Mazameen-eBasheer Vol 2

Mazameen-eBasheer Vol 2

مضامین بشیر (جلد 2)

Author: Hazrat Mirza Bashir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف رہی۔ آپ نے نہایت جانفشانی سے سلسلہ کے استحکام کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جن کا علمی ، تربیتی اور اخلاقی فیضان ہمیشہ جاری رہے گا۔ آپ ؓ کی سلسلہ کے حالات پر خدا کے فضل سے بڑی گہری نظر تھی جب بھی اہم معاملہ یا واقعہ رونما ہوتا تو آپ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کا عام فہم اور مدلل حل یا تشریح تفصیلاً ضبط تحریر میں لاتے اور پھر جماعتی اخبارات ورسائل میں شائع فرماتے۔ آپ کا یہ علمی، تربیتی اور روحانی سلسلہ تحریرات 1913 سے 1963 تک کے طویل عرصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ یوں  ہزاروں صفحات  پر مشتمل اس مجموعہ سے استفادہ جہاں بہت سے نازک اور دقیق علمی  اور معاشرتی موضوعات پر قابل قدر رہنمائی اور روشنی کا وسیلہ ہے وہاں یہ صفحات تاریخ احمدیت کے متنوع موضوعات کے لئے بھی گراں بہاسرمایہ ہے۔اس مجموعہ کی ابتدائی دونوں جلدوں کے آخر تفصیلی انڈیکس بھی موجود ہے۔


Book Content

Page 1

مضامین بشیر جلد دوم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے

Page 2

نام کتاب جلد سن اشاعت مضامین بشیر دوم $2011

Page 3

مضامین بشیر پیش لفظ رسول اللہ ص نے آخری زمانہ میں ایمان کے ثریا پر اُٹھ جانے کے بعد از سر نو رجال فارس کے ذریعہ اس کے قائم ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی.چنانچہ رجل فارس حضرت مسیح موعود کی مبشر اولاد نے اس الہی تقدیر کے مطابق غیر معمولی دینی و علمی کارنامے انجام دینے کی توفیق پائی.قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی انہی بابرکت وجودوں میں سے ایک تھے.آر کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کو الہام ” نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام بن جائے گا بڑی شان سے پورا ہوا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود کے مقصد اور مشن کی تکمیل کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دینے کی توفیق ملی.بچپن میں ایک دفعہ حضرت میاں صاحب کی آنکھیں خراب ہو کر پلکیں گر گئیں تو حضرت مسیح موعود کو یہ الہام ہوا برق طفلی بشیر.جس کے ایک ہفتہ بعد ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی شفا دی کہ آنکھیں بالکل تندرست ہو گئیں.برق کے لغوی معنے وسعت بصیرت اور روشن نظر ہونے کے بھی ہیں.اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو عظیم الشان ذہنی و علمی استعدادوں سے نوازا تھا.جس کا اظہار ہمیشہ آپ کے قلم اور تحریرات کے ذریعہ 1913ء سے 1963 ء تا دم وفات خوب ہوتا رہا.آپ کا شاہکار ”سیرت خاتم النبین کی شاندار محققانہ تصنیف ہے.اس کے علاوہ آپ نے اپنی گہری بصیرت اور خدا داد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوتے اہم مسائل پر کئی عام فہم اور مدلل علمی و دینی کتب تالیف فرما ئیں جن میں سلسلہ احمدیہ، ہمارا خدا ، تبلیغ ہدایت ، سیرت المہدی ، چالیس جواہر پارے، ختم نبوت کی حقیقت ، حجۃ البالغہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، اسی طرح آپ جماعت ، یا ملک وقوم کو پیش آمدہ ہر اہم علمی یا عملی مسئلہ اور نازک موڑ پر اپنے قلم کو جنبش میں لائے اور مفاد سلسلہ میں متفرق موضوعات پر جماعت کی اخلاقی و روحانی تربیت اور ازدیاد ایمان کے سامان کرتے رہے.

Page 4

مضامین بشیر ان تاریخی، سیاسی و مذہبی موضوعات کا تنوع ان کی دلچسپی اور شان کو اور بھی بڑھا دیتا ہے.یه علمی خزانہ سلسلہ کے متفرق اخبارات ورسائل میں بکھرا پڑا تھا جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں تھی.اللہ تعالیٰ بہت جزا دے مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کو جنہوں نے اپنے دور صدارت میں جہاں دیگر نایاب مفید کتب سلسلہ کی اشاعت کروائی وہاں پہلی دفعه مضامین بشیر جلد اوّل مرتبہ مرزا عدیل احمد صاحب نائب مشیر قانونی 2007 ء میں منصہ شہود پر آئی.جس میں 1913 ء سے 1945 ء تک حضرت میاں صاحب کے جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے مضامین اور تحریرات کو یکجا کر دیا گیا.یہ کتاب بہت جلد ہاتھوں ہاتھ نکل گئی.اور اسے اب دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے.دور میں اثناء مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے زیر نگرانی 1946 ء سے 1950 ء تک حضرت میاں صاحب کی تحریرات کو بھی اکٹھا کر وانے کا اہتمام فرمایا ہے.نے اس کام میں معاونت کی توفیق پائی.فجزاه احسن الجزاء یوں اس کتاب مضامین بشیر جلد دوم احباب جماعت کے افادہ عام کے لئے شائع کیا جا رہا ہے.اس جلد کے متنوع مضامین میں اولوالامر کی اطاعت سے مراد، اسلامی پردہ، مساوات اسلامی نماز میں پریشان خیالی کا علاج، اسلامی سزاؤں کا فلسفہ، مسئلہ تقدیر ، عورت کا نشوز اور مرد کا حق تا دیب ، زندگی کے بیمہ کے بارہ میں اسلامی نظریہ ، ابلیس کا گمراہ کن وجود، حضرت امام حسن کی شادیاں اور طلاقیں، سیرت حضرت خلیفہ اول ایسے دلچسپ اور مفید تاریخی وعلمی اور اخلاقی و تربیتی موضوعات شامل ہیں.انشاء اللہ یہ کتاب جماعتی لٹریچر میں عمدہ اور مفید ا ضافہ ہو گی.اللہ تعالیٰ حضرت میاں صاحب کے درجات ہمیشہ بلند فرما تار ہے اور آپ کی یہ تحریرات نافع الناس ہوں.آمین

Page 5

۶۷ ۶۸ اے تان کو لاو ۷۵ $1946 الیکشن کے تعلق میں ایک نہایت ضروری جلسہ تحصیل بٹالہ کے ووٹر ان کے لئے حضرت فهرست عناوین 1 $1947 حافظ نور الہی صاحب درویش قادیان کی تشویشناک علالت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ضروری پیغام ۲ نماز میں انتباع امیر اور اتحاد ملت کا لطیف سبق قادیان میں الحمد للہ سب خیریت ہے قادیان کا پولنگ پروگرام چوہدری فتح محمد صاحب سیال پنجاب اسمبلی کے نمبر اردو زبان کو خراب ہونے سے بچاؤ ۴ خالصہ! ہوشیار باش منتخب ہو گئے ڈسٹرکٹ بورڈ گورداسپور کا الیکشن انصار اللہ کا مقام ذمہ واری ہندوستان کی سیاسی الجھن ง 2 سکھ صاحبان سے ایک دردمندانہ اپیل مسلمانوں کا مطالبہ پاکستان اور اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال سیرۃ المہدی کی بعض روایتوں پر مخالفین کا اعتراض.اگر خدانخواستہ پنجاب تقسیم ہوتو...؟ ہندوستان کی سیاسی الجھن...دل کا حلیم تعلیم الاسلام کالج قادیان کا پہلا نتیجہ موجودہ سیاسی الجھن کو سلجھانے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی مساعی جمیلہ ۲۱ ۲۸ جماعت احمدیہ کی طرف سے وزیر اعظم برطانیہ ۳۴ کے نام ضروری تار پنجاب کی تقسیم خلاف عقل ۳۷ اور خلاف انصاف ہے پنجاب کی تقسیم قریب نا گزیر ہے.۳۸ شیر پنجاب کی تنقید کا مخلصانہ جواب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دہلی میں ۳۹ پنجاب باونڈری کمیشن کے غور کے لئے چند اصولی نوٹ دہلی میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی مساعی ام جان یا سامان نفع مند کاروبار میں روپیہ لگانے والے دوستوں حضرت خلیق اسی اثنی ایدہ اللہ تعالی دہلی میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی مساعی دلّی میں ۴۳ کو ضروری اطلاع سیدہ ام طاہر مرحومہ کی بڑی بچی کی شادی...۴۵ نقصان جائیداد کا رجسٹریشن.احمدی احباب کیا مسلمانوں کے لئے صرف اسلامی حکومت کی اطاعت ہی ضروری ہے اسلامی اخوت کا نظریہ فہرست حوالہ جات کے لئے ضروری ہدایت ۴۹ کیا ہم پھر واپس قادیان جائیں گے؟ ضلع گورداسپور کی جماعتیں کہاں ہیں؟ ۶۴ داغ ہجرت کا الہام کہاں ہے؟ ۸۳ ۸۸ ۹۳ ۹۴ ۱۰۳ ۱۱۳ لا ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۲۹ ۱۳۰

Page 6

۱۸۹ 19+ ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۴ ۱۹۶ ۱۹۷ ۲۰۱ == قادیان میں زمین خریدنے والوں کے لئے ضروری اعلان اسلامی پردہ کے متعلق مضمون ۱۳ | جالندھر کے قیدیوں کی متوقع آمد مخلصین اب بھی قادیان کی زمینوں کے خریدار ہیں ۱۳۳ ابلیس والے مضمون کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ قادیان کے احمدی خیریت سے ہیں زنا بالجبر کے نتیجہ میں پیدا شدہ بچہ قادیان سے آئے ہوئے مندرجہ ذیل اصحاب جلسہ سالانہ کے موقع پر لاہور پہنچ جائیں بلا اجازت دوسرے کا مال لے لینا کسی صورت میں جائز نہیں مسماة فضل بی بی سکنہ رجوعہ تھانہ سری گوبند پور کے ورثاء کہاں ہیں ۱۳۴ جیل سے رہا ہو کر آنے والے دوستوں کے نام ۱۳۵ اہل قادیان کا پیغام حافظ نور الہی صاحب درویش قادیان کی ۱۳۷ تشویشناک علالت احباب سے دعا کی درخواست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پیسہ اخبار لاہور ۱۴۱ کا پچپن سالہ نوٹ حافظ نور الہی صاحب کی وفات قادیان میں مسماۃ زہرہ سکنہ کڑی افغاناں ضلع گورداسپور ۱۴۴ پہلے درویش کا وصال انسانی زندگی کی چار اقسام کے ورثاء توجہ فرمائیں ۱۴۵ علاقہ قادیان کی اغواشدہ عورتیں لاہور پہنچ رہی ہیں یعقوب خاں صاحب کہاں ہیں؟ فہرست حوالہ جات $1948 گذشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں مظالم قادیان کے روز نامچہ میں ضروری تصحیح فسادات قادیان کا پس منظر کامیابی حاصل کرنے کے گر جمع صلوتین کے متعلق ایک ضروری مسئلہ احباب اپنی جائیدادوں کا نقصان فور ارجسٹر کرائیں اے ابناء فارس ! اسلامی طریق لباس سے کیا مراد ہے؟ ہمارا تعلیم الاسلام کالج ہمارے قیدی بھائی خیریت سے ہیں کیا ابلیس کا مغویانہ وجود نظام روحانی کا حصہ ہے یا کہ ایک محض بعد کا حادثہ؟ ہمارے قیدی دوستوں کا تبادلہ قادیان جانے والے خط ابھی تک بیرنگ ہورہے ہیں ۱۴۷ جمع بین الصلواتین کے متعلق ۱۴۹ ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۶۱ یٹا کیر تو لو ۱۶۸ 121 ۱۷۲ KA ۱۸۰ ۱۸۱ N Ź ۱۸۸ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی ایک شہادت اسلحہ کے لائسینس داروں کو ضروری مشورہ ابلیس کے مغویانہ وجود کے متعلق صحیح نظریہ کی تعیین گذشتہ فسادات کی ذمہ داری کس قوم پر ہے؟ قادیان چھوڑ نے کے متعلق میری ایک دس سال قبل کی تحریر اور اس پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تفصیلی نوٹ ٢٠٢ ۲۰۳ ۲۰۵ ۲۰۷ ۲۲۱ ۲۲۹ کیا قادیان کے قرضے صرف قادیان میں ہی ادا ہو سکتے ہیں؟ ۲۳۲ مسئلہ پیدائش شیطان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نیا حوالہ قادیان سے تشریف لاتے ہوئے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا جماعت احمدیہ قادیان کے نام الوداعی ارشاد ۲۳۴ ۲۳۶

Page 7

۳۲۱ ۳۲۳ ۳۲۴ ۳۲۶ ۳۳۲ ۳۳۳ ۳۳۹ ۳۴۰ ۳۴۲ ۳۴۳ ۳۴۴ ۳۴۵ ۳۴۸ ۳۴۹ ۳۵۲ ۳۵۳ ۳۵۴ iii = قادیان میں سب دوست خیریت سے ہیں اور نوافل کے ہم لاہور میں کس طرح رہ رہے ہیں؟ ۲۴۰ ایک مخلص دوست کے لئے دعا کی تحریک پروگرام پر پوری طرح پابند جمع بین الصلاتین کے مسئلہ میں مولوی محمد دین صاحب ڈاکٹر میجر محمود احمد کی شہادت کی تقہ روایت امام کی اتباع کا پہلو بہر حال مقدم ہے ۲۴۲ پناہ گزینوں کی ضلعوار آبادی کا سوال خوف و ہراس کی کیفیت قومی اخلاق کے لئے تباہ کن ہے ۲۴۵ دو اغواشدہ عورتوں کی بازیابی نئی وزارت کو ایک مخلصانہ مشورہ ۲۵۰ فوٹو کھچوانے کے متعلق ایک لائکوری دوست کا سوال موجودہ فسادات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے ضلعوار آبادی والے مضمون کا تمہ کا ایک نہایت واضح رؤیا ۲۶۰ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ غیر مسلموں کو امداد دینے والے احمدی توجہ کریں ۲۶۴ پناہ گزینوں کی علاقہ وار آبادی کے متعلق خدا تعالیٰ کی بندہ نوازی کا ایک خاص منظر حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم و مغفور کی وصیت ۲۶۸ قادیان کے دوستوں کو روپیہ بھجوانے کا محفوظ طریق ۲۶۵ جماعت احمدیہ کا نظریہ جولائی والا کا نوائے قادیان نہیں جاسکا ۲۷۰ ابلیس والے مضمون کے تعلق میں ایک اور حوالہ رمضان کی برکات سے پورا فائدہ اٹھائیں ۲۷۱ تعلیم القرآن کی زنانہ کل اس کا نتیجہ دوستو! قادیان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھو ۲۷۲ قادیان کے دوستوں کے ذریعہ بحال شدہ مسلمان رمضان میں دائمی نیکی کا عہد کرنے والی خواتین ۲۷۳ قائد اعظم محمد علی جناح اپنے امام کی تحریک کو کامیاب بناؤ ۲۷۹ قادیان کے متعلق جھوٹی خبریں قادیان میں جماعت کی واپسی کس صورت میں ہوگی؟ ۲۸۱ قادیان میں عید الاضحہ کی قربانی ! ۲۸۷ عزیز مرز امتو راحمد مرحوم مبلغ امریکہ ہماری روزانہ دعائیں کیا ہونی چاہئیں سندھ کے زیر مقد مہ دوستوں کے لئے دعا کی جائے ۲۹۷ مرکز پاکستان کا افتتاح درود میں حضرت ابراہیم کا نام داخل کرنے کی حکمت ۲۹۸ | اسلامی ضابطہ جنگ رمضان میں دائمی نیکی کا عہد باندھنے والی خواتین ۳۰ فن تعمیر کے ماہر صاحبان توجہ فرمائیں رمضان میں کمزوری دور کرنے کے عہد کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ میرے دُعا والے مضمون کا تمہ مرکز پاکستان کے لئے پیشہ وروں کی ضرورت ۳۵۹ ۳۶۳ ۳۷۵ ۳۰۶ قادیان میں میرے ذریعہ روپیہ لینے والے دوست توجہ کریں ۳۷۸ ۳۱۰ خطوط کا جواب نہ دے سکنے کی معذرت دوست انتظار کریں ۳۸۱ سعد اللہ جان صاحب ایڈووکیٹ مردان توجہ فرمائیں ۳۱۴ پھسکے کی عمارت کے متعلق دوست مشورہ دیں قادیان کے بیمار دوستوں کے لئے دُعا کی جائے ۳۱۵ ایک نادار خاتون اور ایک عزیز نوجوان نے اپنا قرضہ قادیان سے عید الفطر کا ایک گرانقدر عطیہ صحابی کی تعریف کے متعلق ایک دوست کے چار سوالات ۳۱۷ قادیان میں عید الاضحی کی مبارک تقریب ۳۱۶ واپس ادا کر دیا ۳۸۲ ۳۸۳ ۳۸۵

Page 8

iv حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے بڑے بچے کی شادی ایک احمدی ڈاکٹر کی نمایاں کامیابی ۳۸۶ عارضی الاٹمنٹ کے متعلق ضروری تشریح دوستوں سے دعا کی تحریک ہمشیرہ محترمہ سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومہ کی بچی کی شادی ۳۸۸ قادیان کی احمد یہ ڈسپنسری کی مختصر روئداد اے مالک کون و مکاں آؤ مکیں کو لوٹ لو قادیان کے سب دوست خیریت سے ہیں لین دین کی صفائی کا ایک وقتی نسخہ نصاب کمیٹی حکومت مغربی پنجاب کو جماعت احمد یہ کی طرف سے مشورہ قادیان کی تازہ اطلاعات ۴۴۶ ۴۴۷ ۴۴۹ ۳۹۰ کثرت اولا دوالے مضمون کے متعلق بعض ضروری تشریحات ۵۰ ۳۹۱| قادیان کا سالانہ جلسہ ۳۹۳ مسمات نور بیگم زوجہ تاج دین صاحب احمدی قادیان کہاں ہیں؟ ۳۹۷ دو بیرون ہند مبلغین کے والد صاحبان کی وفات ۴۵۳ ۴۵۴ ۴۵۵ ۳ ۴۰ ہستی باری تعالیٰ کے متعلق ایک صاحب کے تین سوالات ۴۵۸ ۴۶۱ ۴۶۲ ۴۶۹ ۴۷۰ ۴۷۵ ۴۰۵ قادیان کے جلسہ کا پہلا دن فہرست حوالہ جات 1949 جلسہ قادیان میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا پیغام کشمیر میں لڑائی بند ہوگئی ! اہل قادیان کے نام پیغام قادیان کی جائیدادفروخت نہ کی جائے ۴۰۷ ۴۰۸ ۴۱۲ ۴۱۳ ۴۱۹ ایک نالہ انہی کا ازالہ اور شکر یہ احباب قادیان کی جائداد کے مقابلہ پر عاراضی الاٹمنٹ کرائی جاسکتی ہے قرضوں کی صفائی والے مضامین کے متعلق بعض ضروری تصریحات قادیان کی مساجد خدارا مسلمانوں کو کمیونزم کی طرف نہ دھکیلو عزیزہ طیبہ بیگم مسلما کے لئے دُعا کی جائے نومبر ۱۸۹۳ء تک بیعت کرنے والے بزرگ توجہ فرمائیں ۴۲۰ عزیزہ امتہ السلام بیگم سلمہا کا اپریشن کامیاب ہو گیا ہے ۴۷۸ سید وزارت حسین صاحب کا خط سٹیٹسمین دہلی کے نام ۴۷۹ قادیان سے باہر فوت ہونے والے موصی صاحبان کے متعلق اطلاع دی جائے ۴۲۱ عارضی الاٹمنٹ کے متعلق بعض ضروری تشریحات قادیان کی فیکٹریوں کی نیلامی مسمات بلقیس بی بی بنت عبدالرحیم صاحب سکنہ شہر امرتسر اراضی کی الاٹمنٹ کے متعلق ایک ضروری اعلان کہاں ہے قادیان کے دوست خیریت سے ہیں پاک اولاد پیدا کرنے کانسخہ عزیزہ طیبہ بیگم کا آپریشن جماعت کی تعداد کو کثرت اولاد کے ذریعہ بھی ترقی دو قادیان کی عارضی اور دائمی کشش قادیان کے متعلق تازہ اطلاع ۴۲۲ ۴۲۳ ۴۲۵ ۴۲۹ ۴۳۰ ۴۳۶ احمدی تا جر صاحبان توجہ فرمائیں کیا ہمارا پاؤں دو کشتیوں میں ہے؟ اراضی کی الاٹمنٹ کے متعلق ایک ضروری اعلان ۴۸۲ ۴۸۵ ۴۸۶ ۴۸۷ ۴۸۸ ۴۹۱ کثرت اولا دوالے مضمون پر دوستوں کے اعتراضات ۴۹۳ سیرت خاتم النبیین حصہ سوم کی تیاری اور دوستوں کو دعا کی تحریک حسن محمد صاحب درویش کے لئے دعا کی تحریک.۴۹۸ ۵۰۰

Page 9

V حسن محمد صاحب در ویش وفات پاگئے.یہ فتنوں اور ابتلاؤں کے دن ہیں اخویم میاں عبد اللہ خان صاحب کی علالت اور دوستوں سے دعا کی تحریک ۵۰۱ قادیان میں ایک احمدی نوجوان کی گرفتاری ۵۰۲ حضرت امیر المومنین ایدہ کے لئے اجتماعی دعا اور صدقہ کا انتظام ۵۰۵ قادیان کے درویشوں کی امداد اور احباب کا شکریہ ۵۸۲ ۵۸۳ ۵۸۴ کوئی دوست قادیان کی جائیداد فروخت نہ کرے ۵۰۶ قادیان میں ماہ رمضان ، ذکر و فکر کے روح پرور نظارے ۵۸۸ موصی صاحبان کو امانتاً دفن کیا جائے.قادیان کے دوست خیریت سے ہیں! اعلان درباره سیرت خاتم النبیین حصہ سوم ہمارا امتحان اور مرکز ربوہ سیرت خاتم النبین حصہ سوم ( جز اول) درخواست دعا سب ایک جیسے نہیں کچے دھاگے کس طرح ٹوٹتے ہیں قادیان کے تازہ حالات قادیان کے درویشوں کی امداد مساواتِ اسلامی پر ایک مختصر نوٹ ۵۰۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے متعلق بعض سوالات ۵۹۰ ۵۰۸ | قادیان کے تازہ حالات ۵۱۱ قادیان خط لکھتے ہوئے پتہ احتیاط سے لکھیں ۵۱۲ چندہ امداد درویشاں کی تازہ فہرست ۵۱۸ قادیان میں درس قرآن کے اختتام پر دعا ۵۱۹ قادیان میں مکانوں کے کرائے ۵۲۰ چنده امداد درویشان قادیان کی تازہ فہرست ۵۲۲ قادیان جانے کے لئے اپنا نام پیش کرنے والے ۵۲۵ دوست توجہ کریں ۵۲۶ قادیان میں ایک درویش کی تشویشناک بیماری ۵۲۷ مبارک بادوں کا شکریہ قادیان کے متعلق حکومت کی پالیسی میں تبدیلی ۷ ۵۵ شیخ مشتاق احمد صاحب کے لئے دعا کی تحریک درویشوں کی امداد کا چندہ ۵۵۹ چندہ امداد درویشاں کی تازہ فہرست قادیان میں رمضان کے درس اور تراویح کا انتظام ۵۶۰ قادیان کے سابقہ اور موجودہ کرائے ربوہ میں نو ٹیفائیڈ اسر یا کمیٹی کا قیام رمضان آتا ہے رمضان! قادیان کے مستحق درویشوں کی امداد رمضان میں تلاوت قرآن کے دو دور قادیان کے درویشوں کی امداد قادیان میں رمضان المبارک ضائع شدہ اسلحہ کی واپسی کی درخواست منشی بشیر احمد صاحب کہاں ہیں؟ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی علالت ۵۶۱ قادیان میں ایک معمر درویش کی وفات ۵۶۲ احمدی شہدا کی فہرست درکار ہے ۵۷۰ قادیان میں ایک نیا فتنہ ۵۷۱ سیرۃ المہدی کے متعلق دوستوں کا مشورہ ۵۷۵ امداد درویشان کی تازہ فہرست ۵۹۱ ۵۹۳ ۵۹۴ ۵۹۷ ۵۹۸ ۶۰۱ ۶۰۳ ۶۰۴ ۶۰۶ ۶۰۷ ۶۱۰ ۶۱۲ ۶۱۳ ۶۱۴ ۶۱۵ ۶۱۶ ۵۷۸ کیا موجودہ کمزوری کے بعد پھر بھی طاقت کا زمانہ آئے گا؟ ۶۱۷ ۵۷۹ رتن باغ میں چراغاں ۵۸۰ کیا سنیما دیکھنا ہر صورت میں منع ہے؟ ۵۸۱ مجید احمد درویش کے لئے دعا کی تحریک ۶۲۴ ۶۲۵ ۶۲۹

Page 10

vi قادیان میں دو مخلص نوجوانوں کی تشویشناک علالت بابا شیر محمد صاحب مرحوم درویش قادیان ڈاک خانہ ربوہ کے متعلق ایک غلط نہی ۶۳۰ قادیان کے تازہ کوائف ۶۳۱ اخویم مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ۶۳۲ قادیان کے تازہ حالات کونسی سینما فلم اچھی سمجھی جائے اور کونسی بری؟ ۶۳۳ آنحضرت ﷺ کی نبوت نظام نبوت کا معراج ہے اغوا اور زنا بالجبر کے نتیجہ میں حاملہ ہونے والی عورتیں ۶۴۰ چندہ امداد در ویشان کی تازہ فہرست ایک اور درویش کی وفات میں ناظر اعلیٰ یا ناظر امور عامہ نہیں ہوں میاں سلطان احمد درویش مرحوم چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست ۶۹۳ ۶۹۵ ۶۹۸ 4..۷۰۴ ۶۴۵ میاں شادی خاں صاحب مرحوم کے ورثاء توجہ فرمائیں.۷۰۶ ۶۴۶ قابل رشتہ اصحاب توجہ فرمائیں ۶۴۷ ملک مولا بخش صاحب کی افسوسناک وفات ۶۴۸ اسلام میں استخارہ کا بابرکت نظام جماعت احمدیہ کی ظاہری ترقی ہوائی فضا کے ساتھ وابستہ ہے ۶۵۰ جلسہ سالانہ پر قادیان جانے والی پارٹی اسلامی احکام پردہ کا خلاصہ ایک درویش کی والدہ کا انتقال قادیان میں عید الاضحیہ کی قربانی ۲۵۵ چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست ۶۵۸ قادیان روپیہ بھیجنے والے دوست توجہ فرمائیں ۶۵۹ ایک دوست کے استفسار کا جواب L•L ۷۰۸ ۷۰۹ Z12 ۷۱۹ ۷۲۱ ۷۲۲ ۷۲۵ ۷۲۸ ۷۳۲ ۷۳۳ ۷۳۵ قادیان کے درویشوں کے لئے دعا کی تحریک ۲۶۰ چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست چندہ امداد درویشاں کی تازہ فہرست ۶۶۱ مومن کا ہر کام خدا کے نام سے شروع ہونا چاہئے جناب مولوی محمد علی صاحب کا ایک تازہ خطبہ ۶۶۳ قادیان جانے والے دوست ۲۴ / دسمبر کی شام تک الحمد للہ ربوہ کا ڈاکخانہ کھل گیا.ایک دیہاتی مبلغ کی افسوسناک وفات ۶۶۹ لاہور پہنچ جائیں ۶۷۰ قادیان جانے والی پارٹی تاریخ احمدیت کا ایک یادگاری دن حضرت امیر المومنین فہرست حوالہ جات $1950 ۷۳۹ ۷۴۴ ۷۴۵ ۷۴۸ ۷۵۱ ۷۵۷ ۷۵۸ قافلہ قادیان کے مختصر کوائف بیمار درویشوں کے لئے دعا کی تحریک ۶۷۱ ۶۷۶ ۶۷۷ ایدہ اللہ کا سفر ربوہ سفرر بوہ کے چند بقیہ واقعات امداد در ویشان اور قربانی کے روپے کی تازہ فہرست چنده امداد درویشان اور رقوم کی جدید فہرست ایک اور درویش چل بسا مختار احمد صاحب دہلوی کی والدہ صاحبہ کہاں ہیں؟ چنده امداد درویشان اور رقوم قربانی کی جدید فہرست مسجد ربوہ کا سنگ بنیا د اور اس تقریب کا عقبی منظر ۶۷۹ ۶۸۱ ۶۸۳ ۶۸۴ ۶۸۶ رسالہ مقامات النساء فی احادیث سید الانبیاء کا دیباچہ ۶۹۱ قادیان کے تیئیس (۲۳) کس صحابی چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست کسی سچے مومن کا ذاتی ”گلہ شکوہ ایک ضروری تصحیح ایک احمدی خاتون کا سوال اور اس کا جواب نماز میں ہے تو جہی اور پریشان خیالی کا صحیح علاج

Page 11

vii ۷۶۵ تعمیر مکانات درویشان کا چندہ ۸۳۵ پاکستان میں فوجی بھرتی میرے ذریعہ روپیہ لگانے والے دوست اپنا مطالبہ احباب جماعت کی خدمت میں خاص دعاؤں کی تحریک ۸۳۶ قضاء میں رجسٹر کرا دیں اہلیہ صاحبہ بھائی چوہدری عبد الرحیم صاحب کی وفات ۷۶۸ | قادیان کے تازہ حالات ۷۶۹ اسلامی سزاؤں کا بنیادی فلسفہ ۷۶۷ درویشوں کے اہل و عیال کا خیال رکھا جائے د و درویشوں کی خطرناک علالت سیٹھ خیر الدین صاحب کے لئے دعا کی تحریک ۷۷۰ پاکستان کی اسلامی حکومت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں قادیان میں چوبیسواں صحابی بیمار درویشوں کے لئے دعا کی جائے چند امداد درویشان کی تازہ فہرست ا کی مذہبی زندگی ۷۷۳ اسلام میں چور کی سزا ۷۷۴ شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری کہاں ہیں ڈاکٹر غفور الحق صاحب کا افسوسناک انتقال ۷۷۷ چنده تعمیر مکانات درویشان کی پہلے فہرست قادیان کے تازہ حالات بابا اللہ دتا صاحب در ولیش کا انتقال زُھد و عبادت کی جیتی جاگتی تصویر خیر خواہانِ پاکستان سے درمندانہ اپیل تازه فهرست چندہ امداد درویشاں آئندہ تبادلہ کی رقوم مجھے نہ بھجوائی جائیں بعض متفرق سوالوں کا جواب طوبى اللغرباء والی حدیث پر الفضل کا نوٹ بعض متفرق سوالوں کا جواب اسلام اور زمین کی ملکیت ایک غلطی کی اصلاح ربوہ میں درویشوں کے اہل وعیال کیلئے مکانوں کی تجویز مخیر احباب کیلئے خدمت اور ثواب کا عمدہ موقعہ چوہدری بختاور علی صاحب کہاں ہیں 227 خاندان نبوت ۷۸۰ چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست ۷۸۱ | قادیان میں یوم پیشوایان مذاہب ۷۸۲ الہام داغ ہجرت کا حوالہ مل گیا ۷۸۷ ایک دوست کے سوال کا جواب.۷۸۹ نبی، رسول اور محدث میں کیا فرق ہے؟ ۷۹۰ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی شادیاں اور طلاقیں ۷۹۵ ایک دوست کے دوسوالوں کا جواب ۷۹۷ صابر درویشوں کے بے صبر رشتہ دار ۸۰۴ درویشوں کے رشتہ داروں کے لئے ضروری اطلاع ۱۱ حضرت پیر منظور محمد صاحب کی وفات رویت ہلال کا انوکھا طریق ۱۲ رمضان کا آخری مبارک عشرہ ۱۳ موصی نمبر ا.بابا حسن محمد صاحب بھی چل بسے اسلام اور زمین کی ملکیت میرے تبصرے پر فاروقی صاحب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تبصرہ چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست ربوہ میں ایک قادیانی درویش کی شادی ۸۱۴ کی صحت اور درازی عمر کی دعائیں ۸۳۰ شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری کہاں ہیں ۸۳۳ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے لئے دعا ۸۳۸ ۸۳۹ ۸۴۰ ۸۴۵ ΔΙΑ ۸۴۹ ۸۵۰ ۸۵۳ ۸۵۷ ۸۶۰ ۸۶۱ ۸۶۳ ۸۶۷ ۸۷۰ ALL ۸۸۰ ΑΛΙ ۸۸۳ ۸۸۸ ۸۹۴ ۸۹۶ ۹۰۰ ۹۰۱

Page 12

viii مسئلہ تقدیر پر ایک اصولی نوٹ ۹۰۲ قادیان کے سالانہ اجتماع میں پاکستانی احمدیوں کی شرکت ۱۰۲۱ مضمون ”مسئلہ تقدیر میں کتابت کی غلطیاں ۹۱۴ چالیس جواہر پاروں کی تصنیف اور دوستوں سے قادیان سے بھاگنے والے کی عبرتناک حالت درویشوں کے رشتہ دار بھی کان دھریں عید الاضحی کی قربانیاں ضروری گزارش ۹۱۵ | احباب کی دعاؤں کا شکریہ ۹۲۰ خدائے اسلام کا زبردست انتقام مسئلہ تقدیر کے متعلق ایک عزیز کے سوالوں کا جواب ۹۴۳ حضرت ام المومنین اطال اللہ بقاءھا کے لئے تبلیغ کے سات زریں اصول ۹۴۹ خاص دعاؤں کی تحریک ۹۶۱ عزیز مرزا حفیظ احمد سلمہ کی بچی کی ولادت ۱۰۲۵ ١٠٢٦ ۱۰۳۴ ١٠٣٦ ۱۰۳۷ د مخلصین کی وفات مولوی محمد امیر صاحب ڈبر وگڑھ آسام کی وفات ۹۶۲ کتاب چالیس جواہر پارے چھپ رہی ہے عیدالاضحی کی قربانیاں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اسلام کے انتقام والے مضمون کے متعلق دوستوں کا سوال ۱۰۳۸ ۹۶ اپنے درویش بھائیوں کو دعاؤں میں یا درکھیں کا ایک فیصلہ کن فتویٰ برطانیہ میں تعدد ازدواج کی طرف رجوع ۹۶۸ قادیان جانے والی پارٹی کے متعلق ضروری اعلان گشتی چھٹیوں کی لغویت شیخ سعد اللہ لدھیانوی کی وفات ۱۰۴۲ ۱۰۴۳ ۹۷۱ قادیان جانے کی درخواست دینے والے دوست متوجہ ہوں ۱۰۴۴ ۹۷۵ حضرت خلیفہ اول کی یاد میں تجر.تصوّف تو گل عورت کی طرف سے نشوز اور اس پر مرد کا حق تادیب ۹۷۸ اور تواضع کا ارفع مقام آنے والے حج کے دن بہت دعائیں کی جائیں ۹۸۵ ایک غلطی کی اصلاح.حضرت ام المومنین کی شادی ۱۸۸۴ء اسلامی پردہ کے متعلق ایک فیصلہ کن حدیث ۹۸۹ میں ہوئی تھی ربوہ.چنیوٹ.احمد نگر کے سب دوست بخیریت ہیں ۹۹۷ ربوہ میں شادی کی مبارک تقریب ۱۰۴۵ ۱۰۵۶ ۱۰۵۷ ۱۰۵۸ ۱۰۵۹ ۱۰۶۰ ١٠٦٢ ۱۰۶۳ ۱۰۶۴ ۹۹۸ قادیان جانے والوں کے متعلق ضروری اعلان کیا ایک محکوم شخص نبی نہیں بن سکتا قادیان میں عید الاضحی کی نماز مسئلہ تقدیر کے متعلق ایک دوست کا سوال زندگی کے بیمہ کے متعلق اسلامی نظریہ سیلاب کی تباہ کاریاں ۱۰۰۲ نام کی تبدیلی ۱۰۰۴ مندرجہ ذیل دوست قادیان جانے کے لئے تیار ہیں ۱۰۰۸ قافلہ قادیان کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ہوں گے ۱۰۱۵ قادیان میں ایک درویش کی اچانک وفات قادیان کے سالانہ اجتماع میں پاکستانی احمدیوں کی شرکت ۱۰۱۸ قادیان کے درویشوں میں پہلے بچہ کی ولادت ۱۰۱۹ فہرست حوالہ جات ۱۰۲۰ ایک سابق درویش کی وفات دو بیمار درویشوں کے لئے دعا کی تحریک

Page 13

١٩٤٦ء مضامین بشیر الیکشن سے تعلق میں ایک نہایت ضروری جلسہ چونکہ تحصیل بٹالہ کی الیکشن کا وقت قریب آ رہا ہے.اس لئے مقامی دوستوں کو حالات بتانے اور الیکشن کی اہمیت کا احساس پیدا کرانے اور آنے والی جد و جہد کے لئے تیار کرنے کے لئے ایک پبلک جلسه بتاریخ ۱۸ جنوری بروز جمعہ بعد نماز مغرب مسجد اقصیٰ میں منعقد ہو گا.قادیان کے مختلف محلہ جات کے دوستوں کو چاہیئے کہ اس جلسہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہو کر اس اہم قومی کام میں حصہ لیں.انشاء اللہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور مولوی ابو العطاء صاحب اور بعض دوسرے اصحاب تقریر میں کریں گے.مطبوع الفضل ۱۸؍ جنوری ۱۹۴۶ء)

Page 14

مضامین بشیر تحصیل بٹالہ کے دوٹر ان کے لئے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ضروری پیغام میں امید کرتا ہوں کہ وہ تمام احباب جن پر میری بات کا کوئی اثر ہوسکتا ہے تکلیف اٹھا کر بھی اور قربانی کر کے بھی آنے والے چند دنوں میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے حق میں پراپیگنڈا کریں گے.اور جب ووٹ کا وقت آئے گا تو کسی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے ہوئے اپنے مقررہ حلقہ میں پہنچ کر ان کے حق میں ووٹ دیں گے.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد نوٹ : تحصیل بٹالہ کے حلقہ میں مختلف پولنگ سٹیشنوں پر غالبا یکم فروری ۱۹۴۶ء سے لے کر ۱۴ فروری تک پولنگ ہوگا.اور قادیان کے پولنگ سٹیشن پر غالبا یکم فروری سے سات فروری تک پولنگ ہوگا.تفصیل معلوم ہونے پر بعد میں شائع کی جائے گا.مطبوع الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۴۶ء)

Page 15

مضامین بشیر قادیان کا پولنگ پروگرام حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ کے ووٹروں کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ قادیان کے ووٹروں کا پولنگ مردوں کے واسطے ۲ فروری و ۴ فروری و ۵ فروری ۱۹۴۶ء مقرر ہوا ہے.اور عورتوں کے واسطے ۵ فروری و ۶ فروری و۷ فروری ۱۹۴۶ء مقرر ہوا ہے.یہ تاریخیں صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جن کا ووٹ قادیان میں درج ہے.تحصیل بٹالہ کے باقی ووٹروں کے لئے دوسری تاریخیں مقرر ہیں.قادیان کے مرد ووٹروں کو یکم فروری ۱۹۴۶ء کی شام تک قادیان پہنچ جانا چاہیئے اور مستورات کو۴ فروری کی شام تک.مرد اور عورتوں کے لئے جو تین تین دن مقرر ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ان تین دنوں میں سے جس دن چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں.بلکہ ہر دن کے لئے سرکاری طور پر علیحدہ علیحدہ ووٹر مختص کر دیئے گئے ہیں.جن کی تفصیل کی اس جگہ گنجائش نہیں.پس پولنگ سے ایک دن قبل قادیان پہنچ جانا ضروری ہے.( مطبوعه الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۴۶ء)

Page 16

مضامین بشیر ۴ چوہدری فتح محمد صاحب سیال پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے میاں بدر محی الدین صاحب کے مقابلہ میں ۶۱۵ اور سید بہاءالدین صاحب کے مقابلہ میں ۲۱۰۳ کی اکثریت قادیان ۲۱ فروری.آج ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کے دفتر میں حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ کی پر چیوں کی سرکاری گنتی ہو گئی اور چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے کی کامیابی کا اعلان کر دیا گیا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.ووٹوں کی تفصیل حسب ذیل ہے.چوہدری فتح محمد صاحب سیال میاں بدرمحی الدین صاحب سید بہاء الدین صاحب ۶۲۶۶ ۵۶۵۱ ۴۱۶۳ سب سے پہلے میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں انتہائی مشکلات میں کامیابی عطا فرمائی اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو ان فرائض کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا کرے، جو پنجاب اسمبلی کے ممبر ہونے کی حیثیت میں ان پر عائد ہوتے ہیں.وہ اس حلقہ کے بچے نمائندہ ثابت ہوں اور ملک وملت کی حقیقی خدمت سر انجام دے سکیں.آمین اس کے بعد گزشتہ ایام میں جن احمدیوں نے چوہدری صاحب موصوف کو کامیاب بنانے میں کسی نہ کسی رنگ میں کام کیا ہے اور یہ کام میرے علم میں بہت بھاری ہے ، ان کا اجر خدا کے پاس ہے اور مجھے اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ یہ ایک قومی فرض تھا جو انہوں نے ادا کیا ہے.فجزاهم الله خير أو شكر سعيهم مگر میں اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ ان کثیر التعداد غیر احمدی مسلمانوں اور سکھ اور ہندو اصحاب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے آپ کو کئی قسم کے خطرات میں ڈالتے ہوئے اس الیکشن میں ہماری امداد کی اور چوہدری فتح محمد صاحب کو کامیاب بنانے میں شب وروز حصہ لیا.وہ انشاء اللہ ہمیں نا شکر گزار نہیں پائیں گے.وما توفيقنا الا بالله

Page 17

مضامین بشیر العظيم وجزاهم الله خيراً.باقی رہا وہ طبقہ جنہوں نے ہماری مخالفت کی ہے سوان میں سے جن لوگوں نے نیک نیتی کے ساتھ ایسا کیا ہے ان سے ہمیں کوئی گلہ نہیں کیونکہ نیک نیتی کا اختلاف قابل ملامت نہیں بلکہ قابل قدر ہوتا ہے.ہاں ہم امید کرتے ہیں کہ یہ لوگ بھی چوہدری صاحب موصوف کی ممبری کے عملی تجربہ کے نتیجہ میں اپنی رائے میں تبدیلی کر کے آئندہ الیکشن میں ہمارے ساتھ ہوں گے.کیونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جس میں مذہبی عقائد کا اختلاف کسی عقلمند کے نزدیک روک کا باعث نہیں ہونا چاہیئے.بالآخر میں مکرم چوہدری فتح محمد صاحب کو اس کا میابی پر مبارکباد دیتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے بہتری کی دعا کرتے ہوئے یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ ممبری ان کے لئے دہری امانت ہے.وہ امانت ہے خدا کی جس کے سامنے وہ اپنے اعمال کے جوابدہ ہیں اور وہ امانت ہے اس حلقہ کے مسلمانوں کی جن کے نمائندہ بن کر وہ اسمبلی میں جا رہے ہیں.پس انہیں ان دونوں امانتوں کو پوری پوری دیانتداری اور وفاداری کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے.خدا کی امانت تو زیادہ تر دل کی نیت اور جذبات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.مگر لوگوں کی امانت کے لئے ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ گا ہے گا ہے علاقہ کا دورہ کر کے لوگوں کی ضرورت اور مشکلات کا علم حاصل کرتے رہیں اور پھر اسمبلی میں ان کے حقوق کی پوری پوری حفاظت کریں.نیز انہیں یا د رکھنا چاہیئے کہ وہ صرف انہی لوگوں کے نمائندہ نہیں ہیں جنہوں نے ان کے حق میں ووٹ دیئے ہیں بلکہ ممبر ہو جانے کے بعد وہ ان لوگوں کے بھی نمائندہ ہیں جو الیکشن میں ان کے مخالف رہے ہیں.پس گو طبعاً ان کی دلی محبت اپنے ان مویدین کے ساتھ زیادہ ہوگی جنہوں نے مشکل کے وقت میں ان کا ساتھ دیا ہے.مگر جہاں تک حقوق کا تعلق ہے انہیں اپنے مخالفین کے ساتھ بھی پوری طرح عدل و انصاف کا معاملہ کرنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور انہیں اپنے فرائض کی بہترین ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے.آمین ( مطبوعه الفضل ۲۲ فروری ۱۹۴۶ء)

Page 18

مضامین بشیر ۶ ڈسٹرکٹ بورڈ گورداسپور کا الیکشن احباب کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈ گورداسپور کے آئیندہ الیکشن کے متعلق ابھی تک کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی.لیکن غالباً آئندہ اکتوبر میں الیکشن ہوگا.اس کے لئے ووٹروں کی فہرست کی تیاری پٹواریوں کے سپرد ہو چکی ہے.جس کی آخری تاریخ ۱۵ مارچ مقرر ہوئی ہے.رائے دہندگی کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے.وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں.احباب کو چاہیئے کہ وہ پورے طور پر تسلی کر لیں اور نگرانی رکھیں کہ کسی ایسے دوست کا جو ووٹر بن سکتا ہو ، نام فہرست میں درج ہونے سے رہ نہ جائے ، صفات یہ ہیں : (۱) مرد ہو.اور (۲) کم از کم ۲۱ سال کی عمر ہو.اور (۳) کسی عدالت نے اسے غیر صحیح الدماغ قرار نہ دیا ہو.اور (۴) ذیلدار.سفید پوش یا نمبر دار علاقہ ڈسٹرکٹ بورڈ میں ہو یا پانچ ہزار روپے سالانہ معاملہ سرکاری دیتا ہو.یا دس روپے کا معافیدار ہو.یا انہیں شرائط کا موروثی ہو.یا انکم ٹیکس ادا کرتا ہو.یا ریٹائر ڈ یا ڈسچارج شدہ فوجی ہو.یا دو روپے سالانہ حیثیتی ٹیکس دیتا ہو.یا چھ ایکڑ چاہی یا نہری اراضی کا کا شتکار ہو.یا بارہ ایکڑ بارانی اراضی کا کا شتکار ہو.یا دو ہزار کی مالیت کا مکان رکھتا ہو.یا پرائمری پاس ہو.مگر بہر صورت یہ ضروری ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے علاقہ میں رہائش رکھتا ہو.( مطبوعه الفضل ۲۸ رفروری ۱۹۴۶ء)

Page 19

مضامین بشیر بچوں پر مشتمل.انصار اللہ کا مقام ذمہ واری سالانہ اجتماع انصار الله مرکز یہ منعقده ۲۵ دسمبر ۱۹۴۵ء حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تنظیم کی غرض سے جماعت احمدیہ کو تین قسم کے نظاموں میں منقسم فرمایا ہے یعنی اول اطفال احمدیت کا نظام جو پندرہ سال سے کم عمر کے ہے.دوسرے خدام الاحمدیہ کا نظام جو پندرہ سال سے لے کر چالیس سال تک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے.اور تیسرے انصار اللہ کا نظام جو چالیس سال اور اس سے اوپر کے اصحاب پر مشتمل ہے.یہ تقسیم نہایت حکیمانہ رنگ میں فطری اصولوں کے مطابق کی گئی ہے.کیونکہ اگر ایک طرف ہمیں حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عموماً پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں پر قومی جہاد کی شرکت کی ذمہ داری نہیں ڈالتے تھے تو دوسری طرف قرآن شریف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ چالیس سال کی عمر انسانی قومی کے کامل نشو ونما کی عمر ہے جبکہ انسان اپنی بعض مخصوص ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی بہترین قابلیت پیدا کرتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ.....یعنی جب ایک نیک انسان اپنے نشو و نما کی کامل پختگی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو پھر اس کے اندر سے ایک فطری آواز بلند ہوتی ہے کہ خدایا تو نے مجھ پر کتنی نعمتیں فرمائی ہیں کہ پہلے مجھے بہترین طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا اور پھر ابتدائی عمر کے خطرات سے گزار کر پختگی کی عمر تک پہنچایا.سواب مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری ان نعمتوں کا بہترین حق ادا کرسکوں.جو تو نے مجھ پر یا میرے والدین پر کی ہیں اور مجھے توفیق عطا کر کہ میں ایسے اعمال بجالاؤں جو تیری رضا کا موجب ہوں.گو یا چالیس سال کی عمر انسانی قوئی کے کامل نشو ونما کی عمر قرار دی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء

Page 20

مضامین بشیر جن کے سپر دلوگوں کی اصلاح کا کام ہوتا ہے.عموماً اسی عمر میں مبعوث کئے جاتے ہیں.پس جماعت کی یہ تین حصوں والی تقسیم عین فطری اصولوں کے مطابق ہے.کیونکہ اطفال کی عمر تو وہ ہے کہ جب ان کی ذمہ داریوں کا بیشتر حصہ خود ان کی اپنی تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور باقی چیزیں صرف زائد اور ضمنی حیثیت رکھتی ہیں.اور انصار کی عمر وہ ہے کہ جب انسان کی ذمہ داریوں کا غالب حصہ دوسروں کی اصلاح اور تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور خدام کی عمر وہ ہے جو ان دو حدوں کے درمیان وسطی حصہ ہے.جہاں دونوں قسم کی ذمہ داریاں گویا ہموزن طور پر ملی جلی رہتی ہیں.یعنی ایک طرف تو اپنی تربیت کا پروگرام ہوتا ہے اور دوسری طرف دوسروں کی اصلاح کا اور یہ دونوں پروگرام قریباً ایک جیسے ہی ضروری اور اہم ہوتے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ انصار اور خدام کا لائحہ عمل ایک دوسرے سے جدا ہے.اور گو کئی باتوں میں اشتراک بھی ہے.مگر دونوں کے کام کو ایک دوسرے پر کی صورت میں قیاس نہیں کیا جا سکتا.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم انصار اللہ کا پروگرام اس داغ بیل پر قائم کریں جو ان کے دائرہ عمل کے مطابق ہو.دوسری بات جو انصار اللہ کے مقام ذمہ واری کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جہاں کہیں بھی ”انصار اللہ کی اصطلاح استعمال کی ہے وہاں اسے صرف جمالی نبیوں کے اصحاب کے تعلق میں استعمال کیا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن شریف نے اس اصطلاح کو یا تو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق استعمال کیا ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق اور ان دونبیوں کے سوا کسی اور نبی کے صحابہ کے لئے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی گئی.چنانچہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے: فَلَمَّا اَحَ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِثُوْنَ دا نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ أَمَنَّا بِاللهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُوْنَo یعنی ” جب حضرت عیسی نے اپنی مخاطب قوم بنی اسرائیل کی طرف سے کفر پر اصرار دیکھا تو ایک علیحدہ تنظیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ اب میرے خدائی مشن میں کون میرا انصار بنتا ہے.جس پر حواریوں نے لبیک کہتے ہوئے کہا کہ ہم انصار اللہ بنتے ہیں.اور خدا کی آواز پر ایمان لاتے ہوئے آگے آتے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم آپ کے ہاتھ پر فرمانبرداری کا عہد 66 باندھتے ہیں.“ دوسری جگہ قرآن شریف میں انصار اللہ کے الفاظ سورہ صف میں آتے ہیں.جہاں حضرت عیسیٰ

Page 21

66 مضامین بشیر کی زبان سے ان کے مثیل احمد نامی رسول کی پیشگوئی کروائی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس مثیل مسیح کے ذریعہ اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں اسلام کو تمام ادیانِ عالم پر غالب کر کے دکھائے گا.اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ فَأَمَنَتْ ظَابِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَاءِيْلَ وَ كَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوْا عَلَى عَدُوهُمْ فَأَصْبَحُوا ظُهِرِينَ 16 یعنی ”اے وہ مسلما نو جو محمدی مسیح کا زمانہ پانے والے ہو.تم دین حق کی خدمت میں انصار اللہ بن جاؤ جس طرح کہ موسوی صحیح نے اپنے حواریوں سے کہا تھا کہ میرے خدائی مشن میں کون میرا انصار بنتا ہے.اور اس پر حواریوں نے جواب دیا تھا کہ ہم انصار اللہ بنتے ہیں.اور مسیح ناصری کی اس ندا کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کا ایک فرقہ ایمان لے آیا اور ایک فرقہ کا فر ہو گیا.جس پر ہم نے کافروں کے خلاف مومنوں کی مددفرمائی اور وہ اس مقابلہ میں کھلے طور پر غالب آگئے.“ ان دو حوالوں میں دونوں مسیحوں کے حواریوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے.اور ان دو موقعوں کے سوا قرآن شریف نے انصار اللہ کی اصطلاح اس مرکب صورت میں کسی اور جگہ استعمال نہیں کی.جس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس اصطلاح کو اپنے دو عظیم الشان جمالی نبیوں یعنی مسیح موسوی اور مسیح محمدی کے صحابہ کے لئے مخصوص فرما دیا ہے.مگر جیسا کہ آیات کے الفاظ سے ظاہر ہے ، خدا تعالیٰ نے مسیح محمدی کے لئے یہ امتیاز مقرر کیا ہے کہ جہاں صحیح ناصری کے معاملہ میں انصار اللہ بننے کی تحریک مسیح کی زبان سے پیش کی گئی ہے.وہاں مسیح محمدی کے معاملہ میں یہ تحریک خود ذات باری تعالیٰ کی طرف سے ہے.جس میں یہ اشارہ مقصود ہے کہ یہ تحریک خدا کی خاص نصرت اور برکت سے حصہ پائے گی.بہر حال قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ انصار اللہ کی اصطلاح خدا تعالیٰ کی نظر میں انبیاء کے جمالی ظہور کے ساتھ مخصوص تعلق رکھتی ہے اور چونکہ جمال کے ساتھ دین حق کی ایسی تشریح و تبلیغ وابستہ ہے جو ایک پیہم اور مسلسل کوشش کی صورت میں دلائل و براہین کے ذریعہ کی جائے.اس لئے انصار اللہ کا اصل کام جمالی رنگ میں تبلیغ اور تربیت کے دولفظوں میں محصور ہو جاتا ہے.اور چونکہ تبلیغ وتربیت کا کام ایک طرف تنظیم کو چاہتا ہے.اور دوسری طرف مالی قربانی کو.اس لئے ہمارے کام کے یہ چارستون قرار پاتے ہیں :

Page 22

مضامین بشیر اوّل تبلیغ ، دوم تعلیم و تربیت ، سوم تنظیم اور چہارم.کام کے واسطے روپے کی فراہمی اور ظاہر ہے کہ جہاں یہ چار چیزیں بصورت احسن میسر آجائیں ، وہاں کوئی دنیوی طاقت کسی جماعت کی ترقی کے رستہ میں روک نہیں بن سکتی.اور فَأَصْبَحُوا ظهِرِينَ کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے.مسیح محمدی کے کام کی یہی صورت اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت تمثیل کے ذریعہ سورہ کہف میں بھی بیان فرمائی ہے.جہاں ذوالقرنین کا ذکر کر کے اور اس کے حالات کو روحانی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر چسپاں کر کے فرماتا ہے: اتُونِي زُبَرَ الْحَدِيْدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ أَتُوْنِي أَفْرِغْ عَلَيْهِ قِطَرًا یعنی مسیح موعود اپنے صحابہ سے کہے گا کہ میرے پاس تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لاؤ.کیونکہ میری طرف آنے سے وہ گویا آہنی اینٹیں بن جائیں گے.جن کے ذریعہ میں کفر و ایمان کے درمیان ایک بلند دیوار چن دوں گا.اور پھر جب وہ مسیح محمدی کے انفاس قدسیہ کی گرمی سے مناسب درجہ حرارت کو پہونچ جائیں گے.تو مسیح ان سے فرمائے گا کہ اب اس آہنی دیوار کو مضبوط کرنے کے لئے پچھلے ہوئے تانبے (یعنی روپے پیسے ) کی بھی ضرورت ہے.وہ لاؤ تا میں اس کے ذریعہ اس دیوار کے رخنوں کو بند کر کے اسے ایک غالب رہنے والی چیز بنادوں.“ اس لطیف تمثیل میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام چیزیں یکجا بیان فرما دی ہیں جو دوسری آیات سے استدلال کر کے اوپر درج کی گئی ہیں.یعنی اتُونِی زُبَرَ الْحَدِيدِ میں تبلیغ کی طرف ارشاد ہے اور سَاوِي بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ اور جَعَلَهُ نَارًا میں تعلیم و تربیت کی طرف اشارہ ہے.اور اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا میں مالی قربانیوں کی طرف اشارہ ہے اور یہ سارے کام مسیح موعود اور آپ کی جماعت کے ذریعہ انجام پانے مقدر ہیں.اب دوست خود غور فرما ئیں کہ انصار اللہ کے سر پر کتنی بھاری ذمہ داری کا بوجھ ہے اور جب تک وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں دن رات مستغرق نہ رہیں.اور اسے اپنی زندگیوں کا مقصد نہ قرار دے لیں.اس وقت تک وہ اس خدائی وعدہ کا منہ نہیں دیکھ سکتے.جو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ....کے شاندار الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.اور جو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پورا ہو کر رہے گا.گو یہ علم صرف خدا کو حاصل ہے کہ ہم میں سے کون زبر الحدید کا رنگ اختیار کر چکا ہے اور کون نہیں اور کس پر خدائی دیوار میں چنے جانے کے لئے فرشتوں کا ہاتھ پڑ چکا ہے اور کس پر نہیں

Page 23

مضامین بشیر اور کس کے رخنے پگھلے ہوئے تانبے کے ذریعہ بھرے جاچکے ہیں اور کس کے نہیں.کام خدا کا ہے اور ہم نے صرف اپنے آپ کو خدا کے سانچے میں ڈھال کر اس کے سپر د کر دینا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؎ بمفت ایں اجر نصرت را، دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان ست ایں، بہر حالت شود پیدا پس میں دوستوں سے اپیل کروں گا کہ انصار اللہ کے مقدس کام کو ان چار ستونوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں جو میں نے قرآن شریف سے استدلال کر کے اوپر بیان کئے ہیں.یعنی (۱) تبلیغ (۲) تعلیم و تربیت (۳) تنظیم اور (۴) مالی قربانی.اگر وہ ان چار پہلوؤں سے اپنے نظام کو پختہ کر لیں تو ان کے قلعہ کی چار دیواری مکمل ہو جائے گی اور پھر انہیں خدا کے فضل سے کسی مخالف طاقت کا خطرہ نہیں رہے گا.بلکہ ہر مخالف طاقت ان کے سامنے مغلوب ہو کر ان کی غلامی کو اپنے لئے باعث فخر خیال کرے گی.اے خدا تو اپنی ذرہ نوازی سے ایسا فضل فرما کہ قبل اس کے کہ ہم اس دنیا کی زندگی کو پورا کر کے تیرے دربار میں حاضر ہوں.ہمیں تیرے حضور میں وہ مقام حاصل ہو چکا ہو جو تو نے صحابہ کرام کی مقدس جماعت کے متعلق ان پیارے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ: - رضي الله عنهم ورضواعنه.اے خدا تو ایسا ہی کر.آمین واخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العلمين ( مطبوعه الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۴۶ء )

Page 24

مضامین بشیر ۱۲ ہندوستان کی سیاسی الجھن رات کی بے خوابی میں بستر پر کا تیل چند دن ہوئے ایک رات مجھے درد نقرس کی زیادہ تکلیف محسوس ہو رہی تھی جس کے ساتھ کافی بے چینی بھی تھی اور میں ایک منٹ کے لئے بھی سو نہیں سکا.پہلے تو میں بستر میں پڑے پڑے آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرتا رہا.لیکن جب اس کوشش میں ناکام رہا تو میں نے پاس کی میز پر سے ایک اٹلس اٹھائی اور ہندوستان کا نقشہ سامنے رکھ کر ہندوستان کی موجودہ سیاسی الجھن کے متعلق غور کرنے لگا.اس سوچ نے شروع میں تو میری جسمانی بے چینی کے ساتھ ساتھ دماغی بے چینی کا بھی اضافہ کر دیا.مگر بالآخر میں اس نئے مشغلہ میں ایسا کھویا گیا کہ نقرس کی تکلیف عملاً بھول گئی اور میں ایک ناخواندہ سیاستدان کے طور پر ( ناخواندہ اس لئے کہ سیاسیات کا مضمون کبھی بھی میری خاص سٹڈی نہیں ہوا بلکہ میں نے اسے اکثر مذہبی توجہ میں انتشار کا موجب پایا ہے.سوائے اس کے کہ سیاسیات کا کوئی حصہ براہ راست مذہب پر اثر انداز ہوتا ہو ) ہندوستان کی موجودہ سیاسی الجھن کے متعلق مختلف قسم کے حل سوچنے لگا.میں اپنے اس رات کے افکار کو ذیل کے چند مختصر فقروں میں سپرد قلم کرتا ہوں مگر یاد رہے کہ یہ تخیلات میرے ذاتی ہیں ، انہیں لازماً ہر تفصیل میں جماعت کی طرف منسوب نہ کیا جائے.(1) سب سے پہلے میں نے خیال کیا کہ ہماری جماعت ایک مذہبی اور تبلیغی جماعت ہے اور گو خدا کے فضل سے اس کے ہاتھ پر ہر قسم کی فتوحات مقدر ہیں.مگر کم از کم شروع میں ہماری فتوحات کا رستہ نوے فیصدی تبلیغ کے میدان سے ہو کر گزرتا ہے.پس ہمارا سب سے پہلا اور مقدم فرض یہ ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں مذہبی آزادی کے دروازہ کو زیادہ سے زیادہ کھلا کرنے کی کوشش کریں.اور اس کے لئے تین باتیں ضروری ہیں :- (الف) ضمیر کی آزادی یعنی انسان جو مذہب بھی اپنے لئے پسند کرے.اسے اس کا کھلم کھلا اعتراف کرنے کی آزادی حاصل ہو.(ب) مافی الضمیر کے اظہار کی آزادی یعنی ہر انسان کو اپنے مذہبی خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور تقریر و تحریر کے ذریعہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق

Page 25

۱۳ مضامین بشیر حاصل ہوا ور ( ج ) مافی الضمیر کے بدلنے کی آزادی یعنی اگر کوئی انسان اپنے ذاتی مطالعہ یا کسی دوسرے شخص کی تبلیغ کے نتیجہ میں اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہے تو اسے اس کا اختیار ہواور اس اختیار میں اس کے اپنے نابالغ بچے یا ایسے نابالغ عزیز جن کے اخراجات کا وہ متحمل ہے شامل سمجھے جائیں.یہ تینوں چیزیں انسانی ضمیر کی آزادی کا لازمی حصہ ہیں اور ہندوستان کے آئندہ دستور اساسی میں صراحت اور تفصیل کے ساتھ شامل ہونی چاہئیں ورنہ خواہ ہندوستان کو پاکستان اور ہندوستان کی صورت میں آزادی ملے یا صرف اکھنڈ ہندوستان کی صورت میں اور خواہ برطانوی ہندوستان کا سوال ہو یا کہ ریاستی ہندوستان کا جب تک کہ غلامی کی اس بدترین صورت کو جو ضمیر کشی سے تعلق رکھتی ہے کچلا نہ جائے گا ہندوستان کو کبھی بھی حقیقی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی.اس وقت بظاہر یہ ایک مذہبی سوال سمجھا جاتا ہے مگر حق یہ ہے کہ اپنے بنیادی اصول کے لحاظ سے یہ سوال صرف مذہبی نہیں ہے بلکہ حریت انسانی کا پہلا مطالبہ ہے.جو اپنے آئندہ شاخسانوں کے لحاظ سے ہر قسم کی ذہنی نشو و نما کے لئے ایک جیسا ضروری ہے.خواہ وہ مذہبی ہو یا علمی یا تمدنی.یہ خیال کرنا کہ مذہبی آزادی کے اصول کو اجمالی طور پر تسلیم کر لینے میں ساری بات خود بخود آ جاتی ہے، ہرگز درست نہیں.ایسے امور میں اجمال کو دخل دینا فتنہ کا بیج بونا ہے.پس آئندہ دستور اساسی میں خواہ وہ سارے ہندوستان سے تعلق رکھنے والا ہو یا اس کے ایسے حصوں کے ساتھ جن میں وہ آئندہ تقسیم کیا جائے.اوپر کی تینوں چیزیں (یعنی مذہب کی آزادی اور تبلیغ مذہب کی آزادی اور تبدیلی مذہب کی آزادی ) صراحت اور تعیین کے ساتھ شامل ہونی چاہیئے.انگریزوں نے خواہ بقول شخصے دوسرے میدانوں میں ہندوستانیوں کا کتنا ہی گلا گھونٹا ہو مگر اس میں شبہ نہیں کہ مذہبی آزادی کے معاملہ میں انہوں نے قابل تعریف فراخدلی سے کام لیا ہے.اور ایک مذہبی جماعت کے لئے یہ سب سے بڑی چیز ہے.اس کے علاوہ اس جہت سے بھی ہندوستان کے لئے تبلیغ و تبدیلی مذہب کا سوال اہم ہے کہ اس کے ذریعہ سے آئندہ چل کر ملک کے اتحاد بلکہ ملک کے اندر بسنے والی قوموں کے ایک ہو جانے کا رستہ کھلتا ہے جو دوسری صورت میں بالکل ناممکن ہو جائے گا.(۲) اس کے بعد میرا خیال مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کی طرف گیا جو آج کل ہندوستانی سیاست کا مرکزی نقطہ بنا ہوا ہے.میں نے خیال کیا کہ دراصل پاکستان کے تصور کی ذمہ داری بڑی حد تک ہندو بھائیوں پر عائد ہوتی ہے.ہندوؤں نے کبھی بھی ٹھنڈے دل سے اس بات کو نہیں سوچا کہ خواہ ہند و مسلمان ایک ملک میں دوش بدوش رہتے ہیں اور اس لحاظ سے لازماً ان کا کئی باتوں میں اتحاد ہونا چاہیئے مگر مسلمانوں کا مذہب اور تمدن اور قومی ضروریات ہندوؤں سے اس قدر جدا ہیں کہ جب

Page 26

مضامین بشیر ۱۴ تک ان کے لئے ملک کے اندر ایک خاص حفاظتی ماحول جو ان کی قومی زندگی اور قومی ترقی کے لئے ضروری ہو، پیدا نہ کیا جائے ان کا ملک میں آزاد اور خوش اور تسلی یافتہ شہریوں کے طور پر زندگی گذارنا ناممکن ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ گو شروع میں مسلمان پاکستان کی نسبت بہت تھوڑے مطالبہ پر راضی تھے وہ آہستہ آہستہ برادران وطن کے عملی رویہ کی وجہ سے اپنے مطالبہ میں سخت اور پھر سخت سے سخت تر ہوتے گئے اور اس کے ساتھ ان کا مطالبہ بھی دن بدن وسیع ہوتا گیا اور ہمارے ہندو بھائیوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ خود ان کا اپنا یہ حال ہے کہ آج سے سات سال پہلے جو کچھ وہ مسلمانوں کو دینے کے لئے تیار تھے وہ اس سے بہت کم تھا جو وہ آج دینے کو تیار ہیں.پھر کیا یہ دانشمندی کا طریق نہیں تھا کہ آج سے سات سال پہلے ہی وہ مسلمانوں کا اُس وقت کا مطالبہ مان کر انہیں خوش کر دیتے.کیونکہ خوش اور تسلی یافتہ ہمسایہ اپنے ہمسایہ کے لئے طاقت اور سہارے کا باعث ہوتا ہے نہ کہ کمزوری اور خطرہ کا موجب.گو مثال مکمل نہیں مگر مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ یہ رنگ رکھتا ہے کہ کسی شخص کے دو عضووں کے با ہمی جوڑ میں کوئی نقص پیدا ہو جائے اور اس پر کمز ور عضو برسوں چلا تا رہے کہ اس نقص کا علاج کر کے اسے ٹھیک کر لوتا میری تکلیف دور ہو.مگر دوسرا عضو اس کی آہ و پکار پر توجہ نہ دے اور اس پر بالآخر کمز ور عضو یہ فیصلہ کرے کہ جب جوڑ ٹھیک ہونے میں نہیں آتا تو چلو اب اسے کاٹ کر الگ ہی کر لیا جائے.تا جس طرح بعض درختوں کی کٹی ہوئی قلمیں زمین میں گاڑنے سے دوبارہ اگ آتی ہیں ، شاید یہ کٹا ہوا عضو بھی علیحدہ ہو کر پنپنا شروع ہو جائے.پس میں نے خیال کیا کہ یہ پاکستان کا مطالبہ زیادہ تر خود ہندوؤں کا پیدا کیا ہوا ہے جو انہوں نے عدم فیاضی کی روح میں اپنی کا روباری ذہنیت کے ماتحت آہستہ آہستہ پیدا کر دیا ہے ورنہ اس بات میں کس عظمند کو شبہ ہو سکتا ہے کہ ایک وسیع اور قدرت کی رحمت کے ہاتھوں سے غیر معمولی طور پر برکت یا فتہ ملک جس کی زمین گو یا معدنی اور زرعی اور پھر سب سے بڑھ کر انسانی پیداوار کا سونا اگلتی ہے، ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا جائے.خدا اپنے فعل سے جو تار اور ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو اور پھر ریل اور موٹر اور بحری جہاز اور ہوائی جہاز وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے، دنیا کو انتشار سے اتحاد کی طرف لا رہا ہے.تو پھر یہ کس قدر افسوس اور بدقسمتی کی بات ہوگی کہ ہم آپس کے قابل حل مسائل کی وجہ سے اتحاد سے انتشار کی طرف قدم اٹھا ئیں.(۳) اس کے بعد میں مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی تفصیل میں چلا گیا.یعنی یہ سوچنے لگا کہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ مطالبہ ہے کیا.سوظا ہری اور سادہ صورت میں تو پاکستان سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے وہ صوبے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ( مثلاً پنجاب و بنگال ) یا جن میں

Page 27

۱۵ مضامین بشیر مسلمانوں کی اکثریت تو نہیں مگر کوئی دوسری مقامی قوم مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہتی ہے اور یہ دونوں مل کر ا کثریت بن جاتے ہیں (یعنی آسام ) انہیں آئندہ دستور اساسی میں جس میں ہندوستان کو آزادی اور خود مختاری ملنے والی ہے.ہندوستان کے باقی صوبوں سے علیحدہ اور مستقل حیثیت میں آزادی حاصل ہوتا کہ وہ کسی دوسری قوم کے ظاہری اور باطنی دباؤ کے بغیر اپنی حکومت کو جس طرح چاہیں اپنی ضروریات کے مطابق آزادانہ رنگ میں چلا سکیں.اس طرح گویا ہندوستان کے شمال مغرب میں صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ اور بلوچستان اور ہندوستان کے شمال مشرق میں صوبہ بنگال اور صوبہ آسام بقیہ ہندوستان سے الگ ہو جائیں گے.یہی وہ دوہری سرزمین ہے جس کا نام نئی اصطلاح میں پاکستان رکھا گیا ہے اور جس کی مسلمان آبادی قریباً سات کروڑ تک پہنچتی ہے.مسلم لیگ کا یہ مطالبہ ہے کہ یہ پاکستانی علاقہ باقی ماندہ ہندوستان سے کامل اور نقلی طور پر الگ اور آزاد کر دیا جائے اور چونکہ پاکستان کے دو بازو ایک دوسرے سے کافی دور اور منقطع ہیں ، اس لئے لیگ یہ بھی چاہتی ہے کہ انتظامی سہولت کے لئے شمال مغربی اور شمال مشرقی پاکستان کے درمیان اسے ایک کافی فراخ رستہ بھی دیا جائے جو گویا یو.پی اور بہار میں سے ہوتا ہوا پنجاب اور بنگال کو ملا دے.مسلم لیگ یعنی جمہور مسلمانوں کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ آزادی کے بعد بہر صورت بقیہ ہندوستان سے جسے وہ موجودہ اصطلاح میں صرف ہندوستان کا نام دیتے ہیں کلی طور پر الگ رہیں گے بلکہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ جہاں تک بنیادی آزادی کا تعلق ہے پاکستانی صوبوں کو کامل اور مستقل طور پر خود مختار تسلیم کیا جائے.پھر اگر بعد میں یہ پاکستانی صوبے ایک آزاد اور خود مختار حکومت کی حیثیت میں بقیہ ہندوستان کی حکومت کے ساتھ کوئی باہمی معاہدہ (تعاونی یا حفاظتی یا اقتصادی وغیرہ) کر کے آزاد حکومتوں والے اتحاد کی صورت پیدا کرنا چاہیں تو یہ اور بات ہے اور اس کے لئے مسلمانوں کو اعتراض نہیں ہوسکتا.اس کے مقابل پر کانگرس یعنی ہندو اکثریت کا یہ مطالبہ ہے کہ تمام ہندوستان ایک ملک ہے اور ایک ہی رہنا چاہیئے اور اس صورت کا نام وہ اکھنڈ ہندوستان رکھتے ہیں.البتہ وہ اس بات کے لئے تیار ہیں کہ مسلمان صوبوں کو مناسب حفاظتی مراعات دے دی جائیں.مگر ان کا دعوی ہے کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت بہر حال ایک ہی رہنی چاہیئے اور اسے بعض خاص امور میں ( مثلاً فوج اور بیرونی تعلقات وغیرہ ) جن میں تمام ملک کے لئے اتحاد اور یکجہتی اور یکسانیت کی ضرورت ہے، صوبوں کے معاملہ میں دخل دینے اور انہیں ہدایات جاری کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیئے.البتہ جہاں تک عام اندورنی معاملات کا تعلق ہے صوبے آزاد ہوں گے اس صورت کا نام فیڈ ریشن رکھا جاتا ہے.یعنی بہت سی نیم آزاد حکومتوں کا ایک واحد آزاد مرکزی نیا بتی حکومت کے ساتھ منسلک ہونا.

Page 28

مضامین بشیر 17 مسلم لیگ کا یہ مطالبہ چار ستونوں پر قائم ہے.(الف) یہ کہ مسلمان نہ صرف اپنے لئے علیحدہ مذہب اور علیحدہ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے بلکہ ہندوستان میں اپنی تعداد کے لحاظ سے بھی ایک مستقل قوم کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ محض ایک اقلیت کی.(ب) یہ کہ مسلمانوں کی قومی ضروریات ہندوؤں سے بالکل ممتاز اور جدا گانہ ہیں.جو ایک علیحدہ اور آزاد نظام کے بغیر پوری نہیں ہوسکتیں.(ج) یہ کہ ہندوستان میں عملاً ایسے صوبے موجود ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے.اور عام جمہوری نظام کے ماتحت بھی ان صوبوں میں مسلمانوں کو حکومت کا حق حاصل ہے اور (د) یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا سابقہ تجر بہ بتاتا ہے کہ باوجود حفاظتی مراعات کے ہند وحکومت کے ماتحت مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں رہ سکتے.اور اس کے مقابل پر ہند و صاحبان بھی اپنے مطالبہ میں بلا دلیل نہیں ہیں.کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ (الف) پاکستان بننے سے ہندوستان کی نہ صرف شان وشوکت بلکہ طاقت وقوت بھی خاک میں مل جاتی ہے.اور وہ دنیا کے مضبوط ترین اور بہترین ملکوں کی صف سے نکل کر معمولی ملکوں کی صف میں آکھڑا ہوتا ہے.(ب) یہ کہ جہاں اس زمانہ میں دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملک آس پاس کے آزاد ملکوں کے ساتھ اتحادی معاہدات کے ذریعہ اپنی طاقت بڑھا رہے ہیں وہاں پاکستان کی تجویز ہندوستان کے حصے بخرے کر کے اسے اور بھی زیادہ کمزور کرنے کا رستہ کھول رہی ہے.( ج ) یہ کہ ہندوستان کے ٹکڑے ہو جانے سے وہ آس پاس کے مضبوط ملکوں کا آسان شکار بن جائے گا اور انگریز کی غلامی سے بھاگتے ہی کسی اور قوم کی غلامی سہیڑ لے گا.اور ( د ) یہ کہ پاکستان کے ذریعہ بھی ہندوستان کے فرقہ وارانہ مسائل کا کامل حل میسر نہیں آیا کیونکہ اگر مسلمان اکثریت والے صوبے پورے طور پر آزاد بھی ہو جائیں تو پھر بھی پاکستان اور باقی ماندہ ہندوستان ، دونوں میں مخلوط آبادی باقی رہتی ہے.یعنی پاکستان میں کافی آبادی ہندوؤں کی رہتی ہے.اور ہندوستان میں مسلمانوں کی.پس جب پاکستان قائم کر کے بھی مرض جوں کا توں رہا تو پھر خواہ نخواہ ہندوستان کو کمزور کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ (۴) مسلمانوں اور ہندوؤں کے موافق و مخالف دلائل میں پڑ کر مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ ہندو اس معاملہ میں بہت خوش قسمت ہے کہ بوجہ اس کے کہ وہ ہندوستان میں بھاری اکثریت رکھتا ہے وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو نیشنل اصطلاحوں اور عام ملکی مفاد کے پردہ میں چھپا سکتا ہے.اسے کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ یہ چیز ہند وکو دو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو چیز وہ ملک کے نام پر لے گا وہ لازماً اکثریت والی قوم کو پہنچے گی.پس وہ اپنی قوم کا سوال اٹھانے کے بغیر قوم پروری کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی فرقہ وارانہ ذہنیت اس کے اندر موجود ہوتے ہوئے بھی

Page 29

۱۷ مضامین بشیر نیشنلزم کے پردہ میں مستور رہتی ہے مگر مسلمان فرقہ وارانہ سوال اٹھانے کے بغیر اپنی قوم کی حفاظت نہیں کرسکتا، اسے بالکل ننگا ہو کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ چیز مسلمانوں کو دو.پس بسا اوقات وہ مظلوم ہوتے ہوئے بھی فرقہ وارانہ زہر کے پھیلانے کا مجرم سمجھا جاتا ہے.ان میں سے ایک ملک کے نام پر مانگتا ہے اور بے لوث محب وطن سمجھا جا کر اپنی غرض پوری کر لیتا ہے مگر دوسرا اپنے فرقہ کے نام پر مانگنے کے لئے مجبور ہے، اس لئے ہمیشہ بدنام ہوتا ہے اور اکثر دھتکارا بھی جاتا ہے.یہ وہ کھیل ہے جسے انگریز ذہنیت آج تک نہیں سمجھ سکی وہ ہندو کو فراخ دل نیشنلسٹ سمجھتی ہے اور مسلمان کو تنگ دل کمیونسٹ مگر مطالبہ پاکستان کا مطالبہ اس سٹیج پر سے جلد جلد پردہ اٹھا رہا ہے.کیونکہ پاکستان کے قائم ہوتے ہی اسلامی صوبوں میں ہندو ذہنیت اسی طرح بے نقاب ہونی شروع ہو جائے گی جس طرح آج ہندو اکثریت کے راج میں مسلمانوں کی ذہنیت بے نقاب ہو رہی ہے.بہر حال میں نے اس رات کی بے چینی میں سوچا کہ ہندوستان کا سوال صرف اصل سیاسی مسئلہ کے لحاظ سے ہی مشکل نہیں ہے.بلکہ مختلف قوموں کے دلائل کو سمجھنے اور ان کی حقیقت تک پہنچنے کے لحاظ سے بھی بہت پیچدارہے.(۵) ایک اور مشکل میرے ذہن میں یہ آئی کہ ہندوستان کا چپہ چپہ اسلامی یادگاروں سے بھرا پڑا ہے اگر یہاں کسی گذشتہ اسلامی بزرگ کا مزار ہے، جس کے انفاس قدسیہ کی برکت سے ہزاروں لاکھوں ہندوؤں نے اسلام کی روشنی حاصل کی تو وہاں کسی مسلمان بادشاہ یا رئیس کی بنائی ہوئی شاندار مسجد ہے جس کی ایک ایک اینٹ اسلامی شوکت اور بنانے والے کی للہیت کا پتہ دے رہی ہے.پھر اگر اس جگہ اسلامی حکومت کے زمانہ کا کوئی عظیم الشان قلعہ ہے جو اسلام کی مٹی ہوئی طاقت کی یاد کو زندہ رکھ رہا ہے.تو اُس جگہ کسی مسلمان نقاش کے ہاتھ کا بنا ہوا مسحور کن باغ ہے جس کی وسعت و زینت غیور مسلمانوں کے دلوں پر ایک نہ مٹنے والا نقش قائم کر رہی ہے اور یہ زندہ اور زندگی بخش یادگاریں ہندوستان کے شمال سے لے کر جنوب تک اور مغرب سے لے کر مشرق تک اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ جس طرف بھی نظر اٹھا ؤ وہاں کا منظر اس مصرع کی تفسیر نظر آتا ہے کہ کرشمہ دامن دل می کشد که جا این است میری نظر دتی کی شاہی مسجد اور لال قلعہ اور قطب مینار اور حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار اور ہمایوں کے مقبرہ اور حضرت شاہ ولی اللہ کی قبر سے اٹھ کر آگرہ کے تاج اور سکندرہ کے گنبدوں کے ساتھ لپٹی ہوئی راجپوتانہ کے وسط میں حضرت شاہ معین الدین اجمیری کے مزار پر پہنچی اور میرے دل نے کہا کہ بے شک اس وقت پاکستان کے مطالبہ نے مسلمانوں میں سیاسی اتحاد پیدا کرنے میں بہت بڑا کام کیا ہے مگر یہ بزرگ جو اس مٹی میں دفن ہے.اس نے بھی اپنے وقت میں لاکھوں ہندوؤں کو

Page 30

مضامین بشیر ۱۸ اسلام کی محبت بھری غلامی میں کھینچا تھا اور اب یہ اچھی وفاداری نہیں ہے کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اس کی قبر کو ہندوؤں کی غلامی میں چھوڑ جائیں پھر یہاں سے اٹھ کر میری نظر ہوا میں اڑتی ہوئی گولکنڈا اور حیدر آباد کی چٹانوں تک پہنچی جہاں مجھے کئی اسلامی بادشاہوں اور مسلمان درویشوں کی قبروں نے اپنی طرف بلایا کہ آج کے دھندے میں کل کے گزرے ہوئے بزرگوں کو نہ بھول جانا کہ ان کی ہڈیاں بھی کچھ حق رکھتی ہیں اور پھر اس سے آگے میں نے میسور اور جنوبی ہندوستان کے میدانوں پر نگاہ ڈالی تو حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے اپنی قبروں سے اٹھ کر مجھ سے گلہ کیا کہ ہم نے اپنے وقت میں مٹھی بھر مسلمانوں کو ساتھ لے کر سارے ہندوستان کے لئے جان کھو دی اور تم دس کروڑ جانباز ہوکر ہند وستان کے ایک کو نہ میں سمٹ کر بیٹھنا چاہتے ہو.اگر ہمیں بھول گئے ہو تو کم از کم شیر شاہ سوری کے اس جرنیل رستہ پر نگاہ ڈالو جو پشاور سے بنگال کو ملاتا تھا.اور چپہ چپہ پر شاہی سراؤں کی آہنی میخیں گاڑتا چلا جاتا تھا.اس کے ساتھ ہی مجھے حال کے زمانہ میں علی گڑھ کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی طرف بھی خیال گیا جو پاکستان کے علیحدہ ہو جانے سے صرف ہندو گڑھ کی زینت ہو کر رہ جائے گی اور یقیناً ایک چھوٹا سا صحرائی نخلستان جو اپنے آب رسانی کے منبع سے جدا ہو جائے زیادہ دیر تک تر و تازہ نہیں رہ سکتا.(۶) ان خیالات نے مجھے اس گہری سوچ میں ڈال دیا کہ انسانی زندگی کے متعلق اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ کیا اسلام خطرے کے موقع سے ہٹ کر گھر میں محصور ہو جانے کو پسند کرتا ہے یا کہ زندگی کی کش مکش میں کود کر آگے بڑھتے چلے جانے کو ؟ اس وقت مجھے اپنے پیارے آقا فداہ نفسی کا یہ قول یاد آیا كه لا رهبانية فی الاسلام....میں نے خیال کیا کہ بظاہر یہ ارشاد افراد کے لئے ہے مگر اس میں یہ عظیم الشان قومی راز بھی مخفی ہے کہ اسلام اس طریق کی اجازت نہیں دیتا کہ دنیا کے خطرات سے ڈر کر انسان کسی پہاڑ کی چوٹی یا کسی جنگل کے پیڑیا کسی خانقاہ کے حجرہ یا کسی مکان کے گوشہ میں تنہا بیٹھ کر اپنی جان کی خیر منانے لگ جائے بلکہ وہ انسانوں کو زندگی کی کش مکش میں دھکیل کر حکم دیتا ہے کہ مرد میدان بن کر ان خطرات کا مقابلہ کرو اور اپنی قوت بازو سے دشمن کو زیر کرتے ہوئے اپنی ترقی کا رستہ کھولتے چلے جاؤ کیونکہ اسلامی نظریہ ہے کہ جو سمٹا وہ بیٹھا اور جو پیچھے ہٹا وہ گرا اور جو گرا وہ مرا.پھر مجھے خلفاء راشدین کے سب سے بڑے سیاستدان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ قول بھی یاد آیا کہ جب میں مکہ میں مسلمان ہوا.لم ازل أضْرَب وأضُرِب فى سِكَك مكة...یعنی اس وقت سے میں گھر میں نہیں ٹھہرا بلکہ مکہ میں گلیوں میں پھرتا ہوا پیٹتا اور پیٹتا ہی رہا حتی کہ خدا اسلام کی فتح کا دن لے آیا میں اپنے آقا اور اس کے مدبر صحابی کے ان قولوں کو یاد کر کے اس خیال سے بے چین ہونے لگا کہ بے شک ہندوستان کا مسلمان کمزور بھی ہے اور مظلوم بھی مگر کہیں پاکستان کا تصور قومی رہبانیت کا

Page 31

۱۹ مضامین بشیر رنگ تو نہیں رکھتا کیا وہ اسے اُضْرَب واضْرِب کے میدان سے نکال کر گھر کی بظاہر پُر امن مگر دراصل پر خطر چار دیواری میں محصور تو نہیں کر رہا.تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام نے صرف اس وقت تک ترقی کی جب تک کہ مسلمان چند گنتی کے نفوس کی ٹولیوں میں تمام خطرات سے بے پروا ہو کر غیر ملکوں میں گھس جاتے رہے اسلام کی زندگی غیر قوموں کے مقابل پر مسلسل جد وجہد کے ساتھ وابستہ ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ پاکستان کا نظریہ مسلمانوں کو اس جد و جہد سے باہر نکال رہا ہے.(۷) پھر میرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ کہیں پاکستان کا اصول اور اسلامی تبلیغ کا نظریہ آپس میں ٹکراتے تو نہیں میرے دل نے کہا کہ تبلیغ کے معنی دوسرے کے گھر میں پر امن نقب لگانے کے ہیں مگر پاکستان کا مطالبہ اس اصول پر مبنی ہے کہ چونکہ ہند و مسلمان آپس میں مل کر امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے.اس لئے انہیں علیحدہ علیحدہ گھر ملنا چاہئے ، جس میں وہ ایک دوسرے سے جدا رہتے ہوئے چین کی زندگی گزار سکیں تو اس صورت میں جو شخص اس مخصوص سمجھوتہ کے ماتحت دوسرے سے جدا ہوتا ہے کہ ہم آئندہ علیحدہ علیحدہ رہیں گے وہ کبھی بھی دوسرے شخص سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اسے کبھی اپنے گھر میں گھر والا بن کر داخل ہونے کی اجازت دے گا.پس میرا دل اس خیال سے خائف ہوا کہ پاکستان کا نظریہ اسلامی نفوذ کی پالیسی سے ٹکراتا ہے اور اس کے نتیجہ میں تبلیغ اسلام کا دروازہ بقیہ ہندوستان میں عملاً بند ہو جاتا ہے اور دوسری طرف میں نے سوچا کہ اگر تبلیغ کا دروازہ کھلا رہے تو شمال اور شمال مشرقی پاکستان تو ایک معمولی چیز ہے ہم انشاء اللہ سو پچاس سال کے عرصہ میں سارے ہندوستان کو ہی پاکستان بنا سکتے ہیں یہ ایک ہوائی دعویٰ نہیں ہے بلکہ اسلامی تاریخ اس بات کی کئی زندہ مثالیں پیش کر سکتی ہے کہ جنگ کے ذریعہ سے نہیں بلکہ پُر امن تبلیغ کے ذریعہ پچاس پچاس سال کے اندر ملکوں کی کایا پلٹ دی گئی ہے بلکہ خود ہندوستان کے اندر ہماری آنکھوں کے سامنے یہ مثال موجود ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے پنجاب میں ہندوؤں کی اکثریت تھی مگر آج مسلمانوں کی اکثریت ہے تو جب ایک معمولی جد و جہد نے یہ انقلابی نتیجہ پیدا کر دیا ہے تو ایک وسیع والہانہ کوشش کیا کچھ نہیں کر سکتی؟ مگر میں ڈرتا ہوں کہ پاکستان کا نظریہ ایسی کوشش کا دروازہ بند کرتا ہے مذہبی لوگ عموماً دیوانے سمجھے جاتے ہیں اور شاید دنیوی معیاروں کے مطابق یہ کسی حد تک درست بھی ہو.مگر دور کے افق میں اس بات کے یقینی آثار نظر آرہے ہیں کہ انشاء اللہ العزیز ابھی ایک سو سال کا عرصہ نہیں گذرے گا کہ ہندوستان کا وسیع ملک فرقہ وارانہ مناقشات کے خطرہ سے کلی طور پر باہر ہو جائے گا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو خاص تحفظات کی ضرورت نہیں یقیناً موجودہ حالات میں مسلمان کمزور بھی ہیں اور مظلوم بھی اور ملک کا عام قانون ان کی حفاظت نہیں کر سکتا.کیونکہ ہند وقوم نے

Page 32

مضامین بشیر ۲۰ بالعموم نہ تو ان کی ہمسائیت کا حق ادا کیا ہے اور نہ ہی اپنی اکثریت کا.پس خاص نظام بہر حال ضروری ہے مگر کیوں نہ ہم ہندوستان کو متحد رکھتے ہوئے کوئی ایسا حق وانصاف کا رستہ تلاش کرنے کی کوشش کریں جو مسلمانوں کو ملکی جد و جہد میں شریک رکھتے ہوئے اہم قومی خطرات سے محفوظ کر دے یعنی بقول شخصے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے.( مطبوعه الفضل ۱۸ ر ا پریل ۱۹۴۶ء)

Page 33

۲۱ مضامین بشیر سیرۃ المہدی کی بعض روایتوں پر مخالفین کا اعتراض اور ان کا مختصر تعارف مجھے بعض دوستوں کے خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ بعض مخالفوں نے اپنے مناظرات میں سیرۃ المہدی کی بعض روائیتیوں پر اعتراض کیا ہے اور کمینہ طعنوں کا رنگ اختیار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات والا صفات کو استہزا کا نشانہ بنایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود باجود جماعت میں اس قدر محبوب ہے کہ حضور کے خلاف جو اعتراض بھی ہوتا ہے وہ طبعاً تمام مخلصین کے دلوں کو سخت مجروح کرتا ہے مگر دوستوں کو یہ بات بھی کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ مخالفوں کے یہ اعتراض اور یہ کمینے طعنے دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی نشانی ہیں کیونکہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ :- يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وَنَ یعنی افسوس لوگوں پر کہ ان کے پاس خدا کا کوئی رسول نہیں آتا کہ وہ اسے ہنسی ٹھٹھا کا نشانہ نہیں بناتے“ مگر یہ طعن و تشنیع محض عارضی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جلد ہی وہ وقت لے آتا ہے کہ اعتراض کرنے والے ذلیل وخوار ہو کر خاموش ہو جاتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ : - وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وَنَO د یعنی جلد ہی وہ وقت آ جاتا ہے کہ مخالفوں کا ہنسی مذاق انہیں تباہی کے چکر میں گھیر لیتا ہے.“ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق تو خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ : - لَا نُبُقِي لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكُراً.....د یعنی دشمن ایک وقت تک تیرے متعلق ضرور تحقیر و تذلیل کا طریق اختیار کرے گا مگر وہ وقت آتا ہے کہ ہم تیرے مخالفوں کے طعن و تشنیع کو اس طرح مٹادیں گے کہ گویا وہ کبھی تھے ہی نہیں.66

Page 34

مضامین بشیر ۲۲ پس ہمارے دوستوں کو دشمنوں کے ان کمینہ اعتراضوں پر گھبرانا نہیں چاہیئے کیونکہ اگر ایک طرف وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی روشن نشانی ہیں تو دوسری طرف وہ اس عظیم الشان بشارت کے حامل بھی ہیں کہ وہ وقت دور نہیں کہ یہ سب اعتراضات خس و خاشاک کی طرح مٹا دیے جائیں گے اور اعتراض کرنے والوں کو ذلیل ہو کر اپنی غلطی اور نا کامی کا اعتراف کرنا پڑے گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- ۱۲ يَخِرُّونَ عَلَى الْمَسَاجِدِ.رَبَّنَااَ غُفِرُ لَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ...یعنی وقت آتا ہے کہ مخالف لوگ بے بس ہو کر اپنی مسجد گا ہوں میں گریں گے اور خدا سے عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں معاف فرما.ہم واقعی خطا کارتھے.“ اس کے بعد میں مختصر طور پر ان اعتراضوں کا جواب دیتا ہوں جو حال میں ہی بعض دوستوں کے ذریعہ مجھے پہنچے ہیں اور جو سیرۃ المہدی کی بعض روایتوں پر مبنی ہیں.سب سے پہلا اعتراض سیرۃ المہدی جلد اوّل کی روایت نمبر ۴۱ پر مبنی ہے.جس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑی زوجہ جن کے بطن سے مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم اور مرز افضل احمد صاحب پیدا ہوئے اور جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخری زمانہ میں قطع تعلق فرما لیا تھا.انہیں بعض اوقات بعض عورتیں پنجابی محاورہ کے مطابق ” پھجہ دی ماں ( یعنی فضل احمد کی والدہ ) کہہ کر پکارا کرتی تھیں اور اعتراض کرنے والے شخص نے گویا یہ طعن کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک لڑکے کا نام بھیجہ تھا.اس اعتراض کے جواب میں لعنة الله على الكاذبين کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ ہر زبان اور ہر سوسائٹی میں پیار کی وجہ سے بچوں کے نام کو مختصر کر لینے کا رواج پایا جاتا ہے اور یہ طریق ہر ملک اور ہر زمانہ میں نظر آتا ہے مگر اس کی وجہ سے اصل نام نہیں بدل جاتا.اور نہ کوئی شریف انسان اس قسم کی محبت کی بے تکلفی کو قابل اعتراض خیال کرتا ہے.مگر ہمارے مخالفوں کی ذہنیت اس قدر پست ہو چکی ہے کہ وہ ایسی معصومانہ باتوں کو بھی اعتراض کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتے.حالانکہ قریباً ہندوستان کا کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں ہوگا جس میں پیار کی وجہ سے بچوں کے ناموں میں اس قسم کا تصرف نہ کیا جا تا ہو مگر ہمیں دور کی مثال لینے کی ضرورت نہیں.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اس قسم کے تصرف کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ پیار میں بچوں کے ناموں کو بدل لیا گیا ہے.مگر افسوس ہے کہ اندھا دشمن اپنی جہالت میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہاں تک جا پہنچتا ہے.

Page 35

۲۳ مضامین بشیر چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی حضرت فاطمہ سے خفا ہو کر مسجد نبوی کے گوشہ میں جا کر بیٹھ گئے.جہاں خاک اور گرد کی وجہ سے ان کا سارا جسم مٹی سے ڈھک گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ ان کی تلاش میں آئے اور انہیں مسجد میں سوئے ہوئے پا کر پیار کے ساتھ یہ کہتے ہوئے جگایا کہ اے ابوتراب ابوتراب! اس گرد میں کہاں لیٹے ہوا ٹھو.اور روایت آتی ہے کہ اس کے بعد سے حضرت علی کا نام ابوتراب مشہور ہو گیا جس کے معنی ہیں ”مٹی کا باپ “ یا ”مٹی کا مادھو.تو کیا اب اس روایت کی بنا پر ہمارے مخالف یہ اعتراض بھی کریں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چا زاد اور داماد کا نام مٹی کا باپ تھا.اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی کے لڑکے ابو عمر نامی نے ایک سرخ رنگ کی چڑیا پال رکھی تھی جسے وہ ہر وقت اپنے ساتھ لئے پھرتا تھا.ایک دفعہ جب اس کی یہ چڑیا مرگئی اور وہ لڑکا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خالی ہاتھ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیار سے مخاطب کرتے ہوئے فرما یا يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ ( یعنی اے ابو عمیر تمہاری وہ نغیر یعنی چڑیا کدھر گئی (نغیر عربی میں سرخ چڑیا کو کہتے ہیں ) گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار کا رنگ پیدا کرنے اور وزن ملانے کی خاطر ابو عمر نام کو بدل کر ابو عمیر کر دیا.مگر کوئی شریف انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کو اعتراض کا نشانہ نہیں بنا تا بلکہ اس سے آپ کے جذبہ محبت اور بے تکلفانہ انداز کا سبق حاصل کیا جاتا ہے.تو کیا وجہ ہے کہ اگر اسی قسم کا کوئی معصومانہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں ہو ( اور ایسے بے تکلفی کے واقعات دنیا کے ہر گھر میں ہوتے ہیں ) تو اس کی وجہ سے آپ کو اعتراض کا نشانہ بنایا جائے.دوسرا اعتراض سیرۃ المہدی جلد اول کی روایت نمبر ۵ کی بنا پر ہے.جس میں یہ ذکر ہے کہ ایک دفعہ کسی غیر معروف عورت نے حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کے سامنے یہ ذکر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن میں ایک عورت نے سندھی“ کہہ کر پکارا تھا اور اس روایت پر بھی اوپر کی روایت کی طرح استہزاء کا طریق اختیار کیا جاتا ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ہی یہ تھا.سواس اعتراض کا مفصل جواب سیرۃ المہدی حصہ اول کے ایڈیشن دوم کی اسی روایت میں ذکر گزر چکا ہے.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اول تو یہ روایت ایک غیر معروف غیر معلوم الاسم اجنبی عورت کی ہے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے سچ کہا یا جھوٹ اس کے معلومات درست تھے یا غلط.دوسرے سندھی کا لفظ ایک ہندی لفظ ہے جس کے معنی جوڑ یا ملاپ یا اتصال“ کے ہیں.چنانچہ سندھی ویلا کے

Page 36

مضامین بشیر ۲۴ معنی ہیں ”سانجھ کا وقت یا شام کا وقت جبکہ دن رات کی گھڑیاں ملتی ہیں اور سندھیا بھی اتصال اور میل کو کہتے ہیں.نیز سندھیا اس دعا کو بھی کہتے ہیں جو شام کو کی جاتی ہے.جبکہ دن اور رات آپس میں ملتے ہیں ( دیکھو جامع اللغات ) تو گویا سندھی کے معنی ہوئے جوڑ والا “ یا ”ملاپ والا“ یعنی وہ بچہ جو جوڑواں یعنی تو ام پیدا ہوا ہے.پس اس لحاظ سے نہ صرف یہ کہ یہ لفظ قابل اعتراض نہیں ہے بلکہ اس سے اس پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ مسیح موعود کی پیدائش تو ام صورت میں ہوگی.چنانچہ سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ کی ولادت جوڑواں ہوئی تھی.یعنی آپ کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو کچھ عرصہ بعد فوت ہو گئی.باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام کیا تھا تو جیسا کہ دنیا جانتی ہے اور سیرۃ المہدی کے ایڈیشن دوم کی روایت نمبر ۳۶ میں تفصیل کے ساتھ لکھا جاچکا ہے آپ کا نام غلام احمد تھا.چنانچہ یہی نام آپ کے والدین نے رکھا.اسی نام سے آپ پکارے جاتے تھے.یہی نام آپ نے خود ہمیشہ استعمال کیا اور یہی نام کا غذات سرکاری میں شروع سے لے کر آخر تک درج ہوا.و من ادعی غیر ذالک فقد افترى ولعنة الله على من كذب تیسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم کی روایت نمبر ۷۸ میں مکرم ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بوڑھی دیہاتن سردی کے موسم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاؤں دبانے لگی تو چونکہ سردی کی وجہ سے اس کے ہاتھ ٹھٹھر کر بے حس سے ہو رہے تھے اس نے ٹانگوں کو دبانے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چار پائی کی لکڑی کو دبانا شروع کر دیا اور جب تک اسے اس کی غلطی جتائی نہیں گئی اسے یہ محسوس نہیں ہوا کہ میں پاؤں دبانے کی بجائے چار پائی کی لکڑی دبا رہی ہوں وغیرہ ذالک.اس روایت کی بنا پر بد باطن مخالف یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گویا غیر محرم عورتوں سے دبوایا کرتے تھے.سو اس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ خود اس روایت میں ہی مذکور ہے کہ یہ ملازمہ ایک بوڑھی عورت تھی اور اسلام کا یہ مسئلہ سکولوں کے بچے تک جانتے ہیں کہ بوڑھی عورتیں پردہ کی معروف قیود سے آزاد ہوتی ہیں.(سورہ نور تفسیر ابن جریر در منثور و غیره) کیونکہ پردہ کے احکام مرد و عورت کے اختلاط کے امکانی خطرات پر مبنی ہیں مگر ظاہر ہے کہ جس طرح کم عمر لڑکیاں اس خطرہ سے باہر ہیں اسی طرح سن رسیدہ بوڑھی عورتیں بھی پردہ کی قیود سے آزاد رکھی گئی ہیں.پس جب خود روایت کے اندر یہ صراحت موجود ہے کہ یہ عورت بوڑھی تھی تو پھر اعتراض کیسا ؟ علاوہ اس کے روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ یہ بوڑھی ملازمہ رضائی کے اوپر سے دباتی تھی

Page 37

۲۵ مضامین بشیر اور سردی کے زمانہ کی موٹی دلدار رضائی کے ہوتے ہوئے کون عقلمند خیال کر سکتا ہے کہ اس کے ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم کو چھوتے تھے.پس خود روایت کے الفاظ ہی معترض کے اعتراض کو رد کر رہے ہیں.علاوہ اس کے اگر ہمارے مخالفوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ اعتراض ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس حدیث کی کیا تشریح کریں گے کہ :- كَانَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنتِ مِلْحَانَ، وَكَانَتْ تَحْتَ عِبَادَة بُنِ الصَّامِتِ ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا فَاطعَمَتُهُ، وَجَعَلَتْ تَفْلِى رَأسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ....د یعنی مدینہ میں ایک صحابیہ عورت ام حرام عبادہ بن صامت کی بیوی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے تو وہ گھر میں جو کچھ حاضر ہوتا تھا آپ کے کھانے کے لئے پیش کیا کرتی تھیں.چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے حسب طریق کھانا پیش کیا اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر سہلانے لگ گئیں جس طرح کہ ایک جوئیں دیکھنے والی عورت بالوں کو سہلاتی ہے اور اسی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے.“ پس جس طرح یہ نیک بخت بوڑھی صحابیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بالوں کو سہلا سکتی تھیں اور آج تک کسی شریف زادہ نے اس روایت پر اعتراض نہیں کیا اور ہر مسلمان اس حدیث کو پڑھتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے آگے سے گذر جاتا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ شریف زادوں والا سلوک کیوں روا نہیں رکھا جاتا.اور کیوں آپ کے معاملہ میں اپنے خبیث باطن کے آئینہ میں اپنی ہی شکل دیکھ کر اعتراض جما دیا جاتا ہے.سچ ہے کہ المرء بقيس على نفسه یعنی بد انسان اپنی بدفطرتی کی وجہ سے نیک انسان کے متعلق بھی برا خیال ہی دل میں لاتا ہے.اس کے علاوہ کیا ہمارے معترضوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق بائیبل کا یہ حوالہ بھول گیا ہے کہ : - وو دیکھو ایک بد چلن عورت جو اس شہر کی تھی.یہ جان کر کہ مسیح اس فریسی کے گھر کھانا کھانے بیٹھا ہے.سنگ مرمر کی عطر دانی میں عطر لائی اور اس کے پاؤں کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہو کر اس کے پاؤں آنسوؤں سے بھگونے لگی.اور اپنے سر

Page 38

مضامین بشیر ۲۶ کے بالوں سے پونچھے اور اس کے پاؤں بہت چومے اور ان پر عطر ملا “...سواگر حضرت مسیح ناصری کو ایک شہری نوجوان عورت ( کیونکہ بدچلن کا لفظ ظا ہر کرتا ہے کہ وہ کم از کم بوڑھی نہیں تھی.گو یہ ظاہر ہے کہ وہ تو بہ کے خیال سے آئی تھی ) اپنے جسم سے چھو سکتی ہے اور آپ کے ننگے قدموں کو اپنے کھلے ہاتھوں سے خوشبو دار عطر یا تیل مل سکتی ہے اور آپ کے پاؤں کو چوم سکتی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک نیک بوڑھی دیہاتی عورت جو پردہ کی قیود سے آزاد تھی ، موٹی رضائی کے باہر سے کیوں نہیں دبا سکتی.مگر حق یہی ہے کہ خدا کا یہ از لی قانون پورا ہونا تھا كه يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وَنَ چوتھا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ سیرۃ المہدی جلد سوم کی روایت نمبر ۸۶۵ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے کہ آپ نے ایک دفعہ اس شعر کی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے تعریف فرمائی کہ یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے لکھا راس پر یہ تشریحی نوٹ درج ہے کہ شائد اس شعر کے متعلق حضور کی پسندیدگی اس وجہ سے بھی ہوگی کہ آپ اس کے معانی کو اپنے پیش آمدہ حالات پر بھی چسپاں فرماتے ہوں گے اس پر بعض بدفطرت معاندین نے نہائت گندے اور دل آزار رنگ میں یہ طعن کیا ہے کہ نعوذ باللہ اس نوٹ میں حضور کی جوانی کے ایام کی کسی داستان عشق کی طرف اشارہ ہے.اس اعتراض کے جواب میں میں پھر اس قرآنی آیت کی طرف رجوع کرنے کے لئے مجبور ہوں.کہ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ...وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ.ایسے اعتراضوں سے ہمارا تو خدا کے فضل سے کچھ نہیں بگڑ سکتا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاک دامن پر کسی شریف انسان کے نزدیک کوئی دھبہ آ سکتا ہے.لیکن یقیناً اعتراض کرنے والے اپنی گندی فطرت کا اظہار کر کے خود اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی کا بیج بورہے ہیں.روایت کا تشریحی نوٹ بالکل سادہ الفاظ میں ہے اور ہر موٹی سے موٹی سمجھ رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ مسیحیت پر عوام المسلمین نے آپ کے ساتھ تمام تعلقات محبت قطع کر کے آپ کو گو یا اپنی سوسائٹی سے خارج کر دیا تھا.اس لئے آپ اس شعر کے ذریعہ اس حسرت کا اظہار فرماتے ہیں کہ ایک وقت وہ تھا کہ میں ملک کی اسلامی سوسائٹی میں لوگوں کے اندر گو یا محبت سے گھومتا پھرتا تھا.مگر اب یہ حالت ہے کہ مسلمان اپنی نادانی میں مجھ سے کٹ کر الگ ہو گئے ہیں.

Page 39

۲۷ مضامین بشیر اور میں صرف دور سے ہی اپنے تصور میں ان کی سابقہ محبت کے گلی کو چوں کا نظارہ کر سکتا ہوں اور بس.اس لطیف اور بین تشریح کو چھوڑ کر نا پاک اور اوباش لوگوں کی طرح گندی خیال آرائی میں مبتلا ہونا آج کل کے بدنصیب مسلمانوں کا ہی حصہ ہے.افسوس ! افسوس!! یہ وہ امت ہے جو اس زمانہ میں سید ولد آدم حضرت خاتم النبین فخر اولین و آخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہے.فانالله وانا اليه راجعون میں نے یہ مضمون بخار کی حالت میں شروع کیا تھا اور اب بخار کی تکلیف میں اضافہ ہو رہا ہے.اس لئے زیادہ نہیں لکھ سکتا.صرف ایک مختصر سی آخری گزارش پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے عقائد کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصانیف اور مطبوعات پر ہے جو شخص انہیں چھوڑ کر زبانی روایتوں کی بناء پر اعتراض اٹھاتا ہے وہ یقیناً بدنیت ہے.زبانی روایتیں تو ہم نے ان کی کمزوری کا علم رکھنے کے باوجود (اور اس زمانہ میں تو لوگوں کے حافظہ کی کمزوری نے زبانی روایتوں کو اور بھی زیادہ کمزور کر دیا ہے ) بعض زائد ضمنی فوائد کی خاطر جمع کر کے شائع کی ہیں مگر وہ کسی جہت سے بھی ہمارے عقائد کی بنیاد نہیں ہیں.قرآن شریف تو یہاں تک فرماتا ہے کہ خود اس کی اپنی متشابہ آیات کی بناء پر بھی اعتراض کرنا دیانتداری کا شیوہ نہیں.(سورہ ال عمران ) چہ جائیکہ اصل اور مستند بنیادی لٹریچر کو چھوڑ کر زبانی روایتوں کو اعتراض کی بنیاد بنایا جائے.ایسے لوگ یقیناً اس قرآنی وعید کے نیچے آتے ہیں کہ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ.....۱۲۰ وَاخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنُ ( مطبوعہ الفضل ۶ رمئی الفضل ۱۹۴۶ء )

Page 40

مضامین بشیر ۲۸ ہندوستان کی سیاسی الجھن کیا پاکستان کا مطالبہ جائز نہیں؟ اپنے گزشتہ مضمون میں جو الفضل ، مورخہ ۱۸ اپریل میں شائع ہو چکا ہے.میں نے ہندوستان کی موجودہ سیاسی الجھن کے بارے میں بعض خیالات کا اظہار کیا تھا اور پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے متعلق ہر دو قوموں کا نظریہ پیش کر کے بتایا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مطالبات کا ماحصل اور دلائل کا خلاصہ کیا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کے حسن و قبح کے متعلق بعض اشارے کئے تھے اور مسلمانوں کی کمزوری اور مظلومیت کی طرف اہل وطن کو توجہ دلائی تھی.اس کے بعد گو ابھی میرے پاس قریباً تین چوتھائی مضمون کے نوٹ باقی تھے میں نے ایک مصلحت کے ماتحت بقیہ حصہ کو لکھنا ترک کر دیا.لیکن ایک بات جو اس بحث میں خاص اصولی رنگ رکھتی ہے اور گویا سارے فیصلہ کی بنیاد ہے بیان کرنی ضروری ہے اور یہ مضمون اسی اصولی امر کی تشریح کے لئے لکھ رہا ہوں.وانــمــا الاعــمــال بـالـنيــات وماتوفيقى الا بالله وہ اصولی سوال جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کا مطالبہ جائز مطالبہ نہیں ؟ اس سوال کا سیدھا اور صاف جواب تو یہ ہے کہ جب ایک قوم اپنے معاملات میں آزادی اور خود اختیاری کے رستہ پر گامزن ہوتے ہوئے کوئی خاص نظام یا خاص طریق عمل اختیار کرنا چاہے تو دنیا کے ہر معروف اخلاقی قانون کے ماتحت اسے اس کا حق ہے اور کسی دوسرے کو اس کے اس حق میں روک ڈالنے یاسر راہ ہونے کا اختیار نہیں ہوتا.کیونکہ جس طرح طبعاً اور فطرتا ہر شخص اپنے گھر کا مالک ہے اور اس کے گھر کے اندرونی نظم ونسق میں کسی دوسرے کو دخل دینے کا اختیار نہیں.اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ہر قوم اپنے گھر کی آپ مالک ہے اور اسے یہ اختیار ہے کہ اپنے گھریلو معاملات کو جس طرح چاہے چلائے اور اپنے لئے جو نظام پسند کرے.اس پر کار بند ہو.اس کے اس اختیار کو محدود کرنا اور اس کی مرضی کے خلاف اسے کسی دوسری قوم یا دوسری حکومت کی ماتحتی میں رکھنا غلامی کی قسموں میں سے ایک بدترین قسم کی غلامی ہے.جو اپنے نتائج کی وسعت کے لحاظ سے انفرادی غلامی سے بھی بہت زیادہ ظالمانہ اور بہت زیادہ خطر ناک ہے.یہی وجہ ہے کہ

Page 41

۲۹ مضامین بشیر جب فرعون مصر نے حضرت موسیٰ پر یہ احسان جتایا کہ تو ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر پلا ہے تو حضرت موسیٰ نے بے ساختہ جواب دیا کہ ایک دریا میں بہتے ہوئے بچے کو باہر نکال کر پال لینا ایک معمولی قسم کی نیکی ہے.جس پر تجھے اس طرح فخر کرتے ہوئے شرم محسوس ہونی چاہیئے مگر یہ جو تو نے ایک قوم کی قوم کو غلام بنا رکھا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے :- قَالَ أَلَمْ تُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمْرِكَ سِنِينَ...وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَى اَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ......د یعنی فرعون نے موسٹی سے کہا کیا ہم نے تجھے بچپن میں اپنے گھر میں نہیں پالا اور کیا تو نے ہمارے ساتھ رہ کر سالہا سال اپنی زندگی نہیں گزاری...موسی نے کہا تم میری ذات پر یہ چھوٹا سا احسان جتاتے ہومگر اپنے اخلاق کا یہ بھیا نک پہلو بھولے ہوئے ہو کہ تم نے میری ساری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے.“ پس قوموں کا حق خود اختیاری ابتدائی زمانہ سے مسلّم ہے.اور کسی دوسری قوم کو اس حق میں جابرانہ دست اندازی کا اختیار نہیں.لہذا اگر مسلمانوں کی اکثریت اپنے لئے پاکستان پسند کرتی ہے تو محض اس کی یہ خواہش اور اس کا یہ مطالبہ ہی اس کے جواز کی دلیل ہے اور ہندوؤں یا انگریزوں کو اس پر چھیں بچھیں ہونے یا اس میں روڑے اٹکانے کا کوئی حق نہیں.یہ کہنا کہ پاکستان کی سکیم میں یہ نقص ہے یا وہ نقص ہے.یا یہ کہ پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے یا یہ کہ پاکستان کی نسبت فلاں سکیم مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہوسکتی ہے.ایک ہمدردانہ مشورہ کی حیثیت میں تو قابل اعتراض نہیں کیونکہ مشورہ کی صورت میں مشورہ لینے اور دینے والا دونوں سمجھتے ہیں کہ یہ ایک محض ایک مشورہ ہے اور ضروری نہیں کہ وہ بہر صورت قبول کیا جائے اور آخری فیصلہ بہر حال اس قوم کے ہاتھ میں ہوتا ہے، جس نے اپنے گھر کے انتظام کو چلانا ہے مگر اس معاملہ میں مشورہ کی حد سے نکل کر جبر و استبداد کا رنگ اختیار کرنا اور اپنی مرضی کو دوسری قوم کی مرضی پر اس طرح ٹھونسنا جس طرح کہ ایک فاتح اپنے مفتوح پر اور ایک آمر اپنے مامور پر حکم چلاتا ہے یقیناً ایک درجہ ظالمانہ فعل ہے جس کی دنیا کا کوئی ضابطہ اخلاق اجازت نہیں دیتا مگر افسوس ہے کہ آج کل دنیا کی ہر جابر قوم اپنے کمزور ہمسایوں کے ساتھ یہی کھیل کھیل رہی ہے.اور کوئی نہیں پوچھتا.قومی یا انفرادی آزادی فطرت کا اولین اصول ہے اور اس اصول میں صرف اسی قسم کی استثناء جائز ہے جس طرح کہ بعض اوقات ایک آزاد انسان کو اس کے کسی جرم کی وجہ سے وقتی طور پر قید خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے.پس سوائے اس کے کہ ہند وستان کے مسلمان مجرم قرار دئیے جا کر آزادی کے حق سے محروم قرار دئیے جائیں.ان کا حق خود اختیاری کا

Page 42

مضامین بشیر مطالبہ ایک جائز فطری مطالبہ ہے جس کے متعلق دوسرے ایک ہمدرد کی حیثیت سے مخلصانہ مشورہ پیش کرنے کا حق تو بے شک رکھتے ہیں مگر اسے استبدادی رنگ میں رد کر نے کا حق نہیں رکھتے.اس جگہ اوپر کے سوال کا دوسرا پہلو سامنے آتا ہے کہ آیا قوموں کا حق خود اختیاری جسے آج کل کی سیاسی اصطلاح میں رائٹ آف سلف ڈیٹرمینیشن Right of self Determination کہتے ہیں ایک غیر مشروط حق ہے جو ہر صورت میں ہر قوم کو حاصل ہونا چاہیئے یا کہ وہ بعض خاص شرائط اور بعض خاص حالات کے ساتھ مشروط ہے اور صرف اسی صورت میں کسی قوم کو یہی حق حاصل ہوتا ہے جبکہ اس میں یہ خاص شرائط اور یہ خاص حالات پائے جائیں ؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو دراصل اس ساری بحث کی جان ہے.کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی حق بھی خواہ وہ افراد سے تعلق رکھتا ہو یا کہ اقوام سے غیر مشروط طور پر یعنی گردو پیش کے حالات سے آزاد ہو کر محض فلسفیانہ رنگ میں قابل قبول نہیں ہوتا بلکہ جس طرح دنیا میں ہر چیز کو ایک نسبتی حیثیت حاصل ہے اسی طرح قوموں کا حق خود اختیاری بھی غیر مشروط نہیں بلکہ گرد و پیش کے حالات کی روشنی میں نسبتی حیثیت رکھتا ہے.اور سارے حالات کے ساتھ سموئے جانے کے قابل عمل ہوتا ہے وغیرہ ذالک.ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصولاً یہ نظریہ درست ہے مگر اس کا مطلب نہیں کہ گردو پیش کے حالات کو اتنی اہمیت دے دی جائے کہ ان کی وجہ سے کسی قوم کا اصل حق ہی باطل ہو جائے یا یہ کہ گردو پیش کے حالات کو آڑ بنا کر کسی قوم کو اس کے جائز حق سے محروم کر دیا جائے.اگر مسلمانوں کو اس قسم کی وجوہات کی بناء پر ان کے حقوق سے محروم کیا جائے تو یقیناً یہ اسی قسم کا ظلم ہوگا جو آج تک انگریز آمریت ہندوستان کو اس کی آزادی سے محروم رکھنے کے لئے روا رکھتی آئی ہے.دراصل حق آزادی خالق فطرت کی پیدا کردہ موٹر پاور ہے اور گردو پیش کے حالات زیادہ سے زیادہ ایک بریک کی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی عقلمند انسان بر یک کے استعمال کو اس حد تک نہیں پہنچا تا کہ موٹر ایک ناکارہ وجود بن کر ہمیشہ کے لئے کھڑی ہو جائے.موٹر بہر حال چلنے چلانے کے لئے بنی ہے اور بریک کا وجود صرف موٹر کو اپنے رستہ سے اکھڑنے اور دوسرے ٹریفک کے ساتھ ٹکرانے سے بچانے کے لئے مقصود ہے اور جو شخص اس بریک کو موٹر کے ناکارہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے وہ یقیناً یا تو ایک نادان دوست ہے اور یا ایک بدنیت دشمن.اس نظریہ کے ماتحت اگر ہم غور کریں تو قوموں کا حق خود اختیاری پانچ اہم شرطوں کے ساتھ مشروط قرار پاتا ہے.پس جہاں بھی یہ شرطیں پائی جائیں گی وہاں کسی دوسرے بہانہ کی آڑ لے کر کسی قوم کو اس کے حق خود اختیاری سے محروم کرنا ایک ظلم عظیم ہو گا لیکن جہاں یہ شرطیں نہیں پائی جائیں گی وہاں کسی قوم کا حق خود اختیاری کا مطالبہ کرنا بھی جائز نہیں سمجھا جائے گا.بلکہ اس صورت میں اس قوم کا فرض ہوگا کہ اپنی ہمسایہ قوموں کے ساتھ مل کر کوئی

Page 43

۳۱ مضامین بشیر مشترک اتحادی نظام قائم کرے یہ پانچ شرطیں جیسا کہ حق وانصاف کا تقاضا ہے یہ ہیں : - اوّل : مذہب کا اختلاف : ظاہر ہے کہ مذہب افراد اور قوموں کی زندگی پر بھاری اثر رکھتا ہے اور خصوصاً مشرقی ممالک میں تو اسے وہ حیثیت حاصل ہے جسے موجودہ زمانہ کے مغربی قوموں کے لوگ غالباً خیال میں بھی نہیں لا سکتے.پس دوالگ الگ مذہب رکھنے والی قوموں کا ایک نظام میں منسلک ہونا یقیناً اپنے اندر ٹکراؤ کے بہت سے خطرات رکھتا ہے مگر یا درکھنا چاہیئے کہ مذہب کے اختلاف سے محض کسی ضمنی عقیدہ کا اختلاف مراد نہیں بلکہ سیاسی میدان میں صرف وہی مذہبی اختلاف مؤثر سمجھا جا سکتا ہے جو بنیادی امور پر مشتمل ہو اور موٹے طور پر یہ بنیادی امور دو ہیں یعنی الف.بائی مذہب کا مختلف ہونا اور ب.مذہبی کتاب کا مختلف ہونا.پس وہی قوم دوسری قوموں سے الگ ہونے کی حقدار سمجھی جائی گی جس کا مذہبی بانی دوسری قوموں کے مذہبی بانیوں سے اور جس کی مقدس کتاب ” دوسری قوموں کی مقدس کتابوں سے جدا ہے کیونکہ یہ امور ایسے ہیں جن کے متعلق قوموں کا اختلاف نہایت وسیع اور گہرے اثرات رکھتا ہے.دوم.تہذیب و تمدن کا اختلاف : یہ اختلاف بھی مذہبی عقائد کے اختلاف کی طرح بہت وسیع الاثر ہے اور جہاں یہ اختلاف موجود ہوں وہاں دو قوموں میں کامل اتحاد کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی دراصل جس طرح ایک لوہے کا ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کے ساتھ پیوست اور ایک جان ہونے کے لئے اس بات کو چاہتا ہے کہ یہ دونوں ٹکڑے نہ صرف ایک قسم کے لوہے کے ہوں بلکہ دونوں کا درجہ حرارت بھی اپنے کمال میں ایک جیسا ہو.اسی طرح قوموں کا باہمی اتصال و اتحاد بھی تہذیب کی یکسانیت کا متقاضی ہے اور وہ ملک کبھی بھی اتحاد کی برکتوں سے مستفید نہیں ہو سکتا جس میں دوقو میں مختلف و متضاد تہذیب و تمدن رکھنے والی پائی جائیں.سوم.قوموں کی ضروریات کا جدا جدا ہونا : ظاہر ہے کہ اگر ایک قوم کی ضروریات دوسری قوم سے جدا اور مختلف ہیں تو پھر جب تک اس قوم کے لئے کوئی اپنا علیحدہ نظام قائم نہ کیا جائے جو اس کی ضروریات کو بصورت احسن پورا کر سکتا ہو اس وقت تک یہ قوم کبھی بھی دوسری قوم کے سایہ میں پل کر ترقی نہیں کر سکتی.چہارم.کسی قوم کا کسی علیحدہ ملک یا ملک کے کسی علیحدہ اور معین اور معقول حصہ میں بصورت اکثریت آباد ہونا.بعض اوقات ایک ملک میں دو جدا جدا قو میں آباد ہوتی ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملی جلی صورت میں آباد ہوتی ہیں کہ الگ الگ مذہب اور الگ الگ تہذیب و تمدن رکھنے کے باوجود ان کے لئے علیحدہ علیحدہ نظام حکومت کا قیام ناممکن ہوتا ہے.اور اس صورت میں

Page 44

مضامین بشیر ۳۲ ان کی حکومتوں کو جدا کرنا کسی قوم کے لئے بھی فائدہ کا موجب نہیں ہوتا بلکہ فتنہ وفساد اور ٹکراؤ کے موقعوں کو بڑھا دیتا ہے پس حق خود اختیاری Right of self Detemination کے استعمال کے لئے یہ بھی ایک ضروری شرط ہے کہ جو قوم اس کی مدعی بنتی ہے وہ کسی علیحدہ ملک میں یا ملک کے کسی علیحدہ اور معین اور معقول حصہ میں نمایاں اکثریت کے رنگ میں آباد ہو.پنجم.مندرجہ بالا شرطوں کے علاوہ یہ شرط بھی ضروری ہے کہ قوم کی اکثریت میں اس بات کی خواہش اور مطالبہ پا یا جائے کہ ہمارا نظام جدا ہونا چاہیئے.یہ شرط اس لئے ضروری ہے کہ اگر با وجود مذہبی اور تمدنی اختلاف کے ایک قوم اپنے مخصوص حالات کے ماتحت اپنی ہمسایہ قوموں کے ساتھ مل کر ایک ہی نظام میں منسلک رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک مبارک خواہش ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسی قوم کو خواہ نخواہ مجبور کر کے علیحدہ کیا جائے اس کے مقابل پر جب ایک قوم کی اکثریت میں علیحدگی کی خواہش موجود ہو تو اسے مجبور کر کے کسی دوسری قوم کے ساتھ اکٹھا رکھنا بھی ایک بھاری ظلم ہے.کیونکہ انصاف اور حق خود اختیاری کا تقاضا ہے کہ اسے علیحدہ ترقی کا موقعہ دیا جائے.یہ وہ پانچ اصولی باتیں ہیں جن کے جمع ہونے پر ایک قوم کو عقل وانصاف کی رو سے حق خود اختیاری حاصل ہو جاتا ہے اور اسکے بعد اسے اس حق سے محروم کرنا ویسی ہی جابرانہ آمریت ہے جیسی کہ یورپ والے مشرقی ممالک پر روا ر کھنے کے عادی ہیں.یہ کہنا کہ فلاں حصہ ملک الگ ہو کر اپنی حکومت کو آزادانہ رنگ میں نہیں چلا سکے گا.یا یہ کہنا اس طرح وہ دوسری زبر دست قوموں کا شکار بن جائے گا یا یہ کہ اس کی اقتصادی مشیری بگڑ کر تباہ ہو جائے گی یا یہ کہ وہ ملک کے دوسرے حصوں پر جس میں خود اس کے اپنے بھائی بند آباد ہیں اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھے گا اپنے اندر ناصحانہ انداز تو ضرور رکھتا ہے اور اس جہت سے کسی قوم کو انکار نہیں ہونا چاہیئے مگر ان باتوں کی وجہ سے کسی قوم کی خواہش اور مطالبہ کو رد کر کے اسے ایک خلاف مرضی نظام کی ماتحتی قبول کرنے پر مجبور کرنا ہر گز انصاف کا شیوہ نہیں آخر جب ہند و کو انگریز کی غلامی سے آزاد ہونے کا حق ہے تو مسلمان کو ہندو کی غلامی سے آزاد ہونے کا حق کیوں نہیں ؟ اور جب ہندو انگریز سے یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ تمہارے خیال میں تمہاری حکومت ہمارے لئے ایک بھاری رحمت ہی سہی مگر بہر حال ہم اسے اب اپنے لئے اچھا نہیں سمجھتے.اور اپنے ملک میں اپنے رنگ کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو مسلمان کیوں اسی دلیل کی بناء پر علیحدہ نظام قائم نہیں کر سکتا ؟ انصاف کا فطری تراز و بہر حال سب انسانوں کے لئے ایک ہے تو پھر ایسا کیوں ہو کہ ہندو کے لئے انگریز کے ساتھ معاملہ کرنے کا ترازو اور ہو اور مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے اور؟ ہاں اگر مسلمان ہندوستان کے کسی معین حصہ میں علیحدہ طور پر اکثریت کی صورت میں آباد نہ

Page 45

۳۳ مضامین بشیر ہوتے یا ان کا مذہب و تمدن ہندوؤں کے مذہب اور تمدن سے الگ نہ ہوتا یا ان کی قومی ضروریات ہندوؤں کی قومی ضروریات سے جدا نہ ہوتیں.یا با وجود ان ساری باتوں کے ان میں علیحدگی کی خواہش نہ ہوتی تو پھر بے شک ہندوؤں کا اکھنڈ ہندوستان کا مطالبہ جائز اور درست تھا.لیکن جب کہ حق خود اختیاری کی ساری شرائط موجود ہیں تو پھر مسلمانوں کو اس حق سے محروم کرنا نہ صرف قرین انصاف نہیں بلکہ ملک میں ایسے فتنہ کے بیج بونے کے مترادف ہے کہ جو آئندہ چل کر انگریز آمریت سے بھی زیادہ بھیانک صورت اختیار کر سکتا ہے.پس موجودہ حالات میں ہندوؤں کے لئے صرف ایک ہی معقول اور منصفانہ راستہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ وہ دل کی سچی تبدیلی ثابت کر کے مسلمانوں کو ایسی پختہ اور مستقل مراعات اور ایسے یقینی تحفظات دے دیں کہ ان کے دل میں علیحدگی کی خواہش خود بخود مدھم پڑ جائے.اور وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایک مشترک نظام میں رہنے کے لئے تیار ہو جا ئیں اور یہ صورت ہرگز ناممکن نہیں.مسلمان طبعا فیاض دل ہے اور ” بھول جاؤ اور معاف کر دو کے اصول کی طرف بہت جلد کھینچا جا سکتا ہے.پس جو بات جبر سے حاصل نہیں ہو سکتی اسے محبت کی زنجیروں سے کھینچ لو.کیونکہ محبت کی قوت جبر کی طاقت سے بہت زیادہ دائمی ہے.اور دوستی کی کشش دشمنی کے دباؤ سے کہیں زیادہ زور دار.مگر یاد رکھو کہ اصولاً قربانی دکھانا ہندوؤں کے ذمہ ہے کیونکہ ہندوستان میں ان کی اکثریت ہے اور دولت و تعلیم میں بھی وہ مسلمانوں سے بہت آگے ہیں.پس اگر وہ فراخ دلی کے ساتھ مسلمانوں کو اب بھی صوبوں میں مکمل اور حقیقی خود مختاری دیں اور مرکز میں بھی ان کے لئے برابری کے حقوق اور پختہ تحفظات محفوظ کر دیئے جائیں تو اس طرح مسلمان کا پاکستان کا مطالبہ قریباً قریباً پورا ہو جاتا ہے.اور ہندو بھی اکھنڈ ہندوستان کے خواب سے محروم نہیں رہتا اور ملک کی شان بھی قائم رہتی ہے.کاش ایسا ہو سکے.اے کاش ایسا ہو سکے اور نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ ہندوستان ایک خطر ناک جنگ کی آگ سے نکل کر دوسری خطرناک جنگ کی آگ میں جاگرے گا اور نہ پاکستان باقی رہے گا اور نہ اکھنڈ ہندوستان.بس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ باقی تفاصیل کا بیان کرنا موجودہ حالات میں انتشار کا موجب ہو سکتا ہے جو اس وقت مناسب نہیں.( مطبوعه الفضل ۱۳ رمئی ۱۹۴۶ء )

Page 46

مضامین بشیر ۳۴ دل کا حلیم یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ہر ہستی کا کلام اس کے علم اور اس کی شان کے مطابق ہوتا ہے.چنانچہ جہاں ایک عام انسان کا کلام اپنے سطحی معنوں کے اندر محدود ہوتا ہے اور اس میں کوئی گہرائی نہیں پائی جاتی جس میں سننے والے کو غوطہ لگانے کی ضرورت پیش آئے.وہاں ایک عالی مرتبہ عالم یا مدبر کا کلام اپنے اندر بہت سی گہرائیاں رکھتا ہے.جن تک پہونچنے کے لئے کافی غور وخوض کی ضرورت ہوتی ہے.ورنہ انسان ایسے کلام کے صحیح مفہوم کو نہیں سمجھ سکتا اور اس کے بہت سے لطیف پہلو نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں.اسی طرح جہاں ایک عام انسان کے کلام میں کئی الفاظ زائد پائے جاتے ہیں ، جو وہ جہالت یا بے احتیاطی کی وجہ سے یا غیر محسوس تکرار کے رنگ میں یا بسا اوقات محض عبارت کی ظاہری خوبصورتی کی غرض سے استعمال کرتا ہے.حالانکہ ان کے استعمال سے الفاظ کے معنوی حسن میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اغلاق اور پیچیدگی کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے.وہاں ایک اعلیٰ درجہ کا عالم یا مد بر انسان ہر لفظ سوچ کر استعمال کرتا ہے اور اپنے کلام میں حتی الوسع کسی ایسے لفظ کو راہ نہیں دیتا جو زائد یا غیر ضروری یا معانی میں پیچیدگی پیدا کرنے والا ہو.پس جب مختلف طبقوں کے انسانوں کے کلام میں یہ فرق پایا جاتا ہے تو عالم الغیب خدا اور اس کی پیدا کردہ ناقص العلم مخلوق کے کلام میں تو یہ فرق بہت زیادہ نمایاں صورت میں پایا جانا چاہیئے.بلکہ حق یہ ہے کہ جہاں مختلف انسانوں کے کلام میں صرف درجہ کا فرق ہوتا ہے وہاں خدا اور انسان کے کلام میں محض درجہ کا ہی فرق نہیں ہوتا بلکہ دراصل خدا کا کلام اپنی نوعیت اور اپنی حقیقت میں انسانی کلام سے بالکل جدا اور نرالا ہوتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اس کے کلام میں کوئی حصہ زائد اور غیر ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر لفظ اور ہر حرف اور ہر حرکت اپنے اندر ایک خاص حقیقت اور خاص غرض و غایت رکھتی ہے.اس شاندار خصوصیت کا نظارہ قرآن شریف کے اوراق میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا خاص الخاص کلام ہے جو اس کی کامل اور ابدی شریعت کا حامل بن کر نازل ہوا ہے.مگر خدائی کلام کی یہ خصوصیت قرآنی وحی تک ہی محدود نہیں بلکہ کم و بیش ہر الہام الہی میں نظر آتی ہے اور میں ذیل کی سطور میں ایک اسی قسم کی خصوصیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک دوست نے کہا کہ حضرت امیر المومنین خلیفه لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی

Page 47

۳۵ مضامین بشیر بنصرہ العزیز بسا اوقات اپنے ماتحت کارکنوں پر ایسی سخت گرفت فرماتے ہیں کہ جو بظاہر انتہائی درشتی کا رنگ رکھتی ہے.حالانکہ آپ صرف خلیفہ وقت ہی نہیں بلکہ مصلح موعود بھی ہیں اور حسن واحسان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نظیر بھی.میں نے اس وقت لمبی بحث سے احتراز کرنے کے لئے سرسری طور پر جواب دیا کہ امام کو بعض اوقات مفا د سلسلہ کے ماتحت سختی بھی کرنی پڑتی ہے اور اس کے برداشت کرنے میں ہی جماعت کے لئے برکت ہے.اس دوست نے کہا کہ کبھی کبھا ریختی کا رنگ پیدا ہو جانا اور بات ہے مگر یہاں تو کثرت کے ساتھ یہی صورت نظر آتی ہے اور بعض اوقات تو انتہائی سختی کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں کبھی نہیں پایا گیا.میں نے کہا تو پھر بھی کوئی حرج نہیں.کیونکہ حضرت عمر کے متعلق بھی یہی اعتراض پیدا ہو ا تھا.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ اعتراض کبھی نہیں ہوا.علاوہ ازیں سخت گیری کی پالیسی تو ایک طرح سے مصلح موعود کی نشانی ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں میں صاف آتا ہے کہ وہ یعنی مصلح موعود ” جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.پس گھبراؤ نہیں اور اپنے دل کو ذرا کڑا کر کے رکھو کیونکہ یہ ” جلالِ الہی خدائی منشاء کے مطابق ہے اور جماعت کی بہتری کے لئے ہے.اس پر یہ دوست بولے کہ میں خدا کے فضل سے منافق نہیں اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ سے دلی عقیدت اور اخلاص رکھتا ہوں مگر صرف تشریح اور تسلی کے خیال سے پوچھتا ہوں کہ مصلح موعود کے متعلق حلیم کا لفظ بھی تو آیا ہے اور بظاہر یہ تختی حلم و بردباری کے طریق کے خلاف نظر آتی ہے.اس اعتراض پر میں ایک سیکنڈ کے لئے رکا مگر قبل اس کے کہ اس دوست نے میرے رکنے کو محسوس کیا ہو.خدا تعالیٰ نے اچانک میرے دل میں ایک خیال ڈالا اور میں نے اس دوست سے تجاہل کے رنگ میں پوچھا کہ مصلح موعود کو حلیم کس الہام میں کہا گیا ہے؟ مجھے تو کوئی ایسا حوالہ یاد نہیں.یہ دوست غالباً اس خیال سے کہ بس اب میں نے میدان مار لیا فوراً بولے کہ وہ جو فروری ۱۸۸۶ ء کی وحی میں آتا ہے کہ وہ سخت ذہین و نہیم ہوگا اور دل کا حلیم اس میں مصلح موعود کے متعلق صاف طور پر حلیم“ کا لفظ بولا گیا ہے.اور حلیم کے معنی چشم پوشی اور درگزر کرنے والے کے ہیں.میں نے کہا بس آپ کی بحث ختم ہو چکی ہے اب میری سنو کہ یہاں ” دل کا حلیم کہا گیا ہے نہ کہ صرف حلیم“ اور ان دونوں کے مفہوم میں بھاری فرق ہے.کیا وہ خدا جس نے قرآن شریف میں حضرت ابراہیم کے متعلق حلیم کا لفظ استعمال فرمایا اور پھر ان کے صاحبزادہ حضرت اسمعیل کو بھی اسی لقب سے یاد کیا.وہ مصلح موعود کے متعلق خالی حلیم کا لفظ استعمال نہیں کر سکتا تھا.پس جب خدائے علیم نے حلیم کے سادہ اور مختصر لفظ کو ترک کر کے اس کی جگہ " دل کا حلیم" کا مرکب اور طولانی محاورہ اختیار فرمایا تو یقیناً یہ استعمال بے وجہ نہیں ہوسکتا." 6 ۲۳ ۲۲

Page 48

مضامین بشیر ۳۶ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی لفظ زائد اور بے معنی نہیں ہوا کرتا.اس مختصر تشریح سے ہمارے اس دوست کی ( جو خدا کے فضل سے مخلص بھی تھے اور ذہین بھی ) گویا آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے نہائت درجہ شکریہ کے رنگ میں کہا کہ آپ نے مجھے ایک بھاری خلجان سے بچالیا ہے.دراصل جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے جو مصلح موعود کے متعلق ” دل کا حلیم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں، یہ اپنے اندر ایک نہائت گہری صداقت رکھتے ہیں.کیونکہ ان الفاظ میں یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو مصلح موعود اپنے قلبی جذبات میں حلیم ہو گا.مگر اس کے ظاہر میں جلال اور درشتی کا رنگ پایا جائے گا.اس لئے اس کے متعلق صرف حلیم“ کی مفرد صفت کا اطلاق درست نہیں ہو گا.بلکہ دل کے حلیم کی مرکب صفت ہی اس کے فطری خلق کی آئینہ دار ہو سکے گی.کیونکہ گو اس کے ظاہر میں جلال رکھا گیا ہے مگر اس کے قلب کی گہرائیوں میں حلم و بردباری کا بسیرا ہے.یہی وہ حقیقی تشریح ہے جو مصلح موعود والی وحی کے گہرے مطالعہ سے ثابت ہوتی ہے.اور جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض نا واقف لوگ پریشان ہونے لگتے ہیں.حالانکہ اگر غور کیا جائے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زندگی کے انتظامی پہلو کا جومختصر مگر مکمل نقشہ ان تین الفاظ میں کھینچا گیا ہے اس سے زیادہ صحیح تصویر ممکن نہیں ہو سکتی.مگر افسوس کہ اکثر لوگ تدبر کی عادت نہیں رکھتے.در حقیقت بات یہ ہے کہ قوموں کی تربیت اور ترقی کے لئے جلال اور جمال دونوں ضروری ہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ کی یہ قدیم سنت ہے کہ وہ کسی نبی میں جلال کے پہلو کو غلبہ دے دیتا ہے اور کسی میں جمال کے پہلو کو اور کسی میں جہاں وقتی ضروریات ایک مرکب صفت والے مصلح کی متقاضی ہوتی ہیں، کسی ایسے انسان کو مبعوث فرماتا ہے جو جلال و جمال دونوں کا مظہر ہوتا ہے.یعنی اگر اس کا ظاہر جلال کی صفت پر قائم ہوتا ہے تو اس کا باطن جمال کی صفت کا حامل اور یہی ابدی فلسفہ خلفاء کے سلسلہ میں بھی کام کرتا ہو ا نظر آتا ہے.لیکن یہ ایک لمبا مضمون ہے اور میں انشاء اللہ اس موضوع پر عنقریب ایک علیحدہ مضمون لکھوں گا.وما توفيقى الا بالله العظيم نوٹ : - چونکہ اس گفتگو پر کچھ عرصہ گزر چکا ہے اس لیئے ممکن ہے کہ بعض الفاظ کم و بیش ہو گئے ہوں اور بعض میں نے تشریح کے خیال سے دانستہ کم و بیش کیئے ہیں.( مطبوعہ الفضل ۴ ۱ جون ۱۹۴۶ء)

Page 49

۳۷ مضامین بشیر تعلیم الاسلام کالج قادیان کا پہلا نتیجہ اس سال ہمارے تعلیم الاسلام کالج قادیان کی طرف سے پہلی دفعہ ایف.اے اور ایف ایس سی کے امتحانوں میں طلباء شریک ہوئے تھے اور کمپارٹمنٹ والے امیدواروں کو شامل کرتے ہوئے خدا کے فضل سے ۵۹ میں سے اس طلباء کامیاب ہوئے ہیں اور ایک طالب علم نذیر احمد ۴۹۳ نمبر لے کر پنجاب بھر کے مسلمان امیدواروں میں سوم نکلا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ غالبا وہ وظیفہ حاصل کرے گا.ابتدائی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ یو نیورسٹی کے اعلان کے مطابق اس سال ایف.ابے اور ایف.ایس سی کا نتیجہ گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ سخت رہا ہے.ہمارا نتیجہ خدا کے فضل سے آئندہ بہت بہتر نتائج کی امید پیدا کرتا ہے.احباب کو چاہیئے کہ تھرڈ ائر میں جو اس سال ستمبر کے آخر میں کھل رہی ہے زیادہ سے زیادہ طلباء داخل کر کے اس اہم قومی درسگاہ کی ترقی میں حصہ لیں.خاکسار مرزا بشیر احمد صدرتعلیم الاسلام کالج سب کمیٹی ( مطبوعہ الفضل ۱۱؍ جولائی ۱۹۴۶ء)

Page 50

مضامین بشیر ۳۸ موجودہ سیاسی الجھن کو سلجھانے کے لئے حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی مساعی جمیلہ دہلی.یکم اکتوبر (بذریعہ ڈاک ) گو جیسا کہ الفضل‘ میں اعلان کیا جا چکا ہے.حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی غرض موجودہ سفر دہلی میں ملک کے سیاسی حالات کا مطالعہ تھی اور خیال یہ تھا کہ حضور دہلی میں چند دن قیام رکھ کر اپنے نمائندوں کے ذریعہ سیاسی لیڈروں کے خیالات معلوم کرنے کی کوشش فرمائیں گے.تا کہ ان کی روشنی میں جماعت کی طرف سے ملک کی بہتری کے لئے کوئی قدم اٹھایا جا سکے مگر دتی پہنچنے پر ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ خود حضور نے بعض سیاسی لیڈروں سے ملنا اور براہ راست تبادلۂ خیالات کرنا ضروری خیال فرمایا.چنانچہ اس وقت تک بعض دوسری ملاقاتوں کے علاوہ حضور مسٹر جناح صدر مسلم لیگ اور مولانا ابوالکلام آزاد اور مسٹر گاندھی سے ملاقات فرما چکے ہیں اور حضور کی طرف سے حضور کے نمائندگان نے جو ملاقاتیں کی ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں.اس وقت ان ملاقاتوں کی تفصیل لکھنا مناسب نہیں مگر احباب کو دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ نازک وقت میں جو حقیقتا بے حد نازک ہے.مسلمانوں اور ہندوؤں اور دیگر اقوامِ ہند کی ایسے رستہ کی طرف رہنمائی فرمائے جو ملک کی بہبودی اور ترقی کے لئے مفید اور ضروری ہو.( مطبوعه الفضل ۳ /اکتوبر ۱۹۴۶ء)

Page 51

۳۹ مضامین بشیر حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی دہلی میں ۳۱ اکتوبر (بذریعہ ڈاک ) دہلی میں موجود سیاسی الجھن کو سلجھانے کے لئے حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مساعی کا مختصر ذکر گذشتہ رپورٹ میں گذر چکا ہے.اس کے بعد حضور کی ملاقات نواب صاحب بھوپال چانسلر و چیمبر آف پرنسز سے ہو چکی ہے، جو یہاں موجودہ سیاسی حالات کے تعلق میں تشریف لائے ہوئے ہیں.علاوہ ازیں ایک دعوت کے موقع پر سر ناظم الدین صاحب آف بنگال اور سردار عبدالرب صاحب نشتر آف سرحد کی بھی حضور سے ملاقات ہوئی ہے.موجودہ سیاسی حالات بڑی سرعت کے ساتھ کسی نہ کسی نتیجہ خیز صورت کی طرف قدم بڑھا ، رہے ہیں.اس لئے احباب کو دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے.آج حضور نے سابقہ اعلان کے مطابق اکتوبر کے مہینہ کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھا.ہز ہائی نس سر آغا خاں صاحب نے یورپ سے بذریعہ تار حضور کی موجودہ مساعی کے ساتھ ہمدردی اور اتحاد کا اظہار کیا ہے.( مطبوعه الفضل ۵/اکتوبر ۱۹۴۶ء)

Page 52

مضامین بشیر دہلی میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی مساعی ۱۵ اکتوبر (بذریعہ ڈاک ) حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ نے ایک چٹھی ہزایکسلنسی وائسرائے کے نام بھجوائی ہے کہ گو جماعت احمد یہ ایک تبلیغی جماعت ہونے کی وجہ سے من حیث الجماعت لیگ میں شامل نہیں مگر موجودہ سیاسی بحران میں اس کی اصولی ہمدردی تمام تر لیگ کے ساتھ ہے اور ایک دوسری چٹھی میں حضور نے وائسرائے پر واضح فرمایا ہے کہ اگر خدانخواستہ موجودہ گفت وشنید نا کام ہوتی نظر آئے.( گو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت کامیابی کی امید غالب ہے ) تو مایوس ہو کر اسے ناکام قرار دینے کی بجائے التواء کی صورت قرار دی جائے.تاکہ اس عرصہ میں لیڈر بھی مزید غور کر سکیں اور پلک ( خصوصاً آزاد پبلک ) کو بھی اپنا اثر ڈالنے کا موقع مل سکے مگر اس صورت میں ضروری ہوگا کہ جس نکتہ پر نا کامی ہو رہی ہو ، اسے پبلک کے علم کے لئے ظاہر کیا جائے.اسی مضمون کی وضاحت کے لئے حضور کی طرف سے دردصاحب ہر ایسلنسی وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری سے بھی مل چکے ہیں.حضور کی طرف سے چودھری اسد اللہ خاں صاحب اور درد صاحب اور صوفی عبدالقدیر صاحب نواب زادہ لیاقت علی خاں صاحب اور سر سلطان احمد صاحب اور نواب صاحب چھتاری اور سر فیروز خاں صاحب سے بھی ملے ہیں.مؤخر الذکر صاحب حضور سے ملنے کے لئے بھی آئے تھے مگر حضور جمعہ کے لئے باہر تشریف لے گئے ہوئے تھے.خان بہادر علی قلی خاں صاحب سابق پولیٹیکل ایجنٹ صوبہ سرحد حضور کی ملاقات کے لئے آئے اور نواب صاحب چھتاری سابق گورنر یو.پی نے علی گڑھ سے ایک تار کے ذریعہ حضور کی مساعی کے ساتھ ہمدردی اور اتحاد کا اظہار کیا.بعض پر لیس کے نمائندے (چیف رپورٹر اخبار ڈان اور ڈائرکٹرز اور پینٹ پر لیس اور سری کرشن صاحب نمائندہ اندرا پتر کا وغیرہ ) بھی حضور سے ملاقات کر چکے ہیں اور حضور کی طرف سے صوفی عبد القدیر صاحب نے بعض امریکن اور انگریزی اخباروں کے نمائندوں سے ملاقات کر کے مسلمانانِ ہند کا نقطۂ نظر واضح کیا.( مطبوعہ الفضل ۷ /اکتوبر ۱۹۴۶ء)

Page 53

مضامین بشیر حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی ایدہ اللہ تعالی دہلی میں دہلی ۹ را کتوبر ( بذریعہ ڈاک ) مسلم لیگ اور کانگرس کا متوقع سمجھوتہ تکمیل کے قریب پہنچ گیا ہے مگر ابھی بعض تفصیلات میں گفتگو کا سلسلہ جاری ہے.دعا کرنی چاہئے کہ آخری مرحلہ پر کوئی روک نہ پیدا ہوا ور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی سعی اور روحانی توجہ ہند و مسلمانوں کے لئے ایک مستقل اور با برکت نتیجہ پیدا کرنے کا باعث بن جائے آمین.آج کچھ رپورٹیں خلاف بھی آرہی ہیں اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو.عرصہ زیر رپورٹ میں سر فیروز خاں صاحب نون سابق ڈیفنس ممبر گورنمنٹ آف انڈیا اور نواب سر احمد سعید خاں صاحب آف چھتاری سابق گورنر یو.پی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور مولانا ابوالکلام صاحب آزاد کے ساتھ بھی حضور کی دوسری ملاقات ہوئی نیز حضور نے ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ مسٹر جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ کو آئندہ کے متعلق بعض مفید تجاویز کی طرف توجہ دلائی.چونکہ حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کا آبائی وطن دتی ہے اس لئے حضرت امیر المومنین ایده اللہ تعالیٰ حضرت اماں جان کے بعض جدی عزیزوں کی ملاقات کیلئے دتی کے قدیم محلہ کو چہ چیلاں میں تشریف لے گئے.اور اس موقعہ پر دلی کے مشہور صوفی بزرگ اور حضرت اماں جان کے جد امجد حضرت خواجہ میر درد صاحب کا حجرہ بھی دیکھا حضرت خواجہ میر درد صاحب کا وسیع اثر اس سے ظاہر ہے کہ قریباً پونے دوسو سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود گورنمنٹ آف انڈیا نے نئی دہلی کی ایک سڑک کا نام میر در دروڈ رکھا ہے.کل شام کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے لنڈن کے دو مشہور روزانہ اخباروں کے انگریز نمائندے جو د تی میں مقیم ہیں حضور کی فرودگاہ میں تشریف لائے اور مختلف قسم کے سوالات کرتے رہے.دلی کے عریبک کالج (جس میں ایم.اے تک تعلیم دی جاتی ہے ) کے چار

Page 54

مضامین بشیر ۴۲ پروفیسر بھی حضور کی ملاقات سے مشرف ہوئے اور ایک دعوت کے موقع پر دتی کے بعض چوٹی کے مسلمان تاجروں اور دوسرے معززین کی بھی حضور سے ملاقات ہوئی.دتی کی اہمیت اور مرکزی حیثیت کی وجہ سے حضور کو خیال ہے کہ یہاں ایک مضبوط جماعتی مرکز قائم کیا جائے.( مطبوعہ الفضل ۱۱ را کتوبر ۱۹۴۶ء)

Page 55

۴۳ مضامین بشیر حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کی مساعی وتی میں ار اکتوبر (بذریعہ ڈاک) کوٹھی نمبر ۸ یارک روڈ نئی دہلی کے وسیع صحن میں بدھ کی شام کو ساڑھے پانچ بجے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک پبلک تقریر ہوئی ، جس میں دعوتی رقعوں کے ذریعہ معززین کو مدعو کیا گیا تھا.باوجود اس کے کہ تقریر کا وقت مناسب نہیں تھا کیونکہ ملازم پیشہ لوگوں کو دفتر سے فارغ ہوتے ہی آنا پڑتا تھا زائد از چھ سو غیر احمدی اور غیر مسلم معززین تشریف لائے اور آخر وقت تک بیٹھ کر نہایت سکون اور توجہ کے ساتھ حضور کی تقریر کو سنا.احمدی سامعین اس تعداد کے علاوہ تھے.تقریر کے اختتام پر جو نماز کا وقت ہو جانے پر جلد ختم کر دینی پڑی ، بعض غیر احمدی معززین یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ افسوس ہے کہ وقت تنگ ہونے کی وجہ سے تقریر کا مضمون جو نہایت علمی اور دلچسپ تھا ختم نہیں ہو سکا.جیسا کہ پہلے اعلان ہو چکا ہے تقریر کا موضوع یہ تھا کہ ”دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے.نماز کے بعد نیز دوسرے دن بعض معززین نے تقریر سے متعلقہ مضمون پر حضور سے بعض سوالات کئے اور تسلی پا کر واپس گئے.۱۹۴۴ء کی تقریر کے مقابلہ پر جبکہ بعض دتی والوں نے اتنا ہنگامہ برپا کیا تھا.۱۹۴۶ء کی تقریر نے ثابت کر دیا کہ اب خدا کے فضل سے اہل دہلی کے قفل کھلنے شروع ہو گئے ہیں.مسلم لیگ اور کانگرس کی سیاسی گفت وشنید کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور چھوٹے چھوٹے سوالات اٹھ کر آخری مفاہمت کو التوا میں ڈال رہے ہیں.خیال کیا جاتا ہے کہ مسٹر گاندھی نے اس سوال کے متعلق ایک فارمولا پیش کیا تھا کہ کانگریس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ لیگ جمہور مسلمانانِ ہند کی نمائندہ جماعت ہے مگر کانگرس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کانگرسی مسلمانوں میں سے کسی کو اپنا نمائندہ بنائے.مسٹر جناح نے اس فارمولا کو منظور کر لیا تھا مگر کانگرس کے بعض ارباب حل و عقد اس پر معترض ہیں.امید کی جاتی ہے کہ اگر کوئی خاص روک نہ پیدا ہوگئی یا موجودہ روک نے زیادہ سخت صورت نہ اختیار کر لی تو دو تین دن میں مفاہمت کی صورت پیدا ہو جائے گی.احباب کو دعا کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیئے.جمعرات کی صبح کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور پنڈت نہر وصاحب کی ملاقات ہوئی.حضور کا احساس ہے کہ نہر وصاحب کچھ مشوش نظر آتے تھے اس لئے گفتگو زیادہ مفصل نہیں ہوسکی.ایک خط کے ذریعہ حضور نے ہز ہائینس نواب صاحب بھوپال کی مساعی کی تعریف فرمائی ہے اور

Page 56

مضامین بشیر ۴۴ انہیں تحریک کی ہے کہ درمیانی روکوں کی وجہ سے دل برداشتہ نہ ہوں اور اپنی مخلصانہ مساعی کو جاری رکھیں ، جس میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں.حضور نے نیورمبرگ کے فیصلہ پر اپنے لندن کے دارالتبلیغ کو تار دیا تھا کہ حکومت سے درخواست کر کے اس بات کی کوشش کریں کہ جن جرمن لیڈروں کو موت کی سزا کا حکم ہوا ہے ان سے ملاقات کی اجازت مل جائے اور پھر اجازت ملنے پر ان کے سامنے اسلام پیش کریں ، تا مرنے سے پہلے ان کی روحوں کو ابدی سلامتی حاصل ہو سکے ، مگر افسوس ہے کہ امریکن حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی.( مطبوعه الفضل ۱۴ / اکتوبر ۱۹۴۶ء)

Page 57

۴۵ مضامین بشیر سیدہ ام طاہر مرحومہ کی بڑی بچی کی شادی اور مسرت و غم کے مخلوط جذبات پرسوں بروز اتوار بتاریخ ۱۰ / اکتوبر ۱۹۴۶ء حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی صاحبزادی اور ہمشیرہ سیدہ ام طاہر مرحومہ کی بڑی بچی عزیزہ امتہ الحکیم سلمہا کا رخصتا نہ تھا.دنیا میں ہر روز ہزاروں لاکھوں شادیاں ہوتی ہیں اور ہر شادی میں لڑکی والوں کے لئے خوشی کے ساتھ ساتھ ایک پہلوغم کا بھی شامل ہوتا ہے.کیونکہ پلی پلائی لڑکی جو گھر کی رونق و بہار اور والدین کی نور چشم اور راحتِ جان ہوتی ہے ان کے گھر سے رخصت ہو کر ایک دوسرے گھر میں قدم رکھتی ہے اور پھر اس کے بعد وہ عملاً ہمیشہ کے لئے اسی مؤخر الذکر گھر کی ہو جاتی ہے.گویا وہ ایک پودا تھا جو ایک باغ سے اکھڑ کر دوسرے باغ میں نصب ہو گیا.پس والدین جہاں اس موقع پر اپنی بچی کا گھر آباد ہوتا دیکھ کر اور اس کے سہاگ کی امید میں دل میں قائم کر کے خوش ہوتے ہیں.وہاں ان کا دل اپنی بچی کی جدائی پر اور ایک رنگ میں ہمیشہ کی جدائی پر غم کے آنسو بھی بہاتا ہے.دل خوشی سے سینہ میں اچھلتا بھی ہے اور پہلو میں درد بھی اٹھ اٹھ کر بے چین کرتا ہے اور فطرتِ انسانی کے اس مخلوط فلسفہ کو خالقِ فطرت کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا.یہ اسی کی شان کبریائی ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی سینہ میں آگ و پانی کو جمع کر رکھا ہے.آگ جلتی ہے مگر پانی اس کے پہلو میں پڑا ہوا اسے بجھا نہیں سکتا اور پانی ٹھنڈک پہنچا تا ہے مگر آگ اس کے پہلو میں پڑی ہوئی اس کی ٹھنڈک کو مٹا نہیں سکتی.یہ آگ و پانی والا نظارہ ہر شادی والے گھر میں جہاں سے لڑکی رخصت ہوتی ہے ہر روز ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں دیکھنے میں آتا ہے اور لوگ کچھ خوشی کے گیت گا کر اور کچھ غم کے آنسو بہا کر دو چار دن میں خاموش ہو جاتے ہیں مگر عزیزہ امتہ احکیم سلمہا کا رخصتانہ اس کی مرحومہ امی کی یاد کی وجہ سے مسرت وخوشی کے ساتھ ساتھ غم والم کے عنصر کو ایسا بھڑ کانے والا تھا کہ اسے ایسی جلدی سے بھلایا نہیں جا سکتا.سیدہ امِ طاہر مرحومہ جن کی وفات ۵ / مارچ ۱۹۴۴ء کو ہوئی اپنے اندر دو خاص اوصاف رکھتی

Page 58

مضامین بشیر ۴۶ تھیں.ایک تو یہ کہ وہ ہر غریب و امیر کی خوشی اور غم میں اس طرح شریک ہوتی تھیں کہ گویا وہ خوشی اور غم خود ان کا اپنا ہے.کسی کے بیاہ میں جاتیں تو جاتے ہی سارے انتظامات کو اس طرح اپنے ہاتھ میں لے لیتیں کہ گویا یہ خود ان کے اپنے گھر کی شادی ہے اور سب سے زیادہ خوشی انہی کو ہے.یہ نظارہ ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے خاندانوں نے دس ہیں دفعہ نہیں بلکہ سینکڑوں دفعہ دیکھا ہوگا کیونکہ وہ اتنی ہر دلعزیز تھیں کہ ہر گھر انہیں بلانے میں خوشی اور فخر محسوس کرتا تھا اور وہ جہاں جاتی تھیں شادی کی رونق کو دوبالا کر دیتی تھیں.دوسرا نمایاں وصف سیدہ مرحومہ میں یہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لئے نہائت درجہ شفیق اور محبت کرنے والی ماں تھیں اور ان کا دل اس خواہش سے ہمیشہ معمور رہتا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کا گھر بہترین صورت میں آباد ہوتا دیکھ لیں.غالباً وہ کبھی کسی شادی میں شریک نہیں ہوئیں کہ جب انہوں نے اپنے ملنے والوں سے یہ دردمندانہ استدعا نہ کی ہو کہ میری لڑکیوں کے واسطے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ انہیں اچھے کر اور اچھے گھر عطا کرے.خدا کی گہری اور از لی تقدیر کے ماتحت انہیں یہ خوشی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی مگر عزیزہ امتہ الحکیم سلمہا کے رخصتانہ کے دن وہ کون سا دل تھا جو حالات سے واقف ہوتے ہوئے مرحومہ کے ان اوصاف کو یاد کر کے مرحومہ کے درجات کی بلندی اور اس کی اولاد کی دینی دنیوی بہبودی کے لئے دست بدعا نہ ہوا ہو.ہم سب اس وقت انتہا درجہ خوش بھی تھے اور انتہاء درجہ غمگین بھی.خوش اس لئے کہ مرحومہ کی سب سے بڑی بچی مرحومہ کی ان ہزاروں دعاؤں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے جو وہ اپنی اولاد کے واسطے دن رات کیا کرتی تھیں، اپنا نیا گھر آباد کرنے کے لئے جارہی تھی.اور غمگین اس لئے کہ آج مرحومہ جو اس وقت سب سے زیادہ خوش ہونے کا حق رکھتی تھی اور جس کے دل میں اس دن کے دیکھنے کی کتنی زبر دست خواہش اور زبر دست تمنا تھی اور جو اپنی شرکت سے دوسروں کی خوشی کو بھی دوبالا کر دیا کرتی تھی.اس دنیا میں موجود نہیں ہے.اس وقت مجھے حالی کا وہ شعر یا د آیا جو اس نے غالب کی وفات پر کہا تھا کہ :- بار ا حباب جو اٹھاتا تھا دوش احباب پر سوار ہے آج میرے دل نے کہا کہ مرحومہ نے اپنی ساری عمر لوگوں کے بوجھ اٹھانے اور ان کی خوشیوں کو اپنی خوشی بنانے میں گزار دی لیکن جب اس کی اپنی بچی کی شادی کا وقت آیا تو وہ اگلے جہان میں پہنچ چکی ہے اور اس کی جگہ کام کرنے والے دوسرے لوگ اور خوشی منانے والے دوسرے لوگ اور اس کی بچی کے رخصت ہونے پر غم کے آنسو بہانے والے بھی دوسرے لوگ ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ مرحومہ کے قائم مقاموں نے اس انتظام میں اور اس موقع کی مخلوط خوشی اور غم کے مخلصانہ اظہار میں کسی رنگ میں کمی کی ہے بلکہ جیسا کہ میں سنتا رہا ہوں، ان کی مخصوص قائم مقام نے جو اس وقت مرحومہ کے بچوں

Page 59

۴۷ مضامین بشیر کی مہر آیا “ کہلاتی ہیں نے تو انتہائی سعی و محنت اور انتہائی مہر و محبت کے ساتھ یہ سارے فرائض انجام دیے ہیں.فجزاها الله خيراً وكان الله معها فى الدنيا والأخرة.مگر فطرت کے خلا کو کون بھر سکتا ہے اور ماں کا دل کس سینہ میں ڈالا جا سکتا ہے؟ میں انہی خیالات میں غرق تھا کہ اچانک مجھے ایک غیبی طاقت نے اپنی طرف کھینچ کر اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ بیشک اس دنیا میں قضاء وقدر کے قانون کے ماتحت ماں بچہ سے جدا ہوتی ہے اور خاوند بیوی کو چھوڑتا ہے اور بھائی بھائی سے رخصت ہوتا ہے.اور دنیا میں جدائی کا یہ جال اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ اس سے بچ کر نکلنا کسی طرح ممکن نہیں.مگر کیا خدا کی ذات والا صفات ان سب تغیرات سے بالا نہیں ؟ کیا اسلام ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ جب ماں بچہ کو چھوڑ رہی ہوتی ہے تو اس کا آسمانی باپ جس کی محبت ماں کی محبت سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر ہے.بچہ کی طرف محبت و شفقت کے ساتھ جھک کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری تقدیر نے تجھے تیری ماں سے جدا کیا ہے.مگر میں تیرا ودود خدا ہوں.اب میری محبت تجھ سے اور بھی زیادہ قریب ہے تو میری گود میں آ اور اس سے بڑھ کر محبت کا نظارہ دیکھ جو کبھی تو نے اپنی ماں کی طرف سے دیکھا ہو.چنانچہ بعینہ یہی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے والد کی وفات کے وقت پیش آئی کیونکہ جب آپ اپنے والد کی جدائی پر اپنی بے سروسامانی کو دیکھ کر غمگین ہوئے تو جھٹ خدا نے آپ کی طرف محبت کے ساتھ جھک کر فر مایا : - اليس الله بکاف عبده _ ۲۴ ہیں ہیں ! کیا تو میرا بندہ ہو کر باپ کی وفات پر بے سروسامانی کی مایوسی میں مبتلا ہو رہا ہے.کیا میں اپنے پیارے بندے کی ساری ضرورتوں کے لئے کافی نہیں ؟ پھر حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی نکتہ کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلاتے ہیں کیونکہ جب ایک گھمسان لڑائی کے دوران میں ایک عورت کا بچہ اس سے کھویا گیا.اور وہ اس کی تلاش میں نالاں وسرگرداں پھرتی تھی.اور روتی چلاتی ہوئی کبھی ادھر جاتی تھی اور کبھی اُدھر اور بالآخر جب اس کا بچہ مل گیا تو وہ اسے اپنے سینہ سے چمٹا کر یوں بیٹھ گئی کہ گویا اسے سارے جہان کی بادشاہت مل گئی ہے.تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم نے اس عورت کی محبت کو دیکھا کہ وہ اپنے بچہ کے لئے کس طرح بے چین تھی اور اسے پا کر کس طرح خوش ہوئی ہے.والله باللہ خدا کی محبت اپنے بندوں کے ساتھ اس محبت سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے جو تم نے اس عورت میں اپنے بچہ کے لئے دیکھی ہے.ان خیالات کے آتے ہی میں برات کے آنے سے صرف

Page 60

مضامین بشیر ۴۸ ہیں منٹ قبل بہشتی مقبرہ کی طرف جلدی جلدی گیا اور وہاں جا کر خدا سے دعا کی کہ خدایا تیری تقدیر نے یہاں بھی ایک محبت کرنے والی ماں کو اس کے نہایت درجہ عزیز بچوں سے جدا کیا ہوا ہے ہم تیری تقدیر پر راضی ہیں.مگر اپنے وعدہ کے مطابق یہاں بھی اپنی اس از لی رحمت کا چھینٹا ڈال کہ جنت میں ان بچوں کی ماں کی روح تیری قربت میں راحت وسکون پائے اور دنیا میں ان بچوں کے دل تیری محبت میں ماں کی کھوئی ہوئی شفقت کا نظارہ دیکھیں.آمین یا ارحم الراحمين.اور میں اپنے ناظرین سے بھی یہی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی خدا کے حضور مرنے والی روح اور پیچھے رہنے والے بچوں کے لئے خدائے دو جہان سے دست بدعا ر ہیں کہ وہ اس جہان میں پہنچی ہوئی ماں کو اُس جہاں کی نعمتوں سے مالا مال کرے.اور اس جہان میں بسنے والے بچوں کو اس جہان کی حسنات سے کامل حصہ دے.ونرجوامنه خير لهم ربنا الغفو رالودودالرحيم ( مطبوعه الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۴۶ء)

Page 61

۴۹ مضامین بشیر کیا مسلمانوں کے لئے صرف اسلامی حکومت کی اطاعت ہی ضروری ہے قرآنی آیت اولی الامر منکم کی تشریح آج کل جہاں اور بہت سے نئے خیالات پیدا ہو گئے ہیں.وہاں مسلمانوں کے ایک حصہ میں ایک خیال یہ بھی زور کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے ( اور ایک لحاظ سے تو یہ خیال کافی پرانا ہے ) کہ اسلامی تعلیم کی رو سے مسلمانوں کے لئے صرف مسلمان حاکم کی اطاعت ہی ضروری ہے اور کسی دوسرے حاکم یا فرمانروا کی اطاعت ضروری نہیں.اس خیال کی تائید میں قرآنی آیت پیش کی جاتی ہے کہ : - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمُ.د یعنی اے مسلمانو! تم خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا بھی حکم مانو اور ان 66 حاکموں کا بھی جو تمھیں سے ہوں.“ اس آیت میں جو اُولِى الْأَمْرِ مِنْكُم ( یعنی وہ حاکم جو تمھیں سے ہیں ) کے الفاظ وارد ہیں ان سے آج کل کے روشن خیال مسلمانوں کا ایک طبقہ جو عیسائی اقتدار سے تنگ آکر آزادی کی جد و جہد میں مصروف عمل ہے، یہ استدلال کرتا ہے کہ ان الفاظ میں صرف ان حاکموں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جو مسلمانوں میں سے ہوں یعنی بالفاظ دیگر ہم پر صرف مسلمان حاکموں کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے دوسروں کی نہیں.کیونکہ کہا جاتا ہے کہ منکم کا لفظ ( یعنی جو تمھیں سے ہوں ) صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ صرف مسلمان اُولی الامر مراد ہیں نہ کہ وہ کا فرو جابر فرمانروا جو مسلمانوں کی گردنوں پر ہر جائز و نا جائز طریق سے حکومت کا جوار کھ کر انہیں اپنی غلامی کی زنجیروں میں بند رکھنا چاہتے ہیں.اس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ بیشک آزادی ایک نہائت قیمتی چیز ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر جائز طریق پر اپنی اور اپنے بھائیوں کی آزادی کے لئے کوشاں رہے اور یہ بھی درست ہے کہ اسلام کی کامل ترقی اور پابحالی کے لئے آزادی کا ماحول ایک بہت ضروری اور لابدی

Page 62

مضامین بشیر چیز ہے.مگر آزادی کی ہوس میں قرآنی آیات کو ان کے صحیح معانی سے علیحدہ کر کے ایک خلاف تعلیم اسلام جدت کا دروازہ کھولنا کسی طرح جائز نہیں سمجھا جاسکتا.یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں اسلام آزادی کو ایک نہائت قیمتی چیز قرار دیتا ہے.بلکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو قو می غلامی تو دور کی بات ہے انفرادی غلامی کو بھی ایک قابل نفرت اور قابل استیصال چیز سمجھتا ہے.وہاں وہ ساتھ ہی یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اگر کسی وقت تمہیں کسی غیر اسلامی حکومت کے ماتحت رہنا پڑے تو تم بغاوت اور بدامنی کا طریق اختیار نہ کرو.بلکہ وقت کی حکومت کے فرمانبردار رہو اور ساتھ ساتھ جائز اور پر امن طریق پر اپنی آزادی کے لئے بھی کوشش کرتے رہو.چنانچہ علاوہ قولی تعلیم کے قرآن شریف اور حدیث ایسے تاریخی واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ جہاں خدا کے انبیاء ومرسلین نے غیر اسلامی حکومت کے ماتحت زندگی گزاری ہے اور ہمیشہ بغاوت کے طریق سے مجتنب رہتے ہوئے حکومت وقت کے ساتھ تعاون اور اطاعت کا طریق اختیار کیا ہے.مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق قرآن شریف میں مذکور ہے کہ وہ فراعنہ مصر کی حکومت کے ماتحت تھے اور صرف ماتحت ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے اس حکومت میں وزارت مال کا عہدہ بھی قبول کیا ہوا تھا.لیکن بایں ہمہ انہیں قانون رائج الوقت کا اس قد راحترام تھا کہ با وجود اس زبر دست خواہش کے کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے ساتھ رکھ سکیں ، وہ قانون کا احترام کرتے ہوئے اس راستہ سے باز رہے حتی کہ خود خدا نے اپنی کسی مخفی تقدیر کے ذریعہ ان کے لئے ایک جائز راستہ کھول دیا.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے :- كَذلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ د یعنی ہم نے خود یوسف کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک تدبیر کی.کیونکہ یہ بات یوسف کے لئے جائز نہیں تھی کہ وہ رائج الوقت شاہی قانون کے خلاف اپنے بھائی کو یونہی زبر دستی روک لیتا.پس اللہ نے خود اپنی مشیت سے اس کے لئے رستہ کھولا.“ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام برسوں فرعون کی حکومت ہاں انتہائی درجہ ظالمانہ اور جابرانہ حکومت کے ماتحت رہے مگر کبھی اس کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند نہیں کیا بلکہ جب ایک دفعہ ان سے نادانستہ طور پر قانون شکنی ہوگئی تو اس پر انہوں نے قانون کی زد سے بچنے کے لئے خفیہ طور پر ملک چھوڑ دیا.اور وَلَهُمْ عَلَى ذَنْب کا کہہ کر ( یعنی میں حکومت مصر کے مطابق ایک جرم کا ارتکاب کر چکا ہوں ) اس بات کو تسلیم کیا کہ حکومت کا میرے خلاف ایک الزام عائد ہوتا ہے.اور جب فرعون کے مظالم

Page 63

۵۱ مضامین بشیر انتہاء کو پہنچ گئے تو پھر بھی حضرت موسیٰ نے بغاوت کی بجائے ملک سے ہجرت کر جانے کا طریق اختیار کیا اور ملک کے اندر رہتے ہوئے قانون شکنی نہیں کی * اسی طرح یہ تاریخی واقعہ بھی دنیا جانتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فلسطین کی رومی حکومت کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور اسی کے ماتحت انہوں نے اپنی ساری معروف زندگی گزاری اور کبھی قانون کا دامن نہیں چھوڑا.حتی کہ جب ان کے یہودی دشمنوں نے انہیں بغاوت کے جھوٹے الزام میں پھانس کر ماخوذ کرانا چاہا تو اس وقت بھی انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میری یہی تعلیم ہے کہ قیصر کا حق قیصر کو دو اور خدا کا حق خدا کو دو PA 66 حتی کہ بقول مسیحی صاحبان انہوں نے اسی حکومت روما کی ایک عدالت کے فیصلہ کے مطابق صلیب پر جان دے دی مگر حکومت کے خلاف سر نہیں اٹھایا ! پھر ان مشہور و معروف تاریخی واقعات سے کون بے خبر ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال تک مکہ والوں کی حکومت کے مظالم برداشت کئے حتی کہ بعض بے گناہ مسلمان اس عرصہ میں مشرکین مکہ کے ہاتھوں شہید بھی ہو گئے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ان ظلموں کو انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کیا لیکن حکومت مکہ کے خلاف مکہ میں رہتے ہوئے بغاوت کے طریق سے ہر حال میں مجتنب رہے.یہ خیال کرنا کہ مکہ میں کوئی حکومت نہیں تھی اور نہ کوئی قانون تھا اور ہر شخص گویا مادر پدر آزاد تھا درست نہیں ہے کیونکہ خواہ اہل مکہ کی حکومت کیسی بھی ظالمانہ تھی.وہ بہر حال ایک حکومت تھی اور مختلف قبائل قریش کے لیڈروں کا ایک بورڈ بھی مقرر تھا.جوند وہ کہلاتا تھا.جس کے ممبروں کے ہاتھ میں حکومت کے مختلف شعبہ سپر د تھے اور اس طرح ایک ابتدائی مگر اپنے رنگ میں مکمل جمہوری نظام کی صورت قائم تھی.لیکن باوجود اس کے کہ اس ملی حکومت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی مٹھی بھر جماعت پر سخت سے سخت مظالم کئے.آپ نے انہیں کامل صبر کے ساتھ برداشت کیا اور جب یہ مظالم انتہاء کو پہنچ گئے تو اس وقت بھی بغاوت اور فساد کے طریق سے مجتنب رہے.اور صرف اتنا کیا کہ ایک حصہ مسلمانوں کا افریقہ میں حبشہ کی طرف بھیجوا دیا.جس نے نجاشی کی عیسائی حکومت کی پناہ لی اور بالآخر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور باقی ماندہ صحابہ مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے.مگر آپ نے اپنے عمل سے دنیا کو بتا دیا کہ ہم ایک غیر اسلامی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اور حکومت بھی وہ جو انتہا درجہ ظالمانہ تھی ، پھر بھی اس حکومت کے مطیع رہے ہیں اور کسی قسم کی بغاوت یا : سورة طه

Page 64

مضامین بشیر ۵۲ فساد کے مرتکب نہیں ہوئے.کیونکہ اسلام کا یہ صریح حکم ہے کہ : - وَ اللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ - د یعنی خدا تعالیٰ فساد اور امن شکنی کو کسی صورت میں پسند نہیں کرتا.“ کیا حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام اور بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی یہ واضح مثالیں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ خدائی شریعت اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ ایک مسلمان محض یہ آڑ لے کر کہ وہ ایک غیر اسلامی حکومت کے ماتحت ہے ، ملک میں بغاوت اور قانون شکنی کا مرتکب ہو.اور حصول آزادی کی جستجو میں فساد کا بیج بوتا پھرے.ہرگز نہیں ہرگز نہیں.اسلام بے شک یہ کہتا بلکہ حکم دیتا ہے کہ تم دعوۃ الی الحق اور تبلیغ اور تنظیم اور دوسرے پُر امن ذرائع سے اسلام کے قلعہ کو مضبوط کرتے جاؤ.حتی کہ تمہارا ملک بغاوت کے ذریعہ نہیں بلکہ خود اسلام کی اندرونی روحانی طاقت کے ذریعہ کفر کی غلامی سے نکل کر اسلام کی غلامی میں آجائے مگر وہ کسی صورت میں فساد اور امن شکنی اور بغاوت کی اجازت نہیں دیتا اور قرآنی ارشاد کے علاوہ جلیل القدر انبیاء کا اسوہ اس طریق پر ایک زبر دست شاہد ہے.باقی رہا یہ خیال کہ قرآنی آیت میں اُولِی الْأَمْرِ مِنْكُم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.جس کے یہ معنی ہیں کہ جو تم میں سے تمہارا حاکم ہے اس کی فرمانبرداری اختیار کرو اور گویا کسی اور کی نہ کرو.سو یہ خیال بالکل بودا اور کمزور ہے کیونکہ اول تو عربی زبان میں مین کا لفظ علی اور فی کے معنوں میں بھی آتا ہے.اور اس طرح أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ کے معنی یہ بنتے ہیں کہ جو لوگ تم پر حاکم ہیں یا جو لوگ تمہارے اندر بطور حاکم کے ہیں ان کی فرمانبرداری کرو اور اس طرح کوئی اشکال نہیں رہتا.دوسرے قرآنی کلام کی یہ ایک عجیب و غریب حکمت ہے کہ وہ بعض اوقات ایک عام اور معروف لفظ کو ترک کر کے اس کی جگہ ایک خاص محاورہ اختیار کرتا ہے تا کہ آیت کے معانی میں وسعت پیدا ہو کر ایک نیا اور لطیف رستہ کھل جائے.یہ طریق قرآن شریف نے بے شمار جگہ استعمال کیا ہے اور یہ اس کی زبان کے کمالوں میں سے ایک خاص کمال ہے کہ ذرا سے رد و بدل سے معانی کا ایک وسیع میدان کھول دیتا ہے.اب آیت زیر بحث میں عام محاورہ کے لحاظ سے الفاظ یوں ہونے چاہئیں تھے کہ اولی الامر عليكم ( یعنی تم پر جو لوگ حاکم ہوں ) یا اولی الامر فیکم (یعنی تمہارے اندرجو لوگ بطور حاکم ہوں ) مگر قرآن شریف نے ان محاوروں کو ترک کر کے ایک نسبتاً کم معروف محاورہ استعمال کیا ہے.یعنی اُولِی الْأَمْرِ مِنْكُم ( یعنی جو لوگ تم سے حاکم ہوئے ہوں ) تا کہ نہ صرف ایک ہی لفظ کے ذریعہ علیکم اور فیکم کے الفاظ کا مرکب مفہوم ادا ہو جائے بلکہ اس کے ساتھ

Page 65

۵۳ مضامین بشیر ہی اس مفہوم کی حکمت بھی ظاہر ہو جائے اور یہ بھی پتہ لگ جائے کہ یہ حکم کس قسم کے حالات کے ساتھ مخصوص ہے.تفصیل اس جمال کی یہ ہے کہ گوجیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے عربی زبان میں مسن کا لفظ بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے.جن میں علمی اور فی کا مفہوم بھی شامل ہے.مگر جیسا کہ بعض ائمہ لغت نے تشریح کی ہے اس کے مخصوص معنی ابتداء غایہ کے ہیں.یعنی در اصل اس لفظ میں کسی زمانی یا مکانی نقطہ سے ایک کام کی ابتداء کا اظہار یا ایک چیز کا دوسری چیز میں سے نکلنا مراد ہوتا ہے اور اس لفظ کے باقی سب معانی کم و بیش اسی بنیادی مفہوم پر مبنی ہیں اور اسی کے اردگرد چکر لگاتے ہیں.چنانچہ آیت زیر بحث میں جو علی اور فی کے الفاظ ترک کر کے من کا لفظ اختیار کیا گیا ہے.وہ بھی اسی حکمت کے ماتحت ہے کہ تا آیت کے مفہوم میں من کے بنیادی مفہوم کو داخل کر کے ایک وسیع اور لطیف معنی پیدا کر دیئے جائیں.اس اصول کے ماتحت آیت اُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ اے مسلما نو تم پر ایسے حاکموں کی فرمانبرداری فرض ہے جو تم سے حاکم بنے ہیں.یعنی ان کا أُولِی الْأَمْرِ ہونا یا بالفاظ دیگر ان کی امارت غاصبانہ اور جابرانہ رنگ نہیں رکھتی بلکہ تم نے ان کی حکومت کو قو لا یا فعلاً تسلیم کر کے گویا اپنا بنا لیا ہوا ہے.ظاہر ہے کہ انسان کسی حکومت کو امکانا د وطرح ہی قبول کر سکتا ہے یعنی یا تو وہ اسے قولاً تسلیم کر لیتا ہے اور منہ سے کہہ کر یا قلم سے لکھ کر مان لیتا ہے جیسا کہ معاہدات وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے اور یا وہ قولاً تو تسلیم نہیں کرتا مگر عملاً تسلیم کر کے اس کی ماتحتی کو خاموشی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے.جیسا کہ عموماً مفتوح ممالک کی صورت میں ہوتا ہے.اور زیر بحث قرآنی آیت نے ان دونوں صورتوں کو اپنے اندر جمع کر لیا ہے.کیونکہ عربی محاورہ کے مطابق یہ دونوں صورتیں مِنْكُمُ کے مفہوم میں شامل ہیں جس میں ایک چیز کا دوسری چیز سے نکلنا مراد ہوتا ہے.پس الفاظ أُولِي الْأَمْرِ مِنْگر کے پورے معنی یہ ہوئے کہ : اوّل : وہ حاکم جن کی حکومت کو تم قولاً یعنی صراحنا تسلیم کر چکے ہو.دوم : وہ حاکم جن کی حکومت کو تم عملاً تسلیم کر چکے ہو اور اس کے ماتحت رہنے پر خاموشی کے ساتھ راضی ہو چکے ہو.اوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ در حقیقت یہ آیت ایک وسیع اصولی رنگ رکھتی ہے اور اس میں اسلامی حکومت یا غیر اسلامی حکومت کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ جس حکومت کو بھی مسلمان تسلیم کر لیں.خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی اور خواہ وہ اسے قولاً تسلیم کریں یا کہ عملاً ، اس کی اطاعت ان پر فرض ہو جاتی ہے اور اس کے خلاف بغاوت کرنا اور اس کے قانونوں کو توڑنا ان کے لئے جائز نہیں رہتا.پس اگر

Page 66

مضامین بشیر ۵۴ ایک حاکم مسلمان تو ہے مگر وہ جبر وا کراہ کے طریق پر دوسرے مسلمانوں کو اپنی ماتحتی میں لانا چاہتا ہے تو اس آیت کے ماتحت اس کی حکومت ناجائز ہوگی.لیکن اگر ایک حاکم غیر مسلمان ہے مگر بعض مسلمانوں نے اس کی حکومت کو قولاً یا عملاً تسلیم کر لیا ہے تو اس کی حکومت جائز ہوگی.کیونکہ جہاں مقدم الذکر حکومت منکم کے مفہوم کے صریح خلاف ہے.وہاں موخر الذکر حکومت منتحر کے مفہوم کے عین مطابق اور موافق ہے.یہ وہ لطیف فلسفہ ہے جو صرف علیکم یا فیکم کے الفاظ سے ادا نہیں ہوسکتا تھا اور اسی لئے قرآن شریف نے ان معروف الفاظ کو چھوڑ کر مِنْكُم کا لفظ اختیار کیا ہے.تا اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ ہر وہ حکومت جو مسلمانوں کی تسلیم شدہ ہے وہ گویا انہی میں سے نکلی ہوئی چیز ہے.خواہ وہ کوئی ہو.اس لئے اس کے خلاف بغاوت کرنا ہرگز جائز نہیں.کیونکہ اگر ایسی حکومت کے خلاف سراٹھانا جائز قرار دیا جائے تو پھر امنِ عامہ اور تہذیب و تمدن کی تمام تسلیم شدہ بنیادیں تباہ ہو جاتی ہیں اور فتنہ وفساد اور جنگ وجدال کا ایسا رستہ کھلتا ہے جو پھر کسی طرح بند نہیں کیا جاسکتا.ہاں اگر کوئی قوم کسی حکومت کو اپنے لئے صریحاً اس قدر ظالمانہ خیال کرتی ہے کہ اس کے ماتحت رہنا اس کے لئے بالکل ناممکن ہو جاتا ہے.تو اس صورت میں اس کے لئے ہجرت کا رستہ کھلا ہے جیسا کہ حضرت موسی کے ماتحت بنی اسرائیل نے مصر سے ہجرت کی یا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماتحت مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی.مگر ایک تسلیم شدہ حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے بغاوت یا قانون شکنی یا فساد کا طریق اختیار کرنا کسی صورت میں جائز نہیں.خواہ یہ حکومت اسلامی ہو یا غیر اسلامی.یہ وہ نظریہ ہے جو نہ صرف قرآنی تعلیم کی رو سے قطعی طور پر ثابت ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی اسوہ بھی اس پر ایک زبر دست شاہد ہے.فبات حدیث بعد ذالک یو منون.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی حکومت اپنی کسی مظلوم رعایا کو ہجرت کر نے سے زبر دستی رو کے تو اس صورت میں اسلام کیا تعلیم دیتا ہے؟ سو اس کے متعلق جاننا چاہیئے کہ ایسی ظالم حکومت کے خلاف اس کے اندر رہتے ہوئے بھی سر اٹھانا جائز ہوگا.کیونکہ جو حکومت ایک طرف اپنی رعایا پر ظلم کرتی ہے اور دوسری طرف اسے ہجرت کرنے سے بھی روکتی ہے تو وہ گویا مخلوق خدا پر انصاف اور خود حفاظتی کے سارے دروازے بند کرنا چاہتی ہے اور خدا کا رحیمانہ قانون اس اندھیر نگری کی اجازت نہیں دے سکتا.چنانچہ جب فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنی حکومت میں انتہائی مظالم کا نشانہ بنایا اور پھر جب وہ ان مظالم سے تنگ آکر ملک سے باہر جانے لگے تو اس نے انہیں زبر دستی روکنا چاہا تو خدا نے فرعون کے اس فعل کو کھلی کھلی بغاوت اور سرکشی قرار دیا.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ : فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنَ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَ عَدْوا ۳۲

Page 67

۵۵ مضامین بشیر د یعنی فرعون نے بھاگتے ہوئے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا تا کہ انہیں ہجرت کر جانے سے زبر دستی رو کے مگر اس کا یہ فعل خدائی قانون کے خلاف ایک کھلی کھلی بغاوت تھا اور وہ عدل و انصاف کی تمام حدود کو تو ڑ کر آگے نکل جانا چاہتا تھا.“ بلکہ یہ فعل اس قدر ظالمانہ ہے کہ فرعون کے جن سپاہیوں نے اس تعاقب میں حصہ لیا وہ بھی خدا کی نظر میں باغی اور عادی قرار پائے جیسا کہ جُنُودُہ کے لفظ سے ظاہر ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ بعض حالات میں آمر کے ساتھ مامور بھی قابل مواخذہ ہوتا ہے.مندرجہ بالا بحث سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جب تک کوئی حکومت ملک کی تمام آبادی کو زیر کر کے یا منوا کر اپنا سکہ قائم نہیں کر لیتی اور اسے ملک میں استحکام حاصل نہیں ہو جا تا اس وقت تک وہ ملک کی قائم شدہ حکومت نہیں سمجھی جاسکتی اور اس کے خلاف حسب ضرورت لڑنا جائز ہے اور اسی اصل کے ماتحت یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ملک کی حکومت کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اپنی رعایا کی مرضی کے خلاف اسے از خود کسی دوسری حکومت کے سپرد کر کے آپ الگ ہو جائے.کیونکہ اس صورت میں بھی نئی حکومت ملک کی تسلیم شدہ حکومت نہیں سمجھی جائے گی.خلاصہ کلام یہ کہ مسلمانوں کے لئے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے علاوہ صرف ایسی حکومت کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے جو ان کی تسلیم شدہ ہو.خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی لیکن جب ایک دفعہ مسلمان ایک حکومت کو قو لا یا عملاً تسلیم کرلیں تو پھر اس کے خلاف بغاوت کرنا ان کے لئے جائز نہیں رہتا.سوائے اس کے کہ وہ اس حکومت کے مظالم سے تنگ آکر اس کے ملک سے ہجرت کرنا چاہیں اور یہ حکومت انہیں اس ہجرت سے جبر ارو کے.یہ وہ منصفانہ قانون ہے جو افراط اور تفریط کی راہوں سے بچتے ہوئے اسلام نے جاری کیا ہے اور ہر عظمند سمجھ سکتا ہے کہ یہی وہ تعلیم ہے جو دنیا میں حقیقی امن کی بنیاد بن سکتی ہے.و آخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العالمين ( مطبوعه الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۴۶ء)

Page 68

مضامین بشیر اسلامی اخوت کا نظریہ بھائی یا اخی کے الفاظ کو ہر شخص جانتا ہے کیونکہ یہ ہمارے روزانہ استعمال کے الفاظ ہیں مگر چونکہ اکثر لوگوں میں غور کا مادہ کم ہوتا ہے.اس لئے وہ ان الفاظ کی گہرائی میں نہیں جاتے.بس صرف اتنا جانتے ہیں کہ ایک باپ یا ایک ماں کی اولاد ہونے کا نام بھائی ہے.حالانکہ اخوت کا مفہوم اس سے بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ عمیق ہے.دراصل اخوت کے لئے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے.اول.یہ کہ دو بھائی ایک منبع سے نکلی ہوئی دو ہستیاں ہوتی ہیں یعنی ایک درخت کی طرح ان کی جڑ تو ایک ہی ہوتی ہے مگر شاخیں کئی ہو سکتی ہیں.دوم.جب دو بھائیوں کی جڑ ایک ہوتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک درخت کی شاخوں کی طرح وہ بہر حال ہم رنگ اور ہم جنس بھی ہوتے ہیں.سوم.بھائی برابر کے حقوق رکھنے والی ہستیاں ہوتی ہیں یعنی ان میں سے کسی کو دوسرے پر حقوق کے معاملہ میں فوقیت حاصل نہیں ہوتی.یہ تین چیزیں اخوت کے لئے گویا بنیادی شرائط کے طور پر ہیں اور جہاں بھی یہ شرائط پائی جائیں گی.اخوت کا مفہوم قائم ہو جائے گا.خواہ نسلی لحاظ سے بھائی کہلانے والے لوگ ایک نہ ہوں.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کئی قسم کی اخوت کو تسلیم کیا ہے.مثلاً عرضی اخوت کے علاوہ جسے گویا اخوت نسبی کہنا چاہیئے اسلام نے رضاعت کی اخوت کو بھی تسلیم کیا ہے.چنانچہ جب دو شخصوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو تو اسلامی تعلیم کی رو سے وہ رضاعی بھائی کہلاتے ہیں حالانکہ بسا اوقات ان کی نسل بالکل جدا ہوتی ہے اخوت کی یہ قسم اخوتِ رضاعی کہلاتی ہے.اسی طرح اسلام نے ایک اخوتِ دینی قائم کی ہے.یعنی ایک ہی شریعت اور ایک ہی امام کے ساتھ وابستہ ہونا.اس حال میں بھی گویا منبع ایک ہی ہوتا ہے اور اس منبع سے نکلی ہوئی شاخیں ہم رنگ اور ہم جنس ہونے کے علاوہ مساویانہ حقوق بھی رکھتی ہیں.اسی طرح ایک اخوت عہدی ہوتی ہے کہ جب دو یا دو سے زیادہ اشخاص با ہم عہد و پیمان کے ذریعہ ایک دوسرے کے بھائی بن جاتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ہجرت کے بعض مہاجرین و انصار کے درمیان اخوت کا عہد قائم کیا وغیرہ وغیرہ.ان سب قسم کی اخوتوں کا مرکزی نقطہ وہی تین شرائط ہیں جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں یعنی

Page 69

۵۷ مضامین بشیر (۱) ایک منبع سے نکلا ہوا ہونا (۲) ہم رنگ و ہم جنس ہونا اور (۳) با ہمی مساویانہ حقوق رکھنا اور ان سب اخوتوں کو اسلام نے انتہائی تقدس اور ذمہ داری کا رنگ دے کر اسلامی سوسائٹی کو گویا آپس میں آہنی زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا ہے.لیکن اس جگہ میرا یہ نوٹ اخوتِ دینی سے تعلق رکھتا ہے.جسے وسیع اسلامی اخوت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا د یعنی اسے مسلمانو ! تم سب اکٹھے ہو کر خدا کے دین کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو.اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے دو.اور اللہ کی اس عظیم الشان نعمت کو یا درکھو کہ کفر اور بے دینی کی حالت میں تم ایک دوسرے کے دشمن اور خون کے پیاسے تھے.مگر اسلام کے ذریعہ خدا نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے.“ پھر فرماتا ہے :- إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.۳۴ د و یعنی تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں.پس اگر کسی وجہ سے بعض مومنوں میں اختلاف پیدا ہو جایا کرے تو ان میں فوراً صلح کرا کے اسلامی اخوت کی عمارت کو شکستہ ہونے سے بچالیا کرو اور آپس کے تعلقات میں خدا کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم اس کے فضل ورحم سے حصہ پاؤ.“ اس اسلامی اخوت کی تشریح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- تَرَى المُؤْمِنِينَ فِى تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِهِمُ وَتُعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ ۳۵ إِذَا اشْتَكَى عُضُوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهْرِ وَالْحُمَّى یعنی تو دیکھے گا کہ تمام مومن ایک دوسرے کے ساتھ رحمت وشفقت کا سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے اور ایک دوسرے کی طرف تعاون اور مفاہمت کی روح کے ساتھ جھکنے میں بالکل جسم انسانی کا سا رنگ رکھتے ہیں.کیونکہ جسم انسانی کی طرح مومنوں کی جماعت میں بھی یہ طبعی نظارہ نظر آتا ہے کہ جب اس جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو باقی ماندہ جسم بھی اس بیمار عضو کی ہمدردی

Page 70

مضامین بشیر ۵۸ میں بے چینی اور بخار اور سوزش اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے.“ اخوت اسلامی کی یہ لطیف تشبیہ جو غالباً دنیا بھر کی لطیف ترین تشبیہوں میں سے ہے ، کسی تشریح کی محتاج نہیں.اس تشبیہہ میں اسلامی سوسائٹی کو جسم انسانی کے مشابہ قرار دے کر اس سوسائٹی کے افراد کو جسم انسانی کے مختلف اعضاء سے تشبیہہ دی گئی ہے اور یہ تشبیہہ کتنی لطیف اور کتنی سچی اور کتنی گہری اور فطرت انسانی کی کتنی آئینہ دار ہے؟ اس سوال کا جواب کسی حاذق طبیب یا کسی ماہر نفسیات سے پوچھوا ور یا پھر مجھ سے سنو.جو اس فن کی اصطلاحوں سے نا آشنا ہونے کے با وجو داس وقت اس فطری نظارہ کو خود اپنے نفس میں مشاہدہ کر رہا ہے.جب میں نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا تو بغیر کسی سابقہ انتباہ کے مجھے نقرس کے حملہ نے اچانک آدبوچا.اور بائیں پاؤں کے ٹخنہ میں اس شدت کا درد اٹھا کہ چند منٹوں کے اندر اندر چلنا پھرنا تو در کنار بستر کے اندر پاؤں ہلانا بھی مشکل ہو گیا.میرے اس مضمون کے نوٹ میرے سامنے تھے اور میری آنکھیں ان الفاظ کو دیکھ رہی تھیں کہ إِذَا اشْتَكَى عُضُوا ( یعنی جب جسم انسانی کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے ) تو....میں نے دل میں کہا کہ شاید نیز نگئی قدرت اس فلسفہ کا پہلا سبق خود مجھ ہی کو دینا چاہتی ہے اور اب مجھے کچھ عرصہ کے لئے سهر وحشی (یعنی بے چینی اور بخار ) کے واسطے تیار ہو جانا چاہیئے.چنانچہ یہی ہوا کہ درد تو صرف بائیں پاؤں کے ٹخنہ میں تھا اور ماؤف مقام غالبا ایک انچ قطر سے زیادہ نہیں ہو گا مگر دیکھتے ہی دیکھتے جسم یوں تپنے لگا کہ جیسے قدرت کی کسی غیر مرئی بھٹی نے سارے جسم میں جلد کے نیچے دہکتے ہوئے کوئلوں کی تہہ بچھا دی ہے.اور اس کے ساتھ بے چینی اور اضطراب کا وہ عالم تھا کہ الامان.اس وقت میں حقیقہ اس سوچ میں پڑ گیا کہ اس تکلیف دہ بیماری سے شفا پانے کی دعا پہلے کروں یا کہ اس تازہ بتازہ فطری سبق پر خدا کا شکر یہ پہلے ادا کروں؟ بہر حال خواہ میرا یہ مضمون مکمل ہو سکے یا نہ ہو سکے یا خواہ مجھے اس کی تشریح و توضیح کی توفیق ملے یا کہ صرف اشاروں اشاروں میں ہی یہ مضمون ختم ہو جائے.یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ جس طرح بسا اوقات سنیما کے پردہ پر ایک دور دراز کے نظارہ کو مصوری کی فسوں ساز تاروں سے لپیٹ کر دیکھنے والوں کی نظروں کے قریب لے آتے ہیں اسی طرح میری اس بیماری کے غیر متوقع حملہ نے اخوتِ اسلامی کی وہ عدیم المثال تصویر جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئی ہے، میری نظروں کے اس قدر قریب کر دی کہ میں گویا سب کچھ بھول کر اسی میں کھویا گیا.واقعی کیسی کچی اور کیسی پیاری اور کیسی دلکش مثال ہے جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہے.یہ گویا اس قرآنی آیت کی ایک مجسم تفسیر ہے.کہ

Page 71

۵۹ مضامین بشیر وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ دو یعنی نادانو ہم نے ہر ضروری نشان تمہارے اپنے نفسوں میں جمع کر رکھا ہے.مگر تم دیکھو بھی.“ انسانی جسم کے ہزاروں بلکہ لاکھوں اعضا یعنی حصے ہیں اور ہر حصہ اپنی ذات میں گویا ایک عالم کا حکم رکھتا ہے اور اپنے اپنے مفوضہ کام کی انجام دہی میں اس طرح لگا ہوا ہے کہ گویا باقی حصوں کی طرف سے بالکل ہی غافل اور بے خبر ہے.مگر جو نہی کہ ان ہزاروں حصوں میں سے کسی ایک حصہ کو کوئی دکھ پہنچتا ہے باقی حصے فوراً بیدار ہو کر اس کی ہمدردی میں آہ و پکار کرنے لگ جاتے ہیں.گویا یہ ایک یک جدی کنبہ تھا.جس کے ایک فرد کی موت نے سارے خاندان میں صف ماتم بچھا دی ہے.دکھتی آنکھ ہے مگر دل و دماغ تڑپنے لگ جاتے ہیں.درد پہلی میں ہوتا ہے مگر سارے جسم کا رواں رواں بے چین ہو جاتا ہے.کانٹا ایڑی میں چبھتا ہے مگر زبان ہائے ہائے کرتی اور ہاتھ کرب وضطراب میں ادھرادھر گرتے ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( فداہ نفسی ) نے الفاظ بھی کیسے حقیقت سے معمور چنے ہیں فرماتے ہیں : تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهْرِ وَالْحُمَّى د یعنی ادھر جسم کا ایک عضو بیمار ہو کر گویا اپنی مدد کے لئے دوسرے اعضا کو پکارتا ہے اور ادھر باقی سارے عضو ماں جائے بھائیوں کی طرح لبیک لبیک کہتے ہوئے اس کی ہمدردی میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.اور جب تک اس بیمار عضو کو چین نصیب نہیں ہوتا وہ اس کے پہلو میں بیٹھے رہ کر خود بھی انگاروں پر لوٹتے ہیں.اور سوزشِ اضطراب میں اسی طرح جلتے ہیں.جس طرح یہ بیمار عضو جلتا ہے.ذرا سوچو کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پیپ تو صرف انگلی کے کور میں پڑتی ہے مگر جسم سارا بے چین ہونے لگتا ہے اور بخار سے رواں رواں پیتا ہے.یہ اس لیئے کہ خالق ہستی نے انسانی جسم کو ایسی عجیب وغریب بناوٹ عطا کی ہے کہ اگر ایک طرف ہر عضو گویا ایک گو نہ مستقل حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف وہ باقی تمام اعضاء کے ساتھ ایک مجموعی لڑی میں پرویا ہوا بھی ہے.اور ایک کے سکھ کے ساتھ دوسرے کا سکھ اور ایک کے دکھ کے ساتھ دوسرے کا دکھ لازم ملزوم کر دیا گیا ہے اور اسلامی اخوت کا یہی وہ دلکش نظارہ ہے جو ہمارا پیارا آقا اپنے خادموں کی زندگی میں دیکھنا چاہتا ہے.تم بے شک اپنی انفرادی زندگی کو جس جائز طریق پر چاہو گذار و تجارت کرو.

Page 72

مضامین بشیر زراعت کرو.صنعت و حرفت میں پڑو.ملازمتیں کرو.آرٹس میں چمکو، سائنس میں کمال پیدا کرو.فنون سپہ گری سیکھو.دنیا کماؤ.دین کی خدمت میں وقت گزار و.جائیدادیں بناؤ.جائز تفریحوں میں حصہ لو.تمہارا دین تمہیں کسی ایسے کام سے جو تم جائز رنگ میں کرنا چا ہو.نہیں روکتا.کیونکہ انفرادیت بھی انسانی ترقی کے لئے ایسی ہی ضروری ہے جیسا کہ اشتراکیت.مگر وہ تم سے یہ ضرور مطالبہ کرتا ہے اور یہ مطالبہ گویا اسلامی اشتراکیت کی جان ہے کہ تم جو بھی ہوا اور جیسے بھی ہو اور جہاں بھی ہو تمہارے اندر یہ جذ بہ ہمیشہ موجزن رہنا چاہیئے کہ اگر کبھی تمہارے کسی چھوٹے سے چھوٹے عضو یعنی بظاہر حقیر سے حقیر فرد کو بھی کوئی دکھ پہنچے تو یہ دکھ صرف اس عضو اور اس فرد کا ہی دکھ نہ رہے.بلکہ اس دکھ کی وجہ سے وسیع اسلامی اخوت کا سارا وجو دسر سے لے کر پاؤں تک سهر حمی کے ساتھ تینا اور تڑپنا شروع ہو جائے.آج اس اخوت کے مقام پر قائم ہو جاؤ.اور پھر دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اخوت اسلامی کا اس قدر اکرام مد نظر تھا کہ جب عرب کے شمال میں غزوہ موتہ کے موقع پر عیسائیوں کی ایک جمیعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو شہید کیا تو آپ نے ان کے انتقام اور اسلامی رعب کے قیام کے لئے صحابہ کی ایک فوج اس علاقہ کی طرف روانہ فرمائی اور اس فوج کی سرداری حضرت زید کے صاحبزادے اسامہ کے سپر د کی.جو اس وقت صرف انیس سالہ نوجوان تھے اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ جیسے معمر اور جلیل القدر صحابہ کو ان کے ماتحت رکھا.تا دنیا پر یہ ظاہر ہو کہ اگر اسلام کے ایک غلام کو بھی کفار کی طرف سے گزند پہنچتا ہے تو اس کے انتقام کے لئے چوٹی کے مسلمان اس غلام کے لڑکے کی رکاب تھامے ہوئے آگے آتے ہیں.دنیا کی کونسی طاقت ہے جو اس عظیم الشان روحانی قلعہ کو سر کر سکتی ہے؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تو محض ایک فلسفہ ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے.یعنی اس نے ایک جذ بہ کو ابھار کر اسے آزاد چھوڑ دیا ہے اور ایک طاقت کو پیدا کر کے اسے آزاد چھوڑ دینا بسا اوقات فائدہ کی نسبت ہلاکت کا زیادہ موجب ہو جاتا ہے.کیونکہ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک طاقتور موٹر کو تیزی کے ساتھ حرکت میں لا کر کسی شاہراہ پر بغیر بریکوں اور بغیر ڈرائیور کے چھوڑ دیا جائے.مگر یہ اعتراض بالکل بودا اور جہالت کا اعتراض ہے کیونکہ اس حدیث میں اخوت اسلامی کے مواقع نہیں بتائے گئے.بلکہ صرف اخوتِ اسلامی کا مقام بیان کیا گیا ہے کہ وہ کس اعلیٰ شان کی ہونی چاہیئے.باقی رہا یہ سوال کہ یہ اخوت کس رنگ میں اور کس موقع پر ظاہر ہو.سو اس کے متعلق قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں.مگر اس جگہ مثال کے طور پر صرف ایک آیت قرآنی اور ایک حدیث نبوی پر اکتفا کرتا

Page 73

۶۱ مضامین بشیر ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ یعنی اے مسلما نو تم آپس میں نیکی اور تقویٰ کے امور میں تو ضرور تعاون کیا کرو.66 لیکن گناہ اور ظلم و تعدی کے امور میں ہرگز تعاون نہ کیا کرو.“ کیا اس سے زیادہ مضبوط بر یک کوئی خیال میں آسکتی ہے جو انسانی فطرت کو لگائی جا سکے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اس قرآنی تشریح پر ہی اکتفا نہیں کی.بلکہ مزید تفصیل بیان کر کے گویا اخوت اسلامی کے کوڈ کو بالکل واضح اور نمایاں کر دیا ہے.فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں : عَنْ أَنَس قَالَ قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا، فَكَيْفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا؟ فَقَالَ : تَاخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ.یعنی انس روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے مسلمان بھائی کی ہر حال میں مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا کہ مظلوم.اس پر صحابہ نے حیران ہو کر ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ مظلوم بھائی کی مدد تو ہم سمجھ گئے مگر یہ ظالم بھائی کی مدد کے کیا معنی ہیں؟ آپ نے فرمایا ظالم بھائی کی مدد یہ ہے کہ اس کے ظلم کے ہاتھ کو پکڑ کر روک لو.“ اللہ اللہ ! اللہ اللہ ! کس شان کا کلام ہے اور کس شیرینی اور کس چاشنی سے لبریز !!!! مگر افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان بھی اس کلام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے.وہ صرف اس خیال کو لے کر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے رسول نے اس حدیث میں کیسے لطیف انداز میں ظالم کو روکنے کی تعلیم دی ہے.حالانکہ یہ مفہوم اس حدیث کا صرف ایک حصہ ہے اور وہ بھی محض ثانوی حیثیت کا حصہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا اصل مقصد اور مدعا یہ ہے کہ اسلامی اخوت کا اولین فرض یہ ہے کہ ایک مسلمان ہر حال میں اپنے مسلمان بھائی کی امداد کے لئے تیار اور ہوشیار رہے.اور کوئی خیال اسے اس فرض کی ادائیگی سے باز نہ رکھ سکے.حتی کہ اگر وہ اپنے مسلمان بھائی کو ظالم بھی خیال کرتا ہے تو پھر بھی اس کا فرض ہے کہ آگے آئے اور اپنے بھائی کی امداد کرے.گو لازماً ظالم ہونے کی صورت میں یہ امداد دوسرے رنگ میں ظاہر ہو گی.مگر بہر حال وہ کسی صورت میں اور کسی حال میں اپنے بھائی کی امداد سے پہلو تہی نہیں کر سکتا.اگر اس کا بھائی مظلوم ہے تو وہ آئے اور اپنے مظلوم بھائی کی امداد کے لئے اپنے جان و مال کی بازی لگا دے.اور اگر بھائی ظالم ہے تو پھر بھی وہ آگے آئے اور اپنے بھائی کے ظلم کے

Page 74

مضامین بشیر ۶۲ ہاتھ روکے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کلام کو ان چونکا دینے والے الفاظ سے شروع کیا ہے کہ: انصر اخاک ظالماً او مظلوماً یعنی ہر حال میں اپنے بھائی کی امداد کو پہنچو خواہ وہ ظالم ہے یا کہ مظلوم.“ اور صرف سوال ہونے پر یہ تشریح فرمائی ہے.کہ ظالم بھائی کی امداد کس طرح ہونی چاہیئے اور کمال حکمت سے آپ نے ظالم کا لفظ پہلے رکھا ہے اور مظلوم کا بعد میں تا کہ اس طرف اشارہ فرمائیں کہ بعض لحاظ سے ظالم بھائی مظلوم بھائی کی نسبت بھی زیادہ قابل امداد ہوتا ہے.کیونکہ جہاں مظلوم بھائی کی صرف دنیالٹ رہی ہوتی ہے.وہاں ظالم بھائی کی روح اور اس کے اخلاق مٹ رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ دانشمندوں کے نزدیک جسم کے نقصان سے روح اور اخلاق کا نقصان بہت زیادہ بھاری ہوتا ہے.مگر یہ اعلیٰ ضابطہ اخلاق صرف اسلامی تعلیم کا مرہونِ منت ہے کیونکہ کسی اور مذہب نے یہ تعلیم نہیں دی.دور نہ جاؤ گاندھی جی کو ہی لے لو کہ ہندوؤں میں گویا ایک عدیم المثال روحانی بزرگ بلکہ رشی اور اوتار خیال کئے جاتے ہیں اور بظاہر دیکھنے میں ان کا کلام بھی روحانی اصطلاحوں سے معمور نظر آتا ہے اور ان کی ہر بات میں روحانی طاقت کے مظاہروں کا ذکر ہوتا ہے مگر کیا یہ ایک تلخ حقیقت نہیں ہے کہ نو اکھلی کے چند سو مظلوم ہندوؤں کے لئے تو ان کی روح گداز ہوئی جاتی ہے اور وہ اتنا عرصہ گذر جانے کے باوجود اس علاقہ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے.لیکن بہار کے لاکھوں ظالم ہندوؤں کی روحیں ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے ظلم وستم کے وسیع میدان میں تڑپ رہی ہیں مگر گاندھی جی کے کانوں پر جوں تلک نہیں رینگتی اور انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ ظالم بھائی کے ہاتھ کو روکنا بھی میرے فرائض میں داخل ہے.آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی نا کہ گاندھی جی کا فلسفہ مظلوم بھائی کی مدد تو سکھاتا ہے مگر ظالم بھائی کی مدد کی تعلیم نہیں دیتا.ان کی آنکھ مظلوم بھائی کے جسم کو جلتا ہوا تو دیکھتی ہے مگر ظالم بھائی کی روح کے شعلوں کو نہیں دیکھ کتی.بہر حال یہ صرف اسلام ہی کی مقدس تعلیم ہے کہ وہ دنیا میں ایسی اخوت قائم کرنا چاہتا ہے کہ جس میں ظالم و مظلوم کا امتیاز باقی نہیں رہتا اور ہر شخص کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے بھائی کی مدد کو پہنچے.خواہ وہ بھائی ظالم ہو یا مظلوم.ہاں یہ فرق ضرور ہو گا کہ اگر یہ بھائی مظلوم ہے تو اسے ظلم سے بچایا جائے گا لیکن اگر وہ ظالم ہے تو اس کے ظلم کے ہاتھ کو روکا جائے گا.کیونکہ ایک صورت میں جسم پر حملہ ہوتا ہے اور دوسری میں روح پر.خلاصہ کلام یہ کہ اسلام نے اخوت اسلامی کا وہ اعلیٰ معیار قائم کیا ہے کہ اس کی نظیر کسی اور قوم،

Page 75

۶۳ مضامین بشیر کسی اور مذہب میں نہیں ملتی وہ اپنے ضابطہ اخوت کو چار بنیادی ستونوں پر قائم کرتا ہے.اول: وہ اسلامی اخوت کا یہ معیار قائم کرتا ہے کہ تمام مسلمان ایک واحد جسم انسانی کا رنگ رکھتے ہیں تا اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو باقی جسم بھی بے چینی اور سوزشِ حرارت سے تپنے لگ جائے.دوم: وہ ہر حال میں ہر مسلمان بھائی کی مدد کا حکم دیتا ہے.خواہ حالات کچھ ہوں.سوم : وہ ہر مسلمان کو ہدایت دیتا ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی تمہیں کوئی مظلوم مسلمان بھائی نظر آئے تو جہاں تک تمہاری طاقت ہے اپنی جان اور اپنے مال سے اس کی مدد کو پہنچو.چہارم: وہ یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ اگر تمہارا کوئی مسلمان بھائی ظلم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے ظلم کے ہاتھ کو روک کر اس کی روح کو تباہی سے بچاؤ.یہ وہ چار بنیاری اصول ہیں جن پر اسلامی اخوت کی عمارت قائم کی گئی ہے اور گو یہ باتیں بظاہر بہت مختصر سی ہیں مگر غور کریں تو ان میں سچی اخوت کا سارا فلسفہ آ جاتا ہے.اور گو میں اپنی بیماری کی وجہ سے مضمون کو زیادہ تشریح کے ساتھ نہیں لکھ سکا.لیکن میں امید کرتا ہوں ہمارے دوست آج کل کے نازک زمانہ میں اسلام کی اس زریں تعلیم کو یا در رکھنے کی کوشش کریں گے.جس کا مختصر سا خلاصہ میں نے اوپر کے مضمون میں درج کرنے کی کوشش کی ہے.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين - مطبوعه الفضل ۱۹؍ دسمبر ۱۹۴۶ء)

Page 76

مضامین بشیر -۲ -۷ -^ -9 - 1+ ۶۴ حوالہ جات الاحقاف : ۱۶ آل عمران : ۵۳ الصف : ۱۵ الكهف : ۹۷ الصف : ١٠ منقول از آئینہ کمالات اسلام ٹائیٹل پیج.روحانی خزائن جلد ۵ كشف الخفاء للعجلونی ۵۶۸:۲ اسد الغابہ جلد ۳.عمر بن الخطاب، اسلامہ رضی اللہ عنہ صفحہ ۳۲۲.طبع ۲۰۰۱ء مجمع الذ وائد.جلد ۹ صفحه ۶۴ - طبع ۱۳۵۳ھ.القاھرہ.(مفہوماً ) یبین : ۳۱ المومن : ۸۴ -11 -١٢ تذکره صفحه ۲ ۴۹۴،۴۹۳،۴۵ - طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۱۷۲ طبع ۲۰۰۴ء ۱۳ صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب من فضائل علی بن طالبہ ۴ ۱۴ صحیح البخاری کتاب الادب باب الكنيةِ للصَّبِى وَقَبْلَ أَن يُولَدَ للرَّجُلِ ۱۵ صحیح البخاری کتاب التعبير - باب الرُّؤْيَا بِالنَّهَار -۱۲ - -17 -12 -IA -19 - ۲۰ -۲۱ لوقا باب ۷.آیت ۳۷ تا ۳۹ ۱۷ یسین : ۳۱ آل عمران : ۶۲ الشعراء: ۲۲۸ آل عمران : ۷ الشعراء : ۱۹-۲۳

Page 77

-۲۲ -٢٣ هود : ۷۶ الصفت : ١٠٢ مضامین بشیر ۲۴- تذکره صفحه ۲۰ طبع ۲۰۰۴ء - ۲۵ النساء : ۶۰ یوسف : ۷۷ ۲۷ - الشعراء: ۱۵ -۲۸ متنی باب ۲۲.لوقا باب ۲۰ ۲۹ - تاریخ طبری -۳۲ البقرہ : ۲۰۶ تاج العروس یونس : ۹۱ ۳۳ - آل عمران : ۱۰۴ : ۳۴- الحجرات : ۱۱ ۳۵ - صحیح البخاری کتاب الادب.باب رحمَةِ النَّاسِ والبهائهم ۲۷ -۳۷ -۳۸ الذریت :۲۲ المائده: ۳ صحیح البخاری کتاب المظالم ـ باب أعِنُ احَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا.٢

Page 78

= مضامین بشیر

Page 79

۶۷ ١٩٤٧ء مضامین بشیر حافظ نورالہی صاحب درویش قادیان کی تشویشناک علالت احباب سے دعا کی درخواست قادیان میں ایک صاحب حافظ نورالہی صاحب نامی بہاولپور سے زیارت اور خدمت مرکز کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں.یہ صاحب کچھ عرصہ سے بیمار ہیں اور آج فون پر اطلاع ملی ہے کہ اب ان کی حالت تشویشناک ہے.چونکہ قادیان کے دوست آج کل جماعت کی مخصوص دعاؤں کے حقدار ہیں اور حافظ نور الہی صاحب ذاتی طور پر بھی بہت مخلص اور نیک آدمی ہیں.اس لئے دوستوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان کے لئے خصوصیت سے دعا کریں.( مطبوعه الفضل ۲۱ / اپریل ۱۹۴۷ ء )

Page 80

مضامین بشیر ۶۸ نماز میں اتباع امیر اور اتحاد ملت کا لطیف سبق پرسوں مغرب کی نماز کے وقت چونکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت ناساز تھی.اس لئے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے نماز پڑھائی اور بتقاضائے بشری تیسری رکعت میں دو سجدوں کی بجائے چار سجدے کر گئے.بعض قریب کے مقتدیوں نے ”سبحان اللہ کہہ کر اس غلطی کی طرف توجہ بھی دلائی مگر مولوی صاحب نے اس کا خیال نہ کیا اور اپنی یاد کو صحیح سمجھتے ہوئے چارسجدے پورے کر گئے اور جیسا کہ شریعت کا مسئلہ ہے ، ان کی اتباع میں ہم سب کو بھی چارسجدے ہی کرنے پڑے.اس وقت مجھے خیال آیا کہ اسلام کیسا کامل اور حکیمانہ مذہب ہے کہ اس معمولی سے مسئلہ میں بھی اس نے اتباع امیر اور اتحاد ملت کا سارا فلسفہ بھر دیا ہے.جو یہ ہے کہ اگر کبھی تمہارا امام کوئی اجتہادی غلطی کرتا ہے یا بشری کمزوری کے ماتحت بھول چوک اور نسیان کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ غلطی یا بھول چوک ایسی ہوتی ہے کہ تم اسلامی تعلیم کے ماتحت یقین رکھتے ہو کہ وہ حقیقتاً ایک غلطی اور بھول چوک ہے تو اس صورت میں تم واجبی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے اس غلطی کی طرف توجہ دلا سکتے ہو لیکن اگر پھر بھی وہ اپنے فعل کو درست خیال کرتے ہوئے اپنے رستہ پر قائم رہے تو تمہیں یہ اختیار ہرگز نہیں ہے کہ اسے چھوڑ کر الگ ہو جاؤ یا اس کے فعل کے خلاف عمل شروع کر دو بلکہ اس صورت میں بھی تمہارا فرض ہے کہ امام کو غلطی خوردہ سمجھنے کے باوجود اس کا ساتھ دو اور بہر حال اس کے فعل کی اتباع کرو تا کہ قومی اتحاد میں رخنہ نہ پیدا ہو.یہ وہ لطیف اور اصولی سبق ہے جو نماز سے تعلق رکھنے والے ایک معمولی سے مسئلہ سے ہمیں حاصل ہوتا ہے اور یہ سبق اسلام کے کمال اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی ایک بین دلیل ہے.کیونکہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح اسلام نے اپنے تمام احکام کو خواہ وہ کسی میدان سے تعلق رکھتے ہیں اور خواہ وہ بڑے ہیں یا چھوٹے ، بعض مشتر کہ اصولوں کی لڑی میں پرو رکھا ہے.جیسا کہ نماز کے اس مسئلہ کو کہ اگر امام کوئی بات بھول جائے تو مقتدیوں کو کیا کرنا چاہئے.اتباع امیر اور اتحاد ملت کے اصول کے ساتھ پیوست کر دیا گیا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ امام کی ہر حالت میں اتباع کرنی چاہئے خواہ وہ ٹھیک رستہ پر گامزن ہو یا کہ کسی وقت بھول کر کوئی غلط رستہ

Page 81

۶۹ مضامین بشیر اختیار کر لے.ہاں اگر منبع اور مقتدی کو یہ یقین ہو کہ امام غلطی کر رہا ہے تو وہ مناسب طریق پر اسے اس غلطی کی طرف توجہ دلا سکتا ہے لیکن اگر پھر بھی امام اپنے رستہ پر قائم رہے تو متبع اور مقتدی کا فرض ہے کہ وہ اس صورت میں بھی امام کی اتباع کرے.کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو قومی اور ملی شیرازہ منتشر ہو کر خطرناک فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ الفاظ فرمائے ہیں کہ : إِنَّمَا جُعِلَ الاِمَامُ لِيُوْ تَمَّ بِهِ...یعنی امام کا تقرر تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے.“ 66 پس نماز کا یہ معمولی سا مسئلہ بھی ہمارے لئے ایک بھاری سبق رکھتا ہے.جس پر عمل کر کے ہم قومی تنظیم و ترقی کا دروازہ کھول سکتے ہیں مگر ساتھ ہی اسلام نے کمال حکمت سے ہمیں یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ اگر کبھی کوئی امام غلطی کرے تو اسے گستاخانہ رنگ میں برملا طور پر یہ نہ کہا کرو کہ آپ غلطی کر رہے ہیں.بلکہ اشارہ کنایہ کے ساتھ بتا دیا کرو کہ اس معاملہ میں غلطی ہو گئی ہے.چنانچہ نماز میں امام کو اس کی غلطی پر توجہ دلانے کے لئے اسلام نے یہ پیارے الفاظ مقرر فرمائے ہیں کہ سبحان اللہ یعنی غلطی اور بھول چوک سے پاک تو صرف خدا ہی کی ذات ہے“.ان الفاظ میں حکمت یہ ہے کہ ایک طرف امام کا ادب و احترام بھی قائم رہے اور دوسری طرف اسے ان الفاظ سے اس طرف توجہ بھی ہو جائے کہ جب مجھے خدا کا بے عیب ہونا یاد دلایا جا رہا ہے تو شاید مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے.اس طرح اس چھوٹے سے مسئلہ میں اسلام نے اتحاد قومی اور اتباع امام اور احترام امیر کے گہرے فلسفہ کو اس طرح بھر دیا ہے کہ جس طرح ہماری زبان کے محاورہ میں ایک کوزے کے اندر دریا بھر دیا جاتا ہے.باقی رہا یہ سوال کہ اگر کوئی امیر دانستہ اور جان بوجھ کر کوئی ایسا مسلک اختیار کرے جو صریح طور پر خلاف شریعت ہے تو اس صورت میں اسلام کیا تعلیم دیتا ہے؟ سو جہاں تک خدا کے مقرر کردہ دینی خلفاء کا تعلق ہے.ان کے متعلق یہ صورت پیدا ہی نہیں ہوسکتی.کیونکہ خدا جس نے ان کو خلیفہ بنایا ہوتا ہے، خود ان کا محافظ ہوتا ہے اور گو وہ اجتہادی غلطی کر سکتے ہیں اور رائے کی لغزش سے بالا نہیں ہوتے مگر وہ دانستہ اور جان بوجھ کر کسی خلاف شریعت راستہ پر گامزن نہیں ہوتے.ہاں دنیوی اور سیاسی امراء کا معاملہ جدا گانہ ہے.جن کے لئے شریعت نے علیحدہ احکام جاری فرمائے ہیں مگر اس جگہ ان کے بیان کی ضرورت نہیں.( مطبوعه الفضل ۲۴ فروری ۱۹۴۷ء)

Page 82

مضامین بشیر < • قادیان میں الحمد للہ سب خیریت ہے گزشتہ ایام کے فسادات کی وجہ سے قادیان بیرونی علاقوں سے بالکل کٹ گیا تھا کیونکہ نہ ریل باقی رہی تھی نہ ڈاک نہ تارا اور نہ ٹیلیفون.ان ایام میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جو آج کل سندھ میں تشریف رکھتے ہیں.مختلف مقامات سے تاریں دلوا کر حالات سے مطلع رکھنے کی کوشش کی گئی.مگر معلوم ہوا ہے کہ ان تاروں میں سے بہت کم تاریں حضور تک پہنچ سکی ہیں.اسی طرح جو تاریں بیرونی جماعتوں کی خیریت دریافت کرنے اور مرکز سلسلہ کی خیریت کی خبر پہنچانے کے متعلق دی گئیں ، وہ بھی بہت کم پہنچ سکی ہیں.البتہ گا ہے گا ہے لاہور اور امرتسر کی جماعت کے ساتھ بعض ذرائع سے مواصلات قائم کرنے کا موقع ملتا رہا ہے.اس عرصہ میں الفضل کو بھی یک ورقہ صورت میں بدل دیا گیا تھا کیونکہ اس کے باہر بھجوانے کی کوئی صورت نہیں تھی اور نہ ہی باہر سے خبریں موصول ہونے کا کوئی انتظام تھا.اب چونکہ خدا کے فضل سے کم از کم وقتی طور پر حالات پر امن ہیں.اور ڈاک بھی اولاً تانگوں کے ذریعہ سے اور اب روزانہ ایک ڈیزل کار کی سروس قائم ہو جانے کی وجہ سے جاری ہو گئی ہے.اس لئے اس اعلان کے ذریعہ احباب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ قادیان میں خدا کے فضل سے ہر طرح خیریت ہے اور سندھ سے آمدہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی معہ اہل و عیال و عملہ ہر طرح خیریت سے ہیں.لاہور اور ملتان اور امرتسر سے بھی اطلاع پہنچ چکی ہے کہ وہاں کی جماعتیں خدا کے فضل سے بخریت ہیں.البتہ امرتسر میں ایک دوست کو خفیف ضربات آئی تھیں مگر اب وہ رو بصحت ہیں.امرتسر میں جماعت کے بعض دوستوں کا کچھ مالی نقصان بھی ہوا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو.راولپنڈی اور بعض دوسرے مقامات کے دوستوں کے متعلق ابھی تک کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی.احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان فتنوں کے ایام میں جماعت کو اس کے پیارے امام کی قیادت میں ہر طرح خیریت و حفاظت کے ساتھ رکھے اور دوسرے مسلمانوں ، ہندوؤں اور سکھوں کو بھی توفیق دے کہ وہ آپس میں امن اور محبت کے ساتھ زندگی گزار سکیں.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فسادات کے ابتدا میں ہی قادیان میں ایک امن کمیٹی بنادی گئی تھی.جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں اور سکھوں اور ہندوؤں نے بھی شرکت کی اور اس کمیٹی کی وجہ سے قادیان اور اس کے ماحول میں الحمد للہ اچھا اثر پیدا ہوا ہے.( مطبوعہ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۴۷ء)

Page 83

مضامین بشیر اردو زبان کو خراب ہونے سے بچاؤ قرآنی محاورہ کو برقرار رکھنا برکت و فصاحت کا موجب ہے اردو زبان بھی کس قدر قابلِ رحم ہے کہ اسے اس وقت دوقوموں کے سیاسی مصالح کا تیر پیہم خراب کرنے کے درپے ہے.ہندو اس کے اندر ہندی اور سنسکرت کے انوکھے الفاظ اور غیر مانوس محاورات شامل کر کے اسے گویا شدھ کرنے کا آرزومند ہے.اور مسلمان اس میں عربی اور فارسی کے مشکل صیغے اور دور افتادہ بندشیں داخل کر کے اسے بزعم خود کلمہ پڑھانے اور مومن بنانے کا خواہاں ہے اور اس جدو جہد کو دونوں قومیں بھاری دینی اور قومی خدمت خیال کر کے نا دانستہ طور پر ہماری مشتر کہ زبان اردو کا ستیا ناس کر رہی ہیں.بے شک دوسری جاندار چیزوں کی طرح زبان بھی ایک بدلنے والی اور ترقی کرنے والی چیز ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی مصالح کے ماتحت تکلف اور تصنع کا طریق اختیار کر کے زبان کے طبعی نشو و نما کو غیر فطری ملمع سازی کے راستہ پر ڈال دیا جائے.ہندوؤں نے تو اردو زبان میں ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کی اتنی بھر مار شروع کر دی ہے کہ میں بلا مبالغہ کہ سکتا ہوں کہ جب کوئی ہندو صا حب ریڈیو پر تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو با وجود اس کے کہ وہ اردو میں بولنے کے مدعی ہوتے ہیں.ان کی تقریر کے پچاس فیصدی الفاظ قطعی طور پر سمجھے نہیں جاسکتے اور دو چار منٹ کی توجہ کے بعد سمجھنے کی کوشش مجبور اترک کرنی پڑتی ہے.مگر اس جگہ مجھے اصل گلہ ہندوؤں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے کرنا ہے.جو ہندوؤں کی ضد میں آکر خواہ مخواہ اپنی زبان کو خراب کر رہے ہیں اور سادہ اور صاف اور مانوس الفاظ کی جگہ دور افتادہ اور مشکل الفاظ کو داخل کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم زبان کی خدمت کر رہے ہیں.حالانکہ یہ خدمت نہیں بلکہ عداوت ہے اور تعمیر نہیں بلکہ تخریب ہے.اور پھر لطف یہ ہے کہ بعض نام نہاد اصطلاحیں تو ایسی ہیں کہ ایک فصیح لفظ کو چھوڑ کر جو قرآنی محاورہ کے بھی عین مطابق ہے ( اور قرآن کی زبان عربی محاورہ کی اصل الاصول ہے ) ایک نسبتاً غیر فصیح اور قرآنی محاورہ کے خلاف لفظ اختیار کر لیا گیا ہے.میں اس جگہ زیادہ مثالیں نہیں دینا چاہتا صرف دو بدیہی اور موٹی مثالیں دے کر بتا تا ہوں کہ کس طرح خود مسلمانوں کی طرف سے اردو زبان کو بگاڑا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی قرآنی محاوروں

Page 84

مضامین بشیر ۷۲ کو بھی بدل کر نئے اور بالکل غیر مانوس محاورے قائم کئے جا رہے ہیں.اس ضمن میں پہلی مثال جو میں دینا چاہتا ہوں.وہ مبارک باد کے لفظ سے تعلق رکھتی ہے.یہ لفظ اردو زبان میں اس قدر کثیر الاستعمال اور متعارف ہے کہ مسلمانوں کا بچہ بچہ تو اسے جانتا ہی ہے.غیر مسلموں یعنی ہندوؤں اور سکھوں میں بھی یہ لفظ ایسا عام فہم ہے کہ شہری ہندو اور سکھ تو الگ رہے.دیہات کے سکھ اور ہندو بھی اس لفظ کو اچھی طرح سمجھتے اور اسے اپنی گفتگو میں کثرت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں.مگر مسلمان مصنفوں اور خصوصاً مسلمان اخبار نویسوں نے اس سادہ اور عام فہم لفظ کو بھی بدل کر ایک ایسی صورت دے دی ہے.جو نہ صرف غیر مسلموں کے لئے بالکل غیر مانوس ہے بلکہ بہت سے مسلمان کہلانے والے بھی اس لفظ کو نہیں سمجھتے.اور کم از کم ثقیل اور غیر مانوس خیال کرتے ہیں.میری مراد تبریک کے لفظ سے ہے.جو کچھ عرصہ سے مبارکباد کے لفظ کی جگہ استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے.حالانکہ یہ لفظ صرف ثقیل اور غیر مانوس ہی نہیں بلکہ قرآنی محاورہ کے بھی سراسر خلاف ہے.قرآن شریف نے اس لفظ کو فعل اور اسم فاعل کی صورت میں اٹھارہ جگہ استعمال کیا ہے.اور ان اٹھارہ جگہوں میں سے ایک جگہ بھی باب تفعیل کی صورت میں استعمال نہیں کیا.جس سے کہ لفظ تبریک تعلق رکھتا ہے بلکہ لازما ہر جگہ باب مفاعلہ کی صورت میں استعمال کیا ہے ، جس سے لفظ مبارکباد کا تعلق ہے.مثلا سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.سُبْحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بُرَكْنَا حَوْلَهُ...اسی طرح سورہ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَهُذَا كِتَب أَنْزَلْنَهُ مُبْرَك...,, ان دونوں موقعوں پر اور اسی قسم کے باقی ماندہ سولہ موقعوں پر قرآن شریف نے بلا استثناء باب مفاعلہ استعمال کیا ہے.اور کسی ایک جگہ بھی باب تفعیل استعمال نہیں کیا.پھر نہ معلوم کیوں ہمارے دوست بلا وجہ باب مفاعلہ کو چھوڑ کر تبریک کے لفظ کے گرویدہ ہو رہے ہیں.جو ثقیل بھی ہے اور غیر مانوس بھی اور قرآنی محاورہ کے خلاف بھی.بے شک کبھی کبھی عربی زبان میں ”برک“ کا لفظ بھی مبارک باد دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.اور لغت کے لحاظ سے ہم اسے غلط نہیں کہہ سکتے لیکن ایک زیادہ فصیح اور زیادہ مستعمل اور زیادہ مانوس لفظ کو چھوڑ کر جو قر آنی محاورہ کے بھی عین مطابق ہے.ایک ثقیل اور دور افتادہ اور غیر مانوس لفظ کو اختیار کرنا جو قرآنی محاورہ کے بھی خلاف ہے، ادبی اور لسانی اصول کے لحاظ سے نہایت درجہ قابل اعتراض ہے.مگر آج کل جسے دیکھو ہدیہ تبریک ہدیہ

Page 85

۷۳ مضامین بشیر تبریک“ کے الفاظ سے سرشار نظر آتا ہے اور خود احمدی نوجوان بلکہ الفضل کے کا رکن بھی اس رو میں بہے جار ہے ہیں اور اپنی جگہ بہت خوش ہیں کہ ہم نے زبان میں ایک خاص جدت پیدا کی ہے اور بڑی ترقی کا رستہ کھولا ہے.حالانکہ زبانوں کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ ترقی نہیں بلکہ تنزل اور تخریب ہے.اگر میں بھولتا نہیں تو اس اتحاد کا سہرا غالبا زمیندار اخبار کے سر ہے.جس نے جدت پسندی کے زبر دست جذبہ کے ماتحت یہ لفظ ایجاد کیا اور پھر دوسرے مسلمانوں نے محض کورانہ تقلید اور عجوبہ پسندی کے رنگ میں اس کا استعمال شروع کر دیا.مگر کم از کم ہماری جماعت کے دوست تو جو سلطان القلم کے روحانی فرزند ہیں ، اس غلطی سے محفوظ رہنے چاہئیں.دوسری مثال جو میں اس جگہ دینا چاہتا ہوں وہ لفظ ” اسلامی سے تعلق رکھتی ہے.جو کچھ عرصہ سے لفظ مسلمان کا قائمقام بن کر ہماری زبان کو خراب کر رہا ہے آجکل ایسے محاورے کثرت سے اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں کہ " اسلامیان ہند یہ چاہتے ہیں اور اسلامیان پنجاب کی غیرت کا تقاضا یہ ہے وغیرہ وغیرہ حالانکہ صحیح لفظ مسلمان ہے نہ اسلامی.قرآن شریف نے اس لفظ کو غالباً انتالیس جگہ استعمال کیا ہے اور سب جگہ بلا استثناء اسم فاعل کے صیغے کے رنگ میں مسلمان کا لفظ ہی استعمال ہے.بلکہ ایک جگہ تو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کر کے یہاں تک فرمایا ہے کہ :.هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ...یعنی حضرت ابراہیم نے تمہارے لئے خدائی منشاء کے ماتحت مسلمان کی اصطلاح قائم کی اور اسے دنیا میں جاری کیا پس کوئی وجہ نہیں کہ اس مانوس اور عام فہم بلکہ گویا خدا تعالیٰ کے رکھے ہوئے نام کو ترک کر کے جسے نہ صرف خود مسلمان بلکہ ہندؤوں اور سکھوں کا بچہ بچہ تک جانتا اور سمجھتا ہے ”اسلامی“ کا لفظ استعمال کیا جائے اور اردو زبان کو نہ صرف مشکل اور غیر مانوس بنایا جائے بلکہ معروف قرآنی محاورہ سے بھی دور کر دیا جائے.کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمانانِ پنجاب “ یا ” پنجاب کے مسلمان“ کے الفاظ کی بجائے ” اسلامیانِ پنجاب کا محاورہ استعمال کریں.جو صرف غیر مانوس ہی نہیں بلکہ قرآنی محاورہ اور اسلامی اصطلاح کے بھی سراسر خلاف ہے.اوپر کے دو الفا ظ صرف مثال کے طور پر بیان کئے گئے ہیں.ورنہ آج کل کی اردو زبان میں ایسے الفاظ اور محاورات کثرت کے ساتھ داخل ہو گئے ہیں.یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہئے کہ داخل کئے جا رہے ہیں جو بلا وجہ اور بلا کسی حقیقی ضرورت کے اردو زبان کو مشکل اور پیچدار بناتے چلے جا رہے ہیں.اور اس طرح سادگی اور عام نہی کے جو ہر کو جو دراصل ہر ترقی کرنے والی زبان کی جان

Page 86

مضامین بشیر ۷۴ ہے ، سرعت کے ساتھ ضائع کیا جا رہا ہے.جس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ مزید ضد میں آکر ہندو کی یہ کوشش رہتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہوار دو میں ہندی اور سنسکرت کے الفاظ داخل کر کے اسے مسلمانوں کے لئے ایک گورکھ دھندا بنا دیا جائے.کچھ عرصہ ہوا میں نے ایڈیٹر صاحب انقلاب لا ہور کو اس نقص کی طرف توجہ دلائی تھی اور انہوں نے کسی حد تک اس کا اعتراف بھی کیا تھا.مگر آج کل ایجادو اختراع کی روایسی زوروں پر ہے کہ ایڈیٹر صاحب انقلاب بھی عملاً اس کا مقابلہ نہیں کر سکے.حالانکہ بالعموم انقلاب کی زبان دوسرے اخباروں کی نسبت زیادہ صاف اور زیادہ بامحاورہ ہوتی ہے.بہر حال میں امید کرتا ہوں کہ کم از کم ہماری جماعت کے دوست عموماً اور الفضل اور دوسرے احمدی جرائد کا عملہ خصوصاً اس بارہ میں زمانہ کی غلط رو میں بہنے سے بچے گا اور اردو زبان کو فصاحت اور سلاست کی ان طبعی حدود کے اندراندر رکھنے کی کوشش کرے گا جو ایک علمی زبان کی زندگی اور ترقی کے لئے ضروری ہیں.( مطبوعه الفضل ۸ رمئی ۱۹۴۷ء)

Page 87

۷۵ مضامین بشیر خالصہ ! ہوشیار باش سکھ صاحبان سے ایک دردمندانہ اپیل سیاسی حالات بھی عجیب طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں.ابھی ۱۹۴۶ء کے اوائل کی بات ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے کہ سکھ قوم اس بات پر ہندؤوں سے سخت بگڑی ہوئی تھی کہ وہ کانگرس کے نظام کے ماتحت ان کی پنتھک حیثیت اور پنتھک وقار کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.اور ان کی مستقل قومی حیثیت کو مٹا کر اپنے اندر جذب کر لینے کے درپے ہیں.چنانچہ اسی زمانہ کے بعد کا واقعہ ہے کہ سکھوں کے مشہور لیڈر ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے اپنے ”سنت سپاہی“ نامی گورمکھی رسالہ کے اگست ۱۹۴۶ء کے نمبر میں ”ہندو مسلماناں نال ساڈے سمبدھ کے مضمون کی ذیل میں لکھا تھا کہ :- ”مذہبی اصولوں کے لحاظ سے سکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں.مگر تہذیب اور برادری کے تعلقات ہندوؤں سے زیادہ ہیں...ہندوؤں میں ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں نگل جانا چاہتا ہے...مسلمانوں سے ہمارے تعلقات بھی کم ہیں اور خطرہ بھی کم ہے...میں مسلمانوں سے سمجھوتہ اور بہتر تعلقات پیدا کرنے کے حق میں ہوں...ہندوؤں میں ایسے لوگ ہیں جو ڈھنگ یا استادی سے سکھوں کو نگل جانا چاہتے ہیں...ہندوؤں کا پچھلا وطیرہ اور تاریخ ہمیں پورا بھروسہ نہیں ہونے دیتی اور ہمیں خبر دار ہی رہنا چاہئے...یقین رکھو کہ کانگرس اور ہندوؤں نے ہماری علیحدہ پولیٹیکل ہستی کو مٹانے کی کوشش کرنی ہے.پچھلے انتخابات میں یہ کوشش بہت زور سے کی گئی تھی لیکن ہم بچ گئے.اگر آج پنجاب اسمبلی کے سارے سکھ ممبر کا نگرس ٹکٹ پر ہوتے 66 تو ہم ختم تھے.“ یہ الفاظ جن کے لکھے جانے پر ابھی بمشکل نو ماہ کا عرصہ گزرا ہے.ایک ایسے سکھ لیڈر کے قلم سے نکلے ہیں جو ہندو سے سکھ بنا ہے اور ہم ان الفاظ پر قیاس کر کے سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت قدیم سکھوں اور خصوصا جاٹ سکھوں میں ہندوؤں کے متعلق کیا خیالات موجزن ہوں گے.مگر آج

Page 88

مضامین بشیر ۷۶ یہی پنجاب کا نامور خالصہ ہندوؤں کی آغوش میں راحت محسوس کر رہا ہے.مجھے تسلیم کرنا چاہئے کہ اس غیر معمولی تبدیلی کی ذمہ داری کسی حد تک مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے.جنہوں نے سکھوں کو اپنے ساتھ ملانے میں پوری توجہ اور جد و جہد سے کام نہیں لیا.مگر اس انقلاب کا اصل سہرا ہند وسیاست کے سر ہے ، جس نے اتنے قلیل عرصہ میں اپنی گہری تدبیر کے ذریعہ سکھ کو گو یا بالکل اپنا بنا لیا ہے لیکن جس اتحاد کی بنیاد محض دوسروں کی نفرت و عداوت کے جذبہ پر ہو، وہ زیادہ دیر پا نہیں ہوا کرتا اور سمجھدار سکھوں کی آنکھیں آہستہ آہستہ اس تلخ حقیقت کے دیکھنے کے لئے کھل رہی ہیں کہ ان کے لئے پنجاب میں ہندوؤں کی سانجھ سو فیصدی خسارہ کا سودا ہے.” پنجاب کی تقسیم “یا ” پنجاب کا بٹوارہ “ ایک ایسا نعرہ ہے جس کے وقتی طلسم میں ہند و سیاست نے سکھ کو مخمور کر رکھا ہے مگر کیا کبھی کسی دانشمند سکھ نے ٹھنڈے دل سے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ پنجاب کی مزعومہ تقسیم کے نتیجہ میں سکھ کیا لے رہا ہے اور کیا دے رہا ہے.یہ دو ٹھوس حقیقتیں بچے بچے کے علم میں ہیں کہ (۱) پنجاب میں سکھ صرف ۱۳ فیصدی ہے اور (۲) پنجاب کے ۲۹ ضلعوں میں سے کوئی ایک ضلع بھی ایسا نہیں ہے جس میں سکھوں کی اکثریت ہو.کیا اس روشن صداقت کے ہوتے ہوئے پنجاب کی کوئی تقسیم سکھ مفاد کو فائدہ پہنچا سکتی ہے؟ جو قوم ہر لحاظ سے اور ملک کے ہر حصہ میں اقلیت ہے وہ ملک کے بٹنے سے بہر حال مزید کمزوری کی طرف جائے گی اور ملک کی ہر تقسیم خواہ وہ کسی اصول پر ہو اس کی طاقت کو کم کرنے والی ہوگی نہ کہ بڑھانے والی.یہ کہنا کہ فلاں حصہ کے الگ ہو جانے سے اس حصہ میں سکھوں کی آبادی کا تناسب بڑھ جائے گا.ایک خطر ناک سیاسی دھوکہ ہے.کیونکہ بہر صورت پنجاب کے دونوں حصوں میں سکھ ایک کمزور اقلیت رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں ایک حصہ کے اندر تناسب آبادی میں خفیف سی زیادتی کی وجہ سے اپنی مجموعی طاقت کو بانٹ لینا خود کشی سے کم نہیں.برطانوی پنجاب میں سکھوں کی موجودہ آبادی ساڑھے سینتیس لاکھ ہے اور ان کی آبادی کا تناسب تیرہ فیصدی ہے.اب موجودہ تجویز کے مطابق پنجاب اس طرح بانٹا جا رہا ہے کہ ایک حصہ میں پونے سترہ لاکھ چلا جاتا ہے اور دوسرے میں پونے اکیس لاکھ اور جس حصہ میں پونے اکیس لاکھ چلا جاتا ہے وہاں ان کی آبادی قریباً اٹھارہ فیصدی ہو جاتی ہے اور دوسرے حصہ میں قریباً دس فیصدی رہ جاتی ہے تو کیا اس صورت میں دنیا کا کوئی سیاستدان یہ خیال کر سکتا ہے کہ ایسی تقسیم سکھوں کے لئے مفید ہوگی.جہاں وہ تیرہ فیصدی سے قریباً اٹھارہ فیصدی ہو جائیں گے.وہاں بھی بہر حال وہ ایک کمزور اقلیت رہیں گے اور ان کے لئے تناسب آبادی کا خفیف فرق عملاً بالکل بے نتیجہ اور بے سود ہو گا مگر دوسری طرف یہ تقسیم ان کی مجموعی طاقت کو دوحصوں میں بانٹ کر ( یعنی ۳۷ کی بجائے ۱۶ اور ۲۱ کے دو حصے کر کے ) ان کی قومی طاقت کو سخت کمزور کر دے گی.یہ ایک

Page 89

مضامین بشیر ٹھوس اور بین حقیقت ہے جسے دنیا کا کوئی مسلمہ سیاسی اصول رد نہیں کر سکتا.اگر پنجاب ایک رہے تو سکھ قوم ساڑھے سینتیس لاکھ کی ایک زبر دست متحد جماعت ہے.جس کا سارا زور ایک ہی نکتہ پر جمع رہتا ہے لیکن اگر پنجاب بٹ جائے تو خواہ وہ کسی اصول پر بٹے سکھوں کی طاقت بہر حال دوحصوں میں بٹ جائے گی اور دوسری طرف ان کے آبادی کے تناسب میں بھی کوئی معتد بہ فرق نہیں آئے گا.اور وہ بہر صورت دونوں حصوں میں ایک کمزور اقلیت ہی رہیں گے.کیا یہ حقائق اس قابل نہیں کہ سمجھدار سکھ لیڈران پر ٹھنڈے دل سے غور کریں ؟ یہ کہنا کہ پنجاب کے مختلف ضلعے یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہیئے کہ مختلف حصے آبادی کی نسبت سے نہیں بٹنے چاہئیں بلکہ مختلف قوموں کی جائیداد اور مفاد کی بنیاد پر بننے چاہئیں ایک طفل تسلی سے زیادہ نہیں کیونکہ :.اول تو یہ مطالبہ دنیا بھر کے مسلمہ سیاسی اصولوں کے خلاف ہے اور جمہوریت کا بنیادی نظریہ اس خیال کو دور سے ہی دھکے دیتا ہے.دوسرے جائیداد میں ایک آنی جانی چیز ہیں اور ان پر اس قسم کے مستقل قومی حقوق کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی جو انسانی جانوں اور ان جانوں کے تحفظ اور ترقی سے تعلق رکھتے ہیں.تیسرے.اس سوال کو اٹھانے کا یہ مطلب ہے کہ ملک کے نئے دور کی سیاست کی بنیا د مساوات انسانی پر رکھنے کی بجائے روز اول سے ہی انفرادی برتری اور جماعتی تفوق اور جبر و استبداد پر رکھی جائے جس کے خلاف غریب ہندوستان صدیوں سے لڑتے ہوئے آج خدا خدا کر کے آزادی کا منہ دیکھنے لگا ہے.چوتھے.سکھوں کی یہ جائیدادیں بڑی حد تک ان کی حکومت کے زمانہ کی یادگار ہیں.جبکہ ان میں سے کئی ایک نے اولاً اپنی طوائف الملوکی کے زمانہ میں اور بعدہ اپنی استبدادی حکومت کے دوران میں دوسرے حقداروں سے چھین کر ان جائیدادوں کو حاصل کیا.تو کیا یہ انصاف اور دیانتداری کا مطالبہ ہے کہ اس رنگ میں حاصل کئے ہوئے اموال پر آئندہ سیاست کی بنیاد رکھی جائے.ہم ان کی یہ جائیدادیں ان سے واپس نہیں مانگتے.جو مال ان کا بن چکا ہے وہ انہیں مبارک ہو مگر ایسے اموال پر سیاسی حقوق کی بنیاد رکھنا جو آج سے چند سال قبل کسی اور کی ملکیت تھے.دیانتداری کا طریق نہیں ہے.پانچویں.دنیا کا بہترین مال انسان کی جان ہے.جو نہ صرف سارے مالوں سے افضل اور برتر ہے.بلکہ ہر قسم کے دوسرے اموال کے پیدا کرنے کا حقیقی ذریعہ ہے.پس جان اور نفوس کی تعداد

Page 90

مضامین بشیر ZA کے مقابلہ پر پیسے کو پیش کرنا ایک ادنیٰ ذہنیت کے مظاہرہ کے سوا کچھ نہیں.چھٹے.کون کہہ سکتا ہے کہ سکھوں کی جائیداد کی مالیت واقعی زیادہ ہے.کیونکہ جائیداد کی قیمت عمارتوں کی اینٹوں یا زمین کے ایکڑوں پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ بہت سی باتوں کا مجموعی نتیجہ ہوا کرتی ہے.اور جب تک ان ساری باتوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ نہ لیا جائے.سکھوں کا یہ دعویٰ کہ ہماری جائیدادیں زیادہ ہیں.ایک خالی دعوی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.خصوصاً جب کہ ابھی تک ایکڑوں کا صحیح قوم وار تناسب بھی گنتی میں نہیں لایا جا سکا.سکھ صاحبان کا یہ خیال کہ ہندو اور ہم ایک ہیں اور اس لئے ان کے ساتھ مل کر مشرقی پنجاب میں ہماری اکثریت ہو جائے گی پہلے دھو کے سے بھی زیادہ خطرناک دھوکہ ہے.کیونکہ اس میں ایک ایسے بیچ دار اصول کا واسطہ پڑتا ہے.جس کا حل نہ ہندو کے پاس ہے اور نہ سکھ کے پاس.سوال یہ ہے کہ کیا ہندو اور سکھ ایک قوم ہیں ؟ اس سوال کے امکانا دوہی جواب ہو سکتے ہیں.ایک یہ کہ ہاں وہ ایک قوم ہیں اور دوسرے یہ کہ نہیں بلکہ وہ دو مختلف قومیں ہیں.جن کا مذہب اور تہذیب و تمدن جدا گانہ ہے.مگر ان کا آپس میں سیاسی سمجھوتہ ہے.اب ان دونوں جوابوں کو علیحدہ علیحدہ لے کر دیکھو کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے.اگر سکھ اور ہندو ایک قوم ہیں تو ان کا اس غرض سے پنجاب کو دوحصوں میں بانٹنے کا مطالبہ کہ انہیں اس ذریعہ سے ایک علیحدہ گھر اور وطن میسر آ جاتا ہے.بالبداہت باطل ہو جائے گا.کیونکہ جب سکھ اور ہندو ایک ہیں تو ظاہر ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں جتنے بھی صوبے ہوں گے، وہ جس طرح ہندوؤں کا گھر اور وطن ہوں گے اسی طرح سکھوں کا بھی گھر اور وطن ہوں گے.اور اگر یہ کہو کہ پنجابی سکھوں کا وطن کونسا ہو گا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جب ہندو اور سکھ ایک قوم تسلیم کئے گئے تو پنجابی سکھ کے علیحدہ وطن کا سوال ہی نہیں اٹھ سکتا.جب سکھ بھی ہندوستان کی وسیع ہند و جاتی کا حصہ ہے تو ظاہر ہے کہ جب ہندو جاتی کو وطن مل گیا تو لازماً سکھ کو بھی مل گیا اور اور اس کا علیحدہ مطالبہ سراسر باطل ہے.دوسرے اگر ہندو قوم کے ساتھ ایک ہوتے ہوئے پنجابی سکھ کو علیحدہ وطن کی ضرورت ہے تو یو.پی اور بہار اور مدراس وغیرہ کے مسلمانوں کو کیوں علیحدہ وطن کی ضرورت نہیں.حالانکہ پنجاب کے ۳۷ لاکھ سکھ کے مقابل پر یو.پی کا مسلمان ۸۴ لاکھ اور بہار کا مسلمان ۴۷ لاکھ ہے.اگر مسلمان اپنے سوا کروڑ کمزور بھائیوں کو یو.پی اور بہار میں ہندوؤں کے رحم پر چھوڑ سکتے ہیں تو پنجاب کے ۳۷ لاکھ سکھ جو بقول خود بہادر بھی ہیں اور صاحب مال وزر بھی ، پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کیوں نہیں رہ سکتے.دوسرا امکانی پہلو یہ ہے کہ سکھ ہندوؤں سے ایک الگ اور مستقل قوم ہیں اور علیحدہ مذہب اور علیحدہ تمدن رکھتے ہیں، جس کی علیحدہ حفاظت کی ضرورت ہے.تو اس صورت

Page 91

۷۹ مضامین بشیر میں سوال یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے کون سا حفاظت کا رستہ کھولتی ہے؟ وہ بہر حال پنجاب کے مشرقی حصہ میں بھی ایک اقلیت ہوں گے.جو وسیع ہندو اکثریت کے رحم پر ہوگی.اور اکثریت بھی وہ جو صرف انہی کے علاقہ میں اکثریت نہیں ہو گی.بلکہ سارے ہندوستانی صوبوں کی بھاری اکثریت اس کی پشت پر ہوگی.یہ ماحول کس زندہ اور مستقل قوم کو چین کی نیند سونے دے سکتا ہے؟ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جب قو میں دو ہیں تو پھر ان کا موجودہ سیاسی سمجھوتہ بھی کسی اعتبار کے قابل نہیں.کیونکہ اسے کل کے حالات بدل کر کچھ کی کچھ صورت دے سکتے ہیں.چنانچہ اوپر والے مضمون میں ہی ماسٹر تا راسنگھ صاحب لکھتے ہیں کہ :- " لڑائی جھگڑے تو زمانہ کے حالات کے ماتحت ہوتے اور مٹتے رہتے ہیں.نہ کبھی کسی قوم سے دائمی لڑائی ہو سکتی ہے اور نہ دائمی صلح.اب بھی ہمارا مسلمانوں کے ساتھ کبھی جھگڑا ہوگا اور کبھی صلح ہوگی.یہی صورت ہندوؤں کے ساتھ ہونی ضروری ہے.“..اور ماسٹر تارا سنگھ صاحب کے خیال پر ہی بس نہیں دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ دو مستقل قوموں میں اس قسم کے عارضی سیاسی سمجھوتے ہرگز اس قابل نہیں ہوا کرتے کہ ان کے بھروسہ پر ایک قوم اپنی طاقت کو کمزور کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو دوسری قوم کے رحم پر ڈال دے اور سکھ صاحبان تو اپنی گزشتہ ایک سالہ تاریخ میں ہی ایک تلخ مثال دیکھ چکے ہیں.مگر افسوس ہے کہ وہ پھر بھی حقائق سے آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہیں.کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ فسادات میں سکھوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے.اس لئے انہیں مسلمانوں پر اعتبار نہیں رہا.میں گزشتہ اڑھائی ماہ کی تلخ تاریخ میں نہیں جانا چاہتا مگر اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں کہ سب جگہ مسلمانوں کی طرف سے پہل نہیں ہوئی.اور زیادہ ذمہ داری پہل کرنے والے پر ہوا کرتی ہے.اور فسادات تو جنگل کی آگ کا رنگ رکھتے ہیں.جو ایک جگہ سے شروع ہو کر سب حصوں میں پھیل جاتی ہے اور خواہ اس آگ کا لگانے والا کوئی ہو.بعد کے شعلے بلا امتیا ز سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتے ہیں.میں اس دعوی کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ مسلمانوں نے کسی جگہ بھی زیادتی نہیں کی.لیکن کیا سکھ صاحبان یہ یقین رکھتے ہیں کہ سکھوں نے بھی کسی جگہ زیادتی نہیں کی ؟ آخر امرت سر میں چوک پر اگ داس وغیرہ کے واقعات لوگوں کے سامنے ہیں.اور پھر کئی جگہ بعض بے اصول ہندؤوں نے تیلی لگا کر سکھوں اور مسلمانوں کو آگے کر دیا ہے.اور بالآخر کیا سکھوں کے موجودہ حلیفوں نے بہار میں ہزار ہا کمزور اور بالکل بے بس مسلمانوں پر وہ

Page 92

مضامین بشیر وو ۸۰ قیامت برپا نہیں کی تھی.جس کی تباہی اور قتل و غارت کو نہ پنجاب پہنچ سکتا ہے اور نہ نوا کھلی یا کوئی اور علاقہ.پس اگر گلے شکوے کرنے لگو تو دونوں قوموں کی زبانیں کھل سکتی ہیں.لیکن اگر ملک کی بہتری کی خاطر ” معاف کر دو اور بھول جاؤ کی پالیسی اختیار کرنا چاہو تو اس کے لئے بھی دونوں قوموں کے لئے اچھے اخلاق کے مظاہرہ کا رستہ کھلا ہے.میں تو شروع ہی سے اپنے دوستوں سے کہتا آیا ہوں کہ موجودہ فسادات کا سلسلہ ایک دور سوء vicious circle کا رنگ رکھتا ہے.احمد آباد کے بعد کلکتہ اور کلکتہ کے بعد نو ا کھلی اور نوا کھلی کے بعد بہار اور گڑھ مکتیر اور بہار اور گڑھ مکستر کے بعد پنجاب و سرحد اور اس کے بعد خدا جانے کس کس کی باری آنے والی ہے.اور جب تک کوئی قوم جرات کے ساتھ اس زنجیر کی کسی کڑی کو درمیان سے تو ڑ نہیں دے گی.اس آگ کا ایک شعلہ دوسرے شعلے کو روشن کرتا جائے گا.جب تک یا تو یہ دونوں قو میں آپس میں لڑ لڑ کر تباہ ہو جائیں گی اور یا قتل و غارت سے تھک کر انسان بننا سیکھ لیں گی.انتقام کی کڑی ہمیشہ صرف جرات کے ساتھ اور عفو اور درگزر کے عزم کے نتیجہ میں ہی توڑی جاسکتی ہے.ورنہ یہ ایک دلدل ہے، جس میں سے اگر ایک پاؤں پر زور دے کر اُسے باہر نکالا جائے تو دوسرا پاؤں اور بھی گہرا جنس جاتا ہے.پس اگر ملک کی بہتری چاہتے ہو تو مسلمان کو بہار اور گڑھ مکتیر کو بھلانا ہوگا.اور ہندو اور سکھ کو نو اکھلی اور پنجاب کو.ہاں ان واقعات سے بہت سے سبق بھی سیکھنے والے ہیں.جو دونوں قومیں انتقام کے جذبہ کو قابو میں رکھ کر بھی سیکھ سکتی ہیں :- میں سکھ صاحبان سے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ موجودہ جوش و خروش کی حالت میں اس بات کو ہر گز نہ بھولیں کہ عموما دو قوموں کے درمیان تین بنیادوں پر ہی سمجھوتے ہوا کرتے ہیں.اول یا تو ان کے درمیان مذہبی اصولوں کا اتحاد ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اکٹھا رہنا چاہتی ہیں.اور یا دوم ان کا تہذیب و تمدن ایک ہوتا ہے.اور یا سوم ان کے اقتصادی نظریے ایک دوسرے سے ملتے ہیں.اب اگر ان تینوں لحاظ سے دیکھا جائے تو سکھ کا سمجھوتا مسلمان سے ہونا چاہئے نہ کہ ہندو کے ساتھ کیونکہ : اول تو سکھوں اور مسلمانوں کے مذہبی اصول ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں.کیونکہ دونوں قو میں تو حید کی قائل ہیں.اور ان کے مقابل پر ہندو لوگ مشرک اور بت پرست ہیں.جن کے ساتھ سکھوں کا مذہبی لحاظ سے کوئی بھی اشتراک نہیں.اور اسی لئے ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے صاف طور پر مانا ہے کہ :.مذہبی اصولوں کے لحاظ سے سکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں“.دوسرے تہذیب و تمدن بھی مسلمانوں اور سکھوں کا بہت ملتا جلتا ہے کیونکہ دونوں سادہ

Page 93

ΔΙ مضامین بشیر زندگی رکھنے والے اور فیاض جذبات کے مالک اور قدیم مہمان نوازی کے اصولوں پر قائم ہیں اور اس کے مقابل پر ہند و تمدن اس سے بالکل مختلف ہے.تیسرے اقتصادی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھی مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں.کیونکہ دونوں کی اقتصادیات کا اسی فی صدی حصہ وہ محاصلِ اراضی اور فوجی پیشے اور ہاتھ کی مزدوری سے تعلق رکھتا ہے.میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک سکھ اور مسلمان زمیندار آپس میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ گویا وہ ایک ہی ہیں.مگر یہ ذہنی اور قلبی اتحاد ایک ہند وا اور سکھ کو نصیب نہیں ہوتا :- پس میں اپنے سکھ ہم وطنوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ واقعات کو بھلا کر اپنے مستقل اور فطری مفاد کی طرف توجہ دیں.دیکھو ہر زخم کے لئے خدا نے ایک مرہم پیدا کی ہے اور قومی زخم بھی بھلانے سے بھلائے جا سکتے ہیں.مگر غیر فطری جوڑ کبھی بھی پائیدار ثابت نہیں ہوا کرتے.اگر ایک آم کے درخت کی شاخ نے دوسرے آم کی شاخ کے ساتھ ٹکرا کر اُسے توڑا ہے تو بے شک یہ ایک زخم ہے جسے مرہم کی ضرورت ہے مگر یہ حقیقت پھر بھی قائم رہے گی کہ جہاں پیوند کا سوال ہوگا ، آم کا پیوند آم کے ساتھ ہی قائم ہوگا.دولڑنے والے بھائی لڑائی کے باوجود بھی بھائی رہتے ہیں.مگر دو غیر آدمی عارضی دوستی کے باوجود بھی ایک نہیں سمجھے جا سکتے.ہم ہندوؤں کے بھی خلاف نہیں.وہ بھی آخر اسی مادر وطن کے فرزند ہیں اور بہت سی باتوں میں اُن سے بھی ہمارا اشتراک ہے اور ہماری دلی خواہش تھی کہ کاش ہندوستان بھی ایک رہ سکتا.لیکن اگر ہندوستان کو مجبور ابٹنا پڑا ہے تو کم از کم پنجاب تو تقسیم ہونے سے بچ جائے تا اسے مسلمان بھی اپنا کہہ سکیں اور سکھ بھی اس کے اندر بسنے والے ہندو بھی.اور شائد پنجاب کا خمیر آئیندہ چل کر ہندوستان کو بھی باہم ملا کر ایک کر دے.لیکن جب تک یہ بات میسر نہیں آتی اس وقت تک کم از کم مسلمان اور سکھ تو ایک ہو کر رہیں.یہ جذ بہ خود سمجھدار سکھ لیڈروں میں بھی پیدا ہوتا رہا ہے.چنانچہ گیانی شیر سنگھ صاحب فرماتے ہیں.دو شمالی ہندوستان کے امن کی ضمانت سکھ مسلم اتحاد ہے اور اگر کوئی شخص سکھ مسلم فساد کے زہر کا بیج ہوتا ہے تو وہ ملک کا اور خدا کا اور نسل انسانی کا دشمن ہے...اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندو کو ہندوستان کے باقی صوبوں میں وطن مل رہا ہے اور مسلمان کو پنجاب وغیرہ میں.کیا اچھا ہوتا کہ سکھ بھی اتنی تعداد میں ہوتا اور اس صورت میں آباد ہوتا کہ اُسے بھی ایک وطن مل جاتا.لیکن افسوس ہے کہ موجودہ حالات میں اس کمی کا ازالہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ پنجاب کو خواہ کسی صورت میں بانٹا جائے ،سکھ بہر حال اقلیت میں رہتا ہے بلکہ

Page 94

۸۲ مضامین بشیر دوحصوں میں بٹنے سے اپنی طاقت کو اور بھی کم کر دیتا ہے.تو پھر کیوں نہ وہ اس قوم کے ساتھ جوڑ ملائے جس کے ساتھ اس کا پیوند ایک طبعی رنگ رکھتا ہے.اور پھر اس کے بعد محبت اور تعاون کے طریق پر اور ترقی کے پر امن ذرائع کو عمل میں لا کر اپنی قوم کو بڑہائے اور اپنے لئے جتنا بڑا چاہے وطن پیدا کر لے.آج سے پچاس سال قبل سکھ پنجاب میں صرف ہیں بائیس لاکھ تھے مگر اب اس سے تقریبا ڈیڑھ دو گنے ہیں.اسی طرح آج سے چالیس سال قبل مسلمان پنجاب میں اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے مگر اب وہ ایک قطعی اکثریت میں ہیں اور اس کے مقابل پر ہندو برابر کم ہوتا گیا ہے..پس اس قدرتی پھیلا ؤا اور سکیٹر کو کون روک سکتا ہے؟ پس سکھوں کو چاہیے کہ غصہ میں آکر اور وقتی رنجشوں کی رو میں بہہ کر اپنے مستقل مفاد کو نہ بھلا ئیں.انہیں کیا خبر ہے کہ آج جس قوم کے ساتھ وہ سمجھوتا کر کے پنجاب کو دوحصوں میں بانٹنا چاہتے ہیں.وہ کل کو اپنی وفاداری کا عہد نہ نبھا سکے اور پھر سکھ نہ ادھر کے رہیں اور نہ اُدھر کے.ان کے لئے بہر حال حفاظت اور ترقی کا بہترین رستہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کر لیں اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کے جائز اور معقول مطالبات کو فراخدلی کے ساتھ قبول کریں.بالآخر سکھ صاحبان کو یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ خواہ کچھ ہوسکھوں کے لا تعداد مفاد وسطی اور شمالی اور مغربی پنجاب کے ساتھ وابستہ ہیں.ان کے بہت سے مذہبی مقامات ان علاقوں میں واقع ہیں.ان کی بہترین جائیدادیں ان علاقوں میں پائی جاتی ہیں.ان کے بہت سے قومی لیڈرانہی علاقوں میں پیدا ہوئے اور انہی میں جوان ہوئے اور انہی میں بس رہے ہیں.اور پھر ان کی قوم کا بہترین اور غالباً مضبوط ترین حصہ جسے سکھ قوم کی گویا جان کہنا چاہئے انہی علاقوں میں آباد ہے.تو کیا وہ ہند و قوم کے عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے جس کا حشر خدا کو معلوم ہے ، اپنے اس وسیع مفا دکو چھوڑ کو مشرقی پنجاب میں سمٹ جائیں گے؟ خالصہ ہوشیار باش.خالصہ ہوشیار باش.( مطبوعه الفضل ۹ رمئی ۱۹۴۷ء)

Page 95

۸۳ مضامین بشیر مسلمانوں کا مطالبہ پاکستان اور اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال اس وقت ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسائل کے تعلق میں پنجاب کی تقسیم کا سوال خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے.مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ چونکہ پنجاب جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک طبعی اور قدرتی صوبہ کا رنگ رکھتا ہے اور ایک نا قابل تقسیم یونٹ (unit) ہے.اس لئے اس کی تقسیم کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کا کوئی حصہ مجوزہ پاکستان سے علیحدہ کیا جائے.اس کے مقابل پر ہندوؤں اور سکھوں کا مطالبہ یہ ہے کہ جب ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے تو کیوں پنجاب کے ان حصوں کو تقسیم نہ کیا جائے جن میں ہندو سکھ اکثریت پائی جاتی ہے.بظاہر ایک ناواقف شخص ہندوؤں اور سکھوں کے اس مطالبہ کو معقول سمجھ سکتا ہے اور خیال کر سکتا ہے کہ جب پاکستان کی تقسیم کا سوال زیادہ تر اس بناء پر اٹھایا گیا ہے کہ مسلم اکثریت والے صوبوں کو ہندو اکثریت والے صوبوں سے علیحدہ کر دیا جائے.تو پھر اسی قسم کے حالات اور اسی قسم کے دلائل کے ماتحت پنجاب کے اس حصہ کو جن میں ہندو سکھ اکثریت ہے، کیوں مسلم اکثریت والے حصہ سے علیحدہ نہ کیا جائے.مگر یہ مطالبہ خواہ بعض لوگوں کو معقول نظر آئے حقیقتاً ایک سراسر غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ مطالبہ ہے.جس کی بنیاد ہندو قوم کی خود غرضانہ پالیسی اور فرقہ وارانہ ذہنیت پر قائم ہے.اور بدقسمتی سے آج کل سکھوں کی سادہ لوح قوم بھی اس پالیسی کا شکار ہورہی ہے.ہمارے اس دعوی کے موٹے موٹے دلائل مختصر طور پر یہ ہیں :- اوّل.پاکستان کا بنیادی مطالبہ جیسا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور والے ریزولیوشن سے ظاہر ہے مسلم اکثریت والے صوبوں کی موجودہ حدود پر مبنی تھا اور اس تعلق میں مسلم لیگ کی قرارداد پر کے مطابق صرف ایسی خفیف تبدیلی کی گنجائش رکھی گئی تھی.جو کسی جغرافیائی اصول تقسیم کے لحاظ سے چند مربع میلوں کے آگے پیچھے کرنے کی صورت میں ضروری سمجھی جائے.مثلاً کسی دریا یا پہاڑ کی وجہ سے کسی حصہ میں چند میل آگے حد بڑھانی پڑے یا کسی حصہ میں پیچھے ہٹانی پڑے.تا اگر بالفرض کسی جگہ جغرافیائی تقسیم کے لحاظ سے کوئی حد قابل اصلاح ہو تو اس کی اصلاح کی جاسکے.لیکن ہندوؤں نے اس

Page 96

مضامین بشیر ۸۴ امکانی گنجائش کو نا واجب وسعت دے کر پنجاب کے ہی حصے کرنے شروع کر دئے ہیں.حالانکہ تقسیم پنجاب کا سوال مطالبہ پاکستان کے بنیادی اصول کے خلاف ہے.جو صو بہ ہائے پنجاب وسرحد وسندھ وغیرہ کی موجودہ حالت اور موجودہ وسعت کے پیش نظر کیا گیا تھا.دوم :- پنجاب کا صوبہ اپنے مخصوص جغرافیائی حالات اور اقتصادی نظام اور زبان وغیرہ کے لحاظ سے ایک بالکل طبعی یونٹ ہے.جو ایک مکمل واحد جسم کا حکم رکھتا ہے.اور ظاہر ہے کہ ایک طبعی اور قدرتی یونٹ کو توڑنا نہ صرف کسی طرح جائز اور درست نہیں.بلکہ صوبہ کی ساری آبادی اور جملہ اقوام کے لئے یکساں نقصان دہ اور تباہ کن ہے.کون نہیں جانتا کہ جغرافیائی ربط و اتحاد کے علاوہ پنجاب میں مختلف نہروں کے ہیڈ اور نہروں کی تقسیم اور بجلی کے پاور سٹیشن اور بجلی کی تقسیم اور تجارت کے مرکزی شہر جو گویا سارے علاقہ کے لئے اقتصادی مرکز کا حکم رکھتے ہیں اور ضروری خوردنی پیداوار کی تقسیم وغیرہ وغیرہ پنجاب میں ایسی مخلوط صورت میں واقع ہیں کہ پنجاب کو دوحصوں میں بانٹنا خواہ وہ کسی اصول پر ہو، صوبہ کی اقتصادی زندگی کو تہہ و بالا کر دینے کا موجب اور ساری قوموں کے لئے یکساں ضرر رساں ہے.سوم :.پنجاب میں مختلف قوموں یعنی مسلمانوں اور ہندوؤں اور سکھوں کی آبادی اس طرح ملی جلی صورت میں پائی جاتی ہے کہ پنجاب کی تقسیم فرقہ وارانہ مسئلہ کے حل میں کسی طرح بھی سہولت پیدا نہیں کر سکتی.اور جیسا کہ میں اپنے ایک سابقہ مضمون میں ثابت کر چکا ہوں ہسکھوں کے لئے تو خصوصیت کے ساتھ پنجاب کی تقسیم اس مسئلہ کی پیچیدگیوں کو اور بھی زیادہ بڑھا دیتی ہے.کیونکہ وہ دو حصوں میں بٹ کر کسی طرف کے بھی نہیں رہتے اور اپنی مجموعی طاقت کو بری طرح کھو بیٹھتے ہیں.چہارم :.یہ خیال کہ چونکہ ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے.اس لئے پنجاب کو بھی تقسیم کیا جائے.ایک محض عامیانہ بلکہ کورانہ خیال ہے.جو کسی مسلمہ سیاسی اصول یا حالات کے صحیح موازنہ اور مطالعہ پر مبنی نہیں ہے.ظاہر ہے کہ ہر سوال کو اس کے مخصوص حالات کے ماتحت جانچا اور طے کیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں اندھا قیاس کسی طرح بھی جائز نہیں سمجھا جا سکتا.اب اگر ہندوستان اور پنجاب کے حالات کا بالمقابل مطالعہ کیا جائے تو اس بات میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں رہ سکتا کہ دونوں کے حالات ایک دوسرے سے اس قدر مختلف اور متغائر ہیں کہ وہ ایک قیاس کے نیچے نہیں آ سکتے.کیونکہ جہاں پنجاب کا صوبہ ہر جہت سے ایک مستقل قدرتی اور مکمل یونٹ ہے.جو حسب ضرورت بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے ( گو ہندوستان کی تقسیم کا سوال بھی دراصل ہندو کا پیدا کیا ہوا ہے.جس نے شروع میں مسلمانوں کے قلیل ترین منصفانہ مطالبہ کو رد کر کے انہیں آہستہ آہستہ علیحدہ گھر کے خیال کی طرف دھکیل دیا ) و ہاں خود پنجاب کے مختلف حصے اس طرح طبیعی رنگ میں جغرافیائی حالات اور اقتصادی نظام اور

Page 97

۸۵ مضامین بشیر تعلیم وغیرہ کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط اور پیوست ہیں کہ کسی غیر متعصب شخص کے نز دیک پنجاب کی تقسیم کا سوال اٹھ ہی نہیں سکتا.پنجم.پنجاب کی تقسیم کا سوال اس لحاظ سے بھی بالکل غیر طبعی ہے کہ اگر یہ کسی حقیقت پر مبنی ہوتا تو آج کی فرقہ وارانہ کش مکش سے قبل بھی اسے ہندوؤں یا سکھوں وغیرہ کی طرف سے اٹھایا جاتا.خصوصا جس زمانہ میں کہ سندھ کو بمبئی سے اور اڑیسہ کو بہار وغیرہ سے علیحدہ کرنے کا سوال پیدا ہوا تھا.اس وقت پنجاب کی تقسیم کا سوال بھی اٹھایا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا.جس سے صاف ظاہر ہے کہ پنجاب کی تقسیم کا سوال کسی طبعی اور فطری تقاضے پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض مسلمانوں کی مخالفت میں غیر طبعی اور مصنوعی طریق پر اٹھایا جا رہا ہے.ششم : تقسیم پنجاب کا مطالبہ اس لحاظ سے بھی قابل رڈ بلکہ حقیقۂ قابل نفرت ہے کہ وہ کسی جہت سے بھی صداقت اور دیانت داری کے جذبہ پر مبنی نہیں ہے.یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جب تک ہندوؤں کے دل میں اکھنڈ ہندوستان کی امید قائم تھی انہوں نے اکھنڈ ہندوستان کی تائید اور پاکستان کی مخالفت میں اپنا پورا زور لگایا.لیکن جونہی کہ اکھنڈ ہندوستان کی امید ٹوٹتی نظر آئی انہوں نے جھٹ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا سوال کھڑا کر دیا.جس کا یہ صاف مطلب ہے کہ دراصل وہ ہر صورت میں ہند وحکومت کے خواہاں ہیں.یعنی ان کا دلی منشاء یہ ہے کہ اول تو مسلمان ہند و حکومت کے تابع رہیں.اور اگر ایسا ہونا ممکن نہ ہو تو پھر ہندوؤں کو مسلمانوں کی حکومت سے علیحدہ کر کے اپنی قوم کی طاقت اور اقتدار کو بڑھایا جائے.یہی وجہ ہے کہ جب تک انہیں ایک واحد مرکزی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو اپنی ایڑی کے نیچے رکھنے کی صورت نظر آرہی تھی.انہوں نے بڑے زورشور سے اکھنڈ ہندوستان کا مطالبہ جاری رکھا.لیکن جونہی کہ اکھنڈ ہندوستان کا قلعہ جس کی چار دیواری کے اندر وہ مسلمانوں کو اپنے زیر قبضہ رکھ سکتے تھے ، گرتا ہوا نظر آیا تو انہوں نے ہند و حکومت کو دوسرے طریق پر وسیع اور مستحکم کرنے کے لئے فوراً پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا سوال کھڑا کر دیا.تا اس ذریعہ سے ایک طرف تو ہند و آبادی کو زیادہ سے زیادہ مسلمان حکومت سے علیحدہ کر لیں.اور دوسری طرف جہاں تک ممکن ہو ، سکھ قوم کو اپنی حکومت کے ماتحت لے آئیں اور آہستہ آہستہ ان کی علیحدہ ہستی کو مٹادیں اور تیسری طرف تا حد امکان پاکستان کو کمزور کر دیں.یہ واضح حقائق صاف بتا رہے ہیں کہ دراصل ہندوؤں کے یہ دونوں مطالبے یعنی اولاً اکھنڈ ہندوستان کا مطالبہ اور بعدۂ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا مطالبہ خالصہ اور کلیۂ فرقہ وارانہ ذہنیت کا کرشمہ ہیں اور نیشنلسٹ جذ بہ کا ادعا دکھاوے اور نمائش کے سوا کچھ نہیں.ہفتم تقسیم پنجاب کی تائید میں بعض اوقات یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ اس طرح صوبہ میں قوم وار

Page 98

مضامین بشیر ۸۶ آبادی کی تقسیم بہتر ہو جائے گی.لیکن دراصل یہ بھی ایک خطر ناک دھوکہ ہے.اور جو جذ بہ اس مطالبہ کی تہہ میں کام کر رہا ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ اس ذریعہ سے ہندو اور سکھ آبادی کو مسلمانوں کے علاقہ سے باہر نکال لیا جائے ، اور ظاہر ہے کہ یہ جذبہ ملک کے مجموعی حالات کو دیکھتے ہوئے کسی طرح انصاف و دیانت داری کا جذ بہ نہیں سمجھا جا سکتا.جب مسلمان اپنے کروڑوں بھائی ہندوؤں کے ہندو صوبوں میں چھوڑ رہے ہیں.( مثلا یو پی میں ۸۴ لاکھ.بہار میں ۴۷ لاکھ.مدراس میں ۳۹ لاکھ اور بمبئی میں ۱۹ لاکھ وغیرہ وغیرہ) تو ہندوؤں کو مسلم اکثریت والے علاقہ میں اپنے چند لاکھ ہم مذہبوں کو چھوڑتے ہوئے بے چینی اور بے اعتمادی کیوں لاحق ہوتی ہے.خصوصاً جب کہ انہیں بہت سے دوسرے صوبوں میں بہترین وطن اور کامل اقتدار حاصل ہو رہا ہے.اور اگر ان کا منشاء یہ ہے کہ مسلمانوں سے مکمل جدائی کر لیں اور ملک کے کسی حصہ میں بھی اشتراک نہ رہے تو اس صورت میں ضروری ہوگا کہ وہ ان مسلمان آبادیوں کی علیحدگی کا بھی انتظام کریں جو ہند وصوبوں میں محصور پڑی ہیں.آخر کیا وجہ ہے کہ کمشنری انبالہ کے ہندوؤں کو تو مسلمان صوبہ سے علیحدہ کر کے بزعم خود محفوظ کر لیا جائے.مگر یو.پی اور بہار وغیرہ کے کثیر التعداد مسلمان ہندوؤں کے رحم پر پڑے رہیں.اگر یہ کہا جائے کہ کمشنری انبالہ کے ہندو ایک مخصوص علاقہ میں آباد ہیں.جہاں ان کی اکثریت ہے مگر اس کے مقابل پر یو.پی اور بہار کے مسلمانوں کو ان صوبوں کے کسی حصہ میں بھی اکثریت حاصل نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس اصول پر کام کرنا ہے کہ مختلف قوموں کی آبادیاں لازماً جدا ہو کر آزادی کا حق حاصل کریں تو پھر کسی خاص علاقہ میں اکثریت ہونے یا نہ ہونے کا سوال باقی نہیں رہتا.بلکہ جہاں جہاں بھی کسی خاص قوم کی معقول تعداد پائی جائے.اس کی علیحدگی اور حفاظت کا انتظام ہونا چاہئے.اگر یو.پی اور بہار کے مسلمان ایک جگہ آباد نہیں ہیں تو ان صوبوں کی ہند و حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ انہیں ایک جگہ آباد کرنے کا انتظام کریں.تا ایک مخصوص علاقہ میں انہیں اپنی حکومت حاصل ہو سکے.لیکن اگر ہند و قوم ایسا نہیں کر سکتی.یا نہیں کرنا چاہتی تو پھر انہیں کیا حق ہے کہ انبالہ ڈویژن اور کلکتہ وغیرہ کی علیحدگی کا مطالبہ کریں.یہ تو وہی بات ہوئی کہ میٹھا میٹھا ہڑپ ہڑپ اور کر واکر واتھو.الغرض انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ یا تو صوبوں کی طبعی حدود قائم رکھی جائیں اور ہر صوبہ میں اقلیت والی قوم اکثریت والی قوم کے ساتھ تعاون کرے اور یا اگر قوم وار تقسیم کی وجہ سے صوبوں کی حدود کو توڑنا ہے تو پھر ہر صوبہ میں مختلف قوموں کی آبادیوں کو اکٹھا کر کے سارے صوبوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے.یہ ایک بالکل موٹی سی بات ہے کہ جس صوبے میں کسی قوم کی اکثریت ہے.اسے اس صوبہ میں حکومت کا حق ہونا چاہئے.اب اس پر منطقی دائرے کھینچ کھینچ کر بعض اضلاع کو اس بناء پر الگ کرنے کی کوشش کرنا کہ ان میں دوسری قوم کی اکثریت ہے.ایک بالکل فضول بات ہے کیونکہ اصل بنیاد یونٹوں کی تقسیم پر ہے نہ کہ قوموں کی تقسیم پر اور

Page 99

۸۷ مضامین بشیر اگر قوموں کو ہی تقسیم کرنا ہے.تو پھر کیوں یو.پی اور بہار کے مسلمانوں کو بھی علیحدہ علاقہ نہ دیا جائے.بہر حال یہ ہرگز عدل و انصاف کا طریق نہیں کہ انبالہ ڈویژن کے اکتیس لاکھ ہندوؤں کو تو بزعم خود پنجاب سے جدا کر کے محفوظ کر لیا جائے.مگر یو.پی اور بہار کے ایک کروڑ اکتیس لاکھ مسلمانوں کو ہندوؤں کے رحم پر رہنے دیا جائے.باقی رہا سکھوں کا سوال ، سو ان کا معاملہ بے شک اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ وہ صرف پنجاب ہی میں آباد ہیں اور کسی دوسرے صوبہ کی حکومت ان کے جذبہ وطنیت کی تسکین کا موجب نہیں ہوسکتی.سوگو یہ ایک مجبوری کی صورت ہے.جو کسی کے بس کی بات نہیں.مگر بہر حال ان کے متعلق مسلمان اعلان کر چکے ہیں کہ اگر کسی علاقہ میں جو ایک معقول رقبہ اور صورت رکھتا ہو ، سکھوں کو اکثریت حاصل ہو تو اس علاقہ میں مسلمانوں کو ان کی حکومت پر اعتراض نہیں ہوگا.اور جب تک انہیں اکثریت حاصل نہیں.مسلمان انہیں تمام جائز اور ضروری تحفظات دینے کے لئے تیار ہیں.یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ موجودہ صورت میں پنجاب کی تقسیم سکھوں کے لئے کسی طرح مفید نہیں ہو سکتی بلکہ وہ اپنی موجودہ ۳۷ لاکھ آبادی کو دو حصوں میں بانٹ کر اپنی طاقت کو اور بھی کمزور کر لیں گے.پس موجودہ حالات میں ان کے لئے مسلمان کے ساتھ مل کر رہنا جن کے ساتھ ان کا مذہب اور تہذیب و تمدن بہت کچھ اشتراک رکھتا ہے، بہر حال مفید اور بہتر ہے.خلاصہ کلام یہ کہ پنجاب کی تقسیم کا سوال ہر لحاظ سے غیر منصفانہ اور قطعی طور پر نقصان دہ ہے اور پنجاب کے مسلمان بڑی سختی کے ساتھ اس ظالمانہ مطالبہ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے.اور خود ہماری جماعت یعنی جماعت احمد یہ بھی جو موجودہ سیاسی جد و جہد میں جمہور مسلمانوں کے ساتھ ہے ، متعدد مرتبہ اس غیر معقول مطالبہ کے خلاف احتجاج کر چکی ہے.لیکن چونکہ ایک چوکس اور دور بین قوم کو ہر امکانی خطرہ کے لئے تیار رہنا چاہئے.اس لئے اگر خدانخواستہ ایسے اسباب کے نتیجہ میں جو فی الحال ہماری طاقت سے باہر ہیں.پنجاب کی تقسیم وقتی طور پر ناگزیر ہو جائے ( وقتی طور پر اس لئے کہ بہر حال اسلام نے جس کے لئے حقیقہ وطن کی کوئی قید نہیں تمام اکناف عالم میں پھیلنا ہے اور پنجاب اور ہندوستان پر ہی بس نہیں.بلکہ ساری دنیا کو ہی تبلیغ و تلقین کے ذریعہ اپنے اثر کے نیچے لانا ہے ) تو اس کے لئے بھی پہلے سے ضروری تفاصیل سوچ رکھنی چاہئیں.اور میں انشاء اللہ اپنے اگلے مضمون میں اس کے متعلق کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا.وما توفيقى الا بالله العلى العظيم ( مطبوعه الفضل ۱۹ رمئی ۱۹۴۷ء )

Page 100

مضامین بشیر ۸۸ اگر خدانخواستہ پنجاب تقسیم ہو تو...؟ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں جس کا عنوان ” مسلمانوں کا مطالبہ پاکستان اور اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال تھا، بتایا تھا کہ پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ کسی جہت سے بھی معقول یا منصفانہ مطالبہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک محض مصنوعی اور بناوٹی مطالبہ ہے جس کی تہہ میں صرف مسلمانوں کی مخالفت اور عداوت کا جذبہ کام کر رہا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں.لیکن میں نے ساتھ ہی کہا تھا کہ مسلمانوں کو ایک چوکس اور دور بین قوم کی طرح ہر امکانی خطرہ کے لئے تیار رہنا چاہئے.سو میں ذیل کی سطور میں بتا نا چاہتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ ایسے اسباب کے نتیجہ میں جو فی الحال ہماری طاقت سے باہر ہیں ، پنجاب کی تقسیم ناگزیر ہو جائے اور یونین سنٹر کے ساتھ کسی رنگ کا الحاق بھی پاکستان کے نظریہ کے خلاف سمجھا جائے تو ایسی مجبوری کی صورت میں جسے مسلمانوں کے سیاسی لیڈر تسلیم کر لیں ہمیں بعض شرائط کو بہر حال ملحوظ رکھنا چاہئے.اور یہ شرائط میری رائے میں مندرجہ ذیل اصولوں پر طے ہو نی ضروری ہیں :- (۱) تقسیم بہر حال آبادی کی بناء پر ہونی چاہئے نہ کہ جائیداد وغیرہ کی بنا پر جس کی غیر معقولیت بلکہ بر بریت کے متعلق میں اپنے مضمون خالصہ ہوشیار باش، میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں اور آبادی کے اعداد و شمار پنجاب کی آخری مردم شماری سے لئے جائیں جو ۱۹۴۱ء میں ہوئی تھی.گو یہ امر یقینی ہے کہ ۱۹۴۱ء کے بعد سے لے کر آج تک مسلمانوں کی آبادی اور بھی بڑھ چکی ہو گی.جیسا کے وہ خدا کے فضل سے ہر دس سالہ مردم شماری میں برا بر بڑھتی ہے.لیکن بہر حال اس کے بغیر چارہ نہیں کہ آخری با قاعدہ مردم شماری پر بنیا د رکھی جائے.اور آج کل کی امن شکن فضاء تو نئی مردم شماری کی متحمل بھی نہیں ہے.سوائے اس کے کہ مجبوری کی حالت میں تقسیم پنجاب کے متعلق کسی قوم کی رائے عامہ معلوم کرنے کی غرض سے محمد ود مردم شماری کی ضرورت پیش آجائے.ایسی مردم شماری کی ضرورت جسے انگریزی میں ریفرنڈم کہتے ہیں.بعض خاص خاص علاقوں میں اچھوت اقوام یا ہندوستانی عیسائیوں کے متعلق پیش آسکتی ہے اور ایسی ضرورت پیش آنے پر اس کا انتظام کرنا ہوگا.(۲) جہاں تک تقسیم کے عملی پہلو کا تعلق ہے پنجاب کے جن علاقوں میں مسلمانوں کو آبادی کے لحاظ سے کامل اکثریت حاصل ہے یعنی جن علاقوں میں مسلمان باقی ساری قوموں کے مجموعے سے بھی

Page 101

۸۹ مضامین بشیر زیادہ ہیں.( یعنی کمشنری ملتان اور کمشنری راولپنڈی اور کمشنری لاہور کے اضلاع لا ہور اور سیالکوٹ اور گوجرانوالہ اور شیخو پورہ اور گورداسپور وغیرہ ) وہ سب بلا استثناء اور بشمول ان علاقوں کے جن کا ذکر ذیل کے فقرات نمبری ۳، ۴، ۵ میں آتا ہے مسلم پنجاب میں شامل رکھے جائیں.خواہ اس کے لئے موجودہ ضلعوں کی حدود توڑنی پڑیں.کیونکہ اگر صوبوں کی حدود توڑی جاسکتی ہیں تو اسی قسم کے دلائل کے ماتحت ضلعوں کی حدود کیوں نہیں توڑی جاسکتیں.بہر حال مسلم اکثریت والے علاقے خواہ وہ کمشنریوں یا ضلعوں کی صورت میں ہوں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یا کہ تحصیلوں کی صورت میں ( مثلا ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ.اور ضلع جالندھر کی تحصیل ہائے جالندھر ونکو د راور ضلع فیروز پور کی تحصیل ہائے فیروز پور وزیرہ اور ضلع گوڑ گاؤں کی تحصیل ہائے فیروز پور جھر کا دلوح وغیرہ جن میں مسلمانوں کی کامل اکثریت ہے ) وہ لازما مسلم پنجاب کا حصہ رہنے چاہئیں.(۳) جن علاقوں میں مسلمانوں کو کامل اکثریت تو حاصل نہیں مگر ہندوؤں اور سکھوں کے مجموعہ کے مقابل پر قطعی اکثریت حاصل ہے یعنی جن علاقوں میں یہ دونوں قومیں مل کر بھی مسلمانوں کی تعداد سے کم رہتی ہیں ( مثلا ضلع ہوشیار پور کی تحصیل ہائے ہوشیار پور ودسوہا وغیرہ جن میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں اور سکھوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے ) وہ بھی لازما مسلم پنجاب میں شامل رہنے چاہئیں کیونکہ انہیں علیحدہ کرنے کی کوئی جائز وجہ نہیں اور اگر عیسائیوں اور اچھوت اقوام کی رائے کے متعلق شبہ ہو تو وہ حصول رائے عامہ کے طریق پر معلوم کی جاسکتی ہے.(۴) جن علاقوں میں مسلمانوں کو ہندوؤں اور سکھوں کے مجموعے کے مقابل پر تو اکثریت حاصل نہیں مگر وہ انفرادی لحاظ سے ہر دوسری قوم سے زیادہ ہیں.یعنی وہ علیحدہ علیحدہ صورت میں ہندوؤں سے بھی زیادہ ہیں اور سکھوں سے بھی زیادہ ہیں اور علاقہ کی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ( مثلا ضلع امرتسر کی تحصیل امرتسر اور ضلع لدھیانہ کی تحصیل لدھیانہ اور ضلع فیروز پور کی تحصیل ہائے فاضل کا اور مکتیسر اور ضلع انبالہ کی تحصیل انبالہ وغیرہ جن میں مسلمان انفرادی طور پر سب سے بڑی پارٹی ہیں) ایسے علاقہ بھی مسلم پنجاب کا حصہ بننے چاہئیں.کیونکہ جب خود اپنے قول کے مطابق بھی ہندو اور سکھ دو علیحدہ علیحدہ تو میں ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان دو قوموں کے عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے جو کل کوٹوٹ بھی سکتا ہے ، ان علاقوں کی سب سے بڑی پارٹی ( یعنی مسلمانوں ) کے مستقل حقوق کو پامال کیا جائے.بے شک مغرب کی جمہوری حکومتوں میں بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ دو اقلیت والی پارٹیاں با ہم سمجھوتہ کر کے ایک نسبتی طور پر اکثریت والی پارٹی پر غالب آ جاتی ہیں مگر وہاں ہر پارٹی کی بنیاد محض سیاسی مسلک پر ہوا کرتی ہے مگر یہاں قوموں کی تقسیم تہذیب و تمدن پر مبنی ہے.پس

Page 102

مضامین بشیر ۹۰ کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان میں ایک محض عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے اکثریت والی پارٹی کے بنیادی حقوق کو قربان کیا جائے اور سیاسی سمجھوتہ بھی ایسا جو گذشتہ چند سال کے عرصہ میں کئی دفعہ رنگ بدل چکا ہے اور بہر حال ایسی صورت میں بھی حسب ضرورت حصول رائے عامہ کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے.(۵) جن علاقوں میں مسلمان ہر جہت سے اقلیت میں ہیں، ان کے متعلق اگر پنجاب کی تقسیم اٹل ہو جائے اور ذمہ دار مسلمان لیڈروں کو اسے قبول کرنا پڑے تو وقتی طور پر مجبوری ہے.لیکن ایسے علاقوں کے بھی وہ حصے جن میں ایسی نہروں کے ہیڈ اور ایسی بجلی کے پاور سٹیشن یا ایسے مرکزی تجارتی شہر وغیرہ واقع ہوں جن کا تعلق مخصوص طور پر ان مسلم اکثریت والے علاقوں کے ساتھ ہے جو فقرہ نمبر ۲، ۳ ۴۰ میں مذکور ہیں تو یہ مقامات بھی مسلم پنجاب کا حصہ بننے چاہئیں.کیونکہ ظاہر ہے کہ ایسے مقامات کی حیثیت محض مقامی نہیں ہے بلکہ ان وسیع علاقوں کے ساتھ غیر منفک طور پر وابستہ ہے.جنہیں وہ آبپاشی یا بجلی کی تقسیم یا تجارتی کاروبار کے تعلق کے لحاظ سے ایک یونٹ کی صورت میں فائدہ پہنچا رہے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان دو قسم کے علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا سارے صوبہ کی اقتصادی زندگی کو بلا امتیاز قوم وملت تباہ کر دینے کے مترادف ہے.اگر بالفرض تقسیم کا یہ اصول ہمیشہ کے لئے قابل تسلیم نہ ہو تو کم از کم ایک بڑے لمبے عرصہ کے لئے ضرور واجب العمل ہونا چاہئے تا اس عرصہ میں مغربی اور وسطی پنجاب اپنا علیحدہ انتظام کر سکے اور چونکہ تقسیم پنجاب کا سوال ہندوؤں اور سکھوں کا اٹھایا ہوا ہے، اس لئے بہر حال اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی لاز ما انہی پر پڑنی چاہئے.اوپر کے بیان کردہ اصول کے کے ماتحت امرتسر کا شہر جو ویسے بھی فقرہ نمبر ۴ کے مطابق مسلم پنجاب کا حصہ بنتا ہے ، مغربی اور وسطی پنجاب کے ساتھ شامل رہنا چاہئے کیونکہ وہ اس علاقہ کا خاص تجارتی مرکز ہے جس کا تمام کا روبار ان علاقوں کے ساتھ وابستہ ہے جو فقرہ نمبر ۲ ،۴،۳ میں مذکور ہیں.اگر یہ کہا جائے کہ امرتسر سکھوں کا مقدس شہر ہے.تو ہم کہتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کو ان کی بعض مقدس یادگاروں سے محروم کرنے کی تدبیر نہیں کی جا رہی؟ اور امرتسر شہر میں تو جہاں سکھ صرف اٹھاون ہزار یعنی پندرہ فیصدی ہیں.وہاں مسلمان ایک لاکھ تر اسی ہزار یعنی سینتالیس فی صدی سے بھی زیادہ ہیں اور دربار صاحب کا انتظام بہر حال سکھوں کے ہاتھ میں رہے گا اور اسلامی تعلیم کے ماتحت دربار صاحب ہمارے واسطے بھی ایک قابل احترام جگہ ہوگی.یہ وہ چند موٹے موٹے اصول ہیں جن کے ماتحت پنجاب کی تقسیم اگر وہ خدانخواستہ بالکل ہی ناگزیر ہو جائے عمل میں آنی چاہئے اور گو میں دانستہ زیادہ تشریحات میں نہیں گیا لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر تقسیم پنجاب کی صورت میں مسلمان ان اصولوں پر پختگی سے جم جائیں اور حکومت پر بھی ان اصولوں کی معقولیت پوری طرح واضح کر دیں تو

Page 103

۹۱ مضامین بشیر اول تو سکھ صاحبان ( ہندو اس سوال میں سکھوں کے تابع ہے ) ان اصولوں کے نتائج پر غور کر کے خود بخود پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ ترک کر دیں گے اور اگر وہ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنے مطالبہ پر قائم بھی رہیں گے تو انہیں جلد معلوم ہو جائے گا کہ ان کے ہاتھ میں ایک خالی برتن کے سوا کچھ نہیں ہے.ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ سیاست ایک ایسا فن ہے جس میں حق وانصاف کے علاوہ ہوشیاری اور موقع شناسی اور حسنِ تدبیر کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے.اور بعض اوقات جب کہ کسی قوم کی کورانہ روش براہ راست سمجھوتہ کا دروازہ بند کر دے ، پہلو کی طرف سے ہو کر آنا کامیابی کا رستہ کھول دیتا ہے.ہماری غرض بہر حال مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اور ملک کی بہتری ہے اور ہم دوسری قوموں کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کرنا چاہتے ہیں.لیکن اگر ایک قوم ضد میں آکر ایک ایسے فیصلہ پر تلی ہوئی ہے، جو نہ ہمارے لئے مفید ہے اور نہ اس کے لئے اور ملک کا بھی اس میں سرا سر نقصان ہے.تو اس صورت میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کے پیش کردہ مطالبہ کا تجزیہ کر کے اور اپنے معقول مطالبات کو وسیع صورت دے کر ایسی قوم پر واضح کیا جائے کہ وہ ضد وعناد کی رو میں بہہ کر صرف دوسروں کا ہی نقصان نہیں کر رہی بلکہ خود اپنی تباہی کا بیج بھی بور ہی ہے.کاش وہ سمجھے ! با لآخر یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج کل بعض ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ گزشتہ مردم شماری کے اعداد و شمار درست نہیں.کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سے فرضی اور جعلی نام داخل ہو گئے ہیں اور اس وجہ سے ممکن ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت دکھائی گئی ہے وہاں حقیقتا ان کی اکثریت نہ ہو اور محض مردم شماری کی غلطی کی وجہ سے ایسا نظر آتا ہو.مگر یہ اعتراض غلط ہونے کے علاوہ موجودہ بحث کے لحاظ سے بالکل لا تعلق بھی ہے.اگر بالفرض مردم شماری کے اعداد و شمار میں کوئی غلطی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غلطی مسلمانوں کے لئے خاص نہیں بلکہ ساری قوموں کے لئے یکساں ہے.بلکہ چونکہ شمار کنندے زیادہ تر ہندو اور سکھ ہوتے ہیں.کیونکہ ان میں مسلمانوں کی نسبت تعلیم زیادہ عام ہے.اس لئے لازما اس غلطی یا جعلسازی کا اثر بھی سکھوں اور ہندوؤں کے حق میں ہی زیادہ ہوا ہو گا.علاوہ ازیں جب کہ ۱۹۴۱ء میں بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کی آبادی کی عمومی نسبت قریباً وہی ہے.جو کہ ۱۹۳۹ء میں تھی تو پھر یہ شبہ کرنا بالکل باطل ہے کہ مسلمانوں نے ۱۹۴۱ء میں جعلسازی کے ذریعہ اپنی آبادی کو بڑھا لیا ہے.مثلاً اگر لاہور شہر میں ۱۹۳۱ء میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور ۱۹۴۱ء میں بھی اسی سے ملتی جلتی اکثریت ہے.یا مثلاً اگر امرتسر شہر میں ۱۹۳۱ ء میں ہندو اور سکھ مل کر مسلمانوں سے زیادہ تھے اور ۱۹۴۱ء میں بھی قریباً اسی نسبت سے زیادہ ہیں وغیر ذالک.تو اس صورت میں یہ دعوی کرنا کہ مسلمانوں کی مردم شماری میں جعلی

Page 104

مضامین بشیر ۹۲ اندراجات شامل ہیں ، ایک افسوس ناک بہتان سے کم نہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ میں ہر مسلمان کی دیانتداری کا ضامن ہوں.بے اصول لوگ کم و بیش ہر قوم میں پائے جاتے ہیں مگر کون بہادر ایسا آگے آ سکتا ہے جو ہر ہندو اور ہر سکھ کی دیانتداری کا ضامن ہو سکے.بلکہ اگر کسی غیر جانب دار شخص سے پوچھا جائے جو ہندوستان کے حالات کا تجربہ رکھتا ہو تو وہ ایسے کاموں میں ہندوؤں اور سکھوں کو بہت زیادہ ہوشیار اور چوکس بتائے گا.پھر خدا تم لوگوں کو عقل دے.آبادیوں میں کمی بیشی صرف شمار کنندوں کی غلطی یا جعل سازی کی وجہ سے ہی نہیں ہوا کرتی بلکہ بسا اوقات طبعی طریق سے بھی ہوا کرتی ہے.جس کے ساتھ بعض اوقات الہی تقدیر بھی شامل ہو جاتی ہے کہ دنیا کے وسیع مفاد کے پیش نظر خدا کسی قوم کی نسل کو بڑھاتا اور کسی کو گھٹاتا ہے.پس صرف بحث کی خاطر بات کو لمبا کرنے کی غرض سے بناوٹی عذر نہ بناؤ اور خدا سے ڈرو کہ یہ وقت ہندوستانیوں کی سیاست کے امتحان کا ہی وقت نہیں بلکہ ان کے اخلاق کے امتحان کا بھی وقت ہے.( مطبوعه الفضل ۲۲ رمئی ۱۹۴۷ء)

Page 105

۹۳ مضامین بشیر جماعت احمدیہ کی طرف سے وزیر اعظم برطانیہ کے نام ضروری تار پنجاب کی تقسیم خلاف عقل اور خلاف انصاف ہے چیف سیکرٹری ( ناظر اعلی ) جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے مسٹرائیلی وزیراعظم برطانیہ اور مسٹر چرچل لیڈ ر حزب مخالف کے نام مندرجہ ذیل تار بھجوائی گئی ہے.جس کی نقل مسٹر محمدعلی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ دہلی اور نیٹ پر لیس اور ایسوسی ایٹڈ پریس لاہور کو بھی ارسال کی جارہی ہے.تار کے الفاظ یہ ہیں:.احمد یہ جماعت پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف ہے کیونکہ وہ جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک قدرتی یونٹ ہے اور اسے ہندوستان کی تقسیم پر قیاس کرنا اور اس کا طبعی نتیجہ قرار دینا بالکل خلاف انصاف اور خلاف عقل ہے.اگر صو بوں یعنی قدرتی یونٹوں کو اس لئے تقسیم کیا جا رہا ہے کہ اقلیتوں کے لئے حفاظت کا سامان مہیا کیا جائے تو اس صورت میں یوپی کے ۸۴ لاکھ اور بہار کے ۴۷ لاکھ اور مدراس کے ۳۹ لاکھ مسلمان زیادہ حفاظت کے مستحق ہیں.یہ دلیل کہ ان صوبوں کی مسلمان آبادیاں کسی حصہ میں بھی اکثریت نہیں رکھتیں.ایک بالکل غیر متعلق اور غیر موثر دلیل ہے.کیونکہ اگر تقسیم کو قدرتی یونٹوں کے اصول کی بجائے اقلیتوں کی حفاظت کے اصول پر مبنی قرار دینا ہے تو پھر اس وقت ان مسلمان آبادیوں کا منتشر صورت میں پایا جانا ہرگز انصاف کے رستہ میں روک نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس وجہ سے ان کا حفاظت کا حق اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے.سکھوں کو بھی جیسا کہ ان کا اہل الرائے اور سنجیدہ طبقہ خیال کرتا ہے ، پنجاب کی تقسیم سے قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.بلکہ وہ اپنی آبادی کو دو حصوں میں بانٹ کر اور دونوں حصوں میں اقلیت رہتے ہوئے اپنی طاقت کو اور بھی کمزور کر لیتے ہیں.یہ ادعا کہ پنجاب کی تقسیم آبادی کی بجائے جائیداد کی بناء پر ہونی چاہئے.نہ صرف جمہوریت کے تمام مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے.بلکہ اس سے مادی اموال کو انسانی جانوں پر فوقیت بھی حاصل ہوتی ہے، جو ایک بالکل ظالمانہ نظریہ ہے.66 ( مطبوعه الفضل ۲۴ رمئی ۱۹۴۷ء )

Page 106

مضامین بشیر ۹۴ پنجاب کی تقسیم قریباً نا گزیر ہے مگر ہمارا فرض ہے کہ آخری وقت تک جد و جہد جاری رکھیں باؤنڈری کمیشن کے لئے وسیع تیاری کی ضرورت اس وقت ہیٹ سٹروک کی وجہ سے میری طبیعت علیل ہے مگر وقت ایسا نازک ہے اور ایسا تنگ کہ توقف کی گنجائش نہیں.اس لئے عبارت آرائی اور تفصیل میں جانے کے بغیر چند ضروری امور سپر وقلم کرتا ہوں.وما توفيقى الا بالله العظيم حکومت برطانیہ کے جدید اعلان مجریه ۳ جون ۱۹۴۷ء کے ذریعہ قارئین کو پتہ لگ چکا ہو گا کہ مسلم لیگ کے اس بنیادی مطالبہ کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہندوستان کے ان علاقوں میں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے.مسلمانوں کو دوسرے علاقوں سے علیحدہ ہو کر اپنی مستقل حکومت قائم کرنے کا حق ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس قسم کے دلائل کی بناء پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے متعلق غیر مسلموں کا مطالبہ بھی اصولاً تسلیم کر لیا گیا ہے.البتہ اس بارے میں آخری فیصلہ خود پنجاب اور بنگال کی اسمبلیوں کے ممبروں پر چھوڑا گیا ہے.جو ۱۹۴۱ ء کی مردم شماری کے مطابق مسلم اور غیر مسلم اکثریت والے ضلعوں کے نمائندوں کی صورت میں دو علیحدہ علیحدہ گروپوں میں بیٹھ کر کثرت رائے سے فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل رہنا چاہتے ہیں.یا کہ مجوزہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شریک ہونا چاہتے ہیں.اور اگر ان دوگروپوں میں سے ایک گروپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونا چاہتے ہیں.اور دوسرے گروپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں شریک رہنا چاہتے ہیں.تو پھر حکومت برطانیہ اس فیصلہ کو تسلیم کر کے ان صوبوں کو تقسیم کر دے گی.اس اصول کے مطابق پنجاب کے سترہ ضلع ( بشمول ضلع گورداسپور ) مسلم اکثریت والے ضلعے قرار دیئے گئے ہیں.اور باقی ۱۲ ضلعے ( بشمول ضلع امرتسر ) غیر مسلم اکثریت والے ضلعے قرار پائے ہیں.سترہ ضلعوں کا فیصلہ تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں ہو گا مگر بارہ ضلعوں

Page 107

۹۵ مضامین بشیر کا فیصلہ ابھی تک یقینی نہیں ہے.لیکن غالب گمان یہ ہے کہ اس وقت تک ان کی کثرت رائے کا رجحان ہندوستان کے ساتھ رہنے اور پنجاب کی تقسیم کے حق میں ہے.اور سوائے اس کے کہ آئندہ چند دن کے اندراندران کی رائے میں کوئی تبدیلی پیدا ہو جائے ، بظاہر یہ فیصلہ قائم رہے گا.جو سترہ ضلعوں کے گروپ کے لئے واجب التسلیم ہو گا.یہ بارہ ضلعے جن کے فیصلہ پر اس وقت پنجاب کی قسمت کا دار و مدار ہے یہ ہیں.(۱) کمشنری لاہور میں سے ضلع امرتسر (۲) کمشنری جالند ہر سالم.یعنی ضلع کانگڑہ.ضلع ہوشیار پور ضلع جالندھر.ضلع لدھیانہ اور ضلع فیروز پور (۳) کمشنری انبالہ سالم یعنی ضلع شملہ ، ضلع انبالہ ضلع رہتک ،ضلع کرنال، ضلع حصار اور ضلع گوڑ گاؤں.ان بارہ ضلعوں کے ممبران اسمبلی کی تقسیم اس طرح ہے:.ہندو ۲۳ ممبر ( اکیس کا نگرسی اور دو یونی نسٹ ) اچھوت ممبر ( پانچ کانگرسی اور تین یونی نسٹ ) سکھ 9 امبر (آٹھ کانگرسی اور گیارہ پنتھک ) مسلمان ۲۲ ممبر (سب مسلم لیگی ) دیگر x کل تعدد ۷۲ ممبر پس یہ وہ۷۲ ممبر ہیں جو آئندہ چند دنوں کے اندر اندر پنجاب کی تقسیم یا بالفاظ دیگر پنجاب کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے ہیں.اس نقشے سے ظاہر ہے کہ اگر ۲۲ مسلمان ممبروں کے ساتھ ۱۵ غیر مسلم ممبر شامل ہو جائیں تو وہ پنجاب کی تقسیم کو روک سکتے ہیں اور سارا پنجاب پاکستان کے ساتھ شامل رہ سکتا ہے.ہندوؤں میں سے تو بظا ہر کسی ممبر کا ادھر سے ٹوٹ کر ادھر آنا قریباً قریباً ناممکن ہے.کیونکہ پنجاب کی تقسیم کا سوال دراصل ہندوؤں کا ہی اٹھایا ہوا ہے اور اس میں ان کا ( بلکہ حقیقتا صرف انہی کا ) بھاری فائدہ ہے.پس ان سے اس معاملہ میں انصاف کی امید رکھنا فضول ہے.البتہ اگر سکھوں اور اچھوت اقوام کے ممبروں کو ہمدردی اور دلائل کے ساتھ سمجھایا جائے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے سرا سر نقصان دہ ہے.کیونکہ سکھ اس طرح اپنی تعداد کو دو حصوں میں بانٹ کر اور پھر دونوں حصوں میں ایک چھوٹی سی اقلیت رہتے ہوئے اپنی طاقت کو سخت کمزور کر لیتے ہیں اور اچھوت بالکل ہندوؤں کے

Page 108

مضامین بشیر ۹۶ رحم پر جا پڑتے ہیں.جنہوں نے سینکڑوں ہزاروں سال سے ان کا گلا دبا رکھا ہے.تو بعید نہیں کہ یہ دونوں قومیں یا ان کا ایک معقول حصہ مسلمانوں کے ساتھ آملے اور اس طرح اگر خدا کو منظور ہو تو آخری وقت میں پنجاب کی تقسیم رک جائے.یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اس وقت سکھوں کا ایک بہت کافی حصہ پنجاب کی موجودہ مجوزہ تقسیم سے قطعی طور پر غیر مطمئن ہے.بلکہ اس معاملہ میں اپنے لیڈروں سے بھی بدظن ہو رہا ہے.جنہوں نے سوچے سمجھے بغیر ہندؤوں کی انگیخت میں آکر خود اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں پر کلہاڑا چلایا ہے.پس اگر پنجاب کے سکھ ممبران اسمبلی کو عموما اور مشرقی پنجاب کے سکھ ممبران اسمبلی کو خصوصا دلائل اور محبت کے ساتھ سمجھایا جائے تو عجب نہیں کہ یہ قوم آخری رائے دینے کے وقت جس کے لئے ۲۳ جون کا دن مقرر ہے، اپنے نفع نقصان کو سمجھ لے اور مسلمانوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کے لئے تیار ہو جائے.سکھوں کو سمجھانے کے لئے خاکسار کے مضمون ” خالصہ ہوشیار باش‘ کی اشاعت بھی مفید ہوسکتی ہے.جو اردو، انگریزی اور گورکھی تینوں زبانوں میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مدلل طور پر اس سوال کے سارے پہلوؤں پر مفصل بحث کی گئی ہے.مگر بہر حال یہ ضروری ہے کہ طعن یا دلآزاری کے رنگ میں کوئی بات نہ کی جائے بلکہ محبت اور ہمدردی کے طریق پر دلائل کے ساتھ سمجھایا جائے.اور سمجھدار اور با اثر اور سنجیدہ مسلمانوں کے مختلف وفد مشرقی پنجاب کے ۱۲ ضلعوں کے سکھ ممبروں سے مل کر دلی ہمدردی کے رنگ میں بات کریں.خالصہ ہوشیار باش“ کا مضمون دفتر نشر واشاعت قادیان سے مل سکتا ہے اور انشاء اللہ مطالبہ ہونے پر مفت بھجوا دیا جائے گا.یہ بات بھی سکھ صاحبان کو سمجھائی جائے کہ سترہ اور بارہ ضلعوں کی موجودہ تقسیم محض عارضی ہے.اور حدود کا آخری فیصلہ یا ونڈری کمیشن نے کرنا ہے اور یہ بات قریباً قریباً یقینی ہے کہ اگر انصاف سے کام لیا گیا تو متعدد ایسی تحصیلیں جو اس وقت عارضی طور پر مشرقی پنجاب میں شمار کر لی گئی ہیں ، آخری صورت میں لازماً مغربی پنجاب کا حصہ بنیں گی کیونکہ ان میں مسلمانوں کی کثرت ہے.مثلا ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ اور ضلع جالندھر کی تحصیل جالندھرا اور تحصیل نکو در اور ضلع فیروز پور کی تحصیل فیروز پور اور تحصیل زیرہ جن میں مسلمانوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے، مشرقی پنجاب سے نکل کر مغربی پنجاب میں شامل ہو جائیں گی.کیونکہ وہ اس حصہ کے ساتھ ملتی جلتی اور اسی کے تسلسل میں واقع ہیں اور گو اس کے مقابل پر ممکن ہے کہ مغربی پنجاب کی بھی ایک آدھ تحصیل مسلمانوں کے علاقے سے نکل جائے.مگر اس تبدیلی کا نتیجہ لازماً اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ پنجاب کے دونوں حصوں میں سکھوں کی تقسیم ان کے لئے موجودہ تقسیم سے بھی زیادہ نقصان دہ صورت اختیار کرلے گی.اور وہ قریباً قریباً دو بالکل برابر

Page 109

۹۷ مضامین بشیر حصوں میں تقسیم ہو کر اور آدھے آدھے دھڑ کے دو بت بن کر رہ جائیں گے اور ہندو اکثریت کا حصہ بننے کے جو خطرات آہستہ آہستہ میٹھی چھری کی صورت میں ظاہر ہوں گے وہ مزید برآں ہیں.بہر حال سکھ صاحبان کو ہمدردی اور دلائل کے ساتھ سمجھانے کا کام نہایت ضروری ہے اور فورا شروع ہو جانا چاہئے.اس کے علاوہ اس نازک وقت میں مسلمانوں کو جو دوسرا ضروری کام کرنا چاہیئے ، وہ باونڈری کمیشن یعنی سرحدی کمیشن کے لئے تیاری کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.یہ ایک بھاری دفتری نوعیت کا کام ہے.جو انتہائی محنت اور احتیاط چاہتا ہے اور موٹے طور پر مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم ہے :- (1) اس تعلق میں سب سے مقدم کام یہ ہے کہ مردم شماری کا ریکارڈ دیکھ کر ( یادر ہے کہ عام مطبوعہ ریکارڈ کے علاوہ ضلعوں کے صدر مقاموں میں تفصیلی مردم شماری کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے ) ایسے اعداد و شمار تیار کرائے جائیں کہ جن سے پنجاب کے مسلم اکثریت والے علاقے ( خواہ یہ اکثریت کتنی ہی قلیل ہو.کیونکہ جمہوری اصول کے ماتحت ہرا کثریت لازماً اکثریت ہی سمجھی جاتی ہے.خواہ وہ کتنی ہی خفیف ہوا اور کسی صورت میں بھی اس کے اثر کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا ) اور اس غرض کے لئے ضلعوں کی حدود کو نظر انداز کر کے تفصیلی ریکارڈ تیار کیا جائے.تا کہ زیادہ سے زیادہ علاقہ مغربی پنجاب کے ساتھ شامل ہو سکے.اور یہ بھی ضروری ہے کہ اعداد و شمار کے نتیجہ کو نمایاں صورت میں ظاہر کر نے کے لئے مناسب نقشے بھی تیار کرائے جائیں.جن میں مسلم اور غیر مسلم اکثریت والے علاقوں کو علیحدہ علیحدہ رنگوں میں دکھایا جائے.تا ان کے مطالعہ سے فوراً صحیح صورت ذہن میں آسکے.ایسے نقشے ضلعوں کے جرنیلی نقشوں کی بناء پر محکمہ سروے یا محکمہ نہر کے پنشن یافتہ مسلمان یا قومی سکولوں کے جغرافیہ کے استاد صاحبان یا ہوشیار پٹواری اور گرد اور صاحبان آسانی سے بنا سکتے ہیں.اسی طرح ایسے علاقے جن میں مسلمان کامل اکثریت میں تو نہیں مگر ہندوؤں اور سکھوں دونوں کے مجموعے سے زیادہ ہیں.انہیں بھی اعداد و شمار نکالنے کے بعد علیحدہ صورت میں نوٹ کر لینا چاہئے ( مثلا ضلع ہوشیار پور کی تحصیل ہوشیار پور اور تحصیل دسوہہ جن میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں اور سکھوں دونوں کے مجموعے سے زیادہ ہے) اور باونڈری کمیشن پر زور دینا چاہئے کہ ایسے علاقے بھی مغربی پنجاب کے ساتھ شامل رکھے جائیں.کیونکہ مسلمانوں کے خلاف موجودہ عارضی سمجھوتہ صرف ہندوؤں اور سکھوں تک محدود ہے.اور کوئی وجہ نہیں کہ دوسری قوموں مثلاً ہندوستانی عیسائیوں یا اچھوتوں کو سیاسی حقوق کے تصفیہ میں خواہ مخواہ مسلمانوں کے خلاف شمار کیا جائے.ایسی صورت میں زیادہ سے زیادہ عیسائیوں اور اچھوتوں کے متعلق ریفرنڈم کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے.اور اس امکانی صورت کے لئے بھی متعلقہ علاقوں کے مسلمانوں کو تیار رہنا چاہئے.

Page 110

مضامین بشیر ۹۸ (۲) باونڈری کمیشن کے لئے مسلمانوں کی طرف سے اس تیاری کی بھی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل جمع کئے جائیں.جن سے ثابت ہو کہ بجلی کے جو پاور سٹیشن یا نہروں کے جو ہیڈ مغربی پنجاب کے حصوں کو نفع پہنچا رہے ہیں.اور دراصل انہی کی غرض سے بنے ہیں، وہ لازماً مغربی پنجاب کے ساتھ رہنے چاہئیں.کیونکہ ان کی حیثیت کسی طرح بھی مقامی نہیں ہے.بلکہ ان وسیع علاقوں کے ساتھ لازم وملزوم ہے جن کو وہ فائدہ پہنچا ر ہے.ہیں پس کوئی وجہ نہیں کہ انہیں مغربی پنجاب سے جدا کیا جائے.(۳) اسی طرح جو دریا مغربی اور مشرقی پنجاب کے درمیان حد فاصل بنیں گے.یا ایک حکومت کے علاقے میں سے نکل کر دوسری حکومت کے علاقے میں داخل ہوں گے ، ان کے متعلق بھی باونڈری کمیشن کے ذریعہ یہ فیصلہ کرانا ہو گا کہ ایسے دریاؤں کا انتظام کس علاقے کے ساتھ وابستہ رہنا چاہئے.یا درکھنا چاہئے کہ دریاؤں کا کنٹرول قوموں کی ترقی پر بھاری اثر رکھتا ہے.(۴) پھر بعض ریلوے لائنوں اور بڑی سڑکوں کا سوال بھی باونڈری کمیشن کے سامنے آئے گا کہ وہ مغربی اور مشرقی پنجاب میں سے کس کے حصہ میں ڈالی جائیں.یا ان کے متعلق دونوں ملکوں میں کس قسم کا سمجھوتہ ہونا ضروی ہے یہ سارے کام اور اسی قسم کے اور بہت سے کام جو باونڈری کمیشن کے سامنے آئیں گے اور جس کا معین علم کمیشن کے حلقہ کا ر کا اعلان ہونے پر حاصل ہو گا.بہت بھاری تیاری چاہتے ہیں اور ضروری ہے کہ ابھی سے ( کیونکہ اس کے لئے وقت بہت تنگ ہے ) لیگ کی مرکزی کمیٹی کی امداد کے لئے ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ اور کمشنری جالندہر کے ہر ضلع اور ہر تحصیل اور ضلع گوڑ گاؤں کی تحصیل فیروز پور جھر کا.اور تحصیل نوح میں سمجھدار مسلمانوں کی کمیٹیاں بن جائیں.جو مردم شماری کے ضروری اعداد و شمار تیار کرائیں.اور پھر بڑی احتیاط کے ساتھ ان اعداد و شمار کی وضاحت کے لئے مناسب نقشے بنائے جائیں.اور اس سارے ریکارڈ پر مسلمان اس طرح حاوی ہو جائیں کہ ہوشیار وکیلوں کی طرح باونڈری کمیشن کے سامنے مسکت صورت میں اپنا کیس پیش کر سکیں.اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ اگر کسی طرح ضلع گوڑ گاؤں کی تحصیل نوح اور تحصیل فیروز پور جھر کا کا تعلق دہلی سے قائم کر کے ایک مسلم اکثریت والا علاقہ بن سکے تو نہایت مفید ہو سکتا ہے اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ تحصیلوں کی حدود کو قائم رکھا جائے.اسی طرح ممکن ہے کہ اجنالہ تحصیل کی طرف سے ایک ملتا جلتا مسلم اکثریت کا علاقہ امرتسر تک پہنچایا جا سکے اور یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی.جو کم از کم با ہمی سمجھوتہ کے لئے ایک عمدہ دروازہ کھول دے گی.اسی طرح بجلی کے پاورسٹیشنوں اور نہروں کے ہیڈوں کے متعلق بھی یہ اعداد و شمار مہیا کرنے

Page 111

۹۹ مضامین بشیر ہوں گے کہ ان کا فائدہ مسلم اور غیر مسلم علاقے کو کس کس نسبت سے پہنچ رہا ہے وغیرہ وغیرہ.الغرض باؤنڈری کمیشن کے اختیارات بہت وسیع ہوں گے.اور اس کے مقابل پر تیاری کی بھی بہت ضرورت ہے اور یہ تیاری تفصیلی رنگ میں دفتری نوعیت کی ہونی چاہئے.جس کے لئے تمام تحصیلوں کے مسلمانوں کی فوری توجہ درکار ہے اور بعض صورتوں میں بین الاقوامی قانون اور بعض مشہور باؤنڈری کمیشنوں کی رپورٹوں کا مطالعہ بھی ضروری ہوگا.ورنہ ستی اور غفلت سے ایسا نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی تلافی بعد میں ناممکن ہوگی.حکومت برطانیہ کے اعلان مجریہ ۲ / جون ۱۹۴۷ء کے فقرہ نمبر 9 میں یہ الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں کہ علاقوں کی تقسیم میں آبادی کے علاوہ دوسرے حالات (other factors) کو بھی دیکھا جائے گا.یہ الفاظ ایسے مبہم بلکہ ایسے غیر مصلحتا نہ ہیں کہ معلوم نہیں کہ حکومت برطانیہ نے ان الفاظ کے استعمال میں کیا حکمت سوچی ہے.کیونکہ در حقیقت یہ الفاظ ہندوستان کی مختلف قوموں کی طرف سے بھاری فتنہ کا ذریعہ بنائے جا سکتے ہیں.ظاہر ہے کہ اگر آبادی کی کثرت اور قلت کے علاوہ دوسرے حالات کو بھی زیر غور لانا ہے تو اس کے نتیجے میں ہر قوم کی طرف سے ایسے مطالبات کا دروازہ کھل جائے گا کہ جسے بند کرنا یا جس کے متعلق تصفیہ کرنا نہ حکومت برطانیہ کے بس کی بات رہے گی.اور نہ وائسرائے کی اور نہ کسی اور کی.اور ممکن ہے کہ صرف اسی نقطہ پر آ کر ہی سب کیا کرا یا کھیل بگڑ جائے.بہت سے ہندو اور سکھ ” دوسرے حالات کے الفاظ سے یہ مراد لے رہے ہیں کہ ان الفاظ سے ایک طرف تو جائیدادوں اور اموال کی طرف اشارہ مقصود ہے.اور دوسری طرف مقدس مقامات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.ممکن ہے یہ قیاس درست ہو.مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بس صرف یہی مراد ہے اور اس کے سوا اور کوئی چیز مراد نہیں ؟ " بہر حال جہاں تک اموال اور جائیدادوں کا سوال ہے.میں اپنے مضمون ” خالصہ ہوشیار باش میں اصولی طور پر بیان کر چکا ہوں کہ کوئی مسلمان بلکہ کوئی انصاف پسند شخص ایک منٹ کے لئے بھی یہ بات منظور نہیں کر سکتا کہ انسانی مساوات کے اصول کو ترک کر کے قوموں کے حقوق کو مال و دولت کے ترازو میں تولا جائے.اور جو چیز صدیوں کی سازش کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں سے چھینی گئی ہے، اسی پر آئندہ حقوق کی بنیا د رکھی جائے.ہندوؤں نے ایک وسیع پروگرام کے ذریعہ جس کی تفصیل ایک تلخ کہانی ہے، مسلمانوں کو ہر قسم کی اقتصادی ترقی سے محروم کر رکھا تھا.یہ عجیب کرشمہ سیاست ہے کہ اب ان کی اسی محرومی اور اپنی اسی غاصبانہ برتری کو آئندہ حقوق کے تصفیہ کی بنیاد بنایا جا رہا ہے.یہ کوشش شرافت اور دیانت اور انسانیت کے لئے قابل شرم ہے اور مسلمان بھی اس پھندے

Page 112

مضامین بشیر میں دوبارہ پھنسنے کے لئے تیار نہیں.” دوسرے حالات کے الفاظ کی ایک تشریح مقدس مقامات سے تعلق رکھتی ہے.سو کیا ہندو اور سکھ اس بات کے لئے تیار ہوں گے کہ جس ترازو سے تول کر وہ اپنے حقوق لینا چاہتے ہیں.اسی ترازو سے وہ مسلمانوں کو بھی ان کے حقوق دینے کے لئے تیار ہوں.کیونکہ ظاہر ہے کہ مقدس مقامات صرف ہندوؤں سکھوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ بھی تعلق رکھتے ہیں.گو یہ علیحدہ بات ہے کہ مسلمان اس معاملے میں زیادہ با وقار رہے ہیں.اور انہوں نے حقیقی مقدس مقامات کے علاوہ دوسرے مقامات کو یونہی فرضی تقدس عطاء نہیں کیا اور بہر حال کون انصاف پسند شخص اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ دلی اور آگرہ اور اجمیر وغیرہ کو جو چوٹی کے مسلمان تاجداروں کی بے مثل یادگاروں سے مزین ہیں ، مسلمانوں کے نزدیک حقیقی تقدس حاصل ہے.پس اگر اس دروازے کو کھولو گے تو پھر ہر قوم اس میں داخل ہونے کا حق رکھے گی.سوائے اس کے کہ مسلمان اس بات میں ضرور دوسروں سے پیچھے رہیں گے کہ ان میں بمقابلہ بعض دوسری قوموں کے جو بعض اوقات رستے کے ایک درخت کو مقدس بنا لیتی ہیں ، صرف وہی مقدس مقامات سمجھے جاتے ہیں جو حقیقتا مقدس ہیں.اسی طرح دوسرے حالات کے الفاظ کی اور بھی بہت سی تشریحیں ہو سکتی ہیں.بہر حال یہ الفاظ اپنے اندر فتنہ کا پیج رکھتے ہیں اور یا تو انہیں ترک کر دینا چاہئے اور یا ان کی بحث میں جانے سے پہلے ساری قوموں کے مشورے کے ساتھ ان الفاظ کی تشریح ہو جانی چاہئے.اور میرے خیال میں ایسی تشریح میں چارا مور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :.(اول) یہ کہ متعین طور پر فیصلہ کر دیا جائے کہ دوسرے حالات (other factors) میں یہ یہ باتیں شامل سمجھی جائیں گی ( دوم ) یہ کہ جو باتیں دوسرے حالات کی تشریح میں شامل سمجھی جائیں.ان کی بھی آگے تشریح کر دی جائے.مثلاً اگر مقدس مقامات کو دوسرے حالات میں شامل کیا جائے.تو پھر اس بات کی بھی تشریح ضروری ہوگی کہ مقدس مقامات سے مراد کیا ہے؟ آیا ہر وہ جگہ جسے کوئی قوم اپنے منہ سے مقدس کہتی ہو مقدس ہو جائے گی یا کہ صرف مسلمہ اور معروف مذہبی بانیوں یا ممتاز قومی بادشا ہوں کی خاص یادگار میں مقدس قرار پائیں گی.( سوم ) یہ کہ جو تشریح بھی ” دوسرے حالات کی قرار پائے وہ سب قوموں پر ایک جیسی صورت میں چسپاں کی جاوے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا بھی سب کے لئے یکساں دروازہ کھلا ہو.(چہارم) یہ کہ اس بات کا بھی فیصلہ کیا جائے کہ اگر ایک مقام یعنی ایک شہر کو دو قوموں کے

Page 113

1+1 مضامین بشیر نز دیک تقدس حاصل ہو تو اس صورت میں کس قوم کو کس اصول پر ترجیح دی جائے گی.مقدس مقامات کے تعلق میں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ایسے مقامات کی حفاظت صرف اس طریق سے ہی ممکن نہیں ہے کہ انہیں اس قوم کی حکومت کا حصہ بنا دیا جائے جو انہیں مقدس خیال کرتی ہے.بلکہ دوسری حکومت کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسے مقامات کی تولیت اور نگرانی کے لئے متعلقہ قوم کی ایک کمیٹی مقرر ہو سکتی ہے آخر انگریزوں کے زمانہ میں بھی ہندوستان میں ہندوؤں ، سکھوں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کا انتظام موجود تھا.اسی قسم کا بلکہ اس سے بہتر انتظام اب بھی ہو سکتا ہے.بہر حال دوسرے حالات کے الفاظ کی تشریح اور تیاری کا کام بھی ایک نہایت اہم اور نازک کام ہے.جس کے لئے مسلمانوں کو ابھی سے تیاری کرنی چاہئے.خلاصہ کلام یہ کہ اس وقت تین قسم کے کاموں کے لئے فوری اور مکمل تیاری کی ضرورت ہے :.(۱) بارہ مشرقی ضلعوں کے سکھوں اور اچھوت اقوام کے ممبروں کو ہمدردی اور دلیل کے ساتھ سمجھایا جائے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے ہر جہت سے نقصان دہ اور ضرر رساں ہے.اور ان کا فائدہ " اسی میں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کر لیں اور ان کے ساتھ مل کر رہیں.(۲) باؤنڈری کمیشن کے لئے پوری پوری تیاری کی جائے.جس کے لئے مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار تیار کرنے کے علاوہ بجلی کے پاورسٹیشنوں اور نہروں کے ہیڈوں اور دریاؤں اور رستوں اور ریلوے لائنوں وغیرہ کی تقسیم یا انتظام کے اصول کا بھی گہرا مطالعہ کرنا ہو گا.اور یہ مطالعہ ایسا ہونا چاہئے کہ جس طرح عدالت میں ایک ہوشیار وکیل بحث کے لئے یا ایک ہوشیار گواہ فریق مخالف کی جرح کے لئے تیار ہو کر جاتا ہے.بعض صورتوں میں تشریح و توضیح کی غرض سے انٹر نیشنل لاء یعنی بین الاقوامی قانون کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہوگا جو مرکزی شہروں کے وکیل لوگ بہتر کر سکتے ہیں اسی طرح یورپ وغیرہ کے بعض مشہور باونڈری کمیشنوں کی رپورٹوں کا مطالعہ بھی بہت مفید ہوسکتا ہے (۳) حکومت برطانیہ کے اعلان نے جو دوسرے حالات کے غور کا دروازہ کھول دیا ہے، اسے یا تو بند کرانے کی کوشش کی جائے اور یا اوپر کی تشریح کے مطابق اس کے متعلق بھی پوری پوری تیاری کی جائے.مؤخر الذکر صورت میں بجلی کے پاورسٹیشنوں اور نہروں کے ہیڈ وغیرہ کے سوال کو بھی اسی ضمن میں شامل کیا جا سکتا ہے گو ویسے وہ آبادی کے اصول کے ماتحت بھی آجاتا ہے.بالآخر میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان خدا کے فضل سے ایک روحانی جماعت ہیں اور ہم اس بات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے کہ جہاں خدا نے کامیابی کے لئے دنیا میں مادی اور ظاہری اسباب پیدا کئے ہیں، وہاں اس نے بعض روحانی اسباب بھی پیدا کئے ہیں ، جو گو ظاہر میں نظر

Page 114

مضامین بشیر ۱۰۲ نہیں آتے مگر دراصل مادی اور ظاہری اسباب سے بہت زیادہ طاقتور ہیں.پس ان نازک ایام میں ہمیں خدائے علیم وقدیر سے دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ اپنے فضل و رحم سے ایسے اسباب مہیا فرما دے کہ جو نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ ہمارے ملک اور ہمارے صوبہ کے لئے بھی بہتری اور ترقی کا موجب ہوں اور کوئی ہرج نہیں کہ اس بارے میں سنجیدہ مزاج اور مذہبی میلان رکھنے والے سکھ ممبران کو بھی تحریک کی جائے کہ وہ بھی خالی الذہن ہو کر اور دل سے ہر قسم کے خیالات نکال کر اپنے طریق پر خدا سے دعا کریں کہ وہ انہیں ایسے رستے کی طرف ہدایت دے جس میں ان کی قوم اور ملک کا حقیقی فائدہ ہو.سکھوں کا قدم اس وقت پریشانی کے عالم میں ڈگمگا رہا ہے اور وہ حقیقۂ دو گورکھ دھندوں کے درمیان معلق کھڑے ہیں.پس ضرورت ہے کہ انہیں نہ صرف دلائل اور ہمدردی کے ذریعہ تقویت پہنچائی جائے بلکہ روحانی کارخانہ کی طرف توجہ دلا کر بھی ان کے قلوب کو اُس بالا ہستی کی طرف کھینچا جائے جو سارے علموں اور ساری طاقتوں اور ساری ترقیوں کا سرچشمہ ہے.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين ولا حول و لا قوة الا بالله العظيم ( مطبوعه الفضل ۱۴ جون ۱۹۴۷ء)

Page 115

۱۰۳ مضامین بشیر شیر پنجاب“ کی تنقید کا مخلصانہ جواب سکھ صاحبان آخر کب آنکھیں کھولیں گے؟ میرے مضمون ” خالصہ ہوشیار باش کے جواب میں جو اردو اور انگریزی اور گورمکھی متینوں زبانوں میں شائع ہو کر پنجاب کے طول و عرض میں وسیع طور پر پھیلایا جا چکا ہے.لاہور کے مشہور سکھ اخبار ” شیر پنجاب نے اپنی اشاعت مورخہ پندرہ جون ۱۹۴۷ء کے صفحہ ۷، صفحہ ۸ پر ایک ایڈیٹوریل میں مفصل جرح کی ہے.معقول اور باوقار جرح ایک قابل قدر چیز ہے جس سے ملک میں صحیح خیالات کے قائم کرنے اور پھیلانے میں بھاری مدد ملتی ہے.اور مجھے خوشی ہے کہ ” شیر پنجاب“ کے ایڈیٹر صاحب نے اپنی جرح میں کوئی نازیبا طریق اختیار نہیں کیا.اور ملک کی موجودہ نا گوار فضا کے باوجود اپنی جرح کو معقولیت اور شائستگی کی حد کے اندر اندر رکھا ہے.جو یقیناً ایک قابل تعریف کوشش اور آئیندہ کے لئے ایک خوشکن علامت ہے.بہر حال شیر پنجاب کی جرح کے جواب میں اس جگہ چند اصولی باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں.میرا مضمون ” خالصہ ہوشیار باش موجودہ سکھ سیاست کے تمام پہلوؤں سے تعلق رکھتا تھا اور اس مضمون میں سکھ صاحبان سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنی موجودہ پالیسی پر نظر ثانی کر کے ملک کی بلکہ خود اپنی قوم کی بہتری کے لئے ایک جرات مندانہ قدم اٹھا ئیں اور پنجاب کو تقسیم ہونے سے بچانے کی کوشش کریں.جس کا سب سے زیادہ نقصان خود سکھوں کو ہی پہنچنے والا ہے.جو دوحصوں میں بٹ کر اور دونوں حصوں میں ایک تیسرے درجہ کی کمزور اقلیت رہتے ہوئے اپنی موجودہ طاقت کو بہت بری طرح کھو دیں گے.اس وقت پنجاب کے سکھ ( اور سکھ عملاً پنجاب ہی میں محدود ہیں ) ساڑھے سینتیس لاکھ کی ایک مضبوط اور متحد طاقت ہیں.جس کا سارا زور ایک نقطہ پر جمع ہے.مگر پنجاب کی مجوزہ تقسیم کے بعد وہ قریباً دو برابر حصوں میں بٹ جائیں گے.اور دونوں میں تیسرے درجہ کی اقلیت رہیں گے.جس کے ایک حصہ میں مسلمانوں کا غلبہ ہو گا.اور نمبر ۲ پر ہندو ہوں گے.اور دوسرے حصہ میں ہندوؤں کا غلبہ ہو گا.اور نمبر ۲ پر مسلمان ہوں گے.کیا دنیا کی کوئی سمجھدار قوم سیاست کے کسی تسلیم شدہ اصول کے مطابق اس قسم کی حالت پر تسلی پاسکتی ہے.مانا کہ اس وقت عارضی طور پر ہندؤوں کے

Page 116

مضامین بشیر ۱۰۴ ساتھ سکھوں کا سمجھوتہ ہے.مگر قطع نظر اس کے کہ اس سمجھوتہ کی تفصیل کیا ہے.اور وہ سکھوں کے لئے کہاں تک مفید ہے.کیا اس قسم کے وقتی اور عارضی سمجھوتہ کی بناء پر جو کل کوٹوٹ بھی سکتا ہے.جس طرح کہ آج سے پہلے کئی دفعہ ٹوٹ چکا ہے.سکھ قوم کے دور بین سیاست دان اپنی قوم کی متحدہ طاقت کو دوحصوں میں بانٹ کر تباہ کرنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں؟ اور پھر اگر کسی دوسری قوم کے ساتھ سمجھوتہ ہی کرنا ہے تو کیوں نہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا جائے.جن کے ساتھ ہندوؤں کے مقابلہ پر سکھوں کا مذہبی عقائد اور تہذیب و تمدن اور اقتصادی وسائل اور فوجی روایات میں بھاری اشتراک پایا جاتا ہے.اس کے علاوہ میں نے اپنے اس مضمون میں اور بھی بہت سی باتیں لکھی تھیں.جن کی اس جگہ اعادہ کی ضرورت نہیں.میرے اس ہمدردانہ مشورہ کے جواب میں ایڈیٹر صاحب ” شیر پنجاب نے اور باتوں کو نظر انداز کر کے دو باتوں پر خاص زور دیا ہے.اول یہ کہ موجودہ فسادات میں مسلمانوں نے جو ظلم سکھوں پر کئے ہیں وہ مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کے سمجھوتہ کے منافی ہیں اور سکھوں کے دلوں میں اعتماد پیدا نہیں ہونے دیتے.دوسرے یہ کہ بے شک پنجاب کی موجودہ تقسیم میں سکھوں کا بھاری نقصان ہے مگر ان کے لئے موجودہ حالات میں اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس نقصان کو برداشت کر کے بھی اپنے آپ کو مسلمانوں کے مظالم کے خلاف وقتی طور پر محفوظ کر لیں.اور پھر بقول ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب“ گویا زیادہ منظم ہو کر اور زیادہ طاقت پیدا کر کے اپنے کھوئے ہوئے حقوق کو واپس حاصل کریں.ٹھیک جس طرح پیغمبر اسلام نے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں پناہ لی تھی.اور پھر اپنی طاقت کو زیادہ مضبوط کر کے مکہ کو دوبارہ فتح کیا تھا.اس ضمن میں شیر پنجاب نے احمد یہ جماعت کو وہ مظالم بھی یاد دلائے ہیں.جو مسلمانوں کی طرف سے ان پر کئے جاتے رہے ہیں.اور اس کے ساتھ لطیفہ کے طور پر یہ طعنہ بھی دیا ہے کہ تم لوگ بے شک اپنے زخموں کو کسی قدر پرانا ہونے کی وجہ سے بھول چکے ہوں گے مگر ہم لوگ اپنے تازہ اور گہرے زخم ایسی جلدی نہیں بھلا سکتے.شیر پنجاب کے ان دو اعتراضوں کے اندر جو درد و الم کا عنصر جھلک رہا ہے ، اس کے ساتھ ہر شریف انسان اصولاً همدردی محسوس کرے گا.مگر افسوس ہے کہ گہرے اور ٹھنڈے مطالعہ کے نتیجہ میں ان اعتراضوں کی منطق ہرگز قابل قبول نہیں سمجھی جا سکتی.اور اگر ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب میرے مضمون کا ذرا زیادہ غور سے مطالعہ فرماتے تو اس کے اندر ہی کم از کم ان کے پہلے اعتراض کا کافی وشافی جواب موجود تھا.مثلاً اپنے مضمون میں مسلمانوں کے مظالم کے متعلق میں نے لکھا تھا کہ : " کہا جا سکتا ہے کہ گذشتہ فسادات میں سکھوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا

Page 117

۱۰۵ مضامین بشیر ہے، اس لئے انہیں مسلمانوں پر اعتبار نہیں رہا.میں گذشتہ اڑھائی ماہ کی تلخ تاریخ میں نہیں جانا چاہتا.مگر اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں کہ سب جگہ مسلمانوں کی طرف سے پہل نہیں ہوئی اور زیادہ ذمہ داری لازماً پہل کرنے والے پر ہی ہوا کرتی ہے.اور اس قسم کے فسادات تو جنگل کی آگ کا رنگ رکھتے ہیں.جو ایک جگہ سے شروع ہو کر سب حصوں میں پھیل جاتی ہے اور خواہ اس آگ کا لگانے والا کوئی ہو، بعد کے شعلے بلا امتیار سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتے ہیں.میں اس دعوای کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ مسلمانوں نے کسی جگہ بھی زیادتی نہیں کی.لیکن کیا سکھ صاحبان یہ یقین رکھتے ہیں کہ سکھوں نے بھی کسی جگہ زیادتی نہیں کی.آخر امرتسر میں چوک پراگ داس وغیرہ کے واقعات لوگوں کے سامنے ہیں.اور پھر کئی جگہ بعض بے اصول ہندوؤں نے تیلی لگا کر سکھوں اور مسلمانوں کو آگے کر دیا ہے.اور بالآخر کیا سکھوں کے موجودہ حلیفوں نے بہار کے ہزار ہا کمزور اور بے بس مسلمانوں پر وہ قیامت برپا نہیں کی تھی جس کی تباہی اور قتل و غارت کو نہ پنجاب پہنچ سکتا ہے اور نہ نواکھلی اور نہ کوئی اور علاقہ.پس اگر گلے شکوے کرنے لگو تو دونوں قوموں کی زبانیں کھل سکتی ہیں.اور اگر ملک کی بہتری کی خاطر ” معاف کر دو اور بھول جاؤ کی پالیسی اختیار کرنا چاہو تو اس کے لئے بھی دونوں قوموں کے واسطے اچھے اخلاق کے مظاہرے کا رستہ کھلا ہے......انتقام کی کڑی ہمیشہ صرف جرات کے ساتھ اور عفوا ور در گذر کے عزم کے نتیجہ میں ہی توڑی جاسکتی ہے.ورنہ یہ ایک دلدل ہے.جس میں سے اگر ایک پاؤں پر زور دے کر اسے باہر نکالا جائے.تو دوسرا پاؤں اور بھی گہرا دھس جاتا ہے.پس اگر ملک کی بہتری چاہتے ہو.تو مسلمان کو بہار اور گڑھ مکتیسر کو بھلانا ہو گا.اور ہندو اور سکھ کو نو ا کھلی اور پنجاب کو بھلانا ہو گا.“ مکرم ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب ! کیا میرے اس نوٹ میں آپ کے اعتراض کا اصولی جواب پہلے سے نہیں آچکا ؟ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ اس سوال کو وقتی غصہ کے جذبات سے بالا ہو کر ملک وقوم کی مستقل بہتری کی روشنی میں مطالعہ کرنے کی کوشش کریں.کسی نے پرانے زمانے میں کہا تھا کہ: میں مدہوش فلپس کے خلاف ہوش مند فلپس کے سامنے اپیل کرتا ہوں.“

Page 118

مضامین بشیر 1+7 پس افراد کی طرح قوموں پر بھی مختلف حالتیں آسکتی ہیں.ایک وہ جبکہ وہ کسی وقت غصہ اور انتقام کے جوش میں مدہوش ہو کر اپنے نفع اور نقصان کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہو.اور دوسرے وہ جبکہ وہ اپنے غصہ کو قابو میں لا کر ہر چیز کو اپنے اصلی رنگ میں دیکھ سکے.اور اپنے نفع اور نقصان کا صحیح جائزہ لے سکنے کے قابل ہو.میں اپنے صوبہ کی نامور خالصہ قوم اور اپنے ملک کی مٹی سے پیدا شدہ سکھ جاتی سے درد بھری اپیل کرتا ہوں کہ وقت بہت نازک ہے اور بہت تنگ.وہ اپنے وقتی جوشوں اور غصوں کو قابو میں لا کر اپنی قوم اور اپنے ملک کے مستقل فائدہ کی طرف نظر ڈالیں.اور اس فطری جو ہر کو بیدار کر کے جو ہمارے آسمانی آقا نے ہر فرد اور ہر قوم میں پیدا کر رکھا ہے ، ہوش اور دور بینی کی آنکھوں سے اپنے نفع نقصان کو دیکھیں.بہت سی مشترک باتوں کی وجہ سے جن کی تفصیل میں اپنے سابقہ مضمون میں بیان کر چکا ہوں.سکھوں اور مسلمانوں کا جوڑ ایک طبعی پیوند کا رنگ رکھتا ہے.جو کبھی بھی سکھوں اور ہندوؤں کو حاصل نہیں ہو سکتا.میں نے سکھوں اور مسلمانوں کے مشترک مفاد کی تشریح کرنے کے بعد لکھا تھا کہ :- دیکھو ہر زخم کے لئے خدا نے ایک مرہم پیدا کی ہے اور قومی زخم بھی بھلانے سے بھلائے جا سکتے ہیں مگر غیر فطری جوڑ کبھی بھی پائیدار ثابت نہیں ہوا کرتے.اگر ایک آم کے درخت کی شاخ نے دوسرے آم کے درخت کی شاخ کے ساتھ ٹکرا کر اسے توڑا ہے تو بے شک یہ ایک زخم ہے جسے مرہم کی ضرورت ہے مگر یہ حقیقت پھر بھی قائم رہے گی کہ جہاں پیوند کا سوال ہوگا ، آم کا پیوند بہر حال آم کے ساتھ ہی ملے گا.دولڑنے والے بھائی لڑائی کے باوجود بھی بھائی رہتے ہیں.مگر دو غیر آدمی جن کے اندر بہت کم چیزوں میں اشتراک ہو عارضی دوستی کے باوجود بھی ایک نہیں سمجھے جا سکتے.“ پنجاب میں بے شمار ایسے گاؤں موجود ہیں.(اور اگر ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب قادیان تشریف لائیں تو میں انہیں خود اپنے علاقہ میں یہ نظارہ دکھا سکتا ہوں ) کہ جہاں ایک ہی گاؤں کی دو پتیوں میں سے ایک میں سکھ جاٹ آباد ہیں اور دوسری میں مسلمان جاٹ اور دونوں ایک ہی نسل اور ایک ہی قوم اور ایک ہی گوت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے رہنے سہنے کا طریق بھی بالکل ایک ہے.گویا دورشتہ دار ہیں جو پہلو بہ پہلو بس رہے ہیں اور وہ سارے معاملات میں باہم مشورہ اور ملاپ کے ساتھ کام کرتے ہیں.اس قسم کے نظارے ایک خالی فلسفہ نہیں ہیں.بلکہ زندگی کی جیتی جاگتی تصویر کا حصہ ہیں.اور کوئی غیر متعصب سمجھدار شخص انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا.بے شک رہتک وغیرہ میں

Page 119

۱۰۷ مضامین بشیر ہند و جاٹ بھی آباد ہیں.جو نسلاً تو ضرور جاٹ ہیں مگر مذ ہبا سکھ نہیں بلکہ ہند و ہیں لیکن جو ناطہ اور جو جوڑ وسطی پنجاب کے سکھ جائوں اور مسلمان جائوں کے درمیان پایا جاتا ہے.اس کا عشر عشیر بھی وسطی پنجاب کے سکھ جاٹوں اور رہتک کے ہندو جاٹوں کے درمیان نہیں پایا جاتا.بلکہ میں کہتا ہوں کہ جو فطری جوڑ وسطی پنجاب کے غیر جاٹ مسلمان زمینداروں اور سکھ جائوں کے درمیان نظر آتا ہے وہ بھی وسطی پنجاب کے سکھ جاٹوں اور رہتک کے ہندو جاٹوں کے درمیان نظر نہیں آتا.یہ وہ ٹھوس حقائق ہیں جن کا کوئی عقلمند شخص انکار نہیں کرسکتا.اس کے علاوہ میں نے لکھا تھا کہ اپنی قوم کا جو حصہ سکھ لوگ مغربی اور وسطی پنجاب میں چھوڑ رہے ہیں.وہ ان کی قوم کا بہترین حصہ ہے جسے انگریزی میں کسی قوم کا فلاور (Flower) یعنی پھول کہتے ہیں.قد و قامت میں ، جسمانی طاقت میں ، دماغی طاقت میں ، طبیعت کی فیاضی میں، تعلیم میں، زمیندارہ میں ، تجارت میں یہ حصہ سکھ قوم کی چوٹی کا حصہ ہے.اسے پیچھے چھوڑ کر اور مشرقی پنجاب میں اپنے آدھے دھڑ کے لئے ہندوؤں کا سہارا لے کر جن کے ساتھ ان کا کوئی طبعی جوڑ نہیں.سکھ لوگ کیا کریں گے؟ میں تکلف سے نہیں کہتا بلکہ دل کی گہرائیوں سے کہتا ہوں کہ وقت نازک ہے اور بہت نازک ہے.اے خالصہ قوم آنکھیں کھول کہ تیرے سر پر سیاہ بادلوں کی ٹکڑیاں بدشگونی کے انداز میں منڈلا رہی ہیں.باقی رہاشیر پنجاب کا یہ کہنا کہ پیغمبر اسلام نے بھی مکہ سے ہجرت کی تھی اور بالآخر مدینہ میں طاقت پکڑ کر مکہ کو دوبارہ فتح کیا تھا اور اب پنجاب کے سکھ لوگ بھی یہی کریں گے کہ مشرقی پنجاب میں طاقت پکڑ کر پھر مغربی پنجاب پر غلبہ پالیں گے.سو یہ ایک محض دل کو خوش کرنے والی بات ہے جس کے اندر کچھ حقیقت نہیں.کیونکہ اول تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت عوام الناس کے ایک طبقہ کے شور کی وجہ سے نہیں تھی.بلکہ مکہ کی ساری قوم ( مرد.عورت.بوڑھے.جوان.لیڈ راور عوام ) آپ کے خلاف ایک متحدہ سازش کے نتیجہ میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور ہر شخص اس باقاعدہ اعلان میں شامل تھا کہ ہم اسلام اور اس کے بانی کو مٹا کر چھوڑیں گے.مگر یہاں کے فسادات ( قطع نظر اس کے کہ پہل کس کی طرف سے ہوئی ہے ) صرف عوام کے ایک قلیل طبقہ تک محدود رہے ہیں.جس کے خلاف مسلمان لیڈروں کا ہر حصہ کھلے اور واضح الفاظ میں نفرت اور بیزاری کا اظہار کر چکا ہے.بلکہ اس اظہار کے ساتھ ساتھ وہ سکھ قوم کو تعاون اور صلح کی دعوت بھی دے رہا ہے.ان حالات میں سکھوں کی موجودہ حالت کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے حالات پر قیاس کرنا جبکہ خود مکہ کے لیڈر اسلام کی مخالفت میں آگے آگے تھے، ایک ایسا قیاس ہے جس کے ساتھ کوئی غیر متعصب شخص جو ٹھنڈے دل سے اس سوال پر نظر ڈالنے کے لئے تیار ہو کبھی اتفاق نہیں کر سکتا.

Page 120

مضامین بشیر ۱۰۸ عوام الناس کے ایک محدود طبقہ کے وقتی اور محدود ابال کو جو وہ بھی دراصل ملک کے ایک اور حصہ کی صدائے بازگشت تھی اس منتظم اور مسلسل اور وسیع اور ساری قوم پر پھیلی ہوئی مخالفت پر قیاس کرنا جس سے مقدس بانی اسلام کو دو چار ہونا پڑا، میرے لئے انتہائی حیرت کا موجب ہے.مگر میں اسے بھی اُس عارضی اعصابی ہیجان کا ایک حصہ قرار دیتا ہوں.جس میں اس وقت سکھ قوم اپنے وقتی جوش وخروش کے عالم میں مبتلا ہے.اسی سوال کے دوران میں شیر پنجاب نے جو یہ بات لکھی ہے کہ بانی اسلام کی طرح سکھ قوم بھی کسی دن اپنے وطن کو فتح کرے گی.سو ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب مجھے معاف کریں.یہ خیال بھی ایک ہوائی خواہش بلکہ ایک نا پاک خواہش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.کیونکہ جب دو قو میں ایک با قاعدہ سمجھوتہ کے نتیجہ میں ایک دوسرے سے الگ ہو رہی ہیں.تو پھر ابھی سے ایک قوم کا دوسری قوم کے متعلق یہ اعلان کرنا کہ وہ اسے بعد میں فتح کر کے مغلوب کرلے گی.ہرگز دیانت داری اور شرافت کا اعلان نہیں سمجھا جا سکتا.آنحضرت یہ کفار کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کر کے الگ نہیں ہوئے تھے.بلکہ ان کے مظالم سے تنگ آکر اور ان کی وسیع سازشوں کا شکار ہو کر اپنے شہر سے خفیہ طور پر نکل جانے پر مجبور ہوئے تھے.بلکہ حقیقہ اپنے شہر سے نکالے گئے تھے.اور اس کے بعد بھی دشمن قوم نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا.لیکن یہاں ایک قوم ایک تیسری قوم کے ذریعہ سے جو اس وقت ملک میں حاکم ہے.ایک دوسری قوم کے ساتھ ایک باقاعدہ سیاسی سمجھوتہ کے نتیجہ میں خود اپنے آپ کو دوحصوں میں بانٹ کر علیحدہ کر رہی ہے.بے شک ایسی صورت میں بھی ان کے لئے اپنے عہد و پیمان کو توڑ کر ہر وقت مسلمان علاقہ پر حملہ آور ہونے کا دروازہ کھلا ہے مگر کیا ایسے ظالمانہ اور غدارانہ حملہ کو خدا کی طرف سے وہ برکت حاصل ہو سکتی ہے.جو اسلام کے مقدس بانی کو ہر جہت سے مظلوم ہونے کی صورت میں حاصل ہوئی.ہرگز نہیں ہر گز نہیں ہرگز نہیں.پھر ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب اس بات کو بھی بھولے ہوئے ہیں.کہ آنحضرت یہ خدا کے ایک نبی تھے.اور اپنے نبیوں کے متعلق خدا کا یہ ازلی قانون ہے کہ جب تک وہ اپنے وطن میں امن کی حالت میں رہتے ہیں وہ ایک بیج کا حکم رکھتے ہیں جو زمین سے پھوٹ کر آہستہ آہستہ ایک بڑا درخت بنتا جاتا ہے.لیکن اگر ان کی قوم ان کو اپنے ظلموں کی چکی میں پیس کر وطن سے بے وطن ہونے پر مجبور کر دے.تو پھر یہی بیج ایک ایٹم بمب کی صورت اختیار کر کے ان کے دشمنوں پر گرتا اور انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے.اور اس تباہی کے نتیجہ میں ان کے واسطے ایک نئی زمین اور نیا آسمان پیدا ہو جاتا ہے.سکھوں میں بھی اگر خدا کے ہاتھ کا بنایا ہوا کوئی ایٹم بمب موجود ہے تو مجھے اس کا علم نہیں ورنہ سکھ صاحبان یا درکھیں کہ وہ ہرگز نبیوں والے قانون کے نیچے نہیں

Page 121

1+9 مضامین بشیر آسکتے.بلکہ اس صورت میں وہ ان عہد شکنوں کے قانون کے نیچے آئیں گے جو ایک باقاعدہ سمجھوتہ کے نتیجہ میں علیحدہ ہوتے ہیں.اور پھر بھی دل میں بد عہدی کے خیالات رکھ کر حملہ کی سکیم سو چتے رہتے ہیں.علاوہ ازیں اگر سکھ لوگ علیحدہ ہو کر منظم اور مضبوط ہوں گے تو کیا مسلمان جو اس وقت بھی صرف مغربی پاکستان میں سکھوں سے قریباً آٹھ گنے زیادہ ہیں.اپنی موجودہ حالت میں ہی بیٹھے رہیں گے.اور تعداد اور تنظیم اور طاقت اور سامان وغیرہ میں کوئی ترقی نہیں کریں گے.مکرمی ایڈیٹر صاحب ! اپنے اس خیالی بہشت سے نکل کر ذرا حقیقت کے میدان میں تشریف لائیے.تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قوموں کی خواہیں محض دل کی خواہش کے نتیجہ میں پوری نہیں ہوا کرتیں.بلکہ یا تو ان کے پیچھے زبر دست روحانی اسباب کارگر ہوا کرتے ہیں اور یا انہیں ایسے ٹھوس مادی اسباب کا سہارا حاصل ہوتا ہے.جن کی حقیقت کو دنیا تسلیم کرتی ہے.آپ فرمائیں کہ آپ کے پاس ان دونوں قسم کے اسباب میں سے کونسی قسم کا سہارا موجود ہے؟ ہاں بے شک اس وقت ہندوؤں کا سہارا آپ کو ضرور حاصل ہے.مگر آپ خود سوچیں کہ یہ سہارا کب تک قائم رہ سکتا ہے.آخر آپ کی اپنی قوم کی گزشتہ تاریخ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے.میں یہ باتیں خالص ہمدردی کے خیال سے عرض کر رہا ہوں.انہیں بُرا نہ مانیں اور ٹھنڈے دل سے سوچ کر کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کریں.ایڈیٹر صاحب ” شیر پنجاب نے احمد یہ جماعت کو بھی ہوشیار کیا ہے کہ وہ ان ظلموں کو یاد کریں جو گزشتہ زمانہ میں مسلمان ان پر کرتے رہے ہیں.میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ مسلمانوں کا ایک حصہ احمد یوں کی مخالفت میں پیش پیش رہا ہے اور ہمیں اپنی تلخ آپ بیتی بھولی نہیں بلکہ وہ ہماری تاریخ کا ایک سنہری ورق ہے جس نے ہمیں قومی بیداری اور تنظیم کے بہت سے بچے سبق سکھائے ہیں مگر با وجود اس کے مجھے افسوس ہے کہ آپ کا یہ داؤ ہم پر نہیں چل سکتا.کیونکہ ہماری گھٹی میں یہ تعلیم پڑی ہوئی ہے کہ مخالفت میں فرد کی طرف نہ دیکھو بلکہ اصول کی طرف دیکھو.اور دشمنی انسانوں کے ساتھ بھی نہ رکھو.بلکہ صرف برے خیالات کے ساتھ رکھو.کیونکہ کل کو یہی مخالف لوگ اچھے خیالات اختیار کر کے دوست بن سکتے ہیں.چنانچہ احمدیوں کا پچانوے فیصدی حصہ دوسرے مسلمانوں میں سے ہی نکل کر آیا ہے.پس اگر گزشتہ زمانہ میں کسی نے ہم پر ظلم کیا ہے تو اس وقت ہم اسکے ظلم کو حوالہ بخدا کر کے صرف یہ دیکھیں گے کہ انصاف کا تقاضا کیا ہے.اور افراد کے متعلق ہم بہر حال عفوا اور رحم کے عنصر کو مقدم کریں گے.میرا یہ خیال آپ کے اعتراض کے جواب میں گھڑا نہیں گیا.بلکہ جب ۱۹۳۹ ء میں میں نے سلسلہ احمدیہ کے حالات میں ایک کتاب لکھی تو اس وقت بھی بعض غیر احمدی مسلمانوں کے مظالم کا ذکر کر کے احمدیوں کو نصیحت کی تھی کہ جب خدا انہیں طاقت عطا کرے تو وہ اپنے گزرے ہوئے مخالفوں

Page 122

مضامین بشیر 11.کے ظلموں کو یاد کر کے اپنی طبیعت میں غصہ نہ پیدا ہونے دیں بلکہ عفو اور رحم سے کام لیں.چنانچہ میرے الفاظ یہ تھے :- ” ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہی کہتے ہیں.ہاں وہی نسلیں جن کے سروں پر بادشاہی کے تاج رکھے جائیں گے کہ جب تمہیں خدا دنیا میں طاقت دے.اور تم اپنے مخالفوں کا سر کچلنے کا موقع پاؤ.اور تمارے ہاتھ کو کوئی انسانی طاقت روکنے والی نہ ہو.تو تم اپنے گزرے ہوئے دشمنوں کے ظلموں کو یاد کر کے اپنے خونوں میں جوش نہ پیدا ہونے دینا اور ہمارے اس کمزوری کے زمانہ کی لاج رکھنا تا لوگ یہ نہ کہیں کہ جب یہ کمزور تھے تو اپنے مخالفوں کے سامنے دب کر رہے.اور جب طاقت پائی تو انتقام کے ہاتھ کو لمبا کر دیا.بلکہ تم اس وقت بھی صبر سے کام لینا اور اپنے انتقام کو خدا پر چھوڑ نا کیونکہ وہی اس بات کو بہتر سمجھتا ہے کہ کہاں انتقام ہونا چاہئے اور کہاں عفو اور درگزر بلکہ میں کہتا ہوں کہ تم اپنے ظالموں کی اولادوں کو معاف کرنا اور ان سے نرمی اور احسان کا سلوک کرنا کیونکہ تمہارے مقدس آقا نے یہی کہا ہے کہ اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کا خر کنند دعوائے حب بلکہ مسلمانوں پر ہی حصر نہیں.تم ہر قوم کے ساتھ عفو اور نرمی اور احسان کا سلوک کرنا اور ان کو اپنے اخلاق اور محبت کا شکار بنانا.کیونکہ تم دنیا میں خدا کی آخری جماعت ہو.اور جس قوم کو تم نے ٹھکرا دیا.اس کے لئے کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہو گا.اے زمین اور اے آسمان گواہ رہو کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو خدا کے بچے مسیح کی رحمت اور عفو کا پیغام پہنچا دیا.کیا اس تعلیم کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی شخص یا کسی قوم کی وقتی انگیخت مسلمانوں کے خلاف جن کے ساتھ ہمارا ایک شریعت اور ایک خاتم النبین کا دائمی رشتہ قائم ہے.بلکہ میں کہتا ہوں کہ کسی قوم کے خلاف جس نے ہم پر کبھی کوئی ظلم کیا ہو.ہمارے دلوں کو مستقل طور پر میلا کر سکتی یا ہمیں انصاف کے رستہ سے ہٹا سکتی ہے؟ گذشتہ کو جانے دو.فرض کرو کہ آئندہ بھی کسی قوم کا ہاتھ ہمارے خلاف ظلم اور تعدی کے رنگ میں اٹھتا ہے تو بے شک خدا اور قانون ہمیں خود حفاظتی کا حق دیتے ہیں مگر ہم کبھی بھی کسی فرد یا قوم کو اپنا مستقل دشمن نہیں سمجھ سکتے.اور دوسرے کی ہر نیک تبدیلی ہمیں اس کے مخلصانہ خیر مقدم

Page 123

111 مضامین بشیر کے لئے ہر وقت تیار پائے گی.پس مکرم ایڈیٹر صاحب ہمارے ظلموں کا قصہ تو آپ رہنے دیں.ظلم قوموں کو بنایا کرتے ہیں بگاڑتے نہیں.ہاں آپ میرے مخلصانہ مشورہ پر غور کر کے اس بات کو ضرور سوچیں کہ پنجاب کی تقسیم سکھوں کو کیا دے رہی ہے.اور ان سے کیا لے رہی ہے.خدا کی دی ہوئی عقل کا ترازو آپ کے ہاتھ میں ہے.اپنے وقتی جوش و خروش کو ذرا ٹھنڈا کر کے اس خدائی ترازو میں اپنے لین دین کا حساب تول جائیے.اور پھر انصاف سے کہئے کہ کیا پنجاب کی تقسیم آپ کی قوم کے لئے کسی جہت سے بھی نفع کا سودا ہے؟ اگر ہندو کے سہارے کا خیال ہے تو میری یہ بات لکھ لیں کہ یہ سہارا زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا.اس کے نتیجہ میں یا تو آپ اپنی آزاد ہستی کو کھو بیٹھیں گے.اور یا کچھ عرصہ کے بعد تنگ آکر اس سے جدا ہو جائیں گے.آخر ایک تاجر قوم جس کا اوڑھنا بچھونا سب کا روباری اصول کے تارو پود سے تیار شدہ ہے.کب تک آپ کے سمجھوتہ کو بیاج کے بغیر رہنے دے گی.گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اس بیاج کا بیلنس شیٹ آج سے چند سال بعد جا کر آپ کی آنکھوں کے سامنے آئے.ہم ہندوؤں کے خلاف نہیں.کیونکہ وہ بھی ہمارے وطنی بھائی ہیں.مگر جہاں طبعی اور فطری جوڑ کا سوال ہو.وہاں سچی بات کہنی پڑتی ہے.بالآخر آپ نے اپنے مضمون میں بعض ان مظالم کی بھیا نک تصویر کھینچ کر دکھائی ہے.جو آپ کے خیال کے مطابق بعض مسلمانوں نے بعض سکھوں پر کئے ہیں.مثلا آپ لکھتے ہیں کہ بعض جگہ سکھ بچوں کو نگا کر کے انہیں دیکھا گیا کہ آیا وہ لڑکا ہیں یا لڑکی اور اگر لڑ کا ہے تو مار دیا گیا.اور لڑ کی ہوئی تو اسے اغواء کر لیا گیا.اگر آپ نے اس بات میں کوئی ایسی تحقیق کی ہے.جو ایک غیر جانبدارانہ عدالتی تحقیق کا رنگ رکھتی ہے.تو میں اس کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکتا.آپ جانیں اور آپ کا ایمان.ہاں اصولی طور پر میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ جو شخص بھی ظالم ہے خواہ وہ کوئی ہو.اس کا فعل انتہائی نفرت اور انتہائی بیزاری کے قابل ہے.اور جو شخص بھی مظلوم ہے خواہ وہ کوئی ہو.وہ ہماری دلی ہمدردی دکا مستحق ہے.ہمارے پیارے نبی فداہ نفسی نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ انصرا خاک ظالما او مظلوما..یعنی اپنے بھائیوں کی امداد کرو.خواہ وہ ظالم ہوں یا مظلوم ہوں.“ اور جب صحابہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ مظلوم کی امداد تو ہم آپ سے ہمیشہ سنتے آتے ہیں مگر یہ ظالم کی امداد کے کیا معنی ہیں؟ تو آپ نے بے ساختہ فرمایا کہ ظالم کی امداد یہ ہے کہ اسے ظلم کرنے سے روکو.اللہ اللہ ! کیا ہی پیاری تعلیم ہے.جو آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے ریگستان سے بلند ہوئی مگر دنیا نے اس کی قدر کو نہ پہچانا.اگر ہر قوم اس تعلیم پر کار بند ہو تو ساری دنیا ایک دن میں جنت کا نظارہ پیش کر سکتی ہے.پس مکرم ایڈیٹر صاحب ! اگر کسی مسلمان نے ظلم کیا ہے تو ہمیں ایک منٹ کے "

Page 124

مضامین بشیر ١١٢ لئے بھی اس بات میں تامل نہیں کہ اس کے ظلم سے نہ صرف دلی بیزاری کا اعلان کریں بلکہ جہاں تک ہماری طاقت ہو اس کے ظلم کے ہاتھ کو روکیں.ہمارے امام نے موجودہ فسادات کے شروع میں ہی اپنی جماعت میں اعلان کر دیا تھا کہ اگر تم اپنے سامنے کوئی ظلم ہوتا دیکھو.تو قطع نظر اس کے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون تم فورا ایک طرف مظلوم کی امداد کو پہنچو.اور دوسری طرف ظالم کے ہاتھ کو روکو، خواہ اس کوشش میں تمہیں اپنی جان تک سے ہاتھ دھونا پڑیں.بس اس اصولی بات کے سوا میں اس معاملہ میں اور کچھ نہیں کہہ سکتا.کیونکہ مجھے ان واقعات کا علم نہیں.لیکن اگر وہ درست ہیں تو ضرور انتہائی افسوس اور انتہائی نفرت کے قابل ہے.آخر میں میں پھر اپنے سکھ ہم وطنوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ وقتی غصہ کو دبا کر اور عارضی جوشوں کو ٹھنڈا کر کے اپنے مستقل مفاد کے لحاظ سے پنجاب کی مجوزہ تقسیم کے متعلق غور کریں اور دیکھیں کہ یہ سکیم ان کے لئے کہاں تک مفید اور کہاں تک نقصان دہ ہے.یہ ایک فرد یا ایک خاندان یا ایک قبیلہ کا سوال نہیں بلکہ ایک پوری قوم کا سوال ہے.اور پھر یہ ایک دن یا ایک مہینہ یا ایک سال یا دس ہیں سال کا سوال نہیں بلکہ ہمیشگی کا سوال ہے.پس سوچو اور سمجھو اور پھر سوچو اور سمجھو اور پھر اس طریق کو اختیار کرو جو ایک طرف حق و انصاف پر مبنی ہو.اور دوسری طرف آپ کی قوم کے لئے دائمی مضبوطی اور ترقی کا رستہ کھول دے.اور پھر آپ لوگ ایک خدا کو ماننے والے ہیں.اور اسے علیم وقد مر جانتے ہیں.اس تاریکی کے زمانہ میں دلی کرب و درد کے ساتھ خدا سے دعا ئیں بھی کریں کہ قبل اس کہ آخری فیصلہ کا وقت آئے.وہ اپنے فضل و رحم سے آپ کے دلوں اور دماغوں میں وہ روشنی بھر دے جو ایک سچے اور بابرکت فیصلہ کے لئے ضروری ہے.ورنہ ہم تو ہر حال میں خدا کے بندے ہیں اور اس کے ہر فیصلہ پر راضی.گو جب تک خدا کا فیصلہ جاری نہیں ہوتا.ہم اس خواہش کے اظہار سے رک نہیں سکتے کہ کاش ہند وستان ایک رہ سکتا اور کاش پنجاب اب بھی ایک رہ سکے.( مطبوعه الفضل ۲۰ / جون ۱۹۴۷ء)

Page 125

۱۱۳ مضامین بشیر پنجاب باونڈری کمیشن کے غور کے لئے چند اصولی نوٹ حکومت کی طرف سے پنجاب باونڈری کمیشن کے لئے تحقیقات کی بنیادی شرائط ( ٹرمز آف ریفرنس ) کا اعلان ذیل کے مختصر مگر جامع الفاظ میں کیا گیا ہے :- کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ پنجاب کے ہر دو حصوں کی سرحد کی تعیین اس اصول پر کرے کہ مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقے ایک دوسرے سے ممتاز ہوکر اپنے اپنے حصہ کے ساتھ شامل ہو جائیں.اس عمل کے ضمن میں کمیشن دیگر حالات کا بھی خیال رکھے گا....ان الفاظ پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہر پڑھنے والا بغیر کسی شک وشبہ کے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ: (۱) کمیشن کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیق کا دارو مداران دوامور پر رکھے.اول مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی علیحدہ علیحدہ تعیین دوم دوسرے حالات (ب ) یہ کہ دوسرے حالات پر غور کا سوال کوئی مستقل اور بنیادی حیثیت نہیں رکھتا کہ اسے قوم وار آبادی کی قلت و کثرت کے اصول کے ساتھ ایک جیسا اہم اور متوازی اصل قرار دیا جائے.بلکہ اسے صرف ثانوی حیثیت حاصل ہے.جیسا کہ کمیشن کی تحقیقات کی بنیادی شرائط کے اعلان کی عمومی عبارت اور اس عمل کے ضمن میں کے میں اہم الفاظ سے ثابت ہے.(۳) پس صحیح طریق کار یہ ہے کہ پہلے آبادی کے لحاظ سے مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی علیحدہ علیحدہ تعیین کی جائے.اور اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہو تو اس تعیین کے نتیجہ میں ایسی خفیف سی تبدیلی کر کے جو قدرتی اور جغرافیائی پہلوؤں کے لحاظ سے لازمی سمجھی جائے مناسب ترمیم وو کر لی جائے.(۴) یہ بات کہ بہر صورت دوسرے حالات کے الفاظ دولت اور جائیداد وغیرہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال نہیں کئے گئے.وائسرائے کے اس واضح اور غیر مبہم اعلان سے بھی ثابت ہے جو انہوں نے ۴ جون کی پریس کانفرنس میں کیا تھا.چنانچہ اس کا نفرنس میں وائسرائے صاحب نے کہا تھا کہ :- وو ملک معظم کی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی تقسیم کی حمائت کرے گی

Page 126

مضامین بشیر ۱۱۴ جو جائداد اور مال و دولت کے اصول پر کی جائے.خصوصاً موجودہ لیبر برطانوی حکومت سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی...(۵) جمہوریت کے بنیادی اصول بھی جو دنیا بھر میں مسلم ہیں اس خیال کی پر زور تردید کرتے ہیں کہ مال و دولت کے اصول پر ملکی تقسیم کی بنیاد رکھی جائے.کیونکہ اس کے یہ معنے بنتے ہیں کہ جائیدادوں کو انسانی جان پر فوقیت حاصل ہے، جو بالبداہت باطل ہے.(1) انکم ٹیکس اور مال گزاری وغیرہ کا سوال بھی در اصل مال و دولت اور جائیداد کے سوال کی ایک فرع ہے.اور اس لئے وہ بھی انہی وجوہات کی بناء پر نا قابل توجہ سمجھا جانا چاہئے.جن کی بناء پر دولت اور جائیداد کا اصول قابل رو خیال سمجھا جاتا ہے.(۷) اگر ” دوسرے حالات کے مفہوم میں مقدس مقامات اور قومی یادگاروں کا سوال شامل سمجھا جائے تو پھر ضروری ہے کہ اس پہلو کو مد نظر رکھنے سے پہلے اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ کس کس قسم کی قومی یادگاریں یا مقدس مقامات قابل لحاظ سمجھے جائیں گے اور یہ کہ کن کن قسم کے حالات میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا.اور پھر اس اصولی فیصلہ کے بعد اس فیصلہ کو ساری قوموں پر یکساں چسپاں کیا جائے.(۸) مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی تعیین کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا یونٹ مقرر کیا جائے جس کی بناء پر مسلمان اور ہندو سکھ اور دیگر اقوام کی آبادی کے اعداد و شمار معلوم کر کے مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے علیحدہ علیحدہ علاقے معین کئے جاسکیں (۹) یہ کہ بظاہر مندرجہ ذیل یونٹوں میں سے کسی ایک کو یونٹ مقرر کیا جا سکتا ہے :- (۱) گاؤں یعنی ریوینیوا سٹیٹ.(ب) ذیل.( ج ) حلقہ قانون گو.(د) تھانہ.(ذ) تحصیل (ر) اور ضلع.ان چھ یونٹوں میں سے غالباً ضلع کا یونٹ خارج از بحث ہے.کیونکہ ۳ جون کی برطانوی تجویز اسے خود رڈ کرتی ہے.کیونکہ اسی تجویز میں اضلاع کی عارضی تقسیم کا خاکہ تیار کرنے کے بعد صراحت کی گئی ہے کہ اس عارضی تقسیم کو بعد میں مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی تعیین کے نتیجہ

Page 127

۱۱۵ مضامین بشیر میں بدل دیا جائے گا.پس کمیشن ضلع کے یونٹ کو چھوڑ کر باقی مذکورہ بالا پانچ یونٹوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر کے علاقوں کی تقسیم کرنے پر مجبور ہوگا.اور ان پانچ یونٹوں میں سے بھی اغلبا کمیشن گاؤں کے یونٹ کو نظر انداز کر دے گا کیونکہ اس یونٹ کے اختیار کرنے میں دونوں علاقوں کی درمیانی سرحد بے حد بے ترتیب.کٹی پھٹی اور آپس میں الجھی ہوئی ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے مستقل خطرے اور فتنہ وفساد کا باعث بنی رہے گی.اس کے بعد باقی چار ( یعنی ذیل حلقہ قانونگو.تھانہ اور تحصیل ) یونٹوں میں سے صحیح یونٹ کا انتخاب ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے واسطے کمیشن کو کافی غور کی ضرورت ہوگی.بادی النظر میں تحصیل کے یونٹ کا انتخاب بہت زیادہ موزوں اور مناسب معلوم ہوتا ہے.کیونکہ ضلع سے چھوٹے یونٹوں میں سے تحصیل ہی ایک ایسا یونٹ ہے.جس کی آبادی کے اعداد و شمار با قاعدہ طبع شدہ صورت میں موجود ہیں.جس کی وجہ سے اعداد وشمار میں رد و بدل یا جعل سازی کے احتمال کی گنجائش نہیں سمجھی جاسکتی.(۱۰) برطانوی تجویز میں یہ امر بھی بالصراحت موجود ہے کہ مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے علاقوں کی تعیین میں ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار ہر لحاظ سے آخری اور مستند تسلیم کئے جائیں گے.پس ان اعداد و شمار کی صحت پر کسی فریق کو معترض ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے.کیونکہ اس کا نتیجہ تضیع اوقات کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا.یہ دعویٰ کہ ۱۹۴۱ء کی مردم شماری میں مسلمانوں نے اپنی تعداد کو نا جائز طور پر بڑھا کر دکھایا ہے.سراسر بے بنیا د اور خلاف عقل اور خلاف قیاس ہے.اگر اعدادو شمار میں کوئی ناجائز تصرف ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ تصرف تمام فرقوں کے اعداد و شمار میں ہوا ہو گا.خصوصا ہندو اور سکھوں کے اعداد و شمار میں ایسے ناجائز تصرف کا ہونا زیادہ قرین قیاس ہے.کیونکہ یہ لوگ خواندگی اور سیاسی بیداری میں مسلمانوں سے آگے ہیں.جس کی بناء پر یہ گمان کرنا بعید از قیاس نہیں کہ اگر کوئی نا واجب تصرف ہوا ہے تو ان قوموں نے دوسروں کے مقابلہ پر سیاسی برتری حاصل کرنے کے خیال سے یقیناً زیادہ جد و جہد کی ہوگی." (۱۱) ظاہر ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف سیاسی سمجھوتہ صرف ہندوؤں اور سکھوں تک محدود ہے.اس لئے ضروری ہے کہ آبادی کے اعداد و شمار معلوم کرنے میں مسلم بمقابلہ غیر مسلم“ کے اصول کی بجائے ” مسلم بمقابلہ ہندو سکھ کے اصول کے مطابق نظر ڈالی جائے.پس ایسے علاقے جہاں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں اور سکھوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہو.( مثلا ضلع ہوشیار پور کی تحصیل ہائے ہوشیار پور اور دسوہہ.وہاں باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو تمام غیرمسلمانوں کے مقابل پر مجموعی اکثریت حاصل نہ ہو.فیصلہ کا صحیح طریق یہ ہونا چاہئے کہ اچھوت اور عیسائی اقوام

Page 128

مضامین بشیر 117 میں ریفرنڈم یعنی حصول رائے عامہ کا طریق اختیار کر کے معلوم کیا جائے کہ یہ قومیں کس طرف شامل ہونا چاہتی ہیں.خدا کرے کہ کمیشن کو ایسے فیصلہ کی توفیق ملے جو ساری قوموں کے واسطے حق وانصاف کا فیصلہ ہو اور ملک میں امن و اتحاد کا موجب بنے.آمین.والله خير حافظا وناصراً.(مطبوعہ الفضل ۱۹؍ جولائی ۱۹۴۷ء)

Page 129

مضامین بشیر جان یا سامان و عند الامتحان يُكرم المرءُ اويُهان ابتلاء اور مصیبت کا زمانہ بھی ایک زلزلہ کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ جس طرح بسا اوقات ایک بھاری زلزلہ میں زمین کا اندرونہ پھٹ کر نگا ہو جاتا ہے، اسی طرح شدید مصائب کے دھکے میں بھی انسانی فطرت کی مخفی گہرائیاں عریاں ہو کر دنیا کے سامنے آجاتی ہیں.اسی لئے قرآن شریف فرماتا ہے کہ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَانَ وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَان..یعنی جب آخری زمانہ میں دنیا پر شدید زلزلے آئیں گے جو گویا اس کی تاریخ میں یاد گار بننے والے ہوں گے تو اس وقت زمین اپنے بوجھوں کو باہر نکال پھینکے گی.یعنی جو چیزیں اس کی گہرائیوں میں گویا چھپ کر بیٹھی ہوئی ہوں گی ، وہ بھی اس وقت ابھر کر باہر آجائیں گی اور اخفا کے پر دے دور ہو جائیں گے.یہی حال مصائب اور امتحانوں کے وقت میں ہوتا ہے کہ انسانی قلوب کی مخفی حقیقتیں جن پر عام حالات میں سینکڑوں قسم کے پردے پڑے رہتے ہیں، مصائب کے وقت میں تنگی ہو کر باہر آ جاتی ہیں.تب انسانی آنکھ یہ نظارہ دیکھتی ہے کہ بعض لوگ جو بظاہر بہادر اور ثابت قدم نظر آتے تھے وہ دراصل بزدل اور لرزہ براندام نکلتے ہیں اور کئی لوگ جو بظاہر کمزور اور رعشہ بر پا دکھائی دیتے تھے ، وہ دراصل قومی اور ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ثابت ہوتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ یہی حال ہمارے موجودہ امتحان کے وقت میں ہوا ہے.نام لینے اچھے نہیں ہوتے اور امام کے سوا اس کا کسی کو حق بھی نہیں ہے.مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں اس بھاری ابتلاء کے وقت میں بعض لوگ جو بظا ہر نہایت پختہ نظر آتے تھے ، وہ بعض لحاظ سے متزلزل ہوتے ہوئے دکھائی دیئے.وہاں کئی لوگ ایسے بھی نکلے جن کے متعلق کوئی خاص اعلیٰ خیال نہیں تھا مگر ابتلاء کے وقت نے ان کو ایسا ظاہر کیا کہ گویا وہ ایک نہایت مضبوط چٹان ہیں.جنہیں کوئی آندھی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی اور الحمد للہ کہ اکثر دوستوں نے بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے اور کمزور لوگوں کی تعداد نسبتاً بہت کم ثابت ہوئی ہے.مگر مجھے اس جگہ ایک خاص پہلو کا ذکر کرنا مقصود ہے جس کے متعلق ایک حصہ جماعت میں نا واقعی کی وجہ سے زیادہ غلط نہی نظر آتی ہے اور بعض فتنہ پرداز اس غلط فہمی کو ہوا دے رہے ہیں.میری مراد اس اعتراض سے ہے جو بعض لوگوں کے دل میں پیدا ہوا ہے اور

Page 130

مضامین بشیر ۱۱۸ دوسروں کے دل میں پیدا کیا جا رہا ہے کہ جہاں قادیان سے نکلتے ہوئے بعض لوگ زیادہ سامان لے آئے ہیں.وہاں بعض دوسرے لوگوں کا بہت کم سامان آیا ہے اور بعض کا سامان تو قریبا بالکل ہی ضائع ہو گیا ہے اور گویا اس طرح بے انصافی اور لحاظ داری برتی گئی ہے.اس اعتراض کا جواب میں نا واقف دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں درج کرتا ہوں.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز قادیان سے ۳۱ را گست ۱۹۴۷ کی دو پہر کو تشریف لائے تھے اور حضور نے اپنے پیچھے اس خاکسار کو امیر مقامی مقرر فرمایا اور میں نے ۲۳ ستمبر ۱۹۴۷ ء تک ان فرائض کو جہاں تک اور جس رنگ میں بھی مجھ سے ممکن ہو سکا ادا کرنے کی کوشش کی.واستغفر الله ربی من کل ذنب و اتوب اليه - میرے بعد یعنی جب میں حضرت صاحب کے حکم سے لاہور آ گیا تو مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے امیر مقامی مقرر ہوئے جو ۱۴ /اکتوبر ۱۹۴۷ء تک یہ فرائض انجام دیتے رہے اور پھر ان کے لاہور بلالئے جانے کے بعد مولوی جلال الدین صاحب شمس امیر مقرر ہوئے جو اب تک قادیان میں امیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں.چونکہ ہماری آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ قادیان اور اس کے ماحول میں فتنہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور ضلع گورداسپور کے ایک ایک مسلمان گاؤں کو خالی یا تباہ کر کے قادیان کے اردگرد خطرہ کا دائرہ روز بروز تنگ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف قریباً پچاس ہزار بیرونی پناہ گزینوں نے قادیان میں جمع ہو کر ہماری مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ مفسدہ پردازوں کی سکیم صرف قتل و غارت یا لوٹ مار یا مسلمان آبادی سے ضلع کو خالی کرانے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں مسلمان عورتوں کے ننگ و ناموس کو برباد کرنا بھی شامل ہے.(چنانچہ میری موجودگی میں ہی ماحول قادیان کی اغوا شدہ عورتوں کی تعداد سات سو تک پہنچ چکی تھی اور بہت سی معصوم عورتوں کی عصمت دری کے نظارے گویا ہماری آنکھوں کے سامنے تھے ) اس لئے ہم نے دوستوں کے مشورہ اور حضرت صاحب کی اصولی ہدایت کے ماتحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو عورتوں اور بچوں کو جلد از جلد قادیان سے باہر بھجوا دیا جائے اور اس کے لئے ہم قریباً مجنونانہ جد و جہد کے ساتھ دن رات لگے ہوئے تھے.حتی کہ ایک دن میں نے انتہائی بے بسی کی حالت میں حضرت صاحب کو خط لکھا کہ ہمارے ارد گر د خطرہ کا دائرہ بڑی سرعت کے ساتھ تنگ ہوتا جارہا ہے اور آپ کی ہدایت یہ ہے کہ کسی صورت میں بھی حکومت کا مقابلہ نہ کیا جائے ( اور حکومت کا مقابلہ ہماری تعلیم کے بھی خلاف ہے اور ہماری طاقت سے بھی باہر.گوحق یہ ہے کہ اس وقت سکھ جتھے اور حکومت گویا ایک معجون مرکب بنے ہوئے ہیں اور ایک کو دوسرے سے جدا رکھنا مشکل ہے ) اور آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کی جان کو حتی الوسع بچاؤ کیونکہ ضائع شدہ

Page 131

119 مضامین بشیر جائیدادیں اور سامان تو پھر بھی مل جائیں گے.مگر مومنوں کی ضائع شدہ جانیں جو گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے ہیں پھر نہیں ملیں گے تو اب مجھے بتا ئیں کہ میں ان ہزاروں ننگ و ناموس رکھنے والی عورتوں کے متعلق جو قادیان میں موجود ہیں کروں تو کیا کروں؟ مال کے مقابل پر بے شک قیمتی جان بچائی جا سکتی ہے اور مومن کی جان واقعی بہت بڑی چیز ہے مگر کیا میں اپنی آنکھوں کے سامنے احمدی عورتوں کے ننگ و ناموس کو خطرہ میں ڈال دوں اور سامنے سے ہاتھ نہ اٹھاؤں؟ حضرت صاحب نے مجھے تسلی کا خط لکھا اور بعض ہدایتیں بھی دیں اور فرمایا کہ میں ان مشکلات کو سمجھتا ہوں مگر ادھر ہم زیادہ سے زیادہ ٹرک بھجوانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے.( گو پاکستان حکومت کے پاس ٹرک محدود ہیں اور اس نے سارے مشرقی پنجاب میں سے مسلمانوں کو نکالنا ہے ) اور ادھر تم جس طرح بھی ہو ہر ٹرک میں زیادہ سے زیادہ عورتیں اور بچے لدوا کر انہیں جلد سے جلد باہر بھجوا دو اور جب عورتیں محفوظ ہو جائیں تو پھر باقی معاملہ جو ہماری طاقت سے باہر ہے.خدا پر چھوڑ دو.وَ لِلبَيتِ رَبُّ سَيَمْنَعُهُ.اب ٹرکوں کا حال یہ تھا کہ قادیان میں دو قسم کے ٹرک پہنچتے تھے.ایک وہ پرائیویٹ ٹرک جو بعض احمدی فوجی افسر اپنے اہل وعیال اور اپنے ذاتی سامان کو لے جانے کے لئے اپنے فوجی حق کی بنا پر حاصل کر کے قادیان لے جاتے تھے اور دوسرے وہ جماعتی ٹرک جو جماعتی کوشش سے جماعتی انتظام کے ماتحت حکومت کے حکم سے قادیان بھجوائے جاتے تھے.جہاں تک پہلی قسم کے ٹرکوں کا سوال ہے ظاہر ہے کہ یہ ایک پرائیویٹ چیز تھی اور مجھے یا کسی اور کو اس میں دخل دینے کا حق نہیں تھا.ان کے متعلق صدر صاحبان محلہ جات قادیان کو میری ہدایت صرف اس قدر تھی کہ اس بات کی نگرانی رکھیں کہ ان پرائیویٹ ٹرکوں کے اندر بیٹھ کر کوئی احمدی مرد بلا اجازت باہر نہ چلا جائے.نیز یہ کہ پرائیویٹ ٹرک والے فوجی افسر سے پوچھ لیا کریں کہ کیا اس کے ٹرک میں کسی زائد سواری کی گنجائش ہے اور اگر گنجائش ہوا کرے تو مجھے بتا دیا کریں تا میں ایسے لڑکوں میں بھی زائد احمدی عورتیں بھجواسکوں اور اس طرح ہماری اسکیم کی جلد تر تکمیل میں مدد ملے.چنانچہ ایسا ہوتا رہا اور جہاں تک ممکن تھا میں حکمت عملی اور سمجھوتہ کے طریق پر پرائیویٹ ٹرکوں میں بھی زائد عورتیں بھجوا تا رہا مگر ظاہر ہے کہ یہ ٹرک میرے کنٹرول میں نہیں تھے اور جہاں تک سامان کا تعلق ہے ان لڑکوں کے مالک جتنا سامان چاہتے تھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور میں اس میں دخل نہیں دے سکتا تھا اور میں جانتا ہوں کہ بعض ایسے پرائیویٹ ٹرک والوں نے اپنا سارے کا سارا سامان یا قریباً سارا سامان با ہر نکال لیا مگر یہ ان کا قانونی حق تھا جس میں میں دخل نہیں دے سکتا تھا.البتہ دوسرے ٹرک جو جماعتی انتظام کے ماتحت

Page 132

مضامین بشیر ۱۲۰ جاتے تھے وہ بے شک کلیۂ ہمارے انتظام میں تھے (سوائے اس دخل اندازی کے جو ملٹری کی طرف سے ہوتی رہتی تھی اور دن بدن بڑھتی جاتی تھی اور میں نے ایسے جماعتی ٹرکوں کے لئے ایک مستعد عملہ اور کچھ اصولی ہدا یتیں مقرر کر رکھی تھیں اور ہر باہر جانے والی پارٹی کو با قاعدہ ٹکٹ ملتا تھا جس میں باہر جانے والی عورتوں اور بچوں کی تعداد اور سامان کی مقدار درج ہوتی تھی جس کے مطابق مقررہ عملہ چیک کر کے سواریاں بٹھاتا تھا.سامان کا اصول سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا اور اس میں ضروریات زندگی کی چیزوں کو مقدم رکھا گیا تھا.مثلاً بستر اور پہننے کے کپڑے یا بعض صورتوں میں اقل تعداد میں کھانے کے برتن وغیرہ اور پارٹی کی تعداد کے مطابق سامان میں کمی بیشی کا اصول بھی مقرر تھا.البتہ دو چیزوں کے متعلق میں نے استثناء رکھی تھی.ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات اور دوسرے نایاب تبلیغی یا علمی کتا ہیں اور بعد میں اس میں ایک تیسری چیز کا بھی اضافہ کر دیا گیا.یعنی ایسی اشیاء جو کسی شخص کی روزی کا ذریعہ ہوں.مثلاً درزی کے لئے سینے کی مشین یا بڑھئی کے لئے اس کے اوزار وغیرہ.یہ اصول امیر وغریب سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا.گو ظا ہر ہے کہ نسبتی لحاظ سے اس اصول سے غرباء کو ہی زیادہ فائدہ پہنچتا تھا بلکہ غرباء کے متعلق تو میری یہاں تک ہدایت تھی کہ صرف صدر صاحبان کی سفارش پر ہی معاملہ نہ چھوڑا جائے بلکہ میرے دفتر کے مرکزی کا رکن خود جستجو کر کے یتامی اور بیوگان اور ایسے مساکین کو تلاش کر کے میرے نوٹس میں لائیں ، جن کا حق ان کی غربت اور بے بسی کے سوا اور کوئی نہ ہو.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری اس ہدایت کی وجہ سے مجھے ملک غلام فرید صاحب نے رات کے دو بجے دار الفضل سے فون کیا کہ میں نے محلہ دار البرکات میں ایک ایسی بے کس اور بے بس بیوہ عورت تلاش کی ہے جس کے ٹکٹ کے لئے ابھی تک کسی نے سفارش نہیں کی.میں نے فورا ہدایت دی کہ اسے اس کے ضروری سامان کے ساتھ دوسرے دن کی کنوائے میں بھجوا دیا جائے.الغرض جب تک میں قادیان میں رہا.میں نے بلا امتیاز غریب و امیر سب کے واسطے ایک جیسا اصول رکھا.اور عموما صدر صاحبان کی تصدیق پر فیصلہ کرتا تھا اور سامان کے متعلق بھی سب کے لئے ایک جیسا اصول تھا.گو یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض بے اصول لوگ چوری یا سینہ زوری کے ذریعہ زیادہ فائدہ اٹھا لیتے ہوں مگر یہ نا گوار رخنے جن کی تعداد بہر حال کم ہوتی ہے ، ہر انتظام میں ہو جاتے ہیں اور ہنگامی حالات میں تو لازماً ہوتے ہیں مگر ان زبر دستی کی استثناؤں کی وجہ سے سارے نظام پر اعتراض کرنا درست نہیں ہوتا.حقیقت یہی ہے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ حالات اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بالکل درست بلکہ ضروری تھا اور یہ سب کچھ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو دن رات

Page 133

۱۲۱ مضامین بشیر کی انتہائی کوفت میں مبتلا کر کے خالصة لوجه الله کیا گیا.مجھے یاد ہے کہ جب لا ہور سے کنوائے جاتا تھا تو اس کی تیاری کے لئے میں اور میر ا عملہ بسا اوقات رات کے تین تین بجے تک مسلسل کام میں لگے رہتے تھے اور بعض راتیں تو ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں سوئے.مگر یہ ہمارا کسی پر احسان نہیں ہے بلکہ خدا کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ان خطرہ کے ایام میں خدمت کا موقع دیا.ان ایام میں بعض دوست میرے پاس آتے تھے کہ ہمیں زیادہ سامان بھجوانے کی اجازت دی جائے.میں انہیں سمجھاتا تھا کہ دیکھو اس وقت سوال یہ ہے کہ خطرہ بالکل قریب آگیا ہے اور ٹرکوں کی تعداد تھوڑی ہے.اب چاہو تو احمدی عورتوں اور بچوں کی جان بچالو اور چاہو تو اپنا سامان محفوظ کرلو.اکثر دوست میرے اس اشارہ کو سمجھ جاتے تھے مگر بعض کوتاہ بین لوگ دل برداشتہ بھی نظر آتے تھے لیکن میں مجبور تھا کہ بہر حال مومنوں کی جانوں اور خصوصا عورتوں کی جانوں کو ( جن کی جانوں کے ساتھ ان کے ناموس کا سوال بھی وابستہ تھا ) سامان پر مقدم کروں.آخر ہر ٹرک کی گنجائش اور بوجھ اٹھانے کی طاقت محدود ہوتی ہے.اگر ہم ایک ٹرک پر سامان زیادہ لاد دیں گے تو لازماً سواریاں کم بیٹھیں گی اور اگر سامان کم ہوگا تو لازماً سواریوں کے لئے زیادہ گنجائش نکل آئے گی.ہماری اس تذبیر کا نتیجہ عملی صورت میں بھی ظاہر ہے کہ مشرقی پنجاب کی تمام دوسری جگہوں کی نسبت قادیان میں جانی نقصان نسبتی طور پر بہت کم ہوا ہے اور اغوا کے کیس تو خدا کے فضل سے بہت ہی کم ہوئے ہیں.بلکہ جہاں تک میراعلم ہے قادیان کے احمدی مہاجرین میں سے کوئی ایک عورت بھی اغواہ شدہ نہیں ہے.جو ظاہری لحاظ سے ( کیونکہ اصل حفاظت تو خدا کی ہے ) اسی تدبیر کا نتیجہ تھا کہ اکثر عورتوں کو خطرہ سے پہلے نکال لیا گیا اور جو تعداد حملہ کے وقت قادیان میں موجود تھی وہ اتنی محدود تھی کہ خطرہ پیدا ہوتے ہی ہمارے آدمی انہیں فوڑا سمیٹ کر محفوظ جگہوں میں لے آئے ورنہ اگر زیادہ تعداد ہوتی تو انہیں اتنے قلیل نوٹس پر سمیٹنا ناممکن ہوتا اور ان کا اتنی محدود جگہ میں سمانا بھی ناممکن تھا.بہر حال جو کچھ کیا گیا جماعت کی بہتری اور افراد جماعت کی بہتری کے خیال سے کیا گیا مگر یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ بڑے خطرے کے بخیریت گزر جانے پر وہ گزرے ہوئے خطرے کو تو بھول جاتا ہے.اور نسبتاً چھوٹے نقصان کو جو اس نے اس عرصہ میں برداشت کیا ہو زیادہ بڑھا چڑھا کر دیکھتا ہے.چونکہ اوپر کے بیان کردہ حالات کے ماتحت جانوں کو محفوظ کرتے کرتے کئی لوگوں کا مالی نقصان ہو گیا.کیونکہ ان کا سامان وقت پر باہر نہیں نکالا جا سکا.(اور خود ہمارے خاندان کا سامان چھ سات لاکھ روپے کا ضائع ہوا ہے اور جائیداد کے نقصان کو شامل کر کے تو یہ نقصان قریباً ایک کروڑ کا بنتا ہے مگر خدا جانتا ہے کہ جماعتی نقصان کے مقابلہ پر کبھی اپنے نقصان کی طرف خیال نہیں گیا ) مگر بعض

Page 134

مضامین بشیر ۱۲۲ لوگوں کا یہ حال ہے کہ اب جبکہ خدا کے فضل سے جانیں اور عزتیں محفوظ ہو چکی ہیں تو ان لوگوں کو اپنا مالی نقصان گویا ایک دیو بن کر نظر آنے لگا ہے اور اس کی وجہ سے بعض لوگوں کی طبیعت میں اعتراض بھی پیدا ہو رہا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر جانوں پر سامان کو مقدم کیا جاتا اور اگر جیسا کہ لازمی ہے اس کے نتیجہ میں جانوں کا زیادہ نقصان ہو جاتا ( اور عورتوں کی جانوں کے نقصان کے ساتھ ان کے ناموس کا نقصان بھی لازم و ملزوم تھا.) تو پھر یہی لوگ یہ اعتراض کرتے اور اس صورت میں یہ اعتراض یقیناً جائز ہوتا کہ دیکھو منتظمین نے سامان کی خاطر عورتوں کی جانوں اور ناموس کو برباد کرا دیا ہے.حق یہ ہے کہ سچا مومن بڑے نقصان سے بیچ کر چھوٹے نقصان کے با وجو دشکر گزار ہوتا ہے اور پھر وہ خدا کے اس وعدہ کو پاتا ہے کہ بہن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ.مگر روحانی لحاظ سے بیمار لوگ یعنی لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُم..وہ ہر حالت کو اعتراض اور ناشکری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.اگر وہ بڑے نقصان سے بچ جائیں تو کہتے ہیں کہ چھوٹا نقصان بھی کیوں ہوا؟ اور اگر چھوٹے نقصان سے بچ کر بڑے نقصان میں مبتلا ہو جائیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو جماعت کو تباہ کر دیا گیا ہے.ایسے لوگوں کا علاج صرف خدا کے ہاتھ میں ہے.بالآخر میں دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت کے لئے یہ ایک بہت بھاری امتحان کا وقت ہے.اور ضروری تھا کہ یہ امتحان آتا، کیونکہ اس کے بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی پیشگوئیاں غلط جاتیں مثلاً یہ کہ (۱) داغِ ہجرت یا مثلاً یہ کہ (۲) يَاتِی عَلَيْكَ زَمَنْ كَمِثْلِ زَمَنِ مُؤسى.یا مثلاً یہ کہ (۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رویا میں یہ دیکھنا کہ آپ کے باغ پر ایک کر یہہ المنظر وحشی گروہ نے حملہ کیا ہے.یا مثلاً یہ کہ (۴) آپ کا الہام مصالح العرب ـ مسير العرب جس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا نبی کے زمانہ میں پورا ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعہ سے پورے ہوتے ہیں یا مثلا (۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ اَحَسِبَ النَّاسُ أنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمُ لَا يُفْتَنُونَ وغیرہ وغیرہ.پس ہماری یہ تکالیف بھی دراصل احمدیت کی صداقت کی ایک بھاری نشانی ہیں مگر بد قسمت ہیں وہ لوگ جو اس وقت تک تو خوشی خوشی سلسلہ کے ساتھ چلے جب تک کہ جماعت گویا پھولوں کی سیج پر چل رہی تھی مگر جو نہی کہ اسے کچھ وقت کے لئے خاردار رستہ پر چلنا پڑا تو وہ گھبرا کر اور بڑ بڑاتے ہوئے اِدھر اُدھر سرک جانے کی راہ دیکھنے لگے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے خوشحالی میں بھی وفاداری دکھائی اور تنگی اور مصیبت کے وقت میں بھی وفا دار ر ہے.اُولئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ وَأَوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون - یہ وقت انشاء اللہ جلد گزرجائے گا.۱۵ -

Page 135

۱۲۳ مضامین بشیر اور خدا اپنے وعدہ کے مطابق اس امتحان کے بعد پہلے سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر ترقی کے دن لائے گا بلکہ دراصل یہی اصل ترقی کے دن ہوں گے جو امتحان کے بعد آئیں گے.مگر چند بے وفاؤں کی بیوفائی اور بہت سے وفاداروں کی وفاداری احمدیت کی تاریخ میں یادگار رہے گی.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.مطبوعه الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۴۷ء)

Page 136

مضامین بشیر ۱۲۴ نفع مند کاروبار میں روپیہ لگانے والے دوستوں کو ضروری اطلاع بعض دوستوں نے میرے ذریعہ قادیان کے بعض کا رخانہ داروں اور دوسرے دوستوں کو کا روباری اصول پر روپیہ دیا ہوا تھا اور وہ اس وقت تک اپنے روپے کا معقول نفع حاصل کرتے رہے ہیں.میں ہر ایسے سودے کے موقع پر فریقین پر یہ بات واضح کر دیتا رہا ہوں کہ ان سودوں میں مجھ پر کسی قسم کی قانونی یا شرعی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ میں صرف دوستوں کی امداد کے لئے اخلاقی بناء پر اپنے ذریعہ ایسے سمجھوتے کرا دیتا ہوں کہ کسی قسم کا ذاتی فائدہ اٹھانا تو درکنا ر ا کثر اوقات خود اپنے پاس سے متفرق اخراجات وغیرہ برداشت کر کے دوستوں کی اخلاقی امداد کرتا رہا ہوں لیکن گزشتہ فسادات میں جو حقیقتہ ایک قیامت کا نمونہ تھے قادیان کے سب کارخانہ داروں کے کارخانے اور اکثر دوستوں کے املاک کلیۂ ضائع ہو چکے ہیں.جس میں ان کی کسی غفلت یا کوتا ہی کا دخل نہیں ہے اور گو ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ انشاء اللہ قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گا اور مرکز سلسلہ کے متعلق خدا کے وعدے ضرور پورے ہوں گے لیکن جب تک موجودہ عالمگیر تباہی کے آثار باقی ہیں، اس وقت تک ایسے لوگ جو فی الحال اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں ہر رنگ میں ہمدردی کے مستحق ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ روپیہ لگانے والے دوست قرآنی حکم فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ نا کے ماتحت کچھ عرصہ تک صبر سے کام لیں گے اور دوسری طرف میں امید کرتا ہوں کہ روپیہ لینے والے دوست بھی اس بوجھ کو اپنے ذمہ ایک مقدس بار خیال کرتے ہوئے حالات کے بہتر ہوتے ہی اسے اتارنے کی کوشش کریں گے.البتہ جن دوستوں کو اب بھی توفیق حاصل ہو ان کا فرض ہے کہ اس ذمہ داری کو ابھی ادا کریں.وكان الله معهم اجمعين ( مطبوعه الفضل ۳۰ /نومبر ۱۹۴۷ء)

Page 137

۱۲۵ مضامین بشیر نقصان جائیداد کا رجسٹریشن احمدی احباب کے لئے ضروری ہدایت حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ جن مسلمانوں کی جائیداد میں مشرقی پنجاب میں ضائع ہوئی ہیں ، انہیں اپنے نقصان کی تفصیل درج کر کے مغربی پنجاب کے مقرر کردہ افسر کے دفتر میں اپنے نقصان کو رجسٹر کرا دینا چاہئے اور اس نقصان کی وجہ سے اگر کوئی مطالبہ پیش کرنا ہوتو وہ بھی پیش کر دینا چاہئے.اس افسر کے عہدہ کا نام اور پتہ یہ ہے :- Registrar of Claims on Rehabilitation Department west Punjab Government, 3 Temple Road Lahore.اس تعلق میں ان دوستوں کی ہدایت کے لئے جن کی جائیدادوں ( غیر منقولہ ومنقولہ ) کا قادیان یا دوسرے مقامات میں نقصان ہوا ہے ، اعلان کیا جاتا ہے کہ انہیں بھی دفتر مذکور میں درخواست دے کر اپنا نقصان رجسٹر کرا دینا چاہئے.درخواست میں جائیداد کی تفصیل ( یعنی قسم اور رقبہ وغیرہ ) اور مالیت اور جائے وقوع وغیرہ درج کرنا ضروری ہے مگر یہ بات یاد رکھی جائے کہ چونکہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے، اس لئے قادیان کی غیر منقولہ جائیداد کے بدلہ میں کسی جائیداد کا مطالبہ نہ کیا جائے اور نہ ہی قادیان کے ملحقہ دیہات منگل باغباناں اور بھینی بھا نگر اور کھارا کی ضائع شدہ غیر منقولہ جائیداد کے بدلہ میں کوئی مطالبہ کیا جائے کیونکہ وہ عملاً قادیان کا حصہ ہیں بلکہ ان کے متعلق صرف نقصان رجسٹر کرا دیا جائے.البتہ قادیان اور مندرجہ بالا تین دیہات کے علاوہ دوسری غیر منقولہ جائیدادوں کے مقابلہ پر مطالبہ کیا جا سکتا ہے.اسی طرح قادیان اور ان تین دیہات کی منقولہ جائیداد کے مقابلہ پر بھی مطالبہ کیا جا سکتا ہے.دوسرے علاقوں کے دوستوں ( اضلاع جالندھر.ہوشیار پور.لدھیانہ.فیروز پور.دہلی وغیرہ) کو بھی اپنا نقصان جائیداد ( منقولہ و غیر منقولہ ) رجسٹر کرانا چاہئے.تفصیلات اور درخواست کے فارم دفتر نظارت امور عامہ جو د ہامل بلڈ نگ لاہور سے حاصل کی جائیں.( مطبوعه الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 138

مضامین بشیر ۱۲۶ کیا ہم پھر واپس قادیان جائیں گے؟ یہ سوال یقینا اہم ہے مگر اپنی توجہ کو مرکزی نقطہ پر جمانے کی کوشش کرو کئی دوست مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ کیا ہم پھر قادیان واپس جائیں گے؟ اس کا حقیقی جواب تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے جو سب غیبوں کا مالک اور سب مخفی حقیقوں کا محافظ ہے لیکن بعض باتوں کا علم اس نے خود اپنے بندوں کو دے رکھا ہوتا ہے اور بعض باتوں کے متعلق اس نے ایسے اصول مقرر کر رکھے ہیں جن سے سمجھ دار لوگ قیاس کر کے قریبا قریباً صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں.سوال مندرجہ عنوان ایسے سوالوں میں سے ہے جن کے لئے قدرت نے دونوں قسم کے رستے کھولے ہوئے ہیں.یعنی اول تو اُن مکاشفات کے ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے.ہمیں خدا کے فضل سے اس بات کا قطعی علم حاصل ہے کہ آیا موجودہ امتحان اور ابتلاء کے بعد جماعت احمدیہ کے لئے قادیان میں واپس جانے اور پہلے کی طرح اسے مرکز بنا کر آباد ہونے کا رستہ کھلا ہے یا نہیں اور دوسرے قیاس اور اجتہاد کے میدان میں بھی ہمارے لئے اس علم کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے کہ ہم اپنے مرکز میں پھر واپس جاسکیں گے یا نہیں.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور کشوف کا تعلق ہے.میں اس کے متعلق انشاء اللہ ایک علیحدہ مضمون میں دوستوں کے سامنے حقیقت حال رکھنے کی کوشش کروں گا اور بتاؤں گا کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیر نے جماعت احمدیہ کے قادیان سے آنے اور پھر دوبارہ قادیان میں واپس جا کر آباد ہونے کو ہمیشہ سے ایک قطعی تقدیر کی صورت میں مقدر کر رکھا ہے.یعنی ہمارا وہاں سے آنا بھی ایک خدائی تقدیر تھی اور وہاں واپس جانا بھی اہل خدائی تقدیر ہے.جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.کیونکہ قضائے آسمان علت ایں بہر حالت شود پیدا اب رہا قیاس اور اجتہاد کا سوال.سو اس میدان میں قدم رکھنے سے پیشتر سب سے پہلے اس اصولی بات کا سمجھ لینا ضروری ہے کہ خدائی سلسلوں میں مرکز کا سوال ایک محض ثانوی حیثیت رکھتا ہے.اصل چیز جو ہر الہی سلسلے کی بنیاد ہوتی ہے، وہ اس پیغام سے تعلق رکھتی ہے جو ایک مامورمن اللہ

Page 139

۱۲۷ مضامین بشیر کے ذریعہ دنیا کو پہنچایا جاتا ہے.بے شک ہر جماعت کی ترقی اور تنظیم کے لئے کسی نہ کسی مرکز کا ہونا ضروری ہے مگر یہ سوال کہ یہ مرکز اس ملک میں ہو یا کہ اس ملک میں یا اس بستی میں ہو یا کہ اس بستی میں ، ایک محض ثانوی سوال ہے جسے کسی الہی سلسلے کے بنیادی امور سے تعلق نہیں.جیسا کہ سب دوست جانتے ہیں ، احمدیت کا پیغام تجدید اسلام اور خدمت اسلام کے کام میں مرکوز ہے اور یہ بات خدا کی ائل تقدیروں میں شامل ہے کہ وہ اس زمانے میں احمدیت کے ذریعے اسلام کو دوبارہ تر و تازہ کر کے دنیا میں غالب کرے گا اور ہر دوسرے مذہب پر اس کے غلبے کو ایسا نمایاں کر دے گا کہ کسی شخص کے لئے شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہے گی مگر یہ بات کہ اس غلبے کے حصول کے لئے کون سا مرکز مقدر ہے یا یہ کہ اس کے لئے ایک ہی مرکز مقدر ہے یا کہ یکے بعد دیگرے کئی مرکز مقدر ہیں.یہ ایک بالکل دوسری بات ہے ، جسے سلسلے کے بنیادی اصول سے کوئی تعلق نہیں.ہم خواہ قادیان کے مرکز میں رہ کر خدمت اسلام کا فرض بجالاتے ہیں یا کہ مغربی پنجاب کے کسی مقام پر مرکز بنا کر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں یا کہ ہندوستان سے بھی باہر مشرق وسطی میں کسی جگہ اپنا مرکز بنا کر سلسلے کے بنیادی مقصد کو پورا کرتے ہیں.ہم بہر حال ان سب صورتوں میں احمدیت کے قیام کی غرض و غائیت کو پورا کرنے والے ہیں اور خواہ قادیان سے باہر ہونا ہمارے لئے جذباتی لحاظ سے کتنا ہی دکھ کا موجب ہواگر احمدیت اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے تو احمدیت بہر حال کچی ہے اور اسے لانے والا خدا کا برگزیدہ مامور ومرسل ہے.ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں خدا کی قائم کی ہوئی جماعتوں کے لئے ہجرت کوئی نئی چیز نہیں ہے.اکثر انبیاء کو کسی نہ کسی جہت سے ہجرت پیش آئی ہے.جن میں سے بعض کو تو عارضی ہجرت پیش آئی اور بعض کو دائمی.لیکن چونکہ ان کا خدا داد مشن با وجود ہزاروں مشکلات کے کامیاب ہوا.اس لئے کسی عقلمند شخص نے انبیاء یا ان کی جماعتوں کی ہجرت کو قابل اعتراض نہیں سمجھا.حضرت آدم نے اپنے وطن سے ہجرت کی اور لوگوں کے معروف عقیدے کے مطابق ” جنت سے نکالے گئے مگر چونکہ سچی توبہ کے ساتھ خدا کی طرف جھکے.اس لئے بالآخر اپنے مشن میں کامیاب ہوئے.اور خدا نے یہ تقدیر دنیا کے تقدیر نامے میں ہمیشہ کے لئے لکھ دی کہ كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ آنَا وَرُسُلِي..یعنی خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دیا ہے کہ شیطانی طاقتوں کے مقابلے پر خدا اور اس کے رسولوں کی طاقتیں لازما غالب ہوا کریں گی.اسی طرح حضرت نوح کو بھی طوفان کے وقت میں ایک قسم کی ہجرت پیش آئی.اور حضرت ابراہیم کو بھی اپنا مالوف وطن چھوڑ کر دوسرے وطن میں جانا پڑا.اور حضرت موسیٰ کے تو گویا مشن کا ہی یہ حصہ تھا کہ وہ اپنی قوم کو ہجرت کرا کے ارض مقدس کی طرف لے آئیں.اسی

Page 140

مضامین بشیر.۱۲۸ طرح ہمارے عقیدے کے مطابق حضرت مسیح ناصری کو بھی صلیب کے واقعہ کے بعد ہزاروں میل کا سفر اختیار کر کے کشمیر میں آنا پڑا اور بالآخر نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی ہجرت تو ایک ایسا واقعہ ہے جسے مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے حتی کہ اسی پر اسلامی سنہ کی بنیا د قائم کی گئی ہے مگر کون ہے جو ان نبیوں کے مشوں کو نا کام کہہ سکتا ہے یا ہجرت کی وجہ سے ان کے خلاف زبان طعن دراز کر سکتا ہے.حق یہی ہے کہ ہر الہی سلسلے کا مرکزی نقطہ اور بنیادی اینٹ اس کی وہ تعلیم ہے جسے لے کر وہ دنیا میں آتا ہے.اگر یہ تعلیم کا میاب اور غالب ہو جاتی ہے تو ایک ہی مرکز پر قائم رہنے یا کئی مرکزوں میں تبدیل ہونے کا سوال ایک محض ثانوی سوال ہے اور کسی عقلمند کو اس سوال میں الجھ کر حقیقت کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہئے.بلکہ میں تو اپنے دوستوں سے یہاں تک کہوں گا کہ اگر کسی احمدی کے دل میں قادیان کی جدائی کا خیال جذباتی رنگ میں اتنا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ وہ اس کے لئے خدمت اسلام اور تحریک احمدیت کے کامیاب بنانے کے رستہ میں روک بن رہا ہے تو اسے چاہئے کہ قادیان کا خیال اپنے دل سے اس طرح نکال دے جس طرح ایک راہ گیر اپنے پاؤں کا کانٹا نکال کر پھینک دیتا ہے.کیونکہ بہر حال قادیان ایک جسم ہے اور جسم کے لئے کسی صورت میں روح کو قربان نہیں کیا جاسکتا.نعوذ باللہ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ قادیان کی محبت اور اس کی کشش اور اس کے احترام کے جذبہ کو صدمہ پہنچاؤں.یہ جذبہ ایک مقدس امانت ہے اور اسے قائم رکھنا ایک مقدس فرض لیکن اگر کسی شخص کے دل میں یہی جذبہ حد اعتدال سے گزر کر ایک مقدس تر امانت اور مقدس تر فریضہ کے ساتھ ٹکرانے لگتا ہے تو پھر عقلمند انسان کا رستہ صاف ہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی تامل کی گنجائش نہیں.ہمارے دین کا مرکزی نقطہ خدا کی ذات پر ایمان لانا ہے اور دوسرے نمبر پر خدا کے منشاء اور رضا کو معلوم کرنا اور اُسے پورا کرنا ہے اس کے بعد ہر چیز حقیقتہ ثانوی ہے.مطبوعہ الفضل ۷ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 141

۱۲۹ مضامین بشیر ضلع گورداسپور کی جماعتیں کہاں ہیں؟ ضلع گورداسپور میں خدا کے فضل سے بہت سے دیہات میں جماعتیں قائم تھیں اور بعض گاؤں تو سالم کے سالم احمدی تھے.گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں یہ سب جماعتیں مغربی پنجاب کی طرف چلی آنے پر مجبور ہوئی ہیں مگر ابھی تک ساری جماعتوں کے متعلق یہ پختہ علم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں کہاں جا کر آباد ہوئی ہیں.ایسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے موجودہ پتہ سے مفصل اطلاع دیں اور اگر کوئی جماعت ایک سے زیادہ حصوں میں بٹ کر آباد ہوئی ہو تو اسے اپنی رپورٹ میں اس کی بھی صراحت کرنی چاہئے.مجھے خصوصاً ان جماعتوں کے نئے پتوں کی ضرورت ہے.جو قادیان کے ماحول میں آباد تھیں.مثلا منگل باغباناں.بھینی بانگر.کھارا.بسراواں.چھینہ ریت والا.ٹھیکر یوالہ.تلونڈی جھنگلاں.فیض اللہ چک.بہل چک - بازید چک.تھ غلام نبی.سٹھیالی.ہر سیاں کھوکھر.ونجواں.سیکھواں.قلعہ درشن سنگھ - گلانوالی.خان فتا.دھرم کوٹ بگہ.اٹھوال.شکار ماچھیاں چھیچھریاں چٹھہ.لودھی منگل.سار چور لنگر وال.مرزا جان.بہادر حسین.چود ہری والہ.مراد پور.موکل.کو ہالی.ماڑی بچیاں مہیس ڈوگر.بہادر پور.رجوعے ہبیری.پھیر و پیچی.بگول.بھامبڑی.بھٹیاں وغیرہ وغیرہ یہ جماعتیں اور ضلع گورداسپور کی دوسری جماعتیں مجھے اپنے جدید پتوں سے مفصل اطلاع دے کر ممنون کریں.جن جماعتوں یا افراد کو ابھی تک آباد ہونے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ آئی ہو وہ بھی بواپسی اطلاع دیں تا کہ ان کے لئے انتظام کیا جا سکے.مطبوعه الفضل ۱۰ ؍ دسمبر ۱۹۴۷ء )

Page 142

مضامین بشیر ۱۳۰ داغ ہجرت کا الہام کہاں ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ” داغ ہجرت‘‘ جماعت میں شائع و متعارف ہے.مگر اس وقت تلاش سے تذکرہ میں نہیں ملا.اگر کسی دوست کو اس کا حوالہ یاد ہو تو مطلع فرما ئیں.(مطبوعہ الفضل ۱۰؍ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 143

۱۳۱ مضامین بشیر قادیان میں زمین خریدنے والوں کے لئے ضروری اعلان امتحان کے وقت میں اچھا نمونہ دکھانے کی کوشش کرو بعض احباب جنہوں نے قادیان میں زمین خریدی ہوئی ہے.وہ موجودہ فسادات کے نتائج سے گھبرا کر مجھے لکھ رہے ہیں کہ آپ کے پاس ہمارا اتنا روپیہ امانت رکھا ہے وہ ہمیں واپس ادا کر دیا جائے.میں شروع میں تو ایسے مطالبات پر حیران ہوا کہ یہ امانت کیسی ہے مگر بعد میں پتہ لگا کہ یہ دیکھتے ہوئے کہ فی الحال قادیان کی زمینیں گو یا ضائع شدہ ہیں.بعض لوگوں نے زمینوں کی ادا شدہ قیمتوں کو امانت کے طور پر ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے.ایسے لوگ بے شک بہت کم ہیں.بلکہ شائد ایک فی صدی سے بھی کم ہوں گے لیکن چونکہ بعض دوسرے کمزور لوگوں کے دلوں میں بھی اس قسم کا شبہ پیدا ہو سکتا ہے.اس لئے میں تمام خریداران اراضی کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا مطالبہ نہ صرف کاروباری لحاظ سے غلط اور خلاف دیانت ہے بلکہ دینی اور روحانی لحاظ سے بھی ایک نہایت کمزور اور بودی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے.کاروباری لحاظ سے یہ مطالبہ اس لئے غلط ہے کہ جب ایک رقم قیمت اراضی کے طور پر ادا کی گئی ہے تو پھر اسے امانت ظاہر کر کے اس کی واپسی کا مطالبہ کرنا دنیا کے کسی کا روباری اصول کے لحاظ سے بھی درست نہیں بلکہ دراصل یہ ایک قسم کا جھوٹ ہے جو اپنی خریدی ہوئی زمین کو بظاہر ضائع ہوتا دیکھ کر بعض کمزور طبیعتوں نے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے اور اپنے نقصان کو فروخت کنندگان اراضی کی طرف منتقل کرنے کے لئے گھڑ لیا ہے.ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ طریقے مال بچانے اور ترقی دینے والے نہیں ہیں بلکہ مال کو بد دیانتی کے چکر میں ڈال کر تباہ کرنے والے ہیں.دینی اور روحانی لحاظ سے یہ مطالبہ اس لئے نہایت درجہ نا پسندیدہ اور فتیح ہے کہ اس مطالبہ کے پیچھے دراصل یہ خیال کام کر رہا ہے کہ گویا قادیان ہمارے ہاتھ سے ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہے اور اب ہمیں کبھی واپس نہیں ملے گا.اس لئے ہمیں چاہیے کہ جس طرح بھی ہو اپنا نقصان بچانے کی کوشش کریں.حالانکہ ہر وہ سچا احمدی جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان اور اخلاص ہے ، وہ اس یقین سے معمور ہونا چاہئے کہ قادیان انشاء اللہ ہمیں نہ صرف ضرور واپس ملے گا بلکہ تمام وہ وعدے جو خدا تعالیٰ

Page 144

مضامین بشیر ۱۳۲ نے قادیان کی ترقی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے ہیں ، وہ اپنی کامل شان کے ساتھ پورے ہوں گے.میرے دل کی تو یہ کیفیت ہے کہ اگر میرے پاس روپیہ ہوتا تو میں ایسا مطالبہ کرنے والے سب لوگوں کو ان کے مطالبہ کی رقوم ادا کر کے ان کی زمینیں واپس خرید لیتا.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ زمینیں ایک ایسی مبارک بستی کی زمینیں ہیں ، جس کے ساتھ ہمارے خدا وند قدیر نے دائی ترقی اور دائی برکت مقدر کر رکھی ہے.کاش ہمارے یہ جلد باز دوست اس نکتہ کو یا در کھتے مگر افسوس کہ انہوں نے قادیان کو بھی اپنی مادی آنکھوں سے دیکھنا چاہا کہ جب تک قادیان کو ظاہری ترقی حاصل تھی انہوں نے قادیان کی زمین کو ایک نفع مند سودا خیال کر کے اسے شوق کے ساتھ خریدا.مگر جو نہی کہ اس رستہ میں ایک عارضی روک پیش آگئی انہوں نے اسے ایک خسارے کا سودا سمجھ کرنا جائز حیل و حجت سے منسوخ قرار دینے کی کوشش شروع کر دی اور یہ نہ سوچا کہ انشاء اللہ یہی خسارہ کا سودا آج سے کچھ عرصہ بعد پہلے سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر نفع مند سودا بننے والا ہے لیکن شکر ہے کہ ایسے لوگ کم ہیں بہت کم اور خدا کے فضل سے جماعت کا ننانوے فی صدی حصہ اخلاص اور ایمان میں آگے سے زیادہ ترقی کر رہا ہے.أُولئِكَ هُمُ الفَائِزون - ( مطبوعه الفضل ۱۰؍ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 145

۱۳۳ مضامین بشیر مخلصین اب بھی قادیان کی زمینوں کے خریدار ہیں میں نے اپنے ایک الفضل میں شائع کردہ نوٹ میں یہ ذکر کیا تھا کہ بعض کمز ور طبع لوگ موجودہ حالات کی وجہ سے گھبرا کر قادیان کی خرید کردہ زمینوں کو ضائع شدہ خیال کرنے لگ گئے ہیں اور اپنی ادا کردہ قیمت کو امانت قرار دے کر اس کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں.میں نے اپنے نوٹ میں بتایا تھا کہ ایسا مطالبہ نہ صرف کاروباری اصول کے مطابق غلط اور نا جائز ہے بلکہ دینی لحاظ سے بھی ایمانی کمزوری کی علامت ہے کیونکہ اس مطالبہ میں دراصل یہ شبہ مخفی ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک قادیان کی واپسی مشکوک ہے.حالانکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے ہمیں انشاء اللہ قادیان ضرور واپس ملے گا اور اس کے متعلق ترقی کے وعدے بھی ضرور پورے ہوں گے.میرے اس نوٹ کے جواب میں مجھے کئی دوستوں نے لکھا ہے اور بعض نے زبانی کہا ہے کہ ہمیں خدا کے فضل سے قادیان کے واپس ملنے اور اس کی ترقی کے وعدوں کے متعلق کامل یقین ہے اور ہم اس وقت بھی اس بات کے لئے بخوشی تیار ہیں کہ اگر کوئی شخص قادیان میں اپنا قطعہ زمین یا مکان فروخت کرتا ہو تو اسے خرید لیں.مجھے ان دوستوں کی اس پیش کش سے بہت خوشی ہوئی.یہ لوگ سچے مومن ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص اور ایمان اور اموال میں برکت عطا کرے اور وہ اور ان کی اولادیں قادیان کی ترقی سے پورا پورا فائدہ اٹھانے والی ہوں.آمین یا رب العالمین.( مطبوعہ الفضل ۱۳؍ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 146

مضامین بشیر ۱۳۴ قادیان کے احمدی خیریت سے ہیں اس وقت قادیان میں تین سو احمدی مقیم ہیں جن میں سے بعض قادیان ہی کے رہنے والے ہیں اور بعض زائرین کے طور پر باہر سے گئے ہوئے ہیں.قادیان سے تازہ آمدہ اطلاع سے پتہ لگتا ہے کہ یہ سب دوست خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں ان کے اعزہ اور احباب تسلی رکھیں اور اپنے ان بھائیوں کے لئے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کے قیام قادیان کو با برکت فرمائے.مطبوعہ الفضل ۱۴؍ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 147

۱۳۵ مضامین بشیر زنابالجبر کے نتیجہ میں پیدا شدہ بچہ اسلام اس کی بھی حفاظت کا حکم دیتا ہے میرے نام ایک خط مغربی پنجاب کے ایک احمدی ڈاکٹر کی طرف سے موصول ہوا تھا جس کا مضمون درج ذیل ہے :.میں ڈاکٹر ہوں اور یہاں پر سول ہسپتال کا انچارج ہوں.کل کے ایک واقعہ کا میرے دل پر بہت اثر ہے.جس کے لئے حضور کی مفید رائے کی ضرورت ہے.میرے پاس ایک بڑھیا عورت مع اپنی پندرہ سالہ کنواری لڑکی کے آئی.وہ بڑھیا بہت رو رہی تھی.میرے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ ریاست...کی باشندہ ہے.اس کے تمام عزیز خاوند بھائی وغیرہ وہاں مارے گئے ہیں.اس کی لڑکی کو بھی سکھ لے گئے تھے.لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ واپس مل گئی.لڑکی کنواری تھی اب اسے تین ماہ کا حمل ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ میں اسے کوئی ایسی دوائی دوں جس سے حمل ضائع ہو جائے.میں نے ہر طرح اس کی تسلی کرنی چاہی لیکن وہ اس پر اصرار کرتی رہی.ایسے حالات میں حضور کی کیا رائے ہے.مفصل تحریر فرما ئیں.اس قسم کے اور بھی مریض آتے ہیں لیکن میں تو انکار ہی کر دیتا ہوں.“ اس خط کے موصول ہونے پر میں نے ضروری خیال کیا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی رائے دریافت کروں.سو میں نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں مندرجہ ذیل عریضہ لکھ کر ارسال کیا :- منسلکه خط ارسال خدمت ہے.اس بارے میں حضور کا کیا ارشاد ہے.میرے خیال میں تو اسلام ایسے بچوں کی بھی حفاظت فرماتا ہے کہ ماں تو زنا بالجبر کی صورت میں بہر حال بے گناہ ہی ہے.اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ اس بچے کی ولادت کا انتظار کرے اور بچے کی ولادت کے بعد اس کی اچھی تربیت کرے.اور بچہ سچا مسلمان ہو جائے تو غالباً ماں ثواب ہی کمائے گی لیکن زیادہ مشکل دنیا کی ہے جو ماں اور بچہ دونوں پر طعن رکھے گی.اس لئے اگر مصلحتہ ماں کا نام اور پستہ بدل دیا

Page 148

۱۳۶ مضامین بشیر جائے تو شائد وہ اس مصیبت سے بچ جائے.بہر حال جو بھی شرعی فتوی ہو اس سے مطلع فرمایا جائے.جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو رضا مندی کے ساتھ زنا کی مرتکب ہو کر تائب ہونے والی عورت کے بچہ کو بھی بچایا تھا اور یہاں تو جبر کا معاملہ ہے.“ میرے اس عریضہ پر حضور نے فرمایا درست ہے.اس کے مطابق جواب بھجوا دیا جائے.سو دوستوں کی اطلاع کے لئے یہ فتوئی اخبار میں بھی شائع کرایا جارہا ہے.( مطبوعه الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 149

۱۳۷ مضامین بشیر قادیان سے آئے ہوئے مندرجہ ذیل اصحاب جلسہ سالانہ کے موقع پر لاہور پہنچ جائیں مندرجہ ذیل اصحاب نے قادیان سے آتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلی ٹرم میں قادیان جانے کے لئے ۲۵ دسمبر ۱۹۴۷ء کو لاہور پہنچ جائیں گے.سو اس اعلان کے ذریعہ ان احباب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ حسب وعدہ ضرور جلسہ سالانہ کے موقع پر لاہور پہنچ جائیں.تا کہ انہیں درویشانہ خدمت کے لئے قادیان بھجوایا جا سکے.اگر اس فہرست میں کوئی طالب علم ہوں.( کالج یا سکول کے ) تو وہ اپنے آپ کو اس اعلان سے مستثنی سمجھیں.کوشش کی جارہی ہے کہ ان اصحاب کو شروع جنوری میں قادیان بھجوا دیا جائے.وباللہ التوفیق نمبر شمار ۱۲ ۱۳ عطاء الرحمن صاحب ولد حکیم نظام جان صاحب.مرزا مہتاب بیگ صاحب.چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی زود نو لیں.عطاء اللہ صاحب ولد محمد بخش صاحب واقف زندگی.غلام نبی صاحب ولد عبد العزیز صاحب ٹیلر ماسٹر.میاں غلام محمد صاحب زرگر.خلیل احمد صاحب ولد محمد اسمعیل صاحب دوکاندار.مرزا الطاف الرحمن صاحب ولد مرزا نورمحمد صاحب واقف زندگی.ناصرالدین صاحب ولد چراغ الدین صاحب.حسن دین صاحب ولد چوہدی رولد وصاحب.برکت علی صاحب ولد جیماں صاحب.ناصر احمد صا حب ولد عبد الصمد صاحب.ضیاء الدین صاحب ولد حکیم نظام الدین صاحب.

Page 150

مضامین بشیر ۱۴ ۱۵ 17 ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۱۳۸ شمس الدین صاحب محلہ دار الفتوح.عبد الغنی صاحب ولد حکیم چراغ دین صاحب.عبد العزیز صاحب ولد محمد دین صاحب.عبدالمجید صاحب ولد جیون صاحب.سلطان احمد صاحب پیر کوئی.عزیز اللہ صاحب جسوال.حمید اللہ صاحب گجراتی.قریشی فضل الرحمن صاحب دار البرکات شرقی.محمود احمد صاحب ولد کریم الدین صاحب.نذیر احمد صاحب ٹیلر ککے زئی.فیاض محمد صاحب فیضی.عبدالستارخان صاحب کا ٹھگڑی.غلام احمد صاحب ظہور.ممتاز احمد صاحب آسامی.اللہ دتہ صاحب بٹ ولد حسن محمد صاحب.عبد الغفار صاحب ولد نور محمد صاحب.فضل حق صاحب سوداگر چوب.فضل احمد صا حب ولد نور محمد صاحب.قاضی غلام نبی صاحب ولد قاضی محمد رمضان صاحب.بشارت احمد صاحب ولد خوشی محمد صاحب.غلام حید ر صاحب دار السعة ولداله دین صا.محمد رمضان صاحب ولد غلام حسن صاحب.مستری محمد الدین صاحب دار الرحمت.سید عبد الباسط صاحب خدام الاحمدیہ.سید انوار احمد صاحب شریفی دار البرکات.خوشی محمد صاحب ولد نبی بخش صا.

Page 151

۴۰ ۱۳۹ چوہدری غلام رسول صاحب ولد شیر محمد صاحب دار السعة - محمد ابراہیم صاحب عابد واقف زندگی.خدام الاحمدیہ.سید محمد محسن صاحب ولد سید محمد حسین صاحب.۴۳ کرامت اللہ صاحب کا ٹھگڑی.دار الفضل.۴۲ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹.$ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ محمد جیون صاحب ولد شادی.عزیز الدین صاحب ولد بھاگ.محمد دین صاحب ولد عبد الغفا ر صاحب دار البرکات.رشید احمد صاحب بٹ.دار البرکات.سعید احمد صاحب دارالبرکات.جمال الدین صاحب جموں مہمانخانہ.سید ظہور احمد صاحب.مسجد فضل.حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی.محمد صالح صاحب ولد مستری غلام نبی صاحب.مرز امحمد شریف صاحب ولد مرزا غلام محمد صاحب.عطاء الرحمن صاحب ولد عبد اللہ خان صاحب وثیقہ نویس بٹالہ.کرم الدین صاحب ولد اللہ دتہ صاحب.عبد الحکیم صاحب ولد حکیم چراغ دین صاحب.۵۷ نواب دین صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب ارائیں.ٹرنک ساز.مستری غلام حسین صاحب ولد مستری علم دین صاحب.دار البرکات شرقی.۵۸ ۵۹ 11 ۶۲ ۶۳ ۶۴ تاج دین صاحب ولد چراغ دین صاحب.محمد اسماعیل صاحب ولد میاں محمد اکبر صاحب.صحابی.اللہ رکھا صاحب قادیان.خیر دین صاحب ولداله دین صاحب دار الیسر.قمر احمد صاحب ولد منشی رام صاحب.عبد القاد نادر صاحب ولد مولا بخش صاحب باورچی.خواجہ سمیع الدین صاحب.گھڑی ساز.مضامین بشیر

Page 152

مضامین بشیر ۶۶ ۶۷ ۶۸ ۶۹ 4.اے ۷۲ ۷۳ ۱۴۰ محمد عبد اللہ صاحب ولد فضل دین صاحب.عبدالکریم صاحب ولد حکیم چراغ دین صاحب دار البرکات.غلام رسول صاحب ولد اللہ لوک صاحب دار البرکات شرقی.نور دا د صا حب ولد شرف دین صاحب.ناصر احمد صاحب ولد مستری ناظر دین صاحب دار البرکات.میاں خدا بخش صاحب ولد حکیم سید محمد صاحب.محمد حسین صاحب بنگالی ولد مولوی عبد الرحمن صاحب.بشیر احمد صاحب ولد جلال الدین صاحب.مطبوعه الفضل ۲۱ ؍ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 153

۱۴۱ مضامین بشیر بلا اجازت دوسرے کا مال لے لینا کسی صورت میں جائز نہیں دنیا میں ہراچھا اور برا تغیر نئے مسائل پیدا کر دیتا ہے جو سابقہ حالات میں نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں.گزشتہ خطرناک فسادات نے بھی بعض ایسے مسائل پیدا کر دئے ہیں جن کی طرف اس سے پہلے اس رنگ میں توجہ نہیں تھی.اس قسم کے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا کوئی ایسی صورت ممکن ہو سکتی ہے کہ جب انسان کے لئے کسی دوسرے کا مال اس کی اجازت کے بغیر لے لینا یا اس کی اجازت کے بغیر لے کر دوسروں میں تقسیم کر دینا جائز سمجھا جائے.عام حالات میں ہر سچا مسلمان یہی سمجھتا ہے کہ دوسرے کا مال بہر حال ممنوع ہے لیکن گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں بعض ایسی خاص صورتیں پیش آئیں کہ جن میں بعض لوگ بظاہر دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھنے لگ گئے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت ہمارے لئے دوسروں کا مال لے لینا یا دوسروں کا مال لے کر مستحق لوگوں میں تقسیم کر دینا جائز ہو گیا ہے.ایسی صورتیں بہت سی ہیں مگر میں اپنے اس مختصر مضمون میں اس سوال کے صرف دو پہلوؤں کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ کیا خاص حالات میں اپنے دوستوں کا مال ان کی اجازت کے بغیر لے لینا یا لے کر دوسروں میں تقسیم کر دینا جائز ہے؟ دوم یہ کہ کیا خاص حالات میں غیر مسلموں کا مال لوٹ لینا جائز ہے؟ گزشتہ فسادات میں جب بعض مقامات میں سکھوں اور ہندوؤں کے فتنہ وفساد اور لوٹ مار کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے نہایت درجہ خطر ناک حالات پیدا ہو گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ان کے بعض مسلمان بھائیوں کا مال و متاع ان کی آنکھوں کے سامنے لوٹا جا رہا یا بر باد کیا جا رہا ہے اور انہوں نے خیال کیا کہ ان حالات میں اندیشہ ہے کہ کمزور اور بے بس مسلمانوں یا غیر حاضر مسلمانوں کا مال و اسباب سب کا سب سکھوں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے یا تباہی اور بربادی کا نشانہ نہ بن جائے تو بعض مسلمانوں نے یہ خیال کر کے کہ دشمن کے ہاتھ میں مسلمانوں کے مال کے چلے جانے یا دشمن کے ہاتھ سے مسلمانوں کے مال کے تباہ ہو جانے سے بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان بھائی کے کام آ جائے ، ان کی اجازت کے بغیر یا تو خود اپنے غیر حاضر مسلمان بھائیوں کا مال اپنے تصرف میں لے لیا یا دوسرے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا اور اپنے خیال میں سمجھا کہ اس طرح ہم ایک قومی خدمت سرانجام

Page 154

مضامین بشیر دے رہے ہیں.۱۴۲ مگر دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ نظریہ بالکل غلط اور خلاف تعلیم اسلام ہے.اسلام کسی صورت میں بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی شخص کے مال کو اپنا بنا لیا جائے یا اس میں مالکا نہ تصرف کیا جائے کیونکہ اول تو یہ فعل امانت اور دیانت کے خلاف ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں جبکہ آپ حج کے میدان میں مسلمانوں کو گویا آخری اجتماعی نصیحت فرما ر ہے تھے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اور خدا کو گواہ رکھ کر یہ زبر دست نصیحت فرمائی تھی.کہ ان دماء كم و اموالكم واعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهر كم هذا في بلدكم هذا فليبلغ الشاهد الغائب..یعنی اے مسلمانو! تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ حج کا دن اور تمہارا یہ عزت کا مہینہ اور تمہارا یہ مقدس شہر خدا کی طرف سے حرمت والے قرار دیئے گئے ہیں.میری اس نصیحت کو سنو اور دوسروں تک پہنچاؤ.علاوہ ازیں اس قسم کی اجازت کے دینے سے ایک ایسا دروازہ کھلتا ہے کہ جن میں اکثر لوگوں کے لئے جائز و نا جائز صورت میں تمیز کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ رستہ سخت خطر ناک ہے.پس کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ خواہ حالات کچھ ہوں.دوسرے مسلمان کے مال کو اس کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں لائے یا مالک کی اجازت کے بغیر اسے دوسروں میں بانٹ دے.اگر ایسے لوگوں میں حقیقتاً ہمدردی کا خیال تھا تو ان کا فرض تھا کہ خطرہ کے وقت اپنے بھائیوں کے مال کی بھی اسی طرح حفاظت کرتے جس طرح کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کرنا چاہتے تھے اور اگر کوئی غریب مسلمان بھائی امداد کا مستحق تھا تو اسے یا تو اپنے ذاتی مال میں سے دیتے یا مالک سے پوچھ کر اس کی اجازت کے ساتھ اس کا مال تقسیم کرتے.ورنہ ظاہر ہے کہ اس قسم کے کمزور اور خود غرضانہ استدلالوں کی وجہ سے قوم میں بد دیانتی کی روح پیدا ہوتی ہے اور وہ عظیم الشان خدمت جو ہمارا پیارا اسلام دوسرے مسلمانوں کی جان اور مال کی قائم کرنا چاہتا ہے قائم نہیں رہ سکتی.بے شک خود مالک اپنے مال کے متعلق جو تصرف کرنا چاہے کرے، اس کے لئے کوئی روک نہیں اور اگر کوئی مسلمان اپنے مال کو غیر مسلموں کی طرف سے خطرہ میں دیکھ کر اسے غریب مسلمانوں میں تقسیم کر دیتا ہے تو یقیناً وہ ایک نیک کام کرتا ہے اور اس کا یہ فعل ایک صدقہ کا رنگ رکھتا ہے جو خدا کے حضور میں مقبول ہو گا لیکن اگر کوئی شخص خطرہ کے وقت میں اپنے مال کو تو بچا کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے مگر دوسرے مسلمانوں کے مالوں کو ان کی اجازت کے بغیر لے لیتا ہے یا دوسروں میں تقسیم کر دیتا ہے تو اس کا یہ فعل اس امانت اور دیانت کے خلاف ہے

Page 155

۱۴۳ مضامین بشیر جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی لوٹ ہے جس کی اسلام کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا.پس جن لوگوں نے ایسی حرکت کی ہے.اور ان کے پاس اپنے کسی بھائی کا مال موجود ہے تو انہیں چاہئے کہ بلا توقف یہ مال اس کے مالک کو پہنچاد میں اور اگر یہ مال ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے لیکن انہیں اس کا بدل پیدا کرنے کی توفیق ہے تو اس کے بدلہ میں اسی مالیت کا دوسرا مال پیش کر دیں اور اگر ان کے لئے یہ دونوں صورتیں ممکن نہیں تو کم از کم کچی ندامت کے ساتھ مالک سے معذرت کے خواہاں ہوں کہ انہوں نے اس اس قسم کے حالات کے ماتحت غلط استدلال میں مبتلا ہو کر ان کا مال ضائع کر دیا ہے.دوسرا پہلو اس سوال کا یہ ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کر کے کہ سکھوں یا ہندوؤں نے ہمیں مشرقی پنجاب میں نقصان پہنچایا ہے.مغربی پنجاب میں غیر مسلموں کا مال لوٹنے لگ جاتے ہیں یا اگر کسی غیر مسلم کے چھوڑے ہوئے مکان میں قیام کرتے ہیں تو اس کے سامان کو اپنے لئے جائز سمجھنے لگ جاتے ہیں.یہ صورت بھی اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.اگر الف نے ہمیں یا ہمارے کسی عزیز کو نقصان پہنچایا ہے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ ب کو نقصان پہنچا کر بدلہ لینے کی کوشش کریں.قرآن شریف صاف فرماتا ہے.کہ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى.یعنی ایک شخص کے گناہ کا بوجھ کسی صورت میں دوسرے شخص پر نہیں ڈالا جا سکتا.پس صرف اس وجہ سے کہ مثلاً ایک سکھ لکھن سنگھ نامی نے مشرقی پنجاب میں ہمارا یا ہمارے کسی بھائی کا سامان لوٹا تھا ، ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم مغربی پنجاب میں کسی دوسرے سکھ مکھن سنگھ نامی کا سامان لوٹ لیں.یہ تمام باتیں اسلامی تعلیم اور اسلامی معیار دیانت کے خلاف ہیں اور ان باتوں میں غفلت برتنے سے آہستہ آہستہ قومی دیانت کا معیار گر جاتا ہے.اسلام ہر حالت میں دیانت اور انصاف کے تر از وکو بلند رکھنا چاہتا ہے اور بے شک وہ شریر لوگوں کو ہوش میں لانے کے لئے انتقام کی اجازت دیتا ہے.مگر وہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ جرم تو کرے زید مگر انتقام لیا جائے بکر سے یا بعض افراد کے جرم کی وجہ سے ساری قوم کو مجرم قرار دے دیا جائے اور کم از کم ہماری جماعت کے دوستوں کو اس قسم کے افعال سے پر ہیز کرنا چاہئے.و اخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین.نوٹ: اس مضمون میں صرف افراد کے سوال کو مدنظر رکھا گیا ہے.حکومت یا جماعتی نظام کے معاملہ میں بعض مخصوص صورتیں پیش آسکتی ہیں، جن کے متعلق انشاء اللہ کسی اور موقع پر عرض کروں گا.مطبوعه الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 156

مضامین بشیر ۱۴۴ مسماة فضل بی بی سکنہ رجوعہ تھا نہ سری گوبند پور کے ورثاء کہاں ہیں ایک بوڑھی عورت مسماۃ فضل بی بی بیوہ رحیم بخش قوم لوہار ہے.اور وہ رجوعہ تھا نہ سری گوبند پور کی رہنے والی ہے.اس کے چار بچے ہیں.جن میں سے علی محمد ترکھان عمر ۲۰ سال اپنے ماموں فضل دین لو ہار ساکن بہاولپور کے پاس رہتا ہے.اور تاج الدین اور نور محمد لاہور میں ہی بتائے جاتے ہیں یہ عورت قادیان میں پہنچ گئی ہے.اس کے لڑکوں میں سے کوئی یا اور رشتہ دار رتن باغ لاہور میں آکر مجھ سے پتہ کر لیں.( مطبوعہ الفضل ۲۵ ؍ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 157

۱۴۵ مضامین بشیر مسماۃ زہرہ سکنہ کڑی افغاناں ضلع گورداسپور کے ورثاء توجہ فرمائیں ایک لڑکی مسماۃ زہرہ جس کے باپ کا نام محمد علی اور ماں کا نام راج بی بی قوم ارائیں ہے اور وہ کڑی افغاناں ضلع گورداسپور کی رہنے والی ہے اور اس کے ماموں محمد دین اور ابراہیم میانی کے رہنے والے ہیں قادیان میں پہنچ گئی ہے اور اس کے رشتہ دار جہاں بھی ہوں رتن باغ لاہور میں آ کر پتہ کرلیں.( مطبوعه الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 158

مضامین بشیر ۱۴۶ یعقوب خاں صاحب کہاں ہیں؟ قادیان سے محمد یوسف صاحب دریافت کرتے ہیں کہ ان کے والد یعقوب خان صاحب قوم راجپوت سکنہ محلہ دار الفضل قادیان جب سے قادیان سے گئے ہیں ان کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی اگر یعقوب خان صاحب اس اعلان کو پڑھیں یا کسی اور دوست کو ان کا علم ہو تو مجھے ان کی خیریت اور پتے سے ہوا ایسی اطلاع دیں.( مطبوعہ الفضل ۳۱ ؍ دسمبر ۱۹۴۷ء)

Page 159

-۲ -٣ ۱۴۷ مضامین بشیر فہرست حوالہ جات ١٩٤٧ء صحيح البخارى كتاب الاذان باب الايجاب التكبير و افتاح الصلواة - بنی اسرائیل.۲.الانعام.۹۲.الحج : ۷۸ -۵ -4 -2 V- -9 - 1+ -11 -۱۲ سنت سپاہی اگست ۱۹۴۶ء اخبار پنجاب امرتسر.مورخہ ۱۱ جنوری ۱۹۴۴ء صحیح البخاری کتاب المظالم باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً.ٹریبیون یکم جولائی ۱۹۴۷ سٹیٹسمین یکم جولائی ۱۹۴۷ء ڈان ٹریبیون مورخه ۵ جون ۱۹۴۷ء سول اینڈ ملٹری گزٹ ۴ جون ۱۹۴۷.الزلزال :۳،۲ سٹیٹسمین ۵ جون ۱۹۴۷ء سيرة ابن هشام الجزاين الاول الثاني بعنوان "امر الفيل قصة النساء ۱۳ ابراهیم : ۸ -۱۴ الاحزاب : ۶۱ ۱۵- تذکره صفحه ۶۵۶ - طبع جدید - -17 تذکرہ صفحہ ۳۶۶- طبع جدید - ۱۷- تذکره صفحه ۱۶۳ - طبع جدید - -IA -19 تذکرہ صفحہ ۷ ۴۷ - طبع جدید - تذکره صفحه ۶۶ - طبع جدید - ۲۰ - البقره: ۲۸۱ -۲۱ المجادلة : ۲۲.٢٢ - الطبقات الكبرى باب حجة الوداع صفحه ۳۴۲ طبع بیروت.۲۳ الانعام: ۱۶۵

Page 160

الد ۷ مضامین بشیر

Page 161

۱۴۹ مضامین بشیر ١٩٤٨ء گذشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں" نمبر ۲ گذشتہ فسادات کے تعلق میں جو واقعات قادیان اور اس کے ماحول میں رونما ہوئے.ان کا ریکارڈ ہمارے پاس محفوظ ہے اور انشاء اللہ اپنے وقت پر شائع کیا جائیگا.فی الحال دوستوں کی اطلاع کے لئے بعض خاص خاص واقعات کا ذکر مختصر روز نامچہ کی صورت میں درج ذیل کیا جاتا ہے.گذشتہ سے پیوستہ (۳۱) ۲۲ ستمبر ۱۹۴۷ء.پولیس اور ملٹری نے حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مکانات اور دفتر اور خاکسار مرزا بشیر احمد کے مکان کی تلاشی لی اور یہ تلاشی صبح 4 بجے سے لے کر دن کے گیارہ بجے تک جاری رہی اور ہمارے مکانات کے تمام حصوں اور ملحقہ رستوں میں مسلح پولیس اور ملٹری کا پہرہ لگا دیا گیا.تلاشی میں ٹرنکوں اور بیٹیوں اور الماریوں وغیرہ کے قفل توڑ تو ڑ کر ہر چیز کو غور سے دیکھا گیا اور بعض کمروں کے فرشوں کو اکھیڑا کھیڑ کر بھی تسلی کی گئی کہ وہاں کوئی قابل اعتراض چیز تو دبائی ہوئی نہیں.پولیس اور ملٹری جیسا کہ قاعدہ ہے اپنی تلاشی دینے کے بغیر اور زنانہ مکانوں میں پردہ کرانے کے بغیر جس حصہ میں چاہتی تھی گھس جاتی تھی مگر کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں کر سکی.البتہ لائسنس والا ہتھیار جو بھی نظر آیا اسے اکٹھا کر لے گئی.چنانچہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی ایک شاٹ گن.خان محمد احمد خان کی ایک بائیں بور رائیفل اور عزیز مرز احمید احمد کا ایک پستول لائسنس دکھانے کے باوجود ابھی تک واپس نہیں کیا گیا.(۳۲) ۲۳ ستمبر ۱۹۴۷ء :.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے حکم کے ماتحت خاکسار مرزا بشیر احمد عزیز میجر مرزا داؤ داحمد کی اسکورٹ میں قادیان سے روانہ ہوکر لاہور آ گیا.میرے پیچھے حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے مقامی امیر مقرر ہوئے.اس مضمون کی پہلی قسط نہیں مل سکی.اس لئے مضمون دوسری قسط سے شروع ہورہا ہے.

Page 162

مضامین بشیر ۱۵۰ (۳۳) ۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ء: - عزیزم مرزا ناصر احمد سلمہ ایم.اے پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے بڑے صاحبزادے کے مکان النصرۃ واقع محلہ دارالانوار قادیان کی تلاشی لی گئی مگر کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی.(۳۴) ۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ء :.پولیس نے محلہ دارالشکر قادیان کے متعدد مکانات کی تلاشی لی اور گو کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی.مگر ہزاروں روپے کے زیورات اور نقدی اور دیگر اشیاء اٹھا کر لے گئی اور پناہ گزینوں کی پانچ لڑکیاں بھی پکڑ کر ساتھ لے گئی.جنہیں بعد میں واپس کر دیا گیا.(۳۵) ۲۵ ستمبر ۱۹۴۷ء:.چار مسلمان پناہ گزینوں کو جو مکان آشیانہ مبارک متصل محلہ دار الانوار قادیان میں پناہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے پولیس نے گولی کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا اور ان کی عورتوں کو پکڑ کر لے گئی.اس کے علاوہ دو مزید آدمی لا پتہ ہو گئے اور بعض زخمی ہوئے.یہ واقعہ ۲۵ اور ۲۶ ستمبر کی درمیانی شب ہوا.(۳۶) ۲۷ ستمبر ۱۹۴۷ء :.قادیان میں ٹھہرے ہوئے پناہ گزینوں کے قریباً پانچ ہزار مویشی مالیتی قریباً ۲۰ لاکھ روپیہ پولیس کی امداد کے ساتھ سکھوں نے لوٹ لئے اور ان کے گڑے اور چھکڑے بھی لے گئے جس کی وجہ سے وہ آئندہ چلنے والے پیدل قافلہ میں اپنا سامان ساتھ رکھنے کے نا قابل ہو گئے.پناہ گزینوں کے علاوہ مقامی احمدیوں کے متعدد مویشی بھی سکھ حملہ آور لوٹ کر لے گئے.(۳۷) ۲۷ ستمبر ۱۹۴۷ء تا یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء: - سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر واقع محلہ دارالانوار قادیان کا تمام سامان سوائے کچھ معمولی فرنیچر کے ملٹری نے لوٹ لیا اور یہ لوٹ برابر پانچ دن تک جاری رہی.ملٹری کے ٹرک رات کو آتے تھے اور کوٹھی کا سامان سمیٹ سمیٹ کر لے جاتے تھے.کوٹھی کے مویشی بھی لوٹ لئے گئے.(۳۸) ۲۹ ستمبر ۱۹۴۷ء : - مولوی احمد خاں صاحب نسیم مولوی فاضل انچارج مقامی تبلیغ اور مولوی عبد العزیز صاحب مولوی فاضل انچارج شعبہ خبر رساں جماعت احمدیہ کو پولیس نے دفعہ ۳۹۶، ۳۹۷ تعزیرات ہند کے ماتحت گرفتار کر لیا.اور معلوم ہوا ہے کہ انہیں پولیس کی حراست میں سخت تکلیف دی جاتی رہی ہے.(۳۹) ۲۹ ستمبر ۱۹۴۷ء :.محلہ دارالا نوار قادیان کے متعدد مکانوں کو لوٹا گیا ، ان مکانوں میں کرنیل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب اسٹنٹ ڈائرکٹر جنرل میڈیکل سروس پاکستان اور خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب ایم.اے ریٹائرڈ انسپکٹر آف سکولز اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم.اے سابق امام مسجد لنڈن کے مکانات بھی شامل تھے.

Page 163

۱۵۱ مضامین بشیر (۴۰) ۲۰ ستمبر ۱۹۴۷ء :.پولیس نے مقامی خاکروبوں کو حکم دے دیا کہ مسلمانوں کے گھروں میں صفائی کے لئے نہ جائیں جس کی وجہ سے احمدیوں کے گھر نجاست سے اٹ گئے اور احمدیوں کو خود اپنے ہاتھ سے صفائی کا کام کرنا پڑا.(۴۱) یکم اکتو بر تا ۶.اکتوبر ۱۹۴۷ء :.بٹالہ کی ملٹری نے پاکستان کی حکومت کے بھجوائے ہوئے لڑکوں کو یہ بہانہ رکھ کر قادیان جانے سے روک دیا کہ قادیان کی سٹرک زیر مرمت ہے.اور جب ہمارے ٹرک بٹالہ میں رکے تو اس پر سکھ جتھوں اور غیر مسلم ملٹری نے مل کر فائر کئے جس کے نتیجہ میں کئی آدمی زخمی ہوئے اور بعض لا پتہ ہیں.اور ٹرک بھی جلا دیا گیا.اس کنوائے میں میرا لڑکا مرز امنیر احمد بھی شامل تھا.جو بٹالہ میں دو دن تک قیامت کا نمونہ دیکھنے کے بعد لاہور واپس پہنچا.رستہ کے زیر تعمیر ہونے کا عذر محض بہا نہ تھا اور غرض یہ تھی کہ ان ایام میں بیرونی دنیا سے قادیان کا تعلق بالکل کاٹ کر قادیان کے احمدیوں کو لوٹا اور ختم کیا جا سکے.چنانچہ جیسا کہ بعد کے واقعات بتائیں گے قادیان پر بڑا حملہ انہی تاریخوں میں ہوا.(۴۲) یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء : - حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مکان بیت الحمد واقع محلہ دارالانوار قادیان جس میں حضور کے بعض بچے رہائش رکھتے تھے ملٹری نے زبر دستی خالی کرا کے اپنے قبضہ میں کرلیا.(۴۳) ۲.اکتوبر ۱۹۴۷ ء :.پولیس نے احمدیوں کی آٹا پینے کی چکیاں حکماً بند کرا دیں.جس کے نتیجہ میں قادیان کے محصور شدہ ہزاروں احمدیوں کو جن میں بچے عورتیں اور بوڑھے شامل تھے کئی دن تک گندم کے دانے ابال ابال کر کھانے پڑے اور اس وجہ سے بے شمار لوگ پیچش کی مرض کا شکار ہو گئے.(۴۴) ۲.اکتوبر ۱۹۴۷ء: تعلیم الاسلام ڈگری کالج قادیان اور فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان کی عمارت اور سامان پر ملٹری نے جبراً قبضہ کر لیا اور احمدیوں کو زبر دستی باہر نکال دیا.(۴۵) ۲.اکتوبر ۱۹۴۷ء :.سکھ جتھوں نے پولیس کی امداد سے محلہ دار الرحمت ( یہ محلہ دار الرحمت نہیں ہے بلکہ قادیان کی پرانی آبادی کے ساتھ جنوب مغربی جانب دارالصحت کے قریب ایک اور محلہ ہے ) حملہ کیا.اور حملہ آوروں کا ایک جتھہ محلہ مسجد فضل قادیان میں بھی گھس آیا اور لوٹ مچائی.(۴۶) ۲.اکتوبر ۱۹۴۷ء : موضع بھینی با نگر متصل محلہ دار البرکات و دار الانوار قادیان پرسه جتھوں نے حملہ کیا.ہند وملٹری موقعہ پر موجود تھی.مگر ہوا میں فائر کرنے کے سوا اس نے حملہ کے روکنے میں کوئی حصہ نہیں لیا.اور ۲-۳.اکتوبر کی درمیانی شب قریباً ساری رات گولیاں چلتی رہیں.بھینی کی کئی مسلمان عورتیں اغوا کر لی گئیں اور گاؤں خالی کرالیا گیا.مطبوعه الفضل ۷ جنوری ۱۹۴۸ء) رسکھ

Page 164

مضامین بشیر ۱۵۲ گزشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں نمبر۳ گزشتہ فسادات کے تعلق میں جو واقعات قادیان اور اس کے ماحول میں رونما ہوئے.ان کا ریکارڈ ہمارے پاس محفوظ ہے اور انشاء اللہ اپنے وقت پر شائع کیا جائے گا.فی الحال دوستوں کی اطلاع کے لئے بعض خاص خاص واقعات کا ذکر مختصر روز نامچہ کی صورت میں درج کیا جاتا ہے.(۴۷) ۲ را کتوبر ۱۹۴۷ء.۲ اور ۳ / اکتوبر کی درمیانی شب کو قادیان کی مسجد اقصے ( یعنی منارة اسیح والی جامعہ مسجد ) میں بم پھینکا گیا.جو ایک قریب کے ہند و مکان کی طرف سے آیا تھا.اس بم سے مؤذن مسجد کا لڑکا بری طرح زخمی ہوا اور دشمن نے بتا دیا کہ ہم مسلمانوں کے جان و مال اور عزت ہی کے پیاسے نہیں بلکہ ان کی مقدس جگہوں کی بے حرمتی کے واسطے بھی تیار ہیں.(۲۸)۳ را کتوبر ۱۹۴۷ء.قادیان میں جمع شدہ پناہ گزینوں میں سے چالیس ہزارانسانوں کا پہلا پیدل قافلہ قادیان سے علی الصبح روانہ ہوا.ہند و ملٹری ساتھ تھی لیکن ابھی یہ قافلہ قادیان کی حد سے نکلا ہی تھا کہ سکھ جتھوں نے حملہ کر دیا اور چھ میل کے اندر اندر کئی سو مسلمان شہید کر دئے گئے اور بہت سی عورتیں اغوا کر لی گئیں اور جو ر ہا سہا سامان مسلمانوں کے پاس تھا وہ لوٹ لیا گیا.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ کئی دن بعد تک نہر کے ساتھ ساتھ میل ہا میل تک لاشوں کے نشان نظر آتے تھے.(۴۹) ۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء.یہ دن قادیان کی تاریخ میں خصوصیت سے یادگار رہے گا.کیونکہ اس دن دشمنوں کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے اور لوٹ ما را در قتل و غارت اور اغوا کے واقعات بھیانک ترین صورت میں ظاہر ہوئے.سب سے پہلے آٹھ اور نو بجے صبح کے درمیان قادیان کی غربی جانب سے محلہ مسجد فضل پر ہزار ہا سکھوں نے پولیس کی معیت میں حملہ کیا اور قتل وغارت کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے عقب تک پہنچ گئے اور جو عورتیں مسجد کے پچھواڑے میں پناہ لینے کے لئے جمع تھیں، ان میں سے کئی ایک کو اغوا کر لیا گیا اور جب احمدی نوجوان عورتوں کی آہ و پکا رسن کر اُن کی طرف بڑھے تو دونو جوانوں کو خود پولیس نے گولیاں چلا کر مسجد کی دیوار کے ساتھ شہید کر دیا.عین اس وقت اطلاع ملی کہ قادیان کے محلہ دار الفتوح اور محلہ دارالرحمت پر بھی ہزار ہا سکھوں نے حملہ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ان کے حملہ کو کا میاب بنانے کے لئے کرفیو کا اعلان کر دیا ہے.چنانچہ اس حملہ میں دوسو کے قریب مسلمان (احمدی اور غیر احمدی ، مرد اور عورت، بچے اور بوڑھے ) یا تو شہید ہو گئے اور یا لا پتہ ہو کر

Page 165

۱۵۳ مضامین بشیر اب تک مفقودالخبر ہیں.شہید ہونے والوں میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک حرم محترم کے حقیقی ماموں مرزا احمد شفیع صاحب بی.اے بھی تھے، جو اپنے مکان کی ڈیوڑھی میں پولیس کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنے.مگر ظالم دشمنوں نے شہید احمدیوں کی لاشیں تک نہیں لینے دیں.تا کہ ان کی شناخت اور صحیح تعداد کو مخفی رکھا جا سکے.اس دن حملہ آوروں نے لاکھوں روپے کا سامان احمدیوں کے گھروں سے لوٹا.اس قسم کے نازک حالات میں بیرونی محلہ جات کے صدر صاحبان نے جماعت کی حفاظت ( اور خصوصاً عورتوں اور بچوں کی حفاظت) کے خیال سے یہ ضروری سمجھا کہ قادیان کی احمدی آبادی کو بعض مخصوص جگہوں میں سمیٹ کر محفوظ کر لیا جائے.چنانچہ ایک حصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں جمع ہو گیا اور دوسرا دارا مسیح اور مدرسہ احمدیہ اور اس کے ملحقہ مکانات میں بند ہو گیا.ہزار ہا انسانوں کے تھوڑی سی جگہ میں محصور ہو جانے سے صفائی کی حالت نہایت درجہ ابتر ہوگئی اور بعض جگہ پر ایک ایک فٹ تک نجاست جمع ہو گئی.جسے احمدی خدام نے خود خاکروبوں کی طرح کام کر کے گڑھوں میں دفن کیا.دوسری طرف آٹے کی مشینوں کے بند ہونے کی وجہ سے جہاں اکثر حصہ آبادی کا گندم ابال ابال کر کھا رہا تھا ، وہاں بیماروں اور دودھ پلانے والی عورتوں اور چھوٹے بچوں کے واسطے آٹا مہیا کرنے کے لئے بہت سے معزز احمدی مردوں کو اپنے ہاتھ سے چکیاں چلانی پڑیں.یہ دن وہ تھے جب کہ دارا صیح اور مدرسہ احمدیہ میں ٹھہرے ہوئے لوگ ان احمدیوں سے بالکل کٹے ہوئے تھے.جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور تھے.کیونکہ درمیانی راستہ بالکل بند اور خطر ناک طور پر مخدوش تھا.انہی ایام میں نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی کوٹھی دارالسلام اور عزیزم مکرم میاں شریف احمد صاحب کی کوٹھی پر جبر اقبضہ کر لیا گیا.(۵۰) ۴ را کتوبر ۱۹۴۷ء.کر فیو اٹھنے کے بعد جب بعض بیرونی محلوں میں رہنے والے احمدی اپنے مکانوں کی دیکھ بھال کے لئے باہر جانے لگے تو بڑے بازار کے اختتام پر جو ریتی چھلہ سے ملتا ہے، عین دن دہاڑے برسر بازار سات احمدیوں کو گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا.ان لوگوں میں میاں سلطان شیر عالم صاحب بی.اے نائب ناظر ضیافت بھی تھے.اور جب بعض لوگ شہید ہونے والے احمدیوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھے تو وہ بھی گولی کا نشانہ بنا دئے گئے.(۵۱)۴ /اکتوبر ۱۹۴۷ء.سٹار ہوزری قادیان کے مال کو لوٹ لیا گیا.جس میں بیش قیمت اون اور لا تعداد جرا ہیں اور سویٹر اور کمبل وغیرہ شامل تھے اور یہ لوٹ مار مقامی مجسٹریٹ کی آنکھوں کے سامنے ہوئی.(۵۲) ۵/اکتوبر ۱۹۴۷ء.بیرونی پناہ گزینوں کا دوسرا پیدل قافلہ قادیان سے روانہ ہوا.

Page 166

مضامین بشیر ۱۵۴ اس قافلہ میں قریباً دس ہزار مسلمان شامل تھے اور کچھ ۳ اکتو بر والے حملہ میں قادیان میں شہید ہو چکے تھے.یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس قافلہ پر راستہ میں کیا گزری.(۵۳) ۵/اکتوبر ۱۹۴۷ء.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور شدہ احمدیوں سے ہند و ملٹری نے جبڑا بیگار لی.اور ان کے سر پر کھڑے ہو کر پناہ گزینوں کے چھوڑے ہوئے سامانوں کو اکٹھا کروا کر مختلف مقامات پر پہنچانے کے لئے مجبور کیا.اس قسم کی بیگا رکئی دن لی جاتی رہی.(۵۴) ۱/۵ کتوبر ۱۹۴۷ء.تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت پر معہ اس کے سامان کے قبضہ کر لیا گیا.(۵۵) ۵/اکتوبر ۱۹۴۷ء.جماعت احمدیہ کا مردانہ اور زنانہ نور ہسپتال جبر ا خالی کرالیا گیا اور بیماروں اور زخمیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ باہر نکال کر ہسپتال کا قبضہ ایک ہندو ڈاکٹر کو دے دیا گیا اور بعد میں ایک سکھ ڈاکٹر کو اس کا انچارج بنا دیا گیا.(۵۶) ۷ اکتوبر ۱۹۴۷ء.مسجد اقصے پر پھر بمباری کی گئی.چار بموں میں سے دو نے پھٹ کر مسجد کے فرش کو نقصان پہنچایا.اور ایک بم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد بزرگوار کی عین قبر کے پاس گرامگر خدا کا شکر ہے کہ پھٹا نہیں.(۵۷) ۱۰ اکتوبر ۱۹۴۷ء - عزیزم مرزا رشید احمد کی بیوی کی کا ر ضبط کر لی گئی.اس سے قبل ملک عمر علی صاحب بی.اے کی پرائیویٹ کا ر بھی ضبط کر لی گئی تھی.اسی طرح جماعت کے دو بھاری ٹرک اور دو پندرہ ہنڈرڈ ویٹ والے ٹرک بھی ضبط کر لئے گئے.اسی طرح بعض اور موٹر گاڑیاں بھی حکومت کی ضرورت کا بہانہ رکھ کر ضبط کر لی گئیں.(۵۸) ۱۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کی اسکورٹ میں لاہور آ گئے.اور ان کی جگہ قادیان میں مولوی جلال الدین صاحب شمس سابق امام مسجد لنڈن کو امیر مقامی مقرر کیا گیا.(۵۹) ۱۵ / اکتوبر ۱۹۴۷ء - جماعت احمدیہ کا پر لیس جس میں جماعت کا مرکزی اخبار الفضل چھپتا تھا اور اسی طرح حضرت خلیفہ اصیح اول کی لائبریری اور اس کے ساتھ شامل شدہ دیگر لائبریریوں پر قبضہ کر کے ان پر مہریں لگا دی گئیں.اس مرکزی لائبریری میں ۳۰ ہزار کے قریب علمی کتا ہیں تھیں.جو زیادہ تر عربی اور فارسی میں تھیں.اور کئی نایاب کتب اور بیش قیمت قلمی نسخے بھی لائبریری میں موجود تھے.جن سے احمدی علماء اپنی علمی تحقیقا توں میں فائدہ اٹھاتے تھے.(۶۰) ۳۰ اکتوبر ۱۹۴۷ء.اس دن معلوم ہوا کہ حملہ کے ایام میں اور اس کے بعد قادیان

Page 167

۱۵۵ مضامین بشیر کی تین مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی ہے.یعنی مسجد محلہ دار الرحمت کے مینار مسمار کر دیئے گئے تاکہ مسجد کی علامت کو مٹا دیا جائے.مسجد خوجیاں ( جو قادیان کے دوسرے مسلمانوں کی مسجد تھی ) پر یہ بورڈ لگا دیا گیا کہ یہ آریہ سماج کا مندر ہے اور محلہ دار العلوم کی مسجد نور جو تعلیم الاسلام کا لج کے ساتھ ملحق تھی اسے غیر مسلموں نے اپنی جلسہ گاہ بنالیا اور محن مسجد کے نلکوں پر سکھوں نے کپڑے دھونے شروع کر دئے.(۶۱) ۱۶/ نومبر ۱۹۴۷ء.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مولوی جلال الدین صاحب شمس اور عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب قادیان سے لاہور آگئے اور شمس صاحب کی جگہ قادیان میں مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر مقامی اور عزیزم مرزا ظفر احمد صاحب ناظر اعلی مقرر ہوئے.(۶۲) ۲۱ / نومبر ۱۹۴۷ء.ہمارے ایک مکان کی دیوار کو جبر اگر ا کر سکھوں نے اسے ساتھ کے گوردوارہ میں زبر دستی شامل کر لیا.بار بار کے احتجاج کے حکومت نے ابھی تک اس معاملہ میں کوئی عملی دادرسی نہیں کی.(۶۳) ۱۴ / دسمبر ۱۹۴۷ ء.اس دن معلوم ہوا کہ قادیان کے ملحقہ احمدی گاؤں منگل باغباناں سے متصل بہشتی مقبرہ کی مسجد کے مینار گرا کر مسمار کر دیئے گئے ہیں اور اس پر کانگرس کا جھنڈا لہرایا گیا ہے اور اب اسے سکھ پناہ گزینوں کی رہائش کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے.(۶۴) ۲۳ دسمبر ۱۹۴۷ ء.اس دن ہمارے بعض دوستوں کو مسجد نور محلہ دارالعلوم میں جانے کا موقع میسر آیا تو انہوں نے وہاں قرآن کریم کے تین من اوراق پھٹے ہوئے پائے.جنہیں اکٹھا کر کے جلا دیا گیا.ہماری مقدس کتاب کے اوراق پھاڑنے میں اپنے خبث باطن کے اظہار اور دل آزاری کے سوا اور کوئی غرض نہیں سمجھی جاسکتی.مظالم قادیان کے اس خونی روز نامچہ کو درج کرنے کے بعد صرف یہ بات قابل ذکر رہ جاتی ہے کہ ہم ان مظالم پر خاموش نہیں بیٹھے اور ہر واقعہ پر مشرقی پنجاب اور انڈین یونین کے وزراء اور دیگر ذمہ دار افسروں کو خطوں اور تاروں اور بعض صورتوں میں زبانی گفتگو کے ذریعہ ساتھ ساتھ اطلاع بھجواتے رہے ہیں مگر سوائے آخری ایک دو واقعات کے رسمی جواب کے ہمارے کسی خط یا کسی تار وغیرہ کا جواب تو در کنار رسید تک نہیں آئی.ہم نے یہ بھی بار بار کہا کہ جب ایک طرف انڈین یونین یہ دعوی کر رہی ہے کہ جو مسلمان بھی پر امن اور وفا دار شہری کے طور پر انڈین یونین میں رہنا چا ہے، اس کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی اور دوسری طرف ہم نے اپنے متعلق بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ یہ قدیمی اصول ہے کہ جس حکومت کے ماتحت احمدی رہیں.اس کے وفادار ہو کر ر ہیں اور قادیان کے احمدی بہر حال انڈین یونین کے وفادار رہیں گے تو پھر کیوں ہم پر یہ مظالم ڈھا کر ہمیں ہمارا

Page 168

مضامین بشیر ۱۵۶ اپنے مقدس مرکز سے جبر ا نکالا جا رہا ہے.مگر افسوس ہے کہ آج تک حکومت مشرقی پنجاب اور حکومت انڈین یونین نے ہمیں اس بارہ میں کوئی جواب نہیں دیا.اس لئے اب ہماری آنکھیں صرف خدا کی طرف ہیں.و نعم المولى ونعم الوكيل یہ سوال کیا جاتا ہے کہ قادیان میں سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ کیا گیا یا نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی ہدایت کے ماتحت قادیان میں ہمارا طریق یہ تھا کہ جب صرف سکھ عوام حملہ کرتے تھے تو ہماری جماعت کے لوگ اس حملہ کا مقابلہ کرتے تھے اور خدا کے فضل سے ہر مقابلہ میں کامیاب رہتے تھے.لیکن جب حملہ آوروں کے ساتھ پولیس اور ملٹری شامل ہوتی تھی ( اور آخر میں تو اکثر یہی ہوتا تھا ) تو ہمارے آدمی اپنے امام کی اس ہدایت کے ماتحت کہ حکومت کا مقابلہ کسی صورت میں نہ کیا جائے.اس مقابلہ سے ہاتھ کھینچ لیتے اور اپنی حفاظت کے معاملہ کو خدا کے سپر د کر دیتے تھے.بالآخر یہ ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ باوجود ان سب باتوں کے اس وقت بھی ۳۱۳ احمدی قادیان میں اپنے محبوب آقا کے قدموں میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں.اور دشمن کے مظالم کا بڑے سے بڑا طوفان بھی خدا کے فضل سے ان کے قدموں کو متزلزل نہیں کر سکا.اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئیوں ( مثلاً الہام داغ ہجرت ) کے مطابق جماعت احمدیہ کے امام اور قادیان کے اکثر احمدی دوستوں کو قادیان سے ہجرت کرنی پڑی.اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی ضرور آئے گا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے الہاموں کے مطابق جماعت احمد یہ اپنے مقدس مرکز کو پھر واپس حاصل کرے گی.اور خدا کا یہ الہام پورا ہوکر رہے گا.کہ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّكَ إِلَى مَعَادٍ.( مطبوعه الفضل ۸جنوری ۱۹۴۸ء)

Page 169

۱۵۷ مضامین بشیر مظالم قادیان کے روز نامچہ میں ضروری تصحیح میرا جو مضمون زیر عنوان گزشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں، الفضل میں چھپتا رہا ہے اس میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں جنہیں دوست درست کر لیں.(۱) زیر نمبر ۲ قادیان کی ریل پر جو حملہ ۲۵ جولائی کو ہونا درج ہے.وہ ۲۴ جولائی سمجھا جائے.یہ حمله در اصل ۲۴ اور ۲۵ جولائی کی درمیانی شب کو ہوا تھا.(۲) زیر نمبر ۱۸ الفاظ ہر باغ کے بعد الفاظ اور ہر میدان کا تب نے چھوڑ دیئے ہیں.انہیں درج کر لیا جائے.(۳) زیر نمبر ۲۴ میاں شریف احمد صاحب کی روانگی از قادیان ۱۹ ستمبر کے ماتحت درج ہے مگر صحیح تاریخ ۸ استمبر ہے.(۴) نمبر ۲۵ پر زیر تاریخ ۱۹ستمبر موضع کھارا متصل قادیان پر سکھوں کا حملہ درج ہونے سے رہ گیا ہے.وہ درج کر لیا جائے.اور موجودہ نمبر ۲۵ کو نمبر ۲۶ کر دیا جائے.و علی ھذا القیاس.(۵) زیر نمبر ۴۸ قادیان سے پہلے قافلہ کی روانگی جو۳ را کتوبر کو درج ہے اسے ۴ را کتوبر سمجھا جائے اور نمبروں کی ترتیب درست کر لی جائے.(۶) زیر نمبر ۵۲ جو دوسرے قافلہ کی روانگی ۱٫۵ اکتوبر کو درج ہے.وہ ۶ اکتو بر کو بھی جائے اور ترتیب درست کر لی جائے.( مطبوعه الفضل ۱۳ / جنوری ۱۹۴۸ء)

Page 170

مضامین بشیر ۱۵۸ فسادات قادیان کا پس منظر میرا جو مضمون زیر عنوان ”گزشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں، الفضل میں چھپتا رہا ہے.اس کے شروع میں قادیان کے متعلق فسادات کا پس منظر دکھانے کے لئے ایک نوٹ کی ضرورت تھی ، جو غلطی سے رہ گیا ہے.اب یہ نوٹ ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے.ہندوستان کا ملک عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ کشیدگی کی آماجگاہ رہا ہے جو گزشتہ سال اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور جوں جوں ملک کے دو حصوں میں بٹنے کا وقت قریب آتا گیا ، یہ کشیدگی بھی دن بدن زیادہ ہوتی چلی گئی.مارچ ۱۹۴۷ء کے فسادات جو وسطی پنجاب میں رونما ہوئے اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے.کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ہند و سیاست سکھوں کی جنگجو قوم کو اپنے ساتھ ملا کر اور مسلمانوں کے دلوں میں دہشت پیدا کر کے انہیں ملک کی تقسیم کے خیال سے باز رکھنا چاہتی تھی.اور مسلمان اپنی جگہ یہ خیال کرتے تھے کہ ملک کی موجودہ فضا میں ان کے لئے پہنچنا اور ترقی کرنا محال ہو گیا ہے.اگر ایک طرف خود حفاظتی کا جذ بہ مسلمانوں کو علیحدگی کی طرف کھینچ رہا تھا تو دوسری طرف استبداد کا خمار ہندوؤں کو اس بات پر آمادہ کر رہا تھا کہ جس طرح بھی ہو ملک کی تقسیم اور مسلمانوں کی علیحدگی کو روکا جائے.جب اس قسم کی آتشی فضا میں ریڈ کلف کمیشن نے مشرقی اور مغربی پنجاب کی سرحدوں کا فیصلہ سنایا تو سارا پنجاب ایک خطر ناک بارود کے ذخیرہ کی طرح فرقہ وارانہ جنگ کی آگ سے بھڑک اٹھا اور سر زمین پنجاب نے وہ انسانیت سوز نظارے دیکھے جو تاریخ عالم میں ہمیشہ کے لئے تلخ ترین یادگار رہیں گے.ایک کروڑ انسانی جانوں کا ایک حصہ ملک سے دوسرے حصہ ملک کی طرف منتقل ہونا خود اپنی ذات میں ایک عدیم المثال تاریخی واقعہ ہے.مگر جب ان حالات کو دیکھا جائے جن میں یہ انتقال آبادی عملاً وقوع میں آیا تو انسان کی آنکھیں شرم کی وجہ سے زمین میں گڑ جاتی ہیں اور وہ اس بات کی ہمت نہیں پاتا کہ اپنا سر اونچا کر کے کسی شریف انسان کے ساتھ آنکھیں ملا سکے.ہند وقوم ہر سال ہولی کھیلنے کی عادی ہے.جس میں سرخ پانی کے چھینٹے ایک دوسرے پر پھینکے جاتے ہیں مگر گزشتہ سال کروڑوں انسانوں نے خون کی ہولی کھیلی.جس کے نتیجہ میں لاکھوں بے گناہ انسان قتل کئے گئے.ہزا ر ہا معصوم عورتوں کو اغوا کر کے ان کی عصمت دری کی گئی.ہزاروں بچے ماؤں کے سامنے نہ تیغ کئے گئے.ہزاروں مائیں بلکتے ہوئے بچوں کے سامنے ہمیشہ کی نیند سلا دی گئیں اور اربوں روپے کی

Page 171

۱۵۹ مضامین بشیر جائیدا دنذرآتش کر دی گئی یا لوٹ لی گئی.مگر مجھے اس جگہ صرف قادیان کے متعلق کچھ کہنا ہے جو جماعت احمدیہ کا مقدس مرکز ہے.اور جسے اپنی انتہائی پُر امن روایات اور وفا دارانہ جذبات کے باوجود اس طوفان بے تمیزی کا شکار ہونا پڑا.قادیان کی بستی آج سے قریبا ساڑھے چارسو برس قبل ہمارے بزرگوں نے شہنشاہ بابر کے زمانہ میں ثمر قند و بخارا کی طرف سے آکر لاہور سے ستر میل شمال مشرقی جانب آباد کی تھی.اور ہمارا خاندان سلطنت مغلیہ کے زمانہ میں ہمیشہ اعلیٰ مناصب پر فائز رہا.اسی لئے جب مغلوں کے تنزل پر وسط پنجاب میں سکھوں نے سر اٹھایا تو ان کا پہلا نشانہ قادیان کی ریاست بنی.چنانچہ انیسویں صدی کے شروع میں ہمارے خاندان کو پہلی دفعہ قادیان چھوڑنا پڑا اور ہمارے آباء نے کئی سال تک جلا وطنی میں دن گزارے.بالآخر جب مہا راجہ رنجیت سنگھ نے چھوٹی چھوٹی سکھ ریاستوں کو مغلوب کر کے پنجاب میں ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کر لی تو ہمارے دادا مرزا غلام مرتضی خان صاحب مہا راجہ کی اجازت سے قادیان واپس آگئے.اور با وجود زخم خوردہ ہونے کے ملک کے امن کی خاطر اور خاندانی روایات کی بنا پر ملک کی قائم شدہ حکومت کے ہمیشہ وفا دارر ہے.۱۸۸۹ء میں ہمارے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے خدا سے حکم پا کر چودھویں صدی کے مجددا ور مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا اور جماعت احمدیہ کی بنیا درکھی.اس وقت سے قادیان کا قصبہ جماعت احمدیہ کا مقدس مرکز ہے.مقدس سے میری یہ مراد نہیں کہ قادیان میں بہت سی مسجد میں ہیں.مسجد میں بے شک نہایت مقدس چیز ہیں لیکن جب ہم قادیان کو مقدس کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک مامور من اللہ کا مولد اور مسکن اور مدفن ہے.جہاں اس نے اپنی زندگی کے دن گزارے.اپنے خدا کی یاد میں راتیں کائیں.خدا سے نشانات پائے خدا سے حکم پا کر ایک مذہبی سلسلہ کی بنیاد رکھی اور خدا ہی کے حکم کے ماتحت قادیان کو اس مذہبی سلسلہ کا مرکز قرار دیا.جہاں وہ تمام مذہبی ادارے واقع ہیں.جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی شاخوں کی تعلیمی اور تربیتی اور تبلیغی نگرانی کرتے ہیں.اور جو خلافت کا سلسلہ خدائی منشاء کے ماتحت بائی جماعت احمدیہ کی وفات ۱۹۰۸ء پر قائم ہوا.اس کا صدر مقام بھی ہمیشہ قادیان رہا ہے.پس قادیان صرف تاریخی لحاظ سے ہی ایک مقدس مقام نہیں بلکہ ایک عالمگیر مذہبی جماعت کی ہدایت اور نگرانی کا زندہ مرکز ہے.اور پھر جماعت احمد یہ کوئی باغیوں یا لٹیروں کا گروہ نہیں بلکہ دینی اور علمی مشاغل کے لئے اپنی جانوں کو وقف رکھنے والے لوگوں کی پُر امن جماعت ہے.اس مرکز اور ایسی جماعت کو جس منتظم اور ظالمانہ اور بے دردانہ رنگ میں نقصان پہنچایا گیا.اس کی مختصر روئیدا داو پر کے روز نامچہ میں درج کی گئی ہے.

Page 172

مضامین بشیر 17.اس روز نامچہ کے درج شدہ واقعات کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ ایک یک طرفہ اور جانبدارانہ بیان ہے.بلکہ حسن اتفاق سے ان واقعات کے بہت سے غیر جانبدار بلکہ غیر ملکی گواہ بھی موجود ہیں.چنانچہ ہمارے پاس چودہ کس ہندوؤں اور سکھوں اور ہندوستانی عیسائیوں کی تحریری شہادت موجود ہے کہ قادیان پر سکھوں کا حملہ ہوا اور قتل وغارت اور لوٹ مار کا میدان گرم رہا.یہ شہادت ہر باعزت متلاشی حق کو دکھائی جاسکتی ہے.اس کے علاوہ اتفاق سے ان ایام میں انگلستان سے آئے ہوئے ایک معزز انگریز نو مسلم لیفٹینینٹ آرچرڈ قادیان میں موجود تھے اور انہوں نے بہت سے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور واپس جا کر ولائت کے اخباروں میں شائع کرائے.( دیکھو ساؤتھ ویسٹرن سٹارلنڈن مورخہ ۱۰ را کتوبر ۱۹۴۷ء اور ایوننگ پوسٹ برسٹل مورخہ ۱۱ را کتوبر ۱۹۴۷ء.) اسی طرح ان ایام میں ایک معزز عرب بیرسٹر سید منیر احصنی ملک شام سے قادیان آئے ہوئے تھے.اور متعدد واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے گزرے اور بالآخر دو عیسائی غیر جانبدار انگریز جرنلسٹ مسٹر ڈگلس براؤن اور مسٹر جاس لین بنیلیسی خود حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے قادیان گئے.اور پھر انہوں نے اپنی آزادانہ شہادت انگلستان کے اخباروں میں شائع کرائی.اور قادیان میں سکھوں اور ہندوؤں کے مظالم کی تصدیق کی ( دیکھو ڈیلی ٹیلی گراف لندن مورخه ۱۳/اکتوبر، ۱۷ را کتوبر ۱۹۴۷ء اور ڈیلی گراف لندن مورخه ۱۳ /اکتوبر ۱۹۴۷ء) یہ اسی آزادانہ شہادت کا نتیجہ تھا کہ لاہور کے مشہور اینگلو انڈین اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنے ایک لیڈنگ آرٹیکل میں صاف الفاظ میں لکھا تھا کہ قادیان کے مظالم آزاد غیر جانبدار اور شہادت سے پوری طرح ثابت ہیں.( دیکھوسول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخه ۲۳ /اکتوبر ۱۹۴۷ء) ( مطبوعه الفضل ۱۳ / جنوری ۱۹۴۸ء)

Page 173

171 مضامین بشیر کامیابی حاصل کرنے کے گر علم محنت.دیانت - استقلال.دُعا 66 میں نے اوپر کے عنوان میں گر کا لفظ استعمال کیا ہے.جسے بعض لوگ راز کہہ کر بھی پکارا کرتے ہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے نہ تو کوئی گر ہے اور نہ کوئی راز بلکہ ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا ایک سیدھا سادھا رستہ مقرر کر رکھا ہے.مگر لوگ اپنی عجوبہ پسندی میں اس راستہ کو ( بلکہ بعض اوقات اس راستہ کے فقدان کو ) راز کا نام دے کر لوگوں کے دل و دماغ کو مسحور کرنا چاہتے ہیں.قرآن شریف نے اس بحث کو اپنی ابتدائی سورت کی اس مختصر سی دعا میں حل کر دیا ہے کہ اِهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ( یعنی اے خدا ہمیں ٹھیک راستہ دکھا ) کیونکہ دراصل صراط مستقیم ہی کامیابی کا راز اور گر ہے.مستقیم کے لفظ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ ٹھیک راستہ وہ ہے جو چھوٹا ہو اور منزل مقصود تک پہنچانے والا ہو.اگر ایک راستہ منزل مقصود تک تو پہنچاتا ہے لیکن چھوٹا نہیں ہے بلکہ چکر کاٹ کر اور وقت ضائع کرا کے منزل تک پہنچاتا ہے تو وہ صراط مستقیم نہیں اسی طرح اگر ایک رستہ چھوٹا تو ہے مگر منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا تو وہ بھی صراط مستقیم نہیں اور قرآن شریف نے صراط مستقیم کی علامتیں یہ بتائی ہیں کہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ يعنى الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی نشانی یہ ہے کہ دوسرے لوگ اس رستہ کو اختیار کر کے عملاً کامیابی حاصل کر چکے ہوں.یا اس راستہ کو ترک کر کے ناکامی کا منہ دیکھ چکے ہوں.پس میں نے جو اوپر کے عنوان میں گر“ کا لفظ لکھا ہے.اس سے عرف عام والاگر مراد نہیں بلکہ قرآن شریف والا صراط مستقیم مراد ہے.مجھے آج کل اس مضمون کی ضرورت خصوصیت کے ساتھ اس واسطے محسوس ہوئی کہ گزشتہ فسادات کے قیامت خیز طوفان نے ملک کی اقتصادی اور تمدنی زندگی میں ایسا تلاطم بر پا کر دیا ہے کہ لاکھوں انسان اپنی جگہ سے اکھڑ کر زندگی کے وسیع میدان میں اس قدر پریشان حال اور بکھرے ہوئے پڑے ہیں کہ انہیں سنبھالنے کے لئے خاص انتظام اور خاص جد و جہد کی ضرورت ہے تا کہ وہ اس نئے دور میں اپنے قدموں کو اس رستہ پر ڈال سکیں جو خدا تعالیٰ کی از لی تقدیر نے کامیابی کے حصول کے لئے

Page 174

مضامین بشیر ۱۶۲ مقدر کر رکھا ہے.یہ درست ہے کہ صحیح وسائل کے حاصل ہو جانے اور صحیح طریق کار کے اختیار کرنے کے باوجود مختلف انسانوں کی جدوجہد کے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں کیونکہ مختلف انسانوں کی قوت عملیہ اور قوت ذہنیہ مختلف ہوا کرتی ہے لیکن پھر بھی اگر صحیح طریق کار کو اختیار کیا جائے تو کم از کم ہر انسان جو مجنون یا مخبوط الحواس نہیں ہے ٹھوکر سے بچ سکتا ہے اور کامیابی کے ایک معقول معیار کو حاصل کر سکتا ہے.یہ وسائل اور یہ طریق کارجو ہر قسم کے کاروبار میں انسان کی کامیابی اور ترقی کے لئے ضروری ہیں پانچ قسم کے ہیں جن میں سے چار مادی ہیں.اور ایک روحانی ہے اور میں انہی کے متعلق اس مختصر سے مقالہ میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.سب سے مقدم اور ہر جہت سے نمبر اول پر سمجھے جانے کے قابل چیز علم ہے.یعنی اس فن کی واقفیت پیدا کرنا.جو ایک انسان اپنے کاروبار مثلا تجارت یا صنعت و حرفت یا زراعت وغیرہ کے لئے اختیار کرنا چاہتا ہے.علم وہ بنیادی چیز ہے جس کے بغیر کوئی عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی.پس ہر شخص جو کسی قسم کے کاروبار میں قدم رکھنا چاہتا ہے.اس کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ جس فن کو وہ اختیار کرنا چاہتا ہے اس کی پوری پوری واقفیت حاصل کرے.مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ ایک کام میں ہاتھ تو ڈال دیتے ہیں.مگر اس کے اصول اور تفاصیل اور طریق کار کے سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دیتے.یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص جو تیر نا نہیں جانتا.وہ کسی گہرے سمندر میں جا کو دے.ایسا شخص یقینا ڈوبے گا اور اس کے ڈوبنے کی ذمہ داری خود اس کے نفس پر ہوگی.میرا یہ منشاء نہیں کہ جب تک کسی فن میں کمال نہ پیدا کر لیا جائے اس وقت تک اس میں ہاتھ نہ ڈالا جائے.کیونکہ علوم کے بعض حصے علم کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد حاصل ہوتے ہیں اور بعض لوگ اپنی کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے تکمیل کی اہلیت ہی نہیں رکھتے مگر بہر حال اتنا تو ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جو زراعت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے وہ زراعت کے مبادی سے واقف ہو اور ہر وہ شخص جو تجارت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے.وہ تجارت کے مبادی سے واقف ہو اور ہر وہ شخص جو صنعت و حرفت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے.وہ صنعت و حرفت کے مبادی سے واقف ہو وغیرہ.دنیا میں بیشمار نا کا میاں صرف اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ لوگ محض دیکھا دیکھی یا صرف شوق کے طور پر یا کسی دوسرے کے کہنے کہانے سے فن سے واقفیت پیدا کرنے کے بغیر ایک کام میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں اور پھر نقصان اٹھا کر اپنی قسمت کو روتے ہیں.پس کامیابی کے لئے سب سے مقدم چیز یہ ہے کہ انسان جو کام بھی اختیار کرنا چاہے اس کے اصول اور اس کے فن سے واقفیت پیدا کرے.اسلام نے تو علم کی ایسی

Page 175

۱۶۳ مضامین بشیر ارفع شان قائم کی ہے کہ باوجود اس کے کہ ہمارے آقا وسردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی علم کے میدان میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ آپ کو یہ دعا سکھاتا ہے کہ قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا یعنی اے خدا میرے علم میں ترقی دے.یعنی جوں جوں میرے کام کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے.اسی نسبت سے مجھے علم میں وسعت عطا کرتا کہ میں اپنے کام کو بہترین صورت میں اور اعلیٰ ترین کامیابی کے ساتھ سرانجام دے سکوں.پس کامیابی کے لئے سب سے ضروری چیز علم اور فن کی واقفیت ہے.یہ واقفیت عام حالات میں یا تو دوسروں کو کام کرتا دیکھ کر پیدا کی جاسکتی ہے.یا دوسروں سے سن کر حاصل کی جاسکتی ہے اور یا متعلقہ کتب کے مطالعہ سے میسر آتی ہے.اس لئے کوئی شخص خواہ وہ خواندہ ہو یا نا خواندہ اس بنیادی چیز سے محروم نہیں رہنا چاہئے.محنت دوسری چیز جو کامیابی کے لئے ضروری ہے وہ محنت ہے.لیکن افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس کی قدرو قیمت کو نہیں پہچانتے اور اپنے اوقات کو نہایت بے دردی کے ساتھ ضائع کرتے ہیں.حالانکہ وقت ایک نہایت قیمتی چیز ہے اور چونکہ انسان کی زندگی بہت محدود ہے.اس لئے جوشخص اپنی زندگی کے لحات کو فضول طور پر ضائع کرتا ہے.وہ اپنے نفس پر ایسا ظلم کرتا ہے.جس کا بعد میں کوئی ازالہ ممکن نہیں.انسانی اوقات کا ایک کافی حصہ تو خود قانون قدرت نے انسان سے چھین رکھا ہے.مثلا کھانے پینے کے اوقات.رفع حاجت کے اوقات.سونے کے اوقات ورزش یا تفریح کے اوقات.اور کبھی کبھار بیماری کے ایام وغیرہ کام کے دائرہ سے عملاً خارج ہوتے ہیں.پھر اگر باقی ماندہ وقت میں سے بھی انسان کچھ حصہ ضائع کر دے تو اس سے بڑھ کر بد قسمت کون ہو گا.علاوہ ازیں جو شخص وقت کی قدر کو نہیں پہچانتا اور اپنے اوقات کو ضائع کرتا ہے وہ کبھی بھی اپنے کام میں توجہ اور انہماک پیدا نہیں کر سکتا اور توجہ اور انہماک کے بغیر ترقی ناممکن ہے.پس کامیابی کا دوسرا گر محنت ہے.محنت ایک ایسی نعمت ہے کہ بسا اوقات اس سے عقل اور ذہن کی کمی بھی پوری کی جاسکتی ہے.جب ہم بچے تھے تو سکول کی کتابوں میں خرگوش اور کچھوے کی دوڑ کی کہانی پڑھا کرتے تھے.جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ایک محنتی کچھوے نے ایک تیز رفتار مگر کاہل اور ست خرگوش سے دوڑ جیت لی.دنیا کے بڑے لوگوں میں سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی گذری ہے جنہوں نے باوجود ذہن کی کمی کے اپنی محنت اور جانفشانی سے کمال پیدا کر لیا مگر اس کے مقابل پر ایسے بہت کم لوگ گزرے ہیں.جنہوں نے محض ذہنی کمال کے نتیجہ میں محنت کے بغیر کمال پیدا کیا ہو وَ الشَّاذُ كَالْمَعْدُوم.میرے علم کے مطابق وقت کی

Page 176

۱۶۴ مضامین بشیر قدر کو کم کرنے والی عادتوں میں نشے کی چیزیں بھی شامل ہیں اور میں اپنے خیال کے مطابق تمباکونوشی کو بھی اس فہرست میں شامل سمجھتا ہوں.بعض کرسی نشین فلسفی کہا کرتے ہیں کہ سگریٹ نوشی تخیل کو بڑھاتی اور سوچنے کے مادہ کو ترقی دیتی ہے.ممکن ہے کسی حد تک یہ درست ہو مگر یہ اسی قسم کی دلیل ہے.جیسا کہ قرآن شریف نے شراب اور جوئے کے حق میں بیان کیا ہے.مگر اس کے باوجود اس نے یہ فرماتے ہوئے شراب اور جوئے کو ممنوع قرار دیا ہے کہ اِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا.یعنی شراب اور جوئے کا نقصان ان کے نفع سے بڑھ کر ہے.بہر حال میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تمبا کو ہوتا تو آپ ضرور اس کے استعمال کو منع فرما دیتے.میں ایک لمحہ کے لئے بھی صحابہ کی مقدس جماعت کو ایک سگریٹ نوشوں کی پارٹی کی صورت میں اپنے تصور میں نہیں لاسکتا.خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا.اصل مطلب یہ ہے کہ ہر میدان میں کامیابی کے لئے محنت اور استغراق نہایت ضروری چیز ہے اور دنیا میں وہی لوگ ترقی کرتے ہیں جو اپنے کاموں میں محنت اور جانفشانی کے طریق کو اختیار کرتے ہیں مگر مجھے شرم کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ آج کل مسلمانوں میں اس جو ہر کی بہت کمی ہے.رات کو دیر دیر تک گپ بازی میں وقت گزارنا اور صبح کے قیمتی وقت کو سونے میں ضائع کر دینا مسلمان نوجوانوں کا ایک خاصہ ہورہا ہے حالانکہ یہ وہ چیز ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر منع فرمایا ہے.دیانت کامیابی کے حصول کے لئے تیسری بڑی چیز دیانت داری ہے.دیانت داری ایک ایسا جو ہر ہے جو انسان کی قدر و قیمت کو بے انتہا بڑھا دیتا ہے اور اس کے اندر ایک ایسی شان پیدا کر دیتا ہے کہ جس کے مقابل پر ہر دوسرے شخص کو جھکنا پڑتا ہے.سچ بولنا.امانت میں خیانت نہ کرنا.دھوکہ دینے کے طریق سے احتراز کرنا.اپنے نفع کے علاوہ دوسرے کے فائدہ کا بھی خیال رکھنا.یہ سب باتیں دیانت داری کے مختلف شعبے ہیں جو انسان کے کام کو چار چاند لگا دیتے ہیں.تاجروں کے لئے دیانت داری کا مخصوص پہلو یہ ہے کہ وہ ناقص چیز کو اچھا کہہ کر نہ بیچیں اور نفع میں اس اصول کو مدنظر رکھیں کہ ان کی ذات کے علاوہ ان کے گاہکوں کو بھی فائدہ پہنچے اور بڑے اور چھوٹے اور واقف کار اور نا واقف کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور آپ نے دیکھا کہ وہ اوپر سے خشک تھا لیکن جب آپ نے ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر اندر کا غلہ نکالا تو وہ پانی سے تر بتر تھا.اس پر آپ سخت خفا ہوئے اور فرمایا کہ جو تا جر گا ہک کو دھوکہ دیتا ہے وہ مسلمان نہیں.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو دیانت داری کا اتنا احساس تھا کہ آپ

Page 177

۱۶۵ مضامین بشیر نے یہاں تک حکم دیا کہ پختگی سے پہلے درخت کے پھل کو مت بیچو.کیونکہ نہیں کہہ سکتے کہ پختہ ہونے تک اس پھل پر کیا گزرے.الغرض ہر کاروبار میں دیانت کے پہلو کو مدنظر رکھنا ضروری ہے.اور وہ لوگ جن کی دیانت داری مشکوک ہو کبھی بھی لوگوں میں عزت نہیں پاتے.اور اگر انہیں وقتی طور پر کچھ زائد نفع حاصل ہو بھی جائے تو بالآخر وہ ضرور تباہی کا منہ دیکھتے ہیں.استقلال چوتھی چیز جو کامیابی کے لئے نہایت ضروری ہے وہ استقلال ہے.جسے قرآن شریف نے عربی اصطلاح کے مطابق صبر کے لفظ سے تعبیر کیا ہے.استقلال سے یہ مراد ہے کہ جب ایک کام کو ہاتھ ڈالا جائے تو شروع کی ناکامیوں اور ٹھوکروں سے گھبرا کر یا ویسے ہی تلون مزاجی کے رنگ میں اکتا کر اس کام کو چھوڑ نہ دیا جائے.خدا تعالی نے دنیا میں تدریج کے اصول کو قائم کیا ہے.یعنی ہر چیز آہستہ آہستہ ترقی کر کے اپنے کمال کو پہنچتی ہے.درخت ہی کو دیکھو کہ شروع میں ایک چھوٹا سا بیج ہوتا ہے.پھر وہ ایک نرم اور کمزور کونپل کی طرح باہر نکلتا ہے اور کافی عرصہ تک ایسا نازک نظر آتا ہے کہ ذراسی چوٹ اسے مٹاسکتی ہے.مگر بالآخر ایک شاندار اور تناور درخت بن جاتا ہے.جو سخت سے سخت طوفان میں بھی گرنے کا نام نہیں لیتا لیکن افسوس ہے کہ اکثر مسلمان نوجوان بے صبری کی مرض میں مبتلا ہو کر ہاتھ پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں اور جب کچھ عرصہ تک انہیں ان کا خیالی اور موہوم نفع حاصل نہیں ہوتا تو اکتا کر کام کو چھوڑ دیتے ہیں.یہ طریق انفرادی اور قومی ترقی کے لئے سخت مہلک ہے جو نو جوان یا جو قو میں صبر و استقلال کی صفت سے محروم ہوتی ہیں وہ کبھی بھی دنیا میں ترقی نہیں کرتیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محنت اور جد و جہد کرنے والا دنیا میں کون گزرا ہے.مگر پھر بھی آپ کو عرب جیسے ملک میں کامیابی کے لئے اکیس سال تک نہایت مایوس کن حالات میں صبر سے کام لینا پڑا اور اس عرصہ میں اسلام کی کشتی بعض اوقات بظاہر اس طرح ڈگمگائی کہ دیکھنے والوں نے سمجھا کہ بس اب یہ ڈوب جائے گی.لیکن آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صبر کا پھل پایا اور مکہ کی تاریک گلیوں میں سے رات کے وقت اکیلا نکلنے والا انسان بالآخر دس ہزار قدوسیوں کی سرداری میں فتح و ظفر کا پرچم لہراتا ہوا مکہ میں داخل ہوا.بے شک یہ کامیابی ایک خاص خدائی انعام تھی.مگر اس میں بھی کیا شک ہے کہ بظاہر یہ انعام صبر و استقلال کے ہی ذریعہ حاصل ہوا.پس استقلال بھی انسانی کامیابی کا ایک بھاری گر ہے اور بے صبری ایک مہلک زہر ہے جو اچھے سے اچھے کام کو بھی تباہ کر دیتا اور نا کام بنا دیتا ہے مگر افسوس ہے کہ آج کل اکثر مسلمان بے صبری کی مرض میں مبتلا ہیں.اور جب چار دن کے انتظار کے بعد کسی کام میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو

Page 178

مضامین بشیر ۱۶۶ ایک دروازے کو چھوڑ کر دوسرے دروازے کی راہ لے لیتے ہیں.چاروں صفات کا ایک ہی وقت میں پایا جانا ضروری ہے.یہ وہ چار موٹے موٹے مادی وسائل ہیں جن سے انسان دنیا میں کامیابی حاصل کرتا ہے.(اول) علم اور فن کی واقفیت (دوم) محنت اور جانفشانی (سوم) دیانت داری اور امانت (چہارم ) صبر اور استقلال.یہ گویا وہ چار دیواری ہے.جس سے انسانی کاموں کی عمارت تکمیل پاتی ہے.لیکن جس طرح اگر کسی کمرہ کی چار دیواروں میں سے ایک دیوار گری ہوئی ہو تو اس کمرہ کے اندر رہنے والا شخص سردی گرمی اور چور چکار کے خطرہ سے محفوظ نہیں ہوتا.اسی طرح جو شخص علم تو رکھتا ہے مگر محنت کے جوہر سے عاری ہے یا محنتی تو ہے مگر اس کے علم کا خانہ خالی ہے.یا وہ علم اور محنت دونوں خوبیوں سے مزین ہے مگر دیانت دار نہیں یا دیانت دار بھی ہے.مگر اس کے صبر و استقلال کا دامن تہی ہے تو وہ اپنی بعض خوبیوں کے باوجود کبھی بھی پوری کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.جس کے لئے اس عمارت کی چاردیواری کی تکمیل ضروری ہے.اس کی مثال ایک ایسے برتن کی ہے.جس کی تین طرفیں تو ٹھیک ہوں مگر چوتھی طرف ٹوٹی ہوئی ہو.کیا ایسے برتن میں ڈالا ہوا دودھ سلامت رہ سکتا ہے.ہرگز نہیں.اسی طرح ان چار صفات میں سے سب کا پایا جانا ضروری ہے.ورنہ کامیابی ایک خیال موہوم.دعا لیکن چار دیواری کے لئے بھی ایک چھت کی ضرورت ہوا کرتی ہے.جو اوپر سے آنے والے خطرات کو روکتی ہے اور یہ چھت دُعا ہے جسے قرآن شریف نے صلوٰۃ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ یعنی تم اپنے کاموں میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک طرف صبر واستقلال کا اور دوسری طرف دعا اور نماز کا طریق اختیار کرو.اس مختصر فقرہ میں علم اور محنت اور دیانت کے ذکر کو بظاہر ترک کر کے صبر کے لفظ میں مرکوز کر دیا گیا ہے کیونکہ صبر سے محض بے کاری میں انتظار کرنا یا ایک جگہ پر دھر نا مار کر بیٹھے رہنا مراد نہیں بلکہ کسی صحیح طریق کار پر استقلال کے ساتھ قائم رہنا مراد ہے اور یہ طریق کا روہی ہے جسے دوسری جگہ قرآن شریف نے علم اور استغراق اور امانت کے لفظوں سے یاد کیا ہے مگر اس جگہ تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ہے.بہر حال دعا ایک روحانی ذریعہ ہے جو دنیا کے مادی ذرائع کے لئے بطور چھت کے ہے اور سچے مسلمانوں کو روحانی ذریعہ کی طرف سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے.دراصل جب ایک انسان اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق علم اور محنت اور دیانت اور استقلال کے رستوں کو اختیار کر لیتا ہے تو پھر بھی بشری کمزوری کی وجہ سے اس کے کام میں بعض رخنے باقی رہ جاتے ہیں اور ان رختوں کو دعا پورا کرتی ہے.گویا کامیابی کے ظاہری اسباب کو اختیار کرنے والا انسان خدا سے یہ دعا کرتا

Page 179

۱۶۷ مضامین بشیر ہے کہ اے خدا تیرے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت جو ذرائع ضروری تھے وہ میں نے اختیار کر لئے ، اب میری کوشش میں جو خامی رہ گئی ہے اسے تو اپنے فضل سے پورا فرما دے.اور قرآن شریف میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ جو لوگ خدا کے بنائے ہوئے اسباب کو اختیار کرنے کے بعد خدا سے دعا کرتے ہیں.ان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے.چنانچہ فرماتا ہے أَجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ 10 یعنی میں دعا کرنے والے کی دعا کو ضرور قبول کرتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ لوگ مجھ پر ایمان لائیں اور میرے بتائے ہوئے احکام پر عمل کریں.مکمل چار دیواری مجھے یقین ہے کہ اگر اس نئے قومی دور میں مسلمان ان پانچ طریقوں کو اختیار کریں جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں.یعنی (۱) علم (۲) محنت (۳) دیانت (۴) استقلال اور (۵) دعا تو وہ نہ صرف اپنے کاموں میں کامیاب ہو سکتے ہیں بلکہ انفرادی اور قومی لحاظ سے اتنی ترقی کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.جیسا کہ اسلام کے پہلے دور میں وہ نمونہ بنے.مگر مشکل یہ ہے کہ اکثر لوگ منہ کی پھونکوں سے یا دل میں پیدا ہو کر ٹھٹھر جانے والی خواہش سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان راستوں کی طرف سے غافل رہتے ہیں جو ہمارے علیم و قدر خدا نے انسانی ترقی کے لئے پیدا کئے ہیں.مجھے تو واقعی یوں نظر آتا ہے کہ گویا انسان کا وجود فرش اور زمین کے طور پر ہے.اور یہ چار مادی ذرائع چار دیواروں کے قائمقام ہیں جو اس فرش پر قائم ہونی چاہئیں.اور پھر دعا کا روحانی ذریعہ اس چار دیواری کے لئے بطور چھت کے ہے.جس سے کہ گھر کی عمارت تعمیل کو پہنچتی ہے.اور اس کے بعد کوئی رخنہ باقی نہیں رہتا.کاش لوگ اس نکتہ کو سمجھیں اور انفرادی اور قومی جد وجہد میں حصہ لے کر اسلام کے جھنڈے کو ہر جہت سے بلند تر کرنے کی کوشش کریں.بے شک یہ ایک خدائی تقدیر ہے جو بہر حال پوری ہو کر ہے گی.کیونکہ خدا تعالیٰ خود اس زمانہ کے مرسل و مامور سے فرماتا ہے کہ:.بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد مگر کیا ہی خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جن کے ہاتھ سے یہ بظا ہرنگوں شدہ جھنڈا دوبارہ اونچا ہو گا.و اخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین.مطبوعه الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۴۸ء)

Page 180

مضامین بشیر ۱۶۸ جمع صلوتین کے متعلق ایک ضروری مسئلہ کیا امام کی اتباع زیادہ ضروری ہے یا کہ نمازوں کی ترتیب سفر یا بارش وغیرہ کے موقع پر جبکہ عموماً نمازوں کے جمع کرنے کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے.کئی لوگوں کو ایک خاص قسم کی مشکل کا سامنا ہوتا ہے.جس کے متعلق مفتیوں کے فتویٰ میں اختلاف ہے.یہ صورت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب مثلاً امام ظہر اور عصر کی نماز جمع کراتے ہوئے عصر کی نماز پڑھا رہا ہوتا ہے.یا مغرب اور عشاء کی نما ز جمع کراتے ہوئے عشاء کی نماز پڑھا رہا ہوتا ہے اور ایک ایسا شخص آ کر نماز میں شامل ہوتا ہے.جس نے ابھی تک ظہر یا مغرب کی نما ز نہیں پڑھی ہوتی اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا شخص اپنی چھوڑی ہوئی نماز پہلے پڑھے.اور پھر امام کے ساتھ نماز با جماعت میں شامل ہو.یا کہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور اپنی چھوڑی ہوئی نماز بعد میں پڑھ لے.قدیم علماء میں تو اس مسئلہ کے متعلق اختلاف ہے ہی مگر جہاں تک سماعی فتوی کا تعلق ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کے فتوی میں بھی اختلاف سنا جاتا ہے.زبانی روایت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ یہ تھا کہ ایسی صورت میں شامل ہونے والے شخص کو چاہئے کہ ترتیب کے خیال کو چھوڑ کر امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور جو نما ز امام پڑھا رہا ہے وہ پہلے پڑھ لے اور پھر بعد میں اپنی چھوڑی ہوئی نما ز علیحدہ ادا کرے.اس کے مقابل پر ایک دوسری زبانی روایت حضرت خلیفہ اصیح اول رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہ بتاتی ہے کہ چونکہ نمازوں کی مقررہ ترتیب ضروری ہے.اس لئے ایسی صورت میں اس شخص کو چاہئے کہ پہلے علیحدہ طور پر اپنی چھوٹی ہوئی نماز پڑھے اور اس کے بعد امام کے ساتھ شامل ہو.اس تعلق میں میرا سب سے پہلا سوال تو احباب سے یہ ہے کہ اگر کسی دوست کو اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفہ اول کا کوئی یقینی اور قطعی فتوی معلوم ہو تو اس سے اطلاع دیں.تا کہ صحیح صورت کا علم ہو سکے کہ آیا جو تو کی زبانی روایت سے ظاہر ہوتا ہے وہی درست ہے یا کہ اصل صورت کچھ اور ہے.ہر چند کہ اس قسم کے فقہی مسائل کا اختلاف زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ مسائل اسلامی تعلیم کے اس حصہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

Page 181

۱۶۹ مضامین بشیر ہے کہ اختلاف امتی رحمة..یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے.مگر پھر بھی علمی تحقیق کی رو سے اصل فتویٰ کا پتہ لگا نا ضروری ہے.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ اصل مسئلہ سے تعلق رکھتی ہے.جہاں تک میں نے اس سوال کے متعلق سوچا ہے.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والا فتویٰ زیادہ صحیح پختہ اور اصول اسلام کے زیادہ مطابق نظر آتا ہے.اور میرے اس خیال کے دلائل یہ ہیں :.(۱) اسلام امام کی اتباع کے سوال کو اتنی اہمیت دیتا ہے اور اسے قومی اور انفرادی ترقی کے لئے ایسا ضروری قرار دیتا ہے کہ اس کے مقابل پر کسی دوسرے استدلالی مسئلہ کو جو امہات مسائل میں سے نہیں قطعا کوئی حیثیت حاصل نہیں.پس جہاں امام کی اتباع اور کسی دوسرے غیر اصولی یا جزوی مسئلہ کا ٹکراؤ پیدا ہو گا.وہاں لازماً امام کی اتباع کو مقدم کیا جائے گا.اور اس اصول کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والا فتو کی ہی صحیح قرار پاتا ہے.کیونکہ اس میں امام کی اتباع کے اصول کو نماز کی ظاہری اور وقتی ترتیب کے سوال پر مقدم رکھا گیا ہے.(۲) دوسری دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والے فتویٰ کے حق میں اس اصول سے نکلتی ہے کہ اگر اس بات کی اجازت دی جائے کہ امام تو مسجد میں نماز باجماعت پڑھا رہا ہے اور ایک دوسرا شخص پیچھے سے آ کر جماعت سے الگ ہوکر اپنی علیحدہ نماز شروع کر دیتا ہے.اور مسجد میں یہ نظارہ نظر آنے لگتا ہے کہ مثلاً امام تو جماعت کے ساتھ سجدہ میں ہے.مگر یہ شخص کھڑے ہو کر ہاتھ باند ھے.قیام کر رہا ہے تو یہ صورت ملت کے ظاہری اتحاد میں سخت رخنہ پیدا کرنے والی اور دل کی گہرائیوں میں کجی کا راستہ کھولنے والی ہو گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو اتحاد ظاہری کا اس قدر خیال تھا کہ آپ صفوں کی ذراسی بد نظمی کو بھی سخت نا پسند فرماتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ تم جب نماز با جماعت کے لئے کھڑے ہو تو صفوں کی درستی اور صحت کا خاص خیال رکھو.اور چاہیئے کہ تمہاری یک صورتی اور یک جہتی میں ذرا بھر بھی فرق نہ آوے.کیونکہ اگر تم نے اس کا خیال نہ کیا تو خدا تمہارے دلوں میں بھی پیدا کر دے گا اتحاد ظاہری اور باطنی کا ایسا دلدادہ نبی اس بات کی کس طرح اجازت دے سکتا ہے کہ ادھر تو امام نما ز کرا رہا ہے اور ادھر ایک شخص جماعت سے الگ ہوکر اپنی علیحدہ نماز پڑھ رہا ہے.بہر حال اس پہلو سے بھی یہی استدلال ہوتا ہے کہ صورت پیش آمدہ میں امام کی اتباع کا سوال نماز کی ظاہری ترتیب کے سوال پر مقدم ہے.(۳) تیسری دلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والے فتویٰ کے حق میں یہ ہے کہ جمع کی صورت کے علاوہ عام باجماعت نماز جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 182

مضامین بشیر ۱۷۰ کا یہ صاف اور واضح فتوی موجود ہے کہ اگر تم ایسے وقت میں جماعت میں شامل ہو کہ مثلاً امام دو رکعت نماز پڑھ کر تیسری رکعت میں داخل ہو چکا ہے.تو تم نماز میں شامل ہو جاؤ.اور پھر امام کی نماز کے بعد وہ حصہ نما ز کا پورا کر لو.جو تم سے رہ گیا ہے.چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ کہ صَلَّوْا مَا فَاتَكُم.....یعنی بعد میں اس حصہ کو پورا کر لو.جو تم سے رہ گیا ہے.اس حدیث کے الفاظ مَا فَاتَكُم سے صاف ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کی اتباع کو مقدم رکھ کر نماز کی ترتیب کو اس کے تابع کیا ہے.گویا جو شخص امام کے ساتھ تیسری رکعت میں شامل ہوگا.اس کی نماز یوں ہوگی کہ وہ پہلے تیسری اور چوتھی رکعت پڑھے گا اور پھر اس کے بعد پہلی اور دوسری رکعت ادا کرے گا.اب سوال یہ ہے کہ جب امام کی اتباع کی وجہ سے ایک نماز کے اندر کی ترتیب بدل سکتی ہے تو جمع کی صورت میں دو نمازوں کی باہمی ترتیب کیوں نہیں بدل سکتی.(۴) چوتھی دلیل میرے خیال کی تائید میں یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی وقت کی نماز پڑھنی بھول جائے.مثلاً ایک شخص ہے جو ظہر کی نماز پڑھنی بھول گیا ہے اور عصر کی نماز پڑھ چکنے کے بعد اسے ظہر کی بھولی ہوئی نما ز یاد آتی ہے تو اس کے متعلق متفقہ فتویٰ یہ ہے کہ وہ ترتیب کا خیال چھوڑ کر اپنی بھولی ہوئی ظہر کی نماز عصر کے بعد پڑھ لے، ورنہ اگر نمازوں کی ترتیب بہر حال مقدم ہوتی تو فتویٰ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس صورت میں ایسا شخص بھولی ہوئی ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد پھر دوبارہ عصر کی نماز کی تکرار کرے تا کہ ترتیب قائم رہے مگر ایسا حکم نہیں دیا گیا.ان سب دلائل سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والا فتویٰ ہی زیادہ صحیح اور اصول اسلام کے زیادہ مطابق ہے.مگر چونکہ بہر حال یہ ایک فقہی مسئلہ ہے جس میں جائز اختلاف کی گنجائش تسلیم کی گئی ہے.اس لئے اگر کوئی صاحب اس بارے میں کچھ فرمانا چاہتے ہیں تو مجھے براہ راست خط لکھ کر یا الفضل کے ذریعہ مطلع فرمائیں وَ جَزَاهُ اللهُ خَيْرًا.اس کے بعد انشاء اللہ یہ حوالے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر دئے جائیں گے.( مطوعه الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۴۸ء)

Page 183

احباب اپنی جائیدادوں کا نقصان فورار جسٹر کرائیں مضامین بشیر اس سے پہلے بھی کئی دفعہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ جن احمدی دوستوں کی جائیدادوں کا نقصان صوبہ مشرقی پنجاب یا صو بہ دہلی میں ہوا ہے.انہیں چاہئے کہ بہت جلد اپنے نقصان کی تفصیل درج کر کے اور پوری پوری قیمت لگا کر لاہور کے محکمہ متعلقہ میں رجسٹر کرا دیں مگر ابھی تک بہت کم دوستوں نے اس طرف توجہ کی ہے.لہذا یہ اعلان دوبارہ کیا جاتا ہے کہ اپنے نقصان کو جلد سے جلد رجسٹر کرا دیا جائے.گورنمنٹ کی طرف سے اس غرض کے لئے فار میں چھپی ہوئی ہیں.جو دفتر نظارت امور عامہ جو د ہامل بلڈنگ جو د ہامل روڈ لاہور سے بھی مل سکتی ہیں.لیکن اگر مجبوری کی صورت میں فارم نہ ملے تو بغیر فارم کے ہی ایک درخواست میں الگ الگ پیرے بنا کر اپنی ضائع شدہ جائیداد کی نوعیت اور مالیت درج کر دی جائے.جائیداد میں جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ ہر دو علیحدہ علیحدہ دکھانی چاہئیں.اور جائیداد منقولہ و زمینیں مکان اور دوکان وغیرہ کا جائے وقوع بھی درج کرنا چاہئے.قادیان سے آئے ہوئے دوست بھی اس طرف فوری توجہ دیں.محکمہ متعلقہ کا پتہ یہ ہے:.رجسٹرار آف کیم سٹمپل روڈ.لاہور.ریکارڈ کی غرض سے نظارت امور عامہ جو دھامل بلڈ نگ لاہور کو بھی درخواست کی نقل بھیجوا دی جائے.( مطبوعہ الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۴۸ء)

Page 184

مضامین بشیر ۱۷۲ اے ابناء فارس! اسلامی طریق لباس سے کیا مراد ہے؟ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض تازہ خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے نو جوانوں کو خصوصاً اور جماعت کے دوسرے نو جوانوں کو عموماً اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انہیں دنیا داری کے طریق کو ترک کر کے اپنے کاموں میں للہیت اور خدمت دین کا رنگ پیدا کرنا چاہئے.اسی تعلق میں حضور نے ضمنی طور پر لباس کا بھی ذکر فر مایا تھا کہ جماعت کے نو جوانوں کو چاہیئے کہ اپنے لباس میں سادگی اختیار کریں اور اسلامی طریق زندگی کے کاربند ہوں.اس پر بعض اصحاب نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ لباس کے معاملہ میں اسلامی طریق کیا ہے یعنی کس قسم کے لباس کو اسلامی لباس سمجھا جائے اور کس قسم کے لباس کو اسلامی لباس نہ سمجھا جائے.چونکہ ممکن ہے کہ یہی سوال بعض دوسرے نو جوانوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتا ہو، اس لئے میں اخبار کے ذریعہ مختصر طور پر اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں.تا کہ سوال کرنے والے نو جوانوں کے علا وہ دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں.وَرُبَّ مُبَلَّغِ أو على مِن سَامِعِ.سب سے پہلی بات تو یہ ہے جو اس قسم کے تمام مسائل میں گویا ایک بنیادی اصول کا رنگ رکھتی ہے کہ اسلام کسی خاص قوم یا خاص ملک یا خاص زمانہ کے لئے نہیں آیا.بلکہ دنیا کی ساری قوموں اور سارے ملکوں اور سارے زمانوں کے لئے آیا ہے.اس لئے اس قسم کے فروعی اور تمدنی امور میں اسلام کی طرف سے کوئی ایسی تفصیلی ہدایت نہیں دی گئی.اور نہ عقلاً دی جانی چاہئے تھی کہ تم اس قسم کا لباس پہنو اور اس قسم کا لباس نہ پہنو.لباس کا معاملہ ہر قوم کے تمدن اور ہر ملک کی جغرافیائی حالت اور ہر زمانہ کے اقتصادی ماحول کا نتیجہ ہوا کرتا ہے.پس یہ ناممکن تھا کہ وہ مذہب جو خدا کی طرف سے عالمگیر پیغام لے کر آیا ہے.اور ہر قوم اور ہر ملک اور ہر زمانہ کے واسطے شمع بر دار ہونے کا مدعی ہے.وہ اس قسم کی تفصیلات میں دخل دے کر لوگوں کے واسطے رحمت بننے کی بجائے نا واجب تنگی کا باعث بن جاتا.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف فرماتا ہے.لَا تَنتَلُوا عَنْ اشْيَاءَ إِنْ تُبْدَلَكُمْ تَسُؤْكُمْ یعنی اے مسلمانوں ایسی باتوں کے متعلق سوال مت کیا کرو کہ اگر ان کے متعلق ٹھوس شرعی احکام نازل کر

Page 185

۱۷۳ مضامین بشیر دیئے جائیں تو وہ تمہارے لئے ناواجب تنگی پیدا کر کے تکلیف کا موجب بن جائیں.پس شریعت نے کمال دانشمندی کے ساتھ ایک حصہ میں خود خاموشی اختیار کی ہے.اور اصول بتا دینے کے بعد تفاصیل کا فیصلہ مختلف قوموں اور مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں پر چھوڑ دیا ہے.چنانچہ حدیث میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ آتے ہیں.کہ اختلاف امتی رحمۃ.اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اسلامی شریعت کا تمام زمانوں اور تمام قوموں اور تمام ملکوں کے لئے نازل ہونا خدا کی عالمگیر رحمت کا ثبوت ہے.اور اس وسعت کے نتیجہ میں بعض باتوں میں جو تفاصیل سے تعلق رکھتی ہیں اختلاف کا پایا جانا ضروری ہے.پس یہ اختلاف بھی خدا کی رحمت کا ایک طبعی نتیجہ ہے.لہذا اسے محدود کر کے اور تفصیلی امور میں یک رنگی کا رستہ تلاش کر کے خدا کی رحمت کی وسعت کو باطل مت کرو.پس اوپر کے سوال کا اصل جواب تو یہ ہے کہ اسلام لباس کے معاملہ میں ایسا دخل نہیں دیتا کہ سب قوموں اور سب ملکوں کو مجبور کر کے ایک ہی لباس میں ملبوس دیکھنا چاہے.بلکہ اس نے لباس کے معاملہ کو لوگوں کے حالات پر چھوڑ دیا ہے.لہذا کوئی لباس بھی اسلامی لباس نہیں.اس معنی میں کہ اسلام نے کسی مخصوس لباس کا حکم نہیں دیا اور ہر لباس اسلامی لباس ہے.اس معنی میں کہ اگر کسی ملک کا شریف طبقہ اسلام پر قائم رہتے ہوئے اپنے طبعی حالات کے نتیجہ میں اپنے لئے کوئی لباس اختیار کرتا ہے تو وہی لباس اس کے لئے اسلامی لباس ہے لیکن جہاں اسلام نے اس قسم کے تفصیلی امور میں ہمیں آزاد رکھا ہے.وہاں اس نے ان تفصیلات کے دائرے میں بھی ہمیں بعض اصولی ہدایات دے کر ہمارے لئے سلامت روی کا رستہ کھول دیا ہے اور ہم تفاصیل میں اختلاف رکھتے ہوئے بھی اسلامی روح کے معاملہ میں ایک جان بن کر رہ سکتے ہیں.یہ اصولی ہدایات جہاں تک میں نے غور کیا ہے ذیل کی چار قسموں میں محدود ہیں.( اول ) سب سے پہلی بات اور حقیقی طور پر بنیادی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مشہور اور متواتر حدیث میں مرکوز ہے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ.یعنی اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے اس نہایت درجہ گہری اور ٹھوس صداقت کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ہاتھ میں نیک و بد عمل کو پہچاننے اور اچھے اور برے طریق میں امتیاز کرنے کی ایک بہترین کسوٹی دے دی ہے.پس جو شخص کسی لباس کو اختیار کرتا ہے.اس کا سب سے پہلا فرض یہ ہے اِنَّمَا الا عُمَالُ بِالنِّيَّاتِ کی کسوٹی کے ذریعہ اپنے اس عمل کا امتحان کرے.اگر اس کے عمل میں کسی قسم کے تکلف یا تصنع یا نقالی یا نمائش یا فضول خرچی یا اسلامی اصول زندگی سے انحراف کی خواہش نہیں ہے.تو چشم ما روشن دل ما شاد.وہ جس لباس کو بھی نیک نیتی سے اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہوئے اور

Page 186

مضامین بشیر ۱۷۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارک کو اصولی رنگ میں عمل پیرا ہوتے ہوئے طبعی سادگی کے طریق پر اختیار کرتا ہے.ہمیں اس سے کوئی جھگڑا نہیں.,, ( دوم ) دوسرا اصول جس میں کسی قدر زیادہ وضاحت سے کام لیا گیا ہے.قرآن شریف نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے.کہ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا یعنی آخری زمانے کے مادہ پرست لوگوں کی ایک علامت یہ ہے کہ ان کی زندگی کی ساری جد و جہد دنیا کے کاموں میں خرچ ہو رہی ہو گی.اور یوں نظر آئے گا کہ ان کی ساری توجہ دنیا کے دھندوں میں ہی غرق ہے.یہ اصولی ہدایت بھی لباس کے معاملے میں بڑی روشنی پہنچاتی ہے.ہر شخص اپنے نفس میں غور کر سکتا ہے کہ اس کا کسی لباس کو اختیار کرنا انہماک کی حد تک تو نہیں پہنچا ہوا کہ گویا اس کی ساری جد و جہد اور اس کی زندگی کا سارا شوق اسی قسم کی مادی آسائشوں میں الجھ کر رہ گیا ہے.مطلقا لباس کا سوال تو ایک طبعی سوال ہے.جس میں جسم کی حفاظت اور پردہ کے علاوہ کسی حد تک زینت کا پہلو بھی مقصود ہے لیکن جو شخص اس سوال میں گویا غرق ہو کر اسی کو اپنی توجہ کا مرکز بنالے وہ یقیناً اس آیت کی زد میں آتا ہے کہ ضَلَّ سَخيهم في الحيوةِ الدُّنْيَا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لباس پہنا اور آپ کے خلفاء نے بھی لباس پہنے اور ہمارے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لباس پہنا اور آپ کے خلفاء نے بھی لباس پہنے.اور ان سب نے اپنے لباس میں ایک حد تک آرام اور زینت کو بھی مد نظر رکھا مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کو لباس کے معاملہ میں کسی قسم کا انہماک تھا ان کی زندگی تو سرا سرا یسی تھی کہ جیسے کوئی را بگیر گھڑی بھر کے لئے کسی درخت کے سایہ کے نیچے کھڑا ہو جائے اور پھر اپنا رستہ لے لے مگر آج کل کے نوجوان اپنے لباس اور اپنے جسم کی زیب وزینت میں اس طرح غرق نظر آتے ہیں کہ گویا ان کے لئے یہی زندگی کا مقصود و منتہی ہے.پس گو اسلام لباس کی تفصیلات میں تو دخل نہیں دیتا.مگر وہ اس قسم کی فنا فی الدنیا ذ ہنیت کو بھی یقیناً ایک لعنتی زندگی قرار دیتا ہے.(سوم) تیسری اصولی ہدایت ہمیں قرآن شریف کے الفاظ سے ملتی ہے کہ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَفِينَ : یعنی اے رسول تو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ میرا طریق زندگی تکلف کے رنگ سے بالکل پاک ہے.پس لباس کے معاملہ میں تیسری ہدایت یہ کبھی جائے گی کہ اس میں کسی قسم کے تکلف کا رنگ نہ پیدا کیا جائے.تکلف کی زندگی انسان کی روح اور اس کے ضمیر کے لئے ایک ایسا زنگ ہے جو اسے بالآخر تباہ کر کے چھوڑتا ہے اور فطرت کے طبعی بہاؤ کو مصنوعی رستہ پر ڈال کر انسان کو اس حقیقی خوشی سے محروم کر دیتا ہے.جو خدا تعالیٰ نے سادگی کی زندگی میں ودیعت کی ہے.مگر افسوس ہے کہ آج کل دوسری قوموں کی نقالی میں مسلمانوں کی زندگی بھی تکلف کے زہر سے مسموم نظر آتی ہے.حالانکہ

Page 187

۱۷۵ مضامین بشیر.تکلف در اصل نفاق کا ایک حصہ ہے اور نفاق دوسرے لفظوں میں ایک ذلیل قسم کا جھوٹ ہے جسے کوئی شریف آدمی اختیار نہیں کر سکتا.پس میں کہوں گا کہ اپنے ملک اور قوم اور زمانہ کے حالات کے مطابق اور اپنی مالی حیثیت کے پیش نظر اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہوئے جس قسم کا لباس بھی چاہو اختیار کر مگر بہر حال اسے تکلف کی لعنت سے بچاؤ.کیونکہ یہ لعنت تمہارے فطری حسن کو تباہ کر کے رکھ دے گی.( چهارم ) چوتھی اصولی بات جو لباس کے معاملہ میں ہمیں اسلامی تعلیم سے معلوم ہوتی ہے.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پیارے الفاظ میں مرکوز ہے کہ مَن تَشَبَّهَ بِقَومٍ فَهُوَ منهم.یعنی جو شخص اپنے طریق زندگی اور اپنے لباس اور اپنے طرز بود و باش کو ترک کر کے کسی دوسری قوم کے طریق زندگی اور ان کے لباس اور ان کے بود و باش کو اختیار کرتا ہے ، وہ انہی میں سے ہے اور انہی میں سے سمجھا جانا چاہئے.کیونکہ جب وہ اپنے طریق کو ترک کر کے ایک دوسری قوم کے طریق کو اختیار کرتا ہے تو لازماً اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے طریق کو ادنی قرار دے کر دوسرے کے طریق کی فوقیت کو تسلیم کرتا ہے.پس اس بات میں کیا شبہ ہے کہ ایسا شخص خواہ زبان سے کچھ دعویٰ کرے.اس کا دل اس قوم کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مشابہت وہ اختیار کرتا ہے.دراصل یہ ایک بدترین قسم کی ذہنی غلامی ہے کہ انسان منہ سے تو یہ دعوی کرے کہ میں مسلمان ہوں مگر اپنے طریق زندگی اور اپنے لباس اور اپنے طرز بود و باش میں عیسائیوں کا نقال ہو.ایسا شخص یقینا اپنے زبانی دعوی کے باوجود مسیحیت کے بت کے سامنے سجدہ کرنے والا سمجھا جائے گا.کیونکہ وہ اپنے فعل سے اپنے تمدن کو ادنے اور مسیحیت کے تمدن کو اعلیٰ قرار دیتا ہے.مگر افسوس صد افسوس کہ آجکل کے مسلمانوں نے اس قسم کی ذہنی غلامی سے پیٹ بھر کر حصہ لیا ہے.ان کی آزادی کا دعوی ایک زبانی دعوی سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.کیونکہ ان کا دل غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے.یقیناً ایک ظاہری غلام جس کے ہاتھ پاؤں کی غلامی کے باوجود اس کا ضمیر آزاد ہے اس شخص کی نسبت بہت زیادہ حریت کے مقام پر قائم سمجھا جائے گا ، جس کے ہاتھ پاؤں تو بظا ہر آزاد ہیں مگر اس کا دل غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے.پس میں اپنے عزیزوں سے کہوں گا کہ کوئی لباس بھی اسلامی نہیں جس طرح کوئی لباس غیر اسلامی نہیں ، مگر جو شخص ذہنی غلامی میں مبتلا ہو کر کسی دوسری قوم کے ساتھ تشبیہ اختیار کرتا ہے.اس کا طریق خواہ وہ لباس سے تعلق رکھتا ہے یا کسی اور امر سے یقیناً غیر اسلامی ہے.ہمیں کوٹ پتلون سے دشمنی نہیں ہے مگر دجالی تہذیب کی نقالی سے ضرور دشمنی ہے اور اس اصول کے ماتحت ایسا شخص بھی اسی طرح زیر علامت ہے جو انگریز ہو کر ہندوستانیوں کی نقالی میں چوڑی دار پاجامہ پہنتا ہے جس طرح کہ ایک

Page 188

مضامین بشیر " د ہندوستانی انگریزوں کی نقالی میں کوٹ پتلون پہنتا ہے.کیونکہ گو ظاہری حالت مختلف ہے مگر دونوں صورتوں میں دل کا زہر ایک ہے.بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی تو فرماتے ہیں کہ كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤمِن اَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا....یعنی حکمت کی ہر بات مومن کی اپنی ہی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے.وہ ایسی بات کو جہاں بھی پاتا ہے لے لیتا ہے.“ اس سے یہ لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ دوسری قوموں اور دوسرے مذہبوں کی اچھی اچھی باتوں کو لے لے کر اپنا بناتے رہنا چاہئے.مگر اس حدیث کے یہ معنی بالکل غلط اور اسلام کی بلندشان کے منافی ہیں.کیونکہ اس معنی کو صحیح تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہے کہ گویا اس حدیث نے ہمارے ہاتھ میں ایک کا سہ گدائی دے دیا ہے کہ اس سے اسلام کے نام پر بھیک مانگتے پھرو اور اسلام کی تعلیم میں جو کمی رہ گئی ہے وہ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کر کے پوری کرتے جاؤ.ہرگز نہیں ہرگز نہیں.اسلام کے متعلق تو یہ از لی تقدیر جاری ہو چکی ہے کہ الإسلامُ يَعْدُو وَلَا يُعلى....یعنی اسلام دوسرے دینوں کے مقابلہ پر بلند ہونے کے لئے آیا ہے اور ہر گز مغلوب نہیں ہو گا.“ دراصل اس حدیث کے صحیح معنوں کی کنجی ضالة کے لفظ میں رکھی گئی ہے.جس کے معنی ہیں ”کھوئی ہوئی چیز “ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم کسی دوسری قوم کی کوئی بظاہر نئی اور اچھی بات دیکھ کر مرعوب نہ ہوا کرو اور یہ خیال نہ کیا کرو کہ تمہیں دنیا میں گویا ایک نئی خوبی اور نئی حکمت کی بات نظر آ گئی ہے.جسے اسلام میں داخل کر کے اپنا لینا چاہئے بلکہ اگر یہ چیز واقعی اچھی ہے تو تم یقین رکھو کہ وہ تمہاری ہی ضالہ ہے.یعنی وہ تمہاری ہی کھوئی ہوئی چیز ہے.جو موجو د تو تھی مگر تمہاری نظروں سے اوجھل تھی اور اگر تم اسلام کی تعلیم میں غور کرو گے تو تمہیں وہ یقیناً اسلام کے اندر ہی مل جائے گی.کیونکہ اسلام میں تمام سابقہ صداقتوں اور تمام آئندہ ضرورتوں کے علاج کو جمع کر دیا گیا ہے.پس افسوس ہے کہ ایک ایسی حدیث کو جس میں اسلام کا بے نظیر کمال ظاہر کرنا مقصود تھا.اسلام کو نعوذ باللہ گدا گر اور بھک منگا بنانے کے لئے استعمال کیا جار ہا ہے.بہر حال لباس کے بارے میں اسلام نے کوئی خاص تفصیلی ہدایت نہیں دی کہ فلاں لباس پہنو اور فلاں نہ پہنو.اور ایک عالمگیر مذہب کے لئے یہی حکمت کا طریق تھا کہ اس معاملے میں تفصیلی ہدایت سے اجتناب کیا جاتا.مگر اس قسم کے معاملات میں اس نے اصولی ہدائتیں ضرور دی ہیں.اور یہ ہدائتیں وہی ہیں جو میں نے اختصار کے ساتھ اوپر بیان کر دی ہیں.یعنی (۱) نیت نیک اور صاف ہو (۲) انہاک کا رنگ نہ پیدا کیا جائے (۳) تکلف کی آمیزش نہ ہو اور (۴) کسی دوسری قوم کی نقالی

Page 189

122 مضامین بشیر میں کوئی کام نہ کیا جائے اگر ان چار باتوں کو محوظ رکھو تو ہر لباس اسلامی لباس ہے اور اگر ان باتوں کو نظر انداز کر دو تو صرف کوٹ پتلون ہی کا سوال نہیں کوئی لباس بھی اسلامی لباس نہیں.حضرت صاحب کے خطبوں پر بعض نوجون شاید تلملاتے ہوں گے اور یہ سمجھتے ہوں گے کہ اسلام کو لباس کے معاملہ میں کیا تعلق ہے.میں کہتا ہوں اسلام کو واقعی لباس کے معاملہ سے تو کوئی تعلق نہیں مگر اسے مسلمانوں کی روح کی صفائی اور ضمیر کی آزادی اور کیریکٹر کی بلندی اور زندگی کی سادگی کے ساتھ ضرور تعلق ہے اور بہت بھاری تعلق ہے.لباس بے شک ایک فرع ہے مگر یہ چیزیں جڑ کا حکم رکھتی ہیں اور جو جڑ گندی ہوگی ، وہ ہے.فرع مگر یہ جو کام اور جوجو کبھی بھی اچھی شاخ پیدا نہیں کرے گی.مگر افسوس ہے کہ ہمارے خاندان کے بعض نوجوانوں میں بھی ماحول کے مادی اثر کے ماتحت مغرب کی دجالی تہذیب کا کسی قدر رنگ پیدا ہوتا نظر آتا ہے اور جب حضرت صاحب نے اپنے خطبہ میں لباس کا ذکر کیا تو اس میں بھی اسی تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا.اس قسم کی خرابیاں ابتداء میں بہت معمولی بلکہ کوتاہ بینوں کے نزدیک نا قابل التفات نظر آتی ہیں.مگر بعد میں آہستہ آہستہ خاندانوں اور قوموں کو تباہ کر کے چھوڑتی ہیں.بہر حال اس جد امجد کی نسل جسے قاتل دجال ہونے کا دعوی تھا اور جس کی اپنی نسل کے واسطے یہ دعا تھی کہ :- نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال اس کے گھر کے بعض نو نہالوں کے جسم پر دجالی تہذیب کا بپتسما خواہ وہ مرعوبیت کے رنگ میں نہ بھی ہو کوئی اچھی نشانی نہیں ہے.وقت بہت نازک ہے اور نازک تر آ رہا ہے میں اپنے بیٹوں.بھتیجوں.بھانجوں.دامادوں.ماموں زاد بھائیوں اور جملہ ابناء فارس سے کہتا ہوں کہ ہماری زندگی کا بہت سا وقت گزر گیا اور معلوم نہیں کتنا وقت باقی ہے ہم نے اس عرصہ میں ٹھوکریں بھی کھا ئیں.لغزشیں بھی دیکھیں اور نہ معلوم کن کن گناہوں کے داغوں سے ملوث ہوئے.مگر خدا جانتا ہے کہ نمائش کے طور پر نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک نام کی خاطر کم از کم اپنی زندگیوں کے ظاہر کو شریعت اسلامی کے مطابق رکھنے کی کوشش کی.اب آپ لوگوں کا دور آ رہا ہے.اس کے لئے میں آپ کو اس سے بہتر الفاظ میں کیا نصیحت کر سکتا ہوں کہ : - ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو ( مطبوعه الفضل ۳ / فروری ۱۹۴۸ء)

Page 190

مضامین بشیر ۱۷۸ ہمارا تعلیم الاسلام کالج آج مجھے اتفاقاً اپنے تعلیم الاسلام کالج آف قادیان حال لاہور کو چند منٹ کے لئے دیکھنے کا موقع ملا.ہمارا ڈگری کالج جو موجودہ فسادات سے قبل قادیان کی ایک وسیع اور عالیشان عمارت میں اپنے بھاری ساز و سامان کے ساتھ قائم تھا.وہ اب لاہور شہر سے کچھ فاصلے پر نہر کے کنارے ایک نہایت ہی چھوٹی اور حقیر سی عمارت میں چل رہا ہے.اس عمارت کا نچلا حصہ قریباً قریباً ایک اصطبل کا سا رنگ رکھتا ہے.اور اوپر کی منزل چند چھوٹے چھوٹے کمروں پر جو نہایت سادہ طور پر بنے ہوئے ہیں مشتمل ہے.عمارت کی قلت اور کمروں کی کمی کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی عمارت سے کالج اور بورڈنگ کا کام لیا جا رہا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ اس عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کے استعمال میں ہے.اور باقی کمروں میں بورڈ ررہائش رکھتے ہیں ان میں سے بعض چار پائیاں نہ ہونے کی وجہ سے فرش پر سوتے ہیں اور بڑی تنگی کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں.لیکن بائیں ہمہ میں نے سب بورڈروں کو ہشاش بشاش پا یا.جو اپنے موجودہ طریق زندگی پر ہر طرح تسلی یافتہ اور قانع تھے اور کالج میں پڑھتے ہوئے لاہور جیسے شہر میں جھونپڑوں کی زندگی میں خوش نظر آتے تھے.یہ اس اچھی روح کا ورثہ ہے جو خدا کے فضل سے احمدیت نے اپنے جوانوں میں پیدا کی ہے اور میں اس روح پر کالج کے طلباء اور کالج کے سٹاف کو قابل مبارک باد سمجھتا ہوں.مگر جس چیز نے میرے دل پر سب سے زیادہ اثر پیدا کیا وہ کالج کی کلاسوں کی حالت تھی.جیسا را وہ کہ میں اوپر بتا چکا ہوں موجودہ عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کی ضروریات کے لئے فارغ کیا جا سکا ہے.اس لئے باقی کلاسیں برآمدوں میں یا کھلے میدان میں درختوں کے نیچے بیٹھتی ہیں.لیکن خواہ وہ کمرہ میں بیٹھتی ہیں یا کہ برآمدہ میں اور خواہ کھلے میدان میں ، ان سب کا یہ حال ہے کہ چونکہ کوئی ڈیسک اور کوئی میز کرسی نہیں اس لئے پڑھانے والے اور پڑھنے والے ہر دو چٹائیاں بچھا کر زمین پر بیٹھتے ہیں.مجھے اس نظارہ کو دیکھ کر وہ زمانہ یاد آیا کہ جب دینی اور دنیوی ہر دو قسم کے علوم کا منبع مسجد میں ہوا کرتی تھیں.جہاں اسلام کے علماء اور حکماء فرش پر بیٹھ کر اپنے اردگر دیگھیرا ڈالے ہوئے طالب علموں کو درس دیا کرتے تھے.اور اس قسم کے درسوں کے نتیجہ میں بعض ایسے شاندار عالم پیدا ہوئے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود آج کی دنیا بھی ان کے علوم سے روشنی حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے.

Page 191

129 مضامین بشیر میں نے کالج کے بعض بچوں اور پروفیسروں کو بتایا کہ انہوں نے پرانے زمانہ کی یاد کو تازہ کیا ہے اور جس خوشی کے ساتھ انہوں نے حالات کی اس تبدیلی کو قبول کیا ہے وہ ان کے لئے اور ہم سب کے لئے باعث فخر ہے.میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ موجودہ حالت سے انہیں یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ حقیقی علم ظاہری ٹیپ ٹاپ اور ظاہری سازوسامان سے بے نیاز ہے اور جھونپڑوں کے اندر فرشوں پر بیٹھ کر بھی انسان اسی طرح علوم کے خزانوں کا مالک بن سکتا ہے.جس طرح شاندار ساز وسامان استعمال کرنے والے علم حاصل کرتے ہیں.بلکہ یہ صورت روح کی درستی کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے اور انسانی قلب کو علم کے مرکزی نقطہ پر زیادہ پختگی کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے.کیونکہ جب ماحول کی زیب وزینت نہیں ہو گی تو لازماً انسان کی آنکھیں اور انسان کے دل و دماغ علم کی طرف زیادہ متوجہ رہیں گے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ضروری ساز و سامان جو موجودہ علوم کے حصول کے لئے ضروری ہے اسے حاصل نہ کیا جائے.جو چیز حقیقتا ضروری ہے وہ علم کا حصہ ہے.اور ہم اس کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتے.اور موجودہ صورت میں بھی ہم اس کے لئے کوشاں ہیں.مگر ظاہری ٹیپ ٹاپ یا زیب و زینت کا سامان یا آرام و آسائش کے اسباب بہر حال زائد چیزیں ہیں جو علم کے رستہ میں ممد ہونے کی بجائے روک بنے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں.ہمارے آقا فداہ نفسی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.الْفَقْرُ فَخْرِی _ یعنی فقر میرے لئے فخر کا موجب ہے.اس سے بھی یہی مراد ہے کہ مجھے آسائش کے سامانوں کی ضرورت نہیں اور میری روح ان چیزوں کے تصور سے بے نیاز ہے.جو محض جسم کے آرام کا پہلو رکھتی ہیں.اور روح انسانی کی ترقی میں محمد نہیں ہوسکتیں.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اُطلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّينِ.یعنی علم کی تلاش کرو.خواہ اس کے لئے تمہیں چین کے ملک تک جانا پڑے.چونکہ اس زمانہ میں چین کا ملک ایک دور افتادہ ملک تھا.اور اس میں رستہ کی صعوبتوں کے علاوہ دنیوی آسائشوں کے بھی کوئی سامان موجود نہیں تھے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ الفاظ فرما کر یہ اشارہ کیا کہ حقیقی علم دنیوی آسائشوں اور ساز و سامان کے ماحول سے آزاد ہے.بہر حال میں بہت خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے یا کم از کم ان میں سے اکثر نے ماحول کی موجودہ تبدیلی میں اچھا نمونہ دکھایا ہے اور اگر وہ خلوص نیت کے ساتھ اس روح پر قائم رہیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ علم کے حصول کے علاوہ سادہ زندگی کی برکات سے بھی پوری طرح فائدہ اٹھانے والے ثابت ہوں گے.مطبوعہ الفضل ۱۱ مارچ ۱۹۴۸ء )

Page 192

مضامین بشیر ۱۸۰ ہمارے قیدی بھائی خیریت سے ہیں احباب اُن کی جلد واپسی کے لئے دعا فرمائیں جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے.اس وقت ہمارے بہت سے دوست قادیان اور اس کے ماحول جب کے رہنے والے جالندھر جیل میں قید ہیں.اس سے پہلے وہ گورداسپور جیل میں تھے.لیکن قیدیوں کے تبادلہ کی تجویز ہوئی تو تبادلہ کی سہولت کی غرض سے انہیں جالندھر جیل کی طرف منتقل کر دیا گیا.جہاں انہیں خدا کے فضل سے گورداسپور کی نسبت زیادہ آرام ہے.ان دوستوں میں مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال.ایم.ایل.اے اور مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور میجر چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ اور مولوی احمد خان صاحب نسیم اور مولوی عبد العزیز صاحب آف بھامبڑی اور ڈاکٹر سلطان علی صاحب آف ماڑی سیچیاں اور چوہدری علی اکبر صاحب اور بہت سے دوسرے دوست اور عزیز شامل ہیں اور خدا کے فضل سے ڈاک کے ذریعے اُن کی خیریت کی خبر آتی رہتی ہے.مگر معلوم ہوا ہے کہ بعض دوستوں کی صحت بہت گری ہوئی ہے اور قید خانہ کی زندگی نے ان کی جسمانی حالت پر کافی خراب اثر ڈالا ہے.احباب ان سب دوستوں کی خیریت اور ان کی جلد واپسی کے لئے خصوصیت سے دعا کرتے رہیں.کیونکہ یہ وہ دوست ہیں ، جنہوں نے گزشتہ فسادات کے صدمہ سے دو ہرا حصہ پایا ہے.اللہ تعالیٰ ان کا اور ان کے اہل وعیال کا حافظ و ناصر ہو.قیدیوں کے تبادلہ کا سوال دونوں حکومتوں کے زیر غور ہے اور امید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ جلد تبادلہ کا فیصلہ ہو جائے گا.ہم بھی اس بارہ میں حکومت کے ساتھ خط و کتابت کر رہے ہیں.یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ جیل خانہ کی دیواروں کے اندر بھی ہمارے دوستوں کی طرف سے مذہبی تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رہتا ہے.اور حضرت یوسف علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے ہمارے دوست پر امن طریق پر تبلیغ حق کا مقدس فریضہ بجا لاتے رہتے ہیں.فجز اھم اللہ احسن الجزاء :- ان کے علاوہ ہمارے بعض دوست دوسرے جیل خانوں میں بھی ہیں.مثلا مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ جیل میں محبوس ہیں.ان دوستوں کے لئے بھی دعا فرمائی جائے.( مطبوعه الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۴۸ء)

Page 193

۱۸۱ کیا ابلیس کا مغویا نہ وجو د نظام رُوحانی کا حصہ ہے یا کہ ایک محض بعد کا حادثہ؟ علماء سلسلہ کو تحقیق کی دعوت مضامین بشیر میری عادت ہے کہ بعض خاص خاص مسائل پر سلسلہ کے علماء کو تحقیق کی دعوت دیتا رہتا ہوں.یہ مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں میرے خیال میں عام لوگوں میں ایک غلط نظریہ قائم ہو چکا ہوتا ہے.یا کم از کم ان کے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ اس سے قبل میں مختلف اوقات میں مسئلہ رحم اور ایسے پوتے کے ورثہ کے متعلق جس کا باپ اس کے دادے کی زندگی میں فوت ہو چکا ہو.اور جمع بین الصلاتین کی صورت میں نماز کی ترتیب وغیرہ کے مسائل پر الفضل میں مختصر نوٹ شائع کرا کے علماء کرام کو تحقیق کی دعوت دے چکا ہوں.اور اس قسم کی دعوت میں میری غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک تو مسئلہ زیر بحث صاف ہو جائے اور دوسرے ہمارے علماء میں تحقیق اجتہاد کا مادہ ترقی کرے.اور وہ محض مقلد بن کر نہ بیٹھے رہیں.اس وقت جس مسئلہ کی طرف میں اپنے اس مختصر مضمون میں توجہ دلانا چاہتا ہوں.وہ ابلیس کے وجود سے تعلق رکھتا ہے.یہ تو اکثر دوست جانتے ہیں اور کم از کم ہمارے سلسلہ کے لٹریچر میں یہ بات کافی واضح طور پر شائع اور متعارف ہے کہ ابلیس اور شیطان ایک دوسرے سے جدا گانہ مفہوم رکھتے ہیں.یعنی شیطان کا لفظ اپنے مفہوم میں بہت وسیع ہے.اور ہر گمراہ کرنے والی ہستی یا ضرر رساں وجود یا تکلیف پہنچانے والی چیز پر بولا جاتا ہے ، وہاں ابلیس کا لفظ ایک خاص معین ہستی کے لئے مخصوص ہے.جو خدا کی پیدا کی کی ہوئی مخفی ہستیوں میں سے ایک ہستی ہے یعنی وہی جس کا ذکر حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر کے ساتھ شامل کر کے قرآن شریف میں بیان ہوا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ گو خود ابلیس بھی ایک شیطان ہے بلکہ وہ دوسرے شیطانوں کا سردار اور سرغنہ ہے مگر ہر شیطان ابلیس نہیں ہے.گویا منطق کی اصطلاح میں ان دونوں ناموں میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے یعنی یہ کہ ابلیس ضرور شیطان ہے مگر ہر شیطان ابلیس نہیں ہے.

Page 194

مضامین بشیر ۱۸۲ مگر اس جگہ جس مسئلہ کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور اپنے سلسلہ کے علماء کو اس بارہ میں تحقیق کی دعوت دیتا ہوں وہ مخصوص طور پر ابلیس سے تعلق رکھتا ہے.اور وہ یہ کہ کیا خدا تعالی نے ابلیس کو اسی غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا پھرے اور ان کے لئے دنیا میں ابتلاؤں کا سامان مہیار کھے؟ یا یہ کہ وہ اس غرض کے لئے پیدا نہیں کیا گیا.بلکہ بعد میں خود گمراہی اختیار کر کے ایک مغوی وجود بن گیا ہے.عام عقیدہ یہ ہے جو بظاہر بعض بڑے بڑے بزرگوں اور محققوں کی طرف منسوب ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں ایک مختار ہستی کے طور پر پیدا کیا اور اس کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو ہدایت اور نیکی کا رستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی اور گمراہی کے رستہ پر پڑ جائے تو انسان کے اس فطری اختیار کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ نے یہ نظام بھی دنیا میں قائم کیا کہ ایک طرف فرشتوں کا وجود پیدا کر دیا جو لوگوں کو ہدایت کی طرف کھینچنے والے ہیں اور ان کے دلوں میں نیکی کی تحریک کرتے رہتے ہیں.اور دوسری طرف اس نے ابلیس اور اس کے جنو د کو مغویانہ طاقتوں کے ساتھ پیدا کر کے لوگوں کے لئے ابتلاؤں کا سامان بھی مہیا کر دیا تا کہ ایک طرف نیکی کی کشش موجودر ہے اور دوسری طرف بدی کی کشش بھی سامنے رہے.اور ان دونوں متضاد قسم کی کششوں کے اندر انسان خود اپنے اختیار سے نیکی اور بدی کا فیصلہ کر کے اپنا رستہ بنائے.تا کہ اگر وہ نیکی کا رستہ اختیار کرے تو خدا کے انعاموں کا مستحق ہو.اور اگر بدی کے رستہ پر پڑ جائے تو سزا کا مستو جب ٹھہرے.یہ وہ نظریہ ہے جو عام طور پر ابلیس کے متعلق پایا جاتا ہے اور اسلام کے بعض بڑے بڑے بزرگ اس نظریہ کے قائل رہے ہیں اور اسے تقدیر خیر وشر کے نظام کا ایک ضروری حصہ سمجھتے رہے ہیں.اور بظاہر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک معقول نظریہ ہے ، جس کے بغیر انسان کا مختار ہونا باطل ہو جاتا ہے.مگر مجھے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ایک عرصہ سے میرے دل میں اس بظا ہر معروف نظریہ کے متعلق شبہات پیدا ہور ہے تھے.اور خصوصا جن ایام میں ترجمہ و تفسیر قرآن کریم انگریزی کے صیغہ میں کام کرتا تھا تو مجھے بعض قرآنی آیات کے مطالعہ نے بڑے زور کے ساتھ اس خیال کی طرف مائل کیا که غالباً یہ نظریہ درست نہیں ہے.لیکن چونکہ اس قسم کے اہم مسائل میں معروف عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھنا یا اس کا اظہار کرنا سلامت روی کے خلاف ہے اور فتنہ کا موجب ہو سکتا ہے.اس لئے میں نے اپنے اس خیال کو کبھی ظاہر نہیں کیا.حتی کی تفسیر نویسی کے وقت بھی میں نے اس مضمون پر ایک لمبا نوٹ لکھ کر اسے بعد میں پھاڑ دیا اور اس بات کا انتظار کیا کہ اس بارہ میں مزید غور کر کے اور علماء سلسلہ سے مشورہ کر کے پھر یہ مسئلہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش

Page 195

۱۸۳ مضامین بشیر کیا جائے گا.چنانچہ میرا یہ مختصر نوٹ اسی غرض سے ہے کہ تا میں اس سوال کو سلسلہ کے علماء کے سامنے لے آؤں اور پھر ان کی تحقیق اور اظہار رائے کے بعد اسے حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا جائے.جو خیال میں نے اوپر ظاہر کیا ہے.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابلیس کا مغویا نہ وجود بذات خود مقصود نہیں ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا نہیں کیا کہ وہ دُنیا میں لوگوں کی گمراہی کا سامان مہیا کرے بلکہ اس نے خود گمراہی اور بغاوت کے رستہ پر پڑ کر یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے.گویا میری موجودہ تحقیق میں ابلیس کا مغوی ہونا نظام روحانی اور تقدیر خیر وشر کا ایک حصہ نہیں ہے.بلکہ ایک بعد کا حادثہ ہے.جسے انگریزی محاورہ میں accident کہتے ہیں اور مختصر طور پر میرے اس خیال کے بعض دلائل یہ ہیں :- (۱) اگر ابلیس کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ اس کے پیدا کرنے کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے تو پھر میری ناقص رائے میں اس سے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ اور ارفع صفات یعنی اسماء حسنیٰ پر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ گویا اس نے خود لوگوں کی گمراہی کا سامان پیدا کیا.انسان کو اپنی ذات میں صاحب اختیار بنانا کہ وہ چاہے تو نیکی کا رستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کا رستہ اختیار کر لے، ایک بالکل اور بات ہے.لیکن ایک خارجی ہستی کو خالصہ مغویا نہ حیثیت میں اس غرض وغایت کے ساتھ پیدا کرنا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے بالکل اور چیز ہے.اور کم از کم میری طبیعت اس بات پر تسلی نہیں پاتی کہ خدا جیسی رحیم اور کریم اور شفیق ہستی کی طرف اس خیال کو منسوب کیا جائے کہ اس نے ایک وجود محض اس غرض سے پیدا کیا کہ وہ اس کی مخلوق کو گمراہ کرتا پھرے.پس قطع نظر اور دلیلوں کے خدا کی اعلیٰ اور ارفع صفات کی شان ہی اس خیال کو رد کرتی ہے کہ ابلیس کے مغویا نہ وجود کو اپنی ذات میں مقصود سمجھا جائے.بے شک انسانوں میں بھی بڑے بڑے مغوی لوگ گزرے ہیں.جس طرح کہ مثلا حضرت ابرا ہیم کے زمانہ میں فرعون وہا مان تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو جہل وغیرہ تھے.مگر یہ سب لوگ اپنی مغویا نہ حیثیت میں ایک حادثہ یعنی (accident) تھے نہ کہ اسی حیثیت میں بذات خود مقصود.تو کیوں نہ ابلیس کو بھی اسی رنگ کا ایک مغویا نہ وجود خیال کیا جائے البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ یہ لوگ انسان تھے.اور اپنی محدود عمر میں پا کر فنا ہو گئے.مگر ابلیس ایک مخفی قسم کا غیر انسانی وجو د تھا.جس نے اپنی نوع کے مطابق لمبی مہلت پائی.بہر حال میرے ذوق کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات کا مطالعہ ہی اس خیال کو رد کرتا ہے کہ گویا خدا نے ابلیس کو اس غرض و غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرتا پھرے.ہادی اعظم بلکہ ہدایت مجسم کا وجود گمراہی کی

Page 196

مضامین بشیر ۱۸۴ مشینری کا خالق نہیں ہو سکتا.یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں جتنے کہ آگ اور پانی ایک دوسرے سے دور ہیں.(۲) دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ یعنی اور میں نے جن وانس کو صرف اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں اور میرے عبد بن کر رہیں، گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام جن وانس کی پیدائش کی غرض و غایت واضح اور غیر مشکوک الفاظ میں عبودیت اور صرف عبودیت بیان کی ہے اور دوسری طرف قرآن شریف ہی ابلیس کے متعلق یہ فرماتا ہے.کہ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبه یعنی ابلیس جنوں میں سے خدا کی ایک مخلوق ہستی ہے جس نے خود خدا کی نافرمانی کر کے فسق کا طریق اختیار کیا.اب دیکھو کہ یہ کتنی واضح بات ہے کہ ایک طرف تو قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ خُدا نے ہر جن وانس کو محض عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے اور دوسری طرف قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ ابلیس بھی خدا کے پیدا کئے ہوئے جنوں (یعنی مخفی مخلوق ) میں سے ایک جن ہے.جس نے خود فسق کا طریق اختیار کر کے خدا کے حکم سے روگردانی کی.تو ان دونوں آیتوں کے ہوتے ہوئے اس بات میں کیا شبہ رہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابلیس کو مغویا نہ غرض و غایت کے ماتحت پیدا نہیں پیدا کیا بلکہ اس کا مغوی بننا خود اس کے اپنے فسق کا نتیجہ ہے اور دراصل غور سے دیکھا جائے تو یہ دلیل دو دلیلوں کا مجموعہ ہے اول یہ کہ جب ابلیس جنوں میں سے ایک جن ہے اور خدا فرماتا ہے کہ میں نے جوں کو بھی عبادت یعنی فرمانبرداری کے لئے پیدا کیا ہے تو پھر لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ ابلیس بھی دراصل فرما نبرداری کے لئے پیدا کیا گیا تھا نہ کہ مغوی بننے کے لئے.دوم یہ کہ ابلیس کے متعلق خدا یہ الفاظ فرماتا ہے کہ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ " یعنی اس نے بعد میں خود فسق کا رستہ اختیار کر کے خدا کی حکم عدولی کی.اُوپر کی دونوں آیتوں سے یہ دونوں دلیلیں ایسے واضح طور پر مستنبط ہوتی ہیں کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی.واللہ اعلم.یہ سوال کہ جن سے کیا مراد ہے ایک جدا گانہ بحث ہے جس کے متعلق اس جگہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.(۳) تیسری دلیل مجھے اپنے نظریہ کی تائید میں یہ نظر آتی ہے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ حضرت آدم والے واقعہ کے تعلق میں ابلیس کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ یعنی اے ابلیس تجھے کس چیز نے اس بات سے روکا کہ تو آدم کے سامنے سجدہ کرے ( یعنی آدم کی تائید میں اپنی طاقتوں کو لگائے ) جبکہ میں نے خود تجھے اس کا حکم دیا تھا.اس سے ظاہر ہے کہ خدا نے خود ابلیس کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا.اب سوال یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے

Page 197

۱۸۵ مضامین بشیر ابلیس کو پیدا ہی اس غرض و غایت سے کیا تھا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا پھرے اور ان کے لئے ابتلاؤں کا سامان مہیا کرے تو پھر اسے آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دینے کے کیا معنی؟ خدا جیسی حکیم ہستی کسی وجود کو وہ حکم نہیں دے سکتی جو اس کی پیدائش کی غرض وغایت کے خلاف ہے.مگر قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا گیا جس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ ابلیس کی پیدائش کی غرض و غایت یہ نہیں تھی کہ وہ لوگوں کے لئے گمراہی کے سامان مہیا کرے ورنہ اُسے ہرگز ایسا حکم نہ دیا جاتا.(۴) چوتھی دلیل جو مجھے اس مسئلہ میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقِّ أَقُولُ : لَا مَلَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ یعنی قرآن فرماتا ہے کہ جب ابلیس نے سجدہ کے حکم سے انکار کیا ( جیسا کہ ہر زمانہ میں ابلیس صفت لوگ خدا کے رسولوں کے سامنے جھکنے سے انکار کیا کرتے ہیں) اور غرور کے رنگ میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ اب میں بھی تیرے بندوں کو گمراہ کرنے میں کمی نہیں کروں گا تو خدا تعالیٰ نے اسے فرمایا." تو پھر میری بھی ایک صاف صاف بات سُن لے کہ اس صورت میں میں تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والی ہستیوں کو جہنم کی آگ میں بھروں گا.“.ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ ابلیس کا مغوی ہونا اس کی پیدائش کی غرض اور اُس کی فطرت کا حصہ نہیں.بلکہ بعد کا اختیار کیا ہوا طریق ہے ورنہ اسے جہنم کی سزا نہ دی جاتی.ظاہر ہے کہ جب ایک ہستی کو پیدا ہی اس غرض سے کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتی پھرے تو پھر اس کا یہ کام سزا کا مستوجب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو اپنی پیدائش کی اس غرض و غایت کو پورا کر رہی ہے جو خود خدا نے اس کے لئے مقدر کی ہے تو اس صورت میں سزا کے کیا معنی؟ بے شک اگر کسی چیز کو اس رنگ میں آگ کے اندر ڈالا جائے کہ وہ فطری طور پر آگ کا ایندھن ہے جیسا کہ کوئلہ یا لکڑی وغیرہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے تو یہ اور بات ہے مگر ایک ہستی کو سزا کے طریق پر آگ میں ڈالنا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اس نے خود اختیاری کے طریق پر جرم کا ارتکاب کیا ہو.اس کے علاوہ میرے ذہن میں بعض اور متفرق دلائل بھی ہیں مگر میں اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف انہیں چار دلیلوں پر اکتفا کرتا ہوں اور اپنے معزز علماء سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس بارہ میں مزید تحقیق کر کے اپنا خیال ظاہر فرما ئیں تا کہ ہم ایک آخری نتیجہ پر پہنچنے کے لئے اس مسئلہ کو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش کر سکیں.خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک محض علمی اور فلسفیانہ مسئلہ ہے.جس میں ہمیں بلا وجہ پڑنے کی ضرورت نہیں مگر حق یہ ہے کہ یہ ایک محض فلسفیانہ بحث نہیں ہے بلکہ ہماری زندگیوں اور ہمارے اعمال پر عملاً اثر ڈالنے والی چیز ہے

Page 198

مضامین بشیر ۱۸۶ ابھی چند دن ہی کی بات ہے کہ مجھے ایک نوجوان کے متعلق یہ رپورٹ پہنچی کہ اُس نے ایک مجلس میں اس قسم کی بات کہی کہ خدا نے بے شک فرشتے بھی پیدا کئے جو کہا جاتا ہے کہ ہمیں نیکیوں کی تحریک کرتے ہیں.اور اس نے ہماری ہدایت کے لئے رسول بھی بھیجے اور اس نے شریعت بھی نازل کی مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو ہے کہ اس نے ہمیں بہکانے اور گمراہ کرنے کے لئے ابلیس کا وجود بھی ہمارے ساتھ لگا رکھا ہے اور اس نوجوان نے یہ بات کہہ کر پھر اس خیال کا اضافہ کیا کہ اس کی مثال تو یوں ہے کہ ہمارا کوئی بزرگ ہماری بہتری کے لئے ہمیں کوئی نصیحت کرے اور پھر ہمارے پیچھے پیچھے ایک ایسا آدمی بھی اس انگیخت کے ساتھ بھجوا دے کہ تم اس کے پاس جا کر اسے میری نصیحت کے ماننے سے روکو اور کوشش کرو کہ وہ میرا حکم ٹال دے.یہ خیال اگر نو جوانوں میں پیدا ہونے لگے تو ظاہر ہے کہ ان کا خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق اور پھر اپنے اعمال کے متعلق کیا نظریہ ہو سکتا ہے.پس یہ ایک محض فلسفیانہ بحث نہیں بلکہ ہمارے اعمال پر براہ راست اثر ڈالنے والی چیز ہے.بالآخر میں یہ بات بھی ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں سب سے بڑی روک میرے رستہ...میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ نہایت درجہ دلکش اور لطیف مضمون رہا ہے.جو حضور نے غالباً آئینہ کمالات اسلام میں درج فرمایا ہے.جس میں حضور نے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی حکیمانہ قدرت کے ماتحت انسان کے لئے دنیا میں ایک لمہ خیر پیدا کیا ہے اور ایک لمہ شر اور ان دونوں بالمقابل طاقتوں کے سامنے رہتے ہوئے ہی انسان نیکی کا رستہ اختیا ر کر کے خدا کے انعامات کا وارث بن سکتا ہے.اس وقت حضور کا یہ مضمون میرے سامنے نہیں ہے مگر بہر حال حضور نے غالبا آئینہ کمالات اسلام میں لمہ خیر اور لمہ شرکی مفصل بحث درج کی ہے.اور یہ بحث مجھے ایک عرصہ تک اس مسئلہ میں مذبذب رکھتی رہی.لیکن بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ کلمہ خیر ( یعنی نیکی کی مس یا نیکی کی کشش ) اور لمہ شر ( یعنی بدی کی مس یا بدی کی کشش ) سے انسان کا نیکی اور بدی کے معاملہ میں صاحب اختیار ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے یعنی چونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کا رستہ اختیار کرنے کے معاملہ میں مختار بنایا ہے یعنی چاہے تو وہ نیکی کا رستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کا.سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک انسان کا صاحب اختیار ہونا ہی اس کے لئے لمہ خیر اور لمہ شر ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ مضمون اس وقت میرے سامنے نہیں ہے.علماء کرام کو چاہئے کہ اُسے بھی ضرور دیکھ لیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا واقعی یہی منشاء ہے کہ لمہ شر سے ابلیس مراد ہے اور یہ کہ ابلیس اسی غرض وغایت کے ماتحت پیدا کیا گیا تھا کہ انسانوں کے لئے ابتلاؤں کے سامان مہیا کرے تو پھر جو کچھ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے بہر حال وہی درست اور ٹھیک ہے اور ہمارے دلائل اور استدلالات کا طومار حضور کے ایک قول کے سامنے اُسی طرح بیچ ہے جس طرح ایک

Page 199

۱۸۷ مضامین بشیر زندہ ہستی کے مقابل پر ایک مردہ کیڑا بیچ ہوا کرتا ہے کیونکہ ہماری دلیلیں محض خیال آرائیاں ہیں مگر حضور خدا کے رستہ کے سالک ہیں اور سالک بے خبر نہ بود ز راه و رسم منزلها ( مطبوعه الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ء)

Page 200

مضامین بشیر ۱۸۸ ہمارے قیدی دوستوں کا تبادلہ جیسا کہ احباب کو علم ہو چکا ہو گا.حکومت پاکستان اور حکومت ہندوستان کے درمیان مسلم اور غیر مسلم قیدیوں کے با ہم تبادلہ کا فیصلہ ہو گیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ یہ تبادلہ ۵ اپریل ۱۹۴۸ء سے عملاً شروع ہو جائے گا.اور غالباً آہستہ آہستہ تین چار ہفتہ تک جاری رہے گا.ہمارے بہت سے دوست اس وقت جالند ہر جیل میں ہیں.جو مجوزہ تبادلہ کے پیش نظر گورداسپور سے جالند ہر پہنچائے گئے ہیں.ان میں اخویم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مکرمی چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور میجر چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ اور کئی دوسرے دوست شامل ہیں.اور بعض دوست لدھیانہ یا دوسرے جیل خانوں میں بھی محصور ہیں.یہ سب دوست جماعت کو اپنی طرف سے سلام پہنچا کر دعا کی درخواست کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور انہیں جلد تر خیریت کے ساتھ واپس لے آئے اور وہ واپسی کے بعد مزید توقف اور تکلیف کے بغیر رہائی پا جائیں.ان کے ساتھ بعض نو مبائعین بھی ہیں.جنہیں خدا تعالیٰ نے جیل کی چار دیواری میں بیعت کی توفیق عطا کی ہے اور بعض بیمار ہیں.ان سب کے واسطے دوست دعا کر کے عنداللہ ماجور ہوں.( مطبوعه الفضل ۳ را پریل ۱۹۴۸ء)

Page 201

۱۸۹ مضامین بشیر اسلامی پردہ کے متعلق مضمون آج کل پردہ کے سوال کے متعلق پاکستان کے اخباروں میں بہت چرچا ہے اور مختلف قسم کے خیالات ظاہر کئے جا رہے ہیں.بعض دوستوں کی تحریک پر میرا بھی ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس سوال کے متعلق ایک مضمون لکھ کر پردہ کے بارہ میں اسلامی تعلیم پر روشنی ڈالوں.سو اگر کسی دوست کو پردہ کے سوال کے متعلق کوئی خاص بات کھٹکتی ہو یا کوئی پہلو خصوصیت سے قابل وضاحت نظر آتا ہو تو مجھے مطلع فرمائیں تا کہ میں اپنے مضمون میں اسے مدنظر رکھ سکوں.و بالله التوفيق و هو المستعان ( مطبوعہ الفضل ۷ را سیریل ۱۹۴۸ء)

Page 202

مضامین بشیر ۱۹۰ جالندھر کے قیدیوں کی متوقع آمد احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر دو حکومتوں کے فیصلہ کے مطابق ۱٫۵ پریل سے قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو گیا ہے.جالند ہر جیل کے قیدیوں کے متعلق امید کی جاتی ہے کہ وہ انشاء اللہ مورخہ ۱۰.اپریل کو لاہور لائے جائیں گے.احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کو خیریت کے ساتھ لائے اور ان کا آنا جماعت کے لئے اور خود ان کے لئے اور ان کے اہل و عیال کے لئے با برکت ہو.فی الحال یہ قیدی لاہور کے جیل خانہ میں رکھے جائیں گے.اور پھر ان کی مسلوں کے معائنہ کے بعد رہائی کا فیصلہ کیا جائے گا.مگر اُمید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ ملنے ملانے میں روک نہیں ہوگی.( مطبوعہ الفضل ۷ راپریل ۱۹۴۸ء)

Page 203

١٩١ مضامین بشیر ابلیس والے مضمون کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ چند دن ہوئے میں نے ابلیس کے وجود کے متعلق ایک نوٹ الفضل میں شائع کرا کے سلسلہ کے علماء کو دعوت دی تھی کہ وہ اس کے متعلق روشنی ڈالیں.میرے اس مضمون کے متعلق بعض دوستوں کو غلط فہمی پیدا ہورہی ہے اور وہ اس قسم کے سوالوں میں پڑ گئے ہیں کہ ابلیس کی نوع کیا تھی اور اس کے جن ہونے سے کیا مراد ہے اور اس کو کس غرض کے ماتحت مہلت دی گئی اور کتنی لمبی مہلت دی گئی اور اس کے گمراہ کرنے کا طریق کیا ہے وغیرہ وغیرہ.میں دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے تمام سوالات خواہ وہ اپنی ذات میں کیسے ہی دلچسپ اور اہم ہوں ، میرے موجودہ مضمون کے لحاظ سے لاتعلق ہیں.کیونکہ میرا موجودہ مضمون صرف اس مرکزی نقطہ سے تعلق رکھتا ہے کہ آیا ابلیس کو خدا تعالیٰ نے اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کر کے ان کے لئے ابتلاؤں کا سامان پیدا کرے یا کہ وہ بعد میں خود فسق اختیار کر کے مغوی بن گیا.میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست میری اس دعوت کے جواب میں اپنے آپ کو صرف اس مرکزی نقطہ تک محدود رکھیں گے، سوائے اس کے کہ کسی ضمنی پہلو پر روشنی ڈالنے کے لئے کسی دوسرے سوال میں جانا پڑے ورنہ خلط بحث سے اصل سوال تشنہ تحقیق رہ جائے گا.( مطبوعه الفضل ۸ / اپریل ۱۹۴۸ء)

Page 204

مضامین بشیر ۱۹۲ جیل سے رہا ہو کر آنے والے دوستوں کے نام اہل قادیان کا پیغام قادیان سے بذریعہ فون امیر جماعت قادیان نے اُن دوستوں کی خدمت میں قادیان کے درویشوں کی طرف سے محبت بھرا سلام کہلا کر بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ قادیان کے جملہ احمدی درولیش ان سب احمدی بھائیوں کے لئے جو گزشتہ ایام میں قید تھے ، خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرتے رہے ہیں.اور اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم کے ساتھ انہیں رہائی عطا کی ہے.قادیان کے دوستوں کی درخواست ہے کہ اب رہا ہونے والے دوست اپنے مقدس مرکز کی رہائی کے لئے خصوصیت سے دُعا کریں.کیونکہ حقیقتا اس وقت ہمارا مرکز بھی ایک گویا قید میں مبتلا ہے اور گو خدا کے وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے یقین ہے کہ اس کی رہائی کے دن ضرور آئیں گے لیکن مخلص احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی دعاؤں کے ساتھ اس رہائی کے قریب تر لانے کی کوشش کریں.ولا حول ولا قوة الا بالله العظيم - ( مطبوعه الفضل ۲۱ ر ا پریل ۱۹۴۸ء)

Page 205

۱۹۳ مضامین بشیر حافظ نورالہی صاحب در ویش قادیان کی تشویشناک علالت احباب سے دعا کی درخواست قادیان میں ایک صاحب حافظ نورالہی صاحب خاص بہاولپور سے زیارت اور خدمت مرکز کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں.یہ صاحب کچھ عرصہ سے بیمار ہیں اور آج فون پر اطلاع ملی ہے کہ اب ان کی حالت زیادہ تشویشناک ہے.چونکہ قادیان کے دوست آج کل جماعت کی مخصوص دعاؤں کے حقدار ہیں اور حافظ نورالہی صاحب ذاتی طور پر بھی بہت مخلص اور نیک آدمی ہیں.اس لئے دوستوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان کے لئے خصوصیت سے دعا کریں.( مطبوعه الفضل ۲۱ / اپریل ۱۹۴۸ء)

Page 206

مضامین بشیر ۱۹۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پیسہ اخبار لاہور کا پچپن سالہ نوٹ تاریخ اپنے ورق الٹتی رہتی ہے اور بعد کے اوراق دیکھنے والے عموماً پرانے ورقوں کو بھول جاتے ہیں.حالانکہ گزرے ہوئے اوراق میں بسا اوقات قیمتی اور مفید معلومات کا ذخیر مخفی ہوتا ہے.ذیل میں ایک اسی قسم کا پلٹا ہوا ورق پیش کیا جاتا ہے.جو ہمارے موافقوں اور مخالفوں دونوں کے لئے مفید ہو سکتا ہے.جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے حکم پا کر سلسلہ بیعت ۱۸۸۹ء میں شروع فرمایا تھا.اور اس کے بعد ۱۸۹۱ ء کے آغاز میں آپ کی طرف سے مسیحیت کے دعوی کا اعلان ہوا.اس اعلان کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبلیغ حق اور اتمام حجت کی غرض سے پنجاب اور یو.پی کے کئی مقامات کا سفر اختیار فرمایا.انہی سفروں میں لاہور کا ۱۸۹۲ء کا سفر بھی شامل تھا ، جس کا ذکر ذیل کے اقتباس میں آتا ہے.جو ان ایام میں لاہور کے مشہور و معروف روزنامہ پیسہ اخبار کے ایڈیٹوریل میں شائع ہوا.گوایڈیٹر صاحب پیسہ اخبار بعد میں خود بھی عام مخالفت کی رو میں آگئے تھے.مگر ذیل کے نوٹ سے ظاہر ہے کہ وہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اسلامی خدمات کو کس قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے تھے.ایڈیٹوریل کے الفاظ درج ذیل کئے جاتے ہیں.پیسہ اخبار لاہور.یوم دوشنبه ۲۲ فروری ۱۸۹۲ء جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لاہور میں مرزا صاحب دو ہفتہ سے لاہور میں تشریف رکھتے ہیں اور لاہور کی خاص و عام طبائع کو اپنی طرف متوجہ

Page 207

۱۹۵ مضامین بشیر کر رہے تھے کہ کسی وجہ سے سیالکوٹ کو چلے گئے ہیں.ہر شخص گھر میں ، دوکان پر ، بازار میں ، دفتر میں ، مرزا صاحب اور اُن کے دعوئی مماثلت مسیح کا ذکر کرتا ہے.آج تک اخبارات نے کالم کے کالم اور ورقوں کے ورقے مرزا صاحب کے حالات اور عقائد کی تردید یا تائید میں لکھ ڈالے ہیں مگر ہم نے عمدا اس بحث کو نہیں چھیڑا جس کی بڑی وجہ یہ ہے.پیسہ اخبار کوئی مذہبی اخبار نہیں مگر اب چونکہ معاملہ عام انٹرسٹ کا ہو گیا ہے.کئی صاحبوں نے پیسہ اخبار کی رائے مرزا صاحب کے عقائد اور عام حالات کی نسبت دریافت کی ہے.اس لئے ہم مختصر طور پر ایک دو باتیں ظاہر کرتے ہیں.مرزا صاحب کے حق میں جو کفر کا فتوی دیا گیا ہے.ہم کو اس سے سخت افسوس ہوا ہے کوئی مسلمان زنا کرے، چوری کرے، الحاد کا قائل ہو ،شراب پینے اور کوئی کبیرہ گناہ کرے، کبھی علمائے اسلام اُس کی تکفیر پر آمادہ نہیں سنے گئے.مگر ایک با خدا مولوی کو جو قال اللہ اور قال الرسول کی تابعداری کرتا ہے.بعض جزوی اختلافات کی وجہ سے کا فر گردانا جاتا ہے گر مسلمانی ہمیں است که واعظ دارد وائے گر از پس امروز بود فردائے ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص مرزا صاحب کی ہر ایک بات کو تسلیم کرے.لیکن یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے مولوی صاحبان اپنی اس لیاقت اور ہمت کو غیر مسلموں کے مقابلے میں صرف کریں.جواب مرزا صاحب کے مقابلے میں صرف ہو رہی ہے.هر کس از وست سعدی از غیر ناله کند خویشتن فریاد اہل اسلام مطمئن رہیں کہ مرزا صاحب اسلام کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور یہ بات ہمارے عقیدے کے مطابق ان کے اختیار سے بھی باہر ہے.اگر اہلِ ہنود خصوصاً آریہ لوگ اور عیسائی لوگ مرزا صاحب کی مخالفت میں زور شور سے کھڑے ہو جاتے تو ایسا بے جانہیں تھا.مرزا صاحب کی تمام کوششیں آریہ اور عیسائیوں کی مخالفت میں اور مسلمانوں کی تائید میں صرف ہوئی ہیں جیسا کہ ان کی مشہور تصنیفات براہین احمدیہ ، سرمہ چشم آریہ اور بعد کے رسائل سے واضح ہیں.ہم اس کے سوائے اور کیا کہہ سکتے ہیں وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ - اس قدر لکھ دینا بھی نا مناسب نہ ہوگا کہ ہم ہرگز مرزا صاحب کے معتقدوں میں سے نہیں.“ ( مطبوعه الفضل ۲۳ را پریل ۱۹۴۸ء)

Page 208

مضامین بشیر ۱۹۶ حافظ نورالہی صاحب کی وفات قادیان میں پہلے درویش کا وصال قادیان سے بذریعہ فون اطلاع ملی ہے کہ حافظ نور الہی صاحب سکنہ ریاست بہاولپور جو خدمت مرکز کے تعلق میں قادیان گئے ہوئے تھے.اور جن کی بیماری کے ایام میں میری طرف سے الفضل میں دعا کی تحریک شائع ہوئی تھی ، وہ بقضائے الہی وفات پاگئے ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - حافظ صاحب مرحوم بہت مخلص اور سرگرم احمدی تھے.اور دعاؤں اور نوافل کی ادائیگی میں خاص شغف رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو آمین.میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کر رہا ہوں کہ وہ خاص حالات میں اس جمعہ کی نماز کے بعد حافظ صاحب مرحوم کا غائبانہ جنازہ پڑھا ئیں.یہ پہلا درویش ہے جو گزشتہ فسادات کے بعد قادیان میں خدمت مرکز کی غرض سے بیٹھا ہوا خدا کے حضور حاضر ہوا ہے.( مطبوعه الفضل ۲۸ ر ا پریل ۱۹۴۸ء)

Page 209

۱۹۷ مضامین بشیر انسانی زندگی کی چار اقسام ادنی حیوانی.اعلیٰ حیوانی.ادنی روحانی.اعلیٰ روحانی) آپ کی زندگی کس قسم میں داخل ہے؟ ذیل میں کوئی مضمون پیش نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ ایک محض مختصر سا نوٹ ہے.تا ناظرین میں سے ہر سمجھدار شخص کے دل میں یہ نفسیاتی سوال پیدا کیا جا سکے کہ اس کی زندگی انسانی زندگی کی چارا مکانی اقسام میں سے کس قسم میں داخل ہے.اور پھر جو لوگ زندگی کی نیچے کی سیڑھیوں میں رکے کھڑے ہیں وہ اوپر چڑھنے کی طرف متوجہ ہوں.قرآن وحدیث کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے ( گو اس جگہ تفصیلی حوالوں کی ضرورت نہیں ) اور یہی نتیجہ بنی نوع انسان کے حالات کے عملی مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے کہ انسانی زندگی امکانی طور پر چار قسم کی ہوتی ہے اور ہر انسان اپنی چار قسم کی زندگیوں میں سے کسی ایک زندگی کے ماحول میں محصور نظر آتا ہے:.(اول) پہلی قسم کی زندگی ادنی حیوانی زندگی ہے.جس میں انسان کی توجہ صرف اپنے نفس یا اپنے قریبی رشتہ داروں کی مادی ضرورتوں اور نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے میں منہمک رہتی ہے.ایسے لوگ دنیا میں آتے ہیں.کھاتے اور پیتے ہیں ، شادی کرتے اور اولاد پیدا کرتے ہیں.اپنے اور اپنے اہل وعیال کی مادی یا نفسانی ضرورتوں کو پورا کرنے یا بہتر بنانے کے لئے جد و جہد کرتے ہیں اور جب موت آتی ہے تو اپنے بچوں کو اس سٹیج پر ایکٹ کرنے کے لئے اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں.دُنیا میں علوم اور تہذیب و تمدن کی ترقی ان کے لئے ادنی مادی غرض کو بہتر بنانے کے ذریعہ کے سوا کوئی اور حقیقت نہیں رکھتی.یہ وہ طبقہ ہے جس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ أو ليك كَالْاَ نْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ یعنی یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر کیونکہ جانور تو جانور ہی ہے مگر جب اشرف المخلوقات انسان اور احسن تقویم کا مالک بشر ادنی جانوروں کی سی زندگی اختیار کرتا ہے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ جانوروں سے بھی بدتر سمجھے جانے کا مستحق ہے.

Page 210

مضامین بشیر ۱۹۸ ( دوم ) دوسری قسم زندگی کی وہ ہے جسے اعلیٰ حیوانی زندگی کے الفاظ سے یاد کر سکتے ہیں.اس زندگی میں انسان کی نظر اپنے نفس یا اپنے قریبی رشتہ داروں سے آگے نکل کر اپنے قبیلہ یا اپنی قوم یا اپنے علاقہ یا اپنے ملک یا بین الا قوام بہبودی اور ترقی کی غرض و غایت کو اپنی توجہ کا مرکز بناتی ہے.مگر رہتی بہر حال دنیا کی مادی ضروریات کی تکمیل تک محدود ہے.ایسے لوگ دن رات اپنی اور دوسرے لوگوں کی خاطر جد و جہد کرنے اور قوموں اور ملکوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں منہمک نظر آتے ہیں.مگر ان کی نظر نسل انسانی کے مادی آرام و آسائش اور مادی ترقی سے آگے نہیں گزرتی.ان کی قوم یا ان کا ملک یا دنیا کی مختلف تو میں یا دنیا کے مختلف ملک اچھا کھائیں، اچھا پئیں ، اچھے مکانوں میں رہیں ، اچھے حالات میں سفر کریں ، اچھی تفریحوں میں حصہ لے سکیں ، بیماریوں میں اچھا علاج حاصل کر سکیں ، قومی اور ملکی ترقی کے لئے اچھی تجاویز سوچ سکیں، ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنے میں اچھے ضابطہ کے پابند ہوں یا اگر یہ ضابطہ ناکام رہے تو ایک دوسرے کے مقابلہ پر اچھا لڑسکیں وغیرہ وغیرہ.سینکڑوں قسم کے مادی شعبے ہیں جو اس قسم کے ترقی یافتہ انسانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں.مگر خواہ ان کا دائرہ عمل کتنا ہی وسیع ہو، بہر حال یہ بھی ایک قسم کی حیوانی زندگی ہے.جو گو یقیناً پہلی قسم کی زندگی سے تو بہت اعلیٰ ہے مگر ہے پھر بھی حیوانی اور سفلی زندگی اور اسی قسم کے لوگوں کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے.ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعَان - د یعنی ان لوگوں کی زندگی بھی دراصل مادی دنیا کی بھول بھلیوں میں کھوئی ہوئی ہوتی ہے.گو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں بہت اچھے اچھے کام کرنے والے ہیں.“ ( سوم ) تیسری قسم کی زندگی وہ ہے جسے ادنی روحانی زندگی کا نام دے سکتے ہیں اس قسم کی زندگی میں انسان کی نظر اس دنیا کے مادی ماحول سے آگے نکل کر خدا تعالیٰ تک پہنچتی ہے.اور وہ اپنے خالق و مالک کو پہچان کر اس پر ایمان لاتا ہے.اور اپنی سمجھ کے مطابق اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کا عبد بننے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی پر بھی یقین رکھتا ہے.مگر اس کا ایمان ایسا پختہ نہیں ہوتا.اور نہ اس کی روحانیت اتنی ترقی یافتہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کی ہستی اور اس کے عبد بننے کے جذبہ کو دنیا کی نجات اور انسان کی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے دوسرے لوگوں کو بھی سمجھا سمجھا کر خدا کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کرے.وہ اپنے دل میں روحانیت کا جذبہ رکھتا ہے اور اُخروی زندگی پر نظر رکھتے ہوئے نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرتا ہے.اور بعض اوقات اپنے اہل وعیال کو بھی نیک بنانے میں کسی حد تک ساعی رہتا ہے.مگر اس کے ایمان کی موٹر اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ کھینچ سکے یا انہیں خدا کی طرف کھینچ لانے کی طرف متوجہ رہے.یہ لوگ وہ ہیں 66

Page 211

۱۹۹ مضامین بشیر جوصرف اس قدر تیرنا جانتے ہیں کہ خود ڈوبنے سے بچ جائیں مگر دوسروں کو بچانے کی ہمت نہیں رکھتے اور نہ انہیں دوسروں کو بچانے کی قدر و قیمت کا چنداں احساس ہوتا ہے.یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن شریف اپنی اصطلاح میں قاعد کے نام سے یاد کرتا ہے.یعنی یہ لوگ بے شک روحانیت کے زندگی بخش میدان میں داخل تو ہو چکے ہیں مگر داخلہ کے بعد وہ گویا ایک ہی جگہ دھرنا مار کر بیٹھ گئے ہیں.“ اور دوسرے لوگوں کو اس میدان میں کھینچ لانے کے لئے جد و جہد نہیں کرتے.(چهارم) چوتھی قسم کی زندگی وہ ہے جسے گو یا اعلیٰ روحانی زندگی کہنا چاہئے اس قسم کی زندگی میں انسان......خدا کو صرف خود ہی نہیں پاتا اور اخروی زندگی پر ایمان لا کر صرف اپنے ذاتی اعمال کو ہی درست کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا.بلکہ اس ایمان کی قدر و قیمت اور اس کے عظیم الشان نتائج کو پہچان کر گویا خدا کا سپاہی بن جاتا ہے اور اپنے ساتھ اپنے اردگرد کی دنیا کو بھی مادیت کے میدان سے نکال کر خدا کا عبد بنانے کی کوشش شروع کر دیتا ہے.وہ اس لوہے کی طرح ہو جاتا ہے جو مقناطیس کے ساتھ جوڑ اور ملاپ کی وجہ سے خود بھی گویا ایک چھوٹا سا مقناطیس بن جاتا اور لوہے کے دوسرے ٹکڑوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتا ہے.اس کی دن رات یہی کوشش ہوتی ہے کہ نہ صرف خود نجات پائے بلکہ دوسروں کو بھی نجات حاصل کرنے میں مدد دے.یہ وہ طبقہ ہے جو قرآنی اصطلاح میں مجاہد کہلاتا ہے.یعنی وہ لوگ جو روحانیت کے میدان میں داخل ہو کر بیٹھ نہیں جاتے.بلکہ ان کی جد و جہد دوسروں کو اس میدان میں کھینچ لانے میں صرف ہونی شروع ہو جاتی ہے.“ وہ نہ صرف خود تیرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تیرنا سکھاتے اور ڈوبنے سے بچاتے ہیں.یہ لوگ بے شک انسانیت کی مادی ضرورتوں کی طرف بھی واجبی توجہ دیتے ہیں مگر صرف انہی باتوں میں الجھ کر نہیں رہ جاتے بلکہ ان باتوں کو بھی دنیا کی روحانی زندگی کے بہتر بنانے میں خرچ کرتے ہیں.یہی لوگ خدا کے سچے بندے اور سچے خادم ہیں.اس لئے وہ عبدا اور مجاہد کہلاتے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ انسانی زندگی امکانی طور پر چار قسم کی ہوتی ہے (۱) ادنی حیوانی زندگی جس میں انسان اپنے نفس اور اپنے قریبی عزیزوں کی مادی ضروریات کے پورا کرنے میں منہمک رہتا ہے.جیسا کہ ادنی قسم کے جانوروں کا طریق ہے (۲) اعلیٰ حیوانی زندگی جس میں انسان کی نظر تو بے شک مادی میدان میں ہی محصور ہوتی ہے مگر وہ اس میدان میں نہایت وسیع ہو جاتی ہے ، یعنی ایک طرف تو وہ اپنے نفس اور عزیزوں سے آگے نکل کر اپنی قوم یا ملک وغیرہ تک وسیع ہو جاتی ہے اور دوسری طرف وہ صرف ادنی اور ابتدائی مادی اغراض تک محدود نہیں رہتی.بلکہ ہر قسم کی مادی ترقی کے حصول کو اپنے دائرہ عمل میں شامل کر لیتی ہے.(۳) ادنی روحانی زندگی جس میں انسان خدا کو پہچانتا اور اس پر

Page 212

مضامین بشیر ۲۰۰ ایمان لاتا ہے.اور اخروی زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہے.مگر ابتدائی حیوانی زندگی کی طرح اس کی نظر صرف اپنے نفس یا زیادہ سے زیادہ اپنے اہل و عیال کی روحانی بہبود تک محدود رہتی ہے.اور (۴) اعلیٰ روحانی زندگی جس میں میدان بھی روحانی ہوتا ہے اور نظر بھی وسیع ترین ہوتی ہے اور انسان نہ صرف خود اعلیٰ روحانیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس میدان میں کھینچ لانے کی جدو جہد کرتا ہوا خدا کا مجاہد سپاہی بن جاتا ہے.اب اے ہمارے عزیز و اور دوستو! آپ میں سے ہر شخص اپنے نفس میں غور کرے کہ اس کی زندگی اوپر کی چار اقسام کی زندگیوں میں سے کس قسم میں داخل ہے.آیا وہ ابھی تک صرف ایک اچھی قسم کا حیوان ہے یا کہ مادیت کے زہر آلود میدان میں سے نکل کر روحانیت کے میدان میں داخل ہو چکا ہے، اور اگر داخل ہو چکا ہے تو آیا وہ ایک محض ابتدائی قسم کی روحانی زندگی پر قانع ہے یا کہ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر عبد مجاہد بن چکا ہے ؟ مگر اس نفسیاتی سوال کا جواب دینے سے پہلے اپنے دلوں کو اچھی طرح ٹول لیں کہ کہیں محض رسمی اور نمائشی باتوں میں الجھ کر آپ کا نفس دھوکا نہ دے دے.کیونکہ بعض اوقات ایک مادیت کی دلدل میں پھنسا ہوا انسان بھی اپنے آپ کو روحانیت کے سمندر کا تیراک خیال کرنے لگ جاتا ہے اور بعض اوقات ایک قاعد بھی کسی شخص کو کبھی کبھار کلمہ خیر کہہ دینے کی وجہ سے اپنے آپ کو مجاہد سمجھنے لگ جاتا ہے.لیکن حقیقی محاسبہ وہی ہے جو حالات کے صحیح اور گہرے اور غیر جانبدارانہ مطالعہ پر مبنی ہو اور لَو عَلى اَنْفُسِكُمُ کے سنہری حکم کے ماتحت انسان اپنے نفس کے خلاف بھی سچی شہادت دینے کی طاقت رکھتا ہو.پس ہمارے دوست حقیقی محاسبہ کے رنگ میں سوچیں اور اپنے دل سے ٹھیک ٹھیک جواب حاصل کریں تا وہ اپنا موجودہ مقام معلوم کر کے اگلا مقام حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں.اللہ تعالیٰ میرا اور سب دوستوں کا حافظ و ناصر ہوا اور ہمیں اپنا مجاہد عبد بننے کی توفیق عطا کرے.وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيم.( مطبوعه الفضل ۳۰ را بریل ۱۹۴۸ء)

Page 213

۲۰۱ مضامین بشیر علاقہ قادیان کی اغوا شدہ عورتیں لاہور پہنچ رہی ہیں ان کے ورثاء لاہور پہنچ کر سر کاری کیمپ میں پتہ لیں قادیان سے فون پر اطلاع ملی ہے کہ ارد گرد کے علاقہ کی بعض مسلمان عورتیں جن میں سے بعض جموں سے بھی آئی ہوئی تھیں قریباً چودہ پندرہ کی تعداد میں بحال ہو کر قادیان جمع ہو گئی تھیں.ان عورتوں کو گورداسپور کی پولیس قادیان سے گورداسپور لے گئی ہے تا کہ وہاں سے اپنے انتظام میں لاہور پہنچا دے.ان عورتوں میں مسماۃ غلام فاطمہ صاحبہ جموں والی اور مسماۃ شریفہ بی بی منگل والی بھی شامل تھیں.ان کے ورثا کو چاہئے کہ لاہور پہنچ کر سر کاری کیمپ میں پتہ لے لیں.تاکہ دیر ہو جانے کی وجہ سے مصیبت زدہ عورتوں کو مزید تکلیف کا سامنا نہ ہو.افسوس ہے کہ پوری تفصیل فون پر معلوم نہیں کی جاسکی.( مطبوعه الفضل ۳۰ را پریل ۱۹۴۸ء )

Page 214

مضامین بشیر ۲۰۲ قادیان جانے والے خط ابھی تک بیرنگ ہورہے ہیں دوست احتیاط رکھیں چند دن ہوئے میں نے الفضل میں اعلان کروایا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ڈاک کے ٹکٹوں کی شرح تبدیل ہو چکی ہے.اس لئے دوست قادیان خط بھجواتے ہوئے جدید شرح کے مطابق ٹکٹ لگایا کریں.ورنہ خطوں کے بیرنگ ہو جانے کی وجہ سے قادیان کے غریب درویشوں کو زیر بار ہونا پڑتا ہے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک دوستوں نے اس غلطی کی اصلاح نہیں کی.کیونکہ قادیان کے تازہ فون سے اطلاع ملی ہے کہ ابھی تک قادیان میں کثرت کے ساتھ بیرنگ خط پہنچ رہے ہیں.میں دوستوں کی سہولت کے لئے پھر اس جگہ ٹکٹوں کی تازہ شرح درج کر دیتا ہوں.جو ہندوستان جانے والی ڈاک کے لئے ضروری ہے.احباب اس کا خیال رکھیں.(۱) پوسٹ کارڈ ۲ ( دو آنے ) (۲) لفافہ (ساڑھے تین آنے ) یہ شرح عام ڈاک کے لئے ہے.رجسٹری ڈاک یا ہوائی جہاز کی ڈاک کی شرح اس سے زیادہ ہے.( مطبوعه الفضل یکم مئی ۱۹۴۸ء)

Page 215

۲۰۳ مضامین بشیر جمع بین الصلاتین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی ایک شہادت مولوی محمد دین صاحب بی.اے سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان نے جمع بین الصلاتین کے متعلق ایک شہادت لکھ کر بھیجی ہے جو دوستوں کے فائدہ کے لئے ذیل میں درج کی جارہی ہے.مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سال ہا سال قادیان میں رہ چکے ہیں انہوں نے اپنی شہادت میں اس زمانہ کا ذکر کیا ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان میں ایک لمبے عرصہ تک مسلسل نمازیں جمع کرائیں مولوی صاحب موصوف کی شہادت میں ایک بات کسی قدر قابل وضاحت ہے، جس کے متعلق میں انہیں خط لکھ رہا ہوں ،اس کا جواب آنے پر بعد میں شائع کر دیا جائے گا.والسلام.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمُوْعُودِ مکرمی و محترمی مرزا بشیر احمد صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک مسلسل عرصہ تک روزانہ نمازیں جمع ہوتی رہیں ظہر اور عصر اور مغرب وعشاء.ان میں یہ عاجز باقاعدہ شامل ہوتا رہا اور چونکہ یہ مسئلہ اور تعامل لوگوں کے لئے نیا تھا اس لئے طبعی طور پر لوگ مسئلے کے طور پر اس کے متعلق جزئیات بطور مسئلہ کے دریافت کرتے رہتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی براہ راست اور حضرت خلیفہ المسیح اول اور دیگر علماء سلسلہ سے بھی.مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت تعامل یہی تھا کہ اگر کوئی عصر میں شامل ہوا ہے تو اس نے ظہر کی نما ز بعد میں پوری کر لی اور جو عشاء میں شامل ہوا تو اس نے مغرب کے فرض بعد میں ادا کر لئے اور جس کسی کو سوال وشبہ پید ا ہوا ، اس نے جب بھی حضرت صاحب سے دریافت کیا یا حضرت مولوی صاحب سے تو اس کو بھی یہی جواب دیا گیا کہ جو فرض جماعت ہے اس میں شامل ہو جاؤ اور جو رہ گئی ہوا سے بعد میں پوری کر لو.چونکہ یہ تعامل اور مسئلہ نیا تھا اس لئے سوال واعتراضات بھی ہوتے رہے اور یہی بطور تعامل اور مسئلہ کا حل رہا.مجھے تو تعجب آیا کہ مولوی شمس صاحب نے اپنی تحریر میں جو الفضل میں شائع ہوئی ہے یہ لکھا ہے کہ

Page 216

مضامین بشیر ۲۰۴ جماعت یا اکثر حصہ جماعت کا تعامل اس سے مختلف رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دنوں میں تو میں حتمی طور پر عرض کر سکتا ہوں کہ تعامل بھی وہی تھا.جو میں اوپر عرض کر آیا ہوں اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حضرت خلیفہ اسی اول کے اوائل میں بھی یہی تھا.بعد میں مجھے حتمی طور پر اس لئے یاد نہیں کہ نہ تو اس کثرت و تکرار سے نمازیں جمع ہوئیں اور جب کبھی نمازوں کے جمع کرنے کا وقت آیا خاص کر جلسہ کے ایام میں تو ان دنوں میں چونکہ یہ خاکسا را کثر مہمانداری میں مصروف رہتا تھا ، اس لئے مجھے صحیح طور پر یاد نہیں کہ تعامل کیا تھا.تاہم پچھلے چند سالوں میں مجھے معلوم ہوا کہ جماعت میں اس کے تعامل میں اختلاف ہے اور غالبا مسئلہ میں تو میں نے ایک دن حضرت مولوی شیر علی صاحب سے عرض کیا کہ آپ کو معلوم ہے اور اچھی طرح سے معلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ایام میں یہ مسئلہ اور اس کا تعامل بالکل واضح تھا.آپ کیوں یہ امر واضح طور اپنے ان نئے علماء کو نہیں بتلا دیتے ؟ تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ تم کیوں نہیں کہہ دیتے.میں نے عذر کیا تو فرمانے لگے میرا بھی قریباً ایسا ہی عذر ہے.اصل میں ان کی طبیعت میں انتہا درجہ کی فروتنی تھی وہ خواہ نخواہ اپنے آپ کو آگے نہیں کرنا چاہتے تھے.میں بھی ان سطور کے لکھنے سے پر ہیز کرتا مگر چونکہ آپ کی طرف سے اس سوال کو اٹھایا گیا ہے.اس لئے مجبوراً یہ چند سطور عرض کر رہا ہوں اور گومگر می مولوی شمس صاحب نے سوال کا جواب تو صحیح دیا ہے مگر ایک واقعہ غلط لکھا ہے جس سے غلط فہمی کا احتمال ہوتا ہے اس لئے یہ عاجز آپ کے نوٹس میں یہ واقعہ لا رہا ہے کہ اگر مولوی شمس صاحب کی تحریر سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ جماعت کے تعامل سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے یا حضرت خلیفہ اسیح اول کا زمانہ تو یہ بات غلط ہے.باقی میرا خیال ہے کہ الحکم کے فائل سے ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا واضح فتویٰ چھپا ہوا بھی مل جائے کیونکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اکثر لوگ دریافت کرتے تھے اور حضور خود بھی اس کا جواب دے دیا کرتے تھے.والسلام خاکسار محمد دین (ریٹائر ڈ ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان) ( مطبوعه الفضل ۲ رمئی ۱۹۴۸ء)

Page 217

۲۰۵ مضامین بشیر اسلحہ کے لائسینس داروں کو ضروری مشورہ کس قسم کے ہتھیار زیادہ کارآمد ہیں؟ اکثر دوستوں کو شکار یا خود حفاظتی کے خیال سے اسلحہ کا لائسنس لینے کی خواہش ہوتی ہے یا ان کے پاس پہلے سے لائسنس ہوتا ہے.مگر پوری واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اچھے ہتھیار کا انتخاب نہیں کر سکتے ایسے دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں مختصر مشورہ درج کیا جاتا ہے.جو انشاء اللہ ان کے لئے مفید ثابت ہوگا.آتشیں اسلحہ چار قسم کا ہوتا ہے:.(۱).چھرہ والی بندوق یہ دو قسم کی ہوتی ہے.ایک نالی والی اور دو نالی والی اور بندوق کی بور یعنی نالی کی وسعت بھی مختلف ہوتی ہے، یعنی بارہ بور یا سولہ بوریا بتیس بور.ان میں سب سے زیادہ معروف اور اچھی قسم دونالی بارہ بور والی بندوق سمجھی جاتی ہے.اور جو دوست چھرے والی بندوق لینا چاہیں ان کیلئے بارہ بور والی دونالی بندوق سب سے مناسب ہے اور اس کے کارتوس بھی آسانی سے مل جاتے ہیں یہ بندوق ایسی ہونی چاہئے جسمیں پیچھے کی طرف سے کارتوس بھرا جاتا ہے جسے انگریزی میں DEBL 12.Bore shotgun کہتے ہیں.اس میں بھی آگے کئی قسمیں ہیں.یعنی نالی کتنی لمبی ہو ۳۲ انچ کی یا ۳۰ انچ کی یا ۱۲۸ نچ کی پھر بندوق خود بخود کار توس باہر نکالنے والی (Ejector) ہو یا کہ اس کے بغیر.پھر یہ کہ اس کی ایک نالی چوک ( Choke ) ہو یعنی منہ کے قریب کچھ تنگ ہو یا دونوں یکساں (Cylinder ) ہوں وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں ذاتی پسند پر مبنی ہیں میری رائے میں نالی کی لمبائی ۳۰ انچ اچھی رہتی ہے اور ابجیکٹر ہونا ضروری نہیں اور اگر ایک نالی چوک ہو تو بہتر ہوتا ہے، کیونکہ ایک نالی کی مار کچھ زیادہ ہوتی ہے.(۲).اسلحہ کی دوسری قسم رائفل ہے جس میں گولی چلتی ہے اور زیادہ فاصلہ سے مارتی ہے یہ دو ستم کی ہوتی ہے.الف: ۱۲ بور کی رائفل جو چھوٹے جانوروں کے شکار کے لئے ہوتی ہے اور نشانہ سیکھنے اور بچوں میں نشانہ بازی کا شوق پیدا کرنے کے لئے بھی اچھی سمجھی جاتی ہے.اگر ممکن ہو تو دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ اس کا لانسینس بھی ضرور لینا چاہئے.اچھی کام کی چیز ہے مگر رائفل ایسی خریدنی چاہئے جو میگزین قسم کی ہو یعنی اس میں ایک سے زیادہ کارتوس پڑتے ہوں اس کی عام اقسام بنچڑ اور سیو بیچ اور بی.ایس.اے اور ماؤزر ہیں.(ب) بڑی بور کی زیادہ طاقت والی رائفل اس کی بیسیوں اقسام ہوتی ہیں مگر عام حالات کے لئے سب سے

Page 218

مضامین بشیر ۲۰۶ بہتر تمیں بور کی سپرنگ فیلڈ میگزین رائفل ہے یہ طاقت میں بھی بہت اچھی ہوتی ہے اور نشانہ کی صحت کے لحاظ سے بھی بہت اچھی ہے اور اس کے کارتوس بھی عام ملتے ہیں.اگر سب دوست اس رائفل کا لائسنس لیں تو کارتوس اکٹھے خریدنے میں بھی سہولت ہوگی اور بعض اور سہولتیں بھی ہوسکتی ہیں.یہ رائفل بھی عموماً چار کارخانوں میں بنتی ہے یعنی وینچسٹر اور سویچ اور رینگٹن اور باؤ ذر.یہ چاروں اقسام نہایت اعلیٰ ہیں اور طاقت اور تیزی میں ہندوستان کی فوجی راکفل ۳۰۳ بور سے بھی بہتر ہیں اور ہاتھی اور گینڈے اور شیر بر کو چھوڑ کر ہر قسم کا شکار آسانی سے مار سکتی ہیں.(۳).اسلحہ کی تیسری اور چوتھی قسم ریوالور اور پستول ہیں.اس کا لائسنس سب سے مشکل ملتا ہے اور آج کل اس کی منظوری کمشنر کے اختیار میں ہے.ریوالور زیادہ قابل اعتماد اور زیادہ تسلی بخش ہوتا ہے اور وقت پر دھوکہ کم دیتا ہے لیکن اگر بور برابر ہو تو پستول زیادہ طاقت ور ہوتا ہے.اور زیادہ تیز بھی میری رائے میں ریوالور میں ۳۸ بور ا چھی ہوتی ہے اور پستول میں ۳۲ بور.دونوں میگزین ہونے چاہئیں اگر چھوٹی جیب میں رکھنا منظور ہو تو ۲۵ بور کا پستول اچھار ہے گا مگر یہ زیادہ طاقت ور نہیں ہوتا.اس کے بعد بعض ضمنی امور بھی قابل توجہ ہیں جو یہ ہیں.(اول) لائسنس میں جہاں تک ممکن ہو کارتوسوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ درج کرانی چاہئے بلکہ اگر ممکن ہو تو بلا حدیثہ کا اندراج کرانا چاہئے.( دوم ) لائسنس حتی الوسع سارے پاکستان کے لئے منظور کرانا چاہئے نہ کہ صرف ایک ضلع یا کمشنری صوبہ کے لئے.(سوم) زیادہ حیثیت لوگ اپنے ساتھ اپنے کسی نوجوان عزیز کو بطور رفیق یعنی ریٹینر (Retainer) درج کروا سکتے ہیں.اس میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک ہی لائسنس سے دو آدمی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.( چهارم ) اگر ممکن ہو اور اس کی گنجائش ہو تو ایک سال کی بجائے دو یا تین سال کے لئے لائسنس جاری کر دیا جائے اور یہ میعاد پوری ہونے پر پھر اسی قدر میعاد کے لئے تجدید کرائی جائے پہلے سال کی فیس ریوالور اور پستول کی دس روپے ہوتی ہے اور رائفل اور بندوق کی پانچ روپے بعد میں تجدید کے وقت نصف فیس لگتی ہے.(پنجم) ایک ہی لائسنس میں بندوق اور رائفل اور ریوالور یا پستول کا لائسنس درج کرایا جاسکتا ہے بہتر صورت یہ ہے کہ ایک لائسنس میں ایک بارہ بور چھرہ والی بندوق ۲.ایک ۳۲ بور رائفل ۳.ایک ۳۰ بور سپرنگ فیلڈ راکفل اور ۴.ایک ۳۸ بوریوالور یا ۳۲ بور پستول درج کرائے جائیں راکفل اور پستول میگزین قسم کے ہونے چاہئیں.(ششم) بندوق رائفل کے لائسنس کی منظوری ڈپٹی کمشنر ضلع کی طرف سے ملتی ہے مگر ریوالور اور پستول کی منظوری ڈپٹی کمشنر کی سفارش پر کمشنر دیتا ہے ہر دوصورتوں میں رپورٹ کے لئے پولیس کے پاس کا غذات جاتے ہیں لیکن اگر کوئی خاص اعتراض نہ ہو تو عام قاعدہ یہی ہے کہ باحیثیت لوگوں کا لائسنس نا منظور نہ کیا جائے.( مطبوعه الفضل ۱۵ رمئی ۱۹۴۸ء)

Page 219

۲۰۷ مضامین بشیر ابلیس کے مغویانہ وجود کے متعلق صحیح نظریہ کی تعیین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ بہر حال درست ہے مگر سوال یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے حوالہ کی صحیح تشریح کیا ہے ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ء کے الفضل میں میرا ایک مختصر سا مضمون ابلیس کے مغویا نہ وجود کے متعلق شائع ہوا تھا.اس مضمون میں میں نے بعض قرآنی آیات سے یہ استدلال کیا تھا کہ بے شک تقدیر خیر وشر کا مسئلہ حق ہے اور بے شک انسان اپنے اعمال میں صاحب اختیار ہے کہ چاہے تو نیکی کا راستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کے راستہ پر پڑ جائے.اور بے شک یہ بات بھی درست ہے کہ ابلیس ایک نہایت درجہ مغوی وجود ہے جو حضرت آدم کے وقت سے لوگوں پر امتحان کا سامان مہیا کرتا چلا آرہا ہے وغیرہ.مگر یہ کہ قرآن شریف کی آیات سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ابتدا سے ہی اسی غرض وغایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا پھرے بلکہ اس کا مغوی بننا ایک بعد کا حادثہ ہے جو اس کی پیدائش کی غرض و غایت کے ساتھ لازم وملزوم کے طور پر نہیں ہے.البتہ انسان کا صاحب اختیار ہونا اس کی پیدائش کے ساتھ لازم وملزوم ہے وغیرہ.اس نظر یہ کو پیش کر کے میں نے علماء سلسلہ کو دعوت دی تھی کہ وہ اس اہم مضمون کے متعلق تحقیق کر کے اپنے مفید خیالات پیش کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آئینہ کمالات اسلام والے مضمون کو بھی دیکھ لیں.جس میں ابلیس کے متعلق نہایت لطیف اور سیر کن بحث کی گئی ہے اور میں نے لکھا تھا کہ خواہ ہمارے ذاتی خیالات کچھ ہوں ، حق وہی ہے اور وہی رہے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر لکھا ہے.میری اس دعوت کے جواب میں بعض دوستوں نے خطوط کے ذریعہ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور تین مختصر سے مضمون اس مسئلہ کے متعلق الفضل میں بھی شائع ہوئے ہیں.ایک مضمون عزیزم مرزا ظفر احمد سلمہ کے قلم سے ہے جس میں میرے نظریہ سے اختلاف کیا گیا ہے.دوسرا مضمون عزیز میاں عباس احمد خان کے قلم سے بنے جس میں میرے نظریہ کی تائید کی گئی ہے.تیسرا

Page 220

مضامین بشیر ۲۰۸ مضمون مرز امحمد حیات صاحب تاخیر کے قلم سے ہے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آئینہ کمالات اسلام والا حوالہ نقل کیا گیا ہے.پہلے دو مضمون میری نظر میں چنداں وزن نہیں رکھتے.کیونکہ ان دونوں میں میرے مضمون کی صرف ایک عقلی دلیل کو لے کر فلسفیانہ رنگ میں بحث کرنے پر اکتفا کی گئی ہے اور اصل قرآنی آیت کو نہیں چھوا گیا.حالانکہ یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ محض عقلی دلائل سے حل کیا جا سکے.بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر صرف عقلی دلائل تک ہی محدود رہنا ہوتا تو میرے نظریہ کی تائید میں زیادہ مضبوط اور زیادہ روشن دلائل موجود ہیں.لیکن حق یہ ہے کہ اس مسئلہ کا اصل اور صحیح حل صرف دو طرح سے ہو سکتا ہے.اور وہ دو طریق یہ ہیں.(۱) یہ دیکھا جائے کہ اس بارہ میں قرآن شریف کیا فرما تا ہے.کیونکہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا اعلیٰ ترین اور محفوظ ترین کلام ہے.جس کی ہدایت ہر جہت سے مکمل اور ہر غلطی سے پاک ہے.(۲) یہ دیکھا جائے کہ اس مسئلہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا فرماتے ہیں.کیونکہ خدا کے راستہ میں سالکوں سے بڑھ کر اس راستہ کے خطرات اور ان خطرات کی نوعیت سے کوئی شخص واقف نہیں ہوسکتا.اور میں محمد حیات تاثیر کا ممنون ہوں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا معین حوالہ پیش کر کے اس بحث میں سہولت کا دروازہ کھولا ہے.اصل بحث میں پڑنے سے پہلے میں پھر اس بات کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مجھے تقدیر خیر وشر کے مسئلہ میں کوئی کلام نہیں ، یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے جو ہمارے ایمانیات کی بنیا دوں میں شامل ہے.اور دراصل اس مسئلہ پر ایمان لانے کے بغیر انسان کی پیدائش کی غرض و غایت پوری ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی سلسلہ رسل اور سلسلہ کتب کی غرض و غایت اس کے بغیر پوری ہو سکتی ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے دونوں عالمگیر قانونوں میں یعنی قانون شریعت اور قانون قضا و قدر میں خیر و شر کی تقدیر کو جاری کیا ہے.یعنی یہ کہ اگر یہ یہ کام کرو گے تو اس کا اس اس صورت میں اچھا نتیجہ نکلے گا.اور اگر وہ وہ کام کرو گے تو اس کا اس اس صورت میں بُرا نتیجہ نکلے گا.پس مسئلہ قدر خیر و شر یقیناً حق ہے.مگر میری موجودہ بحث کے ساتھ اس مسئلہ کو کوئی تعلق نہیں.دوسری بات میں یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.کہ مجھے اس بات میں بھی ہرگز کلام نہیں کہ انسان اپنے اعمال میں صاحب اختیار ہے.یعنی خدا کے ازلی قانون نے انسان کو ایسی صورت میں پیدا کیا ہے کہ وہ چاہے تو نیکی اور فرمانبرداری کا طریق اختیار کر لے اور چاہے تو بدی اور نافرمانی کے راستہ پر پڑ جائے.اور انسان کا صاحب اختیار ہونا اس کی ترقی اور انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے.تیسرے مجھے اس بات میں بھی کوئی کلام نہیں کہ ابلیس

Page 221

۲۰۹ مضامین بشیر ایک مغوی وجود ہے جو اپنے دامن غوایت میں ہزاروں اظلال چھپائے ہوئے ہے.چوتھے مجھے اس بات میں بھی کلام نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر اس وقت تک ابلیس اور اس کے اظلال مغویا نہ وجود کی حیثیت رکھتے آئے ہیں.اور جب تک خدا کو منظور ہو گا اپنی اسی مغویا نہ حیثیت میں کام کرتے چلے جائیں گے.یہ ساری باتیں بالکل درست اور حق ہیں.اور مجھے ان میں نہ کبھی کلام ہوا اور نہ ہو سکتا ہے.جس بات میں مجھے کلام ہے اور اس کے متعلق میں نے علماء کو دعوت دی ہے ، وہ محض یہ ہے کہ آیا خدا تعالیٰ نے ابلیس کو ابتدا سے ہی اسی غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرتا پھرے یا کہ وہ خود نا فرمان اور گمراہ ہو کر مغوی بن گیا ہے.میرا نظریہ جو میرے خیال میں قرآن شریف سے ثابت ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ بھی میری موجودہ تحقیق میں اس کے خلاف نہیں ، یہ ہے کہ نظام روحانی کا ازلی حصہ صرف اس قدر ہے کہ خدا نے تقدیر خیر و شر کا قانون جاری کر کے انسان کو صاحب اختیار بنا دیا کہ چاہے تو خدا کا فرمانبردار بن کر نیکی اختیار کر لے اور چاہے تو نافرمان بن کر بدی کے راستہ پر پڑ جائے.باقی رہا ابلیس کا مغویا نہ وجو دسو وہ ایک بعد کا حادثہ ہے.مگر بایں ہمہ وہ ایک بالکل ابتدائی زمانہ کا حادثہ ہے جو آدم علیہ السلام کی پیدائش کے ساتھ ہی وقوع میں آ گیا تھا.اور اس حادثہ کے وقوع میں آنے کے نتیجہ میں بدی کا ایک خارجی محرک بھی پیدا ہو گیا.پس گو ابلیس کا مغویا نہ وجود قریباً ابتداء سے ہی چلا آتا ہے.مگر حقیقتاً وہ ایک بعد کا حادثہ ہے.اور اس لئے اس کا مغوی ہونا نظام روحانی کا حصہ نہیں.بلکہ نظام روحانی کا حصہ صرف خیر و شر کی تقدیر اور انسان کا صاحب اختیار ہونا ہے.اور اگر غور کیا جائے تو انسان کا صاحب اختیار ہونا ہی اس کے ترقی کرنے اور انعام کے مستحق بننے کے لئے کافی ہے.اور اس غرض کے لئے کسی خارجی مغوی وجود کی ضرورت نہیں.حق یہ ہے کہ نیکی اور بدی کے فلسفہ پر غور نہیں کیا گیا.قرآن شریف نے نیکی کو نور سے تشبیہہ دی ہے اور بدی کو ظلمت سے.جیسا کہ فرمایا کہ: جَعَلَ الظُّلُمَتِ وَالتَّوْرَ 12 د یعنی خدا نے ہی نور اور ظلمت دونوں کو بنایا ہے.“ اب ہر شخص جانتا ہے کہ ظلمت اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں بلکہ نور کے فقدان یعنی نور کے موجود نہ ہونے کا نام ظلمت ہے.گویا اصل چیز دنیا میں نیکی ہے.اور بدی صرف اس نیکی سے دوری کا نام ہے.آپ کسی کمرہ میں ظلمت اور تاریکی کو داخل نہیں کر سکتے.کیونکہ ظلمت اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہے.ہاں آپ روشنی کو باہر نکال کر کمرہ کے اندر تاریکی پیدا کر سکتے ہیں اور جتنا جتنا کسی روشنی کا فاصلہ

Page 222

مضامین بشیر ۲۱۰ کمرہ سے بڑھتا چلا جائے گا.اسی نسبت سے کمرہ کی تاریکی زیادہ گہری ہوتی چلی جائے گی.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ یعنی خدا تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا نور ہے.جس کا یہ مطلب ہے کہ جتنی جتنی کوئی چیز منبع نور یعنی خدا سے قریب ہو گی.اتنی ہی وہ زیادہ روشن اور نیک ہوتی چلی جائے گی اور جتنی کوئی چیز خدا سے دور ہوگی.اتنی ہی وہ زیادہ تاریک اور بد ہوتی چلی جائے گی.پس خدا کا نیکی اور بدی کو نور اور ظلمت سے تشبیہ دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقتاً بدی کے لئے کسی خارجی محرک کی ضرورت نہیں ، بلکہ انسان کا صاحب اختیار ہونا ہی بدی کے معرض وجو د میں آنے کے لئے کافی ہے.جتنا جتنا کوئی شخص اپنے فطری اختیار کے ماتحت نیکی کے رستہ سے دور ہو گا اتنا ہی وہ بدی میں مبتلا سمجھا جائے گا.اس کی ایک واضح مثال مغوی انسانوں کے حالات میں ملتی ہے.جو ہر نبی کے زمانہ میں ہوتے رہے ہیں حضرت ابراہیم کے زمانہ میں نمرود ایک مغوی وجود تھا اور حضرت موسیٰ کے زمانہ میں فرعون ایک مغوی وجو د تھا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو جہل ایک مغوی وجو د تھا.بے شک ان مغوی انسانوں کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کو ٹھوکر لگی.مگر کون کہ سکتا ہے کہ اگر یہ مغوی انسان نہ ہوتے تو ان نبیوں کے زمانہ میں کوئی شخص بھی گمراہی کا طریق اختیار نہ کرتا.گمراہ ہونے والوں نے اپنے صاحب اختیار ہونے کے نتیجہ میں گمراہی اختیار کی.مگر یہ درست ہے کہ ان مغوی وجودوں سے لوگوں کی گمراہی کو مزید تقویت حاصل ہو گئی.اسی طرح اگر ابلیس نہ ہوتا تو پھر بھی گمراہ ہونے والے انسانوں نے گمراہ ہونا تھا.مگر ابلیس کا وجود گمراہی کو مزید تقویت دینے کا موجب بن گیا.اور ظاہر ہے کہ یہ ابلیسی تقویت دونوں طریق پر اثر انداز ہو رہی ہے یعنی شدت (Quality) کے لحاظ سے بھی اور وسعت (Quantity) کے لحاظ سے بھی.ابلیس کے وجود نے گمراہی کے دائرہ کو بھی وسیع کر دیا ہے اور اس کی شدت کو بھی بڑھا دیا ہے.ٹھیک اسی طرح جس طرح حضرت موسیٰ کے زمانہ میں فرعون نے گمراہی کی شدت اور وسعت دونوں کو بڑھا دیا تھا.ہاں انسانی مغوی وجودوں اور ابلیس میں یہ فرق ضرور ہے کہ انسان کی طاقت اور زمانہ محدود ہے اور وہ اپنی چند سالہ عمر گزار کر ہلاک ہو جاتا ہے مگر ابلیس ایک غیر انسانی وجود ہے.جس کی میعاد اور جس کا دائرہ عمل انسانوں کی نسبت بہت زیادہ وسیع ہے.یہی وجہ ہے کہ ابلیس کا مغویا نہ وجود حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہوا اور اب تک چلا جا رہا ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ ابلیس کون ہے.ہمارے پرانے مفسر تو لکھتے ہیں کہ وہ ایک فرشتہ تھا.جس کا نام عزازیل تھا جو نافرمانی کے نتیجہ میں شیطانی وجود کی صورت اختیار کر گیا ( ملاحظہ ہو کہ کم از کم

Page 223

۲۱۱ مضامین بشیر پرانے مفسر بھی ابلیس کے مغویا نہ وجود کو ایک حادثہ تسلیم کرتے ہیں مگر یا در ہے کہ حادثہ سے میری مراد موٹر وغیرہ والا حادثہ نہیں بلکہ ایسی صفت مراد ہے جو کسی چیز کے ساتھ فطری طور پر لازم و ملزوم نہیں ہوتی ، بلکہ بعد میں پیدا ہوتی ہے ) مگر یہ خیال درست نہیں کہ ابلیس ایک گمراہ شدہ فرشتہ ہے.کیونکہ فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں صاف فرماتا ہے کہ لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُونَTO یعنی فرشتے خدا کی نافرمانی نہیں کرتے اور انہیں جس بات کا حکم دیا " جاتا ہے وہی بجا لاتے ہیں پس یہ خیال کہ ابلیس ایک فرشتہ تھا جو نا فرمانی کر کے شیطان بن گیا.قرآنی تعلیم کے صریح خلاف ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ابلیس تھا کون؟ اس کا جواب خود قرآن شریف دیتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے : وَالْجَانَ خَلَقْنَهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ ۳۲ ,, د یعنی ہم نے جنوں کو انسان کی پیدائش سے پہلے لو والی آگ سے پیدا کیا تھا اور دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ ر ته د یعنی ابلیس جنوں میں سے ایک وجود تھا.جس نے خدا کی نافرمانی اختیار کی.“ اور ایک تیسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ قَ خَلَقْتَهُ مِنْ طِينِ یعنی ہم نے جن وانس دونوں کو صرف اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے.“ اور چوتھی جگہ خدا تعالیٰ ابلیس کی زبانی یہ بیان فرماتا ہے کہ یعنی اے خدا میں نے آدم کو اس لئے سجدہ نہیں کیا کہ میں اس سے بہتر ہوں.کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے.اور آدم کو مٹی سے.“ اور پانچویں جگہ قرآن شریف فرماتا ہے قَالَ رَبِّ فَانْظُرْنِى إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ إلى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ یعنی جب ابلیس خدا کی نافرمانی کر کے اس بات سے ڈرا کہ اب مجھے خدا فورا ہلاک کر دے گا.تو اس نے خدا سے کہا کہ اے رب مجھے انسانوں کے یوم بعث تک مہلت عطا کر.خدا نے کہا تجھے وقت معلوم تک مہلت دی جائے گی.“ اُوپر کے حوالوں سے ذیل کی پانچ باتوں کا ثبوت ملتا ہے :- (۱) یہ کہ خدا نے جنوں کو انسان سے پہلے پیدا کیا تھا.(۲) یہ کہ ابلیس بھی جنوں کی قسم میں سے ایک مخفی قسم کی مخلوق ہے (۳) یہ کہ ابلیس حقیقہ خدا کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا تھا.کیونکہ سب جن وانس خدا کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.مگر چونکہ وہ بخلاف ملائک صاحب اختیا ر تھا.اس لئے اس نے بُرے انسانوں کی طرح خود نا فرمانی کے رستہ پر پڑ کرفستق اختیار کیا.

Page 224

مضامین بشیر ۲۱۲ (۴) یہ کہ بخلاف انسان کے جو طینی صفات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، ابلیس آتشی صفات کے ساتھ پیدا کیا گیا تھا.(۵) یہ کہ گو ابلیس آدم کے معاملہ میں خدا کی نافرمانی کا رستہ اختیار کر کے اس بات کے متعلق خائف ہوا کہ خدا تعالیٰ اسے اپنی ناراضگی میں ہلاک نہ کر دے مگر اس کی درخواست پر اسے خدا کی طرف سے مہلت دی گئی.یہ پانچ نتیجے جو اوپر کے حوالوں سے یقینی طور پر ثابت ہیں.ابلیس کو انسان اور ملائکہ دونوں سے ممتاز اور متغائر ثابت کرتے ہیں.یہ سوال کہ جن سے کیا مراد ہے ایک لمبا جواب چاہتا ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں.مختصر یہ ہے کہ قرآن شریف اور حدیث اور لغت عرب کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ جن کے بنیادی معنی مخفی یا پوشیدہ مخلوق کے ہیں خواہ یہ چیز یا مخلوق طبعی طور پر پوشیدہ ہو یا کہ محض عادۃ پوشیدہ رہتی ہو.پس عربی زبان اور اسلامی محاورہ کے مطابق جن کے مندرجہ ذیل معنی سمجھے جائیں گے :- (۱) ایسے بڑے لوگ جو اپنی بڑائی کے خیال سے عوام الناس کے ساتھ زیادہ اختلاط نہیں رکھتے اور گویا ان کی نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں جیسا کہ گزشتہ زمانوں میں بادشاہوں اور رئیسوں کا طریق ہوتا تھا.(۲) بیماریوں کے جراثیم اور باریک کیڑے جو عموماً نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں.(۳) ایسے جانور جو بلوں اور غاروں وغیرہ میں چھپ کر زندگی گزارتے ہیں.(۴) خدا کی ایک ایسی مخفی مخلوق جو عموماً انسان کو نظر نہیں آتی.اس تشریح کے ماتحت جاننا چاہئے کہ جب ابلیس کو قرآن شریف نے جن کے لفظ سے یاد کیا ہے تو اس سے یہ چوتھی قسم کی مخفی مخلوق مراد ہے.اور گو ہم ابلیس کی باریک کنہہ سے واقف نہ ہوں مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے قرآن شریف سے اس قدر ضرور پتہ چلتا ہے کہ یہ مخفی قسم کی مخلوق انسان کی پیدائش سے پہلے ایک آتشی قسم کے مادہ سے پیدا کی گئی تھی اور اسی لئے جلدی بھڑک اٹھنا اور اپنے اندر آگ کی سی تیزی اور گرمی پیدا کر لینا اس کی فطرت کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا لفظ آتے ہی ابلیس فورا سیخ پا گیا اور اس نے اپنی اس دشمنی کی آگ کو اس قدر بھڑ کا یا کہ آدم سے گزر کر اس کی نسل تک کو اپنی دائمی دشمنی کا عہد باندھ لیا.اس جگہ یہ یمنی ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ جن کے لغوی معنوں کے لحاظ سے فرشتے بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں.کیونکہ وہ بھی ایک قسم کی مخفی مخلوق ہیں مگر اصطلاحی لحاظ سے ان کا دائرہ جدا گانہ ہے یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین کو یہ غلطی لگی ہے کہ انھوں نے ابلیس کو ایک گمراہ شدہ فرشتہ قرار

Page 225

۲۱۳ دیا ہے.مگر میں اوپر بتا چکا ہوں یہ خیال درست نہیں.مضامین بشیر اب رہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ کا سوال.سو یہی درحقیقت اس ساری بحث میں اصل قابل غور چیز ہے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک میں اس حوالہ سے وہ نتیجہ نکال نہیں سکا جو محمد حیات صاحب نے یا بعض دوسرے دوستوں نے نکالنا چاہا ہے میں نے جہاں تک اس حوالہ پر غور کیا ہے اس کا حقیقی خلاصہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اپنے اعمال میں صاحب اختیار ہے کہ چاہے تو نیکی کے رستہ کو اختیار کر لے اور چاہے تو بدی کے رستہ پر پڑ جائے اور در حقیقت انسان کے صاحب اختیار ہونے کو ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام لمہ خیر یالمہ شریا داعی الی الخیر اور داعی الی الشر کے نام سے یاد فرماتے ہیں.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مضمون میں ابلیس کا بھی ذکر کیا ہے اور اسے داعی الی الشر کا نام دیا ہے مگر ظاہر ہے کہ اس پہلو سے ابلیس کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ جس طرح نمرود اپنے محدود زمانہ میں داعی الی الشر تھا اور فرعون اپنے محدود زمانہ میں داعی الی الشر تھا اور ابو جہل اپنے محدود زمانہ میں داعی الی الشر تھا.اسی طرح ابلیس اپنے وسیع زمانہ میں جو عملا گویا سارے زمانوں پر مشتمل ہے.داعی الی الشر ہے.پس جہاں تک میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ نظام روحانی کا ازلی حصہ انسان کا نیکی اور بدی میں صاحب اختیار ہونا ہے اور ابلیس کے وجود سے جو اوائل میں ہی یعنی ہمارے جد امجد حضرت آدم کے زمانہ میں ہی مغویانہ حیثیت اختیار کر گیا تھا.انسان کے اس فطری اختیار کے اس پہلو کو جو بدی کی طرف جھکنے سے تعلق رکھتا ہے ایک مزید خارجی سہارا مل گیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.” ہمارے مخالف آریہ اور برہمو اور عیسائی اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس تعلیم کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دانستہ انسان کے پیچھے شیطان کو لگا رکھا ہے.گویا اس کو آپ ہی خلق اللہ کا گمراہ کرنا منظور ہے مگر یہ ہمارے شتاب باز مخالفوں کی غلطی ہے.ان کو معلوم کرنا چاہئے که قرآن کریم کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ شیطان گمراہ کرنے کے لئے جبر کر سکتا ہے اور نہ یہ تعلیم ہے کہ صرف بدی کی طرف بلانے کے لئے شیطان کو مقرر کر رکھا ہے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ آزمائش اور امتحان کی غرض سے لمہ ملک اور لمہ ابلیس برابر طور پر انسان کو دیئے گئے ہیں.یعنی ایک داعی خیر اور ایک داعی شر.تا انسان اس ابتلاء میں پڑ کر مستحق ثواب یا عتاب کا ٹھہر سکے.کیونکہ اگر اس کے لئے ایک ہی طور کے اسباب پیدا کئے جاتے مثلاً اگر اس کے بیرونی اور اندرونی اسباب و جذبات فقط

Page 226

مضامین بشیر ۲۱۴ نیکی کی طرف ہی اس کو کھینچتے یا اس کی فطرت ہی ایسی واقع ہوتی کہ وہ بجز نیکی کے کاموں کے اور کچھ کر ہی نہ سکتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ نیک کاموں کے کرنے سے اس کو کوئی مرتبہ قرب کامل سکے......پس جاننا چاہیئے کہ سالک کو اپنی ابتدائی اور درمیانی حالت میں تمام امیدیں ثواب کی مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں.....اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ مخالفانہ جذبات جو انسان میں پیدا ہو کر انسان کو بدی کی طرف کھینچتے ہیں در حقیقت وہی انسان کے ثواب کا بھی موجب ہیں کیونکہ جب وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ان مخالفانہ جذبات کو چھوڑ دیتا ہے تو عند اللہ بلا شبہ تعریف کے لائق ٹھہر جاتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیتا ہے لیکن جو شخص انتہائی مقام کو پہنچ گیا ہے اُس میں مخالفانہ جذبات نہیں رہتے گویا اس کا جن مسلمان ۱۳۵ 66 ہو جاتا ہے.اس عبارت سے اور خصوصاً اس عبارت کے آخری الفاظ سے جن میں بحث کا خلاصہ نکالا گیا ہے، ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک اصل چیز انسان کا صاحب اختیار ہونا ہے کہ چاہے تو نیکی کو اختیار کر لے اور چاہے تو بدی کو اور دراصل یہی وہ چیز ہے جس کا نام لمہ خیر یا لمہ شر رکھا گیا ہے گویا اصل لمہ شر انسان کے اندرونی مخالفانہ جذبات ہیں.یہی وجہ ہے کہ جب اندرونی جذبات ٹھیک ہو جائیں تو بیرونی لمہ شر بریکار ہو جاتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے.جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان پر حکمت الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ ” اس کا جن مسلمان ہو جاتا ہے.پس گو بے شک ابلیس بھی حضرت آدم کے زمانہ سے ایک مغوی وجود بن کر ایک خارجی لمہ شر کی صورت اختیار کر گیا ہے.مگر اپنی اصل کے لحاظ سے اس کا مغویا نہ وجود ایسا ہی ہے جیسا کہ مختلف زمانوں میں بعض انسان مغوی وجود ہوتے رہے ہیں.پس جس طرح مغوی انسان اپنی مغویا نہ حیثیت میں ایک حادثہ تھے اسی طرح ابلیس کے وجود کا مغویا نہ پہلو بھی ایک حادثہ ہے صرف فرق یہ ہے کہ ابلیس کا وجود شروع سے ہی یعنی حضرت آدم کے زمانہ سے ظاہر ہو کر انسان کے اندرونی لمہ شر کے ساتھ لاحق ہو چکا ہے.اور اس خارجی محرک نے انسان کے اندرونی لمہ شر کو تقویت دے دی ہے مگر اس کے مقابل پر جو خارجی وجود انسان کے اندرونی لمہ خیر کو تقویت دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.وہ ابلیس کی نسبت زیادہ طاقتور اور زیادہ وسیع ہیں.چنانچہ ملائکہ کا وجود ، سلسلہ رُسل کا نظام اور کتب سماوی کا نزول سب ایسے خارجی وجود ہیں جو انسان کے اندرونی لمہ خیر کو مضبوط کرنے اور تقویت پہنچانے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور یہ خارجی لمہ خیر خدا کی ازلی مشیت کا

Page 227

۲۱۵ مضامین بشیر حصہ ہے کیونکہ گو خدا نے انسان کو صاحب اختیار بنایا ہے مگر اس کی خواہش یہی ہے کہ سب لوگ نیک بنیں اور نجات پائیں.خلاصہ کلام یہ کہ اصل بنیادی چیز جو نظام رُوحانی کا ازلی حصہ ہے وہ انسان کا صاحب اختیار ہونا ہے.اس کی نیکی کی طرف جھکنے کی طاقت لمہ خیر کہلاتی ہے.اور بدی کی طرف جھکنے کی طاقت لمہ شر.جب انسان نیکی کی طرف جھکتا ہے تو وہ گویا ایک روشنی کی طرف بڑھتا ہے اور جب وہ اس روشنی سے دور ہوتا ہے تو یہی اس کا بدی کی طرف جھکنا قرار پاتا ہے.اور خدا تعالیٰ نے ان دواند رونی کلموں کو تقویت پہنچانے کے لئے ایک طرف تو اپنی مشیت کے مطابق فرشتوں اور رسولوں اور آسمانی کتابوں کا سلسلہ جاری کر دیا.اور دوسری طرف ابلیس کا وجود حضرت آدم کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی مغویانہ صورت میں ظاہر ہو گیا.پس اس لحاظ سے کہ ابلیس گویا شروع سے ہی نسل انسانی کے ساتھ لگا ہوا ہے وہ ایک طرح نظام روحانی کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے.مگر بہر حال یہ درست نہیں کہ اُسے خدا تعالیٰ نے گمراہ کرنے کی غرض وغایت سے پیدا کیا ہے.بلکہ وہ اپنی مغویا نہ حیثیت میں ایک محض حادثہ ہے جو انسان کے اندرونی لمہ شر کے ساتھ لاحق ہو گیا ہے.اصل بحث پھر قرآن شریف پر آجاتی ہے.میں نے اس بارہ میں قرآن شریف کی متعلقہ آیات کو کافی غور کی نظر سے دیکھا ہے مجھے قرآنی بیان میں کوئی ایسی آیت نظر نہیں آئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ خدا تعالیٰ نے ابلیس کو اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ انسان کو گمراہ کرے.قرآن شریف میں نو جگہ ابلیس کا ذکر آتا ہے ان میں سے سات آیتیں سوال زیر غور کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ہیں.اور میں ان ساتوں آیتوں کا ترجمہ ذیل میں درج کئے دیتا ہوں تا کہ ناظرین خود اندازہ کر سکیں کہ جو نتیجہ میں نے نکالا ہے وہ صحیح ہے یا غلط.(1) سورۃ بقرة رکوع نمبر ہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.جب ہم نے فرشتوں سے یہ کہا کہ تم آدم کے سامنے سجدہ کرو یعنی اس کے لئے فرمانبردار ہو جاؤ تو سب نے فرمانبرداری اختیار کی مگر ابلیس نے نہ کی.اس نے انکار کیا اور اپنے آپ کو بڑا جانا اور کافروں میں سے ہو گیا.“ (۲) سورۃ اعراف رکوع نمبر ۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- ہم نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں شکل وصورت عطا کی.پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے لئے فرمانبردار ہو جاؤ.تو اس پر سب نے فرمانبرداری اختیار کی.مگر ابلیس فرمانبرداروں میں سے نہ بنا.خدا نے اسے کہا تجھے کس بات نے فرمانبردار

Page 228

مضامین بشیر ۲۱۶ بننے سے روکا.جبکہ میں نے خود تجھے اس کا حکم دیا تھا.اس نے کہا میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے.خدا نے کہا دور ہو جا تیرا یہ مقام نہیں کہ تو اس جگہ تکبر سے کام لے.پس دور ہو جا تو ذلیل ہستیوں میں سے ہے.ابلیس نے کہا مجھے یوم بعث تک مہلت عطا کیجئے.خدا نے فرمایا تجھے مہلت دی گئی.جس پر ابلیس نے کہا چونکہ اے خدا مجھے تو نے گمراہ گردانا ہے اس لئے اب میں نسل آدم کے تجھ تک پہنچے والے سیدھے رستہ پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور انہیں گمراہ کرنے کے لئے ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے آؤں گا اور تو دیکھے گا کہ ان میں سے اکثر تیرے شکر گزار ثابت نہیں ہوں گے.خدا نے کہا اس جگہ سے دور ہو جا.راندہ ہوا دھتکارا ہوا.اور یا درکھ کہ نسل آدم میں سے جو بھی تیری پیروی کرے گا میں تم سب کو جہنم کی آگ میں بھروں گا.(۳) سورۃ بنی اسرائیل رکوع نمبرے میں فرماتا ہے :- ” جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے لئے فرمانبردار ہو جاؤ تو وہ فرمانبردار ہو گئے مگر ابلیس نہ ہوا.اس نے کہا.کیا میں ایسی ہستی کا فرمانبردار بنوں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے.اور کہا دیکھ وہ جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے.اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی ذریت کو مغلوب کر کے ہلاک کروں گا.مگر ان میں سے تھوڑے جو بیچ سکیں گے.خدا نے کہا دُور ہو.ان میں سے جو بھی تیرے پیچھے لگے گا تو سن رکھو کہ تم سب کے لئے جہنم ہی پورا پورا بدلہ ہے.پس تو ان میں سے جسے چاہے اپنی آواز سے بہکا کر دیکھ لے اور اپنے سوار اور اپنے پیارے ان پر چڑھالا.اور ان کے مالوں اور ان کی اولادوں میں ان کا شریک بن.اور ان کو جس جس طرح بھی چاہے وعدے دے.اور شیطان کے وعدے جھوٹ کے سوا کیا ہوتے ہیں.وہ جو میرے بندے ہیں ان پر تو بہر حال تجھے غلبہ حاصل نہیں ہوگا.اور خدا کافی کارساز اور نگران ہے.“ (۴) سورۃ کہف رکوع نمبرے میں فرماتا ہے ” جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کے لئے فرمانبردار بن جاؤ تو ان سب نے فرمانبرداری اختیار کی مگر ابلیس نے نہ کی.وہ جنوں میں سے تھا پھر اس نے خدا

Page 229

۲۱۷ مضامین بشیر کے حکم سے نافرمانی کی.تو کیا اے لوگو تم مجھے چھوڑ کر اس ہستی اور اس کی نسل کو اپنا دوست بناؤ گے؟ حالانکہ یہ ہستیاں تمہاری دشمن ہیں جو لوگ ایسا کریں گے.وہ خدا کے مقابلہ پر بہت بری رفاقت اختیار کرنے والے ہوں گے“ (۵) سورۃ طہ رکوع نمبرے میں فرماتا ہے : ” جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کے فرمانبردار ہو جاؤ تو انہوں نے فرمانبرداری اختیار کی.مگر ابلیس نے ایسا کرنے سے انکار کیا ہم نے کہا.اے آدم یہ تیرا اور تیری زوج کا دشمن ہے.پس ہوشیار رہنا کہ وہ تمہیں تمہارے مقام جنت سے نکال نہ دے اور پھر تم تکلیف میں مبتلا ہو جاؤ.“.(1) سورۃ حجر رکوع نمبر ۳ میں فرماتا ہے : "ہم نے انسان کو بولنے والی تیار کی ہوئی مٹی سے بنایا.اور ہم اس سے پہلے جان ( یعنی جنوں ) کولو والی آگ سے بنا چکے تھے اور جب خدا نے فرشتوں سے یہ کہا.کہ میں ایک بولنے والی تیار کی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کر نے والا ہوں.جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے سامنے فرمانبردار ہوتے ہوئے جھک جانا.اس پر سب کے سب فرشتوں نے فرمانبرداری اختیار کی مگر ابلیس نے نہ کی.اُس نے فرمانبرداروں میں ہونے سے انکار کر دیا.خدا نے کہا اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو نے آدم کی فرمانبرداری اختیار نہ کی.ابلیس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اس بشر کا فرمانبردار ہوں.جسے تو نے آواز دینے والی تیار کی ہوئی مٹی سے بنایا ہے خدا نے فرمایا یہاں سے نکل جا تو دھتکارا ہوا ہے اور تجھ پر جزا سزا کے دن تک لعنت ہے.ابلیس نے کہا میرے خدا مجھے یوم بعث تک مہلت دیجئے.خدا نے فرمایا تجھے وقت معلوم تک مہلت دی گئی.ابلیس نے کہا اے خدا جب تو نے مجھے گمراہ شدہ قرار دیا ہے تو اب میں انسانوں کے لئے دنیا میں مختلف قسم کی زیب و زینوں کے سامان بناؤں گا اور ان سب کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا.سوائے تیرے مخلص بندوں کے.خدا نے فرمایا یہی اخلاص کا رستہ تو میری طرف آنے کا سیدھا رستہ ہے.رب رب فداک نفسی اجعلني منھم.وہ جو میرے بندے ہیں ان پر تجھے غلبہ حاصل نہیں ہوگا.سوائے اس کے کہ گمراہ ہونے والوں میں سے کوئی شخص خود تیری پیروی اختیار

Page 230

مضامین بشیر ۲۱۸ 66 کرے.اور ایسے سب لوگوں کے لئے جہنم وعدہ کا مقام ہے.“ (۷) اور بالآخر سورۃ ص رکوع نمبر ۵ میں فرماتا ہے : ” جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں پھر جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے سامنے فرمانبردار ہو کے جھک جاؤ.تو اس پر سب کے سب فرشتوں نے فرمانبرداری اختیار کی.مگر ابلیس نے نہ کی.اس نے اپنے آپ کو بڑا جانا اور کافروں میں سے ہو گیا.خدا نے کہا اے ابلیس تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس وجود کا فرمانبردار بنے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ( اللہ اللہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیارے الفاظ میں انسان کے لئے کتنی عزت افزائی اور خدا کے لئے کیا شان دلربائی ہے!) کیا تو نے تکبر سے کام لیا یا کہ تو زیادہ عالی مرتبہ ہستیوں میں سے ہے؟ اس نے کہا میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے.خدا نے فرمایا دور ہو جا یہاں سے کہ تو دھتکارا ہوا ہے.اور تجھ پر جزا سزا کے دن تک میری لعنت ہے.ابلیس نے کہا اے میرے رب مجھ يوم بعث تک مہلت عطا کیجئے.خدا نے کہا تجھے وقت معلوم تک مہلت دی گئی.ابلیس نے کہا مجھے تیری عزت کی قسم ہے.کہ میں بھی اب ان سب کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا.سوائے تیرے مخلص بندوں کے.خدا نے کہا کہ تو پھر میری بھی یہ کچی کچی بات سن لے کہ اس صورت میں تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والوں کو جہنم کی آگ میں بھروں گا.“ میں اپنے ناظرین سے پوچھتا ہوں کہ کیا اوپر کی آیتوں میں سے کوئی ایک آیت یا ایک فقرہ یا ایک لفظ بھی ایسا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ ابلیس کو خدا نے ابتداء سے ہی اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ بنی نوع آدم کو گمراہ کرتا پھرے.بلکہ ان آیات سے تو یہاں تک پتہ لگتا ہے کہ ابلیس کی پیدائش آدم سے پہلے ہوئی تھی.مگر مغوی وہ آدم کے وقت آ کر بنا.بہر حال جو باتیں اوپر کی آیات سے ثابت ہوتی ہیں وہ یہ ہیں :- 66 (۱) یہ کہ ابلیس جنوں میں سے ایک مخفی قسم کی مخلوق تھا جو آدم سے پہلے آتشی مادہ سے پیدا کیا گیا اور اس کے بعد آدم کو طینی مادہ سے پیدا کیا گیا.(۲) یہ کہ خدا نے جن وانس سب کو اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے.

Page 231

۲۱۹ مضامین بشیر (۳) یہ کہ جب آدم کی پیدائش پر فرشتوں کے ساتھ ابلیس کو بھی آدم کی فرمانبرداری کا حکم ہوا تو فرشتوں نے اپنی فطرت کے مطابق فورا تعمیل کی.مگر ابلیس نے اپنے اختیار کو کام میں لاتے ہوئے تکبر کیا اور اپنے آپ کو آدم سے بڑا سمجھتے ہوئے آدم کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا (۴) یہ کہ اس انکار پر خدا تعالیٰ ابلیس پر ناراض ہوا اور اُسے رجیم اور ملعون قرار دیا.(۵) یہ کہ خدا تعالیٰ کی اس ناراضگی پر ابلیس کو ڈر پیدا ہوا کہ خدا اسے ہلاک کر دے گا.جس پر اس نے خدا سے زندگی کی مہلت مانگی.(۶) یہ کہ خدا نے اُسے وقت معلوم تک مہلت دی (۷) یہ کہ اس پر ابلیس نے آدم کی دشمنی میں یہ اعلان کیا کہ آئندہ وہ آدم اور اس کی نسل کو گمراہ کرتا رہے گا.(۸) یہ کہ ابلیس کے اس اعلان پر خدا نے فرمایا کہ تو نے جتنا زور لگا نا ہو لگا لے وہ جو میرے مخلص بندے ہیں وہ بہر حال تیرے حملوں سے محفوظ رہیں گے.ہاں جو لوگ تیری بد تحریکات کو خود قبول کریں گے وہ ضرور گمراہ ہوں گے.گے.(۹) یہ کہ ابلیس کو کسی پر جبر کی طاقت حاصل نہیں ہے.(۱۰) یہ کہ ابلیس اور اس کے پیچھے لگنے والے لوگ سب بطور سزا کے جہنم میں ڈالے جائیں یہ سب نتائج بالکل واضح ہیں اور ان پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے.اور یہ فیصلہ قرآن کا فیصلہ ہے لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ يُؤْمِنُوْنَ 6 خلاصہ کلام یہ ہے کہ : (اول) خیر وشر کے روحانی نظام کی اصل بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان کو اس کے اعمال میں صاحب اختیار بنایا گیا ہے کہ چاہے تو نیکی کا رستہ اختیار کرلے اور چاہے تو نیکی کو چھوڑ کر بدی کے رستہ ا پر پڑ جائے اور اس کے لئے ان دورستوں کا کھلا ہونا لمہ خیر اور لمہ شر کہلاتا ہے.( دوم ) خدا چونکہ ہدایت کا سرچشمہ ہے.اور اس کا حقیقی منشاء یہ ہے کہ سب ہدایت پائیں اس لئے اس نے انسان کو صاحب اختیار بنانے کے ساتھ ساتھ اُس کی روحانی حفاظت اور ترقی کے لئے تین قسم کے خارجی نظام بھی جاری کئے ہیں (الف) فرشتوں کا نظام جو انسانوں کو نیکی کی تحریک کرتے ہیں :.

Page 232

مضامین بشیر ۲۲۰ (ب) رسولوں کا نظام جو خدا کی طرف سے ہدایت کا پیغام لے کر آتے ہیں.اور دنیا کے لئے نیکی کا عملی نمونہ بنتے ہیں.اور ( ج ) کتب سماوی کے نزول کا نظام جو خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت اور تعلیم پر مشتمل ہوتی ہیں یہ تینوں نظام انسان کے اندرونی لمہ خیر کے لئے سہارے اور تقویت کا باعث ہیں.اور گویا بطور خارجی المہ خیر کے کام کرتے ہیں اور یہ تینوں نظام مشیت ایزدی کا حصہ ہیں.( سوم ) آدم کی پیدائش کے ساتھ ہی ابلیس کا حادثہ وقوع میں آ گیا یعنی اس نے خدا کے حکم کے با وجود آدم کے سامنے سجدہ کرنے اور فرمانبردار بننے سے انکار کر دیا.اس لئے وہ ایک حادثہ کی صورت میں نہ کہ خدائی مشیت اور اپنی پیدائش کی غرض و غایت کے ماتحت عملاً انسان کے لئے امتحان اور ابتلاء کا ذریعہ بن گیا.اور اب یہ خارجی لمہ شر انسان کے اندرونی لمہ شر کو تقویت دے رہا ہے (چہارم) پر دونوں قسم کے خارجی لمہ خیر اور لمہ شر صرف نیکی یا بدی کی طرف بلانے کی طاقت رکھتے ہیں.مگر کسی شخص پر جبر نہیں کر سکتے کیونکہ دین کے معاملہ میں جبر کرنا خدائی شریعت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے.اب ناظرین خود دیکھ سکتے ہیں کہ اوپر کے نظریہ کے ماتحت قرآن شریف اور حضرت مسیح موعود السلام کے کلام میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا اور نہ ہی خدا کی صفات پر کسی قسم کے اعتراض کا رستہ کھلتا ہے.اور یہی وہ نتیجہ ہے جس کی طرف میں نے اپنے سابقہ مضمون میں اختصار کے ساتھ اشارہ کیا تھا.و ا خرد عوانا ان الحمد لله رب العالمين نوٹ : ابلیس اور شیطان کی باہمی نسبت اور تشریح کے متعلق میں اپنے پہلے مضمون میں مختصر بتا چکا ہوں.اس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میرے موجودہ مضمون سے اس سوال کا براہ راست کوئی تعلق ہے.نوٹ ثانی میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو کچھ اس مضمون کے متعلق میری موجودہ تحقیق تھی.وہ میں نے اس جگہ لکھ دی ہے اور میری طرف سے اس موضوع پر یہ آخری تحریر ہے کیونکہ مجھے بعض اور مضامین بھی لکھنے ہیں.جو وقتی لحاظ سے زیادہ اہم اور ضروری ہیں.البتہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ میرا نظریہ درست نہیں تو میں بلا توقف اپنی رائے بدلنے کو تیار ہوں کیونکہ بہر حال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور مومن کے دل میں حق کے داخلہ کے لئے ہر وقت رستہ کھلا رہنا چاہئیے.( مطبوعه الفضل ۱۶ رمئی ۱۹۴۸ء)

Page 233

۲۲۱ مضامین بشیر گذشتہ فسادات کی ذمہ داری کس قوم پر ہے؟ ذمہ داری کی تعیین کے لئے چند بنیادی اصول قریباً پچیس سال کا عرصہ ہوا.جبکہ میں ابھی نو جوان تھا کہ مجھے ایک مناظرہ کے سننے کا اتفاق ہوا اس مناظرہ میں ہر دو فریق نے خوب زور و شور سے تقریریں کیں اور فریقین کے حامیوں نے بھی خوب دل کھول کر واہ واہ کی لیکن میری طبیعت پر اس مناظرہ کا ایسا خراب اثر ہوا کہ آج تک نہیں بھولتا.کیونکہ آخر تک ہر دو منا ظر صرف اپنے اپنے حق کی دلیلیں دہراتے تھے.اور دوسرے فریق کی پیش کردہ دلیلوں کو توڑنے یا مطابقت دینے کی طرف بالکل توجہ نہیں تھی.حالانکہ کا میاب مناظر وہی ہوتا ہے جس میں یا تو انسان اپنی دلیلوں کو سچا ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ فریق مخالف کی دلیلوں کو بھی غلط ثابت کر دے.یا ان کی کوئی ایسی معقول تشریح پیش کرے جس سے مخالف یا موافق دلیلوں میں تضاد کی صورت دور ہو جائے.اس وقت سے میں نے اس نکتہ کو سمجھا اور میری طبیعت پر اس کا گہرا اثر ہے کہ محض اپنی تائید میں کوئی دلیل پیش کر دینا ہرگز کافی نہیں ہوا کرتا.بلکہ صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے موافق و مخالف ہر دو قسم کی دلیلوں پر یکجائی کی نظر ڈال کر ان کا موازنہ کرنا اور پھر غلط دلیل کو کاٹ کر صحیح دلیل کو قائم کرنا.یا دونوں قسم کی دلیلوں میں مطابقت کی صورت پیدا کر کے آخری نتیجہ نکالنا ضروری ہوتا ہے.مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا میں اکثر مناظرے یک طرفہ بات کو دہراتے چلے جانے کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتے.اور جب دوسرا فریق بھی اپنی یک طرفہ بات کو دہرانے لگتا ہے تو پھر عوام الناس حیران و ششدر ہو کر پریشان ہونے لگتے ہیں کہ کس بات کو سچا سمجھیں اور کس کو جھوٹا.کیونکہ دلیلیں دونوں طرف کی موجود ہوتی ہیں مگر کمزور دلیلوں کو کاٹنے یا مضبوط دلیلوں کے مطابق ثابت کرنے کا کوئی سامان موجود نہیں ہوتا.گزشتہ فسادات میں بظاہر دونوں طرف قتل و غارت ہوا مگر پھر بھی ظالم کو پہچاننا مشکل نہیں.گزشتہ فسادات کے تعلق میں ذمہ داری کے سوال کے متعلق بھی یہی سطحی رنگ اختیار کیا جارہا ہے یعنی ایک طرف مسلمان یہ شکایت کر رہے ہیں کہ سکھوں اور ہندوؤں نے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو قتل کیا.ان کی عورتوں کو اغوا کیا ان کی جائیدادوں کو تباہ کیا اور ان کے مال واسباب

Page 234

مضامین بشیر ۲۲۲ کولوٹا اور دوسری طرف ہندو اور سکھ واویلا کر رہے ہیں کہ مغربی پنجاب میں یہی مظالم سکھوں اور ہندوؤں پر توڑے گئے اور آج نو مہینے ہو گئے کہ دونوں فریق کی طرف سے یہی شکایت دہرائی چلی جا رہی ہے مگر کوئی خدا کا بندہ اس بحث کو سلجھانے یا اس میں صحیح راستہ کی تعیین کرنیکی کوشش نہیں کرتا.مسلمان واویلا کر رہا ہے کہ مسلمانوں پر ظلم ہوا اور سکھ اور ہند و شور مچا رہے ہیں کہ سکھوں اور ہندوؤں پر ظلم ہوا اور اگر سطحی نظر سے دیکھا جائے تو بظاہر یہ دونوں باتیں درست معلوم ہوتی ہیں.کیونکہ اس بات میں کیا شبہ ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمان لوٹے اور مارے گئے اور مغربی پنجاب میں سکھوں اور ہندوؤں نے نقصان اٹھایا.مگر اس سطحی نظارہ سے آگے گزر کر کوئی شخص اس بات کے سوچنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا کہ اس ظلم کی اصل ذمہ داری کس فریق پر ہے اور یہ کہ اس ذمہ داری کی تعیین کا منصفانہ طریق کیا ہے بے شک بعض لوگوں نے اس سوال کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان کی تقریروں اور تحریروں میں بھی وہ تفصیلی تجزیہ نہیں پایا جاتا جو اس بحث میں صحیح اور صاف صاف نتیجہ تک پہونچنے کے لئے ضروری ہے.یہ درست ہے کہ اس قسم کی بحثوں کا خاتمہ تو کبھی بھی نہیں ہوا کرتا اور ہر فریق کا ضدی طبقہ میں نہ مانوں کے اصول کے ماتحت ہر حال میں اپنی بات دہراتا چلا جاتا ہے.مگر صحیح اصول اختیار کرنے سے قوم کا وہ حصہ جو منصفانہ جذبات رکھتا ہے، سمجھ جاتا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور کم از کم غیر جانبدرار لوگوں کو صحیح رائے قائم کرنے کا موقع میسر آجاتا ہے اور یہی ایسی بحثوں کا اصل فائدہ ہوا کرتا ہے." اب جہاں تک میں نے اس معاملہ میں سوچا ہے گزشتہ فسادات کی اصل ذمہ داری معین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم چند مسلمہ بنیادی اصولوں کی تعیین کرنے کے بعد اس بحث میں داخل ہوں.یعنی پہلے اصول قائم کریں اور پھر ان اصولوں کی روشنی میں ذمہ داری معین کرنے کی کوشش کریں اور یہ اصول میرے نزدیک اور ہر غیر متعصب شخص کے نزدیک مندرجہ ذیل ہونے چاہئیں :.پہل کرنے والا زیادہ ظالم ہوتا ہے (اول ) سب سے پہلی بات جو اس قسم کی بحثوں میں صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے.وہ یہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جائے کہ فسادات میں آغا ز کس فریق کی طرف سے ہوا ہے.عربی میں ایک مشہور قول ہے کہ البادی الظلم یعنی پہل کرنے والا زیادہ ظالم ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اگر مجھ پر کوئی شخص حملہ کرنے آجائے تو میں اگر بے غیرت اور بزدل نہیں ہوں تو اپنی جان یا مال یا عزت کی حفاظت کے لئے مقابلہ کروں گا اور بالکل ممکن ہے کہ اس مقابلہ میں حملہ کرنے والا شخص زیادہ چوٹ کھا

Page 235

۲۲۳ مضامین بشیر جائے یا میرے ہاتھ سے قتل ہی ہو جائے لیکن ہر عقلمند کے نزدیک اور ہرمتمدن ملک کے قانون کے مطابق ظالم وہی شخص قرار پائے گا جو ظلم میں پہل کر کے مجھ پر حملہ آور ہوا ہے.خواہ نقصان عملاً اسی نے زیادہ اٹھایا ہو.یہی وجہ ہے کہ خود حفاظتی کے اصول کو جسے انگریزی میں Right of private defence کہتے ہیں ، ہر ملک اور ہر مذہب نے تسلیم کیا ہے.بے شک عیسائی مذہب کی بعض تعلیمات اس کے خلاف نظر آتی ہیں.مگر عیسائیت کی تعلیم کا یہ حصہ محض عارضی اور وقتی نوعیت رکھتا تھا اور مسیحی اقوام کا عملی رویہ ہمیشہ اس عارضی تعلیم کے خلاف اور مندرجہ بالا دائمی اصول کے مطابق رہا ہے.سوگزشتہ قیامت خیز فسادات میں سب سے پہلی بات یہ دیکھنی ضروری ہوگی کہ اس خون خرابہ اور قتل و غارت اور لوٹ مار اور آبروریزی کے کھیل میں ابتدا کس فریق کی طرف سے ہوئی ہے.جو قوم بادی ثابت ہو گی ، وہی یقیناً اظلم قرار پائے گی اور مسلمانوں کا دعویٰ ہے.جس کی تائید میں وہ زبر دست دلائل رکھتے ہیں ( مگر یہاں ان دلائل کی بحث میں جانا میرا مقصد نہیں بلکہ صرف اصول بتا نا اصل غرض ہے ) کہ گذشتہ فسادات میں ابتدا یقینا سکھوں اور ہندوؤں کی طرف سے ہوئی ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ابتداء بھی دو قسم کی ہوتی ہے، یعنی ایک تو قومی ابتداء ہوتی ہے اور دوسری فعلی اور عملی ابتداء ہوتی ہے اور حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ دونوں قسم کی ابتدا سکھوں اور ہندوؤں کی طرف سے ہوئی ہے اور جوں جوں زمانہ کے گزرنے اور طبائع کے جوشوں کے ٹھنڈا ہونے کے ساتھ تاریخ کے نقوش زیادہ معین اور زیادہ واضح ہوتے چلے جائیں گے.توں توں یہ حقیقت بھی زیادہ روشن ہوتی چلی جائے گی کہ اس خونی ہولی میں پہل ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے ہوئی تھی نہ کہ مسلمانوں کی طرف سے.جوابی کاروائی میں بھی معقول حد سے تجاوز کرنا جائز نہیں ( دوم ) دوسری بات یہ دیکھنے والی ہے کہ خواہ ابتداء کسی کی طرف سے ہو ، جب کوئی فریق اپنے جواب میں بھی اعتدال کی حد سے آگے نکل جاتا ہے.یعنی جتنا خطرہ اسے دوسرے فریق کی طرف سے پیدا ہوتا ہے.یا جس قسم کا حملہ اس کے خلاف کیا جاتا ہے.وہ اس کے جواب میں خطرہ اور حملہ کے تناسب سے تجاوز کر کے اپنی جوابی کارروائی کو انتہائی درجہ ظالمانہ رنگ دے دیتا ہے تو اس صورت میں یہ بظا ہر دفاع کرنے والا شخص بھی ظالم بن جاتا ہے.مثلاً ایک شخص ایک پتلی سی چھڑی لے کر آ پر حملہ کرنے کے لئے بڑھتا ہے اور آپ اس کے اس خفیف سے حملہ کو جس سے آپ کی جان کو کوئی حقیقی خطرہ پیدا نہیں ہوتا ، بہانہ بنا کر حملہ کرنے والے کو جواب میں قتل کر دیتے ہیں اور قتل بھی نہایت بے دردانہ رنگ میں ایذا اور عذاب کا طریق اختیار کر کے کرتے ہیں، تو ہر شخص یہی سمجھے گا اور یہی سمجھنے کا حق رکھتا

Page 236

مضامین بشیر ۲۲۴ ہے کہ ایسا شخص بظاہر جوابی رنگ رکھتے ہوئے بھی ظالم اور سزا کا مستحق.ہے.یہ وہ صورت ہے جسے قانون کی اصطلاح میں حفاظت خود اختیاری کے حق سے تجاوز کرنا کہتے ہیں.یعنی Exceeding the right of private defence بے شک بعض اوقات ایسی ہنگامی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ افراتفری کی حالت میں ایک شخص نیک نیت ہوتے ہوئے بھی خود حفاظتی کے حق سے خفیف سا تجاوز کر جاتا ہے اور اس قسم کے خفیف تجاوز کو حالات پیش آمدہ کے ماتحت قابل معافی سمجھا جاتا ہے.لیکن جہاں حملہ اور دفاع میں کوئی نسبت ہی نہ ہو اور دفاع سے ناجائز فائدہ اٹھا کر انتہائی ظلم سے کام لیا جائے تو ایسا دفاع بھی یقیناً قابل ملامت اور قابل سز ا سمجھا جائے گا.چنانچہ گزشتہ فسادات میں کئی جگہ ایسا ہوا کہ بعض مقامات پر سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کو کوئی دھمکی دی اور انہیں تنگ کیا اور پرستی چھیڑا اور اس کے جواب میں مسلمانوں نے دفاع اور خود حفاظتی کے خیال سے کوئی جائز تدبیر اختیار کی تو پھر اس دفاعی تدبیر کو بہانہ بنا کر مسلمانوں پر وہ وہ مظالم ڈھائے گئے کہ الامان والحفیظ.پس فسادات میں ذمہ داری کی صحیح تعیین کرنے کے لئے اس پہلو کو دیکھنا بھی ضروری ہوگا.سازش کا رنگ ذمہ داری کو بہت بڑھا دیتا ہے (سوم) تیسری بات یہ دیکھنے والی ہے کہ سازش کا رنگ کس قوم کی کارروائیوں میں پایا جاتا ہے.دنیا میں اکثر فسادات ہوتے رہتے ہیں.اور ان فسادات میں قتل و غارت اور لوٹ مار وغیرہ کی واردا تیں بھی ہو جاتی ہیں.مگر بالعموم ایسے فسادات افراد کے جوش کا ایک وقتی ابال سمجھے جاتے ہیں.یعنی یہ کہ کسی وجہ سے دو پارٹیوں کے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا اور یہ اختلاف بعض وجوہات سے چمک گیا اور پھر اس کے نتیجہ میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو گئی.بے شک ایسے ٹکراؤ بھی قابل افسوس ہیں اور ان میں جو فریق بھی زیادہ ظالم ہے ، وہ زیادہ قابل علامت ہے ، لیکن اگر کسی پارٹی یا قوم کی طرف سے سازش کا رنگ پیدا ہو جائے اور پہلے سے تدبیریں سوچ کر اور سکیمیں بنا کر دوسری پارٹی کو اپنے حملہ کا نشانہ بنایا جائے تو یہ ایک بدترین قسم کی فرقہ وارانہ ذہنیت ہوگی جو فساد کرنے والی قوم کی ذمہ داری کو یقیناً بہت بڑھا دے گی اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے.( گو یہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ) کہ مشرقی پنجاب میں ایک پہلے سے سوچی ہوئی سکیم کے ماتحت مسلمانوں کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا.اس میں واقعات اور حالات اتنے واضح اور نمایاں ہیں کہ کسی غیر جانبدار شخص کے لئے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی.ایک سکیم بنائی گئی.اس کے مطابق تیاری کی گئی.اور پھر اس سکیم اور اس تیاری کے ماتحت ایک منظم صورت میں مسلمانوں کی جانوں اور مالوں اور عزتوں پر حملہ کیا

Page 237

۲۲۵ مضامین بشیر گیا.اور اس کے مقابل پر جو مظالم مغربی پنجاب میں سکھوں یا ہندوؤں پر ہوئے وہ بھی بے شک قابل افسوس ہیں مگر اکثر صورتوں میں وہ ایک وقتی اور مقامی جوش کا نتیجہ تھے.جس میں کسی قسم کی سازش یا پہلے سے سوچی ہوئی سکیم کا دخل نہیں تھا.اور یہ وہ بھاری فرق ہے جس کے ذریعہ دونوں قوموں کی نسبتی ذمہ داری آسانی کے ساتھ معین کی جاسکتی.پبلک فسادوں میں حکام کی جانبدارانہ شرکت ایک بدترین داغ ہے (چہارم) چوتھی بات یہ دیکھنے والی ہے کہ ان فسادات میں دونوں طرف کے حکام اور خصوصاً پولیس اور ملٹری کا کہاں تک دخل رہا ہے.فسادات تو ہر ملک اور ہر زمانہ میں ہوتے رہتے ہیں.کبھی ان فسادات کا باعث نسلی اختلاف بن جاتا ہے اور کبھی سیاسی اختلاف ان کا موجب ہو جاتا ہے.اور کبھی مذہبی اختلاف کو فساد کا بہانہ بنا لیا جاتا ہے.مگر ہر متمدن ملک میں جہاں کم از کم انصاف کی نمائش کی جاتی ہو، حکومت کے افسر اس قسم کے پبلک فسادوں میں غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر حال میں غیر جانبدار رہے.کیونکہ حکومت کی بنیادی غرض وغایت ملک میں امن قائم کرنا ہوتی ہے اور اس کا یہ اولین فرض ہے کہ رعایا کے مختلف طبقوں میں عدل وانصاف کے تر از وکو قائم رکھے دراصل حاکم باپ کے حکم میں ہوتا ہے اور پبلک اولاد کے حکم میں ہوتی ہے.اور کون باپ ہے جو اپنے ایک لڑکے کو غیر سمجھے اور ایک کو تو اپنی گود میں بٹھائے اور دوسرے کو لٹھ دکھائے.اور جو شخص حکومت کا نمائندہ ہو کر اور امن کا محافظ بن کر پھر فساد میں حصہ لیتا اور پبلک کے مختلف طبقوں میں جانبداری کا رویہ اختیار کرتا ہے ، وہ انسانیت کا بدترین دشمن ہے کیونکہ گو وہ بھیٹروں کا گڈریا مقرر کیا گیا تھا.لیکن اس نے بھیڑیا بن کر اپنے ہی گلہ کی بھیڑوں کو مارنا شروع کر دیا.مگر افسوس ہے کہ گزشتہ فسادات میں ہمارے بدقسمت ملک کو یہ سیاہ داغ دیکھنا بھی نصیب تھا.یقیناً پاکستان اور ہندوستان میں سے جس ملک میں بھی یہ گندی کھیل کھیلی گئی ہے اور جس ملک کے افسروں نے خودشوریدہ سر پبلک کے ساتھ ہو کر دوسرے فریق کے بے بس افراد کو مظالم کا نشانہ بنایا ہے، وہ ان فسادات کے مجرموں میں سے مجرم نمبرا ہے ، جس کی ذمہ داری سے وہ تا قیامت بری نہیں سمجھا جا سکتا.پس ذمہ داری کی تعیین کے لئے حکام کے شرکت کے پہلو کو دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس پہلو کا مطالعہ ایک غیر متعصب انسان کے لئے اس بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ جس قسم کی بر ملا اور وسیع شرکت مشرقی پنجاب کی پولیس اور ملٹری نے گزشتہ فسادات میں کی ہے، اس کے ساتھ مغربی پنجاب کے حالات کو کوئی نسبت نہیں.میں ہر گز یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ مشرقی پنجاب کے سب پولیس اور

Page 238

۲۲۶ مضامین بشیر ملٹری افسر ایک جیسے تھے.یقیناً ان میں سے بعض نیک دل بھی ہوں گے.اور میں یہ دعوے بھی ہرگز نہیں کرتا کہ مغربی پنجاب میں کوئی کالی بھیڑ نہیں.یقیناً بعض بے اصول افسروں نے یہاں بھی غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہو گا مگر ہر میدان میں نسبت کو دیکھا جاتا ہے اور یہ نسبت مشرقی پنجاب میں اتنی زیادہ ہے کہ کسی عقلمند کے نزدیک شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی.لیکن میں کہہ چکا ہوں کہ اس جگہ مجھے دلائل دینے مقصود نہیں بلکہ صرف اصول کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے.مظالم کی نوعیت اور درجہ کا سوال بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ( پنجم ) پانچویں بات یہ دیکھنی ضروری ہوتی ہے کہ اس قسم کے فسادات میں مظالم کی نوعیت اور مظالم کا درجہ کس فریق کو زیادہ زیر الزام لاتا ہے.ظاہر ہے کہ عموماً فسادات میں ظلم ہر دو فریق کی طرف سے ہو جاتے ہیں.یعنی خواہ ابتداء کسی کی طرف سے ہوا اور خواہ حق کسی فریق کے ساتھ ہو.جب کوئی فساد ہوتا ہے تو عموماً ہر فریق کی طرف سے ایسے افعال سرزد ہوتے ہیں جنہیں ظاہری نظر میں ظلم اور تشدد کا نام دیا جا سکتا ہے.لیکن بہر حال یہ بات دیکھنی ضروری ہوتی ہے اور اس کے بغیر ذمہ داری کی صحیح تعیین نہیں ہو سکتی کہ فریقین کی طرف سے جو مظالم روا ر کھے گئے ہیں اور جن افعال کا ارتکاب کیا گیا ہے، ان میں درجہ اور نوعیت کے لحاظ سے کس فریق کے مظالم زیادہ سخت اور زیادہ بھیا نک اور زیادہ بے رحمی کا رنگ رکھتے ہیں.مثلاً اگر دو فریق کے درمیان کوئی لڑائی ہو جاتی ہے تو خواہ حق کسی کے ساتھ ہو وہ لازماً ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھائیں گے اور لازماً ان میں سے ہر فریق کے آدمیوں کو کم و بیش چوٹیں بھی آئیں گی یا بعض قتل بھی ہوں گے.لیکن اگر ان دو فریقوں میں سے ایک فریق زیادہ بختی اور زیادہ بے رحمی کا طریق اختیار کرتا ہے.مثلاً صرف قتل ہی نہیں کرتا بلکہ وحشیانہ غصہ میں آکر مقتول کے اعضاء کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے.یا مثلا تلوار چلاتے ہوئے دانستہ چہرہ پر وار کرتا ہے تا کہ دوسرے کی صورت کو مسخ کر دے.اور اس کی زندگی کو اس کے لئے مصیبت بنا دے.یا لڑائی میں دوسرے فریق کے جنگجو مردوں سے تجاوز کر کے عورتوں اور بچوں پر بھی وار کرتا ہے.یا بوڑھے اورضعیف مردوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارتا ہے.یا چھوٹے بچوں کو ماں کے سامنے مار کر یا ماں کو چھوٹے بچوں کے سامنے تہہ تیغ کر کے خوش ہوتا ہے تو وہ اپنی سیاہ باطنی اور درندگی پر خود اپنے ہاتھ سے مہر لگاتا ہے.اور فسادات میں اس کی ذمہ داری ( خواہ دوسرے حالات کچھ ہوں ) انتہا کو پہنچ جاتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اور ایک مشترک ما در وطن کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ہماری آنکھیں شرم سے زمین میں گڑ جاتی ہیں کہ مشرقی پنجاب میں ایسے واقعات ایک نہیں دس

Page 239

۲۲۷ مضامین بشیر ہیں نہیں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہوئے.اور لاکھوں دیکھنے والوں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.مگر اپنی قوم کے ان انتہائی وحشیانہ افعال کے باوجود کسی برادر وطن کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ان افعال سے برأت اور نفرت کا اظہار کرے.گویا قومیت کا جذبہ انسانیت پر بھی غالب آ گیا اور شرافت پر درندگی نے فتح پالی.ہمارے مقدس آقا کا مقدس ارشاد ہمارے مقدس آقا صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ کس قدر پاک اسوہ ہے کہ آپ ہر فوجی دستہ کو حملہ آوروں.کے خلاف بھجواتے ہوئے تکرار اور اصرار کے ساتھ یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ :- ”دیکھو تمہیں جس قوم کے خلاف بھی لڑنے کا موقع پیش آئے.اس کے متعلق اس اصول کو ہرگز نہ بھولنا کہ عورتوں اور بچوں کے خلاف ہاتھ نہ اٹھایا جائے.بوڑھے اور بیمار مردوں پر وار نہ کیا جائے.وہ لوگ جو اپنی زندگیاں مذہب کی خدمت کے لئے وقف رکھتے ہیں خواہ یہ مذہب کوئی ہو ، انہیں اپنے حملہ کا نشانہ نہ بنایا جائے اور جو شخص تم پر حملہ کرنے کے لئے بڑھتا ہے.اس کے متعلق بھی یہ احتیاط رکھو کہ تمہارے دفاعی وار سے اس کے چہرہ پر زخم نہ آئے.اور دیکھو مقتولوں کے اعضاء کو ہرگز نہ کاٹا کرو.اور غیر مسلموں کی عبادتگاہوں کو کسی صورت میں بھی نقصان نہ پہنچاؤ.یہ وہ پاک نصیحت ہے جو ہمارے مقدس آقا نے اپنے مغربی پنجاب کے غلاموں کو تیرہ سوسال پہلے سے دے رکھی ہے.اگر باوجود اس کے کسی مسلمان کہلانے والے نے اس حکم کو تو ڑا ہے تو اس کی ذات اس خلاف ورزی کی ذمہ دار ہے.اور دوسرے مسلمانوں کو اس کے فعل سے بیزاری کا اظہار کرنا چاہئے.لیکن جو کچھ مشرقی پنجاب میں ہوا ہے ، وہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے.بچوں کو ان کی روتی چلاتی ماؤں کے سامنے قتل کیا گیا.ماؤں کو ان کے سہمے ہوئے بچوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتارا گیا.بوڑھے اور بیمار مردوں کو انتہائی درندگی کے ساتھ ذبح کیا گیا.مذہب کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف رکھنے والے لوگوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا.مساجد کو مسمار کیا گیا.عورتوں کو اغواء کیا گیا اور قتل و غارت اور لوٹ مار میں وہ وہ ظالمانہ طریق اختیار کئے گئے کہ انسانیت ان کے تصور سے شرماتی ہے.وقت گزر گیا ہے.زخم بھی غالباً کچھ عرصہ کے بعد مندمل ہو جائیں گے مگر یہ تلخ یا د ہمیشہ زندہ رہے گی کہ ایک انسان دوسرے انسان کے خلاف درندگی کے کس ادنی ترین گڑھے

Page 240

مضامین بشیر میں گر سکتا ہے.۲۲۸ میں کہہ چکا ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مغربی پنجاب میں کوئی ظلم نہیں ہوا.میں جانتا ہوں اور دیکھنے والے مجھے بتاتے ہیں کہ مغربی پنجاب میں قتل و غارت بھی ہوا ، لوٹ مار بھی ہوئی ، اغوا کی وارداتیں بھی وقوع میں آئیں اور بعض دوسرے مظالم بھی ہوئے.ان چیزوں کا انکار کرنا صداقت کی طرف سے آنکھیں بند کرنا ہے.یہ مظالم خواہ دوسرے فریق کے جواب میں تھے یا وقتی فرقہ وارانہ جوش کا ابال تھے ، بہر حال مغربی پنجاب میں مظالم کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا.مگر ان مظالم کو ان مظالم سے کوئی نسبت نہیں جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے خلاف روا رکھے گئے.ابتداء کے لحاظ سے دیکھو، جواب میں حد سے تجاوز کرنے کے لحاظ سے دیکھو، سازش کے پہلو کے لحاظ سے دیکھو، حکام کی جانبدارانہ شرکت کو دیکھو.مظالم کی نوعیت اور درجہ کو دیکھو اور عبادتگاہوں کی بیحرمتی کو دیکھو.ان سب باتوں کا جواب ایک ہے اور صرف ایک.لیکن غالبا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہمارے برادران وطن گزشتہ ایام کی کارروائیوں کو ٹھنڈے دل سے سوچ سکیں یا انصاف کی نظر سے دیکھ سکیں.مگر کم از کم ہمیں ان مسلمہ اصولوں کو تو نہیں بھولنا چاہیئے جو اس قسم کے فسادات میں ذمہ داری کی صحیح تعیین میں مدد دے سکتے ہیں.صداقت کی زمین ہر وقت تیار رہنی چاہئے.خواہ بیج بونے کا وقت بعد میں آئے.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ( مطبوعه الفضل ۱۶ رمئی ۱۹۴۸ء)

Page 241

۲۲۹ مضامین بشیر قادیان چھوڑ نے کے متعلق میری ایک دس سال قبل کی تحریر اور اس پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تفصیلی نوٹ جب کبھی بھی لوگوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی پورا ہونے والا الہام پیش کیا جاتا ہے تو ان میں سے ضدی طبقہ عموماً یہ کہہ کر اپنا پیچھا چھڑانا چاہتا ہے کہ یہ الہام تم نے بعد میں بنالیا ہے.یا کم از کم یہ کہ جو تشریح تم اس الہام کی اب کر رہے ہو یہ بعد کا خیال ہے.حالانکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پہلے سے چھپے ہوئے ہیں تو بعد میں بنا لینے کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا.اور تشریح خواہ بعد میں ہی کی جائے.اگر کوئی تشریح کسی الہام کے الفاظ پر واقعی چسپاں ہوتی ہو تو خواہ اس کا بعد میں ہی خیال آئے.وہ ہر عقل مند انسان کے نزدیک قابل قبول ہونی چاہئے.لیکن ذیل میں ایک ایسی تحریر پیش کی جاتی ہے جو آج سے دس سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے اور اس تحریر میں یہ صاف طور پر مذکور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ جماعت احمد یہ کو ایک زمانہ میں اپنے مرکز سے عارضی طور پر نکلنا پڑے گا.یہ تحریر میرے ایک خط کی صورت میں ہے.جو میں نے ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ء کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا.اور حضور نے اس پر ایک تفصیلی نوٹ درج کر کے مجھے واپس بھجوایا اور پھر میں نے اسے ۲۲ مئی ۱۹۳۸ء کو ناظر اعلیٰ (چیف سیکرٹری ) جماعت احمدیہ کے دفتر میں بغرض تعمیل بھجوا دیا.یہ تحریر بعد زمانہ کی وجہ سے میرے ذہن سے بالکل اتر چکی تھی.حتی کہ آج اچانک صدر انجمن احمد یہ کے ایک کارکن نے اسے پرانے ریکارڈ سے نکال کر میرے سامنے پیش کیا.میری اس تحریر میں جو ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ ء کی لکھی ہوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مجموعہ الہامات تذکرہ پر مبنی ہے.یہ بات صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ حضرت مسیح موعود ر

Page 242

مضامین بشیر.۲۳۰ علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں سے پتہ لگتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو کسی وقت اپنا مقدس مرکز چھوڑ نا ہو گا اور یہ صورت حال گورنمنٹ کی طرف سے پیدا کی جائے گی اور اس پر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ نوٹ درج ہے کہ مجھے تو میں سال سے اس طرف خیال لگا ہوا ہے.ایک عجیب بات یہ ہے کہ میری تحریر میں یہ بات بھی درج ہے کہ مرکز سے جماعت کا نکلنا حکومت کے کسی فعل کا نتیجہ ہوگا.اور بعینہ اس کے مطابق وقوع میں آیا کہ پہلے حکومت برطانیہ نے سراسر ظلم اور بے انصافی کے رنگ میں ضلع گورداسپور کو جو ایک مسلم اکثریت کا ضلع تھا ، مشرقی پنجاب میں ڈال دیا.اور پھر اس کے بعد مشرقی پنجاب کے افسروں نے جماعت احمدیہ کو قادیان سے نکلنے پر مجبور کیا.گویا سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتیں اس ظلم کی ذمہ دار بن گئیں.بہر حال میرا آج سے دس سال پہلے کا خط اور اس پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا نوٹ ذیل میں شائع کیا جاتا ہے.تا احمدیوں کے لئے از دیا دایمان اور غیر احمدیوں کے لئے اتمام حجت کا موجب ہو.ہر دو تحریر میں اپنی اصل صورت میں محفوظ ہیں.اور جو دوست چاہیں اسے دفتر صدرانجمن احمد یہ میں تشریف لا کر دیکھ سکتے ہیں.یہ تحریر میں جس لفافہ میں بند کر کے ناظر اعلے کو بھجوائی گئیں وہ لفافہ بھی محفوظ ہے اور اس لفافہ پر بھی تاریخ اور دفتری نمبر با قاعدہ درج ہیں :- میرے اس خط پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا نوٹ عزیزم مکرم اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں تو ہمیں سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں.حق یہ ہے کہ جماعت اب تک اپنی پوزیشن کو نہیں سمجھی ، ابھی ایک ماہ ہوا میں اس سوال پر غور کر رہا تھا کہ مسجد اقصیٰ وغیرہ کے لئے گہرے زمین دوز نشان لگائے جائیں جن سے دوبارہ مسجد تعمیر ہو سکے.اسی طرح چاروں کونوں پر دور دور مقامات پر مستقل زمین دوز نشانات رکھے جائیں جن کا راز مختلف ممالک میں محفوظ کر دیا جائے تا کہ اگر ان مقامات پر دشمن حملہ کرے تو ان کو از سر نو اپنی اصل جگہ پر تعمیر کیا جاسکے.پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا.( دستخط ) مرزا محمود احمد (علیه استی) نوٹ :.اس کے بعد یہ خط اور اس پر حضرت صاحب والا نوٹ ناظر صاحب اعلیٰ

Page 243

۲۳۱ جماعت احمدیہ کے دفتر میں مورخہ ۲۲ مئی ۱۹۳۸ء کو بھجوا دیا گیا.نوٹ از حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی ایدہ اللہ اس میں جو یہ فقرہ ہے کہ پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا ، اس کا اشارہ اس طرف ہے کہ انہی پیشگوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے حکم دیا تھا کہ تمام خاندان کے اور سلسلہ کے بڑے بڑے کارکنوں کے غیر ممالک کے پاسپورٹ ہر وقت تیار رہنے چاہئیں تا کہ جب ہجرت کا وقت آئے پاسپورٹ بنوانے پر وقت نہ لگے ، اسی طرح اسی وقت سے میں نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ ایک ایک سٹ سلسلہ کی کتب کی سات، آٹھ مختلف ملکوں میں بھرا کر سلسلہ کا لٹریچر محفوظ کر لیا جائے.مرزا محمود احمد (خلیفہ اسیح) ( مطبوعه الفضل ۲۵ رمئی ۱۹۴۸ء) مضامین بشیر

Page 244

مضامین بشیر ۲۳۲ کیا قادیان کے قرضے صرف قادیان میں ہی ادا ہو سکتے ہیں؟ وسعت رکھنے والے مقروض صاحبان کے امتحان کا وقت کچھ عرصہ ہوا میں نے ان نقصانات کی وجہ سے جو گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں قادیان کے احمدی کارخانہ داروں اور دیگر دوستوں کو برداشت کرنے پڑے ہیں.قرض خواہ صاحبان کو تحریک کی تھی کہ وہ قرآنی علم فَنَظِرَةٌ إلى مَيْسَرَةٍ ( یعنی مقروض بھائیوں کو تنگی کے ایام میں مہلت دینی چاہئے ) کے ماتحت اپنی رقوم کے مطالبہ میں نرمی کا پہلو اختیار کریں.اور اس وقت کا انتظار کریں کہ ان مقروض دوستوں کو کچھ سہولت کی صورت پیدا ہو جائے جو قادیان میں بھاری مالی نقصان اٹھا کر باہر آئے ہیں.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میری اس اخلاقی سفارش سے ناجائز فائدہ اٹھا کر بعض لوگوں نے اپنے قرض خواہوں کو یہ کہہ کر ٹالنا شروع کر دیا ہے کہ قادیان کا قرضہ قادیان واپس جا کر ہی ادا ہو گا.یہ ذہنیت نہایت درجہ قابل افسوس اور اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف ہے، اگر ایک طرف اسلام مقروض یعنی قرضہ لینے والے کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور اسے تنگی میں مناسب مہلت دیتا ہے تو وہاں وہ اس سے بھی زیادہ تاکید کے ساتھ قارض یعنی قرضہ دینے والے کے حقوق کی بھی حفاظت فرماتا ہے.اور ایسے مقروض کو سخت درجہ زیر ملامت قرار دیتا ہے جو وسعت اور گنجائش کے ہوتے ہوئے جھوٹے یا کمزور بہانوں سے اپنے ذمہ کی رقوم کی ادائیگی سے پہلو تہی کرنا چاہتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس معاملہ میں اتنا سخت احساس تھا کہ آپ ایسے صحابی کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جو مقروض ہونے کی حالت میں فوت ہوتا تھا.میں اپنے جملہ مقروض دوستوں اور عزیزوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ وہ اپنے فرض کو پہچانیں اور اپنے ذمہ کی رقوم کو جلد تر ادا کرنے کی کوشش کریں.یہ ہرگز درست نہیں کہ قادیان کا قرضہ قادیان میں ہی ادا ہونا چاہئے ، میں نے ایسی بات کبھی نہیں کہی اور نہ کوئی عقلمند اس قسم کی بات کہہ سکتا ہے.قرضہ بہر حال قرضہ ہے اور جب بھی اور جہاں بھی ادائیگی کی توفیق حاصل ہو فوراً بلا توقف ادا کرنا چاہئے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جب تک ساری رقم موجود نہ ہو قرضہ ادا نہ کیا جائے

Page 245

۲۳۳ مضامین بشیر بلکہ جس قدر رقم کی توفیق ملے وہ بلا توقف ادا کر کے بقیہ کے لئے ساتھ ساتھ کوشش جاری رہنی چاہئے.اکثر دوستوں کے حالات اب آہستہ آہستہ سدھر رہے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ حالات کی اصلاح کے نتیجہ میں اپنے قرضوں کی ادائیگی کی طرف سے غافل رہیں.جو شخص وسعت اور توفیق رکھنے کے باوجود اپنے قرضہ کی رقم ادا نہیں کرتا.وہ خدا کا حق بھی مارتا ہے اور بندوں کا بھی.اور دنیا میں ایک ایسا نمونہ قائم کرتا ہے جس کا نتیجہ ظلم اور فتنہ وفساد کے سوا کچھ نہیں.میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ وسعت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اپنے گھر یا اپنے کاروبار کو با فراغت چلانے یا ترقی دینے کے بعد اگر کوئی رقم بچے تو وہ قرض خواہ کو دے دی جائے.جو شخص ایسی حالت کا انتظار کرتا ہے وہ ظالم ہے اور اس کی نیت کبھی بھی بغیر نہیں سمجھی جاسکتی.پس وسعت سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی آمدن کی صورت پیدا ہو تو اس آمدن میں سے اپنے ضروری اور اقل اخراجات کو نکال کر باقی رقم قرض خواہ کو دے دی جائے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت کئی بیوہ عورتیں اور کئی یتیم بچے اور کئی بے بس مسکین ایسے ہیں جن کا روپیہ دوسروں کے پاس پھنسا ہوا ہے.جب تک قرض دینے والوں کو مجبوری تھی.اس وقت تک ان کا معاملہ خدا کے ساتھ تھا، مگر اب جبکہ اکثر دوستوں کے لئے آہستہ آہستہ فراخی کا راستہ کھل رہا ہے تو اس فراخی میں سے لازماً ان یتیموں اور اُن بیواؤں اور ان مسکینوں کا روپیہ واپس ہونا چاہئے جن کے آمدنی کے ذرائع مفقود ہو چکے ہیں اور قرض کی واپسی کے سوا بظاہر ان کا کوئی سہارا نہیں.ورنہ وسعت رکھنے والے مقروض لوگ یا درکھیں کہ وہ لوگوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے.اور یتیموں اور مسکینوں کا ہی سوال نہیں.حق بہر حال حق ہے اور ہر حقدار کو ملنا چاہئے خواہ وہ کوئی ہو.مجھے اپنی زندگی میں ہزاروں لوگوں کے ساتھ لین دین کا واسطہ پڑا ہے.مگر میں بڑے دکھ کے ساتھ اس احساس کا اظہار کرنے پر مجبور ہوں کہ میں نے بہت ہی کم لوگوں کو اس رنگ میں معاملہ کا صاف پایا ہے جو اسلام ہم سے توقع رکھتا ہے.کاش جس شوق کے ساتھ لوگ روپیہ لیتے ہیں.اسی شوق کے ساتھ واپس کرنا بھی سیکھیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.اور اپنی رضا پر چلنے کی توفیق عطا کرے.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۹۴۸ء)

Page 246

مضامین بشیر ۲۳۴ مسئلہ پیدائش شیطان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نیا حوالہ ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ درج کیا جاتا ہے.جو شیخ عبدالقادر صاحب لائلپوری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات سے تلاش کر کے نکالا ہے.اصل حوالہ نہیں دیکھا مگر بہر حال یہ حوالہ نہایت لطیف مشتمل ہے.اور بعض ایسی تفاصیل پر حاوی ہے جو آئینہ.کمالات اسلام والے حوالے میں درج نہیں ہیں.والحق ما قال اهل الحق.خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لا ہور ۱۹۴۸-۶-۱ ۸ مئی ۱۸۸۵ء کو رام چون ممبر آریہ سماج اکبر آباد کے بعض سوالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر سے گزرے.جن کے جواب، امئی ۱۸۸۵ء کے اخبار عام لاہور میں حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے شائع ہوئے.پہلا سوال پیدائش شیطان کے بارے میں تھا.یہ سوال اور اس کا لطیف جواب بغیر کسی تبصرہ کے درج ذیل کیا جاتا ہے.نتائج دوست خود اخذ کر سکتے ہیں.سوال یہ ہے کہ خدا نے شیطان کو پیدا کر کے کیوں آپ ہی لوگوں کو گناہ اور گمراہی میں ڈالا ؟ کیا اس کا یہ ارادہ تھا کہ لوگ ہمیشہ بدی میں مبتلا رہ کر کبھی نجات نہ پاویں؟ جواب : ایسا سوال ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے.جنہوں نے کبھی غور اور فکر سے دینی معاملات میں نظر نہیں کی.یا جن کی نگاہیں خود ایسی پست ہیں کہ بجز بے جا نکتہ چینیوں کے اور کوئی حقیقت شناسی کی بات اور محققانہ صداقت ان کو نہیں سوجھتی اب واضح ہو کہ سائل کے اس سوال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصول اسلام سے بالکل بے گانہ اور معارف ربانی سے سرا سرا جنبی ہے.کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شریعت اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا شیطان صرف لوگوں کے بہکانے اور ورغلانے کے لئے خدا نے پیدا کیا ہے.اور اسی اپنے وسوسہ کو پختہ سمجھ کر تعلیم قرآنی پر اعتراض کرتا ہے.حالانکہ تعلیم قرآنی کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی آیت کسی کلام الہی سے نکلتی ہے بلکہ عقیدہ حقہ اہل اسلام جس کو حضرت خدا وند کریم جل شانہ نے خود اپنے کلام پاک میں بیان کیا ہے، یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں اسباب نیکی اور بدی کے مہیا کر کے اور ایک وجہ کا اس کو اختیار دے کر قدرتی طور پر دو قسم کے محرک اس کے لئے مقرر کئے ہیں.ایک داعی خیر یعنی ملائکہ جو نیکی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے دوسرا داعی شریعنی شیطان جو بدی

Page 247

۲۳۵ مضامین بشیر کی رغبت دل میں ڈالتا ہے.لیکن خدا نے داعی خیر کو غلبہ دیا کہ اس کی تائید میں عقل عطا کی اور اپنا کلام نازل کیا اور خوارق اور نشان ظاہر کئے اور ارتکاب جرائم پر سخت سخت سزائیں مقرر کیں.سوخدا تعالیٰ نے انسان کو ہدایت پانے کے لئے کئی قسم کی روشنی عطا کی اور خود اس کے دلی انصاف کو ہدایت کے قبول کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا.اور داعی شر بدی کی طرف رغبت دینے والا ہے.تا انسان اس کے رغبت دینے سے احتراز کر کے اس ثواب کو حاصل کرے جو بجز اس قسم کے امتحان کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور ثبوت اس بات کا کہ ایسے دو داعی یعنی داعی شر اور داعی خیر انسان کے لئے پائے جاتے ہیں بہت صاف اور روشن ہے.کیونکہ خود انسان بدیہی طور پر اپنے نفس میں احساس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دو قسم کے جذبات سے متاثر ہوتا رہتا ہے کبھی اس کے لئے ایسی حالت صاف اور نورانی میسر آ جاتی ہے کہ نیک خیالات اور نیک ارادے اس کے دل میں اٹھتے ہیں اور کبھی اس کی حالت ایسی پُر ظلمت اور مکڈ رہوتی ہے کہ طبیعت اس کی بد خیالات کی طرف رجوع کرتی ہے اور بدی کی طرف اپنے دل میں رغبت پاتا ہے.سو یہی دونوں داعی ہیں جن کو ملائک اور شیطان سے تعبیر کیا جاتا ہے.اور حکمائے فلسفہ نے انہی دونوں داعی خیر اور داعی شر کو دوسرے طور پر بیان کیا ہے.یعنی ان کے گمان میں خود انسان ہی کے وجود میں دو قسم کی قو تیں ہیں.ایک قوت ملکی جو داعی خیر ہے اور دوسری قوت شیطانی جو داعی شر ہے.قوت ملکی نیکی کی طرف رغبت دیتی ہے.اور چپکے سے انسان کے دل میں خود بخود پڑ جاتا ہے کہ میں نیک کام کروں.جس سے میرا خدا راضی ہو اور قوت شیطانی بدی کی طرف محرک ہوتی ہے.غرض اسلامی عقائد اور دنیا کے کل فلسفہ کے اعتقاد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اہل اسلام دونوں محرکوں کو خارجی طور پر اور وجود قرار دیتے ہیں.اور فلسفی لوگ انہیں دونوں وجودوں کو دو قسم کی قو تیں سمجھتے ہیں.جو خودانسان ہی کے نفس میں موجود ہیں.لیکن اس اصل بات میں کہ فی الحقیقت انسان کے لئے دو محرک پائے جاتے ہیں.خواہ محرک خارجی طور پر کچھ وجود رکھتے ہوں قوتوں کے نام سے ان کو موسوم کیا جائے.یہ ایک ایسا اجتماعی اعتقاد ہے جو تمام گروہ فلاسفہ اس پر اتفاق رکھتے ہیں.اور آج تک کسی عقلمند نے اس اجتماعی اعتقاد سے انحراف اور انکار نہیں کیا.وجہ یہ کہ یہ بدیہی صداقتوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی بدیہی صداقت ہے جو اس شخص پر بکمال صفائی کھل سکتی ہے کہ جو اپنے نفس پر ایک منٹ کے لئے اپنی توجہ اور غور کرے اور دیکھے کہ کیونکر نفس اُس کا مختلف جذبات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے.اور کیوں کر ایک دم میں کبھی زاہدانہ خیالات اس کے دل میں بھر جاتے ہیں.اور کبھی رندانہ وساوس اس کو پکڑ لیتے ہیں.(اخبار عام لاہور، امئی ۱۸۸۵ء بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام موسومه ” منظور الہی صفحہ ۱۸ ، صفحہ ۱۹ مطبوعه الفضل ۳ جون ۱۹۴۸ء) ا دو

Page 248

مضامین بشیر ۲۳۶ قادیان سے تشریف لاتے ہوئے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا جماعت احمد یہ قادیان کے نام الوداعی ارشاد جیسا کہ میں قادیان ڈائری میں شائع کر چکا ہوں حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی ایده اللہ تعالیٰ ۳۱ / اگست ۱۹۴۷ء کو قادیان سے لاہور تشریف لائے تھے.آپ کیپٹن ملک عطاء اللہ صاحب آف دوالمیال کی اسکورٹ میں قریبا ایک بجے احمد یہ چوک قادیان میں موٹر میں سوار ہوئے اور پھر سوا ایک بجے کوٹھی دارالسلام قادیان سے بذریعہ موٹر لاہور کی طرف روانہ ہو کر 4.30 بجے کے قریب شیخ بشیر احمد صاحب امیر مقامی جماعت احمد یہ لاہور کے مکان پر بخیر و عافیت پہنچ گئے.کوٹھی دارالسلام میں حضور کو الوداع کہنے کے لئے خاکسار مرزا بشیر احمد اور عزیزان مرزا مبارک احمد اور مرزا منور احمد اور میاں عباس احمد خان جو حضور کے ساتھ ہی شہر سے کوٹھی دار السلام میں آئے تھے اور ان کے علاوہ عزیز مرزا ناصر احمد اور شاید ایک دو اور عزیز جو کوٹھی دار السلام میں شامل ہوئے تھے، موجود تھے اور ہمارے خاندان کی خواتین میں سے اس وقت حضرت سیدہ ام المتین صاحبہ حرم ثالث اور عزیزہ منصورہ بیگم سلمہا حضور کے ہمراہ تھیں.باقی خواتین ۲۵ اگست والے کا نوائے میں پہلے ہی لاہور پہنچ چکی تھیں.قادیان سے روانہ ہونے سے قبل بلکہ ۳۰ راگست کی رات کو ہی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جماعت قادیان و جماعت ضلع گورداسپور کے نام پیغام لکھ کر دیا تھا اور ہدایت فرمائی تھی کہ حضور کے روانہ ہونے کے بعد میں اسے جماعت تک پہنچا دوں.چنانچہ میں نے یہ پیغام نقل کروا کے مغرب اور عشاء کی نمازوں میں تمام احمدی مساجد میں پہنچا دیا.یہ اعلان جو ایک تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتا ہے، دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں درج کیا جاتا ہے.یہ بات بھی قابل نوٹ ہے کہ قادیان میں ٹھہر نے والوں کی تعداد کے متعلق حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ابتدائی تجویز بعد میں لاہور والی مجلس مشاورت کے مشورہ کے نتیجہ میں بدل گئی تھی.خاکسار.مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور

Page 249

۲۳۷ مضامین بشیر اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسی الثانی تمام پریزیڈنشان انجمن احمد یہ قادیان محلہ جات و دیہات ملحقہ قادیان و دیہات تحصیل بٹالہ و تحصیل گورداسپور کو اطلاع دیتا ہوں کہ متعدد دوستوں کے متواتر اصرار اور لمبے غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام امن کی اغراض کے لئے مجھے چند دن کے لئے لاہور ضرور جانا چاہئے.کیونکہ قادیان سے بیرونی دنیا کے تعلقات منقطع ہیں اور ہم ہندوستان کی حکومت سے کوئی بھی بات نہیں کر سکتے.حالانکہ ہمارا معاملہ اس سے ہے لیکن لاہور اور دہلی کے تعلقات میں تار اور فون بھی جا سکتا ہے.ریل بھی جاتی ہے، ہوائی جہاز بھی جا سکتا ہے.میں مان نہیں سکتا کہ اگر ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال صاحب پر یہ امر کھولا جائے کہ ہماری جماعت مذہباً حکومت کی وفادار جماعت ہے تو وہ ایسا انتظام نہ کریں کہ ہماری جماعت اور دوسرے لوگوں کی جو ہمارے ارد گرد رہتے ہیں ، حفاظت نہ کی جائے.جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے بعض لوگ حکام پر یہ اثر ڈال رہے ہیں کہ مسلمان جو ہندوستان میں آئے ہیں ، ہندوستان سے دشمنی رکھتے ہیں.حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا گیا.ادھر اعلان ہوا اور ادھر فساد شروع ہو گیا.ورنہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسلمان مسٹر جناح کو اپنا سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کے باوجود ان کے اس مشورے کے خلاف جاتے کہ اب جو مسلمان ہندوستان میں گئے ہیں ، انہیں ہندوستان کا وفادار رہنا چاہئے.غرض ساری غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ یک دم فسادات ہو گئے اور صوبائی حکام اور ہندوستان کے حکام پر حقیقت نہیں کھلی.ان حالات میں ، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں سے دہلی و شملہ سے تعلقات آسانی سے قائم کئے جاسکیں اور ہندوستان کے وزراء اور مشرقی پنجاب کے وزراء پر اچھی طرح سب معاملہ کھولا جا سکے.اگر ایسا ہو گیا تو وہ زور سے ان فسادات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.اسی طرح لاہور میں سکھ لیڈروں سے بھی بات چیت ہو سکتی ہے.جہاں وہ ضرور تا آتے جاتے رہتے ہیں اور اس سے بھی فساد دور کرنے میں مددمل سکتی ہے.ان امور کو مدنظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں چند دن کے لئے لا ہور جا کر کوشش کروں.شاید اللہ تعالیٰ میری کوششوں میں برکت ڈالے اور یہ شور و شر جو اس وقت پیدا ہورہا ہے دور ہو جائے.

Page 250

مضامین بشیر ۲۳۸ میں نے اس امر کے مدنظر آپ لوگوں سے پوچھا تھا کہ ایسے وقت میں اگر میرا جانا عارضی طور پر زیادہ مفید ہو تو اس کا فیصلہ آپ لوگوں نے کرنا ہے یا میں نے.اگر آپ نے کرنا ہے تو پھر آپ لوگ حکم دیں.میں اسے مانوں گا.لیکن میں ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گا اور اگر فیصلہ میرے اختیار میں ہے تو پھر آپ کو حق نہ ہوگا کہ چون و چرا کریں.اس پر آپ سب لوگوں نے لکھا کہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے.سو میں نے چند دن کے لئے اپنی سکیم کے مطابق کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے.آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں اور حوصلہ نہ ہاریں.دیکھو مسیح کے حواری کتنے کمزور تھے مگر مسیح انہیں چھوڑ کر کشمیر کی طرف چلا گیا اور مسیحیوں پر اس قدر مصائب آئے کہ تم پر ان دنوں بھی ان کا دسواں حصہ بھی نہیں آئے.لیکن انہوں نے ہمت اور بشاشت سے ان کو برداشت کیا.ان کی جدائی تو دائی تھی مگر تمہاری جدائی تو عارضی ہے اور خود تمہارے اور سلسلہ کے کام کے لئے ہے.مبارک وہ جو بدظنی سے بچتا ہے اور ایمان پر سے اس کا قدم لڑکھڑاتا نہیں.وہی جو آخر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کا انعام پاتا ہے.پس صبر کرو اور اپنی عمر کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے وفا دار ر ہو.اور ثابت قدمی اور نرمی اور عقل اور سوجھ بوجھ اور اتحاد و اطاعت کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ دنیا عش عش کر اٹھے.جو تم میں سے مصائب سے بھاگے گا وہ یقیناً دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو گا اور خدا تعالیٰ کی لعنت کا مستحق.تم نے نشان پر نشان دیکھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا منور جلوہ دیکھا ہے.اور تمہارا دل دوسروں سے زیادہ بہادر ہونا چاہئے.میرے سب لڑکے اور داماد اور دونوں بھائی اور بھتیجے قادیان میں ہی رہیں گے اور میں اپنی غیر حاضری کے ایام میں عزیز مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنا قائم مقام ضلع گورداسپور اور قادیان کے لئے مقرر کرتا ہوں.ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کرو.اور ان کے ہر حکم پر اسی طرح قربانی کرو جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں.مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى فَقَدْ أَطَاعَنِى وَمَنْ عَصَى أَمِيرِى فَقَدْ عَصَانِي....یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی.اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی.اس نے میری نافرمانی کی.پس جو ان کی اطاعت کرے گا.وہ میری اطاعت کرے گا اور جو میری اطاعت کرے گا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت کرے گا.اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت کرے گا وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے گا اور وہی مومن کہلا سکتا ہے دوسرا نہیں.اے عزیز و! احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا اور اب معلوم ہو گا کہ سچا مومن کون سا ہے.پس اپنے ایمانوں کا ایسا نمونہ دکھاؤ کہ پہلی قوموں کی گردنیں تمہارے سامنے جھک جائیں اور

Page 251

۲۳۹ مضامین بشیر آیندہ نسلیں تم پر فخر کریں.شائد مجھے تنظیم کی غرض سے کچھ اور آدمی قادیان سے باہر بھجوانے پڑیں.مگر وہ میرے خاندان میں سے نہ ہوں گے بلکہ علماء سے ہو نگے.اس سے پہلے بھی میں کچھ علماء باہر بھجوا چکا ہوں.تم ان پر بدظنی نہ کرو.وہ بھی تمہاری طرح اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں.لیکن خلیفہ وقت کا حکم انہیں مجبور کر کے لے گیا.پس وہ ثواب میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں.اور قربانی میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں.ہاں وہ لوگ جو بوجہ بزدلی آنوں بہانوں سے اجازت لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ یقیناً کمزور ہیں.خدا تعالیٰ ان کے گناہ بخشے اور بچے ایمان کی حالت میں جان دینے کی توفیق دے.اے عزیز و! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہے اور مجھے جب تک زندہ ہوں بچے طور پر اور اخلاص سے تمہاری خدمت کی توفیق بخشے اور تم کومومنوں والے اخلاص اور بہادری سے میری رفاقت کی توفیق بخشے.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.اور آسمان کی آنکھ تم میں سے ہر مرد ہر عورت اور ہر بچہ کو سچا مخلص دیکھے اور خدا تعالیٰ میری اولادکو بھی اخلاص اور بہادری سے سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے.والسلام خاکسار ( دستخط مرزا محمود احمد ( خلیفہ اسیح ) ۱۹۴۷ء.۸-۳۰ مطبوعه الفضل ۸/ جون ۱۹۴۸ء)

Page 252

مضامین بشیر ۲۴۰ قادیان میں سب دوست خیریت سے ہیں اور نوافل کے پروگرام پر پوری طرح پابند دوستوں کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ قادیان میں جملہ احمدی دوست جو موجودہ حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی وجہ سے درویش کہلاتے ہیں ، خدا کے فضل سے ہر طرح سے خیریت سے ہیں.ان کی طرف سے میرے پاس خطوط پہنچتے رہتے ہیں اور گو آج کل ڈاک کی خرابی کی وجہ سے خطوں میں بہت دیر ہو جاتی ہے مگر پھر بھی خدا کے فضل سے جلد جلد خیریت کی اطلاع ملتی رہتی ہے اور کبھی کبھی قادیان کے ساتھ ٹیلیفون پر بھی بات ہو جاتی ہے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مقرر کردہ پروگرام کے مطابق قادیان کے در ولیش دو دن یعنی پیر اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھتے ہیں اور سوائے بیماری وغیرہ کے تہجد کی نماز بھی با قاعدگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں.اس کے علاوہ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مقبرہ بہشتی میں ہفتہ واراجتماعی دعا کا التزام بھی کیا جاتا ہے اور تازہ اطلاع سے پتہ لگتا ہے کہ سب دوست نہایت درجہ خوشی اور صبر و رضا کے ساتھ باہم اخوت اور اتحاد کے مقام پر قائم رہتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہے ہیں.گزشتہ کا نوائے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض پرانے صحابہ بھی مثلاً بھائی عبد الرحیم صاحب اور بھائی عبد الرحمن صاحب اور میاں محمد دین صاحب کھاریاں اور میاں محمد دین صاحب سکنہ تہال اور بعض دوسرے صحابہ قادیان پہنچ چکے ہیں اور خدا کے فضل سے ان کا وجود دوستوں کے لئے بڑی برکت کا موجب ہو رہا ہے.میں اس جگہ ان دوستوں سے بھی معذرت کرنا چاہتا ہوں جن کے بعض عزیز دو تین ماہ کے ارادے سے قادیان گئے اور پھر کانوائے کا کافی انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے ابھی تک واپس نہیں آسکے.ایسے دوستوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ گو جسمانی لحاظ سے انہیں اپنے عزیزوں کی جدائی کی تکلیف

Page 253

۲۴۱ مضامین بشیر ہے لیکن اگر وہ سلسلہ کی موجودہ مشکلات کو دیکھتے ہوئے صبر ورضاء کے مقام پر قائم رہیں گے تو روحانی لحاظ سے وہ ایسے انعامات کے وارث بن جائیں گے جس کا موقع شاید جماعت کی آئندہ تاریخ میں بہت کم مل سکے گا.تاہم اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ جن دوستوں کے قیام پر زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور ان کے پیچھے ان کے عزیزوں کا کوئی پرسان حال نہیں، انہیں جہاں تک ممکن ہو جلد تر با ہر بلانے کا انتظام کیا جائے.اللہ تعالیٰ سب دوستوں کے ساتھ ہو اور جماعت کو جلد تر اس کے مرکز میں پھر جمع کر دے.آمین یا ارحم الراحمین.( مطبوعه الفضل ۸/ جون ۱۹۴۸ء)

Page 254

مضامین بشیر ۲۴۲ جمع بین الصلواتین کے مسئلہ میں مولوی محمد دین صاحب کی تمہ روایت امام کی اتباع کا پہلو بہر حال مقدم ہے اس سے قبل میرے ذریعہ مکرم مولوی محمد دین صاحب بی.اے سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی ایک روایت جمع بین الصلاتین کے مسئلہ کے متعلق الفضل میں شائع ہو چکی ہے.مکرم مولوی صاحب کی اس روایت پر میں نے مولوی صاحب موصوف پر دو سوالات کئے تھے.جس کا جواب انہوں نے ذیل کے خط میں ارسال فرمایا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اب مولوی صاحب کی روایت پوری طرح مکمل ہے جس سے اس مسئلہ کے سارے پہلوؤں پر روشنی پڑ جاتی ہے جیسا کہ میں اپنے سابقہ نوٹ میں لکھ چکا ہوں مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں اور کئی سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہ چکے ہیں.(خاکسار :.مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۷/۶/۲۸) مکرمی مخدومی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ گرامی نامہ ملا.مجھے افسوس ہے کہ میں آں مخدوم کے ارشاد کی تعمیل میں پوری وضاحت سے قاصر رہا ہوں.گذارش ہے کہ جو روایت میں نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جمع بین الصلوتین کے مسئلہ میں فتویٰ اور تعامل کے متعلق بھجوائی تھی.اس کے متعلق آپ نے مجھ پر دوسوال کئے ہیں.ایک تو یہ کہ کیا میں نے خود اپنے کانوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ سنا تھا کہ جمع بین الصلاتین کی صورت میں اگر کوئی شخص بعد کی نماز میں پہنچے تو پھر بھی امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور اپنی چھوڑی ہوئی نماز بعد میں پڑھ لے.اور دوسرے یہ کہ کیا اس صورت میں بھی اس فتویٰ پر عمل ہوتا تھا کہ ایک بعد میں آنے والے شخص

Page 255

۲۴۳ مضامین بشیر کو معلوم ہو جاتا تھا کہ مثلاً عصر کی نماز پڑھی جا رہی ہے اور اس نے ابھی ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہوئی تھی تو پھر بھی وہ امام کے ساتھ شامل ہو جاتا تھا اور اپنی چھوڑی ہوئی ظہر کی نماز بعد میں پڑھتا تھا.سوسوال نمبر اول کے جواب میں تحریر ہے کہ میں نے خود یہ فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے سنا تھا اور کئی دفعہ سنا تھا کہ نمازوں کے جمع کئے جانے کی صورت میں اگر کوئی شخص بعد والی نماز میں شامل ہو اور اس نے ابھی پہلی نماز نہ پڑھی ہو تو پھر بھی اسے چاہئے کہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور اپنی چھوڑی ہوئی نماز بعد میں پڑھ لے.یہ فتویٰ مجھے اچھی طرح یاد ہے اور کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں دوسرے سوال کے متعلق مجھے کبھی ذاتی طور پر تو یہ موقع پیش نہیں آیا کیونکہ میں ہمیشہ شروع ہی میں شامل ہو جایا کرتا تھا مگر کئی دوست جو بعد میں دوسری نماز کے وقت آکر شامل ہوتے تھے ان کا اسی پر عمل تھا کہ باوجود اس کے کہ ان کو یہ علم ہو جاتا تھا کہ یہ دوسری نماز ہے.وہ امام کے ساتھ فورا شامل ہو جاتے تھے اور باقی چھوٹی ہوئی نماز بعد میں علیحدہ پڑھ لیتے تھے.اور ایسا کبھی نہ ہوتا تھا کہ وہ اس علم کے بعد کہ مثلاً امام اس وقت عصر کی نماز پڑھا رہا ہے.وہ علیحدہ کھڑے ہو کر ظہر کی نماز شروع کر دیں اور اس کے بعد عصر کی نماز پڑھیں اس معاملہ میں بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منہ سے یہ فتویٰ سنا ہوا ہے کہ بہر حال امام کے ساتھ شامل ہونے کو مقدم کرو.میں یہ امر مفہوماً عرض کر رہا ہوں.اصلی الفاظ مجھے یاد نہیں ) اور اس پر جماعت قادیان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی عمل تھا.سوائے ان خاص حالات کے کہ کسی کو اس فتویٰ کا علم ہی نہ ہوا ہو.میں یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جب بعد میں بعض احمد یوں میں اس کے خلاف عمل شروع ہوا اور انہوں نے امام کے ساتھ شامل ہونے کی بجائے علیحدہ نماز پڑھنے کو ترجیح دی تو میں نے اس کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم سے ذکر کیا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فتویٰ اور حضور کے زمانہ کے تعامل کے خلاف ہے تو انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا.اور میری روایت کی تصدیق کی مگر اپنی کسر نفسی کی وجہ سے اس بات کے لئے تیار نہ ہوئے کہ اسے اخبار میں

Page 256

مضامین بشیر ۲۴۴ شائع کرائیں یا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے حضور پیش کریں.بہر حال جو فتویٰ اور جو تعامل مجھے یاد ہے وہ میں نے لکھ دیا ہے اور مجھے اس کے متعلق پورا پورا یقین ہے.والسلام.خاکسار - محمد دین (ریٹائرڈ ہیڈ ما سر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان ) ۵ جون ۱۹۴۸ء حال چکوال ( مطبوعه الفضل ۱۰ رجون ۱۹۴۸ء)

Page 257

۲۴۵ مضامین بشیر خوف و ہراس کی کیفیت قومی اخلاق کے لئے تباہ کن ہے مگر خطرہ کے وقت خطرہ کا احساس بھی قومی مضبوطی کے لئے ضروری ہے ۱۵رجون والے مزعومہ خطرہ کے متعلق ایک مختصر نوٹ مغربی پنجاب کے بعض حصوں سے یہ اطلاع آ رہی ہے کہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خوف و ہراس پیدا ہو رہا ہے کہ شائد ۱۵ جون کے بعد پھر فسادات کا سلسلہ شروع ہو جائے اور لوگوں کو اسی قسم کے خونی نظاروں کا سامنا کرنا پڑے جو گزشتہ فسادات میں دیکھنے میں آئے تھے.اس خوف و ہراس کی مختلف وجوہات ہیں.مثلا یہ کہ جون میں لارڈ مونٹ بیٹن گورنر جنرل انڈیا واپس چلے جائیں گے.اور ان کی جگہ ایک ہندوستانی جنٹلمین گورنر جنرل مقرر ہوں گے یا کہ اب وہ وقت آ رہا ہے کہ جب ہندوستان اور پاکستان دونوں اس بات کے لئے آزاد ہوں گے کہ برٹش ایمپائر کے ساتھ اپنا تعلق قطع کر کے کامل خود مختاری کا اعلان کر دیں.یا یہ کہ کہیں کشمیر کی جنگ کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی مزید پیچیدگی پیدا ہو کر فسادات کا موجب نہ بن جائے.وغیرہ وغیرہ اس قسم کے خیالات نے مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب دونوں میں بعض لوگوں کے دلوں میں تو ہمات اور خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے.بلکہ اخبار سٹیٹسمین میں تو یہاں تک خبر تھی کہ اس قسم کا خوف و ہراس ( جسے انگریزی میں panic کہتے ہیں ) مشرقی پنجاب سے گزرکر دہلی تک بھی پہنچ چکا ہے.سو یہ ایک عام قسم کی وباء ہے جو دونوں حکومتوں میں یکساں سرایت کئے ہوئے ہے.بلکہ سنا ہے کہ بعض لوگوں نے اپنا کاروبار چھوڑ کر عارضی طور پر سرحدی ضلعوں سے نقل مکانی بھی شروع کر دی ہے.یہ ایک خطر ناک حالت ہے جس کا فوری طور پر انسداد ہونا چاہئے.یہ درست ہے کہ گزشتہ فسادات نے لوگوں کے اعصاب پر بھاری اثر ڈالا ہے.اور خطرہ کی ذراسی خبر سے گھبرا کر سراسیمہ ہونے لگتے ہیں.لیکن ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ اعصابی اضطراب خطرہ کو کم نہیں کرتا.بلکہ بڑھاتا

Page 258

مضامین بشیر ۲۴۶ ہے اور قومی اخلاق اور قومی روح کی بنیاد کو کھوکھلا کر دیتا ہے.ظاہر ہے کہ اس قسم کے حالات میں امکانی طور پر دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں.یا تو یہ کہ کوئی حقیقی خطرہ موجود نہ ہو اور محض وہم کے نتیجہ میں خطرہ کا تصور پیدا کر لیا جائے اور دوسرے یہ کہ واقعی خطرہ موجود ہو یا اس کے وجود میں آنے کا قوی امکان ہو.اب ظاہر ہے کہ ان دونوں صورتوں میں خوف و ہر اس کی کیفیت قومی اخلاق کی بلندی اور قومی روح کی مضبوطی کے لئے تباہ کن ہے.اگر تو خطرہ کوئی نہیں تو کسی موہوم بنا ء پر خطرہ کا تصور پیدا کر لینا تو ہم پرستی کے سوا کچھ نہیں.جس کے نتیجہ میں انسان کا دل اسی طرح کا نپنا شروع ہو جاتا ہے جس طرح کہ اندھیرے میں بعض لوگوں کا دل فرضی خطروں کے تصور سے کانپا کرتا ہے.اور جب وہم کا دروازہ ایک دفعہ کھل جائے تو پھر اس کے بند ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا.اور ایک پتے کے کھڑ کنے پر بھی دل دھڑ کنے شروع ہو جاتے ہیں کہ معلوم نہیں کیا مصیبت آنے والی ہے اور اس طرح انسان کا عصبی نظام آہستہ آہستہ کمزور ہو کر مستقل مزاجی اور وقار اور شجاعت کے اوصاف کھو بیٹھتا ہے.اس کے مقابل پر اگر واقعی کوئی خطرہ موجود ہو تو پھر بھی خوف و ہراس کی کیفیت مہلک اور تباہ کن ثابت ہوتی ہے.کیونکہ خوف و ہراس کی وجہ سے گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے.اور گھبراہٹ کی وجہ سے انسان خطرہ کے مقابلہ کی تیاری کی طرف سے عملاً غافل ہو جاتا ہے.اور اکثر صورتوں میں دل چھوڑ کر گویا اپنی اہل تقدیر کے انتظار میں گھلنا شروع ہو جاتا ہے.حالانکہ ظاہر ہے اگر واقعی کوئی خطرہ ہو تو اس کا فطری اور صحیح رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس خطرہ کے مقابلہ کے لئے تیاری کرے تاکہ قبل اس کے کہ خطرہ کا موقع عملاً پیش آئے ، وہ اپنی طاقت اور اپنے ذرائع کے مطابق اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو چکا ہو.پس جس جہت سے بھی دیکھا جائے موجودہ خوف و ہراس کی حالت جو ملک کے بعض حصوں میں پائی جاتی ہے، کسی طرح جائز نہیں سمجھی جاسکتی بلکہ یہ ایک ایسا کلہاڑا ہے جو خود اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں پر چلایا جا رہا ہے.خوب غور کرو کہ اگر خطرہ کوئی نہیں تو موجودہ خوف و ہراس محض وہم ہے اور وہم پرستی سے بڑھ کر قومی اخلاق کو بگاڑنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی اور اگر خطرہ حقیقی ہے تو ظاہر ہے کہ گھبرانے اور سراسیمہ ہونے کی بجائے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اس خطرہ کے مقابلہ کے لئے جہاں تک ممکن ہو تیاری کریں.اور خطرہ کا وقت آنے سے پہلے اپنے آپ کو منتظم اور مضبوط کر لیں.اب رہا یہ سوال کہ کوئی حقیقی خطرہ موجود ہے یا نہیں.سو جہاں تک لارڈ مونٹ بیٹن کے جانے یا رہنے کا سوال ہے.یہ ایک بالکل بے اثر سی بات ہے.ہندوستان اب آزاد ہو چکا ہے اور لارڈ

Page 259

۲۴۷ مضامین بشیر مونٹ بیٹن اب ہندوستانی حکومت کے ماتحت ایک آئینی گورنر جنرل ہیں.پس خواہ وہ رہیں یا جائیں ہندوستان میں حکومت ہندوستانیوں کی ہے اور لارڈ مونٹ بیٹن کو کسی فتنہ کے دبانے یا اٹھانے میں ہرگز اتنا دخل حاصل نہیں کہ ان کے ہندوستان سے چلے جانے کوگھبراہٹ کی بنیاد بنایا جائے بلکہ حق یہ ہے کہ جو ہند و جنٹلمین مسٹر را جا گوپال اچاریہ لارڈ مونٹ بیٹن کی جگہ گورنر جنرل کا چارج لینے والے ہیں.ان کے متعلق اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ بین الاقوام اور بین الدول تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے زیادہ کوشش کر سکیں گے.یہی وجہ ہے کہ ان کے تقرر پر خود قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مبارکباد کے پیغام میں ان کے متعلق بہت اچھی تو قعات کا اظہار کیا تھا.دوسری امکانی وجہ یہ سمجھی جاسکتی ہے کہ اب وہ وقت آ رہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان برٹش ایمپائر کے تعلق سے آزاد ہونے کا اختیار استعمال کر سکیں.اور یہ کہ یہ اختیار استعمال کیا گیا تو جنگ کا خطرہ پیدا ہو جائے گا.اول تو جہاں تک حقیقی آزادی کا تعلق ہے، برٹش ایمپائر کا ایک جزو ہونا یا نہ ہونا کوئی اثر نہیں رکھتا.ایک ڈومینین بھی عملاً اسی طرح آزاد ہے جس طرح ایک ایسا ملک جو برٹش ایمپائر سے ڈومینین ہونے کا تعلق نہیں رکھتا.اور اگر ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا چاہیں تو وہ ڈومینین ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دست بگریبان ہو سکتے ہیں.اور برٹش حکومت کو اس معاملہ میں ایک رسمی سی ” ہوں ہوں“ کرنے کے سوا کوئی طاقت حاصل نہیں.پس لڑائی کو ڈومینین ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے.علاوہ ازیں یہ ایک حقیقت ہے اور اکثر مبصرین کا یہی خیال ہے کہ خواہ منہ سے کچھ کہا جائے.لیکن غالبا ابھی کچھ عرصہ تک اور شاید ایک لمبے عرصہ تک ہندوستان اور پاکستان دونوں برٹش ایمپائر کا حصہ رہنے کو ترجیح دیں گے.کیونکہ اس تعلق کو کاٹنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں اور تعلق کو قائم رکھنے کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہے.اور پھر یہ بھی ہے کہ جب ہر حکومت کو اختیار ہے کہ جب چاہے اس تعلق کو کاٹ دے تو بلا وجہ اس کے لئے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جاسکتی.تیسرا سوال کشمیر کا ہے.یہ سوال بے شک اہم اور قابل فکر ہے.پاکستان کے مسلمان سمجھتے ہیں کہ کشمیر اپنی آبادی کی اکثریت اور اپنی جغرافیائی پوزیشن کے لحاظ سے پاکستان کا حصہ بننے کا حق رکھتا ہے اور ہر پاکستانی مسلمان کو اس کے ساتھ طبعا اور فطرتاً ہمدردی ہے.اور وہ اس بات کو کسی صورت میں پسند نہیں کرتا کہ پاکستان کے ساتھ ملنے کی بجائے کشمیر کی ریاست ہندوستان کے ساتھ مل جائے.اور وہ اس بات کا بھی یقین رکھتا ہے کہ کشمیر کے مسلمان طبعا اور اپنے سابقہ تجربہ کے نتیجہ میں پاکستان کے ساتھ ملنے کو ترجیح دیتے ہیں.اس کے مقابل پر ہندوستان کشمیر کی ہند و حکومت کی وجہ سے کشمیر کو

Page 260

مضامین بشیر ۲۴۸ اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے مگر زیادہ تر اس وجہ سے اس ملاپ کا خواہاں ہے کہ یہی وہ سب سے بڑا ذریعہ ہے ، جس سے وہ پاکستان کو کمزور کر کے اس کی ہستی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے اور گولڑائی آزاد کشمیر اور ہندوستان کے درمیان ہے.مگر اس میں شبہ نہیں کہ اگر یہ جنگ زیادہ پھیلے تو پاکستان کی حدود پر اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے.اور اس قسم کے موقعوں پر جب کہ سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع ہو جائے تو آگ بھڑک اٹھنے کا امکان ضرور ہو جاتا ہے.لیکن چونکہ اس وقت بظاہر دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار نہیں اور حتی الوسع اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں.اس لئے گمان غالب یہ ہے کہ اگر سرحدوں پر کوئی چھیڑ چھاڑ شروع بھی ہوئی تو دونوں حکومتیں اسے روکنے اور محمد ود ر کھنے کی کوشش کریں گی.خلاصہ کلام یہ کہ اگر اس وقت کسی حد تک خطرہ ہے بھی تو اس کی روک تھام کا سامان بھی ایک حد تک موجود ہے.لہذا گھبرانے اور سراسیمہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں.لیکن اصولاً اس میں شبہ نہیں کہ ہر آزاد ملک کو اپنی خود حفاظتی کا پختہ سامان مہیا رکھنا چاہئے.مگر یہ خیال کرنا کہ یہ سامان مہیا کر نا صرف حکومت کا کام ہے ہرگز درست نہیں.اصل چیز پبلک ذہنیت ہے اور اس کی درستی اور تنظیم زیادہ تر خود پبلک کے ہاتھ میں ہے.پس مسلمانوں کو چاہئے کہ گھبرانے کی بجائے اپنے دلوں کو مضبوط کریں اور ایک وسیع پبلک تنظیم کے ذریعہ ہر قسم کے امکانی خطرہ کے لئے تیار رہیں.ایسی تیاری خصوصاً سرحدی اضلاع میں زیادہ ضروری ہے.اور مغربی پنجاب کے اضلاع میں سے راولپنڈی.جہلم.گجرات.سیالکوٹ.لاہور اور منگمری سرحدی اضلاع ہیں ان تمام ضلعوں کی پبلک کو ایک وسیع اور پختہ تنظیم کے ذریعہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اس لئے نہیں کہ اس وقت ان کے لئے کوئی خطرہ ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے لئے اصولاً ہر وقت خطرہ ہو سکتا ہے.ہمارے پاک قرآن نے بھی جو ایک مکمل ہدایت نامہ ہے سرحدوں کی مضبوطی کے لئے تا کیدی ہدایت دی ہے چنانچہ فرماتا ہے :- يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا * وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ ۴۰ تُفْلِحُونَ.د یعنی اے مسلمانو! تم اپنے سب کاموں میں صبر و استقلال کو اپنا شعار بناؤ.اور نہ صرف خود صبر واستقلال پر قائم رہو.بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی صبر و استقلال کی تعلیم دو( تا کہ نہ صرف تم خود منظم ہو.بلکہ اپنے ماحول کو بھی منتظم کر لو ) اور دیکھو اپنی سرحدوں کو خوب مضبوط رکھو.مگر ان ظاہری سامانوں کے با وجود تمہیں چاہئے کہ اپنی حقیقی ڈھال صرف خدا کو بناؤ تا کہ تم اپنے مقاصد میں کا میاب

Page 261

۲۴۹ مضامین بشیر و با مراد ہو سکو.“ بالآخر یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ خطرہ کا احساس خود اپنی ذات میں برانہیں بلکہ قومی بیداری اور ترقی کے لئے ضروری ہے.بڑی بات یہ ہے کہ اس احساس کی وجہ سے گھبراہٹ یا خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو.ورنہ خود احساس تو دراصل ایک بھاری معنوی قوت ہے.جس کے ذریعے قوموں کو ہوشیار اور منتظم کیا جا سکتا ہے.جس قوم کو اپنے اردگرد کے امکانی خطرات کا احساس نہیں ، وہ قوم مردہ ہے.اسی طرح وہ قوم بھی مردہ ہے جسے امکانی خطرات کا احساس تو ہے مگر اس احساس کے نتیجہ میں وہ خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر سراسیمہ ہونے لگتی ہے.یہ دونوں حالتیں یقیناً موت کی حالتیں ہیں اور زندگی کی حالت یہ ہے کہ احساس ہو.مگر احساس کا نتیجہ بیداری اور تنظیم اور تیاری کی صورت میں ظاہر ہو.پس ہمیں پاکستان کے مسلمانوں سے عرض کرنا ہو گا کہ جس جس جگہ بھی اس خوف و ہراس کی کیفیت پائی جاتی ہے.وہ اس کیفیت کا پورے زور کے ساتھ مقابلہ کریں مگر اس مقابلہ کے نتیجہ میں لوگوں کو تھپک کر سلا نہ دیں بلکہ اگر اس احساس نے سوتے ہوؤں کو جگایا ہے تو وہ جاگتے ہوؤں کو زیادہ چوکس و ہوشیار کر کے منتظم اور تیار کر دیں.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ و ناصر رہے.آمین.( مطبوعہ الفضل اارجون ۱۹۴۸ء)

Page 262

مضامین بشیر ۲۵۰ نئی وزارت کو ایک مخلصانہ مشورہ حکومت ایک مقدس امانت ہے اس امانت کی ادائیگی میں عدل پر قائم رہو.عدل کے مثبت اور منفی پہلو دنیا میں جس طرح ہر چیز کے ساتھ تغیر لگا ہوا ہے.اسی طرح حکومتیں اور وزارتیں بھی بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں اور ہر ایسا تغیر اپنے اندر ایک دو ہر اسبق رکھتا ہے.وہ سبق ہوتا ہے جانے والی وزارت کے لئے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز نا پائیدار ہے جب تک کہ اس کے ساتھ خدا کے ازلی اور ابدی وجود کا سہارا نہ ہو.اور وہ سبق ہوتا ہے آنے والی وزارت کے لئے اور اپنے اندر یہ اشارہ رکھتا ہے کہ اب تمہارے امتحان کا وقت آیا ہے.پس اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کر و جو تمہاری حکومت کے سایہ کو زیادہ سے زیادہ لمبا کر سکیں.چنانچہ قرآن شریف ایک جگہ نئی طاقت پانے والی قوم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَلَفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِتَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ ۴۱ یعنی اب ہم نے تمہیں تم سے پہلے گزرنے والی قوم کا قائمقام بنایا ہے تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کس قسم کے اعمال بجالاتے ہو اس لطیف قرآنی آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر حکومت اور ہر طاقت اپنے ساتھ دو پہلو رکھتی ہے.ایک انعام کا پہلو جسے انگریزی میں Privilige کہتے ہیں اور دوسرے ذمہ داری کا پہلو جسے انگریزی میں Responsibility کہتے ہیں کیونکہ جَعَلْنَكُمْ خَليفَ میں (یعنی ہم نے تمہیں گزرنے والی قوم کا قائمقام بنایا ) انعام (Privilige) کے پہلو کی طرف اشارہ ہے اور لِتَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ میں یعنی تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کس قسم کے اعمال بجالاتے ہو ) ذمہ داری (Responsibility) کے پہلو کی طرف اشارہ ہے مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ انعام والے پہلو کے خمار میں دوسرے پہلو کو بھول جاتے ہیں.حالانکہ اصل چیز وہ ذمہ داری ہے جو ہر اس فرد اور

Page 263

۲۵۱ مضامین بشیر ہر اس قوم پر عائد ہوتی ہے جسے دنیا میں حکومت اور طاقت کا ورثہ ملتا ہے.اس وقت مغربی پنجاب میں بھی ایک وزارتی تبدیلی ہوئی ہے اور میں اس جگہ صوبہ کی نئی وزارت کو ایک اصولی مشورہ دینا چاہتا ہوں.جو اس کی ذمہ داری کے پہلو سے تعلق رکھتا ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہمارے نئے وزیروں میں کیا رد عمل پیدا کرے گا.یہ معاملہ ان کے ضمیر اور ان کے احساس ذمہ داری کے ساتھ تعلق رکھتا ہے مگر بہر حال اس معاملہ میں جو مشورہ مجھے مفید نظر آتا ہے اور وہ میرے خیال میں ہماری مقدس کتاب یعنی قرآن کریم سے ثابت ہے وہ میں نہائت مختصر الفاظ میں اور اپنے آپ کو صرف اصول کی حد تک محدود رکھتے ہوئے پیش کر دینا چاہتا ہوں.آگے ماننا یا نہ ماننا ہمارے معزز وزراء کا کام ہے.وما التوفيق الا بالله العظيم - قرآن شریف فرماتا ہے اور کن مقدس اور زور دار الفاظ میں فرماتا ہے کہ:.۴۲ إنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ یعنی اے مسلما نو اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ حکومت کے عہدوں کی امانتیں ان لوگوں کے سپرد کیا کرو جو اس کے اہل ہیں.اور پھر اے وہ لوگو جنہیں حکومت کی امانت سپرد ہو تمہیں ہمارا یہ حکم ہے کہ اپنے سب کاموں میں عدل پر قائم رہو.اور عدل کے رستہ سے کبھی ادھر ادھر نہ ہونا.اس آیت کریمہ میں جو امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.اس کی تشریح آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.یا ابا ذر انک ضعیف و انها امانة وانها يوم القيامة خزى وندامة الامن اخذها يحقها وادى الذى عليه فيها.الله - ۴۳ 66 یعنی جب ابو ذر صحابی نے آنحضرت ﷺ سے ایک عہدہ کی درخواست کی تو آپ نے انکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اے ابوذر تم ایک کمزور انسان ہو.اور یہ حکومت کا عہدہ ایک امانت ہے.اور وہ قیامت کے دن ہر شخص کے لئے ذلت اور ندامت کا موجب ہو گا.سوائے اس شخص کے جسے وہ اہمیت کی بناء پر سپر د کیا گیا ہو.اور پھر وہ اس کا حق ادا کرے.“ بہر حال حکومت کے عہدوں کے متعلق یہ ایک نہایت زریں ہدایت ہے جو خدا کا کلام ہمیں اس معاملہ میں دیتا ہے.اور جیسا کہ قرآن شریف کا طریق ہے وہ الفاظ تو مختصر استعمال کرتا ہے مگران الفاظ کے پیچھے معانی کا ایک وسیع خزا نہ مخفی ہوتا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس قرآنی آیت میں امانت اور عدل کے مختصر سے الفاظ میں ایک ایسا وسیع مضمون بھر دیا گیا ہے کہ اگر اس معاملہ

Page 264

مضامین بشیر ۲۵۲ میں ان کے سوا کوئی اور ہدایت نہ بھی ہو.تو یہی دو مختصر الفاظ کسی حاکم کی کامیابی اور اس کی سرخروئی کے لئے کافی وشافی ہیں.سب سے پہلا سبق’ امانت کے لفظ میں ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ امانت اس چیز کو کہتے ہیں جو ہماری ملکیت نہیں ہوتی ، بلکہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے ہمیں عارضی طور پر حفاظت کے لئے ملتی ہے.پس پہلی ہدایت قرآن شریف کی یہ ہے کہ جب کسی شخص کو حکومت کا کوئی عہدہ سپر د ہو تو وہ اسے ایک مقدس امانت سمجھ کر ادا کرے اور امانت کا مفہوم اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے ایک یہ کہ وہ امانت ہے خدا کی طرف سے جو دنیا کا آخری حکمران ہے اور دوسرے یہ کہ وہ امانت ہے لوگوں کی طرف سے جو ایک شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر حکومت کے عہدہ پر فائز کرتے یا کرواتے ہیں.پس ہر مسلمان حاکم کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے دل میں اس احساس کو قائم رکھے کہ میرا عہدہ میرے پاس ایک دو ہری امانت کے طور پر ہے یعنی اول وہ خدا کی امانت ہے کیونکہ میں نے بالآخر خدا کے سامنے اپنے سارے کاموں کا جواب دینا ہے.اور پھر وہ لوگوں کی امانت ہے جن کا میں نمائندہ ہوں.اور جن کے سامنے میں دنیا میں جواب دہ ہوں میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہر عہدہ داراس امانت والے احساس کو اپنے دل میں قائم کرلے اور پھر قائم کرنے کے بعد اسے زندہ رکھے تو ہمارے قومی کا موں میں اتنا بھاری تغییر پیدا ہو سکتا ہے جو موجودہ حالت میں ہم خیال میں بھی نہیں لا سکتے.دیکھو یہ کتنا چھوٹا سا لفظ ہے جو قرآن شریف نے استعمال کیا ہے مگر حکمت و معرفت سے کتنا لبریز ہے کہ گویا بجلی کا ایک.بٹن دبانے سے سارا گھر آن واحد میں روشن ہو جاتا ہے کاش لوگ اس نکتہ کو سمجھیں.دوسری بات اس قرآنی آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص کے سپر دحکومت کا کوئی عہدہ ہو اسے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کامل عدل سے کام لینا چاہئے.میں نے عدل کے ساتھ کامل کا لفظ اس لئے زیادہ کیا ہے کہ عربی محاورہ کے مطابق جب العدل کا لفظ بغیر کسی قید یا حد بندی کے آئے تو اسکے معنے کامل اور وسیع عدل کے ہوتے ہیں اور ایسا لفظ عدل کے ان سارے پہلوؤں پر حاوی ہوتا ہے جو لغت اور زبان کے محاورہ کے مطابق امکانی طور پر سمجھے جاسکتے ہیں.پس جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ ہر حاکم کا فرض ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں عدل سے کام لے تو اس میں ہر قسم کا کامل عدل سمجھا جائے گا.اب ہر شخص جانتا ہے کہ عدل کئی قسم کا ہو سکتا ہے جن میں سے میں چار موٹی اور معروف قسمیں ذیل میں درج کرتا ہوں.(اول) اپنے کام کے ساتھ عدل کرنا ، یعنی اپنے فرض منصبی کو اس کے سارے حقوق کے ساتھ ادا کرنا اور مختصر طور پر یہ حقوق تین قسم کے ہیں.(الف) فن کی واقفیت یعنی جو کام کسی کے سپر د کیا گیا

Page 265

۲۵۳ مضامین بشیر ہے، اس کے ضروری اصولوں اور ضروری تفاصیل سے واقفیت پید کرنا ( ب ) محنت یعنی اپنے کام کو انتہائی محنت اور جانفشانی کے ساتھ ادا کرنا اور جو امانت یعنی اپنے فرائض منصبی کو دیانتدارانہ اصول کے ماتحت سر انجام دیں ، مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ عدل کے مفہوم کو صرف دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنے تک محدود سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک بہت وسیع لفظ ہے اور اس کا سب سے مقدم پہلو یہ ہے کہ اپنے کام کے ساتھ عدل کیا جائے یہ ایسا ہی محاورہ ہے جیسا کہ مثلاً ہم اردو میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے کام کا حق ادا کر دیا.پس عدل کا سب سے ضروری پہلو یہ ہے کہ کام کے ساتھ عدل ہو جو شخص حکومت کا ایک عہدہ تو قبول کر لیتا ہے مگر اس کے فن سے واقفیت پیدا نہیں کرتا یا فن سے واقفیت تو پیدا کرتا ہے مگر محنت نہیں کرتا اور ستی میں اپنا وقت گزارتا ہے یا محنت بھی کرتا ہے مگر دیانتدارانہ رویہ نہیں رکھتا تو وہ قرآنی محاورہ کے مطابق ہرگز عدل پر قائم نہیں سمجھا جا سکتا.( دوم ) عدل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت اور پبلک کے درمیان عدل کیا جائے یعنی حکومت کے لئے پبلک کا کوئی حق نہ مارا جائے اور پبلک کے لئے حکومت کے کسی حق پر دست درازی نہ کی جائے.اسلام ہر طبقہ کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے جن میں حکومت بھی شامل ہے اور پبلک بھی.پس جو حاکم حکومت کو خوش کرنے کے لئے پبلک کا حق مارتا ہے یا پبلک کو خوش کرنے کے لئے حکومت کی غداری کرتا ہے ، وہ ہرگز ایک عادل حاکم نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس نے ترازو کے دونوں پلڑوں کو برابر نہیں رکھا اور کبھی اسے ایک طرف جھکا دیا اور کبھی دوسری طرف.پس کامل عدل میں حکومت اور پبلک کے درمیان عدل کرنا بھی شامل ہے.(سوم) عدل کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ مختلف قوموں کے درمیان عدل کیا جائے.ظاہر ہے کہ ہر حکومت میں مختلف قومیں اور مختلف پارٹیاں بستی اور شہریت کے حقوق رکھتی ہیں.اور اگر مذہب سب کا ایک بھی ہو پھر بھی مذہب کی اندرونی تقسیم کے لحاظ سے اور اسی طرح سیاسی اور نسلی تفریق کی بناء پر مختلف قومیں اور مختلف پارٹیاں ہو سکتی ہیں.یہ سب پارٹیاں ملک میں شہریت کے حقوق رکھتی اور حکومت کی وفادار ہوتی ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ کوئی حاکم اپنے ذاتی رجحانات یا تعلقات کی وجہ سے کسی ایک قوم یا ایک پارٹی کی طرف زیادہ جھک جائے اور دوسروں کے حقوق کا خیال نہ کرے.اس لئے اسلام عدل کے لفظ میں قوموں اور پارٹیوں کے حقوق کی طرف بھی اشارہ فرماتا ہے اور مسلمان حاکموں کو ہوشیار کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایک قوم یا ایک پارٹی کی طرف نا واجب طور پر جھک کر دوسری قوم یادوسری پارٹی کے حقوق کو نقصان پہنچا دو.

Page 266

مضامین بشیر ۲۵۴ (چہارم ) عدل کا چوتھا اور سب سے زیادہ معروف پہلوا فراد کے درمیان عدل کرنے سے تعلق رکھتا ہے.سوا سلام حکم دیتا ہے کہ جہاں تک حقوق کا سوال ہے.سب شہریوں کیساتھ بلالحاظ بڑے اور چھوٹے اور بلالحاظ کمزور اور طاقتور کے یکساں انصاف کا معاملہ کیا جائے اور ایسا نہ ہو کہ ایک بڑے شخص کی وجہ سے چھوٹے شخص کا نقصان ہو جائے یا ایک طاقتور شخص کا نقصان ہو جائے.یا ایک طاقتور شخص کی لحاظ داری میں مزدور شخص کے حقوق نظر انداز کر ردیے جائیں.ہمارے مقدس آقا ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ: ايها الناس انما اهلك الذين قبلكم انهم كانو اذا سرق فيهم ۴۴ الشريف تركوة واذا سرق فيهم الضيعف اَقَامُوا عَلَيْهِ الحد د یعنی اے مسلمانو! تم سے پہلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کر دیا کہ اگر ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو وہ اُسے چھوڑ دیتے تھے اور اگر کوئی چھوٹا چوری کرتا تھا تو وہ اسے سزا دیتے تھے.اور اس کے بعد آپ نے نہایت جلالی شان کے ساتھ فرمایا کہ خدا کی قسم اگر میری لڑکی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس پر بھی شریعت کی مقرر کردہ سزا جاری کی جائے گی.اسی طرح حضرت ابوبکر خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا یہ مشہور قول ہے.جو خلیفہ بننے کے بعد انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں فرمایا کہ :.الضعيف فيـكــم قـوى عندى حتى أريح عليه حقه والقوى فيكم ضعيف عنده حتى اخذ الحق منه ۴۵ ود یعنی تم میں سے کمزور آدمی میری نظروں میں قوی ہوگا ، جب تک کہ میں اس کا وہ حق جو کسی اور نے اس سے چھینا ہوا ہوا سے واپس نہ دلا دوں ، اور تم میں سے قوی شخص میرے نزدیک ضعیف ہوگا.جب تک کہ میں اس سے وہ حق جو اس نے کسی اور سے چھینا ہوا ہوگا واپس نہ لے لوں‘ اللہ اللہ ! ! کیا مبارک تعلیم ہے.مگر کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں؟ یہ عدل کے وہ چار موٹے موٹے مثبت پہلو ہیں جن کی طرف قرآن شریف ہر حاکم کو توجہ دلا کر ہوشیار کرتا ہے.یعنی (۱) کام کے ساتھ عدل (۲) حکومت اور پبلک کے درمیان عدل (۳) قوموں اور پارٹیوں کے درمیان عدل اور (۴) بالآخر افراد کے درمیان عدل.اور اسلام مسلمانوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ وہ ان چاروں قسموں کے عدلوں پر قائم ہوتے ہوئے حکومت کے فرائض سرانجام دیں.مگر اسلام ایک کامل مذہب ہے اور صرف مثبت پہلو کی تعلیم دے کر خاموش نہیں ہو جا تا بلکہ منفی

Page 267

۲۵۵ مضامین بشیر پہلو بھی بتا تا ہے جو اس رستہ کے خطرات کی صورت میں ایک حاکم کو پیش آسکتے ہیں.چنانچہ اس تعلق میں سب سے پہلی تعلیم اسلام یہ دیتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ محبت کے بے جا غلبہ سے متاثر ہوکر انصاف کے رستہ سے ہٹ نہ جایا کریں.ظاہر ہے کہ محبت ایک ایسی چیز ہے کہ جب وہ انسان کے دل و دماغ پر نا واجب طور پر غالب ہو جائے ، خواہ یہ محبت اپنی جان کی ہو یا رشتہ داروں کی یا دوستوں کی یا کسی اور کی تو وہ ایک ایسا ظلمت کا پردہ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان بسا اوقات ٹھوکر کھاتا اور عدل کے رستہ سے ہٹ جاتا ہے.پس اسلام ہمیں ہوشیار کرتا ہے کہ بے جا محبت کے غلبہ سے بچو اور اس کی وجہ سے عدل کا رستہ کسی صورت میں بھی نہ چھوڑو.چنانچہ قرآن شریف فرما تا ہے کہ: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَومِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ د یعنی اے مومنو ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہو اور خدا کی طرف نگاہ رکھتے ہوئے کچی کچی بات کہو خواہ اس کا اثر تمہاری جانوں کے خلاف پڑتا ہو یا تمہارے ماں باپ کے خلاف پڑتا ہو یا تمہارے دوسرے رشتہ داروں یا دوستوں کے خلاف پڑتا ہو اور کسی صورت میں بھی اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چل کر عدل وانصاف کے رستہ کو نہ چھوڑو ورنہ یا درکھو کہ خدا تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے.اسی طرح غضب اور غصہ کا بے جا غلبہ بھی ایک ظلمت کا پردہ ہے جو انسان کی آنکھوں سے اس کے فرائض کو اوجھل کر دیتا اور عدل کے رستہ سے ہٹا دیتا ہے اس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے :.لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ دو یعنی اے مومنو تمہیں کسی قوم کی دشمنی ہرگز ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے معاملہ میں عدل وانصاف کے رستہ سے ہٹ جاؤ بلکہ تمہیں ہر حال میں عدل پر قائم رہنا چاہئے کیونکہ عدل کرنا تقویٰ کے قریب تر ہے اور تقویٰ وہ جو ہر ہے جو تمام نیکیوں کی جڑ ہے کہ پس خدا کا تقویٰ اختیا ر کرو کیونکہ خدا تمہارے اعمال کو جانتا اور دیکھتا ہے.“ مستقل دشمنی تو الگ رہی اسلام عارضی غصہ کی حالت کے خلاف بھی مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: لا يحكم الحاكم بين اثنين وهو غضبان د یعنی کسی حاکم کے لئے جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان اس حالت میں کوئی فیصلہ کرے

Page 268

مضامین بشیر ۲۵۶ جبکہ وہ غصہ سے مغلوب ہو رہا ہو بلکہ اسے چاہئے کہ اس وقت تک انتظار کرے کہ اس کا غصہ دور ہو جائے خواہ غصہ کسی وجہ سے پیدا ہوا ہو.“ 66 عدل کے رستہ میں ایک بھاری روک رشوت بھی ہے جو آج کل بدقسمتی سے بہت سے بے اصول حاکموں کے کام پر ایک خطرناک دھبہ ثابت ہو رہی ہے.اس کے متعلق آنحضرت یہ فرماتے ہیں : ۴۹ الرَّاشِي وَ الْمُرْتَشِى كِلَاهُمَا فِي النَّارِ - دو یعنی رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دو نو آگ میں ہیں.آنحضرت ﷺ کے یہ ہیبت ناک الفاظ کسی تشریح کے محتاج نہیں.دراصل رشوت ایک ایسا گندہ خلق ہے کہ شریعت اسلامی پر ہی حصر نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور ہر ملک اور ہر قانون نے اسے ناجائز قرار دیا ہے.کیونکہ اس سے عدل وانصاف کے رستہ میں ایسا رخنہ پیدا ہو جاتا ہے جو نہ صرف لوگوں کے حقوق کو بلکہ اس اعتماد کو بھی جو انہیں حکومت پر ہونا چاہئے ، تباہ کر کے رکھ دیتا ہے اور یاد رکھنا چاہئے کہ رشوت صرف نا جائز نقدی قبول کرنے کو ہی نہیں کہتے ، بلکہ ہر وہ چیز اور ہر وہ فائدہ جسے شرعاً یا قانو نا کسی کو حاصل کرنے کا حق نہیں اور جس کے نتیجہ میں حکومت کا کوئی حق مار کر ا فراد کو دے دیا جاتا ہے ، یا ایک قوم کا حق مار کر دوسری قوم کو دے دیا جاتا ہے ، یا ایک فرد کا حق مار کر دوسرے فرد کو دے دیا جاتا ہے وہ سب رشوت میں داخل ہے اور ہمارے آقا علیہ اس قسم کی رشوت دینے والے اور لینے والے دونو کو في النَّارِ قرار دیتے ہیں.یہ ایک بہت بڑا انتباہ ہے بشرطیکہ کوئی خدا کا بندہ اس انتباہ سے ڈرنے کے لئے تیار ہو.عدل کے قیام کے لئے اسلام ایک اور زریں ہدایت بھی دیتا ہے اور وہ یہ کہ اس کے حاکم کو ایک ایسے معاملہ میں جو ایک سے زیادہ فریق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے صرف ایک فریق کی بات سن کر رائے قائم نہیں کرنی چاہئے جب تک کہ سارے متعلقہ فریقین کی بات نہ سن لی جائے.چنانچہ ہمارے مقدس آقا آنحضرت علیہ فرماتے ہیں: إذا تقاضى إِلَيكَ رَجُلانِ فَلا تَقض لِلأَوَّلِ حَتَّى تَسْمَعَ كَلَامَ الآخَرِ فَسَوفَ تَدرى كيف تَقُضِی یعنی آپ نے حضرت علی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب تمہارے پاس دو آدمی جھگڑا کر تے ہوئے پہنچیں تو ایک آدمی کی بات سُن کر رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے کی طرف جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تم دوسرے شخص کی بھی بات نہ سن لو.اگر تم اس اصول پر عمل کرو گے تو تمہیں بچے فیصلوں کی طرف

Page 269

۲۵۷ مضامین بشیر ہدایت حاصل ہوگی، گویا عدل کے طریق سے ہٹنے کا یہ بھی ایک امکانی رخنہ تھا جو آنحضرت مے کے مبارک ہاتھوں نے بند کر دیا اس کے علاوہ آنحضرت عیہ ایک اور سنہری ہدایت جاری فرماتے ہیں اور یہ ہدایت جلد بازی کی عادت سے تعلق رکھتی ہے.بسا اوقات اچھے اچھے سمجھدار آدمی جو اگر ذرا سوچ سمجھ کر کام کریں تو حق کو پالیں.جلد بازی کی وجہ سے ٹھوکر کھاتے اور عدل و انصاف کے رستہ سے ہٹ جاتے ہیں.ہمارے پیارے آقا نے بھٹکنے کے اس امکانی خطرہ کو بھی دیکھا اور اس کے متعلق فوراً اپنے مبارک کلام سے ایک شمع ہدایت مہیا فرما دی.چنانچہ فرماتے ہیں :.التودة في كل شئے خيراً لا في عمل الآخرة ۵۱ اس حدیث کا آزاد تر جمہ یہ ہے کہ دینی احکام کے پورا کرنے میں تو جلدی کیا کرو کیونکہ وہ خدا کی طرف سے فیصلہ شدہ ہدا یتیں ہیں لیکن دینی باتوں میں جبکہ تم نے خود کوئی فیصلہ کرنا ہو تو خوب سوچ سمجھ کر آہستگی اور بردباری سے قدم اٹھایا کرو تا کہ جلد بازی کی ٹھوکر سے بچ جاؤ اور ٹھنڈے غور و خوض کے نتیجے میں صحیح فیصلہ کر سکو.سب سے آخر میں سفارش کا سوال آتا ہے سفارش بھی ذراسی غلطی سے بھاری ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہے اور آج کل تو اس نے غلط استعمال کی وجہ سے گویا ایک لعنت کی صورت اختیار کرلی ہے مگر چونکہ یہ ایک لمبا سوال ہے اس لئے میں اس جگہ صرف ایک مختصر اشارہ پر اکتفا کروں گا اس تعلق میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالتی اور قضائی امور میں اسلام نے سفارش کو ممنوع قرار دیا ہے یعنی جب کوئی معاملہ کسی قاضی یا حج یا مجسٹریٹ کے پاس سفارش کرنا جائز نہیں ہے.چنانچہ آنحضر فرماتے ہیں :.۵۲ مَنْ حالَت شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٌ مِن حُدُود الله فقد ضاد الله د یعنی جو شخص ایسی سفارش کرتا ہے کہ اس کی سفارش خدا کی مقرر کردہ حدود میں روک ہو جاتی ہے تو وہ خدا کے منشاء کے خلاف چلنے والا ہے اور (پھر فرمایا کہ ) مجھ تک پہنچنے سے پہلے آپس میں ایک دوسرے کو بیشک معاف کر دیا کرو مگر جب مجھ تک ( یعنی قاضی یا حج تک ) معاملہ پہنچ جائے تو پھر سفارش کا حلقہ ختم ہو کر فیصلہ واجب ہو جاتا ہے.“ لیکن انتظامی معاملات میں جبکہ کسی دوسرے فریق کے حقوق پر اثر نہ پڑتا ہو اور نیک نتائج کی تو قع ہو سفارش ہو سکتی ہے اور اس کے متعلق قرآن شریف یہ اصولی ارشاد فرماتا ہے:.نَصِيبٌ مِنْهَا ۚ وَمَنْ تَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيْئَةٌ يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِنْهَا ۵۳

Page 270

مضامین بشیر ۲۵۸ یعنی جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے تو وہ اس کے ثواب کا حصہ دار بنے گا مگر جو شخص بری سفارش کرتا ہے تو وہ اسی طرح اس کے گناہ میں سے بھی حصہ پائے گا.یعنی جس سفارش کا اثر کسی دوسرے کے جائز حقوق پر نہ پڑتا ہو اور وہ اچھے نتائج پیدا کرنے والی ہو تو ایسی سفارش ایک نیکی کا کام ہے جس کے ثواب کا حصہ سفارش کرنے والے کو بھی پہنچے گا.لیکن اگر سفارش کا اثر دوسروں کے جائز حقوق پر پڑتا ہو اور اسکے نتائج ملک وقوم کے لئے خراب نکلنے والے ہوں تو ایسی سفارش کرنے والا یہ خیال نہ کرے کہ اس نے ایک سفارش کر دی اور معاملہ ختم ہو گیا.بلکہ ایسا شخص یا در کھے کہ اس کی سفارش کے جو جو بھی برے نتیجے نکلیں گے اور جہاں جہاں تک بھی ان خراب نتائج کا اثر وسیع ہوا سفارش کرنے والا ان سب نتائج کے گناہ کا حصہ دار بنے گا.مگر افسوس ہے کہ آجکل پچانوے فیصد سفارشیں نیک نتائج پیدا کرنے کی بجائے کمزور اور بیکس لوگوں کے خلاف ظلم اور حق تلفی کا آلہ بنی ہوئی ہیں.اور ظاہر ہے کہ ایسی سفارش کو قبول کرنے والا بھی عدل وانصاف کے رستہ سے ہٹ کر بھاری گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کاش ہمارے ملک سے یہ روز افزوں لعنت دور کی جا سکے! میرا یہ مختصر نوٹ میرے اندازہ سے لمبا ہو گیا ہے اور آجکل میری طبیعت بھی علیل ہے اور میں زیادہ نہیں لکھ سکتا اس لئے اب صرف ایک آخری بات کہہ کر اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.یہ آخری بات اس اصول سے تعلق رکھتی ہے کہ حکومتیں اور وزارتیں اپنی عمر کو کس طرح لمبا کر سکتی ہیں.دنیا میں مرتی تو ہر چیز ہے ، مگر کیا یہ نظارہ ہمیں نظر نہیں آتا کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں ہی مرجاتا ہے، کوئی دنیا میں آنکھیں کھولتے ہی دم تو ڑ دیتا ہے، کوئی چار سانس لیکر ختم ہو جاتا ہے ، کوئی دو چار سال یا دس ہیں سال کی زندگی گزارنے کے بعد اگلے جہاں کا رستہ لے لیتا ہے.کوئی عین عالم شباب میں جبکہ جوانی اپنے پورے زور میں ہوتی ہے ہمیشہ کی نیند سو جاتا ہے، مگر کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اپنی طبعی عمر کو پہنچتا ہے اور نیک اعمال بجالا کر دریا میں ایک عمدہ یاد گار چھوڑ جاتا ہے.یہی حال حکومتوں کا ہے وہ بھی کبھی تو پیدا ہوتے ہی مرجاتی ہیں اور کبھی اپنی جوانی کے زمانہ میں کاٹ دی جاتی ہیں مگر کبھی اپنی طبعی عمر پا کر اور اچھے کام کر کے جریدہ عالم پر اپنا ہمیشگی کا نقش ثبت کر جاتی ہیں.ہمارا کامل و مکمل مذہب اس کیمیا وی گر کی طرف سے بھی غافل نہیں رہا.چنا نچہ قرآن شریف فرماتا ہے :.۵۴ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُتُ فِي الْأَرْضِ ) د یعنی دریائی جھاگ کی طرح کی فضول چیزیں جھاگ کی طرح ہی پیدا ہو کر بے نفع صورت میں ختم ہو جاتی ہیں مگر جو چیز لوگوں کو حقیقی نفع پہنچانے والی ہوتی ہے وہ دنیا میں قائم رہتی ہے.“ یہ وہ لطیف کیمیا وی نسخہ ہے جس سے ہر حکومت اپنی عمر کو لمبا کر سکتی ہے.اگر کوئی حکومت یہ خیال کرے کہ

Page 271

۲۵۹ مضامین بشیر اس نے اس نسخہ کو استعمال کیا مگر پھر بھی وہ جلد مٹ گئی اور جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تو میں کہوں گا کہ اس نے اپنی حالت اور اپنے اعمال کا صحیح مطالعہ نہیں کیا اور غلطی سے برے عمل کو اچھا عمل سمجھ لیا کیونکہ بہر حال خدا کا کلام کبھی بھی جھوٹا نہیں ہو سکتا اور یہ تو وہ صداقت ہے جس پر حضرت آدم سے لے کر آج تک ہر ملک اور ہر زمانہ مہر تصدیق ثبت کرتا چلا آیا ہے پس چا ہو تو اس نسخہ کو بھی آزما دیکھو.پس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ عرض نہیں کروں گا.وَآخِرُ دَعُونا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْن ( مطبوعہ الفضل اارجون ۱۹۴۸ء)

Page 272

مضامین بشیر ۲۶۰ موجودہ فسادات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت واضح رؤیا خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود کا وسط باغ تباہی سے محفوظ رہے گا اور آخری فتح بہر حال حق وصداقت کی ہوگی بہرحال و کی گزشتہ فسادات کے ایام میں جب میں قادیان میں تھا تو مجھے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس رویا کی طرف توجہ دلائی.جو آئینہ کمالات اسلام میں شائع ہو چکا ہے اور جس میں گزشتہ فسادات اور قادیان میں جماعت احمدیہ پر حملہ کا نہایت مکمل اور تفصیلی نقشہ دکھایا گیا ہے اور حملہ آوروں کا گویا واضح فوٹو درج کر کے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ فلاں قوم کے لوگ ہوں گے.میں نے اس رؤیا اور اس کے ساتھ کی تعبیر کو الفضل قادیان کی اشاعت مورخه ۳ رستمبر ۱۹۴۷ء ومورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۴۷ء میں شائع کرا دیا تھا اور اب دوستوں کی اطلاع کے لئے الفضل لاہور میں شائع کروا رہا ہوں.دوست اس نہایت اہم رؤیا کو یاد رکھیں اور اس کے پورا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ سے دست بد عار ہیں.خاکسار.مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور.مورخہا ارجون ۱۹۴۸ء.میں نے الفضل قادیان میں لکھا تھا کہ :- اس وقت قادیان اور اس کے ماحول کی جو حالت ہے.اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے.بس یوں سمجھنا چاہئے کہ گویا قادیان ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جس کے چاروں طرف خطرناک آگ بھڑک رہی ہے.اور یہ آگ ایک خاص انداز میں لحظہ بہ لحظہ قادیان کے قریب آتی جاتی ہے.اس وقت ہم لوگ بالکل بے بسی کی حالت میں خدا کے تو کل پر قادیان میں بیٹھے ہیں مگر خدا کے فضل سے ہمارے دلوں میں کوئی گھبراہٹ نہیں.بلکہ ہمیں کامل اطمینان حاصل ہے کہ خواہ درمیانی تکالیف کوئی

Page 273

۲۶۱ مضامین بشیر رنگ اختیار کریں.خدا کے فضل و کرم سے انجام کار حق و انصاف ہی کی فتح ہو گی.اس تعلق میں بعض دوستوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک رؤیا کی طرف توجہ دلائی ہے جو حضور نے غالبا ۱۸۹۱ ء یا ۱۸۹۳ء میں دیکھا تھا اور یہ رویاء آئینہ کمالات اسلام کے ص ۷۸ ۵ تا ص ۵۸۱ پر شائع ہو چکا ہے.اس رؤیا کو جو گویا موجودہ حالات کا ایک مکمل نقشہ ہے.حضور نے عربی میں درج فرمایا ہے اور حضور کی عبارت کا اردو ترجمہ ( جو مولوی ابوالعطاء صاحب نے کیا ہے.اور میں نے اردو کے لحاظ سے اس میں معمولی لفظی تبدیلی کی ہے ) درج ذیل ہے : خاکسار: مرزا بشیر احمد قادیان ۲ ستمبر ۱۹۴۷ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے اپنے کسی کام کے لئے اپنے گھوڑے پر زین کسا ہے.مجھے معلوم نہیں کہ میری یہ تیاری کہاں کے لئے ہے اور میرا مقصود کیا ہے.ہاں میں اپنے دل میں محسوس کرتا تھا کہ اس وقت مجھے کسی خاص امر کے لئے شغف ہے.سو میں اپنے تیز رفتار گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو گیا اور میں نے اپنے ہمراہ بعض ہتھیار بھی لئے ہیں.میں اس وقت اہل تقویٰ وصلاح کی سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتا تھا.لیکن میں سست اور کاہل لوگوں کی طرح بھی نہ تھا.بعد از ان میں نے محسوس کیا کہ مجھے کچھ گھوڑے سواروں کا پتہ لگا ہے جو ہتھیار بند ہو کر مجھے ہلاک و بر باد کر نے کے لئے میرے گھر اور مکانات کا قصد کر رہے ہیں.وہ گویا مجھے نقصان پہنچانے کے لئے اکٹھے ہو کر آرہے ہیں اور میں تنہا ہوں.بایں ہمہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے بجز اس تیاری کے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور تعویز مجھے ملی تھی کوئی خود وغیرہ نہیں پہنا ہوا تھا.البتہ مجھے اس امر سے نفرت تھی کہ میں خوفزدہ لوگوں کی طرح پیچھے رہنے والوں میں رہوں.پس میں تیزی کے ساتھ ایک جہت کی طرف گیا تا اپنے مقصد کو تلاش کروں جو میرے خیال میں دینی اور دنیوی لحاظ سے ایک نہایت اہم اور بڑے ثواب کا کام تھا.تب میں نے اچانک ہزار ہا لوگ گھوڑوں پر سوار دیکھے جو جلد جلد میری طرف بڑھ رہے تھے.میں انہیں دیکھ کر شیر کی طرح خوش ہوا.اور میں نے ان کے مقابلہ اور مزاحمت کے لئے اپنے دل میں طاقت محسوس کی اور میں شکاریوں کی طرح ان کا پیچھا کرنے لگ گیا.پھر میں نے تیزی سے ان کے پیچھے اپنا گھوڑا ڈالا.تا ان کی حقیقت حال معلوم کر سکوں اور مجھے پختہ یقین تھا کہ میں ضرور کامیاب ہوں گا.سو میں ان لوگوں کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ میلے کچیلے (دیہاتی) کپڑوں والے اور کر یہہ النظر لوگ ہیں اور ان کی شکل و ہئیت مشرک لوگوں کی طرح ہے اور ان کے لباس قانون شکنی

Page 274

مضامین بشیر ۲۶۲ کرنے والے فسادی لوگوں کی طرح ہیں.میں نے دیکھا کہ وہ لوگ حملہ آوروں کی طرح گھوڑے دوڑا رہے ہیں اور مجھے ان کی شکلیں اسی طرح دکھائی دیں.جس طرح بیداری میں دیکھنے والے دیکھتے ہیں.میں مسلح اور بہادر سپاہیوں کی طرح جلد جلد ان کی طرف بڑھ رہا تھا.گویا میرے گھوڑے کو کوئی آسمانی قائد اس طرح چلا رہا تھا جس طرح حدی خوان اپنے اونٹوں کو چلاتے ہیں اور میں اپنے گھوڑے کے خوبصورتی اور چوکسی کے ساتھ آگے بڑھنے پر تعجب کر رہا تھا.بعد ازاں جلدی ہی وہ لوگ سرعت سے ہجوم کرتے ہوئے میرے باغ کی طرف بڑھے.تا میری طاقت اور تد بیر کا مقابلہ کریں.اور میرے پھلوں کو تباہ اور میرے درختوں کو برباد کر دیں.اور مفسدوں کی طرح میرے باغ پر ڈا کہ ڈالیں.ان لوگوں کا اس طرح میرے باغ میں داخل ہو جانا اور اس میں گھس جانا مجھے وحشتناک اور دہشت ناک معلوم ہوا اور میں سخت بے چین ہو گیا اور میرا دل مضطرب ہو گیا اور میرے قیاس نے اندازہ لگایا کہ وہ لوگ میرے پھلوں کو برباد کرنے اور میری شاخوں کو توڑنے پھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں.میں اس وقت خیال کرتا تھا کہ یہ وقت مصائب کے ہولناک وقتوں میں سے ایک وقت ہے اور یہ کہ میری زمین دشمنوں کا کیمپ بن رہی ہے.میں نے اپنے دل میں بے سروسامان لوگوں کی طرح ڈر محسوس کیا اور میں جلدی جلدی ان لوگوں کی طرف باغ میں گیا تا اصلیت کا پتہ لگاؤں.جب میں اپنے باغ میں داخل ہوا.اور میں نے ادھر ادھر اپنی نگاہ دوڑا کر دیکھا اور ان لوگوں کی اصل حالت اور مقام کا پتہ لگانا چاہا.تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے فاصلہ پر میرے باغ کے وسطی (اور بہترین حصہ ) میں مردہ لوگوں کی طرح گرے پڑے ہیں.تب میری بے چینی دور ہوئی اور مجھے اطمینان قلب حاصل ہوا پھر میں جلد جلد اور خوش خوش ان کی طرف بڑھا.جب ان کے قریب پہنچ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ گویا ایک دفعہ ہی موت کا شکار ہو کر ذلت اور مقہوریت کی موت مر چکے ہیں.ان کی کھالیں اتاری جا چکی تھیں اور ان کے سر زخمی کئے گئے تھے اور ان کے گلوں پر چھری پھر چکی تھی اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے گئے تھے.اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرے پڑے تھے.وہ لوگ اس طرح اچانک لقمہ اجل بن گئے کہ گویا ان پر بجلی گری ہے اور وہ بالکل بھسم ہو گئے ہیں.میں موقع پر پہنچ کر ان لوگوں کے گرنے کی جگہ پر کھڑا ہوا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے.اور میں کہہ رہا تھا کہ اے میرے رب تیری راہ میں میری جان قربان ہو.تو مجھ پر رجوع برحمت ہوا.اور تو نے اپنے بندے کی ایسی نصرت فرمائی ہے کہ اس کی نظیر کسی جگہ پائی نہیں جاتی.اے میرے رب تو

Page 275

۲۶۳ ۵۵ مضامین بشیر نے خود اپنے ہاتھ سے ان لوگوں کو مار دیا.پیشتر اس کے کہ دو مقابلہ کرنے والے گروہ مقابلہ کرتے.یا دو فریق جنگ کرتے یا دو جانباز دستے نبرد آزما ہوتے.اے خدا تو جو چاہتا ہے کرتا ہے.اور تیرے جیسا کوئی ناصر و مددگار نہیں ہے.تو نے مجھے خود بچایا اور مجھے نجات دی ہے.ارحم الراحمین خدا اگر تیری رحمت نہ ہوتی تو میں ان بلاؤں سے ہر گز نجات نہ پا سکتا.اس کے بعد میں بیدار ہوا.اور میں شکر گزاری اور انابت الی اللہ کے جذبات سے لبریز تھا.فالحمد لله رب العالمین میں نے اس رویا کی تعبیر یہ کی کہ بغیر انسانی ہاتھوں اور ظاہری اسباب کے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح مندی حاصل ہوگی.تا خدا تعالیٰ مجھ پر اپنی نعمتوں کو مکمل فرمائے اور مجھے اپنے خاص منعم علیہ گروہ میں شامل فرما دے.اب میں اس رویا کی تعبیر مفصل بیان کرتا ہوں.تا آپ لوگ علی وجہ البصیرت اسے سمجھ سکیں.سو یاد رہے کہ سروں کو توڑنے اور زخمی کرنے اور گلوں کو کاٹنے کی تعبیر یہ ہے کہ دشمنوں کے کبر کوتو ڑا جائے گا.اور ان کی بڑائی خاک میں ملا دی جائے گی اور ان کی طاقت کو گویا تو ڑ دیا جائے گا اور ہاتھوں کے کاٹے جانے کی تعبیر یہ ہے کہ دشمن کی مقابلہ کرنے اور لڑائی کرنے کی طاقت کو زائل کر دیا جائے گا اور انہیں عاجز بنا دیا جائے گا.اور انہیں مومنوں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کے خلاف لڑائی کی تدبیریں کرنے کے ناقابل کر دیا جائے گا.اور ان سے لڑائی کے ہتھیار چھین لئے جائیں گے اور انہیں مخزول اور مطرود بنا دیا جائے گا اور انہیں بے دست و پا کر دیا جائے گا اور دیا میں پاؤں کا کاٹا جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ ان پر حجت قائم ہو جائے گی اور ان پر فرار کا رستہ بند کر دیا جائے گا.اور ان پر الزام پورے طور پر قائم ہو جائے گا اور وہ گو یا قیدیوں کی طرح ہو جائیں گے.یہ سب کچھ اس خدا کے ہاتھوں ہو گا جسے تمام طاقتیں حاصل ہیں.وہ جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے جسے چاہتا ہے شکست دیتا ہے جسے چاہتا ہے فتح عطا کرتا ہے اور کوئی شخص اسے عاجز نہیں کر سکتا.وہ لوگ جنہوں نے خدا کے رسولوں کی تکذیب کی اور اس کے بندوں کو اذیت پہنچائی اور اس کی آیات اور جزا سزا کا انکار کیا وہی لوگ ہیں جو اس کی رحمت سے مایوس ہوں گے.اور ان کے خیالات ان کی تباہی کا موجب بنیں گے اور ان کا تکبر انہیں ہلاک کر دے گا.اور ان کے سارے اعمال اور کوششیں اہل حق وصداقت کے مقابلہ پر رائیگاں جائیں گی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوں گے.اے ایماندار و! تم خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور خدا کی طرف بلانے والے کی آواز کوقبول کرو اور پیچھے رہو اور صادقوں کے ساتھ مل جاؤ.دیکھو میں نے آپ لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا ہے اور میں تمہارا ادنیٰ خیر خواہ ہوں.مگر میں ان لوگوں کی حالت پر جو کہ اپنے خیر خواہوں سے دشمنی رکھتے ہیں کیونکر افسوس اور غم کر لوں.ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام صفحه ۱۱۸ ( مطبوعه الفضل ۱۳/ جون ۱۹۴۸ء)

Page 276

مضامین بشیر ۲۶۴ غیر مسلموں کو امداد دینے والے احمدی توجہ کریں جن احمدی بھائیوں نے گزشتہ فسادات کے ایام میں یا ان کے قریب اپنے علاقہ کے بعض مظلوم غیر مسلموں کی امداد کی ہو اور ان کی جان اور مال کی حفاظت میں حصہ لیا ہو.وہ واقعہ کی مفصل رپورٹ لکھ کر میرے نام بھجوا دیں تا کہ یہ ریکارڈ مکمل کیا جا سکے.دوستوں کو معلوم ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ ہدایت تھی کہ اسلامی تعلیم کے ماتحت جو شخص بھی مظلوم ہو خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم اس کی امداد کرنی چاہیئے.اور ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے دوستوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر بھی اس اسلامی تعلیم کو پورا کیا ہے.مگرضرورت ہے کہ یہ ریکا ر ڈمکمل طور پر ضبط میں آجائے تا کہ ہم غیر اسلامی دنیا کو بتا سکیں کہ جہاں مشرقی پنجاب اور دہلی وغیرہ میں مسلمانوں پہ یہ یہ مظالم ڈھائے گئے ہیں وہاں اس کے مقابل پر مسلمان غیر مسلموں کی حفاظت کرتے رہے ہیں.اگر کسی دوست کو یہ خیال ہو کہ وہ اس سے پہلے اطلاع دے چکے ہیں تو پھر بھی وہ احتیاطاً دوبارہ لکھ دیں اور جہاں تک ممکن ہو واقعہ کی پوری پوری تفصیل درج کریں.یعنی اپنا نام اور پتہ ، مظلوم و غیر مسلم کا نام اور پتہ ، تاریخ جائے وقوع اور واقعہ کی تفصیل وغیرہ.جملہ امراء ، پریذیڈنٹ صاحبان یہ ہدایت اپنے اپنے حلقہ میں پہنچا دیں.مطبوعه الفضل ۱۸ جون ۱۹۴۸ء)

Page 277

۲۶۵ مضامین بشیر خدا تعالیٰ کی بندہ نوازی کا ایک خاص منظر قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی یادگاریں سب محفوظ ہیں آج جب میں مولوی عبد الرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان کو ایک خط لکھا رہا تھا تو اس ضمن میں میری توجہ ایک ایسے روحانی نکتہ کی طرف منتقل ہوئی.جس کی طرف اس سے پہلے اس رنگ میں اور اس شدت کے ساتھ خیال نہیں گیا تھا.سو میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے اس خط کی نقل دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں بھی شائع کرا دوں.لہذا یہ خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے.بسم خاکسار: مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور.۱۹۴۸.۶.۱۷ الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مکرمی محتر می مولوی عبد الرحمن صاحب امیر مقامی قادیان السلام عليكم و رحمة الله و بركاته آج منشی محمد صادق صاحب کے بھجوائے ہوئے چار سو ستر روپے (۴۷۰ ) وصول ہوئے جن میں سے ۲۱۰ روپے حضرت اماں جان (ام المومنین ) کے باغ کے حساب میں ہیں اور ۲۶۰ روپے میاں عزیز احمد صاحب اور میاں رشید احمد صاحب کے باغ کے حساب میں اور منشی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ نصف رقم ہے اور بقیہ نصف جولائی میں وصول ہوگی.جزاکم اللہ خیرا.مگر منشی صاحب کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ میری تاکید کے باوجود آپ نے قادیان کے درویشوں کے لئے پھل کی جنس بہت تھوڑی رکھی ہے.اول تو میری خواہش تھی کہ سارا پھل ہی دوستوں کے استعمال میں آتا.لیکن ایک روحانی نکتہ کی وجہ سے جس کا میں آگے چل کر ذکر کرتا ہوں.میں اس خیال سے رک گیا مگر بہر حال میری یہ تاکید تھی کہ جنس کافی وشافی رکھی جائے.مگر آپ نے آموں کی جنس فی باغ ایک ایک من رکھی ہے.تین سو کی آبادی میں دومن کی جنس کیا حقیقت رکھتی ہے.مکرم مولوی صاحب آپ نے مجھ پر ظلم کیا ہے کہ دوستوں کی خدمت اور مہمانی کے موقع سے مجھے محروم کر دیا ہے.یہ درست ہے کہ مقبرہ بہشتی کا باغ اور ہر دو باغیچوں کا پھل جو فروخت نہیں کیا گیا.جنس کے علاوہ ہو گا مگر پھر بھی دومن کی جنس بہت

Page 278

مضامین بشیر ۲۶۶ تھوڑی ہے.آپ بلا توقف ایک ایک من کی جنس کو بڑھا کر تین تین من کی جنس کر دیں.یعنی ہر دو باغیچوں پر چھ من کی جنس ہو جائے اور اس کے مقابل پر بقیہ رقم میں سے اس زائد جنس کی قیمت کے مطابق منہائی کر دی جائے.(۲) روحانی نکتہ جو میرے مد نظر ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں سے جو جائداد حضرت اماں جان نے براہ راست پائی تھی.وہ یہی شمر دار باغ تھا جو حضور نے ایک دینی غرض کے ما تحت حضرت امان جان کے پاس رہن رکھا تھا.اور یہ خدا کا کتنا فضل ہے کہ آج بھی جبکہ سارا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو چکا ہے اور ان کی سب جائیدا دیں غیر مسلموں کے ہاتھ میں جا چکی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ جائیداد جو حضور کے ہاتھوں سے براہ راست حضرت ام المومنین کو پہنچی تھی ، وہ اب بھی صحیح سلامت موجود ہے اور حضرت اماں جان کو اس کی آمد وصول ہورہی ہے.غالباً بلکہ یقیناً اس وقت سارے مشرقی پنجاب میں کوئی ایسی مثال موجود نہیں کہ ایک شخص فسادات کے نتیجہ میں مجبور ہو کر مغربی پنجاب آ گیا ہوا اور پھر بھی اس کی مشرقی پنجاب والی جائیداد اُ سے آمد دے رہی ہو.روپے کا تو کوئی سوال نہیں مگر ہمارے رحیم و کریم خدا کی یہ کتنی نکتہ نوازی اور ذرہ نوازی ہے کہ اس نے گزشتہ قیامت خیز طوفان میں بھی حضرت اماں جان کی اس جائیداد کو محفوظ رکھا ہے جو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں سے براہ راست پہنچی تھی.اور اس جائیداد کی آمد اب بھی حضرت اماں جان کو مغربی پنجاب میں پہنچ رہی ہے.ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ o ۵۶ ۵۷ دوستوں کو یہ نکتہ بتا دیں اور سمجھا دیں نَبِنُ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (۳) اس تعلق میں میرا خیال اس روحانی نکتہ کی طرف بھی منتقل ہوا کہ باوجود اس کے کہ گزشتہ فسادات میں ہمارے پیارے مرکز پر بھی بھاری امتحان کا وقت آیا.یعنی قتل وغارت ہوا جائیدادیں لوٹی گئیں.بعض جانیں بھی ضائع ہوئیں اور جماعت کے بیشتر حصہ کو مجبور ہو کر قادیان سے نکلنا پڑا مگر باوجود اس بھاری امتحان کے اللہ تعالیٰ نے قادیان میں ان جگہوں کو اپنے خاص فضل سے محفوظ رکھا.جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنی زندگی اور وفات میں ذاتی تعلق قائم رہا ہے اور وہ ہمارے لئے خاص مقدس یادگاروں کا رنگ رکھتی ہیں.مثلا وہ مکان جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا ہوئے.وہ مکان جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی گزاری.وہ مسجد جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود خدائی بشارت کے ساتھ اپنے مکان کے متصل تعمیر کیا اور اس میں اپنی بے شمار نماز میں ادا کیں.وہ مسجد جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 279

۲۶۷ مضامین بشیر اپنی جمعہ کی نمازیں پڑھیں اور اسی میں ایک عید الاضح کے موقع پر الہامی خطبہ دیا.وہ مینارہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدائی منشاء کے ماتحت ایک خاص علامت کو پورا کرنے کے لئے تعمیر کیا.وہ بیت الدعا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں خدا کے حضور اپنی خاص دعائیں پیش کرنے کے لئے اپنے مکان کے ایک حصہ میں بنائی.وہ باغ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زلزلہ کے ایام میں تین مہینے جا کر ٹھہرے اور اس میں کئی دفعہ اپنے دوستوں کو اپنے ساتھ لے جا کر پھل کی دعوت دی.اور اس میں ہماری بہت سی عید میں اور جنازے ہوئے اور اسی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا جنازہ بھی پڑھا گیا.اور اسی میں حضرت خلیفہ اسیح اول کی پہلی بیعت ہوئی.اور بالآخر وہ مقدس مقبرہ جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدائی بشارتوں کے ماتحت بنیا درکھی اور اس میں حضور کا جسد خا کی دفن ہے.یہ سب جگہیں وہ ہیں جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا براہ راست ذاتی واسطہ رہا ہے اور یہ خدا کا فضل ہے اور اس کی بندہ نوازی کہ اس نے اتنی بھاری تباہی کے باوجود ان ساری جگہوں کو اپنے خاص فضل سے محفوظ رکھا ہے اور اب بھی جبکہ سارا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو چکا ہے ، ہمارے یہ مقدس مقامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام اور درویشوں سے آباد ہیں.میں پھر کہتا ہوں کہ : ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ O.مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ کسی خدائی تقدیر کے ماتحت ایک عمارت کو آگ لگی اور بظاہر سب کچھ جل کر خاک ہو گیا.مگر اس گھر کے اندر پڑی ہوئی بعض مقدس چیزوں کو خدا کے فرشتوں نے اپنے ہاتھوں میں محفوظ کر لیا.کل کو کیا ہو گا یہ خدا جانتا ہے ہمیں اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں.ہمارے لئے خدا نے اتنی میٹھی قاشیں مہیا کر رکھی ہیں کہ اگر ایک آدھ اور تلخ قاش بھی کھانی پڑے تو ہمارے دل یقیناً پھر بھی اس کے شکر گزار رہیں گے اور ہم یہ بھی جانتے اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر کسی دشمن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس وسط باغ پر ہاتھ ڈالا تو خدا کے اس وعدہ کا وقت بھی جلد تر آ جائے گا.جس کی آئینہ کمالات اسلام والے رویا میں خبر دی گئی ہے ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم (۴) میری طرف سے سب دوستوں کو سلام پہنچا دیں اور دعا کے لئے تحریک کریں.اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر رہے اور اس روحانی مقصد کو پورا فرمائے ، جس کے لئے آپ لوگ گویا دنیا سے کٹ کر قادیان میں درویشانہ زندگی گزار رہے ہیں.آمین فقط.مطبوعه الفضل ۱۹؍جون ۱۹۴۸ء)

Page 280

مضامین بشیر ۲۶۸ حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم و مغفور کی وصیت حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم کو جب ناک کے رستہ دماغ میں پانی جانے کی بیماری کا آغاز ہوا تو وہ اس کے علاج کے لئے لاہور تشریف لائے اور میاں غلام محمد صاحب اختر کے مکان پر قیام کیا.ان دنوں میں حضرت میر صاحب مرحوم نے ایک وصیت لکھی تھی جو اتفاق سے اب قادیان کے کا غذات میں سے دستیاب ہوئی ہے.یہ وصیت میر صاحب مرحوم کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے جسے میں پہچانتا ہوں.اور گو پنسل سے لکھی ہوئی ہے مگر اس وقت تک اس کے سب الفاظ اور حروف اچھی طرح پڑھے جاتے ہیں بالآخر حضرت میر صاحب نے چار سال بعد اسی بیماری سے قادیان میں وفات پائی اور اپنی خواہش کے مطابق مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے.اللَّهُمَّ ارْحَمُهُ فِي أَعلَى عِلِييُن خاکسار :.مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ,, وصیت : الحمد للہ اس وقت میرے ہوش وحواس قائم ہیں اشهد ان لا اله الا الله واحده لا شريك له واشهد ان محمداً عبده ورسوله مجھے دلی یقین کے ساتھ زبان سے اس امر کا اقرار ہے کہ اس وقت صرف مذہب اسلام موجب نجات ہے میں چھ ارکان پر ایمان رکھتا ہوں.پانچ بناء اسلام کا قائل ہوں میں سنی، شیعہ یا خوارج میں سے نہیں غیر مقلد ہوں.آئمہ اربعہ میں سے کسی کا مقلد نہیں گو چاروں کا خاک پا ہوں.اول قرآن پھر تو اتر پھر حدیث کو حجت سمجھتا ہوں.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے تمام دعاوی پر ایمان رکھتا ہوں مبائع ہوں غیر مبائع نہیں.نورالدین کو ابوبکر کا اور موجودہ امام جماعت احمدی کو عمر کا مثیل سمجھتا ہوں.مجھے یقین ہے کہ ہماری جماعت تبھی صحیح معنوں میں احمدی رہ سکتی ہے جبکہ وہ ایک واجب الاطاعت امام کے ہاتھ پر بیعت کرے.خلیفہ وقت کے ماتحت ایک انجمن ضرور انتظامی اور مالی معاملات کے لئے ہونی چاہئے.قادیان کو خدا کے رسول کا پایہ تخت اور احمدیت کا ابدی مرکز یقین کرتا ہوں بہشتی مقبرہ کو واقعہ میں بغیر کسی تاویل کے یقین بہشتیوں کا مدفن سمجھتا ہوں میں موصی

Page 281

۲۶۹ مضامین بشیر ہوں تمام حساب صاف ہے.میرے پچہتر روپے سپریٹنڈنٹ احمد یہ ہوٹل کے پاس جمع ہیں اگر میں یہاں فوت ہو جاؤں میری نعش ضرور اس خا کی مقام پر پہنچا دی جائے جسے بہشتی مقبرہ کہتے ہیں اور یہ میری واحد خواہش ہے.اللہ تو میرا انجام بخیر فرما.سید محمد الحق مسافر لا ہور نوٹ :.اگر میں فوت ہو جاؤں تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ اور حضرت ام المومنین سلمہا اللہ کو میرا سلام پہنچا دیں.( مطبوعه الفضل ۲۰ / جون ۱۹۴۸ء)

Page 282

مضامین بشیر ۲۷۰ ۱۳ جولائی والا کا نوائے قادیان نہیں جاسکا.بعض دوستوں کے خط آ رہے ہیں کہ جو کا نوائے ۳ جولائی ۱۹۴۸ء کو قادیان جانا تھا.کیا وہ قادیان سے ہو کر واپس نہیں آیا.سو تمام دوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جا تا ہے کہ افسوس ہے کہ حکومت مشرقی پنجاب کی طرف سے ایک روک پیدا ہو جانے کی وجہ سے۳؎ جولائی والا کا نوائے ابھی تک قادیان نہیں جا سکا.اس کے نتیجہ میں جن دوستوں نے قادیان سے واپس آنا تھا وہ بھی واپس نہیں آ سکے.اس روک کے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جونہی کہ خدا کے فضل سے یہ روک دور ہو جائے گی فوراً لا ہور میں رکے ہوئے دوست قادیان روانہ ہو جائیں گے اور قادیان سے آنے والے دوست واپس آجائیں گے.دوست دعا کرتے رہیں.انشاء اللہ وقت آنے پر میرے قائم مقام عزیز مرزا ظفر احمد سلمہ کی طرف سے اطلاع کر دی جائے گی.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں دوستوں کی اطلاع کے لئے یہ ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا بخار خدا کے فضل سے ٹوٹ گیا ہے.مگر ابھی تک کمزوری اتنی ہے کہ بستر میں لیٹے لیٹے چند سطر میں لکھنے سے بھی طبیعت نڈھال ہو جاتی ہے.یہ بخار ڈینگیو قسم کا تھا.جس نے سات دن میں ہی بالکل مضمحل کر دیا ہے.میں دوستوں کی دعاؤں کا متمنی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسی خدمت کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی خاص رضا کی موجب ہو.زاں پیشتر که بانگ برآید فلاں نماند ( مطبوعہ الفضل ۱۳؍ جولائی ۱۹۴۸ء)

Page 283

۲۷۱ مضامین بشیر رمضان کی برکات سے پورا فائدہ اٹھائیں رمضان ایک نہایت ہی مبارک مہینہ ہے اور انسان نہیں کہہ سکتا کہ موجودہ رمضان کے بعد اسے اگلا رمضان میسر آئے گا یا نہیں.پس ذیل کے سات طریقوں پر رمضان کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ۱.بغیر شرعی عذر کے کوئی روزہ ترک نہ کریں اور روزہ میں محض خدا کی رضا کے حصول کو مدنظر رکھیں.۲.رمضان میں تہجد کی پابندی اختیار کریں اور فرض نمازوں پر زیادہ پختہ ہو جائیں ۳.قرآن شریف کی تلاوت کی کثرت کریں اور کوشش کریں کہ رمضان میں قرآن شریف کے دو د و ر مکمل ہو جائیں.تلاوت میں ساتھ ساتھ ہر امر اور ہر نہی پر غور کرتے جائیں.۴.رمضان میں دعاؤں پر بہت زور دیں حتی کہ گویا مجسم دعا بن جائیں.اسلام اور احمدیت کی ترقی کے علاوہ اس رمضان میں قادیان کی بحالی کے لئے بھی بہت دعائیں کریں.رمضان میں صدقہ و خیرات پر زور دیں اور اپنے مالوں میں غریبوں اور مسکینوں اور بیواؤں اور یتیموں کو حصہ دار بنا ئیں..حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریک کے مطابق اپنی کسی ایک کمزوری کو ترک کرنے کا عہد کریں اور پھر اس عہد پر پختہ طور پر جم جائیں اور اُسے ہمیشہ کے لئے نبھا ئیں.کمزوری دور کرنے کے عہد میں کسی خاص نیکی کے اختیار کرنے کا عہد بھی شامل ہو سکتا ہے.ے.جسے توفیق میسر ہو اُس کے حالات اجازت دیں وہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھے اور ان دس دنوں میں اپنے آپ کو نماز اور تلاوت قرآن کریم اور دعاؤں کے لئے گویا وقف کردے.فاستبقوا الخيرات یا اولی الابصار - مطبوعہ الفضل ۷ ار جولائی ۱۹۴۸ء)

Page 284

مضامین بشیر ۲۷۲ دوستو ! قادیان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھو یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے خاص دن ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں قادیان کی بحالی کے لئے بھی خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا پیارا مرکز ہمیں جلد تر واپس دلا دے اور ایسی صورت میں واپس دلائے کہ ہم اپنے جماعتی پروگرام کو پوری پوری آزادی کے ساتھ بلا روک ٹوک جاری رکھ سکیں ورنہ اس کے بغیر نام کی بحالی چنداں مفید نہیں ہو سکتی.( مطبوعہ الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۴۸ء)

Page 285

۲۷۳ مضامین بشیر رمضان میں دائمی نیکی کا عہد کرنے والی خواتین میں نے کسی گذشتہ رمضان میں جماعت کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریک پیش کی تھی کہ رمضان کا مہینہ چونکہ خصوصیت کے ساتھ نیکیوں اور ثواب کے حصول کا مہینہ ہے.اس لئے اگر کسی کو توفیق ملے تو اسے چاہئے کہ اس مبارک مہینہ میں اپنی کسی ایک کمزوری کے دور کرنے کا خدا سے عہد کرے یا اس کے مقابل پر کسی ایسی نیکی کے التزام کا عہد کرے جس کی طرف سے وہ آج تک غفلت برتا رہا ہے اور پھر اپنے اس قلبی عہد کو جس کی تفصیل کا اظہار نہیں ہونا چاہئے ، زندگی بھر نبھانے کی کوشش کرے تا کہ اس کا رمضان اس کے لئے اصلاح نفس کا ایک عملی ذریعہ بن جائے.اور وہ ان کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ حصہ پاسکے جو خدا تعالیٰ نے اس مبارک مہینہ کے ساتھ وابستہ فرمائی ہیں.میری اس سابقہ تحریک پر اس سال بعض مستورات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک کے ما تحت اس قسم کا عہد کیا ہے.ان خواتین کے اسماء گرامی ذیل میں درج کئے جاتے ہیں تا دوسروں کے لئے بھی شرکت اور دعا کی تحریک کا موجب ہوں.اللہ تعالیٰ انہیں اس نیک عہد کو پورا کر نے اور اس پر تا زیست قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.ساتھ ہی دوست اس موقع پر حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم کے واسطے بھی دعا فرمائیں.جن کے ذریعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ مبارک تحریک پہنچی تھی.خواتین کی فہرست درج ذیل ہے.(۱) امتہ الحفظ اختر اہلیہ شیخ فضل الرحمن صاحب اختر (۲) سیده آنسہ بیگم طالبہ تعلیم القرآن کلاس (۳) سیدہ امتہ الہادی بیگم بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم (۴) سیدہ امتہ القدوس بیگم بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم (۵) سیده بشری بیگم بنت حضرت میر محمد الحق صاحب مرحوم (۶) سراج بی بی صاحبہ کلرک دفتر لجنہ اماء الله (۷) صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ (۸) سید نصیرہ بیگم صاحبه

Page 286

مضامین بشیر ۲۷۴ (۹) سیده تنویر الاسلام بیگم صاحبہ (۱۰) صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ (۱۱) صاحبزادی امتہ الباری بیگم صاحبہ (۱۲) دولت بی بی زوجہ حبیب اللہ صاحب (۱۳) امۃ الوہاب بیگم ضیاء اہلیہ محمد لطیف صاحب (۱۴) عنایت بیگم زوجہ بشیر احمد صاحب (۱۵) حمیدہ بیگم اہلیہ محمد امین صاحب (۱۶) امۃ القیوم بیگم بنت مستری عبدالعزیز صاحب (۱۷) امۃ الرشید بیگم اہلیہ نسیم احمد صاحب (۱۸) چراغ بی بی الیہ منشی محمد ابراہیم صاحب (۱۹) سرور سلطان بیگم اہلیہ دا و داحمد صاحب (۲۰) زینت بی بی اہلیہ مستری عبد العزیز صاحب (۲۱) خورشید بیگم بنت حبیب اللہ صاحب (۲۲) مریم بیگم اہلیہ پیر مظہر الحق صاحب (۲۳) بلقیس بیگم بنت عبد العزیز صاحب (۲۴) امتہ الرشید بیگم اہلیہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب (۲۵) خدیجہ بیگم والده حمید احمد صاحب (۲۶) دولت بی بی والدہ خدیجہ بیگم صاحبہ (۲۷) عائشہ بی بی اہلیہ کرم دین صاحب (۲۸) نواب بی بی اہلیہ احمد دین صاحب (۲۹) نواب بی بی اہلیہ فتح محمد صاحب (۳۰) حمیدہ بیگم بنت کرم دین صاحب (۳۱) رشیدہ بیگم بنت کرم دین صاحب (۳۲) رفیعہ بیگم اہلیہ عبد الغنی صاحب (۳۳) حشمت بی بی اہلیہ مہر الدین صاحب (۳۴) عالم بی بی اہلیہ چراغ الدین صاحب

Page 287

۲۷۵ (۳۵) رحمت بی بی اہلیہ فقیر محمد صاحب (۳۶) دائی اما من صاحبہ (۳۷) امتہ الحفیظ بیگم اہلیہ نذیر احمد صاحب ڈرائیور (۳۸) سعیدہ بیگم اہلیہ سید احمد صاحب (۳۹) استانی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حافظ روشن علی صاحب ( ۴۰ ) استانی محمدی بیگم (۴۱) لیلی اہلیہ محمد اشرف صاحب شہید ( ۴۲ ) ہاجرہ نرس صاحبہ (۴۳) امتہ الحفیظ بنت ہاجرہ نرس (۴۴) امتہ الوہاب بیگم بنت مومن جی (۴۵) مومنہ بیگم بنت مومن جی (۴۶) فضل بی بی اہلیہ مومن جی ( ۴۷ ) امتہ اللطیف صاحبہ بنت میاں عبدالرحیم صاحب درویش قادیان (۴۸) امتہ الرحمن صاحبہ بنت مومن جی صاحب (۴۹) آمنہ بیگم اہلیہ میاں عبدالرحیم صاحب درویش قادیان (۵۰) والدہ سراج بی صاحبہ کلرک لجنه (۵۱) آمنہ اہلیہ گل نور صاحب مرحوم (۵۲) زلیخا اہلیہ عنایت اللہ خان صاحب (۵۳) مریم اہلیہ بازید خان صاحب مرحوم (۵۴) مریم بنت عنایت اللہ خان صاحب (۵۵) مائی راجو صاحبہ (۵۶) رسول بیگم اہلیہ مفتی فضل الرحمن صاحب (۵۷) مجیدہ بیگم اہلیہ مولوی جلال الدین قمر صاحب مبلغ (۵۸) سکینہ بی بی اہلیہ ابراہیم صاحب (۵۹) بیگم بی بی والدہ مولوی جلال الدین صاحب قمر مبلغ (۶۰) دولت بی بی اہلیہ ابراہیم صاحب مضامین بشیر

Page 288

مضامین بشیر (۶۱) سردار بیگم اہلیہ جلال الدین صاحب (۶۲) جانو اہلیہ عبداللہ بوڑی مرحوم (۶۳) ہاجرہ بیگم اہلیہ فتح محمد صاحب قادیان (۶۴) حسین بی بی والدہ نذیر احمد ( ۶۵ ) زینب اہلیہ فقیر محمد مرحوم (۶۶) مختاراں اہلیہ منظور احمد صاحب (۶۷) مائی عائشہ (۶۸) زینت اہلیہ نورمحمد صاحب (۶۹) مہراں اہلیہ فضل احمد صاحب در ولیش قادیان (۷۰) شریفہ بنت (۷۱) بھا بھی زینب صاحبہ (۷۲) بیگم صاحبہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم (۷۳) امتہ الرحمن صاحب اہلیہ مرزا احمد شفیع صاحب شہید (۷۴) سیده ام داؤ د صاحبہ بیگم حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم قادیان حال چنیوٹ (۷۵) امتہ المجید بیگم طالبہ تعلیم القرآن کلاس (۷۶) زرینہ بیگم بنت سیٹھ محمد صدیق صاحب چنیوٹی (۷۷) عابدہ خاتون بنت چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب مرحوم تعلیم القرآن کلاس قادیان حال کو بند گڑھ گوجرانوالہ (۷۸) شمسہ بیگم اہلیہ سید سفیر الدین بشیر احمد قادیان حال شیخو پوره (۷۹) امتہ الحی بیگم مرغوب بنت ایچ ایم مرغوب اللہ تعلیم القرآن کلاس

Page 289

۲۷۷ قادیان حال راولپنڈی (۸۰) امتہ الحفیظ بیگم بنت قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی تعلیم القرآن کلاس قادیان حال ۴ میکلورڈ روڈ لاہور (۸۱) سیدہ خیر النساء بیگم والدہ سید بشیر احمد صاحب اندرون بھاٹی گیٹ.محلہ پٹڑ نگاں لاہور (۸۲) محمودہ نزہت بنت محمد اقبال صاحب (۸۳) ممتاز اختر صاحبه (۸۴) غلام جنت بیگم زوجہ جان محمد صاحب (۸۵) رضیہ بیگم بنت مستری نذرمحمد صاحب (۸۶) بختاور بیگم زوجہ علی محمد صاحب (۸۷) ممتاز بیگم زوجہ غلام نبی صاحب (۸۸) خورشید بیگم زوجہ حکیم ظہور الدین صاحب (۸۹) زوجہ غلام محمد صاحب (۹۰) سلیمہ بیگم صاحبہ (۹۱) برکت بی بی زوجہ حکیم سراجدین صاحب (۹۲) ہاجرہ بیگم زوجہ عبدالمجید صاحب (۹۳) امتہ القیوم بیگم زوجہ عبدالرحمن صاحب (۹۴) ممتاز بیگم زوجہ نذیر احمد صاحب (۹۵) انوار سلطانہ زوجہ محمد اشرف صاحب راوی روڈ.لاہور (۹۶) زوجہ امیر الدین صاحب پہلوان مضامین بشیر

Page 290

مضامین بشیر ۲۷۸ (۹۷) اصغری بیگم بنت مولوی سراج الحق صاحب ضلع ہوشیار پورحال لائکپور (۹۸) بشارت النساء بیگم بنت غلام جیلانی صاحب تعلیم القرآن کلاس دہلی حال میکلوڈ روڈ لاہور (۹۹) بیگم شفیع احمد صاحب دہلوی (۱۰۰) تسنیم شفیع احمد صاحب (۱۰۱) حمیدہ اہلیہ عبد الغفور صاحب مرحوم (۱۰۲) سیدہ امتہ اللہ بیگم اہلیہ پیر صلاح الدین صاحب چنیوٹ محلہ گڑھا (۱۰۳) ساره بیگم بنت شیخ دوست محمد صاحب چنیوٹی (۱۰۴) صفیه بیگم بنت شیخ دوست محمد صاحب چنیوٹی (۱۰۵) قامتہ بیگم بنت خواجہ عبدالرحمن صاحب تعلیم القرآن کلاس (۱۰۶) عنایت بیگم اہلیہ مستری نذر محمد صاحب بھائی گیٹ محلہ پیٹر نگاں.( مطبوعہ الفضل ۲۰ / جولائی ۱۹۴۸ء)

Page 291

۲۷۹ مضامین بشیر اپنے امام کی تحریک کو کامیاب بناؤ فارغ البال دوست قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کریں قادیان کی برکات سے فائدہ اٹھانے اور ثواب کمانے کا بہترین موقع.گزشتہ مجلس مشاورت کے موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تحریک فرمائی تھی کہ چونکہ موجودہ حالات میں قادیان کی احمدی آبادی کا بار بار تبادلہ مشکل ہے اور اس میں بعض قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں.اس لئے جو دوست دنیا کے دھندوں سے فارغ البال ہو چکے ہوں ، انہیں چاہئے کہ قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کریں اور مقدس مرکز سلسلہ میں مستقل رہائش اختیار کر کے قادیان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں.حضور کی اس تحریک پر بعض دوستوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں سے بعض قادیان جا چکے ہیں اور بعض کا نوائے کی انتظار میں ہیں.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک حضور کی یہ مبارک اور ضروری تحریک سب دوستوں تک نہیں پہنچی کیونکہ جس تعداد میں نام آنے چاہئیں تھے ابھی تک اس تعداد میں نہیں آئے.پس اس اعلان کے ذریعہ یہ تحریک دوبارہ جماعت تک پہنچائی جاتی ہے.پریزیڈنٹ اور امراء صاحبان کو چاہئے کہ حضور کی یہ ضروری تحریک سب دوستوں تک پہنچا دیں اور نام پیش کرنے والے دوستوں کی فہرست جلد تر تیار کر کے دفتر حفاظت قادیان جو د ہامل بلڈنگ، جو دھامل روڈ لاہور میں بھجوا دیں.یہ موقع دوہرے ثواب کا موقع ہے.یعنی ایک تو خدمت مرکز کا ثواب اور دوسرے قادیان کی برکات کا حصول.مکرمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اور دوسرے درویشان قادیان کے مضامین سے دوستوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ موجودہ حالات کے نتیجہ میں آج کل قادیان کی زندگی کتنے روحانی فیوض سے معمور ہے.گویا کہ اس کے لیل و نہار مجسم روحانیت بن چکے ہیں.کیونکہ قادیان میں رہنے والے دوستوں کو دنیا کے دھندوں سے کوئی سروکار نہیں اور ان کی زندگی کا ہر لحہ روحانی مشاغل کے لئے وقف ہے.قرآن وحدیث کا درس.نوافل.نمازوں اور خصوصاً تہجد کا التزام.خشوع وخضوع میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کا پروگرام نفلی روزوں کی برکات اور پھر دن رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بابرکت

Page 292

مضامین بشیر ۲۸۰ گھر اور بیت الدعا اور مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ اور بہشتی مقبرہ میں ذکر الہی کے موقعے.یہ وہ عظیم الشان نعمتیں ہیں ، جن سے جماعت کا بیشتر حصہ آج کل محروم ہے.مگر آپ کے لئے تھوڑی سی قربانی کے نتیجہ میں ان نعمتوں کا دروازہ کھل سکتا ہے اور قادیان کا موجودہ ماحول ان نعمتوں سے بہترین صورت میں فائدہ اٹھانے کا موقع پیش کرتا ہے.پس جو دوست دنیا کے دھندوں سے فارغ ہو چکے ہوں یا اپنے آپ کو فارغ کر سکیں ، ان کے لئے خدمت اور ثواب کا بہترین موقع ہے.وہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے آئیں.اور اس مبارک موقع سے جس سے زیادہ مبارک موقع غالباً اس رنگ میں پھر کبھی میسر نہیں آئے گا.اپنی زندگیوں کو روحانی برکات سے مزین کرلیں اور پھر جو لوگ موصی ہیں ان کے لئے اس نعمت کا رستہ بھی کھلا ہے کہ اگر اس عرصہ میں ان کی وفات مقدر ہو تو ادھر ادھر امانتاً دفن ہونے کی بجائے وہ براہ راست مقبرہ بہشتی میں پہنچ کر بلا توقف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جسمانی اور روحانی قرب حاصل کر سکتے ہیں اور بالآخر کیا معلوم کہ ہمارے قادیان کے درویشوں کی عاجزانہ دعائیں ہمارے پیارے مرکز کو جلد تر واپس دلانے میں بھی خدا کے حضور زیادہ مؤثر ثابت ہوں.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ يَا أُولِي الْأَبْصَار - ( مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۴۸ء)

Page 293

۲۸۱ مضامین بشیر قادیان میں جماعت کی واپسی کس صورت میں ہوگی ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مکاشفات پر ایک سرسری نظر کچھ عرصہ ہوا میں نے لکھا تھا کہ میں انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الہاموں اور خوابوں کو ایک جگہ جمع کر کے جن میں جماعت کے قادیان سے نکلنے اور پھر قادیان میں واپس آجانے کے متعلق خدائی اطلاع ہے، ایک تبصرہ لکھوں گا.چنانچہ میں نے اس معاملہ میں کچھ تیاری بھی کی مگر پھر طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اس ارادہ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا.لیکن اب مجھے خیال آتا ہے کہ فی الحال میں صرف قادیان کی واپسی کے متعلق (نہ کہ قادیان سے نکلنے کے متعلق ) ایک مختصر نوٹ میں یہ بتا دوں کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہا موں اور خوابوں سے واپسی کی کیا صورت ثابت ہوتی ہے.تا اگر کسی دوسرے دوست کو توفیق ملے تو وہ اس بارے میں مزید تحقیق کر کے اس مضمون کے سارے پہلوؤں کو مکمل کر سکے.اور اس میں قادیان پر حملہ ہونے اور قادیان سے نکلنے والے الہاموں کو بھی شامل کر لے.بہر حال میرا ذیل کا نوٹ ایک اشارہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا اور میں نے اس میں لیا بھی صرف چند الہاموں کو ہے کیونکہ اس وقت میری طبیعت علیل ہے اور میں زیادہ نہیں لکھ سکتا.(1) سب سے پہلی بات جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مکاشفات سے پتہ لگتا ہے کہ جب خدائی تقدیر کے ماتحت جماعت احمد یہ ایک وقت کے لئے اپنے مرکز سے نکلنے پر مجبور ہوگی تو پھر اس کے بعد اسے فوراً ہی واپس جانے کا موقع نہیں ملے گا کیونکہ واپسی پر بعض ایسی روکیں ہوں گی کہ واپسی کی بعض ابتدائی کوششیں لاز ما نا کام جائیں گی.چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا ایک رؤیا ذیل کے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :- میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں.ایک دو آدمی ساتھ ہیں.کسی نے کہا راستہ بند ہے.ایک بڑا کر ذخار چل رہا ہے.میں نے دیکھا کہ واقع میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہو کر چل رہا ہے ، جیسے سان: چلا کرتا ہے.ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے.

Page 294

مضامین بشیر ۲۸۲ اس رویاء سے ظاہر ہے کہ قادیان میں جماعت کی واپسی کے راستہ میں بعض بھاری روکیں ہیں.اور واپسی کا راستہ غیر معمولی خطرات سے پُر ہے.جس کی وجہ سے کم از کم واپسی کی ایک ابتدائی کوشش خدائی تقدیر کے ماتحت ناکام ہونی مقدر ہے.(۲) لیکن دوسرے الہاموں سے پتہ لگتا ہے کہ ابتدائی نا کامی کے بعد خدا کے فضل سے یہ روکیں دور ہونی شروع ہو جائیں گی اور قادیان کی واپسی کا راستہ کھل جائے گا مگر بعض مکاشفات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وا پسی تدریجی رنگ میں ہوگی اور واپسی کی پہلی قسط ایسے حالات میں ہوگی کہ قادیان میں گویا ابھی ظلمت اور تاریکی کا ماحول قائم ہو گا.اور جماعت اپنے تبلیغی اور تعلیمی اور تربیتی اور تنظیمی پروگرام کو پوری آزادی کے ساتھ نہیں چلا سکے گی اور اس کا راستہ تاریکی کی ٹھوکروں میں مبتلا ہو گا.چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک غیر مطبوعہ رؤیا کا پتہ لگا ہے جو نہ معلوم کس غلطی کی وجہ سے چھپنے سے رہ گیا ہے مگر اس کا ثبوت خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری یادداشتوں میں ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- و میں نے دیکھا کہ میں کسی باہر کے مقام سے قادیان آیا ہوں مگر اس وقت قادیان کی گلیوں میں سخت اندھیرا ہے.حتی کہ راستہ ٹول ٹول کر چلنا پڑتا ہے اور ہاتھ تک دکھائی نہیں دیتا.میں ان مکانوں کے پاس سے جو ہمارے مکان کے ساتھ سکھوں کے ہیں اس گلی میں سے ہوتا ہوا جس کے پاس وہ گوردوارہ واقع ہے جو کسی زمانہ میں مسجد ہوتا تھا کشمیریوں کی گلی کی طرف رستہ ٹولتا ہوا جاتا ہوں اور یہ دعا کرتا رہتا ہوں رَبِّ تجلَّى رَبِّ تَجلَّى ) یہ الفاظ میں نے اپنی یادداشت سے لکھے ہیں.اس وقت اصل حوالہ نہیں ملا مگر بہر حال اس مفہوم کا حوالہ ضرور موجود ہے اور انشاء اللہ اصل حوالہ ملنے پر معین الفاظ شائع کر دئے جائیں گے ) * ی میں نے خواب میں دیکھا کہ میں قادیان کی طرف آتا ہوں اور نہایت اندھیری اور مشکل راہ ہے اور میں رجَمًا بالغيب قدم مارتا جاتا ہوں اور ایک غیبی ہاتھ مجھ کو مدددیتا جاتا ہے.یہاں تک کہ میں قادیان پہنچ گیا اور جو مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے وہ مجھ کو نظر آئی.پھر میں سیدھی گلی میں جو کشمیریوں کی طرف سے آتی ہے ، چلا.اس وقت میں نے اپنے تئیں ایک سخت گھبراہٹ میں پایا کہ گویا اس گھبراہٹ سے بے ہوش ہوتا جاتا ہوں اور اس وقت بار بار ان الفاظ سے دعا کرتا ہوں کہ رَبِّ تَجَلَّى رَبِّ تَجَلی اور ایک دیوانہ کے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے اور وہ بھی رَبِّ تجلی کہتا ہے اور بڑے زور سے میں دعا کرتا ہوں اور اس سے پہلے مجھ کو یاد ہے کہ میں نے اپنے لئے اور اپنی بیوی کے لئے اور اپنے لڑ کے محمود (بقیہ اگلے صفحہ پر)

Page 295

۲۸۳ مضامین بشیر یہ رویا غالبا ۱۸۹۲ ء یا اس کے قریب کا ہے اور اس میں جس گلی کا ذکر ہے، اس سے وہ گلی مراد ہے جو قادیان میں موجودہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری یعنی قصر خلافت سے منور بلڈنگ کے چوک میں سے ہوتی ہوئی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے مکان کی طرف جاتی ہے.جس کے آگے کشمیری آبادی کے مکانات ہیں اور یہ وہ گلی ہے جو گویا مرکز احمدیت کو قادیان کی بیرونی آبادی کے ساتھ ملاتی ہے.اس رویا سے پتہ لگتا ہے کہ قادیان میں جماعت یا اس کے معتد بہ حصہ کا ابتدائی داخلہ ایسے حالات میں ہوگا کہ ایک غیر ہمدرد حکومت کے پیدا کردہ حالات اور اردگرد کی غیر مسلم آبادی کی اکثریت کی وجہ سے گویا قادیان کے اندر باہر تاریکی کا ماحول ہوگا.جس میں جماعت کے لئے اپنے راستہ پر گامزن رہنا بہت مشکل ہو جائے گا.اس وقت جماعت کی خشوع و خضوع کی دعا ئیں آسمان پر پہنچیں گی کہ اے ہمارے خدا ہم پر شفقت کی نظر فرما اور اپنے مقتدرانہ فضل و رحم کی تجلی سے ہمارے لئے اس تاریکی کے ماحول میں روشنی کا سامان پیدا کر دے اور ہماری رات کی ظلمت کو دن کے نور میں بدل دے.(۳) اس پر ہمارا مہربان آسمانی آقا ہماری دعاؤں کو سنے گا اور جماعت کے لئے کامل آزادی اور کامل روشنی کا سامان پیدا کر دے گا.چنانچہ اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کے الفاظ یہ ہیں : گے.“ ۱۶۰ نَرُدُّ إِلَيكَ الكَرَّةَ الثَّانِيَةَ وَتُبَدِّلَنَّكَ مِن بَعدِ خَوفِكَ آمَنَا - یعنی ہم تجھے پھر دوبارہ غالب کر دیں گے اور تیری خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدلیں (۴) اور پھر اس کی تشریح میں یہ شاندار الہام بھی نازل ہوئے کہ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ القُرانَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ إِنِّي مَعَ الأفواج اتِيكَ بَغْتَةً يَا تِيكَ نُصْرَتِى إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ وَالعُلى یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا.یعنی جس نے تجھے اس زمانہ میں قرآنی علوم اور تجدید کے لئے مبعوث فرمایا وہ ضرور ضرور تجھے آخری لوٹنے والی جگہ کی طرف واپس بقیہ حاشیہ سابقہ: کے لئے میں نے بہت دعا کی ہے.پھر میں نے دو کتے خواب میں دیکھے.ایک سخت سیاہ اور ایک سفید ؛ اور ایک شخص کہ وہ کتوں کے پنجے کاٹتا ہے.پھر الہام ہوا.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ - ۵۹

Page 296

مضامین بشیر ۲۸۴ لے جائے گا اور میں جو تیرا قادر و رحیم خدا ہوں تیری مدد کے لئے اپنی فوجوں کے ساتھ اچانک آؤں گا اور میری نصرت تجھے ضرور پہنچے گی.میں اپنے بندوں پر وسیع رحمت کرنے والا خدا ہوں اور تمام بزرگی اور غلبہ میرے ہاتھ میں ہے اس الہام میں جوان اور کراڈی کے الفاظ ہیں وہ عربی محاورہ کے مطابق گویا قسم کے قائم مقام ہوتے ہیں.اور فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرآن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے گویا مطلب یہ ہے کہ ہمیں تیری بعثت کی قسم ہے کہ ہم تجھے ضرور ضرور تیرے معاد کی طرف واپس لے جائیں گے.یعنی جس طرح تیری بعثت ایک عظیم الشان خدائی تقدیر ہے اسی طرح تیرا قادیان واپس جانا بھی خدا کی ایک ایسی تقدیر ہے جو کبھی نہیں ملے گی اور یہ جو معاد کو نکرہ کی صورت میں رکھا گیا ہے ، حالانکہ بظاہر قادیان کی طرف اشارہ کرنے کے لئے معرفہ کی صورت میں المعاد ہونا چاہئے تھا، اس میں یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس کے بعد قادیان ایک دائمی اور عظیم الشان معاد یعنی بار بار لوٹنے والی جگہ یعنی بالفاظ دیگر مرکز کی صورت اختیار کر لے گا.جس کی طرف دنیا بھر کی قو میں تا قیامت رجوع کرتی رہیں گی.چنانچہ قرآن شریف میں بھی اسی مصلحت کے ماتحت اس لفظ کونکرہ رکھا گیا ہے.واللہ اعلم (۵) یہ وہ واپسی ہے.جسے خدا تعالیٰ نے اپنے دوسرے الہاموں میں کئی دفعہ فتح کے لفظ یاد کیا ہے.یعنی ایسی واپسی جس میں سب تاریکیاں دور ہو جائیں گی اور ساری سہولتوں کے دروازے کھل جائیں گے اور ایک کامل غلبہ کی صورت پیدا ہو جائے گی.فتح والے الہامات بہت کثرت کے ساتھ ہیں مگر اس جگہ صرف ایک حوالہ پر اکتفا کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ مخاطب کر کے فرماتا ہے : إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَلَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ۱۶۲ ނ یعنی ہم تیری مشکلات کے دور کے بعد تجھے کھلی کھلی فتح عطا فرمائیں گے اور جو مکروہات اور شدائد درمیان میں پیش آنے والے ہیں وہ اس لئے ہوں گے کہ تا خدا تیری یعنی تیری جماعت کی پہلی اور پچھلی غلطیوں کو معاف فرمائے یعنی یہ درمیانی تکالیف اس لئے آئیں گی کہ تاوہ موجب ترقی و مغفرت خطایا ہوں.(۶) اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت پر آنے والے مختلف دوروں کو یکجائی طور پر بیان کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے: أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ.....قَولُ الْحَقِ الَّذِي فِيْهِ تَمْتَرُونَ ۶۳

Page 297

۲۸۵ د یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.پس خدا اسے ان تمام اعتراضوں اور الزاموں سے بری کرے گا جو اس پر لگائے جائیں گے.اور خدا کے حضور اس کا یہ بندہ صاحب عزت و بزرگی ہے.کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.پس جب خدا پہاڑ جیسی مشکلات اور پہاڑ جیسی معاند ہستیوں کے خلاف اپنی تجلّی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا.اور کافروں کی تدبیروں کو کمزور بنا دے گا اور مشکلات کے اس دور کے بعد سہولت اور فراخی کا دور آئے گا.اور ویسے تو اس سے پہلے اور اس کے پیچھے خدا ہی کی حکومت ہوگی ( مگر خدا تعالیٰ اپنی کسی مصلحت سے ان مشکلات کے دور کو لائے گا ) کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں اور اب ہم اسے بنی نوع انسان کے لئے ایک نشان بنائیں گے اور وہ ہماری طرف سے مومنوں کے لئے ) رحمت کا علمبردار بنے گا.اور یہ خدا کی ایک ایسی تقدیر ہے جو ازل سے فیصلہ شدہ مضامین بشیر ہے اور یہی وہ اٹل صداقت ہے.جس میں اے لوگو تم شک وشبہ میں مبتلا ہو.“ اس جامع کلام میں خدا تعالیٰ نے اَلَيسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدَہ کے الفاظ کو تین دفعہ دہرا کر اور اُس کے بعد ہر دفعہ ایک نیا مضمون بیان کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے تین دوروں کی طرف اشارہ کیا ہے.ایک وہ جو ابتدائی دور ہے جس میں لوگوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی اور ذات کے خلاف اعتراضات ہوں گے اور خدا کی طرف سے ان اعتراضوں کے مسکت جوابوں کا سامان مہیا کیا جائے گا.جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور بزرگی ثابت ہوگی.پھر اس کے بعد دوسرا دور پہاڑوں کی سی مشکلات کا آئے گا.اور کافروں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے خلاف معاندانہ تدبیریں ہوں گی.مگر خدا ان پہاڑوں کو پاش پاش کر دے گا.اور کافروں کی تدبیروں کو کمزور کر کے خاک میں ملا دے گا.اور ان مشکلات کے بعد سہولتوں اور فراخی کا زمانہ آ جائے گا.پھر اس کے بعد تیسرا دور آئے گا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود دنیا کے لئے ایک نشان بن جائے گا اور مومنوں کی جماعت خدا کی ان ابدی رحمتوں کی وارث بنے گی جو ان کے لئے ازل سے مقدر ہیں.یہ وہ وقت ہوگا کہ جب دنیا کے شکوک وشبہات دور ہو جائیں گے اور صداقت اپنا سکہ جمالے گی.اس تشریح سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت جماعت احمد یہ اس درمیانی دور میں سے گزر رہی ہے جس میں کہ مشکلات کے پہاڑ اس کے سامنے ہیں اور کافروں کی معاندانہ تدبیریں اس کے اردگرد اپنا جال پھیلائے ہوئے ہیں.مگر جس طرح کہ آنے والی مشکلات کے متعلق یہ سب کچھ پورا ہوا.اسی طرح

Page 298

مضامین بشیر ۲۸۶ آئندہ ترقی اور فتوحات کے وعدے بھی انشاء اللہ ضرور پورے ہوں گے اور کوئی نہیں جو انہیں روک سکے.(۷) بالآخر قادیان کی ظاہری ترقی اور شان و شوکت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل رویاء نے بھی بہر حال پورا ہونا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ ظاہری ترقی کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.فرماتے ہیں :- ' ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا.اور انتہائی نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے.اونچی اونچی دومنزلی یا چو منزلی یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے (احمدی ) سیٹھ بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے، بیٹھے ہیں اور ان کے آگے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں، روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قسم قسم کی دوکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں.یکے ، بگھیاں ، ٹم ٹم فٹن ، پالکیاں ، گھوڑے شکر میں ، پیدل اس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بھڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے.اور ایک دوسرے کشف میں فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ قادیان کی آبادی بیاس دریا تک پھیل گئی ہے.یہ سب کچھ ہوگا اور ممکن نہیں کہ خدا کے وعدے غلط ہو جائیں مگر ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کریں، اپنے علموں کو ترقی دیں ، اپنے اعمال کو درست کریں ، اپنے ظاہر و باطن کو شریعت کے مطابق بنائیں اور خدمت دین کی وہ شان پیدا کریں جو دنیا میں صحابہ کی یاد کو تازہ کر دے تا کہ ہماری زندگیاں سچ مچ ہمارے اس عہد کی علمبر دار ہو جائیں کہ : میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا ۶۴ ۲۵ یہ وہ عہد ہے جو ہر احمدی بیعت کرتے ہوئے خدا کے ساتھ باندھتا ہے.کاش یہ عہد ہمارے دلوں پر اور ہمارے دماغوں پر اور ہماری زبانوں پر اور ہمارے چہروں پر اور ہمارے سینوں پر اور ہمارے ہاتھوں پر اور ہمارے پاؤں پر اس طرح لکھا جائے کہ آسمان پر ہمارا خدا اسے دیکھے اور خوش ہو اور زمین پر اس کی مخلوق اسے دیکھے اور حق کی طرف ہدایت پائے.اگر یہ بات میسر آ جائے تو انشاء اللہ قادیان کی واپسی ہمارے لئے قریب تر ہو جائے گی اور یہ واپسی یقیناً ہمارے لئے بیش از پیش رحمتوں کا موجب ہوگی اور اگر یہ نہیں تو پھر خدا ہی ہمارا حافظ ہوا اور ہم ہر حال میں اس کی بخشش کے اُمیدوار ہیں.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين - ( مطبوعہ الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۴۸ء)

Page 299

۲۸۷ ہماری روزانہ دعائیں کیا ہونی چاہئیں دعاؤں کے متعلق اسلام کا ایک جامع نظریہ مضامین بشیر جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے اسلام کا مرکزی نقطہ خدا تعالی کی ذات والا صفات ہے مگر بعض دوسرے مذہبوں کی طرح اسلام خدا تعالیٰ کے وجود کو محض فلسفیانہ رنگ میں پیش نہیں کرتا کہ ایک دُور دراز کی ہستی کی طرف اشارہ کر کے کہہ دے کہ اس پر ایمان لاؤ اور بس.بلکہ وہ اس خالق و مالک ہستی کو ہمارے تعلقات اور ہماری تو جہات کا مرکز قرار دیتا ہے اور ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم خدا کی ذات پر صرف ایمان ہی نہ لائیں بلکہ اس کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کر لیں اور اسے اپنی تمام تو جہات کا مرکز بنا ئیں اور پھر اسلام خالق و مخلوق کے اس عملی تعلق کو دونوں جہت سے قائم فرماتا ہے.یعنی خدا کی طرف سے بھی اور بندے کی طرف سے بھی.خدا کی طرف سے یہ تعلق تین صورتوں میں قائم کیا گیا ہے اوّل.بندوں کی بہبودی کے لئے خدا کی طرف سے احکام شریعت کا نازل ہونا تا کہ بندے ان احکام پر عمل کر کے اصلاح اور ترقی کے رستہ پر گامزن ہوں.دوم - بندوں کے نیک اعمال پر اچھے نتائج مترتب کرنا اور بداعمالی پر تادیب اور سزا کا طریق اختیار کرنا تا کہ لوگوں کو اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے صرف اخلاقی تحریک ہی نہ رہے بلکہ ایک باقاعدہ ضابطہ اور نظام قائم ہو جائے.سوم.بندوں کی دعاؤں کو قبول کر کے انہیں تکالیف سے بچانا یا انعامات کا وارث بنانا.اس کے مقابل پر بندوں کی طرف سے بھی یہ تعلق تین صورتوں میں قائم ہوتا ہے.اول.خدا کی طرف سے نازل شدہ احکام کی فرمانبرداری.دوم.ذکر الہی اور عبادات میں شغف.سوم.اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی ضرورتوں کے متعلق خدا کے حضور دعائیں.اس دہرے نظام سے اسلام میں خدا کے وجود کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر قائم کر دیا ہے جو ہر آن ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں ہمارا خدا ہمیں کچھ دے نہ رہا ہو.یا ہم اپنے خدا سے کچھ لے نہ رہے ہوں.مگر اس جگہ میرا یہ نوٹ صرف دعاؤں کے مضمون سے تعلق رکھتا ہے.اور دعاؤں کے بھی صرف اس حصہ سے تعلق رکھتا ہے جو ہماری روزانہ دعاؤں سے وابستہ ہے.یعنی اس جگہ مجھے دعاؤں کا فلسفہ

Page 300

مضامین بشیر ۲۸۸ بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمیں اپنی خاص ضرورتوں کی دعاؤں کے علاوہ کون کون سی اصولی دعائیں کرنی چاہئے.جن کا روزانہ التزام ہماری ذاتی اور خاندانی اور دینی تعلق کے لئے ضروری ہے مگر اس جگہ بھی میں ایک مختصر تمہید کے طور پر تین اصولی باتیں بیان کر دینا ضروری خیال کرتا ہوں کیونکہ ان کے بغیر دعاؤں کا مضمون سمجھنا مشکل ہے.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.۱۶۶ قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ یعنی اے رسول لوگوں سے کہہ دے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوں تو خدا تعالیٰ تمہاری کیا پر وا کرتا ہے.اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ دعا ہی وہ سب سے زیادہ ضروری اور پختہ زنجیر ہے جو انسان کو خدا کیساتھ ملاتی اور اس کی رحمت کی جاذب بناتی ہے.چنانچہ اس آیت کی تشریح میں آنحضرت ﷺ 12 فرماتے ہیں.الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ _ یعنی دعا تمام عبادتوں کی جان ہے جس طرح کہ ہڈی کی جان اس کے اندر کا گودا ہوتا ہے.دوسری اصولی بات یہ ہے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بچے اور باعمل مومنوں کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں.چنانچہ فرماتا ہے.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِوانِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي.یعنی میں جو دنیا کا خالق و مالک ہوں ہر دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں مگر ضروری ہے کہ لوگ بھی میرے احکام کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں اور اس آیت کی تشریح میں آنحضرت علی فرماتے ہیں.ما من مسلم يدعو بدعوة ليس فيها اثم ولا قطعية رحم الأعْطَاهُ الله بها احدى ثلاث اما يجعل له دعوة.....وَإِمَّا يَدْ خِدُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ وما انيصرف عنه من السوء مثلها - 19 یعنی جب کوئی مومن مسلمان خدا سے کوئی دعا کرتا ہے تو اگر اس کی یہ دعا کسی قسم کے گناہ یا قطع رحمی کے مضمون پر مشتمل نہ ہو تو خداس کی دعا کو تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی صورت میں ضرور قبول فرمالیتا ہے.یعنی اول یا تو وہ اسے اسی دنیا میں ظاہری صورت میں قبول کر کے بندہ کی حاجت پوری کر دیتا ہے اور یا دوم اسے آخرت کے لئے دعا کرنے والے کے واسطے اپنے پاس ذخیرہ کر لیتا ہے اور یا سوم اگر اس دعا کو قبول کرنا کسی صورت میں بھی قرین مصلحت نہ ہو تو اس کے مقابل پر دعا کرنے والے سے کسی ملتی جلتی تکلیف یا نقص کو دور فرما دیتا ہے.گویا ہر مومن کی دعا لازما قبول ہوتی ہے.

Page 301

گو اس کی قبولیت کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں.۲۸۹ مضامین بشیر تیسری اصولی تعلیم دعا کے متعلق اسلام یہ دیتا ہے کہ ایک تو اس میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے اور دوسرے کوئی دعا شک اور بدظنی کے الفاظ میں نہ کی جائے بلکہ یقین اور امید سے پُر دل کے ساتھ کی جائے.چنانچہ آنحضرت یہ فرماتے ہیں: ان يستجاب لاحد كم مالم يعجل فيقول قد دعوت ربى فلم يستجب لى.اذادعــا أَحَدُكُـم فـلـيـعـزم المسالَةَ ولا يَقُولَنَّ اللَّهُمَّ إِن شئت فاعِطِنِي فَإِنَّهُ لَا مُسْتَكِرَهَ لَهُ یعنی خدا تعالیٰ اپنے بندے کی دعا کو ضرور سنتا ہے بشرطیکہ وہ جلد بازی سے کام لے کر یہ نہ کہنے لگ جائے کہ میں نے اتنا عرصہ دعا کر کے دیکھ لیا مگر خدا نے میری دعا نہ سنی اور جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرنے لگے تو اسے چاہئے کہ اپنے سوال پر پختگی اور یقین کے ساتھ قائم ہو اور دعا میں اس قسم کے الفاظ نہ کہے کہ خدایا اگر تو پسند کرے تو میری اس دعا کو قبول کر کیونکہ خدا کسی کے ماتحت نہیں وہ بہر حال دعا کو اسی صورت میں قبول کرے گا جسے وہ پسند کرتا ہے کیونکہ اسے کوئی شخص کسی خاص طریق کے اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا مگر تم خواہ نخواہ مشروط اور ڈھیلے ڈھالے الفاظ بول کر اپنی دعا کے زور اور اپنے دل کی توجہ کو کمزور کیوں کرتے ہو؟ اس مختصر سی تمہید کے بعد جو دعا کا اسلامی فلسفہ سمجھنے کے لئے ضروری ہے، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری روزمرہ کی دعا ئیں کن مضامین پر مشتمل ہونی چاہئیں اور چاہتا ہے کہ انسان کو دنیا میں ہر طرح کی ضرورتیں پیش آتی رہتی ہیں.یعنی دینی بھی یاد نیا وی بھی ، ذاتی بھی اور خاندانی بھی ہلکی بھی، غیر ملکی بھی ، اور پھر حال سے تعلق رکھنے والی بھی اور مستقبل سے تعلق رکھنے والی بھی.اس نے انسان کی دعاؤں کو کسی ایک خاص میدان کے ساتھ وابستہ نہیں کیا بلکہ اسے اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ہر قسم کی ضرورت کے لئے خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے لیکن اکثر لوگوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ جو فوری اور وقتی ضرورت ان کے سامنے ہو وہ اسکے سوا باقی تمام باتوں کو بھول جاتے ہیں مثلاً اگر کسی شخص پر کوئی سنگین مقدمہ دائر ہے تو بسا اوقات وہ اپنے اضطراب میں اپنی ساری دعائیں اس مقدمہ کی کامیابی کے لئے وقف کر دیتا ہے اور اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اس پر اس کے علاوہ بھی بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، بے شک فوری اور وقتی ضرورت بعض اوقات مقدم ہو جاتی ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسی حالت میں دوسری دعاؤں کو بالکل ہی بھلا دیا جائے.اس لئے ہمارے علیم و حکیم خدا نے جو انسان کی کمزوریوں کو جانتا ہے

Page 302

مضامین بشیر ۲۹۰ نماز میں لازماً ایسی دعا ئیں شامل کر دی ہیں جو ہر مومن کو ہر حال میں یا درکھنی پڑتی ہیں مثلاً صراط منہ کی طرف ہدایت پانے کی طلب اور آنحضرت عے پر درود بھیجنے کی دعا وغیرہ ذالک ، یا چونکہ نماز میں قرآن کی تلاوت ضروری رکھی گئی ہے اس لئے بعض ضروری دعاؤں کو قرآن شریف میں شامل کر دیا گیا ہے تا کہ اس ذریعہ سے وہ مومن کے سامنے آتی رہیں مگر پھر بھی کئی لوگ اپنی فوری اور قریب کی ضرورتوں میں اتنے منہمک ہو جاتے ہیں کہ ان کے علاوہ انکی نظر کسی اور بات کی طرف نہیں اٹھتی.پس میں نے ضروری خیال کیا کہ اپنے دوستوں کو بعض ان دعاؤں کی طرف توجہ دلا دوں جو انہیں لازماً مانگنی چاہئیں اور جن کے بغیر جماعت کی ترقی محال ہے.ا.سو جاننا چاہیئے کہ سب سے پہلی دعا سورۃ فاتحہ کی جامع دعا ہے جسے ام القرآن کا لقب عطا کیا گیا ہے اس کے یہ الفاظ کہ:.اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۷۲ ง یعنی اے خدا ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے ہاں وہی مبارک رستہ جس پر چل کر تیرے خاص بندے دین و دنیا کے انعام حاصل کرتے رہے ہیں اور خدا یا ہم پر یہ بھی فضل فرما کہ ہم تیری ناراضگی کے موقعوں سے بچیں اور ایک دفعہ سیدھا رستہ پا کر پھر کبھی گمراہ نہ ہوں ، یہ ایک نہایت ہی جامع دعا ہے جو دراصل ہر دینی اور دنیوی ضروریات کے موقعہ پر مانگی جاسکتی ہے اور اسی لئے اس دعا کو نماز کی ہر رکعت میں ضروری قرار دیا گیا ہے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم فرما یا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ فاتحہ کو ہر دوسری دعا کی تمہید کے طور پر بھی لازماً پڑھا کرتے تھے یعنی خواہ دعا کوئی کرنی ہو اس سے پہلے سورۃ فاتحہ ضرور پڑھتے تھے.اور آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث تو سب جانتے ہیں کہ لا صلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَاب یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز ، نماز کہلانے کی حقدار نہیں.(۲) سورۃ فاتحہ سے اتر کر دوسری ضروری دعا درود ہے، یعنی ، اللهم صل على محمد وعلى ال محمد ، والی مسنون دعا.اس دعا کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ خدا نے جس طرح ہر نماز کے شروع میں سورۃ فاتحہ کو رکھا ہے اسی طرح ہر نماز کے آخر میں درود کو لازمی قرار دیا ہے.گویا ہر دوکو نے کے پتھر ہیں جن سے نماز کی عمارت کو مکمل کیا گیا ہے مگر یا درکھنا چاہئے کہ یہ درود کی دعا آنحضرت ﷺ کے لئے کوئی ذاتی دعا نہیں ہے (اور اگر ذاتی بھی ہو تو یہ دعا آپ کی شان کے بالکل شایان ہے ) بلکہ ایک عظیم الشان

Page 303

۲۹۱ مضامین بشیر قومی اور دینی دعا ہے جس میں اسلام کی غیر معمولی ترقی کا راز مضمر ہے.اسی لئے جب ایک صحابی نے آنحضرت علیہ سے یہ پوچھا کہ یا رسول اللہ میں درود کو اپنی دعاؤں میں کتنا حصہ دیا کروں ؟ کیا میں اسے ایک چہارم حصہ دیدوں ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں اور اگر ممکن ہو تو اس سے زیادہ دو.اس نے کہا یا رسول اللہ کیا میں اسے نصف حصہ دے دوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور اگر ممکن ہو تو اس سے زیادہ.اس نے کہا تو پھر یا رسول اللہ میں آئندہ اپنی دعا ئیں آپ پر درود بھیجنے کیلئے ہی وقف کر دوں گا.آپ نے فرمایا ہاں یہ اچھا ہے بشرطیکہ تم ایسا کر سکو.اس ارشاد سے آپ کا منشاء یہ تھا کہ اگر انسان اپنی ساری دعائیں درود یعنی آنحضرت ﷺ کے مدارج کی بلندی اور اسلام کی ترقی کے لئے ہی وقف کر سکے تو یہ سب سے بہتر ہے، کیونکہ پھر ایسے شخص کے کاموں میں خدا خود کفیل ہو جاتا ہے گویا درود ایک دہری قسم کی دعا ہے.بلا واسطہ وہ دعا ہے اسلام کی ترقی کی اور بالواسطہ وہ دعا ہے خود دعا کرنے والے کے حق میں مگر اس کے ساتھ آنحضرت علہ نے ان الفاظ میں یہ اشارہ بھی فرمایا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے ماتحت مجبور ہے کہ کچھ دعائیں براہ راست اپنی ضرورتوں کے لئے بھی کرے یا کم از کم یہ کہ اکثر لوگ براہ راست ذاتی دعا کے بغیر تسلی نہیں پاسکتے اور یقیناً اسلام اس سے منع نہیں کرتا.اسی طرح تذکرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریک فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات درود پڑھنے کا التزام کیا اور بے شمار دفعہ درود پڑھا گیا جس کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا کے فرشتے بڑی مشکیں اٹھا کر میرے مکان میں لائے ہیں جو نور سے بھری ہوئی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد ﷺ کی طرف بھیجے تھے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ جو شخص درود پڑھتا ہے خداس کے اس فعل پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ درود کے اصل مقصد کے علاوہ اسے ذاتی طور پر بھی اپنے انعاموں سے مالا مال کر دیتا ہے.اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ درود صرف آنحضرت علیہ ہی کے لئے دعا نہیں بلکہ خود دعا کرنے والے کے لئے بھی دعا ہے.بڑی ۷۴ (۳) تیسری دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنا ہے جس کے دوسرے الفاظ میں یہ معنی ہیں کہ احمدیت کی ترقی کے لئے دعا مانگی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک فتویٰ کے مطابق اگر کوئی شخص پسند کرے تو آنحضرت ﷺ کے درود میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درود کو شامل کر سکتا ہے اور اس کے لئے یہ الفاظ مناسب ہیں کہ : اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَلَيْكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَبَارِک وَسَلِّمْ لیکن اگر الگ الگ درود بھیجا جائے تو وہ بھی بالکل درست اور مناسب ہے مگر بہر حال حضرت مسیح موعود

Page 304

مضامین بشیر ۲۹۲ علیہ السلام پر درود بھیجنے کا التزام بھی نہایت ضروری ہے.(۴) چوتھی دعا جس کے متعلق میرے خیال میں التزام ضروری ہے وہ اپنی زبان میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعا ہے.درود کی دعا عربی میں ہے اور بالواسطہ ہے.مگر انسانی فطرت اپنی زبان میں براہ راست دعا کا تقاضا بھی کرتی ہے جس کے بغیر عام لوگوں کے دل میں پوری توجہ پیدا نہیں ہو سکتی.پس ضروری ہے کہ ہم اپنی روزمرہ کی دعاؤں میں درود کے علاوہ بھی اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعاؤں کو شامل کریں تا کہ اسلام کے رستہ میں جو روکیں ہیں خدا انہیں دور فرمائے اور اپنے فضل وکرم سے اس کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور اس ترقی کی جد و جہد میں ہمیں بھی حصہ لینے کی توفیق دے.جہاں تک قومی دعاؤں کا تعلق ہے عربی میں درود کے علاوہ سورۃ بقرہ رکوع نمبر ۵ اور بقرہ رکوع نمبر ۴۰ اور آل عمران رکوع نمبر ۱۵ اور آل عمران رکوع نمبر ۲۰ اور فرقان رکوع نمبر ۶ کی دعا ئیں بہت مبارک ہیں اور اپنی زبان میں تو جس طرح بھی کسی کو پسند ہو دعائیں مانگے.(۵) پانچویں دعا جو ہماری روز مرہ کی دعاؤں میں لازماً شامل ہونی چاہئے وہ خلیفہ وقت یعنی حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے متعلق دعا ہے.وہ بھی دراصل ایک قومی اور دینی دعا ہے اور اس میں ان احسانوں کے شکرانہ کا پہلو بھی شامل ہے جو حضور کی ذات سے جماعت کو پہنچ چکے ہیں یا پہنچ رہے ہیں وقال الله تعالى لَئِن شَكَرُ تُم لَا زِيدَنَّكُمُ.حضور کی صحت کے لئے درازی عمر کے لئے حضور کے کاموں میں خدا کی نصرت اور برکت کے لئے اور حضور کے ارادوں میں کامیابی کے لئے لازما دعا ہونی چاہئے.یہ ایک بھاری جماعتی فرض ہے جو ہر احمدی پر عائد ہوتا ہے.(۶) چھٹی دعا حضرت ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا کے متعلق ہے جس کی اہمیت کے سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ جیسا کہ تذکرہ کے مطالعہ سے ثابت ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دعاؤں میں حضرت ام المؤمنین کو بہت بھاری حصہ عطا فرمایا ہے اور ویسے بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے قریب ترین پہلوؤں کی واحد یادگار ہیں اور ان کے وجود کے ساتھ جماعت کے لئے بہت سی برکتیں وابستہ ہیں.(۷) ساتویں دعا جماعت کے ان کارکنوں کے لئے ہونی چاہئے جو قولاً یا عملاً اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں.مثلاً سلسلہ کے مبلغین اور دوسرے مرکزی یا مقامی کارکن خواہ وہ صدرانجمن احمدیہ کے کارکن ہیں یا تحریک جدید کے.ایسی دعا بھی دراصل جماعتی دعا ہے اور اس میں شکرانہ کا پہلو بھی شامل ہے اور جو شخص اپنی دعاؤں میں سلسلہ کے کارکنوں کو بھولتا ہے وہ ایک فرض شناس احمدی نہیں سمجھا جا سکتا.اسی طرح بیرونی مبلغوں اور دوسرے کارکنوں کے اہل وعیال کے

Page 305

۲۹۳ مضامین بشیر لئے بھی دعا کرنی ضروری ہے.(۸) آجکل کے حالات کے لحاظ سے قادیان کی بحالی کی دعا بھی لازماً ہماری روزانہ دعاؤں کا حصہ بننی چاہئے مگر اس دعا میں یہ پہلو ضرور مد نظر رہے کہ خدا ہمیں ایسے رنگ میں قادیان واپس دلائے کہ ہم اس میں اپنے جماعتی پروگرام کو کامل آزادی اور کامل حفاظت کے ساتھ چلا سکیں.اسی طرح جو دوست آجکل قادیان میں درویش بن کر بیٹھے ہوئے ہیں ان کے لئے بھی دعا کرنا ہمارا جماعتی فرض ہے اور ان کے واسطے دعا کرتے ہوئے ان کے اہل وعیال اور عزیزوں کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل کرنا چاہئے.ومن لم يشكر الناس لم يشكر الله ۷۵ (۹) اسی طرح ہر مومن کا فرض ہے کہ اپنی دعاؤں میں اپنے والدین اور اپنی اولاد اور اپنی رفیقہ حیات بیوی کو بھی لازماً شامل کرے.قرآن شریف نے والدین اور اولاد کے متعلق ایک دعا سکھائی ہے جو بہت مبارک اور جامع ہے اور میں اسے اکثر یا درکھتا ہوں اور وہ دعا یہ ہے:.رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَىٰ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَاِنّى مِنَ الْمُسْلِمِينَ ) یعنی خدا یا مجھے توفیق دے کہ میں اس نعمت کا شکر ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر کی ہے اور اسکی بھی جو تو نے میرے والدین پر کی ہے اور یہ کہ میں ایسے اعمال صالحہ بجالاؤں جن سے تو راضی ہو اور اے میرے آقا تو میری اولاد کو بھی نیکی کے رستہ پر قائم کر.میں تیری طرف توجہ کے ساتھ رجوع کرتا ہوں اور میں تیرے فرمانبردار بندوں میں سے ہوں.اس کے علاوہ والدین کے لئے یہ دعا بھی بہت خوب ہے کہ : رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيني صَغِيرًا _ د یعنی میرے رب تو میرے والدین کو اسی طرح اپنی حفاظت اور رحمت کے سایہ میں لے لے جس طرح حفاظت اور شفقت سے انہوں نے مجھے بچپن میں پرورش کیا.اسی طرح اولاد کے لئے دعا کرنا بھی نہایت ضروری اور اہم ہے اور دراصل یہ ایک بھاری قومی خدمت ہے اگر ہم اپنی اچھی تربیت اور اپنی متضرعانہ دعاؤں سے اپنی اولاد کو نیکی کے رستہ پر ڈال سکیں اور اس دنیا کو چھوڑتے ہوئے ہمیں یہ تسلی ہو کہ ہم اپنے پیچھے عالم باعمل اولاد چھوڑ رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہوگی اور قومی ترقی کا بھی اس سے بڑھ کر کوئی اور ذریعہ نہیں کہ ہر اگلی نسل کا قدم موجودہ نسل سے آگے ہو.اگر ہمارے سارے بچے علم اور عمل میں ہم سے آگے ہوں یا کم از کم ہر احمدی کی اولاد کا ایک حصہ اس سے آگے ہو یا کم از کم بحیثیت مجموعی جماعت کے معتد بہ بچے موجودہ نسل سے آگے ہوں ( علم میں بھی

Page 306

مضامین بشیر ۲۹۴ اور عمل میں بھی ) تو خدا کے فضل سے جماعت کا مستقبل محفوظ ہو جاتا ہے.پس اولاد کے لئے دعا کرنا بھی نہایت ضروری ہے اور اس کی طرف سے ہرگز غافل نہیں رہنا چاہئے.اسی طرح بیوی کے واسطے دعا کرنا بھی ہمارا فرض ہے کیونکہ ایک تو وہ ہماری رفیقہ حیات ہے اور دوسرے اس کی آغوش میں قوم کے نو نہال پرورش پاتے ہیں.اس کے واسطے یہ قرآنی دعا بہت خوب ہے کہ :.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامان یعنی اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کے معاملہ میں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمارے گھروں کو جنت کا ماحول عنایت کر کے ہمیں متقیوں کا امام بنا دے.چونکہ انسان اپنے اہل وعیال کا نگران ہوتا ہے اس لئے لاز ما امام کا لفظ بیوی اور بچوں دونوں سے متعلق سمجھا جائے.لہذا یہ دعا بھی ایک بہت جامع دعا ہے اور ہر مومن کو اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآن شریف نے ایک دعا میں والدین اور اولادکو اکٹھا بیان کیا ہے اور دوسری دعا میں بیوی اور اولادکو جمع کر دیا ہے.گویا اولاد کو دونوں کا مرکزی نقطہ رکھا ہے اور مستقبل کے لحاظ سے یہی درست ہے (۱۰) اس کے بعد ذاتی دعائیں ہیں خواہ یہ دعا ئیں ہماری ذات سے تعلق رکھتی ہوں یا ہمارے دوستوں اور عزیزوں سے یا ہمارے ہمسایوں وغیرہ سے یہ دعائیں بھی ضروری ہیں اور درحقیقت یہ بات انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا کے آگے اپنی تمام ضرورتوں کے لئے ہاتھ پھیلائے اور حق بات ہے کہ اگر ہم خدا کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے تو اور کس کے سامنے پھیلائیں گے.خود میرے آقا ( فداہ نفسی) نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ : - لا ملجاء و لا منجاء مِنكَ إِلَّا الیک“ یعنی اے ہمارے خدا ہمارے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہیں اور نہ کوئی مخلصی پانے کی راہ ہے، سوائے اس کے کہ ہم تیرے دروازے کا رخ کریں.پس اپنی ہر ضرورت خدا سے مانگو اور ہر انعام خدا سے چاہو اور ہر تکلیف سے نجات کا رستہ خدا میں ڈھونڈو.کاش دنیا جانتی کہ ہمارے خدا کی قدرت کتنی زبر دست اور اس کی رحمت کتنی وسیع ہے.میرا دل ایک عجیب قسم کی کیفیت محسوس کرتا ہے اور میری زبان تسبیح وتحمید کے ذکر سے تر ہونے لگتی ہے جب میں حدیث میں خدا کا یہ قول پڑھتا ہوں کہ اگر میرے سارے بندے ہی نیک اور دیندار ہو جائیں تو پھر میں دنیا میں بعض گنہگار لوگ پیدا کروں.تا کہ میری رحمت اور میری مغفرت انہیں معاف کر کے اپنی شان ترحم کا اظہار کر سکے.اس حدیث کے خواہ کچھ معنے ہوں مگر اس میں شبہ نہیں کہ ہمارا خدا دولت کا ایک بے انتہا خزانہ ہے اور اس سے غافل رہنے سے بڑھ کر کوئی محرومی نہیں مگر ذاتی دعاؤں میں بھی یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ بہر حال

Page 307

۲۹۵ مضامین بشیر دین دنیا پر مقدم رہے اور ساری ذاتی دعائیں دنیا ہی کے لئے وقف نہ ہو جا ئیں اگر چہ ہمارے خدا کی رحمت کا دامن تو یہاں تک وسیع ہے کہ ہمارے آقا علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تمہاری جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اپنے خدا سے مانگو اللہ اللہ اللہ اللہ.یہ کتنی بھاری نعمت ہے جو ہر وقت ہمارے سامنے موجود ہے مگر کوئی لینے والا بھی ہو.یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ذاتی دعاؤں میں سب سے مقدم یہ دود عا ئیں ہیں کہ (۱) ہم اپنی زندگی خدا کی رضا کے مطابق بسر کریں اور (۲) ہمارا انجام اس کی خوشنودی پر ہو.اور این است کام دل اگر آید میسرم نیک انجام کی دعا میں عذاب قبر سے محفوظ رہنے کی دعا بھی شامل کرنی چاہئے کیونکہ جیسا کہ میں انشاء اللہ ایک علیحدہ مضمون میں بتاؤں گا عذاب قبر عذاب نار سے ایک جدا گانہ چیز ہے اور عذاب قبر بعض جنت میں جانے والے مومنوں کو بھی ہو سکتا ہے.(11) بالآخر میں اپنے ذوق کے مطابق یہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حکومت وقت کیلئے بھی دعا کی جائے کیونکہ حکومت کے استحکام اور حکومت کی مضبوطی اور ترقی کے ساتھ پبلک کے بہت سے مفاد وابستہ ہوتے ہیں اور حکومت کی کمزوری یا حکومت کی غلط روش بھی بہت سی خرابیوں کا موجب بن جاتی ہے.یہ وہ دعائیں ہیں جو ہماری روزانہ دعاؤں کے پروگرام میں لازماً شامل ہونی چاہئیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ اپنی ہر نماز میں یہ ساری دعائیں ضرور شامل کی جائیں مگر ان میں سے بعض دعا ئیں تو لازماً ہر نماز میں ہونی چاہئیں اور باقی کو حسب حالات مختلف نمازوں میں پھیلا یا جاسکتا ہے، لیکن بہر حال یہ سب دعا ئیں ایسی ہیں جن کے ذکر سے سچے مومن کی زبان ہر وقت تر رہنی چاہئے.کاش دنیا جانتی کہ دعا میں کتنی برکت ہے اور کتنی طاقت ہے ، حتی کہ یہی وہ چیز ہے جو خدا کی قضا وقد ر کا رستہ بھی بدل سکتی ہے.یہ میرا اپنا قیاس نہیں بلکہ ہمارے مقدس آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی باتیں ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: لايرد القضاء الا الدعا ۱۸۰ د یعنی دعا کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ خدا کی قضا وقد رکو بھی بدل دیتی ہے اور اس کے سوا کسی اور چیز کو یہ طاقت حاصل نہیں.اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ:.وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِه یعنی خدا کو اس کے قانون کا غلام نہ سمجھو بلکہ وہ اپنی قضا قدر پر بھی غالب ہے.یعنی بسا اوقات وہ

Page 308

۲۹۶ مضامین بشیر اپنے نیک بندوں کی دعا سے اپنی جاری شدہ تقدیر کو بھی بدل دیتا ہے.خدا کرے کہ یہ رمضان ہم میں سے اکثر کے دلوں کو دعا کے ذوق سے شناسا کر دے اور قبل اس کے کہ یہ مبارک مہینہ ختم ہو ہم اپنی ہر حاجت کو خدا سے مانگنا سیکھ لیں اور اپنے سر کا خدا کے در کی مٹی سے خاک آلود ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھکر فخر سمجھیں.اے کاش ایسا ہی ہوا اور خدا کے پاک مسیح کی جماعت قیامت کے دن خدا کے دربار میں سرخروئی حاصل کرے.آمین یا ارحم الراحمین.( مطبوعہ الفضل ۲۷ / جولائی ۱۹۴۸ء)

Page 309

۲۹۷ مضامین بشیر سندھ کے زیر مقدمہ دوستوں کے لئے دعا کی جائے نیز لدھیانہ کے دوستوں کے لئے بھی اس وقت سندھ میں کئی دوست جیل خانہ میں ہیں اور ان پر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے ما تحت مقدمہ چل رہا ہے اور بعض پر قتل کا الزام ہے.ان دوستوں میں جو سب کے سب سلسلہ کی اسٹیٹیوں کے کارکن ہیں ، بعض واقف زندگی بھی ہیں اور ایک لمبے عرصہ سے مصیبت میں مبتلا چلے آتے ہیں.احباب کو چاہئے کہ ان دوستوں کی باعزت رہائی کے لئے درد دل سے دعا فرمائیں.ایک بھائی کی امداد ہر حال میں فرض ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک بھائی کے دکھ کو اسی طرح محسوس کرنا چاہئے جس طرح جسم کے ایک عضو کے درد کو دوسرے اعضا محسوس کرتے ہیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کے ان مبارک ایام میں اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کو اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.اسی طرح ابھی تک لدھیانہ مشرقی پنجاب میں ماسٹر لائق علی صاحب سابق صدر جماعت لدھیانہ اور ان کے لڑکے محمد اقبال صاحب بھی جیل خانہ میں زیر حوالات ہیں.ان کی رہائی کے لئے بھی دوست خاص طور پر دعا فرمائیں..( مطبوعہ الفضل ۲۸ / جولائی ۱۹۴۸ء)

Page 310

مضامین بشیر ۲۹۸ درود میں حضرت ابراہیم کا نام داخل کرنے کی حکمت كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ کے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی شان کا اظہار مقصود ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی وجہ کیا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے بچپن سے ہی تمام گزشتہ نبیوں میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ سب سے زیادہ محبت رہی ہے.مگر چونکہ (فداہ نفسی ) سرور کائنات حضرت محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم کی محبت سب دوسری محبتوں پر غالب ہے اور نہ صرف غالب ہے بلکہ اتنی غالب ہے کہ کسی دوسرے نبی کی محبت کو آپ کی محبت سے کوئی نسبت ہی نہیں.اس لئے حضرت ابراہیم کی خاص محبت کے باوجود مجھے بچپن سے درود کا یہ فقرہ کہ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ( یعنی اے خدا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس طرح برکتیں نازل کر جس طرح تو نے حضرت ابرا ہیم پر نازل کیں ) کھٹکا کرتا تھا اور میں خیال کیا کرتا تھا کہ بظاہر ان الفاظ سے حضرت ابراہیم کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس دعا میں حضرت ابراہیم کی مثال کا حوالہ دینا یہی ظاہر کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم کو کوئی ایسی خاص برکت حاصل ہے جو ابھی تک ہمارے آنحضرت ﷺ کو حاصل نہیں اور اس خیال کی وجہ سے میں اکثر درود پڑھتے ہوئے بے چین ہو جایا کرتا تھا کہ خدایا ! یہ کیا بات ہے کہ ہمارا نبی افضل الرسل اور سيد ولد آدم ہے اور پھر بھی درود میں یہ الفاظ داخل کئے گئے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح برکتیں نازل ہوں جس طرح حضرت ابرا ہیم پر نازل ہوئیں.آخر میں نے سوچ کر تشریح کا یہ راستہ نکالا کہ حضرت ابراہیم کی مثال دینے میں برکتوں کے درجہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف ان کی نوعیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے.اور چونکہ حضرت ابرا ہیم کونسل کی کثرت کا غیر معمولی امتیاز حاصل ہوا ہے اور ان کی نسل کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی ہے کہ اس میں کثیر تعداد میں نبی پیدا ہوئے.اس لئے میں خیال کرتا تھا کہ شاید اسی وجہ سے حضرت ابراہیم کی مثال بیان کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود والی دعا کی جاتی ہے مگر پھر بھی میرا دل پوری طرح تسلی نہیں پاتا تھا اور درود کے ان الفاظ پر پہنچ کر کہ کما صلیت علی ابراهیم مجھے ہمیشہ ایک

Page 311

۲۹۹ مضامین بشیر اندرونی جھٹکا لگا کرتا تھا اور میری روح ایک قسم کی ٹھو کر محسوس کرتی تھی.لیکن ساتھ ہی میرا دل اس یقین سے بھی پر تھا کہ یہ خدا کی سکھائی ہوئی دعا ہے اور ضرور اس میں کوئی خاص حکمت مد نظر ہوگی جو ممکن ہے کئی لوگوں پر ظاہر بھی ہو اور انشاء اللہ مجھ پر بھی کسی دن ظاہر ہو جائے گی.آخر کچھ عرصہ ہوا خدا نے مجھے بھی اس کی حکمت پر آگاہ فرما دیا اور اب مجھے خدا کے فضل سے اس تشریح پر جو میرے ذہن میں آئی ہے پوری تسلی ہے.میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ درود میں حضرت ابراہیم کا نام شامل کرنے میں صرف وہی حکمت مدنظر ہے جو میرے خیال میں آئی ہے.خدا بلکہ رسول کے کلام میں بھی بڑی وسعت ہوتی ہے اور بسا اوقات ایک ہی وقت میں کئی کئی معنے مدنظر ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ جو تشریح میرے ذہن میں آئی ہے، اس سے بھی بڑھ کر کوئی اور حکمت درود میں مخفی ہو.مگر اب کم از کم مجھے اپنی جگہ یہ تسلی ضرور ہے کہ جو معنے میرے خیال میں آئے ہیں وہ خدا کے فضل سے نہ صرف درست ہیں بلکہ میرے ذوق کے مطابق لطیف بھی ہیں.واللہ اعلم بالصواب.میں یہ معنے دوستوں کی اطلاع کے لئے درج ذیل کرتا ہوں.دوستوں کو یہ تو علم ہی ہے اور دراصل یہ بات اسلامی تاریخ کا ایک مشہور و معروف واقعہ ہے جسے مسلمان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابرا ہیم کی نسل سے ہیں جو حضرت اسمعیل کے ذریعہ عرب میں آباد ہوئی اور یہ کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے مبارک ہاتھوں سے ہی ہوئی تھی.جس کا ایک ایک پتھر ان مقدس باپ بیٹوں کی ہزاروں دعاؤں کے ساتھ رکھا گیا.اور انہوں نے اس موقع پر یہ دعا بھی کی کہ ان کی نسل سے ہمیشہ خدا کے پاک بندے پیدا ہوتے رہیں جن کی توجہ خدا کے دین کے لئے وقف ہو.اس موقع پر حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل نے وہ خاص الخاص دعا بھی کی ، جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود با جو د ظہور میں آیا.چنانچہ قرآن شریف اس تاریخی دعا کوان زور دار الفاظ میں بیان فرماتا ہے.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۸۲ یعنی اے ہمارے رب تو ہماری اس نسل میں جواب اس ملک میں پھیلے گی.اور تیرے اس مقدس گھر کے ارد گرد آباد ہوگی.ایک عالی شان رسول انہی میں سے مبعوث فرما.جو انہیں تیری مبارک آیات پڑھ کر سنائے.اور انہیں تیری کتاب کی تعلیم دے اور پھر اس کتاب کے احکام کی حکمت بھی سکھا دے اور انہیں اپنے پاک نمونہ کی برکت سے ایک ترقی یافتہ زندگی عطا کرے.یقینا تو بڑی شان والا اور بڑی حکمت والا خدا ہے.اس دعا کے الفاظ بڑے بھاری فضائل پر مشتمل ہیں.مگر مجھے اس جگہ اس دعا کی تفسیر اور تشریح

Page 312

مضامین بشیر ۳۰۰ میں جانا مد نظر نہیں بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت ابراھیم اور حضرت اسمعیل نے کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ والوں میں ایک ایسے خاص نبی کی بعثت کی دعا کی تھی جو اپنے روحانی اور علمی اور تربیتی پروگرام کے ساتھ بے مثل امتیاز کا مالک بننے والا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ میری بعثت اسی دعا کا نتیجہ ہے.چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں :.انا دعوة ابراهيم.......۱۸۳ د یعنی میں ابراھیم کی دعا کا ثمرہ ہوں“ اب گویا تین باتیں ہمارے ہاتھ میں ہیں.( اول ) یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابرا ہیم کی نسل سے ہیں.( دوم ) یہ کہ حضرت ابراھیم نے کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ والوں میں ایک عظیم الشان رسول کی بعثت کی دعا کی تھی.( سوم ) یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اسی دعا کا نتیجہ تھی.اب اگر ہم ان تین باتوں کو مد نظر رکھ کر درود کے الفاظ پر غور کریں تو بات بالکل صاف ہو جاتی ہے اور :.درود میں کما صليت على ابراهيم يا كما باركت على ابراهیم کے الفاظ نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کسی قسم کی کمی کے مظہر ثابت نہیں ہوتے بلکہ حقیقتاً اس بات کا ثبوت مہیا کرتے ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان اور آپ کی امت کی غیر معمولی ترقیات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے درود میں داخل کئے گئے ہیں.بات یہ ہے کہ یہ الفاظ کہ کما صليت على ابراهيم محمد رسول اللہ ﷺ پر اسی طرح کی برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم پر نازل کیں ) اس غرض کے لئے رکھے گئے ہیں کہ تا حضرت ابراھیم کی اس خصو صیت کی طرف اشارہ کیا جائے جو ان کی تعمیر کعبہ کے وقت کی دعا اور اس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تعلق رکھتی ہے.اور مقصد یہ ہے کہ اے خدا! جس طرح تو نے ابراہیم کی دعا سے ابراھیم کی نسل میں ایک عظیم الشان نبی پیدا کیا.اسی طرح اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بھی غیر معمولی روحانی کمالات کا سلسلہ جاری رکھ.اس طرح درود میں ایک نہایت ہی لطیف اور مقدس دور یعنی پائیس سرکل (Pious Circle) قائم کر دیا گیا ہے.اور خدا کے دامنِ رحمت کو اس دعا سے حرکت میں لایا گیا ہے کہ اے خدا تو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح کی خاص برکات نازل فرما جس طرح تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعہ ابراھیم پر اپنی خاص برکات نازل فرمائیں.گویا کما صلیت علی ابراهیم میں جو مثال دی گئی ہے وہ بھی دراصل

Page 313

٣٠١ مضامین بشیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ حضرت ابراھیم سے اور حضرت ابراھیم کا نام صرف اس مثال کو واضح کرنے اور اس کی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لایا گیا ہے.پس درود کے صحیح معنے یہ ہوئے کہ اے خدا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی وہ خاص برکتیں نازل فرما جو تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عالی شان نبی کی بعثت کے ذریعہ حضرت ابراہیم پر نازل کیں.گویا چکر کھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات روحانی کی مثال خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی لوٹ آئی اور کما صلیت علی ابراھیم کے الفاظ میں حضرت ابراہیم کی برتری اور فوقیت کا کوئی سوال نہ رہا.کیونکہ جیسا کہ میں نے اوپر تشریح کی ہے.دراصل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکتوں کی دعا خود آپ کی اپنی ہی مثال دے کر مانگی گئی ہے اور حضرت ابراہیم کا نام صرف اس مثال کی تشریح کے لئے لایا گیا ہے.اب دیکھو کہ یہ کیسا مبارک چکر ہے جو درود میں قائم کیا گیا ہے گویا درود کی دعا کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ خدایا ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثل برکات آپ کی ذات تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ ان کا سلسلہ قیامت تک وسیع ہوتا چلا جائے اور آپ کے روحانی اظلال دنیا میں ظاہر ہو ہو کر ہمیشہ آپ کا نور اور روشنی پھیلاتے رہیں.اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ یہ درود کی دعا پوری ہوئی یا نہیں اور اگر پوری ہوئی تو کس رنگ میں پوری ہوئی.سو اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ دعا اپنی مکمل شان میں پوری ہوئی بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کی طرف سے اس بات کا علم دیا گیا تھا کہ ہماری سکھائی ہوئی درود کی دعا اس اس رنگ میں پوری ہوگی.چنانچہ اس دعا کی عام تجلی تو یہ ہے کہ امت محمدیہ کو با کمال اولیا و اور عدیم المثال علماء کا غیر معمولی ورثہ عطا کیا گیا ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ :.علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل.د یعنی میری امت کے روحانی علماء ( جن میں ہر صدی کے مجدد بھی شامل ہیں ) اپنی شان اور روحانی کمالات میں بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے، پس یہ جو امت محمدیہ میں ہزاروں باکمال اولیاء اور ہزاروں خدا رسیدہ علماء گزرے ہیں جو اپنے اپنے زمانہ میں ظاہری علم کے ساتھ ساتھ خدائی کلام سے بھی مشرف ہوتے رہے ہیں اور جن سے سماءِ اسلام کا چپہ چپہ مزین نظر آتا ہے ، یہ سب اسی درود والی مبارک دعا کا کرشمہ ہیں“ مگر اس عام روحانی ورثہ کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ایک ظلتِ کامل

Page 314

مضامین بشیر ٣٠٢ ۸۵ اور بروز اتم کا بھی وعدہ تھا.جس کی بعثت کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ قرار دیا گیا تھا.جیسا کہ سورہ جمعہ کے الفاظ و اخرین منهم ( یعنی آخری زمانہ میں خدا تعالے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بروز کے ذریعہ دوبارہ معبوث کرے گا ) میں بتایا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے يُدْ فَنُ مَعِى فِی قَبْرِ.( یعنی آنے والا مصلح اپنی وفات کے بعد اپنے روحانی مقام کے لحاظ سے میرے ساتھ ہی رکھا جائیگا.) کے الفاظ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے.سو یہ وعدہ بھی حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کے وجود میں پورا ہو گیا.گویا جس طرح حضرت ابراھیم کی دعا کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اسی طرح كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ کی دعا کی تکمیل کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں تشریف لے آئے.اور ابھی نہ معلوم قیامت تک آپ کے کن کن اور روحانی اخلال نے آسمانِ ہدایت پر طلوع کر کے درود والی دعا کو پورا کرنا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ على محمد و علی ال محمد و بارک وسلم.خلاصہ کلام یہ کہ درود میں حضرت ابراھیم کی مثال بیان کرنے سے حضرت ابراھیم کے کسی ذاتی کمال کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں.بلکہ حضرت ابراھیم کی اس دعا کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے.جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود ظہور میں آیا اور غرض یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابرا ہیم کی دعا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت وجود پیدا ہوا.اسی طرح اب اے خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپ کے روحانی اظلال کا سلسلہ بھی تا قیامت جاری رہے.اور اس ذریعہ سے ایک ایسا مقدس دور قائم ہو جائے جو تیرے آخری نور کے ذریعہ دنیا میں ہمیشہ اجالا رکھے.اس نکتہ کے حل ہونے کے بعد میری روح کما صلیت علی ابراھیم کے الفاظ پر رُکنے اور جھٹکا کھانے کی بجائے ایک خاص قسم کے روحانی سرور اور ایک خاص قسم کی روحانی لذت کی حالت میں تسبیح کرتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے.اور ان چمکتے ہوئے آسمانی ستاروں اور اس درخشاں ظلمی شمس و قمر کا نظارہ کرنے میں جن سے آج فضاء اسلام مزین ہے.ایک ایسا لطف محسوس کرتی ہے جو اس سے پہلے کبھی میسر نہیں آیا تھا.اللهم صل على محمد كما صليت على ابراهيم وبارک وسلم.اللهم صل على محمد كما صليت على ابراهيم وبارک وسلم اللهم صل على محمد كما صليت على ابراهيم وبارک وسلم.وأخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين.( مطبوعہ الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۴۸ء )

Page 315

٣٠٣ مضامین بشیر رمضان میں دائمی نیکی کا عہد باندھنے والی خواتین میں نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تجویز ( مطابق روایت حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم ) کی بنا پر ایک گزشتہ رمضان میں جماعت میں یہ تحریک کی تھی کہ جن دوستوں یا بہنوں کو خدا توفیق دے وہ رمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے ترک کرنے کا عہد باندھیں اور پھر اس عہد پر زندگی بھر قائم رہیں تا کہ ان کا رمضان ان کے لئے عین عملی اصلاح کا ذریعہ بن جائے.سواس تحریک کی بنا پر اس سال ایک سوچھ خواتین نے اس قسم کا عہد کیا تھا.جن کی فہرست الفضل میں شائع ہو چکی ہے.اب اس تعلق میں چوالیس مزید خواتین کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنا عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ان کے اس عہد کو مزید نیکیوں کا پیش خیمہ بنادے آمین.نام عهد کننده ۱۰۷ شمشاد خانم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ 1+A نام محلہ یا اصل وطن نام موجودہ شہر محمد نگر مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمودالحسن صاحب محمد نگر ۱۰۹ رقیه خاتون صاحبه ۱۱۰ اہلیہ صاحبہ مرزا محمد امین صاحب لاہور لاہور محمد نگر لاہور محمد نگر لاہور لاہور لاہور عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا قادیان حال لاہور ۱۱۲ امیر بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم سراجدین احمد صاحب بھاٹی گیٹ رضیہ نسرین بنت حکیم سراجدین صاحب بھائی گیٹ ۱۱۴ بلقیس سعید بیگم بنت شیخ محمد سعید صاحب صوبیدار میجر برکت علی روڈ ۱۱۵ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمود احمد صاحب نیلا گنبد لاہور لاہور لاہور اختر النساء بیگم صاحبہ اہلیہ ناصر احمد صاحب راجپوت سائیکل ورکس نیلا گنبد لاہور ناصرہ بیگم بنت مرزا عطاء اللہ صاحب محلہ چابکسواراں ۱۱ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا عطاء اللہ صاحب محلہ چابکسواراں 119 اہلیہ صاحبہ صوفی فضل الہی صاحب قادیان لاہور حال لا ہور

Page 316

مضامین بشیر ۱۲۰ رضیہ سلطانہ بنت صوفی فضل الہی صاحب ۳۰۴ قادیان ۱۲۱ مبارکہ شوکت صاحبہ اہلیہ حافظ قدرت اللہ صاحب.مبلغ ہالینڈ قادیان حال لا ہور حال سرگودہا ۱۲۲ رضیہ سلطانہ بیگم بنت با بو محمد بخش صاحب قادیان حال ریاست بہا ولپور ۱۲۳ منور سلطانہ بیگم بنت با بومحمد بخش صاحب قادیان حال ریاست بہاولپور ۱۲۴ صاحبزادی امتہ اللطیف سلّمها عرف طیفی قادیان حال رتن باغ لاہور ۱۲۵ اہلیہ صاحبہ خان عبدالمجید خان صاحب ( ان کے خاوند کپورتھلہ حال ریاست خان عبد المجید خان صاحب نے بھی ایسا عہد کیا...کپورتھلہ ۱۲۶ اہلیہ صاحبہ محمد ابراہیم خان صاحب ۱۲۷ امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ میاں احمد دین جنرل صدر لجنہ لاہور اندرون موچی گیٹ کلثوم ناصر بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالرحمن صاحب اندرون موچی گیٹ ۱۲۹ ثریا بیگم صاحبہ بنت میاں احمد الدین صاحب اندرون موچی گیٹ ۱۳۰ بلقیس اختر صاحبہ بنت میاں احمد الدین صاحب اندرون موچی گیٹ ۱۳۱ اقبال عزیز صاحبہ اہلیہ عزیز احمد صاحب اندرون موچی گیٹ ۱۳۲ قادیان ۱۳۳ اہلیہ صاحبہ خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم قادیان مسعودہ بیگم بنت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم قادیان ۱۳۵ امتة الرحمن صاحبہ بنت شیخ محمد حسین صاحب ۱۳۶ ہاجرہ بی بی صاحبہ اہلیہ منشی محمد طالب صاحب ۱۳۷ اہلیہ صاحبہ حافظ عزیز احمد صاحب ۱۳۸ بہا ولپور خان پور ریاست بہاولپور لاہور لاہور لاہور لاہور لاہور حال لا ہور حال چنیوٹ حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ چنیوٹ حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ جنت بی بی صاحبہ اہلیہ عبد الکریم صاحب مرحوم قادیان ۱۳۹ اہلیہ صاحبه شیخ دوست محمد صاحب ۱۴۱ ۱۴۲ ناصرہ بیگم صاحبہ بنت سبحان علی صاحب سعیدہ بیگم بنت سلطان علی صاحب صفیہ بیگم ہمشیرہ عبدالقیوم صاحب ۱۴۳ رشیدہ بیگم بنت سیٹھ محمد صدیق صاحب

Page 317

۱۴۴ اہلیہ صاحبہ ماسٹر عطا اللہ صاحب ۱۴۵ سیده ثانیه اختر با نو صاحبه ۳۰۵ مضامین بشیر قادیان حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ ۱۴۶ صدیقہ بیگم بنت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب قادیان حال چنیوٹ ۱۴۷ امتہ المجید بیگم بنت صوفی غلام محمد صاحب قادیان حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ قادیان حال چنیوٹ ۱۵۰ اہلیہ صاحبہ سیٹھ محمد صدیق صاحب قادیان حال چنیوٹ ۱۴۸ عطیہ بیگم بنت ماسٹر عطاء اللہ صاحب ذکیہ بیگم بنت محمد صدیق صاحب ( مطبوعہ الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۴۸ء)

Page 318

مضامین بشیر ۳۰۶ رمضان میں کمزوری دور کرنے کے عہد کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار منع ہے نہ کہ کمزوری دور کرنے کے عہد کا اظہار کئی سال ہوئے میں نے حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم کی ایک روایت کی بنا پر جماعت میں یہ تحریک کی تھی کہ جن دوستوں کو خدا توفیق دے ، وہ رمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے ترک کرنے کا عہد کیا کریں اور پھر اس عہد کو عمر بھر نبھانے کی کوشش کریں تا کہ اصلاح نفس کے اس ذریعہ سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکے.یہ تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تجویز کے مطابق تھی.جو حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم نے حضور سے سن کر مجھ سے بیان کی تھی اور کئی سال ہو گئے ، میں نے ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت میں اسے جماعت کے سامنے پیش کر کے دوستوں کو اس تحریک سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ بھی دلائی تھی.چنانچہ بعض گزشتہ رمضانوں میں ایسے دوستوں کی فہرست دعا کی غرض سے حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کی جاتی رہی ہے اور حضور انہیں اپنی دعا سے مشرف فرماتے رہے ہیں اور بیسیوں دوستوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس تحریک سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.مگر مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض دوستوں کو اس تحریک کے متعلق یہ اعتراض ہے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منشا دل میں عہد کرنے کا تھا.اس لئے اس کے متعلق کسی قسم کا اظہار بھی نہیں ہونا چاہئے.بلکہ صرف دل میں خدا سے عہد باندھ کر اسے خاموشی کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کی جائے.اور یہ بات بھی ظاہر نہ کی جائے کہ میں نے ایسا عہد باندھا ہے مگر جیسا کہ میں ذیل کی سطور میں بتاؤں گا یہ خیال درست نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ منشا نہیں ہے جو سمجھا گیا ہے.دراصل جس بات کا اظہار نا پسندیدہ ہے وہ صرف یہ ہے کہ کمزوری کی نوعیت ظاہر کی جائے مثلاً یہ بتایا جائے کہ مجھ میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے، یا یہ کہ میں نماز میں سست ہوں یا یہ کہ میرے اندر چغل خوری کا عیب ہے.یا یہ کہ میں چوری کے گناہ میں مبتلا ہوں وغیرہ وغیرہ.کیونکہ ایسا اظہا ر خدا کی صفت ستاری کے خلاف ہے اور اکثر صورتوں میں بدی کو مٹانے کی بجائے بدی کی اشاعت اور تحریک

Page 319

۳۰۷ مضامین بشیر کا موجب بھی ہوسکتا ہے.مگر یہ بات ہر گز منع نہیں کہ کمزوری کی نوعیت کو چھپاتے ہوئے صرف اس قدر اظہار کیا جائے کہ میں نے اپنی ایک کمزوری کے دور کرنے کا عہد کیا ہے اور اس معاملہ میں دوست بھی دعا سے میری مدد فرمائیں.اگر یہ اظہار بھی منع ہو تو نعوذ باللہ اسلام کی وہ سب دعا ئیں قابل اعتراض ٹھہرتی ہیں جن میں خدا کے حضور کمزوریوں اور لغزشوں کے دور ہونے کی التجا سکھائی گئی ہے اور ہر مسلمان ایسی دعائیں برملا مانگتا ہے.چنانچہ استغفار وغیرہ کی دعا ئیں اسی نوع میں داخل ہیں اور قرآن شریف اس قسم کی دعاؤں سے بھرا پڑا ہے.مثلاً : وقبلية رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأنَا..وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا يفة ۸۶ يا مثلاً : رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا - يا مثلاً : رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا AZ ΑΛ يا مثلاً : رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِن ۱۸۹ الْخُسِرِينَ) یا مثلاً نماز کی یہ دعا کہ : اللهم اغفرلي وارحمنى و اهدنى وعا فنی و ارفعنی واجبرنی وارزقني......19° یا مثلاً حدیث کی یہ دعا کہ : اللهم اغفر لي ذنبى واجنبني من الشيطان الرجيم یا مثلاً لیلتہ القدر کی یہ دعا کہ : - اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفِ عنی وغیرہ وغیرہ.یہ سب دعا ئیں اور اسی قسم کی بے شمار دوسری دعا ئیں جن میں اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی اپنی کمزوریوں اور خطاؤں اور گناہوں کی بخشش کی التجا کا سبق سکھایا گیا ہے، اسلامی نظام روحانیت کا اہم ترین حصہ ہیں اور یہ دعائیں قلوب کی صفائی کا ایک نہایت عمدہ نسخہ بھی ہیں اور نہ صرف یہ کہ اسلام نے اس قسم کی دعاؤں کے اظہار سے روکا نہیں بلکہ ان کی تحریک فرمائی ہے.البتہ کمزوری کی نوعیت کے اظہار سے ضرور منع کیا ہے کیونکہ ایسا کرنا خدا کی صفت ستاری کے خلاف ہے اور یہی وہ اظہار ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منع فرمایا ہے.در اصل حضرت مولوی شیر علی صاحب کی یہ روایت سب سے پہلے مجھے ہی پہنچی تھی اور پھر میں نے

Page 320

مضامین بشیر ۳۰۸ ہی اسے لوگوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں شائع کرایا تھا.اور مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ روایت سن کر حضرت مولوی صاحب سے پوچھا تھا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ منشا تھا کہ مطلقاً اس عہد کا ہی لوگوں میں اظہار نہ کیا جائے یا کہ صرف یہ منشا تھا کہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار نہ کیا جائے.جس پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار منع کیا گیا ہے نہ کہ عہد کا اظہار.چنانچہ اس کے بعد میں نے اس تحریک کو اخبار میں شائع کیا.اور حق یہی ہے کہ جو چیز منع ہے وہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار ہے نہ کہ کمزوری کے دور کرنے کے عہد کا اظہار.کیونکہ کمزوری کے دُور کرنے کا عہد تو اسلام کی اتنی (۸۰) فیصدی دعاؤں میں پایا جاتا ہے.اور اسے مخفی رکھنے سے نہ صرف اسلامی دعاؤں کا سارا نظام کمزور پڑ جاتا ہے.اور انسان اپنے نفس کی کمزوری کے اعتراف سے بھی گویا بالا ہو جاتا ہے.بلکہ مومنوں کی جماعت ایک دوسرے کی دعاؤں کے سہارے سے بھی محروم ہو جاتی ہے.خلاصہ کلام یہ کہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار تو یقیناً منع ہے کیونکہ:.(۱) وہ ہمارے رحیم و کریم اور ستار خدا کی ستاری کے خلاف ہے.جس بات پر ہما را خدا پر دہ ڈالتا ہے اور اسے اپنی رحمت کے دامن میں چھپاتا ہے.اسے ظاہر کرنا یقیناً خدا کی رحمت کو رد کرنے کے مترادف ہے.(۲) اس سے کئی صورتوں میں بدی کی اشاعت میں بھی مددمل سکتی ہے اور بدظنی اور مفسدانہ خیال آرائی کا بھی رستہ کھلتا ہے.مگر کمزوری کی نوعیت کے اظہار کے بغیر صرف ترک کمزوری کے عہد کا اظہار منع نہیں بلکہ اس میں بعض فوائد بھی متوقع ہیں.مثلاً :.(۱) یہ اسلامی دعاؤں کے نظام کے عین مطابق ہے.اور اس سے اس نظام کو تقویت پہنچتی ہے.(۲) ایسے اظہار سے دوسرے مومنوں کو اس دعا کی تحریک ہوتی ہے کہ خدایا ہمارے اس بھائی کی نصرت فرما اور جس طرح ہماری کمزوریاں دُور ہوں، اسی طرح اس بھائی کی کمزوریوں کو بھی دُور کر اور یقیناً بدی پر غلبہ پانے کے لئے یہ ایک عمدہ اجتماعی سہارا ہے جس سے مومنوں کو محروم نہیں کیا جا سکتا.بالآخر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ کسی نہ کسی جہت سے کمزوری ہر انسان کی فطرت کا حصہ ہے کیونکہ کمزوری پیدا ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جو مجموعی طور پر سب بنی نوع انسان پر حاوی ہیں.کسی انسان میں نافرمانی اور بغاوت کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اور کسی میں غفلت اور ستی کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اور کسی میں صحبت یا ماحول کے اثر کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اور کسی میں لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں

Page 321

۳۰۹ مضامین بشیر ئض بشریت کے لوازمات کی وجہ سے کمزوری ہوتی ہے.ورنہ وہ دوسری کمزوریوں سے محفوظ ہوتے ہیں اور یہ آخرالذکر کمزوری ایسی ہے کہ اولیاء اور انبیاء بھی اس سے مستی نہیں اور اسی لئے استغفار کے حکم میں سب کو شامل کیا گیا ہے تو جب انسانی کمزوریوں کا جال اتنا وسیع ہے اور یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے تو پھر محض اس قسم کے اظہار میں کہ میں ایک کمزوری کے دُور کرنے کا عہد کرتا ہوں کسی قسم کے اعتراض کا پہلو پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ اس قسم کی دعا خدا کی صفت ستاری کے خلاف سمجھی جاسکتی ہے کہ اے خدا میں اس وقت ایک کمزوری کے دُور کرنے کا عہد کرتا ہوں تو مجھے اس کے پورا کرنے کی توفیق دے.تا ہم میں یہ نہیں کہتا کہ ہر شخص ضرور ایسے عہد کا اظہار کرے.اگر کوئی شخص اس عہد کو بھی مخفی رکھنا چاہتا ہے اور کسی وجہ سے اس اخفا کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے تو وہ بے شک اسے مخفی رکھے.شریعت اسے اظہار کے لئے مجبور نہیں کرتی.ہاں میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اس قسم کے عہد کا اظہار کرنا چاہے تو اس کے رستہ میں کوئی روک نہیں.بلکہ اسلام کی اکثر دعاؤں میں اظہار کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے لیکن کمزوری کی نوعیت بہر حال مخفی رہنی چاہیے.فَهم وتَدَبِّرُ والله اعلم بالصواب ( مطبوعه الفضل ۵ را گست ۱۹۴۸ء)

Page 322

مضامین بشیر میرے دُعا والے مضمون کا تمہ صحابہ کو بھی اپنی دُعاؤں میں ضرور یا درکھیں چند دن ہوئے ہیں میں نے ” ہماری روزانہ دعاؤں“ کے عنوان کے ماتحت ایک مضمون لکھ کر الفضل میں شائع کرایا تھا.اور اس مضمون میں منجملہ دیگر امور کے وہ گیارہ عدد دعا ئیں بھی نوٹ کی تھیں جو میرے خیال میں آج کل ہر احمدی کی ورد زبان ہونی چاہئیں.مگر افسوس ہے کہ میں ان دعاؤں میں ایک اہم دعا کا ذکر کرنا بھول گیا.یہ دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کی درازی عمر اور افاضۂ روحانی سے تعلق رکھتی ہے.صحابہ کی مقدس جماعت دن بدن کم ہو رہی ہے.اور گذشتہ سال تو اس میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ نمایاں کمی واقع ہوئی ہے.چنانچہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت حافظ صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس، حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب، محترمہ اہلیہ صاحبہ حافظ حامد علی صاحب ، محترمہ اہلیہ صاحبہ میاں عبداللہ صاحب سنوری و غیر ہم بہت سے قیمتی وجود ہیں جو صحابہ کی مقدس جماعت میں سے ہمیں گزشتہ سال کے دوران میں یا اس زمانہ کے قریب قریب داغ جدائی دے گئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ ان میں سے کئی ایک کی وفات میں قادیان کی جدائی کے صدمہ کا بھی دخل تھا.پس ایک طرف صحابہ کی غیر معمولی برکات اور دوسری طرف ان کی دن بدن گھٹتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی درازی عمر اور ان کے افاضۂ روحانی کی توسیع کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مبارک جماعت کو تا دیر سلامت رکھے.ان کی صحت اور عمر میں برکت دے.ہمیں ان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے اور قادیان کی بحالی تک ان کے بیشتر حصہ کو زندہ رکھے.کیونکہ اس خوشی سے حصہ پانے کے سب سے زیادہ حقدار وہی ہیں.آمین.دراصل یہ وہ مقدس گروہ ہے جو اگر اپنے منہ سے کچھ بھی نہ بولے تو پھر بھی ایک زبر دست مقناطیس کی طرح محض اپنے وجود میں ہی روحانی برکات کے انتشار کے لئے کافی ہے کیونکہ انہوں نے ایک ایسے عظیم الشان مقناطیس سے براہ راست اثر حاصل کیا ہے جس کے روحانی افاضات

Page 323

۳۱۱ مضامین بشیر عالمگیر اور دائمی رنگ رکھتے ہیں اور ناممکن ہے کہ کوئی شخص اس مقناطیس کے ساتھ چھو کر (بشرطیکہ نیت بخیر ہو ) یا اسکے ساتھ چھونے والوں کے ساتھ چھو کر روحانی برکات سے محروم رہے :.۹۳ وقال الله تعالى أُولَئِكَ لَا يَشْقى جليسُهُم مِن عِلم وتعلم یہ لوگ ان آسمانی ستاروں کا حکم رکھتے ہیں.جو ہر روحانی سورج کے اردگرد چکر کھانے کے لئے ازل سے مقدر ہیں.اور مبارک ہے وہ جو ان کی قدر کو پہچانتا اور ان کے نور سے نور حاصل کرنے اور ان کی روشنی سے روشنی پانے کے لئے کوشاں رہتا ہے.ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تو وہ ارفع شان ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اترے ہوئے کپڑوں کے متعلق فرماتا ہے کہ :.۹۴ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ ینگے تو جب بے جان کپڑوں اور جلد یا بدیر پھٹ کر ختم ہو جانے والے پار چات کی برکات کا یہ حال ہے تو ان جاندار اور ہمیشگی کی رُوح رکھنے والے انسانوں کی برکت کی کیا شان ہوگی جو خدا کے ایک مقدس رسول کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے اور اس کے سرچشمہ سے براہ راست سیراب ہوتے اور اس کے روحانی تعلق کو اپنے قلوب میں ہمیشگی کی زندگی عطا کرتے ہیں.پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی روزانہ دعاؤں میں صحابہ کے مقدس گروہ کو بھی یادرکھیں.اور ان کی عمر کی درازی اور ان کے برکات کی توسیع کے لئے خدا سے ہمیشہ دست بدعا ہیں.سو سابقہ گیارہ دعاؤں کے ساتھ مل کر یہ گو یا کل بارہ دعائیں ہو جاتی ہیں جو ہمیں ہمیشہ یا د رہنی چاہئیں.یہ سوال کہ صحابی کسے سمجھا جائے ایک اختلافی مسئلہ ہے اور مختلف علماء نے صحابی کی الگ الگ تعریف کی ہے.میں کوئی عالم تو نہیں ہوں مگر میں اپنے ذوق کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی کی یہ تعریف کیا کرتا ہوں کہ :.صحابی وہ ہے جس نے احمدی ہونے کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو " دیکھا ہو یا آپ کا کلام سنا ہو اور اسے آپ کو دیکھنا یا آپ کا کلام سننا یا د ہو.“ بعض دوسرے لوگوں کی تجویز کردہ تعریف، اس تعریف سے کمزور تر اور وسیع تر ہے.لیکن اس کے مقابل پر بعض دوسرے علماء ایسے بھی گزرے ہیں.جنہوں نے اس تعریف کی نسبت زیادہ سخت اور زیادہ تنگ دائرے والی تعریف کو ترجیح دی ہے.مثلاً وسیع دائرے والی تعریف یہ کی گئی ہے کہ:.وہ جس نے رسول کو مومن ہونے کی حالت میں دیکھا ہو ( یا اس کا کلام سنا ہو ) یا وو رسول نے اسے اس کے مومن ہونے کی حالت میں دیکھا ہو“ اس تعریف میں گویا ایسے نابالغ بچے بھی آجاتے ہیں ، جنہیں خود رسول کا دیکھنا یا دنہیں ہوتا.مگر

Page 324

مضامین بشیر ۳۱۲ رسول نے انہیں دیکھا ہوتا ہے.اس کے مقابل پر تنگ دائرہ والی تعریف یہ کی گئی ہے کہ :.وہ مومن جس نے رسول کو اپنے بلوغ یا شعور کی حالت میں دیکھا ہو.یا رسول کا کلام سنا ہوا اور رسول کی صحبت میں رہ کر اس سے فائدہ اٹھایا ہو صحابی کی مؤخر الذکر تعریف واقعی نہایت لطیف ہے اور صحابی کا لفظ بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے.کیونکہ در اصل صحابی کے معنے ہی صحبت اٹھانے والے شخص کے ہیں.اور قرآن شریف نے بھی ایک جگہ اسی تعریف کی طرف اشارہ کیا ہے.لیکن انسانی فطرت کی یہ کمزوری ہے (یا شاید یہ خوبی ہی ہو ) کہ جب اس کے ہاتھ سے کوئی اعلیٰ چیز نکلنے لگتی ہے.یا نکل جاتی ہے تو پھر وہ نسبتاً ادنی چیز کو ہی اعلیٰ کہہ کر اس پر تسلی پانے کی کوشش کرتا ہے.پس جوں جوں حقیقی صحابہ کی تعداد کم ہوتی گئی ، علماء نے بھی صحابی کی تعریف میں وسعت پیدا کر دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے نابالغ بچوں کو بھی صحابیوں کے زمرہ میں شامل کر کے اس دائرہ کو وسیع کر دیا.اور اس میں شبہ نہیں کہ بسا اوقات کم سنی یا خام عمری میں بھی ایک نیکی کی بات کان میں پڑی ہوئی دائمی فیض اور دائمی برکت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے.اس لئے میں نے موجودہ حالات میں بین بین کی تعریف کو ترجیح دی ہے.واللہ اعلم بالصواب.خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی روزانہ دعاؤں میں صحابہ کی بابرکت جماعت کو بھی لازماً شامل کرنا چاہئے.اب یہ مبارک جماعت بہت تھوڑی رہ گئی ہے اور میرے خیال میں اس وقت حقیقی صحابہ کی مجموعی تعداد ڈیڑھ دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی.( کاش اب ہی ان کی فہرست مکمل کی جا سکے ) اور پرانے صحابہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ پایا ہے ، وہ تو بہت ہی تھوڑے رہ گئے ہیں.گویا چند سحری کے وقت کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ ہیں.جنہیں دیکھ کر اگر ایک طرف دل انتہائی خوشی سے بھر جاتا ہے تو دوسری طرف سینہ میں یہ ہوک بھی اُٹھتی ہے کہ نا معلوم ہوا کا اگلا جھونکا ان میں سے کس کس کو بجھا کر رکھ دے گا.میرے دوستو ، بزرگو اور عزیز و! یہ درد کی باتیں ہیں انہیں فلسفہ کی نظر سے نہ دیکھو بلکہ محبت کے ترازو سے تو لو اور جہاں اس مبارک گروہ کے واسطے دعائیں کرو وہاں ان سے کچھ عشق و وفا کا سبق بھی سیکھ لو.آئندہ نسلوں کو علم سکھانے والے تو غالباً بہت پیدا ہو جائیں گے.مگر صحابہ کی سی والہانہ محبت کے حامل کسی ایک زمانہ میں اس کثرت کے ساتھ آئندہ جمع ہونے مشکل ہوں گے.کیونکہ خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود کے حاشیہ نشینوں نے وہی خمیر پایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپ کے صحابہ کو پہنچا تھا.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی آخری زمانہ میں صحابہ

Page 325

٣١٣ کی سی ایک اور جماعت پیدا ہوگی اور حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں : مضامین بشیر مبارک وہ جو اب ایمان لایا ނ جب مجھ کو پایا صحابه وہی ملا ے اُن کو ساقی نے پلادی 1 فسبحان الذى اخزى الاعادي نوٹ : - اگر خدا توفیق دے تو مقامی جماعتوں کے امراء اور پریزیڈنٹ صاحبان کو چاہئے کہ اپنے حلقہ کے موجودہ صحابہ کی فہرست تیار کر کے میرے نام بھجوا دیں تا کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے چالیس سال بعد آپ کے کون کون سے صحابی بقید حیات ہیں.اس فہرست میں جو میرے والی تعریف مد نظر رکھ کر تیار کی جائے ان کوائف کا اندراج کافی ہے.نام ولدیت مکمل پتہ (موجودہ اور فسادات سے پہلے کا ) تاریخ بیعت اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب یا اشتہار میں ان کا نام آیا ہو تو اس کا حوالہ.( مطبوعه الفضل ۱۱ را گست ۱۹۴۸ء)

Page 326

مضامین بشیر ۳۱۴ سعد اللہ جان صاحب ایڈووکیٹ مردان توجہ فرمائیں تمام محکمانہ چٹھیاں افسران متعلقہ کے عہدہ کے پتہ پر آنی چاہئیں ایک صاحب محترمی سعد اللہ جان صاحب ایڈووکیٹ مردان صوبہ سرحد جو اتفاق سے میرے شاگر د بھی واقع ہوئے ہیں.اس لئے مجھے ان کی غلطی پر دوہری حیرانی ہے.اپنی ایک زمین کے تنازعہ کے تعلق میں جو ناظم صاحب جائیداد اور ان کے درمیان رونما ہے.مجھے ناظر اعلیٰ جماعت احمد یہ خیال کرتے ہوئے میرے نام کے ساتھ ناظر اعلیٰ کا عہدہ لکھ کر چٹھیاں ارسال فرماتے رہتے ہیں اور چونکہ میں ناظر اعلیٰ نہیں ہوں اور اس معاملہ میں بالکل لاتعلق ہوں.مجھے یہ چٹھیاں پوسٹ آفس کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے ناظم صاحب جائیداد کو بھجوانی پڑتی ہیں.جس کی وجہ سے لامحالہ دیر واقعہ ہوتی اور پیچیدگی بھی پیدا ہوتی ہے.پس میں اس اخباری اعلان کے ذریعہ محترمی سعد اللہ جان صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں ناظر اعلیٰ نہیں ہوں.بلکہ قریباً ڈیڑھ سال سے اس عہدہ سے الگ ہوں اور اگر بالفرض میں ناظر اعلیٰ ہوتا بھی تو پھر بھی اصولاً یہ درست نہیں کہ محکمانہ چٹھیاں کسی فرد کے نام پر بھجوائی جائیں.بلکہ ہر چٹھی عہدہ کے پتہ پر جانی چاہئے اور پتہ میں نام کا اندراج نہیں ہونا چاہئے.ورنہ وصول کنندہ کی بجائے فریسندہ کا زیادہ نقصان ہوگا.یہ غلطی بعض دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں.مگر اس کا سب سے زیادہ ارتکاب صوبہ سرحد کے دوستوں کی طرف سے ہوتا ہے اور مجھے اس صوبہ پر رحم آتا ہے کہ یہ صوبہ جو بعض لحاظ سے سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے بلا وجہ میرا نام درمیان میں لا کر سب سے زیادہ نقصان اٹھاتا ہے.صحیح طریق یہ ہے کہ جس صیغہ سے کسی معاملہ کا تعلق ہو.اس صیغہ کے افسر یا ناظر کو بحیثیت عہدہ چٹھی لکھی جائے (نہ کہ نام پر ) پھر اگر وہ صیغہ توجہ نہ دے.تو ایک دو دفعہ یاددہانی کے بعد ناظر اعلیٰ کو لکھا جائے اور اگر ناظر اعلیٰ کی طرف سے بھی عدم تو جہی رہے تو پھر حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا جائے.اس کے علاوہ کوئی اور طریق اختیار کرنا اپنے کام کو خود نقصان پہنچانے کے مترادف ہے..been warned have You ( مطبوعه الفضل ۱۲ راگست ۱۹۴۸ء)

Page 327

۳۱۵ مضامین بشیر قادیان کے بیمار دوستوں کے لئے دُعا کی جائے قادیان کے دوست یعنی دیار مسیح کے درویش آج کل جن حالات میں قادیان میں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ سب پر عیاں ہیں.ان کی حالت عملاً قیدیوں کی سی ہے.البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ قیدیوں کو حکومت کھانا دیتی ہے.مگر ہمارے دوستوں کو خود اپنا کھانا پڑتا ہے اور کھانا لا ز ما بہت سادہ اور جسم میں طاقت پیدا کرنے والے اجزاء کے لحاظ سے ناقص ہوتا ہے اس کے علاوہ گو خدا کے فضل سے قادیان میں اپنا طبی انتظام موجود ہے مگر ظاہر ہے کہ یہ انتظام موجودہ حالات میں پوری طرح تسلی بخش نہیں ہوسکتا اور ادویہ کا سٹاک بھی مکمل نہیں ہوتا.ان حالات میں قادیان کے جو دوست بیمار ہو جاتے ہیں ان کے علاج اور طاقت بحال رکھنے کا انتظام لا زما نامکمل رہتا ہے اور زیادہ تر خدا کے فضل و رحم پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے.وليس وراء الله للمرء مذهب آج کل بھی قادیان میں تین دوست بیمار ہیں یعنی (۱) مکرمی بھائی عبدالرحیم صاحب جو نو مسلم بھی ہیں اور پرانے صحابی بھی اور گزشتہ کا نوائے میں امیر قافلہ ہو کر قادیان گئے تھے (۲) مکرمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی وہ بھی نو مسلم ہیں اور پرانے صحابی بھی اور ہمارے اکثر دوست ان کے ایمان افروز مضامین اور مکتوبات کی وجہ سے انہیں جانتے ہیں اور (۳) مکرمی دفعدار محمد عبد اللہ صاحب جو کافی عرصہ سے بیمار چلے آتے ہیں.میں احباب جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ ان تینوں دوستوں کی شفایابی اور صحت کے لئے خصوصیت سے دعا فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں.( مطبوعه الفضل ۱۷ را گست ۱۹۴۸ء)

Page 328

مضامین بشیر قادیان سے عید الفطر کا ایک گرانقدر عطیہ روحانیت کے خاص ماحول میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی روحانی آنکھیں بھی تیز کر دیتا ہے اور وہ چیزوں کی صحیح قدر و قیمت اور اپنے بھائیوں کے جذبات کا صحیح اندازہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں.اس عیدالفطر پر جو چند دن ہوئے گزری ہے مجھے قادیان کے ایک دوست سید محمد شریف صاحب نے عید کا ایک ایسا تحفہ بھیجا ہے جس نے میرے دل و ماغ کو معطر کر دیا.سید صاحب موصوف نے ایک تو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک کا تازہ ترین فوٹو بھیجا ہے.جس میں حضور کے مزار مبارک کے کتبے کا ایک ایک لفظ پڑھا جاتا ہے.مزار کے قریب خود سید صاحب موصوف دعا میں ہاتھ اٹھائے کھڑے ہیں اور ساتھ ہی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا مزار بھی صاف نظر آ رہا ہے.دوسرا تحفہ سید صاحب نے پانچ عدد پھولوں کی صورت میں بھجوایا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار کے قریب ترین موتیا کے پودے سے اتار کر بھیجے گئے ہیں.اتنے دن گزر جانے اور ان کے خشک ہو جانے کے باوجود ابھی تک ان پھولوں میں بھینی بھینی خوشبو موجود ہے.میں ان دونوں تحفوں پر سید صاحب موصوف کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہوں.فجزاه الله خيراً في الدنيا والآخره مگر جہاں قادیان کے ان تحفوں نے روحانی خوشی اور مسرت کی لہر پیدا کی وہاں ان کی وجہ سے قادیان کی مخصوص یاد بھی تیز تر ہوگئی اور موتیا کے خشک شدہ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو نے قادیان کے ارض وسما اور قادیان کے لیل و نہار کی زبر دست مگر دبی ہوئی مہک کو اس طرح اٹھایا کہ دل و دماغ میں تہلکہ برپا ہوگیا اور مزار مسیح کے پھولوں کی خوشی اس دعا پر ختم ہوئی کہ خدا یا جس طرح تو قادیان کا یہ چھوٹا سا تازہ تحفہ ہمارے پاس لایا ہے اسی طرح یہ فضل بھی فرما کہ تیری بے حد و حساب قدرت خود قادیان کو ایک مجسم تحفہ بنا کر ہمارے سامنے پیش کر دے.وما ذالك على الله بعزيز ولاحول ولاقوة الا بالله العظيم ( مطبوعه الفضل ۷اراگست ۱۹۴۸ء)

Page 329

۳۱۷ مضامین بشیر صحابی کی تعریف کے متعلق ایک دوست کے چار سوالات چند دن ہوئے میں نے الفضل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق دعا کی تحریک شائع کی تھی اور اپنے اس نوٹ میں ضمناً صحابی کے لفظ کی تین تعریفیں بھی درج کی تھیں.ایک وہ جس میں وسیع دائرے کو ملحوظ رکھا گیا ہے دوسرے وہ جو تنگ دائرے پر مشتمل ہے اور تیسرے ان دونوں کے بین بین کی تعریف اور میں نے لکھا تھا کہ موجودہ حالات میں ہمارے لئے بین بین کی تعریف زیادہ مناسب ہے.اپنے اس نوٹ میں، میں نے یہ بھی اشارہ کر دیا تھا کہ ان تین تعریفوں پر ہی مصر نہیں بلکہ ان کے علاوہ صحابی کے لفظ کی اور بھی تعریفیں ہو سکتی ہیں اور عملاً کی گئی ہیں.میرے اس مضمون پر ایک دوست نے چار سوالات لکھ کر بھیجے ہیں اور مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان سوالوں کا جواب دوں ، سو میں اپنے علم کے مطابق نہایت اختصار کے ساتھ اس دوست کے سوالوں کے جواب درج ذیل کرتا ہوں.(۱) پہلا سوال یہ ہے کہ صحابی کی تعریف میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ رسول کو دیکھا ہو یا آپ کا کلام سنا ہو ان الفاظ میں’یا سے کیا مراد ہے؟ اس کے جواب میں یا درکھنا چاہئے کہ یا کا لفظ اس لئے لکھا گیا ہے تا کہ اس تعریف میں ایسے لوگ بھی شامل ہوسکیں جو مثلاً آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوتے ہیں اور رسول کو دیکھ نہیں سکتے مگر اس کا کلام سنتے اور اسکی محبت سے فائدہ اٹھاتے رہے.آنحضرت عہ کے زمانہ میں بھی بعض ایسے مسلمان موجود تھے جنہوں نے بوجہ نابینا ہونے کے آنحضرت ﷺ کو دیکھا نہیں مگر آپ کے کلام کو سنا اور آپ کی صحبت سے مستفید ہوئے.مثلا عبداللہ بن ام مکتوم ایک نابینا صحابی تھے جن کا ذکر کئی جگہ حدیث اور اسلامی تاریخ میں آتا ہے اور خود قرآن شریف نے بھی سورۃ عبس میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابیوں میں حافظ محمد ابراہیم صاحب یا حافظ احمد جان صاحب پشاوری معروف بزرگ گزرے ہیں.جنہوں نے اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے آپ کو دیکھا نہیں مگر آپ کا کلام سنا اور عرصہ دراز تک آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا.سو اس وقت کے معنوں کو صحابی کی تعریف میں شامل کرنے کیلئے یا کا لفظ لکھنا ضروری تھا.دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایک شخص نابینا تو نہ ہو مگر کسی مجلس میں یا کسی پبلک جلسہ میں وہ ایسے طریق پر شامل ہوا ہو کہ اس نے رسول کا کلام تو سن لیا ہو مگر کسی اوٹ وغیرہ کی وجہ سے یا

Page 330

مضامین بشیر ۳۱۸ فاصلہ کی دوری کی وجہ سے رسول کو دیکھ نہ سکا ہو.اس طبقہ کو شامل کرنے کے لئے بھی اس قسم کے الفاظ صحابی کی تعریف میں داخل کرنے ضروری ہیں کہ یا آپ کا کلام سنا ہو اسی طرح بعض اور امکانی صورتیں بھی ہو سکتی ہیں.جن کے ذکر کی ضرورت نہیں.گویا بعض صحابی تو ایسے ہونگے کہ جنہوں نے رسول کو دیکھا بھی ہوگا اور اس کا کلام بھی سنا ہوگا اور بعض ایسے ہوں گے جنہوں نے رسول کو دیکھا تو نہیں ہو گا مگر اس کا کلام سنا ہو گا اور امکانی طور پر بعض ایسے بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے رسول کو دیکھا تو ہو گا مگر اس کا کلام نہیں سنا ہو گا.(۲) دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا کلام سننے سے بالمشافہ کلام سننا مراد ہے یا کہ غائبانہ طور پر رسول کے زمانہ میں اس کا کلام پڑھنا یا اس سے خط و کتابت کے ذریعہ فیض حاصل کرنا بھی کافی ہے.اس کے جواب میں یا درکھنا چاہئے کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے.خود آنحضرت علیہ کے زمانہ میں بھی ایک معروف بزرگ ایسے گزرے ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی مسلمان ہوئے مگر انہوں نے نہ تو آنحضرت علیہ کو دیکھا اور نہ بالمشافہ آپ کا کلام سنا ان کا نام اویس قرنی تھا.سواکثر علماء نے ان کو صحابہ کی تعریف میں شامل کیا ہے.کیونکہ وہ رسول کے وقت میں اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے اور رسول کے ساتھ ان کو پیغام وسلام اور غائبانہ استفادہ کا بھی موقع میسر آیا اور مرا ذاتی میلان بھی اسی طرف ہے کہ ایسے لوگ صحابی کی تعریف میں شامل سمجھے جانے چاہئیں.کیونکہ وہ صحابی کی تعریف کی روح کو پورا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسے کئی لوگ گزرے ہیں جو حضور کی تحریری بیعت سے مشرف ہوئے اور حضور کی تصانیف کا حضور کے زمانہ ہی میں مطالعہ کیا اور حضور کی خط و کتابت سے بھی مشرف ہوئے مگر حضور سے ملے نہیں میں ان بزرگوں کو صحابہ کی تعریف سے خارج کرنے کی جرات نہیں پاتا.گو میں یقیناً اسے ایک بھاری محرومی خیال کرتا ہوں کہ رسول کے زمانہ کو پاکر اور اس پر ایمان لا کر پھر بھی اس کی زیارت سے محروم رہا جائے.(۳) تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص رسول کے ہاتھ پر بیعت کرے لیکن بعد میں اپنی کو تہ بینی یا بد بختی سے مرتد ہو جائے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے ،سو ظا ہر ہے کہ جو شخص ایک درخت کے ساتھ اپنا پیوند جوڑنے کے بعد پھر اس پیوند کو کاٹ دیتا ہے.وہ کسی صورت میں اس درخت کی شاخ نہیں سمجھا جا سکتا.کیونکہ رسول کی روح کے ساتھ اس کی روح کا اتصال کٹ چکا ہے.گزشتہ علماء نے بھی ایسے لوگوں کو صحابی کی تعریف میں شامل نہیں کیا.کیونکہ خود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایسے بد بخت موجود تھے کہ جنہوں نے اسلام کے نور سے روشنی حاصل کی اور پھر خود اپنے ہاتھ سے اپنے دلوں کے چراغ کو بجھا کر اپنے لئے اندھیرا پیدا کر لیا اور ایسے تمام لوگوں کو علماء اسلام نے صحابہ کی

Page 331

۳۱۹ ، مضامین بشیر تعریف سے صحیح طور پر خارج کیا ہے البتہ بعض اوقات وہ ایک تاریخی واقعہ کے اظہار کے طور پر یہ ضرور ذکر کر دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے اسلام قبول کیا تھا مگر پھر مرتد ہوکر اسلام سے کٹ گیا.یہ اصول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی چسپاں ہوگا.البتہ اگر عبداللہ بن ابی سرح کی طرح کوئی شخص ارتداد کی ٹھوکر کھا کر پھر اسلام کی سعادت حاصل کر لے تو ایسے شخص کو صحابہ کے گروہ میں شامل کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہئے.(۴) چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر کسی نے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی اور اسکی صحبت سے فائدہ اٹھایا لیکن رسول کی وفات کے بعد وہ خلافت کی بیعت سے منحرف ہو گیا.تو اسکے متعلق کیا سمجھا جانا چاہئیے ؟ اس کے جواب میں زیادہ محتاط الفاظ تو میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ عِلْمُهَا عِنْدَ رَنِى فِي كِتَبِ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَی لیکن ایک اصولی بات ذکر کر دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کوئی روحانی تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسکی یہ سنت ہے کہ وہ ایک لمبے نظام کی صورت میں اس تغیر کو آہستہ آہستہ وجود میں لاتا ہے، اور ایسا نہیں کرتا کہ ایک شخص کو اپنے پیغام سے مشرف کر کے دنیا میں پیدا کرے اور پھر اس کے بعد اس پیغام کی خامیاں بھی کو بال کسی مزید نگرانی اور تنظیم کے کفر والحاد کے تھپیڑے کھانے کے لئے چھوڑ دے.اگر ایسا ہو تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ سمندر میں ایک پتھر پھینک کر لہر پیدا کی گئی.اور پھر اس لہر کے مرنے اور ختم ہونے کے لئے یونہی چھوڑ دیا گیا ، یا یہ کہ ایک کسان نے ایک فصل پیدا کرنے کے لئے ایک بیج بویا ، اور پھر بیج بونے کے بعد اس نے اپنے کھیت کو بغیر کسی نگرانی کے چوروں اور ڈاکوؤں اور مویشیوں اور دیگر حادثات کا نشانہ بنادیا.یہ صورت خدائے حکیم کی ازلی سنت اور عقل و خرد کے تمام اصولوں کے خلاف ہے.خدا کی سنت یہی ہے کہ جب وہ دنیا میں کوئی روحانی تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے تو پھر اس تغیر کے لئے ایک رسول پیدا کرتا ہے اور پھر اس رسول کے ہاتھ پر ایک منظم جماعت جمع کرتا ہے اور پھر اس جماعت کو ایک نقطہ پر متحد رکھنے کے لئے اور جماعت سے رسول کی بعثت کی غرض وغایت کے مطابق کام لینے کے لئے خلفاء کا سلسلہ جاری فرماتا ہے اور یہ سہارا سلسلہ اس خدائی تنظیم کا لازمی حصہ ہوتا ہے جو ہر نئے الہی پیغام کے وقت قائم کیا جاتا ہے.پس جو شخص رسول کو تو مان لیتا ہے مگر اس کے بعد الہی تنظیم کی باقی کڑیوں سے کٹ جاتا ہے بلکہ ان کی مخالفت کے در پے ہو جاتا ہے وہ ایسا ہی ہے کہ جسے ایک شخص کسی منزل پر پہنچنے کے لئے روانہ ہوا مگر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد راستہ کو چھوڑ کر علیحدہ ہو گیا ،لیکن میں اس اظہار سے بھی رک نہیں سکتا کہ اس قسم کے لوگ بھی دراصل مختلف نوع کے ہو سکتے ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ وہ خلافت کے دامن سے صرف کٹتے ہی نہیں بلکہ اسے مٹا دینے کے لئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے

Page 332

مضامین بشیر ۳۲۰ ہیں.لیکن بعض ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ کسی وجہ سے رک کر عملاً علیحدہ ہو جاتے ہیں مگر مخالفت سے اجتناب کرتے ہیں اور بالعموم حسن ظنی کے مقام پر قائم رہتے ہیں.غالباً خدا کا حق وانصاف کا تراز و ان دونوں قسم کے لوگوں میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور کرے گا.بایں ہمہ میں اس جواب کے آخر میں بھی ان الفاظ کے دو ہرانے سے رک نہیں سکتا کہ ۱۹۷ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَبٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى 16 ( مطبوعه الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۴۸ء)

Page 333

۳۲۱ ہم لاہور میں کس طرح رہ رہے ہیں؟ رتن باغ اور ملحقہ مکانوں کی آبادی مضامین بشیر لاہور میں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کی آبادی کا سوال اکثر اُٹھتا رہتا ہے.اور اس ضمن میں جو مکانات جماعت احمدیہ قادیان نے صدر انجمن احمدیہ کے ذریعہ سے لاہور میں الاٹ کرائے ہیں.اُن کا سوال بھی بعض اوقات اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہم نے اپنی ضرورت سے زیادہ مکانات الاٹ کروار کھے ہیں.اس شبہ کے ازالے کے لئے میں نے چند دن ہوئے رتن باغ اور اس کے ملحقہ مکانات کی مردم شماری کرائی تھی.اس مردم شماری کا نتیجہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اس وقت صدر انجمن کی وساطت سے چار مکانات جماعت کے نام الاٹ شدہ ہیں.یعنی (۱) رتن باغ (۲) جو د ہامل بلڈنگ (۳) جسونت بلڈنگ اور (۴) سیمنٹ بلڈنگ.ان عمارتوں میں حضرت خلیفتہ اصیح امام جماعت احمدیہ اور آپ کے خاندان کے علاوہ صدر انجمن احمد یہ کے کارکن اور بہت سے دوسرے احمدی پناہ گزین آباد ہیں.اور صدرانجمن احمدیہ کے دفاتر بھی انہیں عمارتوں میں ہیں.بہر حال مردم شماری کی تفصیل حسب ذیل ہے.نمبر شمار نام عمارت تعداد خاندان تعداد افراد کیفیت ۳۹۵ ۸۲ ۱۴۱ ۲۲ ۱۳۹ ۲۴ ۸۰۱ ۲۴ ۱۵۲ رتن باغ جود ہامل جسونت بلڈنگ سیمنٹ بلڈنگ میزان (1) (۲) (۳) (N) اوپر کے نقشہ سے ظاہر ہے کہ اس وقت سے جو چار عمارتیں بشمول رتن باغ ہمارے قبضہ میں ہیں اُن میں ۱۵۲ ) ایک سو باون ) خاندان آباد ہیں.اور کل تعداد ۸۰ ( آٹھ سو ایک ) ہے.اور یہ خاندان فرضی نہیں بلکہ ایسے خاندان ہیں جو قادیان میں اپنے علیحدہ علیحدہ مکانات اور مستقل انتظام رہائش رکھتے تھے اور ابھی ان اعداد و شمار میں وہ احمدی مہمان شامل نہیں ہیں جو جماعت احمدیہ کے مرکز

Page 334

مضامین بشیر ۳۲۲ میں سے کثرت کے ساتھ آتے رہتے ہیں اور موجودہ حالات میں ان میں سے اکثر کو ٹھہرانے اور جگہ دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی انتظام موجود نہیں ہے اور وہ ادھر اُدھر پرائیویٹ گھروں میں ٹھہر کر نہایت تنگی کے ساتھ گزارا کرتے ہیں.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو خاندان ان عمارتوں میں آباد ہیں.ان میں سے کئی ایسے ہیں جو قادیان میں پانچ پانچ یا دس دس یا بعض صورتوں میں پندرہ پندرہ یا اس سے بھی زیادہ کمروں کے مکانوں میں رہائش رکھتے تھے.مگر اب انہیں رتن باغ یا اس کی ملحقہ عمارتوں میں ایک ایک یا دو دو کمروں میں بڑی تنگی کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا ہے.یہ نوٹ اس لئے شائع کیا جا رہا ہے کہ کم از کم وہ لوگ جو محض حالات کی ناواقفیت کی وجہ سے شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اُن کی نیت بخیر ہے، وہ صحیح حالات سے واقف ہو جا ئیں.باقی تفصیلی حالات تو صرف خدا جانتا ہے اور وہی ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور ہماری التجاؤں کو سننے والا ہے.( مطبوعه الفضل ۲۱ / اگست ۱۹۴۸ء)

Page 335

۳۲۳ ایک مخلص دوست کے لئے دعا کی تحریک مضامین بشیر اس وقت قادیان میں مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل مقامی امیر ہیں.مولوی صاحب موصوف نہ صرف ذاتی طور پر نہایت مخلص اور سلسلہ کے دیرینہ خادم ہیں بلکہ خاندانی لحاظ سے بھی ایک قدیم مخلص احمدی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی زوجہ شیخ حامد علی صاحب مرحوم کی بیٹی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین خدام میں سے تھے.مولوی صاحب موصوف کا ایک ہی بچہ بشارت احمد بی.ایس سی) ہے جس نے سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے لیکن اس وقت تک اس بچہ کے کوئی اولاد نہیں.حالانکہ کئی سال ازدواجی زندگی پر گزر چکے ہیں.میں دوستوں کی خدمت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مولوی صاحب موصوف کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بچہ کو صالح اولا دنرینہ عطا فرما دے.اس وقت مولوی صاحب ہر لحاظ سے ہماری خاص دعاؤں کے مستحق ہیں.وَمَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله - ( مطبوعه الفضل ۲۱ اگست ۱۹۴۸ء)

Page 336

مضامین بشیر ۳۲۴ ڈاکٹر میجر محموداحمد کی شہادت ایک مخلص اور بے نفس نو جوان ہم سے جدا ہوا دوستوں کو اخبار الفضل کے ذریعہ ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب کی شہادت کی خبر مل چکی ہے.چونکہ مرحوم میجر محمود میرے صیغہ کے انتظام کے ماتحت گزشتہ ایام میں قادیان بھی گئے تھے، اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے متعلق دعا کی تحریک کی غرض سے یہ مختصر نوٹ الفضل میں شائع کراؤں.مرحوم ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب امرتسر کی مشہور اور قدیم مخلص قاضی فیملی کے ایک بہت ہی ہونہار اور احمدیت کے فدائی نوجوان تھے.ان کے دادا ڈا کٹر قاضی کرم الہی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت کی نعمت سے مشرف ہوئے.اور پھر آج تک یہ خاندان اپنے اخلاص میں ممتاز چلا آیا ہے.گزشتہ فسادات کے دنوں میں ڈاکٹر میجر محمود احمد نے اپنی ترقی کرتی ہوئی کوئٹہ کی پریکٹس کو خطرے میں ڈال کر قادیان کی خدمت کے لئے اپنا نام پیش کیا.اور جب اوائل اکتوبر ۴۷ ء میں ایک کا نوائے قادیان گیا تو اس میں میرے لڑکے عزیز مرزا منیر احمد کے ساتھ مرحوم میجر محمود بھی شامل تھے.مگر ان ایام میں چونکہ قادیان کی احمدی آبادی پر بڑا حملہ ہونے والا تھا.اس لئے اس کا نوائے کو غلط بہا نہ رکھ کر بٹالہ میں روک لیا گیا.اور نہ صرف روکا گیا بلکہ اسے بٹالہ میں بے پناہ گولیوں اور آتش زنی کا نشانہ بنایا گیا اور مرحوم محمود احمد بٹالہ سے لاہور واپس آنے پر مجبور ہو گئے.چنانچہ انہوں نے حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت دوسرے کانوائے کی انتظار میں رتن باغ کے کیمپ میں احمدی پناہ گزینوں کی خدمت اپنے ذمہ لی اور نہایت اخلاص اور محبت کے ساتھ اس فرض کو سرانجام دیا.اس کے بعد جب اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں دوسرا کا نوائے قادیان گیا تو مرحوم میجر محمود احمد کو بھی قادیان جانے کا موقع میسر آ گیا.تو مرحوم نے اپنے والدین کو خطرات کے پیش نظر ان الفاظ میں اپنے سفر کی اطلاع دی کہ میں سلسلہ کی خدمت کی غرض سے قادیان جا رہا ہوں اور اپنے پیچھے آپ کی تسلی کے لئے اپنے اکلوتے اور چھوٹے بچے کو چھوڑے جارہا ہوں.اگر میں زندہ نہ لوٹوں تو آپ صبر سے کام لیں اور خدا کے شکر گزارر ہیں.چنانچہ ڈاکٹر میجرمحمود احمد قادیان گئے اور کم و بیش تین ماہ تک قادیان میں رہ کر نہایت اخلاص اور

Page 337

۳۲۵ مضامین بشیر محبت اور خاموشی کے ساتھ بیمار درویشوں کی خدمت سر انجام دی اور یہ ان کی مخلصانہ خدمات کا نتیجہ تھا که مخالفت کے باوجود بہت سے ہندو اور سکھ بھی ان سے علاج کروانے کے لئے ہماری ڈسپینسری میں آتے رہے.بلکہ غیر مسلم ڈاکٹروں پر بھی ان کو ہر رنگ میں ترجیح دیتے رہے.اس کے بعد وہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت جنوری ۴۸ء میں لاہور واپس آگئے.اور حضور کی ملاقات کے بعد حضور کی اجازت سے اپنی پریکٹس شروع کرنے کے لئے پھر کوئٹہ چلے گئے.اور اس عرصہ میں ان کو یہ خوشی بھی نصیب ہوئی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے اپنے گرمائی سفر کے لئے اس سال کوئٹہ کو ہی منتخب فرمایا اور مرحوم ڈاکٹر میجر محموداحمد کو مزید خدمت اور صحبت کا موقع حاصل ہوا.میں اپنی طرف سے اور اپنے صیغہ کی طرف سے اور قادیان کے درویشوں کی طرف سے مرحوم کے والدین اور دیگر عزیزوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بیوی اور بچے کا حافظ و ناصر ہو اور بچے کو باپ کے اخلاص اور جذبہ خدمت کا وارث کرے.بلکہ ان سے بڑھ کر.آمین.( مطبوعه الفضل ۲۲ اگست ۱۹۴۸ء)

Page 338

مضامین بشیر ۳۲۶ پناہ گزینوں کی ضلعوار آبادی کا سوال مغربی پنجاب کی حکومت اور مشرقی پنجاب کے ایم.ایل.اے صاحبان کو مخلصانہ مشورہ کچھ عرصہ سے پناہ گزینوں کی ضلعوار آبادی کا سوال اٹھا ہوا ہے.اور متعدد اخبارات اس سوال کے متعلق اپنا اپنا خیال ظاہر کر چکے ہیں.جو مسلمان ایم.ایل.اے مشرقی پنجاب سے آئے ہیں ، ان کا یہ مطالبہ ہے کہ مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کو ضلعو ا ر آبادی کے اصول پر آبا د کیا جائے.اور اس تعلق میں ان کا یہ بھی دعوئی ہے کہ مغربی پنجاب کی وزارت نے ان کے ساتھ ضلعوا ر آبادی کا وعدہ بھی کیا تھا.مگر بعد میں مشترکہ کونسل میں جا کر اس وعدہ کو فراموش کر دیا.اس کے علاوہ ان مشرقی ایم.ایل.اے صاحبان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو وزارت میں لیا جائے اور یہ دونوں امور کافی طور پر زیر بحث آچکے ہیں.اور اس بحث کا سلسلہ اب تک جاری ہے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق مختصر طور پر اظہار خیال کر کے بحث کے حل میں سہولت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.وما توفیقی الا با الله العليم العظيم جہاں تک ضلعوار آبادی کا سوال ہے.ایک بات بالکل واضح اور ظاہر وعیاں ہے کہ اگر شروع میں ہی جبکہ مشرقی پنجاب کے پناہ گزین سکھوں اور ہندوؤں کے مظالم سے بھاگے ہوئے مغربی پنجاب میں آئے تھے ، انہیں ضلعوا ر آبادی کے اصول پر آباد کیا جاتا تو بہر حال یہ بہت بہتر ہوتا اور اس کے ذریعہ سے بہت سی وہ خرابیاں جو آبادی کے انتظام میں واقع ہوئیں رک جاتیں.ہر شخص جانتا ہے کہ پنجاب میں دیہات کی آبادی قوم وار اصول پر مبنی ہے.یعنی ہر گاؤں میں ایک خاص نسل یا قوم یا قبیلے یا خاندان کے لوگ آباد ہوتے ہیں جن کا سلسلہ ایک مخصوص مورث اعلیٰ سے چلتا ہے.اور ان لوگوں کے درمیان ایک متحدہ برادری کا رنگ قائم ہوتا ہے.یہ سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ایک دوسرے کی روایات کے واقف اور ایک دوسرے کے مزاجوں سے شناسا ہوتے ہیں اور اگر ورثہ وغیرہ کی تقسیم کے متعلق کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو ان لوگوں کا شجرہ نسب بھی گاؤں کے ہر شخص کو معلوم

Page 339

۳۲۷ مضامین بشیر ہوتا ہے.چنانچہ پنجاب کے اکثر دیہات کا نام بھی قوموں کی بناء پر رکھا گیا ہے.مثلاً اگر کسی گاؤں میں بھٹی راجپوتوں کے خاندان آباد ہیں تو وہ گاؤں بھٹی کہلاتا ہے.اور اگر کھوکھر قوم کے راجپوت آباد ہیں تو بسا اوقات ایسا گاؤں کھو کھر کہلاتا ہے.اسی طرح اگر کوئی گاؤں جائوں کے چیمہ قبیلہ سے آباد ہے تو یہ گاؤں چیمہ کہلاتا ہے.اور اگر بھنگو قوم سے آباد ہے تو ایسا گاؤں بھنگواں کہلاتا ہے.اور اگر کاہلوں گوت کے جائوں سے آباد ہے تو ایسا گاؤں کا ہلواں کہلاتا ہے وغیرہ وغیرہ.آبادی کے اس طریق سے بھی پنجاب کے دیہات کی قوم وار آبادی کا اصول ظاہر ہے.پس اس میں ہرگز کوئی شبہ نہیں کہ اگر شروع میں ہی پناہ گزینوں کو ضلع وار آبادی کے اصول پر بسایا جاتا تو یہ بہر حال بہت بہتر ہوتا.بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ضلعوار آبادی کا اصول بھی ایک حد تک انتشار پیدا کرنے والا ہے.زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ تحصیل واریا تھا نہ وار بلکہ دیہہ وار اصول پر آبادی کی جاتی اور شروع میں یہ کوئی مشکل کام نہ تھا.بلکہ ذراسی مزید توجہ اور ذرا سے مزید انتظام کے ساتھ یہ سارا کام آسانی کے ساتھ سرانجام پاسکتا تھا.اور وہ اس طرح کہ لاہور اور دیگر اضلاع میں پناہ گزینوں کے کیمپ قائم کر دیئے جاتے (اور بہر حال کیمپ تو اب بھی قائم ہیں ) اور یہ ضروری قرار دیا جاتا کہ جو پناہ گزین بھی دیہاتی علاقہ میں آباد ہونا چاہے وہ پہلے کیمپوں میں جائے ، یا کم از کم کیمپوں کے ریکارڈ میں اس کا نام درج ہو اور پھر آگے ان کیمپوں سے علاقے میں پناہ گزینوں کی تقسیم کا انتظام کیا جائے.اگر مغربی پنجاب کی حکومت کو مشرقی پنجاب کے دیہات کے نام معلوم نہیں تھے.( گومرکزی ریکارڈ سے یہ کوائف حاصل کرنا بھی مشکل نہ تھا ) تو کم از کم تحصیلوں اور تھانوں کے نام تو معلوم تھے.پس شروع میں ہی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بناء پر مشرقی پنجاب کی ہر تحصیل اور ہر تھانہ کے مقابل پر مغربی پنجاب کی ملتی جلتی تحصیل اور تھانہ نامزد کیا جا سکتا تھا.اور ذرا سا مزید وقت دے کر اور تھوڑے سے مزید انتظام کے ساتھ یہ سارا مرحلہ بخوبی طے پا سکتا تھا.یہ درست ہے کہ فسادات اور ہجرت کا زمانہ غیر معمولی مصائب اور انتشار کا زمانہ تھا.اور اس زمانہ کی ہنگامی نوعیت کی وجہ سے حکومت کی کئی غلطیاں دراصل قابل معافی ہیں.اور ان پر زیادہ سختی سے گرفت کرنا عقلمندی کا شیوہ نہیں.درحقیقت یہ ایک قیامت کا زمانہ تھا جس میں تمام سابقہ نظام ٹوٹ کر انتہائی ابتری کی حالت پیدا ہو چکی تھی.لیکن پھر بھی اگر ذرا سوچ بچار اور دور بینی سے کام لیا جاتا تو مشرقی پنجاب کی ہر تحصیل اور تھانہ کے مقابلہ پر مغربی پنجاب کی تحصیلوں اور تھانوں کو نامزد کر کے ضلعوار کیمپوں کے ذریعہ سے پناہ گزینوں کی تقسیم کرنا ناممکن نہیں تھا.اور اگر ایسا ہوتا تو اس کی وجہ سے بہت سی خرابیوں کا سد باب ہو جا تا.مثلاً :.(۱) رشتہ دار اور برادری کے لوگ اکٹھے رہتے اور فسادات کی ہولناک مصیبت پر اس مصیبت کا

Page 340

۳۲۸ مضامین بشیر اضافہ نہ ہوتا کہ بھیڑ بکریوں کے ایک منتشر گلہ کی طرح کوئی رشتہ دار لاہور میں ہے تو کوئی ڈیرہ غازی خان میں کوئی لائکپور میں ہے تو کوئی مظفر گڑھ میں.کوئی سیالکوٹ میں ہے تو کوئی بہاولپور میں.یہ ایک مصیبت کے اوپر کی دوسری مصیبت صرف موجودہ پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوئی اور اس کی وجہ سے فسادات کا صدمہ نہایت ہولناک صورت اختیار کر گیا.(۲) موجودہ تقسیم کے لحاظ سے بہت سے غیر زمیندار جو مشرقی پنجاب میں زمین کے مالک نہیں تھے غلط رپورٹ کر کے اپنے نام پر زمین الاٹ کرواچکے ہیں.کیونکہ ان کی رپورٹ کو چیک کرنے کا کوئی مؤثر انتظام موجود نہیں تھا لیکن اگر علاقہ وار آبادی کا انتظام ہوتا تو کسی کو اس قسم کی غلط رپورٹوں کی جرات نہ ہوتی.اور اگر کوئی من چلا جرات کرتا تو اسی گاؤں والوں کی شہادت اس کے خلاف موجود ہوتی.(۳) علاقہ وار آبادی کا اصول اختیار کرنے سے یہ بھاری فائدہ بھی ہوتا کہ جو زمین مغربی پنجاب میں غیر مسلموں نے چھوڑی ہے وہ مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کے لئے کافی ہو جاتی.کیونکہ اس صورت میں ناجائز الاٹ منٹ کا راستہ بند ہوتا.اور جو ہولناک نظارہ اب نظر آ رہا ہے کہ اب تک لاکھوں زمیندار کیمپوں میں پڑے سڑرہے ہیں وہ نظر نہ آتا اور سب لوگ سہولت کے ساتھ اپنے اپنے حصہ کی زمین حاصل کر لیتے.اکثر مبصروں کا خیال ہے کہ زمین تو پوری ہے مگر نا جائز الاٹ منٹ کی وجہ سے کم ہو گئی ہے.(۴) موجودہ تقسیم میں بعض بے اصول پٹواریوں اور گرداوروں بلکہ ان کے بالا افسروں کو نا جائز ہاتھ رنگنے کا جو موقع مل گیا ہے وہ بھی علاقہ وار تقسیم کی صورت میں ہرگز نہ ملتا یا بہت کم ملتا اور یہ درد ناک نظارہ نظر نہ آتا کہ مشرقی پنجاب کا زمیندار ایک تو مشرقی پنجاب سے لٹ کر آیا ہے اور دوسرے اسے مغربی پنجاب کے بے اصول سرکاری ملازموں کے سامنے اپنی باقی ماندہ جیب خالی کرنی پڑی ہے.دنیا بھر میں حسن انتظام کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی اہم کام کو یونہی بے سوچے سمجھے ہاتھ ڈال دینا ہمیشہ خرابیاں پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے.اور اس کے مقابل پر اگر شروع میں تھوڑا سا وقت بھی سوچنے اور سکیم بنانے میں خرچ کر دیا جائے تو یہ وقت ضائع نہیں ہوتا.بلکہ بہت سی بعد کی خرابیوں کے سد باب کا ذریعہ بن جاتا ہے.یہ سوال نہیں اٹھنا چاہئیے کہ شروع میں جو وقت سکیم بنانے میں خرچ ہوتا اس وقت پناہ گزین کہاں جاتے اور ان کا کیا انتظام ہوتا.کیونکہ میں بتا چکا ہوں کہ پناہ گزینوں کو شروع میں کیمپوں میں لے جانا چاہئیے تھا.یا کم از کم ہر دیہاتی پناہ گزین کا نام کسی نہ کسی کیمپ میں درج

Page 341

۳۲۹ مضامین بشیر ہوتا اور اس کے بعد علاقہ وار تقسیم کی جاتی.پس یہ سوال بالکل لاتعلق ہے اور قطعاً غیر مئوثر ہے کہ جو وقت سکیم بنانے میں خرچ ہوتا.اس وقت پناہ گزین کہاں جاتے.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت میں بعض پناہ گزین دس دس جگہ گھومے ہیں.اور پھر کہیں جا کر انہیں سر چھپانے اور روٹی کھانے کی جگہ ملی ہے.پس دراصل موجودہ صورت میں زیادہ وقت خرچ ہوا ہے.اور ادھر اُدھر گھومنے میں جو غریب مہاجرین کا روپیہ خرچ ہوا ہے وہ مزید برآں ہے.پس جس جہت سے بھی دیکھا جائے کسی عقلمند کے نزدیک اس بات میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ اگر شروع میں ہی علاقہ وار آبادی کا انتظام ہوتا تو یقیناً یہ بہت بہتر تھا.لیکن اب جبکہ مسلمان پناہ گزین جس طرح بھی ممکن ہوا بہت سی پریشانیوں اور اخراجات برداشت کرنے کے بعد مختلف علاقوں میں آباد ہو چکے ہیں تو انہیں دوبارہ اپنی جگہ سے اکھیڑنا اور اخراجات اور پریشانیوں کے چکر میں سے دوبارہ گزارنا بھی ہرگز دانشمندی کا طریق نہیں بلکہ ایسا کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ جو قیامت گزر چکی اسے پھر اپنے ہاتھوں سے دوبارہ پیدا کر دیا جائے.میں یقین رکھتا ہوں اور میرے ذاتی معلومات بھی یہی ہیں کہ خود پناہ گزینوں کا اسی (۸۰) فیصدی حصہ اس چکر میں دوبارہ پڑنے اور اس دلدل میں دوبارہ پھنسنے کے لئے تیار نہیں ہے.ایک غلطی تھی جو ہو چکی اور یہ ایک معمولی غلطی نہ تھی بلکہ بہت بھاری غلطی تھی مگر بہر حال وہ گزر چکی.اب اس غلطی کو درست کرنے کے لئے ایک دوسرا غلط اقدام اٹھا نا کسی صورت میں بھی مناسب نہیں.اگر یہ قدم اٹھایا گیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جس طرح انسانیت کا ایک بے پناہ سیلاب پہلے ایک حکومت سے دوسری حکومت کی طرف منتقل ہوا.پھر دوبارہ یہی سیلاب مغربی پنجاب کے سولہ ضلعوں میں چکر کھانے لگے گا.ایسا کرنے سے غریب پناہ گزین پہلے کی سی پریشانیوں یا کم از کم اس سے ملتی جلتی پر یشانیوں میں مبتلا ہوں گے.وہی اخراجات کا سلسلہ یا اس سے ملتا جلتا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگا اور بے اصول کا رندوں کی ہتھیلیوں میں پھر پہلے کی سی کھجلی شروع ہو جائے گی.پس میں اپنے مشرقی پنجاب کے ایم.ایل.اے دوستوں سے عرض کروں گا کہ وہ اب صبر سے کام لیں اور دو ہری مصیبت کا چکر کھڑا کرنے پر مصر نہ ہوں بے شک انہیں تکلیف ہوئی.بے انتہا مصائب کا سامنا کرنا پڑا.ان کے ووٹروں کا گلہ پریشان ہو کر تتر بتر ہو گیا.اور ان کی آئیندہ اسمبلی کی نمائندگی بھی معرض خطر میں پڑ گئی.لیکن ان سب باتوں کے باوجود اب عملی دانائی اسی میں ہے کہ جو کچھ ہو گیا اس میں مزید تغیر و تبدل پر زور نہ دیا جائے.البتہ جیسا کہ مشترکہ کونسل نے فیصلہ کیا ہے یہ ضرور ہونا چاہیے کہ جولوگ اس وقت تک کیمپوں میں

Page 342

مضامین بشیر ۳۳۰ پڑے ہیں انہیں علاقہ وار آبادی کے اصول پر آباد کیا جائے تا کہ جس حصہ کا علاج ہمارے ہاتھ میں ہے کم از کم وہ تو ہمارے ہاتھ سے ضائع نہ ہو.اس کے علاوہ یہ انتظام بھی ہونا چاہئے کہ جو آبا دشدہ پناہ گزین آبادی کے دوسرے انتقال کی زحمتوں کو خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.انہیں بھی جہاں تک ممکن ہو علاقہ وار تقسیم کے ماتحت آباد کر دیا جائے.لیکن بہر حال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جسے جمائے پناہ گزینوں کو ان کی مرضی کے خلاف جبر کر کے ایک علاقہ سے اٹھا کر دوسرے علاقہ میں بھیجا جائے.موجودہ حالات میں یہی دانشمندی کا اصول ہے.کہ جو ہو چکا اسے قبول کیا جائے اور پناہ گزینوں کو جبراً دہرے انتقال پر مجبور نہ کیا جائے.سوائے اس کے کہ وہ خود اپنی خوشی سے اس کے لئے تیار ہوں.باقی رہا مشرقی پنجاب کے ایم.ایل.اے صاحبان کا یہ مطالبہ کہ ان میں سے کسی شخص کو وزارت میں لیا جائے.سو یہ ایک نہایت واجبی اور نہایت معقول بلکہ نہایت ضروری مطالبہ ہے.اور تعجب ہے کہ اس وقت تک حکومت نے اس مطالبہ کو پورا کرنے کی طرف پوری توجہ نہیں کی.حالانکہ اسے پورا کرنے کے راستہ میں کوئی ایسی مشکل نہیں ہے جسے دُور نہ کیا جاسکے.ظاہر ہے کہ پناہ گزینوں کی ضروریات اور ان کی مشکلات کو وہی لوگ زیادہ سمجھ سکتے ہیں اور وہی لوگ ان کے دلوں میں زیادہ اعتماد پیدا کر سکتے ہیں جو ان کے ہم وطن ہیں.اور صدیوں سے ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے حالات کو جانتے ہیں.اور فسادات سے قبل اسمبلی میں ان کے نمائندہ بن چکے ہیں.پچاس ساٹھ لاکھ کی نفری تو ویسے بھی کسی جمہوری اصول کے ماتحت نظر انداز کرنے کے قابل نہیں سمجھی جاسکتی ، چہ جائیکہ اس قسم کی مصیبت کے ایام میں جو دنیا کی تاریخ میں نظیر نہیں رکھتے اس دکھیا آبادی کو بغیر سہارے اور بغیر نمائندگی کے چھوڑ دیا جائے ، بے شک یہ ایم.ایل.اے صاحبان قائد اعظم گورنر جنرل کے حکم کے ماتحت مغربی پنجاب کی اسمبلی کے ممبر قرار پاچکے ہیں، مگر ممبری اور چیز ہے اور وزارت اور چیز ہے.اور کوئی وجہ نہیں کہ سارے حالات دیکھتے ہوئے ان صاحبان کو وزارت میں حصہ نہ دیا جائے.یہ ایک نہایت واجبی اور ضروری اور قرین انصاف مطالبہ ہے جو فوراً پورا ہونا چاہئے اور پھر جو شخص مشرقی پنجاب کے ایم.ایل.اے صاحبان میں سے وزیر چنا جائے اسی کا حق ہے کہ پناہ گزینوں کا شعبہ اس کے سپرد ہو اور اس کی امداد اور مشورہ کے لئے بعض دوسرے پناہ گزینوں کی ایک مشاورتی کمیٹی بنادی جائے.اور اس کمیٹی میں مشرقی پنجاب کی ریاستوں کے بعض نمائندے بھی لئے جائیں.کیونکہ یہ لوگ بھی لاکھوں کی تعداد میں مغربی پنجاب میں پہنچے ہیں.اور شاید انہیں مشرقی پنجاب کے دوسرے مسلمان مہاجروں کی نسبت بھی زیادہ تکالیف برداشت کرنی پڑی ہیں.اس کے علاوہ یہ بھی قرین انصاف ہو گا کہ موجودہ غیر معمولی انتشار کے پیش نظر کم از کم آئندہ

Page 343

۳۳۱ مضامین بشیر ایک انتخاب میں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کے حلقہ ہائے انتخاب علاقہ وار تقسیم کی بجائے آبادی کے اصول پر مقرر کئے جائیں.تا کہ مہاجرین کا مصیبت زدہ طبقہ اپنے اعتماد کے مطابق نمائندے چن سکے.اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا.بلکہ اتنے عرصہ میں امید کرنی چاہئے کہ خدا کرے تو مہاجر و انصار با ہم شیر وشکر ہو کر ایک ہو جائیں اور علیحدہ نمائندگی کی ضرورت باقی نہ رہے.میں امید کرتا ہوں کہ میرے اس مخلصانہ مشورہ کو حکومت مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب کے ایم.ایل.اے صاحبان قبول کر کے موجودہ بحث کو جو نا گوار طوالت اختیار کر چکی ہے جلد تر ختم کرنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.اور ہمارا حافظ وناصر رہے.امين يا ارحم الرحمين مطبوعه الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۴۸ء)

Page 344

مضامین بشیر ۳۳۲ دواغواشدہ عورتوں کی بازیابی (۱) قادیان سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ ان کے پاس ایک مسلمان اغوا شدہ عورت مسمات بی بی ساکن ڈنڈیانہ متصل جموں پہنچی ہے.اس کے والد کا نام چراغ دین اور والدہ کا نام حسین بی بی ہے اس کے بھائیوں کا نام رحمت علی شفیع محمد اور بہن کا نام ریشماں ہے.اس کے تابا علم الدین اور احمد دین بھی ہیں.اگر مسمات مذکور کے رشتہ داروں میں سے یا کوئی اور شخص جو ان سے جان پہچان رکھتے ہوں اس اعلان کو دیکھیں تو دفتر حفاظت مرکز جو دھامل بلڈنگ، جو دھامل روڈ لاہور کو اپنے موجودہ پتہ - اطلاع دیں.ނ (۲) قادیان سے یہ اطلاع بھی موصول ہوئی ہے کہ ایک اور اغوا شدہ عورت مسمات حفیظہ جس کی گود میں ایک سال کا بچہ بھی ہے برآمد کی گئی ہے.اس کے والد کا نام حسین بخش اور والدہ کا نام حسین بی بی ہے جو منکو ہا ضلع گورداسپور کے رہنے والے ہیں.اس کے بھائیوں کے نام دین محمد علی محمد ، شاہ محمد ، نور محمد ہیں.اس عورت کے خاوند کا نام عبدل ہے جو موضع درا نگاہ کا رہنے والا ہے.مسمات مذکور کے رشتہ داروں میں سے یا کوئی اور شخص جو ان سے واقفیت رکھتے ہوں.اگر اس اعلان کو پڑھیں تو فوراً اپنے موجودہ پتہ سے دفتر حفاظت مرکز جود ہامل بلڈنگ ، جو د ہامل روڈ لاہور کو اطلاع دیں تا مسمات مذکور کے پاکستان پہنچنے پر اس کے رشتہ داروں کو اطلاع کی جا سکے.( مطبوعه الفضل ۲۴ اگست ۱۹۴۸ء)

Page 345

۳۳۳ مضامین بشیر فوٹو کھچوانے کے متعلق ایک لائکپوری دوست کا سوال شرعی احکام میں حرمت کا لطیف فلسفہ لائل پور سے ایک احمدی دوست فوٹو کھچوانے کے متعلق دریافت کرتے ہیں کہ آیا فوٹو اتر وانا جائز ہے یا نہیں ؟ وہ لکھتے ہیں کہ اس بارے میں ایک غیر احمدی دوست کے ساتھ ان کا اختلاف ہو گیا ہے.غیر احمدی دوست بڑی سختی کے ساتھ فوٹو اتر وانے کے خلاف ہیں.بلکہ اسے ایک بھاری گناہ خیال کرتے ہیں اور اس کے مقابل پر ہمارے یہ احمدی دوست اسے جائز سمجھتے ہیں اور شریعت کی رُو سے اس پر کسی صورت میں بھی کوئی اعتراض نہیں دیکھتے.اس تعلق میں سب سے پہلی بات تو میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ میں مفتی نہیں ہوں.اگر ہمارے دوست جماعتی فتویٰ چاہتے ہیں تو انہیں جماعت کے مقررہ مفتی کی خدمت میں لکھنا چاہئیے.جو آج کل مولوی سیف الرحمن صاحب فاضل ہیں.لیکن اگر میری ذاتی رائے معلوم کرنی ہو اور بہر حال میری ذاتی رائے میرے علم کے مطابق جماعتی رائے کے مطابق ہی ہوگی.تو وہ مختصر طور پر درج ذیل ہے.سب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ اس بات میں ہر گز کوئی شبہ نہیں کہ احادیث میں پتھر یا لکڑی وغیرہ کے بت بنانے یا کاغذ اور کپڑے وغیرہ پر بتوں کی تصویر میں بنانے کی سخت حرمت بیان ہوئی ہے.اور اگر اس قسم کی تصویر بنانے کا سوال ہوتا تو میں بلا تامل کہتا کہ وہ جائز نہیں.لیکن ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بت بنانا یا بت کی تصویر بنانا اور چیز ہے اور فوٹوا تا رنا یا فوٹو اتر وانا بالکل اور چیز ہے.ان دونوں چیزوں میں ایسا بد یہی فرق ہے کہ کوئی عظمند اس سے انکار نہیں کر سکتا.بت بنانے یا بتوں کی تصویر بنانے کا کام وہی شخص کر سکتا ہے.جو یا تو بتوں کو پوجتا ہو یا اس کی یہ غرض ہو کہ دوسرے لوگ انہیں پوجیں.یقیناً ایسا شخص اپنے ہاتھ سے تصویر کشی یا سنگ تراشی کے ذریعہ شرک کی اشاعت میں مدد دیتا ہے.لیکن فوٹو نیچر کا ایک حکیمانہ فعل ہے جو سائنس کے طبعی طریق پر کھینچا جاتا ہے.اور اس کے تیار کرنے میں کسی انسان کا اس رنگ میں دخل نہیں ہوتا جس طرح کہ بت بنانے یا بتوں کی تصویر بنانے میں اس کا دخل ہوتا ہے.پس خدا کے ایک لطیف قانون کو جو اس نے فوٹو گرافی کے رنگ میں نیچر کے اندر ودیعت کر رکھا ہے ، بت تراشی یا تصویر کشی کے ساتھ مخلوط کرنا ہرگز درست نہیں.فوٹو کا عمل

Page 346

مضامین بشیر ۳۳۴ بت تراشی یا تصویر کشی سے بالکل جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے.اور یہ دونوں کسی صورت میں بھی ایک حکم کے ماتحت نہیں سمجھے جا سکتے.اگر اس قسم کے طبعی طریق پر تصویر بنانا منع ہو تو پھر آئینہ دیکھنا بھی منع ہوگا.کیونکہ اس کے سامنے آنے سے بھی ایک بہت عمدہ تصویر بنتی ہے.اور کسی شفاف جھیل یا چشمہ کے پاس کھڑا ہونا بھی منع ہوگا کیونکہ اس میں بھی انسانی تصویر منعکس ہو جاتی ہے.مگر آج تک کسی عالم یا کسی مفتی نے ان چیزوں کو منع قرار نہیں دیا.حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی آئینہ موجود تھا اور آپ کے وقت میں بھی چشمے اور جھیلوں کے پانی ہوتے تھے.مگر آپ نے کبھی ان چیزوں کے سامنے آنے سے نہیں روکا.جس سے ثابت ہوا کہ طبعی طور پر کسی تصویر کا بن جانا اس حکم امتناعی کی زد میں نہیں آتا.جس کی رو سے ہاتھ سے بت بنانا یا بتوں کی تصویر کھینچنا منع کیا گیا ہے.یہ عذر درست نہیں ہوگا کہ شیشہ یا پانی میں محض ایک عارضی تصویر تیار ہوتی ہے اور جو تصویر فوٹو کے ذریعہ بنتی ہے وہ مستقل ہوتی ہے.کیونکہ اول تو حقیقتاً دنیا میں مستقل چیز کوئی بھی نہیں.صرف درجہ کا فرق ہے کہ کوئی چیز تھوڑی دیر رہتی ہے اور کوئی چیز زیادہ دیر.علاوہ ازیں اصل سوال اصول کا ہے نہ کہ مستقل یا غیر مستقل کا ؟ پس جب کہ تصویر ہر حال میں منع ہے اور جبکہ آئینہ بھی ایک تصویر بناتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے نا جائز قرار نہ دیا جائے.لہذا ثابت ہوا کہ شریعت نے مشرکوں کے ہاتھ کے نا پاک فعل اور سائنس کے طبعی اور مفید نتائج میں فرق ملحوظ رکھا ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ اگر شرک مقصود نہ ہو تو ایک طرح بتوں کے رنگ میں کوئی چیز تیار کرنا بھی اسلام میں منع نہیں ہے.مثلاً احادیث اور تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب لڑکیوں میں گڑیوں کے کھیل کا عام رواج تھا.حتی کہ تاریخ میں آتا ہے کہ جب حضرت عائشہ کی شادی ہوئی تو چونکہ ان کی عمرا بھی چھوٹی تھی تو ان کی تفریح کے لئے ان کے ساتھ چند گڑیاں بھی بھجوائی گئیں اور وہ کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان میں ان گڑیوں سے اپنا دل بہلا لیا کرتیں تھیں.چنا نچہ صحیح مسلم میں آتا ہے کہ : كنت العب بالبنات في بيته ومن اللعب.۹۸ یعنی ( حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کبھی کبھی گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی، پس جب معصوم نیت کے ساتھ جس میں شرک کا کوئی شائبہ نہ ہوگڑیا تک بنانی جائز ہے.جو عملاً ایک بت ہوتی ہے اور بتوں کے رنگ میں ہاتھ سے بنائی جاتی ہے تو ایک قدرتی اور طبعی طریق پر فوٹو اتارنا کیوں جائز نہیں سمجھا جا سکتا.بات یہ ہے کہ فوٹو کو حرام قرار دینا صرف موجودہ زمانہ کے تنگ نظر

Page 347

۳۳۵ مضامین بشیر مولویوں کا کام ہے ، ورنہ دراصل فوٹو میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو شریعت کے کسی حکم سے ٹکراتی ہو بلکہ حق یہ ہے کہ اس ایجاد نے دنیا کے بہت سے میدانوں میں انسانیت کی نہایت قیمتی خدمت سرانجام دی ہے.مثلاً بیماریوں کے علاج میں فوٹوگرافی کی قدر و قیمت ظاہر وعیاں ہے جسے آج کا ہر پڑھا لکھا بچہ تک جانتا ہے.اسی طرح مجرموں کا سراغ لگانے میں فوٹوگرافی کے ذریعہ بہت بھاری فائدہ اٹھایا جاتا ہے.اسی طرح مختلف حکومتوں کے شہریوں کی شناخت کے لئے پاسپورٹوں میں فوٹوؤں کا اندراج کئی قسم کے فتنوں کے انسداد کا موجب ہوتا ہے.اسی طرح کے کئی اور ضروری اور اہم فوائد ہیں جو فوٹو گرافی سے حاصل کئے جاتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ مسیحی لوگ تو حضرت عیسے علیہ السلام کی معصومانہ تصویر بنا کر یا ان کی صلیب کا ہولناک نظارہ پیچ کر اور پھر فو ٹو گرافی کے ذریعہ ان تصویروں کو دنیا میں پھیلا کر بھاری تبلیغی فائدہ بھی اٹھاتے ہیں.تو پھر کیوں نہ مسلمان اولیاء کی تصویروں سے بھی اس قسم کے حالات میں تبلیغی فائدہ اٹھایا جائے.آج کی دنیا قیافہ شناسی میں بہت ترقی کر چکی ہے اور سمجھدار لوگ بعض اوقات محض ایک بزرگ کی تصویر دیکھ کر ہی اس کی روحانیت کا اندازہ کر لیتے ہیں.پس دینی اور دنیوی جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے ، فوٹو گرافی ایک نہایت مفید ایجاد ہے.اور اس سے اپنے آپ کو محروم کرنا مسلمانوں کی قومی اور ملتی طاقت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے.وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَلِكُلِّ امْرِءٍ مَّا نَوى دراصل شریعت کے بنیادی اصولوں پر غور نہیں کیا گیا.ورنہ اگر تھوڑے سے تامل سے کام لیا جاتا تو یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ آسکتی تھی کہ جہاں شریعت نے بعض ایسی چیزوں سے روکا اور انہیں حرام قرار دیا ہے جو اپنی ذات میں نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں وہاں مزید احتیاط کے طور پر بعض ایسی باتوں کے متعلق بھی متنبہ کر دیا ہے جو اپنی ذات میں تو ضرررساں نہیں.مگر کسی دوسری ضرر رساں چیز کو تقویت پہنچانے میں بالواسطہ مدد دیتی ہیں.مثلاً حدیث سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام قرار دی تو ساتھ ہی اس قسم کے برتنوں کا استعمال بھی منع کر دیا جن میں عرب لوگ اس زمانہ میں عموماً شراب پیا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کے ذہن نہ صرف شراب سے بلکہ اس کے لوازمات سے بھی کلی طور پر کٹ جائیں.لیکن جب دو چار سال کے بعد آپ نے دیکھا کہ مسلمانوں میں شراب سے کامل ذہنی انقطاع پیدا ہو چکا ہے تو آپ نے انہیں فرمایا کہ اب بے شک تم ان برتنوں کو استعمال کر لیا کرو.کیونکہ میری غرض ان برتنوں کو ناجائز قرار دینا نہیں تھی.بلکہ شراب کی یاد کو تازہ رکھنے والی چیزوں سے تمھارے دل ودماغ کو دور کرنا اصل مقصود تھا.اور اب چونکہ یہ غرض حاصل ہو چکی ہے تو گوشراب تو بہر حال منع ہی رہے گی کیونکہ اس کی حرمت وو

Page 348

مضامین بشیر ۳۳۶ بالذات مقصود ہے.مگر اب اس قسم کے برتنوں کے استعمال میں ہرج نہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا: نَهَيتُكُم عَنِ الاشرِ لَةٍ فِي ظُرُوف الادَمَ فَاشْرَبُوا فِي كُلِّ وِعَاءٍ غيران لا تَشْرَبُوا مُسكِرًا - یعنی میں نے تمہیں بعض خاص قسم کے برتنوں کے استعمال سے منع کیا تھا.لیکن اب تم ہر قسم کا برتن استعمال کر سکتے ہو.مگر بہر حال شراب ہرگز نہ پیو“ اسی طرح مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں یہ دیکھ کر کہ قبروں پر مسلمانوں کا جانا شرک کا موجب بن سکتا ہے.ارشاد فرمایا کہ مسلمان قبروں کی زیارت کے لئے نہ جایا کریں لیکن جب دیکھا کہ قوم اس قسم کے شرک کے خطرہ سے محفوظ ہو چکی ہے.تو پھر آپ نے خود فرمایا کہ: نهيتكم عن زيارة القبور، فَزُوروها _ د یعنی میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا مگر اب وہ غرض حاصل ہو چکی.اس لئے اب تم بے شک نیک لوگوں کی قبروں پر زیارت اور دعا کے لئے جایا کرو کیونکہ اس سے دلوں میں خشیت پیدا ہوتی ہے“ اوپر کی مثالوں سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ حرمت دو قسم کی ہوتی ہے.ایک ذاتی جیسے کہ شرک اور شراب کی حرمت ہے جو بالذات مقصود ہے.اور دوسرے نسبتی جیسے کہ شروع میں قبروں پر جانے سے روکا گیا یا جیسے کہ اس قسم کے برتنوں کے استعمال سے منع کیا گیا.جن میں عرب لوگ شراب پیا کرتے تھے.حالانکہ یہ چیزیں اپنی ذات میں بری نہیں ہیں.اس کے علاوہ اوپر کی مثالوں سے یہ بات بھی قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ اصل حرمت وہی ہے جو ذاتی ہو اور بالذات مقصود ہو،مگر اس کے مقابل پر نسبتی حرمت اصلی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ بالذات مقصود ہوتی ہے، بلکہ بعض اوقات حالات کے بدلنے سے بدل بھی جاتی ہے ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبروں کی زیارت اور شراب کے برتنوں کو ایک دفعہ ممنوع قرار دے کر پھر جائز قرار دیتے.پس فوٹو کا سوال اول تو حدیث کے اس فتویٰ کے ماتحت آتا ہی نہیں جو بت تراشی یا ہاتھ سے تصویر بنانے کے متعلق دیا گیا ہے.کیونکہ بت تراشی اور تصویر کشی ہاتھ کی صنعت ہیں.مگر فوٹو نیچر کے حکیمانہ قانون کا اسی طرح کا طبعی نتیجہ ہے جس طرح کہ آئینہ کے سامنے کی تصویر نیچر کے ایک قانون طبعی کا نتیجہ ہوتی ہے.دوسرے اصل چیز جس کی وجہ سے بت تراشی اور تصویر کشی منع کی گئی ، شرک ہے.پس جب حالات کے بدل جانے سے شرک کا احتمال بالکل باقی نہ رہے تو ذاتی حرمت والی چیز تو بہر حال منع ہی

Page 349

۳۳۷ مضامین بشیر رہے گی لیکن نسبتی حرمت والی چیز کا حکم بعض صورتوں میں بدل جائے گا.یہی وجہ ہے کہ آج کل اکثر غیر احمدی علماء بھی جو آج سے چند سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کے فوٹو انے پر اعتراض کیا کرتے تھے ، اب وہ فوٹو کو جائز قرار دیتے ہیں.بلکہ بیشتر نامورمولوی صاحبان خود اپنے فوٹواتر واکر اس کے جواز پر مہر تصدیق ثبت کر چکے ہیں.بایں ہمہ ایک احتیاط ضروری ہے.اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تاکید فرمائی ہے.اور وہ یہ کہ چونکہ اولیاء اللہ اور خاص بزرگانِ دین کے فوٹواتر وانے میں ایک طرف یہ خطرہ ہوسکتا ہے کہ کسی زمانہ میں ایسے فوٹوؤں کی کثرت جاہل لوگوں کے لئے شرک کی محرک نہ بن جائے اور دوسری طرف ان کی کثرت غافل لوگوں کے دل میں بے حرمتی کا دروازہ بھی کھول سکتی ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ تاکیدی فتویٰ تھا کہ اول تو ایسے فوٹو صرف کسی جائز ضرورت کے لئے تیار کر وائے جائیں اور پھر باوجود اس کے یہ مزید احتیاط بھی رکھی جائے کہ وہ غیر ذمہ دار لوگوں یا بچوں کے ہاتھ میں پڑکر گلی کوچوں میں خراب نہ ہوں.چنانچہ جب ایک احمدی دوست نے سادہ پوسٹ کارڈوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو کثیر تعداد میں چھپوایا اور ان دوست کی غرض یہ تھی کہ جماعت کے افراد غیر احمدیوں کے ساتھ خط و کتابت کرتے ہوئے ان پوسٹ کارڈوں کو استعمال کریں تو اطلاع ملنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تمام پوسٹ کارڈوں کو تلف کر وا دیا اور فرمایا کہ ہم نے تو ایک جائز تبلیغی غرض کے ماتحت فوٹو کھچوایا تھا.اور یہ بالکل مناسب نہیں کہ اس قسم کے فوٹو ؤں کو اس طرح عام کر کے غیروں کے گلی کوچوں میں پھینکا جائے.خلاصہ کلام یہ کہ : (۱) بت تراشی اور شرک کی نیت سے تصویر کشی بہر حال منع ہے اور اس کی حرمت مستقل ہے جو ہر حال میں مقصود ہے.(۲) فوٹو کھینچوانا چونکہ تصویر کشی سے بالکل جدا گانہ چیز ہے اور قدرت کے قانون کا حکیمانہ اور طبعی نتیجہ ہے اس لئے وہ بت تراشی یا تصویر کشی کی حرمت کے حکم کے ماتحت نہیں سمجھا جا سکتا.(۳) فوٹو تو در کنار گڑیا وغیرہ کا بنانا بھی جو بظاہر بت کی شکل رکھتی ہے اسلام میں منع نہیں کیونکہ نہ تو اس میں شرک کی نیت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے شرک پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے.(۴) اصل حرمت ذاتی حرمت ہے.جیسے کہ مثلاً شرک، شراب اور زنا وغیرہ حرام قرار دیئے گئے ہیں مگر وہ چیزیں جن میں ذاتی حرمت کا پہلو نہیں پایا جا تا بلکہ صرف نسبتی حرمت کا پہلو پایا جاتا ہے.ان کی حرمت بالذات مقصود نہیں ہوتی اور وہ حالات کے بدلنے سے بدل سکتی ہے.جیسا کہ آنحضرت

Page 350

مضامین بشیر ۳۳۸ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے برتنوں اور قبروں کی زیارت کے حکم کو بدل دیا.۵.بایں ہمہ مومن کا یہ کام ہے کہ حتی الوسع احتیاط کے پہلو کو مقدم کرے اور بلا کسی حقیقی ضرورت کے ایسا قدم نہ اٹھائے جو دوسروں کے لئے لغزش کا موجب ہو.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے لائل پور کے دوست میری اس مختصر تحریر کو کافی خیال کریں گے.اور اسی طرح ان کے وہ غیر احمدی دوست بھی میری اس تحریر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جو فوٹو کو بت تراشی یا تصویر کشی کے حکم کے ماتحت لا کر قطعی حرام قرار دیتے ہیں مگر جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں یہ میرا ذاتی خیال ہے جو میں نے اس جگہ درج کیا ہے.کیونکہ میں مفتی نہیں اور اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ جماعت کی طرف سے کوئی فتویٰ جاری کروں.وَاللهُ اَعْلَمُ وَلَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْنَا الله.نوٹ.جو باتیں میں نے اس جگہ لکھی ہیں ان سب کے مفصل حوالے موجود ہیں اور ضرورت پر تفصیلاً پیش کئے جا سکتے ہیں.( مطبوعه الفضل ۲۵ اگست ۱۹۴۸ء)

Page 351

۳۳۹ مضامین بشیر میرا جو ود ضلعوار آبادی والے مضمون کا تمہ اگر سابقہ کھاتوں کی بناء پر الاٹمنٹ ہوئی تو پھر کیا ہوگا ؟ و مضمون الفضل ۲۴ / اگست کو زیر عنوان ” پناہ گزینوں کی ضلعوار آبادی کا سوال شائع ہوا ہے.اس کے متعلق ایک معزز اور واقف کار دوست نے یہ سوال کیا ہے کہ اگر جیسا کہ خیال ہے بعد میں مسلمان پناہ گزینوں کے سابقہ کھاتوں کی بناء پر آخری الاٹمنٹ کرنے کا فیصلہ ہوا تو پھر کیا ہوگا ؟ مثلاً اگر ایک مسلمان مشرقی پنجاب میں چھپیں ایکٹر زمین رکھتا تھا اور اسے مغربی پنجاب میں آکر موجودہ اصول کے مطابق صرف آٹھ ایکڑ زمین ملی ہے.اور بعد میں فیصلہ ہو کہ اسے اس کے سابقہ کھاتوں کے بناء پر چھپیں ایکٹر زمین مل سکتی ہے.مگر اتفاق یہ ہو کہ جہاں اس کی موجودہ آٹھ ایکٹر زمین موجود ہو وہاں اسے مزید سترہ ایکٹر زمین ملنے کی گنجائش نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے گا.سو اس سوال کے جواب میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر میرے یہ دوست میرے مضمون کو غور سے مطالعہ فرماتے تو میرے مضمون میں پہلے سے اس سوال کا جواب موجود تھا.کیونکہ میں نے صراحتاً لکھا تھا کہ اگر کوئی مسلمان پناہ گزین اپنی جگہ بدلنے کے لئے تیار ہو تو اسے بدل دیا جائے مگر یہ کہ اس کی مرضی کے خلاف جبرانہ بدلا جائے.اب اگر آٹھ ایکڑ لینے والا مسلمان پناہ گزین بعد کے فیصلہ کے مطابق ۲۵، ایکٹر زمین لینا چاہتا ہے اور اس کی موجودہ جگہ میں اس قدرا لائمنٹ کی گنجائش نہیں تو اس کا کیس میری شرط کے ماتحت آ جائے گا کہ جو مسلمان اپنی خوشی سے اپنی جگہ بدلنا چاہتا ہے اسے بدل دیا جائے.لیکن اگر کوئی مسلمان کسی وجہ سے اپنی موجودہ جگہ پر ہی ٹھہر نا چاہتا ہے اور تھوڑے رقبہ پر قانع ہے تو پھر اس کا کیس میری دوسری شرط کے ماتحت آ جائے گا کہ کسی کو جبراً منتقل نہ کیا جائے.بہر حال میرا مضمون اس سوال کے جواب پر اصولاً حاوی ہے.جو ہمارے معزز دوست نے اٹھایا ہے اور کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں.باقی رہے وہ مسلمان پناہ گزین جنہوں نے کسی وجہ سے موجودہ الاٹمنٹ میں حصہ نہیں لیا.تو ظاہر ہے کہ اگر بالآخر سابقہ اور اصل جائدادوں کی بناء پر تقسیم کا فیصلہ ہوتو ایسے پناہ گزینوں کو بھی اپنی ضائع شدہ جائدادوں کے بدلہ میں مطالبہ کا حق ہوگا.یہ ایک سیدھی اور صاف بات ہے.جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں.( مطبوعه الفضل ۲۶ / اگست ۱۹۴۸ء)

Page 352

مضامین بشیر ۳۴۰ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہر درد مند اور سمجھ دار مسلمان کے لئے غور کا مقام جیسا کہ الفضل میں شائع ہو چکا ہے، کوئٹہ سے اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر میجرمحمود احمد صاحب احمدی بعض مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کر دیئے گئے ہیں.انا اللہ وانا الیہ راجعون.ڈاکٹر صاحب موصوف کی شہادت ہماری اطلاع کے مطابق صرف اس بناء پر وقوع میں آئی ہے کہ وہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے تھے.اور ایک ایسے پبلک جلسہ کے قریب سے گزرے جو کوئٹہ میں جماعت احمد یہ کے خلاف منعقد کیا جا رہا تھا.رپورٹ یہ ہے کہ اس موقع پر بعض جو شیلے لوگوں نے ڈاکٹر صاحب موصوف کو دیکھ کر پہلے تو ان کو پتھروں سے زخمی کیا اور پھر پیٹ میں چھرا گھونپ کر شہید کر دیا.میجر ڈاکٹر محمود احمد جو فوج سے فارغ ہو چکے تھے اور اب کوئٹہ میں پریکٹس کرتے تھے ، قاضی محمد شریف صاحب ریٹائر ڈایگزیکٹو انجینئیر لائل پور کے فرزند اور لاہور کے مشہور ڈاکٹر محمد بشیر صاحب پروفیسر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور اور قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے پروفیسر گورنمنٹ کالج کے حقیقی بھیجے تھے.اور اس جگہ اس اظہار کی چنداں ضرورت نہیں کہ ذاتی لحاظ سے بھی مرحوم ایک نہایت ہی شریف الطبع اور ہونہار نوجوان تھے.جس نے اپنے پیچھے ایک بیوہ اور ایک خوردسالہ بچہ چھوڑا ہے.موت فوت تو ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.اور جلد یا بدیر ہر شخص نے نیچر کے اس اہل دروازہ میں سے گزرنا ہے.اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومت میں (جیسا کہ ہر دوسری حکومت میں ) با ہمی لڑائیوں اور ڈکیٹیوں وغیرہ کی وجہ سے بسا اوقات قتل کے واقعات ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات خود مسلمانوں کے ہاتھ سے ہی مسلمانوں کا خون گرایا جاتا ہے.لیکن یقیناً کوئٹہ کا یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ میں اس لحاظ سے پہلا واقعہ ہے کہ ایک پر امن مسلمان شہری کو محض بعض مذہبی عقائد کے اختلاف کی وجہ سے بعض دوسرے مسلمانوں نے شہید کر دیا ہے.اول تو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ہاتھ سے مارا جانا ہی فی ذاتہ ایک نہایت درجہ دردناک اور قابل ملامت فعل ہے.لیکن جب ایسے فعل کی بنیاد محض مذہبی عقائد کے اختلاف پر مبنی ہو تو پھر یہ فعل ایسی ہولناک صورت اختیار لیتا ہے کہ اس سے زیادہ بھیا نک فعل کوئی اور تصور میں نہیں آسکتا.یہ خیال کہ احمد یہ جماعت کے لوگ اپنے بعض عقائد کی وجہ سے بعض دوسرے مسلمانوں کی نظر میں سچے

Page 353

۳۴۱ مضامین بشیر مسلمان نہیں ، موجودہ بحث کے لحاظ سے ایک بالکل لاتعلق سوال ہے.کیونکہ اگر صرف مذہبی اختلاف کو دیکھا جائے.اور صرف علماء کے فتوے کو مدنظر رکھا جائے تو مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی کفر کے الزام سے بچا ہوا نظر نہیں آتا.اہل سنت والجماعت کے کفر کے فتوے شیعوں کے خلاف موجود ہیں اور شیعوں کے کفر کے فتوے سنیوں کے خلاف موجود ہیں.اسی طرح حنفیوں کے کفر کے فتوے اہلحدیث کے خلاف موجود ہیں اور اہلحدیث کے کفر کے فتوے حنفیوں کے خلاف موجود ہیں.تو کیا ان فتوؤں کی وجہ سے یہ سب لوگ واجب القتل سمجھے جائیں گے؟ حق یہ ہے کہ مذہبی عقیدہ کا سوال بالکل جدا گانہ ہے.لیکن سیاست کے میدان میں اسلام کی اس تعریف کو قبول کرنے کے بغیر چارہ نہیں.اور ہماری جماعت کا شروع سے ہی یہ اعلان رہا ہے.کہ جو شخص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور قرآن شریف کو خدا تعالیٰ کی آخری شریعت سمجھتا ہے.یا بالفاظ دیگر ہر وہ شخص جسے غیر مسلم لوگ مسلمان سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک کرتے ہیں وہ سیاست کے میدان میں مسلمان سمجھا جائے گا اور مسلمان سمجھا جانا چاہیئے اور اسے مسلمانوں والے سیاسی حقوق ملنے چاہئیں.اس تعریف کے سوا اسلام کی کوئی اور تعریف ایسی نہیں جو سیاست کے میدان میں قابل قبول سمجھی جاسکے.ورنہ اگر اس تعریف کو چھوڑ کر عقائد کی تفصیل اور علماء کے فتوؤں کی طرف دیکھا جائے تو دنیا کا کوئی اسلامی فرقہ بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکتا اور پاکستان کی خداداد حکومت چند دن کے اندر ایک دوسرے کے خون خرابہ کا ہولناک منظر بن سکتی ہے.پس میں ہر سمجھدار اور سنجیدہ اور دردمند مسلمان سے خدا کے نام پر اور پاکستان کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ وقت کی نزاکت کو پہچانے اور حکومت پاکستان کے اس نازک دور کو ان تخریبی تحریکوں سے بچانے کی کوشش کرے جو اگر آزاد چھوڑ دی جائیں تو بڑی سے بڑی حکومت کو چند دن میں ختم کر سکتی ہیں.کوئٹہ کا دردناک واقعہ جو یقیناً اپنی نوعیت میں پاکستان کا پہلا واقعہ ہے، ہر سمجھدار اور دردمند مسلمان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے.اسی طرح ہر سنجیدہ اسلامی اخبار کا خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو، یہ فرض ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس فتنہ کے سدباب کے لئے کوشش کرے.یہ صرف جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کا سوال نہیں ہے.بلکہ ایک نہائت وسیع اور اصولی سوال ہے.کیونکہ خواہ یہ فتنہ اپنی موجودہ اور ابتدائی صورت میں کتنا ہی معمولی نظر آئے.لیکن ایک دور بین آنکھ اس کی تہہ میں وہ خطر ناک چنگاری دیکھ سکتی ہے.جو بڑی سے بڑی آگ کا موجب بن جاتی ہے.خدا جانتا ہے کہ میں نے مختصر الفاظ حقیقی در داور سچے اخلاص کے ساتھ لکھے ہیں.کاش ان الفاظ کو اسی در داور اسی اخلاص کے ساتھ پڑھا جائے جس کے ساتھ وہ لکھے گئے ہیں.وما علينا الا البلاغ ولاحول ولاقوة الا با الله العظیم.( مطبوعہ الفضل ۲۷ اگست ۱۹۸۴ء)

Page 354

مضامین بشیر ۳۴۲ پناہ گزینوں کی علاقہ وار آبادی کے متعلق جماعت احمدیہ کا نظریہ حضرت امیر المومنین امام جماعت احمدیہ کی رائے میں نے ایک خط کے ذریعہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ لمسیح الثانی امام جماعت احمدیہ سے دریافت کیا تھا کہ پناہ گزینوں کی علاقہ وار آبادی کے متعلق حضور کا کیا خیال ہے.اس کے جواب میں حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ نوٹ فرما کر بھیجے ہیں جو جماعتی رائے کے طور پر الفضل میں شائع کرائے جاتے ہیں.” میرے نزدیک اب بھی علاقہ وار آبادی کا انتظام ہونا چاہئے مگر طوعی طور پر ہو.اور پہلے جگہ خالی ہو.اور پھر جگہ بدلی جائے اور آہستگی سے کام ہو“ اس ارشاد کا مطلب واضح ہے اور وہ یہ کہ علاقہ وار آبادی کا انتظام اب بھی ہونا مناسب ہے مگر اس کے لئے کسی پناہ گزین کو مجبور نہ کیا جائے.بلکہ جو پناہ گزین اس کے لئے بخوشی تیار ہوں صرف ان کی جگہ بدلی جائے.نیز یہ کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ علاقہ وار تقسیم کے خیال سے کسی پناہ گزین کو اس کی موجودہ جگہ سے تو اٹھا دیا جائے لیکن ابھی اس کے واسطے دوسری جگہ کا پختہ انتظام موجود نہ ہو.بلکہ پہلے یہ تسلی کر لی جائے کہ جس جگہ کسی پناہ گزین نے جانا ہے وہ خالی بھی ہے یا نہیں یا آسانی کے ساتھ خالی بھی کی جاسکتی ہے یا نہیں.اگر یہ جگہ خالی ہو یا آسانی کے ساتھ خالی کی جاسکتی ہو تو پھر جگہ بدلی جائے ورنہ نہیں.تیسری بات یہ ہے کہ اس انتقال آبادی کا کام آہستگی اور سہولت کے ساتھ کیا جائے اور ایسا نہ ہو کہ ہنگامی شور شرا با پیدا کر کے پھر ایک قیامت برپا کر دی جائے.جس کے نتیجہ میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں.مطبوعه الفضل ۳۱ راگست ۱۹۴۸ء)

Page 355

۳۴۳ مضامین بشیر قادیان کے دوستوں کو روپیہ بھجوانے کا محفوظ طریق جو دوست اس وقت قادیان میں بطور درویش بیٹھے ہیں ان کے عزیز بعض اوقات ان کے نام کچھ روپیہ بھجوانا چاہتے ہیں.سو ایسے دوستوں کی اطلاع کے لئے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس طرح کا روپیہ دو طرح سے بھجوایا جا سکتا ہے.ا.پہلا طریق یہ ہے کہ قادیان کے جس درویش کے نام جور و پیہ بھجوانا ہو وہ ڈاکخانہ کے ذریعہ منی آرڈر کر ادیا جائے ایسے منی آرڈر میں درویش کا پورا نام درج ہونا چاہئے بلکہ احتیاط کے طور پر یہ الفاظ بھی بڑھا دیے جائیں کہ معرفت امیر جماعت احمد یہ دار مسیح قادیان اور قادیان کے ساتھ ضلع گورداسپور مشرقی پنجاب کے الفاظ زیادہ کر دیئے جائیں.چونکہ منی آرڈروں کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے پس اس ذریعہ سے روپیہ بھجوانے میں انشاء اللہ کسی قسم کا خطرہ نہیں.۲.دوسرا طریق یہ ہے کہ محاسب صاحب صدر انجمن احمد یہ جو دھامل بلڈنگ لاہور کے نام روپیہ بھجوا دیا جائے اور اس کے ساتھ یہ نوٹ کر دیا جائے کہ یہ روپیہ قادیان کے فلاں درویش کو پہنچا دیا جائے اس صورت میں محاسب صاحب کو یہ ہدایت ہے کہ وہ اس قسم کا روپیہ وصول کر کے اپنے انتظام میں متعلقہ درویش کو قادیان بھجوا دیں.یہ طریق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر طرح محفوظ ہے.البتہ ایک زائد واسطہ پڑنے سے چند دن کی دیر ہو سکتی ہے.اوپر کے دوطریقوں کے علاوہ کوئی اور طریق اختیار کرنا موجودہ حالات میں تسلی بخش نہیں ہو گا.( مطبوعه الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۴۸)

Page 356

مضامین بشیر ۳۴۴ ابلیس والے مضمون کے تعلق میں ایک اور حوالہ کچھ عرصہ ہوا میں نے ابلیس کے متعلق الفضل میں دو مضمون شائع کرائے تھے.اور بعد میں اسی تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ بھی جو لائکپور کے ایک دوست نے لکھ کر بھیجا تھا چھپوا دیا تھا.اب اسی تعلق میں محترمی مولوی ابوالعطاء صاحب نے ایک اور حوالہ لکھ بھیجا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور تصنیف حقیقۃ الوحی سے ماخوذ ہے.سو اس غرض سے کہ اس مضمون کے سارے پہلوؤں پر روشنی پڑ جائے ، میں یہ لطیف اور اصولی حوالہ بھی درج ذیل کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر چہ شیطان عاصی اور نا فرمان ہے.لیکن وہ اس بات پر تو یقین رکھتا ہے کہ خدا موجود ہے 66 اور اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقتہ الوحی کے اسی صفحہ پر حاشیہ درج فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی کہے کہ جس حالت میں شیطان کو خدا کی ہستی اور واحدانیت پر یقین ہے.تو پھر وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کیوں کرتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی نافرمانی انسان کی نافرمانی کی طرح نہیں ہے.بلکہ وہ اس عادت پر انسان کی آزمائش کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اور یہ ایک راز ہے.جس کی تفصیل انسان کو نہیں دی گئی ( مطبوعه الفضل ۳۱ راگست ۱۹۴۸ء)

Page 357

۳۴۵ مضامین بشیر.تعلیم القرآن کی زنانہ کلاس کا نتیجہ مجھے تعلیم القرآن کی زنانہ کلاس کا نتیجہ دکھایا گیا ہے جو خدا کے فضل سے بہت خوش کن اور امید افزا ہے اور مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں اس نتیجہ کو اپنے نوٹ کے ساتھ الفضل میں شائع کرا دوں اور اسی غرض سے میں یہ نتیجہ اخبار میں بھجوا رہا ہوں.یہ کلاس حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اس تحریک کے ماتحت جو حضور نے گزشتہ مجلس مشاورت میں فرمائی تھی لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کے انتظام میں جاری کی گئی تھی اور باوجود پہلا سال ہونے کے اس نے خدا کے فضل سے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے.چنانچہ قادیان سے آئی ہوئی طالبات اور لاہور کی مقامی طالبات کے علاوہ اس کلاس کی شمولیت کے لئے چنیوٹ.لائل پور.گوجرانوالہ.شیخو پورہ.گجرات اور راولپنڈی وغیرہ طالبات آئیں ، جن کی مجموعی تعداد ۳۴ تھی.گو امتحان میں صرف ۲۴ طالبات شریک ہوئیں.کیونکہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے لاہور کی دس طالبات امتحان میں شریک نہیں ہوسکیں.نصاب میں قرآن شریف.حدیث.فقہ علم کلام.تاریخ.عربی ادب.اور فرسٹ ایڈ کے مضامین شامل تھے.اور تعلیم کا انتظام لجنہ اماء اللہ کی نگرانی میں بعض مخلص اور دیندار اساتذہ کے سپرد تھا.اور پردہ کا خاطر خواہ انتظام تھا.اور یہ ایک نہایت درجہ خوشی کی بات ہے کہ کسی قسم کی رعایت یا لحاظ داری کے بغیر سب کی سب طالبات امتحان میں کامیاب ہو گئیں (سوائے ایک کے جو کمپارٹمنٹ میں آئی ہے) اور حق یہ ہے کہ جیسا کہ سنا گیا ہے ان طالبات نے محنت میں بھی حد کر دی تھی.ساری کلاس میں سیدہ امتہ القدوس بیگم سلمہا جو ہمارے بڑے ماموں صاحب کی صاحبزادی ہیں.۴۵۰٫۴۱۱ نمبر لے کر اول آئی ہیں.اور دوم نمبر پر قانتہ بیگم سلمها بنت خواجہ عبدالرحمن صاحب آف گو جرانوالہ نے ۴۵۰٫۴۱۰ نمبر حاصل کئے ہیں اور تیسرے نمبر پر مولوی عبد الرحیم صاحب درد کی لڑکی صالحہ بیگم سلمها نے ۴۵۰/۴۰۱ نمبر لئے ہیں.یہ نتیجہ نہ صرف طالبات کے لئے بلکہ ان کے ساتھ اساتذہ کرام اور لجنہ اماءاللہ اور عابدہ بیگم سلمها بنت چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب مرحوم نگران کلاس کے لئے بھی قابل مبارک باد ہے.ہماری احمدی خواتین خدا کے فضل سے اپنے ایمان اور اخلاص اور جذبہ قربانی میں تو پہلے ہی نمایاں درجہ رکھتی ہیں.اگر جیسا کہ بفضلہ اس کے عنوان نظر آرہے ہیں وہ علم میں بھی کمال پیدا کریں تو

Page 358

مضامین بشیر ۳۴۶ یہ اُن لوگوں کا ایک عملی جواب ہوگا جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلامی پردہ عورتوں کی ترقی میں روک ہے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.اور انسانیت کا یہ نصف جسم کم از کم احمدیت میں قومی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کے کام میں مردوں سے کسی طرح پیچھے نہر ہے.آمین یا ارحم الراحمین.1 کلاس کا تفصیلی نتیجہ درج ذیل ہے.نمبر شمار اسماء طالبات کل میزان نمبر شمار اسماء طالبات کل میزان قانتہ بیگم بنت خواجه ۴۱۰ دوم عبدالرحمن صاحب آف گجرانوالہ Δ سیده سعید بیگم بنت سید عبداللطیف صاحب سیده امتہ القدوس بیگم ۴۱۱ اول بنت حضرت میر محمد اسمعیل صاحب سیده آنسه بیگم بنت ۲۶۴ حضرت میر محمد الحق صاحب بشارت النساء بیگم بنت غلام جیلانی صاحب ۲۳۱ رضیه بیگم در د بنت ۳۴۴ مولوی عبد الرحیم صاحب درد صالحه بیگم درد بنت ۴۰۱ سوم مولوی عبد الرحیم صاحب درد سیده امته الهادی بیگم ۳۵۰ بنت حضرت میر محمد اسمعیل صاحب 1.۳۴۶ ۳۲۴ 11 ۲۷۹ ۱۲ ۳۳۸ ۱۳ ۳۵۰ ۱۴ ۳۳۲ امتہ المجید بیگم بنت عبد الرحمن صاحب ساره بیگم بنت شیخ دوست محمد صاحب مشمس صفیہ بیگم بنت شیخ دوست محمد صاحب شمس در ینہ بیگم بنت سیٹھ محمد صدیق صاحب امتہ الحئی صابرہ بیگم بنت عبد القدوس صاحب امتہ الحئی بیگم بنت حکیم مرغوب اللہ صاحب २ 3 ง

Page 359

امته المنان بیگم بنت مولوی چراغ دین مضامین بشیر ۳۲۳ ۲۶۱ ۳۳۹ ۱۵۶ صاحب ناصرہ بیگم بنت مرزا عطاء اللہ صاحب نصیرہ بیگم مفتی بنت مفتی فضل الرحمن صاحب امته النصیر بیگم بنت قاری محمد امین صاحب ان کا ایک مضمون کا دوبارہ امتحان ہوگا ۲۹۵ علیمہ طاہرہ بیگم بنت محمد عامل صاحب ( مطبوعہ الفضل یکم ستمبر ۱۹۴۸ء) ۳۴۷ ۲۲۸ ۲۱ ۳۵۴ ۲۲ ۲۶۲ ۲۳ ۳۱۶ ۲۴ ۳۳۱ حلیمہ بیگم بنت مولوی عبدالرحمن صاحب انور امته اللطیف بیگم بنت عبدالرحیم صاحب در ولیش قادیان امته الرشید بیگم بنت عبدالرحیم صاحب در ولیش قادیان ممتاز اختر بیگم بنت محمد اقبال صاحب امتہ القیوم بیگم صاحبہ بنت عبد العزیز صاحب ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹

Page 360

مضامین بشیر ۳۴۸ قادیان کے دوستوں کے ذریعہ بحال شدہ مسلمان اب تک ۱۳۴ اشخاص بحال ہو چکے ہیں اس وقت ہمارے قادیان کے احباب جس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں وہ عملاً قید سے بہتر نہیں.کیونکہ وہ ایک مختصر سے حلقہ میں محدود و محصور ہیں.اور انہیں اس حلقہ سے تھوڑا بہت ادھر اُدھر جانے کے لئے بھی پولیس یا ملٹری کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے.گویا قید خانہ کی بجائے چند ر ہائشی مکان ہیں جن میں یہ لوگ خدا کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی مقدس یادگاروں کی آبادی کے لئے محصور ہوئے بیٹھے ہیں.مگر باوجود اس کے وہ حکومت پاکستان اور حکومت ہندوستان کے مشترکہ فیصلہ اور مشترکہ پالیسی کے ماتحت قادیان کے گردونواح سے اغوا شدہ مسلمان عورتوں یا محصور شده مسلمان مردوں کے نکالنے میں دن رات کوشاں رہتے ہیں.چنانچہ قادیان کی تازہ رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت تک ہمارے قادیان کے دوستوں کے ذریعہ ایک سو چونتیس مرد وزن بحال ہو کر پاکستان پہنچ چکے ہیں.ان ۱۳۴ مرد و زن میں کے مسلمان عورتیں ہیں اور ۵۷ مسلمان مرد ہیں.جو سب کے سب قادیان کے ملحقہ دیہات سے خاص جد و جہد کے ساتھ ایک ایک کر کے پاکستان بھجوائے گئے ہیں.قادیان کے حالات کے ماتحت یہ کارنامہ یقیناً ایک خاص خدمت کا رنگ رکھتا ہے.جس کا ہر دو حکومتوں کو جن کی مشترکہ پالیسی کے ماتحت یہ کوشش کی جارہی ہے شکر گزار ہونا چاہیے ، خصوصاً اس لئے کہ سرحدی ضلع ہونے کی وجہ سے اور ریاست کشمیر کے ساتھ ملحق ہونے کے باعث گورداسپور کے ضلع میں مسلمان ملٹری یا مسلمان پولیس کا جانا ممنوع ہے.اس لئے اس ساری کوشش اور اس ساری کامیابی کا سہرا صرف ہمارے دوستوں کے سر ہے.یا دو ایک ایسے شریف النفس غیر مسلم افسروں کے سر جنہوں نے اپنی قوم اور دوسرے غیر مسلم افسروں کی مخالفت کے باوجود اس نیک کام میں ہاتھ بٹایا ہے.- ( مطبوعه الفضل ۵ ستمبر ۱۹۴۸ء)

Page 361

۳۴۹ مضامین بشیر قائد اعظم محمد علی جناح كُلَّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کی اچانک اور المناک وفات کی خبر ساری دنیا میں پہنچ کر مرنے والے لیڈر کے لئے جسے قائد اعظم کا خطاب ملا تھا، خراج تحسین و عقیدت حاصل کر چکی ہے.جیسا کہ قرآنی آیت مندرجہ عنوان میں بتایا گیا ہے.خدا کے سوا دنیا کی ہر چیز فانی ہے البتہ وہ چیز جسے خدا نے اپنی خاص توجہ سے دائی بقا کے لئے چن لیا ہو وہ ضرور باقی رہتی اور خدا کے قیوم ہونے کا عملی ثبوت مہیا کرتی ہے.اس اصول کے ماتحت انسان کا مادی جسم فانی قرار دیا گیا ہے اور اس کی روح ہمیشہ کی زندگی پانے والی قرار پائی ہے.پس گو قائد اعظم کا جسم خاکی سپر د خاک ہو کر اپنے دنیوی دور زندگی کو ہمیشہ کے لئے ختم کر چکا ہے مگر ان کی روح اپنے اچھے اور شاندار اعمال کے ساتھ زندہ ہے اور زندہ رہے گی.میرا احساس ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ دنیا کی دینی اور روحانی حیات اور ترقی کے لئے انبیاء و مرسلین کا وجود پیدا کرتا رہتا ہے.اسی طرح وہ بعض اوقات دنیا کی مادی اور قومی اور سیاسی اور علمی ترقی کے لئے بھی بعض خاص خاص وجود پیدا کرتا ہے.کیونکہ گوانسانی زندگی کا اصل مقصد خدا کا تعلق ہے مگر اس بات میں کیا شک ہے کہ اس تعلق سے اتر کر دنیا کی مادی اور علمی ترقی بھی خدا کی توجہ کے دائرہ سے باہر نہیں سمجھی جاسکتی.ظاہر ہے کہ جب دین کے علاوہ خدا نے اس دنیا کے تمام مفید شعبوں کو بھی چلانا اور ترقی دینا ہے تو پھر اس کی نصرت کا دائرہ صرف اُخروی امور تک ہی محدود نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ خدا اپنی بار یک در بار یک حکیمانہ قدرت سے ہر دنیوی میدان کی ترقی کے لئے بھی سامان پیدا فرماتا ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کی بہت سی مفید ایجاد یں بھی ایک رنگ کے غیبی القاء اور خدائی نصرت کے ماتحت وقوع میں آئی ہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نہ صرف مخصوص دینی اور روحانی میدان میں بلکہ ہر قسم کے میدان میں جو بنی نوع انسان کے لئے مفید ہو، اپنے بعض بندوں کی نصرت فرما کر انسانیت کی ترقی کا سامان پیدا کرتا ہے.اور یقیناً اس کی یہ سنت مسلمانوں کے ساتھ زیادہ مخصوص ہے.کیونکہ وہ اس کے محبوب رسول اور اولین و آخرین کے سردار کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہے.

Page 362

مضامین بشیر ۳۵۰ میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی مشیت نے قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی اسی رنگ میں اپنی خاص نصرت سے نوازا اور ان کے ذریعہ اس بر عظیم کے مسلمانوں کا سیاسی شیرازہ غیر معمولی رنگ میں متحد کر دیا.قائد اعظم میں بہت سی خوبیاں تھیں مگر ان کا جو کام سب سے زیادہ نمایاں ہو کر نظر آتا ہے وہ یقیناً یہی ہے کہ ان کے ذریعہ مسلمانان ہندوستان (میری مراد تقسیم سے پہلے کا ہندوستان ہے.) اپنے سیاسی اتحاد کی لڑی میں پروئے گئے جو اس سے پہلے بالکل مفقود تھا.لوگ کہتے ہیں کہ قائد اعظم کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کا وجود ہے.میں کہتا ہوں کہ بیشک پاکستان کا وجود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جو غالباً دنیائے سیاست میں عدیم المثال سمجھا جا سکتا ہے.مگر میری نگاہ قائد اعظم محمد علی جناح کے اس کا رنامہ کی طرف زیادہ اٹھتی ہے جو خود تو پاکستان نہیں مگر پاکستان کو وجود میں لانے کا سب سے بڑا بلکہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے گویا واحد ذریعہ ہے.میری مراد مسلمانوں کا سیاسی اتحاد ہے جس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اتحاد میں وہ برکت اور وہ طاقت ہے جو دنیا کی اور کسی چیز کو حاصل نہیں.قائد اعظم سے پہلے ہندوستان کے مسلمان سیاسی لحاظ سے ایک منتشر گلہ کی صورت میں تھے.جس کی بھیڑیں دو دو چار چار کی ٹولیوں میں اِدھر اُدھر پھرتی ہوئی جنگل کے بھیڑیوں کا شکار ہو رہی تھیں اور جو چاہتا ان کی جس ٹولی کو پکڑ کر اپنے پیچھے یا کسی دوسرے کے پیچھے لگا لیتا تھا اور اس طرح مسلمانوں کے سواد اعظم کا سارا زور آپس کے تفرقہ اور انشقاق کی نذر ہورہا تھا اور اسلام کا ہوشیار دشمن مسلمانوں کی اس کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں مصروف تھا.مگر خدا نے ہاں ہمارے علیم وقد بر خدا نے محمد علی جناح کو یہ توفیق عطا کی کہ اس کے ذریعہ ہندوستان کے پچانوے فی صدی مسلمان سیاسی اتحاد کی لڑی میں پروئے گئے.اور جب یہ اتحاد قائم ہوگیا تو پھر اس اتحاد کا وہ لازمی اور طبعی نتیجہ بھی فور ا ظہور میں آگیا جو ازل سے مقدر تھا یعنی دشمن نے ہتھیار ڈال کے مسلمانوں کے متحدہ مطالبہ کو مان لیا.کیونکہ دس کروڑ کی قوم کے متحدہ مطالبہ کور دکرنا دنیا کی کسی طاقت کے اختیار میں نہیں ہے.پس میں قائد اعظم کے کارناموں میں مسلمانوں کے سیاسی اتحاد کو نمبر پر رکھونگا اور پاکستان کے وجود کو نمبر ۲ پر اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر عقلمند شخص میرے اس نظریہ سے اتفاق کرے گا.مسلمانوں کے سیاسی اتحاد اور پاکستان کے وجود کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کا سب سے بڑا کام اور سب سے بڑا وصف ان کا عزم اور استقلال تھا.دنیا جانتی ہے کہ ان کے رستہ میں بعض اوقات ایسی ایسی مشکلات آئیں کہ وہ اکثر انسانوں کو بے دل کرنے اور ہمت ہار کر سمجھوتہ کر لینے پر مجبور کر دیتی ہیں مگر قائد اعظم محمد علی جناح ہمیشہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے اور مسلمانوں کی کشتی کو نہایت عزم اور استقلال کے ساتھ چلاتے اور اردگرد کی چٹانوں سے بچاتے

Page 363

۳۵۱ مضامین بشیر ہوئے منزل مقصود پر لے آئے بعض اوقات درمیان میں ایسے نازک مواقع بھی آئے کہ جب دنیا نے انہیں بظاہر سمجھوتے کی طرف مائل ہوتے ہوئے محسوس کیا اور گو وقتی حالات کے ماتحت وقتی سمجھوتے قابل اعتراض نہیں ہوتے مگر بعد کے حالات نے بتا دیا کہ یہ صرف دشمن کے ساتھ گفت دشنید کا ایک حکیمانہ انداز تھا اور یہ کہ آخری مقصد کو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کیا گیا.یہی وجہ ہے کہ ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے مشہور اخبار ہندوستان ٹائمنز نے مسٹر جناح کی وفات پر تبصرہ کرتے ہی یہ الفاظ لکھے ہیں کہ مسٹر جناح نے دنیا کے سب سے بڑے سیاستدان ( غالباً پنڈت نہرو کی طرف اشارہ ہے یا شاید مسٹر گاندھی مراد ہوں ) کے ساتھ زور آزمائی کی اور اس مقابلہ میں فتح پائی.قائد اعظم محمد علی جناح کا تیسرا نمایاں وصف ہر قسم کی پارٹی بندی سے بالا ہو کر غیر جانبدارانہ انصاف پر قائم رہنا تھا.یہ وصف بھی قومی ترقی اور ملکی استحکام کے لئے نہایت ضروری چیز ہے اور پاکستان کے سب سے پہلے گورنر جنرل نے اس معاملہ میں بہترین مثال قائم کر کے پاکستان کی حکومت کے لئے ایک دائمی مشعل راہ پیدا کر دی ہے.قائد اعظم کے نزدیک پاکستان کے شیعہ اور سنی ، احمدی اور اہل حدیث ، پارسی اور عیسائی اور پھر نام نہاد چھوت اور غیر ا چھوت سب ایک تھے اور ان کے لئے صرف یہی ایک معیار قابل لحاظ تھا کہ ایک شخص کام کا اہل ہو اور یہ وہی زریں معیار ہے جس کی طرف قرآن شریف نے ان مبارک الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ: إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ یعنی اے مسلمانو خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ چونکہ حکومت کے عہد ہے ایک ملکی امانت ہیں.پس تم ہمیشہ اس امانت کو اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو خواہ وہ کوئی ہوں اور پھر جو شخص کسی عہدہ پر مقرر ہو اس کا فرض ہے کہ سب لوگوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرے.مرنے والے لیڈر میں خوبیاں تو بہت تھیں مگر میں اس جگہ صرف ان تین بنیادی خوبیوں کے ذکر پر ہی اکتفا کرتا ہوں یعنی اتحاد و تنظیم ، عزم و استقلال اور غیر جانب دارانہ انصاف ، اور میں پاکستان کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان خوبیوں کو اپنا مشعلِ راہ بنا ئیں.کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی یہی بہترین یادگار ہو سکتی ہے کہ ان کے نیک اوصاف کو زندہ رکھا جائے.اور دراصل دنیا میں و ہی شخص زندہ رہتا ہے جس کی قوم اس کی یاد کو زندہ رکھتی ہے.( مطبوعه الفضل ۶ ار ستمبر ۱۹۴۸ء)

Page 364

مضامین بشیر ۳۵۲ قادیان کے متعلق جھوٹی خبریں اخبار پرتاپ دہلی کی اشاعت مورخہ ۸ ستمبر ۱۹۴۸ء میں ایک امرتسر سے آئی ہوئی خبر شائع ہوئی ہے کہ قادیان میں مقبرے کے پاس ایک اسلحہ ساز فیکٹری پکڑی گئی ہے.جس میں سے بہت سا نا جائز سامان برآمد ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں بارہ مسلمان گرفتار کئے گئے ہیں.اس کے بعد اسی تسلسل میں اخبار جے ہند جالندہر کی اشاعت مورخہ ۱۳ ستمبر ۱۹۴۸ء میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ قادیان کے مقبرہ بہشتی کے پاس جو اسلحہ ساز فیکٹری پکڑی گئی ہے، اس کے نتیجہ میں آٹھ مزید مسلمان گرفتار کئے گئے ہیں.ہم نے قادیان کے دوستوں سے دریافت کیا ہے.اور وہاں سے یہ جواب موصول ہوا ہے کہ یہ خبر بالکل غلط اور بے بنیاد ہے.لہذا احباب کی تسلی کے لئے یہ تردید شائع کی جارہی ہے کہ ہم حکومت مشرقی پنجاب کو بھی توجہ دلا رہے ہیں کہ حکومت کی طرف سے ان خبروں کی تردید کی جائے.اور آئندہ اس قسم کی خبروں کی اشاعت میں اس کے سوا اور کوئی غرض نہیں ہوسکتی کہ قادیان کے مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کو اکسایا جائے اور ایک مسموم فضا پیدا کر دی جائے.پس گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اس قسم کے امکانی خطرات کا پوری طرح سد باب کرے.( مطبوعه الفضل ۱۶ رستمبر ۱۹۴۸ء)

Page 365

۳۵۳ مضامین بشیر قادیان میں عید الاضحیہ کی قربانی ! جود وست قادیان میں قربانی کرانا چاہیں وہ فوراً اطلاع بھجوا د میں! مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان سے اطلاع دیتے ہیں کہ جو دوست آنے والی عید الاضحیہ کی قربانی قادیان میں کرانا چاہتے ہوں، ان کی طرف سے اطلاع ملنے پر قادیان میں اس کا انتظام کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وقت پر اطلاع پہنچ جائے.قربانی صرف بکرے یا بھیڑ کی ہو سکتی ہے جس کے لئے روپیہ پیشگی آنا چاہئے.پس جو دوست آنے والی بڑی عید پر قادیان میں قربانی کرانا چاہیں وہ مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمد یہ دارا مسیح قادیان ضلع گورداسپور کو پوسٹ کارڈ کے ذریعہ اطلاع بھجواد میں اور ساتھ ہی علی الحساب ہیں (۲۰) روپے کی رقم بھی مولوی صاحب موصوف کو منی آرڈر کے ذریعہ بھجوا دیں.قادیان میں اس وقت کچھ اوپر تین سو دوست ہیں.پس جو دوست قادیان میں قربانی کرانا چاہیں وہ اس تعداد کو مدنظر رکھیں تا کہ ضرورت سے زیادہ رقوم نہ بھجوا دی جائیں.نیز کافی عرصہ پہلے سے اطلاع جانی چاہئے کیونکہ ڈاک میں کافی دن لگ جاتے ہیں اور منی آرڈر تو اور بھی زیادہ دن لیتا ہے.( مطبوعه الفضل ۶ ار ستمبر ۱۹۴۸ء)

Page 366

مضامین بشیر ۳۵۴ عزیز مرزا منو را حمد مرحوم مبلغ امریکہ اپنے خدا کی تلخ تقدیروں کو بھی صبر کیسا تھ قبول کرو آج مغرب کی اذان سے قبل لندن کی ایک تار سے معلوم ہوا کہ عزیز مرزا منور احمد مبلغ امریکہ ایک آپریشن کے نتیجہ میں وفات پاگئے ہیں إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مجھے ان کی بیماری کا آج سے صرف پانچ دن قبل علم ہوا اور اس کے ساتھ ہی یہ اطلاع بھی پہنچی کہ ڈاکٹروں نے فوری آپریشن کا مشورہ دیا ہے کیونکہ معدہ کے اندر رسولی پائی گئی ہے جس کا فوراً نکالنا ضروری ہے.طبعاً اس اطلاع سے بہت فکر لاحق ہوا مگر خدا نے انسانی فطرت میں امید کے پہلو کو غالب رکھا ہے اس لئے اس بھاری فکر کے با وجود دل اس خواہش اور امید سے پُر تھا کہ خدا اپنا فضل فرمائے گا اور انشاء اللہ ہمارے اس نو جوان عزیز کو صحت ہو جائے گی لیکن آج شام کی اچانک تار نے خدا کی تلخ تقدیر کو عریاں کر کے سامنے رکھ دیا اور زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ آئے کہ إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.یہ الفاظ کیسے ماحول کے لئے مقرر کئے گئے ہیں مگر کس قدر شیریں اور کس قدر رحمت کے جذبہ سے محصور ہیں.خدا فرماتا ہے کہ میرے بندو! بے شک تمہیں ایک بھاری صدمہ پہنچا ہے مگر تمہارا اصل تعلق تو میرے ساتھ ہے نا ؟ اور دیکھو میں تمہارے سروں پر زندہ موجود ہوں.پس اس صدمہ کے وقت بھی میری محبت اور میرے تعلق میں راحت و تسکین پانے کی کوشش کرو.اور پھر دیکھو تم سب نے بالآخر میرے پاس جمع ہی ہونا ہے پس فکر نہ کر و.کیونکہ آج کا بچھڑا ہوا عزیز تمہیں عنقریب پھر مل جائے گا اور تم سب جو نیک ہو بہت جلد میری رحمت کے سایہ کے نیچے جمع ہو جاؤ گے.یہ الفاظ کس قدر محبت کس قدر شفقت اور کس قدر رحمت کے جذبہ سے معمور ہیں مگر پھر بھی جدائی کی تلخی خواہ یہ جدائی کتنی ہی عارضی ہو بہر حال ایک تلخی ہے اور انسانی فطرت تلخیوں کے احساس سے کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتی.خدا کی ہستی اور آخرت کی حقیقت پر سب سے زیادہ ایمان لانے والا وجود ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک وجود تھا جن کے لئے گویا یہ دونوں باتیں اس طرح آنکھوں کے سامنے تھیں جس طرح کہ دنیا کی مادی چیزیں ہماری جسمانی آنکھوں کے سامنے محسوس مشہور ہوتی ہیں بلکہ ان سے بھی

Page 367

۳۵۵ مضامین بشیر بہت بڑھ چڑھ کر.مگر پھر بھی حدیث سے ثابت ہے کہ بعض دوستوں اور عزیزوں کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کی آنکھیں بھی پُر نم ہو جاتی تھیں.بلکہ ایک موقع پر تو آپ کے آنسو آپ کی ریش مبارک تک بہ بہ کر پہنچ گئے تھے.تو جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دل وگردہ والے انسان کا یہ حال ہے تو ہم جیسے کمزور لوگ کس شمار میں ہیں جن کو نہ ویسا ایمان حاصل ہے اور نہ ویسا ضبط نفس.پس ہم نہایت درد بھرے اور بے حد زخمی دل کے ساتھ اپنے اس عزیز نوجوان کی وفات پر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہتے ہیں ، كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ 8 عزیز مرزا منور احمد مرحوم کو میں بچپن سے جانتا تھا اس لئے بھی کہ وہ ہمارے قریبی عزیزوں میں سے تھے یعنی ہماری ممانی صاحبہ کے بھائی اور ہماری ایک بھا وجہ صاحبہ کے ماموں تھے اور اس لئے بھی کہ مرحوم کا بچپن سے میرے ساتھ خاص تعلق تھا.پس میں یہ بات بغیر کسی قسم کے مبالغہ کے کہہ سکتا ہوں کہ مرحوم ایک بہت مخلص اور نیک اور ہونہار اور محبت کرنے والا اور جذ بہ خدمت وثمر بانی سے معمور نو جوان تھا.دن ہو یا رات دھوپ ہو یا بارش جب بھی انہیں کوئی ڈیوٹی سپرد کی جاتی تھی وہ کمال مستعدی اور اخلاص کے ساتھ اس ڈیوٹی کو سر انجام دینے کے لئے لبیک لبیک کہتے ہوئے آگے آ جاتے تھے اور پھر اپنے مفوضہ کام کو اس درجہ توجہ اور سمجھ کے ساتھ سرانجام دیتے تھے کہ دل خوش ہو جا تا تھا اور زبان سے بے اختیار دُعا نکلتی تھی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی نیکی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی زندگی وقف کرنے اور پھر بلا د ا مریکہ میں وطن سے بارہ ہزار میل دور جا کر فریضہ تبلیغ بجا لانے کی سعادت عطا کی.موت تو ہر انسان کے لئے مقدر ہے مگر مبارک ہے وہ نو جوان جسے یہ سعادت کی زندگی عطا ہوئی اور مبارک ہیں وہ والدین جنہیں خدا نے ایسا نیک اور خادم دین بچہ عطا کیا.عزیز مرحوم کے والد یعنی مرزا محمد شفیع صاحب مرحوم نے جب اپنی آخری بیماری دتی کے ہسپتال میں جا کر کاٹی تو بیماری کے لمبا ہو جانے کے باوجود منور مرحوم نے ان کی خدمت میں دن رات ایک کر دیا اور اپنے ضعیف العمر اور نیک باپ کی آخری دعائیں حاصل کیں.پھر جب مرحوم کی والدہ صاحبہ گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں قادیان چھوڑنے پر مجبور ہوئیں اور منور مرحوم کو یہ بھی اطلاع پہنچی کہ والدہ کے باہر آجانے کے بعد ان کا بڑا بھائی قادیان میں شہید ہو گیا ہے تو منور نے ماں کی تکلیف کا خیال کر کے انہیں میرے واسطے سے تار کے ذریعہ امریکہ سے ایک رقم بھجوائی جو ایک دوست سے قرض لے کر بھجوائی گئی تھی اور مرحوم نے مجھے لکھا کہ اب میری والدہ صاحبہ اکیلی ہیں اور سامان قادیان میں کٹ چکا ہے اس لئے بھائی کی وفات کے بعد انہیں کئی قسم کی ضرورتیں لاحق ہونگی.پس

Page 368

مضامین بشیر ۳۵۶ آپ یہ رقم میری طرف سے انہیں پہنچا دیں.میں جانتا ہوں کہ منور مرحوم کی مالی حالت ہرگز ایسی نہیں تھی کہ وہ اتنی رقم خود پیدا کر سکے یا قرض اٹھا کر اسے آسانی سے اتار سکے مگر محض بوڑھی والدہ کی محبت میں اُس نے یہ بوجھ اٹھایا اور پھر خدا نے اُسے اس قرض کے اتارنے کی بھی توفیق دیدی.اسی طرح ایک دفعہ عزیز مرحوم کے ایک قریبی عزیز کے ساتھ میرا کچھ اختلاف ہو گیا تھا اور مجھے یاد نہیں کہ منور نے مجھے امریکہ سے کبھی کوئی ایک خط بھی ایسا لکھا ہو جس میں یہ نہ پوچھا ہو کہ کیا فلاں عزیز کے ساتھ آپ کی صلح صفائی ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی مجھے یہ تحریک نہ کی ہو کہ آپ بڑے ہیں آپ اپنے دل سے رنجش نکال دیں.میں نے عزیزم مرحوم کو ہر خط میں تسلی دلائی کہ اختلاف کا دور ہونا اور بات ہے مگر تم تسلی رکھو کہ خدا کے فضل سے میرے دل میں کینہ نہیں ہے اور میں اس حالت میں بھی تمھارے اس عزیز کے لئے ہمیشہ دُعا کرتا ہوں.الغرض کیا بلحاظ دین کے اور کیا بلحاظ اخلاق کے اور کیا بلحاظ رشتہ داری کے حقوق کے اور کیا بلحاظ دوست نوازی کے مرحوم ایک بہت ہی نیک اور قابل قدر نو جوان تھا.میری یہ دلی دُعا ہے کہ خدا اسے غریق رحمت کرے اور اسے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور گو وہ غیر شادی شدہ تھا.اور اس نے کوئی اولاد پیچھے نہیں چھوڑی مگر خدا اسے ایسے دوست اور ایسے عزیز عطا کرے جو اس کے لئے ہمیشہ دعا گو ر ہیں اور اس کی یاد کو زندہ رکھیں.آمین یا الرحم الراحمین.مرحوم کی وفات کا ایک تلخ پہلو ایسا ہے جس کے ذکر سے میں ( با وجود اس علم کے کہ اس کے بیان سے میرے دل کا درد بڑھ جائے گا ) نہیں رک سکتا.یہ پہلو مرحوم کی والدہ کے اوپر تلے کے صدمات سے تعلق رکھتا ہے.مرحوم کی والدہ جو ہمارے بڑے ماموں مرحوم کی ساس ہیں.اس وقت غالباً سیتر سال کی ہوگی لیکن خدا کی کسی بار یک در بار یک حکمت کے ماتحت ان کی زندگی کے آخری ایام بہت تلخی میں گزرے ہیں.سب سے پہلے ان کا ایک نو جوان بیٹا محمد احمد جو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں پڑھتا تھا مرض سل میں مبتلا ہو کر خدا کو پیارا ہوا.اس کے چند سال بعد ان کے خاوند بزرگوار مرزا محمد شفیع صاحب مرحوم جنہیں اپنے زندگی کے آخری سالوں میں کا رکن صدر انجمن احمد یہ کے طور پر خدمت سلسلہ کی خاص توفیق حاصل ہوئی ، ان کی غیر حاضری میں دتی کے ہسپتال میں لمبی بیماری کاٹ کر فوت ہوئے.اور منور مرحوم کی والدہ صاحبہ کو اپنے نیک اور دیر بینہ رفیق کی آخری خدمت کا موقع نہیں مل سکا.اس کے بعد ان کے داماد اور ہمارے ماموں حضرت میر محمد اسماعیل صاحب علیہ الرحمت کی وفات کا صدمہ پیش آیا جو جماعتی لحاظ سے بھی ایک بہت بھاری صدمہ تھا کیونکہ : کم بزاید مادرے با این صفا در یتیم

Page 369

۳۵۷ مضامین بشیر اس کے بعد فسادات کے نقصان کے علاوہ جو کم و بیش سب کے لئے برابر تھا، ان کے بڑے لڑکے مرزا احمد شفیع بی.اے مرحوم نے قادیان میں ہند و پولیس کے ہاتھوں جام شہادت پیا اور اب ہے.بالآخر امریکہ سے یہ تار آئی ہے کہ ان کا چھوٹا اور آخری لڑکا بھی سفر آخرت پر روانہ ہو گیا.دنیا میں صدمے آتے ہیں اور بڑے بڑے صدمے بھی آتے ہیں مگر ایسا صدمہ غالباً بہت کم گذرا ہوگا کہ ایک ضعیف العمر عورت نے سب سے پہلے اپنا بڑا لڑکا کھویا ( یا شاید پایا کیونکہ اگر وہی ان کے لئے فرط بن جائے تو کھونے کی نسبت پایا کا لفظ زیادہ صحیح رہے گا ) اس کے بعد اس کی عدم موجودگی میں اس کا عمر بھر کا نیک اور نہایت وفا دار رفیق اس جہان سے رخصت ہوا.اس کے بعد اس نے ایک ایسے داماد کا صدمہ دیکھا جس کی نیکی اور سعادت پر آئندہ نسلیں بجا طور پر فخر کریں گی.اس کے بعد وہ لٹ لٹا کر پاکستان پہنچی اس کے بعد اسے یہ اطلاع ملی کہ اس کا دوسرا بیٹا ہند و ظالموں کے ہاتھوں قادیان میں شہید ہو گیا.اور اب بالآخر اس کے کانوں میں یہ آواز پہنچی ہے کہ اس کا تیسرا اور آخری بیٹا بھی امریکہ میں خدا کو پیارا ہوا.یہ کوئی صدمہ سا صدمہ ہے کہ خاوند بھی آنکھوں سے اوجھل فوت ہوا ، بڑا لڑکا بھی آنکھوں سے اوجھل فوت ہوا اور اب چھوٹا لڑکا بھی لاہور سے بارہ ہزار میل پر اپنا آخری سانس لے کر خدا کے حضور پہنچ گیا.گویا وہ دنیا کی جھولی جھاڑ کر بالکل خالی ہو بیٹھی ہیں مگر حق وہی ہے جو خدا نے فرمایا کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ یقیناً یہ بڑی تلخ قاشیں ہیں، جو اس بزرگ خاتون کو خدائی تقدیر کے ہاتھوں آخری عمر میں کھانی پڑیں لیکن اگر وہ خدا کی خاطر ہاں ان نعمتوں کے دینے والے کی خاطر صبر کریں اور خدا کی تقدیر پر راضی ہوں تو پھر انشاء اللہ ان کا اجر بھی بہت بھاری ہوگا.ہما را خدا رحیم ہے بڑا رحیم ہے اور یقیناً اسکی رحمت ہر دوسری چیز پر غالب ہے.اگر وہ ایک ہاتھ سے کوئی چیز لیتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے اس سے بڑھ کر دیتا ہے اور اگر اسکی کسی بار یک دربار یک حکمت سے اس کے کسی بندے کو دُنیا میں کوئی دکھ پہنچتا ہے تو اس کی رحمت اس دکھ سے کئی گنے بڑی رحمت اس کے لئے آخرت میں ریزرو کر لیتی ہے.اور آخرت کی لامحدود زندگی کے مقابل پر دنیا کی چند سالہ زندگی کیا حقیقت رکھتی ہے؟ اور پھر آخرت کی زندگی بھی وہ ہے جہاں سب نیک عزیزوں نے خدا کی ابدی رحمت کے آغوش میں جمع ہو جانا ہے.میں حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی اس بات کو کبھی نہیں بھولا ، اور نہ بھول سکتا ہوں کہ جب ان کا ایک لڑکا محمد فوت ہو گیا اور یہ ان کا اکلوتا لڑکا تھا.جس سے پہلے سب لڑکے فوت ہو چکے تھے اور خود حضرت خلیفہ اول گویا آخری عمر کو پہنچ چکے تھے جس کے بعد مزید اولاد کی بہت کم امید رہ جاتی

Page 370

مضامین بشیر ۳۵۸ ہے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ اس بچہ کی وفات پر مجھے بہت صدمہ ہو ا حتی کہ جب میں اس کے جنازہ کے لئے کھڑا ہوا تو میری طبیعت پر اتنا بوجھ تھا کہ میری زبان سے الحمد للہ کے الفاظ نہیں نکلتے تھے.اور میرا دل کہہ رہا تھا کہ جب میری آئیندہ نسل کا آخری تالاٹوٹ چکا ہے تو پھر میں کس منہ سے خدا کا شکر ادا کروں؟ فرماتے تھے کہ اس پر میں ایک دولحات کے لئے دم بخود ہو کر کھڑا رہا.اور میرے نفس میں متضاد جذبات کی کش مکش ہو رہی تھی لیکن پھر ایک بھاری سیلاب کی طرح میرے دل میں یہ خیالات موجزن ہوئے کہ نورالدین ! تجھ پر خدا نے یہ فضل کیا اور یہ فضل کیا اور یہ فضل کیا اور تجھے دین کے علم و عمل سے سرفراز کیا ، اور بالآخر اپنے پاک مسیح موعود کی شناخت اور قرب کی سعادت عطا کی تو کیا اتنے بھاری انعاموں کے ہوتے ہوئے تو ایک بچہ کے مرنے پر جو وہ بھی خدا ہی کا دیا ہوا تھا خدا کی حمد ادا کرنے سے رُکتا ہے؟ فرماتے تھے کہ اس کے بعد میری زبان سے الحمد للہ کے الفاظ اس زور کے ساتھ نکلے کہ سارے مقتدی چونک گئے.یہ وہ ایمان ہے جو اسلام ہر مومن میں پیدا کرنا چاہتا ہے.کیونکہ حق یہی ہے کہ ہمارے خدا نے ہمیں اتنی میٹھی قاشیں دے رکھی ہیں کہ ہم ایک آدھ یا دو چار تلخ قاشوں کے کھانے پر چیں بجبیں ہوتے یا منہ بناتے اچھے نہیں لگتے.وَاخِرُ دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين - نوٹ :.ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر اسحاق صاحب مرحوم اور بڑے ماموں حضرت میر اسماعیل صاحب مرحوم اور سلسلہ کے بزرگ ترین عالم حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب مرحوم اور سلسلہ کے فرشتہ سیرت بزرگ حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم اور بالآخر ہماری چھوٹی بھا وجہ کے والد محترم اخویم سیّد عزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم کی وفات پر نوٹ لکھنا میرے مدنظر ہے.اور میری یادداشت میں درج ہے مگر ان کی وفات کے ساتھ متصل ہو کر بعض ایسے واقعات پیش آتے رہے اور میرے دل کی کیفیت بھی ایسی رہی کہ میں آج تک کچھ نہیں لکھ سکا.انشاء اللہ بشرط زندگی کبھی لکھونگا ورنہ دل کی یا ددُعا میں تو بہر حال منتقل ہوتی رہے گی.( مطبوعه الفضل ۱۹ ستمبر ۱۹۴۸ء )

Page 371

۳۵۹ مضامین بشیر مرکز پاکستان کا افتتاح ایک غیر ذی زرع وادی میں روح پرور نظارے قادیان سے باہر آنے کے بعد سب سے زیادہ ضروری سوال جو حضرت امیرالمؤمنین خلیفہ المسیح الثانی اید و الله بنصرہ العزیز کے زیر غور تھا وہ مرکز پاکستان کے قیام سے تعلق رکھتا تھا.اس میں شبہ نہیں کہ خلافت کا وجود اپنی ذات میں ایک عظیم الشان مرکز ہے لیکن اس شخصی مرکز کے علاوہ ہر ترقی کرنے والی جماعت اور خصوصاً ہر ایسی جماعت کو ایک جغرافیائی مرکز کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے، جہاں جماعت کے مرکزی ادارے اور جماعت کے مرکزی کارکن اور دیگر افراد جماعت جو مرکز میں رہائش اختیار کرنا چاہیں اکٹھے ہو کر اپنے مخصوص ماحول میں زندگی گزار سکیں.یہ مرکزیت ہمیں لاہور میں حاصل نہیں تھی.کیونکہ ایک تو لاہور میں ہمارے پاس اتنے مکانات نہیں تھے کہ اپنے سب اداروں اور اپنے سب کا رکنوں کو ایک جگہ آباد کر سکیں یا آنے جانے والے مہمانوں کا انتظام کر سکیں اور دوسرے ایک وسیع شہر میں جس میں ہر قسم کے عناصر آباد ہیں اپنا مخصوص ماحول پیدا کرنا مشکل تھا.اس لئے خاص کوشش کے ساتھ ایسی جگہ تلاش کی گئی جو غیر آباد اور بنجر ہو اور گورنمنٹ اسے فروخت کرنے میں تامل نہ محسوس کرے تا کہ ایسا قطعہ اراضی حاصل کر کے وہاں قادیان سے آئے ہوئے اداروں اور کارکنوں اور دیگر افراد جماعت کو ایک بستی کی صورت میں آباد کیا جا سکے.سو الحمد للہ کہ کافی تلاش کے بعد چنیوٹ ضلع جھنگ کے قریب دریائے چناب کے پار ایک ایسا رقبہ مل گیا جو بالکل بنجر اور غیر آباد تھا اور صدیوں سے بنجر اور غیر آباد چلا آتا تھا بلکہ وہ بالکل نا قابل آبادی اور نا قابلِ زراعت سمجھا جاتا تھا.چنانچہ یہ رقبہ جو دس سو چونتیس ایکڑ پر مشتمل ہے ، گورنمنٹ سے خرید لیا گیا.اور گو اس قطعہ کی صورت اور ہئیت جس کا طول بہت زیادہ ہے اور عرض نسبتاً کم اور اس کے اندر سے گذرنے والی ریلوے لائن اور پختہ سڑک اور پہاڑی ٹیلوں کی وجہ سے یہ قطعہ کئی حصوں میں تقسیم شدہ بھی ہے.وہ اچھی آبادی کے زیادہ مناسب نہیں مگر بہر حال جو چیز مل سکی وہ خدا کے شکر کے ساتھ قبول کر لی گئی اور اب اس میں قادیان سے آئے ہوئے پناہ گزینوں اور صدر انجمن احمدیہ کے اداروں کے واسطے بستی آباد کرنے کی تجویز کی جارہی ہے.یہ رقبہ چنیوٹ سے قریباً ۵ میل

Page 372

مضامین بشیر ۳۶۰ پرے واقع ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے لائکپور اور سرگودھا کے عین وسط میں ہے ، یعنی اس سے قریباً ۲۸ میل جنوب مشرق میں لائل پور کا شہر آباد ہے اور قریباً ۲۸ میل شمال مغرب میں سرگودھا کا شہر آباد ہے.اس رقبہ کی زمین بظا ہر ادنیٰ درجے کی ہے جو کچھ شور کا مادہ بھی رکھتی ہے ، مگر خدا چاہے تو اس بنجر اور غیر ذی زرع رقبہ میں مکہ کی پاک زمین کے طفیل جس کے دین کی خدمت کے لئے جماعت احمدیہ اپنی ساری توجہ وقف رکھتی ہے غیر معمولی برکت عطا کر سکتا ہے.وَذَرُ جُوَامِنُهُ خَيْراً..وَنَرْجُوَا.اس آبادی کا اصل افتتاح تو اسوقت ہوگا جبکہ اس آبادی کی سب سے پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جائیگا لیکن حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مناسب خیال کیا کہ پہلے قدم کے طور پر اس رقبہ میں جا کر ایک نماز ادا کی جائے اور خدا کے حضور دعا کی جائے کہ وہ اس نئی قائم ہونے والی آبادی کو اپنے فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں سے نوازے اور اس میں آباد ہونے والے لوگوں کو اسلام کی خدمت کی توفیق عطا کرے اور قیامت تک عطا کرتا چلا جائے.چنانچہ ۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء کو یعنی بروز پیر (دوشنبه) یہ ابتدائی افتتاح وقوع میں آ گیا اور حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے وہاں جا کر ایک بڑے مجمع کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی.اس موقع پر ایک وسیع شامیانہ اور کچھ خیمے نصب کر دیئے گئے تھے اور چنیوٹ اور احمد نگر اور لالیاں اور سرگودھا کے علاوہ کئی دوست لاہور سے بھی اس بابرکت تقریب میں شامل ہونے کے لئے پہنچ گئے تھے.نماز ظہر ڈیڑھ بجے شروع ہوئی جس میں تقریباً اڑھائی سو احباب شریک تھے.اس کے بعد شریک ہونے والے اصحاب کی فہرست تیار کی گئی اور پھر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت درجہ مؤثر اور درد سے بھری ہوئی تقریر کے بعد حاضرین کے ساتھ مل کر لمبی دعا کی.اس دعا کے بعد برکت کے خیال سے پانچ بکرے ذبح کئے گئے ، جن میں سے ایک اس رقبہ کے وسط میں ذبح کیا گیا اور چار چاروں کونوں میں ذبح کئے گئے.وسط والا بکرا خود حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ نے مسنون دعائیہ الفاظ کے ساتھ اپنے ہاتھ سے ذبح کیا.اس کے بعد تھوڑے سے وقفہ سے اسی مقام پر جہاں شامیانہ کے نیچے ظہر کی نماز ادا کی گئی تھی ، عصر کی نماز پڑھی گئی.جس میں کچھ اوپر پانچ سو احباب نے شرکت کی اور بعض مستورات بھی جو اس وقت تک وہاں پہنچ چکی تھیں پردہ کے پیچھے کھڑی ہو کر نماز میں شامل ہوئیں.نماز کے بعد صبح کا کھانا کھایا گیا ، جس کے لئے چنیوٹ کے دوستوں نے انتظام کیا تھا اور پھر چار بجکر چالیس منٹ پر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ لاہور کی طرف واپس روانہ ہو گئے.لاہور سے حضور کی روانگی نو بج کر بیس منٹ پر ہوئی تھی اور لاہور میں واپسی آٹھ بجکر پانچ منٹ پر ہوئی.مرکز پاکستان میں پہنچنے کا وقت ایک بجکر بیس منٹ تھا.سفر کے لئے جو موٹروں میں کیا گیا، لائکپور کا رستہ اختیار کیا

Page 373

۳۶۱ مضامین بشیر گیا کیونکہ شیخو پورہ کے رستہ کا کچھ حصہ زیر آب تھا.عصر کی نماز سے قبل تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس موقعہ پر پانچو کے قریب مردوزن کے اجتماع کے علاوہ ایک موٹر لا ری تھی اور پانچ کاریں اور چوبیس تانگے اور بہتیں سائیکل تھے.اور ایک وسیع شامیانے کے علاوہ چھ عدد خیمے بھی نصب کئے گئے تھے.شامل ہونے والے دوستوں کی فہرست انشاء اللہ صاف کر کے بعد میں شائع کی جائے گی.یہ موقع سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص یادگاری موقع تھا ، جس میں دو قسم کے بظاہر متضا دلیکن حقیقتاً ایک ہی منبع سے تعلق رکھنے والے جذبات کا ہجوم تھا.ایک طرف نئے مرکز کے قیام کی خوشی تھی کہ خدا ہمیں اس کے ذریعہ سے پھر مرکزیت کا ماحول عطا کرے گا اور ہم ایک جگہ اکٹھے ہو کر اپنی تنظیم کے ماحول میں زندگی گزار سکیں گے اور دوسری طرف اس وقت قادیان کی یاد بھی اپنے تلخ ترین احساسات کے ساتھ دلوں میں جوش مار رہی تھی اور نئے مرکز کی خوشی کے ساتھ ساتھ ہر زبان اس ذکر کے ساتھ تازہ اور ہر آنکھ اس دعا کے ساتھ پُر نم تھی کہ خدا ہمیں جلد تر اپنے دائمی اور عالمگیر مرکز میں واپس لے جائے.جیسا کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تقریر میں فرمایا ، اصل مرکز قادیان ہی ہے.اور وہی قیامت تک احمدیت کا مرکز رہے گا لیکن جب تک قادیان کا مرکز واپس نہیں ملتا اس وقت تک یہ نیا مرکز قادیان کا قائمقام ہوگا اور اس کے بعد صرف اپنے علاقہ کا مرکز ہو جائے گا.کیونکہ ظاہر ہے کہ احمدیت کی توسیع کے ساتھ مرکزی مرکز ( یعنی قادیان ) کے علا وہ مختلف ملکوں میں مقامی مرا کز بھی بنائے جانے ضروری ہوں گے.اس غیر معمولی تقریب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے اس برکت سے بھی نوازا کہ قربانیوں کے بعد اور عصر کی نماز سے پہلے ایک نوجوان نے جو ترکستان سے آئے ہوئے تھے، حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح یہ خوش قسمت نوجوان نئے مرکز کا پہلا پھل قرار پا گیا.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر یہ بھی اعلان فرمایا کہ نئے مرکز کا نام ربوہ (Rabwah) تجویز کیا گیا ہے.جس کے معنے بلند مقام یا پہاڑی مقام کے ہیں.یہ نام اس نیک فال کے طور پر تجویز کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس مرکز کو حق و صداقت اور روحانیت کی بلندیوں تک پہنچنے کا ذریعہ بنائے اور وہ خدائی نور کا ایک ایسا بلند مینار ثابت ہو جسے دیکھ کر لوگ اپنے خدا کی طرف راہ پائیں.اس کے علاوہ ظاہری لحاظ سے بھی یہ جگہ ایک ربوہ کا حکم رکھتی ہے کیونکہ وہ اردگرد کے علاقہ اونچی ہے اور اس کے ساتھ بعض چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بھی ہیں.گویا ایک پہلو میں چناب کا دریا ہے جو پانی یعنی ذریعہ حیات کا منظر پیش کرتا ہے ، اور دوسرے پہلو میں بعض پہاڑیاں ہیں جو بلندی کی ނ

Page 374

مضامین بشیر ۳۶۲ علامت کی علمبردار ہیں.ان پہاڑیوں کی ایک شاخ رقبہ کے اندر بھی گھسی ہوئی ہے.اس خیال سے کہ قادیان کے دوست بھی اس موقع پر دعا میں شریک ہو جا ئیں، میں نے انہیں فو ن اور تار کے ذریعہ نماز اور دعا کے وقت کی اطلاع کر دی تھی اور میں یقین کرتا ہوں کہ انشاء اللہ وہ بھی اپنی جگہ انتظام کر کے دعا میں شریک ہوئے ہوں گے.با لآخر سب دوستوں کو خدا سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ احمدیت کے اس نئے مرکز کو جو حقیقتاً ایک وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا جا رہا ہے اپنے خاص فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں سے نوازے اور اسے تو حید اور دنیا کے روحانی اتحاد اور حق وصداقت کا مرکز بنائے اور یہ بھی کہ یہ مرکز ہمارے دائمی مرکز قادیان کی واپسی کو ہمارے لئے آسان کر دے.آمین.یا ارحم الراحمين.وما تو فيقنا الا بالله العظيم - ( مطبوعہ الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۴۸ء)

Page 375

۳۶۳ مضامین بشیر اسلامی ضابطہ جنگ خود پہل نہ کرو مگر ہر وقت تیار رہوا اور لڑائی میں ایک آہنی دیوار کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرو پاکستان کے قیام کے ساتھ ضروری ہو گیا ہے کہ اہل پاکستان کو اس اصولی تعلیم کا علم ہو جو اسلام جنگی تیاری یا میدان کا رزار میں عہدہ برائی کے متعلق دیتا ہے.اس لئے نہیں کہ پاکستان کو کسی جنگی اقدام میں پہل کرنی چاہئے.بلکہ اس لئے کہ اگر کوئی دوسرا ملک پاکستان پر حملہ آور ہو یا ایسے اقدامات کرے جو بالواسطہ حملہ کے مترادف ہوں تو اس صورت میں ہر پاکستانی کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے ظالم دشمن کا مقابلہ کس طرح کیا جائے.یہ مضمون نہایت وسیع ہے.اور اگر اس کے سارے پہلوؤں پر مکمل نظر ڈالنی مقصود ہو تو یقیناً اس کے لئے ایک ضخیم کتاب کا حجم درکار ہوگا لیکن میں اس جگہ صرف چند اصولی باتوں تک اپنے آپ کو محدود رکھنا چاہتا ہوں اور ان باتوں کو بھی حتی الوسع نہایت اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کروں گا.وما توفیقی الا بالله العظیم.مسلمانوں کو جنگی اقدام میں کبھی پہل نہیں کرنی چاہئے سب سے پہلی ہدایت اس معاملہ میں اسلام یہ دیتا ہے کہ تم دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار تو ہر وقت رہو لیکن عملاً پہل کرنے سے ہمیشہ اجتناب کرو.بلکہ دل میں بھی یہ خواہش نہ رکھو کہ دشمن کے ساتھ ہمیں جنگ پیش آئے.ہاں دشمن کی طرف سے پہل کی جائے یا ایسے اقدامات وقوع میں آئیں جو پہل کرنے کے مترادف سمجھے جائیں تو پھر ڈٹ کر مقابلہ کرو اور ہر گز کمزوری نہ دکھاؤ.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لَا تَتَمَنَّوا لفَاءَ الْعَدُوِّ وَاسْتَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ وَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا - یعنی اے مسلمانو ! دشمنوں کے ساتھ لڑنے کی خواہش کبھی نہ کیا کرو اور ہمیشہ خدا سے امن و عافیت

Page 376

مضامین بشیر ۳۶۴ کے خواہاں رہو لیکن جب دشمن کے ساتھ لڑنا پڑے تو پھر خوب ڈٹ کر صبر واستقلال کے ساتھ مقابلہ کرو.اسی اصول کی طرف ذیل کی قرآنی آیت بھی اشارہ کرتی ہے اور یہ وہ آیت ہے جو جہاد کی اجازت کے متعلق سب سے پہلے نازل ہوئی خدا تعالیٰ فرماتا ہے : أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ الله عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ یعنی مسلمانوں کو جن کے خلاف ظالم دشمن نے جنگ کا آغاز کیا ہے مقابلہ کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور یقیناً خدا تعالیٰ اپنے کمزور بندوں کی مدد کی طاقت رکھتا ہے.اس تعلیم میں یہ بھاری حکمت مضمر ہے کہ ایک تو پہل کرنے والا انسان بسا اوقات غلط اندازہ کر کے یا حد اعتدال سے تجاوز کر کے ظالم کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اسلام مسلمانوں کو کسی صورت میں بھی ظالم بنانا نہیں چاہتا.دوسرے پہل کرنے والا عموماً تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے.اور یہ ذہنی کیفیت بھی اسلام میں نہایت درجہ مکر وہ سمجھی گئی ہے.کیونکہ اس سے ایک تو تو کل علی اللہ کا جذبہ کمزور ہو جاتا ہے اور دوسرے گھمنڈ کی صورت پیدا ہو کر انسان بسا اوقات غفلت کا شکار ہو جاتا ہے.پس اسلام نے ہر وقت چوکس اور تیار رہنے کی ہدایت دینے کے با وجو داس بات کو قطعاً پسند نہیں کیا کہ مسلمان دشمن کے ساتھ لڑائی کرنے میں پہل کریں.ضروری ہے کہ مسلمان ہر وقت مقابلہ کے لئے تیار رہیں لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے پہل نہ کرنے کے یہ معنے نہیں کہ مسلمان ستی اور غفلت میں اپنا وقت گزاریں بلکہ انہیں ہر وقت اپنی تنظیم اور ضروری ٹریننگ اور ضروری تیاری کی طرف متوجہ رہنا چاہئے تا کہ ایسا کوئی وقت نہ آئے کہ وہ گویا سوتے ہوئے پکڑے جائیں.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے.وَاعِدُّوا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ اخْيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ.یعنی اے مسلمانو دشمن کے مقابلہ کے لئے اپنی پوری قوت کے ساتھ تیاری رکھو اور اپنی سرحدوں پر حفاظتی چوکیوں کو مضبوط کرو جن میں نقل و حرکت کا بھی پورا سامان موجود رہنا چائیے تا خدا کا دشمن اور تمہارا دشمن تمہاری غفلت اور عدم تیاری کی وجہ سے تمہارے خلاف جرات کرنے کی ہمت نہ پاسکے بلکہ تمہاری تیاری اور چوکسی کو دیکھ کر تم سے خائف رہے.

Page 377

۳۶۵ خود تیار رہو اور دوسروں کو تیار رکھو.سرحدوں کو مضبوط بناؤ اور اسی اصول کی مزید تشریح میں دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے : تف يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 1 مضامین بشیر یعنی اے مسلما نو تم دشمن کے مقابلہ پر کامل صبر و استقلال کا نمونہ دکھاؤ اور نہ صرف خود صبر واستقلال پر قائم رہو.بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی صبر و استقلال پر قائم رکھو اور اپنی سرحدوں کو خوب مضبوط بناؤ اور ہرامر میں خدا اور اس کے بنائے ہوئے اسباب کا سہارا ڈھونڈ و تا کہ تم کامیاب ہوسکو.اس آیت میں جو اصبر و کا لفظ ہے ( یعنی کامل صبر و استقلال پر قائم رہو ) اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ایک با قاعدہ سکیم بنا کر اور پروگرام مرتب کر کے دشمن کے مقابلہ پر استقلال کے ساتھ تیار رہو کیونکہ صبر کے معنے ایک حالت پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے کے ہیں اور اس طرح گویا اس لفظ کے اندر ہی سکیم اور پروگرام کا مفہوم بھی آجاتا ہے کیونکہ جب کوئی بات ہی نہ ہوگی تو صبر و استقلال پر کیا جائے گا.اسی طرح صابِرُوا.کا لفظ ( یعنی دوسروں کو بھی صبر و استقلال کے مقام پر قائم رکھو) اپنے اندر دو مفہوم رکھتا ہے.اوّل یہ مفہوم کہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف خود دشمن کے مقابلہ پر تیار رہے بلکہ اپنے اردگرد کے مسلمانوں کو بھی (خواہ وہ لڑائی کے قابل ہوں یا دوسرے ) ہوشیار اور تیار رکھنے کی کوشش کرے.دوسرے اس لفظ میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کا جنگجو حصہ جو لڑائی کے قابل ہے مقابلہ کے لئے چوکس اور تیار رہنا چاہئے بلکہ مسلمانوں کی آبادی کا وہ حصہ بھی جو اپنی کمزوری کی وجہ سے جنگ میں عملی حصہ نہیں لے سکتا ( مثلاً عورتیں بچے یا بوڑھے مرد وغیرہ ) وہ بھی مقابلہ کے لئے بالواسطہ تیار رہنا چاہئے.آجکل کے جنگی حالات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ کوئی ملک صرف اپنی فوج کے بل بوتے پر لڑ کر کامیاب نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا غیر فوجی حصہ بھی ، بلکہ وہ حصہ بھی جو جنگی خدمت کے قابل نہیں دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہونا چاہئے ، گو یہ علیحدہ امر ہے کہ ان کی تیاری فوجیوں سے مختلف قسم کی ہوگی.یہ وہ حقیقت ہے جسے اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن میں پیش کر کے مسلمانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ صرف یہی کافی نہیں کہ تم اصبروا کے حکم پر عمل کر کے خود صبر و استقلال کے ساتھ مقابلہ کے لئے تیار رہو بلکہ تمہیں صَابِرُوا کے حکم پر بھی عمل کرنا چاہئے.یعنی ملک کی غیر جنگجو آبادی کو بھی دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار رکھنا چاہئے ، گویا مسلمانوں کی عورتیں بھی تیار رہیں اور بچے بھی تیار ہیں اور بوڑھے بھی تیار رہیں تا کہ

Page 378

مضامین بشیر ۳۶۶ مسلمانوں کا جنگجو حصہ یعنی وہ حصہ جو لڑنے کے قابل ہے اس بات کی وجہ سے تسلی پائے کہ اس کے پیچھے غیر جنگجو حصہ بھی اپنے اپنے رنگ میں اور اپنے اپنے میدان میں ہرا حتیاطی تدبیر اور ہر مقابلہ اور ہر قربانی کے لئے تیار بیٹھا ہے.اسی طرح اس آیت کریمہ میں رابطوا کا حکم بھاری حکمت پر مبنی ہے.اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ صرف ملک کے اندورنی حصہ میں ہی تیار رہنا کافی نہیں بلکہ ہر مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کو بھی مضبوط رکھے تا کہ ظالم دشمن کا پہلے قدم پر ہی مقابلہ کیا جاسکے خواہ سرحد پر اور خواہ اگر ضرورت ہو تو دشمن کے علاقہ میں گھس کر.اسی لئے اس لفظ میں عربی محاورہ کے مطابق یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ سرحدوں پر سواریوں کا انتظام بھی ہونا چاہئے کیونکہ سواری ہی نقل و حرکت کو آسان بنانے کا پختہ ذریعہ ہے.بالآخر قرآن شریف نے اتقوا الله کے الفاظ فرمائے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا پر توکل کرو اور خدا کو اپنی ڈھال بناؤ اور عربی محاورہ کے مطابق اللہ کے مفہوم میں خدا اور اس کا بتایا ہوا قانون اور اس کے پیدا کئے ہوئے اسباب سب شامل ہیں.گویا واتقوا الله کے پورے معنی یہ ہیں کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے خدا کے بنائے ہوئے اسباب کو اختیار کر و مگر ساتھ ہی خدا پر اور اس کی نصرت پر بھروسہ رکھو اور اس سے دعائیں کرتے رہو.خلاصہ کلام یہ کہ اس آیت میں پانچ اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.(۱) لڑنے کے قابل آبادی کا ایک باقاعدہ پروگرام اور سکیم کے مطابق دشمن کے مقابلہ کے لئے صبر و استقلال کے ساتھ تیار رہنا یعنی با قاعدہ فوج بھی اور ریز رو حصہ بھی (۲) ملک کی دوسری آبادی یعنی ( عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں ) کو بھی اپنے اپنے میدان اور اپنے اپنے حلقہ کار میں تیار رکھنا (۳) سرحدوں کو پوری طرح مضبوط کرنا (۴) خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے تمام سامانوں کو اپنی تیاری میں استعمال کرنا اور جنگی تیاری کے کسی پہلو کو نظر انداز نہ کرنا اور ( ۵ ) بایں ہمہ اصل بھر وسہ صرف خدا پر رکھنا اور اس کی نصرت کے لئے ہر وقت دست بدعا ر ہنا.یہ سوال کہ غیر جنگی آبادی کی تیاری سے کیا مراد ہے.آجکل کے حالات کے لحاظ سے کوئی مشکل سوال نہیں ہے.اس تعلق میں سب سے اول نمبر پر تو ہمت اور روح یعنی (Morale ) کو بلند رکھنا ضروری ہے.اس کے علاوہ ہوائی حملہ کے بچاؤ کی تدابیر کی ٹرینینگ ، زخمیوں کی نرسنگ ، بعض جنگی سامان کی تیاری میں امداد وغیرہ کئی قسم کے کام ہیں جن میں ملک کا غیر جنگجوحصہ معقول مدد دے سکتا ہے.

Page 379

مضامین بشیر جب لڑائی ہو تو ایک اپنی دیوار کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرو جب مسلمانوں کی طرف سے پہل نہ ہونے کے باوجود دشمن مسلمانوں پر حملہ آور ہو جائے ، یا ایسے جارحانہ اقدامات کا آغاز کر دے جو حملہ کے مترادف سمجھے جائیں، تو پھر مسلمانوں کو خدا کا حکم ہے کہ ایسے دشمن کا اس طرح مقابلہ کرو کہ گویا تم ایک آہنی دیوار ہو جسے کوئی حملہ تو ڑ نہیں سکتا.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے : ۱۰۸ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانُ مُرْصوص یعنی اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے محبت رکھتا ہے جو اس کے راستے میں اس طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی آہنی دیوار ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نہایت مختصر مگر نہایت ٹھوس اور جامع الفاظ میں ہدایت فرماتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ کے وقت مسلمان الگ الگ اینٹ کی صورت میں نظر نہیں آنے چاہئیں بلکہ اس آہنی دیوار کی طرح بن جانے چاہئیں جس کی اینٹوں کو اکٹھا جوڑ کر ان کے رخنوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا گیا ہو.اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے لئے دو باتوں کا ہونا ضروری ہے، جن میں سے ایک انفرادی ہے اور دوسری اجتماعی.انفرادی بات یہ ہے کہ اس کی ہر اینٹ ایسی پختہ اور ایسی صاف اور ایسی مضبوط ہو کہ وہ نہ صرف ہر قسم کا دباؤ برداشت کر سکے.بلکہ ایسا آہنی رنگ اختیار کر لے کہ پچھلے ہوئے سیسہ کے ساتھ مل کر بالکل ایک جان ہو سکے اور اجتماعی بات یہ ہے کہ اس کی اینٹیں سیسے کے گارے یعنی مارٹر (Mortar) کے ذریعہ اپنی انفرادیت کو کھو کر ایک چٹان کی صورت اختیار کر لیں اور ظاہر ہے کہ یہ کیفیت دو باتوں کے ذریعہ پیدا ہو سکتی ہے اور یہی دو باتیں وہ گا را یعنی مارٹر ہیں جن کی طرف قرآن شریف نے مرصوص ( سیسہ پلائی ہوئی ) کے الفاظ میں اشارہ کیا ہے اور وہ دو باتیں یہ ہیں (۱) باہمی تعاون و محبت اور ایک دوسرے کے لئے قربانی اور (۲) افسروں کی کامل فرما نبرداری.ان دو چیزوں کے ساتھ ساتھ جو گویا اینٹوں کے لئے گارے یعنی مارٹر کا حکم رکھتی ہیں ، اگر کسی دیوار کو اینٹ بھی اچھی میسر آ جائے یعنی اس کے سپاہی انفرادی لحاظ سے بھی اعلیٰ صفات رکھتے ہوں تو پھر یقینا اس قسم کے مادے سے تیار شدہ دیوار ایک بُنْيَانٌ مَّرُ صُوصٌ ہوگی جسے دنیا کی کوئی طاقت تو ڑ نہیں سکتی.

Page 380

مضامین بشیر ۳۶۸ میدان جنگ سے بھاگنا منع ہے سوائے اسکے کہ جنگی تدبیر کے طور پر کوئی نقل وحرکت کی جائے: اس کے بعد قرآن شریف یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب مسلمان چوکس و ہوشیار بھی ہوں اور جنگی سامانوں سے آراستہ بھی رہیں اور سرحدوں کو مضبوط بھی کر لیں اور بُنیان مرصوص بھی بن جائیں اور خدا سے دست بدعا بھی رہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ میدان جنگ میں پیٹھ دکھانے کا موقع آئے بلکہ میدان میں پیٹھ دکھانا وہ چیز ہے جسے اسلام بڑی سختی کے ساتھ نا جائز قرار دیتا ہے.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَةٌ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَذٍ دُبُرَةً إِلَّا مُتَحَرْفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيْرًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللهِ وَمَاونَهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ یعنی اے مومنو جب تم لشکر کی صورت میں کافروں کے سامنے آؤ تو پھر کسی حال میں بھی انہیں پیٹھ نہ دکھایا کرو اور جو شخص ایسے وقت میں پیٹھ دکھائے گا سوائے اسکے کہ وہ کسی جنگی تدبیر کے لئے ادھر اُدھر ہٹنے کا طریق اختیار کرے یا مومنوں کی کسی دوسری پارٹی کے ساتھ ملاپ کر کے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہے تو وہ خدا کے غضب کو اپنے سر پر لے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے اور یہ بہت برا ٹھکانہ ہے.ر بے شک یہ آیت دینی جنگوں کے لئے ہے لیکن اس میں وہ دائی اصول بیان کیا گیا ہے جسے ایک مجاہد مومن کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہیئے.یہ اصول یہ ہے کہ جب ایک دفعہ ایک مومن کسی کافر کے مقابلہ پر آ جائے تو پھر اس کے لئے پیٹھ دکھانے کا سوال ختم ہو جاتا ہے اور اس صورت میں ایک سچے مومن کا یہی فرض رہ جاتا ہے کہ یا تو لڑے اور فتح پائے اور یا لڑے اور جان دیدے.ہاں بے شک دو صورتیں یہ ایسی ہیں کہ جن میں مومنوں کی پارٹی اگر ضروری خیال کرے تو دشمن کے سامنے سے وقتی طور پر ہٹنے کا طریق اختیار کر سکتی ہے.بھاگنے کے لئے ہر گز نہیں بلکہ صرف جنگی تدبیر کے طور پر.یہ دو صورتیں ہیں (اول) یہ کہ جنگی تدبیر کے طور پر کسی مومن پارٹی کو اپنی جگہ بدلنی پڑے اور وہ یہ سمجھے کہ اس کے واسطے لڑنے کا یہ مقام اچھا نہیں بلکہ وہ مقام اچھا ہے اور (دوسرے ) یہ کہ اس کے اپنے ساتھیوں کی کوئی اور پارٹی کسی قریب یا دور کے مقام پر موجود ہو اور وہ سارے حالات کو دیکھ کر اور

Page 381

۳۶۹ مضامین بشیر کا میابی کو زیادہ پختہ بنانے کے لئے یہ فیصلہ کرے کہ مجھے دوسری پارٹی کے ساتھ ملاپ کر کے دشمن سے ٹکر لینی چاہیے.ان دو صورتوں کے سوا جو دراصل دونوں جنگی تدبیر کا حصہ ہیں اسلام کی لغت میں دشمن کے سامنے بھی بھاگنے کے لئے کوئی لفظ موجود نہیں.لڑائی میں مومنوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے مگر ان کے نقصان میں بھی ان کی فتح ہے: اسلام مسلمانوں کو ہرگز یہ جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہتا کہ وہ ہر جز وی مقابلہ میں بھی لا ز ما فتح پائیں گے.ہاں وہ یہ ضرور فرماتا ہے کہ اگر تمہاری جنگ حق و صداقت پر قائم ہے تو تم انجام کا رضرور فتح پاؤ گے لیکن تمہیں اس بات کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ شاید درمیانی لڑائیوں میں تمہیں بھی کچھ نقصان پہنچے یا عارضی طور پر شکست کی صورت پیدا ہو جائے لیکن ایسے عارضی نقصانوں پر یا مال وجان کے درمیانی نقصان پر ہرگز گھبراؤ نہیں اور مایوسی کی طرف نہ جھکو بلکہ یا درکھو کہ عاقبت تمہاری ہے اور تم میں سے مرنے والے شہادت کا درجہ پاتے ہیں.چنانچہ قرآن شریف میں فرماتا ہے : اِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُوْنَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُوْنَ كَمَا تَأْلَمُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًان یعنی اے مسلمانو! اگر جنگ میں کبھی تمہیں کوئی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے تو اس سے گھبراؤ نہیں کیونکہ جس طرح تمہیں تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ، اس طرح بلکہ اس سے بڑھ کر کا فروں کو بھی تکلیف پہنچتی اور ان کا بھی نقصان ہوتا ہے لیکن تم خدا سے اس بات کی امید رکھتے ہو جو کا فر ہرگز نہیں رکھتے.اس آیت میں اشارہ یہ ہے اگر مسلمانوں کو کبھی لڑائی میں کوئی مالی یا جانی نقصان ہوتا ہے تو ایسا نقصان کفار کا بھی ہوتا ہے اور اگر نقصان کے فرق کو نظر انداز بھی کیا جائے تو بہر حال اس پہلو سے دونوں برابر ہیں لیکن مسلمانوں کو یہ بھاری امتیاز حاصل ہے کہ وہ خدا سے اس بات کی امید رکھتے ہیں جس کی کا فرلوگ ہر گز امید نہیں رکھتے اور نہ رکھ سکتے ہیں.یہ امید کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب دو طرح دیا جاسکتا ہے اول یہ کہ درمیانی تکلیفوں اور درمیانی نقصانوں کے باوجود مسلمان یہ امید رکھتا ہے کہ آخری فتح بہر حال اسی کی ہوگی کیونکہ خدا کا یہ ازلی حکم جاری ہو چکا ہے کہ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِین انجام ہر حال میں متقیوں کا ہے.دوسرے یہ کہ جو مسلمان لڑائی میں مارا جاتا ہے ، وہ یہ امید بلکہ یقین رکھتا ہے کہ میں خدا کے رستہ میں شہید ہوا ہوں اور آخرت میں ان تمام انعاموں کا وارث بنوں گا جو شہیدوں کے لئے مقدر ہیں مگر ایک کا فراس نیک انجام کی امید نہیں رکھتا اور نہیں رکھ سکتا.پس غور سے سے دیکھا -

Page 382

مضامین بشیر ٣٧٠ جائے تو درمیانی شکستوں میں بھی مسلمانوں کے لئے فتح مقدر ہے کیونکہ یا تو وہ فتح پاتے ہیں اور یا شہادت پا کر خدا کے اُخروی انعاموں کے وارث بن جاتے ہیں.یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف ذیل کے قرآنی الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ : قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ یعنی اے رسول تو ان کافروں سے کہہ دے کہ تمہاری خواہش ہمارے متعلق خواہ کچھ ہو دو انعاموں میں سے ایک انعام بہر حال ہمارے لئے مقدر ہے یعنی یا تو ہم فتح پائیں گے اور یا شہید ہو کر خدا کے انعاموں کے وارث بنیں گے مگر تم خود سوچ لو کہ شکست کی صورت میں تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں.یہ وہ بھاری نفسیاتی نکتہ ہے جو ایک مسلمان مجاہد کی ہمت کو اتنا بلند کر دیتا ہے کہ کوئی کا فراس بلندی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا اور ضروری ہے کہ تمام اسلامی جنگوں میں یہ نکتہ ہر مرد مجاہد کی آنکھوں کے سامنے رہے اور اس کا دل اس یقین سے معمور ہو کہ خواہ میں زندہ رہوں یا مروں بہر حال میں فتح یاب ہوں.یہ ایمان انسان کے اندر ایک ایسی روحانی قوت بھر دیتا ہے کہ کوئی دنیا کی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.سچا مسلمان اپنے سے دس گنی طاقت پر غالب آتا ہے کیونکہ وہ جنگ کی غرض وغایت کو سمجھتا ہے: اس کے بعد قرآن شریف اس نکتہ کو لیتا ہے کہ ہر مجاہد مسلمان کو جنگ کی غرض و غایت کا پورا علم ہونا چاہئے اور اسے معلوم ہونا چاہئے کہ پیش آمدہ جنگ اس کے دین اور اس کی دنیا اور اس کے حال اور اس کے مستقبل اور اس کی ذات اور اس کی قوم پر کیا اثر رکھتی ہے.یونہی اندھوں کی طرح کسی جنگ کی غرض وغایت اور اس کے امکانی نتائج کو جاننے اور سمجھنے کے بغیر میدان جنگ میں کود جانا ہرگز اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا.پس ضروری ہے کہ لڑنے والا ہر سپاہی اور ہر افسر بلکہ ملکی آبادی کا ہر فرد ہر پیش آنے والی جنگ کی غرض و غایت اور اس کے انفرادی اور اجتماعی نتائج کو اچھی طرح سمجھتا ہو کیونکہ اس بات کے سمجھ لینے کے ساتھ اس کے دل و دماغ کے اندر وہ طاقت اور وہ روشنی پیدا ہوتی ہے جو کسی اور ذریعہ سے پیدا نہیں ہوسکتی اور ایسا تفقہ رکھنے والا ایک مسلمان دس کا فروں پر غالب آ سکتا ہے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ اگر وہ سچا مومن ہوگا اور جنگ کی فقہ کو سمجھے گا تو وہ ضرور دس گنے طاقت پر

Page 383

غالب آئے گا.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ: ۳۷۱ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صُبِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنُ مضامین بشیر مِنْكُمْ مِائَةٌ تَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَO یعنی اے مومنو اگر تم میں ہیں آدمی صبر و استقلال کے مقام پر قائم رہنے والے مجاہد ہوں تو وہ دوسو کافروں پر غالب آئیں گے اور اگر ایک سوصا بر مجاہد ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آئیں گے کیونکہ کا فراپنی جنگ کی دینی اور دنیوی فقہ کو نہیں سمجھتا اور تم سمجھتے ہو“.اس آیت میں قرآن شریف اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ جنگ کی غرض وغایت اور اس کے امکانی نتائج کو سمجھنے والی قوم وہ روحانی طاقت حاصل کر لیتی ہے جو دوسروں کو ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی بشر طیکہ وہ صبر و استقلال کے مقام پر قائم رہے اور اپنا سیکھا ہوا سبق نہ بھلا دے.یہ وہ عظیم الشان نکتہ ہے کہ اگر مسلمان اس پر قائم ہو جائیں یعنی اول سچے مومن بن جائیں دوم صبر واستقلال کے مقام پر قائم ہو جائیں اور سوم پیش آمدہ جنگ کی دینی اور دنیوی فقہ کو سمجھیں اور اس سمجھ کو اپنے لئے مشعل راہ بنا ئیں تو اس میں ہر گز کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ان کے ہیں مجاہد دوسو کافروں پر غالب آ سکتے ہیں اور سو مجاہد ہزار کا فروں کو نیچا دکھا سکتے ہیں بلکہ صحابہ رضوان اللہ علہیم کی تاریخ میں تو اس سے بھی بڑھ کر روحانی طاقت کی مثالیں نظر آتی ہیں.پس ضروری ہے کہ ملک کا ہر فرد ہر پیش آمدہ جنگ کی غرض و غایت سے واقف ہوا اور اس کے تمام امکانی نتائج کو سمجھتا اور جانتا ہو اور یہ تفقہ پیدا کرنا حکومت اور پریس اور پبلک اداروں کا کام ہے.صلح کی طرف جھکنے والے دشمن کے صلح کے ہاتھ کو رد نہ کرو اسلام چونکہ ایک روحانی مذہب ہے اور اس کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ اسلام کی تبلیغ ہے جس سے اس کو کسی صورت میں غافل نہیں رہنا چاہئے.اس لئے جنگی ضابطہ کی تعلیم دیتے ہوئے اسلام یہ ہدایت بھی فرماتا ہے کہ اگر دشمن کسی وقت اپنی کمزوری محسوس کر کے تمہاری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے تو اس ہاتھ کو رد نہ کرو بلکہ اس کی صلح کی پیش کش کو قبول کر لو اور جنگ کے ظاہری مستقبل کو خدا پر چھوڑ دو چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے : وَإِنْ جَنَحُوْ الِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللهِ -

Page 384

مضامین بشیر ۳۷۲ د یعنی اگر جنگ کے دوران میں کسی وقت کا فرصلح کے لئے جھکیں تو اے نبی تم ان کے صلح کے ہاتھ کو قبول کرو اور خدا پر توکل کرو“.ย یہ ہدایت بھی ایک نہایت ضروری ہدایت ہے کیوں کہ اسلام ایک روحانی اور تبلیغی مذہب ہے اور اگر ایسے مذہب کے پیرو دشمن کی صلح کی پیش کش کو قبول نہ کریں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ تبلیغ کے مواقع کو جنگ کی ظاہری اور مادی شان و شوکت پر قربان کرتے ہیں.ظاہر ہے کہ جو قوم صلح کے لئے جھکتی ہے وہ اپنے ہاتھ سے خود ہمارے لئے پر امن تبلیغ کا رستہ کھولتی ہے اور اس دروازے کو بند کرنا تبلیغ کے دروازے کو بند کرنے کے مترادف ہے.حالانکہ تبلیغ کی لڑائی یقیناً تلوار کی لڑائی سے زیادہ اہم اور زیادہ ضروری ہے.ظاہر ہے کہ جہاد تلوار کا بھی ہو سکتا ہے اور تبلیغ کا بھی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ تبلیغ کا جہاد تلوار کے جہاد سے زیادہ افضل ہے کیونکہ وہ لوگوں کے مسلمان ہونے کا رستہ کھولتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ حضرت اسامہ بن زید ایک لڑائی میں ایک مشرک کے مقابل پر آئے اور اس مشرک نے جب اپنے سر پر تلوار گرتی دیکھی تو اپنے آپ کو بے بس پا کر کلمہ شہادت پڑھ دیا.مگر اسامہ نے اس کی نیت کو مشکوک سمجھتے ہوئے اسے پھر بھی تلوار کی گھاٹ اتار دیا تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور جب اسامہ نے یہ عذر پیش کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ڈر کی وجہ سے کلمہ پڑھتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی اور بھی زیادہ ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ فرمایا کہ هَلْ شَفَقْتَ عَنْ قَلِبَهِ یعنی اے اسامہ کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا کہ وہ منافقت کے رنگ میں کلمہ پڑھ رہا ہے.اسامہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنے ناراض ہوئے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا اور اس کے بعد اسلام لا تا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی.پس کم از کم دینی لڑائیوں میں یہ ضروری ہے کہ اگر دشمن کی طرف سے صلح کی پیشکش ہو اور وہ معاندانہ کارروائی کو ترک کر دے تو پھر خواہ ظاہری نتیجہ کچھ ہو ، مسلمانوں کو اس صلح کی پیشکش کو قبول کرنا چاہئے.۱۱۴ اگر دشمن پر غلبہ حاصل ہو تو ہر حال میں ظلم سے اجتناب کرو اسلام کی آخری تعلیم جو میں اپنے اس مختصر مضمون میں پیش کرنا چاہتا ہوں ، اس بات سے تعلق رکھتی ہے کہ اسلام کسی صورت میں بھی ظلم کو جائز نہیں سمجھتا اور مغلوب دشمن کے حقوق کی بھی حفاظت فرماتا ہے اور اس بات کی تاکیدی ہدایت دیتا ہے کہ ہر قسم کے ظلم سے پر ہیز کرو.یعنی عورتوں کو قتل نہ

Page 385

۳۷۳ مضامین بشیر کرو، بچوں کو نہ مارو، بوڑھے لوگوں پر وار نہ کرو اور مذہب کے لئے زندگیاں وقف رکھنے والے لوگوں کو اپنا نشانہ نہ بناؤ.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ لاتقتلوا وليداً ولا امرأةً ولا شيخافا نيا ولا تقتلوا اصحاب الصوامع ۱۱۵ یعنی بچوں کو قتل نہ کرو اور نہ ہی عورتوں پر ہاتھ اٹھاؤ اور نہ ہی بوڑھے لوگوں کو نشانہ بناؤ اور نہ ہی مذہبی عبادت گاہوں کے لوگوں کو قتل کرو.اس اصولی ہدایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتح مسلمانوں کے لئے ایک ایسی بر یک مہیا فرما دی ہے کہ ان کے غلبے اور فتح کا انجمن خواہ کتنے ہی زوروں پر ہو وہ کبھی بھی ظلم کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا سکتے.اس ہدایت کے ماتحت دشمن کا ہر بچہ اور دشمن کی ہر عورت اور دشمن کا ہر بوڑھا اور دشمن قوم کا ہر وہ شخص جو اپنی زندگی خالص مذہبی خدمت کے لئے وقف رکھتا ہے، محفوظ کر دیا گیا ہے اور ہر مسلمان اپنے جوش کی حالت میں بھی جب کہ فتح کا خما را اکثر دماغوں کو ماؤف کر دیتا ہے اس ہدایت کا پابند قرار دیا گیا ہے کہ کمزور اور مذہبی لوگوں سے اپنے ہاتھ کو روک کر رکھے.اسی طرح ایک دوسری حدیث میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی محفوظ قرار دیا گیا ہے.چنانچہ روایت آتی ہے کہ حضرت ابوبکر خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی فوجی دستہ روانہ فرماتے تو اس کے امیر کو یہ نصیحت فرماتے تھے کہ : الذين زعموا انهم جَسَوُا انفسهم لله فذرهم وما زعموا انهم جَسَوُا انفسهم له یعنی جن لوگوں نے اپنے خیال کے مطابق اپنے آپ کو خدا کی عبادت اور اللہ کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے.ان پر کسی صورت میں بھی ہاتھ نہ اٹھاؤ اور اسی طرح وہ عبادت گاہیں یا وہ چیز میں جن کو وہ مقدس سمجھتے ہیں انہیں بھی ہر گز نقصان نہ پہنچاؤ.یہ وہ اسلامی ضابطہ جنگ ہے جو مسلمانوں کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے اور اس سارے ضابطے کا خلاصہ یہ ہے کہ (۱) پہل نہ کرو (۲) دشمن کے مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہو (۳) تمام ان تدبیروں اور سامانوں کو اختیار کرو جو خدائی قانون کے ماتحت کامیابی کے لئے ضروری ہیں.(۴) ایک باقاعدہ پروگرام کے مطابق صبر و استقلال کے ساتھ کام کرو ( ۵ ) سرحدوں کو مضبوط بناؤ ( ۶ ) اگر لڑائی پیش آئے تو ایک اپنی دیوار کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرو ( ۷ ) میدان جنگ سے کسی صورت میں نہ بھا گو ( ۸ ) درمیانی تکلیفوں سے نہ گھبراؤ اور یقین رکھو کہ عاقبت بہر حال تمہاری ہے.

Page 386

مضامین بشیر ۳۷۴ (۹) جنگ کی غرض و غایت اور اسکے امکانی نتائج کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو.(۱۰) اگر دشمن صلح کی طرف جھکے تو اس کے صلح کے ہاتھ کو رد نہ کرو (۱۱) غلبہ کی صورت میں انسانیت کے کمزور طبقے اور مختلف قوموں کی مقدس چیزوں کی حفاظت کرو اور (۱۲) بہر حال خدا کے فضل و رحم پر بھروسہ رکھو اور اس کی نصرت کے طالب رہو.یہ وہ بارہ زریں ہدائتیں ہیں جو جنگی امور کے متعلق اسلام ہمیں دیتا ہے اور اس کے مقابل پر اس بات کی ذمہ داری لیتا ہے کہ اگر مسلمان ان ہدایتوں پر عمل کریں تو درمیانی جزوی نقصانات کو چھوڑ کر جو خود قومی ترقی اور قومی تربیت کے لئے ضروری ہوتے ہیں، آخری فتح بہر حال مسلمانوں کی ہوگی اور دشمن یقیناً ان کے مقابلہ میں مغلوب و مقہور ہوگا اور یہ کوئی موہوم چیز نہیں ہے بلکہ یہ وہ نظارہ ہے جو دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے زمانہ میں دیکھ چکی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر مسلمان خدا کے دامن سے وابستہ رہیں تو آج بھی وہ یہ نظارہ نہ دیکھیں.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ( مطبوعه الفضل ۲۳ رستمبر ۱۹۴۸ء)

Page 387

۳۷۵ فن تعمیر کے ماہر صاحبان توجہ فرمائیں مرکز پاکستان کے لئے ضروری مشورہ مضامین بشیر اس وقت مرکز پاکستان کی آبادی کا سوال زیر غور ہے اور حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا منشاء ہے کہ یہ کام بلا توقف شروع ہو کر جلد سے جلد تکمیل کو پہنچ جائے.اس نئی بستی میں جو ایک وادی غیر ذی زرع میں آباد ہورہی ہے مختلف قسم کے مکانات تعمیر کئے جائیں گے.یعنی پرائیویٹ مکانات بھی اور پبلک عمارتیں بھی.اسی طرح جو مکانات بنیں گے ان میں بعض کچے ہوں گے اور بعض نیم کچے اور نیم پکے ہوں گے اور بعض پکے ہوں گے.گو ہر صورت میں کوشش یہ کی جائے گی کہ کم سے کم خرچ ہو.جس رقبہ میں یہ بستی جس کا نام حضرت صاحب نے ربوہ تجویز کیا ہے آباد ہوگی اس کی مٹی ریت کی آمیزش رکھتی ہے اور اس میں کسی قدر شور کا مادہ بھی ہے.اس کے پہلو میں بہت چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں.جن سے گورنمنٹ کی اجازت کے ساتھ پتھر اور کنکر لیا جا سکے گا.دریا کا فاصلہ قریباً دو میل ہے.جہاں سے اغلباً ریت مل سکے گی.بارش اس علاقہ میں بہت کم ہوتی ہے.لیکن بعض اوقات شاذ کے طور پر زور کی بارش بھی ہو جاتی ہے.علاقہ نشیبی نہیں بلکہ اردگرد کی زمینوں سے اونچا ہے.قریب کے شہر چنیوٹ اور لالیاں ہیں اور کسی قدر دور کے شہر چک جھمرہ، لائکپور اور سرگودہا ہیں.دیمک غالباً اس علاقہ میں ہوگی.کیونکہ چنیوٹ کی بیرونی آبادی میں دیمک پائی جاتی ہے.زمین کے اندر کے پانی کا فاصلہ سطح زمین سے قریباً چالیس پچاس فٹ ہے.درخت اس علاقہ میں عموماً ببول یعنی کیکر ہوتا ہے.اوپر کے کوائف کو مدنظر رکھتے ہوئے جو دوست فن تعمیر کے ماہر ہوں وہ ذیل کے امور کے متعلق اپنا مشورہ بھجوا کر عنداللہ ماجور ہوں.(۱) ہر سہ قسم کے مکانات ( یعنی کچے اور کچے پکے اور پکے ) کی تعمیر کے لئے کس قسم کا میٹریل دیواروں ، فرشوں ، دروازوں ، کھڑکیوں اور چھت وغیرہ کے لئے موزوں اور مناسب ہوگا.جو کم خرچ بھی ہو اور بالانشین بھی.فضول زیبائش کا کوئی سوال نہیں.البتہ عمارت دیر پا اور واجبی آرام

Page 388

مضامین بشیر مہیا کرنے والی ہو اور صحت کا خیال رکھا جائے.(۲) مکانوں کا ڈیزائن کیا مناسب ہوگا.جس میں مضبوطی اور اصول صحت کو ملحوظ رکھا گیا ہومگر بلا وجہ ضیاع کی صورت نہ ہو اور سادگی کا پہلو بہر حال مقدم رہے.(۳) کیا کوئی جدید طریق عمارت ایسا ہے جو ستا بھی ہوا ور مضبوط بھی اور آرام دہ بھی.(۴) پرائیویٹ گھروں کا نقشہ کیا مناسب ہوگا ؟ خیال رہے کہ عموماً ہمیں تین قسم کی عمارتیں مدنظر ہیں.ایک ایسا چھوٹا گھر جس میں صرف ایک کمرہ اور صحن وغیرہ ہو.دوسرے ایسا مکان جس میں دور ہائشی کمرے اور ایک غسل خانہ اور ایک باورچی خانہ اور ایک ٹی ہو اور تیسرے چار ر ہائشی کمروں اور دیگر لوازمات والا مکان.ہر صورت میں کفایت کے پہلو کو مقدم رکھا جائے اور فضول زیبائش بالکل خارج از سوال.( مطبوعه الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۴۸ء)

Page 389

۳۷۷ مرکز پاکستان کے لئے پیشہ وروں کی ضرورت مضامین بشیر جیسا کہ احباب کو معلوم ہو چکا ہے مرکز پاکستان کے لئے جو فی الحال قادیان کا بھی قائم مقام ہوگا اور خود حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس میں رہائش اختیار فرمائیں گے.چنیوٹ کے پاس ایک وسیع رقبہ حاصل کر لیا گیا ہے.اور اس رقبہ میں عنقریب آبادی کا کام شروع ہونے والا ہے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا یہ ارادہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو یہ آبادی جلد تر شروع کر دی جائے.تاکہ حضور اور حضور کے ساتھ کے رفقاء اور کا رکن مرکز کی صورت میں ایک جگہ بیٹھ کر سلسلہ کا کام سرانجام دے سکیں.اس آبادی کے لئے جس کا ایک نماز اور دعا کے ذریعہ ابتدائی افتتاح بھی ہو چکا ہے مختلف قسم کے پیشہ وروں کی ضرورت ہے اور پیشہ ور ہر دو قسم کے درکار ہیں.یعنی وہ بھی جو عمارتی کام سے تعلق رکھتے ہیں.مثلاً راج.اور ترکھان اور لوہار وغیرہ اور وہ بھی جو ایک آباد شدہ بستی کے لئے درکار ہوتے ہیں.یعنی درزی اور دھوبی اور نائی اور قصاب اور موچی وغیرہ.پس ایسے جملہ پیشہ ور ا حباب کو چاہئے کہ فوراً اپنی اپنی درخواستیں سیکرٹری یا صدر تعمیر کمیٹی مرکز پاکستان جو دھامل بلڈنگ ، جو دھامل روڈ لاہور کے نام بھجوا دیں.اور درخواست میں یہ صراحت کر دیں کہ وہ کس پیشہ کا تجربہ رکھتے ہیں.اور آیا وہ قادیان میں بھی یہ کام کر چکے ہیں یا نہیں.دکان کے لئے کمرہ یا خیمہ واجبی کرایہ پر مہیا کیا جائے گا.اور حسب حالات رہائش کے لئے بھی انتظام کیا جائے گا.دوستوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ایک خاص خدمت کا موقع ہے.جس میں وہ ہم خرما و ہم ثواب کے مستحق ہونگے اور ان کی خدمت تاریخ احمدیت میں یادگار رہے گی.( مطبوعه الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۴۸ء)

Page 390

مضامین بشیر ۳۷۸ قادیان میں میرے ذریعہ روپیہ لینے والے دوست توجہ کریں تنگ دست قرض خواہوں کا حق بہر حال مقدم ہے اس سے پہلے میں کئی دفعہ ان عزیزوں اور دوستوں کو توجہ دلا چکا ہوں.جنہوں نے اپنے کاروبار وغیرہ کے لئے میرے ذریعہ مختلف احباب سے قادیان میں روپیہ لیا تھا.اور اس کے مقابل پر رہن وغیرہ کی صورت لکھ دی تھی.اب جبکہ ان کے حالات خدا کے فضل سے بہتر ہورہے ہیں اور مصائب کے ابتدائی دھکہ کا اثر کافی حد تک دور ہو چکا ہے تو انہیں اپنے ذمہ کی رقوم واپس کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ ایک دو خوشکن مثالوں کو چھوڑ کر باقی کسی شخص نے اس اہم فرض کی طرف توجہ نہیں دی.حالانکہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بعض روپیہ دینے والے دوست اس وقت ایسی تنگی کی حالت میں ہیں کہ انہیں دیکھ کر رحم آتا ہے.اور بعض کی حالت تو قریباً فاقہ کشی تک پہنچی ہوئی ہے.اور ان کے مقابل پر کئی روپیہ لینے والوں کی حالت کافی حد تک سنبھل چکی ہے.کیونکہ ان میں سے اکثر نے قادیان کے ضائع شدہ کارخانوں اور دوکانوں کے مقابلہ پر پاکستان میں کارخانے اور دوکانیں الاٹ کرالی ہیں اور بہر حال وہ کسی نہ کسی طرح اپنے اہل وعیال کا گزارہ چلا رہے ہیں.پس ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے تنگ دست قارضوں کا روپیہ ادا کر یں.میں یہ نہیں کہتا کہ بہر صورت سارا روپیہ یکمشت ادا کیا جائے.کیونکہ کئی دوست اس کے متحمل نہیں ہو سکتے.اور اسلام تکلیف والا یطاق کا حکم نہیں دیتا.مگر کوئی وجہ نہیں کہ جزوی اور بالاقساط ادا ئیگی میں کوئی روک ہو.حق یہ ہے کہ اگر کوئی مقروض دو لقمے کھاتا ہے اور اس کا قرض خواہ ایک لقمہ سے بھی محروم ہے.اور بھوکا مر رہا ہے تو مقروض کا فرض ہے کہ اور نہیں تو کم از کم اپنے دو لقموں میں سے ایک لقمہ کاٹ کر اپنے قرض خواہ کو دے دے اور خود ایک لقمہ پر اکتفا کرے.بلکہ اسے چاہئیے کہ قرض خواہ کو زیادہ دے اور خود صرف قوت لایموت پر گزارہ کرے.یہی اسلامی تعلیم ہے اور یہی انصاف ہے اور یہی اخوت اسلامی کا تقاضا ہے.ایک بات یہ بھی یا درکھنی چاہئیے کہ جن لوگوں نے اپنی کوئی جائداد یا اپنے کارخانے وغیرہ کا کوئی حصہ کسی دوسرے کے پاس قادیان میں رہن رکھا ہوا تھا اور اب انہیں اس رہن شدہ جائداد یا اس

Page 391

مضامین بشیر کارخانہ کے بدلہ میں پاکستان میں کوئی جائداد یا کارخانہ وغیرہ مل گیا ہے.تو دراصل انصافاً ان کا سابقہ رہن بھی اس نئی جائیداد یا کارخانہ کی طرف منتقل شدہ سمجھا جائے گا.اور اس کی آمد میں روپیہ دینے والوں کا بھی حصہ شمار ہوگا.اس کے علاوہ بعض عزیز اور دوست ایسے ہیں کہ بے شک قادیان وغیرہ میں تو ان کی جائداد ضائع گئی ہے.مگر ان کی کچھ جائداد پہلے سے پاکستان میں بھی موجود تھی ایسے لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ پاکستان والی جائداد میں سے اپنے قرض خواہوں کا مطالبہ ادا کریں.الغرض جس جہت سے بھی دیکھا جائے اکثر مقروض صاحبان بھاری ذمہ داری کے نیچے ہیں.اور خصوصاً ایسے قرض خواہوں کے متعلق تو ان کی ذمہ داری (اگر وہ اسے ادا نہ کریں ).میرے خیال میں کبیرہ گناہ تک پہنچ جاتی ہے جو اپنی ساری پونچھی ان مقروض دوستوں کے حوالہ کر بیٹھے تھے اور اب مقروض دوست تو مزے سے بیٹھے کھا رہے ہیں اور قرض خواہ بھو کے مر رہے ہیں..بے شک اسلام نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اگر کوئی مقروض شخص واقعی مجبور اور معذور ہو جائے اور اس کے مقابل پر قارض نسبتاً خوشحال ہو تو مقروض شخص کو حالات کی بہتری تک مہلت ملنی چاہئے اور کوئی عقل مند اس اصول کی معقولیت پر اعتراض نہیں کر سکتا.مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقروض تو اپنے گھر میں مزے سے کھائے پہلے اور قارض بھوکا مرے.اگر نو بت بھوکا مرنے پر آئے گی تو بہر حال مقروض کو پہلے مرنا چاہئے اور قارض کو بعد میں.پس میں ان سب عزیز وں اور دوستوں سے اپیل کرتا ہوں جنہوں نے میری معرفت قادیان میں اپنے کاروبار وغیرہ کے لئے رہن وغیرہ کی صورت میں روپیہ لیا تھا کہ وہ اپنے اپنے ذمہ کی رقوم کی واپسی کی طرف فوری توجہ دیں.اور زیادہ سے زیادہ جتنی توفیق ہو اتنی رقم بلا توقف ادا کر دیں.اور اگر یکمشت کی گنجائش نہ ہو تو قسطیں مقرر کر کے اس کے مطابق ادائیگی کرتے جائیں.تا کہ خدا کے دربار میں ان کا نام بد معاملہ اور نادہنداور ظالم نہ لکھا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کو تو قرض کی واپسی کا اتنا خیال ہوتا تھا کہ آپ ایسے مقروض کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے.جس کی جائیداد اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہوتی تھی اور فرماتے تھے کہ خدا بسا اوقات اپنا حق معاف کر دیتا ہے مگر بندوں کا حق معاف نہیں کرتا تا وقتیکہ بندے خود معاف نہ کریں.خلاصہ کلام یہ کہ :.(۱) ہر وہ شخص جس نے اپنے کاروبار وغیرہ کے لئے کسی بھائی سے قادیان میں روپیہ لیا تھا اور پھر فسادات کی وجہ سے اس کا سب کچھ ضائع چلا گیا.مگر اب اس کے حالات میں کسی قدر بہتری کی صورت پیدا ہو گئی ہے اور وہ اپنا گزارہ کرنے کے قابل ہو گیا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی آمدنی میں

Page 392

مضامین بشیر سے اپنے قرض خواہوں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ نکالے.(۲) اگر کوئی شخص قادیان سے آتے ہوئے نقدی وغیرہ کی صورت میں کچھ مال سے بچا لایا تھا تو اس کا فرض ہے کہ اس مال میں بحصہ رسدی اپنے قرض خواہوں کا بھی حق ادا کرے.(۳) جن لوگوں نے پاکستان میں آکر قادیان کے کارخانوں یا دوکانوں کے مقابلہ پر دوسرے کارخانے یا دوکانیں الاٹ کرائی ہیں.وہ ان کارخانوں وغیرہ کی آمد سے اپنے قرض خواہوں کے قرضے ادا کریں خواہ یکمشت اور خواہ بالاقساط.(۴) جن لوگوں کی کوئی اور جائداد پہلے سے پاکستان میں موجود تھی اور وہ رہن شدہ نہیں ہے وہ اس جائداد میں سے اپنے قرض خواہوں کا حصہ نکالیں.(۵) جن لوگوں نے ایسے اصحاب سے روپیہ لیا ہوا ہے جو اب بالکل تنگ دست اور قلاش ہو چکے اور فاقہ کشی کر رہے ہیں.مگر اس کے مقابل پر یہ لوگ خود کسی نہ کسی طرح اپنا گزارہ چلا رہے ہیں (خواہ نوکری کے ذریعہ یا کوئی کام کر کے یا قرض لے کر ) وہ اپنے ان تنگ دست قرض خواہوں کو بہر حال کچھ نہ کچھ ادا کر میں خواہ اپنے نان جو میں میں سے ہی کوئی ٹکڑا کاٹ کر دینا پڑے کیونکہ کوئی وجہ نہیں کہ مقروض تو کھائے اور قرض خواہ بھوکا مرے.اگر اوپر کی اقسام سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اس اعلان کے بعد بھی اپنے ذمہ کی رقوم کی ادائیگی شروع نہیں کرے گا تو میں یہ بات بلا لحاظ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس صورت میں میں قرض خواہوں کو یہ مشورہ دینے پر مجبور ہوں گا کہ وہ محکمہ قضا کے ذریعہ دادرسی حاصل کریں.اور اس صورت میں یقیناً میری شہادت مقروض صاحبان کے خلاف ہوگی.کاش لوگ سمجھیں کہ لین دین کی صفائی میں کتنی برکت ہے اور بد معالگی بالآخر کتنی لعنتوں کا موجب بن جاتی ہے.فافهم وتد بروما علينا الا البلاغ ( مطبوعه الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۴۸ء)

Page 393

۳۸۱ مضامین بشیر خطوط کا جواب نہ دے سکنے کی معذرت ، دوست انتظار کریں میں چند روز سے بعارضہ در دنقرس و بخار بیمار ہوں پہلے دائیں ہاتھ کے جوڑ میں شدید درد شروع ہوا جس کی وجہ سے کچھ لکھنا تو در کنار دستخط کرنے سے بھی رہ گیا.اس کے بعد دائیں پاؤں کا گھٹنہ بھی مبتلا ہو گیا اور ایک قدم تک اٹھانا مشکل ہو گیا اس حالت میں دوستوں کے بہت سے خط جمع ہو چکے ہیں.جن کا میں جواب نہیں دے سکا.دوست مطمئن رہیں میں انشاء اللہ اچھا ہونے پر ہر خط کا علیحدہ علیحدہ جواب دینے کی کوشش کروں گا.اس دوران میں عزیز منیر احمد سلمہ کے بچہ کی پیدائش پر بھی بہت سے دوستوں کی طرف سے مبارک باد کے تار اور خطوط موصول ہوئے ہیں.ان دوستوں کے خطوط اور تاروں کا بھی انشاء اللہ علیحدہ علیحدہ جواب بھجوانے کی کوشش کروں گا.اللہ انہیں اس خوشی میں حصہ لینے اور دعا کرنے کی جزائے خیر دے.( مطبوعه الفضل ۱۶ / اکتوبر ۱۹۴۸ء)

Page 394

مضامین بشیر ۳۸۲ پھسکے کی عمارت کے متعلق دوست مشورہ دیں آجکل ربوہ یعنی مرکز پاکستان میں مکانوں کی تعمیر کا سوال زیر غور ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ جو مکان تعمیر کئے جائیں وہ کم سے کم خرچ پر تعمیر ہوں اور اس علاقہ کی گرم آب و ہوا کے پیش نظر ٹھنڈے بھی اور حفاظت وغیرہ کے نقطۂ نظر سے حتی الوسع مضبوط اور دیر پا بھی ہوں.اس تعلق میں مجھے ان ایام میں ایک یورپین رسالہ کے مطالعہ کا اتفاق ہوا جس میں مضمون نگار نے پھسکے کی کچی عمارت کی تفصیل دے کر اس کی سفارش کی ہے.پھسکے کی عمارت تو ہندوستان میں بھی کثرت کے ساتھ رائج ہے اور پٹھان اور اوڈ وغیرہ قو میں ، لوگ اس کا کافی تجربہ رکھتے ہیں مگر مضمون نگار نے اس میں دو ایسی باتیں زائد لکھی ہیں جو پہلے میرے تجربہ میں نہیں آئیں ، ایک تو یہ کہ پھسکے کے لئے مٹی تیار کرتے ہوئے اس میں توڑی یا کوئی اور کٹا ہوا گھاس بھی شامل کر لیا جائے (جیسا کہ عموماً پکا گارا بناتے ہوئے شامل کیا جاتا ہے ) اور دوسرے یہ کہ انڈے کے سائز کے پتھر کے ٹکڑے یا بجری بقدر ہیں یا پچیس فیصدی ملا دی جائے.مضمون نگار لکھتا ہے کہ اس میں کسی قسم کی تیار شدہ مٹی سے جو پھسکے کی دیوار بنے گی وہ مضبوط بھی ہوگی اور دیر پا بھی اور ستی بھی اور اس طریق پر تیار شدہ کمرہ ٹھنڈا بھی کافی رہے گا.سوجن دوستوں کو اس قسم کی عمارت کا تجربہ ہو یا اس کے متعلق ویسے ہی کوئی مشورہ دے سکیں تو وہ مجھے مطلع فرمائیں.میں نے سنا ہے کہ جن ایام میں ضلع حصہ میں قحط پڑا تھا ان دنوں گورنمنٹ نے وہاں اس قسم سے ملتے جلتے بعض مکانات تیار کر وائے تھے.( مطبوعه الفضل ۱۶ /اکتوبر ۱۹۴۸ء)

Page 395

۳۸۳ مضامین بشیر ایک نادار خاتون اور ایک عزیز نوجوان نے اپنا قرضہ واپس ادا کر دیا چند دن ہوئے میں نے الفضل میں یہ تحریک کی تھی کہ جن عزیزوں اور دوستوں نے میرے ذریعہ قادیان میں اپنے کاروبار وغیرہ کی ترقی یا دیگر ضرویات کے لئے قرض لیا تھا ، اگر اُن کے حالات میں ذرا بھر بھی اصلاح کی صورت پیدا ہوئی ہے تو اُن کا فرض ہے کہ اپنے قرض خواہوں کا روپیہ واپس ادا فرمائیں.اور اگر یکمشت ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم قسطوں میں ہی ادا کرنا شروع کر دیں اور میں نے خصوصیت کے ساتھ ایسے قرض خواہوں کی سفارش کی تھی جو موجودہ حالات میں سخت تکلیف میں ہیں.اور اس کے مقابل پر مقروض صاحبان کی حیثیت اُن کی نسبت بہتر ہے.مجھے خوشی ہے کہ میری اس تحریک پر بعض اصحاب نے اس معاملہ کی طرف توجہ دی ہے.چنانچہ سب سے پہلے ایک غریب اور نادار عورت نے اپنے قرضہ کی رقم مجھے لا کر دی.جب میں نے اس سے پوچھا کہ تمہاری حالت تو بظا ہر اس قابل نظر نہیں آتی تھی کہ تم یہ قرض ادا کرو تو اس نے مجھے مومنانہ انداز میں کہا کہ خدا نے کچھ روپیہ دے دیا تھا جس پر میں نے سمجھا کہ قرضہ کی رقم پہلے ادا کر دینی چاہئے.اسی طرح ہمارے خاندان کے ایک عزیز نوجوان نے انہیں دنوں میں اپنے قرضہ کی ایک معقول اور بھاری قسط میرے ذریعہ ادا کی ہے.اور میں حالات کو جانتے ہوئے یقین رکھتا ہوں کہ اس عزیز کو اتنی رقم کا انتظام کرنے میں یقیناً غیر معمولی جد و جہد کرنی پڑی ہوگی.لیکن چونکہ نیت بخیر تھی ، خدا تعالیٰ نے اس عزیز کو اپنے قرضہ کے بیشتر حصہ کی ادائیگی کی توفیق عطا کر دی.اللہ تعالیٰ اس عزیز اور اس نادار خاتون کو جزائے خیر دے اور ان کے مالوں اور کاموں میں برکت عطا کرے.آمین مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک کئی عزیز اور کئی دوست اس مقدس فریضہ کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہے جتنی انہیں دینی چاہئیے.میں مانتا ہوں کہ حالات تنگی کے ہیں.اور دینے والے اور لینے والے دونوں بیشتر صورتوں میں سخت تکلیف دہ حالات میں سے گزررہے ہیں.لیکن بعض کے حالات میں یقیناً اصلاح کی صورت نظر آتی ہے.اور ایسے اصحاب کی طرف سے سنتی اور غفلت کا برتا جانا یقیناً

Page 396

مضامین بشیر ۳۸۴ اُن کے لئے برکت کا موجب نہیں ہوسکتا.ایسے دوستوں کو فوری توجہ دینی چاہئیے.اور دوسروں کو کم از کم اتنا تو کرنا چاہیے کہ اگر کسی کے پاس روپیہ واقعی نہیں ہے.تو وہ اپنے قرضنخواہ کو ہمدردی کے رنگ میں کوئی کلمہ خیر ہی کہہ دیتا کہ اس کی تسلی کا موجب ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور حافظ وناصر رہے.( مطبوعه الفضل ۱۹ / اکتوبر ۱۹۴۸ء)

Page 397

۳۸۵ قادیان میں عید الاضحی کی مبارک تقریب مضامین بشیر مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان اپنے خط محررہ ۱۵ اکتوبر میں لکھتے ہیں کہ قادیان میں ۱۴ اکتو بر بروز جمعرات عید الاضحی کی نماز ادا کی گئی.نماز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں چبوترے کے مغربی جانب پڑھی گئی.اور اس کے بعد مسجد مبارک والے چوک میں قربانیوں والے جانور ذبح کئے گئے.دو قربانیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے تھیں.جو خود امیر صاحب مقامی نے ہاتھ سے ذبح کیں.ان قربانیوں کا روپیہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے لاہور سے بھجوایا تھا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ اور حضرت ام المؤمنین اور خاکسار اور سیدہ اُم داؤ د احمد صاحب اور میاں عبداللہ خان صاحب کی قربانیاں عزیز مرزا وسیم احمد نے ذبح کیں.عید کے وقت دوستوں کا اجتماعی فوٹو بھی لیا گیا اور سب دوستوں نے خاص دعاؤں کے ساتھ حج اور عید کا دن گزارا.چونکہ کئی دوستوں نے اپنی قربانی کے لئے باہر سے روپیہ بھجوایا تھا لہذا اس ذریعہ سے قادیان کے غریب درویشوں کو بھی ان ایام میں اچھا اور با فراغت کھانا میسر آ گیا.عید کے دن شام کو بعض غیر مسلموں کو بھی چائے کی دعوت میں مدعو کیا گیا.عید کے موقعہ پر حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور خاکسار اور بعض دوسرے اصحاب کی طرف سے قادیان مبارک باد کی جو تاریں بھیجوائی گئی تھیں وہ تمام درویشوں کو سنائی گئیں.اور ان کی خوشی اور تسکین کا موجب ہوئیں.خدا کے فضل سے سب دوست خیریت سے ہیں.البتہ مولوی عبد القادر صاحب احسان ابھی تک بیمار چلے جاتے ہیں جن کے لئے دوستوں کی خدمت میں دعا کے واسطے عرض ہے.( مطبوعه الفضل ۱۹ / اکتوبر ۱۹۴۸ء)

Page 398

مضامین بشیر ۳۸۶ حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے بڑے بچے کی شادی دوستوں سے دعا کی تحریک حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے عزیز میر داؤ د احمد سلمہ بی ایس سی کا نکاح کچھ عرصہ ہوا حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صاحبزادی عزیزہ امتہ الباسط بیگم سلمہا کے ساتھ ہو چکا ہے.اب ۲۴ / اکتوبر ۱۹۴۸ء بروز اتوار رخصتانہ کی تقریب قرار پائی ہے.مجھے یقین ہے کہ دوست اس موقع پر خصوصیت سے دعا فرما ئیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس شادی خانہ آبادی کو فریقین کے لئے دین و دنیا کے لحاظ سے بابرکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے اور اس تعلق کو ظاہر و باطن، حال و مستقبل میں اپنی خاص برکتوں کے ساتھ نوازے.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو جو ارفع مقام حاصل ہے اور حضور کے متعلق جو خاص عقیدت جماعت کے دلوں میں پائی جاتی ہے اس کی وجہ سے یقیناً ہر مخلص احمدی اس موقع پر دعا کرنا اپنا مقدس فرض سمجھے گا.لیکن جو مقام حضرت میر صاحب مرحوم کو جماعت میں حاصل تھا اور جس غیر معمولی دینی اور دنیوی خدمت کا انہیں موقع میسر آیا اور جس طرح وہ احباب جماعت کی خوشیوں میں حصہ لیتے اور ان کے بوجھوں کو بٹاتے تھے.تو اب جب کہ ان کی وفات کے بعد ان کے گھر میں یہ پہلی شادی ہو رہی ہے.تو میں اس بناء پر بھی امید رکھتا ہوں کہ اس موقع پر جماعت کے دوست اپنی مخصوص دعاؤں میں اس مبارک تقریب کو یا درکھیں گے تا کہ جو کمی ایک دیندار اور محبت کرنے والے باپ کی وفات سے بچوں کے لئے پیدا ہوئی ہے.وہ اگر خدا چاہے تو دوستوں کی دعاؤں سے پوری ہو جائے.شادی کا معاملہ عجیب قسم کی نوعیت رکھتا ہے.اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں قدم اٹھانے والا گویا تاریکی میں قدم اٹھاتا ہے.اور نہیں جانتا کہ اس کا قدم کسی گڑھے میں گرنے والا ہے یا کہ کسی بلند اور مستحکم چٹان پر پڑنے والا ہے.اور یہ صرف ہمارے آسمانی آقا کا فضل ہی ہے جو ہر تاریکی کو نور سے بدل سکتا اور ہر قدم کو بلندی کی طرف لے جا سکتا ہے.میں اکثر اس بات کو سوچا کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو یہ الہام ہوا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَ النَّسَبَ تو اس میں صرف قومی شرف کی طرف اشارہ ۱۱۷

Page 399

۳۸۷ مضامین بشیر نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر ایک شخص عرف عام کے لحاظ سے بظاہر شریف سمجھے جانیوالی قوم سے تعلق رکھتا ہے، مگر اس کی اخلاقی اور دینی حالت اچھی نہیں تو اس کا قومی شرف ہرگز کوئی خوبی نہیں بلکہ ایک لعنت ہے.جو اسے خدا کے سامنے اور بھی زیادہ مورد الزام بنادیگی.پس جب خدا کسی شخص کو صھر ونسب کی مبارک باد دیتا ہے تو اس سے یقیناً محض قومی شرف مراد نہیں ہوسکتا.بلکہ اس میں یہ اشارہ بھی ضرور مخفی ہوتا ہے کہ یہ خاندان نیکی اور دینداری کے مقام پر فائز ہوگا.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ہمارے نانا جان مرحوم اور ان کے ہر دو فرزندان مرحوم اپنی ذاتی نیکی اور دینداری کے لحاظ سے بھی اعلیٰ مقام رکھتے تھے اور اب جبکہ وہ اپنی دنیوی زندگی کے دور کو پورا کر کے خدا کے حضور پہنچ چکے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ انہیں اور ان کی اولاد کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں کیونکہ ہمارے مقدس آقا کا فرمان ہے کہ من لم يشكر الناس لم يشكر الله ( مطبوعه الفضل ۲۱ / اکتوبر ۱۹۴۸ء)

Page 400

مضامین بشیر ۳۸۸ ہمشیرہ محترمہ سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومه کی بچی کی شادی دوست اس رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے خصوصیت سے دعائیں فرمائیں جیسا کہ احباب کو معلوم ہے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صاحبزادی عزیزہ امتہ الباسط سلمها ( جو ہمشیرہ محترمہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومہ کے بطن سے ہیں ) کی شادی حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے عزیز میر داؤ د احمد سلمہ کے ساتھ ۲۴ را کتوبر ۴۸ کو قرار پائی ہے.یعنی نکاح تو پہلے سے ہو چکا ہے.اب انشاء اللہ ۲۴ /اکتوبر کو رخصتانہ کی تقریب عمل میں آئیگی.میں اس سے قبل حضرت میر صاحب مرحوم کے تعلق اور ان کی یاد کا واسطہ دے کر دوستوں میں دعا کی تحریک کر چکا ہوں.اب ہمشیرہ محترمہ سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومہ کے تعلق کی بنا پر یہ نوٹ شائع کر رہا ہوں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مقام اور تعلق ایسا ہے کہ اس کی بنا پر جماعت بہر حال مخصوص دعا کرتی ہی ہے لیکن اس پر بعض مزید تعلقات اور مزید گزری ہوئی یادوں کی بنا پر انسان اپنی توجہ میں اضافہ کر سکتا ہے.جس طرح حضرت میر صاحب مرحوم کا مقام جماعت میں خاص تھا اور وہ جماعت کے ہرا امیر وغریب کے ساتھ یکساں تعلق رکھنے ، ان کی خوشیوں میں حصہ لینے اور ان کے بوجھوں کو ہٹانے میں پیش پیش تھے.اسی طرح ہمشیرہ محترمہ سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ مرحومہ کو بھی یہ نمایاں خصوصیت حاصل تھی کہ وہ جماعتی کاموں میں عمومی حصہ لینے کے علاوہ غرباء کی امداد اور ان کی ہمدردی میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھیں اور ہر شخص کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتیں اور اس میں انتہائی محبت کے ساتھ حصہ لیتی تھیں تو اب جبکہ ان کی اپنی بچی کی شادی ہو رہی ہے اور خدائی تقدیر کے ماتحت وہ اپنی اس بچی کی خوشی میں خود شریک نہیں ہو سکتیں اور ان کی ظاہری دعائیں جو ان کی زندگی کے ساتھ وابستہ تھیں ، ان کا زمانہ بھی گزر چکا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ مرحومہ کی بچی کی شادی کے موقع پر اسے اپنی مخصوص دعاؤں میں یا درکھیں اور خدا سے اس بات کے ملتجی ہوں کہ وہ اس

Page 401

۳۸۹ مضامین بشیر رشتہ کو ہر جہت سے با برکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے اور دعا کریں کہ جس طرح اس تقریب کے موقع پر بچی کے زندہ رشتہ دار اس دنیا میں خوش ہونگے اور اسے اپنی دعاؤں کیسا تھ رخصت کرینگے.اسی طرح آخرت میں اس کی مرحومہ والدہ کی روح بھی حقیقی مسرت حاصل کرے اور خدا کے حضور اپنی دردمندانہ التجاؤں کے ذریعہ اس رشتہ کو بابرکت بنانے میں حصہ لے.آمین یا ارحم الراحمین.( مطبوعه ۲۲ / اکتوبر ۱۹۴۸ء)

Page 402

مضامین بشیر ۳۹۰ اے مالک کون و مکاں آؤ مکیں کو لوٹ لو گوٹ دو قسم کی ہوتی ہے.ایک یہ کہ کسی کے مال یا جان پر ظلم کے رنگ میں ڈاکہ ڈالا جائے.یہ گوٹ بدترین گنا ہوں میں سے ہے.دوسری قسم کی ٹوٹ یہ ہے کہ پاک محبت کی تاروں میں باندھ کر دوسرے کے مال و جان کو اپنا بنا لیا جائے.ایسی کوٹ انسانی روح کی جلا کے لئے ایک بھاری نعمت ہے.سوذیل کے اشعار میں اسی قسم کی روحانی کوٹ کا ذکر ہے جس میں اپنے آسمانی آقا کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ آئے اور ہمارے جان و مال کو لوٹ لے جو شروع سے اسی کے ہیں.لیکن ہم لوگوں نے اپنی کوتاہ نظری یا بے وفائی سے اپنے سمجھ رکھے ہیں.مگر خیال رہے کہ میں شاعر نہیں ہوں.اگر فن نظم گوئی کے لحاظ سے کوئی غلطی نظر آئے تو وہ قابل معافی کبھی جائے.اصل غرض دلی جذبات کا اظہار ہے.پہلے دو شعروں میں ایک قرآنی آیت کا مفہوم پیش نظر ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۴۸ - ۱۰ - ۳۰ء میری سجدہ گاہ لوٹ لو میری جبیں کو لوٹ لو میرے عمل کو لوٹ لو اور میرے دیں کو لوٹ لو میری حیات وموت کا مالک ہو کوئی غیر کیوں میری ہاں کو لوٹ لو، میری نہیں کو لوٹ لو وطرب میرا سبھی بس ہو تمھارے واسطے روح سرور لوٹ لو، قلب حزیں کو لوٹ لو جب جاں تمہاری ہو چکی پھر جسم کا جھگڑا ہی کیا مرا آسماں تو لٹ چکا اب تم زمیں کو لوٹ لو نانِ جویں کے ماسوا دل میں میرے ہوس نہیں چا ہو تو اے جاں آفریں نان جویں کو لوٹ لو گھر بار یہ مرا نہیں اور میں بھی کوئی غیر ہوں؟ اے مالک کون و مکاں آؤ مکیں کو لوٹ لو ( مطبوعه الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۸ء)

Page 403

۳۹۱ مضامین بشیر قادیان کے سب دوست خیریت سے ہیں مگر انہیں دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.قادیان سے آئے ہوئے خطوط سے پتہ لگتا ہے کہ وہاں خدا کے فضل سے سب دوست جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی بناء پر درویش کہلاتے ہیں اور حقیقتاً اس وقت ان کی زندگی بھی درویشانہ ہی ہے خیریت سے ہیں.قادیان کے دوستوں کا عام پروگرام یہ ہے کہ پنجگانہ نمازوں اور نوافل کے علاوہ قرآن کریم اور حدیث کا درس ہوتا ہے اور بعض اجتماعی دعائیں بھی کی جاتی ہیں.اس کے علاوہ تمام دوست سوائے معذوروں کے ہفتہ میں دو دن یعنی ہفتہ اور پیر کے دن نفلی روزے رکھتے ہیں.وقار عمل بھی باقاعدہ منایا جاتا ہے اور صحتوں کو درست رکھنے کے لئے کبھی کبھی ورزشی مقابلے بھی ہوتے رہتے ہیں.علاوہ ازیں جہاں تک ان دوستوں کے لئے ان کے موجودہ ما حول میں ممکن ہے غیر مسلموں میں تبلیغ کا سلسلہ بھی کچھ نہ کچھ جاری رہتا ہے.قادیان میں صدرانجمن احمد یہ بھی قائم ہے اور ضروری شعبے اپنے اپنے محدود ماحول میں اپنے فرائض سر انجام دیتے رہتے ہیں.لنگر خانہ کا انتظام بھی قائم ہے اور کچھ کچھ مہمانوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے.جو بیشتر صورتوں میں غیر مسلم ہی ہوتے ہیں.چند دن ہوئے وہاں بٹالہ سے سپرنٹنڈنٹ پولیس دورہ پر گئے اور سب احمدی آبادی کو مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جمع کر کے ان کا معائنہ کیا.یعنی ان کے نام اور پتہ جات وغیرہ نوٹ کر کے یہ معلوم کیا کہ ان میں سے قادیان اور اس کے گردو نواح کے رہنے والے کتنے آدمی ہیں.اور پاکستان کے رہنے والے کتنے ہیں.یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس تحقیق سے ان کی غرض کیا تھی.اس موقع پر انہوں نے یہ بھی ہدایت دی کہ قادیان میں چونکہ کوئی منظور شدہ کیمپ نہیں ہے اس لئے ہمارے دوستوں کو اردگرد سے نکل کر آئے ہوئے مسلمان مردوں عورتوں کو اپنے پاس نہیں ٹھہرانا چاہئیے.قادیان میں اس وقت ملٹری کوئی نہیں البتہ پولیس فورس موجود ہے اور ایک ریزیڈنٹ مجسٹریٹ بھی وہاں رہتے ہیں.دیگر حکام بھی اکثر آتے رہتے ہیں.گزشتہ ایام میں ماسٹر تارا سنگھ مشہور سکھ لیڈر بھی قادیان گئے اور ریتی چھلہ کے میدان میں

Page 404

مضامین بشیر ۳۹۲ کم و بیش تین ہزار کے مجمع میں تقریر کی.ہمارے چند دوست پولیس کو لے کر اس جلسہ میں شریک ہونے کے لئے گئے مگر ماسٹر تارا سنگھ کی تقریر سے قبل ہی پولیس نے یہ کہہ کر کہ اس وقت آپ کا یہاں ٹھہر نا مناسب نہیں انہیں واپس بھجوا دیا.دوستوں کو چاہیے کہ قادیان کے احباب کو خصوصیت سے یادرکھیں.اس وقت بعض دوست بیمار بھی ہیں اور بعض قدیم بزرگ عمر وغیرہ کے تقاضے سے کمزور ہورہے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو.آمین (مطبوعہ الفضل ۷ را کتوبر ۱۹۴۸ء)

Page 405

۳۹۳ مضامین بشیر لین دین کی صفائی کا ایک وقتی نسخہ جس طرح اپنی ضرورت کے لئے قرض لیتے ہو اسی طرح قرض اتارنے کے لئے بھی قرض لو میں اپنے متعدد مضامین میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو معاملہ کی صفائی کی طرف توجہ دلا چکا ہوں اور اس بارہ میں یہ حدیث بھی پیش کر چکا ہوں کہ ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ وآلہ علیہ وسلم کو قرض کی صفائی کا اتنا احساس تھا کہ آپ ایسے صحابی کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جو مقروض حالت میں فوت ہوا ہوا اور اس کی جائیداد اس کے قرض کے اتارنے کے لئے کافی نہ ہو.اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارا رحیم و کریم خدا کچی تو بہ پر اپنے خلاف کئے ہوئے گنا ہوں کو تو معاف کر سکتا ہے اور معاف کرتا ہے لیکن بندوں کے خلاف کئے ہوئے گناہوں اور ان کے غصب شدہ حقوق کو کس طرح معاف کر سکتا ہے.جب تک یا تو ان بندوں کا حق نہ ادا کیا جائے اور یا خود ان سے معافی حاصل نہ کی جائے.مگر افسوس ہے کہ دنیا میں اکثر لوگ اس فریضہ کی طرف سے غافل رہتے ہیں.اور اول تو بلا حقیقی ضرورت کے قرض برداشت کر لیتے ہیں اور پھر واپسی کا نام نہیں لیتے یا مختلف قسم کے بہانوں سے اسے پیچھے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر واپس بھی کرتے ہیں تو سو دفعہ ٹال ٹال کر اور بسا اوقات بداخلاقی کے جواب دے دے کر واپس کرتے ہیں.حالانکہ قرضہ کی واپسی میں جہاں روپے کی واپسی شامل ہے وہاں میعاد کے اندر واپس کرنا بھی اس کا ضروری حصہ ہوتا ہے.اسی لئے اسلام نے ہر قرضہ کے متعلق یہ ضروری قرار دیا ہے کہ اس کی واپسی کے لئے میعاد مقرر ہو اور جب تک یہ دونوں باتیں پوری نہ ہوں یعنی اول یہ کہ قرضہ واپس کیا جائے دوم یہ کہ معیاد مقررہ کے اندر واپس کیا جائے.اس وقت تک کوئی شخص لین دین کے معاملہ میں دیانت دار نہیں سمجھا جاسکتا سوائے اس کے کہ وہ اپنے سر کو نیچا کر کے قرضہ دینے والے سے مزید مہلت نہ حاصل کرے.میں نے بسا اوقات حضرت خلیفتہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے منہ سے یہ بات سنی تھی یعنی حضور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے دنیا میں بیشمار لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑا ہے مگر میں نے ایک شخص کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا کہ جس

Page 406

۳۹۴ مضامین بشیر نے جس خوشی اور بشاشت اور امتنان کے چہرہ کے ساتھ قرضہ لیا ہو اسی خوشی اور اسی بشاشت اور اسی امتنان کے ساتھ واپس کیا ہو اور افسوس ہے کہ میرا بھی دنیا میں لین دین کے متعلق یہی تجربہ ہوا ہے کہ اکثر لوگ جس چہرہ کے ساتھ قرض لیتے ہیں اس چہرہ کے ساتھ واپس نہیں کرتے.پس میں اپنے اس نوٹ کے ساتھ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ لین دین کے معاملات میں صفائی پیدا کریں اور لوگوں کے حقوق ادا کر کے خدا کے سامنے بھی سرخرو ہوں.قرضوں کے معاملہ میں صفائی پیدا کرنے کے لئے اصل چیز تو دل کی دیانت اور امانت ہے جس کے بغیر سارے اصول اور ساری شرطیں اور سارے وعدے بیکا رثابت ہوتے ہیں.لیکن اس جگہ میں ایک خاص بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جسے اگر نیک نیتی سے اختیار کیا جائے تو خدا کے فضل سے بہت سی صورتوں میں سرخروئی اور نیک نامی کا موجب ہو سکتی ہے.وہ یہ کہ جسطرح ایک انسان اپنی ضرورت کے لئے قرض لیتا ہے اسی طرح وہ اپنے دل میں یہ بھی عہد کرے کہ وہ دوسرے کی ضرورت کا لحاظ کر کے اس کے قرضہ کے واپسی کے لئے بھی قرضہ برداشت کرے گا.مثلاً اگر زید نے عمر سے کوئی رقم قرض لی ہے اور کسی وجہ سے وہ میعاد پوری ہونے پر اس رقم کو واپس نہیں کر سکتا تو اس کا فرض ہے کہ جس طرح اس نے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے عمر سے قرض لیا تھا اسی طرح اور اسی توجہ اور اسی کوشش کے ساتھ عمر کی ضرورت کو پورا کرنے اور اس کے قرض کو واپس کرنے کے لئے کسی اور شخص سے قرض لے لے.مگر افسوس ہے کہ لوگ اپنی ضرورت کے لئے تو دوسروں کے سامنے خوشامد اور لجاجت کے طریق پر ہاتھ پھیلانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور اپنے پیٹ کے دوزخ کو بجھانے کے لئے یا اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لئے دوسروں کے سامنے سوال کا ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس نہیں کرتے مگر اپنے قرض خواہوں کے قرض کی واپسی کے لئے قرضہ برداشت کرنے کی طرف قطعاً توجہ نہیں دیتے.حالانکہ یہ ایک بہت آسان ساگر ہے جسے اختیار کر کے انسان نہ صرف خود بدنامی سے بچ سکتا ہے اور نہ صرف خدا کے سامنے سرخرو ہو سکتا ہے بلکہ اپنے قرض خواہ بھائی کی ضرورت کو بھی پورا کر کے حقوق العباد کی ادائیگی کا عمدہ نمونہ قائم کر سکتا ہے.آخر وجہ کیا ہے کہ میں اپنی ضرورت کے لئے تو دوسرے سے ایک سو روپیہ مانگوں لیکن جب اس ایک سو روپے کی واپسی کا وقت آئے تو اس روپے کی واپسی کے لئے کسی تیسرے شخص سے قرض نہ حاصل کروں؟ بلکہ حق یہ ہے کہ اپنی ضرورت کی نسبت قرض خواہ کی ضرورت کو پورا کرنا یقیناً زیادہ قرین انصاف اور زیادہ موجب ثواب ہے.پس میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو اپنے اس نوٹ کے ذریعہ سے اور اس خدا کا واسطہ دے کر جو ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور جلد یا بدیر ہمیں ان اعمال کا بدلہ دینے والا ہے ، کہتا ہوں کہ وہ

Page 407

۳۹۵ مضامین بشیر کم از کم اس نسخہ کو آزما کر دیکھیں کہ جس طرح وہ اپنی ضرورت کے لئے قرض لیتے ہیں اسی طرح اور اسی توجہ کے ساتھ ایک قرض خواہ کو اس کی رقم واپس کرنے کے لئے بھی قرض لے لیا کریں.اس طرح ایک تو وہ خالق اور مخلوق کی نظر میں بد معاملہ نہیں ٹھہریں گے اور دوسرے ان کا قرض خواہ آئندہ انہیں قرض دینے میں زیادہ بشاشت محسوس کرے گا.پھر اگر بالفرض ان کے پاس اس تیسرے شخص کی رقم واپس کرنے کے وقت بھی روپیہ نہ ہو تو وہ کسی چوتھے شخص سے قرض لے لیں اور اس تیسرے شخص کو واپس کر دیں.اگر وہ کچی نیت سے اس طریق کو اختیار کریں گے اور اس عرصہ میں اصل رقم پیدا کرنے کے لئے بھی کوشاں رہیں گے تو میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ان کے کاموں میں برکت عطا کرے گا اور وہ دنیا میں بھی سرخرو ہوں گے اور دین میں بھی.خدا کرے کہ میرا یہ نوٹ ہمارے عزیزوں اور دوستوں کے دلوں میں گھر کر سکے اور وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں ایسا نمونہ دکھا ئیں جس کی اسلام ہم سے توقع رکھتا ہے.باقی رہا یہ سوال کہ اگر کسی شخص کو با وجود بچی کوشش اور توجہ کے کسی قرض خواہ کا روپیہ واپس ادا کرنے کے لئے قرض نہ ملے تو وہ کیا کرے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو میں امید نہیں کرتا کہ خدا ایسی کچی کوشش کو ضائع کرے.لیکن اگر واقعی حقیقی مجبوری کی صورت پیدا ہو جائے (اور خدا ہی جانتا ہے کہ حقیقی مجبوری کون سی ہے ورنہ اکثر لوگ اپنے نفس کے بہانوں کو ہی مجبوری خیال کرنے لگ جاتے ہیں ) تو اسے چاہیے کہ کم از کم اپنے متکبر سر کو نیچا کر کے عجز اور انکسار کے ساتھ قرض خواہ سے معذرت کرے اور اسے مزید مہلت حاصل کرنے کی درخواست دے.پہلے تو اپنی ضرورت کے لئے قرض لینا اور پھر وقت پر ادا نہ کرنا اور پھر قرض خواہ کی طرف سے مطالبہ ہونے پر شرمندہ ہونے اور معذرت کرنے کی بجائے اسے سامنے سے آنکھیں دکھانا اور بداخلاقی کے ساتھ پیش آنا ایک ایسا گندا خلق ہے کہ جسے اسلام کا خدا سخت نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے.ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ پاک نمونہ ہے کہ ایک دفعہ ایک غیر مسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا کچھ قرض دیا ہوا روپیہ واپس لینا تھا اور میعاد پوری ہونے سے پہلے ہی وہ آپ کے پاس آکر سختی کے ساتھ مطالبہ کرنے لگا حتی کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں کپڑے کا پٹکا ڈال کر اسے زور کے ساتھ کھینچا.مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی ملامت نہیں کی بلکہ جب ایک صحابی نے آگے بڑھ کر اسے الگ کرنا چاہا اور اسے قبل از وقت مطالبہ کرنے پر ملامت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانے دو اور اسے کچھ نہ کہو.کیونکہ گو ابھی میعاد پوری نہیں ہوئی لیکن بہر حال یہ قرض خواہ ہے اور میں مقروض ہوں اور مجھے زیبا نہیں کہ اس کے بے وقت مطالبہ پر بھی سامنے سے بداخلاقی کے ساتھ پیش آؤں.

Page 408

مضامین بشیر ۳۹۶ کاش! ہمارے مقدس آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پاک نمونہ ہمارے عزیزوں اور دوستوں کے دلوں میں تبدیلی پیدا کرنے کا موجب ہو.آمین یا ارحم الراحمین.مطبوعه الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۴۸ء)

Page 409

۳۹۷ مضامین بشیر نصاب کمیٹی حکومت مغربی پنجاب کو جماعت احمدیہ کی طرف سے مشورہ مڈل تک کے نصاب میں کونسی اصلاحیں ضروری ہیں کچھ عرصہ ہوا حکومت مغربی پنجاب نے مڈل تک کے نصاب کی اصلاح کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی تھی اور کمیٹی مذکور نے اس معاملہ میں جماعت احمدیہ سے بھی مشورہ طلب کیا تھا اس مشورہ کے لئے جو کمیٹی صدر انجمن احمدیہ نے مقرر کی.اس کے سیکرٹری ابوالفتح مولوی محمد عبد القادر صاحب ایم.اے ریٹائرڈ پروفیسر کلکتہ یونیورسٹی تھے اور خاکسار مرزا بشیر احمد اس کا صدر تھا.اور پر وفیسر قاضی محمد اسلم صاحب اور ناظر صاحب تعلیم و تربیت مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور عزیز مرزا ناصر احمد صاحب اور مولوی ابوالعطاء صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب اس کمیٹی کے ممبر تھے.ہماری اس کمیٹی نے بعد غور وخوض جو مشورہ حکومت کی مقرر کردہ نصاب کمیٹی کو دیا.وہ احباب کی اطلاع کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.تمہیدی نوٹ ) اصل مشورہ کرنے سے قبل میں یہ امر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری کمیٹی اپنے مشورہ کو صرف اصولی حد تک محدود رکھے گی.اور نصاب کی تفصیلات میں جانے یا کتب تجویز کرنے کے متعلق کوئی مشورہ پیش نہیں کیا جائے گا.اور دراصل اس معاملہ میں زیادہ اہم سوال اصول ہی کا ہے.اور تفصیلات کو بغیر کسی خطرہ کے زیادہ عملی تجربہ رکھنے والے واقف کاروں پر چھوڑا جا سکتا ہے.بہر حال جو اصولی مشورہ ہماری کمیٹی امور مستفسرہ کے متعلق دینا چاہتی ہے.درج ذیل کے چند مختصر فقرات میں درج کیا جاتا ہے.(۱) جہاں تک تعلیم کی غرض وغایت کا سوال ہے، وہ محض تعلیم کے لفظ سے پوری طرح ظاہر نہیں کی جاسکتی کیونکہ تعلیم کے لغوی معنے صرف علم دینے کے ہیں.مگر اصطلاحی طور پر تعلیم کا مفہوم اس لغوی مفہوم کی نسبت بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ گہرا ہے.دراصل اگر تعلیم کے صحیح مفہوم کو مختصر لفظوں میں ہی ادا کرنا ہو تو صرف لفظ تعلیم کی بجائے تین الفاظ کا مجموعہ زیادہ مناسب ہو گا اور یہ تین الفاظ

Page 410

مضامین بشیر ۳۹۸ تعلیم اور تنویر اور تربیت ہیں.تعلیم کی غرض وغایت ہرگز پوری نہیں ہو سکتی.جب تک کہ معتین علم سکھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کے دماغوں میں روشنی پیدا کرنے اور پھر ان کی معلومات کے مطابق عملی مشق کرانے کا انتظام نہ ہو.بچوں کے دماغوں میں محض خشک معلومات کا ذخیرہ ٹھونس دینا چنداں فائدہ مند نہیں ہوتا جب تک کہ ان کے دماغوں کی کھڑکیوں کو کھول کر علم کے میدان کے ساتھ بنیادی لگاؤ نہ پیدا کیا جائے.اور پھر عملی مشق کے ذریعہ بچوں کی قوت عملیہ کو ایک خاص ڈھانچے میں نہ ڈھال دیا جائے.(۲) اب ظاہر ہے کہ تعلیم کا جو وسیع مفہوم اوپر بیان کیا گیا ہے وہ کبھی حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہر قوم اپنی قومی اور ملکی ضروریات کے پیش نظر اپنے بچوں کی تعلیم کا پروگرام مرتب نہ کرے.انگریز نے اپنے زمانہ میں جو غرض و غایت تعلیم کی سبھی اور جو مقاصد اپنے مصالح کے ماتحت ضروری خیال کئے.ان کے پیش نظر نصاب بنایا اور درسگاہیں جاری کیں.مگر انگریز کے چلے جانے اور آزادی کے حصول اور پاکستان کے قیام کے بعد انگریز کی طے کی ہوئی پالیسی اور انگریز کا جاری کیا ہوا نصاب ہماری ضرورتوں کو ہرگز پورا نہیں کر سکتا.بلکہ یقیناً وہ بعض پہلوؤں میں ہمارے مقاصد کے خلاف اور متضاد واقع ہوا ہے.مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ کلی طور پر بدل دینے کے قابل ہے.لاریب اس میں کئی باتیں مفید بھی ہیں جو بڑے لمبے تجربہ کے بعد حاصل کی گئی ہیں.پس دانشمندانہ پالیسی یہ ہوگی کہ تدریج اور آہستگی کے ساتھ قدم اٹھایا جائے.اور سابقہ نصاب کے غیر مفید حصہ کو ترک کر کے ایسے مفید اضافوں کے ساتھ جو ہمارے موجودہ قومی مصالح کے لئے ضروری ہیں نیا نصاب مرتب کیا جائے.(۳) ہماری کمیٹی نمبر اول پر یہ تجویز پیش کرنا چاہتی ہے کہ جدید نصاب میں دینیات اور اخلاقیات کا مضمون لازماً شامل ہونا چاہیے.کیونکہ یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بچپن میں ہی ایمان واخلاق کا بیج بو دیا جائے تاکہ قوم کے نو نہال بڑے ہو کر اپنے اخلاق اور دین کی بنیاد اسلام کی دی ہوئی تعلیم پر قائم کر سکیں.لیکن ہماری کمیٹی اس مشکل کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی کہ پاکستان میں مختلف اسلامی فرقوں کے لوگ پائے جاتے ہیں.اور صحیح طور پر یا غلط طور پر ہر فرقہ کی طرف سے مطالبہ ہوگا کہ اس فرقہ کی مخصوص تشریح کے مطابق اسلامی تعلیم دی جائے.اور اس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ دینیات کا نصاب خود ایک جھگڑے کی بنیاد بن جائے.پس جہاں ہم دینیات کی تعلیم کو ضروری خیال کرتے ہیں وہاں ہمارا یہ بھی مشورہ ہے کہ اس قسم کے اختلاف کے سد باب کے لئے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے فی الحال پرائمری اور مڈل میں دینی تعلیم ایک ایسی اقل اصولی تعلیم تک محدود

Page 411

۳۹۹ مضامین بشیر ہونی چاہیے جس میں اختلاف کا کم سے کم امکان ہوا اور کمیٹی لھذا اتجویز کرتی ہے کہ یہ اقل اصولی نصاب پرائمری اور مڈل میں بصورت ذیل ہونا چاہیے.(الف) قرآن شریف ناظرہ یعنی بغیر ترجمہ کے.(ب) قرآن شریف کی بعض چھوٹی سورتوں اور بعض قرآنی دعاؤں کا حفظ کرانا.( ج ) پنج ارکان اسلام یعنی (۱) کلمہ طیبہ (۲) نماز (۳) زکوۃ (۴) حج اور (۵) روزہ کے ایسے بنیادی مسائل جن میں کسی اختلافی خیال کا دخل نہ ہو.( د ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختصر سوانح.( ط ) اسلامی اخلاق پر ایک مختصر رسالہ ( جو تصنیف کرایا جا سکتا ہے ) جس میں راست گفتاری دیانت ، لین دین کی صفائی ، عہد کی پابندی فرض منصبی کی ادائیگی ، محنت قربانی ، عدل وانصاف ، خالق کی محبت، مخلوق کی ہمدردی وغیرہ.بنیادی اخلاق کے متعلق سہل اور مؤثر طریق میں تعلیم دی گئی ہو.نوٹ :.نصاب دینی کے تعلق میں ہماری کمیٹی یہ تجویز پیش کرتی ہے کہ اگر کسی سرکاری سکول میں کسی اقلیت کے طلبا کی تعداد معقول ہوا اور اس اقلیت کی طرف سے یہ مطالبہ ہو کہ اس کے لئے اس کے مذہب کی تعلیم کا نصاب مقرر کیا جائے تو اس کا انتظام بھی ہونا چاہئیے.مگر یہ نصاب صیغہ تعلیم کا منظور شدہ ہونا چاہئے جو عمومی رنگ کا ہو.جس میں اس پہلو کو مدنظر رکھا جائے کہ دوسرے مذا ہب پر حملے یا مناظرانہ مسائل نصاب میں داخل نہ ہو جائیں.(۴) ہماری کمیٹی بڑی سختی کے ساتھ اس بات کو محسوس کرتی ہے کہ گزشتہ زمانہ میں سب سے بڑا فتنہ تاریخ کے نصاب نے پیدا کیا ہے.جس میں جھوٹی باتوں کو داخل کر کے اور بعض کچی باتوں کو غلط رنگ دے کر اور بہت سی سچی باتوں کو حذف کر کے بھاری فتنہ پیدا کیا گیا ہے.کمیٹی ہذا سفارش کرتی ہے کہ تاریخ کے نصاب کو فوری طور پر بدلنے کی ضرورت ہے.حسب ضرورت نئی کتب لکھائی جائیں.جن میں سے اس قسم کے شر انگیز عصر کو بالکل خارج کر دیا جائے اور صحیح اور مستند واقعات اچھے رنگ میں درج کئے جائیں اور تاریخ کے کورس میں ذیل کے حصے شامل کئے جاویں یعنی (۱) تاریخ ہندستان جس میں اسلامی زمانہ پر زیادہ زور ہو (۲) تاریخ اسلام جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح حیات مسلسل اور مربوط صورت میں درج ہوں اور دیگر اسلامی تاریخ کے صرف خاص خاص واقعات ہوں اور اس کے علاوہ تاریخ عالم پر ایک سرسری نظر ہو.(۵) کمیٹی ہذا یہ بھی سفارش کرتی ہے کہ تاریخ اور جغرافیہ کے مضمون کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر ایک مضمون کی صورت میں رکھنے کی کوئی خاص وجہ نہیں اور نہ ان میں کوئی ایسا غیر منفک واسطہ ہے

Page 412

مضامین بشیر ۴۰۰ جس کی وجہ سے ان دو مستقل مضمونوں کو لازماً ایک لڑی میں پرو کر رکھنا ضروری ہو.پس انہیں علیحدہ علیحدہ کر دینا ہماری کمیٹی کی رائے میں زیادہ مفید ہوگا.(۲) ہماری کمیٹی اس بات کی پر زور مؤید ہے کہ ذریعہ تعلیم بلا توقف اردو کو قرار دینا چاہئے.(۷) اردو کا نصاب بھی کافی اصلاح چاہتا ہے اس میں دیگر مفید مواد کے علاوہ اسلامی تاریخ کے خاص خاص واقعات اور مشاہیر اسلام کے خاص خاص حالات کا عنصر کا فی شامل ہونا چاہئے.مگر ضروری ہے کہ اردو میں تکلف کے طریق پر اور غیر طبعی رنگ میں عربی اور فارسی کے الفاظ نہ ٹھونسے جائیں.بلکہ اسے ایک زندہ چیز کی طرح طبعی رنگ میں ترقی کرنے کا موقع دیا جائے اور ابتدائی جماعتوں میں تو لازماً زبان بہت سادہ اور سلیس ہونی چاہئیے.اس کے علاوہ اردو کورس میں سادہ اور مؤثر قومی اور اخلاقی نظمیں بھی شامل کی جائیں.(۸) ہماری کمیٹی یہ سفارش بھی کرتی ہے کہ چونکہ عربی مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اور قرآن شریف اور حدیث کے سمجھنے کے لئے عربی کا علم ضروری ہے اور اردو کی تکمیل کے لئے بھی عربی کافی اثر رکھتی ہے اس لئے مڈل کی پہلی جماعت سے عربی کی تعلیم لازمی قرار دی جائے.(۹) ہماری کمیٹی پرائمری یا مڈل کی جماعتوں میں فارسی کے نصاب کے داخل کرنے کی تائید میں نہیں ہے کیونکہ اول تو فارسی کو ہمارے ملک یا ہمارے مذہب کے ساتھ اتنا گہرا تعلق نہیں ہے.جتنا کہ اردو یا عربی کو ہے.دوسرے بچوں کے دماغوں پر زیادہ زبانوں کا بوجھ ڈالنا کسی طرح مفید نتائج پیدا کرنے والا نہیں سمجھا جاسکتا.(۱۰) ہماری کمیٹی اس بات کی سفارش کرتی ہے کہ انگریزی زبان کی تعلیم کو پرائمری اور مڈل کے نصاب سے کلی طور پر خارج کر دیا جائے.انگریز کے چلے جانے سے ہمارے لئے اس زبان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی اور کوئی وجہ نہیں کہ ایک غیر ملکی زبان کے بوجھ سے اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کو مشوش کیا جائے.(۱۱) جغرافیہ ایک ضروری علم ہے اور لازمی ہونا چاہئیے.اس کا پولٹیکل اور طبعی حصہ ہر دو نہایت ضروری اور مفید ہیں.(۱۲) ریاضی ایک نہایت ضروری علم ہے اور خود قرآن شریف نے اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے پس اس پر زیادہ زور ہونا چاہئیے.یہ علم نہ صرف اپنی ذات میں مفید ہے بلکہ بچوں میں محنت اور استغراق اور صحیح الخیالی کا ملکہ پیدا کرنے میں بھی بھاری اثر رکھتا ہے.(۱۳) سائنس کے ساتھ بچپن سے ہی قومی بچوں کا لگاؤ پیدا کرانا ضروری ہے اور ہماری کمیٹی اس

Page 413

۴۰۱ مضامین بشیر بات کی پُر زور تائید کرتی ہے کہ شروع سے ہی اسباق الاشیاء وغیرہ کی صورت میں سائنس کی تعلیم کو داخل نصاب کرنا چاہئے.علم طبیعات اور علم کیمیا کے ضروری مسائل سادہ اور دلچسپ رنگ میں اسباق الاشیاء کی صورت میں نصاب کا حصہ بنائے جا سکتے ہیں.اسی طرح ایسی نئی ایجادات جن کے ساتھ آجکل کے زمانہ میں ہر شہری کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے.مثلاً تار.ٹیلیفون ، وائرلیس.ہوائی جہاز اور پھر موٹر ریل.دخانی جہاز اور جنگی اسلحہ وغیرہ کے متعلق سادہ ابتدائی معلومات داخل نصاب کئے جا سکتے ہیں.(۱۴) کمیٹی ہذا اس بات کی مؤید ہے کہ بچوں میں ملک کی بنیادی صنعتوں کے ساتھ ابتدا سے ہی لگاؤ پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اور ہمارے خیال میں شروع میں اس کے لئے تین شعبوں کا انتخاب ضروری ہوگا.یعنی (۱) زراعت (۲) تجارت (۳) دستکاری.ان تینوں کے متعلق ابتدائی علمی اور عملی معلومات کا مہیا کرنا ضروری ہے.زراعت کی تعلیم کے لئے سکولوں میں ترقی یافتہ اصولوں اور عملی کام کی ٹریننگ کا انتظام ہونا چاہئے.تجارت میں درآمد و برآمد کے موٹے اصول اور چیزوں کے خرید نے اور فروخت کرنے کے طریق بتائے جائیں.اور دستکاری میں بعض عام صنعتوں کی ابتدائی تعلیم شامل کی جاسکتی ہے.(۱۵) ورزش کا سوال بھی نہایت اہم ہے اور قوم کی جسمانی ترقی اور صحتوں کی درستی پر بھاری اثر رکھتا ہے.پس سکولوں میں اس کی طرف بھی واجبی توجہ ہونی چاہئے.کھیلیں ایسی رکھی جائیں جو چار اغراض کو پورا کرنے والی ہوں.(۱) جسم اور اعصاب کی طاقت کو بڑھانے والی ہوں.(۲) جسم میں پھرتی پیدا کرنے والی ہوں (۳) عقل کو تیز کرنے والی ہوں اور (۴) باہم تعاون کی روح کو ترقی دینے والی ہوں.نیز کمیٹی ہذا کی رائے میں بچوں کو تین فنون کا سکھانا ضروری ہے.جس کا سکول کی طرف سے انتظام ہونا چاہئیے.(الف) تیرنا - (ب) سواری سائیکل کی یا گھوڑے کی یا اگر ممکن ہو تو موٹر کی بھی (ج ) بندوق چلانا.جس کے لئے ابتدا ہوائی بندوق اور بعد میں ۲۲ بور کی رائفل کلمبیں جاری کی جا سکتی ہیں تا کہ ابتداء سے ہی بچوں میں فنون سپہ گری کا ملکہ اور شوق پیدا ہو.(۱۶) بالآخر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہم نے نصاب کے متعلق جو سفارشات کی ہیں ان میں اپنی تجاویز کو صرف پرائمری اور مڈل کی تعلیم تک محدود رکھا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ہم نے کسی مضمون کے مڈل میں رکھے جانے کی سفارش کی ہے تو وہ ہائی کلاسز میں بھی ضرور رکھا جائے گا.اور اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم نے کسی مضمون کے متعلق یہ سفارش کی ہے کہ وہ مڈل میں نہ رکھا

Page 414

مضامین بشیر ۴۰۲ جائے تو وہ ہائی کلاسز میں بھی نہیں رکھا جائے گا.ہائی کلاسز کے نصاب کا معاملہ ہمارے مشورہ کے دائرہ سے خارج ہے.اس لئے اس کے متعلق ہماری موجودہ تجاویز سے کوئی مثبت یا منفی استدلال کرنا درست نہیں ہوگا.کیونکہ وہ حصہ اپنی ذات میں علیحدہ طور پر زیر غور آکر طے ہونا چاہئیے.خدا کرے کہ اس اہم سوال کے متعلق حکومت کا متعلقہ شعبہ ایسے فیصلہ کی طرف راہنمائی حاصل کرے جو ملک اور قوم کے لئے بہترین نتائج پیدا کر نیوالا ہو.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۵/نومبر ۱۹۴۸ء)

Page 415

۴۰۳ مضامین بشیر قادیان کی تازہ اطلاعات خدا کے فضل سے سب دوست خیریت سے ہیں خدا کے فضل سے قادیان کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ با قاعدہ قائم ہے اور گو بعض اوقات ڈاک کے آنے یا جانے میں کئی دن لگ جاتے ہیں.لیکن بہر حال قریباً ہر روز قادیان سے خطوط آتے رہتے ہیں.اور میرے دفتر سے بھی خطوط جاتے رہتے ہیں.قادیان میں اس وقت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل مقامی امیر ہیں اور ان کے ساتھ کئی دوست مثلاً مولوی برکات احمد صاحب بی.اے ( ناظر امور عامہ ) اور شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی.اے ( ناظر بیت المال و محاسب ) اور ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے اور ڈاکٹر بشیر احمد صاحب وغیر ہم سلسلہ کے مختلف شعبوں میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں.اس کے علاوہ ہمارے خاندان میں سے عزیز مرزا وسیم احمد سلمہ ( ناظر دعوت و تبلیغ ) بھی جو حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے صاحبزادے ہیں ، قادیان میں مقیم ہیں.مہمانخانہ اور لنگر خانہ کے انچارج مولوی عبدالحفیظ صاحب بقا پوری ہیں اور مولوی شریف احمد صاحب اور مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی تبلیغی اور تربیتی فرائض سرانجام دیتے ہیں.اس کے علاوہ سلسلہ کے بعض قدیم اور مخلص بزرگ مثلاً بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور میاں محمد دین صاحب کھاریاں والے اور میاں محمد دین صاحب تہال والے جو سب قدیم صحابہ میں سے ہیں ، اپنے دینی اور روحانی پروگرام سے جماعت کی تربیت میں حصہ لیتے رہتے ہیں.دوست ان سب کے لئے اور قادیان میں ٹھہرے ہوئے مخلصین کے لئے خاص طور پر دعائیں کرتے رہیں.جیسا کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ قادیان کے دوست بھی انہیں اپنی دعاؤں میں یا درکھتے ہیں.وَكَانَ اللَّهُ مَعَهُمُ اَجْمَعِيْن.دوسرے میں نے اپنے گزشتہ نوٹ میں لکھا تھا کہ قادیان میں اس وقت ملٹری کوئی نہیں ہے.مگر مجھے مولوی برکات احمد صاحب ناظر امور عامہ قادیان کے تازہ خط سے پتہ لگا ہے کہ بیشک درمیان میں کچھ عرصہ کے لئے قادیان سے ملٹری چلی گئی تھی.مگر اس کے بعد وہ پھر آگئی اور اب قریباً پینتیس (۳۵) کس کی تعداد میں قادیان میں ملٹری موجود ہے.مولوی برکات احمد صاحب نے اپنے تازہ خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ اخبا رسول اینڈ ملٹری گزٹ کے ذریعہ سے انہیں قادیان میں وہ تصویر پہونچی جس میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی

Page 416

مضامین بشیر ۴۰۴ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پرلیس کے نمائیندوں کے ساتھ ربوہ کے میدان میں کھڑے ہیں.اس تصویر کو دیکھ کر قادیان کے درویشوں کو بے انتہا خوشی ہوئی اور ساتھ ہی کئی قسم کی یادیں تازہ ہو کر رفت کے جذبات بھی پیدا ہوئے.میں نے قادیان میں ربوہ کی بعض اور تصویر میں بھی بھجوائی ہیں.جیسا کہ میں گزشتہ رپورٹ میں لکھ چکا ہوں قادیان میں حکومت مشرقی پنجاب کے مختلف افسر جاتے رہتے ہیں اور ہمارے دوستوں کو ملنے کے لئے دار اسیح میں بھی جاتے ہیں.چنانچہ اس ہفتہ گورداسپور کے نئے سول سرجن صاحب جن کا نام با وا ہرنام سنگھ ہے قادیان گئے.اور جماعت احمد یہ کی ڈسپنسری کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے.اس ڈسپنسری کے انچارج ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ہیں.ڈاکٹر صاحب نے انہیں بتایا کہ قادیان کے احمدیوں میں بعض ایسے مریض ہیں جن کے علاج کا انتظام ان کے پاس موجود نہیں مثلاً بعض موتیا بند کے مریض ہیں جن کے آپریشن کا انتظام موجود نہیں.سول سرجن صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لئے کوئی انتظام کریں گے.یہ سول سرجن خانیوال میں عزیزم مرزا مظفر احمد کے ساتھ رہ چکے ہیں.ہماری ڈسپینسری میں کئی غیر مسلم بھی علاج کے لئے آتے رہتے ہیں.حالانکہ گورنمنٹ کا مقامی ہسپتال موجود ہے.اسی طرح اس ہفتہ میں گورداسپور کے نئے انسپکٹر سی.آئی.ڈی قمر گوپال صاحب بھی قادیان گئے اور ہمارے دوستوں کے ساتھ مل کر مختلف سوالات پوچھتے رہے.اسی طرح اس ہفتہ میں گورداسپور کے ڈسٹرکٹ پیلٹی آفیسر مسٹر من موہن آنند بھی قادیان گئے اور بعض شکایات سن کر کہنے لگے کہ قادیان کا کیس ابھی تک دہلی کی سنٹرل حکومت کے پاس ہے.اس لئے مشرقی پنجاب کی حکومت کو اس میں زیادہ دخل دینے کا حق نہیں ہے.سنٹر سے ہی ان باتوں کا فیصلہ ہوگا.قادیان میں انشاء اللہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی دسمبر کے آخری ہفتہ میں جلسہ سالانہ منعقد ہوگا.جس کے لئے ہمارے قادیان کے دوست پروگرام مرتب کر رہے ہیں اور انہوں نے حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی درخواست کی ہے کہ گزشتہ سال کی طرح حضور بھی کوئی مختصر مضمون یا پیغام لکھ کر ارسال فرما دیں.تاکہ قادیان والوں کے لئے از دیا دایمان اور تقویت قلوب اور دماغی تنویر کا موجب ہو.قادیان کے دوست خدا کے فضل سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ دینی پروگرام پر پوری طرح کار بند ہیں.جو درس و تدریس اور نفلی روزوں اور دعاؤں اور وقار عمل وغیرہ پر مشتمل ہے.قادیان کے بعض دوست بیمار ہیں.ان کے لئے دعا کی درخواست ہے.( مطبوعه الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۴۸ء)

Page 417

۴۰۵ مضامین بشیر ایک غلط فہمی کا ازالہ اور شکر یہ احباب گزشتہ دنوں میں الفضل میں مرزا عزیز احمد صاحب کی اہلیہ کی وفات کی خبر شائع ہوئی تھی.اس پر کئی دوستوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ گویا فوت ہونے والی خاتون ہمارے بھتیجے مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے کی اہلیہ صاحبہ ہیں.اور گوالفضل میں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی کرایا گیا مگر پھر بھی بعض حلقوں میں یہ غلط فہمی اب تک چل رہی ہے.سو دوبارہ اعلان کیا جاتا ہے کہ فوت ہونے والی خاتون مرزا منور احمد صاحب مرحوم مبلغ امریکہ کی ہمشیرہ تھیں نہ کہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے کی اہلیہ جو ہمارے ماموں حضرت میر محمد الحق صاحب کی صاحبزادی ہیں.اور گوفوت ہونے والی بھی ہمارے عزیزوں میں سے ہیں.کیونکہ وہ ہماری ممانی کی بہن اور مرزا محمد شفیع صاحب مرحوم کی لڑکی ہیں.مگر بہر حال وہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی صاحبزادی نہیں.جو ہمارے بھتیجے مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے کی اہلیہ ہیں.فوت ہونے والی خاتون کے خاوند مرزا عزیز احمد لاہور کے رہنے والے ہیں اور پنجاب کے مشہور شاعر بابا ہدایت اللہ صاحب کے پوتے ہیں.اس موقع پر میں مرحومہ کی عمر رسیدہ والدہ کی طرف سے ان بہنوں اور بھائیوں کا شکر یہ بھی ادا کرتا ہوں.جنہوں نے اس صدمہ میں ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا یا انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھا.وہ احباب جماعت سے درخواست کرتی ہیں کہ آئندہ بھی انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھا جائے.یہ بوڑھی خاتون اپنی آخری عمر میں آکر اوپر تلے کئی صدموں کا شکار ہوئی ہیں.یعنی سب سے پہلے ہمارے بڑے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم کا انتقال ہوا جو ان کے داماد تھے اور اس کے بعد ان کے بڑے لڑکے مرزا احمد شفیع صاحب بی.اے فسادات کے دنوں میں قادیان میں شہید ہوئے اور پھر ان کے دوسرے لڑکے مرزا منور احمد صاحب مبلغ امریکہ نے وطن سے بارہ ہزار میل دور وفات پائی.اور اب آکر ان کی لڑکی رشیدہ بیگم صاحبہ نے انہیں داغ جدائی دیا.بڑھاپے کی عمر میں یہ اوپر تلے کے غیر معمولی صدمے یقیناً انہیں اس بات کا حقدار بناتے ہیں کہ دوست انہیں اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور ویسے تو ہم خدا کے فضل سے اس بات پر ایمان لاتے ہیں

Page 418

مضامین بشیر ۴۰۶ کہ ہر خدائی تقدیر اپنے اند ر ضرور کوئی نہ کوئی خاص مصلحت رکھتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایمان بالغیب کے اصول کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان خدائی حکمت کو سمجھنے کے بغیر بھی ہر الہی تقدیر کے اظہار پر خواہ وہ بظا ہر کتنی ہی تلخ ہو ، خدائی حکمت اور خدائی رحمت پر ایمان لائے.مطبوع الفضل ۲۳/ نومبر ۱۹۴۸ء)

Page 419

۴۰۷ قادیان کی جائداد کے مقابلہ پر عاراضی الاٹمنٹ کرائی جاسکتی ہے مضامین بشیر شروع شروع میں قادیان سے آنے پر میں نے دوستوں کی اطلاع اور تحریک کے لئے یہ اعلان کیا تھا کہ جن دوستوں کی جائیداد قادیان یا مشرقی پنجاب کے کسی حصہ میں ضائع ہوئی ہے.انہیں چاہیئے کہ اپنا نقصان رجسٹرار آف کیمز حکومت مغربی پنجاب لاہور کے دفتر میں رجسٹر کرا دیں اور اس کے ساتھ میں نے حضرت صاحب کے منشاء کے ماتحت یہ اعلان بھی کیا تھا کہ قادیان کی جائیداد کے مقابلہ پر کسی اور جائیداد کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ قادیان ہمارا مقدس مرکز ہے جس پر ہم اپنا حق کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتے.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ جلد یا بدیر خدا ہمیں قادیان واپس دلائے گا.چنانچہ اس اعلان پر بہت سے دوستوں نے اپنے نقصان رجسٹر کرا دیئے.اب جبکہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر شخص کو اس کی ضائع شدہ جائیداد کے مقابلہ اسی قدر یا اس ملتی جلتی زمین وغیرہ دی جائیگی.گویا کھاتا وار الاٹمنٹ ہوگی اور اس غرض کے لئے لاہور میں ایک خاص فنانشل کمشنر سیٹلمنٹ اور اس کے ماتحت ہر ضلع میں ایک ایک سیٹلمنٹ افسر مقرر کر دیئے ہیں اور کئی دوست ابھی تک بغیر کسی معقول سہارے کے پڑے ہیں اس لئے بعض دوست پوچھتے ہیں کہ کیا ہم قادیان کی جائیداد کے مقابلہ پر پاکستان میں عارضی الاٹمنٹ کر اسکتے ہیں.سو دوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ عارضی الاٹمنٹ میں کوئی ہرج نہیں بشرطیکہ درخواست میں صراحت کر دی جائے کہ چونکہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے جس پر ہم اپنا حق کسی صورت میں چھوڑ نہیں سکتے اس لئے ہم اس کے مقابلہ پر کوئی مستقل تبادلہ نہیں چاہتے بلکہ صرف عارضی الاٹمنٹ کا مطالبہ کرتے ہیں.اسی طرح اپنی سابقہ آمد کے مقابلہ پر نقد الاٹمنٹ کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے جو کسٹوڈین جائیداد مترو کہ حکومت مغربی پنجاب لاہور یا اپنے ضلع کے ڈپٹی کسٹوڈین کے سامنے پیش ہونا چاہیئے.خلاصہ یہ کہ عارضی الائمنٹ بصورت جائیداد کا مطالبہ ہو سکتا ہے.جو فنانشل کمشنر سیٹلمنٹ حکومتِ مغربی پنجاب لاہور یا اپنے ضلع کے سیٹلمنٹ افسر کے سامنے پیش کرنا چاہیے.الائمنٹ بصورت نقد کا مطالبہ کسٹوڈین جائیداد مترو که حکومت مغربی پنجاب لاہور یا اپنے ضلع کے ڈپٹی کسٹوڈین کے سامنے پیش کرنا چاہیے.( مطبوعه الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۴۸ء)

Page 420

مضامین بشیر ۴۰۸ قرضوں کی صفائی والے مضامین کے متعلق بعض ضروری تصریحات میں نے خدا کے فضل سے کسی فریق کی نا واجب پاسداری نہیں کی گزشتہ ایام میں میں نے مقروض دوستوں کو توجہ دلانے کے لئے بعض مضامین لکھے تھے اور دوسری طرف ان مضامین میں قرض خواہوں کو بھی ان کی بعض ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی تھی.میرے ان مضامین پر جہاں بہت سے دوستوں کی طرف سے شکریہ اور خوشی کے خطوط موصول ہوئے ہیں ، وہاں بعض مقروض احباب نے ان مضامین پر کسی قدر نا راضگی کا اظہار بھی کیا ہے کہ تم نے مقروض لوگوں پر زیادہ بوجھ ڈالا ہے.حالانکہ جو لوگ لٹ لٹا کر آئے ہیں اور انہیں اس وقت اپنے قرضوں کے واپس ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے ان پر ایسا نا واجب بو جھ نہیں ڈالنا چاہیے.مگر سب سے زیادہ عجیب و غریب خط مجھے ایک ایسے مہربان کی طرف سے پہنچا ہے کہ جس نے اپنے خط کے شروع میں تو یہ لکھا ہے کہ آپ نے مضامین کو شائع کر کے قرضہ کی ادائیگی کا راستہ بند کیا ہے کھولا نہیں اور آخر میں یہ لکھا ہے کہ ” خدارا اس قسم کی اشتہار بازی ترک فرما دیں، وغیرہ وغیرہ..جہاں تک میں سمجھتا ہوں میرے مضامین بالکل صاف اور واضح تھے.اور ان میں ہر دو فریق کے حقوق کا خیال رکھا گیا تھا.مگر بہر حال یہ بھی ضروری تھا کہ جن جن حالات میں ہماری شریعت کسی فریق کا زیادہ خیال رکھتی ہے.ان حالات میں اس فریق کا زیادہ خیال رکھا جائے.حقوق کے معاملہ میں رعایت کرنا مومن کا شیوہ نہیں اور بچے مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرنے کے بغیر ہر حال میں حق بات اپنی زبان پر لائے اور حق راستہ پر گامزن ہوا اور خدا کے فضل سے ہمیں ایسی کامل و مکمل اور عدل و انصاف سے معمور شریعت ملی ہے کہ اس میں دوسرے لوگ تو الگ رہے مجرموں تک کے حقوق کو محفوظ کیا گیا ہے اور میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ کسی دوست کی دوستی یا کسی دشمن کی دشمنی مجھے صداقت اور دیانت کے راستہ سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو.میرے مضامین بالکل صاف تھے اور ہر شخص جس نے انہیں خالی الذہن ہو کر غور کے ساتھ پڑھا ہوگا.وہ اس بات کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ان میں کسی فریق کی نا واجب رعایت نہیں کی گئی اور نہ ایک فریق کا حق چھین کر دوسرے فریق کو دیا گیا ہے.ان مضامین کا خلاصہ ذیل کے چند فقروں میں

Page 421

۴۰۹ مضامین بشیر آجاتا ہے جنہیں میں اپنے قارض اور مقروض دوستوں کے لئے درج ذیل کرتا ہوں.(۱) میں نے لکھا تھا کہ قرضہ لینے والوں نے گزشتہ فسادات میں بھاری نقصان اٹھایا ہے ، میرا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے لوگوں نے نقصان نہیں اٹھایا.بلکہ مطلب یہ ہے کہ چونکہ قرضہ لینے والے دوست عموماً کارخانہ دار یا دوکاندار یا دیگر جائیداد منقولہ کے مالک تھے.جس کی کفالت پر انہوں نے قرض لیا ہوا تھا.اس لئے لازماً انہیں دوسروں کی نسبت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے.(۲) ان مقروض صاحبان میں سے بعض کو پاکستان میں آکر ان کے سابقہ کارخانے یا دوکان یا زمین وغیرہ کے مقابلہ پر کوئی نہ کوئی جائیدا دمل گئی ہے اور بعض کو ابھی تک کچھ نہیں ملا.پھر وہ جنہیں کچھ جائدا دل گئی ہے.ان میں سے بعض ایسی حالت میں ہیں کہ ان کی یہ جائیدا دا نہیں ابھی سے معقول آمد دے رہی ہے.بلکہ بعض کی حالت تو پہلے سے بھی بہتر ہے.مگر بعض ایسے ہیں کہ ابھی ان کی نئی جائیداد کافی انتظام چاہتی ہے اور یا تو وہ کچھ بھی آمد نہیں دے رہی اور یا نہایت قلیل آمد دے رہی ہے.(۳) اوپر کے حالات کے ماتحت میں نے لکھا تھا کہ جن مقروض دوستوں کی حالت اچھی ہے ان کا فرض ہے کہ اپنے قرض خواہوں کا قرضہ ادا کریں.خواہ یکمشت اور خواہ بالاقساط ورنہ خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے.لیکن جو مقروض دوست ابھی تک واقعی نادار ہیں اور قرضہ کی واپسی کی طاقت بالکل نہیں رکھتے اور حقیقتاً معذور ہیں.ان کے متعلق ہماری شریعت یہ حکم دیتی ہے کہ فنظرة إلى ميسرة یعنی ایسے لوگوں کو اس وقت تک مہلت ملنی چاہیئے کہ ان کے مالی حالات میں بہتری کی صورت پیدا ہو جائے.پس اس قسم کے حقیقی معذوروں کو مطالبہ کر کے شرمندہ اور پریشان کرنا برکت کا موجب نہیں ہوسکتا.(۴) مگر اس کے مقابلہ پر بعض قرضہ دینے والے دوست بھی اس وقت ایسے ہیں کہ وہ اپنی قریباً ساری پونجی دوسروں کو قرضہ دے کر ختم کر چکے تھے.یا رہن وغیرہ کی صورت میں دوسروں کے سپر دکر چکے تھے اور اب وہ بالکل خالی ہاتھ ہیں اور نہ صرف خالی ہاتھ ہیں.بلکہ وہ اپنے ضائع شدہ مال کے مقابلہ پر عام حالات میں یہ حق بھی نہیں رکھتے کہ پاکستان میں اپنے نام پر کوئی الائمنٹ کرالیں.یہ لوگ اس وقت انتہائی تنگی کی حالت میں ہیں.اور بد قسمتی سے ایسے لوگوں میں بعض ایسی بیوہ عورتیں بھی شامل ہیں جن کے سر پر اس وقت کوئی مرد پرسان حال نہیں.میں نے لکھا تھا کہ اس قسم کے لوگ بہت ہمدردی کے مستحق ہیں اور مقروض صاحبان کو اس قسم کے لوگوں کے قرضوں کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.کیونکہ اگر قارض اور مقروض دونوں برابر کے تنگدست ہوں تو اسلام اور دیانت دونوں کا یہ تقاضا ہے کہ اس تنگی کا بوجھ مقروض پر زیادہ پڑے اور قارض پر کم.ورنہ مقروض شخص خدا

Page 422

مضامین بشیر ۴۱۰ کے سامنے کبھی بھی سرخرو نہیں سمجھا جا سکتا.اور جہاں قرضہ دینے والا قرضہ لینے والے سے زیادہ تنگ دست ہو اور مقروض کی حالت نسبتاً بہتر ہو.وہاں تو مقروض کا قرض کی ادائیگی سے رکے رہنا صریح ظلم میں داخل ہے.گو یہ علیحدہ بات ہے کہ ادائیگی یکمشت نہ ہو بلکہ بالاقساط ہو.(۵) میں نے ایک مخلصانہ تجویز کے رنگ میں یہ بات بھی پیش کی تھی کہ جہاں لوگ اپنی ضروریات کے لئے قرضہ لیتے ہیں.وہاں ان کا فرض ہے کہ اپنے قارض کی تنگی کا خیال رکھتے ہوئے اس کا قرضہ اتارنے کے لیے بھی قرضہ لیں ورنہ یہ دیانت کے خلاف ہوگا کہ ایک شخص اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالنے کے لئے تو قرضہ لے مگر اپنے فاقہ کش قارض کا قرضہ اتارنے کے لئے اور اسے فاقہ سے بچانے کے لئے قرضہ نہ لے.(۶) ایک آخری بات میں نے یہ کہی تھی کہ اگر کسی مقروض کے حالات واقعی مجبوری کے ہوں (اور خدا ہی جانتا ہے کہ حقیقی مجبوری کس کی ہے اور کس کی نہیں) کہ وہ کسی صورت میں بھی اپنے قرض خواہ کا قرضہ نہ ا تا رسکتا ہو تو اسے چاہیئے کہ کم از کم قارض کے مطالبہ پر خوش اخلاقی کے ساتھ ہی پیش آئے اور معذرت کر کے مہلت کا خواہاں ہو.بلکہ اگر قرض خواہ کی طرف سے کسی قد رسختی کا اظہار بھی ہو تو اسے بھی صبر اور ضبط نفس کے ساتھ برداشت کرے کیونکہ یہی ہمارے پاک نبی کا مبارک اسوہ ہے.پر وہ باتیں ہیں جو میں نے اپنے گزشتہ مضامین میں لکھی تھیں.اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ میں نے خدا کے فضل سے کسی فریق کی ناوا جب پاسداری کا طریق اختیار نہیں کیا.بلکہ اپنے علم کے مطابق اس معاملہ میں جو بھی اسلام کی تعلیم تھی وہ پوری پوری دیانتداری کے ساتھ پیش کر دی ہے.وَاللهُ عَلَی مَا أَقُولُ شَهِيد بالآخر میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے اپنے مضامین میں لکھا ہے ( جن کا خلاصہ اوپر درج کر دیا گیا ہے ) وہ میں نے محض اصولی طور پر لکھا ہے.ورنہ انفرادی طور پر میں یہ نہیں جانتا اور نہیں کہہ سکتا کہ کس معاملہ میں قارض حق پر ہے اور کس میں مقروض.ہوسکتا ہے کہ خدا کے نزدیک یا ان لوگوں کے نزدیک جنہیں انفرادی حالات کا صحیح علم ہے کسی کیس میں مقروض زیادہ حق پر ہو.اور اس کے مقابلہ پر قارض اتنی ہمدری کا حقدار نہ ہو یا کسی کیس میں حالات اس کے الٹ ہوں.بہر حال یہ ایسی باتیں ہیں کہ میں ان کے متعلق رائے لگانے کا حق نہیں رکھتا بلکہ صرف اصولی بات ہی کہہ سکتا ہوں جو میں نے کہہ دی ہے.آگے ہر قارض اور ہر مقروض کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ دوسرے فریق کے ساتھ اس کا سلوک کہاں تک حق وانصاف پر مبنی ہے.اور یا پھر ایسے فیصلہ کے لئے قضا کا رستہ کھلا

Page 423

۴۱۱ مضامین بشیر ہے.وما علينا الا البلاغ نوٹ : - یہ سوال اگر کوئی قرضہ رہن کی صورت میں ہو تو شرعی فتوے کی رو سے مہر ہو نہ جائیداد کے ضائع چلے جانے کی صورت میں زررہن پر کیا اثر پڑتا ہے.ایک ایسا سوال ہے کہ جس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا.یہ سوال جماعت کے مفتی سے پوچھنا چاہئے.مگر ظاہر ہے کہ اس مسئلہ کے بہت سے پہلو ہو سکتے ہیں.اور ہر پہلو الگ الگ جواب چاہتا ہے.( مطبوعه الفضل ۲۸ /نومبر ۱۹۴۸ء)

Page 424

مضامین بشیر ۴۱۲ قادیان کی مساجد ہمارے دوستوں کی طرف سے دیکھ بھال اور صفائی کا انتظام مولوی برکات احمد صاحب بی.اے ناظر امور عامہ قادیان کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اور ملک صلاح الدین صاحب اور فضل الہی صاحب اور پندرہ میں دوسرے دوست ۲۳ نومبر کو مقامی پولیس کو ساتھ لے کر قادیان کی مختلف مسجدوں کی دیکھ بھال اور صفائی کے لئے گئے.انہوں نے مسجد محلہ دار الفضل کو صاف کیا اور اس کے غسلخانہ کو اینٹوں سے بند کر دیا جو مسجد کے ساتھ گندگی پھیلانے کا ذریعہ بنا ہوا تھا.مسجد نور کی چند کنگریاں تازہ توڑی ہوئی پائی گئیں.اسی طرح مسجد محلہ دار لیسر کی دیوار پر غیر مسلم پناہ گزینوں نے پاتھیاں یعنی اپلے لگائے ہوئے تھے جو اتارکر دیوار کو صاف کیا گیا.اس مسجد کی دیوار میں ایک شگاف بھی تھا جسے بند کر دیا گیا.اس کے علاوہ مسجد دار الرحمت کی بھی صفائی کی گئی.مسجد دار الفضل کی ایک کھڑکی کو توڑا ہوا تھا جسے اینٹوں سے بند کر دیا گیا ہے.یہ کام دو دن میں سرانجام پایا اور اس عرصہ میں مقامی سب انسپکٹر پولیس کے تعاون سے ایک مسلح پولیس مین ساتھ رہا.میں نے مولوی برکات احمد صاحب کو لکھا ہے کہ قادیان میں جماعت احمدیہ کی انیں (۱۹) مسجد میں اور دوسرے مسلمانوں کی چار (۴) مسجدیں ہیں.اس کے علاوہ قادیان میں سات قبرستان بھی ہیں ان سب کی دیکھ بھال اور صفائی کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے.( مطبوعه الفضل ۲۸ / نومبر ۱۹۴۸ء)

Page 425

۴۱۳ خدا را مسلمانوں کو کمیونزم کی طرف نہ دھکیلو مضامین بشیر عدم مساوات کا احساس اور چیز ہے اور کمیونزم کا مؤید ہونا بالکل اور بات موجودہ عدم مساوات کا صحیح علاج آجکل دنیا میں کمیونزم یعنی نظام اشتراکیت کا فتنہ بہت اہمیت حاصل کر گیا ہے اور اپنی جائے پیدائش یعنی مملکت روس سے نکل کر دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی نفوذ پیدا کر رہا ہے اور بد قسمتی سے پاکستان کی آبادی کا ایک حصہ بھی کمیونزم کے خیالات سے متاثر نظر آتا ہے.لیکن اس جگہ مجھے کمیونزم کے فتنہ کے جواب میں کچھ تحریر کرنا مد نظر نہیں ہے.یہ ایک علیحدہ اور مستقل مضمون ہے جس پر ہماری جماعت کی طرف سے اسلام کے کامل و مکمل مذہب سے اخذ کر کے کافی لٹریچر شائع کیا جا چکا ہے.مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ امام جماعت احمدیہ کی معرکتہ آلا را تصنیف اسلام کا اقتصادی نظام وغیرہ.اسی طرح میرے بعض مضامین اور رسالوں میں بھی کمیونزم کے متعلق مختصر بحث آچکی ہے.لیکن اس جگہ جو فتنہ میرے مد نظر ہے وہ خود کمیونزم کا فتنہ نہیں بلکہ یہ یمنی فتنہ ہے کہ کئی لوگ نادانی کی وجہ سے ایسے لوگوں کو بھی کمیونسٹ قرار دے رہے ہیں جو حقیقتاً کمیونسٹ نہیں بلکہ صرف اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ موجودہ اسلامی سوسائٹی میں دولت کی تقسیم غیر مساویانہ ہے اور اس کی اصلاح ہونی چاہئے.ان لوگوں کو اسلامی سوسائٹی کی موجودہ بیماری کا احساس تو بے شک ہے اور وہ اس نقص کو دور ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں.لیکن انہیں روس کے اشترا کی نظام کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں مگر باوجود اس کے کئی لوگ بلکہ کئی ذمہ دار اخبارات بھی غلطی سے ایسے لوگوں کو کمیونسٹ قرار دے کر عملاً کمیونزم کی طرف دھکیل رہے ہیں ، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے لوگ کمیونسٹ نہ ہوتے ہوئے بھی آہستہ آہستہ کمیونزم کی طرف مائل ہو جائیں گے.

Page 426

مضامین بشیر ۴۱۴ علم النفس کا ایک لطیف نکتہ ہمارے مقدس آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ہی مبارک ارشاد ہے کہ: من قال هلک القوم وفهواهلكهم IA یعنی جو شخص کسی قوم یا کسی پارٹی کے متعلق یہ کہتا ہے کہ وہ ہلاک ہوگئی.وہ اس قسم کے الفاظ کہہ کر خود انہیں ہلاکت کے گڑھے کی طرف دھکیلتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک قول ایک نہایت گہری نفسیاتی حقیقت پر مبنی ہے.اور یہ اسی قسم کی بات ہے کہ جیسے بعض اوقات ایک اچھے بھلے آدمی کو بیمار بیمار کہہ کر اس کے اندر اولاً بیماری کی حس اور بالآخر بیماری کی حقیقت پیدا کر دی جاتی ہے.پس ضروری ہے کہ ہم یونہی لوگوں کو کمیونسٹ کمیونسٹ کہ کر کمیونزم کی طرف نہ دھکیلیں کیونکہ اس طرح ہم کمیونزم کا مقابلہ کرنے کی بجائے اسے بالواسطہ تقویت پہنچانے کا باعث بن جائیں گے.بیماری کا احساس اور چیز ہے اور اس کا علاج اور چیز دراصل عدم مساوات کا احساس یعنی یہ احساس کہ اس وقت اسلامی سوسائٹی میں دولت اور املاک کی وہ منصفانہ تقسیم نہیں پائی جاتی جو ہونی چاہئے صرف ایک بیماری کے احساس کا رنگ رکھتا ہے.لیکن اس کے مقابل پر کمیونزم یعنی اشتراکیت کا نظام عدم مساوات کی بیماری کے احساس کا نام نہیں بلکہ اس بیماری کے ایک مخصوص قسم کے علاج کا نام ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ دونو باتیں ایک دوسرے سے بالکل جدا اور متفائر ہیں.جو شخص موجودہ اسلامی سوسائٹی میں عدم مساوات کا احساس رکھتا ہے.اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ اس کے دماغ نے ایک نقص کو محسوس کیا ہے.جس کی اصلاح ہونی چاہئے اور اس کی آنکھ نے ایک بیماری کو دیکھا ہے جس کے علاج کی ضرورت ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس نے اس نقص کے ازالہ اور اس بیماری کے علاج کے لئے کمیونزم والے علاج کو بھی صحیح تسلیم کر لیا ہے.ہوسکتا ہے کہ اس کے ذہن میں اس بیماری کا کوئی اور علاج موجود ہو.مثلاً یہ کہ وہ موجودہ اقتصادی نظام کو غیر اسلامی نظام سمجھتا ہو اور اس کی جگہ صحیح اسلامی نظام قائم کرنے کا مؤید ہو.یا یہ کہ وہ کمیونزم والے علاج کو تو رد کر تا ہو مگر اس کی جگہ کسی اور علاج کی تلاش میں ہو.پس یہ

Page 427

۴۱۵ مضامین بشیر ہرگز درست نہیں کہ ہم عدم مساوات کے احساس کو کمیونزم کے ساتھ غلط ملط کر کے اپنے اندر ایک نئے فتنہ کا دروازہ کھول دیں.گرتے ہوؤں کو دھکا دینے کی بجائے انہیں آگے بڑھ کر سنبھالنا چاہئے 119 ہمارے مقدس آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے حالات میں گرتے ہوؤں کو دھکا دینے کی بجائے انہیں سنبھالنے کی تاکید فرمائی ہے اور آپ کا اپنا اسوۂ حسنہ اس معاملہ میں ہمارے لئے بہترین مشعل راہ ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک دفعہ مسلمانوں کی ایک پارٹی کفار کی ایک زیادہ طاقتور پارٹی کے مقابلے سے ہٹ کر مدینہ میں واپس آگئی.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا کہ یہ لوگ شرم اور ندامت کی وجہ سے مسجد نبوی کے ایک کو نہ میں چھپے بیٹھے ہیں تو اس پر آپ فوراً ان کے پاس پہنچے.اور ان سے جا کر پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں.جس پر انہوں نے شرم کی وجہ سے سر نیچے ڈالے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ نَحْنُ الْفَرَّارُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ( یعنی یا رسول اللہ ہم لوگ بھگوڑے ہیں.) تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گری ہوئی ہمتوں کو بلند کرنے اور ان کی دماغی روکا کا نشاہد لنے کے لئے فوراً یہ دانشمندانہ الفاظ فرمائے.کہ لَا بَلْ أَنْتُمُ كَرَّارُونَ ( یعنی نہیں نہیں بلکہ تم تو اس لئے پیچھے ہٹے تھے کہ دوبارہ زیادہ زور کے ساتھ حملہ کرو ) اس بظاہر چھوٹی مگر بہ باطن حکمت و دانائی سے معمور بات نے ایک بجلی کے بٹن کی طرح جو آنِ واحد میں اپنے ماحول کو روشن کر دیتا ہے ان کی گری ہوئی طبیعتوں کو اوپر اٹھا دیا اور وہ یہ کہتے ہوئے اچھل کر کھڑے ہو گئے کہ یا رسول اللہ ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں.اس واقعہ سے ہمیں موجودہ بحث میں یہ بھاری سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص واقعی کمیونزم کی طرف جھک رہا ہو تو تب بھی ہمیں چاہئے کہ حکیمانہ رنگ میں اس کی دماغی رو کو بدلنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ معصوم لوگوں کو بھی محض عدم مساوات کے احساس پر ہی کمیونزم کی طرف دھکیلنا شروع کر دیں.موجودہ عدم مساوات کا احساس تو کثیر التعداد لوگوں میں پایا جاتا ہے اور فی الجملہ وہ درست بھی ہے مگر اس کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم انہیں بلا وجہ کمیونسٹ کہہ کر آگ کے یہ گڑھے میں دھکیل دیں.بلکہ یہ نتیجہ ہونا چاہئے کہ ہم ان کے سامنے موجودہ نقص کا صحیح علاج پیش کریں.

Page 428

مضامین بشیر ۴۱۶ عدم مساوات کی مرض کا صحیح علاج اب رہا یہ سوال کہ وہ صحیح علاج کیا ہے.سو گو یہ اس مضمون کے بیان کرنے کا موقع نہیں.مگر اختصار کے رنگ میں صرف اس قدر بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام خدا کے فضل سے ایک کامل و مکمل مذہب ہے.جس میں ہر بیماری کا علاج پایا جاتا ہے.اور خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں موجودہ عدم مساوات کے صحیح علاج اور کمیونزم کے خطرات کے متعلق کافی مواد موجود ہے.مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں لوگ اسلام کی معروف تعلیم کو بھی بھولے ہوئے ہیں اور گھر کے پاک اور بھر پور چشمہ کو چھوڑ کر ادھر اُدھر کے ناصاف پانیوں سے اپنا جام بھرنا چاہتے ہیں.بہر حال اس معاملہ میں اسلام کی معروف تعلیم کا خلاصہ ذیل کے چند فقروں میں آجاتا ہے.(۱) اپنی وسعت کے لحاظ سے نمبر اول پر اسلام کا قانون ورثہ ہے.جس کی وجہ سے ہر مالدار اور ہر صاحب املاک کی دولت اس کی وفات پر صرف بڑے بیٹے یا صرف نرینہ اولا د کو ہی نہیں جاتی بلکہ لڑکوں اور لڑکیوں اور بیوی اور ماں اور باپ وغیرہ جملہ ورثا کو بحصہ رسدی پہونچتی ہے.اور اس طرح ملکی دولت کے سمونے کا عمل ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے.اور یہ نہیں ہوتا کہ خاندانوں کا ایک حصہ تو دولت مند ہو جائے اور دوسرا حصہ غربت میں مبتلا رہے.(۲) زکوۃ کا نظام جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ زریں ارشادفرماتے ہیں.کہ تُو خَـدُمِنُ أَغْنِيَا نِهِمُ وَتُرَدُّ إِلى فُقَرَائِهِمْ یعنی زکوۃ وہ ٹیکس ہے جو دولتمندوں کی دولت پر اس لئے لگایا جاتا ہے کہ ان کی دولت کا ایک حصہ کاٹ کر غرباء میں تقسیم کیا جائے.جو دولت کے پیدا کرنے میں امیروں کے پہلو بہ پہلو کام کرتے ہیں.یہ ٹیکس مختلف حالات کے ماتحت اڑھائی فیصدی سے لے کر ہیں ۲۰ فیصدی تک پہنچتا ہے اور پھر یہ ٹیکس صرف نفع پر ہی نہیں لگتا بلکہ سرمایہ پر بھی لگتا ہے.(۳) زکوۃ کے علاوہ دوسرے عام صدقہ و خیرات کی تعلیم جس سے قرآن شریف اور حدیث بھرے پڑے ہیں.حتی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے متعلق حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ رمضان میں جو کہ غرباء کی خاص ضرورت کا زمانہ ہوتا ہے اور اس کے بعد عید بھی آنے والی ہوتی ہے ، اس طرح صدقہ کرتے تھے کہ گویا ایک تیز آندھی چل رہی ہے جو کسی روک ٹوک کو خیال میں

Page 429

۴۱۷ مضامین بشیر نہیں لاتی.(۴) سود کی ممانعت اور سود وہ لعنت ہے جس کی وجہ سے ملک کی دولت سمٹ سمٹ کر چند لوگوں کے ہاتھ میں جمع ہو جاتی ہے.بے شک موجودہ زمانہ میں سود کا جال وسیع ہو جانے کی وجہ سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ شاید سود کے بغیر گزارہ نہیں چل سکتا.مگر یہ صرف نظر کا دھوکہ ہے جو موجودہ ماحول کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.ورنہ جب مسلمان نصف دنیا سے زائد حصہ پر حکمران تھے اس وقت سود کے بغیر ساری تجارتیں چلتی تھیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی چلیں گی.(۵) جوئے کی ممانعت.جوا اول تو لوگوں میں بریکاری کی عادت پیدا کرتا ہے.اور دوسرے مال کمانے کو محنت اور کوشش اور ہنر پر مبنی قرار دینے کی بجائے محض اتفاق پر مبنی قرار دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں دولت کی نا واجب تقسیم کا رستہ کھلتا ہے.(1) اسلام کی یہ تعلیم کہ ہر اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لئے کم از کم یہ چیزیں مہیا کرے ( الف ) خوراک (ب) کپڑا ( ج ) مکان ( د) اقل تعلیم کا انتظام اور ( ھ ) غیر معمولی بیماریوں کا علاج.(۷) اسلام کی یہ تعلیم کہ ترقی کرنے کے دروازے ہر مسلمان کے لئے یکساں کھلے ہیں.اور اس کے لئے کوئی قومی یا نسلی یا خاندانی امتیاز ملحوظ رکھنا جائز نہیں.بلکہ ہر شخص جو اہل ہے آگے آ سکتا ہے اور ا سے آگے آنے کا موقعہ ملنا چاہئے.(۸) اسلام کی مساوات کی عام تعلیم مثلاً یہ کہ ہر مسلمان کو اپنا بھائی سمجھو.نمازوں میں امیرو غریب بغیر کسی امتیاز کے اکٹھے کھڑے ہوں.حج میں امیر وغریب تمام امتیازات کو قطعی طور پر مٹادیں.امراء اپنے کھانے میں سے اپنے غریب نوکروں کو حصہ دیں.اور انہیں اس کھانے میں شریک کریں جو وہ کھاتے ہیں.کوئی نو کر اس لئے نہ رکھیں کہ کوئی کام ایسی ادنے نوعیت کا ہے جسے آقا نہیں کر سکتا.بلکہ اس لئے رکھیں کہ کام اتنا ہے کہ آقا اسے خود اکیلا نہیں کرسکتا.امراء کی دعوتوں میں غرباء کو شریک کرنے کی تحریک.وغیرہ وغیرہ مؤخر الذکر تعلیم اس غرض سے ہے کہ تا عملی افتراق کے دور کرنے کے علاوہ مسلمانوں کے دماغوں میں سے بھی ایک دوسرے سے تفریق اور امتیاز کے خیالات کو دور کیا جائے کیونکہ اصل بیماری دماغ سے پیدا ہوتی ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حکومت اور ملک کا پریس اور ملک کے ذمہ دار لوگ اوپر کی تعلیم پر عمل پیرا ہو جائیں تو اس کے ذریعہ سے بھاری اصلاح پیدا ہو سکتی ہے.

Page 430

مضامین بشیر ۴۱۸ حقیقی مساوات سے کیا مراد ہے.بالآخر میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں میں نے مساوات کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں میری یہ مراد نہیں کہ ہر جہت اور ہر پہلو سے ہر شخص ہر دوسرے شخص کے برابر ہو.ایسی مساوات صرف کرسی نشین فلسفیوں کے تخیل میں پائی جاتی ہے اور دنیا کے کسی حصہ میں اس کا وجود نہیں ملتا اور نہ ہی نیچر میں اس کی کوئی مثال نظر آتی ہے.بلکہ مزعومہ مساوات کے سب سے بڑے حامی ملک روس میں بھی اس قسم کی خیالی مساوات کا وجود نہیں پایا جاتا.پس میں نے جب مساوات کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس سے لغوی مساوات مراد نہیں بلکہ ایسی مساوات مراد ہے کہ جس میں سوسائٹی کے مختلف طبقات میں اتنا فرق نہ پیدا ہونے پائے کہ گویا ایک طبقہ دوسرے طبقہ کے مقابل پر ایک جدا دنیا میں بس رہا ہے.اور قوم کے مختلف حصوں کے درمیان گویا ایک خلیج پیدا ہو جائے اور اخوت اور ہمدردی اور تمدنی اور سماجی مساوات کے جذبات مفقود ہو جائیں.اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر انسان کے لئے ترقی کرنے کا دروازہ یکساں کھلا ہو.ورنہ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں لغوی معنوں میں مساوات تو ایک بالکل خیالی چیز ہے جو نہ روس میں پائی جاتی ہے اور نہ کسی اور جگہ.اور نہ وہ کہیں پائی جاسکتی ہے.خلاصہ کلام یہ کہ ہمیں محض عدم مساوات کا احساس رکھنے والے لوگوں کو خواہ مخواہ کمیونسٹ کہہ کہہ کر کمیونسٹ نہیں بنانا چاہیئے.بلکہ اس بیماری کے اس علاج کو اختیار کرنا چاہیئے.جسے اسلام پیش کرتا ہے اور جس سے ہماری مقدس کتاب قرآن کریم اور ہمارے مقدس نبی (فداہ نفسی ) کے اقوال بھرے پڑے ہیں.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.نوٹ.میں نے اس مضمون میں کمیونزم کے اصولی نظام پر کوئی جرح نہیں کی.اور نہ ان اعتراضوں کا ذکر کیا ہے جن سے روسی اشتراکیت کی حقیقت عریاں ہو کر سامنے آجاتی ہے.کیونکہ یہ اس کا موقع نہیں تھا.مگر جو دوست چاہیں وہ اس موضوع پر ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کر سکتے ہیں.اس لٹریچر کے مطالعہ سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ جو چیز اوپر سے اتنی صاف اور دلکش نظر آتی ہے اس کا اندرونہ کتنے بھاری نقصانات اور خطرات سے بھرا ہوا ہے.( مطبوعہ الفضل ۳۰ /نومبر ۱۹۴۸ء)

Page 431

۴۱۹ مضامین بشیر عزیزہ طبیہ بیگم سلمہا کے لئے دُعا کی جائے میری بھانجی عزیزہ طبیہ بیگم سلمها ( بیگم عزیز مرزا مبارک احمد ) کا کل بروز بدھ ( یعنی آج.ایڈیٹر ) بوقت دس بجے صبح لیڈی ولنگڈن ہسپتال لاہور میں آپریشن ہوگا.آپریشن نازک ہے.سب بزرگوں اور دوستوں سے درخواست ہے کہ آپریشن کی کامیابی اور عزیزہ کی صحت اور اولاد صالح کے لئے دعا فرمائیں.( مطبوعه الفضل یکم دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 432

مضامین بشیر ۴۲۰ نومبر ۱۸۹۳ ء تک بیعت کرنے والے بزرگ توجہ فرمائیں محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الہ دین بلڈ نگ سکندر آباد دریاست حیدر آباد دکن اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ میں ان کی طرف سے اعلان کر کے اس بات کا پتہ لوں کہ اس وقت نومبر ۱۸۹۳ء تک بیعت کرنے والے صحابیوں میں سے کون کونسے دوست خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں.سو میں امید کرتا ہوں کہ جو دوست ۱۸۹۳ء میں یا اس سے قبل بیعت میں شامل ہو چکے تھے.وہ مجھے بذریعہ خط مطلع فرمائیں گے تا کہ میں شیخ صاحب موصوف کو اطلاع دے سکوں.شیخ صاحب کا یہ خیال ہے کہ اس وقت صرف چار ایسے صحابی زندہ ہیں.مگر میرا خیال ہے کہ یہ تعداد اس سے زیادہ ہے.مثلاً حضرت ام المومنین مدظلہ العالی کے علاوہ محترم پیر افتخار احمد صاحب اور محترم پیر منظور محمد صاحب اور حضرت اماں جی صاحبہ ( یعنی حرم حضرت خلیفہ اول اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور محترم میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی اور خود محترم شیخ صاحب عرفانی اور غالباً محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور محترم بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب اور محترم ماسٹر عبد الرحمن صاحب جالندھری اور محترم میاں محمد الدین صاحب کھاریاں اور اس طرح کئی اور دوست اس زمانہ سے پہلے کے بیعت شدہ ہیں.بہر حال امید ہے کہ ایسے تمام دوست مجھے اطلاع دے کر ممنون فرمائیں گے.اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کی عمروں اور ان کے افاضات میں برکت عطا فرمائے.آمین.( مطبوعه الفضل ۲ / دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 433

۴۲۱ مضامین بشیر قادیان سے باہر فوت ہونے والے موصی صاحبان کے متعلق اطلاع دی جائے جو موصی صاحبان فسادات کے بعد قادیان سے باہر پاکستان میں فوت ہوئے.خواہ وہ قادیان کے باشندے تھے یا کہ کسی اور جگہ کے ان کے ورثاء مہربانی کر کے مجھے ان کے ناموں اور پتوں وغیرہ کے متعلق اطلاع دے کر ممنون کریں.یعنی ان کا نام، ان کے والد کا نام ، فوت ہونے اور دفن ہونے کی جگہ اور فوت ہونے کی تاریخ.اس کے علاوہ اگر ممکن ہو تو وصیت کا نمبر بھی درج کر دیا جائے.ورنہ وہ چنداں ضروری نہیں.یہ فہرست اس لئے درکار ہے کہ تا دعا کی تحریک کی غرض سے ایسے اصحاب کے کتبے قادیان اور ر بوہ میں لگائے جاسکیں.یہ بھی لکھ دیا جائے کہ آیا وہ امانتاً دفن ہوئے ہیں یا کہ نہیں.( مطبوعه الفضل ۳ دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 434

مضامین بشیر ۴۲۲ مسمات بلقیس بی بی بنت عبد الرحیم صاحب سکنہ شہر امرتسر کہاں ہے مسمات بلقیس بی بی بنت عبدالرحیم صاحب سکنہ قلعہ بھنگیاں امرتسر شہر عمر تیرہ چودہ سال ۲۵ /اگست ۱۹۴۷ء کو ڈیرہ بابا نانک کے قریب سکھوں کے قبضہ میں چلی گئی تھی اور ابھی تک وہ لا پتہ ہے.اگر وہ کسی ذریعہ سے پاکستان پہنچی ہو تو اپنے موجودہ پتہ سے جلد اطلاع دے.اس کے والدین اس کی تلاش میں ہیں.( مطبوعہ الفضل ۷ دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 435

۴۲۳ مضامین بشیر قادیان کے دوست خیریت سے ہیں اخبار سٹیٹسمین کے نمائندہ کی قادیان میں آمد احباب کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ الحمد للہ قادیان کے سب دوست خیریت سے ہیں.اور اپنے اس دینی اور روحانی پروگرام کو پورا کر رہے ہیں جو ان کے لئے مقرر ہو چکا ہے.بعض دوست جو بیمار ہو گئے تھے وہ اب خدا کے فضل سے رو بصحت ہیں.احباب اپنے قادیان کے بھائیوں کو جو اس وقت گویا ہمارے لئے دوسری دنیا میں بس رہے ہیں اپنی خاص دعاؤں میں یا درھیں.اس وقت قادیان کا جو حصہ جماعت احمدیہ کے قبضہ اور استعمال میں ہے وہ مسجد اقصے سے لے کر دفاتر صدر انجمن احمد یہ اور مسجد مبارک اور دارا مسیح اور مدرسہ احمد یہ اور مہمان خانہ اور لنگر خانہ سے ہوتا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے باغ اور مقبرہ بہشتی تک پہنچتا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا مکان بھی اسی حلقہ میں شامل ہے.افسوس ہے کہ ابھی تک قادیان میں کا نوائے بھیجوانے کا انتظام نہیں ہوسکا.اس کے لئے مسلسل کوشش جاری ہے مگر ابھی تک حکومت ہندوستان نے اجازت نہیں دی.قادیان کے جلسہ سالانہ کے متعلق یہی فیصلہ ہوا ہے کہ وہ انشا اللہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوگا.جس کے لئے قادیان کے دوست پروگرام مرتب کر رہے ہیں.گزشتہ ہفتہ کے دوران میں اخبار سٹیٹسمین دہلی کے ایک نمائندہ صاحب قادیان گئے.اور وہاں امیر جماعت احمد یہ مقامی اور مولوی برکات احمد صاحب اور ملک صلاح الدین صاحب اور عزیز مرزا وسیم احمد سلمہ سے مل کر حالات دریافت کرتے رہے.ان کی رپورٹ کو اخبار سٹیٹسمین دہلی نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۶/ نومبر ۴۸ء میں بہت نمایاں کر کے صفحہ اول پر شائع کیا ہے.اس رپورٹ میں سٹیٹسمین کے نمائیندہ نے اپنے چار تا ثرات خصوصیت کے ساتھ بیان کئے ہیں.(۱) قادیان میں مقیم احمدیوں کا مخصوص دینی اور روحانی ماحول جس میں یہ بظاہر دنیا سے کٹے ہوئے لوگ اس وقت سرشار نظر آتے ہیں.(۲) ہمارے قادیان کے دوستوں کی غیر معمولی مشکلات اور قربانیاں جن کا سلسلہ گزشتہ

Page 436

مضامین بشیر ۴۲۴ فسادات سے شروع ہوا اور ایک حد تک اب تک چل رہا ہے.(۳) ان مشکلات کے باوجود ان کا انتہائی صبر و استقلال کے ساتھ قادیان میں بیٹھے رہنا اور اپنے مقدس مقامات کو نہ چھوڑ ناحتی کہ اس غیر معمولی صبر و استقلال کو دیکھ کر بعض اوقات ان پر ظلم و تشدد کرنے والے لوگ بھی شرما جاتے ہیں.(۴) قادیان کی پرانی غیر مسلم آبادی پر جماعت احمدیہ کے حسن سلوک کا اچھا اثر جو قادیان میں جماعت کے طاقت کے زمانہ سے لے کر موجودہ کمزوری کے زمانہ تک یکساں قابل تعریف رہا ہے.الْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ مطبوعه الفضل ۴ / دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 437

۴۲۵ مضامین بشیر پاک اولاد پیدا کرنے کا نسخہ ہر خاوند اور ہر بیوی اس نسخہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے دنیا میں ہر شریف اور ہر دیندار انسان کو پاک اور صالح اولاد پیدا کرنے کی خواہش ہوتی ہے.اور طبعاً یہ خواہش ہماری جماعت کے افراد میں زیادہ پائی جانی چاہئیے کیونکہ وہ دینداری اور طہارت کی قدر کو دوسروں کی نسبت بہت زیادہ جانتے اور زیادہ پہچانتے ہیں.مگر ظاہر ہے کہ کوئی بات محض خواہش سے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے حصول کے لئے ان روحانی اور جسمانی ذرائع کو اختیار نہ کیا جائے جو خدا کے ازلی قانون میں اس کے لئے مقرر کر دیئے گئے ہیں.اوپر کے اصول کے ماتحت غور کیا جائے تو اچھی اور پاک اولاد پیدا کرنے کے لئے دو قسم کے اسباب ضروری نظر آتے ہیں.اوّل وہ اسباب جو بچہ کی پیدائش سے بھی پہلے سے اثر انداز ہونا شروع ہو جاتے ہیں.کیونکہ یہ ثابت ہے کہ بچہ اپنے ماں باپ کے رجحانات اور اخلاق سے حصہ لیتا ہے.اور دوم وہ اسباب جو بچہ کی پیدائش کے بعد اس کی تعلیم وتربیت وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں.مجھے اس جگہ مختصر طور پر صرف پہلی قسم کے اسباب کا ذکر کرنا مد نظر ہے جن کا تعلق زمانہ ماقبل ولادت کے ساتھ ہے.سو یہ اسباب بھی دو قسم کے ہیں.اول : وہ اسباب جو ماں باپ یا ان سے بھی پہلے کے آباؤ اجداد کے اخلاق کا نتیجہ ہوتے ہیں کیونکہ اسلامی تعلیم سے پتہ لگتا ہے کہ فطری قومی اور فطری رجحانات کے لحاظ سے بچہ اپنے والدین اور والدین کے آباؤ اجداد کے اخلاق کا وارث بنتا ہے.چنانچہ جہاں قرآن شریف نے آنحضرت علی کے اخلاق فاضلہ کا ذکر کیا ہے وہاں اس حقیقت کی طرف بھی ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ : وَتَقَلُّبَكَ فِي السُّجِدِينَ MO ۱۲۱ یعنی اے رسول تو نسلاً بعد نسل ایسے لوگوں کی پشتوں میں سے نکلا ہے جو اخلاق کے میدان میں خدا کے بنائے ہوئے قانون پر چلتے رہے ہیں.بے شک اس آیت کے اور معنی بھی ہیں لیکن اس میں یہ اشارہ بھی ضرور مضمر ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے.اور بعض پرانے مفسرین نے بھی اس اشارہ کے وجود کو تسلیم کیا ہے.بہر حال یہ مسلم ہے کہ بچہ اپنے اخلاق میں اپنے والدین اور آباؤ اجداد کا ورثہ لیتا

Page 438

مضامین بشیر ۴۲۶ ہے.پس ضروری ہے کہ نیک اولاد پیدا کرنے کے لئے والدین اپنے اخلاق کو درست کریں اور اپنے اندر وہ پاک باطنی اور دینداری کا جذبہ پیدا کریں جس کا اثر لا زما اولاد میں بھی پہنچتا ہے.دوسری قسم اسباب کی جو زمانہ ماقبل ولادت سے تعلق رکھتی ہے وہ ہے جس کا تعلق اس قلبی اور ذہنی کیفیت کے ساتھ ہے جو خاص خلوت کے اوقات میں خاوند اور بیوی میں پائی جاتی ہے اور دراصل اسی پہلو کی طرف اشارہ کرنا میرے اس مضمون کی غرض وغایت ہے.یہ بات دینی اور طبی ہر دو لحاظ سے ثابت ہے کہ بچہ صرف والدین کے سابقہ اخلاق سے ہی حصہ نہیں پا تا بلکہ اس وقت کے جذبات سے بھی حصہ لیتا ہے کہ جب خاوند اور بیوی اپنے مخصوص تعلق کی غرض سے اکٹھے ہوتے ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ ہوا یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ولایت میں ایک انگریز عورت کے گھر ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جو اپنی شکل وصورت وغیرہ میں بالکل ایک حبشی بچہ معلوم ہوتا تھا.اس پر علمی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور چونکہ عورت کی پاک دامنی شک و شبہ سے بالاتھی اس لئے وہ وجوہات تلاش کی جانے لگیں جن کے نتیجہ میں انگریز والدین کے بچہ نے حبشی خدو خال اور حبشی رنگ ڈھنگ اختیار کر لیا تھا.آخر پتہ لگا کہ جس ہوٹل کے کمرہ میں یہ میاں بیوی اکٹھے ہوئے تھے اس میں ان کی چار پائی کے سامنے ایک انگریز اور حبشی مرد کی تصویر لٹکی ہوئی تھی.یہ انگریز اور حبشی کشتی لڑ رہے تھے اور تصویر میں حبشی مرد نے انگریز کو زمین پر گرا کر اس پر غلبہ پایا ہوا تھا.ان دونوں میاں بیوی نے اس تصویر کو دیکھا اور اس نقشہ کا ان کے دل پر ایسا گہرا اثر پیدا ہوا کہ اس خلوت کے نتیجہ میں جو بچہ پیدا ہوا وہ حبشی صورت اختیار کر گیا.لیکن موجودہ زمانہ کے ترقی یافتہ لوگوں کی اس بیسویں صدی کی ایجاد کے مقابلہ پر ہمارے آقا نے آج سے چودہ سو سال قبل یہ تعلیم دی تھی کی جب خاوند اور بیوی خلوت کی حالت میں اکٹھے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اس وقت اپنے خیالات کو پاک بنانے کی غرض سے یہ دعا پڑھا کریں کہ : اَللّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَنَ وَجَيِّبِ الشَّيْطَنَ مَا رَزَقْتَنَا یعنی اے ہمارے خدا! تو ہم دونو کو شیطانی اثرات سے بچا کر رکھ اور اسی طرح تو جو اولا د ہمیں عطا کرے اسے بھی شیطانی اثرات سے محفوظ رکھ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی خاوند یہ دعا پڑھتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی اس وقت کی اولا د کو شیطانی تصرفات سے محفوظ رکھے گا.اب دیکھو کہ یہ کیسا آسان نسخہ ہے جو ہمارے مہربان آقا نے ہمارے ہاتھ میں دیدیا ہے جسے اختیار کر کے ہم خدا کے فضل سے پاک صالح اولاد پیدا کر سکتے ہیں اور اگر آگے ہماری اولاد بھی اس نسخہ پر کار بند ہو تو نیک اولاد کا ایک

Page 439

۴۲۷ مضامین بشیر ایسا سلسلہ قائم ہو جاتا ہے جو خدا کے فضل سے جماعت کی بنیادوں کو ہمیشہ کے لئے پاکیزگی اور طہارت پر استوار کر سکتا ہے.کاش ہمارے بھائی اور بہنیں اس نکتہ کو سمجھیں اور اس سے وہ عظیم الشان فائدہ اٹھائیں جس کا یہ نسخہ حقدار ہے.مگر میں یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس نسخہ کا استعمال اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ وہ بظاہر سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کے لئے پہلے سے تیاری اور ضبط نفس کی ضرورت ہوتی ہے دراصل چونکہ خاوند بیوی کا مخصوص تعلق ایک خاص نفسانی جوش کا حامل ہوتا ہے اس لئے اس وقت اس قسم کی دعا زبان پر لا نا ہرگز آسان نہیں ہوتا.ہمارے حکیم وعلیم خدا نے روح اور جسم کا قانون کچھ اس رنگ میں بتایا ہے کہ ان میں سے ایک کی مضبوطی دوسرے کی کمزوری بن جاتی ہے اور ایک کی کمزوری دوسرے کی طاقت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے.پس جب نفس یعنی جسم کے جذبات زور پر ہوں تو روح کو ابھارنا آسان نہیں ہوتا.اور جب روح ابھرنے کے لئے تیار ہوتی ہے تو جسم کی طاقتیں ڈھیلی پڑنی شروع ہو جاتی ہیں.لہذا جب تک پہلے سے تیاری نہ ہو اور انسان اپنے آپ کو اس کا عادی نہ بنالے اس وقت تک اس دعا کا دل سے نکلنا تو الگ رہا زبان پر بھی اس کے الفاظ کا لا نا مشکل ہوتا ہے.مجھے یاد ہے کہ (اور نیک غرض کے ماتحت حق بات کہنے میں شرم نہیں ہونی چاہیئے ) کہ جب میں ابھی بالکل نوجوان تھا تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد کو حدیث میں پڑھ کر اس پر عمل کرنا چاہا تو اولاً تو میں اس وقت یہ دعا ہی زبان پر نہ لا سکا اور جب بالآخر کوشش کے ساتھ اسے زبان پر لایا تو ساتھ ہی میں نے محسوس کیا کہ گویا اس وقت میری جسمانی کیفیت سلب ہو گئی ہے.اُس وقت مجھے یہ نکتہ حل ہوا کہ حقیقتاً یہ چھوٹی سی آسان دعا بھی کوئی منتر جنتر نہیں ہے بلکہ اس کے لئے پہلے سے تیاری اور ضبط نفس کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ امید موہوم ہے کہ انسان عین وقت پر جبکہ نفسانی جذبات کا ہجوم ہوتا ہے یہ پاک اور مطہر دعا زبان پر لا سکے گا والشاذ کالمعد دوم.خیر اس کے بعد مجھے خدا نے اس دعا کی تو فیق عطا کی اور نیک اولا د تو بعد کی بات ہے ( وَاَرُجُوا مِنَ اللَّهِ خَيْراً) میں نے اس دعا کو نفس کے جذبات کو بھی مناسب حدود کے اندر رکھنے میں بہت مفید پایا.بہر حال میں اس وقت اپنے دوستوں کے سامنے یہ آسان ( گواستعمال کے لحاظ سے قدرے مشکل ) نسخہ رکھنا چاہتا ہوں جسے اختیار کر کے وہ اپنے لئے پاک اور صالح اولاد کا رستہ کھول سکتے ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحدی کے ساتھ فرمایا ہے کہ جو میاں بیوی خلوت کے وقت میں یہ دعا پڑھیں گے تو اگر اس وقت ان کے لئے کوئی اولا د مقدر ہوگی تو خدا کے فضل سے یہ اولا د شیطانی اثرات سے محفوظ رہے گی.میں اپنے ناظرین کی سہولت کی غرض سے اس جگہ پوری حدیث دہرا دیتا

Page 440

مضامین بشیر ۴۲۸ ہوں.ہمارے آقا ( فداہ نفسی ) فرماتے ہیں:.اما لـوان احد كم اذا ارادان ياتى اهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا ثم قدّر بينهما في ذَالِكَ وَلَدٌ لم يضره الشيطان ابداً - ۱۲۲ یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے یہ دعا پڑھے گا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنا ہر کام خدا کے نام پر شروع کرتا ہوں.اے میرے خدا تو ہم دونو میاں بیوی کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھ اور جو اولاد تو ہمیں عطا کرے اسے بھی شیطانی اثرات سے بچا کر رکھ.تو اگر اس خلوت کے نتیجہ میں ان کے لئے کوئی بچہ مقدر ہوگا تو یہ بچہ خدا کے فضل سے ہمیشہ اس بات سے محفوظ رہے گا کہ شیطان اسے کوئی ضرر پہنچا سکے.دوستو یہ کتنا آسان نسخہ ہے جس کے ذریعہ آپ اپنی ہونے والی اولاد کو پاک بنا سکتے ہیں.مگر کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں؟ اور اگر مرد کے ساتھ عورت بھی اس دعا میں شریک ہو جائے تو پھر یہ سونے پر سہا گہ ہے.پس میں یہ عرض کروں گا کہ اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما.( مطبوعه الفضل ۱۰ / دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 441

۴۲۹ مضامین بشیر عزیزہ طیبہ بیگم کا آپریشن خدا کے فضل سے وہ بخیریت ہیں میں نے الفضل میں عزیزہ طیبہ بیگم سلمها ( بیگم عزیز مرزا مبارک احمد ) کے لئے دعا کی تحریک کی تھی اور لکھا تھا کہ عزیزہ موصوفہ کا ہسپتال میں آپریشن ہونے والا ہے.چونکہ اس بارے میں متعدد بھائیوں اور بہنوں کے خطوط آ رہے ہیں.اس لئے ہمشیرہ امتہ الحفیظ بیگم سلمہا کے منشاء کے مطابق احباب کو اطلاع دی جاتی ہے کہ عزیزہ طیبہ بیگم کا یہ آپریشن دراصل بچہ کی ولادت کے تعلق میں تھا کیونکہ حالات غیر معمولی تھے اور ڈاکٹروں کی رائے میں آپریشن کے بغیر ولادت خطر ناک تھی.سو گو آپریشن کے نتیجہ میں بچہ مردہ پیدا ہوا ہے.مگر خدا کے فضل سے ماں کی طبیعت اچھی ہے اور وہ آہستہ آہستہ رو بصحت ہو رہی ہے.طبیبہ بیگم کو اس قسم کا حادثہ اوپر تلے چوتھی دفعہ پیش آیا ہے.احباب جماعت سے درخواست ہے کہ وہ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر فضل فرمائے اور اسے آئندہ زندہ رہنے والی صالح اولاد سے نوازے.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۰ر دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 442

مضامین بشیر ۴۳۰ جماعت کی تعداد کو کثرت اولاد کے ذریعہ بھی ترقی دو بے اولا دلوگوں کو بھی مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اسلام کا خدا وسیع قدرتوں کا مالک ہے خدائی جماعتیں ہر لحاظ سے ترقی کرتی ہیں یعنی دین کے لحاظ سے بھی اور دنیا کے لحاظ سے بھی.پھر دین کے میدان میں علم کے لحاظ سے بھی اور عمل کے لحاظ سے بھی اور دنیا کے میدان میں تعداد کے لحاظ سے بھی اور طاقت کے لحاظ سے بھی اور مال و دولت کے لحاظ سے بھی وغیرہ وغیرہ.اور گوان کے قیام کی اصل غرض و غایت دین اور تعلق باللہ میں ترقی کرنا ہوتی ہے مگر یہ بات خدا کی شان ربوبیت سے بعید ہے کہ وہ ایک خاص جماعت کو قائم کر کے اس کی ترقی کو صرف ایک دائرہ کے اندر محدود کر دے بلکہ وہ جب انعام کرنے پر آتا ہے تو پھر اپنے انعاموں کو گو یا دونو ہاتھوں سے بکھیر تا ہے اور ترقی کے کسی میدان کو بھی نظر انداز نہیں کرتا.یہی سلوک انشاء اللہ ہماری جماعت کے ساتھ ہوگا.گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی ترقی جمالی صفات کے ماتحت آہستہ آہستہ ہوگی.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے که كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْئَهُ فَأَزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ - ۱۲۳ دینی اور روحانی ترقی کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ اہم اور زیادہ وسیع الاثر ترقی تعداد کی ترقی ہے کیونکہ اس ترقی کے ساتھ بہت سی دوسری ترقیاں بھی وابستہ ہوتی ہیں جو تعداد کی ترقی کے بغیر حاصل کرنی محال ہیں اور میرا موجودہ مضمون اسی نوع کی ترقی کے ساتھ رکھتا ہے یعنی یہ کہ جماعت احمدیہ کی تعداد کو کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے.سو اصولی رنگ میں اس قدر تو ظاہر ہے کہ تعداد کی ترقی کے دو ہی خاص ذریعے ہیں.اوّل تبلیغ.یعنی دعوت الی الحق کے طریق پر جماعت کی تعداد کو بڑھانا اور لوگوں کو احمدیت کے عقائد سمجھا کر اور ان کی صداقت کا قائل کر کے جماعت احمدیہ میں شامل کرنا.اور دوسرا طریق کثرت اولاد کا ہے.

Page 443

۴۳۱ مضامین بشیر یعنی ایسے ذرائع کو اختیار کرنا جن کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی نسل زیادہ سے زیادہ ترقی کر سکے اور وہ بڑی سرعت کے ساتھ ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے آٹھ ہوتے جائیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے الفاظ ہیں : با برگ وبار ہو دیں.اک سے ہزار ہوویں.مجھے اپنے اس مضمون میں صرف مؤخر الذکر ذریعہ ترقی کے متعلق کچھ عرض کرنا ہے.کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے دوست اس کی طرف سے کچھ غافل ہوتے جارہے ہیں.میری یہ بات شاید بعض لوگوں کو بجو بہ محسوس ہو کیونکہ وہ خیال کر سکتے ہیں کہ اولا د تو ایک طبعی فعل ہے اس میں کسی کے غافل ہونے یا نہ ہونے کا کیا دخل ہو سکتا ہے مگر یہ خیال درست نہیں.انسان کی توجہ کا اثر لازماً اس کے اعمال پر پڑتا ہے اور جو قوم اس نکتہ کو نہ بجھتی ہو یا کم از کم اس کی قدر کو نہ پہچانتی ہو کہ نسل کی ترقی میں کتنی برکت ہے تو آہستہ آہستہ اس کے مزاج پر اس ذہنیت کا ایسا نفسیاتی اثر پڑتا ہے کہ وہ بالآخر زیادہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی اور موجودہ زمانہ میں تو میں دیکھتا ہوں کہ ایک طبقہ پر یورپ کے اس فرسودہ فلسفہ کا بھی اثر پڑ رہا ہے کہ زیادہ اولاد پیدا نہ کرو کیونکہ اس کے نتیجہ میں افلاس پیدا ہوتا ہے اور اولاد اچھی تربیت سے محروم ہو جاتی ہے حالانکہ یہ وہ فاسد نظر یہ ہے کہ جسے ہمارا علیم وقد بر خدا نام لے کر ڑد کرتا اور خصوصیت سے ناجائز قرار دیتا ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے : وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًاO ۱۲۴ یعنی اپنی اولادکو ( خواہ وہ موجود ہے یا ہونے والی ہے ) افلاس اور غربت کی وجہ سے قتل نہ کرو.کیا تم اس نکتہ کو بھول جاؤ گے کہ تمہاری اولاد کو اور خود تمہیں بھی رزق دینے والے تو ہم ہیں.پس اس طریق سے پر ہیز کرو اور یاد رکھو کہ اولاد کو قتل کرنا خدا کی نظر میں ایک بھاری خطا ہے.خطا کے لفظ میں یہ اشارہ بھی ہے کہ یه فعل صرف گناہ ہی نہیں بلکہ خود تمہاری قومی ترقی کے لئے بھی ضرر رساں اور مہلک ہے.بیشک حدیث میں عزل یعنی برتھ کنٹرول کے جواز کے متعلق کچھ اشارہ پایا جاتا ہے.مگر کوئی سچی حدیث قرآن کے مخالف نہیں ہو سکتی.پس اس قرآنی آیت کی روشنی میں اس حدیث کے یہی معنی سمجھے جائیں گے کہ افلاس کے خطرہ کی وجہ سے تو بہر حال برتھ کنٹرول جائز نہیں ہاں طبی ضرورت کے ماتحت جب کہ ماں کی جان کا خطرہ ہو وغیرہ ذالک تو وقتی طور پر کنٹرول اختیار کیا جاسکتا ہے مگر پھر بھی پوری حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کے طریق کو بالعموم پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا اور اب تو مغربی ممالک کی عیسائی قومیں بھی اس معاملہ میں اپنی غلطی محسوس کر کے کثرت اولاد کا پر چار کر رہی ہیں.

Page 444

مضامین بشیر ۴۳۲ بہر حال اسلام کثرت اولاد کو پسند کرتا اور اس کی تلقین فرماتا ہے.چنانچہ آن حضرت لعلل الاول مشہور حدیث ہے کہ: ۱۲۵ تزوّ جوا الولود الودود فاني مكاثر بكم الامم یعنی اے مسلمانوں تم محبت کرنے والی اور زیادہ اولاد پیدا کرنے والی بیویوں سے شادی کیا کرو تا کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے خدا کے سامنے دوسری امتوں کے مقابلہ پر فخر کر سکوں.اب دیکھو کہ ہمارے پیارے امام اور آقا (فداہ نفسی ) نے کس محبت اور کس ہمدردی اور کس شوق کے ساتھ یہ الفاظ فرماتے ہیں اور کون سچا مسلمان ایسا ہو سکتا ہے کہ جو ان الفاظ کے ہوتے ہوئے کثرت اولاد کی خواہش کی طرف سے غافل رہے.ودود کا لفظ گو اپنی ذات میں بھی ایک بڑی حقیقت کا حامل ہے کیونکہ محبت کرنے والی نیک بیوی ہی گھر کو جنت بنا سکتی ہے لیکن اس کا تعلق اولاد پیدا کرنے کے ساتھ بھی ضرور ہے.کیونکہ اگر کوئی اور مانع نہ ہو تو کثرت اولاد کے معاملہ میں خاوند بیوی کا کامل روحانی اتحاد بھاری نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور یہ ایک لطیف حکیمانہ نکتہ ہے جس کا تجربہ با رہا ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شادی کی نسبت زنا کے نتیجہ میں حمل نسبتاً کم قرار پاتا ہے.بہر حال ہمارے آقا نے ولود کا لفظ استعمال کر کے تاکید فرمائی ہے کہ مسلمانوں کو کثرت اولاد کی طرف خاص توجہ دینی چاہیئے.بلکہ ایک طرح سے آپ نے گویا اپنی محبت کا واسطہ دے کر غیرت دلائی ہے کہ کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ قیامت کے دن میرا سر کثرتِ امت کے لحاظ سے بھی دوسروں سے اونچا رہے.ولود کے لفظ میں اصل بات یہ بتانی مد نظر ہے کہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے مختلف عورتیں مختلف درجہ پر ہوتی ہیں.یعنی اگر کوئی عورت بانجھے نہ بھی ہو تو پھر بھی مختلف عورتوں میں مختلف درجہ کی صلاحیت ہوتی ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ حتی الوسع اپنی شادی کے لئے کثرت سے اولاد پیدا کرنے والی بیوی کو چنا چاہیئے.اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ یہ کس طرح معلوم ہو کہ کسی عورت میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے تو عام صحت کی حالت دیکھنے کے علاوہ اس کا آسان معیار یہ ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ کسی عورت کے خاندان میں دوسری عورتوں کی اولا د کتنی ہے کیونکہ عموماً یہ صلاحیت خاندانی رنگ رکھتی ہے یعنی اگر اور حالات برابر ہوں اور کوئی خاص روگ موجود نہ ہو تو بالعموم ایسے والدین کی بیٹی جو کثرت اولاد کے وصف سے متصف ہوں زیادہ ولو د ہو گی.بلکہ کسی حد تک لڑکوں اور لڑکیوں کی نسبت کو دیکھ کر یہ فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ آیا کس خاندان میں لڑکے زیادہ ہوتے ہیں یا کہ لڑکیاں.بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ مسلمان کثرت نسل کے اصول کی طرف سے

Page 445

۴۳۳ مضامین بشیر غافل نہ رہیں اور بالعموم ولود بیویاں چن کر امت محمدیہ کو ترقی دیں.اور یقینا اگر وہ ثواب اور قومی خدمت کے خیال سے ایسا کریں گے تو ان کا یہ عمل دنیوی ترقی کے علاوہ موجب ثواب بھی ہوگا اور جماعت احمدیہ کو تو خصوصیت کے ساتھ اس فریضہ کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے.کیونکہ وہ ایک نئی قائم شدہ جماعت ہے اور ان کی تعداد کی ترقی احمدیت بلکہ اسلام کی ترقی کا موجب ہے.بہر حال اگر ہماری اس کوشش کے نتیجہ میں قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سر اس جہت سے بھی بلند ہو جائے تو اس سے بڑھ کر ہمارے لئے کونسی خوشی ہو سکتی ہے.اب رہا یہ سوال کہ جماعت میں جو لوگ بوڑھے ہو چکے ہیں یا جو بظاہر کسی نقص میں مبتلا ہیں وہ اس نعمت سے کس طرح متمتع ہوں؟ تو ہمارا قرآن اس شمع ہدایت کی طرف سے بھی غافل نہیں رہا کیونکہ قرآن کریم نے دو ایسی نمایاں مثالیں بیان کی ہیں کہ جن میں مایوس کن حالات میں بھی خدا نے اپنے نیک بندوں کو اولا د عطا فرمائی ہے.چنانچہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے واقعہ کے تعلق میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : فَبَشَّرْتُهَا بِإِسْحَقَ وَ مِنْ وَرَاءِ إِسْحَقَ يَعْقُوبَ قَالَتْ يُوَيْلَى الِدُ وَانَا ١٢٦ عَجُوزُ وَهُذَا بَعْلِى شَيْئًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٍ عَجِيْبٌ No یعنی جب ہم نے ابراھیم کی بیوی سارہ کو اسحق اور اس کے بعد یعقوب کی بشارت دی تو سارہ نے حیرت کے ساتھ کہا.ہائے ہائے یہ کیا ہونے لگا ہے.کیا میں اس حال میں بچہ جنوں گی کہ میں بوڑھی ہو کر بالکل رہ چکی ہوں اور یہ میرا خاوند بھی بڑھاپے کی حد کو پہنچ گیا ہے.تو اس پر ہمارے رسولوں نے کہا.بی بی ! کیا تم خدا کے فیصلہ پر تعجب کرتی ہو؟ اے اہل بیت تم پر تو خدا کی رحمت اور برکت کا نزول ہے.ہاں وہی خدا جو بڑی حمد والا اور بہت بزرگی کا مالک خدا ہے.اور پھر حضرت ذکریا کے قصہ کے تعلق میں فرماتا ہے: قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظمُ مِنّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَ لَمْ أَكُنْ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيَّا وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَاءِى وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ تَدُنكَ وَلِيَّانُ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيَّان يُزَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِعَلِمٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّان قَالَ رَب عَلى يَكُونُ لِي غُلَمُ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا قَالَ كَذلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَى هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شيئا یعنی ذکریا نے ہم سے دعا کی کہ اے میرے خدا میری ہڈیاں کمزور پڑگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے

Page 446

مضامین بشیر ۴۳۴ کی سفیدی کی وجہ سے شعلے مارنے لگا ہے.مگر باوجود اس کے اے میرے آقا میں کبھی تجھے پکار کر نا مراد نہیں رہا.اس پر ہم نے ذکر یا کو بشارت دی کہ ہم تجھے ایک لڑکا عطا کریں گے جس کا نام بیٹی ہوگا.ہم نے اس نام ( یعنی اس صفت ) کا کوئی شخص پہلے نہیں بنایا.ذکریا نے کہا.میرے آقا میرے گھر میں کس طرح بچہ پیدا ہو گا حالانکہ میری بیوی تو بانجھ ہے اور میں خود بھی بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں ؟ خدا نے فرمایا بیشک ایسا ہی ہے مگر تیرے رب کے لئے تو کوئی چیز مشکل نہیں.اور کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ ہم نے خود تجھے اس حال میں پیدا کیا تھا کہ تو اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھا.یہ دولطیف مثالیں خدا نے قرآن شریف میں قصے کہانی کے طور پر بیان نہیں کیں بلکہ اس لئے بیان کی ہیں کہ تا یہ ظاہر کرے کہ اسلام کا خدا تمام قدرتوں کا مالک ہے.اور وہ ایسے حالات میں بھی اپنے فضل کا دروازہ کھول سکتا ہے.کہ جب بظاہر امید کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی.واقعی دیکھو اور غور کرو کہ حضرت ابراھیم اور حضرت ذکریا کی بیویاں دونوں بوڑھی پھوس تھیں جن میں سے ایک عجو ز یعنی بالکل رہ چکی تھی (غالباً عام بڑھاپے کے علاوہ ایام ماہواری کے بند ہو چکنے کی طرف بھی اشارہ ہے ) اور دوسری عاقر یعنی بانجھ تھی جس کے متعلق بظاہر اولاد کی کوئی امید نہیں ہوتی.دوسری طرف ان دونوں کے خاوند بالکل بوڑھے اور پیر فرقوت تھے.جن میں سے ایک کی عمر بائیل کے بیان کے مطابق نوے ۹۰ سال کی تھی اور دوسرا خود اپنی زبان سے کہتا ہے کہ میرا سر بڑھاپے کی سفیدی سے شعلہ زن ہے اور میری ہڈیاں اندر سے کھائی جا چکی ہیں.مگر خدا فرما تا ہے کہ جب دینے والے ہم ہیں جو سب قدرتوں کے مالک ہیں تو پھر تم مایوس کیوں ہوتے ہو؟ اللہ اللہ ! کیا شان دلربائی ہے اور کیا جذبہ رحمت وشفقت ہے کہ لینے والا تو مایوسی کے عالم میں پیچھے پیچھے ہٹ رہا ہے مگر دینے والا اسے کھینچ کھینچ کر آگے لا رہا ہے ! حق یہ ہے کہ سوائے اس کے کہ خدا خود کسی بات کے متعلق کہہ دے کہ میں یہ بات نہیں کرونگا کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں: اس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں مگر وہی جو اس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے.سو جب تم دعا کرو تو ان جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں.جس پر خدا تعالیٰ کی کتاب کی مہر نہیں کیونکہ وہ مردود ہیں.ان کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی...خدا کے سامنے اپنا تراشیدہ قانون پیش کرتے ہیں اور اس کی بے انتہا قدرتوں کی حد بست ٹھہراتے ہیں اور اسکو کمزور سمجھتے ہیں سوان سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا جیسا کہ ان کی حالت ہے.لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر

Page 447

۴۳۵ مضامین بشیر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا.۱۲۸ سو میرے عزیز بھائیو اور بہنو! مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.خدا سے دعا مانگنے کی عادت ڈالو اور اپنی دعاؤں میں زندگی کی وہ روح پیدا کرو جو خدا کی رحمت کو کھینچتی ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ خدا کے بنائے ہوئے ظاہری اسباب کو بھی اختیار کرو کیونکہ تقدیر کے ساتھ ساتھ تدبیر کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہئے.نیز ضروری ہے کہ جب تم اولاد کی خواہش کر دیا اسکے لئے دعا مانگوتو دنیا داروں کی طرح صرف یہ نیت نہ رکھو کہ تمہیں اپنے گھر کی رونق یا اپنے دنیا کے دھندوں یا اپنے شرکا کے مقابلہ یا اپنی جائداد کے ورثہ کے لئے کوئی سہارا حاصل ہو جائے بلکہ یہ نیت رکھو یہ تمہیں تمہارے نیک اوصاف کا وارث مل جائے اور نیک اولاد پیدا ہونے سے دنیا میں نیکی کو ترقی حاصل ہوا اور خدا کی جماعت بڑھے اور پھیلے.اگر تم ایسا کرو گے تو سوائے اس کے کہ خدا کی کوئی خاص تقدیر تمہارے رستہ میں روک ہو جائے تم یقینا اس کی رحمت کو پاؤ گے اور اس کے اس فضل کے وارث بنو گے اور اس کے اس انعام کو حاصل کرو گے جو پہلوں نے حاصل کیا بلکہ اس سے بڑھ کر.کیونکہ تم آخرین منھم کے وعدہ میں شامل ہو کر خدا کی آخری جماعت ہو.اور اگر کسی باپ کا بیٹا نا لائق یا نا فرمان نہ ہوتو فطرتاً باپ کو اپنا آخری بیٹا زیادہ پیارا ہوا کرتا ہے.اے خدا تو ایسا ہی کر.- وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِين.نوٹ : مجھے ایک بات یاد آئی ہے جو لکھ دیتا ہوں شاید یہ بھی کسی کی امید کو اٹھانے والی بن جائے.قریباً اڑھائی سال کا عرصہ ہوا کہ جب میں قادیان میں تھا تو میں نے ایک خاتون کے متعلق (جس کے متعلق بظاہر اولاد کی کوئی امید نہیں سمجھی جاتی ) خواب میں دیکھا کہ اس کے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے جسے میں نے اپنی گود میں اٹھایا ہوا ہے.اس کے بعد جبکہ یہ خواب بھی قریباً ذہن سے اتر چکی تھی میں نے اچانک پرسوں خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے متعلق کہتا ہے کہ انہوں نے خواب دیکھی ہے کہ فلاں خاتون کے گھر ( وہی میری خواب والی خاتون ) لڑکا پیدا ہوا ہے یہ سن کر میں خواب میں ہی کہتا ہوں کہ میں نے تو لڑ کی دیکھی تھی اب دیکھئے خدا کا منشاء کس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے.خیر یہ تو ابھی تک پر وہ غیب کی باتیں ہیں اور نہیں کہہ سکتے کہ لڑکی یا لڑکے سے کیا مراد ہے مگر اس حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے کئی بظاہر مایوس الحال لوگوں کے گھر اولاد پیدا ہو چکی ہے اور ہمارے سلسلہ کی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے.پس بہر حال مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اور حضرت ابراھیم کا یہ کیا ہی پیارا قول ہے کہ : وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبَّةٍ إِلَّا القَالُوْنَO ( مطبوعه الفضل ۱۱ر دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 448

مضامین بشیر ۴۳۶ قادیان کی عارضی اور دائگی کشش قادیان ہمیں کب اور کیونکر واپس ملے گا ؟ ہمارا اصل کام حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض وغایت کو پورا کرنا ہے جماعت احمدیہ کے دلوں میں قادیان کی جو مستقل اور دائمی کشش اور یا د قائم ہے وہ تو ہے ہی اور ہر احمدی کا دل و دماغ اس غیر معمولی کشش سے آشنا اور اس شیریں یاد سے درد مند رہتا ہے اور یہ کشش یونہی بلا وجہ نہیں بلکہ مضبوط فطری جذبہ کے علاوہ جو ایک ماں اور اس کے بچہ کے درمیان ہوتا ہے اس کے بہت سے ظاہری اسباب بھی ہیں.جنہیں ہمارا بچہ بچہ جانتا ہے گو یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر شخص ان کی تفاصیل سے واقف نہ ہو.اسباب میں سے بعض اسباب مختصر طور پر حسب ذیل ہیں : قادیان کا دائگی تقدس (۱) قادیان کو خدا تعالیٰ نے اپنے مامورو مرسل یعنی مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کی ولادت کے لئے چنا اور اس بستی کو اپنے اس مصلح اعظم کا مولد بنایا.یہ وہ عظیم الشان مامور ومرسل ہے جس کی آمد کا اسلام میں تیرہ سو سال سے انتظار ہو رہا تھا.(۲) قادیان ہی وہ بستی ہے.جس میں اس مرسل یزدانی نے اپنی ساری زندگی گزاری اور اپنی پاک عبادتوں اور جانثارانہ ریاضتوں اور متضرعانہ دعاؤں سے اسے خاص الخاص برکت عطا کی.اس نے اس کے ایک متبرک مکان میں جس نے خدا سے الہار کا نام پایا اپنی زندگی کے دن گزارے اس کی دو مقدس مسجدوں میں نمازیں پڑھیں اس کے متعدد حجروں میں اسلام کی خدمت میں معرکتہ الاراء تصنیفیں کیں اور اس کی گلیوں کو چوں کو اپنے قدموں سے برکت دی.(۳) قادیان ہی اس جری اللہ فی حلل الانبیاء کے ذریعہ خدا کے برگزیدہ اور بارش کی طرح نازل ہونے والے کلام کا مہبط بنا اور اس کے ہزاروں چمکتے ہوئے نشانوں کی تجلی گاہ قرار پایا.(۴) قادیان میں ہی احمدیت کی بنیادیں قائم کی گئیں.ہاں وہی احمدیت جو دنیا کے لئے نجات

Page 449

۴۳۷ مضامین بشیر کا پیغام لے کر آئی ہے اور جس کے متعلق مقدس بائی احمدیت فرماتے ہیں.اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس خدا کی پیشگوئی ہے.جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا.اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مراد رکھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہیگا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی...دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا.اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(۵) قادیان ہی وہ مقام ہے جہاں حضرت خاتم الاولیا علیہ الصلوۃ والسلام (الذى لا ولى بَعْدَهُ إِلَّا الَّذِي هُوَمِنْهُ وَعَلَى عَهْدِهِ ) کا مقدس جسد خاکی دفن ہوا.اور جس کی زمین کو خدا کی وحی نے بہشتی مقبرہ قرار دیا اور اس مقبرہ کی مٹی کو رویا میں چاندی کی صورت میں ظاہر فرمایا.(۶) قادیان ہی وہ بابرکت قریہ ہے جو خدا کی ازلی تقدیر کے ماتحت جماعت احمدیہ اور تحریک احمدیت کا دائمی مرکز قرار پایا.جسے ظلی طور پر ارض حرم اور تخت گاہِ رسول کا لقب عطا ہوا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: پھر فرماتے ہیں : زمین قادیان اب محترم ہے ہجوم خلق ارض حرم ہے قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے ضروری ہے کہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اسے برکت دی ہے (ضمیمہ رسالہ الوصیت ) اس مؤخر الذکر وجہ کی بناء پر قادیان کی مرکزیت صرف تاریخی نوعیت ہی نہیں رکھتی.بلکہ وہ ایک عالمگیر مذہبی تحریک کا زندہ اور تنظیمی مرکز بھی ہے.جو ابدالاباد تک کے لئے قائم کیا گیا ہے.( ۷ ) قادیان ہی خدا کی وہ محبوب بستی ہے کہ جب ایک خدائی تقدیر کے ماتحت وہاں جماعت احمدیہ کو نکلنا پڑا تو اس کے متعلق خدا نے پہلے سے ان زور دار الفاظ میں تسلی دے رکھی تھی کہ اِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ ه - ۱۳۱

Page 450

مضامین بشیر ۴۳۸ یعنی اے خدا کے مسیح وہ خدا جس نے تجھے قرآنی خدمت کے لئے معبوث کیا ہے.وہ تیری ہی بعثت اور اپنی باعثیت کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ وہ تجھے ضرور ضرور قادیان سے نکلنے کے بعد پھر دوبارہ قادیان میں واپس لائے گا کیونکہ قرآنی علوم کی خدمت کا کام قادیان کے ساتھ ابدی طور پر وابستہ ہو چکا ہے.یہ وہ سات مضبوط اور نہ ٹوٹنے والی دل کی تاریں ہیں.جو ہر مخلص احمدی کے دل و دماغ کو قادیان کے ساتھ باندھے ہوئے ہیں اور ہمیشہ باندھے رہیں گی.اور دراصل کسی چیز کے مقدس ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے ساتھ بعض خاص روحانی وابستگیاں Spiritual Associations لاحق ہوں.اور ظاہر ہے کہ جتنی جتنی یہ روحانی وابستگیاں زیادہ اہم اور زیادہ متنوع اور زیادہ کثیر التعداد ہوں گی.اتنا ہی زیادہ کسی چیز کا تقدس سمجھا جائے گا.اور اس لحاظ سے قادیان کا تقدس وہ ارفع شان رکھتا ہے جو ہندوستان و پاکستان کے کسی اور مقام کو حاصل نہیں.گویا حضرت مسیح موعود السلام کی ولادت اور زندگی ما قبل البعثت اور زندگی ما بعد البعثت اور وفات اور زمانہ ما بعد الوفات کا ہر لمحہ قادیان کے ساتھ ابدی تاروں کے ذریعہ وابستہ ہو چکا ہے وَلَا انفِصَامَ لَهَا.قادیان کی وقتی یا دیں مگران مستقل اور دائی کششوں کے علاوہ قادیان کو بعض وقتی اور عارضی کششیں اور یادیں بھی حاصل ہیں جو بعض خاص خاص ایام کے ساتھ وابستہ ہیں اور جب جب بھی یہ ایام آتے ہیں.یہ یا دیں بیدار ہو کر ہمارے دلوں میں چنکیاں لینی شروع کر دیتی ہیں.یہ کششیں زیادہ تر چار مواقع کے ساتھ وابستہ ہیں.اول : رمضان کا مبارک مہینہ جو قادیان میں اپنے گونا گوں روحانی مناظر کی وجہ سے گویا ایک جیتی جاگتی مجسم صورت اختیار کر لیتا تھا.روزہ نفلی نمازیں.تراویح.درس القرآن.خاص دعائیں صدقہ و خیرات اور بالآخر روحانی خوشی کی حامل عید وغیرہ.یہ وہ چیزیں تھیں جن سے قادیان کا رمضان ایک مجسم روحانی زندگی بن جاتا تھا اور اس زندگی میں جماعت کا ہر فر د بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا.دوم قادیان کا سالانہ جلسہ جس میں قادیان کی سرزمین گویا ارض حرم کی صورت اختیار کر لیتی تھی جس کی طرف ہر شخص لبیک کہتا ہوا روحانی برکات حاصل کرنے کے لئے دوڑا آتا تھا.سوم : قادیان کی مجلس مشاورت جس میں جماعت کے نمائندے اہم جماعتی امور کے متعلق مشورہ

Page 451

۴۳۹ مضامین بشیر کرنے کی غرض سے جمع ہوتے تھے.چهارم: موصی صحابہ کی وفات جبکہ قادیان کے لوگ جوق در جوق مقبرہ بہشتی میں جمع ہوتے اور اپنے مرنے والے بزرگ کے لئے آخری دعا کرنے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور دوسرے بزرگوں کے مزار پر منظر عانہ دعائیں کرتے تھے.لیکن اب قادیان سے باہر آجانے پر جو بزرگ بھی فوت ہوتا ہے وہ مجبوراً باہر دفن کیا جاتا ہے اور ہر ایسے موقع پر دل ایک ایسی چوٹ محسوس کرتا ہے کہ اسے ایک حساس مومن ہی سمجھ سکتا ہے.قیام مرکز ربوہ کا رد عمل بہر حال یہ وہ وقتی اور عارضی یا دیں ہیں جو قادیان کے متعلق دل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں.اور اب جبکہ جلسہ سالانہ کا وقت قریب آرہا ہے قادیان کی یاد پھر دل میں اُٹھ اُٹھ کر تلاطم بر پا کر رہی ہے.اور اس کے ساتھ جوں جوں نئے مرکز پاکستان یعنی ربوہ کی تجویز عملی صورت اختیار کرتی جارہی ہے.قادیان کی یاد زیادہ تیز ہوتی جاتی ہے.ربوہ کے مرکز کا قیام بظاہر دو متضاد مگر به باطن متحد جذبات پیدا کر رہا ہے.ایک طرف تو وہ اس تسلی کا موجب ہے کہ خدا خدا کر کے ہمیں موجودہ انتشار کے بعد ایک مرکز حاصل ہو رہا ہے جہاں ہم اکٹھے رہ کر اور اپنا ماحول بنا کر اپنے جماعتی پر وگرام کو چلاسکیں گے.اور دوسری طرف وہ لازماً قادیان کی یاد کو بھی تیز تر کر رہا ہے.کیونکہ اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہم گویا قادیان کے لئے ہر وقت پا در رکاب بیٹھے ہیں کہ اب قادیان کی واپسی کا رستہ کھلا اور ہم اس کی طرف لیکے.لیکن اب یہ صورت نظر آرہی ہے کہ گویا قادیان کی قائم مقامی میں ہم ایک اور عارضی مرکز بنا کر بیٹھنے لگے ہیں.اور قادیان کی واپسی جب ہو گی سو ہو گی.پس اس ذہنی کیفیت نے بھی آجکل ایک دماغی اور قلبی ہیجان بر پا کر رکھا ہے جسے ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق محسوس کر رہا ہے.اصل چیز حضرت مسیح موعود کی بعثت کی غرض و غائیت کو پورا کرنا ہے لیکن با وجود اس کے ایک بات ہے جو ہر سمجھدار احمدی کا دل جانتا اور محسوس کرتا ہے اور جو شخص ابھی تک نہیں جانتا اور نہیں محسوس کرتا اسے جانا اور محسوس کرنا چاہیئے.وہ بات یہ ہے کہ قادیان کو خواہ کتنا ہی نقدس اور کتنی ہی اہمیت حاصل ہو اس کا درجہ بہر حال محض ثانوی حیثیت رکھتا ہے.اور درجہ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا داد مشن کی تکمیل اور آپ کی بعثت کی غرض وغایت کو پورا کرنے سے متعلق ہے.اس کی مثال موٹے طور پر یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر ہمیں قادیان تو واپس مل

Page 452

مضامین بشیر ۴۴۰ جائے مگر ہم نعوذ باللہ احمدیت کی تعلیم اور خدمت اسلام کے کام کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت کی طرف سے غافل ہو جائیں تو قادیان کا واپس ملنا ہمارے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھے گا.بلکہ ہمیں خدا کے حضور اور بھی موردِ الزام ٹھہرانے کا موجب بن جائے گا.لیکن اگر دوسری طرف ہمیں بالفرض قادیان تو ابھی نہ ملے مگر ہم خدا کے علم میں احمدیت اور اسلام کے مقاصد کو پورا کرنے والے بن جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت ہمارے ذریعہ سے پوری ہوتی جائے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ قادیان سے محرومی کے باوجود ہم خدا کے سامنے سرخرو ہوں گے اور خدا تعالیٰ ہمیں ان فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنائے گا جو احمدیت کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہیں.پس میرے عزیز و اور دوستو اور بزرگو ! قادیان کی یاد کی شدت کے باوجود اس نکتہ کو کبھی نہ بھولو کہ ہمارے سامنے اصل چیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض و غایت کو پورا کرنا ہے.اور باقی ہر چیز ثانوی حیثیت رکھتی ہے.قادیان انشاء اللہ واپس ملے گا اور ضرور ملے گا مگر تم اس مرکزی نقطہ سے کبھی غافل نہ ہو کہ اس کا واپس ملنا نمبر ۲ پر ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدا داد مشن کی تکمیل نمبرا پر.کیونکہ حضور کے مشن کی تکمیل ایک روح ہے اور قادیان کی واپسی ایک جسم.اگر خدا کو یہی منظور ہو تو وہ روح کو ایک وقت تک دوسرا جسم بھی دے سکتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ روح پر موت آجائے تو کوئی جسم اس کے کام نہیں آ سکتا.قادیان کب واپس ملے گا مگر جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے قادیان انشاء اللہ واپس ملے گا اور ضرور ملے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی واپسی میں روک نہیں بن سکتی کیونکہ : قضائے آسمانست ایں بہر حالت شود پیدا لیکن یہ کہ وہ کب واپس ہوگا.یہ خدا کے غیبوں میں سے ایک غیب ہے جسے صرف وہ عالم الغیب ہستی ہی جانتی ہے جس نے اس قسم کے غیبوں کی کنجی اپنے ہاتھ میں رکھی ہے.مگر دو باتیں ایسی ہیں جو اس تعلق میں میرے ذہن میں آتی ہیں.ان میں سے ایک کا اشارہ تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے سمجھا ہے اور دوسری کے متعلق میرا عقلی قیاس ہے اور میں اپنے دوستوں کی اطلاع کے لئے ان دو باتوں کو درج ذیل کرتا ہوں : پہلی بات یہ ہے کہ مجھے تذکرہ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے (مگر میں اس جگہ اس کے دلائل نہیں دوں گا) کہ قادیان کی واپسی انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگی میں ہی ہو جائے گی.

Page 453

۴۴۱ مضامین بشیر میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ خوش قسمت صحابہ کون سے ہوں گے آیا وہ پرانے صحبت یافتہ اصحاب میں سے ہوں گے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے نوجوانوں یا بچوں میں سے ہوں گے مگر میں یقین رکھتا ہوں اور تذکرہ کے مطالعہ سے میں یہی سمجھا ہوں کہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابیوں کا ایک حصہ زندہ ہو گا کہ انشاء اللہ قادیان ہمیں واپس مل جائے گا.وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِااللَّهِ الْعَظِيمِ - ( دوسری بات ) جو میں قیاسی رنگ میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ قادیان کی واپسی کو غالباً نئے مرکز ربوہ کے قیام کی تجویز کی تکمیل کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے.خدا کا جماعت احمدیہ کو قادیان سے نکالنا یونہی ایک عبث فعل نہیں تھا.بلکہ یہ اس کی تقدیروں میں سے ایک اہم تقدیر تھی اور وہ اس ذریعہ سے جماعت کو ایک امتحان میں سے گزارنا چاہتا تھا اور ایک قربانی کی بھٹی میں ڈال کر پھر باہر نکالنا چاہتا تھا.پس اگر ہم موجودہ منتشر حالت میں ہی پڑے ہوئے واپس پہنچ جائیں تو بظاہر ہمارا یہ امتحان ایک عبث فعل بن جاتا ہے.ہاں اگر ہم خدائی مشن کو پورا کر لیں اور ایک قائم مقام مرکز بنا کر اس میں اپنا کام شروع کر دیں اور قربانی کے معیار پر پورے اتر آئیں تو پھر بے شک ہمارا امتحان مکمل ہو جائیگا.جو قادیان کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے.ذَالِکَ ظَنِّي بِااللَّهِ وَاَرْجُوا مِنْهُ خَيْراً.دو قسم کی خدائی تقدیریں اب رہا یہ سوال کہ قادیان کی واپسی کس صورت میں ہوگی.سو یہ پھر خدا کے غیبوں میں سے ایک غیب ہے جسے صرف وہی جانتا ہے جو غیبوں کا مالک ہے.مگر جہاں تک میں نے خدا کی صفت کا مطالعہ کیا ہے مجھے یہ نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے مقاصد کو دو طرح سے پورا فرما یا کرتا ہے ایک ایسے رنگ میں کہ اس کی تقدیر اور اس کی تدبیر کا ہر قدم ساتھ ساتھ نظر آتا جاتا ہے.اور تمام دیکھنے والے اس کی رفتار کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں.اور دوسرے ایسے رنگ میں کہ اس کی تقدیر کی تاریں ایک غیبی پردہ کے پیچھے مخفی رنگ میں کام کرتی ہیں اور پھر کسی وقت اچانک یہ پردہ اٹھتا ہے اور اس کی تقدیر کا ائل نتیجہ سامنے آجاتا ہے.ان دونوں قسم کی تقدیروں کو خدا نے اپنے پاک کلام قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے چنانچہ ایک جگہ فرماتا ہے : ۱۳۲ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا د یعنی کیا لوگ ( بلکہ کا فرتک ) ہماری اس کھلی کھلی تقدیر کو نہیں دیکھ رہے کہ ہم ہر لحظہ چاروں طرف کی زمین کو کاٹتے ہوئے اپنے مرکزی نقطہ کے قریب آتے جار ہے

Page 454

مضامین بشیر ۴۴۲ ہیں.یہ وہ تقدیر عریاں ہے جس کا ہر قدم کھلم کھلا اٹھایا جاتا ہے اور ہر دیکھنے والے کو نظر آتا ہے کہ یہ تقدیر دنیا کو آہستہ آہستہ کسی نتیجہ کی طرف لے جارہی ہے“ مگر اس کے مقابلے پر دوسری جگہ قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ : يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا ۱۳۳ لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً د یعنی اے نبی تجھ سے یہ کفار اس ساعت کے متعلق پوچھتے ہیں جو ان کی تباہی کے سلسلے میں مقدر ہے وہ کب قائم ہوگی تو ان سے کہہ دے کہ اس کا علم خدا کے پاس محفوظ ہے مگر وہ آئے گی ضرور.اور اچانک آئے گی یہ وہ دوسری قسم کی الہی تقدیر ہے جس کی تیاری پردہ کے پیچھے ہوتی ہے اور دنیا کو وہ اسی وقت نظر آتی ہے کہ جب اچانک یہ پردہ اٹھتا ہے اور موعود گھڑی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے.قادیان کس طرح واپس ملے گا یہی دونوں تقدیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مقدر ہیں.کیونکہ حضور کو بھی یہ دونوں قسم کے الہامات ہو چکے ہیں اور ان دونوں کا ذکر تذکرہ میں موجود ہے.مگر جہاں تک قادیان کی واپسی کے سوال کا تعلق ہے تذکرہ کے مطالعہ سے مجھے یہی پتہ لگتا ہے کہ وہ بغتة والی تقدیر کے ساتھ وابستہ ہے.چنانچہ جماعت کے امتحانوں کے ذکر کے تعلق میں خدا تعالی فرماتا ہے : ۱۳۴ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيُكَ بَغْتَةً د یعنی میں اس امتحان کے بعد تیری مدد کے لئے اپنی فوجوں کو ساتھ لے کر اچانک آؤں گا اس وحی الہی سے پتہ لگتا ہے کہ خدا کی ازلی حکمت نے یہی مقدر کر رکھا ہے کہ قادیان کی واپسی کی ساری تیاری آسمان پر پس پردہ تکمیل کو پہنچے اور پھر دنیا میں اچانک ظاہر ہو.وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب وَلَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْنَا لیکن ہمارے خدا کا یہ بھی قانون ہے کہ وہ ہر بات میں آسمانی تقدیر اور زمینی تدبیر کو پہلو بہ پہلو چلانا چاہتا ہے.پس جب تقدیر کا عمل مخفی ہو تو بے شک انسان اس کی تفاصیل میں تو اس کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا.مگر اس صورت میں اس کا یہ کام ضرور ہوتا ہے کہ کم از کم دعاؤں اور عمل صالح کے ذریعہ خدا کی تقدیر کو تقویت پہنچائے اور یہی اس وقت ہماری جماعت کا فرض ہے کہ قادیان کی واپسی

Page 455

۴۴۳ مضامین بشیر کے متعلق عجوبہ پسندی کے طریق پر قیاس آرائی ترک کر کے خدا کی تقدیر پر فی الجملہ ایمان لائیں اور اپنی دعاؤں اور اعمال صالح سے اس تقدیر کو قریب تر لانے کی کوشش کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قادیان کے فراق میں اس مقدس فرض کو نہ بھولیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت نے ہم پر عاید کیا ہے کہ شاید یہی قادیان کی واپسی کی کنجی ہو.وآخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العلمين.نوٹ : میں اس وقت بیمار ہوں اور اس مضمون کو اس تفصیل سے نہیں لکھ سکا جس کا یہ حق دار تھا مگر بہر حال اس کا مرکزی نقطہ اس مضمون میں آگیا ہے خدا ہی سب کو تو فیق عطا کرے کہ اس کی رضا کے تحت زندگی گذاریں اور ہم اور ہماری نسلیں خدا کی اس از لی تقدیر کو پورا کرنے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ وابستہ ہے.( مطبوعه الفضل ۱۲؍ دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 456

مضامین بشیر ۴۴۴ قادیان کے متعلق تازہ اطلاع خدا کے فضل سے سب دوست بخیریت ہیں قادیان کی تازہ ڈاک سے معلوم ہوا ہے کہ سب دوست وہاں خیریت سے ہیں اور قادیان کے جلسہ سالانہ کے لئے تیاری کر رہے ہیں.یہ جلسہ انشاء اللہ حسب سابق دسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوگا.قادیان کے دوستوں نے حکومت مشرقی پنجاب سے درخواست کی ہے کہ وہ قادیان کے جلسہ میں شرکت کے لئے ہندوستان کے ایک سو احمدیوں کو اجازت دے.یعنی ان کے سفر آمد اور واپسی کے لئے حفاظت کا ضروری انتظام کرے.اگر یہ انتظام ہو گیا تو پھر قادیان کے دوستوں کی طرف سے ہندوستان کی مختلف جماعتوں کو دعوت دی جائے گی کہ اس اس تعداد میں اپنے نمائندے منتخب کر کے قادیان بھجوا دیں.لیکن جب تک ایسی دعوت نہ آئے اور حکومت کی طرف سے حفاظت کا پختہ انتظام نہ ہو اس وقت تک انڈین یونین کے کسی احمدی دوست کو ایسی تیاری نہیں کرنی چاہیئے.کیونکہ ابھی تک رستہ مخدوش ہے.قادیان سے یہ بھی اطلاع آئی ہے کہ گزشتہ ہفتے ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب اور کپتان پولیس صاحب قادیان گئے اور ہمارے دوستوں سے ملکر حالات وغیرہ دریافت کرتے رہے.اس موقع پر ہمارے دوستوں نے ڈی سی صاحب کو بتایا کہ قادیان کے سکھوں نے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک مملو کہ مکان گرا کر اپنے ساتھ والے گوردوارہ میں شامل کر لیا ہوا ہے.اور متعلقہ افسروں کو بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس معاملہ میں ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی.ڈی سی صاحب نے وعدہ کیا کہ میں مقامی مجسٹریٹ کو ہدایت دے جاؤں گا کہ وہ اس بارہ میں فوری اور موثر کارروائی کریں.یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ قادیان میں یہ ہدایت پہنچی ہے کہ جو کارخانے اور دوکا نہیں ابھی تک الاٹ نہیں ہوئی تھیں انہیں الاٹ کرنے کی سکیم بنا کر بالا افسروں کے پاس بھیجی جائے.بہشتی مقبرہ کے متصل جانب غرب ایک قطعہ اراضی ہے جو کچھ تو صدرانجمن احمدیہ کی ملکیت ہے اور کچھ ہمارے خاندان کی ملکیت ہے اور اس کا کچھ حصہ مقبرہ بہشتی کے لئے وقف بھی ہو چکا ہے.

Page 457

۴۴۵ مضامین بشیر لیکن قادیان کے سکھ پناہ گزین اس قطعہ اراضی کو اپنے نام الاٹ کرانا چاہتے ہیں.لیکن چونکہ ایسی الاٹمنٹ مذہبی دست اندازی کا رنگ رکھنے کے علاوہ فتنے کا امکان بھی اپنے ساتھ رکھتی ہے.کیونکہ اگر بہشتی مقبرہ کے ساتھ لگتے ہوئے قطعہ میں سکھوں کا آنا جانا شروع ہو جائے تو اس سے کئی قسم کے فتنے پیدا ہو سکتے ہیں.لہذا ہمارے دوستوں نے افسران متعلقہ کو درخواست دی ہے کہ وہ مجوزہ الاٹمنٹ کو روک دیں.قادیان سے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کی پرانی خاکر و به مسمات نہالی جو عرصہ سے بڑھاپے کی وجہ سے نابینا ہو کر اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی تھی وفات پاگئی ہے.نہالی چونکہ مسلمان ہو چکی تھی اس کی خواہش تھی کہ اس کا جنازہ جماعت کے دوست ادا کریں چنانچہ اس کا انتظام کیا گیا.قادیان کے بیمار دوستوں کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ خدا کے فضل سے پہلے کی نسبت اچھے ہیں.مستحق دوستوں کو بستر بنوا دیئے گئے ہیں.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں مغربی پنجاب کی مقامی جماعتوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ چونکہ کا نوائے کا سلسلہ رکا ہوا ہے اور پاکستان سے گئے ہوئے کئی احمدی دوست قادیان - واپس نہیں آسکے اور ان میں سے بعض کے رشتہ دار مالی لحاظ سے تکلیف میں ہیں.اس لئے مقامی جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے رشتہ داروں کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں تا کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.مقامی احباب کی تھوڑی سی توجہ ایسے قابل ہمدردی عورتوں اور بچوں وغیرہ کے لئے بہت سہارے کا موجب ہو سکتی ہے.اور یقیناً یہ ان کے لئے موجب ثواب بھی ہے.( مطبوعه الفضل ۱۴؍ دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 458

مضامین بشیر ۴۴۶ ایک احمدی ڈاکٹر کی نمایاں کامیابی اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب ایم.بی.بی.ایس.پنجاب نے جو ایک مخلص احمدی نوجوان ہیں اور لاہور کے مشہور آئی سرجن ڈاکٹر محمد بشیر صاحب کے فرزند ہیں ، لندن میں ایف آرسی الیس کا امتحان پاس کیا ہے.یہ امتحان سرجری کی لائن میں سب سے چوٹی کا امتحان سمجھا جاتا ہے اور لندن کی یونیورسٹی اس کے لئے خاص طور پر شہرت رکھتی ہے.ہم اپنے عزیز نوجوان کی اس نمایاں کامیابی پر ڈاکٹر محمد بشیر صاحب اور قاضی محمد اسلم صاحب (جن کا وہ بھتیجا ہے ) اور قاضی فیملی کے دوسرے دوستوں کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ عزیز ڈاکٹر مسعود احمد سلمہ کی اس کامیابی کو خودان کے لئے اور ان کے خاندان کے لئے اور جماعت کے لئے با برکت کرے.آمین مطبوعه الفضل ۱۴؍ دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 459

۴۴۷ مضامین بشیر عارضی الائمنٹ کے متعلق ضروری تشریح چند دن ہوئے میں نے الفضل میں احباب کی ہدایت کے لئے یہ اعلان کروایا تھا کہ قادیان اور اس کے ملحقہ دیہات کی ضائع شدہ جائیداد کے بدلہ میں عارضی الاٹمنٹ کرائی جاسکتی ہے.اس پر بعض دوستوں کی طرف سے یہ سوال پہنچا ہے کہ جیسا ہم نے شروع میں اپنا نقصان رجسٹر کراتے ہوئے یہ لکھ دیا تھا قادیان ہماری مقدس جگہ ہے ہم اس کی جائیداد کے بدلہ میں کسی جائیداد کا مطالبہ نہیں کرتے تو اب یہ مطالبہ کس طرح کیا جاسکتا ہے.سو دوستوں کے اس سوال کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ یہ دونوں باتیں متضاد نہیں ہیں.جس بات سے روکا گیا تھا وہ یہ تھی کہ قادیان کی جائیداد پر اپنا حق ترک کر کے اس کے مقابل پر کوئی جائیداد مستقل طور پر قبول کر لی جائے.لیکن موجودہ صورت میں جس بات کی اجازت دی گئی ہے وہ صرف عارضی الاٹمنٹ ہے جس سے قادیان کی جائیداد کا مطالبہ ترک نہیں ہوتا بلکہ میں نے تو اپنے سابقہ اعلان میں یہ صراحت بھی کر دی تھی کہ عارضی الاٹمنٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ لکھ دیا جائے کہ قادیان ہماری مقدس جگہ ہے اور قادیان کی جائیداد کے متعلق اپنا حق کبھی ترک نہیں کر سکتے بلکہ صرف گذارہ کی غرض سے اس کے مقابل پر عارضی الاٹمنٹ چاہتے ہیں اور یہ کہ جونہی کہ ہمیں قادیان واپس ملے گا ہم اس عارضی الاٹمنٹ سے دست بردار ہو جائیں گے.اس قسم کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.دوستوں کی اطلاع کے لئے میں یہ پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ اب جب کہ جائیداد کے مقابلہ پر کھانہ وار معیار کے بمطابق الاٹمنٹ ہوگی تو گورنمنٹ نے اس کے لئے لاہور میں ایک فنانشل کمشنر سیٹلمنٹ کا عہدہ قائم کر دیا ہے اور اس فنانشل کمشنر لاہور کے ماتحت ہر ضلع میں سیٹلمنٹ آفیسر مقرر کئے گئے ہیں.پس ان کو چاہئے کہ جس ضلع میں وہ الاٹمنٹ ہوں اس ضلع کے سیٹلمنٹ آفیسر کو مخاطب کر کے درخواست دیں اور اس درخواست میں اپنی ضائع شدہ جائیداد کی تفصیل درج کر دیں اور اگر اس سے قبل ان کے نام کوئی جزوی الاٹمنٹ ہو چکی ہو تو اس کا بھی ذکر کر دیں.جو دوست جائیداد کی صورت میں الاٹمنٹ نہ چاہتے ہوں وہ نقدی کی صورت میں الاٹمنٹ کی درخواست دے سکتے ہیں.مگر ایسی درخواست کے لئے علیحدہ عملہ مقرر ہے یعنی لاہور میں ایک مرکزی کسٹوڈین مقرر ہے اور اس کے ماتحت ہر ضلع میں ڈپٹی کسٹوڈین مقرر ہیں.پس نقد الائمنٹ کی صورت

Page 460

مضامین بشیر ۴۴۸ میں اپنے ضلع کے ڈپٹی کسٹوڈین کے پاس درخواست دینی چاہئے اور اس درخواست میں اس آمدن کا ذکر کر دینا چاہئے جو درخواست کنندہ کو اپنی ضائع شدہ جائیداد سے سالانہ یا ماہوار حاصل ہوتی تھی.ایک دوست اپنے خط میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ اب جب کہ پاکستان میں ساری مترو کہ جائیدادیں الاٹ ہو چکی ہیں تو اس قسم کی درخواست کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے.اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ اب بھی وہ لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے جو غیر مسلموں کی متروکہ ہے.مگر ابھی تک اس پر ایسے مسلمان کا شتکار بیٹھے ہوئے ہیں جو مالکان اراضی نہیں.علاوہ ازیں جب گورنمنٹ نے خود کھاتہ وار معیار کے مطابق نئی درخواستیں مانگی ہیں تو یہ فکر تو گورنمنٹ کو ہونا چاہئے نہ کہ درخواست کنندہ کو.( مطبوعه الفضل ۱۵ / دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 461

۴۴۹ مضامین بشیر قادیان کی احمد یہ ڈسپنسری کی مختصر روئداد قادیان کی تازہ رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ قادیان کی احمد یہ ڈسپنسری ( جو اس وقت سابقہ دفتر اخبار الفضل میں ہے ) کا کام خدا کے فضل سے بڑی کامیابی اور ترقی کے ساتھ چل رہا ہے.اور محترمی ڈاکٹر بشیر احمد صاحب انچارج ڈسپنسری نہایت اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں.اور ان کی قابلیت اور ہمدردی کو دیکھ کر اب بہت سے غیر مسلم بھی احمد یہ ڈسپنسری میں آکر علاج کروانے لگے ہیں.چنانچہ ماہ نومبر ۱۹۴۸ء میں نئے اور پرانے علاج کروانے والوں کی تعدا د قوم وارحسب ذیل تھی.(۱) مسلمان (۲) ہندو ۱۲۰۹ (۳) سکھ ۱۷۱۲ (۴) دیگر ۵۳۴ ۱۴۹ میزان ۳۶۰۴ اس کے علاوہ قادیان میں انڈور (In Door) بیماروں کا بھی انتظام شروع کیا گیا ہے.چنا نچہ گزشتہ مہینہ میں ایسے بیماروں کی تعداد جن کا ہسپتال کے اندر رکھ کر علاج کیا گیا ، دس تھی.ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ ہے کہ قادیان میں احمدی دوستوں کی عام صحت خدا کے فضل سے اچھی ہے.گذشتہ ایام میں گورداسپور کے سول سرجن اور بعض دوسرے افسروں نے ڈسپنسری کا معائنہ کیا اور اس کے کام اور انتظام کی بہت تعریف کی.مرحوم میجر ڈاکٹر محمود صاحب شہید کے وقت بھی ڈسپینسری بہت کامیابی کے ساتھ چلتی تھی اور ان کے زمانہ میں بھی بہت سے غیر مسلم علاج کے لئے آنے شروع ہو گئے تھے.مگر ان کے واپس آجانے کے بعد یہ تعداد کچھ گر گئی تھی.لیکن اب پھر سرعت کے ساتھ بڑھ رہی ہے.فجزاهما الله ( مطبوعه الفضل ۱۶ ؍ دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 462

مضامین بشیر ۴۵۰ کثرت اولا دوالے مضمون کے متعلق بعض ضروری تشریحات چند دن ہوئے میں نے کثرت اولاد کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کے لئے ایک مضمون الفضل میں شائع کرایا تھا.اس مضمون میں غلطی سے حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم کی عمر نوے سال لکھی گئی ہے حالانکہ بائیبل کے بیان کے مطابق اس وقت حضرت ابرا ہیم کی عمر پورے ایک سو سال تھی ( پیدائش باب ۲۱ آیت (۵) اور بائبل میں یہ بھی صراحتاً لکھا ہے کہ اس وقت حضرت الحق کی والدہ سارہ نہ صرف عمر کے لحاظ سے بہت بوڑھی ہو چکی تھیں.بلکہ ان کے ایام ماہواری بھی بند ہو چکے تھے.( پیدائش باب ۱۸ آیت ۱۱) مگر با وجود اس کے خدا نے اپنے خاص الخاص فضل سے اس بوڑھے جوڑے کو بچہ عطا فر مایا.وَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَمَنْ يَّقْنُطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضالون - اس مضمون کے تعلق میں مجھے ایک صاحب نے کہا ہے کہ تم نے کثرت اولاد کی طرف تو جماعت کو توجہ دلائی مگر کثرت اولاد کے سب سے بڑے ذریعہ یعنی تعداد ازدواج کا کوئی ذکر نہیں کیا.میں نے ان سے عرض کیا کہ یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں تھی کہ جسے میں بھول جاتا.اس لئے آپ کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ میں نے اس کا ذکر دانستہ ترک کیا ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں قرآن شریف نے تعداد ازدواج کی اجازت دی ہے.وہاں اس اجازت کے ساتھ ان بھاری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو ایک سے زیادہ شادی کرنے والے مسلمان پر عائد ہوتی ہیں.اور یہ ذمہ داریاں ایسی ہیں کہ ان کا تارک ثواب کمانا تو الگ رہا بھاری گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے.پس میرے لئے ہرگز مناسب نہیں تھا کہ میں تعدّ دازدواج کی طرف توجہ دلاؤں مگر ان ذمہ داریوں اور شرائط کے ذکر کو ترک کر دوں جو اس اجازت کے ساتھ وابستہ ہیں.اور ذمہ داریوں اور شرائط کے ذکر میں جانا میرے مضمون کو بہت لمبا کر دیتا.حالانکہ اس مضمون میں میری غرض صرف ایک عام اور سہل علاج کی طرف توجہ دلانی تھی.ایک دوسرے دوست لکھتے ہیں کہ اگر کثرت اولاد کی وجہ سے کسی غریب پر غیر معمولی بوجھ پڑ جائے اور وہ اس کے نتیجہ میں اپنی اولاد کی خاطر خواہ تربیت نہ کر سکے تو اس کا کیا علاج ہے یا غالباً ان

Page 463

۴۵۱ مضامین بشیر دوست نے میرے مضمون کو غور سے نہیں پڑھا.کیونکہ ان کے اس سوال کا اصولی جواب میرے مضمون کے اندر موجود تھا.کیونکہ میں نے جو قر آنی آیت کی نقل کی تھی.اس میں یہ بات صاف طور پر مذکور ہے کہ رزق کی ذمہ داری خدا نے خود اپنے ذمہ لی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ (یعنی نہ صرف تمہاری اولاد کو بلکہ خود تمہیں بھی رزق دینے والے ہم ط ۱۳۵ ہیں ) گویا خدا فرماتا ہے کہ جب ہم جو دنیا کے رازق ہیں خود یہ کہتے ہیں کہ غربت کے ڈر کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ کرو.تو تمہیں رازق کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے رزق کا خوف نہیں ہونا چاہیئے.باقی رہا یہ سوال کہ دنیا میں کئی لوگ کثرت اولاد کی وجہ سے تنگ حالی میں مبتلا نظر آتے ہیں تو پھر اس صورت میں خدا کی ذمہ داری کے کیا معنے ہوئے ؟ سو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے خود دوسری جگہ اس شبہ کا جواب دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے.۱۳۹ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا یعنی دنیا میں کوئی رینگنے والا جانور ایسا نہیں جس کا رزق خدا نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو.‘“ اس آیت میں جو دابہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہی اس آیت کے صحیح معنوں کی کنجی ہے.کیونکہ دابۃ کے معنے اس جانور کے ہیں جو زمین پر رینگ رینگ کر چلتا ہے، گویا آیت کے معنے یہ ہوئے کہ انسان زمین میں بالکل بے دست و پا ہو کر ہی نہ بیٹھ جائے.بلکہ خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کو ہاتھ میں لے کر کم از کم رینگتا رہے.اور کچھ نہ کچھ حرکت کرتا رہے تو پھر وہ خدا کے رزق سے محروم نہیں رہتا.ہاں اگر کوئی شخص گو یا بالکل ہی دھرنا مار کر بیٹھ جاتا ہے اور خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کے ما تحت کسی قسم کی بھی جد و جہد نہیں کرتا تو پھر وہ گویا خدا کے قانون کا باغی بنتا ہے.اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں وہ خدا کی صفت رزاقیت سے حصہ نہیں پا سکتا.پس خدا نے خود اپنی حکیم کتاب میں اس شبہ کا جواب دے دیا ہے جو ہمارے دوست کے دل میں پیدا ہوا ہے مگر افسوس ہے کہ دنیا میں اکثر لوگ صحیح طریق پر ہاتھ پاؤں ہلانے کے بغیر خدا کے رزق کے وارث بننا چاہتے ہیں.بہر حال ہم تو اُس آقا کے غلام ہیں.جس نے ایک دفعہ اپنے ایک بیمار صحابی کو جس کے پیٹ میں کچھ تکلیف تھی شہد استعمال کرنے کا مشورہ دیا.مگر خدا کے کاموں میں بھی بعض اوقات امتحان مخفی ہوتے ہیں.شہد کے استعمال نے اس صحابی کی تکلیف بڑہا دی اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کی کہ یارسول اللہ میری تکلیف تو شہد کے استعمال سے زیادہ ہوگئی ہے.آپ نے فرمایا خدا نے اس بیماری کے لئے شہد کو شفا قرار دیا ہے.اس لئے میں تو بہر حال تمہارے پیٹ کو جھوٹا کہوں گا

Page 464

مضامین بشیر ۴۵۲ اور خدا کو سچا.پس تم پھر شہد کو ہی استعمال کرو کہ شاید پہلے استعمال میں کوئی غلطی رہ گئی ہو.چنانچہ اس نے دوبارہ شہد استعمال کیا.اور اس دفعہ اپنی بیماری سے شفا پائی.پس میں بھی اپنے دوست سے یہی کہوں گا کہ جو شخص کثرت اولاد کی وجہ سے رزق کی تنگی محسوس کرتا ہے اس کا یہ تجر بہ جھوٹا ہے اور خدا بہر حال سچا ہے.دراصل اکثر لوگوں میں یہ مرض ہوتا ہے کہ یا تو وہ خاطر خواہ محنت ہی نہیں کرتے اور یا محنت تو کرتے ہیں مگر اس محنت میں صحیح راستہ اختیار نہیں کرتے اور یا اپنی اولاد کے متعلق غلط پالیسی میں مبتلا ہوتے ہیں.اور ہر بچہ کو بلا وجہ اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں.حالانکہ بسا اوقات بی.اے.ایم.اے کی بجائے بچپن میں ہی کسی پیشہ وغیرہ میں ڈال دینا زیادہ مفید ہوتا ہے.اور یورپ و امریکہ میں سینکڑوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ غرباء کے بچوں نے لوہار کا کام سیکھ کر بالا آخر ملک میں چوٹی کی پوزیشن حاصل کر لی اور بہت سی قیمتی ایجادیں ایسے ہی لوگوں کی محنت کا ثمرہ ہیں.پس جب یورپ اور امریکہ کی قوموں میں یہ نمونہ پایا جاتا ہے تو اسلام میں جو حقیقی مساوات کا علمبر دار ہے یہ رنگ کیوں نہ پیدا ہو؟ ( مطبوعہ الفضل ۱۷؍ دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 465

۴۵۳ مضامین بشیر قادیان کا سالانہ جلسہ حکومت ہندوستان نے ایک سو ہندوستانی احمدیوں کو اجازت دیدی ہے.جیسا کہ اعلان کیا جاچکا ہے قادیان کا سالانہ جلسہ انشاء اللہ ۲۶.۲۷.۲۸ /دسمبر ۱۹۴۸ء کو ہوگا.قادیان کے دوستوں نے حکومت انڈین یونین سے درخواست کی تھی کہ وہ اس موقع پر انڈین یونین کے ایک سواحمد یوں کو بحفاظت قادیان پہنچانے اور پھر قادیان سے واپس دہلی تک لے جانے کا انتظام کرے.سو آج اطلاع ملی ہے کہ حکومت انڈین یونین نے اس کی اجازت دے دی ہے اور ضروری انتظام کا وعدہ کیا ہے.دراصل قانونی لحاظ سے تو اس میں اجازت کا سوال نہیں کیونکہ قادیان اور ہندوستان کے دوسرے علاقے ایک ہی حکومت کے ماتحت ہیں.لیکن چونکہ مشرقی پنجاب کا رستہ مخدوش ہے اس لئے حفاظت کے خیال سے ہمارے قادیان کے دوستوں نے اس قسم کی درخواست دی تھی.سو گو یہ اطلاع بہت تنگ وقت پر ملی ہے مگر بہر حال دہلی اور یوپی اور بہار اور مغربی بنگال اور حیدرآباد دکن وغیرہ کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس انتظام سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی جماعت کے نمایندے مقرر کر کے جلسہ سالانہ قادیان کی شرکت کے لئے بھجوائیں.جن کی مجموعی تعداد ایک سو مقرر کی گئی ہے.انتظام یہ ہوگا کہ یہ سب دوست پہلے دہلی میں جمع ہونگے.اور وہاں سے حکومت کی اسکورٹ کے ساتھ اکٹھے ہو کر قادیان جائیں گے.دہلی میں جماعت کے مبلغ مولوی بشیر احمد صاحب مولوی فاضل دار التبلیغ انجمن احمدیہ کو چہ بلی ماراں کوٹھی نواب لوہارو دہلی کو اس بارہ میں سب ضروری تفاصیل کا علم ہے.اور ان کے ساتھ بذریعہ تار یا خط وغیرہ پروگرام طے کر لینا چاہئے.اللہ تعالیٰ سب دوستوں کے ساتھ ہو اور حافظ وناصر رہے اور انہیں قادیان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے.امین.( مطبوعه الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 466

مضامین بشیر ۴۵۴ مسمات نور بیگم زوجہ تاج دین صاحب احمدی قادیان کہاں ہیں؟ مسمات نور بیگم بیوہ تاج دین صاحب مرحوم محله مسجد اقصیٰ قادیان سکنہ خیر پور ضلع کانگڑہ جو محمد رمضان صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ قادیان ضلع کانگڑہ کی بہن ہیں.انہوں نے سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں امداد کی درخواست کی تھی.حضور ایدہ اللہ کی منظوری کے احکامات پہنچنے پر نور بیگم صاحبہ کی بہت تلاش کی گئی.مگر اب تک پتہ نہیں لگ سکا کہ وہ کہاں ہیں.اگر کسی صاحب کو ان کے موجودہ پتہ کا علم ہو تو اطلاع دے کر ممنون کریں.فجزاكم الله خيراً.(مطبوعه الفضل ۲۲ / دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 467

۴۵۵ مضامین بشیر دو بیرون ہند مبلغین کے والد صاحبان کی وفات چوہدری عمر دین صاحب اور ملک خدا بخش صاحب مرحوم حال ہی میں ہمارے دو بیرون ہند و پاکستان مبلغوں کے والد صاحبان کی وفات واقع ہوئی ہے.اپنے عزیزوں اور دوستوں کی جدائی کا صدمہ تو ہر حال میں ہی بہت رنجدہ اور صبر آزما ہوا کرتا ہے لیکن ایسے واقعات کہ جب لڑکا اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے سمندر پار گیا ہوا ہو اور اس کے پیچھے اس کے والد کی وفات ہو جائے.یہ اس قسم کے واقعات ہیں کہ جن میں یقیناً صدمہ کی نوعیت زیادہ شدت اور زیادہ تلخی اختیار کر لیتی ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ایسے حالات میں مرنے والوں کی روحوں کی مغفرت اور بلندی درجات اور پسماندگان کی دینی و دنیوی ترقی اور بامرادی کے لئے زیادہ دعا کیا کریں کہ یہی وہ سب سے بہتر تحفہ ہے جو ایک بھائی دوسرے بھائی کو دے سکتا ہے.جن دوستوں کی وفات کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے ان میں سے ایک تو چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ کے والد چوہدری عمر الدین صاحب ہیں.اور دوسرے ملک عطاءالرحمن صاحب مبلغ فرانس اور ملک احسان اللہ صاحب مبلغ افریقہ کے والد ملک خدا بخش صاحب ہیں.چوہدری عمرالدین صاحب کو جو کچھ عرصہ ہوا کراچی میں فوت ہوئے غالباً زیادہ لوگ نہیں جانتے ہوں گے.کیونکہ وہ ایک کم گو اور الگ تھلگ رہنے والے انسان تھے مگر میں انہیں سالہا سال سے جانتا تھا.اور میرے دل پر ان کی نیکی اور اخلاص کا بہت اچھا اثر تھا.غالباً وہ خود تعلیم یافتہ نہیں تھے یا شاید بہت کم تعلیم ہوگی.مگر ایمان اور اخلاص کا تعلق ظاہری تعلیم کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ دل کے جذبات کے ساتھ ہوتا ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ چوہدری عمرالدین صاحب مرحوم دل کے جذبات کے لحاظ سے بہت بے نفس اور مخلص بزرگ تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت بھی عطا کی تھی کہ ان کا ایک بچہ دین ودنیا کی اعلیٰ تعلیم پا کر خدمت اسلام کے لئے امریکہ بھجوایا گیا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ ایمان تین قسم کا ہوتا ہے.ایک ان لوگوں کا ایمان جو علم اور عرفان میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں اور ان کے تمام عقائد بصیرت پر مبنی ہوتے ہیں اور ہر امکانی شبہ جو ایمان یا عقائد کے راستہ میں پیدا ہوسکتا ہے اسکے دفعیہ کے لئے ان کا دماغ ہر وقت تیار ہوتا ہے.دوسرے ان لوگوں کا ایمان جو

Page 468

مضامین بشیر ۴۵۶ بین بین کی حالت میں ہوتے ہیں.یعنی ان کا علم اور عرفان کامل نہیں ہوتا مگر کسی قدر مطالعہ ضرور ہوتا ہے اور سوچنے کی عادت بھی ہوتی ہے لیکن اعلیٰ عرفان اور پورا علم کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگ بعض اوقات ٹھو کر بھی کھا جاتے ہیں.تیسرے ان لوگوں کا ایمان جو ایک مصلح کی غیر معمولی نیکی یا اس کی تائید میں کوئی خاص نشان الہی دیکھ کر ایمان لے آتے ہیں اور تفصیلات سے ان کو سروکار نہیں ہوتا.بلکہ وہ تفاصیل کے معاملہ میں ایمان بالغیب کا طریق اختیار کرتے ہوئے آمنا و صدقنا کے مقام پر قائم رہتے ہیں.حضور فرمایا کرتے تھے کہ یہ تیسری قسم کا ایمان دین العجائز کہلاتا ہے اور فرماتے تھے کہ عام لوگوں کا دین یہی ہوتا ہے اور ان کے لئے مناسب ہے کیونکہ اس طرح وہ درمیانی لوگوں کی نسبت ٹھوکروں سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں.بہر حال چوہدری عمر الدین صاحب مرحوم ایک مخلص بزرگ تھے.اللہ تعالیٰ ان کی روح کو اپنی رحمت کے سایہ تلے جگہ دے اور ان کی اولاد کا حافظ و ناصر ہو اور دین و دنیا کی ترقی سے نوازے.آمین دوسرے بزرگ ملک خدا بخش صاحب مرحوم تھے.میں ملک صاحب مرحوم کو بڑے لمبے عرصہ سے جانتا ہوں.وہ نہایت مخلص اور فدائی اور سچے معنوں میں سلسلہ کے ایک قابل قدر کا رکن تھے جب کبھی سلسلہ کا کوئی کام پیش آتا تھا تو وہ اس کام میں ہمیشہ دوسروں سے پیش پیش نظر آتے تھے.اور اس بات میں ذرہ بھر شبہ نہیں کہ وہ لاہور کی جماعت کے ایک بھاری رکن تھے.جن کی وفات نے لاہور کی جماعت میں یقیناً ایک خلا پیدا کر دیا ہے.میں ان لوگوں میں سے تو نہیں ہوں کہ یہ سمجھوں یا یوں کہوں کہ فلاں خلا ایسا ہے کہ جو کسی طرح بھر انہیں جا سکتا کیونکہ ایسا خیال خدا کی صفت خلق و تکوین کے خلاف ہے.اور اسی طرح وہ ہمارے مشاہدہ کے بھی خلاف ہے.مگر میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ یہ خلا ایسا ہے جسے لاہور کی جماعت کو خاص توجہ کے ساتھ بھرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.جب میں ملک صاحب مرحوم کا جنازہ پڑھنے کے لئے آیا تو مرحوم کے اوصاف حمیدہ کو یاد کر کے میرے دل میں اچانک یہ خیال پیدا ہوا کہ علم اور بصیرت رکھنے والے مومن بھی دراصل دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن کے ایمان کا مرکزی نقطہ ان کے دماغ یعنی مرکز عقل میں ہوتا ہے اور دوسرے وہ جن کے ایمان کا مرکزی نقطہ ان کے دل یعنی مرکز جذبات میں ہوتا ہے.ان میں سے قسم اول کے مومنوں کی توجہ زیادہ تر دلائل اور براہین کی طرف رہتی ہے اور ان کے خیالات کا محور زیادہ تر عقل کے اردگرد چکر لگاتا ہے.لیکن دوسری قسم کے مومنوں کی توجہ زیادہ تر اخلاص اور جذبات میں مرکوز ہوتی ہے اور ان کے خیالات کا محور محبت پر قائم ہوتا ہے.اور میں نے مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور سے کہا کہ میرے خیال میں ملک صاحب مرحوم دوسری قسم کے مخلصین میں شامل تھے جن کے ایمان کے

Page 469

۴۵۷ مضامین بشیر درخت کی جڑیں دماغ کی نسبت دل میں زیادہ جاگزیں ہوتی ہیں اور علم اور بصیرت رکھتے ہوئے بھی ان کی طبیعت میں محبت اور جذبات کا غلبہ رہتا ہے.بہر حال ہمیں ان دونوں وفات پانے والے دوستوں کی وفات کا بہت صدمہ ہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بلند مقام پر جگہ دے اور ان کے بچوں اور دیگر پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.ملک صاحب مرحوم کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ ایک ہی وقت میں ان کے دو نو جوان بچے خدمت دین کے لئے سمندر پار گئے ہوئے ہیں اور حقیقتاً یہ ایک بڑی بھاری سعادت ہے بلکہ حق یہ ہے کہ : اس سعادت بزور بازو بخشد خدائے نیست بخشنده ( مطبوعه الفضل ۲۴ / دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 470

مضامین بشیر ۴۵۸ ہستی باری تعالیٰ کے متعلق ایک صاحب کے تین سوالات ایک دوست جو اپنا نام محمد الیاس ظاہر کرتے ہیں اپنے خط میں مجھ سے ذیل کے تین سوال پوچھتے ہیں.(1) اللہ تعالیٰ کی ذات کی ابتداء کہاں سے ہوئی ؟ (۲) خدا تعالیٰ کی شکل کیسی ہے؟ (۳) خدا تعالی یکدم سب کی دعا کس طرح سن لیتا ہے؟ یہ سوالات بظاہر بالکل سادہ اور عامیانہ ہیں بلکہ شاید بعض لوگ ان پر ہنسیں مگر اسی قسم کے سوالات فلسفیوں کو بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں.لیکن اس جگہ میں ان کا صرف مختصر اور سادہ جواب دوں گا جو عام لوگوں کو آسانی کے ساتھ سمجھ آسکے.پہلا سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ابتداء کہاں سے ہوئی ؟ سو اس کے جواب میں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر غور کیا جائے تو دوسرے الفاظ میں اس سوال کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خدا کا خالق کون ہے؟ مگر ظاہر ہے کہ خدا کے متعلق یہ سوال پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا کو کل کائنات کا خالق مانا جاتا ہے اور جو ہستی کسی اور کی مخلوق ہو وہ خالق بالکل نہیں ہو سکتی.یہ ایک بالکل موٹی اور عام فہم بات ہے کہ جو چیز مخلوق ہوگی وہ کسی صورت میں خدا نہیں سمجھی جاسکتی.کیونکہ مخلوق ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس کا کوئی اور خالق ہے اور جب کوئی اور اس کا خالق ہوا تو پھر ظاہر ہے کہ اس صورت میں یہ خالق ہستی ہی خدا سمجھی جائے گی نہ کہ اس کے نیچے کی مخلوق ہستی.پس ثابت ہوا کہ خدائیت اور مخلوقیت کا مفہوم دراصل ایک دوسرے سے قطعی طور پر متضاد واقعہ ہوا ہے.اور عقلاً یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتا کہ خدا کی ابتداء کس طرح ہوئی.اسی لئے حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیداً فرمایا ہے کہ تم ہر چیز کے متعلق یہ سوال اٹھا سکتے ہو کہ اس کا خالق کون ہے مگر جب خدا پر پہنچو تو پھر اس سوال سے رک جاؤ.بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے علمی تحقیق کا رستہ بند کیا ہے.حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کا رستہ بند نہیں کیا بلکہ جہالت کا رستہ بند کیا ہے.کیونکہ خدا کے متعلق یہ سوال اٹھانا کہ اس کا خالق کون ہے جہالت میں داخل ہے تم بے شک اگر سینہ زوری کرنا چا ہو تو خدا کا انکار کر سکتے ہو مگر خدا کو مان کر اس کے مخلوق ہونے کا سوال نہیں اٹھا سکتے.باقی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف میں خدا کی ایک صفت الا ول بھی آئی ہے اور

Page 471

۴۵۹ مضامین بشیر سب سے اول ہستی کے متعلق یہ پوچھنا کہ اس سے پہلے کیا تھا ایک فضول سوال ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی شکل کیسی ہے؟ سومحبت کے انداز میں تو یہ سوال بہت عمدہ اور ایک مومن کی قلبی تلاش کا سچا آئینہ ہے مگر علمی پہلو کے لحاظ سے یہ سوال بھی پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ شکل وصورت کا سوال مادہ سے تعلق رکھتا ہے اور خدا کوئی مادی ہستی نہیں کہ اس کے متعلق شکل کا سوال پیدا ہو.بلکہ وہ تو جاندار مادہ کے اندر کی روح سے بھی بالا ہستی ہے اور مادہ اور روح دونو اس کی مخلوق ہیں.پس خدا کی ذات کے متعلق ہرگز وہ سوال پیدا نہیں ہو سکتا جو مادہ وغیرہ جیسی محدود چیزوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.خوب سوچو کہ شکل وصورت والی چیز میں ایک طرف تو مادہ کی متقاضی ہیں اور دوسری طرف محدودیت کی.یعنی شکل صرف اسی چیز کی ہوسکتی ہے جو مادی اور محدود ہو مگر خدا ان باتوں سے بالا ہے.اسی لئے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.۱۳۷ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكَ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ یعنی خدا ایسی ہستی ہے کہ اسے انسانی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں.مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسان کے دل و دماغ اس کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں اس لئے وہ خود اپنی صفات کی تجلی کے ساتھ انسانوں کی طرف نازل ہوتا ہے.کیونکہ گو وہ لطیف ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آ سکتا مگر وہ خبیر ہونے کی ط ۱۳۸ وجہ سے انسانوں کی ضرورتوں سے واقف ہے اور ان کی تلاش اور جستجو کا قدر دان بھی ہے.پس حق یہی ہے کہ خدا شکل وصورت کے سوال سے بالا ہے.ہاں اس کے متعلق صفات کا سوال ضرور پیدا ہو سکتا ہے یعنی یہ کہ خدا میں کیا کیا صفات پائی جاتی ہیں اور دراصل اس کی صفات ہی اس کی شکل وصورت ہیں.جس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ لَهُ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى یعنی خدا بہترین صفات کا مالک ہے.پس میرے سوال کرنے والے دوست اس فضول الجھن میں نہ پڑیں کہ خدا کی شکل کیا ہے.کیونکہ اگر بفرض محال ان کو اس سوال کا جواب مل بھی جائے تو پھر بھی خدا کی ظاہری شکل وصورت انہیں دین و دنیا میں کسی کام نہیں آسکتی.ہاں خدا کی یہ صفات کہ مثلاً وہ ربّ العالمین ہے اور وہ رحیم ہے.اور وہ رحمن ہے اور وہ مالک یوم الدین ہے وغیرہ وغیرہ.ضروران کے اور ہم سب کے کام آنے والی ہیں اور انہی کی طرف مومن کی توجہ ہونی چاہئے.تیسرا سوال یہ ہے کہ خدا ایک ہی وقت میں سب کی دعا کس طرح سن لیتا ہے؟ یہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ سائل نے خدا جیسی کامل اور خالق الکل اور وراء الوراء ہستی کو بھی اپنی محدود طاقتوں پر قیاس کیا ہے اور خیال کیا ہے کہ جب ہم بہت سی آوازوں کے شور و غوغا میں کسی شخص کی بات نہیں سن سکتے تو خدا ان کروڑوں لوگوں کی دعا کس طرح سن سکتا ہے جو ایک ہی وقت میں اس سے دعا کر رہے ہوتے

Page 472

مضامین بشیر ۴۶۰ ہیں.اسی قسم کا سوال گو اس سے بہت زیادہ دانشمندانہ رنگ میں صحابہ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا.یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب مومن خدا کو دیکھیں گے تو گو اس کے اصل معنی تو خدا کی کامل اور بر ملا تجلی کے تھے مگر صحابہ نے اپنی محبت کے جوش میں یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ قیامت میں تو اگلی پچھلی مخلوق ایک جگہ ہوگی پھر وہ سب خدا کو بہ یک وقت کس طرح دیکھ سکیں گے ؟ تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کے ساتھ فرمایا اور سبحان الله کیا خوب فرمایا کہ کیا جب ساری دنیا پر چاند طلوع ہوتا ہے تو تم اسے دیکھنے میں کسی قسم کی دقت یا اثر دھام محسوس کرتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں.آپ نے فرمایا تو پھر اسی پر تم اپنے سوال کے جواب کا قیاس کرلو.اور حق یہ ہے کہ اصولی طور پر یہی ہمارے موجودہ سوال کا جواب ہے اور وہ یہ نعوذ باللہ ہمارا خدا محمد و دصورت اختیار کر کے اور محدود طاقتوں کے اندر جکڑا جا کر ہمارے پاس نہیں بیٹھا ہو ا کہ اس کے متعلق یہ سوال پیدا ہو کہ وہ ایک ہی وقت میں ساری دنیا کی دعائیں کس طرح سن سکتا ہے؟ وہ با وجود نزدیک ہونے کے اسقدر وراء الوراء ہے کہ اس کی یہ دوری ہی اثر دھام کی مانع ہے اور اس کی سننے کی طاقت ہمارے مادی کانوں سے اس قدر مختلف ہے کہ انسان کی محدود طاقتوں پر اس کی لامحدود طاقتوں کو قیاس کرنا جہالت ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز ہے.کیونکہ خدا کی ذات کی طرح اس کی یہ صفت بھی لامحدود پہلو رکھتی ہے اور آوازوں کا تجزیہ اس کے لئے ہر گز کوئی مشکل کام نہیں بل هو على ربّكم هین یا اولی الالباب - پس اس وقت میں ان سوالوں کا یہی مختصر جواب دوں گا کیونکہ مفصل جواب کی نہ تو اس وقت میرے پاس فرصت ہے اور نہ الفضل کے کالموں میں اس کی گنجائش ہے.البتہ جو دوست مفصل جواب چاہیں وہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی لطیف تصنیف ” ہستی باری تعالیٰ“ اور خاکسار کی تصنیف ”ہمارا خدا کا مطالعہ کر کے فائدا اٹھا سکتے ہیں جن میں اس قسم کے سب سوالوں کا مفصل جواب موجود ہے.وما توفيقنا الا بالله العظیم.( مطبوعه الفضل ۲۵ / دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 473

۴۶۱ مضامین بشیر قادیان کے جلسہ کا پہلا دن دہلی.یو.پی.بہار.مغربی بنگال کے احمدی نمائندے بھی شریک ہوئے قادیان سے بذریعہ ٹیلیفون اطلاع ملی ہے کہ قادیان کے جلسہ سالانہ کی شرکت کے لئے دہلی اور یوپی اور بہار اور مغربی بنگال کے ۶۶ احمدی اپنی اپنی جماعتوں کے نمائندہ کے طور پر قادیان پہنچے ہیں یہ دوست پہلے دہلی میں جمع ہوئے.اور پھر دہلی کے احمدی مبلغ مولوی بشیر احمد صاحب مولوی فاضل کی معیت میں پولیس اسکورٹ کے ساتھ قادیان پہنچے.اور خدا کے فضل سے سفر ہر طرح خیریت کے ย ساتھ گذرا.قادیان کے جلسہ کی کارروائی ۲۶ دسمبر کی صبح کو پرانے زنانہ جلسہ گاہ میں جو حضرت مولوی سرور شاہ صاحب مرحوم کے مکان کے سامنے ہے ، شروع ہوئی.اس جلسہ میں کل حاضری نو سو چھپیں (۹۲۵) تھی.جن میں ۳۲۵ ہماری جماعت کے دوست تھے.اور ۲۰۰ غیر مسلم تھے.جلسہ کی کارروائی انشاء الله ۲۸ / تاریخ کی شام تک جاری رہے گی.مطبوعه الفضل ۲۸ / دسمبر ۱۹۴۸ء)

Page 474

مضامین بشیر ۴۶۲ فہرست حوالہ جات ١٩٤٨ء تذکره صفحه ۲۵۶ طبع ۲۰۰۴ء الفاتح: الفاتحہ : ۷۶ -1 -۲ -٣ 110:16 - البقره: ۲۲۰ البقره: ۴۶ البقره: ۱۸۷ تذکرہ - صفحہ ۷۷ طبع ۲۰۰۴ء اتحاف السادة المتقين بشرح احياء علوم الدین جلدا، صفحه ۲۰۴-۲۰۵ صحیح بخاری کتاب الاذان باب قول الرجل فاتتنا صلواة صحيح البخارى كتاب الحج باب ايام منى المائده : ۱۰۲ صحیح ا ح البخارى كتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله الكهف: ۱۰۵ ص: ۸۷ سنن ابو داؤد کتاب اللباس باب في لبس الشهرة جامع الترمذى كتاب العلم باب ماجاء في فضل الفقه على العبادة.(مفہوماً) صحيح البخارى كتاب الجنائز باب اذا اسلم الصَّبيُّ فَمَات هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ؟ تحفة الاحوذى شرح سنن الترمذى ابواب الطهارة باب ماجاء لا تقبل صلواة بغير طهور كنز العمال الجز نمبر ۱۰ حدیث نمبر ۷ ۲۸۶۹ -Y -۷ -^ -9 -1• 11- -١٢ ۱۳ -۱۴ -10 -17 -12 -IA -19 -۲۰

Page 475

-۲۱ -۲۲ -۲۳ الذریت : ۵۷ الكهف : ۵۱ الاعراف: ۱۳ ۲۴- ص: ۸۵-۸۶ -۲۵ الاعراف: ۱۸۵ ۲۶- الكهف - ۱۰۵ - ۱۰۶ ۲۷- الانعام:۲ -۲۸ -۲۹ النور : ٣٦ التحريم: ۳۰- الحجر : ۲۸ -۳۱ الکھف : ۵۰.۴۶۳ ۳۲ - الذریت : ۵۷ - ۳۳- الاعراف : ۱۳ ۳۴- الحجر : ۳۷ تا ۳۹ -۳۵ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۸۲ تا ۸۵.حاشیہ ۳۶- حم السجده - ۴۳ ۷ - المرسلات : ۵۱ ۳۸ - البقره: ۲۸۱ ۳۹- صحيح البخارى كتاب الاحكام باب قول الله تعالیٰ اطیعوا الله و اطیعوالرسول و اولی الامر منكم آل عمران : ۲۰۱ ۴۱ یونس : ۱۵ -۴۲ النساء : ٦٠ -۴۳ صحیح مسلم كتاب الامارة باب الكراهة الامارة بغير فهرة ۴۴ - صحیح مسلم کتاب الحدود باب قطع السارق الشريف السيرة لا بن حبان اخباء الخلفاء استخلاف ابی بکر - ۴۵ مضامین بشیر

Page 476

مضامین بشیر -My -12 - ۴۸ النساء : ١٣٦ المائدہ: ۹ ۴۶۴ سنن الترمذى كتاب الاحكام باب ماجاء لا يقفى القاضى وهو غضبان ۴۹ - الجامع الصغير و زيارته 10- -۵۲ سنن الترمذى كتاب الاحكام باب ماجاء فى القاضى لا يقضى بين الخصمين حَتَّى يَسْمَعَ كَلَا مَهُمَا سنن ابو داؤد، کتاب الادب باب الرفق سنن ابو داؤد کتاب الاقضية باب فى الرجل فيمن يعين على خصومة) ۵۳ - النساء : ۸۶ ۵۴ - الرعد : ۱۸ ۵۵ تذکره صفحه ۱۸۱ تا۱۸۴.مفہوماً طبع ۲۰۰۴ء ۵۶ - الجمعة - ۵ ۵۷- ابراہیم: ۸ ۵۸- تذکرہ صفحہ ۳۶۷ طبع ۲۰۰۴ء ۵۹- تذکره صفحه ۱۶۸ طبع ۱۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۱۷۲ طبع ۲۰۰۴ء -71 ۶۲ تذکره صفحه ۲۵۷ طبع ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحہ ۷۲ طبع ۲۰۰۴ء ۶۳- تذکرہ صفحہ ۷۲ طبع ۲۰۰۴ء - ۶۴ تذکره صفحه ۱۳۷ طبع ۲۰۰۴ء ۶۵ تذکره صفحه ۶۶۶ طبع ۲۰۰۴ء - ۶۶ - الفرقان : ۷۸ ۶۷- سنن الترمذى كتاب الدعوة باب فضل الدعا -72 ۶۸ - البقره: ۱۸۷ ۹ - كنز العمال الباب الثامن الدعا حديث ۳۱۷۱.جامع العلوم والحکم جز اول صفحہ ۳۹۳

Page 477

-21 مضامین بشیر صحیح مسلم کتاب الذكر و الدعا و التوبة باب انه يستجاب للداعى مالم بعجل فيقول دعوت فلم يستجب لی.صحيح البخارى كتاب الدعوت باب ليعزم المسالَةَ فَإِنَّهُ لَا مُكْرِهَ لَهُ ۷۲ - الفاتحة : ۷۶ ۷۳- سنن الترمذی ابواب الصلواة.باب ماجاء انه لا صلواة الا بفاتحة الكتاب -۷۴.تذکرہ صفحه ۷۴ طبع ۲۰۰۴ء ۷۵- ترمذی کتاب البروالصله باب ماجاء في الشكر لمن احسن الیک -24 الاحقاف: ۱۶ ۷۷.بنی اسرائیل: ۲۵ ۷۸ - الفرقان : ۷۵ -29 -^• سنن الترمذى كتاب الدعوات.باب ماجاء في الدعاء اذا اوى الى فراشه سنن الترمذى كتاب القدر باب ماجاء لا يرد القدر الا الدعاء یوسف: ۲۲ ۸۲- البقره: ۱۳۵ - كنز العمال - الجزءا احدیث ۳۱۸۳۴ " -۸۴ تفسیر الرازی زیر آیت و من احسن قولا ممن دعا الى الله ( حم السجدہ : ۳۵،۳۴) -۸۵ مشکوة كتاب الفتن باب نزول عيسى عليه السلام ۸۶ - البقره : ۲۸۷ ۸۷- آل عمران : ۱۴۸ ۸۸- آل عمران : ۱۹۴ الاعراف: ۲۴ -۸۹ -90 -91 -۹۲ صحیح مسلم کتاب الذكر والدعا باب فصل التحليل والتسبيح اللهم اغفر لي ذنبی و اجیم نی من الشيطان الرجيم سنن الترمزى كتاب الدعوت باب ۸۷ ۹۳- صحيح البخارى كتاب الدعوات باب فضل ذكر الله عزوجل -۹۴- تذکرہ صفحہ ۱۵۷ طبع ۲۰۰۴ء

Page 478

مضامین بشیر ۴۶۶ ۹۵ - الجمعة : ۴ بشیر احمد شریف بعد مبارکہ کی آمین.در مشین اُردو ۵۳:۱۰ - ۹۷ -۹۸ -100 صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابه باب فی فضل عائشه صحيح البخارى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله صحیح مسلم كتاب الاشربة باب النهي عن الانتباذ في المزفت والدباء و الحنتم والنقير ۱۱ صحیح مسلم کتاب الجنائز باب استئذان النبی صلعم ربه عز وجل في زيارة قبرامه ۱۰۲ - النساء : ۵۹ ۱۰۳ - الرحمن : ۲۸،۶۷ ۱۰۴- صحيح البخاری کتاب الجهاد و السير باب كان النبي صلى الله عليه وسلم -۱۰۵ اذالم يقاتل اوّل النهار الحج : ۴۰ ۱۰۶ - الانفال: ۶۱ ۱۰۷- آل عمران : ۲۰۱ ۱۰۸ - الصف: ۵ ۱۰۹ - الانفال : ۱۶، ۱۷ 111- +11- النساء: ۱۰۵ التوبة : ۵۳ ۱۱۲ - الانفال : ۶۶ ۱۱۳ - الانفال :۶۲ -110 مسند احمد بن حنبل مسند الكوفيين حديث عمران ابن حصین حدیث نمبر ۱ ۱۹۹۵ ۱۱۵- بشیر احمد شریف بعد مبارکہ کی آمین.در مشین اُردو -117 موطا امام مالک کتاب الجهاد باب النهي عن قتل النساء ولولدان في الغزو تذکره صفحه ۳۰ طبع ۲۰۰۴ء ۱۱۸ مؤطا امام مالک کتاب الكلام ما بقرأة من الكلام

Page 479

۴۶۷ -119 -۱۲۰ -۱۲۱ -۱۲۲ سنن الترمذى كتاب الجهاد باب ماجاء في الفرار من الزحف صحيح البخارى كتاب الزكوة باب وجوب الزكوة الشعراء: ۲۲۰ صحیح بخارى كتاب الدعوات.باب مايقول اذا اتى اهله الله: اله لله ۱۲۴ بنی اسراءیل :۳۲ -۱۲۵ -١٢٦ سنن ابو داؤد كتاب النكاح باب عن النبي من لم يطر من النساء هود : ۷۲،۷۳ ۱۲۷- مریم: ۵ تا ۱۰ -١٢٨ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹.صفحہ ۲۰.۲۱.۱۲۹- الحجر: ۵۷ -150 تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۶.۶۷ ۱۳۱ تذکرہ صفحہ ۲۵۷۲۵۶ طبع ۲۰۰۴ء ۱۳۲ - الرعد : ۴۳ -١٣٣ الاعراف: ۱۸۷ ۱۳۴- تذکره صفحه ۲۴۲ طبع ۲۰۰۴ء ۱۳۵ بنی اسرائیل :۳۲ ۱۳۶- هود: ۷ ۱۳۷ - الانعام:۱۰۴ ۱۳۸ - الحشر : ۲۵ مضامین بشیر

Page 480

۴۶۸ مضامین بشیر

Page 481

۴۶۹ مضامین بشیر ١٩٤٩ء جلسہ قادیان میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کا پیغام دوسرے دن کے اجلاس میں چودہ سو کے قریب حاضری تھی ہو جلسہ سالانہ قادیان کے پہلے دن یعنی ۲۸ / دسمبر کی کارروائی کی مختصر رپورٹ الفضل میں شائع : چکی ہے.۲۹ / تاریخ کو دو پہر کے قریب انڈین یونین کے چھیاسٹھ احمدی دوست مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی کی امارت میں قادیان پہنچے.ان میں حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری اور سید وزارت حسین صاحب پروانشل امیر صوبہ بہار بھی شامل تھے.ان دوستوں کے استقبال کے لئے ہمارے قادیان کے دوست قادیان کے ریلوے اسٹیشن پر گئے اور سب دوستوں کو اپنے انتظام میں حلقہ مسجد مبارک میں لے آئے.ہند و ملٹری بھی ساتھ تھی اور بہت سے غیر مسلم یہ نظارہ دیکھنے کے لئے جمع تھے.۲۶ تاریخ کے دوسرے اجلاس میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا جو حضور نے اس موقع کے لئے لکھ کر قادیان بھجوایا تھا.جب یہ پیغام پڑھ کر سنایا جارہا تھا تو اکثر دوست چشم پر آب تھے اور غیر مسلم حاضرین نے بھی بڑی توجہ سے سنا.اسی طرح جب ہمشیرہ مبار کہ بیگم صاحبہ بیگم نواب محمد علی خانصاحب کی تازہ نظم سنائی گئی تو اکثر دوستوں پر رقت طاری ہوگئی.دوسرے دن یعنی ۲۷ / دسمبر کی پہلے وقت کی کارروائی میں ساڑھے آٹھ سو کے قریب حاضری تھی اور دوسرے وقت میں چودہ سو کے قریب پہنچ گئی.جس میں ساڑھے تین سو ہمارے اپنے دوست تھے اور باقی سب غیر مسلم تھے.مولوی برکات احمد صاحب ناظر امور عامہ قادیان لکھتے ہیں کہ غیر مسلموں کی یہ تعداد اس تعداد سے بھی زیادہ ہے جو خود ہندوؤں اور سکھوں کے جلسوں میں شامل ہوتی رہی ہے اور اس طرح خدا کے فضل سے اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کا بہت اچھا موقع میسر آ گیا.جلسہ میں مجسٹریٹ علاقہ اور ڈی.ایس.پی اور انسپکٹر پولیس اور متعد دسب انسپکٹر پولیس شریک ہوئے اور تمام تقریروں کو توجہ سے سنتے رہے اور گورداسپور سے فوج کے ایکٹنگ کمانڈر بھی آکر شریک ہوئے اور یہاں کے احمد یوں کو مل کر بہت خوش ہوئے.( مطبوعه الفضل ۳ جنوری ۱۹۴۹ء )

Page 482

مضامین بشیر ۴۷۰ کشمیر میں لڑائی بند ہوگئی ! مگر کشمیر کی مہم کا اصل کام اب شروع ہوتا ہے استصواب رائے عامہ کے لئے وسیع انتظام کی ضرورت کل شام کو ریڈیو سے یہ خبر نشر ہوئی جو آج اخباروں میں چھپ بھی گئی ہے کہ مجلس اقوام متحدہ کی ہدایت کے ماتحت پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں نے استصواب رائے عامہ کے اصول کو تسلیم کر کے اس کی جدید شرائط کو مان کر کشمیر میں لڑائی بند کر دینے کا فیصلہ کیا ہے.یہ لڑائی گذشتہ شب کو بارہ بجے سے ایک منٹ قبل بند ہو چکی ہو گی.ایک منٹ قبل کی شرط اس لئے لگائی گئی ہے تا کہ لڑائی کا یہ خاتمہ یکم جنوری کی تاریخ میں شمار ہو سکے اور نئے سال کا آغا ز اچھی فال کے ساتھ ہو.طبعا اس فیصلہ پر دونوں حکومتوں کے لیڈروں نے تسلی اور خوشی کا اظہار کیا ہے اور بات بھی یہی ہے.اگر امن اور صلح کے ساتھ منصفانہ فیصلہ ہو سکے، کوئی عقلمند لڑائی کے طریق کو اچھا نہیں سمجھ سکتا.لیکن ضروری ہے کہ جو شرائط رائے عامہ کے شمار کرنے کے لئے فیصلہ کی گئی ہیں اور جن کی تفصیل کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا ، وہ حق وانصاف پر مبنی ہوں تا کہ رائے شماری کا کام صیح معنوں میں پوری پوری آزادی کے ساتھ سرانجام پاسکے اور کسی قسم کی نا واجب دخل اندازی یا دباؤ یا دھمکی یا لالچ کا احتمال باقی نہ رہے.سوان باتوں کا اندازہ کچھ تو شرطوں کے اعلان پر اور کچھ ان کے عملی اجراء پر ہو سکے گا کیونکہ کئی باتیں کہی اور طرح جاتی ہیں اور عملاً ہوتی اور طرح ہیں.لیکن اس جگہ جس خاص بات کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آزاد گورنمنٹ اور حکومت پاکستان کو ابھی سے استصواب رائے عامہ کے لئے تیاری شروع کر دینی چاہیئے.اس کے کام کا تجربہ رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ یہ کام کس قدر بھاری اور کس قدر نازک اور کس قدر پیچیدہ ہوا کرتا ہے.حق یہ ہے کہ اس کام کے مقابلہ پر ایک طرح سے بند ہونے والی جنگ

Page 483

۴۷۱ مضامین بشیر بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور اگر خدانخواستہ ہمارے کارکنوں کی ستی یا غفلت یا غلطی سے اس کام کو نقصان پہنچ گیا تو یہ ایک ایسا نقصان ہوگا جس کی تلافی بعد میں کبھی نہیں ہو سکے گی.بدقسمتی سے ہماری قوم کا ایک حصہ بلکہ معتد بہ حصہ صرف زور لگانا جانتا ہے اور باقاعدہ تنظیم کے طریق پر جد و جہد نہیں کر سکتا.حالانکہ جن حالات میں کشمیر کی ریاست میں رائے شماری کا کام ہوتا نظر آتا ہے، وہ بڑی بھاری تنظیم اور نہایت وسیع انتظامات اور ایک لمبے عرصہ کی مسلسل جد و جہد چاہتا ہے.جس کے لئے ہزاروں محنتی اور سمجھدار کارکنوں کو ایک وسیع علاقہ میں پھیلانا ہوگا.یہ خیال کرنا کہ ہر مسلمان کہلانے والا لازماً پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا یا یہ کہ ہر غیر مسلم لازماً ہندوستان کے حق میں ووٹ دے گا، درست نہیں ہے بلکہ کمزور مسلمانوں کو سنبھالنے اور انصاف پسند غیر مسلموں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے بھاری جد و جہد کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ کشمیر میں رائے شماری کا کام اپنے ساتھ یہ خاص مشکل بھی رکھتا ہے کہ لاکھوں مسلمان ریاست کی حدود سے بھاگ کر پاکستان کے مختلف حصوں میں پناہ لے چکے ہیں اور ہزاروں مارے بھی جاچکے ہیں اور بعض مظلوم مسلمان دور افتادہ جیلوں میں یا اغوا ہو کر غیر مسلم اکابر کی حراست میں بھی محبوس ہوں گے.پس گو ہم مرے ہوئے لوگوں کو تو واپس نہیں لا سکتے مگر ان لاکھوں پراگندہ اور منتشر شدہ ووٹروں کو جمع کرنا ایک بہت بڑا کام ہے.یہ خیال کرنا کہ کشمیر کے پناہ گزین صرف سیالکوٹ اور گجرات اور جہلم اور راولپنڈی وغیرہ کے سرحدی ضلعوں کے ریفیو جی کیمپوں میں ہی جمع شدہ بیٹھے ہیں ہرگز درست نہیں.کیونکہ ایک بھاری تعداد کیمپوں سے باہر مختلف مقامات میں پھیل چکی ہے اور پھر ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو ان ضلعوں کی حدود سے نکل کر پنجاب کے باقی اضلاع یا صوبہ سرحد یا سندھ وغیرہ کی طرف جا چکی ہے اور ان میں سے بعض کی جائے قیام کا پتہ لگا نا بھی آسان کام نہیں.لیکن بہر حال اگر اس الیکشن کو جیتنا ہے تو پھر ان سب منتشر دھاگوں کو سمیٹ کر ایک جگہ جمع کرنا ہوگا اور یہ وہ کام ہے جس کے لئے حکومت کو نہ صرف مسلم لیگ اور دوسری پبلک جماعتوں کا تعاون درکار ہوگا بلکہ دراصل ملک کے ہر فرد اور ہر شہری کی امداد ضروری ہوگی.اسی طرح اس بات پر بھی کڑی نگرانی رکھنی ہوگی کہ کوئی فریق فرضی اور جعلی ووٹیں بھگتا کرنا جائز ذرائع استعمال کرنے کی کوشش نہ کرے.یا ووٹروں پر دباؤ یا لالچ کا اثر ڈال کر صحیح طریق انتخاب میں رخنہ انداز نہ ہو.الغرض یہ ایک بہت وسیع اور بہت بھاری اور بہت نازک کام ہے، جس کے لئے لمبی اور غیر معمولی تیاری کی ضرورت ہے اور مسلمان پر یس کا یہ فرض ہے کہ ابھی سے اس معاملہ میں پراپیگنڈا

Page 484

مضامین بشیر ۴۷۲ شروع کر کے حکومت اور پبلک دونوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرے.جن امور کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کی ضرورت ہے ، وہ میرے خیال میں یہ ہیں :- ا.انتخاب کی مہم لڑنے کے لئے ایک واقف کار اور دیانت دار اور چوکس اور محنتی اور بااثر مرکزی افسر مقرر کیا جائے جو اس سارے کام کا انچارج ہو اور اس کے ساتھ مشورہ کے لئے دو یا تین سمجھدار واقف کا روں کی کمیٹی مقرر کر دی جائے.۲.اس مرکزی افسر کے ماتحت ریاست جموں اور کشمیر کے ہر ضلع اور ہر تحصیل اور ہر تھانہ میں ضلع وار اور تحصیل وار اور تھانہ وار افسر مقرر کئے جائیں جو اپنے اپنے علاقہ میں کام کے ذمہ دار ہوں اور اپنے علاقہ کے ہر شہر اور ہر قصبہ اور ہر گاؤں کے ساتھ براہ راست ملاپ پیدا کریں اور ان کے ماتحت ہرگاؤں میں مقامی افسر بھی مقرر ہوں اور اس طرح تنظیم کا ایک وسیع جال سارے علاقہ میں پھیلا دیا جائے.۳.پاکستان میں آئے ہوئے کشمیری پناہ گزینوں کو ضبط میں لانے اور ان کی فہرستیں بنانے اور انہیں وقت پر اکٹھا کرنے کے لئے مرکزی افسر کے ماتحت ایک علیحدہ افسر مقرر کیا جائے جس کے ما تحت حسب ضرورت علاقہ وارافسر مقرر کئے جائیں..رائے دہندگان کی فہرست کی تیاری ایک بڑا بھاری اور نہایت اہم کام ہے.اس کام پر ایسے آدمی مقرر کئے جائیں جو اس کام کے واقف اور تجربہ کار ہوں.وہ نہ صرف فہرست ووٹران کو مکمل صورت میں تیار کرائیں تا کہ کوئی شخص جو ووٹر بن سکتا ہے باہر نہ رہ جائے بلکہ فہرست کی ہر تفصیل کو بھی چیک کر کے اس کی صحت کے متعلق پوری پوری تسلی کر لیں کیونکہ بسا اوقات غلط اندراج کی وجہ سے صحیح ووٹ بھی ضائع ہو جایا کرتی ہے.کام کرنے والوں کو یا درکھنا چاہیئے کہ ایک ایک ووٹ بے انتہا قیمت رکھتی ہے اور اس قیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب فیصلہ کا دارو مدار آخری ووٹ پر آجاتا ہے.ووٹروں کی فہرست کا متعلقہ حصہ ہر کارکن کے پاس موجود رہنا چاہیئے.اس غرض کے لئے حسب ضرورت اپنی فہرستیں چھپوائی جاسکتی ہیں.۵.ریاست جموں و کشمیر کے مختلف ضلعوں اور مختلف تحصیلوں اور مختلف حلقوں کے تفصیلی نقشے تیار کرائے جائیں جن میں ہر شہر اور ہر قصبہ اور ہر گاؤں دکھایا جائے تا کہ وقت پر کوئی بستی نظر انداز نہ ہو سکے اور ایسے نقشوں میں رستے اور پل بھی دکھائے جائیں اور ان نقشوں کی کا پیاں سب متعلقہ افسروں کے پاس موجود ہیں.بعض مقامی واقف کار مخصوص طور پر اس ڈیوٹی پر مقرر کئے جائیں کہ وہ فریق ثانی کے

Page 485

۴۷۳ مضامین بشیر ووٹروں کی پڑتال کرتے رہیں تا کہ کوئی غلط ووٹ نہ ڈالا جا سکے.ے.پولنگ کے وقت نہ صرف پولنگ اسٹیشنوں پر بلکہ علاقہ میں بھی ایسا عملہ متعین ہو جو اپنی نگرانی میں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال نکال کر پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچائے اور پھر پولنگ اسٹیشنوں پر اپنی نگرانی میں ان کے ووٹ دلوائے..پاکستان کے حق میں مضبوط اور مدلل پراپیگنڈا کرنے کے لئے مؤثر اور عام فہم دلیلیں مرتب کر کے انہیں اخباروں اور پوسٹروں اور پمفلٹوں اور اشتہاروں اور پھر تقریروں اور مساجد کے خطبوں وغیرہ کے ذریعہ ہر خاص و عام کے دل میں بار بار کے تکرار سے راسخ کر دیا جائے.۹.کوئی ایسا طریق اختیار نہ کیا جائے بلکہ ہر ایسے اقدام کا حکمت اور مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے جو کسی طرح فساد پیدا کرنے والا ہو کیونکہ عموماً ایسے انتخابوں میں اقلیت کی یہ کوشش ہوا کرتی ہے کہ وہ فساد پیدا کر کے اکثریت کے ووٹروں کو منتشر کر دے یا کوئی اور نا گوار شاخسانہ کھڑا کر دے اور لازماً اس قسم کے فسادا کثریت والی پارٹی کے خلاف ہی زیادہ اثر پیدا کیا کرتے ہیں.۱۰.بالآخر حکومت کے لیڈروں کا یہ کام ہے کہ وہ انتخاب کے لئے ایسی شرائط اور ایسی تفاصیل طے کرائیں جو پاکستان کے حق میں زیادہ سے زیادہ مفید ہوں اور انتخاب کا یونٹ بھی (بشرطیکہ یونٹ کا سوال پیدا ہوتا ہو ) بہت سوچ سمجھ کے ساتھ مقامی حالات کے مطالعہ کے بعد اختیار کرنا چاہیئے کیونکہ ایسے انتخابوں میں یونٹ کے نتیجہ میں بھی کافی فرق پڑ جایا کرتا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر حکومت پاکستان اور آزاد گورنمنٹ کے افسروں کا یہ فرض ہے کہ وہ استصواب رائے عامہ کے شرائط کے اجراء کی ایسی چوکس اور کڑی نگرانی رکھیں کہ اس میں کوئی عملی رخنہ پیدا نہ ہو سکے..اوپر کے سارے کام کے لئے بھاری اخراجات کی ضرورت ہوگی اور ان اخراجات کے مہیا کرنے میں ہرگز خست سے کام نہیں لینا چاہیئے.گو اس بات کی بھی سخت نگرانی ہونی چاہیئے کہ فضول خرچی یا خیانت وغیرہ کے طریق پر قومی مال کو نقصان نہ پہنچے.۱۲.مادی ذرائع کے علاوہ ایک روحانی ذریعہ بھی ہے جو دعا سے تعلق رکھتا ہے اور سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کام کے لئے جو ایک طرح سے گویا پاکستان کے واسطے زندگی اور موت کے سوال کا رنگ رکھتا ہے ، خصوصیت سے دعائیں کریں اور برابر کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کام میں مسلمانوں کو نمایاں کامیابی عطا کرے اور پاکستان کو سرخروئی حاصل ہو.وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيز وَآخِرُ دَعْوَانا ان الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْن.نوٹ : - شرائط کے اعلان کے بعد ممکن ہے کہ اوپر کی تجاویز میں کوئی تبدیلی ضروری سمجھی جائے مگر

Page 486

مضامین بشیر ۴۷۴ بہر حال اصولی تنظیم اسی سے ملتی جلتی لائن پر ضروری ہوگی.اور خواہ آخری صورت کوئی ہو، اس بھاری کام کے لئے ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہئے کہ بعض اوقات اس قسم کی عارضی صلحیں زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوا کرتیں.اور جنگ بند ہونے کے بعد پھر جنگ شروع ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيم ( مطبوعه الفضل ۳ /جنوری ۱۹۴۹ء)

Page 487

۴۷۵ مضامین بشیر اہل قادیان کے نام پیغام سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا تازہ کلام گزشتہ جلسہ سالانہ قادیان کے لئے امیر صاحب جماعت قادیان نے درخواست کی تھی کہ اس موقع پر ہمشیرہ عزیزہ مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ کوئی نظم لکھ کر ارسال کریں.چنانچہ انہوں نے میری تحریک پر ذیل کی نظم لکھی اور وہ خدا کے فضل سے قادیان میں بہت مقبول ہوئی اور اکثر دوستوں پر رقت طاری ہو گئی اور غیر مسلم حاضرین بھی اس نظم کو سن کر بہت متاثر ہوئے.خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو دیار مهدی آخر زماں میں رہتے ہو قدم مسیح کے جس کو بنا چکے ہیں 'حرم اس زمیں کرامت نشاں میں رہتے ہو خدا نے بخشی ہے الدار کی نگہبانی اُسی کے حفظ اس کی اماں میں رہتے ہو فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پر ہم اس سے دُور ہیں تم اس مکاں میں رہتے ہو جس کی معطر نفوس عیسی ہے اسی مقام فلک آستاں میں رہتے ہو نہ کیوں دلوں کو سکون و سرور ہو حاصل کہ قرب خطہ رشکِ جناں میں رہتے ہو تمہیں سلام و دُعا ہے نصیب صبح و مسا فضا ނ جوار مرقدِ شاہ زماں میں رہتے ہو شبیں جہاں کی شب قدر اور دن عیدیں جو ہم سے چھوٹ گیا اس جہاں میں رہتے ہو

Page 488

مضامین بشیر کچھ ایسے گل ہیں جو پژمردہ ہیں جدا ہوکر انہیں بھی یاد رکھو گلستاں میں رہتے ہو تمہارے دم سے ہمارے گھروں کی آبادی تمہاری قید صدقے ہزار آزادی ( مطبوعه الفضل ٫۵جنوری ۱۹۴۹ء) :- یہ شعر کچھ تبدیلی کے ساتھ علامہ اقبال سے مستعار لیا گیا ہے.دو بلبل ہوں صحن باغ سے دُور اور پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکسته پر شکسته ،،

Page 489

مضامین بشیر قادیان کی جائیداد فروخت نہ کی جائے احباب کو معلوم ہے کہ ہر دو حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو شہری جائیدادیں (مکانات وغیرہ) مسلمان یا غیر مسلم دوسرے علاقہ میں چھوڑ آئے ہیں ، وہ دوسری اقوام کے لوگوں کے پاس فروخت کی جاسکتی ہیں اور ان کا مستقل تبادلہ بھی ہو سکتا ہے.چونکہ اس فیصلہ پر بعض احمدی دوست غلطی سے قادیان کی جائیداد کے فروخت کرنے کا خیال کر سکتے ہیں.اس لئے تمام دوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ قادیان کی جائیداد کسی صورت میں کسی غیر مسلم کے پاس فروخت نہ کی جائے اور نہ اس کا کوئی مستقل تبادلہ کیا جائے.البتہ جیسا کہ پہلے اعلان کیا جا چکا ہے قادیان کی جائیداد کے مقابلہ پر الاٹمنٹ کرائی جاسکتی ہے.( مطبوعه الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۴۹ء)

Page 490

مضامین بشیر ۴۷۸ عزیزہ امتہ السلام بیگم سلمہا کا اپریشن کامیاب ہو گیا ہے جیسا کہ الفضل میں دعا کی تحریک کرتے ہوئے اعلان کیا گیا تھا کہ عزیزہ امتہ السلام بیگم سلمہا کے گلے کا گوائٹر کا اپریشن خدا کے فضل سے کامیاب ہو گیا ہے.یہ اپریشن ڈاکٹر امیرالدین صاحب سرجن نے میوہسپتال میں کیا اور اب عزیزہ امتہ السلام اسی ہسپتال کے ایک فیملی کوارٹر میں زیر علاج ہے.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے جلد کامل شفاء عطا فرمائے.آمین مطبوعه الفضل ۳۰ / جنوری ۱۹۴۹ء)

Page 491

مضامین بشیر سید وزارت حسین صاحب کا خط سٹیٹمین دہلی کے نام ایک غلط فہمی کی ضروری تردید جیسا کہ احباب کو معلوم ہے گذشتہ جلسہ سالانہ قادیان میں دہلی ، یو.پی ، بہار اور بنگال وغیرہ کے ۶۶ دوست بھی شریک ہوئے تھے اور ان دوستوں میں سید وزارت حسین صاحب پروونشل امیر جماعت احمد یہ صوبہ بہار بھی شامل تھے.اس وفد کی قادیان سے واپسی پر اخبار سیٹسمین دہلی کے ایک نمائندہ نے سید وزارت حسین صاحب موصوف سے امرتسر میں ملاقات کی اور پھر اس ملاقات کی رپورٹ اخبار سٹیٹسمین میں شائع کرائی.اس رپورٹ میں سید صاحب موصوف کی طرف یہ بات منسوب کی گئی تھی کہ انہوں نے گاندھی جی کو بنی نوع انسان کا بالعموم اور مسلمانوں کا بالخصوص سب سے بڑا محسن قرار دیا ہے.اسی طرح اس رپورٹ میں یہ بات بھی سید وزارت حسین صاحب کی طرف منسوب کی گئی تھی کہ گاندھی جی ہمیشہ اسلامی اصولوں کے پابند رہے ہیں.چونکہ یہ دونوں باتیں سید وزارت حسین صاحب نے نہیں کہیں تھیں اور اخباری نمائندہ کی غلط نہی کی وجہ سے ان کی طرف منسوب کی گئیں.اس لئے سید صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں جو اخبار سٹیٹسیمن کی اشاعت مؤرخہ ۲۳ جنوری ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا ہے ان دونوں باتوں کی پُر زور تردید کی ہے اور ہم اس سوال کی اہمیت کے پیش نظر اس خط کا اردو تر جمہ ذیل میں درج کرتے ہیں.اس کے علاوہ بھی گذشتہ ایام میں سیمین اور بعض دوسرے اخباروں میں بعض غلط فہمی پیدا کرنے والی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ رپورٹ لکھنے والے اخباری نمائندے بعض اوقات کسی خاص غرض و غایت کو سامنے رکھ کر سوالات کرتے ہیں اور پھر جواب دینے والے کے جوابات کو اپنی اسی غرض و غایت کی روشنی میں بدل لیتے ہیں.ہمیں سٹیٹسمین کے نمائندہ پر یہ بدظنی تو نہیں ہے کہ اس نے دانستہ ایسا کیا ہولیکن یقیناً ہمارے بعض اصولوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یا اپنے طریق کے مطابق دونوں حکومتوں میں بہتر تعلقات پیدا کرنے کی خواہش کے ماتحت اس سے نا دانستہ طور پر یہ غلطی سرزد ہوگئی ہے.بایں ہمہ گذشتہ ایام میں اخبار سٹیٹسمین نے جو کوشش مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کی ہے وہ یقیناً قابل تعریف ہے.

Page 492

مضامین بشیر ۴۸۰ جہاں تک ہمارے اصول کا سوال ہے اور یہ اصول وہی ہے جس کی اسلام نے تعلیم دی ہے.جماعت احمدیہ کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت بھی احمدی جماعت کے افرادر ہیں ، انہیں اس کا وفا دار اور پر امن شہری بن کر رہنا چاہیئے.لیکن اس اصول کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انڈین یونین میں رہنے والا کوئی احمدی اپنے مذہبی عقیدہ کو چھپائے یا ایسی باتیں زبان پر لائے جو مداہنت یا خوشامد کا رنگ رکھتی ہوں.مومن ہمیشہ بہادر ہوتا ہے اور اسلام مسلمانوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ ہر حال میں اخلاقی جرات سے کام لیں اور اپنے عقائد کے اظہار میں کسی حالت میں بھی خائف نہ ہوں اور وفاداری کے اظہار میں بھی خوشامد کا طریق یا بے وقار رنگ اختیار نہ کریں.قادیان میں رہنے والے دوستوں کو بھی ہماری طرف سے مذہبی رنگ میں یہی ہدایت بھجوائی گئی ہے اور خدا کے فضل سے وہ اس ہدایت پر پوری طرح سے کاربند ہیں.اس تمہیدی نوٹ کے ساتھ سید وزارت حسین صاحب کے خط کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.خاکسار سٹیٹسمین مرزا بشیر احمد جناب ایڈیٹر صاحب اخبار گذشتہ ماہ ہمارے قادیان جانے کے سلسلہ میں آپ کے امرتسر کے نامہ نگار نے جو خبر آپ کو ارسال کی تھی اس کے متعلق میں بعض غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری سمجھتا ہوں.ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ باتیں اتنی اہم نہ ہوں لیکن ہمارے نزدیک وہ بہت اہم ہیں کیونکہ ان کا ہمارے عقائد کے ساتھ تعلق ہے.مجھے کچھ عرصہ کے لئے اپنے گاؤں جانا پڑا تھا اس لئے اس خط کے ارسال کرنے میں کسی قدر تاخیر ہوگئی.آپ کی اشاعت کے بعد مجھے بہت سے احمدی مسلمانوں کی طرف سے احتجاجی خطوط بھی موصول ہوئے ہیں.آپ کے نامہ نگار نے اپنی خبر میں یہ ظاہر کیا ہے کہ گویا میں نے گاندھی جی کو بنی نوع انسان کا بالعموم اور مسلمانوں کا بالخصوص سب سے بڑا محسن قرار دیا ہے اس قسم کا نظریہ ہمارے مذہب اور عقائد کے خلاف ہے.لہذا میں یہ الفاظ کسی طرح زبان پر نہیں لاسکتا تھا.ہمارے عقائد کی رو سے حضرت کرشن ، حضرت موسی ، حضرت بدھ ، حضرت عیسی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً گاندھی جی سے بنی نوع انسان کے بہت زیادہ محسن تھے.اسی طرح میرے عقیدہ کے مطابق اس زمانے میں حضرت احمد علیہ السلام آف قادیان اپنے آقا سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام بنی نوع انسان

Page 493

۴۸۱ مضامین بشیر کے بالعموم اور مسلمانوں کے بالخصوص سب سے بڑے محسن ہیں.آپ کے نامہ نگار کو یقیناً میرے الفاظ سمجھنے میں غلطی لگی ہے.میرے الفاظ یہ تھے’ گاندھی جی ہم سب ہندوستانیوں کے محسن تھے.اور خاص طور سے مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر تو انہوں نے اپنی جان تک قربان کر دی یہ ہیں وہ الفاظ جو میں نے دل سے کہے اور یہ ہیں بھی صحیح.اسی طرح میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ” مہاتما گاندھی ہمیشہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ر ہے ایک سچا مسلمان کبھی بھی گاندھی جی کے تمام افعال کو اسلام کے مطابق قرار نہیں دے سکتا.میں یہ امر بھی پورے زور کے ساتھ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ انڈین یونین کے ساتھ ہماری وفاداری کسی خوف یا طمع کے پیش نظر نہیں ہے.اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہر شخص کو اس مملکت اور حکومت کا وفادار رہنا چاہیئے جس کا وہ شہری ہے.دوسری طرف حکومت پر بھی فرض ہے کہ وہ سب کے ساتھ بلا تفریق بلا امتیاز منصفانہ سلوک کرے.میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے اس تعاون کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں جو آپ نے ہماری مشکلات اور تکالیف کے ازالہ کے لئے ہمارے ساتھ کیا.اس وقت ہمارے مقدس مقام قادیان میں تین سو تیرہ احمدی قیود اور پابندی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور موجودہ حالات میں وہاں ہمارا مذ ہب اور ہماری تنظیم نہائت درجہ کمزوری کی حالت میں ہے.ایسی حالت میں جو کوشش آپ نے حالات کو بہتر بنانے کے لئے کی ہے میری دعا ہے کہ خدا آپ کو اُس کا بہتر اجر عطا فرمائے.نیازمند سید وزارت حسین پروونشل امیر جماعت احمد یہ بہار ۱۶ جنوری ۱۹۴۹ء مطبوعه الفضل یکم فروری ۱۹۴۹ء)

Page 494

مضامین بشیر ۴۸۲ عارضی الاٹمنٹ کے متعلق بعض ضروری تشریحات میری طرف سے متعدد اعلانات اس بارہ میں کرائے جاچکے ہیں کہ قادیان چونکہ ہمارا مقدس اور دائمی مرکز ہے، اس لئے قادیان کی جائیداد کے مقابلہ میں کوئی الاٹمنٹ ایسے رنگ میں نہیں کرانی چاہیئے کہ اس کے نتیجہ میں قادیان کی جائیداد پر اپنا حق ترک ہو جائے اور نہ ہی قادیان کی جائیداد کسی غیر مسلم کے پاس فروخت یا بذریعہ مستقل تبادلہ منتقل کرنی چاہیئے.ان اعلانات پر بعض دوستوں کی طرف سے کچھ سوالات موصول ہوئے ہیں ، جن کا جواب ذیل میں دیا جاتا ہے.ا.پہلا سوال یہ ہے کہ کیا گورنمنٹ اپنے جدید فیصلہ کے مطابق عارضی الاٹمنٹ کی صورت منظور کرے گی.سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ابھی تک دونوں حکومتوں نے ترک شدہ جائیدادوں پر اصل مالکوں کا حق قائم رکھا ہے اور جب تک یہ حق قائم ہے ، یہ اعتراض پیدا نہیں ہوسکتا.اس لئے گورنمنٹ نے بھی موجودہ مستقل الاٹمنٹ کے ساتھ پرویژنل“ کا لفظ شامل کیا ہوا ہے تا کہ دونوں حکومتوں کے بعد کے فیصلہ کے لئے گنجائش رہے.علاوہ ازیں خواہ گورنمنٹ کا نظریہ کچھ ہو ، ہمارا اپنی طرف سے یہ دینی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم درخواست دیتے ہوئے یہ اظہار کر دیں کہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے اور ہم اس کی جائیداد پر اپنا حق ترک نہیں کر سکتے اور یہ کہ جب بھی ہمیں قادیان واپس ملے گا ہم اپنی الاٹ شدہ جائیداد ترک کر دیں گے.اس قسم کے اعلان اور اظہار کے بعد ہماری ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور قادیان کی بحالی پر اس کی جائیدادوں کے متعلق ہمارا حق قائم رہتا ہے.۲.دوسرا سوال قادیان کی شہری جائیداد (مکانات وغیرہ ) کے متعلق ہے ، جس کے متعلق ہر دو حکومتوں نے اب پرائیویٹ فروخت یا مستقل تبادلہ کی اجازت دی ہے.اس بارہ میں ہماری طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ کوئی احمدی دوست کسی غیر مسلم کے پاس اپنی قادیان کی جائیداد فروخت نہ کریں اور نہ ہی بذریعہ مستقل تبادلہ منتقل کریں.اس کے متعلق سوال کیا گیا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے اور اس کی کیا غرض ہے.سو اس کی غرض تو ظاہر ہے کہ جو شخص احمدی ہو کر قادیان کی جائیداد کسی غیر مسلم کے پاس فروخت کرتا ہے یا مستقل تبادلہ کی صورت منظور کرتا ہے ، وہ گو یا خود اپنے ہاتھ سے قادیان کی جائیداد پر اپنا حق ترک کر کے اسے غیر مسلموں کے حوالے کر دیتا ہے اور یہ صورت قادیان کی جائیدادوں کے متعلق کسی صورت میں قبول نہیں کی جاسکتی.کسی حکومت کا ہمیں ہمارے مقدس مرکز

Page 495

۴۸۳ مضامین بشیر سے زبردستی نکال دینا اور بات ہے یا گزارہ کے خیال سے کوئی عارضی الاٹمنٹ قبول کرنا ، یہ بھی اور بات ہے اور خود اپنے ہاتھ سے اپنا حق ترک کر کے غیر مسلموں کے سپر د کر دینا بالکل جدا گانہ چیز ہے اور کوئی غیرت مند احمدی اپنے مقدس اور دائمی مرکز کے متعلق یہ صورت قبول نہیں کر سکتا اور دراصل یہ خدائی بشارات اور ہمارے ایمان کے بھی منافی ہے.۳.تیسرا سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے قادیان میں ایک ایک یا دو دو کنال یا کم و بیش سکنی زمینیں خریدی ہوئی تھیں ، وہ ان زمینوں کے تعلق میں کیا صورت اختیار کریں.سو اول تو جبکہ یہ سکنی زمینیں کوئی پیدا وار نہیں دے رہی تھیں تو پھر جہاں تک گزارہ کا تعلق ہے یہ سوال پیدا نہیں ہوتا اور ایسے لوگوں کو صبر اور رضا کے ساتھ قادیان کی بحالی کا انتظار کرنا چاہیئے لیکن اگر کوئی دوست زیادہ حاجتمند ہوں تو ان کے لئے یہ صورت ممکن ہو سکتی ہے کہ یا تو ایسی زمینوں کے مقابلہ پر کوئی شہری زمین الاٹ کرا کے اس کے کرایہ وغیرہ سے عارضی فائدہ اٹھا لیں اور یا ایسی زمینوں کی مالیت لگا کر اس مالیت کے مقابلہ پر کسی آمدنی والی جائیداد کی عارضی الاٹمنٹ کرالیں.۴.چوتھا سوال قادیان کے ملحقہ دیہات ننگل ، بھینی دکھا را کے متعلق ہے.سو اس کے متعلق حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا ابھی تک یہی فیصلہ ہے کہ وہ عملاً قادیان کا حصہ ہیں اور جو ہدایات قادیان کی جائیداد کے متعلق دی گئی ہیں وہی ان کے متعلق بھی سمجھنی چاہئیں..بالآخر دوستوں کو یہ اصولی بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ایسے امور میں بہت زیادہ سوالات اٹھانا اور فرضی پہلو کھڑے کر کے ان کے متعلق تسلی چاہنا درست طریق نہیں ہے.ہماری ہدایات کا اصل مرکزی نقطہ صرف اس قدر ہے کہ قادیان چونکہ ہمارا مقدس اور دائمی مرکز ہے اور خدا کے فضل سے ہمیں ضرور بالضرور واپس ملے گا اس لئے قادیان کی جائیداد پر خود اپنے ہاتھ سے اپنا حق ترک نہیں کرنا چاہیئے.یعنی پرائیویٹ فروخت یا مستقل تبادلہ کسی صورت میں نہ کیا جائے اور آمدن پیدا کرنے والی جائیداد کی الاٹمنٹ قبول کرتے ہوئے یا اس کی درخواست دیتے ہوئے اس بات کی صراحت کر دی جائے کہ قادیان چونکہ ہمارا مقدس مرکز ہے اس لئے اپنی اصل جائیداد بحال ہونے کی صورت میں ہم یہ الاٹ شدہ جائیداد ترک کر دیں گے.اس قسم کے اظہار کے بعد ہم خدا اور دنیا کے سامنے سرخرو ر ہتے ہیں.اور قادیان کی بحالی پر ہمیں اس کی جائیداد کے واپس حاصل کرنے کا حق رہتا ہے.۶.اوپر کا اعلان صرف قادیان اور اس کے ملحقہ دیہات منگل اور بھینی اور کھارا کی غیر منقولہ جائیداد سے تعلق رکھتا ہے.ان کے علاوہ باقی جگہوں کی متروکہ جائیداد کے متعلق مقررہ قواعد کے مطابق پورا پورا مطالبہ کرنا چاہیئے.

Page 496

مضامین بشیر ۴۸۴ ے.اسی طرح قادیان میں ضائع شدہ منقولہ جائیداد مثلاً گھر کا سامان ، نقدی، زیورات وغیرہ کی تلافی کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے.منقولہ جائیداد کے متعلق مطالبہ کسٹوڈین جائیداد متروکہ ویسٹ پنجاب گورنمنٹ لاہور کے پاس ہونا چاہیئے اور باقی مطالبات اپنے اپنے ضلع کے سیٹلمنٹ افسر کے پاس کئے جائیں.( مطبوعه الفضل ۲ فروری ۱۹۴۹ء)

Page 497

۴۸۵ مضامین بشیر قادیان کی فیکٹریوں کی نیلامی قادیان کی تازہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت مشرقی پنجاب نے قادیان کی فیکٹریوں کی الاٹمنٹ شروع کر دی ہے.یہ الاٹمنٹ فی الحال تین سال کے لئے کی گئی ہے اور رقم کا فیصلہ بذریعہ نیلامی کیا گیا ہے.شرائط یہ ہیں کہ کارخانے دوماہ کے اندر چالو کرنے ہوں گے اور کسی کارخانے کی مشینری دوسری جگہ منتقل نہیں کی جا سکتی.فی الحال ذیل کے کارخانے ان کے مقابل پر درج شدہ رقوم میں تین سال کے لئے نیلام ہوئے ہیں.1 2 3 4 5 6 پریسین کمپنی بالمقابل پولیس چوکی پریسین کمپنی ملحقہ دفتر میونسپل کمیٹی مکینیکل انڈسٹریز ایگل بٹن فیکٹری آره مشین مستری فضل حق صاحب آره مشین مستری علم دین صاحب 2600/- 6610/- 3000/- 510/- 2450/- 2500/- سالانه سالانه سالانه سالانه سالانه سالانه اعلان اس لئے کیا جاتا ہے کہ اگر ان فیکٹریوں کے مالکوں کے اندازہ میں رقم ٹھیکہ کم ہو تو اس کے متعلق کسٹوڈین مترو کہ جائیداد مغربی پنجاب لاہور کے پاس جو بھی ذمہ دار افسر ہو ، اس کے پاس احتجاج کرسکیں.کیونکہ ابھی تک اصل مالکوں کا قانونی حق ملکیت قائم سمجھا جاتا ہے.اور غلط بولی پر انہیں قانونی اعتراض کا حق ہے تا کہ کم از کم ان کا اعتراض ریکارڈ ہو جائے اور حکومتوں کے آخری فیصلہ میں کام آسکے.( مطبوعه الفضل ۲ فروری ۱۹۴۹ء)

Page 498

مضامین بشیر ۴۸۶ اراضی کی الاٹمنٹ کے متعلق ایک ضروری اعلان مشرقی پنجاب وغیرہ کے دوست فوری توجہ کریں ا.بعض زمینداروں میں جنہیں مشرقی پنجاب وغیرہ کے پاکستان میں چلے جانے کے بعد گذارہ کے لئے زمین مل گئی تھی ، یہ غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے کہ انہیں نئے فیصلہ کے مطابق کسی مزید درخواست دینے کی ضرورت نہیں، مگر یہ خیال غلط ہے.سابقہ الاٹمنٹ محض گزارہ کے لئے وقتی طور پر تھی اور تھوڑے رقبہ کے لئے تھی لیکن اب ہر شخص کے ضائع شدہ رقبہ کے مقابلہ پر پختہ اور پوری الاٹمنٹ ہونے والی ہے.اس لئے خواہ کسی کو زمین مل چکی ہے یا نہیں ملی ، اگر وہ مشرقی پنجاب وغیرہ میں زمین چھوڑ کر آیا ہے تو اسے جدید قانون کے مطابق نئی درخواست دینی چاہیئے جس کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے طبع شدہ فار میں مقرر ہیں.اس درخواست میں اپنی ضائع شدہ اراضی کی تفصیل دے کر اس کے مقابلہ پر پختہ الاٹمنٹ کا مطالبہ کیا جائے اور فارم کے سارے خانے احتیاط کے ساتھ بھرے جائیں اور یہ بھی لکھ دیا جائے کہ میں فلاں جگہ زمین چاہتا ہوں خواہ یہ جگہ وہی ہو جہاں اسے عارضی گذارہ کے لئے زمین مل چکی ہے یا کوئی دوسری جگہ ہو.ایسی درخواست یا تو اس ضلع کے سیٹلمنٹ افسر کے پاس پیش کی جاسکتی ہے جہاں کوئی شخص اس وقت رہ رہا ہو اور یا اس ضلع کے افسر کے پاس پیش کی جاسکتی ہے جہاں وہ آئندہ زمین لینا چاہتا ہو.چونکہ طبع شدہ فارم کسی قدر پیچدار ہے اس لئے مقامی سمجھدار احمدیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے ناخواندہ بھائیوں کی اس معاملہ میں پوری پوری امداد کریں اور فارم کو پڑھ کر اس کے کوائف کو اچھی طرح سمجھ لیں.یہ فارم ایک آنہ میں ہر ضلع میں ملتی ہیں.۲.قادیان اور اس کے ملحقہ دیہات سے آئے ہوئے دوستوں کے متعلق ۲ فروری کے الفضل میں علیحدہ تفصیلی اعلان کیا جا چکا ہے.گو اوپر کی اصولی ہدایت انہیں بھی مد نظر رکھنی چاہیئے..یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسی درخواستوں کے دینے کے لئے ہر ضلع میں علیحدہ علیحدہ میعاد مقرر ہے.مگر بعض ضلعوں میں یہ میعاد ۱۴ / فروری ۱۹۴۹ء کوختم ہوتی ہے.گو بعض ضلعوں میں اس سے زیادہ بھی ہے.بہر حال احتیاطاً اس معاملہ میں فوراً توجہ دینے کی ضرورت ہے.مطبوعہ الفضل ۷ فروری ۱۹۴۹ء)

Page 499

۴۸۷ مضامین بشیر احمدی تاجر صاحبان توجہ فرمائیں قادیان سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں بنولہ بناسپتی گھی اور نمک وغیرہ کی ضرورت رہتی ہے نہ صرف اپنے دوستوں کے استعمال کے لئے بلکہ اس غرض سے بھی کہ وہ اس قسم کا مال تاجرانہ طور پر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھا سکیں.کیونکہ اس وقت ان کے گزارہ کی قادیان میں کوئی صورت نہیں.سولائل پور و منٹگمری.اوکاڑہ دیکھیوڑہ وغیرہ کے جو دوست ان چیزوں کا کاروبار کرتے ہوں اور وہ ان کی برآمد کا قانونی پرمٹ حاصل کر سکیں وہ اس بارہ میں مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمد یہ دار ا مسیح قادیان ضلع گورداسپور کے ساتھ خط و کتابت کریں اور کاروباری اصول پر معاملہ طے کرلیں.( مطبوعه الفضل ۱۱ر فروری ۱۹۴۹ء)

Page 500

مضامین بشیر ۴۸۸ کیا ہمارا پاؤں دوکشتیوں میں ہے؟ جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک لاہور کے بعض اخباروں میں اس قسم کے اعتراض جماعت احمدیہ کے خلاف شائع ہوئے ہیں کہ گویا سیاسی مسلک کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کا پاؤں دو کشتیوں میں ہے کہ وہ ایک طرف اپنے مرکز قادیان کی وجہ سے جو اس وقت انڈین یونین کے ماتحت ہے ، حکومت ہندوستان کے سامنے وفاداری کا اعلان کر رہی ہے اور دوسری طرف اپنے امام کے پاکستان آجانے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے ساتھ بھی وفاداری کا اظہار کر رہی ہے اور اس طرح اس کی سیاسی پالیسی نعوذ باللہ منافقانہ ہے اور وہ دوکشتیوں میں پاؤں رکھ کر دونوں طرف سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ.افسوس ہے کہ موجودہ نازک زمانہ میں جب کہ سیاسی لحاظ سے کئی قسم کے اہم اور پیچدار مسائل حکومت پاکستان کے سامنے ہیں اور وہ ایک ایسے نازک دور میں سے گذر رہی ہے کہ جس میں کامل سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے.بعض ناعاقبت اندیش لوگ جو ملک کے حقیقی مفاد سے ناواقف ہیں محض جماعت احمدیہ کی مخالفت کی غرض سے اس قسم کے اعتراضات کھڑے کر کے افتراق وانشقاق کا بیج بونا چاہتے ہیں.جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک جو عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے ، ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جس حکومت کے ماتحت بھی کوئی احمدی رہے اُسے اس حکومت کا پُر امن شہری بن کر رہنا چاہیئے اور عقلاً بھی جو جماعت بین الاقوامی رنگ رکھتی ہے اس کا یہی مسلک ہو سکتا ہے کہ عقائد اور مذہب کے اتحاد کے باوجود اس کے افراد جس جس حکومت کے ماتحت بستے ہوں اس کے وفادار ر ہیں.خود قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو نہایت واضح اور غیر مشکوک الفاظ میں یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ حکومت انڈین یونین کے وفادار شہری بن کر رہیں.اسی طرح گاندھی جی نے پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کے وفادار ر ہیں.پس عجب ہے اور نہایت درجہ تعجب ہے کہ جو سیاسی مسلک دنیا بھر میں مسلم ہے اس کی وجہ سے جماعت احمدیہ کو مورد عتاب سمجھا جاتا ہے.آخر مسلمان بھی تو ایک حکومت کے ماتحت نہیں بستے.بلکہ دنیا کے

Page 501

۴۸۹ مضامین بشیر بیسیوں ملکوں میں پائے جاتے ہیں.تو اگر وہ اپنی اپنی حکومتوں کے وفا دار ہوں (جیسا کہ وہ ہیں ) تو کیا ان کا رویہ اس وجہ سے قابل اعتراض سمجھا جائے گا ؟ یہ ایک بالکل موٹی سی بات ہے جو نہ معلوم کس وجہ سے جماعت احمدیہ کے متعلق رائے لگاتے ہوئے ہمیشہ بھلا دی جاتی ہے.یہ سوال کہ قادیان کا مرکز اس وقت انڈین یونین کے ماتحت ہے کوئی فرق پیدا نہیں کرتا ، آخر تقسیم سے پہلے بھی قادیان ساری دنیا کی حکومتوں کے ماتحت نہیں تھا بلکہ صرف گورنمنٹ آف انڈیا کے ماتحت تھا.لیکن کیا اس وقت جماعت احمدیہ کے لوگ صرف ہندوستان میں ہی پائے جاتے تھے اور کسی اور ملک میں نہیں پائے جاتے تھے ؟ تو جب اُس وقت ہندوستان کے باہر کے احمدی قادیان سے مذہبی عقیدت رکھنے کے باوجود اپنی اپنی حکومت کے وفادار شہری تھے اور اس وقت اس طریق پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا تو کیا وجہ ہے کہ اب اسی قدیم مسلک پر گامزن ہونے کی وجہ سے جماعت احمد یہ کے خلاف اعتراض کیا جاتا ہے.اگر اعتراض کرنے والوں کا یہ منشاء ہو کہ پاکستان کے رہنے والے احمدی بھی دراصل حکومت انڈین یونین کے وفا دار ہیں اور صرف ظاہر میں پاکستان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں تو یہ الزام قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد اور جھوٹا ہے اور ہم اس کا بار بار اعلان کر چکے ہیں.پاکستان کا ہر احمدی پاکستان کے لئے دوسروں سے بڑھ کر قربانی کرنے کے لئے تیار ہے اور جماعت احمدیہ کا اس وقت تک کا ریکارڈ اس بات کی کافی شہادت پیش کرتا ہے کہ خدا کے فضل سے ہمارا یہ دعوئی جھوٹ اور مبالغہ سے پاک ہے.والله على ما نقول شهيد باقی رہا قادیان کی بحالی کی کوشش ، سو یہ ایسی بات ہے جس پر ہر عظمند مسلمان کو خوش ہونا چاہیئے نہ کہ ناراض.اگر قادیان بحال ہوگا تو بہر حال اس میں اسلامی ماحول قائم ہوگا یعنی اسلام کی تعلیم و تربیت ہوگی.اسلام کی تبلیغ ہو گی.مسجد میں آباد ہوں گی.خدا اور رسول کا نام بلند ہوگا.قرآن کریم کی تلاوت کی آواز اٹھے گی اور ہر لحاظ سے موجودہ حالات میں بہتری کی صورت پیدا ہو گی تو پھر اس کوشش میں وہ کونسی بات ہے کہ جس پر کوئی سچا مسلمان ناراض ہو اور غیظ وغضب میں آکر جماعت احمد یہ کو کوسنے لگے ؟ ہر شخص جانتا ہے کہ جماعت احمد یہ ایک مذہبی جماعت ہے اور اس کا اصل اور بنیادی کام تبلیغ و تربیت سے تعلق رکھتا ہے اور اس لحاظ سے صرف قادیان پر ہی نہیں ہماری تو خواہش اور کوشش ہے کہ سارے ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں ہی اسلامی ماحول قائم ہو جائے اور دراصل بالآخر یہی نظریہ اسلام کی عالمگیر کامیابی کی بنیاد بنے گا.پس خدا را اس نازک زمانہ اور فتنوں کے دور میں اس قسم کے لایعنی سوالات اٹھا کر ملک میں

Page 502

مضامین بشیر ۴۹۰ افتراق وانشقاق کا بیج نہ بوؤ اور اگر آپ لوگ ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں تو کم از کم قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی بات ہی سنو اور ان کے نمونہ کی طرف ہی دیکھو کہ انہوں نے سب مسلمان کہلانے والوں کو ایک نظر سے دیکھا.جماعت احمدیہ کو پاکستان کی اسلامی سیاست میں کھلے بازوؤں کے ساتھ قبول کیا اور جماعت کے بعض قابل افراد پر کامل اعتماد کر کے انہیں ملک کے بعض نازک ترین اور اہم ترین کام سپرد کئے اور اس طرح ان کے متعلق اپنے دلی اعتماد کا ثبوت دیا.کیا آپ لوگ قائد اعظم کی وفات کے اتنی جلد بعد ہی ان کی زندگی بھر کے سبق کو بھلا دینا چاہتے ہیں؟ باقی ہم تو خدا کے فضل سے ایک خادم اسلام جماعت ہیں اور اسلام کی خدمت اور شریعت کے احیاء کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور انشاءالله با وجود مشکلات کے اپنے کام میں لگے رہیں گے.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.( مطبوعه الفضل ۱۳ / فروری ۱۹۴۹ء)

Page 503

۴۹۱ مضامین بشیر اراضی کی الاٹمنٹ کے متعلق ایک ضروری اعلان ا.میں اپنے ایک سابقہ اعلان میں مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے دوستوں کو اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ نئی پروویژنل الائمنٹ کے متعلق جو فیصلہ ہوا ہے، اس کے مطابق انہیں اپنی درخواستیں داخل کرانے میں سستی سے کام نہیں لینا چاہیئے اور چونکہ ایسی درخواستوں کے داخل کرانے کے لئے بہت قلیل میعاد مقرر ہے اس لئے اس کام میں توقف نہ کیا جائے اور مقررہ مطبوعہ فارموں کو پوری پوری احتیاط کے ساتھ صحیح طریق پر خانہ پری کرنے کے بعد اور حلف نامہ پر کسی مجسٹریٹ یا سب حج وغیرہ کی تصدیق کرانے کے بعد داخل کیا جائے.میعاد بعض ضلعوں میں ۱۵ / فروری کو ختم ہونی ہے اور بعض میں ۲۵ کو اور بعض میں مارچ کے پہلے ہفتہ میں.اس لئے ضروری ہے کہ مقامی عملہ سے میعاد کا پختہ پتہ لے لیا جائے اور بہر حال احتیاطاً اس معاملہ میں فوراً توجہ دینے کی ضرورت ہے.۲.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ بعض زمینداروں میں جنہیں مشرقی پنجاب وغیرہ سے پاکستان چلے آنے کے بعد گزارہ کے لئے زمین مل گئی تھی ، یہ غلط فہمی پیدا ہورہی ہے کہ انہیں نئے فیصلہ کے مطابق کسی مزید درخواست دینے کی ضرورت نہیں مگر یہ خیال غلط ہے.سابقہ الاٹمنٹ محض گذارہ کے لئے وقتی طور پر تھی اور تھوڑے رقبہ کے لئے تھی لیکن اب ہر شخص کے ضائع شدہ رقبہ کے مقابلہ پر پختہ اور پوری الاٹمنٹ ہونے والی ہے.اس لئے خواہ کسی کو زمین مل چکی ہے یا نہیں ملی ، اگر وہ مشرقی پنجاب وغیرہ میں زمین چھوڑ کر آیا ہے تو اُسے جدید قانون کے مطابق نئی درخواست دینی چاہیئے.جس کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے طبع شدہ فارمز مقرر ہیں.اس درخواست میں اپنی ضائع شدہ اراضی کی تفصیل دے کر اس کے مقابل پر پختہ الاٹمنٹ کا مطالبہ کیا جائے اور فارم کے سارے خانے احتیاط کے ساتھ بھرے جائیں اور یہ بھی لکھ دیا جائے کہ میں فلاں جگہ زمین لینا چاہتا ہوں ، خواہ یہ جگہ وہی ہو جہاں اُسے عارضی گزارہ کے لئے زمین مل چکی ہے یا کوئی دوسری جگہ ہو.مگر عموما جس ضلع میں کوئی شخص پہلے سے زمین لے چکا ہے اسی ضلع میں زمین کی درخواست دینی چاہیئے بلکہ بعض اضلاع میں تو اس کے خلاف درخواست دینے کی اجازت ہی نہیں.البتہ جن لوگوں نے ابھی تک کوئی زمین نہیں لی وہ جس ضلع میں چاہیں درخواست دے سکتے ہیں..گزشتہ اعلان میں جو یہ لکھا گیا تھا کہ ایسی درخواستیں یا تو اس ضلع کے سیٹلمنٹ افسر کے پاس

Page 504

مضامین بشیر ۴۹۲ پیش کی جاسکتی ہیں.جہاں کوئی شخص اس وقت رہ رہا ہو یا اس ضلع کے افسر کے پاس پیش کی جاسکتی ہیں جہاں وہ آئندہ زمین لینا چاہتا ہو.اس کے متعلق یا د رکھنا چاہیئے کہ یہ تشریح بعد کے فیصلوں کے مطابق درست نہیں رہی.چنانچہ اب تمام درخواستیں صرف اس ضلع میں اور اس تحصیل میں داخل ہونی چاہئیں جہاں کوئی شخص زمین لینا چاہتا ہو.ایسی درخواستوں کے وصول کرنے کے لئے عموماً ہر تحصیل میں محکمہ بندو بست کے نائب تحصیلدار مقرر کر دیئے گئے ہیں.۴.یہ بات پھر دہرائی جاتی ہے کہ چونکہ طبع شدہ فارم کسی قدر پیچدار ہے اس لئے مقامی کارکنوں اور سمجھدار احمدیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ناخواندہ یا درخواست کی تفاصیل کو نہ سمجھنے والے زمیندار بھائیوں کو درخواستوں کے بھرنے میں پوری پوری امداد دے کر عنداللہ ماجور ہوں اور فارم کو پڑھ کر اس کے کوائف کو اچھی طرح سمجھ لیں.یہ فارم ایک آنہ میں ہر ضلع میں ملتا ہے.نوٹ : - قادیان اور اس کے ملحقہ دیہات سے آئے ہوئے دوستوں کے متعلق ۲ فروری کے الفضل میں مخصوص طور پر علیحدہ تفصیلی اعلان کیا جا چکا ہے.اس کی پابندی ہونی چاہیئے.گو اوپر کی تفصیلی ہدایات انہیں بھی مدنظر رکھنی چاہئیں.قادیان اور منگل، بھینی ، کھارا، کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ وہاں کی جائیداد کوئی احمدی دوست کسی غیر مسلم کے پاس فروخت نہ کریں اور نہ ہی اس کا مستقل تبادلہ کریں لیکن اس جائیداد کے مقابل پر پروویژنل الائمنٹ کرائی جاسکتی ہے اور اس غرض کے لئے مقرر شدہ فارم میں تشریح مطالبہ کے الفاظ کے آگے بصورت پر وویژنل الائمنٹ کے الفاظ لکھ دیئے جائیں.( مطبوعه الفضل ۱۵ر فروری ۱۹۴۹ء)

Page 505

۴۹۳ مضامین بشیر کثرت اولا دوالے مضمون پر دوستوں کے اعتراضات اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت ضرور ہے مگر اسے فرض قرار نہیں دیا گیا تبلیغ و تربیت کا کام ایک ہی وقت میں جاری رہنا ضروری ہے کچھ عرصہ ہوا میں نے اپنے ایک مضمون میں دوستوں کو کثرت اولاد کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی تھی.اس تعلق میں میرے پاس دو دوستوں کی طرف سے بعض اعتراضات پہنچے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ میں ان کے اعتراضوں کا جواب دوں.گو میرے خیال میں بہتر ہوتا کہ وہ خود غور کر کے اپنے اعتراضوں کا جواب سوچنے کی کوشش کرتے کیونکہ یہ اعتراض ایسے نہیں ہیں کہ ایک سمجھدار شخص خصوصاً جب کہ وہ احمدیت کے نور سے منور ہو ان اعتراضوں کا جواب نہ سوچ سکے.بہر حال ان دوستوں کی خواہش کے احترام میں ان کے اعتراضوں کا مختصر بلکہ دو حرفی جواب قرآنی آیات کی بحث میں جانے کے بغیر درج کیا جاتا ہے.پہلے دوست نے دو اعتراض کئے ہیں جن میں سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ تم نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ” قرآن شریف نے تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے مگر یہ خیال درست نہیں کہ اسلام میں تعدد ازدواج صرف اجازت کی حد تک ہے.کیونکہ قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام میں اصل حکم تعدد ازدواج کا ہے اور ایک بیوی سے شادی کرنا صرف استثنائی صورت ہے.ان دوست کے نزدیک حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے بھی متعلقہ قرآنی آیت کی یہی تفسیر فرمائی ہے کہ اسلام میں تعدد ازدواج کا حکم قاعدہ کے طور پر ہے اور ایک بیوی سے شادی کرنا استثنائی ہے جس کا دروازہ صرف خاص حالات کے لئے کھلا رکھا گیا ہے.وغیرہ وغیرہ مجھے حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کا کوئی ایسا حوالہ یاد نہیں جس میں حضور نے تعدد ازدواج کو اصل حکم کے طور پر پیش کیا ہو اور ایک شادی کرنے کو استثناء قرار دیا ہو.بے شک حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کے ایک خطبہ سے بعض لوگوں نے اس قسم کا گمان کیا تھا مگر بعد میں حضور

Page 506

۴۹۴ مضامین بشیر نے خود تشریح فرما دی تھی کہ میرا یہ منشاء نہیں.دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ قطعی فیصلہ موجود ہے کہ اسلام میں تعدد ازدواج کا مسئلہ حکم کے طور پر نہیں ہے بلکہ محض اجازت کے طور پر ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : - "خدا کی شریعت ہر ایک قسم کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے.پس اگر اسلام میں تعدد نکاح کا مسئلہ نہ ہوتا تو ایسی صورتیں جو مردوں کے لئے نکاح ثانی کے لئے پیش آجاتی ہیں اس شریعت میں ان کا کوئی علاج نہ ہوتا.خدا کی شریعت دوا فروش کی دکان کی مانند ہے.پس اگر دوکان ایسی نہیں ہے جس میں سے ہر ایک بیماری کی دوا مل سکتی ہے تو وہ دوکان چل نہیں سکتی.اگر چہ شریعت نے مختلف مصالح کی وجہ سے تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا ہے.6 اور دوسری جگہ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ : - ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تو تعددازدواج فرض واجب نہیں کیا ہے.خدا ،، کے حکم کی رُو سے صرف جائز ہے.اوپر کے دونوں حوالوں سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک اسلام میں تعدد ازدواج کو فرض واجب قرار نہیں دیا گیا بلکہ صرف جائز رکھا گیا ہے.جس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کسی شخص کو ذاتی یا خاندانی یا قومی مصالح کے ماتحت تعدد ازدواج کی ضرورت محسوس ہو تو وہ اس رستہ کو اختیار کر سکتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو تعدد ازدواج یقیناً ایک مستحسن فعل سمجھا جائے گا.لیکن اس سے آگے نکل کر تعدد ازدواج کو گویا ایک حکم قرار دینا یا اسے اصل قاعدہ قرار دے کر ایک شادی کو استثناء سمجھنا خواہ نخواہ کی زبردستی ہے، جس کی تائید میں اسلام اور احمدیت کا کوئی حکم پیش نہیں کیا جاسکتا.انہی صاحب کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جب تعدد ازدواج کے تعلق میں عدل کر سکنے کی طاقت میں اپنی مالی حالت کا دیکھنا بھی شامل ہے تو پھر میرے مضمون کے اس فقرہ کا کیا مطلب ہے کہ "جو شخص کثرت اولاد کی وجہ سے رزق کی تنگی محسوس کرتا ہے اس کا یہ تجر بہ جھوٹا ہے اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیئے کہ قطع نظر اس کے کہ دراصل ہمارے اس دوست کے یہ دونوں اعتراض آپس میں ٹکراتے ہیں یعنی پہلے اعتراض میں تو وہ کثرت ازدواج کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور دوسرے اعتراض میں اسی مسئلہ کے رستہ میں گویا ایک روک پیدا کرنا چاہتے ہیں.ہمارے ان دوست نے میرے اس فقرے کا منشاء بھی نہیں سمجھا.میں نے یہ فقرہ جو ہمارے

Page 507

دوس دا ۴۹۵ مضامین بشیر ست نے نقل کیا ہے اس قرآنی آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُم وَ اِيَّاكُمْ اور ظاہر ہے کہ یہ مضمون قتل اولاد اور برتھ کنٹرول کے مسئلہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ تعدد ازدواج کے مسئلہ سے.بے شک ایک سے زیادہ شادی کرنے والے شخص کو عام حالات میں اپنی مالی حالت کو دیکھ کر قدم اٹھانا چاہیئے کیونکہ زیادہ شادیاں کرانا فرائض میں داخل نہیں ہے بلکہ ہر شخص کے حالات پر منحصر ہے لیکن جو شخص شادی کرنے کے بعد غربت کے خوف کی وجہ سے برتھ کنٹرول کا طریق اختیار کرتا اور اپنی ہونے والی اولادکو گو یا خودا اپنے ہاتھ سے قتل کرتا ہے ، وہ ضرور قرآنی حکم کے خلاف قدم اٹھاتا ہے اور ان دونوں باتوں میں بھاری فرق ہے.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے دوست نے کثرتِ اولاد اور تعدد ازدواج کے دو مختلف مضمونوں کو بلا وجہ خلط کر کے ایک اعتراض کھڑا کر دیا ہے اور میرے منہ میں ایسی بات ڈالنے کی کوشش کی ہے جو میں نے ہرگز نہیں کہی.ایک دوسرے دوست نے یہ اعتراض کیا ہے کہ جب موجودہ نسل ہی کی تربیت پوری طرح تسلی بخش نہیں ہے اور کئی قسم کی خامیاں پائی جاتی ہیں اور بعض اچھے اچھے خاندانوں کے بچوں کا نمونہ بھی اچھا نظر نہیں آتا تو پھر کثرت اولاد پر زور دینا کوئی مفید نتائج پیدا نہیں کر سکتا.مگر یہ اعتراض بھی بالکل بودا اور بے بنیاد ہے اور قوموں کی ترقی کے صحیح فلسفہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ قومی ترقی کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک تعداد کی ترقی اور دوسرے علم و عمل کی ترقی.گویا انگریزی محاورہ کے مطابق ایک کو انٹیٹی (Quantity ) کی ترقی اور دوسرے کو کوالیٹی (Quality) کی ترقی کہہ سکتے ہیں.اور ہمارے علیم و حکیم خدا نے دنیا کا دینی نظام اس رنگ میں قائم کیا ہے.( بلکہ حق یہ ہے کہ دنیوی نظام بھی بڑی حد تک اسی اصول پر قائم ہے ) کہ یہ دونوں قسم کے کام ایک ہی وقت میں جاری رہنے چاہئیں.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ جہاں بار بار اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہے وہاں اسی شد و مد اور تاکید کے ساتھ تبلیغ کے ذریعہ تعداد کی ترقی کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو اصول تبلیغ کے متعلق چسپاں ہوتا ہے وہی کثرت اولاد کے متعلق بھی چسپاں ہونا چاہیئے کیونکہ دونوں کی غرض وغایت اور دونوں کا مال ایک ہی ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت اور اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ تبلیغ اور تکثیر نسل دونوں کی طرف یکساں توجہ دی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی حصر نہیں دنیا میں کوئی نبی ایسا نہیں آیا کہ جس نے تبلیغی مہم کی وجہ سے تربیت کے پہلو کو کمزور ہونے دیا ہو یا تربیت کے خیال سے تبلیغی مہم کو معلق کر دیا ہو.دراصل یہ دو کام دو پہلو بہ پہلو چلنے والی نہروں کا رنگ رکھتے ہیں جو ایک ہی وقت میں

Page 508

مضامین بشیر ۴۹۶ جاری رہنے چاہئیں کیونکہ قومی زندگی کے لئے دونوں یکساں ضروری ہیں.ویسے بھی عقلاً دیکھا جائے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ملک وقوم کے لئے کونسا وجود زیادہ بہتر ثابت ہونے والا ہے یعنی آیا وہ لوگ قومی ترقی کے لئے زیادہ مفید ثابت ہونے والے ہیں جو اس وقت قوم کا حصہ ہیں یا کہ وہ لوگ زیادہ مفید ثابت ہونے والے ہیں جو تبلیغ یا نسل کی ترقی کے ذریعہ آئندہ چل کر قوم کا حصہ بنیں گے.ہو سکتا ہے کہ ہم تبلیغ کی ستی کی وجہ سے یا خود اپنے ہاتھ سے اپنی نسل کو ضائع کر کے کسی ایسے پاک جو ہر کو اپنے ہاتھ سے کھو بیٹھیں جس کا وجود جماعت یا قوم یا ملک کے لئے غیر معمولی ترقی کا باعث بن سکتا ہو.روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کے اسلام لانے سے قبل دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے خدا تو ان دو عمروں میں سے ( یعنی ایک حضرت عمر بن خطاب اور دوسرے عمر بن ھشام ( یعنی ابو جہل جو قریش میں ابوالحکم کہلاتا تھا ) کسی ایک کو مجھے عطا کر دے.اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ کی باریک بین نظر اس بات کو محسوس کرتی تھی کہ یہ دونوں شخص اپنے فطری قومی اور ذہنی استعداد کی وجہ سے کام کی غیر معمولی قابلیت رکھتے ہیں.سوخدائے حکیم نے آپ کی اس دعا کے نتیجہ میں حضرت عمرؓ کو اسلام کی توفیق دی اور ابو جہل اپنی سرکشی اور کفر میں ترقی کر کے جہنم کے رستہ پر پڑ گیا.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات پر یہ الفاظ فرمائے کہ لَوْعَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبيّاً د یعنی اگر میرا یہ بچہ ابراہیم زندہ رہتا تو اس کی فطری استعداد ایسی تھی کہ خدا کے فضل سے وہ نبوت کے مقام کو پہنچ جاتا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تبلیغ اور کثرت اولا د دونوں قومی ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور نہ صرف تعداد کو بڑھانے کا موجب بن سکتے ہیں بلکہ ان کے ذریعہ ایسے خاص الخاص وجودوں کو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جو عملی اور رد عملی تربیت کے لحاظ سے بھی قوم وملت کے نام کو چار چاند لگانے والے بن جائیں گے.میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم کے نوجوانوں کی تربیت کی طرف سے غفلت برتی جائے.اگر کوئی نقص ہے تو خواہ وہ کسی میدان سے تعلق رکھتا ہو اور خواہ وہ قوم کے کسی حصہ میں پایا جاتا ہو وہ بہر حال دور ہونا چاہئے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کی طرف پوری پوری توجہ دیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ تربیت کے خیال کی وجہ سے تبلیغ اور تکثیر نسل کے ذریعہ کو نظر انداز کر دیا جائے.حق یہ ہے کہ ان دونوں باتوں کا یعنی ایک طرف تعداد کی ترقی کا اور دوسری طرف تربیت اور عملی اصلاح کا ایک دوسرے کے ساتھ اتنا گہرا تعلق اور رابطہ ہے کہ باوجود اس کے کہ بظاہر یہ دوا لگ

Page 509

۴۹۷ مضامین بشیر الگ میدان نظر آتے ہیں ان میں سے کسی ایک کی طرف سے غفلت برتنا دوسرے کی کمزوری اور تباہی کا موجب ہو جاتا ہے جو قوم صرف تعداد کی ترقی کی فکر رکھے گی اور اپنے افراد کی تربیت کی طرف سے غافل رہے گی وہ یقینا تباہ ہو گی لیکن اس طرح وہ قوم بھی یقینا تباہ ہوگی جو صرف تربیت کی طرف توجہ رکھ کر تعداد کی ترقی کی طرف سے بالکل غافل رہتی ہے.یہ دو نہریں بے شک بظاہر جدا جدا نظر آتی ہیں لیکن ان کے نیچے کے سوتے یعنی ان کے اندر کے چشمے در اصل ایک ہیں اور ایک نہر کے خشک ہونے سے جلد یا بدیر دوسری نہر کا خشک ہو جانا بھی یقینی اور ناگزیر ہے پس میں اعتراض کرنے والے دوست سے عرض کروں گا کہ تربیت کا پہلو بے شک نہایت اہم ہے لیکن تربیت کے خیال کی وجہ سے تبلیغ کے سلسلے کو روک دینا یا کثرت نسل کے ذریعہ کو نظر انداز کر دینا بھی اسی طرح خطرناک اور تباہ کن ہے اور قومی ترقی کا سچا اور آزمودہ نظریہ یہی ہے اور یہی رہے گا کہ ایک ہی وقت میں دونوں پہلوؤوں کی طرف توجہ دی جائے.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ( مطبوعه الفضل ۱۴ / فروری ۱۹۴۹ء)

Page 510

مضامین بشیر ۴۹۸ سیرت خاتم النبین حصہ سوم کی تیاری اور دوستوں کو دعا کی تحریک جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے سیرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے دو حصے طبع ہو کر شائع ہو چکے ہیں اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے میری اس ناچیز تصنیف کو قبولیت کا شرف عطا فرمایا.میں نے سیرت خاتم النبیین حصہ سوم کی تیاری کا کام قادیان میں ہی شروع کر دیا تھا لیکن چونکہ اس کے لئے مجھے اپنے فرائض منصبی کے علاوہ پرائیویٹ طور پر زائد وقت دینا پڑتا تھا ، اس لئے حصہ سوم کی تصنیف کی رفتار طبعاً بہت کم رہی.کیونکہ اس قسم کی علمی تصنیف میں ضروری حوالہ جات کی تلاش اور متضاد حوالوں کی تطبیق اور کمزور حوالوں کی تردید بہت سا وقت لے لیتی ہے اور پھر غیر مسلم معترضین کے اعتراضوں کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے.بہر حال خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ فسادات کے دوران میں میرا یہ مسودہ ضائع ہونے سے بچ گیا اور گوموجودہ تصنیف شدہ حصہ میں صرف بنوقریظہ کے واقعہ سے لے کر بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط تک کے واقعات درج ہیں تاہم دوستوں کے مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ فی الحال اسی قدر حصہ کو سیرت خاتم النبیین حصہ سوم جز واوّل کے طور پر شائع کر دیا جائے.اس حصہ کا حجم غالباً تین سو صفحات کے قریب ہوگا اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے بہت سے دوسرے واقعات کے علاوہ صلح حدیبیہ کا اہم واقعہ اور اسلام کا تبلیغی نظریہ اور قیصر و کسری کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط کی روانگی (معہ فوٹو خط آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنام قیصر روم ) اسلامی مساوات اور اسلام کے اقتصادی نظام اور اسلام کے سیاسی نظریہ اور اسلام کی امن اور جنگ کی طاقت کا موازنہ اور مسئلہ دعا اور معجزات وغیرہ وغیرہ کے متعلق کافی بحث آگئی ہے.البتہ ایک کمی کا مجھے بہت احساس ہے اور وہ یہ کہ میری عادت ہے کہ شروع میں مضمون کا ایک بنیادی مسودہ جسے گویا ڈھانچہ کہنا چاہیئے تیار کر کے بعد میں نظر ثانی اور نظر ثالث کے وقت اس میں بہت

Page 511

۴۹۹ مضامین بشیر سی تبدیلی کیا کرتا ہوں لیکن افسوس ہے کہ اس قسم کی اصلاح کا موقع مجھے موجودہ حصہ کے متعلق میسر نہیں آیا.کیونکہ اس وقت لاہور میں میرے پاس ضروری کتابیں موجود نہیں ہیں.چنانچہ کئی ضروری حوالے ذہن میں آتے ہیں مگر ان کی تلاش کا سامان موجود نہیں ہوتا.اس لئے جو اصلاح نظر ثانی کے نتیجہ میں ہوسکتی ہے ، وہ افسوس ہے کہ اس وقت میسر نہیں آسکی.مگر بہر حال جو مواد بھی اس وقت موجود ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ اس جلسہ سالانہ کے موقع پر یا اس کے جلد بعد سیرت خاتم النبیین حصہ سوم جز واول کی صورت میں پیش کر دیا جائے گا.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری اس ناچیز کوشش کو قبولیت کا شرف عطا کرے اور اسے دنیا کے لئے مفید اور میرے لئے مغفرت کا موجب بنائے.نیز یہ بھی دعا کریں کہ بقیہ حصہ کی تصنیف کا بھی جلد موقع مل جائے.وماتوفيقنا الا بالله العظيم نوٹ : - اس تعلق میں خریداری کے متعلق جملہ درخواستیں ناظر صاحب تالیف و تصنیف جو د ہامل بلڈنگ لاہور کے نام آنی چاہئیں.البتہ اگر تصنیف کے متعلق کوئی مشورہ دینا ہو تو وہ مجھے بھجوادیا جائے.( مطبوعه الفضل یکم مارچ ۱۹۴۹ء )

Page 512

مضامین بشیر حسن محمد صاحب درویش کے لئے دعا کی تحریک.ایک صاحب حسن محمد نامی سابق درویش قادیان جو اس وقت لاہور میں ہیں ، سخت بیمار ہیں اور حالت تشویشناک ہے.دوست ان کی صحت یابی کے لئے دعا فرما ئیں.نیز ان کی اہلیہ صاحبہ (مبارکہ بیگم ) جو پہلے جہلم میں تھیں اور اب غالباً ننکانہ صاحب میں اپنے بھائی کے پاس گئی ہوئی ہیں، فور ارتن باغ لاہور میں پہنچ جائیں.( مطبوعه الفضل ۳ / مارچ ۱۹۴۹ء)

Page 513

۵۰۱ مضامین بشیر حسن محمد صاحب درویش وفات پاگئے.میں نے حسن محمد صاحب درویش کے واسطے پرسوں کے الفضل میں دعا کی تحریک شائع کرائی تھی مگر خدا کی تقدیر میں ان کی وفات مقدر ہو چکی تھی.چنانچہ وہ آج صبح پانچ بجے انتقال کر گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مرحوم ایک بہت مخلص نوجوان تھے اور باوجود نا موافق حالات اور بیماری کے خدمت مرکز کی نیت سے قادیان میں ٹھہرے رہے.اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کا حامی و ناصر ہو.آمین یہ بات خوشی کا موجب ہے کہ ان کی اہلیہ اور دوسرے عزیز وفات سے قبل ان کے پاس پہنچ گئے تھے اور مرحوم کو ان کے ساتھ ہوش و حواس میں باتیں کرنے کا موقع مل گیا.( مطبوعه الفضل ۵ / مارچ ۱۹۴۹ء )

Page 514

مضامین بشیر ۵۰۲ یہ فتنوں اور ابتلاؤں کے دن ہیں دوستوں کو خاص طور پر دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیئے الہی سلسلوں کے ساتھ ابتلاؤں اور فتنوں کا دور بھی مقدر ہوتا ہے اور گو اسلامی تعلیم کے ماتحت خود کبھی بھی امتحان میں پڑنے کی خواہش نہیں کرنی چاہیئے.لیکن خدا کی ازلی تقدیر بہر حال اسی طرح واقع ہوئی ہے کہ وہ مومنوں کو مختلف قسم کے امتحانوں اور ابتلاؤں میں سے گزار کر ترقی کی منزلوں کی طرف لے جاتا ہے.چنانچہ ہر نبی اور ہر مصلح کی جماعت کو امتحان پیش آئے اور سب سے زیادہ امتحان صحابہ کی مقدس جماعت کو پیش آئے.جنہیں گویا ابتلاؤں کی دہکتی ہوئی بھٹی میں سے گزرنا پڑا.چنانچہ خدا تعالیٰ خود قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ IO د یعنی کیا مومنوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف منہ کے اس دعوی سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور انہیں ابتلاؤں کی بھٹی میں ڈال کر پرکھا نہیں جائے گا ؟ بلکہ حق یہ ہے کہ جتنا بڑا مقصد لے کر کوئی جماعت اٹھتی ہے اتنے ہی بڑے امتحانوں میں سے اسے گذرنا پڑتا ہے اور عام مومن تو الگ رہے اس قسم کے امتحانوں سے خدا کے برگزیدہ نبی بھی باہر نہیں ہوتے“ چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَهِمَ رَبُّهُ بِكَلِمَةٍ فَأَتَمَّهُنَّ 1 و یعنی جب خدا نے بعض خاص احکام کے ذریعہ ابراہیم" کا امتحان لیا تو ابراہیم نے ان احکام کو پورا کر کے اس خدائی امتحان میں کامیابی حاصل کی پس ضروری ہے کہ ہماری جماعت بھی اپنے مقدر امتحانوں اور ابتلاؤں میں سے گزر کر منزلِ مقصود تک پہنچے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت اور اپنی دوسری تصنیفات میں بار بار فرماتے ہیں کہ مصائب کی آندھیاں چلیں گی اور حوادث کے زلزلے آئیں گے اور کئی کمزور ایمان لوگ لغزش کھائیں گے.مگر مبارک ہیں وہ جو آخر تک ثابت قدم رہ کر خدا کے ان انعاموں کے

Page 515

۵۰۳ مضامین بشیر وارث بنیں گے جو ازل سے جماعت احمدیہ کے لئے مقدر ہیں.ہمارے کچھ امتحان تو گزر چکے اور کچھ گزررہے ہیں اور کچھ آئندہ آنے والے ہیں اور ممکن ہے کہ بعض آنے والے امتحان بعض لحاظ سے گزرے ہوئے امتحانوں سے بھی سخت تر ہوں اور شاید ان میں سے بعض میں ایسی تلخی کا پہلو پایا جائے جو عموما کامل شرینی سے قبل اپنی سخت ترین صورت میں ظاہر ہوا کرتی ہے.پس دوستوں کو چاہیئے کہ ان ایام میں اصلاح نفس اور خدمت دین میں بیش از پیش حصہ لینے کے علاوہ خاص طور پر دعاؤں کی طرف توجہ دیں اور خدا کے آستانہ پر گر کر اور اس کے دامن سے لپٹ کر اس سے فضل و رحمت اور برکت و نعمت کے طالب ہوں اور اُسی سے اس بات کی تو فیق چاہیں کہ آنے والے امتحانوں میں اور نیز اس امتحان میں جس میں سے آج جماعت گذر رہی ہے.جماعت اور افراد جماعت کا قدم ڈگمگانے اور لغزش کھانے کی بجائے بیش از پیش مضبوطی اور مستعدی کے ساتھ ترقی کی منازل کی طرف اٹھتا چلا جائے.مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ محض رسمی دعا کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور حقیقی دعا وہی ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَا د یعنی اے مرد مومن ! دعا کے وقت تیری یہ کیفیت ہونی چاہیئے کہ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور کم از کم یہ کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے“ یہ وہ کیفیت ہے جو مومن کی دعا میں گویا زندگی کی روح بھر دیتی ہے اور انسان کے دل و دماغ اور اس کے سارے اعضاء پکھل کر آستانہ الوہیت پر گر جاتے ہیں.واقعی اگر پوری توجہ اور کامل انہاک اور ضروری سوز و گداز کے ساتھ دعا مانگی جائے اور زبان کے الفاظ کے ساتھ ساتھ روح کی مضطر بانہ تڑپ بھی شامل ہو تو سوائے ایسی باتوں کے جو خدا کی کسی سنت یا اس کے کسی وعدے کے خلاف ہوں.سچے مومنوں کی دعائیں کبھی رد نہیں کی جاتیں.یہ علیحدہ بات ہے کہ خدا کسی دعا کو اس رنگ میں قبول نہ کرے جو بندہ چاہے بلکہ اس رنگ میں قبول کرے جسے خود خدا بہتر خیال کرتا ہے.بہر حال کچی دعا کبھی بھی ضائع نہیں جاتی بلکہ حدیث میں تو ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) یہاں تک فرماتے ہیں کہ ہمارا رحیم و کریم خدا اس بات سے شرماتا ہے کہ اپنے بندوں کے گریہ وزاری میں اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے.پس دوستوں کو چاہیئے کہ ان فتنوں اور ابتلاؤں کے ایام میں پوری توجہ اور کامل انہماک اور سچی تڑپ کے ساتھ دعائیں کریں اور دعا کے وقت اپنے اندر یہ کیفیت پیدا کریں کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہے ہیں اور خدا انہیں دیکھ رہا ہے.

Page 516

مضامین بشیر ۵۰۴ جو دعائیں آج کل کے حالات کے ماتحت خصوصیت کے ساتھ زیادہ مانگنی چاہئیں وہ میرے خیال میں یہ ہیں :- ا.اللہ تعالیٰ جماعت کے موجودہ دور کو احمدیت کی کمزوری یا سست رفتاری کی بجائے اس کی مضبوطی اور بیش از پیش ترقی کا ذریعہ بنادے اور اسلام اور احمدیت کو وہ غیر معمولی ترقی حاصل ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ ازل سے مقدر ہے.۲.حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو خدا تعالیٰ صحت اور درازی عمر کے ساتھ جماعت کے سر پر تا دیر سلامت رکھے اور انہی کے عہد مبارک کے ساتھ قادیان کی واپسی مقدر کر دے.۳.قادیان سے باہر آنے کی وجہ سے احمدی بچوں اور نوجوانوں کے لئے جو خطرہ ماحول کی تبدیلی کے نتیجہ میں پیدا ہو رہا ہے ، اس سے خدا تعالیٰ جماعت کے نونہالوں کو محفوظ رکھے اور وہ موجودہ نسل سے بھی بڑھ کر اسلام اور احمدیت کے خادم بنیں.۴.بعض کمز ور احمد یوں کی طبیعت پر جو اثر مرکزی تنظیم سے بظاہر دُور ہو جانے کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتا ہے اس سے خدا تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے.۵.جب تک ہمیں قادیان کا مرکز تبلیغ و تربیت اور تعلیم و تنظیم کی کامل آزادی کے ساتھ واپس نہیں ملتا اس وقت تک خدا تعالیٰ ربوہ کے مرکز کو اپنی دینی اور روحانی برکات کے ساتھ اس کا قائمقام بنا دے.آمین اللهم آمين واخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العالمين ( مطبوعه الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۴۹ء)

Page 517

اخویم میاں عبداللہ خان صاحب کی علالت اور دوستوں سے دعا کی تحریک مضامین بشیر اخویم میاں عبد اللہ خان صاحب کی تشویشناک بیماری پر اب قریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر رہا ہے.اس عرصہ میں اصل بیماری کے لحاظ سے تو درمیان میں اُتار چڑھاؤ کی صورت ہوتی رہی ہے.یعنی کبھی طبیعت زیادہ خراب اور کبھی نسبتاً افاقہ مگر عام حالت کے لحاظ سے حالت مسلسل طور پر گرتی گئی ہے اور بیماری کے مقابلہ کی طاقت برابر کم ہوتی جارہی ہے اور ڈاکٹر لوگ موجودہ حالت کو کسی جہت سے تسلی بخش نہیں بتاتے.بلکہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہم اپنے علم کے مطابق علاج کر رہے ہیں مگر معجزانہ شفا تو صرف دعاؤں کا ہی نتیجہ ہو سکتی ہے.پس میں حضرت اماں جان ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا اور عزیزہ ہمشیرہ سلمہا اور دیگر سب خاندان کی طرف سے جماعت کے مخلصین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اخویم عبداللہ خانصاحب کی صحت یابی کیلئے خصوصیت سے دعائیں کریں.سچا مومن کسی صورت میں بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا اور ہمارا خدا تو وہ رحیم کریم ہستی ہے کہ جس کی قدرت اور رحمت کی کوئی انتہا نہیں.( مطبوعه الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۴۸ء )

Page 518

مضامین بشیر کوئی دوست قادیان کی جائیداد فروخت نہ کرے جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ کسی احمدی دوست کو اپنی قادیان کی جائیداد (مکان، دکان ، اراضی) وغیرہ کسی غیر مسلم کے پاس فروخت یا مستقل تبادلہ وغیرہ کی صورت میں منتقل نہیں کرنی چاہئے اور مقامی جماعتوں کے عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی رکھیں کہ کوئی دوست اس قسم کی حرکت نہ کرے اور اگر کوئی ایسی بات ان کے نوٹس میں آئے تو فوراً نظارت امور عامہ کو اطلاع دیں تا کہ ایسی حرکت کرنے والے احمدی کے متعلق جماعتی انتظام کے ماتحت ضروری کارروائی کی جا سکے.موجودہ حالات کے ماتحت قادیان کی جائیداد کسی غیر مسلم کے پاس فروخت کرنا یا کسی طریق پر اسے مستقل طور پر منتقل کرنا نہ صرف مرکز سلسلہ کے تقدس کے خلاف ہے بلکہ اس میں ان خدائی وعدوں کی بھی بے حرمتی ہے جو قادیان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہو چکے ہیں.مطبوعه الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۴۹ء)

Page 519

۵۰۷ مضامین بشیر موصی صاحبان کو امامنا دفن کیا جائے.باوجود اس کے کہ بار بار اعلان کیا جا چکا ہے کہ موصی صاحبان کو امانتاً دفن کرنا چاہئے.پھر بھی بعض دوست اس بارہ میں سستی کر بیٹھتے ہیں اور موصی اصحاب کو بغیر امانت کے دفن کر دیتے ہیں.پس دوستوں کو اس بارہ میں دوبارہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ آج کل جو موصی صاحبان فوت ہوں ( خصوصاً ایسے موصی صاحبان جو قادیان سے آئے ہوئے ہیں کیونکہ میرے صیغہ کا تعلق صرف انہیں کے ساتھ ہے ) انہیں فوت ہونے پر ضرور ا مانتا دفن کیا جائے.امانتاً دفن کرنے سے یہ مراد ہے کہ ایک لکڑی کے مضبوط بکس میں ( جو عموماً چھپیں تھیں روپے میں مکمل ہو جاتا ہے ) دفن کیا جائے اور اس بکس کو فی الحال ایسے طور پر قبر میں رکھا جائے کہ دیمک وغیرہ لگنے کا خطرہ کم از کم ہو.پھر جب ربوہ کا مرکز قائم ہو جائے گا تو ایسے موصی صاحبان کو انشاء اللہ وہاں منتقل کر دیا جائے گا.کیونکہ وہاں عام قبرستان کے علا وہ اس غرض کے لئے ایک خاص جگہ ریز روکر دی گئی ہے.( مطبوعه الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۴۹ء)

Page 520

مضامین بشیر ۵۰۸ قادیان کے دوست خیریت سے ہیں! موجودہ حالات کا مختصر نقشہ ا.احباب کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ جیسا کہ قادیان کی ڈاک سے معلوم ہوتا رہتا ہے، قادیان کے سب دوست خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں.صرف دو دوستوں ( میاں نعمت اللہ صاحب دیہاتی مبلغ اور میاں اللہ رکھا صاحب) کو کچھ دماغی عارضہ ہو گیا تھا مگر اب خدا کے فضل سے افاقہ ہے.اسی طرح بعض معمر دوستوں کو موتیا بند اتر آیا تھا جن کا گورداسپور کے سول سرجن نے قادیان میں جا کر آپریشن کیا.دوست ان سب کی صحت یابی کے لئے دعا فرمائیں.۲.قادیان کے دوستوں نے حکومت انڈین یونین کو درخواست دی تھی کہ ہم میں سے ہیں کس کو جلسہ ربوہ پاکستان میں شریک ہونے کی اجازت دی جائے اور ہم جلسہ کے بعد قادیان واپس پہنچ جائیں گے مگر حکومت کی طرف سے ان کو کوئی جواب نہیں ملا..ضلع گورداسپور کے بعض افسروں کی زبانی گفتگو اور چٹھیوں سے یہ خطرہ پیدا ہوا تھا کہ وہ حلقہ مسجد مبارک کے بعض مکان غیر مسلم پناہ گزینوں کے لئے خالی کرانا چاہتے ہیں جس پر قادیان کے دوستوں کی طرف سے پُر زور احتجاج کیا گیا اور ابھی تک یہ معاملہ غیر تصفیہ شدہ صورت میں پڑا ہے.۴.بعض رپورٹوں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قادیان میں احمدیوں کے متروکہ مکانوں کے کرائے حسب ذیل صورت میں لگائے گئے ہیں.مثلاً معلوم ہوا ہے کہ مندرجہ ذیل مکانوں کا کرایہ موجودہ غیر مسلم کرایہ داروں سے بصورت ذیل وصول کیا جا رہا ہے.(الف) کوٹھی حضرت امیر المؤمنین محلہ دارالا نوار معہ ہر دو کا شیح و متعد دکوارٹرز - / ۳۰ روپے ماہوار.(ب) کوٹھی خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب بنگالی مرحوم محلہ دارالانوار ۱۲/۸ ماہوار (ج) کوٹھی با بوا کبر علی صاحب انجینئر مرحوم محلہ دارالعلوم -/ ۱۵ روپے ماہوار (د) کوٹھی میاں ناصر احمد صاحب محلہ دارالا انوار - / ۱۵ روپے ماہوار (ه) کوٹھی چوہدری فتح محمد صاحب سیال معہ ملحقہ کا شیخ محلہ دارالانوار /۱۲ روپے ماہوار

Page 521

۵۰۹ مضامین بشیر ( و ) کوٹھی ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب محلہ دار العلوم-/۲۰ روپے ماہوار ( ز ) مکان شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور محلہ دارالفضل /۴ روپے ماہوار ( ح ) مکان مولوی جلال الدین صاحب شمس سابق مبلغ لندن محلہ دار الرحمت - /۳ روپے ماہوار نوٹ : - گویا رعایت کا نام رکھ کر کوئی کمی نہیں کی گئی مگر کرائے بصورت بالا لگا دیئے گئے ہیں.۵.یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض منی آرڈر جو متفرق احباب کی طرف سے قادیان کے بعض دوستوں اور عزیزوں کے نام بھجوائے گئے تھے وہ لمبا عرصہ گزرجانے کے با وجود ابھی تک وہاں نہیں پہنچے اور خیال کیا جاتا ہے کہ شاید رستہ میں روک لئے گئے ہیں حالانکہ ہر دو حکومتوں کے معاہدہ کے مطابق منی آرڈروں کے معاملہ میں کوئی روک نہیں ہو سکتی.اس کے متعلق تحقیقات جاری ہیں.۶.قادیان میں احمد یہ ڈسپنسری جس کے ساتھ کچھ انڈور کا انتظام بھی ہے ،خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کر رہی ہے چنانچہ گزشتہ سال کی رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل تعداد کے مطابق آؤٹ ڈور بیماریوں کا علاج کیا گیا.نام قوم نئے کیس پرانے کیس میزان مسلمان ہندو سکھ دیگر اقوام کل میزان ۱۱۹۲۴ ۸۸۷۸ ۳۰۴۶ ۱۱۳۵۲ ۷۵۱۹ ۳۸۳۳ ۶۱۹۸ ۳۹۹۹ ۲۱۹۹ 1227 ۱۱۴۶ ۶۲۸ ۳۱۲۴۶ ۲۱۵۴۰ کیفیت ڈسپنسری کے انچارج ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ہیں ے.قادیان کے دوست خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری تندہی اور شوق کے ساتھ اپنے دینی پروگرام میں مصروف ہیں.جو نفلی نمازوں اور نفلی روزوں اور درس قرآن کریم اور درس حدیث وغیرہ پر مشتمل ہے اور آنے جانے والے غیر مسلموں کو تبلیغ بھی کرتے رہتے ہیں.چنانچہ ایک رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ گزشتہ ایام میں صرف ایک ہفتہ کے دوران میں ۴۹۶ غیر مسلم مختلف علاقوں سے ہمارے دوستوں کو آکر ملے اور مذہبی سوالات کرتے رہے.

Page 522

مضامین بشیر ۵۱۰.چونکہ قادیان کے کئی دوست ایسے ہیں کہ جن کے اہل وعیال مقیم پاکستان کے گزارہ کی کوئی تسلی بخش صورت نہیں ، اس لئے میری تحریک پر بعض دوستوں نے ایسے لوگوں کی امداد کے لئے کچھ رقوم دی ہیں.مثلاً جماعت علی پور ضلع مظفر گڑھ نے پچاس روپے دیئے، شیخ محمد اکرام صاحب دوکاندار نے پانچ روپے، مسماۃ صدیقہ بیگم بنت شیخ محمد اکرام صاحب نے دس روپے ، ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان نے پچاس روپے.فجزاهم الله خيراً دوسرے مخیر دوستوں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیئے.( مطبوعه الفضل ۸ / ایریل ۱۹۴۹ء)

Page 523

۵۱۱ مضامین بشیر اعلان درباره سیرت خاتم النبیین حصہ سوم خاتم میں نے ایک سابقہ اعلان میں دوستوں کو اطلاع دی تھی کہ اس جلسہ پر سیرت خاتم النبیین حصہ سوم جز واوّل شائع کرنے کا ارادہ ہے.مگر اس وقت غلطی سے میں نے اس کا حجم تین سو صفحات لکھ دیا تھا.حالانکہ تین سو صفحات مسودہ کے ہیں اور طبع شدہ صورت میں غالباً دوسو صفحات سے کچھ اوپر ہوں گے.اسی طرح سابقہ اعلان میں سہو قلم کے نتیجہ میں یہ لکھا گیا تھا کہ اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس خط کا عکس بھی شائع کیا جائے گا جو آپ نے قیصر روما کو لکھا تھا مگر دراصل یہ مقوقس مصر کے نام کا خط ہے نہ کہ قیصر روما کے نام کا اور انشاء اللہ یہ عکس حصہ سوم میں ضرور شائع کیا جائے گا.جیسا کہ پہلے بھی اعلان کیا جا چکا ہے کہ یہ حصہ بے حد بے سروسامانی کی حالت میں لکھا گیا ہے جب کہ اکثر ضروری کتا ہیں میرے پاس موجود نہیں تھیں اس لئے ا.نہ تو ان اوراق کی پوری طرح نظر ثانی ہو سکی ہے جو قادیان میں لکھے گئے تھے اور نہ ہی اس حصہ کے حوالوں کی پڑتال کی جاسکی ہے.۲.جو حصہ اب لاہور میں لکھا گیا ہے اس میں اکثر حوالے اصل ماخذوں کی بجائے بعد کی کتابوں کے دیئے گئے ہیں جس میں بعض اوقات غلطی کا امکان رہ جاتا ہے اور نظر ثانی کے لئے بھی پورا موقع نہیں مل سکا.بہر حال دوست دعا فرمائیں کہ سیرۃ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم حصہ سوم کی یہ جز و جلسہ سالا نہ تک نکل جائے.اور اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ بعد کے ایڈیشن میں پوری ہو جائے اور اللہ تعالیٰ میری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمائے.( مطبوعه الفضل ۸/ اپریل ۱۹۴۹ء)

Page 524

مضامین بشیر ۵۱۲ ہمارا امتحان اور مرکز ربوہ قادیان سے ہمارا نکلنا بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ نکالا جانا ایک بہت بھاری امتحان تھا جو خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے لئے مقدر کر رکھا تھا.اس امتحان کے نتیجہ میں جو انتشار کی کیفیت بظاہر پیدا ہوئی ہے وہ محتاج بیان نہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو خدا تعالیٰ کی اس بظا ہر تلخ تقدیر میں بھی بہت سے نشانات مخفی ہیں اور ہر نشان اپنے اندر خدا کی ہستی اور احمدیت کی صداقت کی ایک روشن دلیل ہے.اس نشان کے مندرجہ ذیل پہلو خاص طور پر نمایاں اور قابلِ توجہ ہیں : ا.اس امتحان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی یہ قدیم سنت پوری ہوئی کہ ہر نبی کی جماعت کو کسی نہ کسی رنگ میں ہجرت کرنی پڑتی ہے.چنانچہ حضرت ابرا ہیم کو ہجرت کرنی پڑی.حضرت موسیٰ“ کو ہجرت کرنی پڑی.حضرت عیسی کو ہجرت کرنی پڑی اور بالآخر ہمارے آقا نبیوں کے سرتاج آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ہجرت کرنی پڑی.پس اگر اس قدیم خدائی سنت کے مطابق جماعت احمدیہ کو بھی عارضی طور پر اپنے مرکز سے نکلنا پڑا تو یہ کوئی جائے اعتراض اور جائے تعجب نہیں بلکہ حقیقتاً ہماری یہ ہجرت بھی ایک نشان کا رنگ رکھتی ہے اور احمدیت کی صداقت کی ایک دلیل ہے.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف مطحنۂ حق میں جماعت کی ہجرت کی طرف اشارہ کیا.اسی طرح آپ نے اپنے الہام مَسِيرُ الْعَرَبِ کی تشریح میں بھی لکھا ہے کہ شاید جماعت کو بھی کبھی ہجرت کرنی پڑے گی.۲.اس نشان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نہ صرف خدائی سنت کے لحاظ سے اور نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کی بناء پر جماعت احمدیہ کی یہ ہجرت ایک خدائی سنت کو پورا کرنے والی ہے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو متعدد الہامات کے ذریعہ بھی یہ معین خبر دی گئی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب آپ کی جماعت کو قادیان سے نکلنا پڑے گا.مثلاً خدا تعالیٰ نے آپ کو الہام فرمایا کہ يَأْتِي عَلَيْكَ زَمَنْ كَمِثْلِ زَمَنِ مُوسَى یعنی تجھ پر موسیٰ کی طرح کا ایک زمانہ آئے گا.“ وغیرہ وغیرہ

Page 525

۵۱۳ مضامین بشیر پس جماعت کی یہ ہجرت دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے والی اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.۳.اس نشان کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے لئے ایک امتحان مہیا کر دیا ہے کیونکہ یہ بھی خدا کی قدیم سنت ہے کہ وہ اپنی جماعتوں کا مشکلات اور ابتلاؤں کے ذریعہ سے امتحان لیا کرتا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ صحابہ کے متعلق فرماتا ہے أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ] یعنی کیا مومن اس بات پر تسلی پا کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ صرف اتنی بات کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا اور یہ قرآنی آیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی الہاما نازل ہو چکی ہے.پس ضروری تھا کہ جماعت احمد یہ بھی ایک بھاری امتحان میں ڈالی جاتی تا کہ یہ امتحان بھی اس کی صداقت کی دلیل بنتا.۴.اس نشان کا چوتھا پہلو یہ تھا کہ با وجود اتنے بھاری امتحان کے اللہ تعالیٰ نے اس قیامت خیز طوفان میں بھی جماعت کو حقیقی انتشار سے بچا کر اس کے شیرازہ کو حیرت انگیز رنگ میں قائم رکھا ہے.مجھے تو یہ منظر یوں نظر آتا ہے کہ گویا ایک وسیع وادی میں بھیڑوں کا ایک بھاری گلہ جمع تھا جو اطمینان اور امن کی حالت میں ادھر ادھر چلتا پھرتا تھا مگر اچانک اس گلہ پر چاروں طرف سے درندوں نے حملہ کر دیا اور یہ بھیڑ میں ادھر ادھر اس طرح منتشر اور پراگندہ ہو گئیں کہ آن کی آن میں ساری وادی خالی نظر آنے لگی.لیکن جب ساتھ کی پہاڑی پر چڑھ کر دوسری طرف کی وادی پر نگاہ ڈالی گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ساری بھیڑیں جو چاروں طرف منتشر ہو کر بظاہر ختم شدہ نظر آتی تھیں اس نئی وادی میں پھر اکٹھی ہو کر اپنے گلہ بان کی نگرانی میں جمع ہو چکی ہیں.گویا بجلی کی چمک کی طرح ایک حملہ ہوا اور اس حملہ کے نتیجہ میں ایک ایک بھیٹر منتشر ہو کر نظروں سے غائب ہو گئی لیکن آنکھ جھپکتے ہی یہ نظارہ نظر آیا کہ یہ ساری بھیڑیں ساتھ کی وادی میں پھر اسی طرح جمع ہو کر نئی وادی کی زینت بن رہی ہیں.یہ ایک غیر معمولی نشان تھا جو خدا نے جماعت احمدیہ کی تائید ونصرت میں دکھایا..اس نشان کا پانچواں پہلو یہ ہے کہ اس امتحان کے نتیجہ میں جماعت کے ایک کثیر حصہ نے خدا کے فضل سے اخلاص اور قربانی میں نمایاں ترقی کی ہے.گویا گزشتہ فسادات کے زلزلہ نے ان کو بیدار کر کے پہلے سے بھی زیادہ چوکس اور خدمت دین کے لئے زیادہ مستعد بنا دیا ہے.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسے لوگوں کی تعداد جماعت میں کیا نسبت رکھتی ہے لیکن یقیناً یہ تعداد اتنی معتد بہ ہے کہ ان کی

Page 526

مضامین بشیر ۵۱۴ روحانی اصلاح اور ترقی کا پہلو اتنا نمایاں ہے کہ ہر صاحب علم اور صاحب ذوق شخص اس سے روحانی سرور اور تسکین حاصل کر سکتا ہے اور دراصل خدائی امتحانوں کا یہی منشا ہوا کرتا ہے کہ وہ جاگتے ہوؤں کو پہلے سے زیادہ ہوشیار اور سوتے ہوؤں کو خواب غفلت سے بیدار کر دیں.پس اس جہت سے بھی گزشتہ فسادات اپنے اندر یقیناً ایک نشان کا پہلور کھتے ہیں..اس نشان کا چھٹا پہلو یہ ہے کہ اس امتحان کے نتیجہ میں ایسے لوگ جو اپنی غفلت اور سستی اور دنیا داری کی وجہ سے گویا کچے دھاگوں کا حکم رکھتے تھے.وہ موجودہ ابتلا کے نتیجہ میں ٹوٹ کر جماعت کو اپنے ماؤف وجود سے پاک کر رہے ہیں.ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعتوں کو صرف تعداد سے غرض نہیں ہوتی بلکہ ان کے لئے تعداد کی ترقی سے بھی زیادہ روحانی اور تربیتی پہلو ا ہمیت رکھتا ہے اسی لئے خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ گا ہے گا ہے ایسے امتحانات مہیا کرتا رہتا ہے کہ جس کی وجہ سے کمزور لوگ جو جماعت کے ساتھ چلنے کی طاقت نہیں رکھتے اور دوسروں کے لئے بھی کمزوری کا موجب بن جاتے ہیں ، وہ تھک کر یا گھبرا کر خود بخود علیحدہ ہو جاتے ہیں.یہ گویا ایک قسم کی شاخ تراشی ہوتی ہے جو ہمارا آسمانی باغبان اپنے باغ کے پودوں کی ترقی اور زینت کے لئے کرتا رہتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو اچھے سے اچھا باغ بھی تھوڑے سے عرصہ میں خراب ہو کر تباہ و برباد ہو جاتا ہے.یہ وہ نشانات ہیں جو موجودہ ابتلاء کے تعلق میں ہمارے خدا نے جماعت کی صداقت میں مہیا فرمائے ہیں اور اس جہت سے یہ کتنی خوشی کا مقام ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی تلخ قاشوں میں بھی اس کی محبت اور اس کی شفقت کی اتنی غیر معمولی شیرینی مخفی ہے.وہ بظاہر جماعت کے لئے ایک بھاری امتحان مہیا کرتا ہے اور گویا ایک زلزلہ وار د کر کے بظاہر یہ منظر دکھاتا ہے کہ شاید اب سب کچھ تہ و بالا ہونے لگا ہے مگر اس زلزلہ کے ہنگامے میں بھی خدا کی یہ شیریں آواز سچے مومنوں کے کانوں میں پہنچتی رہتی ہے کہ گھبراؤ نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں اور یہ سارا انتظام تمہاری ہی ترقی کے لئے کیا جارہا ہے.اب غور کرو کہ جب اس امتحان کے تلخ پہلو میں بھی ہمارے خدا کے اتنے نشان موجود ہیں تو کتنا بد بخت ہے وہ انسان جو اس امتحان کے نیک انجام کے متعلق شبہ میں پڑتا اور شک میں مبتلا ہوتا ہے؟ جب خدا نے ہجرت والے تلخ پہلو کے متعلق اپنی سنت اور اپنی قبل از وقت بتائی ہوئی بات کو پورا کیا اور امتحان کے دوران میں بھی اپنی شفقت کا ہاتھ جماعت کے سر پر رکھے رکھا تو کیا وہ اس خالص رحمت کے نشان کو پورا نہیں کرے گا جو ہمارے مقدس اور دائمی مرکز کی واپسی کے متعلق اس کی زبان سے جاری ہو چکا ہے؟ چنانچہ دیکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کتنا شاندار ہے کہ

Page 527

۵۱۵ مضامین بشیر إِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ دو یعنی وہ خدا جس نے اس زمانہ میں تجھ پر قرآنی شریعت کی خدمت واشاعت فرض کی ہے وہ ضرور ضرور تجھے تیرے لوٹنے والی جگہ کی طرف واپس لے جائے گا.“ بہر حال جہاں ہجرت والے الہام پورے ہوئے وہاں ضرور ہے کہ واپسی والے الہام بھی پورے ہوں اور وہ انشاء اللہ ضرور پورے ہو کر رہیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کے راستہ میں روک نہیں بن سکتی اور یہ بھی یا درکھنا چاہیئے کہ قادیان کی واپسی سے چند احمد یوں کا وہاں جا کر بس جانا مراد نہیں ہے کیونکہ یہ بات تو ہمیں خدا کے فضل سے اب بھی حاصل ہے بلکہ اس سے پوری آزادی کے ماحول کے ساتھ قادیان کی واپسی مراد ہے جو انشاء اللہ اپنے وقت پر پوری ہو کر رہے گی.باقی یہ علم صرف خدا کو ہے کہ قادیان کی واپسی والے الہامات کب پورے ہوں گے اور کس صورت میں پورے ہوں گے لیکن جہاں تک میرا قیاس ہے میں خدا کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ ا.وہ انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی زندگی میں پورے ہوں گے اور ۲.انشاء اللہ مرکز ربوہ کا قیام واپسی کے الہاموں کے پورے ہونے کے لئے ایک ظاہری علامت بن جائے گا کیونکہ وہ موجودہ ابتلاء میں جماعت کے امتحان اور اس پر جماعت کی قربانی کی تکمیل کی علامت ہے..اس کے علاوہ میں خیال کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ غُلِبَتِ الرُّومَ في أَدْنَى الْأَرَضِ وَهُمُ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ بھی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان پر چسپاں کیا ہے کی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ انشاء اللہ قادیان کی واپسی میں زیادہ دیر نہیں لگے گی.کیونکہ اس الہام میں س کا لفظ شامل ہے جو مستبقل قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور دراصل قرآنی آیت میں بضع سنین کا لفظ بھی آتا ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَلَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا.بہر حال ربوہ کے مرکز کا قیام اس جہت سے ایک اہم جماعتی غرض کو پورا کرنے والا ہے کہ وہ قادیان کی بحالی کی ظاہری علامت ہے مگر اس کے علاوہ اپنی ذات میں بھی وہ ایک نہایت اہم غرض کا حامل ہے کیونکہ وہ جماعت کا مرکز بننے والا ہے اور کوئی جماعتی تنظیم قائم نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی جماعت پنپ سکتی اور ترقی کر سکتی ہے جب تک کہ اس کا کوئی مخصوص مرکز اور اس مرکز کا ایک مخصوص ماحول نہ ہو اور قادیان سے نکلنے پر جو بظاہر انتشار کی صورت پیدا ہوئی ہے ، اس کے پیش نظر اس بات کی اور بھی

Page 528

مضامین بشیر ۵۱۶ زیادہ ضرورت تھی کہ ایک قائمقام مرکز جلد تر وجود میں آجائے لیکن ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ لاہور میں ہمیں حقیقی مرکزیت میسر نہیں آئی اور نہ آسکتی ہے.دراصل مرکزیت کے لئے چند بنیادی باتوں کا پایا جا نا ضروری ہے جن کے بغیر مرکزیت کا مفہوم ہرگز پورا نہیں ہوتا اور وہ باتیں یہ ہیں :- (الف) ایک امام کا وجود جس کے ہاتھ پر سب جماعت جمع ہوا اور یہ خدا کے فضل سے ہمیں ہر وقت میسر رہا ہے.(ب) امام کے ماتحت ایسے مرکزی اداروں کا وجود جو امام کی ہدایت کے ماتحت جماعت کے مختلف کاموں کو چلانے کے لئے ضروری ہوں اور پھر ان اداروں کے لئے ضروری سامان کا مہیا ہونا.( ج ) جماعت کا ایک مشترکہ پروگرام جس کے ماتحت تمام جماعت کی مساعی ایک واحد مرکزی نقطہ پر مرکوز رہیں.(د) ایک ایسے مخصوص ماحول کا وجود جہاں امام اور سلسلہ کے مرکزی ادارے اکٹھے ہوکر اور اکٹھے رہ کر اپنی مخصوص تربیت اور تعلیم اور تنظیم کا پروگرام چلاسکیں اور مہمانوں کے آنے جانے اور ٹھہر نے اور درس و تدریس کی پوری پوری سہولت موجود ہو اور سلسلہ کے نو جوانوں کا ایک حصہ مرکزی تنظیم اور مرکزی تربیت میں براہ راست نشو و نما پانے کا موقع پاسکے.یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں لاہور میں میسر نہیں آسکتیں اور اس کی وجہ سے جماعت کے نوجوانوں کی تربیت اور مہمانوں کی آمد ورفت کے سلسلہ اور مرکزی اداروں کے تسلی بخش کام پر بھاری اثر پڑ رہا تھا مگر ربوہ کا مرکز انشاء اللہ اس کمی کو پورا کر دے گا اور اس کے بعد ہمیں امید کرنی چاہیئے کہ وہ وقت دور نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ قادیان کی بحالی کا سامان بھی مہیا فرما دے.حق یہ ہے کہ خدائی سلسلوں کے ساتھ مرکزیت ایک لازم وملزوم چیز کا رنگ رکھتی ہے یعنی جس طرح خود خدا کا وجود دنیا کا غیر مرئی مرکزی نقطہ ہے ، اسی طرح اس کی حکیمانہ تقدیر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کی قائم کی ہوئی جماعتوں کا ایک ظاہری مرکز بھی ہو جس میں وہ اپنا مخصوص ماحول اور اپنی مخصوص تنظیم قائم کر کے اپنے مخصوص پروگرام کے مطابق تبلیغ اور تعلیم وتربیت وغیرہ کا کام چلا سکیں.دراصل قادیان سے باہر آنے پر جو سب سے زیادہ نقصان کا پہلو پیدا ہوا ہے ، وہ یہی ہے کہ اپنا مخصوص مرکز اور مخصوص ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے بعض نو جوانوں بلکہ بعض پختہ عمر مگر کمزور طبیعت والے لوگوں میں بھی ایک گونہ انتشار کی کیفیت پیدا ہورہی ہے اور اسی طرح زائرین اور مہمانوں کے انتظام میں بھی مجبور افرق پیدا ہو گیا ہے.یہ سب باتیں ایک مخصوص مرکز کو چاہتی تھیں اور الحمد للہ کہ ربوہ میں ہمیں ایسا مرکز میسر آ رہا ہے.

Page 529

۵۱۷ مضا مین بشیر لیکن ربوہ کا قیام اپنے اندر ایک خطرہ کا پہلو بھی رکھتا ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ غلطی سے درمیانی سیڑھی کو ہی بالائی منزل سمجھنے لگ جاتے ہیں اور یہ اندیشہ ہو سکتا ہے کہ نا عاقبت اندیش ربوہ کے مرکز کی وجہ سے قادیان کی بحالی کے لئے دعاؤں اور جد و جہد میں سست اور غافل نہ ہو جا ئیں.اگر ایسا ہوا تو اس کی مثال ایسی ہوگی کہ گویا کوئی پیاسا گرتا پڑتا ایک چشمہ کے پاس تو پہنچ جائے مگر پھر آگے بڑھ کر اس کا پانی پینے کی بجائے اس کے کنارے کے پاس ہی بیٹھ کر وقت گزار دے.یقیناً قادیان ہی ہمارا مستقل اور دائگی مرکز ہے اور اس کے ساتھ جماعت کی ترقی ازل سے مقدر ہو چکی ہے.اس لئے اِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ والے الہام میں خدا نے قادیان کی واپسی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض و غایت کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے اور گویا ان الفاظ میں خدا تعالیٰ نے ایک رنگ میں قسم کھائی ہے کہ ہمیں تیری بعثت کی قسم ہے جو خدمت قرآن کے ساتھ وابستہ ہے کہ ہم تجھے پھر اس مرکز کی طرف واپس لے جائیں گے جو احمدیت کی ترقی اور احیاء شریعت قرآنیہ کے لئے ازل سے مقدر ہو چکا ہے.پس اے ربوہ ! جس کے نام میں بلندی کی نیک فال ملحوظ رکھی گئی ہے ہم دو ہرے جذبات کے ساتھ تیرا خیر مقدم کرتے ہیں.ا.تو وہ غیر ذی زرع وادی ہے جس میں احمدیت اور اشاعت اسلام کے پودے نے اس وقت تک جب تک کہ خدا کو منظور ہونشو و نما پانا ہے اور ہمارا تجر بہ بتا تا ہے کہ خدا کی یہی سنت ہے کہ جہاں اس نے دنیوی پودوں کے لئے زرخیز اور شاداب زمینوں کو بہترین گردانا ہے وہاں روحانی پودوں کے لئے اس کی ازلی حکمت نے یہی فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ کم از کم ابتداء میں بظاہر بنجر وادیوں میں زیادہ پروان چڑھتے ہیں.۲.تو وہ صبح کا ستارہ ہے جس کے پیچھے ( بعض درمیانی امتحانوں کے باوجود ) خدا کے چمکتے ہوئے سورج کا طلوع مقدر ہے کیونکہ تو ہمارے امتحانوں کا وہ پُر اسرار مرحلہ ہے جس کے پیچھے قادیان کی بحالی کا راز مخفی رکھا گیا ہے.پس گو ہم تیری ضرورت اور تیری قدر کو پہچانتے ہیں مگر ہمارے دل تیرے پیچھے آنے والی بھاری رحمت کے لئے بیقرار ہیں کیونکہ جیسا کہ ہمارے خدا نے فرمایا ہے وہی ہماری تقدیر کا مستقل نقش ہے.وَآخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ( مطبوعه الفضل ۱۵ر اپریل ۱۹۴۹ء )

Page 530

مضامین بشیر ۵۱۸ سیرت خاتم النبین حصہ سوم (جزاؤل) اس کتاب کے پہلے دو حصے عرصہ ہوا شائع ہو چکے ہیں اور اب یہ تیسرا حصہ شائع ہوا ہے جس میں غزوہ بنو قریظہ کے بعد کے حالات سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تبلیغی خطوط کے حالات درج ہیں جو آپ نے صلح حدیبیہ کے بعد مختلف بادشاہوں کے نام ارسال فرمائے اور اس تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک مکتوب کا بلاک فوٹو بھی درج ہے ( بالمقابل صفحہ ۲۰۲ ) جو کہ حضور نے مقوقس مصر کے نام ارسال فرمایا تھا.جیسا کہ کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوگا موجودہ تصنیف صرف سیرت خاتم النبین حصہ سوم کی جز واول پر مشتمل ہے باقی ماندہ جز وانشاء اللہ بعد میں شائع ہوگی.کتاب کا سائز ۲۰/۸×۲۶ ہے اور حجم ۲۱۶ صفحات پر مشتمل ہے.قیمت با وجو د موجودہ گرانی کے غیر مجلداڑھائی روپے اور مجلد ساڑھے تین روپے رکھی گئی ہے.ملنے کا پتہ حسب ذیل ہے.ا.ناظر صاحب تالیف و تصنیف ربوہ ڈاک خانہ چنیوٹ ۲.منیجر بک ڈپو تالیف و تصنیف ۸ ٹمپل روڈ لاہور ( مطبوعه الفضل ۲۷ / اپریل ۱۹۴۹ء)

Page 531

۵۱۹ مضامین بشیر درخواست دعا میرا نواسہ محمود احمد سلمہ جو میاں محمد احمد خان کا لڑکا ہے ، عرصہ دو ماہ سے ٹائیفائیڈ سے بیمار چلا آتا ہے.درمیان میں بخار اترنے کے بعد پھر دوبارہ شروع ہو گیا ہے.احباب اس کی صحت کے لئے دعا فرمائیں.( مطبوعه الفضل ۳ رمئی ۱۹۴۹ء)

Page 532

مضامین بشیر ۵۲۰ سب ایک جیسے نہیں جو مظالم ۱۹۴۰ء کے فسادات میں مشرقی پنجاب کے سکھوں نے مسلمانوں پر کئے وہ پنجاب کی تاریخ کا ایک کھلا ہوا خونی ورق ہیں.جس کی تفصیل میں اس جگہ جانے کی ضرورت نہیں لیکن ہر قوم کے سارے افراد ایک جیسے نہیں ہوا کرتے اور جس طرح نیک لوگوں کی جماعت میں کبھی کوئی بد بھی پیدا ہو جاتا ہے ، اسی طرح ظالم لوگوں کے گروہ میں کبھی کبھی کوئی شریف آدمی نکل آتا ہے.چنانچہ حال ہی میں مجھے قادیان کے ایک قریب کے گاؤں کے سکھ زمیندار کی طرف سے یہ خط ملا ہے جو میں نام ظاہر کرنے کے بغیر درج ذیل کرتا ہوں : بخدمت حضرت میاں صاحب جی آداب عرض ہے خدا آپ کو خوش رکھے ہم سب خاندان آپ کے سب خاندان کو بہت بہت رات دن یاد کرتے ہیں.پر ماتما وہ دن جلد لائے کہ ہم لوگ پھر آپ کے درشن کریں.آپ کا خط مل گیا تھا ( یہ خط میں نے ان کے پہلے خط کے جواب میں لکھا تھا) آپ کی مہربانی کے ہم بہت مشکور ہیں.ہم اپنے دونوں چاہ میں بجلی کی موٹر میں لگا رہے ہیں.موٹریں تو لگا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ آپ کو بھی یاد کرتے ہیں کہ آپ اگر یہاں ہوتے تو پھر آپ کا بھی مشورہ حاصل کر کے فائدہ حاصل کرتے.اچھا پر ما تما جلد یہ مصیبتوں کے دن دور کر دے اور ہم پھر پہلے کی طرح ہنسی خوشی ملیں.میرے بچے بچیاں بہت یاد کر تے ہیں اور جس دن آپ کا خط آیا ہم سب خاندان کو اس دن عید کے چاند کی طرح خوشی ہوئی اور سب شوق سے سنتے اور پڑھتے تھے.خدا آپ کو جلد لائے تا کہ ہم لوگ درشن کر سکیں اور ہم کو آپ دعاؤں میں بھی یا درکھیں کہ پر ماتما ہمارے سب کام ٹھیک ٹھیک کر دے.ہم لوگ آپ کے احسانوں کے بہت مشکور ہیں.آپ کا تابعدار 66 یہ لوگ تو خیر شریف تھے اور تعلقات رکھتے تھے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جنون کا ابتدائی طوفان گزرجانے کے بعد بعض اشد مخالفوں کے دلوں میں بھی کچھ بے چینی اور ردعمل والی کیفیت پیدا ہو رہی

Page 533

۵۲۱ مضامین بشیر ہے.چنانچہ قادیان میں ایک ڈاکٹر ہے جو ابتداء سے جماعت احمد یہ اور ہمارے خاندان کی مخالفت میں ممتاز رہا ہے.اس کے متعلق قادیان سے خط آیا ہے کہ جن ایام میں ماسٹر تارا سنگھ گرفتار کئے گئے ، وہ ہمارے کسی دوست سے ملا اور میرے اس مضمون کا ذکر کر کے جو خالصہ ہوشیار باش“ کے عنوان کے ماتحت میں نے ۱۹۴۷ء کے شروع میں لکھا تھا، کہا کہ افسوس ہے اس وقت ہم نے ان باتوں کو نہیں سمجھا اب پتہ لگ رہا ہے کہ جو مشورہ اس مضمون میں ہمیں دیا گیا تھا وہی درست تھا.اس کا اشارہ ان ہند و سکھ اختلافات کی طرف تھا جو آج کل مشرقی پنجاب میں زور پکڑ رہے ہیں اور عجیب بات ہے کہ کچھ عرصہ ہوا میں نے اسی ڈاکٹر کو خواب میں دیکھا کہ میں قادیان گیا ہوں اور وہ مجھے دفا تر صدرانجمن احمدیہ کے قریب ملا ہے اور بہت دبلا ہو رہا ہے (حالانکہ ویسے وہ ایک بہت فربہ انسان ہے ) اور مجھے بظا ہر ادب کے ساتھ مل کر کہتا ہے کہ کیا آپ کی حفاظت کے لئے میں کوئی اسکورٹ لاؤں؟ میں نے جواب دیا کہ مجھے ضرورت نہیں آپ تکلیف نہ کریں مگر اس وقت میرا دل محسوس کرتا تھا کہ گو یہ بظا ہر ادب سے مل رہا ہے مگر اس کا دل اب بھی پوری طرح صاف نہیں ہے.واللہ اعلم ( مطبوعه الفضل ۴ رمئی ۱۹۴۹ء )

Page 534

مضامین بشیر ۵۲۲ کچے دھا گے کس طرح ٹوٹتے ہیں اس نازک دور میں مقامی جماعتوں کا فرض الفضل کے ربوہ نمبر میں میرا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ موجودہ امتحان کے نتیجہ میں جہاں بہت سے لوگوں نے خدا کے فضل سے ایمان اور اخلاص اور محبت اور قربانی میں ترقی کی ہے وہاں بعض لوگ کچے دھا گے ثابت ہو کر ٹوٹ بھی گئے ہیں.اس پر بعض دوستوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ کچے دھاگوں کے ٹوٹنے سے کیا مراد ہے اور جب کہ جماعت ایک بٹے ہوئے رسہ کا رنگ رکھتی ہے تو پھر اس رسہ کے دھاگوں پر الگ الگ بوجھ پڑنا اور ان دھاگوں کا ٹوٹنا جب کہ خودرسہ سلامت ہے کیا معنی رکھتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوال کرنے والے دوستوں نے اس معاملہ کی حقیقت پر غور نہیں کیا ورنہ یہ بات بالکل صاف ہے.بے شک جماعت ایک رسہ کا حکم رکھتی ہے اور بے شک افراد جماعت ان دھاگوں کا حکم رکھتے ہیں جن کے ملنے سے رسہ بنتا ہے مگر پھر بھی خدائی قانون اسی طرح پر واقع ہوا ہے کہ امتحانوں اور ابتلاؤں کے غیر معمولی دباؤ کے وقت جہاں رسے پر مجموعی بوجھ پڑتا ہے وہاں ہر دھا گے پر بھی لازماً اس بوجھ اور دباؤ کا اثر پہنچتا ہے جس کا طبعی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ دباؤ کے وقت کمزور دھا گے ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں حالانکہ رسہ بحیثیت مجموعی سلامت رہتا ہے.دراصل اس قسم کے غیر معمولی حالات میں وہی دھا گے ٹوٹنے سے بچتے ہیں جو یا تو اپنی ذات میں غیر معمولی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اور اس لئے وہ ہر دباؤ کو برداشت کرنے کے بعد بھی سلامت رہتے ہیں اور یا وہ دوسرے دھاگوں کے ساتھ اس طرح لیٹے ہوئے ہوتے ہیں کہ اپنی ذات میں کمزور ہونے کے باوجو د دوسروں کا سہارا ان کے بچاؤ کا ذریعہ بن جاتا ہے.مثلاً اگر ایک شخص اپنی ذات میں کمزور ہے اور اتنا پختہ ایمان نہیں رکھتا جو ابتلاء کے وقت میں اکیلا سلامت رہنے کے قابل ہو مگر اس کے خاندان یا اس کی سوسائٹی کے دوسرے افراد جن سے وہ گھرا ہوا ہے پختہ اور مضبوط ایمان کے لوگ ہیں تو ایسا شخص اپنی ذات میں کمزور ہونے کے باوجود اپنے ماحول کی مضبوطی کی وجہ سے امتحان کے

Page 535

۵۲۳ مضامین بشیر بوجھ کو برداشت کر لے گا لیکن اگر نہ تو وہ خود اپنی ذات میں مضبوط ہے اور نہ ہی اپنے خاندان یا سوسائٹی یا مقامی جماعت کے لحاظ سے مضبوط ماحول میں گھرا ہوا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ابتلا کے بوجھ اور دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے ٹوٹ جائے گا.اس کی مثال یوں سمجھنی چاہیئے کہ بہت سے دھاگوں کا ایک مجموعہ ہو اور اس مجموعہ کے دونوں کناروں کو مٹھے کی صورت میں پکڑ کر زور کے ساتھ باہر کی طرف کھینچا جائے تو لازماً ایسے وقت میں وہ دھا گے جو اپنی ذات میں کمزور ہیں اور دوسرے دھاگوں کے ساتھ ان کا اتصال بھی مضبوط نہیں وہ رسہ کے بحیثیت مجموعی سلامت رہنے کے باوجود تراخ تڑاخ کر کے ٹوٹنا شروع ہو جائیں گے اور ایسی صورت میں صرف وہی دھا گے بچیں گے جو یا تو اپنی ذات میں غیر معمولی طور پر مضبوط ہیں اور یا دوسرے دھاگوں کے ساتھ اس طرح لیٹے ہوئے ہیں کہ اس اتصال و اتحاد نے ان کی ذاتی کمزوری کو ނ دبا رکھا ہے.بعینہ یہی حال موجودہ امتحان کے دور میں نظر آ رہا ہے کہ جہاں مضبوط دھا گے خدا کے فضل.سلامت ہیں بلکہ بعض صورتوں میں دباؤ اور کھچاوٹ کے چکر نے ان کی طاقت کو اور بھی زیادہ مضبوط کر دیا ہے اور اسی طرح وہ دھاگے بھی سلامت ہیں جو اپنی ذات میں تو مضبوط نہیں مگر دوسرے دھاگوں کے ساتھ مل کر ایک رسی کی صورت اختیار کر چکے ہیں مگر ان کے مقابل پر وہ دھاگے لازماً ٹوٹ رہے ہیں جو نہ تو اپنی ذات میں مضبوط ہیں اور نہ دوسرے دھاگوں کے ساتھ مل کر بالواسطہ مضبوطی اختیار کر چکے ہیں.اندریں حالات مقامی جماعتوں اور احمدی خاندانوں کے سر بر آوردہ لوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی رکھیں کہ کمزور طبیعت کے لوگ یا تو ایمان اور اخلاص میں زیادہ پختہ ہو کر اپنی ذات میں مضبوط اور محفوظ ہو جائیں اور یا كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ کے حکم کے ماتحت ایسے ماحول کے ساتھ وابستہ رہیں جو انہیں کم از کم بالواسطہ طور پر مضبوط اور محفوظ کر دے.یہ امتحان بہر حال عارضی ہے اور خدا نے چاہا تو جلد گزرجائے گا اور شاید اس کے گذرنے کے آثار ابھی سے دور کے افق میں نظر آرہے ہیں.مگر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس عظیم الشان زلزلہ کے وقت میں ڈگمگانے اور لغزش کھانے سے بچے رہے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ بھی جو خود تو اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے مگران کے عزیزوں اور دوستوں نے ان کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے انہیں سہارا دے رکھا ہے اور سب سے بڑھ کر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو نہ صرف خود گرنے سے محفوظ رہے ہیں بلکہ اس طوفانِ عظیم میں دوسروں کو بھی سہارا دے کر بیچارہے ہیں.مگر افسوس صد افسوس ان لوگوں پر جو اس امتحان کے وقت

Page 536

مضامین بشیر ۵۲۴ میں گر گئے اور گر رہے ہیں اور نہ تو کوئی اندرونی طاقت انہیں بچاسکی اور نہ کوئی بیرونی سہارا ہی انہیں میسر آیا.ایسے لوگ غزوہ تبوک کے منافقوں کی طرح ہیں جو اس نازک اور بھاری امتحان کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی تباہی کا یقین کر چکے تھے.مگر پھر آپ کے سلامت واپس آنے پر ایک ایک دو دو کر کے اپنی شرمندگی کو چھپاتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یقین دلانا چاہتے کہ ہم اس سارے عرصہ میں ایسے ہی مخلص اور جاں مار رہے ہیں.اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ یہ لوگ بھی جماعت کی شاندار بحالی پر پھر ہماری طرف لوٹیں گے اور یہ یقین دلانا چاہیں گے کہ وہ تو ہر حال میں جماعت کے مخلص اور فدائی ہیں.اس وقت کیا ہوگا ؟ اسے تو صرف خدا ہی جانتا ہے یا کسی قدر وہ لوگ جانتے ہیں جو علم میں راسخ ہیں ( کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں ان باتوں کے متعلق بھی کافی اشارے موجود ہیں ) مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا کے دربار میں اس جان نثار احمدی کی سر بلندی کو کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا جو عسر یسر ہر دو میں خدا کا وفادار بندہ رہا اور کسی حالت میں بھی اس نے اپنے ایمان اور اخلاص کو کمزوری یا نفاق کی گندگی سے ملوث نہیں ہونے دیا.میں خدا کے فضل سے اس مضمون پر بہت کچھ لکھ سکتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے الہامات جو ان حوادث اور ان کے نتائج سے تعلق رکھتے ہیں، میری نظر میں آئینہ کی طرح صاف ہیں مگر ساری باتیں وقت سے پہلے ظاہر نہیں کی جاسکتیں اور نہ ہی خدا کی اٹل تقدیر کو کوئی قبل از وقت انکشاف بدلنے کی طاقت رکھتا ہے.ولا حول ولاقوة الا بالله وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين - ( مطبوعه الفضل ۵ رمئی ۱۹۴۹ء)

Page 537

۵۲۵ مضامین بشیر قادیان کے تازہ حالات قادیان میں الفضل“ کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے قادیان کے خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ خدا کے فضل سے ہمارے سب دوست خیریت سے ہیں اور اپنے دینی پروگرام میں مصروف رہتے ہیں.آہستہ آہستہ نقل و حرکت کی سہولت پیدا ہو رہی ہے.چنانچہ ہمارے بعض دوست بعض ضروری کاموں کے تعلق میں متعدد دفعہ بٹالہ جاچکے ہیں اور ایک دفعہ گورداسپور بھی ہو آئے ہیں اور واپسی پر راستہ میں دھار یوال بھی ٹھہرے تھے.ایسے موقعوں پر وہ ہمیشہ احتیاطا چار چار پانچ پانچ کی پارٹی میں جاتے ہیں اور جلد واپس آ جاتے ہیں.لیکن نقل و حرکت کی ظاہری سہولت کے باوجود بعض پہلوؤں کے لحاظ سے تکلیف بڑھ گئی ہے اور یہ پہلو نقل وحرکت کی سہولت سے بہت زیادہ اہم ہیں.مثلاً قادیان کی تازہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۶ اپریل ۱۹۴۹ء سے الفضل کا کوئی پر چہ قادیان نہیں پہنچا.شروع شروع میں خیال کیا گیا تھا کہ شاید یہ ڈاک کی خرابی کی وجہ سے ہو گا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ مشرقی پنجاب کی حکومت نے الفضل کا داخلہ بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے قادیان کے دوست حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات اور سلسلہ کی دینی تحریکات اور سلسلہ کے مشنوں کی تبلیغی رپورٹوں اور دیگر جماعتی خبروں سے گویا بالکل کٹ گئے ہیں.اس کے خلاف قادیان کے دوستوں اور لاہور کے دفتر کی طرف سے احتجاج کیا جا رہا ہے.میں نے جلسہ ربوہ کے حالات کسی قدر تفصیل کے ساتھ مرتب کر کے قادیان کے دوستوں کو بھجوائے تھے جو وہاں کے سب درویشوں کو جمع کر کے سنائے گئے اور اطلاع ملی ہے کہ دوستوں نے یہ حالات انتہائی شوق اور رقت کے ساتھ سنے.جیسا کہ پہلے اعلان کیا جا چکا ہے قادیان میں متعدد غیر مسلم معززین حالات دیکھنے کے لئے جاتے رہتے ہیں اور ہمارے دوستوں کے ساتھ مل کر ان کے حالات دریافت کرتے ہیں.اس ضمن میں ہمارے دوستوں کو اسلام کی تبلیغ کا بھی عمدہ موقع مل جاتا ہے.گذشتہ ہفتہ میں ایسے غیر مسلم زائرین کی تعدا د۲ ۳۸ تھی.جن میں سے اکثر بہت اچھا اثر لے کر گئے.( مطبوعه الفضل ۱۰ رمئی ۱۹۴۹ء )

Page 538

مضامین بشیر ۵۲۶ قادیان کے درویشوں کی امداد میں نے الفضل کے ذریعہ مختلف موقعوں پر قادیان کے غریب درویشوں یا ان کے پاکستان میں رہنے والے غریب رشتہ داروں کے لئے امداد کی اپیل کی ہے.جس پر کئی دوستوں نے توجہ دے کر ثواب حاصل کیا ہے.اب اسی تعلق میں مجھے ذیل کی چار رقمیں پہنچی ہیں.اللہ تعالیٰ ان رقموں کے بھیجوانے والوں کو جزائے خیر عطا کرے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.آمین.ا.از اہلیہ صاحبہ چوہدری شاہنواز صاحب کلفٹن روڈ کراچی./۳۰ روپے ۲.اقبال بیگم صاحبہ جو چوہدری بشیر محمد صاحب پسر چوہدری فقیر محمد صاحب ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پولیس کی اہلیہ ہیں.۲۰ روپے ۱۰ شلنگ.نذیر احمد صاحب ڈار دار السلام مشرقی افریقہ اہلیہ صاحبہ چوہدری فضل کریم صاحب ہیڈ ماسٹر بورے والا ضلع ملتان./ ۲۰ روپے مطبوعه الفضل ۱۳ مئی ۱۹۴۹ء)

Page 539

۵۲۷ مضامین بشیر مساوات اسلامی پر ایک مختصر نوٹ از سيرة خاتم النبیین حصہ سوم جز واول اس جگہ ایک مختصر سا نوٹ اسلامی مساوات کے متعلق سُپر قلم کرنا بے موقع نہ ہوگا کیونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ جس کے متعلق اکثر لوگوں میں غلط فہمی پائی جاتی ہے یعنی جہاں ایک طبقہ نے اسلامی مساوات کے یہ معنی سمجھ رکھے ہیں کہ اسلام میں سب چھوٹے بڑے ہر جہت سے برابر ہیں اور اسلام کسی صورت میں کسی شخص کے امتیاز یا بڑائی کو تسلیم نہیں کرتا اور تمام امتیازات کو مٹا کر ہر شخص کو ہر لحاظ سے ایک لیول پر کھڑا کرنا چاہتا ہے.وہاں ایک دوسرے طبقہ نے اسلام میں بھی اسی رنگ کے ناگوار طبقے بنا رکھے ہیں جو اکثر دوسری قوموں میں پائے جاتے ہیں اور ان طبقات کے علیحدہ علیحدہ حقوق قرار دے دیئے گئے ہیں بلکہ ان طبقات کے اندر کی خلیج کو وسیع تر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.سو جاننا چاہیئے کہ صحیح اسلامی تعلیم کی رو سے یہ دونوں خیالات افراط و تفریط کے طریق پر غلط اور نا درست ہیں بلکہ اصل اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جہاں تک حقوق اور ذرائع ترقی کے حصول کا سوال ہے سب لوگ برابر ہیں اور کسی فرد یا کسی جماعت کو کسی دوسرے فرد یا کسی دوسری جماعت پر کسی رنگ میں فضیلت حاصل نہیں اور اس جہت سے اسلام میں قطعا کوئی درجے یا طبقے پائے نہیں جاتے بلکہ پوری پوری مساوات ہے لیکن دوسری طرف اگر کوئی شخص کسی جائز وجہ سے کوئی دینی یا دنیوی ترقی اور بڑائی حاصل کر لیتا ہے تو حقوق کے معاملہ کو الگ رکھتے ہوئے جس میں بہر حال سب برابر ہیں ، اسلام عام تعلقات میں ایسے شخص کی حاصل شدہ بڑائی اور ترقی کو تسلیم کرتا ہے اور اسے اُس کے جائز مرتبہ سے گرا کر ظلم اور حق تلفی کے طریق کو اختیار نہیں کرتا.خلاصہ یہ کہ جہاں ایک طرف اسلام نے سب بنی نوع آدم کو حقوق اور ذرائع ترقی کے حصول کے معاملہ میں ایک لیول یعنی ایک سطح پر کھڑا کیا ہے اور کسی نا واجب نسلی اور خاندانی یا انفرادی امتیاز کو تسلیم نہیں کیا وہاں افراد اور قوموں کی حاصل شدہ بڑائی اور ترقی کو جبر و تشدد کے رنگ میں مٹایا بھی نہیں اور انہیں ان کی محنت یا خوش بختی کے ثمرہ سے محروم نہیں کیا.البتہ اس صورت میں گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے کے لئے مؤثر تدابیر ضرور اختیار کی ہیں اور یہی وہ اعلیٰ اور وسطی طریق ہے جسے نظر انداز کر کے دنیا آج کل مختلف قسم کے فتنوں کا شکار بن رہی ہے اور اس زمانہ کی سرمایہ

Page 540

مضامین بشیر ۵۲۸ داری اور اشتراکیت انہیں فتنوں سے پیدا شدہ انتہا ئیں ہیں جن میں سے ایک میں افراط کی صورت پیدا ہوگئی ہے اور دوسری میں تفریط کی.اسلامی مساوات کا اصولی نظریہ اسلامی مساوات کے نظریہ کا یہ نچوڑ اور خلاصہ چند قرآنی آیات اور چند احادیث نبوی میں آجاتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً 1 د یعنی اے لوگو! تم آپس کے معاملات میں خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور اس سے ڈرتے رہو جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اس ایک جان سے اس نے اس کا جوڑا بنایا اور پھر اس جوڑے سے اس نے دنیا میں کثیر التعداد مرد اور عورت پھیلا دیئے.“ اس قرآنی آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو اس ابدی حقیقت کی طرف توجہ دلا کر کہ وہ سب ایک ہی باپ کی اولاد اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں، دنیا میں صحیح مساوات کی بنیاد قائم کر دی ہے اور اس اصول کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بعد کے حالات کے نتیجے میں مختلف انسانوں اور مختلف قوموں اور مختلف طبقات میں کتنا ہی فرق پیدا ہو جائے انہیں آپس کے معاملات میں اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کہ بہر حال اپنی اصل کے لحاظ سے وہ ایک ہی باپ کی نسل ہیں.کیا اگر ایک باپ کے بیٹوں میں سے بعض بچے دوسروں کی نسبت زیادہ دولت یا زیادہ طاقت یا زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر لیں اور دوسرے ان باتوں میں نسبتاً پسماندہ رہیں تو وہ اس فرق کی وجہ سے بھائی بھائی نہیں رہتے اور کوئی غیر چیز بن جاتے ہیں؟ ہر گز نہیں ہر گز نہیں.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَلَى أن يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ يَا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمُ مِّن ذَكَرٍ وَ أُنثَى 12 وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ الْقُكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ - IA د یعنی سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں...سواے مسلمانو ! ایسا نہیں ہونا

Page 541

۵۲۹ مضامین بشیر چاہیئے کہ تم میں سے ایک فریق دوسرے فریق پر ہنسی اڑائے اور اسے ذلیل خیال کرے کیونکہ (جب سب لوگ اپنی اصل کے لحاظ سے برابر ہیں اور سب کے لئے ترقی کے رستے یکساں کھلے ہیں ) ہو سکتا ہے کہ وہ فرق جس پر تم آج اڑاتے ہو کل کو تم سے آگے نکل جائے یا ہوسکتا ہے کہ وہ اب بھی اپنے بعض اوصاف حمیدہ کے لحاظ سے تم سے بہتر ہو...اے لوگو اچھی طرح سُن لو کہ ہم نے تم سب کو مرد و عورت کے جوڑے سے پیدا کیا ہے اور بیشک ہم نے تم میں قوموں اور قبیلوں کی تقسیم قائم کی ہے مگر یاد رکھو کہ یہ تقسیم اس غرض سے ہر گز نہیں کہ تم ایک دوسرے کے مقابل پر تفاخر اور بڑائی سے کام لو بلکہ یہ تقسیم صرف اس غرض سے ہے کہ تمہارے درمیان آپس میں شناخت اور تعارف کا ذریعہ قائم رہے ورنہ خدا کے نزدیک تم میں سے بڑا اور معزز وہی ہے جو ذاتی طور پر زیادہ اوصاف حمیدہ کا مالک اور زیادہ متقی اور زیادہ پر ہیز گار ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ قانون جو وہ تمہارے سامنے بیان کر رہا ہے بڑی دوراندیشی اور بڑی حکمت پر مبنی ہے کیونکہ وہ علیم وخبیر خدا ہے.“ اسی طرح حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: يا ايها الناس الا ان ربكم واحِدٌ وانا اباكم واحد الالافضل لِعَرَبِي عَلَى اعجمي ولا لعجمي على عربي ولا لا حَمَر عَلَى اسْوَدَ ولا اسود على احْمَرَ الا بالتقوى ابلَغُتُ قالوا قد بلغ رسُول الله صلى الله عليه وسلم _ د یعنی جو خطبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر قربانی کے درمیانی دن میں منی کے مقام پر دیا اس میں آپ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا اے لوگو تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک تھا.پس ہوشیار ہو کر سُن لو کہ عربوں کو عجمیوں پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ عجمیوں کو عربیوں پر کوئی فضیلت ہے اسی طرح سرخ و سفید رنگ والے لوگوں کو کالے رنگ والے لوگوں پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کالے لوگوں کو گورے لوگوں پر کوئی فضیلت ہے.ہاں جو بھی ان میں سے اپنی ذاتی نیکی سے آگے نکل جائے وہی افضل ہے.لوگو! بتاؤ کیا میں نے تمہیں خدا کا کلام پہنچا دیا ہے؟ سب نے عرض کیا بے شک خدا کے رسول نے اپنی رسالت پہنچا دیا ہے.66

Page 542

مضامین بشیر ۵۳۰ پھر فرماتے ہیں : ان الله عز وجل قَدْاذْهَبَ عَنْكُمُ عُبَيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالأَ بَاءِ مَؤْمِنَّ تَقِي وَفَاجِرُ شَقِي وَالنَّاسِ بَمُوادَمَ وَادَمُ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ د و یعنی اے مسلمانو! خدا تعالیٰ نے ایمان کے ذریعہ تم میں سے زمانہ جاہلیت کے بیجا غرور اور آباؤ اجداد کی وجہ سے بے جا تفاخر کرنے کی مرض کو دور کر دیا ہے کیونکہ اسلامی پیما نہ صرف یہ ہے کہ ایک شخص خدا کو ماننے والا اور نیک عمل بجالانے والا ہوتا ہے اور دوسرا بد عمل ہوتا ہے اور اچھے اوصاف سے محروم ، اور یا درکھو کہ سب لوگ آدم کی نسل سے ہیں اور آم مٹی سے پیدا ہوا تھا.“ پھر فرماتے ہیں : النَّاسُ مَعَادَن خِيَارُهُم فِى الجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا - دد یعنی دنیا میں لوگ بھی معدنیات کی طرح ہیں جو ایک ہی قسم کے عناصر ہوتے ہوئے اور ایک ہی قسم کی مٹی کے نیچے دبے ہوئے آہستہ آہستہ مختلف رنگ اور مختلف اوصاف اختیار کر لیتے ہیں مگر سُن لو کہ ترقی اور بڑائی کی جو معروف علامتیں اسلام سے پہلے سمجھی جاتی تھیں (یعنی عقل و دانش ، سخاوت و شجاعت طاقت واثر و غیره) وہی اب بھی قائم ہیں.اور جو لوگ ان اوصاف کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں بڑے سمجھے جاتے تھے ، وہ اب اسلام میں بھی بڑے سمجھے جائیں گے ( کیونکہ اسلام کسی شخص کی حاصل شدہ بڑائی کو چھینتا نہیں ) مگر شرط یہ ہے کہ وہ علم دین اور ذاتی نیکی اختیار کر لیں.“ اوپر کے حوالوں سے جو اسلامی مساوات کے نظریہ کے متعلق اصولی رنگ رکھتے ہیں مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں : ا.یہ کہ اپنی اصل کے لحاظ سے سب لوگ ایک باپ کی نسلی اور ایک درخت کی شاخیں ہیں اور کسی فرد کو دوسرے فرد پر اور کسی قوم کو دوسری قوم پر محض نسلی فرق کی بناء پر کوئی امتیاز حاصل نہیں.۲.یہ کہ مسلمان ایک نبی کی امت اور ایک ایمان کے حامل ہونے کی وجہ سے آپس میں بھائی بھائی ہیں..یہ کہ زمین کے اندر کی معدنیات کی طرح مختلف قومیں اور مختلف افراد ایک دوسرے سے مختلف اوصاف اختیار کر سکتے ہیں اور کر لیتے ہیں مگر ان کی وجہ سے کسی فرد کو دوسرے فرد پر اور کسی قوم کو

Page 543

۵۳۱ مضامین بشیر دوسری قوم پر بڑائی اور فخر کرنے کا حق حاصل نہیں ہے..یہ کہ اسلام سے قبل جو اوصاف حمیدہ قومی یا انفرادی بڑائی کی بنیاد سمجھے جاتے تھے ، مثلاً عقل و دانش ، سخاوت و شجاعت ، طاقت واثر وغیرہ وہ اسلام میں بھی بدستور قائم ہیں مگر اسلام نے ان پر اس شرط کا اضافہ کر دیا ہے کہ عام معروف اوصاف کے علاوہ دینداری کا وصف پایا جانا بھی ضروری ہے.۵.یہ کہ اسلام نے سب سے بڑا وصف دینداری اور تقویٰ اللہ کو قرار دیا ہے کیونکہ یہ وصف خدائے اسلام کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اور جو شخص اس وصف میں ممتاز ہوگا وہی دوسروں پر ممتاز سمجھا جائے گا.عام تعلقات میں مراتب کو ملحوظ رکھنے کی تلقین ( مطبوعه الفضل ۱۵ رمئی ۱۹۴۹ء) اسلامی مساوات کے متعلق یہ بنیادی نظریہ بیان کرنے کے بعد اسلام اس سوال کو لیتا ہے کہ جب اصل کے لحاظ سے ایک ہونے کے باوجود مختلف لوگوں کے حالات اور اوصاف مختلف ہو سکتے ہیں تو اس ناگزیر اختلاف کی موجودگی میں مختلف مدارج کے لوگوں کے متعلق عام تمدنی معاملات میں کیا رویہ ہونا چاہیئے.انْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِ لَهُمْ - ۲۲ د یعنی اے مسلمانو ! تمہارے لئے ضروری ہے کہ آپس کے معاملات میں لوگوں کے معروف مرتبوں کا خیال رکھا کرو اور ان کے حالات اور درجہ کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کیا کرو.“ اس حدیث کا منشاء یہ ہے کہ جو لوگ کسی دینی یا دنیوی بناء پر کوئی رتبہ یا بڑائی حاصل کر لیں تو عام معاملات میں ان کے مرتبہ کا خیال رکھنا اور ان کے ساتھ واجبی احترام سے پیش آنا اسلامی اخلاق کا حصہ ہے.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بات ہے کہ جب یہودی قبیلہ بنوقریظہ کے فیصلہ کے لئے سعد بن معاذ انصاری قبیلہ اوس کے رئیس موقع پر تشریف لے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آتا دیکھ کر صحابہ سے فرمایا: قُومُوا إِلَى سَيِّدِ كُم 66 یعنی اپنے رئیس کے اکرام اور امداد کے لئے کھڑے ہو جاؤ.“ اسی طرح قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت موسی کو پیغام رسالت

Page 544

مضامین بشیر ۵۳۲ دے کر فرعون کی طرف بھیجا تو حضرت موسی کو تاکید فرمائی کہ ( چونکہ فرعون کو اس وقت ملک میں رتبہ حاصل ہے اس لئے ) اس کے ساتھ نرمی اور ادب کے طریق پر بات کرنا.عدالتی امور میں مکمل مساوات لیکن اس کے مقابل پر عدالتی اور قضائی حقوق کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور کن شاندار الفاظ میں فرماتے ہیں کہ : إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ أَنَّهُمْ كَانُو يُقِيمُونَ الْحَدَّ عَلَى الْوَضِيع وَيَتْرُكُونُ الشَّرِيفَ وَالَّذِى نَفْسِي بِيَدِهِ لَو فَاطِمَةُ فَعَلَتْ ذَالِكَ لَقَطَعُتُ يَدَهَا - ۲۴ یعنی تم سے پہلے اس بات نے کئی قوموں کو ہلاک کر دیا کہ جب ان میں سے کوئی چھوٹا آدمی جرم کرتا تھا تو وہ اسے سزا دیتے تھے اور جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تھا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے.سو ا چھی طرح کان کھول کر سن لو کہ مجھے اس پاک ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میری لڑکی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو میں اسلامی طریق پر اس کے بھی ہاتھ کاٹوں گا.“ اللہ اللہ ! کیسے زور دار الفاظ میں اور کس جلال کے ساتھ اسلامی مساوات کو قائم کیا گیا ہے !! اور یہ تعلیم وہ تھی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے بھی بڑی سختی کے ساتھ مد نظر رکھا.چنانچہ 66 حضرت ابوبکر خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے سب سے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں: الضعيف فيكم قوى عندى حتى أريح عليه حقه ان شاء الله والقوى فيكم ضعيف عندى حتى اخذ الحق منه - ۲۵ یعنی اے مسلمانو ! سن لو کہ تم میں سے کمزور ترین شخص میرے لئے اس وقت تک قوی ہوگا جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دلا دوں اور تم میں سے قوی ترین شخص میرے لئے اس وقت تک کمزور ہو گا جب تک کہ میں اس سے وہ حق جو اس نے کسی اور کا دبایا ہوا ہو واپس نہ لے لوں.“ اسی طرح حضرت عمر خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ شمالی عرب کے ایک بڑے رئیس جبلہ بن ایم نامی نے جو مسلمان ہو چکا تھا کسی غریب مسلمان کو غصہ میں آکر تھپڑ مار دیا جب حضرت عمر کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے جبلہ کو بلا کر فرمایا

Page 545

۵۳۳ مضامین بشیر جبلہ میں سنتا ہوں کہ تم نے ایک غریب مسلمان کو تھپڑ مارا ہے اگر تم نے ایسی 66 حرکت کی ہے تو خدا کی قسم تم سے اس کا بدلہ لیا جائے گا.“.اس پر جبلہ جس میں غالباً ابھی تک جاہلیت والے تکبر کی رگ باقی تھی مغرور ہو کر مرتد ہو گیا.ملکی عہدوں کی تقسیم میں مکمل مساوات عدالتی حقوق کے سوال کے بعد عہدوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم کا سوال آتا ہے اور ایک لحاظ سے یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے.سو اس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے : اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ دد یعنی اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ قومی اور ملکی عہدوں کی تقسیم کے معاملہ میں جو خدا کے نزدیک ایک مقدس امانت کا رنگ رکھتے ہیں صرف ذاتی قابلیت اور ذاتی اہلیت کو دیکھا کرو اور جو شخص اپنے ذاتی اوصاف کے لحاظ سے کسی عہدہ کا اہل ہوا سے وہ عہدہ سپرد کیا کرو خواہ وہ کوئی ہو اور پھر اے مسلمانو ! جب تم کسی عہدہ یا ذمہ واری کے کام پر مقرر کئے جاؤ تو تمہارا فرض ہے کہ لوگوں میں کامل عدل وانصاف کا معاملہ کرو.“ یہ زرین تعلیم ہمیشہ اسلامی حکومتوں کا طرہ امتیاز رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں بعض بظاہر ادنیٰ سے ادنیٰ لوگ ترقی کر کے عروج کے کمال تک پہنچے ہیں.چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح آنحضرت علہ نے زید بن حارثہ کو جو ایک آزاد شدہ غلام تھے، کئی فوجی دستوں کا امیر مقرر فرمایا اور پھر زید کی وفات کے بعد آپ نے ان کے نوجوان فرزند اسامہ بن زید کو بھی ایک بڑی فوج کا امیر مقرر فرمایا جس میں بعض بڑے بڑے صحابہ شامل تھے جو قدیم دستور کے مطابق گویا عرب سوسائٹی میں پہاڑ کی طرح سمجھے جاتے تھے اور جب اس پر بعض ناسمجھ نو مسلموں میں چہ میگوئی ہوئی کہ ایک نوجوان غلام آزاد کو ایسے ایسے معمر اور جلیل القدرلوگوں پر امیر مقرر کیا گیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت غصہ کے ساتھ فرمایا کہ: ان تطعنوا في إِمَارَتِهِ فقد كنتم تطعنون في امارة ابيه من قبلُ وايم الله ان كان لخليقالا مارة وان كان لمن احب الناس إِلَيَّ و ان هذا احب الناس الى بعدة

Page 546

مضامین بشیر ۵۳۴ د یعنی تم اسامہ کی امارت پر نکتہ چینی کرتے ہو اور اس سے قبل تم اس کے باپ زید پر نکتہ چینی کر چکے ہو.خدا کی قسم جس طرح اس کا باپ امارت کا اہل تھا اور مجھے بہت محبوب تھا اسی طرح اس کے بعد اسامہ بھی امارت کا اہل ہے اور مجھے بہت محبوب ہے.." یہ اسی مبارک تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اسلام میں ہمیشہ بظاہر ادنی ترین لوگوں نے اعلیٰ سے اعلیٰ ترقی حاصل کی اور کبھی کسی شخص کی غربت یا نسلی پستی اس کی ترقی میں روک نہیں بنی.چنانچہ اس کی مزید مثالیں دیکھنی ہوں تو اس کتاب کے حصہ دوم کا وہ باب ملاحظہ کیا جائے جو غلامی کی بحث سے تعلق رکھتا ہے.سوشل اجتماعوں میں برادرانہ اختلاط اس جگہ یہ سوال ہو سکتا ہے کہ عہدوں اور ذمہ واری کے کاموں کے متعلق تو بیشک اسلام نے حقیقی مساوات کی تعلیم دی ہے اور سب کے لئے ترقی کا ایک جیسا رستہ کھول دیا ہے مگر ہوسکتا ہے کہ اس انتظامی مساوات کے باوجود تمدنی مساوات اور آپس کے میل ملاقات کے بارے میں مختلف قسم کے لوگوں میں خلیج باقی رہے اور اسلام نے اس خلیج کو دور نہ کیا ہو.سو اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیئے کہ اسلام نے اس رخنہ کو بھی بڑی سختی کے ساتھ بند کیا ہے.چنانچہ اس قرآنی ارشاد کے علاوہ جو اوپر گذر چکا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور انہیں بھائیوں کی طرح مل کر رہنا چاہیئے.(سورۃ حجرات رکوع ۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمدنی تعلقات کے سب سے بڑے ذریعہ اور سب سے بڑے میدان یعنی آپس کی دعوتوں اور کھانے پینے کی ملاقاتوں وغیرہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ : شر الطعام طعام الوليمة يدعى لها الاغنياء و يُترك الفقراء و من ترک الدعوة فقد عصى الله ورسوله_ د یعنی سب سے بری اور سب سے زیادہ قابل نفرت دعوت وہ دعوت ہے جس میں صرف امیر بلائے جائیں اور غریبوں کو نہ بلایا جائے اور جو شخص کسی بھائی کی دعوت کا انکار کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے.“ اس مبارک ارشاد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو سخت نا پسند فرمایا ہے کہ امیر لوگ اپنی دعوتوں وغیرہ میں صرف امیروں کو مدعو کریں اور غریبوں کو گویا کوئی اور جنس خیال کرتے ہوئے بھول جائیں اور اصل مساوات کی روح زیادہ تر تمدنی معاملات میں ہی بگڑنی شروع ہوتی ہے

Page 547

۵۳۵ مضامین بشیر کیونکہ اس قسم کے تمدنی معاملات کا اثر براہ راست دل پر پڑتا ہے.اسی طرح آپ نے یہ تاکید بھی فرمائی ہے کہ اگر کوئی غریب کسی امیر کی دعوت کرے تو امیر کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی امارت کے گھمنڈ میں آکر یا یہ خیال کر کے کہ غریب کے ہاں کا کھانا اس کی عادت اور مزاج کے مطابق نہیں ہوگا غریب کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دے.چنانچہ اس قسم کی دعوتوں کا رستہ کھولنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : لَوْ دُعِيْتُ إِلى ذِرَاعٍ أَوْ كُرَّاعُ لَا جَبْتُ وَلَوْ أَهْدِيَ إِلَيَّ ذِرَاعُ أَوْ كُرَّاعُ لَقَبِلْتُ د یعنی اگر کوئی غریب شخص کسی بکری یا بھیڑ کا ایک پایہ پکا کر بھی مجھے دعوت کو بلائے " تو میں اس کی دعوت پر ضرور جاؤں گا.“ یا در ہے کہ اس جگہ گراع کے معنی پائے کے نچلے حصہ کے ہیں جو ٹخنوں سے نیچے ہوتا ہے اور یقیناً وہ ایک ادنیٰ قسم کی غذا ہے کیونکہ مخنوں کے نیچے کا حصہ قریباً گھر ہی بن جاتا ہے.لیکن اگر گراع کے معنی پورے پائے کے بھی سمجھے جائیں تو پھر بھی عربوں کی روایات سے یہ ثابت ہے کہ قدیم زمانہ میں عرب لوگ پائے کو اچھی غذا نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ عربوں میں مشہور محاورہ تھا کہ : 66 لا تطعم العبد الكراع فيطمح في الدراع - دد یعنی اپنے غلام کو پا یہ بھی کھانے کو نہ دو ورنہ وہ اس سے اوپر نظر اٹھا کر دست دوران کے گوشت کی بھی طمع کرنے لگے گا.“ بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اپنا ذاتی اسوہ پیش کر کے مسلمانوں کو تحریک فرمائی ہے کہ خواہ دعوت کرنے والا کتنا ہی غریب ہو اس کی دعوت کو غربت کی وجہ سے رد نہ کرو.ورنہ یا د رکھو تمہاری سوسائٹی میں ایسا رخنہ پیدا ہو جائے گا جو آہستہ آہستہ سب کو تباہ کر کے رکھ دے گا.( مطبوعہ الفضل ۱۷ارمئی ۱۹۴۹ء ) مجلسوں میں مل کر بیٹھنے کے متعلق بھی اسلام یہی سنہری تعلیم دیتا ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اگر کوئی بڑا شخص بعد میں آئے تو کسی چھوٹے شخص کو اُٹھا کر اس کی جگہ اس کو دے دی جائے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے: انَّهُ نَهَى انَّ يُقَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ وَيَجْلِسَ فِيهِ آخَرُ وَلَكِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا -

Page 548

مضامین بشیر ۵۳۶ د یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے منع فرماتے تھے کہ کوئی شخص اپنی جگہ سے اس لئے اٹھایا جائے کہ تا اس کی جگہ کوئی دوسرا شخص بیٹھ جائے اور فرمایا کرتے تھے کہ اگر جگہ تنگ ہو اور زیادہ آدمی آجائیں تو پھر سب سمٹ سمٹ کر آنے والوں 66 کے لئے جگہ نکال لیا کرو.“ یہی اصل نمازوں کے موقع پر مسجدوں میں ملحوظ رکھا گیا ہے جہاں کسی شخص کے لئے کوئی جگہ ریز رونہیں ہوتی اگر ایک خادم پہلے آتا ہے تو وہ پہلی صف میں جگہ پائے گا اور اگر ایک آقا پیچھے پہنچتا ہے تو وہ آخری صف میں بیٹھے گا.غرض خدا کے گھر میں امیر وغریب.خادم و آقا.حاکم و محکوم طاقتور اور کمزور سب برابر ہو جاتے ہیں اور کوئی امتیاز ملحوظ نہیں رکھا جاتا.یہی حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا تھا جس میں آپ اپنے صحابہ کے ساتھ اس طرح مل جل کر بیٹھتے تھے کہ بعض اوقات ایک اجنبی شخص کے لئے آپ کی مجلس میں اس بات کا جاننا اور پہچاننا مشکل ہو جا تا تھا کہ آپ کون ہیں اور کہاں بیٹھے ہیں.خادم و آقا کے تعلقات خادم و آقا کے تعلقات کا سوال بھی ایک بہت اہم سوال ہے مگر چونکہ اس سوال کے متعلق کتاب ہذا کے حصہ دوم میں مسئلہ غلامی کی ذیل میں اصولی بحث گزر چکی ہے اس لئے اس جگہ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ خادموں اور غلاموں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے بھی اسلام نے نہایت تاکیدی ہدا یتیں دی ہیں مثلاً آقاؤں کو ہوشیار کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں : كُلكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ -.د یعنی تم میں سے ہر شخص کو ہوشیار رہنا چاہیئے کیونکہ اسے اس کے سب ماتحت لوگوں کے متعلق پوچھا جائے گا.اور خادماؤں اور آقاؤں کی درمیانی خلیج کو اڑانے کے متعلق فرماتے ہیں کہ : اِنَّ اِخْوَانَكُمْ حَوَلُكُمْ جَعَلَ هُمُ اللَّهُ تَحْتَ اَيْدِ يُكُمُ فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمُهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسَهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا تُكَلَّفُوا هُمُ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمُ مَا يَغْلِبُهُمْ فَأَعِيدُوهُمْ - یعنی تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں پس جب کسی شخص کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو اسے چاہیئے کہ اپنے خادم بھائی کو اس کھانے میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دے ۳۲

Page 549

۵۳۷ جو وہ خود کھاتا ہے اور اس لباس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دے جو وہ خود پہنتا ہے.اور اے مسلمانو! تم اپنے خادموں کو کوئی ایسا کام نہ دیا کرو جوان کی طاقت سے زیادہ ہو اور کبھی مجبوراً انہیں کوئی ایسا کام دینا پڑے تو پھر اس کام میں خود بھی 66 مضامین بشیر ان کی مدد کیا کرو.“ یہ حدیث جیسا کہ اس کے الفاظ اور اسلوب بیان سے ظاہر ہے ایک نہایت اہم اور اصولی حدیث ہے اور ان کی مدد کیا کرو کے الفاظ میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کام ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ اگر وہ خود آقا کو کرنا پڑے تو اسے اپنے لئے موجب عار سمجھے بلکہ ایسا ہونا چاہیئے جسے خود آقا بھی کر سکتا ہو اور کرنے کو تیار ہو.گویا اس حدیث میں خادموں کے ساتھ حسن سلوک اور برادرانہ برتاؤ کی تلقین کے علاوہ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ کسی مسلمان کے لئے زیبا نہیں کہ وہ کسی کام کو اپنے لئے موجب عار سمجھے یا یہ خیال کرے کہ یہ کام صرف خادم کے کرنے کا ہے میرے کرنے کا نہیں.چنانچہ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کا کام خود اپنے ہاتھ سے کر لیتے تھے اور کسی کام کو عار نہیں سمجھتے تھے.یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ اوپر کی حدیث میں جو حول کا لفظ آیا ہے وہ عربی محاورہ کے مطابق نوکروں اور خادموں پر بولا جاتا ہے اس طرح اس حدیث میں گویا ایک نہایت وسیع مضمون مد نظر رکھا گیا ہے بہر حال اسلام نے آقاؤں اور خادموں کے تعلقات کو بھی بہترین بنیاد پر قائم کیا ہے.بیاہ شادی کے معاملات میں اسلامی تعلیم بیاہ شادی کا معاملہ بھی تمدنی تعلقات ہی کا حصہ ہے مگر افسوس کہ دنیا داروں نے اس میدان میں اپنے خیال کے مطابق مختلف طبقے بنارکھے ہیں اور غیر طبقہ میں رشتہ دینے کو مو جب ہتک سمجھا جاتا ہے.سواس کے متعلق ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : تَنْكِحَ الْمَرْأَةُ لَا رُبَعٍ لِمَا لِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجِمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرَ ۳۳ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَكَ د یعنی ایک عورت کے ساتھ چار خیالات کی بنا پر شادی کی جاتی ہے.یا تو دولت کی وجہ سے بیوی کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یا حسن و جمال کی وجہ سے انتخاب کیا جاتا ہے اور یا اخلاقی اور دینی حالت کی بنا پر انتخاب کیا جاتا ہے.لیکن اے مرد مومن تو ہمیشہ بیوی کا انتخاب دینی اور اخلاقی بنا پر کیا کر اور ذاتی اوصاف اور ذاتی نیکی کے

Page 550

مضامین بشیر ۵۳۸ پہلوکوتر بیچ دیا کرور نہ یا درکھ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلودہ رہیں گے.“ یہ وہ مبارک تعلیم ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے گھروں کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے بلکہ ان کی نسلوں کو بھی دین و دنیا میں ترقی دینے کی بنیاد بننے کا بھاری ذریعہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی نمونہ بھی اس معاملہ میں یہ ہے کہ آپ نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے ساتھ کر دی تھی اور اس معاملہ میں عربوں کے قدیم رسم ورواج اور خیالات کی قطعاً پروا نہ کی.اسی طرح خود آپ نے عربوں کی ہر معروف قوم میں شادی کی یعنی قریش میں بھی کی اور غیر قریش میں بھی کی.اور بنی اسرائیل میں بھی کی ، اور عرب میں یہی تین قومیں آباد تھیں.مگر افسوس ہے کہ آج کل کئی مسلمان اپنی قوم سے باہر شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.مثلاً ایک سید اس بات پر مصر ہوتا ہے کہ اس کی لڑکی صرف سید کے گھر جائے اور ایک راجپوت کا اس بات پر اصرار ہوتا ہے کہ اس کی لڑکی صرف راجپوت کی بیوی بنے اور ایک گلے زئی اس بات پرضد کر کے بیٹھ جاتا ہے کہ اس کی لڑکی صرف گلے زئی کے ساتھ بیا ہی جائے اور اسی طرح آنحضرت صلعم کی زرین تعلیم اور آپ کے مبارک اسوہ کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے.مرد و عورت میں حقوق کی مساوات پھر مساوات کی بحث میں عورت کی مساوات کا سوال بھی بہت اہمیت رکھتا ہے یعنی جہاں آج کل ایک طبقہ عورت کو جوتی کی طرح اپنے پاؤں کے نیچے رکھنا چاہتا ہے تو وہاں دوسرا طبقہ اسے ایسی آزادی دینے پر تلا ہوا ہے کہ گویا وہ انتظامی لحاظ سے بھی خاوند کی نگرانی سے باہر ہو گئی ہے اور پھر یورپ کا ایک طبقہ اسلام کی طرف یہ تعلیم بھی منسوب کرتے ہوئے نہیں شرما تا کہ اسلام عورت میں روح تک کو تسلیم نہیں کرتا گویا وہ صرف ایک مشین کی طرح کا ایک جانور ہے جس کی زندگی اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے.مگر قرآن شریف ان سارے باطل خیالات کی تردید فرماتا ہے.چنانچہ سب پہلے تو اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مرد عورت اپنے اعمال کی جد و جہد اور ان کے نتائج کے حصول میں برابر ہیں اور سب کے اعمال کا نتیجہ یکساں نکنے والا ہے.چنانچہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے : أبِي لَا أَضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمُ مِنْ ذَكَرٍ أَو أَنَّى بَعْضُكُمْ مِّن بَعْضٍ - ۳۴ دو یعنی اے لوگو! میں تمہارا خالق و مالک ہوں میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت کیونکہ تم سب ایک ہی نسل کے حصے اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہو.“

Page 551

۵۳۹ مضامین بشیر اور خاوند بیوی کے مخصوص حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ - ۳۵ د یعنی جس طرح خاوند کے بعد حقوق بیویوں کے ذمہ ہیں اسی طرح بیویوں کے 66 بعض حقوق خاوندوں کے ذمہ بھی ہیں.“ اس قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ حقوق اور ذمہ واریوں کے معاملہ میں میاں بیوی برابر ہیں کہ کچھ پابندیاں خاوند کے ذمہ لگا دی گئی ہیں اور کچھ پابندیاں بیوی کے ذمہ لگا دی گئی ہیں اور دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کے متعلق پوچھے جائیں گے.مگر چونکہ انتظامی لحاظ سے گھریلو زندگی کی باگ ڈور بہر حال ایک ہاتھ میں رہنی ضروری ہے اس لئے اس جہت سے قرآن شریف فرماتا ہے : الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ فَانظُلِحَتْ قُنِتُت - و یعنی گھریلو زندگی میں مردوں کو عورتوں پرا میر اور نگران رکھا گیا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے فطری قوئی میں مردوں کو فضیلت عطا کی ہے اور پھر عورتوں کے اخراجات کی ذمہ واری بھی انہیں پر ہے.پس نیک بیویوں کو بہر حال اپنے خاوندوں کا فرمانبردار رہنا چاہیئے.“ لیکن اس انتظامی فرق کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں کے ساتھ سلوک کرنے کے متعلق فرماتے ہیں: خيركُم خيرُ كُم لاهله وَأَنَا خِيرُ كُمُ لَا هُلِى - ۱۳۷ یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہے.اور خدا کے فضل سے میں تم سب میں اپنی بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا ہوں.“ ( مطبوعه الفضل ۱۸ مئی ۱۹۴۹ء ) خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام نے مساوات انسانی کے متعلق بہترین تعلیم دی ہے چنانچہ ا.سب سے پہلے اس نے اس اصول کو بیان کیا ہے کہ سب لوگ ایک ہی جنس کی مخلوق اور ایک ہی باپ کی نسل اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں اس لئے نسلی لحاظ سے سب کا حق برابر ہے.۲.اس کے بعد اس نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نسلی وحدت کے باوجود یہ ممکن ہے کہ

Page 552

مضامین بشیر ۵۴۰ جس طرح زمین کے پیٹ میں ایک ہی قسم کے عناصر مختلف قسم کی صورتیں اور مختلف قسم کے خواص اختیار کر کے مختلف قسم کی معدنیات کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح مختلف انسان بھی بعد کے حالات کی وجہ سے مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو کر مختلف اوصاف اختیار کر سکتے ہیں.مگر اس فرق کی وجہ سے کسی قوم یا کسی قبیلہ یا کسی فرد کو کسی دوسرے پر بیجا فخر اور تکبر نہیں کرنا چاہیئے.کیونکہ ممکن ہے جو قوم یا جو شخص آج نیچے ہے وہ کل کو اوپر ہو جائے..اس کے بعد اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اس وحدت نسلی کے علاوہ مسلمان خصوصیت کے ساتھ ایک دوسرے کے بھائی ہیں کیونکہ وہ ایک ایمان کے حامل اور ایک ہی دامن رسالت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی روحانی باپ کے بچے ہیں.پس انہیں ہر حال میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیئے.۴.اس کے بعد اسلام یہ بتاتا ہے کہ بے شک مومنوں میں بھی فرق ہو سکتا ہے مگر یہ فرق ان کے ذاتی اوصاف پر مبنی ہونا چاہیئے اور بہر حال خدا کے نزدیک زیادہ عزت والا شخص وہ ہے جو دینداری اور تقویٰ اور جذبہ خدمت میں دوسروں سے آگے ہے.۵.اس کے بعد اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ کسی شخص کے دینی امتیاز یا دنیوی بڑائی کی وجہ سے یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ قضائی اور عدالتی معاملات میں کوئی فرق ملحوظ رکھا جائے کیونکہ عدالتی حقوق کے میدان میں سب لوگ قطعی طور پر برا بر ہیں..اس کے بعد اسلام اس زریں اصول کو بیان کرتا ہے کہ قومی عہدوں کی تقسیم میں صرف ذاتی اہلیت کو دیکھنا چاہیئے اور بلالحاظ امیر وغریب اور بلالحاظ نسل و خاندان جو شخص بھی کسی عہدہ کا اہل ہو اسے وہ عہدہ سپر د کرنا چاہیئے خواہ وہ کوئی ہو.ے.اس کے بعد اسلام یہ ارشاد فرماتا ہے کہ کسی صاحب عزت شخص کا واجبی اکرام کرنا اچھے اخلاق کا حصہ ہے مگر تمدنی معاملات میں سب مسلمانوں کو آپس میں اس طرح مل جُل کر رہنا چاہیئے کہ وہ ایک خاندان کے افراد نظر آئیں.وہ مجلسوں میں بلالحاظ امیر وغریب مل جُل کر بیٹھیں.اگر کوئی امیر دعوت کرے تو اس میں غریبوں کو بھی ضرور بلائے اور اگر کوئی غریب دعوت کرے تو امیر اس سے انکار نہ کریں.بالآخر اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ بیاہ شادی کے معاملات میں بیوی کا انتخاب اس کے ذاتی اوصاف اور ذاتی نیکی کی بناء پر ہونا چاہیئے نہ کہ اس کے حسب نسب اور مال و دولت وغیرہ کی بنا پر..

Page 553

۵۴۱ مضامین بشیر اسلام میں دولت کی تقسیم کا نظریہ اس کے بعد دولت کی تقسیم کا سوال آتا ہے جو آج کل کی اشتراکیت اور سرمایہ داری کی باہمی کشمکش کا جو لا نگاہ بنا ہوا ہے.سو گو اس بحث کا اصل موقع تو انشاء اللہ دوسری جگہ آئے گا مگر اس جگہ مختصر طور پر اس قدر بیان کر دینا ضروری ہے کہ اس اہم سوال کے متعلق بھی اسلام نے ایک ایسی اعلیٰ اور وسطی تعلیم دی ہے جس کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی.کیونکہ جہاں اسلام نے عام حالات میں دولت پیدا کرنے کے انفرادی حق کو تسلیم کیا ہے وہاں اس نے ملکی دولت کو سمونے کے لئے ایک ایسی مشینری بھی قائم کر دی ہے کہ اگر اسے اختیار کیا جائے تو کسی ملک یا کسی قوم کی دولت کبھی بھی عامتہ الناس کے ہاتھوں سے نکل کر چند افراد کے ہاتھوں میں جمع نہیں ہو سکتی.میں اس جگہ اختصار کے خیال سے اس مشین کے صرف چار پرزوں کے بیان پر اکتفا کروں گا.ا.سب سے اول نمبر پر اسلامی قانون ورثہ ہے.جس کی رو سے ہر مرنے والے کا ترکہ صرف ایک بچے یا صرف نرینہ اولا دیا صرف اولاد کے ہاتھ میں ہی نہیں جاتا بلکہ سارے لڑکوں اور ساری لڑکیوں اور بیوی اور خاوند اور ماں اور باپ اور بعض صورتوں میں بھائیوں اور بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں میں ایک نہایت مناسب شرح کے ساتھ تقسیم ہو جاتا ہے.اگر کوئی مسلمان زمیندار مرتا ہے تو اس کی زمین اس کے سب ورثا میں تقسیم ہوگی اگر کوئی دوکاندار مرتا ہے تو اس کی دوکان کا مال سب وارثوں کو پہنچے گا اگر کوئی کارخانہ دار فوت ہوتا ہے تو اس کے کارخانہ کا حصہ بھی سارے وارثوں میں بٹے گا.وعلی ہذالقیاس اس طرح گویا اسلام نے دولت کی دوڑ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بعض قدرتی روکیں یعنی ہرڈلیں قائم کر دیں ہیں.اور ہر نسل کے خاتمہ پر ایک روک یعنی ہرڈل سامنے آکر اس فرق کو کم کر دیتی ہے جو گذشتہ نسل کے دوران میں پیدا ہو چکا ہوتا ہے.تقسیم ورثہ کا یہ قانون جس کامل اور مکمل صورت میں اسلام نے قائم کیا ہے وہ کسی اور جگہ نظر نہیں آتا اور اس قانون کی تفصیلات پر نظر ڈالنے سے جس کے بیان کرنے کی اس جگہ گنجائش نہیں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس نظام ورثہ میں صرف ورثا کو ورثہ پہنچانا ہی مد نظر نہیں ہے بلکہ ملکی دولت کو سمونا بھی اس کا ایک بڑا مقصد ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر مرنے والے کو اپنے مال کے ایک ثلث یعنی ایک تہائی کی وصیت کی اجازت بھی دی ہے اور یہ وصیت ورثا کے حق میں جائز نہیں رکھی گئی.گویا اس ذریعہ سے اسلام نے ورثہ کی جبری تقسیم کے علاوہ اس بات کا دروازہ بھی کھولا ہے کہ نیک دل لوگ اپنے اموال کو مزید مستحقین میں تقسیم کرنے کا موقع پاسکیں مگر افسوس ہے کہ وصیت کے

Page 554

مضامین بشیر ۵۴۲ نظام سے فائدہ اٹھانا تو در کنار آج کل کے مسلمانوں نے ورثہ کی جبری تقسیم والے حصہ کو بھی پس پشت ڈال رکھا ہے اور سرمایہ داری کے خمار نے لڑکیوں اور بیویوں اور ماں باپ تک کو ان کے جائز حق سے محروم کر دیا ہوا ہے بہر حال اسلام کا قانونِ ورثہ ایک ایسا بابرکت نظام ہے کہ جس کے ذریعہ تھوڑے تھوڑے وقفہ پر ملک کی دولت کے سمونے کا عمل جاری رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے ہدایت بھی دی ہے کہ قومی نسل کو بڑھانے کے ذرائع اختیار کرتے رہو.پس جب ایک طرف نسل ترقی کرے گی اور دوسری طرف ورثہ وسیع ترین صورت میں تقسیم ہوگا تو ظاہر ہے کہ ملکی دولت خود بخود بنتی چلی جائے گی.مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اس مبارک تعلیم پر عمل کریں.۲.دوسرے نمبر پر اسلام کا قانون امداد با ہمی ہے جسے دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک جبری اور دوسرا طوعی.جبری قانون نظام زکوۃ سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعہ امیر لوگوں کی دولت پر حالات کے اختلاف کے ساتھ اڑھائی فیصدی شرح سے لے کر ہمیں فیصدی شرح تک خاص ٹیکس عاید کیا گیا ہے.اور اس ٹیکس کے ذریعہ جو روپیہ حاصل ہوتا ہے وہ حکومت وقت یا نظام قومی کی نگرانی کے ماتحت غریبوں اور مسکینوں وغیرہ میں تقسیم کر دیا جاتا ہے.اور ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹیکس کی غرض و غایت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں : ۳۸ تؤخذ من اغنيا لهم وتُردّ على فقرائهم _ د یعنی زکوۃ کے نظام کا مقصد یہ ہے کہ امیروں کے اموال کا ایک حصہ کاٹ کر 66 غریبوں کی طرف لوٹایا جائے.“ اس حدیث میں لوٹا یا جائے کے پر حکمت الفاظ کے استعمال کرنے میں یہ لطیف اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ زکوۃ کا ٹیکس کوئی صدقہ و خیرات نہیں جو غریبوں کو بطور احسان دیا جاتا ہے بلکہ وہ امیروں کی دولت میں غریبوں کا ابدی حق ہے جو انہیں طبعی طریق پر حاصل ہے کیونکہ جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے ہر مال کے پیدا کرنے میں غریبوں اور مزدوروں کا بھی کافی دخل ہوتا ہے.زکوۃ کے نظام کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ خدائے حکیم نے ایسے اموال پر زکوۃ کی شرح زیادہ مقرر فرمائی ہے جو تجارت کے چکر میں نہیں آتے.چنانچہ بند ذخائر پر زکوۃ کی شرح ہیں فیصدی رکھی گئی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ جہاں تجارت یا صنعت میں لگے ہوئے روپے میں سے غریب اور مزدور پیشہ لوگ دوسرے طریق پر بھی کچھ نہ کچھ حصہ لے لیتے ہیں وہاں جمع شدہ ذخائر میں انہیں کوئی حصہ نہیں ملتا اس لئے ذخائر میں زکوۃ کی شرح بہت بڑھا کر رکھی گئی ہے.

Page 555

۵۴۳ مضامین بشیر امداد باہمی کے نظام کا دوسرا حصہ طوعی نظام کی صورت میں قائم کیا گیا ہے اور اس نظام کے ماتحت اسلام نے غریبوں اور بے کس لوگوں کی امداد پر اتنا زور دیا ہے کہ حق یہ ہے کہ ایک نیک اور خدا ترس انسان کے لئے یہ صورت بھی قریباً جبری نظام کا رنگ اختیار کر لیتی ہے.گو ذاتی نیکی کے معیار کو بلند کرنے اور اخوت کے جذبات کو ترقی دینے کے لئے اسے قانون کی صورت نہیں دی گئی.بھوکوں کو کھانا کھلانا.ننگوں کو کپڑا پہنانا.مقروضوں کو قرض کی مصیبت سے نجات دلانا.بیماروں کے لئے علاج کا انتظام کرانا.غریب مسافروں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچانا.یتیموں اور بیواؤں کو خاک آلودہ ہونے سے بچانا وغیرہ وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں جن کی تحریک و تحریص میں قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی اسوہ اس معاملہ میں یہ تھا کہ رمضان کے متعلق جو غریبوں کی ضروریات کا خاص زمانہ ہوتا ہے اور اس کے بعد عید بھی آنے والی ہوتی ہے آپ کا ہاتھ غریبوں اور محتاجوں کی امداد میں اس طرح چلتا تھا کہ جس طرح ایک تیز آندھی چلتی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.الغرض زکوۃ کے جبری نظام اور دوسرے صدقات کے طوعی نظام کے ذریعہ اسلام نے امیروں کی دولت کاٹ کر غریبوں کو دینے اور اس طرح ملکی دولت کو سمونے کی ایک عظیم الشان مشینری قائم کر رکھی ہے.( مطبوعه الفضل مئی ۱۹۴۹ء ) ۳.تیسرے نمبر پر اسلام کا قانون تجارت ہے جس کی رو سے اسلام میں سودی لین دین ممنوع قرار دیا گیا ہے اور آج دنیا کا سمجھ دار طبقہ اس بات کو محسوس کر چکا ہے کہ سود ہی وہ چیز ہے جو ملکی دولت کے توازن کو برباد کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ دار ہے کیونکہ اس کے ذریعہ غریبوں کا روپیہ سمٹ سمٹ کر آہستہ آہستہ امیروں کے خزانوں میں جمع ہو جاتا ہے.اگر غور کیا جائے تو دراصل سود کی لعنت ہی سرمایہ داری کے پیدا کرنے کی بڑی موجب ہے.اگر آج سود بند ہو جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اول تو آہستہ آہستہ ملک کی بڑی بڑی تجارتیں یا تو حکومت کے ہاتھ میں چلی جائیں گی اور یا چھوٹی چھوٹی مناسب تجارتوں میں تقسیم ہو کر ملک کی دولت کو خود بخو دسمودیں گی اور دوسرے امیروں کے لئے غریبوں کے پسینہ کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے کا موقعہ نہیں رہے گا.یہ خیال کہ سودی نظام کے بند ہونے سے تجارت ناممکن ہو جائے گی بالکل غلط اور باطل ہے.ایسا خیال صرف موجودہ بند ماحول کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جبکہ یورپ و امریکہ کے سرمایہ داروں کی نقالی کے نتیجہ میں سود کا جال وسیع ہو چکا ہے ورنہ جب سود نہیں تھا اس وقت دنیا کی تجارت چلتی ہی تھی

Page 556

مضامین بشیر ۵۴۴ اور انشاء اللہ آئندہ بھی چلے گی اور یہ خیال کہ اسلام میں صرف وہ سود حرام کیا گیا ہے جو بڑی شرح کے مطابق کیا جائے یا جس میں سود در سود کا طریق اختیار کیا جائے.ایک محض نفس کا دھوکا ہے جو اس دلدل میں پھنس جانے کی وجہ سے کمزور لوگوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے ورنہ اسلام نے ہر قسم کا سود منع کیا ہے اور حق بھی یہی ہے کہ جو چیز ضررساں ہے وہ بہر حال ضرر رساں ہے خواہ تھوڑی مقدار میں ہویا بڑی مقدار میں.۴.چوتھے نمبر پر اسلام نے جوئے کی قسم کی آمدنیوں کو جن کی بنیاد محض اتفاق پر ہوتی ہے قرار دیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بھی قوم اور ملک کی دولت میں نا واجب تقسیم کا رستہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ No د یعنی اے مسلمانو ! شراب اور جوا اور بتوں کے اور تقسیم کے تیر ، یقیناً ایک شیطانی عمل ہیں ، پس تم اس سے بالکل دور ہوتا کہ تم کامیاب و با مراد ہوسکو.“ اس آیت میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ جو ان شیطانی اعمال میں سے ہے جو قوموں کی کامیاب زندگی کو تباہ کرنے والے ہیں اور اس کی یہی وجہ ہے کہ جوئے میں دولت کے حصول کو محنت اور ہنرمندی پر مبنی قرار دینے کی بجائے محض اتفاق پر مبنی قرار دیا جاتا ہے جو نہ صرف قومی اخلاق کے لئے مہلک ہے بلکہ ملک میں دولت کی نا واجب تقسیم کا بھی ذریعہ بن جاتا ہے.بظاہر یہ ایک معمولی سا حکم نظر آتا ہے مگر اس سے اس لطیف نظریہ پر بھاری روشنی پڑتی ہے جو اسلام اپنے اقتصادی اور اخلاقی نظام کے متعلق قائم کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کی آمدنی محنت اور ہنر مندی پر مبنی ہونی چاہیئے نہ کہ اتفاقی حادثات پر میسر کا لفظ بھی جو کسر یعنی سہولت اور آسانی سے نکلا ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کہ جوئے کی آمدنی محنت اور ہنر مندی پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ یونہی بیٹھے بٹھائے آسانی سے مل جاتی ہے جو اسلام کے اقتصادی نظریہ کے سراسر خلاف ہے.اوپر کی چار اصولی باتیں صرف اختصار کے خیال سے بیان کی گئی ہیں ورنہ اسلام نے اپنے اقتصادی نظام میں دولت کے سمونے کے بہت سے ذریعے تجویز کئے ہیں اور اسلام کا منشا یہ ہے کہ ایک طرف تو ذاتی جد و جہد کا سلسلہ جاری رہے اور ہر شخص کے لئے اپنی ذاتی محنت کے پھل کھانے کا رستہ کھلا ہو.کیونکہ دنیا میں محنت اور ترقی کا یہی سب سے بڑا محرک ہے اور دوسری طرف ملکی دولت بھی نا واجب طور پر چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے محفوظ رہے اور یہی وہ وسطی طریق ہے جس پر گامزن

Page 557

۵۴۵ مضامین بشیر ہو کر مسلمان افراط و تفریط کے رستوں سے بچ سکتے ہیں.معذور لوگوں کی ذمہ واری حکومت پر ہے لیکن اگر با وجودان ذرائع کے ملک کا کوئی حصہ بیماری یا بیکاری کی وجہ سے یا زیادہ کنبہ دار ہونے کے نتیجہ میں اپنی جائز ضروریات کو اپنی جائز آمدنی کے اندر اندر پورا نہ کر سکے تو اس کے متعلق اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کی اقل ضرورت جو کھانے اور کپڑے اور مکان سے تعلق رکھتی ہے اس کے پورا کرنے کی ذمہ واری حکومت پر ہے اور اس کا فرض ہے کہ اپنے ملکی محاصل سے ایسے لوگوں کی اقل بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں یہی ہوتا تھا.چنانچہ روایت آتی ہے کہ جب عرب کے علاقہ بحرین کا رئیس مسلمان ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہدایت بھجوائی کہ: افرِض عَلَى كُلِّ رَجُلٍ لَيْس لَهُ ارضٌ اَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ وَعبادة _ یعنی جن لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے ان میں سے ہر شخص کو ملکی خزانہ میں سے چار درہم اور لباس گذارہ کے لئے دیا جائے.“ اسی اصول کی طرف یہ قرآنی آیت اشارہ کرتی ہے کہ : - إِنَّ لَكَ الَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى وَأَنَّكَ لَا تَطْمَؤُا فِيهَا وَلَا تَضُحى د یعنی بچی بہشتی زندگی کی یہ علامت ہے کہ اے انسان! تو اس میں بھوکا نہ رہے اور نہ ہی ضروری لباس سے محروم ہو اور نہ ہی سردی سے ٹھٹھرے اور نہ ہی پیاس کی 66 تکلیف اٹھائے اور نہ ہی دھوپ کی شدت میں جلے.“ پس ہر اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا انتظام کرے کہ ملک وقوم کا کوئی فردان اقل ضرورتوں کی وجہ سے تکلیف نہ اٹھائے جو نسل انسانی کی بنیادی ضرورتیں ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ جہاں تک ملکی دولت کی تقسیم کا سوال ہے اسلام نے اول تو قانون ورثہ اور قانون زکوہ اور قانونِ تجارت اور حرمت قمار کے ذریعہ ایسی مشینری قائم کر دی ہے کہ اسے اختیار کرنے کے نتیجہ میں ملکی دولت کبھی بھی عامۃ الناس کے ہاتھ سے نکل کر چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں جمع نہیں ہو سکتی اور اگر بعض استثنائی حادثات کی وجہ سے پھر بھی کوئی فرد یا خاندان زندگی کی اقل ضرورتوں سے محروم رہ جائے تو اس کے لئے اسلام اسی بات کی ہدایت فرماتا ہے کہ امیروں کی دولت پر مزید ٹیکس لگا کر غریبوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے.کیونکہ ہر انسان کا جو زندگی کی جد و جہد میں کوتا ہی نہیں کرتا یہ بنیادی حق ہے

Page 558

مضامین بشیر ۵۴۶ کہ وہ بہر حال بھوکا نہ رہے نگا نہ ہوا اور سر چھپانے اور سردی گرمی کے بچاؤ سے محروم نہ ہونے پائے.اقتصادی مساوات کے متعلق ایک خاص نکتہ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے کیوں نہ جبری طریق پر دولت کی تقسیم کو بھی مساوی کر دیا یعنی جس طرح اسلام نے عدالتی معاملات میں پوری پوری مساوات قائم کی اور قومی اور ملکی عہدوں کی تقسیم کے معاملہ میں پوری پوری مساوات قائم کی اور تمدنی میل ملاقات کے معاملہ میں برادرانہ مساوات کا رنگ قائم کیا اور سب انسانوں کو ایک باپ کے بیٹے اور سب مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا اسی طرح اس نے کیوں نہ دولت کو بھی سارے انسانوں میں برابر تقسیم کرنے کی سکیم جاری کی؟ سواس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ ایسا کرنا ایک ظلم ہوتا اور اسلام ظلم کو مٹانے آیا ہے نہ کہ اسے قائم کرنے.دولت کی اندھا دھند مسا و یا نہ تقسیم کے یہ معنی ہیں کہ ایک تو لوگوں کی ساری حاصل شدہ دولت ان سے جبری طور پر چھین لی جائے اور دوسرے آئندہ ان سے دولت پیدا کرنے کی طاقت اور دولت پیدا کرنے کا حق بھی چھین لیا جائے اور یہ دونوں باتیں ظلم میں داخل ہیں بے شک قومی حقوق کی خاطر انفرادی حقوق پر جائز پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں اور بے شک افراد سے یہ مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ قومی مفاد کی خاطر ضروری قربانی دکھا ئیں مگر افراد کے حقوق کو کامل طور پر مٹا کر قوم کے نام پر ان کے حقوق کو کلیۂ غصب کر لینا ظلم میں داخل ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا.علاوہ ازیں اگر غور کیا جائے تو اس رستہ پر پڑنے سے صرف انفرادیت ہی نہیں ملتی بلکہ بالآخر قومیت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے.کیونکہ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور اگر افراد کو دولت کمانے اور اس کا پھل کھانے کے حق سے محروم کیا جائے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ان سے دولت پیدا کر نے کا سب سے زبر دست فطری محرک کھویا جائے گا اور ظاہر ہے کہ اس محرک کے کھوئے جانے سے وہ بالآخر دولت پیدا کرنے کی قوت کو بھی ضائع کر دیں گے اور آہستہ آہستہ ان کے دماغی قومی میں انحطاط پیدا ہو جائے گا بے شک یہ خطرہ اس وقت صرف ایک موہوم خطرہ نظر آتا ہے لیکن ہر شخص جو صحیح تذبر کا مادہ رکھتا ہے سمجھ سکتا ہے کہ ایک زمانہ کے بعد اس قسم کے قومی خطرات حقیقت بن جایا کرتے ہیں.علاوہ ازیں دولت کی کامل طور پر مساویانہ تقسیم خود اشترا کی ممالک میں بھی نہیں پائی جاتی مثلاً کیا مارشل سٹالن اور مسٹر مانوٹو و اور روس کے دوسرے صنادید اس قسم کا کھانا کھاتے ہیں جیسا کہ روس کا مزدور یا کسان کھاتا ہے یا اسی قسم کا کپڑا پہنتے ہیں جیسا کہ روس کا مزدور اور کسان پہنتا ہے یا اسی قسم

Page 559

۵۴۷ مضامین بشیر کے مکانوں میں رہتے ہیں جس میں کہ روس کا مزدور یا کسان رہتا ہے یا اسی قسم کے حالات میں سفر کرتے ہیں جن میں کہ روس کا مزدور یا کسان سفر کرتا ہے؟ جب نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر مساوات کہاں رہی ؟ صرف فرق یہ ہے کہ کسی نے سرمایہ داری کے رنگ میں ملک کی دولت پر ہاتھ صاف کیا اور کسی نے اشتراکیت کا پردہ کھڑا کر کے خادم ملت کے رنگ میں اپنے لئے خاص مراعات محفوظ کر لیں.حالانکہ فطری اور طبعی طریق ہے وہ جو اسلام نے قائم کیا ہے یعنی انفرادی حقوق اور انفرادی جد و جہد بھی جاری رہے اور غریبوں کو اوپر اٹھانے اور امیروں کی دولت میں سے ایک حصہ کاٹ کر غریبوں کی ضرورت کو پورا کرنے کا سلسلہ بھی قائم رہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ انتظام بھی قائم ہو کہ قومی اور ملکی دولت نا واجب طور پر چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے محفوظ رہے.( مطبوعه الفضل ۳۰ رمئی ۱۹۴۹ء) در اصل سا را دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ انسانی حقوق کی اقسام پر غور نہیں کیا گیا.انسانی حقوق دو قسم کے ہیں: ا.ایک وہ حقوق ہیں جو حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں جیسے کہ مثلاً عدل وانصاف کا قیام یا قومی عہدوں کی تقسیم وغیرہ.۲.دوسرے وہ حقوق ہیں جو یا تو فطری اور قدرتی رنگ میں حاصل ہوتے ہیں جیسے جسمانی طاقتیں اور دماغی قوی وغیرہ اور یا وہ انفرادی کوشش اور انفرادی جد و جہد کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں جیسے دولت یا مکسوب علم وغیرہ اسلام نے نہایت حکیمانہ طریق پر ان دونوں قسم کے حقوق میں اصولی فرق ملحوظ رکھا ہے.یعنی جہاں تک ان انسانی حقوق کا تعلق ہے جو حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں اسلام نے جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کامل مساوات قائم کی ہے اور مختلف قوموں اور مختلف انسانوں میں قطعاً کوئی فرق پیدا نہیں کیا.لیکن جہاں دوسری قسم کے حقوق کا دائرہ شروع ہوتا ہے جو فطری قومی اور انفرادی جد و جہد سے تعلق رکھتے ہیں وہاں اسلام نے ایک مناسب حد تک دخل دے کر مختلف طبقات اور مختلف افراد کے فرق کو سمونے کی ضرور کوشش کی ہے لیکن ظلم و جبر کے رنگ میں سارے فرقوں کو یکسر مٹانے کا طریق اختیار نہیں کیا اور حق یہ ہے کہ اس میدان میں سارے فرقوں کو مٹا ناممکن بھی نہیں ہے.مثلاً جسمانی طاقتوں کے فرق کو کون مٹا سکتا ہے؟ دماغی قوتوں کے فرق کو کون مٹا سکتا ہے؟ اور جب یہ فرق نہیں مٹائے جاسکتے تو ظاہر ہے کہ ان فرقوں کے طبعی نتائج بھی نہیں مٹائے جاسکتے.ہاں چونکہ انسان تمدن الاصل صورت میں پیدا کیا گیا ہے اور اس کی فطرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اپنے ہم جنس لوگوں کے ساتھ مل کر اور جہاں تک ممکن ہو ان کے لئے قربانی کرتے ہوئے زندگی گزارے اس لئے

Page 560

مضامین بشیر ۵۴۸ اسلام نے یہ ضرور کیا ہے کہ انسان کی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے اس سے بعض قومی ضرورتوں کے لئے قربانیوں کا مطالبہ کیا ہے اور اس مطالبہ کو اس انتہائی حد تک پہونچا دیا ہے جو ایک انسان کی انفرادیت کو مٹانے اور ظلم کا طریق اختیار کرنے کے بغیر اس کے ارد گرد کے گرے ہوئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اوپر اٹھانے کے لئے ضروری ہے.یہ وہ نکتہ ہے جسے سمجھ لینے کے بعد اسلامی مساوات اور اشتراکیت کا مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے بشرطیکہ کوئی شخص دیانت داری کے ساتھ اسے سمجھنے کے لئے تیار ہو.اسلام ایک وسطی نظریہ پیش کرتا ہے ایک اور اصولی بات جو اسلام کے اقتصادی نظام کے متعلق یا درکھنی چاہیئے یہ ہے کہ انسانی زندگی کے متعلق اسلام یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ اس میں ہر وقت ایک جد و جہد کی کیفیت قائم رہنی چاہیئے اور در حقیقت زندگی ایک پیم حرکت اور مسلسل جد و جہد ہی کا نام ہے اور انسان کی ساری ترقی اس پیہم حرکت اور اسی مسلسل سعی کے ساتھ وابستہ ہے.پس اسلام کسی ایسے نظام کا مؤید نہیں ہوسکتا جس میں انسان کو جد و جہد کے میدان سے نکل کر دوسرے کے کمائے ہوئے مال کو بیٹھے بیٹھے کھانے یا دوسرے کے سہارے پر کھڑے ہو کر زندگی گزارنے کا راستہ اختیار کرنا پڑے.بے شک اسلام بھی انفرادی زندگی کے لئے بعض خارجی سہارے مہیا کرتا اور ان سے واجبی فائدہ اٹھانے کا سامان پیدا کرتا ہے مگر اس کا اصل زور اس بات پر ہے کہ ہر انسان خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہواور اپنے ہاتھ کی طاقت یا اپنے دماغ کی قوت سے اپنے لئے زندگی کا رستہ بنائے.وہ خارجی سہاروں کو ایک زائد امدادی حیثیت تو ضرور دیتا ہے مگر صرف انہی پر کامل تکیہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا.اسی لئے قرآن شریف ورثہ کے ذریعہ حاصل کئے ہوئے مالوں کو بیٹھ کر کھانے والوں کے متعلق فرماتا ہے : وَتَأْكُلُونَ الثَّرَاثَ أَكَلَّا لَمَّانَ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبَّا جَمَّان - د یعنی تم لوگ فارغ بیٹھے ہوئے ورثہ کے مالوں کو کھانا چاہتے ہو اور خواہش رکھتے 66 ہو کہ یہ جمع شدہ مال کبھی ختم نہ ہو اور تم ذخیرہ شدہ دولت سے عشق لگائے بیٹھے ہو.“ اس لطیف آیت میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ خدائے اسلام کو ایسی زندگی پسند نہیں جو انسان کو جد و جہد اور سعی و عمل کے میدان سے نکال کر کسی خاص کھونٹے کے ساتھ باندھ دے کیونکہ اس طرح آہستہ آہستہ انسان کے فطری قومی زنگ آلود ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت یعنی کمیونزم دونوں انسان کو جد و جہد والی زندگی سے نکال کر

Page 561

۵۴۹ مضامین بشیر دوسروں پر تکیہ کر کے بیٹھ جانے کا رستہ کھولتے ہیں یعنی جہاں سرمایہ داری جمع شدہ روپے کا کھونٹا گاڑ کر اس کے ساتھ انسان کو باندھ دیتی ہے وہاں اشتراکیت یعنی کمیونزم دوسری انتہا کی طرف لے جا کر اور حکومت کے کھونٹے کے ساتھ باندھ کر انسان کو گویا مسلنا چاہتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ گو یہ انتہا ئیں جدا جدا ہیں مگر حقیقیہ سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں میں یہی اصول چلتا ہے کہ انسان کو انفرادی جد و جہد کے میدان سے نکال کر کسی مضبوط کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جائے جہاں وہ ہر وقت چوکس رہنے کی ضرورت محسوس کرنے کے بغیر آرام کی زندگی گزار سکے.پس غور کیا جائے تو یہ دونوں افراط تفریط کی راہیں ہیں جن سے خدائے اسلام لوگوں کو بچا کر جد و جہد کے سرگرم میدان میں کھڑا رکھنا چاہتا ہے.اشتراکیت کا اصول کیا ہے؟ یہی نا کہ قوم کے سب افراد مل کر متحدہ زندگی گذاریں اور خواہ بعض افراد دوسروں سے کمزور ہوں اور بعض مضبوط ہوں اور خواہ بعض سست ہوں اور بعض چوکس ہوں وہ گریں تو ا کٹھے گریں اور کھڑے ہوں تو اکٹھے کھڑے ہوں.مگر غور کرو کہ کیا یہ بھی سرمایہ داری کی طرح ایک غیر طبعی سہارا نہیں جو انفرادی جد و جہد سے انسان کو غافل کرنے کا موجب ہوسکتا ہے.بے شک اسلام نے بھی کمزور افراد کے لئے ملک وقوم کا سہارا مہیا کیا ہے مگر اس نے کمال دانشمندی سے اس سہارے پر پورا بھروسہ نہیں ہونے دیا اور انفرادی بوجھ کی اصل ذمہ واری افراد پر رکھی ہے اور زائد سہارا صرف جزوی امداد کے طور پر یا غیر معمولی حالات کے لئے مہیا کیا گیا ہے.پس اسلام ہی وہ وسطی مذہب ہے جس نے سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں انتہاؤں سے بچتے ہوئے ایک درمیانی رستہ کھولا ہے وہ نہ تو جمع شدہ اموال کے ساتھ انسان کو باندھ کر اسے سرمایہ داری کے طریق پر بیکار کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اسے اشتراکیت کے اصول پر کلیۂ حکومت کے سہارے پر رکھ کر اس کی انفرادی جد و جہد کو کمزور کرتا ہے.چنانچہ مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے : جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ - یعنی اے مسلمانو! ہم نے تمہیں ایک وسطی امت بنایا ہے تا کہ تم ہر قسم کی انتہاؤں ۴۳ کی طرف جھک جانے والی قوموں کے لئے خدا کی طرف سے نگران رہو.“ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام نے اپنے اقتصادی نظام میں وسطی طریق اختیار کیا ہے اور اگر کوئی دل و دماغ رکھنے والا شخص اشتراکیت کے مقابلہ پر اسلام کے اقتصادی نظام کے متعلق منصفانہ غور کرنا چاہے تو اس کے لئے اس نکتہ میں بھی بھاری سبق ہے کہ گوانتہاؤں کا فرق ضرور ہے یعنی سرمایہ داری ایک انتہاء پر واقع ہے اور اشتراکیت دوسری انتہاء پر.مگر بہر حال اشتراکیت بھی ایک دوسری صورت میں اسی مصیبت کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے جو اس کے مقابل کی انتہا یعنی سرمایہ داری نے پیش

Page 562

مضامین بشیر.کر رکھی ہے یعنی یہ دونوں نظام انسان کو جد و جہد کے میدان سے نکال کر کسی نہ کسی کھونٹے کے ساتھ باندھنا چاہتے ہیں اور یہ صرف اسلام ہی ہے جس نے وسطی رستہ اختیار کر کے ایک طرف تو انسان کی انفرادی جد و جہد کو قائم رکھا ہے اور دوسری طرف خاص حالات کے پیش نظر نیز قوم میں اخوت اور اتحاد کی روح قائم رکھنے کے لئے بعض خارجی سہارے بھی مہیا کر دیے ہیں اور یہی وہ رستہ ہے جس سے انسان کا دماغ کند اور منجمد ہونے سے بچ سکتا ہے ورنہ جو لعنت آج دنیا کے سامنے سرمایہ داری نے پیدا کی ہے وہی کچھ عرصہ کے بعد ایک مختلف صورت میں اشتراکیت کے ذریعہ دنیا کے سامنے آنے والی ہے.استثنائی حالات میں خوراک کی مساویانہ تقسیم دولت کی تقسیم کے متعلق اس حکیمانہ نظریہ کے باوجود جس میں عام حالات کے ماتحت جبری طریق کے اختیار کرنے کے بغیر دولت کو منصفانہ رنگ میں سمونے کا انتظام کیا گیا ہے تا کہ انفرادی جد و جہد کا محرک بھی قائم رہے اور ملکی دولت چند ہاتھوں میں جمع بھی نہ ہونے پائے.اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اگر کبھی کوئی ایسے خاص حالات پیدا ہو جائیں کہ کسی ملک یا قوم یا بستی کی خوراک کے ذخیرہ میں کمی آجائے یعنی ایک حصہ کے پاس اس کی اقل ضرورت سے بھی کم ہو یا بالکل ہی نہ ہو تو زائد خوراک موجود ہو اور دوسرے حصہ کے پاس تو اس قسم کے ہنگامی حالات میں خوراک کی مساویانہ تقسیم کا جبری بھی جاری کیا جاسکتا ہے.چنانچہ روایت آتی ہے کہ : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة، فاصا بنا جهد ، حتى هَمَمْنَا ان نَسْحَرَ بعض ظهر نا، فَأَمَرَ النبي الله صلى الله عليه وسلم فجمعنا تزوادنا ۴۴ یعنی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے مگر رستہ میں ہمیں خوراک کی سخت کمی پیش آگئی حتیٰ کہ ہم نے ارادہ کیا کہ اپنی سواریوں کے بعض اونٹ ذبح کر دیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سب لوگوں کے خوراک کے ذخیرے اکٹھے کر لئے جائیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے سب کو مساویانہ راشن بانٹنا شروع کر دیا.“ پھر ایک اور روایت آتی ہے کہ: ( مطبوعه الفضل مئی ۱۹۴۹ء) بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا قبل السَّاحِل

Page 563

۵۵۱ مضامین بشیر - وأَمَّرَ عليهم اباعبيدة بن الجراح وهم ثلاث مائة، فخر جنا فكنا ببعض الطريق فَنِيَ الزاذ فأَمَرَ ابو عبيدة بازواد الجيش فَجُمِعَ، فكان مِزْوَدَ تَمُير، فكان يقوتنا كل يوم قليلاً قليلاً حتَّى فَنِي فَلَمُ يكن يُصِيبَنَا الا تمرة تمرة د یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک پارٹی ساحل سمندر کی طرف روانہ کی.اور سریہ کا امیر (اپنے مقرب صحابی ) ابوعبیدہ بن جراح کو مقرر فرمایا اور یہ پارٹی تین سو صحابہ پر مشتمل تھی.روای کہتا ہے کہ ہم اس سر یہ میں نکلے لیکن ( رستہ بھول جانے کی وجہ سے ) ابھی ہم اس کے رستہ میں ہی تھے کہ ہمارا زاد کم ہونا شروع ہو گیا.اس پر ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ سب لوگوں کی خوراک کا ذخیرہ جمع کر لیا جائے تو یہ سارا جمع شدہ ذخیرہ دو تو شہ دان بنا.اس کے بعد ابو عبیدہ ہمیں اس ذخیرہ میں سے تھوڑی تھوڑی خوراک تقسیم کرواتے تھے حتی کہ یہ ذخیرہ اتنا کم ہو گیا کہ بالآخر ہمارا راشن ایک کھجور فی کس پر آ گیا.“ اس روایت سے یہ بھاری اصول مستنبط ہوتا ہے کہ خاص ہنگامی حالات میں خوراک کے انفرادی ذخائر کو اکٹھا کر کے قومی ذخیرہ میں منتقل کیا جا سکتا ہے.اسی طرح ایک دوسری روایت آتی ہے کہ: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إِنَّ لا شُعَر يين اذا ارملوا في الغزو أو قل طعامُ عِيالهم بالمدينة جمعوا ما كان عندهم في ثَوبٍ واحدٍ، ثُمَّ ۴۶ اقْتَسَمُوهُ ابينهم فى إناء واحدٍ بالسَّوِيَّةِ فهم منى وانا منهم د یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اشعر قبیلہ کے لوگوں کا یہ طریق ہے کہ جب کسی سفر میں انہیں خوراک کا ٹوٹا پڑ جاتا ہے یا حضر کی حالت میں ہی ان کے اہل وعیال کی خوارک میں کمی آجاتی ہے تو ایسی صورت میں وہ سب لوگوں کی خوراک ایک جگہ جمع کر لیتے ہیں اور پھر اس جمع شدہ خوراک کو ایک ناپ کے مطابق سب لوگوں میں مساویانہ طریق پر بانٹ دیتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن کا میرے ساتھ حقیقی جوڑ ہے اور میرا ان کے ساتھ حقیقی جوڑ ہے.“ یہ الفاظ جس بلند اور شاندار روح کا اظہار کر رہے ہیں وہ کسی تشریح کے محتاج نہیں مگر افسوس ہے کہ دنیا نے اپنے اس عظیم الشان محسن کی قدر نہیں کی.

Page 564

مضامین بشیر ۵۵۲ اوّل خلاصہ کلام یہ کہ اسلام میں دولت کی تقسیم کے متعلق چار بنیادی اصول تسلیم کئے گئے ہیں.تقسیم ورثا اور نظام زکوۃ کے قیام اور سود اور جوئے کی حرمت کے ذریعہ ملکی دولت کو چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے بچایا جائے.دوم مگر دولت پیدا کرنے کے انفرادی حق کو قائم رکھا جائے تا کہ کام کرنے کا ذاتی محرک بھی قائم رہے اور افراد کے دماغ منجمد نہ ہونے پائیں.سوم جولوگ با وجود ان ذرائع کے کسی خاص معذوری کی وجہ سے اپنی اقل ضروریات کا سامان بھی پیدا نہ کر سکیں ان کی ضروریات کا حکومت انتظام کرے.چهارم خاص ہنگامی حالت میں جب کہ خوراک کی خطرناک قلت پیدا ہو جائے تمام انفرادی ذخیروں کو جمع کر کے ایک مرکزی قومی ذخیرہ جمع کیا جائے تا کہ سب لوگوں کو اقل خوراک کا مساویانہ راشن ملتا رہے اور یہ نہ ہو کہ ملک کا ایک حصہ تو عیش اڑائے اور دوسرا قوت لایموت سے بھی محروم ہو.دینی اور روحانی امور میں مساوات اس کے بعد ہم اس مساوات کی بحث کو لیتے ہیں جو دینی اور روحانی امور سے تعلق رکھتی ہے سو جاننا چاہیئے کہ گو لا مذہب لوگوں اور دنیا داروں کو اس میدان کی اہمیت پر اطلاع نہ ہو مگر قرب الہی کی تڑپ رکھنے والوں اور نجات اخروی کے متلاشیوں کے نزدیک یہ میدان دنیا کی زندگی سے بھی بہت زیادہ اہم اور بہت زیادہ قابل توجہ ہے اور الحمد للہ کہ اس میدان میں بھی اسلامی تعلیم نے صحیح مساوات کے تر از وکو پوری طرح برابر رکھا ہے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاں دوسرے مذا ہب یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خدا کے الہام کا نزول اور اس کے نبیوں اور رسولوں کا ظہور صرف خاص خاص قوموں کے

Page 565

۵۵۳ مضامین بشیر ساتھ ہی مخصوص رہا ہے اور دنیا کی دوسری قومیں اس عظیم الشان روحانی نعمت سے کلی طور پر محروم رہی ہیں.مثلاً یہودی لوگ اپنے سوا کسی دوسری قوم کو اس روحانی انعام کے حق دار نہیں سمجھتے اور اسی طرح ہندو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا کا کلام صرف آریہ ورت تک محدود رہا ہے اور کسی دوسرے ملک اور دوسری قوم نے اس سے حصہ نہیں پایا اور عملاً عیسائی قوم بھی بنی اسرائیل کے باہر کسی نبی اور رسول وغیرہ کی قائل نہیں.الغرض جہاں دنیا کی ہر قوم اس روحانی نعمت کو صرف اپنے آپ تک محدود قرار دے رہی ہے اور کسی دوسری قوم کو اس کا حقدار نہیں سمجھتی وہاں اسلام با نگ بلند یہ تعلیم دیتا ہے کہ جس طرح خدا نے اپنی مادی نعمتوں کو ہر قوم اور ہر ملک پر وسیع کر رکھا ہے اور کسی ایک قوم یا ایک ملک کے ساتھ مخصوص نہیں کیا مثلاً اس کا سورج ساری دنیا کو روشنی پہنچاتا ہے اس کی ہوا سارے گرہ ارض کو یکساں گھیرے ہوئے ہے، اس کا پانی ساری دنیا کو سیراب کرتا ہے وغیرہ وغیرہ.اسی طرح خدا نے اپنی روحانی نعمتوں کو بھی کسی خاص قوم یا خاص ملک تک محدود نہیں کیا بلکہ ہر قوم اور ہر ملک کو اس سے حصہ دیا ہے کیونکہ اسلام کی تعلیم کے مطابق دنیا کا خدا کسی خاص قوم یا خاص ملک کا خدا نہیں بلکہ ساری دنیا اور ساری قوموں کا خدا ہے اور وہ ایک ایسا مقسط اور عادل حکمران ہے کہ سب مخلوق کو ایک نظر سے دیکھتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے : وان مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ۴۷ دد یعنی دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس کی طرف خدا نے اپنی طرف سے کوئی رسول نہ بھیجا ہوتا کہ وہ انہیں ہوشیار کر کے نیکی بدی کا رستہ دکھا دے اور ترقی کی را ہیں بتا دے.66 یہ الفاظ کیسے مختصر ہیں مگر غور کرو تو اس کے اندر روحانی اور دینی مساوات کا ایک عظیم الشان فلسفہ مخفی ہے جس نے دنیا کی ساری قوموں کو خدا کی توجہ کا یکساں حق دار قرار دے کر ایک لیول پر کھڑا کر دیا ہے اور اس خیال کو جڑ سے کاٹ کر رکھ دیا ہے کہ خدا صرف بنی اسرائیل کا خدایا آریہ ورت کا خدا ہے اور دوسری قوموں کے لئے اس کی محبت اور انصاف کی آنکھ بالکل بند ہے.الغرض اسلام نے روحانی مساوات کے میدان میں پہلا اصول یہ قائم کیا ہے کہ کلام الہی اور نبوت ورسالت کا وجود کسی خاص قوم یا خاص ملک کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اپنے اپنے وقت میں ہر قوم اس عظیم الشان روحانی انعام سے حصہ پاتی رہی ہے کیونکہ ہر قوم خدا کی پیدا کردہ ہے اور خدا سے بعید ہے کہ ایک ظالم باپ کی طرح اپنے ایک بیٹے کو حصہ دے اور دوسرے کو ہمیشہ کے لئے محروم کر دے.( مطبوعه الفضل ۲۳ مئی ۱۹۴۹ء)

Page 566

مضامین بشیر ۵۵۴ اسی ضمن میں نجات اور قرب الہی کے حصول کا سوال آتا ہے.اکثر قوموں نے دنیوی اور اخروی امور میں بھی گویا ایک اجارہ داری کا رنگ اختیار کر رکھا ہے اور ایک خاص نسلی طبقہ کو خدا کا مقرب اور نجات کا مستحق قرار دے کر باقی سب کو عملاً محجوب اور ملعون گردانا ہے جسے کبھی بھی نجات اور قرب الہی کی ٹھنڈی ہوا نہیں پہنچ سکتی.مثلاً یہودی لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف ایک اسرائیلی نسل کا انسان ہی نجات کا مستحق ہے اور باقی سب لوگ خواہ وہ کیسے ہی نیک ہوں جہنم کا ایندھن ہیں.اسی طرح عیسائیوں نے گونسلی رنگ میں نجات کو محدود نہیں کیا ( یہ صرف موجود الوقت عیسائیوں کا حال ہے ورنہ خود حضرت مسیح نے تو غیر اسرائیلی اقوام کو کہتے کہہ کر دھتکار دیا ہے ) مگر بہت سے دینی حقوق و فرائض کو ایک خاص گروہ کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے جسے پر لیسٹ ہڈ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے چنانچہ عیسائیوں کے متعدد دینی امور بلکہ بعض تمدنی امور بھی ایک پر لیسٹ کی وساطت کے بغیر سرانجام نہیں پاسکتے.اسی طرح ہندوؤں نے بعض ذیلی حقوق کو صرف برہمن کا ورثہ قرار دیا ہے اور دوسرے لوگ اس سے محروم ہیں.گویا ان قوموں نے نہ صرف دوسری اقوام کو نجس اور پلید قرار دے کر دھتکار دیا ہے بلکہ خود اپنے اندر بھی دینی اور مذہبی امور میں ناگوار طبقات کا وجود تسلیم کر کے خدائی انعامات کو بعض خاص طبقوں کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے مگر اسلام کا دامن ان سب نا پاک جنبہ داریوں کے داغ سے پاک ہے بلکہ جس طرح اس نے دنیوی حقوق میں پوری پوری مساوات قائم کی ہے اسی طرح اس نے دینی امور میں بھی انصاف اور مساوات کے ترازو کو کسی طرح جھکنے نہیں دیا.چنانچہ اس بارے میں ایک اصولی قرآنی آیت اوپر کی بحث میں گذر چکی ہے جو یہ ہے : ۴۸ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَكُمْ یعنی اے لوگوسُن رکھو کہ تم میں خدا کے نزدیک زیادہ معزز اور زیادہ مقرب وہ شخص ہے جو زیادہ متقی اور زیادہ نیک اور زیادہ صالح ہے.“ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ قرب الہی کے حصول کے معاملہ میں کسی قوم یا کسی طبقہ کی خصوصیت نہیں بلکہ سب گورے کالے بڑے چھوٹے طاقتور کمزور مرد و عورت خدا کا قرب حاصل کرنے کے معاملہ میں برابر ہیں اور آگے آنے کے لئے صرف ذاتی تقویٰ اور ذاتی نیکی کی ضرورت ہے اور ان مختصر الفاظ میں خدا تعالیٰ نے یہ ارشاد بھی کر دیا کہ جب ہم بادشاہوں کے بادشاہ ہو کر سب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنا قرب عطا کرنے میں ذاتی تقوی وطہارت کے سوا کسی اور بات کا خیال نہیں کرتے تو پھر دوسروں کو بدرجہ اولیٰ یہ چاہیئے کہ ذاتی اوصاف کے سوا کسی اور بات پر اپنے انتخاب کی

Page 567

بنیا درکھا کریں.پھر دینی امور میں جزا و سزا اور انعام و الزام کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۴۹ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ، وَمَنْ يَعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ 6 د یعنی جو شخص بھی خواہ وہ کوئی ہو ایک ذرہ بھر بھی نیکی کرتا ہے وہ ہم سے اس کا اجر پائے گا ( اور اس کا کسی خاص طبقہ سے تعلق رکھنا اسے نیک عمل کے پھل سے محروم نہیں کر سکتا ) اور اسی طرح جو شخص بھی کوئی بدی کرتا ہے وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا (اور اس کا کسی خاص طبقہ سے تعلق رکھنا اسے اس کی بدی کے نتیجہ سے بچا نہیں سکتا ) ۵۰ مضامین بشیر پھر فرماتا ہے: وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا اَوْ نَطَرَى تِلْكَ آمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ د یعنی یہودی اور عیسائی لوگ دعوی کرتے ہیں کہ کوئی شخص یہود یا نصاری کے سوا جنت میں نہیں جاسکتا.یہ لوگوں کی محض خام خیالی ہے اور ایک ہوس سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی.تو انہیں کہہ دے کہ اگر تم اس دعوی میں بچے ہو تو کوئی دلیل لاؤ.ہاں بے شک جس شخص نے اپنے تئیں خدا کے سپر د کر دیا یعنی اس پر سچا ایمان لایا اور پھر نیک عمل کئے تو خواہ وہ کوئی ہو خدا سے اپنا اجر پائے گا اور ایسے لوگوں کو خدا کے حضور کوئی خوف و حزن نہیں آئے گا.“ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ نجات پانے اور قرب الہی کے حصول کے لئے صرف قومی یا رسمی رنگ میں یہودی یا عیسائی یا کسی اور مذہب کی طرف منسوب ہونا ہرگز کافی نہیں بلکہ نجات اور قرب الہی کے لئے سچا ایمان اور عمل صالح ضروری ہے.پس جو شخص بھی یہ دو باتیں یعنی سچا ایمان اور عمل صالح اپنے اندر پیدا کرتا ہے تو پھر خواہ وہ قومی یا نسلی رنگ میں کوئی ہو وہ خدا کی طرف سے ثواب اور انعام کا مستحق ہوگا.یہ آیت ضمناً مسلمانوں کو بھی ہوشیار کرتی ہے کہ وہ محض مسلمان کہلانے پر تسلی نہ پائیں کیونکہ خدا تعالیٰ کو خالی ناموں سے سروکار نہیں بلکہ اس کی نظر حقیقت پر ہے.پھر دینی فرائض کی ادائیگی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : يؤم القوم أَقْرَؤُهُمُ لكتاب الله فَإن كانوا في القرأة سواءً فَاعْلَمَهُمُ بالسُنَّة، فان كانوا فى السُنَّةَ سواءً فَا قَدَمُهُمُ هجرة،

Page 568

مضامین بشیر ۵۲ فان كانوا فى الهجرة سواءً فاكْبَرُهم سِنا - إِذَا كَانُوا ثَلَاثَة فَلْيَؤْمَّهُمُ اَحَدُهُمْ وَأَحَقُّهُمُ بِالا مَامَةِ اقْرَتُهُم د یعنی اے مسلمانو! جب تم آپس میں فریضہ نماز کی ادائیگی کے لئے اکٹھے ہو ( جو اسلام میں سب سے اہم اور سب سے وقیع تر عبادت ہے ) تو اس وقت اپنا امام بنانے کے لئے صرف یہ دیکھا کرو کہ تم میں سے قرآن کا علم کس شخص کو زیادہ حاصل ہے.پس جو شخص بھی قرآنی علم میں زیادہ ہوا سے نماز میں اپنا امام بنالیا کرو اور اگر چند آدمی علم قرآن میں برابر ہوں تو پھر ان میں سے جو شخص سنت رسول کے علم میں زیادہ ہوا سے امام بنایا کرو اور اگر چند آدمی سُنت کے علم میں بھی برا بر ہوں تو پھر ان میں سے جس شخص نے خدا کی راہ میں پہلے ہجرت کی ہوا سے امام بنایا کرو اور اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو پھر جو شخص عمر میں زیادہ ہوا سے اپنا امام بنایا کرو.اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ نمازوں میں مسلمانوں کا امام ہر وہ شخص ہوسکتا ہے جو ان میں سے ہے اور کسی خاص طبقہ کی تخصیص نہیں مگر امامت کا زیادہ حق دار وہ شخص ہے جو دین کا زیادہ علم رکھتا ہے.“ الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و دنیا کے ہر میدان میں حقیقی مساوات قائم فرما دی ہے اور سوسائٹی کی ہرنا واجب کش مکش کو جڑ سے کاٹ کر رکھ دیا ہے اور جسم اور روح دونوں کی اصلاح کی ہے اور یہ مساوات ہے جس کی نظیر یقیناً کسی دوسرے مذہب میں نہیں پائی جاتی.اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلّم الفضل ۲۴ مئی ۱۹۴۹ء)

Page 569

۵۵۷ مضامین بشیر قادیان کے متعلق حکومت کی پالیسی میں تبدیلی جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں.قادیان میں اب بظاہر نارمل حالات پیدا ہو رہے ہیں اور ہمارے دوستوں کو نقل و حرکت کی کافی سہولت مل گئی ہے لیکن حالات کے گہرے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی ابھی تک کسی طرح تسلی بخش نہیں سمجھی جاسکتی حقیقتا یہ تبدیلی سکھ قوم کے اقتدار کی جگہ ہند و قوم کے اقتدار کا رنگ رکھتی ہے.جب تک سکھ قوم اور سکھ پالیسی کا غلبہ رہا.قادیان اور اس کے ماحول میں بر ملا ظلم و تشدداور لوٹ مار کا منظر نظر آتا رہا.لیکن اب آہستہ آہستہ اس منظر نے بدل کر ہند و اقتدار کی پالیسی کو جگہ دے دی ہے جس میں بظاہر نارمل حالات کا دور دورہ نظر آتا ہے.اور ابتری کی بجائے م کے حالات دکھائی دیتے ہیں لیکن تنظیم کے اس ظاہری پردے کے پیچھے نقصان پہنچانے کی منتظم پالیسی نظر آرہی ہے.چنانچہ نئے دور میں حکومت کی پالیسی نے تین ایسی باتوں کو چنا ہے جو اوپر کی تبدیلی کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہیں.ا.قادیان میں یا یوں کہنا چاہئے کہ مشرقی پنجاب میں الفضل کا داخلہ حکومت مشرقی پنجاب کے حکم کے ماتحت بند کردیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے قادیان کے دوست حضرت امیر المؤمنین خلیفہ امسیح ایدہ اللہ کے خطبات اور جماعتی تحریکات اور احمد یہ مشنوں کی رپورٹوں وغیرہ سے کلیہ محروم ہو گئے ہیں یا بالفاظ دیگر جماعت کی مذہبی تنظیم کے مرکزی نقطہ سے بالکل کاٹ دیئے گئے ہیں.بظاہر اس حکم کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ الفضل میں ایسی باتیں شائع ہوتی ہیں جو حکومت ہندوستان کے مفاد کے خلاف ہے.لیکن ظاہر ہے کہ الفضل کی پالیسی میں کوئی نئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی بلکہ فسادات کے بعد سے ایک ہی پالیسی چلی آرہی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اب الفضل میں پہلے کی نسبت مذہبی مضامین کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے.کیونکہ یہی اس کی اصل غرض و غایت ہے اور سیاسی نوعیت کے مضامین بہت کم ہوتے ہیں باوجود ان حالات کے الفضل کا فسادات کے بعد تو جاری رہنا مگر اب آکر بند کیا جانا ، حکومت کی تبدیل شدہ پالیسی کی ایک واضح دلیل ہے.۲.قادیان جماعت احمدیہ کا مقدس مقام ہے اور یہ دنیا بھر کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر قوم اپنے اپنے مقدس مقامات کی خدمت اور احترام کے لئے تحائف اور ہدایا اور مالی نذرانے بھیجا کرتی ہے اور آج تک دنیا کی کسی مہذب حکومت نے اس قسم کے مالی یا جنسی تحائف میں روک نہیں ڈالی اور اس

Page 570

مضامین بشیر ۵۵۸ وقت تک قادیان میں بھی اس قسم کے تحائف جاتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں بعض ان منی آرڈروں کو جو باہر سے قادیان بھجوائے گئے تھے ہندوستان کی حکومت نے روک لیا ہے.حالانکہ جو احمدی قادیان میں بیٹھے ہیں ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ ان کی سب جائیدادیں ان کے ہاتھ سے چھینی جا چکی ہیں.پس ان حالات میں بیرونی منی آرڈروں کو روکنا مقامی مسلمان آبادی کو بھو کے مارنے کے مترادف ہے.۳.قادیان میں سالہا سال سے یعنی تقسیم پنجاب سے بھی پہلے سے حکومت جماعت احمدیہ کو اس بات کی اجازت دیتی رہی ہے کہ وہ لنگر خانہ اور دوسرے احمد یہ اداروں کے لئے اکٹھی گندم خرید لیا کریں.لیکن اس سال حکومت مشرقی پنجاب نے اس بات کی اجازت نہیں دی اور ہدایت جاری کی ہے کہ ہر احمدی اپنا الگ الگ راشن کارڈ حاصل کرے جس کی غرض سوائے اس کے کوئی نظر نہیں آتی کہ قادیان کے احمدیوں کی خوراک کے مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں محفوظ کر لیا جائے.ہمارے دوستوں کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ جو نظام سالہا سال سے چلا آیا ہے اسے اب بدلنے کی کوئی وجہ نہیں اور انفرادی راشن کارڈوں میں یہ خطرہ بھی ظاہر ہے کہ ہر شخص کو اپنا علیحدہ علیحدہ راشن لینے کے لئے بازار جانا ہوگا.جس میں ٹکراؤ کے امکانات بڑھ جائیں گے اور پھر جب قادیان کی احمدی آبادی معین ہے اور اس میں حکومت کی اجازت کے بغیر کمی بیشی نہیں ہو سکتی تو پھر اکٹھی خرید کی اجازت دینے میں یہ خطرہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ضرورت سے زیادہ گندم خرید لی جائے گی یا کہ خرید کے بعد ضائع کر دی جائے گی.علاوہ ازیں گندم کا جو بھی ذخیرہ ہوگا وہ بہر حال قادیان میں ہی رہے گا اور حکومت کی نظروں کے سامنے ہوگا.مگر باوجود ان معقول دلیلوں کے گورنمنٹ نے اپنے حکم کو نہیں بدلا اور ابھی تک یہ اصرار کر رہی ہے کہ ہر احمدی انفرادی راشن کارڈ حاصل کرے.اوپر کی باتوں سے واضح ہے کہ بر ملاظلم و تشدد اور لوٹ مار کا دور دورہ تو اب بظا ہر گزر چکا ہے.لیکن اس کی جگہ ایسی پالیسی نے لے لی ہے جسے مخفی مگر منظم تشدد کا نام دیا جا سکتا ہے.بہر حال ہماری اصل اپیل خدا کے پاس ہے اور وہی انشاء اللہ اپنی جماعت کا حافظ و ناصر ہوگا اور درمیانی ابتلاء خواہ کوئی صورت اختیار کریں آخری فتح و ظفر یقیناً خدا کے نام کی ہے.اور دنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی.وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيمِ مطبوعه الفضل ۲۰ مئی ۱۹۴۹ء)

Page 571

۵۵۹ مضامین بشیر درویشوں کی امداد کا چندہ اس سے قبل متعدد اعلانات کے ذریعہ میں ان دوستوں کے ناموں کی فہرست شائع کر چکا ہوں جنہوں نے قادیان کے غریب درویشوں اور ان کے رشتہ داروں کے لئے امدادی چندہ دیا ہے.ذیل میں ان اصحاب کی فہرست شائع کی جاتی ہے جنہوں نے سابقہ اعلان کے بعد اس مد میں چندہ دے کر ثواب حاصل کیا ہے.جزاهم الله خيراً / ۳۵ روپے ۵ روپے ۲ روپے ا.نواب محمد الدین صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر.۲.صاحبزادی امتہ الجمیل بیگم سلمھا.فہمیدہ بیگم بنت شیخ محمد ا کرم صاحب سابق تاجر قا دیان.۲۰ روپے ۴.رشیدہ بیگم صاحب..مولوی محمد خانصاحب مولوی فاضل کوٹ قیصرانی ڈیرہ غازیخان.۳ روپے - امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ.۲۵ روپے ے.جماعت احمد یہ ہر پر ضلع منٹگمری بذریعہ ماسٹر عبدالکریم صاحب.ساڑھے تمہیں گز کپڑا ۸.سید نعیم احمد شاہ سلمہ.فَجَزَاهُم اللَّهُ خَيْراً ۲ روپے ( مطبوعہ الفضل ۲۷ رمئی ۱۹۴۹ء )

Page 572

مضامین بشیر قادیان میں رمضان کے درس اور تراویح کا انتظام قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی قادیان میں رمضان کے درس اور تراویح کا انتظام ہوگا.چنانچہ اس تعلق میں ناظر صاحب تعلیم و تربیت ( بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب) کا ارسال کردہ پروگرام درج ذیل کیا جاتا ہے.احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ آنے والے رمضان اور اس کے بعد کے زمانہ کو ہم سب کے لئے با برکت اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.حسب سابق امسال بھی رمضان المبارک میں قادیان میں قرآن مجید کا درس ہوگا.اور روزانہ قریباً ایک پارہ کا ترجمہ معہ تفسیری نوٹس ختم کیا جائے گا اور اس طرح انشاء اللہ رمضان المبارک میں سارے قرآن مجید کا ایک دور ہو جائے گا.یہ درس مسجد مبارک میں بعد نماز ظہر تا عصر ہوا کرے گا اور مندرجہ ذیل علماء کرام امسال درس دیں گے.پہلا عشرہ مکرم مولوی محمد حفیظ صا حب فاضل از ابتدا قرآن مجید تا سوره تو به ختم دوسرا عشرہ غلام احمد صاحب ارشد فاضل از سوره یونس تا سوره روم ختم آخری عشره محمد شریف صاحب امینی فاضل از سوره لقمان تا آخر قرآن مجید نماز تراویح کا حسب ذیل طریق پر انتظام ہوگا.ا.مسجد مبارک مسجد اقصیٰ.مسجد ناصر آباد حافظ الہ دین صاحب حافظ عبد العزیز صاحب قریشی فضل حق صاحب مسجد مبارک میں نماز تراویح سحری کے وقت اور مسجد اقصیٰ و مسجد ناصر آباد میں بعد نما ز عشاء نماز تراویح ہوا کرے گی.مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی روزانہ مسجد مبارک میں بعد نماز عصر حدیث بخاری شریف کا درس دیتے ہیں.رمضان المبارک میں یہ درس بعد نماز فجر ہوا کرے گا.احباب کرام دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ علماء کرام اور حافظ صاحبان کو اس کارخیر کی توفیق عطا فرمائے اور سب درویشوں کا ہر لحاظ سے حافظ و ناصر ہو اور رمضان المبارک کی برکات سے پوری طرح متمتع فرمائے.آمین (الفضل ۱۰ جون ۱۹۴۹ء )

Page 573

۵۶۱ مضامین بشیر ربوہ میں نو ٹیفائیڈ ایریا کمیٹی کا قیام معلوم ہوا ہے کہ حکومت مغربی پنجاب نے ۳ / جون ۱۹۴۹ء کے گزٹ میں ربوہ تحصیل چنیوٹ کے لئے نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے.اس کمیٹی کے صدر ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع جھنگ ہوں گے اور ممبران حسب ذیل ہوں گے.ا تحصیلدار صاحب چنیوٹ سرکاری ممبر ۲.نواب محمد دین صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر.نامزد شدہ ممبر ۳.مرز ا عزیز احمد صاحب ایم.اے ریٹائر ڈاے.ڈی ایم نامزد شدہ ممبر ۴.صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ایم.بی.بی.ایس نامز د شدہ ممبر.( مطبوعه الفضل ۱۲ جون ۱۹۴۹ء )

Page 574

مضامین بشیر ۵۶۲ رمضان آتا ہے رمضان ! ابھی سے خاص دعاؤں کی عادت ڈالو اس سال جب میں نے شعبان کی پہلی رات کا چاند دیکھا تو اس وقت دعا کرتے ہوئے میں نے یہ ارادہ بھی کیا تھا کہ میں انشاء اللہ العزیز رمضان کے شروع میں ہی رمضان کی برکات کی طرف دوستوں کو توجہ دلا کر دعاؤں کی تحریک کروں گا اور شریعت اسلامی کے اس نفسیاتی نکتہ کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ اس نے ہر بڑے نیک عمل کے آگے اور پیچھے پہرہ دار مقرر کر رکھے ہیں.تا کہ نیک عمل سے مرکزی نقطہ کو توجہ کے انتشار سے بچایا جائے.افسوس ہے کہ میں شروع شعبان میں اپنی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکا.کیونکہ اول تو آجکل نہ معلوم کس وجہ سے مضمون نویسی کی طرف طبیعت اس قدر مائل نہیں جس قدر کہ گذشتہ سال مائل تھی.اور دوسرے گذشتہ دنوں میں درد نقرس اور بخار وغیرہ کی وجہ سے بیمار بھی رہا ہوں اور پریشانیاں بھی لاحق رہی ہیں.اس لئے گوشعبان کا ابتدائی حصہ گزر چکا ہے اور اب گویا رمضان کی آمد آمد ہے.میں یہ مضمون مختصر طور پر لکھ کر دوستوں کے فائدہ کے لئے پیش کرتا ہوں.میری غرض اس مضمون میں رمضان کی برکات کی طرف توجہ دلانا نہیں بلکہ مخصوص قسم کی دعاؤں کی طرف توجہ دلانا اصل مقصد ہے.جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں.اسلام کا ایک زریں اصول ہے اور یہ اصول در اصل اہم نفسیاتی فلسفہ پر مبنی ہے کہ وہ ہر نیک عمل کے مرکزی نقطہ کو محفوظ کرنے کے لئے اس کے دونوں پہلوؤں کی طرف پہرہ دار کھڑے کر دیتا ہے.تا کہ انسان کو توجہ کے انتشار سے بچایا جا سکے.یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب انسان کسی کام میں داخل ہوتا ہے.تو وہ فوراً ہی اس کام میں اپنی پوری توجہ نہیں جما سکتا بلکہ وقت کی کوشش کے بعد توجہ کے جمانے میں کامیاب ہوتا ہے.اسی طرح جب وہ کسی کام کے کرنے سے فارغ ہونے لگتا ہے تو فارغ ہونے کے وقت سے کچھ عرصہ پہلے ہی اس کی توجہ ہٹنا شروع ہو جاتی ہے.اس کی مثال ایک گاڑی کی سی سمجھنی چاہئے جو پوری رفتار پکڑنے سے پہلے لازماً کچھ وقت تک آہستہ چلنے پر مجبور ہوتی ہے.اور اسی طرح رکنے سے قبل بھی کچھ عرصہ پہلے سے اپنی رفتار کو دھیما کر دیتی ہے.پس اگر انسانی فطرت کے اس خاصہ کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نیک اعمال کے پہلوؤں میں پہرہ دار مقرر نہ کرتا

Page 575

۵۶۳ مضامین بشیر یعنی دوسرے الفاظ میں فرائض کے دونوں طرف سنتیں مقرر نہ کی جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ فرائض کا کچھ حصہ شروع میں اور کچھ حصہ آخر میں توجہ کے انتشار کی وجہ سے ضائع چلا جاتا.پس ہماری پر حکمت شریعت نے فرائض کے سارے حصہ کو کامل صورت میں برقرار رکھنے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی ہے کہ اس کے دونوں پہلوؤں میں سنتوں کے پہرہ دار کھڑے کر دیئے ہیں.تا کہ توجہ کے انتشار والا حصہ فرائض والے وقت پر اثر انداز ہونے کی بجائے سنتوں والے حصہ میں مدغم ہو کر رہ جائے.اور فرائض والے حصہ میں کسی قسم کا رخنہ نہ پیدا ہو..یہی وجہ ہے کہ فرض نمازوں کے شروع میں سنتیں زیادہ کر دی گئی ہیں تا کہ انسان سنتوں والے حصہ میں اپنی توجہ کو جما سکے اور پھر جب فرض والا حصہ آئے تو وہ کامل توجہ کے ساتھ اسے ادا کرنے پر قادر ہو.اسی طرح فرض نمازوں کے آخر میں سنتیں اس غرض سے رکھی گئی ہیں تا کہ فارغ ہونے کے وقت سے قبل جو انتشار پیدا ہوتا ہے.وہ فرائض والے حصہ میں پیدا ہونے کی بجائے سنتوں والے حصہ کی طرف منتقل ہو جائے.اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ ساری نمازوں کے آگے پیچھے تو سنتیں نہیں رکھی گئیں ، بلکہ بعض نمازوں کے دونوں طرف رکھی گئی ہیں اور بعض کے ایک طرف رکھی گئی ہیں.اور بعض کے کسی طرف بھی رکھی نہیں گئیں سو یہ درست ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ صورت خود اپنی ذات میں شریعت اسلامی کے ایک دوسرے کمال کی طرف اشارہ کر رہی ہے.اور وہ یہ کہ شریعت نے سنتوں کے مقرر کرنے میں ہر نماز کے وقت کو بھی ملحوظ رکھا ہے.جو نماز ایسے وقت میں آتی ہے کہ اس کے دونوں طرف دنیوی کا روبار کی غفلت کا غلبہ ہوتا ہے تو ایسی نماز کے دونوں طرف سنتیں مقرر کر دی گئی ہیں.اور اگر کوئی ایسی نماز ہے کہ جس کے شروع میں غفلت کا وقت ہوتا ہے تو اس سے پہلے سنتیں مقرر کر دی گئی ہیں.اسی طرح جس نماز کے بعد میں غفلت کا وقت آتا ہے.اس کے آخر میں سنتیں مقرر کر دی گئی ہیں.وعلیٰ ھذا القیاس.اور بعض نمازوں میں امتحان کے پہلو کو غالب رکھ کر صرف تنبیہہ کر دی گئی ہے کہ اس نماز کا خاص خیال رکھو.میں اس نکتہ کو دانستہ زیادہ نہیں کھولتا کیونکہ اول تو یہ اس کا موقع نہیں اور دوسرے دوستوں کو خود غور کی عادت پیدا کرنی چاہئے مگر بہر حال سنتوں کے مقرر کرنے میں اصول و ہی مد نظر ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے.یہی اصول رمضان کی عبادت میں مد نظر رکھا گیا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ مسلمان رمضان کے سارے مہینہ کو کامل روحانی توجہ کی حالت میں گزاریں اس لئے شریعت نے کمال دانشمندی کے ساتھ رمضان کے دونوں پہلوؤں پر نفلی روزوں کے پہرے دار کھڑے کر دیئے ہیں.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت یہ نفلی روزوں کے تعلق میں سب سے زیادہ زور

Page 576

مضامین بشیر ۵۶۴ شعبان اور شوال کے روزوں پر دیا کرتے تھے یعنی عموماً شعبان کا بیشتر حصہ نفلی روزوں میں گزارتے تھے.اور اسی طرح عید کے بعد بھی شوال کے چھ روزے رکھا کرتے تھے.اس میں بھی یہی بھاری حکمت مد نظر تھی کہ اصل رمضان کے مہینہ کو توجہ کے انتشار سے بچایا جائے.میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آنحضرت عه فدا نفسی کو ذاتی طور پر توجہ کے انتشار کا خطرہ تھا.کیونکہ حق یہ ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے وہ عظیم الشان فطری انجمن عطا کیا تھا جو پہلے قدم پر ہی پوری رفتار پکڑ لیتا تھا اور جسے رکنے سے قبل بھی رفتار دھیمی کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی مگر چونکہ آپ نے اپنی امت کیلئے ایک سبق اور نمونہ بننا تھا اس لئے آپ نے مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کے لئے یہ طریق اختیار کیا کہ اہم نیک کاموں کے دونوں طرف سنتوں اور نوافل کے پہرہ دار مقرر فرما دیئے تاکہ ان کے نیک اعمال کا مرکزی نقطہ ہر دو جانب توجہ کے انتشار سے محفوظ رہے.اس اصولی تشریح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ گو دعا مومن کی ہر عبادت کا مرکزی نقطہ ہے اور اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ: الدَّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ ۱۵۳ دد یعنی دعا ہر عبادت کا گودا اور اس کے اندر کی جان ہے.“ لیکن بعض ایام کو دعاؤں کے ساتھ خاص خصوصیت ہوتی ہے.اور ان میں سے رمضان کا مہینہ بھی ایک ممتاز زمانہ ہے.چنانچہ رمضان کے تعلق میں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ : وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۵۴ فَلْيَسْتَجِبْوانِى وَيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ دو یعنی اے رسول جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق رمضان کے بارہ میں دریافت کریں تو تو ان سے کہہ دے کہ میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہو جاتا ہوں اور ان دعا کرنے والوں کی دعاؤں کو خصوصیت سے قبول کرتا ہوں.جو مجھے اپنی توجہ کا مرکز بنا کر مجھ سے اپنی حاجتیں مانگتے ہیں.لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ جب وہ مجھ سے اپنی دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہیں تو میری پکار پر بھی کان دھر میں اور مجھ پر سچا ایمان لائیں کیونکہ یہی ان کی کامیابی اور با مرادی کا واحد ذریعہ ہے.“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کی یہ بھاری خصوصیت بیان کی ہے کہ اس بابرکت مہینہ میں خدا تعالیٰ خصوصیت کے ساتھ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں قبولیت کا شرف عطا فرماتا ہے.لیکن ساتھ ہی نہایت لطیف رنگ میں یہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے کہ دعاؤں کی قبولیت میں خدا تعالیٰ نے دوستی کا اصول مقرر کر رکھا ہے کہ اگر ایک مومن چاہتا ہے کہ خدا اس کی دعا کو سنے تو اس پر بھی یہ لازم

Page 577

مضامین بشیر ہے کہ وہ خدا کی پکار کو سنے.تا کہ سننے اور سنانے دونوں کا عمل جاری رہے.اور یہی وہ عظیم الشان روحانی نکتہ ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بارہا توجہ دلایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ دعاؤں کے معاملے میں خدا مومنوں کے ساتھ دوستی کا انداز رکھتا ہے کہ کبھی ان کی سنتا ہے اور کبھی اپنی سناتا ہے.وہ شخص ہر گز دوست کہلانے کا حقدار نہیں سمجھا جا سکتا جو اپنے دوست سے تو یہ توقع 66 رکھتا ہے کہ وہ اس کی بات سنے مگر خود اپنے دوست کی بات سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا.پس جب رمضان کا مہینہ مخصوص دعاؤں کا مہینہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے متعلق مخصوص طور پر قبولیت کا وعدہ بھی فرمایا ہے ، تو پھر کیا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جو اس مبارک مہینہ کو پاتا ہے مگر پھر بھی یا تو خدا کے سامنے اپنا دامن پھیلانے کی طرف توجہ نہیں دیتا اور یا اپنی بدقسمتی سے خالی جھولی لے کر ہی واپس لوٹ آتا ہے اور واپس بھی کس ہستی کے دربار سے لوٹتا ہے کہ جس کے متعلق ہمارے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ : اِنَّ رَبَّكُمُ حَيِيقٌ كَرِيمٌ يَسْتَحِى مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْراً.یعنی اے مسلمانو! تمہارا رب شرمیلا اور بخشش کرنے والا آقا ہے.وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ جب کوئی بندہ اس کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلائے تو وہ اس کے ہاتھ کو خالی لوٹا دے.اللہ اللہ کتنی محبت اور شفقت کا کلام ہے مگر کتنے ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں؟ پس دوستوں کو چاہئے کہ گوشعبان کا بیشتر حصہ گذر چکا ہے لیکن وہ پھر بھی ابھی سے خاص دعاؤں کی طرف توجہ دیں تا کہ جب رمضان کا چاند اپنی گونا گوں برکتوں کے ساتھ نمودار ہو تو وہ ہماری روحانی توجہ کو کمال کی حالت میں پائے اور اسی طرح رمضان کے بعد بھی چند دن دعاؤں کے خاص پروگرام کو جاری رکھیں تا کہ ایسا نہ ہو کہ رمضان کے اختتام سے پہلے ہی ان کی توجہ میں انتشار کی کیفیت پیدا ہونی شروع ہو جائے.یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کے متعلق حضرت عائشہ آنحضرت ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ : شَدَّ مِعْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ د یعنی آنحضرت ﷺ رمضان کے مہینہ میں اپنی کمر کو کس لیتے تھے اور ایسی توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت فرماتے تھے کہ گویا آپ کی راتیں بھی زندہ ہو جاتی تھیں.“ یہ راتوں کے زندہ ہونے کا محاورہ غالباً حضرت عائشہ صدیقہ کی اپنی ایجاد ہے لیکن کیا ہی لطیف اور پاکیزہ ایجاد ہے کیونکہ اس میں اس لطیف حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گورات کا وقت خصوصیت سے غفلت اور تاریکی کا وقت ہوتا ہے مگر آنحضرت ملی اسے بھی روحانی نور کی زبر دست کرنوں سے منور اور زندگی کی پُر زور لہروں سے متموج بنا لیتے تھے.گویا آپ خود تو کامل طور پر زندہ تھے ہی مگر آپ کی روحانی توجہ سے رات جیسی مردہ اور تاریک گھڑی بھی روشن اور زندہ ہو جاتی تھی ،مگر ضروری 66

Page 578

مضامین بشیر ہے کہ دعا محض رسمی رنگ میں نہ کی جائے بلکہ دلی تڑپ اور بچے سوز و گداز کے ساتھ خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے جائیں.دیکھو اس فقیر پر کسی شخص کو رحم نہیں آتا جو اپنی گردن اکڑ ائے ہوئے اور ادھر ادھر کے نظاروں کا تماشا کرتے ہوئے کوئی سوال کا کلمہ زبان پر لے آتا ہے اور پھر منہ پھلائے ہوئے آگے نکل جاتا ہے بلکہ صرف اسی سوالی کے دامن میں بھیک ڈالی جاتی ہے جس کے متعلق وہ شخص جس سے سوال کیا گیا ہو، محسوس کرتا اور یقین رکھتا ہے کہ یہ شخص بالکل بے بس اور بے کس ہو کر میرے سامنے آ گرا ہے اور اگر میں اسے سہارا نہیں دوں گا تو وہ گر کر خاک میں مل جائے گا.یہی وجہ ہے کہ دعا کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ کچی دعاوہ ہے جس پر پنجابی کی یہ مشل صادق آتی ہے کہ: جو منگے سو مر رہے.مرے سومنگن جائے.سومر - یعنی سوال کرنا ایک موت کی کیفیت چاہتا ہے اور دراصل سوال کی حقیقی حاجت بھی ایک گونہ موت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے.“ بہر حال میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ امتحانوں اور ابتلاؤں کے دن ہیں ، انہیں چاہئے کہ ان ایام کو خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں گزاریں اور خدا کے دامن کو اس مضبوطی کے ساتھ پکڑیں اور پھر ایسی تڑپتی ہوئی روح کے ساتھ اسے جنبش دیں کہ خدا کا عرش حرکت میں آجائے اور اس کی رحمت ہمیں اس طرح اپنے دامن میں چھپالے جس طرح ایک مرغی کا بچہ اپنی ماں کے پروں میں چھپ جاتا ہے.باقی رہا یہ سوال کہ دعائیں کیا کی جائیں.سو گو میں نے ذاتی طور پر آج تک کبھی اپنی کسی دنیوی غرض کے لئے دعا نہیں کی سوائے اس کے کہ کوئی بظاہر ایسا د نیوی امر پیش آجائے جس کی تہہ میں دینی غرض مخفی ہو.لیکن طبیعتیں اور مذاق مختلف ہوتے ہیں اور شریعت انسانی فطرت کو دبانے کے لئے نہیں آئی بلکہ زندہ رکھنے کے لئے آئی ہے.پس جس شخص کو جو بھی ضرورت در پیش ہے وہ اس کے لئے دعا مانگے اور آنحضرت ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر تمہاری جوتی کا تسمہ ٹوٹ جاتا ہے تو وہ بھی خدا سے مانگو.لیکن اس میں شبہ نہیں اور موجودہ حالات کا یہی تقاضا ہے کہ ہماری بیشتر دعائیں اسلام اور احمدیت کی ترقی اور جماعت کی بحالی اور احمدیت کے مقاصد کے حصول کے لئے وقف ہونی چاہئیں.میں نے عرصہ ہوا بخاری کی یہ حدیث پڑھی تھی کہ آنحضرت یہ سب سے زیادہ دعا یہ مانگا کرتے تھے کہ:.ربنا آتنا في الدنيا حسنة و في الاخرة حسنة وقنا عذاب النار ,, ۵۷ یعنی اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی حسنات عطا کر اور آخرت میں بھی حسنات عطا کر اور ہمیں ہر قسم کی آگ کے شر سے محفوظ رکھ.“

Page 579

مضامین بشیر میں نے جب یہ حدیث پڑھی تو میرے دل میں یہ بات کھٹکی کہ جب میرے جیسے کمزور اور گناہ گار انسان نے آج تک اپنی کسی دنیوی غرض کے لئے دعا نہیں کی (سوائے شاید ایک دفعہ کے جبکہ غفلت کی حالت میں میرے منہ سے ایک کلمہ نکل گیا تھا اور خدا نے اس پر تنبیہ فرمائی تھی کہ ان باتوں کی طرف توجہ مت دو ) تو پھر آنحضرت علیہ جیسی عظیم الشان اور رفیع الدرجات ہستی کے متعلق یہ کس طرح کہا گیا ہے کہ آپ سب سے زیادہ یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ مجھے دنیا کی نعمتیں بھی ملیں اور آخرت کی نعمتیں بھی ملیں.حالانکہ آنحضرت مہ کے متعلق دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ: الْفَقْرُ فَخُرى ۵۸ د یعنی دنیا کی نعمتوں سے خالی ہاتھ ہونا میرے لئے باعث فخر ہے.“ پس جب میں نے حدیث میں یہ پڑھا کہ آنحضرت عیہ سب سے زیادہ یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ خدایا مجھے دنیا کی نعمتیں بھی عطا کر اور آخرت کی نعمتیں بھی عطا کر تو میرے دل میں یہ سوال پید ہوا کہ یہ کیا بات ہے اور آنحضرت ﷺ نے اس قسم کی دعا کی طرف کیوں زیادہ توجہ دی ہے؟ لیکن جب میں نے اس دعا کے الفاظ پر غور کیا تو گویا میری آنکھیں کھل گئیں اور مجھے سمجھایا گیا کہ کم از کم آنحضرت ے کے متعلق اس دعا کے ہرگز وہ معنی نہیں ہیں جو عام طور پر سمجھے جاتے ہیں.یعنی یہ کہ ” مجھے دنیا کی حسنات بھی دے اور آخرت کی حسنات بھی دے.بلکہ اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ ”جو دینی اور روحانی حسنات دنیا میں مل سکتی ہیں وہ مجھے دنیا میں عطا کر اور جو دینی اور روحانی حسنات آخرت کے لئے مقدر ہیں وہ مجھے آخرت میں عطا کر.اور دراصل اگر غور کیا جائے تو اس دعا کے الفاظ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.کیونکہ الفاظ یہ نہیں ہیں کہ حسنة المدنيا( یعنی دنیا کی نعمت ) بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ فــي الـدنـيـا حسـنــه ه یعنی دنیا میں ملنے والی نعمت.جس کے یقینا یہی معنی ہیں اور یہی معنی آنحضرت ﷺ کی شان کے مطابق ہیں کہ وہ دینی اور روحانی حسنات جو دنیا میں مل سکتی ہیں وہ مجھے دنیا میں عطا کر اور جو حسنات آخرت کے لئے مقدر ہیں وہ مجھے آخرت میں عطا کر.لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ نعمت کے درجے مختلف ہوتے ہیں اور ضرورت کا میدان بھی مختلف ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی ضرورت اس کے ساتھ پیش آتی ہے کہ عام انسان اس پر توجہ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور جب تک اس طرف توجہ نہ دے اس کے دل کا بوجھ نہیں اترتا اور طبیعت میں انتشار کی کیفیت زیادہ اس لئے ہماری شریعت نے ہر قسم کی اجازت دی ہے، بلکہ جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں آنحضرت ﷺ نے تو مختلف قسم کی طبیعت مد نظر رکھتے ہوئے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر جوتی کا تسمہ ٹوٹ جاتا ہے تو وہ بھی خدا سے مانگو.پس میں دوستوں کو یہ تحریک تو نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی ذاتی

Page 580

۵۶۸ مضامین بشیر دعاؤں کو بھلا دیں.ذاتی دعاؤں میں بھی دینی غرض مد نظر رکھ سکیں تو بہت بابرکت ہوگا مگر میں یہ تحریک ضرور کروں گا کہ موجودہ ابتلاؤں اور امتحانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ دینی اور قومی دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ دیں اور میرے خیال میں زیادہ قابل توجہ دینی اور قومی دعائیں یہ ہیں : ا.آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنا جو دراصل دوسرے الفاظ میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعا ہے.کاش دنیا کو معلوم ہوتا کہ درود میں کتنی برکت ہے اور کتنی لذت ! ہاں ہاں کتنی برکت ہے اور کتنی لذت ہے بشرطیکہ آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عظیم الشان احسانوں اور افضال کو مدنظر رکھ کر درود پڑھا جائے اور اس کثرت سے پڑھا جائے کہ اس کی شیرینی اور خنکی سے دل و زبان سیراب ہو جائیں.۲.درود کے علاوہ بھی اسلام اور احمدیت کے لئے دعائیں کی جائیں.کاش کم از کم ہماری جماعت کو اس بات کا پورا پورا احساس ہوتا کہ اگر اس دنیا کی ساری نعمتیں ہمارے قدموں پر لا ڈالی جائیں مگر اسلام احمدیت کو ترقی حاصل نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں لیکن اگر اسلام اور احمدیت کو ترقی حاصل ہو جائے اور ہمیں ذاتی طور پر دنیا کی نعمتوں سے کوئی حصہ نہ ملے تو وہ ہمارے لئے سب کچھ ہے.۳.قادیان کی کامل بحالی اور مرکز ربوہ اور مضبوطی کے لئے دعائیں کی جائیں.بعض لوگ ان دعاؤں کو متضاد خیال کرتے ہیں.ہر گز تضاد نہیں بلکہ ایک ہی مقصد کی دعا ہے بلکہ درحقیقت ربوہ کا قیام قادیان کے حصول کے لئے ایک قدم ہے جو خدا کی طرف سے مقدر ہو چکا ہے.ہما را دائمی مرکز یقیناً قادیان ہے ہمیں مل کر رہے گا.ہننے والے بیشک نہیں کاش وہ اپنی اس ہنسی کے ساتھ ہماری یہ بات بھی نوٹ کر لیں کہ قادیان ہمیں ضرور ملکر رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی.قادیان خدا کے رسول کی تخت گاہ ہے اور تخت گاہ رسول پر کوئی دشمن قوم زیادہ دیر تک اس رنگ میں قابض نہیں رہ سکتی مگر جب تک قادیان ہمیں نہیں ملتا جماعت کے شیرازہ اور تنظیم کو ایک قائمقام مرکز پر جمع رکھنا نہایت ضروری ہے.بلکہ قادیان کی بحالی کے ساتھ لازم و ملزوم.۴.حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی درازی عمر اور آپ کے کاموں میں خدائی نصرت اور برکت اور رحمت کے لئے دعائیں کی جائیں.امام بے شک صرف ایک انسان ہوتا ہے اور فانی.اور جماعت ایک دائمی چیز ہے مگر جس وجود کے ذریعے جماعت کا شیرازہ خاص طور پر متحد ہوا ہو.اس میں خدا نے بے انتہا برکت رکھی ہوتی ہے.۵.جماعت کے ان مبلغین کے لئے خواہ وہ آنریری ہیں یا تنخواہ دار جو دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغ و تعلیم کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں دعائیں کی جائیں.نہ صرف ان کے مقاصد کی کامیابی

Page 581

۵۶۹ مضامین بشیر ۵۹ کے لئے بلکہ ان کی ذات اور خاندانوں کے لئے بھی وَمَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهُ ۶.سلسلہ کے مرکزی اور مقامی کارکنوں کے لئے بھی دعائیں کی جائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحیح طریق پر اور پاک نیت کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے.اور ان کی خدمت کو سلسلہ کے لئے ترقی اور مضبوطی کا ذریعہ بنائے.ے.ان دوستوں کے لئے دعائیں کی جائیں جو اس وقت مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے قادیان میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں اور اپنے پاک نمونہ اور مخلصانہ دعاؤں کے ذریعہ جماعت کے لئے برکت اور سرفرازی کا موجب بن رہے ہیں..ان کمزور لوگوں کے لئے بھی دعائیں کی جائیں جن کے قدموں کو ابتلاؤں نے ڈگمگا دیا ہے اور وہ موجودہ مصائب کی آندھی کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس رستہ کو قولاً یا عملاً چھوڑنے کی طرف مائل ہو رہے ہیں جو خدا نے دنیا کی نجات اور ترقی کے لئے مقدر کر رکھا ہے.اور وہ ایک دن ضرور نادم ہو کر پکاریں گے کہ اِنَّا كُنَّ الخَطینَ.لیکن کاش وہ ندامت کے وقت سے پہلے ہی ٹھوکر سے بچ جائیں اور مصیبت کے وقت میں بے وفائی کے داغ سے اپنا منہ کالا نہ کریں.۹.سلسلہ کے نوجوانوں یعنی جماعت کی آئندہ نسل کی اصلاح اور ترقی کے لئے دعائیں کی جائیں.یہ دعا ئیں بھی نہایت ضروری ہیں کیونکہ کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی بلکہ کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی جبکہ اسکی اگلی نسل اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہ ہو جو اس کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے.اور ہمارے موجودہ ابتلاء نے تو نو جوانوں کے لئے کئی قسم کے ٹھوکر کے سامان بھی پیدا کر رکھے ہیں.۱۰.پھر حکومت پاکستان کے استحکام اور مضبوطی کے لئے بھی دعائیں کی جائیں کیونکہ اول تو علاوہ عام اسلامی ہمدردی کے جو لوگ اس حکومت کے ماتحت رہتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ اس کی مضبوطی کے لئے خدا سے دعائیں کرتے رہیں اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مشہور الہام کہ غُلِبَتِ الرُّومُ فِى أدْنَى الْأَرْضِ وَهُمُ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ - اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جماعت کے بعض مسائل کا حل بھی اس حکومت کی مضبوطی کے ساتھ وابستہ ہے.خدا کرنے کہ ہماری دعائیں خدا کے حضور قبولیت کا شرف حاصل کریں اور ہم اس کی رحمت کو قریب تر لا کر اس مقصد کے حاصل کرنے میں کامیاب ہوں جو ہمارے لئے مقرر کیا گیا ہے.وَاخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينِ ( مطبوعه الفضل ۲۲ جون ۱۹۴۹ء )

Page 582

مضامین بشیر ۵۷۰ قادیان کے مستحق درویشوں کی امداد سابقہ اعلانات کے تسلسل میں لکھا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل مزید اصحاب نے قادیان کے درویشوں اور ان کے مستحق رشتہ داروں کی امداد کے لئے مندرجہ ذیل رقوم عنایت فرمائی ہیں.جزاهم الله خيراً.میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب سیالکوٹ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد دین صاحب ڈنگوی ایمن آباد صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ آف قادیان حال جودھامل بلڈنگ لاہور اہلیہ صاحبہ عبد الحمید صاحب ڈی ایس پی پشاور مرزا رمضان علی صاحب پشاور سلیمہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ محمد غوث صاحب مرحوم حید ر آباد دکن خانصاحب با بو برکت علی صاحب سابق ناظر بیت المال حال را ولپنڈی ڈاکٹر حافظ عبدالجلیل صاحب لاہور عبدالرحیم صاحب مالک فرم مولوی کلاتھ ہاؤس یہ صاحب اپنے پنے سے مطلع فرمائیں.) ۱۰ شیخ محمد بشیر صاحب آزادا نبالوی منڈی مرید کے :میزان 1...M......ro...19/......اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.اس کے علاوہ ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان نے اپنے بچہ کی پیدائش پر قادیان میں عقیقہ کرانے کے لئے مبلغ = / ۵۰ روپے ارسال کئے ہیں.فجزاه الله خيراً.اب رمضان کا مہینہ آرہا ہے اور اس کے بعد عید ہوگی جن دوستوں نے قادیان کے درویشوں کی امداد کے لئے یا ان کے ایسے رشتہ داروں کی امداد کے لئے جو پاکستان میں بے سہارا پڑے ہیں ، کوئی رقم بھجوانی ہو ، وہ جلد بھجوا کر عنداللہ ماجور ہوں.( مطبوعه الفضل ۲۲ جون ۱۹۴۹ء)

Page 583

۵۷۱ مضامین بشیر رمضان میں تلاوت قرآن کے دو دور ہر آیت پر غور کرنے کی عادت ڈالو! حال ہی میں میرا ایک مضمون الفضل میں شائع ہوا ہے جس میں میں نے اپنی سمجھ کے مطابق رمضان کے مبارک مہینہ میں دعاؤں پر خاص زور دینے کے متعلق دوستوں میں تحریک کی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے مخلصین اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے.ذیل کا مضمون رمضان ہی کے ایک دوسرے پہلو سے تعلق رکھتا ہے یعنی یہ کہ رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت کس طرح اور کتنی دفعہ ہونی چاہیئے ؟ جیسا کہ سب دوستوں کو معلوم ہے رمضان کے مہینہ کو قرآن کی تلاوت کے ساتھ مخصوص تعلق ہے کیونکہ قرآن کریم کے نزول کی ابتداء رمضان کے مہینہ میں ہی ہوئی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ - ۶۲ د یعنی رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں خدا کی آخری اور کامل شریعت کا نزول شروع ہوا.“ اسی وجہ سے رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت پر خاص زور دیا گیا ہے.حتی کہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر رمضان کے مہینہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام جو فرشتوں کے سردار ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور اس وقت تک قرآن کریم کا جتنا حصہ نازل ہو چکا تھا وہ آپ کے ساتھ مل کر دہراتے تھے.اس مشتر کہ دہرائی میں تین غرضیں مد نظر تھیں :- ا.تا کہ قرآن کے الفاظ زیادہ سے زیادہ مضبوطی اور زیادہ سے زیادہ پختگی کے ساتھ آنحضرت ۶۳ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں قائم اور راسخ ہو جائیں اور قرآنی الفاظ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (یعنی ہم تجھے قرآن سکھائیں گے اور ایسے رنگ میں سکھائیں گے کہ پھر وہ بھلایا نہیں جاسکے گا) کی ایک عملی تشریح قائم ہو جائے.۲.تا کہ قرآن کریم کے معانی اور معارف اور انوار کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ میں زیادہ سے زیادہ نفوذ ہو اور پھر آپ اس نور کو اپنی امت میں زیادہ سے زیادہ پھیلا سکیں جیسا کہ قرآن کی پہلی آیت کے نزول کے وقت حضرت جبرائیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ

Page 584

مضامین بشیر ۵۷۲ معانقہ کر کے آپ کے اندر خدائی نور کو داخل کرنے کی کوشش کی تھی.۳.تا کہ یہ قرآنی دور آپ کی امت کے لئے بھی ایک سبق ہو اور وہ اپنے رمضان کے مہینوں میں اسی رنگ میں قرآن کا دور کر کے زیادہ سے زیادہ برکت اور زیادہ سے زیادہ عرفان حاصل کر سکیں.لیکن اوپر والی حدیث کے ساتھ ہی روایتوں میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ جب قرآن شریف کا نزول مکمل ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری رمضان آیا تو اس رمضان میں جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قرآن کریم کے دو دور مکمل کئے اور گذشتہ سالوں کی طرح صرف ایک دور پر اکتفا نہیں کی.اس میں مسلمانوں کے لئے یہ اشارہ ہے کہ چونکہ ان کے لئے بھی قرآن کریم اپنی آخری مکمل صورت اختیار کر چکا ہے اس لئے اب انہیں بھی ہر رمضان میں قرآن کریم کے دو دور مکمل کرنے چاہئیں.یہ دو دور ہرگز کوئی مشکل کام نہیں بلکہ اگر انسان نصف گھنٹہ سے لے کر ایک گھنٹہ روزانہ تک ( کیونکہ مختلف لوگوں کی رفتار تلاوت مختلف ہوتی ہے) خرچ کرنے کے لئے تیار ہو اور یقیناً یہ کوئی زیادہ وقت نہیں تو ایک مہینہ میں دو دور بڑی آسانی کے ساتھ ختم کئے جا سکتے ہیں.اس دہرے دور میں یہ تصوف کا نکتہ مد نظر ہے کہ تا انسان اپنی اس خواہش کا عملی ثبوت پیش کرے کہ وہ قرآن شریف کو صرف ایک دفعہ پڑھنے پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ اس کی بار بار تلاوت اور تکرار کی خواہش رکھے گا.دراصل جو نیک کام بھی ایک دفعہ سے زیادہ دفعہ کیا جائے گا اس میں یہ نکتہ مضمر ہوگا کہ میں اس کام کو بار بار کروں گا اور اس کام کے کرنے میں تھکنے کا نام نہیں لوں گا.اسی واسطے عربی میں یہ محاورہ ہے لعود احمد یعنی تکرار ایک قابل تعریف صفت ہے اور اس میں ہر چیز کا حسن دوبالا ہو کر ترقی کر جاتا ہے.پس میری پہلی نصیحت دوستوں کی خدمت میں یہ ہے کہ وہ رمضان میں قرآن کریم کے ایک دور کی بجائے دو دور مکمل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس طرح ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل علیہ السلام کی مبارک سنت پوری ہوتی ہے اور دوسرے اس میں اس عزم کا اظہار بھی پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم وہ کتاب نہیں کہ جسے ہم ایک دفعہ پڑھ کر بھلا دیں بلکہ ہم اسے پھر پڑھیں گے اور پھر پڑھیں گے اور پھر پڑھیں گے اور پڑھتے ہی چلے جائیں گے.اس تعلق میں دوسری بات میں دوستوں سے قرآن کریم کی تلاوت کے طریق کے متعلق کہنا چاہتا ہوں یعنی یہ کہ قرآن کریم کس طرح پڑھا جائے اور اس کی تلاوت میں کیا پہلو مد نظر رکھا جائے؟ سو قرآن کریم کے مطالب اور محاسن تو اتنے وسیع ہیں کہ اسے یقیناً ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ کہا جاسکتا

Page 585

۵۷۳ مضامین بشیر ہے لیکن موٹے طور پر دوستوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ قرآن کریم کی آیات چار قسم کے مطالب پر مشتمل ہیں اور ہر قرآن پڑھنے والے شخص کو ان چاروں قسم کے مطالب کی طرف نگاہ رکھنی چاہیئے تا کہ قرآن کریم کی تلاوت کو زیادہ سے زیادہ مفید بنایا جا سکے.یہ چار قسم کے مطالب جن کی طرف قرآن کریم کے شروع میں ہی اشارہ کر دیا گیا ہے یہ ہیں :- ا.بعض آیتوں میں بعض باتوں کا علم دیا گیا ہے یعنی یہ کہ یہ کام کر دیا یہ اعمال بجالاؤ تا کہ تم دین و دنیا میں کامیابی اور کامرانی کا منہ دیکھ سکو.ایسے احکام عربی محاورہ کے مطابق اوا مر کہلاتے ہیں یعنی مثبت حکموں والی آیات.۲.اس کے مقابل پر بعض آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ فلاں کام نہ کرو یا فلاں قسم کے عمل سے بچ کر ر ہوتا کہ تم دین و دنیا میں ہلاکت کے راستہ سے محفوظ رہ سکو ایسے احکام عربی محاورہ میں نواهی کہلاتے ہیں یعنی منفی حکموں والی آیات.۳.پھر بعض آیات میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ فلاں قوم نے یہ یہ نیک کام کئے اور اس لئے خدا تعالیٰ نے اس پر اپنے فضل اور رحمت کی بارش برسائی اور اسے دین ودنیا میں کامیاب کیا ہے.یہ گروہ قرآنی محاورہ میں منعم علیہ گروہ کہلاتا ہے.۴.اور اس کے مقابل پر بعض آیات میں یہ ذکر آتا ہے کہ فلاں قوم نے یہ یہ بد اعمالیاں کیں اور اس وجہ سے خدا نے اس پر عذاب نازل کیا اور دین و دنیا میں روسیا ہی حاصل ہوئی یہ گروہ قرآنی حدود میں مغضوب علیہ گروہ کہلاتا ہے.اور جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں ان چاروں قسم کے مطالب کی طرف قرآن کریم نے اپنے شروع میں ہی اشارہ کر دیا ہے چنانچہ سورۃ فاتحہ میں فرماتا ہے :- ۶۴ اهْدِنَا الصِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ د یعنی اے خدا تو ہمیں اس قرآن کے ذریعہ تمام وہ باتیں بتا دے جو ہمیں کرنی چاہئیں.اور اسی طرح تمام ان باتوں پر آگاہ کر دے جو ہمیں نہیں کرنی چاہئیں اور پھر ہمیں انعام پانے والے اور غضب کا نشانہ بننے والے ہر دوگروہوں کے حالات بھی بتادے تا کہ ہم انعام پانے والوں کے رستہ کو اختیار کرسکیں اور عذاب کا نشانہ 66 بننے والوں کے رستہ سے بچ سکیں.اب اگر غور سے دیکھا جائے تو ساری قرآنی آیتیں انہی چار قسم کے مطالب میں منقسم نظر آتی ہیں.

Page 586

مضامین بشیر ۵۷۴ یعنی اگر کسی آیت میں کسی نیک عمل کا حکم ہوتا ہے تو کسی دوسری آیت میں کسی بد عمل سے روکا جاتا ہے اسی طرح اگر کسی آیت میں کسی انعام پانے والی قوم کا ذکر کر کے نیکی کی تحریک کی جاتی ہے تو کسی دوسری آیت میں کسی مغضوب علیہ قوم کی طرف اشارہ کر کے اس کے طریق سے ہوشیا را اور مجتنب رہنے پر زور دیا جاتا ہے.پس قرآن پڑھنے والے کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی آیت پر سے گذرے تو اس آیت کے مفہوم کو سامنے رکھ کر اپنے نفس میں محاسبہ کرتا جائے کہ کیا اس آیت میں جس کام کا حکم دیا گیا ہے میں اس پر پوری طرح کاربند ہوں یا کیا اس آیت میں جس کام سے روکا گیا ہے میں اس سے پوری طرح رکا ہوا ہوں ؟ اسی طرح اگر کسی آیت میں کسی منعم قوم کا ذکر ہے تو قرآن پڑھنے والا اپنے نفس میں غور کرے کہ کیا میں سچ مچ اس رستہ پر گامزن ہوں جو انعام پانے کا رستہ ہے اور اگر کسی آیت میں کسی مغضوب علیہ قوم کا ذکر ہے تو اس بات پر غور کرے کہ کیا میں غلطی سے خدا کے غضب کو بھڑ کانے والے رستہ پر تو قدم زن نہیں ہو رہا؟ اس طریق تلاوت کی طرف خود قرآن شریف نے اشارہ کیا ہے.چنانچہ سورۃ فرقان میں فرماتا ہے کہ: ۶۵ وَالَّذِينَ إِذَادُ كُرُوا بِايْتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّ وَاعَلَيْهَا صُمَّا وَ عُمْيَانًا BO یعنی سچے مومن وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے خدائی آیات آتی ہیں تو وہ ان آیتوں پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے.اس آیت میں یہی سبق دیا گیا ہے.اب ظاہر ہے کہ اس قسم کی تلاوت سے انسان قرآن کی ہر آیت کو اپنے لئے زندہ استاد اور ایک زبر دست سبق بنا سکتا ہے اور یہی قرآن کریم کی اصل غرض و غایت ہے.بیشک قرآن کریم میں حکمت اور عرفان کے بیشمار خزانے مخفی ہیں اور ہر انسان اپنے اپنے درجے اور اپنی اپنی جستجو کے مطابق ان خزانوں سے حصہ پاتا ہے اور پاسکتا ہے مگر قرآن کی اولین غرض یہ ہے کہ وہ انسانوں کے لئے شمع ہدایت کا کام دے اور یہ غرض صرف اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے اس کی ہر آیت کے متعلق یہ سوچا جائے کہ میں اس کے اوامر پر کہاں تک عمل کر رہا ہوں اور اس کے نواہی سے کہاں تک رکا ہوا ہوں اس رنگ میں تلاوت کرنے والا شخص چند دن میں ہی اپنے اندر ایسی غیر معمولی تبدیلی محسوس کرے گا جو زندگی بھر کی رسمی تلاوت سے بھی پیدا نہیں ہوسکتی.خدا کرے کہ ہماری تلاوت ایک بے جان اور مردہ تلاوت نہ ہو بلکہ ایسی زندہ تلاوت ہو جو ہر گھڑی پھولتی اور پھلتی اور ہر آن ایک نیا پھل پیش کرتی ہے.و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين الفضل ۲۶ جون ۱۹۴۹ء)

Page 587

مضامین بشیر ۵۷۵ قادیان کے درویشوں کی امداد سابقہ اعلانات کے تسلسل میں لکھا جاتا ہے کہ قادیان کے مستحق درویشوں اور ان کے پاکستان رہنے والے رشتہ داروں کی امداد میں مندرجہ ذیل مزید رقوم موصول ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب اصحاب کو اس کارِ خیر کا بہترین بدلہ عطا کرے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.شیخ عبدالحمید صاحب دیالہ سٹریٹ راج گڑھ لاہور شیخ فضل کریم وعبد الرحیم صاحبان کارخانه شورہ پھلر واں ضلع شاہ پور بیگم صاحبہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب چک - ۱۱/ ۶ ضلع منٹگمری ربیعہ خانم صاحبہ ہیڈ معلمہ گرلز سکول احمد نگر ضلع جھنگ ۵.اہلیہ صاحبہ مولانا مولوی غلام رسول صاحب را جیکی پیشاور چوہدری حاکم دین صاحب سابق تاجر قادیان حال لاہور ے.چوہدری محمد الدین صاحب پسر چوہدری حاکم دین صاحب مذکور چوہدری فضل دین صاحب را ۹.شریفہ شاہدہ بیگم صاحبہ بنت ۱۰.امتہ اللطیف صاحبہ ۲۰-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۲-۰-۰ ۲-۰-۰ ۵-۰-۰ ۲-۰-۰ ۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۴۵-۰-۰ // ۱۱.امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ۱۲.چوہدری نور احمد صاحب داماد // ۱۳.چوہدری حاکم دین صاحب مذکور ( برائے خرچ بجلی مسجد اقصیٰ قادیان ) -۱۴.صاحبزادی ذکیہ بیگم صاحبہ ( بیگم میجر مرزا داؤ داحمد صاحب) رتن باغ لاہور ۱۵.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب رتن باغ لاہور ۱۶.ایک صاحب جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے

Page 588

مضامین بشیر ۵۷۶ ۱۷.شیخ عبدالرحیم صاحب مالک فرم مولوی کلاتھ ہاؤس ریل بازار گجرانوالہ یہ صاحب پہلے بھی پانچ روپے دے چکے ہیں ) ۱ شیخ جمیل احمد صاحب والٹن روڈ لاہور ۱۹.اہلیہ صاحبہ ملک احمد الدین صاحب ہیڈ کانسٹیبل ٹو بہ ٹیک سنگھ ۲۰ بچگان ملک احمد الدین صاحب مذکور یہ ہر دور قوم بذریعہ محمد یوسف صاحب سیکرٹری مال وصول ہوئی ہیں ) ۲۱ - محمد علی خان صاحب ومحمد اکرام خان صاحب کمیشن ایجنٹ باندھی ضلع نواب شاہ سندھ ۲۲ محمد علی صاحب و محمد اکرم خان صاحب مذکوران برائے افطاری درویشان اوپر ہر دور قوم محاسب صاحب ربوہ کے نام گئی ہیں.ابھی تک میرے دفتر نہیں پہنچیں ) ۲۳.صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ ( بیگم مرزا رشید احمد صاحب ) کراچی ۲۴.صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ جو دھامل بلڈنگ لاہور (سابق اعلان میں ان کی رقم غلطی سے ۲۰ روپے درج ہوگئی تھی اصل رقم ۲۵ روپے ہے ) ۲۵.والدہ صاحبہ مسعود شاہد صاحب مرحوم سیالکوٹ ( اس کے علاوہ انہوں نے ۲۵ روپے کسی مستحق سید کو دینے کے لئے بھی بھجوائے ہیں ) کل میزان ۴-۰-۰ ۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۲۵-۰-۰ ۴۵۰-۰-۰ اللہ تعالیٰ ان جملہ بہنوں اور بھائیوں کو ان کے اس کارخیر کی بہترین جزا دے.آمین.اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب نے میری معرفت قادیان میں اپنی طرف سے رمضان کا فدیہ بھی بھیجوایا ہے.-۱ میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب سیالکوٹ ۲.صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ رتن باغ لاہور -۳- سیدہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ (اہلیہ پیر صلاح الدین صاحب) را ولپنڈی ۴.ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب ۵.صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رتن باغ لاہور حضرت ام المؤمنین صاحبہ اطال اللہ ظل ہما حال کوئٹہ ے.سید سردار حسین شاہ صاحب اوورسیز حال عارف والا ۴۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۲۵-۰-۰ ۴۵ - ۰-۰ ۶۰-۰-۰ ۱۵-۰-۰

Page 589

مضامین بشیر ۵۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۳۲۰ ۵۷۷ نواب زادہ میاں عبداللہ خان صاحب رتن باغ لاہور اہلیہ صاحبہ مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل قادیان ( یہ کچھ رقم اپنے طور پر لاہور میں بھی خرچ کر چکی ہیں ) ( مطبوعہ الفضل ۵/ جولائی ۱۹۴۹ء) کل میزان فجزاهم الله احسن الجزاء _A

Page 590

مضامین بشیر ۵۷۸ قادیان میں رمضان المبارک قادیان سے محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اطلاع دیتے ہیں کہ رمضان کا چاند ۲۷ /جون کی شام کو بعد نماز مغرب نظر آیا اور ۲۸ جون کو پہلا روزہ ہوا.رمضان کے ایام میں قادیان میں نماز تراویح کا انتظام اس طرح پر ہے کہ مسجد مبارک میں دو بجے بعد نصف شب حافظ الہ دین صاحب تراویح پڑھاتے ہیں اور مسجد اقصیٰ میں حافظ عبد العزیز صاحب عشاء کی نماز کے بعد تر اویح پڑھاتے ہیں اور مسجد ناصر آباد میں بھی عشاء کی نماز کے بعد قریشی فضل حق صاحب تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں.پہلے روزہ میں مسجد مبارک میں قریباً ایک سو پچاس درویشوں نے نماز تروایح با جماعت ادا کی اور بعض درویش دونوں وقت کی نماز تراویح میں شریک ہونے کی کوشش کرتے ہیں یعنی عشاء کے بعد مسجد اقصیٰ میں اور سحری سے قبل مسجد مبارک میں.صبح کی نماز کے بعد مولوی محمد شریف صاحب امینی مسجد مبارک میں بخاری کا درس دیتے ہیں.قرآن شریف کا درس بعد نماز ظہر ہوتا ہے.پہلے عشرہ میں مولوی محمد حفیظ صاحب درس دے رہے ہیں.دوسرے عشرہ میں مولوی غلام احمد صاحب ارشد درس دیں گے اور آخری عشرہ میں مولوی محمد شریف صاحب امینی درس دیں گے.مکرم بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اپنے اور اپنے اہل وعیال اور قادیان کے جملہ درویشوں کے لئے احباب جماعت سے دعا کی درخواست کرتے ہیں.( مطبوعہ الفضل ۶ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 591

۵۷۹ مضامین بشیر ضائع شدہ اسلحہ کی واپسی کی درخواست ناظر صاحب امور عامه صدرانجمن احمد یہ قادیان ضلع گورداسپوران ضائع شدہ اسلحہ کے متعلق جو فسادات کے ایام میں قادیان میں ضبط یا ضائع ہوئے تھے ، مقامی افسران سے خط و کتابت کر رہے ہیں.اب اس کے تعلق میں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ ایسے اسلحہ کی واپسی کے متعلق مالکان کو ڈپٹی ہائی کمشنر فار پاکستان ان انڈیا ، جالندھر کے نام درخواستیں بھجوانی چاہئیں.درخواست میں اسلحہ کی قسم ، تعداد، نمبر وغیرہ مع تمام ضروری کوائف کا اندراج کر دینا چاہئے.مطبوعہ الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 592

مضامین بشیر ۵۸۰ منشی بشیر احمد صاحب کہاں ہیں؟ قادیان میں ایک صاحب منشی بشیر احمد صاحب ہمارے مختار ہوتے تھے وہ اس وقت جہاں بھی ہوں اپنے پستہ سے اطلاع دے کر ممنون کریں.( مطبوعہ الفضل ۶ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 593

۵۸۱ مضامین بشیر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی علالت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئٹہ سے تازہ اطلاع یہ ہے کہ نقرس کا مرض بدستور جاری ہے لیکن ٹانگ کے درد میں گذشتہ شب سے کچھ کی ہے.گو پاؤں کے درد میں زیادتی ہوگئی ہے.احباب دعاء جاری رکھیں.( مطبوعہ الفضل ۱۳؍ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 594

مضامین بشیر ۵۸۲ قادیان میں ایک احمدی نوجوان کی گرفتاری قادیان سے محترمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی اطلاع دیتے ہیں کہ ان کے لڑکے عبدالسلام کو قادیان میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا کیا گیا ہے.بھائی صاحب سب دوستوں سے دعا کی درخواست کرتے ہیں.ابھی تک گرفتاری کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی.مگر اس قدر معلوم ہوا ہے کہ عزیز عبد السلام چند دن ہوئے مشرقی بنگال سے ہوتا ہوا با قاعدہ پرمٹ کے ساتھ قادیان گیا تھا تا کہ مقدس مقامات کی زیارت کے علاوہ اپنے والد صاحب محترم اور دوسرے بزرگوں سے ملاقات کر سکے اور تین چار دن میں واپسی کا ارادہ رکھتا تھا.دوست دعا سے امدا د فرما ئیں کہ اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو.آمین.( مطبوعہ الفضل ۱۳ / جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 595

۵۸۳ مضامین بشیر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے لئے اجتماعی دعا اور صدقہ کا انتظام ا.قادیان سے آئے ہوئے تازہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ سب دوست خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں.البتہ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ایگزیما کی وجہ سے بیمار ہیں اور گزشتہ ایام میں زیادہ تکلیف رہی ہے.اس کے علاوہ بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب بوجہ تقاضائے غم کمزور ہو رہے ہیں.ان ہر دو اصحاب کے لئے جن میں سے مکرم بھائی صاحب نہایت پرانے اور مخلص بزرگوں میں سے ہیں اور ڈاکٹر صاحب واقف زندگی مخلص کا رکن ہیں ، دعا فرمائی جائے.۲.قادیان سے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ جب انہیں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی موجودہ علالت کے متعلق میری تار پہنچی تو فوراً سب دوستوں کو جمع کر کے اجتماعی دعا کی گئی اور صدقہ اور امداد غرباء کے لئے دوسور و پیہ چندہ جمع کیا گیا اور تین بکرے ذبح کرائے گئے.۳.امیر جماعت قادیان نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ قادیان میں ایک غیر مسلم پناہ گزین نے اصرار کے ساتھ درخواست کی ہے کہ اس کے لئے دعا کی اور کرائی جائے کہ اُس کی شراب کی عادت چھوٹ جائے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے فضل سے قادیان میں ہمارے دوستوں کا دینی اور اخلاقی اثر مخالف ماحول کے باوجو د شریف طبقہ میں ترقی کر رہا ہے.دوست دعا کریں کہ اس غیر مسلم پناہ گزین کی شراب کی عادت چھوٹ جائے تا کہ یہ اُس کے لئے مزید تقویت کا موجب ہو.( مطبوعہ الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 596

مضامین بشیر ۵۸۴ قادیان کے درویشوں کی امداد اور احباب کا شکریہ میری تحریک پر جن بھائیوں اور بہنوں نے قادیان کے درویشوں اور ان کے مستحق رشتہ داروں کی امداد کے لئے روپیہ بھجوایا ہے ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.یہ فہرست ان احباب کی ہے جنہوں نے گزشتہ شائع شدہ فہرست کے بعد رقمیں بھجوائی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں اس کارِ خیر کی بہترین جزا دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین یا اَرْحَمَ الرَّاحِمِين ماسٹر خیر دین صاحب پورن نگر سیالکوٹ -۲ امت اسلیم بیگم صاحبہ بنت چوہدری عنائت اللہ خان صاحب بہاولپور.میاں غلام محمد صاحب اختر اے.پی.او.لاہور شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال ٹو بہ ٹیک سنگھ یہ صاحب پہلے بھی امداد دے چکے ہیں) اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد اکرام صاحب مذکور برکت بی بی اہلیہ شیخ محمد اکرام صاحب مذکور صدیقہ بیگم صاحبہ بنت شیخ محمد اکرام صاحب معه بچگان عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک اللہ رکھا صاحب چیف گڈس کلرک لاہور.حافظ عبدالرحمن صاحب ٹیچر حویلی ضلع منٹگمری ۱۰ استانی رحمت الہی صاحبہ زوجہ حافظ عبدالرحمن صاحب ۱۱.عبداللطیف خان صاحب ابن یحیی خان صاحب مرحوم ۱۲.اہلیہ صاحبہ عطاء اللہ صاحب کا تب لاہور ۱۳ آمنہ بی بی صاحبہ اہلیہ قاضی حبیب اللہ صاحب لاہور ۱۰-۰-۰ روپے ۵-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۲-۰-۰ ۲-۰-۰ ۲-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۵-۰-۰ 1.-•-• 1.-•-• ۸-۰-۰

Page 597

۵۸۵ مضامین بشیر ۱۴ قمر جہان بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر کرنیل عطاء اللہ صاحب را ولپنڈی ۱۵.مسٹر ضیاء اللہ صاحب زم ریڈیو لاہور ۱.سردار النساء صاحبہ رتن باغ لاہور ۱۷.اہلیہ صاحبہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ۱۸.امتہ المجید صاحبہ ایم.اے بنت میاں وزیر محمد صاحب پٹیالوی ۱۹.غلام احمد صاحب زرگر سیالکوٹ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ چو ہدری محمد علی صاحب تعلیم الاسلام کالج -۲۱.شیخ محمد بشیر صاحب آزاد منڈی مرید کے محمد دین صاحب پال سیالکوٹ اہلیہ صاحبہ بابوا کبر علی صاحب مرحوم آف قادیان حال ملتان ۲۴.اہلیہ صاحبہ عبداللہ خان صاحب معرفت افغان سٹورراولپنڈی ۲۵.افغان اسٹور نمک منڈی راولپنڈی ۲۶.مقبول خانم صاحبہ بنت میاں محمد عالم صاحب راولپنڈی ۲۷.مخدوم نذیر احمد صاحب فروٹ سپیشلسٹ لائل پور نذیراحمد لائل ۲۸.سیٹھی عبدالحق صاحب جہلم ۲۹ شیخ مختار نبی صاحب گوجرانوالہ ۳۰.چوہدری محمد الحق صاحب کلرک گوجرانوالہ ۳۱.حکیم شیخ فضل حق صاحب مزنگ روڈ لاہور ۳۲.عفت النساء بیگم صاحبہ زوجہ عبدالجلیل صاحب عشرت لاہور ۳۳.عبدالجلیل صاحب عشرت لاہور ۳۴.فرخنده اختر صاحبہ زوجہ عطا الرحمن صاحب کرشن نگر لاہور میزان ۲۰-۰-۰ ۲۵ - ۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۰-۰-۰۷ ۵-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۳۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۵۶۹-۰-۰ روپے اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب نے افطاری یا فدیہ کے طور پر مندرجہ ذیل رقوم دی ہیں جو ان کی طرف سے قادیان بھیجوا دی گئی ہیں.فجزاهم الله خيراً.ا.قاضی محمد عبد اللہ صاحب ناظر ضیافت لاہور برائے افطاری

Page 598

مضامین بشیر ۵۸۶ ۲.نواب محمد دین صاحب مرحوم بطور فدیہ ( دراصل نواب صاحب مرحوم نے ۶۰ روپے کا چیک محاسب کے نام دیا تھا مگر وہاں سے صرف ۵۳ روپے وصول ہوئے ).سیدہ فضیلت بیگم صاحبہ سیا لکوٹ برائے افطاری أم مظفر احمد صاحب رتن باغ لاہور ۵.اہلیہ خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم آف ڈیرہ دون بطور فدیہ -۶.صاحبزادی امتہ الحفیظ صاحب رتن باغ لاہور برائے افطاری چوہدری فقیر محمد صاحب ڈی.ایس.پی معہ ممتاز بیگم صاحبہ اہلیہ خود بطور فدیہ - محمد دین صاحب پال سیالکوٹ بطور فدیہ محمد اسمعیل صاحب جھنگ مگھیا نہ برائے عقیقہ بچگان ۱۰.اہلیہ صاحبہ سید عبد الحئی صاحب آف منصوری بطور فدیہ.حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبه حرم اول حضرت امیرالمومنین ایده اللہ تعالیٰ بطور فدیہ ۱۲.حضرت سیدہ ام ناصر صاحب حرم اول برائے افطاری ان کی طرف سے ۲۰ روپے کی رقم چندہ حفاظت میں بھی آئی تھی جو دفتر محاسب ربوہ کو بھجوا دی گئی ہے.) لجنہ اماءاللہ راولپنڈی بذریعہ سیدہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ برائے افطاری ۱۴.اہلیہ صاحبه با بوا کبر علی صاحب مرحوم آف قادیان حال ملتان بطور فدیه ۱۵.چوہدری فتح محمد صاحب سیال آف قادیان بطور فدیہ ۱۶.حضرت ام المومنین صاحبہ اطال اللہ ظلها حال کوئٹہ بطور فدیہ ( یہ رقم براہ راست قادیان گئی ہے ) میزان ۵۳-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۱۲-۰-۰ ۵۰-۰-۰ ۵۰-۰-۰ ۳۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۰-۰-۰۷ ۱۵-۰-۰ ۳۰-۰-۰ ۲۵-۰-۰ ۲۵-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۶۰-۰-۰ ۰-۰ - ۵۰۵ روپے اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب کی طرف سے امداد درویشان وغیرہ کی مد میں چیک وصول ہو چکے ہیں مگر ابھی تک کیش نہیں ہوئے.اللہ تعالیٰ انہیں بھی اس کارخیر کی بہترین جزا دے.آمین چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کراچی ۲.ڈاکٹر سید رشید احمد صاحب کو ئٹہ معہ اہلیہ و دختران ۴۰-۰-۰

Page 599

۵۸۷ مضامین بشیر ۳.حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میجر ایم ایس صاحب لاہور چھاؤنی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر حیدر آباد دکن جماعت احمد یہ لائل پور بذریعہ شیخ محمد یوسف صاحب ۶.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ڈی سی میانوالی ھ ے.خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب آف قادیان حال پیشاور بطور فدیہ میزان ۲۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۱۳۰-۰-۰ ۵۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۳۸۰-۰-۰ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان جملہ احباب اور خواتین کو جزائے خیر دے اور ان کا حافظ و ناصر ہو.ہم نے ان کے لئے قادیان بھی دعا کے واسطے لکھا ہے.( مطبوعہ الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 600

مضامین بشیر ۵۸۸ قادیان میں ماہِ رمضان ، ذکر وفکر کے روح پرور نظارے اس سے قبل قادیان میں ماہ رمضان کے درسوں اور تراویح کے متعلق محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی رپورٹ الفضل میں شائع ہو چکی ہے.اب بھائی صاحب مکرم اپنے تازہ خط میں ہے.لکھتے ہیں کہ : قادیان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے معذور درویشوں کے سوا تمام درویش شوق اور اخلاص سے روزے رکھ رہے ہیں اور ریاضت و تلاوت و ذکر الہی و تسبیح و تحمید نیز دعا و درود میں مصروف ہیں.اکثر نے آپ کی تحریک کی تعمیل میں قرآن شریف کے دو دور ختم کرنے کا عزم کر لیا ہے بلکہ ایک دور ختم کر کے دوسرا دور شروع بھی کر دیا ہے.قرآن کریم کا درس سورۃ انبیاء تک مکمل ہو چکا ہے اور رات کے پچھلے حصہ کی تراویح میں آج مورخہ ۱۴ / جولائی ۱۹۴۹ء سورۃ روم ختم ہوئی اعتکاف بیٹھنے والے اجازت کے لئے درخواستیں دے چکے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کا رمضان یقیناً اپنی مثال آپ ہے.بلحاظ ذکر وفکر اور عبادت اور ریاضت کے شاید اس کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ہوگی.مقاماتِ مقدسہ ذاکرین کے ہجوم سے اٹے رہتے ہیں.تلاوت کی گونج فضا کو معطر رکھتی ہے.فالحمد للہ.ثم الحمد لله ـ ثم الحمد لله امید ہے اوپر کی رپورٹ دوستوں کے لئے نیکی کی تحریک کے علاوہ قادیان کے دوستوں کے لئے دعا کی تحریک کا بھی موجب ہو گی.ہمارے یہ دوست اس وقت جس ماحول میں زندگی گذار رہے ہیں اور پھر جس رنگ میں وہ قادیان میں بیٹھے ہوئے ساری جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ اس بات کی مستحق ہے کہ انہیں اپنی دعاؤں میں خاص طور پر یا د رکھا جائے کہ خدا نے چاہا تو یہی تخم آئندہ چل کر قادیان کی بحالی کا درخت بننے والا ہے.نیز جیسا کہ میں ایک سابقہ اعلان میں بتا چکا ہوں اس وقت مکرمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کا لڑکا عبدالسلام مہتہ قادیان میں سیفٹی ایکٹ کی دفعہ نمبر ۵ کے ماتحت گرفتا ر ہے.وہ مقامات مقدسہ کو دیکھنے اور اپنے بزرگ باپ کی ملاقات کرنے کے لئے ایک با قاعدہ پرمٹ کے ماتحت قادیان گیا تھا

Page 601

۵۸۹ مضامین بشیر مگر پرمٹ کے استعمال میں ایک اصطلاحی غلطی کے الزام میں گرفتار ہو کر مصیبت میں مبتلا ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے طبعا مکرمی بھائی صاحب کو بھی بہت پریشانی لاحق ہے.اس کے علاوہ وہ آج کل ٹائیفائیڈ سے بیمار بھی ہے.لہذا دوست اسے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے شفاء اور بریت عطا فرمائے.( مطبوعہ الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 602

مضامین بشیر ۵۹۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے متعلق بعض سوالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی خصوصاً وہ جنہیں حضور کی زندگی میں قادیان جا کر رہنے کا موقع ملا ہو مطلع فرمائیں کہ : - ا.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی آخری زمانہ میں حضر کی حالت میں نماز میں امام بنے ؟ آخری زمانہ سے مراد جبکہ قادیان میں احباب کا آنا جانا کثرت سے شروع ہو چکا تھا اور حضر سے یہ مراد ہے کہ جب آپ قادیان میں مقیم ہوں یا کسی لمبے عرصہ کے لئے باہر تشریف لے گئے ہوں اور وہاں مقیم ہوں.۲.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کسی شخص کا خطبہ نکاح خود پڑھا ؟ میری مراد یہ ہے کہ کیا دعوی کے بعد آپ نے کسی احمدی کا خطبہ نکاح پڑھا ؟.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کسی احمدی کی شادی کے موقع پر اس کی برات میں شریک ہوئے؟ ۴.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کسی احمدی کی دعوت ولیمہ میں شرکت کی؟ ۵.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی اپنے اہتمام میں کسی کی دعوت ولیمہ کا انتظام کیا ؟.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کسی کی نماز جنازہ خود پڑھائی ؟ یعنی کیا کبھی آپ خود نماز جنازہ میں امام بنے ؟ ۷.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی آخری زمانہ میں اعتکاف بیٹھے؟.کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کسی کو سفر کی حالت میں روزہ رکھنے کی اجازت دی؟.( مطبوعہ الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 603

۵۹۱ مضامین بشیر قادیان کے تازہ حالات قادیان سے آئے ہوئے تازہ خطوط سے مندرجہ ذیل کو ائف معلوم ہوئے ہیں جو دوستوں کی اطلاع اور دعا کی تحریک کی غرض سے شائع کئے جاتے ہیں.ا.ابتدائی چند روزے شدت گرمی کی وجہ سے سخت گزرے مگر بعد میں بارش ہوگئی اور اس وقت تک دو تین دفعہ اچھی بارش ہو چکی ہے اور موسم میں کافی حد تک خوشگوار تبدیلی ہو گئی ہے اور تمام دوست سوائے بیماروں اور معذوروں کے باقاعدہ روزے رکھ رہے ہیں.مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں اعتکاف بیٹھنے والوں کی تعداد ۶۳ ہے جو غالباً آبادی کی نسبت کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے بڑی تعداد ہے.۲.مورخہ ۱۰ جولائی ۱۹۴۹ء کو عبد السلام مہتہ پسر محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو پر مٹ کے غلط استعمال کے الزام میں سیکیورٹی ایکٹ کی دفعہ نمبر ۵ کے ماتحت گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں ان کی بیماری کی وجہ سے ڈاکٹری سرٹیفکیٹ پر ۵۰۰۰ روپے کی ضمانت پر رہا کیا گیا.گرفتاری کے وقت پولیس نے مہتہ عبد السلام کی تلاشی بھی لی اور بعض خطوط وغیرہ اپنے ساتھ لے گئی مگر کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی.مقدمہ کی تاریخ یکم اگست مقرر ہوئی ہے.احباب عبد السلام صاحب کی صحت یابی اور بریت کے لئے دعا فرمائیں.ان کے والد صاحب محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سلسلہ کے نہایت مخلص بزرگوں میں سے ہیں..ڈاکٹر بشیر احمد صاحب واقف زندگی جو ایک بہت مخلص کارکن ہیں اور قادیان میں ڈاکٹری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، ایک عرصہ سے ایگزیما کی تکلیف میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ان کی مجموعی صحت پر بھی بہت اثر پڑ رہا ہے، ان کے لئے دعا کی جائے.اسی طرح بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب جو سلسلہ کے پرانے بزرگ ہیں دن بدن کمزور ہورہے ہیں.ان کے لئے بھی دعا فرمائی جائے.۴.قادیان کی بعض مساجد فسادات کے دنوں سے شکستہ اور قابل مرمت حالت میں پڑی ہیں.اس کے متعلق ہمارے دوستوں نے مقامی افسروں سے درخواست کی تھی کہ ان کی مرمت کرائی جائے کیونکہ یہ مسجد میں اس حلقہ میں ہیں جو غیر مسلموں کے قبضہ میں ہے اور حکومت ہی ان کی نگران ہے.

Page 604

مضامین بشیر ۵۹۲ لیکن مقامی افسروں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ چونکہ ان مسجدوں کے ساتھ کوئی ایسی جائیدا د ملحق نہیں ہے جو آمدن دے رہی ہو اس لئے ان کی مرمت کا انتظام نہیں ہوسکتا.ہمارے دوستوں کی طرف سے اس کا یہ جواب دیا جا رہا ہے کہ اول تو مساجد جو مقدس مذہبی عبادت گاہیں ہیں عام قانون سے مستقی ہونی چاہئیں کیونکہ ایسی عمارتوں کے متعلق گورنمنٹ کی خاص ذمہ داری ہے.دوسرے قادیان کی سب مساجد صدرانجمن احمد یہ قادیان کے نام پر ہیں اور اس وقت انجمن کی لاکھوں روپے کی جائیداد گورنمنٹ کے قبضہ میں ہے.پس اس وجہ سے بھی مساجد کی مرمت ضروری ہے.۵.مورخہ اا ر جولائی ۱۹۴۹ء کو تین احمدی جن کا تعلق احمد یہ شفا خانہ قادیان کے ساتھ ہے محلہ دارالرحمت میں ایک غیر مسلم کو دوائی دینے کے لئے ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے ماتحت گئے جب وہ واپس آ رہے تھے تو ۹ بجے شام کے قریب مسجد شیخاں کی گلی کے پاس سے گذرتے ہوئے ان پر پیچھے سے چھ سات غیر مسلموں نے لاٹھیوں سے حملہ کر دیا.ایک دوست کو معمولی سی ضرب بھی آئی مگر وہ جلدی سے واپس آگئے اور خدا کے فضل سے زیادہ نقصان نہیں ہوا.اس واقعہ کی رپورٹ پولیس کی چوکی میں کر دی گئی ہے.۶.مولوی برکات احمد صاحب ناظر امور عامه قادیان جو مولانا غلام رسول صاحب را جیکی مبلغ سلسلہ کے فرزند ہیں لکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ سے ان کی شنوائی پر اثر پڑ رہا ہے اور کچھ فاصلہ کی آواز اچھی طرح سنائی نہیں دیتی حالانکہ مولوی صاحب عمر کے لحاظ سے ابھی گو یا جوان ہیں.دوست ان کے لئے دعا کریں اور اگر کسی ڈاکٹر کو اس بیماری کا کوئی مؤثر نسخہ معلوم ہو تو مطلع فرما ئیں.ے.قادیان کے دوستوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ اور بہشتی مقبرہ کے باغ اور بعض دوسرے باغوں کے کچھ آم قادیان سے بھجوائے تھے جو یہاں لاہور میں عزیزوں اور دوستوں میں تقسیم کر دیئے گئے.(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 605

۵۹۳ مضامین بشیر قادیان خط لکھتے ہوئے پتہ احتیاط سے لکھیں امیر جماعت احمد یہ قادیان مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ پنڈت کنج بہاری لال نے قادیان میں ایک نیا فتنہ کھڑا کیا ہے اور وہ یہ کہ مقامی ڈاک خانہ میں اس نے اپنا پتہ اس طرح رجسٹر کرایا ہے کہ: سنج بہاری لال امیر جماعت قادیان اس سے اس کا مقصد یہ ہے کہ جو ڈاک امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نام جائے وہ اس کے پاس پہنچ جایا کرے اور یہ شرارت اس سے کرائی گئی ہے.اس لئے دوستوں کی اطلاع اور ہدایت کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ آئندہ قادیان میں کوئی خط محض "امیر جماعت قادیان کا پتہ لکھ کر نہ بھیجا جائے.بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ صرف امیر جماعت احمدیہ قادیان“ بھی نہ لکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ امیر کا نام یعنی ”مولوی عبد الرحمن صاحب مولوی فاضل“ بھی ضرور لکھا جائے.اسی طرح صدرانجمن احمدیہ کے باقی عہدہ داروں کے نام بھی خط لکھتے ہوئے صرف عہدہ نہ لکھا جائے بلکہ نام بھی ساتھ ضرور درج کیا جائے مثلاً صرف ناظر امور عامہ قادیان نہ لکھا جائے بلکہ مولوی برکات احمد صاحب ناظر امور عامہ جماعت احمد یہ قادیان لکھا جائے.( مطبوعہ الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 606

۵۹۴ مضامین بشیر چندہ امداد درویشاں کی تازہ فہرست سابقہ فہرست کے تسلسل میں اعلان کیا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل مزید دوستوں نے قادیان کے درویشوں اور ان کے مستحق رشتہ داروں کے لئے ذیل کی رقوم عطا کی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے.آمین ا.قریشی عبدالمنان صاحب رشدی ابن با بواحمد اللہ صاحب مرحوم سیالکوٹ.سلطانہ اقبال بیگم صاحبہ بنت بابو صا حب مذکور حنیفہ طاہرہ بیگم صاحبہ بنت با بوصاحب مذکور ۴.نذیر احمد صاحب سیال کوئی حال لاہور ۵.جماعت احمد یہ چک نمبر ۲۹۵ گ.ب ٹو بہ ٹیک سنگھ لائل پور حمیدہ بیگم صاحبہ سیکرٹری لجنہ اماءاللہ گولیکی.گجرات - حضرت سیدہ ام متین صاحبہ حرم ثالث حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کوئٹہ ۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۲۴-۰-۰ ۵-۰-۰ ۲۵-۰-۰ ۴-۰-۰ ۲-۰-۰ 1-•-• 1-•-• ۵-۰-۰ ۱۲-۰-۰ ۵۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۲۰-۰-۰ شیخ رحیم بخش صاحب سود اگر چرم اوکاڑہ والدہ صاحبہ شیخ نور احمد صاحب اوکاڑہ ۱.اہلیہ صاحبہ شیخ نور احمد صاحب اوکاڑہ ا.اہلیہ صاحبہ شیخ بشیر احمد صاحب اوکاڑہ ۱۲.اہلیہ صاحبہ شیخ محمد شریف صاحب اوکاڑہ اہلیہ صاحبہ شیخ فیروز دین صاحب اوکاڑہ -۱۴ ماسٹر حاکم علی صاحب مدرس اوکاڑہ اہلیہ صاحبہ ملک محمد مقبول صاحب گوجرانوالہ ۱۶.بیگم بہادر شیر خاں صاحب سرحد معرفت صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ رتن باغ ۱۷.مرزا شریف بیگ صاحب منٹگمری جیل -۱۸ حامدہ عفت بیگم صاحبہ تعلیم القرآن کلاس ربوه فہمیدہ بیگم صاحبہ بیگم کیپٹن عبد اللطیف صاحب مالیر کینٹ

Page 607

۵۹۵ مضامین بشیر ۲۰ صو بیدار غلام رسول صاحب وی.ایس.ڈی مالیر کینٹ ۲۱.حلیمہ بیگم صاحبہ سیٹھی چکوال فضل دین ،عبدالحکیم صاحبان اوکاڑہ ۲۳.حکیم عبدالرحمن صاحب چک جھمرہ لائل پور ۲۴.جماعت احمد یہ باغبان پورہ لاہور ۲۵.میاں شمس الدین صاحب لنڈی کو تل پشاور ۲۶.میاں سعد اللہ صاحب ترنگ زئی چارسدہ پیشاور ۲۷.ڈاکٹر محمد احمد صاحب آف قادیان و مبشر احمد پسر خورد حال لاہور اکرام حیدر صاحب پسر ڈاکٹر غلام حیدر صاحب لاہور بشیر الدین صاحب طاہر پورن نگر سیالکوٹ ۳۰.خواجہ محکم الدین صاحب گھلنا مشرقی پاکستان ۳۱.اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی حال گوجرانوالہ نیم نصرت صاحبه دختر شیخ عبدالقیوم صاحب مرحوم بٹالوی ۳۳ امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ ملک محمود احمد خاں صاحب بٹالوی ۳۴ - ملک محمود احمد خاں صاحب پسر شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی ۳۵.ڈاکٹر محمدابراہیم صاحب منٹگمری انہوں نے مستحق درویش کے لئے ایک قمیص بھی دی ہے ) ۳۶.لجنہ اماءاللہ پسرور نذیرہ بشیر بیگم صاحبہ ایم بشیر احمد صاحب بھا گو وال کلاں گجرات ۳۸.محمد اعظم صاحب والد محمد حسین صاحب چنتہ کنٹہ (دکن) والدہ صاحبہ شیخ گلزار احمد صاحب آف کلکتہ حال چنیوٹ ۴۰.منیر احمد صاحب پسر شیخ محمد صدیق صاحب آف کلکتہ حال لاہور محبوب عالم صاحب راجپوت سائیکل ورکس لاہور ۴۲.لجنہ اماءاللہ کوئٹہ بذریعہ عارفہ بیگم صاحبہ بذریعہ تار میزان ۵-۰-۰ ۲-۰-۰ ۳۵-۰-۰ ۵۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۱۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۴۰-۰-۰ ۱۷۸-۰-۰ ۷۱۴-۰-۰ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل دوستوں نے افطاری یا فدیہ کے لئے رقوم دی ہیں جو قادیان بھجوادی

Page 608

مضامین بشیر ۵۹۶ گئی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی دین و دنیا میں بہتر جزا دے.آمین ا.شیخ محمد حسین صاحب قانونگو پنشنز شیخو پوره بطور فدیہ میاں عبدالرحیم صاحب پراچہ کال ٹیکس ایجنٹ ملتان بطور فدیہ.میاں عبدالرحیم صاحب پراچہ مذکور برائے افطاری ۴.جماعت احمدیہ جیمز آباد (سندھ) برائے افطاری ۵- صاحبزادی امتہ السلام بیگم ( بیگم مرزا رشید احمد صاحب) کراچی بطور فدیہ.نواب محمد دین صاحب مرحوم بذریعہ چوہدری محمد شریف صاحب منٹگمری بطور فدیہ ( نوٹ : نواب صاحب مرحوم کی طرف سے - ۵۳ روپے بطور فدیہ وصول ہوئے تھے مگر ان کی نیت - ۶۰ روپے کی تھی جسے ان کے فرزند نے پورا کر دیا ) اہلیہ صاحبہ قاضی محمد اسلم صاحب پر و فیسر لاہور بطور فدیہ ملک فضل کریم خان صاحب محمد نگر لاہور بطور فدیہ چوہدری مولا بخش صاحب محمد نگر لاہور بطور فدیہ ۱۰.ڈاکٹر غلام حید ر صاحب نکلسن روڈ لاہور برائے افطاری.ملک غلام رسول صاحب شوق لاہور بطور فدیہ ۱۲.بیگم صاحبہ میاں عبداللہ خاں صاحب رتن باغ لاہور برائے افطاری معتکفین قادیان ۱۳.محمد حنیف صاحب مینیجر ڈیری فارم مالیر کینٹ برائے افطاری میزان ۵۰-۰-۰ ۳۰-۰-۰ ۶۰-۰-۰ ۳۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۳۰-۰-۰ ۵۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۴۰-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۳۸۷-۰-۰ اللہ تعالیٰ ان جملہ بھائیوں اور بہنوں کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین ( مطبوعہ الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 609

۵۹۷ مضامین بشیر قادیان میں درس قرآن کے اختتام پر دعا قادیان سے مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمد یہ لکھتے ہیں کہ قادیان میں قرآن کریم کا درس انشاء اللہ ۲۶ جولائی کو ختم ہوگا اور اسی دن عصر کے بعد ساڑھے چھ بجے یا پونے سات بجے کے قریب دعا شروع ہوگی.سو یہ اعلان ان کی خواہش کے مطابق کرایا جاتا ہے تا جو دوست اس دعا میں غائبانہ طور پر شریک ہونا چاہیں ، وہ شرکت کا ثواب حاصل کر سکیں.غالباً ( گو مجھے اس کا پختہ علم نہیں ) اسی دن اسی وقت کے قریب ربوہ میں بھی دعا ہو گی اور انشاء اللہ رتن باغ لاہور میں بھی درسِ قرآن کے اختتام پر اسی وقت کے قریب دعا ہو گی.کوئٹہ میں اس سال حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیماری کی وجہ سے درس نہیں دے سکے اس لئے وہاں کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر بہر حال حضور رمضان کے اختتام پر لازماً زیادہ دعا ئیں فرمایا کرتے ہیں.امید ہے دوست اپنی دعاؤں میں وہ دس امور خاص طور پر یاد رکھیں گے جن کے متعلق میں نے الفضل مورخہ ۲۲ جون ۱۹۴۹ء میں تحریک کی تھی.مطبوعہ الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 610

مضامین بشیر ۵۹۸ قادیان میں مکانوں کے کرائے گذشتہ کرایوں میں بھی مزید کمی کر دی گئی کچھ عرصہ ہوا میں نے قادیان کے بعض مکانوں کے وہ کرائے نوٹ کر کے الفضل میں شائع کرائے تھے جو حکومت مشرقی پنجاب نے غیر مسلم پناہ گزینوں سے چارج کرنے کا فیصلہ کیا ہے.یہ کرائے مکانوں کی اصل حیثیت کے مقابلہ پر بہت ہی کم تھے بلکہ بعض صورتوں میں صرف دس فیصدی اور بعض میں صرف بیس فیصدی اور بعض میں صرف تیس فیصدی تھے.گویا ستر فیصدی سے لے کر نوے فیصدی تک کی رعایت تھی لیکن تازہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ غیر مسلم کرایہ داروں کے احتجاج پر سابقہ کرایوں میں بھی مزید کمی کر دی گئی ہے.چنانچہ اب بعض مکانوں کے کرائے مندرجہ ذیل مقدار میں لگائے گئے ہیں : - ا.مکان ایڈیٹر صاحب نور محلہ دارالفضل ۲ مکان چوہدری غلام حسن صاحب سفید پوش محلہ دار الفضل مکان ملک غلام فرید صاحب ایم.اے دار الفضل ۰.۱۱.۴.ماہوار ۴۰۰.ماہوار ۵-۵-۰.ماہوار مکان ملک مولا بخش صاحب پریذیڈنٹ ٹاؤن کمیٹی دار الفضل ۳-۳-۰.ماہوار ۵.کوٹھی صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ( تینوں حصے ) دار الفضل ۲۹۵-۰.ماہوار کوٹھی مولوی محمد الدین صاحب ہیڈ ماسٹر دار الفضل کوٹھی میاں غلام محمد صاحب اختر دارالبرکات مکان خان صاحب ڈاکٹر محم عبد اللہ صاحب دارالبرکات مکان خان بہادر غلام محمد صاحب گلگتی دار الفضل ۱۰ مکان میر قاسم علی صاحب مرحوم دار الفضل ا.مکان ڈپٹی فقیر اللہ صاحب دار البرکات ۱۲ مکان حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم دار العلوم ۱.کوٹھی دار السلام نواب محمد علی خان صاحب مرحوم ۱۰۰۰.ماہوار ۲۴۰۰.ماہوار ۵-۰.۷.ماہوار ۱۴-۵-۰.ماہوار ۴۰۰.ماہوار ۶۰۰.ماہوار ۳-۵-۰.ماہوار ۲۰۰۰.ماہوار

Page 611

مضامین بشیر ۱۴-۰-۰ ۱۲۰۰ ۵۳۰ لد الد.1•_• ۵-۵-۰ ۰.۱۱.۳ ۵۰۰ ۱۲۰۰ ۳-۵-۰ ۰.۹۵ ۳-۵-۰ 1_11_ +7♡77 ۰.۱۱.۴ ۱۵۰۰ ۵۹۹ ۱۴ مکان خان بہادر شیخ رحمت اللہ صاحب دار العلوم ۱۵.کوٹھی بابوا کبر علی صاحب مرحوم دار العلوم کوٹھی با بوعبد العزیز صاحب دار العلوم ۱۷.مکان ڈاکٹر سید ولایت شاہ صاحب دارالرحمت کوٹھی میر ظفر اللہ صاحب دار الرحمت ۱۹.مکان شیخ اللہ بخش صاحب دار الرحمت مکان بھائی محمود احمد صاحب دار الرحمت مکان قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی دار البرکات شرقی ۲۲.مکان قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی دار البرکات شرقی ۲۳.کوٹھی دار الحمد مملکولہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ دارالانوار ( دوحصے) ۲۴.کوٹھی چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے دار الانوار ۲۵.کوٹھی ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب دار الانوار ۲۶.مکان ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب دارالانوار ۲۷.مکان صاحبزادہ میر داؤ د احمد صاحب دارالانوار ۲۸.مکان ڈاکٹر شاہ نواز صاحب دارالانوار ۲۹.کوٹھی سید عزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم دارالانوار ۳۰.مکان میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب دارالانوار کوٹھی سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب دارالانوار ۳۲.کوٹھی مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے دارالانوار ۳۳.کوٹھی صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دارالانوار ۳۴ مکان مرزا احمد بیگ صاحب انکم ٹیکس آفیسر دارالانوار ۳۵.کوٹھی ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان دارالانوار ۳۶.کوٹھی خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم انسپکٹر مدراس دار الانوار ۳۷.مکان سیٹھ عبد اللہ بھائی الہ دین صاحب ( ہر دو حصہ ) دار الانوار

Page 612

مضامین بشیر ۶۰۰ اوپر کی کوٹھیوں اور مکانوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کے کمروں کی تعداد پندرہ پندرہ ہیں ہیں تیں تھیں تھی اور بعض کے ساتھ وسیع باغات بھی ملحق تھے اور قریباً سب کے سب میں بجلی لگی ہوئی تھی اور کئی ایک میں اپنے موٹر پمپ بھی تھے.صرف مثال کے طور پر اتنا ذکر کرنا کافی ہے کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے مکمل مکان کا کرایہ ۳/۵/۰ لگایا گیا ہے.حالانکہ انہیں اس مکان کے صرف ایک حصے کا کرایہ / ۰ ۵ مل رہا تھا.یہی حال دوسرے مکانوں اور دوسری کو ٹھیوں کا ہے.جس فراخ دلی سے پاکستان میں کرائے تجویز کئے جارہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے میں خیال کرتا ہوں کہ غالباً اوپر کے سارے مکانوں کا مجموعی کرایہ لاہور کی ایک اچھی کوٹھی کے کرایہ سے بھی کم ہوگا.مثلاً سنا گیا ہے (واللہ اعلم) کہ جو دھامل کا کرایہ / ۴۰۰ روپے اور رتن باغ کا کرایہ/ ۲۰۰ روپے تجویز کیا جا رہا ہے.حالانکہ اوپر کی فہرست کی ۳۷ عدد کوٹھیوں اور مکانوں کا مجموعہ کرایہ / ۱۰ / ۲۸۹ روپے بنتا ہے.بہر حال یہ اعداد و شمار پاکستان کی پبلک اور حکومت کے لئے بے حد قابل غور ہیں اور دونوں جہت سے اصلاح کی ضرورت ہے.ایک یہ کہ پاکستان میں کرائے نہایت معقول طور پر کم کئے جائیں اور دوسرے یہ کہ جو کرائے ہندوستان میں مسلمانوں کے متروکہ مکانوں کے لگائے جا رہے ہیں ، انہیں وزارتی لیول پر گفت و شنید کر کے اور مناسب اصول تجویز کر کے معقول صورت میں زیادہ کروایا جائے.ورنہ جب دونوں حکومتوں کے درمیان مترو کہ جائیداد کے آخری فیصلہ کی نوبت آئے گی تو اس وقت پاکستان بے حد خسارہ میں رہے گا اور افراد کا نقصان مزید برآں ہوگا.مطبوعہ الفضل ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 613

۶۰۱ مضامین بشیر چنده امداد در ویشان قادیان کی تازہ فہرست سابقہ اعلان کے تسلسل میں چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان جملہ بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو جنہوں نے میری تحریک پر اپنے درویش بھائیوں اور ان کے مستحق رشتہ داروں کی امداد کے لئے چندہ دیا ہے.فجزاهم الله خيراً مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی معہ اہلیہ خورد چوہدری محمد طفیل صاحب ولد ماسٹر چراغ محمد صاحب آف کھارا بابوسراج الدین صاحب آف محلہ دارالفضل حال لاہور لجنہ اماء اللہ کوئٹہ حلقہ اسلام آباد بذریعہ اہلیہ صاحبہ شیخ عبدالعزیز صاحب ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب خانپور ڈھیری مبارک احمد صاحب معاہد خان پور ہزارہ محمد ابراهیم صاحب غلہ منڈی جڑانوالہ صفیہ بیگم صاحبہ بنت حافظ غلام رسول صاحب مرحوم وزیر آبادی مخدوم محمد ایوب صاحب امیر جماعت بھیرہ چوہدری نذیر احمد صاحب باڈہ ضلع لاڑکانہ سندھ امتہ الحئی صاحبہ بنت محمد بشیر صاحب چغتائی گوجرانولہ قریشی مطیع اللہ صاحب قادیانی حال سیالکوٹ سیده سعیدہ فاطمہ صاحبہ بنت سید ظہور الحسن صاحب مرحوم پیشاور ۱۴ شیخ عبدالقادر صاحب سوداگر چرم حلقہ سلطان پورہ لاہور ۱۵ میاں محمد علی صاحب راعی حلقہ اسلامیہ پارک لاہور ۱۶ میاں مجید احمد صاحب سیکرٹری مال لاہور ۱۷ میاں غلام محمد صاحب ثالث معہ پسران و اہلیہ خورد بھاٹی گیٹ لاہور عبدالحئی صاحب بٹ.سیالکوٹ 11.......M..۲۵۰

Page 614

مضامین بشیر ۱۹ سیدابوالحسن صاحب پشاور ۶۰۲ 10.جماعت احمد یہ حلقہ گڑھی شاہو لا ہور بذریعہ عبدالحمید صاحب عارف صدر حلقہ ۲۱ شیخ محمد حسین صاحب چمڑا منڈی لاہور ۲۲ عبد المنعم نعیم صاحب ابن عبد الغفور صاحب کڑک لا ہور ۲۳ ایک خاتون سکنہ قادیان ثم ماڈل ٹاؤن حال کو ہ مری (انہوں نے اپنا نام ظاہر کر نیکی اجازت نہیں دی ) ۲۴ ڈاکٹر محمد دین صاحب آف قادیان حال لنڈی کوتل ۲۵ شیخ عبد المالک صاحب سپرنٹنڈنٹ ڈرائنگ آفس ریلوے لاہور اہلیہ صاحبہ شیخ عبد المالک صاحب مذکور ۲۷ شمیم شوکت صاحبہ بنت شیخ عبدالمالک صاحب مذکور ملک عبدالوہاب صاحب طالبعلم مغلپورہ کالج کل میزان.11.1......٣٣٩٠ نوٹ :.( موخر الذکر چار اصحاب نے یہ رقم قادیان کے دوستوں کے لئے فدیہ کے طور پر دی ہے ) اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اصحاب نے افطاری اور فدیہ کے طور پر ذیل کی رقوم دی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر دے:.چوہدری غلام حسین صاحب آف سفید پوش آف محله دارالفضل حال لائکپور بطور فدیہ لجنہ اماءاللہ کوئٹہ حلقہ اسلام آباد بذریعہ اہلیہ صاحبہ شیخ عبد العزیز صاحب ا حکیم فضل محمد صاحب معہ اہلیہ خور دو ہی ضلع پشاور چوہدری نذیر احمد صاحب باڈہ ضلع لاڑکانہ سندھ برائے افطاری اہلیہ صاحبہ کیپٹن شیخ نواب الدین صاحب ڈرگ روڈ کراچی بطور فدیہ سردار غلام حیدر صاحب گڑھی شاہو لا ہور بطور فدیہ اہلیہ سردار غلام حیدر صا حب مذکور چوہدری فتح محمد صاحب آف کالرا دیوان سنگھ حال کرشن نگر لاہور کل میزان ۲۵۰ 11 IT M......۱۵ ۱۵۰ ( مطبوعه الفضل ۲۸ / جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 615

۶۰۳ مضامین بشیر قادیان جانے کے لئے اپنا نام پیش کرنے والے دوست توجہ کریں ا.جن دوستوں نے قریباً ایک سال ہوا قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کئے تھے اور پھر کانوائے کا انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے وہ نہیں جا سکے اور اس کے بعد پرمٹ سسٹم جاری ہو جانے پر ان کی طرف سے درخواستیں بھی پُر کر کے متعلقہ محکمہ میں بھجوائی جا چکی ہیں وہ مہربانی کر کے اپنے موجودہ پتوں سے بہت جلد اطلاع دیں اور اپنے وعدہ کے مطابق بلائے جانے پر قادیان جانے کے لئے تیار رہیں.۲.اس کے علاوہ اگر کوئی مزید دوست قادیان جانے کے لئے اپنا نام پیش کرنا چاہتے ہوں تو وہ بھی دفتر ہذا کو اطلاع دے کر ممنون کریں.لیکن یہ خیال رہے یہ جانا مستقل رہائش کی غرض سے ہوگا تا کہ جو دوست قادیان سے واپس آنے والے ہیں انہیں فارغ کیا جا سکے.اس غرض کے لئے زیادہ تر قادیان اور اس کے ماحول کے دوستوں کو درخواست دینی چاہیئے.دنیا کے دھندوں سے فارغ ہو کر قادیان کے خالص دینی اور روحانی ماحول میں زندگی گزارنے اور خدمت مرکز بجالانے کا یہ ایک نادر موقع ہے.گو یہ انتظام بہر حال حکومت کی طرف سے اجازت ملنے پر ہی ہو سکے گا.فی الحال صرف فہرست مکمل کرنے کا سوال ہے.( مطبوعہ الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۹ء)

Page 616

مضامین بشیر ۶۰۴ قادیان میں ایک درویش کی تشویشناک بیماری ا.قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ مجید احمد صاحب موٹر ڈرائیور چند دن سے بہت سخت بیمار ہیں اور حالت تشویشناک ہے.مجید احمد ایک مخلص نوجوان ہے اور بڑے شوق کے ساتھ ہر خدمت میں حصہ لیتا رہا ہے.احباب اس کی صحت کے لئے خاص طور پر دعا فرمائیں.۲.نیز ڈاکٹر بشیر احمد صاحب بھی جو قادیان کی احمد یہ ڈسپنسری کے انچارج ہیں ، ایک عرصہ سے بیمار چلے آتے ہیں.انہیں ایگزیما کی تکلیف ہے جس کا بار بار دورہ ہوتا ہے اور دورہ کے ایام میں تکلیف انتہا کو پہنچ جاتی ہے.ڈاکٹر صاحب موصوف نہایت مخلص کارکن اور واقف زندگی ہیں.ان کے لئے بھی دعا کی جائے..عبد السلام صاحب مہتہ کے متعلق دو دفعہ دعا کی تحریک کی جا چکی ہے.اب ٹائیفائیڈ کا بخار تو اتر چکا ہے لیکن ابھی کمزوری کافی ہے.علاوہ ازیں جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے عبدالسلام قانون پرمٹ کے ماتحت گرفتار ہے اور اس وقت ضمانت پر رہا ہے جس کی میعاد۱۵ راگست کو ختم ہورہی ہے.عبد السلام کے والد محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نہایت مخلص اور قدیم بزرگوں میں سے ہیں.اس کے لئے بھی احباب دعا جاری رکھیں.۴.اس کے علاوہ قادیان میں بعض ضعیف العمر مثلاً بابا شیر محمد اور میاں صدرالدین انتہائی کمزوری کی حالت کو پہنچ چکے ہیں.انہیں بھی دوست اپنی دعاؤں میں یا درکھ کر عنداللہ ماجور ہوں.وَمَنْ كَانَ فِي عَوْنِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي عَوْنِهِ _ ( مطبوعه الفضل ۱۰ راگست ۱۹۴۹ء)

Page 617

مضامین بشیر مبارک بادوں کا شکریہ میرے چھوٹے لڑکے عزیز مجید احمد سلمہ کے ایم.اے ( تاریخ ) کے امتحان میں پاس ہونے پر بہت سے عزیزوں اور دوستوں اور بزرگوں نے مبارکباد کے تار اور خط ارسال کئے ہیں.میں ان سب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں.جزاکم اللہ خیراً.دراصل مومنوں کی جماعت اپنے خوشی اور غم کے موقعوں پر ایک دوسرے کے سہارے پر قائم ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے سہارے سے راحت اور تسکین اور مضبوطی حاصل کرتی ہے کہ یہی جماعت کے نظریہ کا مرکزی نقطہ ہے.مگر میں دوستوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اس خوشی کی شرکت کے علاوہ دعا فرمائیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے عزیز مجید احمد کو علم کا ظاہری معیار پورا کرنے کی توفیق دی ہے اسی طرح اسے حقیقی علم سے بھی نوازے اور پھر اس علم پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کرے.آمین، کہ یہی ہماری زندگیوں کا اصل مقصد اور منتہا ہے.مطبوعه الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۴۹ء )

Page 618

مضامین بشیر ۶۰۶ شیخ مشتاق احمد صاحب کے لئے دعا کی تحریک محتر می شیخ مشتاق احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور خاص مخلصین میں سے ہونے کے علاوہ مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لا ہور کے والد ہیں.ایک عرصہ سے بیمار چلے آتے ہیں.قریباً ڈیڑھ ماہ سے جبکہ ان کی رفیقہ حیات فوت ہوئی ہیں ان کی حالت زیادہ نازک اور زیادہ تشویشناک ہوگئی ہے.بلڈ پریشر کے علاوہ دل اور اعصاب پر بھی اثر ہے اور اکثر اوقات نیم بیہوشی اور کبھی کبھی پوری بے ہوشی کی حالت رہتی ہے.احباب سے درخواست ہے کہ شیخ صاحب محترم کو اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.جوں جوں صحابہ کی مقدس جماعت کا وجود کم ہوتا جاتا ہے توں توں ان کی قدر بڑھ رہی ہے اور بڑھنی چاہیئے.اللہ تعالیٰ مسیح کے ان مقدس رفقاء کو تا دیر سلامت رکھے اور حافظ و ناصر ہو کیونکہ یہ ایک بیش بہا قومی خزانہ ہے.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۰ / اگست ۱۹۴۹ء)

Page 619

۶۰۷ مضامین بشیر چندہ امداد درویشاں کی تازہ فہرست گذشته شائع شدہ فہرست کے بعد جن بہنوں اور بھائیوں نے امداد درویشان کی غرض سے رقوم ادا کی ہیں ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے اور جس طرح انہوں نے اپنے بھائیوں کی امداد کی ہے اللہ تعالیٰ ان کی تکلیفوں و حاجتوں میں ان کا حافظ و ناصر ہو.آمین یا ارحم الراحمين ا.لجنہ اماءاللہ مانگٹ اونچے بذریعہ صادقہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد شریف صاحب ۲.جماعت احمدیہ علی پور ملتان بذریعہ مولوی نور محمد صاحب اوورسیر ( یہ جماعت پہلے بھی معقول رقم دے چکی ہے ) ۳.اہلیہ صاحبہ عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی محله رام پورہ پشاور ۴.چوھدری عزیز احمد صاحب بشیر آباد اسٹیٹ سندھ (انہوں نے دس روپے حضرت صاحب کے صدقہ کے طور پر بھی بھجوائے ہیں ) ۵.جماعت احمد یہ ٹو بہ ٹیک سنگھ ، بذریعہ پیر محمد یوسف صاحب سیکرٹری مال ۵۷-۰-۰ ۲-۰-۰ ۵-۰-۰ ۱۳-۰-۰ ۶.لجنہ اماء اللہ لائل پور بذریعہ امته الرؤف بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد اسمعیل صاحب ۰-۴-۳۶ دیا لگڑھی.۷.بیگم صاحبہ کیپٹن ایچ اے کلیم بہاولپور ضلع سیالکوٹ ممتاز علی صاحب دیپال پور ضلع منٹگمری ۹.ڈاکٹر خیر الدین صاحب ویٹرنری اسسٹنٹ خانقاہ ڈوگراں ۱۰.غلام قادر صاحب مشرق سکندر آباد دکن ۱۱.ساره بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ شیخ مشرق صاحب مذکور ۱۲.نذیر احمد صاحب پسر مشرق صاحب مذکور ۱۳.عظیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ نذیراحمد صاحب مذکور ۱۴.علیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ غلام حسین کرم علی صاحب سکندر آباد دکن ۱۵.خان بہادر محمد دلاور خانصاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر پشاور حال کوہ مری ۵-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۵-۰-۰ ۳۰-۰-۰

Page 620

مضامین بشیر ۶۰۸ ۱۶.آغا عبدالرحیم صاحب آف قادیان حال ماڈل ٹاؤن لاہور ۱۷.فاضل شاہ صاحب حال سیالکوٹ 1.-•-• ۵-۰-۰ ۱۸.مرزا مظفر احمد صاحب ڈی ہی.میانوالی (ان کی طرف سے چیک کی وصولی کا پہلے ۰-۰-۵۰ اعلان ہو چکا ہے اب یہ چیک کیش ہو کر آیا ہے ) ۱۹.حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میجر ایم ایس احمد صاحب لاہور چھاؤنی (چیک اب کیش ہو کر آیا ہے) ۲۰.ڈاکٹر سید رشید احمد صاحب کوئٹہ بمعہ اہلیہ و دختران ( چیک اب کیش ہو کر آیا ہے ) ۲۱.شیخ منور حسین صاحب وکیل منڈی بہاؤالدین از طرف متفرق احباب ۲۰-۰-۰ ۴۰-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۲۲.مولوی عبدالکریم صاحب نواں محلہ جہلم معرفت مبارک احمد صاحب ایم ایس سی ۰-۰-۲۵ (ابھی تک تفصیل نہیں پہنچی ) ۲۳.میاں دوست محمد صاحب حجانہ ڈیرہ غازیخان ۲۴.چوہدری نذیر احمد صاحب طالب پوری حال ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ۲۵.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب آف قادیان حال کراچی ۵-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۲.ایم محمد دین صاحب خادم سیکرٹری مال جماعت احمد یہ کبیر والاضلع ملتان ( تفصیل ۰-۰-۲۵ ابھی تک نہیں پہنچی) ۲۷.نواب اکبر یار جنگ صاحب بہا در حیدر آباد دکن ( نواب صاحب نے لکھا ہے کہ ۰-۰-۵۰ کچھ رقم براہ راست بھی قادیان بھجوا چکے ہیں ) ۲۸.چوہدری عبدالرحیم صاحب بی.اے سکنہ انبالہ حال چک نمبر ۲۹۵گ.ب ٹو بہ ٹیک سنگھ ۲۹.چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب کراچی ( چیک اب کیش ہو کر آیا ہے ) ۳۰.ایک صاحب معرفت عبد الحئی صاحب بٹ سیالکوٹ میزان رقوم امداد درویشاں ۵-۰-۰ ۳۱۳-۰-۰ ۱۰۹۱۴-۰ اس کے علاوہ مندجہ ذیل بہنوں اور بھائیوں نے بعض رقوم فدیہ اور افطاری وغیرہ کے طور پر بھی ارسال فرما ئیں.اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر دے.آمین ۱.اہلیہ صاحبہ ممتاز علی صاحب دیپال پور ضلع منٹگمری بطور فدیہ ۲.نذرحسین صاحب تھانیدار دیپالپور ۳.راجہ محمد افضل صاحب کو وال ضلع جہلم بطو ر فطرانہ ( قادیان بھجوانے کے لئے ) ۲۰۰۰ •_•

Page 621

۶۰۹ مضامین بشیر ۴.مولوی نور محمد صاحب اوورسیئر امیر جماعت احمدیہ علی پور بطور صدقہ قادیان ۰-۰-۵ بھجوانے کیلئے ) ۵ منشی محمد مستقیم صاحب سیکرٹری مال علی پور بطور صدقہ ( قادیان بھجوانے کیلئے ) ۵۰۰ ۶.طاہرہ بیگم صاحبہ مولوی عبد الوہاب صاحب عمر جودھا مل بلڈنگ لاہور (بطور ۱۰۰۰ صدقہ قادیان بھجوانے کیلئے ) میزان رقوم فدیہ وغیرہ ابھی رقوم آ رہی ہیں اور بعض رقوم کے چیک آچکے ہیں مگر ابھی تک کیش نہیں ہوئے ان کے بعد ہی اعلان کیا جائے گا.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر دے اور حاظ و ناصر ہو.( مطبوعه الفضل ۱۲ / اگست ۱۹۴۹)

Page 622

مضامین بشیر ۶۱۰ قادیان کے سابقہ اور موجودہ کرائے ۲۶ جولائی ۱۹۴۹ء کے الفضل میں میں نے قادیان کے بعض مکانات کے موجودہ کرائے نوٹ کر کے شائع کئے تھے جو اس وقت غیر مسلم پناہ گزینوں سے وصول کئے جار ہے ہیں.اسی تعلق میں ذیل کے اعداد و شمار بھی دوستوں کی دلچسپی کا موجب ہوں گے.اس فہرست کے پہلے خانہ میں وہ کرائے دکھائے گئے ہیں جو تقسیم پنجاب سے قبل مقامی میونسپل کمیٹی نے ہاؤس ٹیکس کی غرض سے تشخیص کئے تھے اور دوسرے خانہ میں وہ کرائے دکھائے گئے ہیں جو موجودہ ایام میں غیر مسلم پناہ گزینوں سے چارج کئے جا رہے ہیں.دونوں کا فرق ظاہر وعیاں ہے جس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں.البتہ یہ بات ضرور یا درکھنی چاہیئے کہ جو کرائے میونسپل کمیٹی نے ہاؤس ٹیکس کی غرض سے تشخیص کئے تھے وہ عموماً ان کرایوں سے کافی کم تھے جو مالکان مکان عملاً خود چارج کرتے تھے اس طرح یہ فرق اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے.بہر حال دونوں قسم کے کرائے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.شمار نمبر نام مالک مکان ا.صاحبزادہ کیپٹن مرزا شریف احمد صاحب سابقه کرایه مطابق موجودہ کیفیت تشخیص میونسپل کمیٹی کرایہ ۴۰-۰-۰ ۲۹-۵-۰ ۳-۵-۰ ۱۷-۰-۰ ۱۴-۰-۰ ۷۴-۰-۰ ۱۲-۰-۰ ۵۰-۰-۰ ۳-۵-۰ ۳۷-۸-۰ ۹-۵-۰ ۲۵-۰-۰ ۳-۳-۰ ۱۳-۰-۰ ۴-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۲.حضرت مولوی شیر علی صاحب بی.اے مرحوم خان بہادر شیخ رحمت اللہ صاحب ریٹائرڈ گیریزن انجینئر حضرت امیر المومنین امام جماعت احمدیہ ( کوٹھی دارالحمد) چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے سابق ایم ایل اے ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب بی.اے ایل.ایل.بی پی.سی.الیس شیخ اللہ بخش صاحب ریٹائر ڈایکسائز انسپکٹر - ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال

Page 623

مضامین بشیر ۳-۵-۰ ۱۵-۰-۰ ۶-۰-۰ ۱۵-۰-۰ 10-10-0 ۴۵-۰-۰ 1-11-• ۱۲-۸-۰ ۷-۵-۰ ۲۵-۰-۰ ་་་ ا.صاحبزادہ میرزا داؤ داحمد صاحب بی.ایس.سی کیپٹن ڈاکٹر شاہ نواز صاحب ایم بی بی ایس ا.سید عزیز اللہ شاہ صاحب مرحوم فارسٹ آفیسر ۱۲.میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات ۱۳.سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامه مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے سابق امام مسجد لنڈن ۱۵.صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ۱۶ ملک عمر علی صاحب بی.اے رئیس ملتان ۱۷.خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب ایم.اے ریٹائر ڈ انسپکٹر آف سکولز ۱۸.سیٹھ عبد اللہ بھائی الہ دین صاحب تاجر حیدر آباد ۱۵-۰-۰ ۲۵-۰-۰ ۴-۰-۰ ۴-۱۱-۰ ۴-۰-۰ ۲۱-۸-۰ ۱۵-۰-۰ ۳۱-۸-۰ ۳۰-۰-۰ نوٹ :.ان سب کو ٹھیوں میں بجلی لگی ہوئی تھی اور کئی ایک میں موٹر پمپ بھی تھے جن سے ملحقہ باغ سیراب ہوتا تھا اور ان میں سے بعض میں پندرہ پندرہ بیس میں چھپیں چھپیں رہائشی کمرے تھے اور جو کرائے بعض مالکان ذاتی طور پر وصول کرتے تھے وہ موجودہ کرایوں سے آٹھ آٹھ دس دس گنا زیادہ تھے.اس تعلق میں اخبار الفضل مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۴۹ء کا صفحہ دوم بھی ضرور ملا حظہ فرمایا جائے.( مطبوعه الفضل ۱۳ / اگست ۱۹۴۹ء )

Page 624

مضامین بشیر ۶۱۲ قادیان میں ایک معمر درویش کی وفات امیر جماعت احمدیہ قادیان اطلاع دیتے ہیں کہ قادیان میں بابا شیر محمد صاحب وفات پاگئے ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بابا شیر محمد صاحب مرحوم کی عمر کم و بیش ۹۰ سال کی تھی اور قادیان جانے والے آخری کنوائے میں اسی نیت اور ارادے کے ساتھ گئے تھے کہ وہیں وفات پانے کی سعادت حاصل کریں گے.جہاں تک مجھے علم ہے مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور موصی بھی تھے.یہ وہی بزرگ ہیں جن کے متعلق چند دن ہوئے میں نے الفضل میں دعا کی تحریک کی تھی.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.قادیان کے موجودہ دور میں بابا شیر محمد صاحب دوسرے درویش ہیں جو قادیان میں فوت ہوئے.اس سے قبل گذشتہ سال حافظ نور الہی صاحب کی وفات ہوئی تھی ایک اور درویش بھی وفات پاچکے ہیں وہ اپنی بیماری کے آخری لمحات میں لاہور پہنچ گئے تھے اور یہیں تین دن بعد ان کی وفات ہوئی.ان کا نام میاں حسن محمد تھا.احباب ان سب مرحومین کے واسطے دعا کرنے کے علاوہ قادیان کے باقی دوستوں کے لئے بھی دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کے وجو د کو جماعت کے لئے برکت و رحمت کا موجب بنائے.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۹ راگست ۱۹۴۹ء)

Page 625

۶۱۳ مضامین بشیر احمدی شہدا کی فہرست درکار ہے احباب جماعت توجہ فرمائیں گو ۱۹۴۷ء کے قیامت خیز طوفان میں خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کا جانی نقصان نسبتاً بہت کم ہوا.تاہم جیسا کہ اس قسم کے عام ہنگامہ میں ہوا کرتا ہے، کئی احمدی افراد شہید ہوئے اور خود مرکز سلسلہ یعنی قادیان میں بھی بعض لوگوں نے ان فسادات میں شہادت پائی.چونکہ ایسے دوستوں کے اسماء مرتب کر کے محفوظ کر لینا ضروری ہیں اور سلسلہ کی تاریخ کا ایک اہم ورق ہے اس لئے احباب جماعت کو تحریک کی جاتی ہے کہ ان کے علم میں جو جو احمدی افراد ( مرد اور عورت اور بچے اور بوڑھے ) گذشتہ فسادات میں شہید ہوئے ہوں ، ان کی فہرست مرتب کر کے خاکسار راقم الحروف کو ارسال فرما دیں.میری دانست میں احمدی شہداء کی سب سے بڑی تعدا دریاست پٹیالہ سے تعلق رکھتی ہے اور نسبتی لحاظ سے سب سے کم لوگ قادیان میں شہید ہوئے ہیں.البتہ ضلع گورداسپور کے بعض دوسرے مقامات مثلاً موضع و نجواں اور موضع فیض اللہ چک میں احمدی شہداء کی تعداد کافی رہی ہے.اسی طرح اضلاع جالندھر اور ہوشیار پور میں بھی غالباً یہ تعداد زیادہ ہوگی.بہر حال جس جس جگہ احمدی شہید ہوئے ہوں وہاں کے دوستوں کو چاہیئے کہ یہ فہرست جلد تر مرتب کر کے مجھے بھجوا دیں.اس فہرست میں ذیل کے کوائف درج کئے جائیں : - ا.نام شہید ۲.ولدیت ۳.سکونت ضلع ۵.تاریخ شہادت اگر یا د ہو اور مختصر کوائف شہادت اگر معلوم ہوں میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس تاریخی ریکارڈ کی طرف کماحقہ توجہ دے کر ممنون فرمائیں گے.( مطبوعه الفضل ۱۳/ اگست ۱۹۴۹ء)

Page 626

مضامین بشیر ۶۱۴ قادیان میں ایک نیا فتنہ احباب اپنے دوستوں کے لئے دعا فرمائیں چند دن ہوئے اخبار الفضل میں حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے اللہ رکھا سکنہ ضلع سیالکوٹ حال قادیان کے متعلق اخراج از جماعت اور مقاطعہ کا اعلان شائع ہوا تھا اور حضور نے یہ بھی لکھا تھا کہ اندیشہ ہے کہ یہ شخص کوئی فتنہ نہ بر پا کرے کیونکہ وہ مخالفوں کے ساتھ مل کر شرارت پر آمادہ ہے.اسی تعلق میں آج قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ اللہ رکھا مذکور نے ہمارے بعض دوستوں کے خلاف قادیان کے مقامی مجسٹریٹ سردار امولک سنگھ کی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۱۰۷ کے ما تحت حفظ امن کا دعویٰ دائر کر دیا ہے جن کی تہہ میں سوائے شرارت اور فتنہ انگیزی کے اور کوئی غرض مدنظر نہیں ہے اور یہ دعویٰ سراسر جھوٹ اور افتراء پر مبنی ہے.تعداد افراد درویشان جن کے خلاف درخواست دی گئی ہے ستائیس ہے جن میں مولوی برکات احمد صاحب بی.اے اور ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے اور ڈاکٹر بشیر احمد صاحب صوبیدار مولوی برکت علی صاحب ، صوفی عبد القدیر صاحب بد و ملهوی، فضل الہی صاحب، بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار اور منشی محمد صادق صاحب وغیرہ شامل ہیں.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کو اس شر سے محفوظ رکھے اور حافظ و ناصر ہو.تاریخ سماعت ۱۶ را گست مقرر ہوئی ہے.مطبوعه الفضل ۱۳ راگست ۱۹۴۹ء)

Page 627

۶۱۵ سيرة المهدی کے متعلق دوستوں کا مشورہ مضامین بشیر جیسا کہ دوستوں کو علم ہے اس وقت میری تصنیف سیرۃ المہدی کے تین حصے شائع ہو چکے ہیں اور خدا کے فضل سے اس کا چوتھا حصہ زیر طباعت ہے.چونکہ میرا یہ طریق رہا ہے کہ ہر بعد والے حصہ میں سابقہ حصہ کی قابل تشریح روایات کی ضروری تشریح درج کر دیا کرتا ہوں.اس لئے اگر دوستوں کے علم میں سیرۃ المہدی حصہ سوم کی کوئی روایت قابل تشریح نظر آئے اور اس سے پہلے اس کی تشریح نہ ہو چکی ہو تو مجھے اطلاع دے کر ممنون فرمائیں بلکہ اگر حصہ اول اور حصہ دوم کی کوئی روایت قابل تشریح نظر آئے اور اس سے پہلے اس کی تشریح نہ ہو چکی ہو تو اس کے متعلق بھی مطلع فرمائیں.( مطبوعه الفضل ۱۴ اگست ۱۹۴۹ء )

Page 628

مضامین بشیر ۶۱۶ امداد درویشان کی تازہ فہرست سابقہ اعلان کے بعد جن بہنوں اور بھائیوں نے امداد درویشان کی مد میں چندہ دیا ہے ان کے نام ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے اور دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین ا.لیڈی ڈاکٹر الیس اختر صاحبہ کوئٹہ - سردار بشیر احمد صاحب اور سیئر رسول حال کوئٹہ - احمد دین صاحب ہیڈ سٹور کیپر کھیوڑہ چوہدری محمد مختار صاحب ٹھیکیدار قلعہ صوبہ سنگھ - میاں محمد امین صاحب زرگر قلعہ صوبہ سنگھ ۲۰-۰-۰ روپے ۳-۰-۰ ۲۵-۰-۰ آمنہ بیگم صاحبہ بنت مولوی قطب الدین صاحب آف کا لکا حال کوئٹہ ۰-۰-۵ ے.نذیر احمد خان صاحب آرٹیلری میدان کراچی نواب اکبر یار جنگ صاحب بها در حیدر آباد دکن محمد مسعود شاہ صاحب انسپکٹر پولیس لاہور ۴۰-۰-۰ ۵-۰-۰ ۲۰-۰-۰ ۱۰.جمعدار محمد امین صاحب معہ والدہ و اہلیہ و بچگان ضلع سیالکوٹ ۱۱.زہرہ اشفاق بیگم صاحبہ اہلیہ کیپٹن محمد صفدر صاحب اوٹی ایس کو ہاٹ ۱۲.جماعت احمدیہ کو چہ چابک سواراں لاہور معرفت با بو فضل دین صاحب ۰-۰-۲۷ محمد صدیق صاحب قادیانی غلہ منڈی لگھڑ ( برائے لنگر خانہ قادیان) ۰-۰-۵ ۱۴.شیخ محمد بشیر صاحب آزاد ا بنا لوی حال مرید کے ۱۵.نذیر احمد خان صاحب ادرها محل آرٹیلری میدان کراچی ۱۶.اہلیہ صاحبہ شیخ نواب دین صاحب کیپٹن ڈرگ روڈ کرا چی بطور فدیہ ( ان کی طرف سے مورخہ ۲۵ جولائی ۱۹۴۹ء کو ۳۰ روپے آئے تھے مگر غلطی سے ۲۸ جولائی کے الفضل میں پندرہ روپے کا اعلان ہوا.لہذا بقیہ پندرہ روپے کا اب اعلان کیا جاتا ہے.) میزان ۵-۰-۰ ۳۰-۰-۰ ۱۵-۰-۰ ۲۴۰-۰-۰ روپے ( مطبوعه الفضل ۲۰ راگست ۱۹۴۹ء)

Page 629

۶۱۷ مضامین بشیر کیا موجودہ کمزوری کے بعد پھر بھی طاقت کا زمانہ آئے گا ؟ کیا یہ خوف کے دن کبھی پھر بھی امن سے بدلیں گے؟ ان سوالوں کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں میں ملے گا گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں جو بھاری زلزلہ ملک میں آیا ہے اور اس کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ کو بھی (سوائے ایک نہایت قلیل اور محصور حصہ کے ) اپنے مرکز قادیان سے نکلنا پڑا ہے.اس کی وجہ سے غیر از جماعت لوگ تو حسب عادت اعتراض اور طعن کا رنگ اختیار کر ہی رہے ہیں اور ان کا یہ رویہ قدیم الہی سنت کے مطابق ہے جو ہمیشہ سے خدائی جماعتوں کے ساتھ چلی آئی ہے.لیکن خود جماعت کا ایک کمزور حصہ بھی اس قسم کے شکوک میں مبتلا ہو رہا ہے کہ کیا موجودہ قیامت خیز حالات کے بعد پھر بھی کبھی قادیان کی بحالی ہوگی اور کیا جماعت کی موجودہ کمزوری اور انتشار کی حالت کے بعد پھر بھی کبھی طاقت کا زمانہ آئے گا اور کیا موجودہ خوف کے دن پھر بھی کبھی امن کے ایام کو جگہ دیں گے؟ یہ اور اس قسم کے دوسرے سوالات جماعت کے ایک قلیل حصہ کو جو خدائی سنت کی پوری واقفیت نہیں رکھتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں کے مطالعہ کرنے کا بھی عادی نہیں ، وقتاً فوقتاً پریشان کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات متعدی امراض کی طرح مضبوط حصہ کی پریشانی کا موجب بھی بن جاتے ہیں.اس لئے نہیں کہ اس مضبوط حصہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں اور خدائی بشارتوں پر یقین نہیں بلکہ اس لئے کہ مطالعہ کی کمی کی وجہ سے یا غور کی عادت نہ ہونے کی بناء پر انہیں ان الہا موں کا علم نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بارہ میں ہو چکے ہیں اور جن پر سچے مومنوں کی جماعت کامل یقین رکھتی اور انہیں خدائے علیم وقد سر کا اٹل وعدہ سمجھتی ہے.ایسے لوگوں کے لئے ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الہامات مختصر ترجمہ اور تشریح کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست نہ صرف ان الہاموں کا مطالعہ کریں گے بلکہ غور وخوض کے ساتھ مزید بشارتوں کا علم حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں گے

Page 630

مضامین بشیر ۶۱۸ اور اپنے آپ کو ایمان و عرفان کی ایسی مضبوط چٹان بنائیں گے جس کے ساتھ جو شخص بھی ٹکراتا ہے وہ پاش پاش ہو جاتا ہے اور وہ جس شخص پر بھی گرتی ہے اسے ریزہ ریزہ کر کے چھوڑتی ہے.یقیناً ایمان کو وہ طاقت حاصل ہے جو فلک بوس پہاڑوں کو تو ڑسکتی ہے اور اتھاہ پانیوں کو کاٹ سکتی ہے اور لق ودق جنگلوں کو ایک قدم واحد میں عبور کر سکتی ہے اور ہوا کو نہ نظر آنے والی فضاؤں کو اپنی تیز رفتاری کے ساتھ اس طرح طے کر سکتی ہے جس طرح نور کی کرنیں اندھیرے کی چادر کو پھاڑ کر نکل جاتی رہیں مگر کتنے ہیں جنہیں یہ ایمان حاصل ہوتا ہے.ثُلَّةٌ مِنَ الْاَولِینَ وَ قَلِيلٌ مِّنَ الآخِرِينَ نُ.بہر حال میں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صرف ایک الہام پیش کرتا ہوں.ہمارے دوست اس الہام کے الفاظ پر غور کریں اور دیکھیں کہ کس لطیف انداز میں اور کس شان کے ساتھ آنے والے خطرات اور پھر ان خطرات سے جماعت کے طریق نجات کا ذکر کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ: نَرُدْ اِلَيْكَ الْكَرَّةَ الثَّانِيَةَ وَنُبَدِّلَنّكَ مِنْ بَعْدِ خَوفِكَ أَمْناً وَقَالُوا أَنَّى لَكَ هَذَا قُلْ هُوَ اللهُ عَجِيبٌ وَلَا تَيْنَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ انْظُرُ إِلَى يُوسُفَ وَاقْبَالِهِ قَدْ جَاءَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ اَقْرَبُ يَخِرُّونَ عَلَى الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرُ لَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ - یعنی ہم تجھے (ایک درمیانی کمزوری کے بعد ) پھر دوبارہ غلبہ عطا کریں گے اور تیری خوف کی حالت کو پھر امن کی حالت سے بدل دیں گے.اور (اس درمیانی کمزوری کے زمانہ میں ) لوگ حیران ہو ہو کر پوچھیں گے کہ یہ غلبہ تجھے پھر دوسری بار کس طرح حاصل ہوگا.تو ایسے لوگوں سے کہہ دے کہ میرا خدا عجیب وغریب قدرتوں کا مالک ہے وہ اپنی قدرت نمائی سے یہ سارا تغیر پیدا کریگا.اور اے مرد مومن تو خدا کی رحمت اور نصرت سے کسی حال میں بھی مایوس مت ہو یوسف کی طرف دیکھ کہ وہ کس طرح ایک ویران اور تاریک کنوئیں کے گڑھے سے اٹھ کر بلند ترین اقبال کو پہونچا.ہاں ہاں دیکھ کہ فتح کا وقت آ رہا ہے یا کہ فتح قریب ہے اس وقت جب کہ یہ مقدر فتح آئے گی شک کرنے والے لوگ اپنی سجدہ گاہوں میں گریں گے اور نادم ہو ہو کر خدا سے عرض کریں گے کہ اے ہمارے آقا ہمیں معاف فرما.ہم بیشک غلطی پر تھے.“

Page 631

۶۱۹ مضامین بشیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام کسی تبصرہ کا محتاج نہیں.اور یقیناً وہ وقت آنے والا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی کہ خدا تعالیٰ اپنی عظیم الشان قدرتوں کے ساتھ جماعت کو پھر دوبارہ غلبہ عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دے گا اور یقیناً اس وقت وہ لوگ جو آج اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے شکوک میں مبتلا ہو کر پوچھتے ہیں کہ یہ وقت کس طرح آئے گا اور جماعت کی کمزوری کا دور کس طرح پھر دوبارہ طاقت اور غلبہ کے دور میں بدلے گا.وہ اپنی غلطی کا اقرار کر کے خدا کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گریں گے اور اس بات پر ایمان لائیں گے کہ حق وہی تھا جو خدا نے بتایا اور یہ کہ ہمارے خدا کی عجیب و غریب قدرتوں کے مقابلہ پر کوئی بات بھی انہونی نہیں.ہاں ہاں پھر دوبارہ دیکھو اور غور کرو کہ کس طرح اس مختصر سے الہام میں جو اوپر درج کیا گیا ہے اس درمیانی ابتلاء اور اس کے بعد کے غلبہ کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے.گویا مصورِ قدرت کے دست ازل نے اس تصویر کی ہر نوک پلک پہلے سے اس طرح تیار کر رکھی ہے کہ تصویر کے مختصر ہونے کے باوجود اس کا کوئی چھوٹے سے چھو ٹا نقش بھی باہر نہیں رہ گیا.چنانچہ : ا.سب سے پہلے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَرُدُّ إِلَيْكَ الْكَرَّةَ الثَّانِيَةَ د یعنی ہم تیری درمیانی کمزوری کے بعد تجھے پھر دوبارہ غلبہ عطا کریں گے“ , اس عبارت میں جو’ دوبارہ غلبہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان میں یہ صریح اشارہ مقصود ہے کہ یہ دوبارہ آنے والا غلبہ ایک درمیانی کمزوری کے بعد آئے گا کیونکہ جب تک کوئی درمیانی زمانہ کمزوری کا زمانہ نہ ہو دوبارہ غلبہ کے الفاظ کوئی معنی نہیں رکھتے.اور اس طرح اس مختصر سے فقرہ میں موجودہ کمزوری اور انتشار کے زمانہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے یعنی پہلے ایک درمیانی زمانہ کمزوری اور انتشار کا آئے گا اور اس کے بعد پھر دوسرے غلبہ کا دور شروع ہوگا.۲.اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ : نُبَدِّلَنَّكَ مِنْ بَعْدِ خَوفِكَ أَمْنَا یعنی ہم تیرے خوف کے زمانہ کو پھر امن کے زمانہ سے بدل دیں گے.“ ان الفاظ میں اوپر والے الہام کی تشریح کے علاوہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ درمیانی کمزوری کا زمانہ جماعت کے لئے خوف کا زمانہ ہوگا جس میں اسے کئی قسم کے اندرونی اور بیرونی خوفوں اور خطروں سے دو چار ہونا پڑے گا مگر یہ کہ بالآخر خدا اس خوف کی حالت کو امن کی

Page 632

مضامین بشیر ۶۲۰ حالت سے بدل دے گا اور امن کے لفظ میں یہ اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ جماعت احمد یہ اپنے غلبہ کے زمانہ میں بھی ظلم کا طریق اختیار نہیں کرے گی بلکہ اندرونی امن کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونی امن کی بھی علم بردار ہوگی.۳.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے کس لطیف پیرایہ میں وقالوا انی لک ھذا کے الفاظ کہہ کر موجودہ زمانہ کے کمزور ایمان لوگوں کا نقشہ کھینچ کر بتایا ہے کہ یہ لوگ اس درمیانی کمزوری کو دیکھ کر سمجھیں گے کہ بس اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے اور گویا اس کی شان اور ترقی کا زمانہ اس کی اٹھتی ہوئی جوانی کے ساتھ ہی اسے خیر آباد کہہ گیا ہے یہ لوگ کہیں گے کہ قادیان کی بحالی اور جماعت کا دوبارہ غلبہ ایک امر موہوم ہے.اور تعجب یا استہزا کے رنگ میں سوال کریں گے کہ اس کمزوری اور انتشار کے بعد جماعت کو دوبارہ غلبہ کس طرح حاصل ہوگا ؟ اللہ اللہ اس زمانہ کے کمزور ایمان لوگوں کا کیسا صاف اور واضح نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے.۴.مگر اس تعجب اور استہزا کے جواب میں خدائے علیم وقد سر کس جلال کے انداز میں فرماتا ہے : قل هو الله عجيب د یعنی تم جماعت احمدیہ کے دوبارہ غلبہ کے متعلق تعجب کرتے ہو مگر اے آنکھ کے اندھو کیا تم اس بات کو بھول گئے ہو کہ خدا تعالیٰ خود تمام عجائبات کا مجموعہ ہے.کیا وہ جو نیست سے ہست میں لاسکتا ہے اور عدم کو وجود میں منتقل کر سکتا ہے وہ ہاں وہی عجیب و غریب قدرتوں کا مالک خدا اس بات پر قادر نہیں ہوسکتا کہ بظاہر ایک کمزور جماعت کو مضبوطی اور غلبہ عطا کر دے؟ افسوس افسوس ما قدر الله حق قدره ۵.پھر محبت اور تنبیہہ کے ملے جلے انداز میں فرماتا ہے کہ لا تيئس من روح الله انظر الى يوسف واقباله د یعنی کیا تم خدا کے اس ازلی قانون کو بھول گئے ہو کہ اس کے بندے مایوسی کا شکار نہیں ہوا کرتے بلکہ وہ بظاہر انتہائی مایوسی کے حالات میں بھی خدا کی رحمت وقدرت پر بھروسہ کر کے امید سے بھر پور رہتے ہیں تو پھر اے کمزور ایما نو تم کیوں خدا کے وعدہ پر شک کرتے اور اس کی رحمت سے مایوس ہوتے ہو؟ خبر دار خبر دار خدا کی رحمت سے جو عموماً مصائب کے گرجتے ہوئے بادلوں کی اوٹ لے کر آگے بڑھا کرتی ہے ہرگز ناامید مت ہو“ اور پھر کیسی لطیف مثال دے کر سمجھاتا ہے کہ یوسٹ کی طرف دیکھو کہ وہ اپنے بھائیوں کی سازش

Page 633

۶۲۱ مضامین بشیر سے کس طرح ایک ویران اور تاریک کنوئیں کی تہ میں گر کر گویا ہمیشہ کے لئے ختم سمجھا گیا تھا مگر خدا نے اسے اس گری ہوئی حالت سے اٹھا کر اقبال و عروج کے کس بلند مینار تک پہنچادیا.تو کیا یہ خدا تمہیں دوبارہ اٹھانے پر قادر نہیں ہوسکتا ؟.اس کے بعد فرماتا ہے کہ : قدجاء وقت الفتح والفتح اقرب یعنی ایک مقدر زمانہ کے بعد فتح کا وقت آ جائے گا بلکہ فتح قریب ہے مگر افسوس کہ اکثر لوگ غور کا مادہ نہیں رکھتے اور نہ درمیانی زمانہ کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں.ے.بالآخر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مقدر فتح کا وقت آئے گا تو يَخِرُونَ عَلَى الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ د یعنی اس وقت یہ شک کرنے والے لوگ جو ان مصائب کے ایام میں سمجھتے ہوں گے کہ بس اب سب کچھ ختم ہو گیا اور اب اس کمزوری اور انتشار کے بعد جماعت احمد یہ دوبارہ غلبہ نہیں پاسکتی ہاں یہی شک کرنے والے لوگ یعنی ان میں سے جن کے لئے ہدایت مقدر ہے فتح اور غلبہ کے وقت میں شرم و ندامت کے ساتھ سر جھکائے ہوئے آگے آئیں گے اور کہیں گے کہ خدایا ہم کمزوری کے عالم میں مایوس ہوکر اور تیرے وعدوں کو بھلا کر ٹھوکر کھا گئے.تو ہماری اس غلطی کو معاف فرما اور ہم خطا کاروں کو پھر اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے.اس وقت وہی کچھ ہو گا جو خدا نے ازل سے مقدر کر رکھا ہے.ولايعلمها الا المسترشدون‘ اب دیکھو کہ یہ کس قدر کامل و مکمل تصویر ہے جو خدا تعالیٰ نے شروع سے ہی اپنے دست ازل سے کھینچ کر ہمارے سامنے رکھی ہوئی ہے اور گویا آغاز سے لے کر انجام تک کا ہر نقش ایک جیتی جاگتی مورت کی صورت میں دنیا کے سامنے نصب کر دیا ہے مگر کمزور انسان ہاں نا بینا اور شکور انسان یہ تو مانتا ہے کہ خدا نے درمیانی کمزوری کے متعلق اپنا وعدہ پورا کیا مگر اس کمزوری کے بعد آنے والے غلبہ کے متعلق یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ہمارا قادر مطلق خدا اس رحمت کے نشان کو بھی پورا کر سکتا ہے میں پھر کہوں گا کہ ما قدروا الله حق قدره ولاحول ولاقوة الا بالله العظيم.

Page 634

مضامین بشیر حاصل م ۶۲۲ میرا مضمون تو ختم ہو چکا ہے لیکن ہر مضمون کا ایک حاصل مطلب ہوا کرتا ہے جو سمجھدار لوگ تو خود بخود مضمون کے مطالعہ سے اخذ کر لیا کرتے ہیں مگر عامتہ الناس کو علیحدہ نوٹ کر کے سمجھانا پڑتا ہے.سو میں بھی اس جگہ عام لوگوں کی سہولت کے لئے اس مضمون کا حاصل مطلب درج کئے دیتا ہوں.یہ حاصل مطلب دو مختصر فقروں میں آجاتا ہے :- اول اس مضمون کا پہلا نکتہ اور پہلا سبق یہ ہے کہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا بانی سلسلہ احمدیہ نے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے اپنا یہ الہام شائع کیا تھا کہ میری جماعت ایک وقت تک ترقی اور مضبوطی کے رستہ پر چلتی چلے جائے گی اور لوگ اس کے غلبہ کو محسوس کریں گے.مگر پھر اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آئے گا جس کے نتیجہ میں سمجھا جائے گا کہ گویا یہ جماعت ترقی کے دور میں داخل ہونے کے بعد پھر کمزوری اور انتشار کے دور میں مبتلا ہوگئی ہے اور اسے کئی قسم کے خوف اور خطرات پیش آئیں گے لیکن اس کے بعد خدا تعالیٰ جلد ہی دوبارہ امن و غلبہ کا دور لے آئے گا اور ایسے رنگ میں لائے گا کہ لوگوں کے لئے حیرت کا موجب ہوگا.پس میرے اس مضمون کا پہلا مقصد یہ ہے کہ تا دنیا کو بتایا جائے کہ جو بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے بتائی تھی اس کا ایک حصہ پورا ہو چکا ہے اور اب دنیا کو اس کے دوسرے حصہ کے پورا ہونے کا انتظار کرنا چاہیئے اور جب خدا کے فضل سے دوسرا حصہ پورا ہوگا تو تمام دنیا اس پر گواہ بن جائے گی اور لوگوں کے س خدا کے حضور الہی سلسلہ کی دعوت کو رد کر نے کا کوئی عذر باقی نہیں رہے گا.دوم اس مضمون کا دوسرا نکتہ اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ تا جماعت کے کمزور حصہ کو ہوشیار اور بیدار کیا جائے کہ ہمارے خدا نے پہلے سے بتا رکھا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ کمزور ایمان لوگ جماعت کی ترقی اور بحالی کے متعلق شکوک میں مبتلا ہونے لگیں گے اور قرآنی محاورہ کے مطابق خیال کرنے لگ جائیں گے کہ مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا - لیکن خدا پھر اپنی فوجوں کے ساتھ آئے گا اور اپنی فوق العادت قدرت کے ساتھ جماعت کو سنبھال کر پھر ترقی اور غلبہ کے رستہ پر ڈال دے گا.

Page 635

۶۲۳ مضامین بشیر اور اس وقت یہ شک کرنے والے لوگ نادم ہو کر سجدہ میں گریں گے اور اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اِنَّا كُنَّا خَاطِئِين پس میرا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اے ہمارے اندھیرے میں ڈگمگاتے ہوئے بھائیو ! بعد میں نادم ہو کر سجدہ کرنے کی بجائے ابھی سے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرو کہ گر کر سنبھلنے والے کی نسبت ہمیشہ سنبھلے رہنے والا انسان بہر حال بہتر ہوتا ہے اور پھر اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو گے جو گرنے کے بعد پھر سنبھلنے کی توفیق نہیں پاتے.خدا تمہاری آنکھیں کھولے اور ہماری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے.وما علینا الا البلاغ ( مطبوعه الفضل ۱۷اگست ۱۹۴۹ء )

Page 636

مضامین بشیر ۶۲۴ رتن باغ میں چراغاں کل مورخہ ۱۴/۸/۴۹ کو جشن آزادی کے تعلق میں رتن باغ اور جود ھامل بلڈنگ ہر دو پر پاکستان کے جھنڈے لہرائے گئے اور رات کے وقت چراغاں بھی کیا گیا.( مطبوعه الفضل ۱۷ اگست (۱۹۴۹ء)

Page 637

۶۲۵ مضامین بشیر کیا سنیما دیکھنا ہر صورت میں منع ہے؟ بعض دوستوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا سنیما دیکھنا ہر صورت میں منع ہے؟ یہ سوال غالبا ان کی اس مخفی خواہش پر مبنی ہے کہ سنیما جیسی دلکش تفریح سے کیوں محروم رہا جائے.سو اس کے متعلق میرا پہلا جواب تو یہ ہے کہ مسائل کے متعلق زیادہ تر فتنہ اسی بناء پر پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنے ماحول سے متاثر ہو کر یا اپنے دل کی خواہش سے مغلوب ہو کر کسی مسئلہ پر نظر ڈالتا ہے اور پھر لا ز ما ماحول کے اثریا دل کی خواہش کے نتیجہ میں غلط رستہ پر پڑ جاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا دھواں آ جاتا ہے جو اسے صحیح رائے قائم کرنے نہیں دیتا.اسی لئے قرآن شریف مومنوں کو بار بار ہوشیار کرتا ہے کہ اپنی ہوا و ہوس کے پیچھے لگ کر اپنی عاقبت کو تباہ نہ کرو.بہر حال کسی مسئلہ پر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ غور کرنے کا یہ طریق نہیں ہے کہ اپنے ماحول سے متاثر ہو کر یا اپنے دل کی خواہش سے مغلوب ہو کر اور سیدھے سادھے مسائل کو توڑ پھوڑ کر کچھ کی کچھ شکل دے دی جائے.بلکہ صحیح طریق یہ ہے کہ بالکل خالی الذہن ہو کر اور دل کی سختی کو صاف کر کے ایک بات کو قرآن شریف اور حدیث اور عقل خداداد کی روشنی میں پر کھا جائے اور پھر نیک نیتی کے ساتھ آزادانہ رائے کے نتیجہ میں کوئی خیال قائم کیا جائے.یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو میں نے اوپر بیان کی ہے.سوال مندرجہ عنوان کا اصل جواب یہ ہے کہ سنیما کا دیکھنا اپنی ذات میں کسی طرح منع نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ حق یہ ہے کہ سنیما ان مفید ایجادوں میں سے ایک ایجاد ہے اور قدرت کے ان مخفی خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بعض مفید اغراض و مقاصد کے ماتحت دنیا پر ظاہر فرمائے ہیں.پس کوئی شخص محض سنیما کو بُر انہیں کہہ سکتا کیونکہ اس ایجاد کے ساتھ بعض ایسے فوائد لیٹے ہوئے ہیں کہ ان کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں عظیم الشان فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور نسل انسانی کے معلومات کے اضافہ میں اور پھر ان معلومات کو مؤثر ترین صورت دینے میں سنیما کا بہت بھاری دخل ہے قدرت کے دور دراز مناظر کولوگوں کی آنکھوں کے سامنے لانا ،نیچر کے مخفی خزانوں کو جیتی جاگتی تصویر کی صورت میں عریاں کر کے دکھانا ، تاریخ کے بیش قیمت اوراق کو ایک بولتی ہوئی مورت کی صورت میں لوگوں کے سامنے لانا فوجی کارناموں کو ایسی صورت میں سنیما ہال کے پردہ پر آشکار کرنا کہ فنون جنگ کے ماہر لوگ اس سے ایک نیا سبق حاصل کرسکیں.بیماریوں کے جراثیم کی تباہ کاریوں کو نگا کر کے دکھانا ، قومی لیڈروں کی زندگی کے سبق آموز

Page 638

مضامین بشیر ۶۲۶ حالات کو مؤثر ترین انداز میں لوگوں کے سامنے رکھنا وغیرہ وغیرہ.بیسیوں بلکہ سینکڑوں ایسی باتیں ہیں جو اس ایجاد کو دنیا کی مفید ترین ایجادوں میں جگہ دیتی ہیں.پس کون دانا انسان ایسا ہوسکتا ہے جو محض سنیما کے وجود کو ممنوع اور حرام قرار دے؟ لیکن قدرت کی یہ عجیب نیرنگی ہے کہ ہر پھول اپنے ساتھ کچھ کانٹے بھی رکھتا ہے اور ہر مفید سے مفید چیز غلط استعمال سے ہلاکت اور لعنت کا موجب بن جاتی ہے.مثلاً اسلام میں شراب کو یہ کہہ کر منع فرمایا گیا ہے کہ گو اس میں بعض مفید پہلو بھی ہیں مگر اس کا نقصان اس کے فائدہ پر غالب ہے لیکن باوجود اس کے سخت بیماری وغیرہ کی صورت میں اسلام نے طبی مشورے کے ماتحت دوا کے طور پر شراب کے استعمال کو جائز بھی قرار دیا ہے.اسی سے ملتی جلتی صورت سنیما کی ہے کہ اس کا صحیح استعمال یقیناً خدا کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے مگر اس کا غلط استعمال ایک بھاری لعنت سے کم نہیں.بلکہ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ جتنا نقصان آج کل سنیما نے دنیا کو پہو نچایا ہے وہ شائد کسی اور چیز نے نہیں پہونچایا.مرد و عورت کے جنسی تعلقات کو عریاں تصویروں کی صورت میں یعنی ایسی صورت میں جس میں کہ ان کی ہر حرکت گو یا بالکل ننگی ہو کر سامنے آجاتی ہے، لوگوں کے سامنے لا نا سنیما ہی کا حصہ ہے یہ بات مسلم ہے کہ انسان جہاں اچھے مناظر کے دیکھنے سے فائدہ اٹھاتا اور نیک سبق حاصل کرتا ہے وہاں گندے مناظر کا نقشہ اس کی طبیعت میں گندا اثر چھوڑنے کے بغیر نہیں رہتا.معصوم لڑکیوں کے اخلاق کو تباہ کرنے کے مناظر ، اغوا کے عریاں واقعات ، جنسی تعلقات کے خلاف اخلاقی پہلو اس طرح آنکھوں کے سامنے لائے جاتے ہیں کہ کچی طبیعت کے لوگ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.پھر سنیما کے ساتھ جو اقتصادی نقصان کا پہلو لگا ہوا ہے وہ بھی ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.نوجوان بچے شروع شروع میں سنیما کے خمار میں مدہوش ہو کر والدین پر پیسوں کے لئے زور دیتے ہیں اور جب والدین ان کے اس مطالبہ کو پورا نہیں کر سکتے تو پھر وہ ناجائز ذرائع سے روپیہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بے شمار طالب علم تو اس لعنت میں اس قدر پھنس جاتے ہیں کہ تعلیم تک کو خیر باد دیتے ہیں.پس کیا بلحاظ اخلاقی نقصان کے اور کیا بلحاظ اقتصادی نقصان کے اور کیا بلحاظ تعلیمی نقصان کے سنیما کا غلط استعمال ان شیطانی طاقتوں میں سے ایک طاقت ہے جو ہر اچھی سے اچھی سوسائٹی کو تباہ کر سکتی ہے.پس گوسنیما اپنی ذات میں ناجائز نہیں بلکہ ایک مفید ایجاد ہے.لیکن اس کا غلط استعمال دنیا کی بڑی لعنتوں میں سے ایک لعنت ہے.اور افسوس یہ ہے کہ موجودہ زمانوں میں اس کا غلط استعمال اس کے اچھے استعمال پر غالب آ رہا ہے اور مزید افسوس یہ ہے کہ بعض اچھی اور مفید اور سبق آموز

Page 639

۶۲۷ مضامین بشیر فلموں کو بھی گندے منا ظر کے ساتھ اس طرح لپیٹ کر اور مدغم کر کے پیش کیا جاتا ہے کہ انسان اس کے مفید پہلوؤں سے بھی محروم ہو جاتا ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک برف میں لگے ہوئے ٹھنڈے شربت کو چار قطرے نجاست کے ڈال کر کسی شریف انسان کے سامنے پیش کر دیا جائے.شربت بے شک اچھی چیز ہے لیکن کوئی شریف انسان اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ اسے شربت کے بہانے نجاست کے قطرے پلا دئیے جائیں لیکن مشکل یہ ہے کہ جہاں ظاہری نجاست ہر شخص کو نظر آتی ہے اور ہر انسان اس کی بُو اور بدذائقہ کو محسوس کرتا ہے وہاں سنیما کی نجاست اکثر لوگوں کی آنکھوں سے مخفی رہتی ہے اور وہ اسے غفلت کی حالت میں ہی پی جاتے ہیں.دراصل سنیما کی مثال لائف انشورنس یعنی زندگی کے بیمہ کے طور پر سمجھی جانی چاہیئے جس طرح بیمہ اپنی ذات میں منع نہیں ہے لیکن چونکہ اس میں سود اور جوئے کا عنصر شامل ہو جاتا ہے اور یہ دونوں چیز میں اسلام میں حرام ہیں اس لئے زندگی کا بیمہ بھی منع قرا دیا گیا ہے.اس لئے نہیں کہ وہ اپنی ذات میں حرام ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں بعض حرام باتوں کو داخل کر دیا گیا ہے ورنہ اگر زندگی کے بیمہ سے سود اور جوئے کے عناصر کو خارج کیا جا سکے تو وہ ہر گز منع نہیں رہے گا.یہی حال سنیما کا ہے کہ وہ اپنی ذات میں تو منع نہیں مگر ان خراب عناصر کی وجہ سے جو اس میں داخل کر دیئے گئے ہیں وہ نتیجہ منع ہو گیا ہے ان خراب عنا صر کو الگ کر دو اور سنیما کی فلم کو خلاف اخلاق اور خلاف حیاء اور خلاف عصمت باتوں سے دور رکھو تو سنیما یقیناً اپنی ذات میں اچھی چیز ہے اور کسی شریف انسان کا اسے کبھی بھی علمی ترقی کے لئے دیکھنا یا تفریح کی غرض سے کبھی کبھار دیکھنا ہر گز قابل اعتراض نہیں ہو سکتا.لیکن مشکل یہی ہے کہ اس گل کے ساتھ اتنے کانٹے لیٹے ہوئے ہیں اور اس طرح لیٹے ہوئے ہیں کہ پھول کو کانٹوں سے جدا کرنا بظاہر محال ہو گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی ایک نظم میں خوب فرماتے ہیں کہ : اگر عشاق کا ہو یقیں سمجھو کہ مگر مشکل یہی پاک دامن ہے تریاق دامن ہے درمیاں میں کہ گل بے خار کم ہیں بوستاں میں پھول بہر حال اچھی چیز ہے جو آنکھوں کو تراوت اور دل کو راحت بخشتی ہے لیکن پھول کیسا ہی اچھا ہو، اس کے چھنے والے کانٹوں سے بچنا پڑتا ہے.یہی حال سنیما کا ہے کہ اس کے مفید حصے بہر حال مفید ہیں اور ان حصوں کے دیکھنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں اور نہ ہی حضرت امیر المومنین خلیفہ

Page 640

مضامین بشیر ۶۲۸.المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا کوئی فتوئی اس حصہ کے خلاف ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی اچھی سے اچھی اور مفید سے مفید فلموں کے اندر بھی لوگوں کی بدمزاقی کی وجہ سے گندے حصے شامل کر دئیے جاتے ہیں اور اس طرح اخلاق کی تباہی کا رستہ کھولا جاتا ہے.اگر کوئی فلم خالصتاً مفید معلومات پر مشتمل ہو خواہ وہ معلومات تاریخی حقائق پر مبنی ہوں یا جغرافیائی حقائق پر مبنی ہوں یا فنونِ جنگ کے حقائق پر مبنی ہوں یا طبی حقائق پر مبنی ہوں تو یقیناً ایسی فلم نہ صرف جائز ہوگی بلکہ میرے خیال میں علمی لحاظ سے ایک نعمت ہو گی بشرطیکہ اس کے اندر خلاف اخلاق باتوں کو شامل نہ کر دیا جائے.صدرانجمن احمدیہ نے خود ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی منظوری سے فلمی تصویروں کے لئے جانے کا انتظام کیا تھا.کیونکہ یہ جماعت کا ایک اہم تاریخی ریکا رڈ تھا اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ ایسی فلم کا دیکھنا کسی طرح بھی نقصان کا موجب یا اعتراض کا باعث ہو سکتا ہے.خلاصہ یہ کہ سنیما کا دیکھنا اپنی ذات میں منع نہیں ہے اور نہ سنیما کا وجود اپنی ذات میں ناجائز ہے.پس یقیناً اگر سنیما کی کسی فلم کو خلاف اخلاق اور خلاف حیا حصہ سے پاک رکھا جا سکے تو وہ ایک بالکل جائز بلکہ مفید چیز ہوگی.مگر افسوس یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی خطرناک بدمزاقی اور خلاف اخلاق رجحانات نے اس مفید چیز کو گندا بنا رکھا ہے اور یہی وہ خطرہ ہے جس کی وجہ سے جماعت احمد یہ کوسنیما سے روکا جاتا ہے.ہاں اگر کوئی فلم خالص تاریخی یا مناظر پر مشتمل ہو اور اس کے ساتھ کوئی خراب اخلاق حصہ شامل نہ کیا جائے تو اعتدال کی حد کے اندر رہتے ہوئے اسے دیکھا جا سکتا ہے اور جماعت کا کوئی فتویٰ اس کے خلاف نہیں ہے.فانهم وتدبّر وا انما الاعمال بالنيات ( مطبوعه الفضل ۱۸ اگست ۱۹۴۹ء)

Page 641

۶۲۹ مضامین بشیر مجید احمد درویش کے لئے دعا کی تحریک جیسا کہ میں پہلے تحریک کر چکا ہوں اس وقت قادیان میں مجید احمد موٹر ڈرائیور بہت بیمار ہے اور ڈاکٹروں کی تشخیص ہے کہ ان کو انتریوں کی سل ہے.مجید احمد ایک بہت مخلص اور سادہ مزاج نوجوان ہے اور شروع سے ہی خدمت مرکز کی غرض سے قادیان ٹھہرا ہے.اس کی بوڑھی والدہ حضرت ام المومنین کی خدمت میں رہتی ہے.احباب سے درخواست ہے کہ وہ مجید احمد کی صحت اور شفایابی کے لئے خصوصیت سے دعا فرمائیں.تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت مجید احمد کی کمزوری انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے.( مطبوعه الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۴۹ء)

Page 642

مضامین بشیر ۶۳۰ قادیان میں دو مخلص نوجوانوں کی تشویشناک علالت میں اس سے قبل دو دفعہ مجید احمد موٹر ڈرائیور درویش قادیان کی تشویشناک بیماری کے متعلق الفضل میں دعا کی تحریک شائع کرا چکا ہوں.قادیان کے تازہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ مجید احمد ابھی تک بدستور بیمار ہے اور ڈاکٹروں نے انتریوں کی سل کی تشخیص کی ہے جس کی وجہ سے مجید احمد بے حد کمزور ہو چکا ہے.دوست اس مخلص نوجوان کے لئے اپنی دعا ئیں جاری رکھیں.اس کے علاوہ ایک اور نوجوان محمد احمد ولد چوہدری فضل احمد صاحب کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ دماغی عارضہ میں مبتلا ہے اور اس کی حالت بھی فکر پیدا کر رہی ہے.یہ بھی ایک مخلص اور خدمت گذار نو جوان ہے.اسے بھی دوست اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.اس کے علاوہ ابھی تک حفظ امن کا مقدمہ چل رہا ہے اور اس کی آئندہ تاریخ ۲۴ / اگست مقرر ہوئی ہے.نیز عبد السلام مہتہ کا مقدمہ بھی زیر تفتیش ہے.ان ہر دو مقدمات کے متعلق بھی دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے قادیان کے بھائیوں کا ہر طرح حافظ و ناصر ہوا اور ہر شر سے محفوظ رکھے.آمین ( مطبوعه الفضل ۲۴ راگست ۱۹۴۹ء)

Page 643

۶۳۱ مضامین بشیر بابا شیر محمد صاحب مرحوم در ولیش قادیان جیسا کہ پہلے شائع کیا جاچکا ہے بابا شیر محمد صاحب درویش قادیان میں ۱۷ اگست کو وفات پاگئے.تازہ اطلاع سے معلوم ہوا ہے کہ ان کا جنازہ گیارہ بجے قبل دو پہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے باغ میں امیر صاحب مقامی نے پڑھایا اور پھر بابا صاحب مرحوم کو حافظ نور الہی صاحب مرحوم کے پہلو میں مقبرہ بہشتی میں دفن کر دیا گیا.بابا شیر محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے اور موصی بھی تھے.یہ دوسرے درویش ہیں جنہوں نے قادیان میں وفات پائی.میں نے ان کی عمر کا اندازہ نوے لکھا ہے مگر قادیان سے آمدہ خط میں ۱۱۰ سال کا اندازہ درج ہے ممکن ہے کہ اس اندازہ میں کچھ غلطی ہو لیکن بہر حال بابا شیر محمد صاحب ایک بہت معمر بزرگ تھے اور ان کی عمر ۱۰۰ سال کے لگ بھگ تو ضرور ہوگی.مجھے ان کے بیٹے میاں غلام محمد صاحب کا موجودہ پتہ معلوم نہیں.اگر کسی دوست کو معلوم ہو تو انہیں ان کے والد صاحب کی وفات کی اطلاع پہنچا دی جائے.سنا ہے کہ وہ جہلم میں رہتے ہیں.میری طرف سے انہیں ہمدردی کا پیغام بھی پہنچا دیا جائے.20 كُلِّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ 16 ( مطبوعه الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۴۹ء)

Page 644

مضامین بشیر ۶۳۲ ڈاک خانہ ربوہ کے متعلق ایک غلط نہیں کل کے الفضل میں ناظر بیت المال کی طرف سے اعلان ہوا تھا کہ ربوہ کا ڈاک خانہ کھل گیا ہے.یہ اعلان ایک غلط فہمی پر مبنی تھا.حقیقت یہ ہے کہ ۱۹ اگست بروز جمعہ ڈاکخانہ کھلنے والا تھا مگر سپریٹنڈنٹ صاحب ڈاک خانہ جات ضلع جھنگ کے تشریف نہ لانے کی وجہ سے ۱۹ تاریخ کو نہیں کھل سکا.اب امید ہے کہ انشاء اللہ ربوہ کا ڈاک خانہ بہت جلد کھل جائے گا.بلکہ بعید نہیں کہ اس اعلان کے چھپتے چھپتے ہی کھل جائے کیونکہ محکمانہ منظوری ہو چکی ہے اور ہماری طرف سے عمارت بھی تعمیر کی جا چکی ہے.( مطبوعه الفضل ۲۴ راگست ۱۹۴۹ء)

Page 645

۶۳۳ مضامین بشیر کونسی سینما فلم اچھی سمجھی جائے اور کونسی بُری؟ اور اس کا فیصلہ کس کی رائے پر ہو گا ؟ چند دن ہوئے میں نے سنیما کے متعلق الفضل میں ایک مضمون لکھا تھا.اس کے متعلق مجھے بعض دوستوں کی طرف سے اس قسم کے سوالات پہنچے ہیں کہ جب سینما فلم اپنی ذات میں منع نہیں ہے اور صرف خلاف اخلاق عناصر کے شامل ہو جانے کی وجہ سے ممنوع قرار پاتی ہے تو پھر کس فلم کو اچھا سمجھا جائے اور کس کو بُرا اور اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ کونسی فلم اچھی ہے اور کونسی بُری اور کس فلم کا دیکھنا جائز ہے اور کس کا ناجائز وغیرہ وغیرہ.سو یہ سوالات پہلے سے میرے مدنظر تھے اور میں ان کے متعلق اپنے مضمون کی دوسری قسط میں اظہار خیال کرنا چاہتا تھا مگر اچھا ہوا کہ دوستوں نے مزید توجہ دلا کر مجھے اس مضمون کے دوسرے حصہ کے متعلق جلدی کرنے کا خیال پیدا کر دیا.لہذا میں ذیل کی سطور میں مختصر طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں.سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے اپنے پہلے مضمون میں لکھا تھا یا جو کچھ کہ میں اپنے موجودہ مضمون میں لکھنے لگا ہوں وہ میرا ذاتی خیال ہے اور ضروری نہیں کہ جماعت کے ذمہ وار مفتی صاحبان کو میرے خیال سے اتفاق ہو اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر انہیں میرے خیال سے اتفاق نہ ہو تو بہر حال جماعتی احترام اور جماعتی نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ اس صورت میں میں اپنی زبان بند کرلوں.مگر جب تک میرے لئے یہ راستہ کھلا ہے میں نیک نیتی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے خیالات کے اظہار کا حق رکھتا ہوں اور اسے استعمال کروں گا.وماتوفیقی الا بالله العظيم سہولت کے خیال سے میں اس جگہ پہلے دوسرے سوال کو لیتا ہوں.یعنی یہ کہ اس بات کا کون فیصلہ کرے گا کہ کونسی فلم خلاف اخلاق عناصر کی وجہ سے ناجائز اور ممنوع ہے اور کونسی فلم جائز اور حلال ہے؟ سواسی سوال کا پہلا جواب تو میری طرف سے یہ ہے کہ میرا مضمون صرف علمی نقطہ نگاہ پرمبنی ہے ورنہ مجھے اس مسئلہ کے انتظامی پہلو سے نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ مجھے اس میں دخل دینے کا کوئی حق ہے.جماعتی انتظامیہ کے ماتحت یہ کام غالباً نظارت امور عامه یا نظارت تربیت کا ہے اور یہی دو نظارتیں اس بات کا حق رکھتی ہیں کہ اس مسئلہ کے انتظامی پہلو کے متعلق کوئی اعلان کریں یا نگرانی کی

Page 646

مضامین بشیر ۶۳۴ کوئی صورت تجویز کر کے اس پر جماعت کو کاربند کرائیں.پس جہاں تک انتظامی پہلو کا تعلق ہے یہ سوال کہ اس بات کا کون فیصلہ کرے گا کہ کونسی فلم جائز ہے اور کونسی ناجائز مجھ سے نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ناظر صاحب امور عامہ یا ناظر صاحب تعلیم و تربیت سے ہونا چاہیئے اور انہیں کا فیصلہ اس معاملہ میں تابع ہدایت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز آخری رنگ رکھتا ہے.بے شک میرے مضمون کی وجہ سے میرے نقطہ نگاہ سے اتفاق رکھنے والے دوستوں کے نزدیک بعض فلمیں جو خالصہ تاریخی اور تحقیقی اور علمی حقائق پر مبنی ہوں اور خلاف اخلاق عناصر سے بھی پاک ہیں ، جائز سمجھی جائیں گی.لیکن ایسی فلموں کا عملاً دیکھنا محض میرے مضمون کی وجہ سے ہرگز جائز نہیں ہو جائے گا.بلکہ اگر اس کے متعلق سلسلہ کی طرف سے کوئی ہدایت ہے تو اس کے لئے سلسلہ کی متعلقہ نظارت سے استصواب ضروری ہوگا.یہ تو ہوا انتظامی نقطۂ نگاہ سے دوٹوک جواب مگر اس سوال کا علمی جواب یہ ہے کہ شریعت نے بہت سی باتوں میں فیصلہ کو خو دمومنوں کی ذاتی رائے پر چھوڑ دیا ہے اور ان معاملوں میں دخل اندازی نہیں کی بلکہ صرف اصول بیان کر کے اس کا عملی اجراء ہر شخص کی دیانتدارانہ رائے پر چھوڑ دیا گیا ہے.مثلاً شریعت کہتی ہے کہ اگر تم بیمار ہو جاؤ تو وضو کی بجائے تیمم کر لو یا کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی بجائے بیٹھ کر نماز پڑھ لو لیکن شریعت اس معاملہ میں یہ حکم ہرگز نہیں دیتی کہ بیماری کے متعلق کسی طبیب یا ڈاکٹر سے پوچھ کر فیصلہ کرو بلکہ ہر مومن کی نیک نیتی اور دیانتداری پر اس فیصلہ کو چھوڑ دیتی ہے کہ اگر وہ دیانتداری کے ساتھ اپنے آپ کو بیمار سمجھے تو وضو کی بجائے تیم کر لے اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی بجائے بیٹھ کر پڑھ لے.اسی طرح مثلاً شریعت یہ اصول بیان کرتی ہے کہ اگر تم رمضان کے مہینہ میں بیمار ہو جاؤ تو رمضان کے روزوں کو ملتوی کر کے دوسرے ایام میں گنتی پوری کر لیا کرو.لیکن اس اصولی ہدایت کے کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتی بلکہ مومنوں کی نیک نیتی اور دیانتداری پر فیصلہ چھوڑ دیتی ہے کہ اگر وہ سچے دل سے اور نیک نیتی کے ساتھ (نہ کہ بہانہ جوئی کے رنگ میں ) اپنے آپ کو بیمار سمجھیں تو رمضان کے روزوں کو دوسرے دنوں پر ملتوی کر دیں.پس جب ان مسائل اور اس قسم کے بیسیوں دوسرے مسائل میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ بیماری کا فیصلہ کون کرے تو سنیما کے معاملہ میں یہ سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے کہ کسی فلم کے اچھا یا بُر اہونے کا فیصلہ کون کرے؟ یقیناً اس سوال کی تہہ میں اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ بہت سے لوگوں کے دل سنیما کی گندی تفریح سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ وہ مختلف قسم کے آنوں بہانوں سے اپنے لئے سہولت کا راستہ کھولنا چاہتے ہیں.ور نہ اگر نیتیں درست ہوں اور دل پاک جذبات کا حامل ہو تو دراصل نہ تو یہ سوال اٹھتا ہے اور نہ ہی

Page 647

۶۳۵ مضامین بشیر اس کے جواب کی ضرورت پیش آتی ہے.ایک صحیح الفطرت اور اسلام سے کچی محبت رکھنے والے انسان کے لئے بوبو ہے اور خوشبو خوشبو اور گندی چیز بہر حال گندی ہے اور اچھی چیز بہر حال اچھی ہے.اور اسے پر کھنے اور اس کے متعلق فیصلہ کرنے میں کبھی دیر نہیں لگتی اور نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ عام حالات میں کوئی شریف انسان گندی چیز کو اچھی چیز سمجھنے کا راستہ اختیار کرتا ہے.سوائے اس کے کہ حالات غیر معمولی صورت اختیار کر لیں اور کسی سوسائٹی کا ماحول اس کی بصیرت کو ملوث کر دے.لیکن خدا کے فضل سے ہماری کامل و مکمل شریعت نے ہمارے لئے غیر معمولی حالات میں بھی ہدایت اور روشنی کا سامان مہیا کر رکھا ہے یعنی ایسے غیر معمولی حالات میں بھی جبکہ ایک بدی کے عام ہو جانے کے نتیجہ میں عوام الناس کی نیتوں میں فتور آجاتا ہے اور لوگ بُری چیز کو اچھا قرار دینے کے لئے بہانے ڈھونے لگ جاتے ہیں.ہماری شریعت ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑتی.چنانچہ حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ جب ہمارے آقا ( فداہ نفسی ) صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا کہ سوسائٹی میں شراب نے بے انتہاء غلبہ پایا ہوا ہے اور لوگوں کے ذہن آسانی کے ساتھ اس بدی سے کٹ کر دور ہونے کے لئے تیار نہیں تو آپ نے کمال دانشمندی سے شراب نوشی کو منع کرنے کے علاوہ یہ حکم بھی دے دیا کہ تم اس قسم کے برتنوں کو بھی استعمال نہ کرو تا کہ تمہارے ذہن کلی طور پر شراب نوشی کے مناظر سے کٹ جائیں اور کمزور لوگوں کے لئے ڈگمگانے اور ٹھو کر کھانے کا موقع نہ رہے.چنانچہ صحابہ نے شراب نوشی کی حرمت کے علاوہ اس حکم پر بھی کمال دیانتداری سے عمل کیا اور ان معصوم برتنوں کے استعمال سے بھی باز آ گئے جو اپنی ذات میں ہرگز بُرے نہیں تھے مگر شراب نوشی کے ساتھ روایتی تعلق رکھنے کی وجہ سے کمزور لوگوں کے دلوں میں شراب کی خواہش بیدار کر سکتے تھے.لیکن جب اس پر کچھ وقت گزر گیا اور لوگوں کے ذہن کلی طور پر شراب نوشی کے خیال سے کٹ گئے تو اس وقت آپ نے اعلان فرمایا کہ شراب تو بہر حال منع ہی ہے لیکن اب تم ان برتنوں کو بے شک استعمال کر سکتے ہو جن سے تمہیں روکا گیا تھا.اسی طرح مثلاً آپ نے عرب کی شرک پرستی کو دیکھ کر شروع شروع میں اعلان فرمایا کہ مسلمان قبروں کی زیارت کے لئے نہ جایا کریں تا کہ عام مشر کا نہ رجحان کی بناء پر ان کے دلوں میں کوئی مخفی جذ بہ شرک کا پیدا نہ ہونے لگے.لیکن جب صحابہ کا ایمان و عرفان پختہ ہو گیا تو کچھ وقت کے بعد آپ نے خود اعلان فرمایا کہ اب بے شک تم قبروں پر جاؤ اور اپنے مرنے والوں کے لئے دعا کر کے اور اپنے نفسوں میں موت کی یاد کو تازہ کر کے خود بھی فائدہ اٹھاؤ اور مرنے والی روحوں کو بھی فائدہ پہنچاؤ.اوپر کی مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت کا یہ بھی ایک اصول ہے کہ بعض

Page 648

مضامین بشیر ۶۳۶ اوقات جب کسی بدی کے لئے کسی سوسائٹی میں عام رجحان پیدا ہو جائے اور لوگ اپنے ماحول کے اثر کے ماتحت اس کی طرف غیر معمولی رغبت اور کشش محسوس کرنے لگیں تو لوگوں کے اخلاق کی حفاظت کے لئے بعض ملتی جلتی جائز چیزوں کو بھی وقتی طور پر منع قرار دے دیا جاتا ہے اور اس میں غرض یہ مدنظر ہوتی ہے کہ تاجب ماحول کا اثر مٹ جائے اور عام رجحان ختم ہو جائے تو پھر اس وقت ان جائز چیزوں کی اجازت دے کر سوسائٹی کو اعتدال کے راستہ پر قائم کر دیا جائے.پس جہاں تک محض مسئلہ کا تعلق ہے ، بات تو وہی ہے جو میں نے اپنے سابقہ مضمون میں بیان کی اور اس بات میں ذرہ بھر بھی کلام نہیں کہ سینما اپنی ذات میں ہرگز منع نہیں بلکہ صرف خلاف اخلاق فلموں کا دیکھنا منع ہے لیکن اگر عربوں کی شراب نوشی اور قبر پرستی کی طرح اس زمانہ میں بھی خلاف اخلاق فلموں اور سینما کی زبر دست کشش نے لوگوں کے دل ودماغ پر غلبہ پا رکھا ہے اور اس وجہ سے نظام سلسلہ کو وقتی طور پر اس بارہ میں خاص احکام دے کر نگرانی کرنی پڑی ہے تو میں اپنے نوجوانوں سے کہوں گا اور افسوس کے ساتھ کہوں گا کہ : اے بادِ صباء ایں ہمہ آورده تست یعنی اے میرے سوال کرنے والے عزیز و اور بھائیو یہ ساری پابندیاں آپ ہی کا پیدا کردہ تحفہ ہیں.جب آپ کے دل و دماغ پر سینما کے بولتے ہوئے جادو نے ساحرانہ اثر پیدا کیا اور آپ نے بلا تمیز نیک و بد سینما کی بنی سنوری دیوی کے سامنے ماتھا ٹیک دیا تو پھر سلسلہ کیوں نہ اس بچہ کی طرح جو اپنی نادانی سے آگ کے شعلہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے آپ کے ہاتھوں کو جبراً روکنے کی کوشش کرتا.خودستائی یقیناً اچھی نہیں ہوتی لیکن موقع پر بات کہنی پڑتی ہے اور میری نیت کو بھی خدا جانتا ہے کہ خودستائی غرض نہیں بلکہ لوگوں کے فائدہ کے لئے ایک حقیقت کا اظہار اصل مقصد ہے اور وہ یہ کہ اس وقت میری عمر خدا کے فضل سے ۵۶ سال کی ہے لیکن آج تک میں نے دو دفعہ سے زیادہ سینما نہیں دیکھا.پہلی دفعہ بچپن میں حضرت خلیفہ اسیج اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ اور اپنے بڑے ماموں جان مرحوم کی معیت میں دلی میں دیکھا تھا اور دوسری دفعہ بھی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہی جب کہ میں کالج میں پڑھتا تھا، ایک ایسی سینما فلم دیکھی تھی جس کا انتظام کالج کے احاطہ میں ہی کالج کی طرف سے کیا گیا تھا اور یہ دونوں زمانے وہ ہیں جب کہ سینما پر کوئی پابندی نہیں تھی.اس کے بعد وہ دن اور یہ دن آج تک کبھی سینما نہیں دیکھا اور اگر میں حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے بھولتا ہوں تو خدا مجھے معاف کرے لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میرے دل میں آج تک کبھی سینما د یکھنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی.یہ بات نہیں کہ میرے پہلو میں دل نہیں ہے

Page 649

۶۳۷ مضامین بشیر یا یہ کہ میں جائز تفریح کی طرف سے بے حس ہوں بلکہ اس لئے کہ جو تھوڑا بہت تجربہ مجھے سینما د یکھنے سے ہوا ہے اُس نے میرے دل میں یہ خیال راسخ کر دیا ہے کہ موجودہ فلم ایک آگ کا کھیل ہے جس میں اچھے برے کی تمیز بے حد مشکل کام ہے.پس میرے عزیز و اور بھائیو! یہ سب پابندیاں خود آپ کی اپنی لگائی ہوئی ہیں.اپنے دل و دماغ کو درست کر لو تو نماز روزے کے احکام کی طرح غالباً نظام سلسلہ بھی اچھی اور بری فلم کا فیصلہ خود آپ پر چھوڑ دے گا.اب رہا یہ سوال کہ موٹے طور پر بری اور ناجائز فلم کی علامتیں کیا ہیں.سو میں اپنی سمجھ کے مطابق چند مختصر فقروں میں یہ علامتیں ذیل میں بیان کئے دیتا ہوں.ا.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس فلم میں مرد و عورت کی باہمی بے تکلفی کے مناظر کو بر ملاطور پر پیش کیا جائے مثلاً (اور یہ صرف ایک مثال ہے ) ایک مرد ایک عورت کے ساتھ فلم کے پردہ پر بوس وکنار کا طریق اختیار کرتا ہے تو ایسی فلم کا دیکھنا نا جائز اور ممنوع ہوگا.بلکہ میرے خیال کے مطابق اگر یہ مرد و عورت خاوند بیوی بھی ہوں تب بھی اُن کی طرف سے ایسی حرکات کا بر ملا اظہار خلاف حیا اور نا جائز سمجھا جائے گا.اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ خاوند بیوی کا مخصوص جنسی تعلق ایک بالکل جائز بلکہ نسل انسانی کی ترقی کے لئے ضروری چیز ہے مگر کوئی شریف انسان ایسا نہیں ہو سکتا جو اس فعل کو برسر عام اختیار کرے اور جو ایسا کرے گا وہ یقیناً بے حیا سمجھا جائے گا.پس اچھی فلم کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں مرد و عورت کے بے تکلفانہ حرکات یعنی بوس و کنار وغیرہ کے مناظر کا عنصر موجود نہ ہو کیونکہ اس سے بے حیائی اور بداخلاقی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس سے شہوانی قومی کو انگیخت ملتی ہے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ میر ا نفس ایسا ہے کہ مجھ پر ایسے مناظر کا کوئی اثر نہیں ہوتا.ایسے شخص سے میں کہوں گا کہ اول تو تم دھوکا دیتے ہو ورنہ دھو کہ خوردہ ضرور ہو.فطرت کی زور دار آبشاروں کو کون روک سکتا ہے؟ لیکن اگر بالفرض ایسا کوئی شخص موجود بھی ہو تو عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ قانون کی بنیا د عام حالات پر رکھی جاتی ہے نہ کہ مستثنیات پر.پس بظاہر مستثنیٰ حالات رکھنے والے لوگوں کو بھی بہر حال عام قانون کے تابع رکھا جائے گا ورنہ فتنہ پیدا ہوتا ہے اور یہی دنیا بھر میں قانون سازی کا مسلمہ اصول ہے.۲.دوسری شرط یہ ہے جو دراصل پہلی شرط کا ہی حصہ اور شاخ ہے کہ کسی فلم میں کورٹ شپ ( یعنی نکاح سے پہلے کی بے تکلفانہ میل ملاقات ) کے مناظر پیش نہ کئے جائیں.میں اس جگہ اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ نکاح کے اصول کیا ہیں اور کیا ہونے چاہئیں.گو اسلام تو بہر حال کورٹ شپ کے رنگ کو پسند نہیں کرتا لیکن اگر کسی کے نزدیک کورٹ شپ کا طریق جائز بھی ہو یعنی اگر نکاح سے قبل

Page 650

مضامین بشیر ۶۳۸ مرد عورت کا آپس میں بے تکلفی کے ساتھ ملنا جلنا جائز بھی سمجھا جائے تو پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ کورٹ شپ کے مناظر کو فلم کے پردے پر عریاں کر کے دکھانا ایک ایسی بات ہے کہ جس سے لوگ جنسی تعلقات کے متعلق نا گوار اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتے.اور کچی اور نو جوان طبیعت کا تو کہنا ہی کیا ہے ان کے لئے تو ایسے مناظر گویا بارود کے ذخیرہ کو دیا سلائی دکھانے کے مترادف ہیں.۳.تیسری بات جو ایک اچھی اور جائز فلم میں نہیں ہونی چاہیئے وہ اغوا کے واقعات ہیں یعنی کسی شخص کا کسی لڑکی یا عورت کو اس کے جائز ولی کی اجازت اور اطلاع کے بغیر بھگا لے جانا.یہ بات بھی ہر غور کرنے والی سعید فطرت کے نزدیک اخلاقی عامہ کو غلط راستہ پر ڈالنے والی اور بالآخر سوسائٹی کے امن کو برباد کر نے والی ہے.۴.چوتھی بات عریانی کے مناظر پیش کرنا ہے یعنی جسم انسانی کے ان حصوں کو ننگا کر کے پیش کرنا جنہیں نگا کرنا اسلام میں ممنوع قرار دیا گیا ہے.بلکہ میں کہوں گا جنہیں ننگا کرنا دنیا کی ہر شریف سوسائٹی بُری نظر سے دیکھتی ہے اگر فلم کے پردے پر ان اعضاء کی عریانی کے مناظر پیش کئے جائیں تو اخلاقی لحاظ سے اس کا نتیجہ ظاہر ہے.مثلاً پنڈلی اور ران کو ننگا کرنا یا ہاتھوں کو بازوؤں کی حد تک ننگا کرنا یا سینے کو ننگا کرنا حتی کہ بعض لوگ تو چھاتیوں کے ایک حصہ کو بھی ننگا کرنے میں حرج نہیں دیکھتے وغیرہ وغیرہ.یہ سب باتیں ایسی ہیں جو اسلامی نکتہ نگاہ سے ناجائز اور ممنوع ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کل کی فلموں میں ان سے بہت بڑھ چڑھ کر عریانی کے مناظر پیش کئے جاتے ہیں.اور لوگ انہیں دیکھ کر خوش ہوتے اور ان کے ذریعہ تفریح کا سامان حاصل کرتے ہیں.اس کے علاوہ اور بھی بعض باتیں ہیں مگر میں اس جگہ صرف ان چار باتوں کے ذکر پر ہی اکتفا کرتا ہوں.اگر کم از کم ان چار باتوں سے ہی کسی سنیما فلم کو پاک کر دیا جائے (بشرطیکہ وہ حقیقتا پاک ہوا اور محض بہانہ جوئی کا رنگ اختیار نہ کیا جائے ) تو میری رائے میں ایسی فلم ہرگز منع نہیں ہوگی.بلکہ اگر اس میں تاریخی اور جغرافیائی اور علمی اور تحقیقی اور جنگی اور طبی حقائق پیش کئے جائیں تو میں بلا خوف لومة لائم کہتا ہوں کہ ایسی فلم کا دیکھنا نہ صرف جائز ہوگا بلکہ میں اسے دنیا کی علمی ترقی کے لئے ایک نعمت سمجھوں گا.لیکن آ جا کے بات پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس شعر پر آجاتی ہے جو میں نے اپنے گذشتہ مضمون میں لکھا تھا حضور کیا خوب فرماتے ہیں : مگر مشکل یہی ہے درمیاں میں کہ گل بے خار کم ہیں بوستاں میں تا ہم میں اس بات کا قائل نہیں کہ ایسی فلم ہو ہی نہیں سکتی کہ جو ان خلاف اخلاق عناصر سے پاک

Page 651

۶۳۹ مضامین بشیر ہو.ہو سکتی ہے اور ضرور ہو سکتی ہے بلکہ میں سنتا ہوں کہ ایسی فلمیں عملاً موجود بھی ہیں مگر لوگوں کے قدموں کو کون رو کے جو ایک شتر بے مہار کی طرح گندی فلموں کی طرف بھاگنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر لڑتے ہیں اُن لوگوں سے جو انہیں اس خلاف اخلاق رستہ سے منع کرتے ہیں.خدا کرے کہ میرا یہ مضمون جو پاک نیت کے ساتھ اور دوستوں کی سچی ہمدردی کے جذبہ سے لکھا گیا ہے.ہماری جماعت کے نوجوانوں کی تنویر اور ہدائت کا موجب ہو اور وہ بہانہ جوئی کے راستہ کو ترک کر کے مومنوں ہاں سادہ دل اور صحیح الدماغ مومنوں کے طریق پر ہرا چھی بات کو قبول کرنے اور ہر بری بات کو رد کرنے کے لئے تیار ہوں : وما علينا الا البلاغ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.( مطبوعه الفضل ۲۶ / اگست ۱۹۴۹ء)

Page 652

مضامین بشیر ۶۴۰ اغوا اور زنا بالجبر کے نتیجہ میں حاملہ ہونے والی عورتیں شائد ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے کہ مجھ سے ایک ڈاکٹر نے خط کے ذریعہ پوچھا تھا کہ جو اغوا شدہ عورتیں بحال ہو کر مشرقی پنجاب سے آ رہی ہیں اگر ان میں سے کوئی بدقسمت عورت حاملہ پائی جائے تو اس کا کیا علاج ہے اور اسلامی شریعت اس کے متعلق کیا کہتی ہے؟ میں نے اس وقت اس کا مختصر سا جواب الفضل میں شائع کرا دیا تھا.لیکن اب اسی قسم کا سوال مجھے ایک اور صاحب کی طرف سے بھی پہنچا ہے.وہ فرماتے ہیں کہ ایک غریب اور مظلوم عورت ابھی ابھی مشرقی پنجاب سے سکھوں سے چھٹکارا پا کر پاکستان میں پہنچی ہے اور وہ حاملہ ہے ، اس کے متعلق کیا ہونا چاہیئے ؟ ان صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ مظلوم عورت جو سکھ درندوں کی وحشیانہ بر بریت کا شکار ہوئی ہے اس بات پر بڑی سختی کے ساتھ مصر ہے کہ اس کا حمل ضائع کرا دیا جائے کیونکہ وہ اس بات کو برداشت نہیں کرتی کہ اس کی مظلومیت کی یہ نا پاک یاد باقی رہے.چونکہ گزشتہ قیامت خیز طوفان میں اس قسم کے کئی واقعات ہو چکے ہیں اور اب تک بھی بعض مسلمان عورتیں اپنے قید کرنے والے سکھوں سے نجات پاکر پاکستان پہنچ رہی ہیں.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق ایک مختصر مگر جامع نوٹ اخبار میں شائع کرا کے ایسی عورتوں کے متعلقین کو آگاہ اور ہوشیار کر دیا جائے تا کہ وہ غلط رستہ پر قدم زن ہونے سے بچ جائیں.جہاں تک ذاتی غیرت کا تعلق ہے اس میں کلام نہیں کہ جب کوئی مظلوم اور بے بس عورت کسی ظالم مرد کی بر بریت کا شکار ہوتی ہے تو عام حالات میں اس کی غیرت کا یہی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اپنی مظلومیت کی اس ناپاک یا د کو مٹا دے اور جہاں تک ممکن ہو اس داغ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے.میں اس غیرت کے جذبہ کو اصولاً ہرگز برا نہیں کہتا.یقیناً جہاں تک انفرادی یا خاندانی احساسات کا سوال ہے یہ ایک حد تک طبعی جذبہ ہے بلکہ اگر عام حالات میں کسی عورت کے دل میں یہ غیرت اور اپنی مظلومیت کی تلخ یاد کے خلاف یہ بغاوت پیدا نہیں ہوتی تو میرے لئے حیرت کا مقام ہوگا کہ وہ ایک ایسے داغ کو جسے کم از کم ایک حد تک اسے مٹانے کی طاقت حاصل ہے، کیوں مٹانے کی کوشش نہیں کرتی؟ بلکہ میں سنتا ہوں کہ موجودہ غیر معمولی حالات میں حکومت کے بعض افسر بھی قولاً اور قانو نا تو نہیں مگر عملاً اس قسم کے حالات میں عورت کے متعلق چشم پوشی بلکہ اعانت کا طریق اختیار کرتے

Page 653

۶۴۱ مضامین بشیر رہے ہیں.یعنی گو عام حالات میں حمل ضائع کرنے یا کرانے والی عورت مجرم سمجھی جاتی ہے لیکن گزشتہ غیر معمولی حالات کے نتیجہ میں حکومت کے بعض افسروں کے متعلق ( جن کا نام مجھے معلوم نہیں ) سنا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کی مجبوری کو دیکھ کر تسامح اور ہمدردی کا طریق اختیار کرتے رہے ہیں.اور اگر یہ خبر درست ہے تو میں موجودہ حالات میں اس رویہ کو بھی چنداں زیر الزام نہیں لاسکتا کیونکہ بہر حال انسانی غیرت اور پھر قومی غیرت کے جذبہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.لیکن بعض باتیں انفرادی اور خاندانی اور قومی غیرت اور مصالح سے بھی وسیع تر ہوتی ہیں اور انسانیت کے لامحدود نظریہ سے دیکھی جاتی ہیں اور بعض باتوں میں اسلام نے بھی اسی وسیع نظریہ کو اختیار کیا ہے.مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت وقتی جذبات کے جوش میں خود اپنی رضامندی کے ساتھ کسی مرد کے ساتھ زنا کی مرتکب ہوئی لیکن چونکہ اس عورت کی دل کی گہرائیوں میں نیکی اور پاکبازی کا جذ بہ موجود تھا اس لئے جب یہ حیوانی جوش کا وقت گزر گیا تو یہ عورت نادم ہو کر اور گویا اپنی عزت نفس کو مٹی میں ملا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے روتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں ناپاک ہوگئی ہوں مجھے پاک کیجئے.“ آپ نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا کہتی ہو؟“ اس نے پھر یہی الفاظ دہرائے کہ ” میرے آقا میں غفلت کی حالت میں ناپاک ہوگئی ہوں مجھے خدائی قانون کے ما تحت سزا دے کر پاک کیجئے.“ آپ نے بڑے استعجاب کے ساتھ چار دفعہ اپنے اس سوال کو دہرایا مگر ہر دفعہ یہ بدقسمت گوانجام کے لحاظ سے نیک قسمت عورت یہی کہتی چلی گئی کہ یا رسول اللہ میں ناپاک ہو گئی ہوں مجھے دوزخ کی آگ سے بچائیے.“ آپ نے ادھر اُدھر نظر اٹھا کر دیکھا اور صحابہ سے پوچھا کہ ،، کیا یہ عورت مجنون تو نہیں ہے ؟“ 66 صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ مجنون نہیں ہے.“ پھر آپ نے اس عورت سے پوچھا ” کیا تجھے حمل تو نہیں ؟“ اس نے کہا ”یا رسول اللہ مجھے حمل بھی ہے.آپ نے فرمایا تو پھر واپس جاؤ اور وضع حمل کے بعد آنا.چنانچہ وہ گئی اور حمل کے دن پورے کر کے بچہ جنا اور پھر اس بچہ کو گود میں اٹھائے ہوئے رسول اللہ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ اب میں حمل سے فارغ ہو چکی ہوں اور یہ میرا بچہ ہے اب تو مجھے پاک

Page 654

مضامین بشیر ۶۴۲ کیجئے.آپ نے فرمایا "جاؤ اور اس بچہ کو دودھ پلانے کی مدت پوری کرو.اس کے بعد میرے پاس آنا.چنانچہ وہ گئی اور رضاعت کا زمانہ پورا کر کے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا ”یا رسول اللہ اب تو رضاعت کی مدت بھی پوری ہو چکی ہے.اب خدا کے لئے مجھے پاک کیجئے.آپ نے اسے اس فیصلہ کے مطابق جو اس وقت تک اسلام میں رائج تھا اور ابھی سورہ نور والی آیتیں نہیں اتری تھیں رجم کئے جانے کا حکم دیا اور بچہ اس عورت کے بعض عزیزوں کے سپر دکر دیا گیا جب اس کے رجم کئے جانے کے بعد کسی خشک ایمان مسلمان نے اس عورت کے متعلق کچھ نازیبا الفاظ کہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو دیکھو ایسا مت کہو اور عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ سینکڑوں وو 2166 گنہ گاروں پر بھی تقسیم کر دی جائے تو ان کی مغفرت کے لئے کافی ہوگی.یہ وہ واقعہ ہے جو صیح ترین حدیثوں میں اسی طرح بیان ہوا ہے جس طرح کہ اوپر لکھا گیا ہے.بے شک میں مانتا ہوں اور شریعت اسلامی مجھ سے یہی بات منواتی ہے کہ اس عورت کی یہ غلطی تھی کہ اس نے خدائی ستاری کے پردے کو پھاڑ کر اپنی اس قسم کی مخفی لغزش کا بر ملا اظہار کیا اور حدیثوں سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی منشاء تھا کہ وہ دل میں خدا سے مغفرت طلب کرے جس نے اسے اپنی ستاری کے دامن میں چھپایا ہوا تھا اور صحابہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کوشش تھی کہ وہ اپنے اس گناہ کے بر ملا اظہار سے رک جائے.مگر اس عورت نے اس اشارے کو نہ سمجھا اور اپنے خیال کے مطابق اصرار کرتی چلی گئی کہ مجھ سے یہ گناہ ہوا ہے مجھے خدا کی مقرر کردہ سزا دے کر دنیا میں جو کچھ کرنا ہے کر لیجئے لیکن آخرت کے عذاب سے بچائیے وہ اس نکتہ کو نہیں سمجھتی تھی کہ خدائی ستاری بھی ایک بڑی رحمت اور بڑی نعمت ہے اور خدا کا یہ ایک ازلی قانون ہے کہ اگر کسی وقتی غفلت کے بعد اس کا کوئی بندہ نادم ہو کر اس کے آستانہ پر کچی تو بہ کے ساتھ گرتا ہے تو وہ رحیم و کریم آقا اسے بخش دیتا ہے اور پھر ایسا بندہ گویا دہرے انعام کا وارث ہو جاتا ہے ایک تو خدائی ستاری کا انعام اور دوسرے اس کی بخشش اور معافی کا انعام مگر عورت بہت سادہ مزاج تھی.وہ روحانیت کے اس بار یک نکتہ کو نہ سمجھی کہ خدا کی ایک سہل نعمت سے بھاگ کر سخت نعمت کی پناہ ڈھونڈنا دانائی کا رستہ نہیں اور بار بار اپنے گناہ کا اعتراف کر کے سزا کی طالب ہوئی.خیر یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ تھا جو جس صورت میں کہ مقدر تھا، وقوع پذیر ہوا لیکن اس واقعہ سے ہمیں یہ بھاری سبق حاصل ہوتا ہے کہ ایک پیدا شدہ جان کو حتی الوسع تباہ ہونے سے بچانا چاہیئے.کیونکہ ایک تو گنہگار ماں ہوتی ہے نہ کہ بچہ اور کوئی وجہ نہیں کہ ماں کے

Page 655

۶۴۳ مضامین بشیر گناہ کی وجہ سے بے گناہ بچہ کو ہلاک کیا جائے اور دوسرے حمل گرانے کی کوشش میں خود ماں کی جان کو بھاری خطرہ ہوتا ہے اور تیسرے ہم نہیں کہہ سکتے کہ جو بچہ پیدا ہو وہ شائد اپنے قلبی اور دماغی قومی کے لحاظ سے دینی یا دنیوی رنگ میں کوئی اچھا اور مفید وجود بن جائے کیونکہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بہر حال ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل کہ آپ نے حمل کے ایام میں عورت کو سزا نہیں دی تا کہ کہیں ماں کے ساتھ بچہ بھی ضائع نہ ہو جائے اور پھر بچہ کے پیدا ہونے کے فوراً بعد بھی ماں کو سزا نہیں دی تا ایسا نہ ہو کہ اس طرح بھی نوزائیدہ بچہ اپنی طبعی خوراک سے محروم ہو کر ضائع ہو جائے ، صاف ظاہر کرتا ہے کہ عام حالات میں حمل کا گرانا اور پیدا شدہ جان کا تلف کرنا کسی طرح پسندیدہ چیز نہیں ہے.آخر جو عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تھی اس کے لئے بھی تو یہ بچہ ایک ناجائز بچہ ہی تھا اور پھر اس کے لئے بھی اس بچہ کی پیدائش کی صورت میں گناہ کی تلخ اور سیاہ یا د باقی رہتی تھی مگر پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے وسیع مفاد کے ماتحت بچہ کی جان کو بچایا اور اسے تلف ہونے نہیں دیا تو جب ایک اپنی مرضی سے گناہ کی مرتکب ہونے والی عورت کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا تو پھر اس بیچاری عورت کا کیا قصور ہے جو اپنی مرضی سے نہیں بلکہ ظالم درندوں کی بربریت کا شکار ہو کر مجبوراً حاملہ ہوتی ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی اس ٹھوکر کھانے والی عورت کے بچہ کا حق تھا کہ اسے بچایا جائے تو گذشتہ فسادات کی مظلوم اور مجبور اور مقہور عورتوں کے بچوں کو کیوں نہ بچایا جائے ؟ یقیناً ایسی عورتیں خدا کی نظر میں معصوم ہیں اور ہر شریف انسان کا فرض ہے کہ انہیں معصوم سمجھے.بے شک یہ درست ہے اور میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ہماری سوسائٹی کا ایک حصہ باوجود ایسی عورتوں کی مجبوری کے انہیں قابل اعتراض اور قابل طعن خیال کرتا ہے اور ایسی عورتوں کو دوبارہ اپنے خاندانی سرکل میں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا لیکن اسلام تو الگ رہا دنیا کے کسی معروف قانون کے ماتحت بھی ایسے لوگوں کا یہ رویہ قابل تعریف نہیں سمجھا جا سکتا.مرد بیسیوں جگہ منہ کالا کر کے اور اپنی مرضی سے ادھر اُدھر جھک مار کر پھر بھی اپنے آپ کو سوسائٹی میں سر اونچا کرنے کے قابل سمجھتا ہے لیکن مظلوم اور مقہور عورت جوا تنہائی بے بسی کی حالت میں ظالم درندوں کے ہاتھ میں پڑ کر بر بریت کا شکار ہوتی ہے اور پہلا موقع پانے پر ظالموں کی قید سے بھاگ آتی ہے وہ بدمعاش اور ذلیل اور سوسائٹی میں منہ دکھانے کے قابل نہ سمجھی جائے.مردوں کے لئے یہ امتیاز قابل شرم ہے اور نہایت درجہ قابل شرم !!!

Page 656

مضامین بشیر ۶۴۴ لیکن جب تک ہم مردوں کے خیالات میں اصلاح پیدا نہیں کر سکتے اُس وقت تک ہم مجبور ہیں کہ اس قسم کی مظلوم عورتوں کی امداد کا کچھ نہ کچھ انتظام سوچیں اور میرے خیال میں علاوہ اس استثنائی انتظام کے جو سُنا جاتا ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے قولاً اور قانو نا تو نہیں مگر عملاً اختیار کیا تھا اور جسے موجودہ حالات میں چنداں نا واجب نہیں سمجھا جا سکتا.میرے خیال میں ذیل کی احتیاطیں اختیار کرنے سے بھی کسی حد تک اصلاح کی اُمید ہوسکتی ہے.ا.یہ کہ سوسائٹی کا سمجھدار طبقہ اعتراض کرنے والے لوگوں کو سمجھائے اور آنحضرت عیہ کی سنت بتا کر اس بات کی نصیحت کرے کہ ایسی مجبور مقہور عورت رحم اور ستاری کی مستحق ہے نہ کہ طعن اور اعتراض کی.۲.یہ کہ ایسی عورت کے متعلق اگر ممکن ہو تو اس کا نام وغیرہ مناسب صورت میں بدل دیا جائے ا تا کہ سابقہ نام کے معروف ہونے کی وجہ سے بدنامی کا امکان کم ہو جائے..یہ کہ جہاں تک ممکن ہو ایسی عورت کو کم از کم ایک عرصہ کے لئے ان لوگوں سے دور رکھا جائے جو اس کے گذشتہ وطن اور اس کے اغوا وغیرہ کے حالات سے واقف ہیں..یہ کہ اگر ممکن ہو اور عورت کو اُس پر اصرار ہو تو ایسی عورت سے اس کے بچہ کو لے کر کسی قومی یا ملکی ادارے کے سپر د کر دیا جائے.جہاں بچہ کی والدہ کا نام اور اُس کے وطن کا پتہ درج نہ کیا جائے بلکہ کوئی نیا نام رکھ کر اس کی طرف منسوب کر دیا جائے اور یہ نوٹ کر دیا جائے کہ یہ بچہ لاوارث حالت میں پہنچا ہے.۵.یہ کہ اگر اس عورت کا خاوند مر چکا ہو یا اسے رکھنے کے لئے تیار نہ ہو تو جہاں تک ممکن ہو کسی شریف آدمی کو آمادہ کر کے اس کے ساتھ ایسی عورت کا نکاح کرا دیا جائے.اوپر کی باتیں میں نے صرف موجودہ سوسائٹی کے خیالات اور سماجی مجبوری کے ماتحت لکھی ہیں ور نہ حق وہی ہے جو ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور جسے یورپ اور امریکہ کی بعض عیسائی اقوام تو عملاً اختیار کر چکی ہیں.مگر افسوس ہے کہ ابھی تک اس کے لئے مسلمانوں کا ایک حصہ تیار نہیں.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين - ( مطبوعه الفضل ۲۷ اگست ۱۹۴۹ء)

Page 657

۶۴۵ مضامین بشیر ایک اور درویش کی وفات قادیان سے بذریعہ فون اطلاع ملی ہے کہ گذشتہ رات سلطان احمد صاحب در ولیش ولد میاں محمد بخش صاحب کھاریاں ضلع گجرات فوت ہو گئے ہیں.انا لله وانا اليه راجعون انہیں اچانک تیز بخار ہوا اور ساتھ ہی سرسام بھی ہو گیا اور اسی حالت میں انتقال کر گئے.اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.قادیان میں فوت ہونے والا یہ تیسرا درویش ہے.ونرضى بما يرضى به الله ( مطبوعه الفضل ۳۰ / اگست ۱۹۴۹ء )

Page 658

مضامین بشیر ۶۴۶ میں ناظر اعلیٰ یا ناظر امور عامہ نہیں ہوں دوست خط و کتابت میں احتیاط رکھیں کئی دوست نا معلوم کس وجہ سے مجھے ناظر اعلیٰ یا ناظر امور عامہ سمجھ کر ان صیغوں سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق مجھے چٹھیاں لکھ دیتے ہیں.حالانکہ نہ تو میں ناظر اعلیٰ ہوں اور نہ ہی ناظر امور عامہ ہوں بلکہ صرف قادیان کے صیغہ کا انچارج ہوں.ناظر اعلیٰ اور ناظر امور عامہ کا دفتر عرصہ سے ربوہ جاچکا ہے اور میرا دفتر ابھی تک لاہور میں ہے.دوست خط و کتابت میں احتیاط رکھیں ورنہ طوالت پیدا ہونے کے علاوہ بعض خطوں کے ضائع ہونے کا بھی امکان ہے.علاوہ ازیں دوستوں کو یہ احتیاط بھی چاہئے کہ تمام محکمانہ خط و کتابت کسی افسر کے نام پر کرنے کی بجائے عہدہ کے پتہ پر کی جائے.کیونکہ بعض اوقات ایک افسر بدل جاتا ہے اور اگر خط پر عہدے کی بجائے نام لکھا ہوا ہو تو ایسا خط دفتر میں پہنچنے کی بجائے نام کی وجہ سے ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے اور بسا اوقات ضائع چلا جاتا ہے.( مطبوعه الفضل ۳۰ /اگست ۱۹۴۹ء)

Page 659

۶۴۷ مضامین بشیر میاں سلطان احمد درویش مرحوم میاں سلطان احمد صاحب درویش قادیان کی وفات کے متعلق الفضل میں یہ خبر شائع کی جا چکی ہے.اب ان کی بیماری اور وفات کے مزید حالات قادیان سے پہنچے ہیں جو دعا کی تحریک کی غرض سے ذیل میں شائع کئے جاتے ہیں.ڈاکٹر بشیر احمد صاحب اور مولوی عبد الرحمن صاحب امیر مقامی اور ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان سے حسب ذیل اطلاع دیتے ہیں.سلطان احمد مرحوم ولد میاں محمد بخش صاحب جو سکنہ کھاریاں ضلع گجرات کا رہنے والا تھا.گذشتہ جمعہ کے دن تک بالکل تندرست اور صحیح سالم تھا.جمعہ کے دن قریباً تین بجے سہ پہر کو سلطان احمد کو سردرد کی شکایت ہوئی جس پر دوائی وغیرہ دی گئی اور وہ چلتا پھرتا رہا.لیکن ہفتہ کے دن صبح اسے بخار ہو گیا اور دن کے دوران میں چند اجابتیں بھی ہوئیں.پچھلے پہر بخار زیادہ تیز ہو گیا اور سلطان احمد کو قریباً بیہوشی کی حالت میں قریباً ساڑھے چھ بجے شام کو احمد یہ شفا خانہ میں اٹھا کر لایا گیا.اس وقت بخار ۱۰۵ درجہ کا تھا.برف استعمال کی گئی اور ٹیکہ بھی لگایا گیا اور دیگر تمام ذرائع جو میسر آ سکتے تھے استعمال کئے گئے مگر بخار میں کمی نہ ہوئی.نو بجے شب کے قریب سانس اکھڑنا شروع ہوا اور گیارہ بج کر تیس منٹ پر ۲۷، ۲۸ / اگست کی درمیانی شب کو اس مخلص نوجوان نے داعی اجل کو لبیک کہا.انالله وانا اليه راجعون.قادیان کی متفقہ رپورٹ کے مطابق مرحوم نہایت نیک اور مخلص نو جوان تھا.اس کی عمر قریباً ۲۰ یا ۲۲ سال کی ہو گی.مرحوم موصی بھی تھا اور مقبرہ بہشتی میں بابا شیر محمد صاحب کی قبر کے ساتھ دفن کیا گیا.مرحوم ان پچپیس درویشوں میں سے تھا جن کے خلاف اس وقت دفعہ ۱۰۷ کا استغاثہ چل رہا ہے.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس مخلص نوجوان کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور اس کے والد اور دوسرے عزیزوں کو صبر جمیل عطا کرے اور دین ودنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین ( مطبوعه الفضل ۳۱ ر ا گست ۱۹۴۹ء )

Page 660

۶۴۸ مضامین بشیر چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست گزشتہ اعلان کے تسلسل میں شائع کیا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل بھائیوں اور بہنوں نے امداد درویشان قادیان کی غرض سے ذیل کی مزید رقوم ارسال فرمائی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں اس نیک کام کی جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.عبدالسلام صاحب سید والہ ضلع شیخو پوره محمد حیات خانصاحب نمبر دار مانگٹ اونچے ڈاکخانہ حافظ آباد 1 ۱۵ 1 M...M ۱۵ 1 ۱۵ ۲۰۰۰ شیخ فضل محمد صاحب اوکاڑہ شیخ فضل محمد ، نذیر احمد صاحبان اوکاڑہ چوھدری مسعود احمد صاحب اوکاڑہ ہمشیرہ میاں کرم الدین صاحب اوکاڑہ اہلیہ شیخ رحیم بخش صاحب شیخ فیروز الدین صاحب حال موگا اوکاڑہ اوکاڑہ 11 ( نوٹ اوپر کی چھ رقوم بذریعہ حاکم علی صاحب ٹیچر پہنچی ہیں ) ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب پسر قاری غلام حسم صاحب مرحوم لاہور والدہ صاحبہ ڈاکٹر اختر محمود صاحب لاہور بشیر الدین صاحب طاہر پورن نگر سیالکوٹ محمد احمد صاحب پسر مستری نظام دین صاحب سیالکوٹ حلقه سولجر بازار کراچی معرفت میجر شیم احمد صاحب جمشید کوارٹرز کراچی ۱۴ ملک عزیز احمد صاحب ایبٹ آباد ۱۵ صوفی غلام محمد صاحب ہیڈ کلرک پولیٹیکل ایجنٹ وانا ( صوبہ سرحد ) ۱۶ حبیب الرحمن صاحب اے.ڈی.آئی آف سکولز منٹگمری خان عبد الحمید خانصاحب آف زیده ڈاکٹر مزمل حسین صاحب سیالکوٹ

Page 661

۶۴۹ مضامین بشیر 19 مائی کا کو صاحبہ آف قادیان حال لاہور ۲۰ جماعت احمد یہ چک ۶/۱۱ ضلع منٹگمری بذریعہ دفتر محاسب ربوه دختران شریف احمد صاحب ایگزیکٹو آفیسر گجرات بذریعہ دفتر محاسب ربوه ۲۲ چوھدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ و اہلیہ صاحبہ چوھدری صاحب موصوف ۲۳ جماعت احمدیہ و لجنہ اماء اللہ شور کوٹ ضلع جھنگ بذریعہ شجاعت علی صاحب انسپکٹر بیت المال ۲۴ چوھدری محمد بوٹا صاحب دوکاندار قادیان حال کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ ۲۵ میاں محمد احسن صاحب مردان ۲۶ مرز اغلام قادر صاحب مردان (نوٹ :.اوپر کی ہر دور قوم بذریعہ محمد حسین صاحب ہیڈ ڈرافٹسمین پہنچی ہیں.) میزان 11......1.CAT.◆ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل رقوم قادیان کے غرباء کے لئے بطور صدقہ اور بعض رقوم برائے عقیقہ وامدادلنگر خانہ وغیرہ وصول ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ ان رقوم کے بھجوانے والوں کو بھی جزائے خیر دے.مائی کا کو صاحبہ برائے قربانی بر موقعہ عید الاضحی سردار عبدالمنان صاحب پسر ڈاکٹر فیض علی صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور برائے عقیقہ بچگان سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ کپتان عبد الحمید صاحب.معرفت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب لاہور بطور صدقہ چوھدری نذیر احمد صاحب طالب پوری حال ڈسکہ بطور صدقہ سردار عبد الرحمن صاحب نبی سر روڈ سندھ برائے امدا د لنگر خانہ قادیان ۳/۰ روپے ما ہوا را امداد دینے کا وعدہ ہے ) میزان ( مطبوعه الفضل ۳ ستمبر ۱۹۴۹ء ) IA.19A...

Page 662

مضامین بشیر جماعت احمدیہ کی ظاہری ترقی ہوائی فضا کے ساتھ وابستہ ہے.حضرت مسیح موسوی اور حضرت مسیح محمدی کے دولطیف کشف اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جہاں وہ اپنے مرسلوں اور ماموروں کو ان کی جماعتوں کی آئندہ دینی اور روحانی ترقیات کی خبر دیتا ہے.وہاں بسا اوقات ان کی ظاہری اور مادی ترقی کے متعلق بھی قبل از وقت اشارے کر دیتا ہے اور یہ اشارے سراسر فضل اور رحمت کا موجب ہوتے ہیں.کیونکہ مومن ان سے فائدہ اٹھا کر خدا کی نیک تقدیروں کو اپنے لئے جمع کر لیتے ہیں.اسی تعلق میں میں اپنے مندرجہ ذیل نوٹ میں حضرت مسیح ناصری یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح محمدی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوکشفوں کا ذکر کرتا ہوں ، جن میں ان ہر دو بزرگ رسولوں کو ان کی جماعتوں کی آئیندہ ترقی کی خبر دی گئی تھی.چنانچہ انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کے ایک کشف کا ذکر آتا ہے ، جس میں انہوں نے خدا سے نصرت پا کر پانیوں پر چلنے کا نظارہ دکھایا.انجیل میں آتا ہے کہ : یسوع مسیح رات کے چوتھے پہر میں ان لوگوں کی طرف گیا جو جھیل کی سطح پر کشتی میں سوار ہو کر جا رہے تھے اس وقت مسیح پانیوں کے اوپر پا پیادہ چلا.اور جب اس کے ان حواریوں نے اسے جھیل کی سطح پر چلتے ہوئے دیکھا تو وہ گھبرا کر کہنے لگے کہ یہ تو ایک روح آتی ہے.اور وہ ڈر کے مارے چیخنے اور پکارنے لگے لیکن مسیح نے انہیں آواز دے کر تسلی دی اور کہا گھبراؤ مت اور تسلی رکھو.یہ میں ہوں اور تمہیں ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے.میرے پاس چونکہ اس وقت اردو کی انجیل نہیں ہے ، میں نے اوپر کا حوالہ انگریزی کی انجیل سے ترجمہ کر کے لکھا ہے اور ممکن ہے میرے الفاظ کچھ مختصر ہو گئے ہوں.مگر بہر حال مفہوم یہی ہے ، جو اوپر بیان کیا گیا ہے.انجیل نے حسب سابق مسیح ناصری کے اس کشف کو ایک خارق عادت کے طور پر پیش کیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ صرف ایک کشفی نظارہ تھا جو حضرت مسیح ناصری کو ان کی قوم کی آئیندہ ظاہری اور دنیوی ترقی کے متعلق دکھایا گیا اور اس کشف میں اشارہ یہ مقصود ہے کہ عیسائی لوگ اس وقت ترقی کریں گے جب وہ جہاز رانی کی طرف توجہ دے کر پانیوں پر نکلیں گے تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسا

Page 663

۶۵۱ مضامین بشیر ہی ہوا.اور عیسائی قو میں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکیں جب تک کہ وہ زمینوں کی حدود میں محصور ہو کر بیٹھی رہیں.اور ان کی ترقی کا صرف اس وقت آغاز ہوا جبکہ انہوں نے اپنا قدم زمین سے اٹھا کر پانیوں پر رکھا اور جہاز رانی کی طرف توجہ دے کر آہستہ آہستہ اس ذریعہ سے ساری دنیا پر چھا گئیں.یہ ایک کھلا ہوا تاریخی ورق ہے جس کی صداقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ پانیوں پر چلنے کے لئے پہلا قدم سپین نے اٹھایا اور اس کے بعد برطانیہ نے اس راستہ میں اس کی اتباع کی اور بالآخر اسی کے طفیل عیسائی اقوام کو وہ غلبہ حاصل ہوا جس نے کئی صدیوں تک دنیا کی نظروں کو خیرہ کئے رکھا.چنانچہ قرآن شریف نے بھی یہ الفاظ کہہ کر کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ یعنی آخری زمانہ میں یا جوج ماجوج کی قومیں سمندروں کی لہروں پر ادھر ادھر دوڑتی پھریں گی.اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے.یہ تو وہ خدائی نقد ی تھی جو حضرت مسیح ناصری کے ذریعہ ظاہر ہوئی لیکن ضروری تھا کہ جب مسیح محمدی کا زمانہ آتا تو آپ کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے کسی واضح کشف یا رؤیا کے ذریعہ وہ راستہ بتا دیتا جس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی جو اسلام کے دور ثانی کی علمبر دار ہے دنیا میں ترقی مقدر تھی.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جس طرح حضرت مسیح ناصری کو پانیوں پر چلنے کا کشف دکھایا گیا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہوا میں اڑنے کا نظارہ دکھا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ جماعت احمدیہ کی ظاہری ترقی ہوائی فضاؤں کے ساتھ مقدر ہو چکی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ : میں ہوا میں تیر رہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرے کے گول....اور میں اس پر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر تیر رہا ہوں.سید محمد احسن صاحب کنارہ پر تھے.میں نے ان کو بلا کر کہا کہ دیکھ لیجئے کہ عیسی تو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں.اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے.حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے نہ ہاتھ نہ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے ادھر ادھر تیر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یہ رویا نہایت واضح اور اپنے لطیف اشارات میں بالکل کامل و مکمل ہے اور اسکا خاص پہلو یہ ہے کہ اس کشف کے دوران میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک زمین پر کھڑے ہوئے ساتھی سے فرماتے ہیں کہ دیکھ مسیح ناصری تو پانی پر چلتا تھا اور میں ہوا میں اڑتا ہوں اور مجھ پر خدا کا فضل مسیح ناصری سے بڑھ کر ہے رؤیا کے دوران میں ہی یہ الفاظ فرما ناصاف ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا رؤیا اسی قسم کی کیفیت کی طرف

Page 664

مضامین بشیر ۶۵۲ اشارہ کرنے کیلئے دکھایا گیا تھا جو حضرت مسیح ناصری کے کشف میں مضمر تھی یعنی جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پانی والے کشف کی طرف اشارہ مقصود تھا کہ آئندہ میری قوم کی ترقی پانیوں پر چلنے کے نتیجے میں ہوگی وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہوا میں اڑنے والا رویا اور اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے دکھایا گیا تھا کہ تیری قوم کی ظاہری ترقی ہوائی فضاؤں میں پرواز کرنے کے ساتھ مقدر کی گئی ہے اور یہ جو اس رویا میں گول دائرہ پر اڑ نا دکھایا گیا ہے اس میں یہ لطیف اشارہ مخفی ہے کہ جماعت احمدیہ کی یہ ترقی سارے کرہ ارض پر وسیع ہوگی اور کسی ایک ملک یا ایک قوم تک محدود نہیں ہوگی اسی طرح اس رویا میں بعض اور اشارے بھی ہیں مگر اس جگہ ان کے ذکر کی ضرورت نہیں.لیکن ایک لطیف اشارے کے ذکر سے میں رک نہیں سکتا اور وہ یہ کہ ہوا میں پرواز کرنے کے نظارہ میں باطنی اشارہ بھی مد نظر ہے کہ جماعت احمدیہ کی ترقی صرف مادی رنگ میں ہی نہیں ہوگی بلکہ اس ظاہری ترقی کے ساتھ غیر معمولی روحانی ترقی بھی مقدر ہے.ظاہر ہے کہ پانی پر چلنا اپنے اندر کوئی روحانی پہلو نہیں رکھتا.مگر ہوا میں اڑنا اپنے اندر یہ صریح اشارہ رکھتا ہے کہ یہ ظاہری پرواز روحانی ترقی کی بھی حامل ہو گی.کیونکہ روحانی ترقی کو ہمیشہ آسمانوں میں اڑنے اور ہوائی فضاء میں بلند ہونے کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ لطیف رؤیا جس کے اندر ہی کمال حکمت سے مسیح ناصری کے پانی کے رویا کا ذکر کر دیا گیا ہے ہمیں بتاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی ظاہری ترقی بڑی حد تک ہوا میں اڑنے یعنی ہوائی جہازوں کے فنون کی طرف توجہ دینے کے ساتھ وابستہ ہے اور دنیا کا موجودہ قدم بھی اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ قوموں کی دوڑ میں آئندہ وہی قوم آگے نکلنے والی ہے جو ہوائی جہازوں کے فن میں زیادہ کمال پیدا کرے گی.پس میں جماعت احمدیہ کے نونہالوں سے اپیل کرتا ہوں کہ جو بچے عام صحت اور جسمانی اور دماغی قومی کے لحاظ سے ہوائی جہازوں کے فن سیکھنے کا ملکہ رکھتے ہوں وہ اس کام کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں تا کہ ہم اس خدائی تقدیر کو جو ہمارے لئے مقدر ہو چکی ہے زیادہ سے زیادہ قریب لا سکیں میں اس لائن کے متعلق کوئی ٹیکنیکل علم نہیں رکھتا مگر سرسری نظر میں خیال کرتا ہوں کہ ہوائی جہازوں کے فنون مندرجہ ذیل شعبوں میں تقسیم شدہ ہیں اور ان سب کی طرف ہمارے نو جوانوں کو اپنے اپنے مذاق اور حالات اور تعلیمی قابلیت کے مطابق توجہ دینی چاہئے.ا.ہوائی جہازوں کی فوج یعنی امیر فورس میں بطور پائلٹ بھرتی ہونا جس کے بعد کامیاب امید واروں کو حکومت خود اپنے خرچ پر ٹرینگ دلاتی ہے.اس کے لئے اچھے اعصاب اور چست دماغ کا ہونا ضروری ہے.اس لائن کا نام غالباً جنرل برانچ ہے.

Page 665

۶۵۳ مضامین بشیر ۲.گراؤنڈ انجینئر نگ کی لائن میں بھرتی ہونا جس میں ہوائی جہازوں کی مشینری وغیرہ سے واقفیت پیدا کرائی جاتی ہے.۳.ائیر وڈرو ہوں یعنی ہوائی مستلقروں کے انتظام کی لائن میں بھرتی ہونا جو غالبا ائیر ایڈ منسٹریٹو سروس کہلاتی ہے.۴.سول فلائنگ یعنی غیر فوجی پرواز کے لئے ٹریننگ حاصل کرنا تا کہ ملک کی مختلف ائیر لائینوں میں کام کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے.ڈاک اور مسافر جہازوں کا کام اسی لائن سے تعلق رکھتا ہے.۵.ہوائی جہازوں اور ان کے پرزوں کے بنانے کا علم حاصل کرنا جو خاص علمی اور عملی سائنس کی مہارت چاہتا ہے.یہ وہ پانچ موٹی موٹی لائنیں ہیں جن میں ہوائی جہازوں کا کام فی الحال تقسیم شدہ ہے.اور ہمارے ان نوجوانوں کو جو جسمانی اور دماغی قومی اور تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے اس کام کے اہل ہوں ان سب لائنوں کی طرف حسب تعداد خاص توجہ دینی چاہئے.شاید بعض دوستوں کو خیال ہو کہ یہ تو ایک محض دنیوی کام ہے اور ہمیں اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں مگر یہ درست نہیں ہے.کیونکہ اول تو جب ہم نے دنیا میں رہنا ہے اور دنیا کی قوموں کے ساتھ ہمیں واسطہ پڑتا ہے تو اس بات کے بغیر چارہ نہیں کہ ہم ان فنون کی طرف توجہ دیں جو دنیوی ترقی کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں.علاوہ ازیں مومن کا ہر کام اس کی نیت کی بناء پر پر کھا جاتا ہے.پس اگر ہماری نیت یہ ہو کہ ہم نے جماعت کے لئے ترقی کا رستہ کھولنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رؤیا کو پورا کرنا ہے تو یہی کام جو بظاہر دنیوی نظر آتا ہے ہمارے لئے بھاری ثواب کا موجب بھی بن سکتا ہے.کیا دوستوں کو یہ معلوم نہیں کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جو مومن نیک نیت کے ساتھ اپنی بیوی کے منہ میں خوراک کا ایک لقمہ بھی ڈالتا ہے وہ اس لقمہ کی وجہ سے بھی ثواب کا مستحق ہوگا.تو کیا پھر جماعت کی ترقی کے رستہ کو کھولنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اہم رؤیا کو پوری کرنے والا ثواب کا مستحق نہیں ہو گا ؟.میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر احمدی نوجوان دوسرے سارے کام چھوڑ کر اسی کام کی طرف لگ جائے ایسا خیال یقیناً ایک مجنونانہ خیال ہوگا کیونکہ نہ تو سارے نو جوانوں کو اس کام سے مناسبت ہو سکتی ہے ( کیونکہ خالق فطرت نے کمال حکمت سے ہر شخص میں علیحدہ علیحد ہ مناسبت پیدا کی ہے.) اور نہ دنیا کے دوسرے کا موں کو چھوڑا جا سکتا ہے اور خالص دینی کاموں کو تو کسی صورت میں چھوڑا جا سکتا ہی نہیں.پس میرا مطلب صرف یہ ہے کہ جو احمدی نوجوان اس کام کی اہلیت رکھتے ہوں اور انہیں

Page 666

مضامین بشیر ۶۵۴ دوسرے کاموں کی نسبت اس سے زیادہ مناسبت ہو اور ان کے حالات بھی اس کی اجازت دیتے ہوں انہیں چاہئے کہ اس کی طرف خاص توجہ دیں.کیونکہ یقیناً اس لائن کے ساتھ جماعت احمدیہ کی آئندہ ترقی کے بہت سے پہلو وابستہ ہیں والله اعلم وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين - ( مطبوعہ الفضل ۶ ستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 667

۶۵۵ مضامین بشیر اسلامی احکام پردہ کا خلاصہ پردہ کے متعلق سات بنیادی نکتے آج کل پاکستان میں پردہ کی بحث زوروں پر ہے.اور بعض بڑے بڑے لیڈر اسلامی احکام پردہ کے متعلق ایسے خیالات ظاہر کر رہے ہیں جو یقیناً خلاف تعلیم اسلام ہیں.میں نے اسلامی پردہ کے متعلق کچھ نوٹ تیار کر رکھے ہیں ، اور انشاء اللہ کسی وقت ان نوٹوں کی روشنی میں مضمون لکھنے کی کوشش کروں گا.لیکن فی الحال بغیر کسی دلیل اور حوالہ کے اسلامی پردہ کے متعلق چند مختصر فقروں میں اپنی تحقیق کا خلاصہ پیش کرتا ہوں تا کہ ہمارے دوستوں کو اطلاع رہے.اور وہ اپنے مباحث میں اس خلاصہ کو مدنظر رکھ سکیں.ا.اسلام سے قبل عرب عورتیں پردہ نہیں کرتی تھیں اور اسلام کے اوائل زمانہ میں مسلمان عورتوں میں بھی پردہ کا رواج نہیں تھا.لیکن ۰۵ھ کے قریب پردہ کے احکام نازل ہوئے اور مسلمان عورتوں کو حجاب یعنی پر وہ کا حکم دے دیا گیا.۲.پردہ کے متعلق جو احکام نازل ہوئے.ان کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ مسلمان عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے (اور شریعت نے نے محرم مردوں کی تعیین فرما دی ہے.مثلاً باپ، بیٹا ، خاوند ، بھائی ، چا ، ماموں وغیرہ) اپنی زینت کا اظہار نہ کریں اور زینت کے لفظ میں قدرتی زینت یعنی جسمانی حسن اور مصنوعی زینت یعنی لباس و زیبائش دونوں کا مفہوم شامل ہے.۳.لیکن ممال حکمت سے اسلام نے عورتوں کی مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زینت کے اظہار کے تعلق میں بعض چیزوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے.مثلاً ہاتھ جو کام کرنے کے لئے ضروری ہیں.پاؤں جو چلنے پھرنے کے لئے ضروری ہیں آنکھ جو راستہ دیکھنے کے لئے ضروری ہے.اور ناک اور منہ کا دہانہ جو سانس لینے کے لئے ضروری ہیں، مستقلی ہیں.مگر باقی چہرہ ہرگز مستثنی نہیں.البتہ بیماری کے موقع پر جبکہ مجبوری کی صورت ہو جسم کے کسی حصہ کا ڈاکٹر کو دکھانا جائز ہے.۴.زینت کے عدم اظہار کے تعلق میں اسلام نے یہ بھی ہدایت دی ہے کہ ایک مسلمان عورت کسی غیر محرم مرد کے ساتھ مصافحہ نہ کرے کیونکہ اس طرح اس کے جسم کی زینت کا اظہار ہو جاتا ہے اور

Page 668

مضامین بشیر اسی طرح اسلام نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ غیر محرم مرد کے ساتھ کلام کرتے ہوئے عورت اپنی آواز کی نرمی اور لوچ کو چھپائے.اور بلند اور سنجیدہ لہجہ کے ساتھ کلام کرے تا کہ آواز کی زینت بھی جو عورت کے قدرتی حسن کا حصہ ہے پردہ میں رہے.۵.پردہ کے تعلق میں اسلام یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ کسی عورت اور مرد کیلئے جائز نہیں کہ وہ کسی غیر محرم مرد عورت کو علیحدگی میں ملیں.جبکہ کوئی تیسرا محرم شخص ساتھ نہ ہو.مثلا کسی غیر محرم مرد و عورت کا علیحدہ کمرے میں جا کر خلوت میں ملنا.اسلامی تعلیم کے مطابق ممنوع ہے.وغیر ذالک ۶.اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ چونکہ رستہ دیکھنے کی سہولت کے لئے آنکھ پردہ کی قیود سے مستثنیٰ ہے.اس لئے اخلاق کی حفاظت کے لئے مرد و عورت دونوں کو چاہئے کہ جب وہ کسی غیر محرم کے سامنے آئیں تو پردہ کے عام احکام کے علاوہ اپنی نظر کو نیم خوابیدہ صورت میں نیچا رکھیں.اسی ضمن میں یہ بات بھی نا جائز ہوگی کہ کوئی مرد چھپ چھپ کر کسی غیر محرم عورت کو دیکھے یا کوئی عورت کسی غیر محرم مرد کی طرف تاڑنے کی غرض سے نظر اٹھائے مگر اتفاقی نظر جو فور ہٹا لی جائے قابل معافی ہے.ے.پردہ کے احکام بلوغ کی عمر سے شروع ہوتے ہیں.یعنی خورد سالہ لڑکے اور لڑکیاں پردہ کے احکام سے مستثنے ہیں.اسی طرح بوڑھی عورتیں جو مخصوص جنسی تعلقات کی حد سے تجاوز کر چکی ہوں ، وہ بھی نظر والے پردہ کے احکام سے مستقلی ہیں.اوپر کی حد بندیوں اور شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مسلمان عورتیں کسی کام یا ڈیوٹی کے تعلق میں یا جائز تفریح یا صحت کی اغراض کے ماتحت اپنے مکان سے باہر آئیں جائیں.اور اسلام اس معاملہ میں کوئی نا واجب حد بندی نہیں لگاتا.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مسلمان عورتیں تعلیم پاتی اور تعلیم دیتی تھیں.اپنے کام کاج کے تعلق میں گھروں سے باہر آتی جاتی تھیں.جنگوں میں مردوں کو پانی وغیرہ پلانے اور مرہم پٹی وغیرہ کرنے کا فرض بجالاتی تھیں.اور خاص ضرورت کے وقت میں دشمن کے قافلہ پر تلوار بھی چلا لیتی تھیں.اور ان کے لئے یہ سب کام بالکل جائز سمجھے جاتے تھے.بلکہ آنحضرت علیہ کے زمانہ میں تو عورتیں صبح اور عشاء وغیرہ کی نمازوں میں بھی الگ صف بنا کر شامل ہو جاتی تھیں.ان کاموں اور اسی قسم کے دوسرے جائز کاموں کے متعلق اسلام کوئی روک پیدا نہیں کرتا.اور نہ وہ عورت کو گھروں کی چار دیواری میں قیدیوں کی طرح بند رکھنا چاہتا ہے گو یہ ضرور درست ہے کہ اسلام اس بات کی تحریک کرتا ہے کہ عورت کو چاہئے کہ اپنی بہترین توجہ بچوں کی تربیت پر خرچ کرے تا کہ ہر آئندہ نسل گذشته نسل سے بہتر ہو.اور قوم کا قدم ترقی کی طرف اٹھتا چلا جائے اور اس غرض سے وہ مرد و عورت دونوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے تمام

Page 669

۶۵۷ مضامین بشیر اعمال وافعال میں نیکی اور تقویٰ کی روح کو مد نظر رکھیں.اسلامی احکام کا جو خلاصہ اوپر درج کیا گیا ہے.اس کی تائید میں میرے پاس خدا کے فضل سے یقینی اور قطعی دلائل موجود ہیں اور اگر خدا نے مجھے توفیق دی تو انشاء اللہ کسی وقت مفصل مضمون کے ذریعہ انہیں بیان کرنے کی کوشش کروں گا.و ماتو فيقى الا بالله العلى العظيم.( مطبوعہ الفضل ۷ ستمبر ۱۹۴۹ء )

Page 670

مضامین بشیر ۶۵۸ ایک درویش کی والدہ کا انتقال درویش مذکور کا قابل تعریف نمونه اطلاع ملی ہے کہ عبد الکریم صاحب خالد درویش قادیان کی والدہ صاحبہ کا گوجرانوالہ میں انتقال ہو گیا ہے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اس صدمے کی اطلاع ملنے پر عبد الکریم صاحب خالد نے جس صبر و رضا کا نمونہ دکھا یا وہ بہت قابل تعریف ہے.چنانچہ رپورٹ آئی ہے کہ جب عبد الکریم صاحب خالد کو اس کی والدہ کی وفات کی اطلاع ملی تو اس نے انا الله و انا اليه راجعون.پڑھتے ہوئے کہا میری والدہ مرحومہ کو مجھ سے بہت محبت تھی اور مجھے بھی اپنی والدہ کے ساتھ بہت محبت تھی اور ماں بے شک ایک بہت بھاری نعمت ہے، لیکن جس خدمت کا مجھے اس وقت قادیان میں موقع مل رہا ہے ، وہ اس سے بھی زیادہ بھاری ہے.اور قربانی اس چیز کا نام ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی بہترین اور پسندیدہ چیزوں کی قربانی پیش کریں.اسی طرح عبد الکریم خالد کے والد خواجہ عبد الواحد صاحب عرف پہلوان نے بھی اپنے اکلوتے بیٹے کو اس کی والدہ کی وفات کی اطلاع دیتے ہوئے صبر و قتل کی نصیحت کی ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ شعر یاد کرایا ہے جو حضور نے اپنے فرزند مبارک احمد کی وفات پر لکھا تھا ، یعنی بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور اس کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.آمین.( مطبوعہ الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 671

۶۵۹ مضامین بشیر قادیان میں عید الاضحیہ کی قربانی خواہش مند دوست توجہ فرما ئیں مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان نے لکھا ہے کہ میں ان کی طرف سے الفضل میں اعلان کرا دوں کہ جو دوست گزشتہ سال کی طرح آنے والی عید الاضحیہ کے موقع پر قربانی کروانا چاہیں ، وہ انہیں فی بکر اچھپیں روپے کے حساب سے رقم بھجوا دیں انشاء اللہ ان کی طرف سے قادیان میں قربانی کرا دی جائے گی.دوستوں کو یاد رہے کہ ہندوستان میں گائے کی قربانی کی اجازت نہیں ہے.صرف بکرا یا دنبہ ہی قربانی کیا جا سکتا ہے.اور قادیان میں ایک بکرے کی قیمت اوسطاً پچیس روپے ہے.پس جو دوست قادیان میں قربانی کرانا چاہیں وہ مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل دار المسیح قادیان ضلع گورداسپور مشرقی پنجاب کے نام پچھپیں روپے کی رقم منی آرڈر کے ذریعہ بھجوا دیں اور کو پن پر ضروری تفصیل درج کر دیں.واجر ھم علی الله.میرے خیال میں قادیان کی موجودہ احمدی آبادی کے پیش نظر قادیان میں ہیں چھپیں بکروں کی قربانی کافی ہوگی.اس سے زیادہ میں گوشت کے ضائع جانے کا احتمال ہے.نیز عید چونکہ غالباً چار اکتوبر کو ہوگی ، اس لئے قربانی کی رقوم احتیاطاً میں چھپیں ستمبر تک قادیان میں بھجوا دینی چاہئیں.مطبوعه الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 672

مضامین بشیر ۶۶۰ قادیان کے درویشوں کے لئے دعا کی تحریک جیسا کہ احباب کو علم ہے اس وقت قادیان میں پچھیں احمدیوں کے خلاف ایک مخرج شخص نے بعض مخالفوں کے اشارہ پر ضمانت حفظ امن کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے.اس مقدمہ کی آئندہ پیشی ۱۳ ستمبر کو مقرر ہے.احباب اپنی دعاؤں میں اپنے درویش بھائیوں کو یاد رکھیں جو گویا اس وقت ہر قسم کی تکلیف اور قربانی برداشت کرتے ہوئے قادیان بیٹھے ہیں.اسی طرح ۱۲ ستمبر کو عبد السلام مہتہ پر بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کا مقدمہ بھی پیش ہونے والا ہے.یہ مقدمہ عبد السلام کے خلاف پرمٹ کے قانون کے تحت دائر ہے.اس کے لئے بھی احباب دعا فرمائیں.علاوہ ازیں اس وقت قادیان میں ایک مخلص درویش مجید احمد بہت سخت بیمار ہے اور انتڑیوں کے سل کی وجہ سے اس کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے.اسے بھی دوست اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.اس وقت قادیان کے احمدی جن حالات میں تمام جماعت کی نمائندگی کر کے قادیان میں بیٹھے ہوئے ہیں ، وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ انہیں ہمارے دوست ہر حال میں اپنی خاص دعاؤں سے حصہ دیں کیونکہ یہ وہی مقدس جماعت ہے جس کی وجہ سے اس وقت قادیان کے متعلق ہم سب کو سرخروئی حاصل ہے.ولم يشكر الناس لم يشكر الله _ - ۷۵ ( مطبوعه الفضل ۱ ار ستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 673

۶۶۱ مضامین بشیر چندہ امداد درویشاں کی تازہ فہرست گذشتہ اعلان کے بعد جن احباب کی طرف سے امداد درویشان کا چندہ وصول ہوا ہے ، ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین.1.۱۴ عبد الرحمن صاحب ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال ٹو بہ ٹیک سنگھ شیخ قدرت اللہ صاحب برادرزاده شیخ محمد اکرام صاحب مذکور شیخ عصمت اللہ صاحب برادر زاده شیخ محمد اکرام صاحب مذکور جماعت احمد یہ راولپنڈی بذریعہ مرزا محمد حسین صاحب سیکرٹری مال (اس جماعت کی طرف سے پہلے بھی چندہ آچکا ہے اور آئندہ کے لئے بھی وعدہ ہے ) شریفہ بیگم صاحبہ اہلیہ جمعدار نذیر احمد صاحب پنام حال ضلع سیالکوٹ امتہ الغفور بیگم صاحبہ اہلیہ عبد الرحمن خان صاحب کا ٹھگڑھی بیگم صاحبہ چوہدری شاہنواز خانصاحب کراچی ماسٹرا میر عالم صاحب کو ٹلی ضلع میر پور ( کشمیر ) محمد شفیع صاحب چاندھا سنت نگر لاہور با بوعبد الحق صاحب سنت نگر لاہور جماعت احمد یہ لائکپور بذریعہ محمد یوسف صاحب ( چیک کے ذریعے ۴۰ روپے آئے تھے مگر چیک کیش ہونے پر ۱۰/ ۴۰ ہو گئے ) شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی حال گوجرانوالہ حکیم محمد صدیق صاحب رام نگر لاہور ۱۵ چند غیر معلوم خدام بذریعہ مرزا مبارک بیگ صاحب ڈرگ روڈ کراچی 1 3 ۱۸

Page 674

مضامین بشیر ۶۶۲ ۱۷ والدہ صاحبہ مسعود شاہد صاحب مرحوم سیالکوٹ برائے قربانی عید الاضحی قادیان نسیم اختر صاحبہ بنت شیخ عنائت اللہ صاحب اسلامیہ پارک لاہور میزان ra اگر کوئی چندہ دینے والے صاحب اعلان سے رہ گئے ہوں تو مہربانی کر کے مطلع فرمائیں تا کہ ان کا حساب چیک کر کے آئندہ اعلان میں شامل کر لیا جائے نیز دوست یہ بات نوٹ کرلیں کہ قربانی کے لئے کم سے کم رقم ۲۵ روپے ہونی چاہئے.کیونکہ اس سے کم میں آجکل قادیان میں قربانی کا جانور نہیں ملتا.(مطبوعہ الفضل ۱۱رستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 675

۶۶۳ مضامین بشیر جناب مولوی محمد علی صاحب کا ایک تازہ خطبہ حضرت مسیح موعود سے مسائل میں اختلاف کا جواز حضرت مسیح ناصری کی پیدائش کا مسئلہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اپنے خطبہ جمعہ بمقام کراچی مورخه ۱۹ اگست ۱۹۴۹ء میں اپنے ترجمہ وتفسیر قرآن کریم کی نظر ثانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : یہ بالکل صحیح امر ہے کہ ہم نے حضرت مرزا صاحب کو مجدد بھی مانا ،مہدی اور مسیح بھی مانا مگر ہم نے انکو اپنا پیر کبھی نہیں مانا.ہم تو ان کے ساتھ بھی اختلاف کر لیتے تھے.نواب صاحب منگرول کو اس سلسلہ کے ساتھ انس اور محبت تھی.بہت حد تک وہ تحریک احمدیت کو صحیح سمجھتے تھے.ہم ان کے پاس تھے تو ایک مولوی نے ان کو اکسایا کہ یہ لوگ جن کی آپ اس قدر عزت و تکریم کرتے ہیں اور جنہوں نے حضرت مرزا صاحب کو مسیح موعود ما نا ہوا ہے وہ تو اپنے مسیح موعود سے بھی اختلاف کر لیتے ہیں.کیونکہ وہ یعنی حضرت مسیح موعود تو حضرت مسیح ناصری کا باپ نہیں مانتے اور یہ یعنی مولوی محمد علی صاحب مسیح کا باپ مانتے ہیں.نواب صاحب نے یہی سوال مجھ پر کیا تو میں نے جواب میں کہا کہ اسی سے اندازہ کر لیجئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کو آنکھیں بند کر کے نہیں مانا سوچ سمجھ کر مانا ہے.ہم نے اگر حضرت مرزا صاحب کو چودھویں صدی کا مجدد مانا ہے تو کھلی آنکھوں سے مانا ہے اور یہ آنکھیں اب بھی کھلی ہیں حضرت مسیح موعود نے بھی سب چیزوں پر قرآن کریم کو مقدم قرار دیا ہے.اس لئے اگر قرآن کی صراحت سے ایک بات نظر آ جائے تو ہم حضرت مسیح موعود سے بھی فروعی باتوں میں اختلاف کر لینا جائز سمجھتے ہیں بشرطیکہ اس کے لئے قومی وجوہ ہوں.2466 اوپر کی عبارت کو جو جناب مولوی محمد علی صاحب کے تازہ خطبہ سے نقل کی گئی ہے، دوست غور کی

Page 676

مضامین بشیر ۶۶۴ نظر سے مطالعہ کریں.اس عبارت کا ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ جناب مولوی محمد علی صاحب کو نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بعض باتوں میں اختلاف ہے بلکہ وہ اس اختلاف کو اپنے لئے باعث فخر خیال کرتے ہیں.ناظرین غور کریں کہ اوپر کی عبارت کا اس کے سوا کوئی اور مطلب نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی معقول انسان اس کے سوا کوئی اور مطلب لے سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو خدا کی طرف سے اس زمانہ کے لئے حکم و عدل ہو کر آئے تھے قرآن شریف کی کسی آیت سے ایک استدلال کریں اور کوئی دوسرا شخص اسی آیت سے کوئی اور استدلال کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے استدلال سے مختلف ہی نہیں بلکہ اس کے صریح خلاف اور اس سے متضاد ہو تو جناب مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک اس صورت میں بھی یہ بالکل جائز اور ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ قرآنی استند لال غلط ہو اور اس کے مقابل پر دوسرے شخص کا استدلال درست اور صحیح ہو تو اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تیرہ سو سال کے انتظار کے بعد آنے والے ماموریز دانی اور مصلح رحمانی کے ارشادات کا یہی مقام ہے کہ اس کے قرآنی استدلالات عام لوگوں کے استدلالات کے مقابلہ پر بھی غلط ہو سکتے ہیں تو پھر ایسے شخص کا حکم و عدل ہونا کیا معنی رکھتا ہے اور ایسے شخص کو مبعوث کر کے خدائے حکیم نے کس اصلاح کا ارادہ فرمایا ہے؟ یہ بالکل درست ہے کہ قرآنی علوم کے خزانے لامحدود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ ختم نہیں ہو گئے بلکہ آپ کے آنے سے ان کا دروازہ اور بھی زیادہ وسیع ہو گیا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ان علمی انکشافات کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے.لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی شخص اُٹھ کر ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی کا دم بھرے اور دوسری طرف اس بات کا مدعی ہو کہ حضرت مسیح موعود نے فلاں قرآنی آیت سے جو استدلال کیا ہے وہ غلط اور باطل ہے اور اس کے مقابل پر میرا استدلال درست اور صحیح ہے.اگر ایسا ہو تو مذہبی دنیا سے امان اٹھ جائے اور حضرت مسیح موعود کی بعثت ایک عبث فعل سے زیادہ حقیقت نہ رکھے.پس آپ کے بعد بھی قرآنی علوم کے خزانوں کا منہ کھلا رہے گا یقیناً درست ہے مگر اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ایک استدلال جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہیں کیا وہ کوئی بعد میں آنے والا شخص خدا سے توفیق پا کر کر لے یا ایک نکتہ معرفت جو حضرت مسیح موعود نے ظاہر نہیں فرمایا وہ کسی بعد میں آنے والے کے ذریعے ظاہر ہو جائے وغیر ذالک.یہ رستہ قیامت تک کھلا ہے اور حضرت مسیح موعود کی بعثت نے اس رستہ کو ہرگز بند نہیں کیا بلکہ اور بھی زیادہ کھول دیا ہے اور یہی اس قرآنی آیت کا منشاء ہے کہ وانْ مِنْ شَيْ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَ انَّهُ وَمَا نُنَزِّلَةَ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ یعنی.

Page 677

مضامین بشیر ہمارے پاس ہر چیز کے لا تعدا د خزا نے جمع ہیں مگر ہم انہیں آہستہ آہستہ ایک خاص اندازے کے مطابق نازل کرتے ہیں.پس لا ریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نئے معارف کا انکشاف ہوسکتا ہے اور ضرور ہوسکتا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا.مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی شخص اٹھ کر حضرت مسیح موعود کے استدلال کو غلط قرار دے اور اس کے مقابل پر اپنے استدلال کو صحیح گردانے.یہ تباہی اور ہلاکت کی راہ ہے جس سے ہر سچے مومن کو پر ہیز کرنا چاہئے.کیا جناب مولوی محمد علی صاحب پر حقیقہ نئے علوم اور فی الواقع نئے معارف کا دروازہ بند ہو چکا ہے کہ وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اختلاف کر کے اور آپ کے استدلال کو نعوذ باللہ غلط قرار دے کر ہی مجتہد بننا چاہتے ہیں؟ مولانا ! اگر سچا مجہتد بننا ہے تو نئے استدلال لائیے اور قرآن کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کرا چھوتے معارف دنیا کے سامنے پیش کیجئے جس کے لئے آج دنیا کے سینے پیاس کی تپش میں جل رہے ہیں.مگر خدارا! اس آگ کے کھیل سے نہ کھیلئے کہ حضرت مسیح موعود نے فلاں آیت سے جو استدلال کیا تھا ، وہ غلط تھا اور میں اس کے متعلق صحیح استدلال پیش کرتا ہوں.معاف کیجئے آپ کے اس دعوی سے تو شبہ ہوتا ہے کہ شائد آپ کی ساری تفسیر میں صرف مسیح ناصری کے باپ ہونے کا نکتہ ہی، ایک ایسا عجیب و غریب نکتہ ہے جس میں آپ نے بزعم خود دنیا کے سامنے ایک نیا خیال اور ایک اچھوتہ نظریہ پیش کیا ہے (گو حقیقتا یہ بھی کوئی نیا خیال نہیں کیونکہ اوائل میں خود حضرت خلیفہ اول کا بھی یہی خیال تھا جو آپ نے بعد میں حضرت مسیح موعود کے عقیدہ کی وجہ سے ترک کر دیا ) اور یہ کہ اس کے سوا کوئی اور نکتہ ایسا نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ امسیح اول رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر سے باہر جا کر آپ نے لکھا ہو.یقیناً یہ کوئی اچھا منظر نہیں ہے جو آپ دنیا کے سامنے پیش فرما رہے ہیں.پھر محترم مولوی صاحب ! کیا آپ کو یہ بات یاد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم ہونے کا منصب محض قیاسی یا حدیثوں کے اقوال پر مبنی نہیں ہے بلکہ خدائے علیم وقد مر کی صریح وحی میں بیان ہو چکا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.وو 66 ” مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں.“ اور دنیا جانتی ہے کہ حکم وہ ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے تمام اختلافی امور میں فیصلہ صادر کرنے کا منصب رکھتا ہو اور اس کا فیصلہ واجب العمل بھی ہو اور مسیح موعود کے متعلق تو آنحضرت ع خصوصیت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ وہ صرف حکم ہی نہیں ہوگا بلکہ عدل بھی ہوگا.یعنی اس کا ہر فیصلہ

Page 678

مضامین بشیر ۶۶۶ صرف واجب العمل ہی نہیں ہوگا بلکہ درست اور صحیح بھی ہوگا مگر حکم لفظ کے متعلق ہمیں اپنی طرف سے تشریح پیش کرنے کی ضرورت نہیں خود حضرت مسیح موعود کی زبان سے سنئے فرماتے ہیں:.جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر ایک حال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے.پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا.اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں.“ کیا ان الفاظ سے زیادہ واضح اور زیادہ زور والے الفاظ ممکن ہیں؟ پس ان حالات میں جناب مولوی محمد علی صاحب کا یہ فرمانا اور اس پر فخر کرنا کہ ہم تو حضرت مسیح موعود سے بھی اختلاف کر لیتے ہیں.اور یہ کہ مسیح ناصری کے بے باپ ہونے یا نہ ہونے کے متعلق ہمارا عقیدہ حضرت مسیح موعود کے عقیدہ کے خلاف ہے، ایک ایسی جرات ہے جس کا ارتکاب غالباً آج تک کسی تابع نے اپنے مامور متبوع کے متعلق نہیں کیا ہوگا.اے کاش جناب مولوی محمد علی صاحب اپنی آزاد خیالی کے جوش میں یہ الفاظ نہ فرماتے جن کے متعلق میں ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے آنکھیں اونچی کرنے کے قابل نہیں رہنے دیں گے.جناب مولوی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے ہیں تو کسی عالم یا مجتہد کا ذکر نہیں کرتے بلکہ خدا کے مسیح اور مہدی اور مصلح و مامور کا ذکر کرتے ہیں جسے موجودہ زمانہ کے فاسد خیالات کے لئے حکم و عدل بنا کر بھیجا گیا ہے پس خواہ ہماری درمیانی نبوت وغیرہ کے مسائل میں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو ، کم از کم یہ بات تو فریقین کے نزدیک مسلم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکم و عدل تھے.ہاں وہی حکم و عدل جسے آنحضرت علی نے حکم و عدل کے الفاظ سے یاد کیا اور پھر وہی حکم و عدل جسے خود خدائے ذوالعرش نے حکم کے نام سے پکارا.پس مکرم مولوی صاحب خدا کے لئے سنبھلئے.خدا کے لئے سنبھلئے.آپ کے ساتھ خواہ کتنی ہی قلیل جماعت ہے بہر حال آپ کو ایک پارٹی کی قیادت حاصل ہے اور آپ کی لغزش ان لوگوں کی لغزش کا موجب ہو سکتی ہے جو گو ہمیشہ تو نہیں مگر عموماً آپ کی ہدایت کی طرف دیکھتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر آپ اب بظاہرا اپنی آخری عمر کو بھی پہنچے ہوئے ہیں جبکہ دنیا میں آزاد خیالی کی واہ واہ کی نسبت آپ کو آخرت کی زیادہ فکر ہونی چاہئے.خدا جانتا ہے کہ میں نے یہ الفاظ طعن کے رنگ میں نہیں لکھے بلکہ آپکی کچی ہمدردی میں نیک نیتی کے خیال سے لکھے ہیں.خدا کرے کہ میری یہ دور کی صدا آپ کے دل کی

Page 679

مضامین بشیر گہرائیوں میں کوئی گونج پیدا کر سکے.ورنہ ماعلينا الا البلاغ.بالآخر میں حضرت مسیح ناصری کی بے باپ ولادت کے متعلق دو مختصر سے حوالے پیش کرتا ہوں.تا اگر جناب مولوی محمد علی صاحب نہیں تو کم از کم کوئی اور بھٹکی ہوئی روح ہی ان سے روشنی حاصل کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : خلقه الله من غيراب." د یعنی خدا نے مسیح ناصری کو بے باپ کے پیدا کیا.“ پھر دوسری جگہ فرماتے ہیں اور دلیل دے کر فرماتے ہیں : من عقائدنا ان عيسى ويحى قد ولد اعلى طريق خرق العادة......ناول " ما فعل لهذه الارادة هو خلق عيسى من غيراب بالقدرة المجردة فكان عيسى ارها صاً لنبينا وعلما النقل النبوة.د یعنی یہ بات ہمارے عقائد میں داخل ہے کہ عیسی اور بیٹی دونوں معروف پیدائش کے طریق سے مختلف صورت میں پیدا ہوئے تھے.( یعنی عیسی تو بے باپ کے پیدا ہوئے اور بیٹی ایک بہت بوڑھے باپ اور بانجھ ماں کے گھر پیدا ہوئے خدا تعالیٰ چونکہ بنی اسرائیل سے نبوت منتقل کر کے بنو اسمعیل کی طرف لانا چاہتا تھا.اس لئے اس نے عیسی کو بغیر باپ کے محض اپنی قدرت کے زور سے پیدا کیا اور اس طرح عیسی علیہ السلام ہمارے نبی کریم ﷺ کے لئے ایک قبل از وقت ظاہر ہونے والی علامت بن گئے.اور بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہونے والی نبوت کا نشان قرار پائے.“ اب دیکھو یہ حوالہ کتنا واضح اور کتنا زور دار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ اپنا کوئی رسمی خیال پیش نہیں فرماتے بلکہ اس خیال کو اپنے عقائد کا حصہ قرار دیتے ہیں اور پھر مجرد دعوی کے بیان کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس دعوی کی دلیل اور حکمت بھی بیان فرماتے ہیں.اور وہ یہ کہ حضرت عیسی کا بے باپ کے پیدا ہونا خدا کی خاص تقدیروں میں سے ایک تقدیر تھا جس کے ذریعہ خدا تعالی آنحضرت ﷺ کی نبوت کے واسطے ایک نشان قائم کرنا چاہتا تھا.اگر ایسا واضح اور مدلل اور پر حکمت عقیدہ بھی جو ایک مامور من اللہ نے ظاہر کیا ہے ایک عام شخص کی قیاس آرائی سے رد ہو سکتا ہے یہ دین جناب مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کو مبارک ہو.ہمیں اعتراف ہے کہ ہم اس آزاد خیالی سے محروم ہیں اور اس محرومی کو ہی اپنے لئے باعث برکت اور باعث عزت خیال تو کرتے ہیں.

Page 680

مضامین بشیر ۶۶۸ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تحفہ گولڑو یہ والے حوالہ کو پھر دوبارہ درج کر کے اس مختصر سے نوٹ کو ختم کرتا ہوں.مخلصین توجہ کیسا تھ مطالعہ فرمائیں.حضور فرماتے ہیں.جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر ایک حال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے.مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے.پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے.بس میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا.و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين.( مطبوعه الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 681

۶۶۹ مضامین بشیر الحمد للہ : ربوہ کا ڈاکخانہ کھل گیا آج کے الفضل کے ذریعہ احباب یہ خبر معلوم کر چکے ہیں کہ خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ میں ڈاکخانہ کھل گیا ہے.جیسا کہ محترمی سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ کی تار سے معلوم ہوتا ہے.اس ڈاکخانہ کا آغا ز ستمبر بروز بدھ بوقت ایک بجے دوپہر ہوا.فــالــحــمــد لله على ذالك.اب احباب چنیوٹ کے ڈاکخانہ کی معرفت خط لکھنے کی بجائے براہ راست ربوہ کے ڈاکخانہ کے پتہ پر خطوط وغیرہ بھجوا سکتے ہیں.پتہ میں صرف اس قد رلکھنا کافی ہوگا کہ فلاں صاحب ربوہ.مغربی پنجاب سے باہر کے دوستوں کو اس پتہ کے ساتھ مغربی پنجاب کے الفاظ بھی زیادہ کر دینے چاہئیں اور احباب کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انگریزی میں ربوہ کا ہجہ بصورت ذیل لکھا جاتا ہے."Rabwah علاوہ ازیں احباب کو یہ دھوکا نہیں لگنا چاہئے کہ ڈاکخانہ کے ساتھ ربوہ میں تار گھر بھی کھل گیا ہے.کیونکہ ابھی تک صرف بغیر تار کے ڈاکخانہ کھلا ہے.اور تار بدستور ربوہ چنیوٹ کے پستہ پر جانی چاہئے.انگریزی میں چنیوٹ کا ہجہ Chiniot “ ہے.البتہ تار کے علاوہ عام خطوط اور رجسٹرڈ خطوط اور منی آرڈر اور بیمے وغیرہ براہ راست ربوہ کے پتہ پر جاسکتے ہیں..66 ( مطبوعه الفضل ۱۶ رستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 682

مضامین بشیر ۶۷۰ ایک دیہاتی مبلغ کی افسوسناک وفات قادیان سے اطلاع آئی ہے کہ مولوی اللہ بخش صاحب دیہاتی مبلغ بیٹے ضلع مظفر نگر یو پی ایک تالاب میں تیرنے کی مشق کرتے ہوئے ڈوب کر وفات پاگئے ہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.مولوی اللہ بخش صاحب ان پانچ دیہاتی مبلغین میں سے تھے جو گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان سے یوپی کے مختلف علاقوں میں بھجوائے گئے تھے.مولوی اللہ بخش صاحب کا اصل وطن ادرحمہ ضلع سرگودھا ہے.ان کے والد صاحب کا نام میاں خدا بخش صاحب ہے.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کے بوڑھے والد اور دیگر عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین.( مطبوعہ الفضل ۷ ارستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 683

۶۷۱ مضامین بشیر تاریخ احمدیت کا ایک یادگاری دن حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کا سفر ر بوہ یوں تو حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کئی دفعہ ربوہ تشریف لے جاچکے ہیں.اور گذشتہ جلسہ سالانہ بھی ربوہ میں ہی منعقد ہوا تھا جبکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مع اہل وعیال کئی دن تک ربوہ میں قیام فرمایا تھا لیکن یہ سب سفر عارضی رنگ رکھتے تھے اور ابھی تک حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی مستقل سکونت رتن باغ لاہور میں ہی تھی لیکن جوسفر 9 ستمبر ۱۹۴۹ کو بروز دوشنبه اختیار کیا گیا وہ ربوہ کی مستقل رہائش کی غرض سے تھا ، گویا دوسرے الفاظ میں یہ ہماری قادیان سے ہجرت کی تکمیل کا دن تھا جبکہ خلیفہ وقت اور امام جماعت قادیان سے باہر آنے کے بعد اپنی عارضی رہائش گاہ سے منتقل ہو کر جماعت احمدیہ کے قائمقام مرکز ربوہ میں رہائش رکھنے کی غرض سے تشریف لے گئے.پس یہ دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک یادگاری دن تھا.اور میں امید کرتا تھا کہ الفضل کی طرف سے اس سفر کی رپورٹ تیار کرنے کا کوئی انتظام کیا گیا ہوگا لیکن چونکہ آج تک ایسی کوئی رپورٹ میری نظر سے نہیں گزری.اس لئے میں مختصر طور پر اس سفر کے چشم دید حالات تاریخ احمدیت کو ضبط میں لانے کی غرض سے درج ذیل کرتا ہوں.دراصل گومیرا دفتر ابھی تک لاہور میں ہے مگر میں نے اس سفر کی تاریخی اہمیت کو محسوس کر کے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں انشاء اللہ اس سفر میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جاؤنگا.اور سفر اور ربوہ کی دعا میں شریک ہو کر اسی دن شام کو لاہور واپس پہنچ جاؤں گا.چنانچہ خدا نے مجھے اس کی توفیق دی.جس کے نتیجہ میں میں ذیل کی چند سطور ہدیہ ناظرین کرنے کے قابل ہوا ہوں.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو یہ تھا کہ انشاء اللہ ۱۹ ر ستمبر ۱۹۴۹ء کو صبح آٹھ بجے لا ہور سے روانگی ہوگی مگر دفتری انتظام کے نقص کی وجہ سے یہ روانگی وقت مقررہ پر نہیں ہوسکی.چنانچہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ آٹھ بجے صبح کی بجائے دس بجکر پچاس منٹ پر یعنی قریباً گیارہ بجے رتن باغ لاہور سے بذریعہ موٹر روانہ ہوئے.حضور کی موٹر میں حضرت ام المومنین اطال اللہ بقائها

Page 684

مضامین بشیر اور حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ اور شائد ایک دو بچیاں ساتھ تھیں.اور حضور کے پیچھے دوسری موٹر میں حضرت صاحب کی بعض دوسری صاحبزادیاں اور ایک بہو اور بعض بچے اور میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری سوار تھے.تیسری موٹر میں سیدہ بشری بیگم مہر آپا صاحبہ اور محترمہ ام وسیم احمد صاحبہ اور بعض دوسرے بچے تھے اور ان کے پیچھے چوتھی موٹر میں خاکسار مرزا بشیر احمد اور میرے اہل وعیال اور عزیزہ آمنہ بیگم سیال اور محترمی چوہدری عبدالحمید صاحب سپرنٹنڈنٹ انجینئر اور میاں غلام محمد صاحب اختر اے.پی.اوسوار تھے، شاہدرہ سے کچھ آگے نکل کر حضرت صاحب نے اپنی موٹر کو روک کر انتظار کیا کیونکہ ابھی تک تیسری موٹر نہیں پہنچی تھی.اور کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد آگے روانہ ہوئے ایک لاری اور دو ٹرک کافی عرصہ بعد روانہ ہوئے.رتن باغ سے روانہ ہونے سے پہلے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدائت فرمائی تھی کہ سب لوگ رتن باغ سے روانہ ہوتے ہوئے اور پھر ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے ہوئے یہ قرآنی دعا جو آ نحضرت ﷺ کو مدینہ کی ہجرت کے وقت سکھلائی گئی تھی پڑھتے جائیں یعنی : رَبِّ ادْخِلُنِى مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَلْ لِي مِن لَّدُنْكَ سُلْطَنَّا نَّصِيرًا ZA چنانچہ اس دعا کے ورد کے ساتھ قافلہ روانہ ہوا.اور راستہ میں بھی یہ دعا برابر جاری رہی.چونکہ روانگی میں دیر ہو گئی تھی اس لئے موٹریں کافی تیز رفتاری کے ساتھ گئیں اور سفر کا آخری حصہ تو غالبا ستر پچھتر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طے ہوا ہوگا اور اسی غرض سے رستہ میں کسی جگہ ٹھہرا بھی نہیں گیا.یہی وجہ ہے کہ محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کی موٹر جو لا ہور سے قریباً ڈیڑھ گھنٹہ پہلے روانہ ہوئی تھی اور اس میں محترمی مولوی عبد الرحیم صاحب درد بھی بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی رستہ میں ہی ربوہ کے قریب چناب کے پل پر مل گئی تھی یہ گویا اس سفر کی پانچویں موٹر تھی.اس کے علاوہ ایک چھٹی موٹر بھی تھی جس میں محترمی ملک عمر علی صاحب رئیس ملتان اور ہمارے بعض دوسرے عزیز بیٹھے تھے لیکن یہ موٹر چونکہ بعد میں چلی اور زیادہ رفتار بھی نہیں رکھ سکی اس لئے وہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ربوہ میں داخل ہونے کے کچھ عرصہ بعد پہنچی.چناب کا پل گزرنے کے بعد جس سے آگے ربوہ کی سرزمین کا آغاز ہوتا ہے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی موٹر سے اتر آئے اور دوسرے سب ساتھی بھی اپنی اپنی موٹروں سے اتر آئے.البتہ مستورات موٹروں کے اندر بیٹھی رہیں.اس جگہ اتر کر بعض دوستوں نے اعلان کی غرض سے اور اہل ربوہ تک اطلاع پہنچانے کے خیال سے ریوالور اور رائفل کے کچھ کا رتوس ہوا میں

Page 685

مضامین بشیر چلائے.اس کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے رفقاء میں اعلان فرمایا کہ میں یہاں قبلہ رخ ہو کر مسنون دعا کرتا ہوں.اور ہمارے دوست بھی اس دعا کو بلند آواز سے دہراتے جائیں.اور مستورات بھی اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے یہ دعا دہرائیں.اس کے بعد حضور نے ہاتھ اونچے کر کے یہ دعا کرنی شروع کی.رَبِّ ادْخِلُنِى مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَلْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطنًا نَصِيرًا وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا دو یعنی اے میرے رب مجھے اس بستی میں اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ داخل کر اور پھر اے میرے آقا مجھے اس بستی سے نکال کر اپنی اصل قیام گاہ کی طرف اپنی بہترین برکتوں کے ساتھ لے جا اور اے مومنو تم خدا کی برکتوں کو دیکھ کر اس آواز کو بلند کرو کہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا.اور باطل کے لئے تو بھا گنا ہی مقدر ہو چکا ہے.“ یہ دعا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے چناب کا پل گزر کر اور قبلہ رخ ہو کر ربوہ کی زمین کے کنارے پر کھڑے ہو کر کئی دفعہ نہائت سوز اور رقت کے ساتھ دہرائی اور اس کے بعد موٹروں میں بیٹھ کر آگے روانہ ہوئے.کیونکہ ربوہ کی موجودہ بستی چناب کے پل سے قریبا دو میل آگے ہے اس عرصہ میں بھی سب دوست اوپر کی دعا کو مسلسل دہراتے چلے گئے.جب ربوہ کی بستی کے سامنے موٹرمیں پہنچیں تو اس وقت ربوہ اور اس کے گرد و نواح کے سینکڑوں دوست ایک شامیانہ کے نیچے حضرت صاحب کے استقبال کے لئے جمع تھے.اس وقت جبکہ عین ڈیڑھ بجے کا وقت تھا سب سے آگے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی موٹر تھی اس کے بعد ہماری موٹر تھی اس کے بعد غالباً سیدہ بشری بیگم صاحبہ مہر آپا کی موٹر تھی.اس کے بعد حضرت صاحب کی صاحبزادیوں کی موٹر تھی.اور اس کے بعد غالباً محترمی شیخ بشیر احمد صاحب کی موٹر تھی.جب حضرت صاحب اپنی موٹر سے اترے تو ربوہ کے چند نما ئندہ دوست جن میں محترمی مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے ناظر اعلیٰ اور محترمی سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامه و امیر مقامی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور عزیز ڈاکٹر مرزا منور احمد سلمہ اللہ اور بعض ناظر صاحبان اور تحریک جدید کے وکلاء صاحبان اور محترمی مولوی ابوالعطاء صاحب وغیرہ شامل تھے ، آگے آئے.اور حضور کے ساتھ مصافحہ کر کے حضور کو اس شامیانہ کی طرف لے گئے جو چند گز مغرب کی طرف نصب شدہ تھا اور جس میں دوسرے سب دوست انتظار کر رہے تھے.

Page 686

مضامین بشیر.۶۷۴ حضرت صاحب اس وقت بھی رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ والی دعا دہرا رہے تھے اور دوسروں کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ میرے ساتھ ساتھ یہ دعا د ہراتے جاؤ.شامیانے کے نیچے پہنچ کر حضرت صاحب نے وضو کیا اور پھر سب دوستوں کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر ظہر کی نماز ادا فرمائی.یہ گو یا ورود ربوہ کا سب سے پہلا کام تھا.نماز اور سنتوں سے فارغ ہو کر حضور نے ایک مختصر سی تقریر فرمائی ، جس میں فرمایا کہ میں امید رکھتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کی ہجرت کی سنت کو سامنے رکھ کر آپ لوگ رستہ تک آگے آکر استقبال کریں گے تا کہ ہم سب متحدہ دعاؤں کے ساتھ ربوہ کی سرزمین میں داخل ہوتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا.اس لئے اب میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پھر اس دعا کو دہراتا ہوں اور سب دوست بلند آواز سے میرے پیچھے اس دعا کو دہراتے جائیں.چنانچہ آپ نے شاید تین دفعہ یا پانچ دفعه رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقِ اور قُلْ جَاءَ الْحَقُّ والی دعا د ہرائی اور سب دوستوں نے بلند آواز سے آپ کی اتباع کی.اس کے بعد حضرت صاحب نے مختصر طور پر اس دعا کی تشریح فرمائی کہ یہ دعا وہ ہے جو مدینہ کی ہجرت کیوقت آنحضرت ﷺ کو سکھائی گئی تھی.اور اس میں ادخلنی ( مجھے داخل کر ) کے الفاظ کو اخرجنى ( مجھے نکال ) کے الفاظ پر اس لئے مقدم کیا گیا ہے تا کہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مدینہ میں داخل ہو کر رک جانا ہی آنحضرت ﷺ کی ہجرت کی غرض وغایت نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک درمیانی واسطہ ہے.اور اس کے بعد پھر مدینہ سے نکل کر مکہ کو واپسی حاصل کرنا اصل مقصد ہے اور پھر اس کے ساتھ قل جاء الحق والی دعا کو شامل کیا گیا.تا کہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ مومن کی ہجرت حقیقتاً اعلاء کلمۃ اللہ کی غرض سے ہوتی ہے نیز اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محمد رسول اللہ علیہ کی ہجرت خدا کے فضل سے مقبول ہوئی ہے کیونکہ خدا نے اس کے ساتھ ہی حق کے قائم ہونے اور باطل کے بھاگنے کے لئے دروازہ کھول دیا ہے.اور پھر اسی تمثیل کے ساتھ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے قادیان کا ذکر کیا کہ ہم بھی قادیان سے نکالے جا کر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں.مگر ہمارا یہ کام نہیں کہ اپنی ہجرت گاہ میں ہی دھرنا مار کر بیٹھ جائیں.بلکہ اپنے اصل اور دائمی مرکز کو واپس حاصل کرنا ہمارا اصل فرض ہے.اس تقریر کے بعد جس میں ایک طرف موٹروں میں بیٹھے بیٹھے مستورات بھی شریک ہوئی تھیں، حضرت امیر المومنین اپنی ربوہ کی عارضی فرودگاہ میں تشریف لے گئے جو ریلوے اسٹیشن کے قریب تعمیر کی گئی ہے میں نے اس فرودگاہ کو عارضی فرودگاہ اس لئے کہا ہے کہ اب تک جتنی بھی عمارتیں ربوہ میں بنی ہیں وہ دراصل سب کی سب عارضی ہیں اور اس کے بعد پلاٹ بندی ہونے پر مستقل تقسیم ہوگی

Page 687

۶۷۵ مضامین بشیر اور لوگ اپنے اپنے مکان بنوائیں گے.حضرت صاحب کے مکان میں ربوہ کی مستورات استقبال کی غرض سے جمع تھیں جن کی قیادت ہماری ممانی سیدہ ام داؤ داحمد صاحبہ فرما رہی تھیں اس کے بعد حضرت صاحب اور دوسرے عزیزوں اور اہل قافلہ نے کھانا کھایا.جو صد را انجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ کی طرف سے پیش کیا.غالبار بوہ میں وارد ہونے کے معاً بعد یہ پروگرام بھی تھا کہ حضرت صاحب اپنی مجوزہ مستقل رہائش گاہ کے ساتھ متصل زمین میں مسجد کی بنیاد بھی رکھیں گے.لیکن چونکہ اس مسجد کی داغ بیل میں کچھ غلطی نظر آئی اس لئے اسے کسی دوسرے وقت پر ملتوی کر دیا گیا.عصر کی نما ز حضور نے اس مسجد میں ادا فرمائی.جو حضور کے عارضی مکان کے قریب ہی عارضی طور پر بنائی گئی ہے.اور اسی لئے اسے مسجد کی بجائے ” جائے نماز کا نام دیا گیا ہے.کیونکہ بعد میں یہ مسجد مستقل جگہ کی طرف منتقل کر دی جائے گی.یہ جائے نماز ایک کھلے چھپر کی صورت میں ہے.جس کے نیچے لکڑی کے ستونوں کا سہارا دیا گیا ہے اور اس کے سامنے ایک فراخ کچا صحن ہے اور اس مسجد کے علاوہ بھی ایک دو عارضی مسجد میں ربوہ میں تعمیر کی جاچکی ہیں کیونکہ اس وقت ربوہ کی آبادی ایک ہزار نفوس کے قریب بتائی جاتی ہے اور آبادی کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ عام نمازوں میں سب دوستوں کا ایک مسجد میں جمع ہونا مشکل سمجھا گیا ہے عصر کی نماز کے بعد دوستوں نے حضور سے مصافحہ کا شرف بھی حاصل کیا.اوپر کے مختصر مگر با برکت پروگرام کے بعد یہ خاکسارا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ربوہ سے ساڑھے چھ بجے شام کو روانہ ہو کر ساڑھے نو بجے لاہور واپس پہنچ گیا.اور اس بات پر خدا کا شکر ادا کیا کہ مجھے اس مبارک تقریب میں شرکت کا موقع میسر آیا.فالحمد للہ علی ذالک ( مطبوعه الفضل ۲۳ ر ستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 688

مضامین بشیر سفرر بوہ کے چند بقیہ واقعات الفضل مورخه ۲۳ ستمبر ۱۹۴۹ء میں میں نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سفر ربوہ کے بعض حالات لکھے تھے.مگر اس نوٹ میں بعض باتیں لکھنے سے رہ گئیں جو تکمیل ریکارڈ کی غرض سے درج ذیل کی جاتی ہیں.ا.حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس یادگاری سفر کے پیش نظر احباب ربوہ نے پانچ بکروں کے ذبح کرنے کا بھی انتظام کیا تھا.کیونکہ خاص موقعوں پر یہ بھی ایک مسنون طریق ہے.۲.بکروں کے ذبح کرنے کے علاوہ ربوہ کی جماعت نے اس موقع پر غریبوں کو کھانا کھلانے کا بھی انتظام کیا تھا.چنانچہ بہت سے غریبوں کو دعا اور ر د بلا کی غرض سے کھانا کھلایا گیا..اسی طرح اہل ربوہ نے غرباء میں کچھ نقد رقوم بھی تقسیم کرنے کا انتظام کیا تھا کہ یہ بھی ایسے موقعوں پر برکت کا ایک روحانی ذریعہ ہے.۴.علاوہ ازیں سابقہ مضمون میں یہ بات بھی نوٹ کرنے سے رہ گئی کہ دو پہر کے کھانے کے بعد جو حضرت مسیح موعود کے لنگر کی طرف سے صدرانجمن احمدیہ نے پیش کیا ، شام کا کھانا اہل ربوہ کی طرف سے پیش کیا گیا.( مطبوعہ الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۴۹ء)

Page 689

مضامین بشیر امداد در ویشان اور قربانی کے روپے کی تازہ فہرست سابقہ اعلان کے بعد جن بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے امداد درویشاں کی مد میں رقوم پہنچی ہیں ان کے نام شکریہ کے ساتھ درج ذیل کئے جاتے ہیں.جزاهم الله احسن الجزاء.نیز اس فہرست میں ان اصحاب کے نام بھی شامل کئے جاتے ہیں جنکی طرف سے میری معرفت عید الاضحی کے موقع پر قادیان میں قربانی کرانے کے واسطے روپیہ پہنچا ہے.موخر الذکر رقوم میں سے بعض رقوم تو قادیان بھجوائی جاچکی ہیں لیکن بعض رقوم منی آرڈروں کا سلسلہ رکنے کے بعد پہنچی ہیں.اس لئے ایسے دوستوں کے متعلق قادیان لکھ دیا گیا ہے کہ ان کی طرف سے بھی قربانی کرا دی جائے.روپیہ بعد میں بھجوا دیا جائے گا.ایسے دوست جنہوں نے براہ راست قادیان روپیہ بھجوا دیا ہے وہ ذیل کی فہرست میں شامل نہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا کرے.آمین.بیگم صاحبہ چوہدری علی احمد صاحب محکم واچ اینڈ وارڈ.این.ڈبلیو.آر.لاہور ملک عبد الباسط خانصاحب سول لائنز لاہور.ماسٹر مولا دا د صاحب قادیانی حال موضع شہزادہ.سیالکوٹ چوھدری فضل الرحمن صاحب کا نر ریڈیو پشاور لفٹینٹ کرنل ڈاکٹر محمد ابراھیم صاحب پشاور حافظ عبدالسلام صاحب شملوی حال لا ہور ، برائے عقیقہ.میاں صدرالدین صاحب داماد میاں محمد دین صاحب تهالوی ڈاکٹر محمد اشرف صاحب مرحوم منجانب آمنہ بیگم صاحبہ معرفت محمد افضل صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج منٹگمری مخدوم شاہ احمد صاحب بھیروی برائے قربانی مائی امیر بی بی صاحبہ عرف مائی کا کو برائے دعوت درویشاں قادیان ( نوٹ : ان کی طرف سے قربانی کی رقم علیحدہ آچکی ہے ) نوراحمد صاحب ڈرافٹسمین محکمہ بجلی اچھرہ لاہور برائے قربانی با بو شمس الدین صاحب کو چہ چابک سواراں لاہور M...1...۲۵ ۲۵

Page 690

مضامین بشیر ۱۳ مرزا عزیز احمد صاحب کو چہ چابک سواراں لاہور ۱۴ با بو عبد الحمید صاحب کو چہ چابک سواراں لاہور ۱۵ با بو غلام رسول صاحب کو چہ چابک سواراں لاہور ( نوٹ : او پر کی چار رقمیں فقیر اللہ صاحب آنریری انسپکٹر بیت المال کے ذریعہ پہنچی ہیں.) ۱۶ اہلیہ صاحبہ شیخ عبد القیوم صاحب مرحوم بٹالوی حال گوجرانوالہ بذریعہ عبد الباسط صاحب لاہور ۱۷ امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری شمس الدین صاحب منڈی بورے والا ضلع ملتان چوہدری مسعود احمد صاحب چک ۱۱۷ سانگلہ ہل ضلع شیخو پوره 19 محمد صدیق صاحب قادیانی حال غلہ منڈی لگھڑ ضلع گوجرانوالہ امداد برائے لنگر خانہ قادیان.۲۰ اہلیہ صاحبه اخوند ڈاکٹر عبد العزیز صاحب جیکب آباد سندھ صدقہ برائے قادیان ۲۱ اہلیہ صاحبہ ا خوند ڈاکٹر عبدالعزیز صاحب جیکب آبادسندھ عام امداد در ویشان میزان M...1.۱۵ Ma.......اوپر کی رقوم کے علاوہ دفتر میں بہت سی اور رقوم بھی پہنچ چکی ہیں.مگر وہ انشاء اللہ آئندہ اعلان میں شامل کی جائیں گی.اللہ تعالیٰ سب دوستوں کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.( مطبوعه الفضل یکم اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 691

۶۷۹ مضامین بشیر چنده امداد درویشان اور رقوم کی جدید فہرست چنده امداد درویشاں اور رقم قربانی بر موقع عید الاضحی قادیان کی تازہ فہرست کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ان بہنوں اور بھائیوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے میری تحریک پر اس کارخیر میں حصہ لیا ہے.اور دین دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.منشی امیر محمد صاحب سابق ضلع ہوشیار پورحال سیالکوٹ اہلیہ صاحبہ ملک صاحب خانصاحب نون ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر بھلوال برائے قربانی عید الاضحی والدہ صاحبہ مولوی برکات احمد صاحب را جیکی پشاور برائے قربانی عیدالاضحی ۴ حمیدہ بیگم صاحبہ معرفت عبدالسلام صاحب سہیل سیالکوٹ برائے قربانی والدہ صاحبہ مسعود شاہد صاحب مرحوم سیالکوٹ بقیہ رقم قربانی لجنہ اماءاللہ کنری سندھ معرفت نواب بیگم صاحبہ صالحہ بی بی صاحبہ معرفت شیخ مختار نبی صاحب گوجرانوالہ برائے قربانی میاں محمد حسین صاحب سیکرٹری مال جماعت احمد یہ عہدی پور ضلع سیالکوٹ و محمد امین صاحب سابق قادیان حال سیالکوٹ برائے دعوت درویشان 1.بر موقعہ نکاح ثانی لجنہ اماءاللہ ملتان ، معرفت حمیدہ بیگم صاحبہ سیکر ٹری لجنہ اماءاللہ ملتان ملک عنایت اللہ صاحب بدین ضلع حیدر آبا دسندھ چوھدری اعظم علی صاحب سینئر سب حج کیمبل پور برائے قربانی والدہ صاحبہ احمد حیات صاحب دفتر جی سی ایم.اے لاہور چھاؤنی برائے قربانی ۱۴ میاں محمد امین صاحب زرگر بذریعہ ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب قلعہ صو با سنگھ ۱۵ چوھدری محمد حسین صاحب آف چوھدری والا حال چمبر ضلع حیدرآباد سندھ صدقہ برائے غرباء قادیان ۲۵۰ ۲۵۰ ۲۵۰ 3 ra........۲۵۰ ۲۵۰ ۱۵ ۲۵ ۲۵۰ ۲۵۰

Page 692

مضامین بشیر 17 ۶۸۰ کیپٹن حمید احمد صاحب کلیم بہلٹ پور ضلع لائلپور ۱۷ نیم اختر صاحبہ بنت محمود احمد صاحب راجپوت سائیکل ورکس نیلا گنبد لا ہور ۱۸ اہلیہ صاحبہ مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم آف قادیان امته الحمید بیگم صاحبہ بنت مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم آف قادیان ۱۹ ۲۰ اہلیہ صاحبہ مولوی عبدالوہاب صاحب عمر بطور صدقہ r......اللہ تعالیٰ ان سب بہنوں اور بھائیوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے جیسا کہ میں سابقہ اعلان میں بتا چکا ہوں.گو آجکل شرح تبادلہ کے جھگڑے کی وجہ سے منی آرڈر کا سلسلہ بند ہے لیکن میں نے قربانی کی رقوم بھجوانے والے سب دوستوں کی فہرست قادیان بھجوا دی ہے تا کہ ان کی طرف سے وقت پر قربانی ہو سکے.روپیہ بعد میں چلا جائے گا.( مطبوعه الفضل ۳ / اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 693

۶۸۱ مضامین بشیر ایک اور درویش چل بسا قادیان میں مجید احمد کی افسوسناک وفات جیسا کہ میرے متعدد اعلانوں کے ذریعہ احباب کو معلوم ہو چکا ہوگا.کچھ عرصہ سے مجید احمد سابق ڈرائیور حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ قادیان میں سل کی بیماری میں مبتلا تھا اور گو درمیان میں حالت سخت تشویشناک ہو گئی تھی مگر آخری خطوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اب مجید احمد کی حالت نسبتاً بہتر ہے اور چہرہ پر کچھ رونق آگئی ہے اور خوراک بھی ہضم ہونے لگی ہے حتی کہ کل کے آخری خط میں یہاں تک ذکر تھا کہ اپنی بیماری میں افاقہ کے پیش نظر مجید احمد نے خواہش کی ہے کہ اسے عید والے دن کسی نہ کسی طرح عید کی نماز میں پہنچا دیا جائے تا کہ وہ نماز کی شرکت کا ثواب حاصل کر سکے لیکن گذشتہ رات ساڑھے نو بجے کے قریب قادیان سے اچانک یہ فون آیا کہ مجید احمد کی حالت اچانک خراب ہو گئی ہے اور بظاہر بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور اس کے بعد آج صبح یہ فون آیا ہے کہ مجید احمد ۱۱ جگر ۴ منٹ پر اپنے مولا کے حضور پہنچ گیا.انا لله وانا اليه راجعون.جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں مجید احمد جس کی عمر شاید چوبیس پچیس سال کی ہوگی ، ایک بڑا مخلص نوجوان تھا اور بڑے شوق اور جذبہ قربانی کے ماتحت قادیان میں ٹھہرا ہوا تھا.حتی کہ جب بیماری کے ایام میں اس کی حالت زیادہ گرگئی اور قادیان کے دوستوں نے ارادہ کیا کہ حکومت سے اجازت لے کر اسے علاج کے لئے پاکستان بھجوا دیں تو اس وقت مجید احمد نے بڑی منت کیسا تھ کہا اگر میرے بچنے کی بظاہر امید نہیں تو مجھے ہرگز پاکستان نہ بھجوا ؤ کیونکہ میں بہشتی مقبرہ سے محروم نہیں ہونا چاہتا لیکن اگر کامیاب علاج کی امید ہے تو پھر بیشک بھیج دیا جائے لیکن اس کے ساتھ یہ شرط ضروری ہوگی کہ اچھا ہونے کے بعد میں پھر قادیان آ جاؤں گا.بہر حال مجید احمد ایک بڑا مخلص نو جوان تھا اور موصی بھی تھا اور اس کی بوڑھی ماں ایک عرصہ سے حضرت اماں جان ام المومنین اطال الله ظلها کی خدمت میں ہے.اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور اس کی والدہ اور بیوی اور بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کا حافظ و ناصر ہو.گذشتہ ایام میں جب میاں غلام مرتضی صاحب بیرسٹر جو حال ہی میں انگلستان سے واپس آئے

Page 694

مضامین بشیر ۶۸۲ ہیں ایک دن کا پرمٹ حاصل کے قادیان گئے تو میری بڑی خواہش اور کوشش تھی کہ مجید احمد کے بھائی محمد حسین کی بھی ایک دن کیلئے قادیان جانے کی اجازت مل جائے تا کہ وہ مجید احمد سے مل سکے اور اسے اپنی والدہ کا سلام اور دعا کا پیغام پہنچا سکے اور اگر مجید احمد نے اپنے اہل عیال کے لئے کوئی پیغام دینا ہو تو وہ بھی سن سکے مگر افسوس کہ انتہائی کوشش کے باوجود حکومت ہندوستان نے اس کی اجازت نہیں دی اور یہ نوجوان اپنے عزیزوں سے ملنے کے بغیر اس جہان سے رخصت ہوا.دین کے رستہ میں یقیناً اس قسم کی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں اور کرنی پڑیں گی مگر افسوس اس حکومت پر جو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی انسانی جذبات کا خیال نہیں رکھ سکتی.مجید احمد قادیان میں فوت ہونے والے درویشوں میں چوتھا درویش ہے.سب سے پہلے حافظ نور الہی صاحب فوت ہوئے جو غالباً چالیس سال کے لگ بھگ جوان تھے.ان کے بعد بابا شیر محمد صاحب فوت ہوئے جن کی عمر ایک سو سال سے اوپر تھی اور وہ پرانے صحابیوں میں سے تھے ان کے بعد سلطان احمد سکنہ کھاریاں فوت ہوا جو ایک ہیں بائیس سالہ نو جوان تھا اور اس کی وفات بھی قریباً اچانک ہوئی تھی اور اب چوتھے نمبر پر مجید احمد کی وفات کی اطلاع پہنچی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو غریق رحمت کرے اور ان کے عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین.ایسے واقعات سے صدمہ پہنچنا تو انسانی فطرت کا حصہ ہے اور خود آنحضرت ﷺ کی آنکھوں میں اس وقت آنسو آ گئے تھے جب کہ آپ کی ایک نو اسی فوت ہوئی تھی اور آپ نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ وقت کے جذبات بھی خدا کی اس ابدی رحمت کا حصہ ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے لیکن جن خیالات میں آج کل قادیان کے درویش زندگی گزار رہے ہیں ان کے ماتحت یہ اندیشہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کے نتیجہ میں بعض خام طبیعت نوجوان درویشوں کے دلوں میں گھبراہٹ کے آثار نہ پیدا ہوں.سو احباب ان کے لئے بھی دعا فرما ئیں.باقی یہ تو ایک ابدی حقیقت ہے کہ : كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والا اكرام وانا لله وانا اليه راجعون - مورخه ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 695

۶۸۳ مضامین بشیر مختار احمد صاحب دہلوی کی والدہ صاحبہ کہاں ہیں؟ اگر مختار احمد صاحب پسر با بونذیر احمد صاحب مرحوم دہلوی کی والدہ صاحبہ اس اعلان کو دیکھیں تو مجھے اپنے پستہ سے مطلع فرمائیں یا اگر کسی اور دوست کو ان کا موجودہ پتہ معلوم ہو تو مجھے نوٹ کر کے بھجوا دیں.ضروری کام ہے.( مطبوعه الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 696

مضامین بشیر ۶۸۴ چنده امداد درویشان اور رقوم قربانی کی جدید فہرست گزشتہ اعلان کے بعد کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.یہ ان بھائیوں اور بہنوں کی فہرست ہے جنہوں نے میری تحریک پر امداد درویشان کی مد میں چندہ دیا یا قادیان میں عید الاضحیٰ کی قربانی کے لئے میرے نام روپیہ بھجوایا.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو." ۱۳ اہلیہ صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب کراچی برائے قربانی چوہدری فضل حق صاحب قیام پور در کاں ضلع گوجرانوالہ برائے قربانی خواجہ منصور احمد صاحب پسر خواجہ محمد عبد الغنی صاحب را ولپنڈی محمد عبدالرحمن صاحب پنشنز صو بیدار میجر کوئٹہ بطور صدقہ برائے غرباء قادیان مرزا محمد شریف بیگ صاحب سپریٹنڈنٹ جیل جھنگ بطور صدقہ برائے غرباء قادیان قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی آف قادیان حال را ولپنڈی بطور صدقہ اہلیہ صاحبہ قاضی عبد الرحیم صاحب مذکور بطور صدقہ غلام احمد خان صاحب انچارج ڈسپنسری بصیر پور ضلع منٹگمری چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ حال دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ برائے قربانی.راجه منشی محبوب عالم صاحب را جپوت سائیکل ورکس لاہور محمد صفد ر صاحب ایم.اے لیکچرار تعلیم الاسلام کالج لاہور اہلیہ صاحبہ محمد صفد ر صاحب ایم.اے مذکور حافظ بشیر الدین صاحب واقف زندگی رتن باغ لاہور ۱۴ اہلیہ صاحبہ حافظ بشیر الدین صاحب مذکور ۱۵ زینب بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری عبدالرحمن صاحب لائکپوری بذریعہ مولوی محمد اسمعیل صاحب دیا لگڑھی ✓....۲۵ ۲۵ ۲۵ rm....1

Page 697

مضامین بشیر ۲۵ ۲۵۰ ۲۵ ۲۵ ۶۸۵ ۱۶ راج بی بی صاحبہ ہمشیرہ میاں محمد امیر صاحب مرحوم بھا کا بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ برائے قربانی مہر بی بی صاحبہ بنت میاں سردار خانصاحب مرحوم بھا کا بھٹیاں برائے قربانی عزت بی بی صاحبہ بھا کا بھیاں برائے قربانی ۱۹ آمنہ بی بی صاحبہ عرف مائی ہیمی.معرفت عبدالعزیز صاحب واقف ۲۰ ۲۱ زندگی ڈسکہ.برائے قربانی محمد نواز خانصاحب جودھپور ضلع ملتان.والدہ صاحبہ مولوی محمد صدیق صاحب واقف زندگی.بذریعہ سید ولی اللہ شاہ صاحب ربوہ برائے قربانی میزان ( مطبوعہ الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 698

مضامین بشیر ۶۸۶ مسجد ربوہ کا سنگ بنیاد اور اس تقریب کا عقبی منظر الفضل ۶ را کتوبر ۱۹۴۹ء میں مسجد ربوہ کے سنگ بنیاد کی رپورٹ شائع ہوئی ہے.ایسے موقعے قوموں کی تاریخ میں خاص موقعے ہوا کرتے ہیں اور ان کی تاریخ کو محفوظ رکھنا قومی زندگی کے لئے ضروری ہوتا ہے.اس لئے یہ امر باعث خوشی ہے کہ الفضل نے اس موقع پر اپنا خصوصی نمائندہ بھجوا کر اس مبارک تقریب کی رپورٹ الفضل میں شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے، لیکن مجھے افسوس ہے کہ جس رنگ میں یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے اس میں اس تقریب کی اصل روح کو نمایاں کرنے کی بجائے لفاظی سے زیادہ کام لیا گیا ہے.بے شک لفظی حسن کو ملحوظ رکھنا بھی ایک حد تک ضروری اور مناسب ہوتا ہے اور قرآن شریف نے اسے بدرجہ احسن ملحوظ رکھا ہے.لیکن الفاظ کی جھاڑی میں الجھ کر اصل روح کی طرف سے غافل ہو جانا ہر گز کوئی خوبی کی بات نہیں سمجھی جاسکتی.الفضل کی اس رپورٹ سے میرے دل پر یہی اثر پڑا ہے کہ رپورٹ لکھنے والے صاحب نے جو بھی وہ ہوں غالبا لفظوں کا انتخاب پہلے کیا ہے اور معانی کو ان کے بعد رکھا ہے گویا لفظوں کا انجن آگے آگے چلا ہے اور معانی کی گاڑی اس کے پیچھے گھسٹتی آئی ہے.دینی تحریرات میں یہ اسلوب یقینا پسندیدہ نہیں اور ضروری ہے کہ اصل توجہ واقعہ کی روح کی طرف دی جائے.اور اس روح کو اتنا نمایاں کر کے ابھارا جائے کہ ہر پڑھنے والے کے دل و دماغ پر پہلا اثر روح کے حسن کا پڑے اور الفاظ کا حسن صرف ایک ضمنی بات سمجھی جائے.یہی ہمارے قرآن کریم کا انداز ہے اور یہی ہمارے اہل قلم دوستوں کے لئے بہترین اسوہ ہونا چاہئے.خیر یہ تو محض ایک ضمنی بات تھی جو برسبیل تذکرہ عرض کر دی گئی.اصل بات جو میں اس موقع پر کہنا چاہتا ہوں وہ اس تقریب کے عقبی منظر سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی طرف سے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے الفضل میں اعلان کیا تھا اس موقع پر حضور کا منشاء یہ تھا کہ

Page 699

جب ۶۸۷ مضامین بشیر حضور تین اکتوبر یعنی 9 ذوالحجہ کی تاریخ کو جو دو شنبہ کا دن تھا عصر کی نماز کے بعد ربوہ میں مسجد کی بنیا درکھیں تو اس وقت جماعت کے دوسرے دوست بھی اپنی اپنی جگہ دعاؤں میں وقت گزاریں تا کہ جماعت کے بڑے سے بڑے حصہ کی مجموعی دعائیں خدا کے زیادہ سے زیادہ فضل اور زیادہ سے زیادہ رحمت اور زیادہ سے زیادہ برکت کی جاذب ہوسکیں.اس کے مطابق مجھے معلوم ہوا ہے کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے مختلف جماعتوں کو اخباری اعلان کے علاوہ انفرادی تاروں کے ذریعہ بھی اطلاع دی گئی تھی.ان تاروں کے نتیجہ میں بعض جماعتوں کے نمائندے تو ربوہ پہنچ گئے.اور خود موقع پر شریک ہوئے لیکن اکثر احباب اپنی اپنی جگہ ہی دعا کا انتظام کر کے روحانی اور معنوی شرکت کے وارث بنے اور ان میں سے بعض یقیناً آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کے مصداق بھی قرار پائے ہوں گے.جو آپ نے اپنے ایک دینی سفر کے دوران میں اپنے ہمسفر صحابہ سے فرمایا تھا آپ نے فرمایا: و تم اس وقت کوئی قدم نہیں اٹھاتے اور کوئی وادی طے نہیں کرتے مگر مدینہ میں بعض ٹھہرے ہوئے لوگ تمہارے ثواب کے ساتھ برابر کے شریک ہوتے چلے جاتے ہیں.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دینی خدمت کے لئے قدم تو ہمارا اُٹھ رہا ہے اور ثواب میں مدینہ کے لوگ بھی شریک ہو رہے ہیں جو نہ اپنے گھر سے نکلے اور نہ ان کے قدم سفر کی گرد سے آلودہ ہوئے آپ نے فرمایا: یہ ٹھیک ہے کہ تم نے اس موقع کو پایا لیکن جن لوگوں کا میں ذکر کر رہا ہوں.وہ ایسے لوگ ہیں جو تمہاری طرح دل میں خواہش رکھتے تھے کہ اس سفر میں شریک ہوں مگر انہیں کسی معذوری نے جو ان کے بس کی نہیں تھی روک دیا.پس وہ اپنی نیک خواہش اور دلی جذبہ کی وجہ سے اس ثواب میں برابر کے شریک ہیں.“ پس جہاں اس تقریب میں عملاً شامل ہونے والے دوستوں نے ثواب اور برکت سے حصہ پایا.وہاں میں یقین رکھتا ہوں کہ جن لوگوں کو اس موقع کی شرکت کی خواہش تھی لیکن وہ کسی معذوری کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے اور اپنی اپنی جگہ پر دعا میں مصروف ہے وہ بھی خدا کے فضل سے ثواب سے محروم نہیں رہے.بلکہ ہمارے آقا کے فرمان کے مطابق اسی ثواب کے مستحق بنے جو موقع کی شرکت والوں نے حاصل کیا.مجھے جب الفضل کے اعلان کے ذریعہ اس بات کا علم ہوا تو میں نے سب سے اول تو قادیان تار بھجوایا اور وہاں کے دوستوں کو اطلاع دی کہ حج والے دن ساڑھے پانچ بجے شام کو ر بوہ میں مسجد کی

Page 700

مضامین بشیر ۶۸۸ بنیا د رکھی جائے گی.آپ لوگ اپنی جگہ اس وقت دعا کا انتظام کر کے اس روحانی تقریب میں معنوی شرکت اختیار کریں اور تار کے علاوہ مزید احتیاط کے طور پر قادیان فون بھی کرا دیا اور اس بات کی تسلی کر لی کہ میرا پیغام اہل قادیان کو پہنچ گیا ہے.اور انہوں نے اسے اچھی طرح سمجھ بھی لیا ہے اس کے بعد میں نے رتن باغ اور جو د ہامل بلڈ نگ لاہور میں ٹھہرے ہوئے عزیزوں اور دوستوں کو انفرادی طور به پر اطلاع دی کہ وہ بھی اس وقت اپنی جگہ دعا میں مصروف رہ کر اس مبارک تقریب میں شرکت اختیار کریں.اس فرض کی ادائیگی کے بعد میں نے کوشش کی کہ اگر کسی ایسی سواری کا انتظام ہو جائے جو مجھے اس تقریب کی شمولیت کیلئے ربوہ لے جائے.اور پھر رات کو لاہور واپس پہنچا دے تو میں اس سے فائدہ اٹھاؤں مگر افسوس ہے کہ خواہش اور کوشش کے باوجود اس کا انتظام نہیں ہوسکا.گو بعد میں مجھے پتہ لگا کہ لاہور سے چار پرائیویٹ موٹر میں اس تقریب کی شمولیت کے خیال سے ربوہ گئی تھیں لیکن نہ تو مجھے ہی وقت پر اطلاع ہوئی اور نہ ہی غالباً ان دوستوں کو معلوم ہوسکا کہ میرے دل میں بھی اس شمولیت کی خواہش ہے اور اس طرح یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا.مگر حق یہ ہے کہ میرے رحیم و کریم خدا نے اس کمی کو اپنے فضل سے کافی حد تک پورا فرما دیا، اور وہ اس طرح کہ عصر کی نماز کے بعد میں رتن باغ کے بالائی صحن میں چلا گیا اور وہاں غروب آفتاب کے بعد تک علیحدگی میں دعا کرتا رہا.اور خدا نے اپنے فضل سے اس وقت دعا کے لئے کیفیت بھی بہت اچھی پیدا کر دی.کیونکہ اس وقت میرے دل میں یہ احساس تھا کہ یہ حج کا دن ہے جب کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی روحیں مکہ کے مبارک اور مقدس مقامات کی طرف جھک رہی ہیں.اور پھر یہ وقت بھی وہ ہے جو حج کے مناسک میں عرفات کے وقوف کا وقت کہلاتا ہے جسے آنحضرت علی نے اسی طرح حج کا مرکزی نقطہ قرار دیا ہے جس طرح نماز کی ہر رکعت کا مرکزی نقطہ رکوع کو قرار دیا گیا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے عرفات کے وقوف کا وقت پالیا اس نے گویا مکمل حج پالیا اس میدان میں حاجی لوگ عصر کی نماز کے بعد سے لیکر مغرب کی نماز کے وقت تک ذوالحجہ کی ۹ تاریخ کو کھڑے ہو کر (اور یہ کھڑے ہونا ہی وقوف کہلاتا ہے ) خدا کے حضور خاص دعا ئیں کرتے ہیں.پس میرے دل میں ایک طرف تو یہ تصور تھا کہ یہ وہ دن اور یہ وہ وقت ہے جبکہ خدا کے رستہ میں نکلنے والے حاجی عرفات کے میدان میں وقوف کر کے خدا کے حضور اپنی عبادت کا ہدیہ پیش کرتے ہیں اور دعا کے ذریعہ خدا کے فضلوں اور رحمتوں کے طالب ہوتے ہیں اور دوسری طرف میرے دل میں یہ تصور تھا کہ یہ وہ وقت ہے کہ جب جماعت احمدیہ کے قائمقام مرکز ربوہ میں خلیفہ وقت اور امام جماعت کے ہاتھوں سے ربوہ کی پہلی اور خاص مسجد کی بنیاد رکھی جا رہی ہے.اس دہرے تصور نے

Page 701

۶۸۹ مضامین بشیر ( مگر حق یہ ہے کہ ) خدا کے فضل نے اس وقت دعا کی ایسی توفیق عطا کی جو صرف خاص موقعوں پر ہی عطا ہوا کرتی ہے.فالحمد لله على ذالك ان الفضل بيد الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم بالآخر میں اس موقع پر دوستوں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ربوہ بیشک اس وقت ہمارا مرکز قرار پایا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اسے کئی جہتوں سے اپنی برکتوں سے نوازا ہے.اور انشاء اللہ آئندہ بھی نوازے گا لیکن ربوہ کا تصور اور ربوہ کا اکرام ہمیں اپنے دائگی اور ابدی مرکز کی طرف سے غافل نہیں کر سکتا.جو قادیان کے وجود میں خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کیلئے مقدر کر رکھا ہے.جماعت کا دائمی مرکز صرف قادیان ہے.اور قادیان ہی رہے گا.اور ہمیں اپنی دعاؤں اور اپنی کوششوں اور اپنی تو جہات میں قادیان کو اور اس کی واپسی کے سوال کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.بہت سے لوگ وقتی ماحول کے تصور میں کھوئے جا کر ابدی باتوں کو بھلا دیا کرتے ہیں.اسی لئے جب مدینہ کی ہجرت ہوئی.تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہوشیار کرنے کے لئے فرمایا کہ: وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَ مَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ وَ مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلَّوْا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِتَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ د یعنی اے رسول تم اسلام کی ترقی اور استحکام کیلئے جو تد بیر بھی اختیار کرو اور جس سفر پر بھی نکلو اس میں اپنی توجہ کا مرکزی نقطہ مسجد حرام یعنی مکہ کے واپس حاصل کرنے کو رکھو.یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک دائمی صداقت ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.اور یا درکھو کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے ہاں ! ہاں ! جس سفر پر بھی تم نکلو اپنی توجہ کا مرکز ہمیشہ مسجد حرام کو رکھو.اور تمہارے ساتھ دوسرے مسلمان بھی اسی کو اپنی توجہ کا مرکزی نقطہ بنا ئیں.تا کہ تمہارے خلاف لوگوں کو اعتراض باقی نہ رہے ) کہ انہوں نے اپنے مذہبی مرکز کو کھو دیا ہے ) باقی ظالم لوگ تو بہر حال اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں.پس تم ان لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میری خشیت کا جذبہ اپنے دل میں رکھو اور میں اس ذریعہ سے اپنی نعمت تم AI

Page 702

مضامین بشیر ۶۹۰ پر پوری کرنا چاہتا ہوں تا کہ تم ترقی کے سیدھے رستہ کو پالو.“ ۸۲ پس ضروری ہے کہ قادیان کا دائگی مرکز ہمیشہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہے اوراسے واپس حاصل کرنے کے متعلق ہماری جد و جہد اس وقت تک قائم رہے کہ جب خدا کا یہ ارشاد پورا ہو کہ : إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادَّكَ إِلى مَعَادٍ.بلکہ قادیان کا سوال تو اس جہت سے اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ مکہ واپس حاصل کرنے کے حکم کے با وجود آنحضرت علی کی مدینہ کی ہجرت دائمی ہجرت تھی جس کے بعد آپ نے یا آپ کے خلفاء نے مکہ میں واپس جا کر آباد نہیں ہونا تھا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ مدینہ میں ہی ٹھہرے رہے اور مدینہ میں ہی دفن ہوئے اور مدینہ ہی خلفاء راشدین کا دارالخلافہ رہا لیکن اس کے مقابل پر قادیان نہ صرف خدا کے فضل سے واپس ہوگا بلکہ وہ جماعت کا اور ساری دنیا کی جماعت کا دائمی مرکز بھی رہے گا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں کہ.قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے یہ ضروری ہوگا کہ مقام اس انجمن کا یعنی " ۱۸۳ سلسلہ کی انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اسے برکت دی ہے.پس لا ریب اس وقت ربوہ ہمارا مرکز ہے اور اس وقتی مرکزیت کے نتیجہ میں اسے یقیناً خاص برکت بھی حاصل ہوگئی ہے اور قادیان کی بحالی کے بعد بھی وہ ایک جزوی اور مقامی مرکز رہے گا.مگر ہمارا ابدی اور عالمگیر مرکز بہر حال قادیان ہے اور اس کے حصول کی طرف ہماری روحیں خدا کے فضل و رحمت کی طالب ہو کر جھکی رہنی چاہئیں.آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.( مطبوعه الفضل ۹ / اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 703

۶۹۱ مضامین بشیر رسالہ مقامات النساء فی احادیث سید الانبیاء کا دیباچہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے تعطیلات موسم گرما میں عاجز نے آنحضرت ﷺ کی احادیث کریمہ میں سے ایسی سو احادیث کا مجموعہ ترجمہ و تشریح کے ساتھ مرتب کیا جن میں عورتوں کا مقام بلحاظ ماں ، بہن ، بیوی، بیٹی ، بہو اور ایک عام خاتون کے مذکور ہے ، میں نے یہ مجموعہ حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی خدمت میں بغرض اصلاح و مشورہ پیش کیا.آپ نے در دنقرس اور بے حد مصروفیت کے باوجود اس مجموعہ پر گہری نظر ثانی فرما کر موقع بموقع اصلاح بھی فرمائی ہے.اور از راہ شفقت اس رسالہ کا دیباچہ بھی تحریر فرمایا جو ذیل میں شائع کیا جاتا ہے.یہ رسالہ زیر طبع ہے.جیسا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.انشاء اللہ اسے کتابت کاغذ اور طباعت کے لحاظ سے بھی دیدہ زیب بنایا جائے گا میں تمام جماعتوں اور احباب سے ، بالخصوص لجنہ ہائے اماءاللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ابھی سے اس رسالہ کی مطلوبہ تعداد سے مطلع فرمائیں.( خاکسارا بوالعطاء جالندھری.احمد نگر جھنگ) مجھے خوشی ہوئی ہے کہ محترمی مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل سابق مبلغ ملک شام و فلسطین حال پرنسپل جامعہ احمدیہ نے مجھے اپنی اس جدید تالیف ” مقامات النساء کا مسودہ دیکھنے اور حسب ضرورت مشورہ دینے کا موقع عطا کیا.اسلام میں عورت کا مقام ایک بلند مقام ہے کیونکہ یہی وہ قابل قدر وجود ہے جس کی گود میں قوم کے نو نہال پرورش پاتے اور قومی قیادت کی آئندہ باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنتے ہیں.پس خواہ اس کے بعض افراد اپنے مقام سے گر جائیں.عورت اپنی ذات میں ضرور ایک نهایت درجه قابل قدر اور قابل عزت وجود ہے.اور مردوں کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اس کی تقدیس کو قائم رکھیں ورنہ یہ وہ کلہاڑا ہو گا جو خود ان کے پاؤں پر لگ کر انہیں ہمیشہ کے لئے اپاہج کر دے گا.اسلام سے قبل عورت ایک پست وجود سمجھی جاتی تھی جس کے نہ تو کوئی حقوق محفوظ تھے اور نہ ہی کوئی ذمہ داریاں معین کی گئی تھیں.اسلام نے اس وجود کو مٹی سے اٹھا کر صرف ایک معین شکل ہی نہیں دی بلکہ ایک دلکش اور قابل قدر وجود بنا دیا اس نے مرد کا حق معین کیا تا کہ وہ عورت کے حقوق پر ڈا کہ نہ ڈال سکے اور دوسری طرف اس نے عورت کے حقوق کی بھی داغ بیل قائم کی تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے اور اپنے دائرہ عمل سے باہر دھکیلے جانے پر مقابلہ کے لئے تیار رہے.یہ تمیز اس لئے

Page 704

مضامین بشیر ۶۹۲ بھی ضروری تھی کہ خالق فطرت نے مرد عورت کو اپنی تفصیلات میں علیحدہ علیحدہ دماغی قومی اور علیحدہ علیحدہ قلبی جذبات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ دونوں کو ان کے اپنے اپنے دائرہ عمل میں کھڑا رکھ کر ان سے قومی ترقی میں بہترین خدمت کی جائے.جس طرح ایک چوکور سوراخ کو ایک گول لکڑی پوری طرح بند نہیں کر سکتی اسی طرح نہ ایک مرد پوری طرح عورت کی جگہ لے سکتا ہے اور نہ ایک عورت کامل طور پر مرد کی قائم مقام بن سکتی ہے.ہاں چونکہ دونوں میں ایک بڑا حصہ مشترک قومی اور مشترک جذبات کا رکھا گیا ہے.اس لئے انسانیت کی کامل ترقی لازماً دونوں کے تعاون اور اتحاد عمل کے نتیجہ میں ہی مقدر ہے اور اسی حکیمانہ نظریہ کے ماتحت اسلام نے اپنے احکام جاری فرمائے ہیں.تفصیلات اور مستثنیات کو الگ رکھتے ہوئے اسلام نے مرد کو عموماً سیاست اور قیام امن اور فرائض رزم گاہ کے ، مناسب تفویض کئے ہیں یہ گو یا فیلڈ کی ڈیوٹی ہے مگر کوئی فیلڈ ایک پختہ اور منظم ہیں (BASE) کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی.اور بیس کا انچارج عورت کو مقرر کیا گیا ہے.یعنی مسلمان بچوں کو بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان کے دل اور دماغ اور جسم کو ان کے آئندہ فرائض کے لئے تیار کرنا یہ ایک بہت بڑا کام ہے اور یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کی اچھی تربیت پر جنہوں نے آگے جا کر قوم کی مائیں بننا ہوتا ہے اسلام نے انتہائی زور دیا ہے.اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ جس طرح میدان جنگ کے زخمی سپاہی علاج معالجہ کے لئے ہیں میں واپس بھیج دیئے جاتے ہیں اسی طرح اسلام نے بھی زخمی مسلمانوں کی دیکھ بھال میں عورت کو نمایاں حصہ دیا ہے.مگر افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ میں عیسائی اقوام کی اندھی تقلید مسلمانوں میں بھی ایک گونا بغاوت کا رنگ پیدا کر رہی ہے اور مرد و عورت کی اندرونی حدود کو تو ڑ کر جو سرا سر حکمت پر مبنی ہیں بلا چے سمجھے عورت کو مرد کے دائرہ عمل میں داخل کیا جا رہا ہے.یہ میلان یقیناً دونوں کے لئے سخت ضرر رساں ہے اور سب سے بڑھ کر قوم کے لئے تباہ کن ہے.اور فطری طریق وہی ہے جو اسلام سکھاتا ہے جو ہر فریق کے حقوق اور ذمہ داریاں معین کر کے حکم دیتا ہے کہ اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر اپنے اپنے حصہ کا رکو ترقی دو.لیکن جو حصہ مشترکہ نوعیت رکھتا ہے اس میں دونوں مل کر کام کرو.بہر حال مجھے خوشی ہے کہ محترمی مولوی ابو العطاء صاحب فاضل نے یہ مجموعہ مرتب کر کے ایک اہم قومی خدمت سر انجام دی ہے اور اب یہ قوم کا فرض ہے کہ اس رسالہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کر کے اس کے فائدہ کو محدود نہ رہنے دیں اور دوسری طرف مولوی صاحب کا فرض ہے کہ اس کی کتابت اور کا غذا اور طباعت کو ایسی دیدہ زیب صورت دیں کہ روح کے حسن کے ساتھ جسم کا حسن شامل ہو کر ہر جہت سے دلکش وجود پیدا کر دے.( مطبوعه الفضل ۱۴ / اکتوبر ۱۹۴۹ء) 66

Page 705

۶۹۳ مضامین بشیر قادیان کے تازہ کوائف قادیان کے تازہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دوستوں کی معمولی بیماری کے سوا یا بعض بوڑھے دوستوں کے ضعف پیری کے علاوہ باقی سب دوست خدا کے فضل سے بخیریت ہیں.مجید احمد درویش کی اچانک وفات نے اچانک اس لئے کہ درمیان میں وقفہ ہو جانے کے بعد وہ قریباً اچانک فوت ہو گیا ) درویشوں کے دل میں غم و حزن کی غیر معمولی کیفیت پیدا کر دی تھی ، لیکن اس کے بعد عید نے جبکہ ایک سچا مومن خدا کی لائی ہوئی خوشی پر خوش ہونا اپنا فرض سمجھتا ہے ، اس غم کی کیفیت پر خدائی رحمت کا سایہ کر دیا.اور دوستوں نے خوشی خوشی عید منائی.پہلے خیال تھا کہ اس دفعہ عید گاہ میں نماز پڑھنے کی کوشش کی جائے گی لیکن پھر اسے پولیس کا انتظام خاطر خواہ نہ ہونے کی وجہ سے حفاظت کے خیال سے مناسب نہیں سمجھا گیا.کیونکہ عید گاہ شہر سے باہر بالکل ایک کنارے پر ہے.پس عید گاہ کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں عید کی نماز پڑھی گئی.اور عید کے دن شام کو اجتماعی دعوت کا بھی انتظام کیا گیا.اس سال قادیان میں خدا کے فضل سے کافی تعداد میں قربانی کی گئی.(معین فہرست بعد میں شائع کی جائے گی جن میں سے اکثر پاکستان کے دوستوں کے بھیجے ہوئے روپے سے کی گئی اور جن پاکستانی دوستوں کا روپیہ موجودہ حالات کی وجہ سے وقت پر قادیان نہیں پہنچ سکا.ان کے متعلق میں نے لاہور سے فون اور تار اور خطوں وغیرہ کے ذریعہ قادیان اطلاع بھجوا دی تھی اور خدا کے فضل سے ایسے دوستوں کی خواہش بھی پوری ہو گئی.اور کچھ روپیہ ہندوستان کے دوستوں کی طرف سے بھی پہنچ گیا.عام لنگر خانہ کے استعمال کے علاوہ جن دوستوں نے عید کے ایام میں الگ کھانا پکانا چاہا انہیں علیحدہ گوشت بھی دیدیا گیا.اور دارالصحت میں بھی بھجوایا گیا.اور ایسے غیر مسلم ہمسایوں کو بھی بھجوایا گیا جو مسلمانوں کا ذبیحہ کھا لیتے ہیں.اب دوست ضرورت کے وقت بٹالہ یا گورداسپور یا امرتسر ہو آتے ہیں لیکن مقامی حکام کی ہدا یت کے ماتحت ایک سپاہی ساتھ رکھنا پڑتا ہے.جو حفاظت بھی کرتا ہے اور نگرانی بھی رکھتا ہے.چنانچه ۱۰ اکتوبر کو بعض دوست امرتسر گئے ان میں بھائی شیر محمد صاحب دوکاندار بھی تھے انہوں نے امرتسر کے بعض غیر مسلم دوکانداروں کے پاس جا کر کہا کہ میں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے جلد

Page 706

مضامین بشیر ۶۹۴ امرتسر نہیں آسکا.لیکن اب میں نے انتظام کر لیا ہے.پس جو روپیہ آپ نے مجھ سے لینا ہے ( بھائی شیر محمد صاحب امرتسر کے تاجروں سے مال لایا کرتے تھے ) مجھ سے لے لواور میر احساب صاف کر دو ، انہوں نے کہا ہمیں حالات کا علم ہے ہمیں آپ شرمندہ نہ کریں ہم ابھی روپیہ نہیں لیتے جب لینا ہو گا خود قادیان آ کر لے لیں گے.اور بھائی شیر محمد صاحب کے اصرار کے باوجو در و پیہ نہیں لیا.بھائی شیر محمد صاحب کی اس بات کا امرتسر کے غیر مسلم تاجروں پر بہت اچھا اثر ہوا کہ یہ لوگ کتنے دیانتدار ہیں کہ اپنے آپ کو نگی اور خطرے میں ڈال کر دوسروں کا روپیہ واپس کرنے کے لئے امرتسر پہنچے ہیں.مسجد ربوہ کے سنگ بنیاد اور چندے کی تحریک کی اطلاع جب قادیان پہنچی تو امیر صاحب مقامی نے وہاں کے دوستوں کو بھی چندہ کی تحریک کی.چنانچہ اس وقت تک یعنی اار اکتوبر تک اس مد میں ساڑھے پانچ سوروپے نقد وصول ہو چکے ہیں.اور پونے تین سو روپے کے وعدے آئے ہیں.فالحمد لله على ذالک دوست اپنی دعاؤں میں قادیان کے بھائیوں کو خاص طور پر یا درکھیں.مطبوعه الفضل مورخه ۱۶ / اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 707

۶۹۵ مضامین بشیر اخویم مرز اسلطان احمد صاحب مرحوم شیخ محمد احمد صاحب کی ایک دلچسپ روایت جیسا کہ سب دوستوں کو معلوم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوشادیاں ہوئی تھیں.ایک شادی بالکل اوائل عمر میں ہی حضور کے والدین نے اپنے عزیزوں میں کرا دی تھی.جس سے خان بہا در مرز اسلطان احمد صاحب مرحوم اور مرزا افضل احمد صاحب مرحوم پیدا ہوئے.اور دوسری شادی ہماری والدہ صاحبہ حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کے ساتھ دہلی میں ہوئی.اور یہ موخر الذکر شادی وہ شادی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَالْنَسَبِ.AC یعنی وہ خدا تمام تعریفوں کا حق دار خدا ہے جس نے تمہارا سسرال ایک شریف اور اعلیٰ خاندان میں بنایا.اور اسی نے تمہارے جدی نسب کو بھی شریف اور اعلیٰ خاندان میں قائم کیا.چونکہ اخویم مرزا سلطان احمد صاحب نے شروع شروع میں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھر بعض خاندانی اثرات کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو قبول نہیں کیا تھا.اسی لئے جیسا کہ دوست جانتے ہیں.حضور ان پر خوش نہیں تھے اور عملاً قطع تعلق کی صورت تھی.حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور اس کے بعد حضرت خلیفہ اقول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی مرز اصاحب موصوف کو بیعت کی توفیق نہیں ملی.پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا زمانہ آیا اور اس کے اوائل میں بھی مرزا صاحب موصوف بدستور علیحدہ رہے.لیکن جب وہ پنشن لے کر قادیان آگئے اور وہ جن کی وجہ سے مرزا صاحب زیادہ تر بیعت سے رکے ہوئے تھے یعنی ہماری تائی صاحبہ مرحومہ جنہوں نے مرزا صاحب کو بیٹا بنایا ہوا تھا ) انہوں نے بھی بیعت کر لی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب مرحوم کو بھی شرح صدر عطا کیا.اور وہ اپنے چھوٹے بھائی یعنی حضرت خلیفۃ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت سے مشرف ہو گئے.اور اپنی آخری عمر میں پلٹا کھا کر بہشتی مقبرہ میں جگہ پائی.وذالک فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم -

Page 708

مضامین بشیر ۶۹۶ خیر یہ تو صرف تمہیدی کلمات تھے جو میں نے عرض کئے ہیں.اصل غرض ایک روایت کا بیان کرنا ہے جو مجھے عزیزم مکرم شیخ محمد احمد صاحب پلیڈ ر سابق کپورتھلہ اور حال لائل پور کی طرف سے پہنچی ہے.شیخ محمد احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قدیم اور نہایت مخلص اور مقرب صحابی حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم کے فرزند ارجمند ہیں.حضرت ظفر احمد صاحب مرحوم کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیسا تھ دعوی سے پہلے کا تعلق تھا اور وہ ان بزرگوں میں سے تھے.جنہیں مسیح موعود کے غیر متوقع دعوے نے ذرہ بھر بھی متزلزل نہیں کیا بلکہ وہ ایمان اور عرفان میں اور بھی ترقی کر گئے اور اس اخلاص اور محبت اور قربانی اور وفاداری کے تعلق کو آخر تک نبھایا اور خوب نبھایا.اور اب الحمد للہ ان کا مخلص فرزند شیخ محمد احمد بھی انہی کے نقش قدم پر جماعت کا ایک بہت قابل قدر کا رکن ہے.اور ان شاذ مثالوں میں سے ایک مثال پیش کرتا ہے.کہ جہاں بیٹا باپ کے روحانی ورثہ کا پوری طرح وارث بنتا ہے اور یخرج الميت من الحى كا نہيں بلكہ يخرج الحي من الحى كا مصداق قرار پاتا ہے فالحمد لله على ذالك واللهم زدفرد بہر حال مجھے شیخ محمد احمد صاحب کی طرف سے اخویم مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے متعلق ذیل کی روایت پہنچی ہے جو میں انہی کے الفاظ میں ہدیہ ناظرین کرتا ہوں.شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ : جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ,, جالندھر میں ملازم تھے اور غالباً ان ایام میں افسر مال تھے.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا والد صاحب مرحوم سے بڑا تعلق تھا.چنانچہ مرزا صاحب مرحوم نے والد صاحب سے فرمایا کہ بروز وصال حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں جالندھر میں گھوڑے پر سوار جا رہا تھا کہ یکدم بڑے زور سے مجھے الہام ہوا کہ ”ماتم پرسی میں اسی وقت گھوڑے سے اتر آیا.اور مجھے بہت غم تھا.خیال کیا کہ شاید تائی صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہو.پھر خیال کیا کہ نہیں یہ نہیں ہو سکتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماتم پرسی تو صرف والد صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کے متعلق ہی ہو سکتی ہے.چنانچہ ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا کہ مجھے چند روز کی رخصت دی جائے.غالباً والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے.ڈپٹی کمشنر نے کہا یہ نہیں ہوسکتا.نہ کوئی خبر آئی ہے.اور نہ شائع ہوئی ہے اسی درمیان میں تار آ گیا جس میں والد صاحب ( حضرت مسیح موعود ) کے انتقال کی خبر درج تھی اور اس پر ڈپٹی کمشنر کو بہت حیرت ہوئی اور میں رخصت لے کر قادیان پہنچ گیا.“ خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ محمد احمد صاحب کی یہ روایت بہت عجیب اور دلچسپ ہے جس سے کئی مفید استدلات ہو سکتے ہیں یہ روایت پہلے سنے میں نہیں آئی تھی مگر بہر حال یہ بات سب کو معلوم تھی کہ

Page 709

۶۹۷ مضامین بشیر اخویم مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازہ میں قادیان پہنچ گئے تھے بلکہ جب بڑے باغ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ ہوا جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے پڑھایا تھا.تو مجھے یاد ہے کہ مرز اصاحب مرحوم میرے قریب ہی کھڑے تھے.تعجب ہے کہ مرز اسلطان احمد صاحب نے ہماری تائی صاحبہ مرحومہ کے پیچھے لگ کر ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علیحدگی اور ایک گونہ مخالفت میں گزاری اور اس کے مقابل پر ہمارے دوسرے بھائی مرزا افضل احمد صاحب مرحوم نے کبھی اس رنگ میں مخالفت نہیں کی.بلکہ بیعت نہ کرنے کے باوجود ہمیشہ عمومی رنگ میں مطیع اور فرمانبردار رہے لیکن بالآخر مرزا فضل احمد صاحب تو بیعت سے محروم گذر گئے مگر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کو آخری عمر میں بیعت نصیب ہو گئی.یہ خدا کے راز ہیں جنہیں وہی بہتر جانتا ہے مگر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ بندے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں.لیکن خدا کی نظر دل پر ہوتی ہے اور وہ اسی کے مطابق اپنے بندوں سے سلوک فرماتا ہے اور مرزا صاحب کا یہ الہام بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ خدائی تقدیر نے انہیں بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف کھینچ لانے کا فیصلہ کر رکھا تھا.واللہ اعلم ولا علم لنا الا ما علمنا.مطبوعه الفضل ۲۰ / اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 710

مضامین بشیر ۶۹۸ قادیان کے تازہ حالات ا.قادیان کے تازہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دوستوں کی معمولی بیماری کے سوا خدا کے فضل سے قادیان میں سب دوست خیریت سے ہیں.۲.چند دن ہوئے قادیان کے بعض دوست بعض کاموں کے تعلق میں جالندھر گئے تھے اور جالندھر کے کمشنر سرسری نکیش صاحب) اور بعض دوسرے افسروں سے ملے اور راستہ کو امرتسر ٹھہرتے ہوئے دوسرے دن قادیان بخیریت پہنچ گئے.۳.اس دفعہ عید پر پاکستانی احباب کی طرف سے اٹھارہ عدد قربانیاں کی گئیں ہندوستانی احباب کی طرف سے جو قربانیاں ہوئیں وہ ان کے علاوہ تھیں.۴.مقدمہ اللہ رکھا جو ۲۵ درویشوں کے خلاف دائر ہے (اور سلطان احمد درویش کی وفات کی وجہ سے اب مقدمہ میں ۲۴ کس احمدی مدعا علیہ رہ گئے ہیں ) اس کی آئندہ تاریخ ۴ رنو مبر مقرر ہوئی ہے.جو خلاف دستور سابق بٹالہ میں ہوگی.دوست اپنے درویش بھائیوں کو اپنی خاص دعاؤں میں یاد رکھیں مقدمہ کے علاوہ اللہ رکھا بعض اور طریق پر بھی فتنہ کی آگ بھڑ کا تا رہتا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے مظلوم بھائیوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھے.۵.گو فی الحال پاکستان اور ہندوستان کے درمیان شرح تبادلہ کے تعین نہ ہونے کی وجہ سے بیوں اور منی آرڈروں کا آنا جانا بند ہے.لیکن معلوم نہیں کس وجہ سے قادیان کے پوسٹ آفس نے پہلے سے پہنچے ہوئے منی آرڈروں کی تقسیم بھی روک دی ہوئی ہے ہمارے دوستوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے اور ساتھ ہی درخواست کی ہے کہ بے شک مساوی شرح تبادلہ پر ہی یہ رکے ہوئے منی آرڈر تقسیم کر دئیے جائیں.اس میں ان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور اس میں حکومت ہندوستان کا بھی کوئی نقصان نہیں لیکن ابھی تک اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا.یک شدہ منی آرڈروں کے روکنے کے علاوہ ڈاک خانہ قادیان نے غیر معلوم وجہ سے فی الحال رجسٹر ڈ خطوط کا لینا بھی روک دیا ہے.اس کے خلاف بھی احتجاج کیا گیا ہے..قادیان کا جلسہ سالانہ جو ایک طرح سے سب ہندوستانی جماعتوں کا جلسہ ہے انشاء اللہ حسب دستور دسمبر کے آخری ہفتہ میں منعقد ہوگا.اور قادیان کی صدر انجمن احمدیہ نے درخواست دی

Page 711

۶۹۹ مضامین بشیر ہے کہ اس جلسہ کی شرکت کے لئے ۳۰۰ ہندوستانی احمدیوں کو اجازت دی جائے.جو دہلی یو.پی.بہار.کلکتہ.بمبئی اور حیدر آباد دکن وغیرہ سے آئیں گے.ے.جو دیہاتی مبلغ (مولوی اللہ بخش صاحب) گذشته ایام میں نبیسٹہ ضلع مظفر نگر یو.پی میں ڈوب کر شہید ہو گئے تھے ان کی جگہ قادیان سے دوسرے مبلغ کے بھجوانے کی تجویز کی گئی ہے..ہندوستان سے چار احمدی دوست کچھ عرصہ قیام کرنے کے لئے قادیان پہنچے ہیں.۹.قادیان کے دوست اپنے پاکستانی احباب کی خدمت میں سلام اور دعا کی درخواست کرتے ہیں.مطبوعه الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 712

مضامین بشیر آنحضرت ﷺ کی نبوت نظام نبوت کا معراج ہے ایک حیدر آبادی دوست کا سوال اور اس کا جواب حید آباد دکن سے ایک دوست نے ایک سوال لکھ کر بھیجا ہے اور خواہش ظاہر کی ہے کہ اس سوال کا جواب اخبار الرحمت میں شائع کرا دیا جائے.مگر میں اس نوجوان کے سوال کا جواب الفضل اور الرحمت دونوں میں بھجوا رہا ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ آجکل طبیعت کی خرابی اور کام کی کثرت کی وجہ سے میں زیادہ تفصیل کے ساتھ نہیں لکھ سکتا.صرف مختصر طور پر سوال اور اس کا جواب درج ذیل کئے دیتا ہوں.اس دوست کا سوال یہ ہے کہ ایک حدیث میں رسول کریم علیہ نے فرمایا ہے کہ میں اس وقت سے خاتم النبین ہوں جبکہ آدم مٹی اور کیچڑ میں تھا.کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ رسول کریم ﷺ سے پہلے جتنے انبیاء گذرے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے براہ راست نبوت کا درجہ پانے والے نہیں تھے؟ کیونکہ خاتم النبین تو آدم علیہ السلام سے بھی پہلے سے موجود تھے.“ سواس کے جواب میں جاننا چاہئے کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ( کیونکہ اس وقت میرے پاس اس حوالہ کے اصل الفاظ موجود نہیں ہیں ) اس حدیث میں ” خاتم النبین“ کے الفاظ نہیں آتے بلکہ صرف نبی کا لفظ آتا ہے اور غالباً حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ : كنت نبيا و آدم بين الماء والطين.۸۵ دو یعنی میں اس وقت سے نبی ہوں کہ جبکہ آدم بھی ابھی تک پانی اور مٹی میں تھا.“ یعنی ابھی تک آدم کی پیدائش بھی تکمیل کو نہیں پہنچی تھی.سو ہمارے دوست کے بیان میں غالباً ” خاتم النبیین“ کا لفظ درست نہیں ہے لیکن اگر اس حدیث میں یہ الفاظ ہوں بھی تو پھر بھی اصل حقیقت پر اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس حدیث کے وہ معنی نہیں ہیں جو ہمارے دوست نے خیال کئے ہیں.بلکہ یہ حدیث ایک اور لطیف مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بیان کی گئی ہے.بیشک با لواسطہ طور پر اس حدیث کو ” خاتم النبیین‘ کے مضمون کے

Page 713

مضامین بشیر ساتھ ایک گہرا تعلق ہے مگر اس سے یہ استدلال کرنا کہ گویا سابقہ انبیاء نے بھی نبوت کا درجہ آنحضرت کی وساطت سے پایا تھا درست نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان کردہ نظر یہ بھی اس کے خلاف ہے.کیونکہ حضور نے تکرار اور صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ گذشتہ تمام نبی مستقل نبی تھے یعنی انہوں نے کسی دوسرے نبی کی اتباع یا وساطت سے نبوت کا درجہ نہیں پایا بلکہ براہ راست حاصل کیا تھا اور اگر ان میں سے بعض نبی بعض دوسرے نبیوں کے ماتحت تھے اور ان کی شریعت کے تابع تھے جیسا کہ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے نبی جو بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے وہ موسوی شریعت کے ماتحت تھے لیکن پھر بھی وہ مستقل نبی تھے.کیونکہ انہوں نے نبوت کا درجہ کسی دوسرے نبی کی وساطت کے بغیر پایا تھا.پس جب ان نبیوں کو اپنے متبوع نبی کی پیروی کے باوجود مستقل نبی قرار دیا گیا ہے ( یادر ہے کہ یہاں مستقل“ کا لفظ عارضی کے مقابل پر نہیں ہے بلکہ دوسرے کی وساطت کے بغیر اپنی ذات میں قائم ہونے کے معنوں میں ہے ) تو پھر ان کے متعلق یہ کس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وساطت سے نبوت کا درجہ پایا تھا.اب رہا یہ سوال کہ اگر اوپر والی حدیث کے وہ معنی نہیں ہیں جن کی نسبت ہمارے حیدر آبادی دوست کا خیال گیا ہے.تو پھر اس کے صحیح معنی کیا ہیں ؟.سواس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ اس حدیث کے اصل معنوں کی کنجی اس حدیث میں ہے جہاں آنحضرت علیہ فرماتے ہیں کہ : كان النبي يبعث الى امة خاصة وبعثت الى الناس عامة د یعنی مجھ سے پہلے ہر نبی اپنی مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور اس کا پیغام ساری قوموں کے لئے نہیں ہوتا تھا لیکن میں سب بنی نوع انسان کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.اور میرا پیغام ساری دنیا کے واسطے ہے.“ ۱۸۷ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں : أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَا تَيْنِ یعنی میں اور قیامت اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں کہ جس طرح میری یہ دونوں انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور فرماتے ہوئے آپ نے اپنی دوانگلیاں کھڑی کر کے ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کر دیں ).ان حدیثوں سے ثابت ہے کہ جہاں پہلے نبیوں کا پیغام زمانہ اور قوم کے لحاظ سے محدود ہوتا تھا وہاں آنحضرت ﷺ کا پیغام ان دونوں حد بندیوں سے آزاد ہے.یعنی پہلے نبی صرف خاص خاص قوموں کی طرف اور خاص خاص زمانوں کے لئے آتے تھے مگر ہمارے آقا علم کی بعثت ساری قوموں اور سارے زمانوں کے لئے ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن عالمگیر ہے جس سے کوئی قوم

Page 714

مضامین بشیر ۷۰۲ باہر نہیں اور آپ کی لائی ہوئی شریعت دائمی ہے جسے کوئی دور کا قانون منسوخ نہیں کر سکتا اور چونکہ خدا بھی ساری دنیا کا واحد خدا اور واحد خالق و مالک ہے اور تمام قو میں اور تمام زمانے اسی کے پیدا کئے ہوئے اور اسی کے قبضہ تصرف میں ہیں اس لئے مانا پڑے گا کہ توحید کے حقیقی فلسفہ کے ماتحت صرف وہی نبوت بالذات کے طور پر مقصود ہو سکتی ہے جس کا دامن ساری قوموں اور سارے زمانوں پر وسیع ہو اور باقی سب نبوتیں جو مکانی اور زمانی قیود میں محدود ہیں اور وہ اس عالمگیر نبوت کے لئے بطور تیاری اور زینے کے کبھی جائیں گی اور در حقیقت نظام نبوت کے متعلق یہی اسلام کا وہ مرکزی نظریہ ہے جو اوپر والی حدیث میں اشارۃ بیان کیا گیا ہے.چونکہ اوائل میں نسل انسانی اپنے ذہنی ارتقاء اور تمدن اور وسائل کے لحاظ سے بالکل ابتدائی حالت میں تھی.اس لئے خدا نے ہر قسم اور ہر زمانہ میں علیحدہ علیحدہ رسالت کے ذریعہ ان کی ہدایت کا انتظام فرمایا.اسی لئے قرآن شریف فرما تا ہے کہ: إنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ - ۸۸ یعنی دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس کی طرف ہم نے اپنے اپنے وقت میں کوئی منذر نہ بھیجا ہو.“ ان قومی رسولوں کے بھیجنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ ایک تو ہر قوم کو اپنے زمانہ کے مناسب حال ہدایت نصیب ہو جائے اور دوسرے دنیا کو آہستہ آہستہ تیار کر کے اس عالمگیر اور دائمی شریعت کی طرف لایا جائے ، اور اس کے قابل بنایا جائے جو محمد رسول اللہ علیہ کے ذریعہ عالم وجود میں آنے والی تھی.پس آنحضرت ﷺ سے پہلے مبعوث ہونے والے نبیوں کی نبوتیں دراصل ایسے زمینوں کا رنگ رکھتی تھیں جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نبوت کے منصب کو ختم نبوت کے بلند مینا رتک پہنچانا چاہتا تھا ، تا کہ جس طرح خدا ایک ہے اسی طرح دنیا کے لئے اس کا ہدایت نامہ بھی ایک ہوا اور اس ہدایت کا لانے والا بھی ایک.اور یہی اس حدیث کا بنیادی مفہوم ہے کہ: كنت نبيا و آدم بين الماء والطين د یعنی میں اس وقت سے نبی ہوں کہ ابھی آدم بھی اپنی پیدائش کے مراحل میں مٹی اور پانی کے اندر محصور تھا.“ گویا آدم علیہ السلام آئے اور گو وہ اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک ابتدائی قسم کی ہدایت بھی لائے مگر دراصل وہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے لئے میدان صاف کرنے اور پہلا زینہ بننے کے لئے آئے تھے.پھر نوح علیہ السلام آئے اور گو وہ اپنی قوم کے لئے ہدایت بھی لائے مگر دراصل وہ

Page 715

مضامین بشیر آنحضرت ﷺ کی نبوت کے لئے دوسرا زینہ بن کر آئے تھے پھر ابراھیم علیہ السلام آئے اور تو وہ اسی زینہ کے لئے ہدایت بھی لائے مگر در حقیقت وہ اپنے درخشندہ منذر اور ہادی اعظم ﷺ کی نبوت کے لئے دنیا کو تیار کرنے اور دوسرا زینہ بننے کے لئے آئے تھے پھر موسیٰ علیہ السلام آئے اور اپنی قوم کے لئے پہلی قوموں کی نسبت ایک زیادہ مکمل شریعت لائے مگر دراصل وہ بھی اپنے پیچھے آنے والی عالمگیر نبوت کیلئے قوموں کو بیدار کرنے کے لئے آئے تھے اور ختم نبوت کے لئے گویا ایک چوتھا زینہ بن گئے.پھر عیسی علیہ السلام آئے اور گوانہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو اپنے ماحول کے مناسب حال ہدایت کا رستہ دکھایا، مگر در حقیقت ان کی نبوت بھی ہمارے آقاعے کی کا ملہ تامہ نبوت کی طرف راہنمائی کرنے اور گویا پانچواں زینہ بننے کے لئے تھی جیسا کہ خود انہوں نے تمثیلی رنگ میں کہا ہے کہ اب تو تمہارے پاس بیٹا آیا ہے ، مگر پھر خود باغ کا مالک یعنی باپ آئے گا جس میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا کہ میرے بعد آنے والی نبوت خدا کے کامل جلال و جمال کی مکمل تصویر ہوگی.یہی حال دوسرے نبیوں کا ہے کہ گویا ہر نبی آنحضرت علی کی نبوت کے لئے ایک زینہ بنتا چلا گیا ہے اور خدائے ذوالجلال کی ازلی تقدیر دنیا کو آہستہ آہستہ اس کامل و مکمل نبوت کی طرف اٹھاتی چلی گئی ہے جسے اس نے نظام نبوت کا معراج بننے کے لئے مقدر کر رکھا تھا.پس اس میں کیا شبہ ہے کہ ہمارا مقدس آقا ( فداہ نفسی ) اس وقت سے نبی ہے کہ جب بعد کے نبی تو الگ رہے ابو البشر آدم علیہ السلام بھی ابھی مٹی اور پانی میں تھے اور آنحضرت ﷺ کے بعد آنے والے امور تو بہر حال آپ کے ظل ہیں اور ظل اپنے اصل سے جدا نہیں ہوتا گویا پہلے اور پچھلے آپ کے اندر آ گئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ :.حسن یوسف دم عیسے ید بیضاء داری اں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری پس اس وقت صرف اسی مختصر نوٹ پر اکتفا کرتے ہوئے رخصت چاہتا ہوں.( مطبوعه الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 716

مضامین بشیر ۷۰۴ چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست گزشتہ سے پیوستہ گذشتہ اعلان کے بعد جن احباب کی طرف سے امداد درویشان قادیان کی مد میں رقوم پہنچی ہیں.ان کی فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے.اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین 1 برکت علی صاحب چک ۵۶۵ لائل پور مولوی عبدالمالک خان صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ شیخ محمد اکرام صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ شیخ قدرت اللہ صاحب برادر زاده شیخ محمد اکرام صاحب مذکور شیخ عظمت اللہ صاحب برادر زاده شیخ محمد اکرام صاحب مذکور چوہدری فیض احمد صاحب معرفت ماسٹر چراغ دین صاحب عارف والا کیپٹن مشتاق احمد صاحب معرفت دفتر خدام الاحمدیہ اہلیہ صاحبہ کیپٹن مشتاق احمد صاحب معرفت دفتر خدام الاحمدیہ کیپٹن فقیر محمد صاحب معرفت دفتر خدام الاحمدیہ شیخ فضل کریم صاحب گھٹیالیاں معرفت شیخ غلام رسول صاحب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب ریاست بہا ولپور معرفت غلام رسول صاحب ۱۲ کرامت اللہ صاحب انبالوی حال سلانوالی خالدہ بشری بیگم صاحبہ بنت چوہدری عبد الرحمن صاحب رانجھا کراچی مرزا بشیر احمد صاحب آف لنگر وال حال راولپنڈی پیر معین الدین صاحب پسر پیرا کبر علی صاحب مرحوم ماڈل ٹاؤن خورشید بیگم صاحبہ لیڈی ہیلتھ وزیٹر مغلپورہ 1 7 ۱۵۰ 1.۱۵۰

Page 717

۷۰۵ ۱۷ چوہدری غلام مرتضی صاحب چک ۱۴۵ جہانیاں اپنے پوتے کے عقیقہ کے لئے چوہدری غلام مرتضی صاحب مذکور امداد درویشان ۱۹ شیخ محمد بشیر صاحب آزاد انبالوی حال منڈی مرید کے ۲۰ میاں عبدالواسع صاحب حال لاہور ۲۵ مولوی ابوالفضل محمود صاحب حال لا ہو ر بطور صدقہ برائے غریب درویشان سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی ابوالفضل صاحب مذکور بطور صدقہ ۲۱ مخدوم عثمان علی صاحب سرگودہا چوہدری نذیر احمد صا حب ڈار سیالکوٹ سیٹھی کرم الہی صاحب آف قادیان حال سیالکوٹ ۲۶ سید سعید احمد صاحب پسر حضرت قاضی امیر حسین صاحب مرحوم کراچی والده عاشق محمد خان مجو کہ ضلع سرگودہا صدقہ برائے غریب درویشان (ان کے لڑکے ایک مقدمہ میں ماخوذ ہیں اور وہ خاص دعا کی مضامین بشیر 1......IM ۵۰ ✓......3 ۱۵ درخواست کرتی ہیں......) میزان ۲۲۹ یہ وہ بھائی اور بہنیں ہیں جن کی رقوم میرے دفتر میں پہنچی ہیں مگر ان کے علاوہ بعض ایسے بھائی اور بہنیں بھی ہیں جنہوں نے اپنی رقوم محاسب صاحب ربوہ یا امیر صاحب جماعت احمدیہ قادیان کے نام براہ راست بھجوائی ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.( مطبوعه الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 718

مضامین بشیر میاں شادی خاں صاحب مرحوم کے ورثاء توجہ فرمائیں.مجھے عزیز شیخ منیر احمد سلمہ متعلم تعلیم الاسلام کالج کی طرف سے ایک بڑ الفافہ پہنچا ہے جس کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند خطوط پائے گئے ہیں، جو حضور نے میاں شادی خاں صاحب مرحوم سیالکوٹی کے نام لکھے تھے.یہ لفافہ عزیز شیخ منیر احمد کو فسادات کے ایام میں محلہ دارالفضل قادیان سے ملا تھا ، لفافہ کے اندر ایک رومال بھی ہے مگر یہ رومال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معلوم نہیں ہوتا.البتہ خطوط یقینی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہیں.کیونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط کو پہنچا تا ہوں.سواگر میاں شادی خاں صاحب مرحوم کے ورثاء لا ہور میں ہوں تو میرے دفتر تشریف لا کر یہ خطوط وصول کر لیں.اور اگر وہ لاہور سے باہر ہوں تو مجھے اپنا پتہ لکھ کر بھجوادیں.تا کہ یہ خطوط رجسٹری کر کے انہیں بھجوائے جاسکیں.مطبوعه الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 719

قابل رشتہ اصحاب توجہ فرمائیں مضامین بشیر گورشتہ ناطہ کا صیغہ نظارت امور عامہ سے تعلق رکھتا ہے اور اسی نظارت کے پاس ضروری کوائف درج ہوتے ہیں.اور اس کی طرف دوستوں کو رجوع کرنا چاہئے لیکن بعض دوست ذاتی تعلقات کی بناء پر مجھے بھی خط لکھ دیتے ہیں.چنانچہ اس وقت بھی بعض ایسے دوستوں کی طرف سے جن کی لڑکیاں قابل شادی ہیں، میرے پاس خطوط آئے ہوئے ہیں.سواگر میرے واقف دوستوں میں سے کوئی احمدی نوجوان قابل شادی ہیں تو وہ مجھے اپنے کوائف لکھ کر بھجوا دیں میں انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ انہیں اس معاملہ میں اپنی سمجھ اور معلومات کے مطابق ضروری مشورہ دے سکوں.کوائف مندرجہ ذیل درج کرنے ضروری ہوں گے.ا.ذاتی طور پر کب سے احمدی ہیں اور خاندان میں احمدیت کب سے ہے.۲.موصی ہیں یا نہیں اور اپنا چندہ کس جماعت کے ذریعہ دیتے ہیں.۳.عمرا اور صحت کی حالت کیسی ہے.۴.روزگار کی صورت اور ماہوار یا سالانہ آمدن کیا ہے.نیز ۵.چونکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں قوم کے خیالات ابھی تک راسخ ہیں اس لئے احتیاط اپنی معروف قوم بھی لکھ دیں.یعنی ایسی قوم جو لوگوں میں معروف ہے.میری غرض یہ ہے کہ جن چند ا حمدی لڑکیوں کے رشتے میرے پاس مشورہ کے لئے آئے ہوئے ہیں.ان کے ساتھ اگر خدا کو منظور ہو تو مناسب جوڑ املایا جا سکے.والامر بید الله.یہ بات دوبارہ دہرانا چاہتا ہوں کہ صرف ایسے دوست مجھے لکھیں جنہیں میں ذاتی طو پر جانتا ہوں اور دوسروں کو نظارت امور عامہ میں لکھنا چاہئے کہ جماعتی لحاظ سے وہی اس کا صیغہ ہے.( مطبوعه الفضل ۲۸ /اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 720

مضامین بشیر ۷۰۸ ملک مولا بخش صاحب کی افسوسناک وفات مجھے ابھی ابھی قریشی مطیع اللہ صاحب نے سیالکوٹ سے اطلاع دی ہے کہ محترمی ملک مولا بخش صاحب سابق ناظم جائیداد صدرانجمن احمدیہ و سابق پریزیڈنٹ میونسپل کمیٹی قادیان ۲۷ اور ۲۸ اکتوبر کی درمیانی رات میں سیالکوٹ میں وفات پاگئے ہیں.انا لله وانا اليه راجعون.مرحوم صحابی تھے اور نہایت مخلص اور فدائی لوگوں میں سے تھے.اور اس کے ساتھ علم دوست بھی تھے.اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت کے خاص سایہ میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.آمین ( مطبوعه الفضل ۳۰ / اکتوبر ۱۹۴۹ء)

Page 721

2.9 مضامین بشیر اسلام میں استخارہ کا بابرکت نظام مسنون استخارہ کی ضروری شرائط چند دن ہوئے ایک عزیز نے مجھے خط لکھا تھا کہ اس وقت جماعت میں فلاں فلاں نیک تحریک ہوئی ہے کیا میں اس میں شامل ہو جاؤں؟ یا شاید یہ اطلاع دی تھی کہ میں اس میں شامل ہو رہا ہوں.میں نے اسے جواب دیا کہ تحریک تو یقینا نیک اور بابرکت ہے لیکن کسی تحریک کے بابرکت ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ لازماً ہر فرد کے لئے بھی بابرکت سمجھی جائے.کیونکہ ہر شخص کے حالات جدا ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ جو بات ایک شخص کے لئے بابرکت ہو.یا جو بات کثرت کے لئے بابرکت ہے وہ لازماً قلت کے لئے بھی بابرکت ہو اور پھر بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر آج حالات ایک رنگ میں ہیں تو کچھ عرصہ کے بعد دوسرا رنگ اختیار کر لیتے ہیں.اس لئے میں نے اس عزیز کو لکھا کہ اس تحریک کے بابرکت ہونے کے باوجود یہ ضروری ہے کہ آپ اس معاملہ میں مسنون طریق پر استخارہ کریں اور استخارہ کے بعد جس بات پر اللہ تعالیٰ شرح صدر عطا کرے اسے اختیار کریں کہ یہی اسلام میں سعادت اور سلامت روی کا رستہ ہے.اس عزیز کے اس استصواب اور اس پر اپنے جواب سے مجھے تحریک ہوئی کہ میں اس معاملہ میں الفضل کے ذریعہ بھی استخارہ کے مسئلہ کے متعلق ایک مختصر نوٹ شائع کرا دوں تا اگر خدا چاہے تو میرا یہ نوٹ دوسرے دوستوں کے لئے بھی مفید ثابت ہو اور وہ استخارہ کے بابرکت نظام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں.سو سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ استخارہ کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ یہ وہ با برکت نظام ہے جس کے متعلق آنحضرت ﷺ نے انتہائی تاکید فرمائی ہے.چنانچہ ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ:.كان رسول الله صلى الله عليه وسلم الاستخاره في الامدكلها كما يعلمها سورة في القرآن.() استخارہ والے مضمون میں ایک غلطی کی اصلاح باقی اگلے صفحہ پر

Page 722

مضامین بشیر یعنی آنحضرت ملے ہمیں اس طرح ہر امر میں استخارہ کی تاکید فرماتے اور اس کی تعلیم دیتے تھے جس طرح کہ آپ قرآنی صورتوں کے متعلق ہمیں تاکید کرتے اور تعلیم دیتے تھے.“ پھر یہی صحابی روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت علیہ اس بات پر بھی زور دیا کرتے تھے کہ انسان کو جو اہم کام بھی پیش آئے اور وہ اس کام کی خوبی محسوس کر کے اس کا ارادہ کرے تو اس کے متعلق اسے چاہئے کہ استخارہ کرنے کے بعد قدم اٹھائے تا کہ اس کے فیصلہ میں صرف اس کی اپنی ہی محدود عقل اور سوچ کا دخل نہ رہے بلکہ وہ خدائی علم کی روشنی سے فائدہ اٹھا کر اپنے لئے برکت اور رحمت کا راستہ تجویز کر سکے.ظاہر ہے کہ انسان کا علم نہایت محدود اور نہایت ناقص ہے وہ بسا اوقات اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ اسے ایک گھنٹہ بعد کیا بات پیش آنے والی ہے.بلکہ حق یہ ہے کہ وہ اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ اسے آج کے بعد کل کیا بات پیش آنے والی ہے بلکہ وہ اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ اسے ایک منٹ یا ایک سیکنڈ یا ایک سیکنڈ کے بھی قلیل ترین جزو کے بعد کیا بات پیش آنے والی ہے.اور پھر وہ یہ بات بھی نہیں جانتا کہ جو بات اس وقت موجود تو ہے مگر اس کی آنکھ سے اوجھل ہے وہ ظاہر ہونے پر اس کی زندگی پر کیا اثر ڈالے گی.پس جب انسان کا علم اتنا ناقص اور اتنا محدود ہے تو ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے غیر محدود علم سے برکت حاصل کرنے کا طریق اختیار کرے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں استخارہ ہے.کئی باتیں ہمیں بظاہر اچھی نظر آتی ہیں لیکن دراصل وہ نقصان دہ ہوتی ہیں کئی باتیں اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں.باقی صفحہ سابق :.استخارہ کے متعلق میرا جو مضمون الفضل مورخہ ۴ نومبر میں شائع ہوا ہے اس میں جو حوالہ استخارہ کی اہمیت کے متعلق درج کیا گیا ہے وہ افسوس ہے کہ کچھ کا تب کی غلطی کی وجہ سے اور کچھ میری غلطی کی وجہ سے غلط درج ہو گیا ہے اصل حوالہ یہ ہے جو ذیل میں درج کی جاتا ہے: عن جابر قال كان رسول الله له يعلمنا - ۸۹ صلى الله الاستخارة في الامور كما يعلمنا السُّورة من القرآن إِذَا هَمَّ أحدُكُم بالامر فليركح ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل _ یعنی ” جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ہمیں تمام اہم امور میں ایسی تاکید کے ساتھ استخارہ کی تعلیم دیتے تھے جس طرح کہ آپ قرآنی سورتوں کے متعلق تعلیم دیا کرتے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی اہم امر کا قصد کرے تو اسے چاہئے کہ دو رکعت نفل نماز پڑھے اور اس نماز میں ذیل کے طریق پر استخارہ کی دعا مانگے ( آگے استخارہ کی دعا درج ہے جو میرے مضمون میں مفصل بیان ہو چکی ہے ) اُمید ہے دوست میری اس تصیح کے مطابق مضمون میں صحت ( مطبوعه الفضل ۶ نومبر ۱۹۴۹ء) کرلیں گے.

Page 723

211 مضامین بشیر لیکن ہمارے مناسب حال نہیں ہوتیں.اور پھر کئی باتیں آج اچھی ہوتی ہیں لیکن کل کو ہمارے حالات کے بدل جانے کی وجہ سے یا خود اس بات کے حالات میں تبدیلی آجانے سے وہ ہمارے لئے اچھی نہیں رہتیں.اس لئے ضرور ہے کہ ہر اہم امر کا فیصلہ کرتے ہوئے خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی، ہم خدا سے دعا کریں کہ اے ہمارے آسمانی آقا جو ہر قسم کے ذاتی اور مکانی غیب کا علم رکھتا ہے تو اپنی طرف سے ہمیں روشنی اور ہدایت عطا کر اور ہمیں اس رستہ پر ڈال دے جو تیرے علم میں ہمارے لئے آج بھی بہتر ہے اور کل بھی بہتر رہنے والا ہے ، اور ہمیں اس راستہ سے بچا جو ہمارے لئے بہتر نہیں یا آج تو بہتر ہے مگر کل کو بہتر نہیں رہے گا.آنحضرت ﷺ نے استخارہ کے متعلق صرف یہ اصولی ہدایت ہی نہیں دی کہ ہرا ہم امر کے پیش آنے پر استخارہ کیا کرو بلکہ کمال شفقت سے آپ نے ہمیں استخارہ کے الفاظ بھی سکھائے ہیں جو ایک ایسی جامع اور بابرکت دعا کی صورت میں ہیں کہ کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی.چنانچہ حضرت جابر ر وایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جب تم کسی اہم امر کا فیصلہ کر وتو دور رکعت نفل نماز پڑھ کر یہ دعا کیا کرو کہ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلمِكَ وَاسْتَقدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسَالُكَ مِن فَضلِكَ العَظِيمِ ، فَإِنَّكَ تَقدِرُ وَلَا أَقدِرُ، وَتَعلَمُ ولا أعلَمُ وَأَنتَ عَلَّامُ الغَيُّوبِ.اَللَّهُمَّ إِن كُنتَ تَعلَمُ أَنَّ هذا الأمر خَيرٌ لِي فِي دِينِي وَ مَعَاشِي وَعَاقِبَةِ امرى.أَوْقَالَ: وَآجَلِهِ فَاقدره لِي وَيَسِرهُ لِى ثُمَّ بارك لى فيه وإِن كُنتَ تَعْلَمُ أَنَّ هذ الأمرَ شَرٌّ لِى فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمرِى وآجله.فَاصِرِ فَهُ عَنِّى وَاصِرِفْنِي عَنهُ واقدر لِى الخَيرَ حَيثُ كَانَ ثُمَّ أَرضِنِي بِهِ - یعنی اے میرے خدا میں تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں تیرے علم کے ذریعہ سے اور تجھ سے طاقت چاہتا ہوں تیری قدرت کے ذریعہ سے اور تیرے جاری فضل کے خزانہ سے کچھ حصہ مانگتا ہوں.کیونکہ تو کامل قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا اور تو کامل علم رکھتا ہے اور میں علم نہیں رکھتا اور یقینا تو ہی تمام مکانی اور زمانی غیوں کا جاننے والا ہے.پس اے میرے آقا اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر جو مجھے اس وقت در پیش ہے ، یہ میرے دین کے لحاظ سے اور دنیا کے لحاظ سے اور حاضر کے لحاظ سے اور مستقبل کے لحاظ سے میرے لئے بہتر ہے تو تو مجھے اس کی تو فیق عطا کر

Page 724

مضامین بشیر ۷۱۲ اور میرے لئے اسے آسان کر دے اور مجھے اس میں برکت عطا کر.لیکن اے میرے آقا ! اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے برا ہے اور میرے دین اور میری دنیا اور میرے حاضر اور میرے مستقبل کے لئے اس میں بہتری نہیں تو میری توجہ کو اس کام کی طرف سے پھیر دے اور اس کام کے حصول کو مجھ سے دور کر دے اور پھر اس کی جگہ جو کام بھی تیرے علم میں میرے لئے بہتر ہو مجھے اس کی توفیق دے اور میرے دل میں اس کے متعلق تسلی عطا کر.آمین.“ یہ دعا کتنی جامع اور کتنی با برکت اور توکل کے جذبات سے کتنی معمور اور طلب خیر کی روح سے کتنی بھر پور ہے مگر افسوس کہ دنیا کا بلکہ خود مسلمانوں کا ایک حصہ اس سے بالکل جاہل اور دوسرا حصہ جھوٹے فلسفیوں کی آڑ لے کر اس سے بالکل غافل ہو رہا ہے.حتی کہ بعض لوگوں نے تو یہاں تک مشہور کر رکھا ہے کہ: در کار خیر حاجت بیچ استخاره نیست یعنی ” نیک کام میں کسی استخارہ کی ضرورت نہیں.حالانکہ اگر کارِ خیر میں استخارہ نہیں تو کیا کار بد میں استخارہ ہے؟ کیا نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کا منشاء یہ ہے کہ جب تم چوری یا ڈا کہ یا زنا یا قتل کے مرتکب ہونے لگو تو اس وقت استخارہ کرو.عزیز و اور دوستو! استخارہ تو ہے ہی نیک کاموں کے لئے اور استخارہ کے حکم میں آنحضرت مے کا یہی منشاء ہے کہ جب تم کوئی ایسا کام کرنے لگو جو تمہارے لئے فرائض اور واجبات میں سے نہیں ہے لیکن تم اسے اپنے علم میں اچھا اور نیک کام خیال کرتے ہو تو اس وقت صرف اپنے علم اور اپنی رائے پر ہی بھروسہ نہ کیا کرو بلکہ استخارہ کے ذریعہ خدا سے بھی خیر مانگا کرو تا کہ اس کے علم کی وسعت تمہارے علم کے نقص کی تلافی کر دے اور تم غلطی سے ایسا قدم نہ اٹھا لو جو گو تمہارے خیال میں اچھا ہے لیکن خدا کے علم میں وہ تمہارے لئے مناسب نہیں یا آئندہ چل کر وہ تمہارے واسطے ٹھو کر اور شماتت کا موجب بننے والا ہے.دراصل انسانی کام تین قسم کے ہوتے ہیں : ( اول ).وہ کام جن کا اسلام نے حکم دیا ہے اور انہیں فرض قرار دیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ ہر مسلمان انہیں بجالائے مثلاً پانچ وقت کی نماز اور رمضان کے روزے اور سچی شہادت اور ایفائے عہد وغیرہ ایسے کام اسلامی اصطلاح میں اوامر کہلاتے ہیں.( دوم ) وہ کام جن سے اسلام نے منع کیا ہے اور ان کے ارتکاب کو گناہ قرار دیا ہے مثلاً چوری

Page 725

مضامین بشیر اور ڈا کہ اور زنا اور قتل وغیرہ ایسے کام نواہی کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں.( سوم ) وہ کام جن کا نہ تو اسلام نے حکم دیا ہے اور نہ ہی ان سے روکا ہے بلکہ ان کے اختیار کرنے یا ترک کرنے کو ہر انسان کے حالات اور اختیار پر چھوڑ دیا ہے مثلاً یہ کہ میں اس عورت سے شادی کروں یا کہ اس عورت سے؟ گزارہ کے لئے نوکری کروں یا کہ تجارت ؟ فلاں سفر پر جاؤں یا کہ اسے ترک کر دوں ؟ فلاں جائیداد خریدوں یا کہ اس کا خیال چھوڑ دوں وغیر وغیرہ.ایسے کام عموماً مباح یا مستحب وغیرہ کہلاتے ہیں.گو ان کی بھی آگے کئی قسمیں ہیں.اب ظاہر ہے کہ پہلی قسم کے کاموں کے متعلق استخارہ کا سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ کام خدا نے ہم پر واجب کر رکھے ہیں.اور جو شخص ان معاملات میں استخارہ کرتا ہے وہ دراصل زندیق ہے.جسے خدا کے حکموں پر ایمان نہیں کیونکہ وہ ایک یقینی چیز کو شک کے میدان میں داخل کر کے باطل کرنا چاہتا ہے ، اور درحقیقت جس شاعر نے یہ مصرعہ کہا ہے کہ : در کار خیر حاجت هیچ استخاره نیست اس نے غالبا کارخیر سے اسی قسم کے فرائض اور واجبات مراد لئے ہیں ، جن میں استخارہ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ استخارہ کا خیال تک کرنا گناہ ہے.اسی طرح دوسری قسم کے کاموں کے متعلق بھی استخارہ کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا.کیونکہ جن کاموں سے خدا نے اپنے صریح حکم کے ذریعہ روک دیا ہے.اس میں استخارہ کیا معنی رکھتا ہے؟ بلکہ حق یہ ہے کہ ایسے کاموں میں استخارہ کرنے والا خدا تعالیٰ سے استہزاء کرتا ہے.پس دراصل استخارہ کا حکم صرف تیسری قسم کے کاموں کے متعلق ہے یعنی جب ایک بات نہ تو فرائض اور واجبات میں سے ہے ہو اور نہ ہی وہ ممنوعات کی قسم میں داخل ہو.تو ایسی صورت میں انسان کو چاہئے کہ اسے اختیار کرنے سے پہلے مسنون استخارہ کر لے اور میرے خیال میں تمام ایسی نیک تحریکات بھی جو واجبات میں سے نہیں ہیں اور شریعت یا امام نے انہیں ہر فرد پر واجب قرار نہیں دیا ، وہ استخارہ کے دائرہ میں آتی ہیں اور استخارہ کے بغیر ان میں قدم نہیں اٹھانا چاہیئے ، کیونکہ جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں ، ہو سکتا ہے کہ ایک تحریک اپنی ذات میں نیک اور بابرکت ہو مگر زید و بکر کے حالات کے لحاظ سے وہ مناسب نہ ہو.یا آج کے حالات کے لحاظ سے تو وہ مناسب ہو لیکن جو حالات کل پیش آنے والے ہیں (اور ان کا علم صرف خدا کو ہے ان کے لحاظ سے مناسب نہ ہو تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی صورت میں استخارہ ضروری ہے اور استخارہ کے بغیر قدم اٹھانے والا شخص بسا اوقات اپنے لئے ٹھوکر کا سامان پیدا کر لیتا ہے.حالانکہ تحریک اپنی ذات میں بالکل نیک اور مفید

Page 726

مضامین بشیر ہوتی ہے.۷۱۴ مثال کے طور پر وقف زندگی کے نظام کو لیتا ہوں ، ہر ذی علم مسلمان جانتا ہے کہ قرآن شریف نے اس بات کی تحریک فرمائی ہے کہ مسلمانوں کا ایک حصہ دینی کاموں یعنی تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے لئے وقف رہنا چاہے.چنانچہ فرماتا ہے: وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 19° د یعنی اے مسلما نو تم میں ایک جماعت ایسی رہنی چاہیے جو اس کام کے لئے وقف رہے کہ وہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے.اور نیکیوں کی تحریک کرے اور برائیوں سے روکے اور یہ لوگ (خدا تعالیٰ کے فضل سے ) ضرور با مراد ہو نگے.یہ وہ مبارک آیت ہے جو اسلام میں وقف زندگی کے نظام کی اصل بنیاد ہے ،مگر ظاہر ہے کہ اسلام نے اس تحریک کو ہر مسلمان پر فرض عین کے طور پر واجب نہیں کیا ، بلکہ یہ الفاظ فرما کر کہ تم میں سے ایک پارٹی اس کام کے لئے وقف رہنی چاہئے اسے گویا فرض کفایہ کا رنگ دے دیا ہے.تو جب یہ تحریک اپنی گونا گوں برکتوں کے باوجود ہر فرد کے لئے واجب قرار نہیں دی گئی.تو ظاہر ہے کہ اسے اختیار کرنے سے پہلے بھی مسنون استخارہ ہونا ضروری ہے ورنہ ممکن ہے کہ کسی شخص کے موجودہ یا آئندہ ظاہر ہونے والے غیر مناسب حالات کی وجہ سے یہی نیک تحریک اس کے لئے بعد میں ٹھوکر کا موجب بن جائے جیسا کہ بدقسمتی سے بعض واقفین نو جنہوں نے محض وقتی جوش کے ماتحت ایک قدم اٹھا لیا تھا.اسے اپنے لئے ٹھوکر کا موجب بنا رکھا ہے.حالانکہ یہ تحریک اپنی ذات میں بہت نیک اور مبارک ہے.بہر حال اسلام کا منشاء یہ ہے کہ اوامر اور نواہی کو چھوڑ کر ہر اہم امر میں خواہ وہ بظاہر کتنا ہی مفید اور بابرکت نظر آئے استخارہ کرنا چاہئے اور خدا سے خیر طلب کرنے اور برکت چاہنے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیئے اور جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں آنحضرت عمل ہے اس معاملہ میں اتنی تاکید فرماتے تھے کہ راوی بیان کرتا ہے کہ گویا آپ اسے قرآنی سورتوں کی تلقین کا رنگ دے دیتے تھے.اب رہا یہ سوال کہ استخارہ کا فائدہ کیا ہے؟ سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ استخارہ کا مسئلہ دراصل دعا کے مسئلہ کی فرع ہے اور جو فوائد دعا میں ہیں.وہی استخارہ میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں.اور مختصر طور پر استخارہ کے فوائد یہ ہیں.ا.استخارہ انسان کو جلد بازی سے روکتا ہے یعنی استخارہ کرنے والا انسان وقتی جوش میں

Page 727

۷۱۵ مضامین بشیر بلا سوچے سمجھے کوئی قدم نہیں اٹھا تا بلکہ استخارہ کی وجہ سے جو وقفہ پیدا ہوتا ہے اس میں اسے ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور سارے حالات کو سوچنے سمجھے کا موقع مل جاتا ہے.۲.استخارہ میں یہ سبق بھی مخفی ہے کہ مسلمانوں کو ہر امر میں خدا تعالیٰ کی طرف نگاہ رکھنی چاہئے اور اپنی زندگی کے ہر مرحلہ پر اسی کی مقدس یاد کو اپنا سہارا بنانا چاہئے.۳.استخارہ میں چونکہ خدا سے ایک دعا کی جاتی ہے اس لئے یہ دعا انسان کے دل میں تسکین کی صورت پیدا کرتی ہے اور وہ اس بات سے تسلی حاصل کرتا ہے کہ میں نے اپنے علیم وقد مر آقا کے سامنے اپنی حاجت پیش کر دی ہے اور خواہ اس دعا کا بظاہر کوئی جواب ملے یا نہ ملے یہ دعا اپنی ذات میں تسکین کا باعث بن جاتی ہے.۴.بسا اوقات اگر خدا چاہے تو استخارہ کے جواب میں انسان کو خواب یا کشف یا الہام کے ذریعہ خدا کا منشاء بھی معلوم ہو جاتا ہے جو بہر حال ایک کامل ہدایت کا رنگ رکھتا ہے ، جس کے بعد انسان خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے بے دھڑک قدم اٹھا سکتا ہے.۵.اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی امر ظاہر نہ بھی ہو ( کیونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ ضرور اپنا منشاء لفظاً ظاہر فرمائے ) تو اس صورت میں بالعموم خدا تعالیٰ ایسا انتظام فرماتا ہے اور یہی در اصل استخارہ کی دعا کا اصل مقصد ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کی مخفی تاریں انسان کے دل و دماغ پر تصرف کر کے اسے ایسے راستہ پر ڈال دیتی ہیں جو اس کے لئے خیر و برکت کا موجب ہوتا ہے.یعنی اگر پیش آمدہ امر انسان کے لئے مفید ہو تو ایسے استخارہ کے بعد اس کے متعلق شرح صدر حاصل ہو جاتا ہے اور اگر وہ اس کے لئے مفید نہ ہو تو اس کے رستہ میں روک پیدا ہو جاتی ہے اور اس ہدایت سے صرف وہی شخص محروم رہتا ہے.جس نے یا تو استخارہ محض رسمی طور پر کیا ہو.اور اس کے استخارہ میں کوئی جان نہ ہو.اور یا اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے خدا تعالی نے اسے آزاد اور بے سہارا چھوڑ دینے کا فیصلہ کر رکھا ہو.اب غور کرو کہ یہ کتنے عظیم الشان فوائد ہیں کہ جو استخارہ کے بابرکت نظام میں ہمارے لئے مقدر کئے گئے ہیں مگر افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ کے مادی ماحول نے اکثر لوگوں کی آنکھوں کو اس روشنی سے محروم کر رکھا ہے.بدقسمت انسان اپنے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اپنے دوستوں اور عزیزوں اور ہمدردوں کے مشورہ کے لئے بھاگتا ہے اور ان کے ناقص مشورہ میں جو بسا اوقات اس کے لئے مضر ہوتا ہے تسلی پانے کی کوشش کرتا ہے مگر اس علیم وقدیر ہستی کے مشورہ کی طرف قدم نہیں اٹھاتا ، جو تمام ہمدردوں سے بڑھ کر ہمدرد اور تمام محبت کرنے والوں سے بڑھ کر محبت کرنے والی اور تمام علم

Page 728

مضامین بشیر رکھنے والوں سے بڑھ کر علیم اور تمام طاقت رکھنے ولوں سے بڑھ کر قدیر ہے.قتل الانســـــان ما اكفره.بالآخر میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ گو حدیث میں استخارہ کی دو نفل نماز کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں کیا گیا ، مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے لئے رات کو سونے سے پہلے کا وقت زیادہ مناسب خیال فرماتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ بہتر صورت یہ ہے کہ جب کسی شخص نے استخارہ کرنا ہو تو رات کو سونے سے قبل وضو کر کے دو رکعت نماز نفل ادا کرے اور اس نماز میں نہایت توجہ اور عاجزی اور تضرع کے ساتھ استخارہ کی دعا کر کے سو جائے اور اس نماز کے بعد حتی الوسع کسی سے بات نہ کرے ، اور اگر ممکن ہو تو سونے سے پہلے لیٹے لیٹے بھی یہ دعا کرتا رہے نیز فرماتے تھے کہ اگر کسی کو مسنون دعا نہ یاد ہو.تو وہ اس مفہوم کے مطابق اپنی زبان میں ہی دعا مانگ لے اور اس کے بعد یہ الفاظ کہے کہ : ياخبير اخبرنی د یعنی اے میرے خبیر و علیم آقا تو اس معاملے میں میری راہنمائی کر اور مجھ پر اپنی منشاء ظاہ فرما دے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص سچی تڑپ اور دلی خلوص کے ساتھ اس طریق کو اختیار کرے گا.اس پر یا تو خدا تعالیٰ خواب وغیرہ کے ذریعہ اپنا منشاء ظاہر فرما دے گا اور یا عملاً اس کی ایسی دستگیری فرمائے گا کہ وہ اس معاملے میں ٹھوکر کھانے سے محفوظ ہو جائے گا.اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ استخارہ کتنے دن ہونا چاہئے ؟ سو زیادہ بہتر اور مبارک طریق تو یہ ہے کہ اہم امور میں سات دن تک مسلسل استخارہ کیا جائے لیکن اگر اس کا موقع نہ ہو.تو کم از کم تین دن تو ضرور استخارہ ہونا چاہئے لیکن اشد مجبوری کی صورت میں ایک دن بھی ہو سکتا ہے اور اگر کسی ناگزیر وجہ سے درمیانی وقفہ ایک رات کا بھی میسر نہ ہو تو پھر لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وَسْعَهَا اصول کے ماتحت استخارہ والی دعا دن رات کے کسی حصہ میں فوری طور پر بھی پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ اگر ہمارا خدا انسان کی بہتری کے لئے اسی پر ایک ذمہ داری ڈالتا ہے تو دوسری طرف وہ اس کی مجبوریوں کو بھی جانتا ہے اور یہ بات ہمارے رحیم و کریم آقا سے بعید ہے کہ وہ ایک حقیقہ مجبور انسان کو محض کسی رسمی بات کی بنا پر اپنی رحمت سے محروم کر دے واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ( مطبوعه الفضل ۴ رنومبر ۱۹۴۹ء)

Page 729

212 مضامین بشیر جلسہ سالانہ پر قادیان جانے والی پارٹی خواہش مند دوست اپنے نام پیش کریں ا تجویز کی گئی ہے کہ قادیان کے اس جلسہ پر جو دسمبر کے آخری ہفتہ میں منعقد ہوگا ، چالیس دوستوں کی ایک منظم پارٹی عارضی پر مٹ پر قادیان بھجوائی جائے.جو تین چار دن قادیان ٹھہر کر واپس آجائے گی یہ پارٹی حکومت مغربی پنجاب کی اجازت اور وساطت سے قادیان بھجوائی جائے گی اور اسی طرح حکومت ہند کی اجازت بھی ضروری ہوگی اور گو ابھی تک نہیں کہا جا سکتا کہ اس پارٹی کو قادیان جانے کی اجازت ملے گی یا نہیں، لیکن احتیاطاً ضروری ہے کہ ہم اس کے متعلق اپنی طرف سے تیاری مکمل کر لیں.سو جو دوست اس پارٹی میں شامل ہونا چاہیں وہ مجھے اپنے نام اور ضروری کوائف لکھ کر بھجوا دیں لیکن ایسے دوستوں کو مندرجہ ذیل امور مدنظر رکھنے چاہئیں.ا.یہ پارٹی غالباً چالیس افراد پر مشتمل ہوگی جن میں سے بعض بیرون ممالک سے آئے ہوئے مبلغ ہوں گے اور بعض دوسرے مبلغ ہوں گے اور بعض ایسے دوست ہوں گے جو عرصہ دراز سے قادیان نہیں جاسکے اور بعض دوسرے دوست ہوں گے جن کے قریبی عزیز اس وقت قادیان میں مقیم ہیں.وغیرہ ذالک.پس لازماً ہمارا انتخاب بہت محدود ہوگا.اس لئے جو دوست درخواست دیں انہیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کی درخواست بہر حال منظور ہو جائے گی.۲.جو دوست اس پارٹی میں شامل ہوں گے انہیں جلسہ ربوہ کی شرکت سے محروم رہنا پڑے گا.کیونکہ اس سال قادیان کا جلسہ سالانہ اور ربوہ کا جلسہ سالانہ ایک ہی تاریخوں میں منعقد ہو رہے ہیں.۳.اگر یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس پارٹی کے اخراجات شامل ہونے والے دوستوں پر ڈالے جائیں تو ہر دوست کو ایسے اخرجات کا بوجھ خود برداشت کرنا ہوگا.سوائے ایسے غریب دوستوں کے جن کے لئے یہ خرچ تکلیف ما لا يطاق کا رنگ رکھتا ہو.پس اوپر کی تین شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے جو دوست اس پارٹی میں شامل ہونا چاہیں وہ مجھے بہت جلد اپنی درخواست بھجوا دیں.درخواست میں :.ا.اپنے نام

Page 730

مضامین بشیر ZIA ۲.اپنی ولدیت ۳.اپنی سکونت اور موجودہ پتہ اور ۴.استحقاق کا اندراج ہونا چاہئے.استحقاق سے مراد یہ ہے کہ انہیں اس بات کی صراحت کرنی چاہئے کہ وہ کس وجہ سے اس پارٹی میں شمولیت کا حق رکھتے ہیں.آیا ان کا کوئی قریبی رشتہ دار قادیان میں ہے.یا وہ عرصہ دراز کے بعد کسی بیرونی ملک سے واپس آئے ہیں.یا اسی قسم کا کوئی اور حق جو قابل قبول اور قابل ترجیح سمجھا جائے.یہ بات پھر بیان کر دینی ضروری ہے کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے اس پارٹی کی اجازت نہیں ملی اور اس پارٹی کا جانا لازماً اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اجازت مل جائے نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر درخواست کنندہ کو اجازت دے دی جائے.بلکہ زیادہ درخواستوں کی صورت میں لازماً محدود انتخاب کرنا ہوگا.) مطبوعه الفضل ۵/نومبر ۱۹۴۹ء)

Page 731

واء مضامین بشیر چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست گذشتہ سے پیوستہ گذشتہ اعلان کے بعد جن بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے امداد درویشان کی مد میں رقوم وصول ہوئی ہیں ، ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.یہ صرف وہ رقوم ہیں جو میرے دفتر میں براہ راست وصول ہوئی ہیں.ان کے علاوہ جو رقوم دفتر محاسب ربوہ میں بھجوائی جاتی ہیں یا براہ راست امیر جماعت احمدیہ قادیان کے نام بھجوائی جاتی ہیں ( گوفی الحال منی آرڈروں کا سلسلہ رک جانے کی وجہ سے یہ رستہ بند ہے ) وہ ان رقوم میں شامل نہیں.بہر حال اللہ تعالیٰ ان سب بہنوں اور بھائیوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس نیک تحریک میں حصہ لیا ہے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.فہرست درج ذیل ہے.ا قاضی محمد صادق صاحب قریشی بیرون دہلی دروازہ لاہور میاں مسعود اقبال صاحب ابن میاں غلام محمد صاحب ثالث لا ہور اہلیہ صاحبہ سید عبد الرشید صاحب کالری شارک بلوچستان حکیم محمد یعقوب شاہ صاحب گگو ضلع منٹگمری حکیم ملک میر احمد صاحب باڈہ ضلع لاڑکانہ سندھ ماسٹر محمد شفیع صاحب نوشہرہ چوہدری بشیر احمد صاحب نوشہرہ ✓....A......1......۱۵ 1 مرزا محمد یعقوب صاحب نوشہرہ 1.( نوٹ : اوپر کی تین رقوم مرزا اللہ دتہ صاحب سیکرٹری مال کے ذریعے وصول ہوئی ہیں.) اہلیہ صاحبہ سید عبدالحی صاحب منصوری حال ماڈل ٹاؤن لاہور والدہ صاحبہ ناظر حسین صاحب بذریعہ ام مظفر احمد صاحبه ا محمد ابراهیم صاحب کنسٹیبل پولیس منٹگمری ۱۲ اہلیہ صاحبہ حکیم عبد العزیز صاحب فیروز پوری حال لاہور ۱۳ سید محمد مسعود صاحب اسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس نواں کوٹ لاہور 1.۵

Page 732

۵..............M............۲۵ 19^.......۷۲۰ مضامین بشیر ۱۴ مستری محمد ابراهیم صاحب حاجی پورہ سیالکوٹ ( نوٹ : یہ رقم مستری صاحب کو راستہ چلتے ہوئے ملی تھی ، جو انہوں نے اس مد میں ارسال کر دی لیکن اگر کوئی صاحب اس بات کا ۱۵ ثبوت دے سکیں کہ یہ رقم ان کی ہے تو انہیں واپس کر دی جائے گی.) حکیم عبدالرحیم صاحب فلیمنگ روڈ لاہور میاں خدا بخش صاحب بھیروی میکلوڈ روڈ لاہور اہلیہ صاحبہ با بوا کبر علی صاحب مرحوم حال گوجرانوالہ ۱۸ شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال ٹو بہ ٹیک سنگھ شیخ قدرت اللہ صاحب برادر زاده شیخ محمد اکرام صاحب مذکور ۲۰ ۲۳ شیخ عظمت اللہ صاحب.مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد سرور شاہ صاحب ایم.اے دار السلام مشرقی افریقہ (بذریعہ ڈرافٹ ) ۲۲ حکیم نظام الدین صاحب آف قادیان حال بیگم کوٹ لاہور فیض محمد صاحب چک E /۲۲ ڈاکخانہ کمبر ضلع منٹگمری ( نوٹ : ان صاحب کا بچہ ایک بہت سنگین مقدمے میں ماخوذ ہے.دعا کی درخواست کرتے ہیں.) امام علی صاحب سیکرٹری مال بھیرہ ضلع شاہ پور عبدالقیوم صاحب برا در میاں عبدالحی صاحب واقف زندگی را ولپنڈی ۲۴ ۲۶ چوہدری محمد مختار صاحب ٹھیکیدار قلعہ صوبہ سنگھ ۲۷ میاں محمد امین صاحب قلعہ صوبہ سنگھ ( نوٹ : اوپر کی ہر دور قوم بذریعہ ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب موصول ہوئی ہیں.۲۸ مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ لاہور (نوٹ : یہ رقم ماہ جولائی میں آئی تھی اور دفتر کے ریکارڈ میں درج ہے مگر شامل اعلان ہونے سے رہ گئی ) ۲۹ میاں عبداللہ صاحب پھل فروش آف قادیان و اہلیہ ( ناصرہ بیگم صاحبہ ) حال لاہور میزان مطبوعه الفضل مورخہ ۱۱/ نومبر ۱۹۴۹ء)

Page 733

۷۲۱ مضامین بشیر قادیان روپیہ بھیجنے والے دوست توجہ فرمائیں جیسا کہ احباب کو معلوم ہے تا حال ہندوستان اور پاکستان کے درمیان شرح تبادلہ کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے روپیہ آنے جانے میں عارضی روک پیدا ہو چکی ہے.اور اس کا اثر لازماً ہمارے قادیان کے درویشوں اور ان کے رشتہ داروں پر پڑ رہا ہے.اور فریقین روپیہ نہ پہنچنے کی وجہ سے تکلیف میں ہیں.اس کے متعلق فی الحال یہ انتظام کیا گیا ہے کہ اگر کسی صاحب نے پاکستان سے قادیان روپیہ بھجوانا ہو تو یہ روپیہ وہ میرے دفتر میں ضروری تفصیل کے ساتھ جمع کرا دیں اس کے مقابل پر وہ روپیہ جو قادیان کے بعض درویشوں نے امیر صاحب قادیان کے پاس اس غرض کے ما تحت جمع کرایا ہوا ہے کہ ان کے عزیزوں کو پاکستان بھجوا دیا جائے کاٹ لیا جائے گا.اور انشاء اللہ اس طرح آپس میں رقوم کا حسابی تبادلہ ہونے سے فریقین کے لئے سہولت بھی ہو جائے گی.( مطبوعه الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۴۹ء)

Page 734

مضامین بشیر ۷۲۲ ایک دوست کے استفسار کا جواب استخارہ والے مضمون کا تمہ چند دن ہوئے میرا ایک مضمون اسلام میں استخارہ کے بابرکت نظام کے متعلق الفضل میں شائع ہوا تھا اس کے متعلق مجھے ایک معزز غیر احمدی دوست کی طرف سے یہ سوال موصول ہوا ہے کہ استخارہ کی دعا کس وقت پڑھنی چاہئے ؟ آیا نفل ادا کرنے کے بعد یا کہ نماز کے اندر اور اگر نماز کے اندر پڑھنی چاہئے تو آیا الحمد للہ اور سورہ اخلاص کے بعد پڑھنی چاہئیے یا کہ تشہد اور درود شریف کے بعد.اس سوال کے جواب میں مختصر طور پر جاننا چاہئے کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے حدیث میں اس کے متعلق کوئی صراحت نہیں پائی جاتی کہ استخارہ کی دعا نماز کے اندر پڑھی جائے یا کہ اس کے بعد لیکن چونکہ اسلام میں اصولی طور پر دعا کا اصل موقع نماز کے اندر مقرر کیا گیا ہے ، حتی کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ : الدعاء من العبادة در یعنی دعا عبادت کی جان ہے ، جس کے بغیر عبادت یعنی نما ز ایک ایسی ہڈی 66 کا رنگ رکھتی ہے جس کے اندر کوئی گودہ نہ ہو.اس سے ظاہر ہے کہ دعا کا اصل موقع نماز ہے جب کہ انسان گویا خدا کے دربار میں حاضر ہوکر اپنے معروضات پیش کرتا اور خدا کے فضل و رحمت کا طالب بنتا ہے.اسی لئے اسلام نے نماز کے آغاز و انجام کو دو نہایت اہم اصولی دعاؤں کے ساتھ گھیر رکھا ہے.یعنی شروع میں سورہ فاتحہ کی دعا رکھ دی گئی ہے جو ساری دعاؤں کی سرتاج ہے اور آخر میں درود کی دعا ر کھی گئی ہے کہ وہ بھی سورۃ فاتحہ کے بعد مبارک ترین دعاؤں میں سے ہے اور نماز کے درمیانی حصوں میں بھی تسبیح و تحمید کے درودوں کے ساتھ ملا کر مختلف دعائیں مقرر کر دی گئی ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ استخارہ کی دعا کا اصل موقع نماز کے اندر ہے نہ کہ نماز کے بعد وهو المراد اب رہا یہ سوال کہ استخارہ کی دعا نماز میں کس موقع پر پڑھی جائے ؟ سو اس کے متعلق حدیث میں یہی اشارہ پایا جاتا ہے کہ یہ دعا نماز کے اختتام پر یعنی تشہد اور درود کے بعد آخری قعدہ میں پڑھنی

Page 735

۷۲۳ مضامین بشیر چاہئے کیونکہ استخارہ والی حدیث میں آنحضرت علیہ فرماتے ہیں کہ نماز کے مقررہ ارکان سے فارغ ہونے کے بعد استخارہ کی دعا پڑھنی چاہئے.چنانچہ صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں : فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل - ۱۹۳ یعنی استخارہ کرنے ولے کو چاہئے کہ دورکعت نفل نماز کے ارکان مکمل کر کے پھر سلام پھیر نے سے قبل استخارہ کی دعا پڑھے اور عقلاً بھی استخارہ کی دعا کا یہی موقع مناسب ہے کہ دو رکعت نماز نفل کے اختتام پر سلام پھیرنے سے قبل پڑھی جائے کیونکہ یہ وہ دعا ہے جس کے بعد دعا مانگنے والے کے دل و دماغ پر تا وقتیکہ وہ کسی دوسرے کام میں مصروف ہو جائے ، اس دعا کا غلبہ رہنا چاہئے تا کہ وہ خدا کے فضل و رحمت کا زیادہ سے زیادہ جاذب بن سکے اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے نماز کا آخری حصہ ہی مناسب ہے.اقی یہ بات میں اپنے گذشتہ مضمون میں واضح کر چکا ہوں کہ فوری ضرورت کے وقت نماز استخارہ ہر وقت ادا کی جاسکتی ہے.اور ضروری نہیں کہ اس کے لئے لازماً سونے سے پہلے کا وقت انتخاب کیا جائے البتہ اگر معاملہ فوری نہ ہو اور فرصت کے ساتھ دعا مانگی جا سکے تو سونے سے پہلے کا وقت سب سے زیادہ مناسب ہے ظاہر ہے کہ انسان کو کئی قسم کے کام پیش آسکتے ہیں.بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے اختیار کرنے سے قبل کافی عرصہ سوچنے اور غور کرنے کامل جاتا ہے.ایسی صورتوں میں جیسا کہ ایک حدیث میں اشارہ پایا جاتا ہے بہتر یہی ہے کہ سات راتوں تک مسلسل بستر پر جانے سے پہلے استخارہ کی نماز پڑھی جائے پھر بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ اس میں زیادہ فرصت کا موقع تو نہیں ہوتا لیکن دو چار دن کی مہلت ضرور ہوتی ہے.ایسے موقعوں پر بہتر ہے کہ تین دن یا کم از کم ایک دن ( جیسی بھی صورت ہو ) سونے سے قبل استخارہ کیا جائے مگر بعض کام ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ ان میں فیصلہ کرنے کے لئے ایک رات کا وقفہ بھی نہیں ملتا ایسی صورتوں میں دن کے کسی حصہ میں دو نفل نماز پڑھ کر استخارہ کی دعا کی جاسکتی ہے اور ہمارے آقا آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ استخارہ کے بعد خواہ کوئی خواب وغیرہ نہ بھی آئے تب بھی مومن کو چاہئے کہ جس طرف بھی خدا اس کا دل مائل کر دے اس طرف خدا پر توکل کرتے ہوئے قدم اٹھا لے مگر استخارہ دل کی سختی کو صاف کر کے پاک نیت کے ساتھ ہونا چاہئے تا کہ کوئی نفسانی خیال روک نہ بن جائے.بالآخر میں یہ بھی ذکر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میرے استخارہ والے مضمون کے متعلق میرے پاس ایک احمدی دوست کا بھی خط آیا ہے، اور انہوں نے اس معاملہ میں اپنا ایک دلچسپ ذاتی تجربہ بھی لکھا ہے چنانچہ یہ دوست لکھتے ہیں کہ :

Page 736

مضامین بشیر ۷۲۴ مجھے استخارہ کے مسئلہ کے متعلق قریبا چالیس برس سے اطلاع ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نسخہ کے استعمال سے بہت فائدہ اٹھایا ہے مگر میں اپنے استخاروں میں کسی خاص وقت کو ملحوظ نہیں رکھتا تھا.بلکہ جس وقت بھی موقع ملے نفل پڑھ کر استخارہ کی دعا پڑھ لیتا تھا.اب جو جناب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پسندیدہ وقت بعد از نماز عشاء تحریر فرمایا ہے تو میں نے گذشتہ شب ان شرائط کے ماتحت استخارہ کیا اور باوجود اس کے کہ مجھے عام طور پر خواب نہیں آیا کرتے ، گذشتہ رات مجھے خواب آئی بلکہ وہ خوابیں آئیں جنہیں میں اپنے اس استخارہ کا نتیجہ سمجھتا ہوں (اس کے آگے اس دوست نے اپنی دو مبشر خوا میں لکھی ہیں.) بہر حال اسلام میں استخارہ کا نظام بہت ہی مفید اور بابرکت نظام ہے ، اور ہمارے دوستوں کو اس نظام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے.یہ ایک ایسا آسان اور سہل نسخہ ہے جس پر بقول شخصے نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی لیکن اس کے فوائد اتنے عظیم الشان ہیں کہ انسان انہیں تصویر میں نہیں لا سکتا اور اگر کوئی اور فائدہ نہ بھی ہو تو کیا یہ فائدہ کم ہے کہ اس ذریعہ سے انسان خدا کے ساتھ اپنا ذاتی تعلق بدر جہا بڑھا سکتا ہے اور خدا پر اپنے عمل سے یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ اے میرے آقا تیرے دامن کے ساتھ مرے دل کی تاریں اس طرح لپٹی ہوئی ہیں کہ میں دین ودنیا کے ہر کام میں روشنی اور ہدایت حاصل کرنے کے لئے تیرے دروازہ کی طرف بھاگتا ہوں.( مطبوعه الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۴۹ء)

Page 737

۷۲۵ مضامین بشیر چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست گذشتہ سے پیوستہ قادیان کے درویشوں اور ان کے مستحق رشتہ داروں کی امداد کے لئے چندہ دینے والوں کی تازہ فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے ، اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.آمین یا ارحم الراحمین.مسماة بخت بھری صاحبہ بھا کا بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 17 ۱۷ مسماة مهر بی بی صاحبہ بھا کا بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ میاں محمد حسین صاحب پھلو کی ضلع گوجرانوالہ شیخ محمد بشیر صاحب آزاد انبالوی مرید کے ضلع شیخوپورہ مسماة راج بی بی صاحبہ بھا کا بھٹیاں ضلع گوجوانوالہ قریشی محمد اکرم صاحب حسن پور تحصیل کبیر والہ خدا داد صاحب سیکرٹری مال حسن پور ضلع کبیر والہ ابوالفضل محمود صاحب ۳ کینال پارک لاہور خواجہ ظہور الدین صاحب وکٹوریہ روڈ لاہور شیخ عبادالرحمن صاحب بیڈن روڈ لاہور میمونہ بیگم صاحبہ اہلیہ رشید احمد صاحب آف چنیوٹ حال لاہور مائی چیمی صاحبہ ڈسکہ بقیہ رقم قربانی شیخ عبدالوہاب صاحب کراچی اہلیہ صاحبہ شیخ عبد الرحمن صاحب آف کپورتھلہ حال تاندلیانوالہ امته الرحمن بیگم صاحبہ بنت حکیم عبد الرحمن صاحب چک جھمرہ عطیہ بیگم صاحبہ بنت حکیم عبد الرحمن صاحب مذکور مسعودہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب چک جھمرہ 1.٢٠٠ M..

Page 738

1.3 ۶۰.مضامین بشیر ۱۸ ۱۹ ۲۱ ۲۲ بیگم ڈاکٹر محمد حفیظ صاحب قریشی راولپنڈی ملک منیر احمد صاحب نثار پیر و شاری حیدر آبا دسندھ ڈاکٹر غلام حیدر صا حب نکلسن روڈ لاہور اہلیہ صاحبہ چوہدری احمد جان صاحب راولپنڈی رضیہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری احمد جان صاحب را ولپنڈی ۲۳ سیدہ صفیہ خاتون صاحبہ اہلیہ سید محمود احمد صاحب بگٹ گنج مردان ۲۴ اہلیہ صاحبہ چوہدری حسین علی صاحب بذریعہ حاجی محمد فاضل صاحب ۲۵ ۲۶ ۲۸ فیروز والا ضلع گوجرانوالہ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالقدیر صاحب واقف زندگی نواب شاہ سندھ محمد عبدالقدیر صاحب واقف زندگی ربوہ ، ۲۷ عبد السميع وعبد الحليم وعبدالرفیق پسران محمد عبد القدیر صاحب مذکور ڈاکٹر فتح دین صاحب پشا ور برائے دو عد د بکرا صدقہ ۲۹ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد حسین صاحب ہیڈ کلرک ملتان ۳۱ (بذریعہ لجنه ) عبدالرحیم صاحب ریلوے برج ورکشاپ جہلم عبدالسمیع صاحب صدیقی چٹاگانگ (بنگال) ۳۲ امته اللطیف صاحبہ بنت سید عبداللطیف صاحب انسپکٹر بیت المال محمد صدیق صاحب غلہ منڈی لگھر برائے لنگر قادیان والدہ صاحبہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیل پور ضلع گجرات ۳۵ چوہدری عبداللہ خان صاحب قلعہ صو با سنگھ سیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ ابوالفضل محمودصاحب لاہور ۳۸ ۳۷ احمد دین صاحب سیکرٹری مال خانیوال خورشید بیگم صاحبہ بنت احمد دین صاحب مذکور ۳۹ محمد اعظم صاحب بو تالوی حال لاہور ۴۰ اہلیہ ملک معراج دین صاحب امیر جماعت عراق (بذریعہ داؤ د احمد صاحب وارد لاہور ) 1.۲۵

Page 739

۴۱ ۷۲۷ میاں احمد گل صاحب ابادان ( ایران ) بذریعہ چیک ۴۲ جمعدار محمد مجید احمد صاحب کوئٹہ مرز اعطاء اللہ صاحب کو چہ چابک سواراں لا ہور ۴۴ قریشی محمد اکمل صاحب ربوه مضامین بشیر 1......میزان فجزاهم الله احسن الجزاء ( مطبوعه الفضل ۲ / دسمبر ۱۹۴۹ء)

Page 740

مضامین بشیر ۷۲۸ مومن کا ہر کام خدا کے نام سے شروع ہونا چاہئے کوئی من گھڑت عدد بسم اللہ کا قائم مقام نہیں بن سکتا چند دن ہوئے مجھے ایک معزز غیر احمدی دوست کا خط آیا تھا جس کے شروع میں بسم الله الرحمن الرحیم کی بجائے ۷۸۶ کا عد دلکھا ہوا تھا.کیونکہ ابجد کے اصول کے مطابق یہی بسم اللہ کا عدد بنتا ہے اور اکثر لوگ اس خیال سے کہ کہیں خط یا خط کا پرزہ ادھر ادھر گر کر اللہ کے نام کی بے حرمتی کا موجب نہ بن جائے ، بسم اللہ کے الفاظ ترک کر کے ۷۸۶ کا عد دلکھ دیتے ہیں.بہر حال اس معزز غیر احمدی دوست کا خط آنے پر میں نے انہیں از راہ نصیحت لکھا کہ ۷۸۶ کے عدد کو بسم اللہ کے مبارک الفاظ سے کیا نسبت ہو سکتی ہے ، اور عرض کیا کہ آپ کو آئندہ اپنی تحریر کے شروع میں ارشاد نبوی کے مطابق بسم اللہ کے الفاظ لکھنے چاہئیں.اور میں امید کرتا ہوں کہ میرے اس دوست نے میری اس مخلصانہ نصیحت کو قدر کی نظر سے دیکھا ہوگا.اس کے دو تین روز بعد مجھے ربوہ سے ایک احمدی نوجوان کا خط آیا اور مجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے بھی اپنے خط کے شروع میں بسم اللہ کے الفاظ ترک کئے ہوئے تھے بلکہ ۷۸۶ کا عد د بھی ترک کیا ہوا تھا.گویا نہ بسم اللہ رہی.اور نہ اس کا فرضی قائم مقام رہا.میں نے اس احمدی نوجوان کو بھی نصیحت کا خط لکھا کہ اپنی ہر تحریر کو بسم اللہ سے شروع کرنا مسنون طریق ہے اس لئے آپ کو یہ طریق ترک نہیں کرنا چاہئے.اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں نے آپ کے لکھنے پر اصلاح تو کر لی ہے لیکن میں نے بسم اللہ کے الفاظ عمد اترک کئے تھے ، کیونکہ بعض اوقات خطوط یا ان کے پرزوں کے ادھر ادھر گرنے سے اللہ کے نام کی بے حرمتی کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ بھی لکھا کہ میں ہر روز صبح کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرتا ہوں.جو گویا سارے دن کے لئے کافی ہو جاتی ہے.مجھے اس احمدی نوجوان کی اس تشریح پر افسوس ہوا کہ بعض نو جوان کس طرح مسنون طریق سے دور چلے جاتے ہیں اور اپنے غلط خیال پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک ایسی تشریح پیش کر دیتے ہیں جو مضحکہ خیز ہوتی ہے.اگر ہر روز صبح کے وقت بسم اللہ پڑھ کر کام شروع کرنا دن بھر کے کاموں کے لئے کافی ہو سکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ قضائے عمری کے مفروضہ اصول پر زندگی میں ایک دفعہ بسم الله

Page 741

۷۲۹ مضامین بشیر پڑھ لینا ساری عمر کے لئے کیوں کافی نہیں ہو سکتا ؟ بلکہ جب ایک بچہ کے پیدا ہونے پر ماں باپ اس کے کان میں اذان دیتے ہیں تو اسی اذان کو ہی کیوں نہ ساری عمر کے لئے برکت کا کافی وشافی تعویذ سمجھ لیا جائے.افسوس ! صد افسوس ! کہ لوگوں نے اپنی مستیوں کے لئے کیا کیا بہانے بنا رکھے ہیں.قرآن شریف خوب فرماتا ہے کہ: كَانَ الْإِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا - یعنی انسان اکثر باتوں میں بہانے ڈھونڈنے کے لئے جھگڑا کھڑا کر دیتا ہے ، پھر لطف یہ ہے کہ انہی صاحب نے اپنے خط میں بسم اللہ تو ترک کی تھی لیکن السلام علیکم و رحمتہ اللہ کے الفاظ ترک نہیں کئے تھے.تو کیا السلام علیکم ورحمۃ اللہ میں جو اللہ کا لفظ آتا ہے اس کے ادھر ادھر گرنے سے بے حرمتی نہیں ہوتی ؟ کیا صرف بسم اللہ میں درج شدہ لفظ اللہ ہی ایسا ہے کہ اگر اس کا کا غذا دھرا دھر گر جائے تو بے حرمتی ہو جاتی ہے ،لیکن اگر کسی اور تحریر میں یہی لفظ آیا ہو ، تو اس کے گرنے سے بے حرمتی نہیں ہوتی ؟ تو اب گو یا اس خطرہ کی وجہ سے انسان اپنی ساری تحریروں میں اللہ کا لفظ ترک کر دے.اور دین سے بالکل خالی ہوکر بیٹھ جائے.نعوذ بالله من ذالک.یہ سب نفس کے بہانے ہیں جو نا واقعی یاستی یا بے احتیاطی سے پیدا ہوتے ہیں.اور بعض کمزور انسانوں کا دل ان پر سہارا لے کر مسنون طریق سے غافل ہو جاتا ہے.بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ ہمارے ہادی و مرشد نے مسلمانوں کے دلوں میں خدا کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور نیز اس غرض سے کہ ان کا ہر اہم کام اللہ کے نام سے شروع ہو کر برکتوں کا وارث بنے.ہمیں تعلیم دی ہے کہ اپنے ہر کام کو خدا کے نام سے شروع کیا کرو بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ: کل امر دی بال لم يبداء بسم الله فهو ابتر - یعنی ہر وہ کام جو تھوڑی بہت اہمیت بھی رکھتا ہوا گر وہ خدا کے نام کے بغیر شروع کیا جائے.تو وہ روحانی برکتوں سے محروم ہو جاتا ہے.تو پھر کتنا افسوس کا مقام ہے کہ ہم ایسے تاکیدی ارشاد کے باوجودا اپنی تحریروں میں بسم اللہ کی دعا کو نظر انداز کر کے خود اپنے ہاتھ سے برکتوں سے محرومی کا دروازہ کھولیں.اس اہم قولی ارشاد کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے عملاً بھی یہی سنت قائم کی ہے کہ ہر ذوبال ( یعنی تھوڑی بہت اہمیت رکھنے والی) تحریر کو اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرنا چاہئے.چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں جتنے بھی خط لکھے اور جو معاہدے بھی کئے ، ان سب کو خدا کے نام کے ساتھ شروع کیا.چنانچہ قیصر و کسریٰ اور مقوقس و نجاشی کے وہ خطوط ہمارے سامنے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے تبلیغ کی غرض سے انہیں بھجوائے اور ان سب کو بسم اللہ کے مبارک الفاظ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے کبھی بھی اس فرضی یا حقیقی خطرہ کی وجہ سے بسم اللہ کے الفاظ ترک نہیں کئے کہ شاید یہ تحریر ادھر ادھر گر کر بے حرمتی کا باعث بن جائے گی.بلکہ تاریخ تو ہمیں یہاں تک بتاتی ہے کہ ایران

Page 742

مضامین بشیر ۷۳۰ کے بادشاہ کسریٰ نے آنحضرت علیہ کا مبارک خط غصہ میں آکر ریزہ ریزہ کر دیا ( جس کے نتیجہ میں اس کی حکومت خود ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر گئی مگر با وجود اس امکانی خطرہ کے کہ میرا خط مخالفین اسلام کے ہاتھوں میں جا رہا ہے آنحضرت ﷺ نے اپنی مبارک سنت کو ترک نہیں کیا لیکن آج کے نوجوان ہمیں رسول اللہ ﷺ کی بجائے کسری کی سنت کا رستہ دکھا رہے ہیں !! ظاہر ہے کہ ہم صرف اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں اور اگر کوئی شخص بے حرمتی کرتا ہے تو وہ اپنے فعل کا ذمہ دار ہے.ہم دوسرے کے امکانی فعل سے اپنے اعمال کو ایک با برکت سنت سے کیوں محروم کریں ؟ کیا ہم آنحضرت ﷺ سے بھی زیادہ با غیرت بننا چاہتے ہیں کہ جو امکانی خطرہ آپ کے رستہ میں روک نہیں بنا اسے ہم اپنے رستہ میں روک بنالیں.اسی طرح ہمارے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی ہمیشہ یہی سنت رہی کہ اپنی ہر ذو بال تحریر کو بسم اللہ کے ساتھ شروع فرماتے تھے.اور کم از کم آخری زمانہ میں جو میری زندگی سے تعلق رکھتا ہے مجھے آپ کی کوئی ایسی تحریر یاد نہیں کہ آپ نے اس سنت کو ترک کیا ہو.تو پھر ہم اپنے دو عظیم الشان ہادیوں کی سنت کے خلاف کیوں قدم اٹھا ئیں؟ یہ خیال کہ بسم الله الرحمن الرحیم کی جگہ ۷۸۶ کا عد دلکھنا کافی ہے کیونکہ ابجد کے اصول کے مطابق بسم اللہ کے یہی اعداد بنتے ہیں، ایک لا یعنی خیال ہے.بھلا بسم اللہ کے مبارک الفاظ کے ساتھ ۷۸۶ کے عدد کو کیا نسبت ہو سکتی ہے.جو برکت اور جو عظمت اور جو رحمت خدائے ذوالجلال کا نام اپنے اندر رکھتا ہے اس کے متعلق خیال کرنا کہ وہ ہمارے کسی فرضی اور خیالی عدد کی طرف منتقل ہو سکتی ہے ، ایک موہوم خیال سے زیادہ نہیں، اور وقت ہے کہ مسلمان عموماً اور ہماری جماعت کے دوست خصوصاً اس غفلت کی عادت کو ترک کر کے اس راستہ پر قائم ہو جائیں جو خدا اور اس کے رسول نے ہمیں بتایا اور سکھایا ہے.مجھے تو اس بارہ میں یہاں تک احساس ہے کہ میں نے قائد اعظم مرحوم کے آخری ایام میں جبکہ وہ کوئٹہ میں تھے ، ایک خط کے ذریعہ انہیں توجہ دلائی تھی کہ وہ پاکستان کے سرکاری دفاتر کے لئے ہدایت جاری فرمائیں کہ وہ اپنی محکمانہ خط و کتابت میں بھی ہر تحریر کے شروع میں بسم اللہ لکھا کریں.اور جہاں مخاطب مسلمان ہو.وہاں السلام علیکم کے الفاظ بھی ضرور لکھا کریں ( کیونکہ یہ بھی ایک رسم ہو رہی ہے کہ بعض لوگ السلام علیکم کے الفاظ ترک کر کے صرف سلام مسنون کے الفاظ پر اکتفا کرتے ہیں جو اسی طرح کی ایک نا مناسب حرکت ہے جس طرح کہ بسم اللہ کا ترک ایک نا مناسب حرکت ہے.) بہر حال میں نے قائد اعظم مرحوم کو اس قسم کا خط لکھا تھا مگر اس کے چند دن بعد ہی وہ فوت ہو گئے اور

Page 743

۷۳۱ مضامین بشیر غالبا بیماری کی وجہ سے اس خط کی طرف توجہ نہیں دے سکے.لیکن ظاہر ہے کہ اگر ہمیں اپنی پرائیویٹ خط و کتابت میں بسم اللہ سے برکت حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو ایک اسلامی حکومت میں محکمانہ خط و کتابت بھی اس برکت سے محروم نہیں ہونی چاہئے اور یقینا ہم اس سنت کی طرف توجہ دے کر اپنے دفتری امور میں بھی ایک قسم کا روحانی اور اخلاقی رنگ پیدا کر سکتے ہیں.بہر حال میں اپنے سب دوستوں سے عرض کروں گا کہ وہ اپنی تمام خط وکتابت میں آنحضرت صلى الله ہ کی سنت اختیار کریں، یعنی شروع میں بسم الله الرحمن الرحیم لکھا کریں.اور اس کے بعد اگر کوئی مسلمان مخاطب ہو تو السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کے الفاظ سے اپنی تحریر کو شروع کیا کریں بشرطیکہ یہ تحریر خط کا رنگ رکھتی ہو.ورنہ صرف بسم اللہ لکھنا کافی ہوگا.علاوہ ازیں جیسا کہ ہماری جماعت میں رواج ہے ، اگر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ کے ساتھ نـحــمــدہ ونصلی على رسوله الکریم کے الفاظ بھی لکھ دیئے جائیں تو یہ گویا سونے پر سہا گہ ہو گا کہ خدا کے نام کی برکت کے ساتھ رسول پر درود کی دعا بھی شامل ہو جائے گی اور میں تو اپنے عقیدہ کے مطابق نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم کے بعد و علی عبدہ المسیح الموعود کے الفاظ بھی لکھا کرتا ہوں.لیکن یہ وہ چیز ہے جس کی ہم غیر از جماعت احباب سے توقع نہیں رکھ سکتے.مگر بہر حال بسم الله اور نحمدہ و نصلی تو ہم سب کا مشترکہ ورثہ ہے.اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس بابرکت ورثہ سے محرومی کا رستہ اختیار کریں.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.( مطبوعہ الفضل مورخه ۱۲۶/ نومبر ۱۹۴۹ء )

Page 744

مضامین بشیر ۷۳۲ قادیان جانے والے دوست ۲۴ / دسمبر کی شام تک لاہور پہنچ جائیں ا.قادیان جانے والے دوستوں کا انتخاب کر لیا گیا ہے اور ایسے سب دوستوں کو رجسٹری چٹھیاں بھجوائی جا رہی ہیں.۲.جن دوستوں کو یہ چٹھیاں پہنچیں انہیں ۲۴ / دسمبر بروز ہفتہ کی شام تک ضرور لاہور پہنچ جانا چاہئے.ورنہ ان کی جگہ کسی اور دوست کا انتخاب کر لیا جائے گا.لاہور میں ۲۴ دسمبر کی شام کو رہائش کا انتظام محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ ۱۳ ٹمپل روڈ کے مکان پر کیا گیا ہے.اگر کسی دوست کو ان کے مکان کا علم نہ ہو تو رتن باغ میں تشریف لا کر پتہ لے لیں.۳.قادیان جانے والی پارٹی انشاء اللہ ۲۵ دسمبر ( بروز اتوار ) صبح آٹھ بجے رتن باغ لاہور سے روانہ ہوگی.اس پارٹی کے امیر حضرت صاحب کی ہدایت کے ماتحت شیخ بشیر احمد صاحب موصوف مقرر کئے گئے ہیں.قادیان سے واپسی انشاء اللہ ۳۰ / دسمبر کو ہو گی.۴.جانے والے دوست اپنے ساتھ موسم کے لحاظ سے گرم بستر ضر ور لا ئیں.اس بستر کے اندر ہی ایک آدھ زائد جوڑا رکھا جا سکتا ہے، یا ہاتھ میں اٹھانے والا اٹیچی کیس ساتھ لے لیا جائے.۵ - اگر کسی عزیز یا دوست کے لئے گرم کپڑے ساتھ لے جانے ہوں تو اس میں کوئی روک نہیں ، بشرطیکہ بالکل نئے نہ ہوں.اسی طرح رستے میں اپنے ساتھ پھل یا کوئی اور کھانے کی چیز رکھی جاسکتی ہے.مطالعے کے لئے کتب بھی ساتھ رکھی جا سکتی ہیں، مگر ہتھیار کوئی ساتھ نہیں ہونا چاہئے..اپنے ساتھ ہر شخص ۵۰ روپے تک لے جا سکتا ہے، مگر کرنسی کے اختلاف کی وجہ سے یہ رقم ہندوستان میں پہنچ کر بدلوانی ہوگی ، یا اگر کسی کے پاس ہندوستانی نوٹ یا روپے ہوں تو وہ استعمال ہو سکتے ہیں.۷.کرایہ آمد و رفت کے لئے ہر دوست کو روانگی سے قبل میرے دفتر میں ۱۰ روپے جمع کروا دینے چاہئیں.البتہ بالکل نادار دوستوں کو دفتر کی طرف سے مدد کر دی جائے گی..گھر سے روانہ ہونے سے قبل، جانے والے دوست اپنے علاقے کے ان احمدیوں سے مل کر آئیں ، جن کے رشتہ دار قادیان میں ہیں، تا کہ ان کی طرف سے ضروری پیغام وغیرہ لے جاسکیں.( مطبوعه الفضل ۱۵؍ دسمبر ۱۹۴۹ء)

Page 745

۷۳۳ قادیان جانے والی پارٹی دوستوں کے لئے ضروری اطلاع مضامین بشیر جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر پاکستان سے جانے والی پارٹی کے متعلق الفضل میں اعلان شائع ہوتا رہا ہے.اور اس اعلان کے جواب میں اس وقت تک قریباً تین سو درخواستیں میرے دفتر میں پہنچ چکی ہیں اور ابھی اور درخواستیں بھی آرہی ہیں.میں اس تعلق میں جملہ دوستوں کی خدمت میں اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ یہ معاملہ اگر خدا کے فضل سے کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا تو اس پارٹی میں صرف پچاس دوست شامل ہو سکیں گے.اس سے زیادہ تعداد میں نہ تو مشرقی پنجاب کے غیر مسلم مغربی پنجاب میں آسکتے ہیں ، اور نہ ہی مغربی پنجاب کی حکومت اس سے زیادہ تعداد کی سفارش کر سکتی ہے.پس ہمیں لازماً اپنی تعداد کو پچاس کے عدد تک محدود رکھنا ہوگا.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان پچاس دوستوں میں کم از کم پانچ سات ضرور ایسے دوست ہونگے، جنہیں مشتر کہ اغراض کے ماتحت شامل کرنا ضروری ہوگا مثلاً مبلغ اور ڈاکٹر وغیرہ.اندریں حالات درویشوں کے رشتہ داروں کے لئے جو مقدس مقامات کی زیارت کے علاوہ اپنے عزیزوں کو بھی ملنے کی خواہش رکھتے ہیں صرف چالیس بیالیس افراد کی گنجائش باقی رہتی ہے.اوپر کے اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ ہمیں لازماً نہایت محدود انتخاب کرنا ہوگا اور اگر درخواستوں کی موجودہ تعداد ہی رہے تو پھر ہر سال درخواستوں میں سے صرف ایک درخواست کو منظور کرنے کی گنجائش نکل سکے گی اور باقی دوستوں کو مجبوراً آئندہ کسی موقع کا انتظار کرنا ہوگا ، لیکن انسانی فطرت کچھ اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ عموماً ہر شخص اپنی ضرورت کو ہی سب سے زیادہ اہم قرار دیتا ہے.مگر اس کے مقابل پر مجھے لازماً سب درخواستوں پر یکجائی نظر ڈال کر اور ہر ایک درخواست کنندہ کے استحقاق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا اور بالکل ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ بعض دوست جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ مستحق قرار دیتے ہوں ، وہ میری رائے میں دوسروں سے کم مستحق ہوں.ایسی صورت میں میں اُمید کرتا ہوں کہ ایسے دوست جن کو موجودہ موقع کے لحاظ سے مایوس ہونا پڑے ، وہ مجھ پر حسن ظنی کرتے ہوئے صبر اور فراخ حوصلگی سے کام لیں گے ، اور صبر کا پھل خواہ دیر سے ملے

Page 746

مضامین بشیر ۷۳۴ مگر بہر حال شیریں ہوتا ہے.بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے کہ ہم قادیان جاتے ہوئے اپنے ساتھ کیا کیا چیز لے جاسکتے ہیں سو اس کے متعلق جانا چاہئے کہ موسم کے لحاظ سے بستر تو لاز ما ہر شخص کے پاس ہونا چاہئے اور بستر کے اندر ہی ایک آدھ زائد جوڑا رکھا جاسکتا ہے یا ہاتھ میں اٹھانے والا اٹیچی کیس ساتھ لے لیا جائے.اس کے علاوہ اس قدر پھل یا کوئی اور کھانے کی چیز وغیرہ جو ذاتی ضروریات کے لئے سمجھی جائے ، اور اس کے متعلق تجارتی غرض کا شبہ نہ ہو سکے ، وہ بھی ساتھ رکھی جاسکتی ہے.نقدی صرف فی کس پچاس روپے تک کی اجازت ہے، لیکن دوستوں کو معلوم ہونا چاہے کہ دونوں حکومتوں کا سکہ بدل چکا ہے اور مشرقی پنجاب میں صرف ایسی کرنسی کام دے سکتی ہے جو حکومت ہندوستان کی جاری کردہ ہو.لیکن غالباً پاکستانی روپیہ اور نوٹ ہندوستان میں بدلائے جاسکیں گے.اگر کسی دوست نے اپنے کسی رشتہ دار کے لئے کوئی گرم کپڑے لے جانے ہوں تو اس کی کوئی روک نہیں ، بشرطیکہ کپڑے مستعمل ہوں.اور تجارتی مال کا شبہ نہ پیدا ہوتا ہو.مطالعہ کی کتب بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں ، مگر کسی قسم کا ہتھیار ساتھ نہیں لے جانا چاہئے.مطبوعه الفضل مورخہ ۲۷ دسمبر ۱۹۴۹ء)

Page 747

مضامین بشیر ۷۳۵ ١٩٤٩ء حوالہ جات مضامین بشیر کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۱٬۸۰ چشمہ معرفت - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۴۶ بنی اسرائیل :۳۲ سنن الترمذی کتاب المناقب في مناقب عمر بن الخطاب.سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء في الصلاة على ابن رسول الله وذكرو فاته العنكبوت : البقرہ: ۱۲۵ صحیح البخاری کتاب الایمان باب سوال جبرائيل النبى عن الايمان والاسلام والاحسان تذکرہ صفحہ ۷ ۴۷ طبع ۲۰۰۴ء تذکرہ صفحه ۳۶۶ طبع ۲۰۰۴ء العنكبوت ۳ تذکره صفحه ۲۵۶ طبع ۲۰۰۴ء تذکره صفحه ۴۲۱۷ طبع ۲۰۰۴ء التوبة : 119 النساء : ٢ الحجرات :11 الحجرات :۱۲ الحجرات : ۱۴ مسند احمد بن حنبل جزو الثامن و ثلاثون حديث رجل من اصحاب النبي صلعم - -1 -4 -9 - 1+ 11- -۱۲ ۱۳ -الد -10 -17 -12 -IA -19

Page 748

مضامین بشیر -۲۰ -۲۱ -۲۲ -۲۳ - ۲۴ - ۲۵ -۲۶ -12 -۲۸ -۲۹ -٣٢ -۳۳ مسند احمد بن حنبل مسند المقصرين من الصحابہ.مسند ابی بریره صحیح بخاری کتاب الانبياء باب قول الله تعالى لقد كان فى يوسف و اخوته آيات للسائلين سنن ابوداؤ د کتاب الادب باب في تنزيل الناس منازلهم صحیح البخاری کتاب المناقب الانصار باب مناقب باب مناقب سعد بن معاذ صحیح البخاري كتاب الحدود باب اقامة الحدود على الشريف و الوفيع سیرت لابن ہشام جلد ۴ باب أمر سقيفة بني ساعدة صفحه ۳۱۱ النساء: ۵۹ صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي باب مناقب زید بن حارثة حیح البخاری کتاب النکاح باب من ترک دعوة فقد عصى الله ورسوله صحيح البخارى كتاب الهبة و فضلها و التحريض عليها باب فضل الهبة صحیح البخاری کتاب الاستئذان باب اذا قيل لكم تفسحوا في المجلس فافسحوا حیح البخارى كتاب النكاح باب المراة راعية في بيت زوجها صحیح البخاری کتاب العتق باب قول النبي قل العبيد اخوانكم فاطعمو هم مما تاكلون صحیح البخاری کتاب النکاح باب الاكفاء في الدين ۳۴- آل عمران : ۱۹۶ -۳۵ البقرة : ٢٢٩ النساء: ۳۵ ۳۷- سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشره النساء -۳۸ -۳۹ -3 صحیح البخاري كتاب الذكواة باب اخذ الصدقة من الاغنياء و ترد الى الفقراء حيث كانوا المائده : ۹۱ الاصابه في التمييز الصحابه باب الاقسم الاول سن ذكر له صحبة وبيان ذالك - ۴۲ -۴۳ ط : ۱۱۹ ۱۲۰ الفجر : ۲۱،۲۰ البقره: ۱۴۴ -۲۴ صحیح المسلم كتاب اللقطة باب استحباب خلط الازواد اذاقلت و المؤاساة فيها - ۴۵ صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوه سيف البحر

Page 749

-17 مضامین بشیر صحیح البخاري كتاب الشركة باب الشركة في الطعام و النَّهْدِ والعَروضِ -12 فاطر: ۲۵ ۴۸ - الحجرات : ۱۴ الزلزال: ۹۸ البقرہ:۱۱۳،۱۱۲ -۵۱ ۵۲ سنن الترمذی کتاب الصلواة باب ماجاء من احق بالا مامة صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضح الصلواة باب من اَحَقَّ بالامامة ۵۳ سنن الترمذى كتاب الدعواة عن رسول الله باب مَاجَاءَ في فضلِ الدُّعَاءِ ۵۴ - البقره: ۱۸۷ -۵۵ -۵۶ -۵۷ -۵۸ -۵۹ -7.-71 سنن ابوداود كتاب الوترباب الدعا بخاری کتاب صلاة التراويح باب الْعَمَلِ فِي الْعَشَرِ الْأَوَخِرِ كتاب الدعوات باب قول النبي صلعم رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً كشف الظنون جلد صفحہ ۸۸۰.باب فضل الدعا سنن الترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک یوسف: ۹۸ تذکره صفحه ۴۱۷ طبع ۲۰۰۴ء البقرہ : ۱۸۶ -۶۴ -72 -71 الاعلیٰ : ۷ الفاتحہ : ۷۶ الفرقان : ۷۴ صحیح مسلم كتاب الذكر و الدعا باب فضل الاجتماع الواقعہ: ۴۰، ۴۱ تذکرہ صفحه ۲ ۷ اطبع ۲۰۰۴ء الاحزاب : ۱۳ الرحمن : ۲۸۲۷ سنن ابوداؤ د کتاب الحدود باب فى المراة امرا النبى صلعم بر جمها من جهينة

Page 750

مضامین بشیر -۷۲ متنی باب ۱۴.آیات ۲۵ تا ۲۷ ۷۳۸ ۷۳ - الانبیاء: ۹۷ -۷۴.تذکرہ صفحه ۳۶۵ طبع ۲۰۰۴ء ۷۵- سنن الترمذی ابواب البرو الصلة باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک ۵ ستمبر ۱۹۴۹.جناب مولوی ۸ محمد علی صاحب کا ایک تازہ خطبہ والا چیک کرنا ہے.-24 -۷۸ البحر : ۴۲ بنی اسرائیل :۸۱ ۷۹ بنی اسرائیل: ۸۲٬۸۱ ۸۰ بنی اسرائیل: ۸۱ -MI -۸۲ البقره: ۱۵۱،۱۵۰ تذکره صفحه طبع جدید ۸۳- رساله الوصیت.روحانی خزائن جلد صفحہ قادیان خدا کے رسول خدا نے اسے برکت دی.۲۲۲.-۸۴- تذکره صفحه ۳۰ طبع ۲۰۰۴ء ۸۵ الاحوذی شرح ترمذی جلده اصفحه ۵۶ - بخاری کتاب التمیم باب قول الله فله تجد و امانااً -۸۷ صحیح البخاری کتاب الرقاق باب قول النبی صلعم بعثت انا و الساعة كهاتين -^^ -19 -90 -91 -۹۲ فاطر: ۲۵ صحيح البخاری کتاب التهجد باب ماجاء في التَّطَوَعَ مَثْنَى مَثَنَى آل عمران : ۱۰۵ البقره: ۲۸۷ اجم الاوسط جلد ۳ صفحه ۲۹۳ ۹۳ - صحیح البخاری کتاب التهجد باب ماجاء فِي التَّطَوَعَ مَثْنَى مَثَنَى ۹۴ - الکهف : ۵۵

Page 751

۷۳۹ مضامین بشیر ۱۹۵۰ء قافلہ قادیان کے مختصر کوائف جیسا کہ احباب کو معلوم ہے قادیان جانے والے قافلہ کے لئے قریباً ۴۰۰ درخواستیں موصول ہوئی تھیں.جن میں سے حکومت کی مقرر کردہ حد بندی کے ماتحت صرف پچاس اصحاب کا انتخاب کرنا تھا چنانچہ پچاس افراد کا انتخاب کر کے انہیں اطلاع دی گئی کہ ۲۴ دسمبر کی شام تک سب لوگ لاہور پہنچ جائیں.چنانچہ یہ جملہ پچاس افراد ۲۴ / دسمبر کی شام تک لاہور پہنچ گئے.ان میں تین بوڑھی دیہاتی عورتیں بھی شامل تھیں جو مقدس مقامات کی زیارت کے علاوہ اپنے بچوں کو ملنے کے لئے جارہی تھیں جو اس وقت قادیان میں درویشی زندگی بسر کر رہے ہیں.حسن اتفاق سے حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھی ایک تقریب کے تعلق میں ۲۴ / تاریخ کی شام کو لاہور تشریف لے آئے اور قافلہ کی روانگی کے خیال سے ۲۵ / تاریخ کی صبح کو بھی لاہور میں ٹھہر گئے.چنانچہ حضور کی نہایت دردمندانہ اور پرسوز دعاؤں کے ساتھ یہ پچاس افراد قافلہ ہر یکے موٹر ٹرانسپورٹ کمپنی کی لاریوں میں لاہور سے روانہ ہوا.یہ قافلہ رتن باغ سے ۲۵ / تاریخ کی صبح کو بجے روانہ ہوا اور قافلہ کی کل تعداد ۴ ۵ تھی.کیونکہ پچاس ممبران قافلہ کے علاوہ دوڈرائیور اور دو کنڈیکٹر بھی اس قافلہ میں شامل تھے.رستہ میں کچھ وقت رکنے کے بعد قافلہ قریباً ساڑھے دس بجے بارڈر پر پہنچا جہاں مسٹر اے جی چیمہ مجسٹریٹ درجہ اول اور مسٹر ایس ایس جعفری ڈپٹی کمشنر لا ہورا نہیں رخصت کرنے کے لئے پہلے سے پہنچ چکے تھے.قافلہ کو الوداع کہنے کے لئے بہت سے دوست بارڈر تک ساتھ گئے.ان لوگوں میں یہ خاکسار بھی شامل تھا.اور وہاں ہم سب نے روانگی کی آخری دعا کر کے اپنے بھائیوں کو رخصت کیا.میری گھڑی کے مطابق ہمارے قافلہ نے دس بجگر پینتیس منٹ پر پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کو عبور کیا اور پھر ہم تھوڑی دیر تک ان کی لاریوں کو دیکھتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے لا ہو روا پس آگئے.یا کہ پہلے سے پروگرام مقرر تھا اس قافلہ نے ۲۵ / دسمبر کو قادیان جا کر ۳۰ / دسمبر کو واپس آنا

Page 752

مضامین بشیر ۷۴۰ تھا.چنانچہ یہ قافلہ دو بجے بعد دو پہر قادیان پہنچ گیا.اور سب سے پہلے بہشتی مقبرہ میں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر دعا کی.جہاں قادیان کے بہت سے دوست قافلہ کے استقبال کے لئے پہنچے ہوئے تھے.ایک طرف تو بچھڑے ہوئے بھائیوں سے ملاقات دوسری طرف قادیان کا ماحول اور تیسری طرف بہشتی مقبرہ کا مقام ان سب باتوں نے مل کر اس دعا میں وہ سوز و گداز پیدا کر دیا جو اہل قافلہ کی رپورٹ کے مطابق صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا.بہر حال ہمارے یہ دوست ۳۰ / دسمبر کی صبح تک قادیان میں ٹھہرے اور جلسہ کی شرکت کے علاوہ جو حسب دستور ۲۶ - ۲۷ - ۲۸ تاریخوں میں مقرر تھا ان ایام کو مقامات مقدسہ میں خاص دعاؤں اور عبادت میں گزارا اور سب واپس آنے والے دوست بلا استثناء کہتے ہیں کہ قادیان کے جملہ درویش اپنی جگہ نہائت قربانی اور للہیت کے جذبہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے اوقات دعاؤں اور نوافل سے اس طرح معمور ہیں جس طرح ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی سے بھر جاتا ہے اور سب در ولیش یہ عزم رکھتے ہیں کہ خواہ موجودہ حالات میں ان کا قادیان کا قیام کتنا ہی لمبا ہو جائے وہ انشاء اللہ پورے صبر اور استقلال اور قربانی کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے بلکہ ان میں سے بعض نے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ جب ہم خود انتہائی خوشی اور رضا اور عزم کے ساتھ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے بعض پاکستانی رشتہ داروں کو ہماری وجہ سے کوئی گھبراہٹ ہو.قادیان کے قیام کے دوران میں ہمارے دوستوں کو ان ہندوستانی احمدیوں کی ملاقات کا بھی موقعہ ملا جو ہندوستان کے مختلف صوبوں سے جلسہ کی شمولیت کے لئے قادیان آئے تھے.اور ان میں محتر می شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حیدر آباد دکن اور چوہدری انور احمد صاحب کا ہلوں امیر جماعت احمد یہ کلکتہ اور مولوی بشیر احمد صاحب امیر جماعت دہلی اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری اور سیٹھ محمد اعظم صاحب تاجر حیدر آباد دکن اور سید ارشد علی صاحب ارشد تا جرلکھنو اور مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ مغربی بنگال بھی شامل تھے اور تین دوست کشمیر سے بھی آئے تھے.ان ایام میں قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں نے پاکستانی اور ہندوستانی زائرین اور بعض درویشوں کو چائے کی دعوت دی اور اس موقعہ پر ہمارے کئی دوستوں نے جن میں شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ پاکستان اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری شامل تھے دعوت دینے والوں کا شکر یہ ادا کرنے کے علاوہ مناسب رنگ میں تبلیغ بھی کی اور ہمارا جلسہ تو گویا مجسم تبلیغ ہی تھا کیونکہ اس میں بیشتر تعداد غیر مسلموں کی شامل ہوئی تھی.اور وہ سب ہمارے مقررین کی تبلیغی تقریروں کو نہائت درجہ توجہ اور سکون سے سنتے رہے بلکہ وہ اس بات کو سخت حیرت کے ساتھ.

Page 753

۷۴۱ مضامین بشیر دیکھتے تھے کہ یہ چند گنتی کے مسلمان اس درجہ غیر اسلامی ماحول میں گھرے ہوئے ہیں.اور پھر بھی کس جرات کے ساتھ ہمیں اسلام کا پیغام پہنچاتے اور اسلام زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں.ہمارا قافلہ ۳۰ / دسمبر کو گیارہ بجے کے قریب قادیان سے روانہ ہو کر چار بجے سہ پہر کے قریب رتن باغ لاہور میں پہنچ گیا.اور بہت سے دوستوں نے دعا کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور پھر محترمی شیخ بشیر احمد صاحب امیر قافلہ اور محترمی امیر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ رپورٹ دینے کی غرض سے ربوہ بھی پہنچے.قافلہ میں شامل ہونے والے اصحاب کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں.۱.شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہورا میر قافلہ ۲.مولوی محمد صدیق صاحب مبلغ مغربی افریقہ حال لاہور -۳- شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ حال ربوہ ضلع جھنگ شیخ محمد عمر صاحب ( مہاشہ ) مبلغ ربوہ ۵.مرز اواحد حسین صاحب گیانی مبلغ ربوہ ۶.میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ ے.چوہدری محمد احمد صاحب واقف زندگی کا رکن تعلیم الاسلام کالج لاہور ۸ - شکیل احمد صاحب مونکھیری لاہور و منشی عبدالحق صاحب کا تب جو د ہامل بلڈ نگ لاہور ۱۰.مولوی عطاء اللہ صاحب واقف زندگی ربوہ ۱۱.چوہدری نوراحمد صاحب سابق خزانچی صد را انجمن حال ملتان ۱۲.چوہدری غلام محمد صاحب کوٹ رحمت خان ( شیخو پورہ ) ۱۳.ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم جلیا نوالہ ( لائلپور) ۱۴.مرزا مہتاب بیگ صاحب آف قادیان حال سیالکوٹ ۱۵.مرزا محمد حیات صاحب مالک دوا خانہ رفیق حیات حال سیالکوٹ ۱۶.خواجہ محمد عبد اللہ صاحب عرف عبدل جہلم ۱۷.خواجہ عبدالواحد صاحب گوجرانوالہ ۱۸.والدہ عثمان علی درویش بنگالی حال ربوه ۱۹.چوہدری فضل احمد صاحب ہیڈ ماسٹر بھکر ( میانوالی) ۲۰.محمد یعقوب صاحب کا تب الفضل لا ہور

Page 754

مضامین بشیر ۷۴۲ ۲۱ - مستری عبدالمجید صاحب گوجرہ (لائکپور ) ۲۲.ملک نورالحق صاحب دوالمیال جہلم ۲۳.ملک محمد شفیع صاحب منٹگمری ۲۴.چوہدری لال خان صاحب کھاریاں ( گجرات ) ۲۵.چوہدری فیض احمد صاحب گھٹیالیاں چیف انسپکٹر بیت المال ربوہ ۲۶.حاجی خدا بخش صاحب میانوالی مہاراں (سیالکوٹ) ۲۷.مبارک احمد صاحب اعجاز احمد نگر (جھنگ) ۲۸ - عبد الغفا ر صاحب شادیوال (گجرات) ۲۹.ملک محمد ابراہیم صاحب لالہ موسے (گجرات) ۳۰.محمد یوسف صاحب شادیوال ( گجرات ) ۳۱.ڈاکٹر برکت اللہ صاحب کوٹ فتح خان ( کیمل پور ) ۳۲.مرزا اعظم بیگ صاحب ٹنڈو آدم سندھ ۳۳.میاں مولا بخش صاحب خانقاہ ڈوگراں ( شیخوپورہ) ۳۴.ملک عبد الکریم صاحب تر گڑی ( گوجرانوالہ) ۳۵.شیخ عبدالکریم صاحب چنیوٹ ۳۶.چوہدری نور محمد صاحب کوئٹہ ۳۷.مسماۃ غلام فاطمہ صاحبہ پریم کوٹ ( گوجرانوالہ ) ۳۸.قاضی مبارک احمد صاحب احمد نگر (جھنگ) ۳۹.چوہدری محمد خان صاحب بن باجوہ (سیالکوٹ) ۴۰.منور احمد صاحب پسر مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی چنیوٹ ۴۱.ملک نیاز محمد صاحب کسووال ( منٹگمری) ۴۲.ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب لاہور ۴۳.میاں مبارک احمد صاحب پنڈی چری شیخو پورہ ۴۴.سردار محمد صاحب بہوڑ و چک نمبر ۱۸ ( شیخو پورہ) ۴۵.مسماۃ جیورتن باغ لاہور ۴۶.ڈاکٹر محمد دین صاحب ایمن آباد گوجرانولہ

Page 755

۷۴۳ مضامین بشیر ۴۷.منیر احمد صاحب احمد نگر (جھنگ) ۴۸.مرزا عبدالمنان صاحب واہ کیمل پور ۴۹ ـ منظور احمد صاحب شیخ پور گجرات ۵۰.ڈاکٹر محمد احمد صاحب حمید یہ فارمیسی جڑانوالہ لائکپور.ان کے علاوہ دو مزید احمدی دوست یعنی مستری عبد الحکیم صاحب لاہور اور میاں نذیر احمد صاحب ڈسکہ کنڈکٹر کی حیثیت میں شامل ہوئے.اللہ تعالیٰ اس سفر کو نہ صرف اہل قافلہ اور اہل قادیان کے لئے بلکہ ساری جماعت کے لئے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے آمین.(مطبوعہ الفضل ۷ جنوری ۱۹۵۰ء )

Page 756

مضامین بشیر ۷۴۴ بیمار درویشوں کے لئے دعا کی تحریک قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ جلسہ سالانہ کے بعد کچھ تو کوفت اور گرد وغیرہ کی وجہ سے اور کچھ سردی کی شدت کی وجہ سے کئی دوست بیمار ہو گئے ہیں.چنانچہ اس وقت ذیل کے دوست قادیان میں صاحب فراش ہیں :.ا.مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت قادیان - ۲.بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ۳.عطاء اللہ صاحب سندھی حلقہ مسجد اقصیٰ.۴.بشیر احمد صاحب ٹھیکیدار حلقہ مسجد مبارک.-۵- مرزا ظہیر الدین منور احمد صاحب حلقہ مسجد مبارک.۶.امیر الدین صاحب حلقہ ناصر آباد ے.بابا جلال الدین صاحب حلقه مسجد مبارک - بابا محمد احمد صاحب حلقہ مسجد مبارک.۹.ڈاکٹر عطرالدین صاحب حلقہ مسجد مبارک ۱۰- محمد شریف صاحب حلقہ مسجد اقصیٰ.۱۱.بابا جان محمد صاحب حلقہ مسجد اقصیٰ.احباب ان سب درویشوں کی صحت یابی کیلئے دعا فرمائیں.اسی طرح ان دوستوں کی صحت یابی کے لئے بھی دعا فرمائیں جو اس وقت ربوہ میں صاحب فراش ہیں.اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو.( مطبوعه الفضل ۸جنوری ۱۹۵۵ء)

Page 757

۷۴۵ مضامین بشیر قادیان کے تیئیس (۲۳) کس صحابی جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے.اس وقت قادیان میں ٹھہرے ہوئے احمدی بھائیوں کی تعداد تین سو تیرہ (۳۱۳) ہے اور حسن اتفاق سے یہ وہی تعداد ہے جو بدر کے مشہور و معروف میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تھی یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک نیک فال ہے.وقال الله تعالى و لقد نصركم الله ببدر و انتم اذلة - اس ۳۱۳ کی تعداد میں اس وقت ۲۳ دوست صحابی ہیں جن کی فہرست دوستوں کی اطلاع اور دعا کی تحریک کیلئے درج ذیل کی جاتی ہے.(۱) محترمی منشی محمد دین صاحب ولد نور الدین صاحب سکنہ کھاریاں ضلع گجرات تاریخ بیعت ۱۸۹۴ ء اور زیارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵ جون ۱۸۹۵ء (۲) محترمی بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب ولد چند سنگھ تاریخ بیعت ۱۸۹۴ء ہجرت قادیان ۱۸۹۵ء (۳) محترمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی ولد مهته گوراند تبدیل تاریخ بیعت اگست یا اکتوبر ۱۸۹۵ ء اور اس کے ساتھ ہی قادیان کی ہجرت.(۴) میاں صدر دین صاحب ولد رحیم بخش سکنه قادیان تاریخ بیعت تخمیناً ۱۸۹۲ء (۵) ڈاکٹر عطر دین صاحب ولد میاں بھولا تاریخ بیعت جولائی یا اگست ۱۸۹۹ء زیارت جنوری یا فروری ۱۹۰۲ء (۶) حافظ صدر دین صاحب ولد میاں محمد دین صاحب تاریخ بیعت ۹ رستمبر ۱۹۰۷ ء قادیان میں.(۷) چوہدری فضل احمد صاحب ولد چوہدری میر داد صاحب سکنہ گھٹیالیاں تاریخ بیعت ۱۹۰۴ء بعد لیکچر سیالکوٹ مگر قریب ہو کر زیارت نہیں کر سکے.(۸) میاں محمد اسمعیل صاحب ولد محمد عبد اللہ سکنہ قادیان پیدائشی احمدی پیدائش ۱۹۰۴ء قادیان میں مگر زیارت یا دنہیں.(۹) حاجی محمد دین صاحب ولد نور احمد صاحب سکنہ تہال ضلع گجرات سفر جہلم کے موقعہ پر ۱۹۰۳ء میں دستی بیعت کی.(۱۰) میاں بھاگ صاحب ولد محمد بخش صاحب سکنہ قادیان تاریخ بیعت ۱۹۰۷ء

Page 758

مضامین بشیر ۷۴۶ (۱۱) مولوی اللہ دین صاحب ولد میاں احمد دین صاحب سکنہ شاہدرہ پیدائشی احمدی اور زیارت ۱۹۰۷ء کے جلسہ پر.(۱۲) حافظ عبد الرحمن صاحب پشاوری ولد میاں احمد جان صاحب پیدائشی احمدی اور پیدائش قادیان میں ۱۹۰۱ ء میں ہوئی.(۱۳) محمد احمد صاحب ولد غلام حسین صاحب سکنہ سر وعہ ضلع ہوشیار پور تاریخ بیعت ۱۹۰۵ء (۱۴) مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل (المعروف جٹ ) حال امیر جماعت قادیان سکنہ فیض اللہ چک پیدائشی احمدی زیارت ۱۹۰۳ء (۱۵) میاں اللہ دتہ صاحب ولد باز خان صاحب سکنہ دوالمیال ضلع جہلم تاریخ بیعت ۱۹۰۱ ء یا ۱۹۰۲ء زیارت ۱۹۰۵ء (۱۶) میاں اللہ بخش صاحب ولد محکم دین صاحب سکنہ ہر چو وال ضلع گورداسپور تاریخ بیعت تخمیناً ۱۹۰۳ء یا ۱۹۰۴ء (۱۷) میاں کرم الہی صاحب ولد میاں عید ا سکنہ بھڑ یا ضلع امرت سر تاریخ بیعت تخمینا ۱۹۰۵ء (۱۸) میاں بھاگ صاحب ولد جیوا سکنہ میکریاں ضلع ہوشیار پورالمعروف (امرتسری ) تاریخ بیعت ۱۹۰۴ء (۱۹) میاں عبداللہ خان صاحب افغان ولد عبد الغفار خان صاحب سکنه خوست ملک افغانستان تاریخ بیعت ۱۹۰۳ء ہجرت قادیان ۱۹۰۵ء (۲۰) مستری عبدالسبحان صاحب ولد رحماں میر سکنہ لا ہور تاریخ بیعت ۱۹۰۳ء (۲۱) بھائی شیر محمد صاحب دوکاندار ولد میراں بخش صاحب سکنہ ھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور تاریخ بیعت غالباً ۱۹۰۶ ء (۲۲) ممتاز علی صاحب صدیقی ولد محترمی ذوالفقار علی خان صاحب رام پوری تاریخ بیعت جلسه سالانہ ۱۹۰۴ء (۲۳) خواجہ محمد اسمعیل صاحب امرتسری تاریخ بیعت ۱۹۰۴ء اوپر کے تئیس (۲۳) صحابیوں میں سے صحابی مذکور زیر نمبر دو، تین ، چار یعنی محترمی بھائی عبدالرحیم صاحب و محترمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی و میاں صدر دین صاحب ۳۱۳ کی فہرست مندرجہ ضمیمہ انجام آتھم میں بھی درج ہیں.دوست ان قادیانی صحابیوں کو اور نیز دیگر جملہ صحابیوں کو جن کی تعداد دن بدن کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور اسی طرح دوسرے سب درویشوں کو اپنی خاص

Page 759

مضامین بشیر دعاؤں میں یا درکھیں.صحابیوں کا وجود حقیقتاً ایک بڑی بھاری نعمت اور بڑی بھاری برکت کا موجب ہے.کیونکہ یہ وہ بزرگ ہستیاں ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی روحانیت سے براہ راست فیض پایا ہے.اپنے دیکھنے والوں کو صحابہ کرام کی مبارک جماعت میں داخل کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: مبارک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا وہی کے ان کو ساقی نے پلادی فسبحان الذى اخزى الاعادى اوپر کی فہرست مجھے میرے لکھنے پر محترمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے مرتب کر کے بھجوائی ہے.قادیان کے صحابیوں میں ایک صاحب بابا شیر محمد صاحب مرحوم بھی تھے جنہوں نے چند ماہ ہوئے قادیان میں وفات پائی تھی اور میرا خیال ہے کہ شائد قادیان میں دو ایک اور صحابی بھی ہونگے جو اوپر کی فہرست میں درج ہونے سے رہ گئے ہیں.اور میں ان کے متعلق تحقیق کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ ان سب کے ساتھ ہواور حافظ و ناصر رہے آمین.یا ارحم الراحمین.باقی جیسا کہ میں اپنے ایک سابقہ مضمون میں بتا چکا ہوں.صحابی کی تعریف میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے اور طبعا جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے.لوگوں میں صحابی کی تعریف کو زیادہ سے زیادہ نرم اور زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی طرف میلان پیدا ہوتا جاتا ہے.لیکن سارے حالات کو دیکھتے ہوئے میرے نزدیک صحیح تعریف یہ مجھنی چاہئے کہ : صحابی وہ ہے.جس نے مومن ہونے کی حالت میں نبی کا زمانہ پایا.اور اسے نبی کو دیکھنا یا اس کا کلام سننا یا د ہے.( مطبوعه الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء)

Page 760

مضامین بشیر ۷۴۸ چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست چندہ حفاظت مرکز اور چندہ امداد درویشان کا فرق ملحوظ رکھا جائے گذشتہ ایام کی غیر معمولی مصروفیت کی وجہ سے چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست کچھ عرصہ سے شائع نہیں کی جاسکی.سواب ذیل میں ان اصحاب کی فہرست درج کی جاتی ہے.جنہوں نے گذشتہ اعلان کے بعد چندہ امداد درویشان کی مد میں رقوم ارسال کی ہیں.اللہ تعالے ان سب بہنوں اور بھائیوں کو جزائے خیر دے.اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.ذیل کی فہرست صرف جلسہ سالانہ تک وصول شدہ رقوم سے تعلق رکھتی ہے.باقی ماندہ فہرست انشاء اللہ بعد میں شائع کی جائے گی.یہ فہرست درج کرنے سے پہلے یہ صراحت کر دینی بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ ربوہ کی تقریر میں فرمایا تھا.چندہ امداد درویشاں چنده حفاظت مرکز سے بالکل مختلف چیز ہے اور دوستوں کو چاہئے کہ ان ہر دو چندوں کے فرق کو ملحوظ رکھیں.چندہ حفاظت تو وہ مرکزی چندہ ہے جو حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی تحریک کے ماتحت مرکز سلسلہ کی حفاظت اور قیام کے لئے جاری شدہ ہے اور اس کی ابتدائی تحریک قادیان میں ہی ہو گئی تھی.اس کے مقابل پر چندہ امداد درویشان وہ چندہ ہے جو ہجرت کے بعد حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی منظوری سے قادیان کے درویشوں اور ان کے پاکستانی رشتہ داروں کی وقتی اور عارضی امداد کے لئے جاری کیا گیا ہے.چندہ حفاظت مرکز محاسب صاحب صدرانجمن احمد یہ ربوہ (متصل چنیوٹ) کے نام جانا چاہئے اور چندہ امداد درویشان میرے دفتر رتن باغ لاہور میں آنا چاہئے اور میرا طریق یہ ہے کہ میں انفرادی رسیدوں کی بجائے چندہ امداد درویشاں کے متعلق الفضل کے ذریعہ یکجائی اعلان کرا دیا کرتا ہوں.بہر حال چندہ امداد در ویشان کی تازہ فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.(۱) اہلیہ صاحبہ مولوی عطا محمد صاحب کا رکن دفتر بہشتی مقبره ربوه (۲) عبد الرحمن صاحب خان ڈوگر ڈاکخانہ مانگا ( ضلع لاہور ) (۳) حسین بی بی صاحبہ لوہاری گیٹ چوک ستی لا ہور بذریعہ محمد حسین صاحب ۲/-/- ۲۰/-/- ٢/-/-

Page 761

۷۴۹ (۴) اہلیہ صاحبہ میر ظفر اللہ صاحب شیخ پور ضلع گجرات (۵) ملک شیر بہادر خان صاحب امیر جماعت احمد یہ خوشاب (۶) مسماۃ آیا د فاتن بنگالن حال لاہور (۷) اہلیہ مفتی عبدالمالک صاحب مرحوم آف قادیان حال لاہور (۸) ہمشیرہ سید ولی اللہ صاحب مبلغ افریقہ مضامین بشیر 1-/-/- ۵/-/- ۵/-/- ۶/-/- (۹) آمنہ بیگم صاحبہ مرحومہ زوجہ قاضی حبیب اللہ صاحب لاہور ( انکے ایک عزیز کی طرف سے ایک ٹکڑا کپڑا) (۱۰) بیگم کیپٹن فتح محمد صاحب چوہدری را ولپنڈی (۱۱) بیگم محمد دلاور خان صاحب اچار باغ.کینال.بنگلہ ضلع ملتان ( ۱۲ ) جمعدار مولوی عبد الصمد صاحب کا لاگوجراں جہلم (۱۳) عبدالقیوم صاحب کا لا گو جراں جہلم (۱۴) کرامت اللہ صاحب انبالوی حال سلانوالی ضلع سرگودہا (۱۵) عبداللہ خاں صاحب آف کپورتھلہ حال خانپور (۱۶) والدہ محمد یا مین صاحب سیمنٹ بلڈنگ لاہور (۱۷) فلائٹ لفٹنٹ ملک بشیر احمد صاحب لاہور برائے صدقہ بکرا قادیان (۱۸) ملک غلام نبی صاحب معرفت حکیم سردار محمد صاحب ڈگری سندھ (۱۹) فضل کریم صاحب پلیڈر پتو کھالی ضلع با کر گنج (۲۰) سید مسعود شاہ صاحب اسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس نواں کوٹ (۲۱) مولوی ارجمند خاں صاحب تعلیم الاسلام کالج لاہور (۲۲) امتہ الحئی صاحبہ بنت مولوی محمد اعظم صاحب فیروز پوری حال لاہور (۲۳) نصیر احمد صاحب بھٹی رتلا روڈ راولپنڈی (۲۴) شیخ محمد اکرم صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ لائل پور (۲۵) شیخ قدرت اللہ صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ (۲۶) شیخ عظمت اللہ صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ (۲۷) مسماۃ اللہ رکھی ربوہ زوجہ عبدالرحمن صاحب در ولیش (۲۸) اہلیہ صاحبہ چوہدری بشیر احمد صاحب بشیر آباد اسٹیٹ سندھ 1-/-/- ۲۰/-/- ۵/-/- ۵/-/- ۵/-/- ۵/-/- ۵/-/- ۳۰/-/- ۵/-/- 1-/-/- ۵/-/- ۵/-/- ٢/-/- ۵/-/- ۵/-/- ۵/-/- ٢/-/- ۵/-/-

Page 762

مضامین بشیر ۷۵۰ (۲۹) چوہدری محمد حسین صاحب ایس ڈی او چمبر ضلع حیدرآبا دسندھ (۳۰) خانصاحب دانشمند خاں صاحب سکنہ محب بانڈہ معرفت مرزا اللہ دتا صاحب نوشہرہ چھاؤنی (۳۱) اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب را نجھا کراچی (۳۲) صوبیدار میجر عبدالرحمن صاحب آف جہلم حال کوئٹہ (۳۳) چوہدری محمد شریف صاحب آف قادیان حال لائکپور (۳۴) شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال ٹو بہ ٹیک سنگھ برائے چندہ جلسہ سالانہ قادیان (۳۵) شیخ محمد بشیر صاحب آزا دا بنالوی حال مرید کے (۳۶) محمد سعید صاحب ہیر آباد حید ر آ با دسندھ (۳۷) اہلیہ صاحبہ محمد یحیی خانصاحب مرحوم آف قادیان حال لاہور (۳۸) امتہ المجید صاحبہ ایم.اے بنت میاں وزیر محمد صاحب حال لاہور (۳۹) ایچ ایم مرغوب اللہ صاحب دوا خانہ جلیل قلعہ شیخو پورہ (۴۰) شیخ رحمت اللہ ومحمد عبد اللہ صاحبان لنڈا بازار لاہور ۶ عدد کوٹ برائے امداد درویشاں (۴۱) اخوند فیاض احمد صاحب تعلیم الاسلام کالج لاہور 1-/-/- ۵/-/- ۲/-/- ۱۵/-/- ۵/-/- ۵/-/- ۲۵/-/- ۵/-/- 1+/-/- 1113 /-/- میزان رقوم : -/-/۳۰۷ اللہ تعالیٰ ان سب بہن بھائیوں کو جزائے خیر دے.اور دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے.آمین - مطبوعه الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۵۰ء)

Page 763

۷۵۱ مضامین بشیر کسی سچے مومن کا ذاتی ” گلہ شکوہ" اسے ایمان سے متزلزل نہیں کر سکتا اعمال کے مدارج کو ملحوظ رکھنا بہر حال ضروری ہے خلافت کا نظام نبوت کے نظام کا تمہ ہے کچھ عرصہ ہوا مجھ سے ایک صاحب نے جو قادیان سے ہجرت کر کے لاہور آئے ہوئے ہیں ذکر کیا کہ جب قادیان میں مجھے فلاں صدمہ پہنچا تھا.تو اس وقت میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے مشورہ کرنے اور حضور کے مشورہ سے تسکین پانے کی غرض سے حضور سے ملاقات کے لئے گیا تھا.مگر کافی دیر تک انتظار کرنے کے باوجود پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے ملاقات کا موقعہ نہیں دیا.حالانکہ میں اس وقت بیمار بھی تھا.اور کئی لوگ جو میرے بعد آئے تھے انہیں ملاقات کا موقعہ دے دیا گیا.ان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ملاقات کے لئے منتخب ہونے والوں کی فہرست پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر کی طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں بھجوائی گئی تھی اور حضور ہی کے انتخاب کے ماتحت ملاقات کرنے والوں کے نام چنے گئے تھے.اس لئے مجھے سخت دل برداشتہ ہو کر اور انتہا درجہ کی جسمانی اور روحانی کوفت اٹھا کر واپس آنا پڑا.جس کا مجھے بے حد رنج ہوا اور اب تک رنج ہے.اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد ان صاحب نے کمال سادگی کے انداز میں مجھ سے پوچھا کہ ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہئے.اور ساتھ ہی فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کی صداقت پر تو مجھے پورا پورا ایمان ہے.اور یہ تعلق کبھی کٹ نہیں سکتا.مگر اس واقعہ کی وجہ سے مجھے حضرت امیرالمومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے میں شرح صدر نہیں رہا.یہ بات کہہ کر یہ صاحب تشریف لے گئے ( کیونکہ عین اسوقت بعض دوست ملنے کے لئے آگئے تھے ) اور جاتے ہوئے یہ صاحب کہہ گئے کہ مجھے اس کا جواب بعد میں دے دیا جائے.چنانچہ چند دن کے بعد

Page 764

مضامین بشیر ۷۵۲ ان کی طرف سے یاد دہانی کا خط بھی پہونچا.جس میں لکھا تھا کہ مجھے آپ کے جواب کا انتظار ہے.سو میں اس مختصر نوٹ کے ذریعہ ان صاحب کے اعتراض کا جواب الفضل میں شائع کرا رہا ہوں تا کہ اگر میرے اس جواب سے ان صاحب کی تسلی نہ ہو تو کم از کم دوسرے دوست ہی میرے اس نوٹ سے اصولی رنگ میں فائدہ اٹھا سکیں.وما توفيقى الا بالله العظيم سب سے پہلی بات جو میں اس تعلق میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ کسی مامور من اللہ پر ایمان لانے والا شخص اپنے اس ایمان سے خدا پر یا جماعت پر کوئی احسان نہیں کرتا.بلکہ دراصل یہ خدا کا احسان ہوتا ہے کہ اسے اس ایمان کی توفیق ملتی ہے.پس اس معاملہ میں حقیقتاً مشورہ وغیرہ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو سکتا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور اس کی ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت پر ایمان لانے کی توفیق ملنا خدا کی طرف سے ایک انعام ہے تو پھر کسی مومن کہلانے والے کی طرف سے یہ سوال کہ میں اس خدائی انعام کو اپنے ہاتھ میں رکھوں یا کہ اس سے دست بردار ہو جاؤں ایک ایسا سوال ہے جس کا فلسفہ کم از کم میری سمجھ سے بالا ہے.اور بہر حال اس میں مشورہ کا کوئی سوال نہیں کیونکہ ہر بچے احمدی کا اس موقعہ پر صرف ایک ہی جواب ہوسکتا ہے.اور یہ جواب وہی ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک موقعہ پر حضرت عمر کو دیا تھا کہ ”جس خدائی سواری کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے تم نے اس کی رکاب پر ہاتھ رکھا ہے.اسے کسی ادھر ادھر کے خیال سے ڈھیلا نہ ہونے دو.ورنہ تمہارا اس منزل مقصود تک پہونچنا ایک خیال موہوم ہو گا جو خدائے علیم و قدیر نے اس سواری کے لئے مقدر کر رکھی ہے.یہ جواب حضرت عمرؓ کو اس وقت دیا گیا تھا جبکہ وہ ایک ایمانی غیرت کے جوش میں صلح حدیبیہ کی بظاہر تحقیر آمیز شرائط پر پیچ و تاب کھا رہے تھے تو پھر کس قدر افسوس ہے اس شخص پر جو کسی دینی بات پر نہیں بلکہ ایک ذاتی اور وقتی رنجش کو آڑ بنا کر منزل مقصود سے پہلے ہی تھک کر بیٹھ جانے کا بہانہ ڈھونڈ رہا ہے.میں نے یہ الفاظ لعن طعن کے رنگ میں نہیں لکھے.بلکہ ولی درد کے ساتھ لکھے ہیں اور کاش وہ اسی درد سے قبول کئے جائیں.دوسرا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ جہاں سوال کرنے والے دوست نے اپنی تکلیف اور اپنی یشانی کا خیال کیا.وہاں انہوں نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز پر بھی یہ حسن ظنی کیوں نہیں کی کہ وہ اس وقت کسی اہم دینی کام میں مصروف ہو نگے.اور کم فرصتی کی وجہ سے یا علالت طبع کی وجہ سے انہوں نے اس وقت مجبوراً صرف چند آدمیوں کا انتخاب کر کے انہیں ملاقات کے لئے بلا لیا ہو گا.کیا مصروفیت اور پریشانی اور بیماری کا ورثہ صرف ان صاحب کے لئے ہی مقدر ہے.اور دوسرا کوئی شخص ان باتوں میں مبتلا نہیں ہو سکتا؟ تو جب دوسرے لوگ بھی جو ہمارے اس

Page 765

۷۵۳ مضامین بشیر دوست سے بدرجہا ز زیادہ کام کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں.مجبوریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ انسان اپنی تکلیف کا تو خیال کرے لیکن امام کی تکلیف اور امام کی پریشانی اور امام کی مصروفیت کا اسے کوئی احساس نہ ہو! یقیناً یہ ایک بہت بھونڈی قسم کی تقسیم ہے جس سے ہر مخلص اور سنجیدہ آدمی کو پر ہیز کرنا چاہئے.تیسری بات اس تعلق میں قابل غور یہ ہے کہ خود اپنے بیان کے مطابق یہ صاحب اس واقعہ کے قریباً آٹھ نو ماہ بعد قادیان میں مقیم رہے.اور اس کے بعد فسادات کی وجہ سے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے تک انہوں نے قادیان میں یہ سوال نہیں اٹھایا.اور ان کا یہ شکوہ ان کی زبان پر نہیں آیا.لیکن جونہی وہ قادیان سے نکل کر لاہور آئے.اور ہجرت کی وجہ سے جماعت کی تنظیم کو بظا ہر ایک دھکا پہو نچا.تو ان صاحب کے پرانے دبے ہوئے گلے شکوے با ہر آنا شروع ہو گئے ؟ کیا اس صورت میں ہر شخص یہ خیال کرنے کا حق نہیں رکھتا.دراصل یہ گلہ شکوہ اس بیان کردہ واقعہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس ناگوار تزلزل کی وجہ سے ہے.جو قادیان کی ہجرت اور جماعت کے وقتی انتشار کی بناء پر بعض کمزور لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے.غور کا مقام ہے کہ ایک خاص قسم کا جذبہ اور ایک غیر معمولی نوع کا احساس نو ماہ کے طویل عرصہ تک دل کی گہرائیوں میں مخفی رہتا ہے اور زبان تک آنے کا نام نہیں لیتا.لیکن جو نہی کہ قادیان سے جماعت باہر نکلتی ہے.اور اس میں ایک وقتی انتشار کی صورت پیدا ہوتی ہے تو یہ خفی جذبہ ایک بھاری گلہ شکوہ بن کر پھوٹ پڑتا ہے.میں بدظنی نہیں کرتا لیکن ان صاحب کی ہمدردی کے خیال سے انہیں توجہ دلانے پر مجبور ہوں کہ وہ خدا را سوچیں اور غور کریں کہ کیا ان کا نفس انہیں دھو کہ تو نہیں دے رہا اور کیا ان کا یہ اعتراض موجودہ ابتلا کا نتیجہ تو نہیں ؟ انہیں یا درکھنا چاہئے کہ سچے مومن کا قدم ہر آزمائش اور ابتلاء کے وقت میں آگے کی طرف اٹھتا ہے.پس جس شخص کا قدم امتحان کے وقت میں پیچھے ہٹنے یا لغزش کھا کر نیچے گرنے کی طرف مائل ہو اسے فرضی اور جھوٹی باتوں سے تسلی پانے کی بجائے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے.میرے یہ الفاظ بھی شاید تلخ سمجھے جائیں مگر نیک نیتی کی تلخی نیک نیت لوگوں کو بری نہیں لگنی چاہئے.چوتھا جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ ہماری شریعت نے اعمال کے مختلف در جے مقرر کر رکھے ہیں اور ہر سچے مومن کا فرض ہے کہ جب اس کے سامنے دو ایسے عمل پیش ہوں جن میں سے وہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے صرف ایک کو اختیار کر سکتا ہو.تو اسے چاہئے کہ بہتر عمل کو اختیار کر کے نسبتاً ادنیٰ عمل کو اس پر قربان کر دے.نیکیاں دنیا میں بے شمار ہیں اور ہر انسان کو چاہئے کہ حتی الوسع ہر نیکی پر عمل کرنے کی کوشش کرے لیکن جہاں کسی خاص موقع پر دو نیکیاں آپس میں ٹکراتی ہوں وہاں انسان کا

Page 766

مضامین بشیر ۷۵۴ فرض ہے کہ اعلیٰ درجہ کی نیکی کو لے لے اور نسبتا کم درجہ کی نیکی کی طرف سے آنکھیں بند کر کے خاموش ہو جائے.شریعت اسلامی کا یہ ایک ایسا مسلمہ اصول ہے جس کی ہر زمانہ میں ہر مصلح نے تلقین کی ہے حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ بسا اوقات بعض مسلمان آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہ اس وقت ہمارے سامنے دو نیکیاں ہیں ہم ان میں سے کس کو اختیار کریں اور آپ ایسے موقعہ پر بلا تامل فرماتے تھے کہ اس وقت فلاں نیکی کو اختیار کر وا اور فلاں کو چھوڑ دو چنا نچہ قرآن شریف بھی اس بنیادی اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَهَدَ فِي سَبِيلِ اللهِ لَا يَسْتَوْنَ عِنْدَ اللهِ دو یعنی اے لوگو بے شک حاجیوں کو پانی پلانا اور بیت اللہ کو آباد رکھنا ایک نیکی ہے لیکن کیا صرف اس نیکی کو اختیار کرنے والا شخص اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو خدا پر ایمان لاتا اور یوم آخرت پر یقین رکھتا اور خدا کے رستے میں جان و مال سے جہاد کرتا ہے سنو اور سمجھو کہ یہ دو گروہ کبھی بھی خدا کے حضور برابر نہیں ہو سکتے.یہ اصولی آیت بہت سے جزوی مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہے کیونکہ اس آیت میں خدا تعالے یہ فلسفہ بیان فرماتا ہے کہ نیکیوں کے مختلف درجے ہوتے ہیں اور ہر درجہ کا علیحدہ علیحد ہ مقام ہے اور سب سے اعلیٰ نیکی وقت کے مامور کے ذریعہ خدا کی آواز پر کان دھرنا اور ایک جان ہو کر اس کے دین کی خدمت میں کمر بستہ رہنا ہے.اب ہمارے معترض مہربان خودسوچیں کہ احمدیت کی صداقت اور جماعتی تنظیم کے ساتھ وابستگی کے مقابل پر اس قسم کی ذاتی باتوں کو کیا وزن حاصل ہے کہ فلاں تکلیف کے وقت ہمارے ساتھ ہمدردی نہیں کی گئی یا ہم فلاں وقت ملاقات کے لئے آئے اور ہمیں ملاقات کا وقت نہیں ملا وغیرہ وغیرہ؟ ہمدردی اور دلداری یقیناً ایک اچھی چیز اور نیکی کا فعل ہے مگر اسے ایمان اور جماعتی اتحاد کے مقابلہ پر لانا بعینہ اسی قسم کی بات ہے جیسا کہ مکہ کے قریش کہتے تھے کہ ہم حاجیوں کو پانی پلانے اور کھانا کھلانے والے پارسا لوگ ہیں.ہمارے مقابلہ پر کسی اور کی نیکی کیا حقیقت رکھتی ہے؟ میں مانتا ہوں کہ انسان کی فطرت میں جذبات کا بھاری خمیر ہے اور وہ بسا اوقات جذباتی باتوں میں بڑی جلدی ٹھو کر کھاتا اور اپنے لئے لغزش کا سامان پیدا کر لیتا ہے لیکن خالق فطرت نے جذبات کے ساتھ عقل کا پاسبان بھی تو مقرر کر رکھا ہے اور یہ پاسبان اسی غرض سے ہے کہ انسان کو جذبات کی رو میں بہہ کر گمراہ ہونے سے بچائے.پس ہمارے ان دوست کو سوچنا اور غور کرنا چاہئے کہ اول تو ممکن ہے کہ اس وقت ان کی طرح حضرت صاحب کی طبیعت بھی علیل ہو اور وہ زیادہ

Page 767

۷۵۵ مضامین بشیر ملاقاتوں کے لئے وقت نہ نکال سکتے ہوں اس لئے حضور نے وقتی خیال کے مطابق صرف چند نام چن لئے ہوں یا اس وقت حضور کو کوئی اور غیر معمولی مصروفیات ہوں اور زیادہ ملاقاتوں کی گنجائش نہ نکالی جا سکتی ہو یا کوئی اور مجبوری در پیش ہو جس کا ان صاحب کو علم نہ ہو یا کسی مصلحت سے جس کا اظہار مناسب نہ ہو حضور اس وقت نہ مل سکے ہوں وغیرہ وغیرہ.الغرض بیسیوں قسم کے امکانات ہیں جن سے ایک حسن ظنی کرنے والا انسان تستی یا سکتا ہے لیکن اگر بالفرض اس وقت بشری لوازمات کے ماتحت جلدی میں پوری سوچ بچار کے بغیر ہی انکار ہو گیا ہو تو پھر بھی اس ذاتی اور وقتی اور جزوی بات کے نتیجہ میں یہ سوال اٹھا نا کہ پھر خلافت کے ساتھ وابستگی اور جماعت کے ساتھ منسلک رہنے کا کیا فائدہ ہے ، ہاتھی کو نگلنے اور مچھر پر تھو تھو کر نے والی بات ہے.پانچویں بات میں ان صاحب سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا انہوں نے یہ قرآنی آیت کبھی نہیں پڑھی کہ : وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمُ 1 یعنی اگر تم کسی شخص کی ملاقات کے لئے جاؤ اور وہ اس وقت تمہیں نہ مل سکے اور تم سے واپس لوٹ جانے کے لئے کہا جائے تو تم (برا ماننے کے بغیر واپس لوٹ جاؤ یہ تمہارے اخلاق اور باہمی تعلقات کے لئے بہت بہتر طریق ہے اور اس کے نتیجے میں تمہارے دلوں میں پاکیزگی اور طہارت کے جذبات پیدا ہو نگے.پس اگر ہمارے یہ دوست نیکیوں کے درجے ماننے کے لئے تیار نہیں اور اپنی ضد میں ملاقات سے انکار کو خلافت سے انکار کے برابر رکھ کر تو لنا چاہتے ہیں تو کم از کم اس قرآنی آیت سے ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں جو ملاقات سے انکار کو بخوشی قبول کرنے اور طہارتِ نفس کا ذریعہ بنانے کی تلقین کرتی ہے.باقی رہا یہ خیال کہ ہم تو صرف موجودہ جماعتی تنظیم کے متعلق کہتے ہیں ورنہ احمدیت یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کو تو ہم ایک لعنت خیال کرتے ہیں.سو یہ خیال نفس کے دھو کے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.خلافت کا نظام یقیناً نظام نبوت کا تمہ اور اس کا ایک ضروری اور لازمی حصہ ہے کیونکہ خدا تعالے کی یہ سنت ہے کہ جب وہ دنیا میں کوئی عظیم الشان تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے تو اولاً وہ ایک مامور اور مرسل کے ذریعہ ایک جماعت پیدا کر کے ایک نئے نظام کی تخم ریزی کرتا ہے اور چونکہ ایک نبی کی عمر بہر حال محدود ہوتی ہے اس لئے اس کے بدلے خدا تعالے مناسب وقت تک سلسلہ خلفاء کے ذریعہ اس نئے نظام کو اپنی تقدیر خاص کے ماتحت آہستہ آہستہ پختہ اور مضبوط کر

Page 768

مضامین بشیر ۷۵۶ کے اس تخم کو ایک درخت کی صورت میں قائم فرما دیتا ہے جس کے بعد یہ نظام خدا کی تقدیر عام کے ما تحت طبعی طریق پر ترقی کرتا چلا جاتا ہے.لہذا جو شخص خلافت پر معترض ہوتا یا اس سے اپنا تعلق کا متنا ہے وہ درحقیقت روحانی مرسلوں اور ماموروں کی بعثت کو ایک کھیل قرار دینا چاہتا ہے کہ گویا خدا نے نعوذ باللہ ایک کھلونا بنایا اور پھر اسے فوراً ہی کچی حالت میں ٹوٹنے پھوٹنے کیلئے غفلت میں چھوڑ دیا.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ شَدَّ شُدَّ فِي النَّارِ : یعنی جو شخص جماعت کی تنظیم سے کہتا ہے وہ خدا کی رحمت سے بھی کاٹا جائے گا.“ پس خلافت کا نظام ( جب تک بھی وہ خدا کے علم میں مقدر ہو ) دراصل نبوت کے نظام کا تمہ اور اس کی ایک لازمی فرع اور شاخ ہے اور اس سے اپنے تعلق کو کاٹنے والا اس دھو کے میں ہرگز نہیں رہنا چاہئے کہ جڑھ اس کے پاس محفوظ ہے مگر یہ ایک جدا گانہ سوال ہے جس کے متعلق انشاء اللہ کسی اور موقعہ پر لکھنے کی کوشش کروں گا.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین.مطبوع الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۵۰ء)

Page 769

۷۵۷ ایک ضروری تصحیح مضامین بشیر چند دن ہوئے میں نے قادیان میں ٹھہرے ہوئے تھیں کس صحابیوں کی فہرست شائع کی تھی.اور اس ضمن میں یہ بھی ذکر کیا تھا کہ ان میں سے فلاں فلاں تین صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۳۱۳ والی فہرست مندرجہ انجام آتھم میں بھی شامل ہیں.یہ اطلاع مجھے قادیان سے آئی تھی لیکن افسوس ہے کہ اس میں ایک غلطی رہ گئی.اور وہ یہ کہ ۳۱۳ والی فہرست میں میاں محمد دین صاحب سکنہ کھاریاں حال در ولیش قادیان کو شامل نہیں کیا گیا.حالانکہ وہ اس میں شامل ہیں.غالباً محترم بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو ان کے متعلق اس وجہ سے غلط فہمی ہو گئی ہوگی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم کی ۳۱۳ والی فہرست میں میاں محمد دین صاحب کو سکنہ کھاریاں کی بجائے سکنہ بلانی ضلع گجرات کر کے لکھا ہے.کیونکہ ان دنوں میں وہ بلانی میں پٹواری ہوتے تھے.بہر حال میں نے انجام آتھم دیکھ کر خود تسلی کر لی ہے.اور میاں محمد دین صاحب سکنہ کھاریاں حال در ویش قادیان یقینی طور پر ۳۱۳ صحابیوں والی فہرست میں شامل ہیں.( مطبوعه الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۵۰ء)

Page 770

مضامین بشیر ۷۵۸ وو ایک احمدی خاتون کا سوال اور اس کا جواب نماز میں بے تو جہی اور پریشان خیالی کا صحیح علاج ایک احمدی خاتون جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا ایک خط کے ذریعہ نماز میں اپنی پریشان خیالی کا ذکر کر کے اس کا علاج دریافت کرتی ہیں.چنانچہ اس خاتون کے الفاظ یہ ہیں : مجھے ایک سخت کام کے لئے آپ کی خدمت میں عرض کرنی پڑی ہے وہ یہ کہ جب میں نماز پڑھنے لگتی ہوں تو میرا نفس اور شیطان مجھ پر یکدم حملہ کر دیتے ہیں.اور میں طرح طرح کے خیالوں میں پھنس جاتی ہوں.تہجد کے وقت میں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتے.دعا کرتی ہوں کہ یا اللہ میرا وجود احمدیت کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ ہو.کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ایسی نماز سے کیا فائدہ چھوڑ دینی چاہئے...دعا فرما ئیں اور کچھ ہدایت بھی ملنی چاہئے.اس کے لئے الفضل بہتر ہے.شائد میری طرح کوئی اور بہنیں بھی اس مرض میں مبتلا ہوں.“ ( ایک احمدی خاتون ) اس احمدی خاتون کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں اس خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ با وجود اپنی موجودہ پریشان خیالی کے ہماری اس بہن کے دل میں خدا کے فضل سے دینداری کا سچا جذبہ پایا جاتا ہے اور دراصل یہی وہ نیک جذبہ ہے.جو ان کے اس خط کا محرک بنا ہے.ورنہ دنیا میں بے شمار مسلمان کہلانے والے لوگ ایسے ہیں جو نماز کے پاس تک نہیں پھٹکتے.اور پھر بھی ان کے دل میں اس نعمت سے محرومی کا کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا.پھر بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو رسمی طور پر نماز تو پڑھتے ہیں لیکن وہ نماز کے بچے ذوق سے محروم ہوتے ہیں.اور پھر بھی انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ نماز کی حقیقی روح سے خالی ہیں.لیکن اس کے مقابل پر ہماری بہن کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا کہ گو میں پابندی کے ساتھ نماز پڑھتی ہوں اور خدا کی خاطر پڑھتی ہوں.اور تہجد کی بھی پابند ہوں.مگر نماز کے حقیقی ذوق سے محروم ہوں اور اسکی وجہ سے اس خاتون کے دل میں اضطراب اور بے چینی کا پیدا ہونا یقیناً اس کی قابل تعریف نیکد لی اور دینداری کی علامت ہے.بلکہ میرے خیال میں اس خاتون کا یہ احساس بالواسطہ طور پر احمدیت کی صداقت کی بھی دلیل ہے.کیونکہ یہ نیک جذ بہ در حقیقت احمدیت ہی کا پیدا کیا ہوا ہے کہ ہمیں اپنی عبادتوں کو بچے ذوق اور شوق کے ساتھ ادا کرنا چاہئے.ایک

Page 771

۷۵۹ مضامین بشیر عورت کا خدا کی خاطر نماز پڑھنا.اور پھر اس نماز میں ذوق نہ پیدا ہونے کی وجہ سے بے چینی محسوس کرنا یقیناً اس سلسلہ کی صداقت کی دلیل ہے.جس کی طرف یہ خاتون منسوب ہونے کا فخر رکھتی ہیں.لیکن اس خاتون کے خط میں ایک بات سے مجھے تکلیف بھی ہوئی.اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنے خط کو بسم اللہ کے مسنون طریق کی بجائے آجکل کے رواج کے مطابق ۷۸۶ کے عدد سے شروع کیا ہے یہ طریق جیسا کہ میں اپنے ایک سابقہ مضمون میں ثابت کر چکا ہوں بالکل غیر مناسب ہے کم از کم احمدی بھائی بہنوں کو جو احیاء شریعت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں کسی صورت میں مسنون اور با برکت طریق کو نہیں چھوڑ نا چاہئے.اس کے بعد میں مختصر طور پر اصل سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں.سو اس تعلق میں سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ نماز کے متعلق اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ انسان اسے خدا کی طرف سے عائد شدہ فرض سمجھ کر ادا کرے.ذوق اور شوق کا پیدا ہونا ایک بالکل جدا گانہ چیز ہے.جسے فریضہ نماز کی ادائیگی کے ساتھ کوئی بنیادی تعلق نہیں.جو شخص خدا کی خاطر نما ز پڑھتا ہے.اور اسے ایک مقدس فرض سمجھ کر ادا کرتا ہے.اور اس کی نماز محض عادت یا دکھاوے کی نماز نہیں ہوتی.وہ یقیناً خدا کے حضور سرخرو ہے.خواہ اسے نماز میں ذوق کی کیفیت پیدا ہو یا نہ ہو کیونکہ جو شخص سچی نیت کے ساتھ خدا اور اس کے رسول کا حکم بجا لائے وہ بہر حال خدا کے حضور نماز کا فرض پورا کرنے والا سمجھا جائے گا.اور خدائے رحیم کے فرشتے اس کی اس نیکی کو محفوظ کرنے اور اس کے حق میں ایک مقدس ذخیرہ شمار کرنے سے کبھی نہیں رکیں گے.پس پہلی بات میں اس احمدی خاتون سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر جیسا کہ ان کے خط سے ظاہر ہے.وہ اپنی نماز واقعی خدا کی خاطر ادا کرتی ہیں تو انہیں محض اس وجہ سے ہر گز نہیں گھبرانا چاہئے کہ ان کی نماز میں ذوق کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی.کیونکہ ذوق اور شوق ایک بالکل جدا گانہ چیز ہے.جس کا فریضہ کی ادائیگی ساتھ کوئی بنیادی تعلق نہیں.اس کی موٹی مثال یوں سمجھنی چاہئے کہ نماز ایک دوائی کا رنگ رکھتی ہے.جو ہمارے آسمانی طبیب نے ہماری روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے مقرر کی ہے.پس اگر کسی شخص کو دوائی کے پینے میں مزا نہیں آتا تو نہ آئے.دوائی بہر حال دوائی ہے.اور بیماری کے لئے مفید اور اسے کسی صورت میں چھوڑ انہیں جا سکتا.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک نوجوان حضرت خلیفہ اسیج اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کی کہ حضور مجھے نماز میں مزہ نہیں آتا.اور نہ ہی اس میں دل لگتا ہے.میرے لئے کیا حکم ہے؟ حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے مزاج اور ذہنی کیفیت کو سمجھتے تھے فوراً فرمایا کہ:- جاؤ میاں نماز تمہارے چسکے کے لئے نہیں بنی بلکہ یہ خدا کی طرف سے ایک فرض

Page 772

مضامین بشیر ہے.جو بہر حال ادا کرنا چاہیئے خواہ مزہ آئے یا نہ آئے.“ اور وہ نوجوان جو نماز سے چھٹی لینے کے لئے گیا تھا سر نیچے ڈالے واپس آ گیا.پس اصل چیز یہی ہے کہ نماز خدا کی طرف سے ہمارے لئے ایک فرض کے طور پر مقرر کی گئی ہے.اگر اس میں مزا آئے اور ذوق و شوق کی کیفیت پیدا ہو تو بجا ورنہ بہر حال وہ ایک فرض ہے.جو ہر صورت میں ادا ہونا چاہئے.بلکہ میں کہتا ہوں کہ جس شخص کو نماز میں لطف نہیں آتا.لیکن پھر بھی وہ خدا کی خاطر نماز ادا کرتا اور اس کا بندہ رہتا ہے.وہ ایک لحاظ سے (نہ کہ من کل الوجوه ) اس شخص سے بھی زیادہ قابل قدر ہے.جو نماز میں لطف پاتا ہے.کیونکہ جہاں مقدم الذکر شخص کی نماز محض خدا کی خاطر ہوتی ہے وہاں موخر الذکر شخص کی نیت میں کچھ ذاتی لطف کا محرک بھی شامل ہو جاتا ہے.اب رہا یہ سوال کہ جب شیطان بار بار نماز میں رخنہ پیدا کرتا اور وسوسہ اور اپنا خیال خیالی میں مبتلا رکھتا ہے تو پھر ایسی نماز کے پڑھنے سے کیا فائدہ ہے.اور کیوں نہ ایسی صورت میں نماز ترک کر دی جائے ؟ سو یہ خود ایک شیطانی دھوکا ہے.اور اس کا اصولی جواب وہی ہے جو اوپر والے نوٹ میں بیان کیا با ہے.کیونکہ جب نماز خدا کا ایک حکم ہے تو پھر اسے شیطان کی رخنہ اندازی سے چھوڑ دینے کے معنے ہیں کہ ہم نے نعوذ باللہ شیطان کے مقابلہ میں خدا کی شکست قبول کر لی.یعنی ہم نے خدا کے حکم سے ایک کام شروع کیا لیکن پھر شیطان کے ستانے سے ہتھیار ڈال کر بیٹھ گئے.ظاہر ہے کہ جب شیطان کا کام ہی گمراہ کرنا اور خدا کے راستہ سے روکنا ہے تو وہ لازماً ہر قدم پر ٹھوکر کا سامان پیدا کرے گا.لیکن انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کرے اور برابر مقابلہ کرتا ہی چلا جائے.خواہ اسے یہ لڑائی اپنی موت تک جاری رکھنی پڑے.اور اگر وہ شیطان سے ڈر کر یا تنگ آکر ہتھیار ڈال دے گا تو نہ صرف خود روحانی موت کا شکار ہو گا.بلکہ نعوذ باللہ خدا کے مقابلہ میں شیطان کی فتح قبول کرنے والا ٹھہرے گا.پس میں اس خاتون سے کہتا ہوں کہ شیطان کی اس جنگ سے ہرگز نہ گھبراؤ بلکہ اس کے ساتھ لڑتی چلی جاؤ.اور اگر اس مقابلہ کو موت تک جاری رکھنا پڑے تو پھر بھی ہمت نہ ہارو.کیونکہ تمہارے لئے یہ لڑائی گویا جہاد کا رنگ رکھتی ہے اور اگر تمہاری زندگی اسی جد و جہد میں ختم ہو جائے تو پھر بھی کوئی فکر کی بات نہیں کیونکہ اگر تم نیک نیت ہو تو اس صورت میں تمہیں گویا شہادت کا درجہ ملے گا کہ تم نے خدا کے راستہ میں لڑتے ہوئے جان دی.اور آسمان پر خدا کے فرشتے تمہیں دیکھ کر خوش ہو نگے.اور تم پر درود بھیجیں گے کہ خدا کی اس بندی نے شیطان کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے.اور خدا کے جھنڈے کو آخری وقت تک بلند رکھنے کے لئے لڑتی رہی.ہاں سوچو اور سمجھو کہ اگر نماز کا حکم واقعی خدا کی طرف سے ہے تو پھر شیطان سے تنگ آ کر نماز چھوڑ دینے کے صرف یہ معنے ہونگے کہ تم نے شیطان سے ڈر کر

Page 773

مضامین بشیر خدا کی ہار مان لی.اور اس کے مقابل پر نماز پڑھتے رہنے کے یہ معنے ہونگے کہ تم نے شیطان کے گلے ہے ، چوٹیں کھائیں، دھکے برداشت کئے مگر جس خدائی جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں اٹھایا تھا اسے نیچا نہیں ہونے دیا.اب خود سوچ لو کہ شیطان سے گھبرا کر نماز چھوڑ دینا بہتر ہے یا کہ شیطان کا مقابلہ کرتے ہوئے آخر وقت تک نماز بجالا نا زیادہ شاندار ہے؟ باقی رہا یہ سوال کہ نماز میں ذوق کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے.سواؤل تو میں بتا چکا ہوں کہ اگر ذوق نہ بھی پیدا ہوتو کوئی حرج نہیں.نماز بہر حال پاک فریضہ ہے جو ہر صورت میں ادا ہونا چاہئے.لیکن ہماری شریعت نے ہر بیماری کا علاج بتایا ہے.اس لئے جو شخص نماز میں ذوق وشوق کی کیفیت سے محروم ہے اسے بھی شریعت مایوس نہیں کرتی.چنانچہ اس تعلق میں سب سے پہلی بات قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ: فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ) الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ) الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ) د یعنی افسوس ہے ان لوگوں پر جو بظا ہر نماز تو پڑھتے ہیں مگر اپنی نماز کی حقیقت اور روح کی طرف سے غافل رہتے ہیں.ان کی نما ز صرف لوگوں کو نظر آنے والا ایک بت ہے جس کے اندر کوئی زندگی کی روح نہیں.“ اس آیت میں خدا تعالے نے یہ فلسفہ بیان فرمایا ہے کہ دوسری جاندار چیزوں کی طرح نماز کی بھی ایک روح ہے جو اس کے ظاہری جسم کے علاوہ اس کی اندرونی حقیقت کی حامل ہوتی ہے اور ہر سچے مومن کی کوشش ہونی چاہئے کہ نماز کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح کی حفاظت کا بھی خیال رکھے.پس نماز میں ذوق وشوق کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے پہلی بات یہ ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والا صرف نماز کے ظاہری ارکان یعنی قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ کو ہی نماز کا مقصد و منتہی نہ سمجھے اور محض مقررہ لفظی دعاؤں کا دہرانا ہی نماز کی غرض و غایت نہ قرار دے لے.بلکہ اس بات کو بھی مدنظر رکھے کہ نماز کے ظاہری جسم کے لئے ایک اندرونی روح بھی مقرر کی گئی ہے اور مجھے پوری پوری توجہ اور جستجو کے ساتھ اس روح تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے.جب نماز پڑھنے والا اس نیت اور اس زاویہ نظر کے ساتھ نماز میں داخل ہوگا تو قدرت کے نفسیاتی اصول کے ماتحت طبعا اس کے اندر ایک خاص قسم کی جستجو اور طلب اور تڑپ کی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور بالآخر یہی تڑپ اسے جسم کی حدود سے آگے لے جا کر روح کی حدود میں داخل کر دیگی.اصل مرض توجہ کی کمی ہوتی ہے جو عموماً نماز کی اہمیت اور نماز کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا کرتی ہے.لیکن جب انسان نما ز کو ایک برکت اور رحمت کا شعار اور روحانی زندگی کا ذریعہ سمجھ کر توجہ جمانا شروع کر دے تو اسی چیز میں جو پہلے ایک خشک اور بے جان جسم کا رنگ رکھتی تھی زندگی کی حرکت پیدا ہونے لگے گی.

Page 774

مضامین بشیر دوسرا گر نماز میں ذوق کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے ہمارے آقا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان پیارے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ : أن تعبد الله كانك تراه فان لم تكن تراه فانه يراك.B یعنی نماز میں صحیح قلبی کیفیت پیدا کرنے اور اس کے اندر زندگی کی روح پھونکنے کے لئے ضروری ہے کہ اے نماز پڑھنے والے تو جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو تیرا دل اس یقین سے معمور ہو کہ تو اپنے سامنے خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر تجھے شروع میں یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو کم از کم یہ تو ہو کہ تو یہ یقین رکھے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے.“ یہ حدیث ہمیں یہ زریں اصول بتاتی ہے کہ نماز میں زندگی کی روح اور شوق کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جب انسان نما ز پڑھنے لگے تو توجہ دے کر اس یقین کے ساتھ کھڑا ہو کہ میں اس وقت اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑا ہونے لگا ہوں اور جب وہ اپنی توجہ کو اس طرف لگائے گا تو اول تو اس کا دل اس شعور اور اس یقین سے بھر جائے گا اور اس کے باطن کی آنکھیں اس ایمان سے روشن ہو جائیں گی کہ اس وقت میرے سامنے میرا خدا کھڑا ہے اور میں اسے گویا دیکھ رہا ہوں اور کم از کم وہ اس یقین سے تو خالی نہیں رہے گا کہ میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے.اور یہ دونوں کیفیتیں نماز پڑھنے والے کے اندروہ زندگی کی روح پیدا کر دیں گی جو کچی نماز کی جان ہیں.علم توجہ کی طرف ہی دیکھو کہ انسان ذراسی مشق سے نہ صرف بے جان چیزوں بلکہ جاندار چیزوں پر بھی تسلط جما لیتا ہے اور انہیں گویا اپنا غلام بنا لیتا ہے تو کیا وہ توجہ کے زور سے خود اپنے دل میں وہ کیفیت پیدا نہیں کر سکتا جو نماز کو ایک زندہ حقیقت بنانے کیلئے ضروری ہے؟ بہر حال نماز میں ذوق وشوق پیدا کرنے کیلئے اسلام دوسرا گر یہ بتاتا ہے کہ نماز پڑھنے والا اس یقین کے ساتھ کھڑا ہو کہ میں اپنے آقا اور مالک کے سامنے کھڑا ہونے لگا ہوں اور یہ کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے.تیسرا گر حدیث ان الفاظ میں بیان کرتی ہے: ا الدعاء مخ العبادة 1 یعنی دعا نماز کیلئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو کہ ہڈی کے اندر کا گوداہڈی کیلئے رکھتا ہے.“ پس نماز میں توجہ قائم کرنے اور نماز کو ایک زندہ حقیقت بنانے کیلئے یہ گر بھی یقیناً ایک نہایت ہی لطیف اور آزمودہ گر ہے کہ انسان اپنی مضطر بانہ دعاؤں اور التجاؤں سے اپنی نماز میں زندگی کی حرکت پیدا کرے.ظاہر ہے کہ ہر انسان کو دین و دنیا کے میدان میں بیسیوں قسم کی اہم ضرورتیں پیش آتی رہتی ہیں.اور ان میں سے بعض ایسی ہوتی ہیں جو اس کے اندر غیر معمولی بے چینی اور اضطراب کی

Page 775

- ۷۶۳ مضامین بشیر کیفیت پیدا کر دیتی ہیں مثلاً دنیا کے میدان میں کبھی کسی شخص کو یا اس کے کسی عزیز کو کوئی خطرناک بیماری لاحق ہوئی ہے جس کی وجہ سے اسے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں اور کبھی مالی تنگی اور قرض کی مصیبت سر پر منڈلاتی ہے اور کبھی کسی مقدمہ کا بھوت پریشان کر رہا ہوتا ہے اور کبھی اولاد سے محرومی کا دکھ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ.اسی طرح دین کے معاملات میں کئی قسم کی پریشانیاں ستاتی ہیں جن میں سے ایک یہی دین سے بے رغبتی کا احساس یا عبادت میں لذت کی کمی کا خیال ہے جو نیک دل لوگوں کو پریشان رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ.تو ایسی سب حالتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہئے کہ نماز میں دعا کی عادت ڈالے اور رقت بھرے دل اور تڑپتی ہوئی روح کے ساتھ خدا کے آستانہ پر گرنے کا عادی بنے اور فرماتے ہیں کہ یہ وہ گودا ہے جو نماز کی کھوکھلی ہڈی میں زندگی کی جان پیدا کر دے گا.اس اصل کے ماتحت نماز کی دعاؤں میں ہمیشہ ان دعاؤں کو مقدم کرنا چاہئے جن کی وجہ سے انسان کے دل میں زیادہ تڑپ اور زیادہ اضطراب پیدا ہو تا کہ اس کی وجہ سے ہماری نماز زندگی کے جوش مارتے ہوئے خون سے مرتعش ہونے لگے.بھلا کوئی انسان یہ خیال کر سکتا ہے کہ اگر مثلاً اسے یا اس کے کسی نہایت قریبی عزیز کو کوئی سخت خطرناک اور مہلک بیماری لاحق ہو اور وہ اس کیلئے مضطرب ہو کر نماز میں دعا مانگے تو پھر بھی اس کی نماز ایک محض رسمی اور بے جان چیز رہ سکتی ہے؟ ہرگز نہیں ہر گز نہیں بلکہ مضطر بانہ دعاؤں والی نماز روح کو اس طرح پگھلا کر رکھ دیتی ہے کہ جس طرح سونا کٹھالی میں پڑ کر پکھلتا ہے.پس نماز میں توجہ اور شوق پیدا کرنے کا یہ ایک نہایت ہی عمدہ نسخہ ہے کہ انسان اپنی نماز کیلئے اپنی ان ضروریات کی دعاؤں کو چنے جن میں اسے حقیقی تکلیف اور اضطراب در پیش ہو.اس کے بعد وہ دیکھے گا کہ اس کی ہر نماز ایک جاندار حقیقت بن کر اس کے رگ وریشہ میں سرایت کرنے لگ جائے گی.چوتھا علاج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تجویز کردہ ہے.حضور ا کثر فرمایا کرتے تھے اور کئی جگہ لکھا بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی ازلی حکمت نے جسم اور روح کے درمیان ایک نہایت گہرا اور لطیف جوڑ قائم کر رکھا ہے جس کے نتیجہ میں جسم کی حالت کا اثر روح پر پڑتا ہے اور روح کی حالت کا اثر جسم پر پڑتا ہے مثلاً اگر جسم بیمار ہو تو روح اپنی ذات میں چوکس ہونے کے باوجود مضمحل ہونے لگتی ہے اور اگر روح کو کوئی صدمہ پہنچے تو جسم میں بھی باوجود اس کے کہ وہ اپنی ذات میں بالکل صحیح سالم ہوتا ہے ، دکھ اور رنج وغم کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اس لطیف فطری فلسفہ کے ماتحت حضور فرمایا کرتے تھے کہ اگر نماز اور دعا کے وقت انسان کے دل میں رقت اور سوز وگداز کی کیفیت نہ پیدا ہو تو اسے چاہئے کہ تکلف کے ساتھ اپنے جسم میں رقت کی ظاہری صورت پیدا کرنے کی کوشش کرے جس

Page 776

مضامین بشیر ۷۶۴ کے نتیجہ میں وہ دیکھے گا کہ بالآخر اس کی روح میں بھی سوز و گداز کی کیفیت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی کیونکہ روح جسم کے تاثرات سے آزاد نہیں ہو سکتی.پس چوتھا گر یہ ہے کہ نماز میں اگر دل کی توجہ نہیں پیدا ہوتی اور شیطان روح کے صحیح ذوق و شوق کے رستہ میں حائل رہتا ہے تو نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ وہ تکلف کے ساتھ اپنے جسم میں رقت کی صورت پیدا کرے جس کے نتیجہ میں انشاء اللہ روح میں بھی سوز پیدا ہونا شروع ہو جائیگا اور خدا کے فضل سے انسان اس مقصد کو پالے گا جو اس کیلئے نماز میں مقرر کیا گیا ہے.(۱) اس بات کو سمجھ لینا اور اسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا کہ نما ز صرف چند ظاہری ارکان کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے اندر ایک روح بھی رکھی گئی ہے جس کی طرف ہر نمازی کی توجہ رہنی چاہئے اور پھر جوئندہ یا بندہ.(۲) نماز میں اس یقین کے ساتھ کھڑے ہونا اور اپنے دل میں یہ احساس پیدا کرنا کہ میں اس وقت اپنے سامنے خدا کو دیکھ رہا ہوں یا کم از کم یہ کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے تا کہ اس کے نتیجہ میں صحیح قلبی کیفیت پیدا ہو جائے.(۳) نماز کو اپنی ایسی دعاؤں کے ساتھ معمور کرنا جو انسان کی حقیقی اور مضطربانہ ضرورتوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں تا کہ یہ دعائیں اس کے اندر ایک تڑپ اور بے چینی کی کیفیت پیدا کر دیں.(۴) اگر روح میں رقت کی کیفیت نہ پیدا ہو تو کم از کم جسم میں تکلف کے ساتھ رقت کی صورت پیدا کرنا جس کے نتیجہ میں بالآخر روح میں بھی رقت کی کیفیت پیدا ہو جائے گی.میں امید کرتا ہوں کہ اگر ہماری یہ سوال کرنے والی بہن اور ان کے ساتھ کی دوسری بہنیں فی الحال ان چارنسخوں کو آزمائیں گی تو انشاء اللہ خدا اپنے فضل سے ان کی مشکل کو حل فرما دے گالیکن جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں اگر بالفرض پھر بھی ان کی نماز میں ذوق وشوق کی کیفیت نہ پیدا ہو تو ہرگز نہ گھبرائیں بلکہ شیطان کے مقابلہ میں لگی رہیں.خواہ یہ مقابلہ موت تک جاری رکھنا پڑے.کیونکہ بہر حال خدا کی طرف سے شیطان کے ساتھ لڑتے ہوئے جان دینا اس بات سے بدر جہا بہتر ہے کہ انسان شیطان کے سامنے ہتھیار ڈال کر بیٹھ جائے اور نعوذ باللہ اپنے ہاتھ سے خدا کے جھنڈے کو سرنگوں کر دے.اور سب سے آخری بات وہی ہے جو میں شروع میں کہہ آیا ہوں کہ اگر بالفرض نماز میں مزا نہ بھی آئے تو پھر بھی انسان کا فرض ہے کہ اسے ایک روحانی دوائی سمجھتے ہوئے استعمال کرتا رہے کیونکہ دوائی بہر حال مفید ہوتی ہے خواہ وہ میٹھی لگے یا کہ کڑوی.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمین.( مطبوعه الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۵۰ء)

Page 777

مضامین بشیر پاکستان میں فوجی بھرتی مناسبت رکھنے والے احمدی نوجوان توجہ کریں کچھ عرصہ ہوا میں نے ائیر فورس اور ہوائی جہازوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے شعبوں کے متعلق جماعت میں تحریک کی تھی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رؤیا سے یہ بھی استدلال کیا تھا کہ جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے متبعین کی ظاہری ترقی پانیوں کے ساتھ وابستہ تھی اور اس کے متعلق انہیں ایک کشف بھی دکھایا گیا تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رویاء کے مطابق احمدیوں کی ظاہری ترقی زیادہ تر ہوائی فضا کے ساتھ وابستہ نظر آتی ہے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ احمدی نوجوان پاکستانی فوج کی دوسری شاخوں کی طرف توجہ نہ دیں کیونکہ بہر حال فوج کی ہر شاخ خدمت اور تربیت کا عمدہ موقعہ پیش کرتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.بہر حال آج کل حکومت کے محکمہ کی طرف سے اعلان شائع ہوا ہے کہ آرمی یعنی تیری فوج کے لئے آفیسر ز لائین میں نئی بھرتی کھولی جارہی ہے.جو اوٹی ایس کا تیسرا کورس کہلاتی ہے.یہ آفیسر ز کمیشن کے لئے بھرتی کئے جائیں گے.اور پھر حکومت انہیں خود اپنے خرچ پر تربیت دے کر کام پر لگائے گی.پس جو احمدی نوجوان اس کام کی اہلیت اور مناسبت رکھتے ہوں.اور ان کے حالات اسکی اجازت دیں انہیں چاہیئے کہ پاکستان آرمی کے تھر ڈاو.ٹی.ایس کو رس عارضی کمیشن کے لئے درخواست دیں.شرائط مختصر أحسب ذیل معلوم ہوئی ہیں : - (۱) درخواست دینے والا پاکستانی شہری ہو.(۲) عمر ساڑھے بیس سال سے کم اور تمہیں سال سے زیادہ نہ ہو.(۳) تعلیمی معیار کم از کم انٹرنس پاس ہو نا رکھا گیا ہے.یاسینئر کیمبرج وغیرہ (۴) درخواست مقررہ مطبوعہ فارم پر جو ہر ریکروٹنگ آفس سے مل سکتی ہے.۵ فروری ۱۹۵۰ء تک جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں پہنچ جانی چاہیئے.لیکن جتنی جلدی درخواست دی جائے بہتر ہوگا.( ۵ ) ہر درخواست کے ساتھ مندرجہ ذیل چیزیں شامل کی جائیں.(الف) انٹرنس یا اس کے مساوی امتحان پاس کرنے کا سرٹیفکیٹ

Page 778

مضامین بشیر ( ب ) عمر کا سرٹیفکیٹ ( ج ) عام صحت کا سرٹیفکیٹ جو کسی سند یافتہ ڈاکٹر سے حاصل کرنا چاہیئے.(1) سکول کے ہیڈ ماسٹریا کالج کے پرنسپل کا سرٹیفکیٹ کہ امیدوار کا چال چلن اچھا ہے.اور وہ فلاں فلاں کھیلوں میں حصہ لیتا رہا ہے.( ر ) دو پاسپورٹ سائز کے فوٹو (و) پانچر وپے کا پوسٹل کارڈ یا رسید خزانہ باقی تفصیلات مطلوبہ فارم کے ساتھ چھپی ہوئی ہیں.اور درخواست بھجوانے سے پہلے ضرور پڑھ لینی چاہئیں.احمدی نو جوانوں کو یا درکھنا چاہیئے کہ فوجی بھرتی کئی لحاظ سے مفید ہے کیونکہ اول تو اس سے حکومت کی خدمت کا موقعہ ملتا ہے.دوسرے فوجی تربیت حاصل ہوتی ہے.تیسرے عادات میں با قاعدگی اور فرض شناسی کا جذبہ ترقی کرتا ہے.اور چوتھے بریکاری دور ہوتی ہے.پس جو احمدی نوجوان فوجی بھرتی کی اہلیت اور مناسبت رکھتے ہوں انہیں ضرور اس موقعہ سے فائدہ اٹھانا چاہیئے.یہ بھی یا درکھنا چاہیئے کہ عارضی کمیشن میں بھرتی ہونے والوں کے لئے بعد میں مستقل ہونے کا بھی چانس ہوتا ہے.( مطبوعه الفضل ۲۴ /جنوری ۱۹۵۰ء)

Page 779

مضامین بشیر میرے ذریعہ روپیہ لگانے والے دوست اپنا مطالبہ قضاء میں رجسٹر کرا دیں جن دوستوں نے فسادات سے قبل قادیان کے کارخانہ داروں یا تاجروں یا زمینداروں کو کا روباری اصول پر کوئی روپیہ دیا تھا یا ویسے ہی کوئی رقم قرض دی تھی ان کے مطالبات کی خاص نوعیت اور فسادات کے مخصوص حالات کی وجہ سے حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بورڈ مقرر فرمایا ہے.جو سارے حالات سن کر اور ہر کیس کے کوائف کا مطالعہ کر کے شرعی فتویٰ کے مطابق فیصلہ کریگا.سوجن دوستوں نے قادیان میں میری معرفت کسی کارخانه دار یا تاجر یا زمیندار یا کسی دوسرے شخص کو کوئی روپیہ دیا تھا انہیں چاہیئے کہ فوراً اپنا مطالبہ صیغہ قضاء جماعت احمد یہ ربوہ متصل چنیوٹ میں رجسٹر کرا دیں تا کہ بورڈ مقررہ انکے مطالبہ کے متعلق بھی فیصلہ کر سکے.گوایسی رقوم کے متعلق میری کوئی شرعی یا قانونی ذمہ داری نہیں تھی لیکن میں اس اعلان کے ذریعہ اپنی اس اخلاقی ذمہ داری سے ہی سبکدوش ہوتا ہوں کہ میں نے انہیں ان کے مطالبہ کی امکانی حفاظت کیلئے بر وقت مطلع اور متنبہ کر دیا ہے.میں انشاء اللہ پرائیویٹ خطوں کے ذریعہ بھی دوستوں کو اطلاع دینے کی کوشش کروں گا.لیکن چونکہ سب دوستوں کے پتے محفوظ نہیں اور ڈاک کا انتظام بھی پوری طرح تسلی بخش نہیں اس لئے اس اخباری اعلان کا طریق اختیار کرنا ضروری سمجھا گیا ہے.( مطبوعه الفضل ۲۴ / جنوری ۱۹۵۰ء)

Page 780

مضامین بشیر ۷۶۸ اہلیہ صاحبہ بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب کی وفات پشاور سے اطلاع ملی ہے کہ اہلیہ صاحبہ بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب وفات پاگئی ہیں.اناللہ وانا اليه راجعون.محترمی بھائی صاحب اس وقت قادیان میں درویشی زندگی گذار ر ہے ہیں.اور نو مسلم ہونے کے علاوہ احمدیت میں سابقون اوّلون میں سے ہیں.اللہ تعالیٰ اس صدمہ میں ان کا حافظ و ناصر ہو اور مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے.آمین مرحومہ نہایت نیک اور خدمت گذار خاتون تھیں.محترمی بھائی صاحب کے ساتھ ان کی شادی خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تجویز اور تحریک کے مطابق ہوئی تھی.محترمی بھائی صاحب (جو میرے استاد بھی ہیں ) بسا اوقات ذکر فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرحومہ کے ساتھ ان کی شادی کی تحریک فرمائی تو بھائی صاحب نے ( جوا بھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ) یہ خیال کر کے کہ یہ بیوہ ہیں کچھ انقباض کا اظہار کیا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا : - ”میاں عبدالرحیم تم میری تجویز کو مان لو.انشاء اللہ تمہارے لئے یہ شادی با برکت ہوگی.“ بھائی صاحب بیان کیا کرتے ہیں کہ حضور کے یہ الفاظ سن کر میں نے اس تجویز پر شرح صدر کا اظہار کیا اور اس کے بعد میری اس بیوی نے ہماری طویل رفاقت میں مجھے اس طرح آرام پہنچایا اور میری اتنی خدمت کی اور میرے لئے ایسی بابرکت ثابت ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا.بہر حال مرحومہ ( جو خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب اور مولوی فضل دین صاحب وکیل کی ساس تھیں ) ایک بہت نیک اور بے نفس اور خدمت گذار خاتون تھیں.اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے.اور محترمی بھائی صاحب اور مرحومہ کی اولاد اور دیگر عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین ( مطبوعه الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء)

Page 781

دو درویشوں کی خطرناک علالت مضامین بشیر قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں اس وقت دو درویش بہت بیمار ہیں.ایک تو بابا اللہ دتہ صاحب سکنہ دوالمیال ہیں جو بوجہ تیز بخار قریباً بے ہوش ہیں اور ان کی حالت تشویشناک ہے اور دوسرے شیخ غلام جیلانی صاحب ہیں جنہیں بندش پیشاب کی سخت تکلیف ہے.احباب اِن ہر دو کو اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.مطبوعه الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۵۰ء)

Page 782

مضامین بشیر سیٹھ خیر الدین صاحب کے لئے دعا کی تحریک گزشتہ ایام میں سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنوی جو جماعت کے ایک مخلص بزرگ ہیں ، ایک فرقہ وارانہ فساد کے نتیجہ میں لکھنو میں زخمی ہو گئے تھے.اس کے بعد انہیں خدا کے فضل سے بڑی حد تک تخفیف ہو گئی لیکن تازہ خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تکلیف پھر بڑھ گئی ہے اور سر کی چوٹ کی وجہ سے بیماری میں پیچیدگی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے.دوست انہیں اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.( مطبوعه الفضل یکم فروری ۱۹۵۰ء)

Page 783

مضامین بشیر قادیان میں چوبیسواں صحابی صحابی کی تعریف میں دلچسپ اختلاف گذشتہ ایام میں میں نے ان تنیس کس صحابیوں کی فہرست شائع کی تھی جو اس وقت قادیان میں مقیم ہیں.اب اس کے بعد تازہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت قادیان میں ایک اور صحابی بھی موجود ہیں جن کا نام میاں سلطان احمد صاحب ولد چوہدری نور علی صاحب ساکن نواں پنڈ بہا در ضلع گورداسپور ہے.انہوں نے ۱۸۹۳ء میں قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.یہ گویا قادیان میں اس وقت چوبیس صحابی ہیں.اللہ تعالیٰ ان جملہ صحابیوں کی زندگی میں برکت دے اور ان کی برکتوں سے جماعت کے دیگر افراد کو نوازے.آمین اس کے علاوہ سابقہ فہرست کی اس غلطی کی اصلاح بھی کی جاچکی ہے.جس میں سہو قلم سے یہ شائع ہو گیا تھا کہ قادیان کے موجودہ صحابیوں میں سے میاں صدرالدین صاحب سکنہ قادیان اور محترمی بھائی چوہدری عبدالرحیم صاحب اور محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اس ۳۱۳ والی فہرست میں شامل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم کے ساتھ شائع فرمائی تھی.بعد کے اعلان میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ ان تین ناموں میں میاں صدرالدین صاحب سکنہ قادیان کا نام غلط شائع ہو گیا تھا اور صحیح نام میاں محمد الدین صاحب سکنہ کھاریاں کا ہے جو انجام آتھم والی فہرست میں شامل ہیں.میاں صدرالدین صاحب سکنہ قادیان گو بیشک پرانے صحابی ہیں لیکن انجام آتھم والی ۳۱۳ کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں.اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابل نوٹ ہے اس وقت قادیان میں ایک صاحب میاں عبدالرحیم صاحب بر اور مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ جماعت احمد یہ ہیں.میاں عبدالرحیم صاحب کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود نے ہی ان کا نام رکھا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو دیکھا بھی تھا.لیکن خود میاں عبد الرحیم صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دیکھنا یا دنہیں.ان حالات میں گومیری تعریف کے مطابق وہ صحابی نہیں بنتے لیکن بعض گذشتہ علماء کی تعریف کے مطابق وہ صحابی بن جاتے ہیں.ان

Page 784

مضامین بشیر علماء کی تعریف یہ ہے کہ صحابی وہ ہے جسے اس کے مومن ہونے کی حالت میں نبی نے دیکھا ہو.“ لیکن میرے نزدیک صحابی کی تعریف یہ ہے کہ صحابی وہ ہے جس نے اپنے مومن ہونے کی حالت میں نبی کو دیکھا ہو یا اس کا کلام سنا ہو.“ بہر حال یہ ایک قدیم اختلافی مسئلہ ہے اور حقیقت یہ ہے ( اور یہ ایک حد تک طبعی امر ہے ) کہ جوں جوں نبی کے زمانہ سے دوری ہوتی جاتی ہے لوگ فطرتا صحابی کی تعریف میں نرمی کا طریق اختیار کرتے جاتے ہیں.تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس پاک گروہ میں شامل کر کے اپنے لئے برکت اور رحمت کا موجب بنائے جائیں.چنانچہ زمانہ نبوت اور قرب زمانہ نبوت میں صحابی کی تعریف عموماً یہ کی جاتی رہی ہے کہ صحابی وہ ہے کہ جس نے نبی کا زمانہ پایا اس کی بیعت سے مشرف ہوا اسے دیکھایا اس کا کلام سنا اور اس کی صحبت سے مستفیض ہوا.“ اس کے بعد وہ درمیانی تعریف آتی ہے جو میں کرتا ہوں یعنی صحابی وہ ہے جس نے اپنے مومن ہونے کی حالت میں نبی کو دیکھا اس کا کلام سنا ہوا اور اسے نبی کو دیکھنا یا اس کا کلام سنا یا د ہو.“ اور تیسرے درجہ پر ( جو دراصل زمانہ نبوت کے بعد سے تعلق رکھتا ہے ) یہ تعریف آتی ہے کہ صحابی وہ ہے جسے اس کے مومن ہونے کی حالت میں نبی نے دیکھا ہو خواہ اسے خود نبی کو دیکھنا یا د نہ ہو.“ اس کے علاوہ بعض اور تعریفیں بھی کی گئی ہیں اور شاید اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے اکثر تعریفیں درست سمجھی جاسکتی ہیں.لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میرا ذاتی رجحان اوپر کی تین تعریفوں میں سے درمیانی تعریف کی طرف زیادہ ہے کیونکہ ایک طرف تو اس میں پہلی تعریف والی تنگی نہیں ہے اور دوسری طرف اس میں تیسری تعریف والی حد سے زیادہ وسعت بھی نہیں جس میں سے گویا صحبت والا مفہوم جو اصل مرکزی چیز ہے خارج ہو جاتا ہے.واللہ اعلم مطبوعه الفضل ۵ فروری ۱۹۵۰ء)

Page 785

بیمار درویشوں کے لئے دعا کی جائے مضامین بشیر اس سے قبل بابا اللہ دتا صاحب اور شیخ غلام جیلانی صاحب کی بیماری کی اطلاع شائع کی جا چکی ہے اب قادیان کے تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ خدا کے فضل سے شیخ غلام جیلانی صاحب کو قدرے افاقہ ہے.اور اب ان کے اپریشن کی تجویز کی جارہی ہے.بابا اللہ دتا صاحب کی بیہوشی تو دور ہو چکی ہے لیکن ابھی تک حالت خطرہ سے باہر نہیں.علاوہ ازیں آج کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ محترمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی پرسوں سے درد گردہ کی شدید تکلیف میں مبتلا ہیں بھائی صاحب قدیم مخلصین میں سے ہیں.احباب ان سب بیمار دوستوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں ( مطبوعه ۵ فروری ۱۹۵۰ء)

Page 786

مضامین بشیر ۷۷۴ چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست گزشتہ اعلان کے بعد جن بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے امداد درویشان کی مد میں رقوم موصول ہوئی ہیں.ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں رکھے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.وجزاهم الله احسن الجزاء ۴ ما بو عبد الرحمن صاحب مصری شاہ لاہور قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی حال راولپنڈی قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی مذکور صدقہ برائے مستحق درویشان ۲۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ساکنین حلقہ بلاک الف ربوہ جمع کردہ مولوی عطاء اللہ صاحب واقف زندگی ۰-۱۲-۵۱ اہلیہ سید سردار حسین شاہ صاحب اوورسیر حال عارف والہ ناظر اعلیٰ صاحب نمبر دار کھوکھر حال چک نمبر ۶۰ ضلع لائل پور فیض اللہ صاحب مدرس ملتان چوہدری قائم الدین صاحب آف خان فتاح حال مانگا تحصیل پسرور و لفٹینٹ سعید الحسن صاحب پشاور اہلیہ اخوند محمد اکبر صاحب ملتان عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ سید محمد حسین صاحب آف قادیان حال جھنگ مگھیا نہ ۱۲ عبد اللطیف صاحب ہزا روی سوداگر چوب ضلع ہزارہ ہمشیرہ سعد اللہ خان صاحب ترنگ زئی پشاور امته اللطیف بیگم صاحبہ بنت چوہدری محمد طفیل صاحب ۱۴ انسپکٹر بیت المال نواب شاہ (سندھ) ۱۵ چوہدری فقیر محمد صاحب ڈی.ایس.پی راولپنڈی ۵۰۰ ۵-۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۲۰۰_۰ ۵۰۰ ۵۰۰ اللہ بخش صاحب ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر کوہ مری حال راولپنڈی صدقہ برائے ۰-۰-۵ مستحق درویشان ۱۷ مرزا حاکم بیگ صاحب جھنگ

Page 787

۷۷۵ مضامین بشیر اہلیہ ابوالفضل محمود صاحب لاہور ۱۹ مرزا محمد شریف بیگ صاحب سپر نٹنڈنٹ جیل جھنگ عبدالسمیع صاحب صدیقی آئس فیکٹری روڈ چٹا گانگ ہمشیرہ صاحبہ ایچ ایم مرغوب اللہ صاحب قلعہ شیخوپورہ بھانجی صاحبہ ایچ ایم مرغوب اللہ صاحب مذکور ۲۳ ۲۵ ( غریب درویشوں میں بطور صدقہ گوشت تقسیم کرنے کے لئے چوہدری نادر علی صاحب فارم مینجر اقبال نگر منٹگمری فیاض محمد خان صاحب فیاض ٹی سٹال ربوہ حکیم نظام دین صاحب لاہور ملک منظور احمد صاحب ہر یکے موٹر ٹرانسپورٹ کمپنی لا ہور ۲۷ شیخ محمد اکرام صاحب آف قادیان حال تا جر ٹو بہ ٹیک سنگھ شیخ قدرت اللہ صاحب آف قادیان حال تا جر ٹو بہ ٹیک سنگھ شیخ عظمت اللہ صاحب آف قادیان حال تا جر ٹو بہ ٹیک سنگھ بشیر الدین صاحب طاہر سیالکوٹ پسر ماسٹر خیر الدین صاحب ا غلام مجتبے صاحب کوئٹہ ۳۲ اہلیہ غلام مجتبے صاحب کوئٹہ ۳۳ ۳۴ شیخ احمد علی صاحب سٹیشن ماسٹر بسال ضلع کیمل پور شیخ چراغ الدین صاحب آف محله دارالفضل قادیان شیخ محمد علی صاحب آف محله دار الفضل قادیان رشیدہ بیگم صاحبہ آف محله دارالفضل قادیان..۰۰.۵ ۱۰۰۰ ۵۰۰ ۹۰۰۰ ۵۰۰ 1•_• ۵۰۰ ۵۰۰ ۱۵۰۰ ۳۰۰ ۲۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ حکیم فتح محمد صاحب بمقام ڈگری (سندھ) درویشوں میں شیرینی تقسیم کرنے کے لئے ۰۰.۵ ممتاز بیگم صاحبہ بذریعہ حکیم مرغوب اللہ صاحب قلعہ شیخو پورہ صدقہ برائے ۱۰۰۰ مستحق در ایشان ۳۹ حمیده عفت صاحبہ اہلیہ محمود احمد صاحب برمی لاہور ظفر الدین احمد صاحب حال شیخوپورہ ۴۱ چوہدری اللہ رکھا صاحب بنگلا بڑا گھر براستہ سید والا ۵۰۰ ۵۰۰

Page 788

•_• ۲۰۰ ١٠٠ ۵۰۰ مضامین بشیر 22Y ۴۲ محموده خانم صاحبہ اہلیہ مرزا محمد صادق صاحب آف کوئٹہ ۴۳ مرزا محمد صادق صاحب کوئٹہ اختری خانم صاحبہ کوئٹہ ۴۵ محمد احمد صاحب پسر شیخ محمد لطیف صاحب آف گوجرانوالہ حال ملتان طاہر احمد صاحب برادر محمد احمد صاحب مذکور ۴۸ بیگم لفٹینٹ اسلم صاحب منہاس لفٹینٹ اسلم صاحب منہاس مذکور ۴۹ سید منظور علی شاہ صاحب آف قادیان حال سیالکوٹ والدہ گلزار احمد صاحب آف کلکتہ حال چنیوٹ برائے صدقہ بکرا قادیان ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب کھڈیاں ضلع لاہور بقیہ فہرست آئندہ شائع کی جائیگی ( مطبوعه الفضل ۱۱ فروری ۱۹۵۰ء)

Page 789

مضامین بشیر ڈاکٹر غفور الحق صاحب کا افسوسناک انتقال ڈاکٹر غفور الحق صاحب جو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے اولڈ بوائے اور ایک مخلص احمدی اور آجکل کوئٹہ کے چوٹی کے ڈاکٹر تھے کل بروز جمعرات ساڑھے پانچ بجے شام کے قریب میوہسپتال لاہور میں انتقال کر گئے.انالله وانا اليه راجعون.ڈاکٹر موصوف اپنے اہل وعیال کو راولپنڈی سے لانے کے لئے کوئٹہ سے آئے تھے.اور رستہ میں طبیعت کی خرابی کی وجہ سے لا ہور ٹھہر گئے.اس شب انہیں دل کا سخت حملہ ہوا اور فوراً میوہسپتال پہونچا دیئے گئے.پہلے حملہ کے بعد طبیعت کچھ منھل گئی تھی.چنانچہ جب میں انہیں ہسپتال میں دیکھنے گیا تو اس وقت طبیعت سنبھلی ہوئی تھی.لیکن تیسرے دن دوسرا حملہ ہوا اور بالآخر جمعرات کی شام کو ڈاکٹر صاحب موصوف اپنے مولا کے حضور پہنچ گئے.وفات کے وقت مرحوم کی عمر صرف ۴۵ سال تھی.چنانچہ ابھی تک مرحوم کی ساری اولاد کم سن ہے وفار سے چار یوم قبل ان کے چچا زاد بھائی ڈاکٹر سراج الحق صاحب ان کے اہل وعیال کو لیکر لاہور پہنچ گئے تھے.یہ خدا کا فضل ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ ان کی بیوی بچوں کی ملاقات ہوگئی لیکن افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے حقیقی بھائی فیض الحق خانصاحب اور ضیاء الحق صاحب اور مرحوم کے خسر شیخ فضل الرحمن صاحب نہیں پہنچ سکے.البتہ شیخ فضل الرحمن صاحب ربوہ روانہ ہونے سے قبل لاہور پہنچ گئے تھے.جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ڈاکٹر غفور الحق صاحب کوئٹہ میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے تھے اور وہاں کے چوٹی کے ڈاکٹر تھے.گذشتہ دو سال جبکہ حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح ایدہ اللہ کوئٹہ تشریف لے جاتے رہے ہیں.ڈاکٹر صاحب موصوف کو حضور کی خدمت کی خاص سعادت حاصل ہوتی رہی ہے.اور حضور بھی مرحوم کے اخلاص کی وجہ سے ان کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے.چنانچہ جب حضور کو ڈاکٹر صاحب کی بیماری کی اطلاع پہنچی تو حضور نے تار کے ذریعہ ان کی خیریت دریافت فرمائی.مرحوم جن کا اصل وطن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور تھا بہت ملنسار مہمان نواز.خدمت گذار اور دوستوں کے لئے دلی خوشی سے قربانی کرنے والے نوجوان تھے.جنازہ بذریعہ لاری ربوہ بھجوایا گیا ہے.اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے.اور ان کی اہلیہ اور بچوں اور بوڑھی والدہ اور دیگر عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۱ر فروری ۱۹۵۰ء)

Page 790

مضامین بشیر 227 قادیان کے تازہ حالات درویشوں کی طرف سے سلام اور ہمدردی کا پیغام (1) جو درویش قادیان میں بیمار تھے انہیں خدا کے فضل سے آہستہ آہستہ افاقہ ہورہا ہے.با با اللہ دتا صاحب اب پہلے کی نسبت کسی قدرا چھے ہیں شیخ غلام جیلانی صاحب کا بلس بول کے تعلق میں ابتدائی اپریشن دھار یوال میں ہو چکا ہے.اور خدا کے فضل سے اچھا ہوا ہے اور بڑا اپریشن چند دن تک ہوگا.محترمی بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی بھی درد گردہ کی وجہ سے ایک ہفتہ سے صاحب فراش رہنے کے بعد اب خدا کے فضل سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں.مولوی برکات احمد صاحب ناک اور گلے کی تکلیف کی وجہ سے زیر علاج ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین (۲) قادیان کے تازہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ جلسہ سالانہ کے بعد تین نئے احمدی دوست ہندوستان کے مختلف حصوں سے آکر قادیان میں آباد ہوئے ہیں.(۳) صحت اور تفریح کی خاطر سے ہمارے قادیانی احباب ورزش اور کھیلوں میں بھی حصہ لیتے رہتے ہیں.چنانچہ گذشتہ دنوں میں ایک والی بال کا ٹورنامنٹ بٹالہ میں ہوا تھا جس میں قادیان کی احمد یہ ٹیم ضلع بھر کی غیر مسلم ٹیموں میں اول آئی جس کے انعام میں اسے ایک بڑا کپ اور چھ چھوٹے کپ ملے ہیں.دراصل خدا نے انسانی زندگی کا ایسا قانون مقرر فرمایا ہے کہ جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے.اور روح کا اثر جسم پر پڑتا ہے.اور روح کی چستی اور شگفتگی کے لئے ایک حد تک صحت کا اچھا ہونا بھی ضروری ہے.اس لئے ہمارے قادیان کے دوست عبادتوں اور نوافل اور دعاؤں کے پروگرام کے علاوہ جسمانی ورزشوں میں بھی باقاعدہ حصہ لیتے ہیں.(۴) بعض دوست قادیان کے درویشوں کو اپنے سامان وغیرہ کے متعلق لکھتے رہتے ہیں اس تعلق میں امیر صاحب قادیان لکھتے ہیں کہ اپنے دوستوں کو یا درکھنا چاہیئے کہ موجودہ قانون کے ماتحت متر و که سامان مقامی حکومت کے زیر قبضہ متصور ہوتا ہے اور باہر نہیں جاسکتا.پس اس قسم کے خطوط قادیان بھیج کر اپنے دوستوں کو پریشان نہیں کرنا چاہیئے.(۵) بالآخر میں پاکستان کے دوستوں کو قادیان کے دوستوں کا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں.

Page 791

غلام مضامین بشیر سلام کے علاوہ وہ اپنے ان سب بھائیوں کو دلی ہمدردی کا پیغام بھی بھیجتے ہیں جن کے عزیزوں اور رشتہ داروں نے گذشتہ جلسہ سالانہ کے بعد پاکستان میں وفات پائی ہے یعنی پسماندگان منشی محمد اسمعیل صاحب سیالکوٹی مرحوم اور پسماندگان خان محمد اکرم خان صاحب شہید چارسدہ اور پسماندگان مولوی حسین صاحب مرحوم ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز جھنگ اور پسماندگان والدہ صاحبہ کیپٹن ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب پشاور یعنی اہلیہ صاحبہ بھائی عبدالرحیم صاحب درویش اور پسماندگان اہلیہ صاحبہ حکیم محمد حسین صاحب قریشی مرحوم آف لاہور اور پسماندگان میاں رحمت اللہ صاحب مرحوم سنوری اور پسماندگان ڈاکٹر اقبال غنی صاحب مرحوم کراچی اور پسماندگان حافظ محمد امین صاحب سابق محلہ ناصر آباد قادیان حال کیملپور اور پسماندگان ڈاکٹر غفور الحق صاحب آف کوئٹہ اور قادیان کے دوست ان سب کے لئے دعا کرتے ہیں.اور اسی طرح وہ اپنے پاکستانی بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی انہیں اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.و كان الله معهم ومعنا اجمعين ( مطبوعه الفضل ۱۲ / فروری ۱۹۵۰ء)

Page 792

مضامین بشیر ۷۸۰ بابا اللہ دتا صاحب درویش کا انتقال بابا اللہ دتا صاحب متوطن دوالمیال حال درویش قادیان کی تشویشناک علالت کی اطلاع الفضل میں چھپ چکی ہے اس کے بعد انہیں افاقہ ہو گیا تھا.چنانچہ اپنے کل کے نوٹ میں میں نے ان کے افاقے کا ذکر بھی کیا تھا.لیکن اس کے بعد اچانک قادیان سے بذریعہ ٹیلی فون اطلاع ملی ہے کہ بابا اللہ دتا صاحب موصوف کل بروز جمعہ بوقت پانچ بجے شام فوت ہو گئے ہیں.اناللہ وانا اليه راجعون وہ دماغی ملیریا کے نتیجہ میں کافی عرصہ بے ہوش بھی رہے لیکن اس کے بعد طبیعت کسی قدرسنبھل گئی.اور بے ہوشی کے آثار بھی جاتے رہے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ موت سے پہلے کا سنبھالا تھا.چنانچہ وہ مورخہ، ار فروری ۱۹۵۰ء کی شام کو وفات پا کر اپنے آسمانی آقا کے حضور پہنچ گئے.قادیان میں یہ پانچویں درویش کی وفات ہے کیونکہ اس سے قبل حافظ نور الہی صاحب اور بابا شیر محمد صاحب اور میاں سلطان احمد صاحب اور میاں مجید احمد صاحب ڈرائیور فوت ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب مرحوم دوستوں کی روحوں کو اپنے خاص فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے.اور ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.آمین قادیان کے درویش اس وقت ایسے حالات میں سے گزر رہے ہیں کہ میں خدا کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ ان میں سے جو دوست اخلاص اور استقلال اور قربانی کے ساتھ اپنے عہد کو آخر تک نبھائیں گے وہ انشاء اللہ خدا سے خاص اجر پائیں گے.اور ان کے وہ رشتہ دار بھی جو اس قربانی میں ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان کے معین و مددگار بنیں گے وہ بھی یقیناً ثواب سے محروم نہیں رہیں گے.میں بابا اللہ دتا صاحب مرحوم کی وفات پر احباب قادیان اور احباب دوالمیال اور بابا صاحب مرحوم کے رشتہ داروں کے ساتھ تمام جماعت کی طرف سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں.( مطبوعه الفضل ۱۲ فروری۱۹۵۰ء)

Page 793

۷۸۱ مضامین بشیر زُھد و عبادت کی جیتی جاگتی تصویر بابا الله د تا صاحب در ولیش مرحوم کے متعلق قادیان سے اطلاع ا با اللہ دتا صاحب مرحوم سکنہ دوالمیال درویش قادیان کی وفات کی اطلاع الفضل میں چھپ چکی ہے.اب ان کے متعلق قادیان سے یہ خبر پہنچی ہے جو اذکروا موتاكم بالخير لا کے حکم کے ماتحت شائع کرا رہا ہوں کہ بابا اللہ دتا صاحب مرحوم نہایت نیک اور مخلص اور عبادت گزار بزرگ تھے اور اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بھی تھے ان کے متعلق امیر صاحب قادیان کے الفاظ یہ ہیں کہ : 66 مرحوم اخلاص اور زہد و عبادت کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھے.“ انہوں نے نہایت صبر اور رضا اور محبت کے ساتھ قادیان میں درویشی زندگی گزاری اور اپنے عہد کو ہر جہت سے پورا کر دکھایا.وہ زیادہ تر مقبرہ بہشتی میں رہتے تھے اور وہاں کی حفاظت اور خدمت میں خاص انہماک رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کی روح کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کا حافظ و ناصر ہو.آمین ( مطبوعه الفضل ۲۱ رفروری ۱۹۵۰ء)

Page 794

مضامین بشیر ۷۸۲ خیر خواہان پاکستان سے درمندانہ اپیل خدا کے لئے وقت کی نزاکت کو پہچانو ! افسوس صد افسوس کہ قائد اعظم مرحوم کی وفات کے بعد اتنی جلد بعد ہی پاکستان میں ایک ایسا عنصر پیدا ہو رہا ہے جو اپنی تباہ کن پالیسی سے قائد اعظم کے زندگی بھر کے کام کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہے.اور ایک دوسرا طبقہ اپنی سادہ لوحی میں اس فتنے کو ہوا دے رہا ہے.قائد اعظم نے اپنی ساری زندگی اس کوشش میں وقف کر رکھی تھی کہ تمام مسلمان کہلانے والے لوگ اپنے بعض مذہبی اختلافات کے باوجود سیاسی میدان میں ایک نقطہ پر جمع ہو جائیں.چنانچہ ان کی یہ کوشش خدا کے فضل سے کامیاب ہوئی اور مسلمانوں نے پاکستان کے وجود میں قائد اعظم کی انتھک مساعی کا پھل پالیا لیکن افسوس ہے کہ قائد اعظم کی آنکھیں بند ہوتے ہی ملک کے اس طبقہ نے جو اپنی گونا گوں اغراض کے ماتحت مسلمانوں کے سیاسی اتحاد میں اپنے مقاصد کی تباہی کے آثار دیکھ رہا ہے قائد اعظم کی اس پالیسی کے خلاف ملک میں افتراق و انشقاق کا بیج بونا شروع کر دیا ہے چنانچہ : - (۱) کہا جاتا ہے کہ احمد یہ جماعت (نعوذ باللہ من ذالک ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی منکر ہے اور اس لئے وہ اس بات کی حقدار نہیں کہ مسلمانوں کے سیاسی اتحاد میں شریک کی جائے اور نہ ہی وہ پاکستان میں مسلمانوں کا حصہ بن کر رہنے کے قابل ہے.یہ اعتراض کتنا غلط، کتنا بے بنیاد اور کتنا خلاف واقعہ ہے !.خدا جانتا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کو سچے دل سے اور کامل یقین کے ساتھ خاتم النبیین مانتے ہیں اور آپ کی نبوت کے دامن کو قیامت تک وسیع جانتے اور قرآنی شریعت کو خدا کی آخری اور دائمی شریعت یقین کرتے ہیں جس کا کوئی فقرہ اور کوئی لفظ اور کوئی حرف کبھی منسوخ نہیں ہو سکتا.ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح خاتم النبیین یقین کرتے ہیں جس طرح کہ حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی ، مجد دالف ثانی اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب محدث دہلوی مجد دصدی دواز دھم اور جناب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسه دیو بند حضور سرور کائنات علیہ السلام کو خاتم النبین یقین کرتے تھے.اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو اپنے لئے سب نخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتے ہیں اور خدا کی لعنت ہے اس شخص پر جو جھوٹا دعویٰ

Page 795

۷۸۳ مضامین بشیر کرتا ہے.(۲) کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ ہم پاکستان کے غدار ہیں اور پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ہندوستان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں.اس کے جواب میں بھی ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ لعنت الله على الكاذبين.خدا کے فضل سے پاکستان کا ہر احمدی سچے دل سے پاکستان کا وفادار اور دلی خیر خواہ ہے اور اس کے لئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہے اور کوئی ایک لفظ یا ایک حرف بھی ایسا ثابت نہیں کیا جا سکتا جس میں پاکستان کے کسی احمدی نے پاکستان سے غداری یا ہندوستان کی وفاداری کا کوئی کلمہ کہا ہو.باقی رہے ہندوستان کی حکومت میں بسنے والے احمدی سو جس طرح ہندوستان کے دوسرے مسلمان اپنی سیاسی حکومت کے شہری ہیں اسی طرح ہندوستان کے احمدیوں کا حال ہے اور قائد اعظم مرحوم کی بھی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہی نصیحت تھی کہ تم جس حکومت میں رہو اس کے وفا دار ہو کر رہو.چنانچہ قائد اعظم کے متعلق اخبار زمیندار لکھتا ہے کہ: ”ہمارے قائد اعظم بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان کو اپنی حکومت کا 66 وفادار رہنا چاہیئے." بہر حال دنیا بھر کا یہی مسلمہ اصول ہے کہ جو قوم بہت سے ملکوں میں پھیلی ہوئی ہو وہ سیاسی لحاظ سے لازماً اپنے اپنے ملک کے وفادار شہری بن کر رہتی ہے.یہ ایک ایسا پختہ اور تسلیم شدہ اور عالمگیر اصول ہے کہ کوئی دانا شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا.ہاں اگر کسی شخص میں ہمت ہے تو وہ یہ ثابت کرے کہ کسی پاکستان میں رہنے والے احمدی نے کبھی ہندوستان کی وفاداری کا دم بھرا ہو.پس خدا کے لئے جھوٹے الزامات لگا کر ملک کی فضا کو مکدر نہ کرو.(۳) کہا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے رکن چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحب نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے خود اپنے ہاتھوں سے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کے سپر د کر دیا.اس کے جواب میں اعتراض کرنے والوں کی حالت پر انا لله وانا الیه راجعون کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے.دنیا جانتی ہے کہ چو ہدری صاحب موصوف کو اس کام پر خود قائد اعظم مرحوم نے مقرر کیا تھا اور پھر ہزاروں مسلمانوں اور ہندوؤں اور سکھوں کے سامنے چوہدری صاحب نے قائد اعظم کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں کی نمائندگی کی اور اس قابلیت کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے بحث کی کہ اپنوں اور بیگانوں نے انہیں غیر معمولی خراج تحسین ادا کیا.یہ کارروائی روزانہ قائد اعظم کے پاس پہنچتی تھی اور گورنمنٹ کے دفاتر میں اس کی نقل جاتی تھی اور روزانہ اخباروں میں چھپتی تھی اور سینکڑوں مسلمان اس

Page 796

مضامین بشیر ۷۸۴ کارروائی کو اپنے کانوں سے سنتے اور آنکھوں سے دیکھتے تھے.چنانچہ بحث کے اختتام پر چوہدری صاحب کی بے انتہا تعریف کی گئی اور ان کی خدمات کو بے حد سراہا گیا.مثلاً چوہدری صاحب کے کام کے متعلق اس زمانہ کے ایک مؤقر اسلامی اخبار نے لکھا کہ :- حد بندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا...چار دن چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل نہایت فاضلانه...نهایت معقول بحث کی.کامیابی بخشا خدا کے ہاتھ میں ہے مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا.اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ ان کی طرف سے حق وانصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقہ سے ارباب اختیار تک پہنچادی گئی ہے.ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ ان کے اس کام کے معترف اور شکر گذار ہوں گے.‘ ] یہ تو اس زمانہ میں پبلک کی رائے تھی لیکن اب اتنے سال گذر جانے کے بعد ان کے متعلق بغیر کسی ثبوت اور بغیر کسی دلیل کے بے وفائی اور غداری کا الزام لگایا جا رہا ہے.تعصب کا ستیا ناس ہو.بے انصافی کی بھی کوئی حد ہونی چاہیئے !! پھر چوہدری صاحب نے نہ صرف عام پاکستانی کیس کو نہایت قابلیت کے ساتھ پیش کیا بلکہ کشمیر کے آنے والے خطرات کے پیش نظر ) گورداسپور کے متعلق خاص طور پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہیئے اور اعداد و شمار اور دلائل سے ثابت کیا کہ وہ ایک مسلم اکثریت کا ضلع ہے اور دوسرے مسلم علاقوں کے ساتھ ملتا بھی ہے.اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اسے پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان میں ڈالا جائے.مگر افسوس صد افسوس که با وجود اس مخلصانہ اور وفا دارانہ خدمت کے اب چوہدری صاحب پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے گورداسپور کا ضلع اپنے ہاتھوں سے ہندوستان کے سپر د کر دیا.کیا ایک وفا دار قومی کارکن کی بے لوث خدمت کا یہی بدلہ ہے کہ ضرورت کے وقت تو اس سے خدمت لی جائے اور وقت گذر جانے کے بعد اسے غدار کہہ کر لوگوں میں مطعون کیا جائے !! پھر کیا چوہدری صاحب پر اعتراض کرنے والے لوگ اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اگر جماعت احمدیہ نے خود اپنے ہاتھوں سے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کو دیا تھا اور وہ ہندوستان کی حکومت کو ترجیح دیتی تھی تو پھر کیا وجہ ہے کہ قادیان میں ہندوستانی حکومت قائم ہو جانے پر وہ خود

Page 797

۷۸۵ مضامین بشیر قادیان سے نکل کر پاکستان آ گئی.کیا چوہدری صاحب نے گورداسپور کا ضلع ہندوستان کو اس لئے دیا تھا کہ اس کے بعد ان کی قوم قادیان کو چھوڑ کر اور اتنی مصیبتیں اٹھا کر پاکستان آ جائے ؟ خدا را سوچو کہ کیا کوئی معمولی عقل کا آدمی بھی ایسی مجنونانہ بات کر سکتا ہے؟ (۴) کہا جاتا ہے کہ چوہدری صاحب یو.این.او کے سامنے کشمیر کو ہندوستان کے پاس فروخت کر رہے ہیں.میں اس پر پھر انا للہ وانا اليه راجعون کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں.چوہدری صاحب نے جس قابلیت کے ساتھ یو.این.او میں کشمیر کے کیس پر بحث کی ہے وہ دنیا کی تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہے جسے اپنے اور بیگانے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں.چنانچہ حال ہی میں ایک مؤقر اسلامی اخبار نے چوہدری صاحب موصوف کی یو.این.او کی آخری تقریر کے متعلق لکھا ہے کہ : - یہ امر ہر لحاظ سے باعث مسرت ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستانی مقدمہ کے تار و پود بکھیر کر پاکستانی وزیر خارجہ نے ساری دنیا پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہندوستان کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں.اس کے برخلاف پاکستان کا کشمیر جغرافیائی.اقتصادی.مذہبی اور تمدنی اعتبار سے ہمیشہ کا قریب ترین تعلق ہے...اس سے مقرر کی غیر معمولی قوت تقریر اور محنت ہی کا اندازہ نہیں ہوتا بلکہ خود مسئلہ زیر بحث کی صداقت بھی آشکار ہوتی ہے.“ اس کے مقابل پر چوہدری صاحب کی زور دار تقریروں سے ہندوستانی حلقوں میں تو ایک گونہ دہشت کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے.پھر کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ چوہدری صاحب اس خدمت پر اپنے آپ نہیں لگ گئے بلکہ خود قائد اعظم نے انہیں اس خدمت پر لگایا تھا اور پھر قائد اعظم کے بعد پاکستان کی حکومت نے انہیں اس خدمت پر برقرار رکھا.اگر حکومت کے نزدیک وہ اس خدمت کے اہل نہیں یا نعوذ باللہ پاکستان سے غداری کر رہے ہیں تو کسی نے حکومت کا ہاتھ پکڑا ہوا نہیں ہے.وہ انہیں جب چاہتی الگ کر سکتی ہے.1+ 66 یا درکھو! ابھی تک پاکستان بہت سی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور اسے ابھی کئی بھاری مسائل کو حل کرنا ہے.پس خدا کے لئے اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے والے نہ ہو.قائد اعظم نے سب مسلمان کہلانے والوں کے لئے پاکستان کا دروازہ کھولا مگر آپ اس دروازہ کو بعض لوگوں پر بند کرنا چاہتے ہیں.قائد اعظم نے ایک شخص کو قابل سمجھ کر اسے پاکستان کی خدمت کے لئے چنا مگر آپ اسے نالائق کہتے ہیں.پھر قائد اعظم نے ایک شخص کو وفا دار یقین کر کے اسے اپنا نمائندہ بننے کے لئے انتخاب کیا مگر آپ اسے غدار اور وطن فروش گردانتے ہیں.یاد رکھو! کہ حکومتیں بنانی آسان ہوتی ہیں لیکن قائم

Page 798

مضامین بشیر ZAY رکھنی مشکل اور بہت مشکل.دنیا کی تاریخ آپ لوگوں کے سامنے ہے کہ کس طرح گزشتہ اسلامی حکومتیں افتراق وانشقاق سے تباہ ہوئیں.پس خدا را پاکستان پر تو یہ مہلک نسخہ نہ آزماؤ کہ ابھی تو وہ صرف ایک نوزائیدہ بچہ ہے.آگے آپ لوگوں کا اختیار ہے.وما علينا الا البلاغ ولاحول ولا قوة الا بالله العظيم ( مطبوعه الفضل ۲۳ فروری ۱۹۵۰ء)

Page 799

مضامین بشیر تازه فهرست چنده امداد درویشاں سابقہ اعلان کے بعد مندرجہ ذیل بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے مندرجہ ذیل رقوم امداد درویشاں کی مد میں موصول ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب بہنوں اور بھائیوں کا حافظ و ناصر ہو اور انہیں جزائے خیر دے.آمین سید محمد صادق صاحب ہاشمی ڈیرہ غازیخان بذریعہ ملک عبدالوحید صاحب سلیم لاہور ۰-۰-۵ ۹ 1.شیخ محمد بشیر صاحب آزاد انبالوی منڈی مرید کے مرزا بشیر احمد صاحب آف لنگر وال را ولپنڈی چھاؤنی سید محمد صادق صاحب ہاشمی ڈیرہ غازی خاں والدہ صاحبہ ڈاکٹر اختر صاحب لاہور ڈاکٹر منیر احمد خالد صاحب نمبر ۵ فیلڈایمبولینس کو ہالہ عبید الرحمن صاحب ارشد کوئٹہ ابوالفضل محمود صاحب لاہور فلائٹ لفٹنٹ ملک بشیر احمد صاحب لاہور چھاؤنی رفاقت بیگم صاحبہ معرفت محمد طفیل صاحب سیالکوٹ سعد اللہ خاں صاحب ترنگ زئی پشاور ۵۰۰ ۵۰۰ ۱۰۰۰ ۳۰۰ +37 ۲۰۰۰ ۵۰۰ ڈاکٹر الیس اے لطیف صاحب آف عدن بذریعہ شیخ فضل حق صاحب کراچی ۰-۰-۵ چوہدری غلام قادر صاحب رام نگر لا ہور بذریعہ جلیل احمد صاحب لاہور ملک غلام نبی صاحب آف کھا را حال ضلع حیدر آبا دسندھ ۱۵ جمعدار شرافت احمد خاں صاحب را ولپنڈی ۱۶ ظفر اللہ خاں صاحب فوڈ گرین سپر وائز ر عارف والہ ضلع منٹگمری ۵۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۱۷ قاضی عبد الرحمن صاحب معاون شخصی ناظر اعلی ربوه از طرف خود واہل وعیال ۰۰.۷ سیکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد شریف صاحب پٹھانکوٹی حال بدوملہی ۱۹ سردار رحمت اللہ صاحب ولد ڈاکٹر فیض علی صاحب زمیندار خانپور ۵۰۰ ۲۰۰_۰

Page 800

مضامین بشیر ۷۸۸ ملک نذیر احمد صاحب ڈار سیالکوٹی حال مشرقی افریقہ ۲۱ محمد سلیمان صاحب ملتان چھاؤنی فضل الرحمن صاحب ملتان چھاؤنی ۲۲ ۲۳ اہلیہ صاحبہ ممتاز علی خان صاحب.سنٹرل جیل لاہور چوہدری عنایت اللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کوٹ کرم بخش ضلع سیالکوٹ اپنے مرحوم بیٹے کی طرف سے ۲۵ قاضی محمد ابراہیم صاحب مدرس کھر ولیاں ضلع سیالکوٹ ۲۶ امتہ الحفیظ بیگم صاحبه حیدر آبادی اہلیہ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مبلغ امریکہ برائے صدقہ بکرا قادیان ۲۷ ملک محمد مقبول صاحب شیخو پورہ بچی کی پیدائش پر احباب قادیان میں تقسیم کرنے کے لئے ۳۰_۰_۰ ۲۰۰ ۲۵_۰_۰ ۲۰۰۰..۳۰۰۰ ۲۵_۰ ۲۰۰ ۲۸ حوالدار محمد اسمعیل صاحب جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی برائے بکرا صدقہ قادیان ۰-۰-۲۰ عفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد عیسی جان صاحب کو ئٹہ صدقہ برائے مستحق درویشاں اہلیہ سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آباد دکن لاہور خدا بخش صاحب نیا محلہ راولپنڈی ۳۲ اہلیہ ڈاکٹر گو ہر دین صاحب میڈیکل آفیسر من ضلع اٹک ۵۰ میزان ۳۵۷-۱۲-۰ ( مطبوعه الفضل ۲۵ فروری ۱۹۵۰ء)

Page 801

۷۸۹ مضامین بشیر آئندہ تبادلہ کی رقوم مجھے نہ بھجوائی جائیں موجودہ حالات میں درویشوں اور ان کے رشتہ داروں کی سہولت کے لئے میرے دفتر کی طرف سے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ ادھر سے قادیان جانے والی رقوم اور قادیان سے ادھر آنے والی رقوم کو آپس میں ایک دوسرے کے مقابل پر کاٹ کر حساب کر لیا جا تا تھا مگر یہ انتظام میرے دفتر میں پیچیدگی پیدا کر رہا ہے اور بہر حال چونکہ اس قسم کے حسابی لین دین کا کام دفتر محاسب ربوہ کے سپرد ہے اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ میرا دفتر یہ کام سرانجام نہیں دے گا.پس جو دوست تبادلہ رقوم کی سہولت حاصل کرنا چاہیں یا قادیان میں اپنے کسی عزیزی کو کوئی رقم بھجوانا چاہیں تو وہ دفتر محاسب ربوہ کے ساتھ خط و کتابت فرمائیں اور از راہ مہربانی آئندہ کوئی ایسی رقم مجھے نہ بھجوائی جائے.البتہ چندہ امداد درویشاں کی رقم میرے نام بھیجی جاسکتی ہے.( مطبوعه الفضل ۲۶ فروری ۱۹۵۰ء)

Page 802

مضامین بشیر 29.بعض متفرق سوالوں کا جواب جہاد بالسیف کے مسئلہ میں جماعت احمدیہ کا مسلک بعض بھائیوں اور بہنوں نے مجھے کچھ سوالات لکھ کر بھیجے ہیں اور خواہش ظاہر کی ہے کہ میں الفضل کے ذریعہ ان سوالوں کا جواب دوں تا کہ دوسرے دوست بھی فائدہ اٹھا سکیں.مجھے افسوس ہے کہ آجکل میری طبیعت اچھی نہیں اور بلڈ پریشر کی زیادتی اور نبض کی تیزی اور دل کی دھڑکن وغیرہ کی وجہ سے کئی دن سے بستر میں ہوں اور ڈاکٹر نے زیادہ حرکت کرنے اور زیادہ محنت اٹھانے سے منع کیا ہے مگر دوسری طرف مجھے دوستوں کی خواہش کا بھی احترام ہے اور پھر جب تک اور جہاں تک ہمت ہے اپنی زندگی کو بریکا رکر کے رکھ دینے پر بھی طبیعت راضی نہیں ہوتی.اس لئے نہایت اختصار کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کے بعض سوالوں کا جواب نمبر وار لکھانے کی کوشش کروں گا.اس نمبر میں جہاد بالسیف کے سوال کو لیتا ہوں اگر اس مختصر جواب سے تسلی نہ ہو تو انشاء اللہ آئندہ کسی وقت مفصل جواب دینے کی کوشش کروں گا.وما توفیقی الا بالله العظيم ایک دوست نے لکھا ہے کہ غیر از جماعت اصحاب کی طرف سے اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد بالسیف کو منع کر کے نہ صرف قرآن شریف کا ایک اہم حکم منسوخ قرار دیدیا ہے.بلکہ مسلمانوں میں بزدلی اور پست ہمتی کے جذبات بھی پیدا کر دیئے ہیں وغیرہ وغیرہ.اس اعتراض کے جواب میں یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد بالسیف کا حکم منسوخ کر دیا ہے.قرآنی شریعت دائمی شریعت ہے اور اس کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ منصب ہے کہ وہ کسی قرآنی حکم کو منسوخ قرار دیں کیونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع ہیں اور ایک خادم اور تابع کا یہ مقام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مخدوم اور متبوع کا کوئی حکم منسوخ کرے.پس یہ اعتراض محض جھوٹا اور بے بنیاد ہے جو لوگوں کو ہمارے خلاف اکسانے کیلئے ہمارے مخالفین نے مشہور کر رکھا ہے.ہماری جماعت نے تو خدا کے فضل سے ان قرآنی آیتوں کو بھی قائم اور غیر منسوخ ثابت کیا ہے جنہیں بہت سے دوسرے مسلمان منسوخ قرار دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے

Page 803

۷۹۱ مضامین بشیر تکرار اور صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ قرآن کا کوئی حکم منسوخ نہیں اور نہ ہوسکتا ہے.دراصل جس بات کو نہیں سمجھا گیا وہ یہ ہے کہ شریعت کے بعض احکام بعض خاص حالات کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں یعنی بعض خاص قسم کے حالات میں ایک قسم کا حکم چلتا ہے.اور بعض دوسری قسم کے حالات میں دوسری قسم کا حکم نافذ ہوتا ہے.مثلاً قرآن شریف حج کا حکم دیتا ہے مگر اس کے ساتھ یہ واضح شرط لگاتا ہے کہ ایک تو حج کرنے والے کے پاس حج کا خرچ موجود ہوا ور دوسرے اس کے لئے رستہ میں امن بھی ہو.اب اگر کسی مسلمان کو یہ دونوں باتیں میسر ہوں گی تو اس پر حج فرض ہوگا اور اگر یہ باتیں میسر نہیں ہونگی تو اس پر حج فرض نہیں ہو گا مگر حج فرض نہ ہونے کی صورت میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسے شخص کے لئے حج کی آیت منسوخ ہو گئی ہے.یہی حال جہاد بالسیف کا ہے کہ وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ کوئی کا فرقوم مسلمانوں کے خلاف ان کے دین کو مٹانے اور اسلام کو نابود کرنے کی غرض سے تلوار اٹھائے اور ان حالات کی بنا پر مسلمانوں کی جماعت کا امام جہاد بالسیف کا فتوی دے.پس جہاں کہیں بھی اس قسم کے حالات پیدا ہوں گے جہاد بالسیف فرض ہو جائے گا اور جہاں یہ حالات نہیں ہو نگے وہاں جہاد جائز نہیں رہے گا.اس کی موٹی مثال صلح حدیبیہ کے حالات میں ملتی ہے.مکہ کے قریش نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تلوار اٹھائی اور اسلام کو طاقت کے زور سے مٹانا چاہا.جس پر مناسب اتمام حجت کے بعد قرآن نے بھی ان کے خلاف جہاد بالسیف کا حکم دیا اور یہ خونریز لڑائی برابر چھ سال تک جاری رہی لیکن جو نہی کہ قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے میدان میں صلح کی شرائط طے کیں اور ان کی طرف سے جبر فی الدین کی کیفیت باقی نہ رہی تو با وجود اس کے کہ وہ اب بھی اسلام کے دشمن تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف تلوار کا جہادفور بند کر دیا.یہ مثال جو ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک نہایت اہم اور معروف ومشہور واقعہ سے تعلق رکھتی ہے قطعی طور پر ثابت کرتی ہے کہ جہاد بالسیف کا حکم صرف خاص حالات کے ساتھ مشروط ہے اور جب یہ حالات مفقود ہوں تو تلوار کے جہاد کا حکم وقتی طور پر معلق ہو جاتا ہے.غور کرو کہ اگر جیسا کہ ہمارے معترض صاحبان خیال کرتے ہیں تلوار کا جہاد ہر حالت میں ہر کا فرقوم کے خلاف فرض ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد کفار مکہ کے خلاف جہاد کیوں بند کیا.حالانکہ وہ اس صلح کے بعد بھی کا فراور دشمن اسلام تھے ؟ یہی صورت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتوی کی ہے آپ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اب تلوار کا جہاد ہمیشہ کے لئے بند ہے اور یہ کہ نعوذ باللہ قرآن شریف کی متعلقہ آیات منسوخ ہو گئی ہیں.بلکہ آپ

Page 804

مضامین بشیر ۷۹۲ نے صرف یہ فرمایا ہے کہ چونکہ اس زمانہ میں کوئی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار سے کام نہیں لے رہی اس لئے موجودہ حالات میں ( صلح حدیبیہ کے ایام کی طرح ) جہاد بالسیف کا حکم ملتوی سمجھا جائے گا چنانچہ آپ اپنی ایک مشہور نظم میں فرماتے ہیں :- کیوں بھولتے ہو تم يَضَعُ الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے کونین مصطفی سید عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا " ان اشعار میں التوا کا لفظ جس کے معنی وقتی طور پر پیچھے ڈالنے یا معلق کرنے کے ہیں.کتنا واضح اور کتنا صاف ہے! اور یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد بالسیف کے حکم کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ صرف موجود الوقت حالات کے ماتحت ( صلح حدیبیہ کے ایام کی طرح معلق اور ملتوی قرار دیا ہے.پھر اس التوا کی تشریح کرتے ہوئے اگلے شعر میں فرماتے ہیں کہ :.یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا بھولیں گے لوگ مشغله تیر و تفنگ کا یہ شعر بھی کتنا واضح اور کتنا زور دار ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد بالسیف بند تو بے شک ہوگا.مگر وہ اس لئے بند نہیں ہوگا کہ نعوذ باللہ یہ قرآنی حکم منسوخ ہو گیا ہے بلکہ محض وقتی حالات کی وجہ سے ملتوی ہوگا.کیونکہ وہ زمانہ امن کا ہوگا اور کوئی قوم اسلام کو مٹانے کی غرض سے شمشیر بکف نہیں ہوگی لیکن اگر آئندہ چل کر کوئی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار اٹھائے گی تو امام وقت کے حکم سے وہ تلوار کا جواب تلوار سے پائے گی.بہر حال یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد بالسیف کا حکم ہرگز منسوخ قرار نہیں دیا.اور نہ ایک خادم رسول اور تابع قرآن ہونے کے لحاظ سے آپ کا یہ منصب تھا کہ کسی اسلامی حکم کو منسوخ فرما ئیں.یہ صرف وقتی حالات کا فتوی تھا اور عین اس فتوئی کے مطابق تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد کفار مکہ کے متعلق جاری فرمایا اور یہ اسلام کا فتویٰ ہے باقی اگر اب یا آئندہ چل کر کوئی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے تلوار اٹھائے اور طاقت کے زور سے خدائی نور کو بجھانا چاہے.تو یقیناً امام کے حکم کے ماتحت اس کے خلاف جہاد بالسیف کا فتویٰ پھر عاید ہو جائے گا.فانهم و تدبر.میرا یہ نوٹ صرف شرعی جہاد کے متعلق ہے جو خاص حالات میں امام

Page 805

۷۹۳ مضامین بشیر کے فتویٰ کے ماتحت جائز قرار پاتا ہے.ورنہ عام جنگیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں اور ان کے متعلق کسی شرعی فتویٰ کا سوال پیدا نہیں ہوتا.پھر جہاد کے متعلق ہمارے دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف نے صرف جہاد بالسیف کی آیت ہی نازل نہیں فرمائی.بلکہ ہمارے خدا نے دلائل و براہین کے جہاد اور نشانات و معجزات کے جہاد اور نفس کے جہاد کا بھی حکم دیا ہے بلکہ اس قسم کے جہاد کو افضل قرار دیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.وَجَاهِدُهُمُ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا.یعنی اے مرد مومن ہم نے تجھے قرآن جیسی کتاب عطا کی ہے اب اسے ہاتھ میں لے کر دلائل و براہین کے بڑے جہاد کے لئے نکل کھڑا ہو.“ اور ایک موقعہ پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگی غزوہ سے مدینہ کی طرف واپس تشریف لا رہے تھے آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ: رجعنا من الجهاد الاصغر الى الجهاد الاكبر یعنی اے میرے ساتھیو ! اب جنگ سے واپسی پر مدینہ میں سست ہو کر نہ بیٹھ جانا بلکہ اب تو ہم دراصل تلوار کے چھوٹے جہاد سے تبلیغ وعبادت کے بڑے جہاد کی 66 طرف لوٹ رہے ہیں.“ الغرض اسلام نے ہر قسم کے حالات کے لئے الگ الگ قسم کا جہاد مقرر کیا ہے.اگر دشمن مسلمانوں کے خلاف اسلام کو مٹانے کی غرض سے تلوار اٹھائے تو تلوار کا جہاد ہے.اگر وہ عقلی اعتراضوں کے ذریعہ اسلام پر حملہ آور ہو تو دلائل و براہین کا جہاد ہے اگر وہ اسلام کے مقابلہ پر روحانی طاقت کا مظاہرہ کرے تو معجزات ونشانات کا جہاد ہے اور جب دوسری قسم کے جہادوں کے درمیان فرصت کی گھڑی نصیب ہو تو اس وقت نفس کا جہاد ہے یہی وہ لطیف حقیقت تھی جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی قوم کو نہایت دردمندانہ رنگ میں توجہ دلائی.کاش وہ سمجھتی.اے کاش وہ سمجھتی ! باقی رہا یہ سوال کہ جہاد بالسیف کے حکم کو شرعی فتویٰ کے ماتحت وقتی طور پر معلق قرار دینے سے بھی مسلمانوں میں بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہوتی ہے سو یہ ایک محض فلسفیانہ کھیل ہے.حقیقی شجاعت ضرورت کے وقت ظالم کے خلاف تلوار اٹھانے میں مخفی ہے نہ کہ ان لوگوں کے خلاف حملہ آور ہونے میں جو دین کے لئے جبر نہیں کرتے بلکہ حق یہ ہے کہ کنٹرول کے وقت میں اپنے آپ پر کنٹرول کرنا ہی بہادری کا مرکزی نقطہ ہے.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ مقدس صحابی جنہوں نے تیرہ سال تک

Page 806

مضامین بشیر ۷۹۴ مکہ میں ہر قسم کے مظالم برداشت کئے اور سامنے سے انگلی تک نہیں اٹھائی بہادر نہیں تھے ؟ اور کیا نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ میں کفار مکہ کے خلاف تلوار روک کر مسلمانوں کو بزدل بنانا چاہتے تھے ؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں.آپ تو خود فرماتے ہیں کہ : ليس الشديد بالصرعة ولكن الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب ۱۵ د یعنی بہادر وہ نہیں جو بات بات پر جوش میں آ کر لوگوں کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے.“ پس ضرورت کے وقت ضبط نفس دکھانا شجاعت پیدا کرنے کا بھاری نفسیاتی نکتہ ہے نہ کہ بزدلی اور پست ہمتی پیدا کرنے کا ذریعہ.آخر حضرت عیسی علیہ السلام بھی تو خدا کے ایک برگزیدہ رسول تھے جنہوں نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ:- شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ اگر کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو تو دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے اور اگر کوئی تیرا کر تہ لینا چاہے تو تو چوغہ بھی اسے لینے دے.الغرض جمال و جلال سب اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے حالات کی باتیں ہیں اور سچا اور ابدی فلسفہ یہی ہے کہ صبر کے زمانہ میں جمال دکھا کر صبر کرنے والا بہادر ہے اور لڑنے کے زمانہ میں جنون کا روپ لے کر لڑوانے والا بہادر ہے اور مبارک ہے وہ جو اس نکتہ کو سمجھے ! ( مطبوعه الفضل ۲۸ رفروری ۱۹۵۰ء)

Page 807

۷۹۵ مضامین بشیر طوبى اللغرباء والی حدیث پر الفضل کا نوٹ اس حدیث کی اصل تشریح اور ہے آج مورخه ۲۵ رفروری ۱۹۵۰ء کے الفضل میں طوبیٰ للغرباء والی حدیث پر ایک نوٹ شائع ہوا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ الہی سلسلوں کی ابتداء غریبوں اور کمزور لوگوں کے طبقہ سے ہی ہوا کرتی ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی ہوا کہ شروع شروع میں صرف غریب لوگوں نے مانا اور اب آخری زمانہ کے لئے بھی یہی مقدر تھا وغیرہ وغیرہ یہ مضمون اپنی جگہ بالکل درست اور صحیح ہے لیکن طوبى للغرباء والی حدیث کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ عربی زبان میں غریب کے معنی (جس کی جمع غرباء ہے ) اردو زبان والے غریب یعنی مفلس اور نادار کے نہیں ہیں بلکہ ”بے وطن اور وطن سے دور“ کے ہیں.در اصل طوبى للغرباء (یعنی بے وطنوں کے لئے خوشخبری ہو ) والی حدیث میں ایک اور لطیف مضمون کی طرف اشارہ ہے.پوری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ غالباً اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ : بدأ لاسلام غريباً وسيعود غريباً فطوبى للغرباء.دد یعنی اسلام کے استحکام کی ابتداء بے وطنی کی حالت میں ہوئی ہے اور ایک زمانہ آ رہا ہے کہ اسلام پھر بے وطن ہو جائیگا اور اس کے بعد پھر دوبارہ بے وطنی کی حالت میں ہی ترقی کرے گا.پس خوشخبری ہو اس بے وطنی کا زمانہ پانے والے لوگوں کے لئے.“ اس حدیث میں جو ایک نہایت لطیف معنی پر مشتمل ہے پہلی بے وطنی میں تو مدینہ کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ گو اسلام نے مکہ میں جنم لیا لیکن اس کا استحکام اس وقت سے شروع ہوا جبکہ وہ اپنے اصلی گھر سے بے وطن ہو کر مدینہ میں پہنچا اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دراصل مدینہ کی ہجرت کے بعد ہی اسلام کے استحکام کا زمانہ شروع ہوا تھا اور نہ اس سے قبل وہ گویا ایک ٹھٹھرے ہوئے بیج کی طرح محصور پڑا تھا لیکن جو نہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور

Page 808

مضامین بشیر آپ کے صحابہ ہجرت کر کے مدینہ میں پہنچے تو اس کے ساتھ ہی اسلام نہایت حیرت انگیز صورت میں ترقی کرنے لگ گیا.گو یا وطنیت اسلام کے سامنے ایک بند کے طور پر کھڑی تھی جس کے ٹوٹنے پر اسلام کے زور دار دھارے نے سارے علاقہ کو دیکھتے ہی دیکھتے سیراب کر دیا.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا پہلا حصہ ہے جو مدینہ کی ہجرت سے تعلق رکھتا ہے.اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسلام پر پھر ایک اور ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب وہ گویا دوبارہ بے وطن ہو جائے گا.اور اس دوسری بے وطنی کے زمانہ میں اس کی ترقی کا دوسرا دور شروع ہو گا.سو یہ دوسری بے وطنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی طرف اشارہ کرتی ہے.جبکہ گویا اسلام کا درخت اپنے اصل وطن سے بے وطن ہو کر ہمارے اس بر عظیم میں سے اٹھنا اور بڑھنا شروع ہوا ہے.پس دراصل یہ حدیث اسلام کے دو عظیم الشان دوروں کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی ایک تو اس میں مدینہ کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے.اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ دونوں میں اسلام کی غربت یعنی بے وطنی کا رنگ نمایاں طور پر موجود ہے.اس کے علاوہ ( تیسرے درجہ پر ) اس حدیث میں جماعت احمدیہ کی قادیان سے ہجرت کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے اور اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ سے مراد یہ سمجھی جائے گی کہ جماعت احمدیہ کی اس ہجرت کے ابتدائی دھکے کے بعد انشاء اللہ صداقت پنینی شروع ہو جائے گی اور گو یا ترقی کے زمانہ کی داغ بیل رکھ دی جائے گی.تعجب ہے کہ آجکل اسی حدیث پر ایک مفصل مضمون لکھنے کا ارادہ کر رہا تھا مگر بیماری کی وجہ سے اب تک نہیں لکھ سکا کہ اچانک آج کے الفضل میں ایڈیٹر صاحب کا مضمون چھپ گیا.لہذا فی الحال یہ مختصر سا نوٹ اخبار میں بھجوا رہا ہوں.بہر حال عربی زبان میں غریب کے معنی مفلس اور نادار کے نہیں بلکہ بے وطن یا وطن سے دور کے ہیں اور اسی کے مطابق اس حدیث کی تشریح ہونی چاہیئے اور یہی وہ معنی ہیں جس کے مطابق یہ حدیث ایک بڑے شائد مفہوم کی حامل بنتی ہے.واللہ اعلم بالصواب ولا علم لفا الا ما علمه الله ( مطبوعه الفضل یکم مارچ ۱۹۵۰ء)

Page 809

۷۹۷ مضامین بشیر بعض متفرق سوالوں کا جواب ( دعاؤں میں ناکامی پر مایوسی ، مردوں پر فاتحہ خوانی اور قل کی رسم وغیرہ) گذشتہ مضمون میں جہاد بالسیف کے مسئلہ کے متعلق ایک دوست کے سوال کا جواب دے چکا ہوں اب ایک بہن کے سوال کا جواب دیتا ہوں.یہ بہن بھتی ہیں کہ ان کے لڑکے نے اپنی بیکاری دور کرنے کے لئے ایک امتحان دیا تھا مگر باوجود محنت کرنے اور دعائیں مانگنے کے وہ ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر مایوسی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے بلکہ نعوذ باللہ خدا کے متعلق بھی شکوک اٹھ رہے ہیں کہ اتنی دعاؤں کے باوجود خدا نے میری نہیں سنی.یہ بہن گواپنی ذات میں بہت نیک اور مخلص ہیں مگر اپنے بچے کی وجہ سے فکرمند ہیں اور چاہتی ہیں کہ دعاؤں کے اس پہلو پر کچھ روشنی ڈالی جائے تا کہ جماعت کے نوجوانوں کے لئے بصیرت اور سہارے کا موجب ہو.سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ساری غلط فہمی در اصل دعاؤں کے حقیقی فلسفہ کے نہ سمجھنے اور شریعت اور قضاء وقدر کے قانون میں امتیاز نہ کرنے کا نتیجہ ہے ورنہ بات بہت صاف ہے اور میں اس کے متعلق اپنی کتاب ’ ہمارا خدا “ اور ”سیرت خاتم النبیین حصہ سوم میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں.مختصر طور پر یہ جاننا کافی ہے ( کیونکہ میں اس وقت بوجہ علالت حوالے درج کرنے سے معذور ہوں ) کہ دعاؤں کے متعلق یہ خیال کرنا کہ ہر انسان کی ہر دعا لازماً منظور ہونی چاہیئے اور پھر لا زما وہ اسی صورت میں منظور ہونی چاہیئے جس صورت میں کہ وہ چاہتا ہے ایک بالکل باطل نظریہ ہے جس کے قبول کرنے سے سارا نظامِ عالم درہم برہم ہونے لگتا ہے کیونکہ اس نظریہ کے قبول کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ خدا دنیا کا آقا اور مالک نہیں بلکہ نعوذ باللہ انسانوں کا غلام ہے اور اس بات کے لئے مجبور ہے کہ ہر بات میں لازماً ان کی خواہش کے مطابق چلے اور ظاہر ہے کہ جو ہستی ہر بات میں مجبور ہو اور کسی بات میں ذرہ بھر ادھر اُدھر نہ ہو سکے وہ غلام ہوتی ہے نہ کہ آقا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ دعاؤں کے معاملہ میں بندوں کے ساتھ خدا کا تعلق دوستانہ رنگ کا ہوتا ہے کہ کبھی وہ ان کی بات مانتا ہے اور کبھی اپنی بات منواتا ہے اور درحقیقت یہی دعاؤں کے فلسفہ کا مرکزی نقطہ ہے.جس کے بغیر نہ تو خدا کی خدائی باقی رہتی ہے اور نہ بندے کی بندگی.ہاں ہاں غور کرو

Page 810

مضامین بشیر ۷۹۸ کہ یہ کتنی غیر معقول اور خلاف عقل بات ہے کہ انسان دنیا کی خالق و مالک ہستی کے متعلق تو یہ امید رکھے کہ وہ بہر حال اس کی مانے اور اس کی دعاؤں کو ہر صورت میں قبول کرے لیکن خود خادم ہوکر اپنے ما لک و آقا کی کسی خلاف مرضی تقدیر کو ماننے کے لئے تیار نہ ہو!! دوسری بات اس تعلق میں یہ جاننی ضروری ہے کہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں کی دعا ئیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور ایک شخص کی دعا قبول کرنے کا لازمی نتیجہ دوسرے شخص کی دعا کے رد کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.مثلاً ایک مالی اور باغبان ہے جس کا باغ سوکھ رہا ہے اور اسی پر اس کی ساری روزی کا دارو مدار ہے اور وہ فوری بارش کی دعا مانگتا ہے مگر ایک دوسرا شخص مٹی کے برتن بنانے والا گلِ ساز ہے اور اس کے بہت سے برتن خشک ہونے کے لئے دھوپ میں رکھے ہیں اور وہ اس بات کے لئے دست بدعا ہے کہ خدایا ابھی بارش کو کچھ عرصہ روک کر رکھتا کہ میری یہ زندگی کی پونجی تباہ نہ ہو جائے.اب یہ دونوں دعائیں ایسی ہیں کہ ایک دوسرے کے بالکل متضاد اور مخالف پڑی ہوئی ہیں اور ایک کو قبول کرنا دوسری کو رد کرنے کے مترادف ہے.پس لا محالہ ان حالات میں یا تو ان دعاؤں میں سے صرف ایک دعا ہی قبول ہوگی اور دوسری رد کر دی جائے گی اور یا خدا تعالیٰ ان دونوں دعاؤں کو نظر انداز کر کے ایک ایسا رستہ اختیار فرمائے گا جو باغبان اور گل ساز کی محدود ضرورتوں کے میدان سے باہر قدم رکھتے ہوئے علاقہ کی مجموعی ضرورت کے لحاظ سے مناسب ہوگا اور خدا اپنے مصالح کو بہتر سمجھتا ہے.تیسری بات یہ یادرکھنے کے قابل ہے کہ بعض اوقات انسان ایک ایسی دعا مانگتا ہے جو درحقیقت خود اس کے لئے مضر ہوتی ہے لیکن وہ اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتا یا یہ دعا اگر اب نہیں تو آئندہ چل کر اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہونے والی ہوتی ہے مگر وہ علم غیب نہ رکھنے کی وجہ سے اس کے نقصان کو نہیں جانتا تو اس صورت میں خدا کی رحمت کا یہی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ایسی دعاؤں کو رد کر دے.اگر ایک ماں اپنے بچے کے ہاتھوں کو پکڑ سکتی ہے جو وہ اپنی نادانی سے شوق میں آکر آگ کے سُرخ و نیلگوں شعلوں کی طرف بڑھاتا ہے اور اس کے رونے اور چلانے کی پروا نہیں کرتی تو خدا جو ارحم الراحمين ہے کس طرح اپنے بندوں کی ان نادانی کی دعاؤں کو قبول کر سکتا ہے جو وہ بری چیزوں کو اچھا خیال کرتے ہوئے خدا سے مانگتے ہیں؟ پھر چوتھی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بعض لوگ دعا کرتے ہوئے قضاء وقدر کے قانون کو بالکل بھلا دیتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ محض دعا کی وجہ سے ظاہری اسباب کو نظر انداز کرتے ہوئے کامیاب ہو جا ئیں.مثلاً اگر کوئی امتحان دینا ہو تو محنت کرنے کے بغیر یا پوری محنت کرنے کے

Page 811

۷۹۹ مضامین بشیر بغیر یا صحیح طریق پر محنت کرنے کے بغیر محض دعا کرنے یا کرانے سے امید کرتے ہیں کہ ان کا کام ہو جائے گا حالانکہ خدا تعالیٰ کی باریک در بار یک حکمت نے روحانی اور جسمانی نظاموں کو ایک دوسرے سے بالکل جدا رکھا ہے.روحانی میدان کی کمی عام حالات میں جسمانی میدان پوری نہیں کر سکتا اور جسمانی میدان کی کمی عام حالات میں روحانی میدان پوری نہیں کر سکتا یہ گو یا خدا تعالیٰ کی مرکزی حکومت کے ماتحت دو جدا جدا صو بائی حکومتیں ہیں جن میں ایک طرح کا ہوم رول قائم ہے گوشت کا قانون گوشت کے ساتھ ہے اور روح کا قانون روج کے ساتھ ہے.بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَنخِینِ اگر خدا کا ایک برگزیدہ نبی بھی کوئی ایسی چیز کھائے گا جو ثقیل ہونے کی وجہ سے پیٹ میں درد پیدا کرنے والی ہے تو اس کا نبی ہونا اسے پیٹ کی درد سے نہیں بچا سکے گا.کیونکہ نبوت روحانی میدان سے تعلق رکھتی ہے اور ثقیل چیز سے پیٹ میں درد ہونا جسم کے قانون کا حصہ ہے.اسی طرح اگر دو ایسے آدمی گہرے پانی میں کو دیں گے جن میں سے ایک نیک ہے اور دوسرا بد تو وہ نیک آدمی جو تیرنا نہیں جاتنا ڈوب جائے گا لیکن وہ بد آدمی جو تیرنا جانتا ہے بچ جائے گا.کیونکہ تیرنا یا ڈو بنا جسم کے قانون سے تعلق رکھتا ہے.اور نیک آدمی کی نیکی اسے تیرنا سیکھنے کے بغیر ڈوبنے سے نہیں بچاسکتی.یہ فرق اور امتیاز اس لئے ہے کہ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے اور بنی نوع انسان کی ساری ترقی رک جائے اور انسانی دماغ ایک ٹھوس اور منجمد پتھر کی طرح ٹھٹھک کر رہ جائے.مثلاً اگر قوانین طب کی تحقیق کے بغیر محض دعا کی وجہ سے لوگوں کی بیماریاں دور ہو جائیں تو کسی کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ طبی تحقیقاتوں کے پیچھے سر گردان ہو یا اگر محض دعا کے نتیجہ میں انسان ڈوبنے سے بیچ جائے تو لوگ تیرنا کیوں سیکھیں اور کشتیوں اور جہازوں کو پانی کی سطح پر رکھنے کے اصول کیوں سوچیں ؟ الغرض غور کیا جائے تو علم اور سائنس کے ہر شعبہ کی ترقی محض اس وجہ سے ہے کہ مادہ کا قانون روح کے قانون سے جدا رکھا گیا ہے.اور (مستثنیات کو الگ رکھتے ہوئے ) جب تک انسان مادہ کے قانون پر حاوی نہ ہو وہ محض روح کی توجہ اور دل کی دعا سے مادہ کے میدان میں ترقی نہیں کر سکتا.لہذا بعض لوگوں کا یہ خیال کرنا کہ ہم نے دعا کی تھی مگر پھر بھی فیل ہو گئے اور ہم نے سجدوں میں ناک رگڑی تھی مگر پھر بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے ایک خیال باطل ہے انہیں چاہیئے کہ امتحان کے لئے پڑھیں بھی اور دعا بھی کریں اور دینوی مقاصد کے لئے ظاہری کوشش بھی کریں اور خدا کے حضور سر بسجو د بھی رہیں.کیونکہ دعا ایک روحانی تدبیر ہے اور محنت اور کوشش ایک ظاہری اور مادی تدبیر ہے اور دونوں کے ملنے سے ہی بہترین نتیجہ نکل سکتا ہے اور دراصل اسلامی تو کل کا یہی سچا فلسفہ ہے کہ دعا

Page 812

مضامین بشیر اور دوا دونوں کو ملایا جائے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بدوی رئیس آیا اور اپنے اخلاص کے جوش میں مسجد نبوی کے باہر ہی اپنی اونٹنی کھلی چھوڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہو گیا.جب وہ تھوڑی دیر کے بعد واپس گیا تو اس کی اونٹنی ادھر ادھر بہک کر غائب ہو چکی تھی وہ گھبرایا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں نے تو آپ کی مجلس کے شوق میں خدا پر توکل کرتے ہوئے اونٹنی کو کھلا چھوڑ دیا تھا مگر اب باہر گیا ہوں تو وہ غائب ہے.آپ نے فرمایا : اعقل ثم توكل ] 66 یعنی پہلے اونٹنی کا گھٹنا باندھو اور پھر تو کل کرو.“ الله الله !! کیا ہی سادہ مگر کیا ہی لطیف کلام ہے اور روح اور جسم کی مرکب حکمت سے کتنا لبریز !! اور یہ وہی حدیث ہے جس پر مولانا رومی علیہ الرحمۃ اللہ نے یہ مشہور مصرع کہا ہے کہ تو گل زانوئے أشتر بند کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب مادی تدبیروں کو بہر حال اختیار کرنا ضروری ہے تو پھر دعا کا کیا فائدہ ہے مگر یہ محض نادانی کا اعتراض ہوگا ہم ہر روز اپنی جسمانی بیماریوں کے لئے مرکب نسخے استعمال کرتے ہیں جن میں سے بعض میں تین دوائیاں پڑتی ہیں اور بعض میں چار اور بعض میں پانچ اور بعض میں اس سے بھی زیادہ تو کیا ہم اپنے اہم دینی اور دنیوی مقاصد میں کامیابی کے لئے دو دوائیاں بھی استعمال نہیں کر سکتے جن میں سے ایک روح کو تازہ رکھنے کے لئے ہے اور دوسری جسم کو چوکس و ہوشیار اور مستعد بنانے کے لئے ؟ دراصل دنیوی کاموں کے متعلق دعا سکھانے میں اسلام کے مدنظر دُہری غرض ہے ایک یہ کہ تا محض مادی باتوں میں پڑ کر مومن کی روح اور توجہ الی اللہ کا جذ بہ کمزور نہ ہونے پائے اور دوسرے یہ کہ تا مادی تدبیروں کے ساتھ دعا اور نصرت الہی کا زور شامل ہو کر ہمارے مقاصد کے حصول کو ہمارے لئے آسان تر کر دے اور یہی ہمیشہ انبیاء اور صلحاء کی سنت رہی ہے کہ وہ اپنے دنیوی مقاصد میں ظاہری تدبیر کے ساتھ دعا کو اور دینی مقاصد میں دعا کے ساتھ ظاہری تدبیر کو شامل کرتے رہے ہیں مگر اصل بھروسہ خدا کی ذات پر رکھتے رہے ہیں اور یہ صراط مستقیم کا مرکزی نقطہ ہے ہاں اگر کسی وقت کوئی ظاہری تدبیر میسر ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں اہل اللہ صرف دعا پر بھروسہ کرتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور اسی میں خدا ان کے لئے کامیابی کا رستہ کھول دیتا ہے مگر یہ ایک استثنائی صورت ہے جس پر عام حالات کا قیاس نہیں ہونا چاہیئے.

Page 813

۸۰۱ مضامین بشیر خلاصہ یہ کہ وہ نوجوان جو کسی کام میں ناکامی دیکھ کر گھبراتا ہے اور مایوس ہونے لگتا ہے اسے چاہیئے کہ کم از کم مندرجہ ذیل باتوں کو ضرور یا درکھے.(۱) خدا ہما را آتا ہے نہ کہ نعوذ باللہ خادم.پس ضروری نہیں کہ وہ ہماری باتوں کو مانے بلکہ وہ دوستوں کی طرح بعض اوقات اپنے بندوں کی بات مانتا ہے اور بعض اوقات اپنی منوا کر ان کے ایمان کا امتحان کرتا ہے.(۲) بسا اوقات خدا کے مختلف بندوں کی دعائیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور اس صورت میں یہ ناممکن ہوتا ہے کہ خدا سب کی دعائیں قبول کرے.پس وہ جسے زیادہ حقدار دیکھتا ہے اس کی دعا قبول کر لیتا ہے اور دوسروں کے صبر کو آزماتا ہے.لہذا جو شخص اپنی دعاؤں میں زیادہ مقبولیت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ اپنے آپ کو زیادہ حقدار بنائے.(۳) بعض اوقات دعا کرنے والا اپنی نادانی میں ایک ایسی چیز کی خواہش کرتا ہے جو خدا کے علم میں اس کے لئے (دین میں یا دنیا میں.حال میں یا مستقبل میں ) نقصان دہ ہوتی ہے تو اس صورت میں خدا جو اپنے بندوں کے لئے ماں باپ سے بھی زیادہ شفیق ہے ان کی دعا کور دکر کے اس ذریعہ سے اس کے لئے ایک رحمت کا نشان قائم کرتا ہے.(۴) بعض اوقات بندہ دنیوی تدبیروں اور سامانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے محض دعا کے ذریعہ کامیاب ہونا چاہتا ہے یاد نیوی سامانوں کو اختیار تو کرتا ہے مگر اس حد تک اختیار نہیں کرتا جس حد تک کہ اختیار کرنا ضروری ہے تو اس صورت میں خدا اسے نا کام کر کے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ دنیا کے اسباب بھی ہمارے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں.پس ” پہلے اونٹنی کا گھٹنا باندھوا اور پھر تو کل کرو.“ ان کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں مثلاً دعا میں جلد بازی کرنا یا سنت الہی کے خلاف دعا کرنا وغیرہ وغیرہ.مگر میں اس مختصر نوٹ میں صرف انہی چار باتوں پر اکتفا کرتا ہوں.البتہ جو دوست چاہیں وہ دوسرے لٹریچر میں مفصل مطالعہ کر سکتے ہیں.مُردوں پر فاتحہ خوانی اور قل کی رسم وغیرہ یہی خاتون دریافت کرتی ہیں کہ مُردوں پر فاتحہ خوانی کرنا یا قل وغیرہ کی رسم بجالانا اور اسی طرح دوسری معروف رسمیں جو آجکل مسلمانوں میں عموماً رائج ہیں ان کی شرعی پوزیشن کیا ہے؟ سواس کے متعلق جاننا چاہیئے کہ جو بات اس بارہ میں قرآن وحدیث اور سنت سے ثابت ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ جب کوئی مسلمان مرنے لگے تو اس کے پاس سورہ یسین پڑھی جائے تا کہ ایک تو اس کی موت کی

Page 814

مضامین بشیر ۸۰۲ تکلیف میں کمی واقع ہو جو سورہ یسین کا روحانی خاصہ ہے.اور دوسرے اسے خدا کی طرف توجہ پیدا ہو جو کلام الہی سنے کا طبعی نتیجہ ہے اور حتی الوسع اس کے سامنے خدا اور رسول کا ذکر کیا جائے.پھر جب وہ فوت ہو جائے تو اس کی آنکھیں اور مُنہ بند کر کے اور اس کے اعضاء کو سیدھا کر کے اس کے منہ کو قبلہ رُخ کر دیا جائے اس کے بعد اسے مسنون طریق پر غسل دے کر کفن پہنایا جاتا ہے اور اس کے بعد مقررہ نماز جنازہ پڑھ کر دفنا دیا جاتا ہے اور پھر قبر کو ٹھیک ٹھاک کر کے آخری مختصر دعا کے بعد لوگ واپس آ جاتے ہیں اس کے بعد مرنے والے کا تعلق دنیا سے کٹ کر خدا اور اس کے فرشتوں کے ساتھ جا پڑتا ہے اور مومنوں کو بہر حال اپنے آسمانی آقا سے عفو و رحمت کی امید رکھنی چاہیئے اور اے میرے آقا میں نے تو بہر حال اپنی بے شمار لغزشوں کے باوجو د تجھ سے ہمیشہ یہی امید رکھی ہے اور میں ہر حال میں تیرے عفوا اور تیری رحمت اور تیرے فضل اور تیری برکت کا طالب ہوں.وارجوامنک خیراً يا ارحم الراحمين) بس مختصراً یہی وہ مسنون حقوق ہیں جو اسلامی طریق کے مطابق ہر مرنے والے کے متعلق ادا کئے جاتے ہیں.جس کے بعد مرنے والے کے عزیزوں کے ساتھ افسوس اور ہمدردی کرنے کے علاوہ خود مرنے والے کے لئے صرف دعا ہی باقی رہ جاتی ہے جو اس کے عزیز یا دوست یا شاگر د یا ہمسائے وغیرہ اس کے واسطے مانگتے ہیں اور مومنوں کی دعا علی قدر مراتب مرنے والوں کو ضرور فائدہ پہنچاتی ہے خواہ وہ قبر پر جا کر کی جائے یا غائبانہ کی جائے.اس کے علاوہ ایک جائز طریق یہ بھی ہے کہ جس شخص کو توفیق ہو وہ کبھی کبھی ( مگر بغیر معین تاریخوں کے تا کہ رسم نہ بن جائے ) مرنے والے کی طرف سے کوئی صدقہ کر دے.صدقہ کے نتیجہ میں ان غریب لوگوں کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنہیں اس صدقہ سے فائدہ پہنچتا ہے اور اگر مرنے والا اپنی زندگی میں خود صدقہ وخیرات کا پابند رہا ہو تو ایک طرح سے اس کے نیک عمل کا تسلسل بھی قائم رہتا ہے.اس کے علاوہ باقی باتیں مثلاً رسمی طریق پر فاتحہ خوانی کرنا یا قبروں پر بیٹھ کر قرآن پڑھنا یا گل یا چہلم وغیرہ کی رسوم ادا کرنا یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کی (کم از کم میرے علم میں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کی سنت میں کوئی سند نہیں ملتی اور یقیناً با برکت طریق وہی ہے جو سنت سے ثابت ہو.لوگوں نے اس قسم کی غیر مسنون رسموں میں الجھ کر دین کے صاف اور سیدھے طریق کو بیچ دار بنا دیا ہے اور پھر بعض رسمیں تو بیچارے غریب لوگوں کے لئے ان کے کسی عزیز کی موت کو گویا ایک چٹی بنا دیتی ہیں جو انہیں بہت سے ناواجب بوجھوں کے نیچے دبا دیتی ہے اور بجائے اس کے کہ مرنے والوں کے گھروں میں ان کے عزیز اور ہمسائے ایک دو دن تک کھانا بھجوا کر ان کی

Page 815

۸۰۳ مضامین بشیر پریشانی کو ہلکا کرنے کی کوشش کریں ان پر دوسروں کے کھانے کا بوجھ ڈال کر ان کی پریشانی میں اضافہ کیا جاتا ہے اور سنت نبوی سے انحراف مزید براں ہے.پس ہمارے دوستوں کو ان سب غیر مسنون رسموں سے پر ہیز کرنا چاہیئے.ضمناً یہ بات بھی قابل ذکر ہو کہ کسی عزیز کے مرنے پر نوحہ کرنا یا بین ڈالنا یا چھاتی پیٹنا یا کپڑے پھاڑ نا یاکسی اور طرح جزع فزع کرنا اسلام میں منع ہے.البتہ کسی عزیز کی موت پر غم اور صدمہ محسوس کرنا یا آنکھوں میں آنسو آ جانا فطری رحمت کا حصہ ہے اور ہر گز منع نہیں بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ اور عزیزوں کی جدائی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے تھے اور جب اس قسم کے ایک موقعہ پر بعض صحابہ نے آپ کی صبر کی تعلیم کو دیکھتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم میرے دل کو خدا کی رحمت سے خالی سمجھتے ہو کہ کسی عزیز کی جدائی پر میری آنکھوں میں آنسو بھی نہیں آسکتے.میں نے صرف بے صبری دکھانے اور خدا کی تقدیر پر معترض ہونے اور نوحہ کرنے سے منع کیا ہے اور اپنے صاحبزادے حضرت ابراھیم کی وفات پر آپ نے یہ رقت بھرے الفاظ فرمائے کہ : انا بفراقك يا ابراهيم لمحزونون • د یعنی اے ابراھیم ہمارے دل تیری جدائی کے صدمہ سے غمگین ہیں.“ پس اسلام فطرت کے چشموں کو ہرگز بند نہیں کرتا مگر بے صبری اور جزع فزع کے ابال کو ضرور روکتا ہے اور یہی اس کے وسطی مذہب ہونے کا ثبوت ہے.باقی بہنوں بھائیوں کے سوالوں کا جواب انشاء اللہ پھر کسی وقت دوں گا.اس وقت علالت کی وجہ سے کوفت محسوس کرنے لگا ہوں.وما توفیقی الا بالله العظيم ( مطبوعه الفضل ۲ / مارچ ۱۹۵۰ء)

Page 816

مضامین بشیر ۸۰۴ اسلام اور زمین کی ملکیت فاروقی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ حال ہی میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی ایک تازہ تصنیف شائع ہوئی ہے جس کا نام ”اسلام اور زمین کی ملکیت ہے.بعض ضمنی مباحث کے علاوہ اس کتاب میں ان تین اہم سوالوں پر اسلامی نکتہ نظر سے بحث کی گئی ہے کہ : (۱) کیا اسلام زمین کی انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے؟ (۲) کیا اسلام انفرادی ملکیت پر اس قسم کی کوئی حد بندی عاید کرتا ہے کہ ایک مالک کے پاس اس اس قدر رقبہ سے زیادہ زمین نہیں رہ سکتی ؟ (۳) کیا اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ زمین کا مالک اپنی زمین کسی اور شخص کو کاشت پر دے اور اس سے اپنے حق ملکیت کے عوض میں بٹائی یا نقد لگان وصول کرے؟ یہ تین سوالات اس کتاب کا اصل موضوع ہیں.گو ضمنی طور پر بعض اور مباحث بھی اختصار کے ساتھ شامل کر لئے گئے ہیں.اس کتاب کے متعلق لاہور کے مشہور اخبار آفاق کی پچھلی اشاعت میں ایک صاحب فہیم احمد صاحب فاروقی ایم.اے کا تبصرہ شائع ہوا ہے اور ایڈیٹر صاحب آفاق“ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی اور صاحب فاروقی صاحب کے جواب میں لکھنا چاہیں تو ان کے لئے بھی آفاق کے صفحات حاضر ہیں.اس اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں فاروقی صاحب کے تبصرہ کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.سب سے پہلے میں اس خوشی کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ فاروقی صاحب کا یہ تبصرہ متانت اور وقار کے انداز میں لکھا ہوا ہے اور اس کی عبارت اور لب ولہجہ میں کوئی ایسی بات نہیں جسے شرافت اور سنجیدگی سے گرا ہوا سمجھا جائے اور ملک کی خوش قسمتی ہے کہ کم از کم اس کا ایک طبقہ اختلاف کے با وجود ہر بات کو متانت اور سنجیدگی کے ساتھ پر کھنے اور دلائل و براہین کی کسوٹی پر جانچ پڑتال کرنے کے لئے تیار ہے اور دراصل یہی ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کے اس حکیمانہ ارشاد کا مقصد ہے کہ اختلاف امتی رحمۃ.یعنی میری امت کا اختلاف رحمت کا موجب

Page 817

۸۰۵ مضامین بشیر ہے.اس میں کیا شک ہے کہ اگر لوگ نیک نیتی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسوہ پر قائم رہتے ہوئے (جس کی طرف اُمہ کے لفظ میں اشارہ ہے ) کوئی اختلاف کریں گے تو لاز ما علم ترقی کرے گا اور دماغوں میں نئی روشنی کے لئے رستے کھلیں گے اور جب نیت بخیر ہوگی تو یا تو تنقید کے نتیجہ میں وہ شخص جس کے کسی نظریہ پر تنقید کی گئی ہے اپنی رائے بدل لے گا اور یا تنقید پر معقول جرح ہونے کے نتیجہ میں تنقید کرنے والا اپنے خیال کی اصلاح کرلے گا اور دونوصورتوں میں برکت ہی برکت ہے.ان تمہیدی سطور کے بعد میں محترم فاروقی صاحب کے تبصرہ کے مضمون کو لیتا ہوں.جہانتک میں سمجھ سکا ہوں زائد باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فاروقی صاحب کے تبصرہ کا خلاصہ ان دو باتوں میں آجاتا ہے.اول یہ کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی کتاب ”اسلام اور زمین کی ملکیت میں شروع سے لے کر آخر تک اسی بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسلام انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے اور یہ کہ وہ ایک مالک کی زمین کے رقبہ کے متعلق کوئی حد بندی عائد نہیں کرتا.مگر اس کے مقابل پر غریب زمینداروں اور کاشت کاروں کی غربت کو دور کرنے کے لئے کتاب میں کوئی علاج پیش نہیں کیا گیا.دوسرے یہ کہ کتاب میں اس دور سے تعلق رکھنے والے حوالے پیش کئے گئے ہیں جبکہ تمدن اور معاشرت کی بالکل ابتدائی حالت تھی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور نئے حالات کو نئے اصولوں کے ماتحت دیکھنا ہوگا ، وغیرہ ذالک یہ وہ دومحور ہیں جن پر فاروقی صاحب کا سارا تبصرہ چکر لگاتا ہے.بے شک فاروقی صاحب نے اس کے علاوہ بعض اور باتیں بھی بیان فرمائی ہیں مگر یہ باتیں زیادہ تر ضمنی رنگ رکھتی ہیں اور تبصرہ کا مرکزی نقطہ اوپر کی دوباتوں میں آجاتا ہے.ان دو باتوں میں سے پہلی بات کے متعلق مجھے یہ کہنا ہے کہ ہر کتاب کا ایک موضوع ہوا کرتا ہے اور اچھے مصنف کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی توجہ کو اپنی کتاب کے موضوع تک محدود رکھے اور بے شک کسی حد تک وہ بعض ضمنی باتوں کی بحث میں داخل ہو سکتا ہے.مگر یہ صرف ایک اچٹتی ہوئی نظر ہوا کرتی ہے.ورنہ مصنف ہاں اچھے اور حکیمانہ نظر رکھنے والے مصنف کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے موضوع کے مرکزی نقطہ سے اِدھر اُدھر نہ جائے.ورنہ یہ ان شاعروں والی بات ہو جائے گی جن کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ د یعنی بعض شاعر اپنی جولانی میں کسی میدان کو نہیں چھوڑتے اور ایک ہی قطعہ نظم

Page 818

مضامین بشیر ۸۰۶ میں ( مجھے شاعر صاحبان معاف فرمائیں ) اپنے سب تخیل کو کبھی کسی وادی میں اور کبھی کسی وادی میں بھگاتے پھرتے ہیں.“ اب حضرت امام جماعت احمدیہ کی یہ کتاب کوئی انسائیکلو پیڈیا تو تھی نہیں کہ جس میں ہر موضوع کو داخل کر دیا جاتا بلکہ چند معین سوالوں کا ( جو اس زمانہ میں بعض حضرات کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں ) جواب دینا اصل مقصد تھا اور یہ سوالات وہی ہیں جن کا خلاصہ اس نوٹ کے شروع میں درج کر دیا گیا ہے اور وہ خالصتاً زمین کی ملکیت کے حق سے تعلق رکھتے ہیں اور خدا کے فضل سے یہ کتاب ان مخصوص سوالوں کا کافی وشافی جواب پیش کرتی ہے.باقی رہا یہ امر کہ اگر رقبہ مملوکہ کی حد بندی نہ ہونے کی وجہ سے بعض خرابیاں پیدا ہوں تو ان کا کیا علاج ہے تو یہ ایک جدا گانہ سوال ہے جس کا اس کتاب کے موضوع کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن خدا کے فضل سے ہمارے دوسرے لٹریچر میں اس سوال پر بھی کافی بحث آچکی ہے اور علم دوست طبقہ اس لٹریچر کے مطالعہ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے.مثلاً حضرت امام جماعت احمد یہ ہی کی ایک اور تصنیف ”اسلام کا اقتصادی نظام شائع ہو چکی ہے.جس میں اس سوال کے متعلق بہت سیر کن بحث کی گئی ہے کہ اسلام کس طرح جائداد کے انفرادی حق کو تسلیم کرنے کے باوجود غربت کو دور کرنے اور کمزور لوگوں کو اوپر اٹھانے اور ملکی دولت کو مناسب صورت میں سمونے کا نظام پیش کرتا ہے.اسی طرح ہماری بعض اور تصنیفات میں بھی یہ سوال کافی زیر بحث آچکا ہے.پس یہ کہنا کہ اسی کتاب میں سارے دور ونزدیک کے سوالوں کو کیوں نہیں لیا گیا کوئی معقول جرح نہیں کہلا سکتی خصوصاً جبکہ ( غالباً فاروقی صاحب تسلیم کریں گے ) خود اس کتاب کے ایک حصہ میں بھی مختصر طور پر اس سوال پر کسی قدر روشنی ڈالی گئی ہے مگر پوری تفصیل کا نہ تو یہ موقعہ تھا اور نہ کتاب کا محدود موضوع اس کی اجازت دیتا تھا.اب رہا دوسرا سوال یعنی فاروقی صاحب کی جرح کا یہ حصہ کہ اس کتاب میں اس دور کے حوالے دیئے گئے ہیں جب کہ تمدن اور معاشرت ابھی ابتدائی حالت میں تھے لیکن اب دنیا کے حالات بہت بدل چکے ہیں اور نئے نظریوں کی ضرورت ہے.سو اس کے متعلق میں بڑی محبت کے ساتھ عرض کروں گا کہ غالباً فاروقی صاحب نے یہ جرح کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کر دیا ہے کہ اسلام اس بات کا مدعی ہے کہ قرآنی شریعت سارے زمانوں کے لئے قیامت تک کے واسطے آئی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کا بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام کا خدا ( اور وہی ساری دنیا کا خدا ہے جس کے بغیر کوئی خدا نہیں ) ایک عالم الغیب ہستی ہے جس پر کوئی مکانی یا زمانی غیب مخفی نہیں ہے وہ قرآن مجید کو نازل کرتے ہوئے صرف عربوں کے حالات اور صرف ساتویں صدی عیسوی کے حالات سے ہی

Page 819

۸۰۷ مضامین بشیر واقف نہیں تھا بلکہ ساری قوموں کے حالات اور قیامت تک کے حالات اس کی آنکھوں کے سامنے تھے اور اس نے ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے قرآن شریف کو دائمی شریعت قرار دے کر نازل کیا جس کے بعد اس دنیا کے لئے کوئی اور شریعت نہیں.تو اس صورت میں ہمارے مہربان ناقد خود غور فرمائیں کہ ان کی اس جرح کا کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ یہ حوالے ایک قدیم دور سے تعلق رکھتے ہیں اور گویا موجودہ زمانہ کے مسائل کا علاج پیش نہیں کرتے.محترمی فاروقی صاحب آپ بڑی خوشی سے قرآنی آیات اور احادیث رسول کی تشریح کے متعلق فرمائیے کہ ان کا یہ مطلب نہیں بلکہ وہ مطلب ہے ان سے وہ استدلال نہیں ہوتا بلکہ یہ استدلال ہوتا ہے مگر خدا را قوم کو اس خیال کی طرف نہ لے جائیے کہ قرآن وحدیث کے حوالے ایک پرانے دور سے تعلق رکھتے ہیں.قرآن وحدیث کا دور دائمی ہے اور اس کا دامن دنیا کی آخری ساعت تک وسیع ہے آپ بے شک اس کی ہر معقول تشریح کا حق رکھتے ہیں آپ اسلامی شریعت کے لچک دار حصے کو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مطابق حکیمانہ صورت میں پیش کرنے کے بھی مجاز ہیں.مگر قرآن بہر حال وہی رہے گا.حدیث وہی رہے گی اور اسلام کے مقدس حوالے بھی وہی رہیں گے.دراصل شاید آپ نے غور نہیں فرمایا قرآن شریف ایک روحانی عالم ہے اسی طرح جس طرح یہ مادی دنیا ایک مادی عالم ہے.حضرت آدم کے وقت کی دنیا آپ کو موجودہ زمانہ کی ساری ضرورتیں مہیا کرتی چلی جاتی ہے ہاں تلاش اور جستجو سے دنیا کے مخفی خزانوں کو نکال نکال کر باہر لانا آپ کا کام ہے تو پھر یہی نظریہ قرآن کے روحانی عالم پر بھی کیوں چسپاں نہیں کرتے ؟ اور قوم کی نظریں اس خطر ناک نقطہ کی طرف اٹھانے کے کیوں درپے ہیں کہ یہ تو پرانے دور کے حوالے ہیں؟ ہاں بے شک اگر آپ کے پاس کوئی اور حوالے ہیں تو انہیں پیش کیجئے یا اگر موجودہ حوالوں کی کوئی اور تشریح ہے تو وہ دنیا کے سامنے رکھئے بس پھر خود بخود فیصلہ ہو جائے گا اور آپ بہر حال ہمیں خدا کے فضل سے قرآن و حدیث کے سامنے وقاف پائیں گے.اب میں ضمناً نہایت مختصر طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کے اقتصادی نظریہ کا فلسفہ کیا ہے.میں یہ تو نہیں کہہسہ سکتا کہ میرے اس مختصر بیان سے ہمارے دوست فاروقی صاحب کی تسلی ہو جائے گی اور دراصل یہ دعوی کوئی شخص بھی نہیں کر سکتا ) مگر خدا کے فضل سے اتنی امید ضرور رکھتا ہوں اگر وہ میرے اس بیان پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے تو وہ اس میں کم از کم اپنے دماغ کے لئے سوچنے کا ایک مواد ضرور حاصل کر لیں گے.مگر میں یہ امر دوبارہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس جگہ میرا مقصد اسلام کے اقتصادی نظام کی تشریح پیش کرنا نہیں ہے.بلکہ صرف اس نظام کے فلسفہ اور حکمت کی طرف

Page 820

مضامین بشیر ۸۰۸ اشارہ کرنا اصل مقصد ہے اور وہ بھی صرف اصول کی حد تک وماتوفيقى الا بالله العظيم- قرآن شریف مسلمانوں کے متعلق یہ اصولی نظریہ پیش فرماتا ہے کہ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شيدا 66 د یعنی اے مسلمانو! ہم نے تمہیں ہر قسم کی انتہاؤں سے بچاتے ہوئے ایک وسطی امت بنایا ہے تا کہ تم ہر دو جانب کے انتہا پسندوں پر خدا کی طرف سے نگران اور گواہ رہو اور پھر رسول کو تم پر نگران اور گواہ مقرر کیا گیا ہے.“ یہ آیت کریمہ گو بظا ہر قرآن میں ایک اور بحث کے ضمن میں بیان کی گئی ہے لیکن جیسا کہ قرآن کا قاعدہ ہے.یہ آیت دراصل ایک وسیع اصول کی حامل ہے اور اس میں اس نظریہ کا بیان کرنا مقصود ہے کہ قرآنی شریعت دنیا کے انتہائی نظریوں کے درمیان ایک وسطی رستہ پیش کرتی ہے ظاہر ہے کہ انسانی فطرت کچھ اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ کسی نہ کسی انتہا کی طرف جھکنے لگتی ہے.کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف آج سے کچھ زمانہ پہلے دنیا میں سرمایہ داری کا دور تھا.جبکہ سوسائٹی کے ایک مخصوص طبقہ نے پیدا کرنے کے ذرائع کو اپنے اجارہ میں لے رکھا تھا اور ملک کا کمزور طبقہ غربت اور بے بسی کی دلدل میں پھنس کر کراہ رہا تھا اس صورت حال نے آہستہ آہستہ کمزور طبقہ میں بغاوت کے آثار پیدا کرنے شروع کئے اور نتیجہ اشتراکیت کی صورت میں ظاہر ہوا جبکہ امیروں کی دولت اورا میروں کی جائیدادیں ان سے چھین کر تمام ملک کی مشترکہ بہتری اور غریبوں کی پابحالی کے کئے حکومت کے ہاتھ میں دے دیں گئیں اور انفرادی ملکیت کا دور ختم ہوا یہ دونوں قسم کے نظریات کی انتہا تھی ایک میں سرمایہ داری اور غریب کو لوٹنے کی اور دوسرے میں لوگوں کے انفرادی حق اور انفرادی جد و جہد کو ملیا میٹ کرنے کی.پنڈولم کے چکر کی طرح ایک نہانے ختم ہو کر دوسری انتہا پیدا کر دی مگر جس طرح سرمایہ داری ایک غیر طبعی چیز تھی اسی طرح اشتراکیت بھی ایک غیر طبعی چیز ہے اور یقیناً آج سے کچھ عرصہ کے بعد سوسائٹی میں پھر بغاوت کے آثار پیدا ہوں گے اور لوگ حکومت کے استبداد کے خلاف انفرادی حق کے حصول کے لئے چلا ئیں گے اور بعید نہیں کہ دنیا پھر دوسری انتہا کی طرف چلی جائے اور جس طرح اب ایک دلدل میں سے نکل کر دوسری دلدل میں داخل ہو رہی ہے اسی طرح آئندہ چل کر پھر سابقہ دلدل میں پھنس جائے کیونکہ جب انسان ایک ظالمانہ نظام سے بھاگتا ہے تو عموماً اس کی دہشت میں دوسری انتہا سے ورے نہیں ٹھہرتا اور اس طرح ایک دور سؤ قائم ہوتا چلا جاتا ہے.اسلام نے مسلمانوں کوامة وسطاً کہہ کر ان دونوں انتہاؤں سے بچانے کی کوشش کی ہے اس نے انسان کی

Page 821

1+9 مضامین بشیر انفرادیت کو بھی قائم رکھا ہے اور اس کی اجتماعی زندگی کے اصول کو بھی اجاگر کیا ہے اس نے سرمایہ داری کے رستہ پر پڑ کر انسان کی اجتماعی زندگی کو مٹایا نہیں بلکہ انسانیت کے مختلف طبقوں کے درمیان پڑکہ محبت اور تعاون کا ایک وسیع رشتہ قائم کیا ہے یہ رشتہ کچھ تو حکومت کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے اور کچھ افراد کے نیک جذبات کو ابھار کر مستحکم کیا گیا ہے.دوسری طرف اسلام نے انسان کی انفرادی حیثیت کو بھی زندہ رکھا اور اس کے ذاتی حق کو تسلیم کیا ہے اور انسان کو اس کی دماغی طاقتوں اور اس کی ذاتی جد و جہد کے پھل سے محروم نہیں کیا.کیونکہ یہ محرومی بالآخر انسان کی انفرادیت کو مٹا کر اسے ایک مشین یا پتھر کے بت کی شکل میں منتقل کر دیتی ہے.در اصل نسل انسانی کی ساری ترقی ایک طرف اس کے افراد کی انفرادیت اور دوسری طرف سوسائٹی کی اجتماعیت پر منحصر ہے اور ان دونوں نقوش کے ملنے سے ہی انسانیت کا ڈھانچہ مکمل ہوتا ہے محض انفرادی ترقی انسان کو ایک اچھا جانور بنا کر رکھ دیگی اور اس سے زیادہ نہیں اور دوسری طرف محض اجتماعی ترقی انسانی سوسائٹی کو ایک ایسی مشین کی صورت میں بدل دے گی جس کے مختلف حصے دیکھنے میں تو انسان نظر آئیں گے لیکن فی الحقیقت بے حس اور بے جان پرزوں سے زیادہ نہیں ہوں گے.اوپر کے نظریہ کے ماتحت جس کی تائید میں بیشمار قرآنی آیات اور احادیث پیش کی جاسکتی ہیں مگر یہ اس کا موقع نہیں اسلام نے ایک نہایت حکیمانہ وسطی نظام پیش کیا ہے جو دونوں طرف کی انتہاؤں سے بچتے ہوئے انسان کی انفرادیت اور سوسائٹی کی اجتماعیت دونوں کو زندہ رکھتا ہے وہ ایک طرف افراد کے انفرادی حق کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی ذاتی جد و جہد کے پھل کو ان سے چھینتا نہیں مگر دوسری طرف وہ ان سے اپنی قوم اور اپنے غریب بھائیوں کی امداد کیلئے زیادہ سے زیادہ قربانی کرتا ہے.یہ قربانی محض طوعی نہیں کہ جس کی مرضی ہو قربانی کرے اور جس کی مرضی ہو نہ کرے بلکہ اکثر صورتوں میں یہ قربانی جبری رنگ رکھتی ہے اور حکومت کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ امیروں کی دولت پر بھاری ٹیکس لگا کر غریبوں کی امداد کا انتظام کرے اور اس کے علاوہ کچھ حصہ طوعی قربانی کا بھی رکھا گیا ہے تا کہ سوسائٹی کے افراد میں باہم محبت اور اخلاص اور تعاون کے جذبات پیدا ہوں اور اسلام کا قانون ورثہ اور سود کی حرمت وغیرہ مزید براں ہے.اس طرح ایک طرف تو اسلام نے افراد کے ذاتی حق کو قائم کر کے انفرادیت کو زندہ رکھا ہے اور دوسری طرف قوم اور قوم کے غریب طبقہ کی خاطر افراد سے زیادہ سے زیادہ قربانی کرا کے جس میں کچھ حصہ جبری ہے اور کچھ طوعی اجتماعی زندگی کی داغ بیل قائم کی ہے اور یہی وہ وسطی نظریہ ہے جس سے قو میں دائی زندگی پاسکتی ہیں.ورنہ ایک انتہا کے نتیجہ میں انفرادیت مرے گی اور دوسری انتہا کے نتیجہ میں زندگی کا خاتمہ ہو جائیگا اور بالآخر دونوں کا

Page 822

مضامین بشیر ۸۱۰ نتیجہ عالمگیر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ ہوگا.یہ تو اسلام کے نارمل اقتصادی نظام کا مرکزی نقطہ ہے لیکن اسلام اس طرف سے بھی آنکھیں بند نہیں کرتا کہ بعض اوقات قوموں کی تاریخ میں ایسے غیر معمولی حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ جب قحط وغیرہ کے نتیجہ میں غریبوں کے خوراک کے ذخیرے ختم ہو جائیں اور وہ بھو کے مرنے لگیں اور امیروں کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک موجود ہو تو اس قسم کے حالات میں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ سب قومی ذخیروں کو ملا کر لوگوں میں ان کی ضرورت کے مطابق تقسیم کر دو اور آنحضرت علی نے ایسا کرنے والوں کے متعلق فرمایا ہے کہ :." یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں بالآخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں تو بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ آج کل اسلامی سوسائٹی میں بھی ناگوار خلیجیں پیدا ہو چکی ہیں.ایک بے پناہ دولت میں لوٹتا پوتا ہے اور دوسرا طبقہ نان جویں تک سے محروم ہے اور اس سے بڑھ کر غضب یہ ہے کہ امیر طبقہ کے بیشتر کو ( میں سب پر الزام نہیں رکھتا ) اپنے غریب بھائیوں کی تکلیف کا احساس تک نہیں.گویا اقتصادی خلیج بھی موجود ہے اور جذباتی خلیج بھی.یہ صورت حال یقیناً بہت قابل اعتراض اور قابل اصلاح ہے لیکن اس کا علاج اشتراکیت میں نہیں بلکہ اسلام میں ہے.پس جب اسلام میں ساری بیماریوں کا علاج موجود ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر اشتراکیت کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور اسلام کو نعوذ باللہ بیٹا ثابت کرنے کے علاوہ اس پیالے کے پینے کے درپے ہو رہے ہیں ہمیں ایک زہر سے بچا کر دوسرے زہر کی طرف کھینچ رہا ہے.اگر حکومت ان فرائض کو ادا کرے جو اسلام اس پر عائد کرتا ہے اور اگر ان فرائض کو پورا کریں جو اسلام..نے ان کے ذمہ لگائے ہیں تو ہمیں خدا کے فضل سے اشتراکیت کی کھانڈ چڑھی زہر کی گولی کھانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسلام میں ہی ہمیں دنیا کی ساری جنت مل سکتی ہے جیسا کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو ملی اور انشاء اللہ پھر ملے گی.و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.( مطبوعہ الفضل ۷ / مارچ ۱۹۵۰ء)

Page 823

ایک غلطی کی اصلاح مضامین بشیر الفضل مورخہ 2 مارچ ۱۹۵۰ء میں میرا ایک مضمون ” فاروقی صاحب کے تبصرہ پر تبصرہ “ شائع ہوا ہے جس میں فہیم احمد صاحب فارمرقی ایم اے کے اس تبصرہ کا جواب ہے جو فاروقی صاحب کی طرف سے حضرت امیرالمؤمنین خلیفہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کتاب ”اسلام اور زمین کی ملکیت کے متعلق لاہور کے ہفت روزہ اخبار ” آفاق میں شائع ہوا تھا.مجھے افسوس ہے کہ حسب دستور کچھ تو کا تب صاحب نے اور کچھ پریس والوں نے میرے اس مضمون کو کافی مسخ کرنے کی کوشش کی ہے.بعض دوسری غلطیاں تو غالباً دوست خود غور کر کے درست کر سکیں گے مگر ایک غلطی ایسی ہے کہ شاید از خود اس کی اصلاح کی طرف خیال نہ جائے.صفحہ ۵ کالم۳ کے آخری نصف حصہ میں ایک فقرہ یوں درج ہے.” دوسری انتباہ کے نتیجہ میں زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا.اس فقرہ کی صحیح صورت یوں ہے :.” دوسری انتہاء کے نتیجہ میں اجتماعی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا“ احباب صحت فرما ئیں.باقی ہر حصہ آخری کالم کے کناروں کے حروف کٹ جانے کی وجہ سے خراب ہو گیا ہے اس کا تو اب کوئی علاج نہیں.( مطبوعه الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۵۰ء)

Page 824

مضامین بشیر ۸۱۲ ربوہ میں درویشوں کے اہل و عیال کیلئے مکانوں کی تجویز مخیر احباب کیلئے خدمت اور ثواب کا عمدہ موقعہ اس وقت کئی درویشوں کے رشتہ دار مکان کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہیں.اب تک ایسے درویشوں کے بیوی بچے عارضی طور پر کسی نہ کسی رشتہ دار کے پاس ٹھہر کر گزارہ کرتے رہے ہیں لیکن عرصہ لمبا ہو جانے کی وجہ سے مشکلات دن بدن بڑھ رہی ہیں.اس کے علاوہ بعض صورتوں میں درویشوں کے اہل وعیال کی خاطر خواہ دیکھ بھال کا بھی کوئی انتظام نہیں اور پھر کئی قومی بچے تعلیم و تربیت سے بھی محروم رہتے جا رہے ہیں.ان حالات میں حضرت امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے یہ تجویز کی گئی ہے کہ ربوہ میں مستحق درویشوں کے رشتہ داروں کے لئے فی الحال پندرہ عدد عارضی مکانات تعمیر کرائے جائیں.یہ مکانات کچے ہوں گے اور اوسطاً دو اڑھائی سو روپیہ فی مکان خرچ آئے گا.پس جماعت کے ذی ثروت اور مخیر دوستوں سے تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اس کارخیر میں حصہ لے کر عنداللہ ماجور ہوں.جماعت کے دوستوں کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اس وقت قادیان کے در ولیش وہ فرض ادا کر رہے ہیں جو دراصل ساری جماعت کا فرض ہے.پس ان کی خدمت حقیقتا بڑے ثواب کا موجب ہے.یہ چندہ محاسب صاحب صدر انجمن احمد یہ ربوہ ( متصل چنیوٹ ) کے نام پر جانا چاہئے اور منی آرڈر کے کو پن پر نوٹ کر دیا جائے کہ یہ چندہ درویشوں کے اہل و عیال کے مکانوں کی تعمیر کے واسطے ہے اور ساتھ میں مجھے بھی اطلاع بھجوا دی جائے تا میں اپنے ریکارڈ میں درج کر کے اخبار میں اعلان کر اسکوں.جزاکم الله احسن الجزاء - محاسب صاحب کی خدمت میں لکھا جا رہا ہے کہ وہ اس فنڈ کے لئے ایک علیحدہ امانت کھول دیں.( مطبوعه الفضل ۲۸ / مارچ ۱۹۵۰ء)

Page 825

۸۱۳ مضامین بشیر چوہدری بختاور علی صاحب کہاں ہیں قادیان سے ایک دوست نے چوہدری بختاور علی صاحب سب انسپکٹر پولیس کا پتہ دریافت کیا ہے جو تقسیم سے پہلے کمتر ضلع فیروز پور میں تھے.اُن کا اصل وطن غالباً منٹگمری ہے.اگر کسی صاحب کو ان کا موجودہ پتہ معلوم ہو یا وہ خود اس اعلان کو دیکھیں تو مطلع فرما ئیں.مطبوعه الفضل ۲۸ / مارچ ۱۹۵۰ء)

Page 826

مضامین بشیر ۸۱۴ اسلام اور زمین کی ملکیت میرے تبصرے پر فاروقی صاحب کا تبصرہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی جدید تصنیف ” اسلام اور زمین کی ملکیت پر ” آفاق میں فہیم احمد صاحب فاروقی ایم.اے کا تبصرہ شائع ہوا تھا.اس کے جواب میں میں نے ایک مختصر سا نوٹ لکھ کر آفاق‘ میں بھجوایا جو گویا فاروقی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ کا رنگ رکھتا تھا اور مجھے امید تھی کہ میرے اس نوٹ پر یہ بحث ختم ہو جائے گی.اس لئے نہیں کہ فاروقی صاحب لازماً میرے دلائل کی صحت کو تسلیم کر لیں گے بلکہ اس لئے کہ جب ایک جواب کا جواب الجواب ہو جائے تو اس کے بعد عموماً خاموشی اختیا ر کر کے پبلک کو ٹھنڈے دل سے سوچنے کا موقع دیا جاتا ہے.لیکن ۲ مارچ کے آفاق میں مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ میرے اس جواب الجواب کے جواب میں فاروقی صاحب نے ایک اور مضمون لکھ کر شائع کرا دیا ہے اور اس میں بعض ایسی باتیں بیان کی ہیں جو مغالطہ پیدا کرنے والی ہیں.پس ضروری ہے کہ ان کے اس تازہ مضمون کے جواب میں میں بھی کچھ لکھوں تا کہ کم از کم اس مغالطہ کو دور کرسکوں جو ان کی اس تحریر سے پیدا ہوتا ہے.لیکن میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس کے بعد میں فاروقی صاحب کے جواب میں (اگر وہ اس بحث کو لمبا کرنا چاہیں ) کچھ اور عرض نہیں کروں گا کیونکہ اس طرح مناظرے کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے اور میرا تجربہ یہ ہے کہ مناظرے کا نتیجہ ضد اور سطحیت کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا.پس بہر حال میری طرف سے اس بحث میں یہ آخری نوٹ ہے.اگر یہ فاروقی صاحب کی تسلی کا باعث نہ بن سکے تو کم از کم میری تسلی کے لئے وہ قرآنی آیت کافی ہوگی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی شخص ہر دوسرے شخص کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا.سب سے پہلی بات فاروقی صاحب نے اپنے اس مضمون میں یہ کہی ہے کہ میں نے اپنے نوٹ میں حضرت امام جماعت احمدیہ کی تصنیف ” اسلام کے اقتصادی نظام کا ”کتاب“ کے لفظ سے ذکر کیا ہے.حالانکہ فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ تقریر ہے کتاب نہیں.مجھے حیرت ہے کہ فاروقی صاحب کو اس ریمارک کی کیا ضرورت پیش آئی.وہ خواہ تقریر تھی یا تصنیف ، بہر حال یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے فاروقی صاحب اپنے علمی مقالہ میں داخل کرنا ضروری خیال کرتے یا جس کے بیان

Page 827

۸۱۵ مضامین بشیر کرنے سے امر زیر بحث پر کوئی اصولی روشنی پڑسکتی تھی.علاوہ ازیں اگر کوئی تقریر بعد میں کتابی صورت میں شائع ہو جائے تو بہر حال وہ کتاب کہلاتی ہے اور دنیا بھر کا مسلمہ اصول اسے کتاب کے نام سے ہی یاد کرتا ہے.لیکن اگر فاروقی صاحب دنیا کے اس مسلمہ اصول کو ماننے کے لئے تیار نہ ہوں تو میں یہ عرض کروں گا کہ کیا فاروقی صاحب قرآن کریم کو کتاب مانتے ہیں یا نہیں ؟ حالانکہ وہ گویا ان الہامی تقریروں کا مجموعہ ہے جو خدائے لم یزل کی طرف سے ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے القاء کی گئیں.اگر تئیس سال کے عرصہ پر پھیلی ہوئی تقریروں کو خدا تعالیٰ قرآن شریف کے بالکل شروع میں ہی " ذلك الكتب “ کے الفاظ کہہ کر دنیا کے سامنے پیش فرماتا ہے تو میری اس بات پر کہ میں نے ایک تقریر کو جو بعد میں کتابی صورت میں چھپ گئی ، کتاب کے نام سے پیش کیا.فاروقی صاحب چیں بچیں ہوتے ہوئے اچھے نہیں لگتے اور یوں تو کسی صاحب کو ناراضگی کے اظہار سے روکنا میرے بس کی بات نہیں.اس کے بعد فاروقی صاحب میرے تبصرے کے اس حصہ کو لیتے ہیں جہاں میں نے لکھا تھا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنی کتاب ” اسلام اور زمین کی ملکیت میں صرف چند معین سوالوں کا جواب دیا ہے جو زمین کے حق ملکیت سے تعلق رکھتے ہیں یعنی آیا اسلام زمین کی ملکیت کے تعلق میں افراد کے حق کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں اور اگر کرتا ہے تو کسی صورت میں ؟ کیونکہ یہی اس کتاب کا مخصوص موضوع تھا اور میں نے فاروقی صاحب کی جرح کا جواب دیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ یہ کتاب کوئی انسائیکلو پیڈیا تو تھی نہیں کہ جس میں ہر موضوع کو داخل کر دیا جا تا.میرے اس نوٹ کے جواب میں فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ :- اگر کوئی مصنف زمین داری جیسے اہم مسئلہ کو پیش کرنے کے لئے انسائیکلو پیڈیا سے کم کوئی کتاب نہیں لکھ سکتا تو اسے انسائیکلو پیڈیا ہی لکھنا چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ اس جرح میں بھی فاروقی صاحب نے میرے نوٹ کو سمجھنے کی کوشش نہیں فرمائی.میری بات بالکل صاف اور سیدھی تھی.میں نے یہ عرض کیا تھا کہ ہر کتاب کا ایک مخصوص موضوع ہوتا ہے اور ہرا چھے مصنف کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے تخیل کو اپنے موضوع سے باہر نہ جانے دے اور چونکہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی اس کتاب کا موضوع جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے زمین کے حق ملکیت سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے اس کتاب میں صرف اسی مخصوص مضمون کے متعلق ہی بحث کی گئی ہے.اب اس پر یہ جرح کرنا کہ اس میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کی بحثیں کیوں نہیں آئیں ( بے شک یہ فاروقی صاحب کے الفاظ نہیں مگر ان کی جرح کا مرکزی نقطہ بھی اس کے سوا اور

Page 828

مضامین بشیر ۸۱۶ کوئی نہیں ) ایک ایسی جرح ہے جو کم از کم میری سمجھ سے بالا ہے.میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا اب پھر عرض کرتا ہوں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی یہ کتاب اشتراکیت کے موضوع پر نہیں ہے اور نہ ہی یہ کتاب سرمایہ داری کے موضوع پر ہے بلکہ صرف ایک مخصوص سوال کے متعلق ہے جو زمین کے حق ملکیت سے تعلق رکھتا ہے جس کا تجزیہ میں نے اپنے پہلے مضمون میں تین معین سوالوں کی صورت میں پیش کیا تھا اور ایک سوال کا اب اضافہ کر رہا ہوں کیونکہ وہ بھی اس کتاب کے موضوع کا حصہ ہے.بہر حال اگر فاروقی صاحب کے خیال میں یہ کتاب ان چار سوالوں کے جواب سے قاصر رہی ہے تو صاف صاف بتا دیں کہ ان میں سے فلاں سوال کا جواب نہیں آیا یا یہ کہ فلاں حصہ کا جواب غلط ہے بس پھر خود بخود فیصلہ ہو جائے گا.لیجئے میں ان سوالوں کو پھر دہرا دیتا ہوں جو اس کتاب کا اصل موضوع ہیں : (1) کیا اسلام زمین کی انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے؟ ( جواب مثبت میں ) (۲) اگر وہ انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے تو کیا وہ اس اجازت کے ساتھ اس قسم کی کوئی حد بندی لگاتا ہے کہ کسی ایک مالک کے پاس اس قدر رقبہ سے زیادہ زمین نہیں رہ سکتی ؟ ( جواب منفی میں ) (۳) کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ زمین کا مالک اپنی زمین کسی اور شخص کو کاشت پر دے اور اس سے اپنے حق ملکیت کے عوض میں بٹائی یا لگان وصول کرے؟ یعنی وہی جسے آج کل کی اصطلاح میں زمینداری یا لینڈ لارڈ ازم کہا جاتا ہے اور جس کا فاروقی صاحب نے بار بار ذکر فرمایا ہے.( جواب مثبت میں ) (۴) کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی شخص کی زمین جو اس کی جائز ملکیت ہے اس سے زبر دستی چھین کر کسی دوسرے شخص کو دے دی جائے ؟ ( جواب منفی میں ) یہ وہ چار سوال ہیں جو کتاب ” اسلام اور زمین کی ملکیت کا مخصوص موضوع ہیں.اب فاروقی صاحب فرمائیں کہ ان چار سوالوں میں سے کس سوال کا جواب اس کتاب میں نہیں آیا ؟ اور اگر مطلب یہ ہے کہ ان چار سوالوں کے علاوہ بعض اور باتیں بھی شامل کیوں نہیں کی گئیں تو ( قطع نظر اس کے کہ اس کتاب میں کئی اور ضمنی باتیں بھی شامل ہیں ) اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ وہ اس کتاب کے مخصوص موضوع سے باہر ہیں.مگر میں نے ساتھ ہی عرض کر دیا تھا کہ ہمارے دوسرے لٹریچر میں ان زائد سوالوں کا جواب بھی کافی وشافی موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ناقد صاحب اس لٹریچر کو تقریر کہہ کر قابل التفات نہیں سمجھتے.گویا دلیل صرف ”کتاب“ میں بیان کی جا سکتی ہے تقریر میں نہیں سما سکتی.

Page 829

MZ مضامین بشیر پھر فاروقی صاحب میرے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ عجیب تضاد ہے کہ ایک طرف وہ زمینداری کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مانتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے بطن سے خرابیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں اور پھر ان خرابیوں کے ازالہ کے سوال کو الگ بھی سمجھتے ہیں.“ ہائے افسوس میں نے یہ کہاں لکھا ہے ؟ فاروقی صاحب خود میرے منہ میں ایک بات ڈالتے ہیں اور پھر خود ہی اس کی تردید شروع فرما دیتے ہیں.محترم فاروقی صاحب! میں نے تو یہ لکھا تھا کہ ”اگر رقبہ مملوکہ کی حد بندی نہ ہونے کی وجہ سے بعض خرابیاں پیدا ہوں تو...ہمارے دوسرے لٹریچر میں اس سوال پر بھی کافی بحث آچکی ہے اب ایک تو فاروقی صاحب نے یہ غضب ڈھایا ہے کہ میں نے تو یہ فقرہ رقبہ مملوکہ کی حد بندی کے سوال کے تعلق میں لکھا تھا.مگر وہ اس کا کا نشا بدل کر اسے زمینداری یعنی لینڈ لارڈ ازم کے سوال کے نیچے لے گئے ہیں.حالانکہ فاروقی صاحب خوب جانتے ہیں کہ یہ دونو سوال ایک دوسرے سے بالکل جدا اور متغائر ہیں.یعنی لینڈ لارڈ ازم ( جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی زمین کسی دوسرے شخص کو کاشت پر دینا ) اور چیز ہے اور رقبہ مملوکہ کی حد بندی کا سوال بالکل اور ہے اور یہ ہرگز قرین انصاف نہیں کہ میں تو ایک بات رقبہ مملوکہ کی حد بندی کی بحث کے تعلق میں بیان کروں اور فاروقی صاحب اسے زمینداری یعنی لینڈ لارڈ ازم کے سوال کی طرف کھینچ کر لے جائیں اور پھر اسے منسوب کریں 66 ,, میری طرف پھر جیسا کہ اوپر کے اقتباس سے ظاہر ہے میں نے یہ فقرہ اگر“ کے لفظ کے ساتھ شروع کیا تھا اور علم کلام کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو بات اگر “ کے لفظ کے ساتھ بیان کی جائے اس کے متعلق ضروری نہیں ہوتا کہ وہ لکھنے والے کے عقیدہ کا جزو ہو بلکہ بعض اوقات بحث کے سارے پہلوؤں پر نظر ڈالنے کی غرض سے ایک بات بیان کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ وسعت پیدا کرنے کے لئے اگر کا لفظ لگا دیا جاتا ہے لیکن فاروقی صاحب نے یہ دوسرا غضب ڈھایا کہ نہایت خاموشی سے ساتھ میرا یہ اگر بھی حذف کر گئے.اس کے علاوہ میں نے اس فقرہ کے آخر میں صاف الفاظ میں لکھا تھا کہ ”ہمارے دوسرے لٹریچر میں اس سوال پر بھی کافی بحث آچکی ہے.مگر فاروقی صاحب نے یہ حصہ چھوڑ کر اور صرف اوپر کا حصہ لے کر میرے بیان کو ہنسی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے اس پر میں اس کے سوا فاروقی صاحب سے کیا کہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے.لیکن ان ساری باتوں کے قطع نظر فاروقی صاحب کا یہ کہنا کہ ایک طرف زمینداری کو اسلامی تعلیم کے مطابق مانا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے...کہ اس کے بطن سے خرابیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں.ان باتوں کو گو یا متضاد قرار دینے کے مترادف ہے.مگر یہ اعتراض بھی فلسفہ شریعت کے

Page 830

مضامین بشیر ΔΙΑ خلاف ہے.اصول شریعت میں گہری نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ اسلام میں تو ازن قائم کرنے کے اصول کو بھی تسلیم کیا گیا ہے.بہت سی باتوں میں شریعت ایک بات کو اچھا قرار دے کر اسے ایک طرف اپنی تعلیم کا جزو بناتی ہے بلکہ اس کا حکم دیتی ہے لیکن دوسری طرف بعض حالات میں اس کے امکانی نقصانات کو بھی تسلیم کرتی ہے.چنانچہ کون نہیں جانتا کہ نماز اور روزہ وغیرہ کتنی مبارک چیزیں ہیں مگر ہماری حکیمانہ شریعت نے ان بابرکت عبادتوں میں بھی دوسرے مصالح کے ماتحت کئی قسم کی بریکیں لگا رکھی ہیں.مثلا نماز میں ساری رات جاگنے سے منع فرمایا ہے.روزہ میں مسلسل نفلی صیام کو نا جائز قرار دیا ہے.عورت کو اس بات سے روکا ہے کہ وہ خاوند کی اجازت کے بغیر کوئی نفلی روزہ رکھے وغیرہ وغیرہ اور نماز روزہ کا سوال تو الگ رہا بعض بظاہر نقصان رساں باتوں میں بھی اسلام نے اسی حکیمانہ توازن کو قائم کیا ہے.مثلاً ایک طرف خدا نے خود سانپ کو پیدا کیا ہے اور دوسری طرف حدیث میں آتا ہے کہ اس جانور کو حرم تک میں پناہ نہ دی جائے اور اگر نماز میں نظر آ جائے تو نماز کو بھی ملتوی کر کے پہلے اس کا خاتمہ کیا جائے.اب سوال یہ ہے کہ اگر خدا نے سانپ کو مارنے کا ہی حکم دینا تھا تو پھر اسے پہلے پیدا ہی کیوں کیا ؟ اس کا یہی جواب ہے کہ جہاں اس کے پیدا کرنے میں بعض فوائد ہیں وہاں اس کے مارنے میں بھی بہت سے فوائد ہیں.گویا دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور اس طرح ایک حکیمانہ توازن قائم کر دیا گیا ہے مگر یہ اس کی تفصیل کا موقعہ نہیں.بہر حال اصولاً اس میں ہرگز کوئی اعتراض کی بات نہیں کہ مصلحت عامہ کے ماتحت ایک بات کی اجازت بھی دی جائے اور پھر اس کی بعض امکانی خرابیوں کی روک تھام کے لئے اس کے ساتھ مناسب شرطیں اور روکیں بھی لگا دی جائیں.مثلاً اسی دولت کی تقسیم والے میدان میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف اسلام نے انفرادی حق ملکیت کو تسلیم کیا ہے لیکن دوسری طرف اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کوئی باپ اپنی ساری جائیداد اپنے صرف ایک بچے کے نام پر منتقل کر کے چلا جائے کیونکہ اس میں نہ صرف اولاد میں نا واجب رقابت پیدا ہوتی ہے بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم میں بھی خلل واقع ہوتا ہے.پس گو فاروقی صاحب نے میری بات کو صحیح رنگ میں پیش نہیں کیا مگر ان کا خیال اصولی رنگ میں بھی بہر حال غلط اور بے بنیاد ہے.مگر حق یہ ہے کہ یہ دعویٰ باطل ہے کہ معاشرت کی موجودہ خرابیاں زمینداری یعنی لینڈ لارڈازم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ یہ خرابیاں کسی ایک وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اس کی تہ میں سینکڑوں وجوہات بر سر کار ہیں.جن میں سے بعض قانون کے نقص کی وجہ سے ہیں.جیسا کہ دوسرے مذاہب کا حال ہے اور بعض عمل کے نقص کی وجہ سے ہیں جیسا کہ بدقسمتی سے اس زمانہ کے مسلمانوں کا

Page 831

۸۱۹ مضامین بشیر حال ہے.اور پھر یہ خرابیاں بھی کسی ایک دائرہ سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ سیاسی اور اقتصادی اور تمدنی اور جذباتی وغیرہ کئی قسم کے میدانوں سے تعلق رکھتی ہیں.اور جب تک ہر میدان میں صحیح اصلاح کی صورت پیدا نہیں کی جائے گی اس وقت تک کسی ایک بات کو لے کر یہ خیال کرنا کہ اس کی طرف توجہ دینے سے الہ دین کے لیمپ کی طرح سارے روگ خود بخود دور ہو جائیں گے ایک خطر ناک غلط فہمی ہے.کیا بڑے زمیندار کی زمین چھین کر چھوٹے زمیندار کا شتکار کو دے دینے سے اس چھا بڑی لگانے والے کی تسلی ہو جائے گی جو اپنے سامنے ایک عالیشان دوکان میں لاکھوں روپے کا مال دیکھ رہا ہے؟ پھر کیا زمیندار کو اس کی زمین سے محروم کر دینے کے نتیجہ میں اس غریب مزدور کا دل خوش ہو جائے گا جو ایک بڑے کارخانہ میں دو تین روپے یومیہ پاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے کا رخانہ کا مالک سونے میں لوٹتا پوتا ہے؟ پھر کیا کاشتکار کو زمیندار کی زمین مل جانے سے دفتر کے اس چپڑاسی کو اطمینان قلب حاصل ہو جائے گا جو چالیس یا پچاس روپے ماہوار میں اپنی زندگی کی تلخ منزلیں کاٹ رہا ہے لیکن اسی دفتر میں اس کا افسراڑھائی تین ہزار روپیہ ماہوار لے کر اپنے گھر کو عیاشی کا گہوارہ بنائے ہوئے ہے ؟ اسی طرح دوسرے بے شمار میدانوں کا حال ہے جن میں ایک طرف حالات کے غیر معمولی تفاوت نے اور دوسری طرف احساس کی غیر معمولی شدت نے خیالات کا ایک زبر دست ہیجان پیدا کر رکھا ہے.پس اگر محض مادی قانون کے پیچھے چلنا ہے تو ہر میدان میں امتیاز کو اڑا کر سب کو ایک سطح پر لانا ہوگا اور اگر اسلام کے روحانی علاج کو اختیار کرنا ہے تو سب سے مقدم دلوں کی اصلاح کا سوال ہے.فاروقی صاحب نے خود مانا ہے کہ قرون اولے کے زمانہ میں دولت کے اختلاف کے باوجود لوگ خوش تھے.یہ کیوں؟ بس اسی میں فاروقی صاحب کے اعتراض کا اصولی جواب آجاتا ہے کیونکہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ اصل مرض دولت کا اختلاف نہیں بلکہ دولت کا غلط استعمال ہے جس سے مراد وہ نا گوار تمدنی اور جذباتی خلیج ہے جس نے موجودہ زمانہ میں اخوت اسلامی کے نظام کو تہس نہس کر رکھا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو بھائی سمجھے لیکن کیا آج کا بڑا زمیندار چھوٹے زمیندار کو اپنا بھائی سمجھتا ہے؟ ہرگز نہیں.حالانکہ آنحضرت صلعم کے زمانہ میں بڑا زمیندار چھوٹے زمیندار کو بھائی خیال کرتا تھا.پھر کیا آج کا بڑا تاجر چھوٹے تاجروں کو بھائیوں کی طرح ملنے کے لئے تیار ہے؟ ہرگز نہیں.حالانکہ صحابہ کے زمانہ میں بڑا تاجر چھوٹے تاجروں سے بھائیوں کی طرح ملتا تھا.پھر کیا آج کا افسر اپنے ماتحتوں کو اپنی برادری کا حصہ یقین کرتا ہے؟ ہرگز نہیں.حالانکہ قرون اولیٰ میں ہر افسر ( محکمانہ نظام کے علاوہ ) اپنے سب ماتحتوں کو اپنا عزیز سمجھتا اور اسی رنگ میں ان سے سلوک کرتا تھا.اسی طرح قربانی کی روح کا حال ہے کہ اپنے بھائیوں

Page 832

مضامین بشیر ۸۲۰ کے لئے جو قربانی کا جذبہ پہلے پایا جاتا تھا وہ اب موجود نہیں.تو جب حالات یہ ہیں تو صرف بعض باتوں میں ظاہری اصلاح سے کس بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے ؟ ہاں دلوں کی اصلاح اور عمل کی اصلاح بے شک بھاری تغیر پیدا کر سکتی ہے.جیسا کہ دولت کے تفاوت کے باوجود اس نے قرون اولیٰ میں کیا لیکن اگر دل کا جذبہ اور جوارح کا عمل ٹھیک نہ ہو تو ظاہری اصلاح بھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی اور نا گوارکش مکشوں اور رقابتوں کا سلسلہ چلتا چلا جائے گا.ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: ان في جسد الانسان مضغة اذا صلحت صلح الجسد كله واذا فسدت فسد الجسد كله الا وهى القلب.۲۴ د یعنی انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ اچھی حالت میں ہو تو سارا جسم اچھا ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے اور کان کھول کر سن لو کہ وہ دل ہے.میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کہیں کوئی نقص واقعی موجود ہے تو اس کی اصلاح نہ کی جائے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ اصلاح اسلامی تعلیم کی روشنی میں (نہ کہ اشتراکیت کی کورانہ تقلید میں ) ظاہر اور باطن دونوں کی ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی سے اب حال یہ ہے کہ نام تو اسلام کا رکھا جاتا ہے مگر سارے تغیرات کا بین السطور ڈھانچہ اشتراکیت سے مستعار لیا جا رہا ہے.حالانکہ وہ اسی طرح کی ایک لعنتی انتہا ہے جس طرح کہ دوسرے ملکوں کی سرمایہ داری دوسری طرف کی لعنتی انتہا ہے اور صحیح نظام صرف اسلام نے پیش کیا ہے جو ایک طرف دولت کے انفرادی حق کو تسلیم کرتا ہے اور دوسری طرف اخوت اور قربانی اور تعاون باہمی کے نظام کو بھی برسر کا رلاتا ہے.فاروقی صاحب فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کے حالات بدل چکے ہیں اور پرانے زمانہ کے اصولوں کو موجودہ زمانہ پر چسپاں کرنا ٹھیک نہیں اور اس کی توضیح میں میری اس بات کو رد کرتے ہوئے کہ اسلام کی دائمی شریعت میں سارے زمانوں کی خرابیوں کا علاج موجود ہے ارشاد فرماتے ہیں کہ اس لحاظ سے تو تبصرہ نگار کے اصول کے مطابق آج بھی تیر اور تلوار سے جنگ ہونی چاہئیے.کیونکہ عہد رسالت اور خلافت راشدہ کی جنگیں انہی آلات کے ذریعہ جیتی گئیں.‘‘ افسوس فاروقی صاحب پھر میری بات کو کہاں سے کہاں لے گئے.میں نے اصولی رنگ میں لکھا تھا کہ کیا قرآن وحدیث کے حوالے موجودہ زمانہ کے مسائل کا علاج پیش نہیں کرتے...قرآن وحدیث کا دور دائمی ہے اور اس کا دامن دنیا کی آخری ساعت تک وسیع ہے.آپ بے شک اس کی ہر معقول تشریح کا حق رکھتے

Page 833

۸۲۱ مضامین بشیر ہیں.آپ اسلامی شریعت کے لچکدار حصہ کو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مطابق حکیمانہ صورت میں پیش کرنے کے بھی مجاز ہیں مگر قرآن بہر حال وہی رہے گا حدیث وہی رہے گی اور قرآن وحدیث کی محکمات بھی وہی رہیں گی.اب میرے اس صاف اور سید ھے اور اصولی نوٹ کو بدل کر اسے پرانے زمانہ کے آلات حرب کی بے جوڑ مثال دیتے ہوئے ٹالنے کی کوشش کرنا یقینا تحقیق حق کا صحیح انداز قرار نہیں دیا جا سکتا اور پھر کیا فاروقی صاحب اتنی سی بات بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ زمین کی ملکیت کے حق کا مسئلہ ایک ایسی بات ہے جس کے سارے ارکان اسی طرح قرون اولیٰ میں موجود تھے جس طرح کہ وہ آج موجود ہیں.کیا قرون اولیٰ میں زمین موجود نہیں تھی اور صرف آج معرض وجود میں آئی ہے.پھر کیا قرون اولیٰ میں زمین کے مالک کا وجود نہیں تھا اور وہ صرف اب آکر پیدا ہوا ہے؟ اور پھر کیا قرون اولیٰ میں کا شتکار موجود نہیں تھے اور وہ صرف اس زمانہ کی پیداوار ہیں؟ تو جب یہ ساری چیزیں ( جو مسئلہ زمین کے بنیادی ارکان ہیں ) قرونِ اولیٰ میں بھی اسی طرح موجود تھیں جس طرح کہ وہ اب موجود ہیں تو پھر اس کی بے جوڑ مثال میں پرانے زمانے کے تیر و تلوار کے مقابلہ پر موجودہ زمانہ کی توپ و بندوق کا ذکر کر کے میری دلیل کی تضحیک کرنا ہر گز کوئی با وقار جرح نہیں کہلا سکتی لیکن بہر حال فاروقی صاحب کا قلم ان کے ہاتھ میں ہے اور مجھے اسے روکنے کا اختیار نہیں.کہا جا سکتا ہے کہ بے شک موجودہ زمانہ میں زمین اور زمین کا مالک اور کاشتکار اسی طرح موجود ہیں جس طرح کہ وہ پہلے زمانہ میں موجود تھے مگر لوگوں کے دل بدل چکے ہیں تو محترم فاروقی صاحب جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے اب بھی وہی عرض کروں گا کہ اس صورت میں اس چیز کا علاج کیجئے جو بدلی ہے اور اس چیز کے پیچھے نہ لگئے جو نہیں بدلی ورنہ میں ڈرتا ہوں کہ موجودہ شکست خوردہ ذہنیت کے نتیجہ میں آپ اشتراکیت کے سیلاب سے غیر شعوری طور پر مرعوب ہو کر اسلام کی ہر اس بات کو چھوڑتے چلے جائیں گے جو آپ کے خیال میں موجودہ زمانہ کے مناسب حال نہیں اور اس مرض کے علاج کی طرف توجہ نہیں دیں گے جو حقیقتہ اسلام کی روح کے مٹنے سے پیدا ہو رہی ہے.میں نے یہ الفاظ بڑے درد کے ساتھ لکھے ہیں.کاش وہ اسی درد کے ساتھ قبول کئے جائیں.( مطبوعه الفضل ۶ را پریل ۱۹۵۰ء)

Page 834

مضامین بشیر ۸۲۲ اسلام اور زمین کی ملکیت میرے تبصرے پر فاروقی صاحب کا تبصرہ 66 " اسلام کے ابتدائی دور اور موجودہ زمانہ میں حالات کی تبدیلی کا ذکر کرنے کے بعد فاروقی صاحب نے چند سطروں میں آیت ” عفو اور مسئلہ اکتناز“ کا ذکر کیا ہے لیکن چونکہ ان کا یہ بیان بہت مختصر ہے.میں ان کا مطلب پوری طرح سمجھ نہیں سکا.غالباً ان کا منشاء یہ ہے کہ قرآن شریف نے آیت قبل العفو میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ جو مال کسی شخص کی ضرورت سے زائد ہو وہ اسے لا زما دوسروں کو دے دے اور اسے کنر یعنی خزانہ بنا کر نہ رکھے.اگر یہی مطلب ہے تو افسوس ہے کہ فاروقی صاحب نے اس آیت کے صحیح مقصد اور اس کے سیاق و سباق اور اس کے دائرہ عمل کو نہیں سمجھا.یہ آیت اسلامی جنگوں کی شدت کے زمانہ میں ایسے صحابہ کے سوال پر نازل ہوئی تھی جو اس زمانہ میں اسلام کی بھاری جنگی ضروریات اور اس کے نتیجہ میں اسلام کے نازک حالات کو دیکھتے ہوئے بے دریغ خرچ کرنے کے خواہشمند تھے.اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی گئی کہ قل العفو یعنی اے رسول اپنے صحابہ سے کہہ دو کہ جو مال تمہاری واجبی ضروریات سے زیادہ ہو وہ خرچ کرو اور یا یہ کہ اپنے مال کا اچھا حصہ خرچ کرو.( کیونکہ یہ ہی عربی زبان میں عفو کے دو معنی ہیں ) یعنی ایسا نہ ہو کہ ردی اور ناکارہ حصہ الگ کر کے خدا کو دے دو.اب میں حیران ہوں کہ اس سے وہ استدلال کس طرح ہو سکتا ہے جو فاروقی صاحب کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اول تو یہ آیت بعض صحابہ کے سوال کے جواب میں نازل ہوئی تھی جو اپنی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے بے دریغ خرچ کرنے کے لئے بے چین تھے اور پھر اس میں ہر گز کوئی جبر کا پہلو نہیں ہے.کہ بہر حال ہر مسلمان سے اس کا زائد مال چھین لیا جائے.اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر عمل فرماتے ہوئے سارے مسلمانوں کا زائد مال ان سے لے لیتے.مگر حدیث اور تاریخ میں اس بات کا قطعا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ آپ نے یا آپ کے بعد خلفائے راشدین نے کبھی کسی مسلمان سے اس کے ذاتی مال کا کوئی حصہ یہ کہہ کر جبراً چھینا ہو کہ یہ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے.پس خدا کے لئے آیت کے ایسے معنی نہ کر وجس سے نعوذ باللہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء پر یہ اعتراض وارد

Page 835

۸۲۳ مضامین بشیر ہوتا ہو کہ آپ کو ایک خدائی حکم ملا اور آپ نے اس پر عمل نہیں کیا.باقی رہا کتنر یا اکتناز“ کا سوال یعنی اپنے مال کو بند ذخیرہ کی صورت میں دبا کر رکھنا اور اس میں سے کچھ خرچ نہ کرنا.سو یہ حقیقتاً اسلامی روح کے خلاف ہے اور اسی لئے جیسا کہ میں آگے چل کر لکھوں گا.اسلام نے کنوز پر بھاری ٹیکس لگا کر اس قارونی روح کو کچلنے کی کوشش کی ہے.مگر محترمی فاروقی صاحب ! اس سے اس بات کا جواز کہاں سے نکلا کہ زمینداروں کی زمینیں چھین کر کا شتکاروں کو دے دو.آخر ایک تعلیم یافتہ انسان کو مناظرہ کے جوش میں کوئی بے جوڑ بات تو نہیں کہنی چاہئے.پھر فاروقی صاحب میرے تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تبصرہ نگار نے ( یعنی میں نے ) مصنف ( یعنی حضرت امام جماعت احمدیہ ) کے استدلالات کا اس طرح ذکر کیا ہے کہ گویا وہ نصوص صریحہ ہیں.حالانکہ قرآنی آیات اور ان کی تاویل و تفسیر دو مختلف چیزیں ہیں.اس کے جواب میں میں اس کے سوا کیا عرض کر سکتا ہوں کہ انا لله و انا الیه راجعون.میں نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے استدلالات کو ( قطع نظر اس کے کہ میرا ذاتی عقیدہ ان کے متعلق کیا ہے ) ہرگز نصوص صریحہ کے طور پر پیش نہیں کیا.اگر میں نے ایسا کیا ہے تو فاروقی صاحب میرے وہ الفاظ پیش فرمائیں.جہاں میں نے ایسا دعواے کیا ہے.پھر خود بخود اس اعتراض کی حقیقت کھل جائے گی.میں نے تو فاروقی صاحب کے واسطے بھی اسی طرح استدلال کا رستہ کھلا رکھا ہے.جس طرح کہ وہ ہمارے لئے یا زید اور بکر اور عمر کے لئے کھلا ہے اگر فاروقی صاحب بھول گئے ہوں.تو میرے ان الفاظ کو پھر ملا حظہ فرمائیں کہ ” آپ بے شک قرآن وحدیث کی ہر معقول تشریح کا حق رکھتے ہیں.آپ اسلامی شریعت کے لچکدار حصہ کو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مطابق حکیمانہ صورت میں پیش کرنے کے بھی مجاز ہیں...بے شک آپ کے پاس کوئی اور حوالے ہیں تو انہیں پیش کیجئے یا اگر موجودہ حوالوں کی کوئی اور تشریح ہے تو وہ دنیا کے سامنے رکھیئے کیا ان الفاظ کا لکھنے والا اس جرم کا مستوجب سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے کسی شخص کے استدلالات کو (نہ کہ اصل حوالہ جات کو ) نصوص صریحہ قرار دیا ہے ؟ محترم فاروقی صاحب! بے شک آپ جس طرح چاہیں تنقید کریں مگر خدارا اپنی تنقید میں انصاف کے دامن کو تو ہاتھ سے نہ چھوڑیں.اسی ضمن میں فاروقی صاحب کو شکوہ ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مزارعت کے مسئلہ میں حضرت امام ابو حنیفہ کی رائے سے اختلاف کیا ہے.مجھے علم نہیں کہ فاروقی صاحب کا امام ابو حنیفہ کے متعلق کیا عقیدہ ہے.لیکن یقیناً وہ امام صاحب موصوف کو نبی اللہ اور مامور من اللہ خیال نہیں فرماتے ہوں گے تو جب وہ نبی اور مامور نہیں تھے تو کسی فقہی عقیدہ میں ان سے اختلاف کرنا ہر گز گناہ

Page 836

مضامین بشیر ۸۲۴ کی بات نہیں.خصوصاً جب کہ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں خود امام صاحب کے شاگر درشید امام ابو یوسف نے بھی ان سے اختلاف کیا ہے بہر حال اگر فقہی مسائل میں امام ابو حنیفہ امام مالک سے اختلاف کر سکتے ہیں اور امام شافعی امام ابو حنیفہ سے اختلاف کر سکتے ہیں.اور امام احمد بن حنبل امام شافعی سے اختلاف کر سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر خود امام ابو حنیفہ کے وہ شاگرد جنہوں نے برسوں ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے استفاضہ کیا ( یعنی امام محمد اور امام ابو یوسف ) اپنے استاد کے بیسیوں فقہی فتوؤں سے اختلاف کر سکتے ہیں (جس کی مثالیں فقہ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں ) تو اگر کسی اور نے قرآن وحدیث کی بناء پر ان سے کسی فقہی مسئلہ میں اختلاف کا اظہار کیا تو یہ ہرگز کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ اختلاف امتی رحمۃ کی ایک دلچسپ مثال سمجھی جائے گی.بے شک امام ابو حنیفہ نے بٹائی والی مزارعت ( یعنی زمینداری کے طریق پر کسی دوسرے سے اپنی زمین بٹائی پر کاشت کرانے ) کو جائز قرار نہیں دیا لیکن ان کے شاگر د امام ابو یوسف نے اسے جائز قرار دیا ہے اور کروڑوں حنفی صاحبان اس معاملہ میں امام ابو یوسف کی رائے کے فتوے پر عمل کرتے رہے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ اس مسئلہ میں حنفیوں کا عملی مسلک ہمیشہ امام ابو یوسف کے خیال کے مطابق ہی رہا ہے.اور ان سے قبل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کا بھی اسی کے مطابق عمل تھا تو پھر حضرت امام جماعت احمدیہ کے اس ظنی اختلاف کو کس طرح قابل اعتراض قرار دیا جا سکتا ہے.خصوصاً جبکہ آپ کا یہ اختلاف قرآن و حدیث کے واضح حوالوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے مبارک اسوہ پر (جو اصل بنیادی چیز ہے.) مبنی ہے.جن میں سے کئی حوالے ” اسلام اور زمین کی ملکیت میں پیش کئے جاچکے ہیں اور اس جگہ ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں.اس کے بعد فاروقی صاحب یہ جرح فرماتے ہیں کہ گویا میں نے موجودہ اقتصادی حالات کی اصلاح کو محض بھاری ٹیکسوں کے اندر محصور کر دیا ہے حالانکہ غرباء کی امداد محض ٹیکسوں سے نہیں ہو سکتی.اگر میں بار بار اس بات کو دہراؤں کہ فاروقی صاحب میرے وہ الفاظ پیش فرما ئیں جن میں میں نے اصلاح کے سوال کو محض بھاری ٹیکسوں کے اندر محصور کیا ہے تو یہ ایک نا گوار صورت ہو جائے گی.اس لئے صرف اس قدر عرض کرتا ہوں کہ میں نے ایسا ہر گز نہیں لکھا اور میں ایسا لکھ بھی کیسے سکتا تھا جبکہ میں نے اپنے اس مضمون میں خود طوعی قربانی اور قانون ورثہ اور سود کی حرمت وغیرہ کا بھی ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس جگہ میرا مقصد اسلام کے اقتصادی نظام کی تشریح پیش کرنا نہیں بلکہ صرف اس نظام کے فلسفہ اور حکمت کی طرف اشارہ کرنا اصل مقصد ہے اور وہ بھی

Page 837

۸۲۵ مضامین بشیر صرف اصول کی حد تک پس جبکہ میرے اس مضمون کا موضوع اسلام کے اقتصادی نظام کی تشریح پیش کرنا تھا ہی نہیں تو پھر فاروقی صاحب کا یہ دعویٰ کہاں تک درست سمجھا جا سکتا ہے کہ میں نے اقتصادی حالات کی اصلاح کو محض ٹیکسوں کے اندر محصور کر دیا ہے میرا عقیدہ تو خلاصہ یہ ہے کہ بعض باتوں جنہیں نقص قرار دیا جاتا ہے.وہ دراصل نقص ہی نہیں اور صرف ماحول کے تاثرات نے انہیں نقص کی صورت میں پیش کر رکھا ہے اور بعض باتیں واقعی قابل اصلاح ہیں مگر یہ باتیں اسلام کی تعلیم سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ مسلمانوں کے موجودہ عمل سے تعلق رکھتی ہیں اور پھر یہ باتیں کسی ایک میدان کے اندر محصور نہیں بلکہ بہت سے میدانوں میں پھیلی ہوئی ہیں.اور ان میدانوں کا مرکزی نقطہ بہر حال موجودہ مسلمانوں کے دل اور مسلمانوں کے جوارح ہیں.فافهم و تدبر.بالآخر فاروقی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ اس وفا میں ایک طرف عام بے چینی اور عام غربت کی حالت پائی جاتی ہے اور دوسری طرف ایک طبقہ بے پناہ دولت کا مالک بنا بیٹھا ہے تو کیا ایسے حالات میں بھی حکومت امیروں کی دولت پر ہاتھ ڈال کر اسے غریبوں کی فلاح و بہبود میں استعمال نہیں کر سکتی ؟ اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک حکومت ایک طرف جمہور کی ( جس کی طرف سے اسے حکومت کا حق پہنچتا ہے ) اور دوسرے طرف ایک رنگ میں خدا کی ( جو دنیا کا اصل مالک و آقا ہے ) نمائندہ ہے اور اسے ملک وقوم کے عام حالات اور خاص حالات دونوں میں متعدد اختیارات حاصل ہیں مگر یہ اختیارات بہر حال غیر محدود نہیں بلکہ بعض بنیادی شرائط کے ساتھ مشروط ہیں مثلاً (۱) ایک ایسی حکومت جو اپنی مسلمان رعایا میں اسلامی ضابطہ نظام کو قائم کرنے کی مدعی ہو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتی جو اسلام کی کسی ثابت شدہ اصولی تعلیم کے خلاف ہو اور انفرادی حق ملکیت کا اصول یقیناً اسلام میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.پس سوائے ایسی استثنائی صورتوں کے جب کسی رفاہ عام کے کام کے لئے کسی انفرادی حق کو لینے کی حقیقی ضرورت پیش آ جائے.( مثلاً کسی پبلک رستہ یا ہسپتال یا سرائے یا چوک وغیرہ کی تعمیر ) وہ کسی فرد سے اس کی جائز حقیقت کو اسکی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتی.(۲) اگر اوپر کی قسم کے استثنائی حالات میں بھی حکومت کسی شخص کی ذاتی جائیداد اس سے لے گی تو اسے اس کا مناسب معاوضہ دینا ہوگا.(۳) قحط کی صورت میں جبکہ ایک طبقہ خوراک کی کمی کی وجہ سے فاقہ کی حد تک پہنچ رہا ہو اور دوسرے کے پاس اس کی اقل کی ضرورت سے زیادہ خوراک موجود ہو تو حکومت مؤخر الذکر طبقہ کے ذخائر سے ضروری حصہ لے کر مقدم الذکر طبقہ میں تقسیم کر سکتی ہے.ان حالات میں مؤخر الذکر طبقہ

Page 838

مضامین بشیر ۸۲۶ سے توقع کی جاتی ہے کہ اگر اس کے لئے ممکن ہو تو وہ اپنی خوشی سے اپنا زائد حصہ دے دے ورنہ حکومت مناسب قیمت ادا کر کے جبر آلے سکتی ہے.اس طرح اگر کوئی فوجی یا قومی پارٹی سفر پر ہو اور رستہ میں اس کا زادِ راہ ختم ہو جائے تو اسے بھی اپنی اقل ضرورت کے مطابق اہل علاقہ سے اپنی خوراک حاصل کرنے کا حق ہے خواہ اس کے لئے جبر کرنا پڑے مگر مناسب قیمت بہر حال ادا کرنی ہو گی ،سوائے اس کے کہ اہل علاقہ اپنی خوشی سے بلا قیمت دے دیں.(۴) اگر کسی افسر نے کوئی اراضی وغیرہ کسی شخص کو نا جائز طور پر دے دی ہو تو اس کے بالا افسر کو یا اگر وہ خود بالا افسر ہے تو اس کے بعد اس کے جانشین کو اسی شخص سے یہ اراضی وغیرہ واپس لے لینے کا اختیار ہے جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے سے پہلے کے اموی خلفاء کے ناجائز عطیات کو واپس لے لیا تھا.(۵) حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنی تصنیف میں جاگیر داریوں کو بھی ناجائز قرار دیا ہے اور ان کی واپسی کو جائز.بلکہ ضروری جاگیرداری سے مراد یہ ہے کہ حکومت کسی قطعہ اراضی کے متعلق وہ سرکاری معاملہ یا ٹیکس جو حکومت کا حق ہے ، مالک زمین کو دے دے یا کسی اور شخص کی طرف منتقل کر دے.ہمارے ملک میں اس کی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں اور جاگیرداری زمینداری سے ایک جدا گانہ چیز ہے.یہ سب صورتیں جو اوپر کے پانچ فقرات میں بیان کی گئی ہیں جائز اور واجبی ہیں مگر ان مسنون اور جائز رستوں کو چھوڑ کر یونہی کسی شخص کی ذاتی جائیداد اس سے چھین لینا کسی طرح جائز نہیں اور یقیناً اسلام افراد کے خلاف حکومت کے ظلم کے ہاتھ کو بھی اسی طرح روکتا ہے جس طرح کہ ایک فرد کے خلاف دوسرے فرد کے ظلم کو روکتا ہے.اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ دولت کو مناسب رنگ میں سمونے کے لئے اسلام کیا انتظام پیش فرماتا ہے.سوگو یہ میرے اس محدود مضمون کا حصہ نہیں مگر مختصر طور پر بعض باتیں عرض کئے دیتا ہوں کہ : ( اول ) اسلام نے ورثہ کا ایک نہایت حکیمانہ اور تفصیلی قانون جاری فرمایا ہے جس کی رو سے ہر مرنے والے کا ترکہ اس کے تمام قریبی رشتہ داروں میں ( مردوزن ( لڑکے لڑکیاں ) ماں باپ اور بعض صورتوں میں بھائیوں ، بہنوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں میں ) مناسب طریق پر تقسیم ہو جاتا ہے اور اگر اس قانون ورثہ پر پوری طرح عمل کیا جائے تو ملکی دولت لا زما ساتھ ساتھ تقسیم ہوتی چلی جاتی ہے اور بڑی بڑی جائیدادوں کا وجود قائم نہیں رہ سکتا لیکن افسوس ہے کہ اور تو اور خود مسلمانوں نے اس قانون کی زد سے بچنے کے لئے کئی قسم کے حیلے بنا رکھے ہیں.بے شک اب ورثہ کے متعلق نیا

Page 839

۸۲۷ مضامین بشیر قانون جاری ہو گیا ہے.لیکن سنا جاتا ہے کہ اس میں بھی عملاً رخنے پیدا کئے جار ہے ہیں اور بہر حال اس کا نیک نتیجہ کچھ وقت لے کر ہی ظاہر ہو گا.ورثہ کے علاوہ اسلام نے ہر شخص کو ایک تہائی جائیداد کی وصیت کا بھی حق دیا ہے جس کی وجہ سے نیک جذبات والے لوگ اپنے ترکہ کو مزید مستحقین میں تقسیم کرنے کا موقع پا سکتے ہیں اور ایسی وصیت میں ورثاء کا حق تسلیم نہیں کیا گیا.بہر حال اسلام کا قانون ورثہ بھی دولت کو سمونے کا ایک بھاری ذریعہ ہے.بے شک اس سے امیروں کی دولت کا حصہ غریبوں کو تو نہیں پہنچتا.(سوائے اس کے کہ کوئی وارث ہی غریب ہو یا وصیت کے طریق پر غریبوں کو فائدہ پہنچایا جائے لیکن غریبوں اور امیروں کی دولت کے درمیان نسبتی فرق میں ضرور کمی پیدا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بے اطمینانی پیدا کرنے میں زیادہ دخل نسبتی فرق کا ہی ہوا کرتا ہے.( دوم ) دولت کے سمونے کا دوسرا ذریعہ زکوۃ کا نظام ہے جو حالات کے اختلاف سے اڑھائی فیصدی سے لے کر بیس فی صدی تک کی شرح کے حساب سے امیروں کی دولت پر لگائی جاتی ہے.اور اس جبری ٹیکس میں جس کا وصول کرنا حکومت کا کام ہے پہلا اور مقدم حق غریبوں کی پا بحالی کا مقرر کیا گیا ہے.حتی کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم زکوۃ کے متعلق فرماتے ہیں کہ :- ۲۵ تؤخذ من اغنياء هم و ترد الى فقرائهم دو یعنی زکوۃ وہ ٹیکس ہے.جو امیروں کی دولت سے کاٹ کر غریبوں کی طرف 66 لوٹانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے.اس تعلق میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ زکوۃ کا ٹیکس صرف منافع پر ہی نہیں لگتا بلکہ سرمایہ پر بھی لگتا ہے اور اس لئے اس کے ذریعہ دولت کو سمونے کا ایک موثر ذریعہ قائم کر دیا گیا ہے.اور یہ جو بیس فی صدی کی بھاری شرح مقرر کی گئی ہے یہ ان اموال پر ہے جو بند ذخیروں کی صورت میں رکھے جاتے ہیں اور اس بھاری شرح میں حکمت یہ ہے کہ یا تو ان اموال کو صنعت و تجارت وغیرہ میں لگا کر بالواسطہ طور پر غریبوں کو فائدہ پہنچاؤ ورنہ اس مال کے جلد ختم ہو جانے کے لئے تیار رہو.زکوۃ کے مصرف میں ایک بات یہ بھی داخل کی گئی ہے کہ اس میں سے ان لوگوں کی امداد کی جائے جو کوئی ہنر تو رکھتے ہیں مگر اس ہنر کو استعمال کرنے کے لئے مناسب ذرائع نہیں رکھتے.اس طرح اس انتظام کے ذریعہ چھوٹے چھوٹے کارخانوں اور کاٹیج انڈسٹری کی ترقی کا رستہ بھی کھولا گیا ہے.پھر زکوۃ کے مخصوص جبری ٹیکس کے علاوہ وہ عام تحریک جو غریبوں کی امداد کے لئے صدقات وغیرہ کی صورت میں اسلام نے جاری کی ہے وہ مزید برآں ہے اور اس تحریک کی شدت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ رمضان کے متعلق جو غریبوں کی خاص ضرورت کا زمانہ ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ

Page 840

مضامین بشیر ۸۲۸ علیہ وسلم کے متعلق حدیث میں آتا ہے.کہ آپ کا دستِ مبارک غریبوں کی امداد میں اس طرح چلتا تھا کہ گویا وہ ایک تیز آندھی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی.( سوم ) اسلام نے سود کی ممانعت کر کے بھی دولت کو مناسب طور پر سمونے کا انتظام فرمایا ہے کیونکہ سود وہ لعنت ہے.جس کے ذریعہ لوگ بڑے بڑے انفرادی سرمائے پیدا کر کے چھوٹی تجارتوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور یا پھر سرمایہ دار لوگ گھروں میں بیٹھے بیٹھے عوام الناس کا خون چوستے رہتے ہیں.اسلام نے سود کو حرام قرار دے کر امیروں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے مالوں کو کھلے بازار میں لا کر صنعت و تجارت میں لگائیں اور اگر کسی بھائی کو قرض دیں تو یا تو قرض حسنہ کے طور پر دیں یا واجبی کفالت کی صورت میں رہن کا طریق اختیار کریں اور یا پھر کھلی تجارت میں کسی کے ساتھ شرکت کی صورت کو قبول کریں.اسی طرح اسلام میں جو اُ بھی منع قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ بھی دولت کی نا واجب تقسیم کا ایک نا پاک ذریعہ ہے.(چہارم ) اسلام نے حکومت کا یہ فرض بھی قرار دیا ہے کہ جو لوگ کسی حقیقی معذوری یا بیماری یا زیادتی عمر کی وجہ سے کمانے کے قابل نہیں ان کی واجبی ضرورتوں کا انتظام حکومت کرے اور اگر اس غرض کے لئے اس کے عام محاصل کافی نہ ہوں تو وہ اس کے لئے امیروں کی آمدن پر مزید ٹیکس بھی لگا سکتی ہے.( پنجم ) حکومت کے لئے یہ رستہ بھی کھلا ہے کہ وہ افتادہ سرکاری زمینوں کو ( جن کی کمی نہیں ) مناسب طور پر غریب اور محنتی کا شتکاروں میں تقسیم کر کے ان کی خوشحالی کا دروازہ کھولے اور یقیناً جو حکومت مستحق غریبوں کو چھوڑ کر سرکاری زمینیں امیروں میں تقسیم کر دیتی ہے وہ ایک غیر اسلامی طریق کی مرتکب ہوتی ہے.(ششم) حکومت کو میرے خیال میں خاص حالات کے ماتحت یہ حق بھی حاصل ہے کہ اگر ضروری خیال کرے تو کاشتکاری کے لئے زمینداروں کی زمین کی آمد میں موجودہ حصہ سے زیادہ شرح مقرر کر دے.اس وقت موجودہ کا شتکار کسی جگہ تہائی اور کسی جگہ نصف حصہ لیتا ہے اور بعض خاص قسم کی فصلوں میں 315 حصہ بھی لیتا ہے.مگر حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ اس شرح میں باہم رضامندی سے کمی بیشی ہو سکتی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ خاص حالات میں حکومت کو بھی اس معاملہ میں دخل دینے کا حق حاصل نہ ہو اور بہر حال وقتی حالات کے ماتحت کا شتکاروں کے حق میں شرح کی اقل حد مقرر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.اسی طرح حکومت اس قسم کا قانون بھی بنا سکتی ہے جس میں کا شتکاروں کو اپنی تیار کی ہوئی زمینوں میں معقول عرصہ تک بے روک ٹوک بیٹھے رہنے کی تسلی حاصل ہو جائے.

Page 841

۸۲۹ مضامین بشیر ( هفتم ) حکومت کا یہ بھی فرض ہے اور یہ ایک نہایت ضروری فرض ہے کہ وہ کم تنخواہ والے لوگوں اور مزدوروں کی اجرت میں مناسب اضافہ کرے.انہیں ایک باوقار اور شریفانہ زندگی گزارنے کے قابل بنائے.موجودہ حالات میں یقیناً تنخواہوں کا تفاوت بہت معیوب صورت اختیار کئے ہوئے ہے.اسلامی فوجوں میں ( جو ابتدائی زمانہ میں سب سے بڑی پبلک سروس تھی ) سپاہیوں اور افسروں کے درمیان اس حد تک کا نا گوار فرق ہر گز نہیں ہوتا تھا.یہ سب طریقے ایک طرف امیروں کی دولت کو کنٹرول کرنے اور دوسری طرف غریبوں کی پونجی اور ان کے قلبی اطمینان کو بڑھانے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور یقیناً اگر ہماری حکومت ان طریقوں پر پوری پوری توجہ دے اور دوسری طرف امیر لوگ موجودہ تمدنی اور جذباتی خلیج کو جو تباہ کن حد تک پہنچی ہوئی ہے کم کر کے اسلامی اخوت کی روح کا اظہار کریں یعنی غریبوں سے بھائیوں کی طرح ملیں انہیں اپنی دعوتوں میں بلائیں اور ان کی غریبانہ دعوتوں کو قبول کرنے میں ہتک محسوس نہ کریں ( یہ حدیث کے الفاظ ہیں ) ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں ان کے سامنے فرعونی انداز اختیار نہ کریں بلکہ رسول کریم کا نمونہ پیش کریں جو ایک بوڑھی عورت کو اپنے سامنے ڈر سے کانپتے ہوئے دیکھ کر اس کی طرف یہ محبت کے الفاظ کہتے ہوئے لپکتے تھے کہ مائی ڈرو نہیں ، ڈرو نہیں، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں.تو روح اگر یہ ہو اور نظام اسلام کا ہو تو جائدادوں کے انفرادی حق کو باطل کرنے اور کسی فرد کی ذاتی جائداد کو جبر ا چھیننے کے بغیر سوسائٹی میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ قائم ہو سکتا ہے اور اس بات کی ہرگز ضرورت پیدا نہیں ہوتی کہ ہم اسلام کے مقدس دامن کو اشتراکیت کے ناپاک ہاتھوں کے سامنے پھیلا کر اس نظام کو اختیار کریں جو سرمایہ داری کی لعنت کی طرح دوسری انتہاء کی تباہی کا علم بردار ہے.بس اس کے بعد میں فاروقی صاحب کے جواب میں کوئی اور بات عرض نہیں کروں گا.وما علینا الا البلاغ.( مطبوعه الفضل ۱۳ را بریل ۱۹۵۰ء)

Page 842

مضامین بشیر ۸۳۰ چندہ امداد درویشان کی تازہ فہرست گزشتہ اعلان کے بعد جن بہنوں اور بھائیوں کی طرف سے امداد درویشان کی مد میں رقوم وصول ہوئی ہیں ان کی فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے اور دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.جزاهم الله احسن الجزاء.اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر عبد الغنی صاحب کڑک حال گوجرانوالہ ڈاکٹر فتح دین صاحب بذریعہ مولانا غلام رسول را جیکی پیشاور شیخ محمد اکرام صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ چوہدری فضل احمد صاحب ڈسکہ شیخ قدرت اللہ صاحب برادر زاده شیخ محمود اکرام صاحب مذکور شیخ عظمت اللہ صاحب شیخ محمد بشیر صاحب آزاد منڈی مرید کے مبارکہ بیگم طاہرہ صاحبہ معرفت شیخ محمد بشیر صاحب آزاد مذکور اہلیہ لفٹینٹ عبدالحمید صاحب آر.پی.اے راولپنڈی ماسٹرا میر عالم صاحب راولپنڈی اہلیہ ماسٹر امیر عالم صاحب مذکور بیگم میر شفیع احمد صاحب دہلوی حال لاہور عاشق محمد صاحب جوڑہ کلاں (سرگودھا) اصغری خانم صاحبہ اسلام آباد سٹریٹ گوجرانوالہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد شریف صاحب بد و ملی ۱۶ میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب سیالکوٹ اللہ ۱۵ فضل الہی صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ کھاریاں ۵۰۰ ۵۰ ۵-۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۵۰ ۲۰۰۰ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری فتح الدین صاحب سیال ( قادیان حال گھٹیالیاں) ۰-۰-۵

Page 843

مضامین بشیر ۲۰۰ ۵۰۰ ۶۰_۰_۰ ۱۵۰۰ 1•_•_• ۲۰۰۰ ۲۰۰ 1 •_•_• ۱۵۰۰ ۲۵_۰۰ ۱۰۰۰ ۱۰۰۰ ۵۰۰ ۱۰۰۰ ۸۳۱ ۲۲ ۲۳ فضل الرحمن صاحب چغتائی.سول سپلائی انسپکٹر ڈیرہ غازی خان امین کوثر بیگم صاحبہ بن محمد الحق صا حب عابد شام نگر لاہور بذریعہ عبدا جلیل خان صاحب محمد شفیع صاحب اکا ؤنٹس کلرک چیفس کالج لاہور بشیر احمد صاحب گورنمنٹ سٹیل اینڈ جنرل ملز مغلپورہ عطیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد عیسی جان صاحب کوئٹہ ۲۴ ایک دوست جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنا پسند نہیں کیا.۲۵ خان صاحب منشی برکت علی صاحب مطابق جو ائنٹ ناظر بیت المال از طرف اپنی اہلیہ مرحومه ۲۶ ملک حمید احمد صاحب ولد ملک نصر اللہ خان صاحب لالہ موسیٰ ۲۷ چوہدری نذیر احمد صاحب طالب پوری ڈسکہ شیخ رشید احمد محمود صاحب چنیوٹی حال لاہور میاں عبد الرحمن صاحب ولد محمد عاشق صاحب نانو ڈوگر ضلع شیخو پورہ بذریعہ ماسٹر عبدالوہاب صاحب ۳۰ نهم حشمت علی صاحب پٹواری نہر را با نہ ضلع منٹگمری اہلیہ چوہدری علی قاسم خان صاحب ڈھا کہ مشرقی بنگال صدقہ بکرا کے لئے یہ رقم ربوہ بھجوائی گئی 1 7 بیگم کیپٹن ایچ.اے کلیم صاحب بلوچ رجمنٹ میسور منیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری مقبول احمد صاحب شیخوپورہ منیرہ بیگم صاحبه مذکوره از طرف اپنی والدہ صاحبہ مرحومه مبارک احمد صاحب انچارج سول ڈسپنسری تر ناب پشاور خان عبدالحمید خان صاحب آف ڈیرہ عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری فقیر اللہ صاحب آف مودی منگل.سانگلہ ہل ملک منظور احمد صاحب لاہور ہر یکے موٹر ٹرانسپورٹ کمپنی

Page 844

مضامین بشیر ۲۰۰ ۲۰۰ ۸۳۲ ۳۹ زینب بی بی صاحبہ کیلیاں والی سڑک لاہور عبدالوہاب صاحب کیلیاں والی سڑک لاہور ثریا بیگم صاحبہ کیلیاں والی سڑک لاہور ۴۲ محمد ابراہیم صاحب شکار ما چھیاں حال پسرور ۴۳ ڈاکٹر محمد جی صاحب اسٹنٹ سرجن سول ہسپتال ننکانہ صاحب ایک صاحب کی طرف سے ۴۴ ظہور الدین صاحب بٹ وکیل گوجر خاں راولپنڈی ۴۵ ڈاکٹر محمد خان صاحب جودھ پور ضلع ملتان چھ ماہ تک دس روپے ماہوار کا وعدہ کیا ہے ) سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم سردار محمد صاحب ڈگری سندھ صدقہ بکرا کے لئے ربوہ بھجوائی گئی ) ۴۷ چوہدری نثاراحمد صاحب سیالکوٹ حال سرگودھا ۴۸ امتہ الوہاب بیگم صاحبہ اہلیہ محمد خورشید صاحب ریلوے آفس کراچی :میزان..I_A_ ۱۰۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۴۵۹-۸-۰ (مطبوعه الفضل ۱۴ را پریل ۱۹۵۰ء)

Page 845

۸۳۳ مضامین بشیر ربوہ میں ایک قادیانی درویش کی شادی پنجاب اور یوپی کے دو مخلص خاندانوں کا اتصال یہ خبر جماعت میں بہت خوشی کے ساتھ سنی جائے گی کہ مورخہ ۱۰ را پریل ۱۹۵۰ء کو حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ربوہ کے مرکز میں بعد نماز عصر سعید احمد صاحب بی.اے درویش قادیان اور طاہرہ بیگم سلمها بنت سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنو کے نکاح کا اعلان ( چار ہزار روپیہ مہر ) فرمایا.حضور نے اپنے خطبہ نکاح میں اس شادی پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے ہر دو خاندانوں کے اخلاص اور قدامت اور دینداری کا ذکر فرمایا.چنانچہ چوہدری سعید احمد صاحب بی.اے درویش قادیان کے متعلق حضور نے فرمایا کہ وہ چوھدری غلام محمد صاحب سکنہ پولا مہاراں ضلع سیالکوٹ کے پوتے ہیں جو پرانے صحابی ہونے کے علاوہ بڑے مخلص اور اپنی جماعت کے امیر تھے.ایک با اثر اور معزز بزرگ ہیں اور خود چوہدری سعید احمد نے اپنی دنیوی ترقی کے مواقع کو خیر باد کہتے ہوئے ( کیونکہ ان کے لئے ای اے سی میں منتخب ہونے کی تجویز ہو چکی تھی ) قادیان میں درویشی زندگی کو ترجیح دی اور ان کے والد چوہدری فیض احمد صاحب انسپکٹر بیت المال ربوہ بھی ایک مخلص کارکن ہیں.دوسری طرف سیٹھ خیر دین صاحب لکھنو کے متعلق حضور نے فرمایا کہ وہ جماعت لکھنو کے پریذیڈنٹ اور بہت نیک اور اعلیٰ قربانی کرنے والے مخلصین میں سے ہیں.چنانچہ ملکی تقسیم کے بعد انہوں نے سلسلہ کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنی آمد کے تیسرے حصہ کی ادائیگی کا وعدہ کیا جسے وہ بڑے اخلاص کے ساتھ نبھا رہے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے یہ رشتہ جانبین کے لئے بابرکت ہوگا.ایجاب وقبول کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی.سیٹھ خیر دین صاحب کی طرف سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور چوہدری سعید احمد صاحب کی طرف سے ان کے والد چوہدری فیض احمد صاحب ولی تھے.خطبہ کے دوران میں حضور نے یہ اظہار بھی فرمایا کہ چونکہ ملکی تقسیم کے نتیجہ میں قادیان اور پاکستان کے درمیان آمد و رفت کا سلسلہ نہایت محدود ( بلکہ عام حالات میں عملاً بند ) ہو چکا ہے.اس

Page 846

مضامین بشیر ۸۳۴ لئے میں نے اس بات کی تحریک کی تھی کہ اب قادیان کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کی جماعتوں میں رشتے کر کے قادیان میں اطمینان اور ترقی کی زندگی اختیار کریں.سو یہ نکاح اسی مبارک تحریک کے نتیجہ میں قرار پایا ہے اور اس سے قبل ایک نکاح قادیان میں بھی ہو چکا ہے.قا اس موقع پر یہ اظہار کر دینا بھی مناسب ہے کہ جس پہلے نکاح کی طرف حضور نے ارشاد فرمایا وہ مولوی عبد القادر صاحب درویش جنرل پریذیڈنٹ قادیان کا نکاح تھا جو ۱۰ مارچ ۱۹۵۰ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں پیر بشیر احمد صاحب سابق ڈیرہ دون کی ہمشیرہ نور جہاں بیگم کے ساتھ پانچ سور و پیہ مہر پر ہوا.اس نکاح کا اعلان الفضل مورخہ ۱۴ / اپریل ۱۹۵۰ء میں ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ ان ہر دو نکاحوں کو اپنے فضل و رحمت کی خاص برکت سے نوازے اور متعلقہ خاندانوں اور جماعت کے لئے مثمر ثمرات حسنہ بنائے.آمین یا ارحم الراحمین.میں اس موقع پر اپنی طرف سے اور اپنے صیغہ کی طرف سے خاندان سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنو اور خاندان چوہدری غلام محمد صاحب پولا مہاراں ضلع سیالکوٹ اور عزیز چوہدری سعید احمد صاحب درویش اور اسی طرح اس سے پہلے کے نکاح کے متعلق میں مولوی عبدالقادر صاحب درویش اور ان کے سسرال کے خاندان کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں.( مطبوعه الفضل ۱۶ار اپریل ۱۹۵۰ء)

Page 847

۸۳۵ مضامین بشیر تعمیر مکانات درویشان کا چندہ پہلی فہرست میں شامل ہونے کا ثواب حاصل کریں ربوہ میں دریشوں کے بیوی بچوں کے لئے مکانات تعمیر کرانے کی تحریک الفضل میں شائع ہو چکی ہے.انشاء اللہ عنقریب اس چندہ کی پہلی فہرست کا اعلان کیا جائے گا جو دوست پہلی فہرست میں شامل ہونے کا ثواب حاصل کرنا چاہیں.انہیں چاہئے کہ بہت جلد اپنا چندہ دفتر محاسب صد را مجمن احمد یہ ربوہ ( متصل چنیوٹ ) میں بھجوا دیں اور ساتھ ہی مجھے بھی خط کے ذریعہ مطلع فرمائیں.و جزاهم الله خيراً ( مطبوعه الفضل ۱٫۸ پریل ۱۹۵۰ء )

Page 848

مضامین بشیر ۸۳۶ احباب جماعت کی خدمت میں خاص دعاؤں کی تحریک جیسا کہ وقت کے حالات سے ظاہر ہے اور حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسی الثانی اید اللہ بنصرہ العزیز اپنے بہت سے اعلانوں اور تقریروں میں بار بار توجہ دلا چکے ہیں، یہ ایام بے حد نازک ہیں اور اس بارہ میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ نے وقتاً فوقتاً اپنے بعض رؤیا بھی شائع فرمائے ہیں اور بعض دوسرے احمدیوں کی خوا ہیں مزید براں ہیں.پس احباب جماعت کو چاہئے کہ آجکل خصوصیت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کا حافظ و ناصر ہو اور ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے.ظاہر ہے کہ جہاں ایک طرف ہر خدائی جماعت کے رستہ میں لازماً بعض امتحان اور ابتلاء مقدر ہوتے ہیں ، وہاں دوسری طرف مومنوں کا یہ فرض بھی ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف امتحان کے وقت میں کامل صبر و ثبات سے کام لیں بلکہ آنے والے ابتلاؤں کے پیش نظر خدا کے حضور اپنی متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ جھکے رہیں.اسی طرح آج کل حضرت امیر المومنین خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے لئے بھی خصوصیت سے دعائیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ کی بہت سے تقدیروں کے ساتھ انسانی کوششوں کی تاریں بھی لیٹی ہوئی ہوتی ہیں اور بعض انسانوں کو تو اللہ تعالیٰ نے فضل و نصرت کے میدان میں غیر معمولی طور پر مخصوص مقام عطا کیا ہوتا ہے.چنانچہ جس رنگ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی قیادت میں اللہ تعالیٰ نے ہر مرحلہ پر جماعت کو استحکام اور ترقی عطا کی ہے وہ خدا کی خاص نصرت کی دلیل ہے.اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ موجودہ اور آنے والے امتحانوں کے پیش نظر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اپنی مخصوص دعاؤں میں جگہ دیں.دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے موقعوں پر دعاؤں کی قبولیت میں تین باتیں بڑا بھاری اثر رکھتی ہیں.ان میں ایک صدقہ و خیرات ہے جس پر ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا زور دیا ہے.دوسرے روزہ ہے جس پر امت کے صلحاء کا ہر زمانہ میں خاص عمل رہا ہے کہ وہ ہر پریشانی کے وقت میں نماز کے ساتھ نفلی روزہ کو شامل کرتے رہے ہیں اور تیسری بات اپنے نفس میں نیک تبدیلی اور انابت الی اللہ کا پیدا کرنا ہے جو اسلام کا اصل الاصول ہے کیونکہ جب بندہ ایک نیک تبدیلی کے ساتھ خدا کے حضور جھکتا ہے تو ہمارا مہربان آسمانی آقا بھی اس کی دعاؤں کو لازماً زیادہ

Page 849

۸۳۷ مضامین بشیر قبول فرماتا ہے.پس موجودہ نازک ایام میں دوستوں کو چاہئے کہ وہ جماعت کی حفاظت اور ترقی اور حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت اور لمبی عمر اور بیش از پیش با برکت زندگی کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں اور جن دوستوں کو توفیق ہو وہ صدقہ و خیرات اور نفلی روزوں کے ذریعہ اپنی دعاؤں کے لئے مزید مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش فرمائیں.و كان الله مـعـنــا مـعـكم اجمعين ولا قوة الا بالله العظيم.( مطبوعه الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۵۰ء)

Page 850

مضامین بشیر ۸۳۸ درویشوں کے اہل وعیال کا خیال رکھا جائے وقتی امداد کے لئے امراء صاحبان میرے دفتر میں رپورٹ فرما ئیں اس وقت کئی درویشوں کے اہل وعیال جو پاکستان میں ہیں مختلف قسم کی تکلیفوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور گو بعض امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان ایک حد تک ان کا خیال رکھتے ہیں لیکن بعض اس معاملہ میں پوری فرض شناسی سے کام نہیں لے رہے اور میرے دفتر میں گاہے گاہے شکایتیں پہنچتی رہتی ہیں اور عموماً یہ شکایتیں تین قسم کی ہیں (اول) عدم نگرانی کی وجہ سے بچوں کے خراب ہونے کی شکایت اور ( دوم ) مالی تنگی کی شکایت اور ( سوم ) مکان کی شکایت ان میں سے پہلی شکایت سب سے زیادہ قابل افسوس اور قابل توجہ ہے اور اس معاملہ میں امراء مقامی اور پریذیڈنٹ صاحبان کی طرف سے غفلت کا کوئی جواز بھی نہیں.اگر مقامی کا رکن درویشوں کے بچوں کی عمومی نگرانی بھی نہیں کر سکتے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ وہ خدا کے سامنے اپنے عہدہ کے متعلق کس طرح سر خرو سمجھے جا سکتے ہیں.پس ہمارے دوستوں کو اس کام کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے ورنہ ایک قیمتی قومی پونجی کے ضائع جانے کا احتمال ہے.جہاں تک دوسری شکایت یعنی مالی تنگی کا سوال ہے.اس کے متعلق میرے دفتر کولکھنا چاہئے کیونکہ گو با قاعدہ ماہوار وظیفہ کی منظوری کا طریق عمل لمبا ہوتا ہے لیکن وقتی اور عارضی امداد کے لئے میرے دفتر میں فنڈ موجود ہوتا ہے اور امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان کی تصدیق آنے پر اس فنڈ میں سے حسب گنجائش وقتی امداد دی جا سکتی ہے اور کسی حد تک مخیر مقامی دوستوں کو خود بھی ثواب کمانا چاہئے.باقی رہا تیسری شکایت یعنی مکان کی مشکل کا سوال سو اس کے لئے جہاں تک مقامی حالات کے ماتحت ممکن ہو کوشش کی جائے.اور عموماً دیہات میں ایسا انتظام مشکل نہیں ہوتا.تنگی کے اوقات میں دوست اور عزیز دوسروں کے ساتھ مل کر بھی گزارہ کر لیتے ہیں.صرف اخلاص اور قربانی کی روح کی ضرورت ہوتی ہے اور انشاء اللہ جب ربوہ میں مکانات بن جائیں گے تو بڑی حد تک اس شکایت کا ازالہ ہو جائے گا.بہر حال میں اس اعلان کے ذریعہ مقامی امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ درویشوں کے اہل وعیال کا خاص خیال رکھ کر عند اللہ ماجور ہوں کیونکہ اخوت اسلامی کا یہ ایک اہم ترین پہلو ہے اور مالی تنگی کی صورت میں وقتی اور عارضی امداد کے لئے میرے دفتر کولکھا جائے.( مطبوعه الفضل ۲۸ / اپریل ۱۹۵۰ء)

Page 851

۸۳۹ مضامین بشیر قادیان کے تازہ حالات الحمد اللہ سب بھائی خیریت سے ہیں قادیان میں ہمارے جملہ دینی بھائی خیریت سے ہیں البتہ محمود احمد صاحب مبشر اور میاں بدرالدین صاحب اور غلام جیلانی صاحب کچھ بیمار ہیں دوست ان کی صحت کے لئے دعا فرمائیں.گذشتہ دنوں میں جبکہ ہر دو حکومتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی تو گورداسپور کے مقامی حکام نے قادیان کے احمدیوں کو پولیس کے بغیر ادھر ادھر جانے سے روک دیا تھا لیکن اب پھر اس معاملہ میں سہولت پیدا ہو گئی ہے.انہیں ایام میں قادیان میں ہمارے بھائیوں کا ٹیلیفون کنکشن بھی کاٹ دیا گیا تھا لیکن وہ بھی پھر بحال کر دیا گیا ہے.گذشتہ ایام میں میاں فضل الہی صاحب درویش کی پھوپھی صاحبہ کا ایک لمبی بیماری کے بعد ر بوہ میں انتقال ہو گیا.انسا الله وانا اليه راجعون.میاں فضل الہی صاحب ایک مخلص کا رکن ہیں.اللہ تعالیٰ اس صدمہ میں ان کا حافظ و ناصر ہو.قادیان کے دو درویشوں کے نکاح کا اس سے پہلے اعلان ہو چکا ہے.اب تازہ خبر سے معلوم ہوا ہے کہ اب ایک تیسرے درویش مستری غلام حسین صاحب کی بھی قادیان میں شادی ہوئی ہے.یہ تینوں شادیاں ہندوستان کے احمدی خاندانوں میں ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.گذشتہ جلسہ سالانہ کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں سے بعض احمدی خاندان قادیان میں پہنچے ہیں ، ان میں بعض عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں.اس وقت تبلیغی اور تربیتی اور تنظیمی لحاظ سے ہندوستان کی احمدی جماعتوں کی نگرانی قادیان کی صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے کی جاتی ہے اور ہندوستانی جماعتوں کے چندے بھی قادیان میں پہنچتے ہیں.۲۲ / اپریل کو ہندوستان کے مختلف حصوں کی طرف قادیان سے مبلغ بھجوائے گئے جو ہندوستان میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کریں گے.احباب انہیں اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.( مطبوعه الفضل ۲ رمئی ۱۹۵۰ء)

Page 852

مضامین بشیر ۸۴۰ اسلامی سزاؤں کا بنیادی فلسفہ ایک امریکن سیاح کے استفسار کے جواب میں گزشتہ دنوں میں ایک امریکن سیاح لاہور آئے تھے اور انہوں نے ہمارے بعض دوستوں سے مل کر اسلامی سزاؤں کے متعلق دریافت کیا کہ ان سزاؤں کا فلسفہ کیا ہے اور ایسی سخت سزائیں کیوں مقرر کی گئی ہیں ؟ ان صاحب کو خصوصاً چور کی سزا کے متعلق اعتراض تھا جس کے لئے قرآن شریف نے ہاتھ کاٹے جانے کی سزا بیان فرمائی ہے.سو اس امریکن سیاح کے جواب میں جو مختصراً اشارات میں نے لکھ کر دیئے ، وہ دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں بھجوا رہا ہوں.(۱) موجودہ مغربی نظام کے مقابل پر اسلامی سزاؤں کے فلسفہ کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ تفاصیل میں جانے سے قبل دونوں نظاموں کے بنیادی نظریہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے.اس کے بغیر اس بحث میں صحیح بصیرت پیدا نہیں ہو سکتی.(۲) اسلام جان کے بدلے جان کا حکم دیتا ہے.سوائے اس کے کہ مقتول کے وارث اپنی خوشی سے دیت قبول کرنا منظور کر لیں.(سورۃ بقرہ رکوع ۲۲) اس صورت میں حکومت کا یہ فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کرے کہ اس معاملہ میں کسی قسم کے دھو کہ یا جبر وا کراہ کا طریق اختیار نہ کیا جائے اور قتل کی سزا کو بدلنے سے پہلے اس بات کی تسلی کر لینی بھی ضروری ہے کہ اس تبدیلی سے سوسائٹی میں نیک نتائج پیدا ہونے کی امید ہے ( شورای رکوع ۴ ) (۳) قرآن شریف میں شادی شدہ مرد زانی یا شادی شدہ عورت زانیہ کے متعلق جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے رجم یعنی سنگساری کی سزا کا کوئی ذکر نہیں.اگر قرآن شریف کا حقیقتاً یہی منشاء ہوتا کہ شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سنگساری کی سزادی جائے تو اس سزا کا قرآن شریف میں صراحتا ذکر ہونا چاہئے تھا.خصوصاً جبکہ غیر شادی شدہ شخص کے تعلق میں قرآن شریف نے رجم سے کمتر سزا یعنی ڈرے لگانے کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے اور یہ ذکر بھی ایک ایسے مزعومہ واقعہ کی ضمن میں کیا ہے جو ایک شادی شدہ خاتون سے تعلق رکھتا تھا ( سورۃ نور رکوع نمبر ونمبر ۲ نیز بخاری حدیث الا فک ) (۴) اسلام میں مرتد کے قتل کی سزا کی کوئی سند نہیں جو سز ا غلطی سے مرتد کی سمجھی گئی ہے، وہ

Page 853

۸۴۱ مضامین بشیر دراصل غداری اور بغاوت کے جرموں کی سزا ہے جو ابتدائی زمانہ میں ارتداد کے ساتھ گویا لازم و ملزوم ہوتے تھے.(مائدہ رکوع نمبر ۵) (۵) قرآن شریف میں باغیوں اور ڈاکوؤں کے لئے جو سزا ہاتھ پاؤں کے کاٹے جانے کی صورت میں مذکور ہے وہ دراصل ایسے مجرموں کے لئے ہے جو بے گناہ لوگوں کے خلاف خود اس قسم کے وحشیانہ افعال کے مرتکب ہوتے ہیں (مائدہ رکوع نمبر ۵ و بخاری قصہ عرمبین ) اور قرآن شریف اصولی طور پر فرماتا ہے کہ قصاص کے قانون میں لوگوں کے لئے زندگی کا سامان مہیا کیا گیا ہے.( بقرہ رکوع نمبر ۲۲) (1) غالبا صرف چور کی سزا ( یعنی قطع ید ) ہی ایسی ہے جو کسی قدر تشریح کی محتاج ہے لیکن اگر ہم اسلامی نظریہ کا غور سے مطالعہ کریں تو یہ تشریح چنداں مشکل نہیں رہتی اور اس تعلق میں ذیل کے نکات خصوصیت سے قابل غور ہیں : (الف ) اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ بعض سنگین قسم کے جرموں میں جرم کی توسیع اور جرم کے تکرار کو روکنے کے لئے سخت اور قابل عبرت سزادی جائے ( سورۃ بقره رکوع نمبر ۲۲ ونور رکوع نمبر ۱ ) اس کے مقابل پر مغربی سوسائٹی کا موجودہ نظام جھوٹے جذبات سے متاثر ہو کر ایک لمبے اور نیم مؤثر طریق کو اختیار کرتا ہے اور اس طرح جرم کو روکنے کی بجائے اسے پھیلنے اور سوسائٹی کے رگ وریشہ میں سرایت کرنے میں مدد دیتا ہے.( ب ) اسلام حسب ضرورت ایک فرد کے جسم کو سوسائٹی کی روح پر قربان کرنے میں تامل نہیں کرتا اور یقیناً یہی فطری اور معقول صورت ہے ( بقرہ رکوع نمبر ۲۱ و مائدہ رکوع نمبر ۵ ) اس کے مقابل پر مغرب کا موجودہ نظام فرد کو مؤثر طریق پر روکنے میں تامل محسوس کرتا ہے اور اس تامل کی ڈگمگاتی ہوئی روح کے ذریعہ سوسائٹی کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے.حالانکہ کوئی عقلمند شخص اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ ایک فرد پر رحم کرنے میں سوسائٹی اور قوم کو تباہ کر دینا ہر گز دانائی کا طریق نہیں.یقینا یہ جذبات کے جھوٹے اظہار کا رستہ ہے اور اس رستہ کے خطرناک نتائج سے تاریخ عالم کے اوراق بھرے پڑے ہیں.66 ( ج ) حضرت مسیح ناصری کا یہ مشہور قول بھی اس معاملہ میں صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں اچھی مدد دیتا ہے کہ : - " درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.کیونکہ جہاں کہیں بھی اسلامی سزا کا طریق رائج کیا گیا ہے وہاں لا ز ما قلیل ترین عرصہ میں جرم کا وجود عملاً مفقود ہو گیا ہے لیکن اس کے مقابل پر دوسرے نظاموں کے ماتحت جرم عموما ترقی کرتا ہے.یہ فرق اتنا ظاہر و عیاں ہے کہ کسی تشریح کی ضرورت نہیں.

Page 854

مضامین بشیر ۸۴۲ ( د ) ایک اور غلط فہمی اس معاملہ میں یہ پیدا ہو رہی ہے کہ اعتراض کرنے والے اصحاب جہاں ایک طرف موجودہ سو سائٹی کے کثیر التعداد جرموں پر نگاہ رکھتے ہیں وہاں دوسری طرف وہ ان سارے جرموں میں اسلامی سزا کے طریق کو خیالی طور پر جاری کر کے اپنے دل میں ایک سخت جذباتی دھ کا محسوس کرتے ہیں کہ گویا اتنے لوگ ہاتھ کٹنے کے نتیجہ میں ٹنڈ منڈ ہو کر رہ جائیں گے.یہ طریق یقیناً انسانی ذہن میں ایک بالکل غلط نقشہ پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے.صحیح نفسیاتی طریق یہ ہے کہ صرف ایک دو ابتدائی جرموں کی صورت میں قطع ید والی سزا کو ذہن میں لا کر بعد کے جرموں کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ اسلامی نظام کے ماتحت وقوع پذیر ہی نہیں ہوں گے کیونکہ دراصل یہی وہ صورت ہے جو اسلامی سزاؤں کو جاری کرنے کے نتیجہ میں عملاً پیدا ہوتی ہے.(۷) با وجودا و پر کی اصولی تشریح کے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اسلام ہر قسم کی چوری میں ہاتھ کاٹے جانے کی سزا تجویز کرتا ہے.حق یہ ہے کہ اسلام قطع ید کے معاملہ میں بہت سی دانشمندانہ شرطیں اور حد بندیاں لگاتا ہے جن میں سے بعض مختصر طور پر ذیل میں بیان کی جاتی ہیں :- (الف) یہ کہ مسروقہ مال کھانے پینے کی قسم کی چیزوں کا نہیں ہونا چاہئے جو انسانی زندگی کے اقل سہارے کا موجب ہیں.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ایسے چور کے لئے قطع ید کی سزا تجویز نہیں فرماتے تھے جس نے کوئی پھل یا کھانے پینے کی چیز چرائی ہو.( امام مالک و ترمذی ) اسی طرح اگر سفر کے دوران میں کوئی شخص اپنی پونجی کے ختم ہو جانے کی وجہ سے چوری کا مرتکب ہو تو اسے بھی قطع ید کی غرض سے سارق قرار نہیں دیا جائے گا.(ابو داؤد ) بلکہ اس کے لئے کوئی اور مناسب سزا تجویز کی جائے گی.(ب) قطع ید کی سزا کے لئے چوری اہم ہونی چاہئے.معمولی چیزوں کی چوری جو کم قیمت کی ہوں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق چوری کرنے والے کو ہاتھ کاٹے جانے کی سزا کی مستوجب نہیں بناتی.( بخاری ومسلم ) ( ج ) چوری مشکوک یا مشتبہ صورت کی بھی نہیں ہونی چاہئے.مثلا اگر کوئی شخص ایسے مال میں سے کوئی چیز لے لے جس میں دوسرے لوگوں کے ساتھ اس کا بھی حصہ ہے تو خواہ اس نے اپنے حصہ سے زیادہ ہی لے لیا ہوا سے قطع ید کی سزا نہیں دی جائے گی.اسی اصول کے ماتحت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں سے چوری کرنے والے سپاہی کو اس کے قبیح فعل کے باوجود قطع ید کی سزا نہیں دیتے تھے.(ترمذی) (د) قریبی رشتہ دار کے مال میں سے کوئی چیز لینا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے

Page 855

۸۴۳ مضامین بشیر ما تحت سرقہ کی حد کے نیچے نہیں آتا.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے معروف حد کے اندر اندر ہند ز وجہ ابو سفیان کو اپنے خاوند کے مال میں سے بلا اجازت لے لینے کو قابل اعتراض خیال نہیں فرمایا.( حالات بیعت ہند ) اسی طرح حضرت عمرؓ نے اس شخص کو قطع ید کی سزا کے قابل نہیں سمجھا جو قو می بیت المال میں.کوئی چیز چرا لیتا ہے گو وہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت کسی اور سزا کا مستحق سمجھا جائے.(ه) آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت ایک نابالغ بچے یا فا تر العقل شخص کی چوری بھی مستثنیات میں داخل ہے اور ایسے شخص کو ہرگز قطع ید کی سزا نہیں دی جائے گی.( و ) اسی طرح حدیث میں صراحت آتی ہے کہ دوسرے کے مال کو زبردستی چھین لینے والا شخص یا آنکھ بچا کر اڑا لے جانے والا شخص قطع ید والی سزا کے نیچے نہیں آتا اور نہ ہی امانت میں خیانت کا مرتکب انسان اس سزا کے نیچے آتا ہے.( ترمذی ) گو وہ دوسرے لحاظ سے مجرم سمجھا جائے.( ز ) بالآخر وہ شخص بھی قطع ید کی سزا کا مستحق نہیں سمجھا جاتا جو گرفتار ہونے سے قبل نادم ہو کر تا ئب ہو جاتا ہے.(سورہ مائدہ نمبر ۶ ) وغیرہ وغیرہ ( ۸ ) موت کی سزا کے متعلق مغربی ممالک میں جو بحث آج کل جاری ہے کہ آیا موت کی سزا قائم رکھی جائے یا کہ اڑا دی جائے وہ بھی اس مسئلہ کے حل کرنے میں اصولی روشنی ڈالتی ہے.آج سے کچھ عرصہ پہلے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں تجربہ کے طور پر موت کی سزا اڑا دی گئی تھی لیکن اس کا نتیجہ تاریخ کا ایک کھلا ہوا ورق ہے یعنی جرم بڑھ گیا اور موت کی سزا پھر بحال کرنی پڑی.یقیناً غور کرنے والوں کے لئے اس تجربہ میں بھی ایک عمدہ اشارہ ہے.(۹) موسوی شریعت جسے تمام مسیحی اقوام اور مسیحی ممالک میں الہامی شریعت سمجھا جاتا ہے.اس میں اسلام سے بھی زیادہ سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں اور حضرت مسیح ناصری موسوی شریعت کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں موسیٰ کی شریعت کو مٹانے نہیں آیا بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.پس کم از کم مغربی اقوام کے مذہبی لوگ اسلام کی سزاؤں پر اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتے.(۱۰) اگر بعض لوگوں کی نظر میں اسلام کی جاری کردہ سزا ئیں زیادہ سخت بھی کبھی جائیں تب بھی بہر حال اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام دنیا سے بدی کو مٹانے کا عزم لے کر آیا ہے نہ کہ اسے قائم کرنے اور پھیلانے کا حامی بن کر.(۱۱) ضمناً اس بات کا اظہار بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ متاخرین میں بعض لوگ اس خیال کے بھی پیدا ہوئے ہیں جو قطع ید کے حکم کو ایک استعارہ قرار دیتے ہیں اور ہاتھ کے کاٹے جانے سے

Page 856

مضامین بشیر ۸۴۴ کوئی ایسی سزا دینا مراد لیتے ہیں جس سے گویا مجرم کو بے دست و پا کر کے محصور کر دیا جائے.لیکن یہ تشریح قابل قبول نہیں سمجھی جا سکتی اور نہ اس قسم کے وسیع عملی مسئلہ میں کسی قطعی اور یقینی دلیل کے بغیر اس قسم کی بے بنیا دتا ویل کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے.(۱۲) باقی رہا اعضاء کے قصاص کا سوال یعنی آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت وغیرہ.سواوّل تو اس کے متعلق جو قرآنی آیت ہے وہ تو رات کے حکم کا ذکر کرتی ہے نہ کہ اپنا ( سورۃ مائدہ نمبرے ) علاوہ ازیں جیسا کہ حدیثوں میں مذکور ہے یہ ایک بالکل جائز قصاص کی صورت ہے جس کے بغیر سوسائٹی میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا اور اس حکم کے متعلق وہی اصولی نظریہ چسپاں ہو گا جو اوپر بیان کیا گیا ہے یعنی و لكم في القصاص حياة یا اولی الالباب و من عفا واصلح فاجره على الله.( مطبوعه الفضل ۳ رمئی ۱۹۵۰ء)

Page 857

۸۴۵ مضامین بشیر پاکستان کی اسلامی حکومت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مذہبی زندگی ایک امریکن غیر مسلم کے سوال کے جواب میں ایک غیر مسلم محقق نے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہری ہیں ہمارے ایک دوست سے پوچھا ہے کہ پاکستان کی نوزائیدہ اسلامی حکومت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مذہبی زندگی پر کیا اثر پڑا ہے اور کیا پاکستان کی حکومت فی الحقیقت ایک اسلامی حکومت ہے وغیرہ ؟ اس سوال کے جواب میں جو مختصر اور اصولی نوٹ میں نے اس دوست کو لکھ کر بھجوایا ہے وہ دوسرے احباب کی دلچسپی کے لئے ذیل میں درج کیا جاتا ہے :- (۱) مذہبی رنگ میں صحیح اسلامی حکومت تو وہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی اور جو آپ کے بعد خلفاء راشدین کے زمانہ میں جاری رہی.اس رنگ کی اسلامی حکومت خدا کے ازلی ابدی حق حکومت کی بناء پر براہ راست خدائی حکم کے ذریعہ قائم ہوتی ہے.جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا یا وہ نبی کی وفات کے بعد بظاہر مومنوں کے اتفاق رائے سے مگر فی الحقیقت خدا کے خاص بالواسطہ تصرف کے ماتحت قائم ہوتی ہے.جیسا کہ خلفاء راشدین کے زمانہ میں ہوا اور اس کے بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ میرے بعد صحیح اسلامی خلافت صرف تیں سال رہے گی ، اس رنگ کی اسلامی حکومت کا دور ختم ہو گیا.(۲) پاکستان ان معنوں میں ضرور ایک اسلامی حکومت ہے کہ اس کی غالب اکثریت مسلمان ہے اور اسے اسلام کے بتائے ہوئے جمہوری اصولوں کے مطابق چلانے کی تجویز ہے.(۳) اسلام کا جمہوری نظام چار بنیادی اصولوں پر قائم ہے : (الف) ایک منتخب شدہ صد رحکومت کا وجود.( ب ) صد رحکومت کے مشورہ اور امداد کے لئے عوام کی ایک نمائندہ مجلس.

Page 858

مضامین بشیر ۸۴۶ ( ج ) سب شہریوں کے لئے مساویانہ حقوق.(د) غیر مسلم اقلیتوں کی مخصوص مذہبی اور جانی اور مالی اور آبرو کی حفاظت.(۴) اقلیتوں کی حفاظت کے معاملہ میں ذیل کی باتیں خاص طور پر قابل لحاظ ہیں :- (الف) چونکہ صحیح اسلامی حکومت مذکورہ فقرہ نمبرا میں حالات پیش آمدہ کے ماتحت مذہبی اور نیم مذہبی جنگوں کا امکان رہتا ہے اس لئے ایسی حکومت کے تعلق میں اقلیتوں کے متعلق جزیہ کے مخصوص ٹیکس کا حکم دیا ہے، تا کہ جو غیر مسلم ان جنگوں سے الگ رہنا چاہیں ان کے لئے اس ٹیکس کے ذریعے رستہ کھلا ر ہے مگر دوسری قسم کی اسلامی حکومت (مندرجہ فقرہ نمبر۲ ) میں اس کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی حکومت میں غیر مسلموں پر جزیہ لگانا جائز ہے.(ب) جزیہ چونکہ جنگی خدمت میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے لگایا جاتا ہے.اس لئے وہ اسلامی حکومت مندرجہ فقرہ نمبرا میں بھی ایسے غیر مسلموں پر نہیں لگایا جا سکتا جو اپنے آپ کو بخوشی جنگی خدمت کے لئے پیش کریں جیسا کہ حضرت عمر نے بعض غیر مسلم قبائل کی پیش کش پر ان کا جزیہ معاف کر دیا تھا.( ج ) مسلمان اور غیر مسلم شہریوں کی جانیں ایک جیسی قابل حفاظت ہیں.پس اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم شہری کو قتل کر دیتا ہے تو اس کے خلاف بھی قصاص کا حکم جاری کیا جائے گا.(د) اسلام نہ تو دین کی اشاعت کے لئے جبر کی اجازت دیتا ہے اور نہ اسے قائم رکھنے کے لئے جبر کا حامی ہے.پس مرتد ہونے والے شخص کو قتل کی سزا کا مستحق نہیں سمجھا جائے گا بشرطیکہ وہ ویسے حکومت کا وفا دار ہو.(۵) پاکستان نے ملک کے اس حصہ کے مسلمانوں کے لئے اپنے طریق پر زندگی گزار نے اور ترقی کرنے کا ایک بہت عمدہ موقعہ پیدا کر دیا ہے اور اب یہ ان کا کام ہے کہ اس موقعہ سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا ئیں.بے شک شروع میں خامیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں لیکن اس وقت بھی پاکستان کے مسلمانوں کی عمومی بیداری دنیا کے دوسرے مسلمانوں سے بہتر اور بڑھ کر ہے.ہیں :- (۶) اس وقت پاکستان میں خیالات و عقائد کے لحاظ سے چار فرقوں کے مسلمان پائے جاتے (الف ) حنفی فرقہ کے سنی مسلمان.( ب ) اہل حدیث فرقہ کے سنی مسلمان (ج) شیعہ فرقہ کے مسلمان (د) احمدی مسلمان

Page 859

۸۴۷ مضامین بشیر (۷) یہ سب فرقے عقائد اور عمل میں بعض اختلافات رکھنے کے باوجود خدا کی تو حید کے بنیادی عقیدہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ختم نبوت اور قرآنی شریعت کے آخری اور عالمگیر ہونے کے متعلق اصولاً متحد و متفق ہیں.(۸) اشاعت دین کے لحاظ سے احمد یہ جماعت کے تبلیغی مراکز دنیا کے بیشتر حصوں میں قائم ہیں مثلاً انگلستان - فرانس.جرمنی.سپین.سوئٹزرلینڈ.ہالینڈ.شام و لبنان.مشرقی افریقہ.مغربی افریقہ.ماریشس.ہندوستان.ملایا.جاوا سماٹرا.ریاستہائے متحدہ امریکہ وغیرہ وغیرہ اور اس جماعت کا مذہبی اور تبلیغی لٹریچر بھی ساری دنیا میں کثرت سے پھیلایا جا رہا ہے.(۹) اسلامی شریعت دو حصوں میں منقسم ہے ایک تو اس کا اصولی اور ٹھوس حصہ ہے جسے قرآن شریف محکمات کے لفظ سے یاد فرماتا ہے یہ حصہ غیر مبدل ابدی صداقتوں پر مشتمل ہے جس پر حالات کے تغیر کا کوئی اثر نہیں پڑتا.دوسرا حصہ لچکدار ہے جس کے متعلق قرآن شریف متشابہات کی اصطلاح قائم فرماتا ہے یعنی ایسے احکام جو مختلف قسم کے حالات میں ملتی جلتی صورت اختیار کر لیتے ہیں.چکدار حصہ ایک روحانی عالم کا رنگ رکھتا ہے جس طرح کہ یہ دنیا ایک مادی عالم کا رنگ رکھتی ہے اور بعینہ جس طرح آدم کے وقت کی مادی دنیا پرانی دنیا ہونے کے باوجود اپنی جدید تحقیقاتوں اور ایجادوں کے ذریعہ موجودہ زمانہ کی ساری مادی ضروریات کو پورا کر رہی ہے.اسی طرح اسلامی شریعت کا یہ لچکدار حصہ بھی جدید تحقیق اور تفقہ کے نتیجہ میں اس زمانہ کے نئے نئے مسائل کا تسلی بخش حل پیش کرتا ہے.مگر ضروری ہے کہ اس لچکدار حصہ کی تشریح اور توضیح کے لئے محکمات کی شمع ہر وقت ساتھ رہے.(۱۰) کمیونزم اور کیپٹلزم کو پاکستان میں کوئی مقام حاصل نہیں اور نہ کسی اسلامی حکومت میں حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ اول تو اسلام کا اخوت اور مساوات کا اصولی نظر یہ اشتراکیت پر اسی طرح دروازہ بند کر رہا ہے جس طرح کہ وہ سرمایہ داری پر بند کرتا ہے.دوسرے جہاں ایک طرف اسلام انفرادی حق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے وہاں دوسری طرف وہ دولت کو مناسب طور پر سمونے کے لئے ایک مؤثر مشینری بھی قائم فرماتا ہے.یہ دونوں باتیں اسلام کو نہ صرف کمیونزم اور سرمایہ داری کے حملہ کے خلاف محفوظ کر رہی ہیں بلکہ اس کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار مہیا کر رہی ہیں جو انشاء اللہ بالآخران دونوں نظاموں کو مٹا کر رکھ دے گا.وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَالِ وَالْإِكْرَامِ ۲۷ ( مطبوعه الفضل ۴ رمئی ۱۹۵۰ء)

Page 860

مضامین بشیر ۸۴۸ اسلام میں چور کی سزا انجیل کا ایک لطیف حوالہ چند دن ہوئے میرا ایک نوٹ الفضل میں اسلامی سزاؤں کے فلسفہ کے متعلق شائع ہوا تھا.اس میں اسلامی تعزیرات کے ماتحت چور کی سزا ( قطع ید ) کا بھی ذکر تھا اور میں نے بتایا تھا کہ اول تو اسلام نے ہر چوری کی سزا ہاتھ کاٹنے کی صورت میں مقرر نہیں کی بلکہ اس کے لئے بھی بعض خاص شرطیں اور حد بندیاں لگائی گئی ہیں اور دوسرے میں نے اس بات کو واضح کیا تھا کہ اسلام جھوٹے جذبات کا مذہب نہیں ہے کہ ایک چھوٹی چیز کو بچانے کے لئے بڑی چیز کو قربان کر دے بلکہ وہ بڑی چیز کو بچانے کے لئے چھوٹی چیز کو قربان کرتا ہے اور اگر ایک فرد کے عضو کو کاٹنے سے قوم کی روح اور سوسائٹی کے اخلاق کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے تو اسلام اس میں ہر گز تامل نہیں کرتا اور یہی اصلاح کا صحیح اور سچا فلسفہ ہے.اس تعلق میں مجھے انجیل کا ایک حوالہ ملا ہے.جو دوستوں کے فائدہ کے لئے درج ذیل کرتا ہوں.اس میں بعینہ اس نظریہ کو پیش کیا گیا ہے.جسے اسلام پیش کرتا ہے.حضرت مسیح ناصری فرماتے ہیں : اگر تیرا داہنا ہاتھ تجھے ٹھو کر کھلائے تو تو اس کو کاٹ کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضاء میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ جائے.“ کیا اسلامی تعلیم پر اعتراض کرنے والے مسیحی صاحبان اپنے ”خدا وند مسیح کے اس سنہری ارشاد پر غور فرمائیں گے؟ حق یہی ہے کہ اگر قوم اور سوسائٹی کی روح اور اس کے اخلاق کو بچانے کے لئے کسی ایک فرد کا ہاتھ کاٹنا پڑے تو یہ ہرگز مہنگا سودا نہیں ہے.پس اسلامی سزاؤں پر اعتراض کرنا محض جھوٹے جذبات کا ابال ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں.دراصل یہ وہی ہندوؤں والی ذہنیت ہے.جو ایک گائے کے بدلے میں ہیں انسانوں کی جان لینے میں دریغ نہیں کرتے.فا فهم و تدبر ( مطبوعه الفضل ۲۶ رمئی ۱۹۵۰ء)

Page 861

۸۴۹ مضامین بشیر شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری کہاں ہیں عید سے قبل دعا کے دن میرے ہاتھ میں ایک صاحب شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری نے ایک لفافہ دیا تھا جس کے اندر مسجد ربوہ اور مسجد امریکہ اور مسجد ہالینڈ کے چندہ کے۲۰۰ روپے ملفوف تھے.یہ رقم ربوہ بھجوا کر خزانہ کی رسید منگوالی گئی ہے.شیخ صاحب موصوف مجھ سے یہ رسید موصول فرما لیں.دیگر آئندہ کے لئے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ خزانہ ربوہ میں داخل ہونے والے چندے براہ راست یا بذریعہ مقامی جماعت ربوہ بھجوانے چاہئیں.مجھے یا کسی اور فردِ جماعت کو ایسے چندوں کی وصولی کا اختیار نہیں ہے.( مطبوعه الفضل ۲۷ رمئی ۱۹۵۰ء)

Page 862

مضامین بشیر ۸۵۰ چندہ تعمیر مکانات درویشان کی پہلی فہرست ذیل میں ان بھائیوں اور بہنوں کی فہرست درج کی جاتی ہے جنہوں نے میری تحریک پر ( جو حضرت صاحب کی اجازت سے کی گئی تھی ) ربوہ میں درویشوں کے رشتہ داروں کے مکانات کی تعمیر کے لئے چندہ دیا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ اس فہرست کے اولین احباب ہیں جنہوں نے خدا سے توفیق پا کر اس کارخیر میں حصہ لیا ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی بہترین جزا عطا کرے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.مجھے افسوس ہے کہ دفتر محاسب ربوہ کی طرف سے بر وقت رپورٹ نہ آنے کی وجہ سے یہ فہرست کسی قدر دیر سے شائع کی جا رہی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ ان سب بہنوں اور بھائیوں کو دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے.اور ان کے اس کارخیر کو دوسروں کے لئے نیک تحریک کا موجب بنائے.آمین.کئی درویشوں کے رشتہ دار اس وقت مکان کی وجہ سے بڑی تکلیف میں ہیں.اس لئے اس تحریک میں حصہ لینا خدا کے فضل سے بڑے ثواب کا موجب ہے.آئندہ جو دوست اس مد میں چندہ بھجوائیں.وہ مہربانی کر کے کو پن میں صراحت کر دیا کریں کہ یہ درویشوں کے مکانوں کا چندہ ہے.نیز جن احباب نے اس میں چندہ بھجوایا ہومگر ان کا نام اس فہرست میں نہ آیا ہو.وہ اطلاع دے کر ممنون فرمائیں.(1) ملک عزیز احمد صاحب ایبٹ آباد ( بذریعہ دفتر محاسب ربوہ ) (۲) چوہدی محمد عبد اللہ صاحب چک نمبر ۷۸ جنوبی ضلع سرگودھا (۳) خان عزیز احمد صاحب نائب تحصیلدار خانیوال (۴) اہلیہ صاحبہ قاضی نصیر احمد صاحب بھٹی مذکور (۵) شمیم احمد بن قاضی نصیر احمد صاحب بھٹی مذکور (۶) چوہدری ناظر علی صاحب سیکرٹری مال شاہ کوٹ لائل پور (۷) با بوفقیر اللہ صاحب انسپکٹر بیت المال حلقہ چابکسواراں لاہور (۸) چوہدری حسن احمد صاحب رائے پور قا در آباد (۹) چوہدری جان خان صاحب ولد عبدالمالک خان صاحب لاہور ۲۰۰۰_۰ ۵۰۰ ۱۰۰۰ ۲-۰-۰ ۱۰۰۰

Page 863

مضامین بشیر ۵۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۲۰۰ ۱۵۰۰۰ 7777 ۵۰ ۵۰۰ ۲۰۰ ۴۹۴۰..۰۰.۲۷ ۵۰۰ ۸۵۱ (۱۰) عبد الوہاب خان صاحب ولد عبد المالک خان صاحب لاہور (11) علی شیر صاحب چک نمبر ۱۶۹ مراد (۱۲) بابو فقیر اللہ صاحب حلقہ اسلامیہ پارک لاہور (۱۳) شیخ محمد یوسف صاحب لائکپور (۱۴) مرزا برکت علی صاحب پشاور (۱۵) والدہ صاحبہ مرزا برکت علی صاحب پشاور (۱۶) غلام جعفر صادق صاحب ہیڈ ماسٹر چک ۱۰۱۲۹ نیازی ضلع ملتان بحساب جماعت احمد یہ میاں چنوں ( بذریعہ دفتر محاسب) (۱۷) فیض احمد صاحب نمبر دار چک ۱۲۲ E.B منٹگمری (۱۸) الطاف احمد صاحب بھیرہ ضلع سرگودہا (19) سیٹھ محمد اسمعیل آدم صاحب کراچی (۲۰) مهر بی بی و بشری بیگم صاحبہ بذریعہ علی احمد صاحب مبلغ بھا کا بھٹیاں (بذریعہ دفتر محاسب) (۲۱) بذریعہ ملک عزیز احمد صاحب سیکرٹری مال ایبٹ آباد ( بذریعہ دفتر محاسب) (۲۲) کیپٹن سید نصیر احمد شاہ صاحب مالیر چھاؤنی کراچی ( بذریعہ دفتر محاسب ربوہ ) (۲۴) لانس نائک محمد صادق صاحب جماعت احمد یہ ایبٹ آباد (۲۵) کیپٹن محمد عبد اللہ صاحب ( بذریعہ چیک رقمی ۵۰) (۲۶) ملک منظور احمد صاحب لاہور ( وصولی میرے دفتر میں براہ راست ) (۲۷) اہلیہ صاحبہ مولوی محب الرحمن صاحب (۲۸) شیخ محمد سعید صاحب برکت علی روڈ لاہور ( وصولی میرے دفتر میں براہ راست ہوئی ) (۲۹) اہلیہ صاحبہ شیخ محمد سعید صاحب مذکور ( وصولی میرے دفتر میں براہ راست ہوئی )

Page 864

مضامین بشیر (۳۰) صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ ۸۵۲ بیگم میاں محمد احمد خان صاحب) رتن باغ لاہور (۳۱) میاں غلام محمد صاحب اختر لاہور واہل وعیال وصولی براہ راست میرے دفتر میں ) (۳۲) چوہدری غلام حسین صاحب مرحوم بذریعہ صلح الدین صاحب سعدی احمدی چٹاگانگ ( وصولی براہ راست میرے دفتر میں ) کل میزان ۲۰۰۰ ۱۰۰۰ ۸۳۷-۸-۰ ( مطبوعه الفضل ۲۸ رمئی ۱۹۵۰ء)

Page 865

۸۵۳ مضامین بشیر خاندان نبوت ایک نہایت ضروری اور بروقت انتباه الفضل مؤرخہ ۲۰ مئی ۱۹۵۰ء کے صفحہ ۳ پر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بصرہ العزیز کا ایک اہم اعلان زیر عنوان ” خاندان حضرت مسیح موعود کے متعلق ایک ضروری اعلان.شائع ہوا ہے اس اعلان میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جماعت کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں خاندان نبوت“ کے الفاظ استعمال نہ کیا کریں کیونکہ ان الفاظ کے استعمال سے یہ دھو کہ لگتا ہے کہ شاید یہی ایک خاندان نبوت ہے حالانکہ اصل نبوت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت صرف ظلی نبوت ہے نہ کہ مستقل اور بلا واسطہ ) پس اصل خاندان نبوت صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے اور وہی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اسے ان الفاظ سے یا دکیا جائے وغیرہ وغیرہ.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کا یہ اعلان ایک نہایت اہم اور با موقعہ اعلان ہے جس کی اس وقت جماعت کو حقیقی ضرورت تھی اور حق یہ ہے کہ میں خود کچھ عرصہ سے اس کے متعلق الفضل میں لکھنا چاہتا تھا لیکن اس خیال سے کہ اس قسم کے معاملہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہوتے ہوئے کسی اور کا لکھنا مناسب نہیں.میں دانستہ خاموش رہا اور خدا تعالیٰ نے میری اس خواہش کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کے اعلان کے ذریعہ پورا فرمایا.فالحمد لله علی ذالک.جو دلیل حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ نے اس اعلان کی تائید میں بیان فرمائی ہے وہ اصولاً نہایت مناسب اور پختہ ہے اور ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کے خدا دا د امتیاز کو ہر جہت سے قائم رکھا جائے لیکن اس کے علاوہ میرے ذہن میں یہ دلیل بھی تھی کہ ایک اور لحاظ سے بھی’ خاندان نبوت“ کی اصطلاح نا مناسب اور نا درست ہے کیونکہ قرآنی تعلیم کے ماتحت نبوت کا انعام در حقیقت افراد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ خاندانوں اور قبیلوں اور قوموں کے ساتھ.پس ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ فلاں نبی کا خاندان یا فلاں رسول کا خاندان یا فلاں مامور کا خاندان لیکن ہم کسی خاندان کو خاندانِ نبوت یا خاندان رسالت وغیرہ کا نام نہیں دے سکتے.چنانچہ اس بارہ میں قرآن

Page 866

مضامین بشیر ۸۵۴ شریف نہایت لطیف انداز میں فرماتا ہے کہ : ۲۸ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا " یعنی اے بنی اسرائیل کی قوم خدا کی اس نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے تم میں نبی پیدا کئے اور تم کو بادشاہ بنایا“ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے جہاں نبوت کے انعام کو جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ ( تم میں نبی بنائے ) کے الفاظ سے یاد فرمایا ہے وہاں ( اس کے مقابل پر ملوکیت یعنی بادشاہت کے انعام کا صرف جَعَلَكُمْ قُلُوكًا ( تم کو بادشاہ بنایا ) کے الفاظ سے ذکر کیا ہے.ان ہر دو الفاظ کا فرق بالکل ظاہر و عیاں ہے جس میں یہی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جہاں نبوت ایک انفرادی انعام ہے جو حقیقتا صرف ایک فرد کی ذات کے ساتھ مخصوص اور وابستہ ہوتا ہے اور ساری قوم کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا وہاں ملوکیت یعنی بادشاہت درحقیقت ایک قومی انعام ہے جو ساری قوم کی طرف منسوب ہوسکتا ہے اور ہونا چاہئے.بے شک جس خاندان یا جس قوم میں کوئی نبی یا رسول مبعوث ہوتا ہے وہ اس خاندان یا قوم کے لئے بھی بھاری شرف اور فضیلت کا موجب بن جاتا ہے لیکن باوجود اس کے نبوت کے انعام کی نسبت بہر حال ذاتی اور انفرادی رہتی ہے مگر اس کے مقابل پر ملوکیت کے انعام کی نسبت گویا قومی رنگ اختیار کر لیتی ہے اور ساری قوم بادشاہ کہلانے کی حق دار بن جاتی ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ایک جگہ جَعَلَ فِيكُمْ تم میں نبی بنائے کے الفاظ فرمائے ہیں اور دوسری جگہ جَعَلَكُمْ قُلُوكًا ( تم کو بادشاہ بنایا ) کے الفاظ رکھے ہیں تا کہ ان دو قسم کے انعاموں میں امتیاز قائم کر دیا جائے.پس جب ہمارے علیم و حکیم خدا نے نبوت اور ملوکیت کے انعاموں میں امتیاز ملحوظ رکھا ہے کہ ایک کو انفرادی انعام گردانا ہے اور دوسرے کو قومی انعام قرار دیا ہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم خواہ مخواہ نئی اصطلاحوں کے شوق میں خاندان نبوت کی اصطلاح ایجاد کر کے اس خدائی امتیاز میں رخنہ نہ پیدا کر یں.اس اصول کے ماتحت میرے خیال میں خاندان مسیحیت وغیرہ کے الفاظ بھی درست نہیں ہوں گے بلکہ جیسا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے ” خاندان حضرت مسیح موعود کی اصطلاح ہی مناسب اور درست ہے.دراصل غور نہیں کیا گیا ورنہ یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی تھی کہ ” خاندانِ نبوت کے معنی ”نبی کے خاندان کے نہیں ہیں.بلکہ ” نبیوں کے خاندان‘یا’ نبوت والے خاندان کے ہیں اور ظاہر ہے کہ اوپر والی تشریح کی روشنی میں کسی نبی کے خاندان کے متعلق اس قسم کے الفاظ استعمال کرنا درست اور جائز نہیں سمجھا جا سکتا.یہ سوال ہو سکتا ہے کہ نبوت اور ملوکیت کے انعاموں میں یہ امتیاز کیوں رکھا گیا ہے کہ ایک کو

Page 867

۸۵۵ مضامین بشیر انفرادی انعام قرار دیا گیا ہے اور دوسرے کو قومی.سو اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل خدا تعالیٰ کے ازلی ابدی قانون کے ماتحت نبوت کا انعام اوپر سے نیچے کو آتا ہے.اور اس کے مقابل پر ملوکیت کا انعام حقیقتاً نیچے سے اوپر کو جاتا ہے یعنی جہاں نبی خدا کا نمائندہ ہوتا ہے وہاں ایک بادشاہ دراصل جمہور کا نمائندہ ہوتا ہے.اس بنیادی فرق کی وجہ سے ضروری تھا کہ نبوت کو انفرادی انعام قرار دیا جاتا اور ملوکیت کو قومی انعام قرار دیا جاتا اور یہی طریق ہمارے خدائے علیم وحکیم نے اختیار فرمایا.فا فهم و تدبر میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی خاندان یا قوم میں نبی اور رسول کا مبعوث ہونا اس کے لئے عزت اور فضیلت کا موجب نہیں ہوتا.جس چیز کو خدا تعالیٰ نے فضیلت کا مقام عطا فرمایا ہے وہ بہر حال نہ صرف اس شخص کے لئے شرف اور فضیلت کا موجب ہو گی جو اس انعام کو فی نفسہ پاتا ہے بلکہ یقیناً اس خاندان اور اس قوم کے لئے بھی شرف اور فضیلت کا موجب ہو گی جس کی طرف ایسا شخص منسوب ہوتا ہے اور اسی لئے اوپر والی آیت میں نبوت کو ذاتی اور انفرادی انعام قرار دینے کے باوجود اسے خاندانی اور قومی شرف اور فضیلت کا موجب قرار دیا گیا ہے.چنانچہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :- اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمُ انْبِيَاءَ یعنی ” اے بنی اسرائیل کی قوم خدا تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں نبی پیدا کئے“.ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ نبوت کے ایک انفرادی انعام ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ اسے خاندانی اور قومی شرف کا موجب بھی قرار دیتا ہے اور اسی لئے وہ ساری قوم کو مخاطب کر کے اپنا یہ انعام یاد دلاتا ہے.پس یہ بھاری کفرانِ نعمت ہوگا کہ نبوت اور رسالت کے انعام کو خاندانی اور قومی شرف کا موجب نہ سمجھا جائے.لیکن دوسری طرف خدا تعالیٰ کے انعامات محض ایک اعزازی ڈگری کا رنگ نہیں رکھتے بلکہ ہر انعام کے ساتھ لازماً اس کے منصب کے مناسب حال کچھ ذمہ داریاں بھی وابستہ ہوتی ہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مبارکہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ : يُنِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضْعَفُ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًا وَمَنْ يَقْنُتُ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا j ۱۲۹ أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ ) یعنی اے نبی کی بیو یو تم میں سے اگر کوئی کھلی کھلی بداعمالی کی مرتکب ہو گی تو وہ خدا

Page 868

مضامین بشیر ۸۵۶ کی طرف سے دو ہرے عذاب کی مستحق ٹھہرے گی لیکن تم میں سے جو خدا اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور نیک اعمال بجا لائے گی تو یقیناً اسے ہم دوہرا اجر بھی عطا کریں گے.“ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے انعاموں کے دونو پہلوؤں کو جو ایک طرف فضیلت اور دوسری طرف ذمہ داری سے تعلق رکھتے ہیں نہایت لطیف رنگ میں نمایاں کر کے بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ وہ خاندان جس کا کوئی فرد نبوت اور رسالت کے انعام سے مشرف ہوتا ہے اس کے افراد اگر ایمان اور عمل صالح کا اچھا نمونہ قائم کریں تو خدا سے دہرا اجر پاتے اور دوہرے انعام کے مستحق ہوتے ہیں.لیکن اگر وہ ایمان اور عمل صالح کا اچھا نمونہ قائم نہ کریں تو پھر وہ دہری سزا بھی پاتے ہیں.یہ اس لئے ہے کہ نبی کا خاندان ایسے مقام پر ہوتا ہے کہ اگر وہ اچھا نمونہ قائم کرے تو بہت سے لوگ اس کے اچھے نمونہ سے فائدہ اٹھاتے اور نیکی کی طرف رستہ پانے میں مدد حاصل کرتے ہیں لیکن اگر یہ خاندان اچھا نمونہ قائم نہ کرے تو وہ اپنے امتیازی مقام کی وجہ سے کثیر التعدادلوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بن جاتا ہے.یہی وہ نور وظلمت اور جزا وسزا کا دہرا منظر ہے جو اس وقت ہمارے خاندان کے سامنے ہے.وہ اگر چاہیں اور خدا انہیں توفیق دے تو ایمان اور عمل صالح کا اچھا نمونہ قائم کر کے اپنے آسمانی آقا کے دہرے انعام کے وارث بن سکتے ہیں لیکن اگر خدانخواستہ نیکی کے رستہ کو اختیار نہ کریں اور لوگوں کے لئے اچھا نمونہ نہ بنیں تو پھر انہیں نعوذ باللہ دہری سزا کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے.کاش ! اے کاش !! ہماری وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھیں حشر کے میدان میں نیچی نہ ہوں.ذالک ظننا بالله و نرجوا من الله خيرا و ما توفيقه إلا بالله العظيم.( مطبوعه الفضل یکم جون ۱۹۵۰ء)

Page 869

۸۵۷ مضامین بشیر چنده امداد درویشان کی تازہ فہرست ذیل میں چندہ امدا د درویشان کی تازہ فہرست درج کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب بھائیوں اور بہنوں کو جزائے خیر دے جنہوں نے اس کارخیر میں حصہ لیا ہے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.آمین.دوست اس بات کا خیال رکھیں کہ چندہ تعمیر مکانات درویشان چندہ امداد درویشان سے جدا گانہ ہے اور دونوں میں خلط نہیں ہونا چاہئے.ا صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب ناصر آباد سٹیٹ سندھ اے آر نگہت صاحبہ بنت ماسٹر خیر دین صاحب پورن نگر سیالکوٹ حیدر علی صاحب چک R.B/91 ضلع لائلپور بشارت احمد صاحب بی ایس سی ابن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت قادیان چوہدری بشارت علی صاحب نارووال ضلع سیالکوٹ لجنہ اماءاللہ ملتان شہر بذریعہ حمیدہ بیگم صاحبہ سیکر ٹری لجنه دوست محمد صاحب کمپونڈ ررسول ہسپتال بہاولنگر ریاست بہاولپور صلاح الدین صاحب معرفت میاں وزیر محمد صاحب جسونت بلڈ نگ لاہور نذیر احمد صاحب صراف ڈسکہ ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب قلعہ صو با سنگھ بشری بیگم صاحبہ بنت محمد امین صاحب زرگر قلعہ صو با سنگھ رشید اختر صاحبہ اہلیہ محمد مختار صاحب ٹھیکیدار قلعہ صو با سنگھ وزیر بیگم صاحبہ زوجہ حکیم دین محمد صا حب کھٹیاں ضلع لاہور بذریعہ ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب ۱۴ مبارکه اختر صاحبہ بنت قاضی محمد شریف صاحب لاہور ۱۵ ملک عنائت اللہ صاحب بدین (حیدر آبا دسندھ ) ۵۰۰ ۱۵۰۰ ۵۰۰..۵۰ ۲۰۰_۰ ۵۰۰ ۵۰۰ ۱۵۰۰ ۵۰۰ ۵۰۰

Page 870

۵۰۰ 1•_• ۲۰۰۰ ۵۰۰ ۰۰.۵ ۵۰۰ ۱۰۰۰ 1•_•_• ۲۰۰ ۲۰۰۰ ۵۰۰ ۱۰۰۰ ۰۰.۵ ۵۰۰ ۲۵_۰۰ 17_•_• ۵۰۰ ۵۰۰ ۸۵۸ مضامین بشیر ۱۶ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اہلیہ عبد المنان صاحب را شدی سیالکوٹ ۱۷ صو بیدار کرم دین صاحب چک ۹۶ گ ب لائل پور ۱۸ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالکریم صاحب ۱۹ محمد اسرائیل صاحب کراچی شیخ محمد اکرام صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ شیخ قدرت اللہ صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ شیخ عظمت اللہ صاحب ٹو بہ ٹیک سنگھ ۲۳ قاضی غلام نبی صاحب شیخو پوره ۲۴ ڈاکٹر چوہدری محمد خان صاحب جودھ پور ( ملتان ) عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری نذیر احمد صاحب نا صرصراف ڈسکہ اہلیہ صاحبہ سید سلیم شاہ صاحب حال لاہور ۲۷ عطیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد عیسے جان صاحب کو سٹہ چوہدری غلام حسین صاحب مرحوم بذریعہ مصلح الدین صاحب احمدی ( چٹا گانگ مشرقی بنگال ) ۲۹ حفیظ اللہ صاحب سید والا ۳۰ محمد اسرائیل احمد صاحب دفتر چیف انجینئر کراچی عبدالعلی خان صاحب را ولپنڈی ۲ اکرم حسین کوثر احمد صاحب چھور چک ۱۷ اضلع شیخو پورہ ۳۲ عبدالمجید صاحب جنجوعہ کو لا پور ( بلوچستان) عابدہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم (اہلیہ قریشی محمد یوسف صاحب بریلوی) ۲۵ اہلیہ صاحبہ عبدالستار صاحب ریڈیو آپریٹر کراچی ملک غلام نبی صاحب آف کھارا کوٹ احمد یاں سندھ ۳۷ عاشق محمد صاحب پٹواری جوڑہ کلاں مجو کہ (سرگودہا ) لطیف احمد طاہر صاحب کراچی تفصیل نہیں پہنچی ۳۹ بشیر احمد صاحب چغتائی لاہور

Page 871

۸۵۹ ۴۰ مرزا برکت علی صاحب پشاور امداد در ویشان ۴۱ مرزا برکت علی صاحب پشاور (صدقہ برائے قادیان) قاضی محمد عبد اللہ صاحب ربوہ امدا د لنگر خانہ قادیان ۴۳ نذیر احمد صاحب ڈارا فریقہ ۴۴ آٹھ کس دوست بذریعہ عبدالوحید صاحب سلیم حلقہ اسلامیہ پارک لاہور میاں مبارک احمد صاحب پنڈی چری ( شیخو پورہ) ۴۶ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پورہ ماڈل ٹاؤن میزان مضامین بشیر ۵۰۰ ۵۰۰..۵۰۰ ۴۰۰۰۰ ( مطبوعه الفضل ۴ جون ۱۹۵۰ء)

Page 872

مضامین بشیر ۸۶۰ قادیان میں یوم پیشوایان مذاہب قادیان سے عزیزم مرزا وسیم احمد سلمه ناظر دعوة و تبلیغ بذریعہ تار اطلاع دیتے ہیں کہ کل مورخہ ۴ جون بروز اتوار قادیان میں یوم پیشوایان مذاہب منا یا جا رہا ہے اس کی کامیابی کے لئے دعا فرمائی جائے.ملکی تقسیم کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے کہ سلسلہ کی روایات کے مطابق قادیان میں یوم پیشوایان مذا ہب منایا جا رہا ہے جس میں انشاء اللہ غیر مسلم اصحاب بھی آنحضرت عیہ کے کمالات اور آپ کی با برکت سواخ پر تقریر فرمائیں گے.احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر جہت سے کامیاب فرمائے اور اسلام کی تبلیغ اور ترقی کا ذریعہ بنادے اور یہ جلسہ آئندہ آنے والے بہت سے کامیاب جلسوں کا پیش خیمہ بن جائے.آمین یا ارحم الراحمين ( مطبوعه الفضل ۴ جون ۱۹۵۰ء)

Page 873

۸۶۱ مضامین بشیر الہام ” داغِ ہجرت کا حوالہ مل گیا غلبت الروم کے الہام کے متعلق ایک لطیف مکاشفہ مجھے مدت سے داغ ہجرت‘ والے الہام کے حوالہ کی تلاش تھی لیکن نہ تو یہ الہام تذکرہ میں درج تھا اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی کتاب یا تحریر وغیرہ میں ملتا تھا.البتہ زبانی روایتوں میں اس کا کثرت کے ساتھ چر چا تھا اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی ایک یادداشت میں یہ بات لکھ کر بھی رکھی ہوئی تھی کہ یہ الہام حضور کو اپنے دعوئی کے ابتدائی ایام میں ہوا تھا.بایں ہمہ مجھے اصل حوالہ کی تلاش رہتی تھی.سواب خدا کے فضل سے ایک ایسا حوالہ مل گیا ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر پر براہ راست مبنی تو نہیں ہے لیکن اپنی معین تاریخ کی وجہ سے اس کے متعلق یقینی قیاس ہوتا ہے کہ یا تو وہ کسی ڈائری میں چھپ چکا ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی اشتہار میں اس کا ذکر آچکا ہے اور یا کم از کم وہ کسی ایسی قلمی ڈائری میں محفوظ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی قلم بند ہو چکی تھی.بہر حال مجھے اب ایک دوست نے خط کے ذریعہ اطلاع دی ہے کہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز انگریزی بابت ماہ اپریل ۱۹۱۳ء کے صفحہ ۱۵۵ پر یہ الفاظ درج ہیں کہ : احمد ( یعنی حضرت مسیح موعود ) بھی ہجرت کے متعلق خدا کے اس عام قانون سے مستقنے نہیں تھے جو نبیوں کی زندگی میں پایا جاتا ہے.چنانچہ ایک الہام جو آپ کو ۱۸ ستمبر ۱۸۹۴ء کو ہوا تھا.اس میں آپ پر داغ ہجرت کے الفاظ القاء ہوئے تھے.جس سے پتہ لگتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی کسی دن ہجرت کرنی پڑے گی لیکن یہ بات ہم میں سے کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ ہجرت کس 166 رنگ میں مقدر ہے.اس حوالہ میں اس الہام کی جو معین تاریخ درج ہے وہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ بہر حال وہ کسی اشتہار یا مطبوعہ ڈائری یا غیر مطبوعہ ڈائری سے لیا گیا ہے اور یہ حوالہ ہے بھی ۱۹۱۳ ء کا جب کہ موجودہ حالات کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا.

Page 874

مضامین بشیر ۸۶۲ اس کے علاوہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر جو رسالہ زیر عنوان ” صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے.۱۹۰۸ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لکھ کر شائع کیا تھا اس میں بھی داغ ہجرت والا الہام درج ہے اور یہ بھی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ الہام اب نہیں بنا لیا گیا بلکہ ۱۹۰۸ء میں بھی یہ الہام جماعت احمدیہ میں اچھی طرح شائع اور متعارف تھا.اسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دوسرے الہام کا بھی ذکر کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ : غُلِبَتِ الرُّومُ فِى أدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ و یعنی رومیوں کو قریب کی زمین میں مغلوب ہونا پڑے گا مگر وہ جلدی ہی پھر غالب 66 ہو جائیں گے.“ اس کے متعلق یہ دوست لکھتے ہیں کہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی شائع شدہ دسمبر ۱۹۲۱ء کے صفحہ ۴۴ صفحہ ۴۵ پر اس الہام کے متعلق لکھا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا تو اس کے ساتھ ہی حضور کو یہ مکاشفہ بھی ہوا تھا کہ کوئی شخص قرآن شریف میں ادنی الارض ( قریب کی زمین) کے الفاظ پر انگلی رکھ کر کہتا ہے کہ اس سے مراد قادیان ہے.( تذکرہ المہدی حصہ دوم شائع محمد ہ ۱۹۲۱ء ) اس تعلق میں خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس حوالہ سے واضح طور پر پتہ لگتا ہے غلبت الروم والا الہام بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو۱۹۰۴ میں ہوا تھا.( تذکره ص ۴۶۹ ) در اصل قادیان سے ہجرت کرنے کے متعلق ہی تھا اور جب ادنی الارض ( یعنی قریب کی زمین ) کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا کی طرف سے بتایا گیا کہ اس سے مراد قادیان ہے تو پھر لا محالہ استعارہ کی زبان میں روم سے مراد مسلمان لئے جائیں گے اور اشارہ یہ سمجھا جائے گا کہ آئندہ آنے والی کش مکش میں اولاً مسلمانوں کو قادیان اور اس کے اردگرد کے علاقہ (ضلع گورداسپور ) کے متعلق مغلوب ہونا پڑے گا جیسا کہ ملکی تقسیم کے وقت فیصلہ ثالثی میں ہوا لیکن اس کے بعد زیادہ دیر نہیں ہوگی کہ خدا تعالی حالات کو بدل کر پھر غلبہ کی صورت پیدا کر دے گا اور لطف یہ ہے کہ ادنیٰ الارض کے الفاظ ویسے بھی گو یا الفاظ (Contiguous Area) کا لفظی ترجمہ ہیں جو فیصلہ ثالثی کی شرائط میں داخل تھے.فا فهم تدبر و انتظر.( مطبوعه الفضل ۶ رمئی ۱۹۵۰ء)

Page 875

۸۶۳ مضامین بشیر ایک دوست کے سوال کا جواب نبی.رسول اور مُحدّث میں کیا فرق ہے ایک دوست جو غالباً جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہیں، خط کے ذریعہ دریافت کرتے ہیں کہ نبی اور رسول اور محدث میں کیا فرق ہے.اور ان میں سے کس کو شریعت دی جاتی ہے.اور کس کو نہیں دی جاتی ؟ اس سوال کے جواب میں مختصر طور پر یا درکھنا چاہئیے کہ نبی کا لفظ نباء سے نکلا ہے جس کے معنی خبر کے ہیں اور چونکہ عربی قاعدہ کے مطابق فعل کے مقابل پر اسم میں زیادہ شدت کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے نبی کے معنے ایسے شخص کے ہوں گے جو کسی کی طرف سے کوئی بڑی خبر پاتا ہے یا زیادہ کثرت سے پاتا ہے لیکن اصطلاحی طور پر نبی کے مفہوم میں ذیل کی تین باتوں کا پایا جانا ضروری ہے.(۱) اوّل یہ کہ اس کے ساتھ خدا کثرت سے کلام کرے.(۲) دوسرے یہ کہ یہ خدائی کلام اہم امور غیبیہ پر مشتمل ہو.(۳) تیسرے یہ کہ خدا اسے خود نبی کا نام دے.تیسری شرط اس لئے ضروری ہے کہ اس بات کو صرف خدا ہی جان سکتا ہے کہ کسی شخص کے ساتھ اس کا مکالمہ و مخاطبہ اس حد کو پہنچ گیا ہے یا نہیں کہ اس کی وجہ سے وہ نبی کا نام پانے کا مستحق ہو جائے.دوسری اصطلاح رسول کی ہے.سو یہ لفظ چونکہ رسالت سے نکلا ہے جس کے معنی پیغام کے ہیں.اس لئے رسول اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آئے اور اصطلاحی طور پر رسول اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا کی طرف سے دنیا کے نام ( یا دنیا کے کسی حصہ کے نام ) کوئی خاص پیغام لے کر آئے اور اس کے لئے دو شرطیں ضروری ہیں :- (۱) اول یہ کہ وہ خدا کی طرف سے کوئی خاص پیغام لانے کا مدعی ہو.(۲) دوسرے یہ کہ اسے خدا کی طرف سے رسول کا نام دیا جائے.کیونکہ اس بات کو صرف خدا ہی جانتا ہے کہ آیا کسی کا لایا ہوا پیغام اس نوعیت کا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے رسول کہلانے کا حقدار سمجھا جائے.ورنہ بعض اوقات عام مومنوں کی خوابوں یا الہاموں میں بھی خدائی اشارے یا خدائی پیغام شامل ہوتے ہیں مگر اس کی وجہ سے وہ رسول نہیں کہلا سکتے.

Page 876

مضامین بشیر ۸۶۴ یہ بات بھی یا درکھنی ضروری ہے کہ رسول کا لفظ انسان رسولوں کے علاوہ ان فرشتوں پر بھی بولا جاتا ہے جو کسی بندے کے نام خدا کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آتے ہیں اور قرآن شریف میں بھی رسول کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ : مَا أَرْ سَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَلَا نَبِيِّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَنُ في أمنيته ۳۲ یعنی ”ہم نے تجھ سے پہلے کبھی کوئی رسول نہیں بھیجا اور نہ ہی کبھی کوئی نبی بھیجا ہے کہ اس نے جب بھی اپنے مشن کی کامیابی کے لئے کوئی ( سکیم بنا کر ) آرزوئیں قائم کیں تو شیطان نے لازماً اس کی ان آرزوؤں میں رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کر دی.“ اس جگہ رسول کے لفظ میں انسان رسول اور ملائکہ رسول دونوں شامل ہیں.اسی لئے رسول اور نبی کے درمیان و لا ( اور نہ ہی ) کے الفاظ رکھ کر تفریق کی گئی ہے.ورنہ عام حالات میں اس کی ضرورت نہیں تھی.تیسری اصطلاح محدث کی ہے.یہ لفظ حدیث سے نکلا ہے جس کے معنی بات یا کلام کے ہیں.اور اصطلاحی طور پر محدث اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا کے کلام سے مشرف ہولیکن یہ کلام اپنی کیفیت اور کمیت میں اس درجہ کا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے اس الہام کا پانے والا نبی کہلا سکے مگر دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ یہ کلام کبھی کبھا ر الہام پانے والوں کی نسبت زیادہ کثرت کا رنگ رکھتا ہو.اوپر کی مختصر تعریفوں سے ظاہر ہے کہ نبی اور رسول میں تو درجہ کا فرق نہیں ہوتا بلکہ صرف جہت کا فرق ہوتا ہے لیکن نبی اور محدث میں جہت کا فرق نہیں ہوتا بلکہ صرف درجہ کا فرق ہوتا ہے.ایک شخص نبی تو اس لحاظ سے کہلا تا ہے کہ وہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوتا ہے اور رسول اس لحاظ سے کہلا تا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بندوں کے نام کوئی خاص پیغام لے کر آتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ فرق جہت کا فرق ہے درجہ کا فرق نہیں لیکن دوسری طرف نبی اور محدث گو ایک ہی لائن اور ایک ہی جہت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں درجہ کا فرق ہوتا ہے یعنی جہاں ایک نبی کثرت کے ساتھ الہام پاتا اور کثرت کے ساتھ امور غیبیہ سے مشرف ہوتا ہے.وہاں ایک محدث کو اس درجہ کی کثرت حاصل نہیں ہوتی.گو وہ عام مومنوں کی نسبت جو کبھی کبھی کلام الہی سے مشرف ہو جاتے ہیں ضرور بڑا درجہ رکھتا ہے.اوپر کی تشریح سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر نبی رسول ہوتا ہے اور ہر رسول نبی ہوتا ہے.( اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک غلطی کے ازالہ میں فرمایا ہے ) کیونکہ کسی شخص کا نبی ہونا یعنی

Page 877

مضامین بشیر کثرت مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہونا اور مکالمہ بھی ایسا جس میں دنیا کے لئے اہم خبریں ہوں بے معنی ہو گا جب تک کہ وہ ساتھ ہی رسول نہ ہو اور کسی شخص کا رسول ہونا یعنی خدا کی طرف سے خاص پیغام لے کر آنا بے معنی ہوگا جب تک کہ وہ ساتھ ہی نبی ( یعنی کثرت مکالمہ سے مشرف ) نہ ہولیکن دوسری طرف محدث کے لئے مبعوث ہونا ضروری نہیں بلکہ صرف عام مومنوں کی نسبت کلام الہی سے زیادہ مشرف ہونا ضروری ہے.گو یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر محدث لازماً غیر مبعوث ہو.مثلاً قرآن شریف کی سورۃ حج والی آیت کی ایک قرآت یہ بھی آئی ہے کہ : ما ارسلنا من قبلك من رسول ولا نبى ولا محدث.الخ یعنی ”ہم نے کبھی کوئی رسول نہیں بھیجا اور نہ ہی کبھی کوئی نبی اور محدث بھیجا ہے کہ شیطان نے اس کے رستہ میں رخنہ پیدا کرنے کی کوشش نہ کی ہو.“ اس سے ظاہر ہے کہ بعض محدث مبعوث بھی ہوتے ہیں اور اسلام کے اکثر مجدد محدث تھے.واللہ اعلم.اب رہا یہ سوال کہ ان میں سے کون شریعت لاتا ہے اور کون شریعت نہیں لاتا.سو محدث کے متعلق تو شریعت کے لانے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا بلکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ مبعوث ہو.البتہ نبیوں اور رسولوں میں سے بعض شریعت لائے ہیں اور بعض صرف سابقہ شریعت کی خدمت اور تجدید کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں بہت سے ایسے نبی آئے جنہیں کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ صرف موسوی شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث کئے گئے.( سورۃ مائدہ رکوع ۷ ) حتی کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی کوئی نئی شریعت نہیں لائے.چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں کہ :- یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.66 ایک حدیث میں بھی اس مضمون کی طرف اشارہ ملتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کل نبی ایک لاکھ بیس ہزار گزرے ہیں جن میں سے ۳۱۵ رسول تھے.اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ : عن ابی ذر قلت یا رسول الله کم وفى عدة الانبياء قال مائة الف و عشرون الـفـا الــرسـل مـن ذالك ثلاث مائة و خمسة عشرة جماً غفيرًا ۳۴

Page 878

مضامین بشیر ۸۶۶ یعنی ” ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ نبیوں کی تعداد کتنی گزری ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ایک لاکھ اور میں ہزار نبی گزرے ہیں جن میں سے تین سو پندرہ رسول تھے اور یہ تین سو پندرہ کی تعداد بہت بڑی تعداد ہے.“ اس جگہ یہ تو بہر حال مراد ہو نہیں سکتا کہ بہت سے نبی ایسے تھے جو رسول نہیں تھے یعنی انہوں نے خدا کی طرف سے کثرت کے ساتھ کلام پایا اور اہم امور غیبیہ سے مشرف بھی ہوئے اور خدا نے ان کا نام نبی بھی رکھا مگر پھر بھی وہ لوگوں کی طرف کوئی خدائی پیغام لے کر نہیں آئے.ظاہر ہے کہ یہ نظریہ بالبداہت غلط اور نا درست ہے.پس لا محالہ اس جگہ رسول سے مراد صاحب شریعت رسول لینے ہوں گے اور حدیث کا منشاء یہ سمجھا جائے گا کہ ایک لاکھ بیس ہزار نبیوں میں سے شریعت لانے والے رسول صرف تین سو پندرہ تھے.گویا اس جگہ رسول کا لفظ مخصوص معنوں میں لیا جائے گا اور یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین سو پندرہ کی تعداد کے ساتھ جماً غفيرا ( بہت بڑی تعداد ) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور ایک لاکھ بیس ہزار کی تعداد کے ساتھ یہ الفاظ استعمال نہیں کئے.حالانکہ تعداد یہ زیادہ ہے نہ کہ وہ.اس میں بھی یہی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ تین سو پندرہ کی تعدا د شریعت لانے والے رسولوں کی ہے اور اس لحاظ سے یہ تعداد واقعی زیادہ ہے کیونکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا کی طرف سے دنیا میں وقتا فوقتا ۳۱۵ نئی شریعتیں پہنچی ہیں اور شریعتوں کے شمار کے لحاظ سے یہ ایک حقیقہ بہت بڑی تعداد ہے.فھو المراد.خلاصہ یہ کہ ہر نبی رسول ہوتا ہے اور ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ان میں منصب اور درجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں.صرف جہت کے لحاظ سے فرق ہے.یعنی اس لحاظ سے کہ وہ خدا سے خبریں پاتا ہے وہ نبی ہوتا ہے اور اس لحاظ سے کہ وہ لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچاتا ہے وہ رسول ہوتا ہے.پھر بعض نبی اور رسول تو خدا کی طرف سے نئی شریعت لاتے ہیں اور بعض کوئی شریعت نہیں لاتے.بلکہ صرف سابقہ شریعت کی خدمت کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں.اس کے مقابل پر محدث نہ تو رسول ہوتا ہے اور نہ نبی بلکہ صرف خدا کے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہوتا ہے لیکن نبی کی نسبت درجہ اور کلام کی وسعت میں کمتر.میں امید کرتا ہوں کہ میرا یہ مختصر نوٹ ہمارے اس دوست کی تسلی کے لئے کافی ہوگا.و اخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.مطبوع الفضل ورجون ۱۹۵۰ء)

Page 879

۸۶۷ مضامین بشیر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی شادیاں اور طلاقیں ย کراچی کے ایک احمدی دوست خط کے ذریعہ دریافت کرتے ہیں کہ یہ جو بعض روایتوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت امام حسن " یا حضرت امام حسین نے اسی یا نوے شادیاں کی تھیں.اس سے کیا مراد ہے؟ آیا ان کے لئے چار بیویوں کی حد بندی نہیں تھی اور اگر وہ ایک بیوی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری شادی کر لیتے تھے تو پھر اس کثرت کے ساتھ طلاق دینے میں کیا حکمت تھی ؟ خصوصاً جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دینے کو نا پسند فرمایا ہے.رض رض اس سوال کے جواب میں یا د رکھنا چاہئے کہ یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے نواسے حضرت امام حسن سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ چھوٹے نوا سے امام حسین سے.اور یہ درست ہے کہ بعض روایتوں میں حضرت امام حسن کی شادیوں کی تعداد نوے تک بیان ہوئی ہے اور اگر یہ مبالغہ بھی سمجھا جائے تو تب بھی اس میں شبہ نہیں کہ حضرت امام حسن نے کثرت کے ساتھ شادیاں کی تھیں اور اسی کثرت کے ساتھ طلاقیں بھی دیں لیکن یہ بات بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے کہ انہوں نے یہ ساری شادیاں ایک ہی وقت میں کی تھیں کیونکہ ایک ہی وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کی اسلام اجازت نہیں دیتا یہ استثناء صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی جو وہ بھی آخر میں آکر محدود ہوگئی.باقی رہا طلاق دینے کا سوال ، سو گو یہ درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حالات میں طلاق دینے کو پسند نہیں فرمایا لیکن یہ ہرگز درست نہیں کہ آپ نے ہر حال میں طلاق کو پسند نہیں فرمایا ہے بلکہ آپ نے صرف ایسی طلاق کو نا پسند کیا ہے جو نا واجب جوش میں آکر یا نفسانی جذبات کے ماتحت دی جائے.ورنہ تقویٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقی ضرورت کے وقت جائز غرض سے طلاق دینا ہرگز نا پسندیدہ نہیں بلکہ یہ تو اسلامی شریعت کے حکیمانہ علاجوں میں سے ایک علاج ہے جو خدا تعالیٰ نے خاص حالات کے لئے مقرر کر رکھا ہے اور صحیح احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ ایک دفعہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ایک بیوی کو طلاق دی تھی جس کا نام امیمہ بنتہ الجون تھا ( بخاری کتاب الطلاق ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کسی صورت میں بھی نعوذ باللہ ایک نا پسندیدہ فعل کے مرتکب نہیں ہو سکتے تھے.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ شریعت اسلامی نے طلاق کی اجازت دی ہے اور یہ بھی ایک

Page 880

مضامین بشیر ۸۶۸ حقیقت ہے کہ شریعت نے اس فیصلہ کو خاوند کی رائے پر چھوڑا ہے نہ کہ امام یا قاضی کی رائے پر.تو جب ایک معاملہ جائز بھی ہے اور وہ چھوڑا بھی خاوند کی رائے پر گیا ہے تو زید یا بکر یا عمر کو اعتراض کا کیا حق ہو سکتا ہے.اگر حضرت امام حسن نے کسی وجہ سے (جس کا ہمیں معلوم ہونا ضروری نہیں اور نہ ہمیں اس کی ٹوہ لگانے کی ضرورت ہے ) اپنی بعض بیویوں کو طلاق دی تو یہ معاملہ ان کی ذات سے تعلق رکھتا تھا اور ہمیں اس بحث میں جانے کا کوئی حق نہیں کہ ان طلاقوں میں غرض کیا تھی اور پھر اس بات کا بھی ہرگز کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے یہ طلاقیں نعوذ باللہ تقویٰ کے ماتحت نہیں دی تھیں بلکہ بعض روایتوں میں تو اس بات کا صریح اشارہ ملتا ہے کہ حضرت امام حسن کی غرض دینی تھی نہ کہ دنیوی.چنا نچہ ابن سعد کی ایک روایت ہے کہ :- رض كان الحسن مطلاقا للنساء و كان لا يفارق امراة الا و هى تحبه ۱۳۵ رض د یعنی امام حسن نے بے شک بہت سی بیویوں کو طلاق دی مگر انہوں نے کبھی کسی بیوی کو ایسی حالت میں طلاق نہیں دی کہ وہ انہیں محبت کی نظر سے نہ دیکھتی ہو.“ اس روایت میں یہ صاف اشارہ پایا جاتا ہے کہ حضرت امام حسن“ کا سلوک اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا مومنانہ اور مشفقانہ تھا کہ وہ انہیں بہر حال محبت کی نظر سے دیکھتی تھیں اور جب صورت حال یہ ہے تو لازماً ان کی طلاقوں میں نفسانی جوش یا نفرت کا جذبہ کارفرما ہیں سمجھا جا سکتا اور جب یہ نہیں تو ہمیں امام حسن کے ایک ذاتی اور نجی فعل میں جستجو کرنے اور ٹوہ لگانے کا کوئی حق نہیں.دراصل دنیا میں اکثر فتنے اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ انسان دوسروں کے ذاتی اور جائز اعمال میں ناواجب دخل دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس نے یہ کام کیوں کیا اور وہ کام کیوں نہیں کیا ؟ ہمارے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ شریعتِ اسلامی طلاق کی اجازت دیتی ہے اور نہ صرف اجازت دیتی ہے بلکہ اس کا فیصلہ خاوند کی ذاتی رائے پر چھوڑتی ہے جس میں کسی دوسرے کا دخل نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک بزرگ کا ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ جس میں وہ شریعت کی رو سے بالکل صاحب اختیار ہے زیر بحث لایا جائے ؟ بے شک اگر شریعت خاوند کو طلاق کی اجازت نہ دیتی یا اس اجازت کو امام یا قاضی اور حج کی منظوری کے ساتھ وابستہ کرتی (جیسا کہ ضلع میں ہے ) تو سوال کرنے والے کو سوال کرنے کا حق ہو سکتا تھا کہ ایسا کیوں کیا گیا لیکن موجودہ صورت میں اعتراض تو در کنار حقیقتا محض سوال کا بھی حق پیدا نہیں ہوتا.مجھے اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک واقعہ یاد آ گیا.ایک دفعہ حضور نے

Page 881

۸۶۹ مضامین بشیر ایک مجلس میں بیان فرمایا کہ اگر انسان تقوی اللہ کو مدنظر رکھے تو خواہ سوشادیاں کر لے.اس میں کوئی حرج نہیں.اس پر بعض جلد باز لوگوں نے مشہور کر دیا کہ حضرت صاحب نے سو بیویوں کی اجازت دے دی ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک یہ بات پہنچی تو حضور نے فرمایا کہ ہم نے تو ہر گز سو بیویوں کی اجازت نہیں دی اور نہ ہم ایسی اجازت دے سکتے ہیں.ہمارا مطلب صرف یہ تھا کہ اگر تقوی مد نظر ہو تو بے شک اگر کسی کی ایک بیوی مر جائے یا اسے طلاق ہو جائے تو وہ چوتھی بیوی کے بعد پانچویں بیوی کرلے اور پانچویں کے بعد چھٹی کر لے اور چھٹی کے بعد ساتویں وعلی ھذ القیاس اور اس طرح خواہ سو تک نوبت پہنچ جائے کوئی حرج نہیں.بشر طیکہ تقویٰ مدنظر ہوا اور حق بھی یہی ہے کہ ایک جائز بات میں جس میں شریعت نے کوئی حد بندی نہیں لگائی خواہ مخواہ روک پیدا کرنا دانشمندی کا طریق نہیں اور بزرگوں کے متعلق تو بہر حال حسن ظن کے مقام پر قائم رہنا چاہئے.اس تعلق میں یہ بات بھی یادرکھنی ضروری ہے کہ جیسا کہ میں نے اپنی کتاب سیرۃ خاتم النبین صلحم میں تفصیلاً لکھا ہے.اسلام نے نکاح اور تعدد ازدواج کی سات غرضیں بیان فرمائی ہیں یعنی (۱) احصان یعنی جسمانی اور روحانی بیماریوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرنا.(۲) بقاء نسل (۳) رفاقتِ حیات اور تسکین قلب (۴) محبت و رحمت کے تعلقات کی توسیع (۵) انتظام یتامی (۶) انتظام بیوگان اور ( ۷ ) نسل کی ترقی جو بقاء نسل سے ایک جدا گانہ چیز ہے.تو جب نکاح میں بہت سی غرضیں مدنظر رکھی گئی ہیں تو لازماً اسی نسبت سے طلاق میں بھی بہت سی جائز غرضیں سمجھی جاسکتی ہیں لیکن چونکہ یہ ایک ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ ہے اس لئے ہمیں کسی فرد کے متعلق ان غرضوں کی تفصیلی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں.بالآخر اس بات کو بھی ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خواہ حضرت امام حسن کا ذاتی اور خاندانی مقام کتنا ہی بلند ہو.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ نبی یا مامور نہیں تھے.اس لئے ان کے اعمال اسوہ حسنہ کے معیار کے مطابق پر کھے جانے ضروری نہیں.یہ صرف انبیاء کا مقام ہے کہ ان کا ہر فعل اور ہر عمل اسوہ حسنہ کے رنگ میں قبول کیا جائے.فا فهم و تدبر ( مطبوعه الفضل۱۰رجون ۱۹۵۰ء)

Page 882

مضامین بشیر ۸۷۰ ایک دوست کے دوسوالوں کا جواب (۱) جنات کا وجود ایک صاحب جو جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے.اپنا نام ظاہر کرنے کے بغیر خط کے ذریعہ دریافت کرتے ہیں کہ جنات کے وجود کے متعلق اسلام کی کیا تعلیم ہے؟ یعنی جن کس مخلوق کا نام ہے؟ اور کیا جیسا کہ عام لوگوں کا خیال ہے وہ انسانوں پر اثر ڈال کر انہیں اپنا گرویدہ یا دیوانہ بنا سکتے ہیں یا انسانوں کے ساتھ چمٹ کر انہیں اپنے قابو میں لانے کا اختیار رکھتے ہیں یا خود ان کے قابو میں آکران کی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ اس سوال کے جواب میں مختصر طور پر یاد رکھنا چاہئے کہ بے شک قرآن شریف اور حدیث میں جن کا لفظ آتا ہے اور قرآن شریف میں ۲۶ جگہ اور حدیث میں اس سے بھی زیادہ کثرت کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہے لیکن جن سے مراد ہرگز وہ چیز نہیں جو آج کل عام لوگوں کے تخیل میں پائی جاتی ہے.دراصل عربی زبان میں جن کے معنے مخفی رہنے والی چیز کے ہیں.خواہ وہ اپنی تقویم یعنی بناوٹ کی وجہ سے مخفی ہو یا کہ صرف عادات کے طور پر مخفی ہو اور یہ لفظ عربی کے مختلف صیغوں اور مشتقات میں منتقل ہو کر بہت سے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے مگر بہر حال ان سب معنوں میں مخفی ہونے یا پس پردہ رہنے کا مفہوم مشترک طور پر پایا جاتا ہے.چنانچہ عربی میں فعل کی صورت میں جن کے معنے سایہ کرنے اور اندھیرے کا پردہ ڈالنے کے ہیں.مثلاً قرآن شریف فرماتا ہے کہ: فَلَمَّا جَنَ عَلَيْهِ الَّيْلُ د یعنی جب رات نے ابراہیم پر اندھیرے کا پردہ ڈالا.اس طرح جنین اس بچے کو کہتے ہیں جو ابھی ماں کے پیٹ میں مخفی ہوتا ہے اور جنون اس مرض کو کہتے ہیں جو دماغ کو ڈھانک کر مختل کر دیتا ہے اور جنان دل کو کہتے ہیں جو سینے کے اندر مستور رہتا ہے اور جنة اس گھنے باغ کو کہتے ہیں جس کے درخت زمین کو اپنے سایہ میں ڈھانکے رکھتے ہیں اور مجنۃ اس ڈھال کو کہتے ہیں جس کے پیچھے لڑنے والا سپاہی اوٹ لے کر اپنا بچاؤ کرتا ہے اور جان اس چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں جو زمین کے سوراخوں میں چھپ کر رہتا ہے اور جنسن اس قبر کو کہتے ہیں جو

Page 883

۸۷۱ مضامین بشیر مردے کو اپنے اندر چھپا لیتی ہے اور جنة اس اوڑھنی کو کہتے ہیں جو سر اور بدن کو ڈھانپتی ہے.وغیرہ وغیرہ.پس نہ صرف اس لفظ کی رُوٹ کے لحاظ سے بلکہ عربی محاورہ اور استعمال کے مطابق بھی جن کا لفظ تمام ان چیزوں پر بولا جا سکتا ہے جو یا تو اپنی بناوٹ کے لحاظ سے مخفی ہیں اور یا پھر وہ ایسے انسانوں پر بولا جا سکتا ہے جو بناوٹ کے لحاظ سے تو مخفی نہیں مگر اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر عوام الناس سے الگ تھلگ رہتے ہیں.لہذا جن کے لفظ کے اس وسیع مفہوم کے ماتحت ہر جگہ کے مناسب حال جن کی تشریح کرنی پڑے گی یعنی :- (۱) بعض جگہ جن کے لفظ سے ایسے روساء اور اکابر اور جبار لوگ مراد ہوں گے جو عوام الناس سے اختلاط نہیں رکھتے اور لوگوں سے جدا جدا رہتے ہیں.جیسا کہ مثلاً قرآن شریف فرماتا ہے کہ :- يُمَعْشَرَ الْجِنِ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ دد یعنی اے بڑے لوگو ( جو اپنے آپ کو گویا انسانوں سے کوئی جدا گانہ جنس خیال کرتے ہو ) تم نے عام لوگوں کی کمزوری اور بے بسی سے بہت فائدہ اٹھایا ہے“.ظاہر ہے کہ اس جگہ جن سے مراد بڑے لوگ یعنی رئیس اور اکابر اور جبار اور سرمایہ دار وغیرہ ہیں.(۲) بعض جگہ جن سے ایسی قو میں مراد لینی ہوں گی جو جغرافیائی لحاظ سے ایسے علاقوں میں رہتی ہیں جو دنیا کے دوسرے حصوں سے کٹے ہوئے ہیں.مثلاً قرآن شریف فرما تا ہے کہ: قُلْ أُوحِيَ إِلَى أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ ۱۳۸ یعنی اے رسول تو لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے وحی الہی نے بتایا ہے کہ قرآنی تلاوت کو بعض ایسے قبیلوں کے لوگوں نے بھی سنا ہے جو دنیا سے کٹے ہوئے رہتے تھے اور انہوں نے قرآن کی تعریف کی ہے.“ اس جگہ جن سے علیحدہ رہنے والی غیر معروف اور دور افتادہ تو میں مراد ہیں اور (۳) بعض جگہ جن سے مخفی ارواح مراد ہوں گی جیسا کہ دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ: كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَيْهِ د یعنی ابلیس مخفی روحوں میں سے ایک تھا جس نے آدم کے بارہ میں خدا کی نافرمانی کر کے فسق کا طریق اختیار کیا.“

Page 884

مضامین بشیر ۸۷۲ (۴) پھر بعض جگہ جن کے لفظ سے تاریکی میں رہنے والے جانور مراد ہوں گے جیسا کہ مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو شام کے وقت خصوصیت سے ڈھانک کر رکھا کرو تا کہ ان کے اندر جن رستہ نہ پاسکیں ( مشکوۃ ) اس جگہ جن سے پتنگے اور بیماریوں کے جراثیم وغیرہ مراد ہیں اور ہے (۵) پھر بعض جگہ جن سے مراد کیڑے مکوڑے بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ہڈی سے استنجا نہ کرو کیونکہ اس میں جنوں کی خوراک ( مشکوۃ ) اور ظاہر ہے کہ اس سے چیونٹیاں اور دیمک وغیرہ کی قسم کے کیڑے مراد ہیں جو ہڈیوں کے ساتھ لگے ہوئے گوشت اور ان کے اندر کے گودے کو خوراک بناتے ہیں.الغرض جن کے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن بہر حال یہ بالکل درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جن بھی پائے جاتے ہیں جو یا تو لوگوں کے لئے خود کھلونا بنتے ہیں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہیں یا بعض انسانوں کے دوست بن کر انہیں اچھی اچھی چیز میں لا کر دیتے ہیں اور بعض کے دشمن بن کر تنگ کرتے ہیں یا بعض لوگوں کے سر پر سوار ہو کر جنون اور بیماری میں مبتلا کر دیتے ہیں اور بعض کے لئے صحت اور خوشحالی کا رستہ کھول دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ سب کمزور دماغ لوگوں کے تو ہمات ہیں جن کی اسلام میں کوئی سند نہیں ملتی اور سچے مسلمانوں کو اس قسم کے تو ہمات سے پر ہیز کرنا چاہئیے.ہاں لغوی معنے کے لحاظ سے (نہ کہ اصطلاحی طور پر ) فرشتے بھی مخفی مخلوق ہونے کی وجہ سے جن کہلا سکتے ہیں اور یہ بات اسلامی تعلیم سے ثابت ہے کہ فرشتے مومنوں کے علم میں اضافہ کرنے اور ان کی قوت عملیہ کو ترقی دینے اور انہیں کافروں کے مقابلہ پر غالب کرنے میں بڑا ہاتھ رکھتے ہیں جیسا کہ بدر کے میدان میں ہوا.جب کہ تین سو تیرہ بے سرو سامان مسلمانوں نے ایک ہزار ساز و سامان سے آراستہ جنگجو کفار کو خدائی حکم کے ماتحت دیکھتے دیکھتے خاک میں ملا دیا تھا.( صحیح بخاری ) پس اگر سوال کرنے والے دوست کو مخفی روحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا شوق ہے تو وہ کھلونا بننے والے یا کھلونا بنانے والے جنوں کا خیال چھوڑ دیں اور فرشتوں کی دوستی کی طرف توجہ دیں جن کا تعلق خدا کے فضل سے انسان کی کا یا پلٹ کر رکھ دیتا ہے.

Page 885

۸۷۳ مضامین بشیر (۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا احیاء موتی انہی دوست کا دوسرا سوال یہ ہے کہ جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق ذکر آتا ہے کہ انہوں نے بہت سے مردے زندہ کئے.کیا اس طرح حضرت مرزا صاحب نے بھی کبھی اس قسم کا کوئی معجزہ دکھایا ؟ اس سوال کے جواب میں یا درکھنا چاہئیے کہ یہ تو بالکل درست ہے کہ ہر سچے نبی اور رسول کو جو خدا کی طرف سے آتا ہے.ایسی آیات اور ایسی نشانیاں دی جاتی ہیں جن سے اس کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو بچے اور جھوٹے میں کوئی فرق نہ رہے اور ا نکار کرنے والوں کو یہ جائز عذر ہاتھ میں آ جائے کہ ہمیں کوئی نشان نہیں دکھایا گیا.اس قسم کے معجزات کو خواہ وہ علمی ہوں یا اقتصادی قرآن شریف نے آیات کے لفظ سے تعبیر کیا ہے جس سے مراد ایسی نشانیاں ہیں جن سے ایک پہچانا جائے اور یقیناً مرزا صاحب نے بھی بے شمار معجزات دکھائے جن کا کسی قدرنمونہ حضور کی تصنیف حقیقۃ الوحی میں درج ہے لیکن یہ بات کبھی بھولنی نہیں چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی حکیمانہ تقدیر نے آیات اور معجزات کے متعلق بعض خاص شرطیں اور خاص حد بندیاں بھی لگا رکھی ہیں اور کسی نبی اور رسول کا معجزہ ان شرائط اور حد بندیوں کو تو ڑ نہیں سکتا جیسا کہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ : لَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا د یعنی تم خدا کی سنت میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے : " ان سنتوں اور شرطوں میں سے ایک ضروری شرط اور ضروری سنت یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں جسمانی مردے کبھی زندہ نہیں کئے جاتے بلکہ جسمانی مردوں کے زندہ کئے جانے کے لئے اگلا جہان مقرر ہے.چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : وَمِنْ وَرَابِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ۴۱ یعنی مرنے والے لوگوں اور اس دنیا کے درمیان ایک ایسی روک کھڑی کر دی جاتی ہے کہ کوئی مرنے والا شخص دوبارہ زندہ ہو کر اس دنیا میں واپس نہیں آسکتا...ہاں قیامت کے دن ضرور سب مردے زندہ کئے جائیں گے.“ اس قرآنی آیت سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جسمانی مردوں کا زندہ ہونا ایک خیال باطل اور خلاف تعلیم اسلام ہے.پس اس تعلق میں جو معجزات حضرت عیسی علیہ السلام یا کسی اور رسول یا بزرگ کے بیان کئے جاتے ہیں وہ یا تو محض خوش عقیدگی کے قصے ہیں جس کی کوئی سند نہیں اور

Page 886

مضامین بشیر ۸۷۴ یا ان سے استعارہ کے طور پر روحانی مُردوں کا زندہ ہونا اور بے دین لوگوں کا دیندار ہو جانا مراد ہے جو کم و بیش ہر نبی کے زمانہ میں ہوتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ : اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ یعنی اے لوگو تم خدا کی آواز پر ضروری کان دھرا کرو اور اسی طرح رسول کی آواز پر بھی کان دھر و جبکہ وہ تمہیں اس صداقت کی طرف بلائے جو تمہاری مردہ روحوں کو 66 زندہ کرنے والی ہے.“ اس آیت میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ جب کبھی خدا کے رسول کے متعلق زندہ کرنے کا لفظ آتا ہے تو اس سے لامحالہ روحانی طور پر زندہ کرنا مراد ہوتا ہے نہ کہ جسمانی طور پر زندہ کرنا اور تاریخ و حدیث میں بھی قطعاً کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے کسی جسمانی مُردے کا زندہ ہونا ثابت ہوتا ہو.کون نہیں جانتا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے قریباً گیارہ لخت جگر آپ کی زندگی میں فوت ہوئے اور آپ کی دو بیویاں بھی آپ کی زندگی میں رخصت ہوئیں اور آپ کے سینکڑوں جانثار صحابی بھی آپ کی زندگی میں شہید ہو کر یا دوسری طرح فوت ہو کر خدا کے حضور پہنچے لیکن کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ آپ نے کبھی ان میں سے کسی ایک فرد واحد کو بھی جسمانی لحاظ سے زندہ کیا ہو؟ تو کیا یہ ہم مسلمانوں کے لئے غیرت کا مقام نہیں کہ جو اقتداری معجزہ ہمارا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خاتم النبیین اور سید ولد آدم فداہ نفسی نہیں دکھا سکا ( کیونکہ ایسا معجزہ خدا کی سنت کے خلاف ہے ) اس کے متعلق نعوذ باللہ یہ خیال کیا جائے کہ یہ معجزہ حضرت عیسی یا کسی اور نبی یا بزرگ نے سینکڑوں کی تعداد میں دکھایا اور محض ہاتھ کے اشارہ سے قبر میں سوئے ہوئے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر زندہ کرتے چلے گئے.یقیناً یہ سب یا تو محض خوش عقیدگی کے قصے ہیں اور یا ان سے استعارے کے رنگ میں صرف روحانی مردوں کا زندہ ہونا مراد ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں اور پھر کیا اس قسم کا اعتراض کرنے والے صاحبان اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اگر حضرت عیسی نے واقعی اس طرح جسمانی مردے زندہ کئے ہوتے جس طرح کہ بظاہر انجیل میں مذکور ہے کہ ادھر حضرت عیسی نے اشارہ کیا اور ادھر قبرستانوں کے سینکڑوں مردے اٹھ کر ساتھ ہو لئے تو پھر ایسا صریح معجزہ دیکھ کر انہیں سارے یہودیوں نے کیوں نہ مان لیا اور کیوں ان کے ماننے والوں کی تعدا د صرف بارہ حواریوں تک محد و در ہی؟ حق یہ ہے کہ جوشان ایک روحانی مردہ کے زندہ ہونے میں ہے وہ بھلا ایک جسمانی مردہ کے

Page 887

۸۷۵ مضامین بشیر زندہ ہونے میں کب پائی جاسکتی ہے؟ ایک دنیا دار جسمانی مردہ کے زندہ ہونے کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ایک قبر میں سوئے ہوئے انسان کو قبر سے اٹھا کر دو چار دن یا دو چار سال کے لئے دوبارہ سانس لینے اور اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے یا تجارت وصنعت وحرفت میں مشغول ہونے کے لئے زندہ کر دیا جائے لیکن اس کے مقابل پر ایک روحانی مردہ کا زندہ ہونا اور ایک خدا کے منکر کا خدا پرست بن جانا اور ایک بے دین انسان کا دیندار ہو جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ گویا ایک مٹی میں لت پت انسان کو اٹھا کر اور ایک زمین کے کیڑے کو ہوا میں بلند کر کے ثریا تک پہنچا دیا جائے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ایک دہریہ اور مشرک اور بے دین اور مادہ پرست اور بداخلاق اور جاہل قوم کو اپنی آواز سے اٹھا کر موحد اور خدا پرست اور دیندار اور علم و عرفان سے آراستہ قوم بنا دیا مگر افسوس کہ مادہ پرست اور شعبدہ پسند لوگوں کی آنکھیں ایک جسمانی مردہ کو دو چار دن یا دو چار سال زندہ ہوتے دیکھنے کے لئے ترستی ہیں مگر اس بے نظیر اور شاندار نظارہ کو دیکھنے اور اس سے متاثر ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتیں جس میں ایک مردہ قوم اور ایک مردہ ملک کو علم و عرفان اور روحانیت کی ابدی زندگی سے مالا مال کر دیا گیا.قتل الانسان ما اكفره.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کے معجزات کا ہے.حضور نے بھی خدائی سنت کے مطابق سینکڑوں معجزات دکھائے جن کے ذکر سے ہماری جماعت کا لٹریچر بھرا پڑا ہے لیکن پھر بھی لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے کون سا مردہ زندہ کیا اور قبر میں سوئے ہوئے کس شخص کو آواز دے کر جگا دیا ؟ میں کہتا ہوں کہ بے شک اپنے آقا اور سردار محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ نے کسی جسمانی مردے کو زندہ نہیں کیا لیکن اپنی روحانی قوت اور خدا دا د طاقت کے ذریعہ آپ نے لاکھوں بے دین انسانوں کو دیندار بنا کر اور بے شمار مردہ روحوں کو زندگی کا پانی پلا کر وہ معجزہ دکھایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا حقیقتا کسی اور نبی نے نہیں دکھایا.آج کل کی مادہ پرستی اور بے دینی کے ماحول میں کسی ایک مردہ روح کو زندہ کرنا بھی آسان کام نہیں لیکن حضرت مرزا صاحب نے خدا کے فضل سے کئی لاکھ بھٹکی ہوئی روحوں کو خدا کے آستانے پر لا ڈالا مگر افسوس کہ مادہ پرست اور تماشہ بین لوگ ان باتوں کو دیکھنے کے لئے تیار نہیں.لیکن کیا یہ بات بھی لوگوں کو نظر نہیں آتی کہ اپنی انتہائی غربت اور بے سروسامانی کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی سی جماعت اپنے تبلیغی کام کی وجہ سے ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے؟ دوسرے مسلمان اس وقت چالیس کروڑ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں لیکن وہ کوئی ایک مشن یا ایک

Page 888

مضامین بشیر دار التبلیغ بھی نہیں دکھا سکتے جو انہوں نے تبلیغ اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے غیر مسلم ملکوں میں قائم کیا ہولیکن اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی سی جماعت نے دنیا کے تقریباً ہر ملک میں تبلیغی مرکز قائم کر رکھے ہیں.جہاں سینکڑوں مبلغ دن رات خدمت دین میں لگے رہتے ہیں.پس اگر یہ بات سچی ہے اور یقینا کچی ہے کہ :- درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے“ ,, تو میں سوال کرنے والے دوست سے کہتا ہوں کہ جسمانی مردوں کے زندہ ہونے کا خیال چھوڑ و کہ یہ خدا کی واضح سنت اور اٹل قانون کے خلاف ہے اور آؤ اور روحانی مردوں کی زندگی کا نظارہ دیکھو کہ خود حضرت مسیح موعود کے زندہ کئے ہوئے مردے تو الگ رہے ان کے سینکڑوں خادم بھی اس وقت دنیا کے ہر گوشے میں اسلام کے آب حیات کی شیشی ہاتھ میں لئے ہوئے مردہ روحوں کو زندہ کرتے پھرتے ہیں.اگر چالیس کروڑ مسلمانوں کی طرف سے دنیا کے کسی ایک ملک میں ایک تبلیغی مشن کا بھی قائم نہ ہونا اور حضرت مسیح موعود کی چند لاکھ کی غریب جماعت کی طرف سے دنیا کے قریباً ہر ملک میں اسلامی تبلیغ کے بیشمار مشن قائم ہو جانا احمدیت کی سچائی اور احمدیت کے درخت کے پھل کی خوبی کی دلیل نہیں تو میں اس کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں کہ یا تو پوچھنے والے کی آنکھ میں صداقت کو دیکھنے کا نور نہیں اور یا شاید بیان کرنے والے کی زبان میں ابھی تک قوت گویائی کا اتنا ز ور نہیں جو سچائی کو منوانے کے لئے ضروری ہے.وما علينا الا البلاغ و لا حول ولا قوة الا بالله العظيم ( مطبوعه الفضل ۱۳ جون ۱۹۵۰ء)

Page 889

ALL مضامین بشیر صابر درویشوں کے بے صبر رشتہ دار اس وقت قادیان میں تین سو سے اوپر درویش رہتے ہیں جنہوں نے مقدس مقامات کی آبادی اور حفاظت کے لئے اپنے آپ کو گویا وقف کر رکھا ہے ان میں سے اکثر ایسے اخلاص اور قربانی کا نمونہ دکھا رہے ہیں جنہیں دیکھ کر ان کے لئے درد دل سے دعا نکلتی ہے.ان میں سے بعض کو اپنے رشتہ داروں کی جدائی کی وجہ سے تکلیف بھی ہے اور بعض کے خانگی معاملات میں بھی ایسی پیچیدگیاں ہیں جو ان کی واپسی کی متقاضی ہیں مگر پھر بھی وہ جماعت کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے نہائت درجہ صبر اور استقلال کے ساتھ قادیان میں بیٹھے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور انہیں دین و دنیا کی بہترین نعمتوں سے نوازے.آمین.لیکن بعض درویشوں کے بعض پاکستانی رشتہ دار بعض اوقات بے صبری کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے رشتہ دار درویش کو قادیان سے واپس بلوا دیا جائے.میں ان کی مجبوریوں کو بھی تسلیم کرتا ہوں لیکن صابر درویشوں کے ان بے صبر رشتہ داروں کو چند باتیں ضرور یاد رکھنی چاہئیں : ( اول ) ابھی تو قادیان کی ہجرت پر صرف اڑھائی سال کا عرصہ گزرا ہے حالانکہ اس کے مقابل پر کئی بیرونی مبلغین دس دس بارہ بارہ سال کی خدمت اور عزیزوں کی جدائی کے بعد پاکستان واپس آئے.پس جب دین کی خدمت کرنے والے لوگ دس دس بارہ بارہ سال تک اپنے رشتہ داروں سے جدا رہ سکتے ہیں اور جدائی بھی ایسی کہ جو ہزاروں میل کے فاصلہ سے تعلق رکھتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف چند میل کے فاصلہ کی جدائی دو چار سال کے عرصہ کے لئے بھی برداشت نہ کی جا سکے.قادیان وا بگہ کے بارڈر سے صرف ۵۶ میل دور ہے اور ڈاک کا انتظام بھی ایسا ہے کہ دوسرے یا تیسرے دن خط ضرور پہنچ جاتا ہے اور اب تو بارڈر پر عزیزوں کی ملاقات کا راستہ بھی کھل گیا ہے تو ان حالات میں درویشوں کے رشتہ داروں کو چاہئے کہ صبر سے کام لیں اور بے چینی کا اظہار کر کے اپنے ثواب کو کم نہ کریں.( دوم ) بعض درویشوں کے رشتہ دار لکھتے ہیں کہ اب جبکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے بعض مزید احمدی قادیان پہنچ گئے ہیں تو ہمارے رشتہ دار کو واپس بلا دیا جائے.اپنے دوستوں کو یا د رکھنا

Page 890

مضامین بشیر ۸۷۸ چاہئے کہ اس وقت تک قادیان میں ہندوستان سے زیادہ تر بچے اور عورتیں اور بوڑھے مرد پہنچے ہیں اور ان میں سے اکثر خدمت کے قابل نہیں لیکن پھر بھی ان کی وجہ سے جس تعداد کا واپس بھیجنا مناسب سمجھا گیا وہ وہاں سے واپس بھجوا دی گئی ہے اور اس طرح اگر آئندہ کوئی گنجائش نکلی تو اس کے مطابق مزید وا پسی بھی ہو سکے گی گو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واپسی کب ہوگی.باقی رہا یہ سوال کہ فلاں شخص کیوں پہلے واپس آیا اور فلاں کیوں نہیں آیا.سو ہمارے دوستوں کو اس قسم کی بدظنی میں نہیں پڑنا چاہئے.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ ان کے سامنے تو صرف ان کی اپنی تکلیف ہے لیکن قادیان کے جن دوستوں نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ سب کی تکلیف کو سامنے رکھ کر اور ایک ایک کے حالات کا موازنہ کر کے فیصلہ کرتے ہیں اور اپنی طرف سے پوری دیانت داری کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں اور گوغلطی ہر شخص کر سکتا ہے مگر مومنوں کو اپنے بھائیوں پر بہر حال حسن ظنی سے کام لینا چاہئے.( سوم ) بعض دوست مجھ پر زور دیتے ہیں کہ تم ہمارے فلاں درویش رشتہ دار کو واپس بلا دو انہیں یا درکھنا چاہئے کہ یہ کام میرے اختیار میں نہیں بلکہ اس کا فیصلہ اول تو حالات کی مناسبت اور دوسرے گورنمنٹ کی اجازت اور تیسرے قادیان کے احمدی افسروں کے انتخاب پر ہے اور اس انتخاب میں میرا دخل نہیں اور نہ اس معاملہ میں میرا کوئی اختیار ہے.دوسری طرف دوستوں کا صبر کرنا خودان کے اپنے ختیار میں ہے.پس کتنے تعجب کی بات ہے کہ میرے متعلق تو اس بات کی توقع رکھی جاتی ہے جو میرے اختیار میں نہیں لیکن خود ہمارے دوست وہ بات کرنے کو تیار نہیں جو ان کے اپنے اختیار میں ہے.(چہارم ) یہ بات بھی دوست جانتے ہیں کہ اگر کسی درویش کے رشتہ دار مالی لحاظ سے بے سہارا ہوں تو انہیں مناسب تصدیق کے بعد حسب گنجائش امداد بھی دی جاتی ہے جس میں ماہوار وظیفہ اور وقتی امداد دونوں چیزیں شامل ہیں.پس اگر کسی درویش کے رشتہ دار کو مالی مشکلات کی پریشانی ہو تو وہ اس کے لئے درخواست کر کے امداد حاصل کر سکتے ہیں.ایسی درخواستوں پر قادیان سے رپورٹ حاصل کی جاتی ہے اور پھر حسب گنجائش مناسب مدد کا انتظام کیا جاتا ہے اور اگر گنجائش نہ ہو یا اس حد تک گنجائش نہ ہو جو ہمارے دوستوں کی خواہش ہے تو بہر حال ایسی صورت میں ہمارے دوستوں کو سچے مومنوں کی طرح صبر سے کام لینا چاہئے کیونکہ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وَسْعَهَا ( پنجم ) بالآخر میں دوستوں سے یہ بھی عرض کرونگا کہ یہ ایک خاص خدمت کا موقعہ ہے اور یہ ایک ایسی خدمت ہے جو سلسلہ احمدیہ میں انشاء اللہ قیامت تک یادگار رہے گی.لوگ چند روپے کی ۴۳

Page 891

۸۷۹ مضامین بشیر خاطر فوجوں میں نوکریاں کرتے ہیں اور سالہا سال وطن سے دور رہ کر ہر قسم کے خطرات کے ماحول میں گولیوں کی بارش کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنی زندگی گزارتے ہیں تو پھر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک خالص دینی کام کی خاطر چند سال کے لئے بھی صبر و رضا کا نمونہ نہ دکھایا جائے.دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ درویش بھی آخر انسان ہیں.اگر انہیں ان کے رشتہ داروں کی طرف سے گھبراہٹ کے خط جائیں گے تو لازماً ان کے اندر بھی گھبراہٹ پیدا ہوگی جس کے نتیجہ میں ان کے جذبہ خدمت میں کمزوری آئے گی.پس ان کا فرض ہے کہ نہ صرف خود صبر و رضا کا نمونہ دکھا ئیں بلکہ اپنے رشتہ دار درویشوں کو ایسے خطوط لکھتے رہیں جن سے ان کی ہمتیں بلند ہوں اور خدمت کا جذبہ ترقی کرے.وقت تو بہر حال گزر جائے گا لیکن مبارک ہیں وہ جو ان نازک ایام میں خدمت دین کا اعلیٰ نمونہ دکھا کر خدا کے خاص انعاموں کے وارث بنیں.( مطبوعه الفضل ۱۶ جون ۱۹۵۰ء )

Page 892

مضامین بشیر ۸۸۰ درویشوں کے رشتہ داروں کے لئے ضروری اطلاع آئندہ قادیان کے متعلق شمس صاحب کے ساتھ خط و کتابت کی جائے دوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ میں بوجہ علالت کچھ عرصہ کے لئے رخصت لے رہا ہوں.میری جگہ حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے میری رخصت کے ایام میں مولوی جلال الدین صاحب شمس کو میرا قائمقام مقرر فرمایا ہے.مولوی صاحب موصوف کا دفتر ربوہ میں ہوگا.پس آئندہ تا اطلاع ثانی ا.قادیان اور ۲.قادیان کے درویشوں اور ۳.درویشوں کے اہل وعیال اور ۴.دیگر متعلقہ کاموں کے متعلق مولوی جلال الدین صاحب شمس ربوه متصل چنیوٹ کے ساتھ خط و کتابت کی جائے ورنہ خواہ مخواہ طوالت ہوگی اور خطوں کے ضائع جانے کا بھی اندیشہ ہے.اس طرح آئندہ چندہ امداد درویشاں کی رقم محاسب صاحب صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے نام بھیجوائی جائیں اور کو پن پر منسلکہ خط میں یہ صراحت کر دی جائے کہ یہ رقم چندہ امداد درویشاں کی ہے.احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل سے کامل صحت عطا کر کے پھر خدمت کی توفیق دے.آمین.مطبوعه الفضل ۲۱ جون ۱۹۵۰ء)

Page 893

۸۸۱ مضامین بشیر حضرت پیر منظور محمد صاحب کی وفات ابھی ابھی ربوہ (چنیوٹ) سے سید ولی اللہ شاہ صاحب امیر جماعت نے بذریعہ تا ر ا طلاع دی ہے کہ صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب وفات پاگئے ہیں اور نماز جنازہ آج (۲۱ جون ) نماز مغرب کے بعد ہو رہی ہے.انا الله و انا الیه راجعون.حضرت پیر صاحب مرحوم بہت پرانے صحابیوں میں سے تھے بلکہ ایک طرح سے گویا پیدائشی احمدی تھے.کیونکہ ان کے والد صاحب مرحوم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقد اور مصدق تھے.گو وہ سلسلہ بیعت سے پہلے ہی وفات پاگئے.یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے اپنی خوش عقیدگی میں دعوئی سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا تھا کہ : تمہیں نظر ہم مریضوں کی ہے تم مسیحا بنو خدا کے لئے حضرت پیر منظور محمد صاحب منشی احمد جان صاحب مرحوم لدھیانوی کے دوسرے صاحبزادے تھے.اُن کی ہمشیرہ صاحبہ جو حضرت اماں جی کہلاتی ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں اور ان کے بڑے بھائی پیر افتخار احمد صاحب ہیں جو خدا کے فضل سے اب بھی زندہ ہیں اور ربوہ میں رہائش رکھتے ہیں.حضرت پیر منظور محمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کا بہت موقع ملا ہے اور اسی شوق میں انہوں نے خوش نویسی سیکھی تا کہ حضور کی کتابوں کی کتابت حضور کے منشاء کے مطابق بہترین صورت میں ہو سکے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی کتابوں کے ایڈیشن اول پیر صاحب مرحوم ہی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں اور ان کی کتابت کی خوبی اور دیدہ زیبی ظاہر وعیاں ہے.اس کے بعد جب پیر صاحب مرحوم جوڑوں کے درد کی وجہ سے معذور ہو گئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منظوری سے حضور کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا.چنانچہ ہم سب بہن بھائیوں کو پیر صاحب نے ہی قرآن کریم ناظرہ پڑھایا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مشہور نظم آمین میں پیر صاحب کے طریقہ تعلیم کی بہت تعریف فرمائی ہے اور ان کے لئے خاص دعا کی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں :

Page 894

مضامین بشیر ۸۸۲ پڑھایا جس نے اُس پر بھی کرم کر جزا دین اور دنیا میں بہتر رہ تعلیم اک تو نے بتا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي ۴۴ قاعدہ میسر نا القرآن جس نے بعد میں اتنی شہرت حاصل کی وہ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم کی غرض سے ہی ایجاد کیا گیا تھا اور خدا کے فضل سے اس قاعدہ کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی ہے کہ لاکھوں احمد یوں اور غیر احمد یوں نے اُس سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس وقت تک اُس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں.وفات کے وقت حضرت پیر منظور محمد صاحب کی عمر غالبا چوراسی سال کی تھی.آپ کے مزاج میں تصوف بہت غالب تھا مگر اس کے ساتھ زندہ دلی بھی بہت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کے ساتھ خاص عقیدت رکھتے تھے.پیر صاحب مرحوم کے بچوں میں اس وقت صرف ہماری چھوٹی ممانی زندہ ہیں جو ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم کے ساتھ بیاہی گئیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی نعمتوں کے ساتھ نوازا.حضرت پیر صاحب کا ہمارے بڑے ماموں مرحوم حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کے ساتھ خاص تعلق تھا.دعا ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت پیر صاحب مرحوم کو اپنی خاص رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کی اولا داور ان کے نیک کام کا حافظ و ناصر ہو.میں اس وقت بستر میں بیمار پڑا ہوں اس لئے زیادہ نہیں لکھ سکتا.انشاء اللہ پھر کبھی موقع ملا تو حضرت پیر صاحب مرحوم کے متعلق زیادہ تفصیل سے لکھوں گا کیونکہ مجھ پر اُن کا دوہرا حق ہے، ایک اُن کے قدیمی صحابی ہونے کا اور دوسرے استاد ہونے کا.( مطبوعه الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۰ء)

Page 895

۸۸۳ مضامین بشیر رویت ہلال کا انوکھا طریق اسلام نے ان معاملات میں عوام الناس کی سہولت پر بنیاد رکھی ہے سابقہ سالوں کی طرح اس سال بھی میں ارادہ رکھتا تھا کہ انشاء اللہ رمضان کی برکات کے متعلق دوستوں کے فائدہ کے لئے ایک مضمون لکھ کر شائع کروں گا لیکن رمضان سے ایک ہفتہ پہلے بیماری نے اس طرح پکڑا کہ کسی مضمون کے ذریعہ دوسروں کو فائدہ پہنچانا تو در کنار خود بھی روزوں سے محروم ہوا جاتا ہوں.مسلسل بخار اور انتڑیوں کی سوزش اور جگر کے بڑھ جانے نے نڈھال کر رکھا ہے.اس لئے اپنے اس ارادہ کو پورا نہیں کر سکا.احباب سے دُعا کی درخواست ہے.لیکن اس رمضان کے شروع میں ایک ایسی بات پیش آئی ہے جس نے مجھے یہ مختصر نوٹ املا کرانے پر مجبور کر دیا ہے.جیسا کہ اخبار پڑھنے والے دوستوں کو معلوم ہو گا.اس سال گو پنجاب میں اتوار یعنی ۱۸ جون ۱۹۵۰ ء کو پہلا روزہ رکھا گیا ہے لیکن جیسا کہ پاکستان ٹائمنر وغیرہ میں چھپا ہے کراچی میں ہفتہ یعنی ۷ ا جون سے پہلی رات کو چاند دیکھا گیا اور اس تاریخ کو وہاں پہلا روزہ ہوا.خیر اس قسم کے اختلاف تو مطلع کے اختلاف کے نتیجہ میں بھی ہو جایا کرتے ہیں لیکن کراچی میں چاند دیکھنے کا جو طریق بیان کیا گیا ہے وہ بالکل انوکھا اور غالبا اسلام کی تاریخ میں اس قسم کی پہلی مثال ہے کیونکہ جیسا کہ اخباروں میں چھپا ہے کراچی میں جمعہ کی شام کو علماء کی ایک پارٹی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر فضا میں بلند ہوئی اور جب تک چاند نظر نہیں آیا.( کیونکہ اس وقت قریب کی فضا میں بادل تھے.) پارٹی بلند سے بلند تر ہوتی گئی.حتی کہ وہ پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گئی.اس بلندی پر پہنچ کر سب جہاز کے پائیلٹ نے جہاز کے دیدیان میں سے جھانک کر ہلال کو دیکھا اور اس کے بعد اس کی دعوت پر علماء کی اس پارٹی کے ایک ایک فرد نے اس کی جگہ لے کر چاند کی زیارت کی اور پھر زمین پر اتر کر رمضان المبارک کا اعلان کر دیا گیا.بظاہر یہ طریق ایک نیا علمی طریق ہے اور غالباً اس سے پہلے کسی اسلامی ملک میں اس طریق کو اختیار نہیں کیا گیا اور شائد اکثر لوگ اس خبر کو پڑھ کر خوش بھی ہوئے ہوں گے کہ اس نئی ایجاد نے ہلال بینی کی مشکل کو حل کر دیا ہے.مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ طریق اسلامی منشاء کے خلاف ہے.کیونکہ ۴۵

Page 896

مضامین بشیر ۸۸۴ اسلام نے اس قسم کے معاملات میں جو عام پبلک عبادتوں سے تعلق رکھتے ہیں.سائنس کے مخصوص طریقوں اور باریک علمی رستوں کی بجائے عوام الناس کی سہولت اور جمہور کے بدیہی منظر پر بنیا درکھی ہے.چنانچہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : الشهر تسع وعشرون ليلة فلا تصوموا حتى تروا الهلال فان..عليكم فاكملوا العدة ثلاثين.د یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کبھی چاند کا مہینہ انتیس رات کا ہوتا ہے ( اور کبھی تمہیں رات کا ہوتا ہے ) پس اے مسلمانو تم رمضان کے روزے اس وقت تک شروع نہ کیا کرو جب تک کہ شعبان کی انتیس تاریخ کے بعد چاند نہ دیکھ لو اور اگر انتیس تاریخ کی شام کو تمہارے علاقہ میں بادل ہوں تو اس صورت میں تھیں کی گنتی پوری کر کے روزے شروع کیا کرو.“ اس صحیح حدیث میں جو غالباً بخاری اور مسلم دونوں میں آتی ہے ہلال کی رویت کا یہ واضح اور صاف طریق بیان کیا گیا ہے کہ چونکہ چاند کا مہینہ بھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تمہیں دن کا ہوتا ہے.اس لئے اگر انتیس شعبان کی شام کو چاند نظر آ جائے اور لوگ اسے دیکھ لیں تو فبہا لیکن اگر انتیس کو چاند نظر نہ آئے اور بادل ہوں تو پھر تمہیں کی گنتی پوری کر کے اگلے دن سے روزہ شروع کرنا چاہئے.اب اس صاف اور سیدھے طریق کو چھوڑ کر یہ خیال کرنا کہ ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر اور بادلوں سے اوپر پرواز کر کے چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے ایک خواہ مخواہ کا تکلف ہے جو اس قسم کے معاملات میں اسلامی منشاء کے خلاف ہے.دراصل ان عبادات کے معاملہ میں جو عوام الناس سے تعلق رکھتی ہیں اسلام نے کسی باریک علمی طریق پر بنیاد نہیں رکھی بلکہ پبلک کی سہولت اور عوام الناس کی رویت پر بنیاد رکھی ہے اور یہ اصول روزے کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ ہر وسیع اسلامی عبادت کے معاملہ میں یکساں چلتا ہے مثلاً جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے نمازوں کے اوقات میں سورج کے طلوع اور زوال اور غروب پر بنیا د رکھی گئی ہے جو ایک بدیہی چیز ہے اور ہر شخص کی پہنچ کے اندر ہے نہ کہ کسی خاص طبقہ کی اجارہ داری.اسی طرح رمضان میں روزوں کے مہینہ کے آغا ز کو چاند کی رویت پر مبنی قرار دیا گیا ہے اور یومیہ روزہ کی ابتداء اور انتہاء کو سورج کے طلوع اور غروب کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے اور یہ بھی اسی طرح کی ایک بدیہی چیز ہے جو کسی خاص گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں.اسی طرح حج کے مہینہ اور حج کی تاریخوں کو چاند کی رویت کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے مگر حج کے روزانہ مراسم کو سورج کی حرکات کے ساتھ جوڑا گیا ہے گویا اس قسم کی ساری عمومی عبادتوں کو چاند اور سورج کی نظر آنے

Page 897

۸۸۵ مضامین بشیر والی حرکات پر مبنی قرار دیا گیا ہے تا کہ عوام الناس ان کے متعلق خود اپنی تسلی اور رویت کے مطابق فیصلہ کر سکیں.اوپر کی تشریح میں ضمناً اس سوال کا جواب بھی آجاتا ہے جو بعض لوگ جلد بازی میں کیا کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ اسلام کے احکام اور اسلام کے اوقات صرف چاند کے ساتھ وابستہ کئے گئے ہیں اور گویا نظام قمری کو اختیار کر کے نظام شمسی کو ترک کر دیا گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بالکل غلط اور جہالت پر مبنی ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اسلامی عبادتوں کے احکام صرف چاند کے ساتھ ہی وابستہ نہیں بلکہ حسب ضرورت اور حسب حالات چاند اور سورج دونوں کے ساتھ وابستہ ہیں.یعنی اگر کسی امر میں عوام الناس کی سہولت چاند کی رویت کے ساتھ وابستہ ہے تو اسے چاند کی حرکات پر مبنی قرار دے دیا گیا ہے اور اگر کسی امر میں پبلک کی سہولت سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہے تو اسے سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ قرار دے دیا گیا ہے.پس نظام شمسی اور نظام قمری دونوں اسلامی نظام ہیں اور دونوں سے اسلام نے یکساں فائدہ اٹھایا ہے بلکہ شاید اسلام کے زیادہ احکام نظام شمسی کے ساتھ وابستہ ہیں.مثلاً نمازوں کے اوقات جو سب سے افضل ترین عبادت ہے کلیۂ سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہیں.اس کے مقابل پر رمضان کے بعض احکام ( مثلاً رمضان کے مہینہ کا آغاز اور انجام ) چاند کی رویت کے ساتھ وابستہ ہیں اور بعض احکام ( مثلاً یومیہ روزے کا آغاز اور انجام ) سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہے.یہی حال حج کا ہے کہ اس کے مہینہ اور تاریخ کی تعیین تو چاند کے ساتھ وابستہ ہے لیکن تاریخوں کے اندر جج کے یومیہ مراسم سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ ہیں.گویا موٹے طور پر نماز اور روزہ اور حج کے احکام کا ۲۱۳ حصہ سورج کی حرکات کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے اور ۱۱۳ حصہ چاند کی حرکات کے ساتھ وابستہ رکھا گیا ہے اور اس سارے نظام میں یہی حکیمانہ اصول چلتا ہے کہ عوام الناس کی سہولت کے لئے چاند اور سورج کی بدیہی رویت اور بدیہی حرکات پر بنیا د رکھی جائے.الغرض اسلام نے عبادتوں کے اوقات کو عوام الناس کی سہولت کے لئے چاند اور سورج کی بدیہی حرکات پر مبنی قرار دیا ہے.اس لئے میری ناقص رائے میں یہ بات درست نہیں کہ ان معاملات میں اسلامی عبادتوں کے احکام کو ان کے بدیہی میدان سے ہٹا کر کسی مخصوص علمی اور سائینٹفک طریق سے وابستہ کر دیا جائے اور عبادات کے اوقات کا فیصلہ ایک خاص طبقہ کی اجارہ داری بن جائے.اسلام کے مقرر کردہ طریق میں ایک بھاری حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں ہر مسلمان کی ذاتی دلچسپی براہ راست قائم رہتی ہے.جس کے نتیجہ میں دینی روح لازما ترقی کرتی ہے اور عبادتوں کے اوقات کے انتظار

Page 898

مضامین بشیر ۸۸۶ اور تعیین میں ہر فرد کا ذاتی شوق نہ صرف حصہ دار بنتا ہے بلکہ بڑھتا اور نشو ونما پاتا ہے.دیکھو یہ کیسا روح پرور نظارہ ہے کہ شعبان کی انتیس تاریخ کو ہر مسلمان رمضان کے انتظار میں اور ہلال رمضان کی رویت کے شوق میں آسمان کی طرف نظریں اٹھائے رہتا ہے کہ اس کا محبوب چاند کب نظر آتا ہے اور پھر وہ چاند کو دیکھ کر کتی روحانی خوشی سے بھر جاتا ہے اور نئے زمانہ کی برکات کے واسطے کس طرح دعاؤں وغیرہ میں منہمک ہو جاتا ہے لیکن ہوائی جہاز میں بیٹھ کر چند علماء یا چند امراء کا فضا کی بلندیوں میں پہنچ کر چاند دیکھ لینا اور عوام الناس کا اس سے محروم رہنا اس ساری روحانی کیفیت اور اس سارے ذوق و شوق پر گویا پانی پھیر دیتا ہے.بے شک بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ باریک ہونے کی وجہ سے چاند صرف چند تیز نظر لوگوں کو نظر آتا ہے لیکن یہ بات شاذ ہے اور بہر حال قاعدہ یہی ہے کہ اکثر لوگ خود چاند کو دیکھ کر ذاتی شوق کو پورا کرتے ہیں اور جنہیں چاند نظر نہیں آتا.وہ بھی کم از کم اس کی جستجو اور تلاش میں کچھ وقت خرچ کر کے اپنے شوق و ذوق کے جذبے کو پورا کر لیتے ہیں.اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ انتیس شعبان کی شام کو صحابہ کرام روزوں کے آغاز کے انتظار میں اس طرح باہر نکل نکل کر آسمان کی طرف دیکھتے تھے کہ اس سے مدینہ کی گلیوں میں ایک خاص قسم کی روحانی کیفیت اور گہما گہمی پیدا ہو جاتی تھی.یہ کیفیت بھلا ہوائی جہازوں کی رویت کے ذریعہ کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے؟ لیکن سب سے زیادہ اہم بات غالباً مطلع کے اختلاف کی ہے.ہر شخص جانتا ہے زمین کے گول ہونے کی وجہ سے مختلف مقامات کا مطلع جدا ہوتا ہے اور جن دو جگہوں میں ایک خاص نوع کا فاصلہ زیادہ ہو جائے وہاں مطلع کا فرق اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ ایک جگہ چاند نظر آتا ہے اور دوسری جگہ نظر نہیں آتا.بہر حال جو چاند یہاں نظر آ رہا ہے ضروری نہیں کہ وہ خاص جہت کے فرق سے پانچ سات سومیل پیچھے کے علاقہ میں بھی نظر آئے خصوصاً جبکہ وہ افق کے قریب ہو اور اس کے طلوع کا وقت بھی تھوڑا ہو.بہر حال جغرافیائی لحاظ سے ہر جگہ کا مطلع جدا ہوتا ہے اور حدیث میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ہر علاقہ کے لوگوں کو اپنے مطلع کی رویت پر بنیا درکھنی چاہئے.چنانچہ: حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ایک مسلمان شام سے مدینہ کی طرف آیا اور اس نے آکر خبر دی کہ شام میں فلاں دن چاند دیکھ کر روزہ رکھا گیا ہے.یہ دن مدینہ کی رویت ہلال کے خلاف تھا اس پر بعض مسلمانوں میں چہ میگوئی ہوئی اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس “ یا شائد حضرت عبد اللہ بن عمر کے پاس پہنچے اور ان سے پوچھا کہ اس معاملہ میں اسلام کا کیا فتویٰ ہے انہوں نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے مقامی مطلع پر بنیا درکھا کریں.پس اگر شام میں کسی اور دن

Page 899

۸۸۷ مضامین بشیر روزہ رکھا گیا ہے تو کوئی بات نہیں.شام والوں کے لئے وہی رمضان کا آغا ز سمجھا جائے گا جبکہ انہوں نے شام میں چاند دیکھا لیکن ہم مدینہ والوں کے لئے رمضان کا آغاز اس تاریخ کے مطابق سمجھا جائے گا جبکہ مدینہ میں چاند دیکھا گیا.گا اس حدیث سے جو اس وقت میں نے یاد سے لکھی ہے.مگر اس کا معین حوالہ بعد میں تلاش کر کے پیش کیا جا سکتا ہے ثابت ہے کہ اسلام نے اس معاملہ میں مطلع کے اختلاف کو بھی ضرور ملحوظ رکھا ہے.یعنی اگر مطلع مختلف ہو جائے تو حکم یہ ہے کہ اپنی مقامی رویت کے مطابق عمل کرو.اب ظاہر ہے کہ جس طرح فاصلہ کے لحاظ سے مطلع بدلتا ہے اسی طرح وہ بلندی کے لحاظ سے بھی بدلتا ہے.زمین پر کھڑے ہو کر ہمارا مطلع اور ہوتا ہے اور پندرہ ہزار فٹ اوپر جانے کے نتیجہ میں وہ اور ہو جائے گا اور اس فرق کے نتیجہ میں یہ بالکل ممکن بلکہ اغلب ہے کہ جو چیز زمین پر کھڑے ہو کر نظر نہیں آسکتی وہ اوپر جانے سے نظر آنے لگے.دراصل جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے مطلع کا اختلاف زیادہ تر زمین کی گولائی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.پس جس طرح خاص جہت میں چند سو میل آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے زمین کے درمیانی حصہ کی گولائی کا عنصر کم و بیش ہو جاتا ہے اسی طرح لازماً وہ بلندی کے نتیجہ میں بھی بدل سکتا ہے اور بدلے گا.پس اس لحاظ سے بھی یہ بات درست نہیں کہ ہم پندرہ پندرہ ہزار فٹ فضاء میں بلند ہو کر چاند دیکھنے کی کوشش کریں.کیونکہ اس طرح مطلع کافی بدل سکتا ہے حالانکہ شریعت ہمیں ہمارے مقامی مطلع کی پابند قرار دیتی ہے نہ کسی دوسرے مطلع کی.خلاصہ یہ کہ چاند دیکھنے کا جو طریق اس سال کراچی میں ایجاد کیا گیا ہے وہ میری رائے میں درست نہیں کیونکہ: (۱) وہ رویتِ عامہ کے اصول کے خلاف ہے.(۲) وہ عوام الناس کے جذ بہ شوق و ذوق کو کم کرنے والا ہے.اور (۳) اس میں مطلع بدل جاتا ہے.حالانکہ شریعت کا منشاء یہ ہے کہ ایسے امور میں مقامی مطلع پر بنیاد رکھی جائے.میں نے یہ نوٹ بیماری کی حالت میں بستر میں لیٹے لیٹے املا کرایا ہے اور تکلیف کی وجہ سے اس کی نظر ثانی بھی نہیں کر سکا لیکن بہر حال میں امید کرتا ہوں کہ میرا یہ نوٹ ہمارے دوستوں کو کم از کم ایک ذہنی خوراک مہیا کرنے میں ضرور کامیاب ہوگا.بالآخر میں پھر اپنے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں.مطبوعه الفضل ۲۴ جون ۱۹۵۰ء)

Page 900

مضامین بشیر ۸۸۸ رمضان کا آخری مبارک عشرہ دوست ان ایام میں دعاؤں اور نوافل کی طرف خاص توجہ دیں میری صحت اس وقت تک کسی لیے تحقیقی مضمون کی اجازت نہیں دیتی بلکہ اب بھی ہر روز ہلکا بخار ہو جاتا ہے لیکن کسی نیکی کے موقع کو ضائع کرنا بھی بڑی محرومی ہے.اس لئے دوستوں کے فائدہ اور خود اپنے نفس کے تزکیہ کے لئے ذیل کا قلم برداشتہ نوٹ الفضل میں بھجوا رہا ہوں.ایک دو روز میں رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے.جس طرح عبادت کے لئے رمضان کا مہینہ گو یا سال بھر کے بارہ مہینوں کا نچوڑ ہوتا ہے.اسی طرح رمضان کے مہینہ کا نچوڑ اس کا آخری عشرہ ہے اور پھر اس آخری عشرہ کا نچوڑ لیلۃ القدر ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق رمضان کے آخری عشرہ میں آیا کرتی ہے.اس عشرہ کے متعلق مومنوں کی مادر مشفق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :- ۴۸ اذا دخل العشر شد مئزره و احيى لیله و ايقظ اهله د یعنی جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کو باندھ لیتے تھے اور اپنی راتوں کو ( جو گویا انسانی زندگی کا مردہ حصہ ہوتا ہے ) زندگی کی روح سے معمور کر دیتے تھے اور اپنے اہل وعیال کو بھی خدا کی عبادت کے لئے بیدار رکھتے تھے.“ یہ کیسے شاندار الفاظ ہیں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے امت کے آقا وسردار اور اپنے سرتاج کی عبادت کا نقشہ کھینچنے کے لئے استعمال فرمائے ہیں.یقینا کوئی بہتر سے بہتر مصور بھی اس سے زیادہ دلکش تصویر نہیں تیار کر سکتا.شد مئزرہ میں جہاں اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان مبارک ایام میں اپنی کمر کو کس کر گویا ایک مستعد اور جاں نثار خادم کی طرح اپنے آقا کے حضور استادہ کھڑے رہتے تھے وہاں ان الفاظ میں ( جن کے لفظی معنی ازار کے کسنے کے ہیں ) اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے ان آخری ایام میں اپنی بیویوں کے پاس جانے سے بھی کنارہ کشی

Page 901

۸۸۹ مضامین بشیر فرماتے تھے کیونکہ حقیقہ یہی روزہ کی باطنی روح ہے کہ مومن اپنے عمل سے ثابت کر دے کہ وہ خدا کے رستہ میں نہ صرف اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے بلکہ اسے اپنی نسل کی قربانی پیش کرنے میں بھی ہر گز کوئی تامل نہیں.اور احیسی لیلہ کے الفاظ میں یہ اشارہ ہے کہ خدا کی سچی عبادت انسان کے اپنے نفس میں ہی زندگی کی روح نہیں پھونکتی بلکہ اردگرد کی مردہ چیزوں میں بھی زندگی کی زبر دست ہر پیدا کر دیتی ہے.یہ وہی لطیف نکتہ ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر میں اشارہ فرمایا ہے کہ :- پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا یعنی پہلے ہم قرآن شریف کو صرف اپنی ذات میں ایک زندہ چیز خیال کرتے تھے جس طرح کہ موسے کا عصا بظاہر بے جان ہونے کے باوجود ایک زندہ چیز تھا لیکن جب سوچا تو نظر آیا کہ وہ صرف اپنی ذات میں ہی زندہ نہیں بلکہ حقیقہ زندگی بخش بھی ہے کیونکہ جو چیز بھی اس کے ساتھ چھوتی ہے وہ زندہ ہو جاتی ہے.اور لیله (اپنی رات) کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جب کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی را تیں ویسے ہی ہمیشہ عبادت کے ذریعہ زندہ رہتی تھیں تو پھر اس شاندار زندگی کا کیا کہنا ہے جو ایک پہلے سے زندہ چیز کو آپ کی مخصوص عبادت سے حاصل ہو جاتی تھی.بالآخر ايقظ أهله کے لطیف الفاظ بھی ایک خاص حقیقت کے حامل ہیں.حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ازدواج عام ایام میں بھی تہجد کی نماز کے لئے اٹھا کرتی تھیں تو پھر آخری عشرہ کے تعلق میں خاص طور پر ایقظ اھلہ کے الفاظ استعمال کرنے میں اس کے سوا کیا اشارہ ہو سکتا ہے کہ یہ راتیں ازدواج مطہرات کی گویا گلی طور پر جاگتے ہی کٹتی تھیں.پس جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال کا یہ پاک نمونہ تھا تو دوسرے لوگوں کا بدرجہ اولیٰ فرض ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ کو عموماً اور رمضان کے آخری عشرہ کو خصوصاً خدا کی عبادت کے لئے وقف کر دیں اور آخری عشرہ میں اعتکاف کی عبادت مقرر کرنا بھی دراصل اسی لطیف تحریک کی غرض سے ہے کیونکہ جیسا کہ ظاہر ہے اعتکاف ایک قسم کی عارضی اور وقتی رہبانیت ہے اور گو خدا کی حکمت ازلی نے مسلمانوں کو دائمی رہبانیت کی اجازت نہیں دی لیکن اعتکاف کی عبادت سے پتہ لگتا ہے کہ ہمارا خدا کم از کم یہ ضرور چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں چند ایام ایسے بھی آئیں کہ وہ گویا دنیا کے دھندوں سے کلیڈ کٹ کر صرف خدا کے لئے زندگی گزار سکیں.

Page 902

مضامین بشیر ۸۹۰ بہر حال رمضان کا آخری عشرہ ایک نہایت ہی مبارک عشرہ ہے اور دوستوں کو اس عشرہ میں اپنے آقا کی مبارک سنت کے مطابق شد مئزره و احیی لیله و ایقظ اهله کا کم از کم کچھ تو نمونہ پیش کرنا چاہئیے.پھر جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے اس عشرہ میں ایک رات ایسی آتی ہے جو اس مخصوص عشرہ کی بھی جان اور گویا روح کی روح ہے.اس رات کو اسلام میں لیلۃ القدر کا نام دیا گیا ہے جس کے تین معنی ہو سکتے ہیں.یعنی (۱) عزت اور بڑائی کی رات جس میں انسان خدا کا قرب حاصل کرتا ہے (۲) قوت اور قدرت والی رات جو ہر گرے ہوئے شخص کو اوپر اٹھانے کی طاقت رکھتی ہے بشرطیکہ وہ خود اپاہج ہو کر نہ بیٹھ جائے اور (۳) وہ رات جس میں ہر شخص کی قدر اور پہنچ علیحدہ علیحدہ پہچانی جاتی ہے اور خدا کے فرشتے دیکھ لیتے ہیں کہ کون کس پانی میں ہے.اس رات کو خدا کی ازلی حکمت نے ( جو مومنوں کو تکیہ کر کے بیٹھ جانے سے بچانا چاہتا ہے ) اخفا کے پردہ میں رکھا ہے.البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدرضرور فرمایا ہے کہ لیلتہ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق رات میں تلاش کرو.یعنی اکیسویں رات یا تئیسویں رات یا پچیسویں رات یا ستائیسویں رات یا انیسویں رات اور حدیث میں زیادہ امکان ستائیسویں رات کا بیان کیا گیا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت ابی بن کعب نے ایک موقعہ پر قسم کھائی کہ لیلۃ القدر یہی ستائیسویں رات ہے ( صحیح مسلم ) ممکن ہے کہ یہ اس مخصوص سال کے متعلق ہو.مگر بہر حال اتنا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر رمضان کی ستائیسویں رات جمعہ کی رات ہو تو وہ خدا کے فضل سے بالعموم لیلۃ القدر ہوتی ہے اور عقل بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جس رات میں تین برکتیں جمع ہو جائیں یعنی اول جمعہ کی برکت جو گو یا ہفتہ بھر کی نمازوں کی عید ہے اور دوسرے رمضان کی آخر یعشرہ کی طاق رات کی برکت اور تیسرے ستائیسویں کی برکت جس کی طرف حدیث میں اشارہ ملتا ہے تو بہر حال اتنا تو ظاہر ہے کہ اسے خدا کی مخصوص برکتوں سے خالی نہیں سمجھا جا سکتا.گو پھر بھی کسی ایک رات پر تکیہ کر کے بیٹھ جانا ٹھیک نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ کوئی دوسری رات ہو اور اس طرح انسان اصل لیلۃ القدر کی برکات سے محروم ہو جائے اور بہر حال جو شخص لیلتہ القدر کی تلاش میں زیادہ راتیں جاگے گا وہ لازماً زیادہ ثواب بھی پائے گا اور یہی اس کے اخفا کا راز ہے.حدیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ رمضان کی انتیسویں رات بھی بڑی برکتوں والی رات ہوتی ہے چنانچہ جب ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی برکتوں اور بخششوں کا ذکر فرمایا تو بعض صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کیا یہی لیلۃ القدر ہے؟ آپ نے فرمایا میں یہ تو نہیں کہتا مگر

Page 903

۸۹۱ مضامین بشیر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ (چونکہ یہ رات بسا اوقات رمضان کی آخری رات ہوتی ہے اور بہر حال طاق راتوں میں وہ لازماً آخری رات ہوتی ہے ) اس لئے جس طرح ایک شفیق مالک اپنے مزدور کی مزدوری ختم ہوتے ہی فوراً اجرت دینے میں خوشی محسوس کرتا ہے اسی طرح ہمارا آسمانی آقا بھی انتیسویں رات کو اپنے بندوں کو بڑھ چڑھ کر اور نقد بنقد اجرت دینے کے لئے گویا بے قرار رہتا ہے.(مسند احمد ) پس میں اپنے دوستوں سے عرض کروں گا کہ اس رات کی برکت کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ گو یا رمضان کا آخری تیر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی طریق تھا کہ آپ "رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر زیادہ صدقہ وخیرات کیا کرتے تھے.حتی کہ حدیث میں آتا ہے کہ اس مہینہ میں آپ کا ہاتھ صدقہ وخیرات میں اس طرح چلتا تھا کہ گویا وہ ایک تیز آندھی ہے جو کسی روک کو خیال میں نہیں لاتی اور لازماً آپ کا یہ صدقہ و خیرات رمضان کے آخری عشرہ میں زیادہ ہو جاتا تھا.چنانچہ عید کے قریب جو صدقۃ الفطر مقرر کیا گیا ہے اس میں بھی یہی حکمت ہے کہ ایک تو اس ذریعہ سے رمضان کے آخر میں رمضان کی کمزوریوں کا کفارہ ہو جائے اور دوسرے عید کے مخصوص موقعہ پر غریب بھائیوں کی امداد کا بھی ایک رستہ کھل جائے.پس صاحب توفیق دوستوں کو رمضان میں صدقہ و خیرات کے پہلو کی طرف سے بھی ہرگز غافل نہیں رہنا چاہئیے اور فطرانہ تو بہر حال ہر ذ واستطاعت مسلمان پر فرض ہی ہے.رمضان کے مہینہ کو دعاؤں اور ان کی قبولیت کے ساتھ بھی خاص تعلق ہے.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:.۴۹ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِني قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ یعنی اے رسول جب میرے بندے تجھ سے رمضان کے مہینہ میں دعاؤں کے متعلق پوچھیں تو ان سے کہہ دو کہ میں اس مہینہ میں اپنے بندوں کے بہت قریب ہو 66 جاتا ہوں اور دعا کرنے والوں کی دعاؤں کو زیادہ سنتا اور زیادہ قبول کرتا ہوں.“ پس نہایت ہی بد قسمت ہے وہ انسان جسے رمضان جیسا مبارک مہینہ میسر آئے اور وہ اس میں خدا سے دعائیں کر کے اپنے لئے اور اپنے خاندان اور اپنی قوم کے لئے برکات کا ذخیرہ نہ جمع کرلے اور دعاؤں کے لئے کوئی تخصیص نہیں کہ صرف دین کی دعائیں ہوں اور دنیا کی دعائیں نہ ہوں بلکہ حسب ضرورت اور حسب حالات ہر قسم کی دعائیں مانگی جاسکتی ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی شخص کو دنیا کی کوئی ایسی اشد ضرورت در پیش ہے جو اس کی توجہ کو منتشر کر رہی ہے تو اسے چاہئیے کہ ضرور اس دنیوی ضرورت کے لئے دعا کرے ورنہ وہ اس شخص کے حکم میں آجائے گا جو پیشاب اور پاخانہ کی فوری اور شدید

Page 904

مضامین بشیر ۸۹۲ ضرورت کے وقت بھی نماز پڑھنے کے لئے چلا جاتا ہے اور پھر نماز میں بے چین رہ کر پریشان خیالی میں مبتلا ہوتا ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت سے حکم دیا ہے کہ پیشاب اور پاخانہ وغیرہ کی شدت کے وقت نماز پڑھنے کی بجائے پہلے اپنی حاجت کو رفع کرو اور پھر نماز کے لئے کھڑے ہو.پس گو اصولی طور پر دینی دعائیں بہر حال زیادہ ضروری اور زیادہ مقدم ہیں لیکن اگر کسی شخص کو کوئی دنیوی ضرورت پریشان کر رہی ہو اور وہ اس کی طرف سے توجہ نہ ہٹا سکے تو اس کے لئے وقتی طور پر اس دنیوی ضرورت کی طرف توجہ دینا زیادہ مقدم ہو جاتا ہے.ہاں جس شخص کی ساری دعائیں دنیا ہی کے لئے وقف ہوتی ہیں وہ ہرگز سچا مومن نہیں سمجھا جا سکتا.بلکہ ایک طرح سے وہ قرآنی وعيد ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا کے ماتحت آتا ہے پس اعلیٰ مقام یہی ہے کہ عام حالات میں دینی اور جماعتی دعاؤں کو مقدم کیا جائے اور اگر خدا کسی شخص کو یہ توفیق دے کہ اس کی ساری دعائیں ہی دینی اور جماعتی ضرورتوں کے لئے وقف ہوں اور اس کی دنیوی ضرورتیں اس کے دل میں ہرگز کوئی پریشان خیالی نہ پیدا کر سکیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسے شخص کی دنیوی ضرورتوں کو خدا خود پورا فرمائے گا کیونکہ خدائے غیور و ودود سے یہ بات قطعاً بعید ہے کہ ایک شخص ساری دعا ئیں اس کے دین اور اس کی جماعت کے لئے وقف کر دے اور وہ پھر بھی اسے دنیا کی ذلت اور ناداری اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی لعنت میں مبتلا رکھے.ایسے شخص کے لئے یقیناً زمین خود برکت کی فصل اگائے گی اور آسمان اس پر بے مانگے رحمت کی بارش برسائے گا.بشرطیکہ وہ صبر اور رضا کے مقام پر قائم ہو.مگر افسوس کہ ایسے لوگ کم ہیں بہت کم.بہر حال میں اپنے عزیزوں اور دوستوں اور بزرگوں سے کہتا ہوں کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی برکات سے فائدہ اٹھائیں.کمروں کو باندھیں اپنی راتوں کو زندہ کریں اور اپنے اہل وعیال کو بھی بیداری کی تحریک کریں اور بہر حال ان با برکت لیل و نہار کو خاص نوافل اور قرآن خوانی اور ذکر الہی اور دعاؤں اور صدقہ و خیرات میں گزاریں اور گورمضان کی مخصوص نفلی نماز تہجد ہے لیکن دوستوں کو دن کے نوافل کو بھی نہیں بھلانا چاہئے.جو ضحی کی نماز کی صورت میں مقرر کئے گئے ہیں اور نوافل میں یہی حکمت ہے کہ جس طرح ایک محبت کرنے والی ماں خوراک کا وقفہ لمبا ہو جانے پر اپنے بچے کو نیند سے جگا کر بھی دودھ پلاتی ہے تا اس میں کمزوری نہ پیدا ہو.اسی طرح ہمارا حکیم و علیم خدا عشاء اور صبح کی نمازوں میں وقفہ لمبا ہو جانے پر اپنے بندوں کو رات کے وقت جگاتا ہے کہ اٹھو تمہاری عبادتوں کا درمیانی وقفہ لمبا ہو گیا ہے اس لئے ہمت کرو اور اٹھ کر یہ تھوڑی سی روحانی غذا کھا لو اور یہی حکمت ضحی کی نماز میں ہے کہ چونکہ صبح اور ظہر کی نمازوں کے درمیان بھی وقفہ زیادہ لمبا ہو جاتا ہے.اس لئے اس وقفہ میں بھی ایک نفل نماز رکھ دی گئی ہے تا کہ سچے مومنوں پر خدا کی جدائی کا زمانہ لمبا ہو کر روحانی کمزوری کا باعث نہ بن جائے.مگر دوسری طرف کمال حکمت سے ان

Page 905

۸۹۳ مضامین بشیر نمازوں کو فرض بھی نہیں کیا گیا تا کہ وہ بوجھ کا باعث بھی نہ بن جائیں اور خود بخود خوشی سے پڑھنے کے نتیجہ میں ثواب بھی زیادہ ہو اس لئے ایک حصہ کو فرض قرار دیا گیا اور دوسرے کونفل اور یہ بھی یا درکھنا چاہئیے کہ اشراق یا چاشت کی نماز کوئی جدا گانہ نماز نہیں بلکہ یہی ضحی کی نماز ہے جسے لوگوں نے زیادہ نام دے دیئے ہیں اور بعض انہیں غلطی سے الگ الگ سمجھنے لگ گئے ہیں.بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ ہر مومن مسلمان کو چاہیے کہ وہ حتی الوسع ہر رمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کو دور کرنے اور اس سے تائب ہونے کا عہد کرے تا کہ اس کا رمضان صرف ایک جنرل ٹانک ہی ثابت نہ ہو بلکہ کسی معین بیماری کا علاج بھی مہیا کرے.ظاہر ہے کہ قریباً ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے.پس ہر انسان اپنے دل میں اپنی کسی کمزوری کو سامنے رکھ کر اس کے متعلق خدا سے عہد کر سکتا ہے کہ میں آئندہ اس بدی کا ارتکاب نہیں کروں گا.مثلاً (۱) نمازوں میں ستی (۲) روزوں میں ستی (۳) زکوۃ میں ستی (۴) چندوں میں ستی (۵) تبلیغ کی طرف سے بے تو جہی (۶) مرکز کے ساتھ وابستگی میں بے تو جہی.(۷) احمدیت کے مخصوص احکام میں غفلت (۸) اولا د کو احمدیت اور اسلام کی تعلیم پر قائم کرنے میں غفلت (۹) والدین کی خدمت کرنے میں غفلت (۱۰) بیوی یا خاوند کے ساتھ بدسلوکی (۱۱) ہمسایوں کے ساتھ بدسلوکی (۱۲) گالی گلوچ کی عادت (۱۳) بدنظری کی عادت (۱۴) وعدہ خلافی کا مرض (۱۵) قرض لے کر واپس نہ کرنے کا مرض (۱۶) کاروبار میں بد دیانتی (۱۷) رشوت ستانی (۱۸) بیوی کو بے پردہ کرنے کی طرف میلان (۱۹) سینما کا شوق (۲۰) تمباکونوشی کا چسکہ وغیرہ وغیرہ بیسیوں قسم کی کمزوریاں ہیں جن میں سے کسی ایک کے متعلق انسان اپنے دل میں خدا سے عہد کر کے رمضان میں تائب ہوسکتا ہے اور ایسے شخص کو یہ بے نظیر خوشی بھی حاصل ہوگی کہ میرا یہ رمضان میرے لئے بہر حال روحانی برکت سے خالی نہیں گیا.کیونکہ وہ معین طور پر جانتا ہو گا کہ میں نے خدا کے فضل سے اس رمضان میں فلاں کمزوری پر غلبہ حاصل کیا تھا.جماعتی دعاؤں میں (۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود" پر درود (۲) اسلام اور احمد بیت کی ترقی (۳) موجودہ جماعتی امتحان میں جماعت کی سرخروئی (۴) حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور لمبی عمر اور حضور کے کاموں میں برکت (۵) جماعت کے مبلغین اور دیگر کارکنوں کی خدمات کی مقبولیت (۶) درویشان قادیان کے نیک مقاصد کے حصول اور (۸) جب تک قادیان بحال نہیں ہوتا مرکز ربوہ کے استحکام کے لئے دعاؤں کو خاص طور پر مقدم رکھنا چاہیئے.اور یقیناً جو شخص خدا کے کام کو مقدم رکھتا ہے اسے خدا بھی اپنی توجہ میں مقدم رکھے گا.لا حول ولا قوة الا بالله العظيم ( مطبوعہ الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۵۰ء)

Page 906

مضامین بشیر ۸۹۴ موصی نمبر ا با با حسن محمد صاحب بھی چل بسے ربوہ سے اطلاع ملی ہے کہ بابا حسن محمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے ، بروز جمعرات بوقت سات بجے شام بھمر اسی سال وفات پا گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.بابا صاحب مرحوم اوجلہ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور صحابیوں کی ایک خاص پارٹی کے رکن تھے جو چھ مخلصین مشتمل تھی یعنی ایک تو بابا صاحب مرحوم کے قریبی عزیز میاں عبدالعزیز صاحب مرحوم اور دوسرے سیکھواں متصل قادیان کے تین مشہور و معروف بھائی یعنی میاں جمال الدین صاحب مرحوم اور میاں امام دین صاحب مرحوم اور میاں خیر دین صاحب مرحوم ان چھ بزرگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اوائل زمانہ میں ہی بیعت کی اور پھر آخر تک بیعت کے عہد کو نہایت اخلاص اور استقلال کے ساتھ نبھایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ان کا قادیان میں آنا جانا بھی اکثر اکٹھا ہوا کرتا تھا.ان میں سے میاں عبدالعزیز صاحب مرحوم نے ایک رات قیام گورداسپور کے دوران میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیمار تھے ، حضور کی اس رنگ میں خدمت کی اور ساری رات اس طرح جاگ کر کاٹی کہ بعد میں حضور نے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا ہم پر کتنا فضل ہے کہ حضرت عیسی صلیب کے واقعہ پر اپنے حواریوں کو بار بار دعا کے لئے جگاتے تھے اور وہ پھر بھی بار بار سو جاتے تھے مگر ہم نے منشی عبد العزیز صاحب کو بار بار سونے کے لئے کہا مگر وہ پھر بھی اپنے اخلاص میں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سوئے اور ساری رات خدمت میں لگے رہے.بہر حال با با حسن محمد صاحب مرحوم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا کے والد تھے.اس مقدس شش ممبر پارٹی کے رکن تھے جنہوں نے اوائل میں ہی احمدیت سے مشرف ہونے کی سعادت پائی اور پھر ان کی زندگی کا ہر نیا دن انہیں خدا سے قریب تر کرتا گیا افسوس کہ ایسے مخلص صحابیوں سے ہماری جماعت بڑی سرعت کے ساتھ محروم ہوتی جا رہی ہے اور نئی پود میں سے اکثر نے ابھی تک وہ درسِ وفا نہیں سیکھا جس کے بغیر خدائی جماعتیں دنیا پر چھا نہیں سکتیں.

Page 907

۸۹۵ مضامین بشیر با با حسن محمد صاحب نے قریباً اپنی ساری عمر وعظ و نصیحت اور قرآن شریف پڑھنے پڑھانے میں گزاری اور ان کے وعظ کا طریق بھی ایسا دلکش ہوتا تھا کہ سننے والے دیہاتی لوگ اس سے بہت محظوظ ہوتے اور فائدہ اٹھاتے تھے اور میرے خیال میں ان سے غالباً سینکڑوں عورتوں نے قرآن شریف پڑھا اور دینی مسائل سیکھے ہوں گے حتی کہ جب وہ آخری ایام میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کے حکم سے چنیوٹ میں مقیم ہوئے تو کئی غیر احمدی عورتیں بھی ان کے درس میں شامل ہوتی تھیں اور میں نے سنا ہے کہ وہ ان کی وفات پر اس طرح روتی تھیں جس طرح ایک نیک اور شفیق باپ کی موت پر سعادت مند بچے روتے ہیں.لیکن غالباً بابا صاحب مرحوم کا سب سے بڑا امتیاز یہ تھا کہ انہیں موصیوں میں سے موصی نمبر ا حاصل ہونے کا شرف حاصل ہوا.کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۶ء کے شروع میں رسالہ الوصیت لکھ کر وصیت کی تحریک فرمائی تو اس تحریک پر سب سے اول نمبر پر لبیک کہنے والے بابا حسن محمد صاحب مرحوم ہی تھے اور ان کی وصیت کا نمبر 1 درج ہوا اور دوسرا امتیاز ان کا یہ ہے کہ ان کے اکلوتے فرزند مولوی رحمت علی صاحب کو سمندر پار فریضہ تبلیغ ادا کرنے کا سب دوسرے مبلغوں سے زیادہ لمبا موقعہ ملا ہے کیونکہ انہوں نے غالباً پچیس سال سے زیادہ جاوا سماٹرا میں تبلیغ کی سعادت حاصل کی ہے اور ظاہر ہے کہ اولاد کی نیکی میں مومن باپ کا بھی ضرور حصہ ہوتا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بابا صاحب مرحوم کو اپنے خاص فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کی اولاد کا حافظ و ناصر ہو.( مطبوعہ الفضل ۲۵؍ جولائی ۱۹۵۰ء)

Page 908

مضامین بشیر ۸۹۶ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحت اور درازی عمر کی دعائیں بعض وجود دوسروں کی نسبت بہت زیادہ دعاؤں کے حقدار ہوتے ہیں حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیماری کے اعلان کے نتیجہ میں جماعت کے اندر دعاؤں اور صدقہ و خیرات کی ایک عام تحریک پائی جاتی ہے جو یقیناً ایک بہت خوشکن علامت ہے.کیونکہ مومنوں کی دردمندانہ دعا ئیں کبھی ضائع نہیں جاتیں اور کسی نہ کسی رنگ میں ضرور با برکت نتیجہ پیدا کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ صدقہ و خیرات بھی رد بلا اور ردّ قضا کا ایک بہت آزمودہ نسخہ ہے لیکن ضروری ہے کہ دعاؤں اور صدقہ و خیرات کا سلسلہ محض ایک وقتی ابال نہ ثابت ہو بلکہ ان خاص دعاؤں کے سلسلہ کو معقول عرصہ تک جاری رکھنا چاہیے اور دراصل امام کے متعلق دعائیں کرنا تو مومنوں کے ان اہم فرائض میں شامل ہے جس کی طرف سے انہیں کسی وقت بھی غافل نہیں ہونا چاہیے بلکہ حق یہ ہے کہ جو شخص ایک الہی جماعت میں شامل ہو کر پھر جماعت کی مضبوطی اور ترقی اور امام جماعت کی درازی عمر اور اس کے کاموں میں برکت اور فضل و رحمت کی دعاؤں کو اپنا روزانہ وظیفہ نہیں بنا تا وہ یقیناً سچا مومن کہلانے کا حقدار نہیں.پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام امام میں بھی فرق ہوتا ہے اور اسی حقیقت کی طرف یہ قرآنی آیت اشارہ کرتی ہے کہ: تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ.۵۱ د یعنی خدا فرماتا ہے کہ گوسب رسول رسول ہونے میں برابر ہیں مگر درجہ کے لحاظ سے ہم نے بعض رسولوں کو بعض دوسرے رسولوں پر فضیلت دی ہے“ اب ظاہر ہے کہ خدائی فضیلت کا اس کے سوا کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ بعض رسول دوسرے رسولوں کی نسبت خدا کے زیادہ مقرب اور خدائی نصرتوں کے زیادہ جاذب ہوتے ہیں اور لازماً جو اصول رسولوں کے متعلق پایا جاتا ہے وہی خلفاء اور دیگر اماموں بلکہ عام مومنوں کے تعلق میں بھی

Page 909

۸۹۷ مضامین بشیر کارفرما سمجھا جائے گا.آخر یہ کیا وجہ ہے کہ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متبعین نے ان کے سامنے کئی دفعہ سرکشی کا رنگ اختیار کیا اور بالآخر وہ اپنی قوم کی بدعنوانیوں کی وجہ سے منزل مقصود پر پہنچنے سے قبل ہی شمالی عرب کے صحرا میں وفات پاگئے اور پھر کیا وجہ ہے کہ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بارہ حواریوں سے زیادہ صحابی میسر نہیں آسکے اور ان میں سے بھی ایک نے غداری اور دوسرے نے بے وفائی سے کام لیا.حتیٰ کہ بقول عیسائیوں کے حضرت عیسی کو اپنی قوم کے ہاتھوں صلیبی موت کا مزا چکھنا پڑا.وہاں اس کے مقابل پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) کو یہ عدیم المثال کامیابی نصیب ہوئی کہ اکیس سال کے قلیل عرصہ میں سارا عرب شرک کی لعنت سے آزاد ہو کر تکبیر کے نعروں سے گونجنے لگ گیا اور خدا کے فضل سے آپ کو صحابی بھی اس شان کے ملے کہ جب بدر کے میدان میں مسلمانوں اور کافروں کا پہلا مقابلہ ہوا اور اس وقت کافروں کی نسبت مسلمان تعداد اور سامان میں اتنے کم تھے کہ بظاہر حالات یہ گویا موت کا سامنا تھا.اس وقت آپ کے صحابہ نے آپ سے عرض کیا کہ : ” یا رسول اللہ آپ انشاء اللہ ہمیں موسیٰ کے صحابیوں کی طرح نہیں پائیں گے.جنہوں نے موسیٰ سے کہہ دیا تھا کہ تو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم تو یہ بیٹھے ہیں بلکہ ہم خدا کے فضل سے آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک ہماری لاشوں پر سے گزرنے کے بغیر نہیں پہنچ سکتا..۵۲ اب سوچو کہ خدا کے رسولوں کی کامیابی میں یہ بھاری فرق کیوں ہے؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ فرق خدا کی نصرت کے فرق کی وجہ سے ہے.میں کہتا ہوں بے شک یہ درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اس بات کی کیا وجہ ہے کہ کسی رسول کو زیادہ نصرت حاصل ہوتی ہے اور کسی کو کم.اس سوال کا جواب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کوئی رسول اپنی فطری استعدادوں اور اپنے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے زیادہ نصرت کا جاذب ہو سکتا ہے اور کوئی اتنا جاذب نہیں ہوتا.دراصل خدا اور اس کے رسولوں کی مثال ایک براڈ کاسٹنگ اسٹیشن اور ریڈ یوسیٹ کی سی ہے.بیشک براڈ کاسٹنگ اسٹیشن میں یہ استعداد ہوتی ہے کہ وہ کوئی پیغام زیادہ زور اور شدت کے ساتھ نشر کرتا ہے اور کوئی پیغام اس زور اور شدت کے ساتھ نشر نہیں کرتا لیکن اس کے مقابل پر خود ریڈیو سیٹوں میں بھی پیغاموں کو وصول کرنے اور اسے آگے پہنچانے کی صلاحیت میں بھاری فرق ہوتا ہے.ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات ایک براڈ کاسٹنگ اسٹیشن ایک ہی طاقت کے ساتھ ایک پیغام نشر کر رہا ہوتا ہے مگر ریڈیو سیٹوں کی طاقت کے فرق کی وجہ سے کوئی سیٹ اس پیغام کو زیادہ صفائی کے ساتھ

Page 910

مضامین بشیر ۸۹۸ وصول کرتا اور زیادہ طاقت کے ساتھ آگے پہنچاتا ہے مگر دوسرا سیٹ جو نسبتا کمزور ہوتا ہے اس پیغام کو نہ تو اس صفائی سے وصول کر سکتا ہے اور نہ ہی اس طاقت کے ساتھ آگے پہنچا سکتا ہے.اوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ نبیوں اور رسولوں کی کامیابی میں خدا کی نصرت کے علاوہ خود نبیوں کی اپنی قوت قدسیہ اور اپنے اوصاف حمیدہ کا بھی بھاری دخل ہوتا ہے اور لازماً یہی اصول خلفاء اور دوسرے اماموں میں بھی چلتا ہے.پس جہاں ہمارا یہ فرض ہے کہ ہر خلیفہ اور ہر امام کے واسطے دعائیں کریں وہاں ہمارا بدرجہ اولے یہ بھی فرض ہے کہ جو خلیفہ اور امام خدا کی نصرت کا زیادہ جاذب اور خدا کی طرف سے قوت قدسیہ کا زیادہ حامل ہو، اس کے لئے زیادہ توجہ اور زیادہ درد اور زیادہ سوز و گداز داور کے ساتھ دعائیں کریں کیونکہ اس کی زندگی سے محروم ہونا جماعت کے لئے بہت بھاری صدمہ اور بہت بڑا دھکا ہوتا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ وقت کی نزاکت کو پہچانتے ہوئے ان ایام کو بہت زیادہ دعاؤں اور بہت زیادہ صدقہ و خیرات میں گزاریں اور اس کے ساتھ اپنے اندر نیک تبدیلی بھی پیدا کریں کیونکہ ہما را قدرشناس خدا اپنے نیک بندوں کی دعائیں زیادہ قبول کرتا ہے.اب رہا یہ سوال کہ صدقہ و خیرات کا روپیہ کسی صورت میں خرچ کیا جائے.سواسلام نے اس کے تین عام طریق مقرر کئے ہیں اوّل صدقہ کے طور پر کوئی جانور ذبح کر کے اس کا گوشت غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کرنا.دوسرے کھانا پکا کر بھوکوں اور بیواؤں اور یتیموں کو کھلانا اور تیسرے حاجت مندوں اور محتاجوں میں نقد روپیہ بانٹنا.پس حتی الوسع ان تینوں طریقوں پر صدقہ ہونا چاہئے اور ہر صورت میں خاص کوشش کے ساتھ حقیقی غریبوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کو مدد پہنچانی چاہئیے اور اس کوشش میں ان لوگوں کو بھی نہیں بھلانا چاہئے جو بظا ہر سفید پوش ہیں اور سوال سے حتی الوسع پر ہیز کرتے ہیں مگر اندرون خانہ ان کی حالت سخت تنگی کی حالت ہوتی ہے اور زیادہ تر انہی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن شریف فرماتا ہے کہ : في أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ ۵۳ د یعنی مومنوں کی دولت میں ہم نے سائلوں کے علاوہ ان لوگوں کا بھی حق مقر ر کیا ہے جو حیا اور خود داری کی وجہ سے سوال سے پر ہیز کرتے ہیں مگر ویسے وہ حاجت مند اور غریب ہیں.“ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ بھو کے جانوروں کو کھانا کھلانا بھی ثواب کا موجب ہے حتی کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک کنچنی کو خدا نے صرف اس وجہ سے بخش دیا کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو جو پانی تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا پانی پلا کر پیاس کی موت سے بچایا تھا.پس اگر کوئی جانور

Page 911

۸۹۹ مضامین بشیر ذبح کیا جائے تو اس کا کچھ گوشت جانوروں اور پرندوں کو بھی ضرور ڈالنا چاہئے اور نقدی کی تقسیم میں بنیادی ضرورت والے لوگوں یعنی بیماروں اور بے لباس اور بے طعام غریبوں کو مقدم رکھنا چاہئے.اسی طرح ایسے غریب طالب علموں کو بھی جو ذہین اور ترقی کرنے والے ہیں مگر غربت کی وجہ سے حصول تعلیم کی بدولت سے محروم ہیں.نیز جیسا کہ میں ایک سابقہ اعلان میں ان دوستوں کو توجہ دلا چکا ہوں.عام حالات میں بہتر یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے صدقات اپنے حلقہ میں خرچ کئے جائیں کیونکہ ایک تو قریب کے لوگوں کے حالات زیادہ معلوم ہوتے ہیں اور حقیقی حاجتمند تلاش کرنے میں دقت نہیں ہوتی اور دوسرے شریعت نے قریب والوں کا حق بھی زیادہ مقرر کیا ہے بلکہ وہ ایک گونہ ہمسایہ کے حکم میں ہیں جن سے حسن سلوک پر اسلام نے خاص زور دیا ہے لیکن اگر اپنے حلقہ میں حاجت مند کم ہوں یا مرکز کے غرباء کی امداد کا مزید ثواب حاصل کرنا بھی مقصود ہو تو ایسے مقامی صدقات کا کچھ حصہ مرکز میں بھی بھجوایا جا اہے.نیز ایسے صدقات میں حاجتمند غیر احمد یوں بلکہ غیر مسلموں کی امداد سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ یہ سب خدا کی مخلوق ہیں اور خدا سب کا رازق ہے اور تـخـلـقـوا بـا خلاق الله (یعنی اپنے اندر خدا والے اخلاق پیدا کرو ) کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی ہمدردی میں سب کو شامل کریں.سکتا.( مطبوعه الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۵۰ء)

Page 912

مضامین بشیر ۹۰۰ شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری کہاں ہیں عید سے قبل دعا کے دن میرے ہاتھ میں ایک صاحب شیخ عبدالمالک صاحب امرتسری نے ایک لفافہ دیا تھا جس کے اندر مسجد ر بوہ اور مسجد امریکہ اور مسجد ہالینڈ کے چندہ کے ۲۰۰ روپے ملفوف تھے.یہ رقم ربوہ بھجوا کر خزانہ کی رسید منگوالی گئی ہے.شیخ صاحب موصوف مجھ سے یہ رسید وصول فرما لیں.دیگر آئندہ کے لئے دوستوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ خزانہ ربوہ میں داخل ہونے والے چندہ براہ راست یا بذریعہ مقامی جماعت ربوہ بھجوانے چاہئیں.مجھے یا کسی اور فردِ جماعت کو ایسے چندوں کی وصولی کا اختیار نہیں ہے.( مطبوعه الفضل ۲۷ مئی ۱۹۵۰ء)

Page 913

۹۰۱ مضامین بشیر مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے لئے دعا مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری مخلص بزرگوں میں سے ہیں اور صحابی ہیں.آجکل وہ ۱۰۲ ڈی بلاک ماڈل ٹاؤن میں بیمار ہیں اور انہوں نے ایک غیبی تحریک کی بناء پر مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان کے لئے الفضل میں احباب سے دعا کی تحریک کروں.سو میں امید کرتا ہوں کہ دوست جماعت کے اس مخلص بزرگ کو ضرور اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے.جوں جوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ گزرتے جاتے ہیں.لازماً اس مقدس جماعت کی قدر بڑھتی جاتی ہے اور اسی نسبت سے ان کے واسطے دعائیں بھی زیادہ ہونی چاہئیں.اور دراصل یہ بھی خدا کی شکر گزاری کا ایک پہلو ہے.ومن لم يشكر الناس لم يشكر الله ۵۴ ( مطبوعہ الفضل ۲۷؍ جولائی ۱۹۵۰ء)

Page 914

مضامین بشیر ۹۰۲ مسئلہ تقدیر پر ایک اصولی نوٹ کیا فوت ہو جانے والا مریض بہتر علاج سے بچ سکتا تھا؟ رمضان کے ایام میں جبکہ میں بستر علالت پر پڑا تھا.چوہدری عبد الغنی صاحب سکنہ کر یام ضلع ہوشیار پور حال نرائن گڑھ ضلع لائل پور کا میرے پاس ایک خطہ پہنچا.جس میں چوہدری ظہور الدین پسر حاجی غلام احمد صاحب مرحوم سکنہ کر یام کی جوانمرگ وفات کی خبر تھی اور اس کے ساتھ ہی یہ لکھا تھا کہ ظہور الدین مرحوم کو جو ایک بہت نیک اور مخلص نو جوان تھا.گاؤں میں صحیح علاج میسر نہیں آیا بلکہ علاج میں بعض ایسی غلطیاں ہو گئیں جن کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ظہور الدین مرحوم کی موت کا باعث بن گئیں وغیرہ وغیرہ.ان حالات کے لکھنے کے بعد چوہدری عبد الغنی صاحب نے لکھا کہ ظہور الدین مرحوم کی وفات کے متعلق اس کے عزیزوں اور جماعت کے دوسرے لوگوں میں ایک علمی اختلاف پیدا ہو گیا ہے جس کے متعلق آپ کی رائے کی ضرورت ہے اور وہ اختلاف یہ ہے کہ ظہور الدین مرحوم کا چھوٹا بھائی اور بعض دوسرے عزیز یہ کہتے ہیں کہ اگر چوہدری ظہور الدین مرحوم کو صحیح اور بر وقت علاج میسر آ جاتا تو وہ بچ جاتا لیکن اس کے مقابل پر بعض دوسرے احباب کہتے ہیں کہ خدائی تقدیر نے بہر حال پورا ہونا تھا.پس اگر ظہور الدین مرحوم کا مقدر وقت آچکا تھا تو خواہ کچھ ہوتا اس نے بہر حال مرنا تھا اور اس میں صحیح اور غیر صحیح علاج کا کوئی سوال نہیں وغیرہ وغیرہ یہ وہ سوال ہے جو رمضان کے ایام میں میرے پاس چوہدری عبد الغنی صاحب کی طرف سے پہنچا اور گو میں اس وقت بیمار تھا مگر حاجی غلام احمد صاحب مرحوم سکنہ کر یام کی نیکی اور اخلاص اور علاقہ کی جماعت میں ان کی ممتاز پوزیشن کی وجہ سے میں نے ضروری خیال کیا کہ جو سوال ان کے مرحوم بچے کی وفات کے متعلق پیدا ہوا ہے اس کا مختصر سا جواب دے کر ان کے عزیزوں کی تسلی اور راہ نمائی کی کوشش کروں.چنانچہ میں نے بستر میں لیٹے لیٹے ہی انہیں ایک...جواب بھجوا دیا.جسے اب کسی قدر نظر ثانی کے بعد دوسرے دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں شائع کرا رہا ہوں.وما توفیقی الا بالله العظيم والله اعلم بما هو الصراط المستقيم.سو جاننا چاہئیے کہ تقدیر کا مسئلہ اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس پر

Page 915

۹۰۳ مضامین بشیر ایمان لانے کے بغیر نہ تو خدا کی تو حید ہی کا مل ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کے بغیر کسی مومن کا ایمان مکمل سمجھا جا سکتا ہے.اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کو ایمان کے بنیادی رکنوں میں سے ایک رکن قرار دیا ہے.چنانچہ بخاری اور مسلم اور دیگر کتب حدیث میں قدر خیر وقد رشر پر ایمان لانے کو اسلام کی تکمیل کے لئے ایک بنیادی چیز قرار دیا گیا ہے.مثلاً صحیح مسلم میں حضرت عمر کی روایت آتی ہے کہ: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الايمان ان تؤمن بالله ۵۵ وملائكته وكتبه رُسله واليوم الآخرو تؤمن بالقدر خيره وشره د یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ایمان یہ ہے کہ تو خدا پر ایمان لائے اور ملائکہ اور خدا کی بھیجی ہوئی کتابوں اور خدا کے رسولوں اور جزا سزا کے.دن پر ایمان لائے اور نیز اس بات پر ایمان لائے کہ خدا نے دنیا میں تقدیر خیر وشر جاری کر رکھی ہے.“ اور عقلاً بھی یہی بات درست ثابت ہوتی ہے کیونکہ گو تقدیر کے مسئلہ کے بغیر خدا کو شائد خالق و باری و مصور تو یقین کیا جا سکے مگر اسے کسی طرح قادر یا متصرف یا حاکم یا مالک یوم الدین نہیں سمجھا جا سکتا.یہ تقدیر کا قانون ہی ہے جس کی وجہ سے خدا دنیا کا حاکم یا متصرف ہے اور اس سارے کارخانوں کو چلانے والا اور انسانوں کے اعمال اور دیگر اشیاء کے نیک و بد نتائج پیدا کرنے والا قرار دیا جا سکتا ہے اور قدرِ خیر کے ساتھ قدرشر کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے کہ تا ہندوؤں یا بعض دیگر ادیان کی طرح یہ دھوکا نہ لگے کہ گویا شر کی تقدیر پیدا کرنے والا خدا خیر کی تقدیر پیدا کرنے والے خدا سے کوئی جدا گانہ ہستی رکھتا ہے اور تا ہر امر میں خواہ وہ خیر کا ہو یا شرکا اور خواہ وہ کسی اچھے کام کا اچھا نتیجہ ہو یا برے کام کا برا نتیجہ ہو انسان بہر حال دنیا کے واحد لا شریک خدا کی طرف جھکنے اور رجوع کرنے کا سبق سیکھے.اگر اسے کوئی نعمت حاصل ہو تو وہ اس بات سے خائف رہے کہ میرا خدا میری ناشکری اور بد عملی پر اس نعمت کو چھین بھی سکتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف اور دکھ پہنچے تو وہ مایوسی کی طرف جھکنے کی بجائے اس امید سے معمور رہے کہ اصلاح کرنے اور نیکی کا راستہ اختیار کرنے پر میرا خدا اس تکلیف کو دور کر کے میرے لئے پھر راحت اور برکت کا دور لا سکتا ہے اور دراصل یہی اس توحید کا مل کا مرکزی نقطہ ہے جس پر اسلام ہمیں قائم کرنا چاہتا ہے.مگر افسوس ہے کہ جتنا یہ مسئلہ اہم ہے اتنی ہی اس میں غلط فہمی بھی زیادہ پیدا ہوئی ہے اور یہ غلط فہمی آج کی نہیں بلکہ صدیوں سے چلی آتی ہے اور مسلمان علماء میں جبر و قدر کے مسئلہ کا اختلاف ایک ایسا

Page 916

مضامین بشیر ۹۰۴ آماجگاہ رہا ہے کہ خدا کی پناہ.ایک فریق اس خیال کی طرف جھک گیا ہے کہ خدا نے ازل سے ہر انسان کے نیک و بد اعمال لکھ رکھے ہیں.اور وہ اپنی تقدیر کے اس نوشتہ کے مطابق چلنے پر مجبور ہے اور اس کی کوئی کوشش اسے اس رستہ سے ہٹا نہیں سکتی.ہاں بے شک خدا ہر شخص کے میلان اور استعداد اور جد و جہد کو دیکھ کر حق و انصاف کے ساتھ دنیا کی آخری عدالت کرے گا.یہ وہ طبقہ ہے جو جبر یہ کہلاتا ہے.اس کے مقابل پر دوسرا طبقہ قدریہ کے نام سے موسوم ہے.اس طبقہ کا یہ خیال ہے کہ انسان اپنے اعمال میں پوری طرح صاحب اختیار ہے کہ اگر چاہے تو نیکی اور صلاحیت اور کامیابی اور ترقی کا راستہ اختیار کرلے اور اگر چاہے تو بدی اور بد اخلاقی اور نامرادی اور تنزل کے رستہ پر پڑ جائے اور اس کے انہی خود اختیاری افعال کے مطابق خدا تعالیٰ اس کے اعمال کے نتائج پیدا کرے گا.آجکل کی آزاد خیال دنیا کا بیشتر حصہ جبریہ نظریہ کو کلیۂ رد کر کے بلکہ اسے مضحکہ خیز قرار دے کر کامل طور پر قدر یہ نظریہ کی طرف جھکا ہوا ہے اور گو وہ خدا یا جزا سزا کا قائل نہ ہو مگر بہر حال انسان کو اس کے اعمال اور اس کے طریق کار کے انتخاب میں کلی طور پر آزاد اور صاحب اختیار خیال کرتا ہے اور دوسرا طبقہ دوسری انتہا پر جا کر انسانی اعمال میں کسی مجبوری کا بھی قائل نہیں.مگر حق یہ ہے اور نیچر اور فطرتِ انسانی کے گہرے مطالعہ سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ نہ تو انسان اپنے اعمال میں کلی طور پر آزاد ہے اور نہ کلی طور پر مجبور ہے بلکہ بعض اعمال میں وہ بڑی حد تک آزاد ہے اور بعض میں وہ بڑی حد تک مجبور ہے.انسانی اعمال کے آزاد ہونے کے لئے مجھے اس جگہ کسی مثال کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک واضح اور بد یہی بات ہے جو ہمارے روز مرہ کے مشاہدے سے تعلق رکھتی ہے لیکن مجبوری کے ثبوت کا سوال بھی کوئی زیادہ غور نہیں چاہتا.اس کی ایک موٹی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک شخص پیدائشی طور جمالی صفات لے کر اس دنیا میں آیا ہے اور نرمی اور عفو کا طریق اس کی فطرت کا حصہ ہے اور وہ ہر غلطی پر سزا دینے کی بجائے محبت کے رنگ میں سمجھانے اور پند و نصیحت پر زور دینے اور بیشتر صورتوں میں عفو کے ذریعہ اصلاح کرنے کا رستہ اختیار کرتا ہے لیکن ایک دوسرا شخص ہے جو فطرتاً جلالی صفات کا حامل ہے اور تادیب اور اجراء قانون اور غلطیوں کے ارتکاب کو سزا کے ذریعہ روکنے اور اختیارات کے زور سے ہر بدی کی اصلاح کرنے کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہے.اب ظاہر ہے کہ ان دونوں قسم کے لوگوں کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں اعمال میں حتیٰ کہ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ان کے اس جدا گانہ فطری میلان کا طبعی طریق پر اظہار ہوگا.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس متضاد فطری میلان کی وجہ سے جمالی صفات والا انسان کبھی کبھی نا واجب نرمی اور غیر مناسب عفو

Page 917

مضامین بشیر کی غلطی کا مرتکب بھی ہو جائے گا اور اس کے مقابل پر جلالی صفات والا انسان کبھی کبھی اپنے فطری میلان کی وجہ سے نا واجب سخت گیری اور غیر مناسب سزا کی طرف بھی جھک جائے گا اور یہ دونوں قسم کے اعمال یقیناً بڑی حد تک جبر یہ نظریہ کے ماتحت ہوتے ہیں کیونکہ جلال والا انسان فطرتا اپنے جلال میں محصور ہے اور جمال والا انسان اپنے جمال میں مجبور ہے اور ان حالات میں یہ صرف ہمارا علیم و حکیم خدا ہی ہے جو سارے حالات کو دیکھتے ہوئے اور ہر ضروری موجب رعایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے حق وانصاف کے تر از وکو قائم رکھے گا.اس فطری اختلاف سے اولوالعزم نبی تک مستی نہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے یہ قانون جاری فرمایا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور دانت کے بدلے دانت اور ہر زخم کے بدلے میں لازماً بالمقابل زخم پہنچایا جائے اور یہ بھی حضرت موسیٰ ہی تھے جنہوں نے غصہ میں آکر اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون کے سر اور داڑھی کے بال پکڑ کر اس طرح جھنجھوڑا کہ حضرت ہارون کو شماتت اعداء کا ڈر پیدا ہو گیا.بے شک غصہ کا موقعہ بجا تھا مگر اس میں بھی کیا شک کہ اس غصہ کے اظہار میں جلال کا رنگ بہت زیادہ غالب تھا لیکن اس کے مقابل پر اسی سلسلہ کے نبی حضرت عیسی تشریف لاتے ہیں تو کس فروشنی سے فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر طمانچہ لگائے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو کہ لو بھئی اس گال پر بھی اپنا غصہ نکال لو.اگر کوئی شخص تمہارا جبہ چھینے تو اسے اپنی قمیض بھی اتار کر دے دو.کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ہر زمانہ کی جدا جدا ضرورتیں تھیں.میں کہوں گا بے شک درست ہے مگر آخر خدا نے بھی تو ان ضرورتوں کے مطابق ہی طبیعت رکھنے والے اشخاص چنے تو پھر بہر حال بات وہیں آگئی کہ بعض صورتوں میں انسانی فطرتوں کا رجحان اس کے عادات و اخلاق میں ایک حد تک مجبوری کا رنگ پیدا کر دیتا ہے اور اس مجبوری کو دیکھنا اور اس کے مطابق بندوں سے معاملہ کرنا صرف خدا کا کام ہے.اسی طرح ماحول کا بھی بھاری اثر ہوتا ہے جو بعض صورتوں میں قریباً قریباً مجبوری کی حد تک پہنچ جاتا ہے.مثلاً ایک شخص نیک ماں باپ کے گھر میں پیدا ہوتا ہے اور اسے نیک ماحول اور نیک ہمسائے اور نیک سوسائٹی میسر آتی ہے جس کے نتیجہ میں اس کی بہت سی عادتیں نیکی کے سانچہ میں ڈھل جاتی ہیں لیکن اس کے مقابل پر ایک دوسرا شخص بے دین اور بدا خلاق ماں باپ کے گھر جنم لیتا ہے اور اسے ماحول بھی اچھا میسر نہیں ہوتا اور اس کے نتیجہ میں وہ ایک مشین کی طرح بے دینی اور بے اخلاقی کے چکر میں پڑ جاتا ہے تو کیا مقدم الذکر شخص کی نیکی اور مؤخر الذکر شخص کی بدی کامل آزادی کے اعمال سمجھے جا سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ہر گز نہیں اسی طرح کئی اور قسم کی مجبوریاں یا نیم مجبوریاں ہیں جن کی عدالت صرف خدا ہی کر سکتا ہے اس کے مقابل پر

Page 918

مضامین بشیر ۹۰۶ ہزاروں باتوں میں انسان آزاد بھی ہے اور اس آزادی کی حقیقت کو بھی صرف خدا ہی جانتا ہے.اسی لئے قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَالْوَزْنُ يَوْمَينِ الْحَقِّ یعنی نیکی بدی کی عدالت کے متعلق حقیقی تر از وصرف خدا کا ترازو ہے جو قیامت کے دن قائم کیا جائے گا.مگر میں اپنا مضمون چھوڑ گیا کیونکہ میرا موجودہ مضمون لوگوں کے اخلاق و عادات کی آزادی یا مجبوری کے متعلق نہیں بلکہ تقدیر کے اس حصہ کے متعلق ہے جو مختلف قسم کے حالات پیش آنے پر تدابیر انسانی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی میرا اصل مضمون یہ ہے کہ کیا تقدیر کے قانون کا منشاء یہ ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ بہر حال ہو کر رہتا ہے خواہ انسان کچھ کرے یا کہ تقدیر سے یہ مراد ہے کہ انسان خدا کے قانون خیر وشر کے ماتحت اپنے لئے اچھے یا برے نتائج پیدا کرنے میں صاحب اختیار ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ ظہور الدین مرحوم کی وفات یا اس کے صحیح اور غیر صحیح علاج کے نتیجہ کا سوال جو اس مضمون کا اصل محرک ہے، اس بحث سے تعلق رکھتا ہے.سو جانا چاہئے کہ گوجیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، تقدیر کوئی عجوبہ چیز نہیں ہے بلکہ وہ اس روز مرہ قانون کا نام ہے جو خدا تعالیٰ نے دنیا میں خواص الاشیاء یعنی قدر خیر و شر کی صورت میں جاری کر رکھا ہے.یعنی جن اعمال اور جن چیزوں کا خدا تعالیٰ نے اچھا نتیجہ مقرر کر رکھا ہے وہ تقدیر خیر کے نیچے آتی ہیں اور اجن اعمال اور جن چیزوں کا خدا نے خراب نتیجہ مقرر کر رکھا ہے وہ تقدیر شر کا حصہ ہیں.مثلاً یہ خدا کی تقدیر خیر ہے کہ دودھ پینے سے جسم میں طاقت پیدا ہوتی ہے یا کونین کھانے سے ملیریا کے کیڑے مرتے ہیں اور اس کے مقابل پر یہ خدا کی تقدیر شر ہے کہ مثلاً سنگریزے چبانے سے جسم میں کوئی طاقت نہیں آئے گی بلکہ الٹا نقصان ہوگا یا سنکھیا کھانے سے انسانی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا.اسی طرح نہ صرف خواص الاشیاء کے متعلق بلکہ چیزوں کی مقدار کے استعمال کے متعلق بھی خدا نے ایک حکیمانہ قانون مقرر کر رکھا ہے.مثلاً یہ خدا کی ایک تقدیر خیر ہے کہ سنکھیا ( جو درحقیقت ایک زہر ہے) اسے قلیل مقدار میں استعمال کرنا کئی بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے.لیکن اس کے مقابل پر دودھ ( جو دراصل ایک مقوی غذا ہے ) اسے حد سے بڑھی ہوئی مقدار میں استعمال کرنا صحت کی تباہی بلکہ بعض صورتوں میں ہلاکت کا موجب ہوسکتا ہے.اور اسی دنیا کی ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں چیزوں کا قیاس کیا جا سکتا ہے.جو خدائی قضاء وقدر کے ماتحت زندگی کو بنانے اور مٹانے میں لگی ہوئی ہیں اور یہی اصول مذہبی اور روحانی میدان میں چلتا ہے کہ ایک بات قدر خیر کے ماتحت اخلاق کو ترقی دیتی اور روحانیت میں جلا پیدا کر دیتی ہے اور لاریب یہی وہ قانون قدر خیر وشر ہے جسے اسلام ہمارے ایمان کا حصہ بنانا چاہتا ہے تا کہ دنیا کو معلوم ہو کہ ہمارا خدا ایسا نہیں کہ دنیا کو پیدا کرنے کے بعد معطل ہو کر بیٹھ گیا ہو بلکہ وہ ایک حاکم و متصرف خدا ہے.جس

Page 919

۹۰۷ مضامین بشیر کا تصرف دنیا کے ذرہ ذرہ پر قائم ہے اور کوئی چیز اس کی حکومت سے باہر نہیں.یہ اُسی حکیم وقد بر خدا کا قانون ہے جو ایک انسان کو بیمار کرتا اور دوسرے کو شفا دیتا ہے اور ایک کو زندگی بخشتا اور دوسرے کو موت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے اور گو اعمال انسان کے ہیں مگر ان اعمال کا نتیجہ بہر حال خدا کا ہے جو ایک زبر دست مشینری کے طور پر ہر وقت چکر میں ہے.لیکن چونکہ خدا کا قانون اُس کی مشیت پر مبنی ہے اور اس کی مشیت نہایت درجہ لطیف اور گہرے مادی اور روحانی فلسفہ پر قائم ہے.اس لئے خدا کی ازلی حکمت نے قانون قدر خیر و شر کو دوحصوں میں تقسیم کر رکھا ہے.ایک عام قانون ہے جسے تقدیر عام یا تقدیر معلق کا نام دیا جاتا ہے اور دوسرے خاص قانون ہے جسے تقدیر خاص یا تقدیر مبرم سے موسوم کیا جاتا ہے.تقدیر عام یا تقدیر معلق اس قانون کا نام ہے جو قانون قدرت یا قانون نیچر یا قانونِ قضاء و قدر کی صورت میں دنیا پر حاوی ہے.اور دنیا کی کوئی چیز اس کے تصرف سے باہر نہیں مثلاً یہ تقدیر معلق ہے کہ اگر کو نین کھاؤ گے تو ملیریا کے کیڑے مریں گے اور اگر سنکھیا کھاؤ گے تو تمہاری اپنی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس تقدیر کو تقدیر معلق یعنی لٹکی ہوئی تقدیر اس لئے کہتے ہیں کہ یہ تقدیر ایک اٹل اور غیر مبدل نتیجہ کی صورت میں جاری نہیں ہوتی بلکہ خاص قسم کے حالات اور خاص قسم کی شرائط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے.یعنی اگر اس قسم کے حالات ہوں گے تو یہ نتیجہ پیدا ہوگا اور اگر دوسری قسم کے حالات ہوں گے.تو دوسرا نتیجہ پیدا ہوگا اور دنیا کا عام نظام اسی تقدیر کے ماتحت چل رہا ہے اور یہ تقدیر دنیا کے لئے ایک بھاری رحمت ہے کیونکہ دنیا میں دوسرے علوم کی ترقی اور سائنس کی عجیب وغریب ایجادات اور علم طلب کے باریک در بار یک قوانین سب اسی تقدیر عام پر مبنی ہیں بلکہ اگر یہ تقدیر نہ ہو تو یہ سارا کارخانہ عالم ایک آن واحد میں ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جائے اور دنیا میں کوئی نظام باقی نہ رہے مثلاً اگر آگ کبھی جلائے اور کبھی ٹھنڈا کر دے اور پانی کبھی بجھائے اور کبھی آگ لگا دے اور کونین کبھی ملیریا کے کیڑوں کو مارے اور کبھی اُنہیں بڑھانا شروع کر دے اور ان چیزوں کی کوئی خاصیت ان کے اندر ایک قانون کی صورت میں قائم نہ ہو تو ظاہر ہے کہ یہ سارا نظام درہم برہم ہو کر دنیا میں ہر چیز کا خاتمہ کر دے.پس خواص الاشیاء کا غیر مبدل وجود اور تقدیر عام کا پیش آمدہ حالات کے ساتھ متعلق ہونا اور حالات کے بدلنے سے بدل جانا دنیا کے نظام اور دنیا کی ترقی کا حقیقی راز ہے.اس صورت میں اس بات میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ اگر ایک خطر ناک بیمار کو کسی وجہ سے صحیح علاج میسر نہیں آیا یا معالج کی غلطی یا نا واقعی سے غلط علاج ہو گیا تو ایسا بیمار خدا کی تقدیر عام کے ماتحت ضرور مرے گا کیونکہ جو حالات اسے پیش آئے.ان کا طبعی نتیجہ موت تھی اور اس صورت میں اس کے مرنے میں ہی دنیا کی ترقی کا راز مضمر ہے لیکن اگر ایسے بیمار کو صحیح علاج

Page 920

۹۰۸ مضامین بشیر میسر آجائے.تو اس بات میں بھی ہر گز کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ خدا کی تقدیر عام اور تقدیر معلق کے دوسرے پہلو کے ماتحت صحت یاب ہو کر بچ جائے گا.کیونکہ اس کے موجودہ حالات صحت اور شفایابی کا نتیجہ پیدا کرنے والے ہیں.اور چونکہ چوہدری ظہور الدین مرحوم کے حالات کو خدا کی تقدیر عام سے سمجھنے کا کوئی ثبوت یا قرینہ موجود نہیں اس لئے اس کے متعلق لازماً یہی سمجھا جائے گا کہ اگر اسے صحیح علاج میسر آجاتا تو وہ خدا کے فضل سے ضرور بچ جاتا.ย اس قسم کی تقدیر کی ایک نہایت دلچسپ مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ملتی ہے.جب حضرت عمرؓ نے شام کی سرحد پر سلطنت روما کے مقابلے کے لئے اسلامی فوجیں بھجوا ئیں تو ان کی کمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی اور اپنے دیرینہ دوست اور رفیق کار حضرت ابو عبیدہ کے سپرد فرمائی.اتفاق سے اس محاذ پر طاعون کا وبائی مرض پھوٹا اور اس شدت سے پھوٹا کہ بہت سے مسلمان اس مرض کا شکار ہو گئے.جب حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے حضرت ابو عبیدہ کے ارفع دینی مقام کے پیش نظر انہیں لکھ کر بھیجا کہ آپ مدینہ واپس آجائیں مگر مصلحۂ اس ہدایت کی غرض ظاہر نہیں کی.حضرت ابو عبیدہ سمجھ گئے کہ کیوں بلایا جا رہا ہے.انہوں نے جواب میں لکھا کہ کیا آپ مجھ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ میں اس خطرہ کے وقت میں مسلمانوں کو چھوڑ کر خود مدینہ پہنچ جاؤں.میں ایسا نہیں کر سکتا.“ حضرت عمرؓ نے یہ خط پڑھا تو رو پڑے.اور حکم دیا کہ اچھا اتنا تو ضرور کرو کہ اسلامی فوج اکٹھی اور گنجان صورت میں ڈیرا ڈالے پڑی ہے اور طاعون کا زور ہے.فوراً مسلمانوں کو صحت آور میدانوں میں پھیلا کر اس خطرناک مرض سے محفوظ کر دو.حضرت ابو عبیدہ اس حکم کی تعمیل کے لئے تیار ہو گئے.مگر بعض مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کے اس ہدایت پر اعتراض کیا کہ کیا آپ ہمیں خدا کی تقدیر سے بھگاتے ہیں ؟ جو مقدر ہے وہ تو بہر حال ہو کر رہے گا.حضرت عمرؓ نے فوراً جواب دیا کہ :- افسوس تم نے حقیقت کو نہیں سمجھا اور مسلمانوں کی جانوں کو ہلکا جانا.میں خدا کی تقدیر سے بھگا کر کسی اور کی تقدیر میں تو داخل نہیں کر رہا.میں تو یہ کہتا ہوں کہ خدا کی ایک قضا ( یعنی تقدیر شر ) سے بھاگ کر اس کی دوسری قضا ( یعنی تقدیر خیر ) میں پناہ لے لو ( یہ لفظ میرے ہیں مگر مفہوم حضرت عمرؓ کا ہے ) اللہ.اللہ ! حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد کسی عظیم الشان دانائی پر مبنی تھا کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر کے رکھ دیا ہے مگر افسوس کہ حضرت ابو عبیدہ (جن کے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے میرے دل میں ان کی

Page 921

۹۰۹ مضامین بشیر بہت محبت ہے ) کے جسم میں وبا کا اثر ہو چکا تھا اور وہ باوجود نقل مکانی کے اس وبائی مرض میں مبتلا ہو کر شہادت پاگئے خیر وہ تو فوت ہو گئے اور آگے پیچھے سب نے مرنا ہے مگر اس واقعہ کی وجہ سے حضرت عمر کا یہ زرین قول ہمارے ہاتھ آگیا.جو مسئلہ تقدیر کی گویا جان ہے اور حق یہ ہے کہ یہ جان ہے تو جہان ہے.تقدیر کی دوسری قسم خدا کے استثنائی قانون سے تعلق رکھتی ہے جسے تقدیر خاص یا تقدیر مبرم کہتے ہیں.یہ تقدیر ائل تقدیر ہوتی ہے جو یا تو حالات اور اسباب کے اثر سے بالکل ہی آزاد ہوتی ہے اور یا خدا تعالیٰ کے فرشتے اس میں اسباب اور حالات کو ایسے رنگ میں چلاتے ہیں کہ مطلوب اور مقد در نتیجہ بہر حال ظاہر ہو کر رہتا ہے.اس تقدیر کی مثال زیادہ تر نبیوں اور رسولوں کے زمانہ میں ملتی ہے اور تقدیر عام کی طرح یہ تقدیر بھی خیر و شر دونوں صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے مثلاً جب کفار مکہ نے کفر پر اصرار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رحمت کی بجائے عذاب کا نشان مانگا تو آپ نے خدا سے خبر پا کر پیشگوئی فرمائی کہ مکہ کے فلاں فلاں ائمہ کفر مسلمانوں کے مقابلہ پر قتل ہو کر تباہ ہوں گے اور آپ نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا کہ ” میں گویا ان لوگوں کے گرنے کی جگہ کو دیکھ رہا ہوں.“ یہ خدا کی تقدیر مبرم تھی جو آپ کو دکھائی گئی اور پھر عین اس کے مطابق مکہ کے یہ بد باطن رئیس بدر کے میدان میں اپنے سے کئی گنا کم طاقتور فوج کے مقابلہ میں کٹ کر خاک میں مل گئے اور ان کی کوئی تدبیر اس خدائی تقدیر کو بدل نہ سکی.اس طرح ہمارے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام کے کفر اور طغیانی کو دیکھ کر پیشگوئی فرمائی کہ چھ سال کے اندر اندر وہ ایک گوسالہ کی طرح چیختا چلاتا ہوا خدائی خنجر سے ذبح کر دیا جائے گا اور پھر عین اس کے مطابق وہ آریہ صاحبان کی لا تعداد مادی تدبیروں کے با وجود ایک غیر معلوم ہاتھ سے اپنے کیفر کردار کو پہنچا اور آج تک قاتل کا سراغ نہیں مل سکا اور جب اس کے قتل پر آریوں نے حسب عادت شور مچایا اور اعتراض کیا کہ اسے نعوذ باللہ مرزا صاحب نے خود قتل کروا دیا ہے تو حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر فرمایا کہ اگر تم واقعی ایسا خیال کرتے ہو تو میدان میں آکر قسم کھاؤ.پھر اگر ایسی قسم کھانے والے لوگ ( خواہ وہ تعداد میں ہزار ہوں ) ایک سال کے اندر اندر ہلاک ہونے سے بچ جائیں اور ان کی ہلاکت خالصۂ خدائی ہاتھ سے نہ ہو جس میں کسی انسانی سازش کا دخل متصور نہ ہو سکے تو جان لو کہ میں جھوٹا ہوں اور میرا یہ نطق خدا سے نہیں اور آپ نے نہایت تحدی کے ساتھ لکھا کہ یہ تقدیر مبرم ہے جو کبھی نہیں ملے گی اور خواہ میرے مخالف اس تقدیر کے نتیجہ سے بچنے کے لئے دنیا بھر کے اسباب جمع کر لیں وہ اس اٹل خدائی تقدیر سے ہر گز محفوظ نہیں رہیں گے.یہ گو یا مخالفین اسلام کے لئے تقدیر شہر تھی مگر اس کے مقابل پر بسا اوقات تقدیر مبرم تقدیر خیر کی

Page 922

مضامین بشیر ۹۱۰ صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے.چنانچہ خدا کے نبیوں کا یہ ازلی نعرہ رہا ہے کہ: كتب الله لاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلى ۵۷ د یعنی خدا نے ہمیشہ سے یہ لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول بہر حال غالب ہو کر رہیں گے.“ یہ ایک تقدیر مبرم ہے جسے دنیا کی کوئی تدبیر ٹال نہیں سکتی.ایک لاکھ اور بیس ہزار نبیوں کے زمانہ میں دنیا نے اس تقدیر کا مشاہدہ کیا اور اسے کبھی غلط نہیں پایا.یہ تیر وہ ہے جو جب سے کہ دنیا بنی ہے آج تک خطا نہیں گیا اور نہ کبھی خطا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں کہ :- قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت ہے اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے ۵۸ یہ صرف تقدیر مبرم کی شان ہے جس کے متعلق اس تحدی کے ساتھ اعلان کیا جا سکتا ہے اور جو صرف خاص خاص حالات میں ظاہر ہوتی ہے اور خدا نے اس تقدیر کا وجود اس لئے قائم کیا ہے کہ تا اپنی ہستی کے نشان ظاہر کرے اور جو لوگ تقدیر عام کی عینک سے خدا کو نہیں دیکھ سکتے وہ تقدیر خاص کی طاقتور دوربین کے ذریعہ ہی اس نور کا مشاہدہ کر لیں.مگر یہ ایک خاص چیز ہے جو صرف خاص حالات میں ظاہر ہوتی ہے اور میں اس بات کے ہر گز آثار نہیں دیکھتا اور نہ ہی اس بات کا کوئی قرینہ موجود ہے کہ عزیز ظہور الدین مرحوم کی وفات تقدیر مبرم کے ماتحت واقع ہوئی ہے.میں اپنے علم کے ماتحت یہی یقین رکھتا ہوں کہ یہ ایک تقدیر عام کا حادثہ تھا جو حالات پیش آمدہ کے ساتھ معلق تھا اور اگر ظہور الدین مرحوم کو صحیح اور بروقت علاج میسر آجاتا تو یقیناً اس کی تقدیر بدل جاتی اور اس کی جان بچ سکتی تھی والله اعلم بالصواب ولا علم لنا الا ما علمنا الله الوهاب اس مسئلہ کا ایک پہلو خدا کے علم ازلی سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں بھی کئی لوگوں کو دھوکا لگ جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی سادگی میں خیال کرتے ہیں کہ جب خدا کو جو عالم الغیب ہے ہر چیز کے انجام کا علم ہے اور خدا کا علم بہر حال یقینی اور قطعی ہے جو کسی صورت میں غلط نہیں ہوسکتا تو پھر اس سے لازم آتا ہے کہ ہر چیز کا انجام بہر حال اسی صورت میں مقدر ہے جس صورت میں کہ وہ عملاً ظاہر ہوتا ہے اور وہ کسی طرح بدل نہیں سکتا ور نہ نعوذ باللہ خدا کا علم غلط ثابت ہو گا جو ناممکن ہے وغیرہ وغیرہ لیکن یہ خیال محض سطحی تخیل کا نتیجہ ہے اور ہرگز درست نہیں.حقیقت یہ ہے کہ خدا کا علم انجام پیدا نہیں کرتا بلکہ انجام کی

Page 923

۹۱۱ مضامین بشیر وجہ سے علم پیدا ہوتا ہے اور ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے.علم اور چیز ہے اور تقدیر بالکل جدا چیز ہے.اس کی موٹی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر کسی نیک اور خدا رسیدہ انسان کو خواب آئے کہ تین ماہ تک جاپان میں سخت زلزلہ آئے گا اور پھر اس کی یہ خواب عملاً پوری ہو جائے تو کیا کوئی عقلمند شخص کہہ سکتا ہے کہ اس کی خواب کی وجہ سے یہ زلزلہ آیا ہے.ہرگز نہیں ہرگز نہیں بلکہ خواب اس وجہ سے آئی کہ زلزلہ نے آنا تھا.اسی طرح بے شک خدا کو عالم الغیب ہونے کی وجہ سے یہ علم ہے کہ کس چیز کا کیا انجام ہونے والا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کے علم کی وجہ سے یہ انجام ہوا بلکہ اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ چونکہ فلاں چیز کا یہ انجام ہونے والا تھا اس لئے خدا کو اس کا علم تھا.پس بہر حال علم انجام کے تابع ہوا نہ کہ انجام علم کے تابع.کیونکہ اگر انجام دوسرے رنگ میں ہوتا تو یقیناً خدا کا علم بھی اسی کے مطابق ہوتا.مثلاً فرض کرو کہ ظہور الدین مرحوم جس کی وفات اس مضمون کی محرک ہے غلط علاج کی وجہ سے نو جوانی کی عمر میں فوت ہو گیا.اب یہ تو ظاہر ہے کہ خدا کو پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ ظہور الدین فلاں حالات کے نتیجہ میں فلاں وقت فوت ہو گا.مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ ظہور الدین اس لئے فوت ہوا کہ خدا کے علم میں یہی وقت اس کی موت کا مقرر تھا اور اگر وہ اس وقت فوت نہ ہوتا تو خدا کا علم غلط ہو جاتا.یہ ایک محض طفلانہ استدلال ہے جس سے کوئی دانا شخص تسلی نہیں پاسکتا.اس ضمن میں میں یہ بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ حدیث میں جو یہ الفاظ آتے ہیں کہ جف القلم بما هو كائن ( یعنی جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے اس کے متعلق خدائی قلم کی نوشت معین ہو کرخشک ہو چکی ہے ) وہ بھی جیسا کہ بما هو كائن ( یعنی جو کچھ کہ آخری صورت میں ہونے والا ہے ) کے الفاظ میں اشارہ ہے خدا کے علم از لی کی بنا پر کہے گئے ہیں نہ کہ دنیا کی تقدیر عام کی بناء پر.ہاں بے شک تقدیر خاص یعنی تقدیر مبرم کو ضرور اس نظریہ سے تعلق سمجھا جا سکتا ہے اور اس صورت میں اس حدیث سے مراد یہ لی جائے گی کہ (۱) جو کچھ دنیا میں ہونے والا ہے وہ قدیم سے خدا کے علم میں ہے یا (۲) یہ کہ خدا کی مبرم تقدیر میں ازل سے فیصلہ شدہ ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی اور دوسرے الفاظ میں یہی اس قرآنی آیت کا مفہوم ہے کہ لَن تَجِدَ لِسُنَةِ اللهِ تَبْدِيلًا یعنی تم خدا کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے.گویا تقدیر عام کی صورت میں تو یہ حدیث ہر چیز کے آخری انجام کے ساتھ تعلق ن رکھتی ہے جو بہر حال خدا کے علم میں ہے اور تقدیر خاص کی صورت میں وہ براہ راست تقدیر کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.جو ہر صورت میں اٹل ہوتی ہے.واللہ اعلم.بالآخر میں ایک لفظ اس شبہ کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا کرتا

Page 924

مضامین بشیر ۹۱۲ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ فلاں نیک اور خوش سیرت انسان نہایت درجہ قابل رحم حالات میں جوان مرگ فوت ہو گیا مگر اس کے مقابل پر ایک بے دین اور بد اخلاق انسان لمبی عمر پا کر زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے.سو اس کے جواب میں یا د رکھنا چاہئے کہ خدا نے دنیا میں دو علیحدہ علیحدہ قانون جاری کئے ہیں.ایک قضاء وقد ر کا قانون ہے جو مادیت کے میدان میں تقدیر عام سے تعلق رکھتا ہے جس کی جزا سزا اسی دنیا میں ساتھ ساتھ جاری رہتی ہے اور اسی دنیا میں اس کے نتائج ختم ہو جاتے ہیں اور دوسرا قانون شریعت کا قانون بیجو اخلاقیات اور روحانیت سے متعلق ہے جس کے حقیقی نتائج کے ظہور کے لئے اگلی زندگی اور اگلا جہان مقرر ہے اور خدا کی حکمت ازلی نے ان دونو قانون کے میدانِ عمل کو ایک دوسرے سے بالکل جدا اور آزاد رکھا ہے.اگر کوئی شخص قضاء وقدر کے قانون کے ماتحت کوئی غلطی کرے تو اسے قانون قضاء و قدر کے مطابق سزا ملتی ہے اور اگر کوئی شخص قانون شریعت کے ماتحت کوئی غلطی کرے تو اسے قانونِ شریعت کے مطابق سزا ملتی ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ غلطی تو قضا و قدر کے قانون کے ماتحت ہوا ور سزا قانون شریعت کے مطابق دی جائے یا غلطی تو قانون شریعت کی ہو اور سزا قانون قضاء وقدر کے مطابق ملے.گویا خدا کی مرکزی حکومت کے ماتحت یہ دوجدا جدا صوبائی حکومتیں قائم ہیں جن کو خدا کی حکمت ازلی نے پرونشل ایٹا نومی دے کر ایک دوسرے سے آزاد رکھا ہوا ہے.اس لئے اگر ایک نیک آدمی بھی قضاء وقدر کا کوئی قانون توڑے گا مثلا کوئی ثقیل چیز کھالے گا تو اس کے پیٹ میں لازماً درد ہو گا اور قانون شریعت کی نیکی اسے اس درد سے ہرگز بچا نہیں سگے گی.اسی طرح اگر کوئی بد آدمی قضاء وقدر کے قانون کا فرمانبردار رہے گا تو اسے قانون شریعت کا جرم قانون قضاء و قدر کی نعمتوں سے ہرگز محروم نہیں کر سکے گا (سوائے مستثنیات کے جن کا اصول جدا گانہ ہے ) پس اگر کوئی نیک انسان کسی بیماری یا حادثہ کی وجہ سے جوانی کی موت مر جاتا ہے تو یہ ایک قضاء وقدر کا عام حادثہ سمجھا جائے گا جس میں قانون شریعت کی نیکی کا کوئی اثر یا تعلق نہیں ہوگا اور نہ یہ نیکی اسے اس حادثہ سے بچا سکے گی.اس کے مقابل پر اگر ایک بد انسان قضاء و قدر کے میدان میں کسی غلطی کا مرتکب نہیں ہوتا اور قوانین صحت کی پابندی اختیار کرتا ہے تو وہ لمبی عمر پالے گا اور شریعت کے میدان کا جرم اسے قضاء و قدر کی نعمت سے محروم نہیں کر سکے گا.یہی خدائے حکیم وعلیم کی سنت ہے وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا.الغرض تقدیر کا مسئلہ اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے جو بظاہر سادہ مگر حقیقہ کافی پیچدار ہے اور اس کا اصولی خلاصہ ذیل کے چند فقروں میں آجاتا ہے: (۱) جو نظام قانون قدرت یعنی قانونِ قضاء وقدر کی صورت میں خدا نے قائم کر رکھا ہے اور

Page 925

۹۱۳ مضامین بشیر جس کے ماتحت یہ سارا کارخانہ عالم چل رہا ہے وہی وہ قدر خیر وشر ہے جس پر اسلام ہمیں ایمان لانے کا حکم دیتا ہے تا کہ ہم تو حید کے کامل مقام پر قائم رہیں.(۲) جو نظام بعض حصوں میں جبری ہے اور بعض میں اختیاری ہے اس لئے انسان کے اعمال کا حقیقی مواز نه صرف خدا ہی کر سکتا ہے جو ہر قسم کے حالات کا واقف اور ہر قسم کے غیب کا عالم ہے.(۳) تقدیر دو قسم کی ہے ایک تقدیر عام یعنی تقدیر معلق اور دوسرے تقدیر خاص یعنی تقدیر مبرم.تقدیر عام دنیا کے اس عام قانون قضاء وقدر کا نام ہے جو حالات پیش آمدہ کے ساتھ مشروط ہوتا ہے اور حالات کے بدلنے سے بدل جاتا ہے اور ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایک بیمار صحیح علاج میسر آنے سے بچ سکتا تھا مگر اس کے مقابل پر تقدیر مبرم خدا کی وہ اٹل تقدیر ہوتی ہے جو ہر حال میں لازماً مقدر نتیجہ پیدا کرتی ہے.یہ تقدیر عموماً نبیوں اور رسولوں کے زمانہ میں معجزات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے.(۴) خدا کے عالم الغیب ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہر چیز کا انجام بہر حال اسی صورت میں مقدر ہے جس صورت میں کہ وہ عملاً ظاہر ہوتا ہے اور کسی طرح بدل نہیں سکتا.کیونکہ حق یہ ہے کہ خدا کا علم انجام پیدا نہیں کرتا.بلکہ انجام کی وجہ سے علم پیدا ہوتا ہے اور ان دونوں باتوں میں بھاری فرق ہے.(۵) یہ اعتراض بالکل باطل ہے کہ بعض اوقات ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک نیک انسان مصیبت کی زندگی اٹھا کر یا اپنے غیروں کو دکھ میں مبتلا کر کے جوانی میں ہی مرجاتا ہے مگر ایک بد انسان لمبی عمر پا کر مرنے کی زندگی بسر کرتا ہے.یہ اعتراض اس بات کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے کہ قضاء وقدر کے قانون اور شریعت کے قانون کا دائرہ بالکل علیحدہ علیحدہ ہے اور وہ ایک دوسرے میں دخل انداز نہیں ہوتے.یہی وجہ ہے کہ قانون شریعت کی نیکی کسی شخص کو قضاء وقدر کے قانون کے نتیجہ سے نہیں بچا سکتی اور نہ قانون قضاء وقدر کی پابندی کسی شخص کو قانون شریعت کی نعمتوں کا وارث بنا سکتی ہے کیونکہ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِينِ یہ مضمون بہت لمبا اور کسی قدر پیچدار بھی ہے مگر میں نے اسے اپنی طرف سے نہایت مختصر الفاظ میں سادہ طریق پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے.خدا کرے کہ میرا یہ نوٹ ناظرین کی راہنمائی اور عملی تنویر کا موجب ہو اور اگر میری کوئی غلطی ہے تو خدا مجھے ہدایت نصیب کرے آمین.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين ( مطبوعه الفضل ۸/اگست ۱۹۵۰ء)

Page 926

مضامین بشیر ۹۱۴ مضمون ”مسئلہ تقدیر میں کتابت کی غلطیاں پرسوں کے الفضل میں میرا ایک مضمون ” مسئلہ تقدیر کے متعلق شائع ہوا ہے.گو میں نے اس کی کا پی خود دیکھی تھی لیکن کا تب صاحبان تصحیح کرتے ہوئے بعض مزید غلطیاں کر گئے ہیں جن سے مضمون کے سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے.بعض بڑی بڑی غلطیاں یہ ہیں احباب درست کر لیں.(۱) صفحہ ۴ کالم ۲ سطر میں اسی دنیا کی ہزاروں لاکھوں“ کی بجائے اسی پر دنیا کی ہزاروں لاکھوں ہونا چاہئے.(۲) صفحہ ۴ کالم ۳ سطر ۳۸ میں خدا کی تقدیر عام سے سمجھنے کی بجائے خدا کی تقدیر عام سے باہر سمجھنے “ ہونا چاہئے.(۳) صفحہ ۵ کالم ۲ کی آخری سطر سے اوپر کی سطر میں بہرل“ کی بجائے ” بہر حال ہونا چاہئے.(۴) صفحہ ۶ کالم کی سطر ۱۰ میں اور حالات کے بدلنے سے“ کی بجائے ” اور اس کا نتیجہ حالات کے بدلنے سے ہونا چاہئے.(۵) صفحہ ۶ کی سطر ۳۲ میں اپنے غیروں کی“ کی بجائے اپنے عزیزوں “ ہونا چاہئے.( مطبوعه الفضل ۱۰ اگست ۱۹۵۰ء)

Page 927

۹۱۵ مضامین بشیر قادیان سے بھاگنے والے کی عبرتناک حالت درویشوں کے رشتہ دار بھی کان دھریں کچھ عرصہ ہوا جب کہ پرمٹ کی پابندی نہیں تھی قادیان کا ایک درویش اپنے رشتہ داروں کی نا واجب کشش اور بعض دنیا داری کے خیالات کے ماتحت قادیان سے بلا اجازت بھاگ گیا تھا.اسے اخراج از جماعت اور مقاطعہ کی سزا دی گئی اور اس کے علاوہ خدا کی طرف سے بھی اسے یہاں آکر اس قسم کے مصائب و آلام کا سامنا ہوا کہ اس کی حالت حقیقۂ عبرت ناک ہو چکی ہے.اس کی معافی کی درخواست پر حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ نے جو فیصلہ صادر فرمایا ہے وہ با وجود میری رخصت کے مجھے بھی اطلاع کی غرض سے لاہور میں پہنچا ہے اور میں نے اس پر قادیان کے دوستوں کو جو پرائیویٹ خط لکھا ہے وہ درویشوں کے رشتہ داروں کی اطلاع اور ہدایت کی غرض سے الفضل میں شائع کرا رہا ہوں.دراصل یہ زیادہ تر درویشوں کے بعض رشتہ دار ہی ہیں جو اپنے عزیز درویشوں کو تسلی اور ہمت افزائی کے خطوط لکھنے کی بجائے انہیں پریشانی کی اطلاعیں بھجواتے رہتے ہیں بلکہ جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے بعض اوقات ان اطلاعوں میں مبالغہ سے بھی کام لیتے ہیں جس کا اثر طبعاً کمزور طبیعت کے درویشوں پر پڑتا ہے اور ان میں بھی پریشانی اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہو نے لگتی ہے.بے شک بعض درویشوں کے عزیزوں کو کافی مشکلات ہیں لیکن آخر خدائی جماعتیں بھی مشکلات میں سے گزرنے کے بعد ہی پروان چڑھا کرتی ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ درویشوں کے رشتہ دار اور مقامی جماعتوں کے امراء اور صدر صاحبان اس خط کو جو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کے اہم ارشاد پر مبنی ہے ، غور سے پڑھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو اور حافظ وا میں رہے.آمین.خط ذیل میں درج ہے.خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور.بخدمت جناب بزرگان احباب و عزیزان قادیان السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ صاحبان کو ایک واقعہ کی اطلاع دینا ضروری خیال کرتا ہوں جس کا میری طبیعت پر بہت بھاری اثر ہے.میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس قسم کے واقعات سے ہم سب کو بچائے اور جس طرح

Page 928

مضامین بشیر ۹۱۶ اس نے ہمیں اولاً احمدیت کی نعمت عطا کی ہے اسی طرح آخر تک ہم پر اپنے فضل و رحمت کا سایہ رکھے اور ہمارا خاتمہ بخیر ہو.و استغفر الله ربي من كل ذنب و اتوب اليه.آپ سب میاں عبدالکریم سکنہ تر گڑی کو جانتے ہیں جو اپنے آپ کو خدمتِ سلسلہ کے لئے پیش کر کے بخوشی قادیان گیالیکن قادیان جانے کے کچھ عرصہ بعد اس کے دل میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی جدائی کا خیال اور اس کے ساتھ ہی اپنے بعض دنیوی کاموں کی کشش کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا اور اس نے پاکستان واپس آنے کی خواہش ظاہر کی اور جب اسے اُس وقت کے حالات کے ماتحت اس کی اجازت نہ ملی تو اسے شیطان نے ورغلایا کہ بلا اجازت قادیان سے بھاگ جائے.چنانچہ وہ موقع پا کر وہاں سے چوری بھاگ نکلا اور پاکستان پہنچ گیا.اس طرح اسے ایک وقتی خوشی جو ہمیشہ شیطانی تحریکوں کو قبول کرنے سے ہوا کرتی ہے، حاصل ہوئی لیکن اس کے بعد ا سے خدائی تقدیر نے پکڑا اور وہ طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہو کر خدائی گرفت کا ایک عبرتناک نمونہ بن گیا اور خود اس کا اپنا بیان ہے کہ اس کا تمام کا روبار تباہ ہو گیا اور وہ دنیا جس کے لئے اس نے بھاگنے کا رستہ اختیار کیا تھا خاک میں مل گئی اور اس پر اور اس کے رشتہ داروں پر جن کی کشش اور تحریک نے اسے اس حرکت پر آمادہ کیا تھا اس طرح اوپر تلے بیماریاں اور مصیبتیں آئیں کہ اس کے لئے زندگی بالکل اجیرن ہو گئی اور خود اس کے ضمیر نے بھی اس کے دل کو اس طرح ڈسنا شروع کیا کہ وہ جیتے جی زندہ درگور ہو گیا.میں آپ لوگوں کے سامنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر شہادت دیتا ہوں کہ جب وہ چند ماہ ہوئے ان مصائب کے چکر میں پڑنے کے بعد ایک دن میرے پاس لاہور آیا تو میں نے اسے پہچانا تک نہیں اور میں نے بس خیال کیا کہ گویا اس وقت میرے پاس ایک انسان نہیں بکہ کسی قبر سے نکلے ہوئے شخص کا بھوت کھڑا ہو.اس کے چہرے سے وحشت ٹپکتی تھی.اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی اور اس طرح خشک اور بے نور تھیں کہ جیسے قدرت نے اسے آنسو بہانے تک کی تسلی سے محروم کر دیا ہو.جب اس نے رکتے رکتے مجھے اپنا نام اور پتہ بتایا تو میرے جذبہ رحم کے باوجود میرے دل سے یہ آواز اٹھی کہ اس شخص نے جماعت کے ایک ناز کی ترین زمانے میں سلسلہ سے غداری کی جس پر خدا کی خاموش لاٹھی نے اُسے مردوں سے بدتر بنا رکھا ہے اور جس زندگی کی طرف وہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر لپکا تھا، وہ زندگی اس سے دور بھاگ رہی ہے.یہ ایک نظارہ تھا جو میری آنکھوں کے سامنے آیا اور گزر گیا.گواب تک میری آنکھیں اس کے تصور سے گھبراتی ہیں مگر میں نے اس کی حالت سے متاثر ہو کر اسے کہا کہ تم نے بھاری غلطی کی بڑی بھاری غلطی.اور ایسے نازک زمانہ میں سلسلہ کی غداری کا داغ لیا کہ جس سے زیادہ نازک زمانہ خیال

Page 929

۹۱۷ مضامین بشیر میں نہیں آسکتا.مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ تمہارا امتحان بھی سخت ہوا ہے بہت سخت.اب اگر تم سچی توبہ کرنا چاہتے ہو تو مجھے ایک درخواست لکھ کر دو جس پر تمہاری مقامی جماعت کی تصدیق ہو اور اس درخواست میں تم اس بات کا وعدہ کرو کہ تم ہر فیصلہ کو ماننے کے لئے تیار ہو گے.پھر یہ درخواست قادیان جائے گی اور وہاں کی رپورٹ کے بعد حضرت صاحب کے سامنے پیش ہو گی اور پھر حضرت صاحب تمہارے گناہ کے کفارے کے لئے جو بھی سزا تجویز فرمائیں گے تمہیں اس کے لئے بخوشی تیار رہنا چاہئے.اس نے کہا ہاں ہاں میں وعدہ کرتا ہوں مگر خدا کے لئے مجھے قادیان بھجوا دیں.میں پھر وہاں سے نکلنے کا کبھی نام نہیں لوں گا.میں نے کہا یوں نہیں ، جس نعمت کو تم نے خود اپنے ہاتھ سے ٹھکرایا اب وہ یونہی آسانی سے نہیں مل سکتی.اب تمہیں بہر حال خلیفہ وقت کے آخری فیصلہ کا انتظار کرنا ہوگا.اس پر اس نے واپس جا کر جماعت کی تصدیق کے ساتھ درخواست بھجوائی جس پر جماعت نے اس کے غیر معمولی مصائب اور اس کی توبہ کی تصدیق کی اور اس کی سفارش بھی لکھی جس کے بعد یہ درخواست قادیان بھجوائی گئی اور قادیان سے واپس آنے پر وہ حضرت صاحب کے سامنے پیش ہوئی.اس پر حضرت صاحب نے جو ارشاد لکھ کر ارسال فرمایا ہے وہ مجھے آج ہی ربوہ سے ہوتا ہوا یہاں ملا ہے اور میں اسے آپ اصحاب کی اطلاع اور عبرت کے لئے ذیل میں درج کرتا ہوں.حضور نے لکھا ہے کہ:.افسوس کہ قادیان سے بھاگنے والے کسی صورت میں معاف نہیں کئے جا سکتے جب تک کہ ویسی ہی سخت آگ میں نہ ڈالے جائیں.مگر یہ غلط ہے کہ یہ ( یعنی عبدالکریم ) اس سزا کو قبول کرے گا.اگر قبول کرتا ہے تو اسے کہا جائے کہ پانچ سال تک کے لئے پنجاب سے چلا جائے اور اپنے کسی رشتے دار اور دوست سے (جن کی وجہ سے اس نے سلسہ سے غداری کی ) کوئی تعلق یا خط و کتابت نہ رکھے.“ میرے بزرگو دوستو اور عزیز و! یہ وہ فیصلہ ہے جو عبد الکریم کے اتنے بھاری مصائب کے باوجود خلیفہ وقت نے ہاں اسی خلیفہ وقت نے جسے آپ مصلح موعود یقین کرتے ہیں عبد الکریم کے متعلق صادر فرمایا ہے.گویا اس کے عذاب کی چکی ابھی تک گردش میں ہے.فاعتبرو آیا اولی الابصار میرے دینی بھائیو! اس سزا کو سخت نہ خیال کرو کیونکہ ہر سزا کا اندازہ جرم کے مطابق لگایا جاتا ہے اور جماعت کے اس نازک ترین دور میں قادیان سے بلا اجازت بھاگنے اور سلسلہ کے ساتھ گویا اس کی زندگی اور موت کے زمانہ میں غداری کرنے کا جرم ایسا نہیں کہ خدا اسے آسانی سے معاف کر

Page 930

مضامین بشیر ۹۱۸ دے.ایسا شخص اپنی جس خیالی بھٹی کی آگ سے بھاگتا ہے، اسے اس بھٹی سے بدر جہا سخت تر حقیقی بھٹی میں سے گزرنا ہوگا اور تب جا کر اس کے گناہ کی تلافی کی امید ہو سکتی ہے.آخر ہمارا رحیم و کریم خدا وہی تو ہے جو جب اپنے بندوں کے کسی سخت جرم پر کسی سخت سزا کوضروری قرار دیتا ہے تو پھر نہ تو وہ اس کے دکھ کا کوئی خیال کرتا ہے اور نہ اس کے عزیزوں اور رشتہ داروں کی مصیبت کا کوئی لحاظ رکھتا ہے.چنانچہ ہمارا خدا تمہارا خدا اس دنیا کا خدا رحمت و بخشش کا مجسمہ کس جلال کے ساتھ فرماتا ہے کہ :.فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوْهَا وَلَا يَخَافُ عُقْبُهَان یعنی خدا نے اپنے نظام کا مقابلہ کرنے والوں کو ہلاک کر کے زمین کیساتھ پیوست کر دیا اور اس وقت خدا کو اس بات کی وجہ سے کوئی تامل نہ ہوا کہ ان لوگوں 66 کے عذاب کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور ان کے پیچھے رہنے والوں پر کیا گزرتی ہے.“ ہماری جماعت پر بھی یہ ایک نازک ترین دور ہے.پس خدا کے لئے اس دور کی نزاکت کو سمجھو اور خدا کی تقدیر کا مقابلہ کرنے والوں میں سے نہ بنو ورنہ اگر تمہارا خدا ایک طرف رحیم وکریم ہے تو دوسری طرف وہ قہارا اور شدید العقاب بھی ہے.اگر وہ ایک طرف دنیا کے سب عزیزوں سے بڑھ کر محبت کرنے والا ہے تو دوسری طرف جب اس کے عذاب کی چکی گھومتی ہے تو وہ باغیوں کو ریزہ ریزہ کئے بغیر نہیں چھوڑتی.اس وقت فرشتے بھی لرزہ براندام ہوتے ہیں اور نبیوں کی زبان پر بھی نفسی نفسی کے سوا کوئی اور لفظ نہیں آسکتا.سو میرے عزیز و! آپ بھی اس وقت ایک غیر معمولی زمانہ میں غیر معمولی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں.اگر آپ اس خدمت میں سرخرو ہوئے تو صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ کے عزیز اور آپ کی آئندہ نسلیں بھی خدا کی غیر معمولی نعمت سے حصہ پائیں گی اور خدا کے ابدی دربار میں آپ کے نام بڑی عزت کے ساتھ لکھے جائیں گے لیکن اگر آپ نے تھک کر یا کسی فتنہ کی رو میں بہہ کر خدا کے نظام سے غداری کی تو یا د رکھو کہ آپ کا شب و روز کی محنت سے کا تا ہوا سب سوت کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور آپ اسی طرح خدائی گرفت کا نشانہ بنیں گے جس طرح کہ پہلے لوگ بنے یا جس طرح کہ اب عبدالکریم بنا جو کسی زمانہ میں تمہاری طرح کا ہی ایک درویش تھا.خدا نہ کرے کہ ایسا ہو.ہاں خدا نہ کرے کہ ایسا ہو.میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر مخلص اپنی مشکلات کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے اس طرح خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں کہ مجھے حقیقتہ ان کی حالت پر رشک آتا ہے مگر بعض نوجوان اپنی مشکلات کی وجہ سے پریشان بھی ہیں لیکن کیا کبھی کوئی خدائی قوم مشکلات اور قربانیوں کی آگ میں سے

Page 931

۹۱۹ مضامین بشیر گزرنے کے بغیر کامیاب ہوئی ہے؟ کیا آپ لوگوں کے سامنے صحابہ کرام کی قربانیاں موجود نہیں جنہوں نے مکہ میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا کی طرف سے منہ موڑ کر مدینہ میں اسلام کی خاطر اپنے خون کو پانی کی طرح بہایا اور شہادت کے جام کو اس طرح پیا کہ جس طرح ایک پیاسا انسان ٹھنڈے شربت کو پیتا ہے.پس میری نصیحت یہ ہے کہ اول تو آپ لوگ صبر سے کام لیں کیونکہ آخر یہ دن جلد یا بدیر بیت جائیں گے.مسیحیت نے رہبانیت کی تعلیم دی اور لاکھوں عیسائی تارک الدنیا ہو گئے.کیا آپ لوگ دین حق کی خاطر چند سال کا جزوی تبتل بھی اختیار نہیں کر سکتے ؟ لیکن اگر کسی کی مشکلات اس کے خیال میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہوں اور وہ اس کی وجہ سے اپنی پریشانی پر غلبہ نہ پاسکے تو وہ درخواست دے کر باقاعدہ اجازت طلب کرے لیکن دیکھنا دیکھنا حاشا و کلا غداری کے رستہ پر بھی قدم نہ رکھنا کہ اس تاریک وادی میں قدم رکھ کر پھر نجات کی کوئی راہ نہیں.کاش آپ لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ میں نے یہ نصیحت کسی درد کے ساتھ لکھی ہے اور کاش آپ میری اس نصیحت کی قدرکو پہچا نہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.ہاں خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ولا حول ولا قوة الا بالله العظيم.( مطبوعه الفضل ۱۱ راگست ۱۹۵۰ء)

Page 932

مضامین بشیر ۹۲۰ عید الاضحی کی قربانیاں کیا غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی ضروری ہے؟ کیا قربانی کی جگہ غرباء میں نقد روپیہ تقسیم کرنا جائز نہیں ؟ ایک معزز دوست جو جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہیں ، خط کے ذریعہ دریافت فرماتے ہیں کہ آج کل اخباروں میں جو عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی کا مسئلہ زیر بحث ہے، اس میں صحیح اسلامی تعلیم کیا ہے اور قرآن شریف اور حدیث اور سنت سے کون سا مسلک درست ثابت ہوتا ہے یعنی :.(1) کیا عید الاضحیٰ کے موقعہ پر قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے یا کہ اسے مستطیع غیر حاجیوں کے واسطے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے؟ (۲) کیا موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ مناسب نہیں کہ قربانی میں لا تعداد جانوروں کو ذبح کر دینے کی بجائے غرباء کی نقد امداد کر دی جائے ؟ یہ وہ دوسوال ہیں جن کی طرف ہمارے دوست نے توجہ دلائی ہے اور جن پر آج کل جبکہ عید الاضحی کی آمد آمد ہے، پاکستان کے اخباروں میں خوب بحث ہو رہی ہے.ایک طبقہ جو زیادہ تر نو تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اوّل تو غیر حاجیوں پر عید الاضحیٰ کی قربانی واجب ہی نہیں بلکہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے اور اگر بالفرض غیر حاجیوں پر قربانی واجب بھی ہو تو پھر بھی آج کل کے مخصوص حالات میں جبکہ ایک طرف پاکستان میں جانوروں کی کمی ہو رہی ہے اور دوسری طرف انسانی ضروریات میں زیادہ وسعت اور زیادہ تنوع کی صورت پیدا ہو گئی ہے.دو تین دنوں میں بے شمار جانور ذبح کر کے بانٹ دینے کی بجائے بہتر صورت یہ ہے کہ ذی استطاعت لوگ غریبوں میں روپیہ تقسیم کر دیں تا کہ وہ یہ روپیہا اپنی اپنی مخصوص ضرورت کے مطابق استعمال کر کے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں.دوسری طرف دوسرا طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ جو سنت آج سے چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم سے قائم کی اور پھر اسے اسلام میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے نئے سرے سے زندہ کر کے اسلامی تعلیم کا ایک ضروری حصہ بنایا اور اس پر زندگی بھر عمل کیا

Page 933

۹۲۱ مضامین بشیر اور کرایا وہ بہر حال قائم رہنی چاہئے اور جانوروں کی کمی یا مزعومہ کی دوسرے ذرائع سے پوری کی جائے وغیرہ وغیرہ.اس مسئلہ کے متعلق صحیح اسلامی تعلیم بتانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصر الفاظ میں یہ بتا دیا جائے کہ عید الاضحی کس چیز کا نام ہے اور وہ اسلام میں کس طرح شروع ہوئی اور اس کی غرض وغایت اور حکمت کیا ہے وغیرہ وغیرہ تا کہ اس سوال کا پس منظر واضح ہو جائے کیونکہ پس منظر کے بغیر کسی چیز کا صحیح تصور قائم نہیں کیا جاسکتا.سو جاننا چاہئے کہ :- (۱) عید کے معنے ایسی اجتماعی خوشی کے دن کے ہیں جو بار بار آئے اور اسلام میں تین عیدیں مقرر کی گئی ہیں.ایک جمعہ کی عید ہے جو سات دن کی نمازوں کے بعد آتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت ساری عیدوں میں سب سے زیادہ اہم اور برکت والی عید ہے.گو تھوڑے تھوڑے وقفہ پر آنے کی وجہ سے لوگ عموماً اس کی قدر کو نہیں پہچانتے.دوسرے عیدالفطر ہے جو ہر سال رمضان کی تمیں روزہ عبادت کے بعد آتی ہے اور اس کا نام عید الفطر اس واسطے رکھا گیا ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد گویا اس عید کے ذریعہ مومنوں کی افطاری ہوتی ہے اور تیسرے عید الاضحیٰ ہے جو ذوالحجہ مہینہ کی دسویں تاریخ کو حج کی عبادت کے اختتام پر ( جونو تاریخ کو ہوتا ہے ) آتی ہے اور پاکستان میں یہ عید عرف عام میں بقر عید کہلاتی ہے اور بعض لوگ اسے بڑی عید بھی کہتے ہے.(۲) عید الاضحی کا نام عید الاضحیٰ اس واسطے رکھا گیا ہے حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اسی وجہ سے اس نام سے یا دفرمایا ہے کہ یہ قربانیوں کی عید ہے کیونکہ اضحی کا لفظ عربی زبان میں اضحاۃ یا اضحہ کی جمع ہے جس کے معنے قربانی کے جانور کے ہیں اور اس دن کا دوسرا نام اسلامی اصطلاح میں یوم النحر بھی ہے جس کے معنے قربانی والے دن کے ہیں اور یہ دونوں نام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استعمال فرمائے ہیں اور حدیث میں کثرت کے ساتھ آتے ہیں.اور حدیث کی کوئی کتاب بھی ان ناموں کے ذکر سے خالی نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ ان ناموں کے سوا اس دن کے لئے حدیث میں کوئی اور نام استعمال ہوا ہی نہیں.اس تعلق میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ حج والی قربانیوں کے لئے قرآن شریف اور حدیث میں ھدی کا لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ اضحی کا لفظ جو عید الاضحیٰ کی قربانیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.(۳) جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہے عید الاضحی ہجرت کے بعد دوسرے سال میں شروع ہوئی ( زرقانی و تاریخ الخمیس ) اور اس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں گویا نو دس بڑی عید میں آئیں.اس کے مقابل پر حج آپ نے صرف ایک دفعہ کیا ہے اور یہ وہی حج ہے جو

Page 934

مضامین بشیر ۹۲۲ حجۃ الوداع کہلاتا ہے.یہ حج آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال میں ادا فرمایا.طبری و فتح الباری شرح بخاری ) اور اس کے صرف اڑھائی ماہ بعد آپ وفات پاگئے.(۴) قرآن شریف نے صراحت فرمائی ہے کہ حج کی عبادت کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا ( سورۃ حج رکوع نمبر ۴) جنہوں نے خدائی حکم سے اپنے پلو ٹھے فرزند حضرت اسمعیل کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا کر آباد کیا.جہاں زندگی کے بقا کا کوئی سامان نہیں تھا اور حقیقہ یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس خواب کی تعبیر تھی جس میں آپ نے دیکھا کہ میں اپنے بچے کو ذبح کر رہا ہوں.اس موقعہ پر خدا نے بچے کی قربانی کی جگہ ظاہر میں جانور کی قربانی مقرر فرمائی مگر حقیقت کی رو سے انسان کی قربانی بھی برقرار رہی.یہ گویا پہلا انسانی وقف تھا جو خدا کی راہ میں پیش کیا گیا تا کہ خدا تعالیٰ حضرت اسمعیل کو اس ”موت“ کے بعد ایک نئی زندگی دے کر اس درخت کی تخم ریزی کرے جس سے بالآخر عالمگیر شریعت کے حامل سید ولد آدم فخر انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود با جود پیدا ہونے والا تھا.حج میں قربانی کی رسم اسی اسمعیلی قربانی کی ایک ظاہری علامت ہے تا کہ اس کے ذریعہ اس بے نظیر قربانی کی یا دزندہ رکھی جا سکے.جس کے شجرہ طیبہ نے مکہ کی بظاہر بے شمر وادی میں وہ عدیم المثال ثمر پیدا کیا جس کے دم سے دنیا میں روحانیت زندہ ہوئی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : انا ابن الذبحين ۱۶۲ یعنی میں دو ذبح ہونے والی ہستیوں کا فرزند ہوں“ ایک اسمعیل کا جسم جو گویا مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں آباد کر کے عملاً ذبح کر دیا گیا اور دوسرے اسمعیل کی روح جو خدا کے حضور وقف علی الدین کے ذریعہ قربان ہوئی.عید الاضحی کی قربانیاں اسی مقدس قربانی کی یاد گار ہیں مگر اس زمانہ کے روحانی تنزل اور مادی عروج پر انسان کیا آنسو بہائے کہ اس عظیم الشان قربانی کی یاد کو زندہ رکھنا تو در کنار آج اکثر مسلمان عید الاضحی کا نام تک فراموش کر چکے ہیں.چنانچہ جسے دیکھو عید الاضحی ( قربانیوں کی عید ) کی بجائے جو اس عید کا اصل نام ہے عید الضحی (صبح کے وقت کی عید ) کہتا ہوا سنائی دیتا ہے اور اس افسوسناک غلطی سے اچھے پڑھے لکھے لوگ حتی کہ اخباروں کے نامہ نگار اور کئی ایڈیٹر صاحبان بھی مستثنی نہیں.بھلا جو لوگ اپنی قربانیوں والی عید کے نام سے ” قربانی کا لفظ تک حذف کر کے اسے وقف طاق نسیاں کر چکے ہوں وہ اس کی قربانی کی عبادت کو کس طرح یا درکھ سکتے ہیں.حالانکہ جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے.یہ نام خود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا رکھا ہوا ہے.

Page 935

۹۲۳ مضامین بشیر (۵) یہ بات بھی یا درکھنے کے قابل ہے ( گوشا ئد ا کثر لوگ اسے نہیں جانتے ) کہ عید اضحی کی نما زصرف غیر حاجیوں کے لئے مقرر ہے اور حاجیوں کے لئے مقرر نہیں اور نہ یہ نماز حج میں ادا کی جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ حج خود اپنے اندر ایک بھاری عید ہے کیونکہ اس میں عید کے چاروں عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں.یعنی (الف) عبادت (ب) مومنوں کا اجتماع (ج) خوشی اور (د) عود یعنی اس دن کا بار بار لوٹ کر آنا.اس لئے شریعت نے عید اضحی کی نما ز صرف غیر حاجی مقیم لوگوں کے واسطے رکھی ہے تا کہ جہاں ایک طرف حج کے ایام میں حاجی لوگ حج کی عید منا رہے ہوں وہاں غیر حاجی جنہیں کسی مجبوری کی وجہ سے حج کی توفیق نہیں مل سکی وہ اکناف عالم میں اپنی اپنی جگہ پر عید کر کے اس عظیم الشان قربانی کی یاد کو تازہ رکھیں جس کا حضرت اسمعیل کے وجود میں آغاز ہوا اور پھر آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود میں وہ اپنے معراج کو پہنچی.پس حدیث میں جہاں کہیں بھی عید اضحی کی نماز کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی قربانی کا ذکر آتا ہے وہ لازماً غیر حاجیوں کی قربانی سمجھی جائے گی.عید اضحی کی قربانی کے عقبی منظر میں اوپر کی پانچ باتیں اتنی نمایاں اور واضح ہیں اور ان کی تائید میں ایسے روشن اور قطعی ثبوت موجود ہیں کہ کوئی شخص : اسلامی تعلیم سے تھوڑی بہت واقفیت بھی رکھتا ہو وہ خواہ کسی فرقہ کا ہو ان کے انکار کی جرات نہیں کر سکتا اور اسی لئے میں نے ان باتوں کی تائید میں حوالے اور شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی لیکن اگر کوئی شخص انکار کرے تو ان پانچ باتوں میں سے ہر بات کے متعلق یقینی اور ناقابل تردید ثبوت پیش کئے جا سکتے ہیں.اس کے بعد میں اصل سوال کو لیتا ہوں.پہلا سوال یہ ہے کہ کیا عید اضحی کے موقعہ پر غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی واجب ہے؟ اور اگر واجب ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ یا درکھنی چاہئیے کہ اگر واجب یا ضروری کا سوال ہو.تو غیر حاجی تو در کنار حاجیوں پر بھی قربانی ہر صورت میں واجب نہیں ہے بلکہ اس کے لئے شریعت نے بعض خاص شرطیں لگائی ہیں.مثلاً خالی حج کرنے والے پر ( جو اصطلاحاً افراد کہلاتا ہے ) قربانی واجب نہیں بلکہ صرف اس صورت میں واجب ہے کہ وہ حج اور عمرہ کو ایک ہی وقت میں جمع کرنے والا ہو.جسے اسلامی اصطلاح میں تمتع یا قران کہتے ہیں یا وہ ایسے حاجی پر واجب ہے جو حج کی نیت سے نکلے مگر پھر حج کی تکمیل سے پہلے کسی مجبوری کی بناء پر حج ادا کرنے سے محروم ہو جائے اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مالی لحاظ سے قربانی کی طاقت رکھتا ہو ورنہ وہ قربانی کی بجائے روزہ کا کفارہ پیش کر سکتا ہے.پس جب ہر حالت میں حاجیوں کے لئے بھی قربانی فرض نہیں تو یہ کس طرح دعوی کیا جا سکتا ہے کہ غیر حاجیوں کے لئے وہ فرض یا واجب ہے؟

Page 936

مضامین بشیر ۹۲۴ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے شک قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے غیر مستطیع لوگوں کے لئے قربانی واجب نہ سہی مگر کیا وہ ایسی طاقت رکھنے والے مستطیع لوگوں کے لئے واجب ہے جو غیر حاجی ہوں ؟ اس کے جواب میں اچھی طرح یا درکھنا چاہئیے کہ گو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے فرض ، واجب سنت وغیرہ کی فقہی اصطلاحیں استعمال نہیں کیں مگر صحیح احادیث سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ عید اضحی کے موقعہ پر ہر قربانی کی اور اپنے صحابہ کو بھی اس کی تاکید فرمائی.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ عن ابی عمر قال قام رسول الله صلى الله عليه و سلم بالمدينة عشر سنين يضحى ۶۳ د یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں دس سال گزارے اور آپ نے ہمیشہ عید اضحی کے موقعہ پر قربانی کی.“ بلکہ آپ کو عید اضحی کی قربانی کا اس قدر خیال تھا کہ آپ نے وفات سے قبل اپنے داماد اور چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ میرے بعد بھی میری طرف سے عید اضحی کے موقعہ پر قربانی کرتے رہنا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :- عن حنش قال رايت عليا رضى الله عنه يضحي بكبشين فقلت له ماهذا قال ان رسول صلى الله عليه وسلم اوصانی ان اضحی عنه فانا اضحی عنه ۶۴ رض د یعنی حنش روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا کہ وہ عید اضحی کے موقعہ پر دو دنبے قربان کر رہے تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دنبوں کی قربانی کیسی ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ کی طرف سے ( آپ کی وفات کے بعد ) قربانی کرتا رہوں.سو میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں اور عید اضحی کے دن قربانی کرنا آپ کا ذاتی فعل ہی نہیں تھا بلکہ آپ اپنے صحابہ کو بھی اس کی تحریک فرماتے تھے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :- عن البراء قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر فقال ان اول ما نبداء به في يومنا هذا ان نصلى ثم نرجع فنحر فمن

Page 937

۹۲۵ مضامین بشیر فعل ذالک فقد اصاب سنتنا ย ۲۵ یعنی حضرت براء روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عید اضحی کے دن خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ اس دن پہلا کام یہ کرنا چاہئیے کہ انسان عید کی نماز ادا کرے اور پھر اس کے بعد قربانی دے.سو جس نے ایسا کیا.اس نے ہماری سنت کو پالیا.“ اوپر کی حدیث میں ایک طرح سے سنت کا لفظ بھی آگیا ہے اور چونکہ یہ اصطلاحی طور پر استعمال نہیں ہوا.اسی لئے اس سے وجوب کا پہلو بھی مراد ہو سکتا ہے اور ایک دوسرے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ: YY من وجد سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا.در یعنی جس شخص کو مالی لحاظ سے توفیق ہوا اور پھر بھی وہ عید اضحی کے موقعہ پر قربانی نہ کرے.اس کا کیا کام ہے کہ ہماری عیدگاہ میں آکر نماز میں شامل ہو.؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد جس تاکید کا حامل ہے.وہ کسی تشریح کی محتاج نہیں اور جیسا کہ آنحضرت صلعم کے ہر دوسرے ارشاد کو مقبولیت کی برکت حاصل ہوئی.اسی طرح اس ارشاد کو بھی صحابہ کرام نے اپنا حزرجان بنایا.چنانچہ حدیث میں لکھا ہے کہ :- عن جبلة ابن سيحم ان رجلاً سال ابن عمر عن الاضحية اواجبة هي فقال ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون فاعادها عليه فقال اتعقل ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون - ย یعنی جبلہ ابن سیم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے دریافت کیا کہ کیا عید اضحی کی قربانی واجب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلعم خود بھی قربانی کرتے تھے اور آپ کی اتباع میں صحابہ ” بھی کرتے تھے.اس شخص نے اپنے سوال کو پھر دہرایا اور کہا کیا قربانی واجب ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا.کیا تم میری بات سمجھ نہیں سکتے.میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلعم خود بھی قربانی کیا کرتے تھے اور آپ کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی.“

Page 938

مضامین بشیر ۹۲۶ آنحضرت صلعم کا یہ کام صرف شوق کی خاطر یا دوستوں اور غریبوں کو گوشت کھلانے کی غرض سے نہیں تھا بلکہ آپ اسے ایک دینی کام سمجھتے اور بھاری ثواب کا موجب خیال فرماتے تھے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ : " رض ” عن زيد بن ارقم قال اصحاب رسول الله صلعم يا رسول الله ما هذا الاضاحي قال سنة ابيكم ابراهيم.قالو في لنا فيها يا رسول الله قال بكل شعرة حسنة یعنی زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ یہ عید الاضحیٰ کی قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ نے فرمایا.تمہارے جدا مجد ابراہیم کی جاری کی ہوئی سنت ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ پھر ہمارے لئے اس میں کیا فائدہ کی بات ہے؟ آپ نے فرمایا.قربانی کے جانور کے جسم کا ہر بال قربانی کرنے والے کے لئے ایک نیکی ہے.جو ا سے خدا سے اجر پانے کا مستحق بنائے گی.“ 66 اور ایک اور موقعہ پر آپ نے نہ صرف اپنی طرف سے قربانی کی بلکہ تحریک اور تاکید کی غرض سے اپنی امت کی طرف سے بھی قربانی دی.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :- " عن عائشه ان رسول الله صلعم امر بكبش ثم نجعله ثم قال ۱۶۹ بسم الله اللهم تقبل من محمد وال محمد و من امة محمد _ د و یعنی حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ ایک عید کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دنبہ منگوایا.پھر اسے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ذبیح کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ دنبہ خدا کے نام کے ساتھ ذبح کرتا ہوں اور پھر دعا فرمائی کہ اے میرے خدا اس قربانی کو تو محمد ( صلعم ) کی طرف سے اور محمد (صلعم) کی آل کی طرف سے اور محمد (صلعم) کی ساری امت کی طرف سے قبول فرما.کیا ان واضح اور قطعی روایتوں کے ہوتے ہوئے جو صرف نمونہ کے طور پر لی گئی ہیں کوئی سچا اور واقف کار مسلمان اس بات کے کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ قربانی صرف حاجیوں کے لئے ہے اور غیر حاجیوں کے لئے عید اضحی کے موقعہ پر کوئی قربانی مقرر نہیں.بے شک یہ درست ہے.قربانی صرف طاقت رکھنے والے لوگوں پر واجب ہے اور بعض احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اگر سارے گھر کی طرف سے ایک مستطیع شخص قربانی کر دے تو یہ قربانی سب کی طرف سے سمجھی جاسکتی ہے.مگر بہر حال

Page 939

۹۲۷ مضامین بشیر عید اضحی کے موقعہ پر حسب توفیق قربانی کرنا ہمارے رسول (فداہ نفسی ) کی ایک مبارک سنت ہے.جس کے متعلق ہمارے آقا نے تاکید فرمائی اور اسے بھاری ثواب کا موجب قرار دیا ہے.اس موقعہ پر بعض لوگ یہ سوال اٹھایا کرتے ہیں کہ بیشک حدیثوں میں عید اضحی کی قربانی کا ثبوت ملتا ہے.لیکن چونکہ قرآن شریف میں اس کا کوئی ذکر نہیں اس لئے ایک زائد قسم کی بات سمجھی جائے گی.جسے زمانہ کے حالات کے ماتحت ترک کیا جا سکتا ہے.مگر یہ نظر یہ بالکل باطلی اور اباحت اور زندیقی رجحانات سے مامور ہے.کیا قرآن شریف نے یہ نہیں فرمایا کہ : لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ یعنی اے مسلمانو! تمہارے لئے رسول خدا کی سنت میں ایک بہترین نمونہ ہے.جسے تمہیں اپنی زندگیوں کے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے.“ 66 اور دوسری جگہ فرماتا ہے اور بار بار کثرت کے ساتھ فرماتا ہے کہ:- أطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ - د یعنی اے مسلمانو خدا کی اطاعت کرو اور اس کے ساتھ ساتھ رسول کی اطاعت بھی کرو.اب اگر خدا کی اطاعت ( یعنی دوسرے الفاظ میں قرآنی وحی پر ہی ) سارے اسلامی احکام کا خاتمہ ہو گیا تھا تو پھر قرآن شریف کو ان الفاظ کے زیادہ کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ أطِيعُوا الرَّسُولَ ( یعنی رسول کی بھی اطاعت کرو ) حق یہی ہے کہ چونکہ قرآنی وحی میں اختصار کی غرض سے کئی جگہ اجمال کا رنگ ہے اور ہر شخص اجمالی احکام کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا.اسی لئے خدا تعالیٰ نے کمال حکمت سے رسول کی اطاعت کو بھی شریعت کا حصہ قرار دیا ہے تا کہ شریعت میں کوئی پہلو عدم تکمیل کا باقی نہر ہے اور نہ کوئی شخص جھوٹے عذر بنا کر شریعت کے حکموں کو ٹال سکے.پس اگر ایک بات قطعی شہادت کے ذریعہ اور حدیث سے ثابت ہو جائے تو وہ ہمیں بہر حال قبول کرنی ہوگی اور میں اس شخص کی جرات کو یقیناً بے دینی کا مظاہرہ خیال کرتا ہوں جو محمد صلعم جیسے رسول کی اُمت میں ہو کر پھر یہ کہتا ہے کہ میں محمد کی بات نہیں مانتا.وہ اپنی بیوی اور اپنے بچوں اور اپنے دوستوں کی تو روزانہ سینکڑوں باتیں مانتا ہے مگر جب افضل الرسل محمد رسول اللہ صلم کی بات بیان کی جائے تو کہتا ہے یہ نہیں بلکہ کوئی قرآنی آیت پیش کرو.هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ ۷۲ لیکن حق یہ ہے کہ قرآن شریف بھی اس مسئلہ میں خاموش نہیں بلکہ اس نے بھی اپنے طریق کے

Page 940

مضامین بشیر ۹۲۸ مطابق قربانیوں کے مسئلہ پر اصولی روشنی ڈالی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ :- إنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَةُ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْةُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُة 66 ۷۳ د یعنی اے رسول ہم نے تجھے اسلام کے ذریعہ ایک وسیع اور کامل نعمت عطا کی ہے.اب تجھے اس نعمت کو قائم رکھنے کے لئے چاہیے کہ خدا کی نماز ادا کر اور اس کے رستہ میں قربانی دے اس کے نتیجہ میں دین و دنیا کی نعمتیں تیری طرف سمٹی آئیں گی اور تیرا دشمن خیر و برکت سے محروم رہے گا.“ یہ آیت بلکہ یہ سورۃ ( کیونکہ یہی ساری سورۃ ہے ) مکہ کے آخری زمانہ میں یا مدینہ کے شروع زمانہ میں نازل ہوئی تھی جب کہ ابھی تک کعبہ کفار کے قبضہ میں تھا اور حج بھی ابھی فرض نہیں ہوا تھا.اس لئے اس جگہ تحر یعنی قربانی کے لفظ میں حج کی قربانی مراد نہیں سمجھی جائے گی.بلکہ عام قربانی مراد سمجھی جائے گی.جس کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ وسیع موقع عید الضحیٰ کے ایام ہیں اور میں بتا چکا ہوں کہ عید اضحی کا دوسرا نام یوم النحر بھی ہے.اس کے علاوہ دوسری جگہ حج کے احکام کی ضمن میں قرآن شریف فرما تا ہے کہ: فَإِنْ أَحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي یعنی اے مسلما نو اگر تم کسی مجبوری کے نتیجہ میں حج سے روک دیئے جاؤ تو تمہیں چاہئے کہ اس کے کفارہ کے طور پر خدا کے رستہ میں قربانی کرو.“ ب بے شک یہ آیت نظام قربانیوں کے متعلق ہے جو حج کے ارادہ سے نکلیں اور پھر رستہ میں کسی مجبوری ( مثلاً بیماری یا دشمن کے روکنے یا زاد راہ کے ضائع جانے وغیرہ ) کی وجہ سے حج کی تکمیل سے روک دیئے جائیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہا درجہ نکتہ رس طبیعت نے غالباً اس قرآنی آیت میں بھی یہ اشارہ سمجھا کہ ہر بچے مسلمان کے دل میں طبعا حج کی خواہش ہوتی ہے اور اگر وہ کسی مجبوری کی وجہ سے حج کے لئے نہیں جا سکتا تو ایک طرح اس کا معاملہ بھی گویا اس آیت کے نیچے آجاتا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حج سے روک دیئے جاؤ تو قربانی دو.پس اگر غور کیا جائے تو اس آیت سے بھی عید اضحی کی قربانی کا استدلال ہوتا ہے اور اغلب یہ ہے کہ جس طرح مثلاً ! نماز کے اجمالی حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ نمازوں کے وقتوں کی تعین فرما کر ان کا حکم دیا.اسی طرح آپ نے حج سے روکے جانے کی صورت میں قربانی دینے کے حکم سے بھی یہ استدلال فرمایا ہو گا کہ ہر وہ مسلمان جو کسی مجبوری کی وجہ سے حج کو نہیں جا سکتا.وہ گویا با معنی احصر تم کے مفہوم میں آ جاتا ہے اور اگر وہ قربانی کی طاقت رکھتا ہے ( کیونکہ طاقت کا ہونا بہر حال لازمی شرط ہے ) تو اسے چاہئیے کہ

Page 941

۹۲۹ مضامین بشیر قربانی دے کر نہ صرف حضرت اسمعیل کی قربانی کی یاد کو زندہ رکھے بلکہ حج کی محرومی کا کفارہ بھی دے.بہر حال ایک طرف قرآن شریف میں فصل لربک وانحر (نماز کو قائم کر اور قربانی دے) کا حکم نازل ہونا اور دوسری طرف یہ قرآنی ارشاد کہ ” جب تم حج سے رو کے جاؤ تو قربانی دو اس بات کی طرف قطعی اشارہ کر رہے ہیں کہ قربانی کے حکم کی اصل بنیا د قرآن مجید پر ہی قائم ہے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی دراصل اسی قرآنی حکم کی فرع ہیں.اب رہا یہ سوال کہ آیا عید اضحی کی قربانی فرض ہے یا کہ واجب یا سنت وغیرہ ؟ سو گو غیر اصطلاحی طور پر سنت کا لفظ اوپر کی حدیثوں میں آچکا ہے مگر بہر حال یہ فقہاء کی اصطلاحیں ہیں جن میں ہمیں جانے کی چنداں ضرورت نہیں.ہمارے لئے صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ قربانی کے حکم کی بنیاد قرآن نے قائم فرمائی اور پھر اس بنیاد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اقوال وارشادات نے مستحکم کیا اور آنحضرت صلعم نے اسے بھاری ثواب کا موجب قرار دیا.لیکن اگر کسی صاحب نے ائمہ فقہ کا مذہب اور ان کی اصطلاح میں بھی اس مسئلہ کا مطالعہ کرنا ہو تو اس کے لئے ذیل کے دو مختصر سے حوالے کافی ہونے چاہئیں.مع المسلمون على ۷۵ یعنی عید اضحی کی قربانیوں کی مشروعیت پر تمام مسلمانوں کا اجتماع ہے.جس کی تفصیل یہ ہے کہ عام آئمہ فقہ کے نزدیک تو عید اضحی کی قربانی ایک سنت موکدہ ہے لیکن حنفی اماموں کا یہ فتویٰ ہے کہ وہ محض سنت نہیں بلکہ واجب ہے اور بہر صورت اس کی شرط یہ ہے کہ انسان مالی لحاظ سے اس کی طاقت رکھتا ہو.“ اور ترمذی کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ:- اختلفواان الاضحية واجبة أو سنة فذهب ابوحنفية و صاحباه انها واجبة على كل حر مسلم مقیم موسر و عند الشافعى سنة موكدة وهو المشهور فى مذهب احمد و في مذهب مالک انه سنة واجبة على من استطاعها - دو یعنی اس بات میں اختلاف ہوا ہے کہ عید اضحی کی قربانی واجب ہے یا کہ سنت ؟ امام ابوحنیفہ اور ان کے دو ساتھیوں ( امام ابو یوسف اور امام محمد ) کا مذہب یہ ہے کہ یہ آزاد مقیم صاحب استطاعت مسلمان پر قربانی واجب ہے.مگر امام شافعی کے نزدیک وہ واجب نہیں بلکہ سنت موکدہ ہے اور یہی مشہور مذہب امام احمد کا ہے اور

Page 942

مضامین بشیر ۹۳۰ امام مالک کے نزدیک عید کی قربانی ایک ایسی سنت ہے جو واجب کی حد کو پہنچی ہوئی ہے.بشرطیکہ مالی لحاظ سے قربانی کرنے والے کو اس کی طاقت ہو.“ ان دو حوالوں سے ظاہر ہے کہ حنفی اماموں کے نزدیک (اور مغربی پاکستان میں قریباً پچانوے فی صدی مسلمان حنفی اصحاب ہی ہیں ) عید اضحی کی قربانی ہر طاقت رکھنے والے مسلمان پر واجب ہے اور قریباً یہی مذہب امام مالک کا ہے مگر دوسرے دو اماموں کے نزدیک وہ واجب تو نہیں مگر سنت موکد ضرور ہے یعنی وہ ایسی سنت ہے جس کے متعلق شارع علیہ السلام نے اپنے قول و فعل کے ذریعہ خاص تاکید فرمائی ہے.پس اس سے زیادہ مجھے اس مسئلہ میں فقہی لحاظ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں و حسبک ما قال الله والرسول والاجدم انه هو القول المقبول - ( مطبوعه الفضل ۱۸ اگست ۱۹۵۰ء)

Page 943

۹۳۱ مضامین بشیر عید الاضحی کی قربانیاں کیا غیر حاجیوں کے لئے بھی قربانی ضروری ہے؟ کیا قربانی کی جگہ غرباء میں نقد روپی قسیم کر دینا جائز نہیں ؟ اس سوال کا جواب پہلی قسط میں گزر چکا ہے کہ کیا عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی صرف حاجیوں کے لئے مقرر ہے یا کہ اسے طاقت رکھنے والے غیر حاجیوں کے لئے بھی ضروری قرار دے گیا ہے.اب میں اس بحث کے دوسرے سوال کو لیتا ہوں یعنی یہ کہ اگر عید الاضحیٰ کے موقعہ پر غیر حاجیوں کی قربانی کا ثبوت ملتا بھی ہو تو پھر بھی کیا موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ مناسب نہیں کہ جانور قربان کر کے ضائع کرنے کی بجائے غریبوں میں نقد روپیہ تقسیم کر دیا جائے جو کئی قسم کی ضرورتوں میں ان کے کام آ سکتا ہے؟ سو اس کے متعلق اصولی طور پر تو صرف اس قدر جاننا کافی ہے کہ نقد روپے کی صورت میں غریبوں کی امداد کرنا موجودہ زمانہ کی ایجاد نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اس کا طریق موجود اور معلوم تھا اور خود قرآن شریف میں بھی جا بجا اس قسم کی امداد کی تحریک پائی جاتی ہے تو جب یہ طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی موجود تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کئی موقعوں پر استعمال بھی فرمایا تو ہر عقل مند انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ جب شارع علیہ السلام بلکہ خود ذات باری تعالیٰ نے عید اضحی کے موقعہ پر نقد روپے یا غلہ ( جو آسانی سے نقدی میں منتقل کیا جا سکتا ہے ) کی تقسیم کی بجائے قربانی کا نظام قائم کر کے قربانیوں کی تاکید فرمائی.حالانکہ ان کے سامنے نقد روپے اور غلہ وغیرہ کی تقسیم کا طریق موجود تھا تو لا محالہ اس طریق کے اختیار کرنے میں کوئی خاص مصلحت سمجھی جائے گی ورنہ ایک زیادہ معروف اور زیادہ سہل طریق کو چھوڑ کر قربانی کا طریق کیوں اختیار کیا جاتا ؟ پس یہ فرق اور یہ امتیاز ہی اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی کا نظام مقرر کرنے میں خدا اور اس کے رسول کے سامنے کوئی خاص غرض مد نظر تھی اور پھر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ خدا کے سامنے صرف زمانہ کے حالات تھے اور اسے موجودہ زمانہ کے حالات پر اطلاع نہیں تھی کیونکہ خدا عالم الغیب ہے اور یقینا کسی زمانہ کا کوئی امر اس سے

Page 944

مضامین بشیر ۹۳۲ پوشیدہ نہیں سمجھا جا سکتا.یہ استدلال اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دوسری عید یعنی عید الفطر کے موقعہ پر فطرانہ کی صورت میں غلہ یا نقد روپے کی تقسیم کا نظام قائم فرمایا ہے تو جب آپ عید الفطر کے موقعہ پر غلہ یا نقدی کا نظام جاری فرما سکتے تھے تو آپ کے لئے اس بات میں کیا روک تھی کہ عید الاضحیٰ کے موقعہ پر بھی یہی نظام جاری فرما دیتے ؟ پس دونوں عیدوں کے انفاق کے طریق میں ایک بین اور نمایاں فرق قائم کرنا اس بات کی قطعی اور یقینی دلیل ہے.کہ خواہ ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے یہ امتیاز بہر حال کسی خاص مصلحت کی بناء پر قائم کیا گیا ہے.وهو المراد فافهم وتدبرو لا تكن من الممترين یہ تو اس سوال کا ایک اصولی جواب تھا.حقیقی جواب یہ ہے کہ ہماری شریعت جو ایک دائمی اور عالمگیر شریعت ہے اور حکیم وعلیم ہستی کی طرف سے آئی ہے.فطرت انسانی کے سارے پہلوؤں کی تربیت کو ملحوظ رکھتی ہے اور گوتربیت انسانی کے بیسیوں پہلو ہیں مگر فطرت انسانی اور شریعت کے بغور مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ تربیت کے مختلف پہلوؤں میں سے شریعت نے دو پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی ہے اور یہ دو پہلو مال اور جان کی قربانی سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ یہ دو پہلو حقیقہ ایک جڑھ کے حکم میں ہیں.جس سے آگے دوسری شاخیں پھوٹتی ہیں.روحانی اور اخلاقی تربیت کے ان دو پہلوؤں کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے : إنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ LL د یعنی خدا تعالیٰ نے مومنوں کی جانیں ( النفس کے لفظ میں اپنی جان اور اپنے متعلقین کی جانیں ہر دو شامل ہیں ) اور ان کے مال اس شرط کے ساتھ خرید لئے ہیں کہ وہ انہیں اس کے بدلہ میں جنت عطا کرے گا.“ اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ : فَضَّلَ اللهُ المُجْهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَعِدِينَ دَرَجَةً یعنی خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعہ خدا کے راستہ میں کوشش کرتے رہتے ہیں ان لوگوں پر بھاری درجہ عطا کیا ہے جو ( صرف ذاتی نماز روزہ میں مصروف رہ کر ) بیٹھے رہتے ہیں.پس مال اور جان کی قربانی اور ان قربانیوں کے لئے مومنوں کی تربیت کا انتظام اسلامی تعلیمات کا ایک اہم ترین حصہ ہے اور حق یہ ہے کہ یہ وہ وسیع میدان ہیں جس میں اسلام کی تمام قربانیاں مختلف صورتوں میں چکر لگاتی ہیں اور اسلام کے بیشتر احکام انہی دو قسم کی قربانیوں کی تربیت کے لئے نازل

Page 945

۹۳۳ مضامین بشیر کئے گئے ہیں کیونکہ یہ دونوں قربانیاں فطرت انسانی کے لئے بنیادی چیزیں ہیں.اگر اسلام صرف مال کی قربانی پر زور دیتا یا اگر وہ صرف جان کی قربانی پر زور دیتا تو اس ادھورے پروگرام کے ماتحت تربیت پانے والے لوگ یقیناً ایسے ہوتے کہ ان کا آدھا دھڑ تو تندرست اور تر و تازہ ہوتا اور باقی آدھا دھڑ کمزور اور لاغر ہونے کی وجہ سے نیم مردہ نظر آتا اور یہ لوگ قومی امتحانوں کے زمانہ میں یقیناً کچے دھاگوں سے بہتر ثابت نہ ہوتے.پس اسلام نے کمال حکمت سے ان دونوں قسم کی تربیت کو اہمیت دے کر ان کی طرف یکساں توجہ دی ہے.اس نے مسلمانوں سے مالی قربانی بھی کرائی ہے اور جانی قربانی کی تربیت کے لئے بھی مناسب احکام صادر کئے ہیں.اور اسی مضمون کی طرف اوپر کی آیتوں میں اشارہ کیا گیا ہے تا کہ یہ بتایا جائے کہ حقیقی جنت انسان کو صرف اس صورت میں مل سکتی ہے خواہ وہ دنیا کی جنت ہو یا دین کی جنت) کہ جب وہ مالی اور جانی دونوں قسم کی قربانی پیش کرے اور قوموں کی ترقی کا بھی اس دہری قربانی کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں.انہیں لازماً جانی اور مالی ہر دو قسم کی قربانیوں کی بھٹی میں سے گزرنا پڑتا ہے.تب جا کر ان کا پودا پروان چڑھتا ہے.پس اسلام نے جو عید الاضحی کے موقعہ پر جانوروں کی قربانی مقرر فرمائی ہے.اس میں یہی گہری غرض مدنظر ہے کہ تا اس ذریعہ سے مسلمانوں کو جانی قربانی کی طرف توجہ دلائی جائے اور یہ غرض عید الاضحیٰ کی قربانی سے ہمیں اس طرح حاصل ہوتی ہے.( اول ) اس طرح کہ اس قربانی کے ذریعہ حضرت اسمعیل کی قربانی کی یا د زندہ ہوتی اور تازہ رہتی ہے.جنہوں نے اپنا جسم اور اپنی روح دو نو خدا کی راہ میں قربان کر دیئے اور پھر اس قربانی کے نتیجہ میں خدا نے محمد رسول اللہ صلعم جیسا مبارک ثمر پیدا کیا.( دوم ) اس طرح کہ مسلمانوں کو اس ذریعہ سے توجہ دلائی جائے کہ جس طرح یہ بھیٹر میں اور یہ بکریاں اور یہ اونٹ اور یہ گائیں جو انسانوں کی ملکیت ہیں اور ان کی جانیں انسان کے فائدہ کی خاطر قربان ہوتی ہیں.اسی طرح انسان کو بھی جو اشرف المخلوقات ہے چاہیے کہ وہ بھی ضرورت کے وقت اپنی قوم اور اپنے دین اور اپنے خالق و مالک خدا کی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار رہے اور وقت آنے پر کچا دھاگہ ثابت ہونے کی بجائے لبیک لبیک کہتا ہوا آگے آجائے.( سوم ) اس طرح کہ جانوروں کے ذبح ہونے کا نظارہ دکھا کر مسلمانوں کے دلوں میں سے خوف اور دہشت کے ان دقیق جذبات کا استیصال کیا جائے جو اکثر گوشت نہ کھانے والی قوموں کے اندر پیدا ہو کر ان کی کمزوری کا موجب بن جاتے ہیں اور اسی لئے اسلام نے اس بات کی تحریک کی ہے کہ حتی الوسع قربانی کرنے والا خود اپنے ہاتھ سے قربانی کرے اور کم از کم کسی خاص مجبوری کے سوا اپنے

Page 946

مضامین بشیر ۹۳۴ سامنے قربانی کرائے.چنانچہ کتاب الفقہ میں امام ابو حنیفہ کا مذہب ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ :- ان يذبح بيده ان كان يعرف الذبح والا شهرها بنفسه ويامر غيرها 29 د یعنی قربانی کرنے والے کو چاہئے کہ اگر وہ ذبح کرنا جانتا ہے تو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے ورنہ دوسرے سے ذبح کراتے ہوئے قربانی کے وقت خود موجود ہو.“ یہ وہ عظیم الشان سبق ہیں جو قربانیوں کے حکم میں مسلمانوں کو سکھائے گئے ہیں.مگر افسوس ہے کہ آج کل کے بعض نو تعلیم یافتہ لوگ جو اسرار شریعت سے بالکل نا واقف ہیں اور ہر چیز کو مادی عینک کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں قربانیوں کی حکمت اور ان کی غرض وغایت کو سمجھنے کے بغیر شور مچارہے ہیں کہ ان قربانیوں کو مٹا کر ان کی جگہ نقد امداد کا نظام قائم کر دیا جائے.گویا ان کے خیال میں اسلام میں مال کی قربانی کا نظام تو قائم رہے مگر جان کی قربانی کا جذ بہ ختم کر دیا جائے اور شریعت کے آدھے دھڑ کو مفلوج کر کے انسان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا شیرازہ اس طرح بکھیر دیا جائے کہ اسے پھر مجتمع ہونے کی طاقت نہ رہے.اس حالت پر اس کے سوا کیا عرض کیا جائے کہ : گر ہمیں مكتب کار طفلاں تمام ہمیں ملا خواہد شد ایک اور جواب اس سوال کا یہ بھی ہے کہ جب ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلامی شریعت ہمارے علیم و حکیم خدا کی نازل کردہ ہے جو ہر قسم کی انسانی ضرورتوں اور ان ضرورتوں کے پورا کرنے کے مناسب طریقوں کو سب سے بہتر جانتا ہے اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اسلام کی شریعت دائمی اور غیر مبدل ہے تو اس صورت میں ہمارا کیا حق ہے کہ ہم اس کے حکموں میں اپنے خیال سے تبدیلیاں کرتے پھریں اور اس طرح شریعت کو نعوذ باللہ انسانوں کے تخیل کا کھلونہ بنا دیں.بے شک جہاں خود شریعت حالات کی رعایت ملحوظ رکھتی ہو وہاں یہ رعایت ضرور مد نظر کھی جائے گی.مثلاً شریعت نے نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا ہے مگر ساتھ ہی فرمایا دیا ہے کہ اگر پانی نہ ملے یا وضو کرنے سے بیمار ہو جانے کا ڈر ہو تو وضو کو ترک کر کے تیتم کرلو.اسی طرح مثلاً شریعت نے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے مگر ساتھ ہی یہ رعایت رکھ دی ہے کہ اگر بیمار ہوتو بیٹھ کر نماز پڑھ لو یا شریعت نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں لیکن اس حکم کے ساتھ یہ بھی صراحت کر دی ہے کہ اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو تو رمضان کے روزے ترک کر کے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لو وغیرہ وغیرہ.یہ سب صورتیں بالکل جائز اور ہمارے دین متین کا حصہ ہیں مگر کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ شریعت نے عید اضحی کی قربانی کے معاملہ میں بھی اس قسم کی کوئی رعائت دی ہو.پس جب شریعت نے یہ رعائت نہیں دی اور شریعت دائگی اور ابدی ہے تو کسی شخص کو کیا حق پہنچتا

Page 947

۹۳۵ مضامین بشیر ہے کہ اپنی طرف سے شریعت کے احکام میں دخل دے کر کوئی نیا رستہ تجویز کرے.مگر جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں ایک رعائت اسلام نے قربانیوں کے معاملہ میں بھی ضرور دی ہے اور یہ رعائت لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ( خدا انسان پر صرف اسی قدر ذمہ داری ڈالتا ہے جو اس کی طاقت کے اندر ہو ) کے سنہری اصول کے ماتحت دی گئی ہے اس رعائت کا مقصد یہ ہے کہ صرف وہی لوگ قربانی کریں جن کی مالی حالت اس کی اجازت دے.غیر مستطیع لوگوں پر جو قربانی کی طاقت نہیں رکھتے یہ بوجھ کسی صورت میں نہیں ڈالا گیا اور قربانی کے گوشت کے بہتر سے بہتر استعمال کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ خود بھی کھاؤ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی دو، اپنے ہمسایوں کو بھی ہدیہ بھجوا دو اور اپنے محلہ کے غریب اور مفلس لوگوں میں بھی تقسیم کرو تا کہ جانی قربانی کے سبق کے علاوہ اس عید کی خوشی میں جس طرح تمہاری روحیں حصہ لیتی ہیں اسی طرح تمہارے جسم بھی حصہ لیں اور تمہارے عزیز اور ا قارب اور غریب ہمسائے بھی.اور عبادت کے اجر میں جسم کا حصہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ جب عبادت اور خدمت دین کے کام میں جسم اور روح دونو پر بوجھ پڑتا ہے تو یہ خدائے رحیم و حکیم کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ عبادت کی ادائیگی میں تو جسم اور روح دونو پر بوجھ ڈالے مگر اس کے اجر میں جسم کو محروم کر دے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے جہاں عیدوں کے روحانی پہلو پر زور دیا ہے وہاں آپ نے یہ حکیمانہ الفاظ بھی فرمائے ہیں کہ : ايام التشتريق ايام اکل و شرب و ذکر الله _ د یعنی اے مسلما نو عید کے ایام میں اپنے جسموں کا بھی حق ادا کیا کرو اور انہیں دوسرے ایام کی نسبت زیادہ بہتر اور زیادہ سیر کن کھانا دو کیونکہ ذکر الہی کے ساتھ ساتھ یہ دن تمہارے کھانے پینے کے بھی دن ہیں“ اللہ اللہ ہمارا آقا کتنا شفیق و مہربان ہے کہ اس نے انسانی اعمال کا بدلہ دیتے ہوئے اس کے ذاتی جسم کے حق کو بھی فراموش نہیں کیا اور کس دانشمندی کے ساتھ فرمایا ہے کہ جہاں تم عید کے دن نمازیں پڑھو دعائیں کرو اور ذکر الہی میں وقت گزار و وہاں اپنے جسموں کو بھی ان خاص ایام میں خاص کھانا دے کر زیادہ راحت پہنچاؤ کیونکہ وہ بھی تمہاری دینی خدمت میں تمہاری روحوں کے مددگار رہے ہیں اور ان کا حق کسی صورت میں نظر انداز نہیں ہونا چاہئیے اور پھر صرف خود ہی نہ کھاؤ بلکہ اپنے غریب بھائیوں کو بھی دوتا یہ نہ ہو کہ تمہارے گھر میں تو گوشت کی دیگیں چڑھیں اور تمہارے غریب ہمسائے ایک لقمہ اور ایک بوٹی تک کو ترسیں.یہ مضمون میرے اندازہ سے زیادہ لمبا ہو گیا ہے مگر اسے ختم کرنے سے قبل ایک آخری سوال کا

Page 948

مضامین بشیر ۹۳۶ جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کل عید الاضحیٰ کی قربانی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ملک میں گوشت کھانے والوں کی کثرت اور گوشت کے جانوروں کی نسبتاً قلت ہو گئی ہے.اس لئے ملک کے اقتصادی نظام کے ماتحت جانوروں کو بے دریغ ذبح کرنے سے بچانا ضروری ہے ورنہ خطرہ ہے کہ کل کو نہ صرف گوشت کا قحط بلکہ زمیندارہ استعمال کے جانوروں کی قلت بھی ملک کی خوراک کے سوال کو نازک صورت نہ دے دے.یہ سوال بظا ہرا ہم اور قابل غور نظر آتا ہے کیونکہ اس میں شبہ نہیں کہ ایک تو ملکی تقسیم کے فسادات کے دوران میں بعض جانور ضائع گئے اور دوسرے مغربی پاکستان میں خالص مسلمان آبادی کے بڑھ جانے سے گوشت کا خرچ بھی لازماً پہلے کی نسبت زیادہ ہو گیا ہے.اس لئے ایک حد تک جانوروں کی قلت کا اندیشہ سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اندیشہ اتنا حقیقی نہیں کہ قطع نظر دینی مسئلہ کے اس کی وجہ سے قربانیوں کو روکنے کا خیال پیدا ہو کیونکہ اول تو اگر غور سے دیکھا جائے تو قربانی کرنے والے لوگ غالبا ساری آبادی کے لحاظ سے ایک فی صدی سے بھی کم ہوتے ہیں.مثلاً لا ہور جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور غالبا وہ ہے بھی خاصہ متمول شہر اس کی آبادی پندرہ لاکھ بتائی جاتی ہے.اب اگر اس میں اس کے تمول کے لحاظ سے دو فی صدی قربانی ہو تو یہ تمیں ہزار جانور بنتا ہے مگر میں نہیں سمجھتا کہ لاہور میں اتنے جانوروں کی قربانی ہوتی ہو.تو اگر لاہور کا یہ حال ہے تو یقیناً ملکی اوسط ایک فی صدی سے بھی نیچے رہتی ہوگی کیونکہ دیہات میں عموماً بہت ہی کم قربانی ہوتی ہے اور چھوٹے شہروں میں بھی قربانی کی طاقت رکھنے والا طبقہ یقیناً زیادہ نہیں ہوتا.اور بعض احادیث میں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ قربانی کرنے والے افراد موجود ہوں تو با وجود مستطیع افرد کی تعداد زیادہ ہونے کے سارے گھر کی طرف سے صرف ایک قربانی کافی ہو جاتی ہے ( نسائی ) اور اکثر فقہاء نے سنة عين کے الفاظ میں ایک گھر کو بلکہ بعض نے تو ایک خاندان کو ایک ہی یونٹ قرار دیا ہے کتاب الفقه علی المذاہب الا ربعہ ) اس کے علاوہ یہ بھی ظاہر ہے کہ قربانی کے ایام میں جانوروں کو عام تجارتی رنگ میں ذبح کرنے کا سلسلہ رک جاتا ہے اور گوشت کی دوکانیں عملاً بند ہو جاتی ہیں کیونکہ گوشت کھانے والا طبقہ یا تو خود قربانی کر کے اپنے لئے گوشت مہیا کر لیتا ہے اور یا اسے اس کے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسائیوں کی طرف سے گوشت کا ہدیہ پہنچ جاتا ہے.پس اگر ایک طرف عید کے ایام میں قربانی زیادہ ہوتی ہے تو دوسری طرف عام جانورں کے ذبیح کا سلسلہ کم بھی ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ فرق زیادہ نہیں رہتا.پھر قربانی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے انتخاب کے واسطے بھی کچھ شرطیں

Page 949

۹۳۷ مضامین بشیر مقرر فرمائی ہیں.مثلاً یہ کہ وہ اس اس عمر سے کم عمر کا نہ ہو اور یہ کہ دودھ دینے والا جانور ذبح نہ کیا ئے.چنانچہ جب ایک دفعہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک دودھ دینے والی بکری ذبح کرنی چاہی تو آپ نے فرمایا ایساک و الحلوب یعنی دیکھنا دودھ والا جانور ذبح نہ کرنا اسی طرح شریعت نے گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمیوں کی شرکت جائز رکھی ہے تا کہ جانوروں کا بلا وجہ ضیاع نہ ہو.پس جب شریعت نے خود کمال حکمت سے مناسب شرطیں اور ضروری حد بندیاں لگا رکھی ہیں اور ان حد بندیوں کی وجہ سے جانوروں کا بے دریغ اتلاف ممکن نہیں رہتا تو خواہ مخواہ شریعت کے ایک حکیمانہ حکم میں جو فردی اور قومی تربیت کے لئے ضروری ہے روک پیدا کر کے بے دینی کا داغ مول لینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پھر طبی سائنس کی رو سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک نر جانور بہت سی مادہ جانوروں میں نسل کشی کا سلسلہ قائم رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے.پس اگر دودھ والے مادہ جانور محفوظ رہیں اور نر جانوروں میں اتنی کمی نہ آئے جو نسل کی ترقی کو مخدوش کر دے تو حقیقتہ کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا اور زمیندارہ کام میں استعمال ہونے والے جانوروں کو تو ویسے بھی کوئی شخص ذبح نہیں کرتا اور نہ زمیندار اس گھاٹے کے سودے کے لئے تیار ہوتے ہیں.پس جس جہت سے بھی دیکھا جائے یہ خطرہ ایک خیالی خطرہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.بایں ہمہ اگر حکومت ضروری خیال کرے تو اسے یہ انتظامی حق حاصل ہے کہ قربانیوں کے معاملہ میں دخل دینے کے بغیر بعض خاص قسم کے کارآمد جانوروں کے ذبح کرنے کوملکی مفاد کے ماتحت روک دے.اسی طرح پاکستان کی حکومت دوسرے ملکوں کی بیدار مغز حکومتوں کی طرح جانوروں کی نسلی افزائش کے واسطے بھی کئی قسم کی مفید تدابیر ختیار کر سکتی ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ اور امریکہ کے عیسائی ممالک میں ایک طرف سرد آب و ہوا اور دوسری طرف افراد کے نسبتی تمول کی وجہ سے بہت زیادہ جانور ذبح کئے جاتے اور بہت زیادہ گوشت کھایا جاتا ہے.حتی کہ اگر فی کس گوشت کی نسبت نکالی جائے تو یہ خیال کرنا بعید از قیاس نہ ہوگا کہ یورپ و امریکہ کا آدمی پاکستان کے آدمی کی نسبت غالباً تین چار گنا زیادہ گوشت کھاتا ہے لیکن باوجود اس کے وہاں جانوروں کے قحط کا کوئی خاص خطرہ محسوس نہیں کیا گیا جس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں ایک طرف جانوروں کو موٹا کرنے اور دوسری طرف ان کی نسل کو بڑھانے اور تیسری طرف ان کی بیماریوں کو کم کرنے کی خاص تدابیر پر عمل کیا جاتا ہے لیکن اس کے مقابل پر یہاں اکثر لوگوں کو شریعت کے احکام میں دخل دینے کے سوا کوئی تدبیر نہیں سوجھتی اور بدانتظامی کے نقص کو دور کرنے کا علاج صرف یہی نظر آتا ہے کہ شرعی قربانی کو روک کر جانوروں کو محفوظ کر لیا جائے.!! یہ ایک بہت افسوس کا مقام ہے جس کی طرف ارباب حل وعقد کو

Page 950

مضامین بشیر ۹۳۸ فوری توجہ دینی چاہیئے ورنہ بے دینی بھی پیدا ہو گی اور غلط علاج کی وجہ سے اقتصادی نظام بھی تباہ ہو جائے گا.خلاصہ کلام یہ کہ: (۱) عید الاضحی کا نام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رکھا ہوا ہے جو ا سے اسلام کی دوسری عید یعنی عید الفطر سے ممتاز کرتا ہے اور اس کا یہ نام ہی ( جو بد قسمتی سے آج کل غلطی سے عید الضحی مشہور ہو گیا ہے ) اس عید کی غرض و غایت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ عید الاضحیٰ کے معنی قربانیوں کی عید کے ہیں اور یہ عید حضرت اسماعیل کے جسم اور روح کی قربانی کی یاد میں مقرر کی گئی ہے جس کے نتیجہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کامل و مکمل وجود پیدا ہوا.(۲) قرآن شریف نے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ کا حکم نازل کر کے اور اس کے ساتھ فَانُ حْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي کا ارشاد شامل کر کے اسلام میں قربانیوں کی بنیا د قائم فرمائی ہے.Ar (۳) حدیث میں اس بات کا واضح اور قطعی ثبوت ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی کا حکم نازل ہونے کے بعد ہمیشہ عید کے موقعہ پر قربانی فرمائی اور اس کی تاکید کی اور اسے بڑے ثواب کا موجب ٹھہرایا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو مسلمان قربانی کی طاقت رکھتے ہوئے قربانی نہیں کرتا خواہ سارے گھر کی طرف سے ایک ہی قربانی ہو اس کا کیا کام ہے کہ ہماری عیدگاہ میں آکر نماز میں شامل ہو؟ (۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ماتحت مستطیع صحابہ نے بھی ہمیشہ عید الاضحیٰ کے موقعہ پر قربانی کی اور اسے ایک مقدس سنت اور موجب ثواب نیکی شمار کیا.(۵) عید الاضحی کی قربانیوں کی مشروعیت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے.فقہ کے اماموں میں سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے دونو ساتھی عید الاضحیٰ کی قربانی کو طاقت رکھنے والے مسلمانوں کے لئے واجب قرار دیتے تھے اور قریباً یہی مذہب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو اسے سنت واجبہ شمار کرتے ہیں اور باقی دو اماموں نے اسے سنت موکدہ قرار دیا ہے.گو بہر حال سب کے نزدیک طاقت اور قدرت کا ہونا ضروری شرط ہے.(۶) یہ خیال کہ کیوں نہ قربانی کی جگہ نقد امداد کا انتظام جاری کر دیا جائے ایک باطل اور ملحدانبخیال ہے.کیونکہ (الف) اس سے شریعت میں جو خدا اور رسول کی قائم کردہ ہے نا جائز دخل اندازی کا رنگ پیدا ہوتا ہے اور ( ب ) اس سے وہ حکیمانہ غرض و غایت فوت ہو جاتی ہے جو قربانیوں کے نظام میں ملحوظ رکھی گئی

Page 951

۹۳۹ مضامین بشیر ہے یعنی مسلمانوں کے اندر جانی قربانی کی روایات کو زندہ رکھنا اور اس کی تربیت دینا.(۷) یہ اندیشہ بالکل موہوم ہے کہ عید الاضحیٰ کی قربانیوں سے ملک کے جانور اتنے کم ہو جائیں گے کہ خوراک کی قلت کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا اگر چودہ سو سال میں کسی ملک میں یہ خطرہ پیدا نہیں ہوا تو پاکستان میں کیوں پیدا ہو گا ؟ خصوصاً جب کہ قربانی کرنے والا طبقہ ملکی آبادی کا ایک بہت ہی قلیل حصہ ہوتا ہے اور پھر شریعت نے خود بھی قربانی کے لئے مناسب حد بندیاں مقرر کر رکھی ہیں.علاوہ ازیں اگر حکومت جانوروں کی نسلی افزائش اور ان کی بیماریوں کے انسداد کے لئے ضروری تدابیر اختیار کرے تو جانوروں کی قلت کا کوئی دور کا امکان بھی نہیں رہتا.میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس مسئلہ کے سارے ضروری پہلوؤں پر جو اس وقت زیر بحث ہیں اصولی روشنی ڈال دی ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں دین کے لئے رغبت اور دینی باتوں کے لئے احترام کا جذبہ اور احکام شریعت کے سیکھنے کا شوق پیدا ہو کیونکہ اس کے بغیر موجودہ زمانہ کے مادی رجحانات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور جب تک دل بیمار ہے جراح کا علاج کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے کہ : ان في جسد الانسان مضغة اذا فسد فسد الجسد كله واذا صلح صلح الجسد كله الا وهي قلب یعنی انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ایسا ہے کہ اگر وہ خراب ہو جائے تو تمام جسم خراب ہو جاتا ہے اور اگر وہ ٹھیک ہو تو تمام جسم ٹھیک ہو جاتا ہے اوراے مسلما نو کان کھول کر سن لو کہ وہ دل ہے.“ پس ضرورت دل کے ٹھیک ہونے کی ہے کیونکہ گو خیالات اور اعمال کا آلہ دماغ اور اعضاء ہیں مگر تقویٰ کا مرکز دل ہے اور تقویٰ اس بیج اور جڑھ کا نام ہے جس سے تمام نیک خیالات اور نیک اعمال کا درخت پیدا ہوتا ہے.ہمارے سلسلہ کے مقدس بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب کہا ہے کہ : ہر اک نیکی کی جڑھ اتقاء اگر ہے جڑھ رہی سب کچھ رہا ہے پس اب میں اپنے ناظرین سے اجازت چاہتا ہوں.واخر دعونا ان الحمد لله رب العالمين - ( مطبوعه الفضل ۱۹ اگست ۱۹۵۰ء)

Page 952

مضامین بشیر ۹۴۰ عید الاضحی والے مضمون کا تمہ قربانی کا گوشت سکھا کر ذخیرہ بھی کیا جاسکتا ہے عید الاضحیٰ کی قربانی کے متعلق میرا مضمون دو قسطوں میں مکمل ہو کر شائع ہو چکا ہے.اس مضمون میں میں نے ثابت کیا تھا کہ یہ خطرہ کہ عید کی قربانیوں سے ملک میں جانوروں کا قحط ہو جائے گا ایک بالکل موہوم اور خیالی خطرہ ہے کیونکہ اسلام نے قربانیوں کے تعلق میں بعض ایسی حکیمانہ شرطیں لگا دی ہیں کہ انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے یہ خطرہ حقیقہ کبھی پیدا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ (۱) قربانی صرف مستطیع لوگوں کے لئے مقرر کی گئی ہے نہ کہ سب کے لئے اور (۲) اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ مستطیع لوگ موجود ہوں تو اس صورت میں صرف ایک شخص کی طرف سے ہی قربانی کافی ہو جاتی ہے.(۳) کم عمر جانوروں کی قربانی جائز نہیں رکھی گئی تاکہ نسل کی قلت کا خطرہ نہ پیدا ہواور (۴) دودھ دینے والے جانوروں کی قربانی بھی درست نہیں سمجھی گئی.اور (۵) گائے یا بھینس یا اونٹ میں سات آدمیوں کی شرکت جائز قرار دی گئی ہے تا کہ خواہ نخواہ ضیاع کی صورت نہ پیدا ہو وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ قربانی کے دنوں میں گوشت کی دوکانیں عموماً بند ہو جاتی ہیں اور تجارتی رنگ میں جانوروں کا ذبیح ہو نا رک جاتا ہے.جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف قربانی کی وجہ سے زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں تو دوسری طرف عام تجارتی ذبح کا سلسلہ بند ہو جانے سے اس تعداد میں کمی بھی آجاتی ہے.ان ساری باتوں کا مجموعی نتیجہ یقینا اس مزعومہ خطرہ کا مکمل انسداد کر دیتا ہے جو قربانی کی وجہ سے پیدا ہو سکتا ہے.اس پر یہ بات مزید ہے کہ ترقی یافتہ حکومتوں کی طرح حکومت پاکستان کا بھی یہ فرض ہے کہ جانوروں کی افزائش نسل اور ان کی بیماریوں کی روک تھام کے لئے ضروری تدابیر اختیار کرے.ان جملہ امور کے ہوتے ہوئے کون عقل مند یہ خیال کر سکتا ہے کہ عید الاضحیٰ کی قربانیاں ( جو سال میں صرف ایک دفعہ آتی ہے ) ملک میں جانوروں کی قلت کا موجب ہوسکتی ہیں؟ اس کے علاوہ ایک بات میرے سابقہ مضمون میں بیان ہونے سے رہ گئی تھی.اور وہ بھی اسلام کی حکیمانہ تدبیروں میں سے ایک اعلیٰ قسم کی تدبیر ہے جس سے قربانی کی روح کو زندہ رکھتے ہوئے

Page 953

۹۴۱ مضامین بشیر ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کے نا واجب ضیاع کو بچایا ہے.یہ تدبیر قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے تعلق رکھتی ہے.عربوں میں یہ عام طریق تھا جسے اسلام نے برقرار رکھا کہ اگر کسی موقعہ پر زیادہ جانور ذبح ہونے کے نتیجہ میں گوشت کی افراط ہو جاتی تھی تو وہ گوشت کو نمک وغیرہ لگا کر سکھا لیتے تھے اور پھر یہ گوشت ایک لمبے عرصہ تک خراب ہونے کے بغیر قابل استعمال رہتا تھا.چنانچہ اسلام نے قربانی کے گوشت کے متعلق بھی اس قسم کے ذخیرہ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ اس کی تحریک فرمائی ہے.اس طریق کو عربی زبان میں تشریق کہتے ہیں.یعنی گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر اسے مصالحہ وغیرہ لگانے کے بعد خشک کر لینا تا کہ وہ دیر تک محفوظ رہ سکے اور اس لئے عید الاضحیٰ کے بعد کے ایام کو ایام تشریق (یعنی گوشت کو خشک کر کے ذخیرہ کرنے کے دن) کہتے ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قربانی کے گوشت کے متعلق فرماتے ہیں کہ : كلو واطعموا وادخروال ۸۵ د یعنی اے مسلما نو عید الاضحی کی قربانیوں کا گوشت خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ اور فالتو گوشت کو ذخیرہ بھی کرو“.اس حکیما نہ تعلیم کی روشنی میں ہمارے حنفی آئمہ کا فتویٰ ہے کہ : يندب اب ياكل من لحم اضحيته و يدخرو يتصدق والا فضل ان يتصدق ما لثلث و يدخرا الثلث و يتخذ الثلث لا قربائه واصدقائه_ یعنی قربانی کے متعلق یہ بات پسندیدہ ہے کہ قربانی کرنے والا اپنی قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھائے اور اس میں سے آئندہ کے لئے ذخیرہ بھی کرے اور غربیوں میں تقسیم بھی کرے بلکہ افضل صورت یہ ہے کہ ایک تہائی گوشت آئندہ کے لئے سکھا کر ذخیرہ کر لیا جائے اور ایک تہائی گوشت اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے رکھا جائے“ اس مدبرانہ تعلیم کے ماتحت گوشت کے ضائع جانے کا خطرہ (اگر کوئی ہو بھی تو ) بالکل باطل ہو جاتا ہے اور گوعربوں میں ابتدائی طریق پر گوشت کو خشک کرنے کا رواج تھا اور یہ طریق اب بھی اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن موجودہ زمانہ میں کولڈ سیٹ اور مشین کے ذریعہ گوشت خشک کرنے کے لئے سائنٹفک طریقے بھی ایجاد ہو گئے ہیں جسے انگریزی میں ڈی ہائیڈ ریشن (Dehydration) کہتے ہیں اور ان طریقوں کے ذریعہ فالتو گوشت ( اگر کوئی ہو ) بڑی آسانی کے ساتھ سکھا کر نہایت عمدہ

Page 954

مضامین بشیر ۹۴۲ صورت میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور اس طرح قربانی کی اصل غرض و غایت بھی قائم رہتی ہے اور گوشت کے ضائع جانے کا اندیشہ بھی باقی نہیں رہتا بلکہ مسلمانوں کے لئے ایک زائد صنعت بھی نکل آتی ہے جس سے وہ تجارتی رنگ میں بھی کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں.الغرض اسلام نے ہر رنگ میں اپنی تعلیم کو کامل و مکمل صورت دی ہے اور حق یہ ہے کہ جب اس تعلیم پر غور کیا جائے تو ہر سچے مسلمان کا دل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے لئے شکر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہو جاتا اور اس کی زبان آپ کے درود کی دعا سے گونجنے لگتی ہے کہ کس طرح اس حبیب خدا افخر انبیاء نے آج سے چودہ سو سال قبل ہمیں وہ تعلیم دی جس میں فطرتِ انسانی کے ہر پہلو کو زندہ رکھنے اور نسل انسانی کی ہر ضرورت کو مہیا کرنے کا بہترین سامان موجود ہے.اس عظیم الشان احسان کا بدلہ ہمارے پاس اس درویشانہ دعا کے سوا اور کیا ہے کہ الھم صل على محمد و علیٰ ال محمد و بارک وسلم ( مطبوعه الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۵۰ء)

Page 955

۹۴۳ مضامین بشیر مسئلہ تقدیر کے متعلق ایک عزیز کے سوالوں کا جواب کچھ عرصہ ہوا میرا ایک مضمون مسئلہ تقدیر کے متعلق الفضل مورخہ ۸/اگست میں شائع ہوا تھا.اس پر ہمارے تعلیم الاسلام کالج کے ایک نو جوان محمد شریف صاحب جاوید بی.ایس سی سٹوڈنٹ نے کچھ سوالات لکھ کر بھیجے ہیں اور خواہش ظاہر کی ہے کہ ان سوالوں کا جواب دے کر ان کی رہنمائی کی جائے.جاوید سلمہ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے بعض دوسرے ہم جماعت دوستوں سے بھی ان سوالوں کا جواب دریافت کیا مگر وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکے بلکہ میری طرح وہ بھی ان سوالوں کا جواب معلوم کرنے کے آرزومند ہیں.سوسب سے پہلے تو میں اس بات پر خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے نو جوانوں میں اس قسم کے علمی مسائل کے متعلق دلچسپی پیدا ہو رہی ہے جو قومی زندگی اور قومی ترقی کی ایک خوش کن علامت ہے مگر دوسری طرف مجھے افسوس بھی ہے کہ عزیز جاوید سلمہ نے ان سوالوں کے متعلق خود اپنے دماغ پر زور دے کر جواب معلوم کرنے کی کوشش کیوں نہ کی.یقیناً یہ سوال ایسے نہیں ہیں کہ احمدی نوجوانوں کی علمی استعداد سے بالا سمجھے جائیں.البتہ ان میں کچھ لفظی ہیر پھیر کی پیچیدگی ضرور ہے جسے سمجھنے کے لئے دماغ پر کسی قدر زور دینا پڑتا ہے لیکن اگر احمدی نوجوان اپنے دماغوں پر زور دینا نہیں سیکھیں گے تو اور کون سیکھے گا ؟ مگر بہر حال جواب سمجھ نہ آنے پر دوسرے سے پوچھ لینا اس بات سے بہت بہتر ہے کہ دل میں ایک کھٹک پیدا ہوا اور انسان نہ تو اسے خود نکالے اور نہ اسے نکالنے کے لئے کسی دوسرے کی مدد حاصل کرے کیونکہ اس طرح دل میں زنگ لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے.دل کا زنگ ہر دوسری مرض سے بدتر ہے.اس کے بعد میں جاوید سلمہ کے سوالوں کا جواب لکھتا ہوں اور اس جواب کو میں دانستہ مختصر صورت میں لکھوں گا کیونکہ کالج کے سمجھدار طالب علموں کے لئے اشارہ کافی ہونا چاہیے.گو بہر حال اسے سمجھنے کے لئے میرے اصل مضمون کا بغور مطالعہ ضروری ہے.پہلا سوال جاوید سلمہ کا یہ ہے کہ اگر جیسا کہ میں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے یہ نظر یہ قبول کیا جائے کہ جو بیمار غلط علاج سے فوت ہو گیا وہ صحیح علاج سے بچ بھی سکتا تھا تو اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پھر انسان کی موت کا کوئی وقت مقرر نہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر انسان کو اس کی بیماریوں میں صحیح اور بر وقت علاج میسر آتا جائے تو اس نظریہ کے ماتحت وہ یقیناً بہت لمبی بلکہ نہ ختم ہونے والی عمر پا سکے

Page 956

مضامین بشیر - ۹۴۴ گا.جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ اس طرح تو انسان کی زندگی اس کے اپنے اختیار میں سمجھی جائے گی نہ کہ خدا کے اختیار میں ؟ اس سوال کا (جسے میں نے اپنے الفاظ میں ڈھال دیا ہے ) پہلا جواب تو یہ ہے کہ اگر ایک بیمار صحیح علاج سے صحت پا جاتا ہے تو کیا یہ قانون بھی (یعنی ایسے بیمار کا صحت پا جانا ) خدا کا بنایا ہوا قانون نہیں ؟ تو جب ایک بیمار کا صحیح علاج سے صحت پا جانا بھی خدا ہی کے قانون کے ماتحت ہے تو بہر حال انسان کی زندگی اور موت کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہی ہوا نہ کہ خود انسان کے اپنے ہاتھ میں.ظاہر ہے کہ اس دنیا پر خدا کی حکومت اس کی اس قانون قدر خیر وشر کے ذریعہ سے ہی ہے جو اس نے خود بنایا اور خود رائج کیا ہے.پس اگر کوئی شخص غلط علاج سے مرتا ہے تو خواہ یہ غلطی خود اس کی اپنی ہی ہومگر بہر حال وہ مرتا خدا کے قانون کے ماتحت ہے اور اسی طرح اگر کوئی شخص صحیح علاج سے صحت پا جاتا ہے تو خواہ یہ صحیح علاج اس کی اپنی کوشش کا ہی نتیجہ ہو اس کا صحت پانا بھی لازماً خدا کے قانون کے ماتحت ہی ہوتا ہے.پس حکومت بہر حال خدا کی ہی رہی نہ کہ انسان کی !! دوسرا جواب اس سوال کا یہ ہے جسے ہمارے نوجوان عزیز نے بالکل ہی نظر انداز کر دیا ہے کہ خدا کی تقدیر عام کے ماتحت انسان کی موت صرف بیماری یا حادثہ کے نتیجہ میں ہی نہیں آتی بلکہ طبعی طریق پر بھی آتی ہے.پہلی صورت کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک مشین کو کوئی حادثہ پہنچے اور اس حادثہ کی وجہ سے وہ ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جائے اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ مشین کو کوئی حادثہ تو نہ پہنچے مگر لمبے استعمال کی وجہ سے اس کے پرزے گھس گھس کر طبعی رنگ میں اپنی عمر پوری کر کے ختم ہو جائیں.پس گو یہ بالکل درست ہے کہ ایک بیمار صحیح علاج سے بچ سکتا ہے مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ ایسے شخص کے لئے موت کا دوسرا رستہ جو طبعی طریق پر مقرر ہے وہ بھی بند ہو گیا ہے؟ اگر ایک انسان بیماری یا حادثہ والی موت سے نہیں مرے گا لازماً کچھ عرصہ کے بعد وہ طبعی رنگ میں جائے گا جو انسانی مشین کے گھس گھساؤ (Wear tear) سے تعلق رکھتا ہے اور یہ دونوں قانون ہمارے خدا ہی کے بنائے ہوئے ہیں.پس کسی صورت میں بھی اعتراض کی گنجائش نہیں سمجھی جا سکتی.جاوید سلمہ کو غالباً دھو کہ یہ لگا ہے کہ وہ انسانی موت کو صرف بیماری یا حادثہ کا نتیجہ خیال کرتے ہیں حالانکہ موت کے لئے خدا کے قانون قدرت نے دو جدا گانہ رستے مقرر کر رکھے ہیں یعنی ایک تو موت بیماری یا حادثہ کے نتیجہ میں آتی ہے جس کے معنی انسانی مشینری کے ٹوٹ پھوٹ جانے کے ہیں اور دوسرے وہ طبعی عمر پوری ہو جانے کے نتیجہ میں آتی ہے جس کے معنی انسانی مشین کے گھس گھس کر ختم ہو جانے کے ہیں.اسی لئے ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں کہ : لكل داء دواء الا الموت ۱۸۷

Page 957

۹۴۵ مضامین بشیر د یعنی خدا کے قانون میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے مگر جب (انسانی مشین کے 66 گھنے کے نتیجہ میں ) موت کا وقت آجائے تو پھر وہ نہیں ٹلتا.“ اس لطیف حدیث میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے دونوں پہلو نمایاں کر کے بیان فرما دئے ہیں یعنی (۱) اگر صرف بیماری کا سوال ہے تو وہ صحیح علاج سے ٹل سکتی ہے کیونکہ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا خدا کے قانون میں علاج موجود نہ ہولیکن (۲) اگر موت کا ہی وقت آ پہنچا ہے تو پھر خدا کی وہ اٹل تقدیر ہے جس کے لئے ہر انسان کو تیار رہنا چاہئیے.اسی سوال کے ضمن میں جاوید سلمہ کا دوسرا استفسار یہ ہے کہ جو شخص صحیح علاج کے میسر آتے رہنے کے نتیجہ میں بیماریوں وغیرہ کی موت سے بچ جاتا ہے اور پھر آخر اپنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر فوت ہوتا ہے تو کیا ایسے شخص کی موت خدا کی تقدیر عام کے ماتحت سمجھی جائے گی یا نہیں ؟ اور اگر وہ تقدیر عام کے ماتحت سمجھی جائے گی تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں گو یا تقدیر عام بھی اٹل ہوگئی اور معلق نہ رہی ( یہ الفاظ میرے ہیں جن میں میں نے جاوید سلمہ کے سوال کو زیادہ معین اور زیادہ مضبوط صورت دے کر بیان کیا ہے ) اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک مطلق موت کا سوال ہے وہ ہر انسان کے لئے ایک تقدیر مزم ہے جو کسی صورت میں ٹل نہیں سکتی.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے : كُلُّ نَفْسٍ ذَابِقَةُ الْمَوْتِ یعنی ہر انسان کے لئے موت کے رستہ سے گزرنا مقدر ہو چکا ہے.“ لیکن جہاں تک موت کے وقت کا سوال ہے.وہ طبعی موت کی صورت میں بھی ایک تقدیر معلق ہے جو آگے پیچھے ہو سکتی ہے کیونکہ جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے اور میڈیکل سائنس اس کی تصدیق کرتی ہے قانون قدرت کے گوناگوں اثرات کے ماتحت مختلف انسانوں کی جسمانی مشینری مختلف طاقتوں کی ہوتی ہے.یعنی کوئی انسان زیادہ مضبوط قویٰ کا مالک ہوتا ہے اور کوئی نسبتا کم مضبوط قوی رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں لازماً انسانی مشینری کے گھس گھس کر ختم ہونے کے زمانہ میں بھی فرق پڑ جاتا ہے.پس طبعی موت کی صورت میں بھی ہر انسان کی زندگی کا زمانہ اور ہر انسان کی موت کا وقت مختلف سمجھا جائے گا اور مناسب احتیاط کے نتیجہ میں اس میں خفیف تبدیلی ممکن ہو گی مگر بہر حال جلد یا بدیر انسانی جسم کی فانی مشین کسی نہ کسی دن گھس گھس کر ضر ورختم ہو جائے گی.فانھم و تدبر اسی تعلق میں جاوید سلمہ کا تیسرا استفسار ہے کہ جب ایک انجام عملاً ظاہر ہو جائے یعنی مرنے والا بیمار مر جائے تو کیا پھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر صحیح علاج ہوتا تو بیمار بچ جاتا.میں کہتا ہوں کہ ہاں پھر بھی ایسا کہا جا سکتا ہے کیونکہ جب مثلاً ایک شخص ملیریا کی بیماری سے اس لئے مرتا ہے کہ اسے وقت پر

Page 958

مضامین بشیر ۹۴۶ کو نین میسر نہیں آئی ہم اس بات کے کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر اسے کونین ( جو ہمارے خدا کی ہی بتائی ہوئی ایک مادی تدبیر ہے ) میسر آ جاتی تو وہ بچ جاتا کیونکہ بہر حال ان ہر دوصورتوں میں ہم خدا کی تقدیر کے اندر رہتے ہیں بلکہ یہ حق ہے کہ اگر ہم ایسا نہ سمجھیں تو دنیا کی ساری علمی ترقی ختم ہو جاتی اور انسان جبری نظریہ پر قائم ہو کر ایک منجمد پتھر کی صورت اختیار کر لیتا ہے جسے اپنی حفاظت اور اپنی ترقی کا کوئی اختیار حاصل نہیں رہتا.آخر یہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہسپتالوں کا سلسلہ کیوں قائم ہے؟ کیا اس لئے نہیں کہ بیماروں کو خدا کی تقدیر شر سے بچا کر اس کی تقدیر خیر کی طرف کھینچا جائے ؟ پھر کیا ہمارے رسول (فداہ نفسی) نے اپنے بچے ابراہیم کی وفات پر یہ الفاظ نہیں فرمائے کہ :- لو عاش لكان صديقانبياً - یعنی اگر میرا یہ بچہ ابراہیم ( اس بیماری سے بچ کر ) زندہ رہتا تو وہ یقیناً خدا کا 66 ایک صدیق نبی بنتا.“ اب اگر بیماری سے بچنے کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا یا اگر کسی بیمار کے فوت ہو جانے پر اس کی زندگی کے امکانی پہلو کو سامنے رکھ کر کوئی بات کہی ہی نہیں جا سکتی تو پھر نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بے سود اور عبث قرار پاتا ہے.خوب غور کرو کہ حضرت ابراھیم کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر وہ اس بیماری سے بچ جاتا اور زندہ رہتا تو وہ نبی ہوتا.ظاہر کرتا ہے کہ آپ اس کی زندگی کے امکان کو تسلیم فرماتے تھے تو پھر اگر اسی اصول کے ماتحت میں نے بھی اس قسم کی امکانی بات کہہ دی تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ دوسرا سوال جاوید سلمہ کا یہ ہے کہ اگر جیسا کہ میں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے ”خدا کا علم انجام پیدا نہیں کرتا بلکہ انجام کی وجہ سے علم پیدا ہوتا ہے.“ تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ خدا عالم الغیب نہیں کیونکہ انجام کے بعد تو علم ہر شخص کو ہو جاتا ہے اور خدا کی کوئی خصوصیت نہیں رہتی وغیرہ وغیرہ.مجھے عزیز جاوید سلمہ کے اس سوال پر تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی.میں نے یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ انجام کے بعد خدا تعالیٰ کا علم پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ کہا تھا کہ انجام کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا علم پیدا ہوتا ہے اور ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور میں حیران ہوں کہ ایک تعلیم یا فتہ نو جوان اس واضح فرق کو نہیں سمجھ سکا.میرا مطلب بالکل صاف تھا کہ خدا چونکہ عالم الغیب ہے اس لئے اسے لازماً یہ علم ہوتا ہے کہ فلاں چیز کا انجام اس اس طرح ہو گا لیکن جیسا کہ میں نے اصل مضمون میں جاپان کے زلزلہ کی مثال دے کر وضاحت کی تھی خدا کا یہ علم انجام کا باعث نہیں بنتا بلکہ ہونے والا انجام خدا کے علم کا باعث بنتا ہے.یعنی دوسرے الفاظ میں کسی چیز کا انجام کسی خاص رنگ میں اس لئے رونما نہیں.

Page 959

۹۴۷ مضامین بشیر ہوتا کہ خدا کو اس کا علم ہے بلکہ خدا کو علم اس لئے ہوتا ہے کہ اس چیز کا انجام ایک خاص رنگ میں ظاہر ہونے والا ہوتا ہے اور جب یہ فرق ظاہر و عیاں ہے تو اس پر یہ سوال اٹھا نا کہ انجام کے بعد تو انسان کو بھی علم ہو جاتا ہے ایک بالکل لاتعلق سی بات ہے جس کا امر زیر بحث سے کوئی دور کا بھی رشتہ نہیں کیونکہ میں نے انجام سے پہلے کے علم کا ذکر کیا تھا نہ کہ انجام کے بعد والے علم کا.بہتر ہوگا کہ عزیز جاوید میرے اصل مضمون کے اس حصہ کو ایک نظر دوبارہ دیکھ لیں تا کہ کوئی غلط فہمی نہ رہے.تیسرا سوال جاوید صاحب کا یہ ہے کہ جب قانون قضاء وقد ر ا ور قانون شریعت دو علیحدہ علیحدہ قانون ہیں جو ایک دوسرے میں دخل انداز نہیں ہوتے کیونکہ وہ دو ایسی صوبائی حکومتوں کی طرح ہیں جنہیں گویا خدا کی مرکزی حکومت کے ماتحت پروونشل اٹانومی حاصل ہے تو پھر دنیا کے کاموں میں خدا سے دعا مانگنے اور دینی رنگ میں صدقہ و خیرات کرنے کا کیا فائدہ ہے کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے قضاء و قدر کے میدان میں ہونا تو بہر حال وہی ہے جو قانون قدرت کے ماتحت مقدر ہے اور شریعت کے قانون کی نیکی اس میں اثر انداز نہیں ہو سکتی وغیرہ وغیرہ.عزیز جاوید سلمہ کا یہ سوال حقیقۂ دلچسپ سوال ہے اور مجھے اس سوال سے اتنی ہی خوشی ہوئی جتنا کہ اوپر کے سوال سے افسوس ہوا تھا کیونکہ گو یہ اعتراض غلط ہے مگر بہر حال جاوید سلمہ کا خیال ایک بار یک بات کی طرف گیا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اپنے مضمون میں اس پہلو کو زیادہ واضح کرنا چاہئے تھا کیونکہ اس کے بغیر نو جوانوں کے دلوں میں ایک ایسا وسوسہ پیدا ہو سکتا ہے جو بعید نہیں کہ بعض خام خیال لوگوں کی دینداری کے جذبہ کے لئے بالآخر مہلک ثابت ہو لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر جاوید سلمہ زیادہ غور کی نظر سے دیکھتے تو صوبائی اور مرکزی حکومت کی مثال میں ہی اس شبہ کا اصولی جواب موجود تھا.بے شک میں نے قانون قضاء وقدر اور قانون شریعت کے متعلق صوبائی حکومتوں کی مثال دے کر لکھا تھا کہ یہ حکومتیں ایک دوسرے کے میدان میں دخل نہیں دیتیں ( گو ضمناً اس تعلق میں میں نے استثنائی قانون کی طرف بھی اشارہ کر دیا تھا ) مگر اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلا کہ خدا کی مرکزی حکومت بھی صوبائی حکومتوں کے کام میں دخل نہیں دے سکتی بلکہ اگر غور کیا جائے تو مرکزی حکومت کا ذکر ہی اس بات کی طرف توجہ منتقل کرنے کے لئے کافی تھا کہ گو یہ صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کے مقابل پر آزاد ہیں مگر بہر حال وہ مرکزی حکومت کے ماتحت ضرور ہیں.پس جب انسان خدا سے دعا مانگتا ہے تو وہ گو یا دوسرے الفاظ میں خدا کی مرکزی حکومت سے اپیل کرتا ہے اور خدا کی مرکزی حکومت بہر حال ایک بالا حکومت....ہے جسے صوبوں کی باہمی آزادی اور ان کے ایک دوسرے کے مقابل پر دخل نہ دے سکنے کے با وجود حسب ضرورت صوبوں کے کام میں دخل دینے کا حق حاصل ہے.پس دعا بالکل اور چیز ہے اور

Page 960

مضامین بشیر ۹۴۸ شریعت کے میدان کی عام نیکی بالکل اور چیز ہے.شریعت کے قانون کی نیکی بے شک قانون قدرت کے حادثات سے نہیں بچا سکتی کیونکہ جس طرح شریعت کا میدان خدائی حکومت کا ایک مستقل صوبہ ہے اسی طرح قضاء وقدر کا میدان بھی خدائی حکومت کا ایک دوسرا مستقل صوبہ ہے اور وہ ایکدوسرے سے آزاد بھی ہیں مگر دعا کو ایک بالکل جدا گانہ حیثیت حاصل ہے کیونکہ دعائمل کی نیکی کا کام نہیں بلکہ خدا کی مرکزی حکومت سے اپیل کرنے کا نام ہے اور خدا کی مرکزی حکومت کو بہر حال اپنے ماتحت صوبوں میں ان کی عام اٹانومی کے باوجود دخل دینے کا اختیار ہے بلکہ اگر خدا جیسی ہستی کے لئے ایسا اختیار تسلیم نہ کیا جائے تو وہ حقیقہ خدا ہی نہیں رہتا.لہذا دعا کو جو خدا کے حضور اپیل کا رنگ رکھتی ہے.شریعت کی عام نیکی (یعنی نماز روزہ وغیرہ ) پر قیاس کرنا ہرگز درست نہیں.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ فرماتے ہیں کہ : لا يرد القضاء الا الدعاء د یعنی قضاء وقدر کے حادثات کو دعا کے سوا اور کوئی بات نہیں بدل سکتی.“ ان نہایت درجہ حکیمانہ الفاظ میں یہی اشارہ کیا گیا ہے کہ گوشریعت کی عام نیکی قضاء و قدر کے حادثات کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے آزاد اور جدا گانہ میدانوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر دعا کو یہ طاقت ضرور حاصل ہے کہ وہ قضاء و قدر کے حادثات کو بدل دے کیونکہ دعا خدا کی مرکزی حکومت سے اپیل کرنے کا نام ہے اور خدا کو بہر حال اپیل سننے کا اختیار حاصل ہے اور خدا نے دعا کا قانون اس لئے جاری فرمایا ہے کہ تا دنیا میں اس کے مالکانہ تصرف کا شان قائم رہے اور تا نیک فطرت لوگوں کے لئے اس کے ذاتی تعلق کی طرف ایک دائمی کشش کا سامان مہیا کیا جائے.اسی طرح مصیبت کے وقت صدقہ و خیرات کرنا بھی دراصل دعا ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ صدقہ کے ذریعہ انسان گویا بزبان حال خدا سے اپیل کرتا ہے کہ اے میرے آقا جس طرح میں تجھے راضی کرنے کے لئے تیرے مصیبت زدہ بندوں کی تکلیف کو دور کرتا ہوں اسی طرح تو بھی میری تکلیف اور میرے دکھ کو دور فرما اور مجھے اس مصیبت سے نجات بخش.پس یہ خیال کرنا کہ چونکہ شریعت کے میدان کی عام نیکی قضاء و قدر کے حادثات سے نہیں بچا سکتی اس لئے دعا اور صدقہ و خیرات بھی بے سود ہیں ایک بالکل غلط اور بے بنیاد خیال ہے جسے نہ تو عقل کا سہارا حاصل ہے اور نہ شریعت کا.میں خیال کرتا ہوں کہ میرا یہ مختصر نوٹ تعلیم یافتہ اصحاب کے لئے کافی ہونا چاہئے.( مطبوعه الفضل ۲۶ / اگست ۱۹۵۰ء)

Page 961

۹۴۹ مضامین بشیر تبلیغ کے سات زریں اصول مبلغ کی کامیابی کا معیار نومسلموں کی تعداد نہیں بلکہ اس کی اپنی تبلیغی جدو جہد ہے ہمارے ایک دوست جو ایک یورپین ملک میں تبلیغ اسلام کی غرض سے گئے ہوئے ہیں ، ایک خط میں لکھتے ہیں کہ تبلیغ کے کام میں ہمارے سامنے ایک بڑی مشکل یہ در پیش رہتی ہے کہ ہماری تبلیغی جد و جہد کے نتیجہ کا معیار کیا سمجھا جائے ؟ لوگ عموماً نو مسلموں کی تعداد سے کسی مبلغ کی کامیابی کا اندازہ لگاتے ہیں اور اگر کسی مبلغ کے زمانہ میں نومسلموں کی تعداد کم ہو تو وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ مبلغ کامیاب نہیں رہا.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں ملکی حالات کے ماتحت نو مسلموں کی تعداد شروع شروع میں زیادہ نہیں ہوتی وہاں نہ صرف مبلغ کو نا کام سمجھا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات خود مبلغ کے دل میں بھی ایک گونہ احساس کمتری کا جذبہ پیدا ہو کر اس کے تبلیغی شوق اور تبلیغی جد و جہد کو کمزور کر دیتا ہے.یہ الفاظ میرے ہیں مگر ہمارے اس دوست کے خط کا مفہوم کچھ اس سے ملتا جلتا تھا.اس کے ساتھ ہی اس دوست نے اسلامی طریق تبلیغ کے متعلق بھی کچھ روشنی چاہی ہے.سو میں ذیل میں ان ہر دو سوالوں کا مختصر مگر اصولی جواب دینے کی کوشش کروں گا.پہلے میں دوسرے سوال کو لیتا ہوں جو تبلیغ کے طریق سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ حقیقہ اسی پر پہلے سوال کے جواب کا بڑی حد تک دار و مدار ہے.سوال یہ ہے ( گو اس میں پھر الفاظ میرے ہیں اور مفہوم ہمارے دوست کا کہ تبلیغ کا اسلامی طریق کیا ہے.یعنی اسلام نے تبلیغ کے طریق کے متعلق کونسی اصولی ہدایت جاری کی ہے؟ سواس کے جواب میں میں اس جگہ صرف چار قرآنی آیتوں پر اکتفا کروں گا جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے اندر وسیع معانی رکھتی ہیں.ایک جگہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ :- أدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ و یعنی اپنے خدا کے رستہ کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ دعوت دو اور

Page 962

مضامین بشیر اگر مجادلہ کا رنگ پیدا ہو جائے تو احسن دلائل کے ساتھ بحث کرو.“ یہ آیت جیسا کہ اس کے الفاظ سے عیاں ہے بظاہر بہت مختصر ہے مگر اس کے اندر معانی کا ایک وسیع دریا مخفی ہے جس سے ہر شخص اپنی استعداد اور اپنے حالات کے مطابق عظیم الشان فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن اس آیت کے مفہوم کو پوری طرح سمجھنے کے لئے اس کے چار مرکزی لفظوں کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے.یہ الفاظ (۱) حکمت (۲) موعظہ حسنہ (۳) مجادلہ اور ( ۴ ) احسن کے الفاظ ہیں.سب سے اول نمبر پر حکمت کا لفظ ہے جس کے معنے عربی زبان میں عقل اور دانائی کی بات کے ہیں جوحق و انصاف کے مطابق ہو اور اس میں بردباری اور وقار کا رنگ بھی پایا جائے اور چونکہ ایسی بات کے لئے مخاطب کے خیالات کا علم ہونا بھی ضروری ہے تا کہ مرض کے مطابق علاج تجویز کیا جا سکے اس لئے حکمت کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ دوسرے فریق کے خیالات اور عقائد کے ازالہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہی جائے.پس حکمت سے ایسی عقلی دلیلیں مراد ہوں گی ( اور اس کے اندر منقولی دلیلیں بھی شامل ہیں ) جو حق و صداقت کے مطابق دوسرے فریق کے خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کی جائیں اور یہی کامیاب تبلیغ کی سب سے پہلی شرط ہے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اول تو وہ سمجھتے ہی نہیں کہ عقلی دلیل ہوتی کیا ہے بلکہ وہ ہر رطب و یابس کو عقلی دلیل خیال کرنے لگ جاتے ہیں.پھر اگر وہ عقلی دلیل کے سمجھنے کا شعور رکھتے بھی ہوں تو اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ یہ دلیل صداقت کے مطابق بھی ہے یا نہیں بلکہ فریق مخالف کو چپ کرانے کے لئے جو جائز و نا جائز ذریعہ بھی خیال میں آئے اسے بلا دریغ اختیار کر لیتے ہیں.پھر اگر وہ صداقت کا خیال رکھیں بھی تو کم از کم اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ فریق مخالف کن خیالات اور کن عقائد کا انسان ہے.حالانکہ اس کے بغیر کوئی تبلیغ موثر اور کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ جب مرض کا ہی علم نہیں تو علاج کس طرح تجویز کیا جاسکتا ہے.پس یاد رکھنا چاہئیے کہ کامیاب تبلیغ کی پہلی شرط حکمت ہے.یعنی ( الف ) صحیح عقلی دلیل استعمال کرنا (ب) صداقت پر قائم رہنا اور (ج) دوسرے فریق کے عقائد اور خیالات کو مد نظر کرنا.دوسرا لفظ اس قرآنی آیت میں موعظہ حسنہ ہے جس کے معنے عربی محاورہ میں اس کلام کے ہیں جس میں ایسے جذبات کا عصر پایا جائے جو تبشیر وانذار یعنی ترغیب و تر بیب کا رنگ رکھتا ہو یعنی اس میں بعض پہلو مخاطب کو محبت کے اظہار اور انعام و اکرام کے وعدہ کے ذریعہ کھینچنے والے ہوں اور بعض انکار اور نافرمانی کی صورت میں سزا اور عذاب کا منظر پیش کر کے خوف دلاتے ہوں.ظاہر ہے کہ انسانی فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ بسا اوقات محض خشک فلسفیانہ دلیلوں سے تسلی نہیں پاتی اور اگر تسلی بھی پا جائے تو اس کے اندر وہ زندگی کی حرکت پیدا نہیں ہوتی جو خدا کی طرف کھینچنے اور خدا کی

Page 963

۹۵۱ مضامین بشیر طرف رغبت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے.پس قرآن نے کامیاب تبلیغ کے لئے دوسری شرط یہ مقرر فرمائی ہے کہ اس میں صرف عقلی دلیلوں سے ہی کام نہ لیا جائے بلکہ جذباتی باتوں کو بھی داخل کیا جائے جو مخاطب کے دل میں ایک طرف صداقت کی محبت اور اسے قبول کرنے کے فوائد اور دوسری طرف باطل کی نفرت اور صداقت کو ر ڈ کرنے کے نقصانات کا احساس پیدا کر نے والی ہوں.حدیث میں متعد دصحابہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہمیں اس طرح وعظ فرماتے تھے کہ گویا اس وقت جنت دوزخ کھلے طور پر ہمارے سامنے آجاتے تھے اور ہم پورے یقین کے ساتھ محسوس کرنے لگ جاتے تھے کہ یہ رستہ باغ کا ہے اور یہ رستہ آگ کا.پس کامیاب تبلیغ کے لئے دوسری ضروری شرط موعظہ حسنہ یعنی اپنی تبلیغ میں عقلی دلیلوں کے علاوہ جذباتی باتوں کو بھی داخل کرنا تا کہ سننے والا اچھی طرح سمجھ لے کہ جو بات اس کے سامنے پیش کی جارہی ہے، وہ صرف عقلی لحاظ سے ہی درست نہیں بلکہ اسے قبول کرنے میں اس کا اپنا ہی فائدہ اور اسے رڈ کرنے میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے اور پھر تاریخی مثالوں اور تمثیلوں وغیرہ کے ذریعہ بھی اس پہلو کو بہت اچھی طرح واضح کیا جائے.جیسا کہ قرآن شریف کا طریق ہے.نادان لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف نعوذ باللہ قصے بیان کر رہا ہے.حالانکہ قرآن شریف قصوں کی کتاب نہیں بلکہ اس نے موعظہ حسنہ کے اصول پر اپنی عقلی دلیلوں کو جذباتی باتوں کا خمیر دینا ضروری خیال کیا ہے.تیسر الفظ اس آیت میں مجادلہ ہے.اس لفظ کے متعلق یا د رکھنا چاہئیے کہ گوروٹ ایک ہی ہے مگر حقیقتا عربی زبان میں جدل اور جادل کے معنے میں فرق ہے جدل کے معنے جھگڑا پیدا کرنے اور مخالفت ا میں نا واجب شدت اختیار کرنے کے ہیں لیکن اس کے مقابلہ پر جادل میں ( جس سے مجادلہ کا لفظ نکلا ہے ) ایک دوسرے کے مقابل پر بات کرنے اور اختلاف رائے کے طریق پر تبادلہ خیالات کرنے کے ہیں.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے كَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا یعنی انسان سب مخلوق سے زیادہ جھگڑنے والا اور مخاصمت بر پا کرنے والا ہے اور اس کے مقابل پر دوسری جگہ حضرت ابراہیم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَعَلِيْمُ أَوَاهُ مُّنِيْبُ یعنی ابراہیم نے لوط کی قوم کے متعلق ہم سے سوال و جواب کے رنگ میں گویا بحث شروع کر دی.بے شک ابراہیم بہت نرم دل اور رقت اور شفقت کے ساتھ جھکنے والا انسان تھا.ان دونوں استعمالوں سے ظاہر ہے کہ جہاں جدل کے معنے بے جا رنگ میں مخاصمت کرنے اور جھگڑا بر پا کرنے کے ہیں وہاں مجادلہ کا لفظ عموماً محض سوال و جواب کے رنگ میں بحث کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے.بے شک قرآن شریف میں بعض مثالیں بظاہر اس استعمال کے خلاف بھی نظر آتی ہیں مگر یہ مثالیں ایسی ہیں کہ مناسب غور اور

Page 964

مضامین بشیر ۹۵۲ تدبر سے انہیں حل کیا جا سکتا ہے.بہر حال مجادلہ کے لفظ میں قرآن شریف نے تبلیغ کی تیسری شرط کی طرف اشارہ کیا ہے.یعنی یہ کہ تبلیغ کرتے ہوئے کبھی بے جا مخاصمت اور نا واجب جھگڑے کا رنگ نہ پیدا کیا جائے بلکہ مناسب اور معقول تبادلہ خیالات کی صورت تک محدود رہنا چاہیئے ورنہ ضد اور سطحیت کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں نکلے گا.اسی لئے دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلما یعنی سچے مومنوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ جب انہیں جاہل لوگ نا واجب بحث میں الجھانا چاہیں تو وہ صداقت کے لئے سلامتی چاہتے ہوئے کنارہ کش ہو جاتے ہیں.“ چوتھا لفظ اوپر کی آیت میں احسن ہے جس کے معنے عربی زبان میں بہترین چیز کے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ اگر منکرِ صداقت کے ساتھ ایک مبلغ کے لئے مبادلہ کی صورت پیدا ہو جائے تو پھر اس مبادلہ میں بہترین دلائل سے کام لینا چاہیے نہ کہ رطب و یابس کے ذخیرہ سے دلائل کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی جائے.کئی لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ مخالف فریق سے بات کرتے ہوئے اپنے دلائل کی تعداد بڑھانے کے شوق میں رطب و یابس کا طومار جمع کرتے جاتے ہیں اور ایسا کرنے میں کچھ تو ان کے اپنے نفس کا دخل ہوتا ہے جو دلائل کی کثرت میں گویا اپنے لئے فخر کا سامان دیکھتا ہے اور کچھ واعظ یہ خیال کرتے ہیں کہ شائد اس طرح فریق ثانی مرعوب ہو کر خاموش ہو جائے گا لیکن نتیجہ عموماً الٹ نکلتا ہے کیونکہ ہوشیار مخالف فورا اس موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مضبوط دلیلوں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے صرف کمزور دلیل کا رڈ کر دیتا ہے اور اس طرح بعض اوقات اسے باطل پر ہونے کے باوجود ایک جزوی اور وقتی کامیابی میسر آجاتی ہے.اس لئے ہمارا حکیم وعلیم خدا تاکید فرماتا ہے کہ تم مجادلہ میں خواہ نخواہ دلائل کی کثرت کا خیال نہ کیا کرو بلکہ صرف ایسی دلیلیں استعمال کیا کرو جو ہر جہت سے احسن ہوں تا کہ دوسرے فریق کو تمہاری بحث کے کمزور حصہ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے.ظاہر ہے کہ اگر ایک مبلغ دلائل کی کثرت کے خیال کو ترک کر کے اپنے آپ کو صرف پختہ اور مضبوط دلیلوں تک محد و در کھے.جنہیں قرآن شریف نے احسن کے لفظ سے یاد کیا ہے تو منکر صداقت کو کبھی اس کی ان دلیلوں پر حملہ کرنے اور انہیں غلط ثابت کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی اور اگر وہ ملمع سازی کے رنگ میں اس کی جرأت کرے گا تو دنیا کی نظروں میں اپنے آپ کو خود ذلیل کرے گا.وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ آتی.پس کامیاب تبلیغ کے لئے چوتھی ضروری شرط قرآن شریف یہ بیان کرتا ہے.کہ مبلغ کی ہر دلیل جسے وہ مخالفوں کے سامنے پیش کرے ہر جہت سے احسن ہونی چاہئیے تا کہ اس کے خلاف باطل کو سراٹھانے کی جرات ہی نہ ہو.اسی طرح احسن کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ صرف دلیلیں ہی احسن نہ ہوں بلکہ ان کے پیش کرنے کا پیرا یہ بھی احسن ہونا چاہئے.کئی مبلغ پختہ دلیل رکھتے ہوئے اپنے غلط پیرایہ کی وجہ سے وقتی طور پر زک اٹھا جاتے ہیں.۹۵

Page 965

۹۵۳ مضامین بشیر پانچویں شرط قرآن شریف ایک دوسری آیت میں پیش فرماتا ہے جو یہ ہے: مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَاغُ الْمُبِينُ 10 یعنی صداقت کے پیغام بر پر صرف پیغام کا پہنچا نا ہی فرض نہیں بلکہ اس کا یہ بھی فرض ہے کہ یہ پیغام واضح اور غیر مشکوک الفاظ میں کھلے کھلے طور پر پہنچائے.“ اس قرآنی آیت میں تبلیغ کی یہ شرط بیان کی گئی ہے کہ ایک مبلغ کو صداقت کے پہنچانے میں ایسا رنگ ہرگز نہیں اختیار کرنا چاہئیے جس میں یا تو مداہنت کی صورت پائی جائے یا انسان اپنے ماحول سے متاثر ہو کر یا فریق ثانی کے غلط خیالات کا نا واجب لحاظ کرتے ہوئے گول مول بات کر جائے.حتی کہ مخاطب کو اس بات کا احساس ہی نہ پیدا ہو کہ اسے کسی ایسی اہم صداقت کی طرف بلایا جا رہا ہے جس کا قبول کرنا اس کے لئے زندگی اور اس کا رڈ کرنا موت کے مترادف ہے.کیونکہ یہ طریق نہ صرف حق کی اشاعت کے لئے روک بن جاتا ہے بلکہ بسا اوقات بالواسطہ طور پر باطل خیالات کی تقویت کا بھی موجب ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے جو زنگ خود مبلغ کے دل پر لگتا ہے.وہ مزید براں ہے اسی لئے خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ : فَاصْدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ یعنی اے رسول جو پیغام ہم نے تجھے دیا ہے اسے خوب کھول کھول کر لوگوں تک پہنچا اور اس کے پہنچانے میں کسی قسم کا پردہ نہ رکھ.“ اس کے بعد تبلیغ کی چھٹی شرط قرآن شریف اس آیت میں بیان فرماتا ہے کہ : يَايُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ زَيْكَ وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسالته ۱۹۸ و یعنی اے رسول لوگوں تک وہ سا را پیغام پہنچا جو تیرے رب نے تیرے سپرد کیا ہے اور اگر تو ایسا نہیں کرے گا (یعنی کچھ حصہ پیغام کا پہنچائے گا اور کچھ نہیں پہنچائے گا تو خدا کے نزدیک تو اس کے پیغام کو پہنچانے والا نہیں سمجھا جائے گا.“ اس اہم آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ایک مبلغ کا یہ فرض ہے کہ سارے کا سا را پیغام پہنچائے اور ایسا نہ کرے کہ لوگوں کی مخالفت کا خیال کر کے یا اپنی واہ واہ کرانے کے لئے بعض باتوں کا ذکر ترک کر دے.بعض مبلغوں میں یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ اس بات سے ڈر کر کہ شاید فلاں تعلیم میرے مخاطبین کو اچھی نہ لگے بعض باتوں کو ترک کر دیتے ہیں اور صرف ایسی باتیں زبان پر لاتے ہیں جن کے متعلق انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کے ذریعہ اپنے مخاطبین کو خوش

Page 966

مضامین بشیر ۹۵۴ کرسکیں گے اور مخالفت کا خطرہ نہیں رہے گا مگر خدا فرماتا ہے کہ یہ ایک خطر ناک طریق ہے اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ دراصل خدا کا پیغام پہنچاتا ہی نہیں بلکہ صرف اپنے نفس کی بات پہنچا تا ہے.خدا کے پیغام کے متعلق تو تب سمجھا جائے گا کہ وہ پہنچا دیا گیا کہ جب انسان بلا خوف لومة لائم ساری بات پہنچائے ورنہ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک ماہر ڈاکٹر کسی مریض کے لئے ایک نسخہ تحریر کرے لیکن دوائی دینے والا شخص جو طب کے علم سے ناواقف ہے اس نسخہ کی بعض دوائیوں کو حذف کر کے گویا ایک نیا نسخہ ہی تجویز کر دے مگر افسوس ہے کہ آجکل بعض مبلغ اپنی طبیعت کی کمزوری یا اپنے ماحول کے نا واجب رعب کی وجہ سے ساری کی ساری صداقت کو پہنچانے سے ڈرتے اور گریز کرتے ہیں اور خدا کے با برکت نسخہ کو بدل کر امید رکھتے ہیں کہ ہم خود اپنے جاہلا نہ نسخہ سے مریض کو اچھا کر لیں گے.هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ وو تبلیغ کی ساتویں شرط اس حکیمانہ آیت میں بیان کی گئی ہے کہ : يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُونَ 10 یعنی اے مومنو تم ایسی باتوں کے دعوے دار کیوں بنتے ہو جن پر تم خود عمل نہیں کرتے.خدا کے نزدیک یہ طریق نہایت درجہ نا پسندیدہ ہے کہ تم ایسی باتوں کے 66 دعوے کرو جن پر تمہارا اپنا عمل نہیں.“ اسی آیت میں مبلغین اسلام کو اسی زریں اصول کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب وہ کسی علاقہ میں مبلغ بن کر جائیں تو انہیں چاہئیے کہ جو تعلیم وہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں ، اس کا عملی نمونہ بھی پیش کریں ور نہ ان کی تبلیغ ایک نمائش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھے گی اور ہر عقلمند انسان یہی خیال کرے گا کہ یہ ایک صرف منافقانہ تبلیغ ہے جس کے اندر کچھ بھی حقیقت نہیں.پس ہر مبلغ کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اپنی تبلیغ کا عملی نمونہ پیش کرے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ یعنی اے مسلما نو ہمارا یہ رسول تمہارے سامنے اس تعلیم کا بہترین نمونہ پیش کر رہا ہے جو وہ ہماری طرف سے لے کر آیا ہے.پس جہاں تم اس کی باتوں کو سنو اور مانو وہاں تمہارا یہ بھی فرض ہے کہ تم اپنے اعمال بھی اس کے اعمال کے مطابق بناؤ.“

Page 967

۹۵۵ مضامین بشیر حق یہ ہے کہ اگر قولی تبلیغ کے ساتھ مبلغ کا ذاتی نمونہ شامل نہ ہو تو اس کی تبلیغ ایک مردہ اور بے جان لاش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی جو لوگوں کی کشش کا باعث ہونے کی بجائے یقیناً ان کے دلوں میں دوری اور بیزاری پیدا کرنے کا موجب بن جائے گی اور وہ اسے ایک سینما شو سے زیادہ حقیقت نہیں دیں گے.الغرض قرآن شریف اسلامی تبلیغ کے لئے سات سنہری اصول بیان فرماتا ہے یعنی :.(1) تبلیغ میں ایسے عقلی دلائل اور دانائی کی باتوں سے کام لیا جائے جو ایک طرف حق و صداقت پر مبنی ہوں.اور دوسری طرف ان میں فریق ثانی کے عقائد اور خیالات کو بھی ملحوظ رکھا جائے تا کہ بیماری کے مطابق صحیح علاج تجویز ہو سکے.(۲) تبلیغ میں عقلی دلائل کے علاوہ ایسی جذباتی دلیلیں بھی شامل کی جائیں جو تبشیر وانذار اور ترغیب و تربیب کے پہلو سے تعلق رکھتی ہوں تا کہ مخاطب اس بات کو محسوس کرے کہ اسے ایک ایسی صداقت کی طرف بلایا جا رہا ہے جسے قبول کرنا خود اس کی اپنی زندگی اور ترقی کے لئے ضروری ہے اور جسے رڈ کرنا خود اس کے اپنے نقصان اور خسارہ اور روحانی موت کا باعث ہے.(۳) اگر فریق ثانی کے ساتھ بحث کی صورت پیدا ہو جائے تو اس میں نا واجب مخاصمت کا رنگ بالکل نہ آنے دیا جائے بلکہ صرف معقول اور باوقار تبادلہ خیالات تک اپنے آپ کو محدود رکھا جائے اور اگر دوسرے فریق کی طرف سے ضد اور کج بحثی کا طریق اختیار کیا جائے تو مبلغ کو چاہیے کہ صداقت کے لئے سلامتی چاہتے ہوئے اس مجلس کو چھوڑ دے.(۴) مجادلہ کی صورت میں دلائل کی تعداد بڑھانے کے لئے خواہ نخواہ رطب و یابس دلیلوں کا ذخیرہ نہ جمع کیا جائے بلکہ صرف ایسی پختہ اور مضبوط دلیلیں پیش کی جائیں.( خواہ وہ تھوڑی ہوں ) جو ہر جہت سے احسن ہوں تا کہ فریق ثانی کمزور دلیلوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر صداقت پر پردہ نہ ڈال سکے.(۵) تبلیغ میں مداہنت کا رنگ بالکل نہیں ہونا چاہئے بلکہ صاف صاف بات کی جائے اور قبول کرنے کے فوائد اور انکار کرنے کے نقصانات واضح طور پر بتا دیئے جائیں تا کہ فریق ثانی کو حقیقت کے سمجھنے اور اس کی اہمیت کو محسوس کرنے میں آسانی ہو اور وہ قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے تو کوئی بات کھول کر بتائی ہی نہیں گئی.(۶) اپنے مخاطبین کے انکار سے ڈر کر یا ماحول سے مرعوب ہو کر یا خود اپنی واہ واہ کی غرض سے یہ نہ کیا جائے کہ خدائی پیغام کا وہ حصہ تو پہنچا دیا جائے جس کے متعلق خیال ہو کہ اسے فریق ثانی آسانی

Page 968

مضامین بشیر ۹۵۶ سے قبول کر لے گا.اور اس حصہ کو ترک کر دیا جائے جس کے متعلق انکار اور مخالفت کا اندیشہ ہو بلکہ ساری کی ساری صداقت پہنچائی جائے ورنہ ایسے شخص کے متعلق خدا کے دربار میں یہی لکھا جائے گا کہ اس نے خدا کا پیغام نہیں پہنچایا.(۷) مبلغ کو اس تعلیم کا بہترین نمونہ بننا چاہئے جو وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے ورنہ اس کی تبلیغ با لکل بے اثر اور بے جان رہے گی.اب رہا سوال اس مضمون کا دوسرا سوال کہ اسلام نے تبلیغ کے نتیجہ کا معیار کیا مقرر کیا ہے؟ یعنی کیا صرف نو مسلموں کی تعداد ہی وہ کسوٹی ہے جس سے ایک مبلغ کی کامیابی کو پر کھا جا سکتا ہے یا کہ قرآن شریف اس کے علاوہ کوئی اور معیار بھی پیش فرماتا ہے؟ سو اس کے متعلق اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ گو طبعا انسانی فطرت ٹھوس اور معین نتائج سے زیادہ خوش ہوتی ہے اور مومنوں کی تعداد تو ایسی چیز ہے کہ اس کا خیال ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذہن سے بھی اوجھل نہیں تھا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے.کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ: انى مكاثر بكم الامم یعنی اے مسلمانو اپنی تعداد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرو کیونکہ میں قیامت کے دن دوسری امتوں کے مقابل پر اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا.“ مگر پھر بھی اس بات میں شبہ نہیں کہ ہر حال میں نو مسلموں کی تعداد ہی تبلیغ کے نتیجہ کا صحیح معیار نہیں ہے.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ :- لم يصدق نبى من الانبياء ما صدقت و ان من الانبياء نبياً ما صدقه من امته الا رجل واحد ١٠٣ و یعنی مجھے سب دوسرے نبیوں میں سے زیادہ لوگوں نے قبول کیا ہے اور خدا کے نبیوں میں ایک نبی ایسا بھی گزرا ہے کہ اسے اس کی قوم میں سے ایک فرد واحد کے سوا کسی نے قبول نہیں کیا.“ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ہر حال میں ماننے والوں کی تعداد ہی کسی مبلغ کی کامیابی کا آخری معیار نہیں ہوتی کیونکہ جب خدا کے نبی اور رسول بھی ایسے ہو سکتے ہیں جنہیں ایک ایک یا دو دو سے زیادہ لوگوں نے نہیں مانا اور دوسری طرف قرآن شریف فرماتا ہے کہ كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ اَنَا وَ رُسُلی یعنی خدا کا یہ ازلی فیصلہ ہے کہ میں اور میرے رسول بہر حال غالب اور کامیاب ہوں گے تو اس سے ظاہر ہے کہ ہر حال میں ماننے والوں کی تعداد کو ہی غلبہ اور کامیابی کا معیار نہیں سمجھا ط

Page 969

۹۵۷ مضامین بشیر جاسکتا.یہ اصول اتنا پختہ اور اتنا یقینی ہے کہ قرآن شریف افضل الرسل سید ولد آدم خاتم النبیین صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ : ۱۰۵ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ البَلغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ BO د یعنی اے رسول تیری ذمہ داری اس بات پر ختم ہو جاتی ہے کہ تو لوگوں تک خدا کا پیغام پوری طرح پہنچا دے.پھر آگے انکار کرنے والوں سے ان کے انکار کا 66 حساب لینا ہمارا کام ہے.اور دوسری جگہ فرماتا ہے کہ : إنَّا اَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ، وَلَا تُسْتَل عَنْ أَصْحُبِ الْجَحِيمِ BO د یعنی اے رسول ہم نے تجھے حق اور صداقت کے پیغام کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے.پس تو اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا دے.پھر جو لوگ اس پیغام کو رڈ کر کے خود دوزخ 66 کا رستہ اختیار کریں ان کے متعلق تیری کوئی ذمہ داری نہیں سمجھی جائے گی.“ ان اصولی آیات میں قرآن شریف نے دوٹوک فیصلہ فرما دیا ہے کہ اگر خدا کا ایک رسول ( یا اس کی اتباع میں ایک مبلغ ) خدا کے پیغام کو کھول کھول کر پہنچا دے اور تبلیغ کی تمام ضروری شرطوں کوملحوظ رکھے تو بس اس کی ذمہ داری ختم ہوگئی اور لوگوں کے ماننے یا نہ ماننے کے متعلق اس سے سوال نہیں کیا جائے گا بلکہ اس معاملہ میں خدا انکار کرنے والوں سے پوچھے گا کہ تم نے میرے پیغام کو کیوں رڈ کیا اور جنت کا رستہ چھوڑ کر جہنم کے رستہ پر کیوں پڑ گئے اور عَلَيْنَا الْحِسَابُ کے الفاظ میں یہ خفی اشارہ بھی ہے کہ جہاں خدا انکار کرنے والوں سے حساب لے گا وہاں وہ دوسری طرف خود رسولوں سے بھی حساب لے گا کہ کیا انہوں نے پیغام حق کے پہنچانے میں کسی قسم کی غفلت سے تو کام نہیں لیا ؟ بہر حال ان آیات سے یہ ظاہر ہے کہ ماننے والوں کی تعداد کو خدا تعالیٰ نے کسی نبی کی کامیابی کا معیار نہیں قرار دیا اور لازماً یہی اصول ایک مبلغ کے معاملہ میں بھی چلنا چاہیئے کہ اگر وہ صحیح طریق پر پیغام پہنچا دے اور اس میں کسی قسم کی سستی یا غفلت سے کام نہ لے اور ان تمام شرائط کوملحوظ رکھے جو تبلیغ کے لئے ضروری ہیں تو اس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے ہاں جس طرح انکار کرنے والوں سے جو خود اپنی مرضی سے دوزخ کا رستہ اختیار کرتے ہیں، انکار کا حساب لیا جائے گا.اسی طرح مبلغ سے بھی اس بات کا حساب لیا جائے گا کہ کیا اس نے تبلیغ کا حق پوری طرح ادا کیا ہے؟ اگر اس نے یہ حق پوری طرح ادا کر دیا ہے تو خواہ اس کے ہاتھ پر مسلمان ہونے والا ایک شخص بھی نہ ہو وہ یقیناً خدا کی نظر میں ایک کامیاب مبلغ ہے اور کوئی دانا انسان اس کے کام پر نکتہ چینی نہیں کر سکتا لیکن اگر اس کے مقابل پر ایک مبلغ نے چندسو

Page 970

مضامین بشیر ۹۵۸ لوگوں کو مسلمان تو بنا لیا ہے مگر خدا کے ترازو میں اس کی تبلیغی جد و جہد پوری نہیں اترتی تو با وجود اس ظاہری کامیابی کے وہ خدا کی نظر میں کبھی ایک کامیاب مبلغ نہیں سمجھا جائے گا اور اسے اپنے حساب کے لئے تیار رہنا چاہیئے لیکن اس بنیادی اصول کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں سب سے زیادہ لوگوں کا حق قبول کرنا اور پھر آپ کا انی مکاثر بکم الامم فرمانا ظاہر کرتا ہے کہ گو اصولاً ماننے والوں کی تعداد ، کامیابی کا حقیقی معیار نہیں بلکہ اصل معیار خدا کے رستے میں کوشش اور جد و جہد ہے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ سچی کوشش کرنے والوں کی کوشش کو ہرگز ضائع نہیں کرتا اور کسی نہ کسی رنگ میں انہیں ضرور ان کی محنت کا پھل عطا کر دیتا ہے.یہ تو سوال زیر بحث کا ایک اصولی جواب تھا لیکن موجودہ زمانہ میں جو کہ مادیت کے غیر معمولی زور اور عالمگیر انتشار کا زمانہ ہے.ایک خاص بات اور بھی یاد رکھنی چاہئیے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں ہے دراصل ہمیں افراد کے خیالات کا مقابلہ در پیش نہیں بلکہ باطل نظاموں کا مقابلہ در پیش اور نظاموں کے مقابلہ میں لڑائی کا طریق بدل جایا کرتا ہے.جہاں افراد کے خیالات کا مقابلہ ہو وہاں مبلغ کی جد و جہد کی پہلی زد افراد پر پڑتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک ایک دو دو کر کے سعید روحیں صداقت کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونی شروع ہو جاتی ہیں حتی کہ آہستہ آہستہ ان ایک ایک دو دو کے ملنے سے ایک بھاری جماعت بن جاتی ہے مگر جہاں اصل مقابلہ باطل نظام کے ساتھ ہو وہاں صداقت کی پہلی چوٹ کسی فرد پر نہیں پڑتی بلکہ نظام کے سواد یعنی ہیئت مجموعی پر پڑتی ہے جس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ اس ہیئت مجموعی میں تنزل اور تشخط کے آثار شروع ہو جاتے ہیں اور گو بظاہر شروع شروع میں افراد اپنی جگہ پر قائم نظر آتے ہیں مگر نظام باطل کے محل کے کنگرے آہستہ آہستہ ٹوٹ کر گرنے شروع ہو جاتے ہیں.پس اس زمانہ میں یورپ اور امریکہ کی تبلیغ کا بھی زیادہ تر یہی حال ہے کہ شروع شروع میں وہاں بھی اسلام کی ترقی نو مسلم افراد کی کثرت کے ذریعہ نہیں ہوگی بلکہ مادیت کے نظام باطل کے آہستہ آہستہ ٹوٹنے اور شکستہ ہو ہو کر گرنے کی صورت میں ہوگی اور اس کے بعد افراد کے داخلہ کا حقیقی وقت آئے گا.گویا جہاں گذشتہ زمانوں میں زیادہ تر افراد کے ذریعہ صداقت ترقی کرتی تھی وہاں موجودہ زمانہ میں اولاً آہستہ آہستہ صرف ایک عام فضا مادیت کے خلاف اور اسلام کے حق میں پیدا ہونی شروع ہوگی اور اس کے بعد اس عام فضا کی تبدیلی کے نتیجہ میں حق ترقی کرے گا اور بالآخر افراد کے پلٹا کھانے کا وقت آجائے گا.پس کم از کم میرے نزدیک یورپ و امریکہ کے موجودہ مبلغوں کے کام کا معیار نو مسلموں کی تعداد نہیں ( گو کسی حد تک اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ) بلکہ ان کے کام کا اصل معیار یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے میدان میں مسیحیت یا مادیت کے خلاف اور اسلام کے حق ا

Page 971

۹۵۹ مضامین بشیر میں عام فضا میں کیا تبدیلی پیدا کی ہے.بے شک یہ تول ذرا مشکل تول ہے لیکن خدا کا تر از و بہر حال کسی چیز کو حساب سے باہر نہیں رہنے دیتا اور اس کے دیئے ہوئے عرفان کی طفیل سے علم میں راسخ لوگ بھی کافی حد تک صحیح اندازہ کر سکتے ہیں اور دراصل یہ اسی روحانی نبض شناسی کا نتیجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج سے پینتالیس سال قبل جب کہ مغربی ممالک کی مادیت اپنے معراج کو پہنچی ہوئی تھی فرمایا کہ :- آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی نا گہہ زندہ وار 2 اس لطیف شعر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام افراد کے مسلمان ہونے کا ذکر نہیں فرماتے کیونکہ اس زمانہ میں یورپ کے مسیحی ممالک میں حقیقہ کوئی نو مسلم تھا ہی نہیں بلکہ اپنی روحانی فراست کے نتیجہ میں مغربی ممالک کی اس مجموعی فضاء کی تبدیلی کا ذکر فرماتے ہیں جو آہستہ آہستہ تثلیث کی گندی دلدل سے نکل کر تو حید کے پاک وصاف چشمہ کی طرف آ رہی تھی کیونکہ یہی وہ طریق ہے جس میں اس زمانہ کی مادہ پرست قوموں کا بالآخر اسلام کے مقابلہ میں شکست کھانا مقدر ہے.پس گو تعداد کی ترقی بہر حال ایک نظر آنے والی چیز ہے اور دیکھنے والوں کی توجہ اس طرف سے ہٹائی نہیں جاسکتی اور ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے اپنے لئے موجب فخر قرار دیا ہے (اور کون سچا مسلمان ہے جسے اپنے آقا کے فخر میں حصہ دار بننے کی تڑپ نہ ہو ) مگر پھر بھی اصولاً ایک مبلغ کے کام کا اصل معیار اس کے نو مسلموں کی تعدا د نہیں بلکہ اس کی وہ مخلصانہ کوشش اور جد و جہد ہے جس کے ذریعہ وہ صداقت کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے اور اگر وہ ایک فرد واحد کو بھی مسلمان نہیں بنا سکتا مگر اس کی کوشش معیار کے مطابق پوری اور اپنے ماحول کے لحاظ سے کچی اور بے داغ ہے تو وہ یقیناً اس مبلغ سے بہتر ہے جس نے بظاہر سینکڑوں نو مسلم بنائے مگر اس کی کوشش اس معیار کو نہیں پہنچتی جس کی اسلام اپنے خادموں سے توقع رکھتا ہے اور موجودہ زمانہ میں تو یورپ اور امریکہ کے ممالک میں خصوصاً مبلغوں کی کامیابی کا اصل معیار فی الحال نو مسلموں کی تعداد نہیں ہے بلکہ اصل معیار یہ ہے کہ وہ احرار یورپ کا مزاج بدلنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے دنیا کا آئندہ انقلاب افراد میں ہو کر قوموں تک نہیں پہنچے گا بلکہ قوموں میں ہو کر افراد تک پہنچے گا اور یہی اس مخصوص موت کی عقلی تفسیر ہے جو حدیثوں میں دجال کے انجام کے متعلق بیان ہوئی ہے.خلاصہ کلام یہ کہ تبلیغ کے طریق کے متعلق تو اسلام یہ اصولی تعلیم دیتا ہے کہ وہ مندرجہ ذیل مبارک

Page 972

مضامین بشیر ۹۶۰ عناصر کا مجموعہ ہونی چاہئیے.یعنی (۱) حکمت (ب) موعظہ حسنہ ( ج ) کج بحثیوں والے مناظرہ سے اجتناب ( د ) بحث میں صرف احسن دلیل کا استعمال اور (ہ) البلاغ المبین یعنی کھلا کھلا دوٹوک انتباہ (و) ساری کی ساری صداقت پیش کرنا اور (ز) تعلیم کا عملی نمونہ پیش کرنا.اور دوسری طرف تبلیغ کی کامیابی کے معیار کے متعلق اسلام فرماتا ہے کہ :.(1) تبلیغ کا اصل معیار خود تبلیغ ہے یعنی جو شخص پوری دیانت داری اور پوری پوری توجہ اور محنت کے ساتھ لوگوں تک پیغام حق پہنچا دیتا ہے اور تبلیغ کی تمام ضروری شرائط کو ملحوظ رکھتا ہے وہ خدا کے نزد یک فریضہ تبلیغ سے عہدہ برآ سمجھا جائے گا خواہ اس کے ہاتھ پر حق قبول کرنے والوں کی تعداد تھوڑی ہی ہو یا بالکل ہی نہ ہو.البتہ جس طرح انکار کرنے والے اپنے انکار کے متعلق خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے اس طرح پیغام حق پہنچانے والا بھی اس بات کے متعلق جواب دہ ہو گا کہ اس نے فریضہ تبلیغ کے ادا کرنے میں کسی قسم کی سستی یا غفلت یا بز دلی یا بد عملی وغیرہ سے تو کام نہیں لیا.(۲) بایں ہمہ ہر مبلغ کے دل میں یہ تڑپ ہونی چاہئیے کہ اس کے ذریعہ سے جتنی زیادہ سے زیادہ روحیں بچ سکیں انہیں بچانے کی کوشش کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جائز فخر کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے سائی ہو کہ انی مکاثر بکم الامم (۳) با وجود اس کے موجودہ زمانہ میں جب کہ اسلام کا مقابلہ افراد کے باطل خیالات کی نسبت زیادہ تر قوموں کے نظام ہائے باطلہ کے ساتھ ہے اور مغربی اقوام کی مادیت (جس کا دوسرا نام دجال ہے ) اسلام کی سب سے بڑی دشمن ہے.مغربی ممالک کے مبلغین کی تبلیغی کامیابی کا معیار فی الحال نو مسلم افراد کی تعداد سے چنداں تعلق نہیں رکھتا بلکہ ان کے کام کے اس پہلو سے تعلق رکھتا ہے کہ انہوں نے مادیت کے دیو ہیکل بت کو توڑنے کے لئے کیا جد و جہد کی ہے اور ان کے ذریعہ احرار یورپ کا مزاج کسی حد تک راہ راست پر آیا ہے.اس چیز کا تو لنا اور پرکھنا ایک بڑے نازک تر از وکا متقاضی ہے لیکن خدا کالوزن الحق بھی وہ کامل و مکمل مشینری ہے جو کسی قابل شمار چیز کو حساب سے باہر نہیں چھوڑتی اور اس کے راسخ فی العلم بندے بھی اس کی دی ہوئی فراست کے ماتحت مبلغوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس بات کا اندازہ کرنا جانتے ہیں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں.بس اس وقت اس مسئلہ کے متعلق صرف اسی قدر لکھنا کافی ہوگا.ولكل درجات مما عملوا وما ربك بغافل عما يعملون ولا حول ولا قوة الا بالله العظيم ( مطبوعه الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۵۰ء)

Page 973

۹۶۱ مضامین بشیر مخلصین کی وفات جیسا کہ الفضل کی مختصر سی خبر سے دوستوں کو اطلاع ہو چکی ہے.چند دن ہوئے ماسٹر مولا بخش صاحب سنوری لودھراں ضلع ملتان کے قریب اور ماسٹر محمد طفیل صاحب بٹالوی لائل پور میں وفات پاگئے ہیں.یہ دونوں بزرگ بہت نیک اور مخلص اصحاب میں سے تھے جو عرصہ ہوا اپنے وطنوں سے ہجرت کر کے قادیان میں آباد ہو چکے تھے اور پھر گذشتہ انقلاب کے نتیجہ میں قادیان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور دونوں کو سلسلہ کے محکمہ تعلیم میں کافی خدمت کا موقع میسر آیا اور حسن اتفاق سے دونوں بالآخر مدرسہ احمدیہ سے ( جو سلسلہ کی ایک مخصوص اپنی درس گاہ ہے ) اپنی ملازمت کا عرصہ پورا کر کے ریٹائرڈ ہوئے مگر اس ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی خدمت کا سلسلہ جاری رہا.چنانچہ ماسٹر مولا بخش صاحب مرحوم حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اصیح ایدہ اللہ کے چھوٹے بچوں اور ہمارے خاندان کے دوسرے بچوں کو پرائیویٹ ٹیوٹر کی حیثیت میں پڑھاتے رہے اور ماسٹر محمد طفیل صاحب مرحوم کو جلسہ سالانہ کے ایام میں سلسلہ کے مہمانوں کی خدمت کا نمایاں موقعہ ملتا رہا.دونوں اصحاب موصی تھے اور نماز اور دیگر اعمال صالحہ کے بجالانے میں خوب چوکس اور مستعد تھے.اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کی اولا د اور دیگر عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین ( مطبوعه الفضل ۸/ستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 974

مضامین بشیر ۹۶۲ مولوی محمد امیر صاحب ڈبر وگڑھ آسام کی وفات ڈبر وگڑھ آسام سے پروفیسر عطاء الرحمن صاحب ایم.اے ریٹائر ڈ اسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ تعلیم بذریعہ تا ر اطلاع دیتے ہیں کہ اُن کے والد محترم مولوی محمد امیر صاحب وفات پاگئے ہیں.انا لله و انا اليه راجعون.مولوی صاحب موصوف پرانے اور مخلص احمدی تھے اور موصی بھی تھے.چونکہ ڈبر وگڑھ میں جماعت تھوڑی ہے.اس لئے پروفیسر عطاء الرحمن صاحب درخواست کرتے ہیں کہ احباب کرام ان کے والد صاحب مرحوم کا جنازہ غائب پڑھ کر ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے دعا فرمائیں.مولوی محمد امیر صاحب حقیقۂ ایک بہت نیک اور با اخلاق بزرگ تھے.اللہ تعالیٰ انہیں فریقِ رحمت فرمائے اور ان کے پسماندگان کا دین و دنیا میں حافظ و ناصر ہو.آمین.( مطبوعه الفضل ۸ / ستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 975

۹۶۳ مضامین بشیر وو عیدالاضحیٰ کی قربانیاں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا ایک فیصلہ کن فتویٰ جیسا کہ ناظرین کو معلوم ہے گزشتہ ایام میں عید الاضحی کی قربانی کے متعلق میرے تین مضامین الفضل ، میں اوپر تلے شائع ہو چکے ہیں ( ملاحظہ ہو الفضل ۱۸، ۲۰،۱۹ / اگست ۱۹۵۰ء ) اس کے بعد مجھے ایک دوست کے ذریعہ علم ہوا ہے کہ آج سے ۳۸ سال قبل یعنی ۱۹۱۲ء میں بھی یہ سوال اٹھا تھا جبکہ ترکوں کی امداد کی غرض سے ( جو اس وقت ایک جنگ کی مصیبت میں مبتلا تھے ) بعض مسلمانوں نے تجویز کی تھی کہ عید الاضحی کی قربانی کو روک کر اس کی جگہ ترکوں کو نقد روپیہ بھجوا دیا جائے.ان ایام میں اخبار ”زمیندار“ لاہور میں کسی مسلمان وکیل کا ایک مضمون بھی شائع ہوا تھا جس میں مسلمان علماء سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اس مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں.ان مسلمان علماء میں ہماری جماعت کے خلیفہ اول حضرت مولوی نور الدین صاحب نوراللہ مرقدہ کا نام نامی بھی شامل تھا.اس پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے اخبار ”زمیندار“ کا یہ پرچہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھجوا کر درخواست کی کہ حضور اس استفسار کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرما ئیں.اس کے جواب میں جو خط حضرت خلیفہ اول کی طرف سے ڈاکٹر صاحب موصوف کو موصول ہوا وہ انہوں نے انہی ایام میں اپنے نوٹ کے ساتھ ایک اشتہار کی صورت میں شائع کر دیا اور میں اس اشتہا ر کو ( گو افسوس ہے کہ مجھے اس کی صرف نقل ہی مل سکی ہے ) ناظرین کی دلچسپی اور راہ نمائی کی خاطر درج ذیل کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اپنے اس فتوی میں بعینہ اسی خیال کا اظہار فرمایا ہے جو میں اپنے مضمونوں میں ظاہر کر چکا ہوں.فالحمد الله علی ذالک.بہر حال ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب کے مطبوعہ اشتہار کی نقل درج ذیل کی جاتی ہے.ย فتوی متعلق قربانی عید الاضحی اخبار زمیندار لا ہور میں ایک وکیل صاحب نے عید کی قربانیوں کے متعلق حضرت مولوی نورالدین صاحب ( خلیفہ اسیح ) سے استفسار کیا تھا.میں نے آپ کی خدمت میں زمیندار کا یہ پر چہ بھیج دیا.

Page 976

مضامین بشیر ۱۰۸ ۹۶۴ علاوہ اس کے ۸ نومبر ۱۹۱۲ ء کو جو پبلک جلسہ لاہور میں زمیندار ٹرکش فنڈ کے متعلق ہوا تھا.اس میں مولوی عبد العلی صاحب ہر وی شیعہ عالم نے آیت لَن يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ سے استدلال کر کے فتویٰ دیا تھا کہ اگر ترکوں کی اس مصیبت کے وقت میں قربانی نہ دی جائے اور اس کے عوض میں نقد روپیہ تر کی بھجوا دیا جائے تو جائز ہے.اس کے متعلق بھی میں نے اپنے خط میں حضرت مولوی صاحب کو اطلاع کر دی تھی.اس کے جواب میں حضرت مولوی صاحب کی جو چٹھی مجھے موصول ہوئی ہے وہ ذیل میں شائع کی جاتی ہے.اس کے چھاپنے کی اس لئے بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ جلدی میں جناب مولانا شبلی صاحب نعمانی اور مولوی محمد عبد اللہ صاحب ٹوٹکی کی طرف منسوب کر کے بھی ایک بے دلیل فتویٰ شائع ہوا ہے جس کی بناء پر بعض اخباروں نے کھلے طور پر قربانی نہ کرنے کی ہدایت کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ رقم ٹرکش ریلیف فنڈ میں دے دی جائے.اس تحریک سے مسلمانوں کو بہت ابتلاء کا اندیشہ ہے اور شعائر اللہ کی بے حرمتی ہے.حضرت مولوی نورالدین صاحب قبلہ نے اپنی اس چٹھی میں نہ صرف قربانی کے ضروری ہونے پر فتوی دیا ہے بلکہ ایک حقیقی مصلح کے طور پر قوم کی مرض اور اس کا علاج دونوں بتا دیئے ہیں اور قربانی روکنے کی بجائے دیگر ہر رنگ میں چندہ دینے کی تحریک کی ہے.خاکسار مرزا یعقوب بیگ ایل.ایم.ایس لاہور اصل خط مشتمل بر فتوی پیارے مرزا السلام عليكم ورحمة الله و بركاة ۱۴ نومبر ۱۹۱۲ء حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بڑی ضرورتیں تھیں.خلفاء کے زمانہ میں سخت سے سخت ضرورتیں تھیں مگر قربانی ترک نہیں کی گئی.اس کا ترک شیعہ مذہب کے بھی خلاف ہے.باقی رہالَن يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا کا فرمان سو وہ صحیح ہے مگر جس طرح سے عالم شیعہ نے سمجھا ہے اس طرح نہیں.قربانی ہی اصل ہے.معلوم نہیں يَنَالُهُ التَّقْوی سے مولوی صاحب نے کیا مراد لیا ہے.افسوس یہ سب قرآن نہ سمجھنے کا وبال ہے.کیا مسلمانوں کے پاس اور مال ہی نہیں رہا کہ اب قربانی پر ہاتھ صاف کرنے لگے؟ اگر ایسے ہی مفلس ہیں تو نہ زکوۃ نہ قربانی نہ تعلیم پر روپیہ خرچ کریں چھٹی ہوئی الله الله ثم اللہ اللہ پہلے مکہ میں قربانیاں بند کریں.ترک خود قربانی کو بند کریں.قونسل کراچی.بمبئی.مدراس.کلکتہ.برما کیا کام کرتے ہیں...آپ وطن اور زمیندار جیسے دانایان زمانہ سے دریافت

Page 977

۹۶۵ مضامین بشیر کریں کہ قونصل کیا کام کرتے ہیں.متنفرنج تو اسلام کی سلطنت کو پسند ہی نہیں کرتے.میں نے ان لوگوں کو ضروری تجارت کے متعلق خط لکھے جواب تک سے دریغ فرمایا انا لله و انا اليه راجعون.یونی ورسٹی کا جمع شدہ روپیہ دے دیں.(ان دنوں میں مسلم یونی ورسٹی کے لئے بھاری رقم جمع ہوئی تھی.) شادی غمی کی فضولی کا روپیہ دے دیں.خود ترک فضولی کے بدلے روپیہ دے دیں.ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں فی کس ایک روپیہ ہی دے دیں.مگر خود شعائر اسلام کو ہاتھ سے نہ دیں.طرابلس کے غریب عرب جان دے رہے ہیں.ترک میدانی جنگ چند روز جاری رکھیں قد افلح الــمـومـــون لـلـه العـزة وللرسول وللمومنين.انا لننصر رسلنا والذين امنوا في الحيواة الدنيا.سچ ہے حرفی بس است نورالدین از قادیان ۱۰ نومبر ۱۹۱۲ء حاشیہ.شیعہ عالم شیخ عبد العلی ہروی کا ایک مضمون آج پیسہ اخبار میں نکلا ہے جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ صرف حج کے موقعہ پر قربانی ہے اور سوائے اس کے نہیں.اس کے متعلق صرف اتنا ہی لکھنا کافی ہوگا کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور صحابہ کرام اور آئمہ محدثین اور مجددین کا عمل اور امت محمدیہ کے تیرہ سو سال کا تعامل صرف عالم ہروی کے اجتہاد سے باطل نہیں ہوسکتا.“ جو فتوی حاجی الحرمین حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا اوپر درج کیا گیا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں.حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے عید کی قربانیوں کو شعائر اسلامی کا ضروری حصہ قرار دیا ہے اور اسے بند کرنے کو خلاف اسلام فعل گردانا ہے جس کا خیال محض جلد بازی یا نادانی یا دینی جذبہ کی کمی یا فقدان کی وجہ سے پیدا ہوسکتا ہے.باقی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اس قسم کا فتویٰ دینے والے علماء آیت لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقوى مِنْكُمْ " کا مطلب نہیں سمجھے.اس سے شریعت اسلامی کی ایک نہایت لطیف حکمت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جو یہ ہے کہ ہر عمل کا ایک جسم ہوتا ہے اور ایک روح جسم تو اس کی ظاہری شکل وصورت کا نام ہوتا ہے اور روح اس کے اندر کے مغز کا نام ہوتا ہے جس کی بناء پر اور جسے پیدا کرنے اور زندہ رکھنے کے لئے کسی عمل کا حکم دیا جاتا ہے.مثلاً نماز کا جسم وہ ظاہری ارکان ( یعنی قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ اور ان کی مقررہ دعائیں ) ہیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے اور نماز کی روح وہ نیکی اور طہارت اور تقرب الی اللہ کا جذبہ ہے جسے خدا نماز کے ذریعہ

Page 978

مضامین بشیر ۹۶۶ مسلمانوں میں قائم کرنا چاہتا ہے اور جس کی طرف مثلاً قرآن شریف ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے که إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ) یعنی نماز خلاف اخلاق اور خلاف دین باتوں سے روکنے کے لئے مقرر کی گئی ہے.) اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز مومن کا معراج ہے جس کے ذریعہ وہ خدا تک پہنچتا ہے مگر باوجود اس کے کہ نماز کی روح اس کی یہ اندرونی حقیقت ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے.کوئی عالم دین یہ نہیں کہہ سکتا کہ نماز کی ظاہری صورت کو ترک کر دیا جائے کیونکہ جب جسم ہی نہیں ہوگا تو روح کہاں سے آئے گی.اور کہاں رہے گی ؟ یہی فلسفہ قربانیوں کے اس حکم میں بیان کیا گیا ہے جس سے بعض علماء غلط استدلال کر رہے ہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ : لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ.یعنی اے مومنو! قربانیوں کے جانوروں کا گوشت اور خون خدا کو نہیں پہنچتا بلکہ اسے تمہاری طرف سے وہ تقویٰ کی روح پہنچتی ہے جس کے ماتحت تم یہ قربانیاں کرتے ہو.“ کہا جاتا ہے کہ اس قرآنی آیت میں ینَالُهُ التقوی ( خدا کو تقویٰ کی روح پہنچتی ہے ) کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ قربانی کی ظاہری صورت کوئی چیز نہیں بلکہ تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے رنگ میں خرچ کرنا بھی کافی ہو سکتا ہے.یہ استدلال کتنا غلط کتنا بے بنیاد اور قرآنی محاورہ کے کتنا خلاف ہے.ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشاء تھا جو بعض جلد با زلوگوں نے اس آیت سے سمجھا ہے تو پھر اس آیت کے ساتھ لگتی ہوئی آیت میں انہی قربانیوں کے متعلق یہ کیوں فرمایا گیا کہ : فَكُلُوا مِنْهَا وَ أَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط دو یعنی اے مسلمانو تم ان قربانیوں کا گوشت خود بھی کھاؤ اور اپنے باقناعت عزیزوں دوستوں اور ہمسایوں کو بھی کھلاؤ اور پھر ایسے لوگوں کو بھی کھلاؤ جو غریب اور مصیبت زدہ ہیں خواہ وہ سائل ہوں یا غیر سائل“ اس آیت کے ساتھ جوڑ کر اوپر والی آیت کو بیان کرنا صاف ثابت کرتا ہے کہ اس جگہ قربانیوں کی ظاہری صورت اور ان کی اندرونی روح دونوں کی حکمت بیان کرنا مقصود ہے.دراصل يناله التقوى والی لطیف آیت میں خدا تعالیٰ نے وہی حکیمانہ انداز اختیار فرمایا ہے جو دیگر احکام شریعت کے متعلق اختیار کیا گیا ہے.یعنی قربانیوں کے جسم (یعنی ان کی ظاہری شکل وصورت ) کے ساتھ ساتھ ان کی اندرونی روح کی طرف بھی توجہ دلائی ہے تا کہ مسلمان صرف اعمال کے جسم میں ہی الجھ کر نہ رہ

Page 979

۹۶۷ مضامین بشیر جائیں بلکہ اعمال کی اندرونی حکمت کی طرف بھی توجہ دیں اور اسے ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھیں مگر جیسا کہ دوسری آیت میں صراحت کی گئی ہے اس سے یہ استدلال کرنا ہرگز جائز نہیں کہ شریعت کے مقرر کردہ اعمال کی ظاہری صورت کو ترک کیا جا سکتا ہے.کیا اس وجہ سے کہ نماز کی اصل روح قرب الہی اور منکرات سے تحفظ ہے ، نماز کے ظاہری ارکان یعنی قیام رکوع اور سجود وغیرہ کو چھوڑا جا سکتا ہے؟ اور کیا اس وجہ سے کہ روزہ کی اصل روح تبتل الی اللہ اور لذات دنیوی سے بے رغبتی پیدا کرنا ہے، روزہ کی ظاہری شکل وصورت یعنی سحری کا کھانا اور دن کے اوقات میں اکل وشرب سے اجتناب اور شام کی افطاری کو ترک کیا جا سکتا ہے؟ اور پھر کیا اس وجہ سے کہ حج کی اصل روح مسلمانوں میں مرکزیت اور اجتماعیت کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی خاطر ایثار کا جذبہ پیدا کرنا ہے.حج کے ظاہری مناسک یعنی بیت اللہ کا طواف اور عرفہ کے وقوف وغیرہ کو چھوڑا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ہر گز نہیں اور کوئی عالم دین ایسا فتوی دینے کی جرات نہیں کر سکتا تو پھر اگر اسی حکمت کے ماتحت قرآن نے قربانیوں کی ظاہری صورت کے علاوہ ان کی اندرونی روح کی طرف بھی توجہ دلائی تو اس کی وجہ سے قربانی کے ظاہری مناسک کو کس طرح ترک کیا جا سکتا ہے؟ اس ملحدانہ نظریہ کو قبول کرنے سے تو شریعت کا سارا ڈھانچہ ہی درہم برہم ہو جاتا ہے اور نہ نماز رہتی ہے اور نہ روزہ اور نہ حج اور نہ کوئی اور عبادت - فافهم و تدبر ولا تكن ولا تكونوا والممترين.( مطبوعہ الفضل ۹ ستمبر ۱۹۵۰ء )

Page 980

مضامین بشیر ۹۶۸ برطانیہ میں تعدد ازدواج کی طرف رجوع رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِينَ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِينَ ) د یعنی اسلام کی تعلیم اور اس کے ساتھ ترقی کے وعدے ایسے ہیں کہ بسا اوقات کا فرلوگ بھی یہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے.اس عظیم الشان پیش گوئی کی صداقت پر تاریخ عالم نے بے شمار دفعہ مہر تصدیق ثبت کی اور انشاء اللہ قیامت تک کسی نہ کسی رنگ میں اس کا ظہور ہوتا چلا جائے گا.جب کبھی بھی مسلمانوں کو کوئی غیر معمولی کامیابی اور ترقی نصیب ہوئی اور دنیا جانتی تھی کہ یہ کامیابی اور یہ ترقی ان وعدوں کے مطابق ہے جو قرآن میں نہایت زور شور کے ساتھ کئے گئے ہیں تو اس وقت لازما مسلمان علاقوں کے قریب رہنے والے کافروں میں اسلام کی طرف غیر معمولی توجہ اور حرکت پیدا ہوئی جو اس بات کا عملی ثبوت تھی کہ ان کفار کے دلوں میں لَوْ كَانُوا مُسْلِمِینَ کا جذبہ موجزن ہو رہا ہے اور وہ بھی ان ترقیات میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں جو خدا نے مسلمانوں کے لئے مقدر کر رکھی ہیں اور بعض اقوام اور افراد نے تو قولاً بھی اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام ایک نہ ختم ہونے والی ترقی کی طاقت لے کر پیدا ہوا ہے.یہ لو كَانُوا مُسْلِمِینَ کے فطری نعرہ کا ایک پہلو تھا جو تاریخ نے دیکھا.دوسری طرف اس بات کی مثالیں بھی کثرت کے ساتھ ملتی ہیں کہ بسا اوقات کفار نے اسلام کی تعلیم سے متاثر ہو کر اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام کی فلاں تعلیم ایسی ہے کہ کاش وہ ہم میں بھی ہوتی.اسلام کی اخوت کی تعلیم.اسلام میں انسانی مساوات کی تعلیم.اسلام میں جوئے کی حرمت.اسلام میں شراب کی حرمت.اسلام میں قتل کی سزائے موت.اسلام میں جمہوریت کا نظام.اسلام میں طلاق کا قانون وغیرہ وغیرہ بے شمار ایسی باتیں ہیں جن کے متعلق کبھی کوئی قوم اور کبھی کوئی قوم حسرت کے ساتھ اس بات کا اظہار کر چکی ہے کہ کاش یہ تعلیم ان میں بھی ہوتی جس کے دوسرے الفاظ میں یہی معنی ہیں کہ لَوْ كَانُوا مُسْلِمِینَ.فطرت انسانی کا یہ نعرہ کہ کاش ہم بھی اس تعلیم کو ماننے والے ہوتے، کبھی تو عمل کے ذریعہ ظاہر ہوا ہے اور کبھی قول کے ذریعہ ظاہر ہوا ہے مگر بہر حال وہ اس گہری حسرت کا علمبردار ہے جو ایک پاک اور فطری تعلیم کو دیکھ کر ایک محروم فرد یا محروم قوم کے

Page 981

۹۶۹ مضامین بشیر دل میں پیدا ہوتی ہے.اس جگہ میں اس فطری نعرہ لَو كَانُوا مُسْلِمِینَ کی ایک تازہ مثال پیش کرنا چاہتا ہوں.جس کی گونج آجکل برطانیہ کی غیر اسلامی فضاء میں بڑے زور وشور کے ساتھ اٹھ رہی ہے.سٹار ایجنسی نے لنڈن سے اطلاع دی ہے کہ : لنڈن ۳ رستمبر.پروفیسر او کے لو جائے کی قیادت میں ایک کمیٹی یہاں اس بات کی تیاری کر رہی ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبروں کے سامنے یہ تجویز پیش کی جائے کہ برطانیہ کے قانون شادی و بیاہ میں اصلاح ہونی چاہئیے.یہ مہم پارلیمنٹ کے اس اجلاس کے ساتھ ہی بلا توقف شروع کر دی جائے گی جو ۲ استمبر سے منعقد ہونے والا ہے.یہ تحریک پروفیسر لو جائے کی اس جدید تصنیف کی اشاعت سے شروع ہوئی ہے جس کا نام 'اب کوئی غیر شادی شدہ عورت نہیں رہے گی“ ہے اور جس کے اس وقت تک ۳۵ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور ابھی تک پبلک میں اس کتاب کی بے حد مانگ ہے.مختصراً تجویز یہ ہے کہ ہر آدمی دو بیویاں کرے.پروفیسر لو جائے کا جنہوں نے برطانیہ کے اعداد و شمار کا گہرا مطالعہ کیا ہے.اندازہ ہے کہ اس طرح ملک کی ہر عورت کو خاوند مل جائے گا.ایسے لوگ جو ایک بیوی رکھنے پر بھی چنداں خوش نہیں اور اس کا انتظام نہیں کر سکتے انہیں ایک بیوی کی اجازت ہوگی.مگر ایسے لوگ تمام پبلک جگہوں میں ملکی عام آبادی سے ( جو تعدد ازدواج پر عامل ہو گی ) علیحدہ بٹھائے جائیں گے.پروفیسر لو جائے نے ایک جدید مکمل ضابطہ ازدواج کا خاکہ تیار کر لیا ہے.اس ضابطہ کی رو سے موجودہ قانون کو ( اس کی جذباتی بنیاد سے ہٹا کر ) زیادہ عملی اور کاروباری رنگ دے دیا جائے گا.“ یہ خبر ( خواہ یہ تجویز فی الحال کامیاب ہو یا نہ ہو ) بہر حال اسلام کی ایک عظیم الشان فتح ہے کہ وہ ملک جس نے سینکڑوں سال تک اسلام کی تعدد ازدواج والی تعلیم کا نہائت سختی کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ نعوذ باللہ ا سے تعیش اور بد کاری تک کے قبیح الزامات کا نشانہ بنایا.آج وہی ملک اپنے گھر یلو مسائل کے دباؤ سے مجبور ہو کر اس تعلیم کی طرف رجوع کر رہا ہے بلکہ اسلام نے تو تعددازدواج کی صرف اجازت ہی دی تھی اور وہ بھی خاص شرائط کے ساتھ مگر یہ ملک اسے ایک گونہ جبر کا رنگ دے کر اپنے سیاسی قانون کا حصہ بنانا چاہتا ہے.اور ایک بیوی پر قانع لوگوں کو گویا اچھوتوں کی طرح علیحدہ جگہ دے کر سوسائٹی کی نظروں میں مطعون کرنے کی تجویزیں سوچ رہا ہے.کیا اس سے بھی بڑھ کر کسی تعلیم کی فتح ہو سکتی ہے؟

Page 982

مضامین بشیر ۹۷۰ کیا کسی سر بلند قوم کا سر اس سے بھی زیادہ نیچا ہونا ہے ممکن ہے؟ فاعتبرو آیا اولی الابصار اس سے پہلے یورپ و امریکہ کی اقوام نے اسی میدان میں اسلام کے قانونِ طلاق کو نوازا.گو غلطی میں دوسری انتہاء کی طرف جھک گئے اور اب وہ تعدد ازدواج کے اسلامی قانون کو اپنا نا چاہتے ہیں اور گو یہ ممکن ہے کہ ابھی اس قوم کے لئے اسلام کی طرف آنے میں چند اور جھٹکے کھانے مقدر ہوں کیونکہ اس قسم کے وسیع قومی تغیرات آہستہ آہستہ ہی ہوا کرتے ہیں.مگر بہر حال ہمارے خدا اور ہمارے رسول اور ہمارے قرآن کا یہ فرمان بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا کہ : رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ ( مطبوعه الفضل ۹ رستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 983

۹۷۱ مضامین بشیر گشتی چٹھیوں کی لغویت مومنوں کو جھوٹے لالچوں اور دھمکیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے ایک عرصہ سے ہمارے ملک میں یہ لغویت شروع ہے کہ کوئی شخص ایک گمنام چٹھی اپنے چند دوستوں اور واقف کاروں کے نام لکھ کر بھجوا دیتا ہے اور اس چٹھی میں اپنے مخاطبین سے درخواست کرتا ہے کہ آگے وہ بھی اسی طرح اپنے اتنے دوستوں اور واقف کاروں ( عموما یہ تعدا دنو ہوتی ہے ) کے نام اس چٹھی کا مضمون لکھ کر بھجوا دیں اور اس طرح یہ گمنام چیٹھی ملک میں چکر لگاتی پھرتی ہے.چٹھی کا مضمون آگے جاری کر دیا تو اتنے عرصہ کے اندر اندر ( یا بلاتعیین عرصہ ) آپ کو کوئی غیر معمولی فائدہ پہنچے گا اور نہ اس عرصہ میں آپ کو کسی بھاری نقصان کے لئے تیار رہنا چاہئے وغیرہ وغیرہ اور سادہ لوح اور توہم پرست لوگ بعض اوقات اس چٹھی کے مضمون سے متاثر ہو کر اور بعض اوقات اس کے بشارت کے پہلو سے ” لالچ میں آکر اور بعض اوقات اس کے اندار اور دھمکی سے ڈرکر اس چٹھی کے مضمون کو اسی طرح کی گمنام چٹھیوں کے ذریعہ آگے جاری کر دیتے ہیں اور اس طرح یہ لغویت کا چکر قائم رہتا ہے اور محکمہ ڈاک کے سوا کوئی فرد یا ادارہ اس دور سوء سے فائدہ نہیں اٹھاتا.گو یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض تو ہم پرست لوگوں کو بعض فرضی فوائد یا خیالی نقصانات نظر آنے لگ جاتے ہوں.چونکہ ایسی گمنام چٹھیاں بعض اوقات مجھے بھی پہنچی ہیں اس لئے مجھے شبہ ہوتا ہے کہ شائد ہماری جماعت کے بعض سادہ مزاج نو جوان بھی اس چکر میں پھنس گئے ہوں گے.گو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نظر عنایت کسی غیر از جماعت دوست کی طرف سے ہو جس نے مجھے بھی اس مخفی تجارت کے فوائد سے متمتع کرنا چاہا ہو.بہر حال خواہ ان چٹھیوں کا لکھنے والا کوئی ہو.میں دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر لغو اور بے ہودہ کام ہے جس سے سمجھدار لوگوں کو پر ہیز کرنا چاہئے اور اس بات کو سمجھنے کے لئے صرف سادہ سی دلیلیں کافی ہیں.(۱) سب سے پہلی اور ضروری بات یہ ہے کہ یہ دعوی کرنا کہ ایسا کرنے سے فائدہ ہوگا اور ایسا نہ کرنے سے نقصان ہو گا.یہ تو صرف خدا کا کام ہے جو دنیا کی تقدیر کا خالق و مالک ہے اور یا پھر یہ ان لوگوں کا کام ہے جو خدا کے قانون قضاء وقد ریا قانون شریعت کو سمجھ کر ان قانونوں کے ماتحت لوگوں کو

Page 984

مضامین بشیر ۹۷۲.بھلائی اور برائی کا رستہ بتاتے ہیں اس کے سوا کسی اور شخص کو یہ حق یا اختیار حاصل نہیں کہ وہ خدائی تقدیر کا مالک و متصرف بن کر اس قسم کا دعوی کرے کہ اگر یوں کرو گے تو یہ ہو گا اور اگر یوں نہ کرو گے تو وہ ہو گا.بے شک ایک عالم دین یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ اگر خدا کی خاطر نماز روزہ ادا کرو گے تو روحانی رنگ میں یہ یہ فائدہ ہوگا اور اگر ان اعمال کی طرف سے سستی اور غفلت بر تو گے تو روحانیت کو نقصان پہنچے گا اور اسی طرح ایک عالم اقتصادیات یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ اگر اپنے کاروبار میں دیانت و محنت کے ان ان اصولوں کی پابندی اختیار کرو گے تو فائدہ ہوگا اور اگر ان کی طرف سے غفلت برتو گے تو نقصان ہو گا.کیونکہ یہ دونوں باتیں ہمارے خدا کی بتائی ہوئی تقدیر ( خواہ وہ شریعت کی تقدیر ہے یا قضاء وقدر کی ) کا حصہ ہیں لیکن اس کے سوا کسی شخص کو یونہی استبدادی رنگ میں اپنے من گھڑت اصول کے ماتحت یہ دعوی کرنے کا اختیار نہیں کہ اس رستہ پر چلنے سے فائدہ ہوگا اور اس رستہ پر چلنے سے نقصان ہوگا بلکہ حق یہ ہے کہ ایسے لوگ اس قرآنی وعید کے ماتحت آتے ہیں کہ قُتِلَ الْخَرْصُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ سَاهُونَ " یعنی ان اٹکل باز لوگوں کے لئے تباہی اور بربادی ہے جو جہالت کی غشیوں میں مبتلا ہو کر بھولے پھرتے ہیں“ (۲) دوسری دلیل اس طریق کے باطل ہونے کی اس کی مخصوص راز داری ہے.اگر یہ واقعی ایک نیکی کی بات ہے جس کا اختیار کرنا فائدہ کا موجب اور اس کا ترک کرنا نقصان کا باعث ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایسے لوگ اپنا نام ظاہر کر کے کھیلیے میدان میں نہیں آتے ؟ کیا آج تک دنیا میں کوئی رسول یا مصلح ایسا بھی گزرا ہے کہ وہ خود تو برقعہ پہن کر پیچھے بیٹھ گیا ہو اور گمنام اعلانوں کے ذریعہ لوگوں کے نام بشارت اور انذار کے پیغامات جاری کرتا رہے.پس کمیونزم کے فولادی پردہ (آمین کرٹین ) کی طرح دراصل یہ راز داری ہی اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے.و (۳) اس طریق میں مال کا نا واجب ضیاع بھی ہے کہ جو بات ایک اخباری اعلان کے ذریعہ بڑی آسانی کے ساتھ بغیر کسی خرچ کے ہزاروں لوگوں تک پہنچائی جاسکتی ہے.وہ خطوں اور پوسٹ کارڈوں کے ذریعہ سینکڑوں روپیہ خرچ کر کے پہنچائی جاتی ہے.اور اس راز داری کے چکر میں بسا اوقات ایک شخص کو ہی کئی کئی خط پہنچ جاتے ہیں.(۴) اس کے نتیجہ میں تو ہم پرستی بھی پیدا ہوتی ہے اور نیک و بد کاموں کی عقلی بنیاد کی بجائے وہم کا مرض ترقی کرتا اور خیالی امیدوں اور خیالی اندیشوں کا چکر قائم ہو کر انسانی دماغ کے اردگرد ایک جوئے کا سا ماحول پیدا کر دیتا ہے.(۵) یہ طریق عملاً بھی باطل ثابت ہوتا ہے مثلاً مجھے ایسے خطوط کئی دفعہ پہنچے ہیں اور میں نے

Page 985

رض مضامین بشیر دانستہ ہر دفعہ انہیں پھاڑ کر رڈی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور ہر دفعہ بقول شخصے ” انتظار کیا ہے کہ خط کے اندر درج شدہ وعید کب آتا ہے لیکن آج تک خدا کے فضل سے اس وعید کے حملہ سے محفوظ رہا ہوں اور انشاء اللہ آئندہ بھی رہوں گا اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر دوسرے لوگ بھی غور کریں تو انہیں بھی یہی نظر آئے گا کہ ایسے خطوں کے وعدے اور وعید ، سب محض خیالی بُت ہیں جنہیں سچے مسلمانوں کو اپنے دل کے کعبہ سے اس دعا کے ساتھ نکال پھینکنا چاہیے کہ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا اسلام میں ان لغویات کے لئے کوئی جگہ نہیں.(۶) کہا جا سکتا ہے کہ ان خطوں میں بعض اوقات نیک باتیں بھی درج ہوتی ہیں.میں مانتا ہوں کہ بظاہر یہ درست ہے اور میں نے ایسے خطوں میں عام نیک باتوں کے علاوہ مسنون دعائیں بھی دیکھی ہیں لیکن کیا اگر شیطان کسی نیک انسان کا جبہ پہن کر آ جائے تو اسے دوست سمجھا جا سکتا ہے؟ آخر وہ شیطان ہی تو تھا جو ایک دفعہ حضرت معاویہ کو صبح نماز کے لئے جگانے آیا تھا مگر اس کی وجہ سے وہ ولی اللہ نہیں بن گیا بلکہ شیطان کا شیطان رہا اور اس کی نیت بھی حضرت معاویہ کو ایک بڑے ثواب سے محروم کرنا تھی گو بظاہر اس کی تحریک نیک تھی اور پھر کیا قرآن شریف یہ نہیں فرما تا کہ جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَ اللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ تَكْذِبُونَ & یعنی اے رسول جب تیرے پاس منافق لوگ آتے ہیں تو بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں خدا جانتا ہے کہ تو بلا ریب اس کا رسول ہے مگر خدا اس کے ساتھ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق لوگ بہر حال اپنے اس دعوی میں جھوٹے اور کذاب ہیں اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ بعض اوقات ایک بات اپنی ذات میں سچی ہوتی ہے مگر چونکہ وہ ایک شخص کے مونہہ سے جھوٹے طور پر نکلتی ہے اس لئے خدا کے نزدیک ایسے دعوئی کا کوئی وزن نہیں ہوتا اور خدا اس بات کے کہنے والے کو بر ملا طور پر جھوٹا قرار دیتا ہے.پس خواہ اس قسم کے گمنام خطوں کا مضمون سچا ہی ہو ہم ان خطوں کے لکھنے والوں کو بہر حال جھوٹا کہیں گے کیونکہ انہوں نے رستہ جھوٹا اختیار کیا.حق یہ ہے کہ مومنوں کو اسلام کی تعلیم کی حفاظت کے لئے شیطان کی ہر تحریک کے مقابلہ پر چوکس رہنا چاہیئے.خواہ وہ ان کے سامنے کوئی لباس پہن کر آئے.کسی نے کیا خوب کہا ہے :- به من ہر رنگے کہ خواہی جامعه می پوش انداز قدت را می بشناسم ( ۷ ) آخری بات یہ ہے کہ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر ایسے خطوں میں کوئی نیک بات یا

Page 986

مضامین بشیر ۹۷۴ مسنون دعا لکھی ہو تو کیا ہم اس پر بھی عمل نہ کریں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی خط میں ایسی بات لکھی ہو کہ جو قرآن وحدیث سے صراحتہ ثابت ہے تو اس پر ضرور عمل کرو مگر اس لئے نہیں کہ یہ بات خط لکھنے والے نے لکھی ہے بلکہ اس لئے کہ اس کا حکم خدا اور اس کے رسول نے دیا ہے لیکن اگر اس میں کوئی ایسی عام قسم کی نیک بات لکھی ہو جو قرآن و حدیث میں صراحة مذکور نہیں تو بہتر یہ ہے کہ اس وقت اسے نظر انداز کر دیا جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے خواہ وہ بظاہر اچھی بات ہی ہو کیونکہ اس طرح دل میں ایک مخفی زنگ لگنے کا امکان ہے اور باطل تحریک کے ساتھ تعاون کا رنگ پیدا ہوتا ہے.باقی رہا ایسے خطوں کے مضمون کو گمنام چھٹیوں کے ذریعہ آگے چلانا.سو یہ بہر حال ایک لغوا اور بے ہودہ فعل ہے جس سے ہر حال میں پر ہیز لازم ہے اور ایسے خطوں کے لکھنے سے مخفی انعاموں کی امید رکھنا اور ان کے نہ لکھنے سے مصائب اور حوادث کا خوف کھانا تو ایک خطر ناک قسم کی تو ہم پرستی اور دماغی قمار بازی کے سوا کچھ نہیں.جس سے ہمارے دوستوں کو اسی طرح دور بھاگنا چاہئیے جس طرح کہ وہ دوسری شیطانی تحریکوں سے دور بھاگتے ہیں.لا حول ولا قوة الا بالله العظيم.مطبوعه الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 987

۹۷۵ مضامین بشیر شیخ سعد اللہ لدھیانوی کی وفات حضرت محمد اسماعیل مرحوم کا ایک اہم مکتوب پشاور سے مجھے محترمی ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ایم بی بی ایس نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم کا ایک خط بھجوایا ہے جو حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم نے مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب کے ایک استفسار کے جواب میں ۴ ستمبر ۱۹۴۰ء کو شیخ سعد اللہ لدھیانوی کی وفات کے باعث کے متعلق طبی نقطہ و نگاہ سے لکھا تھا.حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم کا یہ خط جو مکرم منشی عبدالکریم صاحب کے واسطہ سے لکھا گیا مع استنفسا ر ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موصوف احباب کے فائدہ کے لئے درج ذیل کیا جاتا ہے.سوال از مکرم ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب پشاور سوال :.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴.۱۵ میں سعد اللہ لدھیانوی کے لئے عربی اشعار میں چند الفاظ تحریر فرمائے.میری خاص توجہ شعر نمبر چار پر پڑی جس کا ترجمہ یہ ہے.میں تجھے ناز اور تکبر کے ساتھ چلتا ہوا دیکھتا ہوں کیا تو طعنة النجلاء والے دن کو بھول گیا.سعد اللہ نے بموجب مذکورہ بالا پیشگوئی کے نیما نک پلیگ سے وفات پائی.حضرت اقدس نے بھی اسکی وفات کو نیا نگ پلیگ سے ہی موسوم کیا اور تحریر فرمایا ہے کہ اس بیماری میں چونکہ پھیپھڑا پھٹ جاتا ہے اس لئے طعنة النجلاء کے لفظی معنوں کے لحاظ سے بھی یہ پیشگوئی مکمل طور پر پوری ہوئی.اب جبکہ ہم نیا نگ پلیگ جس میں کہ پھیپھڑا بجائے پھٹ جانے کے منجمد ہو جاتا ہے اور اس کے ہوا کے خلیئے کچھ بلغم کچھ رطوبت کچھ دیگر مادیات سے بھر جاتے ہیں اور سانس کے ذریعہ ہوا کا آنا جانا رک جاتا ہے جو کہ باعث موت اور مہلک ہوتا ہے تو اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ دراصل سعد اللہ کی موت پھیپھڑے کے پھٹ جانے سے واقعہ نہ ہوئی ہو گی بلکہ اس کے اندر رطوبات کے منجمد ہو جانے کی وجہ سے ہوئی ہوگی.چونکہ یہ نتیجہ باعث تسلی نہیں ہے اس سلئے استدعا ہے کہ ڈاکٹری نقطہ نظر سے روشنی ڈالی جاوے اور اس بیماری کی پینتھا لو جی بھی مد نظر رہے.خاکسار ڈاکٹر محمد معبد الرحمن عفی عنہ

Page 988

مضامین بشیر جواب از حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب مرحوم قادیان الصفہ قادیان بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم مکر می نشی عبد الکریم صاحب السلام عليكم ورحمة الله وبركاته : آپ کا خط مجھے ملا.میں بسبب علالت کے لکھنے پڑھنے سے آج مکمل معذور تھا.تا ہم مختصر جواب لکھ دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم میں سعد اللہ کے لئے بددعا کی اور الہام إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَر.یعنی وہی بے نسل بھی رہے گا شائع کر دیا.مقابل پر سعد اللہ کی بددعا بھی موجود ہے جو اس نے شائع کی.غرض الہام ابتر والا اور ساتھ ہی ایک مباہلہ دونوں پبلک کے سامنے آگئے.ابتر والا الہام تو آپ جانتے ہیں کہ پورا ہو چکا اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں.مباہلہ کی دعا جو تھی وہ بھی خدا تعالیٰ نے قبول کر لی اور جو جو حضرت اقدس نے سعد اللہ کے مقابل پر ان عربی اشعار مندرجہ تمہ حقیقہ الوحی صفحه ۱۴.۱۵ میں مانگا تھا اسے لفظی طور پر قبول کر لیا اور جو الفاظ حضور نے اس بددعا میں لکھے ہیں وہ بھی صحیح طور پر پورے ہو گئے.منجملہ اس کے ایک شعر نمبر ۴ صفحہ ۱۴ پر درج ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں تجھے ناز اور تکبر کے ساتھ چلتا دیکھتا ہوں کیا تو طعنة النجلاء والے دن کو بھول گیا یعنی اب تو تو ناز و تکبر سے پھر رہا ہے وہ دن بھی آتا ہے جب طعنة النجلاء تیرے سامنے آ جائے گا طعن کے معنے نیزہ مارنا یا نیزہ سے زخمی کرنا اور طعنة النجلاء کے معنی ایسا زخم نیزہ کا جو بہت وسیع ہو.یہ بددعا کا لفظ ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس مباہلہ یعنی بددعا کو منظور کیا تو لفظوں کے احترام سے بالکل اسی طرح اس کو موت دی یعنی طاعون جو نمو نیا پلیگ کی قسم کا تھا، اس سے وہ ہلاک ہو گیا.طعنہ کے معنی لفظی طاعون کے نہیں ہیں لیکن لفظی مشابہت طعنہ اور طاعون میں اتنی ہے کہ اس کی وفات خدائی نیزہ کے زخم سے ہوئی لیکن وہ گلٹی والی پلیگ سے بھی مرسکتا تھا اور صرف بخار والی پلیگ سے بھی مرسکتا تھا کیونکہ یہ ہر دو صورتیں بھی طاعون ہی کہلاتی ہیں لیکن لفظ مجلاء یعنی وسیع اور بڑے زخم کی تعریف کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اسے وہ طاعون دیا جو وسیع اور بڑا زخم پیدا کرنے والا تھا ، یعنی نمونیا پلیگ.وجہ اس کی یہ ہے کہ گلٹی والے اور صرف بخار والے طاعون میں اگر چہ وہ بھی طعنہ یعنی خدائی مار کا زخم ہے اتنی فراخی اور وسعت زخم کی نہیں ہوتی جتنی نمونیا والے طاعون میں ، کیونکہ نمونیا والے طاعون میں دونوں پھیپھڑے اتنے متورم یعنی زخمی ہو جاتے ہیں کہ مریض انسان کے بلغم میں

Page 989

۹۷۷ مضامین بشیر بکثرت خون آتا ہے.گویا فرشتوں نے اس کے پھیپھڑوں میں واقعہ نیزے مارے ہیں اور ان کو خوب زخمی کر دیا ہے.باقی دو قسم کے طاعون کے بیمار خون نہیں تھوکتے.اس لئے وہ صرف طعنہ یعنی طاعون سے یعنی الہی نیزہ کے زخم سے مرجاتے ہیں لیکن نمونیا پلیگ میں چونکہ خون کھنگار اور بلغم میں برابر آتا رہتا ہے اس لئے وہ صرف طعنہ نہیں بلکہ طعنة النجلا یعنی معمولی زخم نہیں بلکہ وسیع زخم اور خون چکاں زخم والا بیمار ہوتا ہے اور جب پھیپھڑوں سے خون جاری ہو جائے خواہ بیماری سے خواہ کسی اور وجہ سے وہ بہر حال پھیپھڑے کے سیل Cells اور اسکی باریک زخمی رگیں پھٹنے کے نتیجہ میں ہوتا ہے اور یہ پھٹنا کسی ایک جگہ پھیپھڑے میں مثل چھری کے زخم کے نہیں ہوتا بلکہ ہر دو پھیپھڑے ہر جگہ سے متورم اور زخمی ہو کر خون دینے لگتے ہیں.ایسے پھیپھڑوں کو زخمی کہنا اور وسیع طور پر زخمی کہنا عربی اردو دونوں زبانوں میں فصاحت کہلاتا ہے نہ کہ قابل اعتراض.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سعد اللہ کے لئے طعنة النجلا یعنی وسیع زخم نیزہ کا مانگا تھا.خدا نے کہا اچھا طعنہ بھی ملیگا ( زخم نیزہ کا ) اور وہ طاعون کی شکل میں اور ایسا وسیع ہو گا کہ لوگ اور خود بیمار اس زخم کی شدت اور فراخی اور وسعت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور وہ جب تھو کے گا اور کھانسے گا تو خون تھو کے گا تا کہ دیگر دو قسم کی طاعونوں کی نسبت ایک امتیاز نمایاں موجود ہو.زخمی ہو کر پھٹ جانا کے لفظ ایسے ہی ہیں جیسے کوئی کہے پھیپھڑے سخت متورم ہو کر ان کے cells کی دیوار میں پھٹ گئی ہیں اور ان میں سے خون بہہ رہا ہے.پس کوئی بات بھی تو قابل اعتراض نہیں.خدائی زخم اور خدائی نیزے ایسے لطیف ہوتے ہیں کہ باہر تو نشان نہیں ہوتا اور چھاتی کے اندر کے اعضاء چھلنی ہو جاتے ہیں.اقرب الموارد جو عربی کی مشہور لغت ہے اس میں لکھا ہے.طعنة نجلاء ایک محاورہ ہے جس کے معنے وسیع زخم کے ہیں.پس طاعون کے کیڑوں نے سعد اللہ کے ہر دو پھیپھڑوں میں ہر جگہ زخم کر دیئے اور یہ لفظ بالکل پورے طور پر اس پر صادق آگیا کیونکہ وہ بیو با تک پلیگ اور septicawicplage سے نہیں مرا بلکہ ایسے طاعون سے مرا جس میں سارے جہان نے اس کے زخم کے خون کو دیکھ لیا اور اس طاعون کی قسم سے وہ ہلاک ہوا جس کا زخم سب سے وسیع اور والسلام فراخ تھا.( ڈاکٹر میر محمد اسماعیل) مطبوعه الفضل ۱۴ر ستمبر ۹۵۰ء)

Page 990

مضامین بشیر ۹۷۸ عورت کی طرف سے نشوز اور اس پر مرد کا حق تادیب بعض دوستوں نے مجھے کچھ سوالات لکھ کر بھیجے ہیں جن کا جواب باری باری لکھنے کی کوشش کروں گا کیونکہ آجکل مجھے در د نقرس کے علاوہ ٹیکی کا رڈیا یعنی نبض کی تیزی کا بھی عارضہ لاحق ہے اس لئے زیادہ توجہ جمانا مشکل ہے.امید ہے کہ دوست میرے ان سرسری جو ابوں پر تسلی پانے کی کوشش کریں گے اور بہر حال ایسے جواب میں اتنا فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے اور پڑھنے والے کو اپنے دماغ پر بھی کچھ نہ کچھ بوجھ ڈالنا پڑتا ہے جو بہر صورت مفید ہے.ربوہ سے صوفی خدا بخش صاحب لکھتے ہیں کہ یہ جو قرآن شریف میں آتا ہے کہ عورت کی طرف سے نشوز کی کیفیت ظاہر ہونے پر خاوند کو تادیب کا حق ہے جو ضرب یعنی جسمانی سزا کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اور نشوز اور ضرب کی اسلامی تشریح کیا ہے؟ سواس کے جواب میں ہمیں سب سے پہلے اُس قرآنی آیت پر نظر ڈالنی چاہئے جس میں بعض حالات میں مرد کو عورت کی تادیب کا مندرجہ بالا حق دیا گیا ہے.قرآن شریف فرماتا ہے :- الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّلِمتُ قَنِتُتُ حفظتُ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظ الله وَالَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُ وهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۱۱۵ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا BO یعنی مرد عورتوں پر نگران اور محافظ ہیں بوجہ اس ( جسمانی اور دماغی ) فضیلت کے جو خدا کے قانون کے مطابق بعض کو بعض پر (یعنی مردوں کو عورتوں پر ) حاصل ہے اور بوجہ اس کے کہ مرد اپنے مالوں میں سے عورتوں پر خرچ کرتے ہیں.پس نیک عورتوں کو اپنے خاوندوں کا فرمانبردار رہنا چاہیے اور ان کی عزت اور ان کی اولاد اور ان کے مالوں کی ) غائبانہ حفاظت کرنی چاہئے تمام ان ذرائع کے ساتھ جو خدا تعالیٰ نے حفاظت کے لئے مقرر کر رکھے ہیں اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے تمہیں اپنی اہلی زندگی کے متعلق خوف لاحق ہو تمہیں چاہیے کہ انہیں پند و نصیحت سے سمجھاؤ اور (اگر یہ طریق کارگر نہ ہو تو کچھ عرصہ کے لئے ) ان -

Page 991

۹۷۹ سے بستروں میں علیحدگی اختیار کر لو اور ( اگر یہ تدبیر بھی ناکام رہے تو ) تم انہیں مناسب جسمانی سزا بھی دے سکتے ہو.پھر اگر اس کے بعد وہ سرکشی کا طریق چھوڑ کر فرمانبرداری کا رستہ اختیار کر لیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرو اور یاد رکھو کہ ( جس طرح تم اپنی عورتوں کے نگران اور محافظ ہو اسی طرح ) خدائے بلند و برتر تمہارا نگران و محافظ ہے ( پس تمہیں عدل وانصاف کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئیے.مضامین بشیر یہ وہ قرآنی آیت ہے جس میں عورتوں کی طرف سے نشوز ظاہر ہونے پر مردوں کو ان کی مناسب تادیب کا حق دیا گیا ہے جو انتہائی صورت میں ضرب کی حد تک پہنچ سکتا ہے.اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ نشوز اور ضرب سے کیا مراد ہے.پہلے ہم نشوز کے مفہوم کو لیتے ہیں.سو جاننا چاہیئے کہ نشوز کے بنیادی معنے اونچا ہونے اور اپنے آپ کو بالا سمجھنے کے ہیں چنانچہ نشــز عــن مـكـانه کے معنی ہیں ارتفع وامتنع یعنی وہ اونچا ہو گیا اور اس کی وجہ سے دوسروں سے بھیچ گیا اور دور ہو گیا.اور جب کسی عورت کے متعلق کہا جائے کہ نشزت الــمـــراة بزوجھا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ استعمت عليه وا بغفۃ یعنی فلاں عورت اپنے خاوند کی نافرمان ہے اور اس سے نفرت کرتی ہے اور اس کے ساتھ بغض رکھتی ہے اور جب یہ کہا جائے کہ نشزت المراۃ علی زوجھا تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ عصبت عليه و اخرجت من طاعة ” یعنی فلاں عورت اپنے خاوند سے سرکش ہو کر اس کی اطاعت سے نکل گئی ہے ( نھایۃ ) اور نشوز المراة کے معنے ہیں بغضها الزوجها و رفع نفسها عن طاعته.یعنی عورت کا اپنے خاوند کو نفرت اور بغض کی نظر سے دیکھنا اور اپنے آپ کو اس کی اطاعت سے بالا سمجھنا.( مفردات راغب ) اس تشریح سے نشوز کے یہ تین معنی ثابت ہوتے ہیں :- (۱) خاوند کے مقابل پر اپنے آپ کو بڑا اور بالا سمجھنا.(۲) خاوند کی نا فرمان ہو کر اس کی اطاعت سے نکل جانا اور اس کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا.(۳) خاوند کے ساتھ بغض رکھنا اور اسے نفرت کی نظر سے دیکھنا.گویا قرآن شریف فرماتا ہے کہ جب ایک عورت کی طرف سے اپنے خاوند کے متعلق یہ تین حالتیں ظاہر ہوں یعنی وہ خاوند کے مقابل پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے اور اس کی نافرمان ہو کر اس کی اطاعت سے نکل جائے اور اس کے ساتھ محبت اور احترام کی بجائے بغض اور نفرت کا سلوک کرے تو خاوند کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ سب سے پہلے فعظو ھن کے ماتحت پند و نصیحت کے رنگ میں بیوی

Page 992

مضامین بشیر ۹۸۰ کو سمجھا کر اور خدا اور رسول کی باتیں بتا کر اور گھر کے امن کی قدر و قیمت جتا کر اصلاح کی کوشش کرے لیکن اگر یہ کوشش ناکام رہے تو پھر دوسرے مرحله پروه و اهجروهن في المضاجع پرعمل کرتے ہوئے بیوی سے گھر میں کنارہ کشی اختیار کر لے اور اسے اپنے بستر کا ساتھی نہ بنائے مگر جیسا کہ حدیث میں صراحت آتی ہے اور قرآنی الفاظ میں بھی اس کا اشارہ ملتا ہے اس صورت میں بھی بیوی کو گھر سے ہرگز نہ نکالے بلکہ اسے گھر میں رکھتے ہوئے عملی علیحدگی کی سزا دے اور ویسے بھی دیکھا جائے تو اس سزا کی اہمیت اور اس کی نفسیاتی تاثیر گھر میں رہتے ہوئے ہی زیادہ ظاہر ہوسکتی ہے لیکن اگر خدانخواستہ یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہو تو پھر تیسرے مرحلہ پر قرآن شریف اجازت دیتا ہے وَاضْرِبُوهُنَّ یعنی تم ایسی عورتوں کو جن پر نہ تو کوئی نصیحت ہی اثر کرے اور نہ ھجر فی المضاجع کا نسخہ ہی کارگر ثابت ہو مناسب جسمانی سزا بھی دے سکتے ہو.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جسمانی سزا جسے قرآن نے ضرب کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے اس سے کیا مراد ہے.سولغت کی رو سے تو ضرب کے معنی مطلقاً مارنے کے ہیں.خواہ ہاتھ سے مارا جائے یا کہ چھڑی وغیرہ سے سزا دی جائے اور خواہ نرم چوٹ لگائی جائے یا کہ سختی سے مارا جائے لیکن حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق ایسی واضح اور منصفانہ بلکہ مشفقانہ شرطیں لگا دی ہیں کہ نہ تو یہ تعلیم ظالم مردوں کے لئے ظلم کا بہانہ بن سکتی ہے اور نہ ہی وہ شریف اور سمجھدار عورتوں کی نظر میں قابل اعتراض خیال کی جا سکتی ہے.مثلاً ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ: الا واستوصوا بالنساء خيراً فا نما هن عرانٍ عند كم...إلا ان ياتين بفاحشة مبينة فان فعلن فاهجروهن فى المضاجع - 112 واضربوهن غير مبرح د یعنی اے مسلمانو ! عورتوں کے متعلق میری نصیحت کو مانو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ تمہارے ہاتھوں میں ایک امانت ہیں...سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بدی اور بے حیائی کا طریق اختیار کریں.اس صورت میں (اگر ان پر تمہاری نصیحت کا رگر نہ ہو ) تو اولاً ان کے ساتھ بستروں میں علیحدگی اختیار کرو اور اگر یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہو تو تم ایسی سرکش عورتوں کو جسمانی سزا بھی دے سکتے ہو مگر یہ سز اسخت اور جسم پر نشان ڈالنے والی نہیں ہونی چاہئیے اس حدیث میں جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر گویا اپنی آخری وصیت 66

Page 993

۹۸۱ مضامین بشیر کے طور پر بیان فرمائی غیر مبرح کے الفاظ قابل غور ہیں.اس سے عربی محاورہ کے مطابق ایسی جسمانی سزا مراد ہے جو زیادہ تکلیف دینے والی اور جسم پر نشان ڈالنے والی نہ ہو.چنانچہ عربی محاورہ ہے کہ فَعلَ كَذا بَرَاحاً اے صراحاً لا يستر جس کے یہ معنی ہیں کہ اس نے فلاں کام کھلے طور پر کیا جبکہ کوئی پردہ حائل نہیں تھا ( مفردات راغب ) نیز کہتے ہیں کہ جـاء بـالـكـفـر براحا یعنی اس کی طرف سے کھلا کھلا کفر ظاہر ہوا.اور برح به الامر کے معنی ہیں کہ اتعبه و اذاه اذی شديداً یعنی اس بات نے اسے کوفت میں ڈال کر بہت دکھ پہنچایا “.(اقرب الموارد) اور جب ضرباً غير مبرح کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں غیر شاق ” یعنے ایسی مار جو دوسرے کو زیادہ تکلیف میں نہ ڈالے اور نہ ہی زیادہ تکلیف کا موجب ہوا اور ضمناً اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ یہ سزا بچوں اور نوکروں یا دوسرے لوگوں کے سامنے نہیں دینی چاہئیے بلکہ علیحدگی میں دینی چاہئیے.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چا زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ یہ جو آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے کہ ضــر بــا غـيــر مبرح اس سے مراد کس قسم کی سزا ہے؟ تو آپ نے فرمایا : بالسواك ونحوه ۱۱۸ د یعنی یہی مسواک یا اسی قسم کی دوسری چیز سے مارنا.“ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ صحابہ کرام جو شریعت کے پہلے حامل تھے ، ضرب کے متعلق قرآنی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا کیا مطلب سمجھتے تھے.پھر مارنے کی سختی کو روکنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس لطیف انداز میں فرماتے ہیں کہ : ايضرب احدكم امراته كما يضرب العبد ثم يجامعها في آخر اليوم د یعنی کیا عورتوں کو مارنے والے اس بات سے شرم محسوس نہیں کرتے کہ وہ اپنی بیویوں کو اس طرح ماریں جس طرح کہ ظالم لوگ غلاموں کو مارتے ہیں اور پھر شام ہونے پر انہی بیویوں کے بستروں کی راہ ڈھونڈیں؟“ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ : ۱۲۰ لا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر الا في البيت دو یعنی زنہا ر عورت کو کبھی منہ پر نہ مارو اور نہ اسے کبھی گالی دو اور اگر کبھی سزا کے طور پر عملی علیحدگی اختیار کرو تو ایسی علیحدگی لازما گھر کے اندر ہی ہونی چاہئیے.

Page 994

مضامین بشیر ۹۸۲ اور مارنے کی سزا کو مطلقاً نا پسند کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ :- لقد طاف آل محمد نساء كثير يشكو ازواجهن ليس اولئک بخيارهم د یعنی میرے اور میری بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں یہ شکایت لے کر آئی ہیں کہ ان کے خاوند انہیں مارتے ہیں.اے مسلمانو ! سن لو کہ ایسا کرنے والے خاوند ہر گز ا چھے مسلمان نہیں سمجھے جا سکتے.“ گو یا بالفاظ دیگر طلاق کی طرح جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابغض حلال الى الله الطلاق (یعنی جائز باتوں سے خدا کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے ) شریعت نے خاص حالات میں جبکہ دوسرے تمام ذرائع ناکام ہو جائیں سرکش اور نافرمان عورتوں کے متعلق سزا کی اجازت تو بے شک دی ہے لیکن اسے ہرگز ایک اچھا فعل قرار نہیں دیا بلکہ صرف ایک مجبوری کا استثنائی قانون رکھا ہے اور حضرت عبد اللہ بن عباس کی تشریح کے ماتحت تو یہ سزا صرف ایک گونہ نا راضگی کی علامت ہی قرار پاتی ہے ورنہ مسواک سے مارنا کیا اور سزا کیا ! اور ہمارے آقا (فداہ نفسی ) کا ذاتی نمونہ یہ ہے کہ ایک وقت میں نو بیویاں رکھنے کے باوجود جس کے نتیجہ میں بعض اوقات گھر میں رنجش اور نا واجب مطالبات کی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی.آپ نے کبھی کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت درجہ مشفقانہ اور مربیانہ اور محسنا نہ سلوک رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی بار بار یہی نصیحت کی ہے: خيركم خيركم لاهلها ۱۲۲ یعنی اے مسلمانو! تم میں اچھا شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں اچھا ہے.66 اور اگر آپ نے استثنائی حالات میں خاوند کو سزا کی اجازت دی تو اس اجازت کو بھی ایسی کڑی شرطوں کے ساتھ مشروط کر دیا کہ یہ اجازت کبھی بھی ایک دیندار خاوند کے ہاتھوں میں ظلم کا آلہ نہیں بن سکتی اور بے دین خاوند کو تو نہ اخلاق روک سکتے ہیں اور نہ شریعت.دوسری طرف وہ کونسی سمجھدار خاتون ہے جو نافرمان اور سرکش اور کانگی امن کو برباد کرنے والی اور فاحشہ مبینہ کی مرتکب عورتوں کو بھی سزا کے قابل نہ سمجھے؟ جھوٹے جذبات کا معاملہ جدا گانہ ہے مگر عظمند انسان کی انصاف کی نظر اُسے اس کے سوا کسی اور نتیجہ کی طرف نہیں لے جاتی کہ جو تو تعلیم اسلام نے دی ہے یقیناً وہی حق وانصاف کی تعلیم ہے.خلاصہ کلام یہ کہ جو عورتیں صریح طور پر نافرمانی اور سرکشی اور بے حیائی کی مرتکب ہوتی ہیں ، ان

Page 995

۹۸۳ مضامین بشیر کے متعلق اسلام خاوند کو ( بوجہ اس کے کہ وہ گھر کا محافظ اور نگران ہے ) سزا کی اجازت دیتا ہے مگر اس بدنی سزا سے پہلے دو مرحلے گزر نے ضروری ہیں.اول یہ کہ خاوند پند و نصیحت کے ذریعہ عورت کو سمجھانے کی کوشش کرے اور دوسرے یہ کہ اگر نصیحت کارگر نہ ہو تو احساس پیدا کرانے کی غرض سے اس سے گھر میں ہی عملی علیحدگی اختیار کرے لیکن اگر یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہو پھر بحالت مجبوری نافرمان اور سرکش اور ضدی عورتوں کے متعلق خاوند کو بدنی سزا کا حق دیا گیا ہے لیکن اس سزا کے لئے ہماری حکیمانہ شریعت نے یہ سات شرطیں ضروری قرار دی ہیں:.(1) یہ کہ ایسی سزا صرف نشوز کے ارتکاب پر دی جائے نہ کہ ہر غلطی پر اور دی بھی اس وقت جائے جبکہ نصیحت اور حجر کی تمام تدابیر ناکام رہیں.(۲) یہ کہ ایسی سزا سے بدن پر کوئی نشان نہ پڑے.(۳) یہ کہ سزا اسخت اور تکلیف دہ نہ ہو بلکہ ہلکے رنگ میں دی جائے جیسے کہ مثلاً مسواک کی چوٹ لگتی ہے.(۴) یہ کہ بہر حال چہرہ پر ضرب نہ لگائی جائے.(۵) یہ کہ یہ سزا دوسروں کے سامنے نہ دی جائے بلکہ علیحدگی میں دی جائے.(۶) یہ کہ عورت کی طرف سے اصلاح ہونے پر پچھلے تمام گلے شکووں کو بھلا کر دل صاف کر دیا جائے.(۷) یہ کہ پھر بھی عورتوں کو بدنی سزاد ینے والے بحیثیت مجموعی اچھے لوگ نہیں سمجھے جا سکتے.اس قرآنی تعلیم کے لئے میں عورتوں کو ہی منصف بناتا ہوں کہ وہ دیانت داری سے بتائیں کہ کیا ایک نافرمان اور سرکش اور خاوند کی باغی اور فاحشہ مبینہ کی مرتکب عورت کے واسطے جبکہ اس کی اصلاح کے لئے تمام دوسرے ذرائع ناکام ثابت ہوں اس قسم کی سزا غیر منصفانہ سمجھی جاسکتی ہے؟ باقی رہا نیک اور شریف عورتوں کا سوال، سو انہیں تو اسلام سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : خير متاع الدنيا المراة الصالحة ۱۲۳ یعنی دنیا کی نعمتوں میں سے بہترین نعمت نیک اور شریف بیوی ہے.“ اس ارشاد کے ہوتے ہوئے کون ظالم انسان اسلام کی تعلیم پر اعتراض کر سکتا ہے؟ قرآنی آیت کی تشریح کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ان تین سزاؤں کو جو قرآن شریف نے بیان کی ہیں یعنی (۱) پند و نصیحت (۲) عملی علیحدگی (۳) بدنی سزا.انہیں سب عورتوں کے لئے نہیں بلکہ عورتوں

Page 996

مضامین بشیر ۹۸۴ کے مختلف طبقات کے لئے مخصوص قرار دیا جائے اور آیت کا مفہوم یہ لیا جائے کہ جو عور تیں قولی نصیحت کے ذریعہ ماننے والی ہوں ان کے متعلق قولی نصیحت کا رستہ اختیار کیا جائے اور جو عورتیں عملی ناراضگی کے ذریعہ راہ راست پر لائی جا سکتی ہوں ان کی اصلاح عملی ناراضگی کے ذریعہ کی جائے اور جو عورتیں اپنی عادات اور روایات کی بناء پر صرف سزا سے ٹھیک ہو سکتی ہوں ان کے متعلق مقررہ شرائط کے ماتحت سزا کا طریق اختیار کیا جائے اور اس تشریح کے ماتحت بھی کوئی دانا شخص اس تعلیم پر اعتراض نہیں کر سکتا.بالآخر یہ بات بھی ضرور یا در کھنے کے قابل ہے کہ قرآنی شریعت کے نزول کے وقت ہمارے آقا آنحضرت صلعم نے اور قرآنی شریعت کی عالمگیر اشاعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی اپنے اہل خانہ کو بدنی سزا نہیں دی.کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان ارفع ہستیوں کی ازواج مبارکہ نے کبھی نشوز ہی نہیں کیا اس لئے ان کے تعلق میں سزا کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.میں کہتا ہوں بے شک یہ درست ہے مگر کیا ہم اور تم بھی ان بزرگوں کے نام لیوا نہیں ہیں جن کے حسن سلوک اور حسن تدبیر نے ان کے اہل خانہ پر نشوز کے تمام رستے بند کر کے ان کے گھر کو جنت کا نمونہ بنا دیا تھا؟ ولقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة يا اولی الالباب - مطبوعه الفضل ۷ ار ستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 997

۹۸۵ مضامین بشیر آنے والے حج کے دن بہت دعائیں کی جائیں ان دعاؤں کا بہترین وقت دن کا آخری حصہ ہے موجودہ اطلاعات کے مطابق آنے والی عید الاضحی انشاء اللہ ۲۴ ستمبر کو بروز اتوار ہوگی.اس سے پہلا دن یعنی ۲۳ /ستمبر بروز ہفتہ حج کا دن ہے جو اسلام کی اہم ترین عبادتوں میں سے خاص برکتوں والی عبادت ہے.جب کہ چہار اکناف عالم سے مسلمانوں کی بڑی بھاری تعداد خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ میں جمع ہو کر دنیا کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ با برکت مسجد یعنی مسجد الحرام اور اس کے ماحول میں ایک اجتماعی عبادت بجا لاتی ہے.اس عبادت کا مرکزی نکتہ عرفات کا قیام یعنی وقوف ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے ارشاد کے مطابق ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی شام کو یعنی حج والے دن کے پچھلے حصہ میں ہوتا ہے.جسے عصر کی نماز سے لے کر مغرب تک کا وقت سمجھنا چاہیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ آپ عرفات کے رسیلے اور ٹیلے والے میدان میں عصر سے لے کر مغرب تک قیام فرماتے تھے جو اصطلاحاً وقوف کہلاتا ہے اور یہ سارا وقت ذکر الہی اور دعاؤں میں گزارتے تھے اور عرفات کا نام بھی عرفات اسی لئے رکھا گیا ہے کہ یہاں گو یا بندوں کو اپنے آقا کی شناخت اور عرفان کا موقعہ میسر آتا ہے اور عرفات کی دعاؤں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی اہمیت دی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں : ۱۲۴ وخير الدعاء دعاء يوم عرفة و خير ما قلت انا والنبيون من قبلى لا اله الا الله وحده لا شریک له _ د یعنی بہترین دعا عرفات کے میدان کی دعا ہے اور میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی بہترین تعلیم یہ ہے کہ خدائے واحد کے سوا کوئی اور عبادت کے قابل نہیں اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے“ اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ حج میں دعا کا بہترین موقع عرفات کے وقوف کا وقت ہے جو حج والے دن عصر سے لے کر مغرب تک ہوتا ہے اور چونکہ خدا کی ہر نعمت میں ایک وسعت کا پہلو بھی ہوتا ہے، اس لئے اسلام میں اولیاء اور صوفیاء کا ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ وہ حج کے بغیر بھی اس وقت کو

Page 998

مضامین بشیر ۹۸۶ اپنے گھروں میں ذکر الہی اور دعاؤں میں گزارتے رہے ہیں کیونکہ یہ وقت مخلص مومنوں کے لئے خدا کی خاص رحمتوں کے نزول کا وقت ہوتا ہے.چنانچہ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ :- ما من يوم اكثر من ان يعتق الله فيه عبداً من النار من يوم عرفة یعنی عرفات کے دن سے بڑھ کر کوئی اور دن ایسا نہیں کہ جس میں خدا اپنے بندوں کو اس دن سے زیادہ آگ سے نجات عطا کرتا ہو.“ پس حج کا دن دعاؤں کی قبولیت کا خاص دن ہے اور اگر اس سال رؤیت ہلال کے فرق کی وجہ سے یا ویسے ہی جج خلاف توقع جمعہ کے دن نہیں ہوا جب کہ اس دن میں دو بھاری برکتیں جمع ہو جاتیں ایک حج کی برکت اور دوسری جمعہ کی برکت مگر بہر حال حج حج ہی ہے خواہ وہ کسی دن آئے اور عرفات کا وقت بہر صورت عظیم الشان برکتوں سے معمور ہوتا ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ آنے والے حج کے دن یعنی ۲۳ رستمبر بروز ہفتہ دن کے پچھلے حصہ میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور اس کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں کہ یہ دن سال میں صرف ایک دفعہ ہی آتا ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ اگلے سال اسے یہ دن دیکھنا نصیب ہوگا یا نہیں اور حق یہ ہے کہ حقیقی عید بھی اسی کی ہوتی ہے جو حج کے دن کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے.دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ عصر کے وقت کو ویسے بھی اسلام کے ساتھ خاص نسبت ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کے موجودہ دور کے لحاظ سے مسلمانوں کی امت کو گو یا عصر کے وقت پیدا کیا گیا ہے جو موجودہ سات ہزار سالہ دور کا آخری حصہ ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: انما اجلكم في اجل من خلامن الامم ما بين صلواة العصر الى ۱۲۶ مغرب الشمس...و الا لكم الاجر مرتين دو یعنی اے مسلمانو! ہمارا دور گزشتہ امتوں کے دوروں کے مقابل پر ایسا ہے کہ گویا عصر سے لے کر مغرب تک کا وقت لیکن تمہارا اجر خدا کی تقدیر میں دو ہرا رکھا گیا ہے.“ اور قرآن شریف نے بھی اس لطیف مشابہت کی طرف اشارہ کیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے: وَالْعَصْرِه اِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُيْرِ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ ۱۲۷ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ یعنی ہمیں قسم ہے دنیا کے موجودہ دور کے آخری حصہ کی جواب شروع ہو رہا ہے که آئنده مادیت کی ترقی اور دجالی فتنوں کے انتشار کی وجہ سے انسان اپنی ظاہری

Page 999

۹۸۷ مضامین بشیر ترقی کے باوجود روحانی لحاظ سے گھاٹے میں پڑتا چلا جائے گا.سوائے ان لوگوں کے جو ہمارے اس برگزیدہ نبی پر ایمان لا کر اعمال صالح بجالائیں اور دوسروں تک بھی پیغام حق پہنچاتے چلے جائیں اور ماحول کی مغویانہ کششوں کے باوجود خود بھی صبر و استقلال کے ساتھ نیکی پر قائم رہیں اور دوسروں کو بھی قائم کرنے کی کوشش کریں“ ان لطیف آیات اور ان سے اوپر کی لطیف حدیث میں مسلمانوں کے زمانہ کو عصر کے وقت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ بیشک منکروں اور بے دینوں کے لئے یہ وقت خسارہ کا وقت ہے مگر سچے مومنوں اور نیک لوگوں کے لئے یہی وقت خدا تعالیٰ کے خاص انعام پانے کا بھی وقت ہے کیونکہ در اصل ظلمت کی شدت ہی نور کی قدر کو بڑھاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ غالباً اسی نسبت سے عرفات کے وقوف کے واسطے عصر کا وقت چنا گیا ہے تا کہ مسلمان اپنے قومی زمانہ کی نسبت سے اپنی دعاؤں میں زیادہ سے زیادہ توجہ دے کر زیادہ سے زیادہ برکات حاصل کر سکیں اور شاید اسی نسبت سے ہی عصر کی نماز کو صلوٰۃ وسطی قرار دے کر اس کی حفاظت پر زیادہ زور دیا گیا ہو.بہر حال ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ آنے والے حج کا دن خاص طور پر دعاؤں میں گزاریں اور زیادہ خصوصیت کے ساتھ عصر سے لے کر مغرب تک دعائیں کریں کیونکہ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا یہ بھی ہمارے خدا کی ایک سنت ہے کہ بسا اوقات رات کے پھیلتے ہوئے پروں پر خدا کی خاص نعمتیں سوار ہو کر آیا کرتی ہیں.باقی رہا یہ کہ کیا دعائیں کی جائیں.سو یہ سوال ہر شخص کو اپنے دل سے پوچھنا چاہئے.کیا کوئی سوالی لوگوں سے یہ بات پوچھا کرتا ہے کہ میں کیا مانگوں.وہ طبعا وہی چیز مانگتا ہے جس کی اسے یا اس کے خاندان کو یا اس کی قوم کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے.پس خود اپنی ضرورتوں کو دیکھو اور ان کی اہمیت کا اندازہ کرو اور پھر خدا سے مانگو.ہمارا خدا جو رب العالمین ہے.جسم کا بھی خدا ہے اور روح کا بھی خدا ہے.پس تمام مادی انعام بھی اس کے ہاتھ میں ہیں اور تمام روحانی انعام بھی اسی کے تصرف کے نیچے ہیں.پس جب کہ وہ مادیت اور روحانیت ہر دو جہانوں کا مالک ہے تو کیوں نہ اس سے ہر وہ اچھی چیز مانگی جائے جس کی ہمیں ضرورت اور خواہش ہے اور قرآن نے کیا ہی بابرکت دعا سکھائی ہے کہ: ۱۲۸ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ BO د یعنی اے خدا ہمیں دنیا میں بھی خیر و برکت عطا کر اور آخرت میں بھی خیر و برکت عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھے.

Page 1000

مضامین بشیر ۹۸۸ سچ ہے جس نے دنیا کے اندر دنیا میں ملنے والی حسنة پالی اور آخرت میں آخرت کی حسنة حاصل کر لی اور وہ دنیا کی آگ سے بچ گیا اور آخرت میں آخرت کی آگ سے محفوظ ہو گیا.وہ خدا کی ابدی رحمت کے سایوں کے نیچے ہے جس سے کوئی طاقت اسے محروم نہیں کرسکتی.و اخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ( مطبوعه الفضل ۱۹ ر ستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1001

۹۸۹ مضامین بشیر اسلامی پردہ کے متعلق ایک فیصلہ کن حدیث عورت کا چہرہ یقیناً پردہ میں شامل ہے کچھ عرصہ ہوا اسلامی پردہ کے متعلق میرا ایک نوٹ الفضل“ میں شائع ہوا تھا.اس نوٹ میں میں نے اسلامی احکام پردہ کے متعلق سات نکات پیش کئے تھے جو میرے خیال میں پردہ کے مسئلہ میں اسلامی تعلیم کا نچوڑ اور خلاصہ ہیں اور مفصل مضمون کے متعلق میں نے آئندہ لکھنے کا وعدہ کیا تھا مگر افسوس ہے کہ ابھی تک مجھے اس کا موقعہ نہیں مل سکا.بہر حال ذیل کے مختصر نوٹ میں اپنا موعودہ مضمون تو نہیں مگر اسلامی پردہ کے متعلق صحیح بخاری کی ایک ایسی حدیث پیش کرتا ہوں جو میری رائے میں اس بحث کے مرکزی حصہ کے متعلق بالکل فیصلہ کن ہے اور وہ ہے بھی ہماری ما در مشفق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سب سے زیادہ علم دین رکھنے والی تھیں.مفصل مضمون انشاء اللہ پھر کبھی الفضل میں شائع کرانے کی سعادت حاصل کروں گا.وما توفيقى الا بالله العظيم پردہ کی بحث کے تعلق میں تمہیدی طور پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام میں پردہ کے احکام ہجرت کے پانچویں سال حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی شادی کے موقعہ پر نازل ہوئے تھے.یہ حضرت زینب وہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی کی بیٹی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے منشاء کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیاہی گئیں مگر مصلحتِ الہی سے یہ شادی کامیاب ثابت نہ ہوئی اور طلاق تک نوبت پہنچی.جس کے بعد حضرت زینب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آگئیں اور اسی مبارک تقریب کے موقعہ پر پردہ کے احکام نازل ہوئے.یہ واقعہ غزوہ بنو مصطلق سے پہلے ۵ ہجری کا ہے.اب جاننا چاہئے کہ خواہ اسلامی پردہ کی کوئی تشریح کی جائے.( ہمیں اس جگہ اس کی تفصیل سے غرض نہیں ) بہر حال یہ ماننا پڑے گا کہ پردہ کے احکام کے ذریعہ اسلامی تمدن اور مسلمان عورتوں کے رہنے سہنے کے طریق میں کوئی نہ کوئی تبدیلی آئی، ورنہ نئے احکام کے نزول سے پہلے بھی مسلمان عورتیں بے پردہ تھیں اور ان کے بعد بھی وہ بے پر دہی رہیں تو ہر عقلمند انسان خیال کر سکتا ہے کہ یہ کوئی تبدیلی

Page 1002

مضامین بشیر ۹۹۰ نہیں اور نہ اس صورت میں نئے احکام کی کوئی ضرورت تھی.یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان احکام سے پہلے مسلمان عورتیں نعوذ باللہ ننگے بدن پھرتی تھیں اور ان احکام کے بعد انہیں بدن ڈھانکنے کا حکم دیا گیا مگر چہرہ بدستور ننگا رہا لیکن یہ خیال بھی ( اگر کوئی شخص ایسا خیال کرنے کی جرات کرے ) بالبداہت باطل ہے کیونکہ اس بات کا ہر گز کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی یہ بات عقلاً باور کی جا سکتی ہے کہ پردہ کے احکام سے پہلے مسلمان عورتیں افریقہ کے وحشیوں کی طرح نعوذ باللہ نگی پھرتی تھیں کیونکہ یہ بات تاریخی شہادت سے ثابت ہے کہ عربوں میں باقاعدہ لباس کا رواج تھا.پس بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو بھی تبدیلی ہوئی وہ ننگے بدن کو ڈھانپنے سے تعلق نہیں رکھتی تھی.بلکہ اس کے علاوہ کچھ اور تھی.یہ تبدیلی کیا تھی ؟ اس کا جواب مجھے اپنی طرف سے دینے کی ضرورت نہیں ہر شخص خود سوچ سکتا ہے کہ جب بدن ڈھانک کر اور باقاعدہ لباس پہن کر پھرنے والی عورتوں کو پردہ کا حکم دیا گیا تو لازماً اس سے چہرہ کا پردہ ہی مراد لینا ہو گا.پس خواہ پردہ کی تفصیل کچھ ہو بہر حال چہرہ پردہ سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا ورنہ نئے احکام کے نزول کے کچھ معنے نہیں رہتے اور ان احکام کے نازل کرنے کی ساری عقلی بنیا د باطل چلی جاتی ہے.وھوالمراد.اس تمہید کے بعد میں صحیح بخاری کی اس حدیث کو لیتا ہوں جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے اور دراصل میرا یہ نوٹ اس وقت صرف اس حدیث تک ہی محدود ہے اور پردہ کے متعلق مفصل اور عمومی بحث کرنا اس جگہ میرا مقصد نہیں.بخاری کی یہ حدیث بنو مصطلق سے تعلق رکھتی ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنو مصطلق کی شرارتوں کے انسداد کے لئے ان کے مقابلہ کے واسطے مدینہ سے نکلے تھے.یہ پردہ کے احکام نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے اور شعبان ۰۵ھ سے تعلق رکھتا ہے.اس سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی حضور کے ہمراہ تھیں.سفر سے واپسی پر جب ایک رات کے وقت آرام کی خاطر پڑاؤ کیا گیا تو حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں ایک طرف ہو کر رفع حاجت کے لئے گئی.جب میں وہاں سے واپس آئی تو میں نے دیکھا کہ میرے گلے کا ہار غا ئب ہے.میں اس کی تلاش کے لئے پھر واپس گئی.مگر اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا حکم دے دیا تھا.اب اتفاق یہ ہوا کہ جو لوگ حضرت عائشہ کے کجاوہ کو اٹھا کر اسے ان کے اونٹ پر رکھنے کے لئے مقرر تھے.انہوں نے خالی کجاوہ ہی اٹھا کر اونٹ کے اوپر رکھ دیا اور چونکہ حضرت عائشہ اس وقت بہت چھوٹی عمر اور ہلکے جسم کی اور خوراک بھی کم تھی.کجا وہ اٹھانے والوں نے اس بات کو محسوس نہ کیا کہ کجا وہ خالی ہے اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کے پیچھے رہ جانے کا علم ہوا اور اس طرح قافلہ حضرت عائشہ کو پیچھے چھوڑ کر آگے روانہ ہو گیا.حضرت عائشہ ” بیان کرتی ہیں کہ میں یہ ย

Page 1003

۹۹۱ مضامین بشیر دیکھ کر کہ قافلہ جا چکا ہے، بہت گھبرائی مگر میں نے ارادہ کیا کہ اب بہر حال یہاں سے ہلنا مناسب نہیں کیونکہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے پیچھے رہنے کا علم ہو گا تو آپ لازماً اس جگہ واپس تشریف لائیں گے.چنانچہ میں اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گئی.اور چونکہ رات کا وقت تھا مجھے نیند آ گئی اس کے بعد صبح کے قریب ایک صحابی صفوان بن معطل وہاں پہنچا.یہ وہ شخص تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ کے پیچھے پیچھے رہنے کا حکم دیا تھا تا کہ گری پڑی چیزوں وغیرہ کا خیال رکھے.جب صفوان نے مجھے اس جگہ اکیلے سوئے ہوئے دیکھا تو اس نے مجھے فوراً پہچان لیا.کیونکہ وہ پردہ کے احکام سے قبل مجھے دیکھ چکا تھا اور اس نے گھبرا کر انا لله وانا اليه راجعون پڑھا.اس کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور میں نے اسے دیکھتے ہی جھٹ اپنا مونہہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا اور پھر اس نے مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا کر اور خود ساتھ ساتھ پیدل چل کر قافلہ تک پہنچا دیا.چنانچہ بخاری میں حضرت عائشہ کے الفاظ یہ ہیں : كان صفوان بن معطل من وراء الجيش فاصبح عند منزلی فرائی سود انسان نائم فعرفنى حين رأني وكان رآني قبل الحجاب فاستيقظت باستر جاعه حین عرفنی فخمرت و جهی بجلبابی ۱۲۹ یعنی صفوان بن معطل لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا.وہ صبح کے قریب میری جگہ پر پہنچا اور اس نے وہاں دور سے ایک انسان کو سوئے ہوئے دیکھا.جب وہ آگے آیا تو اس نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا کیونکہ وہ مجھے پردہ کے احکام سے پہلے دیکھ چکا تھا اور میں اس کے انا للہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ سے جاگ اٹھی اور میں نے اسے دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا.“ یہ حدیث صحیح بخاری کی حدیث ہے جو کتاب اللہ کے بعد اسلام میں صحیح ترین کتاب مانی گئی ہے.اور اس کی راوی خود حضرت عائشہ ہیں جو آنحضرت صلعم کی محبوب ترین بیوی تھیں اور دینی مسائل میں انہیں وہ عظیم الشان مرتبہ حاصل تھا کہ حدیث میں آتا ہے کہ: رض عن ابى موسى ما اشتكل علينا اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حديث...فسائلنا عائشة الا وجدنا عندها علماً " د یعنی حضرت ابو موسی اشعری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم کے صحابہ پر کبھی کسی مسئلہ میں کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ ہمیں اس کے متعلق حضرت عائشہ کے پاس صحیح حل نہ مل گیا ہو“

Page 1004

مضامین بشیر ۹۹۲ اور پھر پردہ کا مسئلہ تو خصوصیت سے ایسا ہے کہ اس میں حضرت عائشہ سے بڑھ کر کسی اور صحابی یا صحابہ کا علم نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ حضرت عائشہ نے یہ مسئلہ براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں سیکھا تھا اور آپ کی زندگی میں ہی اس پر عمل کر کے اس کی ساری تفصیلات پر عبور حاصل کر لیا تھا.پس جب حدیث صحیح بخاری کی ہو جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے اور روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہو جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مسئلہ میں یقیناً سب مسلمانوں سے بڑھ کر علم رکھنے والی تھیں تو اس روایت کا درجہ ظاہر وعیاں ہے جس پر کسی تشریحی نوٹ کی ضرورت نہیں.اب ہم اس حدیث کے فقہی پہلو پر نظر ڈالتے ہیں تو دوباتیں ایسی یقینی اور قطعی معلوم ہوتی ہیں کہ ان میں کسی عقلمند انسان کے لئے کسی شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی ย پہلی بات حضرت عائشہ کے ان الفاظ سے ثابت ہوتی ہے کہ: فعرفنی حین رآنی و کان رآني قبل الحجاب د یعنی صفوان نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا کیونکہ وہ پردے کے احکام سے پہلے مجھے دیکھ چکا تھا.“ ان الفاظ سے روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ خواہ اسلامی پردہ کے احکام کی تفصیل کچھ مجھی جائے.بہر حال یہ پردہ عدم شناخت کا موجب تھا اور اسی پردہ کے ہوتے ہوئے ایک غیر محرم مرد کے لئے کسی غیر عورت کی شناخت ممکن نہیں تھی ورنہ حضرت عائشہؓ کبھی یہ الفاظ نہ فرما تھیں کہ ” صفوان نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا کیونکہ وہ پردہ کے احکام سے پہلے مجھے دیکھ چکا تھا.“ یہ الفاظ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ اسلامی پردہ کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی عورت شناخت نہیں کی جاسکتی.یہ ایک ایسا پختہ اور ناقابل تردید استدلال ہے کہ کوئی شخص جو مجنون نہیں اس کے انکار کی جرات نہیں کر سکتا.دوسری بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ان الفاظ سے ثابت ہوتی ہے کہ: فخمرت وجهی بجلبا بی د یعنی جب میں صفوان کے الفاظ سے جاگی تو میں نے اُسے دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا.“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ چہرہ کا ڈھانکنا اسلامی پردہ کا لازمی حصہ ہے ورنہ وہ یہ ہرگز نہ فرماتیں کہ میں نے صفوان کو دیکھ کر اپنا چہرہ اپنی چادر

Page 1005

۹۹۳ مضامین بشیر سے ڈھانک لیا اگر چہرہ پردہ کے احکام میں شامل نہیں اور اسلام عورتوں کو غیر محرم مردوں کے سامنے چہرہ کو چھپانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اسے نگار کھنے کی اجازت دیتا ہے تو حضرت عائشہ ( ہاں وہی عائشہ رضی اللہ عنہا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تربیت یافتہ اور آپ کی تعلیم سے واقف ترین بیوی تھیں ) یہ کس طرح فرما سکتی تھیں کہ میں نے صفوان کو دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا ؟ اور یا درکھنا چاہئیے.جلباب (یعنی چادر ) کا لفظ جو اس حدیث میں بیان ہوا ہے.عربی زبان میں اوڑھنی یعنی دو پٹہ کے لئے نہیں بولا جاتا جو عورت کے زینت والے لباس کا حصہ ہوتا ہے بلکہ اس سادہ چادر کے لئے بولا جاتا ہے جو پردہ کی خاطر سارے لباس کے اوپر لیٹی جاتی ہے.بہر حال حضرت عائشہ کے یہ الفاظ کہ میں نے صفوان کو دیکھ کر اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ چہرہ اسلامی پردہ کے احکام میں شامل ہے اور یہ کہ ہر مسلمان عورت کا فرض ہے کہ غیر محرموں کے سامنے جاتے ہوئے اپنے چہرہ کو ڈھانک کر رکھے.ย اس جگہ بعض لوگ یہ اعتراض پیش کیا کرتے ہیں کہ بعض روایتوں میں یہ ذکر آتا ہے کہ عورت کا چہرہ ان استثنائی اعضاء میں شامل ہے جن کی طرف قرآنی آیت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ( یعنی وہ حصہ جو مجبوراً ظاہر کرنا پڑے ) میں اشارہ کیا گیا ہے.اس لئے چہرہ کا پردہ ضروری نہیں مگر یہ استدلال بالکل غلط اور باطل ہے کیونکہ اول تو یہ روایتیں جو زیادہ تر مفسرین کے اقوال پر مبنی ہیں.بخاری کی اس پختہ اور صحیح حدیث کے مقابلہ پر کوئی وزن نہیں رکھتیں جو خود حضرت عائشہ کی زبانی اوپر درج کی گئی ہے.علاوہ ازیں اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ عربی کے مسلمہ محاورہ کے مطابق وجھ ( یعنی چہرہ ) کا لفظ کل چہرہ اور اس کے جزو دونوں پر بولا جاتا ہے.چنانچہ علم معانی و بلاغت میں یہ عام اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ایک لفظ جو ایک خاص مفہوم کے لئے وضع ہوتا ہے وہ کبھی زبان کی وسعت کے لحاظ سے اس کے جزو پر بھی بول دیا جاتا ہے اور عربی میں اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں ( دیکھو مختصر معانی وغیرہ ) پس جو روایتیں وجہ ( یعنی چہرہ ) کو إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی استنثی میں شامل قرار دیتی ہیں.ان میں بھی لازماً چہرہ سے چہرہ کا جزو مراد لیا جائے گا نہ کہ سارا چہرہ اور اس صورت میں اس استثناء کا منشاء صرف یہ سمجھا جائے گا.کہ حسب ضرورت عورت رستہ دیکھنے کے لئے اپنی آنکھوں کو اور سانس لینے کے لئے اپنے ناک یا منہ کے دہانہ کو کھلا رکھ سکتی ہے.مگر بہر حال یہ بات بالکل غلط اور باطل ہے کہ سارا چہرہ پردہ سے مستثنیٰ ہے.کیونکہ اگر اسے درست مانا جائے تو پردہ کچھ رہتا ہی نہیں بلکہ ایک محض مذاق بن جاتا ہے.سوچو اور غور کرو کہ کیا پردہ کے احکام سے پہلے مسلمان عورتیں نعوذ باللہ منگی اور بے لباس پھر تی تھیں کہ انہیں پردہ کا حکم دے کر یہ سمجھایا گیا کہ جسم ڈھانک لیا کر و مگر چہرہ بے شک ننگا رکھو ؟

Page 1006

مضامین بشیر ۹۹۴ رض جسم ڈھانک کر پھرنے والی عورتوں کے متعلق پردہ کا حکم لازماً چہرہ کے متعلق ہی سمجھا جائے گا کیونکہ اگر یہ نہیں تو پردہ کا حکم ایک بالکل بے معنی چیز قرار پاتا ہے.بے شک ایک آزاد خیال شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ پردہ کا حکم غیر معقول ہے اور میں اسے نہیں مانتا.مگر اسلامی پردہ کو مان کر پھر سارے چہرہ کو مستقلی سمجھنا ایک مجنونانہ خیال سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا.علاوہ ازیں جب صحیح بخاری کی حدیث میں حضرت عائشہ یقینی اور قطعی الفاظ میں یہ فرماتی ہیں کہ میں نے صفوان کو دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا تو اس بات میں قطعاً کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ چہرہ اسلامی پردہ کا ضروری حصہ ہے اور جو شخص چہرہ کو پردہ سے مستقلی قرار دیتا ہے وہ دراصل موجودہ زمانہ کی آزادی کی رو سے متاثر ہو کر اسلامی تعلیم سے کھیلنا چاہتا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں.خلاصہ کلام یہ کہ قرآن شریف کے بعد اسلام کی صحیح ترین کتاب بخاری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد پردہ کے احکام کا بہترین علم رکھنے والی ہستی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہایت واضح اور قطعی الفاظ میں بیان کرتی ہیں کہ : (۱) صفوان نے اس لئے حضرت عائشہ کو شناخت کر لیا کہ وہ پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے انہیں دیکھ چکا تھا.(۲) حضرت عائشہ نے صفوان کو دیکھتے ہی اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانک لیا.ان دونو ہاتوں سے جو مضبوط ترین شہادت سے ثابت ہیں اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں نکلتا کہ: (الف اسلامی پردہ ( جو بھی اس کی تفصیل سمجھی جائے ) بہر حال عدم شناخت کا موجب ہے جس پر عمل کرتے ہوئے کوئی عورت شناخت نہیں کی جاسکتی اور (ب) چہرہ (جو عورت کی بہترین زینت ہونے کی وجہ سے اخفائے زینت کے حکم کا سب سے اہم حصہ ہے ) اسلامی پردہ کے احکام میں شامل ہے اور ہر دیندار عورت کا فرض ہے کہ غیر محرم مردوں کے سامنے جاتے ہوئے اپنا چہرہ ڈھانک کر رکھے.( ج ) البتہ قرآنی آیت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَال کے ماتحت چہرہ کا ایک جزو یعنی رستہ دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سانس لینے کے لئے ناک یا منہ کا دہانہ بے شک حسب ضرورت کھلے رکھے جا سکتے ہیں اور اگر نیت بخیر ہو تو اس میں شریعت کو ہر گز کوئی اعتراض نہیں.قرآنی آیت إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا یعنی زینت کا وہ حصہ جو مجبوراً ظاہر کرنا پڑے ) کے متعلق یہ بات بھی قابل تشریح ہے کہ عورتوں کے مختلف طبقات کے لحاظ سے بھی اس کے معنی مختلف ہو جائیں گے.کام کاج والی عورتوں کے متعلق اس آیت کا مفہوم طبعاً کسی قدر وسیع لیا جائے گا اور اس کے بعد دیہاتی

Page 1007

۹۹۵ مضامین بشیر عورتوں کا طبقہ آئے گا اور سب سے آخر میں شہری عورتوں کا طبقہ شمار ہوگا اور آگے ان مختلف طبقات میں بھی بعض ما تحت شاخیں بن جائیں گی اور دراصل قرآن شریف نے اس آیت کے الفاظ کو اسی لئے مجمل اور جامع رکھا ہے کہ تا مختلف حالات میں اس کی مختلف تشریح کی جا سکے.اسی اصول کے ماتحت بیمار عورتوں کا سوال بھی آتا ہے جو حسب ضرورت اپنے جسم کے ستر والے حصے بھی ( مثلاً چہرہ اور پیٹ وغیرہ) ڈاکٹر کو دکھا سکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ وسعت ایک تندرست عورت کے متعلق ہرگز قبول نہیں کی جاسکتی.اس نوٹ کے تعلق میں یہ ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ یہ جو بخاری کی حدیث میں جلباب (یعنی چادر ) کا ذکر آتا ہے.اس سے زینت والی اوڑھنی یا دوپٹہ مراد نہیں بلکہ وہ سادہ چادر مراد ہے جو زینت والے لباس کے اوپر پردہ کی غرض سے لی جاتی ہے اور دراصل برقعہ بھی حقیقہ جلباب ہی کی ایک قسم ہے مگر ظاہر ہے کہ موجودہ برقعہ اسلامی پردہ کا لازمی حصہ نہیں ہے بلکہ جو چیز بھی زینت والے لباس کے اوپر جسم اور لباس کی زینت کو چھپانے کی غرض سے اوڑھی جائے وہ جلباب کے مفہوم میں شامل ہے خواہ وہ چادر ہو جیسا کہ شریف دیہاتی عورتوں میں رواج ہے یا برقعہ ہو جیسا کہ شہری عورتیں استعمال کرتی ہیں.یا کوئی اور چیز ہو جو پردہ کی غرض سے جلباب کے مفہوم میں شامل سمجھی جاسکے اور اگر آج کل کے موجودہ برقعہ سے کوئی بہتر برقعہ ایجاد ہو سکے.جو ایک طرف اسلامی پردہ کی غرض وغایت کو پورا کر دے اور دوسری طرف عورت کی صحت اور چلنے پھرنے کی سہولت کے لئے زیادہ مفید ہو تو یقیناً اس کا استعمال بھی بالکل جائز ہوگا بلکہ یہ ایک نہایت مفید ایجاد ہوگی جو یقیناً بہت قابل تعریف اور قابل قدر سمجھی جائے گی لیکن ایک بات یقینی ہے کہ خواہ جلباب کی کوئی صورت ہو.بہر حال اسے خود زینت کا موجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو چیز زینت کو چھپانے کے لئے مقرر کی گئی ہے.اسے کو زینت کا باعث بنا لینا یقینا پردہ کے احکام کو عملاً باطل کر دینے کے مترادف ہے.اسی اصول کے ماتحت پھول دار کپڑے یا شوخ رنگ کے جاذب نظر کپڑے کا برقعہ جس کی طرف آج کل بعض حلقوں میں میلان پیدا ہو رہا ہے ہرگز جائز نہیں سمجھا جا سکتا.بالآخر یہ اشارہ کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی پردہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورتوں کو قیدیوں کی طرح گھروں کی چار دیواری میں بند کر دیا جائے کیونکہ جس طرح آج کل کی بے پردگی ایک طرف کی نا واجب انتہا ء اور اسلام کے خلاف ہے.اسی طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے کا سخت پردہ بھی دوسری طرف کی ناواجب انتہا تھا.صحیح اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر ایک طرف اسلام پردہ کا حکم دیتا ہے اور مردوں اور عورتوں کے نا واجب اختلاط کو روکتا ہے تو دوسری طرف وہ عورتوں کو صحت کی درستی اور کام کی

Page 1008

مضامین بشیر ۹۹۶ سہولت کے لئے جائز آزادی بھی عطا کرتا ہے.چنانچہ پردہ کی پابندی کے باوجو د صحا بہ گی عورتیں تعلیم حاصل کرتیں اور تعلیم دیتی تھیں.عیدوں کی نمازوں بلکہ عام نمازوں میں بھی مردوں کے ساتھ ایک طرف کھڑی ہو کر شامل ہوتی تھیں.حج کے تمام مناسک یعنی طواف اور سعی اور وقوف وغیرہ مردوں کے ساتھ شریک ہو کر بجالاتی تھیں.سفروں میں محرم رشتہ داروں کے ساتھ بے روک ٹوک آتی جاتی تھیں.حسب ضرورت سواری کرتی ، جنگوں میں نرسنگ وغیرہ کے فرائض سرانجام دیتی اور خاص اوقات میں تلوار بھی چلا لیتی تھیں.مسائل کے پوچھنے اور مسائل کے بتانے اور دیگر ضروری امور میں غیر محرم مردوں کے ساتھ گفتگو کرتی اور اپنی بات سناتی اور ان کی بات سنتی تھیں.معصوم تفریحی مناظر دیکھتیں اور ضروریات کی خرید کے لئے گھروں سے باہر نکلتی تھیں.الغرض ہر اس جائز کام میں حصہ لیتی تھیں جس میں ذاتی یا خاندانی ضرورت یا قومی ترقی کے لئے عورتوں کا حصہ لینا ضروری ہے.اور باوجود اس کے وہ پردہ بھی کرتی تھیں اور یہی وہ صحیح اور وسطی تعلیم ہے جسے اختیار کرنے پر دنیا دونو طرف کی ٹھو کر میں کھانے کے بعد بالآخر مجبور ہوگی.واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين ( مطبوعه الفضل ۲۳ رستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1009

مضامین بشیر ہیں کہ : ربوہ.چنیوٹ.احمد نگر کے سب دوست بخیریت ہیں مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ جماعت احمد یہ ربوہ سرگودہا سے تار کے ذریعہ اطلاع بھجواتے سیلاب کے پانی نے چاروں طرف سے ربوہ کو گھیر لیا تھا ( گوخو در بوہ پانی سے محفوظ رہا ) مگر کل سے پانی کم ہو رہا ہے.چنیوٹ اور احمد نگر کی سٹرک اب بھی غرقاب ہے مگر پیدل آدمی رستہ عبور کر سکتا ہے.چنیوٹ ربوہ لالیاں کی ریلوے لائن بعض جگہ سے ٹوٹ گئی ہے مگر ربوہ ، احمد نگر ، چنیوٹ کے سب دوست خیریت سے ہیں.(ناظر اعلیٰ ) ( مطبوعه الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1010

مضامین بشیر ۹۹۸ کیا ایک محکوم شخص نبی نہیں بن سکتا کیا صرف نبی کا لڑکا ہی نبوت کا انعام پاسکتا ہے؟ ایک دوست محمد منیر صاحب قلعہ گوجر سنگھ لاہور سے دریافت کرتے ہیں کہ :- (1) کوئی ایسا شخص جو کسی حکومت کا غلام ہو نبی نہیں ہو سکتا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام حکومت انگریزی کے غلام تھے پھر وہ کس طرح نبی بن گئے ؟ (۲) نبوت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکوں کو ہی مل سکتی تھی لیکن آپ کا کوئی لڑکا بھی زندہ نہ رہا اس لئے کوئی اور شخص کس طرح نبی بن سکتا ہے؟ پہلے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ اول تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی کے غلام نہیں تھے بلکہ صرف سیاسی لحاظ سے حکومت انگریزی کے محکوم تھے اور محکوم اور غلام میں بھاری فرق ہوتا ہے.دوسرے یہ دعوی سراسر باطل اور بے دلیل ہے کہ ایک محکوم شخص نبی نہیں بن سکتا.مدعی کا فرض ہے کہ پہلے اپنے دعویٰ کی دلیل پیش کرے.اس کے بعد اس کے جواب کے مطالبہ کا حق پیدا ہوتا ہے.تیسرے قرآن اور حدیث اور تاریخ سے ثابت ہے کہ کئی نبی ایسے گزرے ہیں جو سیاسی لحاظ سے غیر حکومتوں کے محکوم تھے مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے انہیں نبوت کے انعام سے نوازا.مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کے کافر بادشاہ فرعون کی رعایا تھے.چنانچہ خود حضرت موسی فرعون سے فرماتے ہیں کہ عَبْدَتَ بَنِی اسراءیل یعنی تو نے میری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام بھی مصر کے بادشاہ کے ماتحت تھے.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ ” یعنی یوسف کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مصر کے بادشاہ کی حکومت کے ماتحت اپنے بھائی کو اپنے پاس روک سکے مگر ہم نے خود اس کے لئے اس کام کی تدبیر پیدا کی.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام بھی فلسطین کی رومی حکومت کے ماتحت تھے.چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں کہ جو قیصر کا ہے قیصر کو دو ( یعنی ٹیکس اور سیاسی اطاعت ) اور جو خدا کا ہے ( یعنی چندہ اور روحانی اطاعت) خدا کو ادا کرو.پس اگر یہ انبیاء کرام ایک غیر حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے نبی بن سکتے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزوں کی حکومت کے اندر ط ۱۳۲

Page 1011

۹۹۹ مضامین بشیر رہتے ہوئے کیوں نبی نہیں بن سکتے ؟ خدا نے تو نبوت کے انعام کے لئے صرف اس قدر اعلان فرمایا ہے کہ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه ، یعنی یہ بات صرف خدا ہی جانتا ہے کہ نبوت کے منصب پر کون شخص فائز ہونا چاہیے اور خدا جسے چاہتا ہے نبی بنا دیتا ہے.اس کے علاوہ باقی سب دعوے باطل اور بے دلیل ہیں.دوسرا سوال یہ ہے کہ چونکہ نبوت کا حق صرف بیٹے کو ہو سکتا ہے اس لئے جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی فرزند زندہ ہی نہ رہا جسے نبوت ملتی تو اس کے بعد اور کسی کو کیا حق ہو سکتا ہے؟ سواس سوال کا اصولی جواب بھی اوپر ہی کی قرآنی آیت میں آجاتا ہے جہاں خدا فرماتا ہے کہ نبوت کے انعام کا فیصلہ کرنا صرف ہمارا کام ہے.پس جب نبوت کا فیصلہ صرف خدا کی رائے اور خدا کے انتخاب پر ہے تو یہ دعویٰ کرنا کہ نبوت صرف بیٹے کو مل سکتی ہے ایک بالکل باطل دعوی ہے جس کی کوئی سند نہیں.کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ نبی تھا جس کی وجہ سے انہیں نبوت ملی ؟ اور کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا باپ نبی تھا جس کا ورثہ حضرت موسیٰ کو پہنچا ؟ پھر کیا سرور کائنات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ نبی تھے جن کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے انعام سے نوازا گیا ؟ یہ سب جھوٹے خیالات اور باطل دعوے ہیں جن کی نہ قرآن شریف میں کوئی سند ہے اور نہ حدیث و تاریخ میں ہی ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے.دوسری طرف اگر نبوت ورثہ میں پہنچتی ہے تو کیا حضرت نوح کے بیٹے کو وراثت ملی جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ اِنَّہ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ یعنی وہ ایک غیر صالح انسان تھا پھر کیا حضرت سلیمان کے بیٹے کو نبوت ملی ، جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ : وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَنَ وَالْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيْهِ جَسَدًا دو یعنی سلیمان کی حکومت اس فتنہ میں مبتلا ہوئی کہ سلیمان کا لڑکا صرف ایک بے جان جسم تھا جس کے اندر زندگی کی کوئی روح نہیں تھی.“ حق یہ ہے کہ روحانی ورثہ کے معاملہ میں ہمارا حکیم وعلیم خدا جسمانی رشتہ کے حق کو تسلیم ہی نہیں کرتا.نہ اوپر سے نیچے کی طرف اور نہ نیچے سے اوپر کی طرف بلکہ اسے صرف ذاتی اوصاف پر مبنی قرار دیتا ہے.اگر ایک کا فریا مشرک باپ کا بیٹا روحانی ترقی کے رستہ پر گامزن ہوتا ہے اور نبوت کے اوصاف کا جاذب بنتا ہے تو خدا اسے نبوت کے انعام سے سرفراز کر دیتا ہے اور اس کا ایک غیر مومن باپ کا بیٹا ہونا اس کی ترقی میں ہرگز روک نہیں بنتا.اس کے مقابل پر اگر ایک نبی کا لڑکا روحانی انعاموں کا جاذب نہیں بنتا تو وہ ان انعاموں سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کے باپ کا نبی ہونا اسے ہرگز ان انعاموں کا حقدار نہیں بنا سکتا اور یہی اصول نبیوں کے بعد خلفاء کے تقرر میں بھی چلتا ہے.

Page 1012

مضامین بشیر باقی رہا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم کے متعلق فرمایا تھا کہ لوعاش لكان صديقاً نبیا - یعنی اگر یہ بچہ زندہ رہتا تو وہ ایک صدیق نبی بنتا.سو یہ بالکل درست ہے مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ ہر نبی کا لڑکا یا نبی کا ہر لڑ کا نبی بن سکتا ہے.اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوسرے بچوں ( قاسم ، طاہر اور طیب ) کے متعلق بھی ایسا فرماتے.مگر آپ نے اپنے ان بچوں کے متعلق ہرگز یہ الفاظ نہیں فرمائے.پس ثابت ہوا کہ یہ صرف ایک ذاتی اور انفرادی بات تھی جو حضرت ابراہیم کی ذات کو مد نظر رکھ کر فرمائی گئی.چونکہ ان کے اندر بالقوۃ طور پر وہ اوصاف موجود تھے جو نبوت کے انعام کے جاذب بنتے ہیں.اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق خدا سے علم پا کر فرمایا کہ اگر یہ بچہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا لیکن اپنے کسی اور بچے کے متعلق ایسا نہیں فرمایا اسی طرح ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں حضرت اسمعیل اور حضرت اسحق میں نبوت کا جو ہر موجود تھا.اس لئے وہ نبی بنائے گئے مگر حضرت ابراہیم“ کے باقی لڑکوں زمران اور یقسان اور ریان وغیرہ کو ہرگز یہ انعام نہیں ملا.پھر حضرت اسحق کے بیٹے حضرت یعقوب میں نبوت کا جو ہر موجود تھا.اس لئے انہیں نبوت ملی مگر حضرت اسحق کے بڑے لڑکے عیسو کو یہ انعام نہیں ملا.پھر حضرت یعقوب کے چھوٹے لڑکے حضرت یوسف کو نبوت حاصل ہوئی.مگر حضرت یعقوب کے دوسرے گیارہ لڑکے اس انعام سے محروم رہے پھر حضرت داؤد کے فرزند حضرت سلیمان کو تو نبوت ملی.مگر حضرت سلیمان کے لڑکے کو یہ امتیاز حاصل نہیں ہوا بلکہ وہ الٹا جسد ( یعنی بے جان جسم ) کے نام کا مستحق قرار پایا.اور مزید انعام ملنا تو درکنار پہلے انعام کو بھی ہاتھ سے کھو بیٹھا.پس یہ دعوی بالکل باطل اور خلاف واقعہ ہے کہ نبوت ایک ورثہ کا انعام ہے.حق یہ ہے کہ نہ تو نبوت جسمانی ورثہ میں ملتی ہے اور نہ ہی نبوت کا ورثہ جسمانی لحاظ سے آگے چلتا ہے.پس جبکہ یہ دعویٰ ہی باطل اور قرآنی اور تاریخی شہادت کے سراسر خلاف ہے تو یہ اعتراض کس طرح ہوسکتا ہے کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جسمانی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکے نہیں تھے اس لئے وہ کیونکر نبی بن گئے؟ سنو ! وہ اسی طرح ہی بن گئے جس طرح کہ حضرت نوح نبی بنے بغیر اس کے کہ ان کا باپ نبی تھا.اور جس طرح کہ حضرت ابراہیم نبی بنے بغیر اس کے کہ ان کا باپ نبی تھا.اور جس طرح کہ حضرت موسیٰ نبی بنے اور جس طرح کہ حضرت داؤد نبی بنے اور جس طرح کہ حضرت عیسی نبی بنے.ہاں روحانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود ضرور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے فرزند ہیں اور یہی وہ گہری حقیقت ہے جس کی ۱۳۸ طرف آیت مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ میں اشارہ کیا گیا ہے.یعنی گو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی لحاظ سے کسی نرینہ بچے کے باپ نہیں

Page 1013

مضا مین بشیر مگر روحانی لحاظ سے وہ کروڑوں ، اربوں مومنوں کے باپ ہیں بلکہ آپ کے عظیم الشان روحانی فیض کی مہر تو آپ کی روحانی اولاد کے لئے نبوت تک کے انعام کا رستہ کھولتی ہے.“ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے تو خصوصیت سے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انی معک یا ابن رسول الله د یعنی اے رسول خدا کے فرزند میں تیرے ساتھ ہوں“ فافهم و تدبر و لاتقف ما ليس لك به علم.( مطبوعه الفضل ۲۸ / ستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1014

مضامین بشیر ۱۰۰۲ قادیان میں عید الاضحی کی نماز اس سال قادیان میں عید الاضحی کی نما ز ۲۳ رستمبر کو بروز ہفتہ ادا کی گئی جس میں یو.پی وغیرہ سے آئے ہوئے احمدیوں کو شامل کر کے قریباً چار سو احمدیوں نے شرکت کی.افسوس ہے کہ اس سال سیلاب کی پریشانی اور رستوں کی خرابی کی وجہ سے پاکستانی دوست قادیان میں زیادہ قربانی نہیں کرا سکے.تاہم اس سال بھی پاکستان کے دوستوں کی طرف سے قادیان میں قریباً سات قربانیاں ہوئیں مقامی احباب کی قربانیاں اس کے علاوہ ہیں.عید کے متعلق جو مختصر رپورٹ مولوی عبد القادر صاحب جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ قادیان کی طرف سے موصول ہوئی ہے، وہ دوستوں کی اطلاع کے لئے درج کی جاتی ہے.بسم الله الرحمن الرحيم سیدی حضرت میاں صاحب زاد مجده العالی السلام عليكم ورحمة الله وبركاته امید ہے آنمکرم بخیر و عافیت ہوں گے.جملہ درویشان آنمکرم کی صحت کا ملہ کے لئے دعا کرتے ہیں.کل بروز ہفتہ قادیان شریف میں عید کی تقریب منائی گئی.جملہ درویشان کی طرف سے آئمکرم کی خدمت میں عید مبارک عرض ہے.عید کی نماز آٹھ بجکر دس منٹ پر مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئی.مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی نے حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک عید الاضحی کا خطبہ بڑھ کر سنایا.عید کی نما ز خطبہ ودعا کے بعد جملہ احباب ایک دوسرے کو عید مبارک کہتے اور بغلگیر ہوتے تھے.مکرم حضرت امیر صاحب و صاحبزادہ حضرت میاں وسیم احمد صاحب سے سب احباب نے مصافحہ کیا اور بغلگیر ہوئے.عید کی خوشی میں کھیلوں کا پروگرام بھی تھا جو بعد نماز عصر عمل میں آیا اور عشاء کی نماز کے بعد مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ایک مشاعرہ بھی ہوا جس میں تمام نظمیں سنجیدہ الفاظ اور مذہبی رنگ کی حامل پڑھی گئیں.حضرت مسیح موعود، حضرت امیر المؤمنین ، حضرت نواب مبار کہ بیگم زاد مجد ہا کی بعض نظمیں بھی پڑھی گئیں.اس موقع پر خاکسار نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے مندرجہ ذیل نظم سنائی.تا وہ درویش جو اپنی ذاتی یا خاندانی حالات کی وجہ سے عارضی یا مستقل پرمٹ کے حصول کے لئے کہہ رہے ہیں انہیں تسلی دے کر

Page 1015

1005 مضامین بشیر یہاں مزید ٹھہرنے کی تحریک کی جائے.آئمکرم کے ملاحظہ کے لئے یہ اشعار ذیل میں رقم ہیں.کیا چلے جانا ہے تم کو قادیاں کو چھوڑ کر چھوڑ کر دار الاماں جنت نشاں کو چھوڑ کر جس کی ہر موج ہوا ہے جسم و جاں کی تازگی ایسے پُر منظر چمن کے آشیاں کو چھوڑ کر پر ہو نزول رحمت باری جہاں ہر خشت کیسا جینا اُس زمین و آسمان کو چھوڑ کر تم کو کیا معلوم کیا ہے داغ ہجرت کی جلن تلخیاں ہی تلخیاں ہیں اس مکاں کو چھوڑ کر پوچھ اُن عشاق سے جو بے سروساماں گئے کیا کہیں آرام جاں ہے قادیان کو چھوڑ کر کیا ہی خوش قسمت ہو تم درویش کہتے ہیں تمہیں نام یہ پایا ہے پر تم نے جہاں کو چھوڑ کر ہیں تمہیں دشواریاں پر یہ نہیں جانے کا وقت تخت گاه مهدی آخر زمان کو چھوڑ کر بیٹھ کر صبر و سکوں سے کاٹ لو کچھ اور وقت تخت گاه مهدی آخر زمان کو چھوڑ کر بیٹھ کر صبر و سکوں سے کاٹ لو کچھ اور وقت کیا خبر قسمت میں کیا ہو گلستان کو چھوڑ کر آخرش فتح نمایاں ہے انہی کے نام پر جو یہاں بیٹھے رہیں گے سب جہاں کو چھوڑ کر ( مطبوعه الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1016

مضامین بشیر ۱۰۰۴ مسئلہ تقدیر کے متعلق ایک دوست کا سوال کیا تقدیر مبرم بھی مل سکتی ہے؟ کچھ عرصہ ہوا میرا ایک مضمون مسئلہ تقدیر کے متعلق شائع ہوا تھا اور اس کے کچھ عرصہ بعد اس مضمون کا ایک تتمہ بھی شائع ہوا جو ایک احمدی نوجوان کے سوال کے جواب میں تھا.اب اسی تعلق میں ماسٹر محمد عبد اللہ صاحب مقرب انگلش ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل کی طرف سے ایک اور سوال موصول ہوا ہے جس کا مختصر سا جواب ذیل میں درج کیا جاتا ہے.ماسٹر صاحب موصوف لکھنے.ہیں کہ میں نے اپنے مضمون میں تقدیر کی ایک قسم تقدیر عام یعنی تقدیر معلق بیان کی تھی اور دوسری قسم تقدیر مبرم بیان کی تھی اور تقدیر مبرم کی تعریف میں نے یہ لکھی تھی کہ ایسی تقدیر جو نہ ٹلنے والی ہو.لیکن مقرب صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی کے تعلق میں ایک جگہ اس پیشگوئی کو تقدیر مبرم لکھا تھا مگر پھر بھی وہ ٹل گئی.اب بے شک اس تقدیر کے ٹلنے کو سنت اللہ کے مطابق جائز قرار دیا جائے لیکن بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کبھی کبھی تقدیر مبرم بھی ٹل جایا کرتی ہے.اس سوال کے جواب میں یا درکھنا چاہئے کہ گو مقرب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر کا حوالہ نہیں دیا جس میں حضور نے محمدی بیگم والی پیشگوئی کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ حوالہ کی اصل عبارت اس قسم کی الجھن کے حل کرنے میں بڑی مد ہوسکتی ہے مگر تا ہم میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کیونکہ مجھے بھی یہی یاد پڑتا ہے کہ حضور نے واقعی ایک جگہ محمدی بیگم والی پیشگوئی کو تقدیر مبرم کے طور پر پیش کیا ہے اور خواہ اصل عبارت کی تفصیل کچھ ہو کیونکہ اس وقت وہ میرے سامنے نہیں ہے.بہر حال اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقدیر مبرم کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں طبعا وہ سوال پیدا ہوتا ہے جو مقرب صاحب کے دل میں کھٹکا ہے.اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے جس پر غالباً مقرب صاحب نے غور نہیں کیا کہ محمدی بیگم والی پیشگوئی کا مرکزی نقطہ محمدی بیگم کا نکاح نہیں تھا بلکہ بے دین رشتہ داروں کو جو اسلامی تعلیم پر تمسخر اڑاتے اور آیات اللہ کے وجود سے منکر تھے ایک نشان دکھانا اصل مقصد تھا اور پھر یہ پیشگوئی بھی

Page 1017

۱۰۰۵ مضامین بشیر دو پہلو رکھتی تھی.ایک پہلو رحمت کے نشان کا حامل تھا اور دوسرا پہلو عذاب کے نشان کا علم بردار تھا.رحمت کا نشان اس صورت میں ظاہر ہونا مقدر تھا کہ محمدی بیگم کے رشتہ دار ( یعنی والدین اور ماموں وغیرہ ) اس کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کر دیں اور عذاب کا نشان اس شرط کے ساتھ مشروط تھا کہ وہ اس شادی سے منکر ہو کر محمدی بیگم کو کسی اور شخص کے نکاح میں دیدیں.آگے اس پہلو کی بھی دو شاخیں تھیں ایک شاخ تو یہ تھی کہ اگر محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ محمدی بیگم کو کسی دوسری جگہ بیاہ دے تو وہ ( یعنی محمدی بیگم کا والد ) تین سال کے اندر اندر ہلاک ہو کر اس جہان سے رخصت ہو جائے گا اور دوسری شاخ یہ تھی کہ جس دوسرے شخص کے ساتھ محمدی بیگم بیا ہی جائے گی وہ اگر تو بہ کے رنگ میں رجوع نہیں کرے گا تو اڑھائی سال کے اندر اندر فوت ہو جائے گا اور اس صورت میں ( یعنی اس شخص کی ہلاکت کی صورت میں ) محمدی بیگم بیوہ ہو کر حضرت مسیح موعود کے نکاح میں آئے گی.یہ وہ صورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں اور تحریروں سے اس پیشگوئی کی ثابت ہوتی ہے اور یہ نتیجہ جس کا خلاصہ میں نے اوپر درج کیا ہے ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ جو شخص بھی انصاف کی نظر سے اس پیشگوئی کے متعلق غور کرے گا وہ اس نتیجہ کے سوا کسی اور نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا مگر ظاہر ہے کہ اس جگہ میرے لئے اس لمبی بات میں جانے کا زیادہ موقع نہیں ہے.اس تمہیدی نوٹ کے سمجھ لینے کے بعد جاننا چاہئے کہ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمدی بیگم والی پیشگوئی کو تقدیر مبرم قرار دیا ہے وہاں اس سے ہرگز ہرگز مطلق نکاح مراد نہیں ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ اگر مرزا سلطان محمد بیگ ( خاوند محمدی بیگم ) نے تو بہ اور رجوع کا رستہ اختیار نہ کیا اور شوخی اور گستاخی اور استہزا کے رستہ پر گامزن ہوا تو اس صورت میں نہ کہ کسی اور صورت میں ) اولاً اس کی ہلاکت اور بعدہ محمدی بیگم کا حضرت مسیح موعود کے نکاح میں آنا ایک تقدیر مبرم ہے جو کبھی نہیں ملے گی.گویا مطلق طور پر نکاح کو تقدیر مبرم قرار نہیں دیا گیا تھا بلکہ صرف مرزا سلطان محمد بیگ کی شوخی اور ہلاکت کی صورت میں تقدیر مبرم قرار دیا گیا تھا لیکن جیسا کہ ظاہر ہے اور ہماری طرف سے بار بار ثابت کیا جا چکا ہے ، جب محمدی بیگم کا والد مقررہ میعاد کے اندراندر فوت ہو گیا اور محمدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمد بیگ نے فروتنی اور ادب اور تو بہ کا رستہ اختیار کیا تو اذا فات الشرط فات المشروط کے مسلمہ اصول کے ماتحت محمدی بیگم کا نکاح بھی تقدیر مبرم نہ رہا اور یہ وہ حقیقت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی حقیقۃ الوحی میں وضاحت کے ساتھ بیان فرما دی.یعنی یہ کہ اس پیشگوئی کا نکاح والا پہلو منسوخ ہو چکا ہے.دراصل غور کیا جائے تو محمدی بیگم کی پیشگوئی بالکل اسی قسم کی تقدیر مبرم تھی جس طرح کہ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے پنڈت لیکھرام کے مرنے پر یہ اعلان کیا تھا کہ

Page 1018

مضامین بشیر 1004 اگر آر یہ صاحبان کو یہ شبہ ہے کہ ہم نے اسے خود سازش کر کے قتل کرا دیا ہے تو وہ مرد میدان بن کرفتم کھا جائیں کہ واقعی ہم نے ہی اسے قتل کرایا ہے اور اس صورت میں ایسی قسم کھانے والے (خواہ وہ تعداد میں کتنے ہی ہوں) ایک سال کے اندر اندر ایسے آسمانی عذاب سے ہلاک ہوں گے جس میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل متصور نہ ہو سکے اور حضور نے چیلنج کے طور پر بار بارلکھا کہ اس صورت میں یہ ایک تقدیر مبرم ہوگی جو کبھی نہیں ملے گی.اب ظاہر ہے کہ یہ تقدیر مبرم آریہ صاحبان کے قسم کھانے کے ساتھ مشروط تھی نہ کہ مطلق اور چونکہ انہوں نے مطلوبہ قسم نہیں کھائی اس لئے یہ تقدیر بھی جاری نہیں ہوئی.اوپر کی بحث سے ظاہر ہے کہ دراصل تقدیر مبرم بھی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک تو وہ حقیقی تقدیر مبرم ہوتی ہے جو بلا شرط بہر حال جاری ہوتی ہے جیسے کہ مثلاً اس دنیا میں انسان کی موت ایک تقدیر مبرم ہے جو کبھی نہیں ملتی یا مثلاً انسان کا اس دنیا میں مرکز پھر واپس نہ آنا ایک تقدیر مبرم ہے جو بہر حال جاری ہوتی ہے یا مثلاً خدا کے رسولوں کا بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ایک تقدیر مبرم ہے ، جسے کوئی چیز بدل نہیں سکتی وغیرہ وغیرہ لیکن دوسری قسم تقدیر مبرم کی وہ ہے جو کسی ظاہر یا باطن شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے.مثلاً جب یہ کہا جائے کہ اگر فلاں بات اس اس رنگ میں ہوئی تو لازماً اس کا یہ یہ نتیجہ نکلے گا تو یہ بھی ایک پہلو کے لحاظ سے تقدیر مبرم ہی ہوگی کیونکہ بیان کردہ شرط کے پورا ہونے کی صورت میں لازماً بیان کردہ نتیجہ پیدا ہوگا گویا اس صورت میں ایسی تقدیر مجموعی لحاظ سے تو تقدیر معلق ہوتی ہے لیکن اپنے متقابل پہلوؤں کے لحاظ سے یہی تقدیر جدا گانہ پہلو میں جا کر تقدیر مبرم بن جاتی ہے.چنانچہ حدیث میں جو بعض قسم کی تقدیر مبرم کے ٹل جانے کا ذکر آتا ہے اس سے بھی اسی قسم کی تقدیر مبرم ہی مراد ہے جو اپنے جدا گانہ پہلوؤں کے لحاظ سے تقدیر مبرم ہوتی مگر مجموعی لحاظ سے تقدیر معلق قرار پاتی ہے.مثلاً آنحضرت علی فرماتے ہیں کہ : ہے.اکثر وا من الدعاء فان الدعا يرد القضاء المبرم ۱۴۰ د یعنی اے مسلمانو ! دعاؤں کی بہت عادت ڈالو کیونکہ دعا وہ چیز ہے جو مبرم تقدیر کو بھی بدل دیتی اب ظاہر ہے کہ اس جگہ وہ حقیقی تقدیر مبرم ہرگز مراد نہیں جو ہر حال میں ایک اٹل تقدیر کے طور پر جاری ہوتی ہے اور کسی صورت بھی اپنا رستہ نہیں بدلتی جیسے کہ مثلاً موت یا عدم رجوع موتی یا غلبہ رسل وغیرہ قانون ہے بلکہ اس جگہ وہ تقدیر مبرم مراد ہے جو مجموعی لحاظ سے تو تقدیر معلق ہوتی ہے مگر اپنے جدا گانہ پہلوؤں کے لحاظ سے ایسے تقدیر مبرم کا نام دیدیا جاتا ہے.اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ایسی تقدیر مبرم جو دراصل ایک مشروط قسم کی تقدیر ہوتی ہے.دعا اور صدقہ اور خیرات سے ٹل جاتی ہے.اس کی

Page 1019

مضامین بشیر ایک دلچسپ مثال حضرت نواب محمد علی خانصاحب مرحوم کے لڑکے میاں عبدالرحیم خان کی اس بیماری میں ملتی ہے جس میں وہ اکتو بر ۱۹۰۳ء میں مبتلا ہوئے اور جب حضرت نواب صاحب مرحوم کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کی صحت کیلئے دعا فرمائی الہام ہوا کہ : ۱۴۱ تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب یہ وحی نازل ہوئی تو مجھ پر حد سے زیادہ حزن طاری ہوا اور اس وقت بے اختیار میرے مونہہ سے نکل گیا کہ یا الہی اگر یہ دعا کا موقع نہیں تو میں شفاعت کرتا ہوں اس پر معا وحی ہوئی کہ : من ذالذى يشفع عنده الا باذنه.۱۴۲ د یعنی خدا کی اجازت کے بغیر کون شفاعت کر سکتا ہے.؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں میں خدا تعالیٰ نے تقدیر مبرم کا نام دینے کے باوجود ٹل سکنے والی تقدیر قرار دیا ہے اور دراصل یہی وہ استثنائی قانون ہے جس کے ذریعہ خدا نے مومنوں کے عرفان اور ایمان کی ترقی کا رستہ کھول رکھا ہے ورنہ اگر یہ نہ ہو تو خدا کے متلاشی دنیا کے لق و دق صحرا میں تڑپتے ہوئے رہ جائیں اور انہیں اس مادی عالم کے دور آمیز دھند لکے میں ہدایت کی کوئی روشن کرن نصیب نہ ہو.و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین.( مطبوعه الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1020

مضامین بشیر زندگی کے بیمہ کے متعلق اسلامی نظریہ ایک جائز ضرورت کو ناجائز طور پر پورا کر نیوالا نظام سید ولی اللہ شاہ سلمہ مبلغ افریقہ اپنے ایک بزرگ کے ذریعہ دریافت کرتے ہیں کہ زندگی کے بیمہ کے متعلق جس کا اس زمانہ میں وسیع رواج ہو رہا ہے اسلامی نظریہ کیا ہے اور آیا اسے جائز سمجھنا چاہئے یا کہ نا جائز ؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ یا درکھنی چاہئے کہ جہاں تک اس مسئلہ میں فتویٰ کے پہلو کا سوال ہے وہ جماعت احمدیہ کے مفتی (مولوی سیف الرحمن صاحب فاضل ) ربوہ سے دریافت کرنا چاہئے کیونکہ فتویٰ دینا صرف ان کا کام ہے نہ کہ میرا یا کسی اور کا.البتہ اس سوال کے متعلق عام اسلامی نظریہ ہر شخص اپنے علم کے متعلق بیان کر سکتا ہے اور میں اس بارے میں اپنا خیال مختصر طور پر درج ذیل کرتا ہوں.سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ زندگی کا بیمہ جس صورت میں کہ وہ آج کل رائج ہے اور جہاں تک مجھے اس کا علم ہے، مجملاً یہ ہے کہ ملکی قانون کے ماتحت رجسٹر ہو کر مختلف بیمہ کمپنیاں قائم ہوتی ہیں.یہ کمپنیاں تجارتی اصول پر قائم کی جاتی ہیں اور مناسب طریق پر سرمایہ مہیا کرنے کے بعد اپنا کام شروع کرتی ہیں.کام کا طریق یہ ہوتا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے مصالح اور پروگرام کے مطابق بعض سکیمیں تیار کرتی ہیں جنہیں بیمہ کمپنی کی اصطلاح میں پالیسی کا نام دیا جاتا ہے اور پھر ان مختلف پالیسیوں کے مطابق خواہشمند لوگ اپنی اپنی پسند کی پالیسی اختیار کر کے اپنی زندگیاں اس کمپنی کے دفتر میں بیمہ کرا دیتے ہیں جس کا طریق عموماً یہ ہوتا ہے ( میں اس جگہ تفاصیل کو نظر انداز کر رہا ہوں ) کہ بیمہ کرانے والا شخص اپنے پاس سے کچھ روپیہ بیمہ کمپنی کو قسطوں میں ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور اس کے مقابل پر بیمہ کمپنی اس بات کی پابندی لیتی ہے کہ وہ اس شخص کے مرنے پر (یا ایک مقررہ میعاد کے گزرنے پر یعنی جیسی بھی صورت ہو ) اس شخص کے ورثاء کو یا خود اس شخص کو یعنی جو بھی فیصلہ ہو ) اس شخص کے ورثا کو یا خود اس شخص کو اس قدر رو پیدا ادا کر دے گی.ان دونوں رقموں میں ( یعنی وہ رقم جو بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے شخص سے وصول کرتی ہے ) اور وہ رقم جو بیمہ کمپنی ہمہ کرنے والے شخص یا اس کے ورثا کو ادا کرتی ہے ) بسا اوقات کافی فرق ہوتا ہے.یہ فرق عموماً دو اصولوں پر مبنی ہوتا ہے اول : یہ

Page 1021

10+9 مضامین بشیر کہ بیمہ کرانے والا شخص بیمہ کرانے کے بعد بیمہ کی مقررہ میعاد کے مقابل پر کتنی بھی عمر پا تا یا کتنی جلدی مرتا ہے اور دوسرے یہ کہ اسے بیمہ کمپنی کے مقررہ اصولوں کے ماتحت اپنی رقم پر کتنے سود کا حق پیدا ہوتا ہے.ان دو اصولوں کے مطابق بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے شخص کے ورثاء کو ( یا خود اسکو یعنی جو بھی صورت ہو ) اس کی اختیار کردہ پالیسی کے ماتحت مقررہ رقم ادا کر دیتی ہے.زندگی کے بیمہ کا یہ ایک نہائت مختصر سا اجمالی نقشہ ہے جس کے مطابق عموماً آجکل زندگی کے بیمے ہوتے ہیں اور اس انتظام کے ماتحت لوگ اس بات کے متعلق تسلی پا جاتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد یا ان کی اپنی زندگی میں جیسی بھی صورت ہو ان کے اہل وعیال دنیا میں بے سہارا نہیں رہیں گے بلکہ انہیں ان کی پسند کردہ پالیسی کے مطابق معقول رقم مل جائیگی جو بعض اوقات ان کی داخل کردہ رقم سے کافی زیادہ ہوتی ہے.سواس کے متعلق یا د رکھنا چاہئے کہ اس میں شبہ نہیں کہ یہ انتظام اپنے اندر بعض خوبیاں رکھتا ہے اور وہ لوگ جو کوئی ایسی جائداد نہیں رکھتے جس سے ان کے بعد ان کے اہل وعیال کے گزارہ کے مطابق آمدن پیدا ہو سکے اس انتظام سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں.اس لئے اس کے مفید ہونے سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن دوسری طرف ہما را عادل و امین مذہب اسلام تو اس حکیمانہ شان کا مذہب ہے کہ وہ شراب اور جوئے تک کو قطعی حرام قرار دینے کے باوجود ان کی بعض خوبیوں کو تسلیم کرتا ہے.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے: يَتَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمُ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۱۴۳ یعنی اے رسول تجھ سے لوگ شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دے کہ ان دونوں چیزوں میں بھاری نقصانات ہیں مگر ان میں لوگوں کے لئے کچھ فوائد بھی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں، اس لئے ہم نے انہیں حرام قرار دیا ہے.“ اس نہایت درجہ پر حکمت کلام میں خدا تعالیٰ نے شراب اور جوئے کو حرام قرار دینے کے باوجود ان کے بعض فوائد کو بر ملالتسلیم کیا ہے.پس ہمیں بھی اس بات سے ہرگز انکار نہیں کہ زندگی کے بیمہ میں بھی بعض پہلو یقیناً مفید اور بے سہارا لوگوں کے لئے تسلی اور تسکین کا موجب ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک ابدی صداقت ہے کہ قومی اور ملکی قوانین کے بنانے میں صرف یہی بات نہیں دیکھی جاتی کہ کسی قانون میں کوئی فائدہ کا پہلو ہے یا نہیں بلکہ اس کے فوائد اور اس کے نقصانات دونوں کو با ہم تول کر اور موازنہ کر کے فیصلہ کیا جاتا ہے.اگر کسی چیز کے فوائد اس کے نقصانات سے زیادہ ہوں تو اسے

Page 1022

مضامین بشیر 1.1.مناسب حد بندیوں اور شرائط کے ساتھ جائز قرار دے دیا جاتا ہے لیکن اگر کسی چیز کے نقصان کا پہلو اس کے فوائد کے پہلو سے زیادہ بھاری ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے شراب اور جوائے کے تعلق میں صراحۃ بیان فرمایا ہے تو اسے ناجائز شمار کیا جاتا ہے.یہ وہ زریں اصول ہے جسے قرآن شریف نے آج سے چودہ سو سال پہلے اختیار کیا اور آج دنیا بھر کی مہذب حکومتیں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس اصول پر عمل پیرا ہیں.سمجھ کی غلطی کی وجہ سے یا اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کی اہمیت نہ جاننے کے باعث ٹھیک رستے سے بھٹک جانا اور بات ہے لیکن جہاں تک خالص اصول کا تعلق ہے غالباً آج دنیا کی کوئی مہذب قوم اور دنیا کا کوئی مہذب ملک اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ کسی قانون کو جاری کرتے ہوئے محض فائدہ کے پہلو کو دیکھنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ فائدہ اور نقصان دونوں پہلوؤں کو دیکھنا اور پھر ان متقابل پہلوؤں کا باہمی موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہ وہی اصول ہے جسے قرآن شریف نے آج سے چودہ سو سال قبل شراب اور جوئے کو حرام قرار دیتے ہوئے نہائت واضح الفاظ میں پیش کیا ہے.اس طرح سود کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ : ۱۴۴ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرّبوالَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَنُ مِنَ الْمَيْس ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا البيع مثل الرَّبُوا وَأَحَلَّ اللهُ البَيْعَ وَحَرَّمَ الرَّبُوا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَّيْهِ فَانتَهى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَاَمْرُةٌ إلى الله وَمَنْ عَادَ فَأُولَبِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ) يَمْحَقُ اللَّهُ الرَّبُوا وَيُرْ لى الصَّدَقْتِ وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْهِ 10 د یعنی وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں وہ بظاہر اپنے پاؤں پر کھڑے تو ہو جاتے ہیں مگر ان کا کھڑا ہونا ایسا ہی ہوتا ہے کہ جیسے شیطان نے انہیں سہارا دے کر کھڑا کر دیا ہو مگر اس مس شیطان کی وجہ سے ان کی قلبی طاقتیں مختل ہو جاتی ہیں اور اور ان کے لئے اذیتوں اور فتنوں کا دروازہ کھل جاتا ہے....پس اگر اب بھی کوئی شخص سود سے باز نہیں آئے گا تو ایسے لوگ سن لیں کہ وہ آگ میں جلیں گے ( یعنی اس دنیا میں مادی ذہنیت کی جلن اور جنگوں وغیرہ کی آگ اور آخرت میں عذاب کی آگ اور اسی آگ میں ہمیشہ جلتے چلے جائیں گے.سن لو کہ سود کو خدا مٹانا چاہتا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے حکیمانہ حکموں کے ناشکر گزار بندوں اور گنہگا رلوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا.

Page 1023

1+11 مضامین بشیر اس حکیمانہ آئت میں یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ بے شک بعض اوقات سود لوگوں کے لئے ظاہری قیام کا موجب بن جاتا ہے لیکن یہ قیام ایک شیطانی قیام ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں بالآخر قلب انسانی کے اعلیٰ قومی تباہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور دکھوں اور فتنوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ( یہ لفظ یتخبطه کا لفظی ترجمہ ہے ) اور پھر آگے اس کی تشریح فرمائی ہے کہ سود سے قومی لحاظ سے لڑائیوں اور جنگوں کی آگ کا راستہ کھلتا ہے اور انفرادی لحاظ سے وہ اس لطیف روح کو کچل کر رکھ دیتا ہے جو صدقات کے ذریعہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں باہم ہمدردی اور تعاون پیدا کرنا چاہتا ہے.اوپر کی دو اصولی آیتوں سے ہمیں ذیل کی دوا ہم باتوں کا سبق حاصل ہوتا ہے:.ا.ایک یہ کہ ہو سکتا ہے کہ ایک بات میں بعض فوائد کے پہلو ہوں لیکن اگر اس کے نقصان کے پہلو اس کے فوائد کے پہلو سے بھاری ہیں تو اس کے فوائد کے باجود مومنوں کو ایسی چیز سے پر ہیز کرنا چاہئے کیونکہ اسے اختیار کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ انسان چار آنے کے لالچ میں ایک روپیہ کھو بیٹھے.۲.دوسری بات ان آیات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ سود اور جو ا ( شراب کا اس بحث سے تعلق نہیں) ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بعض فوائد کے باوجود ان کے نقصانات کا پہلو اتنا بھاری ہے کہ مومنوں کو ان سے بہر حال اجتناب کرنا چاہئے اور پھر ان آیات سے ان نقصانات کی نوعیت کی طرف اصولی اشارہ بھی کر دیا ہے مگر اس جگہ اس کی تشریح میں جانا ہمارے موجودہ مضمون کے دائرے سے تعلق نہیں رکھتا.اس تمہید کے بعد اور دراصل اس تمہید میں ہی اصل جواب آجاتا ہے یہ جاننا چاہئے کہ چونکہ اس وقت زندگی کے بیمہ کی جو پالیسیاں ہمارے ملک میں رائج ہیں ان میں جہاں تک مجھے علم ہے لازماً سود اور جوئے کا عصر داخل ہو جاتا ہے اور اسلام نے ان دونوں چیزوں کو قطعی طور پر حرام کیا ہے.اس لئے زندگی کا بیمہ بھی جس صورت میں کہ وہ آجکل رائج ہے اسلامی تعلیم کے ماتحت ناجائز سمجھا جائے گا.ہمیں یقیناً اس سوال کے ساتھ ہمدردی ہے کہ خدا کے بتائے ہوئے ظاہری اسباب کے ماتحت ہر باپ یا ہر گارڈین کا یہ فرض ہے کہ اس کے لئے جہاں تک ممکن ہو اور جہاں تک اس کے حالات اجازت دیں اپنے پیچھے رہنے والے اہل وعیال کے گزارے کی تدبیر سوچے اور انہیں حتی الوسع بے سہارا چھوڑ کر نہ جائے لیکن ظاہر ہے کہ یہ انتظام ان بنیادی اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے جو خدائے اسلام نے مسلمانوں کی بہتری اور بہبودی کیلئے مقررفرمائے ہیں اور اس میں کوئی عصر نا جائز اور حرام باتوں کا ہرگز شامل نہیں کرنا چاہئے.یہ کہنا کہ مستقبل کا انتظام اپنی ذات میں ایک اچھی چیز ہے یقیناً درست

Page 1024

مضامین بشیر ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اسی دوراندیشانہ اصول کے ماتحت اسلام نے ورثہ کا قانون جاری فرمایا ہے اور پھر اسی اصول کے ماتحت اسلام نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ کوئی شخص کسی غیر وارث شخص کے لئے اپنی جائیداد کے تیسرے حصہ سے زیادہ کی وصیت نہیں کر سکتا.جس کا دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہے کہ کم از کم دو تہائی حصہ بہر حال وارثوں کے لئے محفوظ رہنا چاہئے اور اصولی طور پر بھی قرآن شریف ہدایت فرماتا ہے کہ : وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۱۴۵ د یعنی انسان کو صرف حال میں ہی مستغرق نہیں رہنا چاہئے بلکہ مستقبل کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھنا چاہئے کہ آیا اس کا مستقبل محفوظ ہے یا نہیں.“ یہ آیت حقیقۃ اخروی اعمال کے پیش نظر نازل کی گئی ہے اور اس میں انسان کو ہوشیار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے دنیا کے اعمال میں آخرت کے حساب کتاب کو مد نظر رکھے مگر اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ اس آیت میں اس عمومی اصول کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنے دنیوی اعمال میں بھی مستقبل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور اپنے پیچھے اہل وعیال کا انتظام لازماً ہمارے مستقبل کا حصہ ہے.اسی طرح حدیث میں آنحضرت علیہ اپنے صحابی سعد بن ابی وقاص سے فرماتے ہیں کہ :.انک ان تدع ورثتك اغنياء خير من ان تدعهم عالة يتكففون الناس في ايديهم ۱۴۶ د یعنی یہ بات کہ تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے غنی چھوڑ کر جائے اس بات سے بہت بہتر ہے کہ تو انہیں کنگال چھوڑے اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں.“ ان آیات قرآنی اور ان احادیث سے ظاہر ہے کہ اسلام نے مستقبل کے انتظام کو ہر گز نا پسند نہیں کیا ( خاص متوکل لوگوں کا استثنائی معاملہ جدا گانہ ہے جن کا کفیل خود خدا ہوتا ہے ) بلکہ اسے بہتر خیال کیا ہے اور اس کی تحریک فرمائی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس وجہ سے ناجائز چیزوں کا استعمال جائز سمجھا جاسکتا ہے.حرام چیز بہر حال حرام ہے اور اگر وہ کسی حلال چیز میں داخل ہوگی تو لازماً اسے بھی حرام کر دے گی.مثلاً دودھ ایک حلال اور طیب چیز ہے مگر کوئی ہوشمند انسان ایسے دودھ کو نہیں پی سکتا جس میں چند قطرے پیشاب کے بھی شامل کر دیئے گئے ہوں.پس بے شک مستقبل کا انتظام سوچنا برا نہیں بلکہ ہر طرح جائز اور واجبی ہے مگر اس انتظام میں سود اور جوئے ( یعنی اتفاق کی کھیل ) کو شامل کرنا کسی طرح جائز نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ وہ چیزیں ہیں جو بالآخر اس انتظام کی ساری برکت کو تباہ کر کے رکھ دیں گی.

Page 1025

مضامین بشیر الغرض چونکہ آجکل بیمہ زندگی کی مروجہ پالیسیوں میں جہانتک مجھے علم ہے لازماً کسی نہ کسی جہت سے جوئے اور سود کا عنصر داخل ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں اسلام میں قطعی طور پر حرام ہیں اس لئے وہ زندگی کا بیمہ بھی جو ان عناصر کا مرکب ہو ہرگز جائز نہیں سمجھا جاسکتا.ہاں اگر کوئی ایسی پالیسی ایجاد ہو جائے جو سود اور جوئے کے عصر سے بالکل پاک ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا یقیناً جائز ہوگا بلکہ یہ ایک اہم قومی ضرورت کو پورا کرنے والی چیز ہوگی.جس کے لئے سب خدام اسلام اس کے موجد کے ممنون اور شکر گزار ہوں گے.یہ تو ظاہر ہے کہ بیمہ کا مسئلہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود نہیں تھا بلکہ خالصہ موجودہ زمانہ کی پیداوار ہے.اس لئے اس کے متعلق شریعت میں براہ راست کوئی حکم یا ہدایت موجود نہیں.پس لازماً اس کے متعلق اسلام کی اصولی تعلیم کی روشنی میں قیاس کرنا ہوگا اور یہ قیاس سود اور جوئے کے صریح اور واضح احکام کی موجودگی میں یقیناً اس کے خلاف جاتا ہے.لیکن دوسری طرف موجودہ زمانہ کے پیچدار اقتصادی مسائل کا یہ تقاضا ہے کہ اس بارے میں کوئی نہ کوئی انتظام سوچا جائے.یہ درست ہے کہ اگر کامل اسلامی حکومت جسے مثالی یعنی آئیڈیل حکومت کہنا چاہئے قائم ہوا اور وہ نعوذ باللہ دیوالیہ نہ ہو چکی ہو تو ایسی حکومت کے وسیع ذرائع اور وسیع اختیارات کے ہوتے ہوئے یہ سوال حقیقہ پیدا ہی نہیں ہوتا اور لوگ اس ارضی جنت کو حاصل کر لیتے ہیں جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ : ۱۴۷ إنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوْعَ فِيهَا وَلَا تَعْرُى وَأَنَّكَ لَا تَطْمُوا فِيهَا وَلَا تَضُحى BO ود یعنی سچی بہشتی زندگی ( جو اس مادی عالم سے تعلق رکھتی ہے ) یہ ہے کہ اے انسان تو اس میں بھوکا نہ رہے اور نہ ہی ضروری لباس سے محروم ہو اور نہ ہی پانی کی تکلیف اٹھائے اور نہ ہی سر چھپانے کی جگہ کے بغیر گرمی میں مارا مارا پھرے.مگر جب تک حکومت کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک یہ ضروری ہے کہ اقتصادیات کے ماہروں اور شریعت اسلامی میں گہری نظر رکھنے والوں کی ایک مشتر کہ کمیٹی کے ذریعہ ایسی تدابیر کا جائزہ لیا جائے جن سے یا تو زندگی کے بیمہ کی کوئی ایسی صورت دریافت ہو جائے جس میں سود اور جوئے کے عصر کا دخل نہ ہو اور یا بیمہ زندگی کے مقابل پر کوئی اور ایسا انتظام سوچا جائے جو قوم کی بے سہارا عورتوں اور بے سہارا بچوں اور بے سہارا بوڑھوں کے لئے تسلی بخش قیام کا موجب ہو ورنہ دیندار لوگ تو بہر حال رکیں گے خواہ انہیں اس کے لئے اپنا سب کچھ کھونا پڑے مگر اس بھو کے بیل کی طرح جو ایک چٹیل میدان میں کھڑے ہو کر قریب کے سبز کھیت کی کشش کا مقابلہ نہیں کرسکتا، کمزور لوگ جو عموماً اقتصادی امور کو دینی امور پر زیادہ ترجیح دیتے ہیں آہستہ آہستہ ڈگمگانے شروع ہو جائیں گے.

Page 1026

مضامین بشیر 1+12 پھر اگر سوچا جائے تو قوم میں قربانی کی روح کو ترقی دینے کے لئے بھی اس قسم کا انتظام ضروری ہے جس کے ذریعہ لوگ اپنے پیچھے اپنے اہل وعیال کے گزارے کے متعلق تسلی پائیں.ظاہر ہے کہ وہ شخص جسے یہ خطرہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد میرے بیوی بچے بالکل بے سہارا رہ جائیں گے وہ (سوائے ایسے خاص لوگوں کے جن کی نظر صرف خدا کی طرف ہوتی ہے اور جن کیلئے قربانی بہر حال ان کی روح کی غذا ہے ) کبھی اس دلیری اور جرات کے ساتھ قربانی کی طرف ( ہاں اس قربانی کی طرف جس میں موت و حیات کی بازی لگانی پڑتی ہے ) قدم نہیں اٹھا سکتا جس جرات کے ساتھ کہ وہ شخص قدم اٹھا سکتا ہے جو یہ تسلی رکھتا ہو کہ میرے مرنے کے بعد میرے بیوی بچوں کے گزارے کا سامان موجود ہے.پس اگر غور کیا جائے تو یہ سوال محض اقتصادی سوال ہی نہیں بلکہ حقیقۂ قومی ترقی اور قومی استحکام اور قومی تربیت کا بھی بھاری ذریعہ ہے جس کی طرف سے کوئی زندگی کا عزم رکھنے والی قوم آنکھیں بند نہیں کر سکتی لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم لوگ دوسروں کے پکے پکائے کھانے کی طرف شوق سے لپکتے ہیں خواہ اس میں گو بر ہی ملا ہوا ہو مگر خود اپنی تد بیرا اور اپنی کوشش سے اپنے لئے پاک کھانا پکانے کے واسطے تیار نہیں ہوتے یا خلاصہ کلام یہ کہ : ا.چونکہ بیمہ زندگی کی مروجہ پالیساں میرے علم میں سب کی سب ایسی ہیں جن میں کسی نہ کسی رنگ میں سود اور جوئے کا عصر داخل ہو جاتا ہے اور چونکہ یہ دونوں چیز میں اسلام میں قطعی طور پر نا جائز ہیں اس لئے لازماً ایسی پالیساں بھی جائز نہیں سمجھی جاسکتیں جن میں سود یا جوئے کا عصر شامل ہو.۲.ہاں اگر کوئی ایسی پالیسی ایجاد ہو سکے جس میں ان دو نا جائز عناصر کا دخل نہ ہو تو اس پر ہماری شریعت کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا بلکہ اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جہانتک ممکن ہو ہر مسلمان اپنے مستقبل کی طرف بھی نگاہ رکھے اور اپنے اہل و عیال کو ایسی حالت میں چھوڑ کر نہ جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں..جب تک حکومت کو ان امور میں ضروری مقام حاصل نہیں ہوتا یا جب تک بیمہ کمپنیاں کوئی ایسی پالیسی ایجاد نہیں کرتیں جو سود اور جوئے کے عصر سے پاک ہو اس وقت تک یہ ایک قومی فرض ہے کہ باہم مشورہ سے کوئی ایسا انتظام سوچا جائے جس کی وجہ سے لوگ اپنے پیچھے اپنے اہل وعیال کے گزارے کے متعلق مطمئن ہوں اور نہ صرف وقت آنے پر امن کی موت مرسکیں بلکہ قربانی کی موت کے لئے بھی ہر وقت دلی شوق کے ساتھ تیار رہیں.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين ( مطبوعه الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۵۰ء)

Page 1027

۱۰۱۵ مضامین بشیر سیلاب کی تباہ کاریاں سیالکوٹ سے دو دردناک واقعات کی اطلاع مشرقی اور مغربی پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے جو تبا ہی آئی ہے وہ اس ملک کی تاریخ میں بالکل بے مثال ہے.انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے علاوہ جن کی تعداد بھی کم نہیں ہے.مویشیوں کا نقصان تو بہت زیادہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کی اقتصادی حالت پر کافی اثر پڑنے کا احتمال ہے.اس سے بڑھ کر فصلوں اور غلہ کے ذخیروں کا نقصان ہے.چنانچہ یہ اندازہ کیا گیا ہے کہ صرف سیالکوٹ کے ضلع میں قریباً اسی ہزار من غلہ ضائع ہوا ہے اور چاول کی کھڑی فصل کا نقصان بھی بہت زیادہ ہے.اسی پر دوسرے اضلاع کا قیاس کیا جا سکتا ہے.آئندہ فصل ربیع پر بھی اثر پڑنے کا امکان ہے لیکن غالبا اس تباہی کا سب سے زیادہ مہیب اور خطر ناک پہلو مکانوں اور دیگر عمارتوں اور سڑکوں اور ریلوے لائینوں وغیرہ کا نقصان ہے جس کا حقیقی اندازہ ابھی تک ہو ہی نہیں سکا.کہا جاتا ہے کہ بے شمار دیہات اس سیلاب کے نتیجہ میں صفحہ ہستی سے بالکل نا پید ہو گئے ہیں اور شاید بعض ایسے بھی ہیں جن کا دوبارہ آباد کر نا مشکل ہوگا.الغرض یہ تباہی پنجاب کی تاریخ میں بالکل بے مثال ہے اور گویا حضرت نوح کا زمانہ آنکھوں کے سامنے آ گیا ہے.مغربی پنجاب کے سولہ اضلاع میں سے دس ضلعے اس تباہی کی زد میں آئے ہیں اور بعض ضلعوں کی اقتصادی زندگی کو تو ایسا سخت دھکا لگا ہے کہ انہیں پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں کافی وقت اور بے شمار روپیہ درکار ہوگا.اس لئے ضروری ہے کہ ذی ثروت لوگ جنہیں خدا نے تو فیق عطا کی ہے وہ اس مصیبت کے وقت میں آگے آئیں اور تباہ شدہ لوگوں کی بحالی کے لئے دل کھول کر امداد دیں کیونکہ ایسے غیر معمولی حالات میں صرف حکومت کے ذرائع پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہوتا : ۱۴۸ ومن كان في عون اخيه كان الله في عونه - اس تباہی کے بعض درد ناک پہلو ایسے ہیں کہ انہیں سن کر کسی شخص کا دل پیجے بغیر نہیں رہ سکتا.چنانچہ ابھی کل کی ڈاک میں مجھے سیالکوٹ سے چودھری نثاراحمد صاحب کا خط آیا ہے جو لکھتے ہیں.گزشتہ ایام کے طوفانِ نوح کی وجہ سے سیالکوٹ میں جو تبا ہی نازل ہوئی اس

Page 1028

مضامین بشیر 1+17 کے تصور سے بھی بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں.الحمد للہ یہاں کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے محفوظ رکھا.گو بعض مکانات کو نقصان پہنچا ہے لیکن جانیں خدا کے فضل سے محفوظ رہیں.ضلع کے دیہات تو ہزاروں کی تعداد میں صفحہ ہستی سے نا پید ہو گئے.لوگوں نے تین تین چار چار دن درختوں کے اوپر چڑھ کر بسر کئے.ان میں اکثر سردی اور تکان اور بھوک کی وجہ سے نیچے گر کر طوفان کی نذر ہو جاتے رہے.ایک شخص نے بندے کو بتایا کہ اس کے بوڑھے والدین شدت سردی اور تکان کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے سامنے درخت سے نیچے گرے اور سیلاب میں بہہ گئے.ایک حاملہ عورت کے وضع حمل کا وقت درخت کے اوپر ہی آ گیا.اور وہ بیچاری اس حالت میں اس تکلیف کو برداشت نہ کر سکی اور درخت سے نیچے گر کر سیلاب کی نذر ہو گئی.66 بظاہر یہ ایک محدود رقبہ کے انفرادی واقعات ہیں مگر ان سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ زائد از نصف پنجاب کے طول وعرض میں تباہ حال لوگوں پر کیا کچھ گزری ہو گی.ہر شریف انسان کا دل اس قسم کے واقعات کا حال سن کر پگھلنے لگتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے ان گذشتہ نبیوں کا زمانہ آ جاتا ہے جن کی قومیں ان کے انکار کی وجہ سے خدائی عذاب کا نشانہ بنیں.حضرت نوح اور ھود اور صالح اور لوط کی قوموں پر جو تبا ہی آئی وہ تاریخ کا ایک کھلا ہو اور ق ہے جسے قرآن شریف نے بھی لوگوں کے انذار کے لئے پیش کیا.اسی قسم کی تباہی کا نمونہ گزشتہ سیلاب میں نظر آتا ہے اور اس سیلاب پر ہی حصر نہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ آجکل ساری دنیا مختلف قسم کے عذابوں کا نشانہ بن رہی ہے.ایسے غیر معمولی حادثات میں لوگوں پر دہرا فرض عائد ہوتا ہے.(۱) پہلی دراصل بات یہ ہے کہ وہ اپنی حالت میں اصلاح پیدا کر کے خدا کے ساتھ صلح کرنے کی کوشش کریں اور (۲) دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ مصیبت سے وقتی طور پر محفوظ رہے ہیں وہ اس مصیبت میں مبتلا ہونے والے لوگوں کی کھلے دل سے امداد کریں اور یہ امداد دو طرح کی ہونی چاہئیے.ایک تو اپنے قریب کے ماحول میں مصیبت زدہ لوگوں کی براہ راست مدد کی جائے اور دوسرے ان چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے جن کی حکومت کی طرف سے یا بعض دوسری تنظیموں کی طرف سے تحریک کی گئی ہے.یہ فرض ہماری جماعت پر خصوصیت سے عائد ہوتا ہے.چنانچہ اس وقت تک سلسلہ کی طرف سے گورنر صاحب پنجاب کے امدادی فنڈ میں تین ہزار روپے کی رقم دی جا چکی ہے اور متفرق افراد سلسلہ

Page 1029

مضامین بشیر 1+12 کی رقم اس کے علاوہ ہے لیکن ضرورت ہے کہ دوسرے اصحاب بھی اس کا رِخیر میں حصہ لیں اور بالخصوص اپنے قریب کے ماحول میں مصیبت زدہ اصحاب کی امداد کا انتظام کریں کیونکہ الاقرب فالا قرب کا اصول اسلام میں مسلمہ ہے.اللہ تعالیٰ سب دوستوں کے ساتھ ہوا اور حافظ وناصرر ہے.آمین.( مطبوعه الفضل ۱۰ / اکتوبر ۱۹۵۰ء)

Page 1030

مضامین بشیر ۱۰۱۸ قادیان کے سالانہ اجتماع میں پاکستانی احمدیوں کی شرکت خواہشمند احباب ضروری کوائف کے ساتھ اپنی درخواستیں جلد بھجوائیں گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی قادیان کے سالانہ مذہبی اجتماع کے موقع پر پاکستانی احمدیوں کی ایک پارٹی کے بھجوائے جانے کی تجویز ہے اور اس تعلق میں حکومت مغربی پنجاب سے ضروری انتظامات کے لئے درخواست کی گئی ہے.اگر یہ درخواست منظور ہو گئی تو انشاء اللہ اس سال ایک سو اصحاب کی پارٹی دسمبر ۱۹۵۰ء کے آخری ہفتہ چار پانچ دن کے لئے قادیان جائے گی جو دوست اس پارٹی میں شریک ہونا چاہیں اور سفر خرچ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں انہیں چاہئے کہ اپنے علاقہ کے امیر یا پریذیڈنٹ کے ذریعہ بہت جلد اپنی درخواست ذیل کے پتہ پر بھجوا دیں.درخواست میں مندرجہ ذیل کو ائف ضرور درج کئے جائیں : ا.کیا درخواست کنندہ کا کوئی رشتہ دار اس وقت قادیان میں ہے.اگر ہے تو کون اور اس کے ساتھ درخواست کنندہ کا کیا رشتہ ہے.۲ - درخواست کنندہ کتنے عرصہ سے قادیان نہیں گیا ؟ ۳.اگر درخواست کنندہ کی درخواست منظور کئے جانے کی کوئی خاص وجہ ہو تو اسے درج کیا جائے.۴.درخواست میں اپنا نام اور مکمل پتہ بھی درج کیا جائے.( مطبوعه الفضل ۱۵/اکتوبر ۱۹۵۰ء)

Page 1031

1+19 مضامین بشیر ایک سابق درویش کی وفات سرگودھا سے اطلاع ملی ہے کہ محمود احمد صاحب سابق درویش جو گزشتہ ماہ مئی میں بیمار ہوکر قادیان سے واپس آئے تھے وفات پاگئے.انا للہ وانا اليه راجعون.مرحوم ایک مخلص نوجوان تھا جس نے قادیان کے قیام کا زمانہ اخلاص اور خدمت کے ساتھ گزارا.دوست اپنے مرحوم بھائی کے لئے دعائے مغفرت فرما ئیں.اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے اور اس کے عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین.( مطبوعه الفضل ۲۶/اکتوبر ۱۹۵۰ء)

Page 1032

مضامین بشیر ہے.۱۰۲۰ د و بیمار درویشوں کے لئے دعا کی تحریک قادیان سے اطلاع ملی ہے کہ اس وقت قادیان میں دو درویش زیادہ بیمار ہیں یعنی ا.محمود احمد صاحب کو سل کا شبہ ہے اور وہ زیر علاج ہیں.رفیع الدین صاحب جو چھت پر سے گرنے کی وجہ سے مجروح ہو گئے تھے گو پہلے سے آفاقہ اسی طرح بعض اور درویش بھی بیمار ہیں.سب کے لئے دعا فرمائی جائے کہ اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو.آمین.( مطبوعه الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۰ء)

Page 1033

۱۰۲۱ مضامین بشیر قادیان کے سالانہ اجتماع میں پاکستانی احمدیوں کی شرکت خواہشمند احباب ضروری کوائف کے ساتھ اپنی درخواستیں جلد بھجوائیں گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی قادیان کے سالانہ مذہبی اجتماع کے موقع پر پاکستانی احمد یوں کی ایک پارٹی بھجوائے جانے کی تجویز ہے اور اس تعلق میں حکومت مغربی پنجاب سے ضروری انتظامات کے لئے ایک درخواست کی گئی ہے.اگر یہ درخواست منظور ہوگئی تو انشاء اللہ اس سال ایک سو احباب کی پارٹی دسمبر ۱۹۵۰ء کے آخری ہفتہ میں چار پانچ دن کے لئے قادیان جائے گی.جو دوست اس پارٹی میں شریک ہونا چاہیں اور سفر خرچ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں انہیں چاہئے کہ اپنے علاقہ کے امیر یا پریزیڈنٹ کے ذریعہ بہت جلد اپنی درخواست ذیل کے پتہ پر بھجوائیں.درخواست میں مندرجہ ذیل کوائف ضرور درج کئے جائیں.(۱) کیا درخواست کنندہ کا کوئی رشتہ دار اس وقت قادیان میں ہے.اگر ہے تو کون اور اس کے ساتھ درخواست کنندہ کا کیا رشتہ ہے؟ (۲) درخواست کنندہ کتنے عرصہ سے قادیان نہیں گیا.(۳) اگر درخواست کننده کی درخواست منظور کئے جانے کی کوئی خاص وجہ ہو تو اسے درج کیا جائے.(۴) درخواست میں اپنا نام اور مکمل پتہ بھی درج کیا جائے.( مطبوعه الفضل یکم نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1034

مضامین بشیر ,, ۱۰۲۲ چالیس جواہر پاروں کی تصنیف اور دوستوں سے ضروری گزارش میں کچھ عرصہ سے ”الفضل کے لئے کوئی مضمون نہیں لکھ سکا جس کی یہ وجہ تھی کہ میں ان ایام میں ایک جدید تصنیف ” چالیس جواہر پارے“ کے لکھنے میں مصروف رہا.اس تصنیف میں چالیس چیدہ حدیثوں کا ترجمہ معہ ضروری تشریح درج کیا گیا ہے اور شروع میں مشہور جامعین حدیث کے مختصر سوانح اور ان کی کتابوں کے مجمل حالات اور حدیث کی معروف اصطلاحوں کی ضروری تشریح درج کی گئی ہے.کتاب کا حجم قریباً ایک سو صفحے ہے اور امید ہے کہ یہ کتاب انشاء اللہ اس جلسہ سالانہ پر چھپ کر شائع ہو جائے گی.اس مجموعہ میں ۴۰ کا عدد اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ ایک حدیث میں ہمارے آقا صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص میری چالیس حدیثیں جمع کر کے میری امت کے لئے محفوظ کر دے گا.میں قیامت کے دن اس کے حق میں شاہد اور شفیع ٹھہروں گا.سو میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ میں بھی اس عظیم الشان برکت نبوی سے حصہ پانے کی کوشش کروں.وما توفيقنا الا بالله العظيم.یہ چالیس حدیثیں صحاح ستہ اور مؤطا امام مالک اور مسند احمد سے لی گئی ہیں اور انتخاب میں یہ اصول مد نظر رکھا گیا ہے کہ فقہی مسائل کی بجائے انفرادی اور قومی اصلاح اور ملی ترقی والی حدیثوں کو ترجیح دی جائے.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میری اس تصنیف کو قبولیت کا درجہ عطا فرما کر میری مغفرت اور لوگوں کے فائدہ کا ذریعہ بنا دے.آمین یا ارحم الرحمین.جو دوست اس مجموعہ کو خریدنا چاہیں وہ اعلان ہونے پر پبلشر کو لکھیں.میں تو صرف ثواب کی خاطر کتاب لکھتا ہوں اور اپنا نسخہ بھی پیسے دے کر خریدتا ہوں.الغرض کچھ تو اوپر کی تصنیف کی وجہ سے اور کچھ بعض دوسری مصروفیتوں کی وجہ سے میں گزشہ ایام میں الفضل کے لئے کوئی مضمون نہیں لکھ سکا اور اس عرصہ میں بعض وہ خطوط بھی محفوظ نہیں رہے جو مختلف دوستوں کی طرف سے میرے نام آئے تھے اور ان میں مختلف سوالوں کا جواب پوچھا گیا تھا.سو اگر

Page 1035

۱۰۲۳ مضامین بشیر ایسے دوست مجھے اپنا سوال دوبارہ لکھ کر بھجوا دیں تو میں انشاء اللہ حسب توفیق ان کا باری باری جواب دینے کی کوشش کروں گا.جو خطوط میرے پاس اس وقت محفوظ ہیں ان کے لکھنے والوں کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں.لہذا صرف ایسے دوست اپنے سوالوں کو دہرائیں جو ان کے علاوہ ہیں : (۱) غلام نبی صاحب مبلغ جھانسی ہندوستان.قرآن کریم میں حضرت موسیٰ اور دوسرے نبیوں کا ذکر متفرق طور پر پھیلا کر کیوں کیا گیا ہے اور حضرت یوسف کے ذکر کی طرح ایک ہی جگہ کیوں نہیں کر دیا گیا.(۲) سید شاہ احمد صاحب ہمدانی ربوہ.کیا افسانہ نویسی جائز ہے یا نہیں اور افسانوں میں سے کون سے افسانے جائز سمجھے جائیں اور کون سے ناجائز ؟ نماز میں خدا کا تصور کس طرح کیا جائے ؟ (۳) سید محمد شاہ صاحب سیفی کشمیر.امیر معاویہ نے خلیفہ برحق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگیں لڑیں.اس لئے امیر معاویہ کے متعلق کیا خیال رکھا جائے.اسلام میں پوتے پوتی کے ورثہ کا کیا حکم ہے.شق القمر کے معجزہ اور شب برات کے احترام کی کیا حقیقت ہے؟ (۴) محمد اقبال صاحب کراچی.قیامت کے وقت اور اسلامی شریعت کے دائی ہونے کے متعلق اسلامی نظریہ کیا ہے؟ (۵) خورشید بیگم صاحبہ ماڈل ٹاؤن.ہاتھ کی لکیروں کی کیا حقیقت ہے.اگر بے حد دعاؤں کے بعد بھی مقصد میں ناکامی ہو تو کیا سمجھا جائے؟ (۶) تا ثیر صاحب کراچی.اگر کسی کو اپنی بیوی سے زیادہ محبت ہو تو کیا اس پر بھی جنت میں حور ٹھونسی جائے گی ؟ کمیونسٹ سوال کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام کو کافی لمبے زمانہ کے بعد سیاسی غلبہ حاصل ہوا مگر اشتراکیت نے نسبتاً جلد غلبہ پالیا ؟ (۷) شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ سوئٹزر لینڈ.مسیحی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام نے دفاعی جنگیں لڑیں مگر سپین اور آسٹریا وغیرہ کے حملوں میں کونسا دفاعی پہلو تھا ؟ اسلام مساوات کا مدعی ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ طلاق کا اختیار تو مرد کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے مگر خلع کے لئے عورت کو قاضی کے سامنے جانا پڑتا ہے؟ (۸) ڈاکٹر محمد عمر صاحب جے پور ہندوستان.اگر اسلام میں چہرہ کے پردہ کا حکم ہے تو حج کے موقعہ پر مسلمان عورتیں کیوں بے نقاب رہتی ہیں؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ چہرہ پردہ میں شامل نہیں ؟

Page 1036

مضامین بشیر ۱۰۲۴ (۹) عزیز محمد خان صاحب بہاولپور.ایک غیر احمدی مصنف کا سوال ہے کہ کیا صرف قرآنی احکام ہی دائمی ہیں یا کہ حدیث میں درج شدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی دائمی سمجھے جانے ضروری ہیں؟ کیوں نہ رسول کے احکام کو وقتی حالات کے تابع سمجھ کر شریعت کے اس حصہ کو موجودہ حالات میں قابل نظر ثانی قرار دیا جائے؟ (۱۰) ڈاکٹر سید رشید احمد صاحب کوئٹہ.اشد مخالفین کے لئے جن کی مخالفت انتہاء کو پہنچ گئی ہو تباہی کی دعا کرنی بہتر ہے یا کہ ہدایت کی ؟ (۱۱) میر مسعود احمد صاحب کراچی.میرے مضمون بیمہ زندگی کے متعلق بعض استفسارات اور بیمہ کے حق میں جذباتی اپیل.اگر اوپر کی فہرست میں کسی دوست کا ذکر رہ گیا ہو تو وہ مہربانی فرما کر اپنا سوال دوبارہ ارسال فرما دیں.میں انشاء اللہ باری باری اپنے وقت کی گنجائش اور دیگر حالات کے ماتحت جواب دینے کی کوشش کروں گا اور ضرور نہیں کہ اوپر کی ترتیب ملحوظ رکھی جائے مگر یہ خیال رہے کہ مجھ سے کوئی ایسا سوال نہ پوچھا جائے جس کے جواب میں شرعی فتویٰ کا رنگ پیدا ہوتا ہو کیونکہ اس کے لئے مفتی سلسلہ احمد یہ ربوہ کولکھنا چاہئیے.نیز آجکل کچھ پریشانیاں لاحق ہیں ان کے دور ہونے کے لئے دوستوں سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے فکر و کرب کو اپنے فضل و رحم سے دور کر کے خدمت اور برکت کی زندگی عطا فرمائے اور نیک مقاصد کو پورا فرماتے ہوئے انجام بخیر کرے.میں سب دوستوں کے لئے دعا گو ہوں.( مطبوعه الفضل ۳ / نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1037

۱۰۲۵ مضامین بشیر احباب کی دعاؤں کا شکریہ میرے لڑکے مبشر احمد سلمہ کی شادی کے تعلق میں بہت سے احباب نے زبانی یا خط یا تار کے ذریعہ مبارکباد کی دعا کا ہدیہ بھیجا ہے جو ایک مومن کے لئے ایسے موقع پر بہترین ہدیہ ہے.میں ان سب دوستوں کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہوں اور ان کے لئے صمیم قلب سے دعا گو ہوں.اللہ تعالیٰ انہیں بہتر سے بہتر جزاء دے اور ان کو اور ان کے عزیزوں کو دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے اور حافظ و ناصر ہو.آمین یا ارحم الرحمین.نیز دوستوں سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ آئندہ بھی ہمیں اپنی مخلصانہ دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا حافظ و ناصر ہو.ہماری کمزوریوں کوتاہیوں پر مغفرت کا پردہ ڈالے.ہمارے گناہ بخشے.ہمیں اپنے فضل و رحم کے سایہ میں رکھے.ہمیں خدمت دین کی توفیق دے.ہمیں اپنی رضا کے رستوں پر چلائے اور ہمارا انجام بخیر کرے.ایں نست کام دل اگر آید میترم ( مطبوعه الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1038

مضامین بشیر خدائے اسلام کا زبردست انتقام سپین کی زمین اسلام کے انتقام کی پیاسی ہے قرآن شریف اور حدیث میں خدا تعالیٰ کی بہت سی صفات بیان کی گئی ہیں جن کے لئے قرآن کریم نے اسماء حسنی ( یعنی عمدہ اور خوبصورت صفات ) کا مبارک نام تجویز فرمایا ہے کیونکہ خدا کی تمام صفات خواہ وہ رحمت کی ہوں یا غضب کی بہر حال وہ بحیثیت مجموعی مخلوق کی ہی اصلاح اور بہتری اور ترقی کا موجب ہوتی ہیں.اسی لئے ایک حدیث قدسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا نے محمد سے فرمایا ہے کہ ان رحمتی غلبت غضبی : یعنی میری رحمت میرے غضب پر محمد : د غالب ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جن باتوں میں بظاہر خدا کے غصہ کا اظہار ہوتا ہے.دراصل غور کیا جائے تو ان میں بھی اس کی رحمت کا پہلو ہی غالب ہوا کرتا ہے اسی قسم کی صفات میں خدا کی ایک صفت ذ وانتقام اور منتظم ہے یعنی انتقام لینے والا خدا.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے: إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ 6 ۱۵۰ د یعنی خدائے اسلام غالب خدا ہے اور مجرم کو بغیر انتقام کے نہیں چھوڑتا“ اور دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ ۱۵۱ یعنی ہم مجرموں سے انتقام لے کر رہتے ہیں.“ خدا کی یہ صفت انتقام ایسے باریک در بار یک رنگ میں کام کرتی ہے کہ بعض صوفیاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ بسا اوقات خدا کے نیک بندے بھی اس صفتِ الہی کی زد میں آنے سے محفوظ نہیں ہتے.بے شک عفوا ور درگزر کے ذریعہ کسی کا بچ جانا اور بات ہے ورنہ اگر کوئی نیک انسان بھی کسی دوسرے شخص کو کوئی نا واجب دکھ پہنچاتا ہے تو خدائے منتقم کی صفت انتقام اپنے مخفی اور بار یک در بار یک قانون کے ذریعہ کسی نہ کسی طریق پر کسی نہ کسی رنگ میں اس کا بدلہ لے کر چھوڑتی ہے.حق یہ ہے کہ اسلام کا خدا اسلام کے لئے اور مسلمانوں کی جماعت کے لئے بلکہ ہر سچے مسلمان فرد کے لئے عجیب قسم کی غیرت رکھتا ہے اور گو وہ بسا اوقات عفو سے بھی کام لیتا ہے اور پردہ پوشی بھی فرماتا ہے لیکن

Page 1039

۱۰۲۷ مضامین بشیر بعض اوقات اس پر دہ پوشی کے پردہ میں بھی اس کے انتقام کی مخفی تاریں اپنا خاموش کام کرتی چلی جاتی ہیں لیکن اس کی غیرت سب سے زیادہ جوش میں اس وقت آتی ہے جبکہ کوئی ظالم انسان اس کے قائم کئے ہوئے دین اور قائم کی ہوئی جماعت پر ظلم کا ہاتھ اٹھا کر انہیں مٹانے کے درپے ہوتا ہے.تاریخ اسلام کا یہ ایک کھلا ہو اور ق ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر و کسری کے نام تبلیغی خطوط روانہ کئے تو اس پر بد بخت کسری نے تو غصہ میں آکر آپ کا مکتوب مبارک پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا لیکن قیصر نے زیادہ شرافت دکھائی اور گو اس نے اپنے ماحول کے ڈر کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا مگر گستاخی کا رنگ بھی اختیار نہیں کیا بلکہ بعض تائیدی الفاظ بھی زبان پر لایا.روایت آتی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دو غیر مسلم فرمانرواؤں کے رویہ کے متعلق اطلاع پہنچی تو آپ نے فرمایا: اما هؤلاء لا فيمزقون و اما هو لاء فسيكون لهم بقيه | د یعنی اب کسری کی حکومت تو فوراً پاش پاش کر دی جائے گی لیکن قیصر کی حکومت کو ۱۵۲ کچھ مہلت ملے گی.“ چنانچہ یہی ہوا کہ خدائے ذوانتقام نے کسریٰ کی عظیم الشان حکومت کو جس کے رعب کے سامنے آدھی دنیا کا نپتی تھی مسلمانوں کی بے سروسامان مٹھی بھر فوج کے سامنے اس طرح بکھیر کر رکھ دیا جس طرح کہ ایک تیز آندھی کے سامنے جنگل کا خس و خاشاک اڑتا ہے اور دوسری طرف قیصر کی حکومت مسلمانوں کے پے در پے حملوں سے بہت سا نقصان اٹھانے کے باوجو د سینکڑوں سال تک قائم رہی.کسری کے لئے خدا کا جذبہ انتقام جوش میں تھا جس نے اس کے عظیم الشان محل کو ایک ہی ضرب سے خاک میں ملا دیا اور قیصر کے لئے خدا کی ذرہ نواز رحمت آڑے آئی اور گرتے گرتے قصر پر بھی سینکڑوں سال کی مہلت مل گئی.ان دونوں حکومتوں کی تقدیر میں ایک طرف خدائے منتظم اور دوسری طرف خدائے علیم کی مخفی تاریں کام کر رہی تھیں اور بالآخر وہی ہوا جس کی رسول خدا نے خبر دی تھی.اسی قسم کا ایک واقعہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی ملتا ہے.افغانستان کی حکومت نے ( جو آجکل بدقسمتی سے پاکستان کے درپے ہو کر اپنے آپ کو خراب کر رہی ہے ) امیر حبیب اللہ خان کے عہد میں جماعت احمدیہ کے ایک نامور بزرگ صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کو محض احمد یہ عقائد کی وجہ سے انتہاء درجہ ظالمانہ حالات میں سنگسار کرا دیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے خدا سے علم پا کر پیشگوئی فرمائی کہ اس ظلم کی وجہ سے کابل کی مملکت میں ایک تباہی رونما ہوگی.چنانچہ صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد کا بل اور اس کے گرد و نواح میں ایسا خطرناک ہیضہ پھوٹا کہ

Page 1040

مضامین بشیر ۱۰۲۸ ہزاروں لوگ اس کا شکار ہو گئے اور پھر جب امیر امان اللہ خان کے عہد میں مولوی نعمت اللہ صاحب احمدی کو شہید کر کے اس ظلم کا اعادہ کیا گیا تو ابھی اس ظلم پر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ امان اللہ خان کے خاندان کی صف ہی لپیٹ دی گئی.فاعتبروا یا اولی الابصار - الغرض نیک بندوں اور نیک جماعتوں کے خلاف ظلم کرنے والوں کے مظالم کا انتقام لینا خدا کی از لی سنت کا حصہ ہے جس کی مثالیں دنیا کے ہر زمانہ اور تاریخ کے ہر دور میں ملتی ہیں اور ملتی چلی جائیں گی کیونکہ جس طرح خدا ازلی ہے اسی طرح اس کی صفات بھی از لی ہیں اور اس کے نیک بندوں پر ظلم کر کے کوئی شخص بچ نہیں سکتا اور ضرور کسی نہ کسی رنگ میں کسی نہ کسی وقت پر پکڑا جاتا ہے.مگر اس جگہ مجھے ایک خاص غرض کے ماتحت اسلام کی تاریخ میں سے دو ایسی دردناک مثالیں پیش کرنی ہیں جو مسلمانوں کی دو بڑی تباہیوں سے تعلق رکھتی ہیں.جن میں سے ایک کا انتقام خدائے منتقم کا زبر دست ہاتھ لے چکا ہے اور دوسری کے متعلق ابھی انتظار ہے.میری مراد تیرھویں صدی عیسویں میں بغداد کی تباہی اور پندرھویں صدی عیسوی میں سپین سے مسلمانوں کا اخراج ہے.یہ دونوں تباہیاں اسلام کی تاریخ میں ایسی نمایاں اور ایسی بھیانک ہیں کہ ان کا حال پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور ہر غیرت مند مسلمان کا خون جوش مارتا اور دل جائز ولولہ انتقام سے بھر جاتا ہے.بنی امیہ کی سلطنت کے زوال کے بعد بغداد کا شہر اسلامی حکومت کا صدر مقام بنا تھا اور خلفاء بنی عباس کے زمانہ میں اس شہر نے اتنی حیرت انگیز ترقی کی کہ آجکل کی مخصوص ایجادوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ اس وقت کی دنیا کا سب سے زیادہ شاندار، سب سے زیادہ آبا دا ور علوم وفنون کا سب سے بڑا مرکز تھا اور اس کا غلغلہ مشرق و مغرب کے دور دراز کونوں تک پہنچتا اور دوست و دشمن کے دلوں کو رعب اور ہیبت سے لرزہ بر اندام کرتا تھا اور گو آہستہ آہستہ عباسیہ سلطنت میں زوال آنا شروع ہو گیا مگر اس شہر کی آبادی تقریباً مسلسل بڑھتی گئی.حتی کہ وہ بیس لاکھ نفوس تک پہنچ گئی جو اس زمانہ کے لحاظ سے حقیقۂ حیرت انگیز تھی.اس وقت چین اور ماور النہر کے میدانوں سے تاتاری اور منگولی قبائل جو وحشت اور خونریزی کا مجسمہ تھے ایک کالی گھٹا کی صورت میں اٹھنا شروع ہوئے جس کے ہیبت ناک بازوؤں پر چنگیز خان کی بربریت سوار تھی اور اس کا لی بلانے دیکھتے ہی دیکھتے ساری فضاء کو گھیر لیا اور گوخود چنگیز خاں کو اپنی زندگی میں بغداد پر حملہ کرنے کا موقعہ نہیں ملا مگر وہ اپنی اولاد کے لئے اتنا رستہ صاف کر چکا تھا کہ اس کے جلد بعد ہی اس کے لڑکے ہلاکو خاں نے آندھی اور طوفان کی طرح بڑھ کر بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور نہ صرف عباسیہ خاندان تہ تیغ ہوا بلکہ بغداد کی ہیں لاکھ مسلمان آبادی میں سے سولہ لاکھ مسلمان منگولی لاؤ لشکر کی وحشیانہ تلوار اور خون آشام تیر وستان کا شکار

Page 1041

۱۰۲۹ مضامین بشیر ہو کر خاک میں مل گئے اور جو لوگ ادھر ادھر چھپ کر بچے انہیں دریا کا بند تو ڑ کر تہہ خانوں میں بند کر دیا گیا.جانیں تلف ہوئیں.جائیداد میں لٹیں.عزتیں مٹیں.کتب خانے برباد ہوئے اور نہ معلوم کتنی عصمتیں خاک میں مل گئیں اور دنیا کا یہ مرکز اعظم ایک آن واحد میں مٹی کا ڈھیر بن کر رہ گیا.یہ تباہی تاریخ عالم میں بے نظیر تھی اور گو یہ مسلمانوں کے اپنے ہی اعمال کا ثمر تھی مگر کافر کے ہاتھوں مسلمان کی تباہی کا یہ نظارہ ایسا ہولناک تھا کہ اس کے تصور سے آج بھی آنکھیں نیچی ہونے لگتی ہیں مگر جس برق رفتاری سے یہ طوفان اٹھا تھا اسی برق رفتاری سے خدا کا انتقام بھی آیا اور دیکھو کہ کس شان سے آیا.ہاں دیکھو کہ کس شان سے آیا کہ ہلاکو خاں بت پرست فاتح کا فر کا لڑکا چند سال کے اندر جبکہ ابھی اس فتح کا خمار بھی نہیں اترا تھا کلمہ پڑھ کر اور فاتح سے مفتوح بن کر اسلام کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو گیا.یہ بغداد کی تباہی کا پہلا انتقام تھا اور دوسرا انتقام اس طرح لیا گیا کہ منگولی قبائل کے چچا زاد بھائیوں یعنی مغلوں میں سے خدا نے اس آخری زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیدا کیا تا آپ کے ذریعہ اسلام کے دائمی غلبہ اور اس کی شان وشوکت کے دوسرے دور کی بنیا د قائم کی جائے.پس بے شک بغداد تباہ ہوا اور اسلام کی ظاہری شان وشوکت پر بڑی مصیبت آئی مگر اس کے انتقام نے بھی وہ فوق العادت شان اختیار کی جو دنیا کی تاریخ میں عدیم المثال ہے اور ہمیشہ عدیم المثال رہے گی.دوسری بڑی تباہی سپین یعنی ہسپانیہ کی ہے ابھی غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ زندہ ہی تھے کہ مسلمان مجاہد شمالی افریقہ کے رستہ سپین کے ملک میں جو یورپ کا ایک اہم حصہ ہے داخل ہوئے اور فاتحانہ یلغار کرتے ہوئے فرانس کی حدود تک پہنچ گئے اور اس کے بعد سپین میں اسلامی حکومت کا وہ دور شروع ہوا جو بعض لحاظ سے اسلام کی تاریخ کا سب سے زیادہ سنہری ورق ہے.مسلمانوں نے سات آٹھ سو سال تک سپین میں وہ شاندار حکومت کی جس کی شعاعیں آج تک دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں.یہ حکومت صرف تلوار کی حکومت نہیں تھی بلکہ دل کی حکومت تھی.دماغ کی حکومت تھی.علم کی حکومت تھی.عمل کی حکومت تھی.تہذیب کی حکومت تھی.تمدن کی حکومت تھی.فن حدیث کو چھوڑ کر جس کے لئے مدینتہ النبی کا قرب خاص مناسبت رکھتا تھا باقی سارے علوم میں سپین کے عربوں نے وہ شاندار ہستیاں پیدا کیں جو دیکھتے دیکھتے دنیا کی معلم بن گئیں اور آج تک دنیا کا لٹریچر ان کی بے مثل تصانیف کا مرہون منت ہے یورپ کے علماءاور فلاسفر اور حکیم خوشہ چین بن بن کر سپین میں آتے تھے اور عرب مفکروں کے سامنے زانوئے تلمیذی طے کر کے اپنے نوشتہ دانوں کو علم کے ذخیروں سے بھر بھر کر واپس لے جاتے تھے.تفسیر، فقہ، تاریخ ، فلسفه، طب ، علم ، جراحی علم ، جغرافیہ،

Page 1042

مضامین بشیر ۱۰۳۰ علم ہیئت اور علم ریاضی وغیرہ میں یورپ کے شاگردوں نے سپین کے عرب استادوں کی کتابیں پڑھیں اور پھر اپنی زبانوں میں ان کے ترجمے چھاپ کر اپنی قوموں کو علم کی روشنی پہنچائی.فن تعمیر میں ہسپانیہ کے عربوں نے وہ کمال پیدا کیا کہ جب سپین کی عیسائی اقوام نے آٹھ سو سال کی محکومی کے بعد اپنے مسلمان فاتحین کو اپنے ملک سے نکالا اور اپنے غیظ و غضب کے اندھے جوش میں عربوں کی ہر چیز کو مٹا کر رکھ دیا تو اس وقت بھی ان کے ظلم کا ہاتھ اپنے ملک کی زینت کے خیال سے بعض ان عمارتوں کے خلاف نہ اٹھ سکا جو عربوں نے ان کے ملک میں تعمیر کی تھیں.چنانچہ غرناطہ کا بے مثل قصر الحمراء اور قرطبہ کی شاندار مسجد اب تک سرزمین سپین میں عربوں کے زمانہ حکومت کی مرثیہ خوانی کر رہی ہیں ، لیکن غالباً سپین میں عرب حکومت کی سب سے بڑی فضیلت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ جب سپین کا فاتح عرب دو سو سال کی طویل لڑائی کے بعد بالآخر سپین سے نکالا گیا تو اس وقت اس کی پسپائی پر رونے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ یورپ کی عیسائی اقوام بھی شامل تھیں.انہوں نے ایک طرف مذہبی تعصب کے جوش میں مسلمانوں کے پین سے نکلنے پر خوشی منائی اور دوسری طرف اس بچی شہادت کے ساتھ اپنی کتابوں کے اوراق بھر دیئے کہ سپین کے مسلمانوں کا اخراج ملک کے لئے ایک بہت بڑی تباہی تھی.ایک عیسائی مورخ کے یہ الفاظ ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ آیا سپین کے عیسائیوں نے مسلمانوں کو اپنے ملک میں سے نکال کر اپنی آزادی کی صورت میں زیادہ انعام پایا یا کہ عربوں کے علوم و فنون کو کھو کر زیادہ نقصان برداشت کیا.یہ ایک دشمن کی شہادت ہے والفضل ما شهدت به الاعداء.لیکن اسپین میں اسلامی حکومت کی تباہی کا تلخ ترین پہلو یہ ہے کہ وہاں اسلامی حکومت کے اختتام کے ساتھ ہی اسلام کا بھی خاتمہ ہو گیا.چنانچہ اب پین کے وسیع جزیرہ نما میں ایک ملکی مسلمان متنفس بھی نظر نہیں آتا.عربی زبان کے آثار باقی ہیں.عربوں کی مخلوط نسل کے وہ لوگ بھی کافی مقدار میں موجود ہیں جنہیں بعد میں جبر عیسائی بنالیا گیا.عرب عمارتوں اور عربوں کی بنائی ہوئی نہروں اور ریلوں اور باغات کے نشان بھی نظر آتے ہیں مگر نہیں نظر آتا تو اللہ کا مسلمان بندہ اور نہیں نظر آتا تو محمد ( صلعم ) کا نام لیوا اور یہ وہ ملک ہے جس کا چپہ چپہ خدائے واحد کے نام سے صدیوں تک گونجتا رہا ہے اور جس کے غالباً ہر شہر اور ہر قصبہ کی زمین محمد رسول اللہ کے غلاموں کے سجدوں سے مزین ہوئی ہے.سپین کے علاوہ جس جس ملک میں بھی مسلمانوں کو دھکا لگا وہاں بہر حال کسی نہ کسی صورت میں اسلام باقی رہ گیا.بغداد مٹا تو پھر بھی اس کی آبادی بدستور اسلام کی حلقہ بگوش رہی.بلغاریہ اور البانیہ سے مسلمان پیچھے ہے تو پھر بھی ان ملکوں میں اسلام کے نام لیواؤں کا ایک حصہ باقی رہا.ہندوستان میں مغلوں کی

Page 1043

۱۰۳۱ مضامین بشیر حکومت پر تبا ہی آئی تو پھر بھی دس کروڑ مسلمانوں کا ورثہ اپنے پیچھے چھوڑ گئی جو آج پاکستان کی گدی سنبھالے بیٹھے ہیں مگر جب اسلام سپین سے نکلا تو گویا اس کی جڑوں اور شاخوں اور پتوں اور پھولوں اور پھلوں سب پر تبا ہی آگئی اور اس تباہی کا سب سے زیادہ دردناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک یہ ہولناک آبادی بے انتقام پڑی ہے.بغداد نے اپنا انتقام لے لیا اور لے رہا ہے.ہندوستان نے بھی اپنا انتقام اولاً مسلمان آبادی کی صورت میں اور پھر پاکستان کی صورت میں لے کر کچھ اشک شوئی کر لی ہے مگر سپین ، ہمارا سپین ، اسلامی حکومت کی آنکھ کا تارا سپین ، بے انتقام پڑا ہے.سپین کی زمین ابھی تک اسلام کے انتقام کی پیاسی ہے.کیا خدائے اسلام جس نے اپنی کتاب میں اپنا نام خود ذ وانتقام رکھا ہے.سپین کو بھول گیا ؟ کیا اس نے سپین کے ان سینکڑوں ہزاروں علماء دین کو فراموش کر دیا جن کے نام اب تک علم و حکمت کے آسمان پر ستارے بن کر چمک رہے ہیں اور جن کی ہڈیاں پین کے شہروں میں پیوند خاک ہیں؟ کیا ان لاکھوں مسلمان شہیدوں کے خون کی چھینٹیں ابھی تک عرش خدا وندی تک اڑ کر نہیں پہنچیں جنہوں نے اپنے خون کے دھارے سے پین کی زمین میں اسلام کا رستہ کھولا اور پھر آٹھ سو سال کی بے مثل حکومت کے بعد خون کے دریا میں نہاتے ہوئے پیچھے ہٹ آئے ؟ یہ کبھی ہو نہیں سکتا.یہ ہمارے خدائے منتقم کی صفات ازلی کے خلاف ہے.یہ الاسلام يـعـلـو ولا یعلی کا ایسا صریح بطلان ہے جسے خدائے اسلام کی غیرت کبھی برداشت نہیں کر سکتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا اب تک سپین کے معاملہ میں خاموش ہے؟ اس کی وجہ :- مجھ سے سنو جو گوشِ نصیحت ہوش ہے“ اسلام کا خدا، ہمارا خدا قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جنگ کے میدان میں کوئی سچی اسلامی فوج دشمن کے سامنے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی سوائے ان دو معین صورتوں کے کہ : مُتَحَرْفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيْرًا إِلى فِئَةٍ ۱۵۳ و یعنی ایک اسلامی فوج یا تو جنگی تدبیر کے طور پر میدان بدلنے کی غرض سے پیچھے ہٹ سکتی ہے اور یا کسی اور اسلامی فوج اور کسی اور مسلمان جرنیل کے ساتھ مل کر مقابلہ کرنے کی نیت سے پیچھے آسکتی ہے.اس کے سوا کوئی تیسرا رستہ نہیں.“ اب بات صاف ہے کہ بغداد اور بلغاریہ اور ہندوستان میں تو خدائے اسلام نے مُتَحَرِّفا تقبال کے نسخہ پر عمل کیا اور ایک میدان سے فوجیں ہٹا کر دوسرے میدان میں ڈال دیں.اس طرح اگر اسلامی عظمت کا ایک نشان مٹا تو دوسرا نشان قائم رہا لیکن سپین کے معاملہ میں خدائے ذوالجلال و ذوالجلال مُتَحَيَّزًا إلى فِئَةٍ کے نسخہ پر عمل کرنا چاہتا ہے.یعنی سپین کے متعلق ایک نئے اسلامی

Page 1044

مضامین بشیر لشکر اور نئے مسلمان جرنیل کے ساتھ جوڑ ملا کر حملہ کرنے کی سکیم بنائی گئی ہے اور یہ نیا جرنیل مسیح موعود ہے اور یہ نیا لشکر جماعت احمدیہ ہے جس کے ہاتھ سے سپین کا انتقام ازل سے مقدر ہو چکا ہے اور پھر جماعت احمدیہ میں سے یہ ذمہ داری خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل پر زیادہ عائد ہوتی ہے جس نے حضرت مسیح موعود کا دہر اور نہ پایا.جسمانی بھی اور روحانی بھی.پس جیسا کہ میں نے آج سے قریباً دو اڑھائی سال قبل ” اے ابنائے فارس“ کے عنوان کے ماتحت اپنے ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل کو مخاطب کیا تھا آج پھر کہتا ہوں کہ: اے ابنائے فارس ۱۵۴ تم پر اسلام کے انتقام کی دہری ذمہ داری ہے.تم نے ہر اس سرزمین کو دوبارہ فتح کرنا ہے جو اسلام کے ہاتھوں سے چھینی جاچکی ہے اور تم نے ہر اس نئی زمین میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے جو آج تک اس مبارک جھنڈے کی برکتوں سے محروم ہے.پس اٹھو اور کمر ہمت کسو کہ یہ تمہارا کام ہے اور اگر تم نے سستی یا غفلت نہ دکھائی تو انشاء اللہ یہ قلعہ تمہارے ہاتھ پر ہی سر ہو گا لیکن یا درکھو کہ اسلام کا یہ دور جس کے تم وارث بنے ہو جمال کا دور ہے اس لئے خواہ دشمن کے پیدا کئے ہوئے حالات کی مجبوری کے لئے تمہیں کبھی کبھی جلال کے رستوں ہونگے اور تمہارا اصل رستہ جمال کا رستہ ہے جس میں روحانیت کے زور اور دلائل کی قوت اور براہین کی روشنی سے دشمن کو زیر کیا جاتا ہے.چنانچہ یہ قرآنی آیت مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق ہی ہے کہ هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ یعنی خدا نے اپنا یہ رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا وہ اسے دنیا کے تمام دینوں کے مقابل پر غالب کر دکھائے اور قریباً تمام مفسرین نے اتفاق کیا ہے کہ اس وعدہ کی پوری تکمیل مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ وابستہ ہے.پس ضروری ہے کہ اس کام میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تم اپنے آپ کو ہدایت اور دین حق سے اچھی طرح آراستہ اور مسلح کرو.یعنی پہلے خود ہدایت اور دین حق پر قائم ہو اور پھر اپنے اندر وہ جو ہر اور وہ تیاری پیدا کرو جو دوسروں کے دلوں کو مغلوب کرنے کے لئے ضروری ہے.خدائے علیم و قدیر کی تقدیر تمہارے ساتھ ہے اور خدا کی تقدیر کے ہوتے ہوئے جو شخص خود اپنی بدتر بیری سے اپنے لئے ناکامی کا سامان پیدا کرتا ہے اس سے بڑھ کر بد قسمت انسان کون ہوگا ؟ یا درکھو کہ کامیاب تبلیغ کے لئے پانچ باتیں نہایت ضرری ہیں جن کے بغیر نہ تو تبلیغ کرنے والے مبلغ کا دل و دماغ تبلیغ کی اہلیت حاصل کرتا ہے اور نہ اس شخص کے دل و دماغ کی کھڑکی کھلتی ہے جسے

Page 1045

۱۰۳۳ مضامین بشیر تبلیغ کی جاتی ہے اور یہ پانچ باتیں یہ ہیں :- (۱) علم کی تکمیل یعنی دین اور اس کے لوازمات کا تفصیلی علم حاصل کرنا.(۲) علم کی درستی یعنی اپنے معتقدات کے مطابق سچا عمل رکھنا.(۳) روحانیت کا حصول یعنی خدا سے ذاتی تعلق پیدا کرنا اور دعا کی عادت ڈالنا.(۴) جوش تبلیغ یعنی کلمہ حق پہنچانے کے لئے دل میں در داور سینہ میں ولولہ پیدا کرنا.(۵) پیرا یہ تبلیغ یعنے پیغام حق کو احسن اور دلکش پیرا یہ میں پہنچانا.پر جس شخص کو یہ پانچ باتیں حاصل ہو جائیں وہی اسلام اور احمدیت کا سچا مبلغ ہے اور ایسے شخص کے تبلیغی حملہ کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت ٹھہر نہیں سکتی.اس کا ایک ایک وار دشمن کی صف بکھیرتا اور اک ایک ضرب دشمن کے کیمپ میں کھلبلی پیدا کر دیتی ہے.تلوار کا کانا بچ سکتا ہے اور بسا اوقات ظاہر میں مغلوب ہو کر دل میں انتقام کا جذ بہ بھی پیدا کر لیتا ہے مگر روحانی تیروں سے زخمی ہونے والا شخص اور علم کی تلوار سے کاٹا جانے والا انسان ہمیشہ کے لئے مارنے والوں کے قدموں میں گر کر اسی کا ہو جاتا ہے.پس اے ابنائے فارس! گو ہر سچا احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا روحانی فرزند اور تمہارا دینی بھائی ہے مگر چونکہ تم نے دوہر اور شہ پایا ہے اس لئے تم دہری ذمہ داری کے نیچے ہو.پس اٹھو اور حسن دین اور حسن اخلاق اور حسن جمال سے آراستہ ہو کر میدان میں آؤ کہ دنیا کی قومیں تمہارا راہ دیکھتی ہیں اور سپین کی زمین تمہارے روحانی انتقام کی پیاسی ہے.( مطبوعه الفضل ۲۱ / نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1046

مضامین بشیر ۱۰۳۴ اطال الله بقاءها حضرت ام المؤمنین کے لئے خاص دعاؤں کی تحریک حضرت امان جان ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا کی صحت کچھ عرصہ سے بہت گر گئی ہے اور کمزوری دن بدن بڑھ رہی ہے.بے شک عمر بھی زیادہ ہے کیونکہ اس وقت ان کی عمر قریباً پچاسی سال کی ہے وہ ۱۸۸۴ء میں اٹھارہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بیاہی گئی تھیں ) اور عمر کے نتیجہ میں صحت کا گرنا اور کمزوری کا بڑھنا ایک طبعی امر ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے حضرت امان جان کی صحت میں غیر معمولی فرق آیا ہے اور طبیعت زیادہ مفعمل رہنے لگ گئی ہے.پس میں تمام مخلصین جماعت سے عرض کرتا ہوں کہ وہ حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاءھا کی صحت اور درازی عمر کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس مبارک تعویز کو ہمارے سروں پر تا دیر سلامت رکھے اور حضرت اماں جان کی برکتوں کے زمانہ کو جو حقیقہ بے نظیر ہیں.ہمارے لئے لمبے سے لمبا کر دے آمین یا ارحم الرحمین.میں بعض قرائن سے سمجھتا رہا ہوں کہ شائد اللہ تعالیٰ حضرت اماں جان کو کم و بیش بانوے سال کی عمر عطا کرے گا لیکن یہ محض قیاس ہے.جس کی تائید میں میرے پاس کوئی یقینی دلیل نہیں ہے.اور گزشتہ چند ماہ میں حضرت اماں جان کی صحت اس سرعت کے ساتھ گری ہے کہ میرے دل میں ڈر پیدا ہونے لگا ہے والامر بيد الله وهو المستعان و نرجوا من الله خيراً حضرت اماں جان اطال اللہ ظلھا کے وجود کی برکت اس بات سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ اعلان فرمایا کہ: يتزوج ويولدله د یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس شادی سے اس کی اولا د بھی ہو گی.“ اس حدیث کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صراحت فرمائی ہے کہ اس میں حضرت ام المؤمنین کی طرف اشارہ ہے.پھر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے بھی خدا نے فرمایا کہ : اذْكُرُ نِعْمَتِي رَتَيْتُ خَدِيجَتِي.و یعنی میری نعمت کو یا درکھ کہ تو نے میری موعودہ خدیجہ کو پالیا.“ ۱۵۶ پس حقیقۂ حضرت ام المؤمنین کا مقام بہت ہی بلند اور آپ کا وجود بہت ہی مبارک ہے اور اس سے بڑھکر برکت کا کیا ثبوت ہوگا کہ خود خدا نے آپ کو اپنے پاک مسیح کے لئے چنا اور آپ کو نہ صرف

Page 1047

۱۰۳۵ مضامین بشیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی بلکہ تمام مومنوں کی ماں قرار دیا.حق یہ ہے کہ آپ کے انفاس مبارکہ کے ذریعہ گویا ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں کیونکہ خاوند اور بیوی گویا ایک ہی وجود کا حکم رکھتے ہیں اور مبارک بیوی کی زندگی میں مقدس خاوند کی زندگی کی جھلک نظر آجایا کرتی ہے اور ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ظاہری نسل میں سے ہیں، ہمارے لئے تو حضرت اماں جان کا وجود دوہری برکت اور دوہری نعمت اور غیر معمولی روحانی سہارے کا ذریعہ ہے.گزشتہ ایام میں میرے دل کو بعض پریشانیاں لاحق تھیں.میں ان دنوں میں حسب دستور حضرت اماں جان کی خدمت میں روزانہ صبح و شام حاضر ہوتا.تھوڑی دیر پاس بیٹھ کر جو خدمت بھی میسر ہوتی بجا لاتا اور پھر دعا کے لئے عرض کر کے واپس آجاتا اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہتا کیونکہ نہ اس وقت میرا دل اس کی ہمت پاتا تھا اور نہ حضرت اماں جان کی صحت اس کی اجازت دیتی تھی.ایک دن میں اسی طرح دعا کے واسطے عرض کر کے واپس آنے لگا تو نہ معلوم کیا خیال آیا کہ مجھ سے از خود فرمایا : میاں مجھے تمہاری تکلیف کا علم ہے میں تمہارے واسطے دعا کرتی ہوں“ مائیں ہر ایک کی ہوتی ہیں مگر ہم ایسی شفیق اور مبارک اور دعا کرنے والی ماں کہاں پائیں گے؟ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اصل غرض یہ ہے کہ حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاءھا کا وجود حقیقہ ساری جماعت کے لئے ایک بہت بھاری نعمت ہے اور گو ایسے وجودوں کی برکت ان کے بعد بھی جاری رہتی ہے کیونکہ ایسے مبارک وجود مقنا طیس کا رنگ رکھتے ہیں جو اپنے ساتھ چھونے والوں کو بھی برکت سے بھر دیتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ زندگی کی برکت بالکل اور قسم کی برکت ہوتی ہے جس کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک دھوپ میں چلنے والے شخص کے سر پر بادل کا سایہ ساتھ ساتھ رہے اور پھر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے حضرت ام المؤمنین مدظلہا صرف ہماری ہی ماں نہیں ہیں بلکہ حقیقی سب احمد یوں کی ماں ہیں.پس اب جبکہ ان میں کمزوری کے آثار زیادہ ظاہر ہورہے ہیں.میں سب بھائیوں اور بہنوں سے عرض کرتا ہوں کہ وہ حضرت اماں جان کے لئے خصوصیت سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کی حالت میں جماعت کے سروں پر اور ہمارے سروں پر تا دیر سلامت رکھے.ان کی برکتوں کے سایہ کو لمبا کرے اور ہمیں ان کی برکتوں اور دعاؤں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق دے.آمین یا ارحم الراحمین.مطبوعه الفضل ۲۲ / نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1048

مضامین بشیر عزیز مرزا حفیظ احمد سلمہ کی بچی کی ولادت ابھی ابھی عزیز مرزا حفیظ احمد سلمہ کا ربوہ سے خط آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے بچی عطا کی ہے.یہ بچی حضرت امیر المؤمنین خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پوتی اور ننھیال کی طرف سے حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی کے بھانجہ متر می میرعبدالسلام کی نواسی ہے دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نوزائیدہ بچی کو والدین کے لئے قرۃ العین بنائے اور دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازے آمین.( مطبوعه الفضل ۲۳ / نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1049

۱۰۳۷ مضامین بشیر کتاب چالیس جواہر پارے چھپ رہی ہے وو کچھ عرصہ ہوا میں نے اپنی جدید تصنیف ” چالیس جواہر پارے“ کے متعلق اعلان کیا تھا کہ وہ انشاء اللہ اس جلسہ سالانہ کے موقعہ پر شائع ہو جائے گی.اب خدا کے فضل سے یہ کتاب بالکل مکمل ہے اور کاتب نے کتابت شروع کر دی ہے.امید ہے کہ انشاء اللہ دسمبر کے وسط تک چھپ کر تیار ہو جائے گی.اس کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چالیس منتخب حدیثوں کا متن اور ترجمہ اور ضروری تشریح درج ہے اور تشریح کی ذیل میں بے شمار زائد حدیثوں کا ذکر بھی آ گیا ہے.کتاب کے شروع میں ایک تمہید بھی ہے جس میں فن حدیث اور مصطلحات حدیث اور مشہور کتب حدیث کے متعلق ضروری معلومات شامل ہیں.حدیثیں زیادہ تر انفرادی کیریکٹر کی بلندی.اصلاح بین الناس اور قومی ترقی کے مضمون سے تعلق رکھتی ہیں.حجم غالباً ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہوگا.میں امید کرتا ہوں کہ خدا کے فضل و کرم سے یہ مجموعہ نہ صرف سکولوں اور کالجوں کے طلباء اور طالبات کے لئے بلکہ ہر اس شخص کے لئے جو اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا دلکش نمونہ معلوم کرنے کا خواہشمند ہے نیز نو مسلموں کے لئے بھی انشاء اللہ بہت مفید اور بابرکت ثابت ہوگا.بہر حال مدت سے میری یہ خواہش تھی جو خدا نے پوری کرنے کی توفیق دی.اب اسے پڑھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا اور اس کی اشاعت کو وسیع کرنا احباب کا کام ہے.قیمت جس کا ابھی تک مجھے بھی علم نہیں ( کیونکہ میں تو صرف ثواب کی خاطر سے لکھنے والا ہوں ) بعد میں معلوم ہو جائے گی لیکن میرا خیال ہے کہ غالبا بارہ آنے فی نسخہ کے لگ بھگ ہوگی.ملنے کا پتہ یہ ہے.(۱) ربوہ میں.بک ڈپو تالیف و تصنیف جماعت احمد یہ ربوہ (ضلع جھنگ) (۲) لاہور میں مکتبہ تحریک بالمقابل نمبر ۱۱۶۰ نارکلی لاہور جو احباب خریدنا چاہیں اوپر کے پتہ پر اپنا آرڈر بھجوا سکتے ہیں.میں اپنے لئے صرف دوستوں کی دعا کا طالب ہوں.( مطبوعه الفضل ۲۴ / نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1050

مضامین بشیر ۱۰۳۸ اسلام کے انتقام والے مضمون کے متعلق دوستوں کا سوال خدا کے لئے نفس مضمون کی طرف توجہ دیجئے! ۲۱ نومبر ۱۹۵۰ء کے الفضل میں میرا ایک مضمون زیر عنوان ” خدائے اسلام کا زبر دست انتقام شائع ہوا تھا.اس پر دو دوستوں نے سوال کہلا کر بھیجے ہیں.یہ سوال نفسِ مضمون سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ بعض ثانوی باتوں پر پیدا ہوئے ہیں جو میرے مضمون میں ضمنی طور پر بیان کی گئی تھیں.مجھے یقیناً بہت خوشی ہوتی اگر اصل مضمون کے متعلق کوئی بات کہی جاتی کیونکہ اصل مضمون کو نظر انداز کر کے محض ضمنی اور ثانوی امور کی طرف توجہ دینا کوئی اچھی علامت نہیں سمجھی جاسکتی.تاہم چونکہ مجھ تک یہ سوال پہنچے ہیں اس لئے مختصر اشارہ کے رنگ میں جواب دیتا ہوں.پہلا سوال ڈاکٹر غلام مصطفے صاحب کی طرف سے ہے جو یہ ہے کہ میں نے اپنے مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مغل لکھا ہے لیکن حضور نے ایک الہام الہی کی بنا پر اپنے آپ کو ابن فارس قرار دیا ہے ؟ اس کے متعلق پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئیے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو کبھی کبھی ابن فارس لکھا ہے تو اس کے مقابل پر آپ نے بے شمار دفعہ مغل بھی لکھا ہے تو جب خود حضرت مسیح موعود نے اپنے آپ کو مغل لکھا ہے تو آپ کی اتباع میں میرا آپ کو مغل لکھ دینا قابل اعتراض نہیں ہو سکتا.بے شک خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ تم ” ابنِ فارس“ ہو اور اس کی وجہ سے آپ نے اپنے آپ کو ابن فارس“ کے طور پر پیش بھی کیا مگر با وجود اس کے آپ نے ہزاروں مرتبہ اپنے آپ کو مغل بھی لکھا بلکہ آپ کے الہام میں بھی آپ کو مرزا کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.66 اصبر سنفرغ یا مرزا.د یعنی مرزا ! ذرا ٹھہر وہم ابھی فارغ ہوتے ہیں.“ ۱۵۷ اوپر کے الہام کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا بھی ہے جس میں آپ نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دربار میں دیکھا اور خدا تعالیٰ نے آپ کو دیکھ کر فرمایا: مرزا حاضر ہے.

Page 1051

۱۰۳۹ مضامین بشیر اب ظاہر ہے کہ مرزا صرف مغلوں یا ان کے توابع کا ہی لقب ہے نہ کہ ہر ایرانی کا کیونکہ ایران میں سینکڑوں سال سے سید اور پٹھان وغیرہ بھی بستے ہیں مگر وہ مرزا نہیں کہلاتے.بے شک بعض اوقات بعض غیر مغلوں کو بھی مرزا کا خطاب ملا ہے مگر وہ مغلوں کے توابع کے طور پر ملا ہے نہ کہ مستقل حیثیت میں.بہر حال جس طرح فارس کا لفظ الہامی ہے اسی طرح مرزا کا لفظ بھی الہامی ہے.دوسرا جواب اس سوال کا یہ ہے کہ دراصل یہ دو نو باتیں ٹھیک ہیں.یعنی یہ بھی ٹھیک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغل تھے اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ آپ ابن فارس بھی تھے.مغل تو آپ قومی لحاظ سے تھے اور اہل فارس آپ اپنے آباؤ اجداد کے آخری وطن کے لحاظ سے تھے اور یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ بالکل درست ہیں اور ہر گز متضاد نہیں.ابتدائی زمانوں میں قوموں میں غیر معمولی حرکت ہوا کرتی تھی اور وہ نقل مکانی کر کے ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف اور دوسرے ملک سے تیسرے ملک کی طرف جاتی رہتی تھیں.یہی مغلوں کے ساتھ ہوا کہ اوائل میں وہ چین کے شمال مغربی علاقہ میں آباد تھے.اور پھر آہستہ آہستہ حرکت کر کے مملکتِ فارس کی حدود میں داخل ہو گئے.اس لئے وہ ایک جہت سے مغل بھی رہے اور دوسری جہت سے اہل فارس بھی بن گئے.یہ اسی قسم کی بات ہے جیسے کہ مثلاً سید شروع میں عرب میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں ان میں سے بہت سے لوگ نقل مکانی کر کے ہندوستان میں آگئے.اس طرح وہ عربی بھی رہے اور ہندوستانی بھی بن گئے.پس اب اگر انہیں کوئی شخص اصل کے لحاظ سے عربی کہہ دے اور دوسرا بعد کے وطن کے لحاظ سے ہندوستانی کہہ دے تو دونو باتیں درست سمجھی جائیں گی اور کوئی تضاد نہیں ہو گا.یہی حال ہندوؤں یعنی آرین نسل کا ہے جو شروع میں کا کیشیا کے شمالی علاقہ میں آباد تھے اور پھر ان کا ایک حصہ مغربی یورپ کی طرف چلا گیا اور دوسرا ہندوستان آگیا.اور اس طرح انہوں نے بھی گویا دہر اوطن اختیا کر لیا.الغرض میری رائے میں ) واللہ اعلم بالصواب ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مغل اور ابنِ فارس ہر دو الفاظ درست ہیں.آپ مغل ہیں کیونکہ آپ قومی لحاظ سے مغل ہیں اور آپ ابن فارس بھی ہیں کیونکہ آپ کے آبا و اجداد کا آخری وطن فارس تھا جس طرح کہ مثلاً حضرت سلمان فارسی کے آباؤ اجداد کا آخری وطن فارس تھا.گو اصل کے لحاظ سے وہ بھی بعض روایتوں کے مطابق دوسری جگہ کے تھے.واللہ اعلم وهو العليم الخبير.تیسرا جواب اس سوال کا یہ ہے کہ اگر بالفرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغل نہ بھی ہوں بلکہ صرف اہل فارس میں سے ہوں ( کیونکہ یہ سوال غالباً ابھی مزید تحقیق چاہتا ہے ) تو پھر بھی میری دلیل اصولی طور پر قائم رہتی ہے.کیونکہ میں نے محض ضمنی طور پر مغلوں کو منگولیوں کا چچا زاد بھائی کہہ کر یہ نکتہ

Page 1052

مضامین بشیر ۱۰۴۰ بیان کیا تھا کہ اگر ایک بھائی نے اسلام کے قلعہ کو مسمار کرنا چاہا تو دوسرے بھائی کو خدا نے اس قلعہ کی مرمت اور مضبوطی کے لئے کھڑا کر دیا اور ظاہر ہے کہ اس لحاظ سے اہل فارس بھی گویا منگولیوں کے ہی قائم مقام ہیں کیونکہ اول تو ان دونو کا وطن پہلو بہ پہلو تھا اور گویا دونو ہمسائے تھے اور دوسرے بغداد پر منگولیوں کا حملہ فارس کے رستہ ہی ہوا تھا.پس بالفرض اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغل نہ بھی ہوں بلکہ صرف اہل فارس میں سے ہوں تو پھر بھی یہ حقیقت بہر حال قائم رہتی ہے کہ جس ملک سے فتنہ اٹھا تھا اسی ملک کو خدا نے اپنے انتقام کی تکمیل کے لئے فتنہ کے استیصال کا ذریعہ بنایا.پس عملاً بات وہی رہی.فافهم و تدبر.دوسرا سوال تعلیم الاسلام کالج کے ایک غیر معلوم الاسم دوست کا ہے جو مولوی ارجمند خاں صاحب کے ذریعہ مجھے پہنچا ہے.مولوی صاحب موصوف نے مجھے بتایا ہے کہ کالج میں کوئی صاحب کہتے تھے کہ میرے مضمون میں ہلاکو خان کو چنگیز خان کا لڑکا اور مسلمان ہونے والے منگولی رئیس کو ہلا کو خان کا لڑکا لکھا گیا ہے جو درست نہیں کیونکہ ہلاکو خان چنگیز خان کا پوتا تھا نہ کہ لڑکا اور مسلمان ہونے والا رئیس بھی ہلاکو خاں کا لڑکا نہیں تھا بلکہ پوتا تھا.اس دوست کے جواب میں عرض ہے کہ تاریخ سے مجھے بھی کچھ شد بد ہے اور جو بات سوال کرنے والے دوست نے کہی ہے میں اس سے بے خبر نہیں تھا لیکن میں نے دانستہ اپنے اس نکتہ پر زور دینے کی غرض سے کہ یہ تغیرات کتنی سرعت کے ساتھ نمودار ا ہوئے ان لوگوں کو اپنے مضمون میں بیٹے کے طور پر ظاہر کیا تھا کیونکہ عرف اور زبان کے مسلمہ اصول کے لحاظ سے پوتا بھی دراصل بیٹے کے حکم میں ہوتا ہے اور دنیا کی ہر زبان میں پوتے کو بیٹے کے طور پر بیان کرنا جائز سمجھا گیا ہے بلکہ بعض اوقات تو پوتے کے بیٹوں اور پھر آگے ان کے بیٹوں کو بھی عرفاً بیٹے کہہ دیا جاتا ہے اور اس پر نہ تو زبان کے لحاظ سے کوئی اعتراض ہو سکتا ہے اور نہ اخلاق کے لحاظ سے کوئی بات قابل اعتراض سمجھی جاتی ہے.مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام نے جو خدا کے ایک برگزیدہ رسول تھے ، انجیل میں اپنے آپ کو کئی جگہ ابن داؤد کہا ہے حالانکہ وہ حضرت داؤد سے سینکڑوں سال بعد پیدا ہوئے تھے اور ابنِ آدم کا محاورہ تو بچے بچے کی زبان پر ہے.اسی طرح بخاری میں آتا ہے کہ جب حنین کے میدان میں اکثر مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو ہمارے آقا سید الاولین والآخرین اور اصدق الصادقین صلے اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آگے بڑھے کہ : انا النبى لا كذب انا ابن عبدالمطلب ۱۵۸ 66 د یعنی میں خدا کا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.“ اب ہر مسلمان جانتا ہے کہ آپ معبد المطلب کے بیٹے نہیں تھے بلکہ پوتے تھے.پس اگر آپ نے

Page 1053

۱۰۴۱ مضامین بشیر جو اصدق الناس ہیں اپنے والد عبداللہ کا نام درمیان میں سے چھوڑ کر اپنے آپ کو صرف ابن عبدالمطلب کہا تو یہ خاکسار ہلاکو خان کے باپ اور بیٹے کا نام ترک کرنے پر مورد اعتراض کس طرح بن سکتا ہے؟ حق یہ ہے کہ چونکہ عرفاً اور استعمالاً بیٹے کے مفہوم میں پوتا اور پڑپوتا سبھی شامل ہوتے ہیں.اس لئے میں نے ہلاکو خان کو چنگیز خان کا لڑکا اور مسلمان ہونے والے رئیس کو (جس کا اسلامی نام غالباً احمد رکھا گیا تھا ) ہلاکو خان کا بیٹا دانستہ لکھا تھا اور میری غرض یہ تھی کہ تا اس حقیقت کو نمایاں کیا جائے کہ یہ دونوں منگولی رئیس اپنے نام بردہ جد کی قریب ترین نسل سے تعلق رکھنے والے اور ان کی سیاست کے براہ راست وارث تھے.بہر حال جو بات حضرت عیسے نے کہی اسی قسم کی بات کہنے کی وجہ سے میرے مضمون پر اعتراض نہیں ہو سکتا اور جو بات خود ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اسی قسم کا کلمہ زبان پر لانے کی بنا پر میرے مضمون کے خلاف حرف گیری زیب نہیں دیتی.بالآخر میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے پھر عرض کروں گا کہ ان کی نظر نفس مضمون کی طرف اٹھنی چاہئیے نہ کہ ان ضمنی باتوں کی طرف.بے شک اگر واقعی کوئی غلطی ہو جائے خواہ مجھ سے یا کسی اور سے تو اس کی طرف توجہ دلانا برا نہیں بلکہ اصلاح اور شکر گزاری کا موجب ہے اور میں اسے ہرگز برا نہیں مانتا لیکن زیادہ خوشی کا موجب یہ بات ہوتی کہ ہمارے دوست نفس مضمون کی طرف توجہ دیتے.خود غور کرو اور سوچو کہ اگر کوئی نوجوان اٹھ کر یہ کہتا کہ میں آئندہ اپنے آپ کو سپین کے انتقام کے لئے تیار کروں گا تو ہم سب کو کتنی خوشی ہوتی مگر اصل مضمون کو نظر انداز کر کے ہلاکو خاں اور چنگیز خان کے رشتہ ناطہ کی بحث میں الجھنا کسی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا.بات وہی ہے اور مجھے یہ بات پھر کہہ لینے دو کہ اے احمدی نو جوانو ! سپین کی زمین ابھی تک اسلام کے روحانی انتقام کی پیاسی ہے.اٹھو اور اس پیاس کو بجھانے کا انتظام کرو.چنگیز خان اور ہلاکو خان خواہ مریں یا جئیں ہمیں اس سے کام نہیں اسلام زندہ ہونا چاہیے اور پین کی پیاس.ہاں ہاں سینکڑوں سال کی تپش والی پیاس اسلام کے انتقام سے بجھنی چاہئیے.پھر خواہ ہلاکو خان چنگیز خان کا بیٹا ہو یا کہ پوتا ہمیں اس بحث سے سروکارنہیں لیکن ہر احمدی نوجوان خواہ وہ بظاہر دین کے کام میں ہو یا دنیا کے کام میں اسلام کا فرزند بنا چاہئے.مسیح موعود کا فرزند - محمد رسول اللہ کا فرزند.وقت بہت نازک ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر بند زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نماند ( مطبوعه الفضل ۲۶ / نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1054

مضامین بشیر ۱۰۴۲ اپنے درویش بھائیوں کو دعاؤں میں یا درکھیں وہ آپ سب کے لئے دعا گو رہتے ہیں (۱) قادیان کے درویش خدا کے فضل سے بخیریت ہیں اور اپنے تبلیغی اور تعلیمی اور تربیتی پروگرام کے مطابق خدمت سلسلہ میں لگے ہوئے ہیں.سب دوستوں کو چاہئیے کہ ہمیشہ اپنے درویش بھائیوں کو اپنی دعاؤں میں یا د رکھیں.وہ کئی لحاظ سے آپ کی خاص دعاؤں کے مستحق ہیں اور پھر اس لحاظ سے بھی ان کا حق ہے کہ وہ ہمیشہ آپ سب کے لئے دعا گو رہتے ہیں.وَمَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكِرُ اللهَ (۲) آج کل بعض درویش زیادہ بیمار ہیں.انہیں خصوصیت سے دعاؤں میں یاد رکھا جائے.ان میں میاں محمود احمد صاحب پشاوری اور رفیع الدین صاحب گجراتی اور میاں صدر الدین صاحب قادیانی دوستوں کی دعاؤں کے زیادہ مستحق ہیں.اول الذکر عزیز کوسل کا عارضہ لاحق ہے جو جوانی کی عمر میں خطر ناک ہوتا ہے.ثانی الذکر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور عام صحت بھی کمزور ہے اور آخر الذکر قادیان کے پرانے صحابی اور بہت ضعیف ہیں اور اب گویا چراغ سحری کا رنگ رکھتے ہیں.اسی طرح در ولیش محمد اشرف صاحب کے برادر نسبتی اور بچی بھی بہت بیمار ہیں.اللہ تعالیٰ ان کا اور دوسرے سب درویشوں اور ان کے عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو.(۳) دوستوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ درویش کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی بناء پر رکھا گیا ہے.جس میں ایک فرشتہ حضور کے سامنے ایک نان پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.پس درویشوں کی مدد کرنے والے دوست ( خواہ یہ مد دروحانی ہو یا اخلاقی ہو یا مالی) حقیقہ اس نان کے مہیا کرنے میں مدد دیتے ہیں جو خدا کے فرشتہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے پیش کیا تھا ؟ و مـن كـان في عون اخيــه كان الله في عونه وجزاكم الله احسن الجزا في الدنيا والاخرة.مطبوعه الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1055

۱۰۴۳ مضامین بشیر قادیان جانے والی پارٹی کے متعلق ضروری اعلان اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر جو دوست قادیان جانے کی خواہش رکھتے ہیں ان کی طرف سے درخواستیں موصول ہو رہی ہیں اور اس وقت تک یہ تعداد چار سو تک پہنچ چکی ہے اور ابھی مزید درخواستیں آ رہی ہیں اور بعض دوست گھبرا گھبرا کر اوپر تلے یاد دہانیاں بھی بھجوا رہے ہیں.ایسے دوستوں کی اطلاع کی غرض سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں ہر دوست کے ساتھ انفرادی خط و کتابت نہیں کی جاسکتی اور ابھی تک حکومت کی طرف سے آخری اجازت بھی نہیں پہنچی.بعد اجازت انتخاب ہونے پر صرف منتخب ہونے والے دوستوں کو اطلاع دی جائے گی.پس جن دوستوں کو مناسب وقت تک یہ اطلاع نہ پہنچے وہ سمجھ لیں کہ ان کا نام انتخاب میں نہیں آ سکا اور انتخاب کرنے والوں کے متعلق حسن ظنی سے کام لیں.کیونکہ بہر حال جب جانے والوں کی تعداد محدود ہو تو لازماً انتخاب بھی محدود ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ سب دوستوں کے ساتھ ہو اور حافظ وناصر رہے.( مطبوعه الفضل ۱۳۰ نومبر ۱۹۵۰ء)

Page 1056

مضامین بشیر ۱۰۴۴ قادیان جانے کی درخواست دینے والے دوست متوجہ ہوں جن دوستوں نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر قادیان جانے کی درخواست دی ہے انہیں چاہئے کہ بہت جلد اپنی ولدیت اور سکونت لکھ کر دفتر ہذا میں بھجوا دیں.اس وقت فہرست مرتب کی جارہی ہے اور انشاء اللہ جلد ہی منتخب ہونے والے دوستوں کو رجسٹری خطوط کے ذریعہ اطلاع دی جائے گی.گو ابھی تک حکومت کی طرف سے آخری اجازت کا انتظار ہے جن دوستوں کو اطلاع نہ پہنچے وہ سمجھ لیں کہ وہ انتخاب میں نہیں آسکے.( مطبوعه الفضل ۳ / دسمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1057

۱۰۴۵ حضرت خلیفہ اول کی یاد میں تجر.تصوّف.تو کل اور تواضع کا ارفع مقام مضامین بشیر ۲۶ / نومبر ۱۹۵۰ء کا دن بہت مبارک دن تھا کیونکہ اس دن حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بھیرہ تشریف لے گئے تھے اور وہاں جا کر احباب جماعت کی کثیر تعداد کے ساتھ حضرت خلیفۃ اصیح اول رضی اللہ عنہ کے مکان اور مسجد میں اجتماعی دعا فرمائی.یہ ایک خاص موقع تھا اور گو یہ خاکسار بعض مجبوریوں کی وجہ سے اس مبارک تقریب میں شامل نہیں ہو سکا مگر جس طرح بعض مدینہ میں رہ جانے والے اصحاب ثواب کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفروں میں آپ کے ساتھ ہوتے تھے.اسی طرح میری روح بھی محسوس کرتی تھی کہ میں بھی اس دن لاہور میں رکے ہوئے ہونے کے باوجود اس تقریب میں شرکت کا ثواب پا رہا ہوں.میں نے اس دن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے لئے بہت دعا مانگی.آپ کے تصور سے قرآن شریف کی تلاوت اور دن کے بیشتر حصوں میں آپ کے اوصاف حسنہ پر غور کرتا رہا.اس تقریب نے میرے دل میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کر کے مجھے تحریک کی ہے کہ آپ کے اوصاف حمیدہ کے متعلق ایک مختصر سا مضمون لکھ کر ہدیہ ناظرین کروں تا اگر خدا چاہے تو میرا یہ مضمون دوستوں کے دل میں نیکی کا محرک بن کر ان کے لئے باعث سعادت اور میرے لئے موجب ثواب و مغفرت ہو.و انما الاعمال بالنيات ولكل امرء مانوى جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھیرہ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے.آپ نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام علم دین اور علم طب کے سیکھنے میں خرچ کئے اور انہی ایام میں حج بیت اللہ کا شرف بھی حاصل کیا اور چونکہ طبیعت نہایت درجہ نیک اور سادہ تھی اور ذہن انتہائی طور پر زیرک اور رسا پایا تھا.اس لئے ظاہری علم نے باطنی جو ہر کے ساتھ مل کر آپ میں ایک خاص قسم کی شان پیدا کر دی تھی.میں اپنے ذوق کے مطابق آپ کی اس شان کو مربع “ کے ذریعہ ظاہر کیا کرتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے کسی اور وہی اور دلی اور دماغی کمالات کا خلاصہ ان چار قسم کی ت میں آجاتا ہے.یعنی تبحر.تصوف.تو کل اور تواضع.۱۶۰

Page 1058

مضامین بشیر ۱۰۴۶ ظاہری علم کی تحصیل سے فارغ ہو کر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ریاست جموں وکشمیر میں شاہی طبیب کے طور پر ملازمت اختیار کی اور اس خدمت خلق میں وہ شان پیدا کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے راجہ اور پر جاہر دو کے کے دل میں گھر کر لیا حتی کہ کشمیر کے موجودہ راجہ کے والد ( جو اپنے زمانہ کے راجہ صاحب کے بھائی تھے ) کے ساتھ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے تعلقات تو گویا بالکل دوستوں کی طرح ہو گئے اور یہی دوستی بالآخر اندرونی رقابتوں کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول کے اخراج از کشمیر کا باعث بنی مگر آپ کا یہ اخراج قدرت کی ایک مخفی تا رتھی جس نے آپ کو کشمیر سے نکال کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں لا ڈالا اور اس کے بعد آپ ہمیشہ کے لئے قادیان ہی کے ہو گئے اور ایک پاک مٹی کا دوسری پاک مٹی سے جوڑ مل گیا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ کشمیر کے واقعات درس وغیرہ کے موقعہ پر اپنے مخصوص انداز میں اکثر سنایا کرتے تھے.ابھی آپ کشمیر میں ہی تھے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ غائبانہ تعارف حاصل ہوا.جس کا موقع غالباً براہین احمدیہ کے ابتدائی حصہ کی اشاعت کے ذریعہ میسر آیا تھا اور اس کے بعد غائبانہ رنگ میں ہی خط و کتابت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جو مزید حسنِ ظن اور جذب و کشش کا باعث بنا.اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف مجدد ہونے کا دعویٰ تھا اور ابھی سلسلہ بیعت بھی شروع نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی جماعت تھی.اسی زمانہ میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود کی زیارت کے لئے قادیان تشریف لے گئے.یہ اس روحانی استاد و شاگرد کی پہلی ملاقات تھی اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اپنے درسوں وغیرہ میں اس ملاقات کا ذکر بڑی محبت اور شوق کے ساتھ سنایا کرتے تھے.فرماتے تھے کہ جب میں پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے کی غرض سے قادیان گیا تو بٹالہ سے یکہ میں بیٹھ کر قادیان پہنچا.جب میں مسجد مبارک والے چوک میں پہنچا تو میں نے یکہ سے اترتے ہی ایک شخص سے پوچھا کہ ”مرزا صاحب کہاں ہیں ؟ اس وقت چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گو یا گمنامی کی حالت میں تھے اور قادیان میں حضور کے چچا زاد بھائی مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب ہی مشہور و معروف تھے.اس لئے اس شخص نے یہ سمجھ کر ا که یه نو وارد انسان غالباً ان مرزا صاحبان کے متعلق پوچھتا ہو گا.ان کے دیوان خانہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اندر چلے جاؤ مرزا صاحب یہیں بیٹھے ہوں گے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے.کہ میں نے جو آگے بڑھ کر دیوان خانہ میں جھانکا تو وہاں صحن میں یہ ہر دو مرزئے ، مجلس جمائے بیٹھے تھے اور پرانے زمیندارہ طریق پر ان کے اردگرد بعض دوسرے لوگ بھی جمع تھے اور حلقہ کا دور چل رہا تھا.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ اس نظارہ کو دیکھ کر مجھے ایسا دھکا "

Page 1059

۱۰۴۷ مضامین بشیر لگا کہ میں نے فوراً پلٹ کر یکہ والے کو آواز دی کہ تم ابھی ٹھہر و.میں بھی شاید تمہارے ساتھ ہی واپس چلا جاؤں گا.اس کے بعد میں مزید تسلی کی غرض سے دیوان خانہ کے اندر گیا اور حاضرین مجلس کو بلند آواز سے سلام کہا.فرماتے تھے کہ خدا نے مجھے اس قلبی دکھ سے کہ میں کہاں آ گیا ہوں.جلدی نجات دینے کے لئے ایسا فضل فرمایا کہ میرا سلام سنتے ہی مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب میں سے کسی نے یا شاید کسی اور شخص نے کہا کہ آپ نے غالباً مرزا صاحب سے ملنا ہے.فرماتے تھے کہ یہ الفاظ سن کر میری جان میں جان آئی کہ یہاں کوئی اور مرزا بھی ہے.( یہ خود حضرت خلیفہ اول کے الفاظ ہیں ) اور میں نے جھٹ کہا کہ ہاں ہاں میں مرزا صاحب سے ہی ملنے آیا ہوں.اس پر انہوں نے ایک آدمی میرے ساتھ کر کے مجھے مسجد مبارک میں پہنچا دیا.یہاں پہنچ کر میں نے اندر اطلاع بھجوائی تو چونکہ نماز کا وقت قریب تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اندر سے کہلا بھیجا کہ آپ مسجد میں تشریف رکھیں.میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اور جیسا کہ حضور نے ایک جگہ فرمایا ہے.حضرت خلیفہ اول کو دیکھتے ہی حضور نے دل میں کہا کہ هذا دعائی (یعنی یہ شخص تو میری دعا کا ثمرہ ہے ) کیونکہ حضور نے اپنی خدا دادفر است سے فوراً پہچان لیا کہ خدمت دین کے کام کے لئے میں جس قسم کا مددگار اپنے خدا سے مانگا کرتا ہوں وہ مجھے آج مل گیا ہے اور دوسری طرف حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی حضور کو دیکھ کر ہمیشہ کے لئے اسی دامن سے لپٹ کر رہ گئے.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف مجددیت کا دعوی تھا اور ابھی تک بیعت کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی جماعت تھی مگر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اپنے ایمان کی روشنی سے پہچان لیا اور جان لیا کہ اگر موجودہ زمانہ کے طوفان ضلالت میں کوئی شخص اسلام کی کشتی کو بچانے کی اہلیت رکھتا ہے تو وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے باصرا رعرض کیا کہ اگر خدا تعالیٰ آپ کو بیعت لینے کی اجازت اور ہدایت فرمائے تو میری درخواست ہے کہ سب سے پہلے میری بیعت قبول فرما دیں.آپ نے فرمایا کہ مجھے ابھی تک بیعت کا حکم نہیں ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا حکم ملا.تو انشاء اللہ آپ کی خواہش کا خیال رکھا جائے گا.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا اور حضور نے ۱۸۸۹ء کے شروع میں لدھیانہ کے شہر میں پہلی بیعت لی تو سب سے اوّل نمبر پر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ نے ہی بیعت کی اور اس طرح آپ خدا کے فضل سے قرآنی اصطلاح کے مطابق اول بھی ہو گئے.اور سابق بھی بن گئے اوّل اس

Page 1060

مضامین بشیر ۱۰۴۸ لئے کہ وقت کے لحاظ سے آپ احمدیت کے قبول کرنے والوں میں اول نمبر پر آ گئے.اور سابق اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ اپنے علمی تجر اور روحانی مقام کے لحاظ سے بھی سب سے آگے تھے.اس کے بعد جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ریاست کشمیر کی ملازمت سے فارغ ہوئے تو اس وقت کے خیال کے ماتحت اپنے آبائی وطن بھیرہ میں واپس جا کر درس تدریس اور طب کے ذریعہ خدمت دین اور خدمت خلق کا سلسلہ شروع کرنا چاہا اور اپنے سابقہ مکان کو نا کافی خیال کرتے ہوئے ایک نئے اور وسیع مکان کی تعمیر بھی شروع کرا دی.اسی تعلق میں آپ غالباً کچھ سامان عمارت کی خرید کے واسطے لا ہور تشریف لائے اور لاہور پہنچ کر خیال آیا کہ اب قادیان کے قریب آیا ہوا ہوں حضرت صاحب سے بھی مل آؤں.چنانچہ دو دن کی فرصت نکال کر قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.مولوی صاحب اب تو آپ فارغ ہیں.قادیان میں کچھ ٹھہریں گے نا ؟ آپ نے اپنے خاص عاشقانہ انداز میں عرض کیا ” ہاں حضور ٹھہروں گا.اس کے چند دن بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب آپ کو اکیلے تکلیف ہوتی ہو گی اپنے گھر سے بھی بلا لیں.حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے فوراً بیوی کو خط لکھ دیا کہ قادیان آ جاؤ.ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دیا.مولوی صاحب آپ کو کتابوں کے مطالعہ کا شوق ہے بہتر ہوگا کہ آپ اپنا کتب خانہ بھی قادیان منگوالیں.حضرت خلیفہ اول فرما یا کرتے تھے کہ میں نے بھیرہ خط لکھ دیا کہ مکان کی تعمیر بند کر دو اور میرا کتب خانہ قادیان بھجوا دو.کچھ عرصہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.مولوی صاحب اب آپ بھیرہ کا خیال جانے دیں اور اسے بھول جائیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اور محبت اور فخر کے ساتھ فرماتے تھے کہ اس کے بعد مجھے کبھی خیال تک نہیں آیا کہ بھیرہ بھی میرا وطن ہوتا تھا اور آپ نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان میں ہی ہمیشہ کے لئے دھونی رمادی اور لطف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ میں بھیرہ میں ایک مکان بنتا چھوڑ آیا ہوں.یہ وہ اخلاص و محبت کا ماحول تھا جس میں جماعت کی خشتِ اول قائم ہوئی.چونکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو قرآن شریف سے انتہا درجہ کا عشق تھا جس کی مثال بہت کم ملتی ہے اس لئے آپ نے قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے قرآن شریف کا درس شروع کر دیا.یہ درس مسجد اقصیٰ میں ہوا کرتا تھا اور اوائل زمانہ میں کبھی کبھی خود حضرت مسیح موعود

Page 1061

۱۰۴۹ مضامین بشیر علیہ السلام بھی اس درس میں چلے جایا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے درس میں اعلیٰ درجہ کی علمی تفسیر کے علاوہ واعظانہ پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا کیونکہ آپ کا قاعدہ تھا کہ رحمت والے واقعات کی تشریح کر کے نیکی اور انابت الی اللہ کی رغبت دلاتے اور عذاب والے واقعات کے تعلق میں دلوں میں خشیت اور خوف پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے اور آپ کا درس بے حد دلچسپ اور ہر طبقہ کے لئے موجب جذب و کشش ہوا کرتا تھا.یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کے علم النفسیر کا ایک کثیر حصہ بلا واسطہ یا بالواسطہ آپ ہی کی تشریحات اور انکشافات پر مبنی ہے اور آپ کے درس میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ایک وسیع سمندر ہے جس کا ایک حصہ موجزن ہے اور دوسرا سا کن اور عمیق اور اس میں سے ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق پانی لے رہا ہے.درس کے دوران میں بعض دفعہ لوگ سوال بھی کیا کرتے تھے اور حضرت خلیفہ اول ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ ہر سوال کا جواب دیتے تھے اور جواب میں مخاطب کے مذاق اور حالات کے پیش نظر کبھی کبھی کوئی نہ کوئی لطیفہ بھی بیان کر جاتے تھے مگر بعض اوقات جب آپ کو سوال کرنے والے میں بلا وجہ سوال پوچھنے کا میلان محسوس ہوتا تھا یا آپ خیال کرتے تھے کہ یہ سوال ایسا ہے کہ وہ خود توجہ دے کر اس کا جواب سوچ سکتا ہے تو ایسے موقعہ پر یا تو خاموشی کے ساتھ گزر جاتے تھے یا کہہ دیتے تھے کہ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے خودسوچو.افسوس ہے کہ اس وقت کے نوٹ لینے والوں نے پوری احتیاط سے آپ کے اس درس کے نوٹ قلمبند نہیں کئے اور آپ کی تفسیر کا معتد بہ حصہ ضبط تحریر میں نہیں آسکا.ہاں سننے والوں کے سینے اب تک اس بیش بہا خزانہ کے امیں ہیں اور ہر احمدی تفسیر میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے علم کی روشنی نظر آتی ہے.خاکسار راقم الحروف نے بھی جب کہ میں بی.اے میں پڑھتا تھا تعلیم کا سلسلہ درمیان میں چھوڑ کر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے قرآن شریف پڑھا اور پورا قرآن شریف ختم کر کے پھر اپنی تعلیم کی طرف لوٹ آیا.یہ بھی گویا ایک پبلک درس تھا جس میں بہت سے دوسرے دوست بھی شریک ہوتے تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے قرآن کے درس کا نمایاں رنگ یہ ہوتا تھا کہ گویا ایک عاشق صادق اپنے دلبر و معشوق کو سامنے رکھ کر....اس کے دلر با حسن و جمال اور دلکش خدو خال کا نقشہ پیش کر رہا ہے.اللہ اللہ ! کیا مجلس تھی اور اس مجلس کا کیا رنگ تھا !! حضرت خلیفہ اول رضی اللہ کو مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور اس شوق میں آپ نے بے شمار روپیہ خرچ کر کے اپنی ذاتی لائبریری بنائی تھی جس میں تفسیر و حدیث ،اسماءالرجال ، فقہ، اصول فقہ ، کلام، تاریخ ،تصوف ، سیاست ، منطق ، فلسفه، صرف و نحو، ادب، کیمیا، طب، علم جراحی، علم ہئیت اور دیگر مذاہب وغیرہ کی نادر کتابیں موجود تھیں جن میں کئی قلمی نسخے بھی تھے اور آپ کے شوق کا یہ عالم تھا کہ

Page 1062

مضامین بشیر ۱۰۵۰ خود اپنے خرچ پر مولوی غلام نبی صاحب مصری کو مصر بھجوا کر وہاں کی بعض قلمی کتابوں کی نقول منگوائیں اور حق یہ ہے کہ اب تک حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا یہ ذاتی کتب خانہ ہی زیادہ تر جماعتی ضرورتوں میں کام آتا رہا ہے.کئی سیاح اور زائرین قادیان میں اس کتاب خانہ کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوتے تھے کہ اس چھوٹے سے قصبہ میں علوم کا یہ نا درخزانہ کہاں سے آگیا ہے.سرشاہ محمد سلیمان جو فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے ایک نہایت بلند پایہ علم دوست حج تھے انہیں ایک دفعہ سپین کی ایک نادر کتاب کی ضرورت پیش آئی جو سارے ہندوستان میں تلاش کرنے کے باوجود کہیں نہیں ملی.آخر انہیں پتہ لگا کہ اس کا ایک قلمی نسخہ قادیان میں موجود ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کی اجازت سے اس کا یہ نسخہ عاریہ حاصل کیا اور پھر بحفاظت واپس بھجوا دیا.لاریب کئی لحاظ سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی یہ ذاتی لائبریری ہندوستان میں عدیم المثال تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی بعض تحریروں میں آپ کے کتب خانہ کی بہت تعریف فرمائی ہے اور یہ سب کچھ ایک نہایت محدود ذ رائع والے انسان کے ذاتی ذوق وشوق کا ثمرہ تھا اور پھر یہ کتا بیں محض جمع کرنے کے جذ بہ کے ماتحت نمائشی رنگ میں اکٹھی نہیں کی گئیں بلکہ اس وسیع کتب خانہ کی ہر کتاب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے ذاتی مطالعہ میں آتی تھی اور جابجا کتابوں کے حاشیہ پر آپ کے قلمی نوٹ پائے جاتے ہیں.اگر ایسے شخص کو بھی خصوصاً جبکہ وہ انتہا درجہ کا ذہین اور محنتی ہو، علم کے میدان میں تنجر کا مقام حاصل نہیں ہو گا تو اور کس کو ہو گا ؟ باوجود اس کے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ با رہا فرمایا کرتے تھے کہ کئی قرآنی آیتیں جو مجھ سے کسی اور طرح حل نہیں ہوتی تھیں وہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت و برکت سے حل ہو گئیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو ایک خدائی بشارت کی بناء پر یہ دعویٰ تھا کہ میں خدا کے فضل سے ہر دشمن اسلام اور ہر دشمن صداقت کے ہر قسم کے اعتراض پر اس کا منہ بند کر سکتا ہوں.فرمایا کرتے تھے کہ تسلی دینا میرا کام نہیں مگر معترض کے منہ بند کرنے کا میں ذمہ دار ہوں.چنانچہ اسلام اور احمدیت کے خلاف ہر اعتراض کرنے والا آپ کے برجستہ جواب سے خاموش ہو کر رہ جاتا تھا.خود سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک مخالف اسلام نے غالباً تناسخ کے عقیدہ کے تعلق میں آپ کے سامنے اسلام کی تعلی پر کوئی اعتراض کیا کہ ترجیح بلا مرجح ناممکن ہے.آپ نے جھٹ اپنی جیب میں سے دو روپے نکال کر اس کے سامنے کر دیئے کہ ان میں سے ایک اٹھا لو.وہ آدمی بھی کچھ سمجھ دار تھا.تھوڑی دیر سوچ کر کہنے لگا کہ آپ نے مجھے لا جواب تو کر دیا مگر میری تسلی نہیں ہوئی.آپ نے فرمایا تسلی دینا خدا کا کام ہے.مگر میں تمہیں اسلام کے خلاف ایک قدم بھی چلنے نہیں دوں گا.امرتسر میں عبد اللہ آتھم کے ساتھ

Page 1063

۱۰۵۱ مضامین بشیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پندرہ دن تک مناظرہ رہا اور آتھم نے بیسیوں میدان بدلے مگر اس نے جس جھاڑی میں بھی پناہ لی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی جھاڑی میں اس کا پیچھا کر کے اس پر ضرب لگائی اور اسے کھلی رسی دی کہ جدھر چاہے بھاگ کر دیکھ لے اسے کہیں پناہ نہیں ملے گی.مناظرہ کا یہ طریق حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے طریق سے بالکل مختلف تھا.اس لئے کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صبر اور ہمت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ یہ حضرت صاحب ہی کی ہمت تھی کہ آتھم کو پندرہ دن کی طویل مہلت دے کر اور اس کا رستہ کھلا چھوڑ کر ہر وادی اور ہر گھائی میں اس کا پیچھا کیا.اگر میں ہوتا تو خواہ آتھم کا دل ما نتایا ناما نتا اسے چند منٹ میں خاموش کرا کے بحث ختم کر دیتا.نظریوں کا دلچسپ اختلاف اسی نکتہ پر مبنی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدا داد منصب رسالت کی بناء پر ہر جہت سے دشمن کی تسلی کرانے کی کوشش فرماتے تھے مگر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے دومنٹ میں خاموش کرا کے میدان صاف کر دینے کے موید تھے خواہ تسلی ہو یا نہ ہو.دونوں روحانیت کے میدان کے آزمودہ کا رشکاری تھے مگر ایک شکاری اپنے شکار کے لئے کھلا رستہ چھوڑ کر اور ہر رستہ میں اس کا پیچھا کر کے اسے تھکا تھکا کر گرا تا تھا تا وہ یہ محسوس کر لے کہ میں نے ہر جتن کر دیکھا مگر اس خدائی شکاری سے بچ کر نہ نکل سکا لیکن دوسرا شکاری اپنے شکار کے سامنے کھڑا ہو کر اس کا رستہ بند کر دیتا تھا.اس فرق کی وجہ سے ایک شکاری کا شکار بسا اوقات اپنی بے بسی محسوس کر کے اپنی مغلوبیت پر تسلی پا جاتا تھا لیکن دوسرے شکاری کا شکار اپنا رستہ مسدود پا کر کڑھتا اور تلملا تا تو بہت تھا مگر ساتھ ہی خیال کرتا تھا کہ اگر ذرا رستہ مل جائے تو میں اب بھی بھاگنے کی ہمت رکھتا ہوں.لاریب روحانی اصلاح کے اصول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق ہی بہتر تھا لیکن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے شکار کی مذبوحی کیفیت بھی بس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی.یہ وہ دلچسپ فرق ہیں جو نبیوں تک میں چلتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے حضرت خلیفہ اول کا جذبہ اطاعت و احترام کمال کو پہنچا ہوا تھا اور آپ کو اس جذ بہ میں اس قدر غلبہ تھا کہ بسا اوقات ظاہری سامانوں کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر کے خالص تو کل الہی پر ایک قدم اٹھا لیتے تھے.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۴ء میں دہلی تشریف لے گئے تو اس سفر میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ساتھ نہیں تھے.دہلی میں غالباً حضرت نانا جان مرحوم کی بیماری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو تار دلوائی کہ فوراً دلی پہنچ جائیں.تار لکھنے والے نے تار میں اپنیجی ایٹ لی ( یعنی بلا توقف ) کے الفاظ لکھ دیئے.حضرت خلیفہ اول کو جب یہ تارپہنچی تو اس وقت آپ اپنے مطب میں تشریف رکھتے -

Page 1064

مضامین بشیر ۱۰۵۲ تھے.تار کے ملتے ہی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ حضرت صاحب نے بلا تو قف بلایا ہے.میں جاتا ہوں اور گھر میں قدم تک رکھنے کے بغیر سید ھے اڈہ خانہ کی طرف روانہ ہو گئے.کیفیت یہ تھی کہ اس وقت نہ جیب میں خرچ تھا اور نہ ساتھ کوئی بستر وغیرہ.گھر والوں کو اطلاع ملی تو پیچھے سے ایک کمبل تو کسی شخص کے ہاتھ بھجوا دیا مگر خرچ کا انہیں بھی خیال نہیں آیا اور شاید اس وقت گھر میں کوئی رقم ہوگی بھی نہیں.اڈہ خانہ پہنچ کر حضرت خلیفہ اول نے یکہ لیا اور بٹالہ پہنچ گئے مگر ٹکٹ خریدنے کا کوئی سامان نہیں تھا.چونکہ گاڑی میں کچھ وقت تھا.آپ خدا پر توکل کر کے اسٹیشن پر ٹہلنے لگ گئے.اتنے میں غالباً ایک ہندو رئیس آیا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر عرض کی کہ میری بیوی بہت بیمار ہے آپ تکلیف فرما کر میرے ساتھ تشریف لے چلیں اور اسے میرے گھر پر دیکھ آئیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو امام کے حکم پر دلی جا رہا ہوں اور گاڑی کا وقت ہونے والا ہے.میں اس وقت نہیں جا سکتا.اس نے سمنت عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو یہیں اسٹیشن پر لے آتا ہوں.آپ اسے یہیں دیکھ لیں.آپ نے فرمایا اگر یہاں لے آؤ اور گاڑی کا وقت ہوا تو میں دیکھ لوں گا.چنانچہ وہ اپنی بیوی کو اسٹیشن پر لایا اور آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا اور یہ ہندو رئیس چپکے سے گیا اور دلی کا ٹکٹ لا کر حضرت خلیفہ اول کے حوالہ کیا اور ساتھ ہی معقول نقدی بھی پیش کی.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے رب پر بھروسہ کر کے کوئی قدم اٹھاتا ہوں تو خدا میرا کام رکنے نہیں دیتا.بہر حال اسی ایک واقعہ سے (جس کی تفصیل میں ممکن ہے مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو مگر بنیادی حقیقت یقیناً یہی ہے ) آپ کے مقامِ اطاعت اور مقام تو کل کی غیر معمولی شان ظاہر ہے اور اس کے ساتھ ہی خدا کی اس شفقت کی شان بھی عیاں ہے جو اسے اپنے اس اطاعت شعار اور متوکل بندے کے ساتھ تھی.ایک دفعہ ایک شخص نے اپنی لڑکی کے رشتہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشورہ پوچھا.حضور نے ایک رشتہ کی سفارش فرمائی لیکن اس شخص کو کسی وجہ سے اس پر تسلی نہ ہوئی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہو کر اس نے عرض کیا کہ حضرت صاحب نے فلاں رشتہ تجویز فرمایا ہے.مگر میرا دل تسلی نہیں پاتا.آپ نے بے ساختہ فرمایا.خدا کی قسم اگر حضرت صاحب میری اکلوتی لڑکی امتہ الحی کے متعلق فرما ئیں کہ اسے فلاں چوہڑے سے بیاہ دو تو مجھے ایک سیکنڈ کے لئے بھی تامل نہ ہو.ہمارا خدا بھی کتنا نکتہ نواز ہے اس نے حضرت خلیفہ اول کی اس بات کو زمین سے اٹھا کر اپنی رحمت کے دامن میں جگہ دی اور بالآخر آپ کی یہی لڑکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی بیوی بن کر دار امسیح میں داخل ہو گئی.بعض اوقات ہمارے خدا کا بھی کیسا نقد

Page 1065

۱۰۵۳ مضامین بشیر بنقد سودا ہوتا ہے.ادب اور تواضع کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ جب ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا ( اور اسی بیماری میں وہ فوت ہو گیا ) اور اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو غالبا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے ہاتھ ہی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا.اس وقت مبارک احمد کی چار پائی دارا مسیح کے صحن میں بچھی ہوئی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی چار پائی پر تشریف رکھتے تھے.حضرت خلیفہ اوّل تشریف لائے.مبارک احمد کو دیکھا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بات کرنے کے لئے ایک سیکنڈ کی جھجھک اور تامل کے بغیر چار پائی کے ساتھ صحن میں ہی نگی زمین یعنی فرش خاک پر بیٹھ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شفقت سے فرمایا.مولوی صاحب چار پائی پر بیٹھیں.اس وقت بس یہی ایک چار پائی تھی جس پر مبارک مرحوم لیٹا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے.حضرت خلیفہ اول سرک کر چار پائی کے قریب ہو گئے اور ایک ہاتھ چارپائی کے ایک کنارے پر رکھ کر بدستور فرش پر بیٹھے بیٹھے عرض کیا.حضرت میں ٹھیک بیٹھا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر محبت کے ساتھ فرمایا اور اس دفعہ غالباً حضرت خلیفہ اول کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر فرمایا.مولوی صاحب یہاں میرے ساتھ چار پائی پر بیٹھیں.حضرت خلیفہ اول نا چا راٹھے اور چار پائی کے ایک کنارے پر اس طرح جھک کر بیٹھ گئے کہ بس شاید چار پائی کے ساتھ آپ کا جسم چھوتا ہی ہو گا.یہ نظارہ میری آنکھوں دیکھے کا ہے اور ترتالیس سال گزر جانے کے باوجود میرا دل ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بے نظیر شفقت اور حضرت خلیفہ اول کے اس بے نظیر ادب و تواضع سے اس درجہ متاثر ہے کہ گویا یہ کل کا واقعہ ہے اور دراصل یہ ادب اور تو اضع ہی حقیقی تصوف کی جان ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے انہی اوصاف حمیدہ اور کمالات علمی اور روحانی کا یہ نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی بے حد قدر فرماتے تھے اور آپ کے ساتھ انتہا درجہ محبت رکھتے تھے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی بیویوں میں یہ دلچسپ اختلاف ہو گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان میں سے کس کے خاوند کے ساتھ زیادہ محبت ہے.آخر ہماری والدہ صاحبہ حضرت ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا تک معاملہ پہنچا اور ان کی رائے پوچھی گئی.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ میرے علم میں تو بڑے مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ اول) کے ساتھ زیادہ محبت ہے مگر ابھی اس کا امتحان کئے لیتے ہیں.چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ کے سب سے زیادہ پیارے رفیق....ابھی وہ اس فقرہ کو پورا نہیں کرنے پائی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلدی سے فرمایا.کیوں -

Page 1066

مضامین بشیر ۱۰۵۴ مولوی نورالدین صاحب کی کیا بات ہے؟ اور اس طرح یہ حل شدہ مسئلہ دوبارہ حل ہو گیا.مگر کیا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی تعریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمانا کسی اور شہادت کی گنجائش چھوڑ تا ہے کہ : چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نوردیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے پھر خدا نے بھی آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد احمدیت کا پہلا خلیفہ منتخب کر کے صدیق ثانی کے منصب پر پر نوازا اور مرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلو میں جگہ عنایت کی.میرا مضمون کچھ لمبا ہو گیا ہے.اس لئے اب آخری واقعہ جو میری ذات سے تعلق رکھتا ہے، بیان کر کے اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی حالت آخری بیماری میں نازک ہوئی اور بظاہر نا امیدی کی حالت پیدا ہوگئی تو مجھے لاہور سے تار کے ذریعہ بلایا گیا.جہاں میں بی.اے کے امتحان کی تیاری کے لئے آیا ہوا تھا.میں جب قادیان گیا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی کوٹھی کے مردانہ کمرے میں بیمار پڑے ہوئے تھے اور کمزوری انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی.میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا.آپ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنا نحیف ہاتھ آگے بڑھا کر شفقت اور محبت کے ساتھ میرے سر پر رکھ دیا.یہ جمعرات کا دن تھا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے ساتھ میری یہ آخری ملاقات تھی کیونکہ دوسرے دن جمعہ کے روز آپ کی روح آسمانی آقا کے حضور پہنچ گئی اور جس بات کا مجھے آج تک دکھ ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ ان ایام میں غیر مبایعی کا فتنہ انتہاء کو پہنچا ہوا تھا اور جماعت دو ٹکڑے ہوتی نظر آتی تھی.اس لئے ہم لوگ ہر دوسری بات کی طرف سے خیال ہٹا کر کلیہ اس فتنہ کے سدباب کی طرف متوجہ ہو گئے تھے اور ہمارے اوقات کی ہر گھڑی اسی فکر اور اسی جد و جہد میں گزر رہی تھی جس کی وجہ سے میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ کا چہرہ تک نہیں دیکھ سکا.جماعتی ضرورت کے ماتحت اس وقت یہی انہماک مقدم تھا مگر باوجود اس کے جذباتی رنگ میں میرے دل میں آج تک اس محرومی کا قلق ہے لیکن اب اس قلق کا علاج ( چوں علاج مے زمے ) اس کے سوا کچھ نہیں کہ زنده خواهی داشتن گرداغ ہائے سینہ را گاہے گاہے باز خواں آں قصہ پارینه را بالآخر میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے عرض کروں گا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی سوانح عمری حیات نور الدین کا ضرور مطالعہ کریں.جس کا بیشتر حصہ خود حضرت خلیفہ اول رضی اللہ

Page 1067

۱۰۵۵ مضامین بشیر عنہ کا املاء کروایا ہوا ہے اور لا ریب یہ کتاب تصوف اور تو کل اور تواضع کے موتیوں سے اس طرح مزین ہے کہ کوئی صاحب دل شخص اس کے مطالعہ کے بعد آپ کے ان روحانی کمالات کا گہرا نقش لئے بغیر نہیں رہ سکتا.خدا نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیسے کیسے باکمال حواری عطا کئے تھے جو ہر دشمن کے لئے شکست کا پیغام اور ہر دوست کے لئے علم و معرفت اور برکت اور رحمت کا سلام بن کر رہتے تھے.خدا کرے کہ ہم ان بزرگوں کے روحانی ورثہ کو زندہ رکھ سکیں.آمین ی الراحمين و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.( مطبوعه الفضل ۶ ؍ دسمبر ۱۹۵۰ء) حم

Page 1068

مضامین بشیر ۱۰۵۶ ایک غلطی کی اصلاح حضرت ام المؤمنین کی شادی ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی ۲۲ نومبر ۱۹۵۰ء کے الفضل میں میری طرف سے حضرت اماں جان ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا کے لئے دعا کی تحریک شائع ہوئی تھی اور اس کے بعد یہی تحریک غالباً ۲۷ نومبر ۱۹۵۰ء کے الرحمت میں شائع ہوئی ہے.اس تعلق میں مجھے ہندوستان کے دوستوں کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ الرحمت میں حضرت ام المؤمنین اطال اللہ ظلہا کی شادی کی تاریخ ۱۸۹۴ء چھپ گئی ہے.سو معلوم ہوتا ہے ” الرحمت میں کتابت کی غلطی سے غلط تاریخ درج ہو گئی ہے ورنہ میں نے ۱۸۸۴ء لکھا تھا اور یہی الفضل میں چھپا ہے.بہر حال دوست اس کی اصلاح فرمالیں کہ حضرت اماں جان اطال الله بقاءها کی شادی کا سال ۱۸۸۴ء ہے نہ کہ ۱۸۹۴ ء جو بالبداہت غلط ہے کیونکہ اس سے پہلے تو حضرت اماں جان مدظلہا کے کئی بچے بھی پیدا ہو چکے تھے.نیز اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ خاکسار حضرت ام المؤمنین اطال اللہ بقاء ھا کے لئے دوستوں کی خدمت میں پھر دعا کی تحریک کرتا ہے.مجھے کئی دوستوں نے لکھا ہے کہ وہ پہلے بھی دعائیں کرتے تھے اور اب خصوصیت کے ساتھ کرتے ہیں.فجزاهم الله احسن الجزا.ربوہ سے اطلاع ملی ہے کہ حضرت اماں جان کی طبیعت پہلے سے قدرے بہتر ہے.فـــالــحــمــد الله عـلـى ذالک و ان شكرتم لا زيد نكم.( مطبوعه الفضل ۶ / دسمبر ۱۹۵۰)

Page 1069

۱۰۵۷ مضامین بشیر ربوہ میں شادی کی مبارک تقریب ۱۰ دسمبر ۱۹۵۰ء کو ربوہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم کی دختر سیدہ امتہ الہادی سلمہا کی شادی کی تقریب پیر صلاح الدین صاحب ای.اے سی کے چھوٹے بھائی کیپٹن پیر ضیاء الدین صاحب ( پسر حضرت پیر اکبر علی صاحب مرحوم ) کے ساتھ عمل میں آئی.نکاح حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی علالت کے باوجود چند دوستوں کی موجودگی میں اڑھائی ہزار روپے مہر پر پڑھا اور اسی دن بعد دو پہر لڑ کی رخصت ہو کر لاہور آگئی.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس شادی خانہ آبادی کو ہر جہت سے مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ بنائے.آمین ( مطبوعه الفضل ۱۳؍ دسمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1070

مضامین بشیر ۱۰۵۸ قادیان جانے والوں کے متعلق ضروری اعلان حکومت نے تعداد اور تاریخ مقرر کردی احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ حکومت پاک پنجاب نے اطلاع دی ہے کہ قادیان کے سالانہ اجتماع پر جانے والوں کی تعداد ایک سو اور تاریخیں ۲۵ / دسمبر تا ۳۰ / دسمبر مقرر ہوگئی ہیں.پس : (1) جن بھائیوں اور بہنوں کو میرے دفتر کی طرف سے رجسٹری خطوط کے ذریعہ اطلاع پہنچے وہ ۲۴ دسمبر ( بروز اتوار ) کی شام تک ضرور لاہور پہنچ جائیں مگر ان کے علاوہ دوسرے دوست قادیان جانے کی غرض سے تشریف نہ لائیں کیونکہ آخری فیصلہ کے بعد کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی.(۲) قادیان جانے والے احباب موسم کی ضرورت کے مطابق اپنے ساتھ گرم بستر ضرور لائیں ور نہ تکلیف ہوگی.(۳) جن بہنوں کو لاہور آنے کی اطلاع پہنچے وہ اپنے ساتھ بچے ہرگز نہ لائیں کیونکہ بچوں کی علیحد ہ منظوری ضروری ہوتی ہے.(۴) لاہور میں مردوں کے لئے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ۱۳ ٹمپل روڈ کے مکان پر ٹھہرنے کا انتظام ہوگا.اور عورتوں کے لئے جو دھامل بلڈنگ بالمقابل رتن باغ میں انتظام کیا گیا ہے.(۵) لاہور سے قادیان جانے اور پھر واپس آنے کے لئے فی کس دس روپے پیشگی وصول کئے جائیں گے جو روانگی سے قبل میرے دفتر میں باخذ رسید جمع کرا دینے چاہئیں.(۶) قافلہ کی روانگی انشاء اللہ ۲۵ / دسمبر ( بروز پیر ) ساڑھے آٹھ بجے صبح رتن باغ لاہور سے ہوگی.( ۷ ) جن احباب کو دعوت نامہ پہنچے وہ اپنے علاقہ کے ان احمدیوں سے مل کر آئیں جن کے رشته دار قادیان میں ہیں تا کہ ان کی طرف سے ضروری پیغام اور خیریت کی خبر لے جاسکیں.(۸) چونکہ یہ ایک مقدس سفر ہے.احباب دعا کرتے ہوئے گھر سے روانہ ہوں اور دعا کرتے ہوئے جائیں اور قادیان میں بھی خاص دعاؤں کا پروگرام رکھیں اور دعا کرتے ہوئے واپس آئیں.اللہ تعالیٰ سب کے ساتھ ہوا اور حافظ وناصر رہے.مطبوعه الفضل ۱۴؍ دسمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1071

۱۰۵۹ مضامین بشیر نام کی تبدیلی عزیزم لیفٹینٹ سید سعید حسن صاحب حال کو ئٹہ (جو ہمارے مرحوم ماموں حضرت میر اسحاق کے داماد ہیں ) نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے اپنا نام سعید حسن سے تبدیل کر کے سعید احمد رکھ لیا ہے اور ان کا یہ نیا نام سرکاری طور پر منظور بھی ہو گیا ہے.پس احباب ان کے نام کی اس تبدیلی کو نوٹ فرما لیں اور آئندہ انہیں نئے نام یعنی سید سعید احمد سے یا دفرمایا کریں.( مطبوعه الفضل ۱۴؍ دسمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1072

مضامین بشیر 1.7.مندرجہ ذیل دوست قادیان جانے کے لئے تیار ہیں اس جلسہ پر قادیان جانے کے لئے یکصد دوستوں کا انتخاب کرلیا گیا ہے اور انہیں رجسٹری خطوط بھجوائے جا رہے ہیں.روانگی انشاء اللہ ۲۵ / دسمبر ( بروز پیر ) صبح آٹھ بجے رتن باغ لاہور سے ہوگی مگر جانے والے دوستوں کو ۲۴ / دسمبر کی شام تک ضرور لاہور پہنچ جانا چاہئے اور صرف وہی دوست لاہور تشریف لائیں جنہیں دفتر ہذا کی طرف سے منظوری کی اطلاع پہنچے.دوسرے دوست تکلیف نہ فرمائیں.ذیل میں صرف ان دوستوں کی فہرست دی جاتی ہے جو صوبہ سندھ ، ریاست خیر پور اور ریاست بہاولپور میں سے منتخب کئے گئے ہیں کیونکہ وہ دور کے علاقہ کے ہیں اور ان کے متعلق دہری احتیاط کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ ذیل کی فہرست میں پنجاب کے وہ دوست بھی شامل کر لئے گئے ہیں جن کی طرف سے خود درخواست نہیں آئی مگر ان کے درویش رشتہ داروں نے ان کے متعلق قادیان سے تاکیداً لکھا ہے کیونکہ ایسے دوستوں کے متعلق بھی دہری احتیاط ضروری ہے.ان کے علاوہ باقی دوستوں کو صرف رجسٹری خطوط کے ذریعہ اطلاع بھجوائی جا رہی ہے.ذیل کی فہرست میں عورتوں کے نام بھی شامل نہیں کئے گئے کیونکہ ان کے متعلق فی الحال ایک روک پیدا ہوگئی ہے.اگر یہ روک دور ہوگئی تو پھر اطلاع دی جائے گی.(1) چوہدری رستم علی صاحب ( والد نذیر احمد صاحب درویش ) محمود آبا دا سٹیٹ (سندھ) (۲) سردار خاں صاحب ( ولد نذیر احمد صاحب در ولیش) محمود آبا دا سٹیٹ (سندھ) (۳) شاہ دین صاحب ( برادر خدا بخش صاحب درویش ) ظفر اسٹیٹ (سندھ) (۴) عزیز دین صاحب ( ولد بابا بھاگ صاحب درویش ) کرونڈی (سندھ) (۵) میاں عزیز الدین صاحب ( ولد محمد صدیق صاحب درویش ) محمود آباد اسٹیٹ (سندھ) (۶) مولوی عبد السلام صاحب عمر ) خلف حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ) لاکھا روڈ نوابشاہ (سندھ) (۷) چوہدری غلام قادر صاحب چیمہ ( والد منظور احمد صاحب در ولیش) چک ۸۴ ( بہاولپور سٹیٹ ) (۸) چوہدری غلام محمد صاحب صاحب ( والد نبی احمد صاحب در ولیش ) دلیہ میر خاں شہانی (ریاست خیر پور ) (۹) عبد الرحمن صاحب ( برادر محمد عبد اللہ صاحب در ولیش ) چک ایل -۳۲۲/۲ ( ضلع ملتان )

Page 1073

1+71 مضامین بشیر (۱۰) چوہدری غلام محمد صاحب ( والد بشیر احمد صاحب در ولیش ) ظفر اسٹیٹ ( سندھ) (11) فقیر محمد صاحب تنگلی ( والد محمد اسمعیل صاحب در ولیش ) چک ۹۶ ( لائل پور ) (۱۲) محمد دین صاحب ( والد غلام قادر صاحب در ولیش ) چک ۴۶ شمالی (سرگودھا) (۱۳) محمد شفیع صاحب ( بہا در فتح محمد صاحب در ویش ) شیخ پور ( گجرات ) (۱۴) محمد عبد اللہ صاحب ( والد فضل الہی صاحب درویش ) کھاریاں ( گجرات ) (۱۵) چوہدری محمد شریف صاحب ( برادر محمد طفیل صاحب درویش ) کوٹ نیناں ( تحصیل شکر گڑھ سیالکوٹ ) (۱۶) محمد اسلم صاحب (بر ا د ر احمد حسین صاحب در ولیش ) احمد نگر (جھنگ) (۱۷) مستری ناظر دین صاحب (خسر محمد دین صاحب در ولیش ) احمد نگر (جھنگ) (۱۸) امام دین صاحب ( پسر کرم الہی صاحب درویش ) شامکے ( شیخو پورہ) (۱۹) عبدالریشد صاحب طالب علم ( ولد دفعہ دار محمد عبد اللہ صاحب در ولیش ) گجرات (۲۰) محمد رمضان صاحب رنگریز ( والد عبد الواحد صاحب درویش ) ترگڑی ( ضلع گوجرانوالہ) مطبوعہ الفضل ۷ار دسمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1074

مضامین بشیر قافلہ قادیان کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب ہوں گے احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ حضرت امیر المؤمنین خلیفہ المسیح ایدہ اللہ نے اس جلسہ سالانہ پر قادیان جانے والے قافلہ کا امیر محترمی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نمبر ۳ ا ٹمپل روڈ لا ہور کو مقرر فرمایا ہے.جن بھائیوں کو رجسٹری خطوط کے ذریعہ اطلاع بھجوائی گئی ہے انہیں ۲۴ / دسمبر ( بروز اتوار ) کی شام تک لاہور پہنچ جانا چاہئے کیونکہ قافلہ انشاءاللہ ۲۵ / دسمبر ( بروز پیر ) کی صبح کو آٹھ بجے رتن باغ لاہور سے روانہ ہو گا.صرف وہی احباب تشریف لا ئیں جنہیں دفتر ہذا کی طرف سے اطلاع بھجوائی گئی ہے.( مطبوعہ الفضل ۱۷؍ دسمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1075

مضامین بشیر قادیان میں ایک درویش کی اچانک وفات قادیان کی ایک تازہ اطلاع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک درویش مسٹر ا هیچ حسن مالا باری حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے قادیان میں اچانک وفات پاگئے ہیں.مرحوم بعض دوسرے درویشوں کے ساتھ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد سلمہ کے استقبال کے لئے ریلوے اسٹیشن قادیان پر گئے تھے اور وہاں دل کی حرکت بند ہو جانے کی وجہ سے اچانک وفات پاگئے.انا لله وانا اليه راجعون - مرحوم نے اپنے پیچھے ایک بیوی اور پانچ بچے چھوڑے ہیں جن میں سے بڑے لڑکے کی عمر ۹.۱۰ سال کی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہوا اور مرنے والے کو اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے آمین.مطبوعه الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1076

مضامین بشیر ۱۰۶۴ قادیان کے درویشوں میں پہلے بچہ کی ولادت قادیان کی تازہ ڈاک سے معلوم ہوا ہے کہ ۱۲ / دسمبر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مولوی عبدالقادر صاحب جنرل پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ قادیان کو پہلا لڑکا عطا فرمایا ہے.قریباً ایک سال ہوا مولوی عبد القادر صاحب موصوف کی قادیان میں ہی شادی ہوئی تھی جو درویشوں میں سب سے پہلی شادی تھی اور اب خدا تعالیٰ نے فضل سے انہیں فرزند عطا کیا ہے جو قادیان کے موجودہ دور میں سب سے پہلا بچہ ہے.فالحمد الله علی ذالک اللهم زد فرد اللہ تعالیٰ اس بچہ کی ولادت کو اپنے والدین کے لئے اور جماعت احمدیہ قادیان کے لئے مبارک کرے اور بچہ کو اسلام اور احمدیت کا خادم بنائے اور حافظ و ناصر ہو.آمین یہ بچہ ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی چشمہ والے حال دواخانہ طب جدید بڑا بازار میانی ضلع سرگودھا کا پوتا ہے.مطبوعه الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۵۰ء)

Page 1077

-1 -۲ التوبة : 19 النور : ٢٩ ۱۰۶۵ ۱۹۵۰ء حوالہ جات -٣ -۵ -۶ -L -^ -9 -1.-11 -۱۲ مستدرک حاکم کتاب العلم حدیث نمبر ۳۹۱ الماعون : ۵ تا ۷ صلى الله صحيح البخاری کتاب الایمان باب سوال جبريل النبي علم ترمذى كتاب الدعوات باب فضل الدعاء اخبار زمیندار لاہور.۱۸ ؍ دسمبر ۱۹۴۷ء نوائے وقت لاہور.یکم اگست ۱۹۴۷ء اخبار احسان لاہور.۲۱ فروری ۱۹۵۰ء ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۷۸ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۷۸ ۱۳ - الفرقان : ۵۳ -۱۴ تفسیر روح المعانی سورۃ النساء آیت ۹۶٬۹۵ ۱۵- مسند احمد بن حنبل روایت نمبر ۶۹۲۱ -10 -17 -12 -IA _19 -۲۰ متی باب ۵ سنن ابن ماجه کتاب الفتن باب بدأ الاسلام غريبا الرحمن : ۲۱ ترمذی کتاب صفة القيامة باب نمبر ۶۰ بخارى كتاب الجنائز باب قول النبي انا بك لمحزونون مضامین بشیر

Page 1078

مضامین بشیر -۲۱ ۱۰۶۶ جمع الجوامع او الجامع الكبير للسيوطى جلد ا صفحه ١١٦٢ ۲۲ - الشعراء: ۲۲۶ ۲۳ - البقرة : ۱۴۴ -۲۵ -۲۶ بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدينه صحيح البخارى كتاب الزكواة باب اخذا لصدقة من الاغنياء وتردوالى الفقراء حيث كانوا ۲۷- الرحمن : ۲۸ -۲۸ -۲۹ -۳۰ -۳۱ -٣٢ المائدہ : ۲۱ الاحزاب : ۳۲۳۱ ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) ۱۹۱۳ء تذکره صفحه ۴۲۰ الحج : ۵۳ ۳۳ - متنی باب ۷ آیت ۱۷ -۳۴ مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر۲۱۲۵۷ -۳۵ البدايه والنهاية جلد ۸ صفحه ۴۳ الانعام: ۷۷ ۳۷ - الانعام: ۱۲۹ ۳۸- الجن :۲ ۳۹ - الکهف : ۵۱ - ۴۰ الاحزاب : ۶۳ المومنون: ۱۰۱ ۴۲ - الانفال: ۲۵ ۲۳ - البقره: ۲۸۷ -۴۴ بشیر احمد ، شریف احمد و مبارکہ کی آمین از در تشین اردو -۴۵ پاکستان ٹائمنر لاہور.مورخہ ۷ ارجون ۱۹۵۰ء ۴۶ بخاری کتاب الصوم باب قول النبى اذا رائيتم الهلال فصوموا و إذا رايتموه

Page 1079

1.72 ۴۷ - نیل الاوطار مصنفہ امام شوکانی - ۴۸ بخارى كتاب صلواة التراويح باب العمل فى العشر الا واخر من رمضان ۴۹ - البقره: ۱۸۷ -۵۰ ۵۱ ۵۲ الكهف : ۱۰۵ البقره: ۲۵۴ ۵۳ - الذریت : ۲۰ مضامین بشیر ۵۴ سنن الترمذى ابواب البر والصلة باب ماجاء فى الشكر لمن احسن الیک -۵۵ مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان و الاسلام و الاحسان ۵۶ الاعراف: ۹ ۵۷ - المجادله : ۲۲ متفرق اشعار در مشین اردو.مجموعہ اشتہارات ۵۹ - الفتح : ۲۴ -7.-71 -۶۲ الرحمن : ۲۱ الشمس: ۱۵ -۶۴ ܬ'- -72 -71 الرحيق المختوم جلد صفحه ۳۳ باب الاسرة النبوية سنن الترمذى كتاب الاضاحي باب الدليل على ان الاضحية سنة سنن ابو داؤد كتاب الضحايا باب الاضحية عن البيت بخارى كتاب الجمعة باب التكبير الى العيد نصب الراية لا حاديث الهداية جلد ۶ صفحه ۲۰۷ سنن الترمذى كتاب الاضاحي عن رسول الله باب الدليل على ان الاضحية سنة سنن ابن ماجه کتاب الاضاحی باب ثواب الاضحية صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب استحباب الضحيه و ذبحها مباشرة بلا توكيل وتسمية -1• -21 الاحزاب:۲۲ النساء: ۶۰ ۷۲ - المومنون : ۳۷

Page 1080

مضامین بشیر ۷۳- سورة الكوثر ۷۴.البقره: ۱۹۷ -20 - تحفة الاحوذی جلد۵ صفحه ۷۹ ۷۷ - التوبة : 111 النساء: ۹۶ ۷۹- كتاب الفقه على مذاهب الاربعة جزا صفحه ۱۱۶ از رعنوان مباحث الاضحية -MI -۸۲ البقره: ۲۸۷ مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۱۹۸۹۶ صحیح مسلم کتاب الاشربة باب جو از استتباعة غيره الى دار من ثيق براضاه ۸۳ - البقره: ۱۹۷ ۸۴ بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرء لدينه -۸۵ بخاری کتاب الاضاحي باب مايوكل من لحوم لاضاحی و ما يتزود منها کتاب الفقهه على المذاهب الاربعة جلد ا صفحه ۱۱۱۴ مسلم کتاب السلام باب لكل داء دواء ۸۸- آل عمران: ۱۸۶ -19 -90 سنن ابن ماجه باب کتاب ماجاء في الجنائز باب ماجاء فی الصلواة على ابن رسول الله سنن الترمذى كتاب القدر عن رسول الله باب ماجاء لا يردّا القدر الا الدعاء -91 -۹۲ -۹۳ النحل : ۱۲۶ الکهف : ۵۵ هود : ۷۵ ۹۴ - الفرقان : ۶۴ ۹۵ : ۹۶ - العنكبوت: ۱۹ ۹۷- الحجر : ۹۵ -92 -۹۸ المائدہ: ۶۸

Page 1081

۹۹ - المومنون : ۳۷ -1++ الصف : 1+1- الاحزاب : ۲۲ -١٠٢ -107 سنن الترمذى كتاب الطهارة عن رسول الله باب ماجاء في فضل الطهور صحیح مسلم كتاب الايمان باب فى قول النبي انا اوّل الناس يشفع ۱۰۴ - المجادلہ: ۲۱ ۱۰۵ - الرعد : ۴۱ ۱۰۶ - البقره: ۱۲۰ -1+2 -1•1 الحج : ۳۷ ۱۰۹ - العنكبوت: ۴۶ +11- -111 الج : ۳۷ الحجر : الذريت : ۱۱ ۱۲ بنی اسرائیل :۸۲ ۱۱۴ - المنافقون :۲ ۱۱۶۰۱۱۵ - النساء: ۳۵ -112 ۱۷ سنن الترمذى كتاب الرضاع باب حق المرأة على زوجها ۱۱۸ -119 السنن الكبرى جلدے صفحہ ۳۰۵ مضامین بشیر -۱۲۰ ۱۲۱ -۱۲۲ كتاب القسم و النشوز باب الاختيار فی ترک الضرب روایت نمبر ۱۴۵۱۷ سنن ابو داؤد كتاب النکاح باب في حق المرأة على زوجها سنن ابو داؤد کتاب النکاح باب فى ضرب النساء روایت ۲۱۴۸ سنن الترمذى ابواب المناقب باب فضل ازدواج النبي صلى الله عليه وسلم ۱۲۳ صحیح مسلم کتاب الرضاء باب خير متاع الدنيا المراة الصالحة ۱۲۴- سنن الترمذى كتاب الدعوات عن رسول الله باب في دعاء يوم عرفة

Page 1082

مضامین بشیر ۱۲۵- مسلم کتاب الحج باب في فضل الحج و العمرة و يوم عرفة ۱۲۶- بخاری کتاب احادیث الانبياء باب ماذكر عن بنی اسرائیل ۱۲۷ - العصر ۱۲۸ - البقره :۲۰۲ ۱۲۹- بخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک ۱۳۰- سنن الترمذى كتاب المناقب عن رسول الله باب من فضل عائشه -۱۳۱ النور :٣٢ ۱۳۲- الشعراء:۲۳ ۱۳۳- یوسف:۷۷ ۱۳۴ الانعام: ۱۲۵ ۱۳۵ - هود : ۴۷ ص: ۳۵ ۱۳۷ سنن ابن ماجه باب کتاب ماجاء في الجنائز باب ماجاء فى الصلواة على ابن رسول الله ۱۳۸ - الاحزاب : ۴۱ ۱۳۹ - تذکره صفحه ۴۹۰ طبع جدید ۱۴۰ جامع الاحادیث جلد ۲۳ صفحه ۹۹ -IM تذکره صفحه ۴۶۴ طبع جدید ۱۴۲- تذکره صفحه ۴۶۵ ۱۴۳ - البقرة: ۲۲۰ ۱۴۲۴ - البقره: ۲۷۶، ۲۷۷ ۱۴۵ - الحشر : ۱۹ ۱۴۶- بخارى كتاب الوصايا باب ان يترك ورثته اغنياء خير من ان يتكففوا الناس ۱۲۰،۱۱۹ : ۱۴۷ -۱۴۸ اتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة جلد ۵ صفحه ۱۸۱ ۱۴۹- بخاری کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی قول الله تعالى و هو الذي يبدأ الخلق ۱۵۰- ابراهیم: ۴۸

Page 1083

۱۵۱ - السجدة : ۲۳ 1+21 ۱۵۲ مرقاة المفاتيح شرح مشکواۃ جلد ۲ صفحہ ۱۶۶ ۱۵۳ الانفال: ۱۷ - ۱۵۴ - الصف:۱۰ ۱۵۵ مشکوة کتاب الفتن باب العلامات بين يدى الماعة و ذكر ۱۵۶ - تذکره صفحه ۳۰۸ طبع جدید ۱۵۷- تذکره صفحه ۱۰۲ طبع جدید ۱۵۸ سنن الترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء فى الشكر لمن احسن الیک ۱۵۹- بخارى كتاب بدء الوحي باب بدء الوحي مضامین بشیر -170

Page 1084

۱۰۷۲ مضامین بشیر

Page 1085

اشاریہ مضامین بشیر جلد دوم مرتبہ: عبدالمالک آیات قرآنیہ احادیث نبوی الہامات حضرت مسیح موعود اسماء مقامات ۱۲ ۲۳ مضامین بشیر

Page 1086

آیات حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً..فَلَمَّا أَحَشَ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارَى إِلَى اللهِ.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ ط مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ اتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ۵۷ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ و الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ..١٠ وَهُذَا كِتُبُ أَنْزَلْنَهُ مُبْرَك ١٠ هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ۲۶،۱۱ | إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا.رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ.لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ 6 فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ.........قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ......لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ٢٦ فَنَظَرَةٌ إلى مَيْسَرَةٍ كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِي لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.۲۷ | قُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا إثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ وَلَهُمْ عَلَى ذَنْبٌ وَ اللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ b ج ۵۹ ۶۱ 수수 ۷۳ 112 ۱۲۲ ۱۲۴ ۱۲۷ ۱۳۱ 171 ۱۶۳ ۱۶۴ ۱۶۶ ۱۶۷ ۵۳۴۹ لَا تَسْتَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَلَكُمْ تَسُؤْكُمْ ۱۷۲ ۵۰ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۹۹۸،۵۰ | وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ۵۲ لِيَعْبُدُونِ b ۱۷۴ ۱۸۴ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنَ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَ عَدْوا ۵۴ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۱۸۴ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا ۵۷ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۱۸۴

Page 1087

قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقِّ أَقُولُ ج ۱۸۵ | وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِ؟ أُولَيكَ كَالْاَ نْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۱۹۷ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ...۲۰۰ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّيْنَا أَوْ أَخْطَأنَا...۲۹۵ ۲۹۹ ۳۰۷ جَعَلَ الظُّلمتِ وَالنُّوْرَ اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ۲۱۰ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ إِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا ۳۰۷ لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَالْجَانَّ خَلَقْتُهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارٍ السَّمُومِ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ.قَالَ رَبِّ فَأَنْظُرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.۲۱۱ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا ۳۰۷ ۳۰۷ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا.....٣٠٧ ۲۱۱ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۲۱۱ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَبٍ.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى.۳۱۲ ۳۲۰ ۳۵۵،۳۴۹ ۲۱۱ أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۳۶۴ لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ..۲۱۹ وَاعِدُّوالَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمُ مِنْ قُوَّةٍ.فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُوْنَ 6 يا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا..۲۱۹ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُونَ........يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِينَ ۳۶۴۰۰ ۳۶۷ ۲۴۸ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَتُوهُمُ الْأَدْبَارَة ۳۶۸ ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَليفَ فِي الْأَرْضِ..۲۵۰ اِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُوْنَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُوْنَ كَمَا اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُوْنُوْا قَوْمِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاء لِلهِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا.تَأْلَمُونَ.۲۵۱ قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۲۵۵ | اِنْ يَّكُن مِّنْكُمْ عِشْرُونَ ۲۵۵ وَانْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا...وَتَقَلُّبَكَ فِي السُّجِدِينَ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۚ وَمَنْ تَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْئَهُ فَازَرَهُ.۳۶۹ ۳۷۰ ۳۷۱ ۳۷۱ ۴۲۵ ۴۳۰ يَكُن لَّهُ كِفَلٌ مِنْهَا فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء..۲۵۸ فَبَشِّرْتهَا بِإِسْحَقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَقَ ذلك فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۲۶۶ | يَعْقُوبَ.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۲۸۸ قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنْى.٢٩٠ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّة......۲۵۷ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۴۳۱ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ ۲۹۳ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا ۲۹۳ مِنْ أَطْرَافِهَا رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُريَّتِ...۲۹۴ يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسُهَا...۴۳۳ ۴۳۳ ۴۳۵ દૂ દે ۴۴۲

Page 1088

نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ..لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ...لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى b b أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ۴۵۱ | سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسى ۴۵۱ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.۴۵۹ وَالَّذِيْنَ اِذَادُ كُرُوا بِايْتِ رَبِّهِمْ.۴۵۹ | ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا ۵۱۳٬۵۰۲ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَهِمَ رَبُّهُ بِكَلِمَةٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۵۰۲ | مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُوْنَ كُوْنُوْا مَعَ الصَّدِقِينَ يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ۵۲۳ وَاِنْ مِنْ شَيْ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَ إِنَّهُ..۵۷۱ ۵۷۳ ۵۷۴ ۶۱۸ ۶۲۲ ۶۳۱ ۶۵۱ ۶۶۴ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ....۶۷۴۶۷۳۶۷۲ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا....۵۲۸ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ ۵۲۸ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمُ مِنْ قَوْمٍ.۵۲۸ | وَلْتَكُن مِّنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ..يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا........۵۲۸ كَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا انِّي لَا أَضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ ج أو أُنثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ۵۳۸ اجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَا.........وَإِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوا.۶۸۹ 217 ۷۲۹ ۷۵۴ ۷۵۵ ۷۶۱ ۷۹۳ ۷۹۹ ۸۰۵ ۸۰۸ ۸۱۵ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ ۵۳۹ | فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ.الرِّجَالُ قَوْمُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ.۵۳۹ | وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اِنَّمَا الْخَمْرُ الْمَيْسِرُ.....۵۴۴ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِينِ إنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعرى.وَتَأْكُلُونَ القُرَاثَ اكلا لما.........۵۴۸ جَعَلْنَكُمْ اُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ.۵۴۵ فِي كُلِّ وَادٍ تَهِيمُونَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ.۵۴۹ ذلِكَ الْكِتُبُ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ۵۵۳ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمُ..إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ ۵۵۴ يُنسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّأْتِ مِنْكُ........فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا اَوْنَطرى.۵۵۵ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ.فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الَّيْلُ ۸۵۴ ۸۵۵ ۸۶۴ ۸۷۰ ۵۵۵ يُمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ.......۸۷۱ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ ۵۶۴ قُلْ أُوحِيَ إِلَى أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنْ ۸۷۱ إِنَّا كُنَّا خَطِينَ ۵۶۹ | لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا ۸۷۳ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ ۵۷۱ وَمِنْ وَرَابِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ۸۷۳

Page 1089

۹۶۶ ۹۷۰،۹۶۸ ۹۷۲ ۹۷۳ ۹۷۳ ۹۷۶ ۹۷۸ ۹۸۶ ۹۸۷ ۹۹۴ ۹۹۸ ٩٩٩ ۹۹۹ ۹۹۹ 1*** 10+9 10+9 1+1+ ۱۰۱۲ ۱۰۱۳ ۱۰۲۶ ۱۰۳۱ ۱۰۳۲ b اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ....۸۷۴ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ..۸۹۱ | رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ ۸۹۶ | مُسْلِمِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ وَالْوَزْنُ يَوْمَبِينِ الْحَقُّ فَدَمُدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ.لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ أطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ هَيْهَاتَ هَيْهَا لِمَا تُوعَدُونَ إِنَّا أَعْطَيْنُكَ الْكَوْثَرَ........E ۸۹۹ قُتِلَ الْخَرُّصُوْنَ.٩٠٦ قُل جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ.۹۱۸ جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدانَكَ.۹۲۷ | إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ۹۲۷ الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ.۹۲۷ | وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ.۲۸ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ.فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي ۹۲۸ | إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۹۳۲ عَمَّدْتَ بَنِي إِسْرَائِيلَ اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ........۹۴۵ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ كُلُّ نَفْسٍ ذَابِقَةُ الْمَوْتِ أدْعُ إلى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ...۹۴۹ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ يُجَادِلْنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ........۹۵۱ وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَنَ وَالْقَيْنَا.......۹۵۲ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ.إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمَّا وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتى ۹۵۲ يَلُونَكَ عَن الْخَمْرِ وَالْمَيْرِ.مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلْغُ الْمُبِينُ ۹۵۳ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرّبوالَا يَقُومُونَ..فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ۹۵۳ | وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيهِ ج يايُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ.۹۵۳ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ اِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعرى.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ.۹۵۴ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامة لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ۹۵۴ | إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلْغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ ۹۵۷ مُتَحَرْفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۹۵۷ هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُ...........لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا ۹۶۲،۹۶۵،۹۶۴۰۰

Page 1090

احادیث نبوی لا رهبانية في الاسلام...۱۸ ۲۳ الفقر فخرى...اطلبوا العلم ولو بالصين..۵۶۷،۱۷۹ يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ.كَانَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من اطاع امیری فقد اطاعني ومن عصى يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنتِ مِلْحَانَ، وَ امیری فقد عصانی...كَانَتْ تَحْتَ عِبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ یا ابا ذر انک ضعيف و انها امانة وانها يوم القيامة خزى وندامة الامن اخذها عَلَيْهَا يَوْمًا فَاطْعَمَتُهُ، وَجَعَلَتْ تَفْلِيُّ رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يحقها وأدى الذي عليه فيها اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكَ...تَرَى المُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِهِمْ ۲۵ ایهاالناس انما اهلك الذين قبلكم انهم كانو اذا ا سرق فيهم الشريف تركوه.وَتُعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى الضعيف فيـكـم قوى عندى حتى أريح عُضُوا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهْرِ وَ الْحُمَّى ۵۷ عـلـيـه حـقـه والقوى فيكم ضعيف عنده حتى اخذ الحق منه عَنْ أَنَس قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ لا يحكم الحاكم بين اثنين وهو غضبان عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنصُرْ أَخَاكَ الراشي والمرتشي كلاهما في النار اذا تقافي إليكَ رَجُلان فَلا تَقض لِلاَوَّلِ حَتَّى تَسْمَعَ كَلَامَ الْآخَرِ فَسَوفَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَكَيْفَ تَنْصُرُهُ ظَالِمًا؟ فَقَالَ: تَاخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ.إِنَّمَا جُعِلَ الاِمَامُ لِيُوْ تَمَّ بِهِ..۶۹ | تدرى كيف تَقْضِی صَلُّوا مَا فَاتَكُم.۱۷۲ الله فقد ضاد الله وَرُبَّ مُبَلَّغ أَو عَلى مِن سَامِعِ.١٧٠ مَنْ حالَتَ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٌ مِن حُدُود اختلاف امتی رحمة انما الاعمال بالنِّيَاتِ.مَن تَشَبَّهَ بِقَومٍ فَهُوَ مِنهُم......129 ۲۳۸ ۲۵۱ ۲۵۴ ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۵۶ ۲۵۷ ۱۷۳۱۶۹ ۸۲۴۸۰۴ التودة في كل شئ خيراً لافی عمل الآخرة ۲۵۷ كلمة الحكمة ضالة المومن اخذها حيث وجدها..۱۷۳ ۱۷۵ ما من مسلم يدعو بدعوة ليس فيها اثم ولا قطعية رحم الا أعطاه الله بها احدى ثلاث اما يجعل له دعوة.......اذادعا اَحَدُكُم فليعزم المسألة ولا يَقُولَنَّ ۲۸۸

Page 1091

اللهُمَّ إِن شئت فاعِطِنِي فَإِنَّهُ لَا مُسْتَكِرَهَ لَهُ ۲۸۹ | لو عاش لكان صديقًا نبياً لا صلواة الا بفاتحه الكتاب ۱۰۰۰،۹۴۶،۴۹۶ ۲۹۰ كَانَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ۵۰۳ لاملجاء و لا منجاء مِنْكَ إِلَّا الیک ۲۹۴ يا ايها الناس الا ان ربكم واحد وانا اباكم واحد ۵۲۹ ۵۳۰ ۵۳۰ ۵۳۱ ۵۳۱ ۵۳۲ ۵۳۳ ۵۳۴ ۵۳۵ ۵۳۵ ۵۳۶ لايرد القضاء الا الدعا انا دعوة ابراهيم.۲۹۵ الالافضل لِعَربي على اعجمي ولا لعجمى على ۳۰۰ | عربي ولا لا حَمَر عَلَى اسْوَدَ ولا لأسُوَرَ علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل ۳۰۱ على احْمَرَ إِلا بالتقوى الاهل بلَّغْتُ قالوا قد يد فن معى في قبري..اللهم اغفرلي وارحمني واهدني وعا فنى وارفعنی و اجبرنی و وارزقنی......اللهم اغفر لي ذنبي و اجنبني من الشيطان الرجيم.......۳۰۲ بلغ رسُول الله صلى الله عليه وسلم النَّاسُ مَعَادِنُ خِيَارُهُم فِي الجَاهِلِيَّةِ ۳۰۷ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا ان الله عزوجل قَدُاذْهَبَ عَنْكُمُ عُبَيَّةَ ٣٠٧ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالأَ بَاءِ مَوْ مِنْ تَقِي كنت العب بالبنات في بيته ومن اللعب ۳۳۴ | وَفَاجِرْ شَقِي وَالنَّاسِ بَنُوادَمَ وَادَمُ وَآدَمُ نَهَيْتُكُم عَنِ الأَشربة فِي ظُرُوف الآدَمَ فَاشْرَبُوا مِنْ تُرَابٍ فِي كُلّ وِعَاءٍ غيران لا تَشْرَبُوا مُسكِرًا ٣٣٦ | أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِ لَهُمْ نهيتكم عن زيارت القبور، فَزُوروها ٣٣٦ قُومُوا إِلَى سَيِّدِ كُم لا تتمنوا لقاء العدى واسئلوا الله العافية واذا لقيتموهم فاصبروا هل شققت عن قلبه إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ أَنَّهُمْ كَانُو يُقِيمُونَ ٣٦٣ الْحَدَّ عَلَى الْوَضِيعِ وَيَتْرُكُونُ الشَّرِيفَ.۳۷۲ ان تطعنُوا فِي إِمَارَتِهِ فقد كنتم تطعنون في الذين زعموا انهم جَبَسُوا انفسهم الله امارة ابيــه مـن قبـل وايــم الله ان كان فذرهم وما زعموا انهم جَبَسُوا انفسهم له ۳۷۳ | لخليقالا مارة و ان كان لمن احب الناس لا تقتلوا وليداً ولا امرأة ولا شيخافا نياً ۳۷۳ إلَيَّ و ان هذا احب الناس إلى بعدَهُ ولا تقتلوا اصحاب الصوامع شر الطعام طعام الوليمة يدعى لها من قال هلک القوم وفهواهلكهم ۴۱۴ الاغنياء ويُترك الفقراء و من ترک ۴۱۵ الدعوة فقد عصى الله ورسوله لا بل انتم كرارون اما لوان احد كم اذا ارادان یاتیی اهلهه لَوْ دُعِيْتُ إِلَى ذِرَاعٍ أَوْ كُرَّاعُ لَا جَبْتُ وَلَوْ اُهْدِيَ إِلَيَّ ذِرَاعُ أَوْ كُرَّاعٌ لَقَبِلْتُ قال بسم ! الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا ثم قدّر بينهما انَّهُ نَهَى أَنَّ يُقَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ وَيَجْلِسَ في ذالِكَ وَلَدٌ لَم يضره الشيطان ابداً ۴۲۸ فِيهِ آخَرُ وَلَكِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَ سَعُوا تزو جوا الودود فاني مكاثر بكم الامم ۳۲ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ

Page 1092

۹ اِنَّ اِخْوَانَكُمْ حَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ في السنَّةَ سواءً فَا قُدَمُهُم هجرة، فان كانوا ۵۵۶،۵۵۵ ۷۶۲،۵۶۴ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ في الهِجْرَة سواءً فَاكْبَرُهم سِنّاً فَلْيُطْعِمُهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسَهُ مِمَّا يَلْبَسُ......۵۳۶ الدعاء مخ العبادة تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لَارُبَعٍ لِمَا لِهَا وَلِحَسَبِهَا إِنَّ رَبَّكُمْ حَيَّقٌ كَرِيمٌ يَسْتَحِي مِنْ عَبْدِهِ وَجِمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرَ بِذَاتِ الدِّينِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْراً تَرَبَتْ يَداكَ ۵۳۷ شَدَّ مِثْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ خيركُم خيرُ كُم لاهِلِهِ وَاَنَا خِيرُ كُمُ ربنا آتنا في الدنيا حسنة و في الآخرة لا هُلِي تؤخذ من اغنيا ئهم وتُردّ على فقرائهم ۹۸۲،۵۳۹ حسنة وقنا عذاب النار ۵۴۲ ومن لم يشكر الناس لم يشكر الله ۵۶۹ افرض عَلَى كُلِّ رَجُلٍ لَيْس لَهُ ارض ومن كان في عون اخيه كان الله في عونه ۶۰۴ أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ وَعبادة خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة، فاصا بنا جهد، حتى همَمْنَا أَن نَنحَرَ بعض ظهر نا، فَأَمَرَ النبي الله صلى الله عليه وسلم فجمعنا تزوادنا بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا ۵۴۵ | كنت نبيا و آدم بينا الماء والطين ۷۰۲،۷۰۰ كان النبي يبعث الى امه خاصه وبعثت الى الناس عامة أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَا تَيْنِ ۵۵۰ عن جابر قال كان رسول الله الله يعلمنا الاستخارة في الامور كما يعلمنا قبل الساحل وأمر عليهم اباعبيدة بن السورة من القرآن إِذَا هَمَّ أُحدُ كُم بالامر الجراح وهم ثلاث مائة، فخرجنا فكنا ببعض الطريق فَنِيَ الزاذ فَأَمَرَ ابو عبيدة 2⚫1 2 + 1 فليركع ركعتين من غير الفريصنة ثم ليقل ٧١٠ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَاسْتَقْدِرُكَ بازواد الجيش فَجُمِعَ، فكان مِزُوَدَ تَمُير بقُدرَتِكَ، وَأَسَالُكَ مِن فَضلِكَ العَظِيمِ، فكان يقوتنا كل يوم قليلاً قليلاً حتى فَنِيَ فَلَمْ يكن يُصِيبَنَا الا تمرة تمرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إِنَّ فَإِنَّكَ تَقدِرُ وَلَا أَقْدِرُ ، وتَعلَمُ وَلا أَعْلَمُ ۵۵۱ وَانتَ عَلامُ الغَيُّوب.اللَّهُمَّ إن كُنتَ تَعلَمُ أنَّ هذا الأمر خَيرٌ لِي فِي دِينِي وَ مَعَاشِي لا شعر يين اذا ارملوا في الغزو أوقلَّ طعامُ وعَاقِبَةِ امرى أَوْقَالَ: وَآجَلِهِ فَاقْدُرهُ لِى عيالهم بالمدينة جمعوا ماكان عندهم في وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بارك لي فيه وإِن كُنتَ تَعْلَمُ ثوب واحد، ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ ابينهم في إناءٍ واحد بالسَّوِيَّةِ فهم متى وانا منهم يوم القومَ أَقْرَؤُهُمُ لكتاب الله فَإن كانوا في القرأة سواء فَاعْلَمُهُمُ بالسُنَّة، فان كانوا أنَّ هذا الأمر شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي ۵۵۱ وَعَاقِبَةِ أمرِى وآجله.فَاصِرِ فهُ عَنِّى وَاصْرِفْنِي عَنهُ واقدر لِي الخَيرَ حَيثُ كَانَ ثُمَّ أَرضِنِي بِهِ.211

Page 1093

۹۰۳ ۹۲۲ الدعاء من العبادة ۷۲۲ ان تومن بالله وملائكته وكتبه رسله واليوم فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل ۲۳ | الآخرو تومن بالقدر خير و شره كل امر ذى بال لم يبداء بسم الله فهو ابتر ٧٢٩ انا ابن الذبيحين مَنْ شَدَّ شُةٌ فِي النَّارِ ۷۵۶ | عن ابی عمر قال قام رسول الله صلى الله ان تعبد الله کانک تراه فان لم تكن تراه فانه پراک اذكروا موتاكم بالخير ۷۶۲ عليه و سلم بالمدينة عشر سنين يضحى عن حنش قال رايت عليا رضی الله عنه ۷۸۱ | يضحي بكبشين فقلت له ماهذا قال ان رجعنا من الجهاد الاصغر الى الجهاد الاكبر ۷۹۳ رسول صلی الله عليه وسلم اوصانی ان ليس الشديد بالصرعة ولكنَّ الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب بداء لاسلام غريباً وسيعود غريباً فطوبى للغرباء اعقل ثم توكل انابفراقک یا ابراهیم لمحزونون ان في جسد الانسان مضغة اذا صلحت صلح الجسد كله واذا فسدت فسد الجسد كله الا وهي القلب توخد من اغنياء هم و ترد الى فقرائهم ۷۹۴ اضحى عنه فانا اضحى عنه عن البراء قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر فقال ان اول ما نبداء به ۷۹۵ | في يومنا هذا ان نصلى ثم نرجع فنحر ۸۰۳ فمن فعل ذالک فقد اصاب سنتنا من وجد سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا عن جبلة عن سيحم ان رُجُلاً سال ابن عمر عن الاضحية اواجبة هي فقال ضحى ۸۲۰ رسول الله صلى الله عليه وسلم والمسلمون فاعادها عليه فقال اتعقل ضحى رسول الله ۸۲۷ عن ابي ذر قلت یا رسول الله کم وفی صلى الله عليه وسلم والمسلمون عن زيد بن ارقم " قال اصحاب رسول عدة الانبياء قال مائة الف و عشرون الفاً رض الرسل من ذالك ثلاث مائة و خمسة الله صلعم يا رسول الله ما هذا الاضاحي عشرة جماً غفيرا الشهر تسع وعشرون ليلة فلا تصوموا ۸۶۵ قال سنة ابيكم ابراهيم.قالوا فما لنا فيها يا رسول الله قال بكل شعرة حسنة حتى تروا الهلال فان..عليكم فاكملوا عن عائشہ ان رسول الله صلعم امر بكبش العدة ثلاثين اذا دخل العشر شد مئزره و احیی لیله و ایقظ اهله ومن لم يشكر الناس لم يشكر الله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الایمان ۸۸۴ ثم نجعله ثم قال بسم الله اللهم تقبل من ۸۸۸ محمد وال محمد و من امة محمد مع المسلمون على.....۹۲۴ ۹۲۴ ۹۲۵ ۹۲۵ ۹۲۵ ۹۲۶ ۹۲۶ ۹۲۹ ۰۱ ايام التشتريق ايام اکل و شرب و ذکر الله ۹۳۵ ایاک والحلوب ۹۳۷

Page 1094

"1 ان في الجسد الانسان مضغة اذا فسد فسد الجسد كله واذا صلح صلح الجسد كله الا وهي قلب كلوا واطعموا وادَّخِرُوا يندب اب ياكـل مـن لـحــم اضحيته ويدخرو يتصدق والا فضل ان يتصدق ما لثلث و يدخرا الثلث و يتخذ الثلث لأقربائه واصدقائه لكل داء دواء الا الموت لا يرد القضاء الا الدعاء انى مكاثر بكم الامم ما من يوم اكثر من ان يعتق الله فيه عبداً من النار من يوم عرفة ۱۳۹ | انما اجلكم في اجل من خلامن الامم ما ۹۴۱ بين صلواة العصر الى مغرب الشمس....والا لكم الجر مرتين كان صفوان بن معطل من وراء الجيش فاصبح عند منزلی فراعی سود انسان ۹۴۱ | نائم فعرفنی حین رآنی و کان رآنی قبل الحجاب فاستيقظت باستر جاعه حين ۹۴۴ ۹۴۸ | عرفنی فخمرت و جهی بجلبابی ۹۵۶ عن ابى موسى ى ما اشتكل علينا اصحاب لم يصدق نبي من الانبياء ما صدقت وان من رسول الله صلى الله عليه وسلم حدیث الانبياء نبياً ما صدقه من امته الا رجل واحد ۹۵۶ الا واستوصوا بالنساء خيراً فانما هن عرار عند كم...الا ان ياتين بفاحشة مبينة فان فَعَلْنَ فاهجروهن في المضاجع واضربو من غير مبرح بالسواك ونحوه ايضرب احـدكـم امـراتـه كـما يضرب العبد ثم يجا معها في آخر ليوم لا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر الا في البيت لقد طاف بال محمد نساء كثير...ازواجهن ليس اولئک بخيارهم متاع الدنيا المراة الصالحة وخير الدعاء دعا يوم عرفة و خير ماقلت انا والنبيون من قبلى لا اله الا الله وحده لا شريك اله ۹۸۰ ۹۸۱ ۹۸۱ ۹۸۶ ۹۸۶ ۹۹۱...فسائلنا عائشة الا وجدنا عندها علماً ۹۹۱ اكثر وا من الدعاء فانّ الدعا يردّ القضاء المبرم ۱۰۰۶ انک ان تدع ورثتك اغنياء خير من ان تدعهم.عالة يتكففون الناس في ايديهم ١٠١٢ ومن كان في عون اخيه كان الله في عونه ۱۰۱۵ ان رحمتی غلبت غضبی اماهؤلاء لا فيمزقون و اما هو لاء فسيكون لهم بقيه ۱ ۹۸ | يتزوج ويولدله انا النبي لا كذب انا ابن المطلب و انما الاعمال بالنيات ولكل امرء مانوى ۹۸۲ ۹۸۳ ۹۸۵ ۱۰۲۷ ۱۰۳۴ ۱۰۴۰ ۱۰۴۵

Page 1095

۱۲ الہامات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام عربی الہامات لَا تُبْقِي لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْراً....يَخِرُّونَ عَلَى المَسَاجِدِ.رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ.يَاتِي عَلَيْكَ زَمَنٌ كَمِثْلِ زَمَنِ مُوسَىٰ مَصَالِعُ الْعَرَبِ مَسِيرُ الْعَرَبَ ا حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَتُونَ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادْكَ ۲۱ ۲۲ ۲۸۴۴۷ ۵۱۲،۱۲۲ ۱۲۲ ۱۲۲ غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ ۸۶۲،۵۶۹،۵۱۵ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ نَرُدُّ إِلَيْكَ الْكَرَّةَ الثَّانِيَةَ وَنُبَدِّلَنَّكَ مِنْ بَعْدِ خَوفِكَ أَمُناً....وَقَالُوا أَنَّى لَكَ هَذَا قُلْ هُوَ اللهُ عَجِيبٌ - وَلَا تَيْنَسُ مِنْ رُوحِ الله - أنظُرُ إِلَى يُوسُفَ وَإِقْبَالِهِ - قَدْ جَاءَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ أَقْرَبُ يَخِرُّونَ عَلَى الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ مَنْ ذَالَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ اذْكُرُ نِعْمَتِي رَتَيْتَ خَدِيجَتِي اصْبِرُ سَنَفْرُغُ يَا مِرْزَا ۶۱۸ 1++2 ۱۰۳۴ ۱۰۳۸ ۸۶۱،۱۳۰ ۲۶۱ ۲۸۱ ۲۸۲ ۲۸۶ ۲۹۱ ۳۱۱ ۶۵۱ 1++2 ۱۰۳۸ إِلَى مَعَادٍ.رَبِّ تَجَلَّ رَبِّ تَجِلَّ ۶۹۰،۴۳۷ ،۱۵۶ ۲۸۲ نَرُدُّ إِلَيكَ الكَرَّةَ الثَّانِيَةَ وَنُبَدِّلَنَّكَ مِنْ بَعْدِ خَوْفِكَ أَمْناً اُردو الہامات داغ ہجرت ۲۸۳ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے.إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ میں نے خواب میں دیکھا کہ إلى مَعَادٍ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً.میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان آنا چاہتا ہوں.....يَأْتِيكَ نُصْرَتِي إِنِّي أَنَا الرَّحْمَنُ ذُو الْمَجْدِ میں نے دیکھا کہ میں کسی باہر کے مقام سے قادیان والعلى كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ۲۸۳ آیا ہوں ۲۸۳ ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا ہے.....۲۸۴ میں نے ایک رات درود پڑھنے کا التزام کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے الصِّهْرَ وَ النَّسَب إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيُكَ بَغْتَةً مَسِيرُ الْعَرَبِ ۳۸۶ میں ہوا میں تیر رہا ہوں......۴۴۲ تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر ہے ۵۱۲ مرزا حاضر ہو

Page 1096

۹۲۹،۸۲۴ ۹۳ ۹۲۹ ۱۰۰۵ ΑΛΙ ۳۱۷ ۱۸۰،۱۵۰ ۳۵۹ ۴۰۵،۱۵۳ ۷۸۲ ۴۱ 1.1.۷۴۰ ۵۳۴،۵۳۳،۳۷۲،۶۰ ۱۰۰۰ ۴۵۰ ۴۰ ۱۰۰،۹۲۹ ،۹۲۲،۳۵ ۸۸۱،۴۲۰ ۵۲۶ ۱۰۵۷ ۵۷۸،۵۶۰ ۶۷۰ ۶۹۹ ۶۹۸،۶۱۴ L اسماء ابو یوسف ؛ امام ائیلی (ویز یر اعظم برطانیہ ) ۱۰۵۱ احمد ؛ امام ۱۸۴۱۸۱،۱۲۷، ۲۱۵،۲۱۴،۲۱۲،۲۰۷، احمد بیگ مرزا ( والد محمدی بیگم ) ۲۵۹،۲۲۰،۲۱۹،۲۱۸،۲۱۷،۲۱۶، احمد جان بنشی آئقم ؛ عبدالله آدم آرچرڈ لیفٹیننٹ آغا خان؛ سر آمنہ بیگم بسیال ابراہیم ۸۴۷،۷۰۳،۷۰۰۰ احمد جان پیشاوری: حافظ ۱۶۰ احمد خان سیم؛ مولوی نسیم ۳۹ ۶۷۲ حمد شفیع بی.اے؛ مرزا احمد شفیع، مرزا ۱۸۳،۱۲۷،۷۳،۳۵، ۲۹۸، احمد سر ہندی؛ شیخ ۳۰۲،۳۰۰،۲۹۹ ،۵۰۲،۴۵۰،۴۳۵،۴۳۳، احمد سعید خاں؛ سرنواب ۹۵۱،۹۲۲۹۲۰۰۷۰۳،۵۱۲ ۱۰۰۰ ارجمند خان، مولوی ابراہیم ؛ صاحبزادہ (رسول کریم صلعم کے صاحبزادے) ۸۰۳، ارشد علی ، سید ( تاجر لکھنو) ابلیس ابن سعد ابوالعطاء؛ مولوی ابوالکلام آزاد ۹۴۶ اسامه بن زید ۸۷۱ اسحاق ۸۶۸ | اسد اللہ خاں؛ چوہدری اسمعیل ۶۹۲۶۹۱۶۷۳۳۹۷ ،۳۴۴،۱ ۴۱،۳۸ افتخار احمد؛ پیر ابوالہاشم خان ایم اے؛ چوہدری ۳۴۵،۱۵۰ | اقبال بیگم ابوبکر (امیر المومنین) ۶۰ ۷۵۲٬۵۳۲۲۶۸،۲۵۴ اقبال غنی، ڈاکٹر ابو جہل ابو حنیفہ ابوذر ابوسفیان ابو عبیدہ بن جراغ ابو عبيدة ابو عمر ۴۹۶،۱۸۳ اکبر علی؛ پیر ۹۳۳۸۲۳، ۹۳۸ اله دین؛ حافظ ۸۶۶،۲۵۱ اللہ دتہ بابا اللہ بخش ؛ مولوی (دیہاتی مبلغ ) ۵۵۱ اللہ بخش؛ مولوی ۹۰۸، ۹۰۹ | اللہ رکھا ۲۳

Page 1097

۶۱۴۵۹۳،۵۹۲،۱۸۰ ۳۲۳ ۸۳۴ ۴۶۹،۴۵۳،۴۶۱ ۷۴۰ ۷۴۴۶۱۴ ،۵۹۱،۵۸۳،۴۴۹،۴۰۳ ۱۴ اللہ رکھا؟ میاں ام داد و سیده ام طاہرہ سیدہ ام ناصر ؛ سیده ام وسیم احمد ؛ سیده ام المتین امام دین؛ مرزا امام دین سیکھوانی امان الله (امیر افغانستان) امة الباسط؛ صاحبزادی لعة الحفیظ صاحبزادی ۵۰۸ | برکات احمد ، مولوی ۶۷۵،۳۸۵ بشارت احمد (بی ایس سی) ۳۸۸،۴۵ | بشیر احمد؛ پیر ۶۷۲ بشیر احمد ، مولوی (دہلی) ۶۷۲ بشیر احمد؛ مولوی (امیر جماعت دہلی) ۲۳۶ بشیر احمد، ٹھیکیدار ۱۰۴۶، ۱۰۴۷ بشیر احمد ، ڈاکٹر ۸۹۴ ۱۰۲۸ بشیر احمد ، شیخ ۳۸۸،۳۸۶ ۴۲۹ بشیر احمد منشی ،۶۴۷ ،۶۱۴،۶۰۴ ،۶۷۳،۶۷۲،۴۵۶،۲۳۶ ۱۰۶۲،۱۰۵۸ ،۷۴۱ ،۷۳۲،۶۸۶ ۵۸۰ ۱۴۹،۳۷ ۳۴۵ بشیر احمد؛ حضرت مرزا امتہ القدوس بیگم ؛ سیده امیت الحکیم ؛ صاحبزادی امۃ السلام؛ صاحبزادی امۃ الہادی؛ سیده امولک سنگھ ؛ سردار امیر الدین امیر الدین؛ سرجن ڈاکٹر امیر بخش ایڈووکیٹ امیمہ بنتہ الجون انس ۴۶ بشیر احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۲۴۱،۲۳۸،۲۳۶،۲۳۴۲۰۳، ۴۷۸ ۱۰۵۷ ،۶۹۱،۶۷۲،۴۸۰،۳۹۷ ،۲۶۸ ،۲۶۵،۲۶۱،۲۶۰ ۶۱۴ ہر وہ حکومت جو مسلمانوں کی تسلیم شدہ ہے...اس کے ۷۴۴ خلاف بغاوت کرنا ہرگز جائز نہیں ۴۷۸ علم وہ بنیادی چیز ہے جس کے بغیر کوئی عمارت تعمیر نہیں ۷۴ ہو سکتی ۸۶۷ دیانتداری ایسا جو ہر ہے جو انسان کی قدرو حیثیت کو ۶۱ بے انتہا بڑھا دیتا ہے.انوار احمد کاہلوں ، چوہدری (امیر جماعت احمدیہ کلکتہ ) ۷۴۰ کامیابی کے مادی وسائل اویس قرنی ۳۱۸ جو جڑ گندی ہوگی وہ کبھی بھی اچھی شاخ پیدا نہیں اے.جی چیمہ مسٹر ( مجسٹریٹ ) ۷۳۹ کرے گی ایچ حسن مالا باری (درویش) ایس ایس جعفری (ڈی سی) بابر ، ظہیر الدین (مغل شہنشاہ) بختاور علی چوہدری بدر محی الدین بدرالدین؛ میاں بدھ ۱۰۶۳ ابلیس ضرور شیطان ہے مگر ہر شیطان ابلیس نہیں ہے ۷۳۹ انسان کا صاحب اختیار ہونا اس کی ترقی اور انعامات ۱۵۹ کے لئے ضروری ہے ۱۳ پہل کرنے والا زیادہ ظالم ہوتا ہے دفاع سے فائدہ اُٹھا کرنا جائز ظلم نہیں کرنا چاہئے ۸۳۹ قرضہ بہر حال قرضہ ہے.جب بھی توفیق حاصل ہو ۴۸۰ فوراً ادا کرنا چاہئے ۹۱۵ ۵۴ ۱۶۲ ۱۶۴ ۱۶۶ 122 ۱۸۱ ۲۰۸ ۲۲۲ ۲۲۴ ۲۳۲ برکات احمد را جیکی ۷۷۸،۴۶۹،۴۲۳،۴۱۲،۴۰۳ امانت اس چیز کو کہتے ہیں جو ہماری ملکیت نہیں ہوتی ۲۵۲

Page 1098

۱۵ عدالتی اور قضائی امور میں اسلام نے سفارش کو ممنوع بشری بیگم ، سیدہ (مہر آیا ) ۲۵۷ بلقیس بی بی قرار دیا ہے ملک کی غیر جنگجو آبادی کو بھی دشمن کے مقالبہ کے لئے بہاؤ الدین سید تیار رکھنا چاہئے آپ کی نظم اپنی ضرورت کی نسبت قرض خواہ کی ضرورت کو پورا کرنا زیادہ موجب ثواب ہے بچہ اپنے اخلاق میں اپنے والدین کا ورثہ لیتا ہے نیک اولاد پیدا کرنے کے لئے والدین اپنے اخلاق درست کریں ۳۶۵ ۳۹۰ تاثیر ۳۹۴ تاج الدین ۴۲۵ تارا سنگھ، ماسٹر ۴۲۶ ۵۰۲ ۵۶۳ خود کبھی بھی امتحان میں پڑنے کی خواہش نہیں کرنی چاہئے.فرض نمازوں کے ساتھ سنتوں کی حکمت ٹیپوسلطان جابر ۴۲۲ ١٠٢٣ ۴۵۴،۱۴۴ ۵۲۱،۳۹۲،۳۹۱،۸۰۰۷۹ ،۷۵ ج - چ - ح - خ جامس لین بنیلیسی جماعت ایک دائمی چیز ہے لیکن امام کے بعد میں ۵۶۸ جان محمد بابا بے انتہا برکت ہوتی ہے جماعت کا دائمی مرکز صرف قادیان ہے ۶۸۹ جاوید احمد شریف دعا کی تعریف صحابی کی تعریف ۷۴۷ جبریل ۷۷۲ جبلہ بن ایھم جبله ابن سیم قرآنی شریعت دائی شریعت ہے.اس کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا نبی، رسول اور محدث میں فرق جنات کا وجود 490 ۸۶۳ جلال الدین بابا ۱۸ 21+ 17.۷۴۴ ۹۴۷ ۵۷۱ ۵۳۲ ۹۲۵ ۷۴۴ جلال الدین شمس؛ مولانا ۸۸۰،۲۰۴،۲۰۳،۱۵۵،۱۵۴،۱۱۸ ۸۷۰ جمال الدین سیکھوانی چراغ دین خدا کو عالم الغیب ہونے کی وجہ سیعلم ہے کہ کس چیز کا ۸۹۴ ۳۳۲ ۹۳ ۱۰۴۱،۱۰۴۰،۱۰۲۸ ١٠٣٦ ۳۱۰ ۳۲۳ ۱۰۲۷ ۸۶۹،۸۶۸۰۸۶۷ ۵۰۱،۵۰۰ ۸۹۵،۸۹۴ ۶۱۲ ۹ چرچل ( اپوزیشن لیڈر برطانیہ ) ۹۱۳ چنگیز خان کیا انجام ہونے والا ہے تقریر کی اقسام عید کے معنی ۹۲۱ حامد شاہ ؛ میر اگر سارے گھر کی طرف سے ایک مستطیع شخص قربانی حامد علی؛ حافظ حامد علی، شیخ کر ہے تو یہ کی جاسکتی ہے کر دے تو یہ قربانی سب کی طرف سے سمجھی جاسکتی ہے ۹۲۶ اصول تبلیغ عورت کو سزا دینے کی شرائط تقدیر مبرم کی دواقسام سچے مبلغ کی پانچ صفات بشیر محمد ؛ چوہدری ۹۴۹ حبیب اللہ (امیر افغانستان) ۹۸۳ حسن ، امام ۱۰۰۶ حسن محمد درویش ۱۰۳۲ حسن محمد ؛ بابا ( موصی نمبر ۱) حسن محمد ؛ میاں ۵۲۶

Page 1099

۱۵۹ ۱۵۸ ۴۳۳ ۳۹۴ ۹۲۶ ۹۸۹ ۵۳۸،۵۳۴،۵۳۳،۶۰ ۹۸۹،۵۳۸ ۱۴۵ ۵۴۶ 222 ۸۶۲ २ ۴۰ ۶۹۸ ۳۱۴ ۹۷۶۹۷۷ ،۹۷۵ ۸۳۳ ۸۳۴ ۱۰۵۹ 221 ۶۸۲ ۶۴۷ ،۶۴۵ ۷۸۰ ۶۹۷،۶۹۵،۲۲ ۶۹۶ ۴۰ ۱۵۳ ۱۸۰ ۱۶ حسین ، امام حسین بخش حسین بی بی حفیظ احمد ، صاحبزادہ مرزا حفیظہ حمید احمد ، صاحبزادہ مرزا حیدر علی خان محمد اکرم خان خدا بخش خدا بخش؛ صوفی خدا بخش ملک خدیجہ ۸۶۷ رنجیت سنگھ ، مہا راجہ ۳۳۲ ریڈ کلف ۳۳۲ زکریا ۱۰۳۶ زمران ۳۳۲ زید ۱۴۹ زید بن ارقم ۱۸ زید بن ثابت ۷۷۹ زید بن حارث ۶۷۰ زینت بن جحش ۹۷۸ ۴۵۶،۴۵۵ ۱۰۳۴ زہرہ خلیل احمد ناصر ، چوہدری ( مبلغ امریکہ) ۴۵۵ سٹالن ؛ مارشل خورشید بیگم ١٠٢٣ سراج الحق ، ڈاکٹر ۴۶۹ ۷۴۰ سراج الحق نعمانی؛ پیر ۷۷۰،۸۳۴۸۳۳ سری کرشن ۱۰۰۰،۸۹۴،۴۲۰ سری فلیش ؛ سر خلیل احمد مونگھیری، حکیم خیر الدین سیٹھ خیر الدین سیکھوانی سعد اللہ جان وی ڈی ریز سعد الله لد بیانوی داوو ۱۰۴۰ | سعید احمد ( در ولیش) سیش راؤ د احمد؛ صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد؛ میر دین محمد ڈکس براؤن ( جونلسٹ) راج بی بی رحیم بخش لوہار ۱۴۹ | سعید احمد؛ چوہدری ۳۸۸،۳۸۶ سعید حسن ؛ سید لیفٹیننٹ ۳۳۲ | سلطان احمد (صحابی) ۱۶۰ | سلطان احمد (کھاریاں) ۱۴۵ | سلطان احمد در ولیش ۱۴۴ | سلطان احمد ؛ میاں رحمت اللہ سنوری رحمت علی ، مولوی رشید احمد ، سید ڈاکٹر رشید احمد؛ صاحبزادہ مرزا رفیع الدین (درویش) 229 سلطان احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۸۹۵،۸۹۴ | آپ کا الہام ماتم پرسی ۱۰۲۴ سلطان احمد ؛ سر ۲۶۵،۱۵۴ سلطان شیر عالم ؛ میاں (نائب ناظر ضیافت ) ۱۰۲۰ آپ کی شہادت رفیع الدین گجراتی ( درویش) ۱۰۴۲ سلطان علی ، ڈاکٹر

Page 1100

۱۰۵۷ 1*** ۸۳۳ ۴۲۹،۴۱۹ ۲۷۰،۲۰۷،۱۵۵ ۶۹۶ ۹۱۱ ،۹۱۰،۹۰۲ ۷۴۴ لا سلطان محمد بیگ مرزا ( خاوند محمد بیگم ) ۱۰۰۵ ضیاء الدین، کیپٹن پیر سلمان فارسی سلیمان سیف الرحمن ، مفتی سلسله شادی خاں؛ میاں شاہ احمد؛ سید شاہ محمد شاہ محمد سلیمان؛ سر شاہنواز ؛ چوہدری شبلی نعمانی ، مولوی شریف احمد؛ صاحبزادہ مرزا شریف احمد؛ چوہدری میجر شریف احمد ، مولوی شریف احمد امینی ؛ مولوی شریفہ بی بی شیر سنگھ، گیانی شیر شاہ سوری ۱۳۹ طاہر ( حضرت محمد صلعم کے بیٹے ) ۹۹۹ ۱۰۰۰ طاہرہ بیگم 1++A طبیب ( حضرت محمد صلعم کے بیٹے ) ۷۰۶ طبیہ بیگم؛ صاحبزادی ۱۰۲۳ ظفر احمد؛ صاحبزاده مرزا ۳۳۲ ظفر احمد بنشی ۱۰۵۰ ظہور الدین؛ چوہدری ۵۲۶ | ظہور الدین منور احمد؛ مرزا ۹۶۴ ۴۳۵،۱۵۷ ،۱۵۳ ۱۸۸،۱۸۰ عابدہ بیگم ۴۰۳ عائشه (ام المومنین) ۱۰۰۲ ۲۰۱ عباس احمد خان؛ نواب ع غ ۸۱ عبدالحفیظ بقا پوری؛ مولوی ۱۸ عبدالحمید ؛ چوہدری ۳۴۵ ۹۹۴٬۹۹۳٬۹۹۲۹۲۶،۸۸۸ ۹۹۱ ،۹۹۰،۹۸۹ ۲۰۷ ۴۰۳ ۶۷۲ شیر علی ؛ مولوی ۲۰۴ ۲۴۳ ۳۰۶،۳۰۳،۲۷۳، عبدالحمید ؛ عاجز، شیخ ۳۱۰،۳۰۷، ۳۵۸ | عبدالرب نشتر ؛ سردار شیر محمد بابا ۶۳۱،۶۱۲،۶۰۴، ۶۴۷ ۶۸۲۰، ۷۴۷ ۷۸۰ عبدالرحمن جالندھری، ماسٹر شیر محمد دوکاندار ص ض ط ظ صالح ۶۹۴۶۹۳ | عبدالرحمن ؛ خواجہ عبدالرحمن ، ڈاکٹر ۴۰۳ ۳۹ ۴۲۰ ۳۴۵ ۹۷۵،۷۷۹ عبدالرحمن قادیانی بھائی ۴۲۰،۴۰۳،۳۱۵،۲۷۹،۲۴۰، ،۶۶۰،۶۰۴،۵۹۱،۵۸۹،۵۸۸،۵۸۲،۵۷۸ ۷۷۸،۷۷۱،۷۵۷،۷۴۷ ، ۴۴ ۱۵۵ عبدالرحمن فاضل ، مولوی 1017 ۳۴۵ ۷۷۱،۱۰۴۲۶۰۴ ۵۱۰ عبدالرحمن ؛ مولوی (امیر جماعت قادیان) ۳۲۳٬۲۶۵ ،۵۹۳،۴۸۷ ،۴۰۳ ،۳۸۵،۳۵۳ ۷۴۴۶۴۷،۵۹۷ ۴۲۲ ۱۰۶۴ 221 عبدالرحیم ۴۲۰ ۹۹۴۹۹۱ ۱۰۵۷ صالحہ بیگم ( درد صاحب کی بیٹی ) صدرالدین؛ میاں صدیقہ بیگم صغری بیگم (حضرت اماں جی) صفوان بن معطل صلاح الدین ؛ پیر صلاح الدین ایم اے؛ ملک ۴۲۳،۴۰۳ ۶۱۴ | عبدالرحیم دہلوی ؛ ڈاکٹر ۷۷۷ عبدالرحیم ؛ میاں ضیاء الحق

Page 1101

۱۸ عبدالرحیم خان ۱۰۰۷ عطاء الرحمن ؛ پروفیسر عبدالرحیم ؛ بھائی ۵۶۰،۴۲۰،۴۰۳،۳۱۵،۲۴۰، عطاء اللہ سندھی عطاء اللہ؛ کرنل ڈاکٹر ۷۶۸،۵۹۱،۵۸۳ عبدالرحیم درد ؛ مولانا ۱۵۰،۴۰، ۳۴۵، ۶۷۲،۳۹۷ | عطر الدین ؛ ڈاکٹر عبد السلام مہتہ ( حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب کا بیٹا ) علی (امیر المومنین) ۶۶۰،۶۳۰،۶۰۵،۵۹۱،۵۸۸،۵۸۲ علی اکبر، چوہدری ۱۰۳۶ علی قلی خان ؛ خان بهادر ۱۸۰،۱۵۰ علی محمد ترکھان ۵۷۸،۵۶۰ عمر (امیر المومنین ) ۸۹۴ عمر ۹۶۴ عمر بن عبد العزیز عبد السلام ؛ مہر عبد العزیز بھا مبری؛ مولوی عبد العزیز ؛ حافظ عبدالعزیز ؛ میاں عبدالعلی هروی ، شیخ عبدالعلی مولوی عبدالغفور ؛ مولوی ا عمر دین؛ چوہدری عبدالغنی ، چوہدری ۹۰۲ عمر علی ؛ ملک عبدالقادر در ولیش ، مولوی ۱۰۶۴،۱۰۰۲،۸۳۴ عیسی عبدالقادر؛ شیخ عبد القادر احسان ؛ مولوی عبدالکریم ، مولوی ۲۳۴ ۳۸۵ ۹۶۲ ۷۴۴ ۱۵۴،۱۵۰ ۷۴۴ ۹۲۴،۲۳ ۱۸۰ ۴۰ ۱۴۴ ،۵۳۲،۴۹۶،۲۶۸،۶۰،۳۵،۱۸ ۹۰۸،۹۰۳٬۸۴۳،۷۵۲ ۳۹۴ ۸۲۶ ۴۵۵ ۵۱۰ ،۳۳۵،۴۸۰،۱۲۸ ،۵۲،۵۱،۲۶،۲۵،۸ ،۸۶۵،۷۶۵،۷۰۳،۶۵۰،۵۵۴ ۱۰۴۱،۱۰۴۰،۱۰۰۰،۸۹۶،۸۷۴،۸۷۳ ۱۰۵۳ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے عبدالقدیر؛ صوفی ۶۱۴ ۴۰ عیسو عبدالکریم؛ میاں ۹۱۶، ۹۱۷ عبد اللہ بن ام مکتوم عبدالکریم ، منشی ۹۷۵ عبداللہ بن ابی سرح عبدالکریم ؛ خالد عبداللطیف شہید ؛ صاحبزادہ ۱۰۲۷ عزیز احمد؛ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد؛ مرزا عبدالمالک؛ شیخ عبدالمطلب عبداللہ ( حضرت محمد صلعم کے والد ) عبداللہ بن عباس عبد اللہ بن عمر عبداللہ خان نواب عزیز احمد؛ حضرت صاحبزادہ ۹۰۰،۸۴۹ ۱۰۴۰،۱۰۴۱ ٩٩٩ ΑΛΥ ۹۲۵،۹۲۴،۸۸۶ عبداللہ خان ؛ نواب عطاءالرحمن؛ ملک على محمد عائشة عبدل عزیز اللہ شاہ سید عزیز احمد ، صاحبزادہ مرزا عزیز احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۱۱۸ عزیز احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۶۷۳۱۵۴،۱۴۹ عطاء اللہ ، ملک ۵۶۱ عباس احمد خان ؛ نواب احمد Α 1+++ ۳۱۷ ۳۱۹ ۴۰۵ ۴۰۵ ۳۸۵ ۴۵۵ ۳۳۲ ۳۳۴ ۳۳۲ ۳۵۸ ۲۶۵ ۲۳۶ ۲۳۶

Page 1102

۱۹ عزازیل على (امیر المومنین ) عزیز احمد خان غالب؛ مرزا غلام احمد؛ حضرت مرزا اسلام کا تمام ادیانِ عالم پر غلبہ آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ وعدہ لا نبقی لک من المخزيات ذکرا آپ کا دعویٰ مسیح موعود تعدد ازدواج کا مسئلہ ۲۱۰ ۱۰۲۳ ف ق ک گ ۱۰۲۴ فاطمه به حضرت فتح محمد سیال؛ چوہدری ۴۶ ۱۹۴۸، ۸۶۱،۲۶۸ | فرزند علی ۹ فرعون ۲۱ ۱۵۹ فضل احمد مرزا فضل احمد؛ چوہدری فضل حق قریشی ۴۹۴ فضل الدین؛ مولوی (وکیل) دعاؤں کے معاملہ میں خدا بھی مانتا ہےاور کبھی منواتا ہے ۷۷ فضل الرحمن ، شیخ ۲۳ ۱۸۸،۱۸۰،۵،۴،۲ ۷۶۸،۱ ۱۸۳،۵۵،۵۴،۲۹،۵۰ ۶۹۷ ،۶۹۵،۲۲ ۶۳۰ ۵۷۸،۵۶۰ ۷۶۸ 222 ۱۴۴ ۸۳۹،۶۱۴ ۱۴۴ ۵۲۶ ۵۲۶ ۱۰۵ فضل بی بی فضل الہی ۱۰۵۱ ۹۰۲ ۵۷۸ فضل دین او بار فضل کریم ؛ چوہدری ۸۳۹ فقیر محمد چوہدری فلپس ۷۷۸،۷۷۳۷۶۹ ۸۳۹ فهیم احمد فاروقی ۵۹۲ ۲۰۱ ۱۲۰ فیروز خاں ؛ سر فیض احمد؛ چوہدری ۸۳۴،۸۳۳ ،۸۱۱،۸۰۷،۸۰۶۰۸۰۴ ،۸۲۱،۸۲۰،۸۱۹٬۸۱۷،۸۱۶،۸۱۵،۸۱۴ ۸۲۵،۸۲۴،۸۲۳٬۸۲۲ ۴۱ ،۴۰ ۸۳۳ 1*** ۳۴۵ ۴۰۴ ۱۰۲۷،۷۲۹،۵۱۱ ۴۸۰ ۳۲۴ ۱۰۲۷ ،۷۲۹،۷۳۰ ۵۹۳ ۴۸۱،۴۸۰،۳۸ فضل الحق خان ۳۱۰ ۶۳۱ قاسم ( حضرت محمد صلعم کے بیٹے ) قانتہ بیلیم آپ کا دہلی تشریف لے جانا غلام احمد؛ حاجی غلام احمد ، مولوی غلام احمد ارشد ؛ مولوی غلام جیلانی غلام جیلانی ؛ شیخ غلام حسین غلام رسول را جیکی ، مولوی غلام فاطمه غلام فریدا یم اے؛ ملک غلام محمد ؛ چوہدری غلام محمد ؛ صوفی غلام محمد ؛ میاں غلام محمد ؛ اختر (اے.پی.او ) غلام مرتضی ؛ میاں ( بیرسٹر ) ۶۷۲،۲۶۸ ۶۸۱ قمر گوپال (انسپکٹر سی آئی ڈی) غلام مرتضی ، مرزا ( حضرت اقدس کے والد صاحب) ۱۵۹ قیصر روم غلام مصطفی ، ڈاکٹر ۱۰۳۸ کرشن غلام نبی ( مبلغ جھانسی) ۱۰۲۳ کرم الہی ، قاضی غلام نبی حصری، مولوی غفور الحق، ڈاکٹر ۱۰۵۰ کسری ۷۷۷ کنج بہاری لال گاندھی؛ مہاتما

Page 1103

۲۰ گوپال اچار به؛ راجا لائق علی ؛ ماسٹر لکھن سنگھ لوجائے ؛ پروفیسر او کے لم ۲۴۷ محمد احمد محمد احمد ، شیخ محمد احمد خاں ۲۹۷ | محمد اسحاق؛ میر ۱۴۳ ۹۶۹ محمد اسمعیل ؛ حضرت ڈاکٹر میر ۶۳۰ ۶۹۶۰۶۹۵ ۵۱۹ ،۱۴۹ ،۳۵۸،۲۶۹،۲۶۸ ۱۰۵۹،۴۰۵،۳۸۶ ۳۵۶،۳۱۰،۲۴ ۱۰۵۷،۹۷۷ ،۹۷۶،۸۸۲،۴۰۵ ، ۳۵۸ ۴۴۶،۳۹۷ ، ۳۴۰ ۷۴۰ ۲۹۷ ۱۰۲۳ ۴۶۷ ۵۱۰ ۴۵۸ ۹۶۲ ۶۴۵ ۶۸۲ ۵۷۸،۵۶۰ ۲۰۸ ۱۴۵ ۲۴۴،۲۴۱،۲۰۴،۲۰۳ ،۴۲۰،۴۰۳،۲۴۰ ۷۷۱ ،۷۵۷ ۴۰۳،۲۴۰ ۵۶۱ ۴۵۴ ۴۶۱،۳۵۸،۳۱۰،۶۸ ۷۴۰ لوط ۱۰۱۶۹۵۱ لیاقت علی خاں ، نواب زادہ ۴۰ محمد اسلم قاضی لیکھرام ؛ پنڈت ۹۰۹، ۱۰۰۵ محمد اسماعیل بنشی مالک امام ۸۴۲،۸۲۴، ۹۲۹، ۱۰۲۲۹۳۸ | محمد اعظم ، سیٹھ مانوٹوو، مسٹر ۵۴۶ محمد ا قبال (ماسٹر لائق علی کے فرزند ) مبارک احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۱۰۵۳٬۶۵۸،۴۱۹،۲۳۶ | محمد اقبال مبارکه بیگم، نواب سیده مبارکه بیگم مبشر احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۱۰۰۲،۴۷۵،۴۶۹ محمد اقبال ؛ علامه محمدا کرم ؛ شیخ محمد الیاس ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے بیٹے ) ۱۰۲۵ محمد امیر ؛ مولوی مجید احمد صاحبزادہ مرزا مجید احمد (ڈرائیور) دو تاجر دھوکا دیتا ہے وہ مسلمان نہیں مقروض کی نماز جنازہ نہ پڑھنا نبیوں اور رسولوں کی تعداد روحانی مردوں کو زندہ کرنا محمد امین ؛ حافظ ۶۰۴، ۶۳۰،۶۲۹ ، محمد بخش؛ میاں ۷۸۰،۶۹۳۶۸۲،۶۸۱ محمد حسین (مجید احمد کا بھائی) ۹۲۶،۴۸۰،۳۰۰ محمد حسین قریشی ، حکیم ۱۶۴ محمد حفیظ ؛ مولوی ۳۷۹ ۳۹۳ | محمد حیات ؛ مرزا ۸۶۵ | محمد دین ۸۷۵ محمد دین بی اے.مولوی ۸۹۲ محمد دین؛ میاں (کھاریاں ) پیشاب اور پاخانہ کی شدت کے وقت پہلے اپنی حاجت کو رفع کرو پھر نماز کے لئے کھڑے ہو جو شخص میری چالیس احادیث جمع کر کے محفوظ کر دے محمد دین (اقبال) گا میں قیامت کے دن اس کے حق میں شفیع ٹھہروں گا ۱۰۲۲ محمد دین؛ نواب محمد ؛ امام محمد ابراہیم ؛ حافظ محمد ابراہیم قادیانی ؛ مولوی محمد ابراہیم بقا پوری ؛ مولوی ۹۲۹،۸۲۴ محمد رمضان ۳۱۰، ۳۱۷ محمد سرور شاہ؛ سید مولوی ۴۰۳ محمد سلیم ؛ مولوی ۹۰۱ محمد شاہ سید

Page 1104

۲۱ محمد شریف محمد شریف ؛ سید محمد شریف ؛ قاضی محمد شریف امینی ؛ مولوی محمد شریف جاوید ۷۴۴ دورو در بوہ کا سب سے پہلا کا.نماز ظہر کی ادائیگی ۶۷۴ سیاسی الجھن سلجھانے کے لئے آپ کی مساعی ۳۹،۳۸، ۳۱۶ ۳۴۰ ۵۷۸،۵۶۰ مومن کی جان کو حتی الوسع بچاؤ ۹۴۳ زنا بالجبر کی صورت میں ماں بے گناہ ہے ۳۵۶،۳۵۵ حکومت کا مقابلہ کسی صورت نہ کیا جائے ۴۱،۴۰ ۱۱۸ ۱۳۵ ۱۵۶ ۱۰۴۵ ۱۰۴۲،۱۹۲۰،۱۰۱۹ ۴۴۹،۳۴۰،۳۲۴ ۳۹۷ ۸۳۹ ۶۸۳ ۱۰۲۴ ۴۴۶ ۳۳۲ ۶۰۶ ۴۰۴ لا ۷۲۹،۵۱۱ ۱۴۳ ۲۳۶ ۴۲۰ ΑΛΚΑΛΙ محمد شفیع، مرزا محمد صادق بمنشی ۶۱۴ بھیرہ تشریف آوری محمد صادق ؛ مفتی ۸۳۳،۶۷۳،۴۲۰ | محمود احمد ( درویش) محمد طفیل؛ ماسٹر ۹۶۱ محمود احمد ، میجر ڈاکٹر محمد ظفر اللہ خاں ؛ سر ۷۸۳،۱۵۰، ۷۸۴ محمود اللہ ؛ سید محمد عبد القادر ایم.اے؛ ابوالفتح محمد عبد اللہ ؛ دفعداد محمد عبد الله ؛ ماسٹر محمد عبد اللہ ٹونکی ، مولوی محمد عبداللہ سنوری محمد علی محمد علی ، مولوی ۳۹۷| محمود احمد مبشر ۳۱۵ مختار احمد ۱۰۰۴ | مسعود احمد؛ میر ۹۶۴ مسعود احمد؛ ڈاکٹر محمد علی خاں ؛ نواب ۳۱۰ مسمات بی بی ۱۴۵ مشتاق احمد ، شیخ ۶۶۷۰۶۶۶۰۶۶۵۰۶۶۳ | مظفر احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۱۰۰۷،۸۶۱،۴۶۹،۱۵۳ | معاویه؛ امیر محمد علی جناح ( قائداعظم) ۹۳،۳۸، ۲۴۷ | معین الدین شاه ۳۵۱،۳۵۰،۳۴۹، ۷۸۵،۷۸۳،۷۸۲،۷۳۰،۴۸۸ | مقوقس محمد عمر ؛ ڈاکٹر محمد قاسم نانوتوی محمد منیر محمد یوسف ۱۰۲۳ مکھن سنگھ ۷۸۲ منصورہ بیگم صاحبزادی ۹۹۸ ۱۴۶ منظور محمد ؛ پیر منظور احمد؛ پیر محمد یوسف ؛ میاں ( پرائیویٹ سیکرٹری ) محمد بیگم ۶۷۲ من موہن آنند ۱۰۰۴، ۱۰۰۵ منور احمد ، صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا ۴۰۴ ۶۷۳،۵۶۱،۲۳۶ محمود احمد ؛ حضرت مرزا ۲، ۶۸،۳۴،۷، ۷۰، منور احمد ، مرزا ( مبلغ امریکه ) ۴۰۵،۳۵۶،۳۵۵،۳۵۴ ۴،۱۴۹،۱۱۸ ۲۲۹،۱۵ ۲۳۰ ۵۱۹،۲۳۱ ، | منیر احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۱۵۱ 17.،۱۲۷،۵۴،۵۲۵۱،۵۰،۲۹ ۱۰۶۲۱۰۵۷،۸۶۲۷۷۷،۷۳۹ منیر احمد شیخ قادیان چھوڑتے ہوئے بوقت قیام پاکستان آپ کا پیغام منیر احصنی ، بیرسٹر ۲۳۹ موسی ربوہ میں پہلی نماز ۳۶۰ ۱۰۲۳۱۰۰۰،۹۹۹ ،۹۹۸،۹۰۵،۸۹۶،۵۳۱،۴۸۰

Page 1105

۲۲ مولا بخش؛ ماسٹر مولا بخش ؛ ملک مونٹ بیٹن ؛ لارڈ میر درد ن.وہ ہی ۹۶۱ آپ کا آغاز قیام قادیان ۷۰۸ آپ کا درس قرآن ۲۴۵ ، ۲۴۶، ۲۴۷ آپ کا تو کل الی اللہ آپ کی وفات نور جہاں ناصر احمد حضرت مرزا (خلیفہ اسیح الثالث) ؛ ناصر احمد ، شیخ ( مبلغ سوئٹزرلینڈ) ناظم الدین سر شار احمد چوہدری نجاشی نزیر احمد نزیر احمد؛ بابو نزیر احمد ڈار نور علی ؛ چوہدری نور محمد ۲۳۶،۱۵۵، ۳۹۷ نواب صاحب چھتاری ۱۰۲۳ نہالی (خاندانِ اقدس کی خاکروبہ ) ۳۹ نہرو، پنڈت ۱۰۱۵ ولی اللہ شاہ ؛ سید ۷۲۹،۵۱ ۳۷ ویان ۶۸۳ وسیم احمد ؛ صاحبزادہ مرزا ۵۲۶ | وزارت حسین ؛ سید نصرت جہاں بیگم ؛ حضرت سیده ۲۳، ۴۱، ۲۶۵ ۲۶۶ ، وسیم احمد؛ صاحبزادہ مرزا ۱۰۵۶،۱۰۵۳۱۰۳۵ ،۱۰۳۴،۶۷۲،۴۲۰ نظام الدین اولیاء نظام دین ؛ مرزا نعمت الله ( شهید افغانستان) نعمت اللہ (دیہاتی مبلغ ) نورالہی ؛ حافظ ھور ۱۷ ہلاکو خاں ۱۰۴۶، ۱۰۴۷ ہرنام سنگھ ۱۰۲۸ ہدایت الله ؛ بابا ۵۰۸ ہمایوں ( مغل شہنشاہ ) ۶۸۲،۶۸۰،۶۳۱،۱۹۶،۱۹۳،۶۷ ۶۱۲ قادیان میں وفات پانے والے پہلے درویش نور بیگم نوح ہند ہامان ۴۵۴ یوسف ۱۰۴۸ ۱۰۴۹ ۱۰۵۲ ۱۰۵۴ ۸۳۴ 221 ۳۳۲،۱۴۴ ۴۰ ۴۴۵ ۳۵۱،۴۳ ،۶۷۳،۶۶۹،۱۸۸،۱۸۰،۱۷ ۱۰۰۸،۷۸۲ 1*** ۱۰۰۲۸۸۱،۸۶۰ ۴۸۱،۴۸۰ ، ۴۷۹،۴۶۹ ۴۲۳،۴۰۳،۳۸۵ 1+17 ۱۰۴۱،۱۰۴۰،۱۰۲۹ ۴۰۴ ۴۰۵ ۱۷ ۸۴۳ ۱۸۳ ۱۰۲۳،۱۰۰۰،۹۹۸ ،۶۲۰،۱۸۰، ۵۲،۵۰ ۱۰۱۶،۱۰۱۵،۹۹۹،۷۲،۱۲۷ یعقوب علی عرفانی، شیخ نورالدین ؛ مولوی حکیم ( حضرت خلیفہ اسیح الاوّل) یعقوب خاں ،۹۶۵،۹۶۴۹۶۳،۳۵۸ ،۳۵۷ ،۲۶۸ ،۲۰۴،۲۰۳ يقسان ۱۰۵۳،۱۰۵۱،۱۰۵۰،۱۰۴۸،۱۰۴۶،۱۰۴۵ یعقوب بیگ؛ ڈاکٹر مرزا نماز چسکے کے لئے بلکہ خدا کی طرف سے فرض ہے ۷۵۹ کی حضرت اقدس سے پہلی ملاقات ۱۰۴۶ ۷۴۰،۴۲۰،۲۸۳ ۱۴۶ 1000 ۹۶۴۹۶۳ ۴۳۴

Page 1106

۲۳ آسام آسٹریا آگرہ لف.ب مقامات بگول بلغاریہ ۱۵ بلوچستان ۱۰۲۳ بمبئی ۱۷ بنگال ۱۲۹ ۱۰۳۱،۱۰۳۰ ۱۵ ۹۶۴،۶۹۹،۸۶ ،۴۵۳٬۹۴،۸۵،۳۹،۱۸،۱۵،۱۴ ابراہیم میانی اٹھوال ۱۴۵ ۱۲۹ بہار ۷۴۰،۵۸۲،۴۸۳،۴۷۹،۴۶۱ ،۹۳۸۷،۸۶،۸۰ ،۷۹،۷۸،۱۵ اجنالہ ۹۸،۹۶،۸۹ ۶۹۹،۴۸۱،۴۷۹ ،۴۶۹ ،۴۶۱۰ ۴۵۳،۱۰۵ احمد آباد بہاولپور ۶۷، ۱۲۹ ، ۱۰۶۰،۱۰۲۴،۳۲۸،۱۹۶،۱۹۳،۱۴۴ احمد نگر ۹۹۷ ،۶۹۱ ،۳۶۰ ۶۷۰ بھامبری اور حمہ بھٹیاں افریقہ ۱۰۲۹،۱۰۰۸۸۴۷ ،۵۲۶۰۵۱ بیل چک افغانستان ۱۰۲۷ بھوپال ۱۲۹ ۱۲۹ ۱۲۹ ۳۹ البانيه ۱۰۳۰ بھینی بھانگر امرتسر ۷۹،۷۰، ۹۰،۸۹، ۹۱ ۹۴ ۹۵ ۹۸،۹۶، بھیره ۴۹۲،۴۸۳،۱۵۱،۱۲۹،۱۲۵ ۱۰۴۸،۱۰۴۵ ۶۹۸،۶۹۳،۴۸۰ ، ۴۷۹ ،۴۲۲،۳۵۲،۱۰۵ امریکہ ،۴۰۵،۳۵۷ ،۳۵۶،۳۵۵،۳۵۴،۵۴۳ پ.ت.ٹ ۶۴۴،۴۵۵،۴۵۲ ، ۸۴۵، ۸۴۹٬۹۰۰،۸۴۷، ۹۳۷ | پاکستان انبالہ اوجله ۹۵،۸۶ ۸۹۴ ۴۸۷ اوکاڑہ با زید چک بٹالہ ۱۰۴۶،۷۷۸،۶۹۳ بسر راواں بغداد ،۲۹،۲۸ ،۱۹،۱۸ ،۱۷ ،۱۶ ،۱۴،۱۳ ،۱۸۸،۱۵۰،۱۲۵،۱۱۹،۱۰۹۹۵ ،۹۴،۸۸۰۸۳،۳۳ ،۳۵۱،۳۵۰،۳۴۸ ،۳۴۱ ، ۳۴۰ ،۲۴۸،۲۴۷ ،۲۴۵ ،۲۰۲ ،۳۷۹،۳۷۸،۳۷۷ ،۳۷۵،۳۶۳،۳۶۰،۳۵۹،۳۵۷ ،۴۴۵ ، ۴۲۲،۴۲۱ ،۴۱۷ ، ۴۰۹ ،۳۹۸ ،۳۹۱،۳۸۲،۳۸۰ ،۴۸۸،۴۸۶،۴۷ ، ۴۷۲،۴۷۱ ،۴۷۰ ، ۴۵۵ ، ۴۴۸ ،۶۰۰، ۵۷۹،۵۷۰ ، ۵۶۹ ،۵۲۶،۵۱۰،۴۹۱،۴۸۹ ،۷۶۵،۷۲۱،۶۹۸،۶۹۳،۶۸۱،۶۵۵ ، ۶۴۰،۶۲۴ ،۸۳۸،۸۳۳،۷۸۶،۷۸۵،۷۸۳،۷۸۲،۷۷۸ ۱۲۹ ،۵۲۵،۳۹۱،۲۳۷ ،۱۵۱،۴،۳،۲۰۱ ۱۲۹ ۱۰۴۰،۱۰۳۱،۱۰۳۰،۱۰۲۹،۱۰۲۸

Page 1107

۳۶۵ ۲۴۴ ،۵۱۸،۳۷۷،۳۷۵،۳۶۰،۳۵۹،۳۴۵ ۹۹۷،۸۹۵،۸۸۱،۸۳۵،۸۲۱،۷۴۸،۵۶۱۰۶۶۹ ۱۲۹ ۴۱،۴۰ ۱۲۹ ۱۲۹ ۱۰۳۹،۱۷۹ ۵۱ ۱۰۲۷ ،۷۹۴۷۹۳۷۹۱ ۹۵ ۳۸۲ ۷۴۰ ،۷۰۰،۶۹۹،۴۵۳،۱۸ ۱۰۶۰،۴۵۴ و ڈی ریز ۳۳۲ ۷۰۰ ، ۷۴۰ ۷۸۱،۷۸۰ ، ۷۶۹،۲۳۶ ۱۱۵،۸۹ ۵۲۵ ۲۴ پٹیالہ پشاور پنجاب ۸۴۶،۸۴۵، ۱۰۰۲،۸۴۷، ۹۱۶،۸۸۳۰،۸۷۷ ، چک جھ ۹۳۶٬۹۳۰،۹۲۰، ۱۰۳۱،۱۰۲۷ چکوال ۶۱۳ ۱۸ چنیوٹ ۱۴،۴، ۱۵، ۳۷ ،۷۳ ۷۵ ۷۶ ۷۷، چوہدری والہ ۷۹ ۸۸٬۸۷،۸۵،۸۴،۸۳٬۸۲،۸۱،۸۰، | چھتاری چھریاں چٹھہ ،١٠٣،١٠١ ،۹۸،۹۷ ،۹۶ ۹۵ ۹۴ ۹۳ ۹۰،۸۹ ۱۰۴ ۱۰۵ ۱۰۶ ۱۰۷ ، ۱۱۲،۱۱۱،۱۰۸ ،۱۱۳، ۱۲۱، ۱۲۵، چھینہ ریت والا ۱۴۳،۱۳۵، ۱۰۱۵،۱۰۲۱،۱۰۱۶،۸۳۳،۷۳۳،۷۱۷، چین حبشه حدیده حصار ۱۰۵۸،۱۰۲۱،۱۰۱١٠١٦، ٨ ۱۲۹ ۹۶۴ ۹۱۶ ۱۲۹ حیدرآباد ۲۴۰ خیر پور ۱۲۹ ۱۲۹ پھیر و چچی ترکی تر گڑی تلونڈی جھنگلاں تبال ج - چ - ح - خ در انگاه وکن ۹۶،۹۵،۸۹، ۱۸۸،۱۸۰،۱۲۵،۹۸، | دوالمیال ۶۱۳،۵۷۹،۳۵۲،۱۹۰ ، ۶۹۶، ۶۹۸ | دوسوها ۸۴۷ | دھار یوال ۸۹۵،۸۹۴ دھرم کوٹ بگہ ۱۲۹ ZAP ،۹۸،۹۳،۴۳ ۴۲ ۴۱ ۴۰ ۳۹ ،۳۸،۱۷ ،۴۵۳،۴۲۳،۳۵۶،۳۵۵،۳۵۲،۳۵۱،۲۴۵،۱۲۵ ۱۰۵۲،۱۰۵۱،۷ ۴۰ ، ۶۹۹ ،۶۳۲،۴۷۹ ،۴۶۹،۴۶۱ ۶۹۲ ۴۲۲ ۳۲۸ ۳۳۲ دیوبند ۸۴۷ ، ۴۴ ۱۰۴۶،۴۷۲،۳۳۲،۲۰۱ | رتی ۱۰۲۳ ۸۹ ۵۰۰،۴۷۱،۲۴۸ | ڈبروگڑھ ۷۷۹،۶۹۱،۶۳۲،۵۶۱،۳۵۹ | ڈیرہ بابا نانک ۱۰۲۳ | ڈیرہ غازیخان ۷۷۹ ڈنڈیانہ حصہ غلام نبی ٹھیکر بوالہ جالندھر جاوا سماٹرا جاوا جرمن جموں جھانسی جھر کا دلوح جہلم جے پور چارسده

Page 1108

ڈیرہ دون را جپوتانہ را ولپنڈی ربوه ۲۵ ۸۳۴ سیالکوٹ 71 سیکھواں ،۶۱۴،۴۷۱،۳۲۸،۲۴۸ ،۱۹۵ ۱۰۱۵،۷۰۸۰۸۳۴،۸۳۳ ۸۹۴،۱۲۹ ۹۰۸۰۸۸۷،۸۸۶،۸۴۷ ،۱۶۰ ۱۰۴۵ ۱۲۹ ۷۷۷ ،۴۷۱،۳۴۵ ،۲۴۸ ،۸۹،۷۰ ۳۸۲،۳۷۵،۳۶۱، ۴۰۴، ۵۰۷،۵۰۴،۴۴۱، شام ۵۹۷،۵۶۸،۵۶۱،۵۲۵،۵۲۲،۵۱۶،۵۱۵،۵۱۲، | شاہ پور ۶۶۹،۶۳۲ ، ۶۷۵،۶۷۴،۶۷۳،۶۷۲۶۷۱، | شکار ما چھیاں ۶۸۶۶۷۶، ۶۸۷، ۶۹۴،۶۹۰،۶۸۹،۶۸۸، شمله ،۸۳۳٬۸۱۲،۷۸۹،۷۷۷ ، ۴۸ ،۷۱۹ ،۱۷ ،۹۷۷ ،۹۱۷ ،۹۰۰،۸۸۱،۸۸۰،۸۵۰،۸۴۹٬۸۳۵ ۱۰۵۷،۱۰۳۷ ،۱۰۳۶،۱۰۲۴،۱۰۲۳، ۱۰۰۸ ،۹۷ شیخوپوره طع_ف رتن باغ رجوعه رجوع ہیبری روس روم رہتک ۶۲۴ | طرابلس ۱۴۴ عرب ۱۲۹ ۵۴۶،۴۱۸،۴۲۳ علی پور علی گڑھ ۸۶۲ فاضل کا ۱۰۷ ،۱۰۶۹۵ فرانس ۹۵ ۳۶۱،۳۴۵ ۱۰۳۹،۱۰۳۰،۸۹۶۰۵۳۸۵۳۲۰،۱۶۵،۱۱۱،۶۰ ۵۱۰ ۱۸ ۸۹ ۱۰۲۹،۸۴۷ ،۴۵۵ ریتی چھلہ زیره سیش ۱۵۳ فلسطین ۹۶،۸۹ | فیروز پور لائل پور (فیصل آباد ) ۵۱ ۸۱۳ ،۱۲۵،۹۸،۹۶،۹۵،۸۹ ۳۴۴،۳۴۰،۳۳۸،۳۳۳،۳۲۸ ۹۶۱۰۹۰۲۶۹۶،۴۸۷ ، ۳۷۵ ،۳۶۰،۳۴۵ سار چور سانگلہ ہل ۱۲۹ فیض اللہ چک 611777 ۱ ۰۰لد ق یک گ سبین ،۱۰۲۹،۱۰۲۸،۱۰۲۶،۱۰۲۳،۸۴۷ ، ۴۵۱ ۱۰۵۰،۱۰۳۲۱۰۳۱،۱۰۴۱،۱۰۳۰ قادیان سٹھیالی سرحد سرگودھا ،۱۱۸،۱۰۶،۱۳۷۰ ،۶۷ ،۳۷ ، ۴،۳،۲،۱ ،۱۳۳،۱۳۲،۱۳۱،۱۲۸ ،۱۲۷ ،۱۲۶،۱۲۵،۱۲۴،۱۲۱،۱۱۹ ۱۲۹ ،۱۵۲،۱۵۱،۱۵۰،۱۴۹ ، ۱۴۶ ۱۴۵ ۱۴۴ ۱۳۷ ، ۱۳۴ ۳۱۴،۸۰،۴۰،۳۹،۱۵ ۱۰۶۴،۱۰۱۹،۶۷۰،۳۶۵،۳۶۰ سری گوبند پور الدلد سکندره سندھ سوئٹزرلینڈ ۱۷ ۱۰۶۰،۲۷۹،۷۰،۱۵ ۱۰۲۳۸۴۷ ،۱۷۸،۱۷۱ ،۱۶۰،۱۵۸ ، ۱۵۷ ، ۱۵۶ ۱۵۵ ۱۵۴ ۱۵۳ ،۲۳۲،۲۲۹،۲۰۴،۲۰۳،۲۰۲،۲۰۱ ،١٩٢،١٨٠، ١٩٦ ۲۴۴،۲۴۳،۲۴۱ ،۲۴۰،۲۳۹،۲۳۸،۲۳۷،۲۳۶ ،۲۸۱،۲۸۰،۲۷۹،۲۶۸،۲۶۷ ،۲۶۶۰۲۶۵،۲۶۰ ،۳۲۱،۳۱۶،۳۱۵،۲۹۳،۲۸۶،۲۸۴،۲۸۳،۲۸۲ ،۳۴۸،۳۴۵،۳۴۳، ۳۳۲،۳۲۵،۳۲۴،۳۲۳،۳۲۲

Page 1109

۲۶ ۳۵۵،۳۵۳،۳۵۲، ۳۷۸،۳۶۲،۳۵۹،۳۵۷، کراچی ۴۰۵،۴۰۴،۴۰۳،۳۹۱،۳۸۵،۳۸۳،۳۸۰،۳۷۹، ہوائی جہاز میں بیٹھ کر چاند دیکھا ولد له ولد له ولد له ولد الله له له له لدلها لداله لد7 کریام ۴۶۱،۴۵۴،۴۵۳،۴۴۹، ۴۶۹ ، ۴۷۵ ، ۴۷۹،۴۷۷، کرنال ۴۸۵،۴۸۴،۴۸۳،۴۸۲،۴۸۱،۴۸۰ ، ۴۸۹،۴۸۷، کڑی افغاناں ۱۰۲۴۱۰۲۳،۹۶۴ ۴۵۵ ۸۸۳ ٩٠٢ ۹۵ ۱۴۵ ،۴۷۱،۴۷۰، ۳۴۸ ،۲۴۸ ،۲۴۷ ، ۲۳۸ ، ۱۲۸ ۱۰۴۸،۱۰۴۶،۱۰۲۳،۷۸۵ ، ۷۸۴ ،۷۴۰ ، ۴۷۲ ۹۶۴،۷۴۰،۶۹۹ ،۳۹۷،۸۶،۸۰ ۸۱۳ ۷۷۹،۷۷۷،۵۸۱،۳۴۰،۳۲۵،۳۲۴ ۱۲۹ ۴۹۲،۴۸۳،۱۲۹،۱۲۵ ۷۵۷ ،۶۸۲،۶۴۷ ، ۲۴۰ 677 ۴۸۷ ،۷۵۷ ،۶۴۷، ۴۷۱،۳۴۵ ،۲۴۸ ۱۰۵،۸۰ ۶۵۸،۳۴۵ ۹۹۸ ۱۲۹ ،۵۰۸،۵۰۷،۵۰۶،۵۰۴،۵۰۱،۵۰۰،۴۹۸ ،۴۹۲ ،۵۲۵،۲۱،۵۲۰،۵۱۶،۵۱۵،۵۱۲،۵۱۱،۵۱۰،۵۰۹ ،۵۷۵،۵۷۰،۵۶۸،۵۶۰،۵۵۸،۵۵۷،۵۲۶ کشمیر کلکتہ ۵۷۹،۵۷۸ ،۵۸۸،۵۸۴،۵۸۳،۵۸۲،۵۸۰، | کمتر ۶۶۰،۶۵۸،۵۹۷،۵۹۴،۵۹۳،۵۹۲،۵۹۱،۵۹۰ ، | کوئٹہ ،۶۸۲۶۸۱،۶۸۰،۶۷۹،۶۷۴۶۷۰،۶۶۲ کو ہالی ۶۸۸،۶۸۷،۶۸۴، ۶۹۴،۶۹۳،۶۹۰،۶۸۹، کھارا ۶۹۶۰۶۹۵، ۶۹۷، ۷۰۶،۷۰۴،۶۹۹،۶۹۸، کھاریاں ،۷۳۳،۷۳۲،۷۲۵،۷ ۲۱ ،۷۱۹ ،۷۱۸ ،۷۱۷،۷۰۸ ،۸۷۸ ،۸۷۷ ،۸۶۲،۸۶۰ ، ۷۴۰ ، ۷۳۹ ،۷۳۴ کیملپور ھیوڑہ ۹۱۶۰۹۱۵،۸۸۰، ۰۹۱۷ ۱۰۱۸،۱۰۰۳،۱۰۰۲۹۷۶، گجرات ۱۰۳۶،۱۰۲۱،۱۰۲۰،۱۹۱۹،۱۸،۱۰۲۱،۱۰۲۰،۱۰۱۹، گڑھ مکیتر ۱۴۴،۱۰۴۲، ۱۰۴ ، ۱۰۵۸،۱۰۵۴،۱۰۵۰،۱۰۴۸، گوجرانواله ۱۰۶۴،۱۰۶۳،۱۰۶۲۱۰۶۰ گوجر سنگھ قادیان صرف تاریخی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ایک گلانوال ۱۵۹ گورداسپور عالمگیر مذہبی جماع کی ہدایت اور نگرانی کا مرکز اصل مرکز قادیان ہی ہے اور وہی قیامت تک احمدیت کا مرکز رہے گا ،۱۸۰،۱۴۵،۱۲۹،۱۱۸،۹۴،۶،۴ ۳۴۳،۳۳۲،۲۳۸،۲۳۷،۲۳۶،۲۳۰،۲۰۱،۱۸۸ ،۵۲۵،۵۰۸،۴۸۷ ، ۴۶۹ ،۴۴۴ ، ۴۰۴،۳۵۳،۳۴۸ ۳۶۱ ۱۹۵۰ء کے جلسہ قادیان میں جانے والوں کے اسماء ۷۴۱ جنوری ۱۹۵۰ ء تک قادیان کے صحابہ کی فہرست جماعت کا دائمی مرکز قلعہ بھنگیاں قلعہ روشن سنگھ کانگڑہ ۷۴۵ ۶۸۹ گوڑ گاؤں گولکنڈا ۴۲۲ ۱۲۹ ۴۵۴۹۵ ،۷۸۴،۷۸۳،۷۷ ،۱،۶۹۳۶۱۳،۵۷۹ ،۸۹۴،۸۶۲،۸۳۹،۷۸۵ ۹۸،۹۵،۸۹ ل.من ۱۸ ۶۹۶ لالیاں ۹۹۷،۳۷۵،۳۶۰ ،۱۱۸،۱۰۳،۹۵،۹۱،۸۳،۷۴،۷۰ ،۱۷۱ ،۱۶۰،۱۵۵ ۱۵۴ ۱۵۱ ،۱۴۵ ،۱۴۴ ،۱۳۷ ،۱۲۵ ،۱۲۱ لاہور ۱۰۳۹ کپورتھلہ کا کیشیا

Page 1110

۸۴۷ ۸۱۳،۴۸۷ ،۲۴۸ ۳۳۲ ۱۲۹ ۱۲۹ ۱۸ ۹۰۲ ۹۶،۸۹ ۲۰۱،۱۵۵،۱۲۹،۱۲۵ ۴۹۲ 221 ۱۰۵،۸۰ ۹۸ ام ام ۲۷ ۱۹۰،۱۷۸ ۱۹۴، ۲۳۶،۲۳۴،۲۰۱، ۲۶۵،۲۴۸،۲۳۷ | ملایا نٹگمری مشکوبا ،۳۲۵،۳۲۴،۳۲۱،۳۱۰،۲۷۹،۲۷۰،۲۶۹،۲۶۸ ،۳۸۵،۳۷۷،۳۵۹ ،۳۴۵،۳۴۳،۳۴۰،۳۳۲،۳۲۸ ،۴۸۴،۴۵۶۰۴۴۷ ، ۴۴۶،۴۲۱ ،۴۱۹ ،۴۰۵،۳۹۰ موکل ۵۹۲٬۵۲۵،۵۱۸،۵۱۱،۵۰۰،۴۹۹،۴۸۸،۴۸۵، نہیں ڈوگر ،۶۸۸،۶۷۷ ،۶۷۵۰۶۷۲،۶۷۱ ، ۶۴۶۰۶۰۶ میسور ۷۳۲،۷۰۶،۶۹۳، ۷۷۷،۷۵۳۷۵۱،۷۳۹، نرائن گنج ۹۳۶۰۹۱۵،۸۴۰،۸۱۱،۷۷۹ ۹۹۸۹۶۴۹۶۳، | نکودر ۱۰۶۲۱۰۶۰،۱۰۴۸،۱۰۳۷ مینگل باغباناں منگل نواں پینڈ ۸۴۷ ۱۰۴۶،۲۹۷،۱۸۰،۱۲۵،۹۵،۸۹ لبنان لد ہیانہ لکھنو ۷۴۰، ۸۳۴،۸۳۳،۷۷۰ | نواکھلی ۴۱ ۴ ۹۹٬۹۴۴، ۱۰۱، نوح لنڈن (برطانیہ، انگلستان) ۴۴۶،۳۵۴،۲۳۰،۱۶۰،۱۵۴،۱۵۰، نیور برگ ہی ۹۶۹ ،۸۴۷ ،۶۸۱،۶۵۱،۵۰۹ ۱۲۹ ،۳۲،۲۸،۲۰،۱۹،۱۸ ،۱۶ ،۱۵ ۱۴ ۱۳ ۱۲ ہندوستان ۹۶۱ ،۱۱۲،۱۰۱ ،۹۹ ،۹۵،۹۴ ،۹۲،۹۰،۸۵،۸۴،۸۱،۷۸ ،۳۳ ۱۲۹ ،۳۵۱،۳۵۰،۳۴۸ ،۲۴۷ ، ۲۴۶،۲۴۵،۲۰۲،۱۸۸،۱۵۸ ،۶۰۰،۵۵۸،۴۸۸ ، ۴۷۱ ، ۴۷۰ ، ۴۵۳،۴۴۴ ،۴۲۳ ۸۴۷،۳۱۰ ۱۲۹ ،۷۸۴،۷۸۳،۷۴۰ ، ۷۳۲،۷۲۱ ، ۶۹۸ ،۶۹۳۶۸۲ ۹۶۴۹۳۸۶ ،۱۰۳۱،۱۰۳۰،۱۰۲۳٬۹۶۵،۸۷۷ ،۸۴۷ ،۸۳۹ ۱۰۵۶،۱۰۵۰،۱۰۳۹ ۹۰۲۶۱۳،۱۲۵،۱۱۵،۹۵،۸۹ ALL ۱۲۹ ۹۰۰،۸۴۹ ،۸۴۷ ۱۲۹ ۹۳٬۸۷،۸۶،۷۸ ،۴۰،۱۵ ،۹۳۷،۶۴۴،۵۴۳ ۴۵۲۱۰۱،۳۹ ۱۰۳۹،۱۰۳۰،۹۵۹ ہوشیار پور واجگہ ونجواں بالینڈ ہرسیاں کھوکھر یو.پی لنگروال لودھراں لودهی مشگل ماریشس ماڑی بچیاں مدراس مدینہ ،۷۹۶،۶۹۰،۶۸۹ ،۶۷۴ ،۱۰۷ ، ۱۰۴ ،۵۶ ۱۰۴۵،۹۹۰،۹۲۴ ،۹۰۸ ،۸۸۷ ،۸۸۶،۷۹۳۷۹۵ ۱۲۹ ۳۱۴ ۱۲۹ ۱۰۵۰،۹۹۸،۵۱۱،۵۴،۵۰،۲۹ ۶۹۹،۶۷۰،۵۱۰،۳۲۸ ،۳۶۰،۱۰۷ ، ۱۰۴،۵۴،۵۱،۱۸ ۹۸۵،۷۹۵،۷۹۴،۶۹۰۶۷۴ ۹۶۱۵۲۶،۵۱۰۷۰ مراد پور مردان مرزا جان مظفر گڑھ مله ملتان

Page 1110