظاہر میں اس کا ذریعہ تحریک جدید کا چندہ ہے.پس مبارک ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس چندہ میں حصہ لیا اور شوق کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اور مبارک ہوں گے وہ لوگ جو آئندہ اس چندہ میں حصہ لیں گے اور شوق کے ساتھ بڑھ چڑھ کر لیں گے.تحریک جدید کے سلسلہ میں جو دیگر تربیتی اور تنظیمی اصلاحات ہوئی ہیں ان کے ذکر کو میں اس جگہ ترک کرتا ہوں اور اپنے اس دیباچہ کو اس مختصر سی بات پر ختم کرتا ہوں کہ اس وقت اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے خدا کی زبر دست تقدیر حرکت میں ہے.اس لئے یہ کام بہر حال ہوکر رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے اطلاع پا کر فرمایا ہے اور کیا خوب فرمایا ہے: بمفت ایں اجر نصرت را دهندت اے اخی ورنہ قضاء آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا ( محررہ 7 جولائی 1959 ء ) (روز نامه الفضل ربوہ 11 اگست 1959 ء ) 4 درخت نصب کرنے کا ہفتہ احباب جماعت زیادہ سے زیادہ توجہ دیں حکومت نے اس ماہ اگست کی تیرہ (13) تاریخ سے درخت نصب کرنے کا ہفتہ منانے کی تحریک کی ہے اور پبلک کو توجہ دلائی ہے کہ مالکان زمین بلکہ مالکان مکانات بھی اس ہفتہ میں اپنی اپنی جگہ پر زیادہ سے زیادہ درخت نصب کرنے کی کوشش کر کے ملکی دولت کو بڑھا ئیں اور قومی صحت کو ترقی دیں.سو ہمارے

Page 696

مضامین بشیر جلد سوم 674 دوستوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے.درختوں کا لگانا کئی لحاظ سے مفید ہوتا ہے.اول اس سے زائد آمد کا ذریعہ پیدا ہوتا ہے.یعنی پھل دار درخت سے پھل کی آمد ہوتی ہے اور گھر والوں کی خوراک میں بھی ایک مفید اور صحت بخش اضافہ ہوتا رہتا ہے.دوم غیر پھل دار درختوں سے کارآمد لکڑی پیدا ہوتی اور آمدن بڑھتی ہے.سوم مکانوں اور چاہات اور دیہات اور شہروں اور رستوں میں ٹھنڈا سایہ مہیا ہو کر علاقہ کی گرمی کو کم کرتا اور آب و ہوا پر نیز لوگوں کی صحت پر اچھا اثر ڈالتا ہے وغیرہ وغیرہ.پس میں تمام احمدی زمینداروں اور دیگر مالکان اراضی سے پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ شجر کاری کی تحریک میں پورے زور شور سے حصہ لیں اور جہاں تک ممکن ہو اپنے مکانوں اور چاہات اور افتادہ جگہوں میں علاقہ کے مناسب حال درخت لگا کر اپنی آمدنوں اور اپنے گھر والوں کی صحت اور ملک کی ترقی کا راستہ کھولیں.جہاں مقامی تجربہ یا واقف کاروں کے مشورہ سے پھل دار درخت نصب ہو سکتے ہوں وہاں پھل دار درخت لگائے جائیں.اور جہاں پھل دار درخت کامیاب نہ ہوں وہاں دوسرے درخت لگا کر فائدہ اٹھایا جائے.یہ ایک نہایت مفید کام ہے جس کی طرف سے ہماری جماعت کو ہر گز غفلت نہیں برتنی چاہئے.مسلمانوں کو اور خصوصیت سے احمدی مسلمانوں کو تو شجر کاری میں خاص دلچسپی ہونی چاہئے.کیونکہ قرآن مجید میں سچے مومنوں کے لئے آخرت میں جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اور جنت سایہ دار باغ کو کہتے ہیں.پس جنت کی آرزو تو گویا ہماری گھٹی میں ہے.پھل دار درختوں میں اس ملک کے مناسب حال آم، جامن ، توت، امرود، کھجور ( یہ تو ہمارے رسول پاک کے وطن کا مبارک پھل ہے ، انجیر، مالٹا ، ناشپاتی ،سیب ،سوڈا ،سنگترہ، گریپ فروٹ ، آڑو، آلوچہ، لوکاٹ، پپیتہ، بیر، کیلا وغیرہ تجربہ شدہ درخت ہیں.البتہ زمین اور آب و ہوا کی مناسبت دیکھنی ضروری ہے.غیر پھل دار درختوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں.مثال کے طور پر شیشم یعنی ٹالی ، بول یعنی کیکر (جس کی کئی اقسام ہیں ) بکائن یعنی دھریک ، صریح ، پھلا ہی، یوکلپٹس ، جنڈ ، پیپل، بڑ یعنی بوڑھ ، جنگلی بیر، آنولہ، ہرڑ ، بہیڑا، ڈیلہ تن سمبل وغیرہ.اور پہاڑی درختوں میں چیل، دیار، کیل، اخروٹ، چنار، بادام وغیرہ بہت مفید اور کارآمد درخت ہیں.میں نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ حکومت نے مختلف مقامات پر مختلف درختوں کی پنیری مہیا کرنے کا انتظام کیا ہے اور غالباً یہ پنیری جہاں تک غیر پھل دار درختوں کا تعلق ہے مفت ملے گی.اس کے لئے علاقہ

Page 697

مضامین بشیر جلد سوم 675 کے متعلقہ افسروں کی طرف بر وقت رجوع کرنا چاہیئے اور پھل دار درختوں کے پودے اپنے قریب کے علاقہ کی نرسریوں سے مل سکتے ہیں.یہ کام اتنا مفید اور نفع مند ہے کہ اسے کچھ خرچ کر کے سرانجام دینا بھی انشاء اللہ بابرکت اور فائدہ مند ہوگا اور حکومت کے ساتھ تعاون مزید برآں ہے.درختوں کے نصب کرنے کے تعلق میں یہ بات خاص طور پر یا درکھنے اور نگرانی کرنے کے قابل ہے کہ درختوں کا لگانا آسان ہے مگر ان کا سنبھالنا بہت توجہ اور محنت اور نگرانی چاہتا ہے.بلکہ پھل دار درختوں کی صورت میں تو یہ نگرانی در حقیقت ایسی ہے جیسے ایک شیر خوار بچہ کی کی جاتی ہے.جسے ماں باپ کی ذراسی غفلت موت کی آغوش میں پہنچا دیتی ہے.پس جو دوست درخت لگائیں وہ اس بات کی پہلے سے تیاری کر لیں کہ درخت نصب کرنے کے بعد ان کو ان درختوں کی مسلسل دیکھ بھال رکھنی ہوگی اور پانی اور گو سے ( یعنی گوڑائی ) اور کھاد کے ذریعہ انہیں صحت مند اور زندہ رکھنا ہو گا.ورنہ کم از کم پھل دار درختوں کی صورت میں ساری محنت بر باد جائے گی.اور مومنوں کو قرآنی محاورہ کے مطابق نقض غزل سے بچنا چاہئے.ربوہ کے دوستوں کی خدمت میں میری خصوصیت سے اپیل ہے کہ ان کا فرض ہے کہ ربوہ میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور پھر ان کی پوری پوری دیکھ بھال رکھیں.ربوہ میں گرمی اور گردے کی شدت شجر کاری کی خاص متقاضی ہے.اس سے انشاء اللہ ربوہ کی آب و ہوا جواب بہت سے لوگوں کے لئے گویا ایک گونہ امتحان بن رہی ہے ترقی کرے گی اور صحتوں پر انشاء اللہ بہت اچھا اثر پڑے گا.پس ربوہ کے دوست اور خصوصا مالکان اراضی اور مالکان مکانات کو درختوں کے نصب کرنے کی طرف خاص بلکہ خاص الخاص توجہ دینی چاہئے.ان کے لئے تو میرے خیال میں یہ ایک قسم کا مقدس فریضہ ہے کہ الہی جماعت کے مرکز کو خوبصورت اور خوشنما اور صحت مند بنانے اور اسے گردوگرما سے نجات دلانے میں حصہ لیں.بے شک ربوہ کے اکثر حصہ میں شور یعنی کلر پایا جاتا ہے مگر کوشش اور توجہ سے کلر زمینوں میں بھی کئی قسم کے درخت پیدا ہو جاتے ہیں.بلکہ بعض پودے تو خصوصیت سے کلر والی زمین میں ترقی کرتے ہیں.احباب جماعت ضرور اس کارخیر میں حصہ لیں.وَجَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْراً.(محررہ 8 اگست 1959 ء) (روز نامه الفضل ربوه 12 اگست 1959 ء )

Page 698

مضامین بشیر جلد سوم 45 حضرت خلیفتہ امسیح کے لئے دعا کی تحریک هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانَ 676 حضرت خلیفہ المسی الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی بیاری کے متعلق احباب جماعت کو اخبار الفضل کے ذریعہ روزانہ اطلاع پہنچ رہی ہے.مگر کچھ عرصہ ہوا یہ محسوس کیا گیا تھا کہ یہ مختصر سی اطلاع جماعت کی تسلی کے لئے کافی نہیں ہوتی.چنانچہ جماعت کا ایک حصہ تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہورہا تھا کہ خدا کے فضل سے حضرت صاحب کی حالت تسلی بخش ہے اور کوئی فکر کی بات نہیں.اور دوسرا حصہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ حضور کی صحت کی اصل حقیقت کو جماعت سے چھپایا جا رہا ہے.ان حالات میں میں نے عزیز ڈاکٹر مرزا منور احمد سلمہ کو مشورہ دیا کہ وہ ایک مفصل بیان کے ذریعہ جماعت کو صیح صحیح حالت سے مطلع کرنے کی کوشش کریں تا ایک طبقہ کی غلط فہمیاں دور ہو جائیں اور جماعت کو دعاؤں کی طرف بیش از پیش توجہ پیدا ہو.چنانچہ عزیز مرزا منور احمد نے ( خدا انہیں جزائے خیر دے انہوں نے حضور کی موجودہ بیماری میں بے حد محنت اور محبت سے کام کیا ہے ) ایک مفصل بیان لکھ کر مجھے دکھانے کے بعد الفضل میں شائع کرا دیا اور اس کے ذریعہ جماعت کافی حد تک حضور کی بیماری کی اصل حقیقت سے آگاہ ہوگئی اور مجھے یقین ہے کہ جماعت کے مخلصین نے زیادہ توجہ اور زیادہ درد والحاح کے ساتھ دعائیں شروع کر دی ہوں گی.اب حضور کو ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت علاج کی غرض سے کراچی لے جانے کی تجویز ہے بلکہ اغلب ہے کہ اس نوٹ کے چھپنے تک حضور کراچی روانہ ہو چکے ہوں گے یا پہنچ چکے ہوں گے.دوستوں کو خاص توجہ سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا رحیم و کریم آسمانی آقا اپنے فضل و کرم سے حضور کے اس سفر کو مبارک کرے اور حضور کو شفایاب کر کے مرکز سلسلہ میں واپس لائے.آمِينَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ.مگر میں اس نوٹ کے ذریعہ جماعت کو پھر ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کہ حضور کی بیماری اور موجودہ حالت حقیقتا تشویشناک ہے.اس بیماری میں حضور کے نظام عصبی کو کافی دھکا لگ چکا ہے جو جیسا کہ عزیز مرزا منور احمد نے لکھا تھا عموماً دوصورتوں میں ظاہر ہوا ہے.(اول ) حضور کا حافظہ جہاں تک قریب کے زمانہ کی باتوں کا تعلق ہے بہت کمزور ہو چکا ہے اور مرض نسیان کا غلبہ ہے جس کی وجہ سے حضور ایک بات کو دہراتے اور بار بار پوچھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں.البتہ دور کے زمانہ میں گزری ہوئی باتیں بالعموم ذہن پر مستحضر رہتی ہیں.

Page 699

مضامین بشیر جلد سوم 677 (دوم) جذبات ( یعنی Emotions ) پر کنٹرول بہت کمزور ہو گیا ہے جس کے نتیجہ میں اکثر جذباتی باتوں پر حضور کو رقت آجاتی اور آواز بھر جاتی ہے.اور ایسے جذبات جن کو حضور نے اپنی قوت ضبط سے لمبے عرصہ سے اپنے دل میں دبا رکھا تھا اُبھر اُبھر کر باہر آرہے ہیں.مثلاً آج کل حضور قادیان کو بے حد یاد کرتے ہیں اور وہاں جانے کی شدید آرزور کھتے ہیں.اسی طرح حضرت اماں جان نوراللہ مرقدہ اور بعض وفات یافتہ بزرگوں اور دوستوں اور عزیزوں کو بھی بہت یاد کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.اس کے علاوہ جسمانی کمزوری بھی دن بدن بڑھ رہی ہے اور خصوصا بایاں ہاتھ بہت کمزور ہو گیا ہے اور آج کل چلنے پھرنے سے عملاً معذور ہو چکے ہیں اور اس کے لئے دل میں رغبت بھی نہیں پیدا ہوتی اور غذا بھی بہت کم ہو گئی ہے.لیکن خدا کے فضل سے اب بھی دینی کاموں اور خصوصاً تبلیغی معاملات میں بے حد دلچپسی لیتے ہیں اور ملاقات کے وقت متعلقہ اصحاب سے خود سوال کر کر کے تبلیغی امور کے متعلق دریافت فرماتے رہتے ہیں.اور اس کمزوری کے باوجود روزانہ چند منٹ کے لئے تفسیر کبیر کے نوٹ بھی سنتے اور مناسب موقع پر اصلاح فرماتے ہیں اور دنیا میں اسلام اور صداقت کی اشاعت کا بے پناہ جذ بہ رکھتے اور اسے بار بار ظاہر فرماتے ہیں.اور کبھی کبھی صدر انجمن احمدیہ کے ناظروں اور تحریک جدید کے وکیلوں کو بعض مختصر سے کاغذات کے پیش کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دن بدن حضور کی صحت اور جسمانی طاقت گرتی چلی جاتی ہے اور ڈاکٹری لحاظ سے حالت قابل فکر ہے.اور حق یہ ہے کہ گو اس وقت ڈاکٹروں کے مشورہ سے حضور کو کراچی لے جایا جا رہا ہے مگر ہمارا دل خائف ہے کہ اللہ تعالیٰ خیریت سے لے جائے اور خیریت سے لائے.بعض دوست اپنے اخلاص میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات لکھ کر یا اپنی بعض خواہیں بیان کر کے امید کے پہلو کو غالب اور نمایاں کر کے دکھانا چاہتے ہیں یہ ان کے محبت واخلاص کا دلکش مظاہرہ ہے اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(اور مومنوں کا بہر حال فرض ہے کہ وہ امید کا دامن نہ چھوڑیں) لیکن ایسے دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ الہاموں اور خوابوں کی حقیقی تعبیر صرف خدا ہی جانتا ہے اس لئے دعاؤں میں ہرگز ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے.میں خیال کرتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے اپنی پینتالیس سالہ قیادت میں جس غیر معمولی رنگ میں جماعت کو سنبھالا اور ترقی دی ہے اور پھر اس طویل عرصہ میں جس غیر معمولی رنگ میں خدا تعالیٰ نے قدم قدم پر حضور کی نصرت فرمائی ہے وہ ایک معجزہ سے کم نہیں.پس اس وقت جب کہ یہ مظفر و منصور انسان ایک تشویشناک بیماری میں مبتلا ہو کر بستر علالت پر پڑا ہے جماعت کے

Page 700

مضامین بشیر جلد سوم 678 سب بڑے اور چھوٹے لوگوں کا اولین فرض ہے کہ اسے اپنی خاص الخاص دعاؤں میں مقدم کریں.قرآن فرماتا ہے کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانِ اور اس کے ساتھ یہ تجدید بھی فرماتا ہے کہ قبابی الآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّ بَان - کوئی کہہ سکتا ہے کہ سلسلہ خدا کا ہے اور وہ ہر حال میں اس کی نصرت فرمائے گا اور زید ، بکر ، عمر کا سوال نہیں.یہ درست ہے کہ سلسلہ خدا کا ہے اور وہ اس کی نصرت فرمائے گا مگر یہ خیال کہ زید، بکر، عمر کا سوال نہیں سنت اللہ سے جہالت کا نتیجہ ہے.کیا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کے وقت میں خدا و ہی نہیں تھا جو ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھا.تو پھر کیا ان نبیوں کو وہ نصرت حاصل ہوئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی ؟ ہر گز نہیں ، ہر گز نہیں.بات یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید نے آیت كُلُّ يَوْمٍ هُوَ شان میں اشارہ فرمایا ہے.گو خدا ایک ہی ہے مگر اس کی تجلی مختلف انسانوں کے ظرف کے مطابق مختلف صورت میں ظاہر ہوا کرتی ہے.دیکھو ایک ہی آلہ نشر ( یعنی براڈ کاسٹنگ سٹیشن ) سے ایک ہی طاقت سے آواز نکلتی ہے مگر کیا اسے مختلف ریڈیو سیٹ ایک ہی طاقت کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں.بلکہ آواز ایک ہونے کے باوجود مختلف ریڈیو سیٹ اس آواز کو اپنی انفرادی طاقت کے مطابق پھیلاتے ہیں.کوئی آلہ کمزورسی چیں چیں کر کے رہ جاتا ہے اور دوسرا آلہ اسی آواز کو اس طرح اٹھاتا ہے کہ ساری فضا گونجنے لگ جاتی ہے.بس یہی خدائی تجلی کا حال ہے کہ گو خدا ایک ہے مگر اس کی تجلی مختلف انسانوں کے ظرف کے مطابق بدلی جاتی ہے.پس دوستو ! میں پھر کہتا ہوں کہ وقت کی نزاکت کو پہچانو.جماعت پر یہ ایک بہت نازک وقت ہے جب کہ وہ اپنی موجودہ ترقی کے دور کے قریب پہنچ رہی ہے.یہ وقت جیسا کہ قرآن نے سورہ نصر میں بیان کیا ہے خدائی جماعتوں کی زندگی میں بڑا نازک ہوا کرتا ہے جب کہ جماعتی قیادت میں ذراسی کمزوری یا غلطی اس کی ترقی کو پیچھے ڈال دیتی ہے.جیسا کہ حضرت موسی کی قوم کی کمزوری نے ان کی ترقی کو فتح کے وعدوں کے باوجود چالیس سال پیچھے ڈال دیا.پس میری اس آواز کو گوش ہوش سے سنو میں قرآن کے الفاظ میں پھر کہتا ہوں کہ ھلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن: 61) تَبْرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَللِ وَالْإِكْرَام (الرحمن : 79) محررہ 18 اگست 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوہ 22 اگست 1959 ء )

Page 701

مضامین بشیر جلد سوم 46 یہ تباہ کن سیلاب...خدا کی پناہ عامۃ الناس میں اصلاح اخلاق کی شدید ضرورت ارباب حل وعقد کی خدمت میں مخلصانہ مشورہ 679 چند سالوں سے پاکستان اور ہندوستان اور کشمیر وغیرہ میں غیر معمولی سیلاب آرہے ہیں جو اپنی تباہ کاری اور وسعت میں بالکل عدیم المثال ہیں.قریباً ہر سال غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے ان علاقوں کے ندی نالے اور دریا اس طرح ابلتے اور جوش مارتے ہیں کہ گویا وہ خالقِ ارض و سما کی طرف سے مخلوق کو ہوشیار اور بیدار کرنے کے لئے مامور کئے گئے ہیں.طبیعیات کے ماہروں اور انجینئروں اور دیگر واقف کاروں نے ان غیر معمولی سیلابوں کی بعض وجوہات بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور ممکن ہے کہ ان میں سے بعض وجوہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے درست بھی ہوں گی.مگر ان سیلابوں کی غیر معمولی نوعیت اور ان کی ہیبت ناک تباہ کاری اور پھر دس بارہ سال سے ان کا اوپر تلے قریباً ہر سال اپنے خونی لاؤلشکر کے ساتھ ملک کے نواح میں ڈیرے ڈالنا ہر سمجھ دار غور کرنے والے شخص کو حیرت میں ڈال رہا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟ چنانچہ ” سیلاب کا عذاب“ کے عنوان کے ماتحت ملک کے مشہور اور نامور اخبار ” نوائے وقت“ کا وقائع نگار خصوصی لکھتا ہے: جولائی اگست ستمبر ان تینوں مہینوں میں بارش اور سیلاب کے باعث پریشانی ، غرقابی اور نقل مکانی کا عذاب متوقع ہوتا ہے.ہزاروں ایکڑ زمین پر بپھرے ہوئے دریاؤں کی یلغار سے ہمارے معاشرتی نظام کی برہمی اس قدر نقصان دہ ہوتی ہے کہ اس کی تلافی دوسرے سال تک بھی ممکن نہیں ہوتی.کسے معلوم ہے کہ منزل نا آشنا میں کتنے انسانی ٹھکانوں کو یہ طغیانی اس سال بھی بہالے جائے گی.کتنے مویشی بھٹک جائیں گے.کتنا اناج اور بھوسہ بہہ جائے گا اور مواصلات کا کس قد رسلسلہ بے ربط ہو جائے گا“ (نوائے وقت 4 جولائی 1959ء) پھر سیلاب کی تباہ کاریوں“ کے عنوان کے تحت روز نامہ تسنیم لاہور کا مقالہ افتتاحیہ میں ذیل کا ہیبت ناک نقشہ پیش کیا گیا ہے: ’سیلاب کی تباہ کاریاں ہماری زندگی کا گویا معمول بن چکی ہیں.تقریباً ہر سال ہمیں ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے.بہت سی انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں.بے شمار مویشی مرجاتے ہیں.فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں.

Page 702

مضامین بشیر جلد سوم 680 مکانات گر جاتے ہیں.سڑکیں اور ریلوے لائنیں ٹوٹ جاتی ہیں.کاروبارِ زندگی سیلاب زدہ علاقوں میں معطل ہو جاتا ہے.آمد ورفت کے ذرائع ختم ہو جاتے ہیں.زرعی معیشت اور اقتصادی زندگی تہہ و بالا ہو جاتی ہے.لاکھوں روپے پر پانی پھر جاتا ہے.سیلاب اُتر جاتا ہے تو امراض پھوٹ پڑتے ہیں.طرح یہ سیلاب ملک کی معیشت اور اقتصادیات اور عام زندگی کے لئے ایک مستقل در دسر بن گئے ہیں.“ (روز نامہ تسنیم لاہور 9 جولائی 1959ء) کشمیر میں سیلاب کی تباہ کاری کے متعلق ملک کا مشہور معروف اخبار پاکستان ٹائمنز“ لکھتا ہے: وادی کشمیر میں حالیہ سیلاب سے زائد از ایک سوانسانی جانیں ہلاک ہو چکی ہیں.کشمیر کا یہ سیلاب جہاں تک زندہ انسانوں کی یاد کام کرتی ہے ہولناک ترین سمجھا گیا ہے.اس سیلاب میں فوج کے سترہ سپاہی بھی دوسروں کو بچاتے بچاتے ہلاک ہو چکے ہیں.اندازہ کیا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں چاول کی نصف فصل سیلاب کا شکار ہوگئی ہے.“ پاکستان ٹائمنر مورخہ 13 جولائی 1959ء) مغربی پاکستان میں سیلاب کے مجموعی نقصان کا جو اندازہ وسط جولائی 1959 ء تک لگایا گیا ہے اور ابھی بارش کے آغاز کا وقت تھا جس کے بعد اب تک سیلاب کی تباہ کاری جاری ہے ) اس کا خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہے: ایک عبوری سرکاری جائزہ کے مطابق مختلف اضلاع میں اس وقت تک سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں.تین ہزار سے زیادہ مویشی ہلاک اور لاپتہ ہیں.چار ہزار مکانات بالکل تباہ ہو گئے ہیں اور دس ہزار مکانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے.ہزاروں من اناج اور بھوسہ ضائع ہو گیا ہے.سیلاب سے کھڑی فصلوں کو بھی بے پایاں نقصان پہنچا ہے.صرف دو اضلاع سیالکوٹ اور مظفر گڑھ میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں.“ روزنامه آفاق لاہور 16 جولائی 1959ء) پھر یہی اخبار ” آفاق اپنے دوسرے نوٹ میں چند دن بعد لکھتا ہے کہ: سیلاب سے مغربی پاکستان کے بارہ اضلاع شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں.ان اضلاع کی آبادی سوا کروڑ کے قریب ہے گویا صوبہ کی ایک تہائی آبادی سیلاب سے متاثر ہوئی ہے.مختلف اقسام کے نقصان کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے وہ بہت روح فرسا کیفیت سامنے لاتی ہے.سیلاب سے 1428 دیہات متاثر ہوئے ہیں.ساڑھے بارہ ہزار مکانات کو شدید نقصان پہنچا ہے.تین ہزار مویشی بہہ گئے ہیں.چودہ

Page 703

مضامین بشیر جلد سوم لاکھ ایکڑ اراضی زیر آب آئی ہے اور اڑھائی لاکھ من غلہ اور بھوسہ تباہ ہوا ہے.“ 681 (روز نامه آفاق لاہور 16 جولائی 1959ء) یہ ہولناک نقصان صرف مغربی پاکستان اور کشمیر سے تعلق رکھتا ہے.جو نقصان مشرقی پاکستان اور ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے وہ اس کے علاوہ ہے اور پھر یہ نقصان صرف موجودہ سال سے متعلق ہے.گزشتہ دس بارہ سالوں میں جو ہولناک نقصانات غیر معمولی سیلابوں کی وجہ سے ہوئے ہیں وہ مزید برآں ہیں اور ابھی موجودہ برسات کا کچھ حصہ باقی ہے.بے شک ان عدیم المثال سیلابوں اور ان ہیبت ناک تباہ کاریوں اور ان کی پے در پے تکرار کی کچھ ظاہری اور مادی وجو ہات بھی ضرور ہوں گی.لیکن اگر اس ارض و سما اور اس کائنات عالم کا کوئی خالق و مالک خدا ہے اور ضرور ہے جس کے ہاتھ میں تقدیر کی کنجیاں ہیں.جو ہمارے رسول پاک (فداہ نفسی ) کے فرمان کے مطابق ہر قدر خیر و شر کا مالک ہے تو اس نے اپنی قدیم سنت کے مطابق ان مادی اور ظاہری وجوہات کے پیچھے کچھ روحانی اور باطنی موجبات بھی لگا رکھی ہوتی ہیں.کیونکہ اس رحیم و کریم ہستی کا ہر فعل خواہ وہ بظاہر کتنی تھی اور کتنے شدید عذاب کی صورت میں نظر آئے دراصل اس کی ازلی رحمت کا ہی کرشمہ ہوتا ہے.جس کے ذریعہ وہ ایک مہربان اور شفیق باپ کی طرح اپنی مخلوق کو ان کی غفلت کی میٹھی نیند سے جگا کر ہوشیار کرنا چاہتا ہے.چنانچہ مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی زبان پر خدا تعالیٰ نے ان غیر معمولی سیلابوں اور غیر معمولی عذابوں کی پہلے سے خبر دے رکھی تھی.اور دنیا کو بار بار ہوشیار کیا تھا کہ وہ وقت سے پہلے اپنی اصلاح کر لیں.مگر ضروری تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے اور دنیا ان ہیبت ناک نظاروں کو دیکھتی تا اگر ڈرانے سے نہیں تو کم از کم ان تباہ کاریوں کا نظارہ کرنے سے ہی لوگوں کے دل خوف خدا سے بھر کر اپنے اخلاق اور کردار کی اصلاح کی طرف مائل ہوتے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے کئی سال قبل الہام کے ذریعہ فرمایا تھا کہ: صحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گئے پھر خدائے عز وجل نے آپ کی زبان پر فرمایا کہ: ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 564) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم پشم خود دیکھ لو گے.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 269)

Page 704

مضامین بشیر جلد سوم پھر فرماتے ہیں : میں شہروں کو گرتے دیکھتا اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں“ 682 ( تذکرہ صفحہ 663 حاشیہ) پھر مخلوق خدا کی ہمدردی کے جذبہ سے مغلوب ہو کر کس دردناک انداز میں فرماتے ہیں کہ: آنکھ کے پانی سے یارو کچھ کرو اس کا علاج آسماں اے غافلو اب آگ برسانے کو ہے (چشمه مسیحی) مگران اعلانات اور ان خدائی مکاشفات کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی بار بار صراحت فرمائی کہ اس قسم کے عمومی عذاب صرف لوگوں کی عام بداخلاقی اور بد کرداری اور بددیانتی اور بے حیائی اور فریب دہی اور ظلم و ستم اور قتل و غارت اور لین دین میں دھوکہ اور جھوٹ اور اکل بالباطل اور اغوا اور زنا اور چوری اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے نتیجہ میں آتے ہیں.جن سے بچنے کے لئے کسی تبدیلی مذہب کی ضرورت نہیں بلکہ صرف عام اخلاقی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ شدید آفت جس کو خدا تعالیٰ نے زلزلہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے صرف اختلاف مذہب پر کوئی اثر نہیں رکھتی اور نہ ہند ویا عیسائی ہونے کی وجہ سے کسی پر ( اس قسم کا عمومی ) عذاب آسکتا ہے.اور نہ اس وجہ سے آسکتا ہے کہ کوئی میری بیعت میں داخل نہیں.یہ سب لوگ اس تشویش سے محفوظ ہیں.ہاں جو شخص خواہ کسی مذہب کا پابند ہو جرائم پیشہ ہونا اپنی عادت رکھے اور فسق و فجور میں غرق ہے اور زانی، خونی، چور ، ظالم اور ناحق کے طور پر بداندیش، بد زبان اور بد چلن ہو اس کو اس سے ڈرنا چاہئے.اور اگر تو بہ کرے تو اس کو بھی کچھ غم نہیں اور مخلوق کے نیک کردار اور نیک چلن ہونے سے یہ عذاب ٹل سکتا ہے.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 151 حاشیہ) دراصل خدائی عذاب کا قانون ایک بڑے گہرے فلسفہ اور بار یک حکمت پر مبنی ہے جسے سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں.موٹے طور پر یہ جاننا کافی ہے کہ خدائی عذاب چار اقسام میں منقسم ہے: (اول) وہ عذاب جو صرف دنیا میں آتا ہے اور آخرت میں نہیں آتا.اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص زنا یا چوری وغیرہ کا جرم کرے اور اسے اسی دنیا میں اس جرم کی سزامل جائے اور پھر وہ توبہ کرلے اور آخرت کے عذاب سے بچ جائے.جیسا کہ حدیث میں ایک شخص کے ذکر میں آتا ہے کہ اس نے ان کا اعتراف کیا اور اس پر اسے سزا ملی.مگر اس کی غیر معمولی سچی توبہ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس کی

Page 705

مضامین بشیر جلد سوم 683 تو بہ اس وادی کے سارے گناہ گاروں پر تقسیم کی جائے تو وہ بھی خدائی مغفرت کے حق دار بن جائیں.( دوم ) وہ عذاب جو اس دنیا میں بھی آتا ہے اور آخرت میں بھی آتا ہے جیسا کہ اوپر کے عمومی عذاب میں ذکر ہے جو عامۃ الناس کے گناہوں کی کثرت اور اخلاقی بد کردار یوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے اس دنیا میں آتا ہے.اور اگر لوگ تو بہ نہ کریں تو ایسے لوگ یقیناً آخرت میں بھی خدائی عذاب کا نشانہ بنیں گے.( سوم ) اسی طرح ایک اور عذاب بھی ہوتا ہے جو اس دنیا میں بھی آتا ہے اور آخرت میں بھی آتا ہے.جیسا کہ خدا کے رسولوں اور ماموروں کے سرکش منکروں اور ائمۃ الکفر اور روحانی نظام کے باغیوں پر آیا کرتا ہے.جیسا کہ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو جہل اور عتبہ اور شیبہ اور ابی اور امیہ اور عقبہ وغیرہ پر آیا کہ وہ اس دنیا میں بھی ذلت کی موت مارے گئے اور آخرت میں بھی ان کے لئے جہنم کی آگ مقدر ہے.یا جیسا کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح ناصری کے جھوٹے نمائندہ اور ہمارے رسول پاک کے ناپاک دشمن ڈوئی کا امریکہ میں انجام ہوا جس نے مسیح محمدی کے مقابل پر کھڑے ہو کر اسلام کی تباہی کی پیشگوئی کی تھی مگر پھر وہ آپ کی زندگی میں ذلت کی موت مرکز ختم ہو گیا.یا جیسا کہ پنڈت لیکھرام آریہ لیڈر پر عذاب آیا جس کی انتہائی دین حق ) دشمنی اور بد زبانی کی وجہ سے مقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ چھ سال کے اندر اندر گوسالہ سامری کی طرح ہلاک کیا جائے گا اور فرمایا تھا کہ : الا اے دشمن نادان و بے راہ بنترس از تیغ بران (چہارم ) وہ عذاب جو اس دنیا میں نہیں آتا بلکہ صرف آخرت میں آتا ہے.یہ وہ عذاب ہے جو خدائی ماموروں اور رسولوں کے عام منکروں کے لئے مقدر ہوتا ہے جو ایک روحانی مصلح کی آواز سننے اور عمومی رنگ میں اتمام حجت ہونے کے باوجود انکار پر قائم رہتے ہیں اور حبل اللہ کو نہیں پکڑتے جولوگوں کی اخروی نجات کے لئے آسمان سے نازل کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ.اس کے علاوہ خدائی عذاب کی بعض اور بھی اقسام ہیں مگر اس جگہ مجھے اس بحث میں پڑنے کی ضروت نہیں.بہر حال موجودہ غیر معمولی سیلاب اور ان کی غیر معمولی تباہ کاری اور ان کا غیر معمولی تسلسل ایک غیب کی انگلی ہے جولوگوں کی اخلاقی اصلاح کے لئے اٹھائی گئی ہے.اس قسم کے عذاب میں کسی مامور من اللہ کے انکار کا دخل نہیں اور نہ ہی تبدیلی مذہب کا کوئی سوال ہوتا ہے.بلکہ یہ تباہ کاری صرف عامتہ الناس کو ان کے اخلاقی جرائم اور بدکرداریوں پر ہوشیار کرنے کے لئے واقع ہوتی ہے.بدقسمی سے آج کل لوگوں کا اخلاق اور لوگوں کا کردار

Page 706

مضامین بشیر جلد سوم 684 اتنا گر چکا ہے کہ خدا کی پناہ.اس کے لئے ملکی حکومت کے زبر دست اقدام کے علاوہ بعض غیبی دھکوں کی بھی ضرورت ہے جو سوتے ہوؤں کو جگا سکیں اور جاگتے ہوؤں کے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کو استوار کر سکیں.یہ ایک بہت خوشی کا مقام ہے کہ موجودہ مارشل لاء حکومت نے اس معاملہ میں بعض بڑے موثر قدم اٹھائے ہیں اور کئی جہت سے ملک میں اصلاح کی صورت نظر آ رہی ہے.لیکن حال ہی میں بعض ایسے عنوان بھی نظر آنے لگے ہیں کہ پبلک کے ایک طبقہ میں وقتی بیداری کے بعد پھر غنودگی کے آثار پیدا ہور ہے ہیں.اور مارشل لاء کے ابتداء میں جو ڈر اور خوف کی کیفیت لوگوں کے دلوں میں پیدا کی تھی اس میں کچھ کمی آنے لگی ہے.اور ظاہر ہے کہ مارشل لاء ہمیشہ نہیں رہ سکتا.پس اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اصلاحی پروگرام کو جلد تر مکمل کرنے کی کوشش کرے اور اس سے بھی زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اسے ایسے رنگ میں مکمل کرے کہ جسم کے ساتھ روح بھی اصلاح پذیر ہوتی چلی جائے تا کہ یہ اصلاح حقیقی اور دائمی ثابت ہو.بے شک اچھا قانون بڑی نعمت ہے مگر اچھے قانون کے ساتھ لوگوں میں اچھی روح کا پیدا ہو جانا اس سے بھی بڑی چیز ہے.اور خدا کرے کہ پاکستانیوں کو یہ پاک روح یعنی بلند کیریکٹر حاصل ہو جائے اور ان کی ترقی کا قدم ایسی مضبوط چٹان پر قائم ہو جائے جسے کوئی طوفان متزلزل نہ کر سکے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ روزنامه الفضل ربوہ 30 اگست 1959 ء) جماعتی عہد یداروں کے انتخاب کے متعلق ضروری ہدایات امراء کی اطاعت کا بلند معیار مجھ سے بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے کہ چونکہ ربوہ میں اور اسی طرح دوسری مقامی جماعتوں میں وقفہ وقفہ کے ساتھ مقامی عہدہ داروں کا انتخاب ہوتا رہتا ہے اس لئے اس معاملہ میں اسلامی اور جماعتی نقطہ نگاہ کا واضح کیا جانا مناسب ہے تا کہ اس نقطہ نگاہ کو ان انتخابوں میں مدنظر رکھا جا سکے.سو مختصر طور پر جاننا چاہئے کہ اس کے لئے قرآن مجید کی بنیادی ہدایت وہ ہے جو سورۂ نساء میں بیان ہوئی ہے یعنی : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّوا الا منتِ إِلَى أَهْلِهَا لا وَإِذَا حَكَمْتُمُ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا

Page 707

مضامین بشیر جلد سوم 685 بالعدل (النساء:60) یعنی اے مسلمانو! تمام جماعتی اور قومی عہدے خدا کی طرف سے ایک امانت ہیں.سو اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس امانت کو ہمیشہ اس کے اہل لوگوں کے سپر د کیا کرو اور پھر جولوگ عہدہ دار مقرر ہوں ان کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے فرائض کو پورے عدل وانصاف کے ساتھ کیا کریں.یہ لطیف آیت قومی عہدوں اور عہدہ داروں کے انتخاب کے بارے میں اسلامی احکام کا گویا نچوڑ اور لب لباب ہے.اس میں پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ تمام قومی اور جماعتی عہدے خدا کی طرف سے ایک امانت ہوتے ہیں.جسے ہمیشہ ایک مقدس امانت سمجھتے ہوئے پوری ذمہ داری اور پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کرنا چاہئے.یہ حکم ووٹوں کے ذریعہ عہدیدار چنے والوں یا اپنے حکم کے ذریعہ کسی شخص کو کسی عہدہ پر مقرر کرنے والوں ہر دو کے لئے ہے.ان دونوں طبقوں کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کو پختہ طور پر یا درکھیں کہ جماعتی اور قومی عہدہ داروں کے انتخاب یا تقر ر کا معاملہ ایک بڑی اہم خدائی امانت ہے جسے پوری دیانت داری اور پورے سوچ و بچار کے ساتھ بلالحاظ دوستی و دشمنی و بلالحاظ پارٹی بازی و جتھہ بندی خالصہ قومی اور جماعتی مفاد میں ادا کرنا چاہئے.اور پھر جو لوگ کسی عہدہ پر مقرر ہوں (خواہ بذریعہ ووٹ یا بذریعہ تقرر ) ان کے لئے خدا کا یہ حکم ہے کہ اپنے فرائض کو پورے پورے عدل وانصاف کے لئے بلاخوف لومتہ لائم ادا کریں اور اپنے عہدہ کو ایک خدائی امانت سمجھیں جس میں کسی نوع کی خیانت کرنا یا بدعنوانی کا مرتکب ہونا خدائی امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہوگا.جس کے لئے ان کو خدا کے سامنے اور قوم کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا.اور یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں عدل کے لفظ سے صرف دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا ہی مراد نہیں بلکہ افراد اور قوم کے درمیان عدل کرنا اور دوست اور دشمن کے درمیان عدل کرنا اور ہر اندرونی اور بیرونی معاملہ میں عدل کے تر از وکو استوار رکھنا بھی مراد ہے.اس تعلق میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن مجید نے کمال حکمت سے اس آیت میں قومی اور جماعتی عہدہ داروں کے لئے کوئی خاص وصف معین نہیں کیا.مثلاً یہ نہیں فرمایا کہ جس شخص کو عہدہ دار چنا جائے وہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہو یا بڑی وجاہت کا مالک ہو یا بڑا دولت مند ہو یا بڑی عمر کا بزرگ ہو یا خاص طور پر بڑا نمازی یا روزہ دار ہو وغیرہ وغیرہ.بلکہ قرآن مجید نے صرف اهلها کا جامع لفظ استعمال کیا ہے.جس میں وہ تمام اوصاف شامل ہیں جو کسی عہدے کے لئے ضروری سمجھے جائیں.پس اصل چیز جو کسی عہدہ دار کے انتخاب یا تقریر میں مدنظر رکھنی ضروری ہے.وہ قرآنی تعلیم کے ماتحت اہلیت اور صرف اہلیت ہے اور ظاہر ہے کہ ہر عہدہ

Page 708

مضامین بشیر جلد سوم 686 کے مناسب حال اہلیت کا مفہوم بدل جائے گا.مثلاً جماعت احمدیہ کے حالات کے لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر کسی مقامی جماعت میں امیر یا صدر کے انتخاب کا سوال ہو تو لازماً اہلیت کا مفہوم زیادہ وسیع صورت میں اور زیادہ وسیع پہلوؤں کے لحاظ سے مدنظر رکھنا ضروری ہوگا.اور اگر سیکرٹری مال کا تقرر ہونا ہوتو اور قسم کی اہلیت دیکھنی ہوگی.اور اگر سیکرٹری تبلیغ کا سوال ہو تو اس کے مناسب حال اوصاف تلاش کرنے ہوں گے.اور اگر سیکرٹری تعلیم کا انتخاب ہونا ہو تو اس کے لئے شعبہ تعلیم کی اہلیت مدنظر رکھنی ہوگی.اور اگر سیکرٹری امور عامہ کے تقرر کا سوال ہو تو اس کے لئے عمومی رنگ کی انتظامی اہلیت دیکھنی ضروری ہوگی وعلی ہذا القیاس.الغرض قرآنی تعلیم کے مطابق ہر عہدہ اور ہر کام کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ اہلیت مدنظر رکھنی ضروری ہے.جماعتی عہد یداروں کے لئے عمومی اوصاف اس اصولی تعلیم کے ماتحت جماعت احمدیہ کے عہدہ داروں کے معاملہ میں ذیل کے عمومی اوصاف کو مد نظر رکھنا ہو گا.گو مختلف عہدہ داروں کے لئے ان کے عہدہ کی نوعیت کے لحاظ سے بہر حال بعض مخصوص اوصاف کو ملحوظ رکھنا زیادہ ضروری سمجھا جائے گا.(1) ہر عہدہ دار مخلص اور پختہ احمدی ہو جو خلافت احمدیہ کے ساتھ دلی عقیدت اور اخلاص اور وفاداری کا تعلق رکھتا ہو اور جماعت کے مرکزی نظام کے ساتھ مخلصانہ تعاون کی پالیسی پر قائم ہو.ورنہ جماعت ایک ایسی گاڑی کا رنگ اختیار کرے گی جس کا ایک گھوڑا اسے ایک طرف کھنچتا ہو اور دوسرا گھوڑا دوسری طرف.(2) ہر عہدہ دار سلسلہ احمدیہ کی تعلیم اور جماعت کے عقائد اور جماعت کی حد بندیوں سے واقفیت رکھتا ہوتا کہ وہ نہ صرف مقامی احمدیوں کی نگرانی کر سکے بلکہ اس کا اپنا عمل بھی دوسروں کے لئے نمونہ ہو.(3) وہ اپنے حلقہ کے احمدیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعارف رکھتا ہوتا کہ حسب ضرورت ان کا خیال رکھ سکے اور ان کی دیکھ بھال کر سکے اور کسی مقامی اختلاف کی صورت میں مصالحت کرانے کی اہلیت اور جذبہ رکھتا ہو اور جماعتی اتحاد کی قدر و قیمت کو پہچانتا ہو جسے افسوس ہے کہ کئی لوگ نہیں پہچانتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں تفرقہ پیدا کرنے کے عادی ہوتے ہیں.(4) وہ چوکس دماغ رکھتا ہوتا کہ اس کے حلقہ میں کوئی مشتبہ یا فتنہ پرداز شخص ہو تو اس پر نگاہ رکھ کر ضروری کارروائی کر سکے اور مرکزی عہدہ داروں کو بھی وقت پر اطلاع دے سکے.

Page 709

مضامین بشیر جلد سوم 687 (5) اس کے مزاج میں نہ تو نا واجب سختی ہو کہ لوگ اس کی سختی اور خشونت کی وجہ سے اس سے دور بھا گئیں اور نہ نا واجب نرمی ہو کہ حقیقی ضرورت کے وقت بھی گرفت نہ کر سکے.مگر اس کی سختی میں بھی پدرانہ انداز کی چاشنی ہونی چاہئے.(6) وہ مستورات کی بہبودی اور بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کا خاص جذ بہ اور ملکہ رکھتا ہو.مستورات قومی ترقی میں نصف کی حصہ دار اور بچوں کی تربیت کی اتنی فیصدی ذمہ دار ہوتی ہیں.اور نوجوانوں کی اصلاح جماعت کی دائمی ترقی کی ضامن ہوا کرتی ہے.(7) وہ احمدی دکانداروں اور تاجروں اور صناعوں اور پیشہ وروں پر خاص نگاہ رکھ سکے تاکہ ان کا معاملہ صداقت اور صفائی اور دیانتداری اور ہمدردی مخلق کے اصول پر مبنی ہو اور غیر از جماعت لوگوں کے لئے ٹھوکر کی بجائے کشش اور نیک نامی کا باعث بنے.(8) وہ اپنے حلقہ کے قتیموں اور بیواؤں اور غریبوں اور بے بسوں اور بیماروں کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کا سلوک رکھنے کا عادی ہو.مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کا خیال بھی رکھے کہ لوگوں میں بیکار رہ کر بلا وجہ سوال کرنے کی عادت نہ ترقی کرے جو قومی اخلاق کے لئے تباہ کن ہے.(9) وہ متقی اور خدا ترس اور اعمال صالحہ بجالانے والا ہو اور نیک تحریکات میں آگے آکر حصہ لینے کا عادی ہو اور جہاں تک ممکن ہو اور سہولت میسر ہو با جماعت نماز کا پابند ہو.اور دعاؤں میں شغف رکھتا ہوتا کہ وہ ایک خدائی جماعت کا ذمہ دار افسر بن سکے.( 10 ) وہ جماعتی چندوں میں حسب توفیق ذوق و شوق سے حصہ لیتا ہوتا کہ دوسروں کے لئے نمونہ بنے اور اس کی کاہلی کی وجہ سے دوسروں میں مالی قربانی کے معاملہ میں سستی نہ پیدا ہونے پائے بلکہ ترقی ہو.اور وہ چندوں کے لئے مؤثر تحریک کرنے کا ملکہ بھی رکھتا ہو.جماعتی چندے جماعتی تنظیم کے لئے گویا ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں جن پر ہمارے تبلیغی اور تعلیمی اور تربیتی اور تنظیمی پروگرام کی کامیابی کا بڑی حد تک دارو مدار ہے.یہ وہ دس مختصری باتیں ہیں جن کا جماعتی عہدہ داروں میں بالعموم پایا جانا ضروری ہے تا کہ وہ کامیابی اور خوش اسلوبی اور خوش انتظامی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کر سکیں.اور جماعتی عہدہ دار چننے والوں کو بھی انہی اوصاف کے پیش نظر عہدہ داروں کا انتخاب کرنا چاہئے.اور اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ ایک نہایت مقدس امانت ہے جسے غلط طریق پر استعمال کرنا خدا تعالیٰ کا بھاری گناہ اور جماعت سے خطرناک

Page 710

مضامین بشیر جلد سوم غداری ہے.688 میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو ہمیشہ قابل اور مخلص اور فدائی کارکن عطا کرتا رہے جو جماعت کے بہترین گڈریے ثابت ہوں.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ امراء کی اطاعت کا بلند معیار اس جگہ ایک مختصر سا نوٹ اسلامی معیار اطاعت کے متعلق درج کرنا بھی بے موقع نہ ہو گا.سواس تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: السَّمُعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيْمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرُ بِمَعْصِيَّةٍ فَإِذَا أُمِرَ بمَعْصِيَّةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ - (ابوداؤ د کتاب الجھاد باب في الطاعة ) یعنی ہر مسلمان پر اپنے امیر کا حکم ماننا فرض ہے خواہ اسے وہ حکم پسند ہو یا نا پسند ہو.لیکن اگر اسے کوئی ایسا حکم دیا جائے جو خدا اور اس کے رسول کے حکم کے صریح خلاف ہے اور اس میں خدا اور اس کے رسول کے حکم کی کھلی کھلی نافرمانی لازم آتی ہو تو اس صورت میں ایسے حکم کا ماننا اس پر فرض نہیں.اس حکم کی تشریح میں نماز کا ایک چھوٹا سا مسئلہ بڑی بھاری روشنی ڈالتا ہے.جیسا کہ ہر چھوٹے بڑے مسلمان کو معلوم ہے کہ اسلام کا یہ ایک معروف اور مسلم مسئلہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز میں امام مقرر ہو اور وہ نماز پڑھاتے پڑھاتے کسی بات کے متعلق بھول جائے مثلاً چار رکعتوں کی بجائے تین رکعت پڑھا دے یا قعدہ میں بیٹھنے کی بجائے اگلی رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے یا کوئی اور غلطی کر جائے تو اس صورت میں مقتدیوں کے لئے یہ حکم ہے وہ ادب کے طریق پر اشارہ کے ساتھ صرف اتنا کہیں کہ ”سُبحَانَ اللهِ ، یعنی غلطی سے تو صرف خدا کی ذات ہی پاک ہے تا کہ اس اشارے سے امام سمجھ لے کہ مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے.لیکن اگر اس پر بھی امام کو اپنی غلطی کا احساس نہ ہو اور وہ اپنی غلطی پر عملاً مصر رہے تو اس صورت میں مقتدیوں کے لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ وہ امام کی غلطی کا یقین رکھنے کے باوجود امام کے پیچھے چلیں اور اس کی اقتداء سے الگ نہ ہوں.یہ ایک نہایت حکیمانہ ہدایت ہے جس میں امیروں اور اماموں کے ادب اور ان کی اطاعت کے متعلق بڑے لطیف رنگ میں سبق دیا گیا ہے.دوستو! سوچو اور غور کرو کہ باوجود اس کے کہ اسلام کے احکام خدا کی طرف سے ہیں جو حضرت افضل الرسل خاتم النبیین کی زبان مبارک کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں اور باوجود اس کے مقندی یقین رکھتے ہوں کہ

Page 711

مضامین بشیر جلد سوم 689 فلاں معاملہ میں امام نے غلطی کی ہے ان کو اسے اس کی غلطی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ کہنے کی اجازت نہیں کہ ”آپ نے غلطی کی ہے بلکہ وہ صرف اشارہ کی زبان میں ادب کے ساتھ ”سُبْحَانَ اللهِ “کہہ سکتے ہیں یعنی غلطیوں سے تو صرف خدا ہی پاک ہے.اور اگر پھر بھی امام کو اپنی بھول کا احساس نہ ہو اور وہ نماز میں ایک غلط قدم اٹھا جائے تو مقتدیوں کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اسے چھوڑ کر الگ ہو جائیں یا اس پر اعتراضوں کی بوچھاڑ شروع کر دیں.بلکہ ان کو بہر حال اس کے پیچھے چلنا ہوگا اور اس کی غلطی کا یقین رکھتے ہوئے بھی اس کی اقتداء کرنی ہوگی.یہ وہ بلند معیار اطاعت ہے جس کے نتیجہ میں احمدی صحیح معنوں میں بنیانِ مرصوص ( یعنی ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ) بن سکتے ہیں.ورنہ وہ ایک بکھرے ہوئے جھاڑو کی تیلیوں کی طرح بیکار ہو کر رہ جائیں گے.ہمارے دوست سوچیں اور غور کریں کہ کیا ان کا معیار اطاعت ان احکام کے مطابق ہے؟ ہاں ہاں وہ ضرور سوچیں اور غور کریں.امراء کو مشورہ لینے کا حکم دوسری طرف اسلام میں ( جو ایک نہایت متوازن مذہب ہے ) امراء کے لئے بھی یہ حکم ہے کہ وہ تمام اہم امور میں جماعت کے مشورہ سے کام کیا کریں تا کہ افراد جماعت میں بشاشت پیدا ہو اور تعاون کی روح ترقی کرے اور کام کرنے کی فطری صلاحیتیں صحیح طریق پر نشو ونما پائیں.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ: أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمُ (الشورى: 39) یعنی وہ مسلمانوں کے قومی اور جماعتی کام آپس میں مشورہ کے ساتھ طے ہوئے چاہئیں.لیکن اس کے باجود اسلام یہ بھی ہدایت فرماتا ہے کہ اگر کوئی امیر اپنی جماعت کے مشورہ کو نظر انداز کر کے جماعتی مفاد میں کوئی اور فیصلہ کرنا ضروری خیال کرے اور مقامی جماعت کے مشورہ کو جماعت کے لئے نقصان دہ سمجھے تو فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ (آل عمران: 160 ) ( یعنی جب تو کسی بات کا عزم کرلے تو پھر خدا پر توکل کر ) کے حکم کے ماتحت اسے ایسا کرنے کا اختیار ہے.کیونکہ ہمارے کاررواں کی اصل مہار خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہمارا حقیقی کارساز ہے.یا پھر مرکزی کارکنوں کی طرف رجوع کیا جائے جو براہ راست خلیفہ وقت کی نگرانی میں کام کرتے ہیں.الغرض یہ وہ مختصر ڈھانچا ہے جس کے مطابق مقامی عہدہ داروں کا انتخاب ہونا چاہئے.اور یہی وہ ڈھانچا ہے جس کے مطابق مقامی عہدہ داروں کو کام کرنا چاہئے.یادرکھو کہ ہم کوئی سیاسی جماعت نہیں ہیں اور یا درکھو کہ ہم کوئی دنیوی انجمن بھی نہیں ہیں بلکہ ہم ایک خالص خدائی جماعت ہیں.جس کا بیج خدائے عرش

Page 712

مضامین بشیر جلد سوم 690 کے حکم کے ساتھ اسلام کی خدمت کے لئے بویا گیا ہے.یہ بیج زمین سے پھوٹ کر باہر آچکا ہے اور اس کی ہری ہری کو نپلیں فضا میں لہلہا رہی ہیں.اب وہ بہر حال بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے.مگر خوش قسمت ہیں وہ جو اخلاص اور قربانی اور دیانت داری اور جانفشانی اور عرق ریزی کے ساتھ اس کی آبیاری میں حصہ لیں گے.أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ طَهُمْ فِيهَا خلِدُونَ (المومنون: 11-12) محرره 29 اگست 1959 ء ) روزنامه الفضل ربوه 3 ستمبر 1959ء) اپنی صحت کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کا اعلان غالبا چار دن ہوئے مولوی محمد یعقوب صاحب انچارج شعبہ زودنویسی کی طرف سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک اعلان اپنی صحت کے متعلق الفضل کے صفحہ اول پر شائع ہوا تھا.جس میں جماعت کو تسلی دلائی گئی تھی کہ ڈاکٹروں کی طرف سے جو اعلان میری صحت کے متعلق روزانہ شائع ہورہا ہے وہ گو ڈاکٹری نقطہ نگاہ سے درست ہو گا مگر میں خدا کے فضل سے اپنی صحت کو بہتر پاتا ہوں اور موٹر میں سیر کے لئے بھی جاتا ہوں اور یہ کہ جماعت کو اس بارے میں کوئی تشویش نہیں ہونی چاہئے.حضور کے اس اعلان میں طبعا مخلصین جماعت کے دلوں میں خوشی اور اطمینان کی ایک لہر پیدا کر دی ہے اور مجھے ہر ڈاک میں احباب کرام کی طرف سے اس مضمون کے خطوط پہنچ رہے ہیں کہ اب تو خدا کے فضل سے حضرت صاحب کی حالت بہتر ہے اور کوئی فکر کی بات نہیں.سو جہاں تک جماعت کی خوشی کا سوال ہے وہ حقیقتاً جماعت کے اخلاص کا ایک نہایت خوش کن پہلو ہے کہ کس طرح امام کی تکلیف ان کو بے چین کر دیتی ہے.جس طرح امام کی صحت میں ذرا سا افاقہ دلوں میں خوشی کی لہر پیدا کر دیتا ہے.دوسرا پہلو حضور کے اعلان میں خوشی کا یہ ہے کہ خواہ ابھی تک ڈاکٹری رپورٹ کچھ بھی ہو حضور خود اب اپنی صحت کو بہتر خیال فرمانے لگے ہیں اور حضور کی بیماری کا یہ پہلو نفسیاتی لحاظ سے بھی حضور کی صحت کی بحالی میں بہت مد ہو سکتا ہے.مگر میں مخلصین جماعت کو ہوشیار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ حضور کے اس اعلان کی وجہ سے اپنی دعاؤں میں

Page 713

691 مضامین بشیر جلد سوم ہرگز غافل نہ ہوں کیونکہ ڈاکٹری لحاظ سے حضور کی اصل بیماری کے بعض پہلو ابھی تک بدستور قائم ہیں اور قابلِ فکر ہیں.بے شک بعض پہلوؤں کے لحاظ سے حضور کی صحت میں کسی قدر بہتری کے آثار پائے جاتے ہیں اور خدائی حکم اِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ کے ماتحت ہر مخلص احمدی کا فرض ہے کہ اس تبدیلی پر خدا کا شکر گزار ہو.لیکن اس کی وجہ سے دعاؤں میں غفلت ہرگز نہیں ہونی چاہئے.اسلام کا خدائے علیم وحکیم اکثر اوقات مومنوں کو ہیم دور جا کی حالت کے درمیان درمیان رکھنا چاہتا ہے.کیونکہ اسی وسطی نقطہ میں ان کی چوکسی اور بیداری اور اصلاح نفس کا راز مضمر ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کا اور امام جماعت کا حافظ وناصر ہو.(محرره 15 ستمبر 1959ء) مضمون ہے روزنامه الفضل ربوہ 17 ستمبر 1959ء) 9 کیا روح سے رابطہ ممکن ہے؟ جسم کے مرنے کے بعد روح کہاں رہتی ہے؟ مندرجہ بالا عنوان کے تحت موقر اخبار ”لاہور کی اشاعت مورخہ 24 اگست 1959 ء میں ایک صاحب خواجہ حبیب اللہ صاحب فاروقی کا ایک دلچسپ مقالہ شائع ہوا ہے.ہر چند کہ یہ خاکسار آج کل بعض پریشانیوں کی وجہ سے وہ یکسوئی اور فرصت نہیں رکھتا جو اس قسم کے موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے ضروری ہے.لیکن فاروقی صاحب کا مقالہ حقیقتا دلچسپ ہے.اور پھر محترم ایڈیٹر صاحب’لا ہوں“ نے اپنے قارئین کو اس ن پر قلم اٹھانے کی عام دعوت بھی دی ہے.اس لئے چند مختصر سے فقرات کے ذریعہ ذیل میں اپنے خیالات اور معلومات کا اظہار کرتا ہوں.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ - سب سے پہلے تو میں مضمون نگار صاحب کے اس سوال کا دوحرفی جواب دینا چاہتا ہوں جو انہوں نے اپنے مضمون کے عنوان میں کیا ہے.یعنی ”کیا روح سے رابطہ ممکن ہے؟ اس کے متعلق میرا جواب یہ ہے کہ ”ہاں ممکن ہے مگر میرے جواب کی تفصیل فاروقی صاحب کے مضمون کی تفصیل سے غالباً مختلف ہوگی.لیکن سب سے پہلے ضروری ہے کہ روح کی پیدائش کے متعلق قرآنی تعلیم کی رو سے روشنی ڈالی جائے کیونکہ اس کے بغیر میرے مضمون کا پس منظر واضح نہیں ہو سکے گا.قرآن مجید انسانی پیدائش کی تفصیل اور اس کے مختلف مدارج بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

Page 714

مضامین بشیر جلد سوم 692 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلَلَةٍ مِّنْ طِيْنِ ، ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِيْنِه ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَمًا فَكَسَوْنَا الْعِظَمَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (المومنون: 13-15) یعنی ہم نے انسان کو ابتداء مرطوب مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا.پھر اسے ایک محفوظ قرارگاه ( یعنی رحم مادر ) میں نطفہ کے طور پر رکھا.پھر ہم نے اس نطفہ کو ایک ڈھیلے ڈھالے چپکنے والے لوتھڑے کی صورت دی.پھر اس ڈھیلے ڈھالے لوتھڑے کو پیوست بوٹی کی شکل میں منتقل کیا.پھر اس بوٹی میں ہڈیاں بنائیں.پھر ان ہڈیوں پر گوشت پوست کا خول چڑھایا اور پھر اس وجود کو ایک نئی مخلوق کی صورت میں بنا کھڑا کیا.پس لوگو! دیکھو کہ تمہارا خدا کیسا با برکت اور کیسا بہترین خالق ہے.جسم اور روح کی پیدائش کے مختلف مراحل اس لطیف آیت میں خداوند عالم نے انسان کے جسم اور اس کی روح دونوں کی پیدائش کو نہایت لطیف رنگ میں اس کے مختلف مدارج کی تشریح کے ساتھ بیان کیا ہے.اولاً اس آیت میں جسم کی پیدائش کو مٹی کے خلاصہ سے لے کر نطفہ اور پھر ڈھیلے ڈھالے لوتھڑے اور پھر پیوست بوٹی اور پھر ہڈی اور پھر گوشت پوست کے خول تک درجہ بدرجہ مکمل کرنا بیان کیا گیا ہے.اور اس کے بعد روح کی پیدائش کا اس جسم میں سے خلقاً اخر ( یعنی ایک نئی پیدائش) کے الفاظ سے ذکر کرتے ہوئے اور اس کے ساتھ انشَأْنه (یعنی بنا کھڑا کیا) کا لفظ لگا کر اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان میں یہ روح ہی ہے جو اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز کر کے اور حیوانوں کے زمرہ میں سے نمایاں کر کے علیحدہ صف میں کھڑا کر دیتی ہے.پس اسلام کی تعلیم کے مطابق روح در اصل جسم ہی کا ایک ترقی یافتہ جو ہر ہے جو انسانی جسم کی تکمیل کے بعد اس کے اندر سے ایک نئی اور ارفع مخلوق کی صورت میں پیدا ہوتا ہے.اور آریہ سماج کی طرح یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ روح ایک بیرونی چیز ہے جو باہر سے آکر انسانی جسم میں داخل ہو جاتی ہے.تو جب روح انسانی جسم ہی کا ایک ترقی یافتہ حصہ ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا تعلق جسم کے ساتھ جو اس کے لئے بطور پیج یا باپ کے ہے کبھی بھی کامل طور پر منقطع نہیں ہو سکتا اور کسی نہ کسی صورت میں ضرور قائم رہتا ہے.اسی لئے حدیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان کے مرنے اور اس کی روح کے پرواز کر جانے اور اس کے جسم کے بظاہر کھلی طور پر فنا ہو جانے کے بعد بھی اس کے جسم کا ایک نہ نظر آنے والا حصہ جسے گویا ایٹم یا

Page 715

مضامین بشیر جلد سوم 693 مالیکیول کہہ سکتے ہیں (میں سائنس کا عالم نہیں ہوں صرف سمجھانے کی غرض سے عام رنگ میں بیان کر رہا ہوں ) محفوظ رہتا ہے.اور اس حدیث میں اس حصہ کو عَجَبُ الذَنَب یعنی ریڑھ کی ہڈی کے اسفل ترین حصہ سے تعبیر کیا گیا ہے.(بخاری کتاب التفسیر ) چنانچہ اسی وجہ سے مرنے والوں کی قبروں کے ساتھ ان کی روحوں کا کسی نہ کسی رنگ میں رابطہ تسلیم شدہ ہے.اور اکثر اولیاء و صلحاء کا تجربہ ہے کہ جب وہ کسی فوت شدہ بزرگ کی قبر پر جا کر توجہ سے دعا کرتے ہیں تو بعض اوقات کشفی حالت میں صاحب قبر کی روح کے ساتھ ان کی ملاقات ہو جاتی ہے.اور یا درکھنا چاہئے کہ کشف اور خواب بالکل جدا گانہ چیزیں ہیں.کیونکہ خواب نیند کی حالت میں آتی ہے اور کشف بیداری کی حالت میں ہوتا ہے.جبکہ کشف دیکھنے والے کی آنکھوں پر سے مادی پردے اٹھا کر اسے کوئی غیبی نظارہ دکھایا جاتا ہے.اور یہ نظارہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے مادی آنکھوں کے سامنے کوئی سینما کی تصویر پھر جاتی ہے.اسلامی اصطلاح کے مطابق قبر کی تشریح اس جگہ یہ صراحت بھی ضروری ہے کہ اسلامی محاورہ میں قبر سے ہمیشہ مٹی کے ڈھیر والی معروف قبر ہی مراد نہیں ہوتی بلکہ اس سے وہ مقام بھی مراد ہوتا ہے کہ جہاں مرنے کے بعد حشر و نشر سے پہلے انسانی روح رکھی جاتی ہے.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے: ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (عبس:22) یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان پر موت وارد کرتا ہے اور پھر اسے اس کی قبر میں رکھتا ہے اب ظاہر ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو یہ مٹی کے ڈھیر والی قبر میسر نہیں آتی کیونکہ کروڑوں انسانوں کے مُر دے جلائے جاتے ہیں اور دفن نہیں ہوتے.لاکھوں انسان ڈوب کر مرتے ہیں.ہزاروں انسانوں کو جنگل کے درندے کھا کر ختم کر دیتے ہیں.تو پھر ہر انسان کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اسے خدا قبر میں رکھتا ہے؟ یقینا یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جیسا کہ حدیث میں صراحت آتی ہے.قبر سے مراد وہ قیام گاہ لی جائے جہاں مرنے کے بعد اور کامل حساب کتاب سے پہلے انسان کی روح رکھی جاتی ہے.چنانچہ انہی معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب النار سے ممتاز کر کے عذاب قبر کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے.جس سے ناواقف یا ظاہر پرست لوگوں نے یہ ظاہری قبر مراد لے کر قبروں کو فراخ بنانا شروع کر دیا.تا کہ منکر نکیر نامی فرشتوں کے سامنے بیٹھنے کے لئے مرنے والے کو کافی جگہ میسر

Page 716

مضامین بشیر جلد سوم 694 آسکے.حالانکہ یہاں یہ مٹی والی معروف قبر مراد نہیں بلکہ مرنے کے بعد مرنے والوں کی روح کے رکھے جانے کا مقام مراد ہے.یہ وہی مقام ہے جسے دوسری اصطلاح میں قرآن مجید نے برزخ کا نام دیا ہے جو حشر ونشر سے پہلے ایک درمیانی زمانہ کا مقام ہے.مرنے والی روحوں کا تعلق دنیا کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں اسی وقت تک قائم رہتا ہے جب تک کہ وہ قبر یعنی برزخ کے زمانہ میں رہتی ہیں.اس کے بعد یہ تعلق ختم ہو کر کامل طور پر اخروی زندگی شروع ہو جائے گی.میں شائد بار یک مذہبی اصطلاحوں میں جارہا ہوں مگر دراصل یہ مسائل آپس میں اتنے مربوط ہیں کہ ان کی تاریں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح الجھی ہوئی ہیں کہ ان میں سے ایک کو دوسرے سے جدا کرنا بظا ہر ممکن ہی نہیں.کیا مرنے والے کی روح کے ساتھ ملاقات ہوسکتی ہے؟ اب رہا یہ سوال کہ کیا کسی زندہ انسان کی کسی فوت شدہ انسان کی روح کے ساتھ اسی دنیا میں ملاقات ہو سکتی ہے؟ اور دراصل فاروقی صاحب کے سوالوں کا یہی مرکزی نقطہ ہے.سوجیسا کہ میں شروع میں بیان کر چکا ہوں اس کے جواب میں میرا کہنا یہ ہے کہ ہاں یہ ملاقات ہو سکتی ہے.لیکن میں اسے فاروقی صاحب کی طرح ایک تماشہ نہیں سمجھتا کہ جب چاہا اور جس نے چاہا کسی فوت شدہ روح کو بلا کر اس کے ساتھ باتیں شروع کر دیں.کیونکہ یہ نظریہ قرآنی آیات کے صریح خلاف ہے.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ : وَمِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (المومنون:101) یعنی مرنے والوں اور اس دنیا میں رہنے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جو حشر نشر کے دن تک یعنی قیامت تک قائم رہے گا.یہ ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں فوت شدہ روحوں کے ساتھ زندہ لوگوں کی ملاقات کس طرح ہو سکتی ہے؟ سو اس کے متعلق بھی قرآن مجید خاموش نہیں.چنانچہ فرماتا ہے: وَيَسْتَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوْتِيْتُمُ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيْلًا (بنی اسرائیل: 86) یعنی اے رسول ! لوگ تجھ سے روحوں کے متعلق پوچھتے ہیں ( کہ ان کا معاملہ کس طرح پر ہے؟) تو ان سے کہہ دے کہ روحوں کا معاملہ خدا کے حکم پر موقوف ہے.مگر اے لوگو! تمہیں اس بارے میں بہت کم علم دیا

Page 717

مضامین بشیر جلد سوم 695 گیا ہے.یعنی تمہاری معلومات کا اکثر حصہ محض تخیل اور قیاس آرائی یا نظر کے دھو کے پر مبنی ہے اور صحیح معلومات بہت کم ہیں.اس کا ذریعہ صرف اذن الہی ہے اس آیت سے ظاہر ہے کہ روحوں کے ساتھ ملاقات تو یقینا ممکن ہے مگر یہ نہیں کہ جس نے چاہا اور جب چاہا کسی مرنے والے کی روح کو بلا کر اس کے ساتھ بات چیت کر لی.یہ نظریہ قرآنی تعلیم کے سراسر خلاف ہے جو اس دنیا اور دوسری دنیا کے درمیان ایک برزخ یعنی روک اور روٹ کا قائل ہے اور صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ روحوں کے ساتھ زندوں کا رابطہ صرف اذن الہی کے ساتھ ممکن ہے اس کے بغیر ہر گز نہیں.دنیا بھر کے انبیاء اور اولیاء کی تاریخ ایسے واقعات سے معمور ہے کہ دعا اور توجہ کرنے پر اذن الہی سے ان کی کسی مرنے والے کی روح کے ساتھ ملاقات ہو گئی.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب احد کے میدان میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی عبداللہ شہید ہو گئے تو ایک کشفی انکشاف کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جواں سال مخلص لڑ کے جابڑ سے از راہ دلداری فرمایا کہ تمہارے والد شہید ہو کر خدا کے سامنے پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانی سے خوش ہو کر فرمایا کہ اگر کوئی خواہش ہو تو بیان کرو.جابر کے والد عبداللہ نے عرض کیا.خدایا! تیری کسی نعمت کی کمی نہیں مگر یہ تڑپ ضرور ہے کہ پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر تیرے رستہ میں جان دوں اس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہاری اس خواہش کو بھی پورا کر دیتے مگر ہم ایک ازلی ابدی عہد کر چکے ہیں جو قرآن کے الفاظ میں یہ ہے کہ: أَنَّهُمْ لَا يَرْجَعُونَ.یعنی مرنے والے اس دنیا میں دوبارہ نہیں آسکتے.( ترمذی وابن ماجه ) اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر میں قتل ہونے والے کفار کی لاشوں کے درمیان کھڑے ہوئے تو آپ کو عالم کشف میں ان کی روحیں دکھائی گئیں.جنہیں دیکھ کر آپ نے جوش کے ساتھ فرمایا کہ ” ہم نے تو اپنے رب کا وعدہ پورا ہوتے دیکھ لیا کیا تم نے بھی خدا کا وعدہ پورا ہوتے دیکھا؟“ (صحیح بخاری کتاب المغازی) اسی طرح سلسلہ احمدیہ کے مقدس بائی اپنے ایک مشہور عربی قصیدہ میں فرماتے ہیں کہ :

Page 718

مضامین بشیر جلد سوم وَاللَّهِ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ جَمَالَهُ بِعُيُونِ جِسْــــــي جِسْمِي قَاعِداً بِمَكَانِـي وَرَأَيْتُ فِـي رَيَــعَـــانِ عُمْرِى وَجْهَهُ ثُمَّ النَّبِيُّ بِيَقُظَتِي لَا قَانِـي 696 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 593) یعنی خدا کی قسم ! میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کو اپنے اس جسم کی آنکھوں کے ساتھ اپنے مکان کے اندر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے.میں نے بالکل آغاز جوانی میں آپ کے روئے مبارک کو دیکھا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عین بیداری کی حالت میں مجھے مکر ملاقات کا شرف بخشا.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی ملاقات کے متعلق فرماتے ہیں کہ: (میری) بار با کشفی حالت میں (عیسی علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اس نے کھانا کھایا.نورالحق حصہ اول روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 56-57) اسی قسم کے ہزاروں واقعات اسلام کی تاریخ بلکہ قبل اسلام کے زمانہ میں روحانی لوگوں کے حالات زندگی میں ملتے ہیں.مگر آ جا کے بات یہی ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کشفی نظارے ہیں جن میں خدا کے اذن سے نہ کہ از خود مرنے والوں کی روحوں سے زندہ لوگوں کی ملاقات ہو جاتی ہے.اور یہ خاکسار بھی اس معاملہ میں کسی حد تک صاحب تجر بہ ہے.وَلَا فَخْرَ.روحوں کے بلانے کی مزعومہ حقیقت کیا ہے؟ بالآخر یہ سوال رہ جاتا ہے کہ آج کل جو بعض لوگ اور خصوصاً مغربی ممالک کے لوگ روحوں کے بلانے کا دعوی کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ سوچونکہ میری آنکھوں کے سامنے ایسا کوئی واقعہ نہیں گزرا اس لئے میں اس قسم کے واقعات کے متعلق بصیرت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا.لیکن میں اس قدر یقیناً جانتا ہوں کہ ایسا ہونا اذنِ الہی کے بغیر ممکن نہیں.میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بعض محققین نے اس قسم کے واقعات کو نظر یا سماع کا دھوکا قرار دیا ہے.چنانچہ یورپ اور امریکہ کے کئی لوگ بھی یہی رائے رکھتے ہیں.لیکن اگر ایسی رپورٹوں کو حسنِ ظنی کی نظر سے دیکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے تجربات ہپناٹزم یعنی علم تو جہ سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک معروف اور مسلم علم ہے اور قدیم زمانہ سے چلا آیا ہے جسے بعض لوگ

Page 719

مضامین بشیر جلد سوم 697 غلطی سے سحر کا نام بھی دے دیتے ہیں.مگر اس علم کو روحانیت سے کوئی تعلق نہیں.بلکہ یہ وہ علم ہے جس میں ایک مشاق انسان خواہ وہ کسی مذہب کا ہوا اپنی توجہ کے زور سے بعض دوسرے لوگوں کے دماغ یا حواس پر ایک وقتی اثر پیدا کر دیتا ہے.اور اس صورت میں ایک معمول کو بعض غیر حقیقی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں.یا بعض غیر حقیقی آواز میں حقیقت کے رنگ میں سنائی دے جاتی ہیں.اور بعض اوقات اس کا اثر ایک سے زیادہ انسانوں تک بلکہ ایک انبوہ تک بھی وسیع ہو جاتا ہے اور ایک معتد بہ جماعت اس سے متاثر ہو جاتی ہے.مگر جیسا کہ میں نے کہا اس علم کو روحانیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ایک غیر مسلم انسان حتی کہ ایک دہریہ تک بھی مشق کے ذریعہ یہ ملکہ پیدا کر سکتا ہے اور خاکسار راقم الحروف نے ایسے کئی نظارے دیکھے ہیں.بلکہ اس علم میں کافی مشق کے ذریعہ بعض اوقات ایک غیر جاندار چیز پر بھی اثر پیدا کیا جاسکتا ہے.مثلاً بعض اوقات ایک جلتا ہوا لیمپ مدھم کیا جا سکتا ہے.یا بعض اوقات ایک بند زنجیر کو کھولا جاسکتا ہے.یا ایک لکڑی یا لوہے کی میز سے آواز اٹھائی جاسکتی ہے اور بعض لوگ اس علم کو بعض بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال کرتے ہیں وغیرہ ذالک.اور یہ ایک ایسی معروف اور تجربہ شدہ بات ہے جس پر کوئی شاہد لانے کی ضرورت نہیں.انسانی روح اور حیوانی روح میں فرق ضمنا یہ بات بھی بیان کردینی نامناسب نہ ہوگی کہ انسانی روح اور حیوانی روح میں بھاری فرق ہوتا ہے.اور یہ فرق یہ ہے کہ انسانی روح جسم سے الگ ہو کر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر حیوانی روح کو یہ صلاحیت حاصل نہیں.بلکہ جب کوئی جانور مرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی روح بھی مرجاتی ہے.اس لئے اکثر محققین حیوانی روح کو روح کا نام ہی نہیں دیتے بلکہ اسے صرف جان یا زندگی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور روح کا لفظ صرف انسانی روح پر بولا جاتا ہے.اس امتیاز کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید نے بار بار صراحت کی ہے انسان ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو اسے کچھ اس دنیا میں ملتی ہے اور اس کا ایک بہت لمبا حصہ مرنے کے بعد آخرت کی زندگی میں ملے گا تا کہ وہ آخرت میں اپنے نیک و بد اعمال کی جزا یا سزا پا سکے.مگر حیوانوں کی پیدائش میں یہ غرض مد نظر نہیں بلکہ وہ صرف انسان کی خاطر سے عارضی زندگی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور مرنے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں.اسی لئے انسان کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا

Page 720

مضامین بشیر جلد سوم 698 وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونَ (التين : 5-7) یعنی ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں اور بہترین صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے.پھر ہم اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے اسے اسفل ترین گڑھے میں گرا دیتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو بچے ایمان پر قائم ہوتے اور عمل صالح بجالاتے ہیں.ایسے لوگوں کا اجر ہمیشہ رہے گا اور کبھی ختم نہیں ہوگا.میں سمجھتا ہوں کہ میرے اس مختصر سے نوٹ میں فاروقی صاحب کے سارے سوالوں کا اصولی جواب آجاتا ہے.جس کے بعد اگر وہ پسند کریں تو انہی لائنوں پر مزید غور کر کے اپنے معلومات میں کافی اضافہ کر سکتے ہیں.وَلَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْنَا اللهُ الْعَلِيمُ - وَلَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمَ - وَآخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (محررہ30اگست 1959ء) 0000000 (روز نامه الفضل ربوه ۱۸ستمبر 1959ء) 50 انسانیت کا کامل نمونہ محمد هست برہانِ محمد ایڈیٹر صاحب الفضل نے مجھے لکھا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت اور پاک اُسوہ کے متعلق الفضل کا ایک خاص نمبر شائع کر رہے ہیں.تم ابھی چند گھنٹوں میں ہمیں ایک مضمون لکھ کر بھجوا دو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کی سیرت کے متعلق کچھ لکھنا تو میری روح کی غذا ہے جس کی برکت سے میں اپنی بہت سی کمزوریوں کے باوجود جی رہا ہوں.مگر میرے پاس وہ مشین نہیں ہے جس کے پیسے گھمانے سے جب چاہا اور جس رنگ میں چاہا کچھ اگل دیا اور آج کل طبیعت بھی کچھ علیل ہے اس لئے محض حصول ثواب کی نیت سے یہ چند سطور لکھ کر جلدی جلدی میں بھیجوا رہا ہوں.رَبِّ تَقَبَّلُ مِنِّي إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيم - وَأَنَا عَبْدُكَ الْضَعِيفُ الْحَقِيْرُ وَمَا تَوْفِيقُ إِلَّا بِكَ يَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کا اسوہ مبارک اتنا وسیع اور اتنا متنوع ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اور انسانی اخلاق کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس میں آپ نے دنیا کے لئے اعلیٰ ترین نمونہ

Page 721

مضامین بشیر جلد سوم 699 نہ قائم کیا ہو.اسی لئے قرآن مجید نے آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولُ اللَّهِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ یعنی اے بنی نوع انسان ! تمہارے لئے ہمارے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اخلاق کے ہر میدان میں بہترین نمونہ موجود ہے.نیز فرمایا وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِينَ یعنی اے محمد ( صلى الله علیہ وسلم )! ہم نے تجھے تمام قوموں اور تمام زمانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.پس اس بات میں ذرا بھر بھی شک نہیں اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ آپ کی تعلیم اور آپ کے اسوہ میں ہر روحانی بیماری کی دوا اور ہر اخلاقی روک کا علاج موجود ہے.کسی نے کیا خوب کہا ہے.حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری آنکہ خوباں ہماں دارند تو تنہا داری جماعت احمدیہ کے مقدس بانی علیہ السلام نے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور توصیف اور مدح میں جو کچھ لکھا ہے اور فرمایا ہے اس کی ان تیرہ سو سالوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی.اور جیسا کہ دشمنوں تک نے مانا ہے آپ کی بعض عبارتیں پڑھ کر حقیقتاً وجد کی سی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے.مگر آ جا کے آپ نے بھی اپنی مدح سرائی کو اسی ندائے حق پر ختم کیا ہے جو ایک طرح سے گو یا الفاظ کی کوتاہ دامنی کا اظہار ہے کہ : اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمد ہست برہان یعنی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی کمال اور اخلاقی برتری کی دلیل چاہتے ہو تو باوجود بہت کچھ لکھنے اور بہت کچھ کہنے کے میں بالآخر یہ کہتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی دلیل خود محمد کا وجود ہے.اس کے عاشقوں میں داخل ہو کر دیکھو کہ وہ کیسا چمکتا ہوا سورج اور کتنی ٹھنڈک پہنچانے والا چاند ہے.اور جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اور آپ کا اسوہ کسی ایک میدان یا روحانیت اور اخلاق کے کسی ایک پہلو سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہمہ گیر اور عالمگیر ہے.آپ بیٹے بھی بنے اور باپ بھی ہوئے.یتیم بھی بنے اور کچھ عرصہ کے لئے ماں اور دادا کا سایہ بھی پایا.خاوند بھی بنے اور ایک سے زیادہ بیویوں کی مساوات کا سلوک بھی دکھایا.غربت بھی دیکھی اور ثروت کے زمانہ کا نمونہ بھی قائم کیا.جنگوں میں قائد بھی اور امن کے زمانہ میں حکومت کا اسوہ بھی دکھایا.فتوحات بھی پائیں اور عارضی شکست میں صبر و ہمت کا جو ہر بھی اجاگر کیا.قوموں کے ساتھ معاہدات بھی کئے اور معاہدات کے توڑے جانے پر دشمنوں کو اپنی عفو بخشش سے رام بھی کیا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محبت و عبادت الہی کا وہ نمونہ دکھایا کہ دنیا کی تاریخ

Page 722

مضامین بشیر جلد سوم 700 اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے.یہ ہمہ گیر فضیلت کسی اور نبی ( حضرت عیسی یا حضرت موسی یا حضرت ابراہیم علیہم السلام ) کو حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی.کیونکہ وہ محدود قوموں اور محمد و دزمانوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے.اور ہمارے آقا ( فدا نفسی ) کی بعثت عالمگیر تھی.عبادت اور دعاؤں میں شغف کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات لمبی لمبی نمازوں میں کھڑے رہنے سے آپ کے پاؤں میں ورم آجاتی تھی اور جب اس پر آپ کی بعض ازواج نے ازراہ ہمدردی عرض کیا کہ آپ کو تو خدا تعالیٰ نے یہ مقام بخشا ہے کہ سب اگلی پچھلی فروگزاشتیں معاف ہیں تو آپ نے بے ساختہ فرمایا کہ اَفَلَا اكُوْنَ عَبْداً شَكُورًا.یعنی بے شک یہ خدا کی رحمت ہے کہ اس نے مجھے یہ مقام بخشا ہے مگر کیا میرے لئے یہ واجب نہیں کہ میں خدا کا شکر گزار بندہ بنوں ؟ دعاؤں میں گریہ وزاری کا یہ عالم تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بعض اوقات انتہائی درد و کرب کی وجہ سے دعاؤں میں آپ کی یہ حالت ہوتی تھی کہ گویا کوئی ہنڈیا چو لہے پر رکھی ہوئی اہل رہی ہے.اور آپ خدائی رحمت و شفقت کے اتنے پیاسے تھے کہ ایک دفعہ آپ کے صحابی ابی بن کعب ( غالباً یہی نام تھا) کسی سفر پر جاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں رخصت کرنے کے بعد پیچھے سے آواز دے کر فرمایا لَا تَنْسَانَا فِي دُعَائِكَ يَا أَخِی.یعنی اے میرے بھائی ! سفر میں ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا.حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ یہ روایت فخر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے رو دیا کرتے تھے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب تھا تو ایک رات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ آپ کا بستر خالی ہے.انہوں نے خیال کیا کہ شائد آپ کسی اور بیوی کے گھر تشریف لے گئے ہوں گے.چنانچہ انہوں نے دوسرے گھروں میں اِدھر اُدھر دیکھا اور وہاں نہ پا کر احتیاطاً قریب کے قبرستان جنت البقیع نامی میں تشریف لے گئیں.وہاں دیکھا کہ آپ زمین پر لیٹے ہوئے بلکہ زمین کے ساتھ چھٹے ہوئے بے حد گریہ وزاری کے ساتھ اپنے بچھڑے ہوئے صحابیوں کے لئے دعا فرمار ہے ہیں.اپنے آقا کی نصرت پر توکل کا یہ مقام تھا کہ جب غزوہ حنین میں ایک اچانک حملہ کے باعث بعض نو مسلموں کی کمزوری کی وجہ سے صحابہ کے بھی پاؤں اکھڑ گئے اور دشمن کے ٹڈی دل کے سامنے میدان قریباً خالی ہو گیا تو آپ ایک پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے اور اپنے ایک سہمے ساتھی سے فرمایا کہ ” میرے گھوڑے کی لگام تھام لوتا کہ وہ بھی وحشت کھا کر بھاگ نہ نکلے اور پھرا کیلیے دم اپنے گھوڑے کو زور کی ایڑھ لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور للکار کر فرمایا:

Page 723

مضامین بشیر جلد سوم ــــا الـــــنــــــ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدُ الْمُطَّلِبُ 701 یعنی میں خدا کا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں اور گو میں ایک انسان عبدالمطلب کا بیٹا ہوں مگر میرا سہارا خدا کی ذات ہے.بیٹا بنے کی یہ شان تھی کہ جب ایک دفعہ بڑھاپے کی عمر میں آپ اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے جنہیں فوت ہوئے پچاس سال ہو چکے تھے ( جبکہ عزیزوں کی جدائی کا غم عمو م ختم ہو چکتا ہے ) تو رقت جذبات کے وفور سے آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا فوارہ پھوٹ نکلا.اور آپ نے اپنے ساتھیوں سے درد بھری آواز میں فرمایا کہ خدا نے مجھے والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت تو دی مگر قبر پر دعا کرنے کی اجازت نہیں دی.تاکہ دوسرے مسلمانوں کے لئے اپنے مشرک عزیزوں کے تعلق میں کوئی کمز ور نمونہ قائم نہ ہو بلکہ ان کے معاملہ کو خدا پر چھوڑا جائے.پھر ماں تو ماں جب ایک دفعہ آپ کی رضاعی والدہ آپ سے ملنے آئیں تو آپ انہیں دیکھ کر بے چین ہو گئے اور فوراً ادب کے ساتھ اٹھ کر ان کے بیٹھنے کے لئے اپنے اوپر کی چادر بچھا دی.اور جب آپ کے مشرک مگر محسن چچا ابوطالب جنہوں نے آپ کو آپ کے دادا کی وفات کے بعد اپنے بچوں کی طرح پالا تھا فوت ہونے لگے تو آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑی محبت کے ساتھ فرمایا چا میں خدا کی طرف سے حق کا پیغام لے کر آیا ہوں اور آپ کا وقت اب قریب معلوم ہوتا ہے آپ اپنی زبان سے ایک دفعہ کلمہ کے الفاظ دہرا دیں مجھے یقین ہے کہ اس کی وجہ سے خدا آپ کی مغفرت فرمائے گا.ابوطالب اس کے لئے تیار ہوتے نظر آتے تھے مگر پھر مشرک رؤسا کی موجودگی سے متاثر ہو کر کہا.بھتیجے تم بہت مجھے عزیز ہومگر مجھے اپنے باپ دادا کے مذہب پر ہی رہنے دوور نہ لوگ کہیں گے ابو طالب موت سے ڈر گیا.آپ چشم پر آب ہوتے ہوئے وہاں سے اٹھے اور یہ فرماتے ہوئے باہر نکل گئے کہ چچا میں پھر بھی آپ کے لئے دعا کرتا رہوں گا سوائے اس کے خدا مجھے اس سے روک دے.( یہ والدہ کی قبر پر جانے سے بہت پہلے کی بات ہے ) پھر خدا نے آپ کو اولاد سے بھی نوازا اور آپ خدا کے فضل سے بہترین اور شفیق ترین باپ ثابت ہوئے.حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسین آپ کے نواسے تھے جو ہجرت کے بعد مدینہ میں پیدا ہوئے.وہ بچپن کے غیر شعوری زمانہ میں بعض اوقات جب کہ آپ نماز میں سجدہ کرتے تھے آپ کی پیٹھ پر چڑھ جاتے تھے اور ایسے اوقات میں آپ اپنا سجدہ لمبا کر دیتے تھے تا بچوں کو تکلیف نہ ہو.ایک دفعہ محبت کے

Page 724

مضامین بشیر جلد سوم 702 ساتھ فرمایا.یہ دو بچے میری جنت کے دو پھول ہیں.ان دو صاحبزادوں کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنی تمام اولاد میں زیادہ عزیز تھیں.ایک دفعہ شادی کے بعد انہوں نے حضرت علی کی تحریک پر آپ سے عرض کیا کہ کام کرتے کرتے میرے ہاتھوں میں اینٹھن پڑ جاتے ہیں.آپ ہمیں کوئی خادمہ یا خادم دیں.آپ کے دل کو طبعا رنج پہنچا مگر محبت کے ساتھ فرمایا بیٹی ! اس وقت اسلام غربت اور تنگی کی حالت میں ہے اور سب مسلمانوں کا یہی حال ہے اس لئے صبر کرو.اور ایک دعابتا کر فرمایا یہ دعا پڑھا کرو.خدا اپنے فضل سے کوئی رستہ کھول دے گا.مرض الموت میں بڑی شفقت کے ساتھ فرمایا.فاطمہ ! تم میری وفات کے بعد مجھے سب سے پہلے ملو گی.وفا شعار بیٹی کو اپنی موت کا غم بھول گیا اور باپ کی ملاقات کی وجہ سے چہرہ پھول کی طرح شگفتہ ہو گیا.ایک دفعہ آپ کی دوسری بیٹی زینب کا بچہ بیمار ہو گیا ( میں یہ سب باتیں زبانی یاد سے لکھ رہا ہوں اس وقت حوالے چیک کرنے کا موقع نہیں) انہوں نے اس کی وفات کا وقت قریب سمجھ کر گھبراہٹ کے عالم میں اپنے با صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ آپ میرے پاس تشریف لائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا.زینب سے کہو تمہارا بچہ خدا کی امانت ہے اگر خدا اس امانت کو واپس لے رہا ہے تو گھبراؤ نہیں بلکہ صبر وشکر کے ساتھ اس امانت کو واپس کرو.مگر حضرت زینب کی مامتا بے قرار تھی.پھر دوبارہ خدا کا واسطہ دے کر کہلا بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں.جس پر آپ ان کے گھر تشریف لے گئے اور دم توڑتے ہوئے بچے کو اپنی گود میں لے کر کھڑے ہو گئے اور وفور غم سے آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہہ نکلی.نبوت کے زمانہ میں غالباً آپ کو صرف ایک نرینہ بچے کا منہ دیکھناملا اور وہ صاحبزادہ ابراہیم تھے جو حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے.جب وہ فوت ہوئے تو آپ کو طبعاً بہت صدمہ ہوا.مگر سوائے اس کے کوئی الفاظ زبان پر نہیں آئے کہ: الْعَيْنُ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ يَحْزَنُ وَلَا تَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبَّنَا وَإِنَّا بِفَرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْرُونُونَ.( صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی آنا یک لحر ونون) یعنی آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غم محسوس کرتا ہے مگر ہم کوئی ایسا کلمہ زبان پر نہیں لاتے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو.کیونکہ یہ بچہ اس کی امانت تھی اور وہی واپس لے گیا ہے.مگر اے ابراہیم ! ہم یقینا تیری جدائی کی وجہ سے بہت غمزدہ ہیں.بیویوں کے ساتھ آپ کا سلوک حقیقتا بالکل مثالی تھا.چنانچہ خود فرمایا کرتے تھے کہ : خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِاهْلِي

Page 725

مضامین بشیر جلد سوم 703 یعنی اے مسلمانو! تم میں سے میرے خدا کی نظر میں اچھا مسلمان وہ ہے جس کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے اور میں تم سب میں سے اپنی بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا ہوں.آپ کی سب سے بڑی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہجرت سے پہلے ہی فوت ہو گئی تھیں مگر آپ کے دل میں ان کی محبت آخر وقت تک تازہ رہی.جب گھر میں کوئی اچھا تحفہ آتا تھا تو حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو ضرور بھجواتے تھے.ایک دفعہ ایک عورت آپ سے ملنے آئی اور اتفاق سے اس کی آواز حضرت خدیجہ کی آواز سے بہت ملتی تھی.آپ یہ آواز سن کر بے چین ہو گئے اور بے تاب ہو کر فر مایا یہ آواز تو میری خدیجہ سے ملتی ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کی بہت چہیتی زوجہ تھیں (اور وہ اپنے اوصاف اور علم وفضل کے لحاظ سے اس کی اہل بھی تھیں) وہ بیان کرتی ہیں کہ بسا اوقات آپ اپنی ازواج کے ساتھ بیٹھے ہوئے محبت اور بے تکلفی کے ساتھ باتیں کرتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ ہماری محبت میں محو ہیں.مگر جب اچانک اذان کی آواز آتی تھی اور مؤذن نماز کی طرف بلاتا تھا تو آپ ہمیں چھوڑ کر یوں اٹھ جاتے تھے کہ گویا ہمیں جانتے ہی نہیں.انہی حضرت عائشہ سے یہ بھی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں نے ایک برتن سے منہ لگا کر پانی پیا اور پھر وہ برتن ایک طرف کو ر کھنے لگی.آپ نے فرمایا' عائشہ یہ برتن مجھے دے دو اور پھر اس برتن میں اسی جگہ منہ لگا کر جہاں سے میں نے پیا تھا آپ میرا بچا ہوا پانی پی گئے.اکثر فرمایا کرتے تھے کہ خدایا جہاں تک مجھے طاقت ہے میں اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل وانصاف کا معاملہ کرتا ہوں.لیکن جو بات میری طاقت میں نہیں اس میں تو مجھے معاف فرما.اس زمانہ میں غلاموں کا عام رواج تھا اور ہر ملک اور ہر قوم اور ہر مذہب کے متبعین میں غلام رکھے جاتے تھے اور وہ ہر ملک کے تمدن کا ایک لازمی حصہ تھے.اسلام نے اسے آئندہ کے لئے اصولی طور پر منع فرما دیا تھا اور صرف جنگی قیدیوں کی اجازت دی.مگر جب تک غلامی کی حرمت نازل نہیں ہوئی آپ نے غلاموں کے ساتھ بہترین سلوک فرمایا.اسلام سے قبل آپ کو اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کی طرف سے ایک غلام زید بن حارث ملے تھے.آپ نے ان کے ساتھ ایسا مشفقانہ سلوک کیا کہ جب ان کے والد ان کو واپس لینے آئے تو زید نے آپ کا حسن سلوک دیکھتے ہوئے اپنے باپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور آپ کی خدمت کو ترجیح دی.اس کے بعد آپ نے ان کو ملکی دستور کے مطابق اپنا بیٹا بنا لیا.لیکن جب اسلام نے بیٹا بنانے کی رسم حرام قرار دی تو اس کے بعد بھی آپ ان کے ساتھ ہمیشہ نہایت درجہ محبت اور شفقت کا سلوک فرماتے رہے.اور جب حضرت زید فوت ہوئے تو ان کے بیٹے حضرت اسامہ کے ساتھ بھی آپ کا وہی

Page 726

مضامین بشیر جلد سوم 704 پدرانہ سلوک رہا.حتی کہ جہاں بڑے بڑے صحابہ آپ کے ساتھ بات کرنے میں رعب کی وجہ سے اکثر اوقات حجاب محسوس کرتے تھے وہاں حضرت اسامہ بچوں کی طرح آپ کے پاس بے تکلف جا کر اپنے دل کی باتیں کر لیتے تھے.غلاموں کے ساتھ آپ صرف رسمی محبت ہی نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ نے ان کو اسلامی سوسائٹی میں اعلیٰ مقام دے رکھا تھا.چنانچہ جو اسلامی لشکر آپ نے اپنی مرض الموت میں عرب کی شمالی سرحد کی طرف روانہ فرمایا اس میں حضرت اسامہ کو جو بظاہر ایک غلام زادہ تھے ) اس لشکر کا جس میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی شامل تھے سپہ سالار مقرر کیا تھا.اسی مرض الموت میں جب آپ نے اپنا وقت قریب سمجھا تو صحابہ کو وصیت کے رنگ میں فرمایا کہ اَلصَّلَوهُ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ - یعنی دیکھو اور سنو کہ میرے بعد خدائے واحد کی عبادت کے پابند رہنا اور اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا.اپنے صحابہ اور ساتھیوں کا بھی بے حد خیال تھا اور آپ ان کے لئے مجسم رحمت تھے.ایک موقع پر آپ کے ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ سے ایک خطر ناک غلطی ہو گئی جو حقیقتا قومی غداری کے مترادف تھی.یعنی جب آپ فتح مکہ کے موقع پر اپنی یلغار کو بصیغۂ راز رکھتے ہوئے مکہ کی طرف کوچ فرمانے لگے تو حاطب نے مکہ میں رہنے والے غریب رشتہ داروں کی ہمدردی کے خیال سے مکہ والوں کو ایک خفیہ خط کے ذریعہ یہ اطلاع بھجوائی کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کرنے کے لئے آرہے ہیں تم لوگ اپنی فکر کر لو.حاطب کا یہ خط رستہ میں پکڑا گیا اور اس خط کا راز فاش ہو گیا.اس پر حضرت عمر کو اتنا غصہ تھا کہ غصہ سے کانپتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کا عذ رسن کر فرمایا ”عمر سے منافق نہ کہو.کیا تم نہیں جانتے کہ وہ بدری صحابی ہے اور اس سے صرف اپنے رشتہ داروں کی ہمدردی میں یہ غلطی سرزد ہوئی ہے.اور ساتھ ہی حضرت عمرؓ کو نرمی کے ساتھ سمجھایا کہ ” کیا تم پسند کرتے ہو کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا پھرتا ہے.‘ اور دوسری طرف حاطب سے فرمایا.جاؤ خدا تمہیں معاف کرے پھر ایسی بات نہ کرنا.ایک دفعہ ایک صحابی نے آپ کی خدمت میں کسی دوسرے صحابی کے خلاف کوئی شکایت کی.آپ نے فرمایا.دیکھو میرے پاس میرے صحابیوں کی شکایت نہ کیا کرو.میں چاہتا ہوں کہ رات کو گھر جاؤں تو اپنے صحابیوں کے متعلق اپنا سینہ صاف لے کر جاؤں.اور صبح کو باہر آؤں تو اس وقت بھی ان کے متعلق میرا سینہ

Page 727

مضامین بشیر جلد سوم صاف ہو.705 ایک دفعہ فرمایا کہ میرے صحابہ کے باہمی علمی اختلاف کی وجہ سے پریشان نہ ہوا کرو.وہ سب آسمان کے ستارے ہیں تم جس ستارے کو بھی سامنے رکھ کر راستہ تلاش کرنا چاہو تمہیں راستہ مل جائے گا.دشمنوں کے ساتھ سلوک کا یہ عالم تھا کہ باوجود اس کے کہ مکہ والوں نے پورے اکیس سال تک آپ کے خلاف ایڑھی چوٹی کا زور لگایا تھا.آپ کے قتل کی سازشیں کی تھیں.آپ کے مال و متاع کولوٹا.آپ کے سینکڑوں صحابیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا اور بعض کو دھوکے سے اپنے پاس بلا کر تہہ و تیغ کیا.آپ کے عزیزوں ، رشتہ داروں بلکہ خاندانِ نبوت کی خواتین کی بے عزتی سے بھی دریغ نہیں کیا.حتی کہ ایک موقع پر بد باطن دشمن کے حملہ کی وجہ سے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب کا ایک حمل بھی ضائع ہو گیا اور وہ بالآخر اسی کمزوری کے نتیجہ میں فوت ہوئیں.اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ مکہ والوں نے آپ کے خلاف عرب کی آس پاس کی حکومتوں کو بھی اکسایا تا کہ اس نوزائیدہ پودے کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے.لیکن جب ایسے جانی اور خونی اور سازشی دشمنوں پر خدا نے آپ کو غلبہ عطا کیا اور مکہ فتح ہوا تو آپ نے انہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہا کہ اِذْهَبُوا أَنْتُمُ الطَّلَقَاءُ جاؤ میں تمہیں چھوڑتا اور معاف کرتا ہوں.عین جنگ کی حالت میں بھی دشمن پر رحم کا جذ بہ غالب تھا.چنانچہ آپ اپنی لڑائیوں میں یہ ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ اپنے سامنے کے جنگجو دشمن کے منہ پر تلوار کا وار نہ کیا کرو بلکہ ایسی طرح مارو کہ یا تو وہ مر جائے.اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے اور یا اگر وہ بچے تو اس کے لئے اس کی زندگی اجیرن نہ ہو جائے.اور فرماتے تھے کہ ضرب لگانے میں بھی مومن کو رحم دل ہونا چاہئے.دعوی نبوت کے بعد آپ کا ابتدائی زمانہ بہت تنگی اور عسرت میں گزرا.حتی کہ بعض اوقات بھوک کی وجہ سے آپ پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کرتے تھے.جب اس کے بعد فراخی کا زمانہ آیا اور قیصر و کسری کی دولتیں مدینہ میں سمٹ سمٹ کر آنے لگیں اور خورد و نوش کے بہتر سامان میسر آگئے تو بعض اوقات حضرت عائشہ میدے کی نرم نرم روٹیاں کھاتے ہوئے آنسو بہاتی تھیں اور ساتھ ساتھ کہتی جاتی تھیں کہ یہ روٹیاں میرے گلے میں پھنستی ہیں کیونکہ خدا کی قسم! یہ نرم روٹیاں تو در کنار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی میں جو کی کھردری روٹی بھی دو دن تک اوپر تلے میسر نہیں آئی.پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ میں کسی قدر فراخی میسر آگئی تھی اور آپ سارے عرب کے سردار بن چکے تھے مگر بایں ہمہ اپنے لئے آپ نے

Page 728

مضامین بشیر جلد سوم 706 ہمیشہ یہی فرمایا کہ الْفَقْرُ فَخری یعنی یہ نگی بھی میرے لئے فخر کا موجب ہے.ایک دفعہ جب آپ وسیع حکومت کے حکمران تھے ایک بوڑھی عورت آپ کے پاس ایک فرمائش لے کر آئی.لیکن آپ کے خدا داد رعب کو دیکھ کر کانپنے لگ گئی اور منہ سے کچھ بول نہیں سکی.آپ اس کی یہ حالت دیکھ کر جلدی سے اس کی طرف بڑھے اور اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا.مائی ڈرو نہیں، ڈرو نہیں.میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں.ایک اور بوڑھی غیر معروف سی عورت مسجد نبوی میں ثواب کی خاطر جھاڑو دیا کرتی تھی.وہ بیچاری چند دن بیمار رہ کر فوت ہو گئی.آپ نے جب دیکھا کہ وہ مسجد میں نہیں آتی تو صحابہ سے دریافت فرمایا کہ اس ضعیفہ کا کیا حال ہے؟ صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! وہ بے چاری تو چند دن بیمار رہ کر اللہ کو پیاری ہو گئی.آپ نے غم کے انداز میں فرمایا.مجھے کیوں اطلاع نہیں دی میں اس کا جنازہ پڑھتا اور پھر آپ نے اس کی قبر پر جا کر دعا فرمائی.دوسری قوموں کے لیڈروں کا اتنا اکرام تھا کہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ إِذَا جَاءَ كُمْ كَرِيمُ قَوْمٍ فا كرموه - یعنی جب تمہارے پاس کسی قوم کا رئیس اور لیڈ ر آئے تو اس کی واجبی عزت کیا کرو.اور آپ نے باوجود ذاتی طور پر انتہائی سادگی کے اپنے لئے ایک خاص لباس رکھا ہوا تھا تا کہ دوسری قوم کے وفدوں کی ملاقات کے وقت پہنا جائے.اس میں اپنی خواہش کا کوئی دخل نہیں تھا بلکہ محض دوسری اقوام کا اکرام ملحوظ تھا.مرض الموت میں صحابہ سے فرمایا.میری وفات کے بعد وفدوں کے اکرام میں فرق نہ آنے دینا.میرا یہ قلم برداشته مضمون میرے ابتدائی اندازے اور غالباً الفضل کی موجودہ گنجائش کے لحاظ سے بھی کچھ زیادہ لمبا ہو گیا ہے اس لئے ایک آخری بات کہہ کر اسے ختم کرتا ہوں.خدا کا یہ رحمۃ اللعالمین وجود فخر اولین و آخرین (فداه فسی) انسان تو انسان جانوروں اور حیوانوں تک کے لئے بھی ایک رحمت تھا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ فِي كُلِّ كَبَدٍ حَرِّ أَجْرٌ.یعنی یہ نہ سمجھو کہ صرف انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہی ایک نیکی ہے بلکہ ہر جاندار چیز کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اس پر رحم کرنا خدا کے نزدیک ایک قابل اجر نیکی شمار ہوتی ہے.اور اس کی مثال میں فرماتے تھے کہ ایک فاحشہ عورت تھی اس نے ایک دفعہ ایک کتے کو دیکھا کہ وہ پیاس کی شدت کی وجہ سے بے حال ہو رہا ہے اور قرب وجوار میں کوئی پانی نہیں تھا.اس عورت کو کتے کی یہ حالت دیکھ کر اس پر رحم آیا اور وہ ایک تاریک کنوئیں میں بڑی مشکل سے اتری اور اپنے چمڑے کے موزے میں اس کے لئے پانی بھر کر باہر لائی اور کتے کو پلایا.خدا کو اس کی یہ نیکی اتنی پسند آئی کہ اس نیکی کی وجہ سے اسے بخش دیا.اور خدا کی توفیق سے اس عورت کی آئندہ زندگی نیکی

Page 729

مضامین بشیر جلد سوم 707 میں گزرنے لگی.ایک دفعہ آپ نے ایک اونٹ دیکھا کہ وہ اپنے اوپر لدھے ہوئے بوجھ کی زیادتی کی وجہ سے بہت کراہ رہا تھا.آپ یہ نظارہ دیکھ کر بے چین ہو گئے اور اونٹ کی پیٹھ پر محبت کے ساتھ ہاتھ پھیر کر اسے تسلی دی اور اونٹ کے مالک کو ناراضگی کے ساتھ فرمایا.یہ بے زبان جانور ہیں ان پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم کیا جائے.اب میں اس مختصر سے مضمون کو ختم کرتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت تو ایک ایسا سمندر ہے کہ اس کی وسعت اور گہرائی کی کوئی انتہا نہیں.مگر اس وقت اس سمندر کے چند قطرے ہی پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں.یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند ترین مقام اور اعلیٰ ترین کردار کا اندازہ کرنے کے لئے آپ کی سیرت کے کسی ایک پہلو کا ہی مطالعہ کافی ہے بشرطیکہ یہ مطالعہ پاک نیت اور دل کی صفائی پر مبنی ہو.لا جرم حق وہی ہے جو مقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا ہے کہ: اگر خواہی دلیلے عاشقش باش برہان محمد ( محرره 29 ستمبر 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 13اکتوبر 1959ء) مجالس خدام الاحمدیہ راولپنڈی ڈویژن کے دوسرے سالانہ اجتماع کے موقع پر پیغام اپنی رفتار ترقی کا جائزہ لو اور اپنی جد و جہد کو تیز تر کرتے چلے جاؤ مجالس خدام الاحمد یہ راولپنڈی کے دوسرے سالانہ اجتماع ( منعقدہ 25 تا 27 ستمبر 1959 ء) کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حسب ذیل پیغام مرحمت فرمایا تھا.جسے مکرم میاں محمود احمد صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی نے اجتماع کے افتتاح کے موقع پر پڑھ کر سنایا.) خدام الاحمدیہ راولپنڈی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ

Page 730

مضامین بشیر جلد سوم 708 گزشتہ سال میں نے آپ لوگوں کی خواہش پر آپ کے سالانہ اجتماع کے لئے ایک پیغام بھجوایا تھا اور اس سال مجھ سے پھر درخواست کی گئی ہے کہ آپ کے دوسرے سالانہ اجتماع کے موقع پر بھی کوئی پیغام ارسال کروں.نوجوانوں کو نصیحت اور نیکیوں کی تحریک کے لئے کوئی کلمات تحریر کرنا خود اپنی ذات میں ایک بڑی نیکی ہے اور کسی ہمدر دملت کو اس سے تھکنا نہیں چاہئے.لیکن اگر ہر سال کوئی نیا پیغام لینا ہو تو اس کا صحیح طریق یہ ہے کہ پیغام دینے والے کو اپنی سال بھر کی کارروائی سے اطلاع دی جائے تا کہ اس کی روشنی میں نیا پیغام مرتب کیا جاسکے.اگر احمدیت زندہ ہے اور خدا کے فضل سے ضرور زندہ ہے تو ہر شہر اور ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں اس کا قدم ہر سال ترقی کی طرف اٹھنا چاہئے.اور ترقی کے معنی تبدیل شدہ حالات ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ جس شخص سے کوئی نیا پیغام مانگا جائے اسے اپنے تبدیل شدہ حالات اور اپنے ترقی کے قدموں سے اطلاع دی جائے.ورنہ اگر کسی جماعت کے حالات میں کوئی تبدیلی یا کوئی ترقی نہیں تو لازماً اسے کسی نئے پیغام کی ضرورت نہیں.اس کے لئے وہی سابقہ پیغام قائم سمجھا جائے گا.اور ترقی کے آثار کونا پنے کا پیمانہ عموماً ذیل کی چار باتوں میں محدود و محصور ہے: اول: کیا خدام الاحمدیہ یا بالفاظ دیگر مقامی جماعت نے سال کے دوران میں تعداد کے لحاظ سے کوئی ترقی کی ہے؟ دوم: کیا مقامی جماعت کے چندوں یعنی مالی قربانی میں کوئی ترقی ہوئی ہے؟ سوم : کیا مقامی جماعت کی تنظیم نے کوئی قدم ترقی کی طرف اٹھایا ہے؟ چہارم: کیا مقامی جماعت کی تربیت اور اس کے اخلاص اور اتحاد اور دین داری اور خدمتِ خلق میں کوئی آثار ترقی کے نظر آتے ہیں؟ یہ وہ چار بنیادی باتیں ہیں جن سے کسی جماعت کی ترقی یا (نعوذ باللہ) تنزل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.اور یا درکھنا چاہئے کہ اگر کسی جماعت میں ترقی کے آثار نہیں پائے جاتے اور وہ اپنی جگہ پر قائم ہے تو خدائی جماعتوں کے معیار کے مطابق اس صورت کو بھی تنزل ہی شمار کیا جائے گا.اس لئے میرا پیغام اس سال یہی ہے کہ خدام الاحمدیہ راولپنڈی کو چاہئے کہ سب سے پہلے وہ ان چار باتوں کے لحاظ سے اپنی ترقی کا جائزہ لیں اور اگر خاطر خواہ ترقی کی علامات نہیں پائی جاتیں تو پھر اپنی فکر کریں اور چوکس ہو کر اپنی مساعی کو دو چند کریں.ایک خاص بات جو اس سال پیدا ہوئی ہے یہ ہے کہ اس سال راولپنڈی پاکستان کا دارالسلطنت یعنی

Page 731

مضامین بشیر جلد سوم 709 سیاسی مرکز قرار پایا ہے.اور مرکز کی ذمہ واری عام شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہوا کرتی ہے.پس راولپنڈی کے دوستوں کو چاہئے کہ اپنی اس نئی ذمہ داری کے پیش نظر بھی اپنا جائزہ لیں.اور اسے اپنے سامنے رکھ کر آئندہ پروگرام مرتب کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسانی جسم میں گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکر ا یعنی دل ہے جو نظام حیات کا مرکز ہے.اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے.پس چونکہ اب راولپنڈی پاکستان کا سیاسی دل ہو گا اس لئے پنڈی کی جماعت احمدیہ کو بھی اپنی نئی ذمہ داری کو پہچانتے ہوئے زیادہ چوکس اور زیادہ چست اور زیادہ بیدار مغز اور زیادہ فرض شناس ہو جانا چاہئے.اور دنیا پر ثابت کر دینا چاہئے کہ جس طرح پنڈی ملک کا مرکز ہے اسی طرح ہم بھی ملک بھر کی جماعتوں کے لئے ایک مثالی جماعت ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ احمدی نوجوانانِ راولپنڈی کو اپنی رضا کے ماتحت بہترین خدمت کی توفیق دے اور دوسرے شہروں کی جماعتوں کے لئے ایک بہت اچھا نمونہ بنائے.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محرره 19 ستمبر 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 16 اکتوبر 1959ء) ایک غیر احمدی افسر کی طرف سے دعا کی تحریک آج کی ڈاک میں مجھے ایک احمدی پٹواری کا خط ملا ہے جس میں انہوں نے اپنے ایک شریف غیر احمدی افسر کی طرف سے لکھا ہے کہ تمہاری جماعت کے ایک ممتاز رکن چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ابھی تک نرینہ اولاد سے محروم ہیں جماعت ان کے لئے دعا کیوں نہیں کرتی اور اس کی تحریک کیوں نہیں کی جاتی.ہم اس غیر از جماعت افسر کی شرافت کے ممنون ہیں کہ انہوں نے اس امر کی طرف خاص توجہ دلائی.مگر ان کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ محترم چوہدری صاحب کی اولاد اور ساتھ ہی عزیزم مظفر احمد صاحب سلمہ کی اولاد کے لئے بھی کئی دفعہ الفضل میں تحریک ہو چکی ہے اور احباب جماعت کے خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر دو کے متعلق اسی درد کے ساتھ دعائیں کر رہے ہیں.مگر دعاؤں کا معاملہ بڑا عجیب ہے.بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے صبر و استقلال کو آزماتا ہے اس لئے دوستوں کو اس معاملہ میں گھبرانا یا مایوس ہرگز نہیں ہونا چاہئے.ہمارے خدا کی قدرت بہت وسیع ہے اور اس کی رحمت کی بھی کوئی انتہا نہیں.دوست

Page 732

مضامین بشیر جلد سوم 710 دعا میں لگے رہیں اور خدا سے بہتری کی امید رکھیں.اور ان غیر احمدی افسروں کے لئے بھی دعا کریں جن کے دل میں یہ نیک تحریک پیدا ہوئی ہے.جَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء.......روزنامه الفضل 29 اکتوبر 1959ء) مجالس اطفال الاحمدیہ اور ان کے نگرانوں کے لئے پیغام بچپن کی تربیت کے لئے پانچ اہم اور بنیادی باتیں یہ قیمتی پیغام جو ہم اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کی درخواست پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مرحمت فرمایا تھا مؤرخہ 25 اکتوبر کو اطفال الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں پڑھ کر سنایا گیا.ادارہ ) اطفال کی تربیت کا کام بڑا نا زک اور بڑا اہم ہے.کیونکہ اطفال کا وجود قومی زندگی میں بیج کا حکم رکھتا ہے.اور اچھا زمیندار سب سے پہلے پیج کی فکر کیا کرتا ہے.کیونکہ بیج کے اچھا ہونے پر فصل کی کامیابی کا بڑی حد تک دار و مدار ہے.پس اطفال کے نگرانوں کے لئے بلکہ خود اطفال کے لئے میرا پیغام یہی ہے کہ اگر جماعت کی آئندہ ترقی کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہو تو بچپن سے ہی بلکہ ولادت سے ہی بچوں کی اچھی تربیت کا انتظام ہونا چاہئے.اسلام نے نوزائیدہ بچے کے کانوں میں اذان کے الفاظ ڈالنے کا حکم دے کر اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ایک بچے کی ولادت کے ساتھ ہی اس کی تربیت کا کام شروع ہو جانا چاہئے.بلکہ قرآن مجید نے خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو ایک ہری کو نیل کے ساتھ تشبیہہ دی ہے.جو اچھے بیچ سے نکل کر کسان کے دل کو لبھاتی اور دشمنوں کے دلوں میں غصہ اور مرعوبیت کے جذبات پیدا کرتی ہے.پس اے ہمارے عزیز بچو! اور اے وے لوگو! جن کے ہاتھوں میں ان کی تربیت کی باگ ڈور دی گئی ہے اپنی ذمہ داری کو سمجھو اور اس عمر کی قدرو قیمت کو پہچانو.کیونکہ آگے چل کر آج کے بچوں کے سر پر ہی جماعتی کاموں کا بوجھ پڑنے والا ہے.لہذا اپنے آپ کو ابھی سے اسلام اور احمدیت کے مضبوط سپاہیوں والی تربیت دو.جن کے کندھے اتنے فراخ اور اتنے مضبوط ہوں کہ ہر بوجھ کو اٹھانے کی طاقت رکھیں.اور یا درکھو کہ بچپن کی تربیت میں پانچ باتیں خاص طور پر بڑی اہم اور بڑی دُور ترس

Page 733

مضامین بشیر جلد سوم ہیں یعنی : 711 (1) صداقت اور سچ بولنے کی عادت (2) دیانت داری اور ہر قسم کے دھوکا اور فریب سے اجتناب (3) محنت اور جانفشانی اور عرق ریزی (4) جماعت کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانی کا جذبہ (5) نماز کی پابندی اور دعاؤں کی عادت اگر ہماری جماعت کے بچے اپنے اندر یہ پانچ بنیادی صفات پیدا کر لیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کا مستقبل بلکہ جماعت کا مستقبل محفوظ ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر رہے.آمین (195918) روزنامه افضل 4 نومبر 1959ء) خاندانی منصوبہ بندی ذیل میں اس مضمون کے متعلق چند متفرق اور غیر مرتب نوٹ درج کئے جاتے ہیں جنہیں بعد میں مرتب کر کے اور پھیلا کر اور مدلل صورت دے کر مضمون کی شکل میں لکھا جائے گا.اور یہ بھی ممکن ہے کہ مضمون لکھتے وقت مجھے اپنے بعض استدلالات کو بدلنا پڑے یا بعض تشریحات کونئی صورت دینی پڑے.اس لئے اگر کسی دوست کو ان نوٹوں کے متعلق کوئی مشورہ دینا ہو تو خاکسار کو مطلع فرما ئیں.مگر ضروری ہے کہ سارے نوٹوں کے پڑھنے کے بعد کوئی رائے قائم کی جائے اور درمیان میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کی جائے.(1) خاندانی منصوبہ بندی یا بالفاظ دیگر ضبط تولید اور عزل کا سوال نہ صرف بہت پرانا ہے بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں وقتا فوقتا اٹھتا رہا ہے.اس وقت یہ سوال پاکستان میں بھی اٹھا ہوا ہے اور بعض اصحاب اس کی تائید میں اور بعض اس کے خلاف اظہار رائے فرمارہے ہیں.اور گوا بھی تک حکومت کی طرف سے اس معاملہ

Page 734

مضامین بشیر جلد سوم 712 میں کسی تفصیلی سکیم کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن امید کی جاتی ہے کہ اگر حکومت نے اس بارے میں کوئی فیصلہ گن قدم اٹھایا بھی تو ایک اسلامی حکومت ہونے کی وجہ سے وہ اس معاملے میں قرآن وحدیث کے ارشادات کو بھی ضرور ملحوظ رکھے گی.اور بہر حال اس کا فیصلہ کسی جبری سکیم کی صورت میں نہیں ہوگا ( اور غالباً ایسا ہونا ممکن بھی نہیں ) بلکہ صرف ضروری اطلاعات مہیا کرنے اور تربیتی مراکز قائم کرنے اور بعض مخصوص ہسپتال جاری کرنے تک محدودر ہے گا.(2) اس سوال کی تہہ میں جو مختلف وقتوں میں اور مختلف ملکوں میں اٹھتا رہا ہے عموماً کئی قسم کے خیالات کارفرما رہے ہیں.مثلاً : (الف ) ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے جگہ کی کمی.(ب) ملک میں خوراک کی قلت ( ج ) ملک میں بسنے والوں کی عمومی غربت اور ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کا احساس.( د ) اولاد کی بہتر پرورش کرنے اور انہیں اچھی تعلیم دلانے کی ضرورت.(ھ) عورتوں کی صحت کو برقرار رکھنے کا احساس.( و ) عورتوں کے حسن و جمال کو بصورت احسن قائم رکھنے کا خیال.( ز ) عورتوں میں ملازمت اختیار کرنے اور آزادانہ زندگی بسر کرنے کا رجحان.(3) ان حالات کا علاج مختلف حالات میں عموماً بصورت ذیل کیا جاتا رہا ہے: (۱) خاندانی منصوبہ بندی یعنی برتھ کنٹرول جس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں.(ب) بڑی عمر میں نکاح کرنا.( ج ) ملکی دولت اور خصوصاً خوراک کی پیداوار بڑھا کر عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنا.( د ) قومی صحت میں ترقی کے حالات پیدا کرنا.(ھ) بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے مستعمرات کی تلاش یعنی دوسرے ملکوں میں اپنی آبادی کے لئے جگہ بنانا.( و ) ملک کی اکانومی (Economy) کو صنعت و حرفت کی طرف منتقل کرنا.(4) برتھ کنٹرول کے لئے عموماً یہ طریقے استعمال کئے جاتے ہیں : (الف) عزل یعنی انزال سے قبل بیوی سے علیحدہ ہو جانا جو پرانا طریق تھا اور عارضی برتھ کنٹرول کا رنگ رکھتا ہے.

Page 735

مضامین بشیر جلد سوم (ب) بیوی کے ساتھ مجامعت کرنے میں کنٹرول اور اس کی تحدید اور روک تھام.(ج) بعض آلات کا استعمال جن سے وقتی طور پر حمل قرار پانے میں روک ہو جاتی ہے.(د) بعض مانع حمل ادویہ کا استعمال.(ھ) بعض عمل جراحی کے طریقے.(و) حمل قرار پانے کے بعد حمل گرانے کی تدابیر.(5) ان طریقوں میں سے: 713 (الف) بعض غیر یقینی ہیں.یعنی با وجود احتیاط کے بعض اوقات حمل قرار پا جاتا ہے.جیسے کہ عزل کا معروف اور دیر سینہ طریق ہے.(ب) بعض جنسی تسکین میں روک بن جاتے ہیں.(ج) بعض صحت کے لئے مضر ہو سکتے ہیں.(1) بعض مستقل طور پر مانع حمل ہیں.اس لئے اگر بعد میں خاوند بیوی کو مزید اولاد کی خواہش پیدا ہویا خدانخواستہ پہلی اولا د فوت ہو جائے تو ایک بھاری مصیبت اور بڑی حسرت کا موجب بن جاتے ہیں.(ھ) اور بعض ناجائز اور خلاف قانون ہیں (جیسا کہ حمل کا گرانا) سوائے اس کے کہ با قاعدہ ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت اختیار کئے جائیں.(6) اس لئے مستقل طور پر اولا د کا رستہ بند کرنا تو کسی طرح درست اور مناسب نہیں.سوائے اس کے کہ عورت کی زندگی یا صحت کو بچانے کے لئے بصورت مجبوری ڈاکٹری ہدایت کے ماتحت یہ رستہ اختیار کیا جائے.قرآن مجید فرماتا ہے: لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقره: 196) یعنی اے مسلمانو! اپنے ہاتھوں سے اپنی ہلاکت کا سامان نہ پیدا کرو.(7) اصولی طور پر مقدس بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے اولاد کی کثرت کو پسند فرمایا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: (الف) تَزَوَّجُو الْوَلُودَ الْوَدُوْدَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ (ابوداؤ دونسائی.کتاب النکاح) یعنی اے مسلمانو! تم ایسی بیویوں کے ساتھ شادی کیا کرو جو زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور خاوندوں کے ساتھ محبت کرنے والی ہوں ( تا کہ خاوندوں کو ان کی طرف رغبت اور کشش پیدا ہو ) کیونکہ میں دوسرے نبیوں کی امتوں کے مقابل پر قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا.

Page 736

مضامین بشیر جلد سوم 714 (ب) اور قرآن مجید فرماتا ہے: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ ص فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ، وَقَدِمُوا لأنفُسِكُمْ (البقرة:224) یعنی تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں جن سے تمہاری نسل کی فصل پیدا ہوتی ہے.پس اپنی کھیتیوں کے پاس جب اور جس طرح پسند کرو آؤ اور اپنے مستقبل کے لئے اچھے حالات پیدا کرو.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بیویوں کے ساتھ مباشرت کرنے میں اس پہلو کو کبھی نظر انداز نہ کرو کہ انہی کے ذریعہ سے تمہاری نسل کا سلسلہ چلتا اور تمہارے مستقبل کی بنیاد قائم ہوتی ہے.(8) مگر صحت کی غرض سے یا سفر کی حالت میں جبکہ بعض اوقات مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے عزل یعنی عارضی برتھ کنٹرول کی اجازت بھی دی گئی ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (الف) سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَزْلِ فَقَالَ مَا مِنْ كُلِّ الْمَاءِ يَكُونُ الْوَلَدُ ( صحیح مسلم) یعنی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل یعنی وقتی برتھ کنٹرول کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا ہر نطفہ سے تو بچہ پیدا نہیں ہوا کرتا.اس سے یہ مراد ہے کہ اگر کسی خاص ضرورت کے وقت عزل کر لو تو اس پر حرج نہیں.مگر یا درکھنا چاہئے کہ عزل کا لفظ جو حدیث میں آتا ہے اس کے معنی وقتی اور عارضی برتھ کنٹرول کے ہیں.مستقل طور پر سلسلہ ولادت کو روکنے کے نہیں ہیں.(ب) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آپ فرماتے ہیں: مَا عَلَيْكُمْ أَوَ لَا عَلَيْكُمْ أَن لَّا تَفْعَلُوا مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا هِيَ كَائِنَةٌ ( صحیح بخاری کتاب العتق ) یعنی کیا حرج ہو گا اگر تم عزل یعنی برتھ کنٹرول نہ کرو.یا یہ کہ میں تمہیں عزل سے رکنے کا حکم نہیں دیتا کیونکہ یہ اولادکو روکنے کا کوئی قطعی اور یقینی ذریعہ نہیں ہے ) خدا جس وجود کو پیدا کرنا چاہے اسے عزل کے با وجود پیدا کر سکتا ہے.اس حدیث سے حضرت ابن سیرین اور علامہ قرطبی اور بہت سے دوسرے ائمہ نے استدلال کیا ہے کہ یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نا پسندیدگی پر دلالت کرتے ہیں.گوجیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے غالباً یہ نا پسندیدگی زیادہ سخت قسم کی نہیں ہے.

Page 737

مضامین بشیر جلد سوم 715 ( ج ) پھر ایک اور حدیث میں آپ فرماتے ہیں: قَالَتِ الْيَهُودُ الْعَزْلِ الْمُوْءُ ودَةُ الْصُغُرَى فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَبَتِ الْيَهُودُ إِنَّ اللَّهَ لَو اَرَادَ أَنْ يَخْلُقُ شَيْئًا لَمْ يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ أَنْ يَصْرِفَهُ (سنن ابی داؤد، کتاب النکاح باب ماجاء فی العزل ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یہودی لوگ کہتے ہیں کہ عزل یعنی برتھ کنٹرول تو گویا مخفی رنگ میں ایسا ہے کہ ایک زندہ رہنے والے بچہ کو خود اپنے ہاتھ سے دفن کر دیا جائے.آپ نے فرمایا یہود غلط کہتے ہیں ( کیونکہ عزل ایک وقتی اور غیر یقینی سا طریقہ ہے اور ) اگر خدا عزل کے باوجود کوئی بچہ پیدا کرنا چاہے تو کوئی شخص اسے روک نہیں سکتا.(د) مگر اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ خطرہ بھی ظاہر فرمایا ہے کہ اگر عزل کے طریق کو کامیاب صورت حاصل ہو جائے تو وہ قتل اولا د کارنگ اختیار کر لیتا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: سَأَلُوهُ عَنِ الْعَزْلِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَالِكَ الْوَادُ الْخَفِيُّ وَهِيَ (وَإِذَا الْمَوْءُ وُدَةُ سُئِلَتْ) (صحیح مسلم کتاب النکاح باب جواز الغيلة وهى وطء المرضع و کراهتة ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل یعنی برتھ کنٹرول کے متعلق پوچھا گیا جس پر آپ نے فرمایا یہ تو ایک مخفی قسم کا قتل اولاد ہے.اور قرآن مجید فرماتا ہے کہ قیامت کے دن قتل اولاد کے متعلق پرسش ہوگی.(9) (الف) اوپر کی دونوں حدیثیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں مگر حقیقتا وہ متضاد نہیں.کیونکہ جہاں آپ نے یہود کے خیال کی تکذیب فرمائی ہے وہاں جیسا کہ حدیث کی عبارت سے ظاہر ہے یہ مراد ہے کہ بعض اوقات عزل کے باوجود بچہ پیدا ہو جاتا ہے.اور جہاں خود عزل کو قتل اولاد کے مترادف قرار دیا ہے وہاں یہ مراد ہے کہ اگر کوئی حمل قرار پانے والا ہو اور عزل کے نتیجہ میں وہ عمل رک جائے تو یہ بھی ایک رنگ قتل اولا ڈ“ کا ہوگا.(ب) دوسری تشریح ان حدیثوں کے ظاہری تضاد کو دور کرنے کی یہ ہے کہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ یہودی لوگ جھوٹ کہتے ہیں کہ عزل ایک مخفی قسم کا قتل اولاد ہے.وہاں یہ مراد ہے کہ جو خاص ہسپتال دنیا کی اصلاح اور ترقی کے لئے خدا تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے خواہ وہ دین کے میدان میں ہوں یعنی انبیاء کرام اور دوسرے روحانی مصلحین جن کا وجود روحانیت کی بقا کے لئے ضروری ہے یا وہ دنیا کے

Page 738

مضامین بشیر جلد سوم 716 میدان میں ہوں یعنی بڑے بڑے ڈاکٹر اور سائنسدان اور مصلح قسم کے سیاستدان وغیرہ.جن کا وجود نسل انسانی کے لئے خاص طور پر مفید ہے تو خواہ عزل کا طریق ہو یا کچھ اور ہو خدا تعالیٰ ان کے پیدا کرنے کا کوئی نہ کوئی رستہ کھول دیتا ہے تا کہ دنیا کی ترقی میں روک نہ پیدا ہو.اور جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عزل کو مخفی قسم کا قتل اولاد قرار دیا ہے وہاں عام لوگوں کی ولادت مراد ہے جس میں عزل کے ذریعہ روک پیدا ہو جاتی ہے.گویا ایک حدیث میں تقدیر عام کا ذکر ہے اور دوسری میں تقدیر خاص کا ذکر ہے.(ج) یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ امام ابن حزم ( جو ایک بہت بلند پایہ امام ہیں ) اور بعض دوسرے ائمہ نے ان دونوں حدیثوں میں سے اس حدیث کو ترجیح دی ہے اور اسے زیادہ صحیح قرار دیا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف سے فرمایا ہے کہ عزل کا طریق ایک مخفی قسم کے قتل اولاد کا رنگ رکھتا ہے.(دیکھو نیل الاوطار ابواب العزل) (10) اسی لئے یہ روایت آتی ہے کہ: قَدْ كَرِهَ الْعَزْلَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلَ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ ( ترندی کتاب النکاح) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت اور اسی طرح کئی دوسرے علماء اسلام نے عزل کو نا پسند کیا ہے.(11) مگر جائز اور حقیقی ضرورت کے وقت اس سے روکا بھی نہیں گیا چنا نچہ حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ : كُنَّا نَعْزِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقُرْآنُ يَنزِلُ.( بخاری و مسلم کتاب النکاح) یعنی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض اوقات عزل یعنی برتھ کنٹرول کا طریق اختیار کرتے تھے اور اس زمانہ میں قرآنی شریعت نازل ہو رہی تھی.( مگر ہمیں اس سے قرآن میں روکا نہیں گیا ) (12) لیکن بہر حال قرآن مجید غربت اور رزق کی تنگی کی بناء پر برتھ کنٹرول کی اجازت نہیں دیتا.چنانچہ فرماتا ہے: (الف) وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خطاً كَبِيرًا.(بنی اسرائیل: 32)

Page 739

مضامین بشیر جلد سوم 717 یعنی اے مسلمانو! اپنی اولاد کو غربت اور تنگی کے ڈر سے قتل نہ کیا کرو تمہیں اور تمہاری اولاد کو رزق دینے والے ہم ہیں.اور یا درکھو کہ اولاد کوقتل کر ناخدا کی نظر میں ایک بہت بڑی خطا کاری ہے.(ب) پھر فرماتا ہے: وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقِ ، نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ (الانعام: 152) یعنی اپنی اولاد کو غربت اور رزق کی تنگی کی وجہ سے قتل نہ کرو.تمہیں اور تمہاری اولادکو رزق دینے والے ہم ہیں.اور دیکھو اس ذریعہ سے بے حیائی پیدا ہونے کا بھی خطرہ ہے اور تمہیں بے حیائی کے قریب تک نہیں جانا چاہئے.خواہ کوئی بے حیائی ظاہر میں نظر آنے والی ہو یا یہ کہ پوشیدہ ہو.اس لطیف آیت میں رزق کی تنگی والی دلیل کو ر ڈ کرنے کے علاوہ اس گہری حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ برتھ کنٹرول کا طریق بعض صورتوں میں عیاشی اور بے حیائی کی طرف لے جاتا ہے اور مسلمانوں کو اس معاملہ میں بہت محتاط اور چوکس رہنا چاہئے.(ج) نیز فرماتا ہے: قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهَا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَارَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءٌ عَلَى الله (الانعام: 141) یعنی وہ لوگ یقیناً گھاٹے اور نقصان میں ہیں جو اپنی اولاد کو صحیح علم رکھنے کے بغیر جہالت سے قتل کرتے ہیں اور اس نعمت ( یعنی اولاد ) کو اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں جو خدا نے ان کے لئے مقدر کی ہے.یہ خدا کے نزدیک ایک جھوٹا طریق ہے اور خدائی منشاء کے خلاف ہے.(د) اسی طرح فرماتا ہے: وَكَذلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ (الانعام: 138) یعنی جو لوگ مشرک ہیں اور خدا کی طاقتوں پر ایمان نہیں لاتے ہیں اور اس کے مقابل پر خیالی بت کھڑے کرتے رہتے ہیں ان میں سے بہت سے لوگوں کو ان کے فرضی خدا ان کی اولادوں کا قتل کیا جانا اچھے رنگ میں ظاہر کر کے دکھاتے ہیں اور وہ اس کے حق میں دلیلیں گھڑ گھڑ کے خوش ہوتے ہیں.(13) اوپر کی درج شدہ احادیث اور قرآنی آیات سے اس شبہ کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے جو اس موقع پر بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ کسی پیدا شدہ بچے کو مارنے اور پیدا ہونے سے پہلے برتھ کنٹرول کے ذریعہ کسی بچہ

Page 740

مضامین بشیر جلد سوم 718 کی پیدائش کو روکنے میں فرق ہے.کیونکہ پیدائش کو روکنا قتل نہیں کہلا سکتا.مگر یہ شبہ درست نہیں کیونکہ قرآنی آیات اور احادیث رسول نے ان دونوں کو عملاً ایک ہی چیز قرار دیا ہے.بے شک درجہ میں فرق ہے مگر عملاً اور نتائج کے لحاظ سے وہ دراصل ایک ہی چیز ہیں.کیونکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کو الواد الخَفی (یعنی خفیہ رنگ میں زندہ درگور کرنا ) قرار دیا ہے.اور قرآن مجید نے اسے بعض حالات میں بے حیائی کا موجب گردانا ہے.حالانکہ ظاہر ہے کہ بے حیائی کا امکانی تعلق صرف برتھ کنٹرول کے ساتھ ہے ظاہری قتل کے ساتھ ہر گز نہیں جو کہ ظلم ہے نہ کہ موجب بے حیائی.مگر باوجود اس کے قرآن نے اس کے متعلق قتل کا لفظ استعمال کیا ہے.اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نطفہ میں بھی جان ہوتی ہے اور اسے دیدہ و دانستہ ڈاکٹری ہدایت کے بغیر ضائع کرنا بھی ایک رنگ کا قتل ہے.مفصل مضمون لکھتے ہوئے اس کے متعلق انشاء اللہ حسب ضرورت مزید تشریح کر دی جائے گی.نوٹ: اس جگہ ضمنا یہ ذکر کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں میں رومن کیتھولک فرقہ جو عیسائیوں کے دوسرے فرقوں کے مقابل پر اکثریت میں ہے برتھ کنٹرول کے خلاف ہے اور اسے مذہبی رنگ میں گناہ خیال کرتا ہے.(14) پھر اللہ تعالیٰ اپنے رازق ہونے کی صفت کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم چونکہ خالق ہیں اس لئے مخلوق کا رزق بھی ہمارے ذمہ ہے.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے: (الف) وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلِّ فِي كِتَبٍ مُّبِينٍ (هود:7) یعنی انسان تو انسان زمین پر کوئی رینگنے والا جانور بھی ایسا نہیں جس کا رزق خدا کے ذمہ نہ ہو.وہی اس کی زندگی کی قرارگاہ اور آخری انجام کو جانتا ہے اور ہر چیز اس کی ازلی ابدی قانون میں محفوظ ہے.(ب) نیز فرماتا ہے: وَكَاتِنُ مِنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا مَ اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ (العنكبوت:61) یعنی دنیا میں کتنے جانور ہیں جو اپنے رزق کو ذخیرہ کر کے نہیں رکھ سکتے مگر اللہ ان کو رزق دیتا ہے اور اے انسانو! وہی آسمانی آقا تمہارے رزق کا سامان مہیا کرتا ہے.(15) ان آیات سے یہ مراد نہیں کہ خدا انسانوں کے لئے آسمان سے روٹی گراتا ہے کہ بیٹھے رہو اور کھاؤ.بلکہ مراد یہ ہے کہ خدا نے نیچر میں ایسے وسیع سامان اور ایسے کثیر التعداد ذ رائع ودیعت کر رکھے ہیں کہ

Page 741

مضامین بشیر جلد سوم اگر لوگ غور اور دانشمندی اور محنت سے کام لیں تو وہ یقینا رزق کی تنگی سے بچ سکتے ہیں.(16) چنانچہ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 719 مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ ، وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ (البقرة: 262) یعنی جو لوگ خدا کے رستہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسے بیج کی سی ہے جو بوئے جانے پر سات بالیاں نکالتا ہے اور ہر بالی میں ایک سو دانے ہوتے ہیں.اور خدا تعالیٰ چاہے تو ایک دانے کی پیداوار کو اس سے بھی بڑھا سکتا ہے.اس لطیف آیت میں خدا کے رستہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بیان کرنے کے علاوہ یہ بات بھی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اگر انسان کوشش اور سمجھ سے کام لے اور خدا کے پیدا کردہ سامانوں سے پوری طرح فائدہ اٹھائے تو ایک دانے سے سات سو دانے تک پیدا ہو سکتے ہیں.بلکہ خدا فرماتا ہے کہ اللہ قادر ہے کہ غلہ کی پیداوار کو اس سے بھی بڑھا دے.پس اگر مثلا گندم کا بیج کسی جگہ فی ایکڑ میں سیر ڈالا جاتا ہے تو خدائی قانون کے ماتحت اس سے امکانی حد تک ساڑھے تین سو من فی ایکڑ غلہ پیدا ہوسکتا ہے.اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں کم از کم خوراک کی کمی کا سوال ختم ہو جاتا ہے.بے شک اس وقت یہ ایک خیالی آئیڈیل سمجھا جائے گا مگر آئیڈیلوں یعنی منتہائے نظریات کے ذریعہ ہی انسان ترقی کیا کرتا ہے.کاش دنیا اس مخفی قسم کے قتل اولاد کی طرف مائل ہونے کی بجائے اس آئیڈیل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے جس کے لئے خدائی ارشاد کے مطابق نیچر کے غیر محدود خزانوں میں وسیع سامان موجود ہے.صرف مزید کوشش اور مزید ریسرچ اور مزید تگ و دو کی ضرورت ہے ورنہ قرآن نے تو رستہ دکھانے میں کمی نہیں کی.(17) اوپر والا قرآنی آئیڈیل تو شائد بھی بہت دور کی بات ہے ( گومسلمانوں کے لئے بہر حال یہی آئیڈیل ہے) پاکستانی تو فی الحال اپنی زرعی پیداوار میں اکثر دوسرے ملکوں سے بہت پیچھے ہے.حالانکہ کوئی وجہ نہیں کہ اپنی آنکھوں کے سامنے نمونہ موجود ہونے کے باوجود اور پھر اپنی زمین کی بنیادی زرخیزی کے با وجود پاکستان دوسرے ملکوں سے پیچھے رہے.موجودہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان اور بعض دوسرے ملکوں کی فی ایکڑ اوسط پیداوار کا موازنہ ذیل کے مختصر نقشہ سے ہو سکتا ہے: نام فصل مغربی پاکستان جرمنی ڈنمارک امریکہ انگلستان گندم ومن سے 24 من 31 من 10 من من 22-1/2 جاپان حوالہ کتاب پنجاب ایگریکلچو مصنفه سرولیم را برٹس

Page 742

مضامین بشیر جلد سوم چاول 10 من 720 27 من 40 من ایکونا مک پرابلمز مصنفہ الیس عنایت حسین ملتی 10 من کتا 325 سواتین سومن 21 من 540 پنجاب ایگریکلچر جاوا1500 ایکونا مک پر اہلمز من من ان اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ قرآنی آئیڈیل تو بہت دور کی بات ہے ابھی پاکستان کے لئے بعض دوسرے ممالک کے مقابل پر بھی بڑی ترقی کی گنجائش ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اعلیٰ قلبہ رانی اور بہتر بیج اور پانی کی بہتر سپلائی اور کھاد کے بہتر انتظام سے وہ دوسرے ملکوں سے پیچھے رہے جبکہ اس کی زمین مسلمہ طور پر زرخیز مانی گئی ہے.اور خصوصاً جبکہ پنجاب کے زراعتی فارم کے بعض تجربات میں جو چھوٹے رقبوں میں کئے گئے ہیں گندم کی پیداوار 1/2-56 من فی ایکڑ تک پہنچی ہے.( پنجاب ایگریکلچر ) ނ (18) خوراک کے معاملہ میں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان تو خدا کے فضل.بنیادی طور پر خوراک کے معاملہ میں خود مکلفی ہے صرف ایک وقتی اور عارضی کمی آگئی ہے جو بنجر زمینوں کو آباد کرنے اور سیم اور تھور کا ازالہ کرنے اور نہروں کو درست کرنے اور ٹیوب ویل وغیرہ لگانے سے بآسانی دور ہوسکتی ہے.مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے کئی ممالک بنیادی طور پر کمی خوراک کے علاقے ہیں جن کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دوسرے ملکوں سے اپنی خوراک خریدیں اور اپنی خام اور پختہ پیداواران کو دیں.تو جب تبادلۂ اجناس کا یہ نظام دنیا میں وسیع طور پر قائم ہے اور کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے تو پاکستان کو کیا فکر ہوسکتا ہے؟ البتہ غالبا اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کی اکانومی میں صنعت کے عصر کوکسی قدر مزید بلند کیا جائے.(19) دنیا کے وسیع منظر پر بھی غذا کا مسئلہ ماہرین کے نزدیک کم از کم فی الحال چنداں قابلِ فکر نہیں.چنانچہ نیشنل ہر تھ ریٹ کمیشن جو آبادی کے مسئلہ پر غور کرنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا اس کی رپورٹ میں صراحتاً مذکور تھا کہ: اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ دنیا کی موجودہ آبادی کی ضروریات کے لئے اس کے قدرتی خزائن مکفی نہیں ہیں.بلکہ اس کے الٹ ان قدرتی ذرائع اور وسائل سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لئے دنیا کی موجودہ آبادی سے زیادہ آبادی کی ضرورت ہے جس کا معیار زندگی بھی اونچار کھا جا سکتا ہے.(انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا ایڈیشن 14 جلد 3 صفحہ 647 کالم 2)

Page 743

مضامین بشیر جلد سوم 721 در حقیقت اب و سائل رسل و رسائل کی وسعت اور ملکوں کے باہمی روابط کے نتیجہ میں دنیا در اصل ایک ملک کے حکم میں آچکی ہے.اس لئے اس کے مسائل کو بھی اسی وسیع نقطہ نظر سے دیکھنا ضروری ہے.اگر ایک ملک ایک چیز زیادہ پیدا کرتا ہے تو دوسرا ملک کوئی دوسری چیز زیادہ پیدا کرتا ہے اور اسی طرح باہم تبادلہ سے سب کا کام چلتا چلا جاتا ہے ورنہ حقیقتا دنیا کا کوئی ملک بھی ایسا نہیں جو اپنی ضرورت کی ہر چیز خود پوری مقدار میں پیدا کر رہا ہو.(20) مگر باوجود اس کے قرآن مجید نے سارے حالات کو دیکھتے ہوئے پیدائش نسل کے متعلق بعض قدرتی کنٹرول خود بھی قائم کئے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے: وَحَمْلُهُ وَفِصْلُهُ ثَلْثُونَ شَهْرًا (الاحقاف: 16) یعنی بچہ کے حمل میں رہنے اور اور دودھ پینے کا زمانہ میں (30) مہینے یعنی اڑھائی سال ہونا چاہئے.اس آیت میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر کسی عورت کی سُو ( یعنی اس کے دو بچوں کے درمیان کا وقفہ ) کم ہو اور وہ جلد جلد بچہ جنتی ہو جیسا کہ بعض عورتیں ہر سال بچہ جنتی ہیں جس کے نتیجہ میں عورت کی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے اور بچے بھی لازماً کمزور رہتے ہیں تو اس صورت میں وقتی برتھ کنٹرول کے ذریعہ دو بچوں کی ولادت کے درمیانی عرصہ کو مناسب طور پر لمبا کیا جاسکتا ہے.(21) ایک اور جہت سے بھی اسلام نے اس معاملہ میں ایک حکیمانہ کنٹرول قائم کیا ہے جو میاں بیوی کی صحتوں پر خراب اثر پڑنے سے روکتا ہے.وہ یہ کہ گو خاص حالات میں اسلام نے چھوٹی عمر کی شادی کی اجازت دی ہے مگر عام حالات میں اسے پسند نہیں کیا.تا کہ نہ تونسل کی صحت پر کوئی خراب اثر پڑے اور نہ بعد میں امکانی جھگڑے اٹھ کر باہمی تعلقات میں تلخی پیدا کرنے کا موجب بنیں.چنانچہ اگر استثنائی حالات میں کسی جوڑے کی چھوٹی عمر میں شادی ہو جائے تو اسلام نے لڑکی کو اس کے بڑا ہونے پر خیار بلوغ کا حق دیا ہے.خود ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شادی بھی پچیس سال کی عمر میں ہوئی تھی.البتہ اگر کوئی خاص خاندانی یا قومی فوائد متوقع ہوں تو استثنائی صورت میں چھوٹی عمر میں بھی شادی ہوسکتی ہے.(22) یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے طبی ضرورت کے علاوہ جس میں مرد عورت کی زندگی اور صحت کا سوال ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل یعنی عارضی برتھ کنٹرول کی استثنائی اجازت دراصل زیادہ سفر کی حالت میں یا لونڈیوں کے متعلق دی ہے جو اس زمانہ کے حالات کا ایک وقتی اور ناگزیر نتیجہ تھیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :

Page 744

مضامین بشیر جلد سوم 722 عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمَصْطَلَق فَاَصَبُنَا سَبُياً مِّنَ الْعَرَب فَاشْتَهَيْنَا النِّسَاءَ وَاشْتَدَّتْ عَلَيْنَا الْعَزُبَةُ وَأَحْبَبْنَا الْعَزْلَ فَسَأَلْنَا رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَّا تَفْعَلُوْافَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ قَدْ كَتَبَ مَا هُوَ خَالِقٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - ( بخاری و مسلم ) یعنی حضرت ابوسعید روایت کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بنی مصطلق کے سفر میں نکلے اور بعض غلام عورتیں ہمارے ہاتھ آئیں اور ہمیں اپنے گھروں سے دوری کی وجہ سے عورتوں کی طرف طبعا رغبت پیدا ہوئی مگر ہم یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ ہماری ان لونڈیوں کو حمل قرار پائے تو ہم نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آپ نے فرمایا کہ تمہیں ان حالات میں حکم نہیں دیتا کہ ضرور عزل سے رکو مگر جس بچہ کا پیدا ہونا مقدر ہو وہ تو پیدا ہو ہی جاتا ہے.(ب) اور دوسری حدیث میں آتا ہے کہ: عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ لِي جَارِيَةً هِيَ خَادِمَتْنَا وَأَنَا أَطُوفُ عَلَيْهَا وَ أَكْرَهُ أَنْ تَحْمِلَ فَقَالَ اعْزَلُ عَنْهَا إِنْ شِئْتَ فَإِنَّهُ سَيَاتِهَا مَا قَدِرَلَهَا.(ابوداؤد و مسند احمد کتاب النکاح باب ماجاء فی العزل) یعنی حضرت جابز روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ایک لونڈی ہے جو ہماری خدمت کرتی ہے اور میں اس سے مباشرت کا تعلق رکھتا ہوں مگر میں پسند نہیں کرتا کہ اس سے بچہ پیدا ہو.آپ نے فرمایا کہ اگر تم ضروری خیال کرتے ہو تو اس سے عزل کر سکتے ہومگر مقدر بچہ تو پیدا ہو کر ہی رہتا ہے.رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر اقوال جو عزل کے بارے میں ہیں وہ انہی تین حد بندیوں کے گرد چکر لگاتے ہیں.یعنی یا تو وہ سفر کی حالت سے تعلق رکھتے ہیں اور یا وہ لونڈیوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور یا وہ مرد و عورت کی زندگی کی حفاظت اور ان کی امکانی بیماری کے سد باب سے متعلق ہیں.نوٹ اول : اس تعلق میں ہماری جماعت کو یاد ہوگا کہ ایک دفعہ جماعت کے موجودہ امام حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے بیرونی مبلغوں کو نصیحت کی تھی کہ ( چونکہ وہ بھی سفر کی

Page 745

723 مضامین بشیر جلد سوم حالت میں ہیں ) وہ برتھ کنٹرول کے ذریعہ اپنی اولاد کو محدود کر سکتے ہیں.غالباً وہ نصیحت اسی اصول کے ماتحت کی گئی تھی.نوٹ ثانی: یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ لونڈیوں کے ساتھ مباشرت اس زمانہ کے حالات اور اس وقت کے دشمنانِ اسلام کے رویہ کی وجہ سے ایک وقتی نظام تھا جو صرف جنگی قیدیوں تک محدود تھا اور آئندہ کے لئے اسلام نے کسی آزاد انسان کو غلام بنانے کی ممانعت کر دی.دراصل لونڈیوں کا معاملہ اس زمانہ میں ایک خاص قسم کی شادی کا رنگ رکھتا تھا جو حالات کی تبدیلی کے ساتھ ختم ہو گیا.تفصیل کے لئے دیکھ خاکسار کی تصنیف ”سیرت خاتم النبین ، حصہ دوم ) (23) آزاد بیاہتا بیویوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شرط مقرر فرمائی ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر عزل کا طریق اختیار نہ کیا جائے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ : عَنْ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ قَالَ نَهى رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعْزَلَ عَنِ الْحُرَّةِ إِلَّا بِإِذْنِهَا.( مسند احمد وابن ماجہ کتاب النکاح باب العزل) یعنی حضرت عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کسی آزاد بیاہتا بیوی کی اجازت کے بغیر اس کے ساتھ عزل کا طریق اختیار نہ کیا جائے.اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر عورت مزید اولاد کی خواہش رکھتی ہو اور صحت وغیرہ کے لحاظ سے اس کی طاقت محسوس کرتی ہو تو اس کے متعلق اس کی مرضی کے خلاف عزل کا طریق اختیار کرنا جائز نہیں.(24) خوراک کی قلت کی بحث اوپر گزر چکی ہے اب رہا ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے جگہ کی کمی کا سوال.سو یہ بھی غالباً پاکستان کے موجودہ حالات میں ایک خیالی خطرہ سے زیادہ نہیں.کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک مغربی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ گنجان آباد ہیں.حتی کہ ان کے مقابل پر مغربی پاکستان میں جگہ کی کمی کا سوال پیدا ہی نہیں ہو سکتا.چنانچہ ذیل کا نقشہ جس میں فی مربع میل آبادی درج ہے.اس حقیقت کو موشگاف کرنے کے لئے کافی ہے.برطانیہ بيلجيم جرمنی جاپان مغربی پاکستان سندھ 94 133 443 352 654 665 (ایکونا مک پرابلمز آف پاکستان مصنفہ الیس عنایت حسین صفحہ 54-55)

Page 746

مضامین بشیر جلد سوم 724 اس نقشہ سے ظاہر ہے کہ کم از کم مغربی پاکستان اور خصوصاً سندھ میں رقبہ کے مقابل پر آبادی کا تناسب ابھی تک بہت کم ہے اور کافی توسیع کی گنجائش ہے.بے شک مشرقی پاکستان میں آبادی کا تناسب مغربی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے.مگر یہ مسئلہ مشرقی پاکستان کی اکانومی کو چھوٹے رقبوں سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے طریقہ کاشت کو جسے انگریزی میں انکیو فارمنگ (Intensive farming) کہتے ہیں.اختیار کرنے سے حل کیا جا سکتا ہے.مشرقی پنجاب کے بعض علاقوں میں آرائیں قوم کے لوگ نصف ایکڑ رقبہ میں کافی بڑے بڑے خاندانوں کو پالتے تھے.اسی طرح مشرقی پاکستان کی اکانومی کو صنعت و حرفت کی طرف تھوڑا سا جھکانے سے بھی کسی قدر سہولت پیدا کی جاسکتی ہے.میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مشرقی پاکستان میں زرعی اکانومی کو صنعتی اکانومی میں بدل دیا جائے.ایسا کرنا بہت پیچیدگی کا موجب ہوگا.بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ اس حصہ ملک کی اکانومی کو مناسب حد تک صنعت و حرفت کی طرف جھکا کر آبادی میں بہتر توازن کی صورت پیدا کی جاسکتی ہے.پھر یہ بات بھی یا در کھنے کے قابل ہے کہ مشرقی پاکستان میں آبادی کی زیادتی کے باوجود سارے پاکستان میں آبادی کا مخلوط اور مجموعی تناسب صرف 194 ہے (ایس عنایت حسین مذکور صفحہ 54) جو کئی دوسرے ملکوں کے مقابل پر کافی کم ہے اور کم از کم فی الحال تشویش کی کوئی وجہ نہیں.(25) اگر کسی وقت پاکستان میں جگہ کی کمی کا سوال پیدا ہو تو اس کا ایک جزوی قسم کا حل یہ بھی ہے کہ پاکستان کے بعض لوگ انفرادی طور پر پاکستان سے منتقل ہو کر ایسے دوسرے ملکوں میں چلے جائیں جہاں زائد لوگوں کی کھپت کی گنجائش ہو.یہ لوگ جہاں بھی جائیں گے لازماً ان کے دلوں میں پاکستان کی محبت اور ہمدردی جاگزین رہے گی.اس قسم کی انفرادی ہجرت میں نہ صرف پڑھے لکھے تاجر اور صناع اور پیشہ ور اور کلرک ٹائپ کے لوگ حصہ لے سکتے ہیں.بلکہ مزدور طبقہ کے لئے بھی اس کی کافی گنجائش موجود ہے.یہودی قوم نے اس تدبیر سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور اکثر ملکوں میں اپنا ایک مخصوص مقام پیدا کر لیا ہے.یقیناً اپنے ہاتھ سے اپنی نسل کے ایک حصہ کو برتھ کنٹرول کے ذریعہ ضائع کرنے سے یہ بات بہت بہتر ہے کہ پاکستان کی زائد آبادی (اگر اور جب بھی اس کا وجود پیدا ہو ) فرداً فرداً اور آہستہ آہستہ بعض دوسرے ممالک میں پہنچ کر آباد ہو جائے.یقینا وہ باہر جا کر اسلامی تعلیم کے ماتحت ان ملکوں کی حکومتوں کی وفادار رہے گی.مگر ساتھ ساتھ ان ملکوں میں پاکستان سے ہمدردی رکھنے والا ایک طبقہ بھی پیدا ہو جائے گا.قرآن مجید نے بھی اسی حل کی طرف ایک آیت میں ضمنی طور پر اشارہ فرمایا ہے.چنانچہ فرماتا ہے:

Page 747

مضامین بشیر جلد سوم 725 وَمَنْ يُهَاجِرُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُراغَمًا كَثِيرًا وَّسَعَةً (النساء:101) یعنی جو شخص کسی مجبوری سے خدا کی خاطر اپنا وطن بدلتا ہے وہ زمین میں بہت کامیابی اور وسعت کا سامان پائے گا.اور دوسری جگہ فرماتا ہے: أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ (الزمر: 11) یعنی اللہ کی زمین وسیع ہے.اس کی تنگی کے خیال سے نہ گھبراؤ.(26) ماہرین آبادی کا یہ بھی خیال ہے کہ اس ملک میں آبادی کا اتنا گر جانا کہ اوسطاً فی گھر بچوں کی تعداد چار بچوں سے کم ہو جائے خطرناک ہوتا ہے اور ملک وقوم کے انحطاط کا باعث بن جاتا ہے.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ: کسی قوم یا ملک میں آبادی کے صحیح تناسب کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک فیملی میں بچوں کی تعداد چار سے کم نہ ہو.بچے پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہوئے صرف تین بچے پیدا کرنا اپنی بقا کے لئے ضروری آبادی کا صرف تین چوتھائی حصہ مہیا کرنا ہے.(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا ایڈیشن 14 جلد 3 صفحہ 648 کالم نمبر 2) اس حوالہ سے ثابت ہے کہ ایک فیملی میں یعنی ایک ماں باپ کے ہاں بچوں کی تعداد چار سے کم نہیں ہونی چاہئے (خیال رہے کہ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ بچوں کی تعداد چار سے زیادہ نہ ہو بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ چار سے کم نہ ہو) اور چونکہ یہ رائے ملکی اوسط کے اصول پر مبنی ہے اور ملک میں بہت سے والدین اولاد سے بالکل ہی محروم رہتے ہیں اور بعض کے صرف ایک دو بچے ہوتے ہیں اور بعض مرداور عورتیں شادی ہی نہیں کرتیں ( گو یہ بات اسلامی تعلیم کے خلاف ہے ) اس لئے اگر بعض گھروں میں بچوں کی تعداد زیادہ بھی ہو جائے تو ہر گز کسی قومی خطرے یا نقصان کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی.اب بھی یہ بات غالباً پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اس وقت پاکستان کے سارے خاندانوں کے بچوں کی اوسط فی گھر کے حساب سے نکالی جائے تو وہ یقیناً بحیثیت مجموعی فی گھر چار بچوں سے کم ہی رہے گی.اندریں حالات خطرہ تو در کنار شائد موجودہ حالات میں کمی کی صورت ہی ظاہر ہوگی.اس جگہ یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ چار بچوں کی اقل تعدا د تو در کنار بعض ملکوں میں اس سے بہت زیادہ تعداد پسند کی جاتی ہے.چنانچہ فلسطین کی اسرائیلی حکومت نے ایسی عورتوں کے لئے معقول انعام مقرر کئے ہیں جو دس بچے پیدا کریں اور یہ بچے زندہ موجود ہوں.(رپورٹ مولانا محمد شریف سابق مبلغ اسلام فلسطین )

Page 748

مضامین بشیر جلد سوم 726 (27) لیکن چونکہ بعض صورتوں میں زیادہ بچے مالی لحاظ سے واقعی بوجھ کا موجب ہو سکتے ہیں اس لئے اگر با وجود ساری باتوں کے کوئی شخص زیادہ کنبہ دار ہونے کی وجہ سے اپنی پوری کوشش کے باوجود اپنی جائز اور اقل ضروریات اپنی آمدن کے اندر پوری نہ کر سکے تو اس کے متعلق اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کی اقل ضروریات جو کھانے پینے اور کپڑے اور مکان سے تعلق رکھتی ہیں ان کے پورا کرنے کی ذمہ واری حکومت پر ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا تھا اور اسی اصول کے مطابق قرآن کریم فرماتا ہے کہ: إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرى ٥ وَأَنَّكَ لَا تَظْموا فِيهَا وَلَا تَضُحى (طه: 119-120) یعنی حقیقی بہشتی زندگی دنیا میں یہ ہے کہ اے انسان تو بھوکا نہ رہے اور نہ ہی ضروری لباس سے محروم ہو.اور نہ ہی سردی میں ٹھٹھرے اور نہ ہی پیاس کی تکلیف اٹھائے اور نہ ہی دھوپ کی شدت میں جلے.تفصیل کے لئے دیکھو خا کسار کی تصنیف ”سیرت خاتم النبیین حصہ سوم ) چنانچہ مغربی دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ملک اس ذمہ داری کو اٹھاتے ہیں اور اسلام میں زکوۃ کا نظام بھی اسی غرض سے مقرر کیا گیا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَ تُرَدُّ إِلَى فُقَرَآئِهِمْ ( بخاری کتاب الزکوۃ باب وجوب الزكاة ) یعنی زکوۃ اس لئے مقرر کی گئی ہے کہ امیروں سے ان کی دولت کا کچھ حصہ کاٹ کر غریبوں کی طرف لوٹایا جائے.اس حدیث میں لوٹایا جائے کے الفاظ میں یہ لطیف اشارہ مقصود ہے کہ یہ امداد غریبوں پر احسان نہیں ہے بلکہ غریبوں کا حق ہے جو ان کو ملنا چاہئے.(28) برتھ کنٹرول کے سوال کے ضمن میں عورتوں کی صحت اور ان کے لئے مناسب طبی امداد کا سوال بھی آتا ہے.اسی طرح غریب ماں باپ کے بچوں کی تعلیم کا سوال بھی پیدا ہوتا ہے.کہا جاتا ہے کہ کثیر التعداد عورتیں اپنی زندگیوں کو خطرہ سے بچانے اور اپنے بچوں کو خاطر خواہ تعلیم دلانے کے لئے برتھ کنٹرول کا رستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں.بادی النظر میں یہ سوال یقیناً قابل غور معلوم ہوتا ہے لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے جہاں تک کسی خاص فرد کی زندگی کو بچانے کا سوال ہے برتھ کنٹرول تو کجا ڈاکٹری مشورہ سے حمل تک گرانے کی اجازت ہے.مگر سوچا جائے تو عام حالات میں یعنی ملکی پیمانہ پر اس کا حقیقی علاج برتھ کنٹرول نہیں ہے بلکہ طبی امداد کی زیادہ سہولتیں مہیا کرنا اور عامتہ الناس اور خصوصاً غریبوں کے مفت علاج کا انتظام

Page 749

مضامین بشیر جلد سوم 727 کرنا ( جیسا کہ برطانیہ میں ہے ) اور دوائیوں کی قیمتوں کو گرانا اصل علاج ہے.اسی طرح نادار والدین کے ذہین اور ہونہار بچوں کے لئے ابتداء سے ہی زیادہ فراخ دلی اور زیادہ کثرت کے ساتھ تعلیمی وظائف منظور کرنے اور فنی تعلیم سے مناسبت رکھنے والے طلباء کو قتی تعلیم دلانے اور سائنس کے علوم کو ترقی دینے سے بھی ملکی آبادی کے مسائل کے حل میں بھاری مددمل سکتی ہے.قرآن مجید نے غریبوں اور یتیموں کی امداد کے لئے غیر معمولی طور پر تاکیدی احکام اسی غرض سے جاری کئے ہیں.اور جاننا چاہئے کہ سائنس کی تعلیم دین کے خلاف نہیں ہے بلکہ جس طرح شریعت خدا کا قول ہے اسی طرح سائنس خدا کا فعل ہے اور دونوں میں کوئی تضاد ممکن نہیں.اور اگر کسی حصہ میں تضاد نظر آتا ہے تو وہ یقیناً ہماری سمجھ کی غلطی ہے.(29) یہ سب جائز اور مناسب بلکہ ضروری طریقے ہیں.مگر برتھ کنٹرول کے ذریعہ اپنی نسل کو کاٹنا جن میں سے بعض پیدا ہونے والے بچے بالقوہ طور پر غیر معمولی قومی کے حامل نکل سکتے ہیں کسی طرح درست اور مناسب نظر نہیں آتا.علاوہ ازیں برتھ کنٹرول کا طریقہ اس لحاظ سے بھی اعتراض کے نیچے آتا ہے کہ وہ ایک ایسی شاخ تراشی یعنی پرونگ Pruning کا رنگ رکھتا ہے جس میں شاخ کاٹنے والا بلا لحاظ اچھی یا بری اور بلالحاظ تندرست یا بیمار شاخ کے یونہی اندھا دھند شاخیں کاٹتا چلا جاتا ہے.تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ مختلف انسانوں کے جسمانی اور دماغی قویٰ میں پیدائشی طور پر فرق ہوا کرتا ہے.یعنی بعض اوقات ایک ماں باپ کا بچہ کند ذہن اور ادنی دماغی طاقتوں والا نکلتا ہے.اور دوسرے ماں باپ کا بچہ بلکہ بعض اوقات انہی ماں باپ کا دوسرا بچہ ایسے اعلیٰ قومی لے کر پیدا ہوتا ہے کہ گویا گھر میں ایک سورج چڑھ آیا ہے.ایک بچہ رینگنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا اور دوسرا بچہ فضا کی پرواز میں شاہین اور عقاب کو مات کرتا ہے.لیکن برتھ کنٹرول کی اندھی چھری کو ان دونوں قسم کے بچوں میں امتیاز کرنے کی کوئی صلاحیت حاصل نہیں ہوتی.بالکل ممکن ہے کہ برتھ کنٹرول کی چھری ایک اعلیٰ دماغی طاقتوں والے آفتابی بچے کو قبل پیدائش ہی ذبح کر کے رکھ دے.اور ایک کند ذہن بچے بلکہ ایک نیم مجنون اور شاہ دولے کے چوہے کی پیدائش کا رستہ کھول دے.اس کے مقابل پر جو قانون خدا نے نیچر میں جاری فرمایا ہے جسے انگریزی میں سروائیول آف دی فلسٹ (Survival of the fittest) کہتے ہیں.وہ ایک بینا اور عاقل سرجن کا رنگ رکھتا ہے جو صرف کمز ور شاخ کو کا تھا اور بڑھنے والی اور پھل دینے والی شاخوں کے پینے کا رستہ کھولتا ہے.اس لئے وہی اس بات کا حق دار ہے کہ اسے اختیار کیا جائے.قرآن مجید نے بھی اسی اصول کی طرف اشارہ فرمایا ہے.چنانچہ فرماتا ہے:

Page 750

مضامین بشیر جلد سوم 728 فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ، وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (الرعد:18) یعنی خدا کا یہ قانون ہے کہ سطحی قسم کی ناکارہ جھاگ تو جلد بیٹھ کر ختم ہو جاتی ہے مگر جو چیز لوگوں کو نفع پہنچانے والی ہو وہ قائم رہتی ہے.مگر افسوس ہے کہ آج کل اکثر لوگ خدا کے بینا قانون کو چھوڑ کر اپنے اند ھے قانون کے ذریعہ کتنے چمکنے والے آفتابی بچوں کے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں.بیشک جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں انبیاء کی پیدائش خدا کی خاص تقدیر یعنی سپیشل ڈگری کے ماتحت ہوا کرتی ہے مگر میں بعض اوقات عمومی رنگ میں سوچا کرتا ہوں کہ اگر نبیوں کی پیدائش بھی عام قانون کے ماتحت ہوا کرتی تو شاید برتھ کنٹرول کی اندھی چھری کی وجہ سے بعض نبی بھی اس کا شکار ہو جاتے اور اس صورت میں دنیا کتنے روحانی خزائن سے محروم ہو جاتی.مگر ہمیں اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں اگر بالفرض بانی پاکستان یعنی قائد اعظم کا قیمتی وجود ہی برتھ کنٹرول کا شکار ہو جا تا تو پاکستان کہاں ہوتا ؟ یا اگر امریکہ میں جارج واشنگٹن اور ابراہام لنکن برتھ کنٹرول کی بھینٹ چڑھ جاتے تو بظا ہر صورت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا کیا حشر ہوتا؟ سوچو اور غور کرو! ہاں پھر سوچو اور غور کرو!! (30) شائد اس جگہ کسی شخص کے دل میں یہ شبہ گزرے کہ بے شک برتھ کنٹرول ایک اندھی چھری ہے مگر جس طرح اس کے ذریعہ بعض اعلیٰ قومی رکھنے والی نیک اور اصلاحی روحوں کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہے اسی طرح اس کی وجہ سے بعض بُری اور فسادی روحوں کے کٹ جانے کا بھی تو امکان ہے.اور اس طرح دونوں طرف کے امکان سے یہ معاملہ گویا سمویا جاتا ہے اور کسی خاص خطرے کی صورت پیدا نہیں ہوتی.لیکن اگر غور کیا جائے کہ یہ دلیل سراسر کوتاہ بینی اور انسانی فطرت کے غلط مطالعہ پر مبنی ہے.کیونکہ اصل اور فطری چیز نیکی ہے جسے مثبت نوعیت حاصل ہے.اور بدی صرف غیر فطری اور منفی قسم کی چیز ہے.اس لئے بہر حال نیکی کے پہلوکوتر جیح حاصل رہے گی.غالباً کوئی عقل مند انسان ایسا نہیں مل سکتا جو اس خیال پر تسلی پا سکے کہ بے شک دنیا میں اعلیٰ قومی کے نیک اور مصلح لوگ نہ پیدا ہوں مگر بہر حال بدوں کی پیدائش کا رستہ بند ہونا چاہئے.روشنی اندھیرے کو دور کیا کرتی ہے اندھیرا روشنی کو دور نہیں کرتا.اسی لئے اسلام نے بدی کے استیصال کی نسبت نیکی کے قیام پر زیادہ زور دیا ہے.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے: إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ ذلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرينَ (هود: 115) یعنی نیکیوں کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ بدیوں کو بہا کر لے جاتی ہیں.یہ بات یادرکھنے والوں کے لئے یا در کھنے کے قابل ہے.

Page 751

مضامین بشیر جلد سوم 729 (31) پھر اگر غور کیا جائے تو برتھ کنٹرول یعنی ضبط تولید کے معنی دراصل یہ بنتے ہیں کہ وہ لوگ جو اس وقت دنیا میں پیدا ہو کر زندگی گزار رہے ہیں وہ تو زندگی کے مزے لوٹیں اور جونسل ابھی پیدا نہیں ہوئی اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا گلا گھونٹ دیا جائے.یہ تو وہی بات ہوئی جو بعض ریل میں بیٹھنے والے کم ظرف مسافر کیا کرتے ہیں کہ جب وہ آرام سے کسی ڈبہ میں گھس کر اپنی سیٹوں پر قابض ہو جاتے ہیں تو پھر اندر سے دروازہ بند کر کے باہر سے داخل ہونے والوں کے لئے رستہ سر بمہر یعنی سیل (Seal) کر دیتے ہیں.گویا کہ ریل صرف انہی کے لئے بنی ہے اور بعد میں آنے والے اس کے حق دار نہیں.(32) جیسا کہ قرآن شریف کی سورۃ انعام آیت 152 میں اشارہ کیا گیا ہے.ضبط تولید اور برتھ کنٹرول کے ذریعہ بے اصول لوگوں کے لئے (نہ کہ نعوذ باللہ سب کے لئے ) عیاشی اور بے حیائی کا رستہ بھی کھلتا ہے.ظاہر ہے کہ جنسی آزادی اور بے راہ روی کے رستہ میں سب سے بڑی روک بدنامی کا ڈر ہوا کرتی ہے یعنی اس لغزش میں مبتلا ہونے والوں میں یہ طبع ڈر اور خوف ہوتا ہے کہ اگر ہمارا راز فاش ہو گیا تو سوسائٹی میں ہماری ناک کٹ جائے گی.لیکن برتھ کنٹرول کے ذرائع کے عام ہونے اور اس بارے میں سہولتیں مہیا ہونے کے نتیجہ میں یہ ڈر لازما جاتا رہتا ہے یا بہت کم ہو جاتا ہے اور گویا بے اصول اور غیر شریف لوگوں کو ایک کھلی رشتی مل جاتی ہے کہ ہم جہاں چاہیں منہ کالا کرتے پھریں پھر بھی ہم محفوظ رہیں گے.اور اس صورت حال کا نتیجہ ظاہر ہے بعض مغربی ممالک میں زنا اور عیاشی اور بے حیائی اور نا جائز ولادت کے پھیلنے کا زیادہ تر یہی سبب بنا ہے.اسی لئے قرآن مجید نے کمال حکمت سے فرمایا ہے کہ : وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ، وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ (الانعام: 152) یعنی اپنی اولادوں کو غربت اور تنگی کی وجہ سے قتل نہ کرو.تمہیں اور تمہاری اولادوں کو رزق دینے والے ہم ہیں.اور دیکھو اس ذریعہ سے بے حیائی پیدا ہونے کا بھی خطرہ ہے اور تمہیں بے حیائی کے قریب تک نہیں جانا چاہتے خواہ کوئی بے حیائی ظاہر میں نظر آنے والی ہو یا کہ پوشیدہ ہو.(33) پھر برتھ کنٹرول اور ضبط تولید کے نقصانات کے متعلق ماہرین کی یہ بھی رائے ہے کہ: بعض صورتوں میں برتھ کنٹرول کے نتائج خطرناک نکلتے ہیں.سکونِ قلب جاتا رہتا ہے.نفسیاتی ہیجان پیدا ہو جاتا ہے.اعصابی بے چینی رہنے لگتی ہے.نیند اڑ جاتی ہے.انسان مراق اور ہسٹیریا کا شکار رہنے لگتا ہے.دماغی توازن اکھڑ جاتا ہے.عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں اور مردوں کی قوت مردی زائل ہو

Page 752

مضامین بشیر جلد سوم 730 جاتی ہے.فیملی پلینگ (Family planning) مصنفہ ڈاکٹر ستیاوتی کے صفحات 70 و77 و80 کے متفرق نوٹوں میں.نیز پاکستان ٹائمنز مورخہ 21 ستمبر 1959 ، صفحہ 4) پھر انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا میں برتھ کنٹرول والے نوٹ کے آخر میں لکھا ہے کہ: اولاد محض خواہش کے نتیجہ میں نہیں مل جایا کرتی ( بلکہ اس کے لئے نیچر کے بھی بعض قوانین اور حد بندیاں مقرر ہیں ) کئی خاوند بیوی ایسے دیکھے گئے ہیں جنہوں نے اپنی متاہل زندگی کے شروع میں برتھ کنٹرول پر عمل کیا مگر پھر بعد میں اولاد کی خواہش اور کوشش کے باوجود آخر عمر تک بے اولا در ہے اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے.(انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا ایڈیشن 14 جلد 3 زیر آرٹیکل برتھ کنٹرول) (34) عورتوں میں برتھ کنٹرول کی خواہش زیادہ تر اپنے حسن و جمال کو برقرار رکھنے اور اسے ترقی دینے کے خیال سے ہوا کرتی ہے.اور یا اس کی تہہ میں بے فکری اور آزادی کی زندگی گزارنے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے.اسی لئے برتھ کنٹرول پر عمل اور اس کا چرچا زیادہ تر متمول طبقہ میں پایا جاتا ہے مگر آڑ غرباء کے طبقہ کی لی جاتی ہے.لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ایک طرف پاکستانی عورتوں کو برتھ کنٹرول کے امکانی نقصانات کا احساس پیدا کرایا جائے اور دوسری طرف گھر یلو زندگی کی اہم ذمہ داریوں کا جذ بہ اجاگر کیا جائے تو پاکستان کی باشعور خواتین سے بعید نہیں کہ وہ چوکس ہو کر اپنے خیالات میں کسی قدر تبدیلی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گی.صحت بے شک ایک ضروری چیز ہے اور اگر زندگی کو خطرہ ہو تو برتھ کنٹرول تو کیا ڈاکٹری ہدایت کے ما تحت حمل بھی گرایا جا سکتا ہے.لیکن یونہی ظاہری اور عارضی ٹیپ ٹاپ کے خیال کی بناء پر مسلمان عورتوں کے لئے اپنی نسل کو ضائع کرنا ہرگز دانشمندی کا طریق نہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ جو بچہ برتھ کنٹرول کے ذریعہ ضائع کیا جا رہا ہے وہ کس شان کا نکلنے والا ہے؟ یا اگر خدانخواستہ موجودہ اولا دفوت ہو جائے تو کون جانتا ہے کہ اس کے بعد اولاد کا سلسلہ بند ہو جانے کے نتیجہ میں کتنی حسرت کا سامنا کرنا پڑے گا.(35) پھر ملکوں اور قوموں کے حالات میں اتار چڑھاؤ بھی ہوتا رہتا ہے.آج اگر کسی وجہ سے کسی ملک میں آبادی کی کثرت محسوس کی جارہی ہے تو کل کو ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ اسی ملک میں زیادہ آبادی کی ضرورت محسوس ہونے لگے اور آبادی کی کمی وبال جان بن جائے.جرمنی میں برتھ کنٹرول کے ذریعہ آبادی کو گرایا گیا.مگر بہت جلد ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ نازی حکومت کو آبادی بڑھانے کی غرض سے جرمن نو جوانوں کو شادیوں کی تحریک کرنے کے لئے انعام دینے پڑے اور زیادہ بچے پیدا کرنے کی غرض سے

Page 753

مضامین بشیر جلد سوم 731 جرمن عورتوں کی بھی غیر معمولی ہمت افزائی کی گئی (معین حوالہ تلاش کیا جارہا ہے ).اسی طرح مارشل پیٹیان کا مشہور قول ہے کہ فرانس کو جرمنی کے مقابل پر جنگ میں زیادہ تر اس لئے مغلوب ہونا پڑا کہ فرانس میں نوجوانوں کی تعداد ( برتھ کنٹرول کی وجہ سے ) بہت گر گئی تھی.غالباً ان کے الفاظ یہ تھے کہ " کو فیو چلڈرن (Too few children) یعنی فرانس میں ملکی ضرورت سے کم نوجوان رہ گئے تھے.( متعین حوالہ تلاش کیا جارہا ہے) بلکہ آج ہی اخباروں میں کینیڈا کی رکن پارلیمنٹ مارگرٹ اٹیکن کا بیان چھپا ہے جو اس خاتون نے عوامی چین کے دورے کے بعد دیا ہے.اس بیان میں مارگرٹ اٹیکن فرماتی ہیں کہ : سرخ چین میں ضبط تولید کو اچھا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی مخالفت کی جاتی ہے.چین میں کمیونسٹوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز قائم کئے گئے تھے لیکن اب ان کو بند کر دیا گیا ہے.حالانکہ چین دنیا بھر کے ملکوں میں سب سے زیادہ آباد ملک ہے.“ (نوائے وقت تاریخ 4 نومبر 1959ء) بہر حال کئی ملک برتھ کنٹرول کے تجربہ کے بعد پھر اس نظام کو بدلنے کی طرف لوٹے ہیں.چنانچہ قرآن مجید بھی اصولی طور پر اس امکانی خطرہ کے پیش نظر فرماتا ہے کہ: تِلْكَ الأَيَّامُ نُدا ولُهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران: 141) یعنی قوموں کے حالات میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے.اس لئے ہوشیار ہو جاؤ.نیز فرماتا ہے: وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر: 19) یعنی انسان کو چاہئے کہ جب وہ کوئی کام کرنے لگے تو اس کے تمام امکانی نتائج اور مستقبل کے حالات کو سامنے رکھ کر قدم اٹھائے تا کہ جلدی میں یا کسی وقتی اثر کے ماتحت کوئی قدم نہ اٹھایا جائے.اس سے ظاہر ہے کہ محض کسی وقتی رو میں بہہ کر کوئی قدم اٹھانا یا دوسروں کی کورانہ تقلید کرنا ہرگز دانشمندی کا طریق نہیں ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان کو کبھی جنگ پیش نہیں آئے گی ؟ اور پھر فوجیوں میں نسلی اور خاندانی روایات بھی چلتی ہیں اور زیادہ تر فوجیوں کے بچے ہی فوج میں جاتے اور اچھے سپاہی بنتے ہیں فَافُهُمْ وَتَدَبَّرُ - (36) اوپر کے چند مختصر سے نوٹوں میں میں نے ” خاندانی منصوبہ بندی‘یا برتھ کنٹرول کے متعلق اپنی ابتدائی تحقیق کا خلاصہ درج کیا ہے.لیکن چونکہ یہ ایک نہایت اہم مضمون ہے جس سے مسلمانوں اور

Page 754

مضامین بشیر جلد سوم 732 خصوصاً پاکستان کے مسلمانوں کی آئندہ ترقی یا ( خدا نہ کرے ) تنزل پر بھاری اثر پڑ سکتا ہے (اور ظاہر ہے کہ ایسے امور کا اثر قومی زندگی میں آہستہ آہستہ ہی ظاہر ہوا کرتا ہے ) اس لئے میں اپنے ان نوٹوں کو آخری صورت دینے سے قبل انہیں موجودہ ابتدائی حالت میں ہی شائع کر رہا ہوں تا کہ مجھے بھی مزید غور کا موقع مل سکے.اور جو ہمدردانِ ملک و ملت اس بارے میں کچھ خیال ظاہر کرنا چاہیں ان کے خیالات کا بھی مجھے علم ہو جائے.چونکہ میں نے بچپن سے ہی خالصتہ مذہبی ماحول میں پرورش پائی ہے اس لئے طبعاً میرے ان نوٹوں میں مذہبی نظریات کا عنصر غالب ہے.لیکن چونکہ اسلام نے اپنے حکیمانہ نظام میں دوسرے پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا اس لئے میرے یہ نوٹ کسی قدر ان پہلوؤں کی چاشنی سے بھی خالی نہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس اہم مضمون کو ایسی صورت میں مکمل ومرتب کرنے کی توفیق دے جو پاکستان کے لئے بہترین نتائج کی حامل ہو.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ (محرره 5 نومبر 1959ء) روزنامه الفضل ربوه 14 نومبر 1959ء) رسالہ "عید کی قربانیاں اور حضرت مسیح موعود کا ایک لطیف فتویٰ خدا کے فضل سے میرا تصنیف کردہ رسالہ ”عید کی قربانیاں“ شائع ہو گیا ہے جس میں اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر ضروری بحث آگئی ہے.یعنی ان قربانیوں کا پس منظر، ان کا وجوب ، ان کی شرائط اور ان کی حکمت اور امکانی خدشات کا جواب وغیرہ.جو دوست یہ رسالہ منگوانا چاہیں وہ نظارت اصلاح وارشادر بوہ سے منگوا سکتے ہیں.اس کی اشاعت انشاء اللہ غیر احمدی احباب میں بھی مفید ہوگی.رسالہ کا حجم 72 صفحے ہے.اس رسالہ کی اشاعت کے بعد مجھے مولوی قمر الدین صاحب کے ذریعہ اس مسئلہ کے متعلق ایک حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی مل گیا ہے.حضور کی خدمت میں ایک شخص نے خط کے ذریعہ عرض کیا تھا کہ : میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی.مگر بعد میں دوسرے حصہ داروں نے مخالفت کی وجہ سے مجھے اس حصہ سے خارج کر دیا.اگر اب میں یہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو

Page 755

مضامین بشیر جلد سوم کیا میری قربانی ہو جائے گی ؟ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ: 733 قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے مسکین فنڈ میں دینے سے نہیں ہوتی.اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکرا قربانی کر دو.اگر کم ہے اور زیادہ کی توفیق نہیں تو اس صورت میں تم پر قربانی دینا فرض نہیں ہے.“ (فتاوی احمدیہ صفحہ 160 ) الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس رسالہ میں بعینہ یہی نکتہ نظر پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے جو اس فتویٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے.اگر کبھی اس رسالہ کے دوسرے ایڈیشن کا موقع آیا تو انشاء اللہ یہ حوالہ بھی شامل کر دیا جائے گا.فی الحال دوست اسے اپنے طور پر نوٹ فرما لیں.56.......روزنامه الفضل ربوہ 14 نومبر 1959ء) میرا پیغام برادران چک منگلا کے نام ( جماعت احمد یہ چک منگلا کے سالانہ جلسہ منعقد ہ 19-20 ستمبر 1959 ء کے موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا.) اے برادران چک منگلا ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی جماعت کا تیسر اسالانہ جلسہ 19-20 ستمبر 1959 ء کو منعقد ہورہا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس جلسہ کو ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ کرے اور آپ کی اور آپ کے علاقہ کی جماعت کو اخلاص اور قربانی اور تنظیم اور تعداد کے میدان میں ترقی عطا کرے.آپ کی جماعت ایک بالکل نئی جماعت ہے جس میں احمدیت کا بیج تازہ بتازہ بویا گیا ہے.اس لئے آپ کو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایسے شاندار نتائج دکھانے چاہئیں جو ایک لمبے عرصہ سے افتادہ زمین کے آباد ہونے پر ابتدائی فصلوں کی صورت میں ظاہر ہوا کرتے ہیں.پس میری نصیحت آپ لوگوں کو قرآنی الفاظ میں یہی ہے: وَلَا تَهِنُوْاوَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الاعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران: 140)

Page 756

مضامین بشیر جلد سوم 734 یعنی تھکو نہیں اور کمزوری نہ دکھاؤ اور اپنے مستقبل کے متعلق غمگین مت ہو.اگر تم بچے ایمان پر قائم رہ کر اپنے فرائض ادا کرو گے تو خدا کے فضل سے تم ہی غالب آؤ گے.یہ خدا کا وعدہ ہے جو انشاء اللہ بھی نہیں ملے گا بشرطیکہ آپ اس شرط کو پورا کر یں.جو اس وعدہ کے ساتھ لگی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کا حافظ و ناصر ہو.آمین.(محررہ 16 ستمبر 1959ء) (روزنامه الفضل ربوہ 21 نومبر 1959ء) مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ کے تیسرے سالانہ اجتماع پر پیغام مجھے معلوم ہوا ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ اپنا سالانہ اجتماع 13،12،11 ستمبر 1959 ء کی تاریخوں میں منعقد کر رہی ہے اور مجھ سے بھی اس موقع پر مختصر سے پیغام کی خواہش کی گئی ہے.سواحمدی نو جوانوں سے میرا پیغام اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ اپنی عمروں کے اس دور کو غنیمت جانو کہ کام کرنے کی طاقت کے لحاظ سے یہ زمانہ انسان کے لئے بہترین زمانہ ہوتا ہے.جبکہ انسان کے اندر جسمانی قو تیں بھی اپنے پورے عروج میں ہوتی ہیں اور کام کرنے کا جذبہ اور ولولہ بھی کمال کی حالت میں پایا جاتا ہے.بے شک بڑی عمر میں انسان کے اندر سوچ و بچار کی پختگی زیادہ پیدا ہو جاتی ہے اور روحانی قومی عموماً زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں لیکن فعالیت اور انتھک جدوجہد کی جو کیفیت جوانی میں میسر آتی ہے بڑی عمر میں بہت کم دیکھی گئی ہے.پس اے نونہالان جماعت کوئٹہ ! اپنی عمرکو غنیمت جانو اور اسلام اور احمدیت کی خدمت میں وہ کار ہائے نمایاں دکھاؤ کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحیں غیر معمولی محبت اور شفقت کے ساتھ تمہارا استقبال کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا سایہ تمہارے سروں پر ہو.یا درکھو کہ تمہارا کام دو حصوں میں تقسیم شدہ ہے.ان دو حصوں کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھو اور ایک لمحہ کے لئے بھی انہیں اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دو.ایک شعبہ تربیت کا ہے یعنی احمدی نوجوانوں کو اسلام اور احمدیت کی تعلیم پر قائم رکھنا تا کہ ان کا ظاہری قدم بھی احمدیت کی تعلیم پر قائم ہو اور ان کی روحیں بھی احمدیت کی تعلیم سے سرشار رہیں.اور دوسرے تبلیغ یعنی جو غلط فہمیاں اسلام اور احمدیت کے متعلق

Page 757

مضامین بشیر جلد سوم 735 پھیلائی جاتی ہیں ان کو غیر از جماعت لوگوں کے دلوں سے دور کر کے انہیں اسلام اور احمدیت کے محاسن پر آگاہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ اس زمانہ میں اسلام کی کشتی کا واحد سہارا صرف اور صرف احمدیت ہے.کیونکہ یہ وہ حبل اللہ ہے جو موجودہ زمانہ کے خطرناک مادی سیلاب کے زمانہ میں ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل کیا ہے.مگر ضروری ہے کہ اپنا کام محبت اور نرمی اور ہمدردی کے رنگ میں کرو.اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اسلام اور احمدیت کا کامل نمونہ بناؤ.کیونکہ نمونہ کے بغیر محض زبان کی تبلیغ کوئی اثر نہیں رکھتی بلکہ الٹا تبلیغ کرنے والے کو موردالزام بنا دیتی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو ایسے رنگ میں کام کرنے کی توفیق دے جو اس دنیا میں اس کی رضا کا موجب اور آخرت میں آپ لوگوں کی سرخروئی کا باعث ہو.آمیـــن يــــا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ( محرره 8 ستمبر 1959ء) روزنامه الفضل ربوہ 24 نومبر 1959ء) مجلس خدام الاحمدیہ خیر پور ڈویژن کے نام پیغام برادرانِ سندھ کے نام میرا پیغام مجھے معلوم ہوا ہے کہ خیر پور سندھ کا تیسرا سالانہ اجتماع بمقام با ندھی ضلع نواب شاہ 18 تا 20 ستمبر 1959ء کو منعقد ہورہا ہے.اور مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں اس موقع پر کوئی پیغام بھجواؤں.سو میں ذیل کی مختصر سی سطور میں اپنا پیغام بھجوار ہا ہوں.جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے تمام صوبوں میں سے سندھ کا علاقہ ہی وہ علاقہ ہے جس میں سب سے پہلے اسلام نے اپنا مبارک قدم رکھا.اور یہ وہ زمانہ تھا جبکہ غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابی زندہ تھے.اور پھر سندھ کے ذریعہ سے ہی ابتداء اسلام اس ملک کے دوسرے حصوں میں پھیلا.پس سندھ کا ہم پر خاص حق ہے اور سندھ پر ہمارا خاص حق ہے.اور اس حق کی ادائیگی اس طرح

Page 758

مضامین بشیر جلد سوم 736 ممکن ہے کہ ہم سندھ کے غیر مسلموں کو اسلام کی آغوش میں لانے کے لئے اور سندھ کے غیر احمد یوں کو احمدیت کے نور سے منور کرنے کے لئے خاص توجہ اور خاص جد و جہد اور خاص دعاؤں سے کام لیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کی ترقی کے دوسرے دور کی داغ بیل ڈالی ہے.اور خدا کے فضل سے یہ درخت اب بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور کوئی نہیں جواسے روک سکے.مگر ہم صرف خدائی وعدہ پر تکیہ کر کے خاموش نہیں بیٹھ سکتے.یقینا یہ خدا سے غداری ہوگی کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح یہ کہیں کہ جاتو اور تیرا رب اور تم دونوں دشمن کے مقابل پر ہو کر جنگ کرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.بلکہ ہمارا کام رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کی طرح یہ ہے کہ ہم اپنے امام سے عرض کریں کہ ہم حاضر ہیں اور آپ کے سامنے اور آگے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں ہو کر لڑیں گے.‘ ہی وہ روح ہے جس سے دین کی لڑائیوں میں فتح کا رستہ کھلا کرتا ہے اور اسی روح کی ہم اپنے نو جوانوں سے امید رکھتے ہیں.مگر دینی جہاد کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارا قول اور ہمارا عمل دونوں مجسم تبلیغ بن جائیں.ہماری زبانوں پر حق کی تبلیغ ہو اور ہمارے اعمال میں حق کی تصویر نظر آئے اور پھر اس رستہ میں ہماری جو بھی کوشش ہو وہ محبت اور نرمی اور نصیحت کے رنگ میں ہو.اور جیسا کہ قرآن فرماتا ہے کہ : أدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل : 126) اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ نو جوانوں کے اندر احمدیت کی روح پھونکی جائے اور وہ اپنے آپ کو اسلام کا سپاہی سمجھیں اور اسی احساس میں اپنی زندگیاں گزاریں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنی رضا کے ماتحت زندگی گزارنے کی توفیق دے اور آپ لوگوں کو اس قسم کا روحانی مقناطیس بنائے جسے دوسروں کو اپنی طرف کھنچنے کی زبر دست طاقت حاصل ہو.آمِيْنَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيم روزنامه الفضل ربوہ 24 نومبر 1959ء)

Page 759

مضامین بشیر جلد سوم اعلانات.اشتہارات اطلاعات 737 جو کتاب کا حصہ نہیں بنے تاہم ان کی فہرست معہ حوالہ یہاں دی جارہی ہے.تا اگر کوئی استفادہ کرنا چاہے یہاں سے دیکھ کر کرسکتا ہے.1 -> مخیر احباب امداد درویشاں کو نہ بھولیں امداد مستحقین کیلئے اپیل 3 - سید عبدالرحمان صاحب کیلئے دعا کی تحریک روزنامه الفضل 14 جنوری 1959ء) (روز نامہ الفضل 22 فروری 1959ء) روزنامه الفضل 14 مارچ1959ء) 4 -> چوہدری عبداللہ خان صاحب کی علالت.احباب جماعت ان کو اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں 5 -> چوہدری عبداللہ خان صاحب کی علالت روزنامه الفضل 8 اپریل 1959ء) (روز نامہ الفضل 14 اپریل1959ء) (روز نامہ الفضل 25 اپریل 1959ء) تازه فهرست امدادی رقوم موصوله دفتر حفاظت مرکز ربوه 8 - قادیان میں ملکی تقسیم کے وقت سکنی زمینوں کے ریٹ کلیز داخل کرنے والے احباب توجہ فرما ئیں سید نا حضرت خلیفة الی الثانی ایدہ اللہتعالی کی صحت کے متعلق اطلاع مہیا کرنے کا انتظام ( روزنامه الفضل 12 مئی 1959ء) 11-> ے حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہتعالی کی نایابی کے متعلق قادیان میں دعا اور صدقہ روزنامه الفضل 14 مئی 1959ء)

Page 760

مضامین بشیر جلد سوم 12-> جامعہ احمدیہ کا عربی ماہنامہ ”البشری 13 -> چوہدری عبداللہ خان صاحب کی تشویشناک حالت 14-> مجوزہ قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان 738 روزنامه الفضل 23 مئی 1959ء) روزنامه الفضل 24 مئی 1959ء) روزنامه الفضل 29 مئی 1959ء) 15-> حضرت خلیفتہ امسیح کیلئے کن الفاظ میں دعا کی جائے روزنامه الفضل 12 جون 1959ء) 16-> مجوزہ قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان روزنامه افضل 126 جون 1959ء) 17-> قربانیوں کے متعلق ایک ضروری تشریح روزنامه الفضل 17 جون 1959ء) 18-> قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان (روز نامہ الفضل 2 جولائی 1959ء) 19-> احباب کرام توجہ فرمائیں اور اس خاکسار کو غیر متعلق باتوں کے متعلق نہ لکھا کریں روزنامہ الفضل 26 جولائی 1959ء) 20-> حضرت صاحبزادی امتہ الجمیل سلمہا کی شدید علالت روزنامه الفضل 19 اگست 1959ء) 21-> شیر علی صاحب پسر جمیل احمد صاحب امروہی درویش کی وفات 22-> قافلہ قادیان کے متعلق ضروری اعلان روزنامه الفضل 23 ستمبر 1959ء) روزنامه افضل 15اکتوبر 1959ء) 23-> قافلہ میں شمولیت کی درخواست دینے والے اصحاب توجہ فرمائیں روزنامه الفضل 24 اکتوبر 1959ء)

Page 760